• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مضامین بشیر ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مضامین بشیر ۔ جلد 2

.6
پیش لفظ
.6
رسول اﷲﷺنے آخری زمانہ میں ایمان کے ثریا پراُٹھ جانے کے بعد از سر نو رجال فارس کے ذریعہ اس کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ رجل فارس حضرت مسیح موعود ؑ کی مبشر اولاد نے اس الٰہی تقدیر کے مطابق غیر معمولی دینی و علمی کارنامے انجام دینے کی توفیق پائی۔
قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی انہی بابرکت وجودوں میں سے ایک تھے۔آپ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کو الہام ’’نبیوں کا چاند آئے گااور تیرا کام بن جائے گا‘‘ بڑی شان سے پورا ہوا اورحضرت مرزا بشیر احمد صاحب کوحضرت مسیح موعودؑ کے مقصد اور مشن کی تکمیل کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دینے کی توفیق ملی ۔
بچپن میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب کی آنکھیں خراب ہو کر پلکیں گر گئیں تو حضرت مسیح موعودؑکو یہ الہام ہوا بَرَّق طِفْلی بَشِیِرٌ۔جس کے ایک ہفتہ بعدہی اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی شفا دی کہ آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں۔
بَرَّ قَکے لغوی معنے وسعت بصیرت اور روشن نظر ہونے کے بھی ہیں۔اس لحاظ سے بھی اﷲ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو عظیم الشان ذہنی و علمی استعدادوںسے نوازاتھا۔جس کا اظہارہمیشہ آپ کے قلم اور تحریرات کے ذریعہ 1913ء سے1963ء تا دم وفات خوب ہوتا رہا۔آپ کا عظیم شاہکار ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ کی شاندار محققانہ تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی گہری بصیرت اورخدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوتے اہم مسائل پر کئی عام فہم اور مدلل علمی و دینی کتب تالیف فرمائیں جن میںسلسلہ احمدیہ، ہمارا خدا،تبلیغ ہدایت، سیرت المہدی،چالیس جواہر پارے ، ختم نبوت کی حقیقت،حجۃالبالغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں،اسی طرح آپ جماعت ،یا ملک و قوم کوپیش آمدہ ہر اہم علمی یا عملی مسئلہ اور نازک موڑ پر اپنے قلم کو جنبش میں لائے اورمفاد سلسلہ میں متفرق موضوعات پرجماعت کی اخلاقی و روحانی تربیت اورازدیاد ایمان کے سامان کرتے رہے۔ ان تاریخی،سیاسی و مذہبی موضوعات کا تنوع ان کی دلچسپی اور شان کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
یہ علمی خزانہ سلسلہ کے متفرق اخبارات و رسائل میں بکھراپڑا تھا جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں تھی۔اﷲ تعالیٰ بہت جزا دے مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب سابق صدر انصار اﷲ پاکستان کوجنہوں نے اپنے دور صدارت میں جہاں دیگر نایاب مفید کتب سلسلہ کی اشاعت کروائی وہاں پہلی دفعہ مضامین بشیر جلد اوّل مرتبہ مرزا عدیل احمد صاحب نائب مشیر قانونی 2007ء میں منصہ شہود پر آئی۔جس میں 1913ء سے1945ء تک حضرت میاں صاحب کے جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین اور تحریرات کو یکجا کر دیا گیا۔یہ کتاب بہت جلدہاتھوں ہاتھ نکل گئی۔ اوراسے اب دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے ۔دوریں اثناء مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے زیر نگرانی 1946ء سے 1950ء تک حضرت میاں صاحب کی تحریرات کو بھی اکٹھا کروانے کا اہتمام فرمایا ہے۔مکرم عبدالمالک صاحب کارکن خلافت لائبریری نے اس کام میں معاونت کی توفیق پائی۔فجزاہ احسن الجزاء یوں اس کتاب مضامین بشیر جلد دوم احباب جماعت کے افادئہ عام کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔اس جلد کے متنوع مضامین میںاولوالامر کی اطاعت سے مراد، اسلامی پردہ، مساوات اسلامی نماز میں پریشان خیالی کا علاج،اسلامی سزاؤں کا فلسفہ ،مسئلہ تقدیر ،عورت کا نشوز اور مرد کا حق تا دیب ،زندگی کے بیمہ کے بارہ میں اسلامی نظریہ،ابلیس کا گمراہ کن وجود،حضرت امام حسن کی شادیاں اور طلاقیں ، سیرت حضرت خلیفہ اوّل ایسے دلچسپ اور مفید تاریخی و علمی اور اخلاقی و تربیتی موضوعات شامل ہیں۔انشاء اﷲ یہ کتاب جماعتی لٹریچر میں عمدہ اور مفید اضافہ ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کے درجات ہمیشہ بلند فرماتا رہے اور آپ کی یہ تحریرات نافع الناس ہوں۔ آمین
والسلام
خاکسار
صدر مجلس انصار اﷲ پاکستان
.6
۱۹۴۶ء
.6
الیکشن کے تعلق میں ایک نہایت ضروری جلسہ
.6
.6چونکہ تحصیل بٹالہ کی الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس لئے مقامی دوستوں کو حالات بتانے اور الیکشن کی اہمیت کا احساس پیدا کرانے اور آنے والی جدوجہد کے لئے تیار کرنے کے لئے ایک پبلک جلسہ بتاریخ .6۱۸.6 جنوری بروز جمعہ بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوگا۔ قادیان کے مختلف محلہ جات کے دوستوں کو چاہیئے کہ اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوکر اس اہم قومی کام میں حصہ لیں۔ انشاء اللہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزندعلی صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب اور بعض دوسرے اصحاب تقریریں کریں گے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۸ ؍جنوری ۱۹۴۶ئ)
تحصیل بٹالہ کے ووٹران کے لئے
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ
کا ضروری پیغام
.6
.6میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام احباب جن پر میری بات کا کوئی اثر ہوسکتا ہے تکلیف اٹھاکر بھی اور قربانی کرکے بھی آنے والے چند دنوں میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے حق میں پراپیگنڈا کریں گے۔ اور جب ووٹ کا وقت آئے گا تو کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے ہوئے اپنے مقررہ حلقہ میں پہنچ کر ان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ .6 .6 والسلام
.6 .6خاکسار
.6 .6 مرزا محمود احمد
.6نوٹ.6:- تحصیل بٹالہ کے حلقہ میں مختلف پولنگ سٹیشنوں پر غالباً یکم فروری .6۱۹۴۶.6ء سے لے کر
.6۱۴.6 فروری تک پولنگ ہوگا۔ اور قادیان کے پولنگ سٹیشن پر غالباً یکم فروری سے سات فروری تک پولنگ ہوگا۔ تفصیل معلوم ہونے پر بعد میں شائع کی جائے گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۱ ؍جنوری ۱۹۴۶ئ)
.6
قادیان کا پولنگ پروگرام
.6
.6حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کے ووٹروں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان کے ووٹروں کا پولنگ مردوں کے واسطے .6۲.6 فروری و.6۴.6 فروری و.6۵.6 فروری .6۱۹۴۶.6ء مقرر ہوا ہے۔ اور عورتوں کے واسطے .6۵.6فروری و.6۶.6 فروری و .6۷.6 فروری.6۱۹۴۶.6ء مقرر ہوا ہے۔ یہ تاریخیں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کا ووٹ قادیان میں درج ہے۔ تحصیل بٹالہ کے باقی ووٹروں کے لئے دوسری تاریخیں مقرر ہیں۔ قادیان کے مردووٹروں کو یکم فروری .6۱۹۴۶.6ء کی شام تک قادیان پہنچ جانا چاہیئے اور مستورات کو .6۴.6 فروری کی شام تک۔ مرد اور عورتوں کے لئے جو تین تین دن مقرر ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان تین دنوں میں سے جس دن چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ بلکہ ہر دن کے لئے سرکاری طور پر علیحدہ علیحدہ ووٹرمختص کردیئے گئے ہیں۔ جن کی تفصیل کی اس جگہ گنجائش نہیں۔ پس پولنگ سے ایک دن قبل قادیان پہنچ جانا ضروری ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۳ ؍جنوری۱۹۴۶ئ)
چوہدری فتح محمد صاحب سیال پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے
میاں بدرمحی الدین صاحب کے مقابلہ میں ۶۱۵ اور سیّد بہاء الدین۔صاحب کے مقابلہ میں ۲۱۰۳ کی اکثریت
.6
.6قادیان .6۲۱.6 فروری۔ آج ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کے دفتر میں حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کی پرچیوں کی سرکاری گنتی ہوگئی او رچوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے کی کامیابی کا اعلان کردیا گیاہے۔.6 فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔.6 ووٹوں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
.6چوہدری فتح محمد صاحب سیال.6 .6 .6۶۲۶۶
.6میاں بدرمحی الدین صاحب.6 .6 .6۵۶۵۱
.6سید بہاء الدین صاحب.6 .6 .6۴۱۶۳
.6سب سے پہلے میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں انتہائی مشکلات میں کامیابی عطا فرمائی اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو ان فرائض کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا کرے ،جو پنجاب اسمبلی کے ممبر ہونے کی حیثیت میںان پر عائد ہوتے ہیں۔ وہ اس حلقہ کے سچے نمائندہ ثابت ہوں اور ملک وملت کی حقیقی خدمت سرانجام دے سکیں۔ آمین
.6اس کے بعد گزشتہ ایام میں جن احمدیوں نے چوہدری صاحب موصوف کوکامیاب بنانے میںکسی نہ کسی رنگ میں کام کیا ہے اور یہ کام میرے علم میں بہت بھاری ہے، ان کا اجر خدا کے پاس ہے اور مجھے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ ایک قومی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا ہے۔.6 فجزاھم اللّٰہ خیراًوشکر سعیھم.6 مگر میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان کثیر التعداد غیراحمدی مسلمانوں اور سکھ اور ہندو اصحاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے آپ کو کئی قسم کے خطرات میں ڈالتے ہوئے اس الیکشن میں ہماری امداد کی اور چوہدری فتح محمد صاحب کو کامیاب بنانے میں شب وروز حصہ لیا۔ وہ انشاء اللہ ہمیں ناشکرگزار نہیں پائیں گے۔ .6وماتوفیقنا الا باللّٰہ العظیم وجزاھم اللّٰہ خیراً.6۔ باقی رہا وہ طبقہ جنہوںنے ہماری مخالفت کی ہے سو ان میں سے جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ ایسا کیا ہے ان سے ہمیں کوئی گلہ نہیں کیونکہ نیک نیتی کا اختلاف قابل ملامت نہیں بلکہ قابل قدر ہوتا ہے۔ ہاں ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی چوہدری صاحب موصوف کی ممبری کے عملی تجربہ کے نتیجہ میں اپنی رائے میں تبدیلی کرکے آئندہ الیکشن میں ہمارے ساتھ ہوں گے۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں مذہبی عقائد کا اختلاف کسی عقلمند کے نزدیک روک کا باعث نہیں ہونا چاہیئے۔
.6بالآخر میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بہتری کی دعا کرتے ہوئے یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ ممبری ان کے لئے دہری امانت ہے۔ وہ امانت ہے خدا کی جس کے سامنے وہ اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں اور وہ امانت ہے اس حلقہ کے مسلمانوں کی جن کے نمائندہ بن کر وہ اسمبلی میں جارہے ہیں۔ پس انہیں ان دونوں امانتوں کو پوری پوری دیانتداری اور وفاداری کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے۔ خدا کی امانت تو زیادہ تر دل کی نیت اور جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ مگر لوگوں کی امانت کے لئے ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ گاہے گاہے علاقہ کا دورہ کرکے لوگوں کی ضرورت اور مشکلات کا علم حاصل کرتے رہیں اور پھر اسمبلی میں ان کے حقوق کی پوری پوری حفاظت کریں۔ نیز انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ صرف انہی لوگوں کے نمائندہ نہیں ہیں جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیئے ہیں بلکہ ممبر ہوجانے کے بعد وہ ان لوگوں کے بھی نمائندہ ہیں جو الیکشن میں ان کے مخالف رہے ہیں۔ پس گو طبعاً ان کی دلی محبت اپنے ان مویدّین کے ساتھ زیادہ ہوگی جنہوں نے مشکل کے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ مگر جہاں تک حقوق کا تعلق ہے انہیں اپنے مخالفین کے ساتھ بھی پوری طرح عدل وانصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور انہیں اپنے فرائض کی بہترین ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۲ ؍فروری۱۹۴۶ئ)
.
ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کا الیکشن
.6
.6احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کے آیندہ الیکشن کے متعلق ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ لیکن غالباً آئندہ اکتوبر میں الیکشن ہوگا۔ اس کے لئے ووٹروں کی فہرست کی تیاری پٹواریوں کے سپرد ہوچکی ہے۔ جس کی آخری تاریخ .6۱۵.6 مارچ مقرر ہوئی ہے۔ رائے دہندگی کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے۔ وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ احباب کو چاہیئے کہ وہ پورے طورپر تسلی کرلیں اور نگرانی رکھیں کہ کسی ایسے دوست کا جو ووٹر بن سکتا ہو،نام فہرست میں درج ہونے سے رہ نہ جائے، صفات یہ ہیں:
.6(.6۱.6) مرد ہو۔ اور(.6۲.6) کم از کم .6۲۱.6سال کی عمر ہو۔ اور(.6۳.6) کسی عدالت نے اسے غیر صحیح الدماغ قرار نہ دیا ہو ۔ اور(.6۴.6) ذیلدار۔ سفید پوش یا نمبردار علاقہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں ہو یا پانچ ہزار روپے سالانہ معاملہ سرکاری دیتا ہو۔ یا دس روپے کا معافیدار ہو۔ یا انہیں شرائط کا موروثی ہو۔یاانکم ٹیکس ادا کرتا ہو۔ یا ریٹائرڈ یا ڈسچارج شدہ فوجی ہو۔ یا دو روپے سالانہ حیثیتی ٹیکس دیتاہو۔ یا چھ ایکڑ چاہی یا نہری اراضی کا کاشتکار ہو۔ یا بارہ ایکڑ بارانی اراضی کا کاشتکار ہو۔ یا دوہزار کی مالیت کا مکان رکھتا ہو۔ یا پرائمری پاس ہو۔
.6مگر بہرصورت یہ ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے علاقہ میں رہائش رکھتا ہو۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۸ ؍فروری۱۹۴۶ئ)

.6
انصار اللہ کا مقامِ ذمہ واری
سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ منعقد ہ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء
.6
.6حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تنظیم کی غرض سے جماعتِ احمدیہ کو تین قسم کے نظاموںمیں منقسم فرمایا ہے یعنی اول اطفال احمدیت کا نظام جو پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرے خدام الاحمدیہ کا نظام جو پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور تیسرے انصار اللہ کا نظام جو چالیس سال اور اس سے اوپر کے اصحاب پر مشتمل ہے۔ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ رنگ میں فطری اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر ایک طرف ہمیں حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عموماً پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر قومی جہاد کی شرکت کی ذمہ داری نہیں ڈالتے تھے تو دوسری طرف قرآن شریف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر ہے جبکہ انسان اپنی بعض مخصوص ذمہ واریوں کے ادا کرنے کی بہترین قابلیت پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6
.6.6….6 ۱
.6’’یعنی جب ایک نیک انسان اپنے نشوونما کی کامل پختگی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے اندر سے ایک فطری آواز بلند ہوتی ہے کہ خدایا تو نے مجھ پر کتنی نعمتیں فرمائی ہیں کہ پہلے مجھے بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا اور پھر ابتدائی عمر کے خطرات سے گذارکر پختگی کی عمر تک پہنچایا۔ سو اب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری ان نعمتوں کا بہترین حق ادا کرسکوں۔ جو تونے مجھ پریا میرے والدین پر کی ہیںاور مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے اعمال بجالائوں جو تیری رضا کا موجب ہوں۔‘‘
.6گویا چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر قراردی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء جن کے سپرد لوگوں کی اصلاح کا کام ہوتا ہے۔ عموماً اسی عمر میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ پس جماعت کی یہ تین حصوں والی تقسیم عین فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ کیونکہ اطفال کی عمر تو وہ ہے کہ جب ان کی ذمہ داریوں کا بیشتر حصہ خود ان کی اپنی تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور باقی چیزیں صرف زائد اور ضمنی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور انصار کی عمر وہ ہے کہ جب انسان کی ذمہ .6د.6اریوں کا غالب حصہ دوسروں کی اصلاح اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور خدام کی عمر وہ ہے جو ان دوحدوں کے درمیان وسطی حصہ ہے۔ جہاں دونوں قسم کی ذمہ .6د.6اریاں گویا ہموزن طور پر ملی جلی رہتی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو اپنی تربیت کا پروگرام ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کی اصلاح کا اور یہ دونوں پروگرام قریباً ایک جیسے ہی ضروری اوراہم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انصار اور خدام کا لائحہ عمل ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اور گو کئی باتوں میں اشتراک بھی ہے۔ مگر دونوں کے کام کو ایک دوسرے پر کلی صورت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انصار اللہ کا پروگرام اس داغ بیل پر قائم کریں جو ان کے دائرہ عمل کے مطابق ہو۔
.6دوسری بات جو انصار اللہ کے مقامِ ذمہ واری کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں کہیں بھی ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہاں اسے صرف جمالی نبیوں کے اصحاب کے تعلق میں استعمال کیا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف نے اس اصطلاح کو یا تو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق استعمال کیا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق اور ان دونبیوں کے سوا کسی اور نبی کے صحابہ کے لئے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے :
.6.6 ۲
.6یعنی ’’جب.6 حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی مخاطب قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کفر پر اصرار دیکھا تو ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ جس پر حواریوں نے لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور خدا کی آواز پر ایمان لاتے ہوئے آگے آتے ہیںاورآپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے ہاتھ پر فرمانبرداری کا عہد باندھتے ہیں۔‘‘
.6دوسری جگہ قرآن شریف میں انصاراللہ کے الفاظ سورہ صف میں آتے ہیں۔ جہاں حضرت عیسیٰ کی زبان سے ان کے مثیل احمد نامی رسول کی پیشگوئی کروائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس مثیل مسیح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں اسلام کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کرکے دکھائے گا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6.6.6.6۳
.6یعنی’’اے وہ مسلمانو جو محمدی مسیح کا زمانہ پانے والے ہو۔ تم دین حق کی خدمت میں انصاراللہ بن جائو جس طرح کہ موسوی مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ اور اس پر حواریوں نے جواب دیا تھا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور مسیح ناصری کی اس ندا کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کا ایک فرقہ ایمان لے آیا اورایک فرقہ کافرہوگیا۔ جس پر ہم نے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی اور وہ اس مقابلہ میں کھلے طور پر غالب آگئے۔‘‘
.6ان دو حوالوں میں دونوں مسیحوں کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ اور ان دوموقعوں کے سوا قرآن شریف نے ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح اس مرکب صورت میں کسی اور جگہ استعمال نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس اصطلاح کو اپنے دو عظیم الشان جمالی نبیوں یعنی مسیح موسوی اور مسیح محمدی کے صحابہ کے لئے مخصوص فرمادیا ہے۔ مگر جیسا کہ آیات کے الفاظ سے ظاہر ہے ،خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے یہ امتیاز مقرر کیا ہے کہ جہاں مسیح ناصری کے معاملہ میں انصار اللہ بننے کی تحریک مسیح کی زبان سے پیش کی گئی ہے۔ وہاں مسیح محمدی کے معاملہ میں یہ تحریک خود ذات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ تحریک خدا کی خاص نصرت اور برکت سے حصہ پائے گی۔
.6بہرحال قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ انصار اللہ کی اصطلاح خدا تعالیٰ کی نظر میں انبیاء کے جمالی ظہور کے ساتھ مخصوص تعلق رکھتی ہے اور چونکہ جمال کے ساتھ دین حق کی ایسی تشریح وتبلیغ وابستہ ہے جو ایک پیہم اور مسلسل کوشش کی صورت میں دلائل وبراہین کے ذریعہ کی جائے۔ اس لئے انصار اللہ کا اصل کام جمالی رنگ میں ’’تبلیغ‘‘ اور ’’تربیت‘‘ کے دو لفظوں میں محصور ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ تبلیغ وتربیت کا کام ایک طرف تنظیم کو چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف مالی قربانی کو۔ اس لئے ہمارے کام کے یہ چار ستون قرار پاتے ہیں:
.6اوّل:تبلیغ، دوم: تعلیم وتربیت، سوم : تنظیم اور چہارم ۔کام کے واسطے روپے کی فراہمی اور ظاہر ہے کہ جہاں یہ چار چیزیں بصورت احسن میسر آجائیں.6،.6 وہاں کوئی دنیوی طاقت کسی جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک نہیں بن سکتی۔ اور.6 .6.6 .6کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے۔
.6مسیح محمدی کے کام کی یہی صورت اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعہ سورہ کہف میں .6بھی بیان فرمائی ہے۔ جہاں ذوالقرنین کا ذکر کرکے اور اس کے حالات کو روحانی رنگ میں حضرت .6مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں کرکے فرماتا ہے:
.6.6۴
.6’’یعنی مسیح موعود اپنے صحابہ سے کہے گا کہ میرے پاس تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائو۔ کیونکہ میری طرف آنے سے وہ گویا آہنی اینٹیں بن جائیں گے۔جن کے ذریعہ میں کفر وایمان کے درمیان ایک بلند دیوار چُن دوںگا۔ اور پھر جب وہ مسیح محمدی کے انفاس قدسیہ کی گرمی سے مناسب درجۂ حرارت کو پہونچ جائیں گے۔ تو مسیح ان سے فرمائے گا کہ اب اس آہنی دیوار کو مضبوط کرنے کے لئے پگھلے ہوئے تانبے (یعنی روپے پیسے) کی بھی ضرورت ہے۔ وہ لائو تا میں ا س کے ذریعہ اس دیوار کے رخنوں کو بند کرکے اسے ایک غالب رہنے والی چیز بنادوں۔‘‘
.6اس لطیف تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں یکجا بیان فرمادی ہیں جو دوسری آیات سے استدلال کرکے اوپر درج کی گئی ہیں۔ یعنی .6.6میں تبلیغ کی طرف ارشاد ہے اور .6.6 .6اور.6 .6.6 میں تعلیم وتربیت کی طرف اشارہ ہے۔ اور.6 .6.6.6 میں مالی قربانیوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ سارے کام مسیح موعودؑ اور آپ کی جماعت کے ذریعہ انجام پانے مقدر ہیں۔
.6اب دوست خود غور فرمائیں کہ انصار اللہ کے سر پر کتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ہے اور جب تک وہ .6اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں دن رات مستغرق نہ رہیں۔ اور اسے اپنی زندگیوں کا مقصد نہ قرار دے .6لیں۔ اس وقت تک وہ اس خدائی وعدہ کا مُنہ نہیں دیکھ سکتے۔ جو.6 .6.6ٖ۔۔۔ ۵ .6کے شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پورا ہوکر رہے گا۔ گویہ علم صرف خدا کو حاصل ہے کہ ہم میں سے کون.6 زبرالحدید.6کا رنگ اختیار کرچکا ہے اور کون نہیں اور کس پر خدائی دیوار میں چنے جانے کے لئے فرشتوں کا ہاتھ پڑچکا ہے اور کس پر نہیں اور کس کے رخنے پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعہ بھرے جاچکے ہیں اور کس کے نہیں۔ کام خدا کا ہے اورہم نے صرف اپنے آپ کو خدا کے سانچے میں ڈھال کر اس کے سپرد کردینا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎
.6بمفت اِیں اجرِ نصرت را، دہندت اے اخی ورنہ
.6قضائے آسمانَ ست اِیں، بہرحالت شود پیدا ۶
.6پس میں دوستوں سے اپیل کروں گا کہ انصار اللہ کے مقدس کام کو ان چار ستونوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں جو میں نے قرآن شریف سے استدلال کرکے اوپر بیان کئے ہیں۔ یعنی (.6۱.6) تبلیغ (.6۲.6)تعلیم وتربیت (.6۳.6) تنظیم اور (.6۴.6) مالی قربانی۔ اگر وہ ان چار پہلوئوں سے اپنے نظام کو پختہ کرلیںتو ان کے قلعہ کی چاردیواری مکمل ہوجائے گی اورپھر انہیں خدا کے فضل سے کسی مخالف طاقت کا خطرہ نہیں رہے گا۔ بلکہ ہر مخالف طاقت ان کے سامنے مغلوب ہوکر ان کی غلامی کو اپنے لئے باعثِ فخر خیال کرے گی۔ اے خدا تو اپنی ذرّہ نوازی سے ایسا فضل فرما کہ قبل اس کے کہ ہم اس دنیا کی زندگی کو پورا کرکے تیرے دربار میں حاضر ہوں۔ ہمیں تیرے حضور میں وہ مقام حاصل ہوچکا ہو جو تونے صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے متعلق ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :-.6رضی اﷲ عنھم ورضواعنہ .6۔.6اے خدا تو ایسا ہی کر۔آمین
.6واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۳؍ اپریل ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
ہندوستان کی سیاسی الجھن
رات کی بے خوابی میں بستر پر کا تخیّل
.6
.6چند دن ہوئے ایک رات مجھے درد نقرس کی زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی جس کے ساتھ کافی بے چینی بھی تھی اور میں ایک منٹ کے لئے بھی سو نہیں سکا۔ پہلے تو میں بستر میں پڑے پڑے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن جب اس کوشش میں ناکام رہا تو میں نے پاس کی میز پر سے ایک اٹلس اٹھائی اور ہندوستان کا نقشہ سامنے رکھ کر ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق غور کرنے لگا۔ اس سوچ نے شروع میں تو میری جسمانی بے چینی کے ساتھ ساتھ دماغی بے چینی کا بھی اضافہ کردیا۔ مگر بالآخر میں اس نئے مشغلہ میں ایسا کھویا گیا کہ نقرس کی تکلیف عملاً بھول گئی اور میں ایک ناخواندہ سیاستدان کے طور پر (ناخواندہ اس لئے کہ سیاسیات کا مضمون کبھی بھی میری خاص سٹڈی نہیں ہؤا بلکہ میںنے اسے اکثر مذہبی توجہ میں انتشار کا موجب پایا ہے۔ سوائے اس کے کہ سیاسیات کا کوئی حصہ براہ راست مذہب پر اثر انداز ہوتا ہو) ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق مختلف قسم کے حل سوچنے لگا۔ میں اپنے اس رات کے افکار کو ذیل کے چند مختصر فقروں میں سپردقلم کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ یہ تخیلات میرے ذاتی ہیں، انہیں لازماً ہرتفصیل میں جماعت کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
.6(.6۱.6) سب سے پہلے میں نے خیال کیا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی اور تبلیغی جماعت ہے اور گو خدا کے فضل سے اس کے ہاتھ پر ہر قسم کی فتوحات مقدر ہیں۔ مگر کم از کم شروع میں ہماری فتوحات کا رستہ نوّے فیصدی تبلیغ کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ پس ہمارا سب سے پہلا اور مقدم فرض یہ ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے دروازہ کو زیادہ سے زیادہ کھلا کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس کے لئے تین باتیں ضروری ہیں:-
.6(الف) ضمیر کی آزادی یعنی انسان جو مذہب بھی اپنے لئے پسند کرے۔اسے اس کا کھلم کھلا اعتراف کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ (ب) .6مافی الضمیر.6 کے اظہار کی آزادی یعنی ہر انسان کو اپنے مذہبی خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور تقریروتحریر کے ذریعہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو اور (ج) .6مافی الضمیر.6 کے بدلنے کی آزادی یعنی اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مطالعہ یا کسی دوسرے شخص کی تبلیغ کے نتیجہ میں اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہواور اس اختیار میں اس کے اپنے نابالغ بچے یا ایسے نابالغ عزیز جن کے اخراجات کا وہ متحمل ہے شامل سمجھے جائیں۔ یہ تینوں چیزیں انسانی ضمیر کی آزادی کا لازمی حصہ ہیںاور ہندوستان کے آئندہ دستور اساسی میں صراحت اور تفصیل کے ساتھ شامل ہونی چاہئیں ورنہ خواہ ہندوستان کو پاکستان اور ہندوستان کی صورت میں آزادی ملے یا صرف اکھنڈ ہندوستان کی صورت میں اور خواہ برطانوی ہندوستان کا سوال ہو یا کہ ریاستی ہندوستان کا جب تک کہ غلامی کی اس بدترین صورت کو جو ضمیر کشی سے تعلق رکھتی ہے کچلا نہ جائے گا ہندوستان کو کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت بظاہر یہ ایک مذہبی سوال سمجھا جاتا ہے مگر حق یہ ہے کہ اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے یہ سوال صرف مذہبی نہیں ہے بلکہ حریت انسانی کا پہلا مطالبہ ہے۔ جو اپنے آئندہ شاخسانوں کے لحاظ سے ہر قسم کی ذہنی نشوونما کے لئے ایک جیسا ضروری ہے۔ خواہ وہ مذہبی ہو یا علمی یا تمدنی۔ یہ خیال کرنا کہ مذہبی آزادی کے اصول کو اجمالی طور پر تسلیم کرلینے میں ساری بات خودبخود آجاتی ہے،ہر گز درست نہیں۔ ایسے امور میں اجمال کو دخل دینا فتنہ کا بیج بونا ہے۔ پس آئندہ دستور اساسی میں خواہ وہ سارے ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہویا اس کے ایسے حصوں کے ساتھ جن میں وہ آئندہ تقسیم کیا جائے۔ اوپر کی تینوں چیزیں (.6یعنی مذہب کی .6آزادی اور.6 .6تبلیغ مذہب کی آزادی اور تبدیلیٔ مذہب کی آزادی) صراحت اورتعیین کے ساتھ شامل ہونی چاہیئے۔ انگریزوں نے خواہ بقول شخصے دوسرے میدانوں میں ہندوستانیوں کا کتنا ہی گلا گھونٹا ہو مگر اس میں شبہ نہیں کہ مذہبی آزادی کے معاملہ میں انہوں نے قابل تعریف فراخدلی سے کام لیا ہے۔ اور ایک مذہبی جماعت کے لئے یہ سب سے بڑی چیز ہے۔ اس کے علاوہ اس جہت سے بھی ہندوستان کے لئے تبلیغ و تبدیلیٔ مذہب کا سوال اہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے آئندہ چل کر ملک کے اتحاد بلکہ ملک کے اندر بسنے والی قوموں کے ایک ہوجانے کا رستہ کھلتا ہے جو دوسری صورت میں بالکل ناممکن ہوجائے گا۔
.6(.6۲.6) اس کے بعد میرا خیال مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی طرف گیا جو آج کل ہندوستانی سیاست کا مرکزی نقطہ بناہوا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ دراصل پاکستان کے تصور کی ذمہ .6د.6اری بڑی حدتک ہندوبھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہندوئوں نے کبھی بھی ٹھنڈے دل سے اس بات کو نہیں سوچا کہ خواہ ہندو مسلمان ایک ملک میں دوش بدوش رہتے ہیں اور اس لحاظ سے لازماً ان کا کئی باتوں میں اتحاد ہونا چاہیئے مگر مسلمانوں کا مذہب اورتمدن اور قومی ضروریات ہندوئوں سے اس قدر جدا ہیں کہ جب تک ان کے لئے ملک کے اندر ایک خاص حفاظتی ماحول جو ان کی قومی زندگی اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہو ،پیدا نہ کیا جائے ان کا ملک میں آزاداورخوش اور تسلی یافتہ شہریوں کے طور پر زندگی گذارنا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہو اکہ گو شروع میں مسلمان پاکستان کی نسبت بہت تھوڑے مطالبہ پر راضی تھے وہ آہستہ آہستہ برادران وطن کے عملی رویہ کی وجہ سے اپنے مطالبہ میں سخت اور پھر سخت سے سخت تر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ان کا مطالبہ بھی دن بدن وسیع ہوتا گیا اور ہمارے ہندو بھائیوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ خود ان کا اپنا یہ حال ہے کہ آج سے سات سال پہلے جو کچھ وہ مسلمانوں کو دینے کے لئے تیار تھے وہ اس سے بہت کم تھا جو وہ آج دینے کو تیار ہیں۔ پھر کیا یہ دانشمندی کا طریق نہیں تھا کہ آج سے سات سال پہلے ہی وہ مسلمانوں کا اُس وقت کا مطالبہ مان کر انہیں خوش کردیتے۔ کیونکہ خوش اور تسلی یافتہ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کے لئے طاقت اور سہارے کا باعث ہوتا ہے نہ کہ کمزوری اور خطرہ کا موجب۔ گو مثال مکمل نہیں مگر مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ یہ رنگ رکھتا ہے کہ کسی شخص کے دو عضووں کے باہمی جوڑ میں کوئی نقص پیدا ہوجائے اور اس پر کمزور عضو برسوں چِلّاتا رہے کہ اس نقص کا علاج کرکے اسے ٹھیک کرلو تامیری تکلیف دور ہو۔ مگر دوسرا عضو اس کی آہ وپکار پر توجہ نہ دے اور اس پر بالآخر کمزور عضو یہ فیصلہ کرے کہ جب جوڑ ٹھیک ہونے میں نہیں آتا تو چلو اب اسے کاٹ کر الگ ہی کر لیا جائے۔ تاجس طرح بعض درختوں کی کٹی ہوئی قلمیں زمین میں گاڑنے سے دوبارہ اگ آتی ہیں، شاید یہ کٹا ہوا عضوبھی علیحدہ ہوکر پنپنا شروع ہوجائے۔ پس میں نے خیال کیا کہ یہ پاکستان کا مطالبہ زیادہ تر خود ہندوئوں کا پیدا کیا ہواہے جو انہوں نے عدم فیاضی کی روح میں اپنی کاروباری ذہنیت کے ماتحت آہستہ آہستہ پیدا کردیا ہے ورنہ اس بات میں کس عقلمند کو شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک وسیع اور قدرت کی رحمت کے ہاتھوں سے غیرمعمولی طور پر برکت یافتہ ملک جس کی زمین گویا معدنی اور زرعی اور پھر سب سے بڑھ کر انسانی پیداوار کا سونا اگلتی ہے،ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جائے۔ خدا اپنے فعل سے جو تار اور ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور پھر ریل اور موٹر اور بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، دنیا کو انتشار سے اتحاد کی طرف لارہا ہے۔ تو پھر یہ کس قدر افسوس اور بدقسمتی کی بات ہوگی کہ ہم آپس کے قابل حل مسائل کی وجہ سے اتحاد سے انتشار کی طرف قدم اٹھائیں۔
.6(.6۳.6) اس کے بعد میں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی تفصیل میں چلا گیا۔ یعنی یہ سوچنے لگا کہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ مطالبہ ہے کیا۔ سو ظاہری اور سادہ صورت میں تو پاکستان سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے وہ صوبے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے(مثلاً پنجاب وبنگال) یا جن میں مسلمانوں کی اکثریت تو نہیں مگر کوئی دوسری مقامی قوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہے اور یہ دونوں مل کر اکثریت بن جاتے ہیں (یعنی آسام) انہیں آئندہ دستور اساسی میں جس میں ہندوستان کو آزادی اور خودمختاری ملنے والی ہے۔ ہندوستان کے باقی صوبوں سے علیحدہ اور مستقل حیثیت میں آزادی حاصل ہو .6تا.6کہ وہ کسی دوسری قوم کے ظاہری اور باطنی دبائو کے بغیر اپنی حکومت کو جس طرح چاہیں اپنی ضروریات کے مطابق آزادانہ رنگ میں چلاسکیں۔ اس طرح گویا ہندوستان کے شمال مغرب میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور بلوچستان اور ہندوستان کے شمال مشرق میں صوبہ بنگال اور صوبہ آسام بقیہ ہندوستان سے الگ ہوجائیں گے۔ یہی وہ دوہری سرزمین ہے جس کا نام نئی اصطلاح میں پاکستان رکھا گیا ہے اور جس کی مسلمان آبادی قریباً سات کروڑ تک پہنچتی ہے۔ مسلم لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ یہ پاکستانی علاقہ باقی ماندہ ہندوستان سے کامل اور کُلّیِ طور پر الگ اور آزاد کردیا جائے اور چونکہ پاکستان کے دوبازو ایک دوسرے سے کافی دور اور منقطع ہیں، اس لئے لیگ یہ بھی چاہتی ہے کہ انتظامی سہولت کے لئے شمال مغربی اور شمال مشرقی پاکستان کے درمیان اسے ایک کافی فراخ رستہ بھی دیا جائے جو گویا یو۔پی اور بہار میں سے ہوتا ہوا پنجاب اور بنگال کو ملادے۔ مسلم لیگ یعنی جمہور مسلمانوں کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ آزادی کے بعد بہرصورت بقیہ ہندوستان سے جسے وہ موجودہ اصطلاح میں صرف ہندوستان کا نام دیتے ہیں کلی طور پر الگ رہیں گے بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جہاں تک بنیادی آزادی کا تعلق ہے پاکستانی صوبوں کو کامل اور مستقل طور پر خودمختار تسلیم کیا جائے۔ پھر اگر بعد میں یہ پاکستانی صوبے ایک آزاد اور خودمختار حکومت کی حیثیت میں بقیہ ہندوستان کی حکومت کے ساتھ کوئی باہمی معاہدہ (تعاونی یا حفاظتی یا اقتصادی وغیرہ) کرکے آزاد حکومتوں والے اتحاد کی صورت پیدا کرنا چاہیں تو یہ اور بات ہے اور اس کے لئے مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابل پر کانگرس یعنی ہندو ا.6کثر.6یت کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام ہندوستان ایک ملک ہے اور ایک ہی رہنا چاہیئے اور اس صورت کا نام وہ اکھنڈ ہندوستان رکھتے ہیں۔ البتہ وہ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ مسلمان صوبوں کو مناسب حفاظتی مراعات دے دی جائیں۔ مگر ان کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت بہرحال ایک ہی رہنی چاہیئے اور اسے بعض خاص امور میں (مثلاً فوج اور بیرونی تعلقات وغیرہ) جن میںتمام ملک کے لئے اتحاد اور یکجہتی اور یکسانیت کی ضرورت ہے، صوبوں کے معاملہ میں دخل دینے اور انہیں ہدایات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیئے۔ البتہ جہاں تک عام اندورنی معاملات کا تعلق ہے صوبے آزاد ہوں گے اس صورت کا نام فیڈریشن رکھا جاتا ہے۔ یعنی بہت سی نیم آزاد حکومتوں کا ایک واحد آزاد مرکزی نیابتی حکومت کے ساتھ منسلک ہونا۔ مسلم لیگ کا یہ مطالبہ چارستونوں پر قائم ہے۔ (الف) یہ کہ مسلمان نہ صرف اپنے لئے علیحدہ مذہب اور علیحدہ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بلکہ ہندوستان میں اپنی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ محض ایک اقلیت کی۔ (ب)یہ کہ مسلمانوں کی قومی ضروریات ہندوئوں سے بالکل ممتاز اور جداگانہ ہیں۔جو ایک علیحدہ اور آزاد نظام کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں۔ (ج) یہ کہ ہندوستان میں عملاً ایسے صوبے موجود ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اور عام جمہوری نظام کے ماتحت بھی ان صوبوں میں مسلمانوں کو حکومت کا حق حاصل ہے اور (د) یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ باوجود حفاظتی مراعات کے ہندو حکومت کے ماتحت مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور اس کے مقابل پر ہندو صاحبان بھی اپنے مطالبہ میں بلادلیل نہیںہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ (الف) پاکستان بننے سے ہندوستان کی نہ صرف شان وشوکت بلکہ طاقت وقوت بھی خاک میں مل جاتی ہے۔ اور وہ دنیا کے مضبوط ترین اور بہترین ملکوں کی صف سے نکل کر معمولی ملکوں کی صف میں آکھڑا ہوتا ہے۔ (ب) یہ کہ جہاں اس زمانہ میں دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملک آس پاس کے آزاد ملکوں کے ساتھ اتحادی معاہدات کے ذریعہ اپنی طاقت بڑھا رہے ہیں وہاں پاکستان کی تجویز ہندوستان کے حصے بخرے کرکے اسے اور بھی زیادہ کمزور کرنے کا رستہ کھول رہی ہے۔ (ج) یہ کہ ہندوستان کے ٹکڑے ہوجانے سے وہ آس پاس کے مضبوط ملکوں کا آسان شکار بن جائے گا اور انگریز کی غلامی سے بھاگتے ہی کسی اور قوم کی غلامی سہیڑ لے گا۔ اور (د) یہ کہ پاکستان کے ذریعہ بھی ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسائل کا کامل حل میسر نہیں آیا کیونکہ اگر مسلمان اکثریت والے صوبے پورے طور پر آزاد بھی ہوجائیں تو پھر بھی پاکستان اور باقی ماندہ ہندوستان، دونوں میں مخلوط آبادی باقی رہتی ہے۔ یعنی پاکستان میں کافی آبادی ہندوئوں کی رہتی ہے۔ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی۔ پس جب پاکستان قائم کرکے بھی مرض جوں کا توں رہا تو پھر خواہ نخواہ ہندوستان کو کمزور کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
.6(.6۴.6) مسلمانوں اور ہندوئوں کے موافق ومخالف دلائل میں پڑ کر مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ ہندواس معاملہ میں بہت خوش قسمت ہے کہ بوجہ اس کے کہ وہ ہندوستان میں بھاری اکثریت رکھتا ہے وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو نیشنل اصطلاحوں اورعام ملکی مفاد کے پردہ میں چھپا سکتا ہے۔ اسے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ یہ چیز ہندو کو دو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو چیز وہ ملک کے نام پر لے گا وہ لازماً اکثریت والی قوم کوپہنچے گی۔ پس وہ اپنی قوم کا سوال اٹھانے کے بغیر قوم پروری کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی فرقہ وارانہ ذہنیت اس کے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی نیشنلزم کے پردہ میں مستور رہتی ہے مگر مسلمان فرقہ وارانہ سوال اٹھانے کے بغیر اپنی قوم کی حفاظت نہیں کرسکتا، اسے بالکل ننگا ہوکر یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیز مسلمانوں کو دو۔ پس بسااوقات وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی فرقہ وارانہ زہر کے پھیلانے کا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ملک کے نام پر مانگتا ہے اور بے لوث محب وطن سمجھا جاکر اپنی غرض پوری کرلیتا ہے مگر دوسرا اپنے فرقہ کے نام پر مانگنے کے لئے مجبور ہے، اس لئے ہمیشہ بدنام ہوتا ہے اور اکثر دھتکارا بھی جاتا ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جسے انگریز ذہنیت آج تک نہیں سمجھ سکی وہ ہندو کو فراخ دل نیشنلسٹ سمجھتی ہے اور مسلمان کو تنگ دل کمیونسٹ مگر مطالبہ پاکستان کا مطالبہ اس سٹیج پر سے جلد جلد پردہ اٹھارہا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی اسلامی صوبوں میں ہندوذہنیت اسی طرح بے نقاب ہونی شروع ہوجائے گی جس طرح آج ہندو اکثریت کے راج میں مسلمانوں کی ذہنیت بے نقاب ہورہی ہے۔ بہرحال میں نے اس رات کی بے چینی میں سوچا کہ ہندوستان کا سوال صرف اصل سیاسی مسئلہ کے لحاظ سے ہی مشکل نہیں ہے۔ بلکہ مختلف قوموں کے دلائل کو سمجھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے کے لحاظ سے بھی بہت پیچدار ہے۔
.6(.6۵.6) ایک اور مشکل میرے ذہن میںیہ آئی کہ ہندوستان کا چپہ چپہ اسلامی یادگاروں سے بھرا پڑا ہے اگر یہاں کسی گذشتہ اسلامی بزرگ کا مزار ہے، جس کے انفاس قدسیہ کی برکت سے ہزاروں لاکھوں ہندوئوں نے اسلام کی روشنی حاصل کی تو وہاں کسی مسلمان بادشاہ یا رئیس کی بنائی ہوئی شاندار مسجد ہے جس کی ایک ایک اینٹ اسلامی شوکت اور بنانے والے کی للّٰہیّت کا پتہ دے رہی ہے۔ پھر اگر اِس جگہ اسلامی حکومت کے زمانہ کا کوئی عظیم الشان قلعہ ہے جو اسلام کی مٹی ہوئی طاقت کی یاد کو زندہ رکھ رہا ہے۔ تو اُس جگہ کسی مسلمان نقاش کے ہاتھ کا بناہوا مسحور کن باغ ہے جس کی وسعت و زینت غیور مسلمانوں کے دلوں پر ایک نہ مٹنے والا نقش قائم کررہی ہے اور یہ زندہ اور زندگی بخش یادگاریں ہندوستان کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مغرب سے لے کر مشرق تک اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس طرف بھی نظر اٹھائو وہاںکا منظر اس مصرع کی تفسیر نظر آتا ہے کہ
.6کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں است
.6میری نظر دلّی کی شاہی مسجد اور لال قلعہ اور قطب مینار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار اور ہمایوں کے مقبرہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کی قبر سے اٹھ کر آگرہ کے تاج اور سکندرہ کے گنبدوں کے ساتھ لپٹی ہوئی راجپوتانہ کے وسط میں حضرت شاہ معین الدین اجمیری کے مزار پر پہنچی اور میرے دل نے کہا کہ بے شک اس وقت پاکستان کے مطالبہ نے مسلمانوں میں سیاسی اتحاد پیدا کرنے میں بہت بڑا کام کیا ہے مگر یہ بزرگ جو اس مٹی میں دفن ہے۔ اس نے بھی اپنے وقت میں لاکھوں ہندوئوں کو اسلام کی محبت بھری غلامی میں کھینچا تھا اور اب یہ اچھی وفاداری نہیں ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر کو ہندوئوں کی غلامی میں چھوڑجائیں پھر یہاں سے اٹھ کر میری نظر ہوا میں اڑتی ہوئی گولکنڈا اور حیدرآباد کی چٹانوں تک پہنچی جہاں مجھے کئی اسلامی بادشاہوں اور مسلمان درویشوں کی قبروں نے اپنی طرف بلایا کہ آج کے دھندے میں کل کے گذرے ہوئے بزرگوں کو نہ بھول جانا کہ ان کی ہڈیاں بھی کچھ حق رکھتی ہیں اور پھر اس سے آگے میں نے میسور اور جنوبی ہندوستان کے میدانوں پر نگاہ ڈالی تو حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اپنی قبروں سے اٹھ کر مجھ سے گلہ کیا کہ ہم نے اپنے وقت میں مٹھی بھر مسلمانوں کو ساتھ لے کر سارے ہندوستان کے لئے جان کھودی اورتم دس کروڑ جانباز ہوکر ہندوستان کے ایک کونہ میں سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہو۔ اگر ہمیں بھول گئے ہو تو کم از کم شیر شاہ سوری کے اس جرنیل .6ر.6ستہ پر نگاہ ڈالو جو پشاور سے بنگال کو ملاتا تھا۔ اور چپہ چپہ پر شاہی سرائوں کی آہنی میخیں گاڑتا چلا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے حال کے زمانہ میں علی گڑھ کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی طرف بھی خیال گیا جو پاکستان کے علیحدہ ہوجانے سے صرف ہندوگڑھ کی زینت ہوکر رہ جائے گی اور یقینا ایک چھوٹا سا صحرائی نخلستان جو اپنے آب رسانی کے منبع سے جدا ہوجائے زیادہ دیر تک تروتازہ نہیں رہ سکتا۔
.6(.6۶.6) ان خیالات نے مجھے اس گہری سوچ میں ڈال دیا کہ انسانی زندگی کے متعلق اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ کیا اسلام خطرے کے موقع سے ہٹ کر گھر میں محصور ہوجانے کو پسند کرتا ہے یا کہ زندگی کی کش مکش میں کود کر آگے بڑھتے چلے جانے کو؟ اس وقت مجھے اپنے پیارے آقا فداہ نفسی کا یہ قول یاد آیا کہ.6 لَا رھبانیۃ فی الاسلام ۔۔۔۷.6۔ میں نے خیال کیا کہ بظاہر یہ ارشاد افراد کے لئے ہے مگر اس میں یہ عظیم الشان قومی راز بھی مخفی ہے کہ اسلام اس طریق کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا کے خطرات سے ڈر کر انسان کسی پہاڑ کی چوٹی یا کسی جنگل کے پیڑ یا کسی خانقاہ کے حجرہ یا کسی مکان کے گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اپنی جان کی خیر منانے لگ جائے بلکہ وہ انسانوں کو زندگی کی کش مکش میں دھکیل کر حکم دیتا ہے کہ مرد میدان بن کر ان خطرات کا مقابلہ کرو اور اپنی قوتِ بازو سے دشمن کو زیر کرتے ہوئے اپنی ترقی کا رستہ کھولتے چلے جائو کیونکہ اسلامی نظر یہ ہے کہ جو سمٹا وہ بیٹھا اور جو پیچھے ہٹا وہ گرا اور جو گرا وہ مرا۔ پھر مجھے خلفاء راشدین کے سب سے بڑے سیاستدان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول بھی یاد آیا کہ جب میں مکہ میں مسلمان ہوا۔.6 لم ازل اُضْرَب واَضْرِب فی سِکَکِ مکۃ۔۔۔۸.6 .6 یعنی اس وقت سے میں گھر میں نہیں ٹھہرا بلکہ مکہ میں گلیوں میں پھرتا ہوا پٹتا اور پیٹتا ہی رہا حتیٰ کہ خدااسلام کی فتح کا دن لے آیا میں اپنے آقا اور اس کے مد.6بر.6 صحابی کے ان قولوں کو یاد کرکے اس خیال سے بے چین ہونے لگا کہ بے شک ہندوستان کا مسلمان کمزور بھی ہے اور مظلوم بھی مگر کہیں پاکستان کا تصورقومی رہبانیت کا رنگ تو نہیں رکھتا کیا وہ اسے.6 اُضْرَب.6 و.6اَضْرِب .6کے میدان سے نکال کر گھر کی بظاہر پُر امن مگر دراصل پر خطر چاردیواری میں محصور تو نہیں کررہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام نے صرف اس وقت تک ترقی کی جب تک کہ مسلمان چند گنتی کے نفوس کی ٹولیوں میں تمام خطرات سے بے پروا ہوکر غیر ملکوں میں گھس جاتے رہے اسلام کی زندگی غیر قوموں کے مقابل پر مسلسل جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ مسلمانوں کو اس جدوجہد سے باہر نکال رہا ہے۔
.6(.6۷.6) پھر میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ کہیں پاکستان کا اصول اور اسلامی تبلیغ کا نظریہ آپس میں ٹکراتے تو نہیں میرے دل نے کہا کہ تبلیغ کے معنی دوسرے کے گھر میں پُرامن نقب لگانے کے ہیں مگر پاکستان کا مطالبہ اس اصول پر مبنی ہے کہ چونکہ ہندومسلمان آپس میں مل کر امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے انہیں علیحدہ علیحدہ گھر ملنا چاہیئے، جس میںوہ ایک دوسرے سے جدا رہتے ہوئے چین کی زندگی گذار سکیںتو اس صورت میں جو شخص اس مخصوص سمجھوتہ کے ماتحت دوسرے سے جدا ہوتا ہے کہ ہم آئندہ علیحدہ علیحدہ رہیں گے وہ کبھی بھی دوسرے شخص سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اسے کبھی اپنے گھر میں گھر والا بن کر داخل ہونے کی اجازت دے گا۔ پس میرا دل اس خیال سے خائف ہوا کہ پاکستان کا نظریہ اسلامی نفوذ کی پالیسی سے ٹکراتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تبلیغ اسلام کا دروازہ بقیہ ہندوستان میں عملاً بند ہوجاتا ہے اور دوسری طرف میں نے سوچا کہ اگرتبلیغ کا دروازہ کھلا رہے تو شمال اور شمال مشرقی پاکستان تو ایک معمولی چیز ہے ہم انشاء اللہ سو پچاس سال کے عرصہ میں سارے ہندوستان کو ہی پاکستان بنا سکتے ہیں یہ ایک ہوائی دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ اس.6 ب.6ات کی کئی زندہ مثالیں پیش کرسکتی ہے کہ جنگ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ پُر امن تبلیغ کے ذریعہ پچاس پچاس سال کے اندر ملکوں کی کایا پلٹ دی گئی ہے بلکہ خود ہندوستان کے اندر ہماری آنکھوں کے سامنے یہ مثال موجود ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے پنجاب میں ہندوئوں کی اکثریت تھی مگر آج مسلمانوں کی اکثریت ہے تو جب ایک معمولی جدوجہد نے یہ انقلابی نتیجہ پیدا کردیا ہے تو ایک وسیع والہانہ کوشش کیاکچھ نہیں کرسکتی؟ مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ ایسی کوشش کا دروازہ بند کرتا ہے مذہبی لوگ عموماً دیوانے سمجھے جاتے ہیں اورشاید دنیوی معیاروں کے مطابق یہ کسی حد تک درست بھی ہو۔ مگر دور کے افق میں اس بات کے یقینی آثار نظر آرہے ہیں کہ انشاء اللہ العزیز ابھی ایک سو سال کا عرصہ نہیں گذرے گا کہ ہندوستان کا وسیع ملک فرقہ وارانہ مناقشات کے خطرہ سے کلی طور پر باہر ہوجائے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو خاص تحفظات کی ضرورت نہیں یقینا موجودہ حالات میں مسلمان کمزور بھی ہیں اور مظلوم بھی اور ملک کا عام قانون ان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ہندوقوم نے بالعموم نہ تو ان کی ہمسایگت کا حق ادا کیا ہے اور نہ ہی اپنی اکثریت کا۔ پس خاص نظام بہرحال ضروری ہے مگر کیوں نہ ہم ہندوستان کو متحد رکھتے ہوئے کوئی ایسا حق وانصاف کا رستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کو ملکی جدوجہد میں شریک رکھتے ہوئے اہم قومی خطرات سے محفوظ کردے یعنی بقول شخصے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍اپریل ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مخالفین کا اعتراض
اور ان کا مختصر تعارف
.6 مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے معلوم ہواہے کہ بعض مخالفوں نے اپنے مناظرات میں سیرۃ المہدی کی بعض روائیتوں پر اعتراض کیا ہے اور کمینہ طعنوں کا رنگ اختیار کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات والا صفات کو استہزأ کا نشانہ بنایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود باجود جماعت میں اس قدر محبوب ہے کہ حضور کے خلاف جو اعتراض بھی ہوتا ہے وہ طبعاً تمام مخلصین کے دلوں کو سخت مجروح کرتا ہے مگر دوستوں کو یہ بات بھی کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مخالفوں کے یہ اعتراض اور یہ کمینے طعنے در اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ :-
.6۹
.6’’ یعنی افسوس لوگوں پر کہ ان کے پاس خدا کا کوئی رسول نہیں آتا کہ وہ اسے ہنسی ٹھٹھا کا نشانہ نہیں بناتے‘‘
.6مگر یہ طعن وتشنیع محض عارضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی وہ وقت لے آتا ہے کہ اعتراض کرنے والے ذلیل وخوار ہوکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:-
.6 .6۱۰
.6’’یعنی جلد ہی وہ وقت آجاتا ہے کہ مخالفوں کا ہنسی مذاق انہیں تباہی کے چکر میں گھیر لیتا ہے۔‘‘
.6اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ:-
.6لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْراً۔۔۔۱۱
.6’’یعنی دشمن ایک وقت تک تیرے متعلق ضرور تحقیر وتذلیل کا طریق اختیار کرے گامگر وہ وقت آتا ہے کہ ہم تیرے مخالفوں کے طعن وتشنیع کو اس طرح مٹادیں گے کہ گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں۔‘‘
.6پس ہمارے دوستوں کو دشمنوں کے ان کمینہ اعتراضوں پر گھبرانا نہیں چاہیئے کیونکہ اگر ایک طرف وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی روشن نشانی ہیں تو دوسری طرف وہ اس عظیم الشان بشارت کے حامل بھی ہیں کہ وہ وقت دور نہیں کہ یہ سب اعتراضات خس وخاشاک کی طرح مٹادیئے جائیں گے اور اعتراض کرنے والوں کو ذلیل ہوکر اپنی غلطی اور ناکامی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
.6یَخِرُّوْنَ عَلَی المَسَاجِدِ۔ رَبَّنَااَ غْفِرْلَنَا.6ٓ.6 اِنَّاکُنَّا خَاطِئِیْنَ ۔۔۱۲
.6’’یعنی وقت آتا ہے کہ مخا.6لف لوگ بے بس ہوکر اپنی مسجد گاہوں میں گریں گے اور خدا سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں معاف فرما۔ ہم واقعی خطاکار تھے۔‘‘
.6 اس کے بعد میں مختصر طور پر ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں جو حال میں ہی بعض دوستوںکے ذریعہ مجھے پہنچے ہیں اور جو سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مبنی ہیں۔ سب سے پہلا .6اعتراض.6 .6 سیرۃ المہدی جلد اوّل کی روایت نمبر .6۴۱.6پر مبنی ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی زوجہ جن کے بطن سے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اور مرزا فضل احمد صاحب پیداہوئے اور جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری زمانہ میں قطع تعلق فرمالیا تھا۔ انہیں بعض اوقات بعض عورتیں پنجابی محاورہ کے مطابق ’’پھجہ دی ماں‘‘ (یعنی فضل احمد کی والدہ) کہہ کر پکارا کرتی تھیںاور اعتراض کرنے والے شخص .6ن.6ے.6 گویا یہ طعن کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک لڑکے کا نام ’’پھجہ‘‘ تھا۔ اس اعتراض کے جواب میں .6لعنۃاللّٰہ علی الکاذبین.6 کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ہر شخص جانتا ہے کہ ہر زبان اور ہر سوسائٹی میں پیار کی وجہ سے بچوں کے نام کو مختصر کرلینے کا رواج پایا جاتا ہے اور یہ طریق ہر ملک اور ہرزمانہ میں نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ سے اصل نام نہیں بدل جاتا۔ اور نہ کوئی شریف انسان اس قسم کی محبت کی بے تکلفی کو قابل اعتراض خیال کرتا ہے۔ مگر ہمارے مخالفوں کی ذہنیت اس قدر پست ہوچکی ہے کہ وہ ایسی معصومانہ باتوں کو بھی اعتراض کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ حالانکہ قریباً ہندوستان کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں پیار کی وجہ سے بچوں کے ناموں میں اس قسم کا تصرف نہ کیا جاتا ہو مگر ہمیں دور کی مثال لینے کی ضرورت نہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں اس قسم کے تصرف کی مثالیں بکثرت موجود ہیںکہ پیار میں بچوں کے ناموں کو بدل لیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اندھا دشمن اپنی جہالت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ سے خفا ہوکر مسجد نبوی کے گوشہ میں جاکر بیٹھ گئے۔ جہاں خاک اور گرد کی وجہ سے ان کا سارا جسم مٹی سے ڈھک گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ ان کی تلاش میں آئے اور انہیں مسجدمیں سوئے ہوئے پاکر پیار کے ساتھ یہ کہتے ہوئے جگایا کہ اے ابوتراب ابوتراب! اس گرد میں کہاں لیٹے ہو اٹھو۔ اور روایت آتی ہے کہ اس کے بعد سے حضرت علی ؓ کا نام ابوتراب مشہور ہوگیا جس کے معنی ہیں ’’مٹی کا باپ‘‘ یا ’’مٹی کا مادھو‘‘۔۔۔۱۳
.6 تو کیا اب اس روایت کی بنا پر ہمارے مخالف یہ اعتراض بھی کریں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور داماد کا نام ’’مٹی کا باپ‘‘ تھا۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی کے لڑکے ابو عمر نامی نے ایک سرخ رنگ کی چڑیا پال رکھی تھی جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا۔ ایک دفعہ جب اس کی یہ چڑیا مرگئی اور وہ لڑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خالی ہاتھ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیار سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا .6یَاأَبَاعُمَیْرٍ مَافَعَلَ النُّغَیْرُ۔۔۔۱۴.6 .6(یعنی اے ابو عمیر تمہاری وہ.6 نغیر.6 یعنی چڑیا کدھر گئی (.6نغیر.6 عربی میں سرخ چڑیا کو کہتے ہیں) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار کا رنگ پیدا کرنے اور وزن ملانے کی خاطر ابو عمر نام کو بدل کر ابو عمیر کردیا۔.6مگر کوئی شریف انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو اعتراض کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس سے آپؐ کے جذبۂ محبت اور بے تکلفانہ انداز کا سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اگر اسی قسم کا کوئی معصومانہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ہو( اور ایسے بے تکلفی کے واقعات دنیا کے ہر گھر میں ہوتے ہیں) تو اس کی وجہ سے آپ کو اعتراض کا نشانہ بنایا جائے۔
.6دوسرا اعتراض سیرۃ المہدی جلد اول کی روایت نمبر .6۵۱.6 کی بنا پر ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک .6دفعہ کسی غیر معروف عورت نے حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود .6علیہ السلام کو بچپن میں ایک عورت نے ’’سندھی‘‘ کہہ کر پکارا تھا اور اس روایت پر بھی اوپر کی .6روایت کی طرح استہزاء کا طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہی یہ تھا۔ سو اس اعتراض کا مفصل جواب سیرۃ المہدی حصہ اول کے ایڈیشن دوم کی اسی روایت میں ذکر گزر چکا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو یہ روایت ایک غیر معروف غیر معلوم الاسم اجنبی عورت کی ہے اورہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے سچ کہا یا جھوٹ اِ س کے معلومات درست تھے یا غلط۔ دوسرے سندھی کا لفظ ایک ہندی لفظ ہے جس کے معنی ’’جوڑ‘‘ یا ’’ملاپ‘‘ یا ’’اتصال‘‘ کے ہیں۔ چنانچہ سندھی ویلا کے معنی ہیں ’’سانجھ کا وقت‘‘ یا ’’ شام کا وقت‘‘ جبکہ دن رات کی گھڑیاں ملتی ہیںاور .6سندھیا بھی ’’اتصال اورمیل‘‘ کو کہتے ہیں۔ نیز سندھیااس دعا کو بھی کہتے ہیں جو شام کو کی جاتی ہے۔ جبکہ دن اور رات آپس میں ملتے ہیں (دیکھو جامع اللغات) تو گویا سندھی کے معنی ہوئے ’’جوڑ والا‘‘ یا ’’ملاپ والا‘‘ یعنی وہ بچہ جو جوڑ واں یعنی توام پیدا ہوا ہے۔ پس اس لحاظ سے نہ صرف یہ کہ یہ لفظ قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ اس سے اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ مسیح موعود ؑ کی پیدائش توام صورت میں ہوگی۔ چنانچہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ کی ولادت جوڑواں ہوئی تھی۔ یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو کچھ عرصہ بعد فوت ہوگئی۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کیا تھا تو جیسا کہ دنیا جانتی ہے اور سیرۃ المہدی کے ایڈیشن دوم کی روایت نمبر.6۳۶.6 میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے آپ کا نام غلام احمد ؑ تھا۔ چنانچہ یہی نام آپ کے والدین نے رکھا۔ اسی نام سے آپ پکارے جاتے تھے۔ یہی نام آپؑ نے خود ہمیشہ استعمال کیا اور یہی نام کاغذات سرکاری میں شروع سے لے کر آخرتک درج ہؤا۔.6 ومن ادّعی غیرذالک فقد افتریٰ ولعنۃ اللّٰہ علی من کذب
.6تیسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم کی روایت نمبر.6۷۸۰.6 میں مکرم ڈاکٹر محمد اسمٰعیل .6صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بوڑھی دیہاتن سردی کے موسم میں حضرت مسیح موعود .6علیہ السلام کے پائوں دبانے لگی تو چونکہ سردی کی وجہ سے اس کے ہاتھ ٹھٹھر کربے حس سے ہورہے تھے اس .6نے ٹانگوں کو دبانے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چارپائی کی لکڑی کو دبانا شروع کردیا اور جب تک اسے اس کی غلطی جتائی نہیں گئی اسے یہ محسوس نہیں ہؤا کہ میں پائوں دبانے کی بجائے چارپائی کی لکڑی دبارہی ہوں وغیرہ ذالک۔ اس روایت کی بنا پر بدباطن مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا غیر محرم عورتوں سے دبوایا کرتے تھے۔ سواس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خود اس روایت میں ہی مذکور ہے کہ یہ ملازمہ ایک بوڑھی عورت تھی اور اسلام کا یہ مسئلہ سکولوں کے بچے تک جانتے ہیں کہ بوڑھی عورتیں پردہ کی معروف قیود سے آزاد ہوتی ہیں۔(سورہ نور تفسیر ابن جریرد رمنثور وغیرہ)
.6کیونکہ پردہ کے احکام مردوعورت کے اختلاط کے امکانی خطرات پر مبنی ہیں مگر ظاہر ہے کہ جس طرح کم عمر لڑکیاں اس خطرہ سے باہر ہیں اسی طرح سن رسیدہ بوڑھی عورتیں بھی پردہ کی قیود سے آزاد رکھی گئی ہیں ۔پس جب خود روایت کے اندریہ صراحت موجود ہے کہ یہ عورت بوڑھی تھی تو پھر اعتراض کیسا؟ علاوہ اس کے روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ یہ بوڑھی ملازمہ رضائی کے اوپر سے دباتی تھی اور سردی کے زمانہ کی موٹی دلْدار رضائی کے ہوتے ہوئے کون عقلمند خیال کرسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم کو چھوتے تھے۔ پس خود روایت کے الفاظ ہی معترض کے اعتراض کو رد کررہے ہیں۔ علاوہ اس کے اگر ہمارے مخالفوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ اعتراض ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس حدیث کی کیا تشریح کریں گے کہ:-
.6کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ عَلٰی اُمِّ حَرَامٍ بِنتِ مِلْحَانَ، وَ کَانَتْ تَحْتَ عبَادَۃ بْنِ الصَّامتِ، فَدَخَلَ عَلَیْھَا یَوْمًا فَاطعَمَتْہٗ، وَجَعَلَتْ تَفْلِیْ رَأسَہُ، فَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَھُوَ یَضْحَکُ۔۔۔۱۵
.6’’یعنی مدینہ میں ایک صحابیہ عورت ام حرام عبادۃ بن صامت کی بیوی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے تو وہ گھر میں جو کچھ حاضر ہوتا تھا آپؐ کے کھانے کے لئے پیش کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے حسب طریق کھانا پیش کیا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر سہلانے لگ گئیں جس طرح کہ ایک جوئیں دیکھنے والی عورت بالوں کو سہلاتی ہے اور اسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔‘‘
.6پس جس طرح یہ نیک بخت بوڑھی صحابیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کو سہلاسکتی تھیں اور آج تک کسی شریف زادہ نے اس روایت پر اعتراض نہیں کیا اور ہر مسلمان اس حدیث کو پڑھتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے آگے سے گذرجاتا ہے ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شریف زادوں والا سلوک کیوں روا نہیں رکھا جاتا۔ اور کیوں آپ کے معاملہ میں اپنے خبیث باطن کے آئینہ میں اپنی ہی شکل دیکھ کر اعتراض جما دیا جاتا ہے۔ سچ ہے کہ .6المر ء بقیس علیٰ نفسہ.6 یعنی بد انسان اپنی بدفطرتی کی وجہ سے نیک انسان کے متعلق بھی برا خیال ہی دل میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا ہمارے معترضوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بائیبل کا یہ حوالہ بھول گیا ہے کہ:-
.6’’دیکھو ایک بدچلن عورت جو اس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ مسیح اس فریسی کے گھر کھانا کھانے بیٹھا ہے۔ سنگ مرمر کی عطردانی میں عطرلائی اور اس کے پائوں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اس کے پائوں آنسوئوں سے بھگونے لگی۔ اور اپنے سر کے بالوں سے پونچھے اور اس کے پائوں بہت چومے اور ان پر عطر ملا‘‘۔۔۔.6 ۱۶
.6سو اگر حضرت مسیح ناصری کو ایک شہری نوجوان عورت (کیونکہ بدچلن کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کم از کم بوڑھی نہیں تھی۔ گو یہ ظاہر ہے کہ وہ توبہ کے خیال سے آئی تھی) اپنے جسم سے چھوسکتی ہے اور آپ کے ننگے قدموں کو اپنے کھلے ہاتھوں سے خوشبودار عطر یا تیل مل سکتی ہے اور آپ کے پائوں کو چوم سکتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نیک بوڑھی دیہاتی عورت جو پردہ کی قیود سے آزاد تھی،موٹی رضائی کے باہر سے کیوں نہیں دباسکتی۔ مگر حق یہی ہے کہ خدا کا یہ ازلی قانون پورا ہونا تھا کہ .6۱۷
.6چوتھا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی جلد سوم کی روایت نمبر.6۸۶۵.6 میں حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اس شعر کی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے تعریف فرمائی کہ
.6یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہؤا یہ انقلاب
.6پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھا
.6اور اس پر یہ تشریحی نوٹ درج ہے کہ شائد اس شعر کے متعلق حضور کی پسندیدگی اس وجہ سے بھی ہوگی کہ آپ’’ اس کے معانی کو اپنے پیش آمدہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے‘‘ اس پر بعض بدفطرت معاندین نے نہائت گندے اور دلآزار رنگ میں یہ طعن کیا ہے کہ نعوذباللہ اس نوٹ میں حضور کی جوانی کے ایام کی کسی داستانِ عشق کی طرف اشارہ ہے ۔اس اعتراض کے جواب میں مَیں پھر اس قرآنی آیت کی طرف رجوع کرنے کے لئے مجبور ہوں۔ کہ.6 .6.6۔۔۱۸.6 .6.6 ۱۹.6 .6۔ایسے اعتراضوں سے ہمارا تو خدا کے فضل .6سے کچھ نہیں بگڑ سکتا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاک دامن پر کسی شریف انسان کے .6نزدیک کوئی دھبہ آسکتا ہے۔ لیکن یقینا اعتراض کرنے والے اپنی گندی فطرت کا اظہار کرکے خود اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا بیج بورہے ہیں۔ روایت کا تشریحی نوٹ بالکل سادہ الفاظ میں ہے اور .6ہرموٹی سے موٹی سمجھ رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ چونکہ حضرت .6مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت پر عوام المسلمین نے آپ کے ساتھ تمام تعلقاتِ محبت قطع کرکے آپ کو گویا اپنی سوسائٹی سے خارج کردیا تھا۔ اس لئے آپ اس شعر کے ذریعہ اس حسرت کا اظہار فرماتے ہیں کہ ایک وقت وہ تھا کہ میں ملک کی اسلامی سوسائٹی میں لوگوں کے اندر گویا محبت سے گھومتا پھرتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ مسلمان اپنی نادانی میں مجھ سے کٹ کر الگ ہوگئے ہیں۔ اور میں صرف دور سے ہی اپنے تصور میں ان کی سابقہ محبت کے گلی کو چوں کا نظارہ کرسکتا ہوںا ور بس۔ اس لطیف اور بیّن تشریح کو چھوڑ کر ناپاک اور اوباش لوگوں کی طرح گندی خیال آرائی میں مبتلا ہونا آج کل کے بدنصیب مسلمانوں کا ہی حصہ ہے ۔افسوس! افسوس!! یہ وہ امت ہے جو اس زمانہ میں سیدولد آدم حضرت خاتم النبیین فخراوّلین وآخرین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ .6فاناللّٰہ وانا الیہ راجعون
.6میں نے یہ مضمون بخار کی حالت میں شروع کیا تھا اور اب بخار کی تکلیف میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ صرف ایک مختصر سی آخری گزارش پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے عقائد کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصانیف اور مطبوعات پر ہے جو شخص انہیں چھوڑ کر زبانی روایتوں کی بناء پر اعتراض اٹھاتا ہے وہ یقینا بدنیت ہے۔ زبانی روایتیں تو ہم نے ان کی کمزوری کا علم رکھنے کے باوجود (اور اِس زمانہ میں تو لوگوں کے حافظہ کی کمزوری نے زبانی روایتوں کو اور بھی زیادہ کمزور کردیا ہے) بعض زائد ضمنی فوائد کی خاطر جمع کرکے شائع کی ہیں مگر وہ کسی جہت سے بھی ہمارے عقائد کی بنیاد نہیں ہیں۔ قرآن شریف تو یہاں تک فرماتا ہے کہ خود اس کی اپنی متشابہ آیات کی بناء پر بھی اعتراض کرنا دیانتداری کا شیوہ نہیں۔ (سورہ اٰل عمران)
.6چہ جائیکہ اصل اور مستند بنیادی لٹریچر کو چھوڑ کر زبانی روایتوں کو اعتراض کی بنیاد بنایا جائے ۔ایسے لوگ یقینا اس قرآنی وعید کے نیچے آتے ہیں کہ .6.6.6۔۔۔۔۲۰
.6وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنْ
.6
‎(مطبوعہ الفضل۶ ؍مئی الفضل۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
ہندوستان کی سیاسی الجھن
کیا پاکستان کا مطالبہ جائز نہیں؟
.6
.6اپنے گزشتہ مضمون میں جو ’’الفضل‘‘مورخہ .6۱۸.6 اپریل میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے بارے میں بعض خیالات کا اظہار کیا تھا اور پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے متعلق ہر دو قوموں کا نظریہ پیش کرکے بتایا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مطالبات کا ماحصل اور دلائل کا خلاصہ کیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے حسن وقبح کے متعلق بعض اشارے کئے تھے اور مسلمانوں کی کمزوری اور مظلومیّت کی طرف اہل وطن کو توجہ دلائی تھی۔ اس کے بعد گو .6ا.6بھی میرے پاس قریباً تین چوتھائی مضمون کے نوٹ باقی تھے میں نے ایک مصلحت کے ماتحت بقیہ حصہ کو لکھنا ترک کردیا ۔ لیکن ایک بات جو اس بحث میں خاص اصولی رنگ رکھتی ہے اور گویا سارے فیصلہ کی بنیاد ہے بیان کرنی ضروری ہے اور یہ مضمون اسی اصولی امر کی تشریح کے لئے لکھ رہا ہوں۔ .6وانما الاعمال بالنیات وماتوفیقی الا باللّٰہ
.6وہ اصولی سوال جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کا مطالبہ جائز مطالبہ نہیں؟ اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب تویہ ہے کہ جب ایک قوم اپنے معاملات میں آزادی اور خود اختیاری کے رستہ پر گامزن ہوتے ہوئے کوئی خاص نظام یا خاص طریق عمل اختیار کرنا چاہے تو دنیا کے ہر معروف اخلاقی قانون کے ماتحت اسے اس کا حق ہے اور کسی دوسرے کو اس کے اس حق میں روک ڈالنے یا سدّراہ ہونے کا اختیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس طرح طبعاً اور فطرتاً ہر شخص اپنے گھر کا مالک ہے اور اس کے گھر کے اندرونی نظم ونسق میں کسی دوسرے کو دخل دینے کا اختیار نہیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہر قوم اپنے گھر کی آپ مالک ہے اور اسے یہ اختیار ہے کہ اپنے گھر یلو معاملات کو جس طرح چاہے چلائے اور اپنے لئے جو نظام پسند کرے۔ اس پر کاربند ہو۔ اس کے اس اختیار کو محدود کرنا اور اس کی مرضی کے خلاف اسے کسی دوسری قوم یا دوسری حکومت کی ماتحتی میں رکھنا غلامی کی قسموں میں سے ا یک بدترین قسم کی غلامی ہے۔ جو اپنے نتائج کی وسعت کے لحاظ سے انفرادی غلامی سے بھی بہت زیادہ ظالمانہ اور بہت زیادہ خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون مصر نے حضرت موسیٰ پر یہ احسان جتایا کہ تو ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر پلا ہے تو حضرت موسیٰ نے بے ساختہ جواب دیا کہ ایک دریا میں بہتے ہوئے بچے کو باہر نکال کر پال لینا ایک معمولی قسم کی نیکی ہے۔ جس پر تجھے اس طرح فخر کرتے ہوئے شرم محسوس ہونی چاہیئے مگر یہ جو تونے ایک قوم کی قوم کو غلام بنا رکھا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:-
.6.6… .6.6۔۔۔۔۔۲۱
.6’’یعنی فرعون نے موسیٰ ؑ سے کہا کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے گھر میں نہیں پالااور کیا تو نے ہمارے ساتھ رہ کر سالہاسال اپنی زندگی نہیں گزاری……موسیٰ ؑ نے کہا تم میری ذات پر یہ چھوٹا سا احسان جتاتے ہومگر اپنے اخلاق کا یہ بھیانک پہلو بھولے ہوئے ہو کہ تم نے میری ساری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔‘‘
.6پس قوموں کا حقِ خود اختیاری ابتدائی زمانہ سے مسلّم ہے۔ اور کسی دوسری قوم کو اس حق میں جابرانہ دست اندازی کا اختیار نہیں۔ لہذا اگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے لئے پاکستان پسند کرتی ہے تو محض اس کی یہ خواہش اور اس کا یہ مطالبہ ہی اس کے جواز کی دلیل ہے اور ہندوئوں یا انگریزوں کو اس پر چیں بچیں ہونے یا اس میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کہنا کہ پاکستان کی سکیم میں یہ نقص ہے یا وہ نقص ہے۔ یا یہ کہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے یا یہ کہ پاکستان کی نسبت فلاں سکیم مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے۔ ایک ہمدردانہ مشورہ کی حیثیت میں تو قابل اعتراض نہیںکیونکہ مشورہ کی صورت میں مشورہ لینے اور دینے والا دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک محض ایک مشورہ ہے اور ضروری نہیں کہ وہ بہر صورت قبول کیا جائے اور آخری فیصلہ بہرحال اس قوم کے ہاتھ میں ہوتا ہے، جس نے اپنے گھر کے انتظام کو چلانا ہے مگر اس معاملہ میں مشورہ کی حد سے نکل کر جبرو استبداد کا رنگ اختیار کرنا اور اپنی مرضی کو دوسری قوم کی مرضی پر اس طرح ٹھونسنا جس طرح کہ ایک فاتح اپنے مفتوح پر اور ایک آمر اپنے مامور پر حکم چلاتا ہے یقینا ایک درجہ ظالمانہ فعل ہے جس کی دنیا کا کوئی ضابطۂ اخلاق اجازت نہیں دیتا مگر افسوس ہے کہ آج کل دنیاکی ہر جابر قوم اپنے کمزور ہمسایوں کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہی ہے۔ اور کوئی نہیں پوچھتا۔ قومی یا انفرادی آزادی فطرت کا اوّلین اصول ہے اور اس اصول میں صرف اسی قسم کی ا ستثناء جائز ہے جس طرح کہ بعض اوقات ایک آزاد انسان کو اس کے کسی جرم کی وجہ سے وقتی طورپر قیدخانہ میں .6ڈ.6ال دیا جاتا ہے۔ پس سوائے اس کے کہ ہندوستان کے مسلمان مجرم قرار دیئے جا کر آ.6ز.6ادی کے حق سے محروم قرار دیئے جائیں۔ ان کا حقِ خود اختیاری کا مطالبہ ایک جائز فطری مطالبہ ہے جس کے متعلق دوسرے ایک ہمدرد کی حیثیت سے مخلصانہ مشورہ پیش کرنے کا حق تو بے شک رکھتے ہیں مگر اسے استبدادی رنگ میں رد کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
.6اس جگہ اوپر کے سوال کا دوسر اپہلو سامنے آتا ہے کہ آیا قوموں کا حقِ خود اختیاری جسے آج کل کی سیاسی اصطلاح میں رائٹ آف سلف ڈیٹرمینیشن .6Right of self Determination.6 .6کہتے ہیں ایک غیر مشروط حق ہے جو ہر صورت میں ہر قوم کو حاصل ہونا چاہیئے یا کہ وہ بعض خاص شرائط اور بعض خاص حالات کے ساتھ مشروط ہے اور صرف اسی صورت میں کسی قوم کو یہی حق حاصل ہوتا ہے جبکہ اس میں یہ خاص شرائط اور یہ خاص حالات پائے جائیں؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو دراصل اس ساری بحث کی جان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی حق بھی خواہ وہ افراد سے تعلق رکھتا ہو یا کہ اقوام سے غیرمشروط طور پر یعنی گردوپیش کے حالات سے آزاد ہوکر محض فلسفیانہ رنگ میں قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ جس طرح دنیا میں ہر چیز کو ایک نسبتی حیثیت حاصل ہے اسی طرح قوموں کا حق خو د اختیاری بھی غیرمشروط نہیں بلکہ گردو پیش کے حالات کی روشنی میں نسبتی حیثیت رکھتا ہے۔اور سارے حالات کے ساتھ سموئے جانے .6کے قابل عمل ہوتا ہے وغیرہ ذالک۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصولاً یہ نظریہ درست ہے مگر اس کا .6یہ مطلب نہیں کہ گردو پیش کے حالات کو اتنی اہمیت دے دی جائے کہ ان کی وجہ سے کسی قوم کا اصل حق ہی باطل ہوجائے یا یہ کہ گردوپیش کے حالات کو آڑ بناکر کسی قوم کو اس کے جائز حق سے محروم کردیا جائے۔ اگر مسلمانوں کو اس قسم کی وجوہات کی بناء پر ان کے حقوق سے محروم کیا جائے تو یقینا یہ اسی قسم کا ظلم ہوگا جو آج تک انگریز آمریّت ہندوستان کو اس کی آزادی سے محروم رکھنے کے لئے روا ر.6کھتی.6 آئی ہے ۔دراصل حقِ آزادی خالقِ فطرت کی پیدا کردہ موٹر پاور ہے اور گردوپیش کے حالات زیادہ سے زیادہ ایک بریک کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان بریک کے استعمال کو اس حد تک نہیں پہنچاتا کہ موٹر ایک ناکارہ وجود بن کر ہمیشہ .6کے لئے کھڑی ہو جائے۔ موٹر بہرحال چلنے .6چلانے کے لئے بنی ہے اور بریک کا وجود صرف موٹر کو اپنے رستہ سے اکھڑنے اور دوسرے ٹریفک کے ساتھ ٹکرانے سے بچانے کے لئے مقصود ہے اور جو شخص اس بریک کو موٹر کے ناکارہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے وہ یقینا یا تو ایک نادان دوست ہے اور یا ایک بدنیت دشمن۔ اس نظریہ کے ماتحت اگر ہم غور کریں تو قوموں کا حقِ خود اختیاری پانچ اہم شرطوں کے ساتھ مشروط قرار پاتا ہے۔ پس جہاں بھی یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں کسی دوسرے بہانہ کی آڑ لے کر کسی قوم کو اس کے حقِ خود اختیاری سے محروم کرنا ایک ظلم عظیم ہوگا لیکن جہاں یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی وہاں کسی قوم کا حقِ خود اختیاری کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس صورت میں اس قوم کا فرض ہوگا کہ اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر کوئی مشترک اتحادی نظام قائم کرے یہ پانچ شرطیں جیساکہ حق وانصاف کا تقاضا ہے یہ ہیں:-
.6اوّل: مذہب کا اختلاف:.6 ظاہر ہے کہ مذہب افراد اور قوموں کی زندگی پر بھاری اثر رکھتا ہے اور خصوصاً مشرقی ممالک میں تو اسے وہ حیثیت حاصل ہے جسے موجودہ زمانہ کے مغربی قوموں کے لوگ غالباً خیال میں بھی نہیں لاسکتے۔ پس دو الگ الگ مذہب رکھنے والی قوموں کا ایک نظام میںمنسلک ہونا یقینا اپنے اندر ٹکرائو کے بہت سے خطرات رکھتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ مذہب کے اختلاف سے محض کسی ضمنی عقیدہ کا اختلاف مراد نہیں بلکہ سیاسی میدان میں صرف وہی مذہبی اختلاف مؤثر سمجھا جاسکتا ہے جو بنیادی امور پر مشتمل ہو اور موٹے طورپر یہ بنیادی امور دو ہیں یعنی الف۔ بانی ٔ مذہب کا مختلف ہونا اور ب۔ مذہبی کتاب کا مختلف ہونا۔ پس وہی قوم دوسری قوموں سے الگ ہونے کی حقدار سمجھی جائی گی جس کا مذہبی بانی دوسری قوموں کے مذہبی بانیوں سے اور جس کی مقدس کتاب ’’.6دوسری .6 قوموں کی مقدس کتابوں سے جدا ہے کیونکہ یہ امور ایسے ہیں جن کے متعلق قوموں کا اختلاف نہایت وسیع اور گہرے اثرات رکھتا ہے۔
.6دوم۔ تہذیب وتمدن کا اختلاف:.6 یہ اختلاف بھی مذہبی عقائد کے اختلاف کی طرح بہت وسیع الاثر ہے اور جہاں یہ اختلاف موجود ہوں وہاں دو قوموں میں کامل اتحاد کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی دراصل جس طرح ایک لوہے کا ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کے ساتھ پیوست اور ایک جان ہونے کے لئے اس بات کو چاہتا ہے کہ یہ دونوں ٹکڑے نہ صرف ایک قسم کے لوہے کے ہوں بلکہ دونوں کا درجہ حرارت بھی اپنے کمال میں ایک جیسا ہو۔ اسی طرح قوموں کا باہمی اتصال و اتحاد بھی تہذیب کی یکسانیت کا متقاضی ہے اور وہ ملک کبھی بھی اتحاد کی برکتوں سے مستفید نہیں ہوسکتا جس میں دوقومیں مختلف و متضاد تہذیب وتمدن رکھنے والی پائی جائیں۔
.6سوم۔ قوموں کی ضروریات کا جدا جدا ہونا: .6ظاہر ہے کہ اگر ایک قوم کی ضروریات دوسری قوم سے جدا اور مختلف ہیں تو پھر جب تک اس قوم کے لئے کوئی اپنا علیحدہ نظام قائم نہ کیا جائے جو اس کی ضروریات کو بصورت احسن پورا کرسکتاہو اس وقت تک یہ قوم کبھی بھی دوسری قوم کے سایہ میں پل کر ترقی نہیں کرسکتی۔
.6چہارم۔ کسی قوم کا کسی علیحدہ ملک یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں بصورت اکثریت آباد ہونا۔ .6بعض اوقات ایک ملک میں دو جدا جدا قومیں آباد ہوتی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملی جلی صورت میں آباد ہوتی ہیںکہ الگ الگ مذہب اور الگ الگ تہذیب وتمدن رکھنے کے باوجود ان کے لئے علیحدہ علیحدہ نظامِ حکومت کا قیام ناممکن ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں ان کی حکومتوں کو جدا کرنا کسی قوم کے لئے بھی فائدہ کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فتنہ وفساد اور ٹکرائو کے موقعوں کو بڑھا دیتا ہے پس حق خود اختیاری .6Right of self Detemination.6 .6کے استعمال کے لئے یہ بھی ایک ضروری شرط ہے کہ جو قوم اس کی مدعی بنتی ہے وہ کسی علیحدہ ملک میں یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں نمایاں اکثریت کے رنگ میں آباد ہو۔
.6پنجم .6۔مندرجہ بالا شرطوں کے علاوہ یہ شرط بھی ضروری ہے کہ .6قوم کی اکثریت میں اس بات کی خواہش اور مطالبہ پایا جائے کہ ہمارا نظام جدا ہونا چاہیئے.6۔ یہ شرط اس لئے ضروری ہے کہ اگر باوجود مذہبی اور تمدنی اختلاف کے ایک قوم اپنے مخصوص حالات کے ماتحت اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر ایک ہی نظام میں منسلک رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک مبارک خواہش ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسی قوم کو خواہ نخواہ مجبور کرکے علیحدہ کیا جائے اس کے مقابل پر جب ایک قوم کی اکثریت میں علیحدگی کی خواہش موجود ہو تو اسے مجبور کرکے کسی دوسری قوم کے ساتھ اکٹھا رکھنا بھی ایک بھاری ظلم ہے۔ کیونکہ انصاف اور حقِ خود اختیاری کا تقاضا ہے کہ اسے علیحدہ ترقی کا موقعہ دیا جائے۔
.6یہ وہ پانچ اصولی باتیں ہیں جن کے جمع ہونے پر ایک قوم کو عقل وانصاف کی رو سے حقِ خود اختیاری حاصل ہوجاتا ہے اور اسکے بعد اسے اس حق سے محروم کرنا ویسی ہی جابرانہ آمریّت ہے جیسی کہ یورپ والے مشرقی ممالک پرروا رکھنے کے عادی ہیں۔یہ کہنا کہ فلاں حصہ ملک الگ ہوکر اپنی حکومت کو آزادانہ رنگ میں نہیں چلا سکے گا۔ یا یہ کہنا اس طرح وہ دوسری زبردست قوموں کا شکار بن جائے گا یا یہ کہ اس کی اقتصادی مشینری بگڑ کر تباہ ہوجائے گی یا یہ کہ وہ ملک کے دوسرے حصوں پر جس میں خود اس کے اپنے بھائی بندآباد ہیں اپنا اثر ورسوخ کھو بیٹھے گا اپنے اندر ناصحانہ انداز تو ضرور رکھتا ہے اور اس جہت سے کسی قوم کو انکار نہیں ہونا چاہیئے مگر ان باتوں کی وجہ سے کسی قوم کی خواہش اور مطالبہ کو رد کرکے اسے ایک خلاف مرضی نظام کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور کرنا ہر گز انصاف کا شیوہ نہیں آخر جب ہندو کو انگر.6یز.6 کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق ہے تو مسلمان کو ہندو کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق کیوں نہیں؟ اور جب ہندو انگر.6یز.6 سے یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ تمہارے خیال میں تمہاری حکومت ہمارے لئے ایک بھاری رحمت ہی سہی مگر بہرحال ہم اسے اب اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے۔ اور اپنے ملک میں اپنے رنگ کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو مسلمان کیوں اسی دلیل کی بناء پر علیحدہ نظام قائم نہیں کرسکتا؟ انصاف کا فطری ترازو بہرحال سب انسانوں کے لئے ایک ہے تو پھر ایسا کیوں ہو کہ ہندو کے لئے انگر.6یز.6 کے ساتھ معاملہ کرنے کا ترازو اور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے اور؟ ہاں اگر مسلمان ہندوستان کے کسی معین حصہ میں علیحدہ طور پر اکثریت کی صورت میں آباد نہ ہوتے یا ان کا مذہب وتمدن ہندوئوں کے مذہب اور تمدن سے الگ نہ ہوتا یا ان کی قومی ضروریات ہندوئوں کی قومی ضروریات سے جدا نہ ہوتیں۔ یا باوجود ان ساری باتوں کے ان میں علیحدگی کی خواہش نہ ہوتی تو پھر بے شک ہندوئوں کا اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جائز اور درست تھا۔ لیکن جب کہ حق خود اختیاری کی ساری شرائط موجود ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس حق سے محروم کرنا نہ صرف قرین انصاف نہیں بلکہ ملک میں ایسے فتنہ کے بیج بونے کے مترادف ہے کہ جو آئندہ چل کر انگریز آمریت سے بھی زیادہ بھیانک صورت اختیار کرسکتا ہے۔
.6پس موجودہ حالات میں ہندوئوں کے لئے صرف ایک ہی معقول اور منصفانہ راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ وہ دل کی سچی تبدیلی ثابت کرکے مسلمانوں کو ایسی پختہ اور مستقل مراعات اور ایسے یقینی تحفظات دے دیں کہ ان کے دل میں علیحدگی کی خواہش خود بخود مدھم پڑ جائے۔ اور وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر ایک مشترک نظام میں رہنے کے لئے تیار ہوجائیں اور یہ صورت ہرگز ناممکن نہیں۔ مسلمان طبعاً فیاض دل ہے اور ’’بھول جائو اور معاف کردو‘‘ کے اصول کی طرف بہت جلد کھینچا جاسکتا ہے۔ پس جو بات جبر سے حاصل نہیں ہوسکتی اسے محبت کی زنجیروں سے کھینچ لو۔ کیونکہ محبت کی قوت جبر کی طاقت سے بہت زیادہ دائمی ہے۔ اور دوستی کی کشش دشمنی کے دبائو سے کہیں زیادہ زوردار۔ مگر یاد رکھو کہ اصولاً قربانی دکھانا ہندوئوں کے ذمہ ہے کیونکہ ہندوستان میں ان کی اکثریت ہے اور دولت وتعلیم میں بھی وہ مسلمانوں سے بہت آگے ہیں۔ پس اگر وہ فراخ دلی کے ساتھ مسلمانوں کو اب بھی صوبوں میں مکمل اور حقیقی خود مختاری دیں اور مرکز میں بھی ان کے لئے برابری کے حقوق اور پختہ تحفظات محفوظ کردیئے جائیں تو اس طرح مسلمان کا پاکستان کا مطالبہ قریباً قریباً پورا ہوجاتا ہے۔ اور ہندو بھی اکھنڈ ہندوستان کے خواب سے محروم نہیں رہتا اور ملک کی شان بھی قائم رہتی ہے۔ کاش ایسا ہوسکے۔ اے کاش ایسا ہوسکے اور نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہندوستان ایک خطرناک جنگ کی آگ سے نکلِ کر دوسری خطرناک جنگ کی آگ میں جاگرے گا اور نہ پاکستان باقی رہے گا اور نہ اکھنڈ ہندوستان۔ بس اِس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گاکیونکہ باقی تفاصیل کا بیان کرنا .6م.6وجودہ .6حالات میں انتشار کا موجب ہو سکتا ہے جو اس وقت مناسب نہیں ۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍مئی ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
دل کا حلیم
.6
.6یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ ہر ہستی کا کلام اس کے علم اور اس کی شان کے مطابق ہوتا ہے۔ چنانچہ جہاں ایک عام انسان کا کلام اپنے سطحی معنوں کے اندر محدود ہوتا ہے اور اس میں کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی جس میں سننے والے کو غوطہ لگانے کی ضرورت پیش آئے۔ وہاں ایک عالی مرتبہ عالم یا مدبّر کا کلام اپنے اندر بہت سی گہرائیاں رکھتا ہے۔ جن تک پہونچنے کے لئے کافی غوروخوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ انسان ایسے کلام کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھ سکتا اور اس کے بہت سے لطیف پہلو نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں ایک عام انسان کے کلام میں کئی الفاظ زائد پائے جاتے ہیں، جو وہ جہالت یا بے احتیاطی کی وجہ سے یا غیر محسوس تکرار کے رنگ میں یا بسااوقات محض عبارت کی ظاہری خوبصورتی کی غرض سے استعمال کرتا ہے ۔ حالانکہ ان کے استعمال سے الفاظ کے معنوی حسن میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اغلاق اور پیچیدگی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہاں ایک اعلیٰ درجہ کا عالم یا مدبّر انسان ہر لفظ سوچ کر استعمال کرتا ہے اور اپنے کلام میں حتی الوسع کسی ایسے لفظ کو راہ نہیں دیتا جو زائد یا غیر ضروری یا معانی میں پیچیدگی پیدا کرنے والا ہو۔ پس جب مختلف طبقوں کے انسانوں کے کلام میں یہ فرق پایا جاتا ہے تو عالم الغیب خدا اورا س کی پیدا کردہ ناقص العلم مخلوق کے کلام میں تو یہ فرق بہت زیادہ نمایاں صورت میں پایاجانا چاہیئے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ جہاں مختلف انسانوں کے کلام میں صرف درجہ کا فرق ہوتا ہے وہاں خدا اور انسان کے کلام میں محض درجہ کا ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ دراصل خدا کا کلام اپنی نوعیت اور اپنی حقیقت میں انسانی کلام سے بالکل جدا اور نرالا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کے کلام میں کوئی حصہ زائد اور غیر ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر لفظ اور ہر حرف اور ہر حرکت اپنے اندر ایک خاص حقیقت اور خاص غرض وغایت رکھتی ہے۔ اس شاندار خصوصیت کا نظارہ قرآن شریف کے اوراق میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص الخاص کلام ہے جو اس کی کامل اور ابدی شریعت کا حامل بن کر نازل ہوا ہے۔ مگر خدائی کلام کی یہ خصوصیت قرآنی وحی تک ہی محدود نہیں بلکہ کم وبیش ہر الہام الٰہی میں نظر آتی ہے اور میں ذیل کی سطور میں ایک اسی قسم کی خصوصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
.6کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک دوست نے کہا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسا اوقات اپنے ماتحت کارکنوں پر ایسی سخت گرفت فرماتے ہیں کہ جو بظاہر انتہائی درشتی کا رنگ رکھتی ہے۔ حالانکہ آپ صرف خلیفۂ وقت ہی نہیں بلکہ مصلح موعود بھی ہیںاور حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نظیر بھی۔ میں نے اس وقت لمبی بحث سے احتراز کرنے کے لئے سرسری طور پر جواب دیا کہ امام کو بعض اوقات مفاد سلسلہ کے ماتحت سختی بھی کرنی پڑتی ہے اور اس کے برداشت کرنے میں ہی جماعت کے لئے برکت ہے۔ اس دوست نے کہا کہ کبھی کبھار سختی کا رنگ پیدا ہوجانا اور بات ہے مگر یہاں تو کثرت کے ساتھ یہی صورت نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو انتہائی سختی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کبھی نہیں پایا گیا۔ میں نے کہا تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ حضرت عمرؓ کے متعلق بھی یہی اعتراض پیدا ہؤا تھا۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتراض کبھی نہیں ہؤا۔ علاوہ ازیں سخت گیری کی پالیسی تو ایک طرح سے مصلح موعود .6کی نشانی ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں میں صاف آتا ہے کہ وہ یعنی مصلح موعود ’’جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔‘‘ پس گھبرائو نہیں اور اپنے دل کو ذرا کڑا کرکے رکھو کیونکہ یہ ’’جلالِ الٰہی‘‘ خدائی منشاء کے مطابق ہے اور جماعت کی بہتری کے لئے ہے۔ اس پر یہ دوست بولے کہ میں خدا کے فضل سے منافق نہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے دلی عقیدت اور اخلاص رکھتا ہوںمگر صرف تشریح اور تسلی کے خیال سے پوچھتا ہوں کہ مصلح موعود کے متعلق ’’حلیم ‘‘ کا لفظ بھی تو آیا ہے اور بظاہر یہ سختی حِلم وبردباری کے طریق کے خلاف نظر آتی ہے۔ اس اعتراض پر میں ایک سیکنڈ کے لئے رکا مگر قبل اس کے کہ اس دوست نے میرے رکنے کو محسوس کیا ہو۔ خدا تعالیٰ نے .6اچانک میرے دل میں ایک خیال ڈالا اور میں نے اس دوست سے تجاہل کے رنگ میں پوچھا کہ مصلح موعود .6کو ’’حلیم‘‘ کس الہام میں کہا گیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں۔ یہ دوست غالباً اس خیال سے کہ بس اب میں نے میدان مار لیا فوراً بولے کہ وہ جو فروری .6۱۸۸۶.6ء کی وحی میں آتا ہے کہ ’’وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم‘‘ اس میں مصلح موعود کے متعلق صاف طور پر ’’حلیم‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے۔ اور حلیم کے معنی چشم پوشی اور درگزر کرنے والے کے ہیں۔ میں نے کہا بس آپ کی بحث ختم ہوچکی ہے اب میری سنو کہ یہاں ’’دل کا حلیم‘‘کہا گیا ہے نہ کہ صرف’’حلیم‘‘ اور ان دونوں کے مفہوم میں بھاری فرق ہے۔ کیا وہ خدا جس نے قرآن شریف میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق حلیم۲۲.6 .6کا لفظ استعمال فرمایا اور پھر ان کے صاحبزادہ حضرت اسمٰعیل کو بھی اسی لقب سے یاد کیا.6۔۲۳.6 .6وہ مصلح موعود کے متعلق خالی حلیم کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ پس جب خدائے علیم نے ’’حلیم‘‘ کے سادہ اور مختصر لفظ کو ترک کرکے اس کی جگہ ’’دل کا حلیم‘‘ کا مرکب اور طولانی محاورہ اختیار فرمایا تو یقینا یہ استعمال بے وجہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی لفظ زائد اور بے معنی نہیں ہؤا کرتا۔ اس مختصر تشریح سے ہمارے اس دوست کی (جو خدا کے فضل سے مخلص بھی تھے اور ذہین بھی) گویا آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے نہائت درجہ شکریہ کے رنگ میں کہا کہ آپ نے مجھے ایک بھاری خلجان سے بچا لیا ہے۔
.6دراصل جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جو مصلح موعود کے متعلق ’’دل کا حلیم‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، یہ اپنے اندر ایک نہائت گہری صداقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان الفاظ میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو مصلح موعود اپنے قلبی جذبات میں حلیم ہوگا۔ مگر اس کے ظاہر میں جلال اور درشتی کا رنگ پایا جائے گا۔ اس لئے اس کے متعلق صرف ’’حلیم‘‘ کی مفرد صفت کا اطلاق درست نہیں ہوگا۔ بلکہ ’’دل کے حلیم‘‘ کی مرکب صفت ہی اس کے فطری خلق کی آئینہ دار ہوسکے گی۔ کیونکہ گو اس کے ظاہر میں ’’جلال‘‘ رکھا گیا ہے مگر اس کے قلب کی گہرائیوں میں ’’حلم‘‘ وبردباری کا بسیرا ہے۔ یہی وہ حقیقی تشریح ہے جو مصلح موعود والی وحی کے گہرے مطالعہ سے ثابت ہوتی ہے۔ اور جس کے نہ .6سمجھنے کی وجہ سے بعض ناواقف لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو حضرت .6خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کے انتظامی پہلو کا جو مختصر مگر مکمل نقشہ ان تین الفاظ میں کھینچا گیا ہے اس سے زیادہ صحیح تصویر ممکن نہیں ہوسکتی۔ مگر افسوس کہ اکثر لوگ تدبر کی عادت نہیں رکھتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ قوموں کی تربیت اور ترقی کے لئے جلال اور جمال دونوں ضروری ہیں۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ وہ کسی نبی میں جلال کے پہلو کو غلبہ دے دیتا ہے اور کسی میں جمال کے پہلو کو اور کسی میں جہاں وقتی ضروریات ایک مرکب صفت والے مصلح کی متقاضی ہوتی ہیں،کسی ایسے انسان کو مبعوث فرماتا ہے جو جلال وجمال دونوں کا مظہر ہوتا ہے۔ یعنی اگر اس کا ظاہر جلال کی صفت پر قائم ہوتا ہے تو اس کا باطن جمال کی صفت کا حامل اور یہی ابدی فلسفہ خلفاء کے سلسلہ میں بھی کام کرتا ہؤا نظرآتا ہے۔ لیکن یہ ایک لمبا مضمون ہے اور میں انشاء اللہ اس موضوع پر عنقریب ایک علیحدہ مضمون لکھوں گا۔.6 وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم.6۔
.6نوٹ:- چونکہ اس گفتگو پر کچھ عرصہ گزرچکا ہے اس لیئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کم وبیش ہوگئے ہوں اور بعض میں نے تشریح کے خیال سے دانستہ کم وبیش کیئے ہیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۴ ؍جون ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
تعلیم الاسلام کالج قادیان کا پہلا نتیجہ
.6
.6اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج قادیان کی طرف سے پہلی دفعہ ایف۔اے اور ایف۔ایس۔سی کے امتحانوں میں طلباء شریک ہوئے تھے اور کمپارٹمنٹ والے امیدواروں کو شامل کرتے ہوئے خدا کے فضل سے .6۵۹.6 میں سے .6۳۱.6 طلباء کامیاب ہوئے ہیں اور ایک طالب علم نذیر احمد .6۴۹۳.6 نمبر لے کر پنجاب بھر کے مسلمان امیدواروں میں سوم نکلا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ غالباً وہ وظیفہ حاصل کرے گا۔ ابتدائی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یونیورسٹی کے اعلان کے مطابق اس سال ایف۔اے اور ایف۔ایس۔سی کا نتیجہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ سخت رہا ہے۔ ہمارا نتیجہ خدا کے فضل سے آئندہ بہت بہتر نتائج کی امید پیدا کرتا ہے۔ احباب کو چاہیئے کہ تھرڈ ایر میں جو اس سال ستمبر کے آخر میں کھل رہی ہے زیادہ سے زیادہ طلباء داخل کرکے اس اہم قومی درسگاہ کی ترقی میں حصہ لیں۔
.6 .6خاکسار
.6 .6مرزا بشیر احمد
.6 .6صدر تعلیم الاسلام کالج سب کمیٹی
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
موجودہ سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے
حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی جمیلہ
.6
.6دہلی ۔یکم اکتوبر(بذریعہ ڈاک) گو جیسا کہ ’’الفضل‘‘ میں اعلان کیا جاچکا ہے ۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غرض موجودہ سفر دہلی میں ملک کے سیاسی حالات کا مطالعہ تھی اور خیال یہ تھا کہ حضور دہلی میں چند دن قیام رکھ کر اپنے نمائندوں کے ذریعہ سیاسی لیڈروں کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش فرمائیں گے۔ تاکہ ان کی روشنی میں جماعت کی طرف سے ملک کی بہتری کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاسکے مگر دلّی پہنچنے پر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ خود حضور نے بعض سیاسی لیڈروں سے ملنا اور براہِ راست تبادلۂ خیالات کرنا ضروری خیال فرمایا۔ چنانچہ اس وقت تک بعض دوسری ملاقاتوں کے علاوہ حضور مسٹر جناح صدر مسلم لیگ اور مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مسٹر گاندھی سے ملاقات فرماچکے ہیں اور حضور کی طرف سے حضور کے نمائندگان نے جو ملاقاتیں کی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت ان ملاقاتوں کی تفصیل لکھنا مناسب نہیںمگر احباب کو دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ نازک وقت میں جو حقیقتاً بے حد نازک ہے۔ مسلمانوں اور ہندوئوں اور دیگر اقوامِ ہند کی ایسے رستہ کی طرف رہنمائی فرمائے جو ملک کی بہبودی اور ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہو۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.
.6
حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی میں
.6
.6۳.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) دہلی میں موجود سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مساعی کا مختصر ذکر گذشتہ رپورٹ میں گذرچکا ہے۔ اس کے بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چانسلر و چیمبر آف پرنسز سے ہوچکی ہے، جو یہاں موجودہ سیاسی حالات کے تعلق میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک دعوت کے موقع پر سرناظم الدین صاحب آف بنگال اور سردار عبدالرب صاحب نشتر آف سرحد کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات بڑی سرعت کے ساتھ کسی نہ کسی نتیجہ خیز صورت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس لئے احباب کو دعائوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ آج حضور نے سابقہ اعلان کے مطابق اکتوبر کے مہینہ کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھا۔ ہز ہائی نس؎؎؎؎؎ سر آغاخاں صاحب نے یورپ سے بذریعہ تار حضور کی موجودہ مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
دہلی میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی مساعی
.6
.6 .6۵.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے ایک چٹھی .6ہزایکسلنسی وائسرائے کے نام بھجوائی ہے کہ گو جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہونے کی وجہ سے .6مِن حیث الجماعت لیگ میں شامل نہیں مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام ترلیگ .6کے ساتھ ہے اور ایک دوسری چٹھی میں حضور نے وائسرائے پر واضح فرمایا ہے کہ اگر خدا نخواستہ موجودہ .6گفت وشنید ناکام ہوتی نظر آئے۔(گو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت کامیابی کی امید .6غالب ہے) تو مایوس ہوکر اسے ناکام قراردینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دی جائے۔ تاکہ اس عرصہ میں لیڈر بھی مزید غور کرسکیں اور پبلک (خصوصاً آزاد پبلک) کو بھی اپنا اثر ڈالنے کا موقع مل سکے مگر اس صورت میں ضروری ہوگا کہ جس نکتہ پر ناکامی ہورہی ہو، اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کیا جائے۔ اسی مضمون کی وضاحت کے لئے حضور کی طرف سے درد صاحب ہزایکسلنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بھی مل چکے ہیں۔
.6حضور کی طرف سے چودھری اسد اللہ خاں صاحب اور درد صاحب اور صوفی عبدالقدیر صاحب نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب اور سر سلطان احمد صاحب اور نواب صاحب چھتاری اور سر فیروز خاں صاحب سے بھی ملے ہیں۔ مؤخرالذکر صاحب حضور سے ملنے کے لئے بھی آئے تھے مگر حضور جمعہ کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ خان بہادر علی قلی خاں صاحب سابق پولیٹیکل ایجنٹ صوبہ سرحد حضور کی ملاقات کے لئے آئے اور نواب صاحب چھتاری سابق گورنر یو۔پی نے علی گڑھ سے ایک تار کے ذریعہ حضور کی مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا۔ بعض پریس کے نمائندے (چیف رپورٹر اخبار ڈان اور ڈائرکٹرز اورینٹ پریس اور سری کرشن صاحب نمائندہ اندراپتر کا وغیرہ) بھی حضور سے ملاقات کرچکے ہیںاور حضور کی طرف سے صوفی عبدالقدیر صاحب نے بعض امریکن اور انگریزی اخباروں کے نمائندوں سے ملاقات کرکے مسلمانانِ ہند کا نقطۂ نظر واضح کیا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۷؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی میں
.6
.6 دہلی .6۹.6 ر اکتوبر (بذریعہ ڈاک) مسلم لیگ اور کانگرس کا متوقع سمجھوتہ تکمیل کے قریب پہنچ گیا ہے مگر ابھی بعض تفصیلات میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے ۔دعا کرنی چاہئے کہ آخری مرحلہ پرکوئی روک نہ پید اہواور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی سعی اور روحانی توجہ ہندومسلمانوں کے لئے ایک مستقل اور بابرکت نتیجہ پیدا کرنے کاباعث بن جائے آمین ۔ آج کچھ رپورٹیں خلاف بھی آرہی ہیں اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو۔
.6 عرصہ زیر رپورٹ میں سر فیروز خاں صاحب نون سابق ڈیفنس ممبر گورنمنٹ آف انڈیا او رنواب سر احمد سعید خاں صاحب آف چھتا ری سابق گورنر یو۔پی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کے ساتھ بھی حضور کی دوسری ملاقات ہوئی نیز حضور نے ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ مسٹر جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو آیندہ کے متعلق بعض مفید تجاویز کی طرف توجہ دلائی۔
.6چونکہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کا آبائی وطن دلّی ہے اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کے بعض جدی عزیزوں کی ملاقات کیلئے دلّی کے قدیم محلہ کوچہ چیلاں میں تشریف لے گئے ۔اور اس موقعہ پر دلی کے مشہور صوفی بزرگ اور حضرت اماں جان کے جد امجد حضرت خواجہ میر درد صاحب کا حجرہ بھی دیکھاحضرت خواجہ میر درد صاحب کا وسیع اثر اس سے ظاہر ہے کہ قریباً پونے دو سو سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود گورنمنٹ آف انڈیا نے نئی دہلی کی ایک سڑک کا نام ’’میر درد روڈ ‘‘ رکھا ہے۔
.6کل شام کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے لنڈن کے دو مشہور روزانہ اخباروں کے انگریز نمائندے جو دلّی میں مقیم ہیں حضور کی فرود گاہ میں تشریف لائے اور مختلف قسم کے سوالات کرتے رہے۔ دلّی کے عریبک کالج (جس میں ایم ۔اے تک تعلیم دی جاتی ہے ) کے چار پروفیسر بھی حضور کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور ایک دعوت کے موقع پر دلّی کے بعض چوٹی کے مسلمان تاجروں اور دوسرے معززین کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی۔ دلّی کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے حضور کو خیال ہے کہ یہاں ایک مضبوط جماعتی مرکز قائم کیا جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی دلّی میں
.6
.6۱۱.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) کوٹھی نمبر .6۸.6 یارک روڈ نئی دہلی کے وسیع صحن میں بدھ کی شام کو ساڑھے پانچ بجے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک پبلک تقریر ہوئی، جس میں دعوتی رقعوں کے ذریعہ معززین کو مدعو کیا گیا تھا۔ باوجود اس کے کہ تقریر کا وقت مناسب نہیں تھاکیونکہ ملازم پیشہ لوگوں کو دفتر سے فارغ ہوتے ہی آنا پڑتا تھا زائد از چھ سو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور آخر وقت تک بیٹھ کر نہایت سکون اور توجہ کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ احمدی سامعین اس تعداد کے علاوہ تھے۔ تقریر کے اختتام پر جو نماز کا وقت ہوجانے پر جلد ختم کردینی پڑی ،بعض غیر احمدی معززین یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ افسوس ہے کہ وقت تنگ ہونے کی وجہ سے تقریر کا مضمون جو نہایت علمی اور دلچسپ تھا ختم نہیں ہوسکا۔ جیسا کہ پہلے اعلان ہوچکا ہے تقریر کا موضوع یہ تھا کہ ’’دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے۔‘‘ نماز کے بعد نیز دوسرے دن بعض معززین نے تقریر سے متعلقہ مضمون پر حضور سے بعض سوالات کئے اور تسلی پاکر واپس گئے۔ .6۱۹۴۴.6ء کی تقریر کے مقابلہ پر جبکہ بعض دلّی والوں نے اتنا ہنگامہ برپا کیا تھا۔ .6۱۹۴۶.6ء کی تقریر نے ثابت کردیا کہ اب خدا کے فضل سے اہلِ دہلی کے ’’قفل‘‘ کھلنے شروع ہوگئے ہیں۔
.6مسلم لیگ اور کانگرس کی سیاسی گفت وشنید کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور چھوٹے چھوٹے سوالات اٹھ کر آخری مفاہمت کو التوا میں ڈال رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مسٹر گاندھی نے اس سوال کے متعلق ایک فارمولا پیش کیا تھاکہ کانگریس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ لیگ جمہور مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت ہے مگر کانگرس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کانگرسی مسلمانوں میں سے کسی کو اپنا نمائندہ بنائے۔ مسٹر جناح نے اس فارمولا کو منظور کرلیا تھامگر کانگرس کے بعض اربابِ حل وعقداس پر معترض ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر کوئی خاص روک نہ پیدا ہوگئی یا موجودہ روک نے زیادہ سخت صورت نہ اختیار کرلی تو دوتین دن میں مفاہمت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ احباب کو دعا کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے۔ جمعرات کی صبح کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور پنڈت نہرو صاحب کی ملاقات ہوئی۔ حضور کا احساس ہے کہ نہرو صاحب کچھ مشوش نظر آتے تھے اس لئے گفتگو زیادہ مفصل نہیں ہوسکی۔
.6ایک خط کے ذریعہ حضور نے ہزہائینس نواب صاحب بھوپال کی مساعی کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں تحریک کی ہے کہ درمیانی روکوں کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہوں اور اپنی مخلصانہ مساعی کو جاری رکھیں، جس میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔
.6حضور نے نیورمبرگ کے فیصلہ پر اپنے لندن کے دارالتبلیغ کو تار دیا تھا کہ حکومت سے درخواست کرکے اس بات کی کوشش کریں کہ جن جرمن لیڈروں کو موت کی سزا کا حکم ہوا ہے ان سے ملاقات کی اجازت مل جائے اور پھر اجازت ملنے پر ان کے سامنے اسلام پیش کریں،تا مرنے سے پہلے ان کی روحوں کو ابدی سلامتی حاصل ہوسکے، مگر افسوس ہے کہ امریکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۴ ؍اکتوبر۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
سیدہ امّ طاہر مرحومہ کی بڑی بچّی کی شادی
.6
اور
مسّرت وغم کے مخلوط جذبات
.6
.6پرسوں بروز اتوار بتاریخ .6۱۰.6؍ اکتوبر .6۱۹۴۶.6ء حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صاحبزادی اور ہمشیرہ سیدہ ام طاہرمرحومہ کی بڑی بچی عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کا رخصتانہ تھا۔ دنیا میں ہر روز ہزاروں لاکھوں شادیاں ہوتی ہیں اور ہر شادی میں لڑکی والوں کے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ ایک پہلو غم کا بھی شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ پلی پلائی لڑکی جو گھر کی رونق وبہار اور والدین کی نورِ چشم اور راحتِ جان ہوتی ہے ان کے گھر سے رخصت ہوکر ایک دوسرے گھر میں قدم رکھتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ عملاً ہمیشہ کے لئے اسی مؤخرالذکر گھر کی ہوجاتی ہے۔ گویا وہ ایک پودا تھا جو ایک باغ سے اکھڑ کر دوسرے باغ میں نصب ہوگیا۔ پس والدین جہاں اس موقع پر اپنی بچی کا گھر آباد ہوتا دیکھ کر اور اس کے سہاگ کی امیدیں دل میں قائم کرکے خوش ہوتے ہیں۔ وہاں ان کا دل اپنی بچی کی جدائی پر اور ایک رنگ میں ہمیشہ کی جدائی پر غم کے آنسو بھی بہاتا ہے۔ دل خوشی سے سینہ میں اچھلتا بھی ہے اور پہلو میں درد بھی اٹھ اٹھ کر بے چین کرتا ہے اور فطرتِ انسانی کے اس مخلوط فلسفہ کو خالقِ فطرت کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اسی کی شانِ کبریائی ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی سینہ میں آگ وپانی کو جمع کر رکھا ہے۔ آگ جلتی ہے مگر پانی اس کے پہلو میں پڑا ہوا اسے بجھا نہیں سکتا اور پانی ٹھنڈک پہنچاتا ہے مگر آگ اس کے پہلو میں پڑی ہوئی اس کی ٹھنڈک کو مٹا نہیں سکتی۔
.6یہ آگ وپانی والا نظارہ ہر شادی والے گھر میں جہاں سے لڑکی رخصت ہوتی ہے ہر روز ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دیکھنے میں آتا ہے اور لوگ کچھ خوشی کے گیت گاکر اور کچھ غم کے آنسو بہا کر دوچار دن میں خاموش ہوجاتے ہیں مگر عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کا رخصتانہ اس کی مرحومہ امی کی یاد کی وجہ سے مسرت و خوشی کے ساتھ ساتھ غم والم کے عنصر کو ایسا بھڑکانے والا تھا کہ اسے ایسی جلدی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔ سیدہ امِ طاہر مرحومہ جن کی وفات .6۵.6؍ مارچ .6۱۹۴۴.6ء کو ہوئی اپنے اندر دو خاص اوصاف رکھتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہر غریب وامیر کی خوشی اور غم میں اس طرح شریک ہوتی تھیں کہ گویا وہ خوشی اور غم خود ان کا اپنا ہے۔ کسی کے بیاہ میں جاتیں تو جاتے ہی سارے انتظامات کو اس طرح اپنے ہاتھ میں لے لیتیں کہ گویا یہ خود ان کے اپنے گھر کی شادی ہے اور سب سے زیادہ خوشی انہی کو ہے۔ یہ نظارہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے خاندانوں نے دس بیس دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں دفعہ دیکھا ہوگاکیونکہ وہ اتنی ہردلعزیز تھیں کہ ہر گھر انہیں بلانے میں خوشی اور فخر محسوس کرتا تھا اور وہ جہاں جاتی تھیں شادی کی رونق کو دوبالا کردیتی تھیں۔ دوسرا نمایاں وصف سیدہ مرحومہ میں یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لئے نہائت درجہ شفیق اور محبت کرنے والی ماں تھیں اور ان کا دل اس خواہش سے ہمیشہ معمور رہتا تھاکہ وہ اپنی بچیوں کا گھر بہترین صورت میں آباد ہوتا دیکھ لیں۔ غالباً وہ کبھی کسی شادی میں شریک نہیں ہوئیںکہ جب انہوں نے اپنے ملنے والوں سے یہ دردمندانہ استدعا نہ کی ہو کہ میری لڑکیوں کے واسطے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں اچھے بَر ا.6و.6ر اچھے گھر عطا کرے۔ خداکی گہری اور ازلی تقدیر کے ماتحت انہیں یہ خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی مگر عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کے رخصتانہ کے دن وہ کون سا دل تھا جو حالات سے واقف ہوتے ہوئے مرحومہ کے ان اوصاف کو یاد کرکے مرحومہ کے درجات کی بلندی اور اس کی اولاد کی دینی دنیوی بہبود ی کے لئے دست بدعا نہ ہؤا ہو۔ ہم سب اس وقت انتہا درجہ خوش بھی تھے اور انتہاء درجہ غمگین بھی۔ خوش اس لئے کہ مرحومہ کی سب سے بڑی بچی مرحومہ کی ان ہزاروں دعائوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے جو وہ اپنی اولاد کے واسطے دن رات کیا کرتی تھیں، اپنا نیا گھر آباد کرنے کے لئے جارہی تھی۔ اور غمگین اس لئے کہ آج مرحومہ جو اس وقت سب سے زیادہ خوش ہونے کا حق رکھتی تھی اور جس کے دل میں اس دن کے دیکھنے کی کتنی زبردست خواہش اور زبردست تمنا تھی اور جو اپنی شرکت سے دوسروں کی خوشی کو بھی دوبالا کردیا کرتی تھی۔ اس دنیا میںموجود نہیں ہے۔ اس وقت مجھے حالی کا وہ شعر یاد آیا جو اس نے غالب کی وفات پر کہا تھا کہ :-
.6 بارِ احباب جو اٹھاتا تھا .6 .6دوش احباب پر سوار ہے آج
.6میرے دل نے کہا کہ مرحومہ نے اپنی ساری عمر لوگوں کے بوجھ اٹھانے اور ان کی خوشیوں کو اپنی خوشی بنانے میں گزاردی لیکن جب اس کی اپنی بچی کی شادی کا وقت آیا تو وہ اگلے جہان میں پہنچ چکی ہے اور اس کی جگہ کام کرنے والے دوسرے لوگ اور خوشی منانے والے دوسرے لوگ اور اس کی بچی کے رخصت ہونے پر غم کے آنسو بہانے والے بھی دوسرے لوگ ہیں۔میرا یہ مطلب نہیں کہ مرحومہ کے قائم مقاموں نے اس انتظام میں اور اس موقع کی مخلوط خوشی اور غم کے مخلصانہ اظہار میں کسی رنگ میں کمی کی ہے بلکہ جیسا کہ میں سنتا رہا ہوں، ان کی مخصوص قائم مقام نے جو اس وقت مرحومہ کے بچوں کی ’’مہرآپا‘‘ کہلاتی ہیں نے تو انتہائی سعی ومحنت اور انتہائی مہر ومحبت کے ساتھ یہ سارے فرائض انجام دیئے ہیں۔.6 فجزاھااللّٰہ خیراً وکان اللّٰہ معھافی الدنیا والاٰخرۃ.6۔ مگر فطرت کے خلا کو کون بھر سکتا ہے اور ماں کا دل کس سینہ میں ڈالا جاسکتا ہے؟
.6میں انہی خیالات میں غرق تھا کہ اچانک مجھے ایک غیبی طاقت نے اپنی طرف کھینچ کر اس بات کی طرف متوجہ کیاکہ بیشک اس دنیا میں قضاء وقدر کے قانون کے ماتحت ماں بچہ سے جدا ہوتی ہے اور خاوند بیوی کو چھوڑتا ہے اور بھائی بھائی سے رخصت ہوتا ہے۔ اور دنیا میں جدائی کا یہ جال اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس سے بچ کر نکلنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر کیا خدا کی ذات والا صفات ان سب تغیرات سے بالا نہیں؟ کیا اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ جب ماں بچہ کو چھوڑ رہی ہوتی ہے تو اس کا آسمانی باپ جس کی محبت ماں کی محبت سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ بچہ کی طرف محبت وشفقت کے ساتھ جھک کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری تقدیر نے تجھے تیری ماں سے جدا کیا ہے۔ مگرمیں تیرا ودود خدا ہوں۔ اب میری محبت تجھ سے اور بھی زیادہ قریب ہے تو میری گود میں آ اور اس سے بڑھ کر محبت کا نظارہ دیکھ جو کبھی تو نے اپنی ماں کی طرف سے دیکھا ہو۔ چنانچہ بعینہٖ یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؑ کے والد کی وفات کے وقت پیش آئی کیونکہ جب آپ اپنے والد کی جدائی پر اپنی بے سروسامانی کو دیکھ کر غمگین ہوئے تو جھٹ خدا نے آپ کی طرف محبت کے ساتھ جھک کر فرمایا:-
.6الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ.6۔۲۴
.6’’ہیں ہیں! کیا تو میرا بندہ ہوکر باپ کی وفات پر بے سرو سامانی کی مایوسی میں مبتلا ہو رہا ہے۔ کیا میں اپنے پیارے بندے کی ساری ضرورتوں کے لئے کافی نہیں‘‘؟
.6پھر حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی نکتہ کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہیں کیونکہ جب ایک گھمسان لڑائی کے دوران میں ایک عورت کا بچہ اس سے کھویا گیا۔ او روہ اس کی تلاش میں نالاں و سرگرداں پھرتی تھی۔ اور روتی چلّاتی ہوئی کبھی اِدھر جاتی تھی اور کبھی اُدھر اور بالآخر جب اس کا بچہ مل گیا تو وہ اسے اپنے سینہ سے چمٹا کر یوں بیٹھ گئی کہ گویا اسے سارے جہان کی بادشاہت مل گئی ہے۔ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے اس عورت کی محبت کو دیکھا کہ وہ اپنے بچہ کے لئے کس طرح بے چین تھی اور اسے پاکر کس طرح خوش ہوئی ہے۔ .6واﷲ باﷲ .6خداکی محبت اپنے بندوں کے ساتھ اس محبت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے جو تم نے اس عورت میں اپنے بچہ کے لئے دیکھی ہے۔ ان خیالات کے آتے ہی میں برات کے آنے سے صرف بیس منٹ قبل بہشتی مقبرہ کی طرف جلدی جلدی گیا اور وہاں جاکر خدا سے دعا کی کہ خدایا تیری تقدیر نے یہاں بھی ایک محبت کرنے والی ماں کو اس کے نہایت درجہ عزیز بچوں سے جدا کیا ہوا ہے ہم تیری تقدیر پر راضی ہیں۔ مگر اپنے وعدہ کے مطابق یہاں بھی اپنی اس ازلی رحمت کا چھینٹا ڈال کہ جنت میں ان بچوں کی ماں کی روح تیری قربت میں راحت وسکون پائے اور دنیا میں ان بچوںکے دل تیری محبت میں ماں کی کھوئی ہوئی شفقت کا نظارہ دیکھیں۔.6آمین یا ارحم الراحمین۔.6 اور میں اپنے ناظرین سے بھی یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی خدا کے حضور مرنے والی روح اور پیچھے رہنے والے بچوں کے لئے خدائے دوجہان سے دست بدعا رہیں کہ وہ اس جہان میں پہنچی ہوئی ماں کو اُس جہاں کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ اور اس جہان میں بسنے والے بچوں کو اِس جہان کی حسنات سے کامل حصہ دے۔
.6ونرجوامنہ خیرلھم ربنا الغفو رالودودالرحیم
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۴ ؍نومبر۱۹۴۶ئ)

.6
کیا مسلمانوں کے لئے صرف اسلامی حکومت کی اطاعت
ہی ضروری ہے
قرآنی آیت اولی الامرمنکم کی تشریح
.6
.6آج کل جہاں اور بہت سے نئے خیالات پیداہوگئے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے ایک حصہ میں ایک خیال یہ بھی زور کے ساتھ پیدا ہورہا ہے (اور ایک لحاظ سے تو یہ خیال کافی پرانا ہے) کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمانوں کے لئے صرف مسلمان حاکم کی اطاعت ہی ضروری ہے اور کسی دوسرے حاکم یا فرمانروا کی اطاعت ضروری نہیں۔ اس خیال کی تائید میں قرآنی آیت پیش کی جاتی ہے کہ:-
.6.6۔۲۵
.6’’یعنی اے مسلمانو! تم خدا کی اطاعت کرواور اس کے رسول کا بھی حکم مانو اور ان حاکموں کا بھی جو تمھیں سے ہوں۔‘‘
.6اس آیت میں جو.6 .6.6 (یعنی وہ حاکم جو تمھیں سے ہیں) کے الفاظ وارد ہیں ان سے آج کل کے روشن خیال مسلمانوں کا ایک طبقہ جو عیسائی اقتدار سے تنگ آکر آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے ،یہ استدلال کرتا ہے کہ ان الفاظ میں صرف ان حاکموں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جو مسلمانوں میں سے ہوںیعنی بالفاظ دیگر ہم پر صرف مسلمان حاکموں کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے دوسروں کی نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ منکم کا لفظ (یعنی جو تمھیں سے ہوں) صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ صرف مسلمان .6.6مراد ہیں نہ کہ وہ کافرو جابر فرمانروا جو مسلمانوں کی گردنوں پر ہر جائز وناجائز طریق سے حکومت کا جوا رکھ کر انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں۔
.6اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ بیشک آزادی ایک نہائت قیمتی چیز ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر جائز طریق پر اپنی اور اپنے بھائیوں کی آزادی کے لئے کوشاں رہے اور یہ بھی درست ہے کہ اسلام کی کامل ترقی اور پابحالی کے لئے آزادی کا ماحول ایک بہت ضروری اور لابدی چیز ہے۔ مگر آزادی کی ہوس میں قرآنی آیات کو ان کے صحیح معانی سے علیحدہ کرکے ایک خلاف تعلیم اسلام جدّت کا دروازہ کھولنا کسی طرح جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اسلام آزادی کو ایک نہائت قیمتی چیز قرار دیتا ہے۔ بلکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو قومی غلامی تو دور کی بات ہے انفرادی غلامی کو بھی ایک قابل نفرت اور قابل استیصال چیز سمجھتا ہے۔ وہاں وہ ساتھ ہی یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کسی وقت تمہیں کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا پڑے تو تم بغاوت اور بدامنی کا طریق اختیار نہ کرو۔ بلکہ وقت کی حکومت کے فرمانبردار رہواور ساتھ ساتھ جائز اور پُر امن طریق پر اپنی آزادی کے لئے بھی کوشش کرتے رہو۔ چنانچہ علاوہ قولی تعلیم کے قرآن شریف اور حدیث ایسے تاریخی واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ جہاں خدا کے انبیاء ومرسلین نے غیر اسلامی حکومت کے ماتحت زندگی گزاری ہے اور ہمیشہ بغاوت کے طریق سے مجتنب رہتے ہوئے حکومتِ وقت کے ساتھ تعاون اور اطاعت کا طریق اختیار کیا ہے۔
.6مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف میں مذکور ہے کہ وہ فراعنۂ مصر کی حکومت کے ماتحت تھے اور صرف ماتحت ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اس حکومت میں وزارتِ مال کا عہدہ بھی قبول کیا ہؤا تھا۔ لیکن بایں ہمہ انہیں قانون رائج الوقت کا اس قدر احترام تھا کہ باوجود اس زبردست خواہش کے کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے ساتھ رکھ سکیں ،وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے اس راستہ سے باز رہے حتیٰ کہ خود خدا نے اپنی کسی مخفی تقدیر کے ذریعہ ان کے لئے ایک جائز راستہ کھول دیا۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:-
.6.6۲۶
.6’’یعنی ہم نے خود یوسف کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک تدبیر کی۔ کیونکہ یہ .6بات یوسف کے لئے جائز نہیں تھی کہ وہ رائج الوقت شاہی قانون کے خلاف اپنے بھائی کو یونہی زبردستی روک لیتا۔ پس اللہ نے خود اپنی مشیت سے اس کے لئے رستہ کھولا۔‘‘
.6اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام برسوں فرعون کی حکومت ہاں انتہائی درجہ ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کے ماتحت رہے مگر کبھی اس کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہیں کیا بلکہ جب ایک دفعہ ان سے نادانستہ طور پر قانون شکنی ہوگئی تو اس پر انہوں نے قانون کی زد سے بچنے کے لئے خفیہ طورپر ملک چھوڑ دیا۔ اور.6۲۷.6 .6کہہ کر(یعنی میں حکومت مصر کے مطابق ایک جرم کا ارتکاب کرچکا ہوں) اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت کا میرے خلاف ایک الزام عائد ہوتا ہے۔ اور جب فرعون کے مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو پھر بھی حضرت موسیٰ نے بغاوت کی بجائے ملک سے ہجرت کرجانے کا طریق اختیار کیا اور ملک کے اندر رہتے ہوئے قانون شکنی نہیں کی۔.6٭
.6اسی طرح یہ تاریخی واقعہ بھی دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فلسطین کی رومی حکومت کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور اسی کے ماتحت انہوں نے اپنی ساری معروف زندگی گزاری اور کبھی قانون کا دامن نہیں چھوڑا۔ حتیٰ کہ جب ان کے یہودی دشمنوں نے انہیں بغاوت کے جھوٹے الزام میں پھانس کر ماخوذ کرانا چاہا تو اس وقت بھی انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری یہی تعلیم ہے کہ
.6’’قیصر کا حق قیصر کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو۔‘‘.6 ۲۸
.6حتیٰ کہ بقول مسیحی صاحبان انہوں نے اسی حکومت روما کی ایک عدالت کے فیصلہ کے مطابق صلیب پر جان دے دی مگر حکومت کے خلاف سر نہیں اٹھایا!
.6پھر ان مشہورو معروف تاریخی واقعات سے کون بے خبر ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک مکہ والوں کی حکومت کے مظالم برداشت کئے حتیٰ کہ بعض بے گناہ مسلمان اس عرصہ میںمشرکینِ مکہ کے ہاتھوں شہید بھی ہوگئے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان سب ظلموں کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کیا لیکن حکومت مکہ کے خلاف مکہ میں رہتے ہوئے بغاوت کے طریق سے ہر حال میں مجتنب رہے۔ یہ خیال کرنا کہ مکہ میںکوئی حکومت نہیں تھی اور نہ کوئی قانون تھا اور ہر شخص گویا مادر پدر آزاد تھا درست نہیں ہے کیونکہ خواہ اہل مکہ کی حکومت کیسی بھی ظالمانہ تھی۔ وہ بہرحال ایک حکومت تھی اور مختلف قبائل قریش کے لیڈروں کا ایک بورڈ بھی مقرر تھا۔ جو ندوہ کہلاتا تھا۔ جس کے ممبروں کے ہاتھ میں حکومت کے مختلف شعبہ سپرد تھے اور اس طرح ایک ابتدائی مگر اپنے رنگ میں مکمل جمہوری نظام کی صورت قائم تھی۔۲۹
.6لیکن باوجود اس کے کہ اس مکّی حکومت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مٹھی بھر جماعت پر سخت سے سخت مظالم کئے۔ آپ نے انہیں کامل صبر کے ساتھ برداشت کیا اور جب یہ مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو اس وقت بھی بغاوت اور فساد کے طریق سے مجتنب رہے۔ اور صرف اتنا کیا کہ ایک حصہ مسلمانوں کا افریقہ میں حبشہ کی طرف بھجوادیا۔ جس نے نجاشی کی عیسائی حکومت کی پناہ لی اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور باقی ماندہ صحابہ مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
.6مگرآپ نے اپنے عمل سے دنیا کو بتادیا کہ ہم ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اور حکومت بھی وہ جو انتہا درجہ ظالمانہ تھی ،پھر بھی اس حکومت کے مطیع رہے ہیں اور کسی قسم کی بغاوت یا
.6٭:.6سورۃ طہٰ
.6فساد کے مرتکب نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام کا یہ صریح حکم ہے کہ:-
.6.6۔۳۰
.6’’یعنی خدا تعالیٰ فساد اور امن شکنی کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا۔‘‘
.6کیا حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کی یہ واضح مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ خدائی شریعت اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان محض یہ آڑلے کر کہ وہ ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہے، ملک میں بغاوت اور قانون شکنی کا مرتکب ہو۔ اور حصول آزادی کی جستجو میں فساد کا بیج بوتا پھرے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام بے شک یہ کہتا بلکہ حکم دیتا ہے کہ تم دعوۃ الی الحق اورتبلیغ اور تنظیم اور دوسرے پُر امن ذرائع سے اسلام کے قلعہ کو مضبوط کرتے جائو۔ حتیٰ کہ تمہارا ملک بغاوت کے ذریعہ نہیں بلکہ خود اسلام کی اندرونی روحانی طاقت کے ذریعہ کفر کی غلامی سے نکل کر اسلام کی غلامی میں آجائے مگر وہ کسی صورت میں فساد اور امن شکنی اور بغاوت کی اجازت نہیں دیتا اور قرآنی ارشاد کے علاوہ جلیل القدر انبیاء کا اسوہ اس طریق پر ایک زبردست شاہد ہے۔
.6باقی رہا یہ خیال کہ قرآنی آیت میں .6.6کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ .6جس کے یہ معنی ہیں کہ جو تم میں سے تمہارا حاکم ہے اس کی فرمانبرداری اختیار کرو اور گویا کسی اور کی نہ کرو۔ .6سو یہ خیال بالکل بودا اور کمزور ہے کیونکہ اول تو عربی زبان میں.6 مِن.6ْ کا لفظ .6علی .6اور .6فی .6کے معنوں میں بھی آتا ہے.6 ۳۱.6۔.6اور اس طرح .6.6کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جو لوگ تم پر حاکم ہیں یا جو لوگ تمہارے اندر بطور حاکم کے ہیں ان کی فرمانبرداری کرواور اس طرح کوئی اشکال نہیں رہتا۔ دوسرے قرآنی کلام کی یہ ایک عجیب وغریب حکمت ہے کہ وہ بعض اوقات ایک عام اور معروف لفظ کو ترک کرکے اس کی جگہ ایک خاص محاورہ اختیار کرتا ہے تاکہ آیت کے معانی میں وسعت پیدا ہو کر ایک نیا اور لطیف رستہ کھل جائے۔ یہ طریق قرآن شریف نے بے شمار جگہ استعمال کیا ہے اور یہ اس کی زبان کے کمالوں میں سے ایک خاص کمال ہے کہ ذرا سے ردّوبدل سے معانی کا ایک وسیع میدان کھول دیتا ہے۔ اب آیت زیر بحث میں عام محاورہ کے لحاظ سے الفاظ یوں ہونے چاہئیں تھے کہ.6 اولی الامر علیکم.6 (یعنی تم پر جو لوگ حاکم ہوں) یا.6 اولی الامر فیکم.6 (یعنی تمہارے اندر جو لوگ بطور حاکم ہوں) مگر قرآن شریف نے ان محاوروںکو ترک کرکے ایک نسبتاً کم معروف محاورہ استعمال کیا ہے۔ یعنی .6.6 .6(یعنی جو لوگ تم سے حاکم ہوئے ہوں) تاکہ نہ صرف ایک ہی لفظ کے ذریعہ.6 علیکم .6اور.6 فیکم .6کے الفاظ کا مرکب مفہوم ادا ہوجائے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس مفہوم کی حکمت بھی ظاہر ہوجائے اور یہ بھی پتہ لگ جائے کہ یہ حکم کس قسم کے حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔
.6تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ گو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے عربی زبان میں .6مِن.6ْ کا لفظ بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جن میں .6علٰی.6 اور.6 فی.6 کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مگر جیسا کہ بعض ائمہ لغت نے تشریح کی ہے اس کے مخصوص معنی ابتدائ.6ً.6 غایتہ کے ہیں۔ یعنی دراصل اس لفظ میں کسی زمانی یا مکانی نقطہ سے ایک کام کی ابتداء کا اظہار یا ایک چیز کا دوسری چیز میں سے نکلنا مراد ہوتا ہے اور اس لفظ کے باقی سب معانی کم وبیش اسی بنیادی مفہوم پر مبنی ہیں اور اسی کے ارد گرد چکر لگاتے ہیں۔ چنانچہ .6آیت زیر بحث میں جو .6علیٰ .6اور .6فی.6 کے الفاظ ترک کرکے.6 من.6 کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ وہ بھی اسی حکمت .6کے ماتحت ہے کہ تا آیت کے مفہوم میں .6من.6 کے بنیادی مفہوم کو داخل کرکے ایک وسیع اور لطیف معنی پیدا کردیئے جائیں۔ اس اصول کے ماتحت آیت .6.6 .6کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ .6اے مسلمانو تم پر ایسے حاکموں کی فرمانبرداری فرض ہے جو تم سے حاکم بنے ہیں۔یعنی ان کا .6.6ہونا یا بالفاظ دیگر ان کی امارت غاصبانہ اور جابرانہ رنگ نہیں رکھتی بلکہ تم نے ان کی حکومت کو قولاً یا فعلاً تسلیم کرکے گویا اپنا بنالیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کسی حکومت کو امکاناً دوطرح ہی قبول کرسکتا ہے یعنی یا تو وہ اسے قولاً تسلیم کرلیتا ہے اور منہ سے کہہ کر یا قلم سے لکھ کر مان لیتا ہے جیسا کہ معاہدات وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے اور یا وہ قولاً توتسلیم نہیں کرتا مگر عملاً تسلیم کرکے اس کی ماتحتی کو خاموشی کے ساتھ قبول کرلیتا ہے۔ جیسا کہ عموماً مفتوح ممالک کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور زیر بحث قرآنی آیت نے ان دونوں صورتوں کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے۔ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق یہ دونوں صورتیں .6.6کے مفہوم میں شامل ہیں جس میں ایک چیز کا دوسری چیز سے نکلنا مراد ہوتا ہے۔ پس الفاظ .6.6کے پورے معنی یہ ہوئے کہ:
.6اوّل.6: وہ حاکم جن کی حکومت کو تم قولاً یعنی صراحتاً تسلیم کرچکے ہو۔
.6دوم.6: وہ حاکم جن کی حکومت کو تم عملاً تسلیم کرچکے ہو اور اس کے ماتحت رہنے پر خاموشی کے ساتھ راضی ہوچکے ہو۔
.6اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ درحقیقت یہ آیت ایک وسیع اصولی رنگ رکھتی ہے اور اس میں اسلامی حکومت یا غیر اسلامی حکومت کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ جس حکومت کو بھی مسلمان تسلیم کرلیں۔ خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی اور خواہ وہ اسے قولاً تسلیم کریں یا کہ عملاً، اس کی اطاعت ان پر فرض ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا اور اس کے قانونوں کو توڑنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا۔ پس اگر ایک حاکم مسلمان تو ہے مگر وہ جبروا کراہ کے طریق پر دوسرے مسلمانوں کو اپنی ماتحتی میں لانا چاہتا ہے تو اس آیت کے ماتحت اس کی حکومت ناجائز ہوگی۔ لیکن اگر ایک حاکم غیر مسلمان ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس کی حکومت کو قولاً یا عملاً تسلیم کرلیا ہے تو اس کی حکومت جائز ہوگی۔ کیونکہ جہاں مقدم الذکر حکومت.6 منکم.6 کے مفہوم کے صریح خلاف ہے۔ وہاں موخرالذکر حکومت.6 .6.6کے مفہوم کے عین مطابق اور موافق ہے۔ یہ وہ لطیف فلسفہ ہے جو صرف.6 علیکم .6یا .6 .6فیکم .6کے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا تھا اور اسی لئے قرآن شریف نے ان معروف الفاظ کو چھوڑ کر.6 .6.6کا لفظ اختیار کیا ہے۔ تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ ہر وہ حکومت جو مسلمانوں کی تسلیم شدہ ہے وہ گویا انہی میں سے نکلی ہوئی چیز ہے۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ اس لئے اس کے خلاف بغاوت کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ کیونکہ اگر ایسی حکومت کے خلاف سر اٹھانا جائز قرار دیا جائے تو پھر امنِ عامہ اور تہذیب وتمدن کی تمام تسلیم شدہ بنیادیں تباہ ہوجاتی ہیں اور فتنہ وفساد اور جنگ وجدال کا ایسا رستہ کھلتا ہے جو پھر کسی طرح بند نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں اگر کوئی قوم کسی حکومت کو اپنے لئے صریحاً اس قدر ظالمانہ خیال کرتی ہے کہ اس کے ماتحت رہنا اس کے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ تو اس صورت میں اس کے لئے ہجرت کا رستہ کھلاہے جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ .6کے.6 ماتحت بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی یا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماتحت مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی۔ مگر ایک تسلیم شدہ حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بغاوت یا قانون شکنی یا فساد کا طریق اختیار کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ خواہ یہ حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی ۔یہ وہ نظریہ ہے جو نہ صرف قرآنی تعلیم کی روسے قطعی طور پر ثابت ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ بھی اس پر ایک زبردست شاہد ہے۔ .6فبا.6یّ حدیث بعد ذالک یو منون.6۔
.6اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی کسی مظلوم رعایا کو ہجرت کرنے سے زبردستی روکے تو اس صورت میں اسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو اس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ ایسی ظالم حکومت کے خلاف اس کے اندر رہتے ہوئے بھی سر اٹھانا جائز ہوگا۔ کیونکہ جو حکومت ایک طرف اپنی رعایا پر ظلم کرتی ہے اور دوسری طرف اسے ہجرت کرنے سے بھی روکتی ہے تو وہ گویا مخلوقِ خدا پر انصاف اور خود حفاظتی کے سارے دروازے بند کرنا چاہتی ہے اور خدا کا رحیمانہ قانون اس اندھیر نگری کی اجازت نہیں دے سکتا۔ چنانچہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی حکومت میں انتہائی مظالم کا نشانہ بنایا اور پھر جب وہ ان مظالم سے تنگ آکر ملک سے باہر جانے لگے تو اس نے انہیں زبردستی روکنا چاہا تو خدا نے فرعون کے اس فعل کو کھلی کھلی بغاوت اور سرکشی قرار دیا۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
.6۳۲
.6’’یعنی فرعون نے بھاگتے ہوئے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا تاکہ انہیں ہجرت .6کرجانے سے زبردستی روکے مگر اس کایہ فعل خدائی قانون کے خلاف ایک کھلی کھلی .6بغاوت تھا اور وہ عدل وانصاف کی تمام حدود کو توڑ کر آگے نکل جانا چاہتا تھا۔‘‘
.6 بلکہ یہ فعل اس قدر ظالمانہ ہے کہ فرعون کے جن سپاہیوں نے اس تعاقب میں حصہ لیا وہ بھی خدا کی نظر میں باغی اور عادی قرار پائے جیسا کہ.6 .6.6کے لفظ سے ظاہر ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بعض حالات میں آمر کے ساتھ مامور بھی قابلِ مؤاخذہ ہوتا ہے۔
.6مندرجہ بالا بحث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک کوئی حکومت ملک کی تمام آبادی کو زیر کرکے یا منوا کر اپنا سکہ قائم نہیں کرلیتی اور اسے ملک میں استحکام حاصل نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ ملک کی قائم شدہ حکومت نہیں سمجھی جاسکتی اور اس کے خلاف حسب ضرورت لڑنا جائز ہے اور اسی اصل کے ماتحت یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ملک کی حکومت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اپنی رعایا کی مرضی کے خلاف اسے از خود کسی دوسری حکومت کے سپرد کرکے آپ الگ ہوجائے۔ کیونکہ اس صورت میں بھی نئی حکومت ملک کی تسلیم شدہ حکومت نہیں سمجھی جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسلمانوں کے لئے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے علاوہ صرف ایسی حکومت کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے جو ان کی تسلیم شدہ ہو۔ خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی لیکن جب ایک دفعہ مسلمان ایک حکومت کو قولاً یا عملاً تسلیم کرلیں تو پھر اس کے خلاف بغاوت کرنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا۔ سوائے اس کے کہ وہ اس حکومت کے .6مظالم سے تنگ آکر اس کے ملک سے ہجرت کرنا چاہیں اور یہ حکومت انہیں اس ہجرت سے جبراً روکے۔ .6یہ وہ منصفانہ قانون ہے جو افراط اور تفریط کی راہوں سے بچتے ہوئے اسلام نے جاری کیا ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیا د بن سکتی ہے۔
.6وآخردعوٰنا ان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۲ ؍نومبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
اِسلامی اخوّت کا نظریہ
.6
.6بھائی یا اخی کے الفاظ کو ہر شخص جانتا ہے کیونکہ یہ ہمارے روزانہ استعمال کے الفاظ ہیں مگر چونکہ اکثر لوگوں میں غور کا مادہ کم ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ان الفاظ کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ بس صرف اتنا جانتے ہیں کہ ایک باپ یا ایک ماں کی اولاد ہونے کا نام بھائی ہے۔ حالانکہ اخوت کا مفہوم اس سے بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ عمیق ہے۔ دراصل اخوت کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
.6اول۔ یہ کہ دو بھائی ایک منبع سے نکلی ہوئی دو ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ایک درخت کی طرح ان کی جڑ تو ایک ہی ہوتی ہے مگر شاخیں کئی ہوسکتی ہیں۔
.6دوم۔ جب دو بھائیوں کی جڑ ایک ہوتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک درخت کی شاخوں کی طرح وہ بہر حال ہم رنگ اور ہم جنس بھی ہوتے ہیں۔
.6سوم ۔بھائی برابر کے حقوق رکھنے والی ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ان میں سے کسی کو دوسرے پر حقوق کے معاملہ میں فوقیت حاصل نہیں ہوتی۔ یہ تین چیزیں اخوت کے لئے گویا بنیادی شرائط کے طور پر ہیں اور جہاں بھی یہ شرائط پائی جائیں گی۔ اخوت کا مفہوم قائم ہوجائے گا۔ خواہ نسلی لحاظ سے بھائی کہلانے والے لوگ ایک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کئی قسم کی اخوت کو تسلیم کیا ہے ۔مثلاً عرضی اخوت کے علاوہ جسے گویا اخوت نسبی کہنا چاہیئے اسلام نے رضاعت کی اخوت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ جب دو شخصوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو تو اسلامی تعلیم کی رو سے وہ رضاعی بھائی کہلاتے ہیں حالانکہ بسا اوقات ان کی نسل بالکل جدا ہوتی ہے اخوت کی یہ قسم اخوتِ رضاعی کہلاتی ہے۔ اسی طرح اسلام نے ایک اخوتِ دینی قائم کی ہے۔ یعنی ایک ہی شریعت اور ایک ہی امام کے ساتھ وابستہ ہونا۔ اس حال میں بھی گویا منبع ایک ہی ہوتا ہے اور اس منبع سے نکلی ہوئی شاخیں ہم رنگ اور ہم جنس ہونے کے علاوہ مساویانہ حقوق بھی رکھتی ہیں۔ اسی طرح ایک اخوتِ عہدی ہوتی ہے کہ جب دو یا دو سے .6زیادہ اشخاص باہم عہدوپیمان کے ذریعہ ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کے بعض مہاجرین وانصار کے درمیان اخوت کا عہدقائم کیا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب قسم کی اخوتوں کا مرکزی نقطہ وہی تین شرائط ہیں جو ہم اوپر بیان کرآئے ہیں یعنی
.6(.6۱.6) ایک منبع سے نکلا ہؤا ہونا(.6۲.6) ہم رنگ وہم جنس ہونا اور (.6۳.6) باہمی مساویانہ حقوق رکھنا اور ان سب اخوتوں کو اسلام نے انتہائی تقدس اور ذمہ داری کا رنگ دے کر اسلامی سوسائٹی کو گویا آپس میں آہنی زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ لیکن اس جگہ میرا یہ نوٹ اخوتِ دینی سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے وسیع اسلامی اخوت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
.6.6۳۳
.6’’یعنی اسے مسلمانو !تم سب اکٹھے ہوکر خدا کے دین کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔ اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دو۔ اور اللہ کی اس عظیم الشان نعمت کو یاد رکھو کہ کفر اور بے دینی کی حالت میں تم ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے۔ مگر اسلام کے ذریعہ خدا نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
.6پھر فرماتا ہے:-
.6.6۳۴
.6’’یعنی تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس اگر کسی وجہ سے بعض مومنوں میں اختلاف پیدا ہوجایا کرے تو ان میں فوراً صلح کراکے اسلامی اخوت کی عمارت کو شکستہ ہونے سے بچالیا کرو اور آپس کے تعلقات میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم اس کے فضل ورحم سے حصہ پائو۔‘‘
.6اس اسلامی اخوت کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
.6تَرَی المُؤمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِھِمْ وَتَوَادِّھِمْ وَتُعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکَی عُضْوًا تَدَاعَی لَہُ سائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہْرِوَا.6لْحُمَّیٰ ۳۵
.6’’یعنی تو دیکھے گا کہ تمام مومن ایک دوسرے کے ساتھ رحمت وشفقت کا سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے اور ایک دوسرے کی طرف تعاون اور مفاہمت کی روح کے ساتھ جھکنے میں بالکل جسم انسانی کا سا رنگ رکھتے ہیں۔ کیونکہ جسم انسانی کی طرح مومنوں کی جماعت میں بھی یہ طبعی نظارہ نظر آتا ہے کہ جب اس جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو باقی ماندہ جسم بھی اس بیمار عضو کی ہمدردی میں بے چینی اور بخار اور سوزش اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
.6اخوتِ اسلامی کی یہ لطیف تشبیہہ جو غالباً دنیا بھر کی لطیف ترین تشبیہوں میں سے ہے ،کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ اس تشبیہہ میں اسلامی سوسائٹی کو جسم انسانی کے مشابہ قرار دے کر اس سوسائٹی کے افراد کو جسمِ انسانی کے مختلف اعضاء سے تشبیہہ دی گئی ہے اوریہ تشبیہہ کتنی لطیف اور کتنی سچی اور کتنی گہری اور فطرتِ انسانی کی کتنی آئینہ دار ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حاذق طبیب یا کسی ماہرِ نفسیات سے پوچھو اور یا پھر مجھ سے سنو۔ جو اس فن کی اصطلاحوں سے نا آشنا ہونے کے باوجود اس وقت اس فطری نظارہ کو خود اپنے نفس میں مشاہدہ کررہا ہے۔ جب میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو بغیر کسی سابقہ انتباہ کے مجھے نقرس کے حملہ نے اچانک آدبوچا۔ اور بائیں پائوں کے ٹخنہ میں اس شدت کا درد اٹھا کہ چند منٹوں کے اندر اندر چلنا پھرنا تو درکنار بستر کے اندر پائوں ہلانا بھی مشکل ہوگیا۔ میرے اس مضمون کے نوٹ میرے سامنے تھے اور میری آنکھیں ان الفاظ کو دیکھ رہی تھیںکہ.6 اِذَااشْتَکَی عُضْوًا .6(یعنی جب جسم انسانی کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے) تو………میں نے دل میں کہا کہ شاید نیر نگئی قدرت اس فلسفہ کا پہلا سبق خود مجھ ہی کو دینا چاہتی ہے اور اب مجھے کچھ عرصہ کے لئے.6 سھر وحمَّیٰ .6(یعنی بے چینی اور بخار) کے واسطے تیار ہوجانا چاہیئے۔ چنانچہ .6یہی ہوا کہ درد تو صرف بائیںپائوں کے ٹخنہ میں تھا اور مائوف مقام غالباً ایک انچ قطرسے .6زیادہ نہیں ہوگا مگر دیکھتے ہی دیکھتے جسم یوں تپنے لگا کہ جیسے قدرت کی کسی غیر مرئی بھٹی نے سارے جسم میں جلد کے نیچے دہکتے ہوئے کوئلوں کی تہہ بچھادی ہے۔ اور اس کے ساتھ بے چینی اور اضطراب کا وہ عالم تھا کہ الامان۔ اس وقت میں حقیقۃً اس سوچ میں پڑگیا کہ اس تکلیف دہ بیماری سے شفا پانے کی دعا پہلے کروں یا کہ اس تازہ بتازہ فطری سبق پر خدا کا شکریہ پہلے ادا کروں؟ بہرحال خواہ میرا یہ مضمون مکمل ہوسکے یا نہ ہوسکے یا خواہ مجھے اس کی تشریح و توضیح کی توفیق ملے یا کہ صرف اشاروں اشاروں میں ہی یہ مضمون ختم ہوجائے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جس طرح بسا اوقات سنیما کے پردہ پر ایک دوردراز کے نظارہ کو مصّوری کی فسوں ساز تاروں سے لپیٹ کر دیکھنے والوں کی نظروںکے قریب لے آتے ہیں اسی طرح میری اس بیماری کے غیر متوقع حملہ نے اخوتِ اسلامی کی وہ عدیم المثال تصویر جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، میری نظروں کے اس قدر قریب کردی کہ میں گویا سب کچھ بھول کر اسی میں کھویا گیا۔
.6واقعی کیسی سچی اور کیسی پیاری اور کیسی دلکش مثال ہے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ یہ گویا اس قرآنی آیت کی ایک مجسم تفسیر ہے۔ کہ
.6۳۶
.6’’یعنی نادانو ہم نے ہر ضروری نشان تمہارے اپنے نفسوں میں جمع کر رکھا ہے۔ مگر تم دیکھو بھی۔‘‘
.6انسانی جسم کے ہزاروں بلکہ لاکھوں اعضا یعنی حصے ہیں اور ہر حصہ اپنی ذات میں گویا ایک عالم کا حکم رکھتا ہے اور اپنے اپنے مفوضہ کام کی انجام دہی میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ گویا باقی حصوں کی طرف سے بالکل ہی غافل اور بے خبر ہے۔ مگر جونہی کہ ان ہزاروں حصوں میں سے کسی ایک حصہ کو کوئی دکھ پہنچتا ہے باقی حصے فوراً بیدار ہوکر اس کی ہمدردی میں آہ وپکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ گویا یہ ایک یک جدی کنبہ تھا۔ جس کے ایک فرد کی موت نے سارے خاندان میں صفِ ماتم بچھادی ہے۔ دکھتی آنکھ ہے مگر دل ودماغ تڑپنے لگ جاتے ہیں۔ درد پسلی میں ہوتا ہے مگر سارے جسم کا رؤاں رؤاں بے چین ہوجاتا ہے۔ کانٹا ایڑی میں چبھتا ہے مگر زبان ہائے ہائے کرتی اور ہاتھ کرب وضطراب میں ادھر ادھر گرتے ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (.6فداہ نفسی.6) نے الفاظ بھی کیسے حقیقت سے معمور چنے ہیں فرماتے ہیں:
.6تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّھْرِوَالْحُمَّیٰ
.6’’یعنی ادھر جسم کا ایک عضو بیمار ہوکر گویا اپنی مدد کے لئے دوسرے اعضا کو پکارتا ہے اور ادھر باقی سارے عضو ماں جائے بھائیوں کی طرح لبیک لبیک کہتے ہوئے اس کی ہمدردی میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور جب تک اس بیمارعضو کو چین نصیب نہیں ہوتا وہ اس کے پہلو میں بیٹھے رہ کر خود بھی انگاروں پر لوٹتے ہیں۔ اور سوزشِ اضطراب میں اسی طرح جلتے ہیں۔ جس طرح یہ بیمار عضو جلتا ہے۔ ‘‘
.6ذرا سوچو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پیپ تو صرف انگلی کے کور میں پڑتی ہے مگر جسم سارا بے چین .6ہونے لگتا ہے اور بخار سے رؤاں رؤاں تپتا ہے۔ یہ اس لیئے کہ خالقِ ہستی نے انسانی جسم کو ایسی عجیب وغریب بناوٹ عطا کی ہے کہ اگر ایک طرف ہر عضو گویا ایک گونہ مستقل حیثیت رکھتا ہے تو دوسر.6ی طرف وہ باقی تمام اعضاء کے ساتھ ایک مجموعی لڑی میں پرویا ہوا بھی ہے۔اور ایک کے سکھ کے ساتھ دوسرے کا سکھ اور ایک کے دکھ کے ساتھ دوسرے کا دکھ لازم ملزوم کردیا گیا ہے اور اسلامی اخوت کا یہی وہ دلکش نظارہ ہے جو ہمارا پیارا آقا اپنے خادموں کی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تم بے شک اپنی انفرادی زندگی کو جس جائز طریق پر چاہو گذارو تجارت کرو۔ زراعت کرو۔ صنعت وحرفت میں پڑو۔ ملازمتیں کرو۔ آرٹس میں چمکو،سائنس میں کمال پیدا کرو۔ فنونِ سپہ گری سیکھو۔ دنیا کمائو۔ دین کی خدمت میں وقت گذارو۔ جائیدادیں بنائو۔ جائز تفریحوں میں حصہ لو۔ تمہارا دین تمہیں کسی ایسے کام سے جو تم جائز رنگ میں کرنا چاہو۔ نہیں روکتا۔ کیونکہ انفرادیت بھی انسانی ترقی کے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسا کہ اشتراکیت۔ مگر وہ تم سے یہ ضرور مطالبہ کرتا ہے اور یہ مطالبہ گویا اسلامی اشتراکیت کی جان ہے کہ تم جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمہارے اندر یہ جذبہ ہمیشہ موجزن رہنا چاہیئے کہ اگر کبھی تمہارے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو یعنی بظاہر حقیر سے حقیر فرد کو بھی کوئی دکھ پہنچے تو یہ دکھ صرف اس عضو اور اس فرد کا ہی دکھ نہ رہے۔ بلکہ اس دکھ کی وجہ سے وسیع اسلامی اخوت کا سارا وجود سر سے لے کر پائوں تک .6سھر حمّٰی .6کے ساتھ تپنا اور تڑپنا شروع ہوجائے۔آج اس اخوت کے مقام پر قائم ہوجائو۔ اور پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اخوتِ اسلامی کا اس قدر اکرام مد نظر تھا کہ جب عرب کے شمال میں غزوہ موتہ کے موقع پر عیسائیوں کی ایک جمیعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو شہید کیا تو آپ نے ان کے انتقام اور اسلامی رعب کے قیام کے لئے صحابہ کی ایک فوج اس علاقہ کی طرف روانہ فرمائی اور اس فوج کی سرداری حضرت زید کے صاحبزادے اسامہؓ کے سپرد کی۔ جو اس وقت صرف انیس سالہ نوجوان تھے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے معمر اور جلیل القدر صحابہ کو ان کے ماتحت رکھا۔ تا دنیا پر یہ ظاہر ہو کہ اگر اسلام کے ایک غلام کو بھی کفار کی طرف سے گزند پہنچتا ہے تو اس کے انتقام کے لئے چوٹی کے مسلمان اس غلام کے لڑکے کی رکاب تھامے ہوئے آگے آتے ہیں۔ دنیا کی کونسی طاقت ہے جو اس عظیم الشان روحانی قلعہ کو سر کرسکتی ہے؟
.6کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض ایک فلسفہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ یعنی اس نے ایک جذبہ کو ابھار کر اسے آزاد چھوڑ دیا ہے اور ایک طاقت کو پیدا کر کے اسے آزاد چھوڑ دینا بسا اوقات فائدہ کی نسبت ہلاکت کا زیادہ مو.6جب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طاقتور موٹر کو تیزی کے ساتھ حرکت میں لاکر کسی شاہراہ پر بغیر بریکوں اور بغیر ڈرائیور کے چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ اعتراض بالکل بودا اور جہالت کا اعتراض ہے کیونکہ اس حدیث میں اخوت اسلامی کے مواقع نہیں بتائے گئے۔ بلکہ صرف اخوتِ اسلامی کا مقام بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس اعلیٰ شان کی ہونی چاہیئے۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ اخوّت کس رنگ میں اور کس موقع پر ظاہر ہو ۔سوا س کے متعلق قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں۔ مگر اس جگہ مثال کے طور پر صرف ایک آیتِ قرآنی اور ایک حدیث نبویؐ پر اکتفا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6۳۷
.6’’یعنی اے مسلمانو تم آپس میں نیکی اور تقویٰ کے امور میں تو ضرور تعاون کیا کرو۔ لیکن گناہ اور ظلم و تعدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کیا کرو۔‘‘
.6کیا اس سے زیادہ مضبوط بریک کوئی خیال میں آسکتی ہے جو انسانی فطرت کو لگائی جاسکے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف اس قرآنی تشریح پر ہی اکتفا نہیں کی۔ بلکہ مزید تفصیل بیان کرکے گویا اخوتِ اسلامی کے کوڈ کو بالکل واضح اور نمایاں کردیا ہے۔ فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں:
.6عَنْ اَنَسؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِمًاأَوْمَظْلُوْمًا،فَکَیْفَ نَنْصُرُہُ ظَالِمًا؟ فَقَالَ: تَاخُذُ فَوْقَ یَدَیْہِ۔۳۸
.6’’یعنی انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی ہر حال میں مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم۔ اس پر صحابہؓ نے (حیران ہوکر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ مظلوم بھائی کی مدد تو ہم سمجھ گئے مگر یہ ظالم بھائی کی مدد کے کیا معنی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ اس کے ظلم کے ہاتھ کو پکڑ کر روک لو۔‘‘
.6اللہ اللہ!اللہ اللہ! کس شان کا کلام ہے اور کس شیرینی اور کس چاشنی سے لبریز!!!! مگر افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس کلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ وہ صرف اس خیال کو لے کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے رسول نے اس حدیث میں کیسے لطیف انداز میں ظالم کو روکنے کی تعلیم دی ہے۔ حالانکہ یہ مفہوم اس حدیث کا صرف ایک حصہ ہے اور وہ بھی محض ثانوی حیثیت کا حصہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا اصل مقصد اور مدعا یہ ہے کہ اسلامی اخوت کا اولین فرض یہ ہے کہ ایک مسلمان ہر حال میں اپنے مسلمان بھائی کی امداد کے لئے تیار اور ہوشیار رہے۔ اور کوئی خیال اسے اس فرض کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائی کو ظالم بھی خیال کرتا ہے تو پھر بھی اس کا فرض ہے کہ آگے آئے اور اپنے بھائی کی امداد کرے۔ گو لازماً ظالم ہونے کی صورت میں یہ امداد دوسرے رنگ میں ظاہر ہوگی۔ مگر بہر حال وہ کسی صورت میں اور کسی حال میں اپنے بھائی کی امداد سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اگر اس کا بھائی مظلوم ہے تو وہ آئے اور اپنے مظلوم بھائی کی امداد کے لئے اپنے جان ومال کی بازی لگا دے۔ اور اگر بھائی ظالم ہے تو پھر بھی وہ آگے آئے اور اپنے بھائی کے ظلم کے ہاتھ روکے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کلام کو ان چونکا دینے والے الفاظ سے شروع کیاہے کہ:
.6انصراخاک ظالماً اومظلوماً
.6’’یعنی ہر حال میں اپنے بھائی کی امداد کو پہنچو خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم۔‘‘
.6اور صرف سوال ہونے پریہ تشریح فرمائی ہے۔ کہ ظالم بھائی کی امداد کس طرح ہونی چاہیئے اور کمال حکمت سے آپ نے ظالم کا لفظ پہلے رکھا ہے اور مظلوم کا بعد میںتاکہ اس طرف اشارہ فرمائیں کہ بعض لحاظ سے ظالم بھائی مظلوم بھائی کی نسبت بھی زیادہ قابلِ امداد ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں مظلوم بھائی کی صرف دنیا لٹ رہی ہوتی ہے۔ وہاں ظالم بھائی کی روح اور اس کے اخلاق مٹ رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دانشمندوں کے نزدیک جسم کے نقصان سے روح اور اخلاق کا نقصان بہت زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
.6مگر یہ اعلیٰ ضابطۂ اخلاق صرف اسلامی تعلیم کا مرہونِ منت ہے کیونکہ کسی اور مذہب نے یہ تعلیم نہیں دی ۔ دور نہ جائو گاندھی جی کو ہی لے لوکہ ہندوئوں میں گویا ایک عدیم المثال روحانی بزرگ بلکہ رشی اور اوتار خیال کئے جاتے ہیں اور بظاہر دیکھنے میں ان کا کلام بھی روحانی اصطلاحوں سے معمور نظر آتا ہے اور ان کی ہر بات میں روحانی طاقت کے مظاہروں کا ذکر ہوتا ہے مگر کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ نواکھلی کے چند سو مظلوم ہندوئوں کے لئے تو ان کی روح گداز ہوئی جاتی ہے اور وہ اتنا عرصہ گذرجانے کے باوجود اس علاقہ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے۔ لیکن بہار کے لاکھوں ظالم ہندوئوں کی روحیں ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے ظلم وستم کے وسیع میدان میں تڑپ رہی ہیں مگر گاندھی جی کے کانوں پر جوں تلک نہیں رینگتی اور انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ظالم بھائی کے ہاتھ کو روکنا بھی میرے فرائض میں داخل ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناکہ گاندھی جی کا فلسفہ مظلوم بھائی کی مدد تو سکھاتا ہے مگر ظالم بھائی کی مدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ ان کی آنکھ مظلوم بھائی کے جسم کو جلتا ہوا تو دیکھتی ہے مگر ظالم بھائی کی روح کے شعلوں کو نہیں دیکھ سکتی۔ بہرحال یہ صرف اسلام ہی کی مقدس تعلیم ہے کہ وہ دنیا میں ایسی اخوت قائم کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ظالم و مظلوم کا امتیاز باقی نہیں رہتا اور ہر شخص کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بھائی کی مدد کو پہنچے۔ خواہ وہ بھائی ظالم ہو یا مظلوم ۔ہاں یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگر یہ بھائی مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچایا جائے گا لیکن اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ .6ک.6و.6 روکا جائے گا۔ کیونکہ ایک صورت میں جسم پر حملہ ہوتا ہے اور دوسری میں روح پر۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے اخوت اسلامی کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ اس کی نظیر کسی اور قوم، کسی اور مذہب میں نہیں ملتی وہ اپنے ضابطۂ اخوت کو چار بنیادی ستونوں پر قائم کرتا ہے۔
.6اوّل.6: وہ اسلامی اخوت کا یہ معیار قائم کرتا ہے کہ تمام مسلمان ایک واحد جسم انسانی کا رنگ رکھتے ہیں تا اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو باقی جسم بھی بے چینی اور سوزشِ حرارت سے تپنے لگ جائے۔
.6دوم.6: وہ ہر حال میں ہر مسلمان بھائی کی مدد کا حکم دیتا ہے۔ خواہ حالات کچھ ہوں۔
.6سوم.6: وہ ہر مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی مظلوم مسلمان بھائی نظر آئے تو جہاں تک تمہاری طاقت ہے اپنی جان اور اپنے مال سے اس کی مدد کو پہنچو۔
.6چہارم.6: وہ یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ اگر تمہارا کوئی مسلمان بھائی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر اس کی روح کو تباہی سے بچائو۔
.6یہ وہ چار بنیاری اصول ہیں جن پر اسلامی اخوت کی عمار ت قائم کی گئی ہے اورگو یہ باتیں بظاہر بہت مختصر سی ہیں مگر غور کریں تو ان میں سچی اخوت کا سارا فلسفہ آجاتا ہے۔ اور گو میں اپنی بیماری کی وجہ سے مضمون کو زیادہ تشریح کے ساتھ نہیں لکھ سکا۔ لیکن میں امید کرتا ہوں ہمارے دوست آج کل کے نازک زمانہ میں اسلام کی اس زریں تعلیم کو یاد رکھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کا مختصر سا خلاصہ میں نے اوپر کے مضمون میں درج کرنے کی کوشش کی ہے۔
.6وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۹ ؍دسمبر۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حوالہ جات
.6
.6۱.6- .6 .6الاحقاف:.6۱۶
.6۲.6- .6 .6آل عمران:.6۵۳
.6۳.6-.6 .6 الصف:.6۱۵
.6۴.6-.6 .6 الکھف:.6۹۷
.6۵.6-.6 .6 الصف:.6۱۰
.6۶.6-.6 .6 منقول از آئینہ کمالاتِ اسلام ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد.6۵
.6۷.6-.6 .6 .6کشف الخفاء للعجلونی.6۔.6۲.6:.6۵۶۸
.6۸.6-.6 .6اسد الغابہ جلد.6۳.6۔ عمربن الخطاب، اسلامہٗ رضی اللہ عنہ صفحہ.6۳۲۲.6۔ طبع .6۲۰۰۱.6ء مجمع الذوائد۔ جلد .6۹.6 صفحہ.6۶۴.6۔ طبع .6۱۳۵۳.6ھ۔ القاھرہ۔(مفہوماً)
.6۹.6-.6 .6یٰسین:.6۳۱
.6۱۰.6-.6 .6المومن:.6۸۴
.6۱۱.6-.6 .6تذکرہ صفحہ.6۴۵۲.6،.6۴۹۳.6،.6۴۹۴.6۔ طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۱۲.6-.6 .6 تذکرہ صفحہ.6۱۷۲.6۔ طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۱۳.6-.6 .6 ص.6حیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل علی بن طالب ۔.6۴
.6۱۴.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الادب باب.6 الکُنیۃِ للصَّبِی وَقَبْلَ أَن یُولَدَ للرَّجُلِ.6۔
.6۱۵.6-.6 .6صحیح البخاری کتاب التعبیر۔ باب .6الرُّؤْیَا بِالنَّھَار.6۔ .6۱۲.6۔
.6۱۶.6-.6 .6 لوقاباب .6۷.6۔ آیت .6۳۷.6 تا .6۳۹
.6۱۷.6-.6 .6 یٰسین:.6۳۱
.6۱۸.6-.6 .6 آل عمران:.6۶۲
.6۱۹.6-.6 .6 الشعرائ:.6۲۲۸
.6۲۰.6-.6 .6 آل عمران:.6۷
.6۲۱.6-.6 .6 الشعرائ:.6۱۹.6-.6۲۳
.6۲۲.6-.6 .6ھود:.6۷۶
.6۲۳.6-.6 .6الصّٰٓفٰت.6:.6۱۰۲
.6۲۴.6-.6 .6 تذکرہ صفحہ.6۲۰.6۔طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۲۵.6-.6 .6 النسائ:.6۶۰
.6۲۶.6-.6 .6 یوسف:.6۷۷
.6۲۷.6-.6 .6الشعرائ:.6۱۵
.6۲۸.6-.6 .6متی باب .6۲۲.6۔ لوقا باب.6۲۰
.6۲۹.6-.6 .6تاریخ طبری
.6۳۰.6-.6 .6 البقرہ:.6۲۰۶
.6۳۱.6-.6 .6تاج العروس
.6۳۲.6-.6 .6 یونس:.6۹۱
.6۳۳.6-.6 .6آل عمران:.6۱۰۴
.6۳۴.6-.6 .6 الحجرات:.6۱۱
.6۳۵.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الادب۔ باب.6 رحمَۃِ النَّاسِ والبھائھم.6۔.6۲۷
.6۳۶.6-.6 .6 الذٰریٰت.6:.6۲۲
.6۳۷.6-.6 .6المائدہ:.6۳
.6۳۸.6-.6 .6صحیح البخاری کتاب المظالم۔ باب.6 أَعِنْ اخاکَ ظَالِمًا أَوْمَظْلُوْمًا۔.6۴
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6۱۹۴۷.6ء
.6
حافظ نور الہٰی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت
احباب سے دعا کی درخواست
.6
.6قادیان میں ایک صاحب حافظ نور الٰہی صاحب نامی بہاولپور سے زیارت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں ۔یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت تشویشناک ہے ۔چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعائوں کے حقدار ہیں اور حافظ نور الٰہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں۔ اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
نماز میں اتباعِ امیر اور اتحادِ ملّت کا لطیف سبق
پرسوں مغرب کی نماز کے وقت چونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لئے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز پڑھائی اور بتقاضائے بشری تیسری رکعت میں دو سجدوںکی بجائے چار سجدے کر گئے۔ بعض قریب کے مقتدیوں نیـــ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر اس غلطی کی طرف توجہ بھی دلائی مگر مولوی صاحب نے اس کا خیال نہ کیا اور اپنی یاد کو صحیح سمجھتے ہوئے چار سجدے پورے کر گئے اور جیسا کہ شریعت کا مسئلہ ہے ،ان کی اتباع میں ہم سب کو بھی چار سجدے ہی کرنے پڑے۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اسلام کیسا کامل اور حکیمانہ مذہب ہے کہ اس معمولی سے مسئلہ میں بھی اس نے اتباعِ امیر اور اتحاد ملت کا سارا فلسفہ بھر دیا ہے۔جو یہ ہے کہ اگر کبھی تمہارا امام کوئی اجتہادی غلطی کرتا ہے یا بشری کمزوری کے ماتحت بھول چوک اور نسیان کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ غلطی یا بھول چوک ایسی ہوتی ہے کہ تم اسلامی تعلیم کے ماتحت یقین رکھتے ہو کہ وہ حقیقتاً ایک غلطی اور بھول چوک ہے تو اس صورت میں تم واجبی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتے ہو لیکن اگر پھر بھی وہ اپنے فعل کو درست خیال کرتے ہوئے اپنے رستہ پر قائم رہے تو تمہیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہے کہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جائو یا اس کے فعل کے خلاف عمل شروع کر دوبلکہ اس صورت میں بھی تمہارا فرض ہے کہ امام کو غلطی خوردہ سمجھنے کے باوجود اس کا ساتھ دواور بہر حال اس کے فعل کی اتباع کرو تاکہ قومی اتحاد میں رخنہ نہ پیدا ہو۔
یہ وہ لطیف اور اصولی سبق ہے جو نماز سے تعلق رکھنے والے ایک معمولی سے مسئلہ سے ہمیں حاصل ہو تا ہے اور یہ سبق اسلام کے کمال اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی ایک بیّن دلیل ہے۔ کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اسلام نے اپنے تمام احکام کو خواہ وہ کسی میدان سے تعلق رکھتے ہیں اور خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے، بعض مشترکہ اصولوں کی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ جیسا کہ نماز کے اس مسئلہ کو کہ اگر امام کوئی بات بھول جائے تو مقتدیوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اتباعِ امیر اور اتحاد ملت کے اصول کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہے اوروہ اصول یہ ہے کہ امام کی ہر حالت میں اتباع کرنی چاہئے خواہ وہ ٹھیک رستہ پر گامزن ہو یا کہ کسی وقت بھول کر کوئی غلط رستہ اختیار کر لے۔ ہاں اگر متبع اور مقتدی کو یہ یقین ہو کہ امام غلطی کر رہاہے تو وہ مناسب طریق پر اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتا ہے لیکن اگر پھر بھی امام اپنے رستہ پر قائم رہے تو متبع اور مقتدی کا فرض ہے کہ وہ اس صورت میں بھی امام کی اتباع کرے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو قومی اور ملی شیرازہ منتشر ہو کر خطرناک فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرمائے ہیں کہ:اِنَّمَا جُعِلَ الاِمامُ لِیُؤ تَمَّ بِہِ۔۔۔ ۱
.6’’ یعنی امام کا تقرر تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔‘‘
پس نماز کا یہ معمولی سا مسئلہ بھی ہمارے لئے ایک بھاری سبق رکھتا ہے۔ جس پر عمل کر کے ہم قومی تنظیم و ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیںمگر ساتھ ہی اسلام نے کمال حکمت سے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ اگر کبھی کوئی امام غلطی کرے تو اسے گستاخانہ رنگ میں برملا طور پر یہ نہ کہا کروکہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔بلکہ اشارہ کنایہ کے ساتھ بتا دیا کرو کہ اس معاملہ میں غلطی ہو گئی ہے۔ چنانچہ نماز میں امام کو اس کی غلطی پر توجہ دلانے کے لئے اسلام نے یہ پیارے الفاظ مقرر فرمائے ہیں کہ سبحان اﷲ یعنی’’غلطی اور بھول چوک سے پاک تو صرف خدا ہی کی ذا ت ہے‘‘۔
ان الفاظ میں حکمت یہ ہے کہ ایک طرف امام کا ادب و احترام بھی قائم رہے اور دوسری طرف اسے ان الفاظ سے اس طرف توجہ بھی ہو جائے کہ جب مجھے خدا کا بے عیب ہونا یاد دلایا جا رہا ہے تو شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ اس طرح اس چھوٹے سے مسئلہ میں اسلام نے اتحاد قومی اور اتباع امام اور احترام امیر کے گہرے فلسفہ کو اس طرح بھر دیا ہے کہ جس طرح ہماری زبان کے محاورہ میں ایک کوزے کے اندر دریا بھر دیا جاتا ہے۔
باقی رہایہ سوال کہ اگر کوئی امیر دانستہ اور جان بوجھ کرکوئی ایسا مسلک اختیار کرے جو صریح طور پر خلاف شریعت ہے تو اس صورت میںاسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو جہاں تک خدا کے مقرر کردہ دینی خلفاء کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق یہ صورت پیدا ہی نہیںہو سکتی۔کیونکہ خدا جس نے ان کو خلیفہ بنایا ہوتا ہے، خود ان کا محافظ ہوتا ہے اور گو وہ اجتہادی غلطی کر سکتے ہیں اور رائے کی لغزش سے بالا نہیں ہوتے مگر وہ دانستہ اور جان بوجھ کر کسی خلاف شریعت راستہ پر گامزن نہیں ہوتے۔ ہاں دنیوی اور سیاسی امراء کا معاملہ جداگانہ ہے۔ جن کے لئے شریعت نے علیحدہ احکام جاری فرمائے ہیں مگر اس جگہ ان کے بیان کی ضرورت نہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍فروری ۱۹۴۷ئ)
.6
قادیان میں الحمد للہ سب خیریت ہے
.6
.6گزشتہ ایام کے فسادات کی وجہ سے قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھاکیونکہ نہ ریل باقی رہی تھی نہ ڈاک نہ تار اور نہ ٹیلیفون۔ ان ایام میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جو آج کل سندھ میں تشریف رکھتے ہیں۔ مختلف مقامات سے تاریںدلوا کر حالات سے مطلع رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ ان تاروں میں سے بہت کم تاریں حضور تک پہنچ سکی ہیں۔ اسی طرح جو تاریں بیرونی جماعتوں کی خیریت دریافت کرنے اور مرکز سلسلہ کی خیریت کی خبر پہنچانے کے متعلق دی گئیں، وہ بھی بہت کم پہنچ سکی ہیں۔ البتہ گاہے گاہے لاہور اور امرتسر کی جماعت کے ساتھ بعض ذرائع سے مواصلات قائم کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔
.6اس عرصہ میں الفضل کو بھی یک ورقہ صورت میں بدل دیا گیا تھا کیونکہ اس کے باہر بھجوانے کی کوئی صورت نہیں تھی اور نہ ہی باہر سے خبریں موصول ہونے کا کوئی انتظام تھا۔ اب چونکہ خدا کے فضل سے کم از کم وقتی طور پر حالات پُر امن ہیں۔ اور ڈاک بھی اولاً تانگوں کے ذریعہ سے اور اب روزانہ ایک ڈیزل کار کی سروس قائم ہو جانے کی وجہ سے جاری ہو گئی ہے۔ اس لئے اس اعلان کے ذریعہ احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں خدا کے فضل سے ہر طرح خیریت ہے اور سندھ سے آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی معہ اہل و عیال و عملہ ہر طرح خیریت سے ہیں۔ لاہور اور ملتان اور امرتسر سے بھی اطلاع پہنچ چکی ہے کہ وہاں کی جماعتیں خدا کے فضل سے بخریت ہیں۔ البتہ امرتسر میں ایک دوست کو خفیف ضربات آئی تھیں مگر اب وہ رو بصحت ہیں۔ امرتسر میں جماعت کے بعض دوستوں کا کچھ مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو۔ راولپنڈی اور بعض دوسرے مقامات کے دوستوں کے متعلق ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں کے ایام میں جماعت کو اس کے پیارے اما م کی قیادت میں ہر طرح خیریت و حفاظت کے ساتھ رکھے اور دوسرے مسلمانوں ،ہندوئوں اور سکھوں کو بھی توفیق دے کہ وہ آپس میں امن اور محبت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
.6یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فسادات کے ابتدا میں ہی قادیان میں ایک امن کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوئوں نے بھی شرکت کی اور اس کمیٹی.6 کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں الحمد للہ اچھا اثر پیدا ہوا ہے۔ .6 (مطبوعہ الفضل .6۲۰.6 مارچ .6۱۹۴۷.6ئ)
.6
اردو زبان کو خراب ہونے سے بچائو
قرآنی محاورہ کو برقرار رکھنا برکت و فصاحت کا موجب ہے
.6
.6اردو زبان بھی کس قدرقابلِ رحم ہے کہ اسے اس وقت دو قوموں کے سیاسی مصالح کا تیرِ پیہم خراب کرنے کے درپے ہے۔ ہندو اس کے اندر ہندی اور سنسکرت کے انوکھے الفاظ اور غیر مانوس محاورات شامل کر کے اسے گویا شدھ کرنے کا آرزو مند ہے۔ اور مسلمان اس میں عربی اور فارسی کے مشکل صیغے اور دور افتادہ بند شیںداخل کر کے اسے بزعم خود کلمہ پڑھانے اور مومن بنانے کا خواہاں ہے اور اس جدو جہد کو دو نوں قومیں بھاری دینی اور قومی خدمت خیال کر کے نادانستہ طور پر ہماری مشترکہ زبان اردو کا ستیا ناس کر رہی ہیں۔ بے شک دوسری جاندار چیزوں کی طرح زبان بھی ایک بدلنے والی اور ترقی کرنے والی چیز ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی مصالح کے ماتحت تکلف اور تصنع کا طریق اختیار کر کے زبان کے طبعی نشوونما کو غیر فطری ملمع سازی کے راستہ پر ڈال دیا جائے۔
.6ہندوئوں نے تو اردو زبان میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کی اتنی بھر مارشروع کر دی ہے کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ جب کوئی ہندوصاحب ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے کھڑئے ہوتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ اردو میں بولنے کے مدعی ہوتے ہیں۔ ان کی تقریر کے پچاس فیصدی الفاظ قطعی طور پر سمجھے نہیں جا سکتے اور دو چار منٹ کی توجہ کے بعد سمجھنے کی کوشش مجبوراً ترک کرنی پڑتی ہے۔ مگر اس جگہ مجھے اصل گلہ ہندوئوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے کرنا ہے۔ جو ہندوئوں کی ضد میں آکر خواہ مخواہ اپنی زبان کو خراب کر رہے ہیں اور سادہ اور صاف اور مانوس الفاظ کی جگہ دور افتادہ اور مشکل الفاظ کو داخل کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم زبان کی خد مت کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ خدمت نہیں بلکہ عداوت ہے اور تعمیر نہیں بلکہ تخریب ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ بعض نام نہاد اصطلاحیں تو ایسی ہیں کہ ایک فصیح لفظ کو چھوڑ کر جو قرآنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے ( اور قرآن کی زبان عربی محاورہ کی اصل الاصول ہے) ایک نسبتاً غیر فصیح اور قرآنی محاورہ کے خلاف لفظ اختیار کر لیا گیا ہے۔
.6میں اس جگہ زیادہ مثالیں نہیں دیناچاہتا صرف دو بدیہی اور موٹی مثالیں دے کر بتا تا ہوں کہ کس طرح خود مسلمانوں کی طرف سے اردو زبان کو بگاڑا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآنی محاوروں کوبھی بدل کر نئے اور بالکل غیر مانوس محاورے قائم کئے جا رہے ہیں ۔اس ضمن میں پہلی مثال جو میں دینا چاہتا ہوں۔ وہ مبارک باد کے لفظ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لفظ اردو زبان میں اس قدر کثیرالاستعمال اور متعارف ہے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ تو اسے جانتا ہی ہے۔غیر مسلموں یعنی ہندوئوں اور سکھوں میں بھی یہ لفظ ایسا عام فہم ہے کہ شہری ہندو اور سکھ تو الگ رہے۔ دیہات کے سکھ اور ہندو بھی اس لفظ کو اچھی طرح سمجھتے اور اسے اپنی گفتگو میں کثرت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ مگر مسلمان مصنّفوں اور خصوصاً مسلمان اخبار نویسوں نے اس سادہ اور عام فہم لفظ کو بھی بدل کر ایک ایسی صورت دے دی ہے۔ جو نہ صرف غیر مسلموں کے لئے بالکل غیر مانوس ہے بلکہ بہت سے مسلمان کہلانے والے بھی اس لفظ کو نہیں سمجھتے۔ اور کم از کم ثقیل اور غیر مانوس خیال کرتے ہیں۔ میری مراد ’’تبریک ‘‘ کے لفظ سے ہے۔ جو کچھ عرصہ سے مبارکباد کے لفظ کی جگہ استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ صرف ثقیل اور غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ کے بھی سراسر خلاف ہے۔ قرآن شریف نے اس لفظ کو فعل اور اسم فاعل کی صورت میں اٹھارہ جگہ استعمال کیا ہے۔ اور ان اٹھارہ جگہوں میں سے ایک جگہ بھی باب تفعیل کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔ جس سے کہ لفظ تبریک تعلق رکھتا ہے بلکہ لازما ًہر جگہ باب مفاعلہ کی صورت میں استعمال کیا ہے ،جس سے لفظ مبا.6ر.6کباد کا تعلق ہے۔ مثلا سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
.6.6.6۔۔۲
.6اسی طرح سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6.6۔۔۳
.6ان دونوں موقعوں پر اور اسی قسم کے باقی ماندہ سولہ موقعوں پر قرآن شریف نے بلا استثناء باب مفاعلہ استعمال کیا ہے۔ اور کسی ایک جگہ بھی باب تفعیل استعمال نہیں کیا۔ پھر نہ معلوم کیوں ہمارے دوست بلا وجہ باب مفاعلہ کو چھوڑ کر ’’ تبریک‘‘ کے لفظ کے گرویدہ ہو رہے ہیں۔ جو ثقیل بھی ہے اور غیرمانوس بھی اور قرآنی محاورہ کے خلاف بھی۔ بے شک کبھی کبھی عربی زبان میں ’’برّک‘‘ کا لفظ بھی مبارک باد دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور لغت کے لحاظ سے ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے لیکن ایک زیادہ فصیح اور زیادہ مستعمل اور زیادہ مانوس لفظ کو چھوڑ کر جو قرآنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے۔ ایک ثقیل اور دور افتادہ اور غیر مانوس لفظ کو اختیار کرنا جو قرآنی محاورہ کے بھی خلاف ہے، ادبی اورلسانی اصول کے لحاظ سے نہایت درجہ قابل اعتراض ہے۔ مگر آج کل جسے دیکھو’’ ہدیہ تبریک ہدیہ تبریک‘‘ کے الفاظ سے سرشار نظر آتا ہے اورخود احمدی نوجوان بلکہ الفضل کے کارکن بھی اس رو میں بہے جارہے ہیںاوراپنی جگہ بہت خوش ہیں کہ ہم نے زبان میں ایک خاص جدت پیدا کی ہے اور بڑی ترقی کا رستہ کھولا ہے۔ حالانکہ زبانوں کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ ترقی نہیںبلکہ تنزل اور تخریب .6ہے۔اگر میں بھولتا نہیں تو ا س’’اتحاد ‘‘ کا سہرا غالباً زمیندار اخبار کے سر ہے ۔جس نے جدت پسندی کے .6زبردست جذبہ کے ماتحت یہ لفظ ایجادکیا اور پھر دوسرے مسلمانوںنے محض کورانہ تقلید اور عجوبہ پسندی کے رنگ میں اس کا استعمال شروع کر دیا۔مگر کم از کم ہماری جماعت کے دوست تو جو سلطان القلم کے روحانی فرزند ہیں، اس غلطی سے محفوظ رہنے چاہئیں۔
.6دوسری مثال جو میں اس جگہ دینا چاہتا ہوں وہ لفظ ’’ اسلامی‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ جو کچھ عرصہ سے لفظ مسلمان کا قائمقام بن کر ہماری زبان کو خراب کر رہا ہے آجکل ایسے محاورے کثرت سے اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں کہ ’’ اسلامیان ہند یہ چاہتے ہیں‘‘ اور’’اسلامیان پنجاب کی غیرت کا تقاضا یہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ حالانکہ صحیح لفظ مسلمان ہے نہ اسلامی۔ قرآن شریف نے اس لفظ کو غالبا ًانتالیس جگہ استعمال کیا ہے اور سب جگہ بلا استثناء اسم فاعل کے صیغے کے رنگ میں مسلمان کا لفظ ہی استعمال ہے۔ بلکہ ایک جگہ تو حضرت ابراہیم کی طر ف منسوب کر کے یہاں تک فرمایاہے کہ:.6-
.6.6۔۔۴
.6’’ یعنی حضرت ابراہیم ؑنے تمہارے لئے خدائی منشاء کے ماتحت مسلمان کی اصطلاح قائم کی اور اسے دنیا میں جاری کیا ‘‘
.6پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مانوس اور عام فہم بلکہ گویا خداتعالیٰ کے رکھے ہوئے نام کو ترک کر کے جسے نہ صرف خود مسلمان بلکہ ہندئووں اور سکھوں کا بچہ بچہ تک جانتا اور سمجھتا ہے ’’ اسلامی ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے اور اردو زبان کو نہ صرف مشکل اور غیر مانوس بنایا جائے بلکہ معروف قرآنی محاورہ سے بھی دور کر دیا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ’’ مسلمانانِ پنجاب ‘‘ یا ’’ پنجاب کے مسلمان ‘‘ کے الفاظ کی بجائے ’’ اسلامیانِ پنجاب‘‘ کا محاورہ استعمال کریں۔ جو صرف غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ اور اسلامی اصطلاح کے بھی سرا سر خلاف ہے۔
.6اوپر کے دو الفاظ صرف مثال کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ آج کل کی اردو زبان میں ایسے الفاظ اور محاورات کثرت کے ساتھ داخل ہو گئے ہیں ۔ یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ داخل کئے جا رہے ہیں جو بلا وجہ اور بلا کسی حقیقی ضرورت کے اردو زبان کو مشکل اور پیچدار بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس طرح سادگی اور عام فہمی کے جوہر کو جو دراصل ہر ترقی کرنے والی زبان کی جان ہے، سرعت کے ساتھ ضائع کیا جا رہا ہے۔ جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ مزید ضد میں آکر ہندو کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اردو میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ داخل کر کے اسے مسلمانوں کے لئے ایک گورکھ دھندا بنا دیا جائے۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایڈیٹر صاحب انقلاب لاہور کو اس نقص کی طرف توجہ دلائی تھی اور انہوں نے کسی حد تک اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ مگر آج کل ایجاد و اختراع کی رو .6ا.6یسی زوروں پر ہے کہ ایڈیٹر صاحب انقلاب بھی عملاً اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ حالانکہ بالعموم انقلاب کی زبان دوسرے اخباروں کی نسبت زیادہ صاف اور زیادہ بامحاورہ ہوتی ہے۔ بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ کم از کم ہماری جماعت کے دوست عموماً اور الفضل اور دوسرے احمدی جرائد کا عملہ خصوصاً اس بارہ میں زمانہ کی غلط رو میں بہنے سے بچے گا اور اردو زبان کو فصاحت اور سلاست کی ان طبعی حدود کے اندر اندر رکھنے کی کوشش کرے گا جو ایک علمی زبان کی زندگی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
خالصہ! ہوشیار باش
سکھ صاحبان سے ایک دردمندانہ اپیل
.6
.6سیاسی حالات بھی عجیب طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی .6۱۹۴۶.6ء کے اوائل کی بات ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے کہ سکھ قوم اس بات پر ہندؤوں سے سخت بگڑی ہوئی تھی کہ وہ کانگرس کے نظام کے ماتحت ان کی پنتھک حیثیت اور پنتھک وقار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان کی مستقل قومی حیثیت کو مٹا کر اپنے اندر جذب کرلینے کے درپے ہیں۔ چنانچہ اسی زمانہ کے بعد کاواقعہ ہے کہ سکھوں کے مشہور لیڈر ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے ’’سنت سپاہی‘‘ نامی گور مکھی رسالہ کے اگست .6۱۹۴۶.6ء کے نمبر میں ’’ہندو مسلماناں نال ساڈے سمبدھ‘‘ کے مضمون کی ذیل میں لکھا تھا کہ:.6-
’’مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ مگر تہذیب اور برادری کے تعلقات ہندوئوں سے زیادہ ہیں۔۔۔ ہندوئوں میں ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں نگل جانا چاہتا ہے۔۔۔مسلمانوں سے ہمارے تعلقات بھی کم ہیں اور خطرہ بھی کم ہے ۔۔۔میں مسلمانوںسے سمجھوتہ اور بہترتعلقات پیدا کرنے کے حق میں ہو ں۔۔۔ہندوئوں میں ایسے لوگ ہیں جو ڈھنگ یا استادی سے سکھوں کو نگل جانا چاہتے ہیں۔۔۔ ہندوئوں کا پچھلا وطیرہ اور تاریخ ہمیں پورا بھروسہ نہیں ہونے دیتی اور ہمیں خبردار ہی رہنا چاہئے۔۔۔ یقین رکھو کہ کانگرس اور ہندوئوں نے ہماری علیحدہ پولیٹیکل ہستی کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے ۔پچھلے انتخابات میں یہ کوشش بہت زور سے کی گئی تھی لیکن ہم بچ گئے۔ اگر آج پنجاب اسمبلی کے سارے سکھ ممبر کانگرس ٹکٹ پر ہوتے تو ہم ختم تھے۔‘‘
.6 .6یہ الفاظ جن کے لکھے جانے پر ابھی بمشکل نو ماہ کا عرصہ گزرا ہے۔ ایک ایسے سکھ لیڈ ر کے قلم سے نکلے ہیں جو ہندو سے سکھ بنا ہے اور ہم ان الفاظ پر قیاس کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت قدیم سکھوں اور خصوصََا جاٹ سکھوں میں ہندوئوں کے متعلق کیا خیالات موجزن ہوں گے۔ مگر آج یہی پنجاب کا نامور خالصہ ہندوئوں کی آغوش میں راحت محسوس کر رہا ہے۔ مجھے تسلیم کرنا چاہئے کہ اس غیر معمولی تبدیلی کی ذمہ داری کسی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری توجہ اور جدوجہد سے کام نہیں لیا۔ مگر اس انقلاب کا اصل سہرا ہندو سیاست کے سر ہے ،جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اپنی گہری تدبیر کے ذریعہ سکھ کو گویا بالکل اپنا بنا لیاہے لیکن جس اتحاد کی بنیاد محض دوسروں کی نفرت و عداوت کے جذبہ پر ہو، وہ زیادہ دیر پا نہیں ہو ا کر تاا ور سمجھدار سکھوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کے دیکھنے کے لئے کھل رہی ہیں کہ ان کے لئے پنجاب میں ہندوئوں کی سانجھ سو فیصدی خسارہ کا سودا ہے۔ـ’’پنجاب کی تقسیم‘‘ یا ’’پنجاب کا بٹوارہ‘‘ ایک ایسا نعرہ ہے جس کے وقتی طلسم میں ہندو سیاست نے سکھ کو مخمور کر رکھا ہے مگر کیا کبھی کسی دانشمند سکھ نے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ پنجاب کی مزعومہ تقسیم کے نتیجہ میں سکھ کیا لے رہا ہے اور کیا دے رہا ہے ۔یہ دو ٹھوس حقیقتیں بچے بچے کے علم میں ہیںکہ (.6۱.6) پنجاب میں سکھ صرف .6۱۳.6 فیصدی ہے اور (.6۲.6) پنجاب کے .6۲۹.6 ضلعوں میں سے کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جس میں سکھوں کی اکثریت ہو۔ کیا اس روشن صداقت کے ہوتے ہوئے پنجاب کی کوئی تقسیم سکھ مفاد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ جو قوم ہر لحاظ سے اور ملک کے ہر حصہ میں اقلیت ہے وہ ملک کے بٹنے سے بہر حال مزید کمزوری کی طرف جائے گی اور ملک کی ہر تقسیم خواہ وہ کسی اصول پر ہو اس کی طاقت کو کم کرنے والی ہو گی نہ کہ بڑھانے .6والی۔ یہ کہنا کہ فلاں حصہ کے الگ ہو جانے سے اس حصہ میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا۔ .6ایک خطرناک سیاسی دھو کہ ہے۔ کیونکہ بہر صورت پنجاب کے دونوںحصوں میں سکھ ایک کمزور اقلیت رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ایک حصہ کے اندر تناسب آبادی میں خفیف سی زیادتی کی وجہ سے اپنی مجموعی طاقت کو بانٹ لینا خود کشی سے کم نہیں۔ برطانوی پنجاب میں .6سکھوں کی موجودہ آبادی ساڑھے سینتیس .6 لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب تیرہ فیصدی ہے۔ .6اب موجودہ تجویز کے مطابق پنجاب اس طرح بانٹا جا رہا ہے کہ ایک حصہ میں پونے سترہ .6لاکھ چلا جاتا ہے اور دوسرے میں پونے اکیس لاکھ اور جس حصہ میں پونے اکیس لاکھ چلا جاتا ہے وہاں ان کی آبادی قریبََا اٹھارہ فیصدی ہو جاتی ہے اور دوسرے حصہ میں قریبََا دس فیصدی رہ جاتی ہے تو کیا اس صورت میں دنیا کا کوئی سیاستدان یہ خیال کر سکتا ہے کہ ایسی تقسیم سکھوں کے لئے مفید ہو گی۔جہاں وہ تیرہ فیصدی سے قریبََا اٹھارہ فیصدی ہو جائیں گے۔ وہاں بھی بہر حال وہ ایک کمزور اقلیت رہیں گے اور ان کے لئے تناسب آبادی کا خفیف فرق عملََا بالکل بے نتیجہ اور بے سود ہو گا مگر دوسری طرف یہ تقسیم ان کی مجموعی طاقت کو دو حصوں میں بانٹ کر (یعنی .6۳۷.6 کی بجائے .6۱۶.6 اور .6۲۱.6 کے دو حصے کر کے) ان کی قومی طاقت کو سخت کمزور کر دے گی۔ یہ ایک ٹھوس اور بین حقیقت ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمہ سیاسی اصول رد نہیں کر سکتا ۔اگر پنجاب ایک رہے تو سکھ قوم ساڑھے سینتیس .6 لاکھ کی .6ایک زبردست متحد جماعت ہے۔ جس کا سارا زور ایک ہی نکتہ پر جمع رہتا ہے لیکن اگر پنجاب بٹ جائے تو خواہ وہ کسی اصول پر بٹے سکھوں کی طاقت بہر حال دو حصوں میں بٹ جائے گی اور دوسری طرف ان کے آبادی کے تناسب میں بھی کوئی معتدبہ فرق نہیں آئے گا۔ اور وہ بہرصورت دونوں حصوں میں ایک کمزور اقلیت ہی رہیں گے۔ کیا یہ حقائق اس قابل نہیں کہ سمجھدار سکھ لیڈر ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں؟
.6 .6یہ کہنا کہ پنجاب کے مختلف ضلعے یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہیئے کہ مختلف حصے آبادی کی نسبت سے نہیں بٹنے چاہئیں بلکہ مختلف قوموں کی جائیداداور مفاد کی بنیاد پر بٹنے چاہئیں ایک طفل تسلی سے زیادہ نہیں کیونکہ:.6-
.6اول تو یہ مطالبہ دنیا بھر کے مسلمہ سیاسی اصولوں کے خلاف ہے اور جمہوریت کا بنیادی نظریہ اس خیال کودور سے ہی دھکے دیتا ہے۔
.6دوسرے جائیدادیں ایک آنی جانی چیزہیں اور ان پر اس قسم کے مستقل قومی حقوق کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جو انسانی جانوں اور ان جانوں کے تحفظ اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔
.6تیسرے ۔اس سوال کو اٹھا نے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے نئے دور کی سیاست کی بنیاد مساوات انسانی پر رکھنے کی بجائے روزِ اول سے ہی انفرادی برتری اورجماعتی تفوق اور جبر و استبداد پر رکھی جائے جس کے خلاف غریب ہندوستان صدیوں سے لڑتے ہوئے آج خدا خدا کرکے آزادی کا منہ دیکھنے لگا ہے۔
.6 چوتھے۔ سکھوں کی یہ جائیدادیں بڑی حد تک ان کی حکومت کے زمانہ کی یادگار ہیں۔ جبکہ ان میں سے کئی ایک نے اولاََ اپنی طوائف الملوکی کے زمانہ میں اور بعدہٗ اپنی استبدادی حکومت کے دوران میں دوسرے حقداروں سے چھین کر ان جائیدادوں کو حاصل کیا۔ تو کیا یہ انصاف اور دیانتداری کا مطالبہ ہے کہ اس رنگ میں حاصل کئے ہوئے اموال پر آئندہ سیاست کی بنیاد رکھی جائے۔ ہم ان کی یہ جائیدادیں ان سے واپس نہیں مانگتے۔ جو مال ان کا بن چکا ہے وہ انہیں مبارک ہو مگر ایسے اموال پر سیاسی حقوق کی بنیاد رکھنا جو آج سے چند سال قبل کسی اور کی ملکیت تھے۔ دیانتداری کا طریق نہیں ہے۔
.6پانچویں۔ دنیا کا بہترین مال انسان کی جان ہے۔ جو نہ صرف سارے مالوں سے افضل اور برتر ہے۔ بلکہ ہر قسم کے دوسرے اموال کے پیداکرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ پس جان اور نفوس کی تعداد کے مقابلہ پر پیسے کو پیش کرنا ایک ادنیٰ ذہنیت کے مظاہرہ کے سوا کچھ نہیں۔
.6چھٹے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سکھوں کی جائیدا د کی مالیت واقعی زیادہ ہے۔ کیونکہ جائیداد کی قیمت عمارتوں کی اینٹوں یا زمین کے ایکڑوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اور جب تک ان ساری باتوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ نہ لیا جائے۔ سکھوں کا یہ دعویٰ کہ ہماری جائیدادیں زیادہ ہیں۔ ایک خالی دعویٰ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ خصوصاً جب کہ ابھی تک ایکڑوں کا صحیح قوم وار تناسب بھی گنتی میں نہیں لایا جاسکا۔
.6 .6سکھ صاحبان کا یہ خیال کہ ہندو اور ہم ایک ہیںاور اس لئے ان کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب میں ہماری اکثریت ہو جائے گی پہلے دھوکے سے بھی زیادہ خطرناک دھوکہ ہے۔کیونکہ اس میں ایک ایسے پیچ دار اصول کا واسطہ پڑتا ہے ۔ جس کا حل نہ ہندو کے پاس ہے اور نہ سکھ کے پاس۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اور سکھ ایک قوم ہیں؟ اس سوال کے امکانََا دو ہی جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہاں وہ ایک قوم ہیںاور دوسرے یہ کہ نہیں بلکہ وہ دو مختلف قومیں ہیں۔ جن کا مذہب اور تہذیب و تمدن جداگانہ ہے۔ مگر ان کا آپس میں سیاسی سمجھوتہ ہے۔اب ان دونوں جوابوں کو علیحدہ علیحدہ لے کر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر سکھ اور ہندو ایک قوم ہیںتو ان کا اس غرض سے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کہ انہیں اس ذریعہ سے ایک علیحدہ گھر اور وطن میسر آ جاتا ہے۔ بالبداہت باطل ہو جائے گا۔ کیونکہ جب سکھ اور ہندو ایک ہیں تو ظاہر ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں جتنے بھی صوبے ہوں گے، وہ جس طرح ہندوئوں کا گھر اور وطن ہوں گے اسی طرح سکھوں کا بھی گھر اور وطن ہوں گے۔ اور اگر یہ کہو کہ پنجابی سکھوں کا وطن کو نسا ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جب ہندو اور سکھ ایک قوم تسلیم کئے گئے تو پنجابی سکھ کے علیحدہ وطن کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا۔ جب سکھ بھی ہندوستا ن کی وسیع ہندوجاتی کا حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب ہندو جاتی کو وطن مل گیا تو لازماً سکھ کو بھی مل گیا اور اور اس کا علیحدہ مطالبہ سراسر باطل ہے۔ دوسرے اگر ہندو قوم کے ساتھ ایک ہوتے ہوئے پنجابی سکھ کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے تو یو ۔پی اور بہار اور مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کو کیوں علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ پنجاب کے .6۳۷.6 لاکھ سکھ کے مقابل پر یو۔پی کا مسلمان .6۸۴.6 لاکھ اور بہار کا مسلمان.6۴۷.6 لاکھ ہے۔ اگرمسلمان اپنے سوا کروڑ کمزور بھائیوں کو یو۔پی اور بہار میں ہندوئوں کے رحم پر چھوڑ سکتے ہیں توپنجاب کے .6۳۷.6 لاکھ سکھ جو بقول خود بہادر بھی ہیں اور صاحب مال و زر بھی ،پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے۔ دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ سکھ ہندوئوں سے ایک الگ اور مستقل قوم ہیں اور علیحدہ مذہب اور علیحدہ تمدن رکھتے ہیں، جس کی علیحدہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ تو اس صورت میں سوال یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے کون سا حفاظت کا رستہ کھولتی ہے؟ وہ بہرحال پنجاب کے مشرقی حصہ میں بھی ایک اقلیت ہوں گے۔ جو وسیع ہندو اکثریت کے رحم پر ہو گی۔ اور اکثریت بھی وہ جو صرف انہی کے علاقہ میں اکثریت نہیں ہو گی۔ بلکہ سارے ہندوستانی صوبوں کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر ہوگی۔ یہ ماحول کس زندہ اور مستقل قوم کو چین کی نیند سونے دے سکتا ہے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قومیںدو ہیں تو پھر ان کا موجودہ سیاسی سمجھوتہ بھی کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ اسے کل کے حالات بدل کر کچھ کی کچھ صورت دے سکتے ہیں۔چنانچہ اوپر والے مضمون میں ہی ماسٹر تارا سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ:.6-
’’ لڑائی جھگڑے تو زمانہ کے حالات کے ماتحت ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ نہ کبھی کسی قوم سے دائمی لڑائی ہو سکتی ہے اور نہ دائمی صلح۔ اب بھی ہمارا مسلمانو ں کے ساتھ کبھی جھگڑا ہو گا اور کبھی صلح ہو گی۔ یہی صورت ہندوئوں کے ساتھ ہونی ضروری ہے۔‘‘۔۔ ۵
.6اور ماسٹر تارا سنگھ صاحب کے خیال پر ہی بس نہیں دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ دومستقل قوموں میں اس قسم کے عارضی سیاسی سمجھوتے ہرگز اس قابل نہیں ہوا کرتے کہ ان کے بھروسہ پر ایک قوم اپنی طاقت کو کمزور کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو دوسری قوم کے رحم پر ڈال دے اور سکھ صاحبان تو اپنی گزشتہ ایک سالہ تاریخ میں ہی ایک تلخ مثال دیکھ چکے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وہ پھر بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں۔
.6 .6کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے ۔ اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا ۔ میں گزشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی۔ اور زیادہ ذمہ داری پہل کرنے والے پر ہوا کرتی ہے۔ اور فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں۔ جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جا تی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو۔ بعد کے شعلے بلا امتیاز سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں۔ میں اس دعویٰ کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی۔ لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی؟ آخر امرت سر میں چوک پر اگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں۔ اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندئووں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے۔ اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار میں ہزار ہا کمزور اور بالکل بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت بر پا نہیں کی تھی۔ جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی یا کوئی اور علاقہ۔ پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن اگرملک کی بہتری کی خاطر ’’معاف کر دو اور بھول جائو‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا چاہوتو اس کے لئے بھی دونوں قوموںکے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا رستہ کھلا ہے۔ میں تو شروع ہی سے اپنے دوستوں سے کہتا آیا ہوں کہ موجودہ فسادات کا سلسلہ ایک دور سوء.6 .6vicious circle.6کارنگ رکھتا ہے۔احمد آباد کے.6 بعد کلکتہ اور کلکتہ کے بعد نواکھلی اور نواکھلی کے بعد بہار اور گڑھ مکتیراور بہار اور گڑھ مکتیرکے بعد پنجاب و سرحد اور اس کے بعد خدا جانے کس کس کی باری آنے والی ہے۔ اور جب تک کوئی قوم جرأت کے ساتھ اس زنجیر کی کسی کڑی کو درمیان سے توڑ نہیں دے گی۔ اس آگ کا ایک شعلہ دوسرے شعلے کو روشن کرتا جائے گا۔ جب تک یا تو یہ دونوں قومیں آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائیں گی اور یا قتل و غارت سے تھک کر انسان بننا سیکھ لیں گی۔ انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرأت کے ساتھ اور عفو اور درگزر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جا سکتی ہے۔ورنہ یہ ایک دلدل ہے، جس میں سے اگر ایک پائوں پر زور دے کر اُسے باہر نکالا جائے تو دوسرا پائوں اور بھی گہرا دھنس جاتا ہے۔ پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو تو مسلمان کو بہار اور گڑھ مکتیر کو بھلانا ہو گا۔ اور ہندو اور سکھ کو نواکھلی اور پنجاب کو۔ ہاں ان واقعات سے بہت سے سبق بھی سیکھنے والے ہیں۔ جو دونوں قومیں انتقام کے جذبہ کو قابو میں رکھ کر بھی سیکھ سکتی ہیں:.6-
.6 .6میں سکھ صاحبان سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ موجودہ جوش و خروش کی حالت میں اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ عمومََا دو قوموں کے درمیان تین بنیادوں پر ہی سمجھوتے ہوا کرتے ہیں۔ اول یا تو ان کے درمیان مذہبی اصولوں کا اتحاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں۔ اور یا دوم ان کا تہذیب و تمدن ایک ہوتا ہے۔ اور یا سوم ان کے اقتصادی نظریے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اب اگر ان تینوں لحاظ سے دیکھا جائے تو سکھ کا سمجھوتا مسلمان سے ہونا چاہئے نہ کہ ہندو کے ساتھ کیونکہ:.6-
.6 .6اول تو سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں۔ کیونکہ دونوں قومیں توحید کی قائل ہیں۔ اور ان کے مقابل پر ہندو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں۔ جن کے ساتھ سکھوں کا مذہبی لحاظ سے کوئی بھی اشتراک نہیں۔ اور اسی لئے ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے صاف طور پر مانا ہے کہ:.6-
.6’’ مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں‘‘۔
.6 .6دوسرے تہذیب و تمدن بھی مسلمانوں اور سکھوں کا بہت ملتا جلتا ہے کیونکہ دونوں سادہ زندگی رکھنے والے اور فیاض جذبات کے مالک اور قدیم مہمان نوازی کے اصولوں پر قائم ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو تمدن اس سے بالکل مختلف ہے۔
.6تیسرے اقتصادی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ کیونکہ دونو ںکی اقتصادیات کا اسّی فی صدی حصہ وہ محاصلِ اراضی اور فوجی پیشے اور ہاتھ کی مزدوری سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سکھ اور مسلمان زمیندارآپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی ہیں۔ مگر یہ ذہنی اور قلبی اتحاد ایک ہندو اور سکھ کو نصیب نہیں ہوتا:.6-
.6پس میں اپنے سکھ ہم وطنوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ واقعات کو بھلا کر اپنے مستقل اور فطری مفاد کی طرف توجہ دیں۔ دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں۔ مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہو ا کرتے ۔ اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اُسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہو گا، آم کا پیوند آم کے ساتھ ہی قائم ہو گا۔ دو لڑنے والے بھائی لڑائی کے با وجود بھی بھائی رہتے ہیں۔ مگر دو غیر آدمی عارضی دوستی کے باوجو د بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے۔ ہم ہندوئوں کے بھی خلاف نہیں۔ وہ بھی آخر اسی مادر وطن کے فرزند ہیں اور بہت سی باتوں میں اُن سے بھی ہمارا اشتراک ہے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ کاش ہندوستان بھی ایک رہ سکتا۔ لیکن اگر ہندوستان کو مجبوراً بٹنا پڑا ہے تو کم از کم پنجاب توتقسیم ہونے سے بچ جائے تا اسے مسلمان بھی اپنا کہہ سکیں اور سکھ بھی اس کے اندر بسنے والے ہندو بھی۔ اور شائد پنجاب کا خمیرآیندہ چل کر ہندوستان کو بھی باہم ملا کر ایک کردے۔ لیکن جب تک یہ بات میسر نہیں آتی اس وقت تک کم از کم مسلمان اور سکھ تو ایک ہو کر رہیں۔ یہ جذبہ خود سمجھدار سکھ لیڈروں میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ گیانی شیر سنگھ صاحب فرماتے ہیں۔
.6 .6’’ شمالی ہندوستان کے امن کی ضمانت سکھ مسلم اتحاد ہے اوراگر کوئی شخص سکھ مسلم فساد کے زہر کا بیج بوتا ہے تو وہ ملک کا اور خدا کااور نسلِ انسانی کا دشمن ہے۔‘‘۔۔۶
.6 .6اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندو کو ہندوستان کے باقی صوبوں میں وطن مل رہا ہے اور مسلمان کو پنجاب وغیرہ میں۔ کیا اچھا ہوتا کہ سکھ بھی اتنی تعداد میں ہوتا اور اس صورت میں آباد ہوتاکہ اُسے بھی ایک وطن مل جاتا ۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حالات میں اس کمی کا ازالہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ پنجاب کو خواہ کسی صورت میں بانٹا جائے، سکھ بہر حال اقلیت میں رہتا ہے بلکہ دو حصوں میں بٹنے سے اپنی طاقت کو اور بھی کم کر دیتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ وہ اس قوم کے ساتھ جوڑ ملائے جس کے ساتھ اس کا پیوند ایک طبعی رنگ رکھتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد محبت اور تعاون کے طریق پر اور ترقی کے پرامن ذرائع کو عمل میں لا کر اپنی قوم کو بڑہائے اور اپنے لئے جتنا بڑا چاہے وطن پیدا کر لے۔ آج سے پچاس سال قبل سکھ پنجاب میں صرف بیس بائیس لاکھ تھے مگر اب اس سے تقریبا ڈیڑھ دو گنے ہیں۔
.6 .6 اسی طرح آج سے چالیس سال قبل مسلمان پنجاب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ ایک قطعی اکثریت میں ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو برابر کم ہوتا گیا ہے۔۔ پس اس قدرتی پھیلائو اور سکیڑ کو کون روک سکتا ہے ؟ پس سکھوں کو چاہیے کہ غصہ میں آکراور وقتی رنجشوں کی رو میں بہہ کر اپنے مستقل مفاد کو نہ بھلائیں۔ انہیں کیا خبر ہے کہ آج جس قوم کے ساتھ وہ سمجھوتا کر کے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کل کو اپنی وفاداری کا عہد نہ نبھا سکے اور پھر سکھ نہ ادھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے ۔ ان کے لئے بہرحال حفاظت اور ترقی کا بہترین رستہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے جائز اور معقول مطالبات کو فراخدلی کے ساتھ قبول کر یں ۔ بالآخر سکھ صاحبان کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ خواہ کچھ ہو سکھوں کے لاتعداد مفادوسطی اور شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے بہت سے مذہبی مقامات ان ’’علا قوں‘‘ میں واقع ہیں۔ ان کی بہترین جائیدادیں ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے بہت سے قومی لیڈر انہی علاقوں میں پیدا ہوئے اور انہی میں جوان ہوئے اور انہی میں بس رہے ہیں۔ اور پھر ان کی قوم کا بہترین اور غالبا ًمضبوط ترین حصہ جسے سکھ قوم کی گویا جان کہنا چاہئے انہی علاقوں میں آباد ہے۔تو کیا وہ ہندو قوم کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جس کا حشرخدا کو معلوم ہے، اپنے اس وسیع مفاد کو چھوڑ کو مشرقی پنجاب میں سمٹ جائیں گے؟ خالصہ ہوشیار باش۔ خالصہ ہوشیار باش۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۹ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مسلمانوں کا مطالبۂ پاکستان
اور
اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال
.6 اس وقت ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسائل کے تعلق میں پنجاب کی تقسیم کا سوال خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ چونکہ پنجاب جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک طبعی اور قدرتی صوبہ کا رنگ رکھتا ہے اور ایک ناقابل تقسیم یونٹ (.6unit.6)ہے۔ اس لئے اس کی تقسیم کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کا کوئی حصہ مجوزہ پاکستان سے علیحدہ کیا جائے۔ اس کے مقا بل پر ہندوئوں اور سکھوں کا مطالبہ یہ ہے کہ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے تو کیوں پنجاب کے ان حصوں کو تقسیم نہ کیا جائے جن میں ہندو سکھ اکثریت پائی جاتی ہے۔ بظاہر ایک ناواقف شخص ہندوئوں اور سکھوں کے اس مطالبہ کو معقول سمجھ سکتا ہے اور خیال کر سکتا ہے کہ جب پاکستان کی تقسیم کا سوال زیادہ تر اس بناء پر اٹھایا گیا ہے کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو ہندو اکثریت والے صوبوں سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ تو پھر اسی قسم کے حالات اور اسی قسم کے دلائل کے ماتحت پنجاب کے اس حصہ کو جن میں ہندو سکھ اکثریت ہے، کیوں مسلم اکثریت والے حصہ سے علیحدہ نہ کیا جائے۔ مگر یہ مطالبہ خواہ بعض لوگوں کو معقول نظر آئے حقیقتََا ایک سراسر غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ مطالبہ ہے ۔ جس کی بنیاد ہندو قوم کی خود غرضانہ پالیسی اور فرقہ وارانہ ذہنیت پر قائم ہے۔اور بد قسمتی سے آج کل سکھوں کی سادہ لوح قوم بھی اس پالیسی کا شکار ہو رہی ہے۔ ہمارے اس دعو یٰ کے موٹے موٹے دلائل مختصر طور پر یہ ہیں:.6-
.6اوّل۔ پاکستان کا بنیادی مطالبہ جیسا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور والے ریزولیوشن سے ظاہر ہے مسلم اکثریت والے صوبوں کی موجودہ حدود پر مبنی تھا اور اس تعلق میں مسلم لیگ کی قرارداد کے مطابق صرف ایسی خفیف تبدیلی کی گنجا ئش رکھی گئی تھی۔ جو کسی جغرافیائی اصول تقسیم کے لحاظ سے چند مربع میلوں کے آگے پیچھے کرنے کی صورت میں ضروری سمجھی جائے۔ مثلا ًکسی دریا یا پہاڑ کی وجہ سے کسی حصہ میں چند میل آگے حد بڑھانی پڑے یا کسی حصہ میں پیچھے ہٹانی پڑے۔ تا اگر بالفرض کسی جگہ جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے کوئی حد قابل اصلاح ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکے۔ لیکن ہندوئوں نے اس امکانی گنجائش کو ناواجب وسعت دے کر پنجاب کے ہی حصے کرنے شروع کر دئے ہیں۔ حالانکہ تقسیم پنجاب کا سوال مطالبہ پاکستان کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ جو صوبہ ہائے پنجاب و سرحدو سندھ وغیرہ کی موجودہ حالت اور موجودہ وسعت کے پیش نظر کیا گیا تھا۔
.6دوم:.6-.6پنجاب کا .6صوبہ اپنے مخصوص جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور زبان وغیرہ کے لحاظ سے ایک بالکل طبعی یونٹ ہے۔ جو ایک مکمل واحد جسم کا حکم رکھتا ہے۔ اورظاہر ہے کہ ایک طبعی اور قدرتی یونٹ کو توڑنا نہ صرف کسی طرح جائز اور درست نہیں۔ بلکہ صوبہ کی ساری آبادی اور جملہ اقوام کے لئے یکساں نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جغرافیائی ربط و اتحاد کے علاوہ پنجاب میں مختلف نہروں کے ہیڈ اورنہروں کی تقسیم اور بجلی کے پاور سٹیشن اور بجلی کی تقسیم اور تجارت کے مرکزی شہر جو گویاسارے علاقہ کے لئے اقتصادی مرکز کا حکم رکھتے ہیں اور ضروری خوردنی پیداوار کی تقسیم وغیرہ وغیرہ پنجاب میں ایسی مخلوط صورت میں واقع ہیں کہ پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا خواہ وہ کسی اصول پر ہو، صوبہ کی اقتصادی زندگی کو تہہ و بالا کر دینے کا موجب اور ساری قوموں کے لئے یکساں ضرر رساں ہے۔
.6سوم :۔پنجاب میں مختلف قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں اور سکھوں کی آبادی اس طرح ملی جلی صورت میں پائی جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل میںکسی طرح بھی سہولت پیدا نہیں کر سکتی۔ اور جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کر چکا ہوں ،سکھوں کے لئے تو خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تقسیم اس مسئلہ کی پیچیدگیوں کواور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ کیونکہ وہ دو حصوں میں بٹ کر کسی طرف کے بھی نہیں رہتے اور اپنی مجموعی طاقت کو بری طرح کھو بیٹھتے ہیں۔
.6چہارم:۔یہ خیال کہ چونکہ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے۔ اس لئے پنجاب کو بھی تقسیم کیا جائے۔ ایک محض عامیانہ بلکہ کورانہ خیال ہے۔ جو کسی مسلمہ سیاسی اصول یا حالات کے صحیح موازنہ اور مطالعہ پر مبنی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سوال کو اس کے مخصوص حالات کے ماتحت جانچا اور طے کیا جاتاہے اور اس معاملہ میں اندھا قیاس کسی طرح بھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا۔ اب اگر ہندوستان اور پنجاب کے حالات کا بالمقابل مطالعہ کیا جائے تو اس بات میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں رہ سکتاکہ دونوں کے حالات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور متغائرہیں کہ وہ ایک قیاس کے نیچے نہیں آسکتے۔ کیونکہ جہاں پنجاب کا صوبہ ہر جہت سے ایک مستقل قدرتی اور مکمل یونٹ ہے۔ جو حسب ضرورت بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے (گو ہندوستان کی تقسیم کا سوال بھی دراصل ہندو کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جس نے شروع میں مسلمانوں کے قلیل ترین منصفانہ مطالبہ کو رد کر کے انہیں آہستہ آہستہ علیحدہ گھر کے خیال کی طرف دھکیل دیا) وہاں خود پنجاب کے مختلف حصے اس طرح طبعی رنگ میں جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط اور پیوست ہیں کہ کسی غیر متعصب شخص کے نزدیک پنجاب کی تقسیم کا سوال اٹھ ہی نہیں سکتا۔
.6پنجم۔ پنجاب کی تقسیم کا سوال ا س لحاظ سے بھی بالکل غیر طبعی ہے کہ اگر یہ کسی حقیقت پر مبنی ہوتا تو آج کی فرقہ وارانہ کش مکش سے قبل بھی اسے ہندوئوں یا سکھوں وغیرہ کی طرف سے اٹھایا جاتا۔ خصوصا ًجس زمانہ میں کہ سندھ کو بمبئی سے اور اڑیسہ کو بہار وغیرہ سے علیحدہ کرنے کا سوال پیداہوا تھا۔ اس وقت پنجاب کی تقسیم کا سوال بھی اٹھا یا جاتامگر ایسا نہیں کیا گیا ۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال کسی طبعی اور فطری تقاضے پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض مسلما.6نوں کی مخالفت میں غیر طبعی اور مصنوعی طریق پر اٹھا یا جا رہا ہے۔
.6ششم:۔تقسیم پنجاب کا مطالبہ اس لحاظ سے بھی قابل ردّ بلکہ حقیقۃً قابل نفرت ہے کہ وہ کسی جہت سے بھی صداقت اور دیانت داری کے جذبہ پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جب تک ہندوئوں کے دل میں اکھنڈ ہندوستان کی امید قائم تھی انہوں نے اکھنڈ ہندوستان کی تائید اور پاکستان کی مخالفت میں اپنا پورا زور لگایا۔ لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کی امید ٹوٹتی نظر آئی انہوں نے جھٹ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑا کر دیا۔ جس کا یہ صاف مطلب ہے کہ دراصل وہ ہر صورت میں ہندو حکومت کے خواہاں ہیں۔ یعنی ان کا دلی منشاء یہ ہے کہ اول تو مسلمان ہندو حکومت کے تابع رہیں۔ اور اگر ایسا ہونا ممکن نہ ہو تو پھر ہندوئوں کو مسلمانوں کی حکومت سے علیحدہ کر کے اپنی قوم کی طاقت اور اقتدار کو بڑھایا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک انہیں ایک واحد مرکزی حکومت کے دبائو کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اپنی ایڑی کے نیچے رکھنے کی صورت نظر آرہی تھی۔ انہوں نے بڑے زور شور سے اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جاری رکھا۔لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کاقلعہ جس کی چار دیواری کے اندر وہ مسلمانوں کو اپنے زیر قبضہ رکھ سکتے تھے، گرتا ہوا نظر آیا تو انہوں نے ہندو حکومت کو دوسرے طریق پر وسیع اورمستحکم کرنے کے لئے فورا ًپنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑ اکر دیا۔ تا اس ذریعہ سے ایک طرف تو ہندو آبادی کو زیادہ سے زیادہ مسلمان حکومت سے علیحدہ کر لیں۔ اور دوسری طرف جہاں تک ممکن ہو ،سکھ قوم کو اپنی حکومت کے ماتحت لے آئیںاور آہستہ آہستہ ان کی علیحدہ ہستی کو مٹا دیںاور تیسری طرف تاحدِّ امکان پاکستان کو کمزور کر دیں۔یہ واضح حقائق صاف بتا رہے ہیںکہ دراصل ہندوئوں کے یہ دونوں مطالبے یعنی اوّلاً اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ اور بعدہٗ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ خالصۃًاور کلیۃًفرقہ وارانہ ذہنیت کا کرشمہ ہیں اور نیشنلسٹ جذبہ کا ادعادکھا وے اور نمائش کے سوا کچھ نہیں۔
.6 ہفتم: تقسیم پنجاب کی تائید میں بعض اوقات یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس طرح صوبہ میں قوم وار .6آبادی کی تقسیم بہتر ہو جائے گی۔لیکن دراصل یہ بھی ایک خطرناک دھوکہ ہے۔ اور جو جذبہ اس مطالبہ کی تہہ میں کام کر رہاہے، وہ صرف یہ ہے کہ اس ذریعہ سے ہندو اور سکھ آبادی کو مسلمانوں کے علاقہ سے باہر نکال لیا جائے، اور ظاہر ہے کہ یہ جذبہ ملک کے مجموعی حالات کو دیکھتے ہوئے کسی طرح انصاف ودیانت داری کا جذبہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب مسلمان اپنے کروڑوں بھائی ہندوئوں کے ہندو صوبوں میں چھوڑ رہے ہیں۔(مثلا یو۔پی میں .6۸۴.6 لاکھ۔ بہار میں .6۴۷.6لاکھ۔ مدراس میں .6۳۹.6 لاکھ اور بمبئی میں .6۱۹.6 لاکھ .6وغیرہ وغیرہ) تو ہندوئوں کو مسلم اکثریت والے علاقہ میں اپنے چند لاکھ ہم مذہبوں کو چھوڑتے ہوئے .6بے چینی اور بے اعتمادی کیوں لاحق ہوتی ہے۔ خصوصاً جب کہ انہیں بہت سے دوسرے صوبوں میں بہترین وطن اور کامل اقتدار حاصل ہو رہا ہے۔ اور اگر ان کا منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں سے مکمل جدائی کر لیںاور ملک کے کسی حصہ میں بھی اشتراک نہ رہے تو اس صورت میں ضروری ہو گا کہ وہ ان مسلمان آبادیوں کی علیحدگی کا بھی انتظام کر یں جو ہندو صوبوں میں محصور پڑی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کمشنری انبالہ کے ہندوئوں کو تو مسلمان صوبہ سے علیحدہ کر کے بزعم خود محفوظ کر لیا جائے۔ مگر یو۔پی اور بہار وغیرہ کے کثیر التعداد مسلمان ہندوئوں کے رحم پرپڑے رہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کمشنری انبالہ کے ہندو ایک مخصوص علاقہ میں آباد ہیں۔جہاں ان کی اکثریت ہے مگر اس کے مقابل پر یو۔پی اور بہار کے مسلمانوں کو ان صوبوں کے کسی حصہ میں بھی اکثریت حاصل نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس اصول پر کام کرنا ہے کہ مختلف قوموں کی آبادیاں لازماً جدا ہو کر آزادی کا حق حاصل کریں تو پھر کسی خاص علاقہ میں اکثریت ہونے یا نہ ہونے کا سوال باقی نہیں رہتا ۔ بلکہ جہاں جہاںبھی کسی خاص قوم کی معقول تعداد پائی جائے۔ اس کی علیحدگی اور حفاظت کا انتظام ہونا چاہئے۔ اگر یو۔پی اور بہار کے مسلمان ایک جگہ آباد نہیں ہیںتو ان صوبوں کی ہندو حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ انہیں ایک جگہ آباد کرنے کا انتظام کریں۔ تا ایک مخصوص علاقہ میں انہیں اپنی حکومت حاصل ہو سکے۔ لیکن اگر ہندو قوم ایسا نہیں کر سکتی۔ یا نہیں کر نا چاہتی تو پھر انہیں کیا حق ہے کہ انبالہ ڈویژن اور کلکتہ وغیرہ کی علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’میٹھا میٹھا ہڑپ ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ ۔ الغرض انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو صوبوں کی طبعی حدود قائم رکھی جائیںاور ہر صوبہ میں اقلیت والی قوم اکثریت والی قوم کے ساتھ تعاون کرے اور یا اگر قوم وار تقسیم کی وجہ سے صوبوں کی حدود کو توڑنا ہے تو پھرہر صوبہ میں مختلف قوموں کی آبادیوں کو اکٹھا کر کے سارے صوبوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ یہ ایک بالکل موٹی سی بات ہے کہ جس صوبے میں کسی قوم کی اکثریت ہے۔ اسے اس صوبہ میں حکومت کا حق ہونا چاہئے۔ اب اس پر منطقی دائرے کھینچ کھینچ کر بعض اضلاع کو اس بناء پر الگ کرنے کی کوشش کرنا کہ ان میں دوسری قوم کی اکثریت ہے۔ ایک بالکل فضول بات ہے کیونکہ اصل بنیاد یونٹوں کی تقسیم پر ہے نہ کہ قوموں کی تقسیم پر او ر اگر قوموں کو ہی تقسیم کرنا ہے ۔تو پھر کیوں یو۔پی اور بہار کے مسلمانوں کو بھی علیحدہ علاقہ نہ دیا جائے۔ بہرحال یہ ہرگز عدل و انصاف کاطریق نہیں کہ انبالہ ڈویژن کے اکتیس لاکھ ہندوئوں کو تو بزعم خود پنجاب سے جدا کر کے محفوظ کر لیا جائے۔مگر یو۔پی اور بہار کے ایک کروڑ اکتیس لاکھ مسلمانوں کو ہندوئوں کے رحم پر رہنے دیا جائے۔
.6باقی رہا سکھوں کا سوال، سو ان کا معاملہ بے شک اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ وہ صرف پنجاب ہی میں آباد ہیں اور کسی دوسرے صوبہ کی حکومت ان کے جذبۂ وطنیت کی تسکین کا موجب نہیں ہو سکتی۔ سو گو یہ ایک مجبوری کی صورت ہے۔ جو کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر بہر حال ان کے متعلق مسلمان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر کسی علاقہ میں جو ایک معقول رقبہ اور صورت رکھتا ہو، سکھوں کو اکثریت حاصل ہو تو اس علاقہ میں مسلمانوں کو ان کی حکومت پر اعتراض نہیں ہو گا۔اور جب تک انہیںاکثریت حاصل نہیں۔ مسلمان انہیں تمام جائز اور ضروری تحفظات دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ موجودہ صورت میں پنجاب کی تقسیم سکھوں کے لئے کسی طرح مفید نہیں ہو سکتی بلکہ وہ اپنی موجودہ .6۳۷.6 لاکھ آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیں گے۔ پس موجودہ حالات میں ان کے لئے مسلمان کے ساتھ مل کر رہنا جن کے ساتھ ان کا مذہب اور تہذیب و تمدن بہت کچھ اشتراک رکھتا ہے، بہر حال مفید اور بہتر ہے۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال ہر لحاظ سے غیر منصفانہ اور قطعی طور پر نقصان دہ ہے اور پنجاب کے مسلمان بڑی سختی کے ساتھ اس ظالمانہ مطالبہ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔ اور خود ہماری جماعت یعنی جماعت احمدیہ بھی جوموجودہ سیاسی جدوجہد میںجمہور مسلمانوں کے ساتھ ہے، متعدد مرتبہ اس غیر معقول مطالبہ کے خلاف احتجاج کر چکی ہے۔ لیکن چونکہ ایک چوکس اور دوربین قوم کو ہر امکانی خطرہ کے لئے تیاررہنا چاہئے۔ اس لئے اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ پنجاب کی تقسیم وقتی طور پر ناگزیر ہو جائے ( وقتی طور پر اس لئے کہ بہر حال اسلام نے جس کے لئے حقیقۃً وطن کی کوئی قید نہیں تمام اکنافِ عالم میں پھیلنا ہے اور پنجاب اور ہندوستان پر ہی بس نہیں۔ بلکہ ساری دنیا کو ہی تبلیغ و تلقین کے ذریعہ اپنے اثر کے نیچے لانا ہے) تو اس کے لئے بھی پہلے سے ضروری تفاصیل سوچ رکھنی چاہئیں۔ اورمیں انشاء اللہ اپنے اگلے مضمون میں اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
.6وما توفیقی الا باﷲ العلی العظیم.6۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
اگر خدا نخواستہ پنجاب تقسیم ہو تو۔۔۔؟
.6میں نے اپنے گزشتہ مضمون میںجس کا عنوانــ’’ مسلمانوں کا مطالبۂ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال‘‘ تھا،بتایا تھاکہ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کسی جہت سے بھی معقول یا منصفانہ مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک محض مصنوعی اور بناوٹی مطالبہ ہے جس کی تہہ میں صرف مسلمانوں کی مخالفت اور عداوت کا جذبہ کام کر رہا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن میں نے ساتھ ہی کہا تھا کہ مسلمانوں کو ایک چوکس اور دوربین قوم کی طرح ہر امکانی خطرہ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ سو میں ذیل کی سطور میں بتا نا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں ،پنجاب کی تقسیم نا گزیر ہو جائے اور یونین سنٹر کے ساتھ کسی رنگ کا الحاق بھی پاکستان کے نظریہ کے خلاف سمجھا جائے تو ایسی مجبوری کی صورت میں جسے مسلمانوں کے سیاسی لیڈرتسلیم کر لیں ہمیں بعض شرائط کو بہرحال ملحوظ رکھناچاہئے۔ اور یہ شرائط میری رائے میں مندرجہ ذیل اصولوں پر طے ہو نی ضروری ہیں:.6-
.6(.6۱.6) تقسیم بہر حال آبادی کی بناء پر ہونی چاہئے نہ کہ جائیداد وغیرہ کی بناپرجس کی غیرمعقولیت بلکہ بر بریت کے متعلق میں اپنے مضمون ’خالصہ ہوشیار باش.6‘.6میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوںاور آبادی کے اعداد وشمار پنجاب کی آخری مردم شماری سے لئے جائیں جو .6۱۹۴۱.6ء میں ہوئی تھی۔ گو یہ امر یقینی ہے کہ .6۱۹۴۱.6ء کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی آبادی اور بھی بڑھ چکی ہو گی۔ جیسا کے وہ خدا کے فضل سے ہر دس سالہ مردم شماری میں برابر بڑھتی ہے۔ لیکن بہرحال اس کے بغیر چارہ نہیں کہ آخری باقاعدہ مردم شماری پر بنیاد رکھی جائے۔ اور آج کل کی امن شکن فضاء تو نئی مردم شماری کی متحمل بھی نہیں ہے ۔سوائے اس کے کہ مجبوری کی حالت میں تقسیم پنجاب کے متعلق کسی قوم کی رائے عامہ معلوم کرنے کی غرض سے محدود مردم شماری کی ضرورت پیش آ جائے۔ ایسی مردم شماری کی ضرورت جسے انگریزی میں ریفرنڈم کہتے ہیں۔ بعض خاص خاص علاقوں میں اچھوت اقوام یا ہندوستانی عیسائیوں کے متعلق پیش آسکتی ہے اور ایسی ضرورت پیش آنے پر اس کا انتظام کرنا ہو گا۔
.6(.6۲.6) جہاں تک تقسیم کے عملی پہلو کا تعلق ہے پنجاب کے جن علاقوں میں مسلمانوں کو آبا دی کے لحاظ سے کامل اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں مسلمان باقی ساری قوموں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہیں۔(یعنی کمشنری ملتان اور کمشنری راولپنڈی اور کمشنری لاہور کے اضلاع لاہور اور سیالکوٹ اور گوجرانوالہ اور شیخوپورہ اور گورداسپور وغیرہ ) وہ سب بلا استثناء اور بشمول ان علاقوں کے جن کا ذکر ذیل کے فقرات نمبری .6۳.6، .6۴.6، .6۵.6 میں آتا ہے مسلم پنجاب میں شامل رکھے جائیں۔ خواہ اس کے لئے موجودہ ضلعوں کی حدود توڑنی پڑیں۔ کیونکہ اگر صوبوں کی حدود تو ڑی جاسکتی ہیں تو اسی قسم کے دلائل کے ماتحت ضلعوں کی حدود کیوں نہیں توڑی جاسکتیں۔ بہر حال مسلم اکثریت والے علاقے خواہ وہ کمشنریوں یا ضلعوں کی صورت میں ہوں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یا کہ تحصیلوں کی صورت میں (مثلاً ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ۔ اور ضلع جالندھر کی تحصیل ہائے جالندھر ونکودراور ضلع فیروزپور کی تحصیل ہائے فیروز پور وزیرہ اور ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل ہائے فیروزپورجھرکادلوح وغیرہ جن میں مسلمانوں کی کامل اکثریت ہے) وہ لازما ًمسلم پنجاب کا حصہ رہنے چاہئیں۔
.6(.6۳.6) جن علاقوں میں مسلمانوں کو کامل اکثریت تو حاصل نہیں مگر ہندوئوں اور سکھوں کے مجموعہ کے مقابل پر قطعی اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں مل کر بھی مسلمانوں کی تعداد سے کم رہتی ہیں(مثلاً ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور ود سوہاوغیرہ جن میں مسلمانوں کی تعداد ہندوئوںاور سکھوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے) وہ بھی لازمََا مسلم پنجاب میں شامل رہنے چاہئیں کیونکہ انہیں علیحدہ کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں اور اگر عیسائیوں اور اچھوت اقوام کی رائے کے متعلق شبہ ہو تو وہ حصول رائے عامہ کے طریق پر معلوم کی جاسکتی ہے۔
.6(.6۴.6) جن علاقوں میں مسلمانوں کو ہندو ئوں اور سکھوں کے مجموعے کے مقابل پر تو اکثریت حاصل نہیں مگر وہ انفرادی لحاظ سے ہر دوسری قوم سے زیادہ ہیں۔ یعنی وہ علیحدہ علیحدہ صورت میں ہندوئوں سے بھی زیادہ ہیں اور سکھوں سے بھی زیادہ ہیں اور علاقہ کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں(مثلاً ضلع امرتسر کی تحصیل امرتسر اور ضلع لدھیانہ کی تحصیل لدھیانہ اور ضلع فیروز پور کی تحصیل ہائے فاضلکا اور مکتیسر اور ضلع انبالہ کی تحصیل انبالہ وغیرہ جن میں مسلمان انفرادی طور پر سب سے بڑی پارٹی ہیں) ایسے علاقہ بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں۔ کیونکہ جب خود اپنے قول کے مطابق بھی ہندواور سکھ دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان دو قوموں کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جو کل کو ٹوٹ بھی سکتا ہے، ان علاقوں کی سب سے بڑی پارٹی( یعنی مسلمانوں) کے مستقل حقوق کو پامال کیا جائے۔ بے شک مغرب کی جمہوری حکومتوں میں بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ دو اقلیت والی پارٹیاں باہم سمجھو تہ کر کے ایک نسبتی طور پر اکثریت والی پارٹی پر غالب آ جاتی ہیں مگر وہاں ہر پارٹی کی بنیاد محض سیاسی مسلک پر ہوا کرتی ہے مگر یہاں قوموں کی تقسیم تہذیب و تمدن پر مبنی ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں ایک محض عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے اکثریت والی پارٹی کے بنیادی حقوق کو قربان کیا جائے اور سیاسی سمجھوتہ بھی ایسا جو گذشتہ چند سال کے عرصہ میں کئی دفعہ رنگ بدل چکا ہے اور بہر حال ایسی صورت میں بھی حسب ضرورت حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔
.6(.6۵.6) جن علاقوں میں مسلمان ہر جہت سے اقلیت میں ہیں، ان کے متعلق اگر پنجاب کی تقسیم اٹل ہو جائے اور ذمہ دار مسلمان لیڈروں کو اسے قبول کرنا پڑے تو وقتی طورپر مجبوری ہے۔ لیکن ایسے علاقوں کے بھی وہ حصے جن میں ایسی نہروں کے ہیڈ اور ایسی بجلی کے پاور سٹیشن یا ایسے مرکزی تجارتی شہر وغیرہ واقع ہوں جن کا تعلق مخصوص طور پر ان مسلم اکثریت والے علاقوں کے ساتھ ہے جو فقرہ نمبر .6۲.6، .6۳.6، .6۴.6 میں مذکور ہیں تویہ مقامات بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں۔ کیونکہ ظا ہر ہے کہ ایسے مقامات کی حیثیت محض مقامی نہیں ہے بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ غیر منفک طور پر وابستہ ہے۔ جنہیں وہ آبپاشی یا بجلی کی تقسیم یا تجارتی کاروبار کے تعلق کے لحاظ سے ایک یونٹ کی صورت میں فائدہ پہنچا رہے ہیںاور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان دو قسم کے علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا سارے صوبہ کی اقتصادی زندگی کو بلا امتیاز قوم و ملت تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض تقسیم کا یہ اصول ہمیشہ کے لئے قابلِ تسلیم نہ ہو تو کم از کم ایک بڑے لمبے عرصہ کے لئے ضرور واجب العمل ہونا چاہئے تا اس عرصہ میں مغربی اور وسطی پنجاب اپنا علیحدہ انتظام کر سکے اور چونکہ تقسیم پنجاب کا سوال ہندوئوں اور سکھوں کا اٹھا یا ہوا ہے، اس لئے بہر حال اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی لازما ًانہی پر پڑنی چاہئے۔
.6اوپر کے بیان کردہ اصول کے کے ما تحت امرتسر کا شہر جو ویسے بھی فقرہ نمبر .6۴.6 کے مطابق مسلم پنجاب کا حصہ بنتا ہے، مغربی اور وسطی پنجاب کے ساتھ شامل رہنا چاہئے کیونکہ وہ اس علاقہ کا خاص تجارتی مرکز ہے جس کا تمام کاروبار ان علاقوں کے ساتھ وابستہ ہے جو فقرہ نمبر .6۲.6، .6۳.6 ، .6۴.6 میں مذکور ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ امرتسر سکھوں کا مقدس شہر ہے ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو ان کی بعض مقدس یادگاروں سے محروم کرنے کی تدبیر نہیں کی جا رہی؟ اور امرتسر شہر میں تو جہاں سکھ صرف اٹھا ون ہزار یعنی پندرہ فیصدی ہیں۔ وہاں مسلمان ایک لاکھ تراسی ہزار یعنی سینتالیس فی صدی سے بھی زیادہ ہیں اور دربار صاحب کا انتظام بہر حال سکھوں کے ہاتھ میں رہے گا اور اسلامی تعلیم کے ماتحت دربار صاحب ہمارے واسطے بھی ایک قابل احترام جگہ ہو گی۔ یہ وہ چند موٹے موٹے اصول ہیں جن کے ماتحت پنجاب کی تقسیم اگر وہ خدا نخواستہ بالکل ہی ناگزیر ہو جائے عمل میں آنی چاہئے اور گو میں دانستہ زیادہ تشریحات میں نہیں گیا لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر تقسیم پنجاب کی صورت میں مسلمان ان اصولوں پر پختگی سے جم جائیں اور حکومت پر بھی ان اصولوں کی معقولیت پوری طرح واضح کر دیں تو اول تو سکھ صاحبان ( ہندو اس سوال میں سکھوں کے تابع ہے) ان اصولوں کے نتائج پر غو ر کر کے خود بخود پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ ترک کر دیں گے اور اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے مطالبہ پر قائم بھی رہیں گے تو انہیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خالی برتن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمیںیاد رکھنا چاہئے کہ سیاست ایک ایسا فن ہے جس میں حق و انصا ف کے علاوہ ہوشیاری اور موقع شناسی اور حسنِ تدبیر کی بھی ضرورت ہو ا کرتی ہے۔ اور بعض اوقات جب کہ کسی قوم کی کورانہ روش براہ راست سمجھوتہ کا دروازہ بند کر دے ،پہلو کی طرف سے ہو کر آنا کامیابی کا رستہ کھول دیتا ہے۔ہماری غرض بہرحال مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ملک کی بہتری ہے اور ہم دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم ضد میں آکر ایک ایسے فیصلہ پر تلی ہوئی ہے،جو نہ ہمارے لئے مفید ہے اور نہ اس کے لئے اور ملک کا بھی اس میں سرا سر نقصان ہے۔تو اس صورت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کے پیش کردہ مطالبہ کا تجزیہ کر کے اور اپنے معقول مطالبات کو وسیع صورت دے کر ایسی قوم پر واضح کیا جائے کہ وہ ضد و عناد کی رو میں بہہ کر صرف دوسروں کا ہی نقصان نہیں کر رہی بلکہ خود اپنی تباہی کا بیج بھی بو رہی ہے۔ کاش وہ سمجھے!
.6 .6بالآخر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل بعض ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے اعدادو شمار درست نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سے فرضی اور جعلی نام داخل ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے ممکن ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت دکھائی گئی ہے وہاں حقیقتًا ان کی اکثریت نہ ہو اور محض مردم شماری کی غلطی کی وجہ سے ایسا نظر آتا ہو۔ مگر یہ اعتراض غلط ہونے کے علاوہ موجودہ بحث کے لحاظ سے بالکل لا تعلق بھی ہے۔ اگر بالفرض مردم شماری کے اعداد و شمار میں کوئی غلطی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غلطی مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ ساری قوموں کے لئے یکساں ہے۔ بلکہ چونکہ شمارکنندے زیادہ تر ہندو اور سکھ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان میں مسلمانوں کی نسبت تعلیم زیادہ عام ہے۔ اس لئے لازمََا اس غلطی یا جعلسازی کا اثر بھی سکھوں اور ہندوئوں کے حق میں ہی زیادہ ہوا ہو گا۔علاوہ ازیں جب کہ .6۱۹۴۱.6ء میں بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کی آبادی کی عمومی نسبت قریبََا وہی ہے۔ جو کہ.6۱۹۳۹.6ء میں تھی تو پھر یہ شبہ کرنا بالکل باطل ہے کہ مسلمانوں نے .6۱۹۴۱.6ء میں جعلسازی کے ذریعہ اپنی آبادی کو بڑھا لیا ہے۔ مثلاً اگر لاہور شہر میں .6۱۹۳۱.6ء میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور .6۱۹۴۱.6ء میں بھی اسی سے ملتی جلتی اکثریت ہے۔ یا مثلاً اگر امرتسر شہر میں .6۱۹۳۱.6ء میں ہندو اور سکھ مل کر مسلمانوں سے زیادہ تھے اور .6۱۹۴۱.6ء میں بھی قریباً اسی نسبت سے زیادہ ہیں وغیر ذالک۔ تو اس صورت میں یہ دعو یٰ کرنا کہ مسلمانوں کی مردم شماری میں جعلی اندراجات شامل ہیں، ایک افسوس ناک بہتان سے کم نہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں ہر مسلمان کی دیانتداری کا ضامن ہوں۔بے اصول لوگ کم و بیش ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر کون بہادر ایسا آگے آسکتا ہے جو ہر ہندو اور ہر سکھ کی دیانتداری کا ضامن ہو سکے۔ بلکہ اگر کسی غیر جانب دار شخص سے پوچھا جائے جو ہندوستان کے حالات کا تجربہ رکھتا ہو تو وہ ایسے کاموں میں ہندوئوں اور سکھوں کو بہت زیادہ ہوشیار اور چوکس بتائے گا ۔پھر خدا تم لوگوں کو عقل دے۔ آبادیوں میں کمی بیشی صرف شمار کنندوں کی غلطی یا جعل سازی کی وجہ سے ہی نہیں ہوا کرتی بلکہ بسا اوقات طبعی طریق سے بھی ہوا کرتی ہے۔ جس کے ساتھ بعض اوقات الٰہی تقدیر بھی شامل ہوجاتی ہے کہ دنیا کے وسیع مفاد کے پیشِ نظر خدا کسی قوم کی نسل کو بڑھاتا اور کسی کو گھٹاتا ہے۔ پس صرف بحث کی خاطر بات کو لمبا کرنے کی غرض سے بناوٹی عذر نہ بنائو اور خدا سے ڈرو کہ یہ وقت ہندوستانیوں کی سیاست کے امتحان کا ہی وقت نہیں بلکہ ان کے اخلاق کے امتحان کا بھی وقت ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)






.6
.6
جماعت احمدیہ کی طرف سے وزیر اعظم برطانیہ کے نام ضروری تار
پنجاب کی تقسیم خلافِ عقل اور خلافِ انصاف ہے
.6
.6چیف سیکر ٹری(ناظر اعلیٰ) جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مسٹر اٹیلی وزیر اعظم برطانیہ اور مسڑ چرچل لیڈر حزبِ مخالف کے نام مندرجہ ذیل تار بھجوائی گئی ہے۔ جس کی نقل مسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ دہلی اور نیٹ پریس اور ایسو سی ایٹڈ پریس لاہور کو بھی ارسال کی جا رہی ہے۔ تار کے الفاظ یہ ہیں:.6-
.6’’احمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اوراس کاطبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے۔ اگرصوبوں یعنی قدرتی یونٹوں کو اس لئے تقسیم کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے تو اس صورت میں یو پی کے .6۸۴.6 لاکھ اور بہار کے .6۴۷.6 لاکھ اور مدراس کے .6۳۹.6 لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں۔ یہ دلیل کہ ان صوبوں کی مسلمان آبادیاں کسی حصہ میں بھی اکثریت نہیں رکھتیں۔ ایک بالکل غیر متعلق اور غیر موثر دلیل ہے۔ کیونکہ اگر تقسیم کو قدرتی یونٹوں کے اصول کی بجائے اقلیتوں کی حفاظت کے اصول پر مبنی قرار دینا ہے تو پھر اس وقت ان مسلمان آبادیوں کا منتشر صورت میں پایا جانا ہر گز انصاف کے رستہ میں روک نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس وجہ سے ان کا حفاظت کا حق اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ سکھوں کو بھی جیسا کہ ان کا اہل الرائے اور سنجیدہ طبقہ خیال کرتا ہے، پنجاب کی تقسیم سے قطعََا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ بلکہ وہ اپنی آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اور دو نوں حصوں میں اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیتے ہیں۔ یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائیداد کی بناء پر ہونی چاہئے۔ نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پرفوقیت بھی حاصل ہو تی ہے ، جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
پنجاب کی تقسیم قریباً نا گزیر ہے
مگر ہمارا فرض ہے کہ آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھیں
بائونڈری کمیشن کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت
.6
.6اس وقت ہیٹ سٹروک کی وجہ سے میری طبیعت علیل ہے مگر وقت ایسا نازک ہے اور ایسا تنگ کہ توقف کی گنجائش نہیں۔ اس لئے عبارت آرائی اور تفصیل میں جانے کے بغیر چند ضروری امور سپر د قلم کرتا ہوں۔ .6وما توفیقی الا باﷲ العظیم
.6 .6حکومت برطانیہ کے جدید اعلان مجریہ .6۳.6 جون .6۱۹۴۷.6 ء کے ذریعہ قارئین کو پتہ لگ چکا ہو گا کہ مسلم لیگ کے اس بنیادی مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں میں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کو دوسرے علاقوں سے علیحدہ ہو کر اپنی مستقل حکومت قائم کرنے کا حق ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس قسم کے دلائل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے متعلق غیر مسلموں کا مطالبہ بھی اصولََا تسلیم کر لیا گیا ہے۔البتہ اس بارے میں آخری فیصلہ خود پنجاب اور بنگال کی اسمبلیوں کے ممبروں پر چھوڑا گیا ہے۔ جو .6۱۹۴۱.6ء کی مردم شماری کے مطابق مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے ضلعوں کے نمائندوں کی صورت میں دو علیحدہ علیحدہ گروپوں میں بیٹھ کر کثرت رائے سے فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل رہنا چاہتے ہیں۔ یا کہ مجوزہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ اور اگر ان دو گروپوں میں سے ایک گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور دوسرے گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میںشریک رہنا چاہتے ہیں۔ تو پھر حکومت برطانیہ اس فیصلہ کو تسلیم کر کے ان صوبوں کو تقسیم کر دے گی۔
.6اس اصول کے مطابق پنچاب کے سترہ ضلعے (بشمول ضلع گورداسپور)، مسلم اکثریت والے ضلعے قرار دئیے گئے ہیں۔اور باقی .6۱۲.6 ضلعے ( بشمول ضلع امرتسر) غیر مسلم اکثریت والے ضلعے قرار پائے ہیں۔ سترہ ضلعوں کا فیصلہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ہو گا مگر بارہ ضلعوں کا فیصلہ ابھی تک یقینی نہیں ہے۔ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ اس وقت تک ان کی کثرت رائے کا رجحان ہندوستان کے ساتھ رہنے اور پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہے۔اور سوائے اس کے کہ آئندہ چند دن کے اندر اندر ان کی رائے میں کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے،بظاہر یہ فیصلہ قائم رہے گا۔جو سترہ ضلعوں کے گروپ کے لئے واجب التسلیم ہو گا۔یہ بارہ ضلعے جن کے فیصلہ پر اس وقت پنجاب کی قسمت کا دارومدار ہے یہ ہیں۔
(۱) کمشنری لاہور میں سے ضلع امرتسر
(۲) کمشنری جالندہر سالم۔ یعنی ضلع کانگڑہ ۔ضلع ہوشیار پور۔ ضلع جالندھر۔ ضلع لدھیانہ اور ضلع فیروز پور
(۳) کمشنری انبالہ سالم یعنی ضلع شملہ ، ضلع انبالہ، ضلع رہتک، ضلع کرنال، ضلع حصار اور ضلع گوڑ گائوں۔
ان بارہ ضلعوں کے ممبرانِ اسمبلی کی تقسیم اس طرح ہے:-
ہندو ۲۳ ممبر(اکیس کانگرسی اور دو یو نی نسٹٖ)
اچھوت ۸ ممبر (پانچ کانگرسی اور تین یونی نسٹ)
سکھ ۱۹ ممبر ( آٹھ کانگرسی اور گیارہ پنتھک)
مسلمان ۲۲ ممبر ( سب مسلم لیگی)
دیگر x
کل تعدد ۷۲ ممبر
.6 پس یہ وہ .6۷۲.6 ممبر ہیں جو آئندہ چند دنوں کے اندر اندر پنجاب کی تقسیم یا بالفاظِ دیگر پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اس نقشے سے ظاہر ہے کہ اگر .6۲۲.6 مسلمان ممبروں کے ساتھ .6۱۵.6 غیر مسلم ممبر شامل ہو جائیں تو وہ پنجاب کی تقسیم کو روک سکتے ہیںاور سارا پنجاب پاکستان کے ساتھ شامل رہ سکتا ہے۔ ہندوئوںمیں سے تو بظاہر کسی ممبر کا ادھر سے ٹوٹ کر ادھر آنا قریباً قریباً ناممکن ہے ۔ کیونکہ .6پنجاب کی تقسیم کا سوال در اصل ہندوئوں کا ہی اٹھا یا ہوا ہے اور اس میں ان کا ( بلکہ حقیقتاً صرف انہی کا) .6بھاری فائدہ ہے ۔ پس ان سے اس معاملہ میںانصاف کی امید رکھنا فضول ہے۔ البتہ اگر سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے سراسر نقصان دہ ہے ۔ کیونکہ سکھ اس طرح اپنی تعداد کو دو حصوں میں بانٹ کر اور پھر دونوں حصوں میں ایک چھوٹی سی اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو سخت کمزور کر لیتے ہیں اور اچھو ت بالکل ہندوئوں کے رحم پر جا پڑتے ہیں۔ جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے ان کا گلا دبا رکھا ہے ۔ تو بعید نہیں کہ یہ دونوں قومیں یا ان کا ایک معقول حصہ مسلمانوں کے ساتھ آملے اور اس طرح اگر خدا کو منظور ہو تو آخری وقت میں پنجاب کی تقسیم رک جائے۔
.6یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس وقت سکھوں کا ایک بہت کافی حصہ پنجاب کی موجودہ مجوزہ تقسیم سے قطعی طور پر غیر مطمئن ہے۔ بلکہ اس معاملہ میں اپنے لیڈروں سے بھی بدظن ہو رہا ہے۔جنہوں نے سوچے سمجھے بغیر ہندئووں کی .6 انگیخت .6میں آکر خود اپنے ہاتھ سے اپنے پائوں پر کلہاڑا چلایا ہے۔ پس اگر پنجاب کے سکھ ممبران اسمبلی کو عمومًا اور مشرقی پنجاب کے سکھ ممبرانِ اسمبلی کو خصوصًا دلائل اور محبت کے ساتھ سمجھایا جائے تو عجب نہیں کہ یہ قوم آخری رائے دینے کے وقت جس کے لئے .6۲۳.6 جون کا دن مقرر ہے، اپنے نفع نقصان کو سمجھ لے اور مسلمانوں کے ساتھ ایک با عزت سمجھوتہ کے لئے تیار ہو جائے۔ سکھوں کو سمجھانے کے لئے خاکسار کے مضمون ’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کی اشاعت بھی مفید ہو سکتی ہے۔جو اردو ، انگریزی اور گورمکھی تینوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مدلل طور پر اس سوال کے سارے پہلوئوں پر مفصّل بحث کی گئی ہے۔ مگر بہر حال یہ ضروری ہے کہ طعن یا دلآ زاری کے رنگ میں کوئی بات نہ کی جائے بلکہ محبت اور ہمدردی کے طریق پر دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے۔ اور سمجھدار اور بااثر اور سنجیدہ مسلمانوں کے مختلف وفد مشرقی پنجاب کے .6۱۲.6 ضلعوں کے سکھ ممبروں سے مل کر دلی ہمدردی کے رنگ میں بات کریں۔’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کا مضمون دفتر نشر و اشاعت قادیان سے مل سکتا ہے اور انشاء اللہ مطالبہ ہونے پر مفت بھجوا دیا جائے گا۔
.6یہ بات بھی سکھ صاحبان کو سمجھائی جائے کہ سترہ اور بارہ ضلعوں کی موجودہ تقسیم محض عارضی ہے۔ اور حدود کا آخری فیصلہ باونڈری کمیشن نے کرنا ہے اور یہ بات قریبََا قریبََا یقینی ہے کہ اگر انصاف سے کام لیا گیا تو متعدد ایسی تحصیلیں جو اس وقت عارضی طور پر مشرقی پنجاب میں شمار کر لی گئی ہیں،آخری صورت میں لازماً مغربی پنجاب کا حصہ بنیںگی کیونکہ ان میں مسلمانوں کی کثرت ہے۔ مثلا ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ اور ضلع جالندھر کی تحصیل جالندھر اور تحصیل نکودر اور ضلع فیروزپور کی تحصیل فیروزپوراور تحصیل زیرہ جن میں مسلمانوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے،مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں شامل ہو جائیں گی۔ کیونکہ وہ اس حصہ کے ساتھ ملتی جلتی اور اسی کے تسلسل میں واقع ہیں اور گو اس کے مقابل پر ممکن ہے کہ مغربی پنجاب کی بھی ایک آدھ تحصیل مسلمانوں کے علاقے سے نکل جائے۔ مگر اس تبدیلی کا نتیجہ لازما ًاس کے سوا اورکچھ نہیں ہو سکتاکہ پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھوں کی تقسیم ان .6کے لئے موجودہ تقسیم سے بھی زیادہ نقصان دہ صورت اختیار کر لے گی۔ اور وہ قریباً قریباً دو بالکل برابر .6حصوں میں تقسیم ہو کر اور آدھے آدھے دھڑ کے دو بت بن کر رہ جائیں گے اور ہندو اکثریت کا حصہ بننے کے جو خطرات آہستہ آہستہ میٹھی چھری کی صورت میں ظاہر ہوں گے وہ مزید بر آں ہیں۔ بہر حال .6سکھ صاحبان کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کا کام نہایت ضروری ہے اور فورا شروع ہو جانا چاہئے۔
.6اس کے علاوہ اس نازک وقت میں مسلما نوں کو جو دوسرا ضروری کام کرنا چاہیئے،وہ باونڈری کمیشن یعنی سرحدی کمیشن کے لئے تیاری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک بھاری دفتری نوعیت کا کام ہے ۔ جو انتہائی محنت اور احتیاط چاہتا ہے اور موٹے طور پر مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے:.6-
.6(.6۱.6) اس تعلق میں سب سے مقدم کام یہ ہے کہ مردم شماری کا ریکارڈ دیکھ کر ( یاد رہے کہ عام مطبوعہ ریکارڈ کے علاوہ ضلعوں کے صدر مقاموں میںتفصیلی مردم شماری کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے) ایسے اعداد و شمار تیار کرائے جائیں کہ جن سے پنجاب کے مسلم اکثریت والے علاقے(خواہ یہ اکثریت کتنی ہی قلیل ہو ۔کیونکہ جمہوری اصول کے ماتحت ہر اکثریت لازماً اکثریت ہی سمجھی جاتی ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی خفیف ہواور کسی صورت میں بھی اس کے اثر کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا) اور اس غرض کے لئے ضلعوں کی حدود کو نظر انداز کر کے تفصیلی ریکارڈ تیار کیا جائے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقہ مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہو سکے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ اعداد و شمار کے نتیجہ کو نمایاں صورت میں ظاہر کر نے کے لئے مناسب نقشے بھی تیار کرائے جائیں۔ جن میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کو علیحدہ علیحدہ رنگوں میںدکھایا جائے۔تا ان کے مطالعہ سے فوراً صحیح صورت ذہن میں آسکے ۔ ایسے نقشے ضلعوں کے جرنیلی نقشوں کی بناء پر محکمہ سروے یا محکمہ نہر کے پنشن یافتہ مسلمان یا قومی سکولوں کے جغرافیہ کے استاد صاحبان یا ہوشیار پٹواری اور گرد اور صاحبان آسانی سے بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے علاقے جن میں مسلمان کامل اکثریت میں تو نہیں مگر ہندوئوں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہیں۔ انہیں بھی اعدادو شمار نکالنے کے بعد علیحدہ صورت میں نوٹ کر لینا چاہئے (مثلا ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہوشیار پور اور تحصیل دسوہہ جن میں مسلمانوں کی آبادی ہندوئوں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہے) اور باونڈری کمیشن پر زور دینا چاہئے کہ ایسے علاقے بھی مغربی پنجاب کے ساتھ شامل رکھے جائیں ۔ کیونکہ مسلمانوں کے خلاف مو جودہ عارضی سمجھوتہ صرف ہندوئوں اور سکھوں تک محدود ہے ۔اور کوئی وجہ نہیں کہ دوسری قوموں مثلاً ہندوستانی عیسائیوں یا اچھوتوں کو سیاسی حقوق کے تصفیہ میں خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف شمار کیا جائے۔ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ عیسائیوں اور اچھوتوں کے متعلق ریفرنڈم کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس امکانی صورت کے لئے بھی متعلقہ علاقوں کے مسلمانوں کو تیار رہنا چاہئے۔
.6(.6۲.6) باونڈری کمیشن کے لئے مسلمانوں کی طرف سے اس تیاری کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل جمع کئے جائیں۔ جن سے ثابت ہو کہ بجلی کے جو پا ور سٹیشن یا نہروں کے جو ہیڈ مغربی پنجاب کے حصوں کو نفع پہنچا رہے ہیں ۔ اور دراصل انہی کی غرض سے بنے ہیں ،وہ لازماً مغربی پنجاب کے ساتھ رہنے چاہئیں۔ کیونکہ ان کی حیثیت کسی طرح بھی مقامی نہیں ہے ۔ بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے جن کو وہ فائدہ پہنچا رہے۔ ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ انہیں مغربی پنجاب سے جدا کیا جائے۔
.6(.6۳.6) اسی طرح جو دریا مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان حدِ فاصل بنیں گے۔ یا ایک حکومت کے علاقے میںسے نکل کر دوسری حکومت کے علاقے میں داخل ہوں گے، ان کے متعلق بھی باونڈری کمیشن کے ذریعہ یہ فیصلہ کرانا ہو گاکہ ایسے دریائوں کا انتظام کس علاقے کے ساتھ وابستہ رہنا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دریائوں کاکنٹرول قوموں کی ترقی پر بھاری اثر رکھتا ہے۔
.6(.6۴.6) پھر بعض ریلوے لائنوں اور بڑی سڑکوں کا سوال بھی باونڈری کمیشن کے سامنے آئے گا کہ وہ مغربی اور مشرقی پنجاب میں سے کس کے حصہ میں ڈالی جائیں ۔ یا ان کے متعلق دونوں ملکوں میں کس قسم کا سمجھوتہ ہونا ضروی ہے
.6یہ سارے کام اور اسی قسم کے اور بہت سے کام جو باونڈری کمیشن کے سامنے آئیں گے اور جس کا معین علم کمیشن کے حلقہ کار کا اعلان ہونے پر حاصل ہو گا۔بہت بھاری تیاری چاہتے ہیں اور ضروری ہے کہ ابھی سے(کیونکہ اس کے لئے وقت بہت تنگ ہے) لیگ کی مرکزی کمیٹی کی امداد کے لئے ضلع امرتسرکی تحصیل اجنالہ اور کمشنری جالندہر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل اور ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل فیروز پور جھرکا ۔ اور تحصیل نوح میں سمجھدار مسلمانوں کی کمیٹیاں بن جائیں۔ جو مردم شماری کے ضروری اعداد و شمار تیار کرائیں۔ اور پھر بڑی احتیاط کے ساتھ ان اعداد و شمار کی وضاحت کے لئے مناسب نقشے بنائے جائیں۔ اور اس سارے ریکارڈ پر مسلمان اس طرح حاوی ہو جائیں کہ ہوشیار وکیلوں کی طرح باونڈری کمیشن کے سامنے مسکت صورت میں اپنا کیس پیش کر سکیں۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اگر کسی طرح ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل نوح اور تحصیل فیروز پور جھرکا کا تعلق دہلی سے قائم کر کے ایک مسلم اکثریت والا علاقہ بن سکے تو نہایت مفید ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ تحصیلوں کی حدود کو قائم رکھا جائے۔اسی طرح ممکن ہے کہ اجنالہ تحصیل کی طرف سے ایک ملتا جلتا مسلم اکثریت کا علاقہ امرتسر تک پہنچایا جا سکے اور یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ جو کم از کم باہمی سمجھوتہ کے لئے ایک عمدہ دروازہ کھول دے گی۔
.6اسی طرح بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں کے متعلق بھی یہ اعداد و شمار مہیا کرنے ہوں گے کہ ان کا فائدہ مسلم اور غیر مسلم علاقے کو کس کس نسبت سے پہنچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ الغرض باؤنڈری کمیشن کے اختیارات بہت وسیع ہوں گے۔ اور اس کے مقابل پر تیاری کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ تیاری تفصیلی رنگ میں دفتری نوعیت کی ہونی چاہئے۔ جس کے لئے تمام تحصیلوں کے مسلمانوں کی فوری توجہ درکارہے اور بعض صورتوں میں بین الاقوامی قانون اور بعض مشہور باؤنڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی ضروری ہو گا۔ ورنہ سستی اور غفلت سے ایسا نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی تلافی بعد میں ناممکن ہو گی۔
.6حکومت برطانیہ کے اعلان مجریہ .6۲.6؍ جون .6۱۹۴۷.6 ء کے فقرہ نمبر .6۹.6 میں یہ الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں کہ علاقوں کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دوسرے حالات .6(other factors).6کو بھی دیکھا جائے گا۔ یہ الفاظ ایسے مبہم بلکہ ایسے غیر مصلحتانہ ہیں کہ معلوم نہیں کہ حکومت برطانیہ نے ان الفاظ کے استعمال میں کیا حکمت سوچی ہے۔ کیونکہ درحقیقت یہ الفاظ ہندوستان کی مختلف قوموں کی طر ف سے بھاری فتنہ کا ذریعہ بنائے جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر آبادی کی کثرت اور قلت کے علاوہ دوسرے حالات کو بھی زیرغور لانا ہے تو اس کے نتیجے میں ہر قوم کی طرف سے ایسے مطالبات کادروازہ کھل جائے گاکہ جسے بند کرنا یا جس کے متعلق تصفیہ کرنا نہ حکومت برطانیہ کے بس کی بات رہے گی۔ اور نہ وائسرائے کی اور نہ کسی اور کی۔ اور ممکن ہے کہ صرف اسی نقطہ پر آکر ہی سب کیا کرایا کھیل بگڑ جائے۔ بہت سے ہندو اور سکھ ’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ ان الفاظ سے ایک طرف تو جائیدادوں اور اموال کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اور دوسری طرف مقدس مقامات کی طرف اشارہ پایا جا تا ہے۔ ممکن ہے یہ قیاس درست ہو۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بس صرف یہی مراد ہے اور اس کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں؟
.6بہر حال جہاں تک اموال اور جائیدادوں کا سوال ہے ۔ میں اپنے مضمون’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ میں اصولی طور پر بیان کر چکا ہوں کہ کوئی مسلمان بلکہ کوئی انصاف پسند شخص ایک منٹ کے لئے بھی یہ بات منظور نہیں کر سکتاکہ انسانی مساوات کے اصول کو ترک کر کے قوموں کے حقوق کو مال و دولت کے ترازو میں تولا جائے ۔ اور جو چیز صدیوں کی سازش کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں سے چھینی گئی ہے،اسی پر آئندہ حقوق کی بنیاد رکھی جائے۔ ہندوئوں نے ایک وسیع پروگرام کے ذریعہ جس کی تفصیل ایک تلخ کہانی ہے، مسلمانوں کو ہر قسم کی اقتصادی ترقی سے محروم کر رکھا تھا۔یہ عجیب کرشمۂ سیاست ہے کہ اب ان کی اسی محرومی اور اپنی اسی غاصبانہ برتری کو آئندہ حقوق کے تصفیہ کی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ یہ کوشش شرافت اور دیانت اور انسانیت کے لئے قابل شرم ہے اور مسلمان بھی اس پھندے میں دو بارہ پھنسنے کے لئے تیار نہیں۔
.6’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ کی ایک تشریح مقدس مقامات سے تعلق رکھتی ہے۔ سو کیا ہندو اور سکھ اس بات کے لئے تیار ہو ں گے کہ جس ترازو سے تول کر وہ اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں ۔ اسی ترازو سے وہ مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق دینے کے لئے تیار ہوں۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ مقدس مقامات صرف ہندوئوں سکھوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمان اس معاملے میں زیادہ باوقار رہے ہیں۔ اورانہوں نے حقیقی مقدس مقامات کے علاوہ دوسرے مقامات کو یونہی فرضی تقدس عطاء نہیں کیا اور بہرحال کون انصاف پسند شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دلی اور آگرہ اور اجمیر وغیرہ کو جو چوٹی کے مسلمان تاجداروں کی بے مثل یادگاروں سے مزین ہیں، مسلمانوں کے نزدیک حقیقی تقدس حاصل ہے۔ پس اگر اس دروازے کو کھولو گے تو پھر ہر قوم اس میں داخل ہونے کا حق رکھے گی۔ سوائے اس کے کہ مسلمان اس بات میں ضرور دوسروں سے پیچھے رہیں گے کہ ان میں بمقابلہ بعض دوسری قوموں کے جو بعض اوقات رستے کے ایک درخت کو مقدس بنا لیتی ہیں ، صرف وہی مقدس مقامات سمجھے جاتے ہیں جو حقیقتاً مقدس ہیں۔ اسی طرح ’’دوسرے حالات ‘‘ کے الفاظ کی اور بھی بہت سی تشریحیں ہو سکتی ہیں۔بہر حال یہ الفاظ اپنے اندر فتنہ کا بیج رکھتے ہیںاور یا تو انہیں ترک کر دینا چاہئے اور یا ان کی بحث میں جانے سے پہلے ساری قوموں کے مشورے کے ساتھ ان الفاظ کی تشریح ہو جانی چاہئے۔ اور میرے خیال میںایسی تشریح میں چار امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:.6-
.6(اول) یہ کہ معین طور پر فیصلہ کر دیا جائے کہ دوسرے حالات( .6other factors.6)میں یہ یہ باتیں شامل سمجھی جائیں گی
.6(دوم) یہ کہ جو باتیں ’’دوسرے حالات‘‘ کی تشریح میں شامل سمجھی جائیں۔ ان کی بھی آگے تشریح کر دی جائے۔ مثلا ً اگر مقدس مقامات کو ’’ دوسرے حالات ‘‘ میں شامل کیا جائے۔تو پھر اس بات کی بھی تشریح ضروری ہو گی کہ مقدس مقامات سے مراد کیا ہے؟ آیا ہر وہ جگہ جسے کوئی قوم اپنے منہ سے مقدس کہتی ہو مقدس ہو جائے گی یا کہ صرف مسلمہ اور معروف مذہبی بانیوں یا ممتاز قومی بادشاہوں کی خاص یادگاریں مقدس قرار پائیں گی۔
.6(سوم) یہ کہ جو تشریح بھی’’دوسرے حالات‘‘ کی قرار پائے وہ سب قوموں پر ایک جیسی صورت میں چسپاں کی جاوے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا بھی سب کے لئے یکساں دروازہ کھلا ہو۔
.6(چہارم) یہ کہ اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے کہ اگر ایک مقام یعنی ایک شہر کو دو قوموںکے نزدیک تقدس حاصل ہو تو اس صورت میں کس قوم کو کس اصول پر ترجیح دی جائے گی۔
.6مقدس مقامات کے تعلق میں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے مقامات کی حفاظت صرف اس طریق سے ہی ممکن نہیں ہے کہ انہیں اس قوم کی حکومت کا حصہ بنا دیا جائے جو انہیں مقدس خیال کرتی ہے۔ بلکہ دوسری حکومت کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسے مقامات کی تولیت اور نگرانی کے لئے متعلقہ قوم کی ایک کمیٹی مقرر ہو سکتی ہے آخر انگریزوں کے زمانہ میں بھی ہندوستان میں ہندوئوں ، سکھوںاور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کا انتظام موجود تھا۔ اسی قسم کا بلکہ اس سے بہترانتظام اب بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال ’’دوسرے حالات ‘‘ کے الفاظ کی تشریح اور تیاری کا کام بھی ایک نہایت اہم اور نازک کام ہے۔ جس کے لئے مسلمانوں کو ابھی سے تیاری کرنی چاہئے۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ اس وقت تین قسم کے کاموں کے لئے فوری اور مکمل تیاری کی ضرورت ہے :.6-
.6(.6۱.6) بارہ مشرقی ضلعوں کے سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے ہر جہت سے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔ اور ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور ان کے ساتھ مل کر رہیں۔
.6(.6۲.6) بائونڈری کمیشن کے لئے پوری پوری تیاری کی جائے۔ جس کے لئے مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار تیار کرنے کے علاوہ بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں اور دریائوں اور رستوں اور ریلوے لائنوں وغیرہ کی تقسیم یا انتظام کے اصول کا بھی گہرا مطالعہ کرنا ہو گا۔ اور یہ مطالعہ ایسا ہونا چاہئے کہ جس طرح عدالت میں ایک ہو شیار وکیل بحث کے لئے یا ایک ہوشیار گواہ فریق مخالف کی جرح کے لئے تیار ہو کر جاتا ہے۔ بعض صورتوں میںتشریح و توضیح کی غرض سے انٹر نیشنل لاء یعنی بین الاقوامی قانون کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہو گا جو مرکزی شہروںکے وکیل لوگ بہتر کر سکتے ہیں اسی طرح یورپ وغیرہ کے بعض مشہور باونڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی بہت مفید ہو سکتا ہے
.6(.6۳.6) حکومت برطانیہ کے اعلان نے جو ’’دوسرے حالات‘‘ کے غور کا دروازہ کھول دیا ہے، اسے یا تو بند کرانے کی کوشش کی جائے اور یا اوپر کی تشریح کے مطابق اس کے متعلق بھی پوری پوری تیاری کی جائے۔ مؤخر الذکر صورت میں بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہرو ں کے ہیڈ وغیرہ کے سوال کو بھی اسی ضمن میں شامل کیا جاسکتا ہے گو ویسے وہ آبادی کے اصول کے ماتحت بھی آجاتا ہے۔
.6بالآخر میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان خدا کے فضل سے ایک روحانی جماعت ہیںاور ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ جہاںخدا نے کامیابی کے لئے دنیا میں مادی اور ظاہری اسباب پیدا کئے ہیں، وہاں اس نے بعض روحانی اسباب بھی پیدا کئے ہیں ،جو گو ظاہرمیں نظر نہیں آتے مگر دراصل مادی اور ظاہری اسباب سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ پس ان نازک ایام میں ہمیں خدائے علیم و قدیر سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل و رحم سے ایسے اسباب مہیّافرما دے کہ جو نہ صرف مسلمانوںکے لئے بلکہ ہمارے ملک اور ہمارے صوبہ کے لئے بھی بہتری اور ترقی کا موجب ہوں اور کوئی ہرج نہیں کہ اس بارے میںسنجیدہ مزاج اور مذہبی میلان رکھنے والے سکھ ممبران کو بھی تحریک کی جائے کہ وہ بھی خالی الذہن ہو کر اور دل سے ہر قسم کے خیالات نکال کر اپنے طریق پر خدا سے دعا کریں کہ وہ انہیں ایسے رستے کی طرف ہدایت دے جس میں ان کی قوم اور ملک کا حقیقی فائدہ ہو۔ سکھوں کا قدم اس وقت پریشانی کے عالم میں ڈگمگا رہا ہے اور وہ حقیقۃً دو گورکھ دھندوں کے درمیان معلق کھڑے ہیں۔ پس ضرورت ہے کہ انہیں نہ صرف دلائل اور ہمدردی کے ذریعہ تقویت پہنچائی جائے بلکہ روحانی کارخانہ کی طرف توجہ دلا کر بھی ان کے قلوب کو اُس بالا ہستی کی طرف کھینچا جائے جو سارے علموں اور ساری طاقتوں اور ساری ترقیوں کا سرچشمہ ہے۔ .6واخر دعوٰناان الحمد ﷲ رب العٰلمین ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍ جون ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
’’شیر پنجاب‘‘ کی تنقیدکا مخلصانہ جواب
سکھ صاحبان آخر کب آنکھیں کھولیں گے؟
.6میرے مضمون’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کے جواب میں جو اردو اور انگریزی اور گورمکھی تینوںزبانوںمیں شائع ہو کر پنجاب کے طول و عرض میںوسیع طور پر پھیلایا جا چکا ہے۔ لاہور کے مشہور سکھ اخبار ’’شیر پنجاب‘‘ نے اپنی اشاعت مورخہ پندرہ جون .6۱۹۴۷.6ء کے صفحہ .6۷.6، صفحہ .6۸.6 پر ایک ایڈیٹوریل میں مفصل جرح کی ہے۔ معقول اور باوقار جرح ایک قابل قدر چیز ہے جس سے ملک میں صحیح خیالات کے قائم کرنے اور پھیلانے میں بھاری مدد ملتی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ’’شیر پنجاب‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے اپنی جرح میں کوئی نازیبا طریق اختیار نہیں کیا۔ اور ملک کی موجودہ ناگوار فضا کے باوجود اپنی جرح کو معقولیت اور شائستگی کی حد کے اندر اندر رکھا ہے۔ جو یقینا ایک قابل تعریف کوشش اور آیندہ کے لئے ایک خوشکن علامت ہے۔ بہر حال ’’شیر پنجاب‘‘ کی جرح کے جواب میں اس جگہ چند اصولی باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
.6میرا مضمون ’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ موجودہ سکھ سیاست کے تمام پہلوئوں سے تعلق رکھتا تھا اور اس مضمون میں سکھ صاحبان سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے ملک کی بلکہ خود اپنی قوم کی بہتری کے لئے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھائیں اور پنجاب کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان خود سکھوں کو ہی پہنچنے والا ہے۔جو دو حصوں میں بٹ کر اور دونوں حصوں میں ایک تیسرے درجہ کی کمزور اقلیت رہتے ہوئے اپنی موجودہ طاقت کو بہت بری طرح کھو دیں گے۔ اس وقت پنجاب کے سکھ ( اور سکھ عملًا پنجا ب ہی میں محدود ہیں) ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک مضبوط اور متحد طاقت ہیں۔ جس کا سارا زور ایک نقطہ پر جمع ہے۔ مگر پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے بعد وہ قریباً دو برابر حصوں میں بٹ جائیں گے۔ اور دونوں میں تیسرے درجہ کی اقلیت رہیں گے۔ جس کے ایک حصہ میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔ اور نمبر .6۲.6 پر ہندو ہوں گے۔ اور دوسرے حصہ میں ہندوئوں کا غلبہ ہو گا۔ اور نمبر .6۲.6 پر مسلمان ہو ں گے۔کیا دنیا کی کوئی سمجھدار قوم سیاست کے کسی تسلیم شدہ اصول کے مطابق اس قسم کی حالت پر تسلی پاسکتی ہے۔ مانا کہ اس وقت عارضی طور پر ہندؤوں کے ساتھ سکھوں کا سمجھوتہ ہے۔مگر قطع نظر اس کے کہ اس سمجھوتہ کی تفصیل کیا ہے۔ اور وہ سکھوں کے لئے کہاں تک مفید ہے۔ کیا اس قسم کے وقتی اور عارضی سمجھوتہ کی بناء پر جو کل کو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جس طرح کہ آج سے پہلے کئی دفعہ ٹوٹ چکا ہے۔ سکھ قوم کے دوربین سیاست دان اپنی قوم کی متحد ہ طاقت کو دوحصوں میں بانٹ کر تباہ کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں؟ اور پھر اگر کسی دوسری قوم کے ساتھ سمجھوتہ ہی کرنا ہے تو کیوں نہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے۔ جن کے ساتھ ہندوئوں کے مقابلہ پر سکھوں کا مذہبی عقائد اور تہذیب و تمدن اور اقتصادی وسائل اور فوجی روایات میں بھاری اشتراک پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے اس مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں لکھی تھیں۔ جن کی اس جگہ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
.6میرے اس ہمدردانہ مشورہ کے جواب میں ایڈیٹر صاحب ’’شیر پنجاب‘‘ نے اور باتوں کو نظر انداز کر کے دو باتوں پر خاص زور دیا ہے۔ اوّل یہ کہ موجودہ فسادات میں مسلمانوں نے جو ظلم سکھوں پر کئے ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتہ کے منافی ہیں اور سکھوں کے دلوں میں اعتماد پیدا نہیں ہونے دیتے۔ دوسرے یہ کہ بے شک پنجاب کی موجودہ تقسیم میں سکھوں کا بھاری نقصان ہے مگران کے لئے موجودہ حالات میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس نقصان کو برداشت کر کے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کے مظالم کے خلاف وقتی طور پر محفوظ کر لیں۔ اور پھر بقول ایڈیٹر صاحب ’’شیرپنجاب‘‘ گویا زیادہ منظم ہو کر اور زیادہ طاقت پیدا کر کے اپنے کھوئے ہوئے حقو ق کو واپس حاصل کریں۔ ٹھیک جس طرح پیغمبر اسلام نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں پناہ لی تھی۔ اور پھر اپنی طاقت کو زیادہ مضبوط کر کے مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا۔ اسی ضمن میں شیر پنجاب نے احمدیہ جماعت کو وہ مظالم بھی یاد دلائے ہیں۔ جو مسلمانوں کی طرف سے ان پر کئے جاتے رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ لطیفہ کے طور پریہ طعنہ بھی دیا ہے کہ تم لوگ بے شک اپنے زخموں کو کسی قدر پرانا ہونے کی وجہ سے بھول چکے ہو ںگے مگر ہم لوگ اپنے تازہ اور گہرے زخم ایسی جلدی نہیں بھلا سکتے ۔
.6شیر پنجاب کے ان دو اعتراضوں کے اندر جو درد و الم کا عنصر جھلک رہا ہے، اس کے ساتھ ہر شریف انسان اصولا ًہمدردی محسوس کرے گا۔ مگر افسوس ہے کہ گہرے اور ٹھنڈے مطالعہ کے نتیجہ میں ان اعتراضوں کی منطق ہرگز قابلِ قبول نہیں سمجھی جا سکتی۔ اوراگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب میرے .6مضمون کا ذرا زیادہ غور سے مطالعہ فرماتے تو اس کے اندر ہی کم از کم ان کے پہلے اعتراض کا کافی و شافی .6جواب موجود تھا۔ مثلا ًاپنے مضمون میں مسلمانوں کے مظالم کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ:
.6’’کہا جا سکتاہے کہ گذشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے،اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا۔ میں گذشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا۔ مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور زیادہ ذمہ داری لازماً پہل کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔ اور اس قسم کے فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں۔ جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو،بعد کے شعلے بلا امتیار سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں۔ میں اس دعوٰی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی۔ لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی۔ آخر امرتسر میں چوک پراگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں۔ اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندوئوں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے۔ اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار کے ہزارہا کمزور اور بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت برپا نہیں کی تھی جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی اور نہ کوئی اور علاقہ۔ پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں۔ اور اگر ملک کی بہتری کی خاطر ’’ معاف کر دو اور بھول جائو‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے واسطے اچھے اخلاق کے مظاہرے کا رستہ کھلا ہے.6 .6۔۔۔۔۔۔انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرأت کے ساتھ اور عفو اور درگذرکے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک دلدل ہے۔ جس میں سے اگر ایک پائوں پر زور دے کر اسے باہر نکالا جائے۔ تودوسرا پائوں اور بھی گہرا دھس جاتا ہے۔ پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو۔ تو مسلمان کوبہار اور گڑھ مکتیسر کو بھلانا ہو گا۔ اور ہندو اور سکھ کو نواکھلی اور پنجاب کو بھلانا ہو گا۔‘‘
.6مکرم ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب ! کیا میرے اس نوٹ میں آپ کے اعتراض کا اصولی جواب پہلے سے نہیں آچکا؟ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ اس سوال کو وقتی غصہ کے جذبات سے بالا ہو کر ملک و قوم کی مستقل بہتری کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔کسی نے پرانے زمانے میں کہا تھا کہ:
.6’’ میں مدہوش فلپس کے خلاف ہوش مند فلپس کے سامنے اپیل کرتا ہوں۔‘‘
.6پس افراد کی طرح قوموں پر بھی مختلف حالتیں آسکتی ہیں۔ ایک وہ جبکہ وہ کسی وقت غصہ اور انتقام کے جوش میں مدہوش ہو کر اپنے نفع اور نقصان کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو۔ اور دوسرے وہ جبکہ وہ اپنے غصہ کو قابو میں لا کر ہرچیز کو اپنے اصلی رنگ میں دیکھ سکے۔اور اپنے نفع اور نقصان کا صحیح جائزہ لے سکنے کے قابل ہو۔ میں اپنے صوبہ کی نامور خالصہ قوم اور اپنے ملک کی مٹی سے پیدا شدہ سکھ جاتی سے درد بھری اپیل کرتا ہوںکہ وقت بہت نازک ہے اور بہت تنگ۔وہ اپنے وقتی جوشوں اورغصوں کو قابو میں لا کر اپنی قوم اور اپنے ملک کے مستقل فائدہ کی طرف نظر ڈالیں ۔ اور اس فطری جو ہر کو بیدار کر کے جو ہمارے آسمانی آقا نے ہر فرد اور ہر قوم میں پیدا کر رکھا ہے،ہوش اور دوربینی کی آنکھوں سے اپنے نفع نقصان کو دیکھیں۔ بہت سی مشترک باتوں کی وجہ سے جن کی تفصیل میں اپنے سابقہ مضمون میں بیان کر چکا ہوں۔ سکھوں اور مسلمانوں کا جوڑ ایک طبعی پیوند کا رنگ رکھتا ہے۔ جو کبھی بھی سکھوں اور ہندوئوں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے مشترک مفاد کی تشریح کرنے کے بعد لکھا تھا کہ:.6-
.6’’ دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتے۔ اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کے درخت کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگریہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہو گا، آ م کاپیوند بہر حال آم کے ساتھ ہی ملے گا۔دو لڑنے والے بھائی لڑائی کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں۔ مگردو غیر آدمی جن کے اندر بہت کم چیزوں میں اشتراک ہو عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے۔‘‘
.6 .6پنجاب میں بے شمار ایسے گائوں موجود ہیں۔ ( اور اگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب قادیان تشریف لائیں تو میں انہیں خود اپنے علاقہ میں یہ نظارہ دکھا سکتا ہوں) کہ جہاں ایک ہی گائوں کی دو پتیوں میں سے ایک میں سکھ جاٹ آباد ہیں اور دوسری میں مسلمان جاٹ اور دونوں ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم اور ایک ہی گوت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے رہنے سہنے کا طریق بھی بالکل ایک ہے۔ گویا دورشتہ دار ہیں جو پہلو بہ پہلو بس رہے ہیں اور وہ سارے معاملات میں باہم مشورہ اور ملاپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اس قسم کے نظارے ایک خالی فلسفہ نہیں ہیں۔ بلکہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کا حصہ ہیں۔ اور کوئی غیر متعصب سمجھدار شخص انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بے شک رہتک وغیرہ میں ہندو جا ٹ بھی آباد ہیں۔ جو نسلاً تو ضرور جاٹ ہیں مگر مذہبا ًسکھ نہیں بلکہ ہندو ہیں لیکن جو ناطہ اور جو جوڑ وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور مسلمان جاٹوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو فطری جوڑ وسطی پنجاب کے غیر جاٹ مسلمان زمینداروں اور سکھ جاٹوں کے درمیان نظر آتا ہے وہ بھی وسطی پنجاب کے سکھ جا ٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نظرنہیں آتا۔ یہ وہ ٹھوس حقائق ہیںجن کا کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کر سکتا۔
.6اس کے علاوہ میں نے لکھا تھا کہ اپنی قوم کا جو حصہ سکھ لوگ مغربی اور وسطی پنجاب میں چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ان کی قوم کا بہترین حصہ ہے جسے انگریزی میں کسی قوم کافلاور(.6Flower.6)یعنی پھول کہتے ہیں۔ قد و قامت میں ، جسمانی طاقت میں، دماغی طاقت میں، طبیعت کی فیاضی میں، تعلیم میں، زمیندارہ میں، تجارت میں یہ حصہ سکھ قوم کی چوٹی کا حصہ ہے۔ اسے پیچھے چھوڑ کر اور مشرقی پنجاب میں اپنے آدھے دھڑ کے لئے ہندو ئوں کا سہارا لے کر جن کے ساتھ ان کا کوئی طبعی جوڑ نہیں۔ سکھ لوگ کیا کریں گے؟ میں تکلف سے نہیں کہتابلکہ دل کی گہرائیوں سے کہتا ہوں کہ وقت نازک ہے اور بہت نازک ہے۔ اے خالصہ قوم آنکھیں کھول کہ تیرے سر پر سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاںبدشگونی کے انداز میں منڈلا رہی ہیں۔باقی رہا شیر پنجاب کا یہ کہنا کہ پیغمبر اسلام نے بھی مکہ سے ہجرت کی تھی اوربالآخر مدینہ میں طاقت پکڑ کر مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا اور اب پنجاب کے سکھ لوگ بھی یہی کریں گے کہ مشرقی پنجاب میں طاقت پکڑ کر پھر مغربی پنجاب پر غلبہ پالیں گے ۔سو یہ ایک محض دل کوخوش کرنے والی بات ہے جس کے اندر کچھ حقیقت نہیں۔ کیونکہ اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت عوام الناس کے ایک طبقہ کے شور کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ مکہ کی ساری قوم ( مرد۔ عورت۔ بوڑھے۔جوان۔ لیڈر اور .6عوام) آپ کے خلاف ایک متحدہ سازش کے نتیجہ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور ہر شخص اس باقاعدہ اعلان .6میں شامل تھاکہ ہم اسلام اور اس کے بانی کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ مگر یہاں کے فسادات (قطع نظر اس کے کہ پہل کس کی طر ف سے ہوئی ہے)صرف عوام کے ایک قلیل طبقہ تک محدود رہے ہیں۔ جس کے خلاف مسلمان لیڈروں کا ہر حصہ کھلے اور واضح الفاظ میں نفرت اور بیزاری کا اظہار کر چکاہے۔بلکہ اس اظہار کے ساتھ ساتھ وہ سکھ قوم کو تعاون اور صلح کی دعوت بھی دے رہا ہے۔ ان حالات میں سکھوں کی موجودہ حالت کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے حالات پر قیاس کرنا جبکہ خود مکہ کے لیڈر اسلام کی مخالفت میں آگے آگے تھے، ایک ایسا قیاس ہے جس کے ساتھ کوئی .6غیرمتعصب شخص جوٹھنڈے دل سے اس سوال پر نظرڈالنے کے لئے تیار ہو کبھی اتفاق نہیں کر سکتا۔ .6عوام الناس کے ایک محدود طبقہ کے وقتی اور محدود ابال کو جو وہ بھی دراصل ملک کے ایک اور حصہ کی صدائے بازگشت تھی اس منظم اور مسلسل اور وسیع اور ساری قوم پر پھیلی ہوئی مخالفت پر قیاس کرنا جس سے مقدس بانی ٔاسلام کو دوچارہونا پڑا ،میرے لئے انتہائی حیرت کا موجب ہے۔ مگر میں اسے بھی .6اُس عارضی اعصابی ہیجان کا ایک حصہ قرار دیتا ہوں۔ جس میں اس وقت سکھ قوم اپنے وقتی .6جوش و خروش کے عالم میں مبتلا ہے۔
.6اسی سوال کے دوران میں ’’شیر پنجاب‘‘ نے جو یہ بات لکھی ہے کہ بانی ٔاسلام کی طرح سکھ قوم بھی کسی دن اپنے وطن کو فتح کرے گی۔ سو ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب مجھے معاف کریں۔ یہ خیال بھی ایک ہوائی خواہش بلکہ ایک ناپاک خواہش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ جب دو قومیں ایک باقاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے الگ ہو رہی ہیں۔تو پھر ابھی سے ایک قوم کا دوسری قوم .6کے متعلق یہ اعلان کرنا کہ وہ اسے بعد میں فتح کر کے مغلوب کر لے گی۔ ہر گز دیانت داری اور شرافت .6کا اعلان نہیں سمجھا جا سکتا۔ آنحضرت ﷺ کفار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر کے الگ نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے مظالم سے تنگ آکر اور ان کی وسیع سازشوں کا شکار ہو کر اپنے شہر سے خفیہ طور پر نکل جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ بلکہ حقیقۃً اپنے شہر سے نکالے گئے تھے۔ اور اس کے بعد بھی دشمن قوم نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ لیکن یہاں ایک قوم ایک تیسری قوم کے ذریعہ سے جو اس وقت ملک میںحاکم ہے۔ ایک دوسری قوم کے ساتھ ایک باقاعدہ سیاسی سمجھوتہ کے نتیجہ میں خو د اپنے آپ کو دو حصوں میں بانٹ کر علیحدہ کر رہی ہے۔ بے شک ایسی صورت میں بھی ان کے لئے اپنے عہدوپیمان کو توڑ کر ہر وقت مسلمان علاقہ پر حملہ آور ہونے کا دروازہ کھلا ہے مگر کیا ایسے ظالمانہ اور غدارانہ حملہ کو خداکی طرف سے وہ برکت حاصل ہو سکتی ہے۔ جو اسلام کے مقدس بانی کو ہر جہت سے مظلوم ہونے کی صورت میں حاصل ہوئی۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ پھر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب اس بات کو بھی بھولے ہوئے ہیں۔ کہ آنحضرت .6ﷺ.6خدا کے ایک نبی تھے۔ اور اپنے نبیوں کے متعلق خدا کا یہ ازلی قانون ہے کہ جب تک وہ اپنے وطن میں امن کی حالت میں رہتے ہیںوہ ایک بیج کا حکم رکھتے ہیںجو زمین سے پھوٹ کر آہستہ آہستہ ایک بڑا درخت بنتا جاتا ہے۔ لیکن اگر ان کی قوم ان کو اپنے ظلموں کی چکی میں پیس کر وطن سے بے وطن ہونے پر مجبور کر دے ۔ تو پھر یہی بیج ایک ایٹم بمب کی صورت اختیار کر کے ان کے دشمنوںپر گرتا اور انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے ۔ اور اس تباہی کے نتیجہ میں ان کے واسطے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہو جاتا ہے۔ سکھوں میں بھی اگر خدا کے ہاتھ کابنایا ہوا کوئی ایٹم بمب موجود ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ورنہ سکھ صاحبان یاد رکھیں کہ وہ ہرگز نبیوں والے قانون کے نیچے نہیں آسکتے۔بلکہ اس صورت میں وہ ان عہد شکنوں کے قانون کے نیچے آئیں گے جو ایک باقاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں علیحدہ ہوتے ہیں۔اور پھر بھی دل میں بد عہدی کے خیالات رکھ کر حملہ کی سکیم سوچتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر سکھ لوگ علیحدہ ہو کر منظم اور مضبوط ہوں گے تو کیا مسلمان جو اس وقت بھی صرف مغربی پاکستان میں سکھوں سے قریبا ًآٹھ گنے زیادہ ہیں۔ اپنی موجودہ حالت میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ اور تعداد اورتنظیم اور طاقت اور سامان وغیرہ میں کوئی ترقی نہیں کریں گے ۔ مکرمی ایڈیٹر صاحب ! اپنے اس خیالی بہشت سے نکل کرذرا حقیقت کے میدان میں تشریف لایئے۔ تو آپ کو معلوم ہوگاکہ قوموں کی خوابیں محض دل کی خواہش کے نتیجہ میں پوری نہیں ہوا کرتیں۔ بلکہ یا تو ان کے پیچھے زبردست روحانی اسباب کارگر ہوا کرتے ہیں اور یا انہیں ایسے ٹھوس مادی اسباب کا سہارا حاصل ہوتا ہے۔ جن کی حقیقت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ آپ فرمائیں کہ آپ کے پاس ان دونوں قسم کے اسباب میں سے کونسی قسم کا سہارا موجود ہے؟ ہاں بے شک اس وقت ہندوئوں کا سہارا آپ کو ضرور حاصل ہے۔ مگر آپ خود سوچیں کہ یہ سہارا کب تک قائم رہ سکتا ہے۔ آخر آ پ کی اپنی قوم کی گزشتہ تاریخ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں یہ باتیں خالص ہمدردی کے خیال سے عرض کر رہا ہوں۔ انہیں بُرا نہ مانیں اور ٹھنڈے دل سے سوچ کر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
.6ایڈیٹر صاحب ’’شیر پنجاب‘‘ نے احمدیہ جماعت کو بھی ہوشیار کیا ہے کہ وہ ان ظلموں کو یاد کریں جو گزشتہ زمانہ میں مسلمان ان پر کرتے رہے ہیں۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں کاایک حصہ احمدیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور ہمیں اپنی تلخ آپ بیتی بھولی نہیںبلکہ وہ ہماری تاریخ .6کا ایک سنہری ورق ہے جس نے ہمیں قومی بیداری اور تنظیم کے بہت سے سچے سبق سکھائے ہیں مگر باوجود .6اس کے مجھے افسوس ہے کہ آپ کا یہ دائو ہم پر نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ہماری گھٹی میں یہ تعلیم پڑی ہوئی ہے کہ مخالفت میں فرد کی طرف نہ دیکھو بلکہ اصول کی طرف دیکھو۔ اور دشمنی انسانوں کے ساتھ بھی نہ رکھو۔ بلکہ صرف برے خیالات کے ساتھ رکھو۔ کیونکہ کل کو یہی مخالف لوگ اچھے خیالات اختیار کر کے دوست بن سکتے ہیں۔ چنانچہ احمدیوں کا پچانوے فیصدی حصہ دوسرے مسلمانوں میں سے ہی نکل کر آیا ہے۔ پس اگر گزشتہ زمانہ میں کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اس وقت ہم اسکے ظلم کو حوالہ بخدا کر کے صرف یہ دیکھیں گے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے۔ اور افراد کے متعلق ہم بہر حال عفو اور رحم کے عنصر کو مقدم کریں گے۔ میرا یہ خیال آپ کے اعتراض کے جواب میں گھڑا نہیں گیا۔ بلکہ جب .6۱۹۳۹.6 ء میں میں نے سلسلہ احمدیہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی تو اس وقت بھی بعض غیر احمدی مسلما نوں کے مظالم کا ذکر کر کے احمدیوں کو نصیحت کی تھی کہ جب خدا انہیں طاقت عطا کر ے تو وہ اپنے گزرے ہوئے مخالفوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنی طبیعت میں غصہ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ عفو اور رحم سے کام لیں۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ تھے: .6-
.6’’ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں ۔ ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب تمہیں خدا دنیا میں طاقت دے۔ اور تم اپنے مخالفوںکاسر کچلنے کا موقع پائو۔اور تمارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو۔ تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینااور ہمارے اس کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تا لوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو اپنے مخالفوں کے سامنے دب کر رہے۔ اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کر دیا۔بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑنا کیونکہ وہی اس بات کو بہتر سمجھتا ہے کہ کہاں انتقام ہونا چاہئے اور کہاں عفو اور درگزر بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ظالموں کی اولادوں کو معاف کرنا اور ان سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے مقدس آقا نے یہی کہا ہے کہ
.6اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
.6کا خر کنند دعوائے حبِ پیمبر
.6بلکہ مسلمانوں پر ہی حصر نہیں۔ تم ہر قوم کے ساتھ عفو اور نرمی اور احسان کا سلوک کرنا اور ان کو اپنے اخلاق اور محبت کا شکاربنانا۔ کیونکہ تم دنیا میںخدا کی آخری جماعت ہو۔ اور جس قوم کو تم نے ٹھکرا دیا۔ اس کے لئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو گا۔ اے زمین اور اے آسمان گواہ رہو کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خدا کے سچے مسیح کی رحمت اور عفو کا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
.6کیا اس تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی شخص یا کسی قوم کی وقتی انگیخت مسلمانوں کے خلاف جن کے ساتھ ہمارا ایک شریعت اور ایک خاتم النبیین کا دائمی رشتہ قائم ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کسی قوم کے خلاف جس نے ہم پر کبھی کوئی ظلم کیاہو۔ ہمارے دلوں کو مستقل طور پر میلا کر سکتی یا ہمیں انصاف کے رستہ سے ہٹا سکتی ہے؟ گذشتہ کو جانے دو۔ فرض کرو کہ آئندہ بھی کسی قوم کا ہاتھ ہمارے خلاف ظلم اور تعدی کے رنگ میں اٹھتا ہے تو بے شک خدا اور قانون ہمیں خود حفاظتی کا حق دیتے ہیں مگر ہم کبھی بھی کسی فرد یا قوم کو اپنا مستقل دشمن نہیں سمجھ سکتے۔ اور دوسرے کی ہر نیک تبدیلی ہمیں اس کے مخلصانہ خیر مقدم کے لئے ہر وقت تیار پائے گی۔ پس مکرم ایڈیٹر صاحب ہمارے ظلموں کا قصہ تو آپ رہنے دیں۔ ظلم قوموں کو بنا یا کرتے ہیں بگاڑتے نہیں۔ ہاں آپ میرے مخلصانہ مشورہ پر غور کر کے اس بات کو ضرور سوچیں کہ پنجاب کی تقسیم سکھوں کو کیا دے رہی ہے۔ اور ان سے کیا لے رہی ہے۔ خدا کی دی ہوئی عقل کا ترازو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے وقتی جوش و خروش کو ذرا ٹھنڈا کر کے اس خدائی ترازو میں اپنے لین دین کا حساب تول جائیے۔ اور پھر انصاف سے کہئے کہ کیا پنجاب کی تقسیم آپ کی قوم کے لئے کسی جہت سے بھی نفع کا سودا ہے؟ اگر ہندو کے سہارے کا خیال ہے تو میری یہ بات لکھ لیں کہ یہ سہارا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے نتیجہ میں یا تو آپ اپنی آزاد ہستی کو کھو بیٹھیں گے۔ اور یا کچھ عرصہ کے بعد تنگ آکر اس سے جدا ہو جائیں گے۔
.6آخر ایک تاجر قوم جس کا اوڑھنابچھونا سب کاروباری اصول کے تارو پود سے تیار شدہ ہے۔ کب تک آپ کے سمجھوتہ کو بیاج کے بغیر رہنے دے گی۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اس بیاج کابیلنس شیٹ آج سے چند سال بعد جا کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آئے۔ ہم ہندوئوں کے خلاف نہیں۔ کیونکہ وہ بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں۔ مگر جہاں طبعی اور فطری جو ڑ کا سوال ہو۔ وہاں سچی بات کہنی پڑتی ہے۔
.6بالآخر آپ نے اپنے مضمون میں بعض ان مظالم کی بھیانک تصویر کھینچ کر دکھائی ہے۔ جو آپ کے خیال کے مطابق بعض مسلمانوں نے بعض سکھوں پر کئے ہیں ۔ مثلا آپ لکھتے ہیںکہ بعض جگہ سکھ بچوں کو ننگا کر کے انہیں دیکھا گیاکہ آیا وہ لڑکا ہیں یا لڑکی اور اگر لڑکا ہے تو مار دیا گیا۔ اور لڑکی ہوئی تو اسے اغواء کر لیا گیا۔ اگر آپ نے اس بات میں کوئی ایسی تحقیق کی ہے ۔ جو ایک غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیق کا رنگ رکھتی ہے۔تو میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ جانیں اور آپ کا ایمان۔ ہاں اصولی طور پر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ جو شخص بھی ظالم ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ اس کا فعل انتہائی نفرت اور انتہائی بیزاری کے قابل ہے۔ اور جو شخص بھی مظلوم ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ وہ ہماری دلی ہمدردی اورامداد کا مستحق ہے۔ ہمارے پیارے نبی فداہ نفسی نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ .6انصرا خاک ظالما او مظلوما۔۔ ۷.6 ’’یعنی اپنے بھائیوں کی امداد کرو۔ خواہ وہ ظالم ہوں یا مظلوم ہوں۔‘‘اور جب صحابہ ؓنے حیران ہو کر پوچھاکہ یا رسول اللہ ؐ مظلوم کی امداد تو ہم آپؐ سے ہمیشہ سنتے آتے ہیں مگر یہ ظالم کی امداد کے کیا معنی ہیں؟ تو آپؐ نے بے ساختہ فرمایا کہ ظالم کی امداد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روکو۔ اللہ اللہ! کیا ہی پیاری تعلیم ہے۔ جو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی مگر دنیا نے اس کی قدر کو نہ پہچانا ۔ اگر ہر قوم اس تعلیم پر کاربند ہوتو ساری دنیا ایک دن میں جنت کا نظارہ پیش کر سکتی ہے۔ پس مکرم ایڈیٹر صاحب! اگر کسی مسلمان نے ظلم کیا ہے تو ہمیں ایک منٹ کے لئے بھی اس بات میں تامل نہیں کہ اس کے ظلم سے نہ صرف دلی بیزاری کا اعلان کریںبلکہ جہا ں تک ہماری طاقت ہو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکیں۔ ہمارے امام نے موجودہ فسادات کے شروع میں ہی اپنی جماعت میں اعلان کر دیا تھاکہ اگر تم اپنے سامنے کوئی ظلم ہوتا دیکھو۔ تو قطع نظر اس کے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون تم فورًا ایک طرف مظلوم کی امداد کو پہنچو۔ اور دوسری طرف ظالم کے ہاتھ کو روکو،خواہ اس کوشش میں تمہیں اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑیں۔بس اس اصولی بات کے سوا میں اس معاملہ میں اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ مجھے ان واقعات کا علم نہیں۔ لیکن اگر وہ درست ہیں تو ضرور انتہائی افسوس اور انتہائی نفرت کے قابل ہے۔
.6آخر میں میں پھر اپنے سکھ ہم وطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوںکہ وہ وقتی غصہ کو دبا کر اور عارضی جوشوں کو ٹھنڈا کر کے اپنے مستقل مفاد کے لحاظ سے پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے متعلق غور کریں اور دیکھیں کہ یہ سکیم ان کے لئے کہاں تک مفید اور کہاں تک نقصان دہ ہے۔ یہ ایک فرد یاایک خاندان یا ایک قبیلہ کا سوال نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا سوال ہے۔ اور پھر یہ ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا دس بیس سال کا سوال نہیں بلکہ ہمیشگی کا سوال ہے۔ پس سوچو اور سمجھو اور پھر سوچو اور سمجھو اور پھر اس طریق کو اختیار کرو جو ایک طرف حق و انصاف پر مبنی ہو ۔ اور دوسری طرف آپ کی قوم کے لئے دائمی مضبوطی اور ترقی کا رستہ کھول دے۔ اور پھر آپ لوگ ایک خدا کو ماننے والے ہیں۔ اور اسے علیم و قدیر جانتے ہیں۔ اس تاریکی کے زمانہ میںدلی کرب و درد کے ساتھ خدا سے دعائیں بھی کریں کہ قبل اس کہ آخری فیصلہ کا وقت آئے۔ وہ اپنے فضل و رحم سے آ پ کے دلوں اور دماغوں میں وہ روشنی بھر دے جو ایک سچے اور بابرکت فیصلہ کے لئے ضروری ہے۔ ورنہ ہم تو ہر حال میں خدا کے بندے ہیں اور اس کے ہر فیصلہ پر راضی۔ گو جب تک خدا کا فیصلہ جاری نہیں ہوتا۔ ہم اس خواہش کے اظہار سے رک نہیں سکتے کہ کاش ہندوستان ایک رہ سکتا اور کاش پنجاب اب بھی ایک رہ سکے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰ ؍جون ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
پنجاب باونڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ
.6حکومت کی طرف سے پنجاب باونڈری کمیشن کے لئے تحقیقات کی بنیادی شرائط (ٹرمز آف ریفرنس) کا اعلان ذیل کے مختصر مگر جامع الفاظ میں کیاگیا ہے:.6-
.6کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پنجاب کے ہر دو حصوں کی سرحد کی .6تعیین.6 اس اصول پر کرے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقے ایک دوسرے سے ممتاز ہو کر اپنے اپنے حصہ کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اس عمل کے ضمن میں کمیشن دیگر حالات کا بھی خیال رکھے گا۔‘‘۔۔۔۸
.6ان الفاظ پر ایک سر سری نگاہ ڈالنے سے ہر پڑھنے والا بغیر کسی شک و شبہ کے اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ:(ا) کمیشن کے لئے لازمی قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کا دارومدار ان دو امورپر رکھے۔ اول مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین دوم دوسرے حالات (ب) یہ کہ’دوسرے حالات‘پر غور کا سوال کوئی مستقل اور بنیادی حیثیت نہیں رکھتا کہ اسے قوم وار آبادی کی قلت و کثرت کے اصول کے ساتھ ایک جیسا اہم اور متوازی اصل قرار دیا جائے۔ بلکہ اسے صرف ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ جیسا کہ کمیشن کی تحقیقات کی بنیادی شرائط کے اعلان کی عمومی عبارت اور ’’اس عمل کے ضمن میں‘‘کے میں اہم الفاظ سے ثابت ہے۔
.6(.6۳.6) پس صحیح طریق کار یہ ہے کہ پہلے آبادی کے لحاظ سے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین کی جائے۔ اور اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو اس تعیین کے نتیجہ میں ایسی خفیف سی تبدیلی کر کے جو قدرتی اور جغرافیائی پہلوئوں کے لحاظ سے لازمی سمجھی جائے مناسب ترمیم کر لی جائے۔
.6(.6۴.6) یہ بات کہ بہر صورت ’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ دولت اور جائیداد وغیرہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے۔ وائسرائے کے اس واضح اور غیر مبہم اعلان سے بھی ثابت ہے جو ا نہوں نے .6۴.6 جون کی پریس کانفرنس میں کیاتھا۔ چنانچہ اس کانفرنس میں وائسرائے صاحب نے کہاتھا کہ:.6-
.6’’ ملک معظم کی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی تقسیم کی حمائت کرے گی جو جائداد اور مال و دولت کے اصول پر کی جائے۔ خصوصاً موجودہ لیبر برطانوی حکومت سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی۔‘۔۔ ۹
.6(.6۵.6) جمہوریت کے بنیادی اصول بھی جو دنیا بھر میں مسلّم ہیں اس خیال کی پُر زور تردید کرتے ہیں کہ مال و دولت کے اصول پر ملکی تقسیم کی بنیادرکھی جائے۔ کیونکہ اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جائیدادوں کو انسانی جان پر فوقیت حاصل ہے، جو بالبداہت باطل ہے۔
.6(.6۶.6) انکم ٹیکس اور مال گزاری وغیرہ کا سوال بھی دراصل مال و دولت اورجائیداد کے سوال کی ایک فرع ہے۔ اور اس لئے وہ بھی انہی وجوہات کی بناء پر ناقابل توجہ سمجھا جانا چاہئے۔ جن کی بناء پر دولت اور جائیداد کا اصول قابل رد ّخیال سمجھا جا تاہے۔
.6(.6۷.6) اگر ’’دوسرے حالات‘‘ کے مفہوم میں مقدس مقامات اور قومی یادگاروں کا سوال شامل .6سمجھا جائے تو پھر ضروری ہے کہ اس پہلو کو مد نظر رکھنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ کس کس قسم کی قومی یادگاریں یا مقدس مقامات قابل لحاظ سمجھے جائیں گے اور یہ کہ کن کن قسم کے حالات میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہو گا۔ اور پھر اس اصولی فیصلہ کے بعد اس فیصلہ کو ساری قوموں پر یکساں چسپاں کیا جائے۔
.6(.6۸.6) مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا یونٹ مقرر کیا جائے جس کی بناء پر مسلمان اور ہندو سکھ اور دیگر اقوام کی آبادی کے اعدادو شمار معلوم کرکے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علیحدہ علیحدہ علاقے معین کئے جا سکیں
.6(.6۹.6) یہ کہ بظاہر مندرجہ ذیل یونٹوں میں سے کسی ایک کو یونٹ مقرر کیا جا سکتا ہے:.6-
(۱) گائوں یعنی ریوینیو اسٹیٹ۔
(ب) ذیل۔
(ج) حلقہ قانون گو۔
(د) تھانہ۔
(ذ)تحصیل
(ر) اور ضلع۔
.6ان چھ یونٹوں میں سے غالباً ضلع کا یونٹ خارج از بحث ہے۔ کیونکہ .6۳.6 جون کی برطانوی تجویز اسے خود ردّ کرتی ہے۔ کیونکہ اسی تجویز میں اضلاع کی عارضی تقسیم کا خاکہ تیار کرنے کے بعد صراحت کی گئی ہے کہ اس عارضی تقسیم کو بعد میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے نتیجہ میں بدل دیا جائے گا۔ پس کمیشن ضلع کے یونٹ کو چھوڑ کر باقی مذکورہ بالا پانچ یونٹوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے علاقوں کی تقسیم کرنے پر مجبور ہو گا۔ اور ان پانچ یونٹوں میں سے بھی اغلبًا کمیشن گائوں کے .6یونٹ کو نظر انداز کر دے گا کیونکہ اس یونٹ کے اختیار کرنے میں دونوں علاقوں کی درمیانی سرحد بے حد .6بے ترتیب ۔ کٹی پھٹی اور آپس میں الجھی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے مستقل خطرے اور فتنہ و فساد کا باعث بنی رہے گی۔ اس کے بعد باقی چار ( یعنی ذیل حلقہ قانونگو۔ تھانہ اور تحصیل) یونٹوں میں سے صحیح یونٹ کا انتخاب ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے واسطے کمیشن کو کافی غور کی ضرورت ہو گی۔ بادی النظر میں تحصیل کے یونٹ کا انتخاب بہت زیادہ موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ضلع سے چھوٹے یونٹوں میں سے تحصیل ہی ایک ایسایونٹ ہے۔ جس کی آبادی کے اعداد و شمارباقاعدہ طبع شدہ صورت میں موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں رد و بدل یا جعل سازی کے احتمال کی گنجائش نہیں سمجھی جاسکتی۔
.6(.6۱۰.6) برطانوی تجویز میں یہ امر بھی بالصراحت موجود ہے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علاقوں کی تعیین میں .6۱۹۴۱.6 ء کی مردم شماری کے اعدادو شمار ہر لحاظ سے آخری اور مستند تسلیم کئے جائیں گے ۔۱۰.6 .6پس ان اعداد و شمار کی صحت پر کسی فریق کو معترض ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ تضیع او قات کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ دعویٰ کہ .6۱۹۴۱.6 ء کی مردم شماری میں مسلما نوں نے اپنی تعداد کو ناجائز طور پر بڑھا کر دکھایا ہے۔ سراسر بے بنیاد اور خلاف عقل اور خلاف قیاس ہے۔ اگر اعدادو شمار میں کوئی ناجائز تصرف ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ تصرف تمام فرقوں کے اعدادو شمار میں ہوا ہو گا۔ خصوصا ہندو اور سکھوں کے اعدادو شمار میں ایسے ناجائز تصرف کا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ یہ لوگ خواندگی اور سیاسی بیداری میں مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کی بناء پر یہ گمان کرنا بعید از قیاس نہیں کہ اگر کوئی نا واجب تصرف ہوا ہے تو ان قوموں نے دوسروں کے مقابلہ پر سیاسی برتری حاصل کرنے کے خیال سے یقینا زیادہ جدو جہد کی ہو گی۔
.6(.6۱۱.6) ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف سیاسی سمجھوتہ صرف ہندوئوں اور سکھوں تک محدود ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آبادی کے اعداد و شمار معلوم کرنے میں’’ مسلم بمقابلہ غیر مسلم ‘‘ کے اصول کی بجائے’’ مسلم بمقابلہ ہندو وسکھ‘‘ کے اصول کے مطابق نظر ڈالی جائے۔ پس ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی آبادی ہندوئوں اور سکھوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہو۔ (مثلا ضلع ہوشیارپور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور اور دسوہہ۔وہاں باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو تمام غیر مسلمانوں کے مقابل پر مجموعی اکثریت حاصل نہ ہو۔ فیصلہ کا صحیح طریق یہ ہونا چاہئے کہ اچھوت اور عیسائی اقوام میں ریفرنڈم یعنی حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کر کے معلوم کیا جائے کہ یہ قومیںکس طرف شامل ہونا چاہتی ہیں۔
.6خدا کرے کہ کمیشن کو ایسے فیصلہ کی توفیق ملے جو ساری قوموں کے واسطے حق و انصاف کا فیصلہ ہو اور ملک میں امن و اتحاد کا موجب بنے۔ آمین ۔.6واﷲ خیر حافظا ًوناصراً.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ ؍جولائی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جان یا سامان
و عند الامتحان یُکرم المر ئُ اویُھانُ
.6ابتلا ء اور مصیبت کا زمانہ بھی ایک زلزلہ کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ جس طرح بسااوقات ایک بھاری زلزلہ میں زمین کا اندرونہ پھٹ کر ننگا ہو جاتا ہے، اسی طرح شدید مصائب کے دھکے میں بھی انسانی فطرت کی مخفی گہرائیاں عریاں ہو کر دنیا کے سامنے آجاتی ہیں۔اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ .6.6۔۔۱۱.6 یعنی جب آخری زمانہ میں دنیا پر شدید زلزلے آئیں گے جو گویا اس کی تاریخ میں یادگار بننے والے ہوں گے تو اس وقت زمین اپنے بوجھوں کو باہر نکال پھینکے گی۔ یعنی جو چیزیں اس کی گہرائیوں میں گویا چھپ کر بیٹھی ہوئی ہوں گی، وہ بھی اس وقت ابھر کر باہر آ جائیں گی اور اخفا کے پردے دور ہو جائیں گے۔ یہی حال مصائب اور امتحانوں کے وقت میں ہوتا ہے کہ انسانی قلوب کی مخفی حقیقتیں جن پر عام حالات میں سینکڑوں قسم کے پردے پڑے رہتے ہیں، مصائب کے وقت میں ننگی ہو کر باہر آ جاتی ہیں۔ تب انسانی آنکھ یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ بعض لوگ جو بظاہر بہادر اور ثابت قدم نظر آتے تھے وہ دراصل بزدل اور لرزہ بر اندام نکلتے ہیں اور کئی لوگ جو بظاہر کمزور اور رعشہ بر پا دکھائی دیتے تھے، وہ دراصل قوی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ثابت ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہی حال ہمارے موجودہ امتحا ن کے وقت میں ہوا ہے۔ نام لینے اچھے نہیں ہوتے اور امام کے سوا اس کا کسی کو حق بھی نہیں ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اس بھاری ابتلا ء کے وقت میں بعض لوگ جو بظا ہر نہایت پختہ نظر آتے تھے ، وہ بعض لحاظ سے متزلزل ہوتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وہاں کئی لوگ ایسے بھی نکلے جن کے متعلق کوئی خاص اعلیٰ خیال نہیں تھا مگر ابتلا ء کے وقت نے ان کو ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ ایک نہایت مضبوط چٹان ہیں۔ جنہیں کوئی آندھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی اور الحمد للہ کہ اکثر دوستوں نے بہت اچھا نمونہ دکھا یا ہے اور کمزور لوگوںکی تعداد نسبتاً بہت کم ثابت ہوئی ہے۔ مگر مجھے اس جگہ ایک خاص پہلو کا ذکر کرنا مقصود ہے جس کے متعلق ایک حصہ جماعت میں ناواقفی کی وجہ سے زیادہ غلط فہمی نظر آتی ہے اور بعض فتنہ پرداز اس غلط فہمی کو ہوا دے رہے ہیں۔ میری مراد اس اعتراض سے ہے جو بعض لوگوں کے دل میں پیداہوا ہے اور دوسروں کے دل میں پیدا کیا جا رہا ہے کہ جہاں قادیان سے نکلتے ہوئے بعض لوگ زیادہ سامان لے آئے ہیں۔ وہاں بعض دوسرے لوگوں کا بہت کم سامان آیا ہے اور بعض کا سامان تو قریبا بالکل ہی ضائع ہو گیا ہے اور گویا اس طرح بے انصافی اور لحاظ داری برتی گئی ہے۔ اس اعتراض کا جواب میں ناواقف دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کرتا ہوں۔
.6حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز قادیان سے .6۳۱.6 ؍اگست .6۱۹۴۷.6 کی دوپہر کو تشریف لائے تھے اور حضور نے اپنے پیچھے اس خاکسار کو امیر مقامی مقرر فرمایا اور میں نے .6۲۳.6؍ستمبر.6۱۹۴۷.6 ء تک ان فرائض کو جہاں تک اور جس رنگ میں بھی مجھ سے ممکن ہو سکا ادا کرنے کی .6کوشش کی۔ .6واستغفر اﷲ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ.6۔.6 .6میرے بعد یعنی جب میں حضرت صاحب .6کے حکم سے لاہور آ گیا تو مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے امیر مقامی مقرر ہوئے جو .6۱۴.6؍ اکتوبر .6۱۹۴۷.6 ء تک یہ فرائض انجام دیتے رہے اور پھر ان کے لاہور بلالئے جانے کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس امیر مقرر ہوئے جو اب تک قادیان میں امیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چونکہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گائوں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے ارد گرد خطرہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کر .6ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ مفسدہ پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت .6یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو برباد کرنا بھی شامل ہے۔ ( چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی اغواشدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک .6پ.6ہنچ.6 چکی تھی اور بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے) اس لئے ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوا دیا جائے اور اس کے لئے ہم قریباً مجنونانہ جدو جہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے۔ حتّٰی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے ارد گرد خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے( اور حکومت کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی باہر۔ گو حق یہ ہے کہ اس وقت سکھ جتھے اور حکومت گویا ایک معجون مرکب بنے ہوئے ہیں اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے) اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچائو کیونکہ ضائع شدہ .6جائیدادیں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے۔ مگر مومنوں کی ضائع شدہ جانیں جو گویا حضرت .6مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے تو اب مجھے بتائیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں کروں تو کیا کروں؟ مال کے مقابل پر بے شک قیمتی جان بچائی جا سکتی ہے اور مومن کی جان واقعی بہت بڑی چیز ہے مگر کیامیں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ و ناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اٹھائوں؟ حضرت صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھااور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ میں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹرک بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ( گو پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو نکالنا ہے) اور ادھر تم جس طرح بھی ہو ہر ٹرک میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچے لدوا کر انہیں جلد سے جلد باہر بھجوا دو اور جب عورتیں محفوظ ہو جائیںتو پھر باقی معاملہ جو ہماری طاقت سے باہر ہے۔ خدا پر چھوڑ دو۔ .6وَ لِلبَیتِ رَبٌّ سیَمْنَعُہُ۔۔۱۲
.6اب ٹرکوں کا حال یہ تھا کہ قادیان میں دو قسم کے ٹرک پہنچتے تھے۔ ایک وہ پرائیویٹ ٹرک جو بعض احمدی فوجی افسر اپنے اہل و عیال اور اپنے ذاتی سامان کو لے جانے کے لئے اپنے فوجی حق کی بنا پر حاصل کر کے قادیان لے جاتے تھے اور دوسرے وہ جماعتی ٹرک جو جماعتی کوشش سے جماعتی انتظام کے ماتحت حکومت کے حکم سے قادیان بھجوائے جاتے تھے۔ جہاں تک پہلی قسم کے ٹرکوں کا سوال ہے ظاہر ہے کہ یہ ایک پرائیویٹ چیز تھی اور مجھے یا کسی اور کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں تھا۔ ان کے متعلق صدر صاحبان محلہ جات قادیان کو میری ہدایت صرف اس قدر تھی کہ اس بات کی نگرانی رکھیںکہ ان پرائیویٹ ٹرکوں کے اندر بیٹھ کر کوئی احمدی مرد بلا اجازت باہر نہ چلا جائے۔ نیز یہ کہ پرائیویٹ ٹرک والے فوجی افسر سے پوچھ لیا کریں کہ کیا اس کے ٹرک میں کسی زائد سواری کی گنجائش ہے اور اگر گنجائش ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریںتا میںایسے ٹرکوں میں بھی زائد احمدی عورتیں بھجوا سکوں اور اس طرح ہماری اسکیم کی جلد تر تکمیل میں مدد ملے۔ چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور جہاں تک ممکن تھا میں حکمت عملی اور سمجھوتہ کے طریق پر پرائیویٹ ٹرکوں میں بھی زائد عورتیں بھجواتا رہا مگر ظاہر ہے کہ یہ ٹرک میرے کنٹرول میں نہیں تھے اور جہاں تک سامان کا تعلق ہے ان ٹرکوں کے مالک جتنا سامان چاہتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور میں اس میں دخل نہیں دے سکتا تھا اور میں جانتا ہوں کہ بعض ایسے پرائیویٹ ٹرک والوں نے اپنا سارے کا سارا سامان یا قریبا ًسارا سامان باہر نکال لیا مگر یہ ان کا قانونی حق تھا جس میں میں دخل نہیں دے سکتا تھا۔ البتہ دوسرے ٹرک جو جماعتی انتظام کے ماتحت جاتے تھے وہ بے شک کلیۃً ہمارے انتظام میں تھے ( سوائے اس دخل اندازی کے جو ملٹری کی طرف سے ہوتی رہتی تھی اور دن بدن بڑھتی جاتی تھی ) اور میں نے ایسے جماعتی ٹرکوں کے لئے ایک مستعد عملہ اور کچھ اصولی ہدایتیں مقرر کر رکھی تھیں اور ہر باہر جانے والی پارٹی کو باقاعدہ ٹکٹ ملتا تھا جس میں باہر جانے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد اور سامان کی مقدار درج ہوتی تھی جس کے مطابق مقررہ عملہ چیک کر کے سواریاں بٹھا تا تھا۔ سامان کا اصول سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا اور اس میں ضروریات زندگی کی چیزوں کو مقدم رکھا گیا تھا۔ مثلا ً بستر اور پہننے کے کپڑے یا بعض صورتوں میں اقل تعداد میںکھانے کے برتن وغیرہ اور پارٹی کی تعداد کے مطابق سامان میں کمی بیشی کا اصول بھی مقرر تھا۔ البتہ دو چیزوں کے متعلق میں نے استثناء رکھی تھی۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات اور دوسرے نایاب تبلیغی یا علمی کتابیں اور بعد میں اس میں ایک تیسری چیز کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی ایسی اشیاء جو کسی شخص کی روزی کا ذریعہ ہوں۔ مثلاً درزی کے لئے سینے کی مشین یا بڑھئی کے لئے اس کے اوزار وغیرہ۔ یہ اصول امیر و غریب سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا۔ گو ظاہر ہے کہ نسبتی لحاظ سے اس اصول سے غرباء کو ہی زیادہ فائدہ پہنچتا تھا بلکہ غرباء کے متعلق تو میری یہاں تک ہدایت تھی کہ صرف صدر صاحبان کی سفارش پر ہی معاملہ نہ چھوڑا جائے بلکہ میرے دفتر کے مرکزی کا رکن خود جستجو کر کے یتامیٰ اور بیوگان اور ایسے مساکین کو تلاش کر کے میرے نوٹس میں لائیں، جن کا حق ان کی غربت اور بے بسی کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری اس ہدایت کی وجہ سے مجھے ملک غلام فرید صاحب نے رات کے دو بجے دارالفضل سے فون کیا کہ میں نے محلہ دارالبرکات میں ایک ایسی بے کس اور بے بس بیوہ عورت تلاش کی ہے جس کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک کسی نے سفارش نہیں کی۔ میں نے فورًا ہدایت دی کہ اسے اس کے ضروری سامان کے ساتھ دوسرے دن کی کنوائے میں بھجوا دیا جائے۔ الغرض جب تک میں قادیان میں رہا۔ میں نے بلا امتیاز غریب و امیر سب کے واسطے ایک جیسا اصول رکھا۔ اور عمو مًا صدر صاحبان کی تصدیق پر فیصلہ کرتا تھا اور سامان کے متعلق بھی سب کے لئے ایک جیسا اصول تھا۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض بے اصول لوگ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہوں مگر یہ ناگوار رخنے جن کی تعداد بہر حال کم ہوتی ہے.6،.6 ہر انتظام میںہو جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو لازماًہوتے ہیں مگر ان زبردستی کی استثنائوں کی وجہ سے سارے نظام پر اعتراض کرنا درست نہیں ہوتا۔
.6حقیقت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل درست بلکہ ضروری تھا اور یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو دن رات کی انتہائی کوفت میں مبتلا کر کے .6خالصۃ لوجہ اﷲ .6کیا گیا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب لاہور سے کنوائے جاتا تھا تو اس کی تیاری کے لئے میں اور میرا عملہ بسا اوقات رات کے تین تین بجے تک مسلسل کام میں لگے رہتے تھے اور بعض راتیں تو ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوئے۔ مگر یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ خدا کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ان خطرہ کے ایام میں خدمت کا موقع دیا۔ ان ایام میں بعض دوست میرے پاس آتے تھے کہ ہمیں زیادہ سامان بھجوانے کی اجازت دی جائے۔ میں انہیں سمجھاتا تھا کہ دیکھو اس وقت سوال یہ ہے کہ خطرہ بالکل قریب آگیا ہے اور ٹرکوں کی تعداد تھوڑی ہے۔ اب چاہو تو احمدی عورتوں اور بچوں کی جان بچا لو اور چاہو تو اپنا سامان محفوظ کر لو ۔ اکثر دوست میرے اس اشارہ کو سمجھ جاتے تھے مگر بعض کوتاہ بین لوگ دل برداشتہ بھی نظر آتے تھے لیکن میں مجبور تھاکہ بہرحال مومنوں کی جانوں اور خصوصًا عورتوں کی جانوں کو ( جن کی جانوں کے ساتھ ان کے ناموس کا سوال بھی وابستہ تھا) سامان پر مقدم کروں۔ آخر ہر ٹرک کی گنجائش اور بوجھ اٹھانے کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک ٹرک پر سامان زیادہ لاد دیں گے تو لازماً سواریاں کم بیٹھیں گی اور اگر سامان کم ہوگا تو لازماً سواریوں کے لئے زیادہ گنجائش نکل آئے گی۔ ہماری اس تدبیر کا نتیجہ عملی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب کی تمام دوسری جگہوں کی نسبت قادیان میں جانی نقصان نسبتی طور پر بہت کم ہوا ہے اور اغوا کے کیس تو خدا کے فضل سے بہت ہی کم ہوئے ہیں۔ بلکہ جہاں تک میرا علم ہے قادیان کے احمدی مہاجرین میں سے کوئی ایک عورت بھی اغواہ شدہ نہیں ہے۔ جو ظاہری لحاظ سے (کیونکہ اصل حفاظت تو خدا کی ہے ) اسی تدبیر کا نتیجہ تھاکہ اکثر عورتوں کو خطرہ سے پہلے نکال لیا گیا اور جو تعداد حملہ کے وقت قادیان میں موجودتھی وہ اتنی محدود تھی کہ خطرہ پیدا ہوتے ہی ہمارے آدمی انہیں فورًا سمیٹ کر محفوظ جگہوں میں لے آئے ورنہ اگر زیادہ تعداد ہوتی تو انہیں اتنے قلیل نوٹس پر سمیٹنا نا ممکن ہوتا اور ان کا اتنی محدود جگہ میں سمانا بھی ناممکن تھا۔
.6بہر حال جو کچھ کیا گیا جماعت کی بہتری اور افرادِ جماعت کی بہتری کے خیال سے کیا گیا مگر یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ بڑے خطرے کے بخیریت گزر جانے پر وہ گزرے ہوئے خطرے کو تو بھول جاتا ہے۔ اور نسبتاً چھوٹے نقصان کو جو اس نے اس عرصہ میں برداشت کیا ہوزیادہ بڑھا چڑھا کر دیکھتا ہے۔ چونکہ اوپر کے بیان کردہ حالات کے ماتحت جانوں کو محفوظ کرتے کرتے کئی لوگوں کا مالی نقصان ہو گیا۔ کیونکہ ان کا سامان وقت پر باہر نہیں نکالا جا سکا۔( اور خود ہمارے خاندان کا سامان چھ سات لاکھ روپے کا ضائع ہوا ہے اور جائیداد کے نقصان کو شامل کر کے تو یہ نقصان قریباً ایک کروڑ کا بنتا ہے مگر خدا جانتا ہے کہ جماعتی نقصان کے مقابلہ پر کبھی اپنے نقصان کی طرف خیال نہیں گیا) مگر بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ اب جبکہ خدا کے فضل سے جانیں اور عزتیں محفوظ ہو چکی ہیں تو ان لوگوں کو اپنا مالی نقصان گویا ایک دیو بن کر نظر آنے لگا ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگوں کی طبیعت میں اعتراض بھی پیدا ہو رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر جانوں پر سامان کو مقدم کیا جاتا اور اگر جیسا کہ لازمی ہے اس کے نتیجہ میں جانوں کا زیادہ نقصان ہو جاتا ( اور عورتوں کی جانوں کے نقصان کے ساتھ ان کے ناموس کا نقصان بھی لازم و ملزوم تھا۔) تو پھر یہی لوگ یہ اعتراض کرتے اور اس صورت میں یہ اعتراض یقینا جائز ہوتا کہ دیکھو منتظمین نے سامان کی خاطر عورتوں کی جانوں اور ناموس کو برباد کر ا دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ سچا مومن بڑے نقصان سے بچ کر چھوٹے نقصان کے باوجود شکر گزار ہوتا ہے اور پھر وہ خدا کے اس وعدہ کو پاتا ہے کہ .6.6۔۔۱۳.6 .6مگر روحانی لحاظ سے بیمار لوگ یعنی .6 .6.6۔۔۱۴.6 .6وہ ہر حالت کو اعتراض اور ناشکری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اگر وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں تو کہتے ہیں کہ چھوٹا نقصان بھی کیوں ہوا؟ اور اگر چھوٹے نقصان سے بچ کر بڑے نقصان میں مبتلا ہو جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کا علاج صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔
.6بالآخر میں دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت کے لئے یہ ایک بہت بھاری امتحان کا وقت .6ہے ۔ اور ضروری تھا کہ یہ امتحان آتا، کیونکہ اس کے بغیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی پیشگوئیاں غلط .6جاتیں مثلاًیہ کہ (.6۱.6) داغِ ہجرت۱۵ .6 .6یا مثلاً یہ کہ (.6۲.6) .6یَاتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسیٰ۔۱۶.6 .6یامثلاً یہ کہ ( .6۳.6) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا رؤیا میں یہ دیکھنا کہ آپ ؑ کے باغ .6پر ایک کریہہ المنظر وحشی گروہ نے حملہ کیا ہے۔۱۷.6 یا .6مثلا ً یہ کہ (.6۴.6) آپ کا الہام .6مصالح العرب.6۔ .6 مسیر العرب ۱۸ .6جس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ انبیاء ؑ کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے زمانہ میں پورا ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں یا مثلاً (.6۵.6) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ.6 اَ حَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْ.6نَ.6 ۱۹.6 .6وغیرہ وغیرہ ۔پس ہماری یہ تکالیف بھی دراصل احمدیت کی صداقت کی ایک بھاری نشانی ہیں مگر بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اس وقت تک تو خوشی خوشی سلسلہ کے ساتھ چلے جب تک کہ جماعت گویا پھولوں کی سیج پر چل رہی تھی مگر جونہی کہ اسے کچھ وقت کے لئے خار دار رستہ پر چلنا پڑا تو وہ گھبرا کر اور بڑ بڑاتے ہوئے اِدھر اُدھر سرک جانے کی راہ دیکھنے لگے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے خوشحالی میں بھی وفاداری دکھائی اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں بھی وفادار .6رہے۔.6اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا مَا عَا ھَدُوْا اﷲَ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْن.6۔.6یہ وقت .6انشاء اللہ جلد گزر جائے گا۔ اور خدا اپنے وعدہ کے مطابق اس امتحان کے بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ترقی کے دن لائے گا بلکہ دراصل یہی اصل ترقی کے دن ہوں گے جو امتحان کے بعد آئیں گے۔ مگر چند بے وفائوں کی بیوفائی اور بہت سے وفاداروں کی وفاداری احمدیت کی تاریخ میں یاد گار رہے گی۔
.6واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ ؍نومبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
نفع مند کاروبار میں روپیہ لگانے والے
دوستوں کو ضروری اطلاع
.6
.6بعض دوستوں نے میرے ذریعہ قادیان کے بعض کارخانہ داروں اور دوسرے دوستوں کو کاروباری اصول پر روپیہ دیا ہوا تھا اور وہ اس وقت تک اپنے روپے کا معقول نفع حاصل کرتے رہے ہیں۔ میں ہر ایسے سودے کے موقع پر فریقین پر یہ بات واضح کر دیتا رہا ہوں کہ ان سودوں میں مجھ پر کسی قسم کی قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ میں صرف دوستوں کی امداد کے لئے اخلاقی بناء پر اپنے ذریعہ ایسے سمجھوتے کرا دیتا ہوں کہ کسی قسم کا ذاتی فائدہ اٹھانا تو درکنار اکثر اوقات خود اپنے پاس سے متفرق اخراجات وغیرہ برداشت کر کے دوستوں کی اخلاقی امداد کرتا رہا ہوں لیکن گزشتہ فسادات میں جو حقیقتہً ایک قیامت کا نمونہ تھے قادیان کے سب کارخانہ داروں کے کارخانے اور اکثر دوستوں کے املاک کلیۃً ضائع ہو چکے ہیں۔ جس میں ان کی کسی غفلت یا کوتاہی کا دخل نہیں ہے اور گو ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ انشاء اللہ قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گا اور مرکز سلسلہ کے متعلق خدا کے وعدے ضرور پورے ہوں گے لیکن جب تک موجودہ عالمگیر تباہی کے آثار باقی ہیں.6،.6 اس وقت تک ایسے لوگ جو فی الحال اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ہر رنگ میں ہمدردی کے مستحق ہیں۔ .6پس میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لگانے والے دوست قرآنی حکم .6.6۔۔۲۰.6کے ماتحت کچھ عرصہ تک صبر سے کام لیں گے اور دوسری طرف میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لینے والے دوست بھی اس بوجھ کو اپنے ذمہ ایک مقدس بار خیال کرتے ہوئے حالات کے بہتر ہوتے ہی اسے اتارنے کی کوشش کریں گے۔ البتہ جن دوستوں کو اب بھی توفیق حاصل ہو ان کا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو ابھی ادا کریں۔.6 وکان اﷲ معھم اجمعین.6۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍نومبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
نقصان جائیداد کا رجسٹریشن
احمدی احباب کے لئے ضروری ہدایت
.6حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ جن مسلمانوں کی جائیدادیں مشرقی پنجاب میں ضائع ہوئی ہیں، انہیں اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے مغربی پنجاب کے مقرر کردہ افسر کے دفتر میں اپنے نقصان کو رجسٹر کرا دینا چاہئے اور اس نقصان کی وجہ سے اگر کوئی مطالبہ پیش کرنا ہو تو وہ بھی پیش کر دینا چاہئے۔ اس افسر کے عہدہ کا نام اور پتہ یہ ہے:.6-
‏.6Registrar of Claims on Rehabilitation Department west Punjab Government, 3 Temple Road Lahore.6.
.6اس تعلق میں ان دوستوں کی ہدایت کے لئے جن کی.6 جائیدادوں ( غیر منقولہ و منقولہ) کا قادیان یا دوسرے مقامات میں نقصان ہوا ہے، اعلان کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی دفتر مذکور میں درخواست دے کر اپنا نقصان رجسٹر کرا دینا چاہئے۔ درخواست میں جائیداد کی تفصیل( یعنی قسم اور رقبہ وغیرہ) اور مالیت اور جائے وقوع وغیرہ درج کرنا ضروری ہے مگر یہ بات یاد رکھی جائے کہ چونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے، اس لئے قادیان کی غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کسی جائیداد کا مطالبہ نہ کیا جائے اور نہ ہی قادیان کے ملحقہ دیہات ننگل باغباناں اور بھینی بھانگر اور کھارا کی ضائع شدہ غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کوئی مطالبہ کیا جائے کیونکہ وہ عملًا قادیان کا حصہ ہیں بلکہ ان کے متعلق صرف نقصان رجسٹر کرادیا جائے۔ البتہ قادیان اور مندرجہ بالا تین دیہات کے علاوہ دوسری غیر منقولہ جائیدادوں کے مقابلہ پر مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح قادیان اور ان تین دیہات کی منقولہ جائیداد کے مقابلہ پربھی مطالبہ کیاجا سکتا ہے۔ دوسرے علاقوں کے دوستوں( اضلاع جالندھر۔ ہوشیار پور۔ لدھیانہ۔ فیروز پور ۔ دہلی وغیرہ) کو بھی اپنا نقصان جائیداد ( منقولہ وغیر منقولہ ) رجسٹر کرانا چاہئے۔ تفصیلات اور درخواست کے فارم دفتر نظارت امور عامہ جود ہامل بلڈنگ لاہور سے حاصل کی جائیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
کیا ہم پھر واپس قادیان جائیں گے؟
یہ سوال یقینا اہم ہے مگر اپنی توجہ کو مرکزی نقطہ پر جمانے کی کوشش کرو
.6
.6کئی دوست مجھ سے پوچھتے رہتے ہیںکہ کیا ہم پھر قادیان واپس جائیں گے؟ اس کا حقیقی جواب تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے جو سب غیبوں کا مالک اور سب مخفی حقیقتوں کا محافظ ہے لیکن بعض باتوں کا علم اس نے خود اپنے بندوں کو دے رکھا ہوتا ہے اور بعض باتوں کے متعلق اس نے ایسے اصول مقرر کر رکھے ہیں جن سے سمجھ دار لوگ قیاس کر کے قریبا ًقریبا ًصحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔
.6 .6سوال مندرجہ عنوان ایسے سوالوں میں سے ہے جن کے لئے قدرت نے دونوں قسم کے رستے کھولے ہوئے ہیں۔ یعنی اول تو اُن مکاشفات کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے۔ ہمیں خدا کے فضل سے اس بات کا قطعی علم حاصل ہے کہ آیا موجودہ امتحان اور ابتلاء کے بعد جماعت احمدیہ کے لئے قادیان میں واپس جانے اور پہلے کی طرح اسے مرکز بنا کر آباد ہونے کا رستہ کھلا ہے یا نہیں اور دوسرے قیاس اور اجتہاد کے میدان میں بھی ہمارے لئے اس علم کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے کہ ہم اپنے مرکز میں پھر واپس جا سکیں گے یا نہیں۔
.6جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور کشوف کا تعلق ہے۔ میں اس کے متعلق انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں دوستوں کے سامنے حقیقت حال رکھنے کی کوشش کروں گا اور بتائوں گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر نے جماعت احمدیہ کے قادیان سے آنے اور پھر دوبارہ قادیان میں واپس جا کر آباد ہونے کو ہمیشہ سے ایک قطعی تقدیر کی صورت میں مقدر کر رکھا ہے۔ یعنی ہمارا وہاں سے آنا بھی ایک خدائی تقدیرتھی اور وہاں واپس جانابھی اٹل خدائی تقدیر ہے۔ جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔ کیونکہ
.6 .6قضائے آسمان علت ایں بہر حالت شود پیدا
.6اب رہا قیاس اور اجتہاد کا سوال۔ سو اس میدان میں قدم رکھنے سے پیشتر سب سے پہلے اس اصولی بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ خدائی سلسلوں میں مرکز کا سوال ایک محض ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل چیز جو ہر الٰہی سلسلے کی بنیا د ہوتی ہے.6،.6 وہ اس پیغام سے تعلق رکھتی ہے جو ایک مامور من اللہ کے ذریعہ دنیا کو پہنچایا جاتا ہے۔ بے شک ہر جماعت کی ترقی اور تنظیم کے لئے کسی نہ کسی مرکز کا ہونا .6ضروری ہے مگر یہ سوال کہ یہ مرکز اس ملک میں ہو یا کہ اس ملک میں یا اس بستی میں ہو یا کہ اس بستی .6میں، ایک محض ثانوی سوال ہے جسے کسی الٰہی سلسلے کے بنیادی امور سے تعلق نہیں۔ جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں.6،.6 احمدیت کا پیغام تجدید اسلام اور خدمت اسلام کے کام میں مرکوز ہے اور یہ بات خدا کی اٹل تقدیروں میں شامل ہے کہ وہ اس زمانے میں احمدیت کے ذریعے اسلام کو دوبارہ تروتازہ کرکے دنیا میں غالب کرے گااور ہر دوسرے مذہب پر اس کے غلبے کو ایسا نمایاں کر دے گا کہ کسی شخص کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی مگر یہ بات کہ اس غلبے کے حصول کے لئے کون سا مرکز مقدر ہے یا یہ کہ اس کے لئے ایک ہی مرکز مقدر ہے یا کہ یکے بعد دیگرے کئی مرکز مقدر ہیں۔ یہ ایک بالکل دوسری بات ہے، جسے سلسلے کے بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم خواہ قادیان کے مرکز میں رہ کر خدمت اسلام کا فرض بجا لاتے ہیں یا کہ مغربی پنجاب کے کسی مقام پر مرکز بنا کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں یا کہ ہندوستان سے بھی باہر مشرق وسطیٰ میں کسی جگہ اپنا مرکز بنا کر سلسلے کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ ہم بہر حال ان سب صورتوں میں احمدیت کے قیام کی غرض و غائیت کو پورا کرنے والے ہیں اور خواہ قادیان سے باہر ہونا ہمارے لئے جذباتی لحاظ سے کتنا ہی دکھ کا موجب ہو اگر احمدیت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو احمدیت بہر حال سچی ہے اور اسے لانے والا خدا کا برگزیدہ مامور و مرسل ہے۔
.6ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں خدا کی قائم کی ہوئی جماعتوں کے لئے ہجرت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔اکثر انبیاء کو کسی نہ کسی جہت سے ہجرت پیش آئی ہے۔جن میں سے بعض کو تو عارضی ہجرت پیش آئی اور بعض کو دائمی ۔ لیکن چونکہ ان کا خدا داد مشن باوجود ہزاروں مشکلات کے کامیاب ہوا۔ ا س لئے کسی عقلمند شخص نے انبیاء یا ان کی جماعتوں کی ہجرت کو قابل اعتراض نہیں سمجھا۔ حضرت آدم نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور لوگوں کے معروف عقیدے کے مطابق ’’ جنت‘‘ سے نکالے گئے مگر چونکہ سچی توبہ کے ساتھ خدا کی طرف جھکے ۔ اس لئے بالآخر اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔ اور خدا نے یہ تقدیر دنیا کے تقدیر نامے میں ہمیشہ کے لئے لکھ دی کہ .6.6۔۔۲۱.6 .6 یعنی خداتعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا ہے کہ شیطانی طاقتوں کے مقابلے پر خدا اور اس کے رسولوں کی طاقتیں لازما ًغالب ہوا کریں گی۔ اسی طرح حضرت نوح کو بھی طوفان کے وقت میں ایک قسم کی ہجرت پیش آئی۔ اور حضرت ابراہیم کو بھی اپنامالوف وطن چھوڑ کر دوسرے وطن میں جانا پڑا۔ اور حضرت موسیٰ کے تو گویا مشن کا ہی یہ حصہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو ہجرت کرا کے ارض مقدس کی طرف لے آئیں۔ اسی طرح ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح ناصری کو بھی صلیب کے واقعہ کے بعد ہزاروں میل کا سفر اختیار کر کے کشمیر میں آنا پڑا اور بالآخر نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت تو ایک ایسا واقعہ ہے جسے مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے حتیٰ کہ اسی پر اسلامی سنہ کی بنیاد قائم کی گئی ہے مگر کون ہے جو ان نبیوں کے مشنوں کو ناکام کہہ سکتا ہے یا ہجرت کی وجہ سے ان کے خلاف زبان طعن دراز کر سکتا ہے۔ حق یہی ہے کہ ہر الٰہی سلسلے کا مرکزی نقطہ اور بنیادی اینٹ اس کی وہ تعلیم ہے جسے لے کر وہ دنیا میں آتا ہے۔ اگر یہ تعلیم کامیاب اور غالب ہو جاتی ہے تو ایک ہی مرکز پر قائم رہنے یا کئی مر کزوں میں تبدیل ہونے کا سوال ایک محض ثانوی سوال ہے اور کسی عقلمند کو اس سوال میں الجھ کر حقیقت کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ میں تو اپنے دوستوں سے یہاں تک کہوں گاکہ اگر کسی احمدی کے دل میں قادیان کی جدائی کا خیال جذباتی رنگ میں اتنا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ وہ اس کے لئے خدمت اسلام اور تحریک احمدیت کے کامیاب بنانے کے رستہ میں روک بن رہا ہے تو اسے چاہئے کہ قادیان کا خیال اپنے دل سے اس طرح نکال دے جس طرح ایک راہ گیر اپنے پائوں کا کانٹا نکال کر پھینک دیتا ہے۔ کیونکہ بہر حال قادیان ایک جسم ہے اور جسم کے لئے کسی صورت میں روح کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
.6نعوذباللہ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ قادیان کی محبت اور اس کی کشش اور اس کے احترام کے جذبہ کو صدمہ پہنچائوں۔ یہ جذبہ ایک مقدس امانت ہے اور اسے قائم رکھنا ایک مقدس فرض لیکن اگر کسی شخص کے دل میں یہی جذبہ حد اعتدال سے گزر کر ایک مقدس تر امانت اور مقدس تر فریضہ کے ساتھ ٹکرانے لگتا ہے تو پھر عقلمند انسان کا رستہ صاف ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی تا مّل کی گنجائش نہیں۔ ہمارے دین کا مرکزی نقطہ خدا کی ذا ت پر ایمان لانا ہے اور دوسرے نمبر پر خدا کے منشاء اور رضا کو معلوم کرنا اور اُسے پورا کرنا ہے اس کے بعد ہر چیز حقیقتہً ثانوی ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷ ؍دسمبر۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ضلع گورداسپور کی جماعتیں کہاں ہیں؟
.6 ضلع گورداسپور میںخدا کے فضل سے بہت سے دیہات میں جماعتیں قائم تھیں اور بعض گائوں تو سالم کے سالم احمدی تھے۔ گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں یہ سب جماعتیں مغربی پنجاب کی طرف چلی آنے پر مجبور ہوئی ہیں مگر ابھی تک ساری جماعتوں کے متعلق یہ پختہ علم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں کہاں جا کر آباد ہوئی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موجودہ پتہ سے مفصل اطلاع دیں اور اگر کوئی جماعت ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ کر آباد ہوئی ہو تو اسے اپنی رپورٹ میں اس کی بھی صراحت کرنی چاہئے۔ مجھے خصوصا ًان جماعتوں کے نئے پتوں کی ضرورت ہے۔ جو قادیان کے ماحول میں آباد تھیں ۔ مثلاً ننگل باغباناں۔ بھینی بانگر۔ کھارا۔ بسراواں۔ چھینہ ریت والا ۔ ٹھیکر یوالہ۔تلونڈی جھنگلاں۔ فیض اللہ چک۔ بہل چک۔ بازید چک۔ تھ غلام نبی۔ سٹھیالی۔ ہر سیاں کھوکھر۔ ونجواں۔ سیکھواں۔ قلعہ درشن سنگھ ۔ گلا نوالی۔ خان فتا۔دھرم کوٹ بگہ۔ اٹھوال۔ شکار ماچھیاں۔.6چھیچھر.6یا.6ں چٹھہ۔ لودھی ننگل۔سارچور۔ لنگروال۔ مرزا جان۔ بہادر حسین ۔ چودہر ی والہ۔ مراد پور۔ موکل۔ کوہالی۔ ماڑی بچیاں۔مہیس ڈوگر۔ بہادر پور۔ رجو عے ہبیری۔پھیرو چیچی۔ بگول۔ بھامبڑی ۔ بھٹیاں وغیرہ وغیرہ
.6 .6 یہ جماعتیں اور ضلع گورداسپور کی دوسری جماعتیں مجھے اپنے جدید پتوں سے مفصل اطلاع دے کر ممنون کریں۔ جن جماعتوں یا افراد کو ابھی تک آباد ہونے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ آئی ہو وہ بھی بواپسی اطلاع دیں تاکہ ان کے لئے انتظام کیا جا سکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
داغ ہجرت کا الہام کہاں ہے؟
.6حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ’’ داغ ہجرت‘‘ جماعت میں شائع و متعارف ہے۔ مگر اس وقت تلاش سے تذکرہ میں نہیں ملا۔ اگر کسی دوست کو اس کاحوالہ یاد ہو تو مطلع فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان میں زمین خریدنے والوں کے لئے ضروری اعلان
امتحان کے وقت میں اچھا نمونہ دکھا نے کی کوشش کرو
.6بعض احباب جنہوں نے قادیان میں زمین خریدی ہوئی ہے۔ وہ موجودہ فسادات کے نتائج سے گھبرا کر مجھے لکھ رہے ہیںکہ آپ کے پاس ہمارا اتنا روپیہ امانت رکھا ہے وہ ہمیں واپس ادا کر دیا جائے۔ میں شروع میں تو ایسے مطالبات پر حیران ہوا کہ یہ امانت کیسی ہے مگر بعد میں پتہ لگا کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ فی الحال قادیان کی زمینیں گویا ضائع شدہ ہیں۔ بعض لوگوں نے زمینوں کی ادا شدہ قیمتوں کو امانت کے طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے لوگ بے شک بہت کم ہیں۔ بلکہ شائد ایک فی صدی سے بھی کم ہوں گے لیکن چونکہ بعض دوسرے کمزور لوگوں کے دلوں میں بھی اس قسم کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں تمام خریداران اراضی کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری لحاظ سے غلط اور خلاف دیانت ہے بلکہ دینی اور روحانی لحاظ سے بھی ایک نہایت کمزور اور بودی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔
.6کاروباری لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے غلط ہے کہ جب ایک رقم قیمت اراضی کے طور پر ادا کی گئی ہے تو پھر اسے امانت ظاہر کر کے اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا دنیا کے کسی کاروباری اصول کے لحاظ سے بھی درست نہیں بلکہ دراصل یہ ایک قسم کا جھوٹ ہے جو اپنی خریدی ہوئی زمین کو بظاہر ضائع ہوتا دیکھ کر بعض کمزور طبیعتوں نے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے اور اپنے نقصان کو فروخت کنند گان اراضی کی طرف منتقل کرنے کے لئے گھڑ لیا ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ طریقے مال بچانے اور ترقی دینے والے نہیں ہیں بلکہ مال کو بددیانتی کے چکر میں ڈال کر تباہ کرنے والے ہیں۔
.6دینی اور روحانی لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے نہایت درجہ ناپسندیدہ اور قبیح ہے کہ اس مطالبہ کے پیچھے دراصل یہ خیال کام کر رہا ہے کہ گویا قادیان ہمارے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے اور اب ہمیں کبھی واپس نہیں ملے گا۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس طرح بھی ہو اپنا نقصان بچانے کی کوشش کریں۔ حالانکہ ہر وہ سچا احمدی جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان اور اخلاص ہے، وہ اس یقین سے معمور ہونا چاہئے کہ قادیان انشاء اللہ ہمیں نہ صرف ضرور واپس ملے گابلکہ تمام وہ وعدے جو خدا تعالیٰ .6نے قادیان کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں، وہ اپنی کامل شان .6کے ساتھ پورے ہوں گے۔ میرے دل کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر میرے پاس روپیہ ہوتا تو میں ایسا مطالبہ کرنے والے سب لوگوں کو ان کے مطالبہ کی رقوم ادا کر کے ان کی زمینیں واپس خرید لیتا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ زمینیں ایک ایسی مبارک بستی کی زمینیں ہیں.6،.6 جس کے ساتھ ہمارے خداوند قدیر نے دائمی ترقی اور دائمی برکت مقدر کر رکھی ہے۔ کاش ہمارے یہ جلد باز دوست اس نکتہ کو یاد رکھتے مگر افسوس کہ انہوں نے قادیان کو بھی اپنی مادی آنکھوں سے دیکھنا چاہاکہ جب تک قادیان کو ظاہری ترقی حاصل تھی انہوں نے قادیان کی زمین کو ایک نفع مند سودا خیال کر کے اسے شوق کے ساتھ خریدا۔ مگر جونہی کہ اس رستہ میں ایک عارضی روک پیش آگئی انہوں نے اسے ایک خسارے کا سودا سمجھ کر ناجائز حیل و حجت سے منسوخ قرار دینے کی کوشش شروع کر دی اور یہ نہ سوچا کہ انشاء اللہ یہی خسارہ کا سودا آج سے کچھ عر صہ بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر نفع مند سودا بننے والا ہے لیکن شکر ہے کہ ایسے لوگ کم ہیں بہت کم اور خدا کے فضل سے جماعت کا ننانوے فی صدی حصہ اخلاص اور ایمان میں آگے سے زیادہ ترقی کر رہا ہے۔.6 اُولٰئِکَ ھُمُ الفَائِزون.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مخلصین اب بھی قادیان کی زمینوں کے خریدار ہیں
.6میں نے اپنے ایک الفضل میں شائع کردہ نوٹ میںیہ ذکر کیا تھاکہ بعض کمزور طبع لوگ موجودہ حالات کی وجہ سے گھبرا کر قادیان کی خرید کردہ زمینوں کو ضائع شدہ خیال کرنے لگ گئے ہیں اور اپنی ادا کردہ قیمت کو امانت قرار دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے نوٹ میں بتایا تھا کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری اصول کے مطابق غلط اور ناجائز ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی ایمانی کمزوری کی علامت ہے کیونکہ اس مطالبہ میں در اصل یہ شبہ مخفی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک قادیان کی واپسی مشکوک ہے۔ حالانکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے ہمیں انشاء اللہ قادیان ضرور واپس ملے گا اور اس کے متعلق ترقی کے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے۔ میرے اس نوٹ کے جواب میں مجھے کئی دوستوں نے لکھا ہے اور بعض نے زبانی کہا ہے کہ ہمیں خدا کے فضل سے قادیان کے واپس ملنے اور اس کی ترقی کے وعدوں کے متعلق کامل یقین ہے اور ہم اس وقت بھی اس بات کے لئے بخوشی تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص قادیان میں اپنا قطعہ زمین یا مکان فروخت کرتا ہو تو اسے خرید لیں۔ مجھے ان دوستوں کی اس پیش کش سے بہت خوشی ہوئی۔ یہ لوگ سچے مومن ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور ایما ن اور اموال میں برکت عطا کرے اور وہ اور ان کی اولادیں قادیان کی ترقی سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے والی ہوں۔ آمین یا رب العالمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان کے احمدی خیریت سے ہیں
.6
.6اس وقت قادیان میں تین سو احمدی مقیم ہیں جن میں سے بعض قادیان ہی کے رہنے والے ہیں اور بعض زائرین کے طور پر باہر سے گئے ہوئے ہیں۔ قادیان سے تازہ آمدہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ یہ سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں ان کے اعزہ اور احباب تسلّی رکھیں اور اپنے ان بھائیوں کے لئے دعا کرتے رہیںکہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے قیام قادیان کو بابرکت فرمائے ۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
زنا بالجبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ
اسلام اس کی بھی حفاظت کا حکم دیتا ہے
.6میرے نام ایک خط مغربی پنجاب کے ایک احمدی ڈاکٹر کی طرف سے موصول ہواتھا جس کا مضمون درج ذیل ہے:.6-
.6’’ میں ڈاکٹر ہوں اور یہاں پر سول ہسپتال کا انچارج ہوں۔ کل کے ایک واقعہ کا میرے دل پر بہت اثر ہے۔ جس کے لئے حضور کی مفید رائے کی ضرورت ہے۔ میرے پاس ایک بڑھیا عورت مع اپنی پندرہ سالہ کنواری لڑکی کے آئی۔ وہ بڑھیا بہت رو رہی تھی۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ ریاست۔۔۔کی باشندہ ہے۔ اس کے تمام عزیز خاوند بھائی وغیرہ وہاں مارے گئے ہیں۔ اس کی لڑکی کو بھی سکھ لے گئے تھے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ واپس مل گئی۔ لڑکی کنواری تھی اب اسے تین ماہ کا حمل ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ میں اسے کوئی ایسی دوائی دوں جس سے حمل ضائع ہو جائے۔ میں نے ہر طرح اس کی تسلی کرنی چاہی لیکن وہ اس پر اصرار کرتی رہی۔ ایسے حالات میں حضور کی کیا رائے ہے۔ مفصل تحریر فرمائیں۔ اس قسم کے اور بھی مریض آتے ہیں لیکن میں تو انکار ہی کر دیتا ہوں۔‘‘
.6اس خط کے موصول ہونے پر میں نے ضروری خیال کیا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی رائے دریافت کروں۔ سو میں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھ کر ارسال کیا:.6-
.6’’ منسلکہ خط ارسال خدمت ہے۔ اس بارے میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔ میرے خیال میں تو اسلام ایسے بچوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے کہ ماں تو زنا بالجبر کی صورت میں بہر حال بے گناہ ہی ہے۔ اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ اس بچے کی ولادت کا انتظار کرے اور بچے کی ولادت کے بعد اس کی اچھی تربیت کرے۔ اور بچہ سچا مسلمان ہو جائے تو غالباً ماں ثواب ہی کمائے گی لیکن زیادہ مشکل دنیا کی ہے جو ماں اور بچہ دونوں پر طعن رکھے گی۔ اس لئے اگر مصلحتہً ماں کا نام اور پتہ بدل دیا جائے تو شائد وہ اس مصیبت سے بچ جائے۔ بہر حال جو بھی شرعی فتویٰ ہو اس سے مطلع فرمایا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضا مندی کے ساتھ زنا کی مرتکب ہو کر تائب ہو نے والی عورت کے بچہ کو بھی بچایا تھا اور یہاں تو جبر کا معاملہ ہے۔‘‘
.6میرے اس عریضہ پر حضور نے فرمایا درست ہے۔ اس کے مطابق جواب بھجوا دیا جائے۔ سو دوستوںکی اطلاع کے لئے یہ فتویٰ اخبار میںبھی شائع کرایا جا رہا ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان سے آئے ہوئے مندرجہ ذیل اصحاب جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں
.6
.6مندرجہ ذیل اصحاب نے قادیا ن سے آتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلی ٹرم میں قادیان جانے کے لئے .6۲۵.6؍ دسمبر .6۱۹۴۷.6 ء کو لاہور پہنچ جائیں گے۔ سو اس اعلان کے ذریعہ ان احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ حسب وعدہ ضرور جلسہ سالانہ کے موقع پرلاہور پہنچ جائیں۔ تاکہ انہیں درویشانہ خدمت کے لئے قادیان بھجوا یا جا سکے۔ اگر اس فہرست میں کوئی طالب علم ہوں۔ ( کالج یا سکول کے) تو وہ اپنے آپ کو اس اعلان سے مستثنیٰ سمجھیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ان اصحاب کو شروع جنوری میں قادیان بھجوا دیا جا ئے۔ و باللہ التوفیق
.6نمبر شمار
.6۱.6 .6عطا ء الرحمن صاحب ولد حکیم نظام جان صاحب۔
.6۲.6 .6 .6مرزا مہتاب بیگ صاحب۔
.6۳.6 .6چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی زود نویس۔
.6۴.6 .6عطاء اللہ صاحب ولد محمد بخش صاحب واقفِ زندگی۔
.6۵.6 .6غلام نبی صاحب ولد عبد العزیز صاحب ٹیلر ماسٹر ۔
.6۶.6 .6میاں غلام محمد صاحب زرگر۔
.6۷.6 .6خلیل احمد صاحب ولد محمد اسمعٰیل صا حب دوکاندار ۔
.6۸.6 .6مرزا الطاف الرحمن صاحب ولد مرزا نور محمد صاحب واقف زندگی۔
.6۹.6 .6ناصر الدین صاحب ولد چراغ الدین صاحب۔
.6۱۰.6 .6حسن دین صاحب ولد چوہدی رولدوصاحب۔
.6۱۱.6 .6برکت علی صاحب ولد جیماںصاحب۔
.6۱۲.6 .6ناصر احمد صاحب ولد عبد الصمد صاحب۔
.6۱۳.6 .6ضیاء الدین صاحب ولد حکیم نظام الدین صاحب۔
.6۱۴.6 .6شمس الدین صاحب محلہ دارالفتوح۔
.6۱۵.6 .6عبدالغنی صاحب ولدحکیم چراغ دین صاحب۔
.6۱۶.6 .6عبد العزیز صاحب ولد محمد دین صاحب۔
.6۱۷.6 .6عبد المجید صاحب ولد جیون صاحب۔
.6۱۸.6 .6سلطان احمد صاحب پیر کوٹی۔
.6۱۹.6 .6عزیز اللہ صاحب جسوال۔
.6۲۰.6 .6حمید اللہ صاحب گجراتی۔
.6۲۱.6 .6قریشی فضل الرحمن صاحب دارالبرکات شرقی۔
.6۲۲.6 .6محمود احمد صاحب ولد کریم الدین صاحب ۔
.6۲۳.6 .6نذیر احمد صاحب ٹیلر ککے زئی۔
.6۲۴.6 .6فیاض محمد صاحب فیضی ۔
.6۲۵.6 .6عبدالستار خان صاحب کا ٹھگڑی۔
.6۲۶.6 .6غلام احمد صاحب ظہور۔
.6۲۷.6 .6ممتاز احمد صاحب آسامی۔
.6۲۸.6 .6اللہ دتہ صاحب بٹ ولد حسن محمد صاحب۔
.6۲۹.6 .6 .6عبدالغفار صاحب ولد نور محمد صاحب ۔
.6۳۰.6 .6فضل حق صاحب سوداگر چوب۔
.6۳۱.6 .6فضل احمد صاحب ولد نور محمدصاحب۔
.6۳۲.6 .6قاضی غلام نبی صاحب ولد قاضی محمد رمضان صاحب۔
.6۳۳.6 .6بشارت احمد صاحب ولدخو شی محمد صاحب۔
.6۳۴.6 .6غلام حیدر صاحب دارالسعۃ ولد الہٰ دین صاحب۔
.6۳۵.6 .6محمدرمضان صاحب ولد غلام حسن صاحب۔
.6۳۶.6 .6مستری محمد الدین صاحب دارالرحمت۔
.6۳۷.6 .6سید عبد الباسط صاحب خدام الاحمدیہ۔
.6۳۸.6 .6سید انوار احمد صاحب شریفی دارالبرکات۔
.6۳۹.6 .6خوشی محمد صاحب ولد نبی بخش صاحب۔
.6۴۰.6 .6چوہدری غلام رسول صاحب ولد شیر محمد صاحب دارالسعۃ۔
.6۴۱.6 .6محمدابراہیم صاحب عابد واقفِ زندگی۔ خدام الاحمدیہ۔
.6۴۲.6 .6سیدمحمد محسن صاحب ولد سید محمد حسین صاحب۔
.6۴۳.6 .6کرامت اللہ صاحب کاٹھگڑی۔ دارالفضل۔
.6۴۴.6 .6محمد جیون صاحب ولد شادی۔
.6۴۵.6 .6عزیزالدین صاحب ولد بھاگ۔
.6۴۶.6 .6محمد دین صاحب ولد عبد الغفار صاحب دارالبرکات۔
.6۴۷.6 .6رشید احمد صاحب بٹ۔ دارالبرکات۔
.6۴۸.6 .6سعید احمد صاحب دارالبرکات۔
.6۴۹.6 .6جمال الدین صاحب جموں مہمانخانہ۔
.6۵۰.6 .6سید ظہور احمد صاحب۔ مسجد فضل۔
.6۵۱.6 .6حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی۔
.6۵۲.6 .6محمدصالح صاحب ولد مستری غلام نبی صاحب۔
.6۵۳.6 .6مرزا محمد شریف صاحب ولد مرزا غلام محمد صاحب۔
.6۵۴.6 .6عطا ء الرحمن صاحب ولد عبد اللہ خان صاحب وثیقہ نویس بٹالہ۔
.6۵۵.6 .6کرم الدین صاحب ولد اللہ دتہ صاحب۔
.6۵۶.6 .6عبد الحکیم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب۔
.6۵۷.6 .6نواب دین صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ارائیں۔ ٹرنک ساز۔
.6۵۸.6 .6مستری غلام حسین صاحب ولد مستری علم دین صاحب۔ دارالبرکات شرقی۔
.6۵۹.6 .6تاج دین صاحب ولد چراغ دین صاحب۔
.6۶۰.6 .6محمد اسماعیل صاحب ولد میاں محمد اکبر صاحب ۔ صحابی۔
.6۶۱.6 .6اللہ رکھا صاحب قادیان۔
.6۶۲.6 .6خیر دین صاحب ولد الہٰ دین صاحب دارالیسر۔
.6۶۳.6 .6قمر احمد صاحب ولد منشی رام صاحب۔
.6۶۴.6 .6عبد القادر صاحب ولد مولا بخش صاحب باورچی۔
.6۶۵.6 .6خواجہ سمیع الدین صاحب۔ گھڑی ساز۔
.6۶۶.6 .6محمد عبد اللہ صاحب ولد فضل دین صاحب۔
.6۶۷.6 .6عبد الکریم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب دارالبرکات۔
.6۶۸.6 .6غلام رسول صاحب ولد اللہ لوک صاحب دارالبرکات شرقی۔
.6۶۹.6 .6نور داد صاحب ولد شرف دین صاحب۔
.6۷۰.6 .6ناصر احمد صاحب ولد مستری ناظر دین صاحب دارالبرکات۔
.6۷۱.6 .6میاں خدا بخش صاحب ولد حکیم سید محمد صاحب۔
.6۷۲.6 .6محمد حسین صاحب بنگالی ولد مولوی عبد الرحمن صاحب۔
.6۷۳.6 .6بشیر احمد صاحب ولد جلال الدین صاحب۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
بلا اجازت دوسرے کا مال لے لینا کسی صورت میں جائز نہیں
.6دنیا میں ہر اچھا اور برا تغیر نئے مسائل پیدا کر دیتا ہے جو سابقہ حالات میں نظروں سے اوجھل .6ہوتے ہیں۔ گزشتہ خطرناک فسادات نے بھی بعض ایسے مسائل پیدا کر دئے ہیں جن کی طرف اس .6سے پہلے اس رنگ میں توجہ نہیں تھی۔ اس قسم کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ایسی صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب انسان کے لئے کسی دوسرے کا مال اس کی اجازت کے بغیر لے لینا یا اس کی .6اجازت کے بغیر لے کردوسروں میں تقسیم کر دینا جائز سمجھا جائے۔ عام حالات میں ہر سچا مسلمان یہی سمجھتا .6ہے کہ دوسرے کا مال بہر حال ممنوع ہے لیکن گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں بعض ایسی خاص صورتیں پیش آئیںکہ جن میں بعض لوگ بظاہر دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھنے لگ گئے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت ہمارے لئے دوسروں کا مال لے لینا یا دوسروں کا مال لے کر مستحق لوگوں میں تقسیم کر دینا جائز ہو گیا ہے۔ ایسی صورتیں بہت سی ہیں مگر میں اپنے اس مختصر مضمون میں اس سوال کے صرف دو پہلو ئوں کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
.6اوّل یہ کہ کیا خاص حالات میں اپنے دوستوں کا مال ان کی اجازت کے بغیر لے لینا یا لے کر دوسروں میں تقسیم کر دینا جائز ہے؟
.6دوم یہ کہ کیا خاص حالات میں غیر مسلموں کا مال لوٹ لینا جائز ہے؟
.6گزشتہ فسادات میں جب بعض مقامات میں سکھوں اور ہندوئوں کے فتنہ و فساد اور لوٹ مار کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے نہایت درجہ خطر ناک حالات پیدا ہو گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے .6بعض مسلمان بھائیوں کا مال و متاع ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا یا برباد کیا جا رہا ہے اور .6انہوں نے خیال کیا کہ ان حالات میں اندیشہ ہے کہ کمزور اور بے بس مسلمانوں یا غیر حاضر مسلمانوں .6کامال و اسباب سب کا سب سکھوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے یا تباہی اور بربادی کا نشانہ نہ بن جائے .6تو بعض مسلمانوں نے یہ خیال کر کے کہ دشمن کے ہاتھ میں مسلمانوں کے مال کے چلے جانے یا دشمن کے ہاتھ سے مسلمانوں کے مال کے تباہ ہو جانے سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان بھا ئی کے کام آ جائے.6،.6ان کی اجازت کے بغیر یا تو خود اپنے غیر حاضر مسلمان بھائیوں کا مال اپنے تصرف میں لے لیا یا دوسرے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے خیال میں سمجھا کہ اس طرح ہم ایک قومی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
.6مگر دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نظریہ بالکل غلط اور خلاف تعلیم اسلام ہے۔ اسلام کسی صورت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے مال کو اپنا بنا لیا جائے یا اس میں مالکانہ تصرف کیا جائے کیونکہ اول تو یہ فعل امانت اور دیانت کے خلاف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں جبکہ آپ حج کے میدان میں مسلمانوں کو گویا آخری اجتماعی نصیحت فرما رہے تھے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اور خدا کو گواہ رکھ کر یہ زبردست نصیحت فرمائی تھی۔ کہ.6 ان دماء کم و اموالکم واعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلد کم ھذا فلیبلغ الشاھد الغائب ۔۔۲۲.6یعنی.6 ’’ اے مسلمانو.6!.6 تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ حج کا دن اور تمہارا یہ عزت کا مہینہ اور تمہارا یہ مقدس شہر خدا کی طرف سے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں۔ میری اس نصیحت کو سنو اور دوسروں تک پہنچائو۔‘‘ علاوہ ازیں اس قسم کی اجازت کے دینے سے ایک ایسا دروازہ کھلتا ہے کہ جن میں اکثر لوگوں کے لئے جائز و ناجائز صورت میں تمیز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ رستہ سخت خطر ناک ہے۔ پس کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ خواہ حالات کچھ ہوں۔ دوسرے مسلمان کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لائے یا مالک کی اجازت کے بغیر اسے دوسروں میں بانٹ دے۔ اگر ایسے لوگوں میں حقیقتاً ہمدردی کا خیال تھا تو ان کا فرض تھا کہ خطرہ کے وقت اپنے بھائیوں کے مال کی بھی اسی طرح حفا ظت کرتے جس طرح کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کرنا چاہتے تھے اور اگر کوئی غریب مسلمان بھائی امداد کا مستحق تھا تو اسے یا تو اپنے ذاتی مال میں سے دیتے یا مالک سے پوچھ کر اس کی اجازت کے ساتھ اس کا مال تقسیم کرتے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کمزور اور خود غرضانہ استدلالوں کی وجہ سے قوم میں بددیانتی کی روح پیدا ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان خدمت جو ہمارا پیارا اسلام دوسرے مسلمانوں کی جان اور مال کی قائم کرنا چاہتا ہے قائم نہیں رہ سکتی۔بے شک خود مالک اپنے مال کے متعلق جو تصرف کرنا چاہے کرے، اس کے لئے کوئی روک نہیں اور اگر کوئی مسلمان اپنے مال کو غیر مسلموں کی طرف سے خطرہ میں دیکھ کر اسے غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیتا ہے تو یقینا وہ ایک نیک کام کرتا ہے اور اس کا یہ فعل ایک صدقہ کا رنگ رکھتا ہے جو خدا کے حضور میں مقبول ہو گا لیکن اگر کوئی شخص خطرہ کے وقت میں اپنے مال کو تو بچا کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے مگر دوسرے مسلمانوں کے مالوں کو ان کی اجازت کے بغیر لے لیتا ہے یا دوسروں میں تقسیم کر دیتا ہے تو اس کا یہ فعل اس امانت اور دیانت کے خلاف ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی لوٹ ہے جس کی اسلام کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ پس جن لوگوںنے ایسی حرکت کی ہے۔ اور ان کے پاس اپنے کسی بھائی کا مال موجود ہے تو انہیں چاہئے کہ بلا توقف یہ مال اس کے مالک کو پہنچا دیں اور اگر یہ مال ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں اس کا بدل پیدا کرنے کی توفیق ہے تو اس کے بدلہ میں اسی مالیت کا دوسرا مال پیش کر دیں اور اگر ان کے لئے یہ دونوں صورتیں ممکن نہیں تو کم از کم سچی ندامت کے ساتھ مالک سے معذرت کے خواہاں ہوںکہ انہوں نے اس اس قسم کے حالات کے ماتحت غلط استدلال میں مبتلا ہو کر ان کا مال ضائع کر دیاہے۔
.6دوسرا پہلو اس سوال کا یہ ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر کے کہ سکھوں یا ہندوئوں نے ہمیں مشرقی پنجاب میں نقصان پہنچایا ہے۔ مغربی پنجاب میں غیر مسلموں کا مال لوٹنے لگ جاتے ہیں یا اگر کسی غیرمسلم کے چھوڑے ہوئے مکان میں قیام کرتے ہیں تو اس کے سامان کو اپنے لئے جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ صورت بھی اسلامی تعلیم کے سرا سر خلاف ہے۔ اگر الف نے ہمیں یا ہمارے کسی عزیز کو نقصان پہنچایا ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ب کو نقصان پہنچا کر بدلہ لینے کی کوشش کریں۔ قرآن شریف صاف فرماتا ہے۔ کہ .6 .6.6۔۔۲۳.6 .6یعنی.6 ایک شخص کے گناہ کا بوجھ کسی صورت میں دوسرے شخص پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پس صرف اس وجہ سے کہ مثلاً ایک سکھ لکھن سنگھ نامی نے مشرقی پنجاب میں ہمارا یا ہمارے کسی بھائی کا سامان لوٹاتھا ،ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم مغربی پنجاب میں کسی دوسرے سکھ مکھن سنگھ نامی کا سامان لوٹ لیں۔ یہ تمام باتیں اسلامی تعلیم اور اسلامی معیار دیانت کے خلاف ہیں اور ان باتوں میں غفلت برتنے سے آہستہ آہستہ قومی دیانت کا معیار گر جاتاہے۔ اسلام ہر حالت میں دیانت اور انصاف کے ترازو کو بلند رکھنا چاہتا ہے اور بے شک وہ شریر لوگوں کو ہوش میں لانے کے لئے انتقام کی اجازت دیتا ہے۔ مگر وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ جرم تو کرے زید مگر انتقام لیاجائے بکر سے یا بعض افراد کے جرم کی وجہ سے ساری قوم کو مجرم قراردے دیا جائے اور کم از کم ہماری جماعت کے دوستوں کو اس قسم کے افعال سے پرہیز کرنا چاہئے۔.6و اخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین.6۔
.6نوٹ:اس مضمون میں صرف افراد کے سوال کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ حکومت یا جماعتی نظام کے معاملہ میں بعض مخصوص صورتیں پیش آ سکتی ہیں، جن کے متعلق انشاء اللہ کسی اور موقع پر عرض کروں گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
مسماۃ فضل بی بی سکنہ رجوعہ تھانہ سری گو بند پور کے ورثا ء کہاں ہیں
.6
.6ایک بوڑھی عورت مسماۃ فضل بی بی بیوہ رحیم بخش قوم لوہار ہے۔ اور وہ رجوعہ تھانہ سری گو بند پور کی رہنے والی ہے۔ اس کے چار بچے ہیں ۔ جن میں سے علی محمد ترکھان عمر .6۲۰.6 سال اپنے ماموں فضل دین لوہار ساکن بہاولپور کے پاس رہتا ہے۔ اور تاج الدین اور نور محمد لاہور میں ہی بتائے جاتے ہیں یہ عورت قادیان میں پہنچ گئی ہے۔ اس کے لڑکوں میں سے کوئی یا اور رشتہ دار رتن باغ لاہور میں آکر مجھ سے پتہ کر لیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مسماۃ زہرہ سکنہ کڑی افغا ناں ضلع گورداسپور کے ورثا ء توجہ فرمائیں
.6
.6ایک لڑکی مسماۃ زہرہ جس کے باپ کا نام محمد علی اور ماں کا نام راج بی بی قوم ارائیں ہے اور وہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور کی رہنے والی ہے اور اس کے ماموں محمد دین اور ابراہیم میانی کے رہنے والے ہیں قادیان میں پہنچ گئی ہے اور اس کے رشتہ دار جہاں بھی ہوں رتن باغ لاہور میں آکر پتہ کرلیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
یعقوب خاں صاحب کہاں ہیں ؟
.6قادیان سے محمد یوسف صاحب دریافت کرتے ہیں کہ ان کے والد یعقوب خان صاحب قوم راجپوت سکنہ محلہ دارالفضل قادیان جب سے قادیان سے گئے ہیں ان کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی اگر یعقوب خان صاحب اس اعلان کو پڑھیں یا کسی اور دوست کو ان کا علم ہو تو مجھے ان کی خیریت اور پتے سے بواپسی اطلاع دیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
فہرست حوالہ جات
۱۹۴۷ء
.6۱.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الاذان باب ا.6لایجاب .6التکبیر و افتاح الصلوٰۃ.6۔
.6۲.6-.6 .6 بنی اسرائیل ۔.6۲.6۔
.6۳.6-.6 .6الانعام ۔.6۹۲.6۔
.6۴.6-.6 .6الحج :.6۷۸
.6۵.6-.6 .6 سنت سپاہی اگست .6۱۹۴۶.6ء
.6۶.6-.6 .6 اخبار پنجاب امر تسر ۔مورخہ .6۱۱.6جنوری .6۱۹۴۴.6ء
.6۷.6-.6 .6ص.6حیح.6 البخاری کتاب .6المظالم باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً.6۔
.6۸.6-.6 .6ٹر.6یبیون.6 یکم جولائی .6۱۹۴۷.6۔ سٹیٹسمین یکم جولائی .6۱۹۴۷.6ء
.6۹.6-.6 .6ڈان ٹ.6ریبیون .6مورخہ .6۵.6جون .6۱۹۴۷.6ء
.6۱۰.6-.6 .6سول اینڈ ملٹری گزٹ .6۴.6جون .6۱۹۴۷.6 ۔سٹیٹسمین .6۵.6جون .6۱۹۴۷.6ء
.6۱۱.6-.6 .6الزلزال: .6۲.6،.6۳
.6۱۲.6-.6 .6 .6سیرۃ ابن ہشام .6الجزاین الاول الثانی بعنوان ’’امر الفیل قصۃ النسائ.6‘‘
.6۱۳.6-.6 .6ابراہیم:.6۸
.6۱۴.6-.6 .6الاحزاب : .6۶۱
.6۱۵.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۶۵۶.6۔طبع جدید۔
.6۱۶.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۳۶۶.6۔طبع جدید۔
.6۱۷.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۱۶۳.6۔طبع جدید۔
.6۱۸.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۴۷۷.6۔طبع جدید۔
.6۱۹.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۶۶.6۔ طبع جدید۔
.6۲۰.6-.6 .6البقرہ : .6۲۸۱.6۔
.6۲۱.6-.6 .6المجادلۃ: .6۲۲.6۔
.6۲۲.6-.6 .6الطبقات الکبرٰی باب حجۃ الوداع.6 صفحہ .6۳۴۲.6۔طبع بیروت۔
.6 .6۲۳.6- الانعام:.6۱۶۵
.6
۱۹۴۸ء
.6
گذشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں ٭
.6نمبر.6۲
.6
.6گذشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور ا س کے ماحول میںرونما ہوئے ۔ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیا جائیگا ۔ فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کاذکر مختصر روزنامچہ کی صورت میں در.6ج.6 ذیل کیاجاتا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
.6(۳۱) ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ء :۔ پولیس اور ملٹری نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مکانات اور دفتر اور خاکسار مرزا بشیر احمد کے مکان کی تلاشی لی اور یہ تلاشی صبح ۶بجے سے لے کردن کے گیارہ بجے تک جاری رہی اور ہمارے مکانات کے تمام حصوں اور ملحقہ رستوں میںمسلح پولیس اور ملٹری کا پہرہ لگا د.6یا.6 گیا ۔ تلاشی میں ٹرنکوں اور پیٹیوں اور الماریوں وغیرہ کے قفل توڑ توڑ کر ہرچیز کو غور سے دیکھا گیا اور بعض کمروں کے فرشوں کو اکھیڑا کھیڑ کر بھی تسلی کی گئی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض چیز تودبائی ہوئی نہیں ۔پولیس اورملٹری جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی تلاشی دینے کے بغیر اور زنانہ مکانوں میں پردہ کرانے کے بغیر جس حصہ میں چاہتی تھی گھس جاتی تھی مگر کوئی قابل اعتراض چیز .6برآمد نہیں کرسکی ۔ البتہ لائسنس والا ہتھیار جو بھی نظر آیا اسے اکٹھا کر لے گئی ۔چنانچہ حضرت امیرالمومنین .6ایدہ اللہ کی ایک شاٹ گن ۔خان محمد احمد خان کی ایک بائیس بور رائیفل اور عزیز مرز احمید احمد کاایک پستول لائسنس دکھانے کے باوجود ابھی تک واپس نہیں کیاگیا۔
.6(۳۲) ۲۳ ستمبر ۱۹۴۷ء :۔حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے حکم کے ماتحت خاکسار مرزا بشیر احمد عزیز میجر مرزا دائوداحمد کی اسکورٹ میں قادیان سے روانہ ہوکر لاہور آگیا۔ میرے پیچھے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت مرز ا عزیز احمد صاحب ایم ۔اے مقامی امیر مقرر ہوئے۔
.6(.6۳.6۳) .6۲.6۴ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔ عزیزم مرزا ناصر احمدسلمہ ایم ۔اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان
.6 اور حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ کے بڑے صاحبزادے کے مکان النصرۃ واقع محلہ دارالانوار قادیان کی تلاشی لی گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ۔
.6(.6۳.6۴) ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔پولیس نے محلہ دارالشکر قادیان کے متعدد مکانات کی تلاشی لی اور گو کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ۔مگر ہزاروں روپے کے زیورات اور نقدی اور دیگر اشیاء اٹھا کرلے گئی اور پناہ گزینوں کی پانچ لڑکیاں بھی پکڑ کر ساتھ لے گئی ۔جنہیںبعد میںواپس کر دیاگیا۔
.6(.6۳.6۵) .6۲.6۵ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔چار مسلمان پناہ گزینوں کو جو مکان آشیانہ مبارک متصل محلہ دارالانوار قادیان میں پناہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے پولیس نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا اور ان کی عورتوں کو پکڑ کرلے گئی ۔اس کے علاوہ دو مزید آدمی لاپتہ ہوگئے اور بعض زخمی ہوئے۔یہ واقعہ ۲۵ اور ۲۶ستمبر کی درمیانی شب ہوا ۔
.6(.6۳.6۶) .6۲.6۷ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔قادیان میں ٹھہرے ہوئے پناہ گزینوں کے قریباً پانچ ہزار مویشی مالیتی قریباً ۲۰ لاکھ روپیہ پولیس کی امداد کے ساتھ سکھوں نے لوٹ لئے اور ان کے گڈے اور چھکڑے بھی لے گئے جس کی وجہ سے وہ آئندہ چلنے والے پیدل قافلہ میں اپنا سامان ساتھ رکھنے کے ناقابل ہوگئے۔ پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے متعدد مویشی بھی سکھ حملہ آور لوٹ کر لے گئے۔
.6(.6۳.6۷) ۲۷ ستمبر ۱۹۴۷ء تا یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر واقع محلہ دارالانوار قادیان کا تمام سامان سوائے کچھ معمولی فرنیچر کے ملٹری نے لوٹ لیا اور یہ لوٹ برابر پانچ دن تک جاری رہی ۔ملٹری کے ٹرک رات کوآتے تھے اور کوٹھی کا سامان سمیٹ سمیٹ کر لے جاتے تھے۔ کوٹھی کے مویشی بھی لوٹ لئے گئے۔
.6(.6۳.6۸) .6۲.6۹ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔ مولوی احمد .6خا.6ں صاحب نسیم مولوی فاضل انچارج مقامی تبلیغ اور مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل انچارج شعبہ خبر رساں جماعت احمدیہ کو پولیس نے دفعہ ۳۹۶،۳۹۷ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کرلیا۔اور معلوم ہوا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں سخت تکلیف دی جاتی رہی ہے۔
.6(.6۳.6۹) ۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔محلہ دارالانوار قادیان کے متعدد مکانوں کو لوٹا گیا ،ان مکانوں میں کرنیل ڈاکٹرعطاء اللہ صاحب اسسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل میڈیکل سروس پاکستان اور خان بہادر چوہدری ابو الہاشم خان صاحب ایم ۔ اے ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز اور مولوی .6ع.6بدالرحیم .6صاحب درد ایم۔ اے سابق امام مسجد لنڈن کے مکانات بھی شامل تھے۔
.6(.6۴۰.6) .6۲.6۰ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔پولیس نے مقامی خاکروبوں کو حکم دے دیاکہ مسلمانوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نہ جائیں جس کی وجہ سے احمدیوں کے گھر نجاست سے اٹ گئے اور احمدیوں کو خود اپنے ہاتھ سے صفائی کاکا.6م .6کرنا پڑا ۔
.6(.6۴.6۱) یکم اکتوبرتا .6۶ ۔ اکتوبر.6 ۱۹۴۷ئ:۔بٹالہ کی ملٹری نے پاکستان کی حکومت کے بھجوائے ہوئے ٹرکوں کو یہ بہانہ رکھ کر قادیان جانے سے روک دیاکہ قادیان کی سٹرک زیر مرمت ہے ۔اور جب ہمارے ٹرک بٹالہ میں رکے تو اس پر سکھ جتھوں اور غیر مسلم ملٹری نے مل کر فائر کئے جس کے نتیجہ میں کئی آ.6دمی.6 زخمی ہوئے اور بعض لا پتہ ہیں۔ اور ٹرک بھی جلادیاگیا ۔ اس کنوائے میں میرا .6لڑ.6کا مرزا منیر ا.6ح.6مد بھی شامل تھا ۔ جو بٹالہ میں دو دن تک قیامت کا نمونہ دیکھنے کے بعد لاہور واپس پہنچا۔ رستہ کے زیر تعمیر ہونے کا عذر محض بہانہ تھا اور غرض یہ تھی کہ ان ایام میں بیرونی دنیاسے قادیان کا تعلق بالکل کاٹ کر قادیان کے احمدیوں کو لوٹا اورختم کیا جاسکے ۔ چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات بتائیں گے قادیان پر بڑا حملہ انہی تاریخوں میں ہوا۔
.6(۴۲) یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکان بیت الحمد واقع محلہ دارالانوار .6قادیان جس میں حضور کے بعض بچے رہائش رکھتے تھے ملٹری نے زبردستی خالی کراکے اپنے قبضہ میں کرلیا۔
.6(۴۳) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔پولیس نے احمدیوں کی آٹا پیسنے کی چکیاں حکماً بند کرادیں ۔جس کے نتیجہ میں قادیان کے محصور شدہ ہزاروں احمدیوں کو جن میں بچے عورتیںاور بوڑھے شامل تھے کئی دن تک .6گندم کے دانے ابال ابال کر کھانے پڑے اور اس وجہ سے بے شمار لوگ پیچش کی مرض کا شکار ہوگئے۔
.6(.6۴.6۴) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ تعلیم الاسلام ڈگری کالج قادیان اورفضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کی عمارت اور سامان پر ملٹری نے جبراً قبضہ کر لیا اور احمدیوں کو زبردستی باہر نکال دیا۔
.6(۴۵) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔سکھ جتھوں نے پولیس کی امداد سے محلہ دارالرحمت (یہ محلہ دارالرحمت نہیں ہے بلکہ قادیان کی پرانی آبادی کے ساتھ جنوب مغربی جانب دارالصحت کے قریب ایک اور محلہ ہے ) حملہ کیا۔ اور حملہ آوروں کاایک جتھہ محلہ مسجد فضل قادیان میں بھی گھس آیا اور لوٹ مچائی۔
.6(.6۴.6۶) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔موضع بھینی بانگر متصل محلہ دارالبرکات و دارالانوار قادیان پر سکھ جتھوں نے حملہ کیا ۔ ہند وملٹری موقعہ پر موجود تھی ۔ مگر ہوا میں فائر کرنے کے سوا اس نے حملہ کے روکنے میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔ اور ۲ ۔۳۔ اکتوبر کی درمیانی شب قریباً ساری رات گولیاں چلتی رہیں ۔بھینی کی کئی مسلمان عورتیں اغوا کرلی گئیں اور گائوں خالی کر الیا گیا ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں
‎نمبر ۳
.6گزشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور اس کے ماحول میں رونما ہوئے۔ ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیاجائے گا۔ فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کا ذکر مختصر روزنامچہ کی صورت میں درج کیا جاتا ہے۔
.6(۴۷ ) ۲ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء ۔.6۲ اور ۳؍ اکتوبر کی درمیانی شب کو قادیان کی مسجد اقصیٰ ( یعنی منارۃ المسیح والی جامعہ مسجد ) میں بم پھینکا گیا۔ جو ایک قریب کے ہندو مکان کی طرف سے آیا تھا۔ اس بم سے مؤذن مسجد کا لڑکا بری طرح زخمی ہوا اور دشمن نے بتا دیا کہ ہم مسلمانوں کے جان و مال اور عزت ہی کے پیاسے نہیں بلکہ ان کی مقدس جگہوں کی بے حرمتی کے واسطے بھی تیار ہیں۔
.6(۴۸) .6۳؍ اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔.6 قادیان میں جمع شدہ پناہ گزینوں میں سے چالیس ہزار انسانوں کا پہلا پیدل قافلہ قادیان سے علی الصبح روانہ ہوا۔ ہندو ملٹری ساتھ تھی لیکن ابھی یہ قافلہ قادیان کی حد سے نکلا ہی تھا کہ سکھ جتھوں نے حملہ کر دیا اور چھ میل کے اندر اندر کئی سو مسلمان شہید کر دئے گئے اور بہت سی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور جو رہا سہا سامان مسلمانوں کے پاس تھا وہ لوٹ لیا گیا ۔دیکھنے والے کہتے ہیں کہ کئی دن بعد تک نہر کے ساتھ ساتھ میل ہا میل تک لاشوں کے نشان نظر آتے تھے۔
.6(۴۹) .6۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔ .6 یہ دن قادیان کی تاریخ میں خصوصیت سے یادگار رہے گا۔ کیونکہ اس دن دشمنوں کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے اور لوٹ مار اور قتل و غارت اور اغوا کے واقعات بھیانک ترین صورت میں ظاہر ہو ئے ۔سب سے پہلے آٹھ اور نو بجے صبح کے درمیان قادیان کی غربی جانب سے محلہ مسجد فضل پر ہزارہا سکھوں نے پولیس کی معیت میں حملہ کیا اور قتل و غارت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے عقب تک پہنچ گئے اور جو عورتیں مسجد کے پچھواڑے میں پناہ لینے کے لئے جمع تھیں.6،.6 ان میں سے کئی ایک کواغوا کر لیا گیا اور جب احمدی نوجوان عورتوں کی آہ و پکار سن کر اُن کی طرف بڑھے تو دو نوجوانوں کو خود پولیس نے گولیاں چلا کر مسجد کی دیوار کے ساتھ شہید کر دیا۔ عین اس وقت اطلاع ملی کہ قادیان کے محلہ دارالفتوح اور محلہ دارالرحمت پر بھی ہزارہا سکھوں نے حملہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ان کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لئے کرفیو کا اعلان کر دیا ہے۔ چنانچہ اس حملہ میں دو سو کے قریب مسلمان (احمدی اورغیر احمدی .6،.6 مرد اور عورت.6،.6بچے اور بوڑھے) یا تو شہید ہو گئے اور یا لاپتہ ہو کر اب تک مفقود الخبر ہیں۔ شہید ہونے والوں میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک حرم محترم .6کے حقیقی ماموں مرزا احمد شفیع صاحب بی۔ اے بھی تھے.6،.6 جو اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں پولیس کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنے۔ مگرظالم دشمنوں نے شہید احمدیوں کی لاشیں تک نہیں لینے دیں۔ تاکہ ان کی شناخت اور صحیح تعداد کو مخفی رکھا جا سکے۔ اس دن حملہ آوروں نے لاکھوں روپے کا سامان احمدیوں کے گھروں سے لوٹا۔ اس قسم کے نازک حالات میں بیرونی محلہ جات کے صدر صاحبان نے جماعت کی حفاظت ( اور خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حفاظت) کے خیال سے یہ ضروری سمجھاکہ قادیان کی احمدی آبادی کو بعض مخصوص جگہوں میں سمیٹ کر محفوظ کر لیا جائے۔ چنانچہ ایک حصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں جمع ہو گیا اور دوسرا دارالمسیح اور مدرسہ احمدیہ اور اس کے ملحقہ مکانات میں بند ہو گیا۔ ہزارہا انسانوں کے تھوڑی سی جگہ میں محصور ہو جانے سے صفائی کی حالت نہایت درجہ ابتر ہو گئی اور بعض جگہ پر ایک ایک فٹ تک نجاست جمع ہو گئی۔ جسے احمدی خدام نے خود خاکروبوں کی طرح کام کر کے گڑھوں میں دفن کیا۔ دوسری طرف آٹے کی مشینوں کے بند ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر حصہ آبادی کا گندم ابال ابال کر کھا رہا تھا.6،.6 وہاں بیماروں اور دودھ پلانے والی عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے آٹا مہیا کرنے کے لئے بہت سے معزز احمدی مردوں کو اپنے ہاتھ سے چکیاں چلانی پڑیں۔ یہ دن وہ تھے جب کہ دارالمسیح اور مدرسہ احمدیہ میں ٹھہرے ہوئے لوگ ان احمدیوں سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور تھے۔ کیونکہ درمیانی راستہ بالکل بند اور خطرناک طور پر مخدوش تھا۔ انہی ایام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی دارالسلام اور عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر جبرًاقبضہ کر لیا گیا۔
.6(۵۰).6۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ۔.6کرفیو اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی .6اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا ہے، عین دن دہاڑے برسر بازار سات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیاگیا۔ ان لوگوں میں میاں سلطان شیر عالم صاحب بی۔ اے نائب ناظر ضیافت بھی تھے۔ اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو وہ بھی گولی کا نشانہ بنا دئے گئے۔
.6(۵۱) .6۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ .6ئ۔ سٹار ہوزری قادیان کے مال کو لوٹ لیا گیا۔ جس میں بیش قیمت اون اور لاتعداد جرابیں اور سویٹر اور کمبل وغیرہ شامل تھے اور یہ لوٹ مارمقامی مجسٹریٹ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔
.6(۵۲) .6۵؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ئ۔.6بیرونی پناہ گزینوں کا دوسرا پیدل قافلہ قادیان سے روانہ ہوا ۔ اس قافلہ میں قریباً دس ہزار مسلمان شامل تھے اور کچھ ۳ اکتوبر والے حملہ میں قادیان میں شہید ہو چکی.6تھے۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس قافلہ پر راستہ میں کیا گزری۔
.6(۵۳) .6۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ۔ .6تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور شدہ احمدیوں سے .6ہندو ملٹری نے جبرًا بیگار لی ۔ اور ان کے سر پر کھڑے ہو کر پناہ گزینوں کے چھوڑے ہوئے سامانوں کو اکٹھا کروا کر مختلف مقامات پرپہنچانے کے لئے مجبور کیا۔ اس قسم کی بیگار کئی دن لی جاتی رہی۔
.6(۵۴) .6۵؍ اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔ .6تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت پر معہ اس کے سامان کے قبضہ کر لیا گیا۔
.6(۵۵) .6۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء .6۔ جماعت احمدیہ کا مردانہ اور زنانہ نور ہسپتال جبرًا خالی کر ا لیا گیا اور بیماروں اورزخمیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ باہر نکال کر ہسپتال کا قبضہ ایک ہندو ڈاکٹر کو دے دیا گیااور بعد میں ایک سکھ ڈاکٹر کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔
.6(۵۶) .6۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ مسجد اقصیٰ پر پھر بمباری کی گئی۔ چار بموں میں سے دونے پھٹ کر مسجد کے فرش کو نقصان پہنچا یا۔ اور ایک بم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی عین قبر کے پاس گرا مگر خدا کا شکر ہے کہ پھٹا نہیں۔
.6(۵۷) .6۱۰ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء .6۔عزیزم مرزا رشید احمد کی بیو.6ی.6 کی کار ضبط کر لی گئی۔ اس سے قبل ملک عمر علی صاحب بی ۔ اے کی پرائیویٹ کار بھی ضبط کر لی گئی تھی۔ اسی طرح جماعت کے دو بھاری ٹرک اور دو پندرہ ہنڈرڈ ویٹ والے ٹرک بھی ضبط کر لئے گئے۔اسی طرح بعض اور موٹر گاڑیاں بھی حکومت کی ضرورت کا بہانہ رکھ کر ضبط کر لی گئیں۔
.6(۵۸) .6۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے، کرنل ڈاکڑ عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں لاہور آگئے۔ اور ان کی جگہ قادیان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن کو امیرمقامی مقرر کیا گیا۔
.6(۵۹) .6۱۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء.6 ۔ جماعت احمدیہ کا پریس جس میں جماعت کا مرکزی اخبار الفضل .6چھپتا تھا اور اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح اول کی لائبریری اور اس کے ساتھ شامل شدہ دیگر لائبریریوں پر قبضہ کر کے ان پر مہریں لگا دی گئیں۔ اس مرکزی لائبریری میں ۳۰ ہزار کے قریب علمی کتابیں تھیں۔ جو زیادہ تر عربی اور فارسی میں تھیں۔ اور کئی نایاب کتب اور بیش قیمت قلمی نسخے بھی لائبریری میں موجود تھے۔ جن سے احمدی علماء اپنی علمی تحقیقاتوں میں فائدہ اٹھاتے تھے۔
.6(۶۰) .6۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء .6۔ اس دن معلوم ہوا کہ حملہ کے ایام میں اور اس کے بعد قادیان کی تین مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ یعنی مسجد محلہ دارالرحمت کے مینار مسمار کر دیئے گئے تاکہ مسجد.6کی علامت کو مٹا دیا جائے۔ مسجد خو جیاں ( جو قادیان کے دوسرے مسلمانوں کی مسجد تھی) پر یہ بورڈ لگا دیا گیا کہ یہ آریہ سماج کا مندر ہے اور محلہ دارالعلوم کی مسجد نور جو تعلیم الاسلام کا لج کے ساتھ ملحق تھی .6اسے غیر مسلموں نے اپنی جلسہ گاہ بنا لیا اور صحن مسجد کے نلکوں پر سکھوں نے کپڑے دھونے شروع کر دئے۔
.6(۶۱) ۱۶؍ نومبر ۱۹۴۷ ء .6۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آگئے اور شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے۔
.6(۶۲) .6۲۱؍ نومبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ ہمارے ایک مکان کی دیوار کو جبرًا گرا کر سکھوں نے اسے ساتھ کے گوردوارہ میں زبردستی شامل کر لیا۔ بار بار کے احتجاج کے حکومت نے ابھی تک اس معاملہ میں کوئی عملی داد رسی نہیں کی۔
.6(۶۳) .6۱۴ ؍دسمبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ اس دن معلوم ہوا کہ قادیان کے ملحقہ احمدی گائوں ننگل باغباناں سے متصل بہشتی مقبرہ کی مسجد کے مینار گرا کرمسمار کر دیئے گئے ہیں اور اس پر کانگرس کا جھنڈا لہرایا گیا ہے اور اب اسے سکھ پناہ گزینوں کی رہائش کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
.6(۶۴) .6۲۳ ؍دسمبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ اس دن ہمارے بعض دوستوں کو مسجد نور محلہ دارالعلوم میں جانے کا موقع میسر آیا تو انہوں نے وہاں قرآن کریم کے تین من اوراق پھٹے ہوئے پائے۔ جنہیں اکٹھا کر کے جلا دیا گیا۔ ہماری مقدس کتاب کے اوراق پھاڑنے میں اپنے خبثِ باطن کے اظہار اور دل آزاری کے سوا اور کوئی غرض نہیں سمجھی جا سکتی۔
.6مظالم قادیان کے اس خونی روزنامچہ کو درج کرنے کے بعد صرف یہ بات قابل ذکر رہ جاتی ہے کہ ہم ان مظالم پر خاموش نہیں بیٹھے اور ہر واقعہ پر مشرقی پنجاب اور انڈین یونین کے وزرا ء اور دیگر ذمہ دار افسروں کو خطوں اور تاروں اور بعض صورتوں میں زبانی گفتگو کے ذریعہ ساتھ ساتھ اطلاع بھجواتے رہے ہیں مگر سوائے آخری ایک دو واقعات کے رسمی جواب کے ہمارے کسی خط یا کسی تار وغیرہ کا جواب تو درکنار رسید تک نہیں آئی۔ ہم نے یہ بھی با ر بار کہا کہ جب ایک طرف انڈین یونین یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ جو مسلمان بھی پر امن اور وفا دار شہری کے طور پر انڈین یونین میں رہنا چاہے.6،.6 اس کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور دوسری طرف ہم نے اپنے متعلق بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارا یہ قدیمی اصول ہے کہ جس حکومت کے مات.6ح.6ت احمدی رہیں۔ اس کے وفادار ہو کر.6رہیں اور قادیان کے احمدی بہر حال انڈین یونین کے وفادار رہیں گے تو پھر کیوں ہم پر یہ مظالم ڈھا کر ہمیں اپنے مقدس مرکز سے جبرًا نکالا جا رہا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آج تک حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت انڈین یونین نے ہمیں اس بارہ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لئے اب ہماری آنکھیں صرف خدا کی طرف ہیں۔ .6و نعم المولیٰ ونعم الوکیل.6۔
.6یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قادیان میں سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا گیا یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ہدایت کے ماتحت قادیان میں ہمارا طریق یہ تھا کہ جب صرف سکھ عوام حملہ کرتے تھے تو ہماری جماعت کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرتے تھے اور خدا کے فضل سے ہر مقابلہ میں کامیاب رہتے تھے۔ لیکن جب حملہ آوروں کے ساتھ پولیس اور ملٹری شامل ہوتی تھی ( اور آخر میں تو اکثر یہی ہوتا تھا ) تو ہمارے آدمی اپنے امام کی اس ہدایت کے ماتحت کہ حکومت کا مقابلہ کسی صورت میں نہ کیا جائے۔ اس مقابلہ سے ہاتھ کھینچ لیتے اور اپنی حفاظت کے معا ملہ کو خدا کے سپرد کر دیتے تھے۔
.6بالآخر یہ ذکرکر د.6ینا.6 بھی ضروری ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے اس وقت بھی ۳۱۳ احمدی قادیان میں اپنے محبوب آقا کے قدموں میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ اور دشمن کے مظالم کا بڑے سے بڑا طوفان بھی خدا کے فضل سے ان کے قدموں کو متزلزل نہیں کر سکا۔ اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جس .6طرح حضرت مسیح موعود ؑ بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں ( مثلاً الہام داغ ہجرت) کے مطابق جماعت احمدیہ .6کے امام اور قادیان کے اکثر احمدی دوستوں کو قادیان سے ہجرت کرنی پڑی۔ اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ .6وہ وقت بھی ضرور آئے گا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہاموں کے مطابق جماعت احمدیہ اپنے مقدس مرکز کو پھر واپس حاصل کر ے گی۔ اور خدا کا یہ الہام پورا ہو کر رہے گا۔ کہ .6اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ … ۱
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مظالم قادیان کے روزنامچہ میں ضروری تصحیح
.6میرا جو مضمون زیر عنوان ’’گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں ‘‘الفضل میں چھپتا رہا ہے اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں جنہیں دوست درست کر لیں۔
.6(۱) زیر نمبر ۲ قادیان کی ریل پر جو حملہ ۲۵ جولائی کو ہونا درج ہے ۔ وہ ۲۴ جولائی سمجھا جائے۔ یہ حملہ دراصل ۲۴ اور ۲۵ جولائی کی درمیانی شب کو ہوا تھا۔
.6(۲) زیر نمبر ۱۸ الفاظ ’’ ہر باغ ‘‘ کے بعد الفاظ ’’ اور ہر میدان ‘‘ کاتب نے چھوڑ دیئے ہیں۔ انہیں درج کر لیا جائے۔
.6(۳) زیر نمبر ۲۴ میاں شریف احمد صاحب کی روانگی از قادیان ۱۹ ستمبر کے ماتحت درج ہے مگر صحیح تاریخ ۱۸ ستمبر ہے۔
.6(۴) نمبر ۲۵ پر زیر تاریخ ۱۹ ستمبر موضع کھارا متصل قادیان پر سکھوں کا حملہ درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ وہ درج کر لیا جائے۔ اور موجودہ نمبر ۲۵ کو نمبر ۲۶ کر دیا جائے۔ .6و علٰی ھذا القیاس.6۔
.6(۵) زیر نمبر ۴۸ قادیان سے پہلے قافلہ کی روانگی جو ۳ ؍اکتوبر کو درج ہے اسے ۴ ؍اکتوبر سمجھا جائے اور نمبروں کی تر تیب درست کر لی جائے۔
.6(۶) زیر نمبر ۵۲ جو دوسرے قافلہ کی روانگی ۵؍ اکتوبر کو درج ہے ۔ وہ ۶؍ اکتوبر کو سمجھی جائے اور ترتیب درست کر لی جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
فسادات قادیان کا پسِ منظر
.6
.6میرا جو مضمون زیر عنوان ’’ گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں‘‘ الفضل میں چھپتا رہا ہے۔ اس کے شروع میں قادیان کے متعلق فسادات کا پس منظر دکھانے کے لئے ایک نوٹ کی ضرورت تھی.6،.6جو غلطی سے رہ گیا ہے۔ اب یہ نوٹ ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔
.6ہندوستان کا ملک عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی آماجگاہ رہا ہے جو گزشتہ سال اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور جوں جوں ملک کے دو حصوں میں بٹنے کا وقت قریب آتا گیا، یہ کشیدگی بھی دن بدن زیادہ ہوتی چلی گئی۔ مارچ ۱۹۴۷ ء کے فسادات جو وسطی پنجاب میں رونما ہوئے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندو سیاست سکھوں کی جنگجو قوم کو اپنے ساتھ ملا کر اور مسلمانوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر کے انہیں ملک کی تقسیم کے خیال سے باز رکھنا چاہتی تھی۔ اور مسلمان اپنی جگہ یہ خیال کرتے تھے کہ ملک کی موجودہ فضا میں ان کے لئے پنپنا اور ترقی کرنا محال ہو گیا ہے۔ اگر ایک طرف خود حفاظتی کا جذبہ مسلمانوں کو علیحدگی کی طرف کھینچ رہا تھا تو دوسری طرف استبداد کا خمار ہندوئوں کو اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ جس طرح بھی ہو ملک کی تقسیم اور مسلمانوں کی علیحدگی کو روکا جائے۔
.6جب اس قسم کی آتشی فضا میں ریڈ کلف کمیشن نے مشرقی اور مغربی پنجاب کی سرحدوں کا فیصلہ سنایا تو سارا پنجاب ایک خطرناک بارود کے ذخیرہ کی طرح فرقہ وارانہ جنگ کی آگ سے بھڑک اٹھا اور سر زمین پنجاب نے وہ انسانیت سوز نظارے دیکھے جو تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے تلخ ترین یادگار رہیں گے۔ ایک کروڑ انسانی جانوں کا ایک حصہ ملک سے دوسرے حصہ ملک کی طرف منتقل ہونا خود اپنی ذات میں ایک عدیم المثال تاریخی واقعہ ہے۔ مگر جب ان حالات کو دیکھا جائے جن میں یہ انتقال آبادی عملاً وقوع میں آیا تو انسان کی آنکھیں شرم کی وجہ سے زمین میں گڑ جاتی ہیں اور وہ اس بات کی .6ہمت.6 نہیں پاتا کہ اپنا سر اونچا کر کے کسی شریف انسان کے ساتھ آنکھیں ملا سکے۔ ہندو قوم ہر سال ہولی کھیلنے کی عادی ہے۔ جس میں سرخ پانی کے چھینٹے ایک دوسرے پر پھینکے جاتے ہیں مگر گزشتہ سال کروڑوں انسانوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ جس کے نتیجہ میں لاکھوں بے گناہ انسان قتل کئے گئے۔ ہزارہا معصوم عورتوں کو اغوا کر کے ان کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں بچے مائوں کے سا.6منے.6 تہ تیغ کئے گئے۔ ہزاروں مائیں بلکتے ہوئے بچوں کے سامنے ہمیشہ کی نیند سلا دی گئیں اور اربوںروپے کی جائیداد نذر آتش کر دی گئی یا لوٹ لی گئی۔
.6مگر مجھے اس جگہ صرف قادیان کے متعلق کچھ کہنا ہے جو جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے۔ اور جسے اپنی انتہائی پُر امن روایات اور وفادارانہ جذبات کے باوجود اس طوفان بے تمیزی کا شکار ہونا پڑا۔ قادیان کی بستی آج سے قریبا ساڑھے چار سو برس قبل ہمارے بزرگوں نے شہنشاہ بابر کے زمانہ میں .6ثمرقند .6 و بخار اکی طرف سے آکر لاہور سے ستر میل شمال مشرقی جانب آباد کی تھی۔ اور ہمارا خاندان سلطنت مغلیہ کے زمانہ میں ہمیشہ اعلیٰ مناصب پر فائز رہا ۔اسی لئے جب مغلوں کے تنزل پر وسط پنجاب میں سکھوں نے سر اٹھایا تو ان کا پہلا نشانہ قادیان کی ریاست بنی ۔چنانچہ انیسویں صدی کے شروع میں ہمارے خاندان کو پہلی دفعہ قادیان چھوڑنا پڑا اور ہمارے آباء نے کئی سال تک جلا وطنی میں دن گزارے۔ بالآخر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے چھوٹی چھوٹی سکھ ریاستوں کو مغلوب کر کے پنجاب میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کر لی تو ہمارے دادا مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مہاراجہ کی اجازت سے قادیان واپس آگئے ۔ اور باوجود زخم خوردہ ہونے کے ملک کے امن کی خاطر اور خاندانی روایات کی بنا پر ملک کی قائم شدہ حکومت کے ہمیشہ وفادار رہے۔
.6۱۸۸۹ء میں ہمارے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے خدا سے حکم پا کر چودھویں صدی کے مجدد اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت سے قادیان کا قصبہ جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے۔ مقدس سے میری یہ مراد نہیں کہ قادیان میں بہت سی مسجدیں ہیں۔ مسجدیں بے شک نہایت مقدس چیز ہیں لیکن جب ہم قادیان کو مقدس کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک مامور من اللہ کا مولد اور مسکن اور مدفن ہے۔ جہاں اس نے اپنی زندگی کے دن گزارے ۔ اپنے خدا کی یاد میں راتیں کاٹیں۔ خدا سے نشانات پائے خدا سے حکم .6پاکر.6 ایک مذہبی سلسلہ کی بنیاد رکھی اور خدا ہی کے حکم کے ماتحت قادیان کو اس مذہبی سلسلہ کا مرکز قرار دیا۔ جہاں وہ .6تما.6م مذہبی ادارے واقع ہیں۔ جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں کی تعلیمی اور تربیتی اور تبلیغی نگرانی کرتے ہیں۔ اور جو خلافت کا سلسلہ خدائی منشاء کے ماتحت بانی ٔجماعت احمدیہ کی وفات ۱۹۰۸ ء پر قائم ہوا۔ اس کا صد ر مقام بھی ہمیشہ قادیان رہا ہے۔ پس قادیان صرف تاریخی لحاظ سے ہی ایک مقد.6س.6 مقام نہیںبلکہ ایک عالمگیر مذہبی جماعت کی ہدایت اور نگرانی کا زندہ مرکز ہے۔ اور پھر جماعت احمدیہ کوئی باغیوں یا لٹیروں کا گروہ نہیں بلکہ دینی اور علمی مشاغل کے لئے اپنی جانوں کو وقف رکھنے والے لوگوں کی پُر امن جماعت ہے۔ اس مرکز اور ایسی جماعت کو جس منظم اور ظالمانہ اور بے دردانہ رنگ میں نقصان پہنچایا گیا۔ اس کی مختصر روئیداد اوپر کے روزنامچہ میں درج کی گئی ہے۔
.6اس روزنامچہ کے درج شدہ واقعات کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک یک طرفہ اور جا.6ن.6بد.6ارانہ بیان ہے۔ بلکہ حسن اتفاق سے ان واقعات کے بہت سے غیر جانبدار بلکہ غیر ملکی گواہ بھی موجود ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس چودہ کس ہندوئوں اور سکھوں اور ہندوستانی عیسائیوں کی تحریری شہادت موجودہے کہ قادیان پر سکھوں کا حملہ ہوا اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا میدان گرم رہا ۔ یہ شہادت ہر باعزت متلاشی حق کو دکھائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اتفاق سے ان ایام میں انگلستان سے آئے ہوئے ایک معزز انگریز نو مسلم .6ل.6یفٹیننٹ .6آرچر ڈ قادیان میں موجود تھے اور انہوں نے بہت سے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور واپس جا کر ولائت کے اخباروں میں شائع کر ائے ۔( دیکھو .6سائوتھ ویسٹرن سٹار لنڈن مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء اور ایوننگ پوسٹ برسٹل مورخہ ۱۱.6؍.6 اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔) .6اسی طرح ان ایام میں ایک معزز عرب بیرسٹر سید.6منیر الحصنی.6ملک شام سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ اور متعدد واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے اور بالآخردوعیسائی غیر جانبدار انگریز جرنلسٹ مسڑ ڈگلس برائون اور مسٹر جاس لین ہنیلیسی خود حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے قادیان گئے۔ اور پھر انہوں نے اپنی آزادانہ شہادت انگلستان کے اخباروں میں شائع کرائی۔ اور قادیان میں سکھوں اور ہندوئوں کے مظالم کی تصدیق کی ( دیکھو ڈیلی ٹیلی گراف لندن مورخہ ۱۳؍ اکتوبر، ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء اور ڈیلی گراف لندن مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ) یہ اسی آزادانہ شہادت کا نتیجہ تھاکہ لاہور کے مشہور اینگلو انڈین اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے ایک لیڈنگ آرٹیکل میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ قادیان کے مظالم آزاد غیر جانبدار اور شہادت سے پوری طرح ثابت ہیں۔ ( دیکھو سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء )
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
کامیابی حاصل کرنے کے گُر
علم۔ محنت ۔دیانت۔ استقلال۔ دُعا
.6میں نے اوپر کے عنوان میں ’’گُر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جسے بعض لوگ راز کہہ کر بھی پکارا کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نہ تو کوئی گُر ہے اور نہ کوئی راز بلکہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا ایک سیدھا سادھا رستہ مقرر کر رکھا ہے۔ مگر لوگ اپنی عجوبہ پسندی میں اس راستہ کو(بلکہ بعض اوقات اس راستہ کے فقدان کو ) راز کا نام دے کر لوگوں کے دل و دماغ کو مسحور کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن شریف نے اس بحث کو اپنی ابتدائی سورت کی اس مختصر سی دعا میں حل کر دیا ہے کہ .6۲.6(یعنی اے خدا ہمیں ٹھیک راستہ دکھا) کیونکہ دراصل صراط مستقیم ہی کامیابی کا راز اور گُر ہے۔ مستقیم کے لفظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ ٹھیک راستہ وہ ہے جوچھوٹا ہو اور منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو۔ اگر ایک راستہ منزل مقصود تک تو پہنچاتا ہے لیکن چھوٹا نہیں ہے بلکہ چکر کاٹ کر اور وقت ضائع کر ا کے منزل تک پہنچاتا ہے تو وہ صراط مستقیم نہیں اسی طرح اگر ایک رستہ چھوٹا تو ہے مگر منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا تو وہ بھی صراط مستقیم نہیںاور قرآن شریف نے صراط مستقیم کی علامتیں یہ بتائی ہیں کہ.6 .6.6۳.6 .6یعنی .6.6کی نشانی یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس رستہ کو اختیار کر کے عملََاکامیابی حاصل کر چکے ہوں۔ یا اس راستہ کو ترک کر کے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہوں۔ پس میں نے جو اوپر کے عنوان میں’’گُر‘‘ کا لفظ لکھا ہے۔ اس سے عرف عام والا گر مراد نہیں بلکہ قرآن شریف والا صراط مستقیم مراد ہے۔
.6مجھے آج کل اس مضمون کی ضرورت خصوصیت کے ساتھ اس واسطے محسوس ہوئی کہ گزشتہ فسادات کے قیامت خیز طوفان نے ملک کی اقتصادی اور تمدنی زندگی میں ایسا تلاطم برپا کر دیا ہے کہ لاکھوں انسان اپنی جگہ سے اکھڑ کر زندگی کے وسیع میدان میں اس قدر پریشان حال اور .6بکھر.6ے ہوئے پڑے ہیں کہ انہیں سنبھالنے کے لئے خاص انتظا م اور خاص جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس نئے دور میں اپنے قدموں کو اس رستہ پر ڈال سکیں جو خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر نے کامیابی کے حصول کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ صحیح وسائل کے حاصل ہو جانے اور صحیح طریق کار کے اختیار کر نے .6کے باوجود مختلف انسانوں کی جدو جہدکے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں کیونکہ مختلف انسانوں کی قوت عملیہ اور .6قوت ذہنیہ مختلف ہوا کرتی ہے لیکن پھر بھی اگر صحیح طریق کار کو اختیار کیا جائے تو کم از کم ہر انسان جو .6مجنون یا مخبوط الحواس نہیں ہے، ٹھوکر سے بچ سکتا ہے اور کامیابی کے ایک معقول معیار کو حاصل کر سکتا ہے۔
علم
.6یہ وسائل اور یہ طریق کار جو ہر قسم کے کاروبار میں انسان کی کامیابی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں پانچ قسم کے ہیںجن میں سے چار مادی ہیں۔ اور ایک روحانی ہے اور میں انہی کے متعلق اس مختصر سے مقالہ میں کچھ بیان کرناچاہتا ہوں۔ سب سے مقدم اور ہر جہت سے نمبر اول پر سمجھے جانے کے قابل چیز علم ہے۔ یعنی اس فن کی واقفیت پیدا کرنا۔ جو ایک انسان اپنے کاروبار مثلا ًتجارت یا صنعت و حرفت یا زراعت وغیرہ کے لئے اختیار کرنا چاہتا ہے۔ علم و ہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ پس ہرشخص جو کسی قسم کے کاروبار میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ اس کا سب سے پہلافرض یہ ہے کہ جس فن کو وہ اختیار کرناچاہتا ہے اس کی پوری پوری واقفیت حاصل کرے۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ ایک کام میں ہاتھ تو ڈال دیتے ہیں۔ مگر اس کے اصول اور تفاصیل اور طریق کار کے سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص جو تیرنا نہیں جانتا۔ وہ کسی گہرے سمندر میں جا کودے۔ ایسا شخص یقینا ڈوبے گا اور اس کے ڈوبنے کی ذمہ داری خود اس کے نفس پر ہو گی۔ میرا یہ منشاء نہیں کہ جب تک کسی فن میں کمال نہ پیدا کر لیا جا ئے اس وقت تک اس میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ کیونکہ علوم کے بعض حصے علم کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں اور بعض لوگ اپنی کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے تکمیل کی اہلیت ہی نہیں رکھتے مگر بہر حال اتنا تو ضرو.6ری ہے کہ ہر وہ شخص جو زراعت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے وہ زراعت کے مبادی سے واقف ہو اور ہر وہ شخص جو تجارت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ تجارت کے مبادی سے واقف ہواور ہر وہ شخص جو صنعت وحرفت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ صنعت و حرفت کے مبادی سے واقف ہو وغیرہ ۔دنیا میں بیشمارناکامیاںصرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ لوگ محض دیکھا دیکھی یا صرف شوق کے طور پر یا کسی دوسرے کے کہنے کہانے سے فن سے واقفیت پیدا کرنے کے بغیر ایک کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاکر اپنی قسمت کو روتے ہیں ۔ پس کامیابی کے لئے سب سے مقدم چیزیہ ہے کہ انسان جو کام بھی اختیارکرنا چاہے اس کے اصول اور اس کے فن سے واقفیت پیدا کرے۔ اسلام نے تو علم کی ایسی ارفع شان قائم کی ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمارے آقا و سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی علم کے میدان میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ ؐ .6کو.6 یہ دعا سکھاتا ہے کہ.6۴.6 یعنی اے خدا میرے علم میں ترقی دے۔ یعنی جوں جوں میرے کام کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے مجھے علم میں وسعت عطا کر تا.6کہ.6 میں اپنے کام کو بہترین صورت.6 .6میں اور اعلیٰ ترین کامیابی کے ساتھ سر انجام دے سکوں۔ پس کامیابی کے لئے سب سے ضروری چیز علم اور فن کی واقفیت ہے۔ یہ واقفیت عام حالات میں یا تو دوسروں کو کام کرتا دیکھ کر پیدا کی جا سکتی ہے۔ یا دوسروں سے سن کر حاصل کی جا سکتی ہے اور یا متعلقہ کتب کے مطالعہ سے میسر آتی ہے۔ اس لئے کوئی شخص خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ اس بنیادی چیز سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔
محنت
.6دوسر.6ی.6 چیز جو کامیابی کے لئے ضروری ہے وہ محنت ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی قدرو قیمت کو نہیں پہچانتے اور اپنے اوقات کو نہایت بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے ہیں۔ حالانکہ وقت ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور چونکہ انسان کی زندگی بہت محدود ہے۔ اس لئے جو شخص اپنی زندگی کے لمحات کو فضول طور پر ضائع کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر ایسا ظلم کرتا ہے۔ جس کا بعد میں کوئی ازالہ ممکن نہیں۔ انسانی اوقات کا ایک کافی حصہ تو خود قانون قدرت نے انسان سے چھین رکھا ہے۔ مثلاً کھانے پینے کے اوقات ۔رفع حاجت کے اوقات۔ سونے کے اوقات ورزش یا تفریح کے اوقات۔ اور کبھی کبھار بیماری کے ایام وغیرہ کام کے دائرہ سے عملاً خارج ہوتے ہیں۔ پھر اگر باقی ماندہ وقت میں سے بھی انسان کچھ حصہ ضائع کر دے تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کو ن ہو گا۔ علاوہ ازیں جو شخص وقت کی قدر کو نہیں پہچانتا اور اپنے اوقات کو ضائع کرتا ہے وہ کبھی بھی اپنے کام میں توجہ اور انہماک پیدا نہیں کر سکتا اور توجہ اور انہماک کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ پس کامیابی کا دوسرا گُرمحنت ہے۔ محنت ایک ایسی نعمت ہے کہ بسا اوقات اس سے عقل اور ذہن کی کمی بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ جب ہم بچے تھے تو سکول کی کتابوں میں خرگوش اور کچھوے کی دوڑ کی کہانی پڑھا کرتے تھے۔ جس میں بتایا گیا تھاکہ کس طرح ایک محنتی کچھوے نے ایک تیز رفتار مگر کاہل اور سست خرگوش سے دوڑ جیت لی۔ دنیا کے بڑے لوگوں میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی گذری ہے.6 جنہوں نے باوجود ذہن کی کمی کے اپنی محنت اور جانفشانی سے کمال پیدا کر لیا مگر اس کے مقابل پر ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں۔ جنہوں نے محض ذہنی کمال کے نتیجہ میں محنت کے بغیر کمال پیدا کیا ہو.6 .6وَالشَّاذُ کَالْمَعْدُوْم.6۔ میرے علم کے مطابق وقت کی قدر کو کم کرنے والی عادتوں میں نشے کی چیزیں بھی شامل ہیں اور میں اپنے خیال کے مطابق تمبا کو نوشی کو بھی اس فہرست میں شا مل سمجھتا ہوں۔ بعض کرسی نشین فلسفی کہا کرتے ہیں کہ سگریٹ نوشی .6تخیل .6کو بڑھاتی اور سوچنے کے مادہ کو ترقی دیتی ہے۔ ممکن ہے کسی حد تک یہ درست ہو مگر یہ اسی قسم کی دلیل ہے۔ جیسا کہ قرآنِ شریف نے شراب اور جوئے کے حق میں بیان کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس نے یہ فرماتے ہوئے شراب اور جوئے کو ممنوع قرار دیا ہے کہ.6 .6 ۵ .6۔ یعنی شراب اور جوئے کا نقصان ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ بہر حال میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمباکو ہوتا تو آپ ضرور اس کے استعمال کو منع فر مادیتے۔ میں ایک لمحہ کے لئے بھی صحابہ کی مقدس جماعت کو ایک سگریٹ نوشوں کی پارٹی کی صورت میں اپنے تصور میں نہیں لا سکتا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اصل مطلب یہ ہے کہ ہر میدان میں کامیابی کے لئے محنت اور استغراق نہایت ضروری چیز .6ہے اور دنیا میں وہی لوگ ترقی کرتے ہیں جو اپنے کاموں میں محنت اور جانفشانی کے طریق کو اختیار کرتے ہیں .6مگر مجھے شرم کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ آج کل مسلمانوں میں اس جوہر کی بہت کمی ہے۔ رات کو دیر دیر تک گپ بازی میں وقت گزارنا اور صبح کے قیمتی وقت کو سونے میںضائع کر دینا مسلمان نوجوانوں کا ایک خاصہ ہو رہا ہے حالانکہ یہ وہ چیز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر منع فرمایا ہے۔
دیانت
.6کامیابی کے حصول کے لئے تیسری بڑی چیز دیانت داری ہے۔ دیانت داری ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کی قدر و قیمت کو بے انتہا بڑھا دیتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی شان پیدا کر دیتا ہے کہ جس کے مقا بل پر ہر دوسرے شخص کو جھکنا پڑتا ہے۔ سچ بولنا۔ امانت میں خیانت نہ کرنا۔ دھوکہ دینے کے طریق سے احتراز کرنا۔ اپنے نفع کے علاوہ دوسرے کے فائدہ کا بھی خیال رکھنا۔ یہ سب باتیںدیانت داری کے مختلف شعبے ہیں جو انسان کے کام کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ تاجروں کے لئے دیانت داری کا مخصوص پہلو یہ ہے کہ وہ نا قص چیز کو اچھا کہہ کر نہ بیچیں اور نفع میں اس اصول کو مدنظر رکھیں کہ ان کی ذات کے علاوہ ان کے گاہکوں کو بھی فائدہ پہنچے اور بڑے اور چھوٹے اور واقف کار اور ناواقف کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ نے دیکھا کہ وہ اوپر سے خشک تھا لیکن جب آپ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر اندر کا غلہ نکالا تو وہ پانی سے تر بتر تھا۔ اس پر آپ سخت خفا ہوئے اور فرمایا کہ جوتاجر گاہک کو دھوکہ دیتا ہے وہ مسلمان نہیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دیانت داری کا.6اتنا احساس تھا کہ آپ ؐ نے یہاں تک حکم دیا کہ پختگی سے پہلے درخت کے پھل کو مت بیچو۔ کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ پختہ ہونے تک اس پھل پر کیا گزرے۔ الغرض ہر کاروبار میں دیانت کے پہلو کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ لوگ جن کی دیانت داری مشکوک ہو کبھی بھی لوگوں میں عزت نہیں پاتے۔ اور اگر انہیں وقتی طور پر کچھ زائد نفع حا صل ہو بھی جائے تو بالآخر وہ ضرور تباہی کامنہ دیکھتے ہیں۔
استقلال
.6چوتھی چیزجو کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ استقلال ہے۔ جسے قرآن شریف نے عربی اصطلاح کے مطابق صبر کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ استقلال سے یہ مراد ہے کہ جب ایک کام کو ہاتھ ڈالا جائے تو شروع کی ناکامیوں اور ٹھوکروں سے گھبرا کر یا ویسے ہی تلون مزاجی کے رنگ میں اکتا کر اس کام کو چھوڑ نہ دیا جائے۔ خدا تعالی نے دنیا میں تدریج کے اصول کوقائم کیا ہے۔ یعنی ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ درخت ہی کو دیکھو کہ شروع میں ایک چھوٹا سا بیج ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک نرم اور کمزور کونپل کی طرح باہر نکلتا ہے اور کافی عرصہ تک ایسا نازک نظر آتا ہے کہ ذرا سی چوٹ اسے مٹا سکتی ہے۔ مگر بالآ خر ایک شاندار اور تناور درخت بن جاتاہے۔ جو سخت سے سخت طوفان میں بھی گرنے کا نام نہیں لیتا لیکن افسوس ہے کہ اکثر مسلمان نوجوان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہو کر ہاتھ پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور جب کچھ عرصہ تک انہیں ان کا خیالی اور موہوم نفع حاصل نہیں ہوتا تو اکتا کر کام کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ طریق انفرادی اور قومی ترقی کے لئے سخت مہلک ہے جو نوجوان یا جو قومیں صبر و استقلال کی صفت سے محروم ہوتی ہیںوہ کبھی بھی دنیا میں ترقی نہیں کر تیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محنت اور جدو جہد کرنے والا دنیا میں کون گزرا ہے۔ مگر پھر بھی آپ کو عرب جیسے ملک میں کامیابی کے لئے اکیس سال تک نہایت مایوس کن حالات میں صبر سے کام لینا پڑا اور اس عرصہ میں اسلام کی کشتی بعض اوقات .6بظاہر اس طرح ڈگمگائی کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ بس اب یہ ڈوب جائے گی۔ لیکن آخر آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم نے اپنے صبر کا پھل پایا اور مکہ کی تاریک گلیوں میں سے رات کے وقت اکیلا نکلنے والا انسان بالآخر دس ہزار قدوسیوںکی سرداری میں فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوامکہ میں داخل ہوا۔ بے شک یہ کامیابی ایک خاص خدائی انعام تھی۔ مگر اس میں بھی کیا شک ہے کہ بظاہر یہ انعام صبر و استقلال کے ہی ذریعہ حاصل ہوا ۔ پس استقلال بھی انسانی کامیابی کا ایک بھاری گُر ہے اور بے صبری ایک مہلک زہر ہے جو اچھے سے اچھے کام کو بھی تباہ کر دیتااور ناکام بنا دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر مسلمان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہیں۔ اور جب چار دن کے انتظا رکے بعد کسی کام میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ایک دروازے کو چھوڑ کر دوسرے دروازے کی راہ لے لیتے ہیں۔
.6چاروں صفات کا ایک ہی وقت میں پایا جانا ضروری ہے۔یہ وہ چار موٹے موٹے مادی وسائل ہیں جن سے انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ (اول) علم اور فن کی واقفیت (دوم) محنت اور جانفشانی(سوم) دیانت داری اور امانت(چہارم) صبر اور استقلال۔یہ گویا وہ چار دیواری ہے۔ جس سے انسانی کاموں کی عمارت تکمیل پاتی ہے۔ لیکن جس طرح اگر کسی کمرہ کی چار دیواروں میں سے ایک دیوار گری ہوئی ہوتو اس کمرہ کے اندر رہنے والا شخص سردی گرمی اور چور چکار کے خطرہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص علم تو رکھتا ہے مگر محنت کے جوہر سے عاری ہے یا محنتی تو ہے مگر اس کے علم کا خانہ خالی ہے۔ یا وہ علم اور محنت دونوں خوبیوں سے مزین ہے مگر دیا نت .6دار نہیں یا دیانت دار بھی ہے۔ مگر اس کے صبر و استقلال .6کا دامن تہی ہے تو وہ اپنی بعض خوبیوں کے باوجود کبھی بھی پوری کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ جس کے لئے اس عمارت کی چاردیواری کی تکمیل ضروری ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے برتن کی ہے۔ جس کی تین طرفیں تو ٹھیک ہوںمگر چوتھی طرف ٹوٹی ہوئی ہو ۔کیا ایسے برتن میں ڈالا ہوا دودھ سلامت رہ سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ان چار صفات میں سے سب کا پایا جانا ضروری ہے۔ ورنہ کامیابی ایک خیالِ موہوم۔
دعا
.6لیکن چارد یواری کے لئے بھی ایک چھت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جو اوپر سے آنے والے خطرات کو روکتی ہے اور یہ چھت دُعا ہے جسے قرآن شریف نے صلوٰۃ کے لفظ سے تعبیر کیاہے۔ چنانچہ فرماتا ہے .6۶.6یع.6نی.6 تم اپنے کاموں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک طرف صبرواستقلال کا اور دوسری طرف دعا اور نماز کا طریق اختیار کرو۔ اس مختصر فقرہ میں علم اور محنت اور دیانت کے ذکر کو بظاہر ترک کر کے صبر کے لفظ میں مرکوزکر دیا گیا ہے کیونکہ صبر سے محض بے کاری میں انتظار کرنا یا ایک جگہ پردھرنا مار کر بیٹھے رہنا مراد نہیں بلکہ کسی صحیح طریق کار پر استقلال کے ساتھ قائم رہنا مراد ہے اور یہ طریق کار وہی ہے جسے دوسری جگہ قرآن شریف نے علم اور استغراق اور امانت کے لفظوں سے یاد کیا ہے مگر اس جگہ تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ بہر حال دعا ایک روحانی ذریعہ ہے جو دنیا کے مادی ذرائع کے لئے بطور چھت کے ہے اور سچے مسلمانوں کو روحانی ذریعہ کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دراصل جب ایک انسان اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق علم اور محنت اور دیانت اور استقلال کے رستوں کو اختیار کر لیتا ہے تو پھر بھی بشری کمزوری کی وجہ سے اس کے کام میں بعض رخنے باقی رہ جاتے ہیںاوران رخنوں کو دعا پورا کرتی ہے۔ گویا کامیابی کے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے والا انسان خدا سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا تیرے بنائے ہوئے قانون کے ما تحت جو ذرائع ضروری تھے وہ میں نے اختیار کر لئے، اب میری کوشش میں جو خامی رہ گئی ہے اسے تو اپنے فضل سے پورا فرما دے۔ اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ فرما تا ہے کہ جو لوگ خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو اختیار کرنے کے بعد خدا سے دعا کرتے ہیں۔ ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے .6.6۷ .6یعنی.6 میں دعا کرنے والے کی دعا کو ضرور قبول کرتا ہوںمگر شرط یہ ہے کہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں اور میرے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں۔
مکمل چار دیواری
.6مجھے یقین ہے کہ اگر اس نئے قومی دور میں مسلمان ان پانچ طریقوں کو اختیار کریں جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔ یعنی(۱) علم(۲) محنت (۳) دیانت (۴) استقلال اور(۵) دعا تو وہ نہ صرف اپنے کاموں میں کامیاب ہو سکتے ہیںبلکہ انفرادی اور قومی لحاظ سے اتنی ترقی کر سکتے ہیںکہ ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔ جیسا کہ اسلام کے پہلے دور میں وہ نمونہ بنے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگ منہ کی پھونکوں سے یا دل میں پیدا ہو کر ٹھٹھر جانے والی خواہش سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان راستوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں جو ہمارے علیم و قدیر خدا نے انسانی ترقی کے لئے پیدا کئے ہیں۔مجھے تو واقعی یوں نظر آتا ہے کہ گویا انسان کا وجود فرش اور زمین کے طور پر ہے۔ اور یہ چارمادی ذرائع چاردیواروں کے قائمقام ہیں جو اس فرش پر قائم ہونی چاہئیں ۔ اور پھر دعا کا روحانی ذریعہ اس چار دیواری کے لئے بطور چھت کے ہے۔ جس سے کہ گھر کی عمارت تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اور اس کے بعد کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا۔ کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں اور انفرادی اور قومی جدوجہد میں حصہ لے کر اسلام کے جھنڈے کو ہر جہت سے بلند تر کرنے کی کوشش کریں۔ بے شک یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہو کر ہے گی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ خود اس زمانہ کے مرسل و مامور سے فرماتا ہے کہ:.6-
.6بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے
.6محمدیاں بر منارِ بلند تر .6م.6حکم افتاد۸
.6مگر کیا ہی خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کے ہاتھ سے یہ بظاہر نگوں شدہ جھنڈا دوبارہ اونچا ہو گا۔ .6و ا خر دعوٰ نا ان الحمد ﷲ رب العالمین.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
جمع صلوٰتین کے متعلق ایک ضروری مسئلہ
کیا امام کی اتباع زیادہ ضروری ہے یا کہ نمازوں کی ترتیب
.6سفر یا بارش وغیرہ کے موقع پر جبکہ عموماً نمازوں کے جمع کرنے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ کئی لوگوںکو ایک خاص قسم کی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کے متعلق مفتیوں کے فتویٰ میں اختلاف ہے۔ یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب مثلاً امام ظہر اور عصر کی نماز جمع کراتے ہوئے عصر کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے۔ یا مغرب اور عشاء کی نماز جمع کراتے ہوئے عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے اور ایک ایسا شخص آکر نمازمیں شامل ہو تا ہے۔ جس نے ابھی تک ظہر یا مغرب کی نماز نہیں پڑھی ہوتی اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اپنی چھوڑی ہوئی نماز پہلے پڑھے۔ اور پھر امام کے ساتھ نماز باجماعت میں شامل ہو۔ یا کہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے۔ قدیم علماء میںتو اس مسئلہ کے متعلق اختلاف ہے ہی مگر جہاں تک سماعی فتویٰ کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے فتویٰ میں بھی اختلاف سنا جاتا ہے۔ زبانی روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ یہ تھا کہ ایسی صورت میں شامل ہونے والے شخص کو چاہئے کہ ترتیب کے خیال کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور جو نماز امام پڑھا رہا ہے وہ پہلے پڑھ لے اور پھر بعد میں اپنی چھوڑی ہوئی نماز علیحدہ ادا کرے ۔اس کے مقابل پر ایک دوسری زبانی روایت حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ بتاتی ہے کہ چونکہ نمازوںکی مقررہ ترتیب ضروری ہے۔ اس لئے ایسی صورت میںاس شخص کو چاہئے کہ پہلے علیحدہ طور پر اپنی چھوٹی ہوئی نماز پڑھے اور اس کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو۔
.6اس تعلق میں میرا سب سے پہلا سوال تو احبا ب سے یہ ہے کہ اگر کسی دوست کو اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اوّل ؓ کا کوئی یقینی اور قطعی فتویٰ معلوم ہو تو اس سے اطلاع دیں۔ تاکہ صحیح صورت کا علم ہو سکے کہ آیا جو فتویٰ زبانی روایت سے ظاہر ہوتا ہے وہی درست ہے یا کہ اصل صورت کچھ اور ہے۔ ہر چند کہ اس قسم کے فقہی مسائل کا اختلاف زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ مسائل اسلامی تعلیم کے اس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ .6اختلاف امتی رحمۃ…۹.6 .6یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔مگر پھر بھی علمی تحقیق کی .6رو سے اصل فتویٰ کا پتہ لگانا ضروری ہے۔
.6دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوںوہ اصل مسئلہ سے تعلق رکھتی ہے۔جہاں تک میں نے اس سوال کے متعلق سوچا ہے۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ زیادہ صحیح پختہ اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق نظر آتا ہے۔ اور میرے اس خیال کے دلائل یہ ہیں:.6-
.6(۱) اسلام امام کی اتباع کے سوال کو اتنی اہمیت دیتا ہے اور اسے قومی اور انفرادی ترقی کے لئے ایسا ضروری قرار دیتا ہے کہ اس کے مقابل پر کسی دوسرے استدلالی مسئلہ کو جو امہات مسائل میں سے نہیں قطعا ًکوئی حیثیت حاصل نہیں۔ پس جہاں امام کی اتباع اور کسی دوسرے غیر اصولی یا جزوی مسئلہ کا .6ٹکرائو پیدا ہو گا۔ وہاں لازماً امام کی اتباع کو مقدم کیا جائے گا۔ اور اس اصول کے ماتحت حضرت .6مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ ہی صحیح قرار پاتا ہے۔کیونکہ اس میں امام کی اتباع کے اصول کو نماز کی ظاہری اور وقتی ترتیب کے سوال پر مقدم رکھا گیا ہے۔
.6(۲)دوسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میں اس اصول سے نکلتی ہے کہ اگر اس بات کی اجازت دی جائے کہ امام تومسجد میں نماز باجماعت پڑھا رہاہے اور ایک دوسرا شخص پیچھے سے آکر جماعت سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ نماز شروع کر دیتا ہے۔ اور مسجد میں یہ نظارہ نظر آنے لگتا ہے کہ مثلاً امام تو جماعت کے ساتھ سجدہ میں ہے۔ مگر یہ شخص کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے ۔ قیام کر رہا ہے تو یہ صورت ملت کے ظاہر ی اتحاد میں سخت رخنہ پیدا کرنے والی اور دل کی گہرائیوں میں کجی کا راستہ کھولنے والی ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو اتحاد ظاہری کا اس قدر خیال تھاکہ آپ صفوں کی ذرا سی بد نظمی کو بھی سخت ناپسند فرماتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ تم جب نماز با جماعت کے لئے کھڑ ے ہو تو صفوں کی درستی اور صحت کا خاص خیال رکھو ۔ اور چاہئے کہ تمہاری یک صورتی اور یک جہتی میں ذرا بھر بھی فرق نہ آوے ۔ کیونکہ اگر تم نے اس کا خیال نہ کیا تو خدا تمہارے دلوں میں کجی پیدا کر دے گا اتحاد ظاہری اور باطنی کا ایسا دلدادہ نبی اس بات کی کس طرح اجازت دے سکتا ہے کہ ادھر تو امام نماز کرا رہا ہے اور ادھر ایک شخص جماعت سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ نماز پڑھ رہا ہے۔ بہر حال اس پہلو سے بھی یہی استدلال ہوتا ہے کہ صورت پیش آمدہ میں امام کی اتباع کا سوال نماز کی ظاہری ترتیب کے سوال پر مقدم ہے۔
.6(۳) تیسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میںیہ ہے کہ جمع کی صورت کے علاوہ عام باجماعت نمازجس کے متعلق آنحضرت .6صلی.6 اللہ علیہ وسلم کا یہ صاف اور واضح فتویٰ موجود ہے کہ اگر تم ایسے وقت میں جماعت میں شامل ہو کہ مثلا ًامام دو.6رکعت نماز پڑھ کر تیسری رکعت میں داخل ہو چکا ہے۔ تو تم نماز میں شامل ہو جائو۔ اور پھر امام کی نماز کے بعد وہ حصہ نماز کا پور اکر لو۔ جو تم سے رہ گیا ہے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ کہ .6صَلَّوْا مَا فَاتَکُمْ .6…۱۰.6۔ یعنی بعد میں اس حصہ کو پورا کر لو۔ جو تم سے رہ گیا ہے۔ اس حدیث کے الفا ظ .6مَا فَاتَکُمْ .6سے صاف ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کی اتباع کو مقدم رکھ کر نماز کی ترتیب کو اس کے تابع کیا ہے۔ گویا جو شخص امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شامل ہو گا۔ اس کی نماز یوں ہو گی کہ وہ پہلے تیسری اور چوتھی رکعت پڑھے گا اور پھر اس کے بعد پہلی اور دوسری رکعت ادا کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب امام کی اتباع کی وجہ سے ایک نماز کے اندر کی ترتیب بدل سکتی ہے تو جمع کی صورت میں دو نمازوں کی باہمی ترتیب کیوںنہیں بدل سکتی۔
.6(۴) چوتھی دلیل میرے خیال کی تائید میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وقت کی نماز پڑھنی بھول جائے۔ مثلاً ایک شخص ہے جو ظہر کی نماز پڑھنی بھول گیا ہے اور عصر کی نماز پڑھ چکنے کے بعد اسے ظہر کی بھولی ہوئی نماز یاد آتی ہے تو اس کے متعلق متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ وہ ترتیب کا خیال چھوڑ کر اپنی بھولی ہوئی ظہر کی نماز عصر کے بعد پڑھ لے.6،.6 ورنہ اگر نمازوں کی ترتیب بہر حال مقدم ہوتی تو فتویٰ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس صورت میں ایسا شخص بھولی ہوئی ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد پھر دوبارہ عصر کی نماز کی تکرار کرے تاکہ ترتیب قائم رہے مگر ایسا حکم نہیں دیا گیا۔
.6ان سب دلائل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ ہی زیادہ صحیح اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق ہے۔ مگر چونکہ بہر حال یہ ایک فقہی مسئلہ ہے جس میں جائز اختلاف کی گنجائش تسلیم کی گئی ہے۔ اس لئے اگر کوئی صاحب اس بارے میں کچھ فرمانا چاہتے ہیں .6تو مجھے براہ راست خط لکھ کر یا الفضل کے ذریعہ مطلع فرمائیں .6 .6وَجَزَا ہُ اﷲُ خَیْرًا.6۔ اس کے بعد انشاء اللہ .6یہ حوالے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر دئے جائیں گے۔
.6
‎(مطوعہ الفضل ۲۳؍ جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
احباب اپنی جائیدادوں کا نقصان فورا ًرجسٹر کرائیں
.6اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ جن احمدی دوستوں کی جائیدادوں کا نقصان صوبہ مشرقی پنجاب یا صوبہ دہلی میں ہوا ہے۔ انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے اور پوری پوری قیمت لگا کر لاہور کے محکمہ متعلقہ میں رجسٹر کرادیںمگر ابھی تک بہت کم دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ لہذا یہ اعلان دوبارہ کیا جاتا ہے کہ اپنے نقصان کو جلد سے جلد رجسٹر کرا دیا جائے۔ گورنمنٹ کی طرف سے اس غر ض کے لئے فارمیں چھپی ہوئی ہیں۔ جو دفتر نظارت امور عامہ جودہا مل بلڈنگ جودہا مل روڈ لاہور سے بھی مل سکتی ہیں۔ لیکن اگر مجبوری کی صورت میں فارم نہ ملے تو بغیر فارم کے ہی ایک درخواست میں الگ الگ پیرے بنا کر اپنی ضائع شدہ جائیداد کی نوعیت اور مالیت درج کر دی جائے۔ جائیداد میں جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ہر دو علیحدہ علیحدہ دکھانی چاہئیں۔ اور جائیداد منقولہ و زمینیں مکان اور دوکان وغیرہ کا جائے وقوع بھی درج کرنا چاہئے۔ قادیان سے آئے ہوئے دوست بھی اس طرف فوری توجہ دیں۔ محکمہ متعلقہ کا پتہ یہ ہے:.6-
.6رجسٹرار آف کلیمز ۳ ٹمپل روڈ ۔ لاہور
.6ریکارڈ کی غرض سے نظارت امور عامہ جو د ھامل بلڈنگ لاہور کو بھی درخواست کی نقل بھجوا دی جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
اے ابناء فارس!
اسلامی طریق لباس سے کیا مراد ہے؟
.6حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض تازہ خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے نوجوانوں کو خصوصاًاور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کو عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انہیں دنیاداری کے طریق کو ترک کر کے اپنے کاموں میںللہیت اور خدمت دین کا رنگ پیدا کرنا چاہئے۔ اسی تعلق میں حضور نے ضمنی طور پر لباس کا بھی ذکر فرمایا تھا کہ جماعت کے نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنے لباس میں سادگی اختیار کریںاور اسلامی طریق زندگی کے کاربند ہوں۔ اس پر بعض اصحاب نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ لباس کے معاملہ میںاسلامی طریق کیا ہے یعنی کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس سمجھا جائے اور کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس نہ سمجھا جائے۔ چونکہ ممکن ہے کہ یہی سوال بعض دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتا ہو، اس لئے میں اخبار کے ذریعہ مختصر طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ سوال کرنے والے نوجوانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ .6وَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَو عٰی مِن سَامِعٍ۔…۱۱
.6سب سے پہلی بات تو یہ ہے جو اس قسم کے تمام مسائل میں گویا ایک بنیادی اصول کا رنگ رکھتی ہے کہ اسلام کسی خاص قوم یا خاص ملک یا خاص زمانہ کے لئے نہیں آیا ۔ بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں کے لئے آیا ہے۔ اس لئے اس قسم کے فروعی اور تمدنی امور میں اسلام کی طرف سے کوئی ایسی تفصیلی ہدایت نہیں دی گئی۔ اور نہ عقلاً دی جانی چاہئے تھی کہ تم اس قسم کا لباس پہنواور اس قسم کا لباس نہ پہنو۔ لباس کا معاملہ ہر قوم کے تمدن اور ہر ملک کی جغرافیائی حالت اور ہر زمانہ کے اقتصادی ماحول کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ پس یہ ناممکن تھا کہ وہ مذہب جو خدا کی طرف سے عالمگیر پیغام لے کر آیا ہے ۔ اور ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانہ کے واسطے شمع بردار ہونے کا مدعی ہے۔ وہ اس قسم کی تفصیلات میں دخل دے کر لوگوںکے واسطے رحمت بننے کی بجائے ناواجب تنگی کا باعث بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف فرماتا ہے۔.6۱۲.6 .6یعنی اے مسلمانوں ایسی باتوں کے متعلق سوال مت کیا کروکہ اگر ان کے متعلق ٹھوس شرعی احکام نازل کر دیئے جائیں تو وہ تمہارے لئے ناواجب تنگی پیدا کر کے تکلیف کا موجب بن جائیں۔ پس شریعت.6نے کمال دانشمندی کے ساتھ ایک حصہ میں خود خاموشی اختیار کی ہے۔ اور اصول بتا دینے کے بعد تفاصیل کا فیصلہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں اور مختلف ز.6ما.6نوں پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آتے ہیں ۔کہ.6 اختلاف امتی رحمۃ.6۔.6 .6اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اسلامی شریعت کا تمام زمانوں اور تمام قوموں اور تمام ملکوں کے لئے نازل ہونا خد اکی عالمگیر رحمت کا ثبوت ہے۔ اور اس وسعت کے نتیجہ میں بعض باتوں میں جو تفاصیل سے تعلق رکھتی ہیں اختلاف کا پایا جانا ضروری ہے۔ پس یہ اختلاف بھی خدا کی رحمت کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ لہذا اسے م.6حد.6ود کر کے اور تفصیلی امور میں یک رنگی کا رستہ تلاش کر کے خدا کی رحمت کی وسعت کو باطل مت کرو۔ پس اوپر کے سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ اسلام لباس کے معاملہ میں ایسا دخل نہیں دیتا کہ سب قوموں اور سب ملکوں کو مجبورکر کے ایک ہی لباس میں ملبوس دیکھنا چاہے۔ بلکہ اس نے لباس کے معاملہ کو لوگوںکے حالات پر چھوڑ دیا ہے۔ لہذا کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں۔ اس معنی میں کہ اسلام نے کسی مخصوس لباس کا حکم نہیں دیا اور ہر لباس اسلامی لباس ہے۔ اس معنی میں کہ اگر کسی ملک کا شریف طبقہ اسلام پر قائم رہتے ہوئے اپنے طبعی حالات کے نتیجہ میں اپنے لئے کوئی لباس اختیار کرتا ہے تو وہی لباس اس کے لئے اسلامی لباس ہے۔
.6لیکن جہاں اسلام نے اس قسم کے تفصیلی امور میں ہمیں آزاد رکھا ہے۔ وہاں اس نے ان تفصیلات کے دائرے میں بھی ہمیں بعض اصولی ہدایات دے کر ہمارے لئے سلامت روی کا رستہ کھول دیا ہے اور ہم تفاصیل میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی اسلامی روح کے معاملہ میں ایک جان بن کررہ سکتے ہیں ۔ یہ اصولی ہدایات جہاں تک میں نے غور کیا ہے ذیل کی چار قسموں میں محدود ہیں۔
.6(اوّل) سب سے پہلی بات اور حقیقی طور پر بنیادی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مشہور اور متواتر حدیث میں مر کوز ہے کہ.6 اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِا لنِّیَّاتِ…۱۳.6۔ ’’یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے‘‘ اس نہایت درجہ گہری اور ٹھوس صداقت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ہاتھ میں نیک و بد عمل کو پہچاننے اور اچھے اوربرے طریق میں امتیاز کرنے کی ایک بہترین کسوٹی دے دی ہے۔ پس جو شخص کسی لباس کو اختیار کرتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا فرض یہ ہے .6اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِا لنِّیَّاتِ.6کی کسوٹی کے ذریعہ اپنے اس عمل کا امتحان کرے۔اگر اس کے عمل میں کسی قسم کے تکلف یا تصنع یانقالی یا نمائش یا فضول خرچی یا اسلامی اصولِ زندگی سے انحراف کی خواہش نہیں ہے۔ تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ وہ جس لباس کو بھی نیک نیتی سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک کو اصولی رنگ میں عمل پیرا ہوتے ہوئے طبعی سادگی کے طریق پر اختیار کرتاہے۔ ہمیں اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔
.6(دوم) دوسرا اصول جس میں کسی قدر زیادہ وضاحت سے کام لیا گیا ہے۔ قرآن شریف نے ان الفاظ میں بیان فرما یا ہے۔ کہ .6۱۴.6’’یعنی آخری زمانے کے مادہ پرست لوگوں کی ایک علامت یہ ہے کہ ان کی زندگی کی ساری جدوجہد دنیا کے کاموں میں خرچ ہو رہی ہو گی۔ اوریوں نظر آئے گا کہ ان کی ساری توجہ دنیا کے دھندوں میں ہی غرق ہے۔ یہ اصولی ہدایت بھی لباس کے معاملے میں بڑی روشنی پہنچاتی ہے۔ ہر شخص اپنے نفس میں غور کر سکتا ہے کہ اس کا کسی لباس کو اختیار کرنا انہماک کی حد تک تو نہیں پہنچا ہوا کہ گویا اس کی ساری جدوجہد اور اس کی زندگی کا سارا شوق اسی قسم کی مادی آسائشوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ مطلقاً لباس کاسوال تو ایک طبعی سوال ہے۔ جس میں جسم کی حفاظت اور پردہ کے علاوہ کسی حد تک زینت کا پہلو بھی مقصود ہے لیکن جو شخص اس سوال میں گویا غرق ہو کر اسی کواپنی توجہ کا مرکز بنا لے وہ یقیناًاس آیت کی زد میں آتا ہے کہ .6.6.6آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لباس پہنا اور آپؐ کے خلفاء نے بھی لباس.6 .6پہنے اور ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لباس پہنا اور آپ کے خلفاء نے بھی لباس پہنے۔ اور ان سب نے اپنے لباس میں ایک حد تک آرام اور زینت کو بھی مَدِّنظر رکھا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کو لباس کے معاملہ میں کسی قسم کا انہماک تھا ان کی زندگی تو سرا سر ایسی تھی کہ جیسے کوئی راہگیر گھڑی بھر کے لئے کسی درخت کے سایہ کے نیچے کھڑاہو جائے اور پھر اپنا رستہ لے لے مگر آج کل کے نوجوان اپنے لباس اور اپنے جسم کی زیب و زینت میں اس .6طرح غرق نظر آتے ہیں کہ گویا ان کے لئے یہی زندگی کا مقصود و منتہیٰ ہے۔ پس گو اسلام لباس کی تفصیلات .6میں تو دخل نہیں دیتا۔ مگر وہ اس قسم کی فنا فی الدنیا ذہنیت کو بھی یقینا ایک *** زندگی قرار دیتا ہے۔
.6(سوم) تیسری اصولی ہدایت ہمیں قرآن شریف کے الفاظ سے ملتی ہے کہ .6.6۱۵.6 یعنی اے رسولؐ تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ.6 .6میرا طریق زندگی تکلف کے رنگ سے بالکل پاک ہے۔ پس لباس کے معاملہ میں تیسری ہدایت یہ سمجھی جائے گی کہ اس میں کسی قسم کے تکلف کا رنگ نہ پیدا کیا جائے۔ تکلف کی زندگی انسان کی روح اور اس کے ضمیر کے لئے ایک ایسا زنگ ہے جو اسے بالآخر تباہ کر کے چھوڑتا ہے اور فطرت کے طبعی بہائو کو مصنوعی رستہ پر ڈال کر انسان کو اس حقیقی خوشی سے محروم کر دیتاہے۔ جو خدا تعا لیٰ نے سادگی کی زندگی میں ودیعت کی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل دوسری قوموں کی نقالی میں مسلمانوں کی زندگی بھی تکلف کے زہر سے مسموم نظر آتی ہے۔ حالانکہ تکلف در اصل نفاق کا ایک حصہ ہے اور نفاق دوسرے لفظوں میں ایک ذلیل قسم کا جھوٹ ہے جسے کوئی .6شریف آدمی اختیار نہیں کر سکتا۔ پس میں کہوں گاکہ اپنے ملک اور قوم اور زمانہ کے حالات کے مطابق .6اور اپنی مالی حیثیت کے پیش نظر اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے جس قسم کا لباس بھی چاہو اختیار کرو مگر بہر حال اسے تکلف کی *** سے بچائو۔ کیونکہ یہ *** تمہارے فطری حسن کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔
.6(چہارم) چوتھی اصولی بات جو لباس کے معاملہ میں ہمیں اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پیارے الفاظ میں مرکوز ہے کہ.6 مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم…۱۶.6۔.6 .6یعنی جو شخص اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بودو باش کو ترک کر کے کسی دوسری قوم کے طریق زندگی اور ان کے لباس اور ان کے بودوباش کو اختیار کرتا ہے.6،.6وہ انہی میں سے ہے اور انہی میں سے سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ جب وہ اپنے طریق کو ترک کر کے ایک دوسری قوم کے طریق کو اختیار کرتا ہے تو لازماً اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے طریق کو ادنیٰ قرار دے کر دوسرے کے طریق کی فوقیت کو تسلیم کرتا ہے۔ پس اس بات میں کیا شبہ ہے کہ ایسا شخص خواہ زبان سے کچھ دعویٰ کرے۔ اس کا دل اس قوم کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مشابہت وہ اختیار کرتا ہے۔ دراصل یہ ایک بدترین قسم کی ذہنی غلامی ہے کہ انسان منہ سے تو یہ دعویٰ کرے کہ میں مسلمان ہوں مگر اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بود و باش میں عیسائیوں کا نقال ہو۔ ایسا شخص یقینا اپنے زبانی دعویٰ کے باوجود مسیحیت کے بت کے سامنے سجدہ کرنے والا سمجھا جائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے فعل سے اپنے تمدّن کو ادنیٰ اور مسیحیت کے تمدّن کو اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ آجکل کے مسلمانوں نے اس قسم کی ذہنی غلامی سے پیٹ بھر کر حصہ لیا ہے۔ ان کی آزادی کا دعویٰ ایک زبانی دعویٰ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ ان کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یقینا ایک ظاہری غلام جس کے ہاتھ پائوں کی غلامی کے باوجود اس کا ضمیر آزاد ہے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ .6حر.6یت کے مقام پر قائم سمجھا جائے گا، جس کے ہاتھ پائوں تو بظاہر آزادہیں مگر اس کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑاہوا ہے۔ پس میں اپنے عزیزوں سے کہوں گا کہ کوئی لباس بھی اسلامی نہیں جس طرح کوئی لباس غیر اسلامی نہیں.6،.6مگر جو شخص ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر کسی دوسری قوم کے ساتھ تشبیہ اختیار کرتا ہے۔ اس کا طریق خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتا ہے یا کسی اور امر سے یقینا غیر اسلامی ہے۔ ہمیں کوٹ پتلون سے دشمنی نہیں ہے مگر دجالی تہذیب کی نقالی سے ضرور دشمنی ہے اور اس اصول کے ماتحت ایسا شخص بھی اسی طرح زیر ملامت ہے جو انگریز ہو کر ہندوستانیوں کی نقالی میں چوڑی دار پاجامہ پہنتا ہے جس طرح کہ ایک ہندوستانی انگریزوں کی نقالی میں کوٹ پتلون پہنتا ہے۔ کیونکہ گو ظاہر ی حالت مختلف ہے مگر دونوں.6صورتوں میں دل کا زہر ایک ہے۔
.6بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی تو فرماتے ہیں کہ .6کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَجَدَھَا…۱۷.6 .6’’یعنی حکمت کی ہر بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔وہ ایسی بات کو جہاںبھی پاتا ہے لے لیتا ہے۔ ‘‘ اس سے یہ لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ دوسری قوموں اور دوسرے مذہبوں کی اچھی اچھی باتوں کو لے لے کر اپنا بناتے رہنا چاہئے۔ مگر اس حدیث کے یہ معنی بالکل غلط اور اسلام کی بلند شان کے منافی ہیں۔ کیونکہ اس معنی کو صحیح تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہے کہ گویا اس حدیث نے ہمارے ہاتھ میں ایک کاسہ گدائی دے دیا ہے کہ اس سے اسلام کے نام پربھیک مانگتے پھرو اور اسلام کی تعلیم میں جو کمی رہ گئی ہے وہ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کر کے پوری کرتے جائو ۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام کے متعلق تو یہ ازلی تقدیر جاری ہو چکی ہے کہ .6اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی…۱۸.6 .6’’یعنی اسلام دوسرے دینوں کے مقابلہ پر بلند ہونے کے لئے آیا ہے اور ہرگز مغلوب نہیں ہو گا۔‘‘ دراصل اس حدیث کے صحیح معنوں کی کنجی .6ضَالَّۃٌ .6کے لفظ میں رکھی گئی ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’کھوئی ہوئی چیز‘‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم کسی دوسری قوم کی کوئی بظاہر نئی اور اچھی بات دیکھ کر مرعوب نہ ہوا کرو اور یہ خیال نہ کیا کرو کہ تمہیں دنیا میں گویا ایک نئی خوبی اور نئی حکمت کی بات نظر آ گئی ہے۔ جسے اسلام میں داخل کر کے اپنا لینا چاہئے بلکہ اگر یہ چیز واقعی اچھی ہے تو تم .6یقین رکھو کہ وہ تمہاری ہی .6ضَالَۃ.6ٌ.6ہے۔ یعنی وہ تمہاری ہی کھوئی ہوئی چیز ہے۔ جو موجود تو تھی مگر تمہاری .6نظروں سے اوجھل تھی اور اگر تم اسلام کی تعلیم میں غور کرو گے تو تمہیں وہ یقینا اسلام کے اندر ہی مل جائے گی۔ کیونکہ اسلام میں تمام سابقہ صداقتوں اور تمام آئندہ ضرورتوں کے علاج کو جمع کر دیا گیا ہے۔ پس افسوس ہے کہ ایک ایسی حدیث کو جس میں اسلام کا بے نظیر کمال ظاہر کرنا مقصود تھا۔ اسلام کو نعوذباللہ گدا گر اور بھک منگا بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
.6بہرحال لباس کے بارے میں اسلام نے کوئی خاص تفصیلی ہدایت نہیں دی کہ فلاں لباس پہنو اور فلاں نہ پہنو۔ اور ایک عالمگیر مذہب کے لئے یہی حکمت کا طریق تھا کہ اس معاملے میں تفصیلی ہدایت سے اجتناب کیا جاتا۔ مگر اس قسم کے معاملات میں اس .6نے.6 اصولی ہدائتیں ضروردی ہیں۔ اور یہ ہدائتیں وہی ہیں جو میں نے اختصار کے ساتھ اوپر بیان کر دی ہیں۔ یعنی (۱) نیت نیک اور صا ف ہو(۲) انہماک کا رنگ نہ پیدا کیا جائے(۳) تکلف کی آمیزش نہ ہو اور(۴) کسی دوسری قوم کی نقالی میں کوئی کام نہ کیا جائے اگر ان چار باتوں کو ملحوظ رکھو تو ہر لباس اسلامی لباس ہے اور اگر ان باتوں.6کو نظر انداز کر دو تو صرف کوٹ پتلون ہی کا سوال نہیں کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں۔ حضرت صاحب کے خطبوں پر بعض نوجون شاید تلملاتے ہوں گے اور یہ سمجھتے ہوں گے کہ اسلام کو لباس کے معاملہ میں کیا تعلق ہے۔ میں کہتا ہوں اسلام کو واقعی لباس کے معاملہ سے تو کوئی تعلق نہیں مگر اسے مسلمانوں کی روح کی صفائی اور ضمیر کی آزادی اور کیریکٹر کی بلندی اور زندگی کی سادگی کے ساتھ ضرور تعلق ہے اور بہت بھاری تعلق ہے۔ لباس بے شک ایک فرع ہے مگر یہ چیزیں جڑ کا حکم رکھتی ہیں اور جو جڑ گندی ہو گی.6،.6 وہ کبھی بھی اچھی شاخ پیدا نہیں کرے گی۔
.6مگر افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض نوجوانوں میں بھی ماحول کے مادی اثر کے ماتحت مغرب کی دجالی تہذیب کا کسی قدر رنگ پیدا ہوتا نظر آتا ہے اور جب حضرت صاحب نے اپنے خطبہ میں لباس کا ذکر کیا تو اس میں بھی اسی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔ اس قسم کی خرابیاں ابتداء میں بہت معمولی بلکہ کوتاہ بینوں کے نزدیک ناقابل التفات نظر آتی ہیں۔ مگر بعد میں آہستہ آہستہ خاندانوں اور قوموں کو تباہ کر کے چھوڑتی ہیں۔ بہر حال اس جد امجد کی نسل جسے قاتلِ دجال ہونے کا دعویٰ تھا اور جس کی اپنی نسل کے واسطے یہ دعا تھی کہ :.6-
.6 نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال
.6اس کے گھر کے بعض نونہالوں کے جسم پر دجالی تہذیب کا بپتسما خواہ وہ مرعوبیت کے رنگ میں نہ بھی ہو کوئی اچھی نشانی نہیں ہے۔ وقت بہت نازک ہے اور نازک تر آرہا ہے میں اپنے بیٹوں ۔ بھتیجوں۔ بھانجوں۔ دامادوں ۔ماموں زاد بھائیوں اور جملہ ابنائِ فارس سے کہتا ہوں کہ ہماری زندگی کا بہت سا وقت گزر گیا اور معلوم نہیں کتنا وقت باقی ہے ہم نے اس عرصہ میں ٹھوکریں بھی کھائیں۔ لغزشیں بھی دیکھیں اور نہ معلوم کن کن گناہوں کے داغوں سے ملوث ہوئے۔ مگر خدا جانتا ہے کہ نما ئش کے طور پر نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک نام کی خاطر کم از کم اپنی زندگیوں کے ظاہر کو شریعت اسلامی کے مطابق رکھنے کی کوشش کی۔ ا ب آپ لوگو.6ں.6 کا دور آرہا ہے۔ اس کے لئے میں آپ کو اس سے بہتر الفاظ میں کیا نصیحت کر سکتا ہوں کہ :.6-
.6ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
.6آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ فروری ۱۹۴۸ئ)
.6
ہمارا تعلیم الاسلام کالج
.6 .6آج مجھے اتفا قاً اپنے تعلیم الاسلام کالج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالیشان عمارت میں اپنے بھاری سازوسامان کے ساتھ قائم تھا۔ وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور حقیر سی عمارت میں چل رہا ہے۔ اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سا رنگ رکھتا ہے۔ اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں ،مشتمل ہے۔ عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جا رہا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے۔اور باقی کمروں میں بورڈ ررہائش رکھتے ہیں ان میں سے بعض چارپائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ میں نے سب بورڈروں کو ہشاش بشاش پایا ۔ جو اپنے موجودہ طریق زندگی پر ہر طرح تسلی یافتہ اور قانع تھے اور کالج میں پڑھتے ہوئے لاہور جیسے شہر میں جھونپڑوں کی زندگی میں خوش نظر آتے تھے۔ یہ اس اچھی روح کا ورثہ ہے جو خدا کے فضل سے احمدیت نے اپنے جوانوں میں پیدا کی ہے اور میں اس روح پر کالج کے طلباء اور کالج کے سٹاف کو قابل مبارک باد سمجھتا ہوں۔
.6مگر جس چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثرپیدا کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی۔ جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جا سکا ہے۔ اس لئے باقی کلاسیں بر آمدوں میں یا کھلے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھتی ہیں۔ لیکن خواہ وہ کمرہ میں بیٹھتی ہیں یا کہ بر آمدہ .6میں.6 اورخواہ کھلے میدان میں، ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی .6ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹا ئیاں بچھا کر زمین پر بیٹھتے .6ہیں۔مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب دینی اور دنیوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجدیں ہوا کرتی تھیں۔ جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے ارد گردگھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں .6کو درس دیا کرتے تھے۔ اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں .6گزر جانے کے باوجود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
.6میں نے کالج کے بعض بچوں اور پروفیسروں کو بتا یا .6ک.6ہ انہوں نے پرانے زمانہ کی یادکو تازہ کیا .6ہے اور جس خوشی کے ساتھ انہوں نے حالات کی اس تبدیلی کو قبول کیا ہے وہ ان کے لئے اور ہم سب .6کے لئے باعث فخر ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتا یا کہ موجودہ حالت سے انہیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ حقیقی علم ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ظاہری سازوسامان سے بے نیاز ہے اور جھونپڑوں کے اندر فرشوں پر بیٹھ کر بھی انسان اسی طرح علوم کے خزانوں کا مالک بن سکتا ہے۔ جس طرح شاندار سازوسامان استعمال کرنے والے علم حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ یہ صورت روح کی درستی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور انسانی قلب کو علم کے مرکزی نقطہ پر زیادہ پختگی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے۔ کیونکہ جب ماحول کی زیب و زینت نہیں ہو گی تو لازماً انسان کی آنکھیں اور انسان کے دل و دماغ علم کی طرف زیادہ متوجہ رہیں گے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ضروری سازو سامان جو موجودہ علوم کے حصول کے لئے ضروری ہے اسے حا صل نہ کیا جائے ۔جو چیز حقیقتًا ضروری ہے وہ علم کا حصہ ہے ۔ اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اور موجودہ صورت میں بھی ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ مگر ظا ہری ٹیپ ٹاپ یا زیب و زینت کا سامان یا آرام و آسائش کے اسباب بہرحال زائد چیزیں ہیں جو علم کے رستہ میں ممد ہونے کی بجائے روک بننے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔ ہمارے آقا فداہ نفسی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ .6اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ…۱۹.6۔.6 .6یعنی فقر میرے لئے فخر کا موجب ہے۔ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ مجھے آسائش کے سامانوں کی ضرورت نہیں اور میری روح ان چیزوں کے تصور سے بے نیاز ہے۔ جو محض .6جسم کے آرام کا پہلو رکھتی ہیں۔ اور روح انسانی کی ترقی میں ممد نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم فرماتے ہیں .6اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْنِ…۲۰.6۔.6 یعنی علم کی تلاش کرو۔ خواہ اس کے لئے تمہیں چین کے ملک تک جانا پڑے۔ چونکہ اس زمانہ میں چین کا ملک ایک دور افتادہ ملک تھا۔ اور اس میں رستہ کی صعوبتوں کے علاوہ دنیوی آسائشوں کے بھی کوئی سامان موجود نہیں تھے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرما کر یہ اشارہ کیا کہ حقیقی علم دنیوی آسائشوں اور سازو سامان کے ماحول سے آزاد ہے۔
.6بہر حال میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے یا کم از کم ان میں سے اکثر نے ماحول کی موجودہ تبدیلی میں اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اس روح پر قائم رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ علم کے حصول کے علاوہ سادہ زندگی کی برکات سے بھی پوری طرح فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۴۸ئ)
.6
ہمارے قیدی بھائی خیریت سے ہیں
احباب اُن کی جلد واپسی کے لئے دعا فر مائیں
.6
.6جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے۔ اس وقت ہمارے بہت سے دوست قادیان اور اس کے ماحول کے رہنے والے جالندھر جیل میں قید ہیں۔ اس سے پہلے وہ گورداسپور جیل میں تھے۔ لیکن جب قیدیوں کے تبادلہ کی تجویز ہوئی تو تبادلہ کی سہولت کی غرض سے انہیں جالندھر جیل کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ جہاں انہیں خدا کے فضل سے گورداسپور کی نسبت زیادہ آرام ہے۔ ان دوستوں میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۔ ایم ۔ایل۔ اے اور مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مولوی عبدالعزیز صاحب آف بھا مبڑی اور ڈاکڑ سلطان علی صاحب آف ماڑی .6سیچیاں .6 اور چوہدری علی اکبر صاحب اور بہت سے دوسرے دوست اور عزیز شامل ہیں اور خدا کے فضل سے ڈاک کے ذریعے اُن کی خیریت کی خبر آتی رہتی ہے۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ بعض دوستو ں کی صحت بہت گری ہوئی ہے اور قید خانہ کی زندگی نے ان کی جسمانی حالت پر کافی خراب اثر ڈالا ہے۔ احباب ان سب دوستوں کی خیریت اور ان کی جلد واپسی کے لئے خصوصیت سے دعا کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ وہ دوست ہیں.6،.6جنہوں نے گزشتہ فسادات کے صدمہ سے دوہرا حصہ پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا اور ان کے اہل و عیال کا حافظ و ناصر ہو۔
.6قیدیوں کے تبادلہ کا سوال دونوں حکومتوں کے زیر غور ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ جلدتبادلہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ہم بھی اس بارہ میں حکومت کے ساتھ خط و کتابت کر رہے ہیں۔یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ جیل خانہ کی دیواروں کے اندر بھی ہمارے دوستوں کی طرف سے مذہبی تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے ہمارے دوست پر امن طریق پر تبلیغ حق کا مقدس فریضہ بجا لاتے رہتے ہیں۔ فجزا ھم اللہ احسن الجزائ:.6-
.6ان کے علاوہ ہمارے بعض دوست دوسرے جیل خانوں میں بھی ہیں ۔ مثلا مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ جیل میں محبوس ہیں۔ ان دوستوں کے لئے بھی دعا فرمائی جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ئ)
.6
کیا ابلیس کا مغویانہ وجود نظام رُوحانی کا حصہ ہے
یا کہ ایک محض بعد کا حادثہ؟
علما ء سلسلہ کو تحقیق کی دعوت
.6
.6میری عادت ہے کہ بعض خاص خاص مسائل پر سلسلہ کے علماء کو تحقیق کی دعوت دیتا رہتا ہوں۔ یہ مسائل ایسے ہوتے ہیںکہ جن میں میرے خیال میں عام لوگوں میں ایک غلط نظریہ قائم ہو چکا ہوتا ہے۔ یا کم از کم ان کے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سے قبل میںمختلف اوقات میں مسئلہ رجم اور ایسے پوتے کے ورثہ کے متعلق جس کا باپ اس کے دادے کی زندگی میں فوت ہو چکا ہو۔ اورجمع بین الصلوٰ تین کی صورت میں نماز کی ترتیب وغیرہ کے مسائل پر الفضل میں مختصر نوٹ شائع کر ا کے علماء کرام کو تحقیق کی دعوت دے چکا ہوں۔ اور اس قسم کی دعوت میںمیری غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک تو مسئلہ زیر بحث صاف ہو جائے.6 .6اور دوسرے ہمارے علماء میں تحقیق اجتہاد کا مادہ ترقی کرے۔ اور وہ محض مقلدبن کرنہ بیٹھے رہیں۔
.6اس وقت جس مسئلہ کی طرف میں اپنے اس مختصر مضمون میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ ابلیس کے .6وجود.6سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تو اکثر دوست جانتے ہیںاورکم از کم ہمارے سلسلہ کے لٹریچر میں یہ بات کافی واضح طورپر شائع اور متعارف ہے کہ ابلیس اور شیطان ایک دوسرے سے جدا گانہ مفہوم رکھتے ہیں۔ یعنی شیطان کا لفظ اپنے مفہوم میں بہت وسیع ہے۔ اور ہر گمراہ کرنے والی ہستی یا ضرر رساں وجود یا تکلیف پہنچانے والی چیز پر بولا جاتا ہے ،وہاں ابلیس کا لفظ ایک خاص معین ہستی کے لئے مخصوص ہے۔ جو خدا کی پیدا کی کی ہوئی مخفی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہے یعنی وہی جس کا ذکر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے.6 .6ذکر کے ساتھ شامل کر کے قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ گو خود ابلیس بھی ایک شیطان ہے بلکہ وہ دوسرے شیطانوں کا سردار اور سرغنہ ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے۔ گویا منطق کی اصطلاح.6 .6میں ان دونوں ناموں میں عموم خصو.6ص.6مطلق کی نسبت ہے یعنی یہ کہ ابلیس ضرور شیطان ہے مگرہر شیطان ابلیس نہیں ہے۔
.6مگر اس جگہ جس مسئلہ کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اپنے سلسلہ کے علماء کو اس بارہ میں.6تحقیق کی دعوت دیتا ہوں وہ مخصو.6ص.6 طور پر ابلیس سے تعلق رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا خدا تعالی نے ابلیس کو اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے دنیا میں ابتلائوںکا سامان مہیارکھے؟ یا یہ کہ وہ اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ بعد میں خود گمراہی اختیار کر کے ایک مُغوی وجود بن گیا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے جو بظاہر بعض بڑے بڑے بزرگوں اور محققوں کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایک مختار ہستی کے طور پر پیدا کیا اور اس کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو ہدایت اور نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی اور گمراہی کے رستہ پر پڑ جائے تو انسان کے اس فطری اختیار کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ نظا م بھی دنیا میں قائم کیا کہ ایک طرف فرشتوں کا وجود پیدا کر دیا جو لوگوں کو ہدایت کی طرف کھینچنے والے ہیں اور ان کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسری طرف اس نے ابلیس اور اس کے جنود کو مغویانہ طاقتوں کے ساتھ پیدا کر کے لوگوں کے لئے ابتلائوں کا سامان بھی مہیا کر دیا تاکہ ایک طرف نیکی کی کشش موجود رہے اور دوسری طرف بدی کی کشش بھی سامنے رہے۔ اور ان دونوں متضاد قسم کی کششوں کے اندر انسان خود اپنے اختیار سے نیکی اور بدی کا فیصلہ کر کے اپنا رستہ بنائے۔ تاکہ اگر وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے تو خدا کے انعاموں کا مستحق ہو۔ اور اگر بدی کے رستہ پر پڑ جائے تو سزا کا مستوجب ٹھہرے ۔یہ وہ نظریہ ہے جو عام طور پر ابلیس کے متعلق پا یا جا تا ہے اور اسلام کے بعض بڑے بڑے بزرگ اس نظریہ کے قائل رہے ہیں اور اسے تقدیر خیر و شر کے نظام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے رہے ہیں۔ اور بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معقول نظریہ ہے.6،.6 جس کے بغیر انسان کا مختار ہونا باطل ہو جا تا ہے۔
.6مگر مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں اس بظاہر معروف نظریہ کے متعلق شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ اور خصوصا ًجن ایام میں ترجمہ و تفسیر قرآن کریم انگریزی کے صیغہ میں کام کرتا تھا تو مجھے بعض قرآنی آیات کے مطالعہ نے بڑے زور کے ساتھ اس خیال کی طرف مائل کیا کہ غالبا ًیہ نظریہ درست نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس قسم .6کے .6اہم مسائل میں معروف عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھنا یا اس کا اظہار کرنا سلامت روی کے خلاف ہے اور فتنہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں نے ا.6پنے.6 اس خیال کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ حتیٰ کی تفسیر نویسی کے وقت بھی میں نے اس مضمون پر ایک لمبا نوٹ لکھ کر اسے بعد میں پھاڑ دیا اور اس بات کا انتظار کیا کہ اس بارہ میں مزید غور کر کے اور علماء سلسلہ سے مشورہ کر کے پھر یہ مسئلہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ میرا یہ مختصر نوٹ اسی غرض سے ہے کہ تا میں اس سوال کو سلسلہ کے علماء کے سامنی.6لے آئوں اور پھر ان کی تحقیق اور اظہار رائے کے بعد اسے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا جائے۔
.6جو خیال میں نے اوپر ظاہر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس کا مغویانہ وجود بذاتِ خود مقصود نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں کیا کہ وہ دُنیا میں لوگوں کی گمراہی کا سامان مہیا کرے بلکہ اس نے خود گمراہی اور بغاوت کے رستہ پر پڑ کر یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے۔ گویا میری موجودہ تحقیق میں ابلیس کا مغوی ہونا نظام روحانی اور تقدیر خیر و شر کا ایک حصہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ جسے انگریزی محاورہ میں .6accident.6کہتے ہیں اور مختصر طور پر میرے اس خیال کے بعض دلائل یہ ہیں:.6-
.6(۱) اگر ابلیس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ اس کے پیدا کرنے کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے تو پھر میری ناقص رائے میں اس سے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ اور ارفع صفات یعنی اسماء حسنیٰ پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ گویا اس نے خود لوگوں کی گمراہی کا سامان پیدا کیا۔ ا نسان کو اپنی ذات میں صاحب اختیار بنانا کہ وہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا رستہ اختیار کر لے، ایک بالکل اَور بات ہے۔ لیکن ایک خارجی ہستی کو خالصۃً مغویانہ حیثیت میں اس غرض و غایت کے ساتھ پیدا کرنا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے بالکل اور چیز ہے۔ اور کم از کم میری طبیعت اس بات پر تسلی نہیں پاتی کہ خدا جیسی رحیم اور کریم اور شفیق ہستی کی طرف اس خیال کو منسوب کیا جائے کہ اس نے ایک وجو د محض اس غرض سے پیدا کیا کہ وہ اس کی مخلوق کو گمراہ کرتا پھرے۔ پس قطع نظر اور دلیلوں کے خدا کی اعلیٰ اور ارفع صفات کی شان ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے کہ ابلیس کے مغویانہ وجو دکو اپنی ذات میں مقصود سمجھا جائے۔ بے شک انسانوں میں بھی بڑے بڑے مغوی لوگ گزرے ہیں۔ جس طرح کہ مثلا حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں فرعون وہامان تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوجہل وغیرہ تھے۔ مگر یہ سب لوگ اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک حادثہ یعنی( .6accident.6).6 تھے نہ کہ اسی حیثیت میں بذاتِ خود مقصود۔ تو کیوں نہ ابلیس کوبھی اسی رنگ کا ایک مغویانہ وجود خیال کیا جائے البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ یہ لوگ انسان تھے۔ اور اپنی محدود عمریں پاکر فنا ہو گئے۔ مگر ابلیس ایک مخفی قسم کا غیر انسانی وجود تھا۔ جس نے اپنی نوع کے مطابق لمبی مہلت پائی ۔بہر حال میرے ذوق کے مطابق خداتعالیٰ کی صفات کا مطالعہ ہی اس خیال کو رد ّکرتا ہے کہ گویا خدا نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے۔ ہادی اعظم بلکہ ہدایت ِ مجسم کاوجود گمراہی کی مشینری کا خالق نہیں ہو سکتا۔ یہ دو نوں باتیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں جتنے کہ آگ اور پانی ایک دوسرے سے دور ہیں۔
.6(۲)دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ .6.6۲۱.6یعنی.6 اور میں نے جن و انس کو صرف اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے عبد بن کر رہیں‘‘گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام جن و انس کی پیدائش کی غرض و غایت واضح اورغیر مشکوک الفاظ میں .6عبو.6دیت اور صرف عبودیت بیان کی ہے اور دوسری طرف قرآن شریف ہی ابلیس کے متعلق یہ فرماتا ہے۔ کہ .6.6۲۲.6یعنی.6 ابلیس جنّوں میں سے خدا کی ایک مخلوق ہستی ہے جس نے خود خدا کی نافرمانی کر کے فسق کا طریق اختیار کیا۔ ‘‘ اب دیکھو کہ یہ کتنی واضح بات ہے کہ ایک طرف تو قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ خُدا نے ہر جن و انس کو محض عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے اور دوسری طرف قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ابلیس بھی خدا کے پیدا کئے ہوئے جنّوں ( یعنی مخفی مخلوق) میں سے ایک جن ہے ۔ جس نے خود فسق کا طریق اختیار کر کے خدا کے حکم سے رو گردانی کی ۔تو ان دونو ں آیتوں کے ہوتے ہوئے اس بات میں کیا شبہ رہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو مغویانہ غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں پیدا کیا بلکہ اس کا مغوی بننا خود اس کے اپنے فسق کا نتیجہ ہے اور دراصل غور سے دیکھا جائے تو یہ دلیل دو دلیلوں کا مجموعہ ہے اول یہ کہ جب ابلیس جنّوں میں سے ایک جن ہے اور خدا فرماتا ہے کہ میں نے جنّوں کو بھی عبادت یعنی فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا ہے تو پھر لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ابلیس بھی دراصل فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا گیا تھا نہ کہ مغوی بننے کے لئے۔ دوم یہ کہ ابلیس کے متعلق خدا یہ الفاظ فرماتا ہے کہ.6.6’’یعنی اس نے بعد میں خود فسق کا رستہ اختیار کر کے خدا کی حکم عدولی کی‘‘ ۔ اُوپر کی دونو ںآیتوں سے یہ دونوں دلیلیں ایسے واضح طور پر مستنبط ہوتی ہیں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ واللہ اعلم ۔ یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک جداگانہ بحث ہے جس کے متعلق ا س جگہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
.6(۳) تیسری دلیل مجھے اپنے نظریہ کی تائید میں یہ نظر آتی ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ حضرت آدم والے واقعہ کے تعلق میںابلیس کو مخاطب کر کے فرما تا ہے کہ.6.6۲۳.6یعنی.6 اے ابلیس تجھے کس چیز نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کے سامنے سجدہ کرے (یعنی آدم ؑ کی تائید میں اپنی طاقتو.6ں.6 کو لگائے) جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا۔ ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے خود ابلیس کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے ابلیس کو پیدا ہی اس غرض و غایت سے کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے ابتلائوں کا سامان مہیا کرے تو پھر اسے آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دینے کے کیا معنی؟.6خدا جیسی حکیم ہستی کسی وجود کو وہ حکم نہیں دے سکتی جو اس کی پیدائش کی غرض و غایت کے خلاف ہے ۔ مگر قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا جس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ابلیس کی پیدائش کی غرض و غایت یہ نہیں تھی کہ وہ لوگوں کے لئے گمراہی کے سامان مہیا کرے ورنہ اُسے ہرگز ایسا حکم نہ دیا جاتا۔
.6(۴) چوتھی دلیل جو مجھے اس مسئلہ میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.6۲۴.6 .6 یعنی قرآن فرماتا ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ کے حکم سے انکار کیا ( جیسا کہ ہر زمانہ میں ابلیس صفت لوگ خدا کے رسولوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا کرتے ہیں) اور غرور کے رنگ میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ اب میں بھی تیرے بندوں کو گمراہ کر نے میں کمی نہیں کروں گا تو خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا۔ ’’ تو پھر میری بھی ایک صاف صاف بات سُن لے کہ اس صورت میں میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والی ہستیوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا۔ ‘‘۔ ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس کا مغوی ہونا اس کی پیدائش کی غرض اور اُ.6س کی.6 فطرت کا حصہ نہیں۔بلکہ بعد کا اختیار کیا ہوا طریق ہے ورنہ اسے جہنم کی سزا نہ دی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ہستی کو پیدا ہی اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتی پھرے تو پھر اس کا یہ کام سزا کا مستوجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنی پیدائش کی اس غرض و غایت کو پورا کر رہی ہے جو خود خدا نے اس کے لئے مقدر کی ہے تو اس صورت میں سزا کے کیا معنی؟ بے شک اگر کسی چیز کو اس رنگ میں آگ کے اندر ڈالا جائے کہ وہ فطری طور پر آگ کا ایندھن ہے جیسا کہ کوئلہ یا لکڑی وغیرہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے تو یہ اور بات ہے مگر ایک ہستی کو سزا کے طریق پر آگ میں ڈالنا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس نے خود اختیاری کے طریق پر جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
.6اس کے علاوہ میرے ذہن میں بعض اور متفرق دلائل بھی ہیں مگر میں اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف انہیں چار دلیلوں پر اکتفا کرتا ہوں اور اپنے معزز علماء سے درخواست کرتا ہو ں کہ وہ اس بارہ میں مزید تحقیق کر کے اپنا خیال ظاہر فرمائیں تاکہ ہم ایک آخری نتیجہ پر پہنچنے کے لئے اس مسئلہ کو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کر سکیں۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک محض علمی اور فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ جس میں ہمیں بلا وجہ پڑنے کی ضرورت نہیں مگر حق یہ ہے .6کہ یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگیوں اور ہمارے اعمال پر عملًا اثر ڈالنے والی چیز ہے ابھی چند دن ہی کی بات ہے کہ مجھے ایک نوجوان کے متعلق یہ رپور ٹ پہنچی کہ اُس نے ایک مجلس میں اس قسم کی بات کہی کہ خدا نے بے شک فرشتے بھی پیدا کئے جو کہا جاتا ہے کہ ہمیں نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں۔ اور اس نے ہماری ہدایت کے لئے رسول بھی بھیجے اور اس نے شریعت بھی نازل کی مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو ہے کہ اس نے ہمیں بہکانے اور گمراہ کرنے کے لئے ابلیس کا وجود بھی ہمارے ساتھ لگا رکھا ہے اور اس نوجوان نے یہ بات کہہ کر پھر اس خیال کا اضافہ کیا کہ اس کی مثال تو یوں ہے کہ ہمارا کوئی بزرگ ہماری بہتری کے لئے ہمیں کوئی نصیحت کرے اور پھر ہمارے پیچھے پیچھے ایک ایسا آدمی بھی اس انگیخت کے ساتھ بھجوا دے کہ تم اس کے پاس جا کر اسے میری نصیحت کے ماننے سے روکو اور کوشش کرو کہ وہ میرا حکم ٹال دے۔ یہ خیال اگر نوجوانوں میں پیدا ہونے لگے تو ظاہر ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اور پھر اپنے اعمال کے متعلق کیا نظریہ ہو سکتا ہے۔ پس یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں بلکہ ہمارے اعمال پر براہ راست اثر ڈالنے والی چیز ہے۔
.6با لآخر میں یہ بات بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوںکہ اس مسئلہ میں سب سے بڑی روک میرے رستہ۔۔۔میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ نہایت درجہ دلکش اور لطیف مضمون رہا ہے۔ جو حضور نے غالباً آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمایا ہے۔ جس میں حضور نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکیمانہ قدرت کے ماتحت انسان کے لئے دنیا میں ایک لمّہ خیر پیدا کیا ہے اور ایک لمہ شر اور ان دونوں بالمقابل طاقتوں کے سامنے رہتے ہوئے ہی انسان نیکی کا رستہ اختیار کر کے خدا کے انعامات کا وارث بن سکتا ہے۔ اس وقت حضور کا یہ مضمون میرے سامنے نہیں ہے مگر بہر حال حضور نے غالبا ًآئینہ کمالات اسلام میں لمہ خیر اور لمہ شر کی مفصل بحث درج کی ہے۔ اور یہ بحث مجھے ایک عرصہ تک اس مسئلہ میں مذبذب رکھتی رہی۔ لیکن بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ لمّہ خیر ( یعنی نیکی کی مَس یا نیکی کی کشش) اور لمّہ شر( یعنی بدی کی مس یا بدی کی کشش) سے انسان کا نیکی اور بدی کے معاملہ میں صاحب اختیار ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی چونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا رستہ اختیار کرنے کے معاملہ میں مختار بنایا ہے یعنی چاہے تو وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے لئے لمّہ خیر اور لمہ شرہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیاہے یہ مضمون اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔ علماء کرام کو چاہئے کہ اُسے بھی ضروردیکھ لیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعی یہی منشاء ہے کہ لمہّ شر سے ابلیس مراد ہے اور یہ کہ ابلیس اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا گیا تھا کہ انسانوں کے لئے ابتلائوں کے سامان مہیا کرے تو پھر جو کچھ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے بہر حال وہی درست اور ٹھیک ہے اور ہمارے دلائل اور استدلالات کا طومار حضور کے ایک قول کے سامنے اُسی طرح ہیچ ہے جس طرح ایک زندہ ہستی کے مقابل پر ایک مردہ کیڑاہیچ ہوا کرتا ہے کیونکہ ہماری دلیلیںمحض خیال آرائیاں ہیں مگر حضور خدا کے رستہ کے سالک ہیں اور
.6
.6 .6 ’’سالک بے خبر نہ بود زراہِ و رسمِ منزلہا‘‘
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍مارچ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ہمارے قیدی دوستوں کا تبادلہ
.6 جیسا کہ احباب کو علم ہو چکا ہو گا۔ حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے درمیان مسلم اور غیر مسلم قیدیوں کے باہم تبادلہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ یہ تبادلہ ۵ اپریل ۴۸ ۱۹ ء سے عملاً شروع ہو جائے گا۔ اور غالباً آہستہ آہستہ تین چار ہفتہ تک جاری رہے گا۔ ہمارے بہت سے دوست اس وقت جالندہر جیل میں ہیں۔ جو مجوزہ تبادلہ کے پیش نظر گورداسپور سے جالندہر پہنچائے گئے ہیں۔ ان میں اخویم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مکرمی چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور کئی دوسرے دوست شامل ہیں۔ اور بعض دوست لدھیانہ یا دوسرے جیل خانوں میں بھی محصور ہیں ۔یہ سب دوست جماعت کو اپنی طرف سے سلام پہنچاکر د.6عاک.6ی درخواست کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ وناصر ہو اور انہیں جلد تر خیریت کے ساتھ واپس لے آئے اور وہ واپسی کے بعد مزید توقف اور تکلیف کے بغیر رہائی پا جائیں۔ ان کے ساتھ بعض نومبائعین بھی ہیں۔ جنہیں خدا تعالیٰ نے جیل کی چارد یواری میں بیعت کی توفیق عطا کی ہے اور بعض بیمار ہیں ۔ ان سب کے واسطے دوست دعا کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ اپریل۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
اسلامی پردہ کے متعلق مضمون
.6آج کل پردہ کے سوال کے متعلق پاکستان کے اخباروں میں بہت چرچا ہے اور مختلف قسم کے خیالات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ بعض دوستوں کی تحریک پر میرا بھی ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سوال کے متعلق ایک مضمون لکھ کر پردہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم پر روشنی ڈالوں ۔سو اگر کسی دوست کو پردہ کے سوال کے متعلق کو ئی خاص بات کھٹکتی ہو یا کوئی پہلو خصوصیت سے قابل وضاحت نظر آتا ہو تو مجھے مطلع فرمائیں تاکہ میں اپنے مضمون میں اسے مد نظر رکھ سکوں ۔
.6 .6و باﷲ التوفیق و ہو المستعان
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جالندھر کے قیدیوں کی متوقع آمد
.6 احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر دو حکومتوں کے فیصلہ کے مطابق ۵ ؍اپریل سے قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔ جالندہر جیل کے قیدیوں کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ انشاء اللہ .6مورخہ.6 ۱۰ ۔اپریل .6کو.6 لاہور لائے جائیںگے۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو خیریت کے ساتھ لائے اور ان کا آنا جماعت کے لئے اور خود ان کے لئے اور ان کے اہل و عیال کے لئے با برکت ہو۔ فی الحال یہ قیدی لاہور کے جیل خانہ میں رکھے جائیں گے۔ اور پھر ان کی مسلوں کے معائنہ کے بعد رہائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر اُمید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ ملنے ملانے میں روک نہیں ہو گی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ابلیس والے مضمون کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
.6چند دن ہوئے میں نے ابلیس کے وجود کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں شائع کرا کے سلسلہ کے علماء کو دعوت دی تھی کہ وہ اس کے متعلق روشنی ڈالیں۔ میرے اس مضمون کے متعلق بعض دوستوں کو غلط فہمی پید ا ہو رہی ہے اور وہ اس قسم کے سوالوں میں پڑ گئے ہیں کہ ابلیس کی نوع کیا تھی اور اس کے جن ہونے سے کیا مراد ہے اور اس کو کس غرض کے ماتحت مہلت دی گئی اور کتنی لمبی مہلت دی گئی اور اس کے گمراہ کرنے کا طریق کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ میں دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے تمام سوالات خواہ وہ اپنی ذات میں کیسے ہی دلچسپ اور اہم ہوں،میرے موجودہ مضمون کے لحاظ سے لاتعلق ہیں۔ کیونکہ میرا موجودہ مضمون صرف اس مرکزی نقطہ سے تعلق رکھتا ہے کہ آیا ابلیس کوخدا تعالیٰ نے اس غرض و غا.6یت.6 کے ماتحت پیدا کیا تھاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کر کے ان کے لئے ابتلائوں کا سامان پیدا کرے یا کہ وہ بعد میں خود فسق اختیار کر کے مغوی بن گیا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست میری اس دعوت کے جواب میں اپنے آپ کو صرف اس مرکز ی نقطہ تک محدود رکھیں گے، سوائے اس کے کہ کسی ضمنی پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے کسی دوسرے سوال میں جانا پڑے ورنہ خلط بحث سے اصل سوال تشنہ تحقیق رہ جائے گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جیل سے رہا ہو کر آنے والے دوستوں کے نام
اہل قادیان کا پیغام
.6قادیان سے بذریعہ فون امیر جماعت قادیان نے اُن دوستوں کی خدمت میں قادیان کے درویشوں کی طرف سے محبت بھرا سلام کہلا کر بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ قادیان کے جملہ ا.6ح.6مدی درویش ان سب احمدی بھائیوں کے لئے جو گزشتہ ایام میں قید تھے ،خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم کے ساتھ انہیں رہائی عطا کی ہے۔ قادیان کے دوستوں کی درخواست ہے کہ اب رہا ہونے والے دوست اپنے مقدس مرکز کی رہائی کے لئے خصوصیت سے دُعا کریں۔ کیونکہ حقیقتا ًاس وقت ہمارا مرکز بھی ایک گو.6یا.6قید میں مبتلا ہے اور گو خدا کے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے یقین ہے کہ اس کی رہائی کے دن ضرور آئیں گے لیکن مخلص احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی دعائوں کے ساتھ اس رہائی کے قریب تر لانے کی کوشش کریں۔
.6 ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم .6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حافظ نور الٰہی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت احباب سے دعا کی درخواست
.6
.6قادیان میں ایک صاحب حافظ نورا لٰہی صاحب خاص بہاولپور سے زیار ت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت زیادہ تشویشناک ہے ۔ چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعائوں کے حقدا.6ر.6 ہیں اور حافظ نورالٰہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں ۔ اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق
پیسہ اخبار لاہور کا پچپن سالہ نوٹ
.6تاریخ اپنے ورق الٹتی رہتی ہے اور بعد کے اوراق دیکھنے والے عموماً پرانے ورقوں کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ گزرے ہوئے اوراق میں بسا اوقات قیمتی اور مفید معلومات کا .6ذ.6خیرہ مخفی ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک اسی قسم کا پلٹا ہوا ورق پیش کیا جا تاہے۔ جو ہمارے موافقوں اور مخالفوں دونوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے حکم پا کر سلسلہ بیعت ۱۸۸۹ء میں شروع فرمایا تھا۔ اور اس کے بعد ۱۸۹۱ ء کے آغاز میں آپ کی طرف سے مسیحیت کے دعویٰ کا اعلان ہوا۔ اس اعلان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ حق اور اتمام حجت کی غرض سے پنجاب اوریو ۔ پی کے کئی مقامات کا سفر اختیار فرمایا۔ انہی سفروں میںلاہور کا ۱۸۹۲ ء کا سفر بھی شامل تھا ،جس کا ذکر ذیل کے اقتباس میں آتا ہے ۔ جو ان ایام میںلاہور کے مشہورومعروف روزنامہ’ ’پیسہ اخبار‘‘ کے ایڈیٹوریل میں شائع ہوا۔ گوایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار بعدمیں .6خود بھی عام مخالفت کی رو میں آگئے تھے۔ مگر ذیل کے نوٹ سے ظاہر ہے کہ وہ اوائل میں حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی اسلامی خدمات کو کس قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ ایڈیٹوریل کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
پیسہ اخبار
لاہور۔ یوم دو شنبہ ۲۲؍ فروری ۱۸۹۲ ء
جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں
.6
.6مرزا صاحب دو ہفتہ سے لاہور میں تشریف رکھتے ہیں اورلاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں ۔ہر شخص گھر میں ،دوکان پر،بازار میں،دفتر میں، مرزا صاحب اور اُن کے دعویٰ مماثلتِ مسیح کا ذکر کرتا ہے ۔ آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں مگر ہم نے عمدًا اس بحث کو نہیں چھیڑا جس کی بڑی وجہ یہ ہے۔ پیسہ اخبار کوئی مذہبی اخبارنہیں مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہو گیا ہے۔ کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے۔ اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کر تے ہیں۔ مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے کوئی مسلمان زنا کرے، چوری کرے، الحاد کا قائل ہو، شراب پئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے،کبھی علمائے اسلام اُس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے۔ مگر ایک با خدا مولوی کو جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعد اری کرتا ہے۔ بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانا جاتا ہے
.6گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ دارد
.6وائے گر از پس امروز بود فردائے
.6ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کرے ۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں۔ جواب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے ؎
.6ہر کس از دستِ غیر نالہ کند
.6سعدی از دستِ خویشتن فریاد
.6اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ بات.6ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے۔ اگر اہلِ ہنود خصوصا ًآریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا بے جا نہیں تھا۔ مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوئی ہیں جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات براہین احمدیہ ، سرمہ چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں ۔ہم اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتے ہیں .6 .6وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ.6ْ.6۔ اس قدر لکھ دینا بھی نا مناسب نہ ہو گاکہ ہم ہرگز مرزا صاحب کے معتقدوں میں سے نہیں۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
حافظ نور الٰہی صاحب کی وفات
قادیان میں پہلے درویش کا وصال
.6قادیان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے کہ حافظ نور الٰہی صاحب سکنہ ریاست بہاولپور جو خدمت مرکز کے تعلق میں قادیان گئے ہوئے تھے۔اور جن کی بیماری کے ایام میں میری طرف سے الفضل میں دعا کی تحریک شائع ہوئی تھی، وہ بقضائے الٰہی وفات پا گئے ہیں۔ .6اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ.6۔ .6حافظ صاحب مرحوم بہت مخلص اور سر گرم احمدی تھے۔ اور دعائوں اور نوافل کی ادائیگی میں خاص شغف رکھتے .6تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو آمین۔ .6میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ خاص حالات میں اس جمعہ کی نماز کے بعد حافظ صاحب مرحوم کا غائبانہ جنازہ پڑھائیں۔ یہ پہلا درویش ہے جو گزشتہ فسادات کے بعدقادیان میں خدمت مرکز کی غرض سے بیٹھا ہوا خدا کے حضور حاضر ہوا ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍اپریل ۱۹۴۸ئ)

.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
انسانی زندگی کی چار اقسام
(ادنیٰ حیوانی۔ اعلیٰ حیوانی۔ ادنیٰ روحانی۔ اعلیٰ روحانی)
آپ کی زندگی کس قسم میں داخل ہے؟
.6
.6ذیل میں کوئی مضمون پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ ایک محض مختصر سا نوٹ ہے۔ تا ناظرین میں سے ہر سمجھدار شخص کے دل میں یہ نفسیاتی سوال پیدا کیا جاسکے کہ اس کی زندگی انسانی زندگی کی چار امکانی اقسام میں سے کس قسم میں داخل ہے۔ اور پھر جو لوگ زندگی کی نیچے کی سیڑھیوں میں رکے کھڑے ہیںوہ اوپر چڑھنے کی طرف متوجہ ہوں۔
.6قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے ( گو اس جگہ تفصیلی حوالوں کی ضرورت نہیں) اور یہی نتیجہ بنی نوع انسان کے حالات کے عملی مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے اور ہر انسان اپنی چار قسم کی زندگیوں میں سے کسی ایک زندگی کے ماحول میں محصور نظر آتا ہے:.6-
.6(اول) پہلی قسم کی زندگی ادنیٰ حیوانی زندگی ہے۔ جس میں انسان کی توجہ صرف اپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروںکی مادی ضرورتوں اور نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں منہمک رہتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں آتے ہیں۔ کھاتے اور پیتے ہیں، شادی کرتے اور اولاد پیدا کرتے ہیں۔ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی مادی یا نفسانی ضرورتوں کو پورا کرنے یا بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور جب موت آتی ہے تو اپنے بچوں کو اس سٹیج پر ایکٹ کرنے کے لئے اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ دُنیا میں علوم اور تہذیب و تمدن کی ترقی ان کے لئے …ادنیٰ مادی غرض کو بہتر بنانے کے ذریعہ کے سوا کوئی اور حقیقت نہیں رکھتی ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ .6.6.6ُّ۲۵.6’’ یعنی یہ لوگ جانورو.6ں.6کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر‘‘ کیونکہ جانورتو جانور ہی ہے مگر جب اشرف المخلوقات انسان اور احسن تقویم کا مالک بشر ادنیٰ جانوروں کی سی زندگی اختیار کرتا ہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بد تر سمجھے جانے کا مستحق ہے۔
.6(دوم) دوسری قسم زندگی کی وہ ہے جسے اعلیٰ حیوانی زندگی کے الفاظ سے یاد کر سکتے ہیں۔ اس.6 ز.6ندگی میں انسان کی نظراپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروں سے آگے نکل کر اپنے قبیلہ یا اپنی قوم یا اپنے علاقہ یا اپنے ملک یا بین الاقوام بہبودی اور ترقی کی غرض و غایت کو اپنی توجہ کا مرکز بناتی ہے۔ مگر رہتی بہر حال دنیا کی مادی ضروریات کی تکمیل تک محدود ہے۔ ایسے لوگ دن رات اپنی اور دوسرے لوگوں کی خاطر جدوجہد کرنے اور قوموں اور ملکوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں منہمک نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی نظر نسل انسانی کے مادی آرام و آسائش اور مادی ترقی سے آگے نہیں گزرتی۔ ان کی قوم یا ان کا ملک یا دنیا کی مختلف قومیں یا دنیا کے مختلف ملک اچھا کھائیں، اچھا پئیں، اچھے مکانوں میں رہیں، اچھے حالات میں سفر کریں، اچھی تفریحوں میں حصہ لے سکیں، بیماریوں میں اچھا علا ج حاصل کر سکیں، قومی اور ملکی ترقی کے لئے اچھی تجاویز سوچ سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں اچھے ضابطہ کے پابند ہوں یا اگر یہ ضابطہ ناکام رہے تو ایک دوسرے کے مقابلہ پر اچھا لڑ سکیں وغیرہ وغیرہ۔ سینکڑوں قسم کے مادی شعبے ہیں جو اس قسم کے ترقی یافتہ انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ مگر خواہ ان کا دائرۂ عمل کتنا ہی وسیع ہو.6،.6بہرحال یہ بھی ایک قسم کی حیوانی زندگی ہے۔ جو گو یقینا پہلی قسم کی زندگی سے تو بہت اعلیٰ ہے مگر ہے پھر بھی حیوانی اور سفلی زندگی اور اسی قسم کے لوگوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے۔ .6۲۶.6۔ ’’ یعنی ان لوگوں کی زندگی بھی دراصل مادی دنیا کی بھول بھلّیوں میں کھوئی ہوئی ہوتی ہے۔ گو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں بہت اچھے اچھے کام کرنے والے ہیں۔‘‘
.6(سوم) تیسری قسم کی زندگی وہ ہے جسے ادنیٰ روحانی زندگی کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی زندگی .6میں انسان کی نظر اس دنیا کے مادی ماحول سے آگے نکل کر خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے .6خالق ومالک کو پہچان کر اس پر ایمان لاتا ہے۔ اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کا عبد بننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ مگر اس کا ایمان ایسا پختہ نہیں ہوتا۔ اور نہ اس کی روحانیت اتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کی ہستی اور اس .6کے عبد بننے کے جذبہ کو دنیا کی نجات اور انسان کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے دوسرے لوگوں کو بھی سمجھا سمجھا .6کر خدا کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے دل میں روحانیت کا جذبہ رکھتا ہے اور اُخروی زندگی پر نظر رکھتے ہوئے نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور بعض اوقات اپنے اہل و عیال کو بھی نیک بنانے میں کسی حد تک ساعی رہتا ہے۔ مگر اس کے ایمان کی موٹر اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ کھینچ سکے یا انہیں خدا کی طرف کھینچ لانے کی طرف متوجہ رہے ۔یہ لوگ وہ ہیں جو صرف اس قدر تیرنا جانتے ہیں کہ خود ڈوبنے سے بچ جائیں مگر دوسروں کو بچانے کی ہمت.6نہیں رکھتے اور نہ انہیں دوسروں کو بچانے کی قدر و قیمت کا چنداں احساس ہو تا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن .6شریف اپنی اصطلاح میں قاعد کے نام سے یاد کرتا ہے۔’’ یعنی یہ لوگ بے شک رو حانیت کے زندگی بخش .6میدان میں داخل تو ہو چکے ہیں مگر داخلہ کے بعد وہ گویا ایک ہی جگہ دھرنا مار کر بیٹھ گئے ہیں۔‘‘ اور دوسرے لوگوں کو اس میدان میں کھینچ لانے کے لئے جدو جہد نہیں کرتے۔
.6(چہارم) چوتھی قسم کی زندگی وہ ہے جسے گویا اعلیٰ روحانی زندگی کہنا چاہئے اس قسم کی زندگی میں انسان۔۔۔۔۔۔ خدا کو صرف خود ہی نہیں پاتا اور اخروی زندگی پر ایمان لا کر صرف اپنے ذاتی اعمال کو ہی درست کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس ایمان کی قدر و قیمت اور اس کے عظیم الشان نتائج کو پہچان کر گویا خدا کا سپاہی بن جاتاہے اور اپنے ساتھ اپنے ارد گرد کی دنیا کو بھی مادیّت کے میدان سے نکال کر خدا کا عبد بنانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ وہ اس لوہے کی طرح ہو جاتا ہے جو مقناطیس کے ساتھ جوڑ اور ملاپ کی وجہ سے خود بھی گویا ایک چھوٹا سا مقناطیس بن جاتا اور لوہے کے دوسرے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی دن رات یہی کوشش ہوتی ہے کہ نہ صرف خود نجات پائے بلکہ دوسروں کو بھی نجات حاصل کرنے میں مدد دے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو قرآنی اصطلاح میں مجاہد کہلاتا ہے۔ ’’یعنی وہ لوگ جو روحانیت کے میدان میں داخل ہو کر بیٹھ نہیں جاتے۔ بلکہ ان کی جدو جہد دوسرو.6ں.6 کو اس میدان میں کھینچ لانے میں صرف ہونی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ نہ صرف خود تیرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تیرنا سکھاتے اور ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ یہ لوگ بے شک انسانیت کی مادی ضرورتوں کی طرف بھی واجبی توجہ دیتے ہیں مگر صر ف انہی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جاتے بلکہ ان باتوں کو بھی دنیاکی روحانی زندگی کے بہتر بنانے میں خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کے سچے بندے اور سچے خادم ہیں۔ اس لئے وہ عبد اور مجاہد کہلاتے ہیں۔.6
.6خلاصہ کلام یہ کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے (۱) ادنیٰ حیوانی زندگی جس میں انسان اپنے نفس اور اپنے قریبی عزیزوں کی مادی ضروریات کے پور ا کرنے میں منہمک رہتا ہے۔ جیسا کہ ادنیٰ قسم کے جانوروں کا طریق ہے(۲) اعلیٰ حیوانی زندگی جس میں انسان کی نظر تو بے شک مادی میدان میں ہی محصور ہوتی ہے مگر وہ اس میدان میں نہایت وسیع ہو جاتی ہے، یعنی ایک طرف تو وہ اپنے نفس اور عزیزوں سے آگے نکل کر اپنی قوم یا ملک وغیرہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور دوسری طرف وہ صرف ادنیٰ اور ابتدائی مادی اغراض تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ ہر قسم کی مادی ترقی کے حصول کو اپنے دائرہ عمل میں شامل کر لیتی ہے۔(۳) ادنیٰ روحانی زندگی جس میں انسان خدا کو پہچانتا اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ اور اخروی زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ مگر ابتدائی حیوانی زندگی کی طرح اس کی.6نظر صرف اپنے نفس یا زیادہ سے زیادہ اپنے اہل و عیال کی روحانی بہبود تک محدود رہتی ہے ۔ اور (۴) اعلیٰ روحانی زندگی جس میں میدان بھی روحانی ہو تا ہے اور نظر بھی وسیع ترین ہو تی ہے اور انسان نہ صرف خود اعلیٰ روحانیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس میدان میں کھینچ لانے کی جدو جہد کرتا ہوا خدا کا مجاہد سپاہی بن جاتا ہے۔
.6اب اے ہمارے عزیزو اور دوستو! آپ میں سے ہر شخص اپنے نفس میں غور کرے کہ اس کی زندگی اوپر کی چار اقسام کی زندگیوں میں سے کس قسم میں داخل ہے۔ آیا وہ ابھی تک صرف ایک اچھی قسم کا حیوان ہے یا کہ مادیّت کے زہر آلود میدان میں سے نکل کر روحانیت کے میدان میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر داخل ہو چکا ہے تو آیا وہ ایک محض ابتدائی قسم کی روحانی زندگی پر قانع ہے یا کہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر عبدِ مجاہد بن چکا ہے؟ مگر اس نفسیاتی سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے دلوں کو اچھی طرح ٹٹول لیں کہ کہیں محض رسمی اور نمائشی باتو.6ں.6 میں الجھ کر آپ کا نفس دھوکا نہ دے دے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک مادیّت کی دلدل .6میں.6 پھنسا ہوا انسان بھی اپنے آپ کو روحانیت کے سمندر کا تیراک خیال کرنے لگ جاتا ہے اور بعض اوقات ایک قاعد بھی کسی شخص کو کبھی کبھار کلمہ خیر کہہ دینے کی وجہ سے اپنے آپ کو مجاہد سمجھنے لگ جاتا ہے۔ لیکن حقیقی محاسبہ وہی ہے جو حالات کے صحیح اور گہرے اور غیر جانبدار انہ مطالعہ پر مبنی ہو اور .6لَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ .6کے سنہری حکم کے ماتحت انسان اپنے نفس کے خلاف بھی سچی شہادت دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ پس ہمارے دوست حقیقی محاسبہ کے رنگ میں سو چیں اور اپنے دل سے ٹھیک ٹھیک جواب حاصل کریں تا وہ اپنا موجودہ مقام معلوم کر کے اگلا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں ۔اللہ تعالیٰ میرا اور سب دوستوں کاحافظ و ناصر ہو اور ہمیں اپنا مجاہد عبد بننے کی توفیق عطا کرے۔ .6وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیَّ الْعَظِیْم.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
علاقہ قادیان کی اغوا شدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں
ان کے ورثاء لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں پتہ لیں
.6قادیان سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ ارد گرد کے علاقہ کی بعض مسلمان عورتیں جن میں سے بعض جموں سے بھی آئی ہوئی تھیں قریباً چودہ پندرہ کی تعداد میں بحال ہو کر قادیان جمع ہو گئی تھیں۔ ان عورتوں کو گورداسپور کی پولیس قادیان سے گورداسپور لے گئی ہے تاکہ وہاں سے اپنے انتظام میں لاہور پہنچا دے۔ ان عورتوں میں مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ جموں والی اور مسماۃ شریفہ بی بی ننگل والی بھی شامل تھیں۔ ان کے ورثا.6کو.6 چاہئے کہ لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں پتہ لے لیں۔ تاکہ دیر ہو جانے کی وجہ سے مصیبت زدہ عورتو ںکو مزید تکلیف کا سامنا نہ ہو۔ افسوس ہے کہ پوری تفصیل فون پر معلوم نہیں کی جاسکی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
قادیان جانے والے خط ابھی تک بیرنگ ہو رہے ہیں
دوست احتیاط رکھیں
.6 .6چند دن ہوئے میں نے الفضل میں اعلان کروایا تھاکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ڈاک کے ٹکٹوں کی شرح تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لئے دوست قادیان خط بھجواتے ہوئے جدید شرح کے مطابق ٹکٹ لگایا کریں۔ ورنہ خطوں کے بیرنگ ہو جانے کی وجہ سے قادیان کے غریب درویشوں کو زیر بار ہونا پڑتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک دوستوں نے اس غلطی کی اصلاح نہیں کی۔ کیونکہ قادیان کے تازہ فون سے اطلاع ملی ہے کہ ا بھی تک قادیان میں کثرت کے ساتھ بیرنگ خط پہنچ رہے ہیں۔ میں دوستوں کی سہولت کے لئے پھر اس جگہ ٹکٹوں کی تازہ شرح درج کر دیتا ہوں۔ جو ہندوستان .6جانے والی.6 ڈاک کے لئے ضروری ہے۔ احباب اس کا خیال رکھیں۔
.6 .6(۱) پوسٹ کارڈ ۲ (دو آنے) (۲) لفافہ ( ساڑھے تین آنے) یہ شرح عام ڈاک کے لئے ہے۔ رجسٹری ڈاک یا ہوائی جہاز کی ڈاک کی شرح اس سے زیادہ ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل یکم مئی ۱۹۴۸ئ)
.6
.66
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
جمع بین الصلوٰتین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کے زمانہ کی ایک شہادت
مولوی محمد دین صاحب بی ۔اے سابق ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جمع بین الصلوٰ تین کے متعلق ایک شہادت لکھ کر بھیجی ہے جو دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں درج کی جارہی ہے ۔ مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سال ہا سال قادیان میں رہ چکے ہیں انہوں نے اپنی شہادت میںاس زمانہ کا ذکر کیاہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں ایک لمبے عرصہ تک مسلسل نمازیں جمع کرائیں مولوی صاحب موصوف کی شہادت میں ایک بات کسی قدر قابل وضاحت ہے، جس کے متعلق میں انہیں خط لکھ رہا ہوں ،اس کاجواب آنے پربعد میں شائع کردیا جائے گا۔والسلام ۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِط وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحَ الْمُوْعُوْدِ
مکرمی ومحترمی مرزا بشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک مسلسل عرصہ تک روزانہ نمازیں جمع ہوتی رہیں ظہر اور عصر اور مغرب وعشائ۔ ان میں یہ عاجز باقاعدہ شامل ہوتا رہا اور چونکہ یہ مسئلہ اور تعامل لوگوں کے لئے نیا تھا اس لئے طبعی طور پر لوگ مسئلے کے طور پر اس کے متعلق جزئیات بطور مسئلہ کے دریافت کرتے رہتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی براہ راست اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ اور دیگر علماء سلسلہ سے بھی ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت تعامل یہی تھا کہ اگر کوئی عصر میںشامل ہوا ہے تواس نے ظہر کی نماز بعد میں پوری کرلی اور جو عشاء میںشامل ہوا تو اس نے مغرب کے فرض بعد میں ادا کرلئے اور جس کسی کو سوال وشبہ پید اہوا ،اس نے جب بھی حضرت صاحب سے دریافت کیا یا حضرت مولوی صاحب سے تو اس کو بھی یہی جواب دیاگیا کہ جو فرض جماعت ہے اس میں شامل ہوجائو اورجو رہ گئی ہو اسے بعد میں پوری کرلو ۔چونکہ یہ تعامل اور مسئلہ نیاتھا اس لئے سوال و اعتراضات بھی ہوتے رہے اور یہی بطور تعامل اور مسئلہ کا حل رہا ۔
مجھے توتعجب آیا کہ مولوی شمس صاحب نے اپنی تحریر میں جو الفضل میں شائع ہوئی ہے یہ لکھا ہے کہ جماعت یا اکثر حصہ جماعت کا تعامل اس سے مختلف رہاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دنوں میںتو میں حتمی طور پر عرض کر سکتا ہوںکہ تعامل بھی وہی تھا ۔جو میں اوپر عرض کرآیا ہوںاور جہاںتک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے اوائل میں بھی یہی تھا ۔بعد میں مجھے حتمی طور پر اس لئے یاد نہیں کہ نہ تو اس کثرت و تکرار سے نمازیں جمع ہوئیں اور جب کبھی نمازوں کے جمع کرنے کاوقت آیا خاص کر جلسہ کے ایام میں توان دنوں میں چونکہ یہ خاکسار اکثر مہمانداری میں مصروف رہتا تھا ،اس لئے مجھے صحیح طورپریاد نہیں کہ تعامل کیاتھا۔ تاہم پچھلے چند سالوں میں مجھے معلوم ہوا کہ جماعت میں اس کے تعامل میں اختلاف ہے اور غالباً مسئلہ میں تو میں نے ایک دن حضرت مولوی شیر علی صاحب سے عرض کیاکہ آپ کو معلوم ہے اور اچھی طرح سے معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایام میں یہ مسئلہ اور اس کاتعامل بالکل واضح تھا ۔آپ کیوں یہ امر واضح طور اپنے ان نئے علماء کو نہیں بتلا دیتے؟ تو انہوں نے ہنس کر کہاکہ تم کیوں نہیں کہہ دیتے ۔میں نے عذر کیا تو فرمانے لگے میرا بھی قریباً ایسا ہی عذر ہے ۔ اصل میں ان کی طبیعت میں انتہا درجہ کی فروتنی تھی وہ خواہ نخواہ اپنے آپ کو آگے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میں بھی ان سطور کے لکھنے سے پرہیز کرتا ،مگر چونکہ آپ کی طرف سے اس سوال کو اٹھایا گیا ہے ۔اس لئے مجبوراً یہ چند سطور عرض کر رہا ہوں اور گو مکرمی مولوی شمس صاحب نے سوال کا جواب توصحیح دیا ہے مگر ایک واقعہ غلط لکھا ہے جس سے غلط فہمی کا احتمال ہوتا ہے اس لئے یہ عاجز آپ کے نوٹس میں یہ واقعہ لارہا ہے کہ اگر مولوی شمس صاحب کی تحریر سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جماعت کے تعامل سے مراد حضرت مسیٰح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا زمانہ ہے یا حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کا زمانہ تو یہ بات غلط ہے ۔ باقی میرا خیال ہے کہ الحکم کے فائل سے ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا واضح فتویٰ چھپا ہوا بھی مل جائے کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اکثر لوگ دریافت کرتے تھے اور حضور خود بھی اس کا جواب دے دیا کرتے تھے ۔
والسلام
خاکسار محمد دین (ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان)
(مطبوعہ الفضل ۲؍مئی ۱۹۴۸ئ)


اسلحہ کے لائسینس داروں کو ضروری مشورہ
کس قسم کے ہتھیار زیادہ کار آمد ہیں؟
اکثر دوستوں کو شکار یا خود حفاظتی کے خیال سے اسلحہ کا لائسنس لینے کی خواہش ہوتی ہے یا ان کے پاس پہلے سے لائسنس ہوتا ہے ۔مگر پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھے ہتھیار کا انتخاب نہیں کر سکتے ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں مختصر مشورہ درج کیا جاتا ہے ۔جو انشاء اللہ ان کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
آتشیں اسلحہ چار قسم کا ہوتا ہے :۔ (۱) ۔چھرہ والی بندوق یہ دو قسم کی ہوتی ہے ۔ایک نالی والی اور دو نالی والی اور بندوق کی بور یعنی نالی کی وسعت بھی مختلف ہوتی ہے ،یعنی بارہ بور یا سولہ بور یابتیس بور۔ان میں سب سے زیادہ معروف اور اچھی قسم دو نالی بارہ بور والی بندوق سمجھی جاتی ہے ۔ اور جو دوست چھرے والی بندوق لینا چاہیں ان کیلئے بارہ بوروالی دو نالی بندوق سب سے مناسب ہے اور اس کے کارتوس بھی آسانی سے مل جاتے ہیں یہ بندوق ایسی ہونی چاہئے جسمیں پیچھے کی طرف سے کارتو س بھرا جاتا ہے جسے انگریزی میں12.Bore D B B L shot gun کہتے ہیں ۔ اس میں بھی آگے کئی قسمیں ہیں۔یعنی نالی کتنی لمبی ہو ۳۲ انچ کی یا ۳۰انچ کی یا ۲۸ انچ کی پھر بندوق خود بخود کا رتوس باہر نکالنے والی (Ejector ) ہو یاکہ اس کے بغیر ۔پھر یہ کہ اس کی ایک نالی چوک (Choke ) ہو یعنی منہ کے قریب کچھ تنگ ہو یادونوں یکساں ( Cylinder ٰ) ہوں وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ذاتی پسند پر مبنی ہیں میری رائے میں نالی کی لمبائی ۳۰انچ اچھی رہتی ہے اورایجیکٹر ہونا ضروری نہیں اور اگر ایک نالی چوک ہو تو بہتر ہوتا ہے ،کیونکہ ایک نالی کی مار کچھ زیادہ ہوتی ہے۔
(۲)۔ اسلحہ کی دوسری قسم رائفل ہے جس میں گولی چلتی ہے اور زیادہ فاصلہ سے مارتی ہے یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔
الف: ۱۲بور کی رائفل جو چھوٹے جانوروں کے شکار کے لئے ہوتی ہے اور نشانہ سیکھنے اور بچوں میں نشانہ بازی کا شوق پیدا کرنے کے لئے بھی اچھی سمجھی جاتی ہے ۔اگر ممکن ہو تو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ اس کا لائسینس بھی ضرور لینا چاہئے ۔اچھی کام کی چیز ہے مگر رائفل ایسی خریدنی چاہئے جو میگزین قسم کی ہو یعنی اس میں ایک سے زیادہ کارتوس پڑتے ہوں اس کی عام اقسام ہنچڑ اور سیویچ اور بی ۔ایس ۔ اے اور مائو زر ہیں۔
(ب)بڑی بور کی زیادہ طاقت والی رائفل اس کی بیسیوں اقسام ہوتی ہیں مگر عام حالات کے لئے سب سے بہتر تیس بور کی سپرنگ فیلڈ میگزین رائفل ہے یہ طاقت میں بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور نشانہ کی صحت کے لحاظ سے بھی بہت اچھی ہے اور اس کے کارتوس بھی عام ملتے ہیں۔ اگر سب دوست اس رائفل کا لائسنس لیں تو کارتوس اکٹھے خریدنے میں بھی سہولت ہوگی اور بعض اور سہولتیں بھی ہوسکتی ہیں۔یہ رائفل بھی عموماً چار کارخانوں میں بنتی ہے یعنی ونچسٹر اور سویچ اور ریمنگٹن اور بائو ذر۔ یہ چاروں اقسام نہایت اعلیٰ ہیں اور طاقت اور تیزی میں ہندو ستان کی فوجی رائفل ۳ ۳۰ بور سے بھی بہتر ہیں اور ہاتھی اور گینڈے اور شیر ببر کو چھوڑ کر ہرقسم کاشکار آسانی سے مارسکتی ہیں۔
(۳)۔ اسلحہ کی تیسری اور چوتھی قسم ریوالور اور پستو ل ہیں۔ اس کالائسنس سب سے مشکل ملتا ہے اور آج کل اس کی منظوری کمشنر کے اختیار میں ہے ۔ریوالور زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ تسلی بخش ہوتا ہے اور وقت پر دھوکہ کم دیتا ہے، لیکن اگر بور برابر ہو تو پستول زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ اور زیادہ تیز بھی میری رائے میں ریوالور میں ۳۸ بور اچھی ہوتی ہے اور پستول میں ۳۲ بور۔ دونوں میگزین ہونے چاہئیں اگر چھوٹی جیب میں رکھنا منظور ہو تو ۲۵بور کا پستول اچھا رہے گا مگر یہ زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا۔اس کے بعد بعض ضمنی امور بھی قابل توجہ ہیں جو یہ ہیں۔
(اوّل ) لائسنس میں جہاں تک ممکن ہو کارتوسوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ درج کرانی چاہئے بلکہ اگر ممکن ہو تو بلا حدیتہ کا اندراج کراناچاہئے۔
(دوم ) لائسنس حتی الوسع سارے پاکستان کے لئے منظور کرانا چاہئے نہ کہ صرف ایک ضلع یاکمشنری صوبہ کے لئے۔
(سوم ) زیادہ حیثیت لوگ اپنے ساتھ اپنے کسی نوجوان عزیز کو بطور رفیق یعنی ریٹینر( Retainer )درج کرواسکتے ہیں۔ اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک ہی لائسنس سے دو آدمی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
(چہارم) اگر ممکن ہو اور اس کی گنجائش ہو تو ایک سال کی بجائے دو یاتین سال کے لئے لائسنس جاری کر دیاجائے اور یہ میعاد پوری ہونے پر پھراسی قدر میعاد کے لئے تجدیدکرائی جائے پہلے سال کی فیس ریوالور اور پستول کی دس روپے ہوتی ہے اور رائفل اور بندوق کی پانچ روپے بعد میں تجدید کے وقت نصف فیس لگتی ہے۔
(پنجم) ایک ہی لائسنس میں بندوق اور رائفل اور ریوالور یاپستول کا لائسنس درج کرایا جاسکتا ہے بہتر صورت یہ ہے کہ ایک لائسنس میں ایک بارہ بور چھرہ والی بندوق۲ ۔ایک ۳۲ بور رائفل ۳۔ ایک ۳۰بور سپرنگ فیلڈ رائفل اور ۴۔ ایک ۳۸بور ریوالور یا ۳۲ بور پستول درج کرائے جائیں رائفل اور پستول میگزین قسم کے ہونے چاہئیں۔
(ششم) بندوق رائفل کے لائسنس کی منظوری ڈپٹی کمشنر ضلع کی طرف سے ملتی ہے مگر ریوالور اور پستول کی منظوری ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر کمشنر دیتا ہے ہر دو صورتوں میں رپورٹ کے لئے پولیس کے پاس کا غذات جاتے ہیںلیکن اگر کوئی خاص اعتراض نہ ہو تو عام قاعدہ یہی ہے کہ باحیثیت لوگوں کا لائسنس نامنظور نہ کیا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء )
ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق صحیح نظریہ کی تعیین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ بہر حال درست ہے
مگرسوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے حوالہ کی صحیح تشریح کیا ہے
۲۷ مارچ ۱۹۴۸ ء کے الفضل میں میرا ایک مختصر سا مضمون ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق شائع ہوا تھا ۔اس مضمون میں میں نے بعض قرآنی آیات سے یہ استدلال کیا تھا کہ بے شک تقدیرخیر و شر کا مسئلہ حق ہے اور بے شک انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو نیکی کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کے راستہ پر پڑ جائے۔ اور بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ ابلیس ایک نہایت درجہ مغوی وجود ہے جو حضرت آدم کے وقت سے لوگوں پر امتحان کا سامان مہیا کر تا چلا آرہا ہے وغیرہ۔ مگر یہ کہ قرآن شریف کی آیات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض و غایت کے ماتحت پیداکیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے بلکہ اس کا مغوی بننا ایک بعد کا حادثہ ہے جو اس کی پیدائش کی غرض و غایت کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر نہیں ہے۔ البتہ انسان کا صاحبِ اختیار ہونا اس کی پیدائش کے ساتھ لازم و ملزوم ہے وغیرہ۔
اس نظریہ کو پیش کر کے میں نے علماء سلسلہ کو دعوت دی تھی کہ وہ اس اہم مضمون کے متعلق تحقیق کر کے اپنے مفید خیالات پیش کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آئینہ کمالات اسلام والے مضمون کو بھی دیکھ لیں ۔ جس میں ابلیس کے متعلق نہایت لطیف اور سیر کن بحث کی گئی ہے اور میں نے لکھا تھا کہ خواہ ہمارے ذاتی خیالات کچھ ہوں ، حق وہی ہے اور وہی رہے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر لکھا ہے۔
میری اس دعوت کے جواب میں بعض دوستوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور تین مختصر سے مضمون اس مسئلہ کے متعلق الفضل میں بھی شائع ہو ئے ہیں۔ ایک مضمون عزیزم مرزا ظفر احمد سلمہ کے قلم سے ہے جس میں میرے نظریہ سے اختلاف کیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون عزیز میاں عباس احمد خان کے قلم سے ہے￿ جس میں میرے نظریہ کی تائید کی گئی ہے۔ تیسرا مضمون مرزا محمد حیات صاحب تاثیر کے قلم سے ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کاآئینہ کمالات اسلام والا حوالہ نقل کیا گیا ہے ۔ پہلے دو مضمون میری نظر میں چنداں وزن نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان دونوں میں میرے مضمون کی صرف ایک عقلی دلیل کو لے کر فلسفیانہ رنگ میں بحث کرنے پر اکتفا کی گئی ہے اور اصل قرآنی آیت کو نہیں چھوا گیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ محض عقلی دلائل سے حل کیا جا سکے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف عقلی دلائل تک ہی محدود رہناہوتاتو میرے نظریہ کی تائیدمیں زیادہ مضبوط اور زیادہ روشن دلائل موجود ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس مسئلہ کا اصل اور صحیح حل صرف دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ اور وہ دو طریق یہ ہیں۔
(۱) یہ دیکھا جائے کہ اس بارہ میں قرآن شریف کیا فرماتا ہے ۔ کیونکہ قرآنِ شریف خدا تعالیٰ کا اعلیٰ ترین اور محفوظ ترین کلام ہے۔ جس کی ہدایت ہر جہت سے مکمل اور ہر غلطی سے پاک ہے ۔
(۲) یہ دیکھا جائے کہ اس مسئلہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کیا فرماتے ہیں ۔ کیونکہ خدا کے راستہ میں سالکوں سے بڑھ کر اس راستہ کے خطرات اور ان خطرات کی نوعیت سے کوئی شخص واقف نہیں ہو سکتا۔ اور میں محمد حیات تاثیر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معین حوالہ پیش کر کے اس بحث میں سہولت کا دروازہ کھولا ہے۔
اصل بحث میں پڑنے سے پہلے میں پھر اس بات کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے تقدیر خیر و شر کے مسئلہ میں کوئی کلام نہیں، یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے جو ہمارے ایمانیات کی بنیادوںمیں شامل ہے۔ اور دراصل اس مسئلہ پر ایمان لانے کے بغیر انسان کی پیدائش کی غرض و غایت پوری ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی سلسلہ رسل اور سلسلہ کتب کی غرض و غایت اس کے بغیر پوری ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے دونوں عالمگیر قانونوں میں یعنی قانونِ شریعت اور قانون قضا و قدر میں خیر و شر کی تقدیر کو جاری کیا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر یہ یہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اور اگر وہ وہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں بُرا نتیجہ نکلے گا۔ پس مسئلہ قدر خیر و شر یقینا حق ہے ۔ مگر میری موجودہ بحث کے ساتھ اس مسئلہ کو کوئی تعلق نہیں۔ دوسری بات میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ کہ مجھے اس بات میں بھی ہرگز کلام نہیں کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیارہے۔ یعنی خدا کے ازلی قانون نے انسان کو ایسی صورت میں پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو نیکی اور فرمانبرداری کا طریق اختیار کر لے اور چاہے تو بدی اور نافرمانی کے راستہ پرپڑ جائے۔ اور انسان کا صاحب اختیار ہونا اس کی ترقی اور انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے۔ تیسرے مجھے اس بات میں بھی کوئی کلام نہیںکہ ابلیس ایک مغوی وجود ہے جو اپنے دامن غوایت میں ہزاروں اظلال چھپائے ہوئے ہے۔ چوتھے مجھے اس بات میں بھی کلام نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک ابلیس اور اس کے اظلال مغویانہ وجود کی حیثیت رکھتے آئے ہیں۔ اور جب تک خدا کو منظور ہو گا اپنی اسی مغویانہ حیثیت میں کام کرتے چلے جائیں گے۔ یہ ساری باتیں بالکل درست اور حق ہیں۔ اور مجھے ان میں نہ کبھی کلام ہوااور نہ ہو سکتا ہے۔ جس بات میں مجھے کلام ہے اور اس کے متعلق میں نے علماء کو دعوت دی ہے، وہ محض یہ ہے کہ آیا خدا تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے یا کہ وہ خود نافرمان اور گمراہ ہو کر مغوی بن گیا ہے۔
میرا نظریہ جو میرے خیال میں قرآن شریف سے ثابت ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ بھی میری موجودہ تحقیق میں اس کے خلاف نہیں ،یہ ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ صرف اس قدر ہے کہ خدا نے تقدیر خیر و شر کا قانون جاری کر کے انسان کو صاحب اختیار بنا دیا کہ چاہے توخدا کا فرمانبر دار بن کر نیکی اختیار کر لے اور چاہے تو نافرمان بن کر بدی کے راستہ پر پڑ جائے۔ باقی رہا ابلیس کا مغویانہ وجود سو وہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ مگر بایں ہمہ وہ ایک بالکل ابتدائی زمانہ کا حادثہ ہے جو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس حادثہ کے وقوع میں آنے کے نتیجہ میں بدی کا ایک خارجی محرک بھی پیدا ہو گیا۔ پس گو ابلیس کا مغویانہ وجود قریباً ابتداء سے ہی چلا آتا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ اور اس لئے اس کا مغوی ہونانظام روحانی کاحصہ نہیں۔ بلکہ نظام روحانی کا حصہ صرف خیر و شر کی تقدیر اور انسان کاصا حب اختیار ہونا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے ترقی کرنے اور انعام کے مستحق بننے کے لئے کافی ہے۔ اور اس غرض کے لئے کسی خارجی مغوی وجود کی ضرورت نہیں۔
حق یہ ہے کہ نیکی اور بدی کے فلسفہ پر غور نہیں کیا گیا۔ قرآن شریف نے نیکی کو نور سے تشبیہہ دی ہے اور بدی کو ظلمت سے۔ جیسا کہ فرمایا کہ:
۲۷
’’یعنی خدا نے ہی نور اور ظلمت دونو ںکو بنایا ہے۔‘‘
اب ہر شخص جانتا ہے کہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ نور کے فقدان یعنی نور کے موجود نہ ہونے کا نام ظلمت ہے۔ گویا اصل چیز دنیا میں نیکی ہے۔ اور بدی صرف اس نیکی سے دوری کا نام ہے۔ آپ کسی کمرہ میں ظلمت اور تاریکی کو داخل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے۔ ہاں آپ روشنی کو باہر نکال کر کمرہ کے اندر تاریکی پیدا کر سکتے ہیں اور جتنا جتنا کسی روشنی کا فاصلہ کمرہ سے بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی نسبت سے کمرہ کی تاریکی زیادہ گہری ہوتی چلی جائے گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۲۸۔ ’’یعنی خدا تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے۔‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ جتنی جتنی کوئی چیز منبع نور یعنی خدا سے قریب ہو گی۔ اتنی ہی وہ زیادہ روشن اور نیک ہوتی چلی جائے گی اور جتنی کوئی چیز خدا سے دور ہو گی۔ اتنی ہی وہ زیادہ تاریک اور بد ہوتی چلی جائے گی۔ پس خدا کا نیکی اور بدی کو نوراور ظلمت سے تشبیہہ دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقتاً بدی کے لئے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہیں،بلکہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی بدی کے معرض وجود میں آنے کے لئے کافی ہے۔ جتنا جتنا کوئی شخص اپنے فطری اختیار کے ماتحت نیکی کے رستہ سے دور ہو گا اتنا ہی وہ بدی میں مبتلا سمجھا جائے گا۔
اس کی ایک واضح مثال مغوی انسانوں کے حالات میں ملتی ہے۔ جو ہر نبی کے زمانہ میں ہوتے رہے ہیں حضرت ابراہیم کے زمانہ میں نمرود ایک مغوی وجود تھا اور حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون ایک مغوی وجود تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل ایک مغوی وجود تھا۔ بے شک ان مغوی انسانوں کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کوٹھوکر لگی۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ مغوی انسان نہ ہوتے تو ان نبیوں کے زمانہ میں کوئی شخص بھی گمراہی کا طریق اختیار نہ کرتا ۔ گمراہ ہونے والوں نے اپنے صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں گمراہی اختیار کی۔ مگر یہ درست ہے کہ ان مغوی وجودوں سے لوگوں کی گمراہی کو مزید تقویت حاصل ہو گئی۔ اسی طرح اگر ابلیس نہ ہوتا تو پھر بھی گمراہ ہونے والے انسانوں نے گمراہ ہونا تھا۔ مگر ابلیس کا وجود گمراہی کو مزید تقویت دینے کا موجب بن گیا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ابلیسی تقویت دونوں طریق پر اثر انداز ہو رہی ہے یعنی شدت( Quality) کے لحاظ سے بھی اور وسعت (Quantity) کے لحاظ سے بھی۔ ابلیس کے وجود نے گمراہی کے دائرہ کو بھی وسیع کر دیا ہے اور اس کی شدت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون نے گمراہی کی شدت اور وسعت دونوں کو بڑھا دیا تھا۔ ہاں انسانی مغوی وجودوں اور ابلیس میں یہ فرق ضرور ہے کہ انسان کی طاقت اور زمانہ محدود ہے اور وہ اپنی چند سالہ عمر گزار کر ہلاک ہو جاتا ہے مگر ابلیس ایک غیر انسانی وجود ہے۔ جس کی میعاد اور جس کا دائرہ عمل انسانوں کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس کا مغویانہ وجود حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوا اور اب تک چلا جا رہا ہے۔
اب سوال ہوتا ہے کہ ابلیس کون ہے۔ ہمارے پرانے مفسر تو لکھتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا۔ جس کا نام عزازیل تھا جو نافرمانی کے نتیجہ میں شیطانی وجود کی صورت اختیار کر گیا ( ملاحظہ ہو کہ کم از کم پرانے مفسر بھی ابلیس کے مغویانہ وجود کو ایک حادثہ تسلیم کرتے ہیں مگر یاد رہے کہ حادثہ سے میری مراد موٹر وغیرہ والا حادثہ نہیں بلکہ ایسی صفت مراد ہے جو کسی چیز کے ساتھ فطری طور پر لازم و ملزوم نہیں ہوتی، بلکہ بعد میں پیدا ہوتی ہے) مگر یہ خیال درست نہیں کہ ابلیس ایک گمراہ شدہ فرشتہ ہے۔ کیونکہ فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے کہ ۲۹ ۔ ’’یعنی فرشتے خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جس بات کا حکم دیا جاتا ہے وہی بجا لاتے ہیں‘‘ پس یہ خیال کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا جو نافرمانی کر کے شیطان بن گیا۔ قرآنی تعلیم کے صریح خلاف ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ابلیس تھا کون؟ اس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:
۳۰
’’ یعنی ہم نے جنّوں کو انسان کی پیدائش سے پہلے لو والی آگ سے پیدا کیا تھا‘‘ اور دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۳۱ ’’ یعنی ابلیس جنوں میں سے ایک وجود تھا۔ جس نے خدا کی نافرمانی اختیار کی۔‘‘ اور ایک تیسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۳۲ ۳۳یعنی ہم نے جن و انس دونوں کو صرف اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ ‘‘ اور چوتھی جگہ خدا تعالیٰ ابلیس کی زبانی یہ بیان فرماتا ہے کہ ’’ یعنی اے خدا میں نے آدم کو اس لئے سجدہ نہیں کیا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے۔ اور آدم کو مٹی سے۔‘‘ اور پانچویں جگہ قرآن شریف فرماتا ہے۳۴ یعنی جب ابلیس خدا کی نافرمانی کر کے اس بات سے ڈرا کہ اب مجھے خدا فورا ہلاک کر دے گا۔ تو اس نے خدا سے کہا کہ ’’ اے رب مجھے انسانوں کے یوم بعث تک مہلت عطا کر۔ خدا نے کہا تجھے وقتِ معلوم تک مہلت دی جائے گی۔‘‘
اُوپر کے حوالوں سے ذیل کی پانچ باتوں کا ثبوت ملتا ہے:-
(۱) یہ کہ خدا نے جنّوں کو انسان سے پہلے پیدا کیا تھا۔
(۲) یہ کہ ابلیس بھی جنّوں کی قسم میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق ہے
(۳) یہ کہ ابلیس حقیقۃً خدا کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ کیونکہ سب جن و انس خدا کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ مگر چونکہ وہ بخلاف ملائک صاحب اختیار تھا۔ اس لئے اس نے بُرے انسانوں کی طرح خود نافرمانی کے رستہ پر پڑ کر فسق اختیار کیا۔
(۴) یہ کہ بخلاف انسان کے جو طینی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، ابلیس آتشی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا تھا۔
(۵) یہ کہ گو ابلیس آدم کے معاملہ میں خدا کی نافرمانی کا رستہ اختیار کر کے اس بات کے متعلق خائف ہوا کہ خدا تعالیٰ اسے اپنی ناراضگی میں ہلاک نہ کر دے مگر اس کی درخواست پر اسے خدا کی طرف سے مہلت دی گئی۔
یہ پانچ نتیجے جو اُوپر کے حوالوں سے یقینی طور پر ثابت ہیں۔ ابلیس کو انسان اور ملائکہ دونوں سے ممتاز اور متغائر ثابت کر تے ہیں۔
یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک لمبا جواب چاہتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ مختصر یہ ہے کہ قرآن شریف اور حدیث اور لغتِ عرب کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جن کے بنیادی معنی مخفی یا پوشیدہ مخلوق کے ہیں خواہ یہ چیز یا مخلوق طبعی طور پر پوشیدہ ہو یا کہ محض عادۃ ًپوشیدہ رہتی ہو۔ پس عربی زبان اور اسلامی محاورہ کے مطابق جن کے مندرجہ ذیل معنی سمجھے جائیں گے:-
(۱) ایسے بڑے لوگ جو اپنی بڑائی کے خیال سے عوام الناس کے ساتھ زیادہ اختلاط نہیں رکھتے اور گویا ان کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ زمانوں میں بادشاہوں اور رئیسوںکا طریق ہوتا تھا۔
(۲) بیماریوں کے جراثیم اور باریک کیڑے جو عموماً نظروںسے اوجھل ہوتے ہیں۔
(۳) ایسے جانور جو بلوں اور غار وں وغیرہ میں چھپ کر زندگی گزارتے ہیں ۔
(۴)خدا کی ایک ایسی مخفی مخلوق جو عموماًانسان کو نظر نہیں آتی۔ اس تشریح کے ماتحت جاننا چاہئے کہ جب ابلیس کو قرآن شریف نے جن کے لفظ سے یاد کیا ہے تو اس سے یہ چوتھی قسم کی مخفی مخلوق مراد ہے۔ اور گو ہم ابلیس کی باریک کنہہ سے واقف نہ ہوں مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے قرآن شریف سے اس قدرضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ مخفی قسم کی مخلوق انسان کی پیدائش سے پہلے ایک آتشی قسم کے مادہ سے پیدا کی گئی تھی اور اسی لئے جلدی بھڑک اٹھنا اور اپنے اندر آگ کی سی تیزی اور گرمی پیدا کر لینا اس کی فطرت کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ آدم کے سامنے سجدہ کر نے کا لفظ آتے ہی ابلیس فورا سیخ پا گیا اور اس نے اپنی اس دشمنی کی آگ کو اس قدر بھڑکایا کہ آدم سے گزر کر اس کی نسل تک کو اپنی دائمی دشمنی کا عہد باندھ لیا ۔ اس جگہ یہ ضمنی ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ جن کے لغوی معنوں کے لحاظ سے فرشتے بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ کیونکہ وہ بھی ایک قسم کی مخفی مخلوق ہیں مگر اصطلاحی لحاظ سے ان کا دائرہ جدا گانہ ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین کو یہ غلطی لگی ہے کہ انھوں نے ابلیس کو ایک گمراہ شدہ فرشتہ قرار دیا ہے۔ مگر میں اوپر بتا چکا ہوں یہ خیال درست نہیں۔
اب رہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ کا سوال۔ سو یہی در حقیقت اس ساری بحث میں اصل قابل غور چیز ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک میں اس حوالہ سے وہ نتیجہ نکال نہیں سکا جو محمد حیات صاحب نے یا بعض دوسرے دوستوں نے نکالنا چاہا ہے میں نے جہاں تک اس حوالہ پر غور کیا ہے اس کا حقیقی خلاصہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیارہے کہ چاہے تو نیکی کے رستہ کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کے رستہ پر پڑ جائے اور درحقیقت انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمہ خیر یالمہ شر یا داعی الی الخیر اور داعی الی الشر کے نام سے یاد فرماتے ہیں۔بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں ابلیس کا بھی ذکر کیا ہے اور اسے داعی الی الشر کا نام دیا ہے مگر ظاہر ہے کہ اس پہلو سے ابلیس کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جس طرح نمرود اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا اور فرعون اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشرتھا اور ابو جہل اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا۔ اسی طرح ابلیس اپنے وسیع زمانہ میں جو عملا گویا سارے زمانوں پر مشتمل ہے۔ داعی الی الشر ہے ۔پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ انسان کا نیکی اور بدی میں صاحب اختیار ہونا ہے اور ابلیس کے وجود سے جواوائل میں ہی یعنی ہمارے جد امجد حضرت آدم کے زمانہ میں ہی مغویانہ حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ انسان کے اس فطری اختیارکے اس پہلو کو جو بدی کی طرف جھکنے سے تعلق رکھتا ہے ایک مزید خارجی سہارا مل گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’ ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کو تاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے۔ گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے۔ ان کو معلوم کر نا چاہئے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لئے جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طر ف بلانے کے لئے شیطان کومقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض سے لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دئیے گئے ہیں۔ یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر ۔ تا انسان اس ابتلاء میں پڑ کر مستحق ثواب یا عتاب کا ٹھہر سکے۔ کیونکہ اگر اس کے لئے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب و جذبات فقط نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقع ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کر ہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کا مل سکے۔۔۔۔۔۔پس جاننا چاہئیے کہ سالک کو اپنی ابتدائی اور درمیانی حالت میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کرانسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں درحقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے توعند اللہ بلا شبہ تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے لیکن جو شخص انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے گویا اس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے۔‘‘…۔۳۵
اس عبارت سے اور خصوصاً اس عبارت کے آخری الفاظ سے جن میں بحث کا خلاصہ نکالا گیا ہے، ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اصل چیز انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے کہ چاہے تو نیکی کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کو اور در اصل یہی وہ چیز ہے جس کا نام لمہ خیر یا لمہ شر رکھا گیا ہے گویا اصل لمہ شر انسان کے اندرونی مخالفانہ جذبات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اندرونی جذبات ٹھیک ہو جائیں تو بیرونی لمہ شر بیکار ہو جا تا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے ۔ جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پر حکمت الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ’’ اس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے‘‘۔ پس گو بے شک ابلیس بھی حضرت آدم کے زمانہ سے ایک مغوی وجود بن کر ایک خارجی لمہ شر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مگر اپنی اصل کے لحاظ سے اس کا مغویانہ وجود ایسا ہی ہے جیسا کہ مختلف زمانوں میں بعض انسان مغوی وجود ہوتے رہے ہیں۔ پس جس طرح مغوی انسان اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک حادثہ تھے اسی طرح ابلیس کے وجود کا مغویانہ پہلو بھی ایک حادثہ ہے صرف فرق یہ ہے کہ ابلیس کا وجود شروع سے ہی یعنی حضرت آدم کے زمانہ سے ظاہر ہو کر انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو چکا ہے۔ اور اس خارجی محرک نے انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے دی ہے مگر اس کے مقابل پر جو خارجی وجود انسان کے اندرونی لمہ خیر کو تقویت دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ ابلیس کی نسبت زیادہ طاقتور اور زیادہ وسیع ہیں۔ چنانچہ ملائکہ کا وجود، سلسلہ رُسل کا نظام اور کتب سماوی کا نزول سب ایسے خارجی وجود ہیںجو انسان کے اندرونی لمہ خیر کو مضبوط کرنے اور تقویت پہنچانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور یہ خارجی لمہ خیر خدا کی ازلی مشیت کا حصہ ہے کیونکہ گو خدا نے انسان کو صاحب اختیار بنایا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ سب لوگ نیک بنیں اور نجات پائیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اصل بنیادی چیز جو نظام رُوحانی کا ازلی حصہ ہے وہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے۔ اس کی نیکی کی طرف جھکنے کی ظاقت لمہ خیر کہلاتی ہے۔ اور بدی کی طرف جھکنے کی طاقت لمہ شر ۔ جب انسان نیکی کی طرف جھکتا ہے تو وہ گویا ایک روشنی کی طرف بڑھتا ہے اور جب وہ اس روشنی سے دور ہوتا ہے تو یہی اس کا بدی کی طرف جھکنا قرار پاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے ان دو اندرونی لموں کو تقویت پہنچانے کے لئے ایک طرف تو اپنی مشیت کے مطابق فرشتوںاور رسولوں اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اور دوسری طرف ابلیس کا وجود حضرت آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی مغویانہ صورت میں ظاہر ہو گیا۔ پس اس لحاظ سے کہ ابلیس گویا شروع سے ہی نسل انسانی کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ ایک طرح نظام روحانی کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر بہر حال یہ درست نہیں کہ اُسے خدا تعالیٰ نے گمراہ کرنے کی غرض وغایت سے پیدا کیا ہے۔ بلکہ وہ اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک محض حادثہ ہے جو انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو گیا ہے۔
اصل بحث پھر قرآن شریف پر آجاتی ہے۔ میں نے اس بارہ میں قرآن شریف کی متعلقہ آیات کو کافی غور کی نظر سے دیکھا ہے مجھے قرآنی بیان میں کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسان کو گمراہ کرے۔ قرآن شریف میں نو جگہ ابلیس کا ذکر آتا ہے ان میں سے سات آیتیں سوال زیر غور کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہیں۔ اور میں ان ساتوں آیتوں کا ترجمہ ذیل میں درج کئے دیتا ہوں تاکہ ناظرین خود اندازہ کر سکیں کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔
(۱) سورۃ بقرۃ رکوع نمبر ۴ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ جب ہم نے فرشتوں سے یہ کہا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو یعنی اس کے لئے فرمانبردار ہو جائو تو سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ اس نے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا جانا اور کا فروں میں سے ہو گیا۔‘‘
(۲) سورۃ اعراف رکوع نمبر ۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ ہم نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں شکل و صورت عطا کی۔ پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جائو۔ تو اس پر سب نے فرمانبر داری اختیار کی۔مگر ابلیس فرمانبرداروں میں سے نہ بنا ۔خدا نے اسے کہا تجھے کس بات نے فرمانبردار بننے سے روکا۔ جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا۔ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ خدا نے کہا دور ہو جا تیرا یہ مقام نہیں کہ تو اس جگہ تکبر سے کام لے۔ پس دور ہو جا تو ذلیل ہستیوں میں سے ہے ۔ ابلیس نے کہا مجھے یوم بعث تک مہلت عطا کیجئے ۔ خدا نے فرمایا تجھے مہلت دی گئی۔ جس پر ابلیس نے کہا چونکہ اے خدا مجھے تو نے گمراہ گردانا ہے اس لئے اب میں نسل آدم کے تجھ تک پہنچے والے سیدھے رستہ پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور انہیں گمراہ کر نے کے لئے ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آئوں گا اور تو دیکھے گا کہ ان میں سے اکثر تیرے شکر گزار ثابت نہیں ہوں گے۔ خدا نے کہا اس جگہ سے دور ہو جا۔ راندہ ہوا دھتکارا ہوا۔ اور یا د رکھ کہ نسل آدم میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا میں تم سب کو جہنم کی آگ میں بھرو ں گا۔‘‘
(۳) سورۃ بنی اسرائیل رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے:-
’’جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جائو تو وہ سب فرمانبردار ہو گئے مگر ابلیس نہ ہوا۔ اس نے کہا۔ کیا میں ایسی ہستی کا فرمانبردار بنوں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔اور کہا دیکھ وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی ذریت کو مغلوب کر کے ہلاک کروں گا۔ مگر ان میں سے تھوڑے جو بچ سکیں گے۔ خدا نے کہا دُور ہو ۔ ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے لگے گا تو سن رکھو کہ تم سب کے لئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے ۔پس تو ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے بہکا کر دیکھ لے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا لا۔ اور ان کے مالوں اور ان کی اولادوں میں ان کا شریک بن ۔ اور ان کو جس جس طرح بھی چاہے وعدے دے۔ اور شیطان کے وعدے جھوٹ کے سوا کیا ہوتے ہیں۔ وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تو بہرحال تجھے غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ اور خدا کافی کارساز اور نگران ہے۔‘‘
(۴) سورۃ کہف رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے
’’ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے لئے فرمانبردار بن جائو تو ان سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ وہ جنوں میں سے تھا پھر اس نے خدا کے حکم سے نافرمانی کی۔ تو کیا اے لوگو تم مجھے چھوڑ کر اس ہستی اور اس کی نسل کو اپنا دوست بنائو گے؟ حالانکہ یہ ہستیاں تمہاری دشمن ہیں جو لوگ ایسا کریں گے۔ وہ خدا کے مقابلہ پر بہت بری رفاقت اختیار کرنے والے ہوں گے‘‘
(۵) سورۃ طٰہٰ رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے:
’’ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے فرمانبر دار ہو جائو تو انہوں نے فرمانبرداری اختیار کی۔ مگر ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہم نے کہا۔ اے آدم یہ تیرا اور تیری زوج کا دشمن ہے۔ پس ہوشیار رہنا کہ وہ تمہیں تمہارے مقام جنت سے نکال نہ دے اور پھر تم تکلیف میں مبتلا ہو جائو۔‘‘
(۶) سورۃ حجر رکوع نمبر ۳ میں فرماتا ہے:
’’ ہم نے انسان کو بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا۔ اور ہم اس سے پہلے جان ( یعنی جنوں) کو لو والی آگ سے بنا چکے تھے اور جب خدا نے فرشتوں سے یہ کہا۔ کہ میں ایک بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہوتے ہوئے جھک جانا۔ اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ اُس نے فرمانبرداروں میں ہونے سے انکار کر دیا۔ خدا نے کہا اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو نے آدم کی فرمانبرداری اختیار نہ کی ۔ ابلیس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس بشر کا فرمانبردار ہوں ۔ جسے تو نے آواز دینے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا ہے خدا نے فرمایا یہاں سے نکل جاتو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک *** ہے۔ ابلیس نے کہا میرے خدا مجھے یوم بعث تک مہلت دیجئے۔ خدا نے فرمایا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی۔ ابلیس نے کہا اے خدا جب تو نے مجھے گمراہ شدہ قرار دیا ہے تو اب میں انسانوں کے لئے دنیا میں مختلف قسم کی زیب و زینتوں کے سامان بنائوں گا اور ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔ خدا نے فرمایا یہی اخلاص کا رستہ تو میری طرف آنے کا سیدھا رستہ ہے۔ رب رب فداک نفسی اجعلنی منہم …۔وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے کہ گمراہ ہونے والوں میں سے کوئی شخص خود تیری پیروی اختیار کرے۔ اور ایسے سب لوگوں کے لئے جہنم وعدہ کا مقام ہے۔‘‘
(۷) اور بالآخر سورۃ صٓ رکو ع نمبر ۵ میں فرماتا ہے:
’’ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہو ں پھر جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہو کے جھک جائو۔ تو اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی۔ مگر ابلیس نے نہ کی۔ اس نے اپنے آپ کو بڑا جانا اور کا فروں میں سے ہو گیا۔ خدا نے کہا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس وجود کا فرمانبردار بنے جسے میں نے اپنے دونو ںہاتھوں سے پیدا کیا( اللہ اللہ ’’ اپنے دونوں ہاتھوں‘‘ کے پیارے الفاظ میں انسان کے لئے کتنی عزت افزائی اور خدا کے لئے کیا شان دلربائی ہے!) کیا تو نے تکبر سے کام لیا یا کہ تو زیادہ عالی مرتبہ ہستیوں میں سے ہے؟ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اسے مٹی سے ۔خدا نے فرمایا دور ہو جایہاں سے کہ تو دھتکارا ہوا ہے۔ اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک میری *** ہے۔ ابلیس نے کہا اے میرے رب مجھ یوم بعث تک مہلت عطا کیجئے۔ خدا نے کہا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی۔ ابلیس نے کہا مجھے تیری عزت کی قسم ہے۔ کہ میںبھی اب ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ خدا نے کہا کہ تو پھر میری بھی یہ سچی سچی بات سن لے کہ اس صورت میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا۔‘‘
میں اپنے ناظرین سے پوچھتا ہوں کہ کیا اوپر کی آیتوں میں سے کوئی ایک آیت یا ایک فقرہ یا ایک لفظ بھی ایسا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ ابلیس کو خدا نے ابتدا ء سے ہی اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ بنی نوع آدم کو گمراہ کرتا پھرے۔ بلکہ ان آیات سے تو یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ ابلیس کی پیدائش آدم سے پہلے ہوئی تھی۔ مگر مغوی وہ آدم کے وقت آ کر بنا۔ بہر حال جو باتیں اوپر کی آیات سے ثابت ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:-
(۱) یہ کہ ابلیس جنوں میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق تھا جو آدم سے پہلے آتشی مادہ سے پیدا کیا گیا اور اس کے بعد آدم کو طینی مادہ سے پیدا کیا گیا۔
(۲) یہ کہ خدا نے جن و انس سب کو اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔
(۳) یہ کہ جب آدم کی پیدا ئش پر فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی آدم کی فرمانبرداری کا حکم ہوا تو فرشتوں نے اپنی فطرت کے مطابق فوراً تعمیل کی۔ مگر ابلیس نے اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے تکبر کیا اور اپنے آپ کو آدم سے بڑا سمجھتے ہوئے آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا
(۴) یہ کہ اس انکار پر خدا تعالیٰ ابلیس پر ناراض ہو ااور اُسے رجیم اور ملعون قرار دیا۔
(۵) یہ کہ خدا تعالیٰ کی اس ناراضگی پر ابلیس کو ڈر پیدا ہوا کہ خدا اسے ہلاک کر دے گا۔ جس پر اس نے خدا سے زندگی کی مہلت مانگی۔
(۶) یہ کہ خدا نے اُسے وقت معلوم تک مہلت دی
(۷) یہ کہ اس پر ابلیس نے آدم کی دشمنی میں یہ اعلان کیا کہ آئندہ وہ آدم اور اس کی نسل کو گمراہ کر تا رہے گا۔
(۸)یہ کہ ابلیس کے اس اعلان پر خدا نے فرمایا کہ تو نے جتنا زور لگانا ہو لگا لے وہ جو میرے مخلص بندے ہیں وہ بہرحال تیرے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ ہاں جو لوگ تیری بد تحریکات کو خود قبول کریں گے وہ ضرور گمراہ ہوں گے۔
(۹) یہ کہ ابلیس کو کسی پر جبر کی طاقت حاصل نہیں ہے۔
(۱۰) یہ کہ ابلیس اور اس کے پیچھے لگنے والے لوگ سب بطور سزا کے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
یہ سب نتائج بالکل واضح ہیں اور ان پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ فیصلہ قرآن کا فیصلہ ہے ۳۶ ۳۷
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(اوّل) خیر و شر کے روحانی نظام کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان کو اس کے اعمال میں صاحب اختیار بنایا گیا ہے کہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرلے اور چاہے تو نیکی کو چھوڑ کر بدی کے رستہ پر پڑ جائے اور اس کے لئے ان دو رستوںکا کھلا ہونا لمہ خیر اور لمہ شر کہلا تاہے۔
(دوم) خدا چونکہ ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ اور اس کا حقیقی منشاء یہ ہے کہ سب ہدایت پائیں اس لئے اس نے انسان کو صاحب اختیار بنانے کے ساتھ ساتھ اُس کی روحانی حفاظت اور ترقی کے لئے تین قسم کے خارجی نظام بھی جاری کئے ہیں
(الف) فرشتوں کا نظام جو انسانوں کو نیکی کی تحریک کرتے ہیں:-
(ب) رسولوں کا نظام جو خدا کی طرف سے ہدایت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ اور دنیا کے لئے نیکی کا عملی نمونہ بنتے ہیں۔اور
(ج) کتب سماوی کے نزول کا نظام جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت اور تعلیم پر مشتمل ہوتی ہیں
یہ تینوں نظام انسان کے اندرونی لمہ خیر کے لئے سہارے اور تقویت کا باعث ہیں۔ اور گویا بطور خارجی لمہ خیر کے کام کرتے ہیںاور یہ تینوںنظام مشیت ایزدی کا حصہ ہیں۔
(سوم) آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی ابلیس کا حادثہ وقوع میں آگیا یعنی اس نے خدا کے حکم کے باوجود آدم کے سامنے سجدہ کرنے اور فرمانبردار بننے سے انکار کر دیا۔ اس لئے وہ ایک حادثہ کی صورت میں نہ کہ خدائی مشیت اور اپنی پیدائش کی غرض و غایت کے ماتحت عملاً انسان کے لئے امتحان اور ابتلاء کا ذریعہ بن گیا۔ اور اب یہ خارجی لمہ شر انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے رہا ہے
(چہارم) یہ دونوں قسم کے خارجی لمہ خیر اور لمہ شر صرف نیکی یا بدی کی طرف بلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مگر کسی شخص پر جبرنہیں کر سکتے کیونکہ دین کے معاملہ میں جبر کرنا خدائی شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
اب ناظرین خود دیکھ سکتے ہیں کہ اوپر کے نظریہ کے ماتحت قرآن شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا اور نہ ہی خدا کی صفات پر کسی قسم کے اعتراض کا رستہ کھلتا ہے۔ اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کی طرف میں نے اپنے سابقہ مضمون میں اختصار کے ساتھ اشارہ کیا تھا۔ و اٰ خرد عوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین
نوٹ: ابلیس اور شیطان کی باہمی نسبت اور تشریح کے متعلق میں اپنے پہلے مضمون میں مختصراً بتا چکا ہوں۔ اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میرے موجودہ مضمون سے اس سوال کا براہ راست کوئی تعلق ہے۔
نوٹ ثانی میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ اس مضمون کے متعلق میری موجودہ تحقیق تھی۔ وہ میں نے اس جگہ لکھ دی ہے اور میری طرف سے اس موضوع پر یہ آخری تحریر ہے کیونکہ مجھے بعض اور مضامین بھی لکھنے ہیں۔ جو وقتی لحاظ سے زیادہ اہم اور ضروری ہیں ۔ البتہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میرا نظریہ درست نہیں تو میں بلا توقف اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں کیونکہ بہر حال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور مومن کے دل میں حق کے داخلہ کے لئے ہر وقت رستہ کھلا رہنا چاہئیے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶ ۱؍مئی ۱۹۴۸ئ)
گذشتہ فسادات کی ذمہ داری کس قوم پر ہے ؟
ذمہ داری کی تعیین کے لئے چند بنیادی اصول
قریباً پچیس سال کا عرصہ ہوا۔ جبکہ میں ابھی نوجوان تھاکہ مجھے ایک مناظرہ کے سننے کا اتفاق ہوا اس مناظرہ میں ہر دو فریق نے خوب زور وشور سے تقریریں کیں اور فریقین کے حامیوں نے بھی خوب دل کھول کر واہ واہ کی لیکن میری طبیعت پر اس مناظرہ کا ایسا خراب اثر ہوا کہ آج تک نہیں بھولتا۔ کیونکہ آخر تک ہر دو مناظر صرف اپنے اپنے حق کی دلیلیں دہراتے تھے ۔ اور دوسرے فریق کی پیش کر دہ دلیلوں کو توڑنے یا مطابقت دینے کی طرف بالکل توجہ نہیںتھی ۔ حالانکہ کامیاب مناظر وہی ہوتا ہے جس میں یا تو انسان اپنی دلیلوں کو سچا ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ فریق مخالف کی دلیلوں کو بھی غلط ثابت کر دے۔ یا ان کی کوئی ایسی معقول تشریح پیش کرے جس سے مخالف یا موافق دلیلوں میں تضاد کی صورت دور ہو جائے۔ اس وقت سے میں نے اس نکتہ کو سمجھا اور میری طبیعت پر اس کا گہرا اثر ہے کہ محض اپنی تائید میں کوئی دلیل پیش کردینا ہرگز کافی نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے موافق و مخالف ہر دو قسم کی دلیلوں پر یکجائی کی نظر ڈال کر ان کا موازنہ کرنا اور پھر غلط دلیل کو کاٹ کر صحیح دلیل کو قائم کرنا ۔ یا دونوں قسم کی دلیلوں میں مطابقت کی صورت پیدا کر کے آخری نتیجہ نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں اکثر مناظرے یک طرفہ بات کو دہراتے چلے جانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ اور جب دوسرا فریق بھی اپنی یک طرفہ بات کو دہرانے لگتا ہے تو پھر عوام الناس حیران و ششدر ہو کر پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کس بات کو سچا سمجھیں اورکس کو جھوٹا ۔ کیونکہ دلیلیں دونوں طرف کی موجود ہوتی ہیں مگر کمزور دلیلوں کو کاٹنے یا مضبوط دلیلوں کے مطابق ثابت کرنے کا کوئی سامان موجود نہیںہوتا۔گزشتہ فسادات میں بظاہر دونو ںطرف قتل و غارت ہوا مگر پھر بھی ظالم کو پہچاننا مشکل نہیں۔
گزشتہ فسادات کے تعلق میں ذمہ داری کے سوال کے متعلق بھی یہی سطحی رنگ اختیار کیا جا رہا ہے یعنی ایک طرف مسلمان یہ شکایت کر رہے ہیں کہ سکھوں اور ہندوئوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوںکو قتل کیا۔ ان کی عورتوں کو اغوا کیا ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا اور دوسری طرف ہندو اور سکھ واویلا کر رہے ہیںکہ مغربی پنجاب میں یہی مظالم سکھوں اور ہندوئوں پر توڑے گئے اور آج نو مہینے ہو گئے کہ دونوں فریق کی طرف سے یہی شکایت دہرائی چلی جا رہی ہے مگر کوئی خدا کا بندہ اس بحث کو سلجھانے یا اس میں صحیح راستہ کی تعیین کرنیکی کوشش نہیں کرتا۔ مسلمان واویلا کر رہا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا اور سکھ اور ہندو شور مچا رہے ہیںکہ سکھوں اور ہندوئوں پر ظلم ہوا اور اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر یہ دونوں باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمان لوٹے اور مارے گئے اور مغربی پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں نے نقصان اٹھایا۔ مگر اس سطحی نظا رہ سے آگے گزر کر کوئی شخص اس بات کے سوچنے کے لئے تیار نظر نہیں آتاکہ اس ظلم کی اصل ذمہ داری کس فریق پر ہے اور یہ کہ اس ذمہ داری کی تعیین کا منصفانہ طریق کیا ہے بے شک بعض لوگوں نے اس سوال کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کی تقریروں اور تحریروں میں بھی وہ تفصیلی تجزیہ نہیں پایا جاتا جو اس بحث میں صحیح اور صاف صاف نتیجہ تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ اس قسم کی بحثوں کا خاتمہ تو کبھی بھی نہیںہوا کرتا اور ہر فریق کا ضدی طبقہ ’’میںنہ مانوں‘‘ کے اصول کے ماتحت ہر حال میں اپنی بات دہراتا چلا جاتا ہے۔ مگر صحیح اصول اختیار کرنے سے قوم کا وہ حصہ جو منصفانہ جذبات رکھتا ہے،سمجھ جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور کم از کم غیر جانبدرار لوگوں کو صحیح رائے قائم کرنے کا مو قع میسر آجاتا ہے اور یہی ایسی بحثوں کا اصل فائدہ ہوا کرتاہے۔
اب جہاں تک میں نے اس معاملہ میں سوچا ہے گزشتہ فسادات کی اصل ذمہ داری معین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چند مسلمہ بنیادی اصولوں کی تعیین کرنے کے بعد اس بحث میں داخل ہوں۔ یعنی پہلے اصول قائم کریںاور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ذمہ داری معین کرنے کی کوشش کریں اور یہ اصول میرے نزدیک اور ہر غیر متعصب شخص کے نزدیک مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:-
پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے
(اول) سب سے پہلی بات جو اس قسم کی بحثوں میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے کہ فسادات میں آغاز کس فریق کی طرف سے ہوا ہے۔ عربی میں ایک مشہور قول ہے کہ البادی الظلم ’’ یعنی پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے‘‘ظاہر ہے کہ اگر مجھ پرکوئی شخص حملہ کرنے آجائے تو میں اگر بے غیرت اور بزدل نہیں ہوں تو اپنی جان یا مال یا عزت کی حفاظت کے لئے مقابلہ کروں گا اور بالکل ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حملہ کرنے والا شخص زیادہ چوٹ کھا جائے یا میرے ہاتھ سے قتل ہی ہو جائے لیکن ہر عقلمند کے نزدیک اور ہر متمدن ملک کے قانون کے مطابق ظالم وہی شخص قرار پائے گا جو ظلم میں پہل کر کے مجھ پر حملہ آور ہوا ہے۔ خواہ نقصان عملًا اسی نے زیادہ اٹھایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خود حفاظتی کے اصول کو جسے انگریزی میں Right of private defenceکہتے ہیں، ہر ملک اور ہر مذہب نے تسلیم کیا ہے۔ بے شک عیسائی مذہب کی بعض تعلیمات اس کے خلاف نظر آتی ہیں۔ مگر عیسائیت کی تعلیم کا یہ حصہ محض عارضی اور وقتی نوعیت رکھتا تھا اور مسیحی اقوام کا عملی رویہ ہمیشہ اس عارضی تعلیم کے خلاف اور مندرجہ بالا دائمی اصول کے مطابق رہا ہے۔ سو گز شتہ قیامت خیز فسادات میں سب سے پہلی بات یہ دیکھنی ضروری ہو گی کہ اس خون خرابہ اور قتل و غارت اور لوٹ مار اور آبرو ریزی کے کھیل میں ابتدا کس فریق کی طرف سے ہوئی ہے۔ جو قوم بادی ثابت ہو گی ،وہی یقینا اظلم قرار پائے گی اور مسلمانوں کا دعویٰ ہے۔ جس کی تائیدمیں وہ زبردست دلائل رکھتے ہیں ( مگر یہاں ان دلائل کی بحث میں جانا میرا مقصد نہیں بلکہ صرف اصول بتا نا اصل غرض ہے) کہ گذشتہ فسادات میں ابتدا یقینا سکھوں اور ہندوئوں کی طرف سے ہوئی ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ابتداء بھی دو قسم کی ہوتی ہے،یعنی ایک تو قومی ابتداء ہوتی ہے اور دوسری فعلی اور عملی ابتداء ہوتی ہے اور حالا ت کا مطالعہ بتا تا ہے کہ یہ دونوں قسم کی ابتدا سکھوں اور ہندوئوں کی طرف سے ہوئی ہے اور جوں جوں زمانہ کے گزرنے اور طبائع کے جو شوں کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ تاریخ کے نقوش زیادہ معین اور زیادہ واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ توں توں یہ حقیقت بھی زیادہ روشن ہوتی چلی جائے گی کہ اس خونی ہولی میں پہل ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے ہوئی تھی نہ کہ مسلمانوں کی طرف سے۔
جوابی کارروائی میں بھی معقول حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں
(دوم) دوسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہو، جب کوئی فریق اپنے جواب میں بھی اعتدال کی حد سے آگے نکل جاتا ہے ۔ یعنی جتنا خطرہ اسے دوسرے فریق کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ یا جس قسم کا حملہ اس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ وہ اس کے جواب میں خطرہ اور حملہ کے تناسب سے تجاوز کر کے اپنی جوابی کارروائی کو انتہائی درجہ ظالمانہ رنگ دے دیتا ہے تو اس صورت میں یہ بظاہر دفاع کرنے والا شخص بھی ظالم بن جاتا ہے۔ مثلا ًایک شخص ایک پتلی سی چھڑی لے کر آپ پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے اور آپ اس کے اس خفیف سے حملہ کو جس سے آپ کی جان کو کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا،بہانہ بنا کر حملہ کرنے والے کو جواب میں قتل کر دیتے ہیں اور قتل بھی نہایت بے دردانہ رنگ میں ایذا اورعذاب کا طریق اختیار کر کے کرتے ہیں، تو ہر شخص یہی سمجھے گا اور یہی سمجھنے کا حق رکھتا ہے کہ ایسا شخص بظاہر جوابی رنگ رکھتے ہوئے بھیظالم اور سزا کا مستحق ہے ۔یہ وہ صورت ہے جسے قانون کی اصطلاح میںحفاظتِ خود اختیا ری کے حق سے تجاوز کرنا کہتے ہیں۔ یعنیExceeding the right of private defenceبے شک بعض اوقات ایسی ہنگامی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ افرا تفری کی حالت میں ایک شخص نیک نیت ہوتے ہوئے بھی خود حفاظتی کے حق سے خفیف سا تجاوز کر جاتا ہے اور اس قسم کے خفیف تجاوز کو حالات پیش آمدہ کے ماتحت قابل معافی سمجھا جا تا ہے ۔ لیکن جہاں حملہ اور دفاع میں کوئی نسبت ہی نہ ہو اور دفاع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انتہائی ظلم سے کام لیاجائے تو ایسا دفاع بھی یقینا قابل ملامت اور قابل سزا سمجھا جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ فسادات میں کئی جگہ ایسا ہوا کہ بعض مقامات پر سکھوں اور ہندو ئو ں نے مسلمانوں کو کوئی دھمکی دی اور انہیں تنگ کیا اور چھیڑا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے دفاع اور خود حفاظتی کے خیال سے کوئی جائز تدبیر اختیار کی تو پھر اس دفاعی تدبیر کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے کہ الامان والحفیظ۔ پس فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین کرنے کے لئے اس پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہو گا۔
سازش کا رنگ ذمہ داری کو بہت بڑھا دیتا ہے
(سوم) تیسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ سازش کا رنگ کس قوم کی کارروائیوں میں پایا جاتا ہے۔ دنیا میں اکثر فسادات ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان فسادات میں قتل و غارت اور لوٹ ماروغیرہ کی وارداتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر بالعموم ایسے فسادات افراد کے جوش کا ایک وقتی ابال سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کسی وجہ سے دو پارٹیوں کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا اور یہ اختلاف بعض وجوہات سے چمک گیا اور پھر اس کے نتیجہ میں ٹکرائو کی صورت پیدا ہو گئی۔ بے شک ایسے ٹکرائو بھی قابل افسوس ہیں اور ان میں جو فریق بھی زیادہ ظالم ہے، وہ زیادہ قابل علامت ہے، لیکن اگر کسی پارٹی یا قوم کی طرف سے سازش کا رنگ پیدا ہو جائے اور پہلے سے تدبیریں سوچ کر اور سکیمیں بنا کر دوسری پارٹی کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا جائے تو یہ ایک بد ترین قسم کی فرقہ وارانہ ذہنیت ہو گی جو فساد کرنے والی قوم کی ذمہ داری کو یقینا بہت بڑھا دے گی ا ور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ( گو یہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں) کہ مشرقی پنجاب میں ایک پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کے ماتحت مسلمانوں کومظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس میں واقعات اور حالات اتنے واضح اور نمایاں ہیں کہ کسی غیر جانبدار شخص کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایک سکیم بنائی گئی۔ اس کے مطابق تیاری کی گئی۔ اور پھر اس سکیم اور اس تیاری کے ماتحت ایک منظم صورت میں مسلمانوں کی جانوں اور مالوں اور عزتوں پر حملہ کیا گیا۔ اور اس کے مقابل پر جو مظالم مغربی پنجاب میں سکھوں یا ہندوئوں پر ہوئے وہ بھی بے شک قابل افسوس ہیں مگر اکثر صورتوں میں وہ ایک وقتی اور مقامی جوش کا نتیجہ تھے۔ جس میں کسی قسم کی سازش یا پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کا دخل نہیں تھا۔ اور یہ وہ بھاری فرق ہے جس کے ذریعہ دونوں قوموں کی نسبتی ذمہ داری آسانی کے ساتھ معین کی جا سکتی ۔
پبلک فسادوں میں حکام کی جانبدارانہ شرکت ایک بد ترین داغ ہے
(چہارم) چوتھی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ ان فسادات میں دونوں طرف کے حکام اور خصوصاً پولیس اور ملٹری کا کہاں تک دخل رہا ہے۔ فسادات تو ہر ملک اور ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی ان فسادات کا باعث نسلی اختلاف بن جاتا ہے اور کبھی سیاسی اختلاف ان کا موجب ہو جاتاہے۔ اور کبھی مذہبی اختلاف کو فساد کا بہانہ بنالیا جاتاہے۔ مگر ہر متمدن ملک میں جہاں کم از کم انصاف کی نمائش کی جاتی ہو،حکومت کے افسر اس قسم کے پبلک فسادوں میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میںغیر جانبدار رہے۔ کیونکہ حکومت کی بنیادی غرض وغایت ملک میں امن قائم کرنا ہوتی ہے اور اس کا یہ اولین فرض ہے کہ رعایا کے مختلف طبقوں میں عدل و انصاف کے ترازو کو قائم رکھے دراصل حاکم باپ کے حکم میں ہوتا ہے اور پبلک اولاد کے حکم میں ہوتی ہے۔ اور کون باپ ہے جو اپنے ایک لڑکے کو غیر سمجھے اور ایک کو تو اپنی گود میں بٹھائے اور دوسرے کو لٹھ دکھائے۔ اور جو شخص حکومت کا نمائندہ ہو کر اور امن کا محافظ بن کر پھر فساد میں حصہ لیتا اور پبلک کے مختلف طبقوں میں جانبداری کا رویہ اختیار کرتا ہے، وہ انسانیت کا بد ترین دشمن ہے کیونکہ گو وہ بھیڑوں کا گڈریا مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے بھیڑیا بن کر اپنے ہی گلہ کی بھیڑوں کو مارنا شروع کر دیا۔ مگر افسوس ہے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے بد قسمت ملک کو یہ سیاہ داغ دیکھنا بھی نصیب تھا۔ یقینا پاکستان اور ہندوستان میں سے جس ملک میں بھی یہ گندی کھیل کھیلی گئی ہے اور جس ملک کے افسروں نے خود شوریدہ سر پبلک کے ساتھ ہو کر دوسرے فریق کے بے بس افراد کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے، وہ ان فسادات کے مجرموں میں سے مجرم نمبر ۱ ہے ،جس کی ذمہ داری سے وہ تا قیامت بری نہیں سمجھا جا سکتا۔ پس ذ مہ داری کی تعیین کے لئے حکام کے شرکت کے پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس پہلو کا مطالعہ ایک غیر متعصب انسان کے لئے اس بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتاکہ جس قسم کی برملا اور وسیع شرکت مشرقی پنجاب کی پولیس اور ملٹری نے گزشتہ فسادات میں کی ہے، اس کے ساتھ مغربی پنجاب کے حالات کو کوئی نسبت نہیں۔ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مشرقی پنجاب کے سب پولیس اور ملٹری افسر ایک جیسے تھے۔ یقینا ان میں سے بعض نیک دل بھی ہوں گے۔ اور میں یہ دعوے بھی ہرگز نہیں کرتا کہ مغربی پنجاب میں کوئی کالی بھیڑ نہیں ۔ یقینا بعض بے اصول افسروں نے یہاں بھی غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہو گا مگر ہر میدان میں نسبت کو دیکھا جاتا ہے اور یہ نسبت مشرقی پنجاب میں اتنی زیادہ ہے کہ کسی عقلمند کے نزدیک شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن میں کہہ چکا ہوںکہ اس جگہ مجھے دلائل دینے مقصود نہیں بلکہ صرف اصول کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
مظالم کی نوعیت اور درجہ کا سوال بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
(پنجم) پانچویں بات یہ دیکھنی ضروری ہوتی ہے کہ اس قسم کے فسادات میں مظالم کی نوعیت اور مظالم کا درجہ کس فریق کو زیادہ زیر الزام لاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عموماً فسادات میںظلم ہر دو فریق کی طرف سے ہو جاتے ہیں۔ یعنی خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہواور خواہ حق کسی فریق کے ساتھ ہو۔ جب کوئی فساد ہوتا ہے تو عموماً ہر فریق کی طرف سے ایسے افعا ل سرزد ہوتے ہیں جنہیں ظاہری نظرمیں ظلم اور تشدد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ بات دیکھنی ضروری ہوتی ہے اور اس کے بغیر ذمہ داری کی صحیح تعیین نہیں ہو سکتی کہ فریقین کی طرف سے جو مظالم روا رکھے گئے ہیں اور جن افعال کا ارتکاب کیا گیا ہے، ان میں درجہ اور نوعیت کے لحاظ سے کس فریق کے مظالم زیادہ سخت اور زیادہ بھیانک اور زیادہ بے رحمی کا رنگ رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر دو فریق کے درمیان کوئی لڑائی ہو جاتی ہے تو خواہ حق کسی کے ساتھ ہو وہ لازماً ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھائیں گے اور لازماً ان میں سے ہر فریق کے آدمیوں کو کم و بیش چوٹیں بھی آئیں گی یا بعض قتل بھی ہوں گے۔ لیکن اگر ان دو فریقوں میں سے ایک فریق زیادہ سختی اور زیادہ بے رحمی کا طریق اختیار کر تا ہے۔ مثلاً صرف قتل ہی نہیں کرتا بلکہ وحشیانہ غصہ میں آکر مقتول کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ یا مثلاً تلوار چلاتے ہوئے دانستہ چہرہ پر وار کرتا ہے تاکہ دوسرے کی صورت کو مسخ کر دے۔ اور اس کی زندگی کو اس کے لئے مصیبت بنا دے۔ یا لڑائی میں دوسرے فریق کے جنگجو مردوں سے تجاوز کر کے عورتوں اور بچوں پر بھی وار کرتا ہے۔ یا بوڑھے اور ضعیف مردوں کوبھی موت کے گھا ٹ اتارتا ہے۔ یا چھوٹے بچوں کو ماں کے سامنے مار کریا ماں کو چھوٹے بچوں کے سامنے تہہ تیغ کر کے خوش ہوتا ہے تو وہ اپنی سیاہ باطنی اور درندگی پر خود اپنے ہاتھ سے مہر لگاتا ہے۔ اور فسادات میں اس کی ذمہ داری ( خواہ دوسرے حالات کچھ ہوں) انتہا کو پہنچ جاتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور ایک مشترک مادر وطن کی طر ف منسوب ہونے کی وجہ سے ہماری آنکھیں شرم سے زمین میں گڑ جاتی ہیںکہ مشرقی پنجاب میں ایسے واقعات ایک نہیں دس بیس نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہوئے۔ اور لاکھوں دیکھنے والوں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر اپنی قوم کے ان انتہائی وحشیانہ افعال کے باوجود کسی برادرِ وطن کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ان افعال سے برأت اور نفرت کا اظہار کرے۔گویا قومیت کا جذبہ انسانیت پر بھی غالب آ گیا اور شرافت پر درندگی نے فتح پا لی۔
ہمارے مقدس آقا کا مقدس ارشاد
ہمارے مقدس آقا صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ کس قدر پاک اسوہ ہے کہ آپ ہر فوجی دستہ کو حملہ آوروں کے خلاف بھجواتے ہوئے تکرار اور اصرار کے ساتھ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ :-
’’ دیکھو تمہیں جس قوم کے خلاف بھی لڑنے کا موقع پیش آئے۔ اس کے متعلق اس اصول کو ہرگز نہ بھولنا کہ عورتوں اور بچوں کے خلاف ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ بوڑھے اور بیمار مردوں پر وار نہ کیا جائے۔ وہ لوگ جو اپنی زندگیاں مذہب کی خدمت کے لئے وقف رکھتے ہیں خواہ یہ مذہب کوئی ہو،انہیں اپنے حملہ کا نشانہ نہ بنایا جائے اور جو شخص تم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے۔ اس کے متعلق بھی یہ احتیاط رکھو کہ تمہارے دفاعی وار سے اس کے چہرہ پر زخم نہ آئے۔ اور دیکھو مقتولوں کے اعضاء کو ہرگز نہ کاٹا کرو۔ اور غیر مسلموں کی عبادتگاہوں کو کسی صورت میں بھی نقصان نہ پہنچائو۔‘‘
یہ وہ پاک نصیحت ہے جو ہمارے مقدس آقا نے اپنے مغربی پنجاب کے غلاموں کو تیرہ سو سال پہلے سے دے رکھی ہے۔ اگر باوجود اس کے کسی مسلمان کہلانے والے نے اس حکم کو توڑا ہے تو اس کی ذات اس خلاف ورزی کی ذمہ دار ہے۔ اور دوسرے مسلمانوںکو اس کے فعل سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ لیکن جو کچھ مشرقی پنجاب میں ہوا ہے، وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ بچوں کو ان کی روتی چلاتی مائوں کے سامنے قتل کیا گیا۔ مائوں کو ان کے سہمے ہوئے بچوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتا را گیا۔ بوڑھے اور بیمار مردوں کو انتہائی درندگی کے ساتھ ذبح کیا گیا۔ مذہب کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف رکھنے والے لوگوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ مساجد کو مسمار کیا گیا۔ عورتوں کو اغواء کیا گیا اور قتل و غارت اور لوٹ مار میں وہ وہ ظالمانہ طریق اختیار کئے گئے کہ انسانیت ان کیتصور سے شرماتی ہے۔ وقت گزر گیا ہے۔ زخم بھی غالباً کچھ عرصہ کے بعد مند مل ہو جائیں گے مگر یہ تلخ یاد ہمیشہ زندہ رہے گی کہ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف درندگی کے کس ادنیٰ ترین گڑھے میں گر سکتا ہے۔
میں کہہ چکا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوںجو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں کوئی ظلم نہیں ہوا۔ میں جانتا ہوں اور دیکھنے والے مجھے بتاتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں قتل و غارت بھی ہوا ،لوٹ مار بھی ہوئی، اغوا کی وارداتیں بھی وقوع میں آئیں اور بعض دوسرے مظالم بھی ہوئے۔ ان چیزوں کا انکار کرنا صداقت کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ہے۔ یہ مظالم خواہ دوسرے فریق کے جواب میں تھے یا وقتی فرقہ وارانہ جوش کا ابال تھے ،بہر حال مغربی پنجاب میں مظالم کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ان مظالم کو اُن مظالم سے کوئی نسبت نہیں جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوںکے خلاف روا رکھے گئے۔ ابتداء کے لحاظ سے دیکھو،جو اب میں حد سے تجاوز کرنے کے لحاظ سے دیکھو ، سازش کے پہلو کے لحاظ سے دیکھو،حکام کی جانبدارانہ شرکت کو دیکھو۔ مظالم کی نوعیت اور درجہ کو دیکھو اور عبادتگاہوں کی بیحرمتی کو دیکھو۔ ان سب باتوں کا جواب ایک ہے اور صرف ایک۔ لیکن غالباً ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارے برادران وطن گزشتہ ایام کی کارروائیوں کو ٹھنڈے دل سے سوچ سکیںیا انصاف کی نظر سے دیکھ سکیں۔ مگر کم از کم ہمیں ان مسلمہ اصولوں کو تو نہیں بھولنا چائیے جو اس قسم کے فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین میں مدد دے سکتے ہیں۔ صداقت کی زمین ہر وقت تیار رہنی چاہئے۔ خواہ بیج بونے کا وقت بعد میں آئے۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ مئی ۱۹۴۸ئ)





قادیان چھوڑنے کے متعلق میری ایک دس سال قبل کی تحریر
اور
اس پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تفصیلی نوٹ
جب کبھی بھی لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی پورا ہونے والا الہام پیش کیا جاتا ہے تو ان میں سے ضدی طبقہ عمو ماًیہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہے کہ یہ الہام تم نے بعد میں بنا لیا ہے۔ یا کم از کم یہ کہ جو تشریح تم اس الہام کی اب کر رہے ہویہ بعد کا خیال ہے۔ حالانکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پہلے سے چھپے ہوئے ہیںتو بعد میں بنا لینے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور تشریح خواہ بعد میں ہی کی جائے۔ اگر کوئی تشریح کسی الہام کے الفاظ پر واقعی چسپاں ہوتی ہو تو خواہ اس کا بعد میں ہی خیال آئے۔ وہ ہر عقل مند انسان کے نزدیک قابل قبول ہونی چاہئے۔ لیکن ذیل میں ایک ایسی تحریر پیش کی جاتی ہے جو آج سے دس سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے اور اس تحریر میں یہ صاف طور پر مذکو ر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو ایک زمانہ میں اپنے مرکز سے عارضی طور پر نکلنا پڑے گا۔ یہ تحریر میرے ایک خط کی صورت میں ہے۔ جو میں نے ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ ء کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا ۔ اور حضور نے اس پر ایک تفصیلی نوٹ درج کر کے مجھے واپس بھجوا یا اور پھر میں نے اسے ۲۲ مئی ۱۹۳۸ ء کو ناظر اعلیٰ ( چیف سیکرٹری) جماعت احمدیہ کے دفتر میں بغرض تعمیل بھجوادیا۔ یہ تحریر بعدِزمانہ کی وجہ سے میرے ذہن سے بالکل اتر چکی تھی۔ حتی کہ آج اچانک صدر انجمن احمدیہ کے ایک کارکن نے اسے پرانے ریکارڈ سے نکال کر میرے سامنے پیش کیا۔
میری اس تحریر میں جو ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ ء کی لکھی ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مجموعہ الہامات تذکرہ پر مبنی ہے۔ یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو کسی وقت اپنا مقدس مرکز چھوڑنا ہو گا اور یہ صورت حال گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی اور اس پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ نوٹ درج ہے کہ مجھے تو بیس سال سے اس طرف خیال لگا ہوا ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ میری تحریر میں یہ بات بھی درج ہے کہ مرکز سے جماعت کا نکلنا حکومت کے کسی فعل کا نتیجہ ہو گا۔ اور بعینہ اس کے مطابق وقوع میں آیاکہ پہلے حکومت برطانیہ نے سرا سر ظلم اور بے انصافی کے رنگ میںضلع گورداسپورکو جو ایک مسلم اکثریت کا ضلع تھا، مشرقی پنجاب میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کے بعد مشرقی پنجاب کے افسروں نے جماعت احمدیہ کو قادیان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ گویا سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں اس ظلم کی ذمہ دار بن گئیں۔
بہر حال میرا آج سے دس سال پہلے کا خط اور اس پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نوٹ ذیل میں شائع کیا جاتا ہے۔ تا احمدیوں کے لئے از دیادِ ایمان اور غیر احمدیوں کے لئے اتمام حجت کا موجب ہو۔ ہر دو تحریریں اپنی اصل صورت میں محفوظ ہیں۔ اور جو دوست چاہیں اسے دفتر صدر انجمن احمدیہ میں تشریف لا کر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تحریریں جس لفافہ میں بند کر کے ناظر اعلیٰ کو بھجوائی گئیںوہ لفافہ بھی محفوظ ہے اور اس لفافہ پر بھی تاریخ اور دفتری نمبر باقاعدہ درج ہیں:-
میرے اس خط پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کانوٹ
عزیزم مکرم
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںتو بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں ۔حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کونہیں سمجھی ،ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کررہاتھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیںجن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہوسکے ۔اسی طرح چاروں کو نوں پر دور دور مقامات پرمستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کاراز مختلف ممالک میں محفوظ کردیاجائے تاکہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے توان کوازسرنو اپنی اصل جگہ پرتعمیر کیاجاسکے۔ پاسپورٹوں کاسوال بھی اسی پرمبنی تھا۔
(دستخط ) مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح )
نوٹ:۔ اس کے بعد یہ خط اور اس پر حضرت صاحب والا نوٹ ناظر صاحب اعلیٰ جماعت احمدیہ کے دفتر میں مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۳۸ ء کو بھجوادیا گیا۔
نوٹ از حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ
اس میں جو یہ فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا ، اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں کے غیر ممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تاکہ جب ہجرت کاوقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے ،اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سٹ سلسلہ کی کتب کی سات ،آٹھ مختلف ملکوں میں بھجواکر سلسلہ کا لٹریچر محفوظ کرلیا جائے۔
مرزامحمود احمد (خلیفۃ المسیح)
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍مئی ۱۹۴۸ئ)








کیا قادیان کے قرضے صرف قادیان میں ہی
ادا ہو سکتے ہیں؟
وسعت رکھنے والے مقروض صاحبان کے امتحان کا وقت
کچھ عرصہ ہوا میں نے ان نقصانات کی وجہ سے جو گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں قادیان کے احمدی کارخانہ داروں اور دیگر دوستوں کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ قرض خواہ صاحبان کو تحریک کی تھی کہ وہ قرآنی حکم ۳۸ ( یعنی مقروض بھائیوں کو تنگی کے ایام میں مہلت دینی چاہئے) کے ماتحت اپنی رقوم کے مطالبہ میں نرمی کا پہلو اختیار کر یں۔ اور اس وقت کا انتظار کریں کہ ان مقروض دوستوں کو کچھ سہولت کی صورت پیدا ہو جائے جو قادیان میں بھاری مالی نقصان اٹھا کر باہر آئے ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری اس اخلاقی سفارش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر بعض لوگوں نے اپنے قرض خواہوںکو یہ کہہ کر ٹالنا شروع کردیا ہے کہ قادیان کا قرضہ قادیان واپس جا کر ہی ادا ہوگا۔ یہ ذہنیت نہایت درجہ قابل افسوس اور اسلامی تعلیم کے سرا سر خلاف ہے، اگر ایک طرف اسلام مقروض یعنی قرضہ لینے والے کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اوراسے تنگی میں مناسب مہلت دیتا ہے تووہاں وہ اس سے بھی زیادہ تاکید کے ساتھ قارض یعنی قرضہ دینے والے کے حقوق کی بھی حفاظت فرماتا ہے۔ اور ایسے مقروض کو سخت درجہ زیر ملامت قرار دیتا ہے جو وسعت اور گنجائش کے ہوتے ہوئے جھوٹے یا کمزور بہانوں سے اپنے ذمہ کی رقوم کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس معاملہ میں اتنا سخت احساس تھاکہ آپ ؐ ایسے صحابی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو مقروض ہونے کی حالت میںفوت ہوتا تھا ۔میں اپنے جملہ مقروض دوستوں اور عزیزوں کو یہ نصیحت کروں گاکہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنے ذمہ کی رقوم کو جلد تر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ہرگز درست نہیں کہ قادیان کا قرضہ قادیان میں ہی ادا ہونا چاہئے،میں نے ایسی بات کبھی نہیں کہی اور نہ کوئی عقلمند اس قسم کی بات کہہ سکتا ہے۔ قرضہ بہر حال قرضہ ہے اور جب بھی اور جہاں بھی ادائیگی کی توفیق حاصل ہو فوراً بلا توقف ادا کرنا چاہئے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جب تک ساری رقم موجود نہ ہو قرضہ ادا نہ کیا جائے بلکہ جس قدر رقم کی توفیق ملے وہ بلا توقف ادا کر کے بقیہ کے لئے ساتھ ساتھ کوشش جاری رہنی چاہئے۔ اکثر دوستوں کے حالات اب آہستہ آہستہ سدھر رہے ہیں اور کوئی وجہ نہیںکہ وہ حالات کی اصلاح کے نتیجہ میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کی طرف سے غافل رہیں۔ جو شخص وسعت اور توفیق رکھنے کے باوجود اپنے قرضہ کی رقم ادا نہیں کرتا۔ وہ خدا کا حق بھی مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔ اور دنیا میں ایک ایسا نمونہ قائم کرتا ہے جس کا نتیجہ ظلم اور فتنہ و فساد کے سوا کچھ نہیں۔
میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وسعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اپنے گھر یا اپنے کاروبار کو با فراغت چلانے یا ترقی دینے کے بعد اگر کوئی رقم بچے تو وہ قرضخواہ کو دے دی جائے۔ جوشخص ایسی حالت کا انتظار کر تا ہے وہ ظالم ہے اور اس کی نیت کبھی بھی بخیر نہیں سمجھی جاسکتی۔ پس وسعت سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آمدن کی صورت پیدا ہو تو اس آمدن میں سے اپنے ضروری اور اقل اخراجات کو نکال کر باقی رقم قرض خواہ کودے دی جائے ۔میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت کئی بیوہ عورتیں اورکئی یتیم بچے اور کئی بے بس مسکین ایسے ہیں جن کا روپیہ دوسروں کے پاس پھنسا ہوا ہے۔ جب تک قرض دینے والوں کو مجبوری تھی۔اس وقت تک ان کا معاملہ خدا کے ساتھ تھا، مگراب جبکہ اکثر دوستوں کے لئے آہستہ آہستہ فراخی کا راستہ کھل رہا ہے تو اس فراخی میں سے لازماً ان یتیموں اور اُن بیوائوںاور ان مسکینوں کا روپیہ واپس ہونا چاہئے جن کے آمدنی کے ذرائع مفقود ہو چکے ہیں او ر قرض کی واپسی کے سوا بظاہر ان کا کوئی سہارا نہیں۔ ورنہ وسعت رکھنے والے مقروض لوگ یاد رکھیں کہ وہ لوگوں کو دھو کہ دے سکتے ہیں مگر خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اور یتیموں اور مسکینوں کا ہی سوال نہیں۔ حق بہر حال حق ہے اور ہر حقدار کو ملنا چاہئے خواہ وہ کوئی ہو۔ مجھے اپنی زندگی میں ہزاروں لو گوں کے ساتھ لین دین کا واسطہ پڑا ہے۔ مگر میں بڑے دکھ کے ساتھ اس احساس کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ میں نے بہت ہی کم لوگوں کو اس رنگ میں معاملہ کا صاف پایاہے جو اسلام ہم سے توقع رکھتا ہے۔ کاش جس شوق کے ساتھ لوگ روپیہ لیتے ہیں۔ اسی شوق کے ساتھ واپس کرنا بھی سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔ اور اپنی رضا پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹۴۸ئ)


مسئلہ پیدائش شیطان کے متعلق حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا ایک نیا حوالہ
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ درج کیا جاتاہے۔ جو شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے تلاش کر کے نکالا ہے۔ اصل حوالہ نہیں دیکھا مگر بہرحال یہ حوالہ نہایت لطیف مضمون پر مشتمل ہے۔ اور بعض ایسی تفاصیل پر حاوی ہے جو آئینہ کمالات اسلام والے حوالے میں درج نہیں ہیں۔ والحق ما قال اھل الحق۔
خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۱۹۴۸ ۔۶۔۱
۸ مئی ۱۸۸۵ ء کو رام چرن ممبر آریہ سماج اکبر آباد کے بعض سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے گزرے ۔ جن کے جواب ۱۰ مئی ۱۸۸۵ ء کے اخبار عام لاہور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے شائع ہوئے۔ پہلا سوال پیدائش شیطان کے بارے میں تھا۔ یہ سوال اور اس کا لطیف جواب بغیر کسی تبصرہ کے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ نتائج دوست خود اخذ کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا ؟کیا اس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں؟
جواب: ایسا سوال ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معاملات میں نظر نہیں کی۔ یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز بے جا نکتہ چینیوں کے اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی
اب واضح ہوکہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بالکل بے گانہ اور معارف ربانی سے سرا سر اجنبی ہے۔ کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کے بہکانے اور ورغلانے کے لئے خدا نے پیدا کیا ہے۔ اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے۔ حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کسی کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خدا وند کریم جلشانہ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے،یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کے مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں۔ ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے دوسرا داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے۔ لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا کہ اس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سوخدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عطا کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت کے قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا۔ اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے۔ تا انسان اس کے رغبت دینے سے احتراز کر کے اس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی شر اور داعی خیر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں بہت صا ف اور روشن ہے۔ کیونکہ خود انسان بد یہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آجاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اٹھتے ہیں اور کبھی اس کی حالت ایسی پُر ظلمت اور مکدّر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بد خیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونوں داعی ہیں جن کو ملائک اور شیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور حکمائے فلسفہ نے انہی دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسرے طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی ان کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے اور دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے۔ اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر اور وجود قرار دیتے ہیں۔ اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں۔ جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں۔ لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں۔ خواہ محرک خارجی طور پر کچھ وجود رکھتے ہوں قوتوں کے نام سے ان کو موسوم کیا جائے۔ یہ ایک ایسا اجتماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پر اتفاق رکھتے ہیں۔ اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجتماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بکمال صفائی کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے اپنی توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اُس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔ اور کیوں کر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں۔ اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں‘‘۔ ( اخبار عام لاہور ۱۰ مئی ۱۸۸۵ ء بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام موسومہ ’’ منظور الٰہی‘ صفحہ ۱۸، صفحہ ۱۹ (مطبوعہ الفضل ۳ ؍جون ۱۹۴۸ئ)
قادیان سے تشریف لاتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ
کا
جماعت احمدیہ قادیان کے نام الوداعی ارشاد
جیسا کہ میں قادیان ڈائری میں شائع کر چکا ہوں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو قا دیان سے لاہور تشریف لائے تھے۔ آپ کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آٖف دوالمیال کی اسکورٹ میں قریبا ایک بجے احمدیہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کوٹھی دارالسلام قادیان سے بذریعہ موٹر لاہور کی طرف روانہ ہو کر 4.30بجے کے قریب شیخ بشیراحمد صاحب امیر مقامی جماعت احمدیہ لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچ گئے۔ کوٹھی دارالسلام میں حضور کو الوداع کہنے کے لئے خاکسار مرزا بشیر احمد اور عزیزان مرزا مبارک احمد اور مرزا منور احمد اور میاں عباس احمد خان جو حضور کے ساتھ ہی شہر سے کوٹھی دار السلام میں آئے تھے اور ان کے علاوہ عزیز مرزا ناصر احمد اور شاید ایک دو اور عزیز جو کوٹھی دارالسلام میں شامل ہوئے تھے، موجود تھے اور ہمارے خاندان کی خواتین میں سے اس وقت حضرت سیّدہ ام المتین صاحبہ حر م ثالث اور عزیزہ منصورہ بیگم سلمہا حضور کے ہمراہ تھیں۔ باقی خواتین ۲۵ اگست والے کانوائے میں پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھیں۔قادیان سے روانہ ہونے سے قبل بلکہ ۳۰ ؍اگست کی رات کو ہی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جماعت قادیان و جماعت ضلع گورداسپور کے نام پیغام لکھ کر دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ حضور کے روانہ ہونے کے بعد میں اسے جماعت تک پہنچا دوں۔ چنانچہ میں نے یہ پیغام نقل کروا کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں تمام احمدی مساجد میں پہنچا دیا ۔ یہ اعلان جو ایک تاریخی یاد گار کی حیثیت رکھتا ہے، دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ قادیان میں ٹھہرنے والوں کی تعداد کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ابتدائی تجویز بعد میں لاہور والی مجلس مشاورت کے مشورہ کے نتیجہ میں بدل گئی تھی۔ خاکسار۔ مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور
اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم
میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی تمام پریز یڈنٹان انجمن احمدیہ قادیان محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان و دیہات تحصیل بٹالہ وتحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غو رکرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کی اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہئے۔ کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکتے۔حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات میں تار اور فون بھی جا سکتا ہے۔ ریل بھی جاتی ہے، ہوائی جہاز بھی جا سکتا ہے۔ میںمان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہبا ًحکومت کی وفادار جماعت ہے تووہ ایسا انتظام نہ کریںکہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں، حفاظت نہ کی جائے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آ ئے ہیں، ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا۔ ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورے کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں، انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے۔ غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یک دم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی ۔ ان حالات میں، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جا سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کر یں گے۔
اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ جہاں وہ ضرورتاً آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ان امور کو مدنظررکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جا کر کوشش کروں۔ شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دور ہو جائے۔
میں نے اس امر کے مدنظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوںنے کرنا ہے یا میں نے۔ اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں۔ میں اسے مانوں گا۔ لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیارمیں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہو گا کہ چون و چرا کریں ۔ اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں۔ دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوںبھی ان کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے۔ لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا۔ ان کی جدائی تو دائمی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے۔ مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں۔ وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے۔ پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفا دار رہو۔ اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھائو کہ دنیا عش عش کر اٹھے۔ جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقینا دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی *** کا مستحق۔ تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منوّر جلوہ دیکھا ہے۔ اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے۔ میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائم مقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو۔ اور ان کے ہر حکم پر اسی طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ…۔۳۹ یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی۔ اس نے میری نافرمانی کی۔ پس جو ان کی اطاعت کرے گا۔ وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا۔ اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں۔
اے عزیزو! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون سا ہے۔ پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھائو کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آیندہ نسلیں تم پر فخر کریں ۔ شائد مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں۔ مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہونگے۔ اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجواچکا ہوں۔ تم ان پر بدظنی نہ کرو۔ وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو ٰخطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا۔ پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو بوجہ بزدلی آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقینا کمزور ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور سچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے۔
اے عزیزو! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں سچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے۔
خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔ اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔
والسلام خاکسار ( دستخط مرزا محمود احمد ( خلیفۃ المسیح) ۱۹۴۷ ء ۔۸۔۳۰
‎ (مطبوعہ الفضل ۸؍ جون ۱۹۴۸ئ)






قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں
اور
نوافل کے پروگرام پر پوری طرح پابند
دوستوں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں جملہ احمدی دوست جو موجودہ حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی وجہ سے درویش کہلاتے ہیں، خدا کے فضل سے ہر طرح سے خیریت سے ہیں۔ ان کی طرف سے میرے پاس خطوط پہنچتے رہتے ہیں اور گو آج کل ڈاک کی خرابی کی وجہ سے خطوں میں بہت دیر ہو جاتی ہے مگر پھر بھی خدا کے فضل سے جلد جلدخیریت کی اطلاع ملتی رہتی ہے اور کبھی کبھی قادیان کے ساتھ ٹیلیفون پر بھی بات ہو جاتی ہے۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مقرر کردہ پروگرا م کے مطابق قادیان کے درویش دو دن یعنی پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے ہیں اور سوائے بیماری وغیرہ کے تہجد کی نماز بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مقبرہ بہشتی میں ہفتہ وار اجتماعی دعا کا التزام بھی کیا جاتا ہے اور تازہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ سب دوست نہایت درجہ خوشی اور صبر و رضا کے ساتھ باہم اخوت اور اتحاد کے مقام پر قائم رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ کانوائے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض پرانے صحابہ بھی مثلاً بھائی عبد الرحیم صاحب اور بھائی عبد الرحمن صاحب اور میاں محمد دین صاحب کھاریاں اور میاں محمد دین صاحب سکنہ تہال اور بعض دوسرے صحابہ قادیان پہنچ چکے ہیں اور خدا کے فضل سے ان کا وجود دوستوں کے لئے بڑی برکت کا موجب ہو رہا ہے۔
میں اس جگہ ان دوستو ں سے بھی معذرت کرنا چاہتا ہوں جن کے بعض عزیز دو تین ماہ کے ارادے سے قادیان گئے اور پھر کانوائے کا کافی انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ابھی تک واپس نہیں آسکے۔ ایسے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو جسمانی لحاظ سے انہیں اپنے عزیزوں کی جدائی کی تکلیف ہے لیکن اگر وہ سلسلہ کی موجودہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے صبر و رضا ء کے مقام پر قائم رہیں گے تو روحانی لحاظ سے وہ ایسے انعامات کے وارث بن جائیں گے جس کا موقع شاید جماعت کی آئندہ تاریخ میں بہت کم مل سکے گا۔ تاہم اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ جن دوستوں کے قیام پر زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور ان کے پیچھے ان کے عزیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،انہیں جہاں تک ممکن ہو جلد تر باہر بلانے کا انتظام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور جماعت کو جلد تر اس کے مرکز میں پھر جمع کر دے۔ آمین یا ارحم الراحمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍جون ۱۹۴۸ئ)









جمع بین الصلوٰتین کے مسئلہ میں مولوی محمد دین صاحب
کی تتمہ روایت
امام کی اتباع کا پہلو بہرحال مقدم ہے
اس سے قبل میرے ذریعہ مکرم مولوی محمددین صاحب بی ۔اے سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الا سلام ہائی سکول قادیان کی ایک روایت جمع بین الصلوٰ تین کے مسئلہ کے متعلق الفضل میں شائع ہوچکی ہے ۔مکرم مولوی صاحب کی اس روایت پر میں نے مولوی صاحب موصوف پر دو سوالات کئے تھے ۔جس کاجواب انہوں نے ذیل کے خط میں ارسال فرمایا ہے ۔میںسمجھتا ہوں کہ اب مولوی صاحب کی روایت پوری طرح مکمل ہے جس سے اس مسئلہ کے سارے پہلوئوں پر روشنی پڑجاتی ہے جیسا کہ میں اپنے سابقہ نوٹ میںلکھ چکا ہوں مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ چکے ہیں۔
(خاکسار :۔مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۴۸/۶/۷)
مکرمی مخدومی حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں آں مخدوم کے ارشاد کی تعمیل میں پوری وضاحت سے قاصررہاہوں ۔گذارش ہے کہ جو روایت میں نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جمع بین الصلوٰتین کے مسئلہ میں فتویٰ اور تعامل کے متعلق بھجوائی تھی ۔اس کے متعلق آپ نے مجھ پر دو سوال کئے ہیں۔ایک تو یہ کہ کیامیں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ سنا تھا کہ جمع بین الصلوٰتین کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد کی نماز میں پہنچے تو پھر بھی امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے ۔اور دوسرے یہ کہ کیا اس صورت میں بھی اس فتویٰ پر عمل ہوتا تھاکہ ایک بعد میں آنے والے شخص کو معلوم ہوجاتا تھا کہ مثلاً عصر کی نماز پڑھی جارہی ہے اور اس نے ابھی ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہوئی تھی تو پھربھی وہ امام کے ساتھ شامل ہوجاتا تھا اور اپنی چھوڑی ہوئی ظہر کی نماز بعد میں پڑھتا تھا۔
سو سوال نمبر اول کے جواب میں تحریر ہے کہ میں نے خود یہ فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے سنا تھا اور کئی دفعہ سنا تھا کہ نمازوں کے جمع کئے جانے کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد والی نماز میں شامل ہو اوراس نے ابھی پہلی نماز نہ پڑھی ہو تو پھر بھی اسے چاہئے کہ امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعدمیں پڑھ لے ۔ یہ فتویٰ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں دوسرے سوال کے متعلق مجھے کبھی ذاتی طور پر تو یہ موقع پیش نہیں آیا کیونکہ میں ہمیشہ شروع ہی میں شامل ہوجایا کرتا تھا مگر کئی دوست جو بعد میںدوسری نماز کے وقت آکر شامل ہوتے تھے ان کا اسی پر عمل تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کو یہ علم ہوجاتا تھا کہ یہ دوسری نماز ہے۔ وہ امام کے ساتھ فوراً شامل ہو جاتے تھے اور باقی چھوٹی ہوئی نماز بعد میں علیحدہ پڑھ لیتے تھے۔ اور ایسا کبھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس علم کے بعد کہ مثلاً امام اس وقت عصر کی نماز پڑھا رہا ہے۔ وہ علیحدہ کھڑے ہوکر ظہر کی نماز شروع کردیںاور اس کے بعد عصر کی نماز پڑھیں اس معاملہ میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ سے یہ فتویٰ سنا ہوا ہے کہ بہر حال امام کے ساتھ شامل ہونے کو مقدم کرو۔
(میں یہ امر مفہوماًعرض کر رہا ہوں۔ اصلی الفاظ مجھے یاد نہیں) اور اس پر جماعت قادیان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی عمل تھا ۔ سوائے ان خاص حالات کے کہ کسی کو اس فتویٰ کا علم ہی نہ ہواہو۔
میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتاہوں کہ جب بعد میں بعض احمدیوں میں اس کے خلاف عمل شروع ہوا اور انہوں نے امام کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے علیحدہ نماز پڑھنے کو ترجیح دی تو میں نے اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم سے ذکر کیاکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتویٰ اور حضور کے زمانہ کے تعامل کے خلاف ہے تو انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا ۔اور میری روایت کی تصدیق کی مگر اپنی کسر نفسی کی وجہ سے اس بات کے لئے تیار نہ ہوئے کہ اسے اخبارمیں شائع کرائیں یا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حضور پیش کریں۔ بہرحال جو فتویٰ اور جوتعامل مجھے یاد ہے وہ میں نے لکھ دیا ہے اورمجھے اس کے متعلق پورا پورا یقین ہے ۔ والسلام۔ خاکسار۔محمددین
(ریٹائرڈ ہیڈماسٹر تعلیم الا سلام ہائی سکول قادیان ) ۵جون ۱۹۴۸ ء حال چکوال
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍جون ۱۹۴۸ئ)










خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ہے
مگر خطرہ کے وقت خطرہ کا احساس بھی قومی مضبوطی کے لئے
ضروری ہے
۱۵؍ جون والے مز عومہ خطرہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ
مغربی پنجاب کے بعض حصوں سے یہ اطلاع آ رہی ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے کہ شائد ۱۵؍ جون کے بعد پھر فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے اور لوگوں کو اسی قسم کے خونی نظاروں کا سامنا کرنا پڑے جو گزشتہ فسادات میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اس خوف وہراس کی مختلف وجوہات ہیں۔ مثلا یہ کہ جون میں لارڈ مونٹ بیٹن گورنر جنرل انڈیا واپس چلے جائیں گے۔ اور ان کی جگہ ایک ہندوستانی جنٹلمین گورنر جنرل مقررہوں گے یا کہ اب وہ وقت آرہا ہے کہ جب ہندوستان اورپاکستان دونوں اس بات کے لئے آزاد ہو ں گے کہ برٹش ایمپائر کے ساتھ اپنا تعلق قطع کر کے کامل خود مختاری کا اعلان کر دیں۔ یا یہ کہ کہیں کشمیر کی جنگ کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی مزید پیچیدگی پیدا ہو کر فسادات کا موجب نہ بن جائے۔ وغیرہ وغیرہ
اس قسم کے خیالات نے مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب دونوں میں بعض لوگوں کے دلوںمیںتوہمات اور خوف و ہراس کی کیفیت پیداکر رکھی ہے۔ بلکہ اخبار سٹیٹسمین میں تو یہاں تک خبر تھی کہ اس قسم کا خوف و ہراس (جسے انگریزی میں panicکہتے ہیں ) مشرقی پنجاب سے گزر کر دہلی تک بھی پہنچ چکا ہے۔ سو یہ ایک عام قسم کی وباء ہے جو دونوں حکومتوں میں یکساں سرایت کئے ہوئے ہے۔ بلکہ سنا ہے کہ بعض لوگو ں نے اپنا کاروبار چھوڑ کر عارضی طور پر سرحدی ضلعوں سے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے۔ یہ ایک خطر ناک حالت ہے جس کا فوری طور پر انسداد ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ فسادات نے لوگوں کے اعصاب پر بھاری اثر ڈالا ہے۔ اور خطرہ کی ذراسی خبر سے گھبرا کر سرا سیمہ ہونے لگتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اعصابی اضطراب خطرہ کو کم نہیں کرتا۔ بلکہ بڑھاتا ہے اور قومی اخلاق اور قومی روح کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کے حالات میں امکانی طور پر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود نہ ہواور محض وہم کے نتیجہ میں خطرہ کا تصور پیدا کر لیا جائے اور دوسرے یہ کہ واقعی خطرہ موجود ہو یا اس کے وجود میں آنے کا قوی امکان ہو۔ اب ظاہر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کی بلندی اور قومی روح کی مضبوطی کے لئے تباہ کن ہے۔ اگر تو خطرہ کوئی نہیںتو کسی موہوم بناء پر خطرہ کا تصور پیدا کر لینا توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ جس کے نتیجہ میں انسان کا دل اسی طرح کانپنا شروع ہو جاتا ہے جس طرح کہ اندھیرے میں بعض لوگوں کا دل فرضی خطروں کے تصور سے کانپا کرتا ہے۔ اور جب وہم کا دروازہ ایک دفعہ کھل جائے تو پھر اس کے بند ہونے کا کوئی امکان نہیں ہو تا۔ اور ایک پتے کے کھڑکنے پر بھی دل دھڑکنے شروع ہو جاتے ہیں کہ معلوم نہیں کیا مصیبت آنے والی ہے اور اس طرح انسان کا عصبی نظام آہستہ آہستہ کمزور ہوکر مستقل مزاجی اور وقار اورشجاعت کے اوصاف کھو بیٹھتا ہے۔
اس کے مقابل پر اگر واقعی کوئی خطرہ موجود ہو تو پھر بھی خوف و ہراس کی کیفیت مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خوف و ہراس کی وجہ سے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے۔ اور گھبراہٹ کی وجہ سے انسان خطرہ کے مقابلہ کی تیاری کی طرف سے عملاً غافل ہو جاتا ہے۔ اور اکثر صورتوں میں دل چھوڑ کر گویا اپنی اٹل تقدیر کے انتظار میں گھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے اگرواقعی کوئی خطرہ ہو تو اس کا فطری اور صحیح رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے تیاری کرے تاکہ قبل اس کے کہ خطرہ کا موقع عملاً پیش آئے، وہ اپنی طاقت اور اپنے ذرائع کے مطابق اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو چکا ہو۔
پس جس جہت سے بھی دیکھاجائے موجودہ خوف و ہراس کی حالت جو ملک کے بعض حصوں میں پائی جاتی ہے، کسی طرح جائز نہیں سمجھی جا سکتی بلکہ یہ ایک ایسا کلہاڑا ہے جو خود اپنے ہاتھ سے اپنے پائوں پر چلا یا جا رہا ہے۔ خوب غور کرو کہ اگر خطرہ کوئی نہیں تو موجودہ خوف و ہراس محض وہم ہے اور وہم پرستی سے بڑھ کر قومی اخلاق کو بگاڑنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر خطرہ حقیقی ہے تو ظاہر ہے کہ گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی بجائے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے جہاں تک ممکن ہو تیاری کریں۔ اور خطرہ کا وقت آنے سے پہلے اپنے آپ کو منظم اور مضبوط کر لیں۔
اب رہا یہ سوال کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود ہے یا نہیں ۔سو جہاں تک لارڈ مونٹ بیٹن کے جانے یا رہنے کا سوال ہے۔ یہ ایک بالکل بے اثر سی بات ہے۔ ہندوستان اب آزاد ہو چکا ہے اور لارڈ مونٹ بیٹن اب ہندوستانی حکومت کے ماتحت ایک آئینی گورنر جنرل ہیں۔ پس خواہ وہ رہیں یا جائیں ہندوستان میں حکومت ہندوستانیوں کی ہے اور لارڈ مونٹ بیٹن کو کسی فتنہ کے دبانے یا اٹھانے میں ہرگز اتنا دخل حاصل نہیں کہ ان کے ہندوستان سے چلے جانے کو گھبراہٹ کی بنیاد بنا یا جائے بلکہ حق یہ ہے کہ جو ہندو جنٹلمین مسڑ راجا گوپال اچاریہ لارڈ مونٹ بیٹن کی جگہ گورنر جنرل کا چارج لینے والے ہیں۔ ان کے متعلق اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ بین الاقوام اور بین الدّول تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ کوشش کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تقرر پر خود قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں ان کے متعلق بہت اچھی توقعات کا اظہار کیا تھا۔
دوسری امکانی وجہ یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ اب وہ وقت آرہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان برٹش ایمپائر کے تعلق سے آزاد ہونے کا اختیار استعمال کر سکیں ۔ اور یہ کہ یہ اختیار استعمال کیا گیا تو جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اول تو جہاں تک حقیقی آزادی کا تعلق ہے،برٹش ایمپائر کا ایک جزو ہونا یا نہ ہونا کوئی اثر نہیں رکھتا۔ ایک ڈومینین بھی عملاً اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک ایسا ملک جو برٹش ایمپائر سے ڈومینین ہونے کا تعلق نہیں رکھتا۔ اور اگر ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا چاہیں تو وہ ڈومینین ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دست بگریبان ہو سکتے ہیں۔ اور برٹش حکومت کو اس معاملہ میں ایک رسمی سی ’’ ہوں ہوں‘‘ کرنے کے سوا کوئی طاقت حاصل نہیں۔ پس لڑائی کو ڈومینین ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک حقیقت ہے اور اکثر مبصرین کا یہی خیال ہے کہ خواہ منہ سے کچھ کہا جائے۔ لیکن غالبا ًابھی کچھ عرصہ تک اور شاید ایک لمبے عرصہ تک ہندوستان اور پاکستان دونوں برٹش ایمپائر کا حصہ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ اس تعلق کو کاٹنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور تعلق کو قائم رکھنے کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہر حکومت کو اختیار ہے کہ جب چاہے اس تعلق کو کاٹ دے تو بلا وجہ اس کے لئے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جا سکتی۔
تیسرا سوال کشمیر کا ہے۔ یہ سوال بے شک اہم اور قابل فکر ہے۔ پاکستان کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ کشمیر اپنی آبادی کی اکثریت اور اپنی جغرافیائی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان کا حصہ بننے کا حق رکھتا ہے اور ہر پاکستانی مسلمان کو اس کے ساتھ طبعاً اور فطرتا ًہمدردی ہے۔ اور وہ اس بات کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتاکہ پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے کشمیر کی ریاست ہندوستان کے ساتھ مل جائے۔ اور وہ اس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ کشمیر کے مسلمان طبعًا اور اپنے سابقہ تجربہ کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ ملنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہندوستان کشمیر کی ہندو حکومت کی وجہ سے کشمیر کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے مگر زیادہ تر اس وجہ سے اس ملاپ کا خواہاں ہے کہ یہی وہ سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس سے وہ پاکستان کو کمزور کرکے اس کی ہستی کوخطرہ میں ڈال سکتا ہے اور گو لڑائی آزاد کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ہے۔ مگر اس میںشبہ نہیںکہ اگر یہ جنگ زیادہ پھیلے تو پاکستان کی حدود پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اور اس قسم کے موقعوں پرجب کہ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع ہو جائے تو آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت بظاہر دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار نہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ اس لئے گمان غالب یہ ہے کہ اگر سرحدوں پر کوئی چھیڑ چھاڑ شروع بھی ہوئی تو دونوں حکومتیں اسے روکنے اور محدود رکھنے کی کوشش کریں گی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر اس و قت کسی حد تک خطرہ ہے بھی تو اس کی روک تھام کا سامان بھی ایک حد تک موجود ہے۔ لہذا گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن اصولاً اس میں شبہ نہیں کہ ہر آزاد ملک کو اپنی خود حفاظتی کا پختہ سامان مہیا رکھنا چاہئے۔ مگر یہ خیال کرنا کہ یہ سامان مہیا کرنا صرف حکومت کا کام ہے ہر گز درست نہیں۔ اصل چیز پبلک ذہنیت ہے اور اس کی درستی اور تنظیم زیادہ تر خود پبلک کے ہاتھ میں ہے۔ پس مسلمانوں کو چاہئے کہ گھبرانے کی بجائے اپنے دلوں کومضبوط کریں اور ایک وسیع پبلک تنظیم کے ذریعہ ہر قسم کے امکانی خطرہ کے لئے تیار رہیں۔ ایسی تیاری خصوصاً سرحدی اضلاع میں زیادہ ضروری ہے۔ اور مغربی پنجاب کے اضلاع میں سے راولپنڈی۔ جہلم ۔ گجرات۔ سیالکوٹ ۔ لاہوراور منٹگمری سرحدی اضلاع ہیں ان تمام ضلعوں کی پبلک کو ایک وسیع اور پختہ تنظیم کے ذریعہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اس لئے نہیں کہ اس وقت ان کے لئے کوئی خطرہ ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے اصولا ًہر وقت خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاک قرآن نے بھی جو ایک مکمل ہدایت نامہ ہے سرحدوں کی مضبوطی کے لئے تاکیدی ہدایت دی ہے
چنانچہ فرماتا ہے:-
۴۰
’’یعنی اے مسلمانو! تم اپنے سب کاموں میں صبر و استقلال کو اپنا شعار بنائو۔ اور نہ صرف خود صبرو استقلال پر قائم رہو۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی صبر و استقلال کی تعلیم دو( تاکہ نہ صرف تم خود منظم ہو۔ بلکہ اپنے ماحول کو بھی منظم کر لو) اور دیکھو اپنی سرحدوں کو خوب مضبوط رکھو۔ مگر ان ظاہری سامانوں کے باوجود تمہیں چاہئے کہ اپنی حقیقی ڈھال صرف خدا کو بنائو تا کہ تم اپنے مقا صد میں کامیاب وبا مراد ہو سکو۔‘‘
بالآخر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خطرہ کا احساس خود اپنی ذات میں برا نہیںبلکہ قومی بیداری اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس احساس کی وجہ سے گھبراہٹ یا خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو۔ ورنہ خود احساس تو دراصل ایک بھاری معنوی قوت ہے۔ جس کے ذریعے قوموں کو ہوشیار اور منظم کیا جا سکتا ہے۔ جس قوم کو اپنے ارد گرد کے امکانی خطرات کا احساس نہیں، وہ قوم مردہ ہے۔ اسی طرح وہ قوم بھی مردہ ہے جسے امکانی خطرات کا احساس تو ہے مگر اس احساس کے نتیجہ میں وہ خوف وہراس میں مبتلا ہو کر سراسیمہ ہونے لگتی ہے۔ یہ دونوں حالتیں یقینا موت کی حالتیں ہیں او ر زندگی کی حالت یہ ہے کہ احساس ہو۔ مگر احساس کا نتیجہ بیداری اور تنظیم اور تیاری کی صورت میں ظاہر ہو۔ پس ہمیں پاکستان کے مسلمانوں سے عرض کرناہوگا کہ جس جس جگہ بھی اس خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اس کیفیت کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کریں مگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں لوگوں کو تھپک کر سلا نہ دیں بلکہ اگر اس احساس نے سوتے ہوئوں کو جگایا ہے تو وہ جاگتے ہوئوں کو زیادہ چوکس و ہوشیار کر کے منظم اور تیار کر دیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍جون ۱۹۴۸ئ)






نئی وزارت کو ایک مخلصانہ مشورہ
حکومت ایک مقدس امانت ہے اس امانت کی
ادائیگی میںعدل پر قائم رہو۔
عدل کے مثبت اور منفی پہلو
دنیا میں جس طرح ہرچیز کے ساتھ تغیر لگا ہوا ہے ۔اسی طرح حکومتیں اور وزارتیں بھی بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں اور ہر ایسا تغیراپنے اندر ایک دوہرا سبق رکھتا ہے ۔وہ سبق ہوتا ہے جانے والی وزارت کے لئے اور ا س بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ناپائیدار ہے جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کے ازلی اور ابدی وجود کا سہارا نہ ہو ۔اور وہ سبق ہوتا ہے آنے والی وزارت کے لئے اور اپنے اندر یہ اشارہ رکھتاہے کہ اب تمہارے امتحان کاوقت آیا ہے ۔ پس اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرو جو تمہاری حکومت کے سایہ کو زیادہ سے زیادہ لمبا کرسکیں۔ چنانچہ قرآن شریف ایک جگہ نئی طاقت پانے والی قوم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے ۔۴۱
’’یعنی اب ہم نے تمہیں تم سے پہلے گزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو ‘‘ اس لطیف قرآنی آیت میںبتایا گیا ہے کہ ہر حکومت اور ہرطاقت اپنے ساتھ دو پہلو رکھتی ہے ۔ایک انعام کاپہلو جسے انگریزی میں Privilige کہتے ہیں اور دوسرے ذمہ داری کا پہلو جسے انگریزی میں Responsibility کہتے ہیں کیونکہ میں (یعنی ہم نے تمہیںگزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا) انعام (Privilige) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے اور میں یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو)ذمہ داری (Responsibility ) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ انعام والے پہلو کے خمار میں دوسرے پہلو کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ اصل چیز وہ ذمہ داری ہے جو ہر اس فرد اور ہراس قوم پر عائد ہوتی ہے جسے دنیا میں حکومت اور طاقت کا ورثہ ملتا ہے ۔
اس وقت مغربی پنجاب میں بھی ایک وزارتی تبدیلی ہوئی ہے اور میں اس جگہ صوبہ کی نئی وزارت کو ایک اصولی مشورہ دینا چاہتا ہوں ۔جو اس کی ذمہ داری کے پہلو سے تعلق رکھتاہے میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہمارے نئے وزیروں میں کیا رد عمل پیدا کر ے گا ۔یہ معاملہ ان کے ضمیر اور ان کے ا حساس ذمہ داری کے ساتھ تعلق رکھتاہے مگر بہرحال اس معاملہ میں جو مشورہ مجھے مفید نظرآتا ہے اور وہ میرے خیال میں ہماری مقدس کتاب یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے وہ میں نہائت مختصر الفاظ میں اور اپنے آپ کو صرف اصول کی حد تک محدود رکھتے ہوئے پیش کر دینا چاہتا ہوں۔ آگے ماننا یا نہ ماننا ہمارے معزز وزراء کا کام ہے ۔ وماالتوفیق الاباﷲ العظیم ۔
قرآن شریف فرماتا ہے اور کن مقدس اور زوردار الفاظ میں فرماتا ہے کہ :۔
۴۲
’’یعنی اے مسلمانو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کے عہدوں کی امانتیں ان لوگوں کے سپرد کیا کرو جو اس کے اہل ہیں ۔اور پھر اے وہ لوگو جنہیں حکومت کی امانت سپرد ہو تمہیں ہمارا یہ حکم ہے کہ اپنے سب کاموں میں عدل پر قائم رہو۔اور عدل کے رستہ سے کبھی ادھر ادھر نہ ہونا۔ اس آیت کریمہ میں جو امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔اس کی تشریح آنحضرتﷺ کی ایک حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
یا ابا ذر انک ضعیف و انھا امانۃ وانھا یوم القیامۃ خزی وندامۃ الامن اخذھا یحقھا وادی الذی علیہ فیھا ۔۴۳
’’یعنی جب ابو ذر صحابی نے آنحضرت ﷺ سے ایک عہد ہ کی درخواست کی تو آپ نے انکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’اے ابوذر تم ایک کمزور انسان ہو ۔اور یہ حکومت کا عہدہ ایک امانت ہے۔ اور وہ قیامت کے دن ہر شخص کے لئے ذلت اور ندامت کا موجب ہوگا۔ سوائے اس شخص کے جسے وہ اہمیت کی بناء پر سپرد کیاگیا ہو۔اور پھر وہ اس کا حق ادا کرے۔‘‘
بہرحال حکومت کے عہدوں کے متعلق یہ ایک نہایت زریں ہدایت ہے جو خدا کا کلام ہمیں اس معاملہ میں دیتا ہے۔ اور جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے وہ الفاظ تو مختصر استعمال کرتا ہے مگران الفاظ کے پیچھے معانی کا ایک وسیع خزانہ مخفی ہوتا ہے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اس قرآنی آیت میں’’امانت‘‘ اور ’’عدل ‘‘ کے مختصر سے الفاظ میں ایک ایسا وسیع مضمون بھردیا گیا ہے کہ اگر اس معاملہ میں ان کے سوا کوئی اور ہدایت نہ بھی ہو ۔تو یہی دو مختصر الفاظ کسی حاکم کی کامیابی اورا س کی سرخروئی کے لئے کافی و شافی ہیں۔
سب سے پہلا سبق’’امانت‘‘ کے لفظ میں ہے اورہرشخص جانتاہے کہ امانت اس چیز کو کہتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہوتی ،بلکہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہمیں عارضی طور پر حفاظت کے لئے ملتی ہے۔ پس پہلی ہدایت قرآن شریف کی یہ ہے کہ جب کسی شخص کو حکومت کا کوئی عہدہ سپرد ہو تو وہ اسے ایک مقدس امانت سمجھ کر ادا کرے اور امانت کا مفہوم اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک یہ کہ وہ امانت ہے خدا کی طرف سے جو دنیا کا آخری حکمران ہے اور دوسرے یہ کہ وہ امانت ہے لوگوں کی طرف سے جو ایک شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر حکومت کے عہدہ پر فائز کرتے یاکرواتے ہیں ۔ پس ہر مسلمان حاکم کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ ہروقت اپنے دل میں اس احساس کو قائم رکھے کہ میرا عہدہ میرے پاس ایک دوہری امانت کے طور پر ہے یعنی اول وہ خدا کی امانت ہے کیونکہ میں نے بالآ خر خدا کے سامنے اپنے سارے کاموں کا جواب دینا ہے۔اور پھر وہ لوگوںکی امانت ہے جن کا میںنمائندہ ہوں ۔اور جن کے سامنے میں دنیا میں جواب دہ ہوں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہر عہدہ داراس امانت والے احساس کو اپنے دل میں قائم کرلے اور پھر قائم کرنے کے بعد اسے زندہ رکھے تو ہمارے قومی کاموں میںاتنا بھاری تغیر پیدا ہوسکتاہے جو موجودہ حالت میںہم خیال میں بھی نہیں لاسکتے۔ دیکھو یہ کتنا چھوٹا سا لفظ ہے جو قرآن شریف نے استعمال کیاہے مگر حکمت و معرفت سے کتنا لبریزہے کہ گویا بجلی کا ایک بٹن دبانے سے سارا گھر آن واحدمیںروشن ہوجاتا ہے کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں ۔
دوسری بات اس قرآنی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کے سپر د حکومت کا کوئی عہدہ ہو اسے اپنے فر ائض کی ادائیگی میں کامل عدل سے کام لینا چاہئے۔ میں نے عدل کے ساتھ کامل کالفظ اس لئے زیادہ کیا ہے کہ عربی محاورہ کے مطابق جب العدل کالفظ بغیر کسی قید یا حد بندی کے آئے تواسکے معنے کامل اور وسیع عدل کے ہوتے ہیںاور ایسا لفظ عدل کے ان سارے پہلوئوں پر حاوی ہوتا ہے جو لغت اور زبان کے محاورہ کے مطابق امکانی طور پر سمجھے جاسکتے ہیں۔پس جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ہرحاکم کا فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں عدل سے کام لے تو اس میں ہر قسم کاکامل عدل سمجھا جائے گا۔ اب ہر شخص جانتا ہے کہ عدل کئی قسم کا ہوسکتا ہے جن میں سے میں چار موٹی اور معروف قسمیں ذیل میںدرج کرتا ہوں۔
(اول) اپنے کام کے ساتھ عدل کرنا ،یعنی اپنے فرض منصبی کواس کے سارے حقوق کے ساتھ ادا کرنا اور مختصر طور پر یہ حقوق تین قسم کے ہیں ۔(الف) فن کی واقفیت یعنی جو کام کسی کے سپرد کیا گیا ہے ،اس کے ضروری اصولوں اور ضروری تفاصیل سے واقفیت پید کرنا (ب) محنت یعنی اپنے کام کو انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرنا اور جو امانت یعنی اپنے فرائض منصبی کو دیانتدار انہ اصول کے ماتحت سرانجام دیں ،مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ عدل کے مفہوم کو صرف دو آدمیوں کے درمیان انصاف کر نے تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک بہت وسیع لفظ ہے اور ا س کا سب سے مقدم پہلو یہ ہے کہ اپنے کام کے ساتھ عدل کیاجائے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسا کہ مثلاً ہم اردو میںکہتے ہیںکہ فلاں شخص نے کام کاحق ادا کردیا ۔ پس عدل کا سب سے ضروری پہلو یہ ہے کہ کام کے ساتھ عدل ہو جو شخص حکومت کا ایک عہدہ تو قبول کرلیتا ہے مگر اس کے فن سے واقفیت پیدا نہیں کرتا یا فن سے واقفیت تو پیدا کرتا ہے مگر محنت نہیں کرتا اور سستی میں اپنا وقت گذارتا ہے یا محنت بھی کرتا ہے مگر دیانتدارانہ رویہ نہیں رکھتا تو وہ قرآنی محاورہ کے مطابق ہرگز عدل پر قائم نہیں سمجھاجاسکتا ۔
(دوم) عدل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کیاجائے یعنی حکومت کے لئے پبلک کا کوئی حق نہ مارا جائے اور پبلک کے لئے حکومت کے کسی حق پر دست دراز ی نہ کی جائے۔ اسلام ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے جن میں حکومت بھی شامل ہے اور پبلک بھی۔ پس جو حاکم حکومت کو خوش کرنے کے لئے پبلک کا حق مارتا ہے یا پبلک کو خوش کرنے کے لئے حکومت کی غداری کرتا ہے ،وہ ہرگز ایک عادل حاکم نہیںسمجھاجاسکتا کیونکہ اس نے ترازو کے دو نو ںپلڑوں کو برابر نہیںرکھا اور کبھی اسے ایک طرف جھکا دیا اور کبھی دوسری طرف ۔پس کامل عدل میں حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کرنابھی شامل ہے۔
(سوم ) عدل کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان عدل کیا جائے ۔ظاہر ہے کہ ہر حکومت میں مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں بستی اور شہریت کے حقوق رکھتی ہیں۔اور اگر مذہب سب کا ایک بھی ہوپھر بھی مذہب کی اندرونی تقسیم کے لحاظ سے اور اسی طرح سیاسی اور نسلی تفریق کی بناء پر مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں ہوسکتی ہیں ۔یہ سب پارٹیاں ملک میں شہریت کے حقوق رکھتی اور حکومت کی وفادار ہوتی ہیںمگر ہو سکتا ہے کہ کوئی حاکم اپنے ذاتی رجحانات یا تعلقات کی وجہ سے کسی ایک قوم یاایک پارٹی کی طرف زیادہ جھک جائے اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کرے۔ اس لئے اسلام عدل کے لفظ میںقوموں اور پارٹیوں کے حقوق کی طرف بھی اشارہ فرماتا ہے اور مسلمان حاکموں کو ہوشیار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک قوم یاایک پارٹی کی طرف ناواجب طور پر جھک کر دوسری قوم یا دوسری پارٹی کے حقوق کو نقصان پہنچادو۔
(چہارم ) عدل کا چوتھا اور سب سے زیادہ معروف پہلو افراد کے درمیان عدل کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔سو اسلام حکم دیتا ہے کہ جہاں تک حقوق کا سوال ہے ۔سب شہریوں کیساتھ بلا لحاظ بڑے اور چھوٹے اور بلا لحاظ کمزور اور طاقتور کے یکساںانصاف کا معاملہ کیاجائے اور ایسا نہ ہوکہ ایک بڑے شخص کی وجہ سے چھوٹے شخص کا نقصان ہوجائے یاایک طاقتور شخص کا نقصان ہوجائے ۔یا ایک طاقتور شخص کی لحاظ داری میں مزدور شخص کے حقوق نظر انداز کر ردیے جائیں۔ہمارے مقدس آقا ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
ایھاا لناس انما اھلک الذین قبلکم انھم کانو اذا سرق فیھم الشریف ترکوہٗ واذاسرق فیھم الضیعف اَقَامُوا عَلَیْہِ الحد۔۴۴
’’یعنی اے مسلمانو!تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کر دیا کہ اگر ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو وہ اُسے چھوڑدیتے تھے اور اگر کوئی چھوٹا چوری کرتا تھا تو وہ اسے سزادیتے تھے۔ ‘‘ اور اس کے بعد آپ نے نہایت جلالی شان کے ساتھ فرمایا کہ خداکی قسم اگرمیری لڑکی فاطمہ بھی چوری کرے گی تواس پر بھی شریعت کی مقرر کردہ سزا جاری کی جائے گی۔
اسی طرح حضرت ابو بکر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا یہ مشہور قول ہے ۔ جوخلیفہ بننے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا کہ :۔
الضعیف فیکم قوی عندی حتّٰی اُریح علیہ حقہ والقوی فیکم ضعیف عندہ حتی اخذالحق منہ۔۴۵
’’یعنی تم میں سے کمزور آدمی میری نظروں میں قوی ہوگا ،جب تک کہ میں اس کاوہ حق جو کسی اور نے اس سے چھینا ہوا ہو اسے واپس نہ دلادوں ،اور تم میں سے قوی شخص میرے نزدیک ضعیف ہوگا ۔ جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اور سے چھینا ہوا ہوگا واپس نہ لے لوں‘‘ اللہ اللہ !! کیا مبارک تعلیم ہے ۔ مگر کتنے ہیں جواس پر عمل کرتے ہیں؟
یہ عدل کے وہ چار موٹے موٹے مثبت پہلو ہیں جن کی طرف قرآن شریف ہرحاکم کو توجہ دلاکر ہوشیار کرتا ہے ۔یعنی (۱) کام کے ساتھ عدل (۲) حکومت اور پبلک کے درمیان عدل (۳) قوموں اور پارٹیوں کے درمیان عدل اور (۴) بالآخر افراد کے درمیان عدل۔ اور اسلام مسلمانوں کوارشاد فرماتا ہے کہ وہ ان چاروں قسموں کے عدلوں پر قائم ہوتے ہوئے حکومت کے فرائض سرانجام دیں۔
مگر اسلام ایک کامل مذہب ہے اور صرف مثبت پہلو کی تعلیم دے کر خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ منفی پہلو بھی بتاتا ہے جو اس رستہ کے خطرات کی صورت میں ایک حاکم کو پیش آسکتے ہیں۔چنانچہ اس تعلق میںسب سے پہلی تعلیم اسلام یہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ محبت کے بے جا غلبہ سے متاثر ہوکر انصاف کے رستہ سے ہٹ نہ جایا کریں۔ظاہر ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہے کہ جب وہ انسان کے دل و دماغ پر ناواجب طور پر غالب ہوجائے، خواہ یہ محبت اپنی جان کی ہو یا رشتہ داروں کی یادوستوںکی یاکسی اور کی تو وہ ایک ایسا ظلمت کا پردہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان بسااوقات ٹھوکر کھاتا اور عدل کے رستہ سے ہٹ جاتا ہے۔ پس اسلام ہمیں ہوشیار کرتا ہے کہ بے جا محبت کے غلبہ سے بچو اوراس کی وجہ سے عدل کا رستہ کسی صورت میں بھی نہ چھوڑو ۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
۴۶
’’یعنی اے مومنو ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہو اور خدا کی طرف نگاہ رکھتے ہوئے سچی سچی بات کہو خواہ اس کااثر تمہاری جانوں کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے ماں باپ کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے دوسرے رشتہ داروں یادوستوں کے خلاف پڑتا ہو اور کسی صورت میں بھی اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چل کرعدل وانصاف کے رستہ کو نہ چھوڑو ورنہ یادرکھو کہ خدا تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح غضب اور غصہ کابے جاغلبہ بھی ایک ظلمت کاپردہ ہے جو انسان کی آنکھوں سے اس کے فرائض کو اوجھل کردیتا اور عدل کے رستہ سے ہٹادیتا ہے اس کے متعلق قرآن شریف فرماتاہے :۔
۴۷
’’یعنی اے مومنو تمہیں کسی قوم کی دشمنی ہرگز ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ جائو بلکہ تمہیں ہرحال میںعدل پر قائم رہنا چاہئے کیونکہ عدل کرنا تقویٰ کے قریب تر ہے اور تقویٰ وہ جو ہر ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے کہ پس خدا کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا تمہارے اعمال کو جانتا اور دیکھتا ہے ۔‘‘
مستقل دشمنی تو الگ رہی اسلام عارضی غصہ کی حالت کے خلاف بھی مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
لایحکم الحاکم بین اثنین وھو غضبان۔۴۸
’’یعنی کسی حاکم کے لئے جائز نہیںکہ وہ دو آدمیوں کے درمیان اس حالت میںکوئی فیصلہ کرے جبکہ وہ غصہ سے مغلوب ہو رہا ہو بلکہ اسے چاہئے کہ اس وقت تک انتظار کرے کہ اس کا غصہ دور ہو جائے خواہ غصہ کسی وجہ سے پید اہو ا ہو۔‘‘
عدل کے رستہ میں ایک بھاری روک رشوت بھی ہے جو آج کل بدقسمتی سے بہت سے بے اصول حاکموں کے کام پر ایک خطرناک دھبہ ثابت ہو رہی ہے ۔اس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
اَلرَّاشِیْ وَ الْمُرْتَشِیْ کِلَاھُمَا فِی النَّارِ۔۴۹
’’یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوآگ میں ہیں۔’’آنحضرت ﷺ کے یہ ہیبت ناک الفاظ کسی تشریح کے محتاج نہیں۔ دراصل رشوت ایک ایسا گندہ خلق ہے کہ شریعت اسلامی پر ہی حصر نہیں بلکہ دنیاکے ہر مذہب اور ہر ملک اور ہر قانون نے اسے ناجائز قراردیا ہے۔ کیونکہ اس سے عدل و انصاف کے رستہ میں ایسا رخنہ پیدا ہوجاتا ہے جونہ صرف لوگوں کے حقوق کو بلکہ اس اعتماد کو بھی جو انہیں حکومت پر ہونا چاہئے، تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ رشوت صرف ناجائز نقدی قبول کرنے کوہی نہیں کہتے ،بلکہ ہر وہ چیز اور ہر وہ فائدہ جسے شرعاً یا قانوناً کسی کو حاصل کرنے کاحق نہیں اور جس کے نتیجہ میں حکومت کاکوئی حق مارکرافراد کو دے دیا جاتا ہے ،یا ایک قوم کا حق مارکر دوسری قوم کو دے دیا جاتا ہے ،یا ایک فرد کا حق مار کر دوسرے فرد کو دے دیا جاتا ہے وہ سب رشوت میںداخل ہے اور ہمارے آقا ﷺ اس قسم کی رشوت دینے والے اور لینے والے دونو کو فِی النَّارِ قرار دیتے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑا انتباہ ہے بشرطیکہ کوئی خدا کا بندہ اس انتباہ سے ڈرنے کے لئے تیار ہو ۔
عدل کے قیام کے لئے اسلام ایک اور زریں ہدایت بھی دیتا ہے اور وہ یہ کہ اس کے حاکم کو ایک ایسے معاملہ میں جو ایک سے زیادہ فریق کے ساتھ تعلق رکھتاہے صرف ایک فریق کی بات سن کر رائے قائم نہیںکرنی چاہئے جب تک کہ سارے متعلقہ فریقین کی بات نہ سن لی جائے۔چنانچہ ہمارے مقدس آقا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
اِذا تقاضیٰ اِلَیکَ رَجُلانِ فَلا تَقض لِلْاَوَّلِ حَتّٰی تَسْمَعَ کلَامَ الآخَرِ فَسَوفَ تَدری کیف تَقْضِی ۔۵۰
یعنی آپ نے حضرت علی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب تمہارے پاس دو آدمی جھگڑا کرتے ہوئے پہنچیں تو ایک آدمی کی بات سُن کر رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کی طرف جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تم دوسرے شخص کی بھی بات نہ سن لو ۔اگر تم اس اصول پر عمل کرو گے تو تمہیں سچے فیصلوں کی طرف ہدایت حاصل ہوگی ‘‘ گویا عدل کے طریق سے ہٹنے کا یہ بھی ایک امکانی رخنہ تھا جو آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں نے بند کردیا
اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ ایک اور سنہری ہدایت جاری فرماتے ہیںاور یہ ہدایت جلد بازی کی عادت سے تعلق رکھتی ہے ۔ بسا اوقات اچھے اچھے سمجھدار آدمی جو اگر ذرا سوچ سمجھ کر کام کریں تو حق کو پالیں۔ جلد بازی کی وجہ سے ٹھوکر کھاتے اور عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے پیارے آقانے بھٹکنے کے اس امکانی خطرہ کو بھی دیکھا او راس کے متعلق فوراً اپنے مبارک کلام سے ایک شمع ہدایت مہیا فرمادی ۔چنانچہ فرماتے ہیں:۔
التودۃ فی کل شئے خیراً لافی عمل الآخرۃ ۔۵۱
اس حدیث کا آزاد ترجمہ یہ ہے کہ دینی احکام کے پورا کرنے میںتو جلدی کیا کرو کیونکہ وہ خدا کی طرف سے فیصلہ شدہ ہدایتیں ہیں لیکن دینیباتوں میں جبکہ تم نے خود کوئی فیصلہ کرنا ہو تو خوب سوچ سمجھ کر آہستگی اور بردباری سے قدم اٹھایا کرو تاکہ جلد بازی کی ٹھوکر سے بچ جائو اور ٹھنڈے غور وخوض کے نتیجے میں صحیح فیصلہ کرسکو ۔
سب سے آخر میںسفارش کا سوال آتا ہے سفارش بھی ذرا سی غلطی سے بھاری ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور آج کل تو اس نے غلط استعمال کی وجہ سے گویا ایک *** کی صورت اختیار کرلی ہے مگر چونکہ یہ ایک لمبا سوال ہے اس لئے میں اس جگہ صرف ایک مختصر اشارہ پر اکتفا کروں گا اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالتی اور قضائی امور میںاسلام نے سفارش کو ممنوع قرار دیا ہے یعنی جب کوئی معاملہ کسی قاضی یا جج یا مجسٹریٹ کے پاس سفارش کرنا جائز نہیںہے ۔چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:۔
مَنْ حالَتَ شَفَاعَتُہٗ دُونَ حَدٌّ مِن حُدُود اﷲِ فقد ضاد اﷲ ۔۵۲
’’یعنی جو شخص ایسی سفارش کرتا ہے کہ اس کی سفارش خدا کی مقررکردہ حدود میں روک ہوجاتی ہے تو وہ خدا کے منشاء کے خلاف چلنے والا ہے اور (پھر فرمایا کہ )مجھ تک پہنچنے سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کو بیشک معاف کر دیا کرو مگر جب مجھ تک (یعنی قاضی یاجج تک ) معاملہ پہنچ جائے توپھر سفارش کا حلقہ ختم ہوکر فیصلہ واجب ہوجاتاہے۔‘‘
لیکن انتظامی معاملات میں جبکہ کسی دوسرے فریق کے حقوق پر اثر نہ پڑتا ہو اور نیک نتائج کی توقع ہو سفارش ہوسکتی ہے اور اس کے متعلق قرآن شریف یہ اصولی ارشاد فرماتا ہے:۔
۵۳
’’یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے تو وہ اس کے ثواب کا حصہ دار بنے گا مگر جو شخص بری سفارش کرتا ہے تو وہ اسی طرح اس کیگنا ہ میں سے بھی حصہپائے گا۔ ‘‘ یعنی جس سفارش کا اثر کسی دوسرے کے جائز حقوق پر نہ پڑتاہو اور وہ اچھے نتائج پید اکرنے والی ہو تو ایسی سفارش ایک نیکی کا کام ہے جس کے ثواب کا حصہ سفارش کرنے والے کو بھی پہنچے گا۔لیکن اگر سفارش کا اثر دوسروں کے جائز حقوق پر پڑتا ہو اور ا سکے نتائج ملک و قوم کے لئے خراب نکلنے والے ہوں تو ایسی سفارش کرنے والا یہ خیال نہ کرے کہ اس نے ایک سفارش کر دی اورمعاملہ ختم ہوگیا ۔بلکہ ایسا شخص یاد رکھے کہ اس کی سفارش کے جو جو بھی برے نتیجے نکلیں گے اور جہاں جہاں تک بھی ان خراب نتائج کا اثر وسیع ہوا سفارش کرنے والاان سب نتائج کے گناہ کا حصہ دار بنے گا ۔مگر افسوس ہے کہ آجکل پچانوے فیصد سفارشیں نیک نتائج پید اکرنے کی بجائے کمزور اور بیکس لوگو ں کے خلاف ظلم اور حق تلفی کا آلہ بنی ہوئی ہیں۔اور ظاہر ہے کہ ایسی سفارش کو قبول کرنے والا بھی عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ کر بھاری گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کاش ہمارے ملک سے یہ روز افزوں *** دور کی جاسکے !
میرا یہ مختصر نوٹ میرے اندازہ سے لمبا ہوگیاہے اور آجکل میری طبیعت بھی علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اب صرف ایک آخری بات کہہ کر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ یہ آخری بات اس اصول سے تعلق رکھتی ہے کہ حکومتیں اور وزارتیں اپنی عمر کو کس طرح لمبا کر سکتی ہیں ۔دنیا میں مرتی تو ہرچیز ہے، مگر کیا یہ نظارہ ہمیںنظر نہیں آتا کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مرجاتا ہے، کوئی دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی دم توڑ دیتا ہے، کوئی چار سانس لیکر ختم ہوجاتا ہے ،کوئی دو چار سال یادس بیس سال کی زندگی گذارنے کے بعداگلے جہاںکا رستہ لے لیتا ہے ۔کوئی عین عالم شباب میں جبکہ جوانی اپنے پورے زور میں ہوتی ہے ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہے، مگر کوئی ا یسا بھی ہوتا ہے جو اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے اور نیک اعمال بجالاکر ددیا میں ایک عمدہ یادگار چھوڑجاتا ہے۔ یہی حال حکومتوںکا ہے وہ بھی کبھی تو پیدا ہوتے ہیمرجاتی ہیںاور کبھی اپنی جوانی کے زمانہ میں کاٹ دی جاتی ہیں مگر کبھی اپنی طبعی عمر پاکر اور اچھے کام کرکے جریدۂ عالم پر اپنا ہمیشگی کا نقش ثبت کرجاتی ہیں۔ہماراکامل و مکمل مذہب اس کیمیاوی گر کی طرف سے بھی غافل نہیںرہا ۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :۔
۵۴
’’یعنی دریائی جھاگ کی طرح کی فضول چیزیں جھاگ کی طرح ہی پیدا ہوکر بے نفع صورت میںختم ہوجاتی ہیں مگر جو چیز لوگوں کو حقیقی نفع پہنچا نے والی ہوتی ہے وہ دنیا میںقائم رہتی ہے۔‘‘ یہ وہ لطیف کیمیاوی نسخہ ہے جس سے ہر حکومت اپنی عمر کو لمبا کرسکتی ہے۔ اگر کوئی حکومت یہ خیال کرے کہ اس نے اس نسخہ کو استعمال کیا مگر پھر بھی وہ جلد مٹ گئی اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تو میںکہوں گا کہ اس نے اپنی حالت اور اپنے اعمال کاصحیح مطالعہ نہیںکیااور غلطی سے برے عمل کو اچھا عمل سمجھ لیاکیونکہ بہرحال خدا کاکلامکبھی بھی جھوٹا نہیں ہوسکتا او ریہ تو وہ صداقت ہے جس پر حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک ہر ملک اور ہر زمانہ مہر تصدیق ثبت کرتا چلا آیا ہے پس چاہو تو ا س نسخہ کو بھی آزمادیکھو۔ پس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ عرض نہیںکروںگا ۔
وَآخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍جون ۱۹۴۸ئ)





موجودہ فسادات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت واضح رؤیا
خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کا وسطِ باغ تباہی سے محفوظ رہے گا
اور
آخری فتح بہر حال حق و صداقت کی ہوگی
گزشتہ فسادات کے ایام میں جب میں قادیان میں تھا تو مجھے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس رؤیا کی طرف توجہ دلائی ۔ جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں گزشتہ فسادات اور قادیان میں جماعت احمدیہ پر حملہ کا نہایت مکمل اور تفصیلی نقشہ دکھایاگیا ہے اور حملہ آوروں کا گویا واضح فوٹو درج کر کے یہ بھی بتا یا ہے کہ وہ فلاں قوم کے لوگ ہوں گے۔ میں نے اس رؤیا اور اس کے ساتھ کی تعبیر کو الفضل قادیان کی اشاعت مورخہ ۳ ؍ستمبر ۱۹۴۷ ء و مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۴۷ ء میں شائع کرا دیا تھا اور اب دوستوں کی اطلاع کے لئے الفضل لاہور میں شائع کر وا رہا ہوں۔ دوست اس نہایت اہم رؤیا کو یاد رکھیں اور اس کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دست بدعا رہیں ۔ خاکسار ۔مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور۔ مورخہ ۱۱ ؍جون ۱۹۴۸ئ۔
میں نے الفضل قادیان میں لکھا تھا کہ:-
اس وقت قادیان اور اس کے ماحول کی جو حالت ہے۔ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بس یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا قادیا ن ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کے چاروں طرف خطرناک آگ بھڑک رہی ہے۔ اور یہ آگ ایک خاص انداز میں لحظہ بہ لحظہ قادیان کے قریب آتی جاتی ہے۔ اس وقت ہم لوگ بالکل بے بسی کی حالت میںخدا کے توکل پر قادیان میں بیٹھے ہیں مگر خدا کے فضل سے ہمارے دلوں میں کوئی گھبراہٹ نہیں۔ بلکہ ہمیں کامل اطمینان حاصل ہے کہ خواہ درمیانی تکالیف کوئی رنگ اختیار کریں۔ خدا کے فضل و کرم سے انجام کار حق و انصاف ہی کی فتح ہو گی۔ اس تعلق میں بعضدوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا کی طرف توجہ دلائی ہے جو حضور نے غالبا ۱۸۹۱ ء یا ۱۸۹۳ ء میں دیکھا تھا اور یہ رؤیاء آئینہ کمالات اسلام کے ص ۷۸ ۵ تا ص ۵۸۱ پر شائع ہو چکا ہے ۔ اس رؤیا کو جو گویا موجودہ حالات کا ایک مکمل نقشہ ہے۔ حضور نے عربی میں درج فرمایا ہے اور حضور کی عبارت کا اردو ترجمہ ( جو مولوی ابو العطاء صاحب نے کیا ہے۔ اور میں نے اردو کے لحاظ سے اس میں معمولی لفظی تبدیلی کی ہے) درج ذیل ہے:
‎ خاکسار:مرزا بشیر احمد قادیان ۲ ؍ستمبر ۱۹۴۷ ء
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے کسی کام کے لئے اپنے گھوڑے پر زین کساہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ میری یہ تیاری کہاں کے لئے ہے اور میرا مقصود کیا ہے۔ ہاں میں اپنے دل میں محسوس کرتا تھا کہ اس وقت مجھے کسی خاص امر کے لئے شغف ہے۔ سو میں اپنے تیز رفتار گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور میں نے اپنے ہمراہ بعض ہتھیار بھی لئے ہیں۔ میں اس وقت اہل تقویٰ و صلاح کی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا تھا۔ لیکن میں سست اور کاہل لوگوں کی طرح بھی نہ تھا۔
بعد ازاں میں نے محسوس کیا کہ مجھے کچھ گھوڑے سواروں کا پتہ لگا ہے جو ہتھیار بند ہو کر مجھے ہلاک و برباد کرنے کے لئے میرے گھر اور مکانات کا قصد کر رہے ہیں۔ وہ گویا مجھے نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو کر آرہے ہیں اور میں تنہا ہوں۔ بایں ہمہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے بجز اس تیاری کے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تعویز مجھے ملی تھی کوئی خود وغیرہ نہیںپہنا ہوا تھا۔ البتہ مجھے اس امر سے نفرت تھی کہ میں خوفزدہ لوگوں کی طرح پیچھے رہنے والوں میں رہوں۔ پس میں تیزی کے ساتھ ایک جہت کی طرف گیا تا اپنے مقصد کو تلاش کروںجو میرے خیال میں دینی اور دنیوی لحاظ سے ایک نہایت اہم اور بڑے ثواب کا کام تھا۔ تب میں نے اچانک ہزارہا لوگ گھوڑوں پر سوار دیکھے جو جلد جلد میری طر ف بڑھ رہے تھے۔
میں انہیں دیکھ کر شیر کی طرح خوش ہوا۔ اور میں نے ان کے مقابلہ اور مزاحمت کے لئے اپنے دل میں طاقت محسوس کی اور میں شکاریوں کی طرح ان کا پیچھا کرنے لگ گیا ۔ پھر میں نے تیزی سے ان کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈالا۔ تا ان کی حقیقت حال معلوم کر سکوں اور مجھے پختہ یقین تھا کہ میں ضرور کامیاب ہوں گا۔سومیں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ میلے کچیلے (دیہاتی) کپڑوں والے اور کریہہ النظر لوگ ہیں اور ان کی شکل و ہئیت مشرک لوگوں کی طرح ہے اور ان کے لباس قانون شکنی کرنے والے فسادی لوگوں کی طرح ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ حملہ آوروں کی طرح گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور مجھے ان کی شکلیں اسی طرح دکھائی دیں۔ جس طرح بیداری میں دیکھنے والے دیکھتے ہیں۔
میں مسلح اور بہادر سپاہیوں کی طرح جلد جلد ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گویا میرے گھوڑے کو کوئی آسمانی قائد اس طرح چلا رہا تھا جس طرح حُدّی خوان اپنے اونٹوں کو چلاتے ہیں اور میں اپنے گھوڑے کے خوبصورتی اور چوکسی کے ساتھ آگے بڑھنے پر تعجب کر رہا تھا۔ بعد ازاں جلد ی ہی وہ لوگ سرعت سے ہجوم کرتے ہوئے میرے باغ کی طرف بڑھے۔ تا میری طاقت اور تدبیر کا مقابلہ کریں۔ اور میرے پھلوں کو تباہ اور میرے درختوں کو برباد کر دیں۔ اور مفسدوں کی طرح میرے باغ پر ڈاکہ ڈالیں۔ ان لوگو ں کا اس طرح میرے باغ میں داخل ہو جانا اور اس میں گھس جانا مجھے وحشتناک اور دہشت ناک معلوم ہوا اور میں سخت بے چین ہو گیا اور میرا دل مضطرب ہو گیا اور میرے قیاس نے اندازہ لگا یا کہ وہ لوگ میرے پھلوں کو برباد کرنے اور میری شاخوں کو توڑنے پھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں اس وقت خیال کرتا تھا کہ یہ وقت مصائب کے ہولناک وقتوں میں سے ایک وقت ہے اور یہ کہ میری زمین دشمنوں کا کیمپ بن رہی ہے۔
میں نے اپنے دل میں بے سروسامان لوگوں کی طرح ڈر محسوس کیا اور میں جلدی جلدی ان لوگوں کی طرف باغ میں گیا تا اصلیت کا پتہ لگائوں۔ جب میں اپنے باغ میں داخل ہوا۔ اور میں نے ادھر ادھر اپنی نگاہ دوڑا کر دیکھا اور ان لوگوں کی اصل حالت اور مقام کا پتہ لگانا چاہا۔ تومیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے فاصلہ پر میرے باغ کے وسطی (اور بہترین حصہ) میں مردہ لوگوں کی طرح گرے پڑے ہیں۔ تب میری بے چینی دور ہوئی اور مجھے اطمینان قلب حاصل ہواپھر میں جلد جلد اور خوش خوش ان کی طرف بڑھا۔ جب ان کے قریب پہنچ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ گویا ایک دفعہ ہی موت کا شکار ہو کر ذلت اور مقہوریت کی موت مر چکے ہیں۔ ان کی کھالیں اتاری جا چکی تھیں اور ان کے سر زخمی کئے گئے تھے اور ان کے گلوں پر چھری پھر چکی تھی اور ان کے ہاتھ اور پائوں کاٹے گئے تھے۔ اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے۔ وہ لو گ اس طرح اچانک لقمہ اجل بن گئے کہ گویا ان پر بجلی گری ہے اور وہ بالکل بھسم ہو گئے ہیں۔
میں موقع پر پہنچ کر ان لوگوں کے گرنے کی جگہ پر کھڑا ہوا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اور میں کہہ رہا تھا کہ اے میرے رب تیری راہ میں میری جان قربان ہو۔ تو مجھ پر رجوع برحمت ہوا۔ اور تو نے اپنے بندے کی ایسی نصرت فرمائی ہے کہ اس کی نظیر کسی جگہ پائی نہیں جاتی۔ اے میرے رب تو نے خود اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو مار دیا۔ پیشتر اس کے کہ دو مقابلہ کرنے والے گروہ مقابلہ کرتے۔ یا دو فریق جنگ کرتے یا دو جانباز دستے نبر دآزما ہوتے۔ اے خدا تو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور تیرے جیسا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔ تو نے مجھے خود بچایا اور مجھے نجات دی ہے۔ ارحم الراحمین خدا اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو میں ان بلائوں سے ہرگز نجات نہ پا سکتا ۔اس کے بعد میں بیدار ہوا۔ اور میں شکر گزاری اور انابت الی اللہ کے جذبات سے لبریز تھا۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین۔۵۵
میں نے اس رؤیا کی تعبیر یہ کی کہ بغیر انسانی ہاتھوں اور ظاہری اسباب کے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح مندی حاصل ہو گی۔ تا خدا تعالیٰ مجھ پر اپنی نعمتوں کو مکمل فرمائے اور مجھے اپنے خاص منعم علیہ گروہ میں شامل فرما دے۔ اب میں اس رؤیاکی تعبیر مفصل بیان کرتا ہوں۔ تا آپ لوگ علی وجہ البصیرت اسے سمجھ سکیں۔ سو یاد رہے کہ سروں کو توڑنے اور زخمی کرنے اور گلوں کو کاٹنے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمنوں کے کبر کو توڑا جائے گا۔ اور ان کی بْڑائی خاک میں ملا دی جائے گی اور ان کی طاقت کو گویا توڑ دیا جائے گا اور ہاتھوں کے کاٹے جانے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمن کی مقابلہ کرنے اور لڑائی کرنے کی طاقت کو زائل کر دیا جائے گا اور انہیں عاجز بنا دیا جائے گا۔ اور انہیں مومنوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کے خلاف لڑائی کی تدبیریں کرنے کے ناقابل کر دیا جائے گا۔ اور ان سے لڑائی کے ہتھیار چھین لئے جائیں گے اور انہیں مخزول اور مطرود ینا دیا جائے گا اور انہیں بے دست و پا کر دیا جائے گا اور رؤیا میں پائوں کا کاٹا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ان پر حجت قائم ہو جائے گی اور ان پر فرار کا رستہ بند کر دیا جائے گا۔اور ان پر الزام پورے طور پر قائم ہو جائے گا اور وہ گویا قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ اس خدا کے ہاتھوں ہو گا جسے تمام طاقتیں حاصل ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے جسے چاہتا ہے شکست دیتاہے جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے اور کوئی شخص اسے عاجز نہیں کر سکتا۔
وہ لوگ جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور اس کے بندوں کو اذیت پہنچائی اور اس کی آیات اور جزا سزا کا انکار کیا وہی لوگ ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس ہو ں گے۔ اور ان کے خیالات ان کی تباہی کا موجب بنیں گے اور ان کا تکبر انہیں ہلاک کر دے گا۔اور ان کے سارے اعمال اور کوششیں اہل حق و صداقت کے مقابلہ پر رائیگاں جائیں گی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوں گے۔
اے ایماندارو! تم خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور خدا کی طرف بلانے والے کی آواز کو قبول کرو اور پیچھے رہو اور صادقوں کے ساتھ مل جائو۔ دیکھو میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے اور میں تمہارا ادنیٰ خیر خواہ ہوں۔ مگر میں ان لوگوں کی حالت پر جو کہ اپنے خیر خواہوں سے دشمنی رکھتے ہیں کیونکر افسوس اور غم کر لوں۔‘‘ ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام صفحہ۱۱۸ (مطبوعہ الفضل ۱۳؍جون ۱۹۴۸ئ)
غیر مسلموں کو امداد دینے والے احمدی توجہ کریں
جن احمدی بھا ئیوں نے گزشتہ فسادات کے ایام میں یا ان کے قریب اپنے علاقہ کے بعض مظلوم غیر مسلموں کی امداد کی ہو اور ان کی جان اور مال کی حفاظت میں حصہ لیا ہو۔ وہ واقعہ کی مفصّل رپورٹ لکھ کر میرے نام بھجوا دیں تاکہ یہ ریکارڈ مکمل کیا جا سکے۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزکی یہ ہدایت تھی کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت جو شخص بھی مظلوم ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کی امداد کرنی چاہیئے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے دوستوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اس اسلامی تعلیم کو پورا کیا ہے۔ مگر ضرورت ہے کہ یہ ریکارڈ مکمل طور پر ضبط میں آجائے تاکہ ہم غیر اسلامی دنیا کو بتا سکیں کہ جہاں مشرقی پنجاب اور دہلی وغیرہ میں مسلمانوں پہ یہ یہ مظالم ڈھائے گئے ہیں وہاں اس کے مقابل پر مسلمان غیر مسلمو ں کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اگر کسی دوست کو یہ خیال ہو کہ وہ اس سے پہلے اطلاع دے چکے ہیں تو پھر بھی وہ احتیاطاً دوبارہ لکھ دیں اور جہاں تک ممکن ہو واقعہ کی پوری پوری تفصیل درج کریں۔ یعنی اپنا نام اور پتہ، مظلوم وغیر مسلم کا نام اور پتہ، تاریخ جائے وقوع اور واقعہ کی تفصیل وغیرہ۔جملہ امراء ،پریذیڈنٹ صاحبان یہ ہدایت اپنے اپنے حلقہ میں پہنچا دیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍جون ۱۹۴۸ئ)




خدا تعالیٰ کی بندہ نوازی کا ایک خاص منظر
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی یادگاریںسب محفوظ ہیں
آج جب میں مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان کو ایک خط لکھا رہا تھا تو اس ضمن میں میری توجہ ایک ایسے روحانی نکتہ کی طرف منتقل ہوئی۔ جس کی طرف اس سے پہلے اس رنگ میں اور اس شدت کے ساتھ خیال نہیں گیا تھا۔ سو میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے اس خط کی نقل دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھی شائع کرادوں۔ لہذا یہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
‎ خاکسار: مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور۔۱۹۴۸۔۶۔۱۷
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی محترمی مولوی عبد الرحمن صاحب
امیر مقامی قادیان
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
آج منشی محمد صادق صاحب کے بھجوائے ہوئے چار سو ستر روپے (۴۷۰) وصول ہوئے جن میں سے ۲۱۰ روپے حضرت اماں جان (ام المومنین) کے باغ کے حساب میں ہیں اور ۲۶۰ روپے میاں عزیز احمد صاحب اور میاں رشید احمد صاحب کے باغ کے حساب میں اور منشی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نصف رقم ہے اور بقیہ نصف جولائی میں وصول ہو گی۔ جزاکم اﷲ خیراً۔ مگر منشی صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ میری تاکید کے باوجود آپ نے قادیان کے درویشوں کے لئے پھل کی جنس بہت تھو ڑی رکھی ہے۔ اول تو میری خواہش تھی کہ سارا پھل ہی دوستوں کے استعمال میں آتا۔ لیکن ایک روحانی نکتہ کی وجہ سے جس کا میں آگے چل کر ذکر کرتا ہوں۔ میں اس خیال سے رک گیا مگر بہرحال میری یہ تاکید تھی کہ جنس کافی و شافی رکھی جائے۔ مگر آپ نے آموں کی جنس فی باغ ایک ایک من رکھی ہے۔ تین سو کی آبادی میں دومن کی جنس کیا حقیقت رکھتی ہے۔ مکرم مولوی صاحب آپ نے مجھ پر ظلم کیا ہے کہ دوستوں کی خدمت اور مہمانی کے موقع سے مجھے محروم کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ مقبرہ بہشتی کا باغ اور ہر دو باغیچوں کا پھل جوفروخت نہیں کیا گیا۔ جنس کے علاوہ ہو گا مگر پھر بھی دو من کی جنس بہت تھوڑی ہے۔ آپ بلا توقف ایک ایک من کی جنس کو بڑھا کر تین تین من کی جنس کر دیں۔ یعنی ہر دو باغیچوں پر چھ من کی جنس ہو جائے اور اس کے مقابل پر بقیہ رقم میں سے اس زائد جنس کی قیمت کے مطابق منہائی کر دی جائے۔
(۲) روحانی نکتہ جو میرے مد نظر ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے جو جائداد حضرت اماں جان نے براہ راست پائی تھی۔ وہ یہی ثمر دار باغ تھا جو حضور نے ایک دینی غرض کے ماتحت حضرت امان جان کے پاس رہن رکھا تھا۔ اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ آج بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے اور ان کی سب جائیدادیں غیر مسلموں کے ہاتھ میں جا چکی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جائیدا دجو حضور کے ہاتھوں سے براہ راست حضرت ام المومنین کو پہنچی تھی، وہ اب بھی صحیح سلامت موجود ہے اور حضرت اماں جان کو اس کی آمد وصول ہو رہی ہے۔ غالباً بلکہ یقینا اس وقت سارے مشرقی پنجاب میں کوئی ایسی مثال موجود نہیںکہ ایک شخص فسادات کے نتیجہ میں مجبور ہو کر مغربی پنجاب آ گیا ہو اور پھر بھی اس کی مشرقی پنجاب والی جائیداد اُسے آمد دے رہی ہو۔ روپے کا تو کوئی سوال نہیں مگر ہمارے رحیم و کریم خد اکی یہ کتنی نکتہ نوازی اور ذرہ نوازی ہے کہ اس نے گزشتہ قیامت خیز طوفان میں بھی حضرت اماں جان کی اس جائیداد کو محفوظ رکھا ہے جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوںسے براہ راست پہنچی تھی۔ اور اس جائیداد کی آمد اب بھی حضرت اماں جان کو مغربی پنجاب میں پہنچ رہی ہے۔
۵۶
دوستوں کو یہ نکتہ بتا دیں اور سمجھا دیں ۔۵۷
(۳) اس تعلق میں میرا خیال اس روحانی نکتہ کی طرف بھی منتقل ہوا کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے پیارے مرکز پر بھی بھاری امتحان کا وقت آیا۔ یعنی قتل و غارت ہوا جائیدادیں لوٹی گئیں۔ بعض جانیں بھی ضائع ہوئیں اور جماعت کے بیشتر حصہ کو مجبور ہو کر قادیان سے نکلنا پڑا مگر باوجود اس بھاری امتحان کے اللہ تعالیٰ نے قادیان میں ان جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا۔ جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنی زندگی اور وفات میں ذاتی تعلق قائم رہا ہے اور وہ ہمارے لئے خاص مقدس یادگاروں کا رنگ رکھتی ہیں۔ مثلا وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا ہوئے۔ وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی گزاری۔ وہ مسجد جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود خدائی بشارت کے ساتھ اپنے مکان کے متصل تعمیر کیا اور اس میں اپنی بے شمار نمازیں ادا کیں۔ وہ مسجد جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جمعہ کی نمازیں پڑھیں اور اسی میں ایک عید الاضحٰے کے موقع پر الہامی خطبہ دیا۔ وہ مینارہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدائی منشاء کے ماتحت ایک خاص علامت کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کیا۔ وہ بیت الدعا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خدا کے حضور اپنی خاص دعائیں پیش کرنے کے لئے اپنے مکان کے ایک حصہ میں بنائی۔ وہ باغ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زلزلہ کے ایام میں تین مہینے جا کر ٹھہرے اور اس میں کئی دفعہ اپنے دوستوں کو اپنے ساتھ لے جا کر پھل کی دعوت دی۔ اور اس میں ہماری بہت سی عیدیں اور جنازے ہوئے اور اسی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا جنازہ بھی پڑھا گیا۔ اور اسی میں حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی پہلی بیعت ہوئی۔ اور بالآخر وہ مقدس مقبرہ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدائی بشارتوں کے ماتحت بنیاد رکھی اور اسی میں حضور کا جسد خاکی دفن ہے۔ یہ سب جگہیں وہ ہیں جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا براہ راست ذاتی واسطہ رہا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے اور اس کی بندہ نوازی کہ اس نے اتنی بھاری تباہی کے باوجود ان ساری جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا ہے اور اب بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے، ہمارے یہ مقدس مقامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام اور درویشوں سے آباد ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ:

مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ کسی خدا ئی تقدیر کے ماتحت ایک عمارت کو آگ لگی اور بظاہر سب کچھ جل کر خاک ہو گیا۔ مگر اس گھر کے اندر پڑی ہوئی بعض مقدس چیزوں کو خدا کے فرشتوں نے اپنے ہاتھوں میں محفوظ کر لیا۔ کل کو کیا ہو گا یہ خداجانتا ہے ہمیں اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے لئے خدا نے اتنی میٹھی قاشیں مہیا کر رکھی ہیں کہ اگر ایک آدھ اور تلخ قاش بھی کھانی پڑے تو ہمارے دل یقینا پھر بھی اس کے شکر گزار رہیںگے اور ہم یہ بھی جانتے اور یقین رکھتے ہیںکہ اگر کسی دشمن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس وسط باغ پر ہاتھ ڈالا تو خدا کے اس وعدہ کا وقت بھی جلد تر آ جائے گا۔ جس کی آئینہ کمالات اسلام والے رؤیامیں خبر دی گئی ہے ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم
(۴) میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچا دیں اور دعا کے لئے تحریک کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے اور اس روحانی مقصد کو پورا فرمائے ،جس کے لئے آپ لوگ گویا دنیا سے کٹ کر قادیان میں درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ آمین فقط۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍جون ۱۹۴۸ئ)
حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم و مغفور کی وصیت
حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کو جب ناک کے رستہ دماغ میں پانی جانے کی بیماری کا آغاز ہوا تو وہ اس کے علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور میاںغلام محمد صاحب اختر کے مکان پر قیام کیا۔ان دنوں میں حضرت میر صاحب مرحوم نے ایک وصیت لکھی تھی جو اتفاق سے اب قادیان کے کاغذات میں سے دستیاب ہوئی ہے۔ یہ وصیت میر صاحب مرحوم کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جسے میں پہچانتاہوں۔اورگو پنسل سے لکھی ہوئی ہے مگر اس وقت تک اس کے سب الفاظ اور حروف اچھی طرح پڑھے جاتے ہیں بالآخر حضرت میر صاحب نے چار سال بعد اسی بیماری سے قادیان میں وفات پائی اور اپنی خواہش کے مطابق مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ فِیْ اَعلٰی عِلِّیِیْن
خاکسار :۔ مرزا بشیراحمد رتن باغ لاہور
’’وصیت :الحمدللہ اس وقت میرے ہوش وحواس قائم ہیں
اشھد ان لاالہ الااﷲ واحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ
مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ اس وقت صرف مذہب اسلام موجب نجات ہے میں چھ ارکان پر ایمان رکھتا ہوں۔پانچ بناء اسلام کا قائل ہوںمیں سنی ، شیعہ یا خوارج میں سے نہیں غیر مقلدہوں۔ آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد نہیں گو چاروں کا خاک پاہوں۔اول قرآن پھر تواترپھر حدیث کو حجت سمجھتا ہوں۔ حضرت مرزاغلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتا ہوںمبائع ہوں غیر مبائع نہیں۔ نورالدین کو ابوبکر کا اور موجودہ امام جماعت احمدی کو عمر کا مثیل سمجھتا ہوں۔مجھے یقین ہے کہ ہماری جماعت تبھی صحیح معنوں میں احمدی رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ خلیفہ وقت کے ماتحت ایک انجمن ضرور انتظامی اور مالی معاملات کے لئے ہونی چاہئے۔ قادیان کو خدا کے رسول کا پایہ تخت اورا حمدیت کاابدی مرکز یقین کرتا ہوںبہشتی مقبرہ کو واقعہ میں بغیر کسی تاویل کے یقین بہشتیوں کامدفن سمجھتا ہوں میںموصی ہوںتمام حساب صاف ہے ۔میرے پچہتر روپے سپریٹنڈنٹ احمدیہ ہوسٹل کے پاس جمع ہیںاگر میں یہاں فوت ہوجائوں میری نعش ضرور اس خاکی مقام پر پہنچادی جائے جسے بہشتی مقبرہ کہتے ہیںاور یہ میری واحد خواہش ہے ۔اللہ تو میر اانجام بخیر فرما ۔
سید محمد اسحق مسافر لاہور
نوٹ:۔ اگر میں فوت ہوجائوں تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ اور حضرت ام المومنین سلمہا اللہ کو میرا سلام پہنچا دیں ‘‘۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۰؍جون ۱۹۴۸ئ)




۳؍ جولائی والا کانوائے قا دیان نہیں جا سکا
بعض دوستوں کے خط آ رہے ہیں کہ جو کانوائے ۳ جولائی ۱۹۴۸ ء کو قادیان جانا تھا۔ کیا وہ قادیان سے ہو کر واپس نہیں آیا۔ سو تمام دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ افسوس ہے کہ حکومت مشرقی پنجاب کی طرف سے ایک روک پیدا ہو جانے کی وجہ سے ۳؍ جولائی والا کانوائے ابھی تک قادیان نہیں جا سکا۔ اس کے نتیجہ میں جن دوستوں نے قادیان سے واپس آنا تھا وہ بھی واپس نہیں آ سکے۔ اس روک کے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جونہی کہ خدا کے فضل سے یہ روک دور ہو جائے گی فوراً لاہور میں رکے ہوئے دوست قادیان روانہ ہو جائیں گے اور قادیان سے آنے والے دوست واپس آ جائیں گے ۔ دوست دعا کرتے رہیں۔ انشاء اللہ وقت آنے پر میرے قائم مقام عزیز مرزا ظفر احمد سلمہ کی طرف سے اطلاع کر دی جائے گی۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا بخار خدا کے فضل سے ٹو ٹ گیا ہے۔ مگر ابھی تک کمزوری اتنی ہے کہ بستر میں لیٹے لیٹے چند سطریں لکھنے سے بھی طبیعت نڈھال ہو جاتی ہے۔ یہ بخار ڈینگیو قسم کا تھا۔ جس نے سات دن میں ہی بالکل مضمحل کر دیا ہے۔ میں دوستوں کی دعائوں کا متمنی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی خدمت کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی خاص رضا کی موجب ہو۔
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)



رمضان کی برکات سے پورا فائدہ اٹھائیں
رمضان ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے اور انسان نہیںکہہ سکتا کہ موجودہ رمضان کے بعد اسے اگلا رمضان میسر آئے گا یا نہیں۔ پس ذیل کے سات طریقوں پر رمضان کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں
۱۔ بغیر شرعی عذر کے کوئی روزہ ترک نہ کریں اور روزہ میں محض خدا کی رضا کے حصول کو مد نظر رکھیں۔
۲۔ رمضان میں تہجد کی پابندی اختیار کریں اور فرض نمازوں پر زیادہ پختہ ہو جائیں
۳۔ قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت کریں اور کوشش کریں کہ رمضان میں قرآن شریف کے دو دور مکمل ہو جائیں۔ تلاوت میں ساتھ ساتھ ہر امر اور ہر نہی پر غور کرتے جائیں۔
۴۔ رمضان میں دعائوں پر بہت زور دیں حتی کہ گویا مجسم دعا بن جائیں۔ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے علاوہ اس رمضان میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی بہت دعائیں کریں
۵۔ رمضان میں صدقہ و خیرات پر زور دیں اور اپنے مالوں میں غریبوں اور مسکینوں اور بیوائوں اور یتیموں کو حصہ دار بنائیں۔
۶۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریک کے مطابق اپنی کسی ایک کمزوری کو ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر پُختہ طور پر جم جائیں اور اُسے ہمیشہ کے لئے نبھائیں ۔ کمزور ی دور کرنے کے عہد میں کس خاص نیکی کے اختیار کرنے کا عہد بھی شامل ہو سکتا ہے۔
۷۔ جسے توفیق میسرہو اُس کے حالات اجازت دیں وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف میںبیٹھے اور ان دس دنوں میں اپنے آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کریم اور دعائوں کے لئے گویا وقف کر دے ۔فا ستبقوا الخیرات یا اولی الابصار۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۴۸ئ)

دوستو! قادیان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھو
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور دعائوں کی قبولیت کے خاص دن ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریںکہ اللہ تعالیٰ ہمارا پیارا مرکز ہمیں جلد تر واپس دلا دے اور ایسی صورت میں واپس دلائے کہ ہم اپنے جماعتی پروگرام کو پوری پوری آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیںورنہ اس کے بغیر نام کی بحالی چنداں مفید نہیں ہو سکتی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍جولائی ۱۹۴۸ئ)








رمضان میں دائمی نیکی کا عہد کرنے والی خواتین
میں نے کسی گذشتہ رمضان میں جماعت کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریک پیش کی تھی کہ رمضان کا مہینہ چونکہ خصوصیت کے ساتھ نیکیوں اور ثواب کے حصول کا مہینہ ہے۔ اس لئے اگر کسی کو توفیق ملے تو اسے چاہئے کہ اس مبارک مہینہ میں اپنی کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا خدا سے عہد کرے یا اس کے مقابل پر کسی ایسی نیکی کے التزام کا عہد کرے جس کی طرف سے وہ آج تک غفلت برتتا رہا ہے اور پھر اپنے اس قلبی عہد کو جس کی تفصیل کا اظہار نہیں ہونا چاہئے، زندگی بھر نبھانے کی کوشش کرے تاکہ اس کا رمضان اس کے لئے اصلاح نفس کا ایک عملی ذریعہ بن جائے۔ اوروہ ان کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پاسکے جو خدا تعالیٰ نے اس مبارک مہینہ کے ساتھ وابستہ فرمائی ہیں۔ میری اس سابقہ تحریک پر اس سال بعض مستورات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک کے ماتحت اس قسم کا عہد کیا ہے۔ ان خواتین کے اسماء گرامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں تا دوسروں کے لئے بھی شرکت اور دعا کی تحریک کا موجب ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک عہد کو پورا کرنے اور اس پر تازیست قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ساتھ ہی دوست اس موقع پر حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کے واسطے بھی دعا فرمائیں۔ جن کے ذریعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مبارک تحریک پہنچی تھی۔ خواتین کی فہرست درج ذیل ہے ۔
(۱) امتہ الحفیظ اختر اہلیہ شیخ فضل الرحمن صاحب اختر
(۲) سیدہ آنسہ بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس
(۳) سیدہ امۃ الہادی بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم
(۴) سیدہ امۃ القدوس بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم
(۵) سیدہ بشریٰ بیگم بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم
(۶) سراج بی بی صاحبہ کلرک دفتر لجنہ اماء اللہ
(۷) صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ
(۸) سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ
(۹) سیدہ تنویر الاسلام بیگم صاحبہ
(۱۰) صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ
(۱۱) صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ
(۱۲) دولت بی بی زوجہ حبیب اللہ صاحب
(۱۳) امۃ الوہاب بیگم ضیاء اہلیہ محمد لطیف صاحب
(۱۴) عنایت بیگم زوجہ بشیر احمد صاحب
(۱۵) حمیدہ بیگم اہلیہ محمد امین صاحب
(۱۶) امۃ القیوم بیگم بنت مستری عبد العزیز صاحب
(۱۷) امۃ الرشید بیگم اہلیہ نسیم احمد صاحب
(۱۸) چراغ بی بی اہلیہ منشی محمد ابراہیم صاحب
(۱۹) سر ور سلطان بیگم اہلیہ دائود احمد صاحب
(۲۰) زینت بی بی اہلیہ مستری عبدالعزیز صاحب
(۲۱) خورشید بیگم بنت حبیب اللہ صاحب
(۲۲) مریم بیگم اہلیہ پیر مظہر الحق صاحب
(۲۳) بلقیس بیگم بنت عبد العزیز صاحب
(۲۴) امتہ الرشید بیگم اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب
(۲۵) خدیجہ بیگم والدہ حمیدا حمد صاحب
(۲۶) دولت بی بی والدہ خدیجہ بیگم صاحبہ
(۲۷) عائشہ بی بی اہلیہ کرم دین صاحب
(۲۸) نواب بی بی اہلیہ احمد دین صاحب
(۲۹) نواب بی بی اہلیہ فتح محمد صاحب
(۳۰) حمید ہ بیگم بنت کرم دین صاحب
(۳۱) رشیدہ بیگم بنت کرم دین صاحب
(۳۲) رفیعہ بیگم اہلیہ عبد الغنی صاحب
(۳۳)حشمت بی بی اہلیہ مہر الدین صاحب
(۳۴) عالم بی بی اہلیہ چراغ الدین صاحب
(۳۵) رحمت بی بی اہلیہ فقیر محمد صاحب
(۳۶) دائی اما من صاحبہ
(۳۷) امتہ الحفیظ بیگم اہلیہ نذیر احمد صاحب ڈرائیور
(۳۸)سعیدہ بیگم اہلیہ سید احمد صاحب
(۳۹) استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی ؓ صاحب
(۴۰) استانی محمدی بیگم
(۴۱) لیلیٰ اہلیہ محمد اشرف صاحب شہید
(۴۲) ہاجرہ نرس صاحبہ
(۴۳) امتہ الحفیظ بنت ہاجرہ نرس
(۴۴) امتہ الوہاب بیگم بنت مومن جی
(۴۵) مومنہ بیگم بنت مومن جی
(۴۶) فضل بی بی اہلیہ مومن جی
(۴۷) امتہ اللطیف صاحبہ بنت میاں عبدا لرحیم صاحب درویش قادیان
(۴۸) امتہ الرحمن صاحبہ بنت مومن جی صاحب
(۴۹) آمنہ بیگم اہلیہ میاں عبد الرحیم صاحب درویش قادیان
(۵۰)والدہ سراج بی صاحبہ کلرک لجنہ
(۵۱)آمنہ اہلیہ گل نور صاحب مرحوم
(۵۲) زلیخا اہلیہ عنایت اللہ خان صاحب
(۵۳) مریم اہلیہ بازید خان صاحب مرحوم
(۵۴) مریم بنت عنایت اللہ خان صاحب
(۵۵) مائی راجو صاحبہ
(۵۶) رسول بیگم اہلیہ مفتی فضل الرحمن صا حب
(۵۷) مجیدہ بیگم اہلیہ مولوی جلال الدین قمر صاحب مبلغ
(۵۸) سکینہ بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب
(۵۹) بیگم بی بی والدہ مولوی جلال الدین صاحب قمر مبلغ
(۶۰)دولت بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب
(۶۱)سردار بیگم اہلیہ جلال الدین صاحب
(۶۲)جانو اہلیہ عبداللہ بوڑی مرحوم
(۶۳)ہاجرہ بیگم اہلیہ فتح محمد صاحب قادیان
(۶۴)حسین بی بی والدہ نذیر احمد
(۶۵)زینب اہلیہ فقیر محمد مرحوم
(۶۶)مختاراں اہلیہ منظور احمد صاحب
(۶۷)مائی عائشہ
(۶۸)زینت اہلیہ نور محمد صاحب
(۶۹)مہراں اہلیہ فضل احمد صاحب درویش قادیان
(۷۰)شریفہ بنت ٍ ٍ ٍ
(۷۱)بھابھی زینب صاحبہ
(۷۲)بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ صاحب مرحوم
(۷۳)امتہ الرحمن صاحب اہلیہ مرزا احمد شفیع صاحب شہید
(۷۴)سیدہ ام دائود صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم
قادیان حال چنیوٹ
(۷۵) امتہ المجید بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس
(۷۶)زرینہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب چنیوٹی
(۷۷)عابدہ خاتون بنت چوہدری ابو الہاشم خاں صاحب مرحوم تعلیم القرآن کلاس
قادیان حال گو بند گڑھ گوجرانوالہ
(۷۸)شمسہ بیگم اہلیہ سید سفیر الدین بشیر احمد
قادیان حال شیخوپورہ
(۷۹)امتہ الحیٔ بیگم مرغوب بنت ایچ ایم مرغوب اللہ تعلیم القرآن کلاس

قادیان حال راولپنڈی
(۸۰) امتہ الحفیظ بیگم بنت قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی تعلیم القرآن کلاس
قادیان حال ۴ میکلورڈ روڈ لاہور
(۸۱)سیدہ خیر النساء بیگم والدہ سید بشیر احمد صاحب
اندرون بھاٹی گیٹ ۔محلہ پٹرنگاں لاہور
(۸۲)محمودہ نزہت بنت محمد اقبال صاحب
(۸۳)ممتاز اختر صاحبہ
(۸۴)غلام جنت بیگم زوجہ جان محمد صاحب
(۸۵)رضیہ بیگم بنت مستری نذر محمد صاحب
(۸۶)بختاور بیگم زوجہ علی محمد صاحب
(۸۷)ممتاز بیگم زوجہ غلام نبی صاحب
(۸۸)خورشید بیگم زوجہ حکیم ظہور الدین صاحب
(۸۹)زوجہ غلام محمد صاحب
(۹۰) سلیمہ بیگم صاحبہ
(۹۱)برکت بی بی زوجہ حکیم سراجدین صاحب
(۹۲) ہاجرہ بیگم زوجہ عبد المجید صاحب
(۹۳)امتہ القیوم بیگم زوجہ عبد الرحمٰن صاحب
(۹۴)ممتاز بیگم زوجہ نذیر احمد صاحب
(۹۵)انوار سلطانہ زوجہ محمد اشرف صاحب
راوی روڈ۔ لاہور
(۹۶)زوجہ امیر الدین صاحب پہلوان
(۹۷)اصغری بیگم بنت مولوی سراج الحق صاحب
ضلع ہوشیار پور حال لائلپور
(۹۸)بشارت النساء بیگم بنت غلام جیلانی صاحب تعلیم القرآن کلاس
دہلی حال میکلوڈ روڈ لاہور
(۹۹)بیگم شفیع احمد صاحب دہلوی
(۱۰۰)تسنیم شفیع احمد صاحب
(۱۰۱)حمیدہ اہلیہ عبد الغفور صاحب مرحوم
(۱۰۲) سیدہ امتہ اللہ بیگم اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب
چنیوٹ محلہ گڑھا
(۱۰۳) سارہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی
(۱۰۴) صفیہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی
(۱۰۵)قانتہ بیگم بنت خواجہ عبد الرحمن صاحب تعلیم القرآن کلاس
(۱۰۶) عنایت بیگم اہلیہ مستری نذر محمد صاحب بھاٹی گیٹ محلہ پٹر نگاں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)




اپنے امام کی تحریک کو کامیاب بنائو
فارغ البال دوست قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں
قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھانے اورثواب کمانے کا بہترین موقع
گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایَّدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک فرمائی تھی کہ چونکہ موجودہ حالات میں قادیان کی احمدی آبادی کا بار بار تبادلہ مشکل ہے اور اس میں بعض قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ اس لئے جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ البال ہو چکے ہوں، انہیں چاہئے کہ قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں اور مقدس مرکز سلسلہ میں مستقل رہائش اختیار کر کے قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں۔ حضور کی اس تحریک پر بعض دوستوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض قادیان جا چکے ہیں اور بعض کانوائے کی انتظار میں ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک حضور کی یہ مبارک اور ضروری تحریک سب دوستوںتک نہیں پہنچی کیونکہ جس تعداد میں نام آنے چاہئیں تھے ابھی تک اس تعداد میں نہیں آئے۔ پس اس اعلان کے ذریعہ یہ تحریک دوبارہ جماعت تک پہنچائی جاتی ہے۔ پریزیڈنٹ اور امراء صاحبان کو چاہئے کہ حضور کی یہ ضروری تحریک سب دوستوں تک پہنچا دیں اور نا م پیش کرنے والے دوستوں کی فہرست جلد تر تیار کر کے دفترحفاظت قادیان جو دہامل بلڈنگ، جودھامل روڈ لاہور میں بھجوا دیں۔ یہ موقع دوہرے ثواب کا موقع ہے۔ یعنی ایک تو خدمت مرکز کا ثواب اور دوسرے قادیان کی برکات کا حصول۔ مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور دوسرے درویشان قادیان کے مضامین سے دوستوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات کے نتیجہ میں آج کل قادیان کی زندگی کتنے روحانی فیوض سے معمورہے۔ گویا کہ اس کے لیل و نہار مجسم روحانیت بن چکے ہیں۔ کیونکہ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو دنیا کے دھندوں سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ روحانی مشاغل کے لئے وقف ہے۔ قرآن و حدیث کا درس ۔ نوافل۔ نمازوں اور خصوصاً تہجد کا التزام۔ خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی دعائوں کا پروگرام۔ نفلی روزوں کی برکات اور پھر دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بابرکت گھر اور بیت الدعا اور مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ذکر الہٰی کے موقعے۔ یہ وہ عظیم الشان نعمتیں ہیں، جن سے جماعت کا بیشتر حصہ آج کل محروم ہے۔ مگر آپ کے لئے تھوڑی سی قربانی کے نتیجہ میں ان نعمتوں کا دروازہ کھل سکتا ہے اور قادیان کا موجودہ ماحول ان نعمتوں سے بہترین صورت میں فائدہ اٹھانے کا موقع پیش کرتا ہے ۔پس جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو چکے ہوں یا اپنے آپ کو فارغ کر سکیں، ان کے لئے خدمت اور ثواب کا بہترین موقع ہے ۔ وہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئیں۔ اور اس مبارک موقع سے جس سے زیادہ مبارک موقع غالبا ًاس رنگ میں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اپنی زندگیوں کو روحانی برکات سے مزیّن کرلیں اور پھر جو لوگ موصی ہیں ان کے لئے اس نعمت کا رستہ بھی کھلا ہے کہ اگر اس عرصہ میں ان کی وفات مقدر ہو تو ادھر ادھر امانتاً دفن ہونے کی بجائے وہ براہ راست مقبرہ بہشتی میں پہنچ کر بلا توقف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسمانی اور روحانی قرب حاصل کر سکتے ہیں اور بالآخر کیا معلوم کہ ہمارے قادیان کے درویشوں کی عاجزانہ دعائیں ہمارے پیارے مرکز کو جلد تر واپس دلانے میں بھی خدا کے حضور زیادہ مؤثر ثابت ہوں۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات یَا اُولِی الْاَبْصَار۔
‎(مطبوعہ الفضل۲۱ ؍جولائی ۱۹۴۸ئ)






قادیان میں جماعت کی واپسی کس صورت میں ہو گی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات پر ایک سرسری نظر
کچھ عرصہ ہوا میں نے لکھا تھا کہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الہاموں اور خوابوں کو ایک جگہ جمع کر کے جن میں جماعت کے قادیان سے نکلنے اور پھر قادیان میں واپس آجانے کے متعلق خدائی اطلاع ہے، ایک تبصرہ لکھوں گا۔ چنانچہ میں نے اس معاملہ میں کچھ تیاری بھی کی مگر پھر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ لیکن اب مجھے خیال آتاہے کہ فی الحال میں صرف قادیان کی واپسی کے متعلق ( نہ کہ قادیان سے نکلنے کے متعلق) ایک مختصر نوٹ میں یہ بتا دوں کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور خوابوں سے واپسی کی کیا صورت ثابت ہوتی ہے۔ تا اگر کسی دوسرے دوست کو توفیق ملے تو وہ اس بارے میں مزید تحقیق کر کے اس مضمون کے سارے پہلوئوں کو مکمل کر سکے۔ اور اس میں قادیان پر حملہ ہونے اور قادیان سے نکلنے والے الہاموں کو بھی شامل کرلے۔ بہر حال میرا ذیل کا نوٹ ایک اشارہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور میں نے اس میں لیا بھی صرف چند الہاموں کو ہے کیونکہ اس وقت میری طبیعت علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
(۱) سب سے پہلی بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدائی تقدیر کے ماتحت جماعت احمدیہ ایک وقت کے لئے اپنے مرکز سے نکلنے پر مجبور ہو گی تو پھر اس کے بعد اسے فوراً ہی واپس جانے کا موقع نہیں ملے گاکیونکہ واپسی پر بعض ایسی روکیں ہوں گی کہ واپسی کی بعض ابتدائی کوششیں لازما ًناکام جائیں گی۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک رؤیا ذیل کے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:-
’’ میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ ایک دو آدمی ساتھ ہیں۔ کسی نے کہا راستہ بند ہے۔ ایک بڑابحرِ ذخّار چل رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے، جیسے سانپ چلا کرتا ہے۔ ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے۔‘‘ ۵۸
اس رویاء سے ظاہر ہے کہ قادیان میں جماعت کی واپسی کے راستہ میں بعض بھاری روکیں ہیں۔ اور واپسی کا راستہ غیر معمولی خطرات سے پُر ہے۔ جس کی وجہ سے کم از کم واپسی کی ایک ابتدائی کوشش خدائی تقدیر کے ماتحت ناکام ہونی مقدر ہے۔
(۲) لیکن دوسرے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی ناکامی کے بعد خدا کے فضل سے یہ روکیں دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور قادیان کی واپسی کا راستہ کھل جائے گا مگر بعض مکاشفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واپسی تدریجی رنگ میں ہو گی اورواپسی کی پہلی قسط ایسے حالات میں ہوگی کہ قادیان میں گویا ابھی ظلمت اور تاریکی کا ماحول قائم ہو گا۔ اور جماعت اپنے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی اور تنظیمی پروگرام کو پوری آزادی کے ساتھ نہیں چلا سکے گی اور اس کا راستہ تاریکی کی ٹھوکروں میں مبتلا ہو گا۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک غیر مطبوعہ رؤیا کا پتہ لگا ہے جو نہ معلوم کس غلطی کی وجہ سے چھپنے سے رہ گیا ہے مگر اس کا ثبوت خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریری یادداشتوں میں ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’ میں نے دیکھا کہ میں کسی باہر کے مقام سے قادیان آیا ہوں مگر اس وقت قادیان کی گلیوں میں سخت اندھیرا ہے۔ حتیٰ کہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر چلنا پڑتا ہے اور ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا۔ میں ان مکانوں کے پاس سے جو ہمارے مکان کے ساتھ سکھوں کے ہیں اس گلی میں سے ہوتا ہوا جس کے پاس وہ گوردوارہ واقع ہے جو کسی زمانہ میں مسجد ہوتا تھا کشمیریوں کی گلی کی طرف رستہ ٹٹولتا ہوا جاتا ہوں اور یہ دعا کرتا رہتا ہوں رَبِّ تجلّٰی رَبِّ تَجلّٰی (یہ الفاظ میں نے اپنی یادداشت سے لکھے ہیں ۔ اس وقت اصل حوالہ نہیں ملا مگر بہر حال اس مفہوم کا حوالہ ضرور موجود ہے اور انشاء اللہ اصل حوالہ ملنے پر معین الفاظ شائع کر دئے جائیں گے)٭
٭’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری اور مشکل راہ ہے اور میں رجَمًا با لغیب قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدد دیتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی۔ پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے، چلا۔ اس وقت میں نے اپنے تئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اِ س گھبراہٹ سے بے ہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلّٰی رَبِّ تَجَلّٰی اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تَجَلّٰی کہتا ہے اوربڑے زور سے میںدعا کرتا ہوںاور اس سیپہلے مجھ کو یاد ہے کہ میں نے اپنے لئیاور اپنی بیوی کے لئے اور اپنیلڑکے محمود (بقیہ اگلے صفحہ پر )
یہ رؤیا غالبا ۱۸۹۲ ء یا اس کے قریب کا ہے اور اس میں جس گلی کا ذکر ہے، اس سے وہ گلی مراد ہے جو قادیان میں موجود ہ دفتر پرائیویٹ سیکر ٹری یعنی قصر خلافت سے منور بلڈنگ کے چوک میں سے ہوتی ہوئی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان کی طرف جاتی ہے۔ جس کے آگے کشمیری آبادی کے مکانات ہیں اور یہ وہ گلی ہے جو گویا مرکز احمدیت کو قادیان کی بیرونی آبادی کے ساتھ ملاتی ہے۔ اس رؤیا سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان میں جماعت یا اس کے معتدبہ حصہ کا ابتدائی داخلہ ایسے حالات میںہو گا کہ ایک غیر ہمدرد حکومت کے پیدا کردہ حالات اور ارد گرد کی غیر مسلم آبادی کی اکثریت کی وجہ سے گویا قادیان کے اندر باہر تاریکی کا ماحول ہو گا۔ جس میں جماعت کے لئے اپنے راستہ پر گامزن رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
ا س وقت جماعت کی خشوع و خضوع کی دعائیں آسمان پر پہنچیں گی کہ اے ہمارے خدا ہم پر شفقت کی نظر فرما اور اپنے مقتدرانہ فضل و رحم کی تجلی سے ہمارے لئے اس تاریکی کے ماحول میں روشنی کا سامان پیدا کر دے اور ہماری رات کی ظلمت کو دن کے نور میں بدل دے۔
(۳) اس پر ہمارا مہربان آسمانی آقا ہماری دعائوں کو سنے گااور جماعت کے لئے کامل آزادی اور کامل روشنی کا سامان پیدا کر دے گا۔ چنانچہ اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے الفاظ یہ ہیں:
نَرُدُّ اِلَیکَ الکَرَّۃَ الثَّا نِیَۃَ وَتُبَدِّلَنَّکَ مِن بَعدِ خَوفِکَ اَمنٰاً۔۶۰
’’ یعنی ہم تجھے پھر دوبارہ غالب کردیں گے اور تیری خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدلیں گے۔‘‘
(۴) اور پھر اس کی تشریح میں یہ شاندار الہام بھی نازل ہوئے کہ
اِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیکَ القُراٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ اِنِّی مَعَ الاَفوَاجِ اٰتِیکَ بَغْتَۃً۔ یَا تِیْکَ نُصْرَتِی۔ اِنِّی اَنا الرّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالعُلیٰ۔۶۱
’’ یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا۔ یعنی جس نے تجھے اس زمانہ میں قرآنی علوم اور قرآنی تعلیم کی تجدید کے لئے مبعوث فرمایا وہ ضرور ضرور تجھے آخری لوٹنے والی جگہ کی طرف واپس
بقیہ حاشیہ سابقہ :۔ کے لئے میں نے بہت دعاکی ہے۔ پھر میں نے دو کتے خواب میں دیکھے۔ ایک سخت سیاہ اور ایک سفید؛ اور ایک شخص کہ وہ کتوں کے پنجے کاٹتا ہے۔ پھر الہام ہوا۔
کُنتُمْ خَیْرَ اُمّۃٍ اُخرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۵۹
لے جائے گا اور میں جو تیرا قادر و رحیم خدا ہوں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک آئوں گا اور میری نصرت تجھے ضرور پہنچے گی۔ میں اپنے بندوں پر وسیع رحمت کرنے والا خدا ہوں اور تمام بزرگی اور غلبہ میرے ہاتھ میں ہے
اس الہام میں جو اِنَّ َّ اور لَرَادُّکَ کے الفاظ ہیں وہ عربی محاورہ کے مطابق گویا قسم کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اور فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے گویا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تیری بعثت کی قسم ہے کہ ہم تجھے ضرور ضرور تیرے معاد کی طرف واپس لے جائیں گے۔ یعنی جس طرح تیری بعثت ایک عظیم الشان خدائی تقدیر ہے اسی طرح تیرا قادیان واپس جانا بھی خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو کبھی نہیں ٹلے گی اور یہ جو معاد کو نکرہ کی صورت میں رکھا گیا ہے، حالانکہ بظاہر قادیان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے معرفہ کی صورت میں المعاد ہونا چاہئے تھا، اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کے بعد قادیان ایک دائمی اور عظیم الشان معاد یعنی بار بار لوٹنے والی جگہ یعنی بالفاظ دیگر مرکز کی صورت اختیار کر لے گا۔ جس کی طرف دنیا بھر کی قومیںتا قیامت رجوع کرتی رہیں گی۔ چنانچہ قرآن شریف میں بھی اسی مصلحت کے ماتحت اس لفظ کو نکرہ رکھا گیا ہے۔ واﷲ اعلم
(۵) یہ وہ واپسی ہے۔ جسے خدا تعالیٰ نے اپنے دوسرے الہاموںمیں کئی دفعہ فتح کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ یعنی ایسی واپسی جس میں سب تاریکیاں دور ہو جائیں گی اور ساری سہولتوں کے دروازے کھل جائیں گے اور ایک کامل غلبہ کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ فتح والے الہامات بہت کثرت کے ساتھ ہیں مگر اس جگہ صرف ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔۶۲
’’ یعنی ہم تیری مشکلات کے دور کے بعد تجھے کھلی کھلی فتح عطا فرمائیں گے ا ورجو مکروہات اور شدائددرمیان میں پیش آنے والے ہیں وہ اس لئے ہوں گے کہ تا خدا تیری یعنی تیری جماعت کی پہلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف فر ما ئے یعنی یہ درمیانی تکالیف اس لئے آئیں گی کہ تا وہ موجب ترقی و مغفرتِ خطایا ہوں۔
(۶) اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر آنے والے مختلف دوروںکو یکجائی طور پر بیان کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗط۔۔۔۔۔قَولُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُونَ۔۶۳
’’یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ پس خدا اسے ان تمام اعتراضوں اور الزاموں سے بری کرے گاجو اس پر لگائے جائیں گے۔ اورخدا کے حضور اس کا یہ بندہ صاحب عزت و بزرگی ہے ۔کیاخدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ پس جب خدا پہاڑ جیسی مشکلات اور پہاڑ جیسی معاند ہستیوں کے خلاف اپنی تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا۔ اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور بنا دے گا اور مشکلات کے اس دور کے بعد سہولت اور فر اخی کا دور آئے گا۔ اور ویسے تو اس سے پہلے اور اس کے پیچھے خدا ہی کی حکومت ہو گی( مگر خدا تعالیٰ اپنی کسی مصلحت سے ان مشکلات کے دور کو لائے گا) کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں اور اب ہم اسے بنی نوع انسان کے لئے ایک نشان بنائیں گے اور وہ ہماری طرف سے مومنوں کے لئے) رحمت کا علمبردار بنے گا۔ اور یہ خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو ازل سے فیصلہ شدہ ہے اور یہی وہ اٹل صداقت ہے۔ جس میں اے لوگو تم شک و شبہ میں مبتلا ہو۔‘‘
اس جامع کلام میں خداتعالیٰ نے اَلَیسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبدَہٗکے الفاظ کو تین دفعہ دہراکر اور اُس کے بعدہر دفعہ ایک نیا مضمون بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے تین دوروں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک وہ جو ابتدائی دور ہے جس میں لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور ذات کے خلاف اعتراضات ہوں گے اور خدا کی طرف سے ان اعتراضوں کے مسکت جوابوں کا سامان مہیا کیا جائے گا۔ جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور بزرگی ثابت ہو گی۔ پھر اس کے بعد دوسرا دور پہاڑوں کی سی مشکلات کا آئے گا۔ اور کافروں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے خلاف معاند انہ تدبیریں ہوں گی۔ مگر خدا ان پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا۔ اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور کر کے خاک میں ملا دے گا۔ اور ان مشکلات کے بعد سہولتوں اور فراخی کا زمانہ آ جائے گا۔ پھر اس کے بعد تیسرا دور آئے گا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود دنیا کے لئے ایک نشان بن جائے گا اور مومنوں کی جماعت خدا کی ان ابدی رحمتوں کی وارث بنے گی جو ان کے لئے ازل سے مقدر ہیں ۔یہ وہ وقت ہو گا کہ جب دنیا کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے اور صداقت اپناسکہ جما لے گی۔
اس تشریح سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جماعت احمدیہ اس درمیانی دور میں سے گزر رہی ہے جس میں کہ مشکلات کے پہاڑ اس کے سامنے ہیں اور کافروںکی معاند انہ تدبیریں اس کے ارد گرد اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ مگر جس طرح کہ آنے والی مشکلات کے متعلق یہ سب کچھ پورا ہوا۔ اسی طرح آئندہ ترقی اور فتوحات کے وعدے بھی انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔
(۷) بالآخر قادیان کی ظاہری ترقی اور شان و شوکت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل رویاء نے بھی بہر حال پورا ہونا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ روحانی ترقی کے ساتھ سا تھ ظاہری ترقی کے سامان بھی پیدا کر دیتاہے۔ فرماتے ہیں:-
’’ ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا۔ اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے۔ اونچی اونچی دو منزلی یاچو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے (احمدی) سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آ گے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں،روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قِسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں ۔ یکے، بگھیاں، ٹم ٹم فٹن، پالکیاں، گھوڑے شکر میں ، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے۔۶۴ اور ایک دوسرے کشف میں فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس دریا تک پھیل گئی ہے۔۶۵
یہ سب کچھ ہو گا اور ممکن نہیں کہ خدا کے وعدے غلط ہو جائیں مگر ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کریں، اپنے علموں کو ترقی دیں، اپنے اعمال کو درست کریں، اپنے ظاہر و باطن کو شریعت کے مطابق بنائیں اور خدمت دین کی وہ شان پیدا کریں جو دنیا میں صحابہ کی یاد کو تازہ کر دے تاکہ ہماری زندگیاں سچ مچ ہمارے اس عہد کی علمبردار ہو جائیں کہ :
’’ میں دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا‘‘
یہ وہ عہد ہے جو ہر احمدی بیعت کرتے ہوئے خدا کے ساتھ باندھتا ہے۔ کاش یہ عہد ہمارے دلوں پر اور ہمارے دماغوں پر اور ہماری زبانوں پر اور ہمارے چہروں پر اور ہمارے سینوں پر اورہمارے ہاتھوں پر اور ہمارے پائوں پر اس طرح لکھا جائے کہ آسمان پر ہمارا خدا اسے دیکھے اور خوش ہو اور زمین پراس کی مخلوق اسے دیکھے اور حق کی طرف ہدایت پائے۔ اگر یہ بات میسر آجائے تو انشاء اللہ قادیان کی واپسی ہمارے لئے قریب تر ہو جائے گی اور یہ واپسی یقینا ہمارے لئے بیش از پیش رحمتوں کا موجب ہو گی اور اگر یہ نہیں تو پھر خدا ہی ہمارا حافظ ہو اور ہم ہر حال میں اس کی بخشش کے اُمیدوار ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبّ الْعَالَمِیْن۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍ جولائی ۱۹۴۸ ئ)
ہماری روزانہ دعائیں کیاہونی چاہئیں
دعائوں کے متعلق اسلام کا ایک جامع نظریہ
جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اسلام کا مرکزی نقطہ خدا تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے مگر بعض دوسرے مذہبوں کی طرح اسلام خداتعالیٰ کے وجود کو محض فلسفیانہ رنگ میں پیش نہیں کرتا کہ ایک دُوردراز کی ہستی کی طرف اشارہ کرکے کہہ دے کہ ا س پر ایمان لائو اور بس ۔بلکہ وہ اس خالق ومالک ہستی کو ہمارے تعلقات اور ہماری توجّہات کا مرکز قراردیتا ہے اور ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم خدا کی ذات پر صرف ایمان ہی نہ لائیں بلکہ اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرلیں اور اسے اپنی تمام توجّہات کا مرکز بنائیں اور پھراسلام خالق و مخلوق کے اس عملی تعلق کو دونوں جہت سے قائم فرماتا ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے بھی اور بندے کی طرف سے بھی۔ خدا کی طرف سے یہ تعلق تین صورتوں میں قائم کیاگیا ہے اوّل۔ بندوں کی بہبودی کے لئے خدا کی طرف سے احکام شریعت کا نازل ہونا تاکہ بندے ان احکام پرعمل کر کے اصلاح اور ترقی کے رستہ پرگامزن ہوں۔ دوم ۔بندوں کے نیک اعمال پر اچھے نتائج مترتب کرنا اور بد اعمالی پر تادیب اور سزا کا طریق اختیار کرنا تاکہ لوگوںکو اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے صرف اخلاقی تحریک ہی نہ رہے بلکہ ایک باقاعدہ ضابطہ اور نظام قائم ہوجائے ۔سوم ۔بندوں کی دعائوں کو قبول کرکے انہیں تکالیف سے بچانا یا انعامات کا وارث بنانا۔ اس کے مقابل پر بندوں کی طرف سے بھی یہ تعلق تین صورتوں میں قائم ہوتا ہے ۔ اول ۔خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کی فرمانبرداری ۔دوم۔ ذکر الٰہی اور عبادات میں شغف۔ سوم۔ اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی ضرورتوں کے متعلق خد اکے حضور دعائیں۔اس دہرے نظام سے اسلام میںخدا کے وجود کو ایک زندہ حقیقت کے طور پرقائم کردیا ہے جو ہرآن ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں ہمارا خدا ہمیں کچھ دے نہ رہا ہو۔یا ہم اپنے خد اسے کچھ لے نہ رہے ہوں۔
مگر اس جگہ میرا یہ نوٹ صرف دعائوں کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے ۔اور دعائوں کے بھی صرف اس حصہ سے تعلق رکھتا ہے جو ہماری روزانہ دعائوں سے وابستہ ہے ۔یعنی اس جگہ مجھے دعاؤں کا فلسفہ بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمیں اپنی خاص ضرورتوں کی دعائوں کے علاوہ کون کون سی اصولی دعائیںکرنی چاہئے۔جن کا روزانہ التزام ہماری ذاتی اورخاندانی اوردینی تعلق کے لئے ضروری ہے مگر اسجگہ بھی میں ایک مختصر تمہید کے طور پر تین اصولی باتیں بیان کردیناضروری خیال کرتاہوں کیونکہ ان کے بغیر دعائوں کا مضمون سمجھنا مشکل ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
۔۶۶
یعنی اے رسولؐ لوگوںسے کہہ دے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوںتو خدا تعالیٰ تمہاری کیا پروا کرتا ہے۔اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ دعاہی وہ سب سے زیادہ ضروری اور پختہ زنجیر ہے جو انسان کو خدا کیساتھ ملاتی او ر اس کی رحمت کی جاذب بناتی ہے ۔چنانچہ اس آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔۶۷
یعنی دعا تمام عبادتوں کی جان ہے جس طرح کہ ہڈی کی جان اس کے اندر کا گودا ہوتا ہے۔
دوسری اصولی بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سچے اور باعمل مومنوں کی دعائیںضرور قبول ہوتی ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۔۶۸
یعنی میں جو دنیا کا خالق و مالک ہوںہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں مگر ضروری ہے کہ لوگ بھی میرے احکام کو مانیںاور مجھ پر ایمان لائیںاور اس آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
مامن مسلم یدعو بدعوۃ لیس فیھا اثم ولا قطعیۃ رحم الاَعْطَاہُ اﷲ بھا احدیٰ ثلاث امایجعل لہ دعوۃ…وَاِمّا یَدْ خِدُ لَہٗ فِی ا لْاٰخِرَۃ وما انیصرف عنہ من السوء مثلھا۔۶۹
یعنی جب کوئی مومن مسلمان خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو اگراس کی یہ دعا کسی قسم کے گناہ یا قطع رحمی کے مضمون پر مشتمل نہ ہو تو خد اس کی دعا کو تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور قبول فرمالیتا ہے ۔یعنی اول یاتو وہ اسے اسی دنیا میں ظاہری صورت میں قبول کرکے بندہ کی حاجت پوری کردیتا ہے اور یا دوم اسے آخرت کے لئے دعا کرنے والے کے واسطے اپنے پاس ذخیرہ کرلیتا ہے اور یاسوم اگر اس دعاکو قبول کرناکسی صورت میں بھی قرین مصلحت نہ ہو تو اس کے مقابل پر دعا کرنے والے سے کسی ملتی جلتی تکلیف یانقص کو دور فرما دیتا ہے۔ گویا ہرمومن کی دعا لازما ًقبول ہوتی ہے ۔ گواس کی قبولیت کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
تیسری اصولی تعلیم دعا کے متعلق اسلام یہ دیتا ہے کہ ایک توا س میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور دوسرے کوئی دعا شک اور بدظنی کے الفاظ میںنہ کی جائے بلکہ یقین اور امید سے پُر دل کے ساتھ کی جائے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
ان یستجاب لاحد کم مالم یعجل فیقول قد دعوت ربی فلم یستجب لی۔۷۰
اذادعا اَحَدُکُم فلیعزمِ المسالَۃَ ولا یَقُولَنَّ اللّٰھُمَّ اِن شئت فاعِطنِی فإِنَّہُ لَامُسْتَکِرَہَ لَہُ۔۷۱
یعنی خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دعا کو ضرور سنتا ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام لے کر یہ نہ کہنے لگ جائے کہ میں نے اتنا عرصہ دعا کرکے دیکھ لیا مگر خدا نے میری دعا نہ سنی اور جب تم میںسے کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنے سوال پر پختگی اور یقین کے ساتھ قائم ہو اور دعا میں اس قسم کے الفاظ نہ کہے کہ خدا یا اگر تو پسند کرے تو میری اس دعا کو قبول کر کیونکہ خدا کسی کے ماتحت نہیں وہ بہرحال دعا کو اسی صورت میں قبول کرے گا جسے وہ پسند کرتا ہے کیونکہ اسے کوئی شخص کسی خاص طریق کے اختیار کرنے پرمجبور نہیں کرسکتا مگر تم خواہ نخواہ مشروط اور ڈھیلے ڈھالے الفاظ بول کر ا پنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور کیوںکرتے ہو ؟ اس مختصر سی تمہید کے بعد جو دعا کا اسلامی فلسفہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے، میں یہ بتاناچاہتا ہوںکہ ہماری روزمرہ کی دعائیںکن مضامین پرمشتمل ہونی چاہئیںاور چاہتاہے کہ انسان کو دنیا میں ہرطرح کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں ۔یعنی دینی بھی یادنیاوی بھی، ذاتی بھی اور خاندانی بھی، ملکی بھی ،غیر ملکی بھی ،اور پھر حال سے تعلق رکھنے والی بھی اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی بھی۔ اس نے انسان کی د عائوںکو کسی ایک خاص میدان کے ساتھ وابستہ نہیںکیابلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ہر قسم کی ضرورت کے لئے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا ئے لیکن اکثر لوگوںمیں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ جو فوری اور وقتی ضرورت ان کے سامنے ہو وہ اسکے سوا باقی تمام باتوںکو بھول جاتے ہیں مثلا ًاگر کسی شخص پر کوئی سنگین مقدمہ دائر ہے توبسا اوقات وہ اپنے اضطراب میں اپنی ساری دعائیں اس مقدمہ کی کامیابی کے لئے وقف کردیتاہے اور اس بات کوبھول جاتا ہے کہ اس پر اس کیعلاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، بے شک فوری اور وقتی ضرورت بعض اوقات مقد م ہوجاتی ہے ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیںکہ ایسی حالت میں دوسری دعائوں کو بالکل ہی بھلا دیاجائے۔ اس لئے ہمارے علیم وحکیم خدا نے جو انسان کی کمزوریوںکو جانتاہے نمازمیںلازماً ایسی دعائیں شامل کردی ہیںجو ہر مومن کو ہرحال میںیاد رکھنی پڑتی ہیں مثلاًصرا ط مستقیم کی طرف ہدایت پانے کی طلب اور آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا وغیرہ ذالک ،یا چونکہ نماز میں قرآن کی تلاوت ضروری رکھی گئی ہے اس لئیبعض ضروری دعائوں کو قرآن شریف میںشامل کردیاگیا ہے تاکہ اس ذریعہ سے وہ مومن کے سامنے آتی رہیںمگر پھر بھی کئی لوگ اپنی فوری اور قریب کی ضرورتوںمیں اتنے منہمک ہوجاتے ہیں کہ ان کے علاوہ انکی نظر کسی اور بات کی طرف نہیںاٹھتی۔ پس میںنے ضروری خیال کیا کہ اپنے دوستوںکو بعض ان دعائوںکی طرف توجہ دلادوںجوانہیںلازماً مانگنی چاہئیں او رجن کے بغیر جماعت کی ترقی محال ہے۔
۱۔ سو جاننا چاہئے کہ سب سے پہلی دعا سورۃ فاتحہ کی جامع دعا ہے جسے ام القرآن کا لقب عطاکیا گیاہے اس کے یہ الفاظ کہ:۔
۷۲
یعنی اے خدا ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے ہاںوہی مبارک رستہ جس پر چل کر تیرے خاص بندے دین ود نیا کے انعام حاصل کرتے رہے ہیںاور خدایاہم پر یہ بھی فضل فرما کہ ہم تیری ناراضگی کے موقعوں سے بچیں اور ایک دفعہ سیدھا رستہ پاکر پھر کبھی گمراہ نہ ہوں،یہ ایک نہایت ہی جامع دعا ہے جو دراصل ہر دینی اور دنیوی ضروریات کے موقعہ پر مانگی جاسکتی ہے اور اسی لئے اس دعا کو نماز کی ہررکعت میںضروری قرار دیا گیا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ فاتحہ کوہر دوسری دعا کی تمہید کے طو رپر بھی لازما ً پڑھا کرتے تھے یعنی خواہ دعا کوئی کرنی ہو اس سے پہلے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے۔اور آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث تو سب جانتے ہیںکہ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَاب۔۷۳یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز، نماز کہلانے کی حقدار نہیں۔
(۲)سورۃ فاتحہ سے اتر کر دوسری ضروری دعا درودہے ،یعنی، اللھم صَلِّ علی محمد وعلیٰ اٰل محمد ،والی مسنون دعا ۔
اس دعا کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ خدا نے جس طرح ہر نماز کے شروع میں سورۃ فاتحہ کو رکھا ہے اسی طرح ہر نماز کے آخر میں درود کو لازمی قرار دیا ہے ۔گویا ہردو کونے کے پتھر ہیںجن سے نماز کی عمارت کو مکملکیاگیا ہے مگر یادرکھنا چاہئے کہ یہ درود کی دعا آنحضرت ﷺ کے لئے کوئی ذاتی دعا نہیں ہے (اور اگر ذاتی بھی ہوتو یہ دعا آپ کی شان کے بالکل شایان ہے ) بلکہ ایک عظیم الشان قومی اور دینی دعا ہے جس میں اسلام کی غیر معمولی ترقی کا راز مضمر ہے ۔اسی لئے جب ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے یہ پوچھا کہ یارسول اللہ میں درود کو اپنی دعائوں میں کتنا حصہ دیا کروں ؟ کیا میںاسے ایک چہارم حصہ دیدوں ؟ توآپ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ دو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ کیامیںاسے نصف حصہ دے دوں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہوتو اس سے زیادہ۔ اس نے کہاتو پھر یا رسول اللہ میں آئندہ اپنی دعائیں آپؐ پر درود بھیجنے کیلئے ہی وقف کردوں گا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں یہ اچھا ہے بشرطیکہ تم ایسا کر سکو ۔اس ارشاد سے آپ کا منشاء یہ تھا کہ اگر انسان اپنی ساری دعائیں درود یعنی آنحضرت ﷺ کے مدارج کی بلندی اور اسلام کی ترقی کے لئے ہی وقف کرسکے تو یہ سب سے بہتر ہے ،کیونکہ پھر ایسے شخص کے کاموں میں خدا خود کفیل ہو جاتا ہے گویا درود ایک دہری قسم کی دعا ہے ۔بلا واسطہ وہ دعا ہے اسلام کی ترقی کی اوربا لواسطہ وہ دعاہے خود دعاکرنے والے کے حق میںمگر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ میں یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے ماتحت مجبور ہے کہ کچھ دعائیںبراہ راست اپنی ضرورتوںکے لئے بھی کرے یاکم از کم یہ کہ اکثر لوگ براہ راست ذاتی دعا کے بغیر تسلی نہیں پاسکتے اور یقینااسلام اس سے منع نہیں کرتا ۔اسی طرح تذکرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریک فرماتے ہیں کہ میںنے ایک رات درود پڑھنے کا التزام کیا اور بے شمار دفعہ درود پڑھا گیا جس کے بعد میںنے خواب میںدیکھا کہ خدا کے فرشتے بڑی بڑی مشکیں اٹھاکر میرے مکان میں لائے ہیں جو نور سے بھری ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی برکات ہیں جوتو نے محمد ﷺ کی طرف بھیجے تھے۔۷۴ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو شخص درود پڑھتا ہے خدا س کے اس فعل پر اتنا خوش ہوتاہے کہ درود کے اصل مقصد کے علاوہ اسے ذاتی طور پر بھی اپنے انعاموںسے مالامال کر دیتا ہے۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ درود صرف آنحضرت ﷺ ہی کے لئے دعانہیں بلکہ خود دعا کرنے والے کے لئے بھی دعا ہے۔
(۳) تیسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا ہے جس کے دوسرے الفاظ میں یہ معنی ہیں کہ احمدیت کی ترقی کے لئے دعامانگی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فتویٰ کے مطابق اگر کوئی شخص پسند کرے توآنحضرت ﷺ کے درود میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درود کو شامل کرسکتا ہے اور اس کے لئے یہ الفاظ مناسب ہیںکہ:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَلَیْکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
لیکن اگر الگ الگ درود بھیجا جائے تو وہ بھی بالکل درست اور مناسب ہے مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردرود بھیجنے کا التزام بھی نہایت ضروری ہے ۔
(۴) چوتھی دعا جس کے متعلق میرے خیال میں التزام ضروری ہے وہ اپنی زبان میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا ہے۔ درود کی دعا عربی میں ہے اور بالواسطہ ہے ۔مگرانسانی فطرت اپنی زبان میں براہ راست دعا کا تقاضا بھی کرتی ہے جس کے بغیر عام لوگوںکے دل میں پوری توجہ پیدا نہیںہوسکتی ۔پس ضروری ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی دعائوں میںدرود کے علاوہ بھی اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائوںکوشامل کریں تاکہ اسلام کے رستہ میں جو روکیں ہیں خدا انہیں دور فرمائے اور اپنے فضل وکرم سے اس کی ترقی کے سامان پید اکرے اور اس ترقی کی جدوجہد میں ہمیں بھی حصہ لینے کی توفیق دے۔ جہاںتک قومی دعائوں کا تعلق ہے عربی میںدرودکے علاوہ سورۃ بقرہ رکوع نمبر۵ اور بقرہ رکوع نمبر ۴۰ اور آل عمران رکوع نمبر ۱۵ اور آل عمران رکوع نمبر ۲۰ اور فرقان رکوع نمبر ۶ کی دعائیں بہت مبارک ہیںاور اپنی زبان میںتوجس طرح بھی کسی کو پسند ہودعائیں مانگے۔
(۵) پانچویں دعا جو ہماری روز مرہ کی دعائوں میںلازماً شامل ہونی چاہئے و ہخلیفہ وقت یعنی حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے متعلق دعا ہے۔ وہ بھی دراصل ایک قومی اور دینی دعا ہے اور اس میںان احسانوں کے شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے جو حضور کی ذات سے جماعت کوپہنچ چکے ہیںیا پہنچ رہے ہیں وقال اﷲ تعالٰی لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ ۔حضور کی صحت کے لئے درازیٔ عمر کے لئے حضورکے کاموں میںخدا کی نصرت اور برکت کے لئے اور حضور کے ارادوں میں کامیابی کے لئے لازماًدعا ہونی چاہئے۔ یہ ایک بھاری جماعتی فرض ہے جو ہر احمدی پر عائد ہوتا ہے۔
(۶) چھٹی دعا حضرت امّ المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے متعلق ہے جس کی اہمیت کے سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جیسا کہ تذکرہ کے مطالعہ سے ثابت ہے ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعائوں میںحضرت امّ المؤمنین کو بہت بھاری حصہ عطا فرمایاہے اور ویسے بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے قریب ترین پہلو ئوں کی واحد یادگار ہیںاور ان کے وجود کے ساتھ جماعت کے لئے بہت سی برکتیںوابستہ ہیں۔
(۷)ساتویں دعا جماعت کے ان کارکنوں کے لئے ہونی چاہئے جو قولاً یاعملاً اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں۔مثلاً سلسلہ کے مبلغین اور دوسرے مرکزی یامقامی کارکن خواہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے کارکن ہیںیاتحریک جدید کے ۔ایسی دعا بھی دراصل جماعتی دعا ہے اور اس میں شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے اور جو شخص اپنی دعائوں میں سلسلہ کے کارکنوں کو بھولتا ہے وہ ایک فرض شناس احمدی نہیں سمجھاجاسکتا ۔اسی طرح بیرونی مبلغوں اور دوسرے کارکنوںکے اہل وعیال کے لئے بھی دعا کرنی ضروری ہے۔
(۸) آجکل کے حالات کے لحاظ سے قادیان کی بحالی کی دعا بھی لازماً ہماری روز انہ دعائوں کا حصہ بننی چاہئے مگر اس دعا میں یہ پہلو ضرور مدنظررہے کہ خدا ہمیںایسے رنگ میںقادیان واپس دلائے کہ ہم اس میں اپنے جماعتی پروگرام کو کامل آزادی اور کامل حفاظت کے ساتھ چلا سکیں۔ اسی طرح جو دوست آجکل قادیان میں درویش بن کر بیٹھے ہوئے ہیںان کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا جماعتی فرض ہے اوران کے واسطے دعاکرتے ہوئے ان کے اہل وعیال اور عزیزوں کو بھی اپنی دعائوں میںشامل کرنا چاہئے ۔ومن لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ ۔۷۵
(۹) اسی طرح ہرمومن کا فرض ہے کہ اپنی دعائوں میں اپنے والدین اور ا پنی اولاد اور اپنی رفیقہ حیات بیوی کو بھی لازماً شامل کرے ۔قرآ ن شریف نے والدین اور اولاد کے متعلق ایک دعا سکھائی ہے جو بہت مبارک اور جامع ہے اور میں اسے اکثر یادرکھتاہوں اور وہ دعا یہ ہے:۔
۷۶
یعنی خدایا مجھے توفیق دے کہ میں اس نعمت کا شکرادا کرسکوں جو تو نے مجھ پر کی ہے او را سکی بھی جو تو نے میرے والدین پر کی ہے اور یہ کہ میں ایسے اعمال صالحہ بجالائوں جن سے تو راضی ہو اور اے میرے آقا تو میری اولاد کو بھی نیکی کے رستہ پر قائم کر۔ میں تیری طرف توجہ کے ساتھ رجوع کرتاہوںاور میںتیرے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔
اس کے علاوہ والدین کے لئے یہ دعا بھی بہت خوب ہے کہ :
۔۷۷
’’یعنی میرے رب تو میرے والدین کو اسی طرح اپنی حفاظت اور رحمت کے سایہ میں لے لے جس طرح حفاظت اور شفقت سے انہوں نے مجھے بچپن میں پرورش کیا ۔ اسی طرح اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری اور اہم ہے اور دراصل یہ ایک بھاری قومی خدمت ہے اگر ہم اپنی اچھی تربیت اور اپنی متضرعانہ دعائوں سے اپنی اولاد کو نیکی کے رستہ پر ڈال سکیں اور اس دنیا کو چھوڑتے ہوئے ہمیں یہ تسلی ہو کہ ہم اپنے پیچھے عالم باعمل اولاد چھوڑ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی اور قومی ترقی کا بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیںکہ ہر اگلی نسل کا قدم موجود ہ نسل سے آگے ہو۔ اگر ہمارے سارے بچے علم اور عمل میں ہم سے آگے ہوں یاکم از کم ہر احمدی کی اولاد کا ایک حصہ اس سے آگے ہو یاکم از کم بحیثیت مجموعی جماعت کے معتد بہ بچے موجودہ نسل سے آگے ہوں (علم میںبھی اور عمل میں بھی) تو خدا کے فضل سے جماعت کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ پس اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری ہے اور اس کی طرف سے ہرگز غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اسی طرح بیوی کے واسطے دعا کرنا بھی ہمارا فرض ہے کیونکہ ایک تو وہ ہماری رفیقۂ حیات ہے اور دوسرے اس کی آغوش میں قوم کے نونہال پرورش پاتے ہیں ۔اس کے واسطے یہ قرآنی دعا بہتخوب ہے کہ:۔
۷۸
یعنی اے ہمارے رب ہمیںاپنی بیویوں اوراپنی اولاد کے معاملہ میںآنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمارے گھروں کو جنت کاماحول عنایت کر کے ہمیں متقیوں کا امام بنا دے ۔ چونکہ انسان اپنے اہل وعیال کانگران ہوتا ہے اس لئے لازما ً امام کا لفظ بیوی اور بچوں دونوں سے متعلق سمجھا جائے ۔لہٰذا یہ دعا بھی ایک بہت جامع دعا ہے اور ہر مومن کو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآ ن شریف نے ایک دعامیں والدین اور اولاد کو اکٹھا بیان کیا ہے اور دوسری دعا میں بیوی اور اولاد کو جمع کردیا ہے۔ گویا اولاد کو دونوں کا مرکزی نقطہ رکھا ہے اور مستقبل کے لحاظ سے یہی درست ہے
(۱۰) اس کے بعد ذاتی دعائیں ہیںخواہ یہ دعائیں ہماری ذات سے تعلق رکھتی ہوں یا ہمارے دوستوں اور عزیزوںسے یاہمارے ہمسایوںوغیرہ سے یہ دعائیںبھی ضروری ہیں اور درحقیقت یہ بات انسانی فطرت کاحصہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کے آگے اپنی تمام ضرورتوںکے لئے ہاتھ پھیلائے اور حق بات ہے کہ اگر ہم خدا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیںگے تو او رکس کے سامنے پھیلائیںگے۔ خود میرے آقا (فداہٗ نفسی )نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ:۔ لاملجاء و لا منجاء مِنْکَ اِلَّا الیک‘‘ ۔۷۹یعنی اے ہمارے خدا ہمارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی مخلصی پانے کی راہ ہے، سوائے اس کے کہہم تیرے دروازے کا رخ کریں۔پس اپنی ہر ضرورت خدا سے مانگو اور ہرانعام خدا سے چاہو اور ہر تکلیف سے نجات کا رستہ خدا میںڈھونڈو۔کاش دنیا جانتی کہ ہمارے خدا کی قدرت کتنی زبردست اور اس کی رحمت کتنی وسیع ہے۔ میر ادل ایک عجیب قسم کی کیفیت محسوس کرتا ہے اورمیری زبان تسبیح وتحمید کے ذکر سے تر ہونے لگتی ہے جب میں حدیث میں خدا کا یہ قول پڑھتاہوںکہ اگر میرے سارے بندے ہی نیک اور دیندارہوجائیں تو پھر میں دنیا میںبعض گنہگار لوگ پیدا کروں۔ تاکہ میری رحمت اور میری مغفرت انہیںمعاف کرکے اپنی شان ترحم کااظہار کرسکے۔ اس حدیث کے خواہ کچھ معنے ہوںمگر اس میںشبہ نہیں کہ ہمارا خدا دولت کا ایک بے انتہا خزانہ ہے اور اس سے غافل رہنے سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں مگر ذاتی دعائوں میں بھی یہ بات ہرگز نہیںبھولنی چاہئے کہ بہر حال دین دنیا پر مقدم رہے اور ساری ذاتی دعائیں دنیاہی کے لئے وقف نہ ہوجائیں اگرچہ ہمارے خدا کی رحمت کا دامن تو یہاں تک وسیع ہے کہ ہمارے آقا ﷺ فرماتے ہیںکہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اپنے خد اسے مانگو اللہ اللہ، اللہ اللہ ۔یہ کتنی بھاری نعمت ہے جو ہروقت ہمارے سامنے موجود ہے مگر کوئی لینے والا بھی ہو۔یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ذاتی دعائوںمیںسب سے مقدم یہ دودعائیں ہیںکہ (۱) ہم اپنی زندگی خدا کی رضا کے مطابق بسر کریںاور (۲) ہمارا انجام اس کی خوشنودی پر ہو۔ اور
’’ ایں است کام دل اگر آیدمیسرم‘‘
نیک انجام کی دعا میں عذاب قبر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی شامل کرنی چاہئے کیونکہ جیساکہ میں انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میںبتائوںگا عذاب قبرعذاب نار سے ایک جداگانہ چیز ہے اور عذاب قبر بعض جنت میںجانے والے مومنوں کوبھی ہوسکتاہے۔
(۱۱) بالآخر میں اپنے ذوق کے مطابق یہ بھی ضروری سمجھتا ہوںکہ حکومت وقت کیلئے بھی دعا کی جائے کیونکہ حکومت کے استحکام اور حکومت کی مضبوطی اور ترقی کے ساتھ پبلک کے بہت سے مفاد وابستہ ہوتے ہیںاور حکومت کی کمزوری یاحکومت کی غلط روش بھی بہت سی خرابیوںکا موجب بن جاتی ہے۔
یہ وہ دعائیںہیںجو ہماری روزانہ دعائوں کے پروگرام میںلازماً شامل ہونی چاہئیں ۔میرا یہ مطلب نہیںکہ اپنی ہرنماز میں یہ ساری دعائیں ضرور شامل کی جائیں مگر ان میںسے بعض دعائیں تو لازما ً ہرنماز میں ہونی چاہئیں اور باقی کو حسب حالات مختلف نمازوں میں پھیلایا جاسکتاہے، لیکن بہرحال یہ سب دعائیںایسی ہیں جن کے ذکر سے سچے مومن کی زبان ہر وقت تر رہنی چاہئے۔ کاش دنیا جانتی کہ دعا میںکتنی برکت ہے اور کتنی طاقت ہے،حتیٰ کہ یہی وہ چیز ہے جو خدا ئی قضا وقدر کارستہ بھی بدل سکتی ہے۔ یہ میر ااپنا قیاس نہیں بلکہ ہمارے مقدس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ کی باتیں ہیں۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:
لایرد القضا ء الا الدعا ۔۸۰
’’یعنی دعاکو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ خد اکی قضا وقدر کو بھی بدل دیتی ہے اوراس کے سوا کسی اور چیز کو یہ طاقت حاصل نہیں۔‘‘ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ خدا خودفرماتا ہے کہ:۔
۔۸۱
یعنی خدا کواس کے قانون کا غلام نہ سمجھو بلکہ وہ اپنی قضا قدر پربھی غالب ہے ۔یعنی بسااوقات وہ اپنے نیک بندوں کی دعا سے اپنی جاری شدہ تقدیر کو بھی بدل دیتا ہے۔ خد اکرے کہ یہ رمضان ہم میں سے اکثر کے دلوںکو دعا کے ذوق سے شناساکردے اور قبل اس کے کہ یہ مبارک مہینہ ختم ہو ہم اپنی ہرحاجت کو خداسے مانگنا سیکھ لیںاور اپنے سرکا خدا کے در کی مٹی سے خاک آلود ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھکر فخر سمجھیں۔اے کاش ایسا ہی ہو اور خدا کے پاک مسیح کی جماعت قیامت کے دن خدا کے دربار میںسرخروئی حاصل کرے ۔آمین یاارحم الراحمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍جولائی ۱۹۴۸ئ)





سندھ کے زیرِمقدمہ دوستوں کے لئے دعا کی جائے
نیز لدھیانہ کے دوستوں کے لئے بھی
اس وقت سندھ میں کئی دوست جیل خا نہ میں ہیںاور ان پر تعزیرات ہندکی مختلف دفعات کے ماتحت مقدمہ چل رہا ہے اور بعض پر قتل کا الزام ہے ۔ان دوستوں میں جو سب کے سب سلسلہ کی اسٹیٹوں کے کارکن ہیں ،بعض واقف زندگی بھی ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے مصیبت میں مبتلا چلے آتے ہیں۔ احباب کو چاہئے کہ ان دوستوں کی با عزت رہائی کے لئے درد دل سے دعا فرمائیں۔ایک بھائی کی امداد ہر حال میں فرض ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک بھائی کے دکھ کو اسی طرح محسوس کرنا چاہئے جس طرح جسم کے ایک عضوکے درد کو دوسرے اعضا محسوس کرتے ہیں۔پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے ان مبارک ایام میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کو اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔
اسی طرح ابھی تک لدھیانہ مشرقی پنجاب میں ما سٹر لائق علی صاحب سابق صدر جماعت لدھیانہ اور ان کے لڑکے محمد اقبال صاحب بھی جیل خانہ میں زیر حوالات ہیں۔ ان کی رہائی کے لئے بھی دوست خاص طور پر دعا فرمائیں …۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)




درود میں حضرت ابراہیم ؑکا نام داخل کر نے کی حکمت
کَماَ صَلَّیْتَ عَلَٰی اِبْرَاھِیْمَ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی شان کا اظہار مقصود ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی وجہ کیاہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے ہی تمام گزشتہ نبیوں میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رہی ہے۔ مگر چونکہ (فداہ نفسی) سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت سب دوسری محبتوں پر غا لب ہے اور نہ صرف غالب ہے بلکہ اتنی غالب ہے کہ کسی دوسرے نبی کی محبت کو آپؐ کی محبت سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیم ؑکی خاص محبت کے باوجود مجھے بچپن سے درود کا یہ فقرہ کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ ( یعنی اے خدا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح برکتیں نازل کر جس طرح تو نے حضرت ابرا ہیم ؑپر نازل کیں) کھٹکا کرتا تھا اور میں خیال کیا کرتا تھا کہ بظاہر ان الفاظ سے حضرت ابراہیم ؑکی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس دعا میں حضرت ابراہیم ؑکی مثال کا حوالہ دینایہی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکو کوئی ایسی خاص برکت حاصل ہے جو ابھی تک ہمارے آنحضرت ﷺکو حاصل نہیں اور اس خیال کی وجہ سے میں اکثردرود پڑھتے ہوئے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ خدایا! یہ کیا بات ہے کہ ہمارا نبی افضل الرسل اور سید ولد آدم ہے اور پھر بھی درود میں یہ الفاظ داخل کئے گئے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراسی طرح برکتیں نازل ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ پر نازل ہوئیں ۔
آخر میں نے سوچ کرتشریح کا یہ راستہ نکالا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال دینے میں برکتوں کے درجہ کی طرف اشارہ کرنامقصود نہیں بلکہ صرف ان کی نوعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اور چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو نسل کی کثرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہوا ہے اور ان کی نسل کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی ہے کہ اس میں کثیر تعداد میں نبی پیدا ہوئے ۔اس لئے میں خیال کرتا تھا کہ شاید اسی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال بیان کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود والی دعا کی جاتی ہے مگر پھر بھی میرا دل پوری طرح تسلی نہیں پاتا تھا اور درود کے ان الفاظ پر پہنچ کر کہ کما صلیت علیٰ ابراھیممجھے ہمیشہ ایک اندرونی جھٹکا لگا کرتا تھا اور میری روح ایک قسم کی ٹھوکرمحسوس کرتی تھی۔ لیکن ساتھ ہی میرا دل اس یقین سے بھی پُرتھاکہ یہ خدا کی سکھائی ہوئی دعاہے اور ضروراس میں کوئی خاص حکمت مد نظر ہوگی جو ممکن ہے کئی لوگوں پر ظاہر بھی ہو اور انشاء اللہ مجھ پر بھی کسی دن ظاہر ہو جائے گی۔ آخر کچھ عرصہ ہوا خدا نے مجھے بھی اس کی حکمت پر آگاہ فرما دیا اور اب مجھے خدا کے فضل سے اس تشریح پر جو میرے ذہن میں آئی ہے پوری تسلی ہے۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ درود میں حضرت ابراہیم ؑ کا نام شامل کرنے میں صرف وہی حکمت مدنظر ہے جو میرے خیال میں آئی ہے۔ خدا بلکہ رسول کے کلام میں بھی بڑی وسعت ہوتی ہے اور بسا اوقات ایک ہی وقت میں کئی کئی معنے مدنظر ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ جو تشریح میرے ذہن میں آئی ہے، اس سے بھی بڑھ کرکوئی اور حکمت درود میں مخفی ہو۔ مگر اب کم از کم مجھے اپنی جگہ یہ تسلی ضرور ہے کہ جو معنے میرے خیال میں آئے ہیں وہ خدا کے فضل سے نہ صرف درست ہیں بلکہ میرے ذوق کے مطابق لطیف بھی ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ میں یہ معنے دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں۔
دوستوں کو یہ تو علم ہی ہے اور دراصل یہ بات اسلامی تاریخ کا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے جسے مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیںجو حضرت اسمٰعیل ؑ کے ذریعہ عرب میں آباد ہوئی اور یہ کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی۔ جس کا ایک ایک پتھر ان مقدس باپ بیٹوں کی ہزاروں دعائوں کے ساتھ رکھا گیا۔اور انہوں نے اس موقع پر یہ دعا بھی کی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ خدا کے پاک بندے پیدا ہوتے رہیں جن کی توجہ خدا کے دین کے لئے وقف ہو۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ نے وہ خاص الخاص دعا بھی کی،جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ظہور میں آیا۔ چنانچہ قرآن شریف اس تاریخی دعا کو ان زوردار الفاظ میں بیان فرماتاہے۔
۸۲
یعنی اے ہمارے رب تو ہماری اس نسل میں جو اب اس ملک میں پھیلے گی۔ اور تیرے اس مقدس گھر کے ارد گرد آباد ہوگی۔ ایک عالی شان رسول انہی میں سے مبعوث فرما۔ جو انہیں تیری مبارک آیات پڑھ کر سنائے۔ اور انہیں تیری کتاب کی تعلیم دے اور پھر اس کتاب کے احکام کی حکمت بھی سکھادے اور انہیں اپنے پاک نمونہ کی برکت سے ایک ترقی یافتہ زندگی عطا کرے۔ یقینا تو بڑی شان والا اور بڑی حکمت والا خدا ہے۔
اس دعا کے الفاظ بڑے بھاری فضائل پر مشتمل ہیں۔ مگر مجھے اس جگہ اس دعا کی تفسیر اور تشریح میں جانا مدنظر نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑنے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک ایسے خاص نبی کی بعثت کی دعا کی تھی جو اپنے روحانی اور علمی اور تربیتی پروگرام کے ساتھ بے مثل امتیاز کا مالک بننے والا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ میری بعثت اسی دعا کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ آپؐ کے الفاظ یہ ہیں:۔
انا دعوۃ ابراھیم…۔۸۳
’’ـــــیعنی میں ابراھیم ؑکی دعا کا ثمرہ ہوں‘‘
اب گویا تین باتیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
(اول) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں۔
(دوم) یہ کہ حضرت ابراھیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا کی تھی۔
(سوم) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اسی دعا کا نتیجہ تھی۔
اب اگر ہم ان تین باتوں کو مدنظر رکھ کر درودکے الفاظ پر غور کریں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے اور:۔ درود میں کما صلیت علٰی ابراھیم یا کما بارکت علٰی ابراھیمکے الفاظ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی کمی کے مظہر ثابت نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاََ اس بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیںکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور آپ کی امت کی غیر معمولی ترقیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے درود میں داخل کئے گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ کما صلیت علیٰ ابراھیمؑ(محمد رسول اللہ ﷺ پر اسی طرح کی برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم ؑپر نازل کیں) اس غرض کے لئے رکھے گئے ہیں کہ تا حضرت ابراھیمؑ کی اس خصو صیت کی طرف اشارہ کیا جائے جوان کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعا اور اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اے خدا! جس طرح تو نے ابراہیم کی دعا سے ابراھیمؑ کی نسل میں ایک عظیم الشان نبی پیداکیا۔ اسی طرح اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی غیرمعمولی روحانی کمالات کا سلسلہ جاری رکھ ۔ اس طرح درود میں ایک نہایت ہی لطیف اور مقدس دور یعنی پائیس سرکل (Pious Circle) قائم کر دیا گیا ہے۔ اور خدا کے دامنِ رحمت کو اس دعا سے حرکت میں لایا گیا ہے کہ اے خدا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح کی خاص برکات نازل فرما جس طرح تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ ابراھیمؑ پر اپنی خاص برکات نازل فرمائیں۔ گویا کما صلیت علٰی ابراھیممیں جو مثال دی گئی ہے وہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضرت ابراھیمؑ سے اور حضرت ابراھیمؑ کا نام صرف اس مثال کو واضح کرنے اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیاہے۔ پس درود کے صحیح معنے یہ ہوئے کہ اے خدا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی وہ خاص برکتیں نازل فرما جو تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالی شان نبی کی بعثت کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ پر نازل کیں۔ گویا چکر کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات روحانی کی مثال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی لوٹ آئی اور کما صلیت علیٰ ابراھیمؑ کے الفاظ میں حضرت ابراہیم ؑ کی برتری اور فوقیت کا کوئی سوال نہ رہا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر تشریح کی ہے۔ دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکتوں کی دعا خود آپ کی اپنی ہی مثال دے کر مانگی گئی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کا نام صرف اس مثال کی تشریح کے لئے لایا گیا ہے۔اب دیکھو کہ یہ کیسا مبارک چکرہے جو درود میں قائم کیا گیا ہے گویا درود کی دعا کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ خدا یا !محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل برکات آپ کی ذات تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کا سلسلہ قیامت تک وسیع ہوتاچلاجائے اور آپ کے روحانی اظلال دنیا میں ظاہر ہو ہو کر ہمیشہ آپؐ کا نور اور روشنی پھیلاتے رہیں۔
اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ درود کی دعا پوری ہوئی یا نہیں اور اگر پوری ہوئی تو کس رنگ میںپوری ہوئی۔ سواس کاسیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ دعا اپنی مکمل شان میں پوری ہوئی بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کی طرف سے اس بات کا علم دیاگیاتھا کہ ہماری سکھائی ہوئی درود کی دعا اس اس رنگ میں پوری ہوگی۔ چنانچہ اس دعا کی عام تجلی تو یہ ہے کہ امت محمدیہ کو باکمال اولیا واور عدیم المثال علما ء کا غیر معمولی ورثہ عطا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ:۔
علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل…۔۸۴
’’یعنی میری امت کے روحانی علماء (جن میں ہر صدی کے مجدد بھی شامل ہیں) اپنی شان اور روحانی کمالات میں بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوںگے ‘‘ پس یہ جو امت محمدیہ میں ہزاروں باکمال اولیاء اور ہزاروں خدارسیدہ علماء گزرے ہیں جو اپنے اپنے زمانہ میں ظاہر ی علم کے ساتھ ساتھ خدائی کلام سے بھی مشرف ہوتے رہے ہیں اور جن سے سمائِ اسلام کا چپہّ چپہّ مزیّن نظر آتا ہے ،یہ سب اسی درود والی مبارک دعا کا کرشمہ ہیں‘‘
مگر اس عام روحانی ورثہ کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک ظلِّ کامل اور بروزِا تم کا بھی وعدہ تھا۔ جس کی بعثت کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قرار دیا گیاتھا۔ جیسا کہ سورہ جمعہ کے الفاظ واٰخرین منھم(یعنی آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بروز کے ذریعہ دوبارہ معبوث کرے گا) میں بتایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یُدْ فَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ…۔۸۵(یعنی آنے والا مصلح اپنی وفات کے بعد اپنے روحانی مقام کے لحاظ سے میرے ساتھ ہی رکھا جائیگا۔) کے الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سو یہ وعدہ بھی حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے وجود میں پورا ہوگیا۔ گویا جس طرح حضرت ابراھیمؑ کی دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اسی طرح کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْراھِیْمَ کی دعا کی تکمیل کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میںتشریف لے آئے۔ اور ابھی نہ معلوم قیامت تک آپ کے کن کن اور روحانی اظلال نے آسمانِ ہدایت پر طلوع کر کے درود والی دعا کو پورا کرنا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمدٍ وبارک وسلم۔
خلاصہ کلام یہ کہ درود میں حضرت ابراھیمؑ کی مثال بیان کرنے سے حضرت ابراھیمؑ کے کسی ذاتی کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں۔ بلکہ حضرت ابراھیم ؑ کی اس دعاکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجودظہور میں آیا اور غرض یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کی دعا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود پیدا ہوا۔ اسی طرح اب اے خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپؐ کے روحانی اظلال کا سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے۔ اوراس ذریعہ سے ایک ایسا مقدس دورقائم ہوجائے جو تیرے آخری نور کے ذریعہ دنیا میں ہمیشہ اجالا رکھے۔ اس نکتہ کے حل ہونے کے بعد میری روح کماصلیت علیٰ ابراھیم کے الفاظ پر رْکنے اور جھٹکا کھانے کی بجائے ایک خاص قسم کے روحانی سرور اور ایک خاص قسم کی روحانی لذت کی حالت میں تسبیح کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ اور ان چمکتے ہوئے آسمانی ستاروں اور اس درخشاں ظلی شمس وقمر کا نظارہ کرنے میں جن سے آج فضاء اسلام مزیّن ہے۔ ایک ایسا لطف محسوس کرتی ہے جو اس سے پہلے کبھی میسر نہیں آیاتھا۔
اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔ اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم
اللھم صل علٰی محمدِِ کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔واٰخردعوٰناان الحمد للہ رب العلمین۔(مطبوعہ الفضل ۳۰جولائی ۱۹۴۸ئ)
رمضان میں دائمی نیکی کا عہد باندھنے والی خواتین
میں نے جو حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تجویز (مطابق روایت حضرت مولوی شیرعلی صاحب مرحوم) کی بنا پر ایک گزشتہ رمضان میں جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں یا بہنوں کو خدا توفیق دے وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور پھر اس عہد پر زندگی بھر قائم رہیں تاکہ ان کا رمضان ان کے لئے عین عملی اصلاح کا ذریعہ بن جائے ۔سو اس تحریک کی بنا پر اس سال ایک سوچھ خواتین نے اس قسم کا عہد کیا تھا۔ جن کی فہرست الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اب اس تعلق میںچوالیس مزید خواتین کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کے اس عہد کو مزید نیکیوں کا پیش خیمہ بنادے آمین۔
نام عہد کنندہ
نام محلہ یااصل وطن
نام موجودہ شہر
۱۰۷
شمشادخانم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ
محمد نگر
لاہور
۱۰۸
مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود الحسن صاحب
محمد نگر
لاہور
۱۰۹
رقیہ خاتون صاحبہ
محمد نگر
لاہور
۱۱۰
اہلیہ صاحبہ مرزا محمد امین صاحب
محمد نگر
لاہور
۱۱۱
عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا
قادیان
حال لاہور
۱۱۲
امیر بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم سراجدین احمدصاحب
بھاٹی گیٹ
لاہور
۱۱۳
رضیہ نسرین بنت حکیم سراجدین صاحب
بھاٹی گیٹ
لاہور
۱۱۴
بلقیس سعیدبیگم بنت شیخ محمد سعید صاحب صوبیدار میجر
برکت علی روڈ
لاہور
۱۱۵
محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب
نیلا گنبد
لاہور
۱۱۶
اختر النساء بیگم صاحبہ اہلیہ ناصر احمد صاحب
راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد
لاہور
۱۱۷
ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ صاحب
محلہ چابکسواراں
لاہور
۱۱۸
سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عطاء اللہ صاحب
محلہ چابکسواراں
لاہور
۱۱۹
اہلیہ صاحبہ صوفی فضل الٰہی صاحب
قادیان
حال لاہور
۱۲۰
رضیہ سلطانہ بنت صوفی فضل الہٰی صاحب
قادیان
حال لاہور
۱۲۱
مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب۔مبلغ ہالینڈ
قادیان
حا ل سرگودہا
۱۲۲
رضیہ سلطانہ بیگم بنت بابو محمد بخش صاحب
قادیان
حال ریاست بہاولپور
۱۲۳
منور سلطانہ بیگم بنت بابو محمد بخش صاحب
قادیان
حال ریاست بہاولپور
۱۲۴
صاحبزادی امتہ اللطیف سلّمہا عرف طیفی
قادیان
حال رتن باغ لاہور
۱۲۵
اہلیہ صاحبہ خان عبدالمجید خان صاحب( ان کے خاوند خان عبدالمجید خان صاحب نے بھی ایسا عہد کیا…)
کپور تھلہ
حال ریاست بہاولپور
۱۲۶
اہلیہ صاحبہ محمد ابراہیم خان صاحب
کپور تھلہ
خان پور ریاست بہاولپور
۱۲۷
امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں احمد دین جنرل صدر لجنہ لاہور
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۲۸
کلثوم ناصر بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۲۹
ثریا بیگم صاحبہ بنت میاں احمد الدینصاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۰
بلقیس اختر صاحبہ بنت میاں احمد الدین صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۱
اقبال عزیز صاحبہ اہلیہ عزیز احمد صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۲
…………
قادیان
حال لاہور
۱۳۳
اہلیہ صاحبہ خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۴
مسعودہ بیگم بنت چوہدری ابو الہاشم خان صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۵
امۃ الرحمٰن صاحبہ بنت شیخ محمد حسین صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۶
ہاجرہ بی بی صاحبہ اہلیہ منشی محمد طالب صاحب
چنیوٹ
حال چنیوٹ
۱۳۷
اہلیہ صاحبہ حافظ عزیز احمد صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۸
جنت بی بی صاحبہ اہلیہ عبدالکریم صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۹
اہلیہ صاحبہ شیخ دوست محمدصاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۰
ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سبحان علی صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۱
سعیدہ بیگم بنت سلطان علی صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۲
صفیہ بیگم ہمشیرہ عبدالقیوم صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۳
رشیدہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۴
اہلیہ صاحبہ ماسٹرعطااللہ صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۵
سیدہ ثانیہ اختر بانو صاحبہ
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۶
صدیقہ بیگم بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۷
امتہ المجید بیگم بنت صوفی غلام محمد صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۸
عطیہ بیگم بنت ماسٹر عطاء اللہ صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۹
ذکیہ بیگم بنت محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۵۰
اہلیہ صاحبہ سیٹھ محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍جولائی ۱۹۴۸ئ)









رمضان میں کمزوری دور کرنے کے عہد کے متعلق ایک
غلط فہمی کا ازالہ
کمزوری کی نوعیت کا اظہار منع ہے نہ کہ کمزوری دور کرنے کے عہد کا اظہار
کئی سال ہوئے میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کی ایک روایت کی بنا پر جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں کو خدا توفیق دے ،وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد کیا کریںاور پھر اس عہدکو عمر بھر نبھانے کی کوشش کریںتاکہ اصلاح نفس کے اس ذریعہ سے بھی فائدہ اٹھایاجاسکے۔یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تجویز کے مطابق تھی۔جو حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم نے حضور سے سن کرمجھ سے بیان کی تھی اور کئی سال ہوگئے ،میں نے ناظرتعلیم وتربیت کی حیثیت میں اسے جماعت کے سامنے پیش کر کے دوستوں کو اس تحریک سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ بھی دلائی تھی۔ چنانچہ بعض گزشتہ رمضانوں میں ایسے دوستوں کی فہرست دعاکی غرض سے حضرت امیرالمؤمنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی ہے اور حضورانہیں اپنی دعاسے مشرف فرماتے رہے ہیں اوربیسیوں دوستوں نے مجھ سے ذکرکیاہے کہ انہوں نے اس تحریک سے بہت فائدہ اٹھایاہے۔مگر مجھے معلوم ہواہے کہ بعض دوستوں کو اس تحریک کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا منشا دل میں عہد کرنے کا تھا۔ اس لئے اس کے متعلق کسی قسم کااظہار بھی نہیںہونا چاہئے۔بلکہ صرف دل میں خدا سے عہد باندھ کر اسے خاموشی کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔اور یہ بات بھی ظاہر نہ کی جائے کہ میںنے ایسا عہد باندھا ہے مگر جیسا کہ میں ذیل کی سطور میں بتائوں گا یہ خیال درست نہیںہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ منشا نہیںہے جو سمجھا گیا ہے۔
دراصل جس بات کا اظہار ناپسندیدہ ہے وہ صرف یہ ہے کہ کمزوری کی نوعیت ظاہر کی جائے مثلاً یہ بتایا جائے کہ مجھ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے ،یا یہ کہ میں نماز میں سست ہوں یا یہ کہ میرے اندر چغل خوری کا عیب ہے۔یایہ کہ میں چوری کے گناہ میں مبتلا ہوں وغیرہ وغیرہ ۔کیونکہ ایسا اظہار خداکی صفتِ ستّاری کے خلاف ہے اور اکثر صورتوں میں بدی کو مٹانے کی بجائے بدی کی اشاعت اور تحریک کا موجب بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات ہرگزمنع نہیں کہ کمزوری کی نوعیت کو چھپاتے ہوئے صرف اس قدر اظہار کیا جائے کہ میں نے اپنی ایک کمزوری کے دورکرنے کا عہد کیا ہے اور اس معاملہ میں دوست بھی دعا سے میری مدد فرمائیں ۔اگر یہ اظہار بھی منع ہوتو نعوذ باللہ اسلام کی وہ سب دعائیں قابل اعتراض ٹھہرتی ہیںجن میں خدا کے حضور کمزوریوں اور لغزشوںکے دور ہونے کی التجا سکھائی گئی ہے اور ہر مسلمان ایسی دعائیں برملا مانگتاہے۔چنانچہ استغفار وغیرہ کی دعائیںاسی نوع میں داخل ہیںاور قرآن شریف اس قسم کی دعائوں سے بھراپڑاہے۔مثلاََ :
… … ۔۸۶
یا مثلاً :۔۸۷
یا مثلاً:۔۸۸
یامثلاً: ۸۹
یا مثلاََ نماز کی یہ دعا کہ:
اللھم اغفرلی وارحمنی واھدنی وعا فنی وارفعنی واجبرنی وارزقنی…۔۹۰
یا مثلاََ حدیث کی یہ دعا کہ:۔ اللھم اغفرلی ذنبی واجنبنی من الشیطان الرجیم…۔۹۱
یا مثلاََلیلتہ القدر کی یہ دعا کہ:۔ اللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی…۔۹۲ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ سب دعائیں اور اسی قسم کی بے شماردوسری دعائیں جن میں اجتماعی طور پر بھی اورانفرادی طور پر بھی اپنی کمزوریوں اور خطائوں اور گناہوں کی بخشش کی التجا کا سبق سکھایا گیاہے،اسلامی نظام روحانیت کا اہم ترین حصہ ہیں اور یہ دعائیں قلوب کی صفائی کا ایک نہایت عمدہ نسخہ بھی ہیں اور نہ صرف یہ کہ اسلام نے اس قسم کی دعائوں کے اظہار سے روکا نہیںبلکہ ان کی تحریک فرمائی ہے۔ البتہ کمزوری کی نوعیت کے اظہار سے ضرور منع کیاہے کیونکہ ایسا کرنا خدا کی صفتِ ستّاری کے خلاف ہے اور یہی وہ اظہار ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع فرمایا ہے۔
دراصل حضرت مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت سب سے پہلے مجھے ہی پہنچی تھی اور پھر میں نے ہی اسے لوگوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرایا تھا۔اور مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ روایت سن کر حضرت مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ منشا تھا کہ مطلقاََ اس عہد کا ہی لوگوں میں اظہار نہ کیا جائے یاکہ صرف یہ منشا تھاکہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار نہ کیا جائے۔ جس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ کمزوری کی نوعیت کااظہار منع کیا گیا ہے نہ کہ عہد کا اظہار ۔چنانچہ اس کے بعد میں نے اس تحریک کو اخبار میں شائع کیا۔اور حق یہی ہے کہ جو چیز منع ہے وہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار ہے نہ کہ کمزوری کے دور کرنے کے عہد کا اظہار ۔کیونکہ کمزوری کے دُور کرنے کا عہد تو اسلام کی اسّی(۸۰)فیصدی دعائوں میں پایاجاتاہے۔اور اسے مخفی رکھنے سے نہ صرف اسلامی دعائوں کا سارانظام کمزورپڑجاتاہے۔اور انسان اپنے نفس کی کمزوری کے اعتراف سے بھی گویا بالا ہوجاتاہے۔بلکہ مومنوں کی جماعت ایک دوسرے کی دعائوں کے سہارے سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار تو یقینا منع ہے کیونکہ:۔
(۱)وہ ہمارے رحیم وکریم اور ستّار خدا کی ستّاری کے خلاف ہے۔ جس بات پر ہمارا خدا پردہ ڈالتا ہے اور اسے اپنی رحمت کے دامن میں چھپاتا ہے۔اسے ظاہر کرنا یقینا خدا کی رحمت کو رد کرنے کے مترادف ہے۔
(۲)اس سے کئی صورتوںمیں بدی کی اشاعت میں بھی مدد مل سکتی ہے اور بدظنی اور مفسدانہ خیال آرائی کا بھی رستہ کھلتاہے۔مگر کمزوری کی نوعیت کے اظہار کے بغیر صرف ترکِ کمزوری کے عہد کا اظہار منع نہیںبلکہ اس میں بعض فوائد بھی متوقع ہیں۔مثلاََ:۔
(۱)یہ اسلامی دعائوں کے نظام کے عین مطابق ہے۔اور اس سے اس نظام کو تقویت پہنچتی ہے۔
(۲)ایسے اظہار سے دوسرے مومنوں کو اس دعا کی تحریک ہوتی ہے کہ خدایا ہمارے اس بھائی کی نصرت فرمااور جس طرح ہماری کمزوریاں دُور ہوں،اسی طرح اس بھائی کی کمزوریوں کو بھی دُور کر اور یقینا بدی پر غلبہ پانے کے لئے یہ ایک عمدہ اجتماعی سہارا ہے جس سے مومنوں کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
بالآخر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کسی نہ کسی جہت سے کمزوری ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہے کیونکہ کمزوری پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیںجو مجموعی طور پر سب بنی نوع انسان پرحاوی ہیں۔ کسی انسان میں نافرمانی اور بغاوت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کسی میں غفلت اور سستی کی وجہ سے کمزوری پیداہوتی ہے اور کسی میں صحبت یا ماحول کے اثر کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اورکسی میں لاعلمی اورجہالت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں محض بشریت کے لوازمات کی وجہ سے کمزوری ہوتی ہے۔ ورنہ وہ دوسری کمزوریوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور یہ آخرالذکر کمزوری ایسی ہے کہ اولیاء اور انبیاء بھی اس سے مستثنیٰ نہیںاور اسی لئے استغفار کے حکم میں سب کو شامل کیاگیاہے تو جب انسانی کمزوریوں کا جال اتنا وسیع ہے اور یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے تو پھر محض اس قسم کے اظہار میں کہ میں ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں،کسی قسم کے اعتراض کا پہلو پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ اس قسم کی دعا خدا کی صفتِ ستّاری کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے کہ اے خدامیں اس وقت ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں تو مجھے اس کے پوراکرنے کی توفیق دے۔تاہم میں یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص ضرور ایسے عہد کا اظہار کرے۔اگر کوئی شخص اس عہد کو بھی مخفی رکھنا چاہتا ہے اور کسی وجہ سے اس اخفا کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے تو وہ بے شک اسے مخفی رکھے۔شریعت اسے اظہار کے لئے مجبور نہیں کرتی ۔ ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوںکہ اگر کوئی شخص اس قسم کے عہد کا اظہار کرنا چاہے تو اس کے رستہ میں کوئی روک نہیں۔بلکہ اسلام کی اکثر دعائوں میں اظہار کا پہلو نمایاں نظرآتا ہے لیکن کمزوری کی نوعیت بہرحال مخفی رہنی چاہیے۔
فَھِّمْ وتَدَبِّرْ واﷲ اعلم بالصواب
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍ اگست ۱۹۴۸ئ)






میرے دُعا والے مضمون کا تتمہ
صحابہ کو بھی اپنی دُعائوں میں ضرور یاد رکھیں
چند دن ہوئے ہیںمیں نے ’’ ہماری روزانہ دعائوں ‘‘ کے عنوان کے ماتحت ایک مضمون لکھ کر الفضل میں شائع کرایا تھا ۔ اور اس مضمون میں منجملہ دیگر امور کے وہ گیارہ عدد دعائیں بھی نوٹ کی تھیںجو میرے خیال میں آج کل ہر احمدی کی وردِ زبان ہونی چاہئیں ۔ مگر افسوس ہے کہ میں ان دعائوں میں ایک اہم دعا کا ذکر کرنا بھول گیا۔ یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی درازیٔ عمر اور افاضۂ روحانی سے تعلق رکھتی ہے ۔ صحابہ کی مقدس جماعت دن بدن کم ہو رہی ہے۔ اور گذشتہ سال تو اس میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ چنانچہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس، حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب، محترمہ اہلیہ صاحبہ حافظ حامد علی صاحب ، محترمہ اہلیہ صاحبہ میاں عبداللہ صاحب سنوری وغیرہم بہت سے قیمتی وجود ہیں جو صحابہ کی مقدس جماعت میں سے ہمیں گزشتہ سال کے دوران میں یا اس زمانہ کے قریب قریب داغ جدائی دے گئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ ان میں سے کئی ایک کی وفات میں قادیان کی جدائی کے صدمہ کا بھی دخل تھا۔
پس ایک طرف صحابہ کی غیر معمولی برکات اور دوسری طرف ان کی دن بدن گھٹتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی درازیٔ عمر اور ان کے افاضۂ روحانی کی توسیع کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیںکریںکہ اللہ تعالیٰ اس مبارک جماعت کو تادیر سلامت رکھے۔ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے ۔ ہمیں ان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے اور قادیان کی بحالی تک ان کے بیشتر حصہ کو زندہ رکھے۔ کیونکہ اس خوشی سے حصہ پانے کے سب سے زیادہ حقدار وہی ہیں۔ آمین۔ دراصل یہ وہ مقدس گروہ ہے جو اگر اپنے منہ سے کچھ بھی نہ بولے تو پھر بھی ایک زبردست مقناطیس کی طرح محض اپنے وجود میں ہی روحانی برکات کے انتشار کے لئے کافی ہے کیونکہ انہوں نے ایک ایسے عظیم الشان مقناطیس سے براہ راست اثرحاصل کیاہے جس کے روحانی افاضات عالمگیر اور دائمی رنگ رکھتے ہیںاور ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس مقناطیس کے ساتھ چھوکر (بشرطیکہ نیت بخیر ہو) یا اسکے ساتھ چھونے والوں کے ساتھ چھو کر روحانی برکات سے محروم رہے:۔
وقال اﷲ۱ تعالیٰ اُوْلٰٓئِکَ لَا یَشْقیٰ جلیسُھُم مِن عِلْمِ وتعلم۔۹۳
یہ لوگ ان آسمانی ستاروں کا حکم رکھتے ہیں۔ جو ہر روحانی سورج کے اردگرد چکر کھانے کے لئے ازل سے مقدر ہیں۔اور مبارک ہے وہ جو ان کی قدر کو پہچانتااور ان کے نور سے نور حاصل کرنے اور ان کی روشنی سے روشنی پانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تووہ ارفع شان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اترے ہوئے کپڑوں کے متعلق فرماتا ہے کہ:۔
ـِـَِِِِِِِِِْْ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے ‘‘…۔۹۴
تو جب بے جان کپڑوں اور جلد یابدیر پھٹ کر ختم ہو جانے والے پارچات کی برکات کا یہ حال ہے توان جاندار اور ہمیشگی کی رُوح رکھنے والے انسانوں کی برکت کی کیاشان ہوگی جو خدا کے ایک مقدس رسول کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے اور اس کے سرچشمہ سے براہ راست سیراب ہوتے اور اس کے روحانی تعلق کو اپنے قلوب میں ہمیشگی کی زندگی عطا کرتے ہیں۔پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی روزانہ دعائوں میں صحابہ کے مقدس گروہ کو بھی یاد رکھیں۔اور ان کی عمر کی درازی اور ان کے برکات کی توسیع کے لئے خدا سے ہمیشہ دست بدعا ہیں۔سو سابقہ گیارہ دعائوں کے ساتھ مل کر یہ گویا کل بارہ دعائیں ہوجاتی ہیں جو ہمیں ہمیشہ یاد رہنی چاہئیں۔
یہ سوال کہ صحابی کسے سمجھا جائے ایک اختلافی مسئلہ ہے اور مختلف علماء نے صحابی کی الگ الگ تعریف کی ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر میں اپنے ذوق کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی یہ تعریف کیا کرتا ہوں کہ:۔
’’صحابی وہ ہے جس نے احمدی ہونے کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہو یا آپ کا کلام سناہواور اسے آپ کو دیکھنایا آپ کا کلام سننا یاد ہو۔‘‘
بعض دوسرے لوگوں کی تجویز کردہ تعریف ،اس تعریف سے کمزور تر اور وسیع تر ہے۔لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسرے علماء ایسے بھی گزرے ہیں۔جنہوں نے اس تعریف کی نسبت زیاد ہ سخت اورزیادہ تنگ دائرے والی تعریف کو ترجیح دی ہے۔مثلََا وسیع دائرے والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:۔
’’وہ جس نے رسول کو مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو (یااس کا کلام سناہو)یا رسول نے اسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو‘‘
اس تعریف میں گویا ایسے نابالغ بچے بھی آجاتے ہیں،جنہیں خود رسول کا دیکھنا یاد نہیں ہوتا ۔مگر رسول نے انہیں دیکھا ہوتا ہے۔
اس کے مقابل پر تنگ دائرہ والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:۔
’’وہ مومن جس نے رسول کو اپنے بلوغ یا شعور کی حالت میں دیکھا ہو۔یا رسول کا کلام سنا ہو اور رسول کی صحبت میں رہ کر اس سے فائدہ اٹھایا ہو‘‘
صحابی کی مؤخر الذکر تعریف واقعی نہایت لطیف ہے اور صحابی کا لفظ بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے۔کیونکہ دراصل صحابی کے معنے ہی صحبت اٹھانے والے شخص کے ہیں۔اور قرآن شریف نے بھی ایک جگہ اسی تعریف کی طرف اشارہ کیاہے۔لیکن انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے (یا شاید یہ خوبی ہی ہو)کہ جب اس کے ہاتھ سے کوئی اعلیٰ چیز نکلنے لگتی ہے۔ یا نکل جاتی ہے تو پھر وہ نسبتاََادنیٰ چیز کو ہی اعلیٰ کہہ کر اس پر تسلی پانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جوں جوں حقیقی صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی ،علماء نے بھی صحابی کی تعریف میں وسعت پیدا کردی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے نابالغ بچوں کو بھی صحابیوں کے زمرہ میں شامل کرکے اس دائرہ کو وسیع کر دیا ۔اور اس میں شبہ نہیں کہ بسااوقات کم سنی یا خام عمری میں بھی ایک نیکی کی بات کان میںپڑی ہوئی دائمی فیض اور دائمی برکت کا رنگ اختیار کرلیتی ہے ۔اس لئے میں نے موجودہ حالات میں بین بین کی تعریف کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی روزانہ دعائوں میں صحابہ کی بابرکت جماعت کو بھی لازماََ شامل کرنا چاہئے ۔ اب یہ مبارک جماعت بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور میرے خیال میں اس وقت حقیقی صحابہ کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی ۔(کاش اب ہی ان کی فہرست مکمل کی جاسکے)اور پرانے صحابہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ پایا ہے،وہ تو بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں۔گویاچند سحری کے وقت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اگر ایک طرف دِل انتہائی خوشی سے بھر جاتا ہے تو دوسری طرف سینہ میں یہ ہوک بھی اُٹھتی ہے کہ نامعلوم ہواکا اگلا جھونکا ان میں سے کس کس کو بجھا کر رکھ دے گا ۔میرے دوستو ،بزرگواور عزیزو!یہ درد کی باتیں ہیں انہیں فلسفہ کی نظر سے نہ دیکھو بلکہ محبت کے ترازو سے تولواور جہاں اس مبارک گروہ کے واسطے دعائیں کرو وہاں ان سے کچھ عشق ووفا کا سبق بھی سیکھ لو۔آئندہ نسلوں کو علم سکھانے والے تو غالباََ بہت پیدا ہوجائیں گے۔مگر صحابہ کی سی والہانہ محبت کے حامل کسی ایک زمانہ میں اس کثرت کے ساتھ آئندہ جمع ہونے مشکل ہوںگے۔کیونکہ خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کے حاشیہ نشینوں نے وہی خمیر پایا ہے جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ ؑکے صحابہ کو پہنچا تھا۔چنانچہ قرآن شریف فرماتاہے۔ ۹۵ یعنی آخری زمانہ میں صحابہ کی سی ایک اور جماعت پیدا ہوگی اور حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے اُن کو ساقی نے پلادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی ۹۶
نوٹ:-اگرخداتوفیق دے تو مقامی جماعتوں کے امراء اور پریزیڈنٹ صاحبان کو چاہئے کہ اپنے حلقہ کے موجودہ صحابہ کی فہرست تیار کرکے میرے نام بھجوادیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے چالیس سال بعد آپ کے کون کون سے صحابی بقید حیات ہیں۔اس فہرست میں جو میرے والی تعریف مدنظر رکھ کر تیار کی جائے ان کوائف کا اندراج کافی ہے۔نام ولدیت مکمل پتہ (موجودہ اور فسادات سے پہلے کا) تاریخ بیعت اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب یا اشتہار میں ان کا نام آیا ہو تو اس کا حوالہ ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍اگست ۱۹۴۸ئ)







سعداللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان توجہ فرمائیں
تمام محکمانہ چٹھیاں افسران متعلقہ کے عہدہ کے پتہ پر آنی چاہئیں
ایک صاحب محترمی سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان صوبہ سرحد جو اتفاق سے میرے شاگردبھی واقع ہوئے ہیں۔اس لئے مجھے ان کی غلطی پردوہری حیرانی ہے۔اپنی ایک زمین کے تنازعہ کے تعلق میں جو ناظم صاحب جائیداد اور ان کے درمیان رونما ہے۔مجھے ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ خیال کرتے ہوئے میرے نام کے ساتھ ناظر اعلیٰ کا عہدہ لکھ کر چٹھیاں ارسال فرماتے رہتے ہیں اورچونکہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں اور اس معاملہ میں بالکل لاتعلق ہوں۔مجھے یہ چٹھیاں پوسٹ آفس کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ناظم صاحب جائیداد کو بھجوانی پڑتی ہیں۔جس کی وجہ سے لامحالہ دیر واقعہ ہوتی اور پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے ۔پس میں اس اخباری اعلان کے ذریعہ محترمی سعداللہ جان صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوںکہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں۔بلکہ قریباََ ڈیڑھ سال سے اس عہدہ سے الگ ہوںاوراگر بالفرض میں ناظر اعلیٰ ہوتا بھی تو پھر بھی اصولاً یہ درست نہیں کہ محکمانہ چٹھیاں کسی فرد کے نام پر بھجوائی جائیں۔بلکہ ہر چٹھی عہدہ کے پتہ پر جانی چاہئے اورپتہ میں نام کا اندراج نہیں ہونا چاہئے۔ورنہ وصول کنندہ کی بجائے فریسندہ کا زیادہ نقصان ہوگا ۔یہ غلطی بعض دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔مگر اس کا سب سے زیادہ ارتکاب صوبہ سرحد کے دوستوں کی طرف سے ہوتا ہے اور مجھے اس صوبہ پر رحم آتا ہے کہ یہ صوبہ جو بعض لحاظ سے سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے بلاوجہ میرانام درمیان میں لاکر سب سے زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔
صحیح طریق یہ ہے کہ جس صیغہ سے کسی معاملہ کا تعلق ہو۔ اس صیغہ کے افسر یا ناظر کو بحیثیت عہدہ چٹھی لکھی جائے (نہ کہ نام پر )پھر اگر وہ صیغہ توجہ نہ دے ۔تو ایک دو دفعہ یا د دہانی کے بعد ناظر اعلیٰ کو لکھا جائے اور اگر ناظراعلیٰ کی طرف سے بھی عدم توجہی رہے تو پھر حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کرنا اپنے کام کو خود نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔You have been warned.
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍اگست ۱۹۴۸ئ)
قادیان کے بیمار دوستوں کے لئے دُعا کی جائے
قادیان کے دوست یعنی دیار مسیح کے درویش آج کل جن حالات میں قادیان میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔ان کی حالت عملََا قیدیوں کی سی ہے۔البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ قیدیوں کو حکومت کھانا دیتی ہے۔مگر ہمارے دوستوں کو خود اپنا کھانا پڑتا ہے اور کھانا لازمََا بہت سادہ اور جسم میں طاقت پیدا کرنے والے اجزاء کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے اس کے علاوہ گو خدا کے فضل سے قادیان میں اپنا طبی انتظام موجود ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ انتظام موجودہ حالات میں پوری طرح تسلی بخش نہیں ہوسکتا اور ادویہ کاسٹاک بھی مکمل نہیں ہوتا۔ان حالات میں قادیان کے جو دوست بیمار ہوجاتے ہیںان کے علاج اور طاقت بحال رکھنے کا انتظام لازمََا نامکمل رہتا ہے اور زیادہ تر خدا کے فضل ورحم پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ولیس وراء اللّٰہ للمرء مذھب
آج کل بھی قادیان میں تین دوست بیمار ہیں یعنی (۱) مکرمی بھائی عبدالرحیم صاحب جو نومسلم بھی ہیں اور پرانے صحابی بھی اور گزشتہ کا نوائے میں امیر قافلہ ہو کر قادیان گئے تھے (۲)مکرمی بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی وہ بھی نو مسلم ہیںاور پُرانے صحابی بھی اور ہمارے اکثر دوست ان کے ایمان افروز مضامین اور مکتوبات کی وجہ سے انہیں جانتے ہیں اور (۳)مکرمی دفعدارمحمد عبداللہ صاحب جو کافی عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں۔میں احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تینوں دوستوں کی شفایابی اور صحت کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍اگست ۱۹۴۸ئ)



قادیان سے عیدالفطر کا ایک گرانقدر عطیہ
روحانیت کے خاص ماحول میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روحانی آنکھیں بھی تیز کردیتا ہے اور وہ چیزوں کی صحیح قدر و قیمت اور اپنے بھائیوں کے جذبات کا صحیح اندازہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس عید الفطر پر جو چند دن ہوئے گزری ہے مجھے قادیان کے ایک دوست سید محمد شریف صاحب نے عید کا ایک ایسا تحفہ بھیجا ہے جس نے میرے دل وماغ کومعطر کردیا ۔سید صاحب موصوف نے ایک تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کا تازہ ترین فوٹو بھیجا ہے ۔جس میں حضور کے مزار مبارک کے کتبے کاایک ایک لفظ پڑھاجاتا ہے۔مزار کے قریب خود سید صاحب موصوف دعا میں ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیںاور ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مزار بھی صاف نظر آرہا ہے۔
دوسر اتحفہ سید صاحب نے پانچ عدد پھولوں کی صورت میں بھجوایا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار کے قریب ترین موتیا کے پودے سے اتار کر بھیجے گئے ہیں۔ اتنے دن گزر جانے اور ان کے خشک ہوجانے کے باوجود ابھی تک ان پھولوں میں بھینی بھینی خوشبو موجود ہے ۔میں ان دونوں تحفوں پر سید صاحب موصوف کا دلی شکریہ ادا کرتاہوں ۔
فجزاہ اﷲ خیراً فی الدنیا والآخرہ
مگر جہاں قادیان کے ان تحفوں نے روحانی خوشی اور مسرت کی لہرپیدا کی وہاں ان کی وجہ سے قادیان کی مخصوص یاد بھی تیز تر ہوگئی اور موتیا کے خشک شدہ پھولوںکی بھینی بھینی خوشبو نے قادیان کے ارض و سما اور قادیان کے لیل ونہار کی زبردست مگردبی ہوئی مہک کو اس طرح اٹھایاکہ دل و دماغ میںتہلکہ برپا ہوگیا اور مزار مسیح کے پھولوں کی خوشی اس دعا پر ختم ہوئی کہ خدا یا جس طرح تو قادیان کایہ چھوٹا ساتازہ تحفہ ہمارے پاس لایا ہے اسی طرح یہ فضل بھی فرما کہ تیری بے حدو حساب قدر ت خودقادیان کو ایک مجسم تحفہ بناکر ہمارے سامنے پیش کردے۔
وما ذالک علی اﷲ بعزیز ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍اگست ۱۹۴۸ ئ)

صحابی کی تعریف کے متعلق ایک دوست کے چار سوالات
چند دن ہوئے میں نے الفضل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق دعا کی تحریک شائع کی تھی اور اپنے اس نوٹ میںضمناً صحابی کے لفظ کی تین تعریفیں بھی درج کی تھیں۔ایک وہ جس میںوسیع دائرے کو ملحوظ رکھا گیا ہے دوسرے وہ جو تنگ دائرے پرمشتمل ہے اور تیسرے ان دونوں کے بین بین کی تعریف اور میںنے لکھاتھاکہ موجودہ حالات میں ہمارے لئے بین بین کی تعریف زیادہ مناسب ہے۔ اپنے اس نوٹ میں، میں نے یہ بھی اشارہ کردیا تھا کہ ان تین تعریفوں پر ہی مصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ صحابی کے لفظ کی اور بھی تعریفیں ہوسکتی ہیں اور عملاًکی گئی ہیں۔
میرے اس مضمون پر ایک دوست نے چار سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان سوالوں کا جواب دوں ،سو میں اپنے علم کے مطابق نہایت اختصار کے ساتھ اس دوست کے سوالوں کے جواب درج ذیل کرتا ہوں۔
(۱) پہلا سوال یہ ہے کہ صحابی کی تعریف میں جویہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’رسول کودیکھا ہو یاآپ کاکلام سنا ہو‘‘ ان الفاظ میں’’یا ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اس کے جواب میںیادرکھنا چاہئے کہ یاکا لفظ اس لئے لکھا گیا ہے تاکہ اس تعریف میں ایسے لوگ بھی شامل ہو سکیں جو مثلاًآنکھوں کی بینائی سے محروم ہوتے ہیںاور رسول کو دیکھ نہیںسکتے مگر اس کاکلام سنتے اور اسکی محبت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض ایسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے بوجہ نابینا ہونے کے آنحضرت ﷺ کو دیکھا نہیںمگر آپ کے کلام کو سنا اور آپ کی صحبت سے مستفید ہوئے۔ مثلا ًعبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے جن کا ذکر کئی جگہ حدیث اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے اورخود قرآن شریف نے بھی سورۃ عبس میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیوں میں حافظ محمد ابراہیم صاحب یا حافظ احمدجان صاحب پشاوری معروف بزرگ گزرے ہیں۔جنہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے آپ کو دیکھا نہیںمگر آپ کا کلام سنا اور عرصہ دراز تک آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ۔ سو اس وقت کے معنوں کو صحابی کی تعریف میں شامل کرنے کیلئے یا کالفظ لکھنا ضروری تھا۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نابینا تو نہ ہو مگر کسی مجلس میں یاکسی پبلک جلسہ میں وہ ایسے طریق پر شامل ہوا ہو کہ اس نے رسول کاکلام تو سن لیا ہو مگر کسی اوٹ وغیرہ کی وجہ سے یا فاصلہ کی دوری کی وجہ سے رسول کو دیکھ نہ سکا ہو۔اس طبقہ کو شامل کرنے کے لئے بھی اس قسم کے الفاظ صحابی کی تعریف میں داخل کرنے ضروری ہیں کہ ’’ یا آپ کا کلام سنا ہو‘‘اسی طرح بعض اور امکانی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ۔جن کے ذکر کی ضرورت نہیں ۔گویابعض صحابی تو ایسے ہونگے کہ جنہوں نے رسول کو دیکھا بھی ہوگا اور اس کا کلام بھی سناہوگا اور بعض ایسے ہوںگے جنہوں نے رسول کودیکھا تو نہیں ہوگا مگر اس کا کلام سنا ہوگا اور امکانی طور پر بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیںجنہوں نے رسول کو دیکھا تو ہوگا مگر اس کا کلام نہیںسنا ہوگا ۔
(۲)دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا کلام سننے سے بالمشافہ کلا م سننا مراد ہے یاکہ غائبانہ طور پر رسول کے زمانہ میں اس کا کلام پڑھنا یا اس سے خط و کتابت کے ذریعہ فیض حاصل کرنا بھی کافی ہے۔ اس کے جواب میں یادرکھنا چاہئے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی ایک معروف بزرگ ایسے گزرے ہیںجو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میںبھی مسلمان ہوئے مگر انہوں نے نہ تو آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور نہ بالمشافہ آپ کا کلام سنا ان کانام اویس قرنی ؓ تھا ۔سو اکثر علماء نے ان کو صحابہ کی تعریف میںشامل کیاہے ۔کیونکہ وہ رسول کے وقت میںاسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے اور رسول کے ساتھ ان کو پیغام و سلام اور غائبانہ استفادہ کا بھی موقع میسر آیا اور مرا ذاتی میلان بھی اسی طرف ہے کہ ایسے لوگ صحابی کی تعریف میں شامل سمجھے جانے چاہئیں ۔کیونکہ وہ صحابی کی تعریف کی روح کو پورا کرتے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جو حضور کی تحریری بیعت سے مشرف ہوئے اور حضور کی تصانیف کا حضور کے زمانہ ہی میں مطالعہ کیا اور حضور کی خط و کتابت سے بھی مشرف ہوئے مگر حضور سے ملے نہیں میںا ن بزرگوں کو صحابہ کی تعریف سے خارج کرنے کی جرأت نہیں پاتا ۔گو میں یقینا اسے ایک بھاری محرومی خیال کرتاہوں کہ رسول کے زمانہ کو پاکر اور اس پر ایمان لاکر پھر بھی اس کی زیارت سے محروم رہا جائے۔
(۳) تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کے ہاتھ پر بیعت کرے لیکن بعد میں اپنی کوتہ بینی یا بد بختی سے مرتد ہوجائے تواس کے متعلق کیاحکم ہے ،سو ظاہر ہے کہ جو شخص ایک درخت کے ساتھ اپنا پیوند جوڑنے کے بعدپھر اس پیوند کو کاٹ دیتا ہے ۔وہ کسی صورت میں اس درخت کی شاخ نہیں سمجھا جاسکتا ۔کیونکہ ر سول کی روح کے ساتھ اس کی روح کا اتصال کٹ چکا ہے۔ گزشتہ علماء نے بھی ایسے لوگوں کو صحابی کی تعریف میں شامل نہیں کیا ۔ کیونکہ خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایسے بدبخت موجود تھے کہ جنہوں نے اسلام کے نور سے روشنی حاصل کی اور پھر خود اپنے ہاتھ سے اپنے دلوں کے چراغ کو بجھا کر اپنے لئے اندھیر اپید اکرلیااور ایسے تمام لوگوں کوعلماء اسلام نے صحابہ کی تعریف سے صحیح طور پر خارج کیاہے البتہ بعض اوقات وہ ایک تاریخی واقعہ کے اظہار کے طور پر یہ ضرور ذکر کردیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اسلام قبول کیا تھا مگر پھر مرتد ہوکر اسلام سے کٹ گیا ۔یہ اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںبھی چسپاں ہوگا ۔البتہ اگر عبداللہ بن ابی سرح کی طرح کوئی شخص ارتداد کی ٹھوکر کھا کر پھر اسلام کی سعادت حاصل کرلے تو ایسے شخص کو صحابہ کے گروہ میںشامل کرنے میںتامل نہیںہونا چاہئے۔
(۴)چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی اور ا سکی صحبت سے فائدہ اٹھا یا لیکن رسول کی وفات کے بعد وہ خلافت کی بیعت سے منحرف ہوگیا۔ تو اسکے متعلق کیا سمجھا جانا چاہئیے؟ اس کے جواب میں زیادہ محتاط الفاظ تو میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ لیکن ایک اصولی بات ذکر کردیناضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرنا چاہتاہے تو اسکی یہ سنت ہے کہ وہ ایک لمبے نظام کی صورت میں اس تغیر کو آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے،اور ایسا نہیں کرتا کہ ایک شخص کو اپنے پیغام سے مشرف کر کے دنیا میں پید اکرے اور پھر اس کے بعد اس پیغام کی خامیاںبھی کو بال کسی مزید نگرانی اور تنظیم کے کفر و الحاد کے تھپیڑ ے کھانے کے لئے چھوڑدے۔ اگر ایسا ہو تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سمندر میں ایک پتھر پھینک کر لہر پید ا کی گئی ۔اور پھر اس لہر کے مرنے اورختم ہونے کے لئے یونہی چھوڑ دیا گیا ، یا یہ کہ ایک کسان نے ایک فصل پید ا کرنے کے لئے ایک بیج بویا ،اور پھر بیج بونے کے بعد اس نے اپنے کھیت کو بغیر کسی نگرانی کے چوروں اور ڈاکوئوں اور مویشیوں اور دیگر حادثات کا نشانہ بنادیا ۔ یہ صورت خدائے حکیم کی ازلی سنت اور عقل و خرد کے تمام اصولوں کے خلافہے۔ خد اکی سنت یہی ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرناچاہتا ہے تو پھر اس تغیر کے لئے ایک رسول پید اکرتا ہے اور پھر اس رسول کے ہاتھ پر ایک منظم جماعت جمع کرتا ہے اور پھر اس جماعت کو ایک نقطہ پر متحد رکھنے کے لئے اور جماعت سے رسول کی بعثت کی غرض و غایت کے مطابق کام لینے کے لئے خلفا ء کا سلسلہ جاری فرماتا ہے اور یہ سارا سلسلہ اس خدائی تنظیم کا لازمی حصہ ہوتا ہے جو ہر نئے الٰہی پیغام کے وقت قائم کیاجاتاہے۔ پس جو شخص رسول کو تو مان لیتا ہے مگر اس کے بعد الٰہی تنظیم کی باقی کڑیوں سے کٹ جاتا ہے بلکہ ان کی مخالفت کے درپے ہوجاتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جسے ایک شخص کسی منزل پر پہنچنے کے لئے روانہ ہوا مگر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد راستہ کو چھوڑکر علیحدہ ہوگیا ،لیکن میں اس اظہار سے بھی رک نہیں سکتا کہ اس قسم کے لوگ بھی دراصل مختلف نوع کے ہوسکتے ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ وہ خلافت کے دامن سے صرف کٹتے ہی نہیں بلکہ اسے مٹادینے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔لیکن بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیںکہ وہ کسی وجہ سے رک کر عملاً علیحدہ ہوجاتے ہیںمگر مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں اور بالعموم حسن ظنی کے مقام پر قائم رہتے ہیں۔ غالبا ً خدا کا حق وانصاف کا ترازو ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور کرے گا۔ بایں ہمہ میں اس جواب کے آخر میں بھی ان الفاظ کے دوہرانے سے رک نہیں سکتا کہ
۹۷
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۴۸ئ)










ہم لاہور میں کس طرح رہ رہے ہیں؟
رتن باغ اور ملحقہ مکانوں کی آبادی
لاہور میں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کی آبادی کا سوال اکثر اُٹھتا رہتاہے۔ اور اس ضمن میں جو مکانات جماعت احمدیہ قادیان نے صدر انجمن احمدیہ کے ذریعہ سے لاہور میں الاٹ کرائے ہیں۔ اُن کا سوال بھی بعض اوقات اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم نے اپنی ضرورت سے زیادہ مکانات الاٹ کروارکھے ہیں۔اس شبہ کے ازالے کے لئے میں نے چند دن ہوئے رتن باغ اور اس کے ملحقہ مکانات کی مردم شماری کرائی تھی ۔اس مردم شماری کا نتیجہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔اس وقت صدر انجمن کی وساطت سے چار مکانات جماعت کے نام الاٹ شدہ ہیں۔یعنی (۱)رتن باغ (۲)جودہامل بلڈنگ (۳)جسو نت بلڈنگ اور(۴)سیمنٹ بلڈنگ ۔ان عمارتوں میں حضرت خلیفتہ المسیح امام جماعت احمدیہ اور آپ کے خاندان کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکن اور بہت سے دوسرے احمدی پناہ گزین آبادہیں۔اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی انہیں عمارتوں میں ہیں۔بہرحال مردم شماری کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
نمبر شمار
نام عمارت
تعداد خاندان
تعداد افراد
کیفیت
(۱)
رتن باغ
۸۲
۳۹۵
(۲)
جودہا مل
۲۲
۱۴۱
(۳)
جسونت بلڈنگ
۲۴
۱۳۹
(۴)
سیمنٹ بلڈنگ
۲۴
۱۲۶

میزان
۱۵۲
۸۰۱
اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت سے جو چار عمارتیں بشمول رتن باغ ہمارے قبضہ میں ہیںاُن میں ۱۵۲(ایک سو باون)خاندان آباد ہیں۔اور کل تعداد ۸۰۱(آٹھ سو ایک)ہے۔اور یہ خاندان فرضی نہیںبلکہ ایسے خاندان ہیں جو قادیان میں اپنے علیحدہ علیحدہ مکانات اور مستقل انتظام رہائش رکھتے تھے اور ابھی ان اعداد وشمار میں وہ احمدی مہمان شامل نہیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے مرکز میںسے کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیںاور موجودہ حالات میں ان میں سے اکثر کو ٹھہر انے اور جگہ دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور وہ ادھر اُدھر پرائیویٹ گھروں میں ٹھہرکر نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو خاندان ان عمارتوں میں آباد ہیں۔ان میں سے کئی ایسے ہیںجو قادیان میں پانچ پانچ یا دس دس یا بعض صورتوں میں پندرہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ کمروں کے مکانوں میں رہائش رکھتے تھے ۔مگر اب انہیں رتن باغ یا اس کی ملحقہ عمارتوں میں ایک ایک یا دو دوکمروں میں بڑی تنگی کے ساتھ گزارا کرنا پڑتاہے۔
یہ نوٹ اس لئے شائع کیا جارہا ہے کہ کم ازکم وہ لوگ جومحض حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اُن کی نیت بخیر ہے،وہ صحیح حالات سے واقف ہو جائیں۔باقی تفصیلی حالات تو صرف خدا جانتا ہے اور وہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور ہماری التجائوں کو سننے والا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اگست ۱۹۴۸ئ)




ایک مخلص دوست کے لئے دعا کی تحریک
اس وقت قادیان میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مقامی امیر ہیں۔مولوی صاحب موصوف نہ صرف ذاتی طور پر نہایت مخلص اور سلسلہ کے دیرینہ خادم ہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے بھی ایک قدیم مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیںاور ان کی زوجہ شیخ حامد علی صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین خدام میں سے تھے۔ مولوی صاحب موصوف کا ایک ہی بچہ (بشارت احمد بی ۔ ایس ۔ سی ) ہے جس نے سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے لیکن اس وقت تک اس بچہ کے کوئی اولاد نہیں ۔ حالانکہ کئی سال ازدواجی زندگی پر گزر چکے ہیں ۔ میں دوستوں کی خدمت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مولوی صاحب موصوف کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچہ کو صالح اولاد نرینہ عطا فرماوے ۔ اس وقت مولوی صاحب ہر لحاظ سے ہماری خاص دعائوں کے مستحق ہیں ۔ وَمَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اﷲ ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱؍ اگست ۱۹۴۸ء )



ڈاکٹر میجر محمود احمدکی شہادت
ایک مخلص اور بے نفس نو جوان ہم سے جدا ہوا
دوستوں کو اخبار الفضل کے ذریعہ ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔چونکہ مرحوم میجر محمود میرے صیغہ کے انتظام کے ماتحت گزشتہ ایام میں قادیان بھی گئے تھے،اس لئے میںضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق دعا کی تحریک کی غرض سے یہ مختصر نوٹ الفضل میں شائع کرائوں۔
مرحوم ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب امرتسر کی مشہور اور قدیم مخلص قاضی فیملی کے ایک بہت ہی ہونہار اور احمدیت کے فدائی نوجوان تھے۔ان کے دادا ڈاکٹر قاضی کرم الہٰی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوئے ۔ اور پھر آج تک یہ خاندان اپنے اخلاص میں ممتاز چلا آیا ہے۔گزشتہ فسادات کے دنوں میں ڈاکٹر میجر محمود احمد نے اپنی ترقی کرتی ہوئی کوئٹہ کی پریکٹس کوخطرے میں ڈال کر قادیان کی خدمت کے لئے اپنا نام پیش کیا ۔اور جب اوائل اکتوبر ۴۷ء میں ایک کانوائے قادیان گیاتو اس میں میرے لڑکے عزیز مرزا منیر احمد کے ساتھ مرحوم میجر محمود بھی شامل تھے۔مگر ان ایام میں چونکہ قادیان کی احمدی آبادی پر بڑا حملہ ہونے والا تھا ۔اس لئے اس کانوائے کو غلط بہانہ رکھ کر بٹالہ میں روک لیا گیا ۔ اور نہ صرف روکا گیا بلکہ اسے بٹالہ میں بے پناہ گولیوںاور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیااورمرحوم محمود احمد بٹالہ سے لاہور واپس آنے پر مجبور ہو گئے۔چنانچہ انہوںنے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت دوسرے کانوائے کی انتظار میں رتن باغ کے کیمپ میں احمدی پناہ گزینوں کی خدمت اپنے ذمہ لی اور نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فرض کو سرانجام دیا۔اس کے بعد جب اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں دوسرا کانوائے قادیان گیا تو مرحوم میجر محمود احمد کو بھی قادیان جانے کا موقع میسر آگیا ۔تو مرحوم نے اپنے والدین کو خطرات کے پیشِ نظر ان الفاظ میں اپنے سفر کی اطلاع دی کہ میںسلسلہ کی خدمت کی غرض سے قادیان جارہا ہوںاور اپنے پیچھے آپ کی تسلی کے لئے اپنے اکلوتے اور چھوٹے بچے کو چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر میں زندہ نہ لو ٹوں توآپ صبر سے کام لیںاور خدا کے شکر گزار رہیں۔
چنانچہ ڈاکٹر میجر محمود احمد قادیان گئے اور کم وبیش تین ماہ تک قادیان میں رہ کر نہایت اخلاص اور محبت اور خاموشی کے ساتھ بیمار درویشوں کی خدمت سر انجام دی اور یہ ان کی مخلصانہ خدمات کا نتیجہ تھا کہ مخالفت کے باوجود بہت سے ہندواور سکھ بھی ان سے علاج کروانے کے لئے ہماری ڈسپینسری میں آتے رہے۔بلکہ غیر مسلم ڈاکٹروں پر بھی ان کو ہر رنگ میں ترجیح دیتے رہے۔اس کے بعد وہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت جنوری ۴۸ء میں لاہور واپس آگئے ۔اور حضور کی ملاقات کے بعد حضور کی اجازت سے اپنی پریکٹس شروع کرنے کے لئے پھر کوئٹہ چلے گئے ۔اور اس عرصہ میں ان کو یہ خوشی بھی نصیب ہوئی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے اپنے گرمائی سفر کے لئے اس سال کوئٹہ کو ہی منتخب فرمایااور مرحوم ڈاکٹر میجر محمود احمد کو مزید خدمت اور صحبت کا موقع حاصل ہوا۔
میں اپنی طرف سے اور اپنے صیغہ کی طرف سے اور قادیان کے درویشوں کی طرف سے مرحوم کے والدین اور دیگر عزیزوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بیوی اور بچے کا حافظ وناصر ہو اور بچے کو باپ کے اخلاص اور جذبۂ خدمت کا وارث کرے۔بلکہ ان سے بڑھ کر۔آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍اگست ۱۹۴۸ئ)



پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال
مغربی پنجاب کی حکومت اور مشرقی پنجاب کے ایم ۔ایل ۔اے
صاحبان کو مخلصانہ مشورہ
کچھ عرصہ سے پناہ گزینوں کی ضلعوارآبادی کا سوال اٹھا ہواہے۔ اور متعدد اخبارات اس سوال کے متعلق اپنا اپنا خیال ظاہر کر چکے ہیں۔جو مسلمان ایم۔ایل ۔اے مشرقی پنجاب سے آئے ہیں،ان کا یہ مطالبہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کو ضلعوار آبادی کے اصول پر آباد کیا جائے۔ اور اس تعلق میں ان کا یہ بھی دعویٰہے کہ مغربی پنجاب کی وزارت نے ان کے ساتھ ضلعوارآبادی کا وعدہ بھی کیا تھا۔مگر بعد میں مشترکہ کو نسل میں جاکر اس وعدہ کو فراموش کر دیا۔اس کے علاوہ ان مشرقی ایم۔ایل۔اے صاحبان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو وزارت میں لیا جائے اور یہ دونوں امور کافی طور پر زیر بحث آچکے ہیں۔اور اس بحث کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق مختصر طور پر اظہار خیال کرکے بحث کے حل میں سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔وما تو فیقی الابااللّٰہ العلیم العظیم
جہاں تک ضلعوار آبادی کا سوال ہے۔ ایک بات بالکل واضح اور ظاہر وعیاں ہے کہ اگر شروع میں ہی جبکہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزین سکھوں اور ہندوؤںکے مظالم سے بھاگے ہوئے مغربی پنجاب میں آئے تھے، انہیں ضلعوار آبادی کے اصول پر آباد کیا جاتاتو بہرحال یہ بہت بہتر ہوتااور اس کے ذریعہ سے بہت سی وہ خرابیاں جو آبادی کے انتظام میں واقع ہوئیں رک جاتیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ پنجاب میں دیہات کی آبادی قوم واراصول پر مبنی ہے۔ یعنی ہر گائوں میں ایک خاص نسل یا قوم یا قبیلے یا خاندان کے لوگ آباد ہوتے ہیںجن کا سلسلہ ایک مخصوص مورثِ اعلیٰ سے چلتا ہے۔اور ان لوگوں کے درمیان ایک متحدہ برادری کا رنگ قائم ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایک دوسرے کی روایات کے واقف اور ایک دوسرے کے مزاجوں سے شناسا ہوتے ہیںاور اگر ورثہ وغیرہ کی تقسیم کے متعلق کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو ان لوگوں کا شجرہ نسب بھی گائوںکے ہر شخص کو معلوم ہوتاہے۔چنانچہ پنجاب کے اکثر دیہات کا نام بھی قوموں کی بناء پر رکھا گیا ہے۔ مثلََا اگر کسی گائوں میں بھٹی راجپوتوں کے خاندان آباد ہیںتو وہ گائوں بھٹی کہلاتا ہے۔اور اگر کھوکھر قوم کے راجپوت آبادہیں تو بسا اوقات ایسا گائوںکھوکھر کہلاتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی گائوں جاٹوں کے چیمہ قبیلہ سے آباد ہے تو یہ گائوں چیمہ کہلاتاہے۔ اور اگر بھنگوقوم سے آباد ہے تو ایسا گائوںبھنگواں کہلاتا ہے۔اوراگر کاہلوں گوت کے جاٹوں سے آباد ہے تو ایسا گائوں کاہلواں کہلاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آبادی کے اس طریق سے بھی پنجاب کے دیہات کی قوم وار آبادی کااصول ظاہر ہے ۔پس اس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ اگر شروع میں ہی پناہ گزینوں کو ضلع وار آبادی کے اصول پر بسایا جاتاتو یہ بہرحال بہت بہتر ہوتا ۔بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ضلعوار آبادی کا اصول بھی ایک حد تک انتشار پیدا کرنے والا ہے۔زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ تحصیل وار یا تھانہ وار بلکہ دیہہ وار اصول پر آبادی کی جاتی اور شروع میں یہ کوئی مشکل کام نہ تھا ۔بلکہ ذرا سی مزید توجہ اور ذرا سے مزید انتظام کے ساتھ یہ سارا کام آسانی کے ساتھ سرانجام پاسکتا تھا۔ اور وہ اس طرح کہ لاہور اور دیگر اضلاع میں پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کر دئیے جاتے (اور بہرحال کیمپ تو اب بھی قائم ہیں) اور یہ ضروری قرار دیا جاتا کہ جو پناہ گزین بھی دیہاتی علاقہ میں آباد ہوناچاہے وہ پہلے کیمپوں میں جائے ، یا کم از کم کیمپوں کے ریکارڈ میں اس کا نام درج ہواور پھر آگے ان کیمپوں سے علاقے میں پناہ گزینوں کی تقسیم کا انتظام کیا جائے۔اگر مغربی پنجاب کی حکومت کو مشرقی پنجاب کے دیہات کے نام معلوم نہیں تھے۔ ( گو مرکزی ریکارڈ سے یہ کوائف حاصل کرنا بھی مشکل نہ تھا) تو کم از کم تحصیلوں اور تھانوں کے نام تو معلوم تھے ۔پس شروع میں ہی مردم شماری کے اعدادوشمار کی بناء پر مشرقی پنجاب کی ہر تحصیل اور ہر تھانہ کے مقابل پر مغربی پنجاب کی ملتی جلتی تحصیل اور تھانہ نامزد کیا جاسکتا تھا۔اور ذرا سامزید وقت دے کر اور تھوڑے سے مزید انتظام کے ساتھ یہ سارا مرحلہ بخوبی طے پاسکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ فسادات اور ہجرت کا زمانہ غیر معمولی مصائب اور انتشار کا زمانہ تھا۔اور اس زمانہ کی ہنگامی نوعیت کی وجہ سے حکومت کی کئی غلطیاں دراصل قابل معافی ہیں۔ اور ان پر زیادہ سختی سے گرفت کرنا عقلمندی کا شیوہ نہیں۔درحقیقت یہ ایک قیامت کا زمانہ تھاجس میں تمام سابقہ نظام ٹوٹ کر انتہائی ابتری کی حالت پیدا ہوچکی تھی۔لیکن پھر بھی اگر ذرا سوچ بچار اور دور بینی سے کام لیا جاتا تو مشرقی پنجاب کی ہرتحصیل اور تھانہ کے مقابلہ پر مغربی پنجاب کی تحصیلوں اور تھانوں کو نامزد کرکے ضلعوار کیمپوں کے ذریعہ سے پناہ گزینوں کی تقسیم کرنا ناممکن نہیں تھا۔اوراگر ایسا ہوتا تو اس کی وجہ سے بہت سی خرابیوں کا سّدِباب ہوجاتا۔مثلََا:۔
(۱) رشتہ دار اور برادری کے لوگ اکٹھے رہتے اور فسادات کی ہولناک مصیبت پر اس مصیبت کا اضافہ نہ ہوتاکہ بھیڑ بکریوں کے ایکمنتشرگلہ کی طرح کوئی رشتہ دار لاہور میں ہے تو کوئی ڈیرہ غازی خان میں۔کوئی لائلپورمیں ہے تو کوئی مظفرگڑھ میں۔ کوئی سیالکوٹ میں ہے تو کوئی بہاولپور میں۔یہ ایک مصیبت کے اوپر کی دوسری مصیبت صرف موجود ہ پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے فسادات کا صدمہ نہایت ہولناک صورت اختیار کر گیا۔
(۲)موجودہ تقسیم کے لحاظ سے بہت سے غیر زمیندار جو مشرقی پنجاب میں زمین کے مالک نہیں تھے غلط رپورٹ کر کے اپنے نام پر زمین الاٹ کرواچکے ہیں۔کیونکہ ان کی رپورٹ کو چیک کرنے کا کوئی مؤثر انتظام موجود نہیں تھا لیکن اگر علاقہ وار آبادی کا انتظام ہوتاتو کسی کو اس قسم کی غلط رپورٹوں کی جرأت نہ ہوتی ۔اور اگر کوئی من چلاجرأت کرتاتو اسی گائوں والوں کی شہادت اس کے خلاف موجود ہوتی۔
(۳)علاقہ وار آبادی کا اصول اختیارکرنے سے یہ بھاری فائدہ بھی ہوتا کہ جو زمین مغربی پنجاب میں غیر مسلموں نے چھوڑی ہے وہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے لئے کافی ہوجاتی۔ کیونکہ اس صورت میں ناجائزالاٹ منٹ کا راستہ بند ہوتا ۔اور جو ہولناک نظارہ اب نظرآرہاہے کہ اب تک لاکھوں زمیندارکیمپوں میں پڑے سڑرہے ہیںوہ نظر نہ آتااور سب لوگ سہولت کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کی زمین حاصل کر لیتے ۔اکثر مبصروں کا خیال ہے کہ زمین تو پوری ہے مگر ناجائز الاٹ منٹ کی وجہ سے کم ہو گئی ہے۔
(۴)موجودہ تقسیم میں بعض بے اصول پٹواریوں اور گرداوروں بلکہ ان کے بالاافسروں کو ناجائز ہاتھ رنگنے کا جو موقع مل گیاہے وہ بھی علاقہ وارتقسیم کی صورت میں ہر گزنہ ملتا یا بہت کم ملتااور یہ دردناک نظارہ نظر نہ آتاکہ مشرقی پنجاب کا زمیندار ایک تو مشرقی پنجاب سے لٹ کر آیا ہے اوردوسرے اسے مغربی پنجاب کے بے اصول سرکاری ملازموں کے سامنے اپنی باقی ماندہ جیب خالی کرنی پڑی ہے۔
دنیا بھر میں حسنِ انتظام کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی اہم کام کو یونہی بے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینا ہمیشہ خرابیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتاہے۔اور اس کے مقابل پر اگر شروع میں تھوڑا سا وقت بھی سوچنے اور سکیم بنانے میں خرچ کردیا جائے تو یہ وقت ضائع نہیں ہوتا۔بلکہ بہت سی بعد کی خرابیوں کے سدّباب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یہ سوال نہیں اٹھنا چاہئیے کہ شروع میں جو وقت سکیم بنانے میں خرچ ہوتا اس وقت پناہ گزین کہاں جاتے اور ان کا کیا انتظام ہوتا۔کیونکہ میں بتا چکا ہوں کہ پناہ گزینوں کو شروع میں کیمپوں میں لے جانا چاہئیے تھا۔یا کم از کم ہر دیہاتی پناہ گزین کا نام کسی نہ کسی کیمپ میں درج ہوتااور اس کے بعد علاقہ وار تقسیم کی جاتی۔پس یہ سوال بالکل لا تعلق ہے اور قطعََا غیر مئوثر ہے کہ جووقت سکیم بنانے میں خرچ ہوتا۔اس وقت پناہ گزین کہاں جاتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں بعض پناہ گزین دس دس جگہ گھومے ہیں۔اور پھر کہیں جا کر انہیں سر چھپانے اور روٹی کھانے کی جگہ ملی ہے۔پس دراصل موجودہ صورت میں زیادہ وقت خرچ ہواہے۔اورادھر اُدھر گھومنے میں جو غریب مہاجرین کا روپیہ خرچ ہوا ہے وہ مزید برآں ہے ۔پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے کسی عقلمند کے نزدیک اس بات میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر شروع میں ہی علاقہ وار آبادی کا انتظام ہوتاتو یقینایہ بہت بہتر تھا۔
لیکن اب جبکہ مسلمان پناہ گزین جس طرح بھی ممکن ہوا بہت سی پریشانیوں اور اخراجات برداشت کرنے کے بعد مختلف علاقوں میں آباد ہو چکے ہیںتو انہیں دوبارہ اپنی جگہ سے اکھیڑنا اور اخراجات اور پریشانیوں کے چکر میں سے دوبارہ گزارنا بھی ہرگز دانشمندی کا طریق نہیں بلکہ ایسا کرنے کے یہ معنی ہوںگے کہ جو قیامت گزر چکی اسے پھر اپنے ہاتھوں سے دوبارہ پیدا کر دیا جائے۔میں یقین رکھتا ہوں اور میرے ذاتی معلومات بھی یہی ہیںکہ خود پناہ گزینوں کا اسی(۸۰) فیصد ی حصہ اس چکر میں دوبارہ پڑنے اوراس دلدل میں دوبارہ پھنسنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایک غلطی تھی جو ہو چکی اور یہ ایک معمولی غلطی نہ تھی بلکہ بہت بھاری غلطی تھی مگر بہرحال وہ گزرچکی۔اب اس غلطی کو درست کرنے کے لئے ایک دوسرا غلط اقدام اٹھانا کسی صورت میںبھی مناسب نہیں۔اگر یہ قدم اٹھایا گیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جس طرح انسانیت کا ایک بے پناہ سیلاب پہلے ایک حکومت سے دوسری حکومت کی طرف منتقل ہوا۔پھر دوبارہ یہی سیلاب مغربی پنجاب کے سولہ ضلعوں میں چکر کھانے لگے گا۔ ایسا کرنے سے غریب پناہ گزین پہلے کی سی پریشانیوں یاکم از کم اس سے ملتی جلتی پریشانیوں میں مبتلا ہوں گے۔وہی اخراجات کا سلسلہ یااس سے ملتا جلتاسلسلہ دوبارہ شروع ہوگااور بے اصول کارندوں کی ہتھیلیوں میں پھر پہلے کی سی کھجلی شروع ہوجائے گی۔ پس میں اپنے مشرقی پنجاب کے ایم۔ایل۔ اے دوستوں سے عرض کروں گا کہ وہ اب صبر سے کام لیںاور دوہری مصیبت کا چکر کھڑا کرنے پرمصر نہ ہوںبے شک انہیں تکلیف ہوئی۔بے انتہامصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے ووٹروں کا گلّہ پریشان ہو کر تتر بتر ہو گیا۔اور ان کی آیندہ اسمبلی کی نمائندگی بھی معرضِ خطر میں پڑ گئی۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود اب عملی دانائی اسی میں ہے کہ جو کچھ ہو گیا اس میں مزید تغیرو تبدل پر زور نہ دیا جائے۔
البتہ جیسا کہ مشترکہ کونسل نے فیصلہ کیا ہے یہ ضرور ہونا چاہئیے کہ جولوگ اس وقت تک کیمپوں میں پڑے ہیںانہیں علاقہ وار آبادی کے اصول پر آباد کیا جائے تاکہ جس حصہ کا علاج ہمارے ہاتھ میں ہے کم از کم وہ تو ہمارے ہاتھ سے ضائع نہ ہو۔اس کے علاوہ یہ انتظام بھی ہونا چاہئے کہ جو آبادشدہ پناہ گزین آبادی کے دوسرے انتقال کی زحمتوں کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں ۔انہیں بھی جہاں تک ممکن ہو علاقہ وار تقسیم کے ماتحت آبادکر دیا جائے۔لیکن بہرحال یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ جمے جمائے پناہ گزینوں کو ان کی مرضی کے خلاف جبرکر کے ایک علاقہ سے اٹھاکر دوسرے علاقہ میں بھیجا جائے۔ موجودہ حالات میں یہی دانشمندی کا اصول ہے۔کہ جو ہو چکا اسے قبول کیا جائے اور پناہ گزینوں کو جبراََ دہرے انتقال پر مجبور نہ کیا جائے۔سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی خوشی سے اس کے لئے تیار ہوں۔
باقی رہا مشرقی پنجاب کے ایم۔ایل۔اے صاحبان کا یہ مطالبہ کہ ان میں سے کسی شخص کو وزارت میں لیا جائے۔سو یہ ایک نہایت واجبی اور نہایت معقول بلکہ نہایت ضروری مطالبہ ہے۔اور تعجب ہے کہ اس وقت تک حکومت نے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔حالانکہ اسے پورا کرنے کے راستہ میں کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جسے دُورنہ کیا جاسکے۔ظاہر ہے کہ پناہ گزینوں کی ضروریات اور ان کی مشکلات کو وہی لوگ زیادہ سمجھ سکتے ہیںاور وہی لوگ ان کے دلوں میں زیادہ اعتمادپیدا کرسکتے ہیںجو ان کے ہم وطن ہیں۔اور صدیوں سے ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے حالات کو جانتے ہیں۔اور فسادات سے قبل اسمبلی میں ان کے نمائندہ بن چکے ہیں۔پچاس ساٹھ لاکھ کی نفری تو ویسے بھی کسی جمہوری اصول کے ماتحت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں سمجھی جاسکتی ،چہ جائیکہ اس قسم کی مصیبت کے ایام میں جو دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں رکھتے اس دکھیا آبادی کو بغیر سہارے اور بغیر نمائندگی کے چھوڑ دیا جائے،بے شک یہ ایم۔ایل ۔اے صاحبان قائداعظم گورنر جنرل کے حکم کے ماتحت مغربی پنجاب کی اسمبلی کے ممبر قرار پاچکے ہیں،مگر ممبری اور چیز ہے اور وزارت اور چیز ہے۔اور کوئی وجہ نہیں کہ سارے حالات دیکھتے ہوئے ان صاحبان کو وزارت میں حصہ نہ دیاجائے۔یہ ایک نہایت واجبی اور ضروری اور قرین انصاف مطالبہ ہے جو فوراََ پورا ہونا چاہئے اور پھر جو شخص مشرقی پنجاب کے ایم۔ایل۔اے صاحبان میں سے وزیر چنا جائے اسی کا حق ہے کہ پناہ گزینوں کا شعبہ اس کے سپرد ہو اور اس کی امداد اور مشورہ کے لئے بعض دوسرے پناہ گزینوں کی ایک مشاورتی کمیٹی بنادی جائے۔اور اس کمیٹی میں مشرقی پنجاب کی ریاستوں کے بعض نمائندے بھی لئے جائیں۔کیونکہ یہ لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں مغربی پنجاب میں پہنچے ہیں۔اور شاید انہیں مشرقی پنجاب کے دوسرے مسلمان مہاجروں کی نسبت بھی زیادہ تکالیف برداشت کرنی پڑی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی قرینِ انصاف ہوگاکہ موجودہ غیر معمولی انتشار کے پیشِ نظر کم ازکم آئندہ ایک انتخاب میں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے حلقہ ہائے انتخاب علاقہ وار تقسیم کی بجائے آبادی کے اصول پر مقرر کئے جائیں۔تاکہ مہاجرین کا مصیبت زدہ طبقہ اپنے اعتماد کے مطابق نمائندے چن سکے۔اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ بلکہ اتنے عرصہ میں امید کرنی چاہئے کہ خدا کرے تو مہاجرو انصار باہم شیروشکر ہو کر ایک ہو جائیں اور علیحدہ نمائندگی کی ضرورت باقی نہ رہے۔
میں امید کرتاہوں کہ میرے اس مخلصانہ مشورہ کو حکومت مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کے ایم۔ایل۔اے صاحبان قبول کرکے موجودہ بحث کو جو ناگوار طوالت اختیار کر چکی ہے جلد تر ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔اور ہمارا حافظ وناصر رہے۔
اٰمین یا ارحم الرحمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍اگست ۱۹۴۸ئ)




دو اغواشدہ عورتوںکی بازیابی
(۱)قادیان سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ان کے پاس ایک مسلمان اغوا شدہ عورت مسمات بی بی ساکن ڈنڈیانہ متصل جموں پہنچی ہے۔اس کے والد کا نام چراغ دین اور والدہ کا نام حسین بی بی ہے اس کے بھائیوں کا نام رحمت علی ،شفیع محمد اور بہن کا نام ریشماں ہے۔ اس کے تایا علم الدین اور احمددین بھی ہیں۔
اگر مسمات مذکور کے رشتہ داروں میں سے یا کوئی اور شخص جو ان سے جان پہچان رکھتے ہوں اس اعلان کو دیکھیں تو دفتر حفاظت مرکز جو دھامل بلڈنگ، جو دھامل روڈ لاہور کو اپنے موجودہ پتہ سے اطلاع دیں۔
(۲) قادیان سے یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ ایک اور اغواشدہ عورت مسمات حفیظہ جس کی گود میں ایک سال کا بچہ بھی ہے برآمد کی گئی ہے۔اس کے والدکا نام حسین بخش اور والدہ کا نام حسین بی بی ہے جو منکوہا ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں۔اس کے بھائیوں کے نام دین محمد ، علی محمد، شاہ محمد ،نور محمد ہیں۔اس عورت کے خاوند کا نام عبدل ہے جو موضع درانگاہ کا رہنے والا ہے۔
مسمات مذکور کے رشتہ داروں میں سے یا کوئی اور شخص جوان سے واقفیت رکھتے ہوں۔اگر اس اعلان کو پڑھیں تو فوراََ اپنے موجودہ پتہ سے دفتر حفاظت مرکز جودہامل بلڈنگ، جو دہامل روڈ لاہور کو اطلاع دیں تا مسمات مذکور کے پاکستان پہنچنے پر اس کے رشتہ داروں کو اطلاع کی جا سکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍اگست ۱۹۴۸ئ)


فو ٹو کھچوانے کے متعلق ایک لائلپوری دوست کا سوال
شرعی احکام میں حرمت کا لطیف فلسفہ
لائل پور سے ایک احمدی دوست فوٹو کھچوانے کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ آیا فوٹو اتروانا جائزہے یا نہیں ؟وہ لکھتے ہیں کہ اس بارے میں ایک غیر احمدی دوست کے ساتھ ان کا اختلاف ہوگیا ہے۔غیر احمدی دوست بڑی سختی کے ساتھ فوٹو اتروانے کے خلاف ہیں ۔بلکہ اسے ایک بھاری گناہ خیال کرتے ہیںاور اس کے مقابل پر ہمارے یہ احمدی دوست اسے جائز سمجھتے ہیںاور شریعت کی رُوسے اس پر کسی صورت میں بھی کوئی اعتراض نہیں دیکھتے ۔
اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو میںیہ کہنی چاہتا ہوںکہ میں مفتی نہیں ہوں۔اگر ہمارے دوست جماعتی فتویٰ چاہتے ہیں تو انہیں جماعت کے مقررہ مفتی کی خدمت میں لکھنا چاہئیے۔جو آج کل مولوی سیف الرحمٰن صاحب فاضل ہیں۔لیکن اگر میری ذاتی رائے معلوم کرنی ہواور بہرحال میری ذاتی رائے میرے علم کے مطابق جماعتی رائے کے مطابق ہی ہوگی۔تو وہ مختصر طور پر درج ذیل ہے۔
سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ اس بات میں ہر گزکوئی شبہ نہیں کہ احادیث میں پتھر یا لکڑی وغیرہ کے بت بنانے یا کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر بتوںکی تصویر یں بنانے کی سخت حرمت بیان ہوئی ہے۔اور اگر اس قسم کی تصویر بنانے کا سوال ہوتا تو میں بلاتامل کہتا کہ وہ جائز نہیں۔لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بت بنانایا بت کی تصویر بنانا اور چیز ہے اور فوٹو اتارنا یا فوٹو اتروانا بالکل اور چیز ہے۔ان دونوں چیزوں میں ایسا بدیہی فرق ہے کہ کوئی عقلمند اس سے انکار نہیںکر سکتا۔بت بنانے یا بتوں کی تصویر بنانے کا کام وہی شخص کر سکتا ہے۔جو یاتو بتوں کو پوجتا ہو یا اس کی یہ غرض ہوکہ دوسرے لوگ انہیں پوجیں۔یقینا ایسا شخص اپنے ہاتھ سے تصویر کشی یا سنگ تراشی کے ذریعہ شرک کی اشاعت میںمدد دیتا ہے۔ لیکن فوٹو نیچر کا ایک حکیمانہ فعل ہے جو سائنس کے طبعی طریق پر کھینچا جاتا ہے۔اور اس کے تیار کرنے میں کسی انسان کا اس رنگ میں دخل نہیں ہوتاجس طرح کہ بت بنانے یا بتوں کی تصویر بنانے میں اس کا دخل ہوتا ہے۔پس خدا کے ایک لطیف قانون کو جو اس نے فوٹو گرافی کے رنگ میں نیچر کے اندر ودیعت کر رکھا ہے ،بت تراشی یا تصویر کشی کے ساتھ مخلوط کرنا ہر گز درست نہیں۔فوٹوکا عمل بت تراشی یا تصویر کشی سے بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔اور یہ دونوں کسی صورت میں بھی ایک حکم کے ماتحت نہیں سمجھے جاسکتے۔اگر اس قسم کے طبعی طریق پر تصویر بنانا منع ہو تو پھر آئینہ دیکھنا بھی منع ہوگا۔کیونکہ اس کے سامنے آنے سے بھی ایک بہت عمدہ تصویر بنتی ہے۔اور کسی شفاف جھیل یا چشمہ کے پاس کھڑا ہونا بھی منع ہو گاکیونکہ اس میں بھی انسانی تصویر منعکس ہوجاتی ہے۔مگر آج تک کسی عالم یا کسی مفتی نے ان چیزوں کو منع قرار نہیں دیا۔حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی آئینہ موجود تھااور آپ کے وقت میں بھی چشمے اور جھیلوں کے پانی ہوتے تھے۔مگر آپ نے کبھی ان چیزوں کے سامنے آنے سے نہیں روکا۔جس سے ثابت ہوا کہ طبعی طور پر کسی تصویر کا بن جانا اس حکم امتناعی کی زد میں نہیں آتا۔جس کی رو سے ہاتھ سے بت بنانا یا بتوں کی تصویر کھینچنا منع کیاگیا ہے۔ یہ عذر درست نہیں ہوگا کہ شیشہ یا پانی میں محض ایک عارضی تصویر تیار ہوتی ہے اور جو تصویر فوٹو کے ذریعہ بنتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔ کیونکہ اول تو حقیقتاََ دنیا میں مستقل چیز کوئی بھی نہیں۔صرف درجہ کا فرق ہے کہ کوئی چیز تھوڑی دیر رہتی ہے اور کوئی چیز زیادہ دیر۔علاوہ ازیں اصل سوال اصول کا ہے نہ کہ مستقل یا غیر مستقل کا؟ پس جب کہ تصویر ہر حال میں منع ہے اور جبکہ آئینہ بھی ایک تصویر بناتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ناجائزقرار نہ دیا جائے۔لہٰذاثابت ہوا کہ شریعت نے مشرکوں کے ہاتھ کے ناپاک فعل اور سائنس کے طبعی اور مفید نتائج میںفرق ملحوظ رکھا ہے۔
بلکہ حق یہ ہے کہ اگر شرک مقصود نہ ہو تو ایک طرح بتوں کے رنگ میں کوئی چیز تیار کرنا بھی اسلام میں منع نہیں ہے۔مثلاََ احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لڑکیوں میں گڑیوں کے کھیل کا عام رواج تھا۔حتیٰ کہ تاریخ میں آتا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کی شادی ہوئی تو چونکہ ان کی عمر ابھی چھوٹی تھی تو ان کی تفریح کے لئے ان کے ساتھ چند گڑیاں بھی بھجوائی گئیں اور وہ کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں ان گڑیوںسے اپنا دل بہلا لیا کرتیں تھیں ۔چنانچہ صحیح مسلم میں آتا ہے کہ:
کنت العب بالبنات فی بیتہ ومن اللعب۔۹۸
’’ـیعنی (حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ)میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کبھی کبھی گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی‘‘
پس جب معصوم نیت کے ساتھ جس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو گڑیا تک بنانی جائز ہے۔جو عملاََ ایک بت ہوتی ہے اور بتوں کے رنگ میں ہاتھ سے بنائی جاتی ہے تو ایک قدرتی اورطبعی طریق پر فوٹو اتارنا کیوں جائز نہیں سمجھا جاسکتا ۔ بات یہ ہے کہ فوٹوکو حرام قرار دینا صرف موجودہ زمانہ کے تنگ نظر مولویوں کا کام ہے ،ورنہ دراصل فوٹو میں کوئی بھی ایسی بات نہیںجو شریعت کے کسی حکم سے ٹکراتی ہوبلکہ حق یہ ہے کہ اس ایجاد نے دنیا کے بہت سے میدانوں میں انسانیت کی نہایت قیمتی خدمت سرانجام دی ہے۔مثلاََ بیماریوں کے علاج میں فوٹو گرافی کی قدروقیمت ظاہر وعیاں ہے جسے آج کا ہر پڑھا لکھا بچہ تک جانتا ہے۔اسی طرح مجرموں کا سراغ لگانے میں فوٹوگرافی کے ذریعہ بہت بھاری فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف حکومتوں کے شہریوں کی شناخت کے لئے پاسپورٹوں میں فوٹوئوںکااندراج کئی قسم کے فتنوں کے انسداد کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح کے کئی اور ضروری اور اہم فوائد ہیںجو فوٹو گرافی سے حاصل کئے جاتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ مسیحی لوگ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معصومانہ تصویر بنا کر یا ان کی صلیب کا ہولناک نظارہ کھنیچ کر اور پھر فوٹو گرافی کے ذریعہ ان تصویروں کو دنیا میں پھیلا کر بھاری تبلیغی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔توپھر کیوں نہ مسلمان اولیاء کی تصویروں سے بھی اس قسم کے حالات میں تبلیغی فائدہ اٹھایا جائے ۔آج کی دنیا قیافہ شناسی میں بہت ترقی کر چکی ہے اور سمجھدار لوگ بعض اوقات محض ایک بزرگ کی تصویر دیکھ کر ہی اس کی روحانیت کا اندازہ کر لیتے ہیں۔پس دینی اور دنیوی جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے، فوٹو گرافی ایک نہایت مفید ایجاد ہے۔اور اس سے اپنے آپ کو محروم کرنا مسلمانوں کی قومی اور ملّی طاقت کو کمزورکرنے کے مترادف ہے۔وَاِنَّمَاالَاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّا نَویٰ۔۹۹
دراصل شریعت کے بنیادی اصولوں پر غور نہیں کیا گیا۔ورنہ اگر تھو ڑے سے تأمل سے کام لیاجاتاتو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ آسکتی تھی کہ جہاں شریعت نے بعض ایسی چیزوں سے روکا اور انہیں حرام قرار دیا ہے جو اپنی ذات میں نقصان دہ او ر ضرررساں ہیںوہاں مزید احتیاط کے طور پر بعض ایسی باتوںکے متعلق بھی متنبہ کر دیاہے جو اپنی ذات میں تو ضرررساں نہیں۔مگر کسی دوسری ضرررساں چیز کو تقویت پہنچانے میں بالواسطہ مدد دیتی ہیں۔مثلاََ حدیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام قرار دی تو ساتھ ہی اس قسم کے برتنوں کا استعمال بھی منع کر دیا جن میں عرب لوگ اس زمانہ میں عموماََ شراب پیا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے ذہن نہ صرف شراب سے بلکہ اس کے لوازمات سے بھی کلی طور پر کٹ جائیں۔لیکن جب دو چار سال کے بعد آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں شراب سے کامل ذہنی انقطاع پیدا ہو چکا ہے تو آپ نے انہیں فرمایاکہ اب بے شک تم ان برتنوں کو استعمال کر لیا کرو۔کیونکہ میری غرض ان برتنوں کو ناجائز قرار دینا نہیں تھی۔بلکہ شراب کی یاد کو تازہ رکھنے والی چیزوں سے تمھارے دل ودماغ کو دور کرنا اصل مقصود تھا۔اور اب چونکہ یہ غرض حاصل ہوچکی ہے تو گو شراب تو بہر حال منع ہی رہے گی کیونکہ اس کی حرمت بالذات مقصود ہے۔مگر اب اس قسم کے برتنوں کے استعمال میں ہرج نہیں۔چنانچہ آپؐ نے فرمایا:
نَھَیتُکُم عَنِ الاشرِلَۃِ فِی ظُرُوف الادَمَ فاشرَبُوا فِی کُلِّ وِعَائٍ غیران لاتَشرَبُوامُسکِرًا۔۱۰۰
’’یعنی میں نے تمہیں بعض خاص قسم کے برتنوں کے استعمال سے منع کیا تھا۔لیکن اب تم ہر قسم کا برتن استعمال کرسکتے ہو۔مگر بہرحال شراب ہرگز نہ پیو‘‘
اسی طرح مثلاََ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں یہ دیکھ کرکہ قبروں پر مسلمانوں کا جانا شرک کا موجب بن سکتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ مسلمان قبروں کی زیارت کے لئے نہ جایا کریںلیکن جب دیکھا کہ قوم اس قسم کے شرک کے خطرہ سے محفوظ ہوچکی ہے ۔تو پھر آپ نے خود فرمایا کہ ـ:
نھیتکم عن زیارۃِ القبور، فَزُوروھا۔۱۰۱
’’یعنی میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھامگر اب وہ غرض حاصل ہوچکی۔اس لئے اب تم بے شک نیک لوگوں کی قبروں پر زیارت اور دعا کے لئے جایا کروکیونکہ اس سے دلوں میں خشیت پیدا ہوتی ہے‘‘
اوپر کی مثالوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حرمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک ذاتی جیسے کہ شرک اور شراب کی حرمت ہے جو بالذات مقصود ہے۔اور دوسرے نسبتی جیسے کہ شروع میں قبروں پر جانے سے روکا گیا یا جیسے کہ اس قسم کے برتنوں کے استعمال سے منع کیا گیا ۔جن میں عرب لوگ شراب پیا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ چیزیں اپنی ذات میں بری نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کی مثالوں سے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اصل حرمت وہی ہے جو ذاتی ہو اور بالذات مقصود ہو،مگر اس کے مقابل پر نسبتی حرمت اصلی نہیں ہو تی اورنہ ہی وہ بالذات مقصود ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات حالات کے بدلنے سے بدل بھی جاتی ہے ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کی زیارت اور شراب کے برتنوں کو ایک دفعہ ممنوع قرار دے کر پھر جائز قرار دیتے۔پس فوٹو کاسوال اوّل تو حدیث کے اس فتویٰ کے ماتحت آتا ہی نہیں جو بت تراشی یا ہاتھ سے تصویر بنانے کے متعلق دیاگیا ہے۔ کیونکہ بت تراشی اور تصویر کشی ہاتھ کی صنعت ہیں۔مگر فوٹو نیچر کے حکیمانہ قانون کااسی طرح کا طبعی نتیجہ ہے جس طرح کہ آئینہ کے سامنے کی تصویر نیچر کے ایک قانون طبعی کا نتیجہ ہوتی ہے۔دوسرے اصل چیز جس کی وجہ سے بت تراشی اور تصویر کشی منع کی گئی، شرک ہے۔پس جب حالات کے بدل جانے سے شرک کا احتمال بالکل باقی نہ رہے تو ذاتی حرمت والی چیز تو بہرحال منع ہی رہے گی لیکن نسبتی حرمت والی چیز کا حکم بعض صورتوں میں بدل جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ آج کل اکثر غیر احمدی علماء بھی جو آج سے چند سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے فوٹو کھینچوانے پر اعتراض کیا کرتے تھے،اب وہ فوٹو کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بلکہ بیشتر نامورمولوی صاحبان خود اپنے فوٹو اتروا کر اس کے جواز پر مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں۔
بایں ہمہ ایک احتیاط ضروری ہے۔اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔اور وہ یہ کہ چونکہ اولیاء اللہ اور خاص بزرگانِ دین کے فوٹو اتروانے میں ایک طرف یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں ایسے فوٹوؤں کی کثرت جاہل لوگوں کے لئے شرک کی محرک نہ بن جائے اور دوسری طرف ان کی کثرت غافل لوگوں کے دل میں بے حرمتی کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ تاکیدی فتویٰ تھا کہ اول تو ایسے فوٹو صرف کسی جائز ضرورت کے لئے تیارکروائے جائیںاورپھر باوجود اس کے یہ مزید احتیاط بھی رکھی جائے کہ وہ غیر ذمہ دار لوگوں یا بچوں کے ہاتھ میں پڑ کر گلی کوچوں میں خراب نہ ہوں ۔چنانچہ جب ایک احمدی دوست نے سادہ پوسٹ کارڈوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو کثیر تعداد میں چھپوایا اور ان دوست کی غرض یہ تھی کہ جماعت کے افراد غیر احمدیوں کے ساتھ خط وکتابت کرتے ہوئے ان پوسٹ کارڈوں کو استعمال کریں تو اطلاع ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام پوسٹ کارڈوں کو تلف کروادیا اور فرمایاکہ ہم نے تو ایک جائز تبلیغی غرض کے ماتحت فوٹو کھچوایا تھا۔اور یہ بالکل مناسب نہیں کہ اس قسم کے فو ٹوؤں کو اس طرح عام کرکے غیروں کے گلی کوچوں میں پھینکا جائے۔
خلاصہ کلام یہ کہ:
(۱)بت تراشی اور شرک کی نیت سے تصویر کشی بہرحال منع ہے اور اس کی حرمت مستقل ہے جو ہر حال میں مقصود ہے۔
(۲) فوٹو کھینچوانا چونکہ تصویر کشی سے بالکل جداگانہ چیز ہے اور قدرت کے قانون کا حکیمانہ اور طبعی نتیجہ ہے اس لئے وہ بت تراشی یاتصویر کشی کی حرمت کے حکم کے ماتحت نہیںسمجھا جاسکتا۔
(۳)فوٹوتو درکنار گڑیا وغیرہ کا بنانا بھی جو بظاہر بت کی شکل رکھتی ہے اسلام میں منع نہیںکیونکہ نہ تو اس میں شرک کی نیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے شرک پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
(۴)اصل حرمت ذاتی حرمت ہے۔ جیسے کہ مثلاََ شرک، شراب اور زنا وغیرہ حرام قرار دئیے گئے ہیںمگر وہ چیزیں جن میں ذاتی حرمت کا پہلو نہیں پایا جاتا بلکہ صرف نسبتی حرمت کا پہلو پایا جاتاہے۔ ان کی حرمت بالذات مقصود نہیں ہوتی اور وہ حالات کے بدلنے سے بدل سکتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے برتنوں اورقبروں کی زیارت کے حکم کو بدل دیا۔
۵۔ بایںہمہ مومن کا یہ کام ہے کہ حتی الوسع احتیاط کے پہلو کو مقدم کرے اور بلا کسی حقیقی ضرورت کے ایسا قدم نہ اٹھائے جو دوسروں کے لئے لغزش کا موجب ہو۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے لائل پورکے دوست میری اس مختصر تحریر کو کافی خیال کریں گے۔اور اسی طرح ان کے وہ غیر احمدی دوست بھی میری اس تحریر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جو فوٹو کو بت تراشی یا تصویر کشی کے حکم کے ماتحت لا کرقطعی حرام قرار دیتے ہیں مگر جیسا کہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں یہ میرا ذاتی خیال ہے جو میں نے اس جگہ درج کیا ہے۔ کیونکہ میں مفتی نہیں اور اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ جماعت کی طرف سے کوئی فتویٰ جاری کروں۔
وَاللّٰہُ اَعْلَمُ وَلَاعِلْمَ لَنَا اِلَّامَاعَلَّمْنَااللّٰہ ۔
نوٹ ۔جوباتیں میں نے اس جگہ لکھی ہیں ان سب کے مفصل حوالے موجود ہیں اور ضرورت پر تفصیلاََ پیش کئے جاسکتے ہیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍اگست ۱۹۴۸ئ)






میرے ’’ضلعوار آبادی‘‘ والے مضمون کا تتمہ
اگر سابقہ کھاتوں کی بناء پر الاٹمنٹ ہوئی تو پھر کیا ہوگا ؟
میرا جو مضمون الفضل ۲۴؍ اگست کو زیرعنوان ’’ پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال ‘‘ شائع ہوا ہے ۔ اس کے متعلق ایک معزز اور واقف کار دوست نے یہ سوال کیا ہے کہ اگر جیساکہ خیال ہے بعد میں مسلمان پناہ گزینوں کے سابقہ کھاتوں کی بناء پر آخری الاٹمنٹ کرنے کا فیصلہ ہوا تو پھر کیا ہوگا ؟ مثلاً اگر ایک مسلمان مشرقی پنجاب میں پچیس ایکڑ زمین رکھتا تھا اور اسے مغربی پنجاب میں آکر موجودہ اصول کے مطابق صرف آٹھ ایکڑ زمین ملی ہے۔ اور بعد میں فیصلہ ہو کہ اسے اس کے سابقہ کھاتوں کے بناء پر پچیس ایکڑ زمین مل سکتی ہے ۔ مگر اتفاق یہ ہو کہ جہاں اس کی موجودہ آٹھ ایکڑ زمین موجود ہو وہاں اسے مزید سترہ ایکڑ زمین ملنے کی گنجائش نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا۔ سو اس سوال کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میرے یہ دوست میرے مضمون کو غور سے مطالعہ فرماتے تو میرے مضمون میں پہلے سے اس سوال کا جواب موجود تھا ۔ کیونکہ میں نے صراحتًا لکھا تھا کہ اگر کوئی مسلمان پناہ گزین اپنی جگہ بدلنے کے لئے تیا ر ہو تو اسے بدل دیاجائے مگر یہ کہ اس کی مرضی کے خلاف جبراً نہ بدلا جائے۔ اب اگر آٹھ ایکڑ لینے والا مسلمان پناہ گزین بعد کے فیصلہ کے مطابق ۲۵، ایکڑ زمین لینا چاہتا ہے اور اس کی موجودہ جگہ میں اس قدرا لاٹمنٹ کی گنجائش نہیں تو اس کا کیس میری شرط کے ماتحت آجائے گا کہ جو مسلمان اپنی خوشی سے اپنی جگہ بدلنا چاہتا ہے اسے بدل دیا جائے۔ لیکن اگرکوئی مسلمان کسی وجہ سے اپنی موجودہ جگہ پر ہی ٹھہرنا چاہتا ہے اور تھوڑے رقبہ پر قانع ہے تو پھر اس کا کیس میری دوسری شرط کے ماتحت آجائے گا کہ کسی کو جبراً منتقل نہ کیا جائے۔
بہرحال میرا مضمون اس سوال کے جواب پر اصولاً حاوی ہے ۔ جو ہمارے معزز دوست نے اٹھایا ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ۔
باقی رہے وہ مسلمان پناہ گزین جنہوں نے کسی وجہ سے موجودہ الاٹمنٹ میں حصہ نہیں لیا۔ تو ظاہر ہے کہ اگر بالآخر سابقہ اور اصل جائدادوں کی بناء پر تقسیم کا فیصلہ ہو تو ایسے پناہ گزینوں کو بھی اپنی ضائع شدہ جائداد وں کے بدلہ میں مطالبہ کا حق ہوگا ۔ یہ ایک سیدھی اور صاف بات ہے۔ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍اگست ۱۹۴۸ئ)
پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ
ہردرد مند اور سمجھ دار مسلمان کے لئے غور کا مقام
جیسا کہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے ،کوئٹہ سے اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب احمدی بعض مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر د ئیے گئے ہیں۔ انااللہ وانا الیہ راجعون۔ڈاکٹر صاحب موصوف کی شہادت ہماری اطلاع کے مطابق صرف اس بناء پر وقوع میں آئی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔اور ایک ایسے پبلک جلسہ کے قریب سے گزرے جو کوئٹہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف منعقد کیا جا رہا تھا۔ رپورٹ یہ ہے کہ اس موقع پر بعض جوشیلے لوگوں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو دیکھ کر پہلے تو ان کو پتھروں سے زخمی کیا اور پھر پیٹ میں چھرا گھونپ کر شہید کردیا ۔میجر ڈاکٹر محمود احمد جو فوج سے فارغ ہوچکے تھے اور اب کوئٹہ میں پریکٹس کرتے تھے ،قاضی محمد شریف صاحب ریٹائر ڈایگزیکٹو انجینٔیر لائل پور کے فرزند اور لاہور کے مشہورڈاکٹر محمدبشیر صاحب پروفیسر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم ۔ اے پروفیسر گورنمنٹ کالج کے حقیقی بھتیجے تھے۔اور اس جگہ اس اظہار کی چنداں ضرورت نہیں کہ ذاتی لحاظ سے بھی مر حوم ایک نہایت ہی شریف الطبع اور ہونہار نوجوان تھے۔ جس نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور ایک خوردسالہ بچہ چھوڑا ہے۔ موت فوت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ اور جلد یا بدیر ہر شخص نے نیچر کے اس اٹل دروازہ میں سے گزرنا ہے۔ اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت میں (جیساکہ ہر دوسری حکومت میں ) باہمی لڑائیوں اور ڈکیٹیوں وغیرہ کی وجہ سے بسااوقات قتل کے واقعات ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات خود مسلمانوںکے ہاتھ سے ہی مسلمانوں کا خون گرایا جاتا ہے۔لیکن یقینا کوئٹہ کا یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے پہلا واقعہ ہے کہ ایک پر امن مسلمان شہری کو محض بعض مذہبی عقائد کے اختلاف کی وجہ سے بعض دوسرے مسلمانوں نے شہید کر دیا ہے۔ اول تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھ سے مارا جانا ہی فی ذاتہٖ ایک نہایت درجہ دردناک اور قابلِ ملامت فعل ہے۔ لیکن جب ایسے فعل کی بنیاد محض مذہبی عقائد کے اختلاف پر مبنی ہو تو پھر یہ فعل ایسی ہولناک صورت اختیار لیتا ہے کہ اس سے زیادہ بھیانک فعل کوئی اور تصور میں نہیں آسکتا۔
یہ خیال کہ احمدیہ جماعت کے لوگ اپنے بعض عقائد کی وجہ سے بعض دوسرے مسلمانوں کی نظر میں سچے مسلمان نہیں، موجودہ بحث کے لحاظ سے ایک بالکل لاتعلق سوال ہے۔ کیونکہ اگر صرف مذہبی اختلاف کو دیکھا جائے ۔اور صرف علماء کے فتوے کو مدنظر رکھا جائے تو مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی کفر کے الزام سے بچا ہوا نظر نہیںآتا ۔اہل سنت والجماعت کے کفر کے فتوے شیعوںکے خلاف موجود ہیں اور شیعوں کے کفر کے فتوے سنیوںکے خلاف موجود ہیں۔ اسی طرح حنفیوں کے کفر کے فتوے اہلحدیث کے خلاف موجود ہیں اور اہلحدیث کے کفر کے فتوے حنفیوں کے خلاف موجود ہیں۔ تو کیا ان فتوؤں کی وجہ سے یہ سب لوگ واجب القتل سمجھے جائیںگے؟ حق یہ ہے کہ مذہبی عقیدہ کا سوال بالکل جدا گانہ ہے۔ لیکن سیاست کے میدان میں اسلام کی اس تعریف کو قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔اور ہماری جماعت کا شروع سے ہی یہ اعلان رہا ہے۔ کہ جوشخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور قرآن شریف کو خدا تعالیٰ کی آخری شریعت سمجھتا ہے۔یا بالفاظ دیگر ہر وہ شخص جسے غیر مسلم لوگ مسلمان سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک کرتے ہیںوہ سیاست کے میدان میں مسلمان سمجھاجائے گا اور مسلمان سمجھا جانا چائیے اور اسے مسلمانوں والے سیاسی حقوق ملنے چاہئیں ۔اس تعریف کے سوا اسلام کی کوئی اور تعریف ایسی نہیں جو سیاست کے میدان میں قابل قبول سمجھی جاسکے۔ورنہ اگر اس تعریف کوچھوڑ کر عقائد کی تفصیل اور علماء کے فتوؤں کی طرف دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی اسلامی فرقہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتااور پاکستان کی خداداد حکومت چند دن کے اندر ایک دوسرے کے خون خرابہ کا ہولناک منظر بن سکتی ہے۔
پس میں ہر سمجھداراور سنجیدہ اور دردمند مسلمان سے خدا کے نام پر اور پاکستان کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ وقت کی نزاکت کو پہچانے اور حکومت پاکستان کے اس نازک دورکو ان تخریبی تحریکوں سے بچانے کی کوشش کرے جو اگر آزاد چھوڑ دی جائیں تو بڑی سے بڑی حکومت کو چند دن میں ختم کر سکتی ہیں۔کوئٹہ کا دردناک واقعہ جو یقینا اپنی نوعیت میں پاکستان کا پہلا واقعہ ہے،ہر سمجھدار اور درد مند مسلمان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔اسی طرح ہرسنجیدہ اسلامی اخبار کا خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ،یہ فرض ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس فتنہ کے سدّباب کے لئے کوشش کرے۔یہ صرف جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا سوال نہیں ہے۔بلکہ ایک نہائت وسیع اور اصولی سوال ہے۔ کیونکہ خواہ یہ فتنہ اپنی موجودہ اور ابتدائی صورت میں کتنا ہی معمولی نظر آئے۔ لیکن ایک دور بین آنکھ اس کی تہہ میں وہ خطرناک چنگاری دیکھ سکتی ہے۔جو بڑی سے بڑی آگ کا موجب بن جاتی ہے۔ خدا جانتا ہے کہ میں نے یہ مختصر الفاظ حقیقی درد اور سچے اخلاص کے ساتھ لکھے ہیں۔ کاش ان الفاظ کو اسی درد اور اسی اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے جس کے ساتھ وہ لکھے گئے ہیں۔
وما علینا الاالبلاغ ولاحول ولاقوۃ الابااللّٰہ العظیم۔(مطبوعہ الفضل ۲۷ ؍اگست ۱۹۸۴ئ)
پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ
حضرت امیرالمومنین امام جماعت احمدیہ کی رائے
میں نے ایک خط کے ذریعہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ سے دریافت کیا تھا کہ پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے۔اس کے جواب میں حضورنے مندرجہ ذیل الفاظ نوٹ فرماکر بھیجے ہیں جو جماعتی رائے کے طور پر الفضل میں شائع کرائے جاتے ہیں۔
’’میرے نزدیک اب بھی علاقہ وار آبادی کا انتظام ہونا چاہئے مگر طوعی طور پر ہو۔اور پہلے جگہ خالی ہو۔اور پھر جگہ بدلی جائے اور آہستگی سے کام ہو‘‘
اس ارشاد کا مطلب واضح ہے اور وہ یہ کہ علاقہ وار آبادی کا انتظام اب بھی ہونا مناسب ہے مگر اس کے لئے کسی پناہ گزین کو مجبور نہ کیا جائے۔بلکہ جو پناہ گزین اس کے لئے بخوشی تیار ہوں صرف ان کی جگہ بدلی جائے۔نیز یہ کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ علاقہ وار تقسیم کے خیال سے کسی پناہ گزین کو اس کی موجودہ جگہ سے تو اٹھا دیا جائے لیکن ابھی اس کے واسطے دوسری جگہ کا پختہ انتظام موجود نہ ہو۔بلکہ پہلے یہ تسلی کرلی جائے کہ جس جگہ کسی پناہ گزین نے جاناہے وہ خالی بھی ہے یانہیں یا آسانی کے ساتھ خالی بھی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔اگر یہ جگہ خالی ہو یا آسانی کے ساتھ خالی کی جاسکتی ہو تو پھر جگہ بدلی جائے ورنہ نہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ اس انتقال آبادی کا کام آہستگی اور سہولت کے ساتھ کیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ ہنگامی شور شرابا پیدا کرکے پھر ایک قیامت برپا کردی جائے۔جس کے نتیجہ میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱ ؍اگست ۱۹۴۸ئ)


قادیان کے دوستوں کو روپیہ بھجوانے کا محفوظ طریق
جو دوست اس وقت قادیان میں بطور درویش بیٹھے ہیں ان کے عزیز بعض اوقات ان کے نام کچھ روپیہ بھجوانا چاہتے ہیں ۔ سو ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ اعلان کیاجاتا ہے کہ اس طرح کا روپیہ دو طرح سے بھجوایا جاسکتا ہے ۔
۱۔ پہلا طریق یہ ہے کہ قادیان کے جس درویش کے نام جو روپیہ بھجوانا ہو وہ ڈاکخانہ کے ذریعہ منی آرڈر کرادیا جائے ایسے منی آرڈر میں درویش کا پورا نام درج ہوناچاہئے بلکہ احتیاط کے طور پر یہ الفاظ بھی بڑھا دیے جائیں کہ معرفت امیر جماعت احمدیہ دارالمسیح قادیان اور قادیان کے ساتھ ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب کے الفاظ زیادہ کر دیئے جائیں ۔چونکہ منی آرڈر وں کا سلسلہ جاری ہوچکا ہے پس اس ذریعہ سے روپیہ بھجوانے میں انشا ء اللہ کسی قسم کا خطرہ نہیں۔
۲۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ محاسب صاحب صدرانجمن احمدیہ جو دھامل بلڈنگ لاہور کے نام روپیہ بھجوادیا جائے اور اس کے ساتھ یہ نوٹ کردیا جائے کہ یہ روپیہ قادیان کے فلاں درویش کو پہنچا دیاجائے اس صورت میں محاسب صاحب کو یہ ہدایت ہے کہ وہ اس قسم کا روپیہ وصول کر کے اپنے انتظام میں متعلقہ درویش کو قادیان بھجوادیں ۔یہ طریق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح محفوظ ہے۔ البتہ ایک زائد واسطہ پڑنے سے چند دن کی دیر ہوسکتی ہے۔
اوپر کے دو طریقوں کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کرنا موجودہ حالات میں تسلی بخش نہیں ہوگا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۸)


ابلیس والے مضمون کے تعلق میں ایک اور حوالہ
کچھ عرصہ ہؤامیں نے ابلیس کے متعلق الفضل میں دو مضمون شائع کرائے تھے۔اور بعد میں اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بھی جو لائلپور کے ایک دوست نے لکھ کر بھیجا تھاچھپوا دیا تھا۔اب اسی تعلق میں محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب نے ایک اور حوالہ لکھ بھیجا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور تصنیف حقیقۃ الوحی سے ماخوذ ہے۔ سو اس غرض سے کہ اس مضمون کے سارے پہلوؤں پر روشنی پڑ جائے ،میں یہ لطیف اور اصولی حوالہ بھی درج ذیل کرتا ہو ں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر چہ شیطان عاصی اور نافرمان ہے۔لیکن وہ اس بات پر تو یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے‘‘
اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقتہ الوحی کے اسی صفحہ پر حاشیہ درج فرماتے ہیں کہ:
’’اگر کوئی کہے کہ جس حالت میں شیطان کو خدا کی ہستی اور واحدانیت پر یقین ہے۔تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کرتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے ۔ بلکہ وہ اس عادت پر انسان کی آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔اور یہ ایک راز ہے۔جس کی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۸ئ)



تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ
مجھے تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ دکھایا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت خوش کن اور امید افزا ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس نتیجہ کو اپنے نوٹ کے ساتھ الفضل میں شائع کراووں اور اسی غرض سے میں یہ نتیجہ ا خبار میں بھجوا رہا ہوں۔یہ کلاس حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اس تحریک کے ماتحت جو حضور نے گزشتہ مجلس مشاورت میں فرمائی تھی لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے انتظام میں جاری کی گئی تھی اور باوجود پہلا سال ہونے کے اس نے خدا کے فضل سے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔چنانچہ قادیان سے آئی ہوئی طالبات اورلاہور کی مقامی طالبات کے علاوہ اس کلاس کی شمولیت کے لئے چنیوٹ ۔لائل پور ۔گوجرانوالہ۔ شیخوپورہ۔گجرات اور راولپنڈی وغیرہ سے طالبات آئیں،جن کی مجموعی تعداد ۳۴ تھی۔گو امتحان میں صرف۲۴ طالبات شریک ہوئیں۔کیونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے لاہور کی دس طالبات امتحان میں شریک نہیں ہوسکیں۔نصاب میں قرآن شریف ۔حدیث۔فقہ ۔علم کلام۔تاریخ۔ عربی ادب۔اور فرسٹ ایڈ کے مضامین شامل تھے۔اور تعلیم کا انتظام لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں بعض مخلص اوردیندار اساتذہ کے سپرد تھا۔اور پردہ کا خاطر خواہ انتظام تھا۔اور یہ ایک نہایت درجہ خوشی کی بات ہے کہ کسی قسم کی رعایت یا لحاظ داری کے بغیر سب کی سب طالبات امتحان میں کامیاب ہوگئیں(سوائے ایک کے جو کمپارٹمنٹ میں آئی ہے) اورحق یہ ہے کہ جیسا کہ سنا گیا ہے ان طالبات نے محنت میں بھی حد کردی تھی۔ساری کلاس میں سیدہ امتہ القدوس بیگم سلمہا جو ہمارے بڑے ماموں صاحب کی صاحبزادی ہیں۔۴۱۱؍۴۵۰نمبر لے کر اوّل آئی ہیں۔اور دوم نمبر پر قانتہ بیگم سلمہا بنت خواجہ عبدالرحمٰن صاحب آف گو جرانوالہ نے ۴۱۰؍۴۵۰ نمبر حاصل کئے ہیںاورتیسرے نمبر پر مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی لڑکی صالحہ بیگم سلمہا نے ۴۰۱؍۴۵۰ نمبر لئے ہیں۔یہ نتیجہ نہ صرف طالبات کے لئے بلکہ ان کے ساتھ اساتذہ کرام اور لجنہ اماء اللہ اور عابدہ بیگم سلمہا بنت چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم نگران کلاس کے لئے بھی قابل مبارک باد ہے۔
ہماری احمدی خواتین خدا کے فضل سے اپنے ایمان اور اخلاص اورجذبۂ قربانی میں تو پہلے ہی نمایاں درجہ رکھتی ہیں۔اگر جیسا کہ بفضلہ اس کے عنوان نظر آرہے ہیں وہ علم میں بھی کمال پیدا کریں تو یہ اُن لوگوں کا ایک عملی جواب ہوگا جو یہ اعتراض کرتے ہیںکہ اسلامی پردہ عورتوں کی ترقی میں روک ہے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اور انسانیت کا یہ نصف جسم کم ازکم احمدیت میں قومی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے کام میں مردوں سے کسی طرح پیچھے نہ رہے۔آمین یا ارحم الراحمین۔
کلاس کا تفصیلی نتیجہ درج ذیل ہے۔
نمبرشمار
اسماء طالبات
کل میزان
نمبرشمار
اسماء طالبات
کل میزان
۱
قانتہ بیگم بنت خواجہ عبدالرحمٰن صاحب آف گجرانوالہ
۴۱۰دوم

۸

سیدہ سعیدبیگم بنت سیدعبداللطیف صاحب
۳۰۲
۲
امتہ المجید بیگم بنت عبدالرحمن صاحب
۳۴۶
۹
سیدہ امتہ القدوس بیگم بنت حضرت میر محمداسمعٰیل صاحبؓ
۴۱۱اوّل
۳
سارہ بیگم بنت شیخ دوست محمدصاحب شمس
۳۲۴
۱۰
سیدہ آنسہ بیگم بنت حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ
۲۶۴
۴
صفیہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب شمس
۲۷۹
۱۱
بشارت النساء بیگم بنت غلام جیلانی صاحب
۲۳۱
۵
درینہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب
۳۳۸
۱۲
رضیہ بیگم دردبنت مولوی عبدالرحیم صاحب درد
۳۴۴
۶
امتہ الحئی صابرہ بیگم بنت عبدالقدوس صاحب
۳۵۰
۱۳
صالحہ بیگم دردبنت مولوی عبدالرحیم صاحب درد
۴۰۱سوم
۷
امتہ الحئی بیگم بنت حکیم مرغوب اللہ صاحب
۳۳۲
۱۴
سیدہ امتہ الھادی بیگم بنت حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ
۳۵۰
۱۵
حلیمہ بیگم بنت مولوی عبدالرحمٰن صاحب انور
۲۲۸
۲۰
امتہ المنّان بیگم بنت مولوی چراغ دین صاحب
۳۲۳
۱۶
امتہ اللطیف بیگم بنت عبدالرحیم صاحب درویش قادیان
۳۵۴
۲۱
ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ صاحب
۲۶۱
۱۷
امتہ الرشید بیگم بنت عبدالرحیم صاحب درویش قادیان
۲۶۲
۲۲
نصیرہ بیگم مفتی بنت مفتی فضل الرحمٰن صاحب
۳۳۹
۱۸
ممتاز اختر بیگم بنت محمد اقبال صاحب
۳۱۶
۲۳
امتہ النصیر بیگم بنت قاری محمد امین صاحب
۱۵۶
ان کا ایک مضمون کا دوبارہ امتحان ہوگا
۱۹
امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت عبدالعزیز صاحب
۳۳۱
۲۴
علیمہ طاہرہ بیگم بنت محمد عامل صاحب
۲۹۵
‎ (مطبوعہ الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۸ئ)




قادیان کے دوستوں کے ذریعہ بحال شدہ مسلمان
اب تک ۱۳۴ اشخاص بحال ہو چکے ہیں
اس وقت ہمارے قادیان کے احباب جس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں وہ عملًاقید سے بہتر نہیں۔کیونکہ وہ ایک مختصر سے حلقہ میں محدود ومحصور ہیں۔اور انہیں اس حلقہ سے تھوڑا بہت ادھر اُدھر جانے کے لئے بھی پولیس یا ملٹری کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔گویا قید خانہ کی بجائے چندرہائشی مکان ہیںجن میں یہ لوگ خدا کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی مقدس یادگاروں کی آبادی کے لئے محصور ہوئے بیٹھے ہیں۔مگر باوجود اس کے وہ حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے مشترکہ فیصلہ اور مشترکہ پالیسی کے ماتحت قادیان کے گردونواح سے اغواشدہ مسلمان عورتوں یا محصور شدہ مسلمان مردوں کے نکالنے میں دن رات کو شاں رہتے ہیں۔چنانچہ قادیان کی تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت تک ہمارے قادیان کے دوستوں کے ذریعہ ایک سو چونتیس مردوزن بحال ہوکر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ان ۱۳۴ مردوزن میں ۷۷ مسلمان عورتیں ہیں اور ۵۷ مسلمان مردہیں۔ جوسب کے سب قادیان کے ملحقہ دیہات سے خاص جدوجہد کے ساتھ ایک ایک کرکے پاکستان بھجوائے گئے ہیں۔قادیان کے حالات کے ماتحت یہ کارنامہ یقینا ایک خاص خدمت کا رنگ رکھتا ہے۔جس کا ہر دوحکومتوں کو جن کی مشترکہ پالیسی کے ماتحت یہ کوشش کی جارہی ہے شکر گزار ہونا چاہئیے، خصوصاََ اس لئے کہ سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے اور ریاست کشمیر کے ساتھ ملحق ہونے کے باعث گورداسپور کے ضلع میں مسلمان ملٹری یا مسلمان پولیس کا جانا ممنوع ہے۔اس لئے اس ساری کوشش اور اس ساری کامیابی کا سہرا صرف ہمارے دوستوں کے سر ہے۔یا دو ایک ایسے شریف النفس غیر مسلم افسروں کے سر جنہوں نے اپنی قوم اور دوسرے غیر مسلم افسروں کی مخالفت کے باوجود اس نیک کام میں ہاتھ بٹایاہے۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۵؍ ستمبر ۱۹۴۸ئ)

قائد اعظم محمدعلی جناح
پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی اچانک اور المناک وفات کی خبر ساری دنیا میں پہنچ کر مرنے والے لیڈرکے لئے جسے قائد اعظم کا خطاب ملا تھا ،خراج تحسین وعقیدت حاصل کر چکی ہے۔جیسا کہ قرآنی آیت مندرجہ عنوان میں بتایا گیا ہے۔خدا کے سوا دنیا کی ہر چیز فانی ہے البتہ وہ چیز جسے خدا نے اپنی خاص توجہ سے دائمی بقا کے لئے چن لیا ہو وہ ضرور باقی رہتی اور خدا کے قیوم ہونے کا عملی ثبوت مہیا کرتی ہے۔اس اصول کے ماتحت انسان کا مادی جسم فانی قرار دیاگیا ہے اور اس کی روح ہمیشہ کی زندگی پانے والی قرار پائی ہے۔پس گو قائد اعظم کا جسمِ خاکی سپردِ خاک ہوکر اپنے دنیوی دورِزندگی کوہمیشہ کے لئے ختم کر چکا ہے مگر ان کی روح اپنے اچھے اور شاندار اعمال کے ساتھ زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔
میرا احساس ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ دنیا کی دینی اور روحانی حیات اور ترقی کے لئے انبیاء ومرسلین کا وجود پیدا کرتا رہتا ہے۔اسی طرح وہ بعض اوقات دنیا کی مادی اور قومی اور سیاسی اور علمی ترقی کے لئے بھی بعض خاص خاص وجود پیدا کرتا ہے۔کیونکہ گو انسانی زندگی کا اصل مقصد خدا کا تعلق ہے مگر اس بات میں کیا شک ہے کہ اس تعلق سے اتر کر دنیا کی مادی اور علمی ترقی بھی خدا کی توجہ کے دائرہ سے باہر نہیں سمجھی جاسکتی ۔ظاہر ہے کہ جب دین کے علاوہ خدا نے اس دنیا کے تمام مفید شعبوں کو بھی چلانا اور ترقی دیناہے تو پھر اس کی نصرت کا دائرہ صرف اُخروی امور تک ہی محدود نہیں سمجھاجاسکتا بلکہ خدا اپنی باریک در باریک حکیمانہ قدرت سے ہر دنیوی میدان کی ترقی کے لئے بھی سامان پیدا فرماتا ہے۔اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی بہت سی مفید ایجادیں بھی ایک رنگ کے غیبی القاء اور خدائی نصرت کے ماتحت وقوع میں آئی ہیں۔بہرحال اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نہ صرف مخصوص دینی اور روحانی میدان میں بلکہ ہر قسم کے میدان میں جو بنی نوع انسان کے لئے مفید ہو، اپنے بعض بندوں کی نصرت فرما کرانسانیت کی ترقی کا سامان پیدا کرتا ہے۔اور یقینا اس کی یہ سنت مسلمانوں کے ساتھ زیادہ مخصوص ہے۔کیونکہ وہ اس کے محبوب رسول اور اولین و آخرین کے سردارؐ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مشیّت نے قائداعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں اپنی خاص نصرت سے نوازا اور ان کے ذریعہ اس برعظیم کے مسلمانوں کا سیاسی شیرازہ غیر معمولی رنگ میں متحد کر دیا ۔قائداعظم میں بہت سی خوبیاں تھیںمگر ان کا جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہو کر نظر آتا ہے وہ یقینا یہی ہے کہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہندوستان (میری مراد تقسیم سے پہلے کا ہندوستان ہے۔)اپنے سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کاوجود ہے۔میں کہتا ہوں کہ بیشک پاکستان کا وجود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو غالباََ دنیائے سیاست میں عدیم المثال سمجھا جاسکتا ہے۔مگر میری نگاہ قائداعظم محمد علی جناح کے اس کارنامہ کی طرف زیادہ اٹھتی ہے جو خود تو پاکستان نہیں مگر پاکستان کو وجود میں لانے کا سب سے بڑا بلکہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے گویا واحد ذریعہ ہے۔میری مراد مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہے جس نے یہ ثابت کر دیاہے کہ اتحاد میں وہ برکت اور وہ طاقت ہے جو دنیا کی اور کسی چیز کو حاصل نہیں۔ قائد اعظم سے پہلے ہندوستان کے مسلمان سیاسی لحاظ سے ایک منتشر گلّہ کی صورت میں تھے۔جس کی بھیڑ یں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر اُدھر پھرتی ہوئی جنگل کے بھیڑیوں کا شکار ہو رہی تھیںاور جوچاہتا ان کی جس ٹولی کو پکڑ کر اپنے پیچھے یا کسی دوسرے کے پیچھے لگا لیتاتھااوراس طرح مسلمانوں کے سواد اعظم کا سارا زور آپس کے تفرقہ اور انشقاق کی نذرہورہا تھا اور اسلام کا ہوشیاردشمن مسلمانوںکی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف تھا۔مگر خدانے ہاں ہمارے علیم وقدیر خدا نے محمد علی جناح کو یہ توفیق عطا کی کہ اس کے ذریعہ ہندوستان کے پچانوے فی صدی مسلمان سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے۔اور جب یہ اتحاد قائم ہوگیاتو پھر اس اتحاد کا وہ لازمی اور طبعی نتیجہ بھی فورََا ظہور میں آگیاجو ازل سے مقدر تھا یعنی دشمن نے ہتھیار ڈال کے مسلمانوں کے متحدہ مطالبہ کو مان لیا۔کیونکہ دس کروڑ کی قوم کے متحدہ مطالبہ کو رد کرنا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں نہیں ہے۔پس میں قائد اعظم کے کارناموں میں مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کو نمبر ۱ پر رکھونگا اور پاکستان کے وجود کو نمبر۲ پراور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر عقلمند شخص میرے اس نظریہ سے اتفاق کرے گا۔
مسلمانوں کے سیاسی اتحاد اور پاکستان کے وجود کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کام اور سب سے بڑا وصف ان کا عزم اور استقلال تھا۔دنیا جانتی ہے کہ ان کے رستہ میں بعض اوقات ایسی ایسی مشکلات آئیں کہ وہ اکثر انسانوں کو بے دل کرنے اور ہمت ہارکرسمجھوتہ کر لینے پر مجبور کر دیتی ہیں مگر قائداعظم محمدعلی جناح ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور مسلمانوں کی کشتی کو نہایت عزم اور استقلال کے ساتھ چلاتے اور اردگردکی چٹانوں سے بچاتے ہوئے منزل مقصود پر لے آئے بعض اوقات درمیان میں ایسے نازک مواقع بھی آئے کہ جب دنیا نے انہیں بظاہر سمجھوتے کی طرف مائل ہوتے ہوئے محسوس کیااور گو وقتی حالات کے ماتحت وقتی سمجھوتے قابل اعتراض نہیں ہوتے مگر بعد کے حالات نے بتا دیا کہ یہ صرف دشمن کے ساتھ گفت دشنید کا ایک حکیمانہ انداز تھا اور یہ کہ آخری مقصد کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے مشہور اخبار ہندو ستان ٹائمز نے مسٹر جناح کی وفات پر تبصرہ کرتے ہی یہ الفاظ لکھے ہیں کہ مسٹر جناح نے دنیا کے سب سے بڑے سیاستدان (غالباََ پنڈت نہرو کی طرف اشارہ ہے یا شاید مسٹر گاندھی مراد ہوں)کے ساتھ زور آزمائی کی اور اس مقابلہ میں فتح پائی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا تیسرا نمایاں وصف ہر قسم کی پارٹی بندی سے بالا ہو کر غیر جانبدارانہ انصاف پر قائم رہنا تھا۔یہ وصف بھی قومی ترقی اور ملکی استحکام کے لئے نہایت ضروری چیز ہے اور پاکستان کے سب سے پہلے گورنر جنرل نے اس معاملہ میں بہترین مثال قائم کرکے پاکستان کی حکومت کے لئے ایک دائمی مشعلِ راہ پیدا کردی ہے۔ قائد اعظم کے نزدیک پاکستان کے شیعہ اور سنی ،احمدی اور اہل حدیث، پارسی اور عیسائی اور پھر نام نہاداچھوت اور غیر اچھوت سب ایک تھے اور ان کے لئے صرف یہی ایک معیار قابل لحاظ تھا کہ ایک شخص کام کا اہل ہو اور یہ وہی زریںمعیار ہے جس کی طرف قرآن شریف نے ان مبارک الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ :
۱۰۲
یعنی اے مسلمانو خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ چونکہ حکومت کے عہدے ایک ملکی امانت ہیں۔پس تم ہمیشہ اس امانت کو اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہوں اور پھر جو شخص کسی عہدہ پر مقرر ہو اس کا فرض ہے کہ سب لوگوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرے۔
مرنے والے لیڈر میں خوبیاں تو بہت تھیں مگر میں اس جگہ صرف ان تین بنیادی خوبیوں کے ذکر پر ہی اکتفاکرتا ہوں یعنی اتحاد و تنظیم ،عزم واستقلال اور غیر جانب دارانہ انصاف ،اور میں پاکستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان خوبیوں کو اپنا مشعلِ راہ بنا ئیں ۔کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی یہی بہترین یادگار ہوسکتی ہے کہ ان کے نیک اوصاف کو زندہ رکھا جائے ۔اور دراصل دنیا میں وہی شخص زندہ رہتا ہے جس کی قوم اس کی یاد کو زندہ رکھتی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)
قادیان کے متعلق جھوٹی خبریں
اخبار پر تاپ دہلی کی اشاعت مورخہ ۸ستمبر ۱۹۴۸ء میں ایک امرتسر سے آئی ہوئی خبر شائع ہوئی ہے کہ قادیان میں مقبرے کے پاس ایک اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے۔جس میں سے بہت سا ناجائز سامان برآمد ہواہے اور اس کے نتیجے میں بارہ مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں۔اس کے بعد اسی تسلسل میں اخبارجے ہند جالندہر کی اشاعت مورخہ ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ء میںیہ خبر شائع ہوئی ہے کہ قادیان کے مقبرہ بہشتی کے پاس جو اسلحہ ساز فیکٹری پکٹری گئی ہے،اس کے نتیجہ میں آٹھ مزید مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں۔
ہم نے قادیان کے دوستوں سے دریافت کیا ہے۔اور وہاں سے یہ جواب موصول ہوا ہے کہ یہ خبر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔لہٰذا احباب کی تسلی کے لئے یہ تردیدشائع کی جارہی ہے کہ ہم حکومت مشرقی پنجاب کو بھی توجہ دلارہے ہیںکہ حکومت کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی جائے ۔اور آئندہ اس قسم کی خبروں کی اشاعت میں اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہوسکتی کہ قادیان کے مسلمانوں کے خلاف غیرمسلموں کو اکسایا جائے اور ایک مسموم فضا پیدا کردی جائے۔ پس گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس قسم کے امکانی خطرات کا پوری طرح سدّباب کرے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
قادیان میں عیدالاضحیہ کی قربانی!
جو دوست قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ فوراََ اطلاع بھجوادیں!
مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان سے اطلاع دیتے ہیںکہ جودوست آنے والی عیدالاضحیہ کی قربانی قادیان میں کرانا چاہتے ہوں،ان کی طرف سے اطلاع ملنے پر قادیان میں اس کا انتظام کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وقت پر اطلاع پہنچ جائے۔قربانی صرف بکرے یا بھیڑ کی ہوسکتی ہے جس کے لئے روپیہ پیشگی آنا چاہئے۔پس جو دوست آنے والی بڑی عید پر قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ دارالمسیح قادیان ضلع گورداسپور کو پوسٹ کارڈ کے ذریعہ اطلاع بھجوادیںاور ساتھ ہی علی الحساب بیس (۲۰)روپے کی رقم بھی مولوی صاحب موصوف کو منی آرڈر کے ذریعہ بھجوا دیں۔قادیان میں اس وقت کچھ اوپر تین سودوست ہیں۔پس جو دوست قادیان میں قربانی کرانا چاہیںوہ اس تعداد کو مدنظر رکھیں تاکہ ضرورت سے زیادہ رقوم نہ بھجوادی جائیں۔نیز کافی عرصہ پہلے سے اطلاع جانی چاہئے کیونکہ ڈاک میں کافی دن لگ جاتے ہیںاور منی آرڈر تو اور بھی زیادہ دِن لیتاہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)




عزیزمرزا منوّراحمد مرحوم مبلّغ امریکہ
اپنے خدا کی تلخ تقدیروں کو بھی صبر کیساتھ قبول کرو
آج مغرب کی اذان سے قبل لندن کی ایک تار سے معلوم ہوا کہ عزیز مرز امنور احمد مبلّغ امریکہ ایک آپریشن کے نتیجہ میں وفات پاگئے ہیںاِنَّاللّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مجھے ان کی بیماری کا آج سے صرف پانچ دن قبل علم ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی پہنچی کہ ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کا مشورہ دیا ہے کیونکہ معدہ کے اندرر سولی پائی گئی ہے جس کا فوراََ نکالناضروری ہے۔طبعاََ اس اطلاع سے بہت فکر لاحق ہوا مگر خدا نے انسانی فطرت میں امیدکے پہلو کو غالب رکھاہے اس لئے اس بھاری فکر کے باوجود دل اس خواہش اور امیدسے پُر تھا کہ خدا اپنا فضل فرمائے گا اور انشاء اللہ ہمارے اس نوجوان عزیز کو صحت ہو جائے گی لیکن آج شام کی اچانک تار نے خداکی تلخ تقدیر کو عریاں کرکے سامنے رکھ دیااور زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آئے کہ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ الفاظ کیسے ماحول کے لئے مقرر کئے گئے ہیںمگر کس قدر شیریں اور کس قدررحمت کے جذبہ سے محصور ہیں ۔خدا فرماتا ہے کہ میرے بندو!بے شک تمہیںایک بھاری صدمہ پہنچاہے مگر تمہارا اصل تعلق تو میرے ساتھ ہے نا؟اور دیکھو میں تمہارے سروں پر زندہ موجود ہوں ۔پس اس صدمہ کے وقت بھی میری محبت اور میرے تعلق میں راحت وتسکین پانے کی کوشش کرو۔اور پھر دیکھو تم سب نے بالآخر میرے پاس جمع ہی ہونا ہے پس فکر نہ کرو۔ کیونکہ آج کا بچھڑا ہوا عزیز تمہیںعنقریب پھر مل جائے گااور تم سب جو نیک ہو بہت جلدمیری رحمت کے سایہ کے نیچے جمع ہو جائو گے ۔
یہ الفاظ کس قدر محبت کس قدر شفقت اورکس قدر رحمت کے جذبہ سے معمور ہیںمگر پھر بھی جدائی کی تلخی خواہ یہ جدائی کتنی ہی عارضی ہو بہرحال ایک تلخی ہے اور انسانی فطرت تلخیوں کے احساس سے کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتی۔
خدا کی ہستی او رآخرت کی حقیقت پر سب سے زیادہ ایمان لانے والا وجود ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک وجود تھا جن کے لئے گویا یہ دونو ںباتیں اس طرح آنکھوں کے سامنے تھیں جس طرح کہ دنیا کی مادی چیزیں ہماری جسمانی آنکھوں کے سامنے محسوس مشہود ہوتی ہیں بلکہ ان سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ۔مگر پھر بھی حدیث سے ثابت ہے کہ بعض دوستوں اور عزیزوںکی وفات پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم(فداہ نفسی)کی آنکھیں بھی پُر نم ہوجاتی تھیں۔بلکہ ایک موقع پر تو آپؐ کے آنسو آپؐ کی ریش مبارک تک بہہ بہہ کر پہنچ گئے تھے۔تو جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دل وگردہ والے انسان کا یہ حال ہے تو ہم جیسے کمزور لوگ کس شمار میں ہیںجن کو نہ ویسا ایمان حاصل ہے اور نہ ویسا ضبطِ نفس ۔پس ہم نہایت درد بھرے اور بے حد زخمی دل کے ساتھ اپنے اس عزیز نوجوان کی وفات پر اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکہتے ہیں، ۱۰۳
عزیز مرزا منور احمدمرحوم کو میں بچپن سے جانتا تھااس لئے بھی کہ وہ ہمارے قریبی عزیزوںمیں سے تھے یعنی ہماری ممانی صاحبہ کے بھائی اور ہماری ایک بھاوجہ صاحبہ کے ماموں تھے اور اس لئے بھی کہ مرحوم کا بچپن سے میرے ساتھ خاص تعلق تھا۔پس میں یہ بات بغیر کسی قسم کے مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم ایک بہت مخلص اور نیک اور ہونہار اور محبت کرنے والا اور جذبہ خدمت و قُربانی سے معمور نوجوان تھا۔دن ہو یا رات دھوپ ہو یا بارش جب بھی انہیںکوئی ڈیوٹی سپرد کی جاتی تھی وہ کمال مستعدی اور اخلاص کے ساتھ اس ڈیوٹی کو سر انجام دینے کے لئے لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے اور پھر اپنے مفوّضہ کام کو اس درجہ توجہ اور سمجھ کے ساتھ سر انجام دیتے تھے کہ دل خوش ہو جاتا تھااور زبان سے بے اختیار دُعا نکلتی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نیکی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زندگی وقف کرنے اور پھر بلادِ امریکہ میں وطن سے بارہ ہزار میل دورجاکر فریضۂ تبلیغ بجا لانے کی سعادت عطا کی ۔موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے مگر مبارک ہے وہ نوجوان جسے یہ سعادت کی زندگی عطا ہوئی اور مبارک ہیں وہ والدین جنہیں خدا نے ایسا نیک اور خادم دین بچہ عطاکیا ۔عزیز مرحوم کے والد یعنی مرزامحمد شفیع صاحب مرحوم نے جب اپنی آخری بیماری دِلّی کے ہسپتال میں جاکر کاٹی تو بیماری کے لمبا ہوجانے کے باوجود منور مرحوم نے ان کی خدمت میں دن رات ایک کردیااور اپنے ضعیف العمر اور نیک باپ کی آخری دعائیں حاصل کیں۔پھر جب مرحوم کی والدہ صاحبہ گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں قادیان چھوڑ نے پر مجبور ہوئیںاور منور مرحوم کو یہ بھی اطلاع پہنچی کہ والدہ کے باہر آجانے کے بعد ان کا بڑا بھائی قادیان میں شہید ہوگیا ہے تو منور نے ماں کی تکلیف کا خیال کرکے انہیں میرے واسطے سے تار کے ذریعہ امریکہ سے ایک رقم بھجوائی جو ایک دوست سے قرض لے کر بھجوائی گئی تھی اور مرحوم نے مجھے لکھا کہ اب میری والدہ صاحبہ اکیلی ہیں اور سامان قادیان میں لُٹ چکا ہے اس لئے بھائی کی وفات کے بعد انہیں کئی قسم کی ضرورتیں لاحق ہونگی۔پس آپ یہ رقم میری طرف سے انہیں پہنچادیں۔میں جانتا ہوں کہ منوّر مرحوم کی مالی حالت ہرگز ایسی نہیں تھی کہ وہ اتنی رقم خود پیدا کر سکے یا قرض اٹھا کر اسے آسانی سے اتار سکے مگر محض بوڑھی والدہ کی محبت میں اُس نے یہ بوجھ اٹھایا اور پھر خدا نے اُسے اس قرض کے اتارنے کی بھی توفیق دیدی ۔اسی طرح ایک دفعہ عزیزمرحوم کے ایک قریبی عزیز کے ساتھ میرا کچھ اختلاف ہوگیا تھااور مجھے یاد نہیں کہ منوّرنے مجھے امریکہ سے کبھی کوئی ایک خط بھی ایسا لکھا ہوجس میں یہ نہ پوچھا ہو کہ کیا فلاں عزیز کے ساتھ آپ کی صلح صفائی ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے یہ تحریک نہ کی ہو کہ آپ بڑے ہیں آپ اپنے دل سے رنجش نکال دیں۔میں نے عزیزم مرحوم کو ہر خط میں تسلی دلائی کہ اختلاف کا دور ہونا اوربات ہے مگر تم تسلی رکھوکہ خدا کے فضل سے میرے دل میں کینہ نہیں ہے اور میں اس حالت میں بھی تمھارے اس عزیز کے لئے ہمیشہ دُعا کرتا ہوں۔الغرض کیا بلحاظ دین کے اور کیا بلحاظ اخلاق کے اور کیا بلحاظ رشتہ داری کے حقوق کے اورکیا بلحاظ دوست نوازی کے مرحوم ایک بہت ہی نیک اور قابل قدر نوجوان تھا۔میری یہ دلی دُعا ہے کہ خدا اسے غریق رحمت کرے اور اسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور گووہ غیر شادی شدہ تھا۔اور اس نے کوئی اولاد پیچھے نہیں چھوڑی مگرخدا اسے ایسے دوست اور ایسے عزیز عطا کرے جو اس کے لئے ہمیشہ دعا گو رہیںاور اس کی یاد کو زندہ رکھیں۔ آمین یاالرحمٰ الرٰحمین۔
مرحوم کی وفات کا ایک تلخ پہلو ایسا ہے جس کے ذکر سے میں (باوجود اس علم کے کہ اس کے بیان سے میرے دل کا درد بڑھ جائے گا) نہیں رُک سکتا۔یہ پہلو مرحوم کی والدہ کے اوپر تلے کے صدمات سے تعلق رکھتا ہے۔مرحوم کی والدہ جو ہمارے بڑے ماموں مرحوم کی ساس ہیں۔ا س وقت غالباََ ستر سال کی ہونگی لیکن خدا کی کسی باریک درباریک حکمت کے ماتحت ان کی زندگی کے آخری ایام بہت تلخی میں گزرے ہیں۔سب سے پہلے ان کا ایک نوجوان بیٹا محمد احمد جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتا تھامرضِ سل میں مبتلا ہو کر خدا کو پیارا ہوا۔اس کے چند سال بعد ان کے خاوند بزرگوار مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم جنہیں اپنے زندگی کے آخری سالوں میںکارکن صدر انجمن احمدیہ کے طور پر خدمت سلسلہ کی خاص توفیق حاصل ہوئی ،ان کی غیر حاضری میں دلّی کے ہسپتال میں لمبی بیماری کاٹ کر فوت ہوئے۔اور منور مرحوم کی والدہ صاحبہ کو اپنے نیک اور دیرینہ رفیق کی آخری خدمت کا موقع نہیں مل سکا۔اس کے بعد ان کے داماد اور ہمارے ماموں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب علیہ الرحمت کی وفات کا صدمہ پیش آیاجو جماعتی لحاظ سے بھی ایک بہت بھاری صدمہ تھا کیونکہ :
کم بزاید مادرے با ایں صفا درّ یتیم
اس کے بعد فسادات کے نقصان کے علاوہ جو کم وبیش سب کے لئے برابرتھا، ان کے بڑے لڑکے مرزا احمد شفیع بی ۔اے مرحوم نے قادیان میں ہندو پولیس کے ہاتھوں جام شہادت پیااور اب بالآخر امریکہ سے یہ تار آئی ہے کہ ان کا چھوٹا اور آخری لڑکا بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگیا ہے ۔
دنیا میں صدمے آتے ہیں اور بڑے بڑے صدمے بھی آتے ہیں مگر ایسا صدمہ غالباًبہت کم گذراہوگا کہ ایک ضعیف العمر عورت نے سب سے پہلے اپنا بڑا لڑکا کھویا (یا شاید پایا کیونکہ اگر وہی ان کے لئے فرط بن جائے تو کھونے کی نسبت پایا کا لفظ زیادہ صحیح رہے گا ) اس کے بعد اس کی عدم موجودگی میں اس کا عمر بھر کا نیک اور نہایت وفادار رفیق اس جہان سے رخصت ہوا ۔ اس کے بعد اس نے ایک ایسے داماد کا صدمہ دیکھا جس کی نیکی اور سعادت پر آئندہ نسلیں بجا طور پر فخر کریں گی ۔اس کے بعد وہ لُٹ لُٹا کرپاکستان پہنچی اس کے بعد اسے یہ اطلاع ملی کہ اس کا دوسرا بیٹا ہندو ظالموں کے ہاتھوں قادیان میں شہید ہوگیا۔اور اب بالآخر اس کے کانوں میں یہ آواز پہنچی ہے کہ اس کا تیسرااور آخری بیٹا بھی امریکہ میں خدا کو پیارا ہُوا ۔یہ کوئی صدمہ سا صدمہ ہے کہ خاوند بھی آنکھوںسے اوجھل فوت ہوا،بڑا لڑکا بھی آنکھوں سے اوجھل فوت ہوا اور اب چھوٹا لڑکا بھی لاہور سے بارہ ہزار میل پر اپنا آخری سانس لے کر خدا کے حضور پہنچ گیا۔گو یا وہ دنیا کی جھولی جھاڑ کر بالکل خالی ہو بیٹھی ہیںمگر حق وہی ہے جو خدا نے فرمایا کہ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یقینا یہ بڑی تلخ قاشیں ہیں،جو اس بزرگ خاتون کو خدائی تقدیر کے ہاتھوں آخری عمر میں کھانی پڑیں لیکن اگر وہ خدا کی خاطر ہاں ان نعمتوں کے دینے والے کی خاطر صبر کریں اورخدا کی تقدیر پر راضی ہوںتو پھر انشاء اللہ ان کا اجر بھی بہت بھاری ہوگا۔ہمارا خدا رحیم ہے بڑا رحیم ہے اور یقینا اسکی رحمت ہر دوسری چیز پر غالب ہے۔ اگر وہ ایک ہاتھ سے کوئی چیز لیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے اس سے بڑھ کردیتا ہے اور اگر اسکی کسی باریک درباریک حکمت سے اس کے کسی بندے کو دُنیا میں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو اس کی رحمت اس دکھ سے کئی گنے بڑی رحمت اس کے لئے آخرت میں ریزرو کر لیتی ہے۔اور آخرت کی لامحدود زندگی کے مقابل پر دنیا کی چند سالہ زندگی کیا حقیقت رکھتی ہے؟اور پھر آخرت کی زندگی بھی وہ ہے جہاں سب نیک عزیزوںنے خدا کی ابدی رحمت کے آغوش میں جمع ہو جانا ہے۔
میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اس بات کو کبھی نہیں بھولا،اور نہ بھول سکتا ہوںکہ جب ان کا ایک لڑکا محمد فوت ہوگیا اور یہ ان کا اکلوتا لڑکا تھا۔جس سے پہلے سب لڑکے فوت ہو چکے تھے اور خود حضرت خلیفہ اوّل گویا آخری عمر کو پہنچ چکے تھے جس کے بعد مزید اولاد کی بہت کم امید رہ جاتی ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ اس بچہ کی وفات پر مجھے بہت صدمہ ہُوا حتیٰ کہ جب میں اس کے جنازہ کے لئے کھڑا ہُواتو میری طبیعت پر اتنا بوجھ تھا کہ میری زبان سے الحمدللہ کے الفاظ نہیں نکلتے تھے۔اور میرا دل کہہ رہا تھاکہ جب میری آیندہ نسل کا آخری تالا ٹوٹ چکا ہے تو پھر میں کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں؟فرماتے تھے کہ اس پر میں ایک دو لمحات کے لئے دم بخود ہو کر کھڑا رہا۔اور میرے نفس میں متضاد جذبات کی کش مکش ہو رہی تھی لیکن پھر ایک بھاری سیلاب کی طرح میرے دل میں یہ خیالات موجزن ہوئے کہ نورالدین !تجھ پر خدا نے یہ فضل کیا اور یہ فضل کیا اور یہ فضل کیا اور تجھے دین کے علم وعمل سے سرفرازکیا ، اور بالآخر اپنے پاک مسیح موعود ؑ کی شناخت اور قرب کی سعادت عطا کی تو کیا اتنے بھاری انعاموں کے ہوتے ہوئے تو ایک بچہ کے مرنے پر جو وہ بھی خدا ہی کا دیا ہُوا تھاخدا کی حمد ادا کرنے سے رُکتا ہے؟فرماتے تھے کہ اس کے بعد میری زبان سے الحمدللہ کے الفاظ اس زور کے ساتھ نکلے کہ سارے مقتدی چونک گئے۔یہ وہ ایمان ہے جو اسلام ہر مومن میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ حق یہی ہے کہ ہمارے خدا نے ہمیں اتنی میٹھی قاشیں دے رکھی ہیں کہ ہم ایک آدھ یا دوچار تلخ قاشوں کے کھانے پر چیں بجبیں ہوتے یا منہ بناتے اچھے نہیں لگتے ۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔
نوٹ :۔ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میراسحاق صاحب مرحوم اور بڑے ماموں حضرت میر اسماعیل صاحب مرحوم اور سلسلہ کے بزرگ ترین عالم حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور سلسلہ کے فرشتہ سیرت بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور بالآخر ہماری چھوٹی بھاوجہ کے والد محترم اخویم سیّد عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم کی وفات پر نوٹ لکھنا میرے مد نظر ہے۔اورمیری یادداشت میں درج ہے مگر ان کی وفات کے ساتھ متصل ہوکر بعض ایسے واقعات پیش آتے رہے اور میرے دل کی کیفیت بھی ایسی رہی کہ میں آج تک کچھ نہیں لکھ سکا۔انشاء اللہ بشرط زندگی کبھی لکھونگاورنہ دِل کی یاد دُعا میں تو بہر حال منتقل ہوتی رہے گی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)

مرکزِپاکستان کا افتتاح
ایک غیرذی زرع وادی میں روح پرور نظارے
قادیان سے باہر آنے کے بعد سب سے زیادہ ضروری سوال جو حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز کے زیر غور تھاوہ مرکز پاکستان کے قیام سے تعلق رکھتا تھا ۔اس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا وجود اپنی ذات میں ایک عظیم الشان مرکز ہے لیکن اس شخصی مرکز کے علاوہ ہر ترقی کرنے والی جماعت اور خصوصاََ ہر ایسی جماعت کو ایک جغرافیائی مرکز کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے، جہاں جماعت کے مرکزی ادارے اور جماعت کے مرکزی کا رکن اور دیگر افرادِ جماعت جو مرکز میں رہائش اختیار کرنا چاہیں اکٹھے ہوکر اپنے مخصوص ماحول میں زندگی گزارسکیں۔یہ مرکز یّت ہمیں لاہور میں حاصل نہیں تھی۔کیونکہ ایک تو لاہور میں ہمارے پاس اتنے مکانات نہیں تھے کہ اپنے سب اداروں اور اپنے سب کارکنوں کوایک جگہ آباد کرسکیںیا آنے جانے والے مہمانوں کا انتظام کرسکیںاور دوسرے ایک وسیع شہر میں جس میںہر قسم کے عناصر آباد ہیں اپنا مخصوص ماحول پیدا کرنا مشکل تھا۔اس لئے خاص کوشش کے ساتھ ایسی جگہ تلاش کی گئی جو غیر آبا د اور بنجر ہو اور گورنمنٹ اسے فروخت کرنے میںتامّل نہ محسوس کرے تاکہ ایسا قطعہ اراضی حاصل کرکے وہاں قادیان سے آئے ہوئے اداروں اور کارکنوں اور دیگر افراد جماعت کو ایک بستی کی صورت میں آباد کیا جاسکے ۔
سو الحمدللہ کہ کافی تلاش کے بعدچنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پارایک ایسا رقبہ مل گیا جو بالکل بنجر اور غیر آبادتھااور صدیوں سے بنجر اور غیر آباد چلا آتاتھابلکہ وہ با لکل ناقابل آبادی اور ناقابلِ زراعت سمجھا جاتا تھا ۔چنانچہ یہ رقبہ جو دس سو چونتیس ایکڑ پر مشتمل ہے، گورنمنٹ سے خرید لیا گیا۔اور گواس قطعہ کی صورت اور ہئیت جس کا طول بہت زیادہ ہے اور عرض نسبتاََ کم اور اس کے اندر سے گذرنے والی ریلوے لائن اور پختہ سڑک اور پہاڑی ٹیلوں کی وجہ سے یہ قطعہ کئی حصوں میں تقسیم شدہ بھی ہے۔وہ اچھی آبادی کے زیادہ مناسب نہیں مگر بہرحال جو چیز مل سکی وہ خدا کے شکر کے ساتھ قبول کرلی گئی اور اب اس میں قادیان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں اور صدر انجمن احمدیہ کے اداروں کے واسطے بستی آبادکرنے کی تجویز کی جارہی ہے۔یہ رقبہ چنیوٹ سے قریباََ ۵میل پرے واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے لائلپور اور سرگودھا کے عین وسط میں ہے،یعنی اس سے قریباََ ۲۸ میل جنوب مشرق میں لائل پور کا شہر آباد ہے اور قریباً۲۸ میل شمال مغرب میں سرگودھا کا شہر آباد ہے۔ اس رقبہ کی زمین بظاہر ادنیٰ درجے کی ہے جو کچھ شور کا مادہ بھی رکھتی ہے، مگر خدا چاہے تو اس بنجر اور غیر ذی زرع رقبہ میں مکہ کی پاک زمین کے طفیل جس کے دین کی خدمت کے لئے جماعت احمدیہ اپنی ساری توجہ وقف رکھتی ہے غیر معمولی برکت عطا کر سکتا ہے۔ وَنَرْجُوَامِنْہُ خَیْراً۔
اس آبادی کا اصل افتتاح تو اسوقت ہو گا جبکہ اس آبادی کی سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھاجائیگالیکن حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مناسب خیال کیا کہ پہلے قدم کے طور پر اس رقبہ میں جاکر ایک نمازادا کی جائے اور خدا کے حضور دعا کی جائے کہ وہ اس نئی قائم ہونے والی آبادی کو اپنے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور اس میں آباد ہونے والے لوگوں کو اسلام کی خدمت کی توفیق عطاکرے اور قیامت تک عطا کرتا چلا جائے۔ چنانچہ ۲۰؍ستمبر۱۹۴۸ء کویعنی بروز پیر (دوشنبہ) یہ ابتدائی افتتاح وقوع میں آگیا اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے وہاں جاکر ایک بڑے مجمع کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی۔اس موقع پر ایک وسیع شامیانہ اور کچھ خیمے نصب کر دئیے گئے تھے اور چنیوٹ اور احمد نگر اور لالیاں اور سرگودھاکے علاوہ کئی دوست لاہور سے بھی اس بابرکت تقریب میں شامل ہونے کے لئے پہنچ گئے تھے ۔نماز ظہر ڈیڑھ بجے شروع ہوئی جس میں تقریباََ اڑھائی سو احباب شریک تھے۔اس کے بعد شریک ہونے والے اصحاب کی فہرست تیار کی گئی اور پھر حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت درجہ مؤثر اور دردسے بھری ہوئی تقریر کے بعد حاضرین کے ساتھ مل کر لمبی دعا کی۔اس دعا کے بعد برکت کے خیال سے پانچ بکرے ذبح کئے گئے، جن میں سے ایک اس رقبہ کے وسط میں ذبح کیا گیا اور چار چاروں کونوں میںذبح کئے گئے۔وسط والا بکرا خود حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اﷲ نے مسنون دعائیہ الفاظ کے ساتھ اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔اس کے بعد تھوڑے سے وقفہ سے اسی مقام پر جہاں شامیانہ کے نیچے ظہر کی نماز ادا کی گئی تھی ،عصر کی نمازپڑھی گئی۔جس میں کچھ اوپر پانچ سو احباب نے شرکت کی اور بعض مستورات بھی جو اس وقت تک وہاں پہنچ چکی تھیں پردہ کے پیچھے کھڑی ہو کر نماز میں شامل ہوئیں ۔نماز کے بعد صبح کاکھانا کھایا گیا ،جس کے لئے چنیوٹ کے دوستوں نے انتظام کیا تھااور پھر چار بجکر چالیس منٹ پر حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور کی طرف واپس روانہ ہوگئے۔لاہور سے حضور کی روانگی نوبج کر بیس منٹ پر ہوئی تھی اور لاہور میں واپسی آٹھ بجکر پانچ منٹ پر ہوئی ۔مرکز پاکستان میں پہنچنے کا وقت ایک بجکر بیس منٹ تھا۔سفر کے لئے جوموٹروں میں کیا گیا، لائلپور کا رستہ اختیار کیا گیاکیونکہ شیخوپورہ کے رستہ کا کچھ حصہ زیر آب تھا۔ عصر کی نماز سے قبل تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس موقعہ پر پانچسو کے قریب مردوزن کے اجتماع کے علاوہ ایک موٹر لاری تھی اور پانچ کاریں اور چوبیس تانگے اور بتیس سائیکل تھے۔اور ایک وسیع شامیانے کے علاوہ چھ عدد خیمے بھی نصب کئے گئے تھے۔ شامل ہونے والے دوستوں کی فہرست انشاء اللہ صاف کرکے بعد میں شائع کی جائے گی۔
یہ موقع سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص یادگاری موقع تھا، جس میں دو قسم کے بظاہر متضاد لیکن حقیقتاً ایک ہی منبع سے تعلق رکھنے والے جذبات کا ہجوم تھا ۔ ایک طرف نئے مرکز کے قیام کی خوشی تھی کہ خدا ہمیں اس کے ذریعہ سے پھر مرکزیّت کا ماحول عطا کرے گا اور ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنی تنظیم کے ماحول میں زندگی گزار سکیں گے اور دوسری طرف اس وقت قادیان کی یاد بھی اپنے تلخ ترین احساسات کے ساتھ دلوں میں جوش مار رہی تھی اور نئے مرکز کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہر زبان اس ذکر کے ساتھ تازہ اور ہر آنکھ اس دعا کے ساتھ پُرنم تھی کہ خدا ہمیں جلد تر اپنے دائمی اور عالمگیر مرکز میں واپس لے جائے ۔ جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقریر میں فرمایا ، اصل مرکز قادیان ہی ہے ۔ اور وہی قیامت تک احمدیت کا مرکز رہے گا لیکن جب تک قادیان کا مرکز واپس نہیں ملتا اس وقت تک یہ نیا مرکز قادیان کا قائمقام ہوگا اور اس کے بعد صر ف اپنے علاقہ کا مرکز ہوجائے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ احمدیت کی توسیع کے ساتھ مرکزی مرکز(یعنی قادیان)کے علاوہ مختلف ملکوں میں مقامی مراکز بھی بنائے جانے ضروری ہوں گے۔
اس غیر معمولی تقریب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے اس برکت سے بھی نوازا کہ قربانیوں کے بعد اورعصر کی نماز سے پہلے ایک نوجوان نے جوترکستان سے آئے ہوئے تھے، حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح یہ خوش قسمت نوجوان نئے مرکز کا پہلا پھل قرار پا گیا ۔
حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ بھی اعلان فرمایا کہ نئے مرکز کا نام ربوہ (Rabwah) تجویز کیا گیا ہے۔ جس کے معنے بلند مقام یا پہاڑی مقام کے ہیں ۔ یہ نام اس نیک فال کے طور پر تجویز کیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ اس مرکز کو حق و صداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے اور وہ خدا ئی نور کا ایک ایسا بلند مینا ر ثابت ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنے خدا کی طرف راہ پائیں ۔ ا س کے علاوہ ظاہری لحاظ سے بھی یہ جگہ ایک ربوہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ وہ اردگرد کے علاقہ سے اونچی ہے اور اس کے ساتھ بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں ۔ گویا ایک پہلو میں چناب کا دریا ہے جو پانی یعنی ذریعہ حیات کامنظر پیش کرتا ہے ، اور دوسرے پہلو میں بعض پہاڑیاں ہیں جو بلندی کی علامت کی علمبردار ہیں۔ ان پہاڑیوں کی ایک شاخ رقبہ کے اندر بھی گھسی ہوئی ہے۔
اس خیال سے کہ قادیان کے دوست بھی اس موقع پر دعا میں شریک ہو جائیں، میں نے انہیں فو ن اور تار کے ذریعہ نماز اور دعا کے وقت کی اطلاع کردی تھی اور میں یقین کرتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ بھی اپنی جگہ انتظام کر کے دعا میں شریک ہوئے ہوں گے ۔
بالآخر سب دوستوں کو خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ احمدیت کے اس نئے مرکز کو جو حقیقتاً ایک وادی غیر ذی زرع میں آباد کیاجارہا ہے اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور اسے توحیداور دنیا کے روحانی اتحاد اور حق و صداقت کامرکز بنائے اور یہ بھی کہ یہ مرکز ہمارے دائمی مرکز قادیان کی واپسی کو ہمارے لئے آسان کردے۔ آمین ۔ یا ارحم الراحمین ۔ وما تو فیقنا الاباللّٰہِ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ ستمبر ۱۹۴۸ئ)








اسلامی ضابطہ جنگ
خود پہل نہ کرو مگر ہر وقت تیار رہو اور لڑائی میں ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو
پاکستان کے قیام کے ساتھ ضروری ہوگیاہے کہ اہل پاکستان کو اس اصولی تعلیم کا علم ہو جو اسلام جنگی تیاری یا میدان کا رزار میں عہدہ برائی کے متعلق دیتا ہے۔اس لئے نہیں کہ پاکستان کو کسی جنگی اقدام میں پہل کرنی چاہئے۔بلکہ اس لئے کہ اگر کوئی دوسرا ملک پاکستان پر حملہ آورہویا ایسے اقدامات کرے جو بالواسطہ حملہ کے مترادف ہوں تو اس صورت میں ہر پاکستانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے ظالم دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔
یہ مضمون نہایت وسیع ہے ۔اور اگر اس کے سارے پہلوئوں پر مکمل نظر ڈالنی مقصود ہو تو یقینا اس کے لئے ایک ضخیم کتاب کا حجم درکار ہوگا لیکن میں اس جگہ صرف چند اصولی باتوں تک اپنے آپ کو محدود رکھنا چاہتا ہوںاور ان باتوں کو بھی حتی الوسع نہایت اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم۔
مسلمانوں کوجنگی اقدام میں کبھی پہل نہیں کرنی چاہئے
سب سے پہلی ہدایت اس معاملہ میں اسلام یہ دیتا ہے کہ تم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار تو ہر وقت رہو لیکن عملاََ پہل کرنے سے ہمیشہ اجتناب کرو۔بلکہ دل میں بھی یہ خواہش نہ رکھو کہ دشمن کے ساتھ ہمیںجنگ پیش آئے۔ ہاں دشمن کی طرف سے پہل کی جائے یا ایسے اقدامات وقوع میں آئیں جو پہل کرنے کے مترادف سمجھے جائیںتو پھر ڈٹ کر مقابلہ کرواور ہر گز کمزوری نہ دکھائو۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
لَا تَتَمَنَّوا لفَائَ الْعَدُوِّوَاسئَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ وَاِذَالَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوا۔۱۰۴
یعنی اے مسلمانو!دشمنوں کے ساتھ لڑنے کی خواہش کبھی نہ کیا کرو اور ہمیشہ خدا سے امن وعافیت کے خواہاں رہولیکن جب دشمن کے ساتھ لڑنا پڑے تو پھر خوب ڈٹ کر صبرواستقلال کے ساتھ مقابلہ کرو۔
اسی اصول کی طرف ذیل کی قرآنی آیت بھی اشارہ کرتی ہے اور یہ وہ آیت ہے جو جہاد کی اجازت کے متعلق سب سے پہلے نازل ہوئی خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۱۰۵
یعنی مسلمانوں کو جن کے خلاف ظالم دشمن نے جنگ کا آغاز کیا ہے مقابلہ کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا خدا تعالیٰ اپنے کمزور بندوںکی مدد کی طاقت رکھتا ہے۔
اس تعلیم میں یہ بھاری حکمت مضمر ہے کہ ایک تو پہل کرنے والا انسان بسااوقات غلط انداز ہ کرکے یا حد اعتدال سے تجاوز کرکے ظالم کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور اسلام مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی ظالم بنانا نہیں چاہتا۔ دوسرے پہل کرنے والا عموماََ تکّبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اور یہ ذہنی کیفیت بھی اسلام میں نہایت درجہ مکر وہ سمجھی گئی ہے۔کیونکہ اس سے ایک تو توکل عَلَی اللہ کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے اور دوسرے گھمنڈکی صورت پیدا ہو کر انسان بسااوقات غفلت کا شکار ہو جاتاہے۔پس اسلام نے ہر وقت چوکس اور تیار رہنے کی ہدایت دینے کے باوجود اس بات کو قطعاََ پسند نہیں کیاکہ مسلمان دشمن کے ساتھ لڑائی کرنے میں پہل کریں۔
ضروری ہے کہ مسلمان ہر وقت مقابلہ کے لئے تیار رہیں
لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بتا یا ہے پہل نہ کرنے کے یہ معنے نہیں کہ مسلمان سستی اور غفلت میں اپنا وقت گزاریںبلکہ انہیں ہر وقت اپنی تنظیم اور ضروری ٹریننگ اور ضروری تیاری کی طرف متوجہ رہناچاہئے تاکہ ایسا کوئی وقت نہ آئے کہ وہ گویا سوتے ہوئے پکڑے جائیں۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے۔
۔۱۰۶
یعنی اے مسلمانودشمن کے مقابلہ کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ تیاری رکھواور اپنی سرحدوں پر حفاظتی چوکیوں کو مضبوط کروجن میں نقل وحرکت کا بھی پورا سامان موجود رہناچایئے تاخدا کا دشمن اورتمہارا دشمن تمہاری غفلت اور عدم تیاری کی وجہ سے تمہارے خلاف جرأت کرنے کی ہمت نہ پاسکے بلکہ تمہاری تیاری اور چوکسی کو دیکھ کر تم سے خائف رہے ۔
خود تیار رہو اور دوسروں کو تیار رکھو ۔سرحدوں کو مضبوط بنائو
اور اسی اصول کی مزید تشریح میں دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے :
۱۰۷
یعنی اے مسلمانو تم دشمن کے مقابلہ پر کامل صبرو استقلال کانمونہ دکھائواور نہ صرف خودصبرواستقلال پر قائم رہو۔ بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی صبرو استقلال پر قائم رکھو اور اپنی سرحدوں کو خوب مضبوط بنائواور ہر امر میں خدا اور اس کے بنائے ہوئے اسباب کا سہارا ڈھونڈو تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔
اس آیت میں جو اصبرو کا لفظ ہے (یعنی کامل صبرو استقلال پر قائم رہو)اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک باقاعدہ سکیم بنا کر اور پروگرام مرتب کرکے دشمن کے مقابلہ پر استقلال کے ساتھ تیار رہو کیونکہ صبر کے معنے ایک حالت پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کے ہیں اور اس طرح گویا اس لفظ کے اندر ہی سکیم اور پروگرام کا مفہوم بھی آجاتا ہے کیونکہ جب کوئی بات ہی نہ ہوگی تو صبرو استقلال کس پر کیا جائے گا۔اسی طرح صَابِرُوا۔ کا لفظ (یعنی دوسروں کو بھی صبرو استقلال کے مقام پر قائم رکھو) اپنے اندر دو مفہوم رکھتا ہے۔ اوّل یہ مفہوم کہ ہر مسلمان کافرض ہے کہ وہ نہ صرف خود دشمن کے مقابلہ پر تیار رہے بلکہ اپنے اردگرد کے مسلمانوں کو بھی (خواہ وہ لڑائی کے قابل ہوں یا دوسرے ) ہوشیار اور تیار رکھنے کی کوشش کرے۔ دوسرے اس لفظ میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کا جنگجو حصہ جو لڑائی کے قابل ہے مقابلہ کے لئے چوکس اور تیار رہنا چاہئے بلکہ مسلمانوں کی آبادی کا وہ حصہ بھی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے جنگ میں عملی حصہ نہیں لے سکتا (مثلاً عورتیں بچے یا بوڑھے مرد وغیرہ ) وہ بھی مقابلہ کے لئے بالواسطہ تیار رہناچاہئے ۔آجکل کے جنگی حالات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ کوئی ملک صرف اپنی فوج کے بل بوتے پر لڑکر کامیاب نہیںہوسکتا بلکہ اس کا غیر فوجی حصہ بھی ،بلکہ وہ حصہ بھی جو جنگی خدمت کے قابل نہیں دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا چاہئے، گویہ علیحدہ امر ہے کہ ان کی تیاری فوجیوں سے مختلف قسم کی ہوگی ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن میں پیش کر کے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ صرف یہی کافی نہیں کہ تم اِصْبِرُوْاکے حکم پر عمل کر کے خود صبر و استقلال کے ساتھ مقابلہ کے لئے تیار رہو بلکہ تمہیں صَابِرُوْاکے حکم پر بھی عمل کرنا چاہئے۔یعنی ملک کی غیر جنگجوآبادی کوبھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رکھنا چاہئے، گویا مسلمانوں کی عورتیں بھی تیار رہیں اور بچے بھی تیاررہیں اور بوڑھے بھی تیار رہیںتاکہ مسلمانوں کا جنگجو حصہ یعنی وہ حصہ جو لڑنے کے قابل ہے اس بات کی وجہ سے تسلی پائے کہ اس کے پیچھے غیر جنگجو حصہ بھی اپنے اپنے رنگ میں اور اپنے اپنے میدان میں ہراحتیاطی تدبیر اور ہر مقابلہ اور ہر قربانی کے لئے تیار بیٹھاہے۔اسی طرح اس آیتِ کریمہ میں رابطوا کا حکم بھاری حکمت پر مبنی ہے۔ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ صرف ملک کے اندورنی حصہ میں ہی تیار رہنا کافی نہیں بلکہ ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو بھی مضبوط رکھے تاکہ ظالم دشمن کا پہلے قدم پر ہی مقابلہ کیا جاسکے ۔خواہ سرحد پر اور خواہ اگر ضرورت ہوتو دشمن کے علاقہ میں گھس کر۔ اسی لئے اس لفظ میں عربی محاورہ کے مطابق یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ سرحدوں پر سواریوں کا انتظام بھی ہوناچاہئے کیونکہ سواری ہی نقل وحرکت کو آسان بنانے کا پختہ ذریعہ ہے۔بالآخر قرآن شریف نے اتقوااﷲ کے الفاظ فرمائے ہیںجس کے معنے یہ ہیںکہ خد اپر توکل کرو اور خدا کو اپنی ڈھال بنائو اور عربی محاورہ کے مطابق اللہ کے مفہوم میں خدا اور اس کا بتایا ہوا قانون اور اس کے پیدا کئے ہوئے اسباب سب شامل ہیں ۔گویا واتقوااللّٰہَکے پورے معنی یہ ہیں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو اختیار کرو مگر ساتھ ہی خدا پر اور اس کی نصرت پر بھروسہ رکھو اور اس سے دعائیں کرتے رہو۔خلاصہ کلام یہ کہ اس آیت میں پانچ اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
(۱)لڑنے کے قابل آبادی کا ایک باقاعدہ پروگرام اور سکیم کے مطابق دشمن کے مقابلہ کے لئے صبرو استقلال کے ساتھ تیار رہنا یعنی باقاعدہ فوج بھی اور ریزروحصہ بھی (۲) ملک کی دوسری آبادی یعنی (عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں ) کو بھی اپنے اپنے میدان اور اپنے اپنے حلقہ کار میں تیار رکھنا (۳)سرحدوں کو پوری طرح مضبوط کرنا(۴)خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے تمام سامانوں کو اپنی تیاری میں استعمال کرنا اور جنگی تیاری کے کسی پہلو کو نظر انداز نہ کرنا اور(۵) بایں ہمہ اصل بھروسہ صرف خدا پر رکھنا اور اس کی نصرت کے لئے ہر وقت دست بدعا رہنا۔
یہ سوال کہ غیر جنگی آبادی کی تیاری سے کیا مراد ہے۔ آجکل کے حالات کے لحاظ سے کوئی مشکل سوال نہیں ہے۔اس تعلق میں سب سے اول نمبر پر تو ہمت اور روح یعنی (Morale ) کو بلند رکھنا ضروری ہے۔اس کے علاوہ ہوائی حملہ کے بچائو کی تدابیر کی ٹریننگ ،زخمیوں کی نرسنگ، بعض جنگی سامان کی تیاری میں امداد وغیرہ کئی قسم کے کام ہیں جن میں ملک کا غیر جنگجو حصہ معقول مدد دے سکتا ہے۔

جب لڑائی ہو تو ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو
جب مسلمانوں کی طرف سے پہل نہ ہونے کے باوجود دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے،یا ایسے جارحانہ اقدامات کا آغاز کردے جو حملہ کے مترادف سمجھے جائیں،تو پھر مسلمانوں کو خدا کا حکم ہے کہ ایسے دشمن کا اس طرح مقابلہ کروکہ گویا تم ایک آہنی دیوار ہو جسے کوئی حملہ توڑ نہیں سکتا ۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :
۱۰۸
یعنی اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی آہنی دیوار ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نہایت مختصر مگر نہایت ٹھوس اور جامع الفاظ میں ہدایت فرماتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے وقت مسلمان الگ الگ اینٹ کی صورت میں نظر نہیں آنے چاہئیںبلکہ اس آہنی دیوار کی طرح بن جانے چاہئیں جس کی اینٹوں کو اکٹھا جوڑ کر ان کے رخنوں میںپگھلا ہوا سیسہ ڈالا گیا ہو۔اب ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے لئے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے،جن میں سے ایک انفرادی ہے اور دوسری اجتماعی ۔انفرادی بات یہ ہے کہ اس کی ہر اینٹ ایسی پختہ اور ایسی صاف اور ایسی مضبوط ہو کہ وہ نہ صرف ہرقسم کا دبائو برداشت کرسکے ۔ بلکہ ایسا آہنی رنگ اختیار کرلے کہ پگھلے ہوئے سیسہ کے ساتھ مل کربالکل ایک جان ہوسکے اور اجتماعی بات یہ ہے کہ اس کی اینٹیں سیسے کے گار ے یعنی مارٹر (Mortar ) کے ذریعہ اپنی انفرادیت کو کھو کر ایک چٹان کی صورت اختیار کرلیںاور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت دو باتوں کے ذریعہ پیدا ہو سکتی ہے اور یہی دو باتیں وہ گار ا یعنی مارٹر ہیںجن کی طرف قرآن شریف نے مَرْصُوْصٌ(سیسہ پلائی ہوئی) کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے اور وہ دو باتیں یہ ہیں (۱) باہمی تعاون ومحبت اور ایک دوسرے کے لئے قربانی اور (۲) افسروں کی کامل فرما نبرداری۔ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ جو گویا اینٹوں کے لئے گار ے یعنی مارٹر کا حکم رکھتی ہیں،اگر کسی دیوار کو اینٹ بھی اچھی میسر آجائے یعنی اس کے سپاہی انفرادی لحاظ سے بھی اعلیٰ صفات رکھتے ہوںتو پھر یقینا اس قسم کے مادے سے تیار شدہ دیوار ایک بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ ہوگی جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکتی۔
میدان جنگ سے بھاگنا منع ہے سوائے ا سکے کہ جنگی تدبیر کے طور پر
کوئی نقل وحرکت کی جائے :
اس کے بعد قرآن شریف یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب مسلمان چوکس وہوشیار بھی ہوںاور جنگی سامانوں سے آراستہ بھی رہیںاور سرحدوں کو مضبوط بھی کر لیںاور بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ بھی بن جائیںاور خدا سے دست بدعا بھی رہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ میدان جنگ میں پیٹھ دکھانے کا موقع آئے بلکہ میدان میں پیٹھ دکھانا وہ چیز ہے جسے اسلام بڑی سختی کے ساتھ ناجائز قرار دیتا ہے۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :
۱۰۹
یعنی اے مومنو جب تم لشکر کی صورت میں کافروں کے سامنے آئو تو پھر کسی حال میں بھی انہیں پیٹھ نہ دکھایا کرو اور جو شخص ایسے وقت میں پیٹھ دکھائے گا سوائے اسکے کہ وہ کسی جنگی تدبیر کے لئے ادھر اُدھر ہٹنے کا طریق اختیار کرے یامومنوں کی کسی دوسری پارٹی کے ساتھ ملاپ کرکے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہے تو وہ خدا کے غضب کو اپنے سر پر لے گا اور اس کا ٹھکا نہ جہنم کی آگ ہے اوریہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
بے شک یہ آیت دینی جنگوں کے لئے ہے لیکن اس میں وہ دائمی اصول بیان کیا گیا ہے جسے ایک مجاہد مومن کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہیئے۔یہ اصول یہ ہے کہ جب ایک دفعہ ایک مومن کسی کافر کے مقابلہ پر آجائے تو پھر اس کے لئے پیٹھ دکھانے کا سوال ختم ہو جاتاہے اوراس صورت میں ایک سچے مومن کا یہی فرض رہ جاتا ہے کہ یا تو لڑے اور فتح پائے اور یا لڑے اور جان دیدے۔ ہاںبے شک دو صورتیں یہ ایسی ہیں کہ جن میں مومنوں کی پارٹی اگر ضروری خیال کرے تو دشمن کے سامنے سے وقتی طور پر ہٹنے کا طریق اختیار کرسکتی ہے۔بھاگنے کے لئے ہرگز نہیں بلکہ صرف جنگی تدبیر کے طور پر۔ یہ دو صورتیں ہیں (اول) یہ کہ جنگی تدبیر کے طور پر کسی مومن پارٹی کو اپنی جگہ بدلنی پڑے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کے واسطے لڑنے کا یہ مقام اچھا نہیں بلکہ وہ مقام اچھا ہے اور (دوسرے )یہ کہ اس کے اپنے ساتھیوں کی کوئی اور پارٹی کسی قریب یا دور کے مقام پر موجود ہو اور وہ سارے حالات کو دیکھ کر اور کامیابی کو زیادہ پختہ بنانے کے لئے یہ فیصلہ کرے کہ مجھے دوسری پارٹی کے ساتھ ملاپ کر کے دشمن سے ٹکر لینی چاہیے ۔ ان دو صورتوں کے سوا جو دراصل دونوں جنگی تدبیر کا حصہ ہیں اسلام کی لغت میں دشمن کے سامنے بھی بھاگنے کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں ۔
لڑائی میں مو منوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے مگر ان کے نقصان میں بھی ان کی فتح ہے:
اسلام مسلمانوں کو ہرگز یہ جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا کہ وہ ہر جزوی مقابلہ میں بھی لازماً فتح پائیں گے ۔ ہاں وہ یہ ضرور فرماتا ہے کہ اگر تمہاری جنگ حق و صداقت پر قائم ہے تو تم انجام کا ر ضرور فتح پائو گے لیکن تمہیں اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ شاید درمیانی لڑائیوں میں تمہیں بھی کچھ نقصان پہنچے یا عارضی طور پر شکست کی صورت پیدا ہوجائے لیکن ایسے عارضی نقصانوں پر یا مال وجان کے درمیانی نقصان پر ہرگز گھبرائو نہیں اور مایوسی کی طرف نہ جھکو بلکہ یاد رکھو کہ عاقبت تمہاری ہے اور تم میں سے مرنے والے شہادت کا درجہ پاتے ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف میں فرماتاہے :
۱۱۰
یعنی اے مسلمانو! اگر جنگ میں کبھی تمہیں کوئی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے تو اس سے گھبرائو نہیں کیونکہ جس طرح تمہیں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ، اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر کافروں کو بھی تکلیف پہنچتی اور ان کا بھی نقصان ہوتا ہے لیکن تم خدا سے اس بات کی امید رکھتے ہو جو کافر ہرگز نہیں رکھتے۔
اس آیت میں اشارہ یہ ہے اگر مسلمانوں کو کبھی لڑائی میں کوئی مالی یا جانی نقصان ہوتا ہے تو ایسا نقصان کفار کا بھی ہوتا ہے اور اگر نقصان کے فرق کو نظرانداز بھی کیا جائے تو بہرحال اس پہلو سے دونوں برابر ہیں لیکن مسلمانوں کو یہ بھاری امتیاز حاصل ہے کہ وہ خدا سے اس بات کی امید رکھتے ہیں جس کی کافر لوگ ہرگز امید نہیں رکھتے اورنہ رکھ سکتے ہیں ۔ یہ امید کیاہے ؟ اس سوال کا جواب دو طرح دیا جاسکتا ہے اول یہ کہ درمیانی تکلیفوں اور درمیانی نقصانوں کے باوجود مسلمان یہ امید رکھتا ہے کہ آخری فتح بہرحال اسی کی ہوگی کیونکہ خدا کا یہ ازلی حکم جاری ہوچکا ہے کہ اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن انجام ہر حال میں متقیوں کا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو مسلمان لڑائی میں مارا جاتا ہے ،وہ یہ امید بلکہ یقین رکھتا ہے کہ میں خدا کے رستہ میںشہید ہوا ہوں اور آخرت میں ان تمام انعاموں کا وارث بنوں گا جو شہیدوں کے لئے مقدر ہیں مگر ایک کافر اس نیک انجام کی امید نہیں رکھتا اور نہیں رکھ سکتا ۔ پس غورسے سے دیکھا جائے تو درمیانی شکستوں میں بھی مسلمانوں کے لئے فتح مقدر ہے کیونکہ یا تو وہ فتح پاتے ہیں اور یا شہادت پا کر خدا کے اُخروی انعاموں کے وارث بن جاتے ہیں ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف ذیل کے قرآنی الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ:
۱۱۱
یعنی اے رسولؐ تو ان کافروں سے کہہ دے کہ تمہاری خواہش ہمارے متعلق خواہ کچھ ہو دو انعاموں میں سے ایک انعام بہرحال ہمارے لئے مقدر ہے یعنی یا تو ہم فتح پائیں گے اور یا شہید ہو کر خدا کے انعاموں کے وارث بنیں گے مگر تم خود سوچ لو کہ شکست کی صورت میں تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔
یہ وہ بھاری نفسیاتی نکتہ ہے جو ایک مسلمان مجاہد کی ہمت کو اتنا بلند کردیتا ہے کہ کوئی کافر اس بلندی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا اور ضروری ہے کہ تمام اسلامی جنگوں میں یہ نکتہ ہر مرد مجاہد کی آنکھوں کے سامنے رہے اور اس کادل اس یقین سے معمور ہو کہ خواہ میں زندہ رہوں یا مروں بہرحا ل میں فتح یاب ہوں ۔یہ ایمان انسان کے اندر ایک ایسی روحانی قوت بھر دیتا ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
سچا مسلمان اپنے سے دس گنی طاقت پر غالب آتا ہے
کیونکہ وہ جنگ کی غرض و غایت کو سمجھتا ہے :
اس کے بعد قرآن شریف اس نکتہ کو لیتا ہے کہ ہر مجاہد مسلمان کو جنگ کی غرض و غایت کا پورا علم ہونا چاہئے اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ پیش آمدہ جنگ اس کے دین اور اس کی دنیا اور اس کے حال اور اس کے مستقبل اور اس کی ذات اور اس کی قوم پر کیا اثر رکھتی ہے۔ یونہی اندھوں کی طرح کسی جنگ کی غرض و غایت اور اس کے امکانی نتائج کو جاننے اور سمجھنے کے بغیر میدان جنگ میں کود جانا ہرگز اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا ۔ پس ضروری ہے کہ لڑنے والا ہر سپاہی اور ہر افسر بلکہ ملکی آبادی کا ہر فرد ہر پیش آنے والی جنگ کی غرض و غایت اور اس کے انفرادی اور اجتماعی نتائج کو اچھی طرح سمجھتا ہو کیونکہ اس بات کے سمجھ لینے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کے اندروہ طاقت اور وہ روشنی پیدا ہوتی ہے جو کسی اور ذریعہ سے پیدا نہیں ہوسکتی اور ایسا تفقّہ رکھنے والا ایک مسلمان دس کافروں پر غالب آسکتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر وہ سچا مومن ہوگا اور جنگ کی فقہ کو سمجھے گا تو وہ ضرور دس گنے طاقت پر غالب آئے گا ۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
۱۱۲
’’یعنی اے مومنو اگر تم میں بیس آدمی صبرو استقلال کے مقام پر قائم رہنے والے مجاہد ہوں تو وہ دو سو کافروں پر غالب آئیں گے اور اگر ایک سو صابر مجاہد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ کافر اپنی جنگ کی دینی اور دنیوی فقہ کو نہیں سمجھتا اورتم سمجھتے ہو‘‘۔
اس آیت میں قرآن شریف اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ جنگ کی غرض وغایت اور اس کے امکانی نتائج کو سمجھنے والی قوم وہ روحانی طاقت حاصل کرلیتی ہے جو دوسروں کو ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی بشرطیکہ وہ صبرو استقلال کے مقام پر قائم رہے اور اپنا سیکھا ہوا سبق نہ بھلا دے ۔ یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے کہ اگر مسلمان اس پر قائم ہوجائیں یعنی اول سچے مومن بن جائیں دوم صبرو استقلال کے مقام پر قائم ہو جائیں اور سوم پیش آمدہ جنگ کی دینی اور دنیوی فقہ کو سمجھیں اور اس سمجھ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تو اس میں ہرگز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کے بیس مجاہد دوسو کافروں پر غالب آسکتے ہیں اور سو مجاہد ہزار کافروں کو نیچا دکھا سکتے ہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علہیم کی تاریخ میں تو اس سے بھی بڑھ کر روحانی طاقت کی مثالیں نظرآتی ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ملک کا ہر فرد ہرپیش آمدہ جنگ کی غرض و غایت سے واقف ہو اور اس کے تمام امکانی نتائج کو سمجھتا اور جانتا ہو اور یہ تفقّہ پید ا کرنا حکومت اور پریس اور پبلک اداروں کا کام ہے ۔
صلح کی طرف جھکنے والے دشمن کے صلح کے ہاتھ کو ردّ نہ کرو
اسلام چونکہ ایک روحانی مذہب ہے اور اس کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ اسلام کی تبلیغ ہے جس سے اس کو کسی صورت میں غافل نہیں رہنا چاہئے ۔ اس لئے جنگی ضابطہ کی تعلیم دیتے ہوئے اسلام یہ ہدایت بھی فرماتا ہے کہ اگردشمن کسی وقت اپنی کمزوری محسوس کرکے تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے تو اس ہاتھ کو رد نہ کرو بلکہ اس کی صلح کی پیش کش کو قبول کرلو اور جنگ کے ظاہری مستقبل کو خدا پرچھوڑ دو چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :
۔۱۱۳
’’یعنی اگر جنگ کے دوران میں کسی وقت کافر صلح کے لئے جھکیں تو اے نبیؐ تم ان کے صلح کے ہاتھ کو قبول کرو اور خدا پر توکّل کرو ‘‘۔
یہ ہدایت بھی ایک نہایت ضروری ہدایت ہے کیوں کہ اسلام ایک روحانی اور تبلیغی مذہب ہے اور اگر ایسے مذہب کے پیرو دشمن کی صلح کی پیش کش کو قبول نہ کریں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ تبلیغ کے مواقع کو جنگ کی ظاہری اور مادی شان و شوکت پرقربان کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو قوم صلح کے لئے جھکتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے خود ہمارے لئے پر امن تبلیغ کا رستہ کھولتی ہے اور اس دروازے کو بند کرنا تبلیغ کے دروازے کوبند کرنے کے مترادف ہے۔حالانکہ تبلیغ کی لڑائی یقینا تلوار کی لڑائی سے زیاد ہ اہم اور زیادہ ضروری ہے۔ظاہرہے کہ جہاد تلوار کا بھی ہو سکتا ہے اور تبلیغ کا بھی اور یہ بھی ظاہرہے کہ تبلیغ کا جہاد تلوار کے جہاد سے زیادہ افضل ہے کیونکہ وہ لوگوں کے مسلمان ہونے کا رستہ کھولتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ حضرت اسامہؓ بن زیدایک لڑائی میں ایک مشرک کے مقابل پر آئے اور اس مشرک نے جب اپنے سرپرتلوارگرتی دیکھی تو اپنے آپ کو بے بس پا کرکلمہ شہادت پڑھ دیا۔ مگر اسامہ ؓ نے اس کی نیت کو مشکوک سمجھتے ہوئے اسے پھر بھی تلوار کی گھاٹ اتار دیا تو اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور جب اسامہ ؓ نے یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ڈر کی وجہ سے کلمہ پڑھتا تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اور بھی زیادہ ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ فرمایا کہ ھَلْ شَقَقْتَ عَنْ قَلِبَہٖ ۱۱۴ یعنی اے اسامہ ؓ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھاکہ وہ منافقت کے رنگ میں کلمہ پڑھ رہاہے۔ اسامہ ؓ کہتے ہیں کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ناراض ہوئے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور اس کے بعد اسلام لاتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی ۔پس کم از کم دینی لڑائیوں میں یہ ضروری ہے کہ اگر دشمن کی طرف سے صلح کی پیشکش ہو اور وہ معاندانہ کا رروائی کو ترک کر دے تو پھر خواہ ظاہری نتیجہ کچھ ہو، مسلمانوں کو اس صلح کی پیشکش کو قبول کرنا چاہئے۔
اگر دشمن پر غلبہ حاصل ہو تو ہر حال میںظلم سے اجتناب کرو
اسلام کی آخری تعلیم جو میں اپنے اس مختصر مضمون میں پیش کرنا چاہتاہوں،اس بات سے تعلق رکھتی ہے کہ اسلام کسی صورت میں بھی ظلم کو جائز نہیں سمجھتا اور مغلوب دشمن کے حقوق کی بھی حفاظت فرماتا ہے اور اس بات کی تاکیدی ہدایت دیتا ہے کہ ہر قسم کے ظلم سے پرہیزکرو۔ یعنی عورتوں کو قتل نہ کرو،بچوں کو نہ مارو، بوڑھے لوگوں پر وار نہ کرو اور مذہب کے لئے زندگیاں وقف رکھنے والے لوگوں کو اپنانشانہ نہ بنائو۔حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ
لاتقتلواولیداََ ولا امراۃً ولا شیخاََفا نیاََ ولا تقتلوااصحاب الصوامع ۔۱۱۵
یعنی بچوں کو قتل نہ کرو اور نہ ہی عورتوں پر ہاتھ اٹھائو اور نہ ہی بوڑھے لوگوں کو نشانہ بنائو اور نہ ہی مذہبی عبادت گاہوں کے لوگوں کو قتل کرو ۔
اس اصولی ہدایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتح مسلمانوں کے لئے ایک ایسی بریک مہیا فرمادی ہے کہ ان کے غلبے اور فتح کا انجن خواہ کتنے ہی زوروں پر ہو وہ کبھی بھی ظلم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاسکتے ۔اس ہدایت کے ماتحت دشمن کا ہر بچہ اور دشمن کی ہرعورت اور دشمن کا ہر بوڑھا اور دشمن قوم کا ہر وہ شخص جو اپنی زندگی خالص مذہبی خدمت کے لئے وقف رکھتا ہے، محفوظ کردیاگیا ہے اور ہر مسلمان اپنے جوش کی حالت میں بھی جب کہ فتح کا خمار اکثر دماغوں کو مائوف کردیتا ہے اس ہدایت کا پابند قرار دیا گیا ہے کہ کمزور اور مذہبی لوگوں سے اپنے ہاتھ کو روک کررکھے۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی محفوظ قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ حضرت ابوبکر خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تو اس کے امیر کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ:
الذین زعمواانھم جَسَوُاانفسھم للّٰہ فذرھم وما زعمواانھم جَسَوُاانفسھم لہ۔۱۱۶
یعنی جن لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو خدا کی عبادت اور اللہ کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ان پر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ اٹھائو اور اسی طرح وہ عبادت گاہیں یا وہ چیزیں جن کو وہ مقدس سمجھتے ہیںانہیں بھی ہر گز نقصان نہ پہنچائو۔
یہ وہ اسلامی ضابطہ جنگ ہے جو مسلمانوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس سارے ضابطے کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱)پہل نہ کرو(۲)دشمن کے مقابلہ کے لئے ہروقت تیار رہو (۳) تمام ان تدبیروں اور سامانوں کو اختیار کرو جو خدائی قانون کے ماتحت کامیابی کے لئے ضروری ہیں۔(۴)ایک باقاعدہ پروگرام کے مطابق صبرو استقلال کے ساتھ کام کرو(۵) سرحدوں کو مضبوط بنائو (۶)اگر لڑائی پیش آئے تو ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو (۷)میدان جنگ سے کسی صورت میں نہ بھاگو (۸)درمیانی تکلیفوں سے نہ گھبرائو اور یقین رکھو کہ عاقبت بہر حال تمہاری ہے۔ (۹) جنگ کی غرض وغایت اور اسکے امکانی نتائج کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو۔(۱۰)اگر دشمن صلح کی طرف جھکے تو اس کے صلح کے ہاتھ کوردّنہ کرو(۱۱)غلبہ کی صورت میں انسانیت کے کمزور طبقے اور مختلف قوموں کی مقدس چیزوں کی حفاظت کرو اور (۱۲)بہر حال خدا کے فضل ورحم پر بھروسہ رکھو اور اس کی نصرت کے طالب رہو۔
یہ وہ بارہ زریںہدائتیں ہیں جو جنگی امور کے متعلق اسلام ہمیں دیتا ہے اور اس کے مقابل پر اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے کہ اگر مسلمان ان ہدایتوںپر عمل کریں تو درمیانی جزوی نقصانات کو چھوڑ کر جو خود قومی ترقی اور قومی تربیت کے لئے ضروری ہوتے ہیں،آخر ی فتح بہرحال مسلمانوں کی ہوگی اور دشمن یقینا ان کے مقابلہ میں مغلوب ومقہور ہوگا اور یہ کوئی موہوم چیز نہیں ہے بلکہ یہ وہ نظارہ ہے جو دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں دیکھ چکی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر مسلمان خدا کے دامن سے وابستہ رہیں تو آج بھی وہ یہ نظارہ نہ دیکھیں۔
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ ِللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ ستمبر ۱۹۴۸ئ)







فنِ تعمیر کے ماہر صاحبان توجہ فرمائیں
مرکز پاکستان کے لئے ضروری مشورہ
اس وقت مرکز پاکستان کی آبادی کا سوال زیر غور ہے اور حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا منشاء ہے کہ یہ کام بلا توقف شروع ہوکر جلد سے جلد تکمیل کو پہنچ جائے۔اس نئی بستی میں جو ایک وادی غیرذی زرع میںآباد ہورہی ہے مختلف قسم کے مکانات تعمیر کئے جا ئیں گے ۔یعنی پرائیویٹ مکانات بھی اور پبلک عمارتیں بھی ۔اسی طرح جو مکانات بنیں گے ان میں بعض کچے ہوں گے اور بعض نیم کچے اور نیم پکے ہوں گے اور بعض پکے ہوں گے ۔گو ہر صورت میں کوشش یہ کی جائے گی کہ کم سے کم خرچ ہو۔
جس رقبہ میں یہ بستی جس کا نام حضرت صاحب نے ربوہ تجویز کیا ہے آباد ہوگی اس کی مٹی ریت کی آمیزش رکھتی ہے اور اس میں کسی قدر شور کا مادہ بھی ہے۔اس کے پہلومیں بہت چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں ۔جن سے گورنمنٹ کی اجازت کے ساتھ پتھر اور کنکر لیا جاسکے گا۔
دریا کا فاصلہ قریباََ دو میل ہے۔جہاں سے اغلباََ ریت مل سکے گی۔بارش اس علاقہ میں بہت کم ہوتی ہے ۔لیکن بعض اوقات شاذ کے طور پر زور کی بارش بھی ہو جاتی ہے۔علاقہ نشیبی نہیں بلکہ ارد گرد کی زمینوں سے اونچا ہے۔قریب کے شہر چنیوٹ اور لالیاں ہیںاور کسی قدر دور کے شہر چک جھمرہ، لائلپور اور سرگودہا ہیں۔دیمک غالباََ اس علاقہ میں ہوگی ۔کیونکہ چنیوٹ کی بیرونی آبادی میں دیمک پائی جاتی ہے۔زمین کے اندر کے پانی کا فاصلہ سطح زمین سے قریباََ چالیس پچاس فٹ ہے۔درخت اس علاقہ میں عموماََ ببول یعنی کیکر ہوتا ہے۔
اوپر کے کوائف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو دوست فن تعمیر کے ماہر ہوں وہ ذیل کے امور کے متعلق اپنامشورہ بھجوا کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(۱)ہر سہ قسم کے مکانات (یعنی کچے اور کچے پکے اور پکے)کی تعمیر کے لئے کس قسم کا میٹریل دیواروں، فرشوں،دروازوں، کھڑکیوں اور چھت وغیرہ کے لئے موزوں اور مناسب ہوگا۔جو کم خرچ بھی ہواوربالا نشین بھی۔فضول زیبائش کا کوئی سوال نہیں ۔البتہ عمارت دیرپا اور واجبی آرام مہیا کرنے والی ہو اور صحت کا خیال رکھا جائے۔
(۲)مکانوں کا ڈیزائن کیا مناسب ہوگا۔جس میں مضبوطی اور اصول صحت کو ملحوظ رکھا گیا ہومگر بلاوجہ ضیاع کی صورت نہ ہواور سادگی کا پہلو بہرحال مقدم رہے۔
(۳) کیا کوئی جدید طریق عمارت ایسا ہے جو سستا بھی ہو اور مضبوط بھی اور آرام دہ بھی ۔
(۴)پرائیویٹ گھروں کا نقشہ کیا مناسب ہوگا؟خیال رہے کہ عموماََ ہمیں تین قسم کی عمارتیں مدنظر ہیں۔ایک ایسا چھوٹا گھر جس میں صرف ایک کمرہ اور صحن وغیرہ ہو۔دوسرے ایسا مکان جس میں دو رہائشی کمرے اور ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ اور ایک ٹٹی ہواور تیسرے چار رہائشی کمروں اور دیگر لوازمات والا مکان۔ ہر صورت میں کفایت کے پہلو کو مقدم رکھا جائے اور فضول زیبائش بالکل خارج از سوال ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)








مرکز پاکستان کے لئے پیشہ وروں کی ضرورت
جیسا کہ احباب کو معلوم ہوچکا ہے مرکز پاکستان کے لئے جو فی الحال قادیان کا بھی قائم مقام ہوگااور خود حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس میں رہائش اختیار فرمائیں گے۔چنیوٹ کے پاس ایک وسیع رقبہ حاصل کر لیاگیا ہے۔ اوراس رقبہ میں عنقریب آبادی کا کام شروع ہونے والا ہے۔حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا یہ ارادہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ آبادی جلد تر شروع کردی جائے۔ تاکہ حضور اور حضور کے ساتھ کے رفقاء اور کارکن مرکز کی صورت میں ایک جگہ بیٹھ کر سلسلہ کا کام سر انجام دے سکیں۔
اس آبادی کے لئے جس کا ایک نماز اوردعا کے ذریعہ ابتدائی افتتاح بھی ہو چکا ہے مختلف قسم کے پیشہ وروں کی ضرورت ہے اور پیشہ ورہر دو قسم کے درکار ہیں۔یعنی وہ بھی جو عمارتی کام سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاََ راج۔اور ترکھان اور لوہار وغیرہ اور وہ بھی جو ایک آباد شدہ بستی کے لئے درکار ہوتے ہیں۔یعنی درزی اور دھوبی اور نائی اور قصاب اور موچی وغیرہ ۔پس ایسے جملہ پیشہ ور احباب کو چاہئے کہ فوراََ اپنی اپنی درخواستیں سیکرٹری یا صدر تعمیر کمیٹی مرکز پاکستان جو دھامل بلڈنگ، جو دھامل روڈ لاہور کے نام بھجوا دیں۔اور درخواست میں یہ صراحت کردیںکہ وہ کس پیشہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔اور آیا وہ قادیان میں بھی یہ کام کر چکے ہیں یا نہیں۔دکان کے لئے کمرہ یا خیمہ واجبی کرایہ پر مہیا کیا جائے گا۔اور حسب حالات رہائش کے لئے بھی انتظام کیا جائے گا۔دوستوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ ایک خاص خدمت کا موقع ہے۔جس میں وہ ہم خرماوہم ثواب کے مستحق ہونگے اور ان کی خدمت تاریخ احمدیت میں یادگار رہے گی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍ستمبر ۱۹۴۸ئ)


قادیان میں میرے ذریعہ روپیہ لینے والے دوست توجہ کریں
تنگ دست قرض خواہوں کا حق بہر حال مقدم ہے
اس سے پہلے میں کئی دفعہ ان عزیزوں اوردوستوں کو توجہ دلاچکا ہوں۔جنہوں نے اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے میرے ذریعہ مختلف احباب سے قادیان میں روپیہ لیا تھا۔اوراس کے مقابل پر رہن وغیرہ کی صورت لکھ دی تھی ۔ اب جبکہ ان کے حالات خدا کے فضل سے بہتر ہورہے ہیںاور مصائب کے ابتدائی دھکہ کا اثر کافی حد تک دور ہوچکا ہے تو انہیںاپنے ذمہ کی رقوم واپس کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔مجھے افسوس ہے کہ ایک دو خوشکن مثالوں کو چھوڑکر باقی کسی شخص نے اس اہم فرض کی طرف توجہ نہیں دی۔حالانکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بعض روپیہ دینے والے دوست اس وقت ایسی تنگی کی حالت میں ہیں کہ انہیں دیکھ کر رحم آتا ہے۔اور بعض کی حالت تو قریباََ فاقہ کشی تک پہنچی ہوئی ہے۔اور ان کے مقابل پرکئی روپیہ لینے والوں کی حالت کافی حد تک سنبھل چکی ہے۔کیونکہ ان میں سے اکثر نے قادیان کے ضائع شدہ کارخانوں اوردوکانوں کے مقابلہ پر پاکستان میں کارخانے اور دوکانیں الاٹ کرالی ہیںاور بہر حال وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اہل وعیال کا گزارہ چلا رہے ہیں۔پس ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے تنگ دست قارضوں کا روپیہ اداکریں۔میں یہ نہیں کہتا کہ بہرصورت ساراروپیہ یکمشت ادا کیا جائے۔کیونکہ کئی دوست اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اور اسلام تکلیف والایطاق کا حکم نہیں دیتا۔مگر کوئی وجہ نہیں کہ جزوی اور بالاقساط ادائیگی میں کوئی روک ہو ۔حق یہ ہے کہ اگر کوئی مقروض دولقمے کھاتاہے اوراس کا قرض خواہ ایک لقمہ سے بھی محروم ہے۔اور بھوکا مررہا ہے تو مقروض کا فرض ہے کہ اور نہیں توکم ازکم اپنے دولقموں میں سے ایک لقمہ کاٹ کر اپنے قرض خواہ کو دے دے اور خود ایک لقمہ پر اکتفاکرے۔بلکہ اسے چاہئیے کہ قرض خواہ کو زیادہ دے اور خود صرف قوت لایموت پر گزارہ کرے ۔یہی اسلامی تعلیم ہے اور یہی انصاف ہے اور یہی اخوت اسلامی کا تقاضا ہے۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ جن لوگوں نے اپنی کوئی جائداد یا اپنے کارخانے وغیرہ کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے پاس قادیان میںرہن رکھاہواتھا اور اب انہیں اس رہن شدہ جائداد یا اس کارخانہ کے بدلہ میں پاکستان میں کوئی جائداد یا کارخانہ وغیرہ مل گیا ہے۔تو دراصل انصافاََ ان کا سابقہ رہن بھی اس نئی جائیداد یا کارخانہ کی طرف منتقل شدہ سمجھا جائے گا۔اور اس کی آمد میں روپیہ دینے والوں کا بھی حصہ شمار ہوگا۔اس کے علاوہ بعض عزیز اوردوست ایسے ہیں کہ بے شک قادیان وغیرہ میں تو ان کی جائداد ضائع گئی ہے۔مگر ان کی کچھ جائداد پہلے سے پاکستان میں بھی موجود تھی ایسے لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان والی جائداد میں سے اپنے قرض خواہوں کا مطالبہ ادا کریں۔ الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جائے اکثر مقروض صاحبان بھاری ذمہ داری کے نیچے ہیں۔اور خصوصاََ ایسے قرض خواہوں کے متعلق تو ان کی ذمہ داری (اگروہ اسے ادا نہ کریں)۔میرے خیال میں کبیرہ گناہ تک پہنچ جاتی ہے جو اپنی ساری پونجی ان مقروض دوستوں کے حوالہ کر بیٹھے تھے اور اب مقروض دوست تو مزے سے بیٹھے کھارہے ہیںاور قرض خواہ بھوکے مر رہے ہیں۔
بے شک اسلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر کوئی مقروض شخص واقعی مجبور اور معذور ہو جائے اور اس کے مقابل پر قارض نسبتاََ خوشحال ہوتو مقروض شخص کو حالات کی بہتری تک مہلت ملنی چاہئے اور کوئی عقل مند اس اصول کی معقولیت پر اعتراض نہیں کر سکتا۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقروض تو اپنے گھر میں مزے سے کھائے پئیے اور قارض بھوکا مرے ۔اگر نوبت بھوکا مرنے پر آئے گی تو بہرحال مقروض کو پہلے مرنا چاہئے اورقارض کو بعد میں۔پس میں ان سب عزیزوں اور دوستوں سے اپیل کرتا ہوں جنہوں نے میری معرفت قادیان میں اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے رہن وغیرہ کی صورت میں روپیہ لیا تھاکہ وہ اپنے اپنے ذمہ کی رقوم کی واپسی کی طرف فوری توجہ دیں۔اور زیادہ سے زیادہ جتنی توفیق ہواتنی رقم بلاتوقف ادا کردیں۔اور اگر یکمشت کی گنجائش نہ ہو تو قسطیں مقرر کرکے اس کے مطابق ادائیگی کرتے جائیں ۔تاکہ خدا کے دربار میں ان کا نام بدمعاملہ اور نادہنداور ظالم نہ لکھا جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم(فداہ نفسی)کو توقرض کی واپسی کا اتنا خیال ہوتا تھاکہ آپ ایسے مقروض کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔جس کی جائیداد اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوتی تھی اور فرماتے تھے کہ خد ا بسا اوقات اپنا حق معاف کردیتا ہے مگر بندوں کا حق معاف نہیں کرتاتاو قتیکہ بندے خود معاف نہ کریں۔
خلاصہ کلام یہ کہ:۔
(۱) ہر وہ شخص جس نے اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے کسی بھائی سے قادیان میں روپیہ لیا تھا اور پھر فسادات کی وجہ سے اس کا سب کچھ ضائع چلاگیا۔مگر اب اس کے حالات میں کسی قدر بہتری کی صورت پیدا ہو گئی ہے اور وہ اپنا گزارہ کرنے کے قابل ہوگیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آمدنی میں سے اپنے قرض خواہوں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ نکالے۔
(۲)اگر کوئی شخص قادیان سے آتے ہوئے نقدی وغیرہ کی صورت میں کچھ مال سے بچا لایا تھا تو اس کا فرض ہے کہ اس مال میں بحصہ رسدی اپنے قرض خواہوں کا بھی حق ادا کرے ۔
(۳)جن لوگوں نے پاکستان میں آکر قادیان کے کارخانوں یا دوکانوں کے مقابلہ پر دوسرے کارخانے یا دوکانیں الاٹ کرائی ہیں۔وہ ان کارخانوں وغیرہ کی آمدسے اپنے قرض خواہوں کے قرضے ادا کریںخواہ یکمشت اور خواہ بالاقساط۔
(۴)جن لوگوں کی کوئی اورجائداد پہلے سے پاکستان میں موجود تھی اور وہ رہن شدہ نہیں ہے وہ اس جائداد میں سے اپنے قرض خواہوں کا حصہ نکا لیں۔
(۵)جن لوگوں نے ایسے اصحاب سے روپیہ لیا ہوا ہے جو اب بالکل تنگ دست اور قلاش ہوچکے اور فاقہ کشی کر رہے ہیں۔مگر اس کے مقابل پر یہ لوگ خود کسی نہ کسی طرح اپنا گزارہ چلا رہے ہیں (خواہ نوکری کے ذریعہ یا کوئی کام کرکے یا قرض لے کر) وہ اپنے ان تنگ دست قرض خواہوں کو بہرحال کچھ نہ کچھ ادا کریں خواہ اپنے نانِ جویں میں سے ہی کوئی ٹکڑا کاٹ کر دینا پڑے کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ مقروض تو کھائے اور قرض خواہ بھوکا مرے۔
اگر اوپر کی اقسام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس اعلان کے بعد بھی اپنے ذمہ کی رقوم کی ادائیگی شروع نہیں کرے گاتو میں یہ بات بلا لحاظ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں میںقرض خواہوں کو یہ مشورہ دینے پر مجبور ہوں گا کہ وہ محکمہ قضا کے ذریعہ دادرسی حاصل کریں۔اور اس صورت میں یقینا میری شہادت مقروض صاحبان کے خلاف ہوگی۔کاش لوگ سمجھیں کہ لین دین کی صفائی میں کتنی برکت ہے اور بدمعالگی بالآخر کتنی لعنتوں کا موجب بن جاتی ہے۔
فافھم وتد بّروما علینا الا البلاغ
‎(مطبوعہ الفضل ۷ ؍ اکتوبر ۱۹۴۸ئ)



خطوط کاجواب نہ دے سکنے کی معذرت، دوست انتظار کریں
میں چند روز سے بعارضہ درد نقرس وبخار بیمارہوں پہلے دائیں ہاتھ کے جوڑ میں شدید درد شروع ہوا جس کی وجہ سے کچھ لکھنا تو درکنار دستخط کرنے سے بھی رہ گیا ۔ اس کے بعد دائیں پائوں کا گھٹنہ بھی مبتلا ہوگیا اور ایک قدم تک اٹھانا مشکل ہوگیا اس حالت میں دوستوں کے بہت سے خط جمع ہوچکے ہیں۔ جن کا میں جواب نہیں دے سکا ۔دوست مطمئن رہیں میں انشاء اللہ اچھا ہونے پر ہر خط کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کی کو شش کروں گا۔ اس دوران میں عزیز منیراحمد سلمہٗ کے بچہ کی پیدائش پر بھی بہت سے دوستوں کی طرف سے مبارک باد کے تار اور خطوط موصول ہوئے ہیں۔ان دوستوں کے خطوط اور تاروں کا بھی انشاء اللہ علیحدہ علیحدہ جواب بھجوانے کی کوشش کروں گا۔ اللہ انہیں اس خوشی میں حصہ لینے اور دعا کرنے کی جزائے خیر دے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۴۸ئ)



پھسکے کی عمارت کے متعلق دوست مشورہ دیں
آجکل ربوہ یعنی مرکز پاکستان میں مکانوں کی تعمیر کا سوال زیر غور ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ جو مکان تعمیر کئے جائیں وہ کم سے کم خرچ پر تعمیر ہوں اور اس علاقہ کی گرم آب و ہواکے پیش نظر ٹھنڈے بھی اور حفاظت وغیرہ کے نقطئہ نظر سے حتی الوسع مضبوط اور دیر پا بھی ہوں۔ اس تعلق میں مجھے ان ایام میں ایک یورپین رسالہ کے مطالعہ کا اتفاق ہوا جس میں مضمون نگار نے پھسکے کی کچی عمارت کی تفصیل دے کر اس کی سفارش کی ہے۔ پھسکے کی عمارت تو ہندوستان میں بھی کثرت کے ساتھ رائج ہے اور پٹھان اور اوڈ وغیرہ قومیں، لوگ اس کا کافی تجربہ رکھتے ہیں مگر مضمون نگار نے اس میں دو ایسی باتیں زائدلکھی ہیں جو پہلے میرے تجربہ میں نہیں آئیں، ایک تو یہ کہ پھسکے کے لئے مٹی تیار کرتے ہوئے اس میں توڑی یا کوئی اور کٹاہوا گھاس بھی شامل کر لیا جائے (جیسا کہ عموما ً پکا گارا بناتے ہوئے شامل کیا جاتا ہے) اور دوسرے یہ کہ انڈے کے سائز کے پتھر کے ٹکڑے یا بجری بقدر بیس یا پچیس فیصدی ملادی جائے ۔مضمون نگار لکھتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی تیار شدہ مٹی سے جو پھسکے کی دیوار بنے گی وہ مضبوط بھی ہوگی اور دیر پابھی اور سستی بھی اور اس طریق پر تیار شدہ کمرہ ٹھنڈا بھی کافی رہے گا۔ سو جن دوستوں کو اس قسم کی عمارت کا تجربہ ہو یا اس کے متعلق ویسے ہی کوئی مشورہ دے سکیں تو وہ مجھے مطلع فرمائیں۔ میں نے سناہے کہ جن ایام میں ضلع حصہ میں قحط پڑا تھا ان دنوں گورنمنٹ نے وہاں اس قسم سے ملتے جلتے بعض مکانات تیا رکروائے تھے۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۴۸ئ)


ایک نادار خاتون اور ایک عزیز نوجوان نے
اپنا قرضہ واپس ادا کردیا
چند دن ہوئے میں نے الفضل میں یہ تحریک کی تھیکہ جن عزیزوں اور دوستوں نے میرے ذریعہ قادیان میں اپنے کاروبار وغیرہ کی ترقی یا دیگر ضرویات کے لئے قرض لیا تھا،اگر اُن کے حالات میں ذرا بھر بھی اصلاح کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اُن کا فرض ہے کہ اپنے قرض خواہوں کا روپیہ واپس ادا فرمائیں۔اور اگر یکمشت ادا نہیں کرسکتے تو کم از کم قسطوں میں ہی ادا کرنا شروع کردیں اور میں نے خصوصیت کے ساتھ ایسے قرض خواہوں کی سفارش کی تھی جوموجود ہ حالات میں سخت تکلیف میں ہیں۔اور اس کے مقابل پر مقروض صاحبان کی حیثیت اُن کی نسبت بہتر ہے۔مجھے خوشی ہے کہ میری اس تحریک پر بعض اصحاب نے اس معاملہ کی طرف توجہ دی ہے۔چنانچہ سب سے پہلے ایک غریب اور نادار عورت نے اپنے قرضہ کی رقم مجھے لا کر دی ۔جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری حالت تو بظاہر اس قابل نظر نہیں آتی تھی کہ تم یہ قرض ادا کرو تو اس نے مجھے مومنانہ انداز میں کہا کہ خدا نے کچھ روپیہ دے دیا تھاجس پر میں نے سمجھا کہ قرضہ کی رقم پہلے ادا کر دینی چاہئے۔
اسی طرح ہمارے خاندان کے ایک عزیز نوجوان نے انہیں دنوں میں اپنے قرضہ کی ایک معقول اوربھاری قسط میرے ذریعہ ادا کی ہے۔اور میں حالات کو جانتے ہوئے یقین رکھتا ہوں کہ اس عزیز کو اتنی رقم کا انتظام کرنے میں یقینا غیر معمولی جدوجہد کرنی پڑی ہوگی ۔لیکن چونکہ نیّت بخیر تھی،خدا تعالیٰ نے اس عزیز کو اپنے قرضہ کے بیشترحصہ کی ادائیگی کی توفیق عطا کردی ۔اللہ تعالیٰ اس عزیز اور اس نادار خاتون کو جزائے خیر دے اور ان کے مالوں اور کاموں میں برکت عطا کرے ۔آمین
مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک کئی عزیزاور کئی دوست اس مقدس فریضہ کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنی انہیں دینی چاہئیے۔میں مانتا ہوں کہ حالات تنگی کے ہیں۔اور دینے والے اور لینے والے دونوں بیشتر صورتوں میں سخت تکلیف دہ حالات میں سے گزررہے ہیں۔لیکن بعض کے حالات میں یقینا اصلاح کی صورت نظر آتی ہے۔اور ایسے اصحاب کی طرف سے سستی اور غفلت کا برتاجانا یقینا اُن کے لئے برکت کا موجب نہیں ہوسکتا۔ایسے دوستوں کو فوری توجہ دینی چاہئیے۔اور دوسروں کو کم از کم اتنا تو کرنا چاہئیے کہ اگر کسی کے پاس روپیہ واقعی نہیں ہے۔تو وہ اپنے قرضخواہ کوہمدردی کے رنگ میں کوئی کلمہ خیر ہی کہہ دیتاکہ اس کی تسلی کا موجب ہو۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور حافظ وناصر رہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ)










قادیان میں عید الاضحی کی مبارک تقریب
مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان اپنے خط محررہ ۱۵؍اکتوبر میں لکھتے ہیں کہ قادیان میں ۱۴؍اکتوبر بروز جمعرات عیدالاضحی کی نماز ادا کی گئی۔نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں چبوترے کے مغربی جانب پڑھی گئی۔اور اس کے بعد مسجد مبارک والے چوک میں قربانیوں والے جانورذبح کئے گئے۔دو قربانیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تھیں۔جو خود امیر صاحب مقامی نے ہاتھ سے ذبح کیں۔ ان قربانیوں کا روپیہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے لاہورسے بھجوایا تھا۔حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ اور حضرت ام المؤمنین اور خاکسار اور سیدہ اُم داؤداحمد صاحب اور میاں عبداللہ خان صاحب کی قربانیاں عزیز مرزا وسیم احمد نے ذبح کیں۔عید کے وقت دوستوں کا اجتماعی فوٹو بھی لیا گیااور سب دوستوں نے خاص دعاؤں کے ساتھ حج اور عید کا دن گزارا۔ چونکہ کئی دوستوں نے اپنی قربانی کے لئے باہر سے روپیہ بھجوایا تھالہٰذا اس ذریعہ سے قادیان کے غریب درویشوں کو بھی ان ایام میں اچھا اور بافراغت کھانا میسر آگیا۔عید کے دن شام کوبعض غیر مسلموں کو بھی چائے کی دعوت میں مدعو کیا گیا۔عید کے موقعہ پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اورخاکسار اور بعض دوسرے اصحاب کی طرف سے قادیان مبارک باد کی جو تاریں بھجوائی گئی تھیںوہ تمام درویشوں کو سنائی گئیں۔اور ان کی خوشی اور تسکین کا موجب ہوئیں۔خدا کے فضل سے سب دوست خیریت سے ہیں۔البتہ مولوی عبدالقادر صاحب احسان ابھی تک بیمار چلے جاتے ہیں جن کے لئے دوستوں کی خدمت میں دعا کے واسطے عرض ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ)


حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے
بچّے کی شادی دوستوں سے دعاکی تحریک
حضرت میرمحمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے عزیزمیر دائود احمد سلمہ بی ایس سی کا نکاح کچھ عرصہ ہوا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الباسط بیگم سلّمہاکے ساتھ ہو چکاہے۔اب ۲۴؍ اکتوبر۱۹۴۸ء بروز اتوار رخصتانہ کی تقریب قرار پائی ہے۔مجھے یقین ہے کہ دوست اس موقع پر خصوصیت سے دعا فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس شادی خانہ آبادی کو فریقین کے لئے دین ودنیاکے لحاظ سے بابرکت او ر مثمرِثمرات حسنہ بنائے اوراس تعلق کو ظاہر وباطن،حال ومستقبل میں اپنی خاص برکتوں کے ساتھ نوازے ۔حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جو ارفع مقام حاصل ہے اور حضور کے متعلق جو خاص عقیدت جماعت کے دلوں میں پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے یقیناہر مخلص احمدی اس موقع پر دعا کرنا اپنا مقدس فرض سمجھے گا۔لیکن جو مقام حضرت میر صاحب مرحوم کو جماعت میں حاصل تھا اور جس غیر معمولی دینی اوردنیوی خدمت کا انہیں موقع میسر آیا اور جس طرح وہ احباب جماعت کی خوشیوں میں حصہ لیتے اور ان کے بوجھوں کو بٹاتے تھے۔تواب جب کہ ان کی وفات کے بعد ان کے گھر میں یہ پہلی شادی ہو رہی ہے۔تو میں اس بناء پر بھی امید رکھتا ہوں کہ اس موقع پرجماعت کے دوست اپنی مخصوص دعائوں میں اس مبارک تقریب کویاد رکھیں گے تاکہ جو کمی ایک دیندار اور محبت کرنے والے باپ کی وفات سے بچوں کے لئے پیدا ہوئی ہے۔وہ اگر خدا چاہے تو دوستوں کی دعائوں سے پوری ہوجائے ۔شادی کا معاملہ عجیب قسم کی نوعیت رکھتا ہے۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں قدم اٹھانے والا گویا تاریکی میں قدم اٹھاتا ہے۔اور نہیں جانتا کہ اس کا قدم کسی گڑھے میں گرنے والا ہے یا کہ کسی بلند اورمستحکم چٹان پر پڑنے والا ہے۔اور یہ صرف ہمارے آسمانی آقا کا فضل ہی ہے جو ہر تاریکی کو نورسے بدل سکتا اور ہر قدم کو بلند ی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
میں اکثر اس بات کو سوچاکرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو یہ الہام ہوا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الصِّھْرَوَالنَّسَبَ۱۱۷تو اس میں صرف قومی شرف کی طرف اشارہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ایک شخص عرف عام کے لحاظ سے بظاہر شریف سمجھے جانیوالی قوم سے تعلق رکھتاہے،مگر اس کی اخلاقی اور دینی حالت اچھی نہیں تو اس کا قومی شرف ہرگز کوئی خوبی نہیں بلکہ ایک *** ہے۔جو اسے خدا کے سامنے اور بھی زیادہ موردالزام بنادیگی ۔پس جب خدا کسی شخص کو صھرونسب کی مبارک باد دیتا ہے تو اس سے یقینا محض قومی شرف مراد نہیں ہوسکتا۔بلکہ اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مخفی ہوتا ہے کہ یہ خاندان نیکی اور دینداری کے مقام پر فائز ہوگا۔اور اس میں کیاشبہ ہے کہ ہمارے نانا جان مرحوم اور ان کے ہر دو فرزندان مرحوم اپنی ذاتی نیکی اور دینداری کے لحاظ سے بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور اب جبکہ وہ اپنی دنیوی زندگی کے دور کوپورا کرکے خدا کے حضور پہنچ چکے ہیںتو ہمارا فرض ہے کہ انہیں اور ان کی اولاد کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کیونکہ ہمارے مقدس آقا کا فرمان ہے کہ من لم یشکرالناس لم یشکراﷲ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ)








ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ
کی بچی کی شادی
دوست اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے خصوصیت سے دعائیں فرمائیں
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الباسط سلمہا (جو ہمشیرہ محترمہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کے بطن سے ہیں ) کی شادی حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے عزیز میر دائود احمد سلّمہ کے ساتھ ۲۴؍ اکتوبر ۴۸ کو قرار پائی ہے ۔یعنی نکاح تو پہلے سے ہوچکا ہے۔ اب انشاء اللہ ۲۴؍ اکتوبر کو رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئیگی۔ میں اس سے قبل حضرت میر صاحب مرحوم کے تعلق اور ان کی یاد کا واسطہ دے کر دوستوں میں دعا کی تحریک کر چکا ہوں۔ اب ہمشیرہ محترمہ سیّدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کے تعلق کی بنا پر یہ نوٹ شائع کر رہا ہوں ۔حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مقام اور تعلق ایسا ہے کہ اس کی بنا پر جماعت بہر حال مخصوص دعا کرتی ہی ہے لیکن اس پر بعض مزید تعلقات اور مزید گزری ہوئی یادوں کی بنا پر انسان اپنی توجہ میں اضافہ کر سکتا ہے۔ جس طرح حضرت میر صاحب مرحوم کا مقام جماعت میں خاص تھا اور وہ جماعت کے ہر امیر و غریب کے ساتھ یکساں تعلق رکھنے ،ان کی خوشیوں میں حصہ لینے اور ان کے بوجھوں کو ہٹانے میںپیش پیش تھے۔ اسی طرح ہمشیرہ محترمہ سیّدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کو بھی یہ نمایاں خصوصیّت حاصل تھی کہ وہ جماعتی کاموں میں عمومی حصہ لینے کے علاوہ غرباء کی امداد اور ان کی ہمدردی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں اور ہر شخص کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتیں اور اس میں انتہائی محبت کے ساتھ حصہ لیتی تھیں تو اب جبکہ ان کی اپنی بچی کی شادی ہورہی ہے اور خدائی تقدیر کے ماتحت وہ اپنی اس بچی کی خوشی میں خود شریک نہیںہوسکتیں اور ان کی ظاہری دعائیں جو ان کی زندگی کے ساتھ وابستہ تھیں،ان کا زمانہ بھی گزر چکا ہے تومیں سمجھتا ہوں کہ جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ مرحومہ کی بچی کی شادی کے موقع پر اسے اپنی مخصوص دعائو ں میں یاد رکھیںاور خدا سے اس بات کے ملتجی ہوں کہ وہ اس رشتہ کو ہر جہت سے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور دعا کریں کہ جس طرح اس تقریب کے موقع پر بچی کے زندہ رشتہ دار اس دنیا میں خوش ہونگے اور اسے اپنی دعائوں کیساتھ رخصت کر ینگے۔ اسی طرح آخرت میںا س کی مرحومہ والدہ کی روح بھی حقیقی مسرت حاصل کرے اور خد اکے حضور اپنی درد مندانہ التجائوں کے ذریعہ اس رشتہ کو بابرکت بنانے میں حصہ لے ۔ آمین یا ارحم الراحمین۔
‎(مطبوعہ ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۸ئ)





اے مالک کون ومکاں آئو مکیں کو لُوٹ لو
لُوٹ دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں ڈاکہ ڈالا جائے۔یہ لُوٹ بدترین گناہوں میں سے ہے۔دوسری قسم کی لُوٹ یہ ہے کہ پاک محبت کی تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال وجان کو اپنابنا لیاجائے۔ایسی لُوٹ انسانی روح کی جلاکے لئے ایک بھاری نعمت ہے۔سو ذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی لُوٹ کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان ومال کو لُوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں۔لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بے وفائی سے اپنے سمجھ رکھے ہیں۔مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں۔اگر فنِ نظم گوئی کے لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابل معافی سمجھی جائے۔اصل غرض دلی جذبات کا اظہار ہے۔پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیش نظر ہے۔
‎خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۴۸۔۱۰۔۳۰ء
میری سجدہ گاہ لوٹ لو میری جبیں کو لُوٹ لو
میرے عمل کو لوٹ لو اور میرے دیں کو لُوٹ لو
میری حیات وموت کا مالک ہوکوئی غیر کیوں
تم میری ہاںکو لوٹ لو،میری نہیں کو لُوٹ لو
رنج وطرب مِرا سبھی بس ہو تمھارے واسطے
روحِ سرور لوٹ لو،قلبِ حزیں کو لُوٹ لو
جب جاں تمہاری ہو چکی پھر جسم کا جھگڑاہی کیا
مِرا آسماں تو لٹ چکا اب تم زمیں کو لُوٹ لو
نانِ جویں کے ماسوادل میں مِرے ہوس نہیں
چاہوتو اے جاں آفریں نانِ جویں کو لُوٹ لو
گھر باریہ مِرا نہیں اور میںبھی کوئی غیر ہوں؟
اے مالکِ کون ومکاںآئو مکیں کو لُوٹ لو
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ)
قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں
مگر انہیں دعائوں کی بہت ضرورت ہے۔
قادیان سے آئے ہوئے خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں خدا کے فضل سے سب دوست جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی بناء پر درویش کہلاتے ہیں اور حقیقتاََاس وقت ان کی زندگی بھی درویشانہ ہی ہے خیریت سے ہیں۔قادیان کے دوستوں کا عام پروگرام یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں اور نوافل کے علاوہ قرآن کریم اور حدیث کا درس ہوتاہے اور بعض اجتماعی دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ تمام دوست سوائے معذوروں کے ہفتہ میں دو دن یعنی ہفتہ اور پیر کے دن نفلی روزے رکھتے ہیں۔وقار عمل بھی باقاعدہ منایا جاتا ہے اور صحتوں کو درست رکھنے کے لئے کبھی کبھی ورزشی مقابلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں جہاں تک ان دوستوں کے لئے ان کے موجودہ ماحول میں ممکن ہے غیر مسلموں میں تبلیغ کا سلسلہ بھی کچھ نہ کچھ جاری رہتا ہے۔ قادیان میں صدر انجمن احمدیہ بھی قائم ہے اورضروری شعبے اپنے اپنے محدود ماحول میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہتے ہیں۔لنگر خانہ کا انتظام بھی قائم ہے اور کچھ کچھ مہمانوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔جو بیشتر صورتوں میں غیر مسلم ہی ہوتے ہیں۔
چند دن ہوئے وہاں بٹالہ سے سپرٹنڈنٹ پولیس دورہ پر گئے اور سب احمدی آبادی کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کرکے ان کا معائنہ کیا۔ یعنی ان کے نام اور پتہ جات وغیرہ نوٹ کرکے یہ معلوم کیا کہ ان میں سے قادیان اوراس کے گردونواح کے رہنے والے کتنے آدمی ہیں۔اور پاکستان کے رہنے والے کتنے ہیں۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس تحقیق سے ان کی غرض کیا تھی ۔اس موقع پر انہوں نے یہ بھی ہدایت دی کہ قادیان میں چونکہ کوئی منظور شدہ کیمپ نہیں ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو ارد گرد سے نکل کر آئے ہوئے مسلمان مردوں عورتوں کو اپنے پاس نہیں ٹھہراناچاہئیے۔
قادیان میں اس وقت ملٹری کوئی نہیں البتہ پولیس فورس موجود ہے اور ایک ریزیڈنٹ مجسٹریٹ بھی وہاں رہتے ہیں ۔دیگر حکام بھی اکثر آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ایام میں ماسٹر تاراسنگھ مشہور سکھ لیڈر بھی قادیان گئے اور ریتی چھلہ کے میدان میں کم وبیش تین ہزار کے مجمع میں تقریر کی ۔ہمارے چند دوست پولیس کو لے کر اس جلسہ میں شریک ہونے کے لئے گئے مگر ماسٹر تارا سنگھ کی تقریر سے قبل ہی پولیس نے یہ کہہ کرکہ اس وقت آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں انہیں واپس بھجوا دیا۔
دوستوں کو چایئے کہ قادیان کے احباب کو خصوصیت سے یاد رکھیں۔اس وقت بعض دوست بیمار بھی ہیں اور بعض قدیم بزرگ عمر وغیرہ کے تقاضے سے کمزور ہورہے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کا حافظ وناصر ہو۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل۷؍ اکتوبر ۱۹۴۸ئ)





لین دین کی صفائی کا ایک وقتی نسخہ
جس طرح اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتے ہو
اسی طرح قرض اتارنے کے لئے بھی قرض لو
میں اپنے متعدد مضامین میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو معاملہ کی صفائی کی طرف توجہ دلا چکا ہوںاور اس بارہ میں یہ حدیث بھی پیش کرچکا ہوں کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ وآلہٖ علیہ وسلم کو قرض کی صفائی کا اتنا احساس تھا کہ آپ ایسے صحابی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو مقروض حالت میں فوت ہوا ہو اور اس کی جائیداد اس کے قرض کے اتارنے کے لئے کافی نہ ہو ۔اورحقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا رحیم وکریم خدا سچی توبہ پر اپنے خلاف کئے ہوئے گناہوں کو تومعاف کر سکتا ہے اور معاف کرتا ہے لیکن بندوں کے خلاف کئے ہوئے گناہوں اور ان کے غصب شدہ حقوق کو کس طرح معاف کرسکتاہے۔جب تک یا تو ان بندوں کا حق نہ ادا کیا جائے اور یا خود ان سے معافی حاصل نہ کی جائے۔مگر افسوس ہے کہ دنیا میں اکثر لوگ اس فریضہ کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔اور اوّل تو بلاحقیقی ضرورت کے قرض برداشت کر لیتے ہیں اور پھر واپسی کا نام نہیں لیتے یا مختلف قسم کے بہانوں سے اسے پیچھے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیںاور اگر واپس بھی کرتے ہیں تو سو دفعہ ٹال ٹال کر اور بسااوقات بداخلاقی کے جواب دے دے کر واپس کرتے ہیں ۔حالانکہ قرضہ کی واپسی میں جہاں روپے کی واپسی شامل ہے وہاں میعاد کے اندر واپس کرنا بھی اس کا ضروری حصہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے ہر قرضہ کے متعلق یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس کی واپسی کے لئے میعاد مقرر ہو اورجب تک یہ دونوں باتیں پوری نہ ہوں یعنی اول یہ کہ قرضہ واپس کیا جائے دوم یہ کہ معیاد مقررہ کے اندر واپس کیا جائے۔اس وقت تک کوئی شخص لین دین کے معاملہ میں دیانت دار نہیں سمجھا جاسکتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے سرکو نیچا کرکے قرضہ دینے والے سے مزید مہلت نہ حاصل کرے۔میں نے بسا اوقات حضرت خلیفتہ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ بات سنی تھی یعنی حضور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں بیشمار لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑا ہے مگر میں نے ایک شخص کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا کہ جس نے جس خوشی اور بشاشت اور امتنان کے چہرہ کے ساتھ قرضہ لیا ہو اسی خوشی اور اسی بشاشت اور اسی امتنان کے ساتھ واپس کیاہو اور افسوس ہے کہ میرا بھی دنیا میں لین دین کے متعلق یہی تجربہ ہوا ہے کہ اکثر لوگ جس چہرہ کے ساتھ قرض لیتے ہیں اس چہرہ کے ساتھ واپس نہیں کرتے۔پس میں اپنے اس نوٹ کے ساتھ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ لین دین کے معاملات میں صفائی پیدا کریں اور لوگوں کے حقوق ادا کرکے خدا کے سامنے بھی سرخرو ہوں۔
قرضوں کے معاملہ میں صفائی پیدا کرنے کے لئے اصل چیز تو دل کی دیانت اور امانت ہے جس کے بغیر سارے اصول اور ساری شرطیں اور سارے وعدے بیکار ثابت ہوتے ہیں۔لیکن اس جگہ میں ایک خاص بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے اگر نیک نیتی سے اختیار کیا جائے تو خدا کے فضل سے بہت سی صورتوں میں سرخروئی اور نیک نامی کا موجب ہوسکتی ہے۔وہ یہ کہ جسطرح ایک انسان اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتا ہے اسی طرح وہ اپنے دل میں یہ بھی عہد کرے کہ وہ دوسرے کی ضرورت کا لحاظ کرکے اس کے قرضہ کے واپسی کے لئے بھی قرضہ برداشت کرے گا۔مثلاََ اگر زیدنے عمر سے کوئی رقم قرض لی ہے اور کسی وجہ سے وہ میعاد پوری ہونے پر اس رقم کو واپس نہیں کرسکتا تو اس کا فرض ہے کہ جس طرح اس نے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے عمر سے قرض لیا تھا اسی طرح اور اسی توجہ اور اسی کوشش کے ساتھ عمرکی ضرورت کو پورا کرنے اور اس کے قرض کو واپس کرنے کے لئے کسی اور شخص سے قرض لے لے۔مگر افسوس ہے کہ لوگ اپنی ضرورت کے لئے تو دوسروں کے سامنے خوشامد اور لجاجت کے طریق پر ہاتھ پھیلانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے پیٹ کے دوزخ کو بجھانے کے لئے یا اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے دوسروں کے سامنے سوال کا ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے مگر اپنے قرض خواہوں کے قرض کی واپسی کے لئے قرضہ برداشت کرنے کی طرف قطعاََ توجہ نہیں دیتے۔حالانکہ یہ ایک بہت آسان سا گُر ہے جسے اختیار کرکے انسان نہ صرف خود بدنامی سے بچ سکتاہے اور نہ صرف خدا کے سامنے سرخرو ہو سکتا ہے بلکہ اپنے قرض خواہ بھائی کی ضرورت کو بھی پورا کرکے حقوق العباد کی ادائیگی کا عمدہ نمونہ قائم کر سکتا ہے۔آخر وجہ کیا ہے کہ میں اپنی ضرورت کے لئے تو دوسرے سے ایک سو روپیہ مانگوں لیکن جب اس ایک سو روپے کی واپسی کا وقت آئے تو اس روپے کی واپسی کے لئے کسی تیسرے شخص سے قرض نہ حاصل کروں؟ بلکہ حق یہ ہے کہ اپنی ضرورت کی نسبت قرض خواہ کی ضرورت کو پورا کرنا یقینا زیادہ قرینِ انصاف اور زیادہ موجبِ ثواب ہے۔
پس میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اپنے اس نوٹ کے ذریعہ سے اور اس خدا کا واسطہ دے کر جو ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور جلد یا بدیر ہمیں ان اعمال کا بدلہ دینے والا ہے ،کہتا ہوں کہ وہ کم از کم اس نسخہ کو آزماکردیکھیں کہ جس طرح وہ اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتے ہیں اسی طرح اور اسی توجہ کے ساتھ ایک قرض خواہ کو اس کی رقم واپس کرنے کے لئے بھی قرض لے لیا کریں۔اس طرح ایک تو وہ خالق اور مخلوق کی نظر میں بدمعاملہ نہیں ٹھہریں گے اور دوسرے ان کا قرض خواہ آئندہ انہیں قرض دینے میں زیادہ بشاشت محسوس کرے گا۔پھر اگر بالفرض ان کے پاس اس تیسرے شخص کی رقم واپس کرنے کے وقت بھی روپیہ نہ ہو تو وہ کسی چوتھے شخص سے قرض لے لیں اور اس تیسرے شخص کو واپس کر دیں۔اگر وہ سچی نیّت سے اس طریق کو اختیار کریں گے اور اس عرصہ میں اصل رقم پیدا کرنے کے لئے بھی کوشاں رہیں گے تو میںیقین کرتا ہوں کہ خدا ان کے کاموں میں برکت عطا کرے گااور وہ دنیا میں بھی سرخرو ہوں گے اور دین میں بھی ۔خدا کرے کہ میرا یہ نوٹ ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں گھر کر سکے اور وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں ایسا نمونہ دکھائیں جس کی اسلام ہم سے توقع رکھتا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ اگر کسی شخص کو باوجود سچی کوشش اور توجہ کے کسی قرض خواہ کا روپیہ واپس ادا کرنے کے لئے قرض نہ ملے تو وہ کیا کرے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو میں امید نہیں کرتا کہ خدا ایسی سچی کوشش کو ضائع کرے ۔لیکن اگر واقعی حقیقی مجبوری کی صورت پیدا ہو جائے (اور خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقی مجبوری کون سی ہے ورنہ اکثر لوگ اپنے نفس کے بہانوںکو ہی مجبوری خیال کرنے لگ جاتے ہیں) تو اسے چاہئیے کہ کم از کم اپنے متکبر سر کو نیچا کرکے عجز اور انکسار کے ساتھ قرض خواہ سے معذرت کرے اور اسے مزید مہلت حاصل کرنے کی درخواست دے۔پہلے تو اپنی ضرورت کے لئے قرض لینا اور پھر وقت پر ادا نہ کرنا اور پھر قرض خواہ کی طرف سے مطالبہ ہونے پر شرمندہ ہونے اور معذرت کرنے کی بجائے اسے سامنے سے آنکھیں دکھانا اور بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنا ایک ایسا گندا خلق ہے کہ جسے اسلام کا خدا سخت نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ پاک نمونہ ہے کہ ایک دفعہ ایک غیر مسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا کچھ قرض دیا ہوا روپیہ واپس لینا تھا اور میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی وہ آپؐ کے پاس آکر سختی کے ساتھ مطالبہ کرنے لگا حتیٰ کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں کپڑے کا پٹکا ڈال کر اسے زور کے ساتھ کھینچا ۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی ملامت نہیں کی بلکہ جب ایک صحابی نے آگے بڑھ کر اسے الگ کرنا چاہا اور اسے قبل از وقت مطالبہ کرنے پر ملامت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجانے دو اور اسے کچھ نہ کہو ۔کیونکہ گو ابھی میعاد پوری نہیں ہوئی لیکن بہرحال یہ قرض خواہ ہے اور میں مقروض ہوں اور مجھے زیبانہیں کہ اس کے بے وقت مطالبہ پر بھی سامنے سے بداخلاقی کے ساتھ پیش آئوں۔ کاش !ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پاک نمونہ ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا موجب ہو ۔
آمین یا ارحم الراحمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍ نومبر ۱۹۴۸ئ)











نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب کو جماعت احمدیہ کی طرف سے مشورہ
مڈل تک کے نصاب میںکونسی اصلاحیں ضروری ہیں
کچھ عرصہ ہوا حکومت مغربی پنجاب نے مڈل تک کے نصاب کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی تھی اور کمیٹی مذکورنے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ سے بھی مشورہ طلب کیا تھا اس مشورہ کے لئے جو کمیٹی صدر انجمن احمدیہ نے مقرر کی ۔اس کے سیکرٹری ابوالفتح مولوی محمد عبدالقادر صاحب ایم۔اے ریٹائرڈ پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی تھے اور خاکسار مرزا بشیر احمد اس کا صدر تھا۔اور پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اور ناظر صاحب تعلیم وتربیت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور عزیز مرزا ناصر احمد صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اس کمیٹی کے ممبر تھے۔ہماری اس کمیٹی نے بعد غور وخوض جو مشورہ حکومت کی مقررکردہ نصاب کمیٹی کو دیا۔وہ احباب کی اطلاع کے لئے درج ذیل کیا جاتاہے۔
(تمہیدی نوٹ)اصل مشورہ کرنے سے قبل میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری کمیٹی اپنے مشورہ کو صرف اصولی حد تک محدود رکھے گی۔اور نصاب کی تفصیلات میں جانے یا کتب تجویز کرنے کے متعلق کوئی مشورہ پیش نہیں کیا جائے گا۔اور دراصل اس معاملہ میں زیادہ اہم سوال اصول ہی کا ہے۔اورتفصیلات کو بغیر کسی خطرہ کے زیادہ عملی تجربہ رکھنے والے واقف کاروں پر چھوڑا جاسکتا ہے۔بہرحال جو اصولی مشورہ ہماری کمیٹی امور مستفسرہ کے متعلق دینا چاہتی ہے۔درج ذیل کے چند مختصر فقرات میں درج کیا جاتا ہے۔
(۱) جہاں تک تعلیم کی غرض وغایت کا سوال ہے،وہ محض تعلیم کے لفظ سے پوری طرح ظاہر نہیں کی جاسکتی کیونکہ تعلیم کے لغوی معنے صرف علم دینے کے ہیں۔مگر اصطلاحی طور پر تعلیم کا مفہوم اس لغوی مفہوم کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہراہے۔ دراصل اگر تعلیم کے صحیح مفہوم کو مختصر لفظوں میں ہی اداکرنا ہوتو صرف لفظ تعلیم کی بجائے تین الفاظ کا مجموعہ زیادہ مناسب ہوگااور یہ تین الفاظ تعلیم اور تنویراور تربیت ہیں ۔تعلیم کی غرض وغایت ہر گز پوری نہیں ہو سکتی۔جب تک کہ معیّن علم سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کے دماغوں میں روشنی پیدا کرنے اور پھر ان کی معلومات کے مطابق عملی مشق کرانے کاانتظام نہ ہو ۔ بچوں کے دماغوں میں محض خشک معلومات کا ذخیرہ ٹھونس دینا چنداںفائدہ مند نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے دماغوں کی کھڑکیوں کو کھول کر علم کے میدان کے ساتھ بنیادی لگائو نہ پیدا کیا جائے ۔اور پھر عملی مشق کے ذریعہ بچوں کی قوتِ عملیہ کو ایک خاص ڈھانچے میں نہ ڈھال دیاجائے۔
(۲)اب ظاہر ہے کہ تعلیم کا جو وسیع مفہوم اوپر بیان کیا گیا ہے وہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر قوم اپنی قومی اور ملکی ضروریات کے پیش نظر اپنے بچوں کی تعلیم کاپروگرام مرتب نہ کرے۔ انگریز نے اپنے زمانہ میں جوغرض وغایت تعلیم کی سمجھی اور جو مقاصد اپنے مصالح کے ماتحت ضروری خیال کئے۔ان کے پیشِ نظر نصاب بنایا اور درسگاہیں جاری کیں۔مگر انگریز کے چلے جانے اور آزادی کے حصول اور پاکستان کے قیام کے بعد انگریز کی طے کی ہوئی پالیسی اور انگریز کا جاری کیا ہوا نصاب ہماری ضرورتوں کو ہر گز پورا نہیں کر سکتا۔بلکہ یقینا وہ بعض پہلوئوں میں ہمارے مقاصد کے خلاف اور متضاد واقع ہوا ہے۔مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ کلی طور پر بدل دینے کے قابل ہے۔لاریب اس میں کئی باتیں مفید بھی ہیں جو بڑے لمبے تجربہ کے بعد حاصل کی گئی ہیں۔پس دانشمندانہ پالیسی یہ ہوگی کہ تدریج اور آہستگی کے ساتھ قدم اٹھایا جائے ۔اور سابقہ نصاب کے غیر مفید حصہ کو ترک کرکے ایسے مفید اضافوں کے ساتھ جو ہمارے موجودہ قومی مصالح کے لئے ضروری ہیں نیا نصاب مرتب کیا جائے۔
(۳)ہماری کمیٹی نمبر اول پر یہ تجویز پیش کرنا چاہتی ہے کہ جدید نصاب میں دینیات اوراخلاقیات کا مضمون لازماََ شامل ہونا چاہئیے۔کیونکہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بچپن میں ہی ایمان واخلاق کا بیج بو دیا جائے تاکہ قوم کے نونہال بڑے ہو کر اپنے اخلاق اور دین کی بنیاد اسلام کی دی ہوئی تعلیم پر قائم کر سکیں ۔لیکن ہماری کمیٹی اس مشکل کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی کہ پاکستان میں مختلف اسلامی فرقوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔اور صحیح طور پر یاغلط طور پر ہر فرقہ کی طرف سے مطالبہ ہوگا کہ اس فرقہ کی مخصوص تشریح کے مطابق اسلامی تعلیم دی جائے۔اوراس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ دینیات کا نصاب خود ایک جھگڑے کی بنیاد بن جائے۔ پس جہاں ہم دینیات کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ بھی مشورہ ہے کہ اس قسم کے اختلاف کے سدباب کے لئے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے فی الحال پرائمری اور مڈل میں دینی تعلیم ایک ایسی اَقَلّ اصولی تعلیم تک محدود ہونی چاہئیے جس میں اختلاف کا کم سے کم امکان ہواور کمیٹی ھٰذا تجویز کرتی ہے کہ یہ اقل اصولی نصاب پرائمری اور مڈل میں بصورت ذیل ہونا چاہئیے۔
(الف)قرآن شریف ناظرہ یعنی بغیر ترجمہ کے۔
(ب)قرآن شریف کی بعض چھوٹی سورتوں اور بعض قرآنی دعائوں کا حفظ کرانا ۔
(ج)پنج ارکان اسلام یعنی (۱)کلمہ طیبہ(۲)نماز(۳)زکوٰۃ(۴)حج اور(۵)روزہ کے ایسے بنیادی مسائل جن میں کسی اختلافی خیال کا دخل نہ ہو۔
(د)آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مختصر سوانح۔
(ط)اسلامی اخلاق پر ایک مختصر رسالہ( جو تصنیف کرایا جاسکتا ہے)جس میں راست گفتاری دیانت، لین دین کی صفائی ،عہد کی پابندی فرض منصبی کی ادائیگی،محنت قربانی،عدل وانصاف، خالق کی محبت ،مخلوق کی ہمدردی وغیرہ۔بنیادی اخلاق کے متعلق سہل اورمؤثر طریق میں تعلیم دی گئی ہو۔
نوٹ:۔نصاب دینی کے تعلق میں ہماری کمیٹی یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ اگر کسی سرکاری سکول میں کسی اقلیت کے طلبا کی تعداد معقول ہواور اس اقلیت کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ اس کے لئے اس کے مذہب کی تعلیم کا نصاب مقررکیا جائے تو اس کا انتظام بھی ہونا چاہئیے۔،مگر یہ نصاب صیغہ تعلیم کا منظور شدہ ہوناچاہئے جو عمومی رنگ کا ہو۔ جس میں اس پہلو کومدنظر رکھا جائے کہ دوسرے مذاہب پر حملے یا مناظرانہ مسائل نصاب میں داخل نہ ہو جائیں۔
(۴)ہماری کمیٹی بڑی سختی کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ زمانہ میں سب سے بڑا فتنہ تاریخ کے نصاب نے پیدا کیا ہے۔جس میں جھوٹی باتوں کو داخل کرکے اور بعض سچی باتوں کو غلط رنگ دے کر اور بہت سی سچی باتوں کوحذف کرکے بھاری فتنہ پیدا کیا گیا ہے۔کمیٹی ہذاسفارش کرتی ہے کہ تاریخ کے نصاب کو فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔حسب ضرورت نئی کتب لکھائی جائیں ۔ جن میںسے اس قسم کے شرانگیز عنصر کو بالکل خارج کردیا جائے اور صحیح اورمستند واقعات اچھے رنگ میں درج کئے جائیں اور تاریخ کے کورس میں ذیل کے حصے شامل کئے جاویں یعنی (۱)تاریخ ہندستان جس میں اسلامی زمانہ پر زیادہ زور ہو(۲)تاریخ اسلام جس میں آنحضرت صلٰی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات مسلسل اور مربوط صورت میں درج ہوں اور دیگر اسلامی تاریخ کے صرف خاص خاص واقعات ہوںاور اس کے علاوہ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظرہو۔
(۵)کمیٹی ہذا یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ تاریخ اور جغرافیہ کے مضمون کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر ایک مضمون کی صورت میں رکھنے کی کوئی خاص وجہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ایسا غیر منفک واسطہ ہے جس کی وجہ سے ان دو مستقل مضمونوں کو لازماََ ایک لڑی میںپرو کر رکھنا ضروری ہو۔پس انہیں علیحدہ علیحدہ کردیناہماری کمیٹی کی رائے میں زیادہ مفیدہوگا۔
(۶)ہماری کمیٹی اس بات کی پر زور مؤیّد ہے کہ ذریعہ تعلیم بلا توقف اردو کو قرار دینا چاہئے۔
(۷)اردو کا نصاب بھی کافی اصلاح چاہتا ہے اس میں دیگر مفید مواد کے علاوہ اسلامی تاریخ کے خاص خاص واقعات اور مشاہیر اسلام کے خاص خاص حالات کا عنصر کافی شامل ہوناچاہئے۔مگر ضروری ہے کہ اردو میں تکلف کے طریق پر اور غیر طبعی رنگ میں عربی اور فارسی کے الفاظ نہ ٹھونسے جائیں۔بلکہ اسے ایک زندہ چیز کی طرح طبعی رنگ میں ترقی کرنے کا موقع دیا جائے اور ابتدائی جماعتوں میں تو لازماََ زبان بہت سادہ اور سلیس ہونی چاہئیے۔اس کے علاوہ اردو کو رس میں سادہ اور مؤثر قومی اور اخلاقی نظمیں بھی شامل کی جائیں۔
(۸)ہماری کمیٹی یہ سفارش بھی کر تی ہے کہ چونکہ عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور قرآن شریف اور حدیث کے سمجھنے کے لئے عربی کا علم ضروری ہے او ر اردو کی تکمیل کے لئے بھی عربی کافی اثر رکھتی ہے اس لئے مڈل کی پہلی جماعت سے عربی کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔
(۹)ہماری کمیٹی پرائمری یا مڈل کی جماعتوں میں فارسی کے نصاب کے داخل کرنے کی تائید میں نہیں ہے کیونکہ اول تو فارسی کوہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہے۔جتنا کہ اردو یا عربی کو ہے۔دوسرے بچوں کے دماغوں پر زیادہ زبانوں کابوجھ ڈالنا کسی طرح مفید نتائج پیدا کرنے والا نہیں سمجھا جاسکتا۔
(۱۰)ہماری کمیٹی اس بات کی سفارش کرتی ہے کہ انگریزی زبان کی تعلیم کو پرائمری اور مڈل کے نصاب سے کلی طور پر خارج کر دیاجائے۔انگریزکے چلے جانے سے ہمارے لئے اس زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک غیر ملکی زبان کے بوجھ سے اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو مشوش کیا جائے۔
(۱۱)جغرافیہ ایک ضروری علم ہے او ر لازمی ہونا چاہئیے۔اس کا پولٹیکل اور طبعی حصہ ہر دو نہایت ضروری اور مفید ہیں۔
(۱۲)ریاضی ایک نہایت ضروری علم ہے اور خود قرآن شریف نے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے پس اس پر زیادہ زور ہونا چاہئیے۔یہ علم نہ صرف اپنی ذات میں مفید ہے بلکہ بچوں میں محنت اور استغراق اور صحیح الخیالی کا ملکہ پیدا کرنے میں بھی بھاری اثر رکھتا ہے۔
(۱۳)سائنس کے ساتھ بچپن سے ہی قومی بچوں کا لگائو پیدا کرانا ضروری ہے اور ہماری کمیٹی اس بات کی پُر زور تائید کرتی ہے کہ شروع سے ہی اسباق الاشیاء وغیرہ کی صورت میں سائنس کی تعلیم کو داخل نصاب کرنا چاہئے۔ علم طبیعات اور علم کیمیا کے ضروری مسائل سادہ اور دلچسپ رنگ میں اسباق الاشیاء کی صورت میں نصاب کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔اسی طرح ایسی نئی ایجادات جن کے ساتھ آجکل کے زمانہ میں ہر شہری کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔مثلاََ تار۔ٹیلیفون ،وائرلیس ۔ہوائی جہاز او ر پھر موٹر ریل۔دخانی جہازاور جنگی اسلحہ وغیرہ کے متعلق سادہ ابتدائی معلومات داخل نصاب کئے جاسکتے ہیں۔
(۱۴)کمیٹی ہذا اس بات کی مؤیّد ہے کہ بچوں میں ملک کی بنیادی صنعتوں کے ساتھ ابتدا سے ہی لگائو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اور ہمارے خیال میں شروع میں اس کے لئے تین شعبوں کا انتخاب ضروری ہوگا۔یعنی (۱)زراعت (۲)تجارت (۳)دستکاری۔ ان تینوں کے متعلق ابتدائی علمی اور عملی معلومات کا مہیا کرنا ضروری ہے۔ زراعت کی تعلیم کے لئے سکولوں میں ترقی یافتہ اصولوں اور عملی کام کی ٹریننگ کا انتظام ہونا چاہئے۔ تجارت میں درآمد وبرآمد کے موٹے اصول اور چیزوں کے خریدنے اور فروخت کرنے کے طریق بتائے جائیں۔اور دستکاری میں بعض عام صنعتوں کی ابتدائی تعلیم شامل کی جاسکتی ہے۔
(۱۵)ورزش کا سوال بھی نہایت اہم ہے اور قوم کی جسمانی ترقی اور صحتوں کی درستی پر بھاری اثر رکھتا ہے۔پس سکولوں میں اس کی طرف بھی واجبی توجہ ہونی چاہئے۔کھیلیں ایسی رکھی جائیں جو چار اغراض کو پورا کرنے والی ہوں۔
(۱)جسم اورا عصاب کی طاقت کو بڑھانے والی ہوں۔(۲)جسم میں پھرتی پیدا کرنے والی ہوں(۳)عقل کو تیز کرنے والی ہوں اور (۴) باہم تعاون کی روح کو ترقی دینے والی ہوں۔
نیز کمیٹی ہٰذا کی رائے میں بچوں کو تین فنون کا سکھانا ضروری ہے۔جس کا سکول کی طرف سے انتظام ہونا چاہئیے۔(الف) تیرنا۔(ب)سواری سائیکل کی یا گھوڑے کی یا اگر ممکن ہوتو موٹر کی بھی(ج)بندوق چلانا ۔جس کے لئے ابتداََ ہوائی بندوق اور بعد میں ۲۲ بور کی رائفل کلبیں جاری کی جاسکتی ہیںتاکہ ابتداء سے ہی بچوں میں فنون سپہ گری کا ملکہ اور شوق پیدا ہو۔
(۱۶)بالآخر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم نے نصاب کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں اپنی تجاویز کو صرف پرائمری اور مڈل کی تعلیم تک محدود رکھاہے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے مڈل میں رکھے جانے کی سفارش کی ہے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی ضرور رکھاجائے گا۔اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے متعلق یہ سفارش کی ہے کہ وہ مڈل میں نہ رکھا جائے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی نہیں رکھا جائے گا۔ہائی کلاسز کے نصاب کا معاملہ ہمارے مشورہ کے دائرہ سے خارج ہے۔اس لئے اس کے متعلق ہماری موجودہ تجاویز سے کوئی مثبت یا منفی استدلال کرنا درست نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ حصہ اپنی ذات میں علیحدہ طور پر زیر غور آکر طے ہونا چاہئیے۔
خدا کرے کہ اس اہم سوال کے متعلق حکومت کا متعلقہ شعبہ ایسے فیصلہ کی طرف راہنمائی حاصل کرے جو ملک اور قوم کے لئے بہتر ین نتائج پیدا کرنیوالا ہو۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍نومبر ۱۹۴۸ئ)







قادیان کی تازہ اطلاعات
خدا کے فضل سے سب دوست خیریت سے ہیں
خدا کے فضل سے قادیان کے ساتھ خط وکتابت کا سلسلہ باقاعدہ قائم ہے اور گو بعض اوقات ڈاک کے آنے یا جانے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔لیکن بہرحال قریباََ ہر روز قادیان سے خطوط آتے رہتے ہیں۔اور میرے دفتر سے بھی خطوط جاتے رہتے ہیں۔قادیان میں اس وقت مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل مقامی امیرہیں اور ان کے ساتھ کئی دوست مثلاََ مولوی برکات احمد صاحب بی ۔اے (ناظرامور عامہ)اور شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی۔اے (ناظر بیت المال ومحاسب) اور ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب وغیر ہم سلسلہ کے مختلف شعبوں میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہمارے خاندان میں سے عزیزمرزا وسیم احمدسلمہ(ناظر دعوت وتبلیغ )بھی جو حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے صاحبزادے ہیں، قادیان میں مقیم ہیں۔مہمانخانہ اور لنگر خانہ کے انچارج مولوی عبدالحفیظ صاحب بقاپوری ہیںاور مولوی شریف احمد صاحب اور مولوی محمدابراہیم صاحب قادیانی تبلیغی اور تربیتی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سلسلہ کے بعض قدیم اور مخلص بزرگ مثلاََبھائی چوہد ری عبدالرحیم صاحب اور بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی اور میاں محمد دین صاحب کھاریاں والے اور میاں محمد دین صاحب تہال والے جو سب قدیم صحابہ میں سے ہیں،اپنے دینی اور روحانی پروگرام سے جماعت کی تربیت میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔دوست ان سب کے لئے اور قادیان میں ٹھہرے ہوئے دوسرے مخلصین کے لئے خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں۔جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ قادیان کے دوست بھی انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھتے ہیں۔ وَکَانَ اللّٰہُ مَعَھُمْ اَجْمَعِیْن۔
میں نے اپنے گزشتہ نوٹ میں لکھا تھا کہ قادیان میں اس وقت ملٹری کوئی نہیں ہے۔مگر مجھے مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ قادیان کے تازہ خط سے پتہ لگا ہے کہ بیشک درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے ملٹری چلی گئی تھی۔مگر اس کے بعدوہ پھر آگئی اوراب قریباََ پینتیس(۳۵ )کس کی تعداد میں قادیان میں ملٹری موجود ہے۔
مولوی برکات احمد صاحب نے اپنے تازہ خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ذریعہ سے انہیں قادیان میں وہ تصویر پہونچی جس میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پریس کے نمائیندوں کے ساتھ ربوہ کے میدان میں کھڑے ہیں۔اس تصویر کو دیکھ کر قادیان کے درویشوں کو بے انتہاخوشی ہوئی اور ساتھ ہی کئی قسم کی یادیں تازہ ہوکر رقت کے جذبات بھی پیدا ہوئے۔میں نے قادیان میں ربوہ کی بعض اور تصویریں بھی بھجوائی ہیں۔
جیسا کہ میں گزشتہ رپورٹ میں لکھ چکا ہوں قادیان میں حکومت مشرقی پنجاب کے مختلف افسر جاتے رہتے ہیںاورہمارے دوستوں کو ملنے کے لئے دارالمسیح میں بھی جاتے ہیں۔چنانچہ اس ہفتہ گورداسپور کے نئے سول سرجن صاحب جن کا نام باواہرنام سنگھ ہے قادیان گئے۔اور جماعت احمدیہ کی ڈسپنسری کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اس ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ قادیان کے احمدیوں میں بعض ایسے مریض ہیں جن کے علاج کا انتظام ان کے پاس موجودنہیں مثلاََ بعض موتیا بند کے مریض ہیں جن کے آپریشن کا انتظام موجود نہیں ۔سول سرجن صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لئے کوئی انتظام کریں گے۔یہ سول سرجن خانیوال میں عزیزم مرزا مظفر احمد کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ ہماری ڈسپینسری میں کئی غیرمسلم بھی علاج کے لئے آتے رہتے ہیں۔حالانکہ گورنمنٹ کا مقامی ہسپتال موجود ہے۔
اسی طرح اس ہفتہ میں گورداسپور کے نئے انسپکٹر سی۔آئی۔ڈی قمر گوپال صاحب بھی قادیان گئے اور ہمارے دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف سوالات پوچھتے رہے۔اسی طرح اس ہفتہ میں گورداسپور کے ڈسٹرکٹ پبلسٹی آفیسر مسٹر من موہن آنند بھی قادیان گئے اور بعض شکایات سن کر کہنے لگے کہ قادیان کا کیس ابھی تک دہلی کی سنٹرل حکومت کے پاس ہے۔اس لئے مشرقی پنجاب کی حکومت کو اس میں زیادہ دخل دینے کا حق نہیں ہے۔سنٹر سے ہی ان باتوں کا فیصلہ ہوگا۔
.4قادیان میں انشاء اللہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دسمبر کے آخری ہفتہ میں جلسہ سالانہ منعقد ہوگا۔جس کے لئے ہمارے قادیان کے دوست پروگرام مرتب کر رہے ہیںاور انہوں نے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ سے بھی درخواست کی ہے کہ گزشتہ سال کی طرح حضور بھی کوئی مختصر مضمون یا پیغام لکھ کر ارسال فرمادیں۔تاکہ قادیان والوں کے لئے از دیاد ایمان اور تقویت قلوب اور دماغی تنویر کا موجب ہو۔
.4قادیان کے دوست خدا کے فضل سے حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ دینی پروگرام پر پوری طرح کار بند ہیں۔جو درس وتدریس اور نفلی روزوں اور دعائوں اور وقارعمل وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ .4قادیان کے بعض دوست بیمار ہیں۔ان کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍نومبر ۱۹۴۸ئ)
ایک غلط فہمی کا ازالہ اور شکریہ احباب
گزشتہ دنوں میں الفضل میں مرزا عزیز احمد صاحب کی اہلیہ کی وفات کی خبر شائع ہوئی تھی۔اس پر کئی دوستوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ گویا فوت ہونے والی خاتون ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے کی اہلیہ صاحبہ ہیں۔اور گوالفضل میں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کرایاگیامگر پھر بھی بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی اب تک چل رہی ہے۔سو دوبارہ اعلان کیا جاتا ہے کہ فوت ہونے والی خاتون مرزا منور احمد صاحب مرحوم مبلغ امریکہ کی ہمشیرہ تھیں نہ کہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے کی اہلیہ جو ہمارے ماموں حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓکی صاحبزادی ہیں۔اور گو فوت ہونے والی بھی ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔کیونکہ وہ ہماری ممانی کی بہن اور مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم کی لڑکی ہیں۔مگر بہر حال وہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی صاحبزادی نہیں۔جو ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے کی اہلیہ ہیں ۔فوت ہونے والی خاتون کے خاوند مرزا عزیز احمد لاہور کے رہنے والے ہیںاور پنجاب کے مشہور شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے پوتے ہیں۔
اس موقع پر میں مرحومہ کی عمر رسیدہ والدہ کی طرف سے ان بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔جنہوں نے اس صدمہ میں ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا یا انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھا ۔وہ احباب جماعت سے درخواست کرتی ہیںکہ آئندہ بھی انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھاجائے۔یہ بوڑھی خاتون اپنی آخری عمر میں آکر اوپر تلے کئی صدموں کا شکار ہوئی ہیں۔یعنی سب سے پہلے ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کا انتقال ہواجوان کے داماد تھے اور اس کے بعد ان کے بڑے لڑکے مرزا احمد شفیع صاحب بی ۔اے فسادات کے دنوں میں قادیان میں شہید ہوئے اور پھر ان کے دوسرے لڑکے مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ نے وطن سے بارہ ہزار میل دور وفات پائی۔اور اب آکر ان کی لڑکی رشیدہ بیگم صاحبہ نے انہیں داغ جدائی دیا۔بڑھاپے کی عمر میں یہ اوپر تلے کے غیر معمولی صدمے یقینا انہیں اس بات کا حقدار بناتے ہیںکہ دوست انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور ویسے تو ہم خدا کے فضل سے اس بات پر ایمان لاتے ہیں
کہ ہر خدائی تقدیر اپنے اندر ضرور کوئی نہ کوئی خاص مصلحت رکھتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایمان بالغیب کے اصول کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان خدائی حکمت کو سمجھنے کے بغیر بھی ہر الٰہی تقدیر کے اظہار پر خواہ وہ بظاہر کتنی ہی تلخ ہو، خدائی حکمت اور خدائی رحمت پر ایمان لائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ نومبر ۱۹۴۸ئ)





قادیان کی جائداد کے مقابلہ پر عاراضی الاٹمنٹ
کرائی جاسکتی ہے
شروع شروع میںقادیان سے آنے پر میں نے دوستوں کی اطلاع اور تحریک کے لئے یہ اعلان کیا تھا کہ جن دوستوں کی جائیداد قادیان یا مشرقی پنجاب کے کسی حصہ میں ضائع ہوئی ہے۔انہیں چاہیئے کہ اپنا نقصان رجسٹرار آف کلیمز حکومت مغربی پنجاب لاہور کے دفتر میں رجسٹر کرادیں اور اس کے ساتھ میں نے حضرت صاحب کے منشاء کے ماتحت یہ اعلان بھی کیا تھا کہ قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر کسی اور جائیداد کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ قادیان ہمارا مقدس مرکز ہے جس پر ہم اپنا حق کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے۔اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ جلد یا بدیر خدا ہمیں قادیان واپس دلائے گا۔چنانچہ اس اعلان پر بہت سے دوستوں نے اپنے نقصان رجسٹر کرادئیے۔
اب جبکہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر شخص کو اس کی ضائع شدہ جائیداد کے مقابلہ اسی قدر یا اس ملتی جلتی زمین وغیرہ دی جائیگی ۔گویا کھاتا وار الاٹمنٹ ہوگی اور اس غرض کے لئے لاہور میں ایک خاص فنانشل کمشنرسیٹلمنٹ اور اس کے ماتحت ہر ضلع میں ایک ایک سیٹلمنٹ افسر مقرر کردئیے ہیں اور کئی دوست ابھی تک بغیر کسی معقول سہارے کے پڑے ہیں اس لئے بعض دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر پاکستان میں عارضی الاٹمنٹ کراسکتے ہیں۔سودوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتاہے کہ عارضی الاٹمنٹ میں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ درخواست میں صراحت کر دی جائے کہ چونکہ قادیان ہمارامقدس مقام ہے جس پر ہم اپنا حق کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے اس لئے ہم اس کے مقابلہ پر کوئی مستقل تبادلہ نہیں چاہتے بلکہ صرف عارضی الاٹمنٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔اسی طرح اپنی سابقہ آمد کے مقابلہ پرنقدالاٹمنٹ کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے جو کسٹوڈین جائیداد متروکہ حکومت مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈین کے سامنے پیش ہونا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ عارضی الاٹمنٹ بصورتِ جائیداد کا مطالبہ ہوسکتاہے ۔ جو فنانشل کمشنر سیٹلمنٹ حکومتِ مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔الاٹمنٹ بصورتِ نقد کا مطالبہ کسٹوڈین جائیداد متروکہ حکومتِ مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈین کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍ نومبر ۱۹۴۸ئ)
قرضوں کی صفائی والے مضامین کے متعلق بعض ضروری تصریحات
میں نے خدا کے فضل سے کسی فریق کی ناواجب پاسداری نہیں کی
گزشتہ ایام میں میں نے مقروض دوستوں کو توجہ دلانے کے لئے بعض مضامین لکھے تھے اور دوسری طرف ان مضامین میں قرض خواہوں کو بھی ان کی بعض ذمہ داریوںکی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ میرے ان مضامین پر جہاں بہت سے دوستوں کی طرف سے شکریہ اور خوشی کے خطوط موصول ہوئے ہیں،وہاں بعض مقروض احباب نے ان مضامین پرکسی قدر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے کہ تم نے مقروض لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا ہے۔حالانکہ جو لوگ لٹ لٹا کر آئے ہیںاورا نہیں اس وقت اپنے قرضوں کے واپس ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے ان پر ایسا ناواجب بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے ۔مگر سب سے زیادہ عجیب وغریب خط مجھے ایک ایسے مہربان کی طرف سے پہنچا ہے کہ جس نے اپنے خط کے شروع میں تو یہ لکھا ہے کہ ’’آپ نے مضامین کو شائع کرکے قرضہ کی ادائیگی کاراستہ بند کیا ہے کھولا نہیں‘‘اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ ’’خدارا اس قسم کی اشتہار بازی ترک فرما دیں ‘‘وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں میرے مضامین بالکل صاف اور واضح تھے۔اور ان میں ہر دو فریق کے حقوق کا خیال رکھا گیا تھا۔مگر بہرحال یہ بھی ضروری تھا کہ جن جن حالات میں ہماری شریعت کسی فریق کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ان حالات میں اس فریق کا زیادہ خیال رکھا جائے۔حقوق کے معاملہ میں رعایت کرنا مومن کا شیوہ نہیں اور سچے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرنے کے بغیر ہرحال میں حق بات اپنی زبان پر لائے اور حق راستہ پر گامزن ہواور خدا کے فضل سے ہمیں ایسی کامل ومکمل اور عدل وانصاف سے معمور شریعت ملی ہے کہ اس میں دوسرے لوگ تو الگ رہے مجرموں تک کے حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ کسی دوست کی دوستی یا کسی دشمن کی دشمنی مجھے صداقت اور دیانت کے راستہ سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو۔
میرے مضامین بالکل صاف تھے اور ہر شخص جس نے انہیں خالی الذہن ہو کر غور کے ساتھ پڑھا ہوگا۔وہ اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ان میں کسی فریق کی ناواجب رعایت نہیں کی گئی اور نہ ایک فریق کا حق چھین کر دوسرے فریق کو دیا گیا ہے۔ ان مضامین کا خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں آجاتا ہے جنہیں میں اپنے قارض اور مقروض دوستوں کے لئے درج ذیل کرتا ہوں۔
(۱)میں نے لکھا تھا کہ قرضہ لینے والوں نے گزشتہ فسادات میں بھاری نقصان اٹھایا ہے ،میرا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے لوگوں نے نقصان نہیں اٹھایا۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ قرضہ لینے والے دوست عموماََ کارخانہ دار یا دوکاندار یا دیگر جائیدادمنقولہ کے مالک تھے۔جس کی کفالت پر انہوں نے قرض لیا ہوا تھا۔اس لئے لازماََ انہیں دوسروں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔
(۲)ان مقروض صاحبان میں سے بعض کو پاکستان میں آکر ان کے سابقہ کارخانے یا دوکان یا زمین وغیرہ کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی جائیداد مل گئی ہے اور بعض کو ابھی تک کچھ نہیں ملا۔پھر وہ جنہیں کچھ جائداد مل گئی ہے۔ان میں سے بعض ایسی حالت میں ہیںکہ ان کی یہ جائیداد انہیں ابھی سے معقول آمد دے رہی ہے۔بلکہ بعض کی حالت تو پہلے سے بھی بہتر ہے۔مگر بعض ایسے ہیں کہ ابھی ان کی نئی جائیداد کافی انتظام چاہتی ہے اور یا تو وہ کچھ بھی آمد نہیں دے رہی اور یا نہایت قلیل آمد دے رہی ہے۔
(۳)اوپر کے حالات کے ماتحت میں نے لکھا تھا کہ جن مقروض دوستوں کی حالت اچھی ہے ان کا فرض ہے کہ اپنے قرض خواہوں کا قرضہ ادا کریں۔خواہ یکمشت اور خواہ بالا قساط ورنہ خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔لیکن جو مقروض دوست ابھی تک واقعی نادار ہیںاور قرضہ کی واپسی کی طاقت بالکل نہیں رکھتے اور حقیقتاً معذور ہیں۔ان کے متعلق ہماری شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ فنظرۃً اِلٰی میسرۃٍ یعنی ایسے لوگوں کو اس وقت تک مہلت ملنی چاہیئے کہ ان کے مالی حالات میں بہتری کی صورت پیدا ہو جائے۔پس اس قسم کے حقیقی معذوروں کو مطالبہ کرکے شرمندہ اور پریشان کرنا برکت کا موجب نہیں ہو سکتا۔
(۴)مگر اس کے مقابلہ پر بعض قرضہ دینے والے دوست بھی اس وقت ایسے ہیں کہ وہ اپنی قریباََ ساری پونجی دوسروں کو قرضہ دے کر ختم کر چکے تھے۔یا رہن وغیرہ کی صورت میں دوسروں کے سپرد کر چکے تھے اور اب وہ بالکل خالی ہاتھ ہیں اور نہ صرف خالی ہاتھ ہیں ۔بلکہ وہ اپنے ضائع شدہ مال کے مقابلہ پر عام حالات میں یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ پاکستان میں اپنے نام پر کوئی الاٹمنٹ کرالیں۔یہ لوگ اس وقت انتہائی تنگی کی حالت میں ہیں۔اور بد قسمتی سے ایسے لوگوں میں بعض ایسی بیوہ عورتیں بھی شامل ہیںجن کے سر پر اس وقت کوئی مرد پر سان حال نہیں۔میں نے لکھا تھا کہ اس قسم کے لوگ بہت ہمدردی کے مستحق ہیں اور مقروض صاحبان کو اس قسم کے لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔کیونکہ اگر قارض اور مقروض دونوں برابر کے تنگدست ہوں تو اسلام اور دیانت دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ اس تنگی کا بوجھ مقروض پر زیادہ پڑے اور قارض پرکم۔ورنہ مقروض شخص خدا کے سامنے کبھی بھی سرخرو نہیں سمجھا جاسکتا۔اور جہاں قرضہ دینے والا قرضہ لینے والے سے زیادہ تنگ دست ہو اور مقروض کی حالت نسبتاََ بہتر ہو۔وہاں تو مقروض کاقرض کی ادائیگی سے رکے رہنا صریح ظلم میں داخل ہے۔گو یہ علیحدہ بات ہے کہ ادائیگی یکمشت نہ ہو بلکہ بالاقساط ہو۔
(۵)میں نے ایک مخلصانہ تجویز کے رنگ میں یہ بات بھی پیش کی تھی کہ جہاں لوگ اپنی ضروریات کے لئے قرضہ لیتے ہیں۔وہاں ان کا فرض ہے کہ اپنے قارض کی تنگی کا خیال رکھتے ہوئے اس کا قرضہ اتارنے کے لئیے بھی قرضہ لیں ورنہ یہ دیانت کے خلاف ہوگا کہ ایک شخص اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنے کے لئے تو قرضہ لے مگر اپنے فاقہ کش قارض کا قرضہ اتارنے کے لئے اور اسے فاقہ سے بچانے کے لئے قرضہ نہ لے۔
(۶)ایک آخری بات میں نے یہ کہی تھی کہ اگر کسی مقروض کے حالات واقعی مجبوری کے ہوں (اور خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقی مجبوری کس کی ہے اور کس کی نہیں) کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے قرضخواہ کا قرضہ نہ اتارسکتاہوتو اسے چاہیئے کہ کم از کم قارض کے مطالبہ پر خوش اخلاقی کے ساتھ ہی پیش آئے اور معذرت کرکے مہلت کا خواہاں ہو۔بلکہ اگر قرض خواہ کی طرف سے کسی قدر سختی کا اظہار بھی ہو تو اسے بھی صبر اور ضبط نفس کے ساتھ برداشت کرے کیونکہ یہی ہمارے پاک نبی ؐکا مبارک اسوہ ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں لکھی تھیں۔اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں نے خدا کے فضل سے کسی فریق کی ناواجب پاسداری کا طریق اختیار نہیں کیا۔بلکہ اپنے علم کے مطابق اس معاملہ میں جو بھی اسلام کی تعلیم تھی وہ پوری پوری دیانتداری کے ساتھ پیش کردی ہے۔وَاللّٰہُ عَلٰی مَا اَقُوْلُ شَہِیْد۔
بالآخر میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے اپنے مضامین میںلکھاہے(جن کا خلاصہ اوپر درج کردیاگیاہے)وہ میں نے محض اصولی طور پر لکھاہے۔ورنہ انفرادی طور پر میں یہ نہیں جانتااور نہیں کہہ سکتا کہ کس معاملہ میں قارض حق پر ہے اور کس میں مقروض۔ ہوسکتا ہے کہ خدا کے نزدیک یا ان لوگوں کے نزدیک جنہیں انفرادی حالات کا صحیح علم ہے کسی کیس میں مقروض زیادہ حق پرہو۔اور اس کے مقابلہ پر قارض اتنی ہمدری کا حقدار نہ ہویاکسی کیس میں حالات اس کے الٹ ہوں۔بہر حال یہ ایسی باتیں ہیں کہ میں ان کے متعلق رائے لگانے کا حق نہیں رکھتابلکہ صرف اصولی بات ہی کہہ سکتا ہوں جو میں نے کہہ دی ہے۔آگے ہر قارض اور ہر مقروض کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ دوسرے فریق کے ساتھ اس کا سلوک کہاں تک حق وانصاف پر مبنی ہے۔اور یا پھر ایسے فیصلہ کے لئے قضا کا رستہ کھلا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ
نوٹ:-یہ سوا ل اگر کوئی قرضہ رہن کی صورت میں ہو تو شرعی فتوے کی رو سے مہرہو نہ جائیداد کے ضائع چلے جانے کی صورت میں زررہن پر کیا اثر پڑتا ہے۔ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔یہ سوال جماعت کے مفتی سے پوچھنا چاہیئے۔مگر ظاہر ہے کہ ا س مسئلہ کے بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں۔اور ہر پہلو الگ الگ جواب چاہتا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍نومبر ۱۹۴۸ئ)










قادیان کی مساجد
ہمارے دوستوں کی طرف سے دیکھ بھال اور صفائی کا انتظام
مولوی برکات احمد صاحب بی۔اے ناظر امور عامہ قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اور ملک صلاح الدین صاحب اور فضل الٰہی صاحب اور پندرہ بیس دوسرے دوست ۲۳؍ نومبر کو مقامی پولیس کو ساتھ لے کر قادیان کی مختلف مسجدوں کی دیکھ بھال اور صفائی کے لئے گئے۔انہوں نے مسجد محلہ دارالفضل کو صاف کیا اور اس کے غسلخانہ کو اینٹوں سے بند کر دیا جو مسجد کے ساتھ گندگی پھیلانے کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔مسجد نور کی چند کنگریاں تازہ تو ڑی ہوئی پائی گئیں۔اسی طرح مسجد محلہ دارلیسر کی دیوار پر غیر مسلم پناہ گزینوں نے پاتھیاں یعنی اپلے لگائے ہوئے تھے جو اتارکر دیوار کو صاف کیا گیا۔اس مسجد کی دیوار میں ایک شگاف بھی تھا جسے بند کردیا گیا ۔اس کے علاوہ مسجد دارالرحمت کی بھی صفائی کی گئی ۔مسجد دارالفضل کی ایک کھڑکی کو توڑاہوا تھا جسے اینٹوں سے بند کردیا گیا ہے۔یہ کام دو دن میں سر انجام پایا اور اس عرصہ میں مقامی سب انسپکٹر پولیس کے تعاون سے ایک مسلح پولیس مین ساتھ رہا۔
میں نے مولوی برکات احمد صاحب کو لکھاہے کہ قادیان میں جماعت احمدیہ کی انیس(۱۹)مسجدیں اور دوسرے مسلمانوں کی چار(۴) مسجدیں ہیں۔اس کے علاوہ قادیان میں سات قبرستان بھی ہیں ان سب کی دیکھ بھال اور صفائی کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍ نومبر ۱۹۴۸ئ)



خدارا مسلمانوں کو کمیونزم کی طرف نہ دھکیلو
عدم مساوات کا احساس اور چیز ہے اور کمیونزم کا مؤیّدہونا بالکل اور بات
موجودہ عدم مساوات کا صحیح علاج
آجکل دنیا میں کمیونزم یعنی نظام ِ اشتراکیت کا فتنہ بہت اہمیت حاصل کرگیا ہے اور اپنی جائے پیدائش یعنی مملکت ِروس سے نکل کردنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی نفوذ پیدا کررہاہے اور بدقسمتی سے پاکستان کی آبادی کا ایک حصہ بھی کمیونزم کے خیالات سے متاثر نظر آتا ہے۔لیکن اس جگہ مجھے کمیونزم کے فتنہ کے جواب میں کچھ تحریر کرنا مدنظرنہیں ہے۔یہ ایک علیحدہ اور مستقل مضمون ہے جس پر ہماری جماعت کی طرف سے اسلام کے کامل ومکمل مذہب سے اخذ کرکے کافی لٹریچر شائع کیا جا چکا ہے۔مثلاََ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کی معرکتہ آلارا تصنیف اسلام کا اقتصادی نظام وغیرہ۔ اسی طرح میرے بعض مضامین اور رسالوں میں بھی کمیونزم کے متعلق مختصر بحث آچکی ہے۔لیکن اس جگہ جو فتنہ میرے مدنظر ہے وہ خود کمیونزم کا فتنہ نہیں بلکہ یہ ضمنی فتنہ ہے کہ کئی لوگ نادانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کوبھی کمیونسٹ قرار دے رہے ہیں جو حقیقتاََ کمیونسٹ نہیں بلکہ صرف اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ موجودہ اسلامی سوسائٹی میں دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہے اور اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ان لوگوں کواسلامی سوسائٹی کی موجودہ بیماری کا احساس تو بے شک ہے اوروہ اس نقص کو دور ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن انہیں روس کے اشتراکی نظام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں مگر باوجود اس کے کئی لوگ بلکہ کئی ذمہ دار اخبارات بھی غلطی سے ایسے لوگوں کو کمیونسٹ قرار دے کر عملاً کمیونزم کی طرف دھکیل رہے ہیں،جس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگ کمیونسٹ نہ ہوتے ہوئے بھی آہستہ آہستہ کمیونزم کی طرف مائل ہو جائیں گے۔


علم النفس کا ایک لطیف نکتہ
ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ہی مبارک ارشاد ہے کہ :
من قال ھلک القوم وفھواھلکھم۔۱۱۸
یعنی جو شخص کسی قوم یا کسی پارٹی کے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ ہلاک ہوگئی۔وہ اس قسم کے الفاظ کہہ کر خود انہیں ہلاکت کے گڑھے کی طرف دھکیلتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک قول ایک نہایت گہری نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے۔اور یہ اسی قسم کی بات ہے کہ جیسے بعض اوقات ایک اچھے بھلے آدمی کو بیمار بیمار کہہ کر اس کے اندر اولًا بیماری کی حس اور با لآخربیماری کی حقیقت پیدا کردی جاتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم یونہی لوگوں کو کمیونسٹ کمیونسٹ کہہ کر کمیونزم کی طرف نہ دھکیلیں کیونکہ اس طرح ہم کمیونزم کا مقابلہ کرنے کی بجائے اسے بالواسطہ تقویت پہنچانے کا باعث بن جائیںگے۔
بیماری کا احساس اور چیز ہے اور اس کا علاج اور چیز
دراصل عدم مساوات کا احساس یعنی یہ احساس کہ اس وقت اسلامی سوسائٹی میں دولت اور املاک کی وہ منصفانہ تقسیم نہیں پائی جاتی جو ہونی چاہئے صرف ایک بیماری کے احساس کا رنگ رکھتاہے۔لیکن اس کے مقابل پر کمیونزم یعنی اشراکیت کانظام عدم مساوات کی بیماری کے احساس کا نام نہیں بلکہ اس بیماری کے ایک مخصوص قسم کے علاج کا نام ہے۔اور ظاہر ہے کہ یہ دونو باتیں ایک دوسرے سے بالکل جدااورمتغائرہیں۔جو شخص موجودہ اسلامی سوسائٹی میں عدم مساوات کا احساس رکھتا ہے۔اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اس کے دماغ نے ایک نقص کو محسوس کیا ہے۔جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اس کی آنکھ نے ایک بیماری کو دیکھا ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس نے اس نقص کے ازالہ اور اس بیماری کے علاج کے لئے کمیو نزم والے علاج کو بھی صحیح تسلیم کر لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے ذہن میں اس بیماری کا کوئی اور علاج موجود ہو۔مثلاََ یہ کہ وہ موجودہ اقتصادی نظام کوغیر اسلامی نظام سمجھتا ہواور اس کی جگہ صحیح اسلامی نظام قا ئم کرنے کا مؤیّد ہو۔یا یہ کہ وہ کمیونزم والے علاج کو تو رّدکرتا ہومگر اس کی جگہ کسی اور علاج کی تلاش میں ہو۔ پس یہ ہرگز درست نہیں کہ ہم عدم مساوات کے احساس کو کمیونزم کے ساتھ غلط ملط کر کے اپنے اندر ایک نئے فتنہ کا دروازہ کھول دیں۔
گرتے ہوئوں کو دھکا دینے کی بجائے انہیں
آگے بڑھ کر سنبھالنا چاہئے
ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے حالات میں گرتے ہوئوں کو دھکا دینے کی بجائے انہیں سنبھالنے کی تاکید فرمائی ہے اور آپ کا اپنا اسوئہ حسنہ اس معاملہ میں ہمارے لئے بہترین مشعل راہ ہے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ مسلمانوں کی ایک پارٹی کفار کی ایک زیادہ طاقتور پارٹی کے مقابلے سے ہٹ کر مدینہ میں واپس آگئی ۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا کہ یہ لوگ شرم اور ندامت کی وجہ سے مسجد نبوی کے ایک کونہ میں چھپے بیٹھے ہیںتو اس پر آپ فوراََ ان کے پاس پہنچے ۔اور ان سے جا کر پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں۔جس پر انہوں نے شرم کی وجہ سے سر نیچے ڈالے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ نَحْنُ الْفَرَّارُوْنَ یَارَسُوْلَ اﷲِ (یعنی یا رسول اللہ ہم لوگ بھگوڑے ہیں۔)تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گری ہوئی ہمتوں کو بلند کرنے اور ان کی دماغی رَو کا کانٹا بدلنے کے لئے فوراََ یہ دانشمندانہ الفاظ فرمائے ۔کہ لَا بَلْ اَنْتُمْ کَرَّارُوْنَ ۱۱۹ (یعنی نہیں نہیں بلکہ تم تو اس لئے پیچھے ہٹے تھے کہ دوبارہ زیادہ زور کے ساتھ حملہ کرو)اس بظاہر چھوٹی مگر بہ باطن حکمت ودانائی سے معمور بات نے ایک بجلی کے بٹن کی طرح جو آنِ واحد میں اپنے ماحول کو روشن کر دیتا ہے ان کی گری ہوئی طبیعتوںکو اوپر اٹھا دیااور وہ یہ کہتے ہوئے اچھل کر کھڑے ہوگئے کہ یا رسول اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضرہیں۔اس واقعہ سے ہمیں موجودہ بحث میںیہ بھاری سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی کمیونزم کی طرف جھک رہا ہو توتب بھی ہمیں چاہئے کہ حکیمانہ رنگ میں اس کی دماغی رو کو بدلنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ معصوم لوگوں کو بھی محض عدم مساوات کے احساس پر ہی کمیونزم کی طرف دھکیلنا شروع کردیں۔موجودہ عدم مساوات کا احساس تو کثیرالتعداد لوگوں میں پایا جاتا ہے اور فی الجملہ وہ درست بھی ہے مگر اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم انہیں بلاوجہ کمیونسٹ کہہ کر آگ کے گڑھے میں دھکیل دیں۔بلکہ یہ نتیجہ ہونا چاہئے کہ ہم ان کے سامنے موجودہ نقص کا صحیح علاج پیش کریں۔
عدم مساوات کی مرض کا صحیح علاج
اب رہا یہ سوال کہ وہ صحیح علاج کیا ہے ۔سو گو یہ اس مضمون کے بیان کرنے کا موقع نہیں ۔مگر اختصار کے رنگ میں صرف اس قدر بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام خدا کے فضل سے ایک کامل ومکمل مذہب ہے۔جس میں ہر بیماری کاعلاج پایا جاتا ہے ۔اور خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں موجودہ عدم مساوات کے صحیح علاج اور کمیونزم کے خطرات کے متعلق کافی مواد موجود ہے۔مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں لوگ اسلام کی معروف تعلیم کو بھی بھولے ہوئے ہیں اور گھر کے پاک اور بھرپور چشمہ کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کے ناصاف پانیوں سے اپنا جام بھر نا چاہتے ہیں۔ بہرحال اس معاملہ میں اسلام کی معرو ف تعلیم کا خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں آجاتا ہے۔
(۱)اپنی وسعت کے لحاظ سے نمبر اول پر اسلام کا قا نون ورثہ ہے ۔جس کی وجہ سے ہر مالدار اور ہر صاحب املاک کی دولت اس کی وفات پر صرف بڑے بیٹے یا صرف نرینہ اولاد کو ہی نہیں جاتی بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں اور بیوی اور ماںاور باپ وغیرہ جملہ ورثا کوبحصہ رسدی پہونچتی ہے ۔اور اس طرح ملکی دولت کے سمونے کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے ۔اور یہ نہیں ہوتا کہ خاندانوں کا ایک حصہ تو دولت مند ہوجائے اور دوسرا حصہ غربت میں مبتلا رہے۔
(۲)زکوٰۃکا نظام جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ زریں ارشاد فرماتے ہیں ۔کہ
تُؤ خَذُمِنْ اَغْنِیَا ئِھِمْ وَتُرَدُّ اِلٰی فُقَرَائِھِمْ۔۱۲۰یعنی زکوٰۃ وہ ٹیکس ہے جو دولتمندوں کی دولت پر اس لئے لگایا جاتا ہے کہ ان کی دولت کا ایک حصہ کاٹ کرغرباء میں تقسیم کیا جائے۔جو دولت کے پیدا کرنے میں امیروں کے پہلو بہ پہلو کام کرتے ہیں۔یہ ٹیکس مختلف حالات کے ماتحت اڑھائی فیصدی سے لے کر بیس۲۰ فیصدی تک پہنچتا ہے اور پھر یہ ٹیکس صرف نفع پرہی نہیں لگتا بلکہ سرمایہ پر بھی لگتاہے۔
(۳)زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقہ وخیرات کی تعلیم جس سے قرآن شریف اور حدیث بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے متعلق حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ رمضان میں جو کہ غربا ء کی خاص ضرورت کا زمانہ ہوتا ہے اوراس کے بعد عید بھی آنے والی ہوتی ہے،اس طرح صدقہ کرتے تھے کہ گویا ایک تیز آندھی چل رہی ہے جو کسی روک ٹوک کو خیال میں نہیں لاتی۔
(۴)سود کی ممانعت اور سود وہ *** ہے جس کی وجہ سے ملک کی دولت سمٹ سمٹ کر چند لوگوں کے ہاتھ میں جمع ہو جاتی ہے۔بے شک موجودہ زمانہ میں سود کا جال وسیع ہو جانے کی وجہ سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ شاید سود کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا۔مگر یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے جو موجودہ ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ورنہ جب مسلمان نصف دنیا سے زائد حصہ پر حکمران تھے اس وقت سود کے بغیر ساری تجارتیں چلتی تھیںاور انشاء اللہ آئندہ بھی چلیں گی۔
(۵)جو ئے کی ممانعت ۔جوااوّل تو لوگوں میں بیکاری کی عادت پیدا کرتاہے۔اور دوسرے مال کمانے کو محنت اور کوشش اور ہنر پرمبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پرمبنی قرار دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دولت کی ناواجب تقسیم کا رستہ کھلتا ہے۔
(۶)اسلام کی یہ تعلیم کہ ہر اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے کم ازکم یہ چیزیں مہیا کرے(الف )خوراک (ب) کپڑا (ج ) مکان (د) اقل تعلیم کا انتظام اور (ھ)غیر معمولی بیماریوں کا علاج۔
(۷)اسلام کی یہ تعلیم کہ ترقی کرنے کے دروازے ہر مسلمان کے لئے یکساں کھلے ہیں۔اور اس کے لئے کوئی قومی یا نسلی یا خاندانی امتیاز ملحوظ رکھنا جائز نہیں ۔بلکہ ہر شخص جو اہل ہے آگے آسکتا ہے اور اسے آگے آنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔
(۸)اسلام کی مساوات کی عام تعلیم مثلاََ یہ کہ ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھو۔نمازوں میں امیرو غریب بغیر کسی امتیاز کے اکٹھے کھڑے ہوں ۔حج میں امیروغریب تمام امتیازات کو قطعی طور پر مٹادیں۔امراء اپنے کھانے میں سے اپنے غریب نوکروں کو حصہ دیں۔اور انہیں اس کھانے میں شریک کریںجو وہ کھاتے ہیں۔کوئی نوکر اس لئے نہ رکھیں کہ کوئی کام ایسی ادنیٰ نوعیت کا ہے جسے آقا نہیں کرسکتا۔بلکہ اس لئے رکھیں کہ کام اتنا ہے کہ آقا اسے خود اکیلا نہیں کر سکتا۔امراء کی دعوتوں میں غربا ء کو شریک کرنے کی تحریک ۔ وغیرہ وغیرہ
مؤخرالذکر تعلیم اس غرض سے ہے کہ تا عملی افتراق کے دور کرنے کے علاوہ مسلمانوںکے دماغوں میں سے بھی ایک دوسرے سے تفریق اور امتیاز کے خیالات کو دور کیاجائے کیونکہ اصل بیماری دماغ سے پیدا ہوتی ہے۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حکومت اور ملک کا پریس اور ملک کے ذمہ دار لوگ اوپر کی تعلیم پر عمل پیرا ہو جائیں تو اس کے ذریعہ سے بھاری اصلاح پیدا ہوسکتی ہے۔
حقیقی مساوات سے کیا مراد ہے۔
بالآخر میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں میں نے مساوات کالفظ استعمال کیا ہے وہاں میری یہ مراد نہیں کہ ہر جہت اور ہر پہلو سے ہر شخص ہر دوسرے شخص کے برابر ہو ۔ایسی مساوات صرف کرسی نشین فلسفیوں کے تخیل میں پائی جاتی ہے اور دنیا کے کسی حصہ میں اس کا وجود نہیں ملتا اور نہ ہی نیچر میں اس کی کوئی مثال نظر آتی ہے ۔بلکہ مزعومہ مساوات کے سب سے بڑے حامی ملک روس میں بھی اس قسم کی خیالی مساوات کا وجود نہیں پایا جاتا ۔پس میں نے جب مساوات کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے لغوی مساوات مراد نہیں بلکہ ایسی مساوات مراد ہے کہ جس میں سوسائٹی کے مختلف طبقات میں اتنا فرق نہ پیدا ہونے پائے کہ گویا ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے مقابل پر ایک جدا دنیا میں بس رہا ہے۔اور قوم کے مختلف حصوں کے درمیان گویا ایک خلیج پیدا ہو جائے اور اخوت اور ہمدردی اور تمدنی اور سماجی مساوات کے جذبات مفقودہو جائیں۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے ترقی کرنے کا دروازہ یکساں کھلا ہو۔ورنہ جیسا کہ میں لکھ چکاہوں لغوی معنوں میں مساوات تو ایک بالکل خیالی چیز ہے جو نہ روس میں پائی جاتی ہے اور نہ کسی اور جگہ ۔اور نہ وہ کہیں پائی جاسکتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں محض عدم مساوات کا احساس رکھنے والے لوگوں کو خواہ مخواہ کمیونسٹ کہہ کہہ کر کمیونسٹ نہیں بنانا چاہیئے۔بلکہ اس بیماری کے اس علاج کو اختیار کرنا چاہیئے۔جسے اسلام پیش کرتاہے اور جس سے ہماری مقدس کتاب قرآن کریم اور ہمارے مقدس نبیؐ (فداہٗ نفسی ) کے اقوال بھرے پڑے ہیں۔
واٰخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین۔
نوٹ۔میں نے اس مضمون میں کمیونزم کے اصولی نظام پر کوئی جرح نہیں کی۔اور نہ ان اعتراضوں کا ذکر کیا ہے جن سے روسی اشتراکیت کی حقیقت عریاں ہو کر سامنے آجاتی ہے۔کیونکہ یہ اس کا موقع نہیں تھا۔مگر جو دوست چاہیں وہ اس موضوع پر ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔اس لٹریچر کے مطالعہ سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جو چیز اوپر سے اتنی صاف اور دلکش نظر آتی ہے اس کا اندرونہ کتنے بھاری نقصانات اور خطرات سے بھرا ہوا ہے۔(مطبوعہ الفضل ۳۰؍نومبر ۱۹۴۸ئ)
عزیزہ طیّبہ بیگم سلَّمہا کے لئے دُعا کی جائے
میری بھانجی عزیزہ طیّبہ بیگم سلَّمہا (بیگم عزیز مرزا مُبارک احمد )کا کل بروز بدھ (یعنی آج۔ ایڈیٹر) بوقت دس بجے صبح لیڈی ولنگڈن ہسپتال لاہور میں آپریشن ہوگا۔آپریشن نازک ہے۔سب بزرگوں اور دوستوں سے درخواست ہے کہ آپریشن کی کامیابی اور عزیزہ کی صحت اور اولاد صالح کے لئے دعا فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم دسمبر۱۹۴۸ئ)








نومبر ۱۸۹۳ء تک بیعت کرنے والے بزرگ توجہ فرمائیں
محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الٰہ دین بلڈنگ سکندرآباد ریاست حیدر آباد دکن اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے اعلان کرکے اس بات کا پتہ لوںکہ اس وقت نومبر ۱۸۹۳ء تک بیعت کرنے والے صحابیوں میں سے کون کونسے دوست خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔سو میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ۱۸۹۳ء میں یا اس سے قبل بیعت میں شامل ہو چکے تھے۔وہ مجھے بذریعہ خط مطلع فرمائیںگے تاکہ میں شیخ صاحب موصوف کو اطلاع دے سکوں ۔شیخ صاحب کا یہ خیال ہے کہ اس وقت صرف چار ایسے صحابی زندہ ہیں ۔مگر میرا خیال ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے۔مثلاََ حضرت ام المومنین مدظلہا العالی کے علاوہ محترم پیر افتخار احمد صاحب اور محترم پیر منظور محمد صاحب اور حضرت اماں جی صاحبہ (یعنی حرم حضرت خلیفہ اوّلؓ)اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور محترم میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی اور خود محترم شیخ صاحب عرفانی اور غالباََ محترم بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی اور محترم بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب اور محترم ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری اور محترم میاں محمد الدین صاحب کھاریاں اور اس طرح کئی اور دوست اس زمانہ سے پہلے کے بیعت شدہ ہیں۔بہرحال امید ہے کہ ایسے تمام دوست مجھے اطلاع دے کر ممنون فرمائیںگے۔اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کی عمروں اور ان کے افاضات میں برکت عطا فرمائے۔آمین۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)




قادیان سے باہر فوت ہونے والے مو صی صاحبان
کے متعلق اطلاع دی جائے
جو موصی صاحبان فسادات کے بعد قادیان سے باہر پاکستان میں فوت ہوئے۔خواہ وہ قادیان کے باشندے تھے یا کہ کسی اور جگہ کے ان کے ورثاء مہربانی کرکے مجھے ان کے ناموں اور پتوں وغیرہ کے متعلق اطلاع دے کر ممنون کریں۔یعنی ان کانام، ان کے والد کا نام، فوت ہونے اور دفن ہونے کی جگہ اور فوت ہونے کی تاریخ۔اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو وصیت کا نمبر بھی درج کر دیا جائے۔ورنہ وہ چنداں ضروری نہیں۔یہ فہرست اس لئے درکار ہے کہ تا دعاکی تحریک کی غرض سے ایسے اصحاب کے کتبے قادیان اور ربوہ میں لگائے جاسکیں۔یہ بھی لکھ دیا جائے کہ آیاوہ امانتاََ دفن ہوئے ہیں یا کہ نہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)






مسمات بلقیس بی بی بنت عبدالرحیم صاحب سکنہ شہر امرتسر کہاں ہے
مسمات بلقیس بی بی بنت عبدالرحیم صاحب سکنہ قلعہ بھنگیاں امرتسر شہر عمر تیرہ چودہ سال ۲۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ڈیرہ بابا نانک کے قریب سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی تھی اور ابھی تک وہ لاپتہ ہے۔اگر وہ کسی ذریعہ سے پاکستان پہنچی ہو تو اپنے موجو دہ پتہ سے جلد اطلاع دے۔اس کے والدین اس کی تلاش میں ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)








قادیان کے دوست خیریت سے ہیں
اخبار سٹیٹسمین کے نمائندہ کی قادیان میں آمد
احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ الحمدللہ قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں۔اور اپنے اس دینی اور روحانی پروگرام کو پورا کر رہے ہیںجو ان کے لئے مقرر ہوچکا ہے۔بعض دوست جو بیمار ہوگئے تھے وہ اب خدا کے فضل سے رو بصحت ہیں۔احباب اپنے قادیان کے بھائیوں کو جو اس وقت گویا ہمارے لئے دوسری دنیا میں بس رہے ہیں اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔
اس وقت قادیان کا جو حصہ جماعت احمدیہ کے قبضہ اور استعمال میں ہے وہ مسجداقصیٰ سے لے کر دفاتر صدر انجمن احمدیہ اور مسجد مبارک اور دارا لمسیح اور مدرسہ احمدیہ اور مہمان خانہ اور لنگر خانہ سے ہوتا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے باغ اور مقبرہ بہشتی تک پہنچتا ہے۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا مکان بھی اسی حلقہ میں شامل ہے۔
افسوس ہے کہ ابھی تک قادیان میں کانوائے بھجوانے کا انتظام نہیں ہوسکا۔اس کے لئے مسلسل کوشش جاری ہے مگر ابھی تک حکومت ہندوستان نے اجازت نہیں دی۔
قادیان کے جلسہ سالانہ کے متعلق یہی فیصلہ ہوا ہے کہ وہ انشااللہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوگا۔جس کے لئے قادیان کے دوست پروگرام مرتب کررہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ کے دوران میں اخبار سٹیٹسمیندہلی کے ایک نمائندہ صاحب قادیان گئے۔اور وہاں امیر جماعت احمدیہ مقامی اور مولوی برکات احمد صاحب اور ملک صلاح الدین صاحب اور عزیز مرزا وسیم احمد سلمہ سے مل کر حالات دریافت کرتے رہے۔ان کی رپورٹ کو اخبار سٹیٹسمیندہلی نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۶؍ نومبر ۴۸ء میں بہت نمایاں کرکے صفحہ اول پر شائع کیا ہے۔اس رپورٹ میں سٹیٹسمینکے نمائیندہ نے اپنے چارتاثرات خصوصیت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔
(۱)قادیان میں مقیم احمدیوں کا مخصوص دینی اور روحانی ماحول جس میں یہ بظاہر دنیا سے کٹے ہوئے لوگ اس وقت سرشار نظر آتے ہیں۔
(۲)ہمارے قادیان کے دوستوں کی غیرمعمولی مشکلات اور قربانیاں جن کا سلسلہ گزشتہ فسادات سے شروع ہوااور ایک حد تک اب تک چل رہا ہے۔
(۳)ان مشکلات کے باوجود ان کا انتہائی صبرواستقلال کے ساتھ قادیان میں بیٹھے رہنا اور اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑناحتیٰ کہ اس غیر معمولی صبرو استقلال کودیکھ کر بعض اوقات ان پر ظلم و تشدد کرنے والے لوگ بھی شرما جاتے ہیں۔
(۴)قادیان کی پرانی غیر مسلم آبادی پر جماعت احمدیہ کے حسن سلوک کا اچھا اثر جو قادیان میں جماعت کے طاقت کے زمانہ سے لے کر موجودہ کمزوری کے زمانہ تک یکساں قابل تعریف رہا ہے۔
اَلْفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
‎(مطبوعہ الفضل ۴؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)









پاک اولاد پیدا کرنے کا نسخہ
ہر خاوند اور ہر بیوی اس نسخہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے
دنیا میں ہر شریف اور ہر دیندار انسان کو پاک اور صالح اولاد پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔اور طبعاََ یہ خواہش ہماری جماعت کے افراد میں زیادہ پائی جانی چاہئیے کیونکہ وہ دینداری اور طہارت کی قدر کو دوسروں کی نسبت بہت زیادہ جانتے اور زیادہ پہچانتے ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ کوئی بات محض خواہش سے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے حصول کے لئے ان روحانی اور جسمانی ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے جو خدا کے ازلی قانون میں اس کے لئے مقرر کردئیے گئے ہیں۔
اوپر کے اصول کے ماتحت غور کیا جائے تو اچھی اور پاک اولاد پیدا کرنے کے لئے دو قسم کے اسباب ضروری نظر آتے ہیں۔اوّل وہ اسباب جو بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہ ثابت ہے کہ بچہ اپنے ماں باپ کے رجحانات اور اخلاق سے حصہ لیتا ہے ۔اور
دوم وہ اسباب جو بچہّ کی پیدائش کے بعد اس کی تعلیم وتربیت وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مجھے اس جگہ مختصر طورپر صرف پہلی قسم کے اسباب کا ذکر کرنا مدنظر ہے جن کا تعلق زمانہ ماقبل ولادت کے ساتھ ہے۔سویہ اسباب بھی دوقسم کے ہیں۔
اوّل:وہ اسباب جو ماں باپ یا ان سے بھی پہلے کے آباؤاجداد کے اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ فطری قویٰ اور فطری رجحانات کے لحاظ سے بچہ اپنے والدین اور والدین کے آبائو اجداد کے اخلاق کا وارث بنتا ہے۔چنانچہ جہاں قرآن شریف نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر کیا ہے وہاں اس حقیقت کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ:
۱۲۱
یعنی اے رسول تو نسلاََ بعدَ نسلٍ ایسے لوگوں کی پشتوں میں سے نکلا ہے جو اخلاق کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلتے رہے ہیں۔بے شک اس آیت کے اور معنی بھی ہیں لیکن اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مضمر ہے جو اوپر بیان کیا گیاہے۔اور بعض پرانے مفسرین نے بھی اس اشارہ کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔بہر حال یہ مسلّم ہے کہ بچہّ اپنے اخلاق میں اپنے والدین اور آبائو اجداد کا ورثہ لیتا ہے۔پس ضروری ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے والدین اپنے اخلاق کو درست کریں اور اپنے اندر وہ پاک باطنی اور دینداری کا جذبہ پیدا کریں جس کا اثر لازماََ اولاد میں بھی پہنچتا ہے۔
دوسری قسم اسباب کی جو زمانہ ماقبل ولادت سے تعلق رکھتی ہے وہ ہے جس کا تعلق اس قلبی اور ذہنی کیفیت کے ساتھ ہے جو خاص خلوت کے اوقات میں خاوند اور بیوی میں پائی جاتی ہے اور دراصل اسی پہلو کی طرف اشارہ کرنا میرے اس مضمون کی غرض وغایت ہے۔یہ بات دینی اور طبّی ہر دو لحاظ سے ثابت ہے کہ بچہّ صرف والدین کے سابقہ اخلاق سے ہی حصّہ نہیں پاتا بلکہ اس وقت کے جذبات سے بھی حصّہ لیتا ہے کہ جب خاوند اور بیوی اپنے مخصوص تعلق کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں۔چنانچہ کچھ عرصہ ہوا یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ولایت میں ایک انگریز عورت کے گھر ایک ایسا بچہّ پیدا ہواجو اپنی شکل وصورت وغیرہ میں بالکل ایک حبشی بچّہ معلوم ہوتا تھا۔ اس پر علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور چونکہ عورت کی پاک دامنی شک وشبہ سے بالاتھی اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جانے لگیں جن کے نتیجہ میں انگریز والدین کے بچہ نے حبشی خدوخال اور حبشی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا تھا۔آخر پتہ لگا کہ جس ہوٹل کے کمرہ میں یہ میاں بیوی اکٹھے ہوئے تھے اس میں ان کی چارپائی کے سامنے ایک انگریز اور حبشی مرد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔یہ انگریز اور حبشی کشتی لڑ رہے تھے اور تصویر میں حبشی مرد نے انگریز کو زمین پر گرا کر اس پر غلبہ پایا ہوا تھا۔ان دونو ںمیاں بیوی نے اس تصویر کو دیکھا اور اس نقشہ کا ان کے دل پر ایسا گہرا ثر پیدا ہوا کہ اس خلوت کے نتیجہ میں جو بچہّ پیدا ہوا وہ حبشی صورت اختیار کر گیا۔
لیکن موجودہ زمانہ کے ترقی یافتہ لوگوں کی اس بیسویں صدی کی ایجاد کے مقابلہ پر ہمارے آقا ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ تعلیم دی تھی کی جب خاوند اور بیوی خلوت کی حالت میں اکٹھے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اس وقت اپنے خیالات کو پاک بنانے کی غرض سے یہ دعا پڑھا کریں کہ :
اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَجَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا
یعنی اے ہمارے خدا!تو ہم دونو کو شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ اور اسی طرح توجو اولاد ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے محفوظ رکھ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگرکوئی خاوند یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی اس وقت کی اولاد کو شیطانی تصرفات سے محفوظ رکھے گا۔اب دیکھو کہ یہ کیسا آسان نسخہ ہے جو ہمارے مہربان آقا نے ہمارے ہاتھ میں دیدیا ہے جسے اختیا ر کر کے ہم خدا کے فضل سے پاک صالح اولاد پیدا کر سکتے ہیں اور اگر آگے ہماری اولاد بھی اس نسخہ پر کاربند ہو تو نیک اولاد کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو خدا کے فضل سے جماعت کی بنیاد وں کو ہمیشہ کے لئے پاکیزگی اور طہارت پر استوار کرسکتا ہے ۔کاش ہمارے بھائی اور بہنیں اس نکتہ کو سمجھیں اور اس سے وہ عظیم الشان فائدہ اٹھائیں جس کا یہ نسخہ حقدار ہے۔
مگر میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس نسخہ کا استعمال اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہ بظاہر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے دراصل چونکہ خاوند بیوی کا مخصوص تعلق ایک خاص نفسانی جوش کا حامل ہوتا ہے اس لئے اس وقت اس قسم کی دعا زبان پر لانا ہرگز آسان نہیں ہوتا۔ہمارے حکیم وعلیم خد ا نے روح اورجسم کا قانون کچھ اس رنگ میں بتایا ہے کہ ان میں سے ایک کی مضبوطی دوسرے کی کمزوری بن جاتی ہے اور ایک کی کمزوری دوسرے کی طاقت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔پس جب نفس یعنی جسم کے جذبات زور پر ہوں تو روح کو ابھارنا آسان نہیں ہوتا۔اور جب روح ابھرنے کے لئے تیار ہوتی ہے تو جسم کی طاقتیں ڈھیلی پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔لہذاجب تک پہلے سے تیاری نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو اس کا عادی نہ بنالے اس وقت تک اس دعا کا دل سے نکلنا تو الگ رہازبان پربھی اس کے الفاظ کا لانا مشکل ہوتاہے۔
مجھے یاد ہے کہ (اور نیک غرض کے ماتحت حق بات کہنے میں شرم نہیں ہونی چاہیئے)کہ جب میں ابھی بالکل نوجوان تھا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشادکو حدیث میں پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہا تو اولاََ تو میں اس وقت یہ دعا ہی زبان پر نہ لاسکا اور جب بالآ خر کوشش کے ساتھ اسے زبان پرلایا تو ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ گویا اس وقت میری جسمانی کیفیت سلب ہو گئی ہے۔اُس وقت مجھے یہ نکتہ حل ہوا کہ حقیقتاََیہ چھوٹی سی آسان دعا بھی کوئی منترجنتر نہیں ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ امید موہوم ہے کہ انسان عین وقت پر جبکہ نفسانی جذبات کا ہجوم ہوتا ہے یہ پاک اور مطہر دعازبان پر لاسکے گاوالشاذکالمعدوم۔خیر اس کے بعد مجھے خدا نے اس دعا کی توفیق عطا کی اور نیک اولاد تو بعد کی بات ہے (وَاَرْجُوْامِنَ اللّٰہِ خَیْراً) میں نے اس دعا کو، نفس کے جذبات کو بھی مناسب حدود کے اندر رکھنے میں بہت مفید پایا۔
بہرحال میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے یہ آسان (گو استعمال کے لحاظ سے قدرے مشکل)نسخہ رکھناچاہتا ہوں جسے اختیار کرکے وہ اپنے لئے پاک اور صالح اولاد کا رستہ کھول سکتے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدّی کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو میاں بیوی خلوت کے وقت میں یہ دعا پڑھیں گے تو اگر اس وقت ان کے لئے کوئی اولاد مقدر ہوگی تو خدا کے فضل سے یہ اولاد شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گی۔میں اپنے ناظرین کی سہولت کی غرض سے اس جگہ پوری حدیث دہرا دیتا ہوں۔ہمارے آقا (فداۂ نفسی)فرماتے ہیں:۔
اما لوانّ احد کم اذا ارادان یاتی اَھْلَہٗ قال بسم اللّٰہ اللّہمَّ جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا ثم قدِّر بینھما فی ذالِکَ وَلَدٌ لَمْ یضرہ الشیطان ابداََ ۔۱۲۲
یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنا ہر کام خدا کے نام پر شروع کرتا ہوں۔اے میرے خدا تو ہم دونو میاں بیوی کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھ اورجو اولاد تو ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ ۔
تو اگر اس خلوت کے نتیجہ میں ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہوگا تو یہ بچہ خدا کے فضل سے ہمیشہ اس بات سے محفوظ رہے گا کہ شیطان اسے کوئی ضرر پہنچا سکے۔
دوستو یہ کتنا آسان نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی ہونے والی اولاد کو پاک بنا سکتے ہیں۔مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟اور اگر مرد کے ساتھ عورت بھی اس دعا میں شریک ہو جائے تو پھریہ سونے پر سہاگہ ہے۔پس میں یہ عرض کروں گا کہ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ دسمبر۱۹۴۸ئ)






عزیزہ طیّبہ بیگم کا آپریشن
خدا کے فضل سے وہ بخیریت ہیں
میں نے الفضل میں عزیزہ طیبہ بیگم سلمہا (بیگم عزیز مرزا مبارک احمد ) کے لئے دعا کی تحریک کی تھی اور لکھا تھا کہ عزیزہ موصوفہ کا ہسپتال میں آپریشن ہونے والا ہے۔چونکہ اس بارے میں متعدد بھائیوں اور بہنوں کے خطوط آرہے ہیں۔اس لئے ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم سلمہا کے منشاء کے مطابق احباب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ عزیزہ طیبہ بیگم کا یہ آپریشن دراصل بچہ کی ولادت کے تعلق میں تھا کیونکہ حالات غیر معمولی تھے اور ڈاکٹروں کی رائے میں آپریشن کے بغیر ولادت خطرناک تھی۔ سوگوآپریشن کے نتیجہ میں بچہ مردہ پیدا ہواہے۔مگر خدا کے فضل سے ماں کی طبیعت اچھی ہے اور وہ آہستہ آہستہ روبصحت ہو رہی ہے۔طیبہ بیگم کو اس قسم کا حادثہ اوپر تلے چوتھی دفعہ پیش آیا ہے۔احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرمائے اور اسے آئندہ زندہ رہنے والی صالح اولاد سے نوازے ۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)





جماعت کی تعداد کو کثرتِ اولادکے ذریعہ بھی ترقی دو
بے اولاد لوگوں کوبھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں
اسلام کا خدا وسیع قدرتوں کا مالک ہے
خدا ئی جماعتیں ہر لحاظ سے ترقی کرتی ہیں یعنی دین کے لحاظ سے بھی اور دنیا کے لحاظ سے بھی۔ پھر دین کے میدان میں علم کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی اوردنیا کے میدان میں تعداد کے لحاظ سے بھی اور طاقت کے لحاظ سے بھی اور مال ودولت کے لحاظ سے بھی وغیرہ وغیرہ ۔اور گوان کے قیام کی اصل غرض وغایت دین اور تعلق باللہ میں ترقی کرنا ہوتی ہے مگر یہ بات خدا کی شان ربوبیت سے بعید ہے کہ وہ ایک خاص جماعت کو قائم کرکے اس کی ترقی کو صرف ایک دائرہ کے اندر محدود کردے بلکہ وہ جب انعام کرنے پر آتا ہے تو پھر اپنے انعاموں کو گویا دونو ہاتھوں سے بکھیر تا ہے اور ترقی کے کسی میدان کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔یہی سلوک انشاء اللہ ہماری جماعت کے ساتھ ہوگا۔گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی ترقی جمالی صفات کے ماتحت آہستہ آہستہ ہوگی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
۔۱۲۳
دینی اور روحانی ترقی کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ اہم اور زیادہ وسیع الاثر ترقی تعداد کی ترقی ہے کیونکہ اس ترقی کے ساتھ بہت سی دوسری ترقیاں بھی وابستہ ہوتی ہیں جو تعداد کی ترقی کے بغیر حاصل کرنی محال ہیں اور میرا موجودہ مضمون اسی نوع کی ترقی کے ساتھ رکھتا ہے یعنی یہ کہ جماعت احمدیہ کی تعداد کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے۔
سواصولی رنگ میں اس قدر تو ظاہر ہے کہ تعدا د کی ترقی کے دوہی خاص ذریعے ہیں۔اوّل تبلیغ۔ یعنی دعوت الی الحق کے طریق پر جماعت کی تعداد کو بڑھانا اور لوگوں کو احمدیت کے عقائد سمجھا کر اور ان کی صداقت کا قائل کرکے جماعت احمدیہ میں شامل کرنا۔اور دوسرا طریق کثرتِ اولاد کا ہے۔ یعنی ایسے ذرائع کو اختیارکرنا جن کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی نسل زیادہ سے زیادہ ترقی کرسکے اور وہ بڑی سرعت کے ساتھ ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے آٹھ ہوتے جائیں بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی دعا کے الفاظ ہیں:
بابرگ وبار ہو ویں۔اِک سے ہزار ہوویں۔
مجھے اپنے اس مضمون میں صرف مؤ خر الذکر ذریعہ ترقی کے متعلق کچھ عرض کرناہے۔ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے دوست اس کی طرف سے کچھ غافل ہوتے جارہے ہیں۔میری یہ بات شاید بعض لوگوں کو عجوبہ محسوس ہوکیونکہ وہ خیال کرسکتے ہیں کہ اولاد تو ایک طبعی فعل ہے اس میں کسی کے غافل ہونے یا نہ ہونے کا کیا دخل ہوسکتا ہے مگر یہ خیال درست نہیں ۔انسان کی توجہ کا اثر لازماََ اس کے اعمال پر پڑتا ہے اور جو قوم اس نکتہ کو نہ سمجھتی ہو یا کم ازکم اس کی قدر کو نہ پہچانتی ہو کہ نسل کی ترقی میں کتنی برکت ہے تو آہستہ آہستہ اس کے مزاج پر اس ذہنیت کا ایسا نفسیاتی اثر پڑتا ہے کہ وہ بالآخر زیادہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی اور موجود ہ زمانہ میں تو میں دیکھتا ہوں کہ ایک طبقہ پر یورپ کے اس فرسودہ فلسفہ کا بھی اثر پڑرہا ہے کہ زیادہ اولاد پیدا نہ کرو کیونکہ اس کے نتیجہ میں افلاس پیدا ہوتا ہے اور اولاد اچھی تربیت سے محروم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ وہ فاسد نظر یہ ہے کہ جسے ہمارا علیم وقدیر خدا نام لے کر رّد کرتا اور خصوصیت سے ناجائز قرار دیتا ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱۲۴
یعنی اپنی اولاد کو (خواہ وہ موجودہے یا ہونے والی ہے) افلاس اور غربت کی وجہ سے قتل نہ کرو۔کیا تم اس نکتہ کو بھول جائو گے کہ تمہاری اولاد کو اور خود تمہیں بھی رزق دینے والے تو ہم ہیں۔پس اس طریق سے پرہیز کرو اور یاد رکھو کہ اولاد کوقتل کرنا خدا کی نظر میں ایک بھاری خطا ہے۔خطا کے لفظ میںیہ اشارہ بھی ہے کہ یہ فعل صرف گناہ ہی نہیں بلکہ خود تمہاری قومی ترقی کے لئے بھی ضرر رساں اور مہلک ہے۔
بیشک حدیث میں عزل یعنی برتھ کنٹرول کے جوازکے متعلق کچھ اشارہ پایا جاتا ہے۔مگر کوئی سچّی حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ۔پس اس قرآنی آیت کی روشنی میںاس حدیث کے یہی معنی سمجھے جائیں گے کہ افلاس کے خطرہ کی وجہ سے توبہرحال برتھ کنٹرول جائز نہیں ہاں طبّی ضرورت کے ماتحت جب کہ ماں کی جان کا خطرہ ہو وغیرہ ذالک تو وقتی طور پر کنٹرول اختیار کیا جاسکتا ہے مگر پھر بھی پوری حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کے طریق کو بالعموم پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا اور اب تو مغربی ممالک کی عیسائی قومیں بھی اس معاملہ میں اپنی غلطی محسوس کرکے کثرت اولاد کا پرچار کررہی ہیں۔
بہر حال اسلام کثرت اولاد کو پسند کرتا اور اس کی تلقین فرماتا ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ کی مشہور حدیث ہے کہ:
تزوّ جوا الولود الودود فانی مکاثربکم الامم ۔۱۲۵
یعنی اے مسلمانوں تم محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی بیویوں سے شادی کیا کرو تاکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے خدا کے سامنے دوسری امتوںکے مقابلہ پر فخر کر سکوں۔
اب دیکھو کہ ہمارے پیارے امام اور آقا (فداہ نفسی) نے کس محبت اور کس ہمدردی اور کس شوق کے ساتھ یہ الفاظ فرماتے ہیں اور کون سچا مسلمان ایسا ہو سکتا ہے کہ جو ان الفاظ کے ہوتے ہوئے کثرت اولاد کی خواہش کی طرف سے غافل رہے ۔ودود کا لفظ گو اپنی ذات میں بھی ایک بڑی حقیقت کا حامل ہے کیونکہ محبت کرنے والی نیک بیوی ہی گھر کو جنت بنا سکتی ہے لیکن اس کا تعلق اولاد پیدا کرنے کے ساتھ بھی ضرور ہے۔کیونکہ اگر کوئی اور مانع نہ ہو تو کثرت اولاد کے معاملہ میں خاوند بیوی کا کامل روحانی اتحاد بھاری نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور یہ ایک لطیف حکیمانہ نکتہ ہے جس کا تجربہ بارہا ہوچکا ہے اوریہی وجہ ہے کہ شادی کی نسبت زنا کے نتیجہ میں حمل نسبتاََ کم قرار پاتا ہے۔بہر حال ہمارے آقا نے ولود کا لفظ استعمال کرکے تاکید فرمائی ہے کہ مسلمانوںکو کثرت اولاد کی طرف خاص توجہ دینی چاہیئے۔بلکہ ایک طرح سے آپ ؐنے گو یا اپنی محبت کا واسطہ دے کر غیرت دلائی ہے کہ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ قیامت کے دن میراسر کثرتِ امت کے لحاظ سے بھی دوسروں سے اونچا رہے۔
ولود کے لفظ میں اصل بات یہ بتانی مدنظر ہے کہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے مختلف عورتیں مختلف درجہ پر ہوتی ہیں۔یعنی اگر کوئی عورت بانجھ نہ بھی ہوتو پھر بھی مختلف عورتوں میں مختلف درجہ کی صلاحیت ہوتی ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ حتیٰ الوسع اپنی شادی کے لئے کثرت سے اولاد پیدا کرنے والی بیوی کو چننا چاہیئے۔اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ یہ کس طرح معلوم ہو کہ کس عورت میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو عام صحت کی حالت دیکھنے کے علاوہ اس کا آسان معیاریہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ کسی عورت کے خاندان میں دوسری عورتوں کی اولاد کتنی ہے کیونکہ عموماََ یہ صلاحیت خاندانی رنگ رکھتی ہے یعنی اگر اور حالات برابر ہوں اورکوئی خاص روگ موجود نہ ہو تو بالعموم ایسے والدین کی بیٹی جو کثرت اولاد کے وصف سے متصف ہوں زیادہ ولود ہوگی۔بلکہ کسی حد تک لڑکوں اور لڑکیوں کی نسبت کو دیکھ کر یہ فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آیا کس خاندان میں لڑکے زیادہ ہوتے ہیں یاکہ لڑکیاں۔
بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ مسلمان کثرتِ نسل کے اصول کی طرف سے غافل نہ رہیں اور بالعموم ولود بیویاں چن کر امت محمدیہ کو ترقی دیں۔اور یقینا اگر وہ ثواب اور قومی خدمت کے خیال سے ایسا کریں گے تو ان کا یہ عمل دنیوی ترقی کے علاوہ موجب ثواب بھی ہوگا اور جماعت احمدیہ کو تو خصوصیّت کے ساتھ اس فریضہ کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔کیونکہ وہ ایک نئی قائم شدہ جماعت ہے اور ان کی تعدا د کی ترقی احمدیت بلکہ اسلام کی ترقی کا موجب ہے۔بہرحال اگر ہماری اس کوشش کے نتیجہ میں قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سر اس جہت سے بھی بلند ہوجائے تو اس سے بڑھ کرہمارے لئے کونسی خوشی ہوسکتی ہے۔
اب رہایہ سوال کہ جماعت میں جو لوگ بوڑھے ہو چکے ہیں یا جو بظاہر کسی نقص میں مبتلا ہیں وہ اس نعمت سے کس طرح متمتع ہوں؟تو ہمارا قرآن اس شمع ہدایت کی طرف سے بھی غافل نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم نے دو ایسی نمایاں مثالیں بیان کی ہیں کہ جن میں مایوس کن حالات میں بھی خدا نے اپنے نیک بندوں کو اولاد عطا فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعہ کے تعلّق میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :
۱۲۶
یعنی جب ہم نے ابراھیم کی بیوی سارہ کو اسحٰق ؑ اور اس کے بعد یعقوب ؑ کی بشارت دی تو سارہؓ نے حیرت کے ساتھ کہا ۔ہائے ہائے یہ کیا ہونے لگا ہے۔کیا میں اس حال میں بچّہ جنوں گی کہ میں بوڑھی ہو کر بالکل رہ چکی ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بڑھا پے کی حد کو پہنچ گیا ہے۔تو اس پر ہمارے رسولوںنے کہا ۔بی بی !کیا تم خدا کے فیصلہ پر تعجب کرتی ہو؟…اے اہل بیت تم پر تو خدا کی رحمت اور برکت کا نزول ہے۔ہاں وہی خدا جو بڑی حمد والا اور بہت بزرگی کا مالک خدا ہے۔
اور پھر حضرت ذکریاؑ کے قصّہ کے تعلق میں فرماتا ہے:
۱۲۷
یعنی ذکریا نے ہم سے دعا کی کہ اے میرے خدا میری ہڈیاں کمزور پڑگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے کی سفیدی کی وجہ سے شعلے مارنے لگا ہے۔مگر باوجود اس کے اے میرے آقا میں کبھی تجھے پکار کر نامراد نہیں رہا…اس پر ہم نے ذکریا کو بشارت دی کہ ہم تجھے ایک لڑکا عطا کریں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ہم نے اس نام (یعنی اس صفت ) کا کوئی شخص پہلے نہیں بنایا۔ذکریا نے کہا ۔میرے آقا میرے گھر میں کس طرح بچہ پیدا ہوگا حالانکہ میری بیوی تو بانجھ ہے اور میں خود بھی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں؟ خدا نے فرمایا بیشک ایسا ہی ہے مگر تیرے رب کے لئے تو کوئی چیزمشکل نہیں ۔اور کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ ہم نے خود تجھے اس حال میں پیدا کیا تھاکہ تو اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھا۔
یہ دو لطیف مثالیں خدا نے قرآن شریف میں قصے کہانی کے طور پر بیان نہیں کیں بلکہ اس لئے بیان کی ہیں کہ تا یہ ظاہر کرے کہ اسلام کا خدا تمام قدرتوں کا مالک ہے۔اور وہ ایسے حالات میں بھی اپنے فضل کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ کہ جب بظاہر امید کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی ۔واقعی دیکھو اور غور کرو کہ حضرت ابراھیم اور حضرت ذکریا کی بیویاں دونو ںبوڑھی پھوس تھیں جن میں سے ایک عجوز یعنی بالکل رہ چکی تھی (غالباََ عام بڑھاپے کے علاوہ ایام ماہواری کے بند ہو چکنے کی طرف بھی اشارہ ہے)اور دوسری عاقر یعنی بانجھ تھی جس کے متعلق بظاہر اولاد کی کوئی امید نہیں ہوتی۔دوسری طرف ان دونوں کے خاوند بالکل بوڑھے اور پیر فرقوت تھے۔ جن میں سے ایک کی عمر بائیبل کے بیان کے مطابق نوے ۹۰ سال کی تھی اور دوسرا خود اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میرا سر بڑھاپے کی سفیدی سے شعلہ زن ہے اور میری ہڈیاں اندر سے کھائی جاچکی ہیں۔ مگر خدا فرماتا ہے کہ جب دینے والے ہم ہیں جو سب قدرتوں کے مالک ہیں تو پھر تم مایوس کیوں ہوتے ہو؟ اللہ اللہ ! کیا شان دلربائی ہے اور کیا جذبہ رحمت وشفقت ہے کہ لینے والا تو مایوسی کے عالم میں پیچھے پیچھے ہٹ رہا ہے مگر دینے والا اسے کھینچ کھینچ کر آگے لارہا ہے ! حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ خدا خود کسی بات کے متعلق کہہ دے کہ میں یہ بات نہیں کرونگا کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں:
’’اس کے آگے کو ئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے۔سو جب تم دعا کرو توان جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں۔جس پر خدا تعالیٰ کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں۔ ان کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی…خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اسکو کمزور سمجھتے ہیں سوان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے۔ لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہوتو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہو گی اور تو خداکی قدرت کے عجائبات دیکھے گا۔‘‘۱۲۸
سو میرے عزیز بھائیواور بہنو!مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ۔خدا سے دعا مانگنے کی عادت ڈالو اور اپنی دعائوں میں زندگی کی وہ روح پیدا کرو جوخدا کی رحمت کو کھینچتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ خدا کے بنائے ہوئے ظاہری اسباب کو بھی اختیار کرو کیونکہ تقدیر کے ساتھ ساتھ تدبیر کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے۔نیز ضروری ہے کہ جب تم اولاد کی خواہش کرو یا اسکے لئے دعا مانگو تو دنیا داروں کی طرح صرف یہ نیت نہ رکھو کہ تمہیں اپنے گھر کی رونق یا اپنے دنیا کے دھندوں یا اپنے شرکا کے مقابلہ یا اپنی جائداد کے ورثہ کے لئے کوئی سہارا حاصل ہو جائے بلکہ یہ نیت رکھو یہ تمہیں تمہارے نیک اوصاف کا وارث مل جائے اور نیک اولاد پیدا ہونے سے دنیا میں نیکی کو ترقی حاصل ہو اور خدا کی جماعت بڑھے اور پھیلے ۔اگر تم ایسا کرو گے تو سوائے اس کے کہ خدا کی کوئی خاص تقدیر تمہارے رستہ میں روک ہو جائے تم یقینا اس کی رحمت کو پائو گے اور اس کے اس فضل کے وارث بنو گے اور اس کے اس انعام کو حاصل کرو گے جو پہلوں نے حاصل کیا بلکہ اس سے بڑھ کر ۔کیونکہ تم آخرین منھم کے وعدہ میں شامل ہو کر خدا کی آخری جماعت ہو۔اور اگر کسی باپ کا بیٹا نالائق یا نافرمان نہ ہوتو فطرتاََ باپ کو اپنا آخری بیٹا زیادہ پیارا ہوا کرتا ہے۔اے خدا تو ایسا ہی کر ۔
وَآخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ۔
نوٹ: مجھے ایک بات یاد آئی ہے جو لکھ دیتا ہوں شاید یہ بھی کسی کی امید کو اٹھانے والی بن جائے۔ قریباََ اڑھائی سال کا عرصہ ہوا کہ جب میں قادیان میں تھا تو میں نے ایک خاتون کے متعلق (جس کے متعلق بظاہر اولاد کی کوئی امید نہیں سمجھی جاتی) خواب میں دیکھا کہ اس کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے ۔اس کے بعد جبکہ یہ خواب بھی قریباََ ذہن سے اتر چکی تھی میں نے اچانک پرسوں خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے خواب دیکھی ہے کہ فلاں خاتون کے گھر (وہی میری خواب والی خاتون) لڑکا پیدا ہوا ہے یہ سن کر میں خواب میں ہی کہتا ہوں کہ میں نے تو لڑکی دیکھی تھی اب دیکھئے خدا کا منشاء کس رنگ میں ظاہر ہوتاہے ۔خیر یہ تو ابھی تک پر وہ غیب کی باتیں ہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ لڑکی یا لڑکے سے کیا مراد ہے مگر اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائوں سے کئی بظاہر مایوس الحال لوگوں کے گھر اولاد پیدا ہو چکی ہے اور ہمارے سلسلہ کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔پس بہرحال مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت ابراھیم ؑ کا یہ کیا ہی پیارا قول ہے کہ:
۱۲۹
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)
قادیان کی عارضی اور دائمی کشش
قادیان ہمیں کب اور کیو نکر واپس ملے گا؟
ہمارااصل کام حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت کی غرض وغایت کو پورا کرنا ہے
جماعت احمدیہ کے دلوں میں قادیان کی جو مستقل اور دائمی کشش اور یاد قائم ہے وہ تو ہے ہی اور ہر احمدی کا دل ودماغ اس غیرمعمولی کشش سے آشنااور اس شیریں یادسے درد مند رہتا ہے اور یہ کشش یونہی بلاوجہ نہیں بلکہ مضبوط فطری جذبہ کے علاوہ جو ایک ماں اور اس کے بچہ کے درمیان ہوتا ہے اس کے بہت سے ظاہری اسباب بھی ہیں۔جنہیں ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے گویہ علیحدہ بات ہے کہ ہر شخص ان کی تفاصیل سے واقف نہ ہو۔اسباب میں سے بعض اسباب مختصر طور پر حسب ذیل ہیں:
قادیان کا دائمی تقدس
(۱)قادیان کو خداتعالیٰ نے اپنے مامورو مرسل یعنی مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کی ولادت کے لئے چنا اور اس بستی کو اپنے اس مصلح اعظم کا مولد بنایا۔یہ وہ عظیم الشان مامور ومرسل ہے جس کی آمد کا اسلام میں تیرہ سو سال سے انتظار ہو رہا تھا۔
(۲)قادیان ہی وہ بستی ہے۔جس میں اس مرسل یزدانی نے اپنی ساری زندگی گزاری اور اپنی پاک عبادتوں اور جانثارانہ ریاضتوں اور متضرعانہ دعائوں سے اسے خاص الخاص برکت عطا کی ۔ اس نے اس کے ایک متبرک مکان میں جس نے خدا سے الدّارکا نام پایا اپنی زندگی کے دن گزارے اس کی دو مقدس مسجدوں میں نمازیں پڑھیں اس کے متعدد حجروں میں اسلام کی خدمت میں معرکتہ الاراء تصنیفیں کیں اور اس کی گلیوں کوچوں کو اپنے قدموں سے برکت دی۔
(۳)قادیان ہی اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کے ذریعہ خدا کے برگزیدہ اور بارش کی طرح نازل ہونے والے کلام کا مہبط بنااور اس کے ہزاروں چمکتے ہوئے نشانوں کی تجلّی گاہ قرار پایا۔
(۴)قادیان میں ہی احمدیت کی بنیادیں قائم کی گئیں ۔ہاں وہی احمدیت جو دنیا کے لئے نجات
کا پیغام لے کر آئی ہے اور جس کے متعلق مقدس با نی ٔ احمدیت فرماتے ہیں۔
’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے۔ جس نے زمین وآسمان بنایا۔وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا۔اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا۔وہ دن آتے ہیںبلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگاجو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گااور ہر اُیک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا۔اور یہ غلبہ ہمیشہ رہیگا یہاںتک کہ قیامت آجائے گی۔۔۔ دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا۔اور ایک ہی پیشوا ۔میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیاہوں ۔سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘۔۱۳۰
(۵)قادیان ہی وہ مقام ہے جہاں حضرت خاتم الاولیا علیہ الصلوٰۃوالسلام (الّذی لا ولیّ بَعْدَھٗ اِلَّاالَّذِیْ ھُوَمِنْہُ وَعَلٰی عَھْدِہٖ)کا مقدس جسد خاکی دفن ہوا۔اورجس کی زمین کو خدا کی وحی نے بہشتی مقبرہ قرار دیا اور اس مقبرہ کی مٹی کو رؤیا میں چاندی کی صورت میں ظاہر فرمایا۔
(۶)قادیان ہی وہ بابرکت قریہ ہے جو خدا کی ازلی تقدیر کے ماتحت جماعت احمدیہ اور تحریک احمدیت کا دائمی مرکز قرار پایا۔جسے ظلی طور پر ارض حرم اور تخت گاہِ رسول کا لقب عطا ہوا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
زمین ِقادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے
پھر فرماتے ہیں:
’’قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے… …ضروری ہے کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اسے برکت دی ہے‘‘(ضمیمہ رسالہ الوصیت)
اس مؤخر الذکروجہ کی بناء پر قادیان کی مرکز یت صرف تاریخی نوعیت ہی نہیں رکھتی ۔بلکہ وہ ایک عالمگیر مذہبی تحریک کا زندہ اور تنظیمی مرکز بھی ہے۔ جو ابد الاباد تک کے لئے قائم کیا گیا ہے۔
(۷)قادیان ہی خدا کی وہ محبوب بستی ہے کہ جب ایک خدائی تقدیر کے ماتحت وہاں سے جماعت احمدیہ کو نکلنا پڑا تو اس کے متعلق خدا نے پہلے سے ان زوردار الفاظ میں تسلی دے رکھی تھی کہ
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّ کَ اِلٰی مَعَادٍo ۔۱۳۱
’’یعنی اے خدا کے مسیح وہ خدا جس نے تجھے قرآنی خدمت کے لئے معبوث کیا ہے۔وہ تیری ہی بعثت اور اپنی باعثیت کی قسم کھا کر کہتاہے کہ وہ تجھے ضرور ضرور قادیان سے نکلنے کے بعد پھر دوبارہ قادیان میں واپس لائے گا‘‘
کیونکہ قرآنی علوم کی خدمت کا کام قادیان کے ساتھ ابدی طور پر وابستہ ہو چکا ہے۔
یہ وہ سات مضبوط اور نہ ٹوٹنے والی دل کی تاریں ہیں۔جو ہر مخلص احمدی کے دل ودماغ کو قادیان کے ساتھ باندھے ہوئے ہیںاور ہمیشہ باندھے رہیں گی۔اور دراصل کسی چیز کے مقدس ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ بعض خاص روحانی وابستگیاںSpiritual Associationsلاحق ہوں۔اور ظاہر ہے کہ جتنی جتنی یہ روحانی وابستگیاں زیادہ اہم اور زیادہ متنوع اور زیادہ کثیر التعداد ہوں گی۔اتنا ہی زیادہ کسی چیز کا تقدس سمجھا جائے گا۔اور اس لحاظ سے قادیان کا تقدس وہ ارفع شان رکھتا ہے جو ہندوستان وپاکستان کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں ۔گویا حضرت مسیح موعود السلام کی ولادت اور زندگی ماقبل البعثت اور زندگی ما بعد البعثت اور وفات اور زمانہ ما بعد الوفات کا ہر لمحہ قادیان کے ساتھ ابدی تاروں کے ذریعہ وابستہ ہوچکا ہے وَلَا انفصَامَ لَھَا۔
قادیان کی وقتی یادیں
مگر ان مستقل اور دائمی کششوں کے علاوہ قادیان کو بعض وقتی اور عارضی کششیں اور یادیںبھی حاصل ہیں جو بعض خاص خاص ایام کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب جب بھی یہ ایام آتے ہیں ۔یہ یادیں بیدار ہوکر ہمارے دلوں میں چٹکیاں لینی شروع کر دیتی ہیں۔یہ کششیں زیادہ تر چار مواقع کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اوّل:رمضان کا مبارک مہینہ جو قادیان میں اپنے گوناگوں روحانی مناظر کی وجہ سے گویا ایک جیتی جاگتی مجسّم صورت اختیار کر لیتا تھا۔روزہ نفلی نمازیں ۔تراویح ۔درس القرآن ۔خاص دعائیں صدقہ وخیرات او ر بالآخر روحانی خوشی کی حامل عید وغیرہ ۔یہ وہ چیزیں تھیں جن سے قادیان کا رمضان ایک مجسم روحانی زندگی بن جاتا تھا اور اس زندگی میں جماعت کا ہر فرد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔
دوم:قادیان کا سالانہ جلسہ جس میں قادیان کی سر زمین گویا ارض حرم کی صورت اختیار کرلیتی
تھی جس کی طرف ہر شخص لبّیک کہتا ہوا روحانی برکات حاصل کرنے کے لئے دوڑا آتا تھا۔
سوم: قادیان کی مجلس مشاورت جس میں جماعت کے نمائندے اہم جماعتی امور کے متعلق مشورہ کرنے کی غرض سے جمع ہوتے تھے۔
چہارم:موصی صحابہؓ کی وفات جبکہ قادیان کے لوگ جوق درجوق مقبرہ بہشتی میںجمع ہوتے اور اپنے مرنے والے بزرگ کے لئے آخری دعاکرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزگوں کے مزار پر متضّر عانہ دعائیں کرتے تھے ۔لیکن اب قادیان سے باہر آجانے پر جو بزرگ بھی فوت ہوتا ہے وہ مجبور اََ باہر دفن کیا جاتا ہے اور ہر ایسے موقع پر دل ایک ایسی چوٹ محسوس کرتاہے کہ اسے ایک حساس مومن ہی سمجھ سکتا ہے۔
قیامِ مرکز ِ ربوہ کا ردّعمل
بہر حال یہ وہ وقتی اور عارضی یادیں ہیں جو قادیان کے متعلق دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔اور اب جبکہ جلسہ سالانہ کا وقت قریب آرہا ہے قادیان کی یاد پھر دل میں اُٹھ اُٹھ کر تلاطم برپا کر رہی ہے۔اور اس کے ساتھ جوںجوں نئے مرکز پاکستان یعنی ربوہ کی تجویزعملی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ قادیان کی یاد زیادہ تیز ہوتی جاتی ہے۔ ربوہ کے مرکز کا قیام بظاہر دو متضادمگر بہ باطن متحد جذبات پیدا کر رہا ہے۔ایک طرف تو وہ اس تسلی کا موجب ہے کہ خدا خدا کر کے ہمیں موجودہ انتشار کے بعد ایک مرکز حاصل ہو رہا ہے جہاں ہم اکٹھے رہ کر اور اپنا ماحول بنا کر اپنے جماعتی پروگرام کو چلاسکیں گے۔اور دوسری طرف وہ لازماََ قادیان کی یاد کو بھی تیز تر کررہا ہے۔کیونکہ اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم گویا قادیان کے لئے ہر وقت پادر رکاب بیٹھے ہیں کہ اب قادیان کی واپسی کا رستہ کھلا اور ہم اس کی طرف لپکے۔لیکن اب یہ صورت نظر آرہی ہے کہ گویا قادیان کی قائم مقامی میں ہم ایک اور عارضی مرکز بناکر بیٹھنے لگے ہیں۔اور قادیان کی واپسی جب ہوگی سو ہوگی۔ پس اس ذہنی کیفیت نے بھی آجکل ایک دماغی اور قلبی ہیجان برپا کر رکھا ہے جسے ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق محسوس کر رہا ہے۔
اصل چیز حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض وغائیت کو پورا کرنا ہے
لیکن باوجود اس کے ایک بات ہے جوہر سمجھدار احمدی کا دل جانتا اور محسوس کرتا ہے اور جو شخص ابھی تک نہیں جانتااور نہیں محسوس کرتا اسے جاننا اور محسوس کرنا چاہیئے۔وہ بات یہ ہے کہ قادیان کو خواہ کتنا ہی تقدس اور کتنی ہی اہمیت حاصل ہو اس کا درجہ بہرحال محض ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔اور درجہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خداداد مشن کی تکمیل اور آپ کی بعثت کی غرض وغایت کو پورا کرنے سے متعلق ہے۔ اس کی مثال موٹے طور پر یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر ہمیں قادیان تو واپس مل جائے مگر ہم نعوذ باللہ احمدیت کی تعلیم اورخدمت ِ اسلام کے کام کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کی طرف سے غافل ہو جائیں تو قادیان کا واپس ملنا ہمارے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا۔بلکہ ہمیں خدا کے حضور اور بھی موردِ الزام ٹھہرانے کا موجب بن جائے گا۔لیکن اگردوسری طرف ہمیں بالفرض قادیان تو ابھی نہ ملے مگر ہم خدا کے علم میں احمدیت اور اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے والے بن جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت ہمارے ذریعہ سے پوری ہوتی جائے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ قادیان سے محرومی کے باوجود ہم خدا کے سامنے سرخرو ہوں گے اور خدا تعالیٰ ہمیں ان فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنائے گا جو احمدیت کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں۔پس میرے عزیز واور دوستو اور بزرگو ! قادیان کی یاد کی شدّت کے باوجود اس نکتہ کو کبھی نہ بھولو کہ ہمارے سامنے اصل چیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کو پورا کرنا ہے۔اور باقی ہر چیزثانوی حیثیت رکھتی ہے۔قادیان انشاء اللہ واپس ملے گا اور ضرور ملے گا مگرتم اس مرکزی نقطہ سے کبھی غافل نہ ہو کہ اس کا واپس ملنا نمبر ۲ پر ہے۔
اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد مشن کی تکمیل نمبر ۱ پر ۔کیونکہ حضور ؑ کے مشن کی تکمیل ایک روح ہے اور قادیان کی واپسی ایک جسم ۔اگر خدا کو یہی منظور ہو تو وہ روح کو ایک وقت تک دوسرا جسم بھی دے سکتا ہے لیکن اگر خدا نخواستہ روح پر موت آجائے تو کوئی جسم اس کے کام نہیں آسکتا۔
قادیان کب واپس ملے گا
مگر جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے قادیان انشاء اللہ واپس ملے گا اور ضرور ملے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی واپسی میں روک نہیں بن سکتی کیونکہ:
قضائے آسمانست ایں بہرحالت شود پیدا
لیکن یہ کہ وہ کب واپس ہوگا۔یہ خدا کے غیبوں میں سے ایک غیب ہے جسے صرف وہ عالم الغیب ہستی ہی جانتی ہے جس نے اس قسم کے غیبوں کی کنجی اپنے ہا تھ میں رکھی ہے۔مگر دوباتیں ایسی ہیں جو اس تعلق میں میرے ذہن میں آتی ہیں۔ان میں سے ایک کا اشارہ تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے سمجھا ہے اور دوسری کے متعلق میرا عقلی قیاس ہے اور میں اپنے دوستوں کی اطلاع کے لئے ان دو باتوں کو درج ذیل کرتا ہوں:
پہلی بات یہ ہے کہ مجھے تذکرہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے (مگر میں اس جگہ اس کے دلائل نہیں دوںگا) کہ قادیان کی واپسی انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں ہی ہو جائے گی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خوش قسمت صحابہ کون سے ہوں گے آیاوہ پرانے صحبت یافتہ اصحاب میںسے ہوں گے ۔کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے نوجوانوں یا بچوں میں سے ہوں گے مگر میں یقین رکھتا ہوں اور تذکرہ کے مطالعہ سے میں یہی سمجھا ہوں کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیوں کا ایک حصہ زندہ ہوگا کہ انشاء اللہ قادیان ہمیں واپس مل جائے گا۔وَاللّٰہُ اَعْلَمُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِااللّٰہِ الْعَظِیْم۔
(دوسری بات)جو میں قیاسی رنگ میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ قادیان کی واپسی کوغالباََ نئے مرکز ربوہ کے قیام کی تجویز کی تکمیل کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے ۔خدا کا جماعت احمدیہ کو قادیان سے نکالنا یونہی ایک عبث فعل نہیں تھا۔بلکہ یہ اس کی تقدیروں میں سے ایک اہم تقدیر تھی اور وہ اس ذریعہ سے جماعت کو ایک امتحان میں سے گذارنا چاہتا تھا اور ایک قربانی کی بھٹی میں ڈال کر پھر باہر نکالنا چاہتا تھا۔پس اگر ہم موجودہ منتشرحالت میں ہی پڑے ہوئے واپس پہنچ جائیں تو بظاہر ہمارا یہ امتحان ایک عبث فعل بن جاتا ہے۔ہاں اگر ہم خدائی مشن کو پورا کرلیں اور ایک قائم مقام مرکز بنا کر اس میں اپنا کام شروع کر دیں اور قربانی کے معیار پرپورے اتر آئیں تو پھر بے شک ہمارا امتحان مکمل ہو جائیگا۔جو قادیان کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے۔ذَالِکَ ظَنِّی بِااللّٰہِ وَاَرْجُوْامِنْہُ خَیْراً۔
دو قسم کی خدائی تقدیریں
اب رہا یہ سوال کہ قادیان کی واپسی کس صورت میں ہوگی ۔سو یہ پھر خدا کے غیبوں میں سے ایک غیب ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو غیبوں کا مالک ہے۔مگر جہاں تک میں نے خدا کی صفت کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے مقاصد کو دو طرح سے پورا فرمایا کرتا ہے ایک ایسے رنگ میں کہ اس کی تقدیر اور اس کی تدبیر کا ہر قدم ساتھ ساتھ نظر آتا جاتا ہے۔ اور تمام دیکھنے والے اس کی رفتار کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔اوردوسرے ایسے رنگ میںکہ اس کی تقدیر کی تاریں ایک غیبی پردہ کے پیچھے مخفی رنگ میں کام کرتی ہیں اور پھر کسی وقت اچانک یہ پردہ اٹھتا ہے اور اس کی تقدیر کا اٹل نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ان دونوں قسم کی تقدیروں کو خدا نے اپنے پاک کلام قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک جگہ فرماتاہے:
۔۱۳۲
’’یعنی کیا لوگ (بلکہ کافر تک ) ہماری اس کھلی کھلی تقدیر کو نہیں دیکھ رہے کہ ہم ہر لحظہ چاروں طرف کی زمین کو کا ٹتے ہوئے اپنے مرکزی نقطہ کے قریب آتے جارہے ہیں۔یہ وہ تقدیر عریاں ہے جس کا ہر قدم کھلم کھلا اٹھایا جاتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہے کہ یہ تقدیر دنیا کو آہستہ آہستہ کس نتیجہ کی طرف لے جارہی ہے‘‘
مگر اس کے مقابلے پر دوسری جگہ قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ:
۱۳۳
’’یعنی اے نبی تجھ سے یہ کفار اس ساعت کے متعلق پوچھتے ہیں جو ان کی تباہی کے سلسلے میں مقدر ہے وہ کب قائم ہوگی تو ان سے کہہ دے کہ اس کا علم خدا کے پاس محفوظ ہے مگر وہ آئے گی ضرور ۔اور اچانک آئے گی ‘‘
یہ وہ دوسری قسم کی الٰہی تقدیر ہے جس کی تیاری پردہ کے پیچھے ہوتی ہے اور دنیا کو وہ اسی وقت نظر آتی ہے کہ جب اچانک یہ پردہ اٹھتا ہے اور موعود گھڑی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔
قادیان کس طرح واپس ملے گا
یہی دونوں تقدیر یں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مقدر ہیں۔کیونکہ حضور کو بھی یہ دونوں قسم کے الہامات ہوچکے ہیں اور ان دونوں کا ذکر تذکرہ میں موجود ہے۔مگر جہاںتک قادیان کی واپسی کے سوال کا تعلق ہے تذکرہ کے مطالعہ سے مجھے یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ بغتَۃً والی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔چنانچہ جماعت کے امتحانوں کے ذکر کے تعلق میں خدا تعالی فرماتا ہے:
اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔۱۳۴
’’یعنی میں اس امتحان کے بعد تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کو ساتھ لے کراچانک آئوں گا‘‘
اس وحی الٰہی سے پتہ لگتا ہے کہ خداکی ازلی حکمت نے یہی مقدر کر رکھا ہے کہ قادیان کی واپسی کی ساری تیاری آسمان پر پس پردہ تکمیل کو پہنچے اور پھر دنیا میں اچانک ظاہر ہو۔
وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب وَلَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْنَا ۔
لیکن ہمارے خدا کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ ہر بات میں آسمانی تقدیر اور زمینی تدبیر کو پہلو بہ پہلوچلانا چاہتا ہے۔ پس جب تقدیر کا عمل مخفی ہو تو بے شک انسان اس کی تفاصیل میں تو اس کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا ۔مگر اس صورت میں اس کا یہ کام ضرور ہوتا ہے کہ کم از کم دعائوں اور عمل ِصالح کے ذریعہ خدا کی تقدیر کو تقویت پہنچائے اور یہی اس وقت ہماری جماعت کا فرض ہے کہ قادیان کی واپسی کے متعلق عجوبہ پسند ی کے طریق پر قیاس آرائی ترک کر کے خدا کی تقدیر پر فی الجملہ ایمان لائیں اور اپنی دعائوں اور اعمال صالح سے اس تقدیر کو قریب تر لانے کی کوشش کریںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ قادیان کے فراق میں اس مقدس فرض کو نہ بھولیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نے ہم پر عاید کیا ہے کہ شاید یہی قادیان کی واپسی کی کنجی ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین۔
نوٹ:میں اس وقت بیمارہوں اور اس مضمون کو اس تفصیل سے نہیں لکھ سکا جس کا یہ حق دار تھا مگر بہر حال اس کا مرکزی نقطہ اس مضمون میں آگیا ہے خدا ہی سب کو توفیق عطا کرے کہ اس کی رضا کے تحت زندگی گذاریں اور ہم اور ہماری نسلیں خدا کی اس ازلی تقدیر کو پورا کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وابستہ ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)








قادیان کے متعلق تازہ اطلاع
خدا کے فضل سے سب دوست بخیریت ہیں
قادیان کی تازہ ڈاک سے معلوم ہوا ہے کہ سب دوست وہاں خیریت سے ہیں اور قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے تیاری کررہے ہیں ۔یہ جلسہ انشاء اللہ حسب سابق دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوگا۔قادیان کے دوستوں نے حکومت مشرقی پنجاب سے درخواست کی ہے کہ وہ قادیان کے جلسہ میں شرکت کے لئے ہندوستان کے ایک سو احمدیوں کو اجازت دے ۔یعنی ان کے سفر آمداور واپسی کے لئے حفاظت کا ضروری انتظام کرے۔اگر یہ انتظام ہوگیا تو پھر قادیان کے دوستوں کی طرف سے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کودعوت دی جائے گی کہ اس اس تعداد میں اپنے نمائندے منتخب کرکے قادیان بھجوادیں۔لیکن جب تک ایسی دعوت نہ آئے اور حکومت کی طرف سے حفاظت کا پختہ انتظام نہ ہو اس وقت تک انڈین یونین کے کسی احمدی دوست کو ایسی تیاری نہیں کرنی چاہیئے۔کیونکہ ابھی تک رستہ مخدوش ہے۔
قادیان سے یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ گزشتہ ہفتے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور کپتان پولیس صاحب قادیان گئے اور ہمارے دوستوں سے ملکر حالات وغیرہ دریافت کرتے رہے۔اس موقع پر ہمارے دوستوں نے ڈی۔سی صاحب کو بتایا کہ قادیان کے سکھوں نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک مملوکہ مکان گراکر اپنے ساتھ والے گوردوارہ میں شامل کرلیا ہواہے۔اور متعلقہ افسروں کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس معاملہ میں ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ڈی۔سی صاحب نے وعدہ کیا کہ میں مقامی مجسٹریٹ کو ہدایت دے جائوںگاکہ وہ اس بارہ میں فوری اور مؤثر کارروائی کریں۔
یہ بھی اطلاع مِلی ہے کہ قادیان میں یہ ہدایت پہنچی ہے کہ جو کارخانے اور دوکانیں ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی تھیں انہیں الاٹ کرنے کی سکیم بنا کر بالا افسروں کے پاس بھیجی جائے۔
بہشتی مقبرہ کے متصل جانب غرب ایک قطعہ اراضی ہے جو کچھ تو صدرانجمن احمدیہ کی ملکیت ہے اور کچھ ہمارے خاندان کی ملکیت ہے اور اس کا کچھ حصہ مقبرہ بہشتی کے لئے وقف بھی ہو چکاہے۔
لیکن قادیان کے سکھ پناہ گزین اس قطعہ اراضی کو اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے ہیں۔لیکن چونکہ ایسی الاٹمنٹ مذہبی دست اندازی کا رنگ رکھنے کے علاوہ فتنے کا امکان بھی اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ کیونکہ اگر بہشتی مقبرہ کے ساتھ لگتے ہوئے قطعہ میں سکھوں کا آنا جانا شروع ہوجائے تو اس سے کئی قسم کے فتنے پیدا ہوسکتے ہیں۔لہذا ہمارے دوستوں نے افسران متعلقہ کو درخواست دی ہے کہ وہ مجوزہ الاٹمنٹ کو روک دیں۔
قادیان سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خاندان کی پرانی خاکروبہ مسمات نہالی جو عرصہ سے بڑھاپے کی وجہ سے نابینا ہو کر اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی وفات پاگئی ہے۔نہالی چونکہ مسلمان ہوچکی تھی اس کی خواہش تھی کہ اس کا جنازہ جماعت کے دوست ادا کریں چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا ۔
قادیان کے بیمار دوستوں کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے پہلے کی نسبت اچھے ہیں۔مستحق دوستوں کو بستر بنوا دئیے گئے ہیں۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں مغربی پنجاب کی مقامی جماعتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوںکہ چونکہ کا نوائے کا سلسلہ رکا ہوا ہے اور پاکستان سے گئے ہوئے کئی احمدی دوست قادیان سے واپس نہیں آسکے اور ان میں سے بعض کے رشتہ دار مالی لحاظ سے تکلیف میں ہیں۔اس لئے مقامی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے رشتہ داروں کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیںتاکہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔مقامی احباب کی تھوڑی سی توجہ ایسے قابل ہمدردی عورتوں اور بچوں وغیرہ کے لئے بہت سہارے کا موجب ہوسکتی ہے۔اور یقینا یہ ان کے لئے موجب ثواب بھی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)



ایک احمدی ڈاکٹر کی نمایاں کامیابی
اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ایم ۔بی۔ بی۔ ایس ۔پنجاب نے جو ایک مخلص احمدی نوجوان ہیںاورلاہور کے مشہور آئی سرجن ڈاکٹر محمدبشیر صاحب کے فرزند ہیں، لندن میں ایف آرسی ایس کا امتحان پاس کیا ہے ۔یہ امتحان سرجری کی لائن میں سب سے چوٹی کا امتحان سمجھا جاتا ہے اور لندن کی یونیورسٹی اس کے لئے خاص طور پر شہرت رکھتی ہے۔ہم اپنے عزیز نوجوان کی اس نمایاں کامیابی پر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب اور قاضی محمد اسلم صاحب (جن کا وہ بھتیجا ہے)اور قاضی فیملی کے دوسرے دوستوں کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ عزیز ڈاکٹر مسعود احمد سلمہ کی اس کامیابی کو خود ان کے لئے اور ان کے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے بابرکت کرے۔آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)







عارضی الاٹمنٹ کے متعلق ضروری تشریح
چنددن ہوئے میں نے الفضل میں احبا ب کی ہدایت کے لئے یہ اعلان کروایا تھا کہ قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات کی ضائع شدہ جائیداد کے بدلہ میں عارضی الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے ۔اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ سوال پہنچا ہے کہ جیسا ہم نے شروع میں اپنا نقصان رجسٹر کراتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا قادیان ہماری مقدس جگہ ہے ہم اس کی جائیداد کے بدلہ میں کسی جائیداد کامطالبہ نہیں کرتے تو اب یہ مطالبہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ سو دوستوں کے اس سوال کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ یہ دونوں باتیں متضاد نہیں ہیں ۔ جس با ت سے روکا گیا تھا وہ یہ تھی کہ قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک کر کے اس کے مقابل پر کوئی جائیداد مستقل طور پر قبول کر لی جائے۔ لیکن موجودہ صورت میں جس بات کی اجازت دی گئی ہے وہ صرف عارضی الاٹمنٹ ہے جس سے قادیان کی جائیداد کا مطالبہ ترک نہیں ہوتا بلکہ میں نے تو اپنے سابقہ اعلان میں یہ صراحت بھی کردی تھی کہ عارضی الاٹمنٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ لکھ دیا جائے کہ قادیان ہماری مقدس جگہ ہے اور قادیان کی جائیداد کے متعلق اپناحق کبھی ترک نہیں کرسکتے بلکہ صرف گذارہ کی غرض سے اس کے مقابل پر عارضی الاٹمنٹ چاہتے ہیںاور یہ کہ جونہی کہ ہمیں قادیان واپس ملے گا ہم اس عارضی الاٹمنٹ سے دست بردار ہو جائیںگے۔ اس قسم کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ۔
دوستوںکی اطلاع کے لئے میں یہ پھردہرانا چاہتا ہوں کہ اب جب کہ جائیداد کے مقابلہ پر کھاتہ وار معیار کے بمطابق الاٹمنٹ ہوگی تو گورنمنٹ نے اس کے لئے لاہور میں ایک فنانشل کمشنر سیٹلمنٹ کاعہدہ قائم کردیا ہے اور اس فنانشل کمشنر لاہور کے ماتحت ہرضلع میں سیٹلمنٹ آفیسر مقر ر کئے گئے ہیں۔ پس ان کو چاہئے کہ جس ضلع میں وہ الاٹمنٹ ہوں اس ضلع کے سیٹلمنٹ آفیسر کومخاطب کر کے درخواست دیں اور اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ جائیداد کی تفصیل درج کردیں اور اگر اس سے قبل ان کے نام کوئی جزوی الاٹمنٹ ہوچکی ہو تو اس کا بھی ذکر کردیں ۔
جو دوست جائیداد کی صورت میں الاٹمنٹ نہ چاہتے ہوں وہ نقدی کی صورت میں الاٹمنٹ کی درخواست دے سکتے ہیں ۔ مگر ایسی درخواست کے لئے علیحدہ عملہ مقرر ہے یعنی لاہور میںایک مرکزی کسٹوڈین مقرر ہے اور اس کے ماتحت ہر ضلع میں ڈپٹی کسٹوڈ ین مقرر ہیں ۔ پس نقد الاٹمنٹ کی صورت میں اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈ ین کے پاس درخواست دینی چاہئے او ر اس درخواست میں اس آمدن کا ذکر کردینا چاہئے جو درخواست کنندہ کو اپنی ضائع شدہ جائیداد سے سالانہ یا ماہوار حاصل ہوتی تھی ۔
ایک دوست اپنے خط میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ اب جب کہ پاکستان میں ساری متروکہ جائیدادیں الاٹ ہوچکی ہیں تو اس قسم کی درخواست کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ اب بھی وہ لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے جو غیر مسلموں کی متروکہ ہے۔ مگر ابھی تک اس پر ایسے مسلمان کاشتکار بیٹھے ہوئے ہیں جو مالکان اراضی نہیں ۔علاوہ ازیں جب گورنمنٹ نے خود کھاتہ وارمعیار کے مطابق نئی درخواستیں مانگی ہیں تو یہ فکرتو گورنمنٹ کو ہونا چاہئے نہ کہ درخواست کنندہ کو ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)









قادیان کی احمدیہ ڈسپنسری کی مختصر روئداد
قادیان کی تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان کی احمدیہ ڈسپنسری (جو اس وقت سابقہ دفتر اخبار الفضل میں ہے) کا کام خدا کے فضل سے بڑی کامیابی اور ترقی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اور محترمی ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج ڈسپنسری نہایت اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اور ان کی قابلیت اور ہمدردی کو دیکھ کر اب بہت سے غیر مسلم بھی احمدیہ ڈسپنسری میں آکر علاج کروانے لگے ہیں۔چنانچہ ماہ نومبر ۱۹۴۸ء میں نئے اور پرانے علاج کروانے والوں کی تعداد قوم و ار حسب ذیل تھی۔
(۱)مسلمان ۱۲۰۹ (۳)سکھ ۵۳۴
(۲)ہندو ۱۷۱۲ (۴)دیگر ۱۴۹
میزان ۳۶۰۴
اس کے علاوہ قادیان میں انڈور(In Door) بیماروں کا بھی انتظام شروع کیا گیا ہے۔ چنانچہ گزشتہ مہینہ میں ایسے بیماروں کی تعداد جن کا ہسپتال کے اندر رکھ کر علاج کیا گیا، دس تھی ۔ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ہے کہ قادیان میں احمدی دوستوں کی عام صحت خدا کے فضل سے اچھی ہے۔گذشتہ ایام میں گورداسپور کے سول سرجن اور بعض دوسرے افسروں نے ڈسپنسری کا معائنہ کیا اور اس کے کام اور انتظام کی بہت تعریف کی ۔ مرحوم میجر ڈاکٹر محمود صاحب شہید کے وقت بھی ڈسپینسری بہت کامیابی کے ساتھ چلتی تھی اور ان کے زمانہ میں بھی بہت سے غیر مسلم علاج کے لئے آنے شروع ہوگئے تھے۔مگر ان کے واپس آجانے کے بعد یہ تعداد کچھ گر گئی تھی۔لیکن اب پھر سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
فجز اھمااللّٰہ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)

کثرتِ اولاد والے مضمون کے متعلق بعض ضروری تشریحات
چند دن ہوئے میں نے کثرت اولاد کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک مضمون الفضل میں شائع کرایا تھا۔ اس مضمون میں غلطی سے حضرت اسحاق ؑکی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر نوے سال لکھی گئی ہے حالانکہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر پورے ایک سو سال تھی (پیدائش باب ۲۱ آیت ۵) اور بائبل میں یہ بھی صراحتًا لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسحٰق کی والدہ سارہ نہ صرف عمر کے لحاظ سے بہت بوڑھی ہو چکی تھیں ۔ بلکہ ان کے ایام ماہواری بھی بند ہوچکے تھے۔ (پیدائش باب ۱۸آیت ۱۱) مگر باوجود اس کے خدا نے اپنے خاص الخاص فضل سے اس بوڑھے جوڑے کو بچہ عطا فرمایا ۔
وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یَّقْنُطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖ اِلَّا الضَّالون۔
اس مضمون کے تعلق میں مجھے ایک صاحب نے کہا ہے کہ تم نے کثرت اولاد کی طرف تو جماعت کو توجہ دلائی مگر کثرت اولاد کے سب سے بڑے ذریعہ یعنی تعداد ازدواج کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں تھی کہ جسے میں بھول جاتا ۔ اس لئے آپ کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ میں نے اس کا ذکر دانستہ ترک کیا ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں قرآن شریف نے تعداد ازدواج کی اجازت دی ہے ۔ وہاں اس اجازت کے ساتھ ان بھاری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مسلمان پر عائد ہوتی ہیں ۔ اور یہ ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ ان کا تارک ثواب کمانا تو الگ رہا بھاری گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے ۔ پس میرے لئے ہرگزمناسب نہیں تھاکہ میں تعدّ د ازدواج کی طرف تو جہ دلا ؤں مگر ان ذمہ داریوں اور شرائط کے ذکرکو ترک کردوں جو اس اجازت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور ذمہ داریوں اور شرائط کے ذکر میں جانا میرے مضمون کو بہت لمبا کردیتا ۔ حالانکہ اس مضمون میں میری غرض صرف ایک عام اور سہل علاج کی طرف توجہ دلانی تھی۔
ایک دوسرے دوست لکھتے ہیں کہ اگر کثرت اولاد کی وجہ سے کسی غریب پر غیر معمولی بوجھ پڑ جائے اور وہ اس کے نتیجہ میں اپنی اولاد کی خاطر خواہ تربیت نہ کرسکے تو اس کا کیا علاج ہے یا غالباً ان دوست نے میرے مضمون کو غور سے نہیں پڑھا ۔ کیونکہ ان کے اس سوال کا اصولی جواب میرے مضمون کے اندر موجود تھا ۔ کیونکہ میں نے جو قرآنی آیت کی نقل کی تھی ۔ اس میں یہ بات صاف طور پر مذکور ہے کہ رزق کی ذمہ داری خدا نے خود اپنے ذمہ لی ہے ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۱۳۵ (یعنی نہ صرف تمہاری اولاد کو بلکہ خود تمہیں بھی رزق دینے والے ہم ہیں)گویا خدا فرماتا ہے کہ جب ہم جو دنیا کے رازق ہیں خود یہ کہتے ہیں کہ غربت کے ڈرکی وجہ سے اولادکوقتل نہ کرو ۔تو تمہیں رازق کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے رزق کاخوف نہیں ہونا چاہیئے۔
باقی رہا یہ سوال کہ دنیا میں کئی لوگ کثرتِ اولاد کی وجہ سے تنگ حالی میں مبتلا نظر آتے ہیں توپھر اس صورت میں خدا کی ذمہ داری کے کیا معنے ہوئے؟ سو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود دوسری جگہ اس شبہ کا جواب دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔
۔۱۳۶
’’یعنی دنیا میں کوئی رینگنے والا جانور ایسا نہیں جس کا رزق خدا نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو۔‘‘
اس آیت میں جو دابۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہی اس آیت کے صحیح معنوں کی کنجی ہے۔کیونکہ دابۃ کے معنے اس جانور کے ہیں جو زمین پر رینگ رینگ کر چلتا ہے، گویا آیت کے معنے یہ ہوئے کہ انسان زمین میں بالکل بے وست وپا ہوکر ہی نہ بیٹھ جائے۔بلکہ خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کو ہاتھ میں لے کر کم از کم رینگتا رہے۔اور کچھ نہ کچھ حرکت کرتا رہے تو پھر وہ خدا کے رزق سے محروم نہیں رہتا۔ہاں اگر کوئی شخص گویا بالکل ہی دھر نا مارکر بیٹھ جاتا ہے اور خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کے ماتحت کسی قسم کی بھی جدوجہد نہیں کرتاتو پھر وہ گویا خدا کے قانون کا باغی بنتاہے۔اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ خدا کی صفتِ رزاقیت سے حصہ نہیںپاسکتا۔پس خدا نے خود اپنی حکیم کتاب میں اس شبہ کا جواب دے دیا ہے جو ہمارے دوست کے دل میں پیدا ہوا ہے مگر افسوس ہے کہ دنیا میں اکثر لوگ صحیح طریق پر ہاتھ پائوں ہلانے کے بغیر خدا کے رزق کے وارث بننا چاہتے ہیں۔بہرحال ہم تو اُس آقا کے غلام ہیں ۔جس نے ایک دفعہ اپنے ایک بیمار صحابی کو جس کے پیٹ میں کچھ تکلیف تھی شہد استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔مگر خدا کے کاموں میں بھی بعض اوقات امتحان مخفی ہوتے ہیں۔شہد کے استعمال نے اس صحابی کی تکلیف بڑہا دی اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ یارسول اللہؐ میری تکلیف تو شہد کے استعمال سے زیادہ ہوگئی ہے۔آپؐ نے فرمایا خدا نے اس بیماری کے لئے شہد کو شفا قرار دیا ہے۔اس لئے میں تو بہر حال تمہارے پیٹ کو جھوٹا کہوں گا اور خدا کو سچا۔ پس تم پھر شہد کو ہی استعمال کرو کہ شاید پہلے استعمال میں کوئی غلطی رہ گئی ہو۔چنانچہ اس نے دوبارہ شہد استعمال کیا ۔اور اس دفعہ اپنی بیماری سے شفا پائی ۔پس میں بھی اپنے دوست سے یہی کہوں گا کہ جو شخص کثرتِ اولاد کی وجہ سے رزق کی تنگی محسوس کرتا ہے اس کا یہ تجربہ جھوٹا ہے اور خدا بہرحال سچاہے۔
دراصل اکثر لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے کہ یا تو وہ خاطرخواہ محنت ہی نہیں کرتے اور یا محنت تو کرتے ہیں مگر اس محنت میں صحیح راستہ اختیار نہیں کرتے او ر یا اپنی اولاد کے متعلق غلط پالیسی میں مبتلا ہوتے ہیں۔اور ہر بچہ کو بلاوجہ اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں ۔حالانکہ بسا اوقات بی۔اے ۔ایم۔اے کی بجائے بچپن میں ہی کسی پیشہ وغیرہ میں ڈال دینا زیادہ مفید ہوتا ہے۔اور یورپ وامریکہ میں سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غرباء کے بچوں نے لوہار کا کام سیکھ کر بالاآخر ملک میں چوٹی کی پوزیشن حاصل کرلی اور بہت سی قیمتی ایجادیں ایسے ہی لوگوں کی محنت کا ثمرہ ہیں۔پس جب یورپ اور امریکہ کی قوموں میں یہ نمونہ پایا جاتا ہے تو اسلام میں جو حقیقی مساوات کا علمبردارہے یہ رنگ کیوں نہ پیدا ہو؟
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)






قادیان کاسالانہ جلسہ
حکومت ہندوستان نے ایک سو ہندوستانی احمدیوں کو اجازت دیدی ہے۔
جیسا کہ اعلان کیا جاچکا ہے قادیان کا سالانہ جلسہ انشاء اللہ ۲۶۔۲۷۔۲۸ ؍دسمبر ۱۹۴۸ء کو ہوگا۔قادیان کے دوستوں نے حکومت انڈین یونین سے درخواست کی تھی کہ وہ اس موقع پر انڈین یونین کے ایک سو احمدیوں کو بحفاظت قادیان پہنچانے اور پھر قادیان سے واپس دہلی تک لے جانے کا انتظام کرے۔سو آج اطلاع ملی ہے کہ حکومت انڈین یونین نے اس کی اجازت دے دی ہے اور ضروری انتظام کا وعدہ کیا ہے۔دراصل قانونی لحاظ سے تو اس میںاجازت کا سوال نہیں کیونکہ قادیان اور ہندوستان کے دوسرے علاقے ایک ہی حکومت کے ماتحت ہیں ۔لیکن چونکہ مشرقی پنجاب کا رستہ مخدوش ہے اس لئے حفاظت کے خیال سے ہمارے قادیان کے دوستوں نے اس قسم کی درخواست دی تھی ۔سو گو یہ اطلاع بہت تنگ وقت پر ملی ہے مگر بہر حال دہلی اور یوپی اور بہاراور مغربی بنگال اور حیدرآباد دکن وغیرہ کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس انتظام سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی جماعت کے نمایندے مقرر کرکے جلسہ سالانہ قادیان کی شرکت کے لئے بھجوائیں۔جن کی مجموعی تعداد ایک سو مقرر کی گئی ہے۔
انتظام یہ ہوگا کہ یہ سب دوست پہلے دہلی میں جمع ہونگے ۔اور وہاں سے حکومت کی اسکورٹ کے ساتھ اکٹھے ہو کر قادیان جائیںگے۔دہلی میں جماعت کے مبلغ مولوی بشیر احمد صاحب مولوی فاضل دارالتبلیغ انجمن احمدیہ کو چہ بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو دہلی کو اس بارہ میں سب ضروری تفاصیل کا علم ہے۔اور ان کے ساتھ بذریعہ تار یا خط وغیرہ پروگرام طے کر لینا چاہئے۔اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور حافظ وناصر رہے اور انہیں قادیان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔اٰمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)

مسمات نور بیگم زوجہ تاج دین صاحب احمدی قادیان کہاں ہیں؟
مسمات نور بیگم بیوہ تاج دین صاحب مرحوم محلہ مسجد اقصیٰ قادیان سکنہ خیر پور ضلع کانگڑہ جو محمد رمضان صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ قادیان ضلع کانگڑہ کی بہن ہیں۔انہوں نے سید نا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں امداد کی درخواست کی تھی ۔حضور ایدہ اللہ کی منظوری کے احکامات پہنچنے پر نوربیگم صاحبہ کی بہت تلاش کی گئی ۔مگر اب تک پتہ نہیں لگ سکا کہ وہ کہاں ہیں۔اگر کسی صاحب کو ان کے موجودہ پتہ کا علم ہوتواطلاع دے کر ممنون کریں۔فجزاکم اللّٰہ خیراً۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)








دوبیرون ہند مبلغین کے والد صاحبان کی وفات
چوہدری عمر دین صاحب اور ملک خدا بخش صاحب مرحوم
حال ہی میں ہمارے دو بیرون ہندو پاکستان مبلغوں کے والد صاحبان کی وفات واقع ہوئی ہے۔اپنے عزیزوں اور دوستوں کی جدائی کا صدمہ تو ہر حال میں ہی بہت رنجدہ اور صبر آزما ہوا کرتا ہے لیکن ایسے واقعات کہ جب لڑکا اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے سمندر پار گیا ہواہو اور اس کے پیچھے اس کے والد کی وفات ہوجائے۔ یہ اس قسم کے واقعات ہیں کہ جن میں یقینا صدمہ کی نوعیت زیادہ شدّت اور زیادہ تلخی اختیار کرلیتی ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ایسے حالات میں مرنے والوں کی روحوں کی مغفرت اور بلندیٔ درجات اور پسماندگان کی دینی ودنیوی ترقی اور بامرادی کے لئے زیادہ دعا کیا کریں کہ یہی وہ سب سے بہتر تحفہ ہے جو ایک بھائی دوسرے بھائی کو دے سکتا ہے۔
جن دوستوں کی وفات کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک توچوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ کے والد چوہدری عمر الدین صاحب ہیں۔اور دوسرے ملک عطاء الرحمٰن صاحب مبلغ فرانس اور ملک احسان اللہ صاحب مبلغ افریقہ کے والد ملک خدا بخش صاحب ہیں۔چوہدری عمرالدین صاحب کو جو کچھ عرصہ ہوا کراچی میں فوت ہوئے غالباََ زیادہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے۔کیونکہ وہ ایک کم گو اور الگ تھلگ رہنے والے انسان تھے مگر میں انہیں سالہا سال سے جانتا تھا۔اور میرے دل پر ان کی نیکی اور اخلاص کا بہت اچھا اثر تھا۔غالباََ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں تھے یا شاید بہت کم تعلیم ہوگی۔مگر ایمان اور اخلاص کا تعلق ظاہری تعلیم کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ دل کے جذبات کے ساتھ ہوتا ہے۔اور میں یقین رکھتا ہوں کہ چوہدری عمرالدین صاحب مرحوم دل کے جذبات کے لحاظ سے بہت بے نفس اور مخلص بزرگ تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی عطا کی تھی کہ ان کا ایک بچہ دین ودنیا کی اعلیٰ تعلیم پا کر خدمت اسلام کے لئے امریکہ بھجوا یا گیا ۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ان لوگوں کا ایمان جو علم اور عرفان میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیںاور ان کے تمام عقائد بصیرت پر مبنی ہوتے ہیں اور ہر امکانی شبہ جو ایمان یا عقائد کے راستہ میں پیدا ہو سکتا ہے اسکے دفعیہ کے لئے ان کا دماغ ہر وقت تیار ہوتا ہے۔دوسرے ان لوگوں کا ایمان جو بین بین کی حالت میں ہوتے ہیں۔یعنی ان کا علم اور عرفان کامل نہیں ہوتا مگر کسی قدر مطالعہ ضرور ہوتا ہے اور سو چنے کی عادت بھی ہوتی ہے لیکن اعلیٰ عرفان اور پورا علم کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ بعض اوقات ٹھوکر بھی کھا جاتے ہیں۔تیسرے ان لوگوں کا ایمان جو ایک مصلح کی غیرمعمولی نیکی یا اس کی تائید میں کوئی خاص نشان ِالٰہی دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں اور تفصیلات سے ان کو سروکار نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تفاصیل کے معاملہ میں ایمان بالغیب کا طریق اختیار کرتے ہوئے آمناّوصدقناکے مقام پر قائم رہتے ہیں۔حضور فرمایا کرتے تھے کہ یہ تیسری قسم کا ایمان دین العجائز کہلاتا ہے اور فرماتے تھے کہ عام لوگوں کا دین یہی ہوتا ہے اور ان کے لئے مناسب ہے کیونکہ اس طرح وہ درمیانی لوگوں کی نسبت ٹھوکروں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔ بہر حال چوہدری عمر الدین صاحب مرحوم ایک مخلص بزرگ تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کی روح کو اپنی رحمت کے سایہ تلے جگہ دے اور ان کی اولاد کا حافظ وناصر ہو اور دین ودنیاکی ترقی سے نوازے ۔آمین
دوسرے بزرگ ملک خدا بخش صاحب مرحوم تھے۔ میں ملک صاحب مرحوم کو بڑے لمبے عرصہ سے جانتا ہوں۔وہ نہایت مخلص اور فدائی اور سچے معنوں میں سلسلہ کے ایک قابلِ قدر کارکن تھے جب کبھی سلسلہ کا کوئی کام پیش آتا تھا تو وہ اس کام میں ہمیشہ دوسروں سے پیش پیش نظر آتے تھے۔اور اس بات میں ذرہ بھر شبہ نہیں کہ وہ لاہور کی جماعت کے ایک بھاری رکن تھے ۔جن کی وفات نے لاہور کی جماعت میں یقینا ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔میں ان لوگوں میں سے تو نہیں ہوں کہ یہ سمجھوں یا یوں کہوں کہ فلاں خلا ایسا ہے کہ جو کسی طرح بھرا نہیں جا سکتا کیونکہ ایسا خیال خدا کی صفت خلق وتکوین کے خلاف ہے۔اور اسی طرح وہ ہمارے مشاہدہ کے بھی خلاف ہے۔مگر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ یہ خلا ایسا ہے جسے لاہور کی جماعت کو خاص توجہ کے ساتھ بھر نے کی کوشش کرنی چاہیئے۔جب میں ملک صاحب مرحوم کا جنازہ پڑھنے کے لئے آیا تو مرحوم کے اوصاف حمیدہ کو یاد کرکے میرے دل میں اچانک یہ خیال پیدا ہوا کہ علم اور بصیرت رکھنے والے مومن بھی دراصل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جن کے ایمان کا مرکزی نقطہ ان کے دماغ یعنی مرکزِ عقل میں ہوتاہے اور دوسرے وہ جن کے ایمان کا مرکز ی نقطہ ان کے دل یعنی مرکزِ جذبات میں ہوتا ہے۔ ان میں سے قسم اول کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر دلائل اور براہین کی طرف رہتی ہے اور ان کے خیالات کا محور زیادہ تر عقل کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔لیکن دوسری قسم کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر اخلاص اور جذبات میں مرکوز ہوتی ہے اور ان کے خیالات کا محور محبت پر قائم ہوتا ہے۔اور میں نے مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور سے کہاکہ میرے خیال میں ملک صاحب مرحوم دوسری قسم کے مخلصین میں شامل تھے جن کے ایمان کے درخت کی جڑیں دماغ کی نسبت دل میں زیادہ جاگزیں ہوتی ہیںاور علم اور بصیرت رکھتے ہوئے بھی ان کی طبیعت میں محبت اور جذبات کا غلبہ رہتا ہے۔
بہر حال ہمیں ان دونوں وفات پانے والے دوستوں کی وفات کابہت صدمہ ہے اور ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند مقام پر جگہ دے اور ان کے بچوں اور دیگر پسماندگان کا حافظ وناصر ہو۔ملک صاحب مرحوم کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ ایک ہی وقت میں ان کے دو نوجوان بچے خدمتِ دین کے لئے سمندر پار گئے ہوئے ہیں اور حقیقتاََ یہ ایک بڑی بھاری سعادت ہے بلکہ حق یہ ہے کہ :
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)








ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایک صاحب کے تین سوالات
ایک دوست جو اپنا نام محمد الیاس ظاہرکرتے ہیں اپنے خط میں مجھ سے ذیل کے تین سوال پوچھتے ہیں۔
(۱)اللہ تعالیٰ کی ذات کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟
(۲)خدا تعالیٰ کی شکل کیسی ہے؟
(۳) خدا تعالیٰ یکدم سب کی دعا کس طرح سن لیتا ہے؟
یہ سوالات بظاہر بالکل سادہ اور عامیانہ ہیں بلکہ شاید بعض لوگ ان پر ہنسیں مگر اسی قسم کے سوالات فلسفیوں کو بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔لیکن اس جگہ میں ان کا صرف مختصر اور سادہ جواب دوں گا جو عام لوگوں کو آسانی کے ساتھ سمجھ آسکے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ابتداء کہاں سے ہوئی ؟سو اس کے جواب میں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر غور کیا جائے تو دوسرے الفاظ میں اس سوال کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کا خالق کون ہے ؟ مگر ظاہر ہے کہ خدا کے متعلق یہ سوال پیدانہیں ہوسکتا کیونکہ خدا کو کل کائنات کا خالق مانا جاتا ہے اور جو ہستی کسی اور کی مخلوق ہو وہ خالق بالکل نہیں ہو سکتی ۔یہ ایک بالکل موٹی اور عام فہم بات ہے کہ جو چیزمخلوق ہوگی وہ کسی صورت میں خدا نہیں سمجھی جاسکتی ۔کیونکہ مخلوق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کوئی اور خالق ہے اور جب کوئی اور اس کا خالق ہوا توپھر ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ خالق ہستی ہی خدا سمجھی جائے گی نہ کہ اس کے نیچے کی مخلوق ہستی ۔پس ثابت ہوا کہ خدائیت اور مخلوقیت کا مفہوم دراصل ایک دوسرے سے قطعی طور پرمتضاد واقعہ ہوا ہے۔ اور عقلاََ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتاکہ خدا کی ابتداء کس طرح ہوئی۔اسی لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید اََ فرمایاہے کہ تم ہر چیز کے متعلق یہ سوال اٹھا سکتے ہو کہ اس کا خالق کون ہے مگر جب خدا پر پہنچو تو پھر اس سوال سے رک جائو۔بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے علمی تحقیق کا رستہ بند کیا ہے۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کا رستہ بند نہیں کیا بلکہ جہالت کا رستہ بند کیا ہے۔ کیونکہ خدا کے متعلق یہ سوال اٹھانا کہ اس کا خالق کون ہے جہالت میں داخل ہے تم بے شک اگر سینہ زوری کرنا چاہو تو خدا کا انکار کر سکتے ہو مگر خدا کو مان کر اس کے مخلوق ہونے کا سوال نہیں اٹھاسکتے۔ باقی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں خدا کی ایک صفت الاوّل بھی آئی ہے اور سب سے اول ہستی کے متعلق یہ پو چھنا کہ اس سے پہلے کیا تھا ایک فضول سوال ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی شکل کیسی ہے ؟
سو محبت کے انداز میں تو یہ سوال بہت عمدہ اور ایک مومن کی قلبی تلاش کا سچا آئینہ ہے مگر علمی پہلو کے لحاظ سے یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ۔کیونکہ شکل وصورت کا سوال مادہ سے تعلق رکھتا ہے اور خدا کوئی مادی ہستی نہیں کہ اس کے متعلق شکل کا سوال پیدا ہو۔بلکہ وہ تو جاندارمادہ کے اندر کی روح سے بھی بالاہستی ہے اور مادہ اور روح دونو اس کی مخلوق ہیں۔پس خدا کی ذات کے متعلق ہر گز وہ سوال پیدا نہیں ہوسکتا جو مادہ وغیرہ جیسی محدود چیزوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔خوب سوچو کہ شکل وصورت والی چیزیں ایک طرف تو مادہ کی متقاضی ہیں اور دوسری طرف محدودیت کی ۔یعنی شکل صرف اسی چیز کی ہوسکتی ہے جو مادی اورمحدود ہو مگر خدا ان باتوں سے بالا ہے۔اسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۳۷
یعنی خدا ایسی ہستی ہے کہ اسے انسانی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے دل ودماغ اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں اس لئے وہ خود اپنی صفات کی تجلی کے ساتھ انسانوں کی طرف نازل ہوتا ہے ۔کیونکہ گو وہ لطیف ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آسکتا مگر وہ خبیر ہونے کی وجہ سے انسانوں کی ضرورتوں سے واقف ہے اور ان کی تلاش اور جستجو کا قدر دان بھی ہے۔
پس حق یہی ہے کہ خدا شکل وصورت کے سوال سے بالا ہے۔ہاں اس کے متعلق صفات کا سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے یعنی یہ کہ خدا میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں اور دراصل اس کی صفات ہی اس کی شکل وصورت ہیں ۔جس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۱۳۸یعنی خدا بہترین صفات کا مالک ہے ۔پس میرے سوال کرنے والے دوست اس فضول الجھن میںنہ پڑیں کہ خدا کی شکل کیاہے ۔کیونکہ اگربفرض محال ان کو اس سوال کا جواب مل بھی جائے تو پھر بھی خدا کی ظاہری شکل و صورت انہیں د ین ودنیا میں کسی کام نہیں آسکتی ۔ہاں خدا کی یہ صفات کہ مثلاََ وہ ربّ العالمین ہے اوروہ رحیم ہے۔اور وہ رحمٰنہے اور وہ مالک یوم الدین ہے وغیرہ وغیرہ۔ ضرور ان کے اور ہم سب کے کام آنے والی ہیںاور انہی کی طرف مومن کی توجہ ہونی چاہئے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ خدا ایک ہی وقت میں سب کی دعا کس طرح سن لیتا ہے؟ یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ سائل نے خدا جیسی کامل اور خالق الکل اور وراء الوراء ہستی کو بھی اپنی محدود طاقتوں پر قیاس کیا ہے اور خیال کیا ہے کہ جب ہم بہت سی آوازوں کے شوروغوغا میں کسی شخص کی بات نہیں سن سکتے تو خداان کروڑوں لوگوں کی دعا کس طرح سن سکتا ہے جو ایک ہی وقت میں اس سے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔اسی قسم کا سوال گو اس سے بہت زیادہ دانشمندانہ رنگ میں صحابہ ؓ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔ یعنی جب آنحضرت صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ قیا مت کے دن سب مومن خدا کو دیکھیں گے توگو اس کے اصل معنی تو خدا کی کامل اور برملا تجلی کے تھے مگر صحابہ نے اپنی محبت کے جوش میں یہ سوال کیا کہ یارسول اللہ قیامت میں تو اگلی پچھلی مخلوق ایک جگہ ہوگی پھر وہ سب خدا کوبہ یک وقت کس طرح دیکھ سکیں گے؟تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے ساتھ فرمایا اور سبحان اﷲ کیا خوب فرمایا کہ کیاجب ساری دنیا پرچاند طلوع ہوتا ہے تو تم اسے دیکھنے میں کسی قسم کی دقت یا اژدھام محسوس کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں ۔آپ نے فرمایا تو پھر اسی پر تم اپنے سوال کے جواب کا قیاس کرلو۔
اور حق یہ ہے کہ اصولی طور پر یہی ہمارے موجودہ سوال کا جواب ہے اور وہ یہ نعو ذبا للہ ہمارا خدا محدود صورت اختیار کرکے اور محدود طاقتوں کے اندر جکڑا جاکر ہمارے پاس نہیں بیٹھا ہؤا کہ اس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوکہ وہ ایک ہی وقت میں ساری دنیا کی دعائیں کس طرح سن سکتا ہے؟وہ باوجود نزدیک ہونے کے اسقدر وراء الوراء ہے کہ اس کی یہ دوری ہی اژدھام کی مانع ہے اور اس کی سننے کی طاقت ہمارے مادی کانوں سے اس قدر مختلف ہے کہ انسان کی محدود طاقتوں پر اس کی لامحدود طاقتوں کو قیاس کرنا جہالت ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیزہے۔کیونکہ خدا کی ذات کی طرح اس کی یہ صفت بھی لامحدود پہلو رکھتی ہے اور آوازوں کا تجزیہ اس کے لئے ہر گز کوئی مشکل کام نہیں بل ھو علی ربّکم ھَیّنٌ یااولی الالباب۔
پس اس وقت میں ان سوالوں کا یہی مختصر جواب دوں گا کیونکہ مفصل جواب کی نہ تو اس وقت میرے پاس فرصت ہے اور نہ الفضل کے کالموں میں اس کی گنجائش ہے۔البتہ جو دوست مفصل جواب چاہیں وہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی لطیف تصنیف ’’ ہستی باری تعالیٰ ‘‘اور خاکسار کی تصنیف ’’ہمارا خدا ‘‘ کا مطالعہ کرکے فائدا اٹھا سکتے ہیں جن میں اس قسم کے سب سوالوں کا مفصل جواب موجود ہے۔وما تو فیقنا الا با للّٰہ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۸ئ)


قادیان کے جلسہ کا پہلا دن
دہلی ۔یو۔پی۔بہار۔مغربی بنگال کے احمدی نمائندے بھی شریک ہوئے
قادیان سے بذریعہ ٹیلیفون اطلاع ملی ہے کہ قادیان کے جلسہ سالانہ کی شرکت کے لئے دہلی اور یو پی اور بہار اور مغربی بنگال کے ۶۶ احمدی اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندہ کے طور پر قادیان پہنچے ہیں یہ دوست پہلے دہلی میں جمع ہوئے۔اور پھر دہلی کے احمدی مبلغ مولوی بشیر احمد صاحب مولوی فاضل کی معیت میں پولیس اسکورٹ کے ساتھ قادیان پہنچے۔اورخدا کے فضل سے سفر ہر طرح خیریت کے ساتھ گذرا۔
قادیان کے جلسہ کی کارروائی ۲۶دسمبر کی صبح کو پرانے زنانہ جلسہ گاہ میں جو حضرت مولوی سرور شاہ صاحب مرحوم ؓ کے مکان کے سامنے ہے ،شروع ہوئی ۔اس جلسہ میں کل حاضری نوسوپچیس (۹۲۵) تھی۔جن میں ۳۲۵ ہماری جماعت کے دوست تھے۔اور ۲۰۰ غیرمسلم تھے۔جلسہ کی کارروائی انشاء اللہ ۲۸؍ تاریخ کی شام تک جاری رہے گی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍دسمبر ۱۹۴۸ئ)




فہرست حوالہ جات
۱۹۴۸ء
۱- تذکرہ صفحہ ۲۵۶ ۔طبع ۲۰۰۴ء
۲- الفاتحہ : ۶
۳- الفاتحہ : ۶،۷
۴- طٰہٰ:۱۱۵
۵- البقرہ : ۲۲۰
۶- البقرہ: ۴۶
۷- البقرہ:۱۸۷
۸- تذکرہ ۔صفحہ ۷۷۔ طبع ۲۰۰۴ء
۹- اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین جلد ۱،صفحہ ۲۰۴۔۲۰۵
۱۰- صحیح بخاری کتاب الاذان باب قول الرجل فاتتنا صلوٰۃ
۱۱- صحیح البخاری کتاب الحج باب ایَّام مِنٰی
۱۲- المائدہ : ۱۰۲
۱۳- صحیح البخاری کتاب بدئِ الوحی باب کیف کان بَدْء الوحی اِلٰی رسول اﷲ
۱۴- الکھف : ۱۰۵
۱۵- ص ٓ: ۸۷
۱۶- سنن ابو داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ
۱۷- جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ۔ (مفہوماً)
۱۸- صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصَّبیُّ فَمَات، ھَلْ یُصَلّی عَلَیْہِ؟
۱۹- تحفۃ الاحوذی شرح سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء لا تقبل
صلوٰۃ بغیرطہورٍ
۲۰- کنز العمال الجز نمبر ۱۰ حدیث نمبر ۲۸۶۹۷
۲۱- الذٰریٰت :۔۵۷
۲۲- الکھف: ۵۱
۲۳- الاعراف :۱۳
۲۴- ص ٓ:۔ ۸۵۔۸۶
۲۵- الاعراف: ۱۸۵
۲۶- الکھف۔۱۰۵۔۱۰۶
۲۷- الانعام:۲
۲۸- النور: ۳۶
۲۹- التحریم:۷
۳۰- الحجر:۔۲۸
۳۱- الکھف:۵۰۔
۳۲- الذٰریٰت:۵۷۔
۳۳- الاعراف:۱۳
۳۴- الحجر:۳۷ تا۳۹
۳۵- آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۸۲ تا۸۵۔حاشیہ
۳۶- حٰم ٓ السجدہ۔ ۴۳
۳۷- المرسلات: ۵۱
۳۸- البقرہ : ۲۸۱
۳۹- صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اﷲ تعالیٰ اطیعوا اﷲ
و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم
۴۰- آل عمران:۔ ۲۰۱
۴۱- یونس: ۱۵
۴۲- النساء :۶۰
۴۳- صحیح مسلم کتاب الا مارۃ باب الکراھۃ الامارۃ بغیر فہرۃ
۴۴- صحیح مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف
۴۵- السیرۃ لا بن حبان۔ اخباء الخلفاء استخلاف ابی بکر
۴۶- النساء : ۱۳۶
۴۷- المائدہ : ۹
۴۸- سنن الترمذی کتاب الاحکام باب ماجاء لا یقفی القاضٰی وھو غضبان
۴۹- الجامع الصغیر و زیارتہ
۵۰- سنن الترمذی کتاب الاحکام باب ماجاء فی القاضی لا یقضی بین الخصمین
حتّٰی یَسْمَعَ کَلَا مَھْمَا
۵۱- سنن ابو داؤد، کتاب الادب باب الرفق
۵۲- سنن ابو داؤد کتاب الاقضیۃ باب فی الرجل (فیمن یعین علی خصومۃ)
۵۳- النساء : ۸۶
۵۴- الرعد: ۱۸
۵۵- تذکرہ صفحہ ۱۸۱۔ تا ۱۸۴۔ مفہوماً۔ طبع ۲۰۰۴ء
۵۶- الجمعۃ ۔۵
۵۷- ابراہیم:۔ ۸
۵۸- تذکرہ صفحہ ۳۶۷۔ طبع ۲۰۰۴ء
۵۹- تذکرہ صفحہ ۱۶۸۔ طبع ۱۰۰۴ء
۶۰- تذکرہ صفحہ ۱۷۲۔ طبع ۲۰۰۴ء
۶۱- تذکرہ صفحہ ۲۵۷۔ طبع ۲۰۰۴ء
۶۲- تذکرہ صفحہ ۷۲۔ طبع ۲۰۰۴ء
۶۳- تذکرہ صفحہ ۷۲ طبع ۲۰۰۴ء
۶۴- تذکرہ صفحہ ۱۳۷ طبع ۲۰۰۴ء
۶۵- تذکرہ صفحہ ۶۶۶ طبع ۲۰۰۴ء
۶۶- الفرقان : ۷۸
۶۷- سنن الترمذی کتاب الدعوۃ باب فضل الدعا
۶۸- البقرہ : ۱۸۷
۶۹- کنز العمال الباب الثامن الدعا حدیث ۳۱۷۱۔ جامع العلوم و الحکم جز اوّل صفحہ ۳۹۳
۷۰- صحیح مسلم کتاب الذکرو الدعا و التوبۃ باب انہ یستجاب للداعی مالم
بعجل فیقول دعوت فلم یستجب لی۔
۷۱- صحیح البخاری کتاب الدعوت باب لیعزم المسالَۃَ فإِ نَّہُ لَا مُکرِہَ لَہُ
۷۲- الفاتحۃ : ۶۔۷
۷۳- سنن الترمذی ابواب الصلوٰۃ ۔ باب ماجاء انَّہٗ لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب
۷۴- تذکرہ صفحہ ۷۴ ۔طبع ۲۰۰۴ء
۷۵- ترمذی کتاب البروالصلہ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک
۷۶- الاحقاف: ۱۶
۷۷- بنی اسرائیل : ۲۵
۷۸- الفرقان : ۷۵
۷۹- سنن الترمذی کتاب الدعوات۔ باب ماجاء فی الدعاء اذا اویٰ الی فراشہ
۸۰- سنن الترمذی کتاب القدر باب ماجاء لا یرد القدر الا الدعاء
۸۱- یوسف: ۲۲
۸۲- البقرہ : ۱۳۵
۸۳- کنز العمال ۔ الجزء ۱۱ حدیث ۳۱۸۳۴
۸۴- تفسیر الرازی زیر آیت ’’ومن احسن قولا ممن دعا الی اﷲ‘‘(حٓمٓ السجدہ: ۳۴،۳۵)
۸۵- مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزول عیسٰی علیہ السلام
۸۶- البقرہ : ۲۸۷
۸۷- آل عمران : ۱۴۸
۸۸- آل عمران: ۱۹۴
۸۹- الا عراف: ۲۴
۹۰- صحیح مسلم کتاب الذکروا لدعا باب فصل التحلیل والتسبیح
۹۱- اللھم اغفرلی ذنبی واجیم نی من الشیطان الرجیم۔
۹۲- سنن الترمزی کتاب الدعوت باب ۸۷
۹۳- صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اﷲ عزوجل
۹۴- تذکرہ صفحہ ۱۵۷۔ طبع ۲۰۰۴ء
۹۵- الجمعۃ : ۴
۹۶- بشیر احمد شریف بعد مبارکہ کی آمین۔ درثمین اُردو
۹۷- طٰہٰ: ۵۳
۹۸- صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فی فضل عائشہ
۹۹- صحیح البخاری باب کیف کان بدئُ الوحی الٰی رسول اﷲ
۱۰۰- صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب النھی عن الا نتباذ فی المزفت والدباء
و الحنتم والنقیر
۱۰۱- صحیح مسلم کتاب الجنائز باب استئذان النبی صلعم ربہ عزوجل فی زیارۃ قبرامہ
۱۰۲- النسائ: ۵۹
۱۰۳- الرحمن: ۶۷، ۲۸
۱۰۴- صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر باب کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
اذالم یقاتل اوّل النھار
۱۰۵- الحج : ۴۰
۱۰۶- الانفال: ۶۱
۱۰۷- آل عمران : ۲۰۱
۱۰۸- الصف : ۵
۱۰۹- الا نفال : ۱۶،۱۷
۱۱۰- النساء : ۱۰۵
۱۱۱- التوبۃ : ۵۳
۱۱۲- الا نفال : ۶۶
۱۱۳- الا نفال : ۶۲
۱۱۴- مسند احمد بن حنبل مسند الکوفیین حدیث عمران ابن حصین حدیث نمبر ۱۹۹۵۱
۱۱۵- بشیر احمد شریف بعد مبارکہ کی آمین۔ درثمین اُردو
۱۱۶- موطا امام مالک کتاب الجہاد باب النہی عن قتل النساء ولولدان فی الغزو
۱۱۷- تذکرہ صفحہ ۳۰۔ طبع ۲۰۰۴ء
۱۱۸- مؤطا امام مالک کتاب الکلام ما بقرأۃ من الکلام
۱۱۹- سنن الترمذی کتاب الجہاد باب ماجاء فی الفرارِ من الزحف
۱۲۰- صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب وجوبِ الزکوۃ
۱۲۱- الشعراء : ۲۲۰
۱۲۲- صحیح بخاری کتاب الدعوات۔ باب مایقول اذا اتی اھلہ
۱۲۳- الفتح: ۳۰
۱۲۴- بنی اسراء یل : ۳۲
۱۲۵- سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب عن النبی من لم یطرمن النساء
۱۲۶- ھود : ۷۳،۷۲
۱۲۷- مریم:۵ تا ۱۰
۱۲۸- کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد ۱۹۔ صفحہ ۲۰۔ ۲۱۔
۱۲۹- الحجر: ۵۷
۱۳۰- تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰۔ صفحہ ۶۶۔ ۶۷
۱۳۱- تذکرہ صفحہ ۲۵۶۔۲۵۷۔ طبع ۲۰۰۴ء
۱۳۲- الرعد : ۴۳
۱۳۳- الا عراف :۱۸۷
۱۳۴- تذکرہ صفحہ ۲۴۲۔ طبع ۲۰۰۴ء
۱۳۵- بنی اسرائیل :۳۲
۱۳۶- ھود : ۷
۱۳۷- الانعام : ۱۰۴
۱۳۸- الحشر:۲۵




۱۹۴۹ء
جلسہ قادیان میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کا پیغام
دوسرے دن کے اجلاس میں چودہ سو کے قریب حاضری تھی
جلسہ سالانہ قادیا ن کے پہلے دن یعنی ۲۸؍ دسمبر کی کارروائی کی مختصررپورٹ الفضل میں شائع ہو چکی ہے ۔۲۹؍ تاریخ کو دوپہر کے قریب انڈین یونین کے چھیاسٹھ احمدی دوست مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی کی امارت میں قادیان پہنچے ۔ان میںحکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سید وزارت حسین صاحب پروانشل امیر صوبہ بہار بھی شامل تھے۔ان دوستوں کے استقبال کے لئے ہمارے قادیان کے دوست قادیان کے ریلوے اسٹیشن پرگئے اور سب دوستوں کو اپنے انتظام میں حلقہ مسجدمبارک میں لے آئے۔ ہندو ملٹری بھی ساتھ تھی اور بہت سے غیر مسلم یہ نظارہ دیکھنے کے لئے جمع تھے۔
۲۶ تاریخ کے دوسرے اجلاس میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جو حضور نے اس موقع کے لئے لکھ کر قادیان بھجوایا تھا۔ جب یہ پیغام پڑھ کر سنایا جارہا تھا تو اکثر دوست چشم پُر آب تھے اور غیر مسلم حاضرین نے بھی بڑی توجہ سے سنا ۔اسی طرح جب ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم نواب محمد علی خانصاحب ؓ کی تا زہ نظم سنائی گئی تو اکثر دوستوںپر رقت طاری ہوگئی۔
دوسرے د ن یعنی ۲۷؍ دسمبر کی پہلے وقت کی کارروائی میں ساڑھے آٹھ سو کے قریب حاضری تھی اور دوسرے وقت میں چودہ سو کے قریب پہنچ گئی ۔ جس میں ساڑھے تین سو ہمارے اپنے دوست تھے اور باقی سب غیر مسلم تھے۔ مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ قادیان لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کی یہ تعداد اس تعداد سے بھی زیادہ ہے جو خود ہندوؤں اور سکھوں کے جلسوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا بہت اچھا موقع میسر آگیا۔جلسہ میں مجسٹریٹ علاقہ اور ڈی۔ ایس ۔ پی اور انسپکٹر پولیس اور متعدد سب انسپکٹر پولیس شریک ہوئے اور تمام تقریروں کو توجہ سے سنتے رہے اور گورداسپور سے فوج کے ایکٹنگ کمانڈر بھی آکر شریک ہوئے اور یہاں کے احمدیوں کو مل کر بہت خوش ہوئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍جنوری ۱۹۴۹ئ)
کشمیر میں لڑائی بند ہوگئی!
مگر کشمیر کی مہم کا اصل کام اب شروع ہوتا ہے
استصواب رائے عامہ کے لئے وسیع انتظام کی ضرورت
کل شام کو ریڈیو سے یہ خبر نشر ہوئی جو آج اخباروں میں چھپ بھی گئی ہے کہ مجلس اقوام متحدہ کی ہدایت کے ماتحت پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے استصواب رائے عامہ کے اصول کو تسلیم کرکے اس کی جدید شرائط کو مان کر کشمیر میں لڑائی بند کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ لڑائی گذشتہ شب کو بارہ بجے سے ایک منٹ قبل بند ہوچکی ہوگی۔ ایک منٹ قبل کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ لڑائی کا یہ خاتمہ یکم جنوری کی تاریخ میں شمار ہوسکے اور نئے سال کا آغاز اچھی فال کے ساتھ ہو۔
طبعاً اس فیصلہ پر دونوں حکومتوں کے لیڈروں نے تسلی اور خوشی کا اظہار کیا ہے اور بات بھی یہی ہے ۔اگر امن اور صلح کے ساتھ منصفانہ فیصلہ ہوسکے ،کوئی عقلمند لڑائی کے طریق کو اچھا نہیں سمجھ سکتا۔لیکن ضروری ہے کہ جو شرائط رائے عامہ کے شمار کرنے کے لئے فیصلہ کی گئی ہیں اور جن کی تفصیل کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ،وہ حق وانصاف پر مبنی ہوںتا کہ رائے شماری کا کام صحیح معنوں میں پوری پوری آزادی کے ساتھ سرانجام پاسکے اور کسی قسم کی ناواجب دخل اندازی یا دبائو یا دھمکی یا لالچ کا احتمال باقی نہ رہے۔ سو ان باتوں کا اندازہ کچھ تو شرطوںکے اعلان پر اور کچھ ان کے عملی اجراء پرہو سکے گا کیونکہ کئی باتیں کہی اور طرح جاتی ہیں اور عملاً ہوتی اور طرح ہیں۔
لیکن اس جگہ جس خاص بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آزاد گورنمنٹ اور حکومت پاکستان کو ابھی سے استصواب رائے عامہ کے لئے تیاری شروع کردینی چاہیئے۔
اس کے کام کا تجربہ رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام کس قدر بھاری اور کس قدر نازک اور کس قدر پیچیدہ ہوا کرتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اس کام کے مقابلہ پر ایک طرح سے بند ہونے والی جنگ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور اگر خدانخواستہ ہمارے کارکنوں کی سستی یاغفلت یا غلطی سے اس کام کو نقصان پہنچ گیا تو یہ ایک ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی بعد میں کبھی نہیں ہوسکے گی۔ بدقسمتی سے ہماری قوم کا ایک حصہ بلکہ معتدبہ حصہ صرف زور لگانا جانتا ہے اور باقاعدہ تنظیم کے طریق پر جدوجہد نہیں کرسکتا۔ حالانکہ جن حالات میں کشمیر کی ریاست میں رائے شماری کا کام ہوتا نظر آتا ہے، وہ بڑی بھاری تنظیم اور نہایت وسیع انتظامات اور ایک لمبے عرصہ کی مسلسل جدوجہد چاہتا ہے۔ جس کے لئے ہزاروں محنتی اور سمجھدار کارکنوں کو ایک وسیع علاقہ میں پھیلانا ہوگا۔ یہ خیال کرنا کہ ہر مسلمان کہلانے والا لازماً پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا یا یہ کہ ہر غیر مسلم لازماً ہندوستان کے حق میں ووٹ دے گا، درست نہیں ہے بلکہ کمزور مسلمانوں کو سنبھالنے اور انصاف پسند غیرمسلموں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے بھاری جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ کشمیر میں رائے شماری کا کام اپنے ساتھ یہ خاص مشکل بھی رکھتا ہے کہ لاکھوں مسلمان ریاست کی حدود سے بھاگ کر پاکستان کے مختلف حصوں میں پناہ لے چکے ہیں اور ہزاروں مارے بھی جاچکے ہیں اور بعض مظلوم مسلمان دورافتادہ جیلوں میں یا اغوا ہوکر غیرمسلم اکابر کی حراست میں بھی محبوس ہوں گے۔ پس گو ہم مرے ہوئے لوگوں کو تو واپس نہیں لاسکتے مگر ان لاکھوں پراگندہ اور منتشر شدہ ووٹروں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ یہ خیال کرنا کہ کشمیر کے پناہ گزین صرف سیالکوٹ اور گجرات اور جہلم اور راولپنڈی وغیرہ کے سرحدی ضلعوں کے ریفیوجی کیمپوں میں ہی جمع شدہ بیٹھے ہیں ہرگز درست نہیں۔ کیونکہ ایک بھاری تعداد کیمپوں سے باہر مختلف مقامات میں پھیل چکی ہے اور پھر ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ان ضلعوں کی حدود سے نکل کر پنجاب کے باقی اضلاع یا صوبہ سرحد یا سندھ وغیرہ کی طرف جاچکی ہے اور ان میں سے بعض کی جائے قیام کا پتہ لگانا بھی آسان کام نہیں۔ لیکن بہرحال اگر اس الیکشن کو جیتنا ہے تو پھر ان سب منتشر دھاگوں کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کرنا ہوگا اور یہ وہ کام ہے جس کے لئے حکومت کو نہ صرف مسلم لیگ اور دوسری پبلک جماعتوں کا تعاون درکار ہوگا بلکہ دراصل ملک کے ہر فرد اور ہر شہری کی امداد ضروری ہوگی۔
اسی طرح اس بات پر بھی کڑی نگرانی رکھنی ہوگی کہ کوئی فریق فرضی اور جعلی ووٹیں بھگتا کر ناجائز ذرائع استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یا ووٹروں پر دبائو یا لالچ کا اثر ڈال کر صحیح طریق انتخاب میں رخنہ انداز نہ ہو۔
الغرض یہ ایک بہت وسیع اور بہت بھاری اور بہت نازک کام ہے، جس کے لئے لمبی اور غیرمعمولی تیاری کی ضرورت ہے اور مسلمان پریس کا یہ فرض ہے کہ ابھی سے اس معاملہ میں پراپیگنڈا شروع کرکے حکومت اور پبلک دونوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ جن امور کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کی ضرورت ہے، وہ میرے خیال میں یہ ہیں:-
۱۔انتخاب کی مہم لڑنے کے لئے ایک واقف کار اور دیانت دار اور چوکس اور محنتی اور بااثر مرکزی افسرمقرر کیا جائے جو اس سارے کام کا انچار ج ہو اور اس کے ساتھ مشورہ کے لئے دو یا تین سمجھدار واقف کاروں کی کمیٹی مقرر کردی جائے۔
۲۔ اس مرکزی افسر کے ماتحت ریاست جموں اور کشمیر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل اور ہر تھانہ میں ضلع وار اور تحصیل وار اور تھانہ وار افسر مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے علاقہ میں کام کے ذمہ دار ہوں اوراپنے علاقہ کے ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گائوں کے ساتھ براہ راست ملاپ پیدا کریں اور ان کے ماتحت ہر گائوں میں مقامی افسر بھی مقرر ہوں اور اس طرح تنظیم کا ایک وسیع جال سارے علاقہ میں پھیلادیا جائے۔
۳۔پاکستان میں آئے ہوئے کشمیری پناہ گزینوں کو ضبط میں لانے اور ان کی فہرستیں بنانے اور انہیں وقت پر اکٹھا کرنے کے لئے مرکزی افسر کے ماتحت ایک علیحدہ افسر مقرر کیا جائے جس کے ماتحت حسب ضرورت علاقہ وار افسر مقرر کئے جائیں۔
۴۔ رائے دہندگان کی فہرست کی تیاری ایک بڑا بھاری اور نہایت اہم کام ہے۔ اس کام پر ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جو اس کام کے واقف اور تجربہ کار ہوں۔ وہ نہ صرف فہرست ووٹران کو مکمل صورت میں تیار کرائیں تاکہ کوئی شخص جو ووٹربن سکتا ہے باہر نہ رہ جائے بلکہ فہرست کی ہر تفصیل کو بھی چیک کرکے اس کی صحت کے متعلق پوری پوری تسلی کرلیں کیونکہ بسااوقات غلط اندراج کی وجہ سے صحیح ووٹ بھی ضائع ہوجایا کرتی ہے۔ کام کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک ایک ووٹ بے انتہا قیمت رکھتی ہے اور اس قیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب فیصلہ کا دارومدار آخری ووٹ پر آجاتا ہے۔ ووٹروں کی فہرست کا متعلقہ حصہ ہر کارکن کے پاس موجود رہنا چاہیئے۔ اس غرض کے لئے حسب ضرورت اپنی فہرستیں چھپوائی جاسکتی ہیں۔
۵۔ریاست جموں وکشمیر کے مختلف ضلعوں اور مختلف تحصیلوں اور مختلف حلقوں کے تفصیلی نقشے تیار کرائے جائیں جن میں ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گائوں دکھایا جائے تاکہ وقت پر کوئی بستی نظرانداز نہ ہوسکے اور ایسے نقشوں میں رستے اور پل بھی دکھائے جائیں اور ان نقشوں کی کاپیاں سب متعلقہ افسروں کے پاس موجود رہیں۔
۶۔ بعض مقامی واقف کار مخصوص طورپر اس ڈیوٹی پر مقرر کئے جائیں کہ وہ فریق ثانی کے ووٹروں کی پڑتال کرتے رہیں تاکہ کوئی غلط ووٹ نہ ڈالا جاسکے۔
۷۔پولنگ کے وقت نہ صرف پولنگ اسٹیشنوں پر بلکہ علاقہ میں بھی ایسا عملہ متعین ہو جو اپنی نگرانی میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال نکال کر پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچائے اور پھر پولنگ اسٹیشنوں پر اپنی نگرانی میں ان کے ووٹ دلوائے۔
۸۔پاکستان کے حق میں مضبوط اور مدلل پراپیگنڈا کرنے کے لئے مؤثر اور عام فہم دلیلیں مرتب کرکے انہیں اخباروں اور پوسٹروں اور پمفلٹوں اور اشتہاروں اور پھر تقریروں اور مساجد کے خطبوں وغیرہ کے ذریعہ ہر خاص وعام کے دل میں بار بار کے تکرار سے راسخ کردیا جائے۔
۹۔ کوئی ایسا طریق اختیار نہ کیا جائے بلکہ ہر ایسے اقدام کا حکمت اور مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے جو کسی طرح فساد پیدا کرنے والا ہو کیونکہ عموماً ایسے انتخابوں میں اقلیت کی یہ کوشش ہؤا کرتی ہے کہ وہ فساد پیدا کرکے اکثریت کے ووٹروں کو منتشر کردے یا کوئی اور ناگوار شاخسانہ کھڑا کردے اور لازماً اس قسم کے فساد اکثریت والی پارٹی کے خلاف ہی زیادہ اثر پیدا کیا کرتے ہیں۔
۱۰۔بالآخر حکومت کے لیڈروں کا یہ کام ہے کہ وہ انتخاب کے لئے ایسی شرائط اور ایسی تفاصیل طے کرائیں جو پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ مفید ہوں اور انتخاب کا یونٹ بھی (بشرطیکہ یونٹ کا سوال پیدا ہوتا ہو) بہت سوچ سمجھ کے ساتھ مقامی حالات کے مطالعہ کے بعد اختیار کرنا چاہیئے کیونکہ ایسے انتخابوں میں یونٹ کے نتیجہ میں بھی کافی فرق پڑجایا کرتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان اور آزاد گورنمنٹ کے افسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ استصواب رائے عامہ کے شرائط کے اجراء کی ایسی چوکس اور کڑی نگرانی رکھیں کہ اس میں کوئی عملی رخنہ پیدا نہ ہوسکے۔
۱۱۔ اوپر کے سارے کام کے لئے بھاری اخراجات کی ضرورت ہوگی اور ان اخراجات کے مہیا کرنے میں ہرگزخست سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ گو اس بات کی بھی سخت نگرانی ہونی چاہیئے کہ فضول خرچی یا خیانت وغیرہ کے طریق پر قومی مال کو نقصان نہ پہنچے۔
۱۲۔ مادی ذرائع کے علاوہ ایک روحانی ذریعہ بھی ہے جو دعا سے تعلق رکھتا ہے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کام کے لئے جو ایک طرح سے گویا پاکستان کے واسطے زندگی اور موت کے سوال کا رنگ رکھتا ہے ،خصوصیت سے دعائیں کریں اور برابر کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں مسلمانوں کو نمایاں کامیابی عطا کرے اور پاکستان کو سرخروئی حاصل ہو۔ وَمَاذَالِکَ عَلَی اﷲِ بِعَزِیْز وَآخِرُ دَعْوَانا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔
نوٹ:- شرائط کے اعلان کے بعد ممکن ہے کہ اوپر کی تجاویز میں کوئی تبدیلی ضروری سمجھی جائے مگر بہرحال اصولی تنظیم اسی سے ملتی جلتی لائن پر ضروری ہوگی۔اور خواہ آخری صورت کوئی ہو، اس بھاری کام کے لئے ابھی سے تیاری شروع کردینی چاہئے کہ بعض اوقات اس قسم کی عارضی صلحیںزیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتیں ۔ اور جنگ بند ہونے کے بعد پھر جنگ شروع ہوجانے کاخطرہ رہتا ہے۔
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَظِیْمِ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ جنوری ۱۹۴۹ئ)







اہل قادیان کے نام پیغام
سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا تازہ کلام
گزشتہ جلسہ سالانہ قادیان کے لئے امیرصاحب جماعت قادیان نے درخواست کی تھی کہ اس موقع پر ہمشیرہ عزیزہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کوئی نظم لکھ کر ارسال کریں۔ چنانچہ انہوں نے میری تحریک پر ذیل کی نظم لکھی اور وہ خدا کے فضل سے قادیان میں بہت مقبول ہوئی اور اکثر دوستوں پر رقّت طاری ہوگئی اورغیرمسلم حاضرین بھی اس نظم کو سن کر بہت متاثر ہوئے۔
خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو
دیارِ مہدیٔ آخر زماں میں رہتے ہو
قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں ’حرم‘
تم اس زمیں کرامت نشاں میں رہتے ہو
خدا نے بخشی ہے الدّار کی نگہبانی
اُسی کے حفظ اس کی اماں میں رہتے ہو
فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر
ہم اس سے دُور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو
فضا ہے جس کی معطّر نفوس عیسیٰ سے
اسی مقامِ فلک آستاں میں رہتے ہو
نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل
کہ قربِ خطّۂِ رشکِ جَناں میں رہتے ہو
تمہیں سلام و دُعا ہے نصیب صبح و مسا
جوارِ مرقدِ شاہِ زماں میں رہتے ہو
شبیں جہاں کی شبِ قدر اور دن عیدیں
جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو
کچھ ایسے گُل ہیں جو پژمردہ ہیں جدا ہوکر
انہیں بھی یاد رکھو ’گلستاں‘ میں رہتے ہو٭
تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی
تمہاری قید پہ صدقے ہزار آزادی
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍جنوری ۱۹۴۹ئ)








٭:-یہ شعر کچھ تبدیلی کے ساتھ علامہ اقبال سے مستعار لیا گیا ہے۔
’’بلبل ہوں صحنِ باغ سے دُور اور شکستہ پر
پروانہ ہوں چراغ سے دُور اور شکستہ پر‘‘
قادیان کی جائیداد فروخت نہ کی جائے
احباب کو معلوم ہے کہ ہردوحکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو شہری جائیدادیں (مکانات وغیرہ)مسلمان یا غیر مسلم دوسرے علاقہ میں چھوڑ آئے ہیں ، وہ دوسری اقوام کے لوگوں کے پاس فروخت کی جاسکتی ہیں اور ان کا مستقل تبادلہ بھی ہو سکتا ہے ۔ چونکہ اس فیصلہ پر بعض احمدی دوست غلطی سے قادیان کی جائیداد کے فروخت کرنے کا خیال کر سکتے ہیں۔اس لئے تمام دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ قادیان کی جائیداد کسی صورت میںکسی غیر مسلم کے پاس فروخت نہ کی جائے او رنہ اس کا کوئی مستقل تبادلہ کیاجائے ۔البتہ جیسا کہ پہلے اعلان کیا جاچکاہے قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ جنوری ۱۹۴۹ ئ)



عزیزہ امۃ السلام بیگم سلمہا کا اپریشن کامیاب ہوگیا ہے
جیسا کہ الفضل میں دعا کی تحریک کرتے ہوئے اعلان کیا گیا تھا کہ عزیزہ امۃ السلام بیگم سلمہا کے گلے کا گوائٹر کا اپریشن خداکے فضل سے کامیاب ہوگیا ہے۔ یہ اپریشن ڈاکٹر امیرالدین صاحب سرجن نے میوہسپتال میں کیا اور اب عزیزہ امۃ السلام اسی ہسپتال کے ایک فیملی کوارٹر میں زیر علاج ہے۔ دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے جلد کامل شفاء عطا فرمائے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍جنوری ۱۹۴۹ئ)





سیّدوزارت حسین صاحب کا خط سٹیٹسمین دہلی کے نام
ایک غلط فہمی کی ضروری تردید
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے گذشتہ جلسہ سالانہ قادیان میں دہلی، یو۔پی، بہار اور بنگال وغیرہ کے ۶۶ دوست بھی شریک ہوئے تھے اور ان دوستوں میں سیّد وزارت حسین صاحب پروونشل امیرجماعت احمدیہ صوبہ بہار بھی شامل تھے۔ اس وفد کی قادیان سے واپسی پر اخبار سٹیٹسمین دہلی کے ایک نمائندہ نے سیّدوزارت حسین صاحب موصوف سے امرتسر میں ملاقات کی اور پھر اس ملاقات کی رپورٹ اخبار سٹیٹسمین میں شائع کرائی۔ اس رپورٹ میں سیّدصاحب موصوف کی طرف یہ بات منسوب کی گئی تھی کہ انہوں نے گاندھی جی کو بنی نوع انسان کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص سب سے بڑا محسن قراردیا ہے۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بات بھی سیّدوزارت حسین صاحب کی طرف منسوب کی گئی تھی کہ گاندھی جی ہمیشہ اسلامی اصولوں کے پابند رہے ہیں۔ چونکہ یہ دونوں باتیں سیّد وزارت حسین صاحب نے نہیں کہیں تھیں اور اخباری نمائندہ کی غلط فہمی کی وجہ سے ان کی طرف منسوب کی گئیں۔ اس لئے سیّد صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں جو اخبار سٹیٹسیمن کی اشاعت مؤرخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا ہے ان دونوں باتوں کی پُر زورتردید کی ہے اور ہم اس سوال کی اہمیت کے پیش نظر اس خط کا اردو ترجمہ ذیل میں درج کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی گذشتہ ایام میں سٹیٹسمین اور بعض دوسرے اخباروں میں بعض غلط فہمی پیدا کرنے والی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ رپورٹ لکھنے والے اخباری نمائندے بعض اوقات کسی خاص غرض وغایت کو سامنے رکھ کر سوالات کرتے ہیں اور پھر جواب دینے والے کے جوابات کو اپنی اسی غرض وغایت کی روشنی میں بدل لیتے ہیں۔ ہمیں سٹیٹسمین کے نمائندہ پر یہ بدظنی تو نہیں ہے کہ اس نے دانستہ ایسا کیا ہو لیکن یقینا ہمارے بعض اصولوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا اپنے طریق کے مطابق دونوںحکومتوں میں بہترتعلقات پیدا کرنے کی خواہش کے ماتحت اس سے نادانستہ طورپر یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ بایں ہمہ گذشتہ ایام میں اخبار سٹیٹسمین نے جو کوشش مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کو بہتربنانے کے لئے کی ہے وہ یقینا قابل تعریف ہے۔
جہاں تک ہمارے اصول کا سوال ہے اور یہ اصول وہی ہے جس کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔ جماعت احمدیہ کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی احمدی جماعت کے افراد رہیں، انہیں اس کا وفادار اور پُرامن شہری بن کر رہنا چاہیئے۔ لیکن اس اصول کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انڈین یونین میں رہنے والا کوئی احمدی اپنے مذہبی عقیدہ کو چھپائے یا ایسی باتیں زبان پر لائے جو مداہنت یا خوشامد کا رنگ رکھتی ہوں۔ مومن ہمیشہ بہادر ہوتا ہے اور اسلام مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اخلاقی جرأت سے کام لیں اور اپنے عقائد کے اظہار میں کسی حالت میں بھی خائف نہ ہوں اور وفاداری کے اظہار میں بھی خوشامد کا طریق یابے وقار رنگ اختیار نہ کریں۔ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو بھی ہماری طرف سے مذہبی رنگ میں یہی ہدایت بھجوائی گئی ہے اور خدا کے فضل سے وہ اس ہدایت پر پوری طرح سے کاربند ہیں۔
اس تمہیدی نوٹ کے ساتھ سیّد وزارت حسین صاحب کے خط کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتاہے ۔ خاکسار
مرزابشیراحمد
جناب ایڈیٹر صاحب اخبار سٹیٹسمین …!
گذشتہ ماہ ہمارے قادیان جانے کے سلسلہ میں آپ کے امرتسر کے نامہ نگار نے جو خبر آپ کو ارسال کی تھی اس کے متعلق میں بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ باتیں اتنی اہم نہ ہوں لیکن ہمارے نزدیک وہ بہت اہم ہیں کیونکہ ان کا ہمارے عقائد کے ساتھ تعلق ہے۔
مجھے کچھ عرصہ کے لئے اپنے گائوں جانا پڑا تھا اس لئے اس خط کے ارسال کرنے میں کسی قدر تاخیر ہوگئی۔آپ کی اشاعت کے بعد مجھے بہت سے احمدی مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں۔
آپ کے نامہ نگار نے اپنی خبر میں یہ ظاہر کیا ہے کہ گویا میں نے گاندھی جی کو بنی نوع انسان کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص سب سے بڑا محسن قراردیا ہے اس قسم کا نظریہ ہمارے مذہب اور عقائد کے خلاف ہے۔ لہٰذا میں یہ الفاظ کسی طرح زبان پر نہیں لاسکتا تھا۔ ہمارے عقائد کی رو سے حضرت کرشنؑ،حضرت موسیٰ ؑ، حضرت بدھؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا گاندھی جی سے بنی نوع انسان کے بہت زیادہ محسن تھے۔ اسی طرح میرے عقیدہ کے مطابق اس زمانے میں حضرت احمد علیہ السلام آف قادیان اپنے آقا سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام بنی نوع انسان کے بالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص سب سے بڑے محسن ہیں۔
آپ کے نامہ نگار کو یقینا میرے الفاظ سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ میرے الفاظ یہ تھے ’’گاندھی جی ہم سب ہندوستانیوں کے محسن تھے۔ اور خاص طورسے مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر تو انہوں نے اپنی جان تک قربان کردی‘‘ یہ ہیں وہ الفاظ جو میں نے دِل سے کہے اور یہ ہیں بھی صحیح۔ اسی طرح میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ’’مہاتما گاندھی ہمیشہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا رہے‘‘ ایک سچا مسلمان کبھی بھی گاندھی جی کے تمام افعال کو اسلام کے مطابق قرار نہیں دے سکتا۔
میں یہ امر بھی پورے زور کے ساتھ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ انڈین یونین کے ساتھ ہماری وفاداری کسی خوف یا طمع کے پیش نظر نہیں ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر شخص کو اس مملکت اور حکومت کا وفادار رہنا چاہیئے جس کا وہ شہری ہے۔ دوسری طرف حکومت پر بھی فرض ہے کہ وہ سب کے ساتھ بلاتفریق بلا امتیاز منصفانہ سلوک کرے۔
میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے اس تعاون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے ہماری مشکلات اور تکالیف کے ازالہ کے لئے ہمارے ساتھ کیا۔ اس وقت ہمارے مقدس مقام قادیان میں تین سو تیرہ احمدی قیود اور پابندی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور موجودہ حالات میں وہاں ہمارا مذہب اور ہماری تنظیم نہائت درجہ کمزوری کی حالت میں ہے۔ ایسی حالت میں جو کوشش آپ نے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کی ہے میری دعا ہے کہ خدا آپ کو اُس کا بہتر اجر عطا فرمائے۔
نیازمند
سید وزارت حسین پروونشل امیر جماعت احمدیہ بہار
۱۶ ؍جنوری ۱۹۴۹ء
‎(مطبوعہ الفضل یکم فروری ۱۹۴۹ئ)



عارضی الاٹمنٹ کے متعلق بعض ضروری تشریحات
میری طرف سے متعدد اعلانات اس بارہ میں کرائے جاچکے ہیں کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس اور دائمی مرکز ہے، اس لئے قادیان کی جائیداد کے مقابلہ میں کوئی ا لاٹمنٹ ایسے رنگ میں نہیں کرانی چاہیئے کہ اس کے نتیجہ میں قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک ہوجائے اور نہ ہی قادیان کی جائیداد کسی غیرمسلم کے پاس فروخت یا بذریعہ مستقل تبادلہ منتقل کرنی چاہیئے۔ ان اعلانات پر بعض دوستوں کی طرف سے کچھ سوالات موصول ہوئے ہیں ،جن کا جواب ذیل میں دیا جاتا ہے۔
۱۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا گورنمنٹ اپنے جدید فیصلہ کے مطابق عارضی الاٹمنٹ کی صورت منظور کرے گی۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ابھی تک دونوں حکومتوں نے ترک شدہ جائیدادوں پر اصل مالکوں کا حق قائم رکھا ہے اور جب تک یہ حق قائم ہے ،یہ اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا ۔اس لئے گورنمنٹ نے بھی موجودہ مستقل الاٹمنٹ کے ساتھ ’’پرویژنل‘‘ کا لفظ شامل کیا ہوا ہے تاکہ دونوں حکومتوں کے بعد کے فیصلہ کے لئے گنجائش رہے۔ علاوہ ازیں خواہ گورنمنٹ کا نظریہ کچھ ہو ،ہمارا اپنی طرف سے یہ دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم درخواست دیتے ہوئے یہ اظہار کردیں کہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم اس کی جائیداد پر اپنا حق ترک نہیں کرسکتے اور یہ کہ جب بھی ہمیں قادیان واپس ملے گا ہم اپنی الاٹ شدہ جائیداد ترک کردیں گے۔ اس قسم کے اعلان اور اظہار کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے اور قادیان کی بحالی پر اس کی جائیدادوں کے متعلق ہمارا حق قائم رہتا ہے۔
۲۔ دوسرا سوال قادیان کی شہری جائیداد (مکانات وغیرہ) کے متعلق ہے ،جس کے متعلق ہر دو حکومتوں نے اب پرائیویٹ فروخت یا مستقل تبادلہ کی اجازت دی ہے۔ اس بارہ میں ہماری طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ کوئی احمدی دوست کسی غیرمسلم کے پاس اپنی قادیان کی جائیداد فروخت نہ کریں اور نہ ہی بذریعہ مستقل تبادلہ منتقل کریں۔ اس کے متعلق سوال کیا گیا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی کیا غرض ہے۔ سو اس کی غرض توظاہر ہے کہ جو شخص احمدی ہوکر قادیان کی جائیداد کسی غیرمسلم کے پاس فروخت کرتا ہے یا مستقل تبادلہ کی صورت منظور کرتا ہے ،وہ گویا خود اپنے ہاتھ سے قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک کرکے اسے غیرمسلموں کے حوالے کردیتا ہے اور یہ صورت قادیان کی جائیدادوں کے متعلق کسی صورت میں قبول نہیں کی جاسکتی۔کسی حکومت کا ہمیں ہمارے مقدس مرکز سے زبردستی نکال دینا اور بات ہے یا گزارہ کے خیال سے کوئی عارضی الاٹمنٹ قبول کرنا ،یہ بھی اور بات ہے اور خود اپنے ہاتھ سے اپنا حق ترک کرکے غیرمسلموں کے سپرد کردینا بالکل جداگانہ چیز ہے اور کوئی غیرت مند احمدی اپنے مقدس اور دائمی مرکز کے متعلق یہ صورت قبول نہیں کرسکتا اور دراصل یہ خدائی بشارات اور ہمارے ایمان کے بھی منافی ہے۔
۳۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے قادیان میں ایک ایک یا دو دو کنال یا کم وبیش سکنی زمینیں خریدی ہوئی تھیں ،وہ ان زمینوں کے تعلق میں کیا صورت اختیار کریں۔ سو اوّل تو جبکہ یہ سکنی زمینیں کوئی پیداوار نہیں دے رہی تھیں تو پھر جہاں تک گزارہ کا تعلق ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں کو صبر اور رضا کے ساتھ قادیان کی بحالی کا انتظار کرنا چاہیئے لیکن اگر کوئی دوست زیادہ حاجتمند ہوں تو ان کے لئے یہ صورت ممکن ہوسکتی ہے کہ یا تو ایسی زمینوں کے مقابلہ پر کوئی شہری زمین الاٹ کراکے اس کے کرایہ وغیرہ سے عارضی فائدہ اٹھالیں اور یا ایسی زمینوں کی مالیت لگا کر اس مالیت کے مقابلہ پر کسی آمدنی والی جائیداد کی عارضی الاٹمنٹ کرالیں۔
۴۔چوتھا سوال قادیان کے ملحقہ دیہات ننگل، بھینی وکھارا کے متعلق ہے۔ سو اس کے متعلق حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ابھی تک یہی فیصلہ ہے کہ وہ عملاً قادیان کا حصہ ہیں اور جو ہدایات قادیان کی جائیداد کے متعلق دی گئی ہیں وہی ان کے متعلق بھی سمجھنی چاہئیں۔
۵۔ بالآخر دوستوں کو یہ اصولی بات یادرکھنی چاہیئے کہ ایسے امور میں بہت زیادہ سوالات اٹھانا اور فرضی پہلو کھڑے کرکے ان کے متعلق تسلی چاہنا درست طریق نہیں ہے۔ ہماری ہدایات کا اصل مرکزی نقطہ صرف اس قدر ہے کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس اور دائمی مرکز ہے اور خدا کے فضل سے ہمیں ضرور بالضرور واپس ملے گا اس لئے قادیان کی جائیداد پر خود اپنے ہاتھ سے اپنا حق ترک نہیں کرنا چاہیئے۔ یعنی پرائیویٹ فروخت یا مستقل تبادلہ کسی صورت میں نہ کیا جائے اور آمدن پیدا کرنے والی جائیداد کی الاٹمنٹ قبول کرتے ہوئے یا اس کی درخواست دیتے ہوئے اس بات کی صراحت کردی جائے کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس مرکز ہے اس لئے اپنی اصل جائیداد بحال ہونے کی صورت میں ہم یہ الاٹ شدہ جائیداد ترک کردیں گے۔اس قسم کے اظہار کے بعد ہم خدااور دنیا کے سامنے سرخرورہتے ہیں۔ اور قادیان کی بحالی پر ہمیں اس کی جائیداد کے واپس حاصل کرنے کا حق رہتا ہے۔
۶۔ اوپر کا اعلان صرف قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات ننگل اور بھینی اور کھارا کی غیرمنقولہ جائیداد سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ باقی جگہوں کی متروکہ جائیداد کے متعلق مقررہ قواعد کے مطابق پورا پورا مطالبہ کرنا چاہیئے۔
۷۔اسی طرح قادیان میں ضائع شدہ منقولہ جائیداد مثلاً گھر کا سامان، نقدی، زیورات وغیرہ کی تلافی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتاہے۔ منقولہ جائیداد کے متعلق مطالبہ کسٹوڈین جائیداد متروکہ ویسٹ پنجاب گورنمنٹ لاہورکے پاس ہونا چاہیئے اور باقی مطالبات اپنے اپنے ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس کئے جائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲؍ فروری ۱۹۴۹ئ)







قادیان کی فیکٹریوں کی نیلامی
قادیان کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت مشرقی پنجاب نے قادیان کی فیکٹریوں کی الاٹمنٹ شروع کردی ہے۔یہ الاٹمنٹ فی الحال تین سال کے لئے کی گئی ہے اور رقم کا فیصلہ بذریعہ نیلامی کیا گیا ہے ۔ شرائط یہ ہیں کہ کارخانے دوماہ کے اندر چالو کرنے ہوںگے اور کسی کارخانے کی مشینری دوسری جگہ منتقل نہیں کی جاسکتی ۔فی الحال ذیل کے کارخانے ان کے مقابل پر درج شدہ رقوم میں تین سال کے لئے نیلام ہوئے ہیں۔
1
پریسین کمپنی بالمقابل پولیس چوکی
2600/-
سا لانہ
2
پریسین کمپنی ملحقہ دفتر میونسپل کمیٹی
6610/-
سا لانہ
3
مکینیکل انڈسٹریز
3000/-
سا لانہ
4
ایگل بٹن فیکٹری
510/-
سا لانہ
5
آرہ مشین مستری فضل حق صاحب
2450/-
سا لانہ
6
آرہ مشین مستری علم دین صاحب
2500/-
سا لانہ
یہ اعلان اس لئے کیا جاتا ہے کہ اگر ان فیکٹریوں کے مالکوں کے اندازہ میںرقم ٹھیکہ کم ہو تو اس کے متعلق کسٹوڈین متروکہ جائیداد مغربی پنجاب لاہور کے پاس جو بھی ذمہ دار افسر ہو، اس کے پاس احتجاج کر سکیں ۔کیونکہ ابھی تک اصل مالکوںکا قانونی حق ملکیت قائم سمجھا جاتا ہے ۔ اور غلط بولی پرانہیں قانونی اعتراض کا حق ہے تاکہ کم از کم ان کا اعتراض ریکارڈ ہوجائے اور حکومتوں کے آخری فیصلہ میں کام آسکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲؍فروری ۱۹۴۹ ئ)


اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان
مشرقی پنجاب وغیرہ کے دوست فوری توجہ کریں
۱۔ بعض زمینداروں میں جنہیں مشرقی پنجاب وغیرہ کے پاکستان میں چلے جانے کے بعد گذارہ کے لئے زمین مل گئی تھی،یہ غلط فہمی پیدا ہورہی ہے کہ انہیں نئے فیصلہ کے مطابق کسی مزید درخواست دینے کی ضرورت نہیں، مگر یہ خیال غلط ہے۔ سابقہ الاٹمنٹ محض گذارہ کے لئے وقتی طورپر تھی اور تھوڑے رقبہ کے لئے تھی لیکن اب ہر شخص کے ضائع شدہ رقبہ کے مقابلہ پر پختہ اور پوری الاٹمنٹ ہونے والی ہے۔ اس لئے خواہ کسی کو زمین مل چکی ہے یا نہیں ملی، اگر وہ مشرقی پنجاب وغیرہ میں زمین چھوڑ کر آیا ہے تو اسے جدید قانون کے مطابق نئی درخواست دینی چاہیئے جس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے طبع شدہ فارمیںمقرر ہیں۔ اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ اراضی کی تفصیل دے کر اس کے مقابلہ پر پختہ الاٹمنٹ کا مطالبہ کیا جائے اور فارم کے سارے خانے احتیاط کے ساتھ بھرے جائیں اور یہ بھی لکھ دیا جائے کہ میں فلاں جگہ زمین چاہتا ہوںخواہ یہ جگہ وہی ہوجہاںاسے عارضی گذارہ کے لئے زمین مل چکی ہے یا کوئی دوسری جگہ ہو۔ ایسی درخواست یا تو اس ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہے جہاں کوئی شخص اس وقت رہ رہا ہو اور یا اس ضلع کے افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہے جہاں وہ آئندہ زمین لینا چاہتا ہو۔ چونکہ طبع شدہ فارم کسی قدر پیچدار ہے اس لئے مقامی سمجھدار احمدیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے ناخواندہ بھائیوں کی اس معاملہ میں پوری پوری امداد کریں اور فارم کو پڑھ کر اس کے کوائف کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ فارم ایک آنہ میں ہر ضلع میں ملتی ہیں۔
۲۔قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات سے آئے ہوئے دوستوں کے متعلق ۲؍فروری کے الفضل میں علیحدہ تفصیلی اعلان کیا جاچکا ہے۔ گو اوپر کی اصولی ہدایت انہیں بھی مدنظر رکھنی چاہیئے۔
۳۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسی درخواستوں کے دینے کے لئے ہر ضلع میں علیحدہ علیحدہ میعاد مقرر ہے۔ مگر بعض ضلعوں میںیہ میعاد ۱۴؍ فروری ۱۹۴۹ء کو ختم ہوتی ہے ۔گو بعض ضلعوں میں اس سے زیادہ بھی ہے۔ بہرحال احتیاطاً اس معاملہ میں فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍ فروری ۱۹۴۹ئ)
احمدی تاجر صاحبان توجہ فرمائیں
قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں بنولہ بناسپتی گھی اور نمک وغیرہ کی ضرورت رہتی ہے نہ صرف اپنے دوستوں کے استعمال کے لئے بلکہ اس غرض سے بھی کہ وہ اس قسم کا مال تاجرانہ طور پر رکھ کراس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔کیونکہ اس وقت ان کے گذارہ کی قادیان میں کوئی صورت نہیں ۔ سولائل پور ومنٹگمری ۔اوکاڑہ وکھیوڑہ وغیرہ کے جودوست ان چیزوں کاکاروبار کرتے ہوںاور وہ ان کی برآمد کا قانونی پرمٹ حاصل کر سکیں وہ اس بارہ میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ دارالمسیح قادیان ضلع گورداسپور کے ساتھ خط و کتابت کریںاور کاروباری اصول پر معاملہ طے کرلیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍فروری ۱۹۴۹ئ)







کیا ہمارا پائوں دوکشتیوں میں ہے؟
جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک
لاہور کے بعض اخباروں میں اس قسم کے اعتراض جماعت احمدیہ کے خلاف شائع ہوئے ہیںکہ گویا سیاسی مسلک کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کا پائوں دو کشتیوں میں ہے کہ وہ ایک طرف اپنے مرکز قادیان کی وجہ سے جو اس وقت انڈین یونین کے ماتحت ہے، حکومتِ ہندوستان کے سامنے وفاداری کا اعلان کررہی ہے اور دوسری طرف اپنے امام کے پاکستان آجانے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے ساتھ بھی وفاداری کا اظہار کررہی ہے اور اس طرح اس کی سیاسی پالیسی نعوذباللہ منافقانہ ہے اور وہ دوکشتیوں میں پائوں رکھ کر دونوں طرف سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
افسوس ہے کہ موجودہ نازک زمانہ میں جب کہ سیاسی لحاظ سے کئی قسم کے اہم اور پیچدار مسائل حکومت پاکستان کے سامنے ہیں اور وہ ایک ایسے نازک دور میں سے گذر رہی ہے کہ جس میں کامل سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش لوگ جو ملک کے حقیقی مفاد سے ناواقف ہیں محض جماعت احمدیہ کی مخالفت کی غرض سے اس قسم کے اعتراضات کھڑے کرکے افتراق وانشقاق کا بیج بونا چاہتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک جو عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی کوئی احمدی رہے اُسے اس حکومت کا پُرامن شہری بن کر رہنا چاہیئے اور عقلاً بھی جو جماعت بین الاقوامی رنگ رکھتی ہے اس کا یہی مسلک ہوسکتا ہے کہ عقائد اور مذہب کے اتحاد کے باوجود اس کے افراد جس جس حکومت کے ماتحت بستے ہوں اس کے وفادار رہیں۔ خود قائداعظم محمد علی جناح مرحوم نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو نہایت واضح اور غیرمشکوک الفاظ میں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ حکومتِ انڈین یونین کے وفادار شہری بن کر رہیں۔ اسی طرح گاندھی جی نے پاکستان میں رہنے والے غیرمسلموں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے وفادار رہیں۔ پس تعجب ہے اور نہایت درجہ تعجب ہے کہ جو سیاسی مسلک دنیا بھر میں مسلم ہے اس کی وجہ سے جما عت احمدیہ کو موردعتاب سمجھا جاتا ہے۔ آخر مسلمان بھی تو ایک حکومت کے ماتحت نہیں بستے۔ بلکہ دنیا کے بیسیوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ تو اگر وہ اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار ہوں (جیسا کہ وہ ہیں) تو کیا ان کا رویہ اس وجہ سے قابل اعتراض سمجھا جائے گا؟ یہ ایک بالکل موٹی سی بات ہے جو نہ معلوم کس وجہ سے جماعت احمدیہ کے متعلق رائے لگاتے ہوئے ہمیشہ بھلادی جاتی ہے۔
یہ سوال کہ قادیان کا مرکز اس وقت انڈین یونین کے ماتحت ہے کوئی فرق پیدا نہیں کرتا، آخر تقسیم سے پہلے بھی قادیان ساری دنیا کی حکومتوں کے ماتحت نہیں تھا بلکہ صرف گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت تھا۔ لیکن کیا اس وقت جماعت احمدیہ کے لوگ صرف ہندوستان میں ہی پائے جاتے تھے اور کسی اور ملک میں نہیں پائے جاتے تھے؟ تو جب اُس وقت ہندوستان کے باہر کے احمدی قادیان سے مذہبی عقیدت رکھنے کے باوجود اپنی اپنی حکومت کے وفادار شہری تھے اور اس وقت اس طریق پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تو کیا وجہ ہے کہ اب اسی قدیم مسلک پر گامزن ہونے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراض کیا جاتا ہے۔
اگر اعتراض کرنے والوں کا یہ منشاء ہو کہ پاکستان کے رہنے والے احمدی بھی دراصل حکومت انڈین یونین کے وفادار ہیں اور صرف ظاہر میں پاکستان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں تو یہ الزام قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد اور جھوٹا ہے اور ہم اس کا بار بار اعلان کرچکے ہیں۔ پاکستان کا ہر احمدی پاکستان کے لئے دوسروں سے بڑھ کر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور جماعت احمدیہ کا اس وقت تک کا ریکارڈ اس بات کی کافی شہادت پیش کرتا ہے کہ خداکے فضل سے ہمارا یہ دعویٰ جھوٹ اور مبالغہ سے پاک ہے۔ واﷲ علیٰ مانقول شھید
باقی رہا قادیان کی بحالی کی کوشش، سو یہ ایسی بات ہے جس پر ہر عقلمند مسلمان کو خوش ہونا چاہیئے نہ کہ ناراض۔ اگر قادیان بحال ہوگا تو بہرحال اس میں اسلامی ماحول قائم ہوگا یعنی اسلام کی تعلیم وتربیت ہوگی۔ اسلام کی تبلیغ ہوگی۔ مسجدیں آباد ہوں گی۔ خدا اور رسول کا نام بلند ہوگا۔ قرآن کریم کی تلاوت کی آواز اٹھے گی اور ہر لحاظ سے موجودہ حالات میں بہتری کی صورت پیدا ہوگی تو پھر اس کوشش میں وہ کونسی بات ہے کہ جس پر کوئی سچا مسلمان ناراض ہو اور غیظ وغضب میں آکر جماعت احمدیہ کو کوسنے لگے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے اور اس کا اصل اور بنیادی کام تبلیغ وتربیت سے تعلق رکھتا ہے اور اس لحاظ سے صرف قادیان پر ہی نہیں ہماری تو خواہش اور کوشش ہے کہ سارے ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں ہی اسلامی ماحول قائم ہوجائے اور دراصل بالآخر یہی نظریہ اسلام کی عالمگیر کامیابی کی بنیاد بنے گا۔
پس خدا رااس نازک زمانہ اور فتنوں کے دورمیں اس قسم کے لایعنی سوالات اٹھا کر ملک میں افتراق وانشقاق کا بیج نہ بوئو اور اگر آپ لوگ ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں تو کم از کم قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کی بات ہی سنو اور ان کے نمونہ کی طرف ہی دیکھو کہ انہوں نے سب مسلمان کہلانے والوں کو ایک نظر سے دیکھا۔ جماعت احمدیہ کو پاکستان کی اسلامی سیاست میں کھلے بازوئوں کے ساتھ قبول کیا اور جماعت کے بعض قابل افراد پر کامل اعتماد کرکے انہیں ملک کے بعض نازک ترین اور اہم ترین کام سپردکئے اور اس طرح ان کے متعلق اپنے دلی اعتماد کا ثبوت دیا۔ کیا آپ لوگ قائداعظم کی وفات کے اتنی جلد بعد ہی ان کی زندگی بھر کے سبق کو بھلا دینا چاہتے ہیں؟ باقی ہم تو خدا کے فضل سے ایک خادم اسلام جماعت ہیں اور اسلام کی خدمت اور شریعت کے احیاء کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور انشاء اللہ باوجود مشکلات کے اپنے کام میں لگے رہیں گے۔ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاﷲِ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ فروری ۱۹۴۹ئ)








اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان
۱۔ میں اپنے ایک سابقہ اعلان میں مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاچکا ہوں کہ نئی پروویژنل الاٹمنٹ کے متعلق جو فیصلہ ہوا ہے، اس کے مطابق انہیں اپنی درخواستیں داخل کرانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہیئے اور چونکہ ایسی درخواستوں کے داخل کرانے کے لئے بہت قلیل میعاد مقر رہے اس لئے اس کام میں توقف نہ کیا جائے اور مقررہ مطبوعہ فارموں کو پوری پوری احتیاط کے ساتھ صحیح طریق پر خانہ پُری کرنے کے بعد اور حلف نامہ پر کسی مجسٹریٹ یا سب جج وغیرہ کی تصدیق کرانے کے بعد داخل کیا جائے۔ میعاد بعض ضلعوں میں ۱۵ ؍فروری کو ختم ہونی ہے اور بعض میں ۲۵ کو اور بعض میں مارچ کے پہلے ہفتہ میں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مقامی عملہ سے میعاد کا پختہ پتہ لے لیا جائے اور بہرحال احتیاطًا اس معاملہ میں فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۲۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ بعض زمینداروں میں جنہیں مشرقی پنجاب وغیرہ سے پاکستان چلے آنے کے بعد گزارہ کے لئے زمین مل گئی تھی، یہ غلط فہمی پیدا ہورہی ہے کہ انہیں نئے فیصلہ کے مطابق کسی مزید درخواست دینے کی ضرورت نہیں مگر یہ خیال غلط ہے۔ سابقہ الاٹمنٹ محض گذارہ کے لئے وقتی طورپر تھی اور تھوڑے رقبہ کے لئے تھی لیکن اب ہر شخص کے ضائع شدہ رقبہ کے مقابلہ پر پختہ اور پوری الاٹمنٹ ہونے والی ہے۔ اس لئے خواہ کسی کو زمین مل چکی ہے یا نہیں ملی ،اگر وہ مشرقی پنجاب وغیرہ میں زمین چھوڑ کر آیا ہے تو اُسے جدید قانون کے مطابق نئی درخواست دینی چاہیئے۔ جس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے طبع شدہ فارمز مقرر ہیں ۔اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ اراضی کی تفصیل دے کر اس کے مقابل پر پختہ الاٹمنٹ کا مطالبہ کیا جائے اور فارم کے سارے خانے احتیاط کے ساتھ بھرے جائیں اوریہ بھی لکھ دیا جائے کہ میں فلاں جگہ زمین لینا چاہتا ہوں، خواہ یہ جگہ وہی ہو جہاں اُسے عارضی گذارہ کے لئے زمین مل چکی ہے یا کوئی دوسری جگہ ہو۔مگر عموماً جس ضلع میں کوئی شخص پہلے سے زمین لے چکا ہے اسی ضلع میں زمین کی درخواست دینی چاہیئے بلکہ بعض اضلاع میں تو اس کے خلاف درخواست دینے کی اجازت ہی نہیں۔ البتہ جن لوگوں نے ابھی تک کوئی زمین نہیں لی وہ جس ضلع میں چاہیں درخواست دے سکتے ہیں۔
۳۔گزشتہ اعلان میں جو یہ لکھا گیا تھا کہ ایسی درخواستیں یا تو اس ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہیں۔ جہاں کوئی شخص اس وقت رہ رہا ہو یا اس ضلع کے افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہیں جہاں وہ آئندہ زمین لینا چاہتا ہو۔ اس کے متعلق یا د رکھنا چاہیئے کہ یہ تشریح بعد کے فیصلوں کے مطابق درست نہیں رہی۔ چنانچہ اب تمام درخواستیں صرف اس ضلع میں اور اس تحصیل میں داخل ہونی چاہئیں جہاں کوئی شخص زمین لینا چاہتا ہو۔ ایسی درخواستوں کے وصول کرنے کے لئے عموماً ہر تحصیل میں محکمہ بندوبست کے نائب تحصیلدار مقرر کردیئے گئے ہیں۔
۴۔ یہ بات پھر دہرائی جاتی ہے کہ چونکہ طبع شدہ فارم کسی قدر پیچدار ہے اس لئے مقامی کارکنوں اور سمجھدار احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ناخواندہ یا درخواست کی تفاصیل کو نہ سمجھنے والے زمیندار بھائیوں کو درخواستوں کے بھرنے میں پوری پوری امداد دے کر عنداللہ ماجور ہوں اور فارم کو پڑھ کر اس کے کوائف کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ فارم ایک آنہ میں ہر ضلع میں ملتا ہے۔
نوٹ:- قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات سے آئے ہوئے دوستوں کے متعلق ۲؍فروری کے الفضل میں مخصوص طورپر علیحدہ تفصیلی اعلان کیا جاچکا ہے۔ اس کی پابندی ہونی چاہیئے۔ گو اوپر کی تفصیلی ہدایات انہیں بھی مدنظر رکھنی چاہئیں۔
قادیان اور ننگل، بھینی ،کھارا، کے متعلق یہ بات یادر کھنی چاہیئے کہ وہاں کی جائیداد کوئی احمدی دوست کسی غیرمسلم کے پاس فروخت نہ کریں اور نہ ہی اس کا مستقل تبادلہ کریں لیکن اس جائیداد کے مقابل پر پروویژنل الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے اور اس غرض کے لئے مقرر شدہ فارم میں تشریح مطالبہ کے الفاظ کے آگے بصورت پروویژنل الاٹمنٹ کے الفاظ لکھ دیئے جائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۵؍فروری ۱۹۴۹ئ)




کثرت اولاد والے مضمون پر دوستوں کے اعتراضات
اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ضرور ہے مگر اسے فرض قرار نہیں دیا گیا
تبلیغ وتربیت کا کام ایک ہی وقت میں جاری رہنا ضروری ہے
کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنے ایک مضمون میں دوستوں کو کثرتِ اولاد کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی تھی ۔اس تعلق میں میرے پاس دو دوستوں کی طرف سے بعض اعتراضات پہنچے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ میں ان کے اعتراضوں کا جواب دوں۔ گو میرے خیال میں بہتر ہوتا کہ وہ خود غور کرکے اپنے اعتراضوں کا جواب سوچنے کی کوشش کرتے کیونکہ یہ اعتراض ایسے نہیں ہیں کہ ایک سمجھدار شخص خصوصاً جب کہ وہ احمدیت کے نور سے منوّر ہو ان اعتراضوں کا جواب نہ سوچ سکے۔ بہرحال ان دوستوں کی خواہش کے احترام میں ان کے اعتراضوں کا مختصر بلکہ دوحرفی جواب قرآنی آیات کی بحث میں جانے کے بغیر درج کیا جاتا ہے۔
پہلے دوست نے دو اعتراض کئے ہیں جن میں سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ تم نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’قران شریف نے تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے‘‘مگر یہ خیال درست نہیں کہ اسلام میں تعدد ازدواج صرف اجازت کی حد تک ہے۔ کیونکہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام میں اصل حکم تعدد ازدواج کا ہے اور ایک بیوی سے شادی کرنا صرف استثنائی صورت ہے۔ ان دوست کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲنے بھی متعلقہ قرآنی آیت کی یہی تفسیر فرمائی ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کا حکم قاعدہ کے طورپر ہے اور ایک بیوی سے شادی کرنا استثنائی ہے جس کا دروازہ صرف خاص حالات کے لئے کھلا رکھا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
مجھے حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ کا کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں جس میں حضور نے تعدد ازدواج کو اصل حکم کے طورپر پیش کیاہو اور ایک شادی کرنے کو استثناء قرار دیا ہو ۔ بے شک حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اﷲ کے ایک خطبہ سے بعض لوگوں نے اس قسم کا گمان کیا تھا مگر بعد میں حضور نے خود تشریح فرمادی تھی کہ میرا یہ منشاء نہیں۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قطعی فیصلہ موجود ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کا مسئلہ حکم کے طور پر نہیں ہے بلکہ محض اجازت کے طور پر ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:-
’’خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔ پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آجاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا…… خدا کی شریعت دوا فروش کی دکان کی مانند ہے۔ پس اگر دوکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے تو وہ دوکان چل نہیں سکتی …… اگرچہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے۔‘‘ ۱
اور دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ:-
’’ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعدد ازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے۔ خدا کے حکم کی رُو سے صرف جائز ہے۔‘‘ ۲
اوپر کے دونوں حوالوں سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک اسلام میں تعدد ازدواج کو فرض واجب قرار نہیں دیا گیا بلکہ صرف جائز رکھا گیا ہے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی شخص کو ذاتی یا خاندانی یا قومی مصالح کے ماتحت تعدد ازدواج کی ضرورت محسوس ہو تو وہ اس رستہ کو اختیار کرسکتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو تعدد ازدواج یقینا ایک مستحسن فعل سمجھا جائے گا۔ لیکن اس سے آگے نکل کر تعدد ازدواج کو گویا ایک حکم قراردینا یا اسے اصل قاعدہ قرار دے کر ایک شادی کو استثناء سمجھنا خواہ نخواہ کی زبردستی ہے، جس کی تائید میں اسلام اور احمدیت کا کوئی حکم پیش نہیں کیا جاسکتا۔
انہی صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب تعددازدواج کے تعلق میں عدل کرسکنے کی طاقت میں اپنی مالی حالت کا دیکھنا بھی شامل ہے تو پھر میرے مضمون کے اس فقرہ کا کیا مطلب ہے کہ
’’جوشخص کثرتِ اولاد کی وجہ سے رزق کی تنگی محسوس کرتا ہے اس کا یہ تجربہ جھوٹا ہے‘‘
اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قطع نظر اس کے کہ دراصل ہمارے اس دوست کے یہ دونوں اعتراض آپس میں ٹکراتے ہیں یعنی پہلے اعتراض میں تو وہ کثرت ازدواج کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دوسرے اعتراض میں اسی مسئلہ کے رستہ میں گویا ایک روک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے ان دوست نے میرے اس فقرے کا منشاء بھی نہیں سمجھا۔ میں نے یہ فقرہ جو ہمارے دوست نے نقل کیا ہے اس قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ۳ اور ظاہر ہے کہ یہ مضمون قتل اولاد اور برتھ کنٹرول کے مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ تعدد ازدواج کے مسئلہ سے۔ بے شک ایک سے زیادہ شادی کرنے والے شخص کو عام حالات میں اپنی مالی حالت کو دیکھ کر قدم اٹھانا چاہیئے کیونکہ زیادہ شادیاں کرانا فرائض میں داخل نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے حالات پر منحصر ہے لیکن جو شخص شادی کرنے کے بعد غربت کے خوف کی وجہ سے برتھ کنٹرول کا طریق اختیار کرتااور اپنی ہونے والی اولاد کو گویا خود اپنے ہاتھ سے قتل کرتا ہے ،وہ ضرور قرآنی حکم کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور ان دونوں باتوں میں بھاری فرق ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے دوست نے کثرتِ اولاد اورتعدد ازدواج کے دو مختلف مضمونوں کو بلاوجہ خلط کرکے ایک اعتراض کھڑا کردیا ہے اور میرے منہ میں ایسی بات ڈالنے کی کوشش کی ہے جو میں نے ہرگز نہیں کہی۔
ایک دوسرے دوست نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جب موجودہ نسل ہی کی تربیت پوری طرح تسلی بخش نہیں ہے اور کئی قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں اور بعض اچھے اچھے خاندانوں کے بچوں کا نمونہ بھی اچھا نظر نہیں آتا تو پھر کثرت اولاد پر زور دینا کوئی مفید نتائج پیدا نہیں کرسکتا۔ مگر یہ اعتراض بھی بالکل بودا اور بے بنیاد ہے اور قوموں کی ترقی کے صحیح فلسفہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے۔ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ قومی ترقی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک تعداد کی ترقی اور دوسرے علم وعمل کی ترقی۔ گویا انگریزی محاورہ کے مطابق ایک کو انٹیٹی (Quantity )کی ترقی اور دوسرے کو کوالیٹی(Quality ) کی ترقی کہہ سکتے ہیں۔ اور ہمارے علیم وحکیم خدا نے دنیاکا دینی نظام اس رنگ میں قائم کیا ہے۔(بلکہ حق یہ ہے کہ دنیوی نظام بھی بڑی حد تک اسی اصول پر قائم ہے) کہ یہ دونوں قسم کے کام ایک ہی وقت میں جاری رہنے چاہئیں۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ جہاں باربار اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اسی شدّو مداور تاکید کے ساتھ تبلیغ کے ذریعہ تعداد کی ترقی کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو اصول تبلیغ کے متعلق چسپاں ہوتا ہے وہی کثرت اولاد کے متعلق بھی چسپاں ہونا چاہیئے کیونکہ دونوں کی غرض وغایت اور دونوں کا مآل ایک ہی ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت اور اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ تبلیغ اور تکثیر نسل دونوں کی طرف یکساں توجہ دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی حصر نہیں دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ جس نے تبلیغی مہم کی وجہ سے تربیت کے پہلو کو کمزور ہونے دیا ہو یا تربیت کے خیال سے تبلیغی مہم کو معلّق کردیا ہو۔ دراصل یہ دو کام دو پہلو بہ پہلو چلنے والی نہروں کا رنگ رکھتے ہیں جو ایک ہی وقت میں جاری رہنے چاہئیں کیونکہ قومی زندگی کے لئے دونوں یکساں ضروری ہیں۔
ویسے بھی عقلاً دیکھا جائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملک وقوم کے لئے کونسا وجود زیادہ بہتر ثابت ہونے والا ہے یعنی آیا وہ لوگ قومی ترقی کے لئے زیادہ مفید ثابت ہونے والے ہیں جو اس وقت قوم کا حصہ ہیں یا کہ وہ لوگ زیادہ مفید ثابت ہونے والے ہیں جو تبلیغ یا نسل کی ترقی کے ذریعہ آئندہ چل کر قوم کا حصہ بنیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم تبلیغ کی سستی کی وجہ سے یا خود اپنے ہاتھ سے اپنی نسل کو ضائع کرکے کسی ایسے پاک جوہر کو اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھیں جس کا وجود جماعت یا قوم یا ملک کے لئے غیرمعمولی ترقی کا باعث بن سکتا ہو۔ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے قبل دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے خدا تو ان دو عمروں میں سے (یعنی ایک حضرت عمر بن خطاب اور دوسرے عمر بن ھشام (یعنی ابوجہل جو قریش میں ابوالحکم کہلاتا تھا) کسی ایک کو مجھے عطا کردے۔۴اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کی باریک بین نظر اس بات کو محسوس کرتی تھی کہ یہ دونو ںشخص اپنے فطری قویٰ اور ذہنی استعداد کی وجہ سے کام کی غیرمعمولی قابلیت رکھتے ہیں۔ سو خدائے حکیم نے آپ کی اس دعا کے نتیجہ میں حضرت عمرؓکو اسلام کی توفیق دی اور ابوجہل اپنی سرکشی اور کفر میں ترقی کرکے جہنم کے رستہ پر پڑگیا۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات پر یہ الفاظ فرمائے کہ
لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیّاً ۵
’’یعنی اگر میرا یہ بچہ ابراہیم زندہ رہتا تو اس کی فطری استعداد ایسی تھی کہ خدا کے فضل سے وہ نبوت کے مقام کو پہنچ جاتا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تبلیغ اور کثرت اولاد دونوں قومی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیںاور نہ صرف تعداد کو بڑھانے کا موجب بن سکتے ہیں بلکہ ان کے ذریعہ ایسے خاص الخاص وجود وں کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جو عملی اور رد عملی تربیت کے لحاظ سے بھی قوم و ملت کے نام کو چار چاند لگانے والے بن جائیں گے ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قوم کے نوجوانوں کی تربیت کی طرف سے غفلت برتی جائے۔ اگر کوئی نقص ہے تو خواہ وہ کسی میدان سے تعلق رکھتا ہو اور خواہ وہ قوم کے کسی حصہ میں پایا جاتا ہو وہ بہرحال دور ہونا چاہئے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کی طرف پوری پوری توجہ دیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ تربیت کے خیال کی وجہ سے تبلیغ اور تکثیر نسل کے ذریعہ کو نظر انداز کر دیا جائے۔
حق یہ ہے کہ ان دونوں باتوں کا یعنی ایک طرف تعداد کی ترقی کا اور دوسری طرف تربیت اور عملی اصلاح کا ایک دوسرے کے ساتھ اتنا گہرا تعلق اور رابطہ ہے کہ باوجود اس کے کہ بظاہر یہ دو الگ الگ میدان نظر آتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی طرف سے غفلت برتنا دوسرے کی کمزوری اور تباہی کا موجب ہوجاتا ہے جو قوم صرف تعداد کی ترقی کی فکر رکھے گی اور اپنے افراد کی تربیت کی طرف سے غافل رہے گی وہ یقینا تباہ ہوگی لیکن اس طرح وہ قوم بھی یقینا تباہ ہوگی جوصرف تربیت کی طرف توجہ رکھ کر تعداد کی ترقی کی طرف سے بالکل غافل رہتی ہے۔ یہ دو نہر یں بے شک بظاہر جدا جدا نظر آتی ہیں لیکن ان کے نیچے کے سوتے یعنی ان کے اندر کے چشمے دراصل ایک ہیں اور ایک نہر کے خشک ہونے سے جلد یا بدیر دوسری نہر کا خشک ہوجانابھی یقینی اور ناگزیر ہے پس میں اعتراض کرنے والے دوست سے عرض کروں گا کہ تربیت کا پہلو بے شک نہایت اہم ہے لیکن تربیت کے خیال کی وجہ سے تبلیغ کے سلسلے کو روک دینا یا کثرت نسل کے ذریعہ کو نظر انداز کردینا بھی اسی طرح خطرناک اور تباہ کن ہے اور قومی ترقی کا سچا اور آزمودہ نظریہ یہی ہے اور یہی رہے گا کہ ایک ہی وقت میں دو نوں پہلوئووں کی طرف توجہ دی جائے ۔
وآخر دعوٰ نا ان الحمد ﷲ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍فروری ۱۹۴۹ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت خاتم النبیین حصہ سوم کی تیاری
اور
دوستوں کودعا کی تحریک
جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے سیرت خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے دو حصے طبع ہوکر شائع ہوچکے ہیں اوریہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے میری اس ناچیز تصنیف کو قبولیت کا شرف عطا فرمایا ۔میں نے سیرت خاتم النبییّنؐ حصہ سوم کی تیاری کا کام قادیان میں ہی شروع کردیا تھا لیکن چونکہ اس کے لئے مجھے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ پرائیویٹ طورپر زائد وقت دینا پڑتا تھا ،اس لئے حصہ سوم کی تصنیف کی رفتار طبعاً بہت کم رہی۔ کیونکہ اس قسم کی علمی تصنیف میں ضروری حوالہ جات کی تلاش اور متضاد حوالوں کی تطبیق اور کمزور حوالوں کی تردید بہت سا وقت لے لیتی ہے اور پھر غیرمسلم معترضین کے اعتراضوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ فسادات کے دوران میں میرا یہ مسودہ ضائع ہونے سے بچ گیا اور گو موجودہ تصنیف شدہ حصہ میں صرف بنو قریظہ کے واقعہ سے لے کر بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج ہیں تاہم دوستوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فی الحال اسی قدر حصہ کو سیرت خاتم النبیین حصہ سوم جزو اوّل کے طور پر شائع کردیا جائے۔ اس حصہ کا حجم غالباً تین سو صفحات کے قریب ہوگا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کے بہت سے دوسرے واقعات کے علاوہ صلح حدیبیہ کا اہم واقعہ اور اسلام کا تبلیغی نظریہ اور قیصروکسریٰ کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خطوط کی روانگی (معہ فوٹو خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنام قیصر روم) اسلامی مساوات اور اسلام کے اقتصادی نظام اور اسلام کے سیاسی نظریہ اور اسلام کی امن اور جنگ کی طاقت کا موازنہ اور مسئلہ دعا اور معجزات وغیرہ وغیرہ کے متعلق کافی بحث آگئی ہے۔
البتہ ایک کمی کا مجھے بہت احساس ہے اور وہ یہ کہ میری عادت ہے کہ شروع میں مضمون کا ایک بنیادی مسودہ جسے گویا ڈھانچہ کہنا چاہیئے تیار کرکے بعد میں نظر ثانی اور نظر ثالث کے وقت اس میں بہت سی تبدیلی کیا کرتا ہوں لیکن افسوس ہے کہ اس قسم کی اصلاح کا موقع مجھے موجودہ حصہ کے متعلق میسر نہیں آیا۔ کیونکہ اس وقت لاہور میں میرے پاس ضروری کتابیں موجود نہیں ہیں۔چنانچہ کئی ضروری حوالے ذہن میں آتے ہیں مگر ان کی تلاش کا سامان موجود نہیں ہوتا۔ اس لئے جو اصلاح نظر ثانی کے نتیجہ میں ہوسکتی ہے ،وہ افسوس ہے کہ اس وقت میسر نہیں آسکی۔ مگر بہرحال جو مواد بھی اس وقت موجود ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس جلسہ سالانہ کے موقع پر یا اس کے جلد بعد سیرت خاتم النبیین حصہ سوم جزواول کی صورت میں پیش کردیا جائے گا۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری اس ناچیز کوشش کو قبولیت کا شرف عطا کرے اور اسے دنیا کے لئے مفید اورمیرے لئے مغفرت کا موجب بنائے۔ نیز یہ بھی دعا کریں کہ بقیہ حصہ کی تصنیف کا بھی جلد موقع مل جائے۔ وماتوفیقنا الاباﷲ العظیم
نوٹ:- اس تعلق میں خریداری کے متعلق جملہ درخواستیں ناظر صاحب تالیف وتصنیف جودہامل بلڈنگ لاہور کے نام آنی چاہئیں۔ البتہ اگر تصنیف کے متعلق کوئی مشورہ دینا ہو تو وہ مجھے بھجوادیا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم مارچ ۱۹۴۹ئ)







حسن محمد صاحب درویش کے لئے دعا کی تحریک۔
ایک صاحب حسن محمد نامی سابق درویش قادیان جو اس وقت لاہور میں ہیں ،سخت بیمار ہیںاور حالت تشویشناک ہے ۔دوست ان کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں۔ نیز ان کی اہلیہ صاحبہ (مبارکہ بیگم) جو پہلے جہلم میں تھیںاور اب غالباً ننکانہ صاحب میں اپنے بھائی کے پاس گئی ہوئی ہیں، فوراً رتن باغ لاہور میں پہنچ جائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ مارچ ۱۹۴۹ئ)








حسن محمد صاحب درویش وفات پاگئے ۔
میں نے حسن محمد صاحب درویش کے واسطے پرسوں کے الفضل میں دعا کی تحریک شائع کرائی تھی مگر خدا کی تقدیرمیںان کی وفات مقدر ہوچکی تھی۔ چنانچہ وہ آج صبح پانچ بجے انتقال کرگئے۔ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم ایک بہت مخلص نوجوان تھے اور باوجود ناموافق حالات اور بیماری کے خدمت مرکز کی نیت سے قادیان میںٹھہرے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کاحامی و ناصر ہو۔ آمین
یہ بات خوشی کا موجب ہے کہ ان کی اہلیہ اور دوسرے عزیز وفات سے قبل ان کے پاس پہنچ گئے تھے اور مرحوم کو ان کے ساتھ ہوش و حواس میں باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍ مارچ ۱۹۴۹ئ)







یہ فتنوں اور ابتلائوں کے دن ہیں
دوستوں کو خاص طورپر دعائوں کی طرف توجہ دینی چاہیئے
الٰہی سلسلوں کے ساتھ ابتلائوں اور فتنوںکا دَور بھی مقدر ہوتا ہے اور گو اسلامی تعلیم کے ماتحت خود کبھی بھی امتحان میں پڑنے کی خواہش نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن خدا کی ازلی تقدیر بہرحال اِسی طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ مومنوں کو مختلف قسم کے امتحانوں اور ابتلائوں میں سے گذارکرترقی کی منزلوں کی طرف لے جاتا ہے۔ چنانچہ ہرنبی اور ہر مصلح کی جماعت کو امتحان پیش آئے اور سب سے زیادہ امتحان صحابہ کی مقدس جماعت کو پیش آئے۔ جنہیں گویا ابتلائوں کی دہکتی ہوئی بھٹی میں سے گزرنا پڑا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ
۶
’’یعنی کیا مومنوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف منہ کے اس دعویٰ سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور انہیں ابتلائوں کی بھٹی میں ڈال کر پرکھا نہیں جائے گا؟ بلکہ حق یہ ہے کہ جتنا بڑا مقصد لے کر کوئی جماعت اٹھتی ہے اتنے ہی بڑے امتحانوں میں سے اسے گذرنا پڑتا ہے اور عام مومن تو الگ رہے اس قسم کے امتحانوں سے خدا کے برگزیدہ نبی بھی باہر نہیں ہوتے‘‘
چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے
۷
’’یعنی جب خدا نے بعض خاص احکام کے ذریعہ ابراہیم ؑکا امتحان لیا تو ابراہیم ؑ نے ان احکام کو پورا کرکے اس خدائی امتحان میں کامیابی حاصل کی‘‘
پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت بھی اپنے مقدرامتحانوں اور ابتلائوں میں سے گزر کر منزلِ مقصودتک پہنچے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت اور اپنی دوسری تصنیفات میں بار بار فرماتے ہیں کہ مصائب کی آندھیاں چلیں گی اور حوادث کے زلزلے آئیں گے اور کئی کمزور ایمان لوگ لغزش کھائیں گے۔ مگر مبارک ہیں وہ جو آخر تک ثابت قدم رہ کر خدا کے ان انعاموں کے وارث بنیں گے جو ازل سے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر ہیں۔ہمارے کچھ امتحان تو گزر چکے اور کچھ گزررہے ہیں اور کچھ آئندہ آنے والے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض آنے والے امتحان بعض لحاظ سے گزرے ہوئے امتحانوں سے بھی سخت تر ہوں اور شاید ان میں سے بعض میں ایسی تلخی کا پہلو پایا جائے جو عمومًا کامل شرینی سے قبل اپنی سخت ترین صورت میں ظاہر ہوا کرتی ہے۔ پس دوستوں کو چاہیئے کہ ان ایام میں اصلاح نفس اور خدمتِ دین میں بیش ازپیش حصہ لینے کے علاوہ خاص طور پر دعائوں کی طرف توجہ دیں اور خدا کے آستانہ پر گر کر اور اس کے دامن سے لپٹ کر اس سے فضل ورحمت اور برکت ونعمت کے طالب ہوں اور اُسی سے اس بات کی توفیق چاہیں کہ آنے والے امتحانوں میں اور نیز اس امتحان میں جس میں سے آج جماعت گذررہی ہے۔جماعت اور افرادِ جماعت کا قدم ڈگمگانے اورلغزش کھانے کی بجائے بیش ازپیش مضبوطی اور مستعدی کے ساتھ ترقی کی منازل کی طرف اٹھتا چلاجائے۔
مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ محض رسمی دعا کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور حقیقی دعا وہی ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ۸
’’یعنی اے مردِ مومن! دعا کے وقت تیری یہ کیفیت ہونی چاہیئے کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور کم ازکم یہ کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے‘‘
یہ وہ کیفیت ہے جو مومن کی دعامیں گویا زندگی کی روح بھردیتی ہے اور انسان کے دل ودماغ اور اس کے سارے اعضاء پگھل کر آستانۂ الوہیّت پرگرجاتے ہیں۔ واقعی اگر پوری توجہ اور کامل انہماک اور ضروری سوزوگداز کے ساتھ دعا مانگی جائے اور زبان کے الفاظ کے ساتھ ساتھ روح کی مضطربانہ تڑپ بھی شامل ہو تو سوائے ایسی باتوں کے جو خدا کی کسی سنت یا اس کے کسی وعدے کے خلاف ہوں۔ سچے مومنوں کی دعائیں کبھی ردّ نہیں کی جاتیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا کسی دعا کو اس رنگ میں قبول نہ کرے جوبندہ چاہے بلکہ اس رنگ میں قبول کرے جسے خود خدا بہتر خیال کرتا ہے۔ بہرحال سچی دعا کبھی بھی ضائع نہیں جاتی بلکہ حدیث میں تو ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) یہاں تک فرماتے ہیں کہ ہمارا رحیم وکریم خدا اس بات سے شرماتاہے کہ اپنے بندوں کے گریہ وزاری میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔پس دوستوں کو چاہیئے کہ ان فتنوں اور ابتلائوں کے ایام میں پوری توجہ اور کامل انہماک اور سچی تڑپ کے ساتھ دعائیں کریں اور دعا کے وقت اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کریں کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں اور خدا انہیں دیکھ رہا ہے۔
جو دعائیں آج کل کے حالات کے ماتحت خصوصیت کے ساتھ زیادہ مانگنی چاہئیں وہ میرے خیال میں یہ ہیں:-
۱۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے موجودہ دَور کو احمدیت کی کمزوری یا سست رفتاری کی بجائے اس کی مضبوطی اور بیش ازپیش ترقی کا ذریعہ بنادے اور اسلام اور احمدیت کو وہ غیرمعمولی ترقی حاصل ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ازل سے مقدر ہے۔
۲۔ حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو خداتعالیٰ صحت اور دراز ی ٔعمر کے ساتھ جماعت کے سر پر تادیر سلامت رکھے اور انہی کے عہد مبارک کے ساتھ قادیان کی واپسی مقدر کردے۔
۳۔قادیان سے باہر آنے کی وجہ سے احمدی بچوں اور نوجوانوں کے لئے جو خطرہ ماحول کی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہورہا ہے، اس سے خدا تعالیٰ جماعت کے نونہالوں کو محفوظ رکھے اور وہ موجودہ نسل سے بھی بڑھ کر اسلام اور احمدیت کے خادم بنیں۔
۴۔ بعض کمزوراحمدیوں کی طبیعت پر جو اثر مرکزی تنظیم سے بظاہر دُور ہوجانے کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتا ہے اس سے خدا تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے۔
۵۔ جب تک ہمیں قادیان کا مرکز تبلیغ وتربیت اور تعلیم وتنظیم کی کامل آزادی کے ساتھ واپس نہیں ملتا اس وقت تک خدا تعالیٰ ربوہ کے مرکز کو اپنی دینی اور روحانی برکات کے ساتھ اس کا قائمقام بنادے۔آمین اللھم آمین واٰخردعوانا ان الحمدﷲ ربّ العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ مارچ ۱۹۴۹ئ)




اخویم میاں عبد اللہ خان صاحب کی علالت
اور دوستوں سے دعا کی تحریک
اخویم میاں عبداللہ خان صاحب کی تشویشناک بیماری پر اب قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر رہا ہے۔ اس عرصہ میں اصل بیماری کے لحاظ سے تو درمیان میںاُتار چڑھائو کی صورت ہوتی رہی ہے ۔یعنی کبھی طبیعت زیادہ خراب اور کبھی نسبتاً افاقہ مگر عام حالت کے لحاظ سے حالت مسلسل طور پر گرتی گئی ہے اور بیماری کے مقابلہ کی طاقت برابر کم ہوتی جارہی ہے اور ڈاکٹر لوگ موجودہ حالت کو کسی جہت سے تسلی بخش نہیں بتاتے ۔بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہم اپنے علم کے مطابق علاج کر رہے ہیں مگر معجزانہ شفا تو صرف دعائوں کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے۔ پس میں حضرت اماں جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا اور عزیزہ ہمشیرہ سلمہا اور دیگر سب خاندان کی طرف سے جماعت کے مخلصین سے درخواست کرتا ہوںکہ وہ اخویم عبداللہ خانصاحب کی صحت یابی کیلئے خصوصیت سے دعائیں کریں۔ سچا مومن کسی صورت میں بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتااور ہمارا خدا تو وہ رحیم کریم ہستی ہے کہ جس کی قدرت اور رحمت کی کوئی انتہا ء نہیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍مارچ ۱۹۴۸ئ)




کوئی دوست قادیان کی جائیداد فروخت نہ کرے
جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ اعلان کیا جاچکا ہے کہ کسی احمدی دوست کو اپنی قادیان کی جائیداد (مکان، دکان،اراضی)وغیرہ کسی غیر مسلم کے پاس فروخت یا مستقل تبادلہ وغیرہ کی صورت میں منتقل نہیں کرنی چاہئے اور مقامی جماعتوں کے عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ کوئی دوست اس قسم کی حرکت نہ کرے اور اگر کوئی ایسی بات ان کے نوٹس میں آئے تو فوراً نظارت امورعامہ کو اطلاع دیں تاکہ ایسی حرکت کرنے والے احمدی کے متعلق جماعتی انتظام کے ماتحت ضروری کارروائی کی جاسکے۔
موجودہ حالات کے ماتحت قادیان کی جائیداد کسی غیر مسلم کے پاس فروخت کرنا یا کسی طریق پر اسے مستقل طور پر منتقل کرنا نہ صرف مرکز سلسلہ کے تقدس کے خلاف ہے بلکہ اس میں ان خدائی وعدوں کی بھی بے حرمتی ہے جو قادیان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوچکے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍مارچ ۱۹۴۹ئ)






موصی صاحبان کو امانتاً دفن کیا جائے۔
باوجود اس کے کہ بار بار اعلان کیا جاچکا ہے کہ موصی صاحبان کو امانتاً دفن کرنا چاہئے۔ پھر بھی بعض دوست اس بارہ میں سستی کر بیٹھتے ہیں اور موصی اصحاب کو بغیر امانت کے دفن کر دیتے ہیں ۔ پس دوستوں کو اس بارہ میںدوبارہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ آج کل جو موصی صاحبان فوت ہوں (خصوصاً ایسے موصی صاحبان جو قادیان سے آئے ہوئے ہیں کیونکہ میرے صیغہ کا تعلق صرف انہیں کے ساتھ ہے ) انہیں فوت ہونے پر ضرور امانتاً دفن کیا جائے ۔امانتاً دفن کرنے سے یہ مراد ہے کہ ایک لکڑی کے مضبوط بکس میں ( جو عموماً پچیس تیس روپے میں مکمل ہوجاتا ہے )دفن کیا جائے اورا س بکس کو فی ا لحال ایسے طور پر قبر میں رکھا جائے کہ دیمک وغیرہ لگنے کا خطرہ کم از کم ہو ۔پھر جب ربوہ کا مرکز قائم ہوجائے گا تو ایسے موصی صاحبان کو انشاء اللہ وہاں منتقل کردیاجائے گا ۔کیونکہ وہاں عام قبرستان کے علاوہ اس غرض کے لئے ایک خاص جگہ ریزرو کردی گئی ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ اپریل ۱۹۴۹ ئ)






قادیان کے دوست خیریت سے ہیں!
موجودہ حالات کا مختصر نقشہ
۱۔احباب کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ جیسا کہ قادیان کی ڈاک سے معلوم ہوتا رہتا ہے، قادیان کے سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ صرف دو دوستوں (میاں نعمت اللہ صاحب دیہاتی مبلغ اور میاں اللہ رکھا صاحب) کو کچھ دماغی عارضہ ہوگیا تھا مگر اب خدا کے فضل سے افاقہ ہے۔ اسی طرح بعض معمر دوستوں کو موتیا بند اتر آیا تھاجن کا گورداسپور کے سول سرجن نے قادیان میں جاکر آپریشن کیا۔ دوست ان سب کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں۔
۲۔ قادیان کے دوستوں نے حکومت انڈین یونین کو درخواست دی تھی کہ ہم میں سے بیس کس کو جلسہ ربوہ پاکستان میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے اور ہم جلسہ کے بعد قادیان واپس پہنچ جائیں گے مگر حکومت کی طرف سے ان کو کوئی جواب نہیں ملا۔
۳۔ ضلع گورداسپور کے بعض افسروں کی زبانی گفتگو اور چٹھیوں سے یہ خطرہ پیداہوا تھا کہ وہ حلقہ مسجد مبارک کے بعض مکان غیرمسلم پناہ گزینوں کے لئے خالی کرانا چاہتے ہیںجس پر قادیان کے دوستوں کی طرف سے پُرزور احتجاج کیا گیا اور ابھی تک یہ معاملہ غیر تصفیہ شدہ صورت میں پڑا ہے۔
۴۔ بعض رپورٹوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قادیان میں احمدیوں کے متروکہ مکانوں کے کرائے حسب ذیل صورت میں لگائے گئے ہیں۔ مثلاً معلوم ہوا ہے کہ مندرجہ ذیل مکانوں کا کرایہ موجودہ غیر مسلم کرایہ داروں سے بصورت ذیل وصول کیا جارہا ہے۔
(الف) کوٹھی حضرت امیرالمؤمنین محلہ دارالانوار معہ ہردو کاٹیج ومتعدد کوارٹرز -/۳۰روپے ماہوار۔
(ب) کوٹھی خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب بنگالی مرحوم محلہ دارالانوار ۸/۱۲ ماہوار
(ج) کوٹھی بابو اکبر علی صاحب انجینئر مرحوم محلہ دارالعلوم -/۱۵روپے ماہوار
(د) کوٹھی میاں ناصر احمد صاحب محلہ دارالاانوار -/۱۵ روپے ماہوار
(ہ) کوٹھی چوہدری فتح محمد صاحب سیال معہ ملحقہ کاٹیج محلہ دارالانوار -/۱۲ روپے ماہوار
(و)کوٹھی ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب محلہ دارالعلوم -/۲۰ روپے ماہوار
(ز)مکان شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹرنور محلہ دارالفضل -/۴ روپے ماہوار
(ح) مکان مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق مبلغ لنڈن محلہ دارالرحمت -/۳روپے ماہوار
نوٹ:-گویا رعایت کا نام رکھ کر کوئی کمی نہیں کی گئی مگر کرائے بصورت بالا لگادیئے گئے ہیں۔
۵۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض منی آرڈر جو متفرق احباب کی طرف سے قادیان کے بعض دوستوں اور عزیزوں کے نام بھجوائے گئے تھے وہ لمبا عرصہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک وہاں نہیں پہنچے اور خیال کیا جاتا ہے کہ شاید رستہ میں روک لئے گئے ہیں حالانکہ ہر دو حکومتوں کے معاہدہ کے مطابق منی آرڈروں کے معاملہ میں کوئی روک نہیں ہوسکتی۔ اس کے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔
۶۔قادیان میں احمدیہ ڈسپنسری جس کے ساتھ کچھ اِنڈور کا انتظام بھی ہے ،خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کررہی ہے چنانچہ گزشتہ سال کی رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل تعداد کے مطابق آئوٹ ڈور بیماریوں کا علاج کیا گیا۔
نام قوم
نئے کیس
پرانے کیس
میزان
کیفیت
مسلمان
۳۰۴۶
۸۸۷۸
۱۱۹۲۴
ڈسپنسری کے انچارج
ہندو
۳۸۳۳
۷۵۱۹
۱۱۳۵۲
ڈاکٹربشیراحمد صاحب ہیں
سکھ
۲۱۹۹
۳۹۹۹
۶۱۹۸
دیگراقوام
۶۲۸
۱۱۴۶
۱۷۷۲
کل میزان
۹۷۰۶
۲۱۵۴۰
۳۱۲۴۶

۷۔ قادیان کے دوست خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری تندہی اور شوق کے ساتھ اپنے دینی پروگرام میں مصروف ہیں۔ جو نفلی نمازوں اور نفلی روزوں اور درس قرآن کریم اور درس حدیث وغیرہ پر مشتمل ہے اور آنے جانے والے غیرمسلموں کو تبلیغ بھی کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ گزشتہ ایام میں صرف ایک ہفتہ کے دوران میں ۴۹۶غیرمسلم مختلف علاقوں سے ہمارے دوستوں کو آکر ملے اور مذہبی سوالات کرتے رہے۔
۸۔ چونکہ قادیان کے کئی دوست ایسے ہیں کہ جن کے اہل وعیال مقیم پاکستان کے گزارہ کی کوئی تسلی بخش صورت نہیں ،اس لئے میری تحریک پر بعض دوستوں نے ایسے لوگوں کی امداد کے لئے کچھ رقوم دی ہیں۔ مثلاً جماعت علی پور ضلع مظفر گڑھ نے پچاس روپے دیئے، شیخ محمد اکرام صاحب دوکاندار نے پانچ روپے، مسماۃ صدیقہ بیگم بنت شیخ محمد اکرام صاحب نے دس روپے ، ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان نے پچاس روپے۔ فجزاھم اللّٰہ خیراً
دوسرے مخیر دوستوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ اپریل ۱۹۴۹ئ)









اعلان دربارہ سیرت خاتم النبییّنؐ حصہ سوم
میں نے ایک سابقہ اعلان میں دوستوں کو اطلاع دی تھی کہ اس جلسہ پر سیرت خاتم النبییّنؐ حصہ سوم جزواوّل شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ مگر اس وقت غلطی سے میں نے اس کا حجم تین سو صفحات لکھ دیا تھا۔ حالانکہ تین سو صفحات مسودہ کے ہیں اور طبع شدہ صورت میں غالباً دوسو صفحات سے کچھ اوپر ہوں گے۔
اسی طرح سابقہ اعلان میں سہو قلم کے نتیجہ میںیہ لکھا گیا تھا کہ اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس خط کا عکس بھی شائع کیا جائے گا جوآپ نے قیصر روما کو لکھا تھا مگر دراصل یہ مقوقس مصر کے نام کا خط ہے نہ کہ قیصرِ روما کے نام کا اور انشاء اللہ یہ عکس حصہ سوم میں ضرور شائع کیا جائے گا۔
جیسا کہ پہلے بھی اعلان کیا جاچکا ہے کہ یہ حصہ بے حد بے سروسامانی کی حالت میں لکھا گیا ہے جب کہ اکثر ضروری کتابیں میرے پاس موجود نہیں تھیں اس لئے
۱۔ نہ تو ان اوراق کی پوری طرح نظرثانی ہوسکی ہے جوقادیان میں لکھے گئے تھے اور نہ ہی اس حصہ کے حوالوں کی پڑتال کی جاسکی ہے۔
۲۔ جو حصہ اب لاہور میں لکھا گیا ہے اس میں اکثر حوالے اصل ماخذوں کی بجائے بعد کی کتابوںکے دیئے گئے ہیں جس میں بعض اوقات غلطی کا امکان رہ جاتا ہے اور نظرثانی کے لئے بھی پورا موقع نہیں مل سکا۔بہرحال دوست دعا فرمائیں کہ سیرۃ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم حصہ سوم کی یہ جزو جلسہ سالانہ تک نکل جائے۔ اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ بعد کے ایڈیشن میں پوری ہوجائے اور اللہ تعالیٰ میری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ اپریل ۱۹۴۹ئ)


ہمارا امتحان اور مرکز ربوہ
قادیان سے ہمارا نکلنا بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ نکالا جانا ایک بہت بھاری امتحان تھا جو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کررکھا تھا ۔اس امتحان کے نتیجہ میں جو انتشار کی کیفیت بظاہر پیدا ہوئی ہے وہ محتاج بیان نہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کی اس بظاہر تلخ تقدیر میں بھی بہت سے نشانات مخفی ہیں اور ہر نشان اپنے اندر خدا کی ہستی اور احمدیت کی صداقت کی ایک روشن دلیل ہے ۔اس نشان کے مندرجہ ذیل پہلو خاص طور پر نمایاں اور قابلِ توجہ ہیں:
۱۔اس امتحان کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی یہ قدیم سنت پوری ہوئی کہ ہر نبی کی جماعت کو کسی نہ کسی رنگ میں ہجرت کرنی پڑتی ہے ۔چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کو ہجرت کرنی پڑی۔ حضرت موسیٰ ؑکو ہجرت کرنی پڑی۔ حضرت عیسیٰ ؑکو ہجرت کرنی پڑی اور بالآخر ہمارے آقا نبیوں کے سرتاج آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی ہجرت کرنی پڑی۔پس اگر اس قدیم خدائی سنت کے مطابق جماعت احمدیہ کو بھی عارضی طورپر اپنے مرکز سے نکلنا پڑا تو یہ کوئی جائے اعتراض اور جائے تعجب نہیں بلکہ حقیقتا ًہماری یہ ہجرت بھی ایک نشان کا رنگ رکھتی ہے اور احمدیت کی صداقت کی ایک دلیل ہے ۔چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف شحنۂ حق میں جماعت کی ہجرت کی طرف اشارہ کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے الہام مَسِیْرُالْعَرَبِ ۹ کی تشریح میں بھی لکھا ہے کہ شاید جماعت کو بھی کبھی ہجرت کرنی پڑے گی۔
۲۔اس نشان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نہ صرف خدائی سنت کے لحاظ سے اور نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کی بناء پر جماعت احمدیہ کی یہ ہجرت ایک خدائی سنت کو پورا کرنے والی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو متعدد الہامات کے ذریعہ بھی یہ معیّن خبردی گئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب آپ کی جماعت کو قادیان سے نکلنا پڑے گا ۔مثلاً خدا تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا کہ
یَأتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی۱۰
’’یعنی تجھ پر موسیٰ کی طرح کا ایک زمانہ آئے گا۔‘‘وغیرہ وغیرہ
پس جماعت کی یہ ہجرت دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے والی اور خداکے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔
۳۔ اس نشان کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے ایک امتحان مہیا کردیا ہے کیونکہ یہ بھی خدا کی قدیم سنت ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کا مشکلات اور ابتلائوں کے ذریعہ سے امتحان لیا کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ صحابہ کے متعلق فرماتا ہے
۱۱
’’یعنی کیا مومن اس بات پر تسلی پاکر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ صرف اتنی بات کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا‘‘
اور یہ قرآنی آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی الہامًا نازل ہوچکی ہے۔ پس ضروری تھا کہ جماعت احمدیہ بھی ایک بھاری امتحان میں ڈالی جاتی تاکہ یہ امتحان بھی اس کی صداقت کی دلیل بنتا۔
۴۔ اس نشان کا چوتھا پہلو یہ تھا کہ باوجود اتنے بھاری امتحان کے اللہ تعالیٰ نے اس قیامت خیز طوفان میں بھی جماعت کو حقیقی انتشار سے بچا کر اس کے شیرازہ کو حیرت انگیز رنگ میں قائم رکھا ہے۔ مجھے تویہ منظریوں نظر آتا ہے کہ گویا ایک وسیع وادی میں بھیڑوں کا ایک بھاری گلہ جمع تھا جو اطمینان اور امن کی حالت میں ادھر ادھر چلتا پھرتا تھا مگر اچانک اس گلہ پر چاروں طرف سے درندوں نے حملہ کردیا اور یہ بھیڑیں ادھر ادھر اس طرح منتشر اور پراگندہ ہوگئیں کہ آن کی آن میں ساری وادی خالی نظر آنے لگی۔ لیکن جب ساتھ کی پہاڑی پر چڑھ کر دوسری طرف کی وادی پر نگاہ ڈالی گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ساری بھیڑیں جو چاروں طرف منتشر ہوکر بظاہر ختم شدہ نظر آتی تھیں اس نئی وادی میں پھر اکٹھی ہوکر اپنے گلہ بان کی نگرانی میں جمع ہوچکی ہیں۔ گویا بجلی کی چمک کی طرح ایک حملہ ہوا اور اس حملہ کے نتیجہ میں ایک ایک بھیڑ منتشر ہوکر نظروں سے غائب ہوگئی لیکن آنکھ جھپکتے ہی یہ نظارہ نظرآیا کہ یہ ساری بھیڑیں ساتھ کی وادی میں پھر اسی طرح جمع ہوکر نئی وادی کی زینت بن رہی ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی نشان تھا جو خدا نے جماعت احمدیہ کی تائید ونصرت میں دکھایا۔
۵۔اس نشان کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ اس امتحان کے نتیجہ میںجماعت کے ایک کثیر حصہ نے خدا کے فضل سے اخلاص اور قربانی میں نمایاں ترقی کی ہے ۔گویا گزشتہ فسادات کے زلزلہ نے ان کو بیدار کرکے پہلے سے بھی زیادہ چوکس اور خدمت دین کے لئے زیادہ مستعد بنادیا ہے ۔میںیہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسے لوگوں کی تعداد جماعت میں کیا نسبت رکھتی ہے لیکن یقینا یہ تعداد اتنی معتدبہ ہے کہ ان کی روحانی اصلاح اورترقی کا پہلو اتنانمایاں ہے کہ ہر صاحبِ علم اور صاحبِ ذوق شخص اس سے روحانی سرور اور تسکین حاصل کرسکتا ہے اور دراصل خدائی امتحانوں کا یہی منشاہوا کرتا ہے کہ وہ جاگتے ہوئوں کو پہلے سے زیادہ ہوشیار اور سوتے ہوئوں کو خواب غفلت سے بیدار کردیں۔ پس اس جہت سے بھی گزشتہ فسادات اپنے اندر یقینا ایک نشان کا پہلو رکھتے ہیں۔
۶۔ اس نشان کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ اس امتحان کے نتیجہ میں ایسے لوگ جو اپنی غفلت اور سستی اور دنیا داری کی وجہ سے گویا کچے دھاگوں کا حکم رکھتے تھے۔ وہ موجودہ ابتلأ کے نتیجہ میں ٹوٹ کر جماعت کو اپنے مائوف وجود سے پاک کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کو صرف تعداد سے غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کے لئے تعداد کی ترقی سے بھی زیادہ روحانی اورتربیتی پہلو اہمیت رکھتا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ گاہے گاہے ایسے امتحانات مہیا کرتا رہتا ہے کہ جس کی وجہ سے کمزور لوگ جو جماعت کے ساتھ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور دوسروں کے لئے بھی کمزوری کا موجب بن جاتے ہیں، وہ تھک کر یا گھبراکر خود بخود علیحدہ ہوجاتے ہیں ۔یہ گویا ایک قسم کی شاخ تراشی ہوتی ہے جو ہمارا آسمانی باغبان اپنے باغ کے پودوں کی ترقی اور زینت کے لئے کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اچھے سے اچھا باغ بھی تھوڑے سے عرصہ میں خراب ہوکر تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔
یہ وہ نشانات ہیں جو موجودہ ابتلاء کے تعلق میں ہمارے خدا نے جماعت کی صداقت میں مہیا فرمائے ہیں اور اس جہت سے یہ کتنی خوشی کا مقام ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی تلخ قاشوں میں بھی اس کی محبت اور اس کی شفقت کی اتنی غیرمعمولی شیرینی مخفی ہے۔ وہ بظاہر جماعت کے لئے ایک بھاری امتحان مہیا کرتا ہے اور گویاایک زلزلہ وارد کرکے بظاہر یہ منظر دکھاتا ہے کہ شاید اب سب کچھ تہ وبالا ہونے لگا ہے مگر اس زلزلہ کے ہنگامے میں بھی خدا کی یہ شیریں آواز سچے مومنوں کے کانوں میںپہنچتی رہتی ہے کہ گھبرائو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں اوریہ سارا انتظام تمہاری ہی ترقی کے لئے کیا جارہا ہے۔
اب غور کرو کہ جب اس امتحان کے تلخ پہلو میں بھی ہمارے خدا کے اتنے نشان موجود ہیں تو کتنا بدبخت ہے وہ انسان جو اس امتحان کے نیک انجام کے متعلق شبہ میں پڑتا اور شک میں مبتلا ہوتا ہے؟جب خدا نے ہجرت والے تلخ پہلو کے متعلق اپنی سنت اور اپنی قبل از وقت بتائی ہوئی بات کو پورا کیا اور امتحان کے دوران میں بھی اپنی شفقت کا ہاتھ جماعت کے سر پر رکھے رکھا تو کیا وہ اس خالص رحمت کے نشان کو پورا نہیں کرے گا جوہمارے مقدس اور دائمی مرکز کی واپسی کے متعلق اس کی زبان سے جاری ہوچکا ہے؟ چنانچہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کتنا شاندار ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرآنَ لَرَادُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔۱۲
’’یعنی وہ خدا جس نے اس زمانہ میں تجھ پر قرآنی شریعت کی خدمت واشاعت فرض کی ہے وہ ضرورضرور تجھے تیرے لوٹنے والی جگہ کی طرف واپس لے جائے گا۔‘‘
بہرحال جہاں ہجرت والے الہام پورے ہوئے وہاں ضرور ہے کہ واپسی والے الہام بھی پورے ہوں اور وہ انشاء اللہ ضرور پورے ہوکر رہیںگے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کے راستہ میں روک نہیں بن سکتی اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ قادیان کی واپسی سے چند احمدیوں کا وہاں جاکر بس جانا مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو ہمیں خدا کے فضل سے اب بھی حاصل ہے بلکہ اس سے پوری آزادی کے ماحول کے ساتھ قادیان کی واپسی مراد ہے جو انشاء اللہ اپنے وقت پر پوری ہوکررہے گی۔
باقی یہ علم صرف خدا کو ہے کہ قادیان کی واپسی والے الہامات کب پورے ہوں گے اور کس صورت میں پورے ہوں گے لیکن جہاں تک میرا قیاس ہے میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ
۱۔ وہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میںپورے ہوں گے اور
۲۔ انشاء اللہ مرکزربوہ کا قیام واپسی کے الہاموں کے پورے ہونے کے لئے ایک ظاہری علامت بن جائے گا کیونکہ وہ موجودہ ابتلاء میں جماعت کے امتحان اور اس پر جماعت کی قربانی کی تکمیل کی علامت ہے۔
۳۔ اس کے علاوہ میں خیال کرتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ غُلِبَتِ الرُّومَ فیْ اَدْنَی الْارَضِ وَھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۔۱۳بھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان پر چسپاں کیا ہے کی حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ انشاء اللہ قادیان کی واپسی میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ اس الہام میں س کا لفظ شامل ہے جو مستبقل قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور دراصل قرآنی آیت میں بضع سنین کا لفظ بھی آتا ہے۔ وَاﷲُ اَعْلَمُ وَلَاعِلْمَ لَنَا اِلَّامَاعَلَّمْتَنَا۔
بہرحال ربوہ کے مرکز کا قیام اس جہت سے ایک اہم جماعتی غرض کو پورا کرنے والا ہے کہ وہ قادیان کی بحالی کی ظاہری علامت ہے مگر اس کے علاوہ اپنی ذات میں بھی وہ ایک نہایت اہم غرض کا حامل ہے کیونکہ وہ جماعت کا مرکز بننے والا ہے اور کوئی جماعتی تنظیم قائم نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی جماعت پنپ سکتی اور ترقی کرسکتی ہے جب تک کہ اس کا کوئی مخصوص مرکز اور اس مرکز کا ایک مخصوص ماحول نہ ہو اور قادیان سے نکلنے پر جوبظاہر انتشار کی صورت پیدا ہوئی ہے، اس کے پیش نظر اس بات کی اور بھی زیادہ ضرورت تھی کہ ایک قائمقام مرکز جلد تر وجود میں آجائے لیکن ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ لاہور میں ہمیں حقیقی مرکزیت میسر نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے۔ دراصل مرکزیت کے لئے چند بنیادی باتوں کا پایا جانا ضروری ہے جن کے بغیر مرکزیت کامفہوم ہرگز پورا نہیں ہوتا اور وہ باتیں یہ ہیں:-
(الف) ایک امام کا وجود جس کے ہاتھ پر سب جماعت جمع ہو اور یہ خدا کے فضل سے ہمیں ہر وقت میسر رہا ہے۔
(ب) امام کے ماتحت ایسے مرکزی اداروں کا وجود جو امام کی ہدایت کے ماتحت جماعت کے مختلف کاموں کو چلانے کے لئے ضروری ہوں اور پھر ان اداروں کے لئے ضروری سامان کا مہیا ہونا۔
(ج) جماعت کا ایک مشترکہ پروگرام جس کے ماتحت تمام جماعت کی مساعی ایک واحد مرکزی نقطہ پر مرکوز رہیں۔
(د) ایک ایسے مخصوص ماحول کا وجود جہاں امام اور سلسلہ کے مرکزی ادارے اکٹھے ہوکر اور اکٹھے رہ کر اپنی مخصوص تربیت اور تعلیم اور تنظیم کا پروگرام چلاسکیں اور مہمانوں کے آنے جانے اور ٹھہرنے اور درس وتدریس کی پوری پوری سہولت موجود ہواورسلسلہ کے نوجوانوں کا ایک حصہ مرکزی تنظیم اور مرکزی تربیت میں براہ راست نشوونما پانے کا موقع پاسکے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں لاہور میں میسر نہیں آسکتیں اور اس کی وجہ سے جماعت کے نوجوانوں کی تربیت اور مہمانوں کی آمدورفت کے سلسلہ اور مرکزی اداروں کے تسلی بخش کام پربھاری اثر پڑرہا تھا مگر ربوہ کا مرکز انشاء اللہ اس کمی کو پورا کردے گا اور اس کے بعد ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ وہ وقت دور نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ قادیان کی بحالی کا سامان بھی مہیا فرمادے۔
حق یہ ہے کہ خدائی سلسلوں کے ساتھ مرکزیت ایک لازم وملزوم چیز کا رنگ رکھتی ہے یعنی جس طرح خود خدا کا وجود دنیا کا غیرمرئی مرکزی نقطہ ہے ،اسی طرح اس کی حکیمانہ تقدیر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی قائم کی ہوئی جماعتوں کا ایک ظاہری مرکز بھی ہو جس میں وہ اپنا مخصوص ماحول اور اپنی مخصوص تنظیم قائم کرکے اپنے مخصوص پروگرام کے مطابق تبلیغ اور تعلیم وتربیت وغیرہ کا کام چلاسکیں۔ دراصل قادیان سے باہر آنے پر جو سب سے زیادہ نقصان کا پہلو پیدا ہوا ہے ،وہ یہی ہے کہ اپنا مخصوص مرکز اور مخصوص ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے بعض نوجوانوں بلکہ بعض پختہ عمر مگر کمزور طبیعت والے لوگوں میں بھی ایک گونہ انتشار کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اور اسی طرح زائرین اور مہمانوں کے انتظام میں بھی مجبوراً فرق پیدا ہوگیا ہے۔ یہ سب باتیں ایک مخصوص مرکز کو چاہتی تھیں اور الحمدللہ کہ ربوہ میں ہمیں ایسا مرکز میسر آرہا ہے۔
لیکن ربوہ کا قیام اپنے اندر ایک خطرہ کا پہلو بھی رکھتا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ غلطی سے درمیانی سیڑھی کو ہی بالائی منزل سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یہ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ ناعاقبت اندیش ربوہ کے مرکز کی وجہ سے قادیان کی بحالی کے لئے دعائوں اورجدوجہد میں سست اور غافل نہ ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی مثال ایسی ہوگی کہ گویا کوئی پیاسا گرتا پڑتا ایک چشمہ کے پاس تو پہنچ جائے مگر پھر آگے بڑھ کر اس کا پانی پینے کی بجائے اس کے کنارے کے پاس ہی بیٹھ کر وقت گزار دے ۔یقینا قادیان ہی ہمارا مستقل اور دائمی مرکز ہے اور اس کے ساتھ جماعت کی ترقی ازل سے مقدر ہوچکی ہے۔ اسی لئے اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ والے الہام میں خدا نے قادیان کی واپسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کے ساتھ ملاکر بیان کیا ہے اور گویا ان الفاظ میں خدا تعالیٰ نے ایک رنگ میں قسم کھائی ہے کہ ہمیں تیری بعثت کی قسم ہے جو خدمت قرآن کے ساتھ وابستہ ہے کہ ہم تجھے پھر اس مرکز کی طرف واپس لے جائیں گے جو احمدیت کی ترقی اور احیاء شریعتِ قرآنیہ کے لئے ازل سے مقدر ہوچکا ہے۔
پس اے ربوہ! جس کے نام میں بلندی کی نیک فال ملحوظ رکھی گئی ہے ہم دوہرے جذبات کے ساتھ تیراخیرمقدم کرتے ہیں۔
۱۔ تو وہ غیرذی زرع وادی ہے جس میں احمدیت اور اشاعت اسلام کے پودے نے اس وقت تک جب تک کہ خدا کو منظور ہو نشوونما پانا ہے اور ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ خدا کی یہی سنت ہے کہ جہاں اس نے دنیوی پودوں کے لئے زرخیز اور شاداب زمینوں کو بہترین گردانا ہے وہاں روحانی پودوں کے لئے اس کی ازلی حکمت نے یہی فیصلہ کررکھا ہے کہ وہ کم از کم ابتداء میں بظاہر بنجر وادیوں میں زیادہ پروان چڑھتے ہیں۔
۲۔ تو وہ صبح کا ستارہ ہے جس کے پیچھے(بعض درمیانی امتحانوں کے باوجود) خد اکے چمکتے ہوئے سورج کا طلوع مقدر ہے کیونکہ تو ہمارے امتحانوں کا وہ پُراسرارمر حلہ ہے جس کے پیچھے قادیان کی بحالی کا راز مخفی رکھا گیا ہے۔ پس گو ہم تیری ضرورت اور تیری قدر کو پہچانتے ہیں مگر ہمارے دل تیرے پیچھے آنے والی بھاری رحمت کے لئے بیقرار ہیں کیونکہ جیسا کہ ہمارے خدا نے فرمایا ہے وہی ہماری تقدیر کا مستقل نقش ہے۔
وَآخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیِنْ
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ ؍اپریل ۱۹۴۹ئ)
سیرت خاتم النبیّنؐ حصہ سوم(جز اوّل)
اس کتاب کے پہلے دو حصے عرصہ ہوا شائع ہوچکے ہیں اور اب یہ تیسراحصہ شائع ہوا ہے جس میں غزوۂ بنوقریظہ کے بعد کے حالات سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تبلیغی خطوط کے حالات درج ہیں جو آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف بادشاہوں کے نام ارسال فرمائے اور اس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک مکتوب کا بلاک فوٹو بھی درج ہے (بالمقابل صفحہ۲۰۲) جو کہ حضورؐ نے مقوقس مصر کے نام ارسال فرمایا تھا۔
جیسا کہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا موجودہ تصنیف صرف سیرت خاتم النبییّنؐ حصہ سوم کی جزواوّل پر مشتمل ہے باقی ماندہ جزوانشاء اللہ بعد میں شائع ہوگی۔
کتاب کا سائز ۸/۲۰×۲۶ ہے اور حجم ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے ۔قیمت باوجود موجودہ گرانی کے غیرمجلد اڑھائی روپے اور مجلد ساڑھے تین روپے رکھی گئی ہے۔ ملنے کا پتہ حسب ذیل ہے۔
۱۔ ناظر صاحب تالیف وتصنیف ربوہ ڈاک خانہ چنیوٹ
۲۔ منیجر بک ڈپو تالیف وتصنیف ۸۔ٹمپل روڈ لاہور
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍اپریل ۱۹۴۹ئ)





درخواست دعا
میرا نواسہ محمود احمد سلمہ جو میاں محمد احمد خان کا لڑکا ہے ، عرصہ دوماہ سے ٹائیفائیڈ سے بیمار چلا آتا ہے ۔ درمیان میں بخار اترنے کے بعد پھر دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ احباب اس کی صحت کے لئے دعا فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ مئی ۱۹۴۹ئ)









سب ایک جیسے نہیں
جو مظالم ۱۹۴۰ء کے فسادات میں مشرقی پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں پر کئے وہ پنجاب کی تاریخ کا ایک کھلاہؤاخونی ورق ہیں ۔جس کی تفصیل میں اس جگہ جانے کی ضرورت نہیں لیکن ہر قوم کے سارے افراد ایک جیسے نہیں ہوا کرتے اور جس طرح نیک لوگوں کی جماعت میں کبھی کوئی بد بھی پیدا ہوجاتا ہے، اسی طرح ظالم لوگوں کے گروہ میں کبھی کبھی کوئی شریف آدمی نکل آتا ہے ۔چنانچہ حال ہی میں مجھے قادیان کے ایک قریب کے گائوں کے سکھ زمیندار کی طرف سے یہ خط ملا ہے جو میں نام ظاہر کرنے کے بغیر درج ذیل کرتا ہوں:
بخدمت حضرت میاں صاحب جی
آداب عرض ہے
خدا آپ کو خوش رکھے ہم سب خاندان آپ کے سب خاندان کو بہت بہت رات دن یاد کرتے ہیں ۔پرماتما وہ دن جلد لائے کہ ہم لوگ پھر آپ کے درشن کریں ۔آپ کا خط مل گیا تھا (یہ خط میں نے ان کے پہلے خط کے جواب میں لکھا تھا) آپ کی مہربانی کے ہم بہت مشکور ہیں۔ ہم اپنے دونوں چاہ میں بجلی کی موٹریں لگا رہے ہیں۔ موٹریں تو لگا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو بھی یاد کرتے ہیں کہ آپ اگر یہاں ہوتے تو پھر آپ کا بھی مشورہ حاصل کرکے فائدہ حاصل کرتے۔ اچھا پرماتما جلدیہ مصیبتوں کے دن دور کردے اور ہم پھر پہلے کی طرح ہنسی خوشی ملیں۔ میرے بچے بچیاں بہت یاد کرتے ہیں اور جس دن آپ کا خط آیا ہم سب خاندان کو اس دن عید کے چاند کی طرح خوشی ہوئی اور سب شوق سے سنتے اورپڑھتے تھے۔ خدا آپ کو جلد لائے تاکہ ہم لوگ درشن کرسکیںاور ہم کوآپ دعائوں میں بھی یادرکھیں کہ پرماتما ہمارے سب کام ٹھیک ٹھیک کردے ۔ہم لوگ آپ کے احسانوں کے بہت مشکور ہیں۔
آپ کا تابعدار
………‘‘
یہ لوگ تو خیرشریف تھے اور تعلقات رکھتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جنون کا ابتدائی طوفان گزرجانے کے بعد بعض اشد مخالفوں کے دلوں میں بھی کچھ بے چینی اور ردّعمل والی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ چنانچہ قادیان میں ایک ڈاکٹرہے جو ابتداء سے جماعت احمدیہ اور ہمارے خاندان کی مخالفت میں ممتاز رہا ہے۔ اس کے متعلق قادیان سے خط آیا ہے کہ جن ایام میں ماسٹر تارا سنگھ گرفتارکئے گئے، وہ ہمارے کسی دوست سے ملا اور میرے اس مضمون کاذکر کر کے جو ’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کے عنوان کے ماتحت میں نے ۱۹۴۷ء کے شروع میں لکھا تھا ،کہا کہ افسوس ہے اس وقت ہم نے ان باتوں کو نہیں سمجھا اب پتہ لگ رہا ہے کہ جو مشورہ اس مضمون میں ہمیں دیا گیا تھا وہی درست تھا ۔اس کا اشارہ ان ہندو سکھ اختلافات کی طرف تھا جو آج کل مشرقی پنجاب میں زور پکڑ رہے ہیں اور عجیب بات ہے کہ کچھ عرصہ ہؤا میں نے اسی ڈاکٹر کو خواب میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں اور وہ مجھے دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے قریب ملا ہے اور بہت دبلا ہورہا ہے (حالانکہ ویسے وہ ایک بہت فربہ انسان ہے) اور مجھے بظاہر ادب کے ساتھ مل کر کہتا ہے کہ کیا آپ کی حفاظت کے لئے میں کوئی اسکورٹ لائوں؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے ضرورت نہیں آپ تکلیف نہ کریں مگر اس وقت میرا دل محسوس کرتا تھا کہ گویہ بظاہر ادب سے مل رہا ہے مگر اس کا دل اب بھی پوری طرح صاف نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم
‎(مطبوعہ الفضل ۴؍ مئی ۱۹۴۹ ئ)







کچے دھاگے کس طرح ٹوٹتے ہیں
اس نازک دَور میں مقامی جماعتوں کا فرض
الفضل کے ربوہ نمبر میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ موجودہ امتحان کے نتیجہ میں جہاں بہت سے لوگوں نے خدا کے فضل سے ایمان اور اخلاص اور محبت اور قربانی میں ترقی کی ہے وہاں بعض لوگ کچے دھاگے ثابت ہوکر ٹوٹ بھی گئے ہیں۔ اس پر بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کچے دھاگوں کے ٹوٹنے سے کیا مراد ہے اور جب کہ جماعت ایک بٹے ہوئے رسہ کا رنگ رکھتی ہے تو پھر اس رسہ کے دھاگوں پر الگ الگ بوجھ پڑنا اور ان دھاگوں کا ٹوٹنا جب کہ خود رسہ سلامت ہے کیا معنی رکھتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوال کرنے والے دوستوں نے اس معاملہ کی حقیقت پر غور نہیں کیا ورنہ یہ بات بالکل صاف ہے۔ بے شک جماعت ایک رسہ کا حکم رکھتی ہے اور بے شک افراد جماعت ان دھاگوں کا حکم رکھتے ہیں جن کے ملنے سے رسہ بنتا ہے مگر پھر بھی خدائی قانون اسی طرح پر واقع ہؤا ہے کہ امتحانوں اور ابتلائوں کے غیرمعمولی دبائوکے وقت جہاں رسے پر مجموعی بوجھ پڑتا ہے وہاںہر دھاگے پر بھی لازماً اس بوجھ اور دبائوکا اثر پہنچتا ہے جس کا طبعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ دبائو کے وقت کمزور دھاگے ٹوٹنے شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ رسہ بحیثیت مجموعی سلامت رہتا ہے۔
دراصل اس قسم کے غیرمعمولی حالات میں وہی دھاگے ٹوٹنے سے بچتے ہیں جو یا تو اپنی ذات میں غیرمعمولی طورپرمضبوط ہوتے ہیں اور اس لئے وہ ہر دبائو کو برداشت کرنے کے بعد بھی سلامت رہتے ہیں اور یا وہ دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح لپٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنی ذات میں کمزور ہونے کے باوجود دوسروں کا سہارا ان کے بچائو کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص اپنی ذات میں کمزور ہے اوراتنا پختہ ایمان نہیں رکھتا جو ابتلاء کے وقت میں اکیلا سلامت رہنے کے قابل ہو مگر اس کے خاندان یا اس کی سوسائٹی کے دوسرے افراد جن سے وہ گھرا ہوا ہے پختہ اور مضبوط ایمان کے لوگ ہیں تو ایسا شخص اپنی ذات میں کمزور ہونے کے باوجوداپنے ماحول کی مضبوطی کی وجہ سے امتحان کے بوجھ کو برداشت کرلے گا لیکن اگر نہ تو وہ خود اپنی ذات میں مضبوط ہے اور نہ ہی اپنے خاندان یا سوسائٹی یا مقامی جماعت کے لحاظ سے مضبوط ماحول میں گھرا ہوا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ابتلا کے بوجھ اور دبائو کو برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ جائے گا۔
اس کی مثال یوں سمجھنی چاہیئے کہ بہت سے دھاگوں کا ایک مجموعہ ہو اور اس مجموعہ کے دونوں کناروں کو مٹھے کی صورت میں پکڑ کر زور کے ساتھ باہر کی طرف کھینچا جائے تو لازماً ایسے وقت میں وہ دھاگے جو اپنی ذات میں کمزور ہیں اور دوسرے دھاگوں کے ساتھ ان کا اتصال بھی مضبوط نہیں وہ رسہ کے بحیثیت مجموعی سلامت رہنے کے باوجود تڑاخ تڑاخ کرکے ٹوٹنا شروع ہوجائیں گے اور ایسی صورت میں صرف وہی دھاگے بچیں گے جو یا تو اپنی ذات میں غیرمعمولی طورپر مضبوط ہیں اوریا دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ اس اتصال و اتحاد نے ان کی ذاتی کمزوری کو دبارکھا ہے۔
بعینہٖ یہی حال موجودہ امتحان کے دور میں نظر آرہا ہے کہ جہاں مضبوط دھاگے خدا کے فضل سے سلامت ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دبائو اور کھچاوٹ کے چکر نے ان کی طاقت کو اور بھی زیادہ مضبوط کردیا ہے اور اسی طرح وہ دھاگے بھی سلامت ہیں جو اپنی ذات میں تو مضبوط نہیں مگر دوسرے دھاگوں کے ساتھ مل کر ایک رسی کی صورت اختیار کرچکے ہیں مگر ان کے مقابل پر وہ دھاگے لازماً ٹوٹ رہے ہیں جو نہ تو اپنی ذات میں مضبوط ہیں اور نہ دوسرے دھاگوں کے ساتھ مل کر بالواسطہ مضبوطی اختیار کرچکے ہیں۔
اندریں حالات مقامی جماعتوں اور احمدی خاندانوں کے سربرآوردہ لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی رکھیںکہ کمزور طبیعت کے لوگ یا تو ایمان اور اخلاص میں زیادہ پختہ ہوکر اپنی ذات میں مضبوط اور محفوظ ہوجائیں اور یا ۱۴ کے حکم کے ماتحت ایسے ماحول کے ساتھ وابستہ رہیں جو انہیں کم از کم بالواسطہ طورپر مضبوط اور محفوظ کردے ۔یہ امتحان بہرحال عارضی ہے اور خدا نے چاہا تو جلد گزرجائے گا اور شاید اس کے گذرنے کے آثار ابھی سے دور کے افق میں نظر آرہے ہیں۔ مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس عظیم الشان زلزلہ کے وقت میں ڈگمگانے اور لغزش کھانے سے بچے رہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ بھی جو خود تو اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکتے مگر ان کے عزیزوں اور دوستوں نے ان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے انہیں سہارا دے رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو نہ صرف خود گرنے سے محفوظ رہے ہیں بلکہ اس طوفانِ عظیم میں دوسروں کو بھی سہارا دے کر بچارہے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس ان لوگوں پر جو اس امتحان کے وقت میں گرگئے اور گررہے ہیںاور نہ تو کوئی اندرونی طاقت انہیں بچاسکی اور نہ کوئی بیرونی سہارا ہی انہیں میسر آیا۔
ایسے لوگ غزوۂ تبوک کے منافقوں کی طرح ہیںجو اس نازک اور بھاری امتحان کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کی تباہی کا یقین کرچکے تھے۔ مگر پھر آپ کے سلامت واپس آنے پر ایک ایک دودو کرکے اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یقین دلانا چاہتے کہ ہم اس سارے عرصہ میں ایسے ہی مخلص اور جاں نثار رہے ہیں۔ اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ بھی جماعت کی شاندار بحالی پر پھر ہماری طرف لوٹیں گے اور یہ یقین دلانا چاہیں گے کہ وہ توہرحال میں جماعت کے مخلص اور فدائی ہیں۔
اس وقت کیا ہوگا؟ اسے تو صرف خدا ہی جانتا ہے یا کسی قدر وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں (کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ان باتوں کے متعلق بھی کافی اشارے موجود ہیں) مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کے دربار میں اس جان نثار احمدی کی سربلندی کو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا جو عسریسر ہر دو میں خدا کا وفادار بندہ رہا اور کسی حالت میں بھی اس نے اپنے ایمان اور اخلاص کو کمزوری یا نفاق کی گندگی سے ملوث نہیں ہونے دیا۔میں خدا کے فضل سے اس مضمون پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے الہامات جو ان حوادث اور ان کے نتائج سے تعلق رکھتے ہیں، میری نظر میں آئینہ کی طرح صاف ہیں مگر ساری باتیں وقت سے پہلے ظاہر نہیں کی جاسکتیں اور نہ ہی خدا کی اٹل تقدیر کو کوئی قبل از وقت انکشاف بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ وآخردعوٰنا ان الحمدللّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۵ ؍مئی ۱۹۴۹ء )




قادیان کے تازہ حالات
قادیان میں ’’الفضل‘‘ کا داخلہ بند کردیا گیا ہے
قادیان کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارے سب دوست خیریت سے ہیں اور اپنے دینی پروگرام میں مصروف رہتے ہیں۔
آہستہ آہستہ نقل وحرکت کی سہولت پیدا ہورہی ہے۔ چنانچہ ہمارے بعض دوست بعض ضروری کاموں کے تعلق میں متعدد دفعہ بٹالہ جاچکے ہیں اور ایک دفعہ گورداسپور بھی ہو آئے ہیں اور واپسی پر راستہ میں دھاریوال بھی ٹھہرے تھے ۔ ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ احتیاطًا چار چار پانچ پانچ کی پارٹی میں جاتے ہیں اور جلد واپس آجاتے ہیں۔
لیکن نقل وحرکت کی ظاہری سہولت کے باوجود بعض پہلوئوں کے لحاظ سے تکلیف بڑھ گئی ہے اور یہ پہلو نقل وحرکت کی سہولت سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ مثلاً قادیان کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۶اپریل ۱۹۴۹ء سے الفضل کا کوئی پرچہ قادیان نہیں پہنچا۔ شروع شروع میں خیال کیا گیا تھا کہ شاید یہ ڈاک کی خرابی کی وجہ سے ہوگا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت نے الفضل کا داخلہ بندکردیا ہے جس کی وجہ سے قادیان کے دوست حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات اور سلسلہ کی دینی تحریکات اور سلسلہ کے مشنوں کی تبلیغی رپورٹوںاور دیگر جماعتی خبروں سے گویا بالکل کٹ گئے ہیں۔ اس کے خلاف قادیان کے دوستوں اور لاہور کے دفتر کی طرف سے احتجاج کیا جارہا ہے۔
میں نے جلسہ ربوہ کے حالات کسی قدر تفصیل کے ساتھ مرتب کرکے قادیان کے دوستوں کو بھجوائے تھے جو وہاں کے سب درویشوں کو جمع کرکے سنائے گئے اور اطلاع ملی ہے کہ دوستوں نے یہ حالات انتہائی شوق اور رقت کے ساتھ سنے۔
جیسا کہ پہلے اعلان کیا جاچکا ہے قادیان میں متعدد غیرمسلم معززین حالات دیکھنے کے لئے جاتے رہتے ہیں اور ہمارے دوستوں کے ساتھ مل کر ان کے حالات دریافت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے دوستوں کو اسلام کی تبلیغ کا بھی عمدہ موقع مل جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتہ میں ایسے غیرمسلم زائرین کی تعداد ۳۸۲ تھی۔ جن میں سے اکثر بہت اچھااثر لے کر گئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍مئی ۱۹۴۹ئ)
قادیان کے درویشوں کی امداد
میں نے الفضل کے ذریعہ مختلف موقعوں پر قادیان کے غریب درویشوں یا ان کے پاکستان میں رہنے والے غریب رشتہ داروں کے لئے امداد کی اپیل کی ہے۔ جس پر کئی دوستوں نے توجہ دے کر ثواب حاصل کیا ہے۔ اب اسی تعلق میں مجھے ذیل کی چار رقمیںپہنچی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان رقموں کے بھجوانے والوں کو جزائے خیر عطا کرے اور دین و دنیا میںان کا حافظ وناصر ہو۔آمین۔
۱۔ از اہلیہ صاحبہ چوہدری شاہنواز صاحب کلفٹن روڈ کراچی ۔ ۔/۳۰روپے
۲۔ اقبال بیگم صاحبہ جو چوہدری بشیر محمد صاحب پسر چوہدری فقیر محمد صاحب ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس کی اہلیہ ہیں۔ ۔/۲۰روپے
۳۔ نذیر احمد صاحب ڈار دارالسلام مشرقی افریقہ ۔/۱۰شلنگ
۴۔ اہلیہ صاحبہ چوہدری فضل کریم صاحب ہیڈ ماسٹر بورے والا ضلع ملتان۔ ۔/۲۰روپے
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍مئی ۱۹۴۹ئ)






مَساواتِ اسلامی پر ایک مختصر نوٹ
از سیرۃ خاتم النبیین حصہ سوم جزو اوّل
اس جگہ ایک مختصر سا نوٹ اسلامی مساوات کے متعلق سُپردقلم کرنا بے موقع نہ ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے متعلق اکثر لوگوںمیں غلط فہمی پائی جاتی ہے یعنی جہاں ایک طبقہ نے اسلامی مساوات کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ اسلام میںسب چھوٹے بڑے ہرجہت سے برابر ہیں اور اسلام کسی صورت میں کسی شخص کے امتیاز یا بڑائی کو تسلیم نہیںکرتا اور تمام امتیازات کو مٹا کر ہر شخص کو ہر لحاظ سے ایک لیول پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ وہاں ایک دوسرے طبقہ نے اسلام میں بھی اسی رنگ کے ناگوار طبقے بنا رکھے ہیںجو اکثر دوسری قوموںمیں پائے جاتے ہیں اور ان طبقات کے علیحدہ علیحدہ حقوق قرار دے دیئے گئے ہیں بلکہ ان طبقات کے اندر کی خلیج کو وسیع ترکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سو جاننا چاہیئے کہ صحیح اسلامی تعلیم کی رو سے یہ دونوں خیالات افراط وتفریط کے طریق پر غلط اور نادرست ہیں بلکہ اصل اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جہاں تک حقوق اور ذرائع ترقی کے حصول کا سوال ہے سب لوگ برابر ہیں اور کسی فرد یا کسی جماعت کو کسی دوسرے فرد یا کسی دوسری جماعت پر کسی رنگ میں فضیلت حاصل نہیں اور اس جہت سے اسلام میں قطعا کوئی درجے یا طبقے پائے نہیںجاتے بلکہ پوری پوری مساوات ہے لیکن دوسری طرف اگر کوئی شخص کسی جائز وجہ سے کوئی دینی یا دنیوی ترقی اور بڑائی حاصل کرلیتاہے تو حقوق کے معاملہ کو الگ رکھتے ہوئے جس میں بہرحال سب برابر ہیں، اسلام عام تعلقات میں ایسے شخص کی حاصل شدہ بڑائی اور ترقی کو تسلیم کرتا ہے اور اسے اُس کے جائز مرتبہ سے گراکر ظلم اور حق تلفی کے طریق کو اختیار نہیں کرتا۔ خلاصہ یہ کہ جہاں ایک طرف اسلام نے سب بنی نوع آدم کو حقوق اور ذرائع ترقی کے حصول کے معاملہ میں ایک لیول یعنی ایک سطح پر کھڑا کیا ہے اور کسی ناواجب نسلی اور خاندانی یا انفرادی امتیاز کو تسلیم نہیں کیا وہاں افراد اور قوموں کی حاصل شدہ بڑائی اور ترقی کو جبروتشدد کے رنگ میں مٹایا بھی نہیں اورانہیں ان کی محنت یا خوش بختی کے ثمرہ سے محروم نہیں کیا۔ البتہ اس صورت میں گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے کے لئے مؤثر تدابیر ضرور اختیار کی ہیں اور یہی وہ اعلیٰ اور وسطی طریق ہے جسے نظر انداز کرکے دنیا آج کل مختلف قسم کے فتنوں کا شکار بن رہی ہے اور اس زمانہ کی سرمایہ داری اور اشتراکیت انہیں فتنوں سے پیدا شدہ انتہائیں ہیں جن میںسے ایک میں افراط کی صورت پیداہوگئی ہے اور دوسری میں تفریط کی۔
اسلامی مساوات کا اصولی نظریہ
اسلامی مساوات کے نظریہ کا یہ نچوڑ اور خلاصہ چند قرآنی آیات اور چند احادیث نبوی میں آجاتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱۵
’’یعنی اے لوگو! تم آپس کے معاملات میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرتے رہو جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اس ایک جان سے اس نے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس جوڑے سے اس نے دنیا میں کثیرالتعداد مرد اور عورت پھیلادیئے۔‘‘
اس قرآنی آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف توجہ دلاکر کہ وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، دنیا میں صحیح مساوات کی بنیاد قائم کردی ہے اور اس اصول کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بعد کے حالات کے نتیجے میں مختلف انسانوں اور مختلف قوموں اور مختلف طبقات میں کتنا ہی فرق پیدا ہوجائے انہیں آپس کے معاملات میں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ بہرحال اپنی اصل کے لحاظ سے وہ ایک ہی باپ کی نسل ہیں۔ کیا اگر ایک باپ کے بیٹوں میں سے بعض بچے دوسروں کی نسبت زیادہ دولت یا زیادہ طاقت یا زیادہ اثرورسوخ حاصل کرلیں اور دوسرے ان باتوں میں نسبتاًپسماندہ رہیں تو وہ اس فرق کی وجہ سے بھائی بھائی نہیں رہتے اور کوئی غیر چیز بن جاتے ہیں؟ ہر گز نہیں ہرگز نہیں۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
۱۶…۱۷ … ۔۱۸
’’یعنی سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں… سو اے مسلمانو! ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ تم میں سے ایک فریق دوسرے فریق پر ہنسی اڑائے اور اسے ذلیل خیال کرے کیونکہ (جب سب لوگ اپنی اصل کے لحاظ سے برابر ہیں
اور سب کے لئے ترقی کے رستے یکساں کھلے ہیں) ہوسکتا ہے کہ وہ فرق جس
پر تم آج اڑاتے ہو کل کو تم سے آگے نکل جائے یا ہوسکتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے بعض اوصافِ حمیدہ کے لحاظ سے تم سے بہتر ہو… اے لوگو اچھی طرح سُن لو کہ ہم نے تم سب کو مرد وعورت کے جوڑے سے پیدا کیا ہے اور بیشک ہم نے تم میں قوموں اور قبیلوں کی تقسیم قائم کی ہے مگر یاد رکھو کہ یہ تقسیم اس غرض سے ہرگز نہیں کہ تم ایک دوسرے کے مقابل پر تفاخر اور بڑائی سے کام لو بلکہ یہ تقسیم صرف اس غرض سے ہے کہ تمہارے درمیان آپس میں شناخت اور تعارف کا ذریعہ قائم رہے ورنہ خدا کے نزدیک تم میں سے بڑا اور معزز وہی ہے جو ذاتی طورپر زیادہ اوصافِ حمیدہ کا مالک اور زیادہ متقی اور زیادہ پرہیزگار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جو وہ تمہارے سامنے بیان کررہا ہے بڑی دوراندیشی اور بڑی حکمت پر مبنی ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر خدا ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یاایّھاالنّاس الاانّ ربّکم واحِدٌ وانّا اباکم واحدٌ الَالَافضل لِعَربِیّ عَلٰی اعجمیِّ ولالعجمی علٰی عربیّ ولا لِاَ حَمَر عَلٰی اسوَدَ ولا اسودعلٰی احْمَرَ اِلاً بالتّقویٰ ابلّغْتُ قالوا قد بلَّغْ رسُوْل اللّٰہ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۱۹
’’یعنی جو خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پر قربانی کے درمیانی دن میں منٰی کے مقام پر دیا اس میں آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ’اے لوگو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا۔ پس ہوشیار ہوکر سُن لو کہ عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمیوں کو عربیوں پر کوئی فضیلت ہے اسی طرح سرخ وسفید رنگ والے لوگوں کو کالے رنگ والے لوگوں پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کالے لوگوں کو گورے لوگوں پر کوئی فضیلت ہے۔ ہاں جو بھی ان میں سے اپنی ذاتی نیکی سے آگے نکل جائے وہی افضل ہے ۔لوگو! بتائو کیا میں نے تمہیں خدا کا کلام پہنچادیا ہے؟ سب نے عرض کیا بے شک خدا کے رسول نے اپنی رسالت پہنچادیا ہے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
ان اﷲ عزوجل قَدْاَذْھَبَ عَنْکُمْ عُبَیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَفَخْرَھَا بِالاٰ بَائِ مَوْمِنٔ َّ تَقِیّٔ وَفَاجِرٔ شَقِیّٔ وَالنَّاسِ بَنُواٰدَمَ واٰدَمُ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ۔۲۰
’’یعنی اے مسلمانو! خدا تعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ تم میں سے زمانہ جاہلیت کے بیجاغرور اور آبائو اجداد کی وجہ سے بے جا تفاخر کرنے کی مرض کو دو ر کر دیا ہے کیونکہ اسلامی پیمانہ صرف یہ ہے کہ ایک شخص خدا کو ماننے والااور نیک عمل بجالانے والا ہوتا ہے اور دوسرا بدعمل ہوتا ہے اوراچھے اوصاف سے محروم ،اور یادرکھو کہ سب لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آم مٹی سے پیداہؤا تھا۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
اَلنَّاسُ مَعَادنِ خِیَارُھُم فِیْ الجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِیْ الْاِسْلَامِ اِذَافَقِھُوا۔۲۱
’’یعنی دنیا میں لوگ بھی معدنیات کی طرح ہیں جو ایک ہی قسم کے عناصر ہوتے ہوئے اور ایک ہی قسم کی مٹی کے نیچے دبے ہوئے آہستہ آہستہ مختلف رنگ اور مختلف اوصاف اختیار کرلیتے ہیں مگر سُن لوکہ ترقی اور بڑائی کی جو معروف علامتیں اسلام سے پہلے سمجھی جاتی تھیں (یعنی عقل ودانش، سخاوت وشجاعت طاقت واثر وغیرہ) وہی اب بھی قائم ہیں۔اور جو لوگ ان اوصاف کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بڑے سمجھے جاتے تھے ،وہ اب اسلام میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے (کیونکہ اسلام کسی شخص کی حاصل شدہ بڑائی کو چھینتا نہیں) مگر شرط یہ ہے کہ وہ عِلم دین اور ذاتی نیکی اختیار کرلیں۔‘‘
اوپر کے حوالوں سے جو اسلامی مساوات کے نظریہ کے متعلق اصولی رنگ رکھتے ہیں مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
۱۔ یہ کہ اپنی اصل کے لحاظ سے سب لوگ ایک باپ کی نسلی اور ایک درخت کی شاخیں ہیں اور کسی فرد کو دوسرے فرد پر اور کسی قوم کو دوسری قوم پر محض نسلی فرق کی بناء پر کوئی امتیاز حاصل نہیں۔
۲۔ یہ کہ مسلمان ایک نبیؐ کی امّت اور ایک ایمان کے حامل ہونے کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
۳۔ یہ کہ زمین کے اندر کی معدنیات کی طرح مختلف قومیں اور مختلف افراد ایک دوسرے سے مختلف اوصاف اختیار کرسکتے ہیں اور کرلیتے ہیں مگر ان کی وجہ سے کسی فرد کو دوسرے فرد پر اور کسی قوم کو دوسری قوم پر بڑائی اور فخر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
۴۔ یہ کہ اسلام سے قبل جو اوصافِ حمیدہ قومی یا انفرادی بڑائی کی بنیاد سمجھے جاتے تھے ،مثلاً عقل ودانش ،سخاوت وشجاعت، طاقت واثر وغیرہ وہ اسلام میں بھی بدستور قائم ہیں مگر اسلام نے ان پر اس شرط کا اضافہ کردیا ہے کہ عام معروف اوصاف کے علاوہ دینداری کا وصف پایا جانا بھی ضروری ہے۔
۵۔ یہ کہ اسلام نے سب سے بڑا وصف دینداری اور تقویٰ اللہ کو قراردیا ہے کیونکہ یہ وصف خدائے اسلام کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور جو شخص اس وصف میں ممتاز ہوگا وہی دوسروں پر ممتاز سمجھا جائے گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍ مئی ۱۹۴۹ئ)
عام تعلقات میں مراتب کو ملحوظ رکھنے کی تلقین
اسلامی مساوات کے متعلق یہ بنیادی نظریہ بیان کرنے کے بعد اسلام اس سوال کو لیتاہے کہ جب اصل کے لحاظ سے ایک ہونے کے باوجود مختلف لوگوں کے حالات اور اوصاف مختلف ہوسکتے ہیں تو اس ناگزیر اختلاف کی موجودگی میں مختلف مدارج کے لوگوں کے متعلق عام تمدنی معاملات میں کیا رویہ ہونا چاہیئے۔
أنْزِلُوْاالنَّاسَ مَنَازِ لَھُمْ ۔۲۲
’’یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے ضروری ہے کہ آپس کے معاملات میں لوگوں کے معروف مرتبوں کا خیال رکھا کرو اور ان کے حالات اور درجہ کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیاکرو۔‘‘
اس حدیث کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ کسی دینی یا دنیوی بناء پر کوئی رتبہ یا بڑائی حاصل کرلیں تو عام معاملات میں ان کے مرتبہ کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ واجبی احترام سے پیش آنا اسلامی اخلاق کا حصہ ہے ۔مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے کہ جب یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے فیصلہ کے لئے سعد بن معاذ انصاری قبیلہ اوس کے رئیس موقع پر تشریف لے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آتا دیکھ کر صحابہ سے فرمایا:
قُومُوْااِلٰی سیّدِ کُم۔۲۳
’’یعنی اپنے رئیس کے اکرام اور امداد کے لئے کھڑے ہوجائو۔‘‘
اسی طرح قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو پیغامِ رسالت دے کر فرعون کی طرف بھیجا تو حضرت موسٰیؑ کو تاکید فرمائی کہ (چونکہ فرعون کو اس وقت ملک میں رتبہ حاصل ہے اس لئے) اس کے ساتھ نرمی اور ادب کے طریق پر بات کرنا۔
عدالتی امور میں مکمل مساوات
لیکن اس کے مقابل پر عدالتی اور قضائی حقوق کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور کن شاندار الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:
اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ یُقِیْمُوْنَ الْحَدَّ عَلَی الْوَضِیْعِ وَیَتْرُکُوْنْ الشَّرِیفَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَوفَاطِمَۃُ فَعَلَتْ ذَالِکَ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔۲۴
’’یعنی تم سے پہلے اس بات نے کئی قوموں کو ہلاک کردیا کہ جب ان میں سے کوئی چھوٹا آدمی جرم کرتا تھا تو وہ اسے سزادیتے تھے اور جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے۔ سو اچھی طرح کان کھول کر سن لو کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے کہ اگر میری لڑکی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو میں اسلامی طریق پر اس کے بھی ہاتھ کاٹوں گا۔‘‘
اللہ اللہ! کیسے زوردار الفاظ میں اور کس جلال کے ساتھ اسلامی مساوات کو قائم کیا گیا ہے!! اور یہ تعلیم وہ تھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے بھی بڑی سختی کے ساتھ مدنظر رکھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:
الضعیف فیکم قوی عندی حتی اُریح علیہ حقہ ان شاء اﷲ والقوی فیکم ضعیف عندی حتی اخذ الحق منہُ ۔۲۵
’’یعنی اے مسلمانو! سن لو کہ تم میں سے کمزور ترین شخص میرے لئے اس وقت تک قوی ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلادوں اور تم میں سے قوی ترین شخص میرے لئے اس وقت تک کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اور کا دبایا ہوا ہو واپس نہ لے لوں۔‘‘
اسی طرح حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ شمالی عرب کے ایک بڑے رئیس جبلہ بن ایہم نامی نے جو مسلمان ہوچکا تھا کسی غریب مسلمان کو غصہ میں آکر تھپڑ ماردیا جب حضرت عمر کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے جبلہ کو بلاکر فرمایا
’’جبلہ میں سنتا ہوں کہ تم نے ایک غریب مسلمان کو تھپڑ مارا ہے اگر تم نے ایسی حرکت کی ہے تو خدا کی قسم تم سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔‘‘
اس پر جبلہ جس میں غالباً ابھی تک جاہلیت والے تکبر کی رگ باقی تھی مغرور ہوکر مرتد ہوگیا۔
ملکی عہدوں کی تقسیم میں مکمل مساوات
عدالتی حقوق کے سوال کے بعد عہدوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا سوال آتاہے اور ایک لحاظ سے یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے۔ سو اس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے:
۲۶
’’یعنی اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ قومی اور ملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں جو خدا کے نزدیک ایک مقدس امانت کا رنگ رکھتے ہیں صرف ذاتی قابلیت اور ذاتی اہلیت کو دیکھا کرو اور جو شخص اپنے ذاتی اوصاف کے لحاظ سے کسی عہدہ کا اہل ہو اسے وہ عہدہ سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہو اور پھر اے مسلمانو! جب تم کسی عُہدہ یا ذمہ واری کے کام پر مقرر کئے جائو تو تمہارا فرض ہے کہ لوگوں میں کامل عدل وانصاف کا معاملہ کرو۔‘‘
یہ زرّین تعلیم ہمیشہ اسلامی حکومتوں کا طرّہ امتیاز رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں بعض بظاہر ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ ترقی کرکے عروج کے کمال تک پہنچے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آنحضرت ﷺنے زید بن حارثہ کو جو ایک آزاد شدہ غلام تھے ،کئی فوجی دستوں کا امیر مقرر فرمایا اور پھر زید کی وفات کے بعد آپؐ نے ان کے نوجوان فرزند اسامہ بن زید کو بھی ایک بڑی فوج کا امیر مقرر فرمایا جس میں بعض بڑے بڑے صحابہ شامل تھے جو قدیم دستور کے مطابق گویا عرب سوسائٹی میں پہاڑ کی طرح سمجھے جاتے تھے اور جب اس پر بعض ناسمجھ نومسلموں میں چہ میگوئی ہوئی کہ ایک نوجوان غلام آزاد کو ایسے ایسے معمر اور جلیل القدر لوگوں پر امیر مقرر کیا گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت غصہ کے ساتھ فرمایا کہ:
ان تطعنُوافی اِمَارَتِہٖ فقدکنتم تطعنُون فی امارۃ ابیہ من قبلُ وایم اﷲ ان کان لخلیقالا مارۃِ و ان کان لمن احب الناس اِلَیَّ و انَّ ھذا احبّ الناس الی بعدَہٗ۔ ۲۷
’’یعنی تم اسامہ کی امارت پر نکتہ چینی کرتے ہو اور اس سے قبل تم اس کے باپ زید پر نکتہ چینی کرچکے ہو۔ خدا کی قسم جس طرح اس کا باپ امارت کا اہل تھا اور مجھے بہت محبوب تھا اسی طرح اس کے بعد اسامہ بھی امارت کااہل ہے اور مجھے بہت محبوب ہے۔‘‘
یہ اسی مبارک تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام میں ہمیشہ بظاہر ادنیٰ ترین لوگوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی حاصل کی اور کبھی کسی شخص کی غربت یا نسلی پستی اس کی ترقی میں روک نہیں بنی۔ چنانچہ اس کی مزید مثالیں دیکھنی ہوں تو اس کتاب کے حصہ دوم کا وہ باب ملاحظہ کیا جائے جو غلامی کی بحث سے تعلق رکھتا ہے۔
سوشل اجتماعوں میں برادرانہ اختلاط
اس جگہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ عہدوں اور ذمہ واری کے کاموں کے متعلق تو بیشک اسلام نے حقیقی مساوات کی تعلیم دی ہے اور سب کے لئے ترقی کا ایک جیسا رستہ کھول دیا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ اس انتظامی مساوات کے باوجود تمدنی مساوات اور آپس کے میل ملاقات کے بارے میں مختلف قسم کے لوگوں میں خلیج باقی رہے اور اسلام نے اس خلیج کو دور نہ کیا ہو ۔سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام نے اس رخنہ کو بھی بڑی سختی کے ساتھ بند کیا ہے۔ چنانچہ اس قرآنی ارشاد کے علاوہ جو اوپر گذرچکا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انہیں بھائیوں کی طرح مل کر رہنا چاہیئے۔(سورۃ حجرات رکوع ۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمدنی تعلقات کے سب سے بڑے ذریعہ اور سب سے بڑے میدان یعنی آپس کی دعوتوں اور کھانے پینے کی ملاقاتوں وغیرہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
شر الطعام طعام الولیمۃ یدعیٰ لھا الاغنیاء و یُترک الفقراء و من ترک الدعوۃ فقد عصی اﷲ ورسولہ۔ ۲۸
’’یعنی سب سے بری اور سب سے زیادہ قابل نفرت دعوت وہ دعوت ہے جس میں صرف امیر بلائے جائیں اور غریبوں کو نہ بلایا جائے اور جو شخص کسی بھائی کی دعوت کا انکار کرتا ہے وہ خدا ور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔‘‘
اس مبارک ارشاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سخت ناپسند فرمایا ہے کہ امیر لوگ اپنی دعوتوں وغیرہ میں صرف امیروں کو مدعو کریں اور غریبوں کو گویا کوئی اور جنس خیال کرتے ہوئے بھول جائیں اور اصل مساوات کی روح زیادہ ترتمدنی معاملات میں ہی بگڑنی شروع ہوتی ہے کیونکہ اس قسم کے تمدنی معاملات کا اثر براہ راست دل پر پڑتا ہے۔ اسی طرح آپ نے یہ تاکید بھی فرمائی ہے کہ اگر کوئی غریب کسی امیر کی دعوت کرے تو امیر کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی امارت کے گھمنڈ میں آکر یا یہ خیال کرکے کہ غریب کے ہاں کا کھانا اس کی عادت اور مزاج کے مطابق نہیں ہوگا غریب کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردے۔ چنانچہ اس قسم کی دعوتوںکا رستہ کھولنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَوْدُعِیْتُ اِلٰی ذِرَاعٍٍ أَوْ کُرَّاعٔ لَاَجَبْتُ وَلَوْ أَھْدِیَ اِلَیَّ ذِرَاعٔ أَوْ کُرَّاعٔ لَقَبِلْتُ۔۲۹
’’یعنی اگر کوئی غریب شخص کسی بکری یا بھیڑ کا ایک پایہ پکاکر بھی مجھے دعوت کو بلائے تو میں اس کی دعوت پر ضرور جائوں گا۔‘‘
یادرہے کہ اس جگہ کُراع کے معنی پائے کے نچلے حصہ کے ہیں جو ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے اور یقینا وہ ایک ادنیٰ قسم کی غذا ہے کیونکہ ٹخنوں کے نیچے کا حصہ قریباً کھرہی بن جاتاہے۔ لیکن اگر کُراع کے معنی پورے پائے کے بھی سمجھے جائیں تو پھر بھی عربوں کی روایات سے یہ ثابت ہے کہ قدیم زمانہ میں عرب لوگ پائے کو اچھی غذا نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ عربوں میں مشہور محاورہ تھا کہ:
لاتطعم العبدالکراع فیطمح فی الدراع۔
’’یعنی اپنے غلام کو پایہ بھی کھانے کو نہ دو ورنہ وہ اس سے اوپر نظر اٹھا کر دست دوران کے گوشت کی بھی طمع کرنے لگے گا۔‘‘
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنا ذاتی اسوہ پیش کرکے مسلمانوں کو تحریک فرمائی ہے کہ خواہ دعوت کرنے والا کتناہی غریب ہو اس کی دعوت کو غربت کی وجہ سے رد نہ کرو۔ ورنہ یادرکھو تمہاری سوسائٹی میں ایسا رخنہ پیدا ہوجائے گا جو آہستہ آہستہ سب کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍ مئی ۱۹۴۹ء )
مجلسوں میں مل کربیٹھنے کے متعلق بھی اسلام یہی سنہری تعلیم دیتا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی بڑا شخص بعد میں آئے تو کسی چھوٹے شخص کو اُٹھا کر اس کی جگہ اس کو دے دی جائے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
انَّہٗ نَھَیانَّ یُّقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِہِ وَیَجْلِسَ فِیْہِ آخَرْ وَلَکِنْ تَفَسَّحُوْا وَتَوَ سَّعُوْا۔۳۰
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے اس لئے اٹھایا جائے کہ تااس کی جگہ کوئی دوسرا شخص بیٹھ جائے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر جگہ تنگ ہو اور زیادہ آدمی آجائیں تو پھر سب سمٹ سمٹ کر آنے والوں کے لئے جگہ نکال لیا کرو۔‘‘
یہی اصل نمازوں کے موقع پر مسجدوں میں ملحوظ رکھا گیا ہے جہاں کسی شخص کے لئے کوئی جگہ ریزرو نہیں ہوتی اگر ایک خادم پہلے آتا ہے تو وہ پہلی صف میں جگہ پائے گا اور اگر ایک آقا پیچھے پہنچتا ہے تو وہ آخری صف میں بیٹھے گا۔ غرض خدا کے گھر میں امیر وغریب۔ خادم وآقا ۔حاکم ومحکوم طاقتور اور کمزور سب برابر ہوجاتے ہیں اور کوئی امتیاز ملحوظ نہیں رکھا جاتا ۔یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا تھا جس میں آپ اپنے صحابہؓ کے ساتھ اس طرح مِل جُل کر بیٹھتے تھے کہ بعض اوقات ایک اجنبی شخص کے لئے آپ کی مجلس میں اس بات کا جاننا اور پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں بیٹھے ہیں۔
خادم وآقا کے تعلقات
خادم وآقا کے تعلقات کا سوال بھی ایک بہت اہم سوال ہے مگر چونکہ اس سوال کے متعلق کتاب ہذا کے حصہ دوم میں مسئلہ غلامی کی ذیل میں اصولی بحث گزرچکی ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ خادموں اور غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھی اسلام نے نہایت تاکیدی ہدایتیں دی ہیں مثلاً آقائوں کو ہوشیار کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں:
کُلکُمْ راعٍ وکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ۔ ۳۱
’’یعنی تم میں سے ہر شخص کو ہوشیار رہنا چاہیئے کیونکہ اسے اس کے سب ماتحت لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اور خادمائوں اور آقائوں کی درمیانی خلیج کو اڑانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
اِنَّ اِخْوَانَکُمْ حَوَلُکُمْ جَعَلَ ھُمْ اللّٰہُ تَحْتَ اَیْدِ یْکُمْ فَمَنْ کَانَ أَ خُوہُ تَحْتَ یَدِہِ فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَاْکُلْ وَلْیُلْبِسَہُ مِمَّا یَلْبَسُ وَلَا تُکَلَّفُوْا ھُمْ مَایَغْلِبُھُمْ فَاِنْ کَلَّفْتُمُوْ ھُمْ مَا یَغْلِبُھُمْ فَأَ عِیْنُو ھُمْ۔۳۲
’’یعنی تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں پس جب کسی شخص کے ماتحت ا س کا کوئی بھائی ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنے خادم بھائی کو اس کھانے میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دے جو وہ خود کھاتا ہے اور اس لباس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دے جو وہ خود پہنتا ہے۔اور اے مسلمانو! تم اپنے خادموں کو کوئی ایسا کام نہ دیا کرو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور کبھی مجبوراً انہیںکوئی ایسا کام دینا پڑے تو پھر اس کام میں خود بھی ان کی مدد کیا کرو۔‘‘
یہ حدیث جیسا کہ اس کے الفاظ اور اسلوب بیان سے ظاہر ہے ایک نہایت اہم اور اصولی حدیث ہے اور ان کی مدد کیا کرو کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کام ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر وہ خود آقا کو کرنا پڑے تو اسے اپنے لئے موجب عار سمجھے بلکہ ایسا ہونا چاہیئے جسے خود آقا بھی کرسکتا ہو اور کرنے کو تیار ہو۔ گویا اس حدیث میں خادموں کے ساتھ حسن سلوک اور برادرانہ برتائو کی تلقین کے علاوہ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ کسی مسلمان کے لئے زیبا نہیں کہ وہ کسی کام کو اپنے لئے موجب عار سمجھے یا یہ خیال کرے کہ یہ کام صرف خادم کے کرنے کا ہے میرے کرنے کا نہیں۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کا کام خود اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے اور کسی کام کو عار نہیں سمجھتے تھے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اوپر کی حدیث میں جو حول کا لفظ آیا ہے وہ عربی محاورہ کے مطابق نوکروں اور خادموں پر بولا جاتا ہے اس طرح اس حدیث میں گویا ایک نہایت وسیع مضمون مدّنظر رکھا گیا ہے بہرحال اسلام نے آقائوں اور خادموں کے تعلقات کو بھی بہترین بنیاد پر قائم کیا ہے۔
بیاہ شادی کے معاملات میں اسلامی تعلیم
بیاہ شادی کا معاملہ بھی تمدنی تعلقات ہی کا حصہ ہے مگر افسوس کہ دنیاداروں نے اس میدان میں اپنے خیال کے مطابق مختلف طبقے بنا رکھے ہیں اور غیرطبقہ میں رشتہ دینے کو موجب ہتک سمجھا جاتا ہے۔ سو اس کے متعلق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
تَنْکِحَ الْمَرْأَۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَا لِھَا وَلِحَسَبِھَا وَجِمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفَرَ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتٌ یَدَکَ۔ ۳۳
’’یعنی ایک عورت کے ساتھ چار خیالات کی بنا پر شادی کی جاتی ہے۔ یا تو دولت کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یا حُسن وجمال کی وجہ سے انتخاب کیاجاتا ہے اور یا اخلاقی اوردینی حالت کی بنا پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن اے مرد مومن تو ہمیشہ بیوی کا انتخاب دینی اور اخلاقی بنا پر کیا کر اور ذاتی اوصاف اور ذاتی نیکی کے پہلو کو ترجیح دیا کر ورنہ یاد رکھ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلودہ رہیں گے۔‘‘
یہ وہ مبارک تعلیم ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے گھروں کو جنت کا نمونہ بناسکتی ہے بلکہ ان کی نسلوں کو بھی دین ودنیا میں ترقی دینے کی بنیاد بننے کا بھاری ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نمونہ بھی اس معاملہ میں یہ ہے کہ آپ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ بنت جحش کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ کردی تھی اور اس معاملہ میں عربوں کے قدیم رسم ورواج اور خیالات کی قطعاً پروا نہ کی۔ اسی طرح خود آپؐ نے عربوں کی ہر معروف قوم میں شادی کی یعنی قریش میں بھی کی اور غیرقریش میں بھی کی۔ اور بنی اسرائیل میں بھی کی، اورعرب میں یہی تین قومیں آباد تھیں۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل کئی مسلمان اپنی قوم سے باہر شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ مثلاً ایک سیّد اس بات پر مصر ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف سیّد کے گھر جائے اور ایک راجپوت کا اس بات پر اصرار ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف راجپوت کی بیوی بنے اور ایک ککے زئی اس بات پر ضد کرکے بیٹھ جاتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف ککے زئی کے ساتھ بیاہی جائے اور اسی طرح آنحضرت صلعم کی زرّین تعلیم اور آپؐ کے مبارک اسوہ کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
مرد وعورت میں حقوق کی مساوات
پھر مساوات کی بحث میں عورت کی مساوات کا سوال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے یعنی جہاں آج کل ایک طبقہ عورت کو جوتی کی طرح اپنے پائوں کے نیچے رکھنا چاہتا ہے تو وہاں دوسرا طبقہ اسے ایسی آزادی دینے پر تلا ہوا ہے کہ گویا وہ انتظامی لحاظ سے بھی خاوندکی نگرانی سے باہر ہوگئی ہے اور پھر یورپ کا ایک طبقہ اسلام کی طرف یہ تعلیم بھی منسوب کرتے ہوئے نہیں شرماتا کہ اسلام عورت میں روح تک کو تسلیم نہیں کرتا گویا وہ صرف ایک مشین کی طرح کا ایک جانور ہے جس کی زندگی اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ مگر قرآن شریف ان سارے باطل خیالات کی تردید فرماتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مرد عورت اپنے اعمال کی جدوجہد اور ان کے نتائج کے حصول میں برابر ہیں اور سب کے اعمال کا نتیجہ یکساں نکلنے والا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
ٍ۔۳۴
’’یعنی اے لوگو! میں تمہارا خالق ومالک ہوں میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مردہو یا عورت کیونکہ تم سب ایک ہی نسل کے حصے اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہو۔‘‘
اور خاوند بیوی کے مخصوص حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔۳۵
’’یعنی جس طرح خاوند کے بعد حقوق بیویوں کے ذمہ ہیں اسی طرح بیویوں کے بعض حقوق خاوندوں کے ذمہ بھی ہیں۔‘‘
اس قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اور ذمہ واریوں کے معاملہ میں میاں بیوی برابر ہیں کہ کچھ پابندیاں خاوند کے ذمہ لگادی گئی ہیں اور کچھ پابندیاں بیوی کے ذمہ لگادی گئی ہیں اور دونوں اپنی اپنی ذمہ واریوں کے متعلق پوچھے جائیں گے۔
مگر چونکہ انتظامی لحاظ سے گھریلو زندگی کی باگ ڈور بہرحال ایک ہاتھ میں رہنی ضروری ہے اس لئے اس جہت سے قرآن شریف فرماتا ہے:
۔۳۶
’’یعنی گھریلو زندگی میں مردوں کو عورتوں پر امیر اور نگر ان رکھا گیا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے فطری قویٰ میں مردوں کو فضیلت عطا کی ہے اور پھر عورتوں کے اخراجات کی ذمہ واری بھی انہیں پر ہے۔ پس نیک بیویوں کو بہرحال اپنے خاوندوں کا فرمانبردار رہنا چاہیئے۔‘‘
لیکن اس انتظامی فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
خیرکُمْ خیرُ کُم لاھِلہٖ وَاَنَاخیرُ کُمْ لِاَھْلِیْ۔۳۷
’’یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حُسن سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے۔ اور خدا کے فضل سے میں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والاہوں۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍مئی ۱۹۴۹ئ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے مساوات انسانی کے متعلق بہترین تعلیم دی ہے چنانچہ
۱۔سب سے پہلے اس نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ سب لوگ ایک ہی جنس کی مخلوق اور ایک ہی باپ کی نسل اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں اس لئے نسلی لحاظ سے سب کا حق برابر ہے۔
۲۔ اس کے بعد اس نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نسلی وحدت کے باوجود یہ ممکن ہے کہ جس طرح زمین کے پیٹ میں ایک ہی قسم کے عناصر مختلف قسم کی صورتیں اور مختلف قسم کے خواص اختیار کرکے مختلف قسم کی معدنیات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح مختلف انسان بھی بعد کے حالات کی وجہ سے مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوکر مختلف اوصاف اختیار کرسکتے ہیں۔ مگر اس فرق کی وجہ سے کسی قوم یا کسی قبیلہ یا کسی فرد کو کسی دوسرے پر بیجا فخر اور تکبر نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ ممکن ہے جو قوم یا جو شخص آج نیچے ہے وہ کل کو اوپر ہوجائے۔
۳۔اس کے بعد اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس وحدت نسلی کے علاوہ مسلمان خصوصیت کے ساتھ ایک دوسرے کے بھائی ہیں کیونکہ وہ ایک ایمان کے حامل اور ایک ہی دامن رسالت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی روحانی باپ کے بچے ہیں۔پس انہیں ہرحال میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیئے۔
۴۔ اس کے بعد اسلام یہ بتاتا ہے کہ بے شک مومنوں میں بھی فرق ہوسکتا ہے مگر یہ فرق ان کے ذاتی اوصاف پر مبنی ہونا چاہیئے اور بہرحال خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا شخص وہ ہے جو دینداری اور تقویٰ اور جذبۂ خدمت میں دوسروں سے آگے ہے۔
۵۔ اس کے بعد اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کسی شخص کے دینی امتیاز یا دنیوی بڑائی کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ قضائی اور عدالتی معاملات میں کوئی فرق ملحوظ رکھا جائے کیونکہ عدالتی حقوق کے میدان میں سب لوگ قطعی طور پر برابر ہیں۔
۶۔ اس کے بعد اسلام اس زریں اصول کو بیان کرتا ہے کہ قومی عہدوں کی تقسیم میں صرف ذاتی اہلیت کو دیکھنا چاہیئے اور بلالحاظ امیر وغریب اور بلالحاظ نسل وخاندان جو شخص بھی کسی عُہدہ کا اہل ہو اسے وہ عہدہ سپرد کرنا چاہیئے خواہ وہ کوئی ہو۔
۷۔ اس کے بعد اسلام یہ ارشاد فرماتا ہے کہ کسی صاحبِ عزت شخص کا واجبی اکرام کرنا اچھے اخلاق کا حصہ ہے مگر تمدنی معاملات میں سب مسلمانوں کو آپس میں اس طرح مل جُل کر رہنا چاہیئے کہ وہ ایک خاندان کے افراد نظر آئیں۔ وہ مجلسوں میں بلالحاظ امیروغریب مل جُل کر بیٹھیں۔ اگر کوئی امیر دعوت کرے تو اس میں غریبوں کو بھی ضرور بلائے اور اگر کوئی غریب دعوت کرے تو امیر اس سے انکار نہ کریں۔
۸۔ بالآخر اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ بیاہ شادی کے معاملات میں بیوی کا انتخاب اس کے ذاتی اوصاف اور ذاتی نیکی کی بناء پر ہونا چاہیئے نہ کہ اس کے حسب نسب اور مال ودولت وغیرہ کی بنا پر۔
اسلام میں دولت کی تقسیم کا نظریہ
اس کے بعد دولت کی تقسیم کا سوال آتا ہے جو آج کل کی اشتراکیت اور سرمایہ داری کی باہمی کشمکش کا جو لا نگاہ بنا ہوا ہے۔ سو گو اس بحث کا اصل موقع تو انشاء اللہ دوسری جگہ آئے گا مگر اس جگہ مختصر طورپر اس قدر بیان کردینا ضروری ہے کہ اس اہم سوال کے متعلق بھی اسلام نے ایک ایسی اعلیٰ اور وسطی تعلیم دی ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ کیونکہ جہاں اسلام نے عام حالات میں دولت پیدا کرنے کے انفرادی حق کو تسلیم کیاہے وہاں اس نے ملکی دولت کو سمونے کے لئے ایک ایسی مشینری بھی قائم کردی ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو کسی ملک یا کسی قوم کی دولت کبھی بھی عامۃالناس کے ہاتھوں سے نکل کر چند افراد کے ہاتھوں میں جمع نہیں ہوسکتی۔ میں اس جگہ اختصار کے خیال سے اس مشین کے صرف چار پرزوں کے بیان پر اکتفا کروں گا۔
۱۔ سب سے اول نمبر پر اسلامی قانون ورثہ ہے۔ جس کی رو سے ہر مرنے والے کا ترکہ صرف ایک بچے یا صرف نرینہ اولاد یا صرف اولاد کے ہاتھ میں ہی نہیں جاتا بلکہ سارے لڑکوں اور ساری لڑکیوں اور بیوی اور خاوند اور ماں اور باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں اور بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں میں ایک نہایت مناسب شرح کے ساتھ تقسیم ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان زمیندار مرتا ہے تو اس کی زمین اس کے سب ورثا میں تقسیم ہوگی اگر کوئی دوکاندار مرتا ہے تو اس کی دوکان کا مال سب وارثوں کو پہنچے گا اگر کوئی کارخانہ دار فوت ہوتا ہے تو اس کے کارخانہ کا حصہ بھی سارے وارثوں میں بٹے گا۔ وعلیٰ ہذالقیاس اس طرح گویا اسلام نے دولت کی دوڑ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بعض قدرتی روکیں یعنی ہڑڈلیں قائم کردیں ہیں۔ اور ہر نسل کے خاتمہ پر ایک روک یعنی ہڑڈل سامنے آکر اس فرق کو کم کردیتی ہے جوگذشتہ نسل کے دوران میں پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔ تقسیم ورثہ کا یہ قانون جس کامل اور مکمل صورت میں اسلام نے قائم کیا ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتا اور اس قانون کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے جس کے بیان کرنے کی اس جگہ گنجائش نہیں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس نظام ورثہ میں صرف وُرثا کو ورثہ پہنچانا ہی مدِّنظر نہیں ہے بلکہ ملکی دولت کو سمونا بھی اس کا ایک بڑا مقصد ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر مرنے والے کو اپنے مال کے ایک ثلث یعنی ایک تہائی کی وصیت کی اجازت بھی دی ہے اور یہ وصیّت ورثا کے حق میں جائز نہیں رکھی گئی۔
گویا اس ذریعہ سے اسلام نے ورثہ کی جبری تقسیم کے علاوہ اس بات کا دروازہ بھی کھولا ہے کہ نیک دل لوگ اپنے اموال کو مزید مستحقین میں تقسیم کرنے کا موقع پاسکیں مگر افسوس ہے کہ وصیت کے نظام سے فائدہ اٹھانا تو درکنار آج کل کے مسلمانوں نے ورثہ کی جبری تقسیم والے حصہ کو بھی پس پشت ڈال رکھا ہے اور سرمایہ داری کے خمار نے لڑکیوں اور بیویوں اور ماں باپ تک کو ان کے جائز حق سے محروم کردیا ہوا ہے بہرحال اسلام کا قانونِ ورثہ ایک ایسا بابرکت نظام ہے کہ جس کے ذریعہ تھوڑے تھوڑے وقفہ پر ملک کی دولت کے سمونے کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے ہدایت بھی دی ہے کہ قومی نسل کو بڑھانے کے ذرائع اختیار کرتے رہو۔
پس جب ایک طرف نسل ترقی کرے گی اور دوسری طرف ورثہ وسیع ترین صورت میں تقسیم ہوگا تو ظاہر ہے کہ ملکی دولت خودبخود بٹتی چلی جائے گی۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس مبارک تعلیم پر عمل کریں۔
۲۔ دوسرے نمبر پر اسلام کا قانون امداد باہمی ہے جسے دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک جبری اور دوسرا طوعی۔ جبری قانون نظام زکوٰۃ سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعہ امیر لوگوں کی دولت پر حالات کے اختلاف کے ساتھ اڑھائی فیصدی شرح سے لے کر بیس فیصدی شرح تک خاص ٹیکس عاید کیا گیا ہے۔ اور اس ٹیکس کے ذریعہ جو روپیہ حاصل ہوتا ہے وہ حکومت وقت یا نظامِ قومی کی نگرانی کے ماتحت غریبوں اور مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹیکس کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
تؤخذ من اغنیا ئھم وتُردّ علٰی فقرائھِمْ۔۳۸
’’یعنی زکوٰۃ کے نظام کا مقصد یہ ہے کہ امیروں کے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی طرف لوٹایا جائے۔‘‘
اس حدیث میں ’’لوٹایا جائے‘‘ کے پرحکمت الفاظ کے استعمال کرنے میں یہ لطیف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ زکوٰۃ کا ٹیکس کوئی صدقہ وخیرات نہیں جو غریبوں کو بطور احسان دیا جاتا ہے بلکہ وہ امیروں کی دولت میں غریبوں کا ابدی حق ہے جو انہیں طبعی طریق پر حاصل ہے کیونکہ جیسا کہ ہرشخص سمجھ سکتا ہے ہر مال کے پیداکرنے میں غریبوں اور مزدوروں کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کے نظام کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ خدائے حکیم نے ایسے اموال پر زکوٰۃ کی شرح زیادہ مقرر فرمائی ہے جو تجارت کے چکر میں نہیں آتے۔ چنانچہ بندذخائر پر زکوٰۃ کی شرح بیس فیصدی رکھی گئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جہاں تجارت یا صنعت میں لگے ہوئے روپے میں سے غریب اور مزدورپیشہ لوگ دوسرے طریق پر بھی کچھ نہ کچھ حصہ لے لیتے ہیں وہاں جمع شدہ ذخائر میں انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا اس لئے ذخائر میں زکوٰۃ کی شرح بہت بڑھا کر رکھی گئی ہے۔
امدادِ باہمی کے نظام کا دوسرا حصہ طوعی نظام کی صورت میں قائم کیا گیا ہے اور اس نظام کے ماتحت اسلام نے غریبوں اور بے کس لوگوں کی امداد پر اتنا زوردیا ہے کہ حق یہ ہے کہ ایک نیک اور خدا ترس انسان کے لئے یہ صورت بھی قریباً جبری نظام کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ گو ذاتی نیکی کے معیار کو بلند کرنے اور اخوت کے جذبات کو ترقی دینے کے لئے اسے قانون کی صورت نہیں دی گئی۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا ۔ننگوں کو کپڑا پہنانا ۔مقروضوں کو قرض کی مصیبت سے نجات دلانا۔ بیماروں کے لئے علاج کا انتظام کرانا۔ غریب مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانا۔ یتیموں اور بیوائوں کو خاک آلودہ ہونے سے بچانا وغیرہ وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں جن کی تحریک وتحریص میں قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ اس معاملہ میں یہ تھا کہ رمضان کے متعلق جو غریبوں کی ضروریات کا خاص زمانہ ہوتا ہے اور اس کے بعد عید بھی آنے والی ہوتی ہے آپؐ کا ہاتھ غریبوں اور محتاجوں کی امدادمیں اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح ایک تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی۔
الغرض زکوٰۃ کے جبری نظام اور دوسرے صدقات کے طوعی نظام کے ذریعہ اسلام نے امیروں کی دولت کاٹ کر غریبوں کو دینے اور اس طرح ملکی دولت کو سمونے کی ایک عظیم الشان مشینری قائم کررکھی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل مئی ۱۹۴۹ئ)
۳۔ تیسرے نمبر پر اسلام کا قانون تجارت ہے جس کی رو سے اسلام میں سودی لین دین ممنوع قرار دیا گیا ہے اور آج دنیا کا سمجھ دار طبقہ اس بات کو محسوس کرچکا ہے کہ سودہی وہ چیز ہے جو ملکی دولت کے توازن کو برباد کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے ذریعہ غریبوں کا روپیہ سمٹ سمٹ کر آہستہ آہستہ امیروں کے خزانوں میں جمع ہوجاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو دراصل سود کی *** ہی سرمایہ داری کے پیدا کرنے کی بڑی موجب ہے۔ اگر آج سود بندہوجائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اول تو آہستہ آہستہ ملک کی بڑی بڑی تجارتیں یا تو حکومت کے ہاتھ میں چلی جائیں گی اور یا چھوٹی چھوٹی مناسب تجارتوں میں تقسیم ہوکر ملک کی دولت کو خود بخود سمودیں گی اور دوسرے امیروں کے لئے غریبوں کے پسینہ کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے کا موقعہ نہیں رہے گا۔ یہ خیال کہ سودی نظام کے بند ہونے سے تجارت ناممکن ہوجائے گی بالکل غلط اور باطل ہے۔ ایسا خیال صرف موجودہ بند ماحول کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جبکہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ داروں کی نقالی کے نتیجہ میں سود کاجال وسیع ہوچکا ہے ورنہ جب سود نہیں تھا اس وقت دنیا کی تجارت چلتی ہی تھی اور انشاء اللہ آئندہ بھی چلے گی اور یہ خیال کہ اسلام میں صرف وہ سود حرام کیا گیا ہے جو بڑی شرح کے مطابق کیا جائے یا جس میں سود درسود کا طریق اختیار کیا جائے۔ایک محض نفس کا دھوکا ہے جواس دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے کمزور لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے ورنہ اسلام نے ہر قسم کا سود منع کیا ہے اور حق بھی یہی ہے کہ جو چیز ضررساں ہے وہ بہرحال ضرررساں ہے خواہ تھوڑی مقدار میں ہو یا بڑی مقدار میں۔
۴۔ چوتھے نمبر پر اسلام نے جُوئے کی قسم کی آمدنیوں کو جن کی بنیاد محض اتفاق پر ہوتی ہے قرار دیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بھی قوم اورملک کی دولت میں ناواجب تقسیم کا رستہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۳۹
’’یعنی اے مسلمانو! شراب اور جوا اور بتوں کے اور تقسیم کے تیر،یقیناً ایک شیطانی عمل ہیں ،پس تم اس سے بالکل دور رہو تاکہ تم کامیاب وبامراد ہوسکو۔‘‘
اس آیت میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جو ان شیطانی اعمال میں سے ہے جو قوموں کی کامیاب زندگی کو تباہ کرنے والے ہیں اور اس کی یہی وجہ ہے کہ جوئے میں دولت کے حصول کو محنت اور ہنرمندی پر مبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پر مبنی قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف قومی اخلاق کے لئے مہلک ہے بلکہ ملک میں دولت کی ناواجب تقسیم کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے۔ بظاہریہ ایک معمولی سا حکم نظر آتا ہے مگر اس سے اس لطیف نظریہ پر بھاری روشنی پڑتی ہے جو اسلام اپنے اقتصادی اور اخلاقی نظام کے متعلق قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کی آمدنی محنت اور ہنرمندی پر مبنی ہونی چاہیئے نہ کہ اتفاقی حادثات پر مَیسر کا لفظ بھی جو یُسر یعنی سہولت اور آسانی سے نکلا ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کہ جوئے کی آمدنی محنت اور ہنرمندی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ یونہی بیٹھے بٹھائے آسانی سے مل جاتی ہے جو اسلام کے اقتصادی نظریہ کے سراسر خلاف ہے۔
اوپر کی چار اصولی باتیں صرف اختصار کے خیال سے بیان کی گئی ہیں ورنہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں دولت کے سمونے کے بہت سے ذریعے تجویز کئے ہیں اور اسلام کا منشا یہ ہے کہ ایک طرف تو ذاتی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہے اور ہر شخص کے لئے اپنی ذاتی محنت کے پھل کھانے کا رستہ کھلا ہو۔ کیونکہ دنیا میں محنت اور ترقی کا یہی سب سے بڑا محرک ہے اور دوسری طرف ملکی دولت بھی ناواجب طورپر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے اور یہی وہ وسطی طریق ہے جس پر گامزن ہوکر مسلمان افراط وتفریط کے رستوں سے بچ سکتے ہیں۔
معذور لوگوں کی ذمہ واری حکومت پر ہے
لیکن اگر باوجود ان ذرائع کے ملک کا کوئی حصہ بیماری یا بیکاری کی وجہ سے یا زیادہ کنبہ دار ہونے کے نتیجہ میں اپنی جائز ضروریات کو اپنی جائز آمدنی کے اندر اندر پورا نہ کرسکے تو اس کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کی اقل ضرورت جو کھانے اور کپڑے اور مکان سے تعلق رکھتی ہے اس کے پورا کرنے کی ذمہ واری حکومت پر ہے اور اس کا فرض ہے کہ اپنے ملکی محاصل سے ایسے لوگوں کی اقل بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں یہی ہوتاتھا ۔چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب عرب کے علاقہ بحرین کا رئیس مسلمان ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہدایت بھجوائی کہ:
افْرِ ض عَلٰی کُلِّ رَجُلٍ لَیْس لہٗ ارضٌ اَرْبعَۃَ دَرَاھِمَ وَعبادۃ۔۴۰
’’یعنی جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے ان میں سے ہرشخص کو ملکی خزانہ میں سے چار درہم اور لباس گذارہ کے لئے دیا جائے۔‘‘
اسی اصول کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ:-
۔۴۱
’’یعنی سچی بہشتی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اے انسان! تو اس میں بھوکا نہ رہے اور نہ ہی ضروری لباس سے محروم ہو اور نہ ہی سردی سے ٹھٹھرے اور نہ ہی پیاس کی تکلیف اٹھائے اور نہ ہی دھوپ کی شدت میں جلے۔‘‘
پس ہر اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا انتظام کرے کہ ملک وقوم کا کوئی فرد ان اقل ضرورتوں کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھائے جو نسل انسانی کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں تک ملکی دولت کی تقسیم کا سوال ہے اسلام نے اول تو قانون ورثہ اور قانون زکوٰہ اور قانونِ تجارت اور حرمتِ قمار کے ذریعہ ایسی مشینری قائم کردی ہے کہ اسے اختیار کرنے کے نتیجہ میں ملکی دولت کبھی بھی عامۃ الناس کے ہاتھ سے نکل کر چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع نہیں ہوسکتی اور اگر بعض استثنائی حادثات کی وجہ سے پھر بھی کوئی فرد یا خاندان زندگی کی اقل ضرورتوں سے محروم رہ جائے تو اس کے لئے اسلام اسی بات کی ہدایت فرماتا ہے کہ امیروں کی دولت پر مزید ٹیکس لگا کر غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ کیونکہ ہر انسان کا جو زندگی کی جدوجہد میں کوتاہی نہیں کرتا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بہرحال بھوکا نہ رہے ننگا نہ ہو اور سرچھپانے اور سردی گرمی کے بچائو سے محروم نہ ہونے پائے۔
اقتصادی مساوات کے متعلق ایک خاص نکتہ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں نہ جبری طریق پر دولت کی تقسیم کو بھی مساوی کردیا یعنی جس طرح اسلام نے عدالتی معاملات میں پوری پوری مساوات قائم کی اور قومی اور ملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں پوری پوری مساوات قائم کی اور تمدنی میل ملاقات کے معاملہ میںبرادرانہ مساوات کا رنگ قائم کیا اور سب انسانوں کو ایک باپ کے بیٹے اور سب مسلمانوں کو بھائی بھائی قراردیا اسی طرح اس نے کیوںنہ دولت کو بھی سارے انسانوں میں برابر تقسیم کرنے کی سکیم جاری کی؟
سو اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ ایسا کرنا ایک ظلم ہوتا اور اسلام ظلم کو مٹانے آیا ہے نہ کہ اسے قائم کرنے ۔دولت کی اندھادُھند مساویانہ تقسیم کے یہ معنی ہیں کہ ایک تو لوگوںکی ساری حاصل شدہ دولت ان سے جبری طورپر چھین لی جائے اور دوسرے آئندہ ان سے دولت پیدا کرنے کی طاقت اور دولت پیدا کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے اور یہ دونوں باتیں ظلم میں داخل ہیں بے شک قومی حقوق کی خاطر انفرادی حقوق پر جائز پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اور بے شک افراد سے یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ قومی مفاد کی خاطر ضروری قربانی دکھائیں مگر افراد کے حقوق کو کامل طورپر مٹا کر قوم کے نام پر ان کے حقوق کو کلیۃً غصب کرلینا ظلم میں داخل ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ علاوہ ازیں اگر غور کیا جائے تو اس رستہ پر پڑنے سے صرف انفرادیت ہی نہیں مٹتی بلکہ بالآخر قومیت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور اگر افراد کو دولت کمانے اور اس کا پھل کھانے کے حق سے محروم کیا جائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان سے دولت پیدا کرنے کا سب سے زبردست فطری محرک کھویا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اس محرک کے کھوئے جانے سے وہ بالآخر دولت پیدا کرنے کی قوت کو بھی ضائع کردیں گے اور آہستہ آہستہ ان کے دماغی قویٰ میں انحطاط پیدا ہوجائے گا بے شک یہ خطرہ اس وقت صرف ایک موہوم خطرہ نظر آتا ہے لیکن ہر شخص جو صحیح تدبر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ایک زمانہ کے بعد اس قسم کے قومی خطرات حقیقت بن جایا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں دولت کی کامل طورپر مساویانہ تقسیم خود اشتراکی ممالک میں بھی نہیں پائی جاتی مثلاً کیا مارشل سٹالن اور مسٹر مانوٹوو اور روس کے دوسرے صنادید اس قسم کا کھانا کھاتے ہیں جیساکہ روس کا مزدور یا کسان کھاتا ہے یا اسی قسم کا کپڑا پہنتے ہیں جیسا کہ روس کا مزدور اور کسان پہنتا ہے یا اسی قسم کے مکانوں میں رہتے ہیں جس میں کہ روس کا مزدور یا کسان رہتا ہے یا اسی قسم کے حالات میں سفر کرتے ہیں جن میں کہ روس کا مزدور یا کسان سفر کرتا ہے؟ جب نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر مساوات کہاں رہی؟ صرف فرق یہ ہے کہ کسی نے سرمایہ داری کے رنگ میں ملک کی دولت پر ہاتھ صاف کیا اور کسی نے اشتراکیت کا پردہ کھڑا کرکے خادم ملّت کے رنگ میں اپنے لئے خاص مراعات محفوظ کرلیں۔ حالانکہ فطری اور طبعی طریق ہے وہ جو اسلام نے قائم کیا ہے یعنی انفرادی حقوق اور انفرادی جدوجہد بھی جاری رہے اور غریبوں کو اوپر اٹھانے اور امیروں کی دولت میں سے ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا سلسلہ بھی قائم رہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام بھی قائم ہو کہ قومی اور ملکی دولت ناواجب طورپر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍مئی ۱۹۴۹ئ)
دراصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ انسانی حقوق کی اقسام پر غور نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق دوقسم کے ہیں :
۱۔ ایک وہ حقوق ہیں جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں جیسے کہ مثلاً عدل وانصاف کا قیام یا قومی عہدوں کی تقسیم وغیرہ ۔
۲۔ دوسرے وہ حقوق ہیں جو یا تو فطری اور قدرتی رنگ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے جسمانی طاقتیں اور دماغی قویٰ وغیرہ اور یا وہ انفرادی کوشش اور انفرادی جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے دولت یا مکسوب علم وغیرہ اسلام نے نہایت حکیمانہ طریق پر ان دونوں قسم کے حقوق میں اصولی فرق ملحوظ رکھا ہے۔ یعنی جہاں تک ان انسانی حقوق کا تعلق ہے جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اسلام نے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کامل مساوات قائم کی ہے اور مختلف قوموں اور مختلف انسانوں میں قطعاً کوئی فرق پیدا نہیں کیا۔ لیکن جہاں دوسری قسم کے حقوق کا دائرہ شروع ہوتا ہے جو فطری قویٰ اور انفرادی جدوجہد سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اسلام نے ایک مناسب حد تک دخل دے کر مختلف طبقات اور مختلف افراد کے فرق کو سمونے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن ظلم وجبر کے رنگ میں سارے فرقوں کو یکسر مٹانے کا طریق اختیار نہیں کیا اور حق یہ ہے کہ اس میدان میں سارے فرقوں کو مٹانا ممکن بھی نہیں ہے۔ مثلاً جسمانی طاقتوں کے فرق کو کون مٹاسکتا ہے؟ دماغی قوتوں کے فرق کو کون مٹاسکتا ہے؟ اور جب یہ فرق نہیں مٹائے جاسکتے تو ظاہر ہے کہ ان فرقوں کے طبعی نتائج بھی نہیں مٹائے جاسکتے۔ ہاں چونکہ انسان تمدن الاصل صورت میں پیدا کیا گیا ہے اور اس کی فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ مل کر اور جہاں تک ممکن ہو ان کے لئے قربانی کرتے ہوئے زندگی گذارے اس لئے اسلام نے یہ ضرور کیا ہے کہ انسان کی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے اس سے بعض قومی ضرورتوں کے لئے قربانیوںکا مطالبہ کیا ہے اور اس مطالبہ کو اس انتہائی حد تک پہونچا دیا ہے جو ایک انسان کی انفرادیت کو مٹانے اور ظلم کا طریق اختیار کرنے کے بغیر اس کے ارد گرد کے گرے ہوئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اوپر اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھ لینے کے بعد اسلامی مساوات اور اشتراکیت کا مسئلہ خودبخود حل ہوجاتا ہے بشرطیکہ کوئی شخص دیانت داری کے ساتھ اسے سمجھنے کے لئے تیار ہو۔
اسلام ایک وسطی نظریہ پیش کرتا ہے
ایک اور اصولی بات جو اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق یاد رکھنی چاہیئے یہ ہے کہ انسانی زندگی کے متعلق اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ اس میں ہر وقت ایک جدوجہد کی کیفیت قائم رہنی چاہیئے اور درحقیقت زندگی ایک پیہم حرکت اور مسلسل جدوجہد ہی کا نام ہے اور انسان کی ساری ترقی اس پیہم حرکت اور اسی مسلسل سعی کے ساتھ وابستہ ہے۔ پس اسلام کسی ایسے نظام کا مؤید نہیں ہوسکتا جس میں انسان کو جدوجہد کے میدان سے نکل کر دوسرے کے کمائے ہوئے مال کو بیٹھے بیٹھے کھانے یا دوسرے کے سہارے پر کھڑے ہوکر زندگی گذارنے کا راستہ اختیار کرنا پڑے۔ بے شک اسلام بھی انفرادی زندگی کے لئے بعض خارجی سہارے مہیاکرتا اور ان سے واجبی فائدہ اٹھانے کا سامان پیدا کرتا ہے مگر اس کا اصل زور اس بات پر ہے کہ ہر انسان خود اپنے پائوں پر کھڑا ہو اور اپنے ہاتھ کی طاقت یا اپنے دماغ کی قوت سے اپنے لئے زندگی کا رستہ بنائے۔ وہ خارجی سہاروں کو ایک زائد امدادی حیثیت تو ضرور دیتا ہے مگر صرف انہی پر کامل تکیہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی لئے قرآن شریف ورثہ کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے مالوںکو بیٹھ کر کھانے والوں کے متعلق فرماتا ہے:
۔۴۲
’’یعنی تم لوگ فارغ بیٹھے ہوئے ورثہ کے مالوں کو کھانا چاہتے ہو اور خواہش رکھتے ہو کہ یہ جمع شدہ مال کبھی ختم نہ ہو اورتم ذخیرہ شدہ دولت سے عشق لگائے بیٹھے ہو۔‘‘
اس لطیف آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خدائے اسلام کو ایسی زندگی پسند نہیں جو انسان کو جدوجہد اور سعی وعمل کے میدان سے نکال کر کسی خاص کھونٹے کے ساتھ باندھ دے کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ انسان کے فطری قویٰ زنگ آلود ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت یعنی کمیونزم دونوں انسان کو جدوجہد والی زندگی سے نکال کر دوسروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانے کا رستہ کھولتے ہیں یعنی جہاںسرمایہ داری جمع شدہ روپے کا کھونٹا گاڑ کر اس کے ساتھ انسان کو باندھ دیتی ہے وہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم دوسری انتہا کی طرف لے جاکر اور حکومت کے کھونٹے کے ساتھ باندھ کر انسان کو گویا مسلنا چاہتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ گویہ انتہائیں جدا جدا ہیں مگر حقیقۃً سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں میں یہی اصول چلتا ہے کہ انسان کو انفرادی جدوجہد کے میدان سے نکال کر کسی مضبوط کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جائے جہاں وہ ہروقت چوکس رہنے کی ضرورت محسوس کرنے کے بغیر آرام کی زندگی گذار سکے۔ پس غور کیا جائے تو یہ دونوں افراط تفریط کی راہیں ہیںجن سے خدائے اسلام لوگوں کو بچاکر جدوجہد کے سرگرم میدان میں کھڑا رکھنا چاہتا ہے۔ اشتراکیت کا اصول کیا ہے؟ یہی ناکہ قوم کے سب افراد مل کر متحدہ زندگی گذاریں اور خواہ بعض افراد دوسروں سے کمزور ہوں اور بعض مضبوط ہوں اور خواہ بعض سست ہوں اور بعض چوکس ہوں وہ گریں تو اکٹھے گریں اور کھڑے ہوں تو اکٹھے کھڑے ہوں۔ مگر غور کرو کہ کیا یہ بھی سرمایہ داری کی طرح ایک غیرطبعی سہارا نہیں جو انفرادی جدوجہد سے انسان کو غافل کرنے کا موجب ہوسکتا ہے۔ بے شک اسلام نے بھی کمزور افراد کے لئے ملک وقوم کا سہارا مہیاکیا ہے مگر اس نے کمال دانشمندی سے اس سہارے پر پورا بھروسہ نہیں ہونے دیا اور انفرادی بوجھ کی اصل ذمہ واری افراد پر رکھی ہے اور زائد سہارا صرف جزوی امداد کے طور پر یا غیر معمولی حالات کے لئے مہیا کیا گیا ہے۔ پس اسلام ہی وہ وسطی مذہب ہے جس نے سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں انتہائوں سے بچتے ہوئے ایک درمیانی رستہ کھولا ہے وہ نہ تو جمع شدہ اموال کے ساتھ انسان کو باندھ کر اسے سرمایہ داری کے طریق پر بیکار کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے اشتراکیت کے اصول پر کلیۃً حکومت کے سہارے پر رکھ کر اس کی انفرادی جدوجہد کو کمزور کرتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۔۴۳
’’یعنی اے مسلمانو! ہم نے تمہیں ایک وسطی امت بنایا ہے تاکہ تم ہر قسم کی انتہائوں کی طرف جھک جانے والی قوموں کے لئے خدا کی طرف سے نگران رہو۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں وسطی طریق اختیار کیا ہے اور اگر کوئی دل ودماغ رکھنے والا شخص اشتراکیت کے مقابلہ پر اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق منصفانہ غور کرنا چاہے تو اس کے لئے اس نکتہ میں بھی بھاری سبق ہے کہ گو انتہائوں کا فرق ضرور ہے یعنی سرمایہ داری ایک انتہاء پر واقع ہے اور اشتراکیت دوسری انتہاء پر۔ مگر بہرحال اشتراکیت بھی ایک دوسری صورت میں اسی مصیبت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے جو اس کے مقابل کی انتہا یعنی سرمایہ داری نے پیش کررکھی ہے یعنی یہ دونوں نظام انسان کو جدوجہد کے میدان سے نکال کر کسی نہ کسی کھونٹے کے ساتھ باندھنا چاہتے ہیں اوریہ صرف اسلام ہی ہے جس نے وسطی رستہ اختیار کرکے ایک طرف تو انسان کی انفرادی جدوجہد کو قائم رکھا ہے اور دوسری طرف خاص حالات کے پیش نظر نیز قوم میں اخوت اور اتحاد کی روح قائم رکھنے کے لئے بعض خارجی سہارے بھی مہیا کردیئے ہیں اور یہی وہ رستہ ہے جس سے انسان کا دماغ کند اور منجمد ہونے سے بچ سکتا ہے ورنہ جو *** آج دنیا کے سامنے سرمایہ داری نے پیدا کی ہے وہی کچھ عرصہ کے بعد ایک مختلف صورت میں اشتراکیت کے ذریعہ دنیا کے سامنے آنے والی ہے۔
استثنائی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم
دولت کی تقسیم کے متعلق اس حکیمانہ نظریہ کے باوجود جس میں عام حالات کے ماتحت جبری طریق کے اختیار کرنے کے بغیر دولت کو منصفانہ رنگ میں سمونے کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ انفرادی جدوجہد کا محرک بھی قائم رہے اور ملکی دولت چند ہاتھوں میں جمع بھی نہ ہونے پائے۔ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسے خاص حالات پیدا ہوجائیں کہ کسی ملک یا قوم یا بستی کی خوراک کے ذخیرہ میں کمی آجائے یعنی ایک حصہ کے پاس اس کی اقل ضرورت سے بھی کم ہو یا بالکل ہی نہ ہوتو زائد خوراک موجود ہو اور دوسرے حصہ کے پاس تو اس قسم کے ہنگامی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم کا جبری بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ:
خَر جنا مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی غزوۃٍ، فاصا بنا جھدٌ، حتی ھمَمْنَا ان نَنحَرَ بعض ظھر نا،فَأَمَرَ النبی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فجمعنا تزوادنا۔ ۴۴
’’یعنی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے مگر رستہ میں ہمیں خوراک کی سخت کمی پیش آگئی حتیٰ کہ ہم نے ارادہ کیا کہ اپنی سواریوں کے بعض اونٹ ذبح کردیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سب لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اکٹھے کرلئے جائیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے سب کو مساویانہ راشن بانٹنا شروع کردیا۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل مئی ۱۹۴۹ئ)
پھر ایک اور روایت آتی ہے کہ:
بعث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بعثًا قِبَل السَّاحِل وأَمَّرَعلیْھم اباعبیدۃ بن الجرَّاح وھم ثلاث مائۃ، فخر جنا فَکنَّا ببعض الطریق فَنِیَ الزاذ فاَمَرَ ابوعبیدۃ بازوادالجیش فَجْمِعَ، فکان مِزْوَدَ تَمْیر، فکان یقوتنَا کل یوم قلیلاً قلیلاً حتّٰی فَنِیَ فَلَمْ یکن یُصِیْبَنَاالّا تمرۃ تمرۃ۔۴۵
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک پارٹی ساحل سمندر کی طرف روانہ کی۔ اور سریہ کا امیر (اپنے مقرب صحابی) ابوعبیدہ بن جراح کو مقرر فرمایا اور یہ پارٹی تین سو صحابہ پر مشتمل تھی۔ روای کہتا ہے کہ ہم اس سریہ میں نکلے لیکن (رستہ بھول جانے کی وجہ سے) ابھی ہم اس کے رستہ میں ہی تھے کہ ہمارا زاد کم ہونا شروع ہوگیا۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے حکم دیا کہ سب لوگوں کی خوراک کا ذخیرہ جمع کرلیا جائے تو یہ سارا جمع شدہ ذخیرہ دوتوشہ دان بنا۔ اس کے بعد ابوعبیدہؓ ہمیں اس ذخیرہ میں سے تھوڑی تھوڑی خوراک تقسیم کرواتے تھے حتّٰی کہ یہ ذخیرہ اتنا کم ہوگیا کہ بالآخر ہمارا راشن ایک کھجور فی کس پر آگیا۔‘‘
اس روایت سے یہ بھاری اصول مستنبط ہوتا ہے کہ خاص ہنگامی حالات میں خوراک کے انفرادی ذخائر کو اکٹھاکرکے قومی ذخیرہ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری روایت آتی ہے کہ :
قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اِنَّ لِاَشْعَر یین اذا ارملوا فی الغزو أؤقلَّ طعامُ عِیَالھِم بالمدینۃ جمعوا ماکان عندھم فی ثَوبٍ واحدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوْہُ ابینھم فی اِنائٍ واحدٍ بالسَّوِیَّۃِ فھم منّی وانا منھم۔۴۶
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اشعر قبیلہ کے لوگوں کا یہ طریق ہے کہ جب کسی سفر میں انہیں خوراک کا ٹوٹا پڑ جاتا ہے یا حضر کی حالت میں ہی ان کے اہلِ وعیال کی خوارک میں کمی آجاتی ہے تو ایسی صورت میں وہ سب لوگوں کی خوراک ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں اور پھر اس جمع شدہ خوراک کو ایک ناپ کے مطابق سب لوگوں میں مساویانہ طریق پر بانٹ دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا میرے ساتھ حقیقی جوڑ ہے اور میرا ان کے ساتھ حقیقی جوڑ ہے۔‘‘
یہ الفاظ جس بلند اور شاندار روح کا اظہار کررہے ہیں وہ کسی تشریح کے محتاج نہیں مگر افسوس ہے کہ دنیانے اپنے اس عظیم الشان محسن کی قدر نہیں کی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں دولت کی تقسیم کے متعلق چار بنیادی اصول تسلیم کئے گئے ہیں۔
اوّل
تقسیم ورثا اور نظام زکوٰۃ کے قیام اور سود اور جوئے کی حرمت کے ذریعہ ملکی دولت کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے بچایا جائے۔
دوم
مگر دولت پیدا کرنے کے انفرادی حق کو قائم رکھا جائے تاکہ کام کرنے کا ذاتی محرک بھی قائم رہے اور افراد کے دماغ منجمد نہ ہونے پائیں۔
سوم
جو لوگ باوجود ان ذرائع کے کسی خاص معذوری کی وجہ سے اپنی اقل ضروریات کا سامان بھی پیدا نہ کرسکیں ان کی ضروریات کا حکومت انتظام کرے۔
چہارم
خاص ہنگامی حالت میں جب کہ خوراک کی خطرناک قلت پیدا ہوجائے تمام انفرادی ذخیروںکو جمع کرکے ایک مرکزی قومی ذخیرہ جمع کیا جائے تاکہ سب لوگوں کو اقل خوراک کا مساویانہ راشن ملتا رہے اور یہ نہ ہو کہ ملک کا ایک حصہ تو عیش اڑائے اور دوسرا قُوْتِ لَایَمُوْت سے بھی محروم ہو۔
دینی اور روحانی امور میں مساوات
اس کے بعد ہم اس مساوات کی بحث کولیتے ہیں جو دینی اور روحانی امور سے تعلق رکھتی ہے سو جاننا چاہیئے کہ گو لامذہب لوگوں اور دنیاداروں کو اس میدان کی اہمیت پر اطلاع نہ ہو مگر قرب الٰہی کی تڑپ رکھنے والوں اور نجات اخروی کے متلاشیوںکے نزدیک یہ میدان دنیا کی زندگی سے بھی بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ قابل توجہ ہے اور الحمد للہ کہ اس میدان میں بھی اسلامی تعلیم نے صحیح مساوات کے ترازو کو پوری طرح برابررکھا ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں دوسرے مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا کے الہام کا نزول اور اس کے نبیوں اور رسولوں کا ظہور صرف خاص خاص قوموں کے ساتھ ہی مخصوص رہا ہے اور دنیا کی دوسری قومیں اس عظیم الشان روحانی نعمت سے کلی طورپر محروم رہی ہیں۔ مثلاً یہودی لوگ اپنے سواکسی دوسری قوم کو اس روحانی انعام کے حق دار نہیں سمجھتے اور اسی طرح ہندولوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کا کلام صرف آریہ ورت تک محدود رہا ہے اور کسی دوسرے ملک اور دوسری قوم نے اس سے حصہ نہیں پایا اور عملاً عیسائی قوم بھی بنی اسرائیل کے باہر کسی نبی اور رسول وغیرہ کی قائل نہیں۔ الغرض جہاں دنیا کی ہر قوم اس روحانی نعمت کو صرف اپنے آپ تک محدود قراردے رہی ہے اور کسی دوسری قوم کو اس کا حقدار نہیں سمجھتی وہاں اسلام ببانگ بلند یہ تعلیم دیتا ہے کہ جس طرح خدا نے اپنی مادی نعمتوں کو ہر قوم اور ہر ملک پر وسیع کررکھا ہے اور کسی ایک قوم یا ایک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں کیا مثلاً اس کا سورج ساری دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے اس کی ہوا سارے کُرّہ ارض کو یکساں گھیرے ہوئے ہے، اس کا پانی ساری دنیا کو سیراب کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح خدا نے اپنی روحانی نعمتوں کو بھی کسی خاص قوم یا خاص ملک تک محدود نہیں کیا بلکہ ہر قوم اور ہر ملک کو اس سے حصہ دیا ہے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے مطابق دنیا کا خدا کسی خاص قوم یا خاص ملک کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا اور ساری قوموں کا خدا ہے اور وہ ایک ایسا مقسط اور عادل حکمران ہے کہ سب مخلوق کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:
۴۷
’’یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس کی طرف خدا نے اپنی طرف سے کوئی رسول نہ بھیجا ہو تا کہ وہ انہیں ہوشیار کرکے نیکی بدی کا رستہ دکھادے اور ترقی کی راہیں بتادے۔‘‘
یہ الفاظ کیسے مختصر ہیں مگر غور کرو تو اس کے اندرروحانی اور دینی مساوات کا ایک عظیم الشان فلسفہ مخفی ہے جس نے دنیا کی ساری قوموں کو خدا کی توجہ کا یکساں حق دار قرار دے کر ایک لیول پر کھڑا کردیا ہے اور اس خیال کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا یا آریہ ورت کا خدا ہے اور دوسری قوموں کے لئے اس کی محبت اور انصاف کی آنکھ بالکل بند ہے ۔ الغرض اسلام نے روحانی مساوات کے میدان میں پہلا اصول یہ قائم کیا ہے کہ کلام الٰہی اور نبوت ورسالت کا وجود کسی خاص قوم یا خاص ملک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اپنے اپنے وقت میں ہر قوم اس عظیم الشان روحانی انعام سے حصہ پاتی رہی ہے کیونکہ ہر قوم خداکی پیدا کردہ ہے اور خدا سے بعید ہے کہ ایک ظالم باپ کی طرح اپنے ایک بیٹے کو حصہ دے اور دوسرے کو ہمیشہ کے لئے محروم کردے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ مئی ۱۹۴۹ئ)
اسی ضمن میں نجات اور قرب الٰہی کے حصول کا سوال آتا ہے۔ اکثر قوموں نے دنیوی اور اخروی امور میں بھی گویا ایک اجارہ داری کا رنگ اختیار کررکھا ہے اور ایک خاص نسلی طبقہ کو خدا کا مقرب اور نجات کا مستحق قرار دے کر باقی سب کو عملاً محجوب اور ملعون گردانا ہے جسے کبھی بھی نجات اور قرب الٰہی کی ٹھنڈی ہوا نہیں پہنچ سکتی۔ مثلاً یہودی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف ایک اسرائیلی نسل کا انسان ہی نجات کا مستحق ہے اور باقی سب لوگ خواہ وہ کیسے ہی نیک ہوں جہنم کا ایندھن ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے گو نسلی رنگ میں نجات کو محدود نہیں کیا (یہ صرف موجودالوقت عیسائیوں کا حال ہے ورنہ خود حضرت مسیحؑ نے تو غیراسرائیلی اقوام کو کتے کہہ کر دھتکار دیا ہے) مگر بہت سے دینی حقوق وفرائض کو ایک خاص گروہ کے ساتھ مخصوص کردیا ہے جسے بِرلیسٹ ہڈ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے چنانچہ عیسائیوں کے متعدد دینی امور بلکہ بعض تمدنی امور بھی ایک بِرلیسٹ کی وساطت کے بغیر سرانجام نہیں پاسکتے۔ اسی طرح ہندوئوں نے بعض ذیلی حقوق کو صرف برہمن کا ورثہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہیں۔ گویا ان قوموں نے نہ صرف دوسری اقوام کو نجس اور پلید قرار دے کر دھتکار دیا ہے بلکہ خود اپنے اندر بھی دینی اور مذہبی امور میں ناگوار طبقات کا وجود تسلیم کرکے خدائی انعامات کو بعض خاص طبقوں کے ساتھ مخصوص کردیا ہے مگر اسلام کا دامن ان سب ناپاک جنبہ داریوںکے داغ سے پاک ہے بلکہ جس طرح اس نے دنیوی حقوق میں پوری پوری مساوات قائم کی ہے اسی طرح اس نے دینی امور میں بھی انصاف اور مساوات کے ترازو کو کسی طرح جھکنے نہیں دیا۔ چنانچہ اس بارے میں ایک اصولی قرآنی آیت اوپر کی بحث میں گذرچکی ہے جو یہ ہے:
۔۴۸
’’یعنی اے لوگو سُن رکھو کہ تم میں خدا کے نزدیک زیادہ معزز اور زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو زیادہ متقی اور زیادہ نیک اور زیادہ صالح ہے۔‘‘
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قرب الٰہی کے حصول کے معاملہ میں کسی قوم یا کسی طبقہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سب گورے کالے بڑے چھوٹے طاقتور کمزور مرد وعورت خدا کا قرب حاصل کرنے کے معاملہ میں برابر ہیں اور آگے آنے کے لئے صرف ذاتی تقویٰ اور ذاتی نیکی کی ضرورت ہے اور ان مختصر الفاظ میں خدا تعالیٰ نے یہ ارشاد بھی کردیا کہ جب ہم بادشاہوں کے بادشاہ ہوکر سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنا قرب عطا کرنے میں ذاتی تقویٰ وطہارت کے سوا کسی اور بات کا خیال نہیں کرتے تو پھر دوسروں کو بدرجہ اولیٰ یہ چاہیئے کہ ذاتی اوصاف کے سوا کسی اور بات پر اپنے انتخاب کی بنیاد رکھاکریں۔
پھر دینی امور میں جزا وسزا اور انعام والزام کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۴۹
’’یعنی جو شخص بھی خواہ وہ کوئی ہو ایک ذرّ ہ بھر بھی نیکی کرتا ہے وہ ہم سے اس کا اجر پائے گا (اور اس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے نیک عمل کے پھل سے محروم نہیں کرسکتا) اور اسی طرح جو شخص بھی کوئی بدی کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا (اور اس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے اس کی بدی کے نتیجہ سے بچا نہیں سکتا)‘‘
پھر فرماتا ہے:
۵۰
’’یعنی یہودی اور عیسائی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی شخص یہود یا نصاریٰ کے سوا جنت میں نہیں جاسکتا۔ یہ لوگوں کی محض خام خیالی ہے اور ایک ہوس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ تو انہیں کہہ دے کہ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی دلیل لائو۔ ہاں بے شک جس شخص نے اپنے تئیں خدا کے سپرد کردیا یعنی اس پر سچا ایمان لایا اور پھر نیک عمل کئے تو خواہ وہ کوئی ہو خدا سے اپنا اجر پائے گا اور ایسے لوگوں کو خدا کے حضور کوئی خوف وحزن نہیں آئے گا۔‘‘
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نجات پانے اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے صرف قومی یا رسمی رنگ میں یہودی یا عیسائی یا کسی اور مذہب کی طرف منسوب ہونا ہرگز کافی نہیں بلکہ نجات اور قربِ الٰہی کے لئے سچا ایمان اور عمل صالح ضروری ہے۔پس جوشخص بھی یہ دو باتیں یعنی سچاایمان اور عمل صالح اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو پھر خواہ وہ قومی یا نسلی رنگ میں کوئی ہو وہ خدا کی طرف سے ثواب اور انعام کامستحق ہوگا۔ یہ آیت ضمناً مسلمانوں کو بھی ہوشیار کرتی ہے کہ وہ محض مسلمان کہلانے پر تسلی نہ پائیں کیونکہ خدا تعالیٰ کو خالی ناموں سے سروکار نہیں بلکہ اس کی نظر حقیقت پر ہے۔
پھر دینی فرائض کی ادائیگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یؤمُّ القوم أَقْرَؤْھُمْ لکتاب اﷲ فَإِ نْ کانوا فی القرأۃ سوائً فَاعْلَمَہُمْ بالسْنَّۃ، فان کانوا فی السْنَّۃَ سوائً فَا قْدَمْھُمْ ھجرۃ، فان کانوا فی الھِجْرَۃ سوائً فاکْبَرْھم سِنّاً۔۵۱ اِذا کَانُوْا ثَلَاثۃ فَلْیَؤْمَّھُمْ اَحَدُھُمْ وَأَحَقُّھُمْ بِالامَامَۃِ اقرئْھُم۔ ۵۲
’’یعنی اے مسلمانو! جب تم آپس میں فریضۂ نماز کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہو (جو اسلام میں سب سے اہم اور سب سے وقیع ترعبادت ہے) تو اس وقت اپنا امام بنانے کے لئے صرف یہ دیکھا کرو کہ تم میں سے قرآن کا علم کس شخص کو زیادہ حاصل ہے۔ پس جو شخص بھی قرآنی علم میں زیادہ ہواسے نماز میں اپنا امام بنالیا کرو اور اگر چند آدمی علم قرآن میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو شخص سنتِ رسولؐ کے علم میں زیادہ ہو اسے امام بنایا کرو اور اگر چند آدمی سُنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو پھر ان میں سے جس شخص نے خدا کی راہ میں پہلے ہجرت کی ہو اسے امام بنایا کرو اور اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو پھر جو شخص عمر میں زیادہ ہو اسے اپنا امام بنایا کرو۔ اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ نمازوں میں مسلمانوں کا امام ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو ان میں سے ہے اور کسی خاص طبقہ کی تخصیص نہیں مگر امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو دین کا زیادہ علم رکھتا ہے۔‘‘
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین ودنیا کے ہر میدان میں حقیقی مساوات قائم فرمادی ہے اور سوسائٹی کی ہر ناواجب کش مکش کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا ہے اور جسم اور روح دونوں کی اصلاح کی ہے اور یہ مساوات ہے جس کی نظیر یقینا کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَبَارک وَسلّم
‎(الفضل ۲۴؍مئی ۱۹۴۹ئ)




قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔قادیان میں اب بظاہر نارمل حالات پیدا ہورہے ہیں اور ہمارے دوستوں کو نقل وحرکت کی کافی سہولت مل گئی ہے لیکن حالات کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تک کسی طرح تسلی بخش نہیں سمجھی جاسکتی حقیقتاً یہ تبدیلی سکھ قوم کے اقتدار کی جگہ ہندو قوم کے اقتدار کا رنگ رکھتی ہے ۔ جب تک سکھ قوم اور سکھ پالیسی کا غلبہ رہا۔ قادیان اور اس کے ماحول میں برملا ظلم و تشدد اور لوٹ مار کا منظر نظر آتا رہا ۔لیکن اب آہستہ آہستہ اس منظر نے بدل کر ہندو اقتدار کی پالیسی کو جگہ دے دی ہے جس میں بظاہر نارمل حالات کا دور دورہ نظر آتا ہے ۔ اور ابتری کی بجائے تنظیم کے حالات دکھائی دیتے ہیں لیکن تنظیم کے اس ظاہری پردے کے پیچھے نقصان پہنچانے کی منظم پالیسی نظر آرہی ہے ۔چنانچہ نئے دور میں حکومت کی پالیسی نے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جو اوپر کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہیں۔
۱ ۔ قادیان میں یا یوں کہنا چاہئے کہ مشرقی پنجاب میں الفضل کا داخلہ حکومت مشرقی پنجاب کے حکم کے ماتحت بند کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے قادیان کے دوست حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے خطبات اور جماعتی تحریکات اور احمدیہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیۃً محروم ہوگئے ہیں یا با لفاظ دیگر جماعت کی مذہبی تنظیم کے مرکزی نقطہ سے بالکل کاٹ دیئے گئے ہیں ۔بظاہر اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الفضل میں ایسی باتیں شائع ہوتی ہیں جو حکومت ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ الفضل کی پالیسی میں کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی بلکہ فسادات کے بعد سے ایک ہی پالیسی چلی آرہی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اب الفضل میں پہلے کی نسبت مذہبی مضامین کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہی اس کی اصل غرض و غایت ہے اور سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم ہوتے ہیں باوجود ان حالات کے الفضل کا فسادات کے بعد تو جاری رہنا مگر اب آکر بند کیا جانا، حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی کی ایک واضح دلیل ہے ۔
۲۔قادیان جماعت احمدیہ کا مقدس مقام ہے اور یہ دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے مقدس مقامات کی خدمت اور احترام کے لئے تحائف اور ہدایا اورمالی نذرانے بھیجا کرتی ہے اور آج تک دنیا کی کسی مہذب حکومت نے اس قسم کے مالی یا جنسی تحائف میں روک نہیں ڈالی اور اس وقت تک قادیان میں بھی اس قسم کے تحائف جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں بعض ان منی آرڈروں کو جو باہر سے قادیان بھجوائے گئے تھے ہندوستان کی حکومت نے روک لیا ہے۔ حالانکہ جواحمدی قادیان میں بیٹھے ہیں ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سب جائیدادیں ان کے ہاتھ سے چھینی جاچکی ہیں۔
پس ان حالات میں بیرونی منی آرڈروں کو روکنا مقامی مسلمان آبادی کو بھوکے مارنے کے مترادف ہے ۔
۳۔قادیان میں سالہا سال سے یعنی تقسیم پنجاب سے بھی پہلے سے حکومت جماعت احمدیہ کو اس بات کی اجازت دیتی رہی ہے کہ وہ لنگر خانہ اور دوسرے احمدیہ اداروں کے لئے اکٹھی گندم خرید لیا کریں۔لیکن اس سال حکومت مشرقی پنجاب نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور ہدایت جاری کی ہے کہ ہر احمدی اپنا الگ الگ راشن کارڈ حاصل کرے جس کی غرض سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آتی کہ قادیان کے احمدیوں کی خوراک کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ کر لیا جائے ۔ ہمارے دوستوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جو نظام سا لہا سال سے چلا آیا ہے اسے اب بدلنے کی کوئی وجہ نہیں اور انفرادی راشن کارڈوں میں یہ خطرہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنا علیحدہ علیحدہ راشن لینے کے لئے بازار جانا ہوگا ۔جس میں ٹکرائو کے امکانا ت بڑھ جائیں گے اور پھر جب قادیان کی احمدی آبادی معیّن ہے اور اس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو پھر اکٹھی خرید کی اجازت دینے میں یہ خطرہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ضرورت سے زیادہ گندم خرید لی جائے گی یا کہ خرید کے بعد ضائع کردی جائے گی ۔ علاوہ ازیں گندم کا جو بھی ذخیرہ ہوگا وہ بہرحال قادیان میں ہی رہے گااور حکومت کی نظروں کے سامنے ہوگا۔مگر باوجود ان معقول دلیلوں کے گورنمنٹ نے اپنے حکم کو نہیں بدلا اور ابھی تک یہ اصرار کر رہی ہے کہ ہر احمدی انفرادی راشن کارڈ حاصل کرے ۔
اوپرکی باتوں سے واضح ہے کہ برملا ظلم و تشدد اور لوٹ مار کا دور دورہ تو اب بظاہر گزر چکا ہے۔ لیکن اس کی جگہ ایسی پالیسی نے لے لی ہے جسے مخفی مگر منظم تشدد کا نام دیا جاسکتا ہے ۔بہرحال ہماری اصل اپیل خداکے پاس ہے اور وہی انشاء اللہ اپنی جماعت کا حافظ وناصر ہوگااور درمیانی ابتلاء خواہ کوئی صورت اختیار کریں آخری فتح و ظفر یقینا خدا کے نام کی ہے ۔ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی ۔
وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَظِیْم
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۰؍مئی ۱۹۴۹ئ)
درویشوں کی امداد کاچندہ
اس سے قبل متعدد اعلانات کے ذریعہ میںان دوستوں کے ناموں کی فہرست شائع کر چکا ہوں جنہوں نے قادیان کے غریب درویشوں اور ان کے رشتہ داروں کے لئے امدادی چندہ دیا ہے۔
ذیل میں ان اصحاب کی فہرست شائع کی جاتی ہے جنہوں نے سابقہ اعلان کے بعد اس مد میں چندہ دے کر ثواب حاصل کیا ہے۔ جزاھم اﷲ خیراً
۱۔ نواب محمد الدین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر ۔ ۔/۳۵روپے
۲۔ صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم سلمھا۔ ۔/۵روپے
۳۔فہمیدہ بیگم بنت شیخ محمد اکرم صاحب سابق تاجر قادیان۔ ۔/۲۰روپے
۴۔رشیدہ بیگم صاحب۔ ۔ /۲ روپے
۵۔ مولوی محمد خانصاحب مولوی فاضل کوٹ قیصرانی ڈیرہ غازیخان ۔ ۔ /۳روپے
۶۔امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ ۔ ۔ /۲۵روپے
۷۔جماعت احمدیہ ہڑپہ ضلع منٹگمری بذریعہ ماسٹر عبدالکریم صاحب۔ ساڑھے تیس گز کپڑا
۸۔ سید نعیم احمد شاہ سلمہ۔ ۔/۲ ر وپے
فَجَزَاھُم اﷲُ خَیْراً
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍ مئی ۱۹۴۹ئ)




قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام
قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام ہوگا۔ چنانچہ اس تعلق میں ناظر صاحب تعلیم وتربیت (بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب) کا ارسال کردہ پروگرام درج ذیل کیا جاتا ہے۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے رمضان اور اس کے بعد کے زمانہ کو ہم سب کے لئے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے۔
حسب سابق امسال بھی رمضان المبارک میں قادیان میں قرآن مجید کا درس ہوگا۔ اور روزانہ قریباً ایک پارہ کا ترجمہ معہ تفسیری نوٹس ختم کیا جائے گا اور اس طرح انشاء اللہ رمضان المبارک میں سارے قرآن مجید کا ایک دور ہوجائے گا۔ یہ درس مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر تا عصر ہوا کرے گااور مندرجہ ذیل علماء کرام امسال درس دیں گے۔
پہلا عشرہ
مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل
از ابتدا قرآن مجید تا سورۂ توبہ ختم
دوسرا عشرہ
غلام احمد صاحب ارشد فاضل
از سورۂ یونس تا سورۂ روم ختم
آخری عشرہ
محمد شریف صاحب امینی فاضل
از سورۂ لقمان تا آخر قرآن مجید
نماز تراویح کا حسب ذیل طریق پر انتظام ہوگا۔
۱۔
مسجد مبارک
حافظ الٰہ دین صاحب
۲۔
مسجد اقصیٰ
حافظ عبدالعزیز صاحب
۳۔
مسجد ناصر آباد
قریشی فضل حق صاحب
مسجد مبارک میں نماز تراویح سحری کے وقت اور مسجد اقصیٰ ومسجد ناصر آباد میں بعد نماز عشاء نماز تراویح ہوا کرے گی۔
مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی روزانہ مسجد مبارک میں بعد نماز عصر حدیث بخاری شریف کا درس دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میںیہ درس بعد نماز فجر ہوا کرے گا۔
احباب کرام دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ علماء کرام اور حافظ صاحبان کو اس کارخیر کی توفیق عطافرمائے اور سب درویشوں کا ہر لحاظ سے حافظ وناصر ہو اور رمضان المبارک کی برکات سے پوری طرح متمتع فرمائے۔ آمین (الفضل ۱۰؍جون ۱۹۴۹ئ)
ربوہ میں نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کا قیام
معلوم ہوا ہے کہ حکومت مغربی پنجاب نے ۳؍ جون ۱۹۴۹ء کے گزٹ میں ربوہ تحصیل چنیوٹ کے لئے نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ اس کمیٹی کے صدر ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع جھنگ ہوں گے اور ممبران حسب ذیل ہوں گے۔
۱۔ تحصیلدار صاحب چنیوٹ سرکاری ممبر
۲۔نواب محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۔ نامزد شدہ ممبر
۳۔ مرزا عزیز احمد صاحب ایم ۔اے ریٹائرڈ اے ۔ڈی ایم نامزد شدہ ممبر
۴۔صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ایم۔بی ۔بی ۔ایس نامزد شدہ ممبر۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍ جون ۱۹۴۹ئ)







رمضان آتا ہے رمضان !
ابھی سے خاص دعائوں کی عادت ڈالو
اس سال جب میں نے شعبان کی پہلی رات کاچاند دیکھا تو اس وقت دعاکرتے ہوئے میں نے یہ ارادہ بھی کیا تھاکہ میںانشاء اللہ العزیز رمضان کے شروع میں ہی رمضان کی برکات کی طرف دوستوں کو توجہ دلا کر دعائوں کی تحریک کروں گااور شریعت اسلامی کے اس نفسیاتی نکتہ کی طرف توجہ دلائوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اس نے ہر بڑے نیک عمل کے آگے اور پیچھے پہرہ دار مقرر کر رکھے ہیں۔ تاکہ نیک عمل سے مرکز ی نقطہ کوتوجہ کے انتشار سے بچایا جائے ۔افسوس ہے کہ میں شروع شعبان میںاپنی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکا ۔کیونکہ اول تو آجکل نہ معلوم کس وجہ سے مضمون نویسی کی طرف طبیعت اس قدر مائل نہیں جس قدر کہ گذشتہ سال مائل تھی۔ اور دوسرے گذشتہ دنوں میں درد نقرس اور بخاروغیرہ کی وجہ سے بیمار بھی رہا ہوںاور پریشانیاں بھی لاحق رہی ہیں۔ اس لئے گو شعبان کاابتدائی حصہ گزر چکا ہے اور اب گویا رمضان کی آمد آمد ہے ۔میں یہ مضمون مختصر طورپرلکھ کر دوستوں کے فائدہ کے لئے پیش کرتاہوں۔ میری غرض اس مضمون میں رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلانا نہیں بلکہ مخصوص قسم کی دعائوں کی طر ف توجہ دلانا اصل مقصد ہے ۔جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔اسلام کا ایک زرّیں اصول ہے اور یہ اصول دراصل اہم نفسیاتی فلسفہ پر مبنی ہے کہ وہ ہر نیک عمل کے مرکزی نقطہ کو محفوظ کرنے کے لئے اس کے دونوں پہلوئوں کی طرف پہرہ دار کھڑے کردیتاہے۔ تاکہ انسان کو توجہ کے انتشار سے بچایاجاسکے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کسی کام میںداخل ہوتا ہے ۔تو وہ فوراً ہی اس کام میں اپنی پوری توجہ نہیں جماسکتا بلکہ وقت کی کوشش کے بعد توجہ کے جمانے میں کامیاب ہوتا ہے۔اسی طرح جب وہ کسی کام کے کرنے سے فارغ ہونے لگتا ہے تو فارغ ہونے کے وقت سے کچھ عرصہ پہلے ہی اس کی توجہ ہٹناشروع ہوجاتی ہے۔اس کی مثال ایک گاڑی کی سی سمجھنی چاہئے جو پوری رفتا رپکڑنے سے پہلے لازماً کچھ وقت تک آہستہ چلنے پر مجبور ہوتی ہے ۔اور اسی طرح رکنے سے قبل بھی کچھ عرصہ پہلے سے اپنی رفتا رکو دھیما کر دیتی ہے ۔پس اگر انسانی فطرت کے اس خاصہ کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نیک اعمال کے پہلوئوں میںپہرہ دار مقرر نہ کرتا یعنی دوسرے الفاظ میں فرائض کے دونوں طرف سنتیں مقرر نہ کی جاتیں توا س کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ فرائض کا کچھ حصہ شروع میں اور کچھ حصہ آخر میں توجہ کے انتشار کی وجہ سے ضائع چلا جاتا۔
پس ہماری پُر حکمت شریعت نے فرائض کے سارے حصہ کو کامل صورت میں برقرار رکھنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی ہے کہ اس کے دونوںپہلوئوں میںسنتوں کے پہرہ دار کھڑے کر دیئے ہیں۔ تاکہ توجہ کے انتشار والا حصہ فرائض والے وقت پر اثر انداز ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ میںمدغم ہو کر رہ جائے ۔اور فرائض والے حصہ میں کسی قسم کارخنہ نہ پیدا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ فرض نمازوں کے شروع میں سنتیں زیادہ کر دی گئی ہیں تاکہ انسان سنتوں والے حصہ میں اپنی توجہ کو جماسکے اور پھر جب فرض والا حصہ آئے تو وہ کامل توجہ کے ساتھ اسے ادا کرنے پر قادر ہو۔ اسی طرح فرض نمازوں کے آخر میںسنتیں اس غرض سے رکھی گئی ہیں تاکہ فارغ ہونے کے وقت سے قبل جو انتشار پیدا ہوتا ہے ۔وہ فرائض والے حصہ میں پیدا ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ کی طرف منتقل ہوجائے ۔ اس پر سوال ہوسکتا ہے کہ ساری نمازوں کے آگے پیچھے تو سنتیں نہیں رکھی گئیں ،بلکہ بعض نمازوں کے دونوں طرف رکھی گئی ہیں اور بعض کے ایک طرف رکھی گئی ہیں۔اور بعض کے کسی طرف بھی رکھی نہیں گئیں سو یہ درست ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ صورت خود اپنی ذات میں شریعت اسلامی کے ایک دوسرے کمال کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ اور وہ یہ کہ شریعت نے سنتوں کے مقرر کرنے میں ہر نماز کے وقت کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ جو نماز ایسے وقت میںآتی ہے کہ اس کے دونوں طرف دنیوی کا روبار کی غفلت کاغلبہ ہوتا ہے تو ایسی نماز کے دونوں طرف سنتیں مقرر کردی گئی ہیں۔ اور اگر کوئی ایسی نماز ہے کہ جس کے شروع میںغفلت کا وقت ہوتا ہے تو اس سے پہلے سنتیں مقرر کردی گئی ہیں۔ اسی طرح جس نماز کے بعد میں غفلت کا وقت آتا ہے ۔اس کے آخر میں سنتیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ وعلیٰ ھذالقیاس ۔اور بعض نمازوں میںامتحان کے پہلو کو غالب رکھ کر صرف تنبیہہ کر دی گئی ہے کہ اس نماز کاخاص خیال رکھو ۔میںاس نکتہ کو دانستہ زیادہ نہیں کھولتا کیونکہ اوّل تو یہ اس کا موقع نہیں اور دوسرے دوستوں کو خود غور کی عادت پید اکرنی چاہئے مگر بہر حال سنتوں کے مقرر کرنے میں اصول وہی مدنظر ہے جواوپر بیان کیا گیا ہے ۔
یہی اصول رمضان کی عبادت میں مد نظر رکھا گیا ہے۔ چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ مسلمان رمضان کے سارے مہینہ کو کامل روحانی توجہ کی حالت میں گزاریں اس لئے شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ رمضان کے دونوں پہلوئوں پر نفلی روزوں کے پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نفلی روزوں کے تعلق میں سب سے زیادہ زور شعبان اور شوال کے روزوں پر دیا کرتے تھے یعنی عموماً شعبان کا بیشتر حصہ نفلی روزوں میں گزار تے تھے۔اور اسی طرح عید کے بعد بھی شوال کے چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ اس میں بھی یہی بھاری حکمت مدنظر تھی کہ اصل رمضان کے مہینہ کو توجہ کے انتشار سے بچایا جائے ۔میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آنحضرت ﷺ فداہ نفسی کو ذاتی طور پر توجہ کے انتشار کا خطرہ تھا ۔کیونکہ حق یہ ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ نے وہ عظیم الشان فطری انجن عطا کیا تھاجوپہلے قدم پر ہی پوری رفتا رپکڑ لیتا تھااور جسے رکنے سے قبل بھی رفتار دھیمی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی مگر چونکہ آپ نے اپنی امت کیلئے ایک سبق اور نمونہ بننا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے لئے یہ طریق اختیار کیا کہ اہم نیک کاموں کے دونوں طرف سنتوں اور نوافل کے پہرہ دار مقرر فرمادیئے تاکہ ان کے نیک اعمال کا مرکزی نقطہ ہر دو جانب توجہ کے انتشار سے محفوظ رہے۔
اس اصولی تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گو دعا مومن کی ہر عبادت کا مرکزی نقطہ ہے اور اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ : اَلدَّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ۔۵۳
’’یعنی دعا ہر عبادت کاگودا اور اس کے اندر کی جان ہے۔‘‘
لیکن بعض ایام کو دعائوں کے ساتھ خاص خصوصیت ہوتی ہے ۔اور ان میں سے رمضان کا مہینہ بھی ایک ممتاز زمانہ ہے ۔ چنانچہ رمضان کے تعلق میں اللہ تعالیٰ قرآ ن شریف میںفرماتا ہے کہ :
۵۴
’’یعنی اے رسولؐ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق رمضان کے بارہ میں دریافت کریںتو تو ان سے کہہ دے کہ میںاس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہوں اور ان دعا کرنے والوں کی دعائوں کو خصوصیت سے قبول کرتا ہوں۔ جو مجھے اپنی توجہ کا مرکز بنا کر مجھ سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں۔لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب وہ مجھ سے اپنی دعائوں کی قبولیت چاہتے ہیںتو میری پکار پر بھی کان دھریں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں کیونکہ یہی ان کی کامیابی اور بامرادی کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کی یہ بھاری خصوصیت بیان کی ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں خدا تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ اپنے بندوں کی دعائوں کو سنتا اور انہیں قبولیت کا شرف عطا فرماتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی نہایت لطیف رنگ میں یہ اشارہ بھی کردیا گیا ہے کہ دعائوں کی قبولیت میں خداتعالیٰ نے دوستی کا اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر ایک مومن چاہتاہے کہ خدا اس کی دعا کو سنے تو اس پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ خدا کی پکار کو سنے ۔تاکہ سننے اور سنانے دونوں کاعمل جاری رہے ۔اور یہی وہ عظیم الشان روحانی نکتہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بارہا تو جہ دلایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ دعائوں کے معاملے میں خدا مومنوں کے ساتھ دوستی کا انداز رکھتاہے کہ کبھی ان کی سنتاہے اور کبھی اپنی سناتا ہے ۔ وہ شخص ہرگز دوست کہلانے کا حقدار نہیں سمجھا جاسکتا جو اپنے دوست سے تویہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی بات سنے مگر خود اپنے دوست کی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔
پس جب رمضان کا مہینہ مخصوص دعائوںکا مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے متعلق مخصوص طور پر قبولیت کا وعدہ بھی فرمایا ہے ،تو پھر کیا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو اس مبارک مہینہ کو پاتا ہے مگر پھر بھی یا تو خدا کے سامنے اپنا دامن پھیلا نے کی طرف توجہ نہیں دیتا اور یا اپنی بدقسمتی سے خالی جھولی لے کر ہی واپس لوٹ آتا ہے اور واپس بھی کس ہستی کے دربار سے لوٹتا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ : اِنَّ رَبَّکُمْ حَیِییٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحِیْ مِنْ عَبْدِہِ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ إِلَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔۵۵ یعنی اے مسلمانو ! تمہارا رب شرمیلا اور بخشش کرنے والا آقا ہے۔ وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ جب کوئی بندہ اس کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلا ئے تو وہ اس کے ہاتھ کو خالی لوٹا دے۔‘‘ اللہ اللہ کتنی محبت اور شفقت کا کلام ہے مگر کتنے ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟
پس دوستوں کو چاہئے کہ گو شعبان کا بیشتر حصہ گذر چکا ہے لیکن وہ پھر بھی ابھی سے خاص دعائوں کی طرف توجہ دیں تاکہ جب رمضان کا چاند اپنی گونا گوں برکتوں کے ساتھ نمودار ہو تو وہ ہماری روحانی توجہ کو کمال کی حالت میں پائے اور اسی طرح رمضان کے بعد بھی چند دن دعائوں کے خاص پروگرام کو جاری رکھیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ رمضان کے اختتام سے پہلے ہی ان کی توجہ میں انتشار کی کیفیت پید اہونی شروع ہوجائے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیںکہ: شَدَّ مِئْزَرَہُ وَاَحْیَا لَیْلَہُ۔۵۶ ’’ یعنی آنحضرت ﷺ رمضان کے مہینہ میںاپنی کمر کو کس لیتے تھے اور ایسی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت فرماتے تھے کہ گویا آپ کی راتیںبھی زندہ ہوجاتی تھیں۔‘‘
یہ راتوں کے زندہ ہونے کامحاورہ غالباً حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کی اپنی ایجاد ہے لیکن کیا ہی لطیف اور پاکیزہ ایجاد ہے کیونکہ اس میں اس لطیف حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ گورات کا وقت خصوصیت سے غفلت اور تاریکی کاوقت ہوتا ہے مگر آنحضرت ﷺ اسے بھی روحانی نور کی زبردست کرنوں سے منوّر اور زندگی کی پُر زور لہروں سے متموّج بنالیتے تھے ۔ گویا آپ خود تو کامل طور پر زندہ تھے ہی مگر آپؐ کی روحانی توجہ سے رات جیسی مردہ اور تاریک گھڑی بھی روشن اور زندہ ہوجاتی تھی ،مگر ضروری ہے کہ دعا محض رسمی رنگ میں نہ کی جائے بلکہ دلی تڑپ اور سچے سوز و گداز کے ساتھ خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں۔دیکھو اس فقیر پر کسی شخص کو رحم نہیں آتا جو اپنی گردن اکڑائے ہوئے اور ادھر ادھر کے نظاروں کاتماشا کرتے ہوئے کوئی سوال کا کلمہ زبان پر لے آتا ہے اور پھر منہ پھلائے ہوئے آگے نکل جاتا ہے بلکہ صرف اسی سوالی کے دامن میں بھیک ڈالی جاتی ہے جس کے متعلق وہ شخص جس سے سوال کیا گیا ہو، محسوس کرتا اور یقین رکھتاہے کہ یہ شخص بالکل بے بس اوربے کس ہو کر میرے سامنے آگرا ہے اور اگر میں اسے سہارا نہیں دوں گاتو وہ گر کر خاک میں مل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دعا کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سچی دعاوہ ہے جس پر پنجابی کی یہ مثل صادق آتی ہے کہ :
جو منگے سو مررہے ۔ مرے سومنگن جائے۔
یعنی سوال کرنا ایک موت کی کیفیت چاہتا ہے اور دراصل سوال کی حقیقی حاجت بھی ایک گونہ موت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔‘‘
بہر حال میںدوستوںکو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ امتحانوں اور ابتلائوں کے دن ہیں، انہیں چاہئے کہ ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعائوں میںگزاریںاور خد اکے دامن کو اس مضبوطی کے ساتھ پکڑیں اور پھر ایسی تڑپتی ہوئی روح کے ساتھ اسے جنبش دیں کہ خد اکا عرش حرکت میں آجائے اور اس کی رحمت ہمیں اس طرح اپنے دامن میں چھپالے جس طرح ایک مرغی کا بچہ اپنی ماں کے پروں میں چھپ جاتا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ دعائیں کیا کی جائیں۔سوگو میں نے ذاتی طور پر آج تک کبھی اپنی کسی دنیوی غرض کے لئے دعا نہیںکی سوائے اس کے کہ کوئی بظاہر ایسا دنیوی امر پیش آجائے جس کی تہہ میں دینی غرض مخفی ہو۔لیکن طبیعتیں اور مذاق مختلف ہوتے ہیں اور شریعت انسانی فطرت کو دبانے کے لئے نہیںآئی بلکہ زندہ رکھنے کے لئے آئی ہے۔
پس جس شخص کو جو بھی ضرورت درپیش ہے وہ اس کے لئے دعا مانگے اور آنحضرت ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی خدا سے مانگو ۔لیکن اس میںشبہ نہیں اور موجودہ حالات کا یہی تقاضا ہے کہ ہماری بیشتر دعائیں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور جماعت کی بحالی اور احمدیت کے مقاصد کے حصول کے لئے وقف ہونی چاہئیں۔ میں نے عرصہ ہوا بخاری کی یہ حدیث پڑھی تھی کہ آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ دعا یہ مانگا کرتے تھے کہ :۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ ً و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔۵۷
’’ یعنی اے ہمارے رب ہمیںدنیا میں بھی حسنات عطاکر اور آخرت میں بھی حسنات عطا کراورہمیںہر قسم کی آگ کے شر سے محفوظ رکھ۔‘‘
میں نے جب یہ حدیث پڑھی تو میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ جب میرے جیسے کمزور اور گناہ گار انسان نے آج تک اپنی کسی دنیوی غرض کے لئے دعا نہیں کی (سوائے شاید ایک دفعہ کے جبکہ غفلت کی حالت میں میرے منہ سے ایک کلمہ نکل گیا تھا اور خدا نے اس پر تنبیہہ فرمائی تھی کہ ان باتوں کی طرف توجہ مت دو) تو پھر آنحضرت ﷺ جیسی عظیم الشان اور رفیع الدرجات ہستی کے متعلق یہ کس طرح کہا گیا ہے کہ آپ سب سے زیادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ مجھے دنیا کی نعمتیں بھی ملیںاور آخرت کی نعمتیں بھی ملیں۔حالانکہ آنحضرت ﷺ کے متعلق دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیںکہ :
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ۔۵۸
’’یعنی دنیاکی نعمتوں سے خالی ہاتھ ہونا میرے لئے باعث فخرہے۔‘‘
پس جب میں نے حدیث میں یہ پڑھا کہ آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ خدایا مجھے دنیا کی نعمتیں بھی عطا کر اور آخرت کی نعمتیں بھی عطا کر تو میرے دل میں یہ سوال پید ہوا کہ یہ کیا بات ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس قسم کی دعا کی طرف کیوں زیادہ توجہ دی ہے؟ لیکن جب میں نے اس دعا کے الفاظ پر غور کیا تو گویا میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے سمجھایا گیا کہ کم از کم آنحضرت ﷺ کے متعلق اس دعا کے ہرگز وہ معنی نہیں ہیں جو عام طورپر سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ مجھے دنیا کی حسنات بھی دے اور آخرت کی حسنات بھی دے ۔‘‘ بلکہ اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ ’’ جو دینی اور روحانی حسنات دنیامیں مل سکتی ہیںوہ مجھے دنیا میں عطا کر اور جو دینی اور روحانی حسنات آخرت کے لئے مقدر ہیں وہ مجھے آخرت میں عطا کر ۔‘‘ اور دراصل اگر غور کیا جائے تو اس دعا کے الفاظ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔کیونکہ الفاظ یہ نہیں ہیں کہ حسنۃ الدنیا (یعنی دنیاکی نعمت ) بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ فی الدنیا حسنہ یعنی دنیا میں ملنے والی نعمت۔ جس کے یقینا ً یہی معنی ہیںاور یہی معنی آنحضرت ﷺ کی شان کے مطابق ہیں کہ وہ دینی اور روحانی حسنات جو دنیا میںمل سکتی ہیں وہ مجھے دنیا میں عطا کر اور جو حسنات آخرت کے لئے مقدر ہیں وہ مجھے آخرت میں عطا کر۔
لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ نعمت کے درجے مختلف ہوتے ہیںاور ضرورت کامیدان بھی مختلف ہوتا ہے کہ دنیاکی کوئی ضرورت ا س کے ساتھ پیش آتی ہے کہ عام انسان اس پرتوجہ دینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور جب تک اس طرف توجہ نہ دے اس کے دل کا بوجھ نہیںاترتا اور طبیعت میں انتشار کی کیفیت زیادہ اس لئے ہماری شریعت نے ہرقسم کی اجازت دی ہے،بلکہ جیسا کہ میںاوپر بتا چکا ہوں آنحضرت ﷺ نے تو مختلف قسم کی طبیعت مدنظر رکھتے ہوئے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگرجوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی خداسے مانگو۔ پس میں دوستوں کو یہ تحریک تو نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی ذاتی دعائوں کو بھلادیں۔ ذاتی دعائوں میں بھی دینی غرض مد نظر رکھ سکیں تو بہت بابرکت ہوگا مگر میں یہ تحریک ضرور کروں گا کہ موجودہ ابتلائوں اور امتحانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دینی او رقومی دعائوںکی طرف زیادہ توجہ دیںاور میرے خیال میں زیادہ قابل توجہ دینی اورقومی دعائیں یہ ہیں:
۱۔ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا جو دراصل دوسرے الفاظ میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا ہے۔ کاش دنیا کو معلوم ہوتا کہ درود میںکتنی برکت ہے اور کتنی لذت! ہاںہاں کتنی برکت ہے اور کتنی لذت ہے بشرطیکہ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم الشان احسانوں اور افضال کو مد نظر رکھ کر درود پڑھاجائے اوراس کثرت سے پڑھا جائے کہ اس کی شیرینی اور خنکی سے دل و زبان سیرا ب ہوجائیں۔
۲۔ درود کے علاوہ بھی اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کی جائیں ۔کاش کم ازکم ہماری جماعت کو اس بات کا پورا پورا احساس ہوتا کہ اگر اس دنیا کی ساری نعمتیں ہمارے قدموں پر لاڈالی جائیں مگر اسلام احمدیت کو ترقی حاصل نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں لیکن اگراسلام اور احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے اور ہمیںذاتی طورپر دنیا کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہ ملے تووہ ہمارے لئے سب کچھ ہے۔
۳۔قادیان کی کامل بحالی اورمرکز ربوہ اور مضبوطی کے لئے دعائیں کی جائیں۔ بعض لوگ ان دعائوںکو متضاد خیال کرتے ہیں۔ہرگز تضاد نہیں بلکہ ایک ہی مقصد کی دعا ہے بلکہ درحقیقت ربوہ کا قیام قادیان کے حصول کے لئے ایک قدم ہے جو خدا کی طرف سے مقدر ہوچکاہے۔ ہمارا دائمی مرکز یقیناً قادیان ہے ہمیں مل کر رہے گا۔ہنسنے والے بیشک ہنسیںکاش وہ اپنی اس ہنسی کے ساتھ ہماری یہ بات بھی نوٹ کرلیںکہ قادیان ہمیں ضرور ملکر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔
قادیان خدا کے رسولؐ کی تخت گاہ ہے اور تخت گاہ رسولؐ پر کوئی دشمن قوم زیادہ دیر تک اس رنگ میں قابض نہیں رہ سکتی مگر جب تک قادیان ہمیں نہیں ملتا جماعت کے شیرازہ اور تنظیم کوایک قائمقام مرکز پر جمع رکھنا نہایت ضروری ہے ۔بلکہ قادیان کی بحالی کے ساتھ لازم وملزوم۔
۴۔حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی درازی عمر اور آپ کے کاموں میں خدائی نصرت اور برکت اور رحمت کے لئے دعائیںکی جائیں۔امام بے شک صرف ایک انسان ہوتا ہے اور فانی۔ اور جماعت ایک دائمی چیز ہے مگر جس وجود کے ذریعے جماعت کاشیرازہ خاص طورپرمتحد ہوا ہو۔اس میں خدا نے بے انتہابرکت رکھی ہوتی ہے۔
۵۔ جماعت کے ان مبلغین کے لئے خواہ وہ آنریری ہیں یاتنخواہ دار جو دنیا کے مختلف حصوں میںتبلیغ و تعلیم کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں دعائیں کی جائیں۔ نہ صرف ان کے مقاصد کی کامیابی کے لئے بلکہ ان کی ذات اور خاندانوں کے لئے بھی وَمَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاﷲ۔۵۹
۶۔ سلسلہ کے مرکزی اور مقامی کارکنوںکے لئے بھی دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح طریق پر اور پاک نیت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے۔ اور ان کی خدمت کو سلسلہ کے لئے ترقی اور مضبوطی کا ذریعہ بنائے۔
۷۔ ان دوستوں کے لئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قادیان میںدھونی رمائے بیٹھے ہیں اور اپنے پاک نمونہ اور مخلصانہ دعائوں کے ذریعہ جماعت کے لئے برکت اور سرفرازی کا موجب بن رہے ہیں۔
۸۔ ان کمزور لوگوں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں جن کے قدموں کو ابتلائوں نے ڈگمگادیا ہے اور وہ موجودہ مصائب کی آندھی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس رستہ کو قولاً یا عملاً چھوڑنے کی طرف مائل ہورہے ہیں جو خدا نے دنیا کی نجات اور ترقی کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔ اور وہ ایک دن ضرور نادم ہوکر پکاریں گے کہ ۔ ۶۰لیکن کاش وہ ندامت کے وقت سے پہلے ہی ٹھوکرسے بچ جائیںاور مصیبت کے وقت میں بے وفائی کے داغ سے اپنا منہ کالا نہ کریں۔
۹۔ سلسلہ کے نوجوانوں یعنی جماعت کی آئندہ نسل کی اصلاح اور ترقی کے لئے دعائیں کی جائیں۔ یہ دعائیں بھی نہایت ضروری ہیںکیونکہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی بلکہ کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جبکہ اسکی اگلی نسل اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہ ہو جو اس کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے ۔ اور ہمارے موجودہ ابتلاء نے تو نوجوانوں کے لئے کئی قسم کے ٹھوکر کے سامان بھی پیدا کر رکھے ہیں۔
۱۰۔ پھر حکومت پاکستان کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بھی دعائیں کی جائیںکیونکہ اول تو علاوہ عام اسلامی ہمدردی کے جو لوگ اس حکومت کے ماتحت رہتے ہیں، ان کافرض ہے کہ اس کی مضبوطی کے لئے خداسے دعائیں کرتے رہیںاور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مشہور الہام کہ ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۔۶۱
اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ جماعت کے بعض مسائل کاحل بھی اس حکومت کی مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہے۔
خدا کرے کہ ہماری دعائیں خدا کے حضور قبولیت کا شرف حاصل کریںاور ہم اس کی رحمت کو قریب تر لاکر اس مقصد کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوںجو ہمارے لئے مقرر کیا گیا ہے ۔
وَاٰ خِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍جون ۱۹۴۹ئ)
قادیان کے مستحق درویشوں کی امداد
سابقہ اعلانات کے تسلسل میںلکھا جاتاہے کہ مندرجہ ذیل مزید اصحاب نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروںکی امداد کے لئے مندرجہ ذیل رقوم عنایت فرمائی ہیں۔جزاھم اﷲ خیراً۔
۱
میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ
۰…۰…۴۰
۲
آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد دین صاحب ڈنگوی ایمن آباد
۰…۰…۲۰
۳
صاحبزادی امتہ الحمیدبیگم صاحبہ آف قادیان حال جو دھامل بلڈنگ لاہور
۰…۰…۲۰
۴
اہلیہ صاحبہ عبدالحمید صاحب ڈی ایس پی پشاور
۰…۰…۱۰
۵
مرزا رمضان علی صاحب پشاور
۰…۰…۲
۶
سلیمہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب مرحوم حیدر آباد دکن
۰…۰…۵۰
۷
خانصاحب بابو برکت علی صاحب سابق ناظربیت المال حال راولپنڈی
۰…۰…۲۰
۸
ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل صاحب لاہور
۰…۰…۲۵
۹
عبدالرحیم صاحب مالک فرم مولوی کلاتھ ہائوس
(یہ صاحب اپنے پتے سے مطلع فرمائیں۔)
۰…۰…۵
۱۰
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی منڈی مرید کے
۰…۰…۵
میزان:
۰…۰…۱۹۷
اللہ تعالیٰ ان سب دوستوںکو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میںحافظ و ناصرہو۔ اس کے علاوہ ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان نے اپنے بچہ کی پیدائش پر قادیان میں عقیقہ کرانے کے لئے مبلغ=/۵۰روپے ارسال کئے ہیں۔ فجزاہ اﷲ خیراً ۔
اب رمضان کا مہینہ آرہا ہے اور اس کے بعد عید ہوگی جن دوستوں نے قادیان کے درویشوں کی امداد کے لئے یا ان کے ایسے رشتہ داروں کی امداد کے لئے جو پاکستان میں بے سہارا پڑے ہیں ،کوئی رقم بھجوانی ہو ،وہ جلد بھجواکر عند اللہ ماجور ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ جون ۱۹۴۹ئ)
رمضان میں تلاوتِ قرآن کے دو دور
ہر آیت پر غور کرنے کی عادت ڈالو!
حال ہی میں میرا ایک مضمون الفضل میں شائع ہوا ہے جس میں مَیں نے اپنی سمجھ کے مطابق رمضان کے مبارک مہینہ میں دعائوں پر خاص زوردینے کے متعلق دوستوں میں تحریک کی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلصین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ذیل کا مضمون رمضان ہی کے ایک دوسرے پہلو سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہ کہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کس طرح اور کتنی دفعہ ہونی چاہیئے؟
جیسا کہ سب دوستوں کو معلوم ہے رمضان کے مہینہ کو قرآن کی تلاوت کے ساتھ مخصوص تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم کے نزول کی ابتداء رمضان کے مہینہ میں ہی ہوئی تھی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔۶۲
’’یعنی رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں خدا کی آخری اور کامل شریعت کا نزول شروع ہوا۔‘‘
اسی وجہ سے رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت پر خاص زوردیا گیا ہے۔ حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام جو فرشتوں کے سردار ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور اس وقت تک قرآن کریم کا جتنا حصہ نازل ہوچکا تھا وہ آپ کے ساتھ مل کر دہراتے تھے۔ اس مشترکہ دہرائی میں تین غرضیں مدِّنظر تھیں:-
۱۔ تاکہ قرآن کے الفاظ زیادہ سے زیادہ مضبوطی اور زیادہ سے زیادہ پختگی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں قائم اور راسخ ہوجائیں اور قرآنی الفاظ ۔۶۳ (یعنی ہم تجھے قرآن سکھائیں گے اور ایسے رنگ میں سکھائیں گے کہ پھر وہ بھلایا نہیں جاسکے گا) کی ایک عملی تشریح قائم ہوجائے۔
۲۔ تاکہ قرآن کریم کے معانی اور معارف اور انوار کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ میں زیادہ سے زیادہ نفوذ ہواور پھر آپؐ اس نور کو اپنی امت میں زیادہ سے زیادہ پھیلاسکیں جیسا کہ قرآن کی پہلی آیت کے نزول کے وقت حضرت جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معانقہ کرکے آپ کے اندر خدائی نور کو داخل کرنے کی کوشش کی تھی۔
۳۔ تاکہ یہ قرآنی دور آپ کی امت کے لئے بھی ایک سبق ہو اور وہ اپنے رمضان کے مہینوں میں اسی رنگ میں قرآن کا دور کرکے زیادہ سے زیادہ برکت اور زیادہ سے زیادہ عرفان حاصل کرسکیں۔
لیکن اوپر والی حدیث کے ساتھ ہی روایتوں میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ جب قرآن شریف کا نزول مکمل ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری رمضان آیا تو اس رمضان میں جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کریم کے دو دَور مکمل کئے اور گذشتہ سالوں کی طرح صرف ایک دَور پر اکتفا نہیں کی۔ اس میں مسلمانوں کے لئے یہ اشارہ ہے کہ چونکہ ان کے لئے بھی قرآن کریم اپنی آخری مکمل صورت اختیار کرچکا ہے اس لئے اب انہیں بھی ہر رمضان میں قرآن کریم کے دو دور مکمل کرنے چاہئیں۔ یہ دو دَور ہرگز کوئی مشکل کام نہیں بلکہ اگر انسان نصف گھنٹہ سے لے کر ایک گھنٹہ روزانہ تک (کیونکہ مختلف لوگوںکی رفتار تلاوت مختلف ہوتی ہے) خرچ کرنے کے لئے تیار ہو اور یقینا یہ کوئی زیادہ وقت نہیں تو ایک مہینہ میں دو دَور بڑی آسانی کے ساتھ ختم کئے جاسکتے ہیں۔
اس دہرے دَور میں یہ تصوف کا نکتہ مدِّنظر ہے کہ تاانسان اپنی اس خواہش کا عملی ثبوت پیش کرے کہ وہ قرآن شریف کو صرف ایک دفعہ پڑھنے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ اس کی بار بار تلاوت اور تکرار کی خواہش ر کھے گا۔ دراصل جو نیک کام بھی ایک دفعہ سے زیادہ دفعہ کیا جائے گا اس میں یہ نکتہ مضمر ہوگا کہ میں اس کام کو بار بار کروں گا اوراس کام کے کرنے میں تھکنے کا نام نہیں لوں گا۔ اسی واسطے عربی میں یہ محاورہ ہے لعوداحمد یعنی تکرار ایک قابل تعریف صفت ہے اور اس میں ہر چیز کا حسن دوبالا ہوکر ترقی کرجاتا ہے۔
پس میری پہلی نصیحت دوستوں کی خدمت میں یہ ہے کہ وہ رمضان میں قرآن کریم کے ایک دَور کی بجائے دو دَور مکمل کرنے کی کوشش کریںکیونکہ اس طرح ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل علیہ السلام کی مبارک سنت پوری ہوتی ہے اور دوسرے اس میں اس عزم کا اظہار بھی پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم وہ کتاب نہیں کہ جسے ہم ایک دفعہ پڑھ کر بھلادیں بلکہ ہم اسے پھر پڑھیں گے اور پھر پڑھیں گے اور پھر پڑھیں گے اور پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
اس تعلق میں دوسری بات میں دوستوں سے قرآن کریم کی تلاوت کے طریق کے متعلق کہنا چاہتا ہوں یعنی یہ کہ قرآن کریم کس طرح پڑھا جائے اور اس کی تلاوت میں کیا پہلو مدِّ نظر رکھا جائے؟ سو قرآن کریم کے مطالب اور محاسن تو اتنے وسیع ہیں کہ اسے یقینا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ کہا جاسکتا ہے لیکن موٹے طورپر دوستوں کو یہ بات یادرکھنی چاہیئے کہ قرآن کریم کی آیات چار قسم کے مطالب پر مشتمل ہیں اور ہر قرآن پڑھنے والے شخص کو ان چاروں قسم کے مطالب کی طرف نگاہ رکھنی چاہیئے تاکہ قرآن کریم کی تلاوت کو زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جاسکے۔ یہ چار قسم کے مطالب جن کی طرف قرآن کریم کے شروع میں ہی اشارہ کردیا گیا ہے یہ ہیں:-
۱۔ بعض آیتوں میں بعض باتوں کا علم دیا گیا ہے یعنی یہ کہ یہ کام کرو یا یہ اعمال بجالائو تاکہ تم دین ودنیا میں کامیابی اور کامرانی کا منہ دیکھ سکو۔ ایسے احکام عربی محاورہ کے مطابق اوامر کہلاتے ہیں یعنی مثبت حکموں والی آیات۔
۲۔ اس کے مقابل پر بعض آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں کام نہ کرو یا فلاں قسم کے عمل سے بچ کررہو تاکہ تم دین ودنیا میں ہلاکت کے راستہ سے محفوظ رہ سکو ایسے احکام عربی محاورہ میں نواھی کہلاتے ہیں یعنی منفی حکموں والی آیات۔
۳۔ پھر بعض آیات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ فلاں قوم نے یہ یہ نیک کام کئے اور اس لئے خدا تعالیٰ نے اس پر اپنے فضل اور رحمت کی بارش برسائی اور اسے دین ودنیا میں کامیاب کیا ہے۔ یہ گر وہ قرآنی محاورہ میں منعم علیہ گروہ کہلاتا ہے۔
۴۔ اور اس کے مقابِل پر بعض آیات میں یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں قوم نے یہ یہ بداعمالیاں کیں اور اس وجہ سے خدا نے اس پر عذاب نازل کیا اور دین ودنیا میں روسیاہی حاصل ہوئی یہ گروہ قرآنی حدود میں مغضوب علیہ گروہ کہلاتا ہے۔
اور جیسا کہ میں اوپر بتاچکا ہوں ان چاروں قسم کے مطالب کی طرف قرآن کریم نے اپنے شروع میں ہی اشارہ کردیا ہے چنانچہ سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے:-
۶۴
’’یعنی اے خدا تو ہمیں اس قرآن کے ذریعہ تمام وہ باتیں بتا دے جو ہمیں کرنی چاہئیں۔ اور اسی طرح تمام ان باتوں پر آگاہ کردے جو ہمیں نہیں کرنی چاہئیں اور پھر ہمیں انعام پانے والے اور غضب کا نشانہ بننے والے ہر دوگروہوں کے حالات بھی بتادے تاکہ ہم انعام پانے والوں کے رستہ کو اختیار کرسکیں اور عذاب کا نشانہ بننے والوں کے رستہ سے بچ سکیں۔‘‘
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو ساری قرآنی آیتیں انہی چار قسم کے مطالب میں منقسم نظر آتی ہیں۔ یعنی اگر کسی آیت میں کسی نیک عمل کا حکم ہوتا ہے تو کسی دوسری آیت میں کسی بد عمل سے روکا جاتا ہے اسی طرح اگر کسی آیت میں کسی انعام پانے والی قوم کا ذکر کرکے نیکی کی تحریک کی جاتی ہے تو کسی دوسری آیت میں کسی مغضوب علیہ قوم کی طرف اشارہ کرکے اس کے طریق سے ہوشیار اور مجتنب رہنے پر زوردیا جاتا ہے۔ پس قرآن پڑھنے والے کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی آیت پر سے گذرے تو اس آیت کے مفہوم کو سامنے رکھ کر اپنے نفس میں محاسبہ کرتا جائے کہ کیا اس آیت میں جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس پر پوری طرح کاربند ہوں یا کیا اس آیت میں جس کام سے روکا گیا ہے میں اس سے پوری طرح رکا ہؤا ہوں؟ اسی طرح اگر کسی آیت میں کسی منعم قوم کا ذکر ہے تو قرآن پڑھنے والا اپنے نفس میں غور کرے کہ کیا میں سچ مچ اس رستہ پر گامزن ہوں جو انعام پانے کا رستہ ہے اور اگر کسی آیت میں کسی مغضوب علیہ قوم کا ذکر ہے تو اس بات پر غور کرے کہ کیا میں غلطی سے خد اکے غضب کو بھڑکانے والے رستہ پر تو قدم زن نہیں ہورہا؟
اس طریق تلاوت کی طرف خود قرآن شریف نے اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ فرقان میں فرماتا ہے کہ:
۶۵
’’یعنی سچے مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے خدائی آیات آتی ہیں تو وہ ان آیتوں پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے۔‘‘
اس آیت میں یہی سبق دیا گیا ہے ……………
اب ظاہر ہے کہ اس قسم کی تلاوت سے انسان قرآن کی ہر آیت کو اپنے لئے زندہ استاد اور ایک زبردست سبق بناسکتا ہے اور یہی قرآن کریم کی اصل غرض وغایت ہے۔
بیشک قرآن کریم میں حکمت اور عرفان کے بیشمار خزانے مخفی ہیں اور ہر انسان اپنے اپنے درجے اور اپنی اپنی جستجو کے مطابق ان خزانوں سے حصہ پاتا ہے اور پاسکتا ہے مگر قرآن کی اوّلین غرض یہ ہے کہ وہ انسانوںکے لئے شمع ہدایت کا کام دے اور یہ غرض صرف اسی طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے اس کی ہر آیت کے متعلق یہ سوچا جائے کہ میں اس کے اوامر پر کہاں تک عمل کررہا ہوں اور اس کے نواہی سے کہاں تک رکا ہوا ہوں اس رنگ میں تلاوت کرنے والا شخص چند دِن میں ہی اپنے اندر ایسی غیر معمولی تبدیلی محسوس کرے گا جو زندگی بھر کی رسمی تلاوت سے بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔خدا کرے کہ ہماری تلاوت ایک بے جان اور مردہ تلاوت نہ ہو بلکہ ایسی زندہ تلاوت ہو جو ہر گھڑی پھولتی اور پھلتی اور ہر آن ایک نیا پھل پیش کرتی ہے۔وآخر دعوٰناان الحمدللّٰہ رب العالمین۔
‎(الفضل ۲۶؍ جون ۱۹۴۹ئ)
قادیان کے درویشوں کی امداد
سابقہ اعلانات کے تسلسل میں لکھا جاتا ہے کہ قادیان کے مستحق درویشوں اور ان کے پاکستان رہنے والے رشتہ داروں کی امداد میں مندرجہ ذیل مزید رقوم موصول ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب اصحاب کو اس کارِ خیر کا بہترین بدلہ عطا کرے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔
۱۔
شیخ عبدالحمیدصاحب دیالہ سٹریٹ راج گڑھ لاہور
۰-۰-۲۰
۲۔
شیخ فضل کریم وعبدالرحیم صاحبان کارخانہ شورہ پھلرواں ضلع شاہ پور
۰-۰-۱۵
۳۔
بیگم صاحبہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب چک L۔۱۱/۶ ضلع منٹگمری
۰-۰-۲۰
۴۔
ربیعہ خانم صاحبہ ہیڈ معلمہ گرلز سکول احمد نگر ضلع جھنگ
۰-۰-۱۰
۵۔
اہلیہ صاحبہ مولانا مولوی غلام رسول صاحب راجیکی پشاور
۰-۰-۲۰
۶۔
چوہدری حاکم دین صاحب سابق تاجر قادیان حال لاہور
۰-۰-۲۰
۷۔
چوہدری محمد الدین صاحب پسر چوہدری حاکم دین صاحب مذکور
۰-۰-۲
۸۔
چوہدری فضل دین صاحب ؍؍ ؍؍ ؍؍
۰-۰-۲
۹۔
شریفہ شاہدہ بیگم صاحبہ بنت ؍؍ ؍؍ ؍؍
۰-۰-۵
۱۰۔
امتہ اللطیف صاحبہ ؍؍ ؍؍ ؍؍ ؍؍
۰-۰-۲
۱۱۔
امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ؍؍ ؍؍ ؍؍ ؍؍
۰-۰-۵
۱۲۔
چوہدری نور احمد صاحب داماد ؍؍ ؍؍ ؍؍
۰-۰-۵
۱۳۔
چوہدری حاکم دین صاحب مذکور (برائے خرچ بجلی مسجد اقصیٰ قادیان)
۰-۰-۵
۱۴۔
صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ (بیگم میجر مرزا دائود احمد صاحب) رتن باغ لاہور
۰-۰-۱۵
۱۵۔
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب رتن باغ لاہور
۰-۰-۴۵
۱۶۔
ایک صاحب جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے
۰-۰-۱۰
۱۷۔
شیخ عبدالرحیم صاحب مالک فرم مولوی کلاتھ ہائوس ریل بازار گجرانوالہ
(یہ صاحب پہلے بھی پانچ روپے دے چکے ہیں)
۰-۰-۴
۱۸۔
شیخ جمیل احمد صاحب والٹن روڈ لاہور
۰-۰-۱۰
۱۹۔
اہلیہ صاحبہ ملک احمدالدین صاحب ہیڈ کانسٹیبل ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰-۰-۵
۲۰۔
بچگان ملک احمد الدین صاحب مذکور
(یہ ہر دو رقوم بذریعہ محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال وصول ہوئی ہیں)
۰-۰-۵
۲۱۔
محمد علی خان صاحب ومحمد اکرام خان صاحب کمیشن ایجنٹ باندھی ضلع نواب شاہ سندھ
۰-۰-۱۰۰
۲۲۔
محمد علی صاحب ومحمد اکرم خان صاحب مذکوران برائے افطاری درویشان
(اوپر ہر دو رقوم محاسب صاحب ربوہ کے نام گئی ہیں ۔ابھی تک میرے دفتر نہیںپہنچیں)
۰-۰-۱۰۰
۲۳۔
صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ (بیگم مرزا رشیداحمد صاحب) کراچی
۰-۰-۲۰
۲۴۔
صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ جودھامل بلڈنگ لاہور(سابق اعلان میں ان کی رقم غلطی سے ۲۰ روپے درج ہوگئی تھی اصل رقم ۲۵ روپے ہے)
۰-۰-۵
۲۵۔
والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ (اس کے علاوہ انہوں نے ۲۵ روپے کسی مستحق سید کو دینے کے لئے بھی بھجوائے ہیں)
۰-۰-۲۵
کل میزان
۰-۰-۴۵۰
اللہ تعالیٰ ان جملہ بہنوں اور بھائیوں کو ان کے اس کارخیر کی بہترین جزادے۔ آمین۔
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے میری معرفت قادیان میں اپنی طرف سے رمضان کا فدیہ بھی بھجوایا ہے۔
۱۔
میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ
۰-۰-۶۰
۲۔
صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور
۰-۰-۴۰
۳۔
سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ (اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب) راولپنڈی
۰-۰-۲۰
۴۔
ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب
۰-۰-۲۵
۵۔
صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور
۰-۰-۴۵
۶۔
حضرت ام المؤمنین صاحبہ اطال اللہ ظلّہما حال کوئٹہ
۰-۰-۶۰
۷۔
سیدسردار حسین شاہ صاحب اوورسیرٔ حال عارف والا
۰-۰-۱۵
۸۔
نواب زادہ میاں عبداللہ خان صاحب رتن باغ لاہور
۰-۰-۵۰
۹۔
اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل قادیان (یہ کچھ رقم اپنے طور پر لاہور میں بھی خرچ کرچکی ہیں)
۰-۰-۵
کل میزان
۳۲۰
فجزاھم اﷲ احسن الجزاء
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍جولائی ۱۹۴۹ئ)










قادیان میں رمضان المبارک
قادیان سے محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اطلاع دیتے ہیں کہ رمضان کا چاند ۲۷ ؍جون کی شام کو بعد نماز مغرب نظر آیا اور ۲۸ ؍جون کو پہلا روزہ ہوا۔ رمضان کے ایام میں قادیان میں نماز تراویح کا انتظام اس طرح پر ہے کہ مسجد مبارک میں دوبجے بعد نصف شب حافظ الہٰ دین صاحب تراویح پڑھاتے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں حافظ عبدالعزیز صاحب عشاء کی نماز کے بعد تراویح پڑھاتے ہیں اور مسجد ناصرآباد میں بھی عشاء کی نماز کے بعد قریشی فضل حق صاحب تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں۔ پہلے روزہ میں مسجد مبارک میں قریباً ایک سو پچاس درویشوں نے نماز تروایح باجماعت ادا کی اور بعض درویش دونوں وقت کی نماز تراویح میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں یعنی عشاء کے بعد مسجد اقصیٰ میں اور سحری سے قبل مسجد مبارک میں۔ صبح کی نماز کے بعد مولوی محمد شریف صاحب امینی مسجد مبارک میں بخاری کا درس دیتے ہیں۔ قرآن شریف کا درس بعد نماز ظہر ہوتا ہے۔ پہلے عشرہ میں مولوی محمد حفیظ صاحب درس دے رہے ہیں۔ دوسرے عشرہ میں مولوی غلام احمد صاحب ارشد درس دیں گے اور آخری عشرہ میں مولوی محمد شریف صاحب امینی درس دیں گے۔
مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اپنے اور اپنے اہل وعیال اور قادیان کے جملہ درویشوں کے لئے احباب جماعت سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍ جولائی ۱۹۴۹ئ)


ضائع شدہ اسلحہ کی واپسی کی درخواست
ناظر صاحب امور عامہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ضلع گورداسپوران ضائع شدہ اسلحہ کے متعلق جو فسادات کے ایام میں قادیان میں ضبط یا ضائع ہوئے تھے ،مقامی افسران سے خط و کتابت کر رہے ہیں۔ اب اس کے تعلق میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ایسے اسلحہ کی واپسی کے متعلق مالکان کو ڈپٹی ہائی کمشنر فار پاکستان ان انڈیا ، جالندھر کے نام درخواستیں بھجوانی چاہئیں۔
درخواست میں اسلحہ کی قسم، تعداد، نمبر وغیرہ مع تمام ضروری کوائف کا اندراج کر دینا چاہئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ جولائی ۱۹۴۹ئ)








منشی بشیر احمد صاحب کہاں ہیں؟
قادیان میں ایک صاحب منشی بشیراحمدصاحب ہمارے مختار ہوتے تھے وہ اس وقت جہاں بھی ہوں اپنے پتہ سے اطلاع دے کر ممنون کریں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍جولائی ۱۹۴۹ئ)









حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی علالت
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئٹہ سے تازہ اطلاع یہ ہے کہ نقرس کا مرض بدستور جاری ہے لیکن ٹانگ کے درد میں گذشتہ شب سے کچھ کمی ہے ۔ گو پائوں کے درد میں زیادتی ہوگئی ہے ۔ احباب دعا ء جاری رکھیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍جولائی ۱۹۴۹ئ)









قادیان میں ایک احمدی نوجوان کی گرفتاری
قادیان سے محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اطلاع دیتے ہیں کہ ان کے لڑکے عبدالسلام کو قادیان میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا ہے ۔ بھائی صاحب سب دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں ۔ابھی تک گرفتاری کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ۔مگر اس قدر معلوم ہوا ہے کہ عزیز عبدالسلام چند دن ہوئے مشرقی بنگال سے ہوتا ہوا باقاعدہ پرمٹ کے ساتھ قادیان گیا تھا تاکہ مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے والد صاحب محترم اور دوسرے بزرگوں سے ملاقات کر سکے اورتین چار دن میں واپسی کا ارادہ رکھتاتھا ۔ دوست دعاسے امداد فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۴۹ئ)







حضرت امیرالمومنین ایدہ اﷲ کے لئے اجتماعی دعا اور صدقہ کا انتظام
۱۔ قادیان سے آئے ہوئے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ البتہ ڈاکٹر بشیراحمد صاحب ایگزیما کی وجہ سے بیمار ہیںاور گزشتہ ایام میں زیادہ تکلیف رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب بوجہ تقاضائے غم کمزور ہورہے ہیں۔ ان ہر دو اصحاب کے لئے جن میں سے مکرم بھائی صاحب نہایت پرانے اور مخلص بزرگوںمیں سے ہیں اور ڈاکٹر صاحب واقف زندگی مخلص کارکن ہیں، دعا فرمائی جائے۔
۲۔ قادیان سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ جب انہیں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودہ علالت کے متعلق میری تار پہنچی تو فوراً سب دوستوں کو جمع کرکے اجتماعی دعا کی گئی اور صدقہ اور امداد غرباء کے لئے دوسوروپیہ چندہ جمع کیا گیا اور تین بکرے ذبح کرائے گئے۔
۳۔ امیرجماعت قادیان نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ قادیان میں ایک غیرمسلم پناہ گزین نے اصرار کے ساتھ درخواست کی ہے کہ اس کے لئے دعا کی اور کرائی جائے کہ اُس کی شراب کی عادت چھوٹ جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے قادیان میں ہمارے دوستوں کا دینی اور اخلاقی اثر مخالف ماحول کے باوجود شریف طبقہ میں ترقی کررہا ہے۔ دوست دعا کریں کہ اس غیرمسلم پناہ گزین کی شراب کی عادت چھوٹ جائے تاکہ یہ اُس کے لئے مزید تقویت کا موجب ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍جولائی ۱۹۴۹ئ)




قادیان کے درویشوں کی امداد
اور
احباب کا شکریہ
میری تحریک پر جن بھائیوں اور بہنوں نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے روپیہ بھجوایا ہے ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔ یہ فہرست ان احباب کی ہے جنہوں نے گزشتہ شائع شدہ فہرست کے بعد رقمیں بھجوائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کارِ خیر کی بہترین جزادے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔ آمین یااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن
۱۔
ماسٹر خیردین صاحب پورن نگر سیالکوٹ
۰-۰-۱۰ روپے
۲۔
امتہ السلیم بیگم صاحبہ بنت چوہدری عنائت اللہ خان صاحب بہاولپور
۰-۰-۵
۳۔
میاں غلام محمد صاحب اختر اے۔پی۔او۔ لاہور
۰-۰-۱۵
۴۔
شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹوبہ ٹیک سنگھ
(یہ صاحب پہلے بھی امداد دے چکے ہیں)
۰-۰-۲
۵۔
اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور
۰-۰-۲
۶۔
برکت بی بی اہلیہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور
۰-۰-۲
۷۔
صدیقہ بیگم صاحبہ بنت شیخ محمد اکرام صاحب معہ بچگان
۰-۰-۱۰
۸۔
عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک اللہ رکھا صاحب چیف گڈس کلرک لاہور
۰-۰-۱۵
۹۔
حافظ عبدالرحمن صاحب ٹیچر حویلی ضلع منٹگمری
۰-۰-۵
۱۰۔
استانی رحمت الٰہی صاحبہ زوجہ حافظ عبدالرحمن صاحب
۰-۰-۵
۱۱۔
عبداللطیف خان صاحب ابن یحییٰ خان صاحب مرحوم
۰-۰-۱۰
۱۲۔
اہلیہ صاحبہ عطاء اللہ صاحب کاتب لاہور
۰-۰-۱۰
۱۳۔
آمنہ بی بی صاحبہ اہلیہ قاضی حبیب اللہ صاحب لاہور
۰-۰-۸
۱۴۔
قمرجہان بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر کرنیل عطاء اللہ صاحب راولپنڈی
۰-۰-۲۰
۱۵۔
مسٹرضیاء اللہ صاحب زم ریڈیو لاہور
۰-۰-۱۰۰
۱۶۔
سردارالنساء صاحبہ رتن باغ لاہور
۰-۰-۲۵
۱۷۔
اہلیہ صاحبہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری
۰-۰-۱۰
۱۸۔
امتہ المجید صاحبہ ایم۔اے بنت میاں وزیر محمد صاحب پٹیالوی
۰-۰-۱۰
۱۹۔
غلام احمد صاحب زرگر سیالکوٹ
۰-۰-۲۰
۲۰۔
صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد علی صاحب تعلیم الاسلام کالج
۰-۰-۱۰
۲۱۔
شیخ محمد بشیرصاحب آزاد منڈی مریدکے
۰-۰-۵
۲۲۔
محمد دین صاحب پال سیالکوٹ
۰-۰-۱۵
۲۳۔
اہلیہ صاحبہ بابو اکبر علی صاحب مرحوم آف قادیان حال ملتان
۰-۰-۸۰
۲۴۔
اہلیہ صاحبہ عبداللہ خان صاحب معرفت افغان سٹور راولپنڈی
۰-۰-۱۰
۲۵۔
افغان اسٹور نمک منڈی راولپنڈی
۰-۰-۱۰
۲۶۔
مقبول خانم صاحبہ بنت میاں محمد عالم صاحب راولپنڈی
۰-۰-۵
۲۷۔
مخدوم نذیراحمد صاحب فروٹ سپیشلسٹ لائل پور
۰-۰-۲۰
۲۸۔
سیٹھی عبدالحق صاحب جہلم
۰-۰-۲۰
۲۹
شیخ مختار نبی صاحب گوجرانوالہ
۰-۰-۲۰
۳۰۔
چوہدری محمد اسحٰق صاحب کلرک گوجرانوالہ
۰-۰-۵
۳۱۔
حکیم شیخ فضل حق صاحب مزنگ روڈ لاہور
۰-۰-۳۰
۳۲۔
عفت النساء بیگم صاحبہ زوجہ عبدالجلیل صاحب عشرت لاہور
۰-۰-۵
۳۳۔
عبدالجلیل صاحب عشرت لاہور
۰-۰-۵
۳۴۔
فرخندہ اختر صاحبہ زوجہ عطاالرحمن صاحب کرشن نگرلاہور
۰-۰-۵
میزان
۰-۰-۵۶۹روپے
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے افطاری یا فدیہ کے طورپر مندرجہ ذیل رقوم دی ہیں جو ان کی طرف سے قادیان بھجوادی گئی ہیں۔ فجزاھم اللّٰہ خیراً۔
۱۔
قاضی محمد عبداللہ صاحب ناظر ضیافت لاہور برائے افطاری
۰-۰-۵
۲۔
نواب محمد دین صاحب مرحوم بطور فدیہ (دراصل نواب صاحب مرحوم نے ۶۰ روپے کا چیک محاسب کے نام دیا تھا مگر وہاں سے صرف ۵۳ روپے وصول ہوئے)
۰-۰-۵۳
۳۔
سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ سیالکوٹ برائے افطاری
۰-۰-۲۰
۴۔
اُم مظفر احمد صاحب رتن باغ لاہور
۰-۰-۱۲
۵۔
اہلیہ خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم آف ڈیرہ دون بطور فدیہ
۰-۰-۵۰
۶۔
صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحب رتن باغ لاہور برائے افطاری
۰-۰-۵۰
۷۔
چوہدری فقیرمحمد صاحب ڈی۔ایس۔پی معہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ خود بطور فدیہ
۰-۰-۳۰
۸۔
محمد دین صاحب پال سیالکوٹ بطور فدیہ
۰-۰-۲۰
۹۔
محمد اسمٰعیل صاحب جھنگ مگھیانہ برائے عقیقہ بچگان
۰-۰-۸۰
۱۰۔
اہلیہ صاحبہ سید عبدالحئی صاحب آف منصوری بطور فدیہ
۰-۰-۱۵
۱۱۔
حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ حرم اول حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بطور فدیہ
۰-۰-۳۰
۱۲۔
حضرت سیدہ ام ناصر صاحب حرم اول برائے افطاری
(ان کی طرف سے ۲۰ روپے کی رقم چندہ حفاظت میں بھی آئی تھی جو دفتر محاسب ربوہ کو بھجوادی گئی ہے۔)
۰-۰-۱۰
۱۳۔
لجنہ اماء اللہ راولپنڈی بذریعہ سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ برائے افطاری
۰-۰-۲۵
۱۴۔
اہلیہ صاحبہ بابو اکبر علی صاحب مرحوم آف قادیان حال ملتان بطور فدیہ
۰-۰-۲۵
۱۵۔
چوہدری فتح محمد صاحب سیال آف قادیان بطور فدیہ
۰-۰-۲۰
۱۶۔
حضرت ام المومنین صاحبہ اطال اللہ ظلھا حال کوئٹہ بطور فدیہ
(یہ رقم براہ راست قادیان گئی ہے)
۰-۰-۶۰
میزان
۰-۰-۵۰۵ روپے
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب کی طرف سے امداد درویشان وغیرہ کی مد میں چیک وصول ہوچکے ہیں مگر ابھی تک کیش نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس کارِ خیر کی بہترین جزادے۔آمین
۱۔
چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کراچی
۰-۰-۱۰۰
۲۔
ڈاکٹر سیدرشید احمد صاحب کوئٹہ معہ اہلیہ ودختران
۰-۰-۴۰
۳۔
حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میجر ایم ایس صاحب لاہور چھائونی
۰-۰-۲۰
۴۔
امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر حیدرآباد دکن
۰-۰-۲۰
۵۔
جماعت احمدیہ لائل پور بذریعہ شیخ محمد یوسف صاحب
۰-۰-۱۳۰
۶۔
صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب ڈی۔سی میانوالی
۰-۰-۵۰
۷۔
خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب آف قادیان حال پشاور بطورفدیہ
۰-۰-۲۰
میزان
۰-۰-۳۸۰
میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان جملہ احباب اور خواتین کو جزائے خیردے اور ان کا حافظ وناصر ہو۔ ہم نے ان کے لئے قادیان بھی دعا کے واسطے لکھا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍جولائی ۱۹۴۹ئ)








قادیان میں ماہِ رمضان، ذکر وفکر کے روح پرور نظارے
اس سے قبل قادیان میںماہ رمضان کے درسوں اور تراویح کے متعلق محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی رپورٹ الفضل میں شائع ہوچکی ہے۔ اب بھائی صاحب مکرم اپنے تازہ خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’قادیان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے معذور درویشوں کے سوا تمام درویش شوق اور اخلاص سے روزے رکھ رہے ہیں اور ریاضت وتلاوت وذکر الٰہی وتسبیح وتمحید نیز دعاودرود میں مصروف ہیں۔ اکثر نے آپ کی تحریک کی تعمیل میں قرآن شریف کے دو دور ختم کرنے کا عزم کرلیا ہے بلکہ ایک دور ختم کرکے دوسرا دور شروع بھی کردیا ہے۔ قرآن کریم کا درس سورۃ انبیاء تک مکمل ہوچکا ہے اور رات کے پچھلے حصہ کی تراویح میں آج مورخہ ۱۴؍جولائی۱۹۴۹ء سورۃ روم ختم ہوئی ہے۔ اعتکاف بیٹھنے والے اجازت کے لئے درخواستیں دے چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا رمضان یقینا اپنی مثال آپ ہے۔ بلحاظ ذکر وفکراور عبادت اور ریاضت کے شاید اس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ہوگی۔ مقاماتِ مقدسہ ذاکرین کے ہجوم سے اٹے رہتے ہیں۔ تلاوت کی گونج فضا کو معطر رکھتی ہے۔ فالحمدﷲ۔ ثم الحمدﷲ۔ ثم الحمد ﷲ۔‘‘
امید ہے اوپرکی رپورٹ دوستوں کے لئے نیکی کی تحریک کے علاوہ قادیان کے دوستوں کے لئے دعا کی تحریک کا بھی موجب ہوگی۔ ہمارے یہ دوست اس وقت جس ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں اور پھر جس رنگ میں وہ قادیان میں بیٹھے ہوئے ساری جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں وہ اس بات کی مستحق ہے کہ انہیں اپنی دعائوں میں خاص طورپر یاد رکھا جائے کہ خدا نے چاہا تو یہی تخم آئندہ چل کر قادیان کی بحالی کا درخت بننے والا ہے۔
نیز جیسا کہ میں ایک سابقہ اعلان میں بتاچکا ہوں اس وقت مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا لڑکا عبدالسلام مہتہ قادیان میں سیفٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر۵ کے ماتحت گرفتار ہے۔ وہ مقاماتِ مقدسہ کو دیکھنے اور اپنے بزرگ باپ کی ملاقات کرنے کے لئے ایک باقاعدہ پرمٹ کے ماتحت قادیان گیا تھا مگر پرمٹ کے استعمال میں ایک اصطلاحی غلطی کے الزام میں گرفتار ہوکر مصیبت میں مبتلا ہوچکا ہے اور اس کی وجہ سے طبعاً مکرمی بھائی صاحب کو بھی بہت پریشانی لاحق ہے۔ اس کے علاوہ وہ آج کل ٹائیفائیڈ سے بیمار بھی ہے۔ لہٰذا دوست اسے بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے شفاء اور بریّت عطا فرمائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍جولائی ۱۹۴۹ئ)










حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق بعض سوالات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی خصوصاً وہ جنہیں حضور کی زندگی میں قادیان جاکر رہنے کا موقع ملا ہو مطلع فرمائیں کہ:-
۱۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی آخری زمانہ میں حضرکی حالت میں نماز میں امام بنے؟ آخری زمانہ سے مراد جبکہ قادیان میں احباب کا آنا جانا کثرت سے شروع ہوچکا تھا اور حضر سے یہ مراد ہے کہ جب آپ قادیان میں مقیم ہوں یا کسی لمبے عرصہ کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوں اور وہاں مقیم ہوں۔
۲۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی شخص کا خطبہ نکاح خود پڑھا؟ میری مراد یہ ہے کہ کیا دعویٰ کے بعد آپ نے کسی احمدی کا خطبہ نکاح پڑھا؟
۳۔کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کسی احمدی کی شادی کے موقع پر اس کی برات میں شریک ہوئے؟
۴۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی احمدی کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی؟
۵۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اپنے اہتمام میں کسی کی دعوت ولیمہ کا انتظام کیا؟
۶۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی کی نماز جنازہ خود پڑھائی؟ یعنی کیا کبھی آپ خود نماز جنازہ میں امام بنے؟
۷۔کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی آخری زمانہ میں اعتکاف بیٹھے؟
۸۔کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی کو سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی اجازت دی؟۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍جولائی ۱۹۴۹ئ)


قادیان کے تازہ حالات
قادیان سے آئے ہوئے تازہ خطوط سے مندرجہ ذیل کوائف معلوم ہوئے ہیںجو دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کی غرض سے شائع کئے جاتے ہیں۔
۱۔ ابتدائی چند روز ے شدّت گرمی کی وجہ سے سخت گزرے مگر بعد میں بارش ہوگئی اور اس وقت تک دوتین دفعہ اچھی بارش ہوچکی ہے اور موسم میں کافی حد تک خوشگوار تبدیلی ہوگئی ہے اور تمام دوست سوائے بیماروں اور معذوروں کے باقاعدہ روزے رکھ رہے ہیں۔ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں اعتکاف بیٹھنے والوں کی تعداد ۶۳ ہے جو غالباً آبادی کی نسبت کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
۲۔ مورخہ ۱۰جولائی ۱۹۴۹ء کو عبدالسلام مہتہ پسر محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو پرمٹ کے غلط استعمال کے الزام میں سیکیورٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر۵ کے ماتحت گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں ان کی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹری سر ٹیفکیٹ پر ۵۰۰۰ روپے کی ضمانت پر رہا کیا گیا۔ گرفتاری کے وقت پولیس نے مہتہ عبدالسلام کی تلاشی بھی لی اور بعض خطوط وغیرہ اپنے ساتھ لے گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیںہوئی۔ مقدمہ کی تاریخ یکم اگست مقرر ہوئی ہے۔ احباب عبدالسلام صاحب کی صحت یابی اور بریت کے لئے دعا فرمائیں ۔ان کے والد صاحب محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سلسلہ کے نہایت مخلص بزرگوں میں سے ہیں۔
۳۔ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب واقفِ زندگی جو ایک بہت مخلص کارکن ہیں اور قادیان میں ڈاکٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ایک عرصہ سے ایگزیما کی تکلیف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان کی مجموعی صحت پر بھی بہت اثر پڑرہا ہے، ان کے لئے دعا کی جائے۔ اسی طرح بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب جو سلسلہ کے پرانے بزرگ ہیں دن بدن کمزور ہورہے ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا فرمائی جائے۔
۴۔ قادیان کی بعض مساجد فسادات کے دنوں سے شکستہ اور قابل مرمت حالت میں پڑی ہیں۔ اس کے متعلق ہمارے دوستوں نے مقامی افسروں سے درخواست کی تھی کہ ان کی مرمت کرائی جائے کیونکہ یہ مسجدیں اس حلقہ میں ہیں جو غیرمسلموں کے قبضہ میں ہے اور حکومت ہی ان کی نگران ہے۔ لیکن مقامی افسروں نے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ چونکہ ان مسجدوں کے ساتھ کوئی ایسی جائیداد ملحق نہیں ہے جو آمدن دے رہی ہو اس لئے ان کی مرمت کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ ہمارے دوستوں کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا جارہا ہے کہ اول تو مساجد جو مقدس مذہبی عبادت گاہیں ہیں عام قانون سے مستثنیٰ ہونی چاہئیں کیونکہ ایسی عمارتوں کے متعلق گورنمنٹ کی خاص ذمہ داری ہے۔ دوسرے قادیان کی سب مساجد صدرانجمن احمدیہ قادیان کے نام پر ہیں اور اس وقت انجمن کی لاکھوں روپے کی جائیداد گورنمنٹ کے قبضہ میں ہے۔ پس اس وجہ سے بھی مساجد کی مرمت ضروری ہے۔
۵۔ مورخہ ۱۱ ؍جولائی ۱۹۴۹ء کو تین احمدی جن کا تعلق احمدیہ شفاخانہ قادیان کے ساتھ ہے محلہ دارالرحمت میں ایک غیرمسلم کو دوائی دینے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے ماتحت گئے جب وہ واپس آرہے تھے تو ۹بجے شام کے قریب مسجد شیخاں کی گلی کے پاس سے گذرتے ہوئے ان پر پیچھے سے چھ سات غیرمسلموں نے لاٹھیوں سے حملہ کردیا۔ ایک دوست کو معمولی سی ضرب بھی آئی مگر وہ جلدی سے واپس آگئے اور خدا کے فضل سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ اس واقعہ کی رپورٹ پولیس کی چوکی میں کردی گئی ہے۔
۶۔ مولوی برکات احمد صاحب ناظر امورعامہ قادیان جو مولانا غلام رسول صاحب راجیکی مبلغ سلسلہ کے فرزندہیں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ سے ان کی شنوائی پر اثر پڑرہا ہے اور کچھ فاصلہ کی آواز اچھی طرح سنائی نہیں دیتی حالانکہ مولوی صاحب عمر کے لحاظ سے ابھی گویا جوان ہیں۔ دوست ان کے لئے دعا کریں اور اگر کسی ڈاکٹر کو اس بیماری کا کوئی مؤثر نسخہ معلوم ہو تو مطلع فرمائیں۔
۷۔ قادیان کے دوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ اور بہشتی مقبرہ کے باغ اوربعض دوسرے باغوں کے کچھ آم قادیان سے بھجوائے تھے جو یہاں لاہور میں عزیزوں اور دوستوں میں تقسیم کردیئے گئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍جولائی ۱۹۴۹ئ)



قادیان خط لکھتے ہوئے پتہ احتیاط سے لکھیں
امیر جماعت احمدیہ قادیان مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ پنڈت کنجبہاری لال نے قادیان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کیا ہے اور وہ یہ کہ مقامی ڈاک خانہ میں اس نے اپنا پتہ اس طرح رجسٹر کرایا ہے کہ:
’’کنج بہاری لال امیر جماعت قادیان‘‘
اس سے اس کا مقصد یہ ہے کہ جو ڈاک امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام جائے وہ اس کے پاس پہنچ جایا کرے اور یہ شرارت اس سے کرائی گئی ہے۔ اس لئے دوستوں کی اطلاع اور ہدایت کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ آئندہ قادیان میں کوئی خط محض ’’امیر جماعت قادیان‘‘ کا پتہ لکھ کر نہ بھیجا جائے۔ بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ صرف ’’امیرجماعت احمدیہ قادیان‘‘ بھی نہ لکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ امیر کا نام یعنی ’’مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل‘‘ بھی ضرور لکھا جائے۔
اسی طرح صدرانجمن احمدیہ کے باقی عہدہ داروں کے نام بھی خط لکھتے ہوئے صرف عہدہ نہ لکھا جائے بلکہ نام بھی ساتھ ضرور درج کیا جائے مثلاً صرف ناظر امورعامہ قادیان نہ لکھا جائے بلکہ مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان لکھا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل۲۲؍جولائی ۱۹۴۹ئ)




چندہ امداددرویشاں کی تازہ فہرست
سابقہ فہرست کے تسلسل میں اعلان کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل مزیددوستوں نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کے لئے ذیل کی رقوم عطاکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیردے اور دین ودنیا کی نعمتوں سے نوازے۔ آمین
۱۔
قریشی عبدالمنان صاحب رشدی ابن بابواحمد اللہ صاحب مرحوم سیالکوٹ
۰-۰-۵
۲۔
سلطانہ اقبال بیگم صاحبہ بنت بابو صاحب مذکور
۰-۰-۵
۳۔
حنیفہ طاہرہ بیگم صاحبہ بنت بابو صاحب مذکور
۰-۰-۱۰
۴۔
نذیراحمد صاحب سیال کوٹی حال لاہور
۰-۰-۵
۵۔
جماعت احمدیہ چک نمبر ۲۹۵گ۔ب ٹوبہ ٹیک سنگھ لائل پور
۰-۰-۲۴
۶۔
حمیدہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماء اللہ گولیکی۔ گجرات
۰-۰-۵
۷۔
حضرت سیدہ امّ متین صاحبہ حرم ثالث حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کوئٹہ
۰-۰-۱۰
۸۔
شیخ رحیم بخش صاحب سوداگر چرم اوکاڑہ
۰-۰-۲۵
۹۔
والدہ صاحبہ شیخ نور احمد صاحب اوکاڑہ
۰-۰-۴
۱۰۔
اہلیہ صاحبہ شیخ نور احمد صاحب اوکاڑہ
۰-۰-۱۰
۱۱۔
اہلیہ صاحبہ شیخ بشیراحمد صاحب اوکاڑہ
۰-۰-۲
۱۲۔
اہلیہ صاحبہ شیخ محمد شریف صاحب اوکاڑہ
۰-۰-۱
۱۳۔
اہلیہ صاحبہ شیخ فیروزدین صاحب اوکاڑہ
۰-۰-۱
۱۴۔
ماسٹر حاکم علی صاحب مدرس اوکاڑہ
۰-۰-۵
۱۵۔
اہلیہ صاحبہ ملک محمد مقبول صاحب گوجرانوالہ
۰-۰-۱۲
۱۶۔
بیگم بہادر شیرخاں صاحب سرحد معرفت صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ رتن باغ
۰-۰-۵۰
۱۷۔
مرزاشریف بیگ صاحب منٹگمری جیل
۰-۰-۱۰
۱۸۔
حامدہ عفت بیگم صاحبہ تعلیم القرآن کلاس ربوہ
۰-۰-۵
۱۹۔
فہمیدہ بیگم صاحبہ بیگم کیپٹن عبداللطیف صاحب مالیرکینٹ
۰-۰-۲۰
۲۰۔
صوبیدار غلام رسول صاحب وی۔ایس۔ڈی مالیرکینٹ
۰-۰-۵
۲۱۔
حلیمہ بیگم صاحبہ سیٹھی چکوال
۰-۰-۱۰
۲۲۔۱
فضل دین ،عبدالحکیم صاحبان اوکاڑہ
۰-۰-۲
۲۳۔
حکیم عبدالرحمن صاحب چک جھمرہ لائل پور
۰-۰-۱۰
۲۴۔
جماعت احمدیہ باغبان پورہ لاہور
۰-۰-۱۰
۲۵۔
میاں شمس الدین صاحب لنڈی کوتل پشاور
۰-۰-۱۰
۲۶۔
میاں سعد اللہ صاحب ترنگ زئی چارسدہ پشاور
۰-۰-۳۵
۲۷۔
ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف قادیان ومبشراحمد پسرخورد حال لاہور
۰-۰-۱۰
۲۸۔
اکرام حیدرصاحب پسر ڈاکٹر غلام حیدرصاحب لاہور
۰-۰-۵۰
۲۹۔
بشیرالدین صاحب طاہر پورن نگر سیالکوٹ
۰-۰-۲۰
۳۰۔
خواجہ محکم الدین صاحب کُھلنا مشرقی پاکستان
۰-۰-۵
۳۱۔
اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی حال گوجرانوالہ
۰-۰-۱۰
۳۲۔
نسیم نصرت صاحبہ دختر شیخ عبدالقیوم صاحب مرحوم بٹالوی
۰-۰-۱۰
۳۳۔
امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمود احمد خاں صاحب بٹالوی
۰-۰-۱۰
۳۴۔
ملک محمود احمد خاں صاحب پسر شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی
۰-۰-۱۰
۳۵۔
ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب منٹگمری
(انہوں نے مستحق درویش کے لئے ایک قمیص بھی دی ہے )
۰-۰-۵
۳۶۔
لجنہ اماء اللہ پسرور
۰-۰-۲۰
۳۷۔
نذیرہ بشیربیگم صاحبہ ایم بشیراحمد صاحب بھاگووال کلاں گجرات
۰-۰-۲۰
۳۸۔
محمد اعظم صاحب والد محمد حسین صاحب چنتہ کنٹہ (دکن)
۰-۰-۱۰
۳۹۔
والدہ صاحبہ شیخ گلزار احمد صاحب آف کلکتہ حال چنیوٹ
۰-۰-۲۰
۴۰۔
منیراحمد صاحب پسر شیخ محمد صدیق صاحب آف کلکتہ حال لاہور
۰-۰-۵
۴۱۔
…محبوب عالم صاحب راجپوت سائیکل ورکس لاہور
۰-۰-۴۰
۴۲۔
لجنہ اماء اللہ کوئٹہ بذریعہ عارفہ بیگم صاحبہ بذریعہ تار
۰-۰-۱۷۸
میزان
۰-۰-۷۱۴
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دوستوں نے افطاری یافدیہ کے لئے رقوم دی ہیں جو قادیان بھجوادی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی دین ودنیا میں بہترجزادے۔ آمین
۱۔
شیخ محمد حسین صاحب قانونگو پنشز شیخوپورہ بطورفدیہ
۰-۰-۱۰
۲۔
میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ کال ٹیکس ایجنٹ ملتان بطورفدیہ
۰-۰-۱۰۰
۳۔
میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ مذکور برائے افطاری
۰-۰-۵۰
۴۔
جماعت احمدیہ جیمزآباد (سندھ) برائے افطاری
۰-۰-۱۰
۵۔
صاحبزادی امتہ السلام بیگم (بیگم مرزارشید احمد صاحب) کراچی بطورفدیہ
۰-۰-۳۰
۶۔
نواب محمد دین صاحب مرحوم بذریعہ چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری بطورفدیہ(نوٹ: نواب صاحب مرحوم کی طرف سے -/۵۳ روپے بطور فدیہ وصول ہوئے تھے مگر ان کی نیت -/۶۰ روپے کی تھی جسے ان کے فرزند نے پورا کردیا)
۰-۰-۶۰
۷۔
اہلیہ صاحبہ قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر لاہور بطور فدیہ
۰-۰-۳۰
۸۔
ملک فضل کریم خان صاحب محمد نگر لاہور بطور فدیہ
۰-۰-۵
۹۔
چوہدری مولابخش صاحب محمد نگر لاہور بطور فدیہ
۰-۰-۳۰
۱۰۔
ڈاکٹر غلام حیدرصاحب نکلسن روڈ لاہور برائے افطاری
۰-۰-۵۰
۱۱۔
ملک غلام رسول صاحب شوق لاہور بطور فدیہ
۰-۰-۵
۱۲۔
بیگم صاحبہ میاں عبداللہ خاں صاحب رتن باغ لاہور برائے افطاری معتکفین قادیان
۰-۰-۴۰
۱۳۔
محمد حنیف صاحب منیجر ڈیری فارم مالیرکینٹ برائے افطاری
۰-۰-۲۰
میزان
۰-۰-۳۸۷
اللہ تعالیٰ ان جملہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍جولائی ۱۹۴۹ئ)


قادیان میں درسِ قرآن کے اختتام پر دعا
قادیان سے مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیرجماعت احمدیہ لکھتے ہیں کہ قادیان میں قرآن کریم کا درس انشاء اللہ ۲۶ جولائی کو ختم ہوگا اور اسی دن عصر کے بعد ساڑھے چھ بجے یا پونے سات بجے کے قریب دعا شروع ہوگی۔ سو یہ اعلان ان کی خواہش کے مطابق کرایا جاتا ہے تا جو دوست اس دعا میں غائبانہ طورپر شریک ہونا چاہیں، وہ شرکت کا ثواب حاصل کرسکیں۔
غالباً (گو مجھے اس کا پختہ علم نہیں) اسی دن اسی وقت کے قریب ربوہ میں بھی دعا ہوگی اور انشاء اللہ رتن باغ لاہور میں بھی درسِ قرآن کے اختتام پر اسی وقت کے قریب دعا ہوگی۔
کوئٹہ میں اس سال حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیماری کی وجہ سے درس نہیں دے سکے اس لئے وہاں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر بہرحال حضور رمضان کے اختتام پر لازماً زیادہ دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔
امید ہے دوست اپنی دعائوں میں وہ دس امور خاص طورپر یاد رکھیں گے جن کے متعلق میں نے الفضل مورخہ ۲۲جون ۱۹۴۹ء میں تحریک کی تھی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴؍جولائی ۱۹۴۹ئ)





قادیان میں مکانوں کے کرائے
گذشتہ کرایوں میں بھی مزید کمی کردی گئی
کچھ عرصہ ہوا میں نے قادیان کے بعض مکانوں کے وہ کرائے نوٹ کرکے الفضل میں شائع کرائے تھے جو حکومت مشرقی پنجاب نے غیرمسلم پناہ گزینوں سے چارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ کرائے مکانوں کی اصل حیثیت کے مقابلہ پر بہت ہی کم تھے بلکہ بعض صورتوں میں صرف دس فیصدی اور بعض میں صرف بیس فیصدی اور بعض میں صرف تیس فیصدی تھے۔ گویا ستر فیصدی سے لے کر نوے فیصدی تک کی رعایت تھی لیکن تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ غیرمسلم کرایہ داروں کے احتجاج پر سابقہ کرایوں میں بھی مزیدکمی کردی گئی ہے۔ چنانچہ اب بعض مکانوںکے کرائے مندرجہ ذیل مقدار میں لگائے گئے ہیں:-
۱۔
مکان ایڈیٹر صاحب نور محلہ دارالفضل
۰۔۱۱۔۴ ۔ماہوار
۲۔
مکان چوہدری غلام حسن صاحب سفید پوش محلہ دارالفضل
۰۔۰۔۴۔ماہوار
۳۔
مکان ملک غلام فرید صاحب ایم۔اے دارالفضل
۰۔۵۔۵۔ماہوار
۴۔
مکان ملک مولابخش صاحب پریذیڈنٹ ٹائون کمیٹی دارالفضل
۰۔۳۔۳۔ماہوار
۵۔
کوٹھی صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحب (تینوں حصے) دارالفضل
۰۔۵۔۲۹۔ماہوار
۶۔
کوٹھی مولوی محمد الدین صاحب ہیڈماسٹر دارالفضل
۰۔۰۔۱۰۔ماہوار
۷۔
کوٹھی میاں غلام محمد صاحب اختر دارالبرکات
۰۔۰۔۲۴۔ماہوار
۸۔
مکان خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب دارالبرکات
۰۔۵۔۷۔ماہوار
۹۔
مکان خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی دارالفضل
۰۔۵۔۱۴۔ماہوار
۱۰۔
مکان میرقاسم علی صاحب مرحوم دارالفضل
۰۔۰۔۴۔ماہوار
۱۱۔
مکان ڈپٹی فقیر اللہ صاحب دارالبرکات
۰۔۰۔۶۔ماہوار
۱۲۔
مکان حضرت مولوی شیرعلیؓ صاحب مرحوم دارالعلوم
۰۔۵۔۳۔ماہوار
۱۳۔
کوٹھی دارالسلام نواب محمد علی خان صاحب مرحوم
۰۔۰۔۲۰۔ماہوار
۱۴۔
مکان خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب دارالعلوم
۰۔۰۔۱۴
۱۵۔
کوٹھی بابو اکبرعلی صاحب مرحومؓ دارالعلوم
۰۔۰۔۱۲
۱۶۔
کوٹھی بابو عبدالعزیز صاحب دارالعلوم
۰۔۳۔۵
۱۷۔
مکان ڈاکٹر سیدولایت شاہ صاحب دارالرحمت
۰۔۱۴۔۴
۱۸۔
کوٹھی میر ظفراللہ صاحب دارالرحمت
۰۔۰۔۴
۱۹۔
مکان شیخ اللہ بخش صاحب دارالرحمت
۰۔۳۔۳
۲۰۔
مکان بھائی محمود احمد صاحب دارالرحمت
۰۔۵۔۵
۲۱۔
مکان قاضی بشیراحمد صاحب بھٹی دارالبرکات شرقی
۰۔۱۱۔۳
۲۲۔
مکان قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی دارالبرکات شرقی
۰۔۰۔۵
۲۳۔
کوٹھی دارالحمد ممکولہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ دارالانوار(دوحصے)
۰۔۰۔۱۲
۲۴۔
کوٹھی چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے دارالانوار
۰۔۵۔۳
۲۵۔
کوٹھی ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب دارالانوار
۰۔۵۔۹
۲۶۔
مکان ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب دارالانوار
۰۔۰۔۴
۲۷۔
مکان صاحبزادہ میردائود احمد صاحب دارالانوار
۰۔۵۔۳
۲۸۔
مکان ڈاکٹر شاہ نواز صاحب دارالانوار
۰۔۰۔۶
۲۹۔
کوٹھی سیدعزیزاللہ شاہ صاحب مرحوم دارالانوار
۰۔۱۰۔۱۰
۳۰۔
مکان میجر سیدحبیب اللہ شاہ صاحب دارالانوار
۰۔۱۱۔۱
۳۱۔
کوٹھی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب دارالانوار
۰۔۵۔۷
۳۲۔
کوٹھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے دارالانوار
۰۔۰۔۴
۳۳۔
کوٹھی صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دارالانوار
۰۔۱۱۔۴
۳۴۔
مکان مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر دارالانوار
۰۔۵۔۱
۳۵۔
کوٹھی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان دارالانوار
۰۔۰۔۴
۳۶۔
کوٹھی خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم انسپکٹر مدراس دارالانوار
۰۔۰۔۱۵
۳۷۔
مکان سیٹھ عبداللہ بھائی الہ دین صاحب (ہردوحصہ) دارالانوار
۰۔۰۔۱۰
اوپر کی کوٹھیوں اور مکانوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کے کمروں کی تعداد پندرہ پندرہ بیس بیس تیس تیس تھی اور بعض کے ساتھ وسیع باغات بھی ملحق تھے اور قریباً سب کے سب میں بجلی لگی ہوئی تھی اور کئی ایک میں اپنے موٹر پمپ بھی تھے ۔ صرف مثال کے طور پر اتنا ذکر کرنا کافی ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ؓ کے مکمل مکان کا کرایہ ۰/۵/۳ لگایا گیا ہے ۔ حالانکہ انہیں اس مکان کے صرف ایک حصے کا کرایہ /۵۰ مل رہا تھا۔ یہی حال دوسرے مکانوں اور دوسری کوٹھیوں کا ہے۔ جس فراخ دلی سے پاکستان میں کرائے تجویز کئے جارہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے میں خیال کرتا ہوں کہ غالبا ً اوپر کے سارے مکانوں کا مجموعی کرایہ لاہور کی ایک اچھی کوٹھی کے کرایہ سے بھی کم ہوگا۔ مثلاً سنا گیا ہے (واللہ اعلم) کہ جو دھامل کا کرایہ /۴۰۰ روپے اور رتن باغ کا کرایہ /۶۰۰روپے تجویز کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اوپر کی فہرست کی ۳۷ عدد کوٹھیوں اور مکانوں کا مجموعہ کرایہ /۱۰ /۲۸۹ روپے بنتا ہے ۔
بہر حال یہ اعداد و شمار پاکستان کی پبلک اور حکومت کے لئے بے حد قابل غور ہیںاور دونوں جہت سے اصلاح کی ضرورت ہے ۔ایک یہ کہ پاکستان میں کرائے نہایت معقول طور پر کم کئے جائیںاور دوسرے یہ کہ جو کرائے ہندوستان میں مسلمانوں کے متروکہ مکانوں کے لگائے جارہے ہیں،انہیں وزارتی لیول پر گفت وشنید کر کے اور مناسب اصول تجویز کر کے معقول صورت میں زیادہ کروایا جائے۔ ورنہ جب دونوں حکومتوں کے درمیان متروکہ جائیداد کے آخری فیصلہ کی نوبت آئے گی تو اس وقت پاکستان بے حد خسارہ میں رہے گا اور افراد کا نقصان مزید برآں ہوگا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۹ئ)





چندہ امدادِ درویشان قادیان کی تازہ فہرست
سابقہ اعلان کے تسلسل میں چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان جملہ بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو جنہوں نے میری تحریک پر اپنے درویش بھائیوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے چندہ دیا ہے۔ فجزاھم اﷲ خیراً
۱
مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی معہ اہلیہ خورد
۰…۰…۵
۲
چوہدری محمد طفیل صاحب ولدماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا
۰…۰…۳
۳
بابو سراج الدین صاحب آف محلہ دارالفضل حال لاہور
۰…۰…۵
۴
لجنہ اماء اللہ کوئٹہ حلقہ اسلام آباد بذریعہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالعزیز صاحب
۰…۰…۵۶
۵
ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب خانپور ڈھیری
۰…۰…۵
۶
مبارک احمد صاحب معاہد خان پور ہزارہ
۰…۰…۵
۷
محمد ابراھیم صاحب غلّہ منڈی جڑانوالہ
۰…۰…۱۲
۸
صفیہ بیگم صاحبہ بنت حافظ غلام رسول صاحب مرحوم وزیر آبادی
۰…۰…۵
۹
مخدوم محمد ایوب صاحب امیر جماعت بھیرہ
۰…۰…۱۰
۱۰
چوہدری نذیر احمد صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ
۰…۰…۲۰
۱۱
امتہ الحئی صاحبہ بنت محمد بشیر صاحب چغتائی گوجرانولہ
۰…۰…۲
۱۲
قریشی مطیع اللہ صاحب قادیانی حال سیالکوٹ
۰…۰…۱۰
۱۳
سیّدہ سعید ہ فاطمہ صاحبہ بنت سید ظہور الحسن صاحب مرحوم پشاور
۰…۰…۱۰
۱۴
شیخ عبدالقادر صاحب سوداگر چرم حلقہ سلطان پورہ لاہور
۰…۰…۲۵
۱۵
میاں محمد علی صاحب راعی حلقہ اسلامیہ پارک لاہور
۰…۰…۱۰
۱۶
میاں مجید احمد صاحب سیکرٹری مال لاہور
۰…۰…۵
۱۷
میاں غلام محمد صاحب ثالث معہ پسران و اہلیہ خورد بھاٹی گیٹ لاہور
۰…۰…۵
۱۸
عبدالحئی صاحب بٹ ۔سیالکوٹ
۰…۰…۱۰
۱۹
سید ابو الحسن صاحب پشاور
۰…۰…۱۰
۲۰
جماعت احمدیہ حلقہ گڑھی شاہو لاہور بذریعہ عبدالحمید صاحب عارف صدر حلقہ
۰…۰…۱۱
۲۱
شیخ محمد حسین صاحب چمڑا منڈی لاہور
۰…۰…۵
۲۲
عبدالمنعم نعیم صاحب ابن عبدالغفور صاحب کڑک لاہور
۰…۰…۱۰
۲۳
ایک خاتون سکنہ قادیان ثم ماڈل ٹائون حال کوہ مری (انہوں نے اپنا نام ظاہر کرنیکی اجازت نہیں دی)
۰…۰…۵۰
۲۴
ڈاکٹر محمد دین صاحب آف قادیان حال لنڈی کوتل
۰…۰…۲۰
۲۵
شیخ عبدالمالک صاحب سپرنٹنڈنٹ ڈرائنگ آفس ریلوے لاہور
۰…۰…۱۰
۲۶
اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالمالک صاحب مذکور
۰…۰…۵
۲۷
شمیم شوکت صاحبہ بنت شیخ عبدالمالک صاحب مذکور
۰…۰…۵
۲۸
ملک عبدالوہاب صاحب طالبعلم مغلپورہ کالج
۰…۰…۵
کل میزان
۰…۰…۳۳۹
نوٹ:۔ ( موخر الذکر چار اصحاب نے یہ رقم قادیان کے دوستوں کے لئے فدیہ کے طور پر دی ہے)
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے افطاری اور فدیہ کے طور پر ذیل کی رقوم دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے:۔
۱
چوہدری غلام حسین صاحب آف سفید پوش آف محلہ دارالفضل حال لائلپور بطور فدیہ
۰…۰…۲۵
۲
لجنہ اماء اللہ کوئٹہ حلقہ اسلام آباد بذریعہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالعزیز صاحب
۰…۱۲…۱۱۴
۳
حکیم فضل محمد صاحب معہ اہلیہ خورد پبی ضلع پشاور
۰…۰…۱۵
۴
چوہدری نذیر احمد صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ برائے افطاری
۰…۰…۲۰
۵
اہلیہ صاحبہ کیپٹن شیخ نواب الدین صاحب ڈرگ روڈ کراچی بطورفدیہ
۰…۰…۱۵
۶
سردار غلام حیدر صاحب گڑھی شاہو لاہور بطور فدیہ
۰…۰…۲
۷
اہلیہ سردار غلام حید ر صاحب مذکور
۰…۰…۲
۸
چوہدری فتح محمد صاحب آف کالرا دیوان سنگھ حال کرشن نگر لاہور
۰…۰…۷
کل میزان
۰…۱۲…۲۰۰
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍جولائی ۱۹۴۹ئ)
قادیان جانے کے لئے اپنا نام پیش کرنے والے دوست توجہ کریں
۱۔ جن دوستوں نے قریباً ایک سال ہوا قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کئے تھے اور پھر کانوائے کا انتظام نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ نہیں جاسکے اور اس کے بعد پرمٹ سسٹم جاری ہوجانے پر ان کی طرف سے درخواستیں بھی پُر کرکے متعلقہ محکمہ میں بھجوائی جاچکی ہیں وہ مہربانی کرکے اپنے موجودہ پتوں سے بہت جلد اطلاع دیں اور اپنے وعدہ کے مطابق بلائے جانے پر قادیان جانے کے لئے تیار رہیں۔
۲۔ اس کے علاوہ اگر کوئی مزید دوست قادیان جانے کے لئے اپنا نام پیش کرنا چاہتے ہوں تو وہ بھی دفترہذا کو اطلاع دے کر ممنون کریں۔ لیکن یہ خیال رہے یہ جانا مستقل رہائش کی غرض سے ہوگا تاکہ جو دوست قادیان سے واپس آنے والے ہیں انہیں فارغ کیا جاسکے۔ اس غرض کے لئے زیادہ تر قادیان اور اس کے ماحول کے دوستوں کو درخواست دینی چاہیئے۔ دنیا کے دھندوں سے فارغ ہوکر قادیان کے خالص دینی اور روحانی ماحول میں زندگی گذارنے اور خدمت مرکز بجالانے کا یہ ایک نادر موقع ہے۔گو یہ انتظام بہرحال حکومت کی طرف سے اجازت ملنے پر ہی ہوسکے گا۔ فی الحال صرف فہرست مکمل کرنے کا سوال ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍ جولائی ۱۹۴۹ئ)




قادیان میں ایک درویش کی تشویشناک بیماری
۱۔ قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ مجید احمد صاحب موٹر ڈرائیور چند دن سے بہت سخت بیمار ہیں اور حالت تشویشناک ہے۔ مجید احمد ایک مخلص نوجوان ہے اور بڑے شوق کے ساتھ ہر خدمت میں حصہ لیتا رہا ہے۔ احباب اس کی صحت کے لئے خاص طورپر دعا فرمائیں۔
۲۔ نیز ڈاکٹر بشیراحمد صاحب بھی جوقادیان کی احمدیہ ڈسپنسری کے انچارج ہیں، ایک عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں۔ انہیں ایگزیما کی تکلیف ہے جس کا بار بار دورہ ہوتا ہے اور دورہ کے ایام میں تکلیف انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نہایت مخلص کارکن اور واقف زندگی ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کی جائے۔
۳۔ عبدالسلام صاحب مہتہ کے متعلق دو دفعہ دعا کی تحریک کی جاچکی ہے۔ اب ٹائیفائیڈ کا بخار تو اتر چکا ہے لیکن ابھی کمزوری کافی ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے عبدالسلام قانون پرمٹ کے ماتحت گرفتار ہے اور اس وقت ضمانت پر رہا ہے جس کی میعاد ۱۵؍ اگست کو ختم ہورہی ہے۔ عبدالسلام کے والد محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نہایت مخلص اور قدیم بزرگوں میں سے ہیں۔ اس کے لئے بھی احباب دعا جاری رکھیں۔
۴۔ اس کے علاوہ قادیان میں بعض ضعیف العمر مثلاً بابا شیر محمد اور میاں صدرالدین انتہائی کمزوری کی حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ انہیں بھی دوست اپنی دعائوں میں یاد رکھ کر عنداللہ ماجورہوں۔ وَمَنْ کَانَ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ عَوْنِہٖ۔۶۶
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ اگست ۱۹۴۹ئ)



مبارک بادوں کا شکریہ
میرے چھوٹے لڑکے عزیزمجید احمد سلمہٗ کے ایم۔اے (تاریخ) کے امتحان میں پاس ہونے پر بہت سے عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں نے مبارکباد کے تار اور خط ارسال کئے ہیں۔ میں ان سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
دراصل مومنوں کی جماعت اپنے خوشی اور غم کے موقعوں پر ایک دوسرے کے سہارے پر قائم ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے سہارے سے راحت ا ورتسکین اور مضبوطی حاصل کرتی ہے کہ یہی جماعت کے نظریہ کا مرکزی نقطہ ہے۔ مگر میں دوستوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اس خوشی کی شرکت کے علاوہ دعا فرمائیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عزیز مجید احمد کو علم کا ظاہری معیار پورا کرنے کی توفیق دی ہے اسی طرح اسے حقیقی علم سے بھی نوازے اور پھر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔ آمین، کہ یہی ہماری زندگیوں کا اصل مقصد اور منتہا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ اگست ۱۹۴۹ئ)






شیخ مشتاق احمد صاحب کے لئے دعا کی تحریک
محترمی شیخ مشتاق احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور خاص مخلصین میں سے ہونے کے علاوہ مکرمی شیخ بشیراحمد صاحب امیرجماعت احمدیہ لاہور کے والد ہیں۔ ایک عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں۔ قریباً ڈیڑھ ماہ سے جبکہ ان کی رفیقۂ حیات فوت ہوئی ہیں ان کی حالت زیادہ نازک اور زیادہ تشویشناک ہوگئی ہے۔ بلڈپریشر کے علاوہ دل اور اعصاب پر بھی اثر ہے اور اکثر اوقات نیم بیہوشی اور کبھی کبھی پوری بے ہوشی کی حالت رہتی ہے۔ احباب سے درخواست ہے کہ شیخ صاحب محترم کو اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔ جوں جوں صحابہ کی مقدس جماعت کا وجود کم ہوتا جاتا ہے توں توں ان کی قدربڑھ رہی ہے اور بڑھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ مسیح کے ان مقدس رفقاء کو تادیر سلامت رکھے اور حافظ وناصر ہو کیونکہ یہ ایک بیش بہا قومی خزانہ ہے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)






چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست
گذشتہ شائع شدہ فہرست کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں نے امداد درویشان کی غرض سے رقوم ادا کی ہیں ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیردے اور دین ودنیا کی نعمتوں سے نوازے اور جس طرح انہوں نے اپنے بھائیوں کی امداد کی ہے اللہ تعالیٰ ان کی تکلیفوں وحاجتوں میں ان کا حافظ وناصر ہو۔ آمین یااَرْحم الراحمین
۱۔ لجنہ اماء اللہ مانگٹ اونچے بذریعہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد شریف صاحب
۰-۰-۵۷
۲۔جماعت احمدیہ علی پور ملتان بذریعہ مولوی نور محمد صاحب اوورسیرٔ)یہ جماعت پہلے بھی معقول رقم دے چکی ہے)
۰-۰-۱۰۰
۳۔اہلیہ صاحبہ عبدالسمیع صاحب کپورتھلوی محلہ رام پورہ پشاور
۰-۰-۲
۴۔چوھدری عزیز احمد صاحب بشیر آباد اسٹیٹ سندھ (انہوں نے دس روپے حضرت صاحب کے صدقہ کے طور پر بھی بھجوائے ہیں)
۰-۰-۵
۵۔جماعت احمدیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ،بذریعہ پیر محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال
۰-۰-۱۳
۶۔لجنہ اماء اللہ لائل پور بذریعہ امتہ الرئوف بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب دیالگڑھی۔
۰-۴-۳۶
۷۔بیگم صاحبہ کیپٹن ایچ اے کلیم بہاولپو ر ضلع سیالکوٹ
۰-۰-۵
۸۔ممتاز علی صاحب دیپال پور ضلع منٹگمری
۰-۰-۱۰
۹۔ڈاکٹر خیرالدین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ خانقاہ ڈوگراں
۰-۰-۱۰
۱۰۔غلام قادر صاحب مشرق سکندر آباد دکن
۰-۰-۱۵
۱۱۔سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ شیخ مشرق صا حب مذکور
۰-۰-۱۵
۱۲۔نذیر احمد صاحب پسر مشرق صاحب مذکور
۰-۰-۱۰
۱۳۔عظیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ نذیر احمد صاحب مذکور
۰-۰-۵
۱۴۔علیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام حسین کرم علی صاحب سکندر آباد دکن
۰-۰-۵
۱۵۔خان بہادر محمد دلاور خانصاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر پشاور حال کوہ مری
۰-۰-۳۰
۱۶۔آغا عبدالرحیم صاحب آف قادیان حال ماڈل ٹائون لاہور
۰-۰-۱۰
۱۷۔فاضل شاہ صاحب حال سیالکوٹ
۰-۰-۵
۱۸۔مرزا مظفر احمد صاحب ڈی۔سی ۔ میانوالی (ان کی طرف سے چیک کی وصولی کا پہلے اعلان ہوچکا ہے اب یہ چیک کیش ہوکر آیا ہے )
۰-۰-۵۰
۱۹ ۔ حمید ہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میجر ایم ایس احمد صاحب لاہور چھائونی (چیک اب کیش ہوکر آیا ہے )
۰-۰-۲۰
۲۰۔ ڈاکٹر سیّد رشید احمد صاحب کوئٹہ بمعہ اہلیہ و دختران (چیک اب کیش ہو کر آیاہے)
۰-۰-۴۰
۲۱۔شیخ منورحسین صاحب وکیل منڈی بہائوالدین از طرف متفرق احباب
۰-۰-۱۵
۲۲۔مولوی عبدالکریم صاحب نواں محلہ جہلم معرفت مبارک احمد صاحب ایم ایس سی ( ابھی تک تفصیل نہیں پہنچی )
۰-۰-۲۵
۲۳۔میاں دوست محمد صاحب حجانہ ڈیرہ غازیخان
۰-۰-۵
۲۴۔چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری حال ڈسکہ ضلع سیالکوٹ
۰-۰-۱۰۰
۲۵۔صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب آف قادیان حال کراچی
۰-۰-۲۰
۲۶۔ایم محمد دین صاحب خادم سیکرٹری مال جماعت احمدیہ کبیر والا ضلع ملتان(تفصیل ابھی تک نہیں پہنچی)
۰-۰-۲۵
۲۷۔نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر حیدر آباد دکن (نواب صاحب نے لکھا ہے کہ کچھ رقم براہ راست بھی قادیان بھجواچکے ہیں )
۰-۰-۵۰
۲۸۔چوہدری عبدالرحیم صاحب بی ۔اے سکنہ انبالہ حال چک نمبر ۲۹۵گ۔ب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰-۰-۵
۲۹۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب کراچی(چیک اب کیش ہو کر آیا ہے)
۰-۰-۱۰۰
۳۰۔ایک صاحب معرفت عبدالحئی صاحب بٹ سیالکوٹ
۰- ۰- ۳۱۳
میزان رقوم امداد درویشاں
۰۔۴۔۱۰۹۱
اس کے علاوہ مندجہ ذیل بہنوں اور بھائیوں نے بعض رقوم فدیہ اور افطاری وغیرہ کے طور پر بھی ارسال فرمائیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے ۔ آمین
۱۔اہلیہ صاحبہ ممتاز علی صاحب دیپال پور ضلع منٹگمری بطور فدیہ
۰۔۰۔۲۰
۲۔نذر حسین صاحب تھانیدار دیپالپور
۰۔۰۔۲۰
۳۔راجہ محمد افضل صاحب کو وال ضلع جہلم بطور فطرانہ (قادیان بھجوانے کے لئے )
۰۔۰۔۳
۴۔مولوی نور محمد صاحب اوورسیرٔ امیر (جماعت احمدیہ علی پور بطور صدقہ قادیان بھجوانے کیلئے)
۰۔۰۔۵
۵۔منشی محمد مستقیم صاحب سیکرٹری مال علی پور بطور صدقہ (قادیان بھجوانے کیلئے )
۰۔۰۔۵
۶۔طاہرہ بیگم صاحبہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر جودھا مل بلڈنگ لاہور (بطور صدقہ قادیان بھجوانے کیلئے )
۰۔۰۔۱۰
میزان رقوم فدیہ وغیرہ
۰۔۰۔۶۳
ابھی رقوم آرہی ہیں اور بعض رقوم کے چیک آچکے ہیں مگر ابھی تک کیش نہیں ہوئے ان کے بعد ہی اعلان کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے اور حاظ و ناصر ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍ اگست ۱۹۴۹)








قادیان کے سابقہ اور موجودہ کرائے
۲۶ جولائی ۱۹۴۹ء کے الفضل میں میں نے قادیان کے بعض مکانات کے موجودہ کرائے نوٹ کرکے شائع کئے تھے جو اس وقت غیرمسلم پناہ گزینوں سے وصول کئے جارہے ہیں۔ اسی تعلق میں ذیل کے اعدادوشمار بھی دوستوں کی دلچسپی کا موجب ہوں گے۔ اس فہرست کے پہلے خانہ میں وہ کرائے دکھائے گئے ہیں جو تقسیم پنجاب سے قبل مقامی میونسپل کمیٹی نے ہائوس ٹیکس کی غرض سے تشخیص کئے تھے اور دوسرے خانہ میں وہ کرائے دکھائے گئے ہیں جو موجودہ ایام میں غیرمسلم پناہ گزینوں سے چارج کئے جارہے ہیں۔ دونوں کا فرق ظاہر وعیاں ہے جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیئے کہ جو کرائے میونسپل کمیٹی نے ہائوس ٹیکس کی غرض سے تشخیص کئے تھے وہ عموماً ان کرایوں سے کافی کم تھے جو مالکان مکان عملاًخود چارج کرتے تھے اس طرح یہ فرق اور بھی زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے۔ بہرحال دونوں قسم کے کرائے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
نمبر شمار
نام مالک مکان
سابقہ کرایہ مطابق
تشخیص میونسپل کمیٹی
موجودہ کرایہ
کیفیت
۱۔
صاحبزادہ کیپٹن مرزا شریف احمد صاحب
۰-۰-۴۰
۰-۵-۲۹
۲۔
حضرت مولوی شیرعلی صاحب بی۔اے مرحوم
۰-۰-۱۷
۰-۵-۳
۳۔
خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب ریٹائرڈ گیریزن انجینئر
۰-۰-۷۴
۰-۰-۱۴
۴۔
حضرت امیرالمومنین امام جماعت احمدیہ (کوٹھی دارالحمد)
۰-۰-۵۰
۰-۰-۱۲
۵۔
چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے سابق ایم ایل اے
۰-۸-۳۷
۰-۵-۳
۶۔
ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب بی۔اے ایل۔ایل۔بی پی ۔سی۔ ایس
۰-۰-۲۵
۰-۵-۹
۷۔
شیخ اللہ بخش صاحب ریٹائرڈ ایکسائز انسپکٹر
۰-۰-۱۳
۰-۳-۳
۸۔
ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال
۰-۰-۱۵
۰-۰-۴
۹۔
صاحبزادہ میرزا دائود احمد صاحب بی۔ایس۔سی
۰-۰-۱۵
۰-۵-۳
۱۰۔
کیپٹن ڈاکٹر شاہ نواز صاحب ایم بی بی ایس
۰-۰-۱۵
۰-۰-۶
۱۱۔
سیدعزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم فارسٹ آفیسر
۰-۰-۴۵
۰-۱۰-۱۰
۱۲۔
میجر سیدحبیب اللہ شاہ صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات
۰-۸-۱۲
۰-۱۱-۱
۱۳۔
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ
۰-۰-۲۵
۰-۵-۷
۱۴۔
مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے سابق امام مسجد لنڈن
۰-۰-۱۵
۰-۰-۴
۱۵۔
صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحب ایم۔اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج
۰-۰-۲۵
۰-۱۱-۴
۱۶۔
ملک عمر علی صاحب بی۔اے رئیس ملتان
۰-۸-۲۱
۰-۰-۴
۱۷۔
خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ایم۔اے ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز
۰-۸-۳۱
۰-۰-۱۵
۱۸۔
سیٹھ عبداللہ بھائی الہٰ دین صاحب تاجر حیدرآباد
۰-۰-۳۰
۰-۰-۱۰

نوٹ:- ان سب کوٹھیوں میں بجلی لگی ہوئی تھی اور کئی ایک میںموٹر پمپ بھی تھے جن سے ملحقہ باغ سیراب ہوتا تھا اور ان میں سے بعض میں پندرہ پندرہ بیس بیس پچیس پچیس رہائشی کمرے تھے اور جو کرائے بعض مالکان ذاتی طورپر وصول کرتے تھے وہ موجودہ کرایوں سے آٹھ آٹھ دس دس گنا زیادہ تھے۔ اس تعلق میں اخبار الفضل مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۴۹ء کا صفحہ دوم بھی ضرور ملاحظہ فرمایا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ اگست ۱۹۴۹ئ)


قادیان میں ایک معمر درویش کی وفات
امیرجماعت احمدیہ قادیان اطلاع دیتے ہیں کہ قادیان میں بابا شیرمحمد صاحب وفات پاگئے ہیں۔ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بابا شیر محمد صاحب مرحوم کی عمر کم وبیش ۹۰ سال کی تھی اور قادیان جانے والے آخری کنوائے میں اسی نیت اور ارادے کے ساتھ گئے تھے کہ وہیں وفات پانے کی سعادت حاصل کریں گے۔ جہاں تک مجھے علم ہے مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور موصی بھی تھے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق چند دن ہوئے میں نے الفضل میں دعا کی تحریک کی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ وناصر ہو۔
قادیان کے موجودہ دورمیں باباشیرمحمد صاحب دوسرے درویش ہیں جو قادیان میں فوت ہوئے۔ اس سے قبل گذشتہ سال حافظ نور الٰہی صاحب کی وفات ہوئی تھی ایک اور درویش بھی وفات پاچکے ہیں وہ اپنی بیماری کے آخری لمحات میںلاہور پہنچ گئے تھے اور یہیں تین دن بعد ان کی وفات ہوئی۔ ان کا نام میاں حسن محمد تھا۔ احباب ان سب مرحومین کے واسطے دعا کرنے کے علاوہ قادیان کے باقی دوستوں کے لئے بھی دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ وناصر ہو اور ان کے وجود کو جماعت کے لئے برکت ورحمت کا موجب بنائے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍ اگست ۱۹۴۹ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
احمدی شہدا کی فہرست درکار ہے
احباب جماعت توجہ فرمائیں
گو ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز طوفان میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا جانی نقصان نسبتاً بہت کم ہوا۔ تاہم جیسا کہ اس قسم کے عام ہنگامہ میں ہوا کرتا ہے، کئی احمدی افراد شہید ہوئے اور خود مرکز سلسلہ یعنی قادیان میں بھی بعض لوگوں نے ان فساد ات میں شہادت پائی ۔چونکہ ایسے دوستوں کے اسماء مرتب کرکے محفوظ کرلینا ضروری ہیں اور سلسلہ کی تاریخ کا ایک اہم ورق ہے اس لئے احباب جماعت کو تحریک کی جاتی ہے کہ ان کے علم میں جو جو احمدی افراد (مرد اور عورت اور بچے اور بوڑھے) گذشتہ فسادات میں شہید ہوئے ہوں، ان کی فہرست مرتب کرکے خاکسار راقم الحروف کو ارسال فرمادیں۔ میری دانست میں احمدی شہداء کی سب سے بڑی تعداد ریاست پٹیالہ سے تعلق رکھتی ہے اور نسبتی لحاظ سے سب سے کم لوگ قادیان میں شہید ہوئے ہیں۔ البتہ ضلع گورداسپور کے بعض دوسرے مقامات مثلاً موضع ونجواں اور موضع فیض اللہ چک میں احمدی شہداء کی تعداد کافی رہی ہے۔ اسی طرح اضلاع جالندھر اور ہوشیار پور میں بھی غالباً یہ تعدادزیادہ ہوگی۔ بہرحال جس جس جگہ احمدی شہید ہوئے ہوں وہاں کے دوستوں کو چاہیئے کہ یہ فہرست جلد ترمرتب کرکے مجھے بھجوادیں۔ اس فہرست میں ذیل کے کوائف درج کئے جائیں:-
۱۔ نام شہید ۲۔ ولدیت ۳۔سکونت ۴۔ضلع
۵۔تاریخ شہادت اگر یاد ہو اور ۶۔ مختصر کوائف شہادت اگر معلوم ہوں
میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس تاریخی ریکارڈ کی طرف کماحقہ توجہ دے کر ممنون فرمائیں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل۱۳ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)


قادیان میں ایک نیا فتنہ
احباب اپنے دوستوں کے لئے دعا فرمائیں
چند دن ہوئے اخبار الفضل میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے اللہ رکھا سکنہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان کے متعلق اخراج از جماعت اور مقاطعہ کا اعلان شائع ہوا تھا اور حضور نے یہ بھی لکھا تھا کہ اندیشہ ہے کہ یہ شخص کوئی فتنہ نہ برپا کرے کیونکہ وہ مخالفوں کے ساتھ مل کر شرارت پرآمادہ ہے۔
اسی تعلق میں آج قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ اللہ رکھا مذکور نے ہمارے بعض دوستوں کے خلاف قادیان کے مقامی مجسٹریٹ سردار امولک سنگھ کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۰۷ کے ماتحت حفظِ امن کا دعویٰ دائر کردیا ہے جن کی تہہ میں سوائے شرارت اور فتنہ انگیزی کے اور کوئی غرض مدنظر نہیں ہے اور یہ دعویٰ سراسر جھوٹ اور افتراء پر مبنی ہے۔ تعداد افراد درویشان جن کے خلاف درخواست دی گئی ہے ستائیس ہے جن میں مولوی برکات احمد صاحب بی۔اے اور ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے اور ڈاکٹر بشیراحمد صاحب صوبیدار مولوی برکت علی صاحب ، صوفی عبدالقدیر صاحب بدوملہوی، فضل الٰہی صاحب ، بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار اور منشی محمد صادق صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو اس شر سے محفوظ رکھے اور حافظ وناصر ہو۔ تاریخ سماعت ۱۶؍ اگست مقرر ہوئی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ اگست ۱۹۴۹ئ)



سیرۃ المہدی کے متعلق دوستوں کا مشورہ
جیسا کہ دوستوں کو علم ہے اس وقت میری تصنیف سیرۃ المہدی کے تین حصے شائع ہوچکے ہیں اور خدا کے فضل سے اس کا چوتھا حصہ زیر طباعت ہے ۔چونکہ میر ایہ طریق رہا ہے کہ ہر بعد والے حصہ میں سابقہ حصہ کی قابل تشریح روایات کی ضروری تشریح درج کردیاکرتا ہوں۔ اس لئے اگر دوستوںکے علم میں سیرۃ المہدی حصہ سوم کی کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے اور اس سے پہلے اس کی تشریح نہ ہوچکی ہو تو مجھے اطلاع دے کر ممنون فرمائیں بلکہ اگر حصہ اول اور حصہ دوم کی کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے اور اس سے پہلے اس کی تشریح نہ ہوچکی ہوتو اس کے متعلق بھی مطلع فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ اگست ۱۹۴۹ئ)







امداددرویشان کی تازہ فہرست
سابقہ اعلان کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں نے امداد درویشان کی مد میں چندہ دیا ہے ان کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیردے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔ آمین
۱۔
لیڈی ڈاکٹر ایس اختر صاحبہ کوئٹہ
۰-۰-۲۰روپے
۲۔
سردار بشیراحمد صاحب اورسیئررسول حال کوئٹہ
۰-۰-۳
۳۔
احمددین صاحب ہیڈ سٹورکیپر کھیوڑہ
۰-۰-۱۰
۴۔
چوہدری محمدمختار صاحب ٹھیکیدار قلعہ صوبہ سنگھ
۰-۰-۲۵
۵۔
میاں محمد امین صاحب زرگر قلعہ صوبہ سنگھ
۰-۰-۱۰
۶۔
آمنہ بیگم صاحبہ بنت مولوی قطب الدین صاحب آف کالکا حال کوئٹہ
۰-۰-۵
۷۔
نذیراحمد خان صاحب آرٹیلری میدان کراچی
۰-۰-۱۰
۸۔
نواب اکبر یارجنگ صاحب بہادر حیدرآباد دکن
۰-۰-۴۰
۹۔
محمدمسعود شاہ صاحب انسپکٹر پولیس لاہور
۰-۰-۵
۱۰۔
جمعدار محمد امین صاحب معہ والدہ واہلیہ وبچگان ضلع سیالکوٹ
۰-۰-۱۰
۱۱۔
زہرہ اشفاق بیگم صاحبہ اہلیہ کیپٹن محمد صفدر صاحب اوٹی ایس کوہاٹ
۰-۰-۲۰
۱۲۔
جماعت احمدیہ کوچہ چابک سواراں لاہور معرفت بابوفضل دین صاحب
۰-۰-۲۷
۱۳۔
محمد صدیق صاحب قادیانی غلہ منڈی گکھڑ(برائے لنگرخانہ قادیان)
۰-۰-۵
۱۴۔
شیخ محمدبشیرصاحب آزاد ابنالوی حال مرید کے
۰-۰-۵
۱۵۔
نذیراحمد خان صاحب ادرھامحل آرٹیلری میدان کراچی
۰-۰-۳۰
۱۶۔
اہلیہ صاحبہ شیخ نواب دین صاحب کیپٹن ڈرگ روڈ کراچی بطورفدیہ
(ان کی طرف سے مورخہ ۲۵جولائی ۱۹۴۹ء کو ۳۰روپے آئے تھے مگرغلطی سے ۲۸ جولائی کے الفضل میں پندرہ روپے کا اعلان ہوا۔ لہٰذا بقیہ پندرہ روپے کا اب اعلان کیا جاتا ہے۔)
۰-۰-۱۵
میزان
۰-۰-۲۴۰ روپے
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍ اگست ۱۹۴۹ئ)
کیا موجودہ کمزوری کے بعد پھر بھی طاقت کا زمانہ آئے گا؟
کیا یہ خوف کے دن کبھی پھر بھی امن سے بدلیں گے؟
ان سوالوںکا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں ملے گا
گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں جو بھاری زلزلہ ملک میں آیاہے اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو بھی (سوائے ایک نہایت قلیل اور محصور حصہ کے) اپنے مرکز قادیان سے نکلنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے غیراز جماعت لوگ تو حسب عادت اعتراض اور طعن کا رنگ اختیار کرہی رہے ہیں اور ان کا یہ رویہ قدیم الٰہی سنت کے مطابق ہے جو ہمیشہ سے خدائی جماعتوں کے ساتھ چلی آئی ہے۔ لیکن خود جماعت کا ایک کمزور حصہ بھی اس قسم کے شکوک میں مبتلا ہورہا ہے کہ کیا موجودہ قیامت خیز حالات کے بعد پھر بھی کبھی قادیان کی بحالی ہوگی اور کیا جماعت کی موجودہ کمزوری اور انتشار کی حالت کے بعد پھر بھی کبھی طاقت کا زمانہ آئے گا اور کیا موجودہ خوف کے دن پھر بھی کبھی امن کے ایام کو جگہ دیں گے؟
یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات جماعت کے ایک قلیل حصہ کو جو خدائی سنت کی پوری واقفیت نہیں رکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کے مطالعہ کرنے کا بھی عادی نہیں،وقتاً فوقتاً پریشان کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات متعدی امراض کی طرح مضبوط حصہ کی پریشانی کا موجب بھی بن جاتے ہیں۔اس لئے نہیں کہ اس مضبوط حصہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور خدائی بشارتوں پر یقین نہیں بلکہ اس لئے کہ مطالعہ کی کمی کی وجہ سے یا غور کی عادت نہ ہونے کی بناء پر انہیں ان الہاموں کا علم نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارہ میں ہوچکے ہیں اور جن پر سچے مومنوں کی جماعت کامل یقین رکھتی اور انہیں خدائے علیم وقدیر کا اٹل وعدہ سمجھتی ہے۔
ایسے لوگوں کے لئے ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض الہامات مختصر ترجمہ اور تشریح کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست نہ صرف ان الہاموں کا مطالعہ کریں گے بلکہ غور وخوض کے ساتھ مزید بشارتوں کا علم حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں گے اور اپنے آپ کو ایمان و عرفان کی ایسی مضبوط چٹان بنائیں گے جس کے ساتھ جو شخص بھی ٹکراتا ہے وہ پاش پاش ہوجاتا ہے اور وہ جس شخص پر بھی گرتی ہے اسے ریزہ ریزہ کرکے چھوڑتی ہے ۔یقینا ایمان کو وہ طاقت حاصل ہے جو فلک بوس پہاڑوں کو توڑ سکتی ہے اور اتھاہ پانیوں کو کاٹ سکتی ہے اور لق ودق جنگلوں کو ایک قدم واحد میں عبورکرسکتی ہے اور ہوا کو نہ نظر آنے والی فضائوں کو اپنی تیز رفتاری کے ساتھ اس طرح طے کرسکتی ہے جس طرح نور کی کرنیں اندھیرے کی چادرکو پھاڑ کر نکل جاتی رہیں مگر کتنے ہیں جنہیں یہ ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ۶۷۔ بہرحال میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صرف ایک الہام پیش کرتا ہوں۔ ہمارے دوست اس الہام کے الفاظ پر غور کریں اور دیکھیں کہ کس لطیف انداز میں اور کس شان کے ساتھ آنے والے خطرات اور پھر ان خطرات سے جماعت کے طریقِ نجات کا ذکر کیا گیا ہے۔ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ:
نَرُدُّاِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ وَنُبَدِّلَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوفِکَ اَمْناً وَقَالُوْآ اَنّٰی لَکَ ھٰذَاْ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیبٌ وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَاقْبَالِہٖ قَدْجَآئَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَ بُ یَخِرُّوْنَ عَلٰی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ۔۶۸
’’یعنی ہم تجھے (ایک درمیانی کمزوری کے بعد) پھر دوبارہ غلبہ عطاکریں گے اور تیری خوف کی حالت کو پھر امن کی حالت سے بدل دیں گے۔ اور (اس درمیانی کمزوری کے زمانہ میں) لوگ حیران ہوہوکر پوچھیں گے کہ یہ غلبہ تجھے پھر دوسری بار کس طرح حاصل ہوگا ۔تو ایسے لوگوں سے کہہ دے کہ میراخدا عجیب وغریب قدرتوں کا مالک ہے وہ اپنی قدرت نمائی سے یہ سارا تغیر پیدا کریگا۔ اور اے مرد مومن تو خدا کی رحمت اور نصرت سے کسی حال میں بھی مایوس مت ہو یوسف کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح ایک ویران اور تاریک کنوئیں کے گڑھے سے اٹھ کر بلندترین اقبال کو پہونچا۔ ہاں ہاں دیکھ کہ فتح کا وقت آرہا ہے یا کہ فتح قریب ہے اس وقت جب کہ یہ مقدر فتح آئے گی شک کرنے والے لوگ اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے اور نادم ہو ہوکر خدا سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے آقا ہمیں معاف فرما۔ ہم بیشک غلطی پر تھے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام کسی تبصرہ کا محتاج نہیں۔ اور یقینا وہ وقت آنے والا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی کہ خدا تعالیٰ اپنی عظیم الشان قدرتوں کے ساتھ جماعت کو پھر دوبارہ غلبہ عطاکرے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا اور یقینا اس وقت وہ لوگ جو آج اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے شکوک میں مبتلا ہوکر پوچھتے ہیں کہ یہ وقت کس طرح آئے گا اور جماعت کی کمزوری کا دور کس طرح پھر دوبارہ طاقت اور غلبہ کے دور میں بدلے گا۔ وہ اپنی غلطی کا اقرار کرکے خدا کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گریں گے اور اس بات پر ایمان لائیں گے کہ حق وہی تھا جو خدا نے بتایا اور یہ کہ ہمارے خدا کی عجیب وغریب قدرتوں کے مقابلہ پر کوئی بات بھی انہونی نہیں۔
ہاں ہاں پھر دوبارہ دیکھو اور غورکرو کہ کس طرح اس مختصر سے الہام میں جو اوپر درج کیا گیا ہے اس درمیانی ابتلاء اور اس کے بعد کے غلبہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا مصورِ قدرت کے دستِ ازل نے اس تصویر کی ہر نوک پلک پہلے سے اس طرح تیار کررکھی ہے کہ تصویر کے مختصر ہونے کے باوجود اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا نقش بھی باہر نہیں رہ گیا۔ چنانچہ:
۱۔ سب سے پہلے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
نَرُدُّ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ
’’یعنی ہم تیری درمیانی کمزوری کے بعد تجھے پھر دوبارہ غلبہ عطاکریں گے‘‘
اس عبارت میں جو ’’دوبارہ غلبہ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان میںیہ صریح اشارہ مقصود ہے کہ یہ دوبارہ آنے والا غلبہ ایک درمیانی کمزوری کے بعد آئے گا کیونکہ جب تک کوئی درمیانی زمانہ کمزوری کا زمانہ نہ ہو ’’دوبارہ غلبہ‘‘ کے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اور اس طرح اس مختصر سے فقرہ میںموجودہ کمزوری اور انتشار کے زمانہ کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے یعنی پہلے ایک درمیانی زمانہ کمزوری اور انتشار کا آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرے غلبہ کا دور شروع ہوگا۔
۲۔اس کے بعد خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ :
نُبَدِّلَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوفِکَ اَمْنَا
’’یعنی ہم تیرے خوف کے زمانہ کو پھر امن کے زمانہ سے بدل دیں گے۔‘‘
ان الفاظ میں اوپر والے الہام کی تشریح کے علاوہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ درمیانی کمزوری کا زمانہ جماعت کے لئے خوف کا زمانہ ہوگا جس میں اسے کئی قسم کے اندرونی اور بیرونی خوفوں اور خطروں سے دوچار ہونا پڑے گا مگر یہ کہ بالآخر خدا اس خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا اور امن کے لفظ میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ اپنے غلبہ کے زمانہ میں بھی ظلم کا طریق اختیار نہیں کرے گی بلکہ اندرونی امن کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی امن کی بھی علم بردار ہوگی۔
۳۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے کس لطیف پیرایہ میں وقالوا انی لک ھذا کے الفاظ کہہ کر موجودہ زمانہ کے کمزور ایمان لوگوں کا نقشہ کھینچ کر بتایا ہے کہ یہ لوگ اس درمیانی کمزوری کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ بس اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے اور گویا اس کی شان اور ترقی کا زمانہ اس کی اٹھتی ہوئی جوانی کے ساتھ ہی اسے خیرآباد کہہ گیا ہے یہ لوگ کہیں گے کہ قادیان کی بحالی اور جماعت کا دوبارہ غلبہ ایک امرِ موہوم ہے۔ اورتعجب یا استہزا کے رنگ میں سوال کریں گے کہ اس کمزوری اور انتشار کے بعد جماعت کو دوبارہ غلبہ کس طرح حاصل ہوگا؟ اللہ اللہ اس زمانہ کے کمزور ایمان لوگوں کا کیسا صاف اور واضح نقشہ کھینچ کررکھ دیا گیا ہے۔
۴۔ مگر اس تعجب اور استہزا کے جواب میں خدائے علیم وقدیر کس جلال کے انداز میں فرماتا ہے:
قل ھواللّٰہ عجیب
’’یعنی تم جماعت احمدیہ کے دوبارہ غلبہ کے متعلق تعجب کرتے ہو مگر اے آنکھ کے اندھو کیا تم اس بات کو بھول گئے ہو کہ خدا تعالیٰ خود تمام عجائبات کا مجموعہ ہے۔ کیاوہ جو نیست سے ہست میں لاسکتا ہے اور عدم کو وجود میں منتقل کرسکتا ہے وہ ہاں وہی عجیب وغریب قدرتوں کا مالک خدا اس بات پر قادر نہیں ہوسکتا کہ بظاہر ایک کمزور جماعت کو مضبوطی اور غلبہ عطا کردے؟ افسوس افسوس ما قدرااللّٰہ حق قدرہ‘‘
۵۔پھر محبت اور تنبیہہ کے ملے جلے انداز میں فرماتا ہے کہ
لاتیئس من رَوح اللّٰہ انظر الٰی یوسف واقبالہ
’’یعنی کیا تم خدا کے اس ازلی قانون کو بھول گئے ہو کہ اس کے بندے مایوسی کا شکار نہیں ہوا کرتے بلکہ وہ بظاہر انتہائی مایوسی کے حالات میں بھی خدا کی رحمت وقدرت پر بھروسہ کرکے امید سے بھرپور رہتے ہیں تو پھر اے کمزورایمانو تم کیوں خدا کے وعدہ پر شک کرتے اور اس کی رحمت سے مایوس ہوتے ہو؟ خبردار خبردار خدا کی رحمت سے جوعموماً مصائب کے گرجتے ہوئے بادلوںکی اوٹ لے کر آگے بڑھا کرتی ہے ہرگز ناامید مت ہو‘‘
اور پھر کیسی لطیف مثال دے کر سمجھاتا ہے کہ یوسفؑ کی طرف دیکھو کہ وہ اپنے بھائیوں کی سازش سے کس طرح ایک ویران اور تاریک کنوئیں کی تہ میں گر کر گویا ہمیشہ کے لئے ختم سمجھا گیا تھا مگر خدا نے اسے اس گری ہوئی حالت سے اٹھا کر اقبال وعروج کے کس بلند مینار تک پہنچادیا۔ تو کیا یہ خدا تمہیں دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں ہوسکتا؟
۶۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ:
قدجاء وقت الفتح والفتح اقرب
یعنی ایک مقدرزمانہ کے بعد فتح کا وقت آجائے گا بلکہ فتح قریب ہے مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور کا مادہ نہیں رکھتے اور نہ درمیانی زمانہ کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
۷۔ بالآخر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مقدر فتح کا وقت آئے گا تو
یَخِرُّونَ عَلَی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَاْ اِنَّاکُنَّا خَاطِئِیْنَ
’’یعنی اس وقت یہ شک کرنے والے لوگ جو ان مصائب کے ایام میں سمجھتے ہوں گے کہ بس اب سب کچھ ختم ہوگیا اور اب اس کمزوری اور انتشار کے بعد جماعت احمدیہ دوبارہ غلبہ نہیں پاسکتی ہاں یہی شک کرنے والے لوگ یعنی ان میں سے جن کے لئے ہدایت مقدر ہے فتح اور غلبہ کے وقت میں شرم و ندامت کے ساتھ سرجھکائے ہوئے آگے آئیں گے اور کہیں گے کہ خدایا ہم کمزوری کے عالم میں مایوس ہوکر اور تیرے وعدوں کو بھلا کرٹھوکر کھاگئے۔ تو ہماری اس غلطی کو معاف فرما اور ہم خطاکاروں کو پھر اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ اس وقت وہی کچھ ہوگا جو خدا نے ازل سے مقدر کررکھا ہے۔ولایعلمھا الاالمسترشدون‘‘
اب دیکھو کہ یہ کس قدر کامل ومکمل تصویر ہے جو خدا تعالیٰ نے شروع سے ہی اپنے دستِ ازل سے کھینچ کر ہمارے سامنے رکھی ہوئی ہے اور گویا آغازسے لے کر انجام تک کا ہر نقش ایک جیتی جاگتی مورت کی صورت میں دنیا کے سامنے نصب کردیا ہے مگر کمزور انسان ہاں نابینا اور شکور انسان یہ تو مانتا ہے کہ خدا نے درمیانی کمزوری کے متعلق اپنا وعدہ پورا کیا مگر اس کمزوری کے بعد آنے والے غلبہ کے متعلق یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہمارا قادر مطلق خدا اس رحمت کے نشان کو بھی پورا کر سکتا ہے میں پھر کہوںگا کہ
ماقدروااللّٰہ حق قدرہٖ ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العظیم۔
حاصل مطلب
میرا مضمون تو ختم ہوچکا ہے لیکن ہر مضمون کا ایک حاصل مطلب ہوا کرتا ہے جو سمجھدار لوگ تو خودبخود مضمون کے مطالعہ سے اخذ کرلیا کرتے ہیں مگر عامتہ الناس کو علیحدہ نوٹ کرکے سمجھانا پڑتا ہے۔ سو میں بھی اس جگہ عام لوگوں کی سہولت کے لئے اس مضمون کا حاصل مطلب درج کئے دیتا ہوں۔ یہ حاصل مطلب دو مختصر فقروں میں آجاتا ہے:-
اوّل
اس مضمون کا پہلا نکتہ اور پہلا سبق یہ ہے کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے اپنا یہ الہام شائع کیا تھا کہ میری جماعت ایک وقت تک ترقی اور مضبوطی کے رستہ پر چلتی چلے جائے گی اور لوگ اس کے غلبہ کو محسوس کریں گے۔ مگر پھر اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آئے گا جس کے نتیجہ میں سمجھا جائے گا کہ گویا یہ جماعت ترقی کے دَور میں داخل ہونے کے بعد پھر کمزوری اور انتشار کے دور میں مبتلا ہوگئی ہے اور اسے کئی قسم کے خوف اور خطرات پیش آئیں گے لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ جلد ہی دوبارہ امن وغلبہ کا دَور لے آئے گا اور ایسے رنگ میں لائے گا کہ لوگوں کے لئے حیرت کا موجب ہوگا۔ پس میرے اس مضمون کا پہلا مقصد یہ ہے کہ تا دنیا کو بتایاجائے کہ جو بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بتائی تھی اس کا ایک حصہ پورا ہوچکا ہے اور اب دنیا کو اس کے دوسرے حصہ کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہیئے اور جب خدا کے فضل سے دوسرا حصہ پورا ہوگا تو تمام دنیا اس پر گواہ بن جائے گی اور لوگوں کے پاس خدا کے حضور الٰہی سلسلہ کی دعوت کو رد ّکرنے کا کوئی عذرباقی نہیں رہے گا۔
دوم
اس مضمون کا دوسرا نکتہ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ تا جماعت کے کمزور حصہ کو ہوشیار اور بیدار کیا جائے کہ ہمارے خدانے پہلے سے بتارکھا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کمزور ایمان لوگ جماعت کی ترقی اور بحالی کے متعلق شکوک میں مبتلا ہونے لگیں گے اور قرآنی محاورہ کے مطابق خیال کرنے لگ جائیں گے کہ ۔۶۹ لیکن خدا پھر اپنی فوجوں کے ساتھ آئے گا اور اپنی فوق العادت قدرت کے ساتھ جماعت کو سنبھال کر پھر ترقی اور غلبہ کے رستہ پر ڈال دے گا اور اس وقت یہ شک کرنے والے لوگ نادم ہوکر سجدہ میں گریں گے اور اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اِنَّاکُنَّا خَاْطِئِیْن پس میرا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اے ہمارے اندھیرے میں ڈگمگاتے ہوئے بھائیو! بعد میں نادم ہوکر سجدہ کرنے کی بجائے ابھی سے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرو کہ گر کر سنبھلنے والے کی نسبت ہمیشہ سنبھلے رہنے والا انسان بہرحال بہتر ہوتا ہے اور پھر اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہوگے جو گرنے کے بعد پھر سنبھلنے کی توفیق نہیں پاتے۔ خدا تمہاری آنکھیں کھولے اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے۔ وما علینا الاالبلاغ
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍ اگست ۱۹۴۹ئ)









رتن باغ میں چراغاں
کل مورخہ ۴۹/۸/۱۴ کو جشن آزادی کے تعلق میں رتن باغ اور جود ھامل بلڈنگ ہر دو پر پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے اور رات کے وقت چراغاں بھی کیا گیا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍اگست ۱۹۴۹ئ)








کیا سنیما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے؟
بعض دوستوںنے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا سنیما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے؟ یہ سوال غالباً ان کی اس مخفی خواہش پر مبنی ہے کہ سنیما جیسی دلکش تفریح سے کیوں محروم رہا جائے ۔سو اس کے متعلق میرا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مسائل کے متعلق زیادہ تر فتنہ اسی بناء پر پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے متاثرہوکر یا اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہوکر کسی مسئلہ پر نظر ڈالتا ہے اور پھر لازماً ماحول کے اثر یا دل کی خواہش کے نتیجہ میں غلط رستہ پر پڑ جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا دھؤاں آجاتا ہے جو اسے صحیح رائے قائم کرنے نہیں دیتا ۔اسی لئے قرآن شریف مومنوں کو باربار ہوشیار کرتا ہے کہ اپنی ہوائوہوس کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت کو تباہ نہ کرو ۔بہرحال کسی مسئلہ پر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ غور کرنے کا یہ طریق نہیںہے کہ اپنے ماحول سے متاثر ہوکر یا اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہوکر اور سیدھے سادھے مسائل کو توڑ پھوڑ کر کچھ کی کچھ شکل دے دی جائے۔بلکہ صحیح طریق یہ ہے کہ بالکل خالی الذہن ہوکر اور دل کی تختی کو صاف کرکے ایک بات کو قرآن شریف اور حدیث اور عقل خداداد کی روشنی میں پرکھا جائے اور پھر نیک نیتی کے ساتھ آزادانہ رائے کے نتیجہ میں کوئی خیال قائم کیا جائے۔
یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ سوال مندرجہ عنوان کا اصل جواب یہ ہے کہ سنیما کا دیکھنا اپنی ذات میں کسی طرح منع نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ سنیما ان مفید ایجادوں میں سے ایک ایجادہے اور قدرت کے ان مخفی خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بعض مفید اغراض ومقاصد کے ماتحت دنیا پر ظاہر فرمائے ہیں۔ پس کوئی شخص محض سنیما کو بُرا نہیںکہہ سکتا کیونکہ اس ایجاد کے ساتھ بعض ایسے فوائد لپٹے ہوئے ہیں کہ ان کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں عظیم الشان فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور نسل انسانی کے معلومات کے اضافہ میں اور پھر ان معلومات کو مؤثر ترین صورت دینے میں سنیما کا بہت بھاری دخل ہے قدرت کے دور دراز مناظر کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لانا ،نیچر کے مخفی خزانوں کو جیتی جاگتی تصویر کی صورت میں عریاں کرکے دکھانا ،تاریخ کے بیش قیمت اوراق کو ایک بولتی ہوئی مورت کی صورت میں لوگوںکے سامنے لانا فوجی کارناموں کو ایسی صورت میں سنیماہال کے پردہ پر آشکار کرنا کہ فنون جنگ کے ماہر لوگ اس سے ایک نیا سبق حاصل کرسکیں۔بیماریوں کے جراثیم کی تباہ کاریوں کو ننگا کرکے دکھانا، قومی لیڈروں کی زندگی کے سبق آموز حالات کو مؤثر ترین انداز میں لوگوں کے سامنے رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔بیسیوں بلکہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں جو اس ایجاد کو دنیا کی مفید ترین ایجادوں میں جگہ دیتی ہیں۔ پس کون دانا انسان ایسا ہوسکتا ہے جو محض سنیما کے وجودکو ممنوع اور حرام قرار دے؟
لیکن قدرت کی یہ عجیب نیرنگی ہے کہ ہر پھول اپنے ساتھ کچھ کانٹے بھی رکھتا ہے اور ہر مفید سے مفید چیز غلط استعمال سے ہلاکت اور *** کا موجب بن جاتی ہے۔ مثلاً اسلام میں شراب کو یہ کہہ کر منع فرمایا گیا ہے کہ گواس میں بعض مفید پہلو بھی ہیں مگر اس کا نقصان اس کے فائدہ پر غالب ہے لیکن باوجود اس کے سخت بیماری وغیرہ کی صورت میں اسلام نے طبی مشورے کے ماتحت دوا کے طور پر شراب کے استعمال کو جائز بھی قراردیا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی صورت سنیما کی ہے کہ اس کا صحیح استعمال یقینا خدا کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے مگر اس کا غلط استعمال ایک بھاری *** سے کم نہیں۔ بلکہ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جتنا نقصان آج کل سنیما نے دنیا کو پہونچایا ہے وہ شائد کسی اور چیز نے نہیں پہونچایا۔ مرد وعورت کے جنسی تعلقات کو عریاں تصویروں کی صورت میں یعنی ایسی صورت میں جس میں کہ ان کی ہر حرکت گویا بالکل ننگی ہوکر سامنے آجاتی ہے، لوگوں کے سامنے لانا سنیما ہی کا حصہ ہے یہ بات مسلّم ہے کہ انسان جہاں اچھے مناظر کے دیکھنے سے فائدہ اٹھاتا اور نیک سبق حاصل کرتا ہے وہاں گندے مناظر کا نقشہ اس کی طبیعت میں گندا اثر چھوڑنے کے بغیر نہیں رہتا۔ معصوم لڑکیوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کے مناظر، اغوا کے عریاں واقعات، جنسی تعلقات کے خلاف اخلاقی پہلو اس طرح آنکھوں کے سامنے لائے جاتے ہیں کہ کچی طبیعت کے لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پھر سنیما کے ساتھ جو اقتصادی نقصان کا پہلو لگا ہوا ہے وہ بھی ہرگز نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ نوجوان بچے شروع شروع میں سنیما کے خمار میں مدہوش ہوکر والدین پر پیسوں کے لئے زور دیتے ہیں اور جب والدین ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کرسکتے تو پھر وہ ناجائز ذرائع سے روپیہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بے شمار طالب علم تو اس *** میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ تعلیم تک کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔پس کیا بلحاظ اخلاقی نقصان کے اور کیا بلحاظ اقتصادی نقصان کے اور کیا بلحاظ تعلیمی نقصان کے سنیما کا غلط استعمال ان شیطانی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے جو ہر اچھی سے اچھی سوسائٹی کو تباہ کرسکتی ہے۔
پس گوسنیما اپنی ذات میں ناجائز نہیں بلکہ ایک مفید ایجاد ہے۔ لیکن اس کا غلط استعمال دنیا کی بڑی لعنتوں میں سے ایک *** ہے۔ اور افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانوں میں اس کا غلط استعمال اس کے اچھے استعمال پر غالب آرہا ہے اور مزید افسوس یہ ہے کہ بعض اچھی اور مفید اور سبق آموز فلموں کو بھی گندے مناظر کے ساتھ اس طرح لپیٹ کر اور مدغم کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اس کے مفید پہلوئوں سے بھی محروم ہوجاتاہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک برف میں لگے ہوئے ٹھنڈے شربت کو چار قطرے نجاست کے ڈال کر کسی شریف انسان کے سامنے پیش کردیا جائے۔ شربت بے شک اچھی چیز ہے لیکن کوئی شریف انسان اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ اسے شربت کے بہانے نجاست کے قطرے پلادیئے جائیں لیکن مشکل یہ ہے کہ جہاں ظاہری نجاست ہر شخص کو نظر آتی ہے اور ہر انسان اس کی بُواور بدذائقہ کو محسوس کرتا ہے وہاں سنیما کی نجاست اکثر لوگوں کی آنکھوں سے مخفی رہتی ہے اور وہ اسے غفلت کی حالت میں ہی پی جاتے ہیں۔
دراصل سنیما کی مثال لائف انشورنس یعنی زندگی کے بیمہ کے طور پر سمجھی جانی چاہیئے جس طرح بیمہ اپنی ذات میں منع نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں سود اور جوئے کا عنصر شامل ہوجاتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اسلام میں حرام ہیں اس لئے زندگی کا بیمہ بھی منع قرادیا گیا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں حرام ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں بعض حرام باتوں کو داخل کردیا گیا ہے ورنہ اگر زندگی کے بیمہ سے سود اور جوئے کے عناصر کو خارج کیا جاسکے تو وہ ہرگز منع نہیں رہے گا۔یہی حال سنیما کا ہے کہ وہ اپنی ذات میں تو منع نہیں مگر ان خراب عناصر کی وجہ سے جو اس میں داخل کردیئے گئے ہیں وہ نتیجۃً منع ہوگیا ہے ان خراب عناصر کوالگ کردو اور سنیما کی فلم کوخلاف اخلاق اور خلاف حیاء اور خلاف عصمت باتوں سے دوررکھو تو سنیمایقینا اپنی ذات میں اچھی چیز ہے اور کسی شریف انسان کا اسے کبھی بھی علمی ترقی کے لئے دیکھنا یا تفریح کی غرض سے کبھی کبھار دیکھنا ہرگز قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن مشکل یہی ہے کہ اس گل کے ساتھ اتنے کانٹے لپٹے ہوئے ہیں اور اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ پھول کو کانٹوں سے جداکرنا بظاہر محال ہوگیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک نظم میں خوب فرماتے ہیں کہ:
اگر عشاق کا ہو پاک دامن
یقیں سمجھو کہ ہے تریاق دامن
مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں
کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں
پھول بہرحال اچھی چیز ہے جو آنکھوں کو تراوت اور دل کو راحت بخشتی ہے لیکن پھول کیسا ہی اچھا ہو، اس کے چبھنے والے کانٹوں سے بچنا پڑتا ہے۔ یہی حال سنیما کا ہے کہ اس کے مفید حصے بہرحال مفید ہیں اور ان حصوں کے دیکھنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں اور نہ ہی حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فتویٰ اس حصہ کے خلاف ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی اچھی سے اچھی اور مفید سے مفید فلموں کے اندر بھی لوگوں کی بدمزاقی کی وجہ سے گندے حصے شامل کردیئے جاتے ہیں اور اس طرح اخلاق کی تباہی کا رستہ کھولا جاتا ہے۔ اگر کوئی فلم خالصتاً مفید معلومات پر مشتمل ہو خواہ وہ معلومات تاریخی حقائق پر مبنی ہوں یا جغرافیائی حقائق پر مبنی ہوں یا فنونِ جنگ کے حقائق پر مبنی ہوں یا طبی حقائق پر مبنی ہوں تو یقینا ایسی فلم نہ صرف جائز ہوگی بلکہ میرے خیال میں علمی لحاظ سے ایک نعمت ہوگی بشرطیکہ اس کے اندر خلاف اخلاق باتوں کو شامل نہ کردیا جائے۔ صدرانجمن احمدیہ نے خود ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی منظوری سے فلمی تصویروں کے لئے جانے کا انتظام کیا تھا۔ کیونکہ یہ جماعت کا ایک اہم تاریخی ریکارڈ تھا اورکوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ایسی فلم کا دیکھنا کسی طرح بھی نقصان کا موجب یا اعتراض کا باعث ہوسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ سنیما کا دیکھنا اپنی ذات میں منع نہیں ہے اور نہ سنیما کا وجود اپنی ذات میں ناجائز ہے۔ پس یقینا اگر سنیما کی کسی فلم کو خلاف اخلاق اور خلاف حیا حصہ سے پاک رکھا جاسکے تو وہ ایک بالکل جائز بلکہ مفید چیز ہوگی۔ مگر افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی خطرناک بدمزاقی اور خلاف اخلاق رجحانات نے اس مفید چیز کو گندا بنارکھا ہے اور یہی وہ خطرہ ہے جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو سنیما سے روکا جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی فلم خالص تاریخی یا مناظر پر مشتمل ہو اور اس کے ساتھ کوئی خراب اخلاق حصہ شامل نہ کیا جائے تو اعتدال کی حد کے اندر رہتے ہوئے اسے دیکھا جاسکتا ہے اور جماعت کا کوئی فتویٰ اس کے خلاف نہیں ہے ۔
فانھم وتدبّر وا انّماالاعمال بالنیات
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍ اگست ۱۹۴۹ئ)




مجید احمد درویش کے لئے دعا کی تحریک
جیسا کہ میں پہلے تحریک کرچکا ہوں اس وقت قادیان میں مجید احمد موٹر ڈرائیور بہت بیمار ہے اورڈاکٹروں کی تشخیص ہے کہ ان کو انتڑیوں کی سلّ ہے۔ مجیداحمد ایک بہت مخلص اور سادہ مزاج نوجوان ہے اور شروع سے ہی خدمت مرکز کی غرض سے قادیان ٹھہرا ہے۔ اس کی بوڑھی والدہ حضرت ام المومنین کی خدمت میں رہتی ہے۔ احباب سے درخواست ہے کہ وہ مجید احمد کی صحت اور شفایابی کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت مجید احمد کی کمزوری انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍ اگست ۴۹ ۱۹ئ)







قادیان میں دو مخلص نوجوانوں کی تشویشناک علالت
میں اس سے قبل دو دفعہ مجید احمد موٹر ڈرائیور درویش قادیان کی تشویشناک بیماری کے متعلق الفضل میں دعا کی تحریک شائع کراچکا ہوں۔ قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مجید احمد ابھی تک بدستور بیمارہے اور ڈاکٹروں نے انتڑیوں کی سِل کی تشخیص کی ہے جس کی وجہ سے مجید احمد بے حد کمزور ہوچکا ہے۔ دوست اس مخلص نوجوان کے لئے اپنی دعائیں جاری رکھیں ۔
اس کے علاوہ ایک اور نوجوان محمد احمد ولد چوہدری فضل احمد صاحب کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ دماغی عارضہ میں مبتلا ہے اور اس کی حالت بھی فکر پیدا کررہی ہے۔ یہ بھی ایک مخلص اور خدمت گذار نوجوان ہے۔ اسے بھی دوست اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔
اس کے علاوہ ابھی تک حفظ امن کا مقدمہ چل رہا ہے اور اس کی آئندہ تاریخ ۲۴؍ اگست مقرر ہوئی ہے۔ نیز عبدالسلام مہتہ کا مقدمہ بھی زیرِ تفتیش ہے۔ ان ہر دو مقدمات کے متعلق بھی دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قادیان کے بھائیوں کا ہر طرح حافظ وناصر ہو اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)





باباشیرمحمدصاحب مرحومؓ درویش قادیان
جیسا کہ پہلے شائع کیا جاچکا ہے بابا شیرمحمد صاحب درویش قادیان میں ۱۷ اگست کو وفات پاگئے۔ تازہ اطلاع سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا جنازہ گیارہ بجے قبل دوپہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باغ میں امیرصاحب مقامی نے پڑھایا اور پھر بابا صاحب مرحوم کو حافظ نوراِلٰہی صاحب مرحوم کے پہلو میں مقبرہ بہشتی میں دفن کردیا گیا۔ بابا شیرمحمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور موصی بھی تھے۔ یہ دوسرے درویش ہیں جنہوں نے قادیان میں وفات پائی ۔میں نے ان کی عمر کا اندازہ نوے لکھا ہے مگر قادیان سے آمدہ خط میں ۱۱۰ سال کا اندازہ درج ہے ممکن ہے کہ اس اندازہ میں کچھ غلطی ہو لیکن بہرحال بابا شیرمحمدصاحب ایک بہت معمر بزرگ تھے اور ان کی عمر ۱۰۰ سال کے لگ بھگ تو ضرور ہوگی۔ مجھے ان کے بیٹے میاں غلام محمد صاحب کا موجودہ پتہ معلوم نہیں۔ اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو انہیں ان کے والد صاحب کی وفات کی اطلاع پہنچادی جائے۔ سنا ہے کہ وہ جہلم میں رہتے ہیں۔ میری طرف سے انہیں ہمدردی کا پیغام بھی پہنچادیا جائے۔
۷۰
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)





ڈاک خانہ ربوہ کے متعلق ایک غلط فہمی
کل کے الفضل میں ناظر بیت المال کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ ربوہ کا ڈاک خانہ کھل گیا ہے۔ یہ اعلان ایک غلط فہمی پر مبنی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹اگست بروز جمعہ ڈاکخانہ کھلنے والا تھا مگر سپریٹنڈنٹ صاحب ڈاک خانہ جات ضلع جھنگ کے تشریف نہ لانے کی وجہ سے ۱۹ تاریخ کو نہیں کھل سکا۔ اب امید ہے کہ انشاء اللہ ربوہ کا ڈاک خانہ بہت جلدکھل جائے گا۔ بلکہ بعید نہیں کہ اس اعلان کے چھپتے چھپتے ہی کھل جائے کیونکہ محکمانہ منظوری ہوچکی ہے اور ہماری طرف سے عمارت بھی تعمیر کی جاچکی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)







کونسی سینما فلم اچھی سمجھی جائے اور کونسی بُری؟
اور اس کا فیصلہ کس کی رائے پر ہوگا؟
چند دن ہوئے میں نے سنیما کے متعلق الفضل میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کے متعلق مجھے بعض دوستوں کی طرف سے اس قسم کے سوالات پہنچے ہیں کہ جب سنیما فلم اپنی ذات میں منع نہیں ہے اور صرف خلاف اخلاق عناصر کے شامل ہوجانے کی وجہ سے ممنوع قرار پاتی ہے تو پھر کس فلم کو اچھا سمجھا جائے اور کس کو بُرا اور اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کونسی فلم اچھی ہے اور کونسی بُری اور کس فلم کا دیکھنا جائز ہے اور کس کا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سوالات پہلے سے میرے مدنظر تھے اور میں ان کے متعلق اپنے مضمون کی دوسری قسط میں اظہار خیال کرنا چاہتا تھا مگر اچھا ہوا کہ دوستوں نے مزید توجہ دلاکر مجھے اس مضمون کے دوسرے حصہ کے متعلق جلدی کرنے کا خیال پیدا کردیا۔ لہٰذا میں ذیل کی سطور میں مختصر طورپر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں۔
سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا یا جوکچھ کہ میں اپنے موجودہ مضمون میں لکھنے لگا ہوں وہ میرا ذاتی خیال ہے اور ضروری نہیں کہ جماعت کے ذمہ وار مفتی صاحبان کو میرے خیال سے اتفاق ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر انہیں میرے خیال سے اتفاق نہ ہو تو بہرحال جماعتی احترام اور جماعتی نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس صورت میں میں اپنی زبان بند کرلوں۔ مگر جب تک میرے لئے یہ راستہ کھلا ہے میں نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے خیالا ت کے اظہار کا حق رکھتا ہوں اور اسے استعمال کروں گا۔ وماتوفیقی الا باﷲ العظیم
سہولت کے خیال سے میں اس جگہ پہلے دوسرے سوال کو لیتا ہوں۔ یعنی یہ کہ اس بات کا کون فیصلہ کرے گاکہ کونسی فلم خلاف اخلاق عناصر کی وجہ سے ناجائز اور ممنوع ہے اور کونسی فلم جائز اور حلال ہے؟ سو اسی سوال کا پہلا جواب تو میری طرف سے یہ ہے کہ میرا مضمون صرف علمی نقطہ نگاہ پر مبنی ہے ورنہ مجھے اس مسئلہ کے انتظامی پہلو سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ مجھے اس میں دخل دینے کا کوئی حق ہے۔ جماعتی انتظامیہ کے ماتحت یہ کام غالباً نظارت امورعامہ یا نظارت تربیت کاہے اوریہی دو نظارتیں اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ اس مسئلہ کے انتظامی پہلو کے متعلق کوئی اعلان کریں یا نگرانی کی کوئی صورت تجویز کرکے اس پر جماعت کو کاربند کرائیں۔پس جہاں تک انتظامی پہلو کا تعلق ہے یہ سوال کہ اس بات کا کون فیصلہ کرے گاکہ کونسی فلم جائز ہے اور کونسی ناجائز مجھ سے نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ناظر صاحب امورعامہ یا ناظر صاحب تعلیم وتربیت سے ہونا چاہیئے اور انہیں کا فیصلہ اس معاملہ میں تابع ہدایت حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز آخری رنگ رکھتا ہے۔ بے شک میرے مضمون کی وجہ سے میرے نقطۂ نگاہ سے اتفاق رکھنے والے دوستوں کے نزدیک بعض فلمیں جو خالصتہً تاریخی اور تحقیقی اور علمی حقائق پر مبنی ہوں اور خلاف اخلاق عناصر سے بھی پاک ہیں ،جائز سمجھی جائیں گی۔ لیکن ایسی فلموں کا عملاً دیکھنا محض میرے مضمون کی وجہ سے ہرگز جائز نہیں ہوجائے گا۔ بلکہ اگر اس کے متعلق سلسلہ کی طرف سے کوئی ہدایت ہے تو اس کے لئے سلسلہ کی متعلقہ نظارت سے استصواب ضروری ہوگا۔
یہ تو ہوا انتظامی نقطۂ نگاہ سے دوٹوک جواب مگر اس سوال کا علمی جواب یہ ہے کہ شریعت نے بہت سی باتوں میں فیصلہ کو خود مومنوں کی ذاتی رائے پر چھوڑدیا ہے اور ان معاملوں میں دخل اندازی نہیں کی بلکہ صرف اصول بیان کرکے اس کا عملی اجراء ہرشخص کی دیانتدارانہ رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔مثلاً شریعت کہتی ہے کہ اگر تم بیمار ہوجائو تو وضو کی بجائے تیمم کرلو یا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی بجائے بیٹھ کر نماز پڑھ لو لیکن شریعت اس معاملہ میں یہ حکم ہرگز نہیں دیتی کہ بیماری کے متعلق کسی طبیب یا ڈاکٹر سے پوچھ کر فیصلہ کرو بلکہ ہر مومن کی نیک نیتی اور دیانتداری پر اس فیصلہ کو چھوڑ دیتی ہے کہ اگر وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے آپ کو بیمار سمجھے تو وضو کی بجائے تیمم کرلے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی بجائے بیٹھ کر پڑھ لے۔ اسی طرح مثلاً شریعت یہ اصول بیان کرتی ہے کہ اگر تم رمضان کے مہینہ میں بیمار ہوجائو تو رمضان کے روزوں کو ملتوی کرکے دوسرے ایام میں گنتی پوری کرلیا کرو۔ لیکن اس اصولی ہدایت کے کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتی بلکہ مومنوں کی نیک نیتی اور دیانتداری پر فیصلہ چھوڑدیتی ہے کہ اگروہ سچے دل سے اورنیک نیتی کے ساتھ (نہ کہ بہانہ جوئی کے رنگ میں) اپنے آپ کو بیمار سمجھیں تورمضان کے روزوں کو دوسرے دنوں پر ملتوی کردیں ۔پس جب ان مسائل اور اس قسم کے بیسیوں دوسرے مسائل میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ بیماری کا فیصلہ کون کرے تو سنیما کے معاملہ میں یہ سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے کہ کسی فلم کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ کون کرے؟ یقینا اس سوال کی تہہ میں اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ بہت سے لوگوں کے دل سنیما کی گندی تفریح سے اس قدر متاثر ہوچکے ہیں کہ وہ مختلف قسم کے آنوں بہانوں سے اپنے لئے سہولت کا راستہ کھولنا چاہتے ہیں۔ ورنہ اگر نیتیں درست ہوں اور دل پاک جذبات کا حامل ہو تو دراصل نہ تو یہ سوال اٹھتا ہے اور نہ ہی اس کے جواب کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ایک صحیح الفطرت اور اسلام سے سچی محبت رکھنے والے انسان کے لئے بوبو ہے اور خوشبو خوشبو اور گندی چیز بہرحال گندی ہے اور اچھی چیز بہرحال اچھی ہے۔ اور اسے پرکھنے اور اس کے متعلق فیصلہ کرنے میں کبھی دیر نہیں لگتی اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ عام حالات میںکوئی شریف انسان گندی چیز کو اچھی چیز سمجھنے کاراستہ اختیار کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ حالات غیرمعمولی صورت اختیار کرلیں اور کسی سوسائٹی کا ماحول اس کی بصیرت کو ملوث کردے۔
لیکن خدا کے فضل سے ہماری کامل ومکمل شریعت نے ہمارے لئے غیرمعمولی حالات میں بھی ہدایت اور روشنی کا سامان مہیا کررکھا ہے یعنی ایسے غیرمعمولی حالات میں بھی جبکہ ایک بدی کے عام ہوجانے کے نتیجہ میں عوام الناس کی نیتوں میں فتور آجاتاہے اور لوگ بُری چیز کو اچھا قرار دینے کے لئے بہانے ڈھونے لگ جاتے ہیں۔ ہماری شریعت ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑتی۔ چنانچہ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ جب ہمارے آقا (فداہ نفسی) صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ سوسائٹی میں شراب نے بے انتہاء غلبہ پایا ہوا ہے اور لوگوں کے ذہن آسانی کے ساتھ اس بدی سے کٹ کر دور ہونے کے لئے تیار نہیں تو آپ نے کمال دانشمندی سے شراب نوشی کو منع کرنے کے علاوہ یہ حکم بھی دے دیا کہ تم اس قسم کے برتنوںکو بھی استعمال نہ کرو تاکہ تمہارے ذہن کلی طورپر شراب نوشی کے مناظر سے کٹ جائیں اور کمزور لوگوں کے لئے ڈگمگانے اور ٹھوکر کھانے کا موقع نہ رہے۔چنانچہ صحابہ نے شراب نوشی کی حرمت کے علاوہ اس حکم پر بھی کمال دیانتداری سے عمل کیا اور ان معصوم برتنوں کے استعمال سے بھی باز آگئے جو اپنی ذات میں ہرگز بُرے نہیں تھے مگر شراب نوشی کے ساتھ روایتی تعلق رکھنے کی وجہ سے کمزور لوگوں کے دلوںمیںشراب کی خواہش بیدار کرسکتے تھے۔ لیکن جب اس پر کچھ وقت گزرگیا اور لوگوں کے ذہن کلی طورپر شراب نوشی کے خیال سے کٹ گئے تو اس وقت آپ نے اعلان فرمایا کہ شراب تو بہرحال منع ہی ہے لیکن اب تم ان برتنوں کو بے شک استعمال کرسکتے ہو جن سے تمہیں روکا گیا تھا ۔اسی طرح مثلاً آپ نے عرب کی شرک پرستی کو دیکھ کر شروع شروع میں اعلان فرمایا کہ مسلمان قبروں کی زیارت کے لئے نہ جایا کریں تاکہ عام مشرکانہ رجحان کی بناء پر ان کے دلوںمیں کوئی مخفی جذبہ شرک کا پیدا نہ ہونے لگے۔ لیکن جب صحابہؓ کا ایمان و عرفان پختہ ہوگیا تو کچھ وقت کے بعد آپ نے خود اعلان فرمایا کہ اب بے شک تم قبروں پر جائو اور اپنے مرنے والوں کے لئے دعا کرکے اور اپنے نفسوں میں موت کی یاد کو تازہ کرکے خود بھی فائدہ اٹھائو اور مرنے والی روحوں کو بھی فائدہ پہنچائو۔
اوپر کی مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شریعت کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ بعض اوقات جب کسی بدی کے لئے کسی سوسائٹی میں عام رجحان پیدا ہوجائے اور لوگ اپنے ماحول کے اثر کے ماتحت اس کی طرف غیرمعمولی رغبت اور کشش محسوس کرنے لگیں تو لوگوں کے اخلاق کی حفاظت کے لئے بعض ملتی جلتی جائز چیزوں کو بھی وقتی طوپر منع قرار دے دیا جاتا ہے اور اس میں غرض یہ مدنظر ہوتی ہے کہ تاجب ماحول کا اثر مٹ جائے اور عام رجحان ختم ہوجائے تو پھر اس وقت اِن جائز چیزوں کی اجازت دے کر سوسائٹی کو اعتدال کے راستہ پر قائم کردیا جائے۔ پس جہاں تک محض مسئلہ کا تعلق ہے ،بات تو وہی ہے جو میں نے اپنے سابقہ مضمون میںبیان کی اور اس بات میں ذرہ بھر بھی کلام نہیں کہ سینمااپنی ذات میں ہرگز منع نہیں بلکہ صرف خلاف اخلاق فلموں کا دیکھنا منع ہے لیکن اگر عربوں کی شراب نوشی اور قبر پرستی کی طرح اس زمانہ میں بھی خلاف اخلاق فلموں اور سینما کی زبردست کشش نے لوگوں کے دل ودماغ پر غلبہ پارکھا ہے اور اس وجہ سے نظام سِلسلہ کو وقتی طورپر اس بارہ میں خاص احکام دے کر نگرانی کرنی پڑی ہے تو میں اپنے نوجوانوں سے کہوں گا اور افسوس کے ساتھ کہوں گاکہ:
اَے بادِ صباء ایں ہمہ آوردِۂ تُست
یعنی اے میرے سوال کرنے والے عزیزو اور بھائیو یہ ساری پابندیاں آپ ہی کا پیدا کردہ تحفہ ہیں ۔جب آپ کے دل ودماغ پر سینماکے بولتے ہوئے جادو نے ساحرانہ اثر پیدا کیا اور آپ نے بلاتمیز نیک وبدسینما کی بنی سنوری دیوی کے سامنے ماتھا ٹیک دیا تو پھر سلسلہ کیوں نہ اس بچہ کی طرح جو اپنی نادانی سے آگ کے شعلہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے آپ کے ہاتھوں کو جبراً روکنے کی کوشش کرتا۔ خودستائی یقینا اچھی نہیں ہوتی لیکن موقع پر بات کہنی پڑتی ہے اور میری نیت کو بھی خدا جانتا ہے کہ خودستائی غرض نہیں بلکہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ایک حقیقت کا اظہار اصل مقصد ہے اور وہ یہ کہ اس وقت میری عمر خدا کے فضل سے ۵۶سال کی ہے لیکن آج تک میں نے دو دفعہ سے زیادہ سینمانہیں دیکھا۔ پہلی دفعہ بچپن میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ اور اپنے بڑے ماموں جان مرحوم کی معیت میں دِلی میں دیکھا تھا اور دوسری دفعہ بھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی جب کہ میں کالج میں پڑھتا تھا، ایک ایسی سینمافلم دیکھی تھی جس کا انتظام کالج کے احاطہ میں ہی کالج کی طرف سے کیا گیا تھا اور یہ دونوں زمانے وہ ہیں جب کہ سینماپر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ دِن اور یہ دِن آج تک کبھی سینما نہیں دیکھا اور اگر میں حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے بھولتا ہوں تو خدا مجھے معاف کرے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میرے دِل میں آج تک کبھی سینما دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ یہ بات نہیں کہ میرے پہلو میں دِل نہیں ہے یا یہ کہ میں جائز تفریح کی طرف سے بے حِس ہوں بلکہ اس لئے کہ جو تھوڑا بہت تجربہ مجھے سینما دیکھنے سے ہوا ہے اُس نے میرے دِل میں یہ خیال راسخ کردیا ہے کہ موجودہ فلم ایک آگ کا کھیل ہے جس میں اچھے برے کی تمیز بے حدمشکل کام ہے ۔پس میرے عزیزو اور بھائیو! یہ سب پابندیاں خود آپ کی اپنی لگائی ہوئی ہیں۔ اپنے دِل ودماغ کو درست کرلو تو نماز روزے کے احکام کی طرح غالباً نظام سلسلہ بھی اچھی اور بری فلم کا فیصلہ خود آپ پر چھوڑدے گا۔
اب رہا یہ سوال کہ موٹے طورپر بری اور ناجائز فلم کی علامتیں کیا ہیں۔ سو میں اپنی سمجھ کے مطابق چند مختصر فقروں میںیہ علامتیں ذیل میں بیان کئے دیتا ہوں۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس فلم میں مرد وعورت کی باہمی بے تکلفی کے مناظر کو برملا طور پر پیش کیا جائے مثلاً(اور یہ صرف ایک مثال ہے) ایک مرد ایک عورت کے ساتھ فلم کے پردہ پر بوس وکنار کا طریق اختیار کرتا ہے تو ایسی فِلم کا دیکھنانا جائز اور ممنوع ہوگا۔ بلکہ میرے خیال کے مطابق اگر یہ مردوعورت خاوند بیوی بھی ہوں تب بھی اُن کی طرف سے ایسی حرکات کا برملااظہار خلاف حیا اور ناجائز سمجھا جائے گا۔ اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ خاوند بیوی کا مخصوص جنسی تعلق ایک بالکل جائز بلکہ نسل انسانی کی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے مگر کوئی شریف انسان ایسا نہیں ہوسکتا جو اس فعل کو برسرِ عام اختیار کرے اور جو ایسا کرے گا وہ یقینا بے حیا سمجھا جائے گا۔ پس اچھی فلم کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں مرد وعورت کے بے تکلفانہ حرکات یعنی بوس وکنار وغیرہ کے مناظر کا عنصر موجود نہ ہو کیونکہ اس سے بے حیائی اور بداخلاقی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے شہوانی قویٰ کو انگیخت ملتی ہے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میرا نفس ایسا ہے کہ مجھ پر ایسے مناظر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسے شخص سے میں کہوں گا کہ اول تو تم دھوکا دیتے ہو ورنہ دھوکہ خوردہ ضرور ہو۔ فطرت کی زور دار آبشاروں کو کون روک سکتا ہے؟ لیکن اگر بالفرض ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو تو عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ قانون کی بنیاد عام حالات پر رکھی جاتی ہے نہ کہ مستثنیات پر ۔پس بظاہر مستثنیٰ حالات رکھنے والے لوگوں کو بھی بہرحال عام قانون کے تابع رکھا جائے گا ورنہ فتنہ پیدا ہوتا ہے اور یہی دنیا بھر میں قانون سازی کا مسلّمہ اصول ہے۔
۲۔ دوسری شرط یہ ہے جو دراصل پہلی شرط کا ہی حصہ اور شاخ ہے کہ کسی فِلم میں کورٹ شپ (یعنی نکاح سے پہلے کی بے تکلفانہ میل ملاقات) کے مناظر پیش نہ کئے جائیں۔ میں اس جگہ اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ نکاح کے اصول کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں۔ گو اسلام تو بہرحال کورٹ شپ کے رنگ کو پسند نہیں کرتا لیکن اگر کسی کے نزدیک کورٹ شِپ کا طریق جائز بھی ہو یعنی اگر نکاح سے قبل مرد عورت کا آپس میں بے تکلفی کے ساتھ ملنا جلنا جائز بھی سمجھا جائے تو پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ کورٹ شِپ کے مناظر کو فِلم کے پردے پر عریاں کرکے دکھانا ایک ایسی بات ہے کہ جس سے لوگ جنسی تعلقات کے متعلق ناگوار اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور کچی اور نوجوان طبیعت کا توکہنا ہی کیا ہے ان کے لئے تو ایسے مناظر گویا بارود کے ذخیرہ کو دیا سلائی دکھانے کے مترادف ہیں۔
۳۔ تیسری بات جو ایک اچھی اور جائز فلم میں نہیں ہونی چاہیئے وہ اغوا کے واقعات ہیں یعنی کسی شخص کا کسی لڑکی یا عورت کو اس کے جائز ولی کی اجازت اور اطلاع کے بغیر بھگالے جانا۔ یہ بات بھی ہر غورکرنے والی سعید فطرت کے نزدیک اخلاقی عامہ کو غلط راستہ پر ڈالنے والی اور بالآخرسوسائٹی کے امن کو برباد کرنے والی ہے۔
۴۔چوتھی بات عریانی کے مناظر پیش کرنا ہے یعنی جسم انسانی کے ان حصوںکو ننگا کرکے پیش کرنا جنہیں ننگا کرنا اسلام میں ممنوع قراردیا گیا ہے۔بلکہ میں کہوں گا جنہیں ننگا کرنا دنیا کی ہرشریف سوسائٹی بُری نظر سے دیکھتی ہے اگر فلم کے پردے پر ان اعضاء کی عریانی کے مناظر پیش کئے جائیں تو اخلاقی لحاظ سے اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ مثلاً پنڈلی اور ران کو ننگا کرنا یا ہاتھوں کو بازوئوں کی حدتک ننگا کرنا یا سینے کو ننگا کرنا حتیٰ کہ بعض لوگ تو چھاتیوں کے ایک حصہ کو بھی ننگا کرنے میں حرج نہیں دیکھتے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں جو اسلامی نکتہ نگاہ سے ناجائز اور ممنوع ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کل کی فِلموں میں ان سے بہت بڑھ چڑھ کر عریانی کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ اور لوگ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے اور ان کے ذریعہ تفریح کا سامان حاصل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی بعض باتیں ہیں مگر میں اس جگہ صرف ان چارباتوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ اگر کم از کم ان چارباتوں سے ہی کسی سنیما فِلم کو پاک کردیا جائے (بشرطیکہ وہ حقیقتاً پاک ہو اور محض بہانہ جوئی کا رنگ اختیار نہ کیا جائے) تو میری رائے میں ایسی فلم ہرگز منع نہیں ہوگی۔ بلکہ اگر اس میں تاریخی اور جغرافیائی اور علمی اور تحقیقی اور جنگی اور طبی حقائق پیش کئے جائیں تو میں بلاخوف لومۃ لائم کہتاہوں کہ ایسی فلم کا دیکھنا نہ صرف جائز ہوگا بلکہ میں اسے دنیا کی علمی ترقی کے لئے ایک نعمت سمجھوں گا۔ لیکن آجاکے بات پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس شعر پر آجاتی ہے جو میں نے اپنے گذشتہ مضمون میں لکھا تھا حضور کیا خوب فرماتے ہیں:
مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں
کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں
تاہم میں اس بات کا قائل نہیں کہ ایسی فلم ہو ہی نہیں سکتی کہ جو ان خلاف اخلاق عناصر سے پاک ہو۔ ہوسکتی ہے اور ضرور ہوسکتی ہے بلکہ میں سنتا ہوں کہ ایسی فلمیں عملاً موجود بھی ہیں مگر لوگوں کے قدموں کو کون روکے جو ایک شتربے مہار کی طرح گندی فِلموں کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں اور پھر لڑتے ہیں اُن لوگوں سے جو انہیں اس خلاف اخلاق رستہ سے منع کرتے ہیں۔
خدا کرے کہ میرا یہ مضمون جوپاک نیت کے ساتھ اور دوستوں کی سچی ہمدردی کے جذبہ سے لکھا گیا ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوانوں کی تنویر اور ہدائت کا موجب ہو اور وہ بہانہ جوئی کے راستہ کو ترک کرکے مومنوں ہاں سادہ دل اور صحیح الدماغ مومنوں کے طریق پر ہر اچھی بات کو قبول کرنے اور ہر بری بات کو رد کرنے کے لئے تیارہوں:
وماعلینا الاالبلاغ وآخر دعوٰنا ان الحمدلِلّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍ اگست ۱۹۴۹ئ)








اغوا اور زنا بالجبر کے نتیجہ میں حاملہ ہونے والی عورتیں
شائد ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھ سے ایک ڈاکٹر نے خط کے ذریعہ پوچھا تھا کہ جو اغواشدہ عورتیں بحال ہوکر مشرقی پنجاب سے آرہی ہیں اگر ان میں سے کوئی بدقسمت عورت حاملہ پائی جائے تو اس کا کیا علاج ہے اور اسلامی شریعت اس کے متعلق کیا کہتی ہے؟ میںنے اس وقت اس کا مختصر ساجواب الفضل میں شائع کرادیا تھا۔ لیکن اب اسی قسم کا سوال مجھے ایک اور صاحب کی طرف سے بھی پہنچا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک غریب اور مظلوم عورت ابھی ابھی مشرقی پنجاب سے سکھوں سے چھٹکارا پاکر پاکستان میں پہنچی ہے اور وہ حاملہ ہے، اس کے متعلق کیا ہونا چاہیئے؟ان صاحب نے یہ بھی کہاہے کہ یہ مظلوم عورت جو سکھ درندوںکی وحشیانہ بربریت کا شکار ہوئی ہے اس بات پر بڑی سختی کے ساتھ مصر ہے کہ اس کا حمل ضائع کرادیا جائے کیونکہ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرتی کہ اس کی مظلومیت کی یہ ناپاک یادباقی رہے۔ چونکہ گزشتہ قیامت خیز طوفان میں اس قسم کے کئی واقعات ہوچکے ہیں اور اب تک بھی بعض مسلمان عورتیں اپنے قید کرنے والے سکھوں سے نجات پاکر پاکستان پہنچ رہی ہیں ۔اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ایک مختصر مگر جامع نوٹ اخبار میں شائع کراکے ایسی عورتوںکے متعلقین کو آگاہ اور ہوشیار کردیا جائے تاکہ وہ غلط رستہ پر قدم زن ہونے سے بچ جائیں۔
جہاں تک ذاتی غیرت کا تعلق ہے اس میں کلام نہیں کہ جب کوئی مظلوم اور بے بس عورت کسی ظالم مرد کی بربریت کا شکار ہوتی ہے تو عام حالات میں اس کی غیرت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپنی مظلومیت کی اس ناپاک یاد کو مٹادے اور جہاں تک ممکن ہو اس داغ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ میں اس غیرت کے جذبہ کو اصولاً ہرگز برا نہیں کہتا ۔یقینا جہاں تک انفرادی یا خاندانی احساسات کا سوال ہے یہ ایک حد تک طبعی جذبہ ہے بلکہ اگر عام حالات میں کسی عورت کے دل میں یہ غیرت اور اپنی مظلومیت کی تلخ یاد کے خلاف یہ بغاوت پیدا نہیں ہوتی تو میرے لئے حیرت کا مقام ہوگا کہ وہ ایک ایسے داغ کو جسے کم از کم ایک حد تک اسے مٹانے کی طاقت حاصل ہے، کیوں مٹانے کی کوشش نہیں کرتی؟ بلکہ میں سنتا ہوں کہ موجودہ غیرمعمولی حالات میں حکومت کے بعض افسربھی قولاً اور قانوناً تو نہیں مگر عملاً اس قسم کے حالات میں عورت کے متعلق چشم پوشی بلکہ اعانت کا طریق اختیار کرتے رہے ہیں۔ یعنی گو عام حالات میں حمل ضائع کرنے یا کرانے والی عورت مجرم سمجھی جاتی ہے لیکن گزشتہ غیرمعمولی حالات کے نتیجہ میں حکومت کے بعض افسروں کے متعلق (جن کا نام مجھے معلوم نہیں)سنا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی مجبوری کو دیکھ کر تسامح اور ہمدردی کا طریق اختیار کرتے رہے ہیں۔ اور اگر یہ خبر درست ہے تو میں موجودہ حالات میں اس رویہ کو بھی چنداں زیرالزام نہیں لاسکتا کیونکہ بہرحال انسانی غیرت اور پھر قومی غیرت کے جذبہ کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
لیکن بعض باتیں انفرادی اور خاندانی اور قومی غیرت اور مصالح سے بھی وسیع تر ہوتی ہیں اور انسانیت کے لامحدود نظریہ سے دیکھی جاتی ہیں اور بعض باتوں میں اسلام نے بھی اسی وسیع نظریہ کو اختیار کیا ہے ۔مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت وقتی جذبات کے جوش میں خود اپنی رضامندی کے ساتھ کسی مرد کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوئی لیکن چونکہ اس عورت کی دل کی گہرائیوں میں نیکی اور پاکبازی کا جذبہ موجود تھا اس لئے جب یہ حیوانی جوش کا وقت گزرگیا تو یہ عورت نادم ہوکر اور گویا اپنی عزتِ نفس کو مٹی میں ملاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے روتے ہوئے عرض کیا کہ
’’یارسول اللہ میں ناپاک ہوگئی ہوں مجھے پاک کیجئے۔‘‘
آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ ’’کیاکہتی ہو؟‘‘ اس نے پھر یہی الفاظ دہرائے کہ
’’میرے آقا میں غفلت کی حالت میں ناپاک ہوگئی ہوں مجھے خدائی قانون کے ماتحت سزادے کر پاک کیجئے۔‘‘
آپ نے بڑے استعجاب کے ساتھ چاردفعہ اپنے اس سوال کو دہرایا مگر ہر دفعہ یہ بدقسمت گوانجام کے لحاظ سے نیک قسمت عورت یہی کہتی چلی گئی کہ
’’یارسول اللہ میں ناپاک ہوگئی ہوں مجھے دوزخ کی آگ سے بچائیے۔‘‘
آپ نے ادھر اُدھر نظر اٹھاکر دیکھا اور صحابہ سے پوچھا کہ
’’کیا یہ عورت مجنون تو نہیں ہے؟‘‘
صحابہ نے عرض کیا’’ یارسول اللہ یہ مجنون نہیں ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے اس عورت سے پوچھا ’’کیا تجھے حمل تو نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’یارسول اللہ مجھے حمل بھی ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا تو پھر واپس جائو اور وضع حمل کے بعد آنا۔‘‘ چنانچہ وہ گئی اور حمل کے دن پورے کرکے بچہ جنا اور پھر اس بچہ کو گود میں اٹھائے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یارسول اللہ اب میں حمل سے فارغ ہوچکی ہوں اور یہ میرا بچہ ہے اب تو مجھے پاک کیجئے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’جائواور اس بچہ کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرو۔ اس کے بعد میرے پاس آنا۔‘‘ چنانچہ وہ گئی اور رضاعت کا زمانہ پورا کرکے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا ’’یارسول اللہ اب تو رضاعت کی مدت بھی پوری ہوچکی ہے۔ اب خدا کے لئے مجھے پاک کیجئے۔‘‘ آپؐ نے اسے اس فیصلہ کے مطابق جو اس وقت تک اسلام میں رائج تھا اور ابھی سورۂ نور والی آیتیں نہیں اتری تھیں رجم کئے جانے کا حکم دیا اور بچہ اس عورت کے بعض عزیزوں کے سپرد کردیا گیا جب اس کے رجم کئے جانے کے بعد کسی خشک ایمان مسلمان نے اس عورت کے متعلق کچھ نازیبا الفاظ کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’دیکھو دیکھو ایسا مت کہو اور عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سینکڑوں گنہگاروں پر بھی تقسیم کردی جائے تو ان کی مغفرت کے لئے کافی ہوگی۔‘‘ ۷۱
یہ وہ واقعہ ہے جو صحیح ترین حدیثوںمیں اسی طرح بیان ہوا ہے جس طرح کہ اوپر لکھا گیا ہے۔ بے شک میں مانتا ہوں اور شریعت اسلامی مجھ سے یہی بات منواتی ہے کہ اس عورت کی یہ غلطی تھی کہ اس نے خدائی ستاری کے پردے کو پھاڑکر اپنی اس قسم کی مخفی لغزش کا برملا اظہار کیا اور حدیثوںسے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی منشاء تھا کہ وہ دل میں خدا سے مغفرت طلب کرے جس نے اسے اپنی ستاری کے دامن میں چھپایا ہوا تھا اور صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے اس گناہ کے برملا اظہار سے رک جائے۔ مگر اس عورت نے اس اشارے کو نہ سمجھا اور اپنے خیال کے مطابق اصرارکرتی چلی گئی کہ مجھ سے یہ گناہ ہوا ہے مجھے خدا کی مقررکردہ سزادے کر دنیا میں جو کچھ کرنا ہے کرلیجئے لیکن آخرت کے عذاب سے بچائیے وہ اس نکتہ کو نہیں سمجھتی تھی کہ خدائی ستاری بھی ایک بڑی رحمت اور بڑی نعمت ہے اور خدا کا یہ ایک ازلی قانون ہے کہ اگر کسی وقتی غفلت کے بعد اس کا کوئی بندہ نادم ہوکر اس کے آستانہ پر سچی توبہ کے ساتھ گرتا ہے تو وہ رحیم وکریم آقا اسے بخش دیتا ہے اور پھر ایسا بندہ گویا دہرے انعام کا وارث ہوجاتا ہے ایک تو خدائی ستاری کا انعام اور دوسرے اس کی بخشش اور معافی کا انعام مگر عورت بہت سادہ مزاج تھی۔ وہ روحانیت کے اس باریک نکتہ کو نہ سمجھی کہ خداکی ایک سہل نعمت سے بھاگ کر سخت نعمت کی پناہ ڈھونڈنا دانائی کا رستہ نہیں اور بار بار اپنے گناہ کا اعتراف کرکے سزا کی طالب ہوئی۔
خیریہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ تھا جو جس صورت میں کہ مقدر تھا، وقوع پذیر ہوا لیکن اس واقعہ سے ہمیں یہ بھاری سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک پیدا شدہ جان کو حتی الوسع تباہ ہونے سے بچانا چاہیئے۔ کیونکہ ایک تو گنہگار ماں ہوتی ہے نہ کہ بچہ اور کوئی وجہ نہیں کہ ماں کے گناہ کی وجہ سے بے گناہ بچہ کو ہلاک کیا جائے اور دوسرے حمل گرانے کی کوشش میں خود ماں کی جان کو بھاری خطرہ ہوتا ہے اور تیسرے ہم نہیں کہہ سکتے کہ جوبچہ پیدا ہووہ شائد اپنے قلبی اور دماغی قویٰ کے لحاظ سے دینی یا دنیوی رنگ میں کوئی اچھا اور مفید وجود بن جائے کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بہرحال ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے ۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل کہ آپ نے حمل کے ایام میں عورت کو سزانہیں دی تاکہ کہیں ماں کے ساتھ بچہ بھی ضائع نہ ہوجائے اور پھر بچہ کے پیدا ہونے کے فوراً بعد بھی ماں کو سزا نہیں دی تا ایسا نہ ہو کہ اس طرح بھی نوزائیدہ بچہ اپنی طبعی خوراک سے محروم ہوکرضائع ہوجائے، صاف ظاہر کرتا ہے کہ عام حالات میں حمل کا گرانا اور پیدا شدہ جان کا تلف کرنا کسی طرح پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ آخر جو عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی اس کے لئے بھی تویہ بچہ ایک ناجائز بچہ ہی تھا اور پھر اس کے لئے بھی اس بچہ کی پیدائش کی صورت میں گناہ کی تلخ اور سیاہ یاد باقی رہتی تھی مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے وسیع مفاد کے ماتحت بچہ کی جان کو بچایا اور اسے تلف ہونے نہیں دیا تو جب ایک اپنی مرضی سے گناہ کی مرتکب ہونے والی عورت کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا تو پھر اس بیچاری عورت کا کیا قصور ہے جو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ظالم درندوں کی بربریت کا شکار ہوکر مجبوراً حاملہ ہوتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اس ٹھوکر کھانے والی عورت کے بچہ کا حق تھا کہ اسے بچایا جائے تو گذشتہ فسادات کی مظلوم اور مجبور اور مقہور عورتوںکے بچوں کو کیوں نہ بچایا جائے؟ یقینا ایسی عورتیں خدا کی نظر میں معصوم ہیں اور ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ اُنہیں معصوم سمجھے۔
بے شک یہ درست ہے او رمیں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہماری سوسائٹی کا ایک حصہ باوجود ایسی عورتوں کی مجبوری کے اُنہیں قابل اعتراض اور قابل طعن خیال کرتا ہے اور ایسی عورتوں کو دوبارہ اپنے خاندانی سرکل میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن اسلام تو الگ رہا دنیا کے کسی معروف قانون کے ماتحت بھی ایسے لوگوں کا یہ رویہ قابل تعریف نہیں سمجھا جاسکتا۔ مرد بیسیوں جگہ منہ کالا کرکے اور اپنی مرضی سے اِدھر اُدھر جھک مار کر پھر بھی اپنے آپ کو سوسائٹی میں سراونچا کرنے کے قابل سمجھتا ہے لیکن مظلوم اور مقہور عورت جوا تنہائی بے بسی کی حالت میں ظالم درندوں کے ہاتھ میں پڑ کر بربریت کا شکار ہوتی ہے اور پہلا موقع پانے پر ظالموں کی قید سے بھاگ آتی ہے وہ بدمعاش اور ذلیل اور سوسائٹی میں منہ دکھانے کے قابل نہ سمجھی جائے۔ مردوں کے لئے یہ امتیاز قابل شرم ہے اورنہایت درجہ قابل شرم!!!
لیکن جب تک ہم مردوں کے خیالات میں اصلاح پیدا نہیں کرسکتے اُس وقت تک ہم مجبور ہیں کہ اس قسم کی مظلوم عورتوں کی امداد کا کچھ نہ کچھ انتظام سوچیں اور میرے خیال میں علاوہ اس استثنائی انتظام کے جو سُنا جاتا ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے قولاً اور قانوناً تو نہیں مگر عملاً اختیار کیا تھا اورجسے موجودہ حالات میں چنداں ناواجب نہیں سمجھاجاسکتا ۔میرے خیال میں ذیل کی احتیاطیں اختیار کرنے سے بھی کسی حدتک اصلاح کی اُمید ہوسکتی ہے۔
۱۔ یہ کہ سوسائٹی کا سمجھدار طبقہ اعتراض کرنے والے لوگوں کو سمجھائے اور آنحضرت ﷺ کی سنت بتا کر اس بات کی نصیحت کرے کہ ایسی مجبور مقہور عورت رحم اور ستاری کی مستحق ہے نہ کہ طعن اور اعتراض کی۔
۲۔ یہ کہ ایسی عورت کے متعلق اگر ممکن ہو تو اس کا نام وغیرہ مناسب صورت میں بدل دیا جائے تاکہ سابقہ نام کے معروف ہونے کی وجہ سے بدنامی کا امکان کم ہوجائے۔
۳۔ یہ کہ جہاں تک ممکن ہو ایسی عورت کو کم از کم ایک عرصہ کے لئے ان لوگوں سے دور رکھا جائے جو اس کے گذشتہ وطن اور اس کے اغوا وغیرہ کے حالات سے واقف ہیں۔
۴۔ یہ کہ اگر ممکن ہو اور عورت کو اُس پر اصرار ہو تو ایسی عورت سے اس کے بچہ کو لے کر کسی قومی یا ملکی ادارے کے سپرد کردیا جائے۔ جہاں بچہ کی والدہ کا نام اور اُس کے وطن کا پتہ درج نہ کیا جائے بلکہ کوئی نیا نام رکھ کر اس کی طرف منسوب کردیا جائے اور یہ نوٹ کردیا جائے کہ یہ بچہ لاوارث حالت میں پہنچا ہے۔
۵۔ یہ کہ اگر اس عورت کا خاوند مرچکا ہو یا اسے رکھنے کے لئے تیار نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو کسی شریف آدمی کو آمادہ کرکے اس کے ساتھ ایسی عورت کا نکاح کرادیا جائے۔
اوپر کی باتیں میں نے صرف موجودہ سوسائٹی کے خیالات اور سماجی مجبوری کے ماتحت لکھی ہیں ورنہ حق وہی ہے جو ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جسے یورپ اور امریکہ کی بعض عیسائی اقوام تو عملاً اختیار کرچکی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کے لئے مسلمانوں کا ایک حصہ تیار نہیں۔ وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍ اگست ۱۹۴۹ئ)

ایک اور درویش کی وفات
قادیان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے کہ گذشتہ رات سلطان احمد صاحب درویش ولد میاں محمد بخش صاحب کھاریاں ضلع گجرات فوت ہوگئے ہیں۔
اناللّٰہ واناالیہ راجعون
انہیں اچانک تیز بخار ہوا اور ساتھ ہی سرسام بھی ہوگیا اور اسی حالت میں انتقال کرگئے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں جگہ دے اور پسماندگان کا حافظ وناصر ہو۔
قادیان میں فوت ہونے والا یہ تیسرا درویش ہے۔
ونرضیٰ بما یرضیٰ بہ اللّٰہ
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍اگست ۱۹۴۹ئ)







میں ناظر اعلیٰ یا ناظر امورعامہ نہیں ہوں
دوست خط وکتابت میں احتیاط رکھیں
کئی دوست نامعلوم کس وجہ سے مجھے ناظر اعلیٰ یا ناظر امور عامہ سمجھ کر ان صیغوں سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق مجھے چٹھیاں لکھ دیتے ہیں۔حالانکہ نہ تو میں ناظر اعلیٰ ہوں اور نہ ہی ناظر امورعامہ ہوں بلکہ صرف قادیان کے صیغہ کا انچارج ہوں ۔ناظراعلیٰ اور ناظر امور عامہ کا دفتر عرصہ سے ربوہ جاچکا ہے اور میر ادفتر ابھی تک لاہورمیں ہے۔دوست خط وکتابت میںاحتیاط رکھیں ورنہ طوالت پید اہونے کے علاوہ بعض خطوں کے ضائع ہونے کابھی امکان ہے۔ علاوہ ازیں دوستوں کو یہ احتیاط بھی چاہئے کہ تمام محکمانہ خط وکتابت کسی افسر کے نام پر کرنے کی بجائے عہدہ کے پتہ پر کی جائے ۔ کیونکہ بعض اوقات ایک افسر بدل جاتا ہے اور اگر خط پر عہدے کی بجائے نام لکھا ہوا ہو تو ایسا خط دفتر میں پہنچنے کی بجائے نام کی وجہ سے ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے اور بسا اوقات ضائع چلاجاتا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍ اگست ۱۹۴۹ئ)





میاں سلطان احمد درویش مرحوم
میاں سلطان احمد صاحب درویش قادیان کی وفات کے متعلق الفضل میں یہ خبر شائع کی جاچکی ہے۔ اب ان کی بیماری اور وفات کے مزید حالات قادیان سے پہنچے ہیں جو دعا کی تحریک کی غرض سے ذیل میں شائع کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بشیراحمد صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب امیرمقامی اور ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے قادیان سے حسب ذیل اطلاع دیتے ہیں۔
سلطان احمد مرحوم ولد میاں محمد بخش صاحب جو سکنہ کھاریاں ضلع گجرات کا رہنے والا تھا۔ گذشتہ جمعہ کے دن تک بالکل تندرست اور صحیح سالم تھا۔جمعہ کے دن قریباً تین بجے سہ پہر کو سلطان احمد کو سردرد کی شکایت ہوئی جس پر دوائی وغیرہ دی گئی اور وہ چلتا پھرتا رہا۔ لیکن ہفتہ کے دن صبح اسے بخار ہوگیا اور دن کے دوران میں چند اجابتیں بھی ہوئیں۔ پچھلے پہر بخار زیادہ تیز ہوگیا اور سلطان احمد کو قریباً بیہوشی کی حالت میں قریباً ساڑھے چھ بجے شام کو احمدیہ شفاخانہ میں اٹھا کر لایا گیا۔ اس وقت بخار ۱۰۵درجہ کا تھا۔ برف استعمال کی گئی اور ٹیکہ بھی لگایا گیا اور دیگر تمام ذرائع جو میسر آسکتے تھے استعمال کئے گئے مگر بخار میں کمی نہ ہوئی۔ نوبجے شب کے قریب سانس اکھڑنا شروع ہوا اور گیارہ بج کر تیس منٹ پر ۲۷،۲۸؍ اگست کی درمیانی شب کو اس مخلص نوجوان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
قادیان کی متفقہ رپورٹ کے مطابق مرحوم نہایت نیک اور مخلص نوجوان تھا ۔اس کی عمر قریباً ۲۰یا ۲۲ سال کی ہوگی۔ مرحوم موصی بھی تھا اور مقبرہ بہشتی میں بابا شیرمحمد صاحب کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔مرحوم ان پچیس درویشوں میں سے تھا جن کے خلاف اس وقت دفعہ ۱۰۷ کا استغاثہ چل رہا ہے۔ دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس مخلص نوجوان کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کے والد اور دوسرے عزیزوں کو صبرجمیل عطاکرے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۹ئ)

چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گزشتہ اعلان کے تسلسل میں شائع کیاجاتا ہے کہ مندرجہ ذیل بھائیوں اور بہنوں نے امداد درویشان قادیان کی غرض سے ذیل کی مزید رقوم ارسال فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک کام کی جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ وناصر ہو۔
۱
عبدالسلام صاحب سید والہ ضلع شیخوپورہ
۰…۰…۳
۲
محمد حیات خانصاحب نمبردار مانگٹ اونچے ڈاکخانہ حافظ آباد
۰…۰…۱۵
۳
شیخ فضل محمد صاحب اوکاڑہ
۰…۰…۱۵
۴
شیخ فضل محمد،نذیر احمد صاحبان اوکاڑہ
۰…۰…۱۰
۵
چوھدری مسعود احمد صاحب اوکاڑہ
۰…۰…۳
۶
ہمشیرہ میاں کرم الدین صاحب اوکاڑہ
۰…۰…۲
۷
اہلیہ شیخ رحیم بخش صاحب اوکاڑہ
۰…۰…۴
۸
شیخ فیروز الدین صاحب حال موگا اوکاڑہ
۰…۰…۵
(نوٹ اوپر کی چھ رقوم بذریعہ حاکم علی صاحب ٹیچر پہنچی ہیں)
۹
ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب پسر قاری غلام حٰٓمٓ صاحب مرحوم لاہور
۰…۰…۱۰
۱۰
والدہ صاحبہ ڈاکٹر اختر محمود صاحب لاہور
۰…۰…۴
۱۱
بشیر الدین صاحب طاہر پورن نگرسیالکوٹ
۰…۰…۱۰
۱۲
محمد احمد صاحب پسر مستری نظام دین صاحب سیالکوٹ
۰…۰…۴
۱۳
حلقہ سولجر بازار کراچی معرفت میجر شمیم احمد صاحب جمشید کوارٹرز کراچی
۰…۰…۳۰
۱۴
ملک عزیز احمد صاحب ایبٹ آباد
۰…۰…۳۰
۱۵
صوفی غلام محمد صاحب ہیڈکلرک پولٹیکل ایجنٹ وانا (صوبہ سرحد )
۰…۰…۱۵
۱۶
حبیب الرحمن صاحب اے ۔ڈی۔ آئی آف سکولز منٹگمری
۰…۰…۱۰
۱۷
خان عبدالحمید خانصاحب آف زیدہ
۰…۰…۱۵
۱۸
ڈاکٹر مزمل حسین صاحب سیالکوٹ
۰…۰…۲۰
۱۹
مائی کاکو صاحبہ آف قادیان حال لاہور
۰…۰…۱۰
۲۰
جماعت احمدیہ چک ۱۱/۶ ضلع منٹگمری بذریعہ د فتر محاسب ربوہ
۰…۳…۱۰۸
۲۱
دختران شریف احمد صاحب ایگزیکٹو آفیسر گجرات بذریعہ دفتر محاسب ربوہ
۰…۰…۲۰
۲۲
چوھدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ و اہلیہ صاحبہ چوھدری صاحب موصوف
۰…۰…۵۰
۲۳
جماعت احمدیہ و لجنہ اماء اللہ شور کوٹ ضلع جھنگ بذریعہ شجاعت علی صاحب انسپکٹر بیت المال
۰…۱۴…۵۶
۲۴
چوھدری محمد بوٹا صاحب دوکاندار قادیان حال کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ
۰…۰…۲۰
۲۵
میاں محمد احسن صاحب مردان
۰…۰…۱۲
۲۶
مرز اغلام قادرصاحب مردان
۰…۰…۱
(نوٹ:۔اوپر کی ہر دو رقوم بذریعہ محمد حسین صاحب ہیڈ ڈرافٹسمین پہنچی ہیں۔)

میزان
۰…۱…۴۸۳
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل رقوم قادیان کے غرباء کے لئے بطور صدقہ اور بعض رقوم برائے عقیقہ و امداد لنگر خانہ وغیرہ وصول ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان رقوم کے بھجوانے والوں کو بھی جزائے خیر دے ۔
۱
مائی کاکو صاحبہ برائے قربانی بر موقعہ عید الاضحی
۰…۰…۲۰
۲
سردار عبدالمنان صاحب پسر ڈاکٹر فیض علی صاحب ماڈل ٹائون لاہور برائے عقیقہ بچگان
۰…۰…۴۰
۳
سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ کپتان عبدالحمید صاحب ۔معرفت ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب لاہور بطور صدقہ
۰…۰…۲۰
۴
چوھدری نذیر احمد صاحب طالب پوری حال ڈسکہ بطور صدقہ
۰…۰…۱۰۰
۵
سردار عبدالرحمن صاحب نبی سر روڈ سندھ برائے امداد لنگر خانہ قادیان (۰/۳روپے ماہوار امداد دینے کاوعدہ ہے )
۰…۰…۱۸
میزان
۰…۰…۱۹۸
‎(مطبوعہ الفضل ۳ ؍ستمبر ۱۹۴۹ئ)
جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضاکے ساتھ وابستہ ہے ۔
حضرت مسیح موسوی اور حضرت مسیح محمدی کے دو لطیف کشف
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جہاں وہ اپنے مرسلوں اورماموروں کو ان کی جماعتوں کی آیندہ دینی اور روحانی ترقیات کی خبر دیتا ہے ۔وہاں بسا اوقات ان کی ظاہری اور مادی ترقی کے متعلق بھی قبل از وقت اشارے کر دیتا ہے اور یہ اشارے سراسر فضل اور رحمت کا موجب ہوتے ہیں ۔ کیونکہ مومن ان سے فائدہ اٹھا کر خدا کی نیک تقدیر وں کواپنے لئے جمع کر لیتے ہیں۔اسی تعلق میں میں اپنے مندرجہ ذیل نوٹ میں حضرت مسیح ناصری یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح محمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو کشفوں کا ذکر کرتا ہوں،جن میںان ہر دو بزرگ رسولوں کو ان کی جماعتوں کی آیندہ ترقی کی خبر دی گئی تھی ۔ چنانچہ انجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک کشف کا ذکر آتا ہے، جس میں انہوں نے خدا سے نصرت پاکر پانیوں پر چلنے کانظارہ دکھایا ۔انجیل میں آتا ہے کہ :
’’یسوع مسیح رات کے چوتھے پہر میں ان لوگوںکی طرف گیا جو جھیل کی سطح پر کشتی میںسوار ہوکر جارہے تھے اس وقت مسیح پانیوںکے اوپر پاپیادہ چلا۔اور جب اس کے ان حواریوں نے اسے جھیل کی سطح پر چلتے ہوئے دیکھا تو وہ گھبرا کر کہنے لگے کہ یہ تو ایک روح آتی ہے ۔اور وہ ڈرکے مارے چیخنے اور پکارنے لگے لیکن مسیح نے انہیں آواز دے کر تسلی دی اور کہا گھبرائو مت اور تسلی رکھو۔ یہ میں ہوں اور تمہیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔‘‘ ۷۲
میرے پاس چونکہ اس وقت اردو کی انجیل نہیں ہے ،میں نے اوپر کا حوالہ انگریزی کی انجیل سے ترجمہ کر کے لکھاہے اور ممکن ہے میرے الفاظ کچھ مختصر ہوگئے ہوں۔مگربہرحال مفہوم یہی ہے ، جواوپر بیان کیاگیاہے۔انجیل نے حسب سابق مسیح ناصری کے اس کشف کو ایک خارق عادت کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صرف ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت مسیح ناصری کو ان کی قوم کی آیندہ ظاہری اور دنیوی ترقی کے متعلق دکھایا گیا اور اس کشف میں اشارہ یہ مقصود ہے کہ عیسائی لوگ اس وقت ترقی کریں گے جب وہ جہاز رانی کی طرف توجہ دے کر پانیوں پر نکلیں گے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا ہی ہوا ۔اور عیسائی قومیں اس وقت تک ترقی نہیںکر سکیں جب تک کہ وہ زمینوں کی حدود میںمحصور ہو کر بیٹھی رہیں ۔ اور ان کی ترقی کاصرف اس وقت آغاز ہوا جبکہ انہوں نے اپناقدم زمین سے اٹھا کر پانیوں پر رکھا اور جہاز رانی کی طرف توجہ دے کر آہستہ آہستہ اس ذریعہ سے ساری دنیاپر چھا گئیں۔ یہ ایک کھلاہوا تاریخی ورق ہے جس کی صداقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ پانیوں پر چلنے کے لئے پہلا قدم سپین نے اٹھایا اور اس کے بعد برطانیہ نے اس راستہ میں اس کی اتباع کی اور بالآخر اسی کے طفیل عیسائی اقوام کو وہ غلبہ حاصل ہوا جس نے کئی صدیوں تک دنیا کی نظروں کو خیرہ کئے رکھا ۔چنانچہ قرآن شریف نے بھی یہ الفاظ کہہ کر کہ۷۳یعنی آخری زمانہ میں یاجوج ماجوج کی قومیں سمندروں کی لہروں پر ادھر ادھر دوڑتی پھریںگی۔اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
یہ تو وہ خدائی تقدیرتھی جو حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ ظاہر ہوئی لیکن ضروری تھا کہ جب مسیح محمدی کازمانہ آتا تو آپ کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی واضح کشف یارؤیاکے ذریعہ وہ راستہ بتادیتا جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی جو اسلام کے دور ثانی کی علمبردار ہے دنیا میںترقی مقدر تھی ۔چنانچہ ایساہی ہواکہ جس طرح حضرت مسیح ناصر ی کو پانیوں پر چلنے کا کشف دکھایا گیااسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا میں اڑنے کا نظارہ دکھا کر اس بات کی طرف اشارہ کیاگیا کہ جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضائوںکے ساتھ مقدر ہوچکی ہے ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نے رؤیا میںدیکھا کہ :
’’میں ہوا میں تیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول …اور میں اس پر ادھرسے ادھر اور ادھر سے ادھر تیررہا ہوں۔ سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے۔ میں نے ان کو بلاکر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسیٰ تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہاہوں۔ اور میرے خداکافضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے نہ ہاتھ نہ پائوں ہلانے پڑتے ہیںاور بڑی آسانی سے ادھر ادھرتیر رہے ہیں۔‘‘۷۴
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہ رؤیا نہایت واضح اوراپنے لطیف اشارات میں بالکل کامل و مکمل ہے اور اسکا خاص پہلو یہ ہے کہ اس کشف کے دوران میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک زمین پر کھڑے ہوئے ساتھی سے فرماتے ہیںکہ دیکھ مسیح ناصری تو پانی پر چلتا تھااور میں ہوا میں اڑتاہوںاور مجھ پر خدا کافضل مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے رؤیا کے دوران میں ہی یہ الفاظ فرماناصاف ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کارؤیا اسی قسم کی کیفیت کی طرف اشارہ کر نے کیلئے دکھایا گیا تھاجو حضرت مسیح ناصری کے کشف میں مضمر تھی یعنی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پانی والے کشف کی طرف اشارہ مقصود تھا کہ آئندہ میری قوم کی ترقی پانیوں پرچلنے کے نتیجے میں ہو گی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہوا میں اڑنے والا رئویا اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے دکھایا گیا تھا کہ تیری قوم کی ظاہری ترقی ہوائی فضائوں میں پرواز کرنے کے ساتھ مقدر کی گئی ہے اور یہ جو اس رؤیا میں گول دائرہ پر اڑنا دکھایا گیا ہے اس میں یہ لطیف اشارہ مخفی ہے کہ جماعت احمدیہ کی یہ ترقی سارے کرہّ ارض پر وسیع ہوگی اور کسی ایک ملک یا ایک قوم تک محدود نہیں ہوگی اسی طرح اس رؤیا میں بعض اور اشارے بھی ہیں مگر اس جگہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں۔
لیکن ایک لطیف اشارے کے ذکر سے میں رک نہیں سکتا اور وہ یہ کہ ہوا میں پرواز کر نے کے نظارہ میں باطنی اشارہ بھی مد نظر ہے کہ جماعت احمدیہ کی ترقی صرف مادی رنگ میںہی نہیں ہوگی بلکہ اس ظاہری ترقی کے ساتھ غیر معمولی روحانی ترقی بھی مقدر ہے ۔ظاہر ہے کہ پانی پر چلنا اپنے اندر کوئی روحانی پہلو نہیں رکھتا ۔مگر ہوا میں اڑنا اپنے اندر یہ صریح اشارہ رکھتا ہے کہ یہ ظاہری پرواز روحانی ترقی کی بھی حامل ہوگی ۔کیونکہ روحانی ترقی کو ہمیشہ آسمانوں میں اڑنے اور ہوائی فضاء میں بلندہونے کے ساتھ تعبیر کیاجاتا ہے ۔بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لطیف رؤیا جس کے اندر ہی کمال حکمت سے مسیح ناصری کے پانی کے رؤیا کا ذکر کر دیا گیا ہے ہمیں بتاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ظاہر ی ترقی بڑی حد تک ہوا میں اڑنے یعنی ہوائی جہازوں کے فنون کی طرف توجہ دینے کے ساتھ وابستہ ہے اور دنیاکا موجودہ قدم بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ قوموں کی دوڑ میں آئندہ وہی قوم آگے نکلنے والی ہے جو ہوائی جہازوں کے فن میں زیادہ کمال پیدا کرے گی۔
پس میںجماعت احمدیہ کے نونہالوں سے اپیل کرتاہوںکہ جو بچے عام صحت اور جسمانی اور دماغی قویٰ کے لحاظ سے ہوائی جہازوں کے فن سیکھنے کا ملکہ رکھتے ہوں وہ اس کام کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں تاکہ ہم اس خدائی تقدیر کو جو ہمارے لئے مقدر ہوچکی ہے زیادہ سے زیادہ قریب لاسکیں میں اس لائن کے متعلق کوئی ٹیکنیکل علم نہیں رکھتا مگر سرسری نظر میںخیال کرتا ہوں کہ ہوائی جہازوںکے فنون مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم شدہ ہیں اور ان سب کی طرف ہمارے نوجوانوں کو اپنے اپنے مذاق اور حالات اور تعلیمی قابلیت کے مطابق توجہ دینی چاہئے۔
۱۔ ہوائی جہازوں کی فوج یعنی ایر فورس میںبطور پائلٹ بھرتی ہوناجس کے بعد کامیاب امیدواروں کو حکومت خود اپنے خرچ پر ٹریننگ دلاتی ہے۔ اس کے لئے اچھے اعصاب اور چست دماغ کاہونا ضروری ہے ۔اس لائن کانام غالباً جنرل برانچ ہے ۔
۲۔ گرائونڈ انجینئرنگ کی لائن میں بھرتی ہونا جس میں ہوائی جہازوں کی مشینری وغیرہ سے واقفیت پیدا کرائی جاتی ہے۔
۳۔ ائیر و ڈروہوں یعنی ہوائی مستقروں کے انتظام کی لائن میں بھرتی ہونا جو غالباً ائیر ایڈمنسٹریٹو سروس کہلاتی ہے۔
۴۔ سول فلائنگ یعنی غیر فوجی پرواز کے لئے ٹریننگ حاصل کرنا تاکہ ملک کی مختلف ائیر لائینوں میںکام کرنے کی قابلیت پیدا ہوجائے ۔ڈاک اور مسافر جہازوں کاکام اسی لائن سے تعلق رکھتا ہے۔
۵۔ ہوائی جہازوں اور ان کے پرزوں کے بنانے کا علم حاصل کرنا جوخاص علمی اور عملی سائنس کی مہارت چاہتاہے۔
یہ وہ پانچ موٹی موٹی لائنیں ہیں جن میں ہوائی جہازوں کا کام فی الحال تقسیم شدہ ہے ۔اور ہمارے ان نوجوانوں کو جو جسمانی اور دماغی قویٰ اور تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے اس کام کے اہل ہوں ان سب لائنوں کی طرف حسب تعداد خاص توجہ دینی چاہئے۔
شاید بعض دوستوں کو خیال ہو کہ یہ تو ایک محض دنیوی کام ہے اور ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں مگر یہ درست نہیں ہے ۔کیونکہ اول تو جب ہم نے دنیا میں رہنا ہے اور دنیا کی قوموں کے ساتھ ہمیں واسطہ پڑتا ہے تو اس بات کے بغیر چارہ نہیں کہ ہم ان فنون کی طرف توجہ دیں جو دنیوی ترقی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ علاوہ ازیںمومن کا ہرکام اس کی نیت کی بناء پر پرکھا جاتا ہے۔ پس اگر ہماری نیت یہ ہوکہ ہم نے جماعت کے لئے ترقی کارستہ کھولنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رؤیا کو پورا کرنا ہے تو یہی کام جو بظاہر دنیوی نظر آتا ہے ہمارے لئے بھاری ثواب کا موجب بھی بن سکتا ہے ۔کیادوستوں کو یہ معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مومن نیک نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں خوراک کا ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے وہ اس لقمہ کی وجہ سے بھی ثواب کا مستحق ہوگا۔تو کیا پھر جماعت کی ترقی کے رستہ کو کھولنے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک اہم رؤیا کو پوری کرنے والا ثواب کا مستحق نہیں ہوگا؟۔
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر احمدی نوجوان دوسرے سارے کام چھوڑ کر اسی کام کی طرف لگ جائے ایسا خیال یقیناً ایک مجنونا نہ خیال ہوگا کیونکہ نہ تو سارے نوجوانوں کو اس کام سے مناسبت ہوسکتی ہے (کیونکہ خالق فطرت نے کمال حکمت سے ہر شخص میں علیٰحدہ علٰیحدہ مناسبت پید اکی ہے ۔) اور نہ دنیاکے دوسرے کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے اور خالص دینی کاموں کو تو کسی صورت میں چھوڑا جاسکتا ہی نہیں۔ پس میرامطلب صرف یہ ہے کہ جواحمدی نوجوان اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں اور انہیں دوسرے کاموںکی نسبت اس سے زیادہ مناسبت ہو اور ان کے حالات بھی اس کی اجازت دیتے ہوں انہیں چاہئے کہ اس کی طرف خاص توجہ دیں۔کیونکہ یقیناً اس لائن کے ساتھ جماعت احمدیہ کی آئندہ ترقی کے بہت سے پہلو وابستہ ہیں
واﷲ اعلم وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)










اسلامی احکام پردہ کاخلاصہ
پردہ کے متعلق سات بنیادی نکتے
آج کل پاکستان میں پردہ کی بحث زوروں پر ہے ۔اور بعض بڑے بڑے لیڈر اسلامی احکام پردہ کے متعلق ایسے خیالات ظاہر کررہے ہیںجو یقینا خلاف تعلیم اسلام ہیں ۔میںنے اسلامی پردہ کے متعلق کچھ نوٹ تیار کررکھے ہیں ،اور انشاء اللہ کسی وقت ان نوٹوں کی روشنی میں مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا۔لیکن فی الحال بغیر کسی دلیل اور حوالہ کے اسلامی پردہ کے متعلق چند مختصر فقروںمیں اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تاکہ ہمارے دوستوں کو اطلاع رہے ۔اور وہ اپنے مباحث میں اس خلاصہ کو مد نظر رکھ سکیں۔
۱۔ اسلام سے قبل عرب عورتیں پردہ نہیں کرتی تھیں اور اسلام کے اوائل زمانہ میں مسلمان عورتوں میں بھی پردہ کا رواج نہیں تھا ۔لیکن ۰۵ھ کے قریب پردہ کے احکام نازل ہوئے اور مسلمان عورتوں کو حجاب یعنی پردہ کا حکم دے دیا گیا۔
۲۔ پردہ کے متعلق جو احکام نازل ہوئے ۔ان کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ مسلمان عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے (اور شریعت نے نے محرم مردوںکی تعیین فرمادی ہے۔ مثلاً باپ، بیٹا، خاوند، بھائی،چچا ،ماموں وغیرہ) اپنی زینت کا اظہارنہ کریں اور زینت کے لفظ میں قدرتی زینت یعنی جسمانی حسن اور مصنوعی زینت یعنی لباس و زیبائش دونوں کا مفہوم شامل ہے۔
۳۔ لیکن کمال حکمت سے اسلام نے عورتوں کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زینت کے اظہار کے تعلق میںبعض چیزوںکومستثنیٰ قرار دیا ہے۔ مثلاً ہاتھ جو کام کرنے کے لئے ضروری ہیں۔پائوں جو چلنے پھرنے کے لئے ضروری ہیں آنکھ جو راستہ دیکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اور ناک اور منہ کا دہانہ جو سانس لینے کے لئے ضروری ہیں، مستثنیٰ ہیں ۔مگر باقی چہرہ ہرگز مستثنیٰ نہیں۔البتہ بیماری کے موقع پر جبکہ مجبوری کی صورت ہو جسم کے کسی حصہ کا ڈاکٹر کو دکھانا جائزہے۔
۴۔ زینت کے عدم اظہار کے تعلق میں اسلام نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ایک مسلمان عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ مصافحہ نہ کرے کیونکہ اس طرح اس کے جسم کی زینت کا اظہار ہوجاتا ہے اور اسی طرح اسلام نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ غیر محرم مرد کے ساتھ کلام کرتے ہوئے عورت اپنی آواز کی نرمی اور لوچ کو چھپائے ۔اور بلند اور سنجیدہ لہجہ کے ساتھ کلام کرے تاکہ آواز کی زینت بھی جو عورت کے قدرتی حسن کاحصہ ہے پردہ میں رہے۔
۵۔ پردہ کے تعلق میںاسلام یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ کسی عورت اور مرد کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم مرد عورت کو علیحدگی میں ملیں ۔جبکہ کوئی تیسرا محرم شخص ساتھ نہ ہو۔مثلاً کسی غیر محرم مردو عورت کا علیحدہ کمرے میں جاکر خلوت میں ملنا ۔اسلامی تعلیم کے مطابق ممنوع ہے۔وغیر ذالک
۶۔ اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ چونکہ رستہ دیکھنے کی سہولت کے لئے آنکھ پردہ کی قیود سے مستثنیٰ ہے۔ اس لئے اخلاق کی حفاظت کے لئے مرد و عورت دونوں کوچاہئے کہ جب وہ کسی غیر محرم کے سامنے آئیں تو پردہ کے عام احکام کے علاوہ اپنی نظر کو نیم خوابیدہ صورت میںنیچا رکھیں۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی ناجائز ہوگی کہ کوئی مرد چھپ چھپ کر کسی غیر محرم عورت کو دیکھے یا کوئی عورت کسی غیر محرم مرد کی طرف تاڑنے کی غرض سے نظر اٹھائے مگر اتفاقی نظر جو فوراً ہٹالی جائے قابل معافی ہے۔
۷۔ پردہ کے احکام بلوغ کی عمر سے شروع ہوتے ہیں۔یعنی خورد سالہ لڑکے اورلڑکیاں پردہ کے احکام سے مستثنیٰ ہیں۔ اسی طرح بوڑھی عورتیں جو مخصوص جنسی تعلقات کی حد سے تجاوز کر چکی ہوں، وہ بھی نظر والے پردہ کے احکام سے مستثنیٰ ہیں۔
اوپر کی حد بندیوں اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام اس بات کی اجازت دیتاہے کہ مسلمان عورتیں کسی کام یا ڈیوٹی کے تعلق میں یا جائز تفریح یاصحت کی اغراض کے ماتحت اپنے مکان سے باہر آئیںجائیں۔اور اسلام اس معاملہ میں کوئی ناواجب حد بندی نہیںلگاتا۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسلمان عورتیں تعلیم پاتی اور تعلیم دیتی تھیں۔اپنے کام کاج کے تعلق میں گھروں سے باہر آتی جاتی تھیں۔جنگوںمیں مردوں کو پانی وغیرہ پلانے اور مرہم پٹی وغیرہ کرنے کافرض بجالاتی تھیں ۔اور خاص ضرورت کے وقت میںدشمن کے قافلہ پر تلوار بھی چلالیتی تھیں۔ اور ان کے لئے یہ سب کام بالکل جائز سمجھے جاتے تھے۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تو عورتیں صبح اور عشاء وغیرہ کی نمازوں میں بھی الگ صف بنا کر شامل ہوجاتی تھیں۔ ان کاموں اور اسی قسم کے دوسرے جائز کاموں کے متعلق اسلام کوئی روک پیدا نہیں کرتا۔ اور نہ وہ عورت کو گھروں کی چاردیواری میں قید یوں کی طرح بند رکھنا چاہتاہے گو یہ ضرور درست ہے کہ اسلام ا س بات کی تحریک کرتا ہے کہ عورت کو چاہئے کہ اپنی بہترین توجہ بچوں کی تربیت پر خرچ کرے تاکہ ہر آئندہ نسل گذشتہ نسل سے بہتر ہو۔اور قوم کاقدم ترقی کی طرف اٹھتا چلاجائے اور اس غرض سے وہ مردو عورت دونوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے تمام اعمال و افعال میں نیکی اور تقویٰ کی ر وح کو مدنظر رکھیں۔
اسلامی احکام کا جو خلاصہ اوپر درج کیاگیا ہے ۔اس کی تائید میںمیرے پاس خدا کے فضل سے یقینی اور قطعی دلائل موجود ہیںاور اگر خدا نے مجھے توفیق دی تو انشاء اللہ کسی وقت مفصل مضمون کے ذریعہ انہیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔وماتو فیقی الاباﷲ العلی العظیم۔

‎(مطبوعہ الفضل ۷؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)










ایک درویش کی والدہ کا انتقال
درویش مذکور کاقابل تعریف نمونہ
اطلاع ملی ہے کہ عبدالکریم صاحب خالد درویش قادیان کی والدہ صاحبہ کا گوجرانوالہ میں انتقال ہوگیا ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اس صدمے کی اطلاع ملنے پر عبدالکریم صاحب خالد نے جس صبر و رضا کا نمونہ دکھایاوہ بہت قابل تعریف ہے ۔چنانچہ رپورٹ آئی ہے کہ جب عبدالکریم صاحب خالد کو اس کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی تو اس نے انا اﷲ و انا الیہ راجعون ۔پڑھتے ہوئے کہا میری والدہ مرحومہ کو مجھ سے بہت محبت تھی اور مجھے بھی اپنی والدہ کے ساتھ بہت محبت تھی اور ماں بے شک ایک بہت بھاری نعمت ہے، لیکن جس خدمت کا مجھے اس وقت قادیان میں موقع مل رہا ہے ،وہ اس سے بھی زیادہ بھاری ہے۔اور قربانی اس چیز کانام ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی بہترین اور پسندیدہ چیزوں کی قربانی پیش کریں۔اسی طرح عبدالکریم خالد کے والد خواجہ عبد الواحد صاحب عرف پہلوان نے بھی اپنے اکلوتے بیٹے کو اس کی والدہ کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے صبروتحمل کی نصیحت کی ہے ۔اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا وہ شعر یاد کرایا ہے جو حضور نے اپنے فرزند مبارک احمد کی وفات پر لکھا تھا،یعنی
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو ۔ آمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)


قادیان میں عیدالاضحیہ کی قربانی
خواہش مند دوست توجہ فرمائیں
مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان نے لکھا ہے کہ میں ان کی طرف سے الفضل میں اعلان کرادوں کہ جو دوست گزشتہ سال کی طرح آنے والی عید الاضحیہ کے موقع پر قربانی کرواناچاہیں، وہ انہیں فی بکراپچیس روپے کے حساب سے رقم بھجوادیں انشاء اللہ ان کی طرف سے قادیان میں قربانی کرادی جائے گی۔ دوستوں کو یاد رہے کہ ہندوستان میںگائے کی قربانی کی اجازت نہیں ہے ۔ صرف بکرا یا دنبہ ہی قربانی کیا جاسکتا ہے ۔ اور قادیان میں ایک بکرے کی قیمت اوسطاً پچیس روپے ہے ۔
پس جو دوست قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل دارالمسیح قادیان ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب کے نام پچیس روپے کی رقم منی آرڈر کے ذریعہ بھجوا دیں اور کوپن پر ضروری تفصیل درج کردیں۔ واجر ھم علی اﷲ۔
میرے خیال میں قادیان کی موجودہ احمدی آبادی کے پیش نظر قادیان میں بیس پچیس بکروں کی قربانی کافی ہوگی ۔ اس سے زیادہ میں گوشت کے ضائع جانے کا احتمال ہے ۔ نیز عید چونکہ غالباً چار اکتوبر کو ہوگی ، اس لئے قربانی کی رقوم احتیاطاً بیس پچیس ستمبر تک قادیان میں بھجوا دینی چاہئیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)



قادیان کے درویشوں کے لئے دعا کی تحریک
جیسا کہ احباب کو علم ہے اس وقت قادیان میں پچیس احمدیوں کے خلاف ایک مخرج شخص نے بعض مخالفوں کے اشارہ پر ضمانت ِحفظ امن کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے ۔ اس مقدمہ کی آیندہ پیشی ۱۳ ؍ستمبر کو مقرر ہے ۔ احباب اپنی دعائوں میں اپنے درویش بھائیوں کو یاد رکھیںجو گویا اس وقت ہر قسم کی تکلیف اور قربانی برداشت کرتے ہوئے قادیان بیٹھے ہیں۔
اسی طرح ۱۲ ستمبر کو عبدالسلام مہتہ پسر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا مقدمہ بھی پیش ہونے والاہے ۔ یہ مقدمہ عبدالسلام کے خلاف پر مٹ کے قانون کے تحت دائر ہے ۔اس کے لئے بھی احباب دعا فرمائیں۔
علاوہ ازیں اس وقت قادیان میں ایک مخلص درویش مجید احمد بہت سخت بیمار ہے اور انتڑیوں کے سل کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اسے بھی دوست اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔
اس وقت قادیان کے احمدی جن حالات میں تمام جماعت کی نمائندگی کر کے قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں ہمارے دوست ہر حال میں اپنی خاص دعائوں سے حصہ دیں کیونکہ یہ وہی مقدس جماعت ہے جس کی وجہ سے اس وقت قادیان کے متعلق ہم سب کو سرخروئی حاصل ہے ۔ ولم یشکر الناس لم یشکراﷲ۔۷۵
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ ؍ستمبر ۱۹۴۹ئ)



چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست
گذشتہ اعلان کے بعد جن احباب کی طرف سے امداد درویشان کا چندہ وصول ہوا ہے ، ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوںکوجزائے خیر دے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو ۔آمین۔
۱
عبدالرحمن صاحب ریلوے ہیڈکوارٹر لاہور
۰…۰…۵
۲
شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰…۰…۵
۳
شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زادہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور
۰…۰…۵
۴
شیخ عصمت اللہ صاحب برادر زادہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور
۰…۰…۵
۵
جماعت احمدیہ راولپنڈی بذریعہ مرزا محمدحسین صاحب سیکرٹری مال (اس جماعت کی طرف سے پہلے بھی چندہ آچکاہے اور آئندہ کے لئے بھی وعدہ ہے)
۰…۰…۱۸
۶
شریفہ بیگم صاحبہ اہلیہ جمعدار نذیر احمد صاحب پنام حال ضلع سیالکوٹ
۰…۰…۱۰
۷
امتہ الغفور بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحمن خان صاحب کاٹھگڑھی
۰…۰…۱۰
۸
بیگم صاحبہ چوہدری شاہنواز خانصاحب کراچی
۰…۰…۱۰۰
۹
ماسٹر امیر عالم صاحب کوٹلی ضلع میر پور (کشمیر)
۰…۰…۲۰
۱۰
محمد شفیع صاحب چاندھا سنت نگر لاہور
۰…۰…۱۰
۱۱
بابو عبدالحق صاحب سنت نگر لاہور
۰…۰…۱۰
۱۲
جماعت احمدیہ لائلپوربذریعہ محمد یوسف صاحب
(چیک کے ذریعے۰ ۴ روپے آئے تھے مگر چیک کیش ہونے پر ۱۰/۴۰ہوگئے)
۰…۱۰…۴۰
۱۳
شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی حال گوجرانوالہ
۰…۰…۱۰
۱۴
حکیم محمد صدیق صاحب رام نگر لاہور
۰…۰…۵
۱۵
چند غیر معلوم خدام بذریعہ مرزامبارک بیگ صاحب ڈرگ روڈ کراچی
۰…۰…۱۰
۱۶
والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ برائے قربانی
عیدا لاضحی قادیان
۰…۰…۲۰
۱۷
نسیم اختر صاحبہ بنت شیخ عنائت اللہ صاحب اسلامیہ پارک لاہور
۰…۰…۵
میزان
۰…۱۰…۴۵۰
اگر کوئی چندہ دینے والے صاحب اعلان سے رہ گئے ہوں تو مہربانی کرکے مطلع فرمائیں تاکہ ان کاحساب چیک کرکے آئندہ اعلان میںشامل کرلیا جائے نیز دوست یہ بات نوٹ کرلیں کہ قربانی کے لئے کم سے کم رقم ۲۵ روپے ہونی چاہئے ۔کیونکہ اس سے کم میںآجکل قادیان میں قربانی کا جانور نہیں ملتا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)








جناب مولوی محمدعلی صاحب کا ایک تازہ خطبہ
حضرت مسیح موعود ؑ سے مسائل میں اختلاف کاجواز
حضرت مسیح ناصری ؑ کی پیدائش کا مسئلہ
جناب مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے اپنے خطبہ جمعہ بمقام کراچی مورخہ ۱۹؍اگست ۱۹۴۹ء میں اپنے ترجمہ و تفسیر قرآن کریم کی نظر ثانی کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ :
’’ یہ بالکل صحیح امر ہے کہ ہم نے حضرت مرزا صاحب کو مجدد بھی مانا ،مہدی اور مسیح بھی مانا مگر ہم نے انکو اپنا پیر کبھی نہیںمانا ۔ہم تو ان کے ساتھ بھی اختلاف کرلیتے تھے۔ نوا ب صاحب منگرول کواس سلسلہ کے ساتھ انس اور محبت تھی ۔بہت حد تک وہ تحریک احمدیت کو صحیح سمجھتے تھے ۔ہم ان کے پاس تھے تو ایک مولوی نے ان کو اکسایا کہ یہ لوگ جن کی آپ اس قدر عزت و تکریم کرتے ہیں اور جنہوں نے حضرت مرزاصاحب کو مسیح موعود مانا ہوا ہے وہ تواپنے مسیح موعود سے بھی اختلاف کر لیتے ہیں۔کیونکہ وہ یعنی حضرت مسیح موعود تو حضرت مسیح ناصری کاباپ نہیں مانتے اور یہ یعنی مولوی محمدعلی صاحب مسیح کا باپ مانتے ہیں۔ نواب صاحب نے یہی سوال مجھ پر کیا تو میں نے جواب میںکہا کہ اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود ؑکو آنکھیں بندکر کے نہیں مانا سوچ سمجھ کر مانا ہے ۔ہم نے اگر حضرت مرزا صاحب کو چودھویں صدی کا مجدد مانا ہے تو کھلی آنکھوں سے مانا ہے اور یہ آنکھیں اب بھی کھلی ہیں حضرت مسیح موعود نے بھی سب چیزوں پر قرآن کریم کو مقدم قرار دیا ہے ۔اس لئے اگر قرآن کی صراحت سے ایک بات نظر آجائے تو ہم حضرت مسیح موعود سے بھی فروعی باتوں میںاختلاف کر لیناجائز سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس کے لئے قوی وجوہ ہوں۔‘‘ ۷۶
اوپر کی عبارت کو جو جناب مولوی محمد علی صاحب کے تازہ خطبہ سے نقل کی گئی ہے، دوست غور کی نظر سے مطالعہ کریں ۔اس عبارت کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب کو نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض باتوں میں اختلاف ہے بلکہ وہ اس اختلاف کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے ہیں۔ناظرین غور کریںکہ اوپر کی عبارت کا اس کے سوا کوئی اور مطلب نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی معقول انسان اس کے سوا کوئی اور مطلب لے سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو خد اکی طرف سے اس زمانہ کے لئے حکم وعدل ہو کر آئے تھے قرآن شریف کی کسی آیت سے ایک استدلال کریںاور کوئی دوسرا شخص اسی آیت سے کوئی اور استدلال کرے جوحضرت مسیح موعو دعلیہ السلام والے استدلا ل سے مختلف ہی نہیں بلکہ اس کے صریح خلاف اوراس سے متضاد ہو تو جناب مولوی محمدعلی صاحب کے نزدیک اس صورت میںبھی یہ بالکل جائز اور ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قرآنی استدلال غلط ہو اور اس کے مقابل پر دوسرے شخص کااستدلال درست اور صحیح ہوتو اس صور ت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیرہ سو سال کے انتظار کے بعد آنے والے مامور یزدانی اور مصلح رحمانی کے ارشادات کا یہی مقام ہے کہ اس کے قرآنی استدلالات عام لوگوں کے استدلالات کے مقابلہ پر بھی غلط ہوسکتے ہیں تو پھر ایسے شخص کاحکم و عدل ہونا کیامعنی رکھتا ہے اور ایسے شخص کو مبعوث کر کے خدائے حکیم نے کس اصلاح کا ارادہ فرمایا ہے؟
یہ بالکل درست ہے کہ قرآنی علوم کے خزانے لامحدود ہیں اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت کے ساتھ ختم نہیں ہوگئے بلکہ آپ کے آنے سے ان کا دروازہ اور بھی زیادہ وسیع ہوگیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان علمی انکشافات کازمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص اُٹھ کر ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی کادم بھرے اور دوسری طرف اس بات کا مدعی ہو کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فلاں قرآنی آیت سے جو استدلال کیا ہے وہ غلط اور باطل ہے اور اس کے مقابل پر میرا استدلال درست اور صحیح ہے۔ اگر ایسا ہو تو مذہبی دنیا سے امان اٹھ جائے اور حضرت مسیح موعود ؑ کی بعثت ایک عبث فعل سے زیادہ حقیقت نہ رکھے ۔پس آپ کے بعد بھی قرآنی علوم کے خزانوں کامنہ کھلا رہے گایقینا درست ہے مگر اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایک استدلال جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیںکیا وہ کوئی بعد میں آنے والا شخص خداسے توفیق پاکر کرلے یاایک نکتہ معرفت جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ظاہر نہیں فرمایا وہ کسی بعد میںآنے والے کے ذریعے ظاہر ہوجائے وغیر ذالک۔ یہ رستہ قیامت تک کھلا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت نے اس رستہ کو ہرگز بند نہیں کیا بلکہ اور بھی زیادہ کھول دیا ہے اور یہی اس قرآنی آیت کا منشاء ہے کہ ۷۷یعنی ہمارے پاس ہرچیز کے لاتعداد خزانے جمع ہیںمگر ہم انہیں آہستہ آہستہ ایک خاص انداز ے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔
پس لاریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نئے معارف کا انکشاف ہوسکتا ہے اور ضرور ہوسکتا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔مگر اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص اٹھ کر حضرت مسیح موعود ؑ کے استدلال کو غلط قراردے اور اس کے مقابل پر اپنے استدلال کو صحیح گردانے ۔یہ تباہی اور ہلاکت کی راہ ہے جس سے ہر سچے مومن کوپرہیز کرناچاہئے ۔کیا جناب مولوی محمد علی صاحب پر حقیقۃً نئے علوم اور فی الواقع نئے معارف کا دروازہ بندہوچکا ہے کہ وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اختلاف کرکے اور آپ کے استدلال کو نعوذ باللہ غلط قراردے کر ہی مجتہد بننا چاہتے ہیں؟ مولانا! اگر سچا مجتہد بننا ہے تو نئے استدلال لایئے اور قرآن کی گہرائیوں میںغوطہ لگا کرا چھوتے معارف دنیا کے سامنے پیش کیجئے جس کے لئے آج دنیا کے سینے پیاس کی تپش میںجل رہے ہیں۔مگر خدارا ! اس آگ کے کھیل سے نہ کھیلئے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فلاں آیت سے جو استدلال کیاتھا ،وہ غلط تھااور میں اس کے متعلق صحیح استدلال پیش کرتاہوں ۔معاف کیجئے آپ کے اس دعویٰ سے تو شبہ ہوتا ہے کہ شائد آپ کی ساری تفسیر میں صرف مسیح ناصری کے باپ ہونے کا نکتہ ہی، ایک ایسا عجیب وغریب نکتہ ہے جس میں آپ نے بزعم خود دنیا کے سامنے ایک نیا خیال اورا یک اچھوتہ نظر یہ پیش کیاہے (گو حقیقتاً یہ بھی کوئی نیا خیال نہیں کیونکہ اوائل میں خود حضرت خلیفہ اول ؓ کا بھی یہی خیال تھا جوآپ نے بعد میں حضرت مسیح موعود ؑ کے عقیدہ کی وجہ سے ترک کر دیا )اور یہ کہ اس کے سوا کوئی اور نکتہ ایسا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر سے باہر جاکر آپ نے لکھا ہو۔ یقیناً یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے جوآپ دنیا کے سامنے پیش فرمارہے ہیں۔
پھر محترم مولوی صاحب ! کیا آپ کو یہ بات یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم ہونے کا منصب محض قیاسی یا حدیثوں کے اقوال پر مبنی نہیں ہے بلکہ خدا ئے علیم وقدیر کی صریح وحی میںبیان ہوچکاہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام فرماتے ہیں۔
’’ مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں۔‘‘
اور دنیا جانتی ہے کہ حکم وہ ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے تمام اختلافی امورمیں فیصلہ صادر کرنے کا منصب رکھتا ہو اور اس کا فیصلہ واجب العمل بھی ہو اور مسیح موعود ؑ کے متعلق تو آنحضرت ﷺ خصوصیت کے ساتھ فرماتے ہیںکہ وہ صرف حکم ہی نہیں ہوگا بلکہ عدل بھی ہوگا۔ یعنی اس کا ہر فیصلہ صرف واجب العمل ہی نہیں ہوگا بلکہ درست اور صحیح بھی ہوگا مگر حکم لفظ کے متعلق ہمیںاپنی طرف سے تشریح پیش کرنے کی ضرورت نہیں خود حضرت مسیح موعود ؑ کی زبان سے سنئے فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میںمجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کامجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیںکرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پائوگے۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوںکو جو مجھے خداسے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا ۔اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔‘‘
کیا ان الفاظ سے زیادہ واضح اور زیاد ہ زور والے الفاظ ممکن ہیں؟
پس ان حالات میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا یہ فرمانا اور اس پر فخر کرنا کہ ہم تو حضرت مسیح موعود ؑ سے بھی اختلاف کرلیتے ہیں۔اور یہ کہ مسیح ناصری کے بے باپ ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہمارا عقیدہ حضرت مسیح موعود کے عقیدہ کے خلاف ہے، ایک ایسی جرأت ہے جس کاارتکاب غالباً آج تک کسی تابع نے اپنے مامور متبوع کے متعلق نہیںکیاہوگا ۔اے کاش جناب مولوی محمدعلی صاحب اپنی آزاد خیالی کے جوش میں یہ الفاظ نہ فرماتے جن کے متعلق میں ڈرتاہوں کہ قیامت کے دن انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے آنکھیں اونچی کرنے کے قابل نہیں رہنے دیںگے۔جناب مولوی صاحب کو یاد رکھناچاہئے کہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں تو کسی عالم یامجتہد کا ذکر نہیں کرتے بلکہ خدا کے مسیح اور مہدی اور مصلح و مامور کا ذکر کرتے ہیں جسے موجودہ زمانہ کے فاسد خیالات کے لئے حکم وعدل بنا کر بھیجا گیا ہے پس خواہ ہماری درمیانی نبوت وغیرہ کے مسائل میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ، کم از کم یہ بات تو فریقین کے نزدیک مسلم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم و عدل تھے۔ ہاں وہی حکم و عدل جسے آنحضرت ﷺ نے حکم و عدل کے الفاظ سے یاد کیا اور پھر وہی حکم وعدل جسے خود خدا ئے ذوالعرش نے حکم کے نام سے پکارا۔ پس مکرم مولوی صاحب خدا کے لئے سنبھلئے۔ خدا کے لئے سنبھلئے ۔آپ کے ساتھ خواہ کتنی ہی قلیل جماعت ہے بہر حال آپ کو ایک پارٹی کی قیادت حاصل ہے اور آپ کی لغزش ان لوگوںکی لغزش کا موجب ہوسکتی ہے جو گو ہمیشہ تو نہیں مگر عموماً آپ کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپ اب بظاہر اپنی آخری عمرکو بھی پہنچے ہوئے ہیں جبکہ دنیامیں آزاد خیالی کی واہ واہ کی نسبت آپ کو آخرت کی زیادہ فکر ہونی چاہئے ۔خدا جانتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ طعن کے رنگ میںنہیں لکھے بلکہ آپکی سچی ہمدردی میں نیک نیتی کے خیال سے لکھے ہیں۔ خدا کرے کہ میری یہ دور کی صدا آپ کے دل کی گہرائیوں میں کوئی گونج پید اکرسکے ۔ورنہ ماعلینا الاالبلاغ۔
بالآخر میں حضرت مسیح ناصری کی بے باپ ولادت کے متعلق دو مختصر سے حوالے پیش کرتا ہوں۔تااگر جناب مولوی محمدعلی صاحب نہیں تو کم از کم کوئی اور بھٹکی ہوئی روح ہی ان سے روشنی حاصل کر سکے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
خلقہ اﷲ من غیراب ۔
’’یعنی خدا نے مسیح ناصری کو بے باپ کے پید اکیا۔‘‘
پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں اور دلیل دے کر فرماتے ہیں:
’’من عقائدً نا ان عیسیٰ ویحیٰ قد ولد اعلی طریق خرق العادۃ …ناول مافعل لھذہ الارادۃ ھو خلق عیسیٰ من غیراب بالقدرۃ المجردۃ فکان عیسیٰ ارھا صاً لنبینَا وعلما النقل النبوۃ۔‘‘
’’یعنی یہ بات ہمارے عقائد میںداخل ہے کہ عیسیٰ اور یحییٰ دونوں معروف پیدائش کے طریق سے مختلف صورت میں پیدا ہوئے تھے۔ (یعنی عیسٰی تو بے باپ کے پید اہوئے اور یحییٰ ایک بہت بوڑھے باپ اور بانجھ ماںکے گھر پیدا ہوئے)…خدا تعالیٰ چونکہ بنی اسرائیل سے نبوت منتقل کر کے بنو اسمٰعیل کی طرف لانا چاہتا تھا۔اس لئے اس نے عیسیٰ کو بغیر باپ کے محض اپنی قدرت کے زور سے پیدا کیا اور اس طرح عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے ایک قبل از وقت ظاہر ہونے والی علامت بن گئے ۔اور بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہونے والی نبوت کا نشان قرار پائے۔‘‘
اب دیکھو یہ حوالہ کتنا واضح اور کتنا زوردار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ اپنا کوئی رسمی خیال پیش نہیں فرماتے بلکہ اس خیال کو اپنے عقائد کا حصہ قرار دیتے ہیںاور پھر مجرد دعویٰ کے بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس دعوی ٰ کی دلیل اور حکمت بھی بیان فرماتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ حضرت عیسی ٰ کا بے باپ کے پیدا ہونا خدا کی خاص تقدیر وں میں سے ایک تقدیر تھاجس کے ذریعہ خداتعالیٰ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے واسطے ایک نشان قائم کرنا چاہتا تھا ۔اگر ایسا واضح اور مدلل اور پُر حکمت عقیدہ بھی جو ایک مامور من اللہ نے ظاہر کیا ہے ایک عام شخص کی قیاس آرائی سے رد ہوسکتا ہے تو یہ دین جناب مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کو مبارک ہو۔ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اس ’’آزادخیالی‘‘ سے محروم ہیںاور اس محرومی کو ہی اپنے لئے باعث برکت اور باعث عزت خیال کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحفہ گولڑویہ والے حوالہ کو پھر دوبارہ درج کر کے اس مختصرسے نوٹ کو ختم کرتاہوں۔مخلصین توجہ کیساتھ مطالعہ فرمائیں۔حضور فرماتے ہیں۔
’’جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہرایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے ۔مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیںکرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پائو گے۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیںہے۔‘‘
بس میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا ۔ وآخر دعواناان الحمد ﷲ رب العلمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)









الحمد للہ : ربوہ کا ڈاکخانہ کھل گیا
آج کے الفضل کے ذریعہ احباب یہ خبر معلوم کر چکے ہیں کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ میں ڈاکخانہ کھل گیا ہے۔جیسا کہ محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کی تار سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس ڈاکخانہ کا آغاز ۴ ستمبر بروز بدھ بوقت ایک بجے دو پہرہوا ۔فالحمد ﷲ علیٰ ذالک۔
اب احباب چنیوٹ کے ڈاکخانہ کی معرفت خط لکھنے کی بجائے براہ راست ربوہ کے ڈاکخانہ کے پتہ پر خطوط وغیرہ بھجوا سکتے ہیں۔ پتہ میں صرف اس قدر لکھنا کافی ہوگا کہ
’’ فلاں صاحب ربوہ ‘‘ ۔
مغربی پنجاب سے باہر کے دوستوں کو اس پتہ کے ساتھ مغربی پنجاب کے الفاظ بھی زیادہ کر دینے چاہئیںاور احباب کو یہ بات بھی یار رکھنی چاہئے کہ انگریزی میں ربوہ کا ہجہ بصورت ذیل لکھا جاتا ہے ۔ ’’ Rabwah ‘‘
علاوہ ازیں احباب کو یہ دھوکا نہیں لگنا چاہئے کہ ڈاکخانہ کے ساتھ ربوہ میں تار گھر بھی کھل گیا ہے۔ کیونکہ ابھی تک صرف بغیر تار کے ڈاکخانہ کھلا ہے ۔ اور تار بدستور ’’ ربوہ چنیوٹ ‘‘ کے پتہ پر جانی چاہئے ۔ انگریزی میں چنیوٹ کا ہجہ ’’ Chiniot ‘‘ ہے ۔البتہ تار کے علاوہ عام خطوط اور رجسٹرڈ خطوط اور منی آرڈر اور بیمے وغیرہ براہ راست ربوہ کے پتہ پر جاسکتے ہیں۔

‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)



ایک دیہاتی مبلغ کی افسوسناک وفات
قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ مولوی اللہ بخش صاحب دیہاتی مبلغ نبیسٹہ ضلع مظفر نگر یو پی ایک تالاب میں تیرنے کی مشق کرتے ہوئے ڈوب کر وفات پاگئے ہیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔ مولوی اللہ بخش صاحب ان پانچ دیہاتی مبلغین میں سے تھے جو گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان سے یوپی کے مختلف علاقوں میں بھجوائے گئے تھے۔ مولوی اللہ بخش صاحب کا اصل وطن ادر حمہ ضلع سرگودھا ہے۔ ان کے والد صاحب کانام میاں خدا بخش صاحب ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے بوڑھے والداور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصرہو۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)







تاریخ احمدیت کا ایک یادگاری دن
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا سفر ربوہ
یوں تو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کئی دفعہ ربوہ تشریف لے جاچکے ہیں۔اور گذشتہ جلسہ سالانہ بھی ربوہ میں ہی منعقد ہوا تھا جبکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مع اہل و عیال کئی دن تک ربوہ میں قیام فرمایا تھا لیکن یہ سب سفر عارضی رنگ رکھتے تھے اور ابھی تک حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مستقل سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی لیکن جو سفر ۱۹ ستمبر ۱۹۴۹ کو بروز دوشنبہ اختیار کیا گیاوہ ربوہ کی مستقل رہائش کی غرض سے تھا، گویا دوسرے الفاظ میں یہ ہماری قادیان سے ہجرت کی تکمیل کا دن تھا جبکہ خلیفۂ وقت اور امام جماعت قادیان سے باہر آنے کے بعد اپنی عارضی رہائش گاہ سے منتقل ہو کر جماعت احمدیہ کے قائمقام مرکز ربوہ میں رہائش رکھنے کی غرض سے تشریف لے گئے ۔پس یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میںایک یادگاری دن تھا ۔اور میں امید کرتا تھا کہ الفضل کی طرف سے اس سفر کی رپورٹ تیار کرنے کاکوئی انتظام کیاگیاہوگا لیکن چونکہ آج تک ایسی کوئی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری ۔اس لئے میںمختصر طورپر اس سفر کے چشم دید حالات تاریخ احمدیت کو ضبط میں لانے کی غرض سے درج ذیل کرتاہوں۔
دراصل گو میرا دفتر ابھی تک لاہور میںہے مگر میںنے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کر کے یہ ارادہ کیا تھا کہ میںانشاء اللہ اس سفر میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جائونگا۔اور سفر اور ربوہ کی دعا میںشریک ہوکر اسی دن شام کولاہور واپس پہنچ جائوںگا۔چنانچہ خدا نے مجھے اس کی توفیق دی ۔جس کے نتیجہ میں میں ذیل کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرنے کے قابل ہواہوں۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشاء اللہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۴۹ء کو صبح آٹھ بجے لاہور سے روانگی ہوگی مگر دفتری انتظام کے نقص کی وجہ سے یہ روانگی وقت مقررہ پر نہیں ہوسکی ۔چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بجکر پچاس منٹ پر یعنی قریباً گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے ۔حضور کی موٹر میںحضرت ام المومنین اطال اللہ بقائھا اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شائد ایک دو بچیاں ساتھ تھیں۔اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میںحضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک بہو اور بعض بچے اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سوا رتھے۔ تیسری موٹر میںسیدہ بشریٰ بیگم مہر آپا صاحبہ اور محترمہ اُم وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چوتھی موٹرمیں خاکسار مرزا بشیر احمد اور میرے اہل وعیال اور عزیزہ آمنہ بیگم سیال اور محترمی چوہدری عبدالحمید صاحب سپرنٹنڈنٹ انجینئر اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے ۔پی۔ او سوار تھے،شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر کو روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی۔اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے ایک لاری اور دو ٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے۔
رتن باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضر ت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدائت فرمائی تھی کہ سب لوگ رتن باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور پھر ربوہ کی سرزمین میںداخل ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آنحضرت ﷺ کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھلائی گئی تھی پڑھتے جائیںیعنی:
۷۸
چنانچہ اس دعا کے ورد کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا ۔اور راستہ میں بھی یہ دعا برابر جاری رہی ۔چونکہ روانگی میںدیر ہوگئی تھی اس لئے موٹریں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالبا ً ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہوگا اور اسی غرض سے رستہ میں کسی جگہ ٹھہرا بھی نہیں گیا ۔یہی وجہ ہے کہ محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی موٹر جو لاہور سے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی اور اس میں محترمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد بھی بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی رستہ میں ہی ربوہ کے قریب چناب کے پل پرمل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی ۔اس کے علاوہ ایک چھٹی موٹر بھی تھی جس میں محترمی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان اور ہمارے بعض دوسرے عزیزبیٹھے تھے لیکن یہ موٹر چونکہ بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں رکھ سکی اس لئے وہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی ۔
چناب کا پل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سرزمین کاآغاز ہوتا ہے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں سے اتر آئے ۔البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی رہیں ۔اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اور اہل ربوہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے ریوالور اور رائفل کے کچھ کارتوس ہوا میں چلائے ۔ا س کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہو کر مسنون دعا کرتا ہوں۔ اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے دہراتے جائیں ۔اور مستورات بھی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعا دہرائیں ۔اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کر کے یہ دعا کرنی شروع کی ۔
۷۹
’’یعنی اے میرے رب مجھے اس بستی میں اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا مجھے اس بستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ لے جا اور اے مومنو تم خدا کی برکتوں کو دیکھ کر اس آواز کو بلند کرو کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا ۔اور باطل کے لئے تو بھاگنا ہی مقدر ہوچکا ہے۔‘‘
یہ دعا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہو کر ربوہ کی زمین کے کنارے پر کھڑے ہو کر کئی دفعہ نہائت سوز اور رقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میںبیٹھ کر آگے روانہ ہوئے ۔کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناب کے پل سے قریبادو میل آگے ہے اس عرصہ میں بھی سب دوست اوپر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے۔ جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹریں پہنچیں تو اس وقت ربوہ اور اس کے گردو نواح کے سینکڑوں دوست ایک شامیانہ کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے ۔ اس وقت جبکہ عین ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب سے آگے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر تھی اس کے بعد ہماری موٹر تھی اس کے بعدغالباً سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی ۔اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی۔ اور اس کے بعد غالباً محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موٹر تھی۔
جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چندنمائندہ دوست جن میں محترمی مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے ناظر اعلیٰ اور محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظرامورعامہ وامیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ اللہ اور بعض ناظرصاحبان اور تحریک جدید کے وکلاء صاحبان اور محترمی مولوی ابو العطاء صاحب وغیرہ شامل تھے، آگے آئے ۔اور حضور کے ساتھ مصافحہ کر کے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طر ف نصب شدہ تھا اور جس میںدوسرے سب دوست انتظار کر رہے تھے۔
حضرت صاحب اس وقت بھی ۸۰والی دعا دہرارہے تھے اوردوسروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ یہ دعا دہراتے جائو۔ شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ یہ گویا ورود ربوہ کا سب سے پہلا کام تھا ۔نماز اور سنتوں سے فارغ ہو کر حضور نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی ،جس میںفرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی سنت کوسامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے تاکہ ہم سب متحدہ دعائوں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھراس دعا کو دہراتا ہوں اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں ۔چنانچہ آپ نے شاید تین دفعہ یا پانچ دفعہ اور والی دعا دہرائی اور سب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی ۔
اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی کہ یہ دعا وہ ہے جومدینہ کی ہجرت کیوقت آنحضرت ﷺ کو سکھائی گئی تھی۔ اور اس میںادخلنی (مجھے داخل کر) کے الفاظ کواخرجنی (مجھے نکال ) کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہو کر رک جانا ہی آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی غرض و غایت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہے ۔اور اس کے بعد پھر مدینہ سے نکل کرمکہ کو واپسی حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قل جاء الحق والی دعا کو شامل کیاگیا۔ تاکہ اس بات کی طرف اشارہ کیاجائے کہ مومن کی ہجرت حقیقتاً اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیزاس میںاس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے۔اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کا ذکر کیا کہ ہم بھی قادیان سے نکالے جاکر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میںہی دھرنا مار کر بیٹھ جائیں ۔بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمارا اصل فرض ہے۔
اس تقریر کے بعد جس میں ایک طر ف موٹروںمیں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں، حضرت امیر المومنین اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ میںتشریف لے گئے جو ریلوے اسٹیشن کے قریب تعمیرکی گئی ہے میں نے اس فرود گاہ کو عارضی فرود گاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمارتیں ربوہ میں بنی ہیں وہ دراصل سب کی سب عارضی ہیں اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیںگے۔حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیدہ ام دائود احمد صاحبہ فرمارہی تھیںاس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے عزیزوں اور اہل قافلہ نے کھانا کھایا ۔جو صدرانجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طر ف سے پیش کیا۔
غالباًربوہ میں وارد ہونے کے معاً بعد یہ پروگرام بھی تھا کہ حضرت صاحب اپنی مجوزہ مستقل رہائش گاہ کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے ۔لیکن چونکہ اس مسجد کی داغ بیل میں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر دیاگیا ۔عصر کی نماز حضور نے اس مسجدمیں ادا فرمائی ۔جو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طورپر بنائی گئی ہے۔ اور اسی لئے اسے مسجد کی بجائے ’’جائے نماز ‘‘ کا نام دیاگیا ہے ۔کیونکہ بعد میں یہ مسجد مستقل جگہ کی طرف منتقل کردی جائے گی۔یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے ۔ جس کے نیچے لکڑی کے ستونو ں کا سہارا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجدیں ربوہ میں تعمیر کی جاچکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوںمیں سب دوستوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کاشرف بھی حاصل کیا۔
اوپر کے مختصر مگر بابرکت پروگرام کے بعد یہ خاکسار اپنے ساتھیوںکے ساتھ ربوہ سے ساڑھے چھ بجے شام کو روانہ ہو کر ساڑھے نو بجے لاہور واپس پہنچ گیا ۔اور اس بات پر خدا کاشکر ادا کیا کہ مجھے اس مبارک تقریب میںشرکت کاموقع میسر آیا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ ستمبر ۱۹۴۹ئ)




سفر ربوہ کے چند بقیہ واقعات
الفضل مورخہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۴۹ء میں میںنے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سفرربوہ کے بعض حالات لکھے تھے ۔مگر اس نوٹ میں بعض باتیں لکھنے سے رہ گئیں جو تکمیل ریکارڈ کی غرض سے درج ذیل کی جاتی ہیں۔
۱۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس یاد گاری سفر کے پیش نظر احباب ربوہ نے پانچ بکروں کے ذبح کرنے کا بھی انتظام کیا تھا۔ کیونکہ خاص موقعوں پریہ بھی ایک مسنون طریق ہے ۔
۲۔ بکروں کے ذبح کرنے کے علاوہ ربوہ کی جماعت نے اس موقع پر غریبوں کوکھانا کھلانے کابھی انتظام کیا تھا۔چنانچہ بہت سے غریبوں کو دعا اور رد بلا کی غرض سے کھانا کھلایا گیا۔
۳۔ اسی طرح اہل ربوہ نے غرباء میں کچھ نقد رقوم بھی تقسیم کرنے کاانتظام کیا تھا کہ یہ بھی ایسے موقعوں پر برکت کا ایک روحانی ذریعہ ہے۔
۴۔ علاوہ ازیں سابقہ مضمون میں یہ بات بھی نوٹ کرنے سے رہ گئی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد جوحضرت مسیح موعود ؑ کے لنگر کی طرف سے صدرانجمن احمدیہ نے پیش کیا ،شام کا کھانا اہل ربوہ کی طرف سے پیش کیاگیا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍ستمبر ۱۹۴۹ئ)




امداد درویشان اور قربانی کے روپے کی تازہ فہرست
سابقہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اوربہنوں کی طرف سے امداد درویشاںکی مدمیں رقوم پہنچی ہیںان کے نام شکریہ کے ساتھ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ جزاھم اﷲ احسن الجزاء ۔نیز اس فہرست میں ان اصحاب کے نام بھی شامل کئے جاتے ہیںجنکی طر ف سے میری معرفت عید ا لاضحی کے موقع پرقادیان میںقربانی کرانے کے واسطے روپیہ پہنچا ہے۔موخر الذکر رقوم میں سے بعض رقوم تو قادیان بھجوائی جاچکی ہیں لیکن بعض رقوم منی آرڈروں کا سلسلہ رکنے کے بعد پہنچی ہیں۔ اس لئے ایسے دوستوں کے متعلق قادیان لکھ دیاگیاہے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کرادی جائے۔روپیہ بعد میں بھجوادیا جائے گا ۔ایسے دوست جنہوں نے براہ راست قادیان روپیہ بھجوادیا ہے وہ ذیل کی فہرست میں شامل نہیں،اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا کرے ۔آمین۔
۱
بیگم صاحبہ چوہدری علی احمد صاحب محکم واچ اینڈوارڈ۔ این۔ ڈبلیو۔ آر ۔لاہور
۰…۰…۵
۲
ملک عبدالباسط خانصاحب سول لائنز لاہور۔
۰…۰…۳
۳
ماسٹر مولاداد صاحب قادیانی حال موضع شہزادہ ۔سیالکوٹ
۰…۰…۲
۴
چوھدری فضل الرحمن صاحب کانر ریڈیو پشاور
۰…۰…۵
۵
لفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر محمدابراھیم صاحب پشاور
۰…۰…۱۰
۶
حافظ عبدالسلام صاحب شملو ی حال لاہور ،برائے عقیقہ۔
۰…۰…۵۰
۷
میاںصدرالدین صاحب داماد میاںمحمددین صاحب تہالوی
۰…۰…۱۰
۸
ڈاکٹر محمداشرف صاحب مرحوم منجانب آمنہ بیگم صاحبہ معرفت محمد افضل صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج منٹگمری
۰…۰…۱۰
۹
مخدوم شاہ احمد صاحب بھیروی برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۰
مائی امیر بی بی صاحبہ عرف مائی کاکو برائے دعوت درویشاں قادیان(نوٹ : ان کی طرف سے قربانی کی رقم علیحدہ آچکی ہے)
۰…۰…۵۵
۱۱
نور احمدصاحب ڈرافٹسمین محکمہ بجلی اچھرہ لاہور برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۲
بابو شمس الدین صاحب کوچہ چابک سواراںلاہور
۰…۰…۵
۱۳
مرزا عزیز احمد صاحب کوچہ چابک سواراںلاہور
۰…۰…۲
۱۴
بابو عبدالحمید صاحب کوچہ چابک سواراںلاہور
۰…۰…۱
۱۵
بابو غلام رسول صاحب کوچہ چابک سواراںلاہور
(نوٹ: اوپر کی چار رقمیں فقیر اللہ صاحب آنریری انسپکٹر بیت المال کے ذریعہ پہنچی ہیں۔)
۰…۰…۲
۱۶
اہلیہ صاحبہ شیخ عبد القیوم صاحب مرحوم بٹالوی حال گوجرانوالہ بذریعہ عبدالباسط صاحب لاہور
۰…۰…۱۰
۱۷
امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری شمس الدین صاحب منڈی بورے والاضلع ملتان
۰…۰…۵
۱۸
چوہدری مسعود احمدصاحب چک ۱۱۷ سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ
۰…۰…۲۰
۱۹
محمد صدیق صاحب قادیانی حال غلہ منڈی گکھڑ ضلع گوجرانوالہ امداد برائے لنگر خانہ قادیان۔
۰…۰…۵
۲۰
اہلیہ صاحبہ اخوند ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب جیکب آباد سندھ صد قہ برائے قادیان
۰…۰…۱۰
۲۱
اہلیہ صاحبہ اخوند ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب جیکب آباد سندھ
عام امداد درویشان
۰…۰…۱۵
میزان
۰…۲۷۵
اوپر کی رقوم کے علاوہ دفتر میں بہت سی اور رقوم بھی پہنچ چکی ہیں۔مگر وہ انشاء اللہ آئندہ اعلان میںشامل کی جائیںگی ۔اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو جزائے خیر دے اور دین ودنیا میں حافظ و ناصرہو۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۹ئ)



چندہ امداد درویشان اور رقوم کی جدید فہرست
چندہ امداد درویشاں اور رقم قربانی بر موقع عید الاضحی قادیان کی تازہ فہرست کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ان بہنوں اور بھائیوںکوجزائے خیردے جنہوں نے میری تحریک پر اس کارخیر میں حصہ لیا ہے۔اور دین دنیا میں ان کاحافظ و ناصرہو۔
۱
منشی امیر محمد صاحب سابق ضلع ہوشیار پور حال سیالکوٹ
۰…۰…۲۰
۲
اہلیہ صاحبہ ملک صاحب خانصاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر بھلوال برائے قربانی عید الاضحی
۰…۰…۲۵
۳
والدہ صاحبہ مولوی برکات احمدصاحب راجیکی پشاور برائے قربانی عید الاضحی
۰…۰…۲۵
۴
حمید ہ بیگم صاحبہ معرفت عبدالسلام صاحب سہیل سیالکوٹ برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۵
والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ بقیہ رقم قربانی
۰…۰…۵
۶
لجنہ اماء اللہ کنری سندھ معرفت نواب بیگم صاحبہ
۰…۴…۴۵
۷
صالحہ بی بی صاحبہ معرفت شیخ مختار نبی صاحب گوجرانوالہ برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۸
میاں محمد حسین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ عہدی پور ضلع سیالکوٹ
۰…۰…۲۵
۹
محمد امین صاحب سابق قادیان حال سیالکوٹ برائے دعوت درویشان برموقعہ نکاح ثانی
۰…۰…۱۵
۱۰
لجنہ اما ء اللہ ملتان ،معرفت حمیدہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماء اللہ ملتان
۰…۰…۱۰
۱۱
ملک عنایت اللہ صاحب بدین ضلع حیدر آباد سندھ
۰…۰…۵
۱۲
چوھدری اعظم علی صاحب سینئر سب جج کیمبل پور برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۳
والدہ صاحبہ احمد حیات صاحب دفتر جی ۔سی ایم ۔اے لاہور چھائونی برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۴
میاں محمد امین صاحب زرگر بذریعہ ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ صوباسنگھ
۰…۰…۵
۱۵
چوھدری محمد حسین صاحب آف چوھدری والا حال چمبر ضلع حیدرآباد سندھ صدقہ برائے غرباء قادیان
۰…۰…۲۵
۱۶
کیپٹن حمید احمد صاحب کلیمبہلٹ پور ضلع لائلپور
۰…۰…۲۰
۱۷
نسیم اختر صاحبہ بنت محمود احمد صاحب راجپوت سائیکل ورکس نیلاگنبد لاہور
۰…۰…۲۰
۱۸
اہلیہ صاحبہ مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم آف قادیان
۰…۰…۵
۱۹
امتہ الحمید بیگم صاحبہ بنت مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم آف قادیان
۰…۰…۵
۲۰
اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر بطور صدقہ
۰…۰…۱
اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیاہے جیسا کہ میں سابقہ اعلان میں بتا چکاہوں۔ گو آجکل شرح تبادلہ کے جھگڑے کی وجہ سے منی آرڈر کا سلسلہ بندہے لیکن میں نے قربانی کی رقوم بھجوانے والے سب دوستوںکی فہرست قادیان بھجوا دی ہے تاکہ ان کی طرف سے وقت پر قربانی ہوسکے۔روپیہ بعد میں چلاجائے گا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍اکتوبر ۱۹۴۹ئ)







ایک اور درویش چل بسا
قادیان میں مجید احمد کی افسوسناک وفات
جیسا کہ میرے متعدد اعلانوں کے ذریعہ احباب کو معلوم ہوچکا ہوگا ۔کچھ عرصہ سے مجید احمد سابق ڈرائیور حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ قادیان میںسل کی بیماری میں مبتلا تھا اور گودرمیان میں حالت سخت تشویشناک ہوگئی تھی مگر آخری خطوں سے معلوم ہوتا تھاکہ اب مجید احمد کی حالت نسبتا ً بہتر ہے اور چہرہ پر کچھ رونق آگئی ہے اور خوراک بھی ہضم ہونے لگی ہے حتیٰ کہ کل کے آخری خط میں یہاں تک ذکر تھا کہ اپنی بیماری میںافاقہ کے پیش نظر مجید احمد نے خواہش کی ہے کہ اسے عید والے دن کسی نہ کسی طرح عید کی نماز میں پہنچادیا جائے تاکہ وہ نماز کی شرکت کا ثواب حاصل کر سکے لیکن گذشتہ رات ساڑھے نو بجے کے قریب قادیان سے اچانک یہ فون آیا کہ مجید احمد کی حالت اچانک خراب ہوگئی ہے اور بظاہر بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور اس کے بعد آج صبح یہ فون آیا ہے کہ مجید احمد ۱۱ بجکر ۴منٹ پر اپنے مولا کے حضور پہنچ گیا ۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
جیسا کہ میں لکھ چکاہوں مجید احمد جس کی عمر شاید چوبیس پچیس سال کی ہوگی ،ایک بڑا مخلص نوجوان تھا اور بڑے شوق اور جذبہ قربانی کے ماتحت قادیان میں ٹھہر اہوا تھا ۔حتیٰ کہ جب بیماری کے ایام میں اس کی حالت زیادہ گر گئی اور قادیان کے دوستوں نے ارادہ کیا کہ حکومت سے اجازت لے کر اسے علاج کے لئے پاکستان بھجوادیں تو اس وقت مجید احمد نے بڑی منت کیساتھ کہا اگر میرے بچنے کی بظاہر امید نہیں تو مجھے ہرگز پاکستان نہ بھجواؤ کیونکہ میں بہشتی مقبرہ سے محروم نہیں ہونا چاہتا لیکن اگر کامیاب علاج کی امید ہے تو پھر بیشک بھیج دیا جائے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط ضروری ہوگی کہ اچھا ہونے کے بعد میں پھرقادیان آجائوںگا۔ بہرحال مجید احمد ایک بڑا مخلص نوجوان تھا اور موصی بھی تھا اور اس کی بوڑھی ماں ایک عرصہ سے حضرت اماں جان ام المومنین اطال اﷲ ظلہا کی خدمت میں ہے ۔اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کی والدہ اور بیوی اور بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا حافظ و ناصر ہو۔
گذشتہ ایام میںجب میاں غلام مرتضیٰ صاحب بیر سٹر جو حال ہی میں انگلستان سے واپس آئے ہیںایک دن کا پر مٹ حاصل کے قادیان گئے تو میری بڑی خواہش اورکو شش تھی کہ مجید احمد کے بھائی محمد حسین کی بھی ایک دن کیلئے قادیان جانے کی اجازت مل جائے تاکہ وہ مجیداحمد سے مل سکے اور اسے اپنی والدہ کا سلام اور دعا کا پیغام پہنچا سکے اوراگر مجید احمد نے اپنے اہل عیال کے لئے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی سن سکے مگر افسوس کہ انتہائی کوشش کے باوجود حکومت ہندوستان نے اس کی اجازت نہیںدی اور یہ نوجوان اپنے عزیزوں سے ملنے کے بغیر اس جہان سے رخصت ہوا۔دین کے رستہ میں یقینا اس قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور کرنی پڑیں گی مگر افسوس اس حکومت پر جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی انسا نی جذبات کا خیال نہیں رکھ سکتی ۔
مجیداحمد قادیان میں فوت ہونے والے درویشوں میںچوتھا درویش ہے۔سب سے پہلے حافظ نور الٰہی صاحب فوت ہوئے جو غالباً چالیس سال کے لگ بھگ جوان تھے۔ ان کے بعد بابا شیر محمد صاحب فوت ہوئے جن کی عمر ایک سو سال سے اوپر تھی اور وہ پرانے صحابیوں میں سے تھے ان کے بعد سلطان احمد سکنہ کھاریاں فوت ہوا جوایک بیس بائیس سالہ نوجوان تھا اور اس کی وفات بھی قریباً اچانک ہوئی تھی اور اب چوتھے نمبر پر مجید احمد کی وفات کی اطلاع پہنچی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت کرے اور ان کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو۔آمین۔
ایسے واقعات سے صدمہ پہنچنا تو انسانی فطرت کاحصہ ہے او رخود آنحضرت ﷺ کی آنکھوں میں اس وقت آنسو آگئے تھے جب کہ آپ کی ایک نواسی فوت ہوئی تھی اور آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ وقت کے جذبات بھی خدا کی اس ابدی رحمت کا حصہ ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے لیکن جن خیالات میں آج کل قادیان کے درویش زندگی گذار رہے ہیں ان کے ماتحت یہ اندیشہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے نتیجہ میں بعض خام طبیعت نوجوان درویشوں کے دلوں میں گھبراہٹ کے آثار نہ پیدا ہوں۔سو احباب ان کے لئے بھی دعا فرمائیں۔ باقی یہ تو ایک ابدی حقیقت ہے کہ: کل من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والااکرام وانا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
‎(مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ئ)


مختار احمد صاحب دہلوی کی والدہ صاحبہ کہاں ہیں؟
اگر مختار احمد صاحب پسر بابو نذیر احمد صاحب مرحوم دہلوی کی والدہ صاحبہ اس اعلان کو دیکھیں تو مجھے اپنے پتہ سے مطلع فرمائیںیااگر کسی اور دوست کو ان کا موجودہ پتہ معلوم ہو تو مجھے نوٹ کرکے بھجوادیں۔ضروری کام ہے۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ئ)









چندہ امداد درویشان اوررقوم قربانی کی جدید فہرست
گزشتہ اعلان کے بعد کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔یہ ان بھائیوں اور بہنوں کی فہرست ہے جنہوں نے میری تحریک پر امداد درویشان کی مد میںچندہ دیا یا قادیان میںعید الاضحی کی قربانی کے لئے میرے نام روپیہ بھجوایا ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو۔
۱
اہلیہ صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کراچی برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۲
چوہدری فضل حق صاحب قیام پور ورکاں ضلع گوجرانوالہ برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۳
خواجہ منصور احمد صاحب پسر خواجہ محمد عبد الغنی صاحب راولپنڈی
۰…۰…۵
۴
محمد عبدالرحمن صاحب پنشنر صوبیدار میجر کوئٹہ بطور صدقہ برائے غرباء قادیان
۰…۰…۱۰
۵
مرزا محمد شریف بیگ صاحب سپریٹنڈنٹ جیل جھنگ بطور صدقہ برائے غربا ء قادیان
۰…۰…۱۰
۶
قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی آف قادیان حال راولپنڈی بطور صدقہ
۰…۰…۱۰
۷
اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب مذکور بطور صدقہ
۰…۰…۵
۸
غلام احمد خان صاحب انچارج ڈسپنسری بصیر پور ضلع منٹگمری
۰…۰…۵
۹
چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ حال دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ برائے قربانی۔
۰…۰…۲۵
۱۰
راجہ منشی محبوب عالم صاحب راجپوت سائیکل ورکس لاہور
۰…۰…۱۰
۱۱
محمدصفدر صاحب ایم۔اے لیکچرار تعلیم الاسلام کالج لاہور
۰…۰…۲۰
۱۲
اہلیہ صاحبہ محمدصفدر صاحب ایم ۔اے مذکور
۰…۰…۵
۱۳
حافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی رتن باغ لاہور
۰…۰…۲
۱۴
اہلیہ صاحبہ حافظ بشیر الدین صاحب مذکور
۰…۰…۲
۱۵
زینب بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحمن صاحب لائلپوری بذریعہ مولوی محمد اسمعٰیل صاحب دیالگڑھی
۰…۰…۲۴
۱۶
راج بی بی صاحبہ ہمشیرہ میاں محمد امیر صاحب مرحوم بھاکا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۷
مہر بی بی صاحبہ بنت میاں سردار خانصاحب مرحوم بھاکا بھٹیاں برائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۸
عزت بی بی صاحبہ بھاکا بھٹیاںبرائے قربانی
۰…۰…۲۵
۱۹
آمنہ بی بی صاحبہ عرف مائی چیمی ۔معرفت عبدالعزیز صاحب واقف زندگی ڈسکہ ۔برائے قربانی
۰…۰…۲۰
۲۰
محمد نواز خانصاحب جودھپور ضلع ملتان۔
۰…۰…۵
۲۱
والدہ صاحبہ مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی ۔بذریعہ سید ولی اللہ شاہ صاحب ربوہ برائے قربانی
۰…۰…۲۵
میزان
۰…۱۰…۳۰۸
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍ اکتوبر۱۹۴۹ئ)







مسجد ربوہ کا سنگ بنیاد
اور
اس تقریب کا عقبی منظر
الفضل ۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء میں مسجد ربوہ کے سنگ بنیاد کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ایسے موقعے قوموں کی تاریخ میں خاص موقعے ہوا کرتے ہیں اور ان کی تاریخ کو محفوظ رکھنا قومی زندگی کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔اس لئے یہ امر باعث خوشی ہے کہ الفضل نے اس موقع پر اپنا خصوصی نمائندہ بھجوا کر اس مبارک تقریب کی رپورٹ الفضل میںشائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ،لیکن مجھے افسوس ہے کہ جس رنگ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں اس تقریب کی اصل روح کو نمایاں کرنے کی بجائے لفاظی سے زیادہ کام لیا گیا ہے ۔بے شک لفظی حسن کو ملحوظ رکھنا بھی ایک حد تک ضروری اور مناسب ہوتا ہے اور قرآن شریف نے اسے بدرجہ احسن ملحوظ رکھا ہے ۔لیکن الفاظ کی جھاڑی میں الجھ کر اصل روح کی طر ف سے غافل ہوجانا ہرگز کوئی خوبی کی بات نہیں سمجھی جاسکتی ۔الفضل کی اس رپورٹ سے میرے دل پر یہی اثر پڑا ہے کہ رپورٹ لکھنے والے صاحب نے جو بھی وہ ہوں غالباًلفظوں کا انتخاب پہلے کیاہے اور معانی کو ان کے بعد رکھا ہے گو یا لفظوں کا انجن آگے آگے چلا ہے او رمعانی کی گاڑی اس کے پیچھے گھسٹتی آئی ہے ۔دینی تحریر ات میںیہ اسلوب یقیناپسندیدہ نہیں اور ضروری ہے کہ اصل توجہ واقعہ کی روح کی طر ف دی جائے ۔اور اس روح کو اتنا نمایاں کرکے ابھار ا جائے کہ ہر پڑھنے والے کے دل و دماغ پر پہلا اثر روح کے حسن کا پڑے اور الفاظ کا حسن صرف ایک ضمنی بات سمجھی جائے ۔یہی ہمارے قرآن کریم کا انداز ہے اور یہی ہمارے اہل قلم دوستوں کے لئے بہترین اسوہ ہونا چاہئے۔
خیر یہ تو محض ایک ضمنی بات تھی جو برسبیل تذکرہ عرض کردی گئی۔اصل بات جو میںاس موقع پر کہنا چاہتاہوں وہ اس تقریب کے عقبی منظر سے تعلق رکھتی ہے جیساکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی طرف سے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے الفضل میںاعلان کیاتھا اس موقع پر حضور کا منشا ء یہ تھا کہ جب حضور تین اکتوبر یعنی ۹ ذوالحجہ کی تاریخ کو جو دو شنبہ کا دن تھا عصر کی نماز کے بعد ربوہ میں مسجد کی بنیاد رکھیں تو اس وقت جماعت کے دوسرے دوست بھی اپنی اپنی جگہ دعائوںمیں وقت گذاریںتاکہ جماعت کے بڑے سے بڑے حصہ کی مجموعی دعائیں خداکے زیادہ سے زیادہ فضل اور زیادہ سے زیادہ رحمت اور زیادہ سے زیادہ برکت کی جاذب ہوسکیں۔ اس کے مطابق مجھے معلوم ہوا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے مختلف جماعتوں کو اخباری اعلان کے علاوہ انفرادی تاروں کے ذریعہ بھی اطلاع دی گئی تھی۔ ان تاروں کے نتیجہ میں بعض جماعتوں کے نمائندے تو ربوہ پہنچ گئے ۔ اور خود موقع پر شریک ہوئے لیکن اکثر احباب اپنی اپنی جگہ ہی دعا کاانتظام کرکے روحانی اور معنوی شرکت کے وارث بنے اور ان میں سے بعض یقینا آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے مصداق بھی قرار پائے ہوںگے ۔جو آپ نے اپنے ایک دینی سفر کے دوران میں اپنے ہمسفر صحابہ سے فرمایا تھا آپ نے فرمایا:
’’تم اس وقت کوئی قدم نہیں اٹھا تے او رکوئی وادی طے نہیں کر تے مگر مدینہ میں بعض ٹھہرے ہوئے لوگ تمہارے ثواب کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے چلے جاتے ہیں ۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دینی خدمت کے لئے قدم تو ہمارا اُٹھ رہا ہے اور ثواب میں مدینہ کے لوگ بھی شریک ہورہے ہیں جو نہ اپنے گھر سے نکلے اور نہ ان کے قدم سفر کی گرد سے آلودہ ہوئے آپ نے فرمایا : یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اس موقع کو پایا لیکن جن لوگوںکامیں ذکر کر رہا ہوں۔وہ ایسے لوگ ہیں جو تمہاری طرح دل میںخواہش رکھتے تھے کہ اس سفر میں شریک ہوں مگر انہیںکسی معذوری نے جوان کے بس کی نہیں تھی روک دیا۔پس وہ اپنی نیک خواہش اور دلی جذبہ کی وجہ سے اس ثواب میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘
پس جہاں اس تقریب میں عملاً شامل ہونے والے دوستوں نے ثواب اور برکت سے حصہ پایا ۔وہاں میںیقین رکھتا ہوں کہ جن لوگوں کو اس موقع کی شرکت کی خواہش تھی لیکن وہ کسی معذوری کی وجہ سے شریک نہیںہوسکے اور اپنی اپنی جگہ پر دعامیں مصرو ف ہے وہ بھی خدا کے فضل سے ثواب سے محروم نہیںرہے ۔بلکہ ہمارے آقاکے فرمان کے مطابق اسی ثواب کے مستحق بنے جو موقع کی شرکت والوں نے حاصل کیا۔
مجھے جب الفضل کے اعلان کے ذریعہ اس بات کا علم ہو اتو میں نے سب سے اول تو قادیان تار بھجوا یا اور وہاں کے دوستوں کو اطلاع دی کہ حج والے دن ساڑھے پانچ بجے شام کو ربوہ میں مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی ۔آپ لوگ اپنی جگہ اس وقت دعا کاانتظام کر کے اس روحانی تقریب میں معنوی شرکت اختیار کریں اور تار کے علاوہ مزید احتیاط کے طور پر قادیان فون بھی کرادیا اور اس بات کی تسلی کرلی کہ میر اپیغام اہل قادیان کو پہنچ گیا ہے۔اور انہوں نے اسے اچھی طر ح سمجھ بھی لیاہے اس کے بعد میں نے رتن باغ اور جود ہامل بلڈنگ لاہور میں ٹھہرے ہوئے عزیزوں اور دوستوں کو انفرادی طور پر اطلاع دی کہ وہ بھی اس وقت اپنی جگہ دعا میں مصروف رہ کر اس مبارک تقریب میں شرکت اختیار کریں۔ اس فرض کی ادائیگی کے بعد میں نے کوشش کی کہ اگر کسی ایسی سواری کا انتظام ہوجائے جو مجھے اس تقریب کی شمولیت کیلئے ربوہ لے جائے۔ اور پھر رات کو لاہورواپس پہنچا دے تو میں اس سے فائدہ اٹھائوں مگر افسوس ہے کہ خواہش اور کوشش کے باوجود اس کا انتظام نہیں ہوسکا۔گو بعد میں مجھے پتہ لگا کہ لاہور سے چار پرائیویٹ موٹریں اس تقریب کی شمولیت کے خیال سے ربوہ گئی تھیںلیکن نہ تو مجھے ہی وقت پر اطلاع ہوئی اور نہ ہی غالباً ان دوستوں کو معلوم ہوسکا کہ میرے دل میں بھی اس شمولیت کی خواہش ہے اور اس طرح یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
مگر حق یہ ہے کہ میرے رحیم و کریم خدا نے اس کمی کو اپنے فضل سے کافی حدتک پورا فرمادیا،اور وہ اس طرح کہ عصر کی نماز کے بعد میں رتن باغ کے بالائی صحن میں چلا گیا اوروہاں غروب آفتاب کے بعد تک علیحدگی میں دعا کرتا رہا ۔اور خدا نے اپنے فضل سے اس وقت دعا کے لئے کیفیت بھی بہت اچھی پیدا کردی ۔کیونکہ اس وقت میرے دل میں یہ احساس تھا کہ یہ حج کا دن ہے جب کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی روحیں مکہ کے مبارک اور مقدس مقامات کی طرف جھک رہی ہیں۔اور پھر یہ وقت بھی وہ ہے جو حج کے مناسک میں عرفات کے وقوف کاوقت کہلاتا ہے جسے آنحضر ت ﷺ نے اسی طرح حج کا مرکزی نقطہ قرار دیا ہے جس طرح نماز کی ہررکعت کا مرکزی نقطہ رکوع کو قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے عرفات کے وقوف کا وقت پالیااس نے گویا مکمل حج پالیا اس میدان میں حاجی لوگ عصر کی نماز کے بعد سے لیکر مغرب کی نماز کے وقت تک ذوالحجہ کی ۹ تاریخ کو کھڑے ہو کر (اور یہ کھڑے ہونا ہی وقوف کہلاتا ہے) خدا کے حضور خاص دعائیں کرتے ہیں۔پس میرے دل میں ایک طرف تویہ تصور تھا کہ یہ وہ دن اور یہ وہ وقت ہے جبکہ خدا کے رستہ میں نکلنے والے حاجی عرفات کے میدان میں وقوف کرکے خدا کے حضور اپنی عبادت کا ہدیہ پیش کرتے ہیں اور دعا کے ذریعہ خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے طالب ہوتے ہیںاور دوسری طرف میرے دل میں یہ تصور تھاکہ یہ وہ وقت ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے قائمقام مرکز ربوہ میں خلیفہ وقت اور امام جماعت کے ہاتھوں سے ربوہ کی پہلی اور خاص مسجد کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔اس دہرے تصور نے (مگر حق یہ ہے کہ) خدا کے فضل نے اس وقت دعا کی ایسی توفیق عطا کی جو صرف خاص موقعوں پر ہی عطا ہوا کرتی ہے ۔
فالحمد ﷲ علی ذالک ۔ان الفضل بیداﷲ یؤتیہ من یشا ء واﷲ ذوالفضل العظیم۔
بالآخر میں اس موقع پر دوستوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتاہوں کہ ربوہ بیشک اس وقت ہمارا مرکز قرار پایا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے اسے کئی جہتوں سے اپنی برکتوں سے نوازا ہے۔اور انشاء اللہ آئندہ بھی نوازے گا لیکن ربوہ کا تصور اور ربوہ کا اکرام ہمیں اپنے دائمی اور ابدی مرکز کی طرف سے غافل نہیںکر سکتا ۔جو قادیان کے وجود میں خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے مقدر کر رکھا ہے۔ جماعت کا دائمی مرکز صرف قادیان ہے ۔اور قادیان ہی رہے گا۔اور ہمیں اپنی دعائوں اور اپنی کوششوں اور اپنی توجہات میں قادیان کو اور اس کی واپسی کے سوال کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ بہت سے لوگ وقتی ماحول کے تصور میں کھوئے جاکر ابدی باتوںکو بھلا دیا کرتے ہیں ۔اسی لئے جب مدینہ کی ہجرت ہوئی ۔تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے فرمایا کہ:
۸۱
’’یعنی اے رسول تم اسلام کی ترقی اور استحکام کیلئے جو تدبیر بھی اختیار کرو اور جس سفر پر بھی نکلو اس میں اپنی توجہ کا مرکزی نقطہ مسجد حرام یعنی مکہ کے واپس حاصل کرنے کورکھو۔یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک دائمی صداقت ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔اور یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ہاں !ہاں ! جس سفر پر بھی تم نکلو اپنی توجہ کا مرکز ہمیشہ مسجد حرام کورکھو۔اور تمہارے ساتھ دوسرے مسلمان بھی اسی کو اپنی توجہ کامرکزی نقطہ بنائیں۔تاکہ تمہارے خلاف لوگوں کواعتراض باقی نہ رہے (کہ انہوں نے اپنے مذہبی مرکز کو کھودیا ہے )باقی ظالم لوگ تو بہرحال اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔ پس تم ان لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میری خشیت کا جذبہ اپنے دل میں رکھو اور میں اس ذریعہ سے اپنی نعمت تم پر پوری کرنا چاہتا ہوں تاکہ تم ترقی کے سیدھے رستہ کو پالو۔‘‘
پس ضروری ہے کہ قادیان کا دائمی مرکز ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہے اوراسے واپس حاصل کرنے کے متعلق ہماری جدوجہد اس وقت تک قائم رہے کہ جب خدا کا یہ ارشاد پورا ہو کہ :
اِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ اْلْقُرْآنَ لَرَادَّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔۸۲بلکہ قادیان کا سوال تو اس جہت سے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتاہے کیونکہ مکہ واپس حاصل کرنے کے حکم کے باوجود آنحضرت ﷺ کی مدینہ کی ہجرت دائمی ہجرت تھی جس کے بعد آپ نے یاآپ کے خلفاء نے مکہ میں واپس جاکر آباد نہیں ہونا تھا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ میں ہی ٹھہرے رہے اور مدینہ میںہی دفن ہوئے اور مدینہ ہی خلفاء راشدین کادارالخلافہ رہا لیکن اس کے مقابل پر قادیان نہ صرف خدا کے فضل سے واپس ہوگابلکہ وہ جماعت کااور ساری دنیا کی جماعت کا دائمی مرکز بھی رہے گا۔اسی لئے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ۔
’’قادیان خدا کے رسول کاتخت گاہ ہے یہ ضروری ہوگا کہ مقام اس انجمن کا یعنی سلسلہ کی انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اسے برکت دی ہے‘‘۔۸۳
پس لاریب اس وقت ربوہ ہمارا مرکز ہے اور اس وقتی مرکز یت کے نتیجہ میں اسے یقینا خاص برکت بھی حاصل ہوگئی ہے اور قادیان کی بحالی کے بعد بھی وہ ایک جزوی اور مقامی مرکزرہے گا ۔مگر ہمارا ابدی اور عالمگیر مرکز بہر حال قادیان ہے اور اس کے حصول کی طرف ہماری روحیں خدا کے فضل و رحمت کی طالب ہوکر جھکی رہنی چاہئیں۔
آخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۹ئ)




رسالہ ’’مقامات النسا ء فی احادیث سید الانبیاء ‘‘ کا دیباچہ
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تعطیلات موسم گرما میں عاجز نے آنحضرت ﷺ کی احادیث کریمہ میں سے ایسی سو احادیث کا مجموعہ ترجمہ و تشریح کے ساتھ مرتب کیاجن میںعورتوں کامقام بلحاظ ماں،بہن ،بیوی، بیٹی ،بہو اور ایک عام خاتون کے مذکور ہے، میں نے یہ مجموعہ حضرت صاحبزادہ میر زا بشیر احمد صاحب ایم ۔ اے کی خدمت میں بغرض اصلاح و مشورہ پیش کیا ۔آپ نے درد نقرس اور بے حد مصروفیت کے باوجود اس مجموعہ پر گہر ی نظر ثانی فرما کر موقع بموقع اصلاح بھی فرمائی ہے۔اور ازراہ شفقت اس رسالہ کا دیباچہ بھی تحریر فرمایا جوذیل میںشائع کیاجاتا ہے ۔یہ رسالہ زیر طبع ہے ۔جیسا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔انشاء اللہ اسے کتابت کا غذ اور طباعت کے لحاظ سے بھی دیدہ زیب بنایاجائے گا میں تمام جماعتوں اور احباب سے ،بالخصوص لجنہ ہائے اماء اللہ سے درخواست کرتاہوںکہ وہ ابھی سے اس رسالہ کی مطلوبہ تعداد سے مطلع فرمائیں۔
(خاکسار ابوالعطا ء جالندھری ۔احمد نگر جھنگ)
مجھے خوشی ہوئی ہے کہ محترمی مولوی ابوالعطا ء صاحب فاضل سابق مبلغ ملک شام و فلسطین حال پرنسپل جامعہ احمدیہ نے مجھے اپنی اس جدید تالیف ’’مقامات النساء کامسودہ دیکھنے اور حسب ضرورت مشورہ دینے کاموقع عطا کیا۔ اسلام میں عورت کامقام ایک بلند مقام ہے کیونکہ یہی وہ قابل قدر وجود ہے جس کی گود میںقوم کے نونہال پرورش پاتے اور قومی قیادت کی آئندہ باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنتے ہیں۔پس خواہ اس کے بعض افراد اپنے مقام سے گرجائیں۔عورت اپنی ذات میںضرور ایک نہایت درجہ قابل قدر اور قابل عزت وجود ہے۔اور مردوں کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اس کی تقدیس کو قائم رکھیں ورنہ یہ وہ کلہاڑا ہوگاجو خود ان کے پائوں پرلگ کرانہیں ہمیشہ کے لئے اپاہج کردے گا۔
اسلام سے قبل عورت ایک پست وجود سمجھی جاتی تھی جس کے نہ تو کوئی حقوق محفوظ تھے اور نہ ہی کوئی ذمہ داریاں معین کی گئی تھیں۔اسلام نے اس وجود کو مٹی سے اٹھا کر صرف ایک معین شکل ہی نہیں دی بلکہ ایک دلکش او رقابل قدر وجود بنادیا اس نے مرد کا حق معین کیاتاکہ وہ عورت کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈال سکے اور دوسری طرف اس نے عورت کے حقوق کی بھی داغ بیل قائم کی تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے اور اپنے دائرہ عمل سے باہر دھکیلے جانے پر مقابلہ کے لئے تیار رہے ۔یہ تمیز اس لئے بھی ضروری تھی کہ خالق فطرت نے مرد عورت کو اپنی تفصیلات میں علیحدہ علیحدہ دماغی قویٰ اور علیحدہ علیحدہ قلبی جذبات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ دونوں کو ان کے اپنے اپنے دائرہ عمل میں کھڑا رکھ کر ان سے قومی ترقی میںبہترین خدمت لی جائے ۔جس طرح ایک چوکور سوراخ کو ایک گول لکڑی پوری طرح بند نہیں کرسکتی اسی طرح نہ ایک مرد پوری طرح عورت کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ایک عورت کامل طورپر مرد کی قائم مقام بن سکتی ہے۔ہاںچونکہ دونوں میں ایک بڑا حصہ مشترک قویٰ اور مشترک جذبات کارکھا گیا ہے۔اس لئے انسانیت کی کامل ترقی لازماً دونوںکے تعاون اور اتحاد عمل کے نتیجہ میں ہی مقدر ہے اور اسی حکیمانہ نظر یہ کے ماتحت اسلام نے اپنے احکام جاری فرمائے ہیں۔
تفصیلات اور مستثنیات کو الگ رکھتے ہوئے اسلام نے مرد کو عموماً سیاست اور قیام امن اور فرائض رزم گاہ کے ،مناسب تفویض کئے ہیں یہ گویا فیلڈ کی ڈیوٹی ہے مگر کوئی فیلڈ ایک پختہ اور منظم بیس (BASE) کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔اور بیس کا انچارج عورت کو مقرر کیا گیاہے۔یعنی مسلمان بچوں کوبلکہ یوںکہنا چاہئے کہ ان کے دل اور دماغ اور جسم کو ان کے آئندہ فرائض کے لئے تیار کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کی اچھی تربیت پر جنہوں نے آگے جاکر قوم کی مائیں بننا ہوتا ہے اسلام نے انتہائی زوردیاہے ۔اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح میدان جنگ کے زخمی سپاہی علاج معالجہ کے لئے ’’بیس ‘‘ میں واپس بھیج دیئے جاتے ہیں اسی طرح اسلام نے بھی زخمی مسلمانوں کی دیکھ بھال میں عورت کو نمایاںحصہ دیا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ میں عیسائی اقوام کی اندھی تقلید مسلمانوں میں بھی ایک گو نا بغاوت کارنگ پید اکر رہی ہے اور مرد و عورت کی اندرونی حدود کو تو ڑ کر جو سر اسر حکمت پر مبنی ہیںبلا سوچے سمجھے عورت کو مرد کے دائرہ عمل میںداخل کیا جارہا ہے ۔یہ میلان یقینا دونوں کے لئے سخت ضرررساں ہے اور سب سے بڑھ کر قوم کے لئے تباہ کن ہے ۔اور فطری طریق وہی ہے جو اسلام سکھاتا ہے جو ہر فریق کے حقوق اورذمہ داریاں معین کر کے حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے دائرہ میںرہ کر اپنے اپنے حصہ کار کو ترقی دو۔لیکن جو حصہ مشترکہ نوعیت رکھتاہے اس میں دونوں مل کر کام کرو۔
بہرحال مجھے خوشی ہے کہ محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے یہ مجموعہ مرتب کر کے ایک اہم قومی خدمت سر انجام دی ہے او راب یہ قوم کافرض ہے کہ اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کر کے اس کے فائدہ کو محدود نہ رہنے دیں اور دوسری طرف مولوی صاحب کافرض ہے کہ اس کی کتابت اور کاغذ اور طباعت کو ایسی دیدہ زیب صورت دیں کہ روح کے حسن کے ساتھ جسم کا حسن شامل ہوکر ہر جہت سے دلکش وجود پید اکردے ۔ (مطبوعہ الفضل۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء )
قادیان کے تازہ کوائف
قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتاہے کہ بعض دوستوںکی معمولی بیماری کے سوا یا بعض بوڑھے دوستوں کے ضعفِ پیری کے علاوہ باقی سب دوست خدا کے فضل سے بخیریت ہیں۔ مجید احمد درویش کی اچانک وفات نے (اچانک اس لئے کہ درمیان میں وقفہ ہوجانے کے بعد وہ قریباً اچانک فوت ہوگیا) درویشوں کے دل میںغم و حزن کی غیر معمولی کیفیت پید اکر دی تھی، لیکن اس کے بعد عید نے جبکہ ایک سچا مومن خد ا کی لائی ہوئی خوشی پر خوش ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے ،اس غم کی کیفیت پر خدائی رحمت کا سایہ کردیا۔اور دوستوں نے خوشی خوشی عید منائی۔
پہلے خیال تھا کہ ا س دفعہ عید گاہ میں نماز پڑھنے کی کوشش کی جائے گی لیکن پھر اسے پولیس کا انتظام خاطر خواہ نہ ہونے کی وجہ سے حفاظت کے خیال سے مناسب نہیںسمجھا گیا ۔کیونکہ عید گاہ شہر سے باہر بالکل ایک کنارے پر ہے ۔پس عید گاہ کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں عید کی نماز پڑھی گئی ۔اور عید کے دن شام کو اجتماعی دعوت کا بھی انتظام کیا گیا۔
اس سال قادیان میں خدا کے فضل سے کافی تعداد میں قربانی کی گئی۔(معین فہرست بعد میں شائع کی جائے گی جن میں سے اکثر پاکستان کے دوستوں کے بھیجے ہوئے روپے سے کی گئی اور جن پاکستانی دوستوں کا روپیہ موجودہ حالات کی وجہ سے وقت پر قادیان نہیں پہنچ سکا۔ ان کے متعلق میں نے لاہور سے فون اور تار اورخطوں وغیرہ کے ذریعہ قادیان اطلاع بھجوادی تھی اور خدا کے فضل سے ایسے دوستوں کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔اورکچھ روپیہ ہندوستان کے دوستوںکی طر ف سے بھی پہنچ گیا ۔عام لنگر خانہ کے استعمال کے علاوہ جن دوستوں نے عید کے ایام میںالگ کھانا پکانا چاہا انہیں علیحدہ گوشت بھی دیدیا گیا ۔اوردارالصحت میں بھی بھجوایا گیا ۔اور ایسے غیر مسلم ہمسایوں کو بھی بھجوایا گیا جومسلمانوں کاذبیحہ کھالیتے ہیں۔
اب دوست ضرورت کے وقت بٹالہ یا گورداسپور یاامر تسر ہو آتے ہیںلیکن مقامی حکام کی ہدایت کے ماتحت ایک سپاہی ساتھ رکھنا پڑتا ہے ۔جو حفاظت بھی کرتا ہے اور نگرانی بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ ۱۰؍اکتوبر کو بعض دوست امر تسر گئے ان میں بھائی شیر محمد صاحب دوکاندار بھی تھے انہوں نے امرتسر کے بعض غیر مسلم دوکانداروں کے پاس جاکر کہا کہ میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے جلد امرتسرنہیں آسکا ۔لیکن اب میں نے انتظام کر لیا ہے ۔پس جو روپیہ آپ نے مجھ سے لینا ہے(بھائی شیرمحمد صاحب امرتسر کے تاجروں سے مال لایا کرتے تھے) مجھ سے لے لواور میر احساب صاف کردو،انہوںنے کہاہمیں حالات کا علم ہے ہمیںآپ شرمندہ نہ کریں ہم ابھی روپیہ نہیں لیتے جب لینا ہوگا خود قادیان آکر لے لیںگے۔اور بھائی شیر محمد صاحب کے اصرار کے باوجود روپیہ نہیں لیا۔بھائی شیر محمد صاحب کی اس بات کا امرتسر کے غیر مسلم تاجروں پر بہت اچھا اثر ہوا کہ یہ لوگ کتنے دیانتدار ہیںکہ اپنے آپ کو تنگی اور خطرے میں ڈال کر دوسروں کا روپیہ واپس کرنے کے لئے امر تسر پہنچے ہیں۔
مسجد ربوہ کے سنگ بنیاد اور چندے کی تحریک کی اطلاع جب قادیان پہنچی تو امیرصاحب مقامی نے وہاں کے دوستوں کو بھی چندہ کی تحریک کی ۔چنانچہ اس وقت تک یعنی ۱۱؍اکتوبر تک اس مد میں ساڑھے پانچ سو روپے نقد وصول ہوچکے ہیں۔اور پونے تین سو روپے کے وعدے آئے ہیں۔
فالحمدﷲ علٰی ذالک
دوست اپنی دعائوں میں قادیان کے بھائیوںکو خاص طورپر یادرکھیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ئ)







اخویم مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم
شیخ محمد احمد صاحب کی ایک دلچسپ روایت
جیسا کہ سب دوستوں کو معلوم ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوشادیاں ہوئی تھیں۔ ایک شادی بالکل اوائل عمر میں ہی حضور کے والدین نے اپنے عزیزوں میں کرادی تھی ۔جس سے خان بہادر مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم اور مرزا فضل احمد صاحب مرحوم پیدا ہوئے۔ اور دوسری شادی ہماری والدہ صاحبہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے ساتھ دہلی میں ہوئی۔اور یہ موخرا لذکر شادی وہ شادی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الصِّھْرَوَالْنَسَبِ۔۸۴
یعنی وہ خدا تمام تعریفوں کاحق دار خدا ہے جس نے تمہارا سسرال ایک شریف اور اعلیٰ خاندان میںبنا یا۔ اور اسی نے تمہارے جدی نسب کو بھی شریف اور اعلیٰ خاندان میں قائم کیا۔
چونکہ اخویم مرزا سلطان احمد صاحب نے شروع شروع میں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر بعض خاندانی اثرات کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کوقبول نہیںکیا تھا۔اسی لئے جیسا کہ دوست جانتے ہیں ۔حضور ان پر خوش نہیں تھے اور عملاً قطع تعلق کی صورت تھی۔ حتیٰ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی مرز اصاحب موصوف کو بیعت کی توفیق نہیںملی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا زمانہ آیا اور اس کے اوائل میں بھی مرزا صاحب موصوف بد ستور علیحدہ رہے ۔لیکن جب وہ پنشن لے کر قادیان آگئے اور وہ جن کی وجہ سے مرزا صاحب زیادہ تربیعت سے رکے ہوئے تھے یعنی ہماری تائی صاحبہ مرحومہ جنہوں نے مرزا صاحب کو بیٹا بنایا ہو اتھا )انہوں نے بھی بیعت کرلی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب مرحوم کو بھی شرح صدر عطا کیا۔اور وہ اپنے چھوٹے بھائی یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت سے مشرف ہوگئے ۔ اور اپنی آخری عمر میں پلٹا کھا کر بہشتی مقبرہ میں جگہ پائی ۔ وذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔
خیر یہ تو صرف تمہیدی کلمات تھے جو میں نے عرض کئے ہیں۔ اصل غرض ایک روایت کا بیان کرنا ہے جو مجھے عزیزم مکرم شیخ محمد احمد صاحب پلیڈر سابق کپور تھلہ اور حال لائل پور کی طرف سے پہنچی ہے۔ شیخ محمد احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور نہایت مخلص اور مقرب صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کے فرزند ِارجمند ہیں۔حضرت ظفر احمد صاحب مرحوم کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیساتھ دعویٰ سے پہلے کا تعلق تھا اور وہ ان بزرگوں میںسے تھے ۔جنہیں مسیح موعود کے غیر متوقع دعوے نے ذرہ بھر بھی متزلزل نہیںکیا بلکہ وہ ایمان اور عرفان میں اور بھی ترقی کرگئے اور ا س اخلاص اور محبت اور قربانی اور وفاداری کے تعلق کو آخر تک نبھایا اور خوب نبھایا ۔اور اب الحمدللہ ان کا مخلص فرزند شیخ محمد احمد بھی انہی کے نقش قدم پر جماعت کاایک بہت قابل قدر کا رکن ہے۔ اور ان شاذ مثالوں میں سے ایک مثال پیش کرتا ہے ۔کہ جہاں بیٹا باپ کے روحانی ورثہ کاپوری طرح وارث بنتا ہے اور یخرج المیت من الحی کانہیں بلکہ یخرج الحی من الحی کا مصداق قرار پاتا ہے فالحمد ﷲ علیٰ ذالک واللھم زدفزد۔
بہر حال مجھے شیخ محمداحمد صاحب کی طرف سے اخویم مرزا سلطان احمدصاحب مرحوم کے متعلق ذیل کی روایت پہنچی ہے جو میں انہی کے الفاظ میں ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاوصال ہوا تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جالندھر میں ملازم تھے اور غالباً ان ایام میں افسر مال تھے ۔مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا والد صاحب مرحوم سے بڑا تعلق تھا۔ چنانچہ مرز اصاحب مرحوم نے والد صاحب سے فرمایا کہ بروز وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جالندھر میں گھوڑے پر سوار جا رہا تھاکہ یکدم بڑے زور سے مجھے الہام ہوا کہ ’’ماتم پرسی ‘‘ میں اسی وقت گھوڑے سے اتر آیا ۔اور مجھے بہت غم تھا۔ خیال کیا کہ شاید تائی صاحبہ کاانتقال ہوگیا ہو۔ پھر خیال کیاکہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماتم پرسی تو صرف والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام )کے متعلق ہی ہوسکتی ہے ۔چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا کہ مجھے چندروزکی رخصت دی جائے۔غالباً والد صاحب کاانتقال ہوگیا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا یہ نہیں ہو سکتا ۔نہ کوئی خبر آئی ہے۔اور نہ شائع ہوئی ہے اسی درمیان میں تار آگیا جس میں والد صاحب (حضرت مسیح موعود) کے انتقال کی خبر درج تھی اور اس پر ڈپٹی کمشنر کو بہت حیرت ہوئی اور میںرخصت لے کر قادیان پہنچ گیا۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ محمداحمد صاحب کی یہ روایت بہت عجیب اور دلچسپ ہے جس سے کئی مفید استدلات ہوسکتے ہیں یہ روایت پہلے سننے میں نہیں آئی تھی مگر بہرحال یہ بات سب کومعلوم تھی کہ اخویم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جنازہ میںقادیان پہنچ گئے تھے بلکہ جب بڑے باغ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ ہو ا جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا۔ تو مجھے یا د ہے کہ مرز اصاحب مرحوم میر ے قریب ہی کھڑے تھے۔تعجب ہے کہ مرزاسلطان احمد صاحب نے ہماری تائی صاحبہ مرحومہ کے پیچھے لگ کر ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علیحدگی اورایک گو نہ مخالفت میں گذاری اور ا س کے مقابل پر ہمارے دوسرے بھائی مرزا افضل احمدصاحب مرحوم نے کبھی اس رنگ میںمخالفت نہیں کی ۔بلکہ بیعت نہ کرنے کے باوجود ہمیشہ عمومی رنگ میں مطیع اور فرمانبردار رہے لیکن بالآخر مرزا فضل احمد صاحب تو بیعت سے محروم گذرگئے مگر مرزاسلطان احمد صاحب مرحوم کو آخری عمر میں بیعت نصیب ہوگئی ۔یہ خدا کے راز ہیں جنہیں وہی بہتر جانتا ہے مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بندے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں ۔لیکن خدا کی نظر دل پر ہوتی ہے اور وہ اسی کے مطابق اپنے بندوں سے سلوک فرماتا ہے اور مرزا صاحب کا یہ الہام بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ خدائی تقدیر نے انہیں بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف کھینچ لانے کا فیصلہ کر رکھا تھا ۔ واﷲ اعلم ولاعلم لنا الا ما علمنا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍ اکتوبر۱۹۴۹ئ)






قادیان کے تازہ حالات
۱۔قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتاہے کہ بعض دوستوں کی معمولی بیماری کے سوا خدا کے فضل سے قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں۔
۲۔ چند دن ہوئے قادیان کے بعض دوست بعض کاموں کے تعلق میں جالندھرگئے تھے اور جالندھر کے کمشنر سر سری نگیش صاحب ) اور بعض دوسرے افسروںسے ملے اور راستہ کو امر تسر ٹھہر تے ہوئے دوسرے دن قادیان بخیریت پہنچ گئے۔
۳۔ اس دفعہ عید پر پاکستانی احباب کی طرف سے اٹھارہ عدد قربانیاں کی گئیں ہندوستانی احباب کی طرف سے جو قربانیاں ہوئیںوہ ان کے علاوہ تھیں۔
۴۔ مقدمہ اللہ رکھا جو ۲۵ درویشوں کے خلاف دائر ہے (اور سلطان احمد درویش کی وفات کی وجہ سے اب مقدمہ میں ۲۴ کس احمدی مدعا علیہ رہ گئے ہیں )اس کی آئندہ تاریخ ۴؍ نومبر مقرر ہوئی ہے۔ جو خلاف دستور سابق بٹالہ میں ہوگی ۔دوست اپنے درویش بھائیوں کو اپنی خاص دعائوں میںیاد رکھیںمقدمہ کے علاوہ اللہ رکھا بعض اور طریق پر بھی فتنہ کی آگ بھڑکاتارہتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے مظلوم بھائیوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔
۵۔ گو فی الحال پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شرح تبادلہ کے تعین نہ ہونے کی وجہ سے بیموں اور منی آرڈروں کاآناجانا بند ہے ۔لیکن معلوم نہیں کس وجہ سے قادیان کے پوسٹ آفس نے پہلے سے پہنچے ہوئے منی آرڈروں کی تقسیم بھی روک دی ہوئی ہے ہمارے دوستوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے اور ساتھ ہی درخواست کی ہے کہ بے شک مساوی شرح تبادلہ پر ہی یہ رکے ہوئے منی آرڈر تقسیم کردیئے جائیں۔اس میں ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور اس میں حکومت ہندوستان کابھی کوئی نقصان نہیں لیکن ابھی تک اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔یک شدہ منی آرڈروں کے روکنے کے علاوہ ڈاک خانہ قادیان نے غیر معلوم وجہ سے فی الحال رجسٹرڈ خطوط کالینابھی روک دیا ہے۔اس کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا ہے۔
۶۔ قادیان کا جلسہ سالانہ جو ایک طرح سے سب ہندو ستانی جماعتوں کا جلسہ ہے انشاء اللہ حسب دستور دسمبر کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوگا ۔اور قادیان کی صدر انجمن احمدیہ نے درخواست دی ہے کہ اس جلسہ کی شرکت کے لئے ۳۰۰ ہندوستانی احمدیوں کو اجازت دی جائے ۔جو دہلی یو۔پی۔بہار ۔کلکتہ ۔بمبئی اور حیدر آباد دکن وغیرہ سے آئیںگے۔
۷۔ جو دیہاتی مبلغ (مولوی اللہ بخش صاحب ) گذشتہ ایام میں نبیسٹہ ضلع مظفرنگر یو۔پی میں ڈوب کر شہید ہوگئے تھے ان کی جگہ قادیان سے دوسرے مبلغ کے بھجوانے کی تجویز کی گئی ہے۔
۸۔ہندوستان سے چار احمدی دوست کچھ عرصہ قیام کرنے کے لئے قادیان پہنچے ہیں۔
۹۔ قادیان کے دوست اپنے پاکستانی احباب کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۴۹ئ)









آنحضرت ﷺ کی نبوت نظام نبوت کامعراج ہے
ایک حیدر آبادی دوست کا سوال اور اس کا جواب
حید آباد دکن سے ایک دوست نے ایک سوال لکھ کر بھیجا ہے اور خواہش ظاہرکی ہے کہ اس سوال کاجواب اخبار الرحمت میں شائع کرا دیا جائے۔مگرمیں اس نوجوان کے سوال کا جواب الفضل اور الرحمت دونوں میں بھجوا رہا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ آجکل طبیعت کی خرابی اور کام کی کثرت کی وجہ سے میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نہیںلکھ سکتا ۔صرف مختصر طورپر سوال اور ا س کا جواب درج ذیل کئے دیتا ہوں۔
اس دوست کا سوال یہ ہے کہ
’’ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میںاس وقت سے خاتم النبیین ہوں جبکہ آدم مٹی اور کیچڑمیںتھا۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طر ف سے براہ راست نبوت کا درجہ پانے والے نہیں تھے؟ کیونکہ خاتم النبیین تو آدم علیہ السلام سے بھی پہلے سے موجود تھے۔‘‘
سواس کے جواب میں جاننا چاہئے کہ جہاںتک مجھے یاد پڑتا ہے (کیونکہ اس وقت میرے پاس اس حوالہ کے اصل الفاظ موجود نہیںہیں) اس حدیث میں ’’خاتم النبیین ‘‘ کے الفاظ نہیں آتے بلکہ صرف ’’نبی ‘‘ کا لفظ آتا ہے اور غالباًحدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ :
کنت نبیا ً وآدم بین الماء والطین۔۸۵
’’یعنی میں اس وقت سے نبی ہوں کہ جبکہ آدم بھی ا بھی تک پانی اور مٹی میں تھا ۔‘‘
یعنی ابھی تک آدم کی پیدائش بھی تکمیل کو نہیں پہنچی تھی۔
سو ہمارے دوست کے بیان میں غالباً ’’خاتم النبیین ‘‘ کا لفظ درست نہیں ہے لیکن اگر اس حدیث میں یہ الفاظ ہوں بھی تو پھر بھی اصل حقیقت پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس حدیث کے وہ معنی نہیں ہیںجو ہمارے دوست نے خیال کئے ہیں۔بلکہ یہ حدیث ایک اور لطیف مضمون کی طر ف اشارہ کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے ۔بیشک بالواسطہ طور پر اس حدیث کو’’خاتم النبیین‘‘ کے مضمون کے ساتھ ایک گہر ا تعلق ہے مگر اس سے یہ استدلال کرنا کہ گویاسابقہ انبیاء نے بھی نبوت کادرجہ آنحضرت ﷺ کی وساطت سے پایا تھا درست نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کردہ نظریہ بھی اس کے خلاف ہے ۔کیونکہ حضور نے تکرار اور صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ گذشتہ تمام نبی مستقل نبی تھے یعنی انہوں نے کسی دوسرے نبی کی اتباع یاوساطت سے نبوت کا درجہ نہیں پایا بلکہ براہ راست حاصل کیاتھا اور اگر ان میں سے بعض نبی بعض دوسرے نبیوں کے ماتحت تھے اور ان کی شریعت کے تابع تھے جیسا کہ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے وہ موسوی شریعت کے ماتحت تھے لیکن پھر بھی وہ مستقل نبی تھے۔کیونکہ انہوں نے نبوت کا درجہ کسی دوسرے نبی کی وساطت کے بغیر پایا تھا۔ پس جب ان نبیوںکو اپنے متبوع نبی کی پیروی کے باوجود مستقل نبی قرار دیاگیا ہے (یادر ہے کہ یہاں ’’ مستقل ‘‘ کالفظ عارضی کے مقابل پر نہیںہے بلکہ دوسرے کی وساطت کے بغیر اپنی ذات میں قائم ہونے کے معنوں میں ہے) تو پھر ان کے متعلق یہ کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وساطت سے نبوت کا درجہ پایا تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ اگر اوپر والی حدیث کے وہ معنی نہیں ہیں جن کی نسبت ہمارے حیدر آبادی دوست کاخیال گیا ہے ۔تو پھر اس کے صحیح معنی کیاہیں ؟ ۔سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس حدیث کے اصل معنوں کی کنجی اس حدیث میں ہے جہاں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیںکہ:
کان النبی یبعث الی امۃ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ ۔۸۶
’’یعنی مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیاجاتاتھا اوراس کا پیغام ساری قوموں کے لئے نہیں ہوتا تھا ،لیکن میں سب بنی نو ع انسان کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔اور میراپیغام ساری دنیا کے واسطے ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔ أَنَا والسَّاعَۃُ کَھَا تَیْنِ۔۸۷
یعنی میں اور قیامت اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں کہ جس طرح میری یہ دونوں انگلیاں آپس میںملی ہوئی ہیں ’’اورفرماتے ہوئے آپ نے اپنی دوانگلیاں کھڑی کر کے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کردیں)۔
ان حدیثوں سے ثابت ہے کہ جہاں پہلے نبیوں کا پیغام زمانہ اور قوم کے لحاظ سے محدود ہوتا تھا وہاں آنحضرت ﷺ کا پیغام ان دونوں حدبندیوں سے آزاد ہے ۔یعنی پہلے نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خاص زمانوں کے لئے آتے تھے مگر ہمارے آقا ﷺ کی بعثت ساری قوموں اور سارے زمانوںکے لئے ہے گویا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مشن عالمگیر ہے جس سے کوئی قوم باہر نہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت دائمی ہے جسے کوئی دور کاقانون منسوخ نہیںکرسکتا اور چونکہ خدا بھی ساری دنیا کا واحدخدا اور واحد خالق ومالک ہے اورتمام قومیں اور تمام زمانے اسی کے پیدا کئے ہوئے اور اسی کے قبضہ تصرف میں ہیں اس لئے ماننا پڑے گا کہ توحید کے حقیقی فلسفہ کے ماتحت صرف وہی نبوت بالذات کے طور پر مقصودہوسکتی ہے جس کا دامن ساری قوموں اور سارے زمانوں پر وسیع ہو اور باقی سب نبوتیںجو مکانی اور زمانی قیود میں محدود ہیں اوروہ اس عالمگیر نبوت کے لئے بطورتیاری اور زینے کے سمجھی جائیں گی اور درحقیقت نظام نبوت کے متعلق یہی اسلام کا وہ مرکزی نظریہ ہے جواوپر والی حدیث میں اشارۃ ًبیان کیاگیاہے۔
چونکہ اوائل میں نسل انسانی اپنے ذہنی ارتقاء اور تمدن اور وسائل کے لحاظ سے بالکل ابتدائی حالت میں تھی۔ اس لئے خدا نے ہر قسم اورہرزمانہ میں علیحدہ علیحدہ رسالت کے ذریعہ ان کی ہدایت کاانتظام فرمایا ۔اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۔۸۸
’’یعنی دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیںجس کی طرف ہم نے اپنے اپنے وقت میں کوئی منذر نہ بھیجاہو۔‘‘
ان قومی رسولوں کے بھیجنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ ایک تو ہر قوم کو اپنے زمانہ کے مناسب حال ہدایت نصیب ہوجائے اور دوسرے دنیاکوآہستہ آہستہ تیار کر کے اس عالمگیر اور دائمی شریعت کی طرف لایا جائے، او ر اس کے قابل بنایاجائے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ عالم وجود میں آنے والی تھی ۔پس آنحضرت ﷺ سے پہلے مبعوث ہونے والے نبیوں کی نبوتیں دراصل ایسے زینوں کارنگ رکھتی تھیں جن کے ذریعہ خداتعالیٰ نبوت کے منصب کو ختم نبوت کے بلندمینا ر تک پہنچانا چاہتا تھا، تاکہ جس طرح خدا ایک ہے اسی طرح دنیا کے لئے اس کاہدایت نامہ بھی ایک ہواور ا س ہدایت کالانے والا بھی ایک۔ اور یہی اس حدیث کا بنیادی مفہوم ہے کہ:
کنت نبیا ً وآدم بین الماء والطین
’’یعنی میں اس وقت سے نبی ہوں کہ ابھی آدم بھی اپنی پیدائش کے مراحل میں مٹی اور پانی کے اندر محصور تھا۔‘ ‘
گویا آدم علیہ السلام آئے اور گو وہ اپنے زمانہ کے لوگوںکے لئے ایک ابتدائی قسم کی ہدایت بھی لائے مگر دراصل وہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لئے میدان صاف کرنے اور پہلا زینہ بننے کے لئے آئے تھے ۔پھر نوح علیہ السلام آئے اور گو وہ اپنی قوم کے لئے ہدایت بھی لائے مگر دراصل وہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لئے دوسرا زینہ بن کر آئے تھے پھر ابراھیم علیہ السلام آئے اور تو وہ اسی زینہ کے لئے ہدایت بھی لائے مگر درحقیقت وہ اپنے درخشندہ منذر اور ہادی اعظم ﷺ کی نبوت کے لئے دنیا کوتیار کرنے اور دوسرا زینہ بننے کے لئے آئے تھے پھر موسیٰ علیہ السلام آئے اور اپنی قوم کے لئے پہلی قوموںکی نسبت ایک زیادہ مکمل شریعت لائے مگر دراصل وہ بھی اپنے پیچھے آنے والی عالمگیر نبوت کیلئے قوموں کو بیدار کرنے کے لئے آئے تھے اور ختم نبوت کے لئے گویاایک چوتھا زینہ بن گئے۔پھرعیسیٰ علیہ السلام آئے اور گو انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوںکو اپنے ماحول کے مناسب حال ہدایت کا رستہ دکھایا، مگر درحقیقت ان کی نبوت بھی ہمارے آقا ﷺ کی کاملہ تامہ نبوت کی طرف راہنمائی کرنے اور گویا پانچواں زینہ بننے کے لئے تھی جیساکہ خود انہوںنے تمثیلی رنگ میں کہا ہے کہ اب تو تمہارے پاس بیٹاآیا ہے، مگر پھر خود باغ کا مالک یعنی باپ آئے گا جس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ میرے بعد آنے والی نبوت خدا کے کامل جلال و جمال کی مکمل تصویر ہوگی۔
یہی حال دوسرے نبیوں کا ہے کہ گو یاہر نبی آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لئے ایک زینہ بنتا چلاگیا ہے اور خدا ئے ذوالجلال کی ازلی تقدیر دنیا کو آہستہ آہستہ اس کامل و مکمل نبوت کی طرف اٹھاتی چلی گئی ہے جسے اس نے نظام نبوت کا معراج بننے کے لئے مقدر کررکھا تھا ۔
پس ا س میں کیا شبہ ہے کہ ہمارا مقدس آقا (فداہ نفسی) اس وقت سے نبی ہے کہ جب بعد کے نبی تو الگ رہے ابو البشر آدم علیہ السلام بھی ابھی مٹی اور پانی میں تھے اور آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والے امور تو بہر حال آپ کے ظل ہیںاور ظل اپنے اصل سے جدانہیں ہوتا گویا پہلے اور پچھلے سب آپ کے اندر آگئے کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے کہ:۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید ِبیضاء داری
آںچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
پس اس وقت صرف اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے رخصت چاہتا ہوں۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۴۹ئ)


چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گزشتہ سے پیوستہ
گذشتہ اعلان کے بعد جن احباب کی طرف سے امداد درویشان قادیان کی مد میںرقوم پہنچی ہیں۔ا ن کی فہرست ذیل میںدرج کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے۔اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو۔آمین
۱
برکت علی صاحب چک۵۶۵ لائل پور
۰…۶…۱
۲
مولوی عبدالمالک خان صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ
۰…۰…۱۵
۳
شیخ محمداکرام صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰…۰…۵
۴
شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زاد ہ شیخ محمداکرام صاحب مذکور
۰…۰…۵
۵
شیخ عظمت اللہ صاحب برادر زاد ہ شیخ محمداکرام صاحب مذکور
۰…۰…۵
۶
چوہدری فیض احمد صاحب معرفت ماسٹر چراغ دین صاحب عارف والا
۰…۰…۵
۷
کیپٹن مشتاق احمد صاحب معرفت دفتر خدا م الاحمدیہ
۰…۰…۱۰
۸
اہلیہ صاحبہ کیپٹن مشتاق احمد صاحب معرفت دفتر خدا م الاحمدیہ
۰…۰…۱۰
۹
کیپٹن فقیر محمد صاحب معرفت دفتر خدا م الاحمدیہ
۰…۰…۵
۱۰
شیخ فضل کریم صاحب گھٹیالیاں معرفت شیخ غلام رسول صاحب
۰…۰…۲
۱۱
چوہدری غلام مصطفی صاحب ریاست بہاولپور
معرفت غلام رسول صاحب
۰…۰…۵
۱۲
کرامت اللہ صاحب انبالوی حال سلانوالی
۰…۰…۵
۱۳
خالدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت چوہدری عبدالرحمن صاحب
رانجھا کراچی
۰…۰…۱۰
۱۴
مرزا بشیر احمد صاحب آف لنگر وال حال راولپنڈی
۰…۰…۵
۱۵
پیر معین الدین صاحب پسر پیرا کبر علی صاحب مرحوم ماڈل ٹائون
۰…۰…۱۰
۱۶
خورشید بیگم صاحبہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر مغلپورہ
۰…۰…۱۵
۱۷
چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب چک ۱۴۵ جہانیاںاپنے پوتے کے عقیقہ کے لئے
۰…۰…۵۰
۱۸
چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب مذکور امداد د رویشان
۰…۰…۱۴
۱۹
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی حال منڈی مرید کے
۰…۰…۵
۲۰
میاں عبدالواسع صاحب حال لاہور
۰…۰…۵
۲۱
مولوی ابوالفضل محمود صاحب حال لاہور بطور صدقہ برائے
غریب درویشان
۰…۰…۱
۲۲
سعید ہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ابو الفضل صا حب مذکور بطور صدقہ
۰…۰…۱
۲۳
مخدوم عثمان علی صاحب سرگودہا
۰…۰…۲
۲۴
چوہدری نذیر احمد صاحب ڈار سیالکوٹ
۰…۰…۱۵
۲۵
سیٹھی کرم الٰہی صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ
۰…۰…۷
۲۶
سید سعید احمد صاحب پسر
حضرت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم کراچی
۰…۰…۱۰
۲۷
والدہ عاشق محمد خان مجوکہ ضلع سرگودہا صدقہ برائے غریب درویشان (ان کے لڑکے ایک مقدمہ میں ماخوذ ہیںاور وہ خاص دعا کی درخواست کرتی ہیں…)
۰…۰…۶
میزان
۰…۶…۲۲۹
یہ وہ بھائی اور بہنیں ہیں جن کی رقوم میرے دفتر میںپہنچی ہیں مگر ان کے علاوہ بعض ایسے بھائی اور بہنیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی رقوم محاسب صاحب ربوہ یا امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان کے نام براہ راست بھجوائی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور دین ودنیا میں حافظ و ناصرہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۴۹ئ)


میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثا ء توجہ فرمائیں۔
مجھے عزیز شیخ منیر احمد سلمہ متعلم تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے ایک بڑا لفافہ پہنچا ہے جس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند خطوط پائے گئے ہیں، جو حضور ؑ نے میاں شادی خاں صاحب مرحوم سیالکوٹی کے نام لکھے تھے۔ یہ لفافہ عزیز شیخ منیر احمد کو فسادات کے ایام میںمحلہ دارالفضل قادیان سے ملا تھا، لفافہ کے اندر ایک رومال بھی ہے مگر یہ رومال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معلوم نہیںہوتا ۔البتہ خطوط یقینی طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہیں۔کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کو پہنچاتا ہوں۔سو اگر میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثاء لاہور میں ہوں تو میرے دفتر تشریف لا کر یہ خطوط وصول کرلیں۔ اور اگر وہ لاہور سے باہر ہوں تو مجھے اپنا پتہ لکھ کر بھجوادیں۔تاکہ یہ خطوط رجسٹری کرکے انہیں بھجوائے جاسکیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۹ئ)






قابل رشتہ اصحاب توجہ فرمائیں
گورشتہ ناطہ کاصیغہ نظارت امور عامہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسی نظارت کے پاس ضروری کوائف درج ہوتے ہیں۔اور اس کی طرف دوستوں کو رجوع کرنا چاہئے لیکن بعض دوست ذاتی تعلقات کی بناء پر مجھے بھی خط لکھ دیتے ہیں۔چنانچہ اس وقت بھی بعض ایسے دوستوں کی طرف سے جن کی لڑکیا ں قابل شادی ہیں، میرے پاس خطوط آئے ہوئے ہیں ۔سو اگر میرے واقف دوستوں میں سے کوئی احمدی نوجوان قابل شادی ہیں تو وہ مجھے اپنے کوائف لکھ کر بھجوادیں میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ انہیں اس معاملہ میں اپنی سمجھ اور معلومات کے مطابق ضروری مشورہ دے سکوں ۔کوائف مندرجہ ذیل درج کرنے ضروری ہوں گے۔
۱۔ ذاتی طورپرکب سے احمدی ہیں اور خاندان میں احمدیت کب سے ہے۔
۲۔ موصی ہیں یانہیں اور اپنا چندہ کس جماعت کے ذریعہ دیتے ہیں۔
۳۔ عمر اورصحت کی حالت کیسی ہے۔
۴۔ روز گار کی صورت اورماہوار یا سالانہ آمدن کیاہے۔نیز
۵۔چونکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں قوم کے خیالات ابھی تک راسخ ہیں اس لئے احتیاطً اپنی معروف قوم بھی لکھ دیں۔ یعنی ایسی قوم جو لوگوں میں معروف ہے۔ میری غرض یہ ہے کہ جن چند احمدی لڑکیوں کے رشتے میرے پاس مشورہ کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ اگرخدا کومنظور ہو تو مناسب جوڑا ملایا جاسکے۔ والامر بید ﷲ۔ یہ بات دوبارہ دہراناچاہتا ہوں کہ صرف ایسے دوست مجھے لکھیں جنہیں میں ذاتی طو پر جانتا ہوں اور دوسروں کونظارت امور عامہ میں لکھنا چاہئے کہ جماعتی لحاظ سے وہی اس کا صیغہ ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍ اکتوبر۱۹۴۹ئ)


ملک مولابخش صاحب کی افسوسناک وفات
مجھے ابھی ابھی قریشی مطیع اللہ صاحب نے سیالکوٹ سے اطلاع دی ہے کہ محترمی ملک مولابخش صاحب سابق ناظم جائیداد صدرانجمن احمدیہ و سابق پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی قادیان ۲۷ اور ۲۸؍اکتوبر کی درمیانی رات میں سیالکوٹ میں وفات پاگئے ہیں۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم صحابی تھے اور نہایت مخلص اور فدائی لوگوں میں سے تھے۔ اور اس کے ساتھ علم دوست بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے خاص سایہ میں جگہ دے اوران کے پسماندگان کاحافظ و ناصرہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۹ئ)







اسلام میں استخارہ کا بابرکت نظام
مسنون استخارہ کی ضروری شرائط
چند دن ہوئے ایک عزیز نے مجھے خط لکھاتھا کہ اس وقت جماعت میںفلاں فلاںنیک تحریک ہوئی ہے کیا میں اس میںشامل ہوجائوں َ؟ یا شاید یہ اطلاع دی تھی کہ میں اس میںشامل ہورہا ہوں۔
میں نے اسے جواب دیا کہ تحریک تو یقینا نیک اور بابرکت ہے لیکن کسی تحریک کے بابرکت ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ لازماً ہر فرد کے لئے بھی بابرکت سمجھی جائے ۔کیونکہ ہر شخص کے حالات جدا ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ جوبات ایک شخص کے لئے بابرکت ہو۔یا جو بات کثرت کے لئے بابرکت ہے وہ لازما ًقلت کے لئے بھی بابرکت ہو اور پھر بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آج حالات ایک رنگ میںہیں تو کچھ عرصہ کے بعد دوسرا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے میں نے اس عزیز کولکھا کہ اس تحریک کے بابرکت ہونے کے باوجود یہ ضروری ہے کہ آپ ا س معاملہ میںمسنون طریق پر استخارہ کریں اور استخارہ کے بعدجس بات پر اللہ تعالیٰ شرح صدر عطا کرے اسے اختیار کریں کہ یہی اسلام میںسعادت اور سلامت روی کارستہ ہے۔
اس عزیز کے اس استصواب اور اس پر اپنے جواب سے مجھے تحریک ہوئی کہ میںاس معاملہ میں الفضل کے ذریعہ بھی استخارہ کے مسئلہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ شائع کرادوں تااگر خدا چاہے تو میرا یہ نوٹ دوسرے دوستوں کے لئے بھی مفید ثابت ہو اور وہ استخارہ کے بابرکت نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں ۔ سو سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ استخارہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ وہ بابرکت نظام ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے انتہائی تاکید فرمائی ہے ۔چنانچہ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ:۔
کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الاستخارہ فی الامدکلھا کما یعلمھا سورۃ فی القرآن۔ (٭)
٭۔ ’’استخارہ والے مضمون میں ایک غلطی کی اصلاح‘‘ باقی اگلے صفحہ پر
’’یعنی آنحضرت ﷺ ہمیں اس طرح ہر امر میںاستخارہ کی تاکید فرماتے اور اس کی تعلیم دیتے تھے جس طرح کہ آپ قرآنی صورتوں کے متعلق ہمیں تاکید کرتے اور تعلیم دیتے تھے۔‘‘
پھر یہی صحابی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس بات پر بھی زور دیاکرتے تھے کہ انسان کو جو اہم کام بھی پیش آئے اوروہ اس کام کی خوبی محسوس کرکے اس کاارادہ کرے تو اس کے متعلق اسے چاہئے کہ استخارہ کرنے کے بعد قدم اٹھائے تاکہ اس کے فیصلہ میں صرف اس کی اپنی ہی محدود عقل اور سوچ کادخل نہ رہے بلکہ وہ خدا ئی علم کی روشنی سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے برکت اوررحمت کاراستہ تجویز کرسکے۔
ظاہر ہے کہ انسان کا علم نہایت محدود اور نہایت ناقص ہے وہ بسا اوقات اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے ایک گھنٹہ بعدکیا بات پیش آنے والی ہے ۔ بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے آج کے بعد کل کیا بات پیش آنے والی ہے بلکہ وہ اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے ایک منٹ یا ایک سیکنڈ یا ایک سیکنڈ کے بھی قلیل ترین جزو کے بعد کیابات پیش آنے والی ہے ۔اور پھر وہ یہ بات بھی نہیں جانتا کہ جو بات اس وقت موجود تو ہے مگر ا س کی آنکھ سے اوجھل ہے وہ ظاہر ہونے پر اس کی زندگی پر کیا اثر ڈالے گی ۔پس جب انسان کا علم اتنا ناقص اور اتنا محدود ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غیر محدود علم سے برکت حاصل کرنے کاطریق اختیار کرے اور اسی کانام دوسرے لفظوں میںاستخارہ ہے ۔کئی باتیں ہمیں بظاہر اچھی نظر آتی ہیںلیکن دراصل وہ نقصان دہ ہوتی ہیںکئی باتیںاپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں ۔
باقی صفحہ سابق:۔ استخارہ کے متعلق میرا جو مضمون الفضل مورخہ ۴ نومبر میںشائع ہوا ہے اس میں جو حوالہ استخارہ کی اہمیت کے متعلق درج کیا گیا ہے وہ افسوس ہے کہ کچھ کاتب کی غلطی کی وجہ سے اور کچھ میری غلطی کی وجہ سے غلط درج ہوگیا ہے اصل حوالہ یہ ہے جو ذیل میں درج کی جاتا ہے:۔عن جابر ؓ قال کان رسول اﷲ ﷺ یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کما یعلمنا السُّورۃ من القرآن اِذَا ھَمَّ أحدُ کُم بالامر فلیرکح رکعتین من غیرالفریضۃ ثم لیقل۔۸۹
یعنی ’’ جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ آنحضرت ﷺ ہمیں تمام اہم امور میں ایسی تاکید کے ساتھ استخارہ کی تعلیم دیتے تھے جس طرح کہ آپ قرآنی سورتوں کے متعلق تعلیم دیا کرتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ جب تم میںسے کوئی شخص کسی اہم امر کاقصد کرے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھے اور اس نماز میںذیل کے طریق پر استخارہ کی دعا مانگے (آگے استخارہ کی دعا درج ہے جو میرے مضمون میں مفصل بیان ہوچکی ہے)اُمید ہے دوست میری اس تصحیح کے مطابق مضمون میںصحت کرلیں گے۔ (مطبوعہ الفضل ۶ ؍نومبر ۱۹۴۹ئ)
لیکن ہمارے مناسب حال نہیں ہوتیں۔اور پھر کئی باتیں آج اچھی ہوتی ہیںلیکن کل کو ہمارے حالات کے بدل جانے کی وجہ سے یا خود اس بات کے حالات میں تبدیلی آجانے سے وہ ہمارے لئے اچھی نہیں رہتیں۔ اس لئے ضرور ہے کہ ہر اہم امر کا فیصلہ کرتے ہوئے خواہ وہ دینی ہویا دنیاوی، ہم خدا سے دعاکریں کہ اے ہمارے آسمانی آقا جو ہر قسم کے ذاتی اور مکانی غیب کاعلم رکھتا ہے تو اپنی طرف سے ہمیںروشنی اور ہدایت عطا کر اور ہمیں اس رستہ پر ڈال دے جوتیرے علم میں ہمارے لئے آج بھی بہترہے اور کل بھی بہتر رہنے والا ہے،اور ہمیں اس راستہ سے بچا جو ہمارے لئے بہتر نہیں یاآج تو بہتر ہے مگر کل کو بہتر نہیں رہے گا۔
آنحضرت ﷺ نے استخارہ کے متعلق صرف یہ اصولی ہدایت ہی نہیں دی کہ ہر اہم امر کے پیش آنے پر استخارہ کیا کرو بلکہ کمال شفقت سے آپ نے ہمیں استخارہ کے الفاظ بھی سکھائے ہیں جو ایک ایسی جامع اور بابرکت دعاکی صورت میں ہیں کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔چنانچہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم کسی اہم امر کا فیصلہ کرو تو دور رکعت نفل نماز پڑھ کر یہ دعا کیا کروکہ:
اَللَّھُمَّ اِنِّی أستَخِیرُکَ بِعِلمِکَ وَأستَقدِرُکَ بِقُدرَتِکَ، وَأسَالْکَ مِن فَضلِکَ العَظِیمِ ،فَاِنَّکَ تَقدِرْ وَلَا أَقدِرُ، وتَعلمُ وَلا أعلَمُ، وَأنتَ عَلَّامُ الغَیُّوبِ ۔اَللَّھُمَّ إن کُنتَ تَعلَمُ أَنَّ ھٰذالأمرَ خَیرٌ لِی فِی دِینِی وَ مَعَاشِی وعَاقِبَۃِ امر ی۔ أوْقَالَ: وآجَلِہِ فَاقدرہُ لِی وَیَسِّرہُ لِی ثُمَّ بارک لی فیہ واِن کُنْتَ تَعْلَمْ أنَّ ھٰذالأمرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِأمرِی وآجلہ۔ فَاصرِ فہُ عَنِّی وَاصرِفنِی عَنہُ واقدْر لِی الخَیرَ حَیثْ کَانَ ثُمَّ أرضنِی بہِ۔
’’یعنی اے میرے خدا میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیرے علم کے ذریعہ سے اور تجھ سے طاقت چاہتا ہوں تیری قدرت کے ذریعہ سے اور تیرے جاری فضل کے خزانہ سے کچھ حصہ مانگتا ہوں۔کیونکہ تو کامل قدرت رکھتا ہے اور میںقدرت نہیں رکھتااورتو کامل علم رکھتا ہے اور میںعلم نہیںرکھتا اور یقینا تو ہی تمام مکانی اور زمانی غیبوں کاجاننے والا ہے ۔پس اے میرے آقا اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر جو مجھے اس وقت درپیش ہے ،یہ میرے دین کے لحاظ سے اور دنیا کے لحاظ سے اور حاضرکے لحاظ سے اور مستقبل کے لحاظ سے میرے لئے بہتر ہے تو تو مجھے اس کی توفیق عطا کر اور میرے لئے اسے آسان کردے اور مجھے اس میں برکت عطا کر ۔لیکن اے میرے آقا !اگر تیرے علم میںیہ کام میرے لئے برا ہے اور میرے دین اور میری دنیا اور میرے حاضر اور میرے مستقبل کے لئے اس میں بہتری نہیں تو میری توجہ کو اس کام کی طرف سے پھیر دے اور ا س کام کے حصول کو مجھ سے دور کردے اور پھر اس کی جگہ جو کام بھی تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہو مجھے اس کی توفیق دے اور میرے دل میں اس کے متعلق تسلی عطا کر ۔آمین ۔‘‘
یہ دعا کتنی جامع اور کتنی بابرکت اور توکل کے جذبات سے کتنی معمور اور طلب خیر کی روح سے کتنی بھرپور ہے مگر افسوس کہ دنیا کابلکہ خود مسلمانوں کا ایک حصہ اس سے بالکل جاہل اور دوسرا حصہ جھوٹے فلسفیوں کی آڑ لے کراس سے بالکل غافل ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں نے تو یہاں تک مشہور کر رکھا ہے کہ :
’’درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست ‘‘
یعنی ’’نیک کام میںکسی استخارہ کی ضرورت نہیں۔‘‘ حالانکہ اگر کارِ خیر میں استخارہ نہیں توکیا کارِ بد میں استخارہ ہے؟ کیانعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ جب تم چوری یا ڈاکہ یا زنا یا قتل کے مرتکب ہونے لگو تو اس وقت استخارہ کرو۔
عزیزو اور دوستو! استخارہ تو ہے ہی نیک کاموں کے لئے اور استخارہ کے حکم میں آنحضرت ﷺ کا یہی منشاء ہے کہ جب تم کوئی ایسا کام کرنے لگو جو تمہارے لئے فرائض اور واجبات میں سے نہیں ہے لیکن تم اسے اپنے علم میں اچھا اور نیک کام خیال کرتے ہو تو اس وقت صرف اپنے علم اور اپنی رائے پر ہی بھروسہ نہ کیاکرو بلکہ استخارہ کے ذریعہ خداسے بھی خیر مانگا کرو تاکہ اس کے علم کی وسعت تمہارے علم کے نقص کی تلافی کردے اور تم غلطی سے ایساقدم نہ اٹھالو جوگو تمہارے خیال میںاچھاہے لیکن خدا کے علم میں وہ تمہارے لئے مناسب نہیں یا آئندہ چل کر وہ تمہارے واسطے ٹھوکر اور شماتت کاموجب بننے والا ہے۔
دراصل انسانی کام تین قسم کے ہوتے ہیں:
(اوّل)۔ وہ کام جن کااسلام نے حکم دیا ہے اور انہیں فرض قرار دیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ ہر مسلمان ا نہیں بجالائے مثلاً پانچ وقت کی نماز اور رمضان کے روزے اور سچی شہادت اور ایفائے عہد وغیرہ ایسے کام اسلامی اصطلاح میںاوامر کہلاتے ہیں ۔
(دوم) وہ کام جن سے اسلام نے منع کیا ہے اور ان کے ارتکاب کو گناہ قرار دیا ہے مثلاً چوری اور ڈاکہ اور زنا اورقتل وغیرہ ایسے کام نواہی کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
(سوم ) وہ کام جن کانہ تو اسلام نے حکم دیا ہے اور نہ ہی ان سے روکاہے بلکہ ان کے اختیار کرنے یاترک کرنے کو ہرانسان کے حالات اور اختیارپر چھوڑدیا ہے مثلاً یہ کہ میںاس عورت سے شادی کروں یاکہ اس عورت سے؟گذارہ کے لئے نوکری کروں یا کہ تجارت ؟ فلاںسفر پر جائوںیا کہ اسے ترک کردوں ؟فلاںجائیداد خریدوںیاکہ اس کا خیال چھوڑ دوں وغیروغیرہ ۔ایسے کام عموماً مباح یا مستحب وغیرہ کہلاتے ہیں ۔گو ان کی بھی آگے کئی قسمیں ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ پہلی قسم کے کاموںکے متعلق استخارہ کا سوال پید اہی نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ یہ کام خدا نے ہم پر واجب کر رکھے ہیں۔اور جو شخص ان معاملات میں استخارہ کرتاہے وہ دراصل زندیق ہے ۔جسے خدا کے حکموں پر ایمان نہیں کیونکہ وہ ایک یقینی چیز کوشک کے میدان میں داخل کرکے باطل کرنا چاہتاہے،اور درحقیقت جس شاعر نے یہ مصرعہ کہا ہے کہ:
در کارخیر حاجت ہیچ استخارہ نیست ‘‘
اس نے غالباً کار خیر سے اسی قسم کے فرائض اور واجبات مراد لئے ہیں ،جن میںاستخارہ کاکوئی سوال پید انہیں ہوتا بلکہ استخارہ کا خیال تک کرنا گناہ ہے۔ اسی طرح دوسری قسم کے کاموں کے متعلق بھی استخارہ کا سوال پید انہیںہوسکتا۔ کیونکہ جن کاموں سے خدا نے اپنے صریح حکم کے ذریعہ روک دیاہے ۔اس میںاستخارہ کیامعنی رکھتا ہے؟بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے کاموں میں استخارہ کرنے والا خدا تعالیٰ سے استہزا ء کرتا ہے۔
پس دراصل استخارہ کا حکم صرف تیسری قسم کے کاموں کے متعلق ہے یعنی جب ایک بات نہ تو فرائض اور واجبا ت میں سے ہے ہو اور نہ ہی وہ ممنوعات کی قسم میں داخل ہو ۔تو ایسی صورت میں انسان کوچاہئے کہ اسے اختیار کرنے سے پہلے مسنون استخارہ کرلے اور میرے خیال میں تمام ایسی نیک تحریکات بھی جوواجبات میں سے نہیں ہیں اور شریعت یا امام نے انہیں ہرفرد پروا جب قرار نہیںدیا ،وہ استخارہ کے دائرہ میں آتی ہیںاور استخارہ کے بغیران میں قدم نہیں اٹھاناچاہیئے، کیونکہ جیسا کہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں ،ہوسکتا ہے کہ ایک تحریک اپنی ذات میں نیک اور بابرکت ہو مگر زیدوبکر کے حالات کے لحاظ سے وہ مناسب نہ ہو ۔یاآج کے حالات کے لحاظ سے تو وہ مناسب ہولیکن جو حالات کل پیش آنے والے ہیں (اور ان کا علم صرف خدا کو ہے ان کے لحاظ سے مناسب نہ ہو تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی صورت میں استخارہ ضرور ی ہے اور استخارہ کے بغیر قدم اٹھانے والا شخص بسا اوقات اپنے لئے ٹھوکر کاسامان پیدا کر لیتا ہے۔حالانکہ تحریک اپنی ذات میں بالکل نیک اور مفید ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر وقف زندگی کے نظام کو لیتاہوں ،ہر ذی علم مسلمان جانتا ہے کہ قرآن شریف نے اس بات کی تحریک فرمائی ہے کہ مسلمانوں کا ایک حصہ دینی کاموں یعنی تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے لئے وقف رہناچاہے ۔چنانچہ فرماتا ہے:
۹۰
’’یعنی اے مسلمانو تم میں ایک جماعت ایسی رہنی چاہیے جو اس کام کے لئے وقف رہے کہ وہ لوگوںکو حق کی طرف بلائے۔اورنیکیوں کی تحریک کرے اور برائیوں سے روکے اور یہ لوگ (خدا تعالیٰ کے فضل سے) ضرور بامراد ہونگے ۔
یہ وہ مبارک آیت ہے جو اسلام میں وقف زندگی کے نظام کی اصل بنیاد ہے ،مگر ظاہر ہے کہ اسلام نے اس تحریک کو ہر مسلمان پر فرض عین کے طورپر واجب نہیں کیا،بلکہ یہ الفاظ فرماکرکہ تم میں سے ’’ایک پارٹی ‘‘ اس کام کے لئے وقف رہنی چاہئے اسے گویا فرض کفایہ کارنگ دے دیا ہے۔تو جب یہ تحریک اپنی گوناگوں برکتوںکے باوجود ہرفرد کے لئے واجب قرار نہیں دی گئی۔تو ظاہر ہے کہ اسے اختیار کرنے سے پہلے بھی مسنون استخارہ ہونا ضروری ہے ورنہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے موجودہ یاآئندہ ظاہر ہونے والے غیر مناسب حالات کی وجہ سے یہی نیک تحریک اس کے لئے بعد میں ٹھوکر کا موجب بن جائے جیساکہ بد قسمتی سے بعض واقفین نو جنہوں نے محض وقتی جوش کے ماتحت ایک قدم اٹھالیا تھا۔اسے اپنے لئے ٹھوکر کا موجب بنا رکھا ہے۔حالانکہ یہ تحریک اپنی ذات میں بہت نیک اور مبارک ہے۔
بہر حال اسلام کا منشاء یہ ہے کہ اوامر اور نواہی کو چھوڑ کر ہر اہم امر میںخواہ وہ بظاہر کتناہی مفید اور بابرکت نظر آئے استخارہ کرنا چاہئے اور خداسے خیر طلب کرنے اور برکت چاہنے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئیے اور جیساکہ میں اوپر لکھ چکا ہوں آنحضرت ﷺ اس معاملہ میں اتنی تاکید فرماتے تھے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ گویا آپ اسے قرآنی سورتوں کی تلقین کارنگ دے دیتے تھے۔
اب رہا یہ سوال کہ استخارہ کافائدہ کیا ہے؟ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ استخارہ کا مسئلہ دراصل دعا کے مسئلہ کی فرع ہے اور جو فوائد دعا میں ہیں۔وہی استخارہ میںبدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔اور مختصر طور پر استخارہ کے فوائد یہ ہیں۔
۱۔ استخارہ انسان کو جلد بازی سے روکتا ہے یعنی استخارہ کرنے والا انسان وقتی جوش میں بلاسوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھاتا بلکہ استخارہ کی وجہ سے جووقفہ پید اہوتا ہے اس میں اسے ٹھنڈے دل سے غور کر نے اور سارے حالات کو سوچنے سمجھے کا موقع مل جاتا ہے۔
۲۔ استخارہ میں یہ سبق بھی مخفی ہے کہ مسلمانوںکو ہر امر میں خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ رکھنی چاہئے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلہ پر اسی کی مقدس یاد کو اپنا سہار ابنانا چاہئے۔
۳۔ استخارہ میںچونکہ خد اسے ایک دعا کی جاتی ہے اس لئے یہ دعا انسان کے دل میںتسکین کی صورت پید اکرتی ہے اور وہ اس بات سے تسلی حاصل کرتا ہے کہ میں نے اپنے علیم و قدیر آقا کے سامنے اپنی حاجت پیش کردی ہے اور خواہ اس دعا کا بظاہر کوئی جواب ملے یا نہ ملے یہ دعا اپنی ذات میںتسکین کاباعث بن جاتی ہے۔
۴۔ بسا اوقات اگر خدا چاہے تو استخارہ کے جواب میں انسان کو خواب یاکشف یاا لہام کے ذریعہ خد اکا منشاء بھی معلوم ہوجاتاہے جو بہر حال ایک کامل ہدایت کارنگ رکھتا ہے ،جس کے بعد انسان خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے بے دھڑک قدم اٹھا سکتا ہے۔
۵۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر ظاہرنہ بھی ہو(کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتاکہ خدا تعالیٰ ضرور اپنا منشاء لفظاً ظاہر فرمائے ) تو اس صورت میںبالعموم خداتعالیٰ ایسا انتظام فرماتا ہے اور یہی دراصل استخارہ کی دعا کا اصل مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کی مخفی تاریں انسان کے دل و دماغ پر تصرف کر کے اسے ایسے راستہ پرڈال دیتی ہیں جواس کے لئے خیر وبرکت کاموجب ہوتا ہے ۔یعنی اگر پیش آمدہ امر انسان کے لئے مفید ہو تو ایسے استخارہ کے بعد اس کے متعلق شرح صدر حاصل ہوجاتاہے اور اگر وہ اس کے لئے مفید نہ ہوتو اس کے رستہ میں روک پید اہوجاتی ہے اور اس ہدایت سے صرف وہی شخص محروم رہتا ہے۔جس نے یاتو استخارہ محض رسمی طورپرکیا ہو۔اور ا س کے استخارہ میں کوئی جان نہ ہو۔اور یا اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے خدا تعالی نے اسے آزاد اور بے سہارا چھوڑ دینے کا فیصلہ کررکھا ہو۔
اب غور کرو کہ یہ کتنے عظیم الشان فوا ئدہیں کہ جواستخارہ کے بابرکت نظام میںہمارے لئے مقدر کئے گئے ہیںمگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ کے مادی ماحول نے اکثر لوگوںکی آنکھوںکو اس روشنی سے محروم کر رکھا ہے ۔بد قسمت انسان اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اپنے دوستوں اور عزیزوں اور ہمدردوں کے مشورہ کے لئے بھاگتا ہے اور ان کے ناقص مشورہ میں جو بسا اوقات ا س کے لئے مضر ہوتاہے تسلی پانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس علیم وقدیرہستی کے مشورہ کی طرف قدم نہیں اٹھاتا ،جو تمام ہمدردوں سے بڑھ کر ہمدرد اور تمام محبت کرنے والوں سے بڑ ھ کر محبت کرنے والی اور تمام علم رکھنے والوں سے بڑھ کرعلیم اور تمام طاقت رکھنے ولوںسے بڑھ کرقدیر ہے۔ قتل الانسان مااکفرہ۔
بالآخر میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گو حدیث میں استخارہ کی دو نفل نما زکے لئے کوئی وقت مقرر نہیںکیاگیا،مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے رات کو سونے سے پہلے کا وقت زیادہ مناسب خیال فرماتے تھے ۔اور فرمایا کرتے تھے کہ بہترصورت یہ ہے کہ جب کسی شخص نے استخارہ کرنا ہو تو رات کو سونے سے قبل وضو کر کے دو رکعت نماز نفل ادا کرے اور اس نمازمیں نہایت توجہ اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ استخارہ کی دعا کرکے سوجائے اور اس نماز کے بعد حتی الوسع کسی سے بات نہ کرے ،اور اگر ممکن ہو تو سونے سے پہلے لیٹے لیٹے بھی یہ دعا کرتا رہے نیز فرماتے تھے کہ اگر کسی کو مسنون دعا نہ یاد ہو۔ تو وہ اس مفہوم کے مطابق اپنی زبان میں ہی دعا مانگ لے اور اس کے بعدیہ الفاظ کہے کہ :
یاخبیر اخبرنی
’’یعنی اے میرے خبیر وعلیم آقا تو اس معاملے میں میری راہنمائی کراور مجھ پر اپنی منشاء ظاہر فرمادے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص سچی تڑپ اور دلی خلوص کے ساتھ اس طریق کواختیار کرے گا ۔اس پر یاتو خدا تعالیٰ خواب وغیرہ کے ذریعہ اپنا منشاء ظاہر فرمادے گا اور یاعملاً اس کی ایسی دستگیری فرمائے گاکہ وہ اس معاملے میں ٹھوکر کھانے سے محفوظ ہوجائے گا۔
اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ استخارہ کتنے دن ہونا چاہئے؟ سو زیادہ بہتر اور مبارک طریق تو یہ ہے کہ اہم امور میں سات دن تک مسلسل استخارہ کیا جائے لیکن اگر اس کاموقع نہ ہو۔توکم از کم تین دن تو ضرور استخارہ ہونا چاہئے لیکن اشد مجبوری کی صورت میں ایک دن بھی ہوسکتاہے اور اگر کسی ناگزیروجہ سے درمیانی وقفہ ایک رات کا بھی میسر نہ ہو تو پھر ۔۹۱ کے اصول کے ماتحت استخارہ والی دعا دن رات کے کسی حصہ میں فوری طورپر بھی پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ اگر ہمارا خدا انسان کی بہتری کے لئے اسی پر ایک ذمہ داری ڈالتا ہے تو دوسری طرف وہ اس کی مجبوریوں کو بھی جانتاہے اور یہ بات ہمارے رحیم وکریم آقا سے بعیدہے کہ وہ ایک حقیقۃً مجبور انسان کومحض کسی رسمی بات کی بنا پر اپنی رحمت سے محروم کردے
واٰخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین
‎ (مطبوعہ الفضل ۴؍ نومبر ۱۹۴۹ئ)
جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والی پارٹی
خواہش مند دوست اپنے نام پیش کریں
تجویز کی گئی ہے کہ قادیان کے اس جلسہ پر جو دسمبر کے آخر ی ہفتہ میں منعقد ہوگا ،چالیس دوستوں کی ایک منظم پارٹی عارضی پر مٹ پر قادیان بھجوائی جائے ۔ جوتین چار دن قادیان ٹھہرکرواپس آجائے گی یہ پارٹی حکومت مغربی پنجاب کی اجازت اوروساطت سے قادیان بھجوائی جائے گی اور اسی طرح حکومت ہند کی اجازت بھی ضروری ہوگی اور گو ابھی تک نہیںکہا جاسکتا کہ اس پارٹی کو قادیان جانے کی اجازت ملے گی یانہیں ،لیکن احتیاطاً ضروری ہے کہ ہم اس کے متعلق اپنی طرف سے تیاری مکمل کرلیں ۔سو جو دوست اس پارٹی میں شامل ہونا چاہیں وہ مجھے اپنے نام اور ضروری کوائف لکھ کر بھجوادیں لیکن ایسے دوستوں کومندرجہ ذیل امور مد نظر رکھنے چاہئیں۔
۱۔ یہ پارٹی غالباً چالیس افراد پر مشتمل ہوگی جن میں سے بعض بیرون ممالک سے آئے ہوئے مبلغ ہوں گے اور بعض دوسرے مبلغ ہوں گے اور بعض ایسے دوست ہوں گے جو عرصہ دراز سے قادیان نہیں جاسکے اور بعض دوسرے دوست ہوںگے جن کے قریبی عزیز اس وقت قادیان میںمقیم ہیں۔وغیرہ ذالک ۔پس لازماً ہمارا انتخاب بہت محدود ہوگا ۔اس لئے جو دوست درخواست دیں انہیںیہ نہیںسمجھنا چاہئے کہ ان کی درخواست بہرحال منظور ہوجائے گی۔
۲۔ جو دوست اس پارٹی میںشامل ہوںگے انہیں جلسہ ربوہ کی شرکت سے محروم رہنا پڑے گا۔ کیونکہ اس سال قادیان کا جلسہ سالانہ اور ربوہ کا جلسہ سالانہ ایک ہی تاریخوں میں منعقد ہو رہے ہیں۔
۳۔ اگر یہ ضروری سمجھاگیا کہ اس پارٹی کے اخرجات شامل ہونے والے دوستوں پر ڈالے جائیں تو ہر دوست کو ایسے اخرجات کا بوجھ خود برداشت کرناہوگا۔سوائے ایسے غریب دوستوں کے جن کے لئے یہ خرچ تکلیف مالا یطاق کارنگ رکھتا ہو۔
پس اوپر کی تین شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دوست اس پارٹی میںشامل ہونا چاہیں وہ مجھے بہت جلد اپنی درخواست بھجوادیں ۔درخواست میں :۔
۱۔ اپنے نام
۲۔ اپنی ولدیت
۳۔ اپنی سکونت اور موجودہ پتہ اور
۴۔ استحقاق کا اندراج ہوناچاہئے ۔استحقاق سے مراد یہ ہے کہ انہیں اس بات کی صراحت کرنی چاہئے کہ وہ کس وجہ سے اس پارٹی میںشمولیت کا حق رکھتے ہیں۔ آیا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار قادیان میں ہے ۔یاوہ عرصہ دراز کے بعد کسی بیرونی ملک سے واپس آئے ہیں۔ یا اسی قسم کاکوئی اور حق جو قابل قبول اور قابل ترجیح سمجھا جائے۔
یہ بات پھر بیان کر دینی ضروری ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے اس پارٹی کی اجازت نہیں ملی اور اس پارٹی کا جانا لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اجازت مل جائے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر درخواست کنندہ کو اجازت دے دی جائے ۔بلکہ زیادہ درخواستوں کی صورت میں لازماً محدود انتخاب کرنا ہوگا۔
‎( مطبوعہ الفضل ۵؍نومبر۱۹۴۹ئ)







چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گذشتہ سے پیوستہ
گذشتہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے امدا د درویشان کی مد میں رقوم وصول ہوئی ہیں ،ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے ۔ یہ صرف وہ رقوم ہیںجو میرے دفتر میں براہ راست وصول ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ جو رقوم دفتر محاسب ربوہ میں بھجوائی جاتی ہیں یا براہ راست امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام بھجوائی جاتی ہیں (گو فی الحال منی آرڈروں کاسلسلہ رک جانے کی وجہ سے یہ رستہ بند ہے)وہ ان رقوم میں شامل نہیں ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس نیک تحریک میں حصہ لیاہے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو۔ فہرست درج ذیل ہے۔
۱
قاضی محمدصادق صاحب قریشی بیرون دہلی دروازہ لاہور
۰…۰…۵
۲
میاں مسعود اقبال صاحب ابن میاں غلام محمد صاحب ثالث لاہور
۰…۰…۳
۳
اہلیہ صاحبہ سید عبد الرشید صاحب کالری شارک بلوچستان
۰…۰…۵
۴
حکیم محمد یعقوب شاہ صاحب گگو ضلع منٹگمری
۰…۰…۵
۵
حکیم ملک میر احمدصاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ
۰…۰…۱۵
۶
ماسٹر محمد شفیع صاحب نوشہرہ
۰…۰…۱۰
۷
چوہدری بشیر احمد صاحب نوشہرہ
۰…۰…۱
۸
مرز ا محمدیعقوب صاحب نوشہرہ
(نوٹ:اوپر کی تین رقوم مرزا اللہ دتہ صاحب سیکرٹری مال کے ذریعے وصول ہوئی ہیں۔)
۰…۰…۱
۹
اہلیہ صاحبہ سید عبد الحی صاحب منصوری حال ماڈل ٹائون لاہور
۰…۰…۵
۱۰
والدہ صاحبہ ناظر حسین صاحب بذریعہ ام مظفر احمد صاحبہ
۰…۰…۵
۱۱
محمد ابراھیم صاحب کنسٹیبل پولیس منٹگمری
۰…۰…۵
۱۲
اہلیہ صاحبہ حکیم عبد العزیز صاحب فیروز پوری حال لاہور
۰…۰…۲
۱۳
سید محمد مسعود صاحب اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نواں کوٹ لاہور
۰…۰…۶
۱۴
مستری محمد ابراھیم صاحب حاجی پورہ سیالکوٹ(نوٹ: یہ رقم مستری صاحب کو راستہ چلتے ہوئے ملی تھی، جو انہوں نے اس مد میں ارسال کردی،لیکن اگر کوئی صاحب اس بات کا ثبوت دے سکیں کہ یہ رقم ان کی ہے تو انہیں واپس کردی جائے گی۔)
۰…۰…۱۰

۱۵
حکیم عبدالرحیم صاحب فلیمنگ روڈ لاہور
۰…۰…۵
۱۶
میاں خدابخش صاحب بھیروی میکلوڈ روڈ لاہور
۰…۰…۵
۱۷
اہلیہ صاحبہ بابو اکبر علی صاحب مرحوم حال گوجرانوالہ
۰…۰…۵
۱۸
شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰…۰…۵
۱۹
شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زادہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور
۰…۰…۵
۲۰
شیخ عظمت اللہ صاحب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۰…۰…۵
۲۱
مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد سرور شاہ صاحب ایم۔اے دارالسلام مشرقی افریقہ (بذریعہ ڈرافٹ)
۰…۰…۲۳
۲۲
حکیم نظام الدین صاحب آف قادیان حال بیگم کوٹ لاہور
۰…۸…۲
۲۳
فیض محمد صاحب چک E /۲۲ڈاکخانہ کمبر ضلع منٹگمری (نوٹ: ان صاحب کا بچہ ایک بہت سنگین مقدمے میں ماخوذ ہے ۔دعا کی درخواست کرتے ہیں۔)
۰…۰…۵
۲۴
امام علی صاحب سیکرٹری مال بھیرہ ضلع شاہ پور
۰…۰…۱۰
۲۵
عبدالقیوم صاحب برادر میاں عبدالحی صاحب واقف زندگی راولپنڈی
۰…۰…۵
۲۶
چوہدری محمد مختار صاحب ٹھیکیدار قلعہ صوبہ سنگھ
۰…۰…۲۵
۲۷
میاں محمد امین صاحب قلعہ صوبہ سنگھ
(نوٹ: اوپر کی ہر دو رقوم بذریعہ ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب موصول ہوئی ہیں۔
۰…۰…۵
۲۸
مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ لاہور
(نوٹ: یہ رقم ماہ جولائی میں آئی تھی اوردفتر کے ریکارڈ میں درج ہے مگر شامل اعلان ہونے سے رہ گئی َ)
۰…۰…۵

۲۹
میاں عبد اللہ صاحب پھل فروش آف قادیان و اہلیہ (ناصرہ بیگم صاحبہ ) حال لاہور
۰…۰…۱۰
میزان
۰…۰…۱۹۸
‎(مطبوعہ الفضل مورخہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۴۹ئ)
قادیان روپیہ بھیجنے والے دوست توجہ فرمائیں
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تاحال ہندوستان اورپاکستان کے درمیان شرح تبادلہ کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے روپیہ آنے جانے میں عارضی روک پید اہوچکی ہے ۔اور اس کا اثر لازماً ہمارے قادیان کے درویشوں اور ان کے رشتہ داروں پر پڑرہاہے۔اور فریقین روپیہ نہ پہنچنے کی وجہ سے تکلیف میںہیں۔ ا س کے متعلق فی الحال یہ انتظام کیاگیا ہے کہ اگر کسی صاحب نے پاکستان سے قادیان روپیہ بھجوانا ہو تو یہ روپیہ وہ میرے دفتر میںضرور ی تفصیل کے ساتھ جمع کرادیں اس کے مقابل پر وہ روپیہ جو قادیان کے بعض درویشوں نے امیر صاحب قادیان کے پاس اس غرض کے ماتحت جمع کرایا ہوا ہے کہ ان کے عزیزوںکو پاکستان بھجوا دیا جائے کاٹ لیا جائے گا۔اورانشاء اللہ اس طرح آپس میںرقوم کاحسابی تبادلہ ہونے سے فریقین کے لئے سہولت بھی ہوجائے گی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۹ئ)






ایک دوست کے استفسار کا جواب
استخارہ والے مضمون کا تتمہ
چند دن ہوئے میرا ایک مضمون اسلام میں استخارہ کے بابرکت نظام کے متعلق الفضل میں شائع ہوا تھا اس کے متعلق مجھے ایک معز ز غیر احمدی دوست کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے کہ استخارہ کی دعا کس وقت پڑھنی چاہئے ؟ آیا نفل ادا کرنے کے بعد یا کہ نماز کے اندر اور اگر نماز کے اندر پڑھنی چاہئے تو آیاالحمد للہ اور سورہ اخلاص کے بعد پڑھنی چاہئیے یاکہ تشہد اور درود شریف کے بعد ۔
اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر جاننا چاہئے کہ جہاںتک مجھے معلوم ہے حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں پائی جاتی کہ استخارہ کی دعا نماز کے اندر پڑھی جائے یا کہ اس کے بعد لیکن چونکہ اسلام میں اصولی طور پر دعا کا اصل موقع نماز کے اندر مقرر کیا گیا ہے ،حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ:
الدعا ء من العبادۃ ۔۹۲
’’ یعنی دعا عبادت کی جان ہے ،جس کے بغیر عبادت یعنی نماز ایک ایسی ہڈی کا رنگ رکھتی ہے جس کے اندر کوئی گودہ نہ ہو۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ دعا کااصل موقع نماز ہے جب کہ انسان گویا خدا کے دربار میں حاضر ہوکر اپنے معروضات پیش کرتا اور خدا کے فضل و رحمت کا طالب بنتا ہے ۔اسی لئے اسلام نے نماز کے آغازو انجام کو دونہایت اہم اصولی دعائوں کے ساتھ گھیر رکھا ہے ۔یعنی شروع میں سورہ فاتحہ کی دعا رکھ دی گئی ہے جو ساری دعا ئوں کی سرتاج ہے اور آخر میںدرود کی دعا رکھی گئی ہے کہ وہ بھی سورۃ فاتحہ کے بعد مبارک ترین دعائوں میں سے ہے اور نماز کے درمیانی حصوں میں بھی تسبیح و تحمید کے درودوںکے ساتھ ملا کر مختلف دعا ئیں مقرر کردی گئی ہیں ۔اس سے ظاہر ہے کہ استخارہ کی دعا کااصل موقع نماز کے اندر ہے نہ کہ نماز کے بعد وھوا لمراد
اب رہا یہ سوال کہ استخارہ کی دعا نماز میں کس موقع پرپڑھی جائے ؟ سو اس کے متعلق حدیث میں یہی اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ دعا نماز کے اختتام پر یعنی تشہد اور درود کے بعد آخری قعدہ میں پڑھنی چاہئے کیونکہ استخارہ والی حدیث میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیںکہ نماز کے مقررہ ارکان سے فارغ ہونے کے بعد استخارہ کی دعا پڑھنی چاہئے ۔چنانچہ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم لیقل۔۹۳
یعنی استخارہ کرنے ولے کو چاہئے کہ دورکعت نفل نماز کے ارکان مکمل کرکے پھرسلام پھیرنے سے قبل استخارہ کی دعاپڑھے اور عقلاً بھی استخارہ کی دعا کا یہی موقع مناسب ہے کہ دو رکعت نماز نفل کے اختتام پر سلام پھیرنے سے قبل پڑھی جائے کیونکہ یہ وہ دعا ہے جس کے بعد دعا مانگنے والے کے دل ودماغ پر تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے کام میںمصروف ہوجائے، اس دعا کا غلبہ رہنا چاہئے تاکہ وہ خدا کے فضل و رحمت کازیادہ سے زیادہ جاذب بن سکے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی کیفیت پید اکرنے کے لئے نماز کاآخری حصہ ہی مناسب ہے ۔
باقی یہ بات میں اپنے گذشتہ مضمون میںواضح کرچکا ہوں کہ فوری ضرورت کے وقت نماز استخارہ ہر وقت اد اکی جاسکتی ہے ۔اور ضروری نہیں کہ اس کے لئے لازماًسونے سے پہلے کاوقت انتخاب کیاجائے البتہ اگر معاملہ فوری نہ ہو اور فرصت کے ساتھ دعا مانگی جاسکے تو سونے سے پہلے کاوقت سب سے زیادہ مناسب ہے ظاہر ہے کہ انسان کو کئی قسم کے کام پیش آسکتے ہیں ۔بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے اختیار کرنے سے قبل کافی عرصہ سوچنے اور غور کرنے کامل جاتا ہے ۔ایسی صورتوں میںجیساکہ ایک حدیث میں اشارہ پایا جاتا ہے بہتر یہی ہے کہ سات راتوں تک مسلسل بسترپرجانے سے پہلے استخارہ کی نماز پڑھی جائے پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیںکہ اس میں زیادہ فرصت کا موقع تو نہیں ہوتا لیکن دو چاردن کی مہلت ضرور ہوتی ہے۔ ایسے موقعوں پر بہتر ہے کہ تین دن یا کم از کم ایک دن (جیسی بھی صورت ہو) سونے سے قبل استخارہ کیا جائے مگر بعض کام ایسے بھی ہوسکتے ہیںکہ ان میں فیصلہ کرنے کے لئے ایک رات کاوقفہ بھی نہیں ملتا ایسی صورتوں میں د ن کے کسی حصہ میں دو نفل نماز پڑھ کر استخارہ کی دعا کی جاسکتی ہے اور ہمارے آقا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیںکہ استخارہ کے بعد خواہ کوئی خواب وغیرہ نہ بھی آئے تب بھی مومن کو چاہئے کہ جس طرف بھی خدا اس کادل مائل کردے اس طرف خدا پر توکل کرتے ہوئے قدم اٹھالے مگر استخارہ دل کی تختی کو صاف کرکے پاک نیت کے ساتھ ہوناچاہئے تاکہ کوئی نفسانی خیال روک نہ بن جائے ۔بالآخر میں یہ بھی ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرے استخارہ والے مضمون کے متعلق میرے پاس ایک احمدی دوست کابھی خط آیا ہے، اور انہوں نے اس معاملہ میں اپنا ایک دلچسپ ذاتی تجربہ بھی لکھا ہے چنانچہ یہ دوست لکھتے ہیں کہ:
مجھے استخارہ کے مسئلہ کے متعلق قریبا چالیس برس سے اطلاع ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نسخہ کے استعمال سے بہت فائدہ اٹھایا ہے مگر میں اپنے استخاروں میں کسی خاص وقت کو ملحوظ نہیں رکھتا تھا ۔بلکہ جس وقت بھی موقع ملے نفل پڑھ کر استخارہ کی دعا پڑھ لیتا تھا ۔اب جوجناب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پسندیدہ وقت بعد از نماز عشاء تحریر فرمایا ہے تو میں نے گذشتہ شب ان شرائط کے ماتحت استخارہ کیا اور باوجود اس کے کہ مجھے عام طورپرخواب نہیں آیاکرتے، گذشتہ رات مجھے خواب آئی بلکہ وہ خوابیں آئیں جنہیں میںاپنے اس استخارہ کا نتیجہ سمجھتا ہوں (اس کے آگے اس دوست نے اپنی دو مبشر خوابیںلکھی ہیں۔)
بہر حال اسلام میں استخارہ کا نظام بہت ہی مفید اور بابرکت نظام ہے ،اور ہمارے دوستوں کو اس نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۔یہ ایک ایسا آسان اور سہل نسخہ ہے جس پر بقول شخصے ’’نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ‘‘ لیکن اس کے فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ انسان انہیں تصور میںنہیں لاسکتا اوراگر کوئی اور فائدہ نہ بھی ہو تو کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اس ذریعہ سے انسان خدا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق بدرجہا بڑھا سکتا ہے اور خدا پر اپنے عمل سے یہ ظاہر کردیتا ہے کہ اے میرے آقا تیرے دامن کے ساتھ مرے دل کی تاریں اس طرح لپٹی ہوئی ہیں کہ میںدین ودنیا کے ہرکام میں روشنی اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے تیرے دروازہ کی طرف بھاگتا ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ نومبر ۱۹۴۹ئ)





چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گذشتہ سے پیوستہ
قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے چندہ دینے والوں کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ، اور دین ودنیا میں ان کاحافظ و ناصر ہو۔آمین یا ارحم الراحمین۔
۱
مسماۃ بخت بھری صاحبہ بھاکا بھٹیاںضلع گوجرانوالہ
۰…۰…۵
۲
مسماۃ مہربی بی صاحبہ بھاکا بھٹیاںضلع گوجرانوالہ
۰…۰…۵
۳
میاںمحمد حسین صاحب پھلو کی ضلع گوجرانوالہ
۰…۰…۱۰
۴
شیخ محمدبشیر صاحب آزاد انبالوی مرید کے ضلع شیخوپورہ
۰…۰…۵
۵
مسماۃ راج بی بی صاحبہ بھاکا بھٹیاں ضلع گوجوانوالہ
۰…۰…۱۰
۶
قریشی محمد اکرم صاحب حسن پور تحصیل کبیروالہ
۰…۰…۲
۷
خدا داد صاحب سیکرٹری مال حسن پور ضلع کبیر والہ
۰…۰…۲
۸
ابو الفضل محمود صاحب ۳کینال پارک لاہور
۰…۰…۱
۹
خواجہ ظہور الدین صاحب وکٹوریہ روڈ لاہور
۰…۰…۵
۱۰
شیخ عبادالرحمن صاحب بیڈن روڈ لاہور
۰…۰…۴
۱۱
میمونہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب آف چنیوٹ حال لاہور
۰…۰…۲
۱۲
مائی چیمی صاحبہ ڈسکہ بقیہ رقم قربانی
۰…۰…۵
۱۳
شیخ عبد الوہاب صاحب کراچی
۰…۰…۲
۱۴
اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالرحمن صاحب آف کپورتھلہ حال تاندلیانوالہ
۰…۰…۳
۱۵
امتہ الرحمن بیگم صاحبہ بنت حکیم عبدالرحمن صاحب چک جھمرہ
۰…۰…۵
۱۶
عطیہ بیگم صاحبہ بنت حکیم عبد الرحمن صاحب مذکور
۰…۰…۵
۱۷
مسعودہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب چک جھمرہ
۰…۰…۷
۱۸
بیگم ڈاکٹر محمد حفیظ صاحب قریشی راولپنڈی
۰…۰…۱۰
۱۹
ملک منیر احمد صاحب نثار پیرو شاری حیدر آباد سندھ
۰…۰…۵
۲۰
ڈاکٹر غلام حیدر صاحب نکلسن روڈ لاہور
۰…۰…۳۰
۲۱
اہلیہ صاحبہ چوہدری احمد جان صاحب راولپنڈی
۰…۰…۵
۲۲
رضیہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری احمدجان صاحب راولپنڈی
۰…۰…۵
۲۳
سیدہ صفیہ خاتون صاحبہ اہلیہ سید محمود احمد صاحب بگٹ گنج مردان
۰…۰…۵
۲۴
اہلیہ صاحبہ چوہدری حسین علی صاحب بذریعہ حاجی محمد فاضل صاحب فیروز والا ضلع گوجرانوالہ
۰…۸…۵
۲۵
فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالقدیر صاحب واقف زندگی نواب شاہ سندھ
۰…۰…۱
۲۶
محمد عبدالقدیر صاحب واقف زندگی ربوہ
۰…۰…۱
۲۷
عبدالسمیع وعبد الحلیم وعبدالرفیق پسران محمدعبدالقدیرصاحب مذکور
۰…۰…۱
۲۸
ڈاکٹر فتح دین صاحب پشاور برائے دو عدد بکرا صدقہ
۰…۰…۶۰
۲۹
حمیدہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد حسین صاحب ہیڈ کلرک ملتان (بذریعہ لجنہ )
۰…۰…۳
۳۰
عبدالرحیم صاحب ریلوے برج ورکشاپ جہلم
۰…۰…۵
۳۱
عبدالسمیع صاحب صدیقی چٹاگانگ( بنگال)
۰…۰…۵
۳۲
امتہ اللطیف صاحبہ بنت سید عبد اللطیف صاحب انسپکٹر بیت المال
۰…۰…۵
۳۳
محمد صدیق صاحب غلّہ منڈی گکھڑ برائے لنگر قادیان
۰…۰…۵
۳۴
والدہ صاحبہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیل پور ضلع گجرات
۰…۰…۲۰
۳۵
چوہدری عبداللہ خان صاحب قلعہ صوباسنگھ
۰…۰…۵
۳۶
سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ابو الفضل محمود صاحب لاہور
۰…۰…۱
۳۷
احمد دین صاحب سیکرٹری مال خانیوال
۰…۰…۵
۳۸
خورشید بیگم صاحبہ بنت احمد دین صاحب مذکور
۰…۰…۱۰
۳۹
محمد اعظم صاحب بوتالوی حال لاہور
۰…۰…۵
۴۰
اہلیہ ملک معراج دین صاحب امیر جماعت عراق (بذریعہ داؤد احمد صاحب وارد لاہور)
۰…۰…۲۵
۴۱
میاں احمد گل صاحب ابادان (ایران )بذریعہ چیک
۰…۰…۱۰۰
۴۲
جمعدار محمد مجیداحمد صاحب کوئٹہ
۰…۰…۵
۴۳
مرزا عطا ء اللہ صاحب کوچہ چابک سواراں لاہور
۰…۰…۳
۴۴
قریشی محمداکمل صاحب ربوہ
۰…۰…۱
میزان
۰…۸…۴۰۹
فجزا ھم اﷲاحسن الجزاء
(مطبوعہ الفضل ۲؍دسمبر ۱۹۴۹ئ)









مومن کا ہر کام خدا کے نام سے شروع ہونا چاہئے
کوئی من گھڑت عدد بسم اللہ کاقائم مقام نہیں بن سکتا
چند دن ہوئے مجھے ایک معزز غیر احمد ی دوست کا خط آیا تھا جس کے شروع میں بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم کی بجائے ۷۸۶ کا عدد لکھا ہوا تھا ۔کیونکہ ابجد کے اصول کے مطابق یہی بسم اللہ کا عددبنتا ہے اور اکثر لوگ اس خیال سے کہ کہیںخط یا خط کا پرزہ ادھر ادھر گر کر اللہ کے نام کی بے حرمتی کاموجب نہ بن جائے، بسم اﷲ کے الفاظ ترک کر کے ۷۸۶ کا عد د لکھ دیتے ہیں۔بہرحال اس معزز غیر احمدی دوست کاخط آنے پر میں نے انہیں ازراہ نصیحت لکھا کہ ۷۸۶ کے عدد کو بسم اللہ کے مبارک الفاظ سے کیانسبت ہوسکتی ہے ،اور عرض کیاکہ آپ کو آئندہ اپنی تحریر کے شروع میں ارشاد نبوی کے مطابق بسم اللہ کے الفاظ لکھنے چاہئیں۔اور میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس دوست نے میری اس مخلصانہ نصیحت کو قدر کی نظر سے دیکھا ہوگا ۔
اس کے دو تین روز بعد مجھے ربوہ سے ایک احمدی نوجوان کاخط آیا اور مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنے خط کے شروع میںبسم اﷲ کے الفاظ ترک کئے ہوئے تھے بلکہ ۷۸۶ کاعدد بھی ترک کیا ہوا تھا ۔گویا نہ بسم اﷲ رہی ۔اور نہ اس کافرضی قائم مقام رہا۔ میں نے اس احمدی نوجوان کو بھی نصیحت کا خط لکھا کہ اپنی ہر تحریر کو بسم اﷲ سے شروع کرنا مسنون طریق ہے اس لئے آپ کو یہ طریق ترک نہیںکرنا چاہئے ۔اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں نے آپ کے لکھنے پراصلاح تو کرلی ہے لیکن میں نے بسم اﷲ کے الفاظ عمداً ترک کئے تھے ،کیونکہ بعض اوقات خطوط یا ان کے پرزوں کے ادھر ادھر گرنے سے اللہ کے نام کی بے حرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی لکھا کہ میںہرروز صبح کام شروع کرنے سے پہلے بسم اﷲ پڑھ لیاکرتا ہوں ۔جو گویاسارے دن کے لئے کافی ہوجاتی ہے۔
مجھے اس احمدی نوجوان کی اس تشریح پر افسوس ہو اکہ بعض نوجوان کس طرح مسنون طریق سے دور چلے جاتے ہیں اور اپنے غلط خیال پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایسی تشریح پیش کردیتے ہیں جو مضحکہ خیز ہوتی ہے ۔اگر ہرروز صبح کے وقت بسم اﷲ پڑھ کر کام شروع کرنا دن بھر کے کاموں کے لئے کافی ہوسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ قضائے عمری کے مفروضہ اصول پر زندگی میںایک دفعہ بسم اﷲ پڑھ لینا ساری عمر کے لئے کیوں کافی نہیں ہوسکتا ؟ بلکہ جب ایک بچہ کے پیدا ہونے پر ماں باپ اس کے کان میں اذان دیتے ہیںتو اسی اذان کو ہی کیوں نہ ساری عمر کے لئے برکت کا کافی وشافی تعویذسمجھ لیاجائے ۔افسوس ! صد افسوس! کہ لوگوں نے اپنی سستیوںکے لئے کیا کیابہانے بنا رکھے ہیں ۔قرآن شریف خوب فرماتا ہے کہ: ۔۹۴یعنی انسان اکثر باتوں میںبہانے ڈھونڈنے کے لئے جھگڑا کھڑا کردیتا ہے ،پھر لطف یہ ہے کہ انہی صاحب نے اپنے خط میں بسم اللہ توترک کی تھی لیکن السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے الفاظ ترک نہیں کئے تھے۔تو کیاالسلام علیکم ورحمۃ اللہ میں جو اللہ کا لفظ آتا ہے اس کے ادھر ادھر گرنے سے بے حرمتی نہیں ہوتی؟ کیا صرف بسم اﷲ میںدرج شدہ لفظ اللہ ہی ایسا ہے کہ اگر ا س کا کاغذ ادھر ادھر گر جائے تو بے حرمتی ہوجاتی ہے ،لیکن اگر کسی اور تحریر میں یہی لفظ آیا ہو،تو ا س کے گرنے سے بے حرمتی نہیں ہوتی؟تو اب گویا اس خطرہ کی وجہ سے انسان اپنی ساری تحریر وں میں اللہ کالفظ ترک کردے ۔اور دین سے بالکل خالی ہوکر بیٹھ جائے۔ نعوذ باﷲمن ذالک ۔یہ سب نفس کے بہانے ہیں جو ناواقفی یاسستی یا بے احتیاطی سے پید اہوتے ہیں۔اور بعض کمزور انسانوں کا دل ان پر سہارا لے کر مسنون طریق سے غافل ہوجاتا ہے۔
بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہمارے ہادی ومرشد ﷺ نے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور نیز اس غرض سے کہ ان کاہر اہم کام اللہ کے نام سے شروع ہوکر برکتوں کا وارث بنے ۔ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنے ہرکام کو خدا کے نام سے شروع کیا کرو بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ : کل امرٍ ذی بالٍ لم یبداء بسم اﷲ فھو ابتر۔ یعنی ہروہ کام جو تھوڑی بہت اہمیت بھی رکھتاہو اگر وہ خدا کے نام کے بغیر شروع کیاجائے۔تو وہ روحانی برکتوںسے محروم ہوجاتاہے۔ تو پھر کتنا افسوس کامقام ہے کہ ہم ایسے تاکیدی ارشاد کے باوجود اپنی تحریر وں میں بسم اﷲ کی دعا کو نظر انداز کرکے خود اپنے ہاتھ سے برکتوں سے محرومی کا دروازہ کھولیں ۔
اس اہم قولی ارشاد کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے عملاً بھی یہی سنت قائم کی ہے کہ ہر ذوبال (یعنی تھوڑی بہت اہمیت رکھنے والی) تحریر کو اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میںجتنے بھی خط لکھے اور جو معاہدے بھی کئے ،ان سب کوخدا کے نام کے ساتھ شروع کیا۔چنانچہ قیصروکسریٰ اور مقوقس و نجاشی کے وہ خطوط ہمارے سامنے ہیں جوآنحضرت ﷺ نے تبلیغ کی غرض سے انہیں بھجوائے اور ان سب کو بسم اﷲ کے مبارک الفاظ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی اس فرضی یا حقیقی خطرہ کی وجہ سے بسم اللہ کے الفاظ ترک نہیں کئے کہ شاید یہ تحریر ادھر ادھر گر کربے حرمتی کا باعث بن جائے گی۔بلکہ تاریخ تو ہمیں یہاں تک بتاتی ہے کہ ایران کے بادشاہ کسریٰ نے آنحضرت ﷺ کامبارک خط غصہ میں آکر ریزہ ریزہ کردیا (جس کے نتیجہ میں اس کی حکومت خود ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر گئی ) مگر باوجود اس امکانی خطرہ کے کہ میرا خط مخالفین اسلام کے ہاتھوں میں جارہا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنی مبارک سنت کو ترک نہیں کیا ،لیکن آج کے نوجوان ہمیں رسول اللہ ﷺ کی بجائے کسریٰ کی سنت کا رستہ دکھا رہے ہیں!! ظاہر ہے کہ ہم صرف اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور اگر کوئی شخص بے حرمتی کرتا ہے تو وہ اپنے فعل کا ذمہ دار ہے ۔ہم دوسرے کے ا مکانی فعل سے اپنے اعمال کوایک بابرکت سنت سے کیوں محروم کریں؟ کیا ہم آنحضرت ﷺ سے بھی زیادہ باغیرت بننا چاہتے ہیںکہ جو امکانی خطرہ آپ کے رستہ میں روک نہیںبنا اسے ہم اپنے رستہ میں روک بنالیں۔
اسی طرح ہمارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی ہمیشہ یہی سنت رہی کہ اپنی ہرذوبال تحریر کوبسم اﷲ کے ساتھ شروع فرماتے تھے۔اور کم ازکم آخری زمانہ میں جو میری زندگی سے تعلق رکھتا ہے مجھے آپ کی کوئی ایسی تحریر یاد نہیںکہ آپ نے اس سنت کوترک کیا ہو۔تو پھر ہم اپنے دو عظیم الشان ہادیوںکی سنت کے خلاف کیوں قدم اٹھائیں؟
یہ خیال کہ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم کی جگہ ۷۸۶کا عدد لکھنا کافی ہے کیونکہ ابجد کے اصول کے مطابق بسم اﷲ کے یہی اعداد بنتے ہیں، ایک لایعنی خیال ہے۔ بھلا بسم اﷲکے مبارک الفاظ کے ساتھ۷۸۶ کے عدد کو کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ جو برکت اور جوعظمت اور جو رحمت خدائے ذوالجلال کا نام اپنے اندر رکھتاہے اس کے متعلق خیال کرنا کہ وہ ہمارے کسی فرضی اور خیالی عدد کی طرف منتقل ہوسکتی ہے ،ایک موہوم خیال سے زیادہ نہیں،اور وقت ہے کہ مسلمان عموماً اور ہماری جماعت کے دوست خصوصاً اس غفلت کی عادت کوترک کر کے اس راستہ پر قائم ہوجائیںجو خدا اور اس کے رسول نے ہمیںبتایااو رسکھایا ہے۔
مجھے تو اس بارہ میں یہاںتک احساس ہے کہ میں نے قائد اعظم مرحوم کے آخری ایام میں جبکہ وہ کوئٹہ میں تھے ،ایک خط کے ذریعہ انہیںتوجہ دلائی تھی کہ وہ پاکستان کے سرکاری دفاتر کے لئے ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ اپنی محکمانہ خط وکتابت میں بھی ہر تحریر کے شروع میں بسم اﷲ لکھاکریں۔ اور جہاں مخاطب مسلمان ہو۔وہاں السلام علیکم کے الفاظ بھی ضرور لکھا کریں (کیونکہ یہ بھی ایک رسم ہو رہی ہے کہ بعض لوگ السلام علیکم کے الفاظ ترک کرکے صرف سلام مسنون کے الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں جو اسی طرح کی ایک نامناسب حرکت ہے جس طرح کہ بسم اﷲ کا ترک ایک نامناسب حرکت ہے۔) بہر حال میںنے قائد اعظم مرحوم کواس قسم کاخط لکھا تھا مگر ا س کے چند دن بعد ہی وہ فوت ہو گئے اور غالباً بیماری کی وجہ سے اس خط کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔لیکن ظاہر ہے کہ اگر ہمیں اپنی پرائیویٹ خط وکتابت میں بسم اﷲ سے برکت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو ایک اسلامی حکومت میںمحکمانہ خط وکتابت بھی اس برکت سے محروم نہیں ہونی چاہئے اور یقیناً ہم اس سنت کی طرف توجہ دے کر اپنے دفتر ی امور میں بھی ایک قسم کا روحانی اور اخلاقی رنگ پید اکر سکتے ہیں۔
بہرحال میں اپنے سب دوستوں سے عرض کرو ں گاکہ وہ اپنی تمام خط وکتابت میں آنحضرت ﷺ کی سنت اختیار کریں ،یعنی شروع میں بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم لکھا کریں۔اور اس کے بعد اگر کوئی مسلمان مخاطب ہو تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے اپنی تحریر کو شروع کیا کریںبشرطیکہ یہ تحریر خط کا رنگ رکھتی ہو ۔ورنہ صر ف بسم اﷲ لکھنا کافی ہوگا۔ علاوہ ازیںجیسا کہ ہماری جماعت میں رواج ہے ،اگر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ کے ساتھ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم کے الفاظ بھی لکھ دیئے جائیں تو یہ گویا سونے پر سہاگہ ہوگا کہ خدا کے نام کی برکت کے ساتھ رسول پر درود کی دعا بھی شامل ہوجائے گی اور میںتو اپنے عقیدہ کے مطابق نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم کے بعد وعلیٰ عبد ہ المسیح الموعود کے الفاظ بھی لکھا کرتا ہوں۔لیکن یہ وہ چیز ہے جس کی ہم غیر از جماعت احباب سے توقع نہیںرکھ سکتے ۔مگر بہرحال بسم اﷲ اور نحمدہ ونصلی تو ہم سب کا مشترکہ ورثہ ہے ۔اور کوئی وجہ نہیںکہ ہم اس بابرکت ورثہ سے محرومی کارستہ اختیار کریں۔واٰخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل مورخہ ۲۶؍نومبر ۱۹۴۹ئ)





قادیان جانے والے دوست ۲۴؍ دسمبر کی شام
تک لاہور پہنچ جائیں
۱۔ قادیان جانے والے دوستوں کاانتخاب کرلیا گیا ہے اور ایسے سب دوستوں کو رجسٹری چٹھیاں بھجوائی جارہی ہیں۔
۲۔ جن دوستوں کو یہ چٹھیاں پہنچیں انہیں ۲۴؍ دسمبر بروز ہفتہ کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جانا چاہئے ۔ورنہ ان کی جگہ کسی اور دوست کا انتخاب کر لیا جائے گا ۔لاہور میں۲۴؍دسمبر کی شام کو رہائش کاانتظام محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ۱۳ ٹمپل روڈ کے مکان پر کیا گیا ہے۔اگر کسی دوست کو ان کے مکان کا علم نہ ہو تو رتن باغ میںتشریف لاکر پتہ لے لیں۔
۳۔ قادیان جانے والی پارٹی انشاء اللہ ۲۵ دسمبر (بروز اتوار )صبح آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے روانہ ہوگی ۔اس پارٹی کے امیر حضرت صاحب کی ہدایت کے ماتحت شیخ بشیر احمدصاحب موصوف مقرر کئے گئے ہیں۔ قادیان سے واپسی انشا ء اللہ ۳۰؍ دسمبر کو ہوگی ۔
۴۔جانے والے دوست اپنے ساتھ موسم کے لحاظ سے گرم بستر ضرور لائیں ۔ اس بستر کے اندر ہی ایک آدھ زائد جوڑا رکھا جاسکتا ہے ،یا ہاتھ میں اٹھانے والا اٹیچی کیس ساتھ لے لیا جائے۔
۵۔ اگر کسی عزیز یادوست کے لئے گرم کپڑے ساتھ لے جانے ہوں تو ا س میں کوئی روک نہیں ،بشرطیکہ بالکل نئے نہ ہوں۔ اسی طرح رستے میں اپنے ساتھ پھل یا کوئی اور کھانے کی چیز رکھی جاسکتی ہے۔ مطالعے کے لئے کتب بھی ساتھ رکھی جاسکتی ہیں ،مگر ہتھیار کوئی ساتھ نہیںہونا چاہئے ۔
۶۔اپنے ساتھ ہر شخص ۵۰ روپے تک لے جاسکتا ہے ،مگر کرنسی کے اختلاف کی وجہ سے یہ رقم ہندوستان میں پہنچ کر بدلوانی ہوگی ،یا اگر کسی کے پاس ہندوستانی نوٹ یا روپے ہوں تو وہ استعمال ہوسکتے ہیں۔
۷۔ کرایہ آمد ورفت کے لئے ہر دوست کو روانگی سے قبل میرے دفتر میں ۱۰روپے جمع کروادینے چاہئیں ۔البتہ بالکل نادار دوستوں کودفتر کی طرف سے مدد کردی جائے گی ۔
۸۔گھر سے روانہ ہونے سے قبل، جانے والے دوست اپنے علاقے کے ان احمدیوں سے مل کر آئیں ،جن کے رشتہ دار قادیان میںہیں،تاکہ ان کی طرف سے ضروری پیغام وغیرہ لے جاسکیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۴۹ئ)
قادیان جانے والی پارٹی
دوستوں کے لئے ضروری اطلاع
جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پاکستان سے جانے والی پارٹی کے متعلق الفضل میںاعلان شائع ہوتا رہا ہے ۔اور اس اعلان کے جواب میں اس وقت تک قریباً تین سو درخواستیں میرے دفتر میں پہنچ چکی ہیںاور ابھی اَور درخواستیںبھی آرہی ہیں ۔میںاس تعلق میں جملہ دوستوں کی خدمت میں اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ اگر خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا تو اس پارٹی میں صرف پچاس دوست شامل ہوسکیںگے۔اس سے زیادہ تعداد میں نہ تو مشرقی پنجاب کے غیر مسلم مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں،اور نہ ہی مغربی پنجاب کی حکومت اس سے زیادہ تعداد کی سفارش کر سکتی ہے ۔ پس ہمیںلازماً اپنی تعداد کو پچاس کے عدد تک محدود رکھنا ہوگا۔اور یہ بھی ظاہرہے کہ ان پچاس دوستوں میں کم از کم پانچ سات ضرور ایسے دوست ہونگے،جنہیں مشترکہ اغراض کے ماتحت شامل کرنا ضروری ہوگا مثلاًمبلغ اور ڈاکٹر وغیرہ ۔اندریں حالات درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے عزیزوں کو بھی ملنے کی خواہش رکھتے ہیں صرف چالیس بیالیس افراد کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
اوپر کے اعداد وشما رسے ظاہر ہے کہ ہمیں لازماً نہایت محدود انتخاب کرنا ہوگا اور اگر درخواستوں کی موجودہ تعداد ہی رہے تو پھر ہر سال درخواستوں میں سے صرف ایک درخواست کو منظور کرنے کی گنجائش نکل سکے گی اور باقی دوستوں کومجبوراً آئندہ کسی موقع کاانتظار کرنا ہوگا ،لیکن انسانی فطرت کچھ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ عموماً ہر شخص اپنی ضرورت کو ہی سب سے زیادہ اہم قرار دیتاہے ۔ مگراس کے مقابل پر مجھے لازماً سب درخواستوں پر یکجائی نظر ڈال کر اور ہرایک درخواست کنندہ کے استحقاق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگااور بالکل ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ بعض دوست جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیتے ہوں ،وہ میری رائے میں دوسروں سے کم مستحق ہوں۔ ایسی صورت میںمیںاُمید کرتا ہوں کہ ایسے دوست جن کو موجودہ موقع کے لحاظ سے مایوس ہونا پڑے، وہ مجھ پر حسن ظنی کرتے ہوئے صبر اور فراخ حوصلگی سے کام لیں گے ،اور صبر کا پھل خواہ دیر سے ملے مگربہرحال شیریں ہوتا ہے۔
بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ ہم قادیان جاتے ہوئے اپنے ساتھ کیا کیا چیز لے جاسکتے ہیں سو اس کے متعلق جانناچاہئے کہ موسم کے لحاظ سے بستر تو لازما ً ہرشخص کے پاس ہونا چاہئے اور بستر کے اندر ہی ایک آدھ زائد جوڑا رکھا جاسکتا ہے یا ہاتھ میںاٹھانے والا اٹیچی کیس ساتھ لے لیا جائے ۔ اس کے علاوہ اس قدر پھل یا کوئی اور کھانے کی چیز وغیرہ جو ذاتی ضروریات کے لئے سمجھی جائے ،اوراس کے متعلق تجارتی غرض کاشبہ نہ ہوسکے ، وہ بھی ساتھ رکھی جاسکتی ہے۔ نقدی صرف فی کس پچاس روپے تک کی اجازت ہے ،لیکن دوستوں کو معلوم ہونا چاہے کہ دونوں حکومتوں کا سکہ بدل چکا ہے اور مشرقی پنجاب میںصرف ایسی کرنسی کام دے سکتی ہے جو حکومت ہندوستان کی جاری کردہ ہو۔ لیکن غالباًپاکستانی روپیہ اور نوٹ ہندوستان میں بدلائے جاسکیں گے۔ اگر کسی دوست نے اپنے کسی رشتہ دارکے لئے کوئی گرم کپڑے لے جانے ہوںتو اس کی کوئی روک نہیں ،بشرطیکہ کپڑے مستعمل ہوں۔اورتجارتی مال کا شبہ نہ پید اہوتا ہو۔ مطالعہ کی کتب بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں ،مگر کسی قسم کا ہتھیا ر ساتھ نہیں لے جانا چاہئے۔
‎ (مطبوعہ الفضل مورخہ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۹ئ)






۱۹۴۹ء
حوالہ جات مضامین بشیر

۱- کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۸۰،۸۱
۲- چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۲۴۶
۳- بنی اسرائیل: ۳۲
۴- سنن الترمذی کتاب المناقب فی مناقب عمر بن الخطابؓ۔
۵- سنن ابن ماجہ ۔کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہ وذکرو فاتہ
۶- العنکبوت:۳
۷- البقرہ : ۔ ۱۲۵
۸- صحیح البخاری کتاب الایمان باب سوال جبرائیل النبی عن الایمان والاسلام والاحسان۔
۹- تذکرہ صفحہ۴۷۷ طبع ۲۰۰۴ء
۱۰- تذکرہ صفحہ ۳۶۶ طبع ۲۰۰۴ء
۱۱- العنکبوت۔۳
۱۲- تذکرہ صفحہ ۲۵۶طبع ۲۰۰۴ء
۱۳- تذکرہ صفحہ ۴۱۷ طبع ۲۰۰۴ء
۱۴- التوبۃ :۱۱۹
۱۵- النسائ: ۲
۱۶- الحجرات: ۱۱
۱۷- الحجرات: ۱۲
۱۸- الحجرات :۱۴
۱۹- مسند احمد بن حنبل جزو الثامن و ثلا ثون حدیث رجل من اصحاب النبی صلعم
۲۰- مسند احمد بن حنبل مسند المقصرین من الصحابہ ۔ مسند ابی بریرہ ؓ
۲۱- صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ لقد کان فی یوسف و اخوتہ آیات للسا ئلین
۲۲- سنن ابودائود کتاب الادب باب فی تنزیل الناس منازلھم۔
۲۳- صحیح البخاری کتاب المناقب الانصار باب مناقب باب مناقب سعد بن معاذ
۲۴- صحیح البخاری کتاب الحدود باب اقامۃ الحدود علی الشریف و الوفیع
۲۵- سیرت لابن ہشام جلد ۴ باب أمرسقیفۃ بنی ساعدۃ صفحہ ۳۱۱
۲۶- النساء : ۵۹
۲۷- صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ؐ باب مناقب زیدبن حارثۃ ؓ
۲۸- صحیح البخاری کتاب النکاح باب من ترک دعوۃ فقد عصی اللہ ورسولہ
۲۹- صحیح البخاری کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا باب فضل الھبۃ
۳۰- صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب اذاقیل لکم تفسحوا فی المجٰلس فافسحوا
۳۱- صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرا ۃ راعیۃ فی بیت زوجھا
۳۲- صحیح البخاری کتاب العتق باب قول النبی قل العبید اخوانکم فاطعمو ھم مما تاکلون
۳۳- صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین
۳۴- آل عمران: ۱۹۶
۳۵- البقرۃ : ۲۲۹
۳۶- النسائ: ۳۵
۳۷- سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرہ النساء
۳۸- صحیح البخاری کتاب الذکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ من الاغنیاء و تردُّالی الفقراء حَیْث کانوا
۳۹- المائدہ : ۹۱
۴۰- الاصابہ فی التمییز الصحابہ باب الاقسم الاول سن ذکر لہ صحبۃ وبیان ذالک
۴۱- طٰہٰ : ۱۱۹،۱۲۰
۴۲- الفجر: ۲۰،۲۱
۴۳- البقرہ: ۱۴۴
۴۴- صحیح المسلم کتاب اللقطۃ باب استحباب خلط الازواد اِذاقلت و المؤاساۃ فیھا
۴۵- صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر
۴۶- صحیح البخاری کتاب الشرکۃ باب الشرکۃ فی الطعام و النَّھدِ و العَروضِ
۴۷- فاطر: ۲۵
۴۸- الحجرات:۱۴
۴۹- الزلزال:۸،۹
۵۰- البقرہ: ۱۱۲،۱۱۳
۵۱- سنن الترمذی کتاب الصلوٰ ۃ باب ماجاء من احق بالا مامۃ
۵۲- صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضح الصلوٰ ۃ باب من اَحَقَّ بالامامۃ
۵۳- سنن الترمذی کتاب الدعوٰۃ عن رسول اﷲ باب مَاجَائَ فی فضلِ الدّٰعَاء
۵۴- البقرہ : ۱۸۷
۵۵- سنن ابو داؤد کتاب الوترباب الدعا
۵۶- بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب اَلْعَمَلِ فی الْعَشَرِ الأَوَخِرِ
۵۷- کتاب الدعوات باب قول النبی صلعم رَبَّنَا اَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً
۵۸- کشف الظنون جلد صفحہ ۸۸۰۔ باب فضل الدعا
۵۹- سنن الترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک
۶۰- یوسف: ۹۸
۶۱- تذکرہ صفحہ ۴۱۷۔طبع ۲۰۰۴ء
۶۲- البقرہ : ۱۸۶
۶۳- الاعلیٰ :۷
۶۴- الفاتحہ : ۶،۷
۶۵- الفرقان:۷۴
۶۶- صحیح مسلم کتاب الذکرو الدعا باب فضل الاجتماع
۶۷- الواقعہ : ۴۰، ۴۱
۶۸- تذکرہ صفحہ ۱۷۲ طبع ۲۰۰۴ء
۶۹- الاحزاب : ۱۳
۷۰- الرحمن : ۲۷،۲۸
۷۱- سنن ابو داؤد کتاب الحدود باب فی المراۃ امرا النبی صلعم بر جمھا من جھینۃ
۷۲- متی باب ۱۴۔آیات ۲۵تا۲۷
۷۳- ا لا نبیاء :۹۷
۷۴- تذکرہ صفحہ ۳۶۵۔طبع ۲۰۰۴ء
۷۵- سنن الترمذی ابواب البرو الصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک
۷۶- ۱۵ ستمبر ۱۹۴۹۔جناب مولوی۸محمد علی صاحب کا ایک تازہ خطبہ والا چیک کرنا ہے ۔
۷۷- البحر:۴۲
۷۸- بنی اسرائیل :۸۱
۷۹- بنی اسرائیل :۸۱،۸۲
۸۰- بنی اسرائیل : ۸۱
۸۱- البقرہ : ۱۵۰،۱۵۱
۸۲- تذکرہ صفحہ طبع جدید
۸۳- رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد صفحہ قادیان خداکے رسول…خدا نے اسے برکت دی۔ ۲۲۲۔
۸۴- تذکرہ صفحہ ۳۰۔ طبع ۲۰۰۴ء
۸۵- الاحوذی شرح ترمذی جلد ۱۰ صفحہ ۵۶۔
۸۶- بخاری کتاب التمیم باب قول اﷲ فلہ تجد و امائااً
۸۷- صحیح البخاری کتاب الرقاق باب قول النبی صلعم بعثت انا و الساعۃ کھاتین
۸۸- فاطر: ۲۵
۸۹- صحیح البخاری کتاب التھجد باب ماجاء فی التَّطَوَعَ مَثْنَی مثَنَی
۹۰- آل عمران : ۱۰۵
۹۱- البقرہ : ۲۸۷
۹۲- المعجم ا لاوسط جلد ۳۔ صفحہ ۲۹۳
۹۳- صحیح البخاری کتاب التھجد باب ماجاء فی التَّطَوَعَ مَثْنَی مثَنَی
۹۴- الکھف: ۵۵
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۹۵۰ء
قافلہ قادیان کے مختصر کوائف
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان جانے والے قافلہ کے لئے قریباً۴۰۰ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ جن میں سے حکومت کی مقر رکردہ حد بندی کے ماتحت صرف پچاس اصحاب کا انتخاب کرنا تھا چنانچہ پچاس افراد کا انتخاب کر کے انہیں اطلاع دی گئی کہ ۲۴ دسمبر کی شام تک سب لوگ لاہور پہنچ جائیں۔ چنانچہ یہ جملہ پچاس افراد ۲۴؍دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ گئے۔ ان میںتین بوڑھی دیہاتی عورتیںبھی شامل تھیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے بچوں کو ملنے کے لئے جارہی تھیں جو اس وقت قادیان میں درویشی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
حسن اتفاق سے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تقریب کے تعلق میں ۲۴؍ تاریخ کی شام کو لاہور تشریف لے آئے اور قافلہ کی روانگی کے خیال سے ۲۵؍ تاریخ کی صبح کو بھی لاہور میں ٹھہر گئے۔ چنانچہ حضور کی نہایت درد مندانہ اور پر سوز دعاؤں کے ساتھ یہ پچاس افراد قافلہ ہر یکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کی لاریوں میں لاہور سے روانہ ہوا۔ یہ قافلہ رتن باغ سے ۲۵؍تاریخ کی صبح کوبجے روانہ ہو ااور قافلہ کی کل تعداد ۵۴ تھی ۔کیونکہ پچاس ممبران قافلہ کے علاوہ دو ڈرائیور اور دو کنڈیکٹر بھی اس قافلہ میں شامل تھے ۔
رستہ میں کچھ وقت رکنے کے بعد قافلہ قریباً ساڑھے دس بجے بارڈر پر پہنچا جہاں مسٹر اے جی چیمہ مجسٹریٹ درجہ اول اور مسٹر ایس ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور انہیں رخصت کرنے کے لئے پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے بہت سے دوست بارڈر تک ساتھ گئے۔ ان لوگوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔اور وہاںہم سب نے روانگی کی آخری دعا کر کے اپنے بھائیوں کو رخصت کیا۔ میری گھڑی کے مطابق ہمارے قافلہ نے دس بجکر پینتیس منٹ پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو عبور کیا اور پھر ہم تھوڑی دیر تک ان کی لاریوں کو دیکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے لاہور واپس آگئے ۔
جیسا کہ پہلے سے پروگرام مقرر تھا اس قافلہ نے ۲۵ ؍دسمبر کو قادیان جاکر ۳۰؍ دسمبر کو واپس آنا تھا۔ چنانچہ یہ قافلہ دو بجے بعد دوپہر قادیان پہنچ گیا ۔اور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر دعا کی ۔جہاں قادیان کے بہت سے دوست قافلہ کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ایک طرف تو بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملاقات دوسری طرف قادیان کا ماحول اور تیسری طرف بہشتی مقبرہ کا مقام ان سب باتوں نے مل کر اس دعا میں وہ سوزو گداز پیدا کردیا جو اہل قافلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف دیکھنے سے تعلق رکھتاتھا۔
بہر حال ہمارے یہ دوست ۳۰؍ دسمبر کی صبح تک قادیان میں ٹھہرے اور جلسہ کی شرکت کے علاوہ جو حسب دستور ۲۶۔۲۷۔۲۸ تاریخوں میں مقرر تھا ان ایام کو مقامات مقدسہ میں خاص دعائوں اور عبادت میں گزارا اور سب واپس آنے والے دوست بلا استثناء کہتے ہیں کہ قادیان کے جملہ درویش اپنی جگہ نہائت قربانی اور للہیت کے جذبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اوقات دعائوں اور نوافل سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کاٹکڑا پانی سے بھر جاتا ہے اور سب درویش یہ عزم رکھتے ہیں کہ خواہ موجودہ حالات میں ان کا قادیان کا قیام کتنا ہی لمبا ہوجائے وہ انشاء اللہ پورے صبر اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جب ہم خود انتہائی خوشی اور رضا اور عزم کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بعض پاکستانی رشتہ داروں کو ہماری وجہ سے کوئی گھبراہٹ ہو ۔
قادیان کے قیام کے دوران میں ہمارے دوستوں کو ان ہندوستانی احمدیوں کی ملاقات کا بھی موقعہ ملا جو ہندو ستان کے مختلف صوبوں سے جلسہ کی شمولیت کے لئے قادیان آئے تھے ۔ اوران میں محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدر آباد دکن اور چوہدری انوراحمد صاحب کاہلوں امیر جماعت احمدیہ کلکتہ اور مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت دہلی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سیٹھ محمداعظم صاحب تاجر حیدر آباد دکن اور سیدارشد علی صاحب ارشد تاجر لکھنئو اور مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مغربی بنگال بھی شامل تھے اور تین دوست کشمیر سے بھی آئے تھے۔
ان ایام میں قادیان کے ہندوئوں اور سکھوں نے پاکستانی اور ہندوستانی زائرین اور بعض درویشوں کو چائے کی دعوت دی اور اس موقعہ پر ہمارے کئی دوستوں نے جن میں شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ پاکستان اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیر ی شامل تھے دعوت دینے والوں کا شکریہ اداکرنے کے علاوہ مناسب رنگ میں تبلیغ بھی کی اور ہمارا جلسہ تو گویا مجسم تبلیغ ہی تھا کیونکہ اس میں بیشتر تعداد غیر مسلموں کی شامل ہوئی تھی ۔اور وہ سب ہمارے مقررین کی تبلیغی تقریروں کو نہائت درجہ توجہ اور سکون سے سنتے رہے بلکہ وہ اس بات کو سخت حیرت کے ساتھ دیکھتے تھے کہ یہ چند گنتی کے مسلمان اس درجہ غیر اسلامی ماحول میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور پھر بھی کس جرأت کے ساتھ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔
ہمارا قافلہ ۳۰؍ دسمبر کو گیارہ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہوکر چار بجے سہ پہر کے قریب رتن باغ لاہور میں پہنچ گیا ۔اور بہت سے دوستوں نے دعا کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور پھر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ اور محترمی امیر محمدبخش صاحب ایڈووکیـٹ رپورٹ دینے کی غرض سے ربوہ بھی پہنچے۔ قافلہ میں شامل ہونے والے اصحاب کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں ۔
۱۔شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور امیر قافلہ
۲۔ مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ مغربی افریقہ حال لاہور
۳۔ شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ حال ربوہ ضلع جھنگ
۴۔ شیخ محمد عمر صاحب ( مہاشہ ) مبلغ ربوہ
۵۔ مرزا واحد حسین صاحب گیانی مبلغ ربوہ
۶۔ میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ
۷۔ چوہدری محمداحمد صاحب واقف زندگی کارکن تعلیم الاسلام کالج لاہور
۸۔شکیل احمد صاحب مونگھیری لاہور
۹۔منشی عبدالحق صاحب کاتب جو دہامل بلڈنگ لاہور
۱۰۔ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ربوہ
۱۱۔ چوہدری نور احمد صاحب سابق خزانچی صدرانجمن حال ملتان
۱۲۔ چوہدری غلام محمد صاحب کوٹ رحمت خان (شیخوپورہ)
۱۳۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جلیانوالہ (لائلپور)
۱۴۔مرزا مہتاب بیگ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ
۱۵۔ مرزا محمد حیات صاحب مالک دواخانہ رفیق حیات حال سیالکوٹ
۱۶۔ خواجہ محمد عبدا للہ صاحب عرف عبدل جہلم
۱۷۔ خواجہ عبدالواحد صاحب گوجرانوالہ
۱۸۔ والدہ عثمان علی درویش بنگالی حال ربوہ
۱۹۔ چوہدری فضل احمد صاحب ہیڈماسٹر بھکر (میانوالی)
۲۰۔ محمد یعقوب صاحب کاتب الفضل لاہور
۲۱۔ مستری عبدالمجید صاحب گوجرہ (لائلپور)
۲۲۔ ملک نور الحق صاحب دوالمیال جہلم
۲۳۔ ملک محمدشفیع صاحب منٹگمری
۲۴۔ چوہدری لال خان صاحب کھاریاں (گجرات)
۲۵۔ چوہدری فیض احمد صاحب گھٹیالیاں چیف انسپکٹر بیت المال ربوہ
۲۶۔ حاجی خدا بخش صاحب میانوالی مہاراں(سیالکوٹ)
۲۷۔ مبارک احمد صاحب اعجاز احمد نگر (جھنگ)
۲۸۔ عبدالغفار صاحب شادیوال (گجرات)
۲۹۔ ملک محمدابراہیم صاحب لالہ موسیٰ (گجرات)
۳۰۔ محمد یوسف صاحب شادیوال (گجرات)
۳۱۔ڈاکٹر برکت اللہ صاحب کوٹ فتح خان (کیمل پور)
۳۲۔مرزا اعظم بیگ صاحب ٹنڈو آدم سندھ
۳۳۔میاں مولابخش صاحب خانقاہ ڈوگراں (شیخوپورہ)
۳۴۔ملک عبدالکریم صاحب ترگڑی (گوجرانوالہ )
۳۵۔شیخ عبدالکریم صاحب چنیوٹ
۳۶۔ چوہدری نور محمد صاحب کوئٹہ
۳۷۔مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ پریم کوٹ (گوجرانوالہ )
۳۸۔ قاضی مبارک احمد صاحب احمد نگر (جھنگ)
۳۹۔ چوہدری محمد خان صاحب بن باجوہ(سیالکوٹ)
۴۰۔منور احمد صاحب پسر مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی چنیوٹ
۴۱۔ ملک نیاز محمد صاحب کسووال( منٹگمری)
۴۲۔ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب لاہور
۴۳۔ میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری شیخوپورہ
۴۴۔سردار محمد صاحب بہوڑوچک نمبر ۱۸(شیخوپورہ)
۴۵۔مسماۃ جیورتن باغ لاہور
۴۶۔ڈاکٹر محمد دین صاحب ایمن آباد گوجرانولہ
۴۷۔منیر احمد صاحب احمد نگر (جھنگ)
۴۸۔ مرزا عبدالمنان صاحب واہ کیمل پور
۴۹۔ منظور احمد صاحب شیخ پور گجرات
۵۰۔ ڈاکٹر محمد احمد صاحب حمید یہ فارمیسی جڑانوالہ لائلپور۔
ان کے علاوہ دو مزید احمدی دوست یعنی مستری عبدالحکیم صاحب لاہور اور میاں نذیر احمد صاحب ڈسکہ کنڈکٹر کی حیثیت میں شامل ہوئے۔
اللہ تعالیٰ اس سفر کو نہ صرف اہل قافلہ اور اہل قادیان کے لئے بلکہ ساری جماعت کے لئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے آمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷جنوری ۱۹۵۰ئ)








بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک
قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد کچھ تو کوفت اور گرد وغیرہ کی وجہ سے اور کچھ سردی کی شدت کی وجہ سے کئی دوست بیمار ہوگئے ہیں ۔چنانچہ اس وقت ذیل کے دوست قادیان میں صاحب فراش ہیں :۔
۱۔ مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان۔ ۲۔ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ۳۔ عطاء اللہ صاحب سندھی حلقہ مسجد اقصیٰ ۔۴۔ بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار حلقہ مسجد مبارک ۔ ۵۔ مرزا ظہیر الدین منور احمد صاحب حلقہ مسجد مبارک۔۶۔امیر الدین صاحب حلقہ ناصر آباد ۷۔باباجلال الدین صاحب حلقہ مسجد مبارک ۸۔ بابا محمد احمد صاحب حلقہ مسجد مبارک۔ ۹۔ڈاکٹرعطرالدین صاحب حلقہ مسجد مبارک ۱۰۔ محمد شریف صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ۔ ۱۱۔ بابا جان محمد صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ۔
احباب ان سب درویشوں کی صحت یابی کیلئے دعا فرمائیں۔ اسی طرح ان دوستوں کی صحت یابی کے لئے بھی دعا فرمائیں جو اس وقت ربوہ میں صاحب فراش ہیں ۔اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸جنوری ۱۹۵۵ئ)





قادیان کے تیئیس (۲۳)کس صحابی
جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے۔ اس وقت قادیان میں ٹھہرے ہوئے احمدی بھائیوں کی تعداد تین سو تیرہ (۳۱۳) ہے اور حسن اتفاق سے یہ وہی تعداد ہے جو بدر کے مشہور و معروف میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تھی یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک نیک فال ہے۔ وقال اﷲ تعالیٰ و لقد نصرکم اللّٰہ ببدر و انتم اذلۃ۔
اس۳۱۳ کی تعداد میں اس وقت ۲۳ دوست صحابی ہیں جن کی فہرست دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کیلئے درج ذیل کی جاتی ہے۔
(۱) محترمی منشی محمد دین صاحب ولد نور الدین صاحب سکنہ کھاریاں ضلع گجرات تاریخ بیعت ۱۸۹۴ء اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵ ؍جون ۱۸۹۵ء
(۲) محترمی بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب ولد چندا سنگھ تاریخ بیعت ۱۸۹۴ ء ہجرت قادیان ۱۸۹۵ء
(۳) محترمی بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی ولد مہتہ گوراند تہ مل تاریخ بیعت اگست یا اکتوبر ۱۸۹۵ء اور اس کے ساتھ ہی قادیان کی ہجرت۔
(۴) میاں صدر دین صاحب ولد رحیم بخش سکنہ قادیان تاریخ بیعت تخمیناً۱۸۹۲ء
(۵) ڈاکٹر عطر دین صاحب ولد میاں بھولا تاریخ بیعت جولائی یا اگست ۱۸۹۹ء زیارت جنوری یا فروری ۱۹۰۲ء
(۶)حافظ صدر دین صاحب ولد میاں محمد دین صاحب تاریخ بیعت ۹ ؍ستمبر۱۹۰۷ء قادیان میں۔
(۷) چوہدری فضل احمد صاحب ولد چوہدری میر داد صاحب سکنہ گھٹیالیاں تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء بعد لیکچر سیالکوٹ مگر قریب ہوکر زیارت نہیں کر سکے۔
(۸) میاں محمدا سمٰعیل صاحب ولد محمد عبد اللہ سکنہ قادیان پیدائشی احمدی پیدائش ۱۹۰۴ء قادیان میں مگر زیارت یاد نہیں۔
(۹) حاجی محمد دین صاحب ولد نور احمد صاحب سکنہ تہال ضلع گجرات سفر جہلم کے موقعہ پر ۱۹۰۳ء میں دستی بیعت کی۔
(۱۰) میاں بھاگ صاحب ولد محمد بخش صاحب سکنہ قادیان تاریخ بیعت ۱۹۰۷ء
(۱۱) مولوی اللہ دین صاحب ولد میاں احمد دین صاحب سکنہ شاہدرہ پیدائشی احمدی اور زیارت ۱۹۰۷ء کے جلسہ پر۔
(۱۲) حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری ولد میاں احمد جان صاحب پیدائشی احمدی اور پیدائش قادیان میں ۱۹۰۱ء میں ہوئی۔
(۱۳) محمد احمد صاحب ولد غلام حسین صاحب سکنہ سڑوعہ ضلع ہوشیار پور تاریخ بیعت ۱۹۰۵ء
(۱۴) مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل (المعروف جٹ) حال امیر جماعت قادیان سکنہ فیض اللہ چک پیدائشی احمدی زیارت ۱۹۰۳ء
(۱۵) میاں اللہ دتہ صاحب ولد باز خان صاحب سکنہ دوالمیال ضلع جہلم تاریخ بیعت ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء زیارت ۱۹۰۵ء
(۱۶) میاں اللہ بخش صاحب ولد محکم دین صاحب سکنہ ہر چووال ضلع گورداسپور تاریخ بیعت تخمیناً ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء
(۱۷) میاں کرم الٰہی صاحب ولد میاں عید اسکنہ بھڈیار ضلع امرت سر تاریخ بیعت تخمیناً ۱۹۰۵ء
(۱۸) میاں بھاگ صاحب ولد جیواسکنہ میکریاں ضلع ہوشیار پورالمعروف (امرتسری) تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء
(۱۹) میاں عبداللہ خان صاحب افغان ولد عبد الغفار خان صاحب سکنہ خوست ملک افغانستان تاریخ بیعت ۱۹۰۳ء ہجرت قادیان ۱۹۰۵ء
(۲۰) مستری عبد السبحان صاحب ولد رحماں میر سکنہ لاہور تاریخ بیعت ۱۹۰۳ء
(۲۱) بھائی شیر محمد صاحب دوکاندار ولد میراں بخش صاحب سکنہ ھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور تاریخ بیعت غالباً ۱۹۰۶ء
(۲۲) ممتاز علی صاحب صدیقی ولد محترمی ذوالفقار علی خان صاحب رام پوری تاریخ بیعت جلسہ سالانہ ۱۹۰۴ء
(۲۳) خواجہ محمد اسمٰعیل صاحب امرتسری تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء
اوپر کے تیٔیس (۲۳) صحابیوں میں سے صحابی مذکور زیر نمبر دو، تین ، چار یعنی محترمی بھائی عبدالرحیم صاحب و محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی و میاں صدر دین صاحب ۳۱۳ کی فہرست مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں بھی درج ہیں۔ دوست ان قادیانی صحابیوں کو اور نیز دیگر جملہ صحابیوں کو جن کی تعداد دِن بدن کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اسی طرح دوسرے سب درویشوں کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں۔ صحابیوں کا وجود حقیقتاً ایک بڑی بھاری نعمت اور بڑی بھاری برکت کا موجب ہے۔ کیونکہ یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں جنہو ںنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی روحانیت سے براہ راست فیض پایا ہے۔ اپنے دیکھنے والوں کو صحابہ کرام کی مبارک جماعت میں داخل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے ان کو ساقی نے پلادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
اوپر کی فہرست مجھے میرے لکھنے پر محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مرتب کرکے بھجوائی ہے۔ قادیان کے صحابیوں میں ایک صاحب بابا شیر محمد صاحب مرحوم بھی تھے جنہوں نے چند ماہ ہوئے قادیان میں وفات پائی تھی اور میرا خیال ہے کہ شائد قادیان میں دو ایک اور صحابی بھی ہونگے جو اوپر کی فہرست میں درج ہونے سے رہ گئے ہیں۔ اور میں ان کے متعلق تحقیق کر رہا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ان سب کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے آمین ۔ یا ارحم الرٰحمین۔
باقی جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں بتا چکا ہوں۔ صحابی کی تعریف میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور طبعًا جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے۔ لوگوں میں صحابی کی تعریف کو زیادہ سے زیادہ نرم اور زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی طرف میلان پیدا ہوتا جاتا ہے۔ لیکن سارے حالات کو دیکھتے ہوئے میرے نزدیک صحیح تعریف یہ سمجھنی چاہئے کہ:
صحابی وہ ہے۔ جس نے مومن ہونے کی حالت میں نبی کا زمانہ پایا۔ اور اسے نبی کو دیکھنا یا اس کا کلام سننا یاد ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰جنوری ۱۹۵۰ئ)



چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
چندہ حفاظت مرکز اور چندہ امداد درویشان کا فرق ملحوظ رکھا جائے
گذشتہ ایام کی غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست کچھ عرصہ سے شائع نہیں کی جاسکی۔ سو اب ذیل میں ان اصحاب کی فہرست درج کی جاتی ہے۔ جنہوں نے گذشتہ اعلان کے بعد چندہ امداد درویشان کی مد میں رقوم ارسال کی ہیں۔ اﷲ تعالٰے ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے۔ اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو۔ ذیل کی فہرست صرف جلسہ سالانہ تک وصول شدہ رقوم سے تعلق رکھتی ہے۔ باقی ماندہ فہرست انشاء اﷲ بعد میں شائع کی جائے گی۔
یہ فہرست درج کرنے سے پہلے یہ صراحت کر دینی بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ربوہ کی تقریر میں فرمایا تھا۔ چندہ امداد درویشاں چندہ حفاظت مرکز سے بالکل مختلف چیز ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ ان ہر دو چندوں کے فرق کو ملحوظ رکھیں۔ چندہ حفاظت تو وہ مرکزی چندہ ہے جو حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تحریک کے ماتحت مرکز سلسلہ کی حفاظت اور قیام کے لئے جاری شدہ ہے اور اس کی ابتدائی تحریک قادیان میں ہی ہو گئی تھی۔ اس کے مقابل پر چندہ امداد درویشان وہ چندہ ہے جو ہجرت کے بعد حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے قادیان کے درویشوں اور ان کے پاکستانی رشتہ داروں کی وقتی اور عارضی امداد کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ چندہ حفاظت مرکز محاسب صاحب صدر انجمن احمدیہ ربوہ (متصل چنیوٹ) کے نام جانا چاہئے اور چندہ امداد درویشان میرے دفتر رتن باغ لاہور میں آنا چاہئے اور میرا طریق یہ ہے کہ میں انفرادی رسیدوں کی بجائے چندہ امداد درویشاں کے متعلق الفضل کے ذریعہ یکجائی اعلان کرا دیا کرتا ہوں۔ بہر حال چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔
(۱) اہلیہ صاحبہ مولوی عطا محمد صاحب کارکن دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ ۔؍۔؍۲
(۲) عبدالرحمٰن صاحب خان ڈوگر ڈاکخانہ مانگا (ضلع لاہور) ۔؍۔؍۲۰
(۳) حسین بی بی صاحبہ لوہاری گیٹ چوک ستی لاہور بذریعہ محمد حسین صاحب ۔؍۔؍۲
(۴) اہلیہ صاحبہ میر ظفر اللہ صاحب شیخ پور ضلع گجرات ۔؍۔؍۱۰
(۵) ملک شیر بہادر خان صاحب امیر جماعت احمدیہ خوشاب ۔؍۔؍۱۰
(۶) مسماۃ آیا دفاتن بنگالن حال لاہور ۔؍۔؍۵
(۷) اہلیہ مفتی عبدالمالک صاحب مرحوم آف قادیان حال لاہور ۔؍۔؍۵
(۸) ہمشیرہ سید ولی اللہ صاحب مبلغ افریقہ ۔؍۔؍۶
(۹) آمنہ بیگم صاحبہ مرحومہ زوجہ قاضی حبیب اللہ صاحب لاہور (انکے ایک عزیز کی طرف سے ایک ٹکڑا کپڑا) ۔۔۔۔
(۱۰) بیگم کیپٹن فتح محمد صاحب چوہدری راولپنڈی ۔؍۔؍۱۰
(۱۱) بیگم محمد دلاور خان صاحب اچار باغ۔ کینال۔ بنگلہ ضلع ملتان ۔؍۔؍۲۰
(۱۲) جمعدار مولوی عبدالصمد صاحب کالاگو جراں جہلم ۔؍۔؍۵
(۱۳) عبدالقیوم صاحب کالاگو جراں جہلم ۔؍۔؍۵
(۱۴) کرامت اللہ صاحب انبالوی حال سلانوالی ضلع سرگودہا ۔؍۔؍۵
(۱۵) عبداللہ خاں صاحب آف کپور تھلہ حال خانپور ۔؍۔؍۵
(۱۶) والدہ محمد یامین صاحب سیمنٹ بلڈنگ لاہور ۔؍۔؍۵
(۱۷) فلائٹ لفٹنٹ ملک بشیر احمد صاحب لاہور برائے صدقہ بکرا قادیان ۔؍۔؍۳۰
(۱۸) ملک غلام نبی صاحب معرفت حکیم سردار محمد صاحب ڈگری سندھ ۔؍۔؍۵
(۱۹) فضل کریم صاحب پلیڈر پتو کھالی ضلع باکر گنج ۔؍۔؍۱۰
(۲۰) سید مسعود شاہ صاحب اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نواں کوٹ ۔؍۔؍۵
(۲۱) مولوی ارجمند خاں صاحب تعلیم الاسلام کالج لاہور ۔؍۔؍۵
(۲۲) امۃالحئی صاحبہ بنت مولوی محمد اعظم صاحب فیروز پوری حال لاہور ۔؍۔؍۲
(۲۳) نصیر احمد صاحب بھٹی رتلا روڈ راولپنڈی ۔؍۔؍۱۰
(۲۴) شیخ محمد اکرم صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ لائل پور ۔؍۔؍۵
(۲۵) شیخ قدرت اللہ صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔؍۔؍۵
(۲۶) شیخ عظمت اللہ صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔؍۔؍۵
(۲۷) مسماۃ اللہ رکھی ربوہ زوجہ عبدالرحمٰن صاحب درویش ۔؍۔؍۲
(۲۸) اہلیہ صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب بشیر آباد اسٹیٹ سندھ ۔؍۔؍۵
(۲۹) چوہدری محمد حسین صاحب ایس ڈی او چمبر ضلع حیدر آباد سندھ ۔؍۔؍۱۰
(۳۰) خانصاحب دانشمند خاں صاحب سکنہ محب بانڈہ
معرفت مرزا اللہ دتا صاحب نوشہرہ چھاؤنی ۔؍۔؍۵
(۳۱) اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحب رانجھا کراچی ۔؍۔؍۱۰
(۳۲) صوبیدار میجر عبدالرحمٰن صاحب آف جہلم حال کوئٹہ ۔؍۔؍۲
(۳۳)چوہدری محمد شریف صاحب آف قادیان حال لائلپور ۔؍۔؍۱۵
(۳۴)شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹوبہ ٹیک سنگھ
برائے چندہ جلسہ سالانہ قادیان ۔؍۔؍۵
(۳۵) شیخ محمد بشیر صاحب آزاد ابنالوی حال مریدکے ۔؍۔؍۵
(۳۶)محمد سعید صاحب ہیر آباد حیدر آبادسندھ ۔؍۔؍۲۵
(۳۷) اہلیہ صاحبہ محمد یحیٰی خانصاحب مرحوم آف قادیان حال لاہور ۔؍۔؍۵
(۳۸) امۃ المجید صاحبہ ایم۔ اے بنت میاں وزیر محمد صاحب حال لاہور ۔؍۔؍۱۰
(۳۹) ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب دواخانہ جلیل قلعہ شیخوپورہ ۔؍۔؍۱۰
(۴۰)شیخ رحمت اللہ و محمد عبداللہ صاحبان لنڈا بازار لاہور ۶ عدد کوٹ برائے امداد درویشاں ۔۔۔۔
(۴۱) اخوند فیاض احمد صاحب تعلیم الاسلام کالج لاہور ۔؍۔؍۱
میزان رقوم: ۔؍۔؍۳۰۷
اللہ تعالیٰ ان سب بہن بھائیوں کو جزائے خیر دے۔ اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے۔ آمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳جنوری ۱۹۵۰ئ)




کسی سچے مومن کا ذاتی ’’گلہ شکوہ‘‘
اسے ایمان سے متزلزل نہیں کر سکتا
اعمال کے مدارج کو ملحوظ رکھنا بہر حال ضروری ہے
خلافت کا نظام نبوت کے نظام کا تتمہ ہے
کچھ عرصہ ہوا مجھ سے ایک صاحب نے جو قادیان سے ہجرت کرکے لاہور آئے ہوئے ہیں ذکر کیا کہ جب قادیان میں مجھے فلاں صدمہ پہنچا تھا۔ تو اس وقت میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرنے اور حضور کے مشورہ سے تسکین پانے کی غرض سے حضور سے ملاقات کے لئے گیا تھا۔ مگر کافی دیر تک انتظار کرنے کے باوجود پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے ملاقات کا موقعہ نہیں دیا۔ حالانکہ میں اس وقت بیمار بھی تھا۔ اور کئی لوگ جو میرے بعد آئے تھے انہیں ملاقات کا موقعہ دے دیا گیا۔ ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ملاقات کے لئے منتخب ہونے والوں کی فہرست پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں بھجوائی گئی تھی اور حضور ہی کے انتخاب کے ماتحت ملاقات کرنے والوں کے نام چنے گئے تھے۔ اس لئے مجھے سخت دل برداشتہ ہو کر اور انتہا درجہ کی جسمانی اور روحانی کوفت اٹھا کر واپس آنا پڑا۔ جس کا مجھے بے حد رنج ہوا اور اب تک رنج ہے۔
اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد ان صاحب نے کمال سادگی کے انداز میں مجھ سے پوچھا کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کی صداقت پر تو مجھے پورا پورا ایمان ہے۔ اور یہ تعلق کبھی کٹ نہیں سکتا۔ مگر اس واقعہ کی وجہ سے مجھے حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے میں شرح صدر نہیں رہا۔ یہ بات کہہ کر یہ صاحب تشریف لے گئے (کیونکہ عین اسوقت بعض دوست ملنے کے لئے آگئے تھے) اور جاتے ہوئے یہ صاحب کہہ گئے کہ مجھے اس کا جواب بعد میں دے دیا جائے۔ چنانچہ چند دن کے بعد ان کی طرف سے یاد دہانی کا خط بھی پہونچا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ سو میں اس مختصر نوٹ کے ذریعہ ان صاحب کے اعتراض کا جواب الفضل میں شائع کرا رہا ہوں تاکہ اگر میرے اس جواب سے ان صاحب کی تسلی نہ ہو تو کم از کم دوسرے دوست ہی میرے اس نوٹ سے اصولی رنگ میں فائدہ اٹھا سکیں ۔ وما توفیقی الا باﷲ العظیم
سب سے پہلی بات جو میں اس تعلق میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کسی مامور من اللہ پر ایمان لانے والا شخص اپنے اس ایمان سے خدا پر یا جماعت پر کوئی احسان نہیں کر تا۔ بلکہ دراصل یہ خدا کا احسان ہوتا ہے کہ اسے اس ایمان کی توفیق ملتی ہے۔ پس اس معاملہ میں حقیقتًا مشورہ وغیرہ کا کوئی سوال پیدا نہیںہوسکتا۔اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور اس کی ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت پر ایمان لانے کی توفیق ملنا خدا کی طر ف سے ایک انعام ہے تو پھر کسی مومن کہلانے والے کی طرف سے یہ سوال کہ میں اس خدائی انعام کو اپنے ہاتھ میں رکھوں یا کہ اس سے دست بردار ہو جاؤں ایک ایسا سوال ہے جس کا فلسفہ کم از کم میری سمجھ سے بالا ہے ۔ اور بہرحال اس میں مشورہ کا کوئی سوال نہیں کیونکہ ہر سچے احمدی کا اس موقعہ پر صرف ایک ہی جواب ہو سکتا ہے۔ اور یہ جواب وہی ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک موقعہ پر حضرت عمرؓ کو دیا تھا کہ ’’جس خدائی سواری کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے تم نے اس کی رکاب پر ہاتھ رکھا ہے۔ اسے کسی ادھر ادھر کے خیال سے ڈھیلا نہ ہونے دو۔ ورنہ تمہارا اس منزل مقصود تک پہونچنا ایک خیال موہوم ہوگا جو خدائے علیم و قدیر نے اس سواری کے لئے مقدر کر رکھی ہے۔‘‘ یہ جواب حضرت عمرؓ کو اس وقت دیا گیا تھا جبکہ وہ ایک ایمانی غیرت کے جوش میں صلح حدیبیہ کی بظاہر تحقیر آمیز شرائط پر پیچ و تاب کھا رہے تھے تو پھر کس قدر افسوس ہے اس شخص پر جو کسی دینی بات پر نہیں بلکہ ایک ذاتی اور وقتی رنجش کو آڑ بنا کر منزل مقصود سے پہلے ہی تھک کر بیٹھ جانے کابہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ میں نے یہ الفاظ لعن طعن کے رنگ میں نہیں لکھے۔ بلکہ دلی درد کے ساتھ لکھے ہیں اور کاش وہ اسی درد سے قبول کئے جائیں۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ جہاں سوال کرنے والے دوست نے اپنی تکلیف اور اپنی پریشانی کا خیال کیا۔ وہاں انہوں نے حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز پر بھی یہ حسن ظنی کیوں نہیں کی کہ وہ اس وقت کسی اہم دینی کام میں مصروف ہونگے۔ اور کم فرصتی کی وجہ سے یا علالت طبع کی وجہ سے انہوں نے اس وقت مجبوراً صرف چند آدمیوں کا انتخاب کرکے انہیں ملاقات کے لئے بلا لیا ہوگا۔ کیا مصروفیت اور پریشانی اور بیماری کا ورثہ صرف ان صاحب کے لئے ہی مقدر ہے۔ اور دوسرا کوئی شخص ان باتوں میں مبتلا نہیں ہوسکتا؟ تو جب دوسرے لوگ بھی جو ہمارے اس دوست سے بدرجہا ززیادہ کام کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں۔ مجبوریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسان اپنی تکلیف کا تو خیال کرے لیکن امام کی تکلیف اور امام کی پریشانی اور امام کی مصروفیت کا اسے کوئی احساس نہ ہو! یقینا یہ ایک بہت بھونڈی قسم کی تقسیم ہے جس سے ہر مخلص اور سنجیدہ آدمی کو پرہیز کرنا چاہئے۔
تیسری بات اس تعلق میں قابل غور یہ ہے کہ خود اپنے بیان کے مطابق یہ صاحب اس واقعہ کے قریباً آٹھ نو ماہ بعد قادیان میں مقیم رہے۔اور اس کے بعد فسادات کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے تک انہوں نے قادیان میں یہ سوال نہیں اٹھایا۔ اور ان کا یہ شکوہ ان کی زبان پر نہیں آیا۔ لیکن جونہی وہ قادیان سے نکل کر لاہور آئے۔ اور ہجرت کی وجہ سے جماعت کی تنظیم کو بظاہر ایک دھکا پہونچا۔ تو ان صاحب کے پرانے دبے ہوئے ’’گلے شکوے‘‘ باہر آنا شروع ہو گئے؟کیا اس صورت میں ہر شخص یہ خیال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ دراصل یہ گلہ شکوہ اس بیان کردہ واقعہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس نا گوار تزلزل کی وجہ سے ہے۔ جو قادیان کی ہجرت اور جماعت کے وقتی انتشار کی بناء پر بعض کمزور لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے ۔ غور کا مقام ہے کہ ایک خاص قسم کا جذبہ اور ایک غیر معمولی نوع کا احساس نو ماہ کے طویل عرصہ تک دل کی گہرائیوں میں مخفی رہتا ہے اور زبان تک آنے کا نام نہیں لیتا۔ لیکن جونہی کہ قادیان سے جماعت باہر نکلتی ہے ۔ اور اس میں ایک وقتی انتشار کی صورت پیدا ہوتی ہے تو یہ مخفی جذبہ ایک بھاری گلہ شکوہ بن کر پھوٹ پڑتا ہے۔ میں بد ظنی نہیں کرتا لیکن ان صاحب کی ہمدردی کے خیال سے انہیں توجہ دلانے پر مجبور ہوں کہ وہ خدارا سوچیں اور غور کریں کہ کیا ان کا نفس انہیں دھوکہ تو نہیں دے رہا اور کیا ان کا یہ اعتراض موجودہ ابتلا کا نتیجہ تو نہیں؟ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سچے مومن کا قدم ہر آزمائش اور ابتلاء کے وقت میں آگے کی طرف اٹھتا ہے۔ پس جس شخص کا قدم امتحان کے وقت میں پیچھے ہٹنے یا لغزش کھا کر نیچے گرنے کی طرف مائل ہو اسے فرضی اور جھوٹی باتوں سے تسلی پانے کی بجائے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ میرے یہ الفاظ بھی شاید تلخ سمجھے جائیں مگر نیک نیتی کی تلخی نیک نیت لوگوں کو بری نہیں لگنی چاہئے۔
چوتھا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ہماری شریعت نے اعمال کے مختلف درجے مقرر کر رکھے ہیں اور ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ جب اس کے سامنے دو ایسے عمل پیش ہوں جن میں سے وہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے صرف ایک کو اختیار کرسکتا ہو۔ تو اسے چاہئے کہ بہتر عمل کو اختیار کرکے نسبتاً ادنیٰ عمل کو اس پر قربان کردے۔ نیکیاں دنیا میں بے شمار ہیں اور ہر انسان کو چاہئے کہ حتی الوسع ہر نیکی پر عمل کرنے کی کوشش کرے لیکن جہاں کسی خاص موقع پر دو نیکیاں آپس میں ٹکراتی ہوں وہاں انسان کا فرض ہے کہ اعلیٰ درجہ کی نیکی کو لے لے اور نسبتاً کم درجہ کی نیکی کی طرف سے آنکھیں بند کرکے خاموش ہو جائے۔ شریعت اسلامی کا یہ ایک ایسا مسلمہ اصول ہے جس کی ہر زمانہ میں ہر مصلح نے تلقین کی ہے حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ بسا اوقات بعض مسلمان آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ اس وقت ہمارے سامنے دو نیکیاں ہیں ہم ان میں سے کس کو اختیار کریں اور آپ ایسے موقعہ پر بلا تامل فرماتے تھے کہ اس وقت فلاں نیکی کو اختیار کرو اور فلاں کو چھوڑ دو چنانچہ قرآن شریف بھی اس بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
۱
’’یعنی اے لوگو بے شک حاجیوں کو پانی پلانا اور بیت اللہ کو آباد رکھنا ایک نیکی ہے لیکن کیا صرف اس نیکی کو اختیار کرنے والا شخص اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا پر ایمان لاتا اور یوم آخرت پر یقین رکھتا اور خدا کے رستے میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے سنو اور سمجھو کہ یہ دو گروہ کبھی بھی خدا کے حضور برابر نہیں ہو سکتے۔
یہ اصولی آیت بہت سے جزوی مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ اس آیت میں خدا تعالٰے یہ فلسفہ بیان فرماتا ہے کہ نیکیوں کے مختلف درجے ہوتے ہیں اور ہر درجہ کا علیحدہ علیحدہ مقام ہے اور سب سے اعلیٰ نیکی وقت کے مامور کے ذریعہ خدا کی آواز پر کان دھرنا اور ایک جان ہو کر اس کے دین کی خدمت میں کمر بستہ رہنا ہے۔ اب ہمارے معترض مہربان خود سوچیں کہ احمدیت کی صداقت اور جماعتی تنظیم کے ساتھ وابستگی کے مقابل پر اس قسم کی ذاتی باتوں کو کیا وزن حاصل ہے کہ فلاں تکلیف کے وقت ہمارے ساتھ ہمدردی نہیں کی گئی یا ہم فلاں وقت ملاقات کے لئے آئے اور ہمیں ملاقات کا وقت نہیں ملا وغیرہ وغیرہ؟ ہمدردی اور دلداری یقینا ایک اچھی چیز اور نیکی کا فعل ہے مگر اسے ایمان اور جماعتی اتحاد کے مقابلہ پر لانابعینہٖ اسی قسم کی بات ہے جیسا کہ مکہ کے قریش کہتے تھے کہ ہم حاجیوں کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے والے پارسا لوگ ہیں۔ ہمارے مقابلہ پر کسی اور کی نیکی کیا حقیقت رکھتی ہے؟ میں مانتا ہوں کہ انسان کی فطرت میں جذبات کا بھاری خمیر ہے اور وہ بسا اوقات جذباتی باتوں میں بڑی جلدی ٹھوکر کھاتا اور اپنے لئے لغزش کا سامان پیدا کر لیتا ہے لیکن خالقِ فطرت نے جذبات کے ساتھ عقل کا پاسبان بھی تو مقرر کر رکھا ہے اور یہ پاسبان اسی غرض سے ہے کہ انسان کو جذبات کی رو میں بہہ کر گمراہ ہونے سے بچائے۔ پس ہمارے ان دوست کو سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ اوّل تو ممکن ہے کہ اس وقت ان کی طرح حضرت صاحب کی طبیعت بھی علیل ہو اور وہ زیادہ ملاقاتوں کے لئے وقت نہ نکال سکتے ہوں اس لئے حضور نے وقتی خیال کے مطابق صرف چند نام چن لئے ہوں یا اس وقت حضور کو کوئی اور غیر معمولی مصروفیات ہوں اور زیادہ ملاقاتوں کی گنجائش نہ نکالی جا سکتی ہو یا کوئی اور مجبوری در پیش ہو جس کا ان صاحب کو علم نہ ہو یا کسی مصلحت سے جس کا اظہار مناسب نہ ہو حضور اس وقت نہ مل سکے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ الغرض بیسیوں قسم کے امکانات ہیں جن سے ایک حسن ظنی کرنے والا انسان تسلّی پا سکتا ہے لیکن اگر با لفرض اس وقت بشری لوازمات کے ماتحت جلدی میں پوری سوچ بچار کے بغیر ہی انکار ہو گیا ہو تو پھر بھی اس ذاتی اور وقتی اور جزوی بات کے نتیجہ میں یہ سوال اٹھا ناکہ پھر خلافت کے ساتھ وابستگی اور جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا کیا فائدہ ہے، ہاتھی کو نگلنے اور مچھر پر تھو تھو کرنے والی بات ہے۔
پانچویں بات میں ان صاحب سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے یہ قرآنی آیت کبھی نہیں پڑھی کہ:
۲
’’یعنی اگر تم کسی شخص کی ملاقات کے لئے جاؤ اور وہ اس وقت تمہیں نہ مل سکے اور تم سے واپس لوٹ جانے کے لئے کہا جائے تو تم (برا ماننے کے بغیر) واپس لوٹ جاؤ یہ تمہارے اخلاق اور باہمی تعلقات کے لئے بہت بہتر طریق ہے اور اس کے نتیجے میں تمہارے دلوں میں پاکیزگی اور طہارت کے جذبات پیدا ہونگے‘‘۔
پس اگر ہمارے یہ دوست نیکیوں کے درجے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنی ضد میں ملاقات سے انکار کو خلافت سے انکار کے برابر رکھ کر تولنا چاہتے ہیں تو کم از کم اس قرآنی آیت سے ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں جو ملاقات سے انکار کو بخوشی قبول کرنے اور طہارتِ نفس کا ذریعہ بنانے کی تلقین کرتی ہے۔
باقی رہا یہ خیال کہ ہم تو صرف موجودہ جماعتی تنظیم کے متعلق کہتے ہیں ورنہ احمدیت یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام کے انکار کو تو ہم ایک *** خیال کرتے ہیں ۔ سو یہ خیال نفس کے دھوکے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ خلافت کا نظام یقینا نظام نبوت کا تتمہ اور اس کا ایک ضروری اور لازمی حصہ ہے کیونکہ خدا تعالٰے کی یہ سنت ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی عظیم الشان تغیّر پیدا کرنا چاہتا ہے تو اوّلاً وہ ایک مامور اور مرسل کے ذریعہ ایک جماعت پیدا کرکے ایک نئے نظام کی تخم ریزی کرتا ہے اور چونکہ ایک نبی کی عمر بہر حال محدود ہوتی ہے اس لئے اس کے بدلے خدا تعالٰے مناسب وقت تک سلسلۂ خلفاء کے ذریعہ اس نئے نظام کو اپنی تقدیر خاص کے ماتحت آہستہ آہستہ پختہ اور مضبوط کر کے اس تخم کو ایک درخت کی صورت میں قائم فرما دیتا ہے جس کے بعد یہ نظام خدا کی تقدیر عام کے ماتحت طبعی طریق پر ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔لہٰذا جو شخص خلافت پر معترض ہوتا یا اس سے اپنا تعلق کاٹتا ہے وہ درحقیقت روحانی مرسلوں اور ماموروں کی بعثت کو ایک کھیل قرار دینا چاہتا ہے کہ گویا خدا نے نعوذ باللہ ایک کھلونا بنایا اور پھر اسے فوراً ہی کچی حالت میں ٹوٹنے پھوٹنے کیلئے غفلت میں چھوڑ دیا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
مَنْ شَذَّ شُذّ فی النَّار ۳
’’یعنی جو شخص جماعت کی تنظیم سے کٹتا ہے وہ خدا کی رحمت سے بھی کاٹا جائے گا۔‘‘
پس خلافت کا نظام (جب تک بھی وہ خدا کے علم میں مقدر ہو) دراصل نبوت کے نظام کا تتمہ اور اس کی ایک لازمی فرع اور شاخ ہے اور اس سے اپنے تعلق کو کاٹنے والا اس دھوکے میں ہرگز نہیں رہنا چاہئے کہ جڑھ اس کے پاس محفوظ ہے مگر یہ ایک جدا گانہ سوال ہے جس کے متعلق انشاء اللہ کسی اور موقعہ پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔
وآخردعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۵۰ئ)




ایک ضروری تصحیح
چنددن ہوئے میں نے قادیان میں ٹھہرے ہوئے تئیس کس صحابیوں کی فہرست شائع کی تھی۔ اور اس ضمن میں یہ بھی ذکر کیا تھا کہ ان میں سے فلاں فلاں تین صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۳۱۳ والی فہرست مندرجہ انجام آتھم میں بھی شامل ہیں۔ یہ اطلاع مجھے قادیان سے آئی تھی لیکن افسوس ہے کہ اس میں ایک غلطی رہ گئی۔ اور وہ یہ کہ ۳۱۳ والی فہرست میں میاں محمد دین صاحب سکنہ کھاریاں حال درویش قادیان کو شامل نہیں کیا گیا۔ حالانکہ وہ اس میں شامل ہیں۔ غالباً محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو ان کے متعلق اس وجہ سے غلط فہمی ہوگئی ہوگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کی ۳۱۳ والی فہرست میں میاں محمد دین صاحب کو سکنہ کھاریاں کی بجائے سکنہ بلانی ضلع گجرات کرکے لکھا ہے۔ کیونکہ ان دنوں میں وہ بلانی میں پٹواری ہوتے تھے۔ بہرحال میں نے انجام آتھم دیکھ کر خود تسلی کرلی ہے۔ اور میاں محمد دین صاحب سکنہ کھاریاں حال درویش قادیان یقینی طور پر ۳۱۳ صحابیوں والی فہرست میں شامل ہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲جنوری ۱۹۵۰ئ)



ایک احمدی خاتون کا سوال اور اس کا جواب
نماز میں بے توجہی اور پریشان خیالی کا صحیح علاج
ایک احمدی خاتون جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ایک خط کے ذریعہ نماز میں اپنی پریشان خیالی کا ذکر کرکے اس کا علاج دریافت کرتی ہیں۔ چنانچہ اس خاتون کے الفاظ یہ ہیں:
’’مجھے ایک سخت کام کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کرنی پڑی ہے وہ یہ کہ جب میں نماز پڑھنے لگتی ہوں تو میرا نفس اور شیطان مجھ پر یکدم حملہ کر دیتے ہیں۔ اور میں طرح طرح کے خیالوں میں پھنس جاتی ہوں۔ تہجد کے وقت میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ میرا وجود احمدیت کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ایسی نماز سے کیا فائدہ چھوڑ دینی چاہئے۔۔۔دعا فرمائیں اور کچھ ہدایت بھی ملنی چاہئے۔ اس کے لئے الفضل بہتر ہے۔ شائد میری طرح کوئی اور بہنیں بھی اس مرض میں مبتلا ہوں۔‘‘(ایک احمدی خاتون)
اس احمدی خاتون کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ باوجود اپنی موجودہ پریشان خیالی کے ہماری اس بہن کے دل میں خدا کے فضل سے دینداری کا سچا جذبہ پایا جاتا ہے اور دراصل یہی وہ نیک جذبہ ہے۔ جو ان کے اس خط کا محرک بنا ہے۔ ورنہ دنیا میں بے شمار مسلمان کہلانے والے لوگ ایسے ہیں جو نماز کے پاس تک نہیں پھٹکتے۔ اور پھر بھی ان کے دل میں اس نعمت سے محرومی کا کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا۔ پھر بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو رسمی طور پر نماز تو پڑھتے ہیں لیکن وہ نماز کے سچے ذوق سے محروم ہوتے ہیں۔ اور پھر بھی انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتاکہ وہ نماز کی حقیقی روح سے خالی ہیں۔ لیکن اس کے مقابل پر ہماری بہن کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا کہ گو میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھتی ہوں اور خدا کی خاطر پڑھتی ہوں۔ اور تہجد کی بھی پابند ہوں۔ مگر نماز کے حقیقی ذوق سے محروم ہوں اور اسکی وجہ سے اس خاتون کے دل میں اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا یقینا اس کی قابل تعریف نیکدلی اور دینداری کی علامت ہے۔ بلکہ میرے خیال میں اس خاتون کا یہ احساس با لواسطہ طور پر احمدیت کی صداقت کی بھی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ نیک جذبہ درحقیقت احمدیت ہی کا پیدا کیا ہوا ہے کہ ہمیں اپنی عبادتوں کو سچے ذوق اور شوق کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ ایک عورت کا خدا کی خاطر نماز پڑھنا۔ اور پھر اس نماز میں ذوق نہ پیدا ہونے کی وجہ سے بے چینی محسوس کرنا یقینا اس سلسلہ کی صداقت کی دلیل ہے۔ جس کی طرف یہ خاتون منسوب ہونے کا فخر رکھتی ہیں۔ لیکن اس خاتون کے خط میں ایک بات سے مجھے تکلیف بھی ہوئی۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے خط کو بسم اللہ کے مسنون طریق کی بجائے آجکل کے رواج کے مطابق ۷۸۶ کے عدد سے شروع کیا ہے یہ طریق جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کر چکا ہوں بالکل غیر مناسب ہے کم از کم احمدی بھائی بہنوں کو جو احیائِ شریعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کسی صورت میں مسنون اور بابرکت طریق کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اس کے بعد میں مختصر طور پر اصل سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ سو اس تعلق میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ نماز کے متعلق اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ انسان اسے خدا کی طرف سے عائد شدہ فرض سمجھ کر ادا کرے۔ ذوق اور شوق کا پیدا ہونا ایک بالکل جداگانہ چیز ہے۔ جسے فریضۂ نماز کی ادائیگی کے ساتھ کوئی بنیادی تعلق نہیں۔ جو شخص خدا کی خاطر نماز پڑھتا ہے۔ اور اسے ایک مقدس فرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ اور اس کی نماز محض عادت یا دکھاوے کی نماز نہیں ہوتی۔ وہ یقینا خدا کے حضور سرخرو ہے۔ خواہ اسے نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا ہو یا نہ ہو کیونکہ جو شخص سچی نیت کے ساتھ خدا اور اس کے رسول کا حکم بجا لائے وہ بہر حال خدا کے حضور نماز کا فرض پورا کرنے والا سمجھا جائے گا۔ اور خدا ئے رحیم کے فرشتے اس کی اس نیکی کو محفوظ کرنے اور اس کے حق میں ایک مقدس ذخیرہ شمار کرنے سے کبھی نہیں رکیں گے۔ پس پہلی بات میں اس احمدی خاتون سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر جیسا کہ ان کے خط سے ظاہر ہے۔ وہ اپنی نماز واقعی خدا کی خاطر ادا کرتی ہیں تو انہیں محض اس وجہ سے ہرگز نہیں گھبرانا چاہئے کہ ان کی نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ ذوق اور شوق ایک بالکل جداگانہ چیز ہے۔ جس کا فریضہ کی ادائیگی ساتھ کوئی بنیادی تعلق نہیں۔ اس کی موٹی مثال یوں سمجھنی چاہئے کہ نماز ایک دوائی کا رنگ رکھتی ہے۔ جو ہمارے آسمانی طبیب نے ہماری روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے مقر ر کی ہے۔ پس اگر کسی شخص کو دوائی کے پینے میں مزا نہیں آتا تو نہ آئے۔ دوائی بہر حال دوائی ہے۔ اور بیماری کے لئے مفید اور اسے کسی صورت میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک نوجوان حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ حضور مجھے نماز میں مزہ نہیں آتا۔ اور نہ ہی اس میں دل لگتا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے مزاج اور ذہنی کیفیت کو سمجھتے تھے فوراً فرمایا کہ:-
’’جاؤ میاں نماز تمہارے چسکے کے لئے نہیں بنی بلکہ یہ خدا کی طرف سے ایک فرض ہے۔ جو بہرحال ادا کرنا چاہئے خواہ مزہ آئے یا نہ آئے۔‘‘
اور وہ نوجوان جو نماز سے چھٹی لینے کے لئے گیا تھا سر نیچے ڈالے واپس آگیا۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ نماز خدا کی طرف سے ہمارے لئے ایک فرض کے طور پر مقرر کی گئی ہے۔ اگر اس میں مزا آئے اور ذوق و شوق کی کیفیت پیدا ہو تو بجا ورنہ بہر حال وہ ایک فرض ہے۔ جو ہر صورت میں ادا ہونا چاہئے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ جس شخص کو نماز میں لطف نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی وہ خدا کی خاطر نماز ادا کرتا اور اس کا بندہ رہتا ہے۔ وہ ایک لحاظ سے (نہ کہ من کل الوجوہ) اس شخص سے بھی زیادہ قابلِ قدر ہے۔ جو نماز میں لطف پاتا ہے۔ کیونکہ جہاں مقدم الذکر شخص کی نماز محض خدا کی خاطر ہوتی ہے وہاں موخر الذکر شخص کی نیت میں کچھ ذاتی لطف کا محرک بھی شامل ہوجاتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جب شیطان بار بار نماز میں رخنہ پیدا کرتا اور وسوسہ اور اپنا خیال خیالی میں مبتلا رکھتا ہے تو پھر ایسی نماز کے پڑھنے سے کیا فائدہ ہے۔ اور کیوں نہ ایسی صورت میں نماز ترک کردی جائے؟ سو یہ خود ایک شیطانی دھوکا ہے۔ اور اس کا اصولی جواب وہی ہے جو اوپر والے نوٹ میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب نماز خدا کا ایک حکم ہے تو پھر اسے شیطان کی رخنہ اندازی سے چھوڑ دینے کے معنے ہیں کہ ہم نے نعوذ باللہ شیطان کے مقابلہ میں خدا کی شکست قبول کر لی۔ یعنی ہم نے خدا کے حکم سے ایک کام شروع کیا لیکن پھر شیطان کے ستانے سے ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے۔ ظاہر ہے کہ جب شیطان کا کام ہی گمراہ کرنا اور خدا کے راستہ سے روکنا ہے تو وہ لازماً ہر قدم پر ٹھوکر کا سامان پیدا کرے گا۔ لیکن انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور برابر مقابلہ کرتا ہی چلا جائے۔ خواہ اسے یہ لڑائی اپنی موت تک جاری رکھنی پڑے۔ اور اگر وہ شیطان سے ڈر کر یا تنگ آکر ہتھیار ڈال دے گا تو نہ صرف خود روحانی موت کا شکار ہوگا۔ بلکہ نعوذ باللہ خدا کے مقابلہ میں شیطان کی فتح قبول کرنے والا ٹھہرے گا۔
پس میں اس خاتون سے کہتا ہوں کہ شیطان کی اس جنگ سے ہرگز نہ گھبراؤ بلکہ اس کے ساتھ لڑتی چلی جاؤ۔ اور اگر اس مقابلہ کو موت تک جاری رکھنا پڑے تو پھر بھی ہمت نہ ہارو۔ کیونکہ تمہارے لئے یہ لڑائی گویا جہاد کا رنگ رکھتی ہے اور اگر تمہاری زندگی اسی جد و جہد میں ختم ہو جائے تو پھر بھی کوئی فکر کی بات نہیں کیونکہ اگر تم نیک نیت ہو تو اس صورت میں تمہیں گویا شہادت کا درجہ ملے گا کہ تم نے خدا کے راستہ میں لڑتے ہوئے جان دی۔ اور آسمان پر خدا کے فرشتے تمہیں دیکھ کر خوش ہونگے۔ اور تم پر درود بھیجیں گے کہ خدا کی اس بندی نے شیطان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اور خدا کے جھنڈے کو آخری وقت تک بلند رکھنے کے لئے لڑتی رہی۔ ہاں سوچو اور سمجھو کہ اگر نماز کا حکم واقعی خدا کی طرف سے ہے تو پھر شیطان سے تنگ آکر نماز چھوڑ دینے کے صرف یہ معنے ہونگے کہ تم نے شیطان سے ڈرکر خدا کی ہار مان لی۔ اور اس کے مقابل پر نمازپڑھتے رہنے کے یہ معنے ہونگے کہ تم نے شیطان کے گلے سہے ،چوٹیں کھائیں، دھکّے برداشت کئے مگر جس خدائی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا تھا اسے نیچا نہیں ہونے دیا۔ اب خود سوچ لو کہ شیطان سے گھبرا کر نماز چھوڑ دینا بہتر ہے یا کہ شیطان کا مقابلہ کرتے ہوئے آخر وقت تک نماز بجا لانا زیادہ شاندار ہے؟
باقی رہا یہ سوال کہ نماز میں ذوق کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے۔ سو اوّل تو میں بتا چکا ہوں کہ اگر ذوق نہ بھی پیدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ نماز بہر حال پاک فریضہ ہے جو ہر صورت میں ادا ہونا چاہئے۔ لیکن ہماری شریعت نے ہر بیماری کا علاج بتایا ہے۔ اس لئے جو شخص نماز میں ذوق و شوق کی کیفیت سے محروم ہے اسے بھی شریعت مایوس نہیں کرتی۔ چنانچہ اس تعلق میں سب سے پہلی بات قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ:
۴
’’یعنی افسوس ہے ان لوگوں پر جو بظاہر نماز تو پڑھتے ہیں مگر اپنی نماز کی حقیقت اور روح کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ ان کی نماز صرف لوگوں کو نظر آنے والا ایک بُت ہے جس کے اندر کوئی زندگی کی روح نہیں۔‘‘
اس آیت میں خدا تعالٰے نے یہ فلسفہ بیان فرمایا ہے کہ دوسری جاندار چیزوں کی طرح نماز کی بھی ایک روح ہے جو اس کے ظاہری جسم کے علاوہ اس کی اندرونی حقیقت کی حامل ہوتی ہے اور ہر سچے مومن کی کوشش ہونی چاہئے کہ نماز کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی حفاظت کا بھی خیال رکھے۔ پس نماز میں ذوق و شوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا صرف نماز کے ظاہری ارکان یعنی قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ کو ہی نماز کا مقصد و منتہٰی نہ سمجھے اور محض مقررہ لفظی دعاؤں کا دہرانا ہی نماز کی غرض و غایت نہ قرار دے لے۔ بلکہ اس بات کو بھی مدنظر رکھے کہ نماز کے ظاہری جسم کے لئے ایک اندرونی روح بھی مقرر کی گئی ہے اور مجھے پوری پوری توجہ اور جستجو کے ساتھ اس روح تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب نماز پڑھنے والا اس نیت اور اس زاویۂ نظر کے ساتھ نماز میں داخل ہوگا تو قدرت کے نفسیاتی اصول کے ماتحت طبعاً اس کے اندر ایک خاص قسم کی جستجو اور طلب اور تڑپ کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور بالآخر یہی تڑپ اسے جسم کی حدود سے آگے لے جا کر روح کی حدود میں داخل کردیگی۔ اصل مرض توجہ کی کمی ہوتی ہے جو عموماً نماز کی اہمیت اور نماز کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ لیکن جب انسان نماز کو ایک برکت اور رحمت کا شعار اور روحانی زندگی کا ذریعہ سمجھ کر توجہ جمانا شروع کر دے تو اسی چیز میں جو پہلے ایک خشک اور بے جان جسم کا رنگ رکھتی تھی زندگی کی حرکت پیدا ہونے لگے گی۔
دوسرا گُر نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان پیارے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ:
اَنْ تعبد اﷲکانّک تراہ فان لم تکن تراہ فانہٗ یراک۔ ۵
’’یعنی نماز میں صحیح قلبی کیفیت پیدا کرنے اور اس کے اندر زندگی کی روح پھونکنے کے لئے ضروری ہے کہ اے نماز پڑھنے والے تو جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو تیرا دل اس یقین سے معمور ہو کہ تو اپنے سامنے خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے شروع میں یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ تو یہ یقین رکھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہ حدیث ہمیں یہ زریں اصول بتاتی ہے کہ نماز میں زندگی کی روح اور شوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب انسان نماز پڑھنے لگے تو توجہ دے کر اس یقین کے ساتھ کھڑا ہو کہ میں اس وقت اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑا ہونے لگا ہوں اور جب وہ اپنی توجہ کو اس طرف لگائے گا تو اوّل تو اس کا دل اس شعور اور اس یقین سے بھر جائے گا اور اس کے باطن کی آنکھیں اس ایمان سے روشن ہو جائیں گی کہ اس وقت میرے سامنے میرا خدا کھڑا ہے اور میں اسے گویا دیکھ رہا ہوں اور کم از کم وہ اس یقین سے تو خالی نہیں رہے گا کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور یہ دونوں کیفیتیں نماز پڑھنے والے کے اندر وہ زندگی کی روح پیدا کردیں گی جو سچی نماز کی جان ہیں۔ علم توجہ کی طرف ہی دیکھو کہ انسان ذرا سی مشق سے نہ صرف بے جان چیزوں بلکہ جاندار چیزوں پر بھی تسلط جمالیتا ہے اور انہیں گویا اپنا غلام بنا لیتا ہے تو کیا وہ توجہ کے زور سے خود اپنے دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا جو نماز کو ایک زندہ حقیقت بنانے کیلئے ضروری ہے؟ بہر حال نماز میں ذوق و شوق پیدا کرنے کیلئے اسلام دوسرا گر یہ بتاتا ہے کہ نماز پڑھنے والا اس یقین کے ساتھ کھڑا ہو کہ میں اپنے آقا اور مالک کے سامنے کھڑا ہونے لگا ہوں اور یہ کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔
تیسرا گُر حدیث ان الفاظ میں بیان کرتی ہے:
الدعاء مخّ العبادۃ ۶
’’یعنی دعا نماز کیلئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو کہ ہڈی کے اندر کا گودا ہڈی کیلئے رکھتا ہے۔‘‘
پس نماز میںتوجہ قائم کرنے اور نماز کو ایک زندہ حقیقت بنانے کیلئے یہ گر بھی یقیناً ایک نہایت ہی لطیف اور آزمودہ گر ہے کہ انسان اپنی مضطربانہ دعاؤں اور التجاؤں سے اپنی نماز میں زندگی کی حرکت پیدا کرے۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان کو دین و دنیا کے میدان میں بیسیوں قسم کی اہم ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ اور ان میں سے بعض ایسی ہوتی ہیں جو اس کے اندر غیر معمولی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کردیتی ہیں مثلاً دنیا کے میدان میں کبھی کسی شخص کو یا اس کے کسی عزیز کو کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور کبھی مالی تنگی اور قرض کی مصیبت سر پر منڈلاتی ہے اور کبھی کسی مقدمہ کا بھوت پریشان کر رہا ہوتاہے اور کبھی اولاد سے محرومی کا دکھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح دین کے معاملات میں کئی قسم کی پریشانیاں ستاتی ہیں جن میں سے ایک یہی دین سے بے رغبتی کا احساس یا عبادت میں لذّت کی کمی کا خیال ہے جو نیک دل لوگوں کو پریشان رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی سب حالتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ نمازمیں دعا کی عادت ڈالے اور رقّت بھرے دل اور تڑپتی ہوئی روح کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گرنے کا عادی بنے اور فرماتے ہیں کہ یہ وہ گودا ہے جو نماز کی کھوکھلی ہڈی میں زندگی کی جان پیدا کر دے گا۔ اس اصل کے ماتحت نماز کی دعاؤں میں ہمیشہ ان دعاؤں کومقدم کرنا چاہئے جن کی وجہ سے انسان کے دل میں زیادہ تڑپ اور زیادہ اضطراب پیدا ہوتاکہ اس کی وجہ سے ہماری نماز زندگی کے جوش مارتے ہوئے خون سے مرتعش ہونے لگے۔ بھلا کوئی انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ اگر مثلاً اسے یا اس کے کسی نہایت قریبی عزیز کو کوئی سخت خطرناک اور مہلک بیماری لاحق ہو اور وہ اس کیلئے مضطرب ہو کر نماز میں دعا مانگے تو پھر بھی اس کی نماز ایک محض رسمی اور بے جان چیز رہ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں بلکہ مضطربانہ دعاؤں والی نماز روح کو اس طرح پگھلا کر رکھ دیتی ہے کہ جس طرح سونا کٹھالی میں پڑ کر پگھلتا ہے۔ پس نماز میں توجہ اور شوق پیدا کرنے کا یہ ایک نہایت ہی عمدہ نسخہ ہے کہ انسان اپنی نماز کیلئے اپنی ان ضروریات کی دعاؤں کو چنے جن میں اسے حقیقی تکلیف اور اضطراب درپیش ہو۔ اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ اس کی ہر نماز ایک جاندار حقیقت بن کر اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرنے لگ جائے گی۔
چوتھا علاج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تجویز کردہ ہے۔ حضور اکثر فرمایا کرتے تھے اور کئی جگہ لکھا بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ازلی حکمت نے جسم اور روح کے درمیان ایک نہایت گہرا اور لطیف جوڑ قائم کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں جسم کی حالت کا اثر روح پر پڑتا ہے اور روح کی حالت کا اثر جسم پر پڑتا ہے مثلاً اگرجسم بیمار ہو تو روح اپنی ذات میں چوکس ہونے کے باوجود مضمحل ہونے لگتی ہے اور اگر روح کو کوئی صدمہ پہنچے تو جسم میں بھی باوجود اس کے کہ وہ اپنی ذات میں بالکل صحیح سالم ہوتا ہے ،دکھ اور رنج و غم کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لطیف فطری فلسفہ کے ماتحت حضور فرمایا کرتے تھے کہ اگر نماز اور دعا کے وقت انسان کے دل میں رقّت اور سوز و گداز کی کیفیت نہ پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ تکلّف کے ساتھ اپنے جسم میں رقّت کی ظاہری صورت پیدا کرنے کی کوشش کرے جس کے نتیجہ میں وہ دیکھے گا کہ بالآخر اس کی روح میں بھی سوزو گداز کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی کیونکہ روح جسم کے تاثرات سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ پس چوتھا گر یہ ہے کہ نماز میں اگر دل کی توجہ نہیں پیدا ہوتی اور شیطان روح کے صحیح ذوق و شوق کے رستہ میں حائل رہتا ہے تو نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ وہ تکلف کے ساتھ اپنے جسم میں رقّت کی صورت پیدا کرے جس کے نتیجہ میں انشاء اللہ روح میں بھی سوز پیدا ہونا شروع ہو جائیگا اور خدا کے فضل سے انسان اس مقصد کو پا لے گا جو اس کیلئے نماز میں مقرر کیا گیا ہے۔
(۱) اس بات کو سمجھ لینا اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا کہ نماز صرف چند ظاہری ارکان کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک روح بھی رکھی گئی ہے جس کی طرف ہر نمازی کی توجہ رہنی چاہئے اور پھر جوئندہ یا بندہ۔
(۲) نماز میں اس یقین کے ساتھ کھڑے ہونا اور اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرنا کہ میں اس وقت اپنے سامنے خدا کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے تاکہ اس کے نتیجہ میں صحیح قلبی کیفیت پیدا ہو جائے۔
(۳) نماز کو اپنی ایسی دعاؤں کے ساتھ معمور کرنا جو انسان کی حقیقی اور مضطربانہ ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں تاکہ یہ دعائیں اس کے اندر ایک تڑپ اور بے چینی کی کیفیت پیدا کردیں۔
(۴) اگر روح میں رقّت کی کیفیت نہ پیدا ہو تو کم از کم جسم میں تکلّف کے ساتھ رقّت کی صورت پیدا کرنا جس کے نتیجہ میں بالآخر روح میں بھی رقّت کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔
میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہماری یہ سوال کرنے والی بہن اور ان کے ساتھ کی دوسری بہنیں فی الحال ان چار نسخوں کو آزمائیں گی تو انشاء اللہ خدا اپنے فضل سے ان کی مشکل کو حل فرما د ے گالیکن جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں اگر با لفرض پھر بھی ان کی نماز میں ذوق و شوق کی کیفیت نہ پیدا ہو تو ہرگز نہ گھبرائیں بلکہ شیطان کے مقابلہ میں لگی رہیں۔ خواہ یہ مقابلہ موت تک جاری رکھنا پڑے۔ کیونکہ بہر حال خدا کی طرف سے شیطان کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دینا اس بات سے بدرجہا بہتر ہے کہ انسان شیطان کے سامنے ہتھیار ڈال کر بیٹھ جائے اور نعوذباللہ اپنے ہاتھ سے خدا کے جھنڈے کو سرنگوں کر دے۔ اور سب سے آخری بات وہی ہے جو میں شروع میں کہہ آیا ہوں کہ اگر بالفرض نماز میں مزانہ بھی آئے تو پھر بھی انسان کا فرض ہے کہ اسے ایک روحانی دوائی سمجھتے ہوئے استعمال کرتا رہے کیونکہ دوائی بہر حال مفید ہوتی ہے خواہ وہ میٹھی لگے یا کہ کڑوی۔
وآخردعوٰنا ان الحمدللّٰہِ رب العٰلمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴جنوری ۱۹۵۰ئ)
پاکستان میں فوجی بھرتی
مناسبت رکھنے والے احمدی نوجوان توجہ کریں
کچھ عرصہ ہوا میں نے ائیرفورس اور ہوائی جہازوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے شعبوں کے متعلق جماعت میں تحریک کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا سے یہ بھی استدلال کیا تھا کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کی ظاہری ترقی پانیوں کے ساتھ وابستہ تھی اور اس کے متعلق انہیں ایک کشف بھی دکھایا گیا تھا۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویاء کے مطابق احمدیوں کی ظاہری ترقی زیادہ تر ہوائی فضا کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احمدی نوجوان پاکستانی فوج کی دوسری شاخوں کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ بہرحال فوج کی ہرشاخ خدمت اور تربیت کا عمدہ موقعہ پیش کرتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
بہرحال آج کل حکومت کے محکمہ کی طرف سے اعلان شائع ہوا ہے کہ آرمی یعنی بّری فوج کے لئے آفیسرزلائین میں نئی بھرتی کھولی جارہی ہے۔ جو اوٹی ایس کا تیسرا کورس کہلاتی ہے۔ یہ آفیسرز کمیشن کے لئے بھرتی کئے جائیںگے۔ اور پھر حکومت انہیں خود اپنے خرچ پر تربیت دے کر کام پر لگائے گی۔ پس جو احمدی نوجوان اس کام کی اہلیت اور مناسبت رکھتے ہوں۔ اور ان کے حالات اسکی اجازت دیں انہیں چاہیئے کہ پاکستان آرمی کے تھرڈ او۔ٹی۔ ایس کورس عارضی کمیشن کے لئے درخواست دیں۔
شرائط مختصراً حسب ذیل معلوم ہوئی ہیں:-
(۱) درخواست دینے والا پاکستانی شہری ہو۔
(۲) عمر ساڑھے بیس سال سے کم اور تیس سال سے زیادہ نہ ہو۔
(۳) تعلیمی معیار کم از کم انٹرنس پاس ہونا رکھا گیا ہے۔ یا سینئر کیمبرج وغیرہ
(۴) درخواست مقررہ مطبوعہ فارم پر جو ہر ریکروٹنگ آفس سے مل سکتی ہے۔ ۵ فروری ۱۹۵۰ء تک جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں پہنچ جانی چاہیئے۔ لیکن جتنی جلدی درخواست دی جائے بہتر ہوگا۔
(۵)ہر درخواست کے ساتھ مندرجہ ذیل چیزیں شامل کی جائیں۔
(الف) انٹرنس یا اس کے مساوی امتحان پاس کرنے کا سرٹیفکیٹ
(ب) عمر کا سرٹیفکیٹ
(ج) عام صحت کا سرٹیفکیٹ جو کسی سندیافتہ ڈاکٹر سے حاصل کرنا چاہیئے۔
(د) سکول کے ہیڈماسٹر یا کالج کے پرنسپل کا سرٹیفکیٹ کہ امیدوار کا چال چلن اچھا ہے۔ اور وہ فلاں فلاں کھیلوں میں حصہ لیتا رہا ہے۔
(ر) دو پاسپورٹ سائز کے فوٹو
(و) پانچروپے کا پوسٹل کارڈ یا رسید خزانہ
باقی تفصیلات مطلوبہ فارم کے ساتھ چھپی ہوئی ہیں۔ اور درخواست بھجوانے سے پہلے ضرور پڑھ لینی چاہئیں۔
احمدی نوجوانوں کو یادرکھنا چاہیئے کہ فوجی بھرتی کئی لحاظ سے مفید ہے کیونکہ اول تو اس سے حکومت کی خدمت کا موقعہ ملتا ہے۔ دوسرے فوجی تربیت حاصل ہوتی ہے۔ تیسرے عادات میں باقاعدگی اور فرض شناسی کا جذبہ ترقی کرتا ہے۔ اور چوتھے بیکاری دور ہوتی ہے۔ پس جو احمدی نوجوان فوجی بھرتی کی اہلیت اور مناسبت رکھتے ہوں انہیں ضروراس موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ عارضی کمیشن میں بھرتی ہونے والوں کے لئے بعد میں مستقل ہونے کا بھی چانس ہوتا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍جنوری ۱۹۵۰ئ)





میرے ذریعہ روپیہ لگانے والے دوست اپنا مطالبہ قضاء میں رجسٹرکرادیں
جن دوستوںنے فسادات سے قبل قادیان کے کارخانہ داروں یا تاجروں یا زمینداروں کو کاروباری اصول پر کوئی روپیہ دیا تھا یا ویسے ہی کوئی رقم قرض دی تھی ان کے مطالبات کی خاص نوعیت اور فسادات کے مخصوص حالات کی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بورڈ مقرر فرمایا ہے۔ جو سارے حالات سن کر اور ہر کیس کے کوائف کا مطالعہ کرکے شرعی فتویٰ کے مطابق فیصلہ کریگا۔سو جن دوستوں نے قادیان میں میری معرفت کسی کارخانہ دار یا تاجر یا زمیندار یا کسی دوسرے شخص کو کوئی روپیہ دیا تھا انہیں چاہیئے کہ فوراً اپنا مطالبہ صیغہ قضاء جماعت احمدیہ ربوہ متصل چنیوٹ میں رجسٹر کرادیں تاکہ بورڈ مقررہ انکے مطالبہ کے متعلق بھی فیصلہ کرسکے۔ گو ایسی رقوم کے متعلق میری کوئی شرعی یا قانونی ذمہ داری نہیں تھی لیکن میں اس اعلان کے ذریعہ اپنی اس اخلاقی ذمہ داری سے ہی سبکدوش ہوتا ہوں کہ میں نے انہیں ان کے مطالبہ کی امکانی حفاظت کیلئے بروقت مطلع اور متنبہ کردیاہے۔ میں انشاء اللہ پرائیویٹ خطوں کے ذریعہ بھی دوستوں کو اطلاع دینے کی کوشش کروں گا۔ لیکن چونکہ سب دوستوں کے پتے محفوظ نہیں اور ڈاک کا انتظام بھی پوری طرح تسلی بخش نہیں اس لئے اس اخباری اعلان کا طریق اختیار کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍جنوری ۱۹۵۰ئ)



اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی وفات
پشاور سے اطلاع ملی ہے کہ اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب وفات پاگئی ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ محترمی بھائی صاحب اس وقت قادیان میں درویشی زندگی گذار رہے ہیں۔اور نومسلم ہونے کے علاوہ احمدیت میں سابقون اوّلون میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس صدمہ میں ان کا حافظ وناصر ہو اور مرحومہ کو اپنے جواررحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین
مرحومہ نہایت نیک اور خدمت گذار خاتون تھیں۔ محترمی بھائی صاحب کے ساتھ ان کی شادی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجویز اور تحریک کے مطابق ہوئی تھی۔ محترمی بھائی صاحب (جو میرے استاد بھی ہیں) بسااوقات ذکر فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرحومہ کے ساتھ ان کی شادی کی تحریک فرمائی تو بھائی صاحب نے (جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) یہ خیال کرکے کہ یہ بیوہ ہیں کچھ انقباض کا اظہار کیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:-
’’میاں عبدالرحیم تم میری تجویز کو مان لو۔ انشاء اللہ تمہارے لئے یہ شادی بابرکت ہوگی۔‘‘
بھائی صاحب بیان کیا کرتے ہیں کہ حضور کے یہ الفاظ سن کر میں نے اس تجویز پر شرح صدر کا اظہار کیا اور اس کے بعد میری اس بیوی نے ہماری طویل رفاقت میں مجھے اس طرح آرام پہنچایا اور میری اتنی خدمت کی اور میرے لئے ایسی بابرکت ثابت ہوئی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ بہرحال مرحومہ (جو خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیل کی ساس تھیں) ایک بہت نیک اور بے نفس اور خدمت گذار خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں جگہ دے۔ اور محترمی بھائی صاحب اور مرحومہ کی اولاد اور دیگر عزیزوں کا حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍جنوری ۱۹۵۰ئ)

دو درویشوں کی خطرناک علالت
قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں اس وقت دو درویش بہت بیمار ہیں۔ ایک تو بابا اﷲ دتہ صاحب سکنہ دوالمیال ہیں جو بوجہ تیز بخار قریباً بے ہوش ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے اور دوسرے شیخ غلام جیلانی صاحب ہیں جنہیں بندش پیشاب کی سخت تکلیف ہے۔ احباب اِن ہر دو کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍جنوری ۱۹۵۰ئ)








سیٹھ خیر الدین صاحب کے لئے دعا کی تحریک
گزشتہ ایّام میں سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنوی جو جماعت کے ایک مخلص بزرگ ہیں، ایک فرقہ وارانہ فساد کے نتیجہ میں لکھنؤ میں زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انہیں خدا کے فضل سے بڑی حد تک تخفیف ہو گئی لیکن تازہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تکلیف پھر بڑھ گئی ہے اور سر کی چوٹ کی وجہ سے بیماری میں پیچیدگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوست انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم فروری ۱۹۵۰ئ)








قادیان میں چوبیسواں صحابی
صحابی کی تعریف میں دلچسپ اختلاف
گذشتہ ایام میں میں نے ان تئیس کس صحابیوں کی فہرست شائع کی تھی جو اس وقت قادیان میں مقیم ہیں۔ اب اس کے بعد تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت قادیان میں ایک اور صحابی بھی موجود ہیں جن کا نام میاں سلطان احمد صاحب ولد چوہدری نورعلی صاحب ساکن نواں پنڈ بہادر ضلع گورداسپور ہے۔ انہوں نے ۱۸۹۳ء میں قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہ گویا قادیان میں اس وقت چوبیس صحابی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان جملہ صحابیوں کی زندگی میں برکت دے اور ان کی برکتوں سے جماعت کے دیگر افراد کو نوازے۔ آمین
اس کے علاوہ سابقہ فہرست کی اس غلطی کی اصلاح بھی کی جاچکی ہے۔ جس میں سہو قلم سے یہ شائع ہوگیا تھا کہ قادیان کے موجودہ صحابیوں میں سے میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان اور محترمی بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب اور محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اس ۳۱۳ والی فہرست میں شامل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کے ساتھ شائع فرمائی تھی۔ بعد کے اعلان میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ ان تین ناموں میں میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان کا نام غلط شائع ہوگیا تھا اور صحیح نام میاں محمد الدین صاحب سکنہ کھاریاں کا ہے جو انجام آتھم والی فہرست میں شامل ہیں۔ میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان گو بیشک پرانے صحابی ہیں لیکن انجام آتھم والی ۳۱۳ کی فہرست میںان کا نام شامل نہیں۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل نوٹ ہے اس وقت قادیان میں ایک صاحب میاں عبدالرحیم صاحب برادر مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ جماعت احمدیہ ہیں۔ میاں عبدالرحیم صاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود نے ہی ان کا نام رکھا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو دیکھا بھی تھا۔ لیکن خود میاںعبدالرحیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دیکھنا یاد نہیں۔ ان حالات میں گو میری تعریف کے مطابق وہ صحابی نہیں بنتے لیکن بعض گذشتہ علماء کی تعریف کے مطابق وہ صحابی بن جاتے ہیں۔ ان علماء کی تعریف یہ ہے کہ
’’صحابی وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو۔‘‘
لیکن میرے نزدیک صحابی کی تعریف یہ ہے کہ
’’صحابی وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا ہو یا اس کا کلام سناہو۔‘‘
بہرحال یہ ایک قدیم اختلافی مسئلہ ہے اور حقیقت یہ ہے (اور یہ ایک حد تک طبعی امر ہے) کہ جوں جوں نبی کے زمانہ سے دوری ہوتی جاتی ہے لوگ فطرتاً صحابی کی تعریف میں نرمی کا طریق اختیار کرتے جاتے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پاک گروہ میں شامل کرکے اپنے لئے برکت اور رحمت کا موجب بنائے جائیں۔ چنانچہ زمانۂ نبوت اور قرب زمانہ نبوت میں صحابی کی تعریف عموماً یہ کی جاتی رہی ہے کہ
’’صحابی وہ ہے کہ جس نے نبی کا زمانہ پایا اس کی بیعت سے مشرف ہوا اسے دیکھا یا اس کا کلام سنا اور اس کی صحبت سے مستفیض ہوا۔‘‘
اس کے بعد وہ درمیانی تعریف آتی ہے جو میں کرتا ہوں یعنی
’’صحابی وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا اس کا کلام سنا ہو اور اسے نبی کو دیکھنا یااس کا کلام سننا یاد ہو۔‘‘
اور تیسرے درجہ پر (جو دراصل زمانہ نبوت کے بعد سے تعلق رکھتا ہے) یہ تعریف آتی ہے کہ
’’صحابی وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو خواہ اسے خود نبی کو دیکھنا یاد نہ ہو۔‘‘
اس کے علاوہ بعض اور تعریفیں بھی کی گئی ہیں اور شاید اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے اکثر تعریفیں درست سمجھی جاسکتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں بتاچکا ہوں میرا ذاتی رجحان اوپر کی تین تعریفوں میں سے درمیانی تعریف کی طرف زیادہ ہے کیونکہ ایک طرف تو اس میں پہلی تعریف والی تنگی نہیں ہے اور دوسری طرف اس میں تیسری تعریف والی حد سے زیادہ وسعت بھی نہیں جس میں سے گویا ’’صحبت‘‘ والا مفہوم جو اصل مرکزی چیز ہے خارج ہوجاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍فروری ۱۹۵۰ئ)

بیمار درویشوں کے لئے دعا کی جائے
اس سے قبل بابا اللہ دتا صاحب اور شیخ غلام جیلانی صاحب کی بیماری کی اطلاع شائع کی جاچکی ہے اب قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ خدا کے فضل سے شیخ غلام جیلانی صاحب کو قدرے افاقہ ہے۔ اور اب ان کے اپریشن کی تجویز کی جارہی ہے۔ بابا اللہ دتا صاحب کی بیہوشی تو دور ہوچکی ہے لیکن ابھی تک حالت خطرہ سے باہر نہیں۔ علاوہ ازیں آج کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی پر سوں سے دردِ گردہ کی شدیدتکلیف میں مبتلا ہیں بھائی صاحب قدیم مخلصین میں سے ہیں۔ احباب ان سب بیمار دوستوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں
‎(مطبوعہ ۵؍فروری ۱۹۵۰ئ)







چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گزشتہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے امداددرویشان کی مد میں رقوم موصول ہوئی ہیں۔ ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے اور دین ودنیا میں حافظ وناصر ہو۔ وجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء
۱
بابو عبدالرحمن صاحب مصری شاہ لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۲
۲
قاضی بشیراحمد صاحب بھٹی حال راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔ ۵
۳
قاضی بشیراحمد صاحب بھٹی مذکور صدقہ برائے مستحق درویشان
۰ ۔ ۰۔۵
۴
ساکنین حلقہ بلاک الف ربوہ جمع کردہ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی
۰ ۔۱۲۔ ۵۱
۵
اہلیہ سیدسردار حسین شاہ صاحب اوور سیرٔ حال عارف والہ
۰ ۔ ۰۔۵
۶
ناظر اعلیٰ صاحب نمبردار کھوکھر حال چک نمبر ۶۰ ضلع لائل پور
۰ ۔ ۰۔۵
۷
فیض اللہ صاحب مدرس ملتان
۰ ۔ ۰۔۵
۸
چوہدری قائم الدین صاحب آف خان فتاح حال مانگا تحصیل پسرور
۰ ۔ ۰۔۵
۹
لفٹیننٹ سعید الحسن صاحب پشاور
۰ ۔ ۰۔۱۰
۱۰
اہلیہ اخوند محمد اکبر صاحب ملتان
۰ ۔ ۰۔۵
۱۱
عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد حسین صاحب آف قادیان حال جھنگ مگھیانہ
۰ ۔ ۰۔ ۵
۱۲
عبداللطیف صاحب ہزاروی سوداگر چوب ضلع ہزارہ
۰ ۔ ۰۔۰ ۲
۱۳
ہمشیرہ سعد اللہ خان صاحب ترنگ زئی پشاور
۰ ۔ ۰۔۵
۱۴
امتہ اللطیف بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد طفیل صاحب
انسپکٹر بیت المال نواب شاہ (سندھ)
۰ ۔ ۰۔۵
۱۵
چوہدری فقیر محمد صاحب ڈی ۔ایس ۔پی راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔۸
۱۶
اللہ بخش صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر کوہ مری حال راولپنڈی صدقہ برائے مستحق درویشان
۰ ۔ ۰۔۵
۱۷
مرزا حاکم بیگ صاحب جھنگ
۰ ۔ ۰۔۰ ۲
۱۸
اہلیہ ابوالفضل محمود صاحب لاہور
۶۔۱۔۰
۱۹
مرزا محمد شریف بیگ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل جھنگ
۰ ۔ ۰۔۵
۲۰
عبدالسمیع صاحب صدیقی آئس فیکٹری روڈ چٹاگانگ
۰ ۔ ۰۔ ۲
۲۱
ہمشیرہ صاحبہ ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب قلعہ شیخوپورہ
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۲۲
بھانجی صاحبہ ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب مذکور
(غریب درویشوں میں بطور صدقہ گوشت تقسیم کرنے کے لئے
۰ ۔ ۰۔۵
۲۳
چوہدری نادر علی صاحب فارم مینجر اقبال نگر منٹگمری
۰ ۔ ۰۔ ۹۰
۲۴
فیاض محمد خان صاحب فیاض ٹی سٹال ربوہ
۰ ۔ ۰۔۵
۲۵
حکیم نظام دین صاحب لاہور
۰ ۔ ۴۔۴
۲۶
ملک منظور احمد صاحب ہریکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۱
۲۷
شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال تاجر ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰ ۔ ۰۔۵
۲۸
شیخ قدرت اللہ صاحب آف قادیان حال تاجر ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰ ۔ ۰۔۵
۲۹
شیخ عظمت اللہ صاحب آف قادیان حال تاجر ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰ ۔ ۰۔۵
۳۰
بشیر الدین صاحب طاہر سیالکوٹ پسر ماسٹر خیرالدین صاحب
۰ ۔ ۰۔۱۵
۳۱
غلام مجتبیٰ صاحب کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔۳
۳۲
اہلیہ غلام مجتبیٰ صاحب کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔ ۲
۳۳
شیخ احمد علی صاحب سٹیشن ماسٹر بسال ضلع کیمل پور
۰ ۔ ۰۔۵
۳۴
شیخ چراغ الدین صاحب آف محلہ دارالفضل قادیان
۰ ۔ ۰۔۵
۳۵
شیخ محمد علی صاحب آف محلہ دارالفضل قادیان
۰ ۔ ۰۔۵
۳۶
رشیدہ بیگم صاحبہ آف محلہ دارالفضل قادیان
۰ ۔ ۰۔۵
۳۷
حکیم فتح محمد صاحب بمقام ڈگری (سندھ) درویشوں میں شیرینی تقسیم کرنے کے لئے
۰ ۔ ۰۔ ۵
۳۸
ممتاز بیگم صاحبہ بذریعہ حکیم مرغوب اللہ صاحب قلعہ شیخوپورہ صدقہ برائے مستحق دریشان
۰ ۔ ۰۔۱۰
۳۹
حمیدہ عفت صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب برمی لاہور
۰ ۔ ۰۔۵
۴۰
ظفر الدین احمد صاحب حال شیخوپورہ
۰ ۔ ۰۔۱۰
۴۱
چوہدری اللہ رکھا صاحب بنگلا بڑا گھر براستہ سیدوالا
۰ ۔ ۰۔۵
۴۲
محمودہ خانم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد صادق صاحب آف کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۳
مرزا محمد صادق صاحب کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۴
اختری خانم صاحبہ کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔ ۵
۴۵
محمد احمد صاحب پسر شیخ محمد لطیف صاحب آف گوجرانوالہ حال ملتان
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۶
طاہر احمد صاحب برادر محمد احمد صاحب مذکور
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۷
بیگم لفٹیننٹ اسلم صاحب منہاس
۰ ۔ ۰۔۱۰
۴۸
لفٹیننٹ اسلم صاحب منہاس مذکور
۰ ۔ ۰۔۵
۴۹
سید منظور علی شاہ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ
۰ ۔ ۰۔۵
۵۰
والدہ گلزار احمد صاحب آف کلکتہ حال چنیوٹ برائے صدقہ بکرا قادیان
۰ ۔ ۰۔۵
۵۱
ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کھڈیاں ضلع لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۲

۶۔۱۔ ۱۳۹
بقیہ فہرست آئندہ شائع کی جائیگی

‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍فروری ۱۹۵۰ئ)






ڈاکٹر غفور الحق صاحب کا افسوسناک انتقال
ڈاکٹر غفورالحق صاحب جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اولڈ بوائے اور ایک مخلص احمدی اور آجکل کوئٹہ کے چوٹی کے ڈاکٹر تھے کل بروز جمعرات ساڑھے پانچ بجے شام کے قریب میوہسپتال لاہور میں انتقال کرگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون ۔ڈاکٹر موصوف اپنے اہل وعیال کو راولپنڈی سے لانے کے لئے کوئٹہ سے آئے تھے۔ اور رستہ میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے لاہور ٹھہر گئے ۔ اس شب انہیں دل کا سخت حملہ ہوا اور فوراً میوہسپتال پہونچادیئے گئے۔ پہلے حملہ کے بعد طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ چنانچہ جب میں انہیں ہسپتال میں دیکھنے گیا تو اس وقت طبیعت سنبھلی ہوئی تھی۔ لیکن تیسرے دن دوسرا حملہ ہوا اور بالآخر جمعرات کی شام کو ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مولا کے حضور پہنچ گئے۔
وفات کے وقت مرحوم کی عمر صرف ۴۵ سال تھی۔ چنانچہ ابھی تک مرحوم کی ساری اولاد کم سن ہے وفات سے چاریوم قبل ان کے چچازاد بھائی ڈاکٹر سراج الحق صاحب ان کے اہل وعیال کو لیکر لاہور پہنچ گئے تھے۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ ان کی بیوی بچوں کی ملاقات ہوگئی لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے حقیقی بھائی فیض الحق خانصاحب اور ضیاء الحق صاحب اور مرحوم کے خسر شیخ فضل الرحمن صاحب نہیں پہنچ سکے۔ البتہ شیخ فضل الرحمن صاحب ربوہ روانہ ہونے سے قبل لاہور پہنچ گئے تھے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے ڈاکٹر غفورالحق صاحب کوئٹہ میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے تھے اور وہاں کے چوٹی کے ڈاکٹر تھے۔ گذشتہ دوسال جبکہ حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کوئٹہ تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کوحضور کی خدمت کی خاص سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ اور حضور بھی مرحوم کے اخلاص کی وجہ سے ان کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ چنانچہ جب حضور کو ڈاکٹر صاحب کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو حضور نے تار کے ذریعہ ان کی خیریت دریافت فرمائی۔
مرحوم جن کا اصل وطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور تھا بہت ملنسار مہمان نواز۔ خدمت گذار اور دوستوں کے لئے دلی خوشی سے قربانی کرنے والے نوجوان تھے۔ جنازہ بذریعہ لاری ربوہ بھجوایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے۔ اور ان کی اہلیہ اور بچوں اور بوڑھی والدہ اور دیگر عزیزوں کا حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)
قادیان کے تازہ حالات
درویشوں کی طرف سے سلام اور ہمدردی کا پیغام
(۱) جو درویش قادیان میں بیمار تھے انہیں خدا کے فضل سے آہستہ آہستہ افاقہ ہورہا ہے۔ بابااللہ دتا صاحب اب پہلے کی نسبت کسی قدر اچھے ہیں شیخ غلام جیلانی صاحب کابلس بول کے تعلق میں ابتدائی اپریشن دھاریوال میں ہوچکا ہے۔ اور خدا کے فضل سے اچھا ہوا ہے اور بڑا اپریشن چند دن تک ہوگا۔ محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی دردگردہ کی وجہ سے ایک ہفتہ سے صاحب فراش رہنے کے بعد اب خدا کے فضل سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مولوی برکات احمد صاحب ناک اور گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیرعلاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کا حافظ وناصر ہو۔ آمین
(۲) قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد تین نئے احمدی دوست ہندوستان کے مختلف حصوں سے آکر قادیان میں آباد ہوئے ہیں۔
(۳) صحت اور تفریح کی خاطر سے ہمارے قادیانی احباب ورزش اور کھیلوں میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ گذشتہ دنوں میں ایک والی بال کا ٹورنامنٹ بٹالہ میں ہوا تھا جس میں قادیان کی احمدیہ ٹیم ضلع بھر کی غیرمسلم ٹیموں میں اول آئی جس کے انعام میں اسے ایک بڑا کپ اور چھ چھوٹے کپ ملے ہیں۔دراصل خدا نے انسانی زندگی کا ایسا قانون مقرر فرمایا ہے کہ جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔ اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے۔ اور روح کی چستی اور شگفتگی کے لئے ایک حد تک صحت کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے ہمارے قادیان کے دوست عبادتوں اور نوافل اور دعائوں کے پروگرام کے علاوہ جسمانی ورزشوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے ہیں۔
(۴)بعض دوست قادیان کے درویشوں کو اپنے سامان وغیرہ کے متعلق لکھتے رہتے ہیں اس تعلق میں امیرصاحب قادیان لکھتے ہیں کہ اپنے دوستوں کو یادرکھنا چاہیئے کہ موجودہ قانون کے ماتحت متروکہ سامان مقامی حکومت کے زیر قبضہ متصور ہوتا ہے اور باہر نہیں جاسکتا۔ پس اس قسم کے خطوط قادیان بھیج کر اپنے دوستوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیئے۔
(۵) بالآخر میں پاکستان کے دوستوں کو قادیان کے دوستوں کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔ سلام کے علاوہ وہ اپنے ان سب بھائیوں کو دلی ہمدردی کا پیغام بھی بھیجتے ہیں جن کے عزیزوں اور رشتہ داروں نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد پاکستان میں وفات پائی ہے یعنی پسماندگان منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی مرحوم اور پسماندگان خان محمد اکرم خان صاحب شہید چارسدہ اور پسماندگان مولوی غلام حسین صاحب مرحوم ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز جھنگ اور پسماندگان والدہ صاحبہ کیپٹن ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب پشاور یعنی اہلیہ صاحبہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش اور پسماندگان اہلیہ صاحبہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم آف لاہور اور پسماندگان میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم سنوری اور پسماندگان ڈاکٹر اقبال غنی صاحب مرحوم کراچی اور پسماندگان حافظ محمد امین صاحب سابق محلہ ناصر آباد قادیان حال کیملپور اور پسماندگان ڈاکٹر غفورالحق صاحب آف کوئٹہ اور قادیان کے دوست ان سب کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی انہیں اپنی خاص دعائوں میں یادرکھیں۔وکان اللّٰہ معہم ومعنا اجمعین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)







بابااللہ دتا صاحب درویش کا انتقال
بابا اللہ دتا صاحب متوطن دوالمیال حال درویش قادیان کی تشویشناک علالت کی اطلاع الفضل میں چھپ چکی ہے اس کے بعد انہیں افاقہ ہوگیا تھا۔ چنانچہ اپنے کل کے نوٹ میں میں نے ان کے افاقے کا ذکر بھی کیاتھا۔ لیکن اس کے بعد اچانک قادیان سے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع ملی ہے کہ بابا اللہ دتا صاحب موصوف کل بروز جمعہ بوقت پانچ بجے شام فوت ہوگئے ہیں۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
وہ دماغی ملیریا کے نتیجہ میں کافی عرصہ بے ہوش بھی رہے لیکن اس کے بعد طبیعت کسی قدر سنبھل گئی۔ اور بے ہوشی کے آثار بھی جاتے رہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ موت سے پہلے کا سنبھالا تھا۔ چنانچہ وہ مورخہ۱۰؍ فروری ۱۹۵۰ء کی شام کو وفات پاکر اپنے آسمانی آقا کے حضور پہنچ گئے۔ قادیان میں یہ پانچویں درویش کی وفات ہے کیونکہ اس سے قبل حافظ نور الٰہی صاحب اور بابا شیر محمد صاحب اور میاں سلطان احمد صاحب اور میاں مجید احمد صاحب ڈرائیور فوت ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحوم دوستوں کی روحوں کو اپنے خاص فضل ورحمت کے سایہ میں جگہ دے۔ اور ان کے پسماندگان کا حافظ وناصر ہو۔ آمین
قادیان کے درویش اس وقت ایسے حالات میں سے گزررہے ہیں کہ میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ ان میں سے جو دوست اخلاص اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنے عہد کو آخر تک نبھائیں گے وہ انشاء اللہ خدا سے خاص اجر پائیں گے۔ اور ان کے وہ رشتہ دار بھی جو اس قربانی میں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کے معین ومددگار بنیں گے وہ بھی یقینا ثواب سے محروم نہیں رہیں گے۔میں بابا اللہ دتا صاحب مرحوم کی وفات پر احباب قادیان اور احباب دوالمیال اور بابا صاحب مرحوم کے رشتہ داروں کے ساتھ تمام جماعت کی طرف سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)


زُھد وعبادت کی جیتی جاگتی تصویر
بابا اللہ دتا صاحب درویش مرحوم کے متعلق قادیان سے اطلاع
بابا اللہ دتا صاحب مرحوم سکنہ دوالمیال درویش قادیان کی وفات کی اطلاع الفضل میں چھپ چکی ہے۔ اب ان کے متعلق قادیان سے یہ خبر پہنچی ہے جو اذکرواموتاکم بالخیر۷کے حکم کے ماتحت شائع کرارہا ہوں کہ بابا اللہ دتا صاحب مرحوم نہایت نیک اور مخلص اور عبادت گزار بزرگ تھے اور اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بھی تھے ان کے متعلق امیر صاحب قادیان کے الفاظ یہ ہیں کہ:
’’مرحوم اخلاص اور زہد وعبادت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے۔‘‘
انہوں نے نہایت صبر اور رضا اور محبت کے ساتھ قادیان میں درویشی زندگی گزاری اور اپنے عہد کو ہر جہت سے پورا کردکھایا۔ وہ زیادہ تر مقبرہ بہشتی میں رہتے تھے اور وہاں کی حفاظت اور خدمت میں خاص انہماک رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا حافظ وناصر ہو۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)




خیر خواہانِ پاکستان سے درمندانہ اپیل
خدا کے لئے وقت کی نزاکت کو پہچانو!
افسوس صد افسوس کہ قائداعظم مرحوم کی وفات کے بعد اتنی جلد بعد ہی پاکستان میں ایک ایسا عنصر پیدا ہورہا ہے جو اپنی تباہ کن پالیسی سے قائداعظم کے زندگی بھر کے کام کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔ اور ایک دوسرا طبقہ اپنی سادہ لوحی میں اس فتنے کو ہوا دے رہا ہے۔ قائداعظم نے اپنی ساری زندگی اس کوشش میں وقف کر رکھی تھی کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگ اپنے بعض مذہبی اختلافات کے باوجود سیاسی میدان میں ایک نقطہ پر جمع ہوجائیں۔ چنانچہ ان کی یہ کوشش خدا کے فضل سے کامیاب ہوئی اور مسلمانوں نے پاکستان کے وجود میں قائداعظم کی انتھک مساعی کا پھل پالیا لیکن افسوس ہے کہ قائداعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی ملک کے اس طبقہ نے جو اپنی گوناگوں اغراض کے ماتحت مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں اپنے مقاصد کی تباہی کے آثار دیکھ رہا ہے قائداعظم کی اس پالیسی کے خلاف ملک میں افتراق وانشقاق کا بیج بونا شروع کردیا ہے چنانچہ:-
(۱) کہا جاتا ہے کہ احمدیہ جماعت (نعوذباللّٰہ من ذالک) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی منکر ہے اور اس لئے وہ اس بات کی حقدار نہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں شریک کی جائے اورنہ ہی وہ پاکستان میں مسلمانوں کا حصہ بن کر رہنے کے قابل ہے۔ یہ اعتراض کتنا غلط، کتنا بے بنیاد اور کتنا خلاف واقعہ ہے!۔ خدا جانتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہٗ نفسی) کو سچے دل سے اور کامل یقین کے ساتھ خاتم النبیّین مانتے ہیں اور آپ کی نبوت کے دامن کو قیامت تک وسیع جانتے اور قرآنی شریعت کو خدا کی آخری اور دائمی شریعت یقین کرتے ہیں جس کا کوئی فقرہ اور کوئی لفظ اور کوئی حرف کبھی منسوخ نہیں ہوسکتا۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح خاتم النبییّن یقین کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی، مجدد الف ثانی ؒ اور حضرت سیّد ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی مجدد صدی دوازدھم اور جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی ٔ مدرسہ دیوبند حضورسرورِ کائنات علیہ السلام کو خاتم النبیین یقین کرتے تھے۔ اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتے ہیں اور خدا کی *** ہے اس شخص پر جو جھوٹادعویٰ کرتا ہے۔
(۲)کہا جاتا ہے کہ نعوذباللّٰہ ہم پاکستان کے غدار ہیں اور پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوستان کی وفاداری کادم بھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں بھی ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ *** اللّٰہ علی الکاذبین۔ خدا کے فضل سے پاکستان کا ہر احمدی سچے دل سے پاکستان کا وفادار اور دلی خیرخواہ ہے اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور کوئی ایک لفظ یا ایک حرف بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس میں پاکستان کے کسی احمدی نے پاکستان سے غداری یا ہندوستان کی وفاداری کا کوئی کلمہ کہا ہو۔ باقی رہے ہندوستان کی حکومت میں بسنے والے احمدی سو جس طرح ہندوستان کے دوسرے مسلمان اپنی سیاسی حکومت کے شہری ہیں اسی طرح ہندوستان کے احمدیوں کا حال ہے اور قائداعظم مرحوم کی بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہی نصیحت تھی کہ تم جس حکومت میں رہو اس کے وفادار ہوکر رہو۔ چنانچہ قائداعظم کے متعلق اخبار زمیندار لکھتا ہے کہ:
’’ہمارے قائداعظم باربار اعلان کرچکے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان کو اپنی حکومت کا وفادار رہنا چاہیئے۔‘‘ ۸
بہرحال دنیا بھر کا یہی مسلمہ اصول ہے کہ جو قوم بہت سے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہو وہ سیاسی لحاظ سے لازماً اپنے اپنے ملک کے وفادار شہری بن کر رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا پختہ اور تسلیم شدہ اور عالمگیر اصول ہے کہ کوئی دانا شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ کسی پاکستان میں رہنے والے احمدی نے کبھی ہندوستان کی وفاداری کا دم بھرا ہو۔ پس خدا کے لئے جھوٹے الزامات لگا کر ملک کی فضا کو مکدر نہ کرو۔
(۳) کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے رکن چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحب نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے خود اپنے ہاتھوں سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کے سپردکردیا۔ اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کی حالت پر انا ﷲ واناالیہ راجعون کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ چوہدری صاحب موصوف کو اس کام پر خود قائد اعظم مرحوم نے مقرر کیا تھا اور پھر ہزاروں مسلمانوں اور ہندوئوں اور سکھوں کے سامنے چوہدری صاحب نے قائداعظم کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کی نمائندگی کی اور اس قابلیت کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے بحث کی کہ اپنوں اور بیگانوں نے انہیں غیرمعمولی خراج تحسین ادا کیا۔ یہ کارروائی روزانہ قائداعظم کے پاس پہنچتی تھی اور گورنمنٹ کے دفاتر میں اس کی نقل جاتی تھی اور روزانہ اخباروں میں چھپتی تھی اور سینکڑوں مسلمان اس کارروائی کو اپنے کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے تھے۔چنانچہ بحث کے اختتام پر چوہدری صاحب کی بے انتہا تعریف کی گئی اور ان کی خدمات کو بے حد سراہا گیا۔ مثلاً چوہدری صاحب کے کام کے متعلق اس زمانہ کے ایک مؤقر اسلامی اخبار نے لکھا کہ:-
’’حدبندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا …… چاردن چوہدری سر محمد ظفراللہ خانصاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل نہایت فاضلانہ……نہایت معقول بحث کی۔ کامیابی بخشنا خد ا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ چوہدری سر محمد ظفراللہ خانصاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا۔ اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہوگیا کہ ان کی طرف سے حق وانصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے اربابِ اختیار تک پہنچادی گئی ہے…… ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکرگذار ہوں گے۔‘‘ ۹
یہ تو اس زمانہ میں پبلک کی رائے تھی لیکن اب اتنے سال گذرجانے کے بعد ان کے متعلق بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی دلیل کے بے وفائی اور غداری کا الزام لگایا جارہا ہے۔ تعصب کا ستیاناس ہو۔ بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیئے !!
پھر چوہدری صاحب نے نہ صرف عام پاکستانی کیس کو نہایت قابلیت کے ساتھ پیش کیا بلکہ (کشمیر کے آنے والے خطرات کے پیش نظر) گورداسپور کے متعلق خاص طور پر زوردیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے اور اعدادوشمار اور دلائل سے ثابت کیا کہ وہ ایک مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور دوسرے مسلم علاقوں کے ساتھ ملتا بھی ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اسے پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں ڈالا جائے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ باوجود اس مخلصانہ اور وفادارانہ خدمت کے اب چوہدری صاحب پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے گورداسپور کا ضلع اپنے ہاتھوں سے ہندوستان کے سپرد کردیا۔ کیا ایک وفادار قومی کارکن کی بے لوث خدمت کا یہی بدلہ ہے کہ ضرورت کے وقت تو اس سے خدمت لی جائے اور وقت گذرجانے کے بعد اسے غدار کہہ کر لوگوں میں مطعون کیا جائے !!
پھر کیا چوہدری صاحب پر اعتراض کرنے والے لوگ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر جماعت احمدیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو دیا تھا اور وہ ہندوستان کی حکومت کو ترجیح دیتی تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیان میں ہندوستانی حکومت قائم ہوجانے پر وہ خود قادیان سے نکل کر پاکستان آگئی۔ کیا چوہدری صاحب نے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو اس لئے دیا تھا کہ اس کے بعد ان کی قوم قادیان کو چھوڑ کر اور اتنی مصیبتیں اٹھا کر پاکستان آجائے؟ خدارا سوچو کہ کیا کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی ایسی مجنونانہ بات کر سکتا ہے؟
(۴)کہا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب یو۔این۔او کے سامنے کشمیر کو ہندوستان کے پاس فروخت کررہے ہیں ۔ میں اس پر پھر اناﷲ وانا الیہ راجعون کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں۔چوہدری صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ یو۔این۔او میں کشمیر کے کیس پر بحث کی ہے وہ دنیا کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے جسے اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں ایک مؤقر اسلامی اخبار نے چوہدری صاحب موصوف کی یو۔این۔او کی آخری تقریر کے متعلق لکھا ہے کہ:-
’’یہ امر ہر لحاظ سے باعثِ مسرت ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی مقدمہ کے تاروپودبکھیر کر پاکستانی وزیرخارجہ نے ساری دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برخلاف پاکستان کا کشمیر سے جغرافیائی۔ اقتصادی ۔مذہبی اور تمدنی اعتبار سے ہمیشہ کا قریب ترین تعلق ہے…… اس سے مقرر کی غیرمعمولی قوتِ تقریر اور محنت ہی کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ خود مسئلہ زیر بحث کی صداقت بھی آشکار ہوتی ہے۔‘‘ ۱۰
اس کے مقابل پر چوہدری صاحب کی زوردار تقریروں سے ہندوستانی حلقوں میں تو ایک گونہ دہشت کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ پھر کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ چوہدری صاحب اس خدمت پر اپنے آپ نہیں لگ گئے بلکہ خود قائداعظم نے انہیں اس خدمت پر لگایا تھا اور پھر قائداعظم کے بعد پاکستان کی حکومت نے انہیں اس خدمت پر برقرار رکھا۔ اگر حکومت کے نزدیک وہ اس خدمت کے اہل نہیں یا نعوذباللہ پاکستان سے غداری کررہے ہیں تو کسی نے حکومت کا ہاتھ پکڑا ہوا نہیں ہے۔ وہ انہیں جب چاہتی الگ کرسکتی ہے۔
یادرکھو! ابھی تک پاکستان بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اسے ابھی کئی بھاری مسائل کو حل کرنا ہے۔ پس خدا کے لئے اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے والے نہ ہو۔ قائداعظم نے سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے پاکستان کا دروازہ کھولا مگر آپ اس دروازہ کو بعض لوگوں پر بند کرنا چاہتے ہیں۔ قائداعظم نے ایک شخص کو قابل سمجھ کر اسے پاکستان کی خدمت کے لئے چنا مگر آپ اسے نالائق کہتے ہیں۔ پھر قائداعظم نے ایک شخص کو وفادار یقین کرکے اسے اپنا نمائندہ بننے کے لئے انتخاب کیا مگر آپ اسے غدار اور وطن فروش گردانتے ہیں۔ یادرکھو! کہ حکومتیں بنانی آسان ہوتی ہیں لیکن قائم رکھنی مشکل اور بہت مشکل ۔ دنیا کی تاریخ آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ کس طرح گزشتہ اسلامی حکومتیں افتراق وانشقاق سے تباہ ہوئیں۔ پس خدارا پاکستان پر تو یہ مہلک نسخہ نہ آزمائو کہ ابھی تو وہ صرف ایک نوزائیدہ بچہ ہے۔ آگے آپ لوگوں کا اختیار ہے۔
وماعلینا الا البلاغ ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل۲۳؍فروری ۱۹۵۰ئ)








تازہ فہرست چندہ امداد درویشاں
سابقہ اعلان کے بعد مندرجہ ذیل بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے مندرجہ ذیل رقوم امداد درویشاں کی مد میں موصول ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں جزائے خیر دے۔ آمین
۱
سیّد محمد صادق صاحب ہاشمی ڈیرہ غازیخان بذریعہ ملک عبدالوحید صاحب سلیم لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۵
۲
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی منڈی مرید کے
۰ ۔ ۰۔ ۵
۳
مرزا بشیر احمد صاحب آف لنگروال راولپنڈی چھاؤنی
۰ ۔ ۰۔۵
۴
سیّد محمد صادق صاحب ہاشمی ڈیرہ غازی خاں
۰ ۔۰۔۷
۵
والدہ صاحبہ ڈاکٹر اختر صاحب لاہور
۰ ۔ ۰۔۴
۶
ڈاکٹر منیر احمد خالد صاحب نمبر ۵ فیلڈ ایمبولینس کوہالہ
۰ ۔ ۰۔۱۰
۷
عبیدالرحمن صاحب ارشد کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔۳
۸
ابو الفضل محمود صاحب لاہور
۰ ۔ ۴۔۰
۹
فلائٹ لفٹنٹ ملک بشیر احمد صاحب لاہور چھاؤنی
۰ ۔ ۰۔۲۰
۱۰
رفاقت بیگم صاحبہ معرفت محمد طفیل صاحب سیالکوٹ
۰ ۔ ۰۔۵
۱۱
سعد اﷲ خاں صاحب ترنگ زئی پشاور
۰ ۔ ۰۔ ۷
۱۲
ڈاکٹر ایس اے لطیف صاحب آف عدن بذریعہ شیخ فضل حق صاحب کراچی
۰ ۔ ۰۔۵
۱۳
چوہدری غلام قادر صاحب رام نگر لاہور بذریعہ جلیل احمد صاحب لاہور
۰ ۔ ۸۔۲
۱۴
ملک غلام نبی صاحب آف کھارا حال ضلع حیدر آباد سندھ
۰ ۔ ۰۔۵
۱۵
جمعدار شرافت احمد خاں صاحب راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔۵
۱۶
ظفراﷲ خاں صاحب فوڈگرین سپروائزر عارف والہ ضلع منٹگمری
۰ ۔ ۰۔۵
۱۷
قاضی عبدالرحمن صاحب معاون شخصی ناظر اعلیٰ ربوہ از طرف خود و اہل و عیال
۰ ۔ ۰۔۷
۱۸
سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد شریف صاحب پٹھانکوٹی حال بدوملہی
۰ ۔ ۰۔۵
۱۹
سردار رحمت اﷲ صاحب ولد ڈاکٹر فیض علی صاحب زمیندار خانپور
۰ ۔ ۰۔۲۰
۲۰
ملک نذیر احمد صاحب ڈار سیالکوٹی حال مشرقی افریقہ
۰ ۔ ۰۔ ۳۰
۲۱
محمد سلیمان صاحب ملتان چھاؤنی
۰ ۔ ۰۔ ۲
۲۲
فضل الرحمن صاحب ملتان چھاؤنی
۰ ۔ ۰۔۲
۲۳
اہلیہ صاحبہ ممتاز علی خان صاحب۔ سنٹرل جیل لاہور
۰ ۔ ۰۔۲۵
۲۴
چوہدری عنایت اﷲ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ کرم بخش
ضلع سیالکوٹ اپنے مرحوم بیٹے کی طرف سے
۰ ۔ ۰۔۲۰
۲۵
قاضی محمد ابراہیم صاحب مدرس کھرولیاں ضلع سیالکوٹ
۰ ۔ ۰۔۱
۲۶
امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ حیدر آبادی اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر
مبلغ امریکہ برائے صدقہ بکرا قادیان
۰ ۔ ۰۔۳۰
۲۷
ملک محمد مقبول صاحب شیخوپورہ بچی کی پیدائش پر
احباب قادیان میں تقسیم کرنے کے لئے
۰ ۔ ۰۔۲۵
۲۸
حوالدار محمد اسمٰعیل صاحب جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی برائے بکرا صدقہ قادیان
۰ ۔ ۰۔۲۰
۲۹
عفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسیٰ جان صاحب کوئٹہ صدقہ برائے مستحق درویشاں
۰ ۔ ۰۔۲
۳۰
اہلیہ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آباد دکن لاہور
۰ ۔ ۰۔۱۰
۳۱
خدا بخش صاحب نیا محلہ راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔۵
۳۲
اہلیہ ڈاکٹر گوہر دین صاحب میڈیکل آفیسر ٹمن ضلع اٹک
۰ ۔ ۰۔۱۰
میزان:
۰۔۱۲۔ ۳۵۷
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍فروری ۱۹۵۰ئ)




آئندہ تبادلہ کی رقوم مجھے نہ بھجوائی جائیں
موجودہ حالات میں درویشوں اور ان کے رشتہ داروں کی سہولت کے لئے میرے دفتر کی طرف سے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ادھر سے قادیان جانے والی رقوم اور قادیان سے ادھر آنے والی رقوم کو آپس میں ایک دوسرے کے مقابل پر کاٹ کر حساب کر لیا جاتا تھا مگر یہ انتظام میرے دفتر میں پیچیدگی پیدا کر رہا ہے اور بہر حال چونکہ اس قسم کے حسابی لین دین کا کام دفتر محاسب ربوہ کے سپردہے اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ میر ادفتر یہ کام سر انجام نہیں دے گا۔ پس جو دوست تبادلہ رقوم کی سہولت حاصل کرنا چاہیں یا قادیان میں اپنے کسی عزیزی کو کوئی رقم بھجوانا چاہیں تو وہ دفتر محاسب ربوہ کے ساتھ خط و کتابت فرمائیں اور ازراہ مہربانی آئندہ کوئی ایسی رقم مجھے نہ بھجوائی جائے۔ البتہ چند ہ امداد درویشاں کی رقم میرے نام بھیجی جاسکتی ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)






بعض متفرق سوالوں کا جواب
جہاد بالسّیف کے مسئلہ میں جماعت احمدیہ کا مسلک
بعض بھائیوں اور بہنوں نے مجھے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میں الفضل کے ذریعہ ان سوالوں کا جواب دوں تاکہ دوسرے دوست بھی فائدہ اٹھاسکیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آجکل میری طبیعت اچھی نہیں اور بلڈ پریشر کی زیادتی اور نبض کی تیزی اور دل کی دھڑکن وغیرہ کی وجہ سے کئی دن سے بستر میں ہوں اور ڈاکٹر نے زیادہ حرکت کرنے اور زیادہ محنت اٹھانے سے منع کیا ہے مگر دوسری طرف مجھے دوستوں کی خواہش کا بھی احترام ہے اور پھر جب تک اور جہاں تک ہمت ہے اپنی زندگی کو بیکار کرکے رکھ دینے پر بھی طبیعت راضی نہیں ہوتی۔ اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کے بعض سوالوں کا جواب نمبر وار لکھانے کی کوشش کروں گا۔ اس نمبر میں جہاد بالسیف کے سوال کو لیتا ہوں اگر اس مختصر جواب سے تسلی نہ ہو تو انشاء اللہ آئندہ کسی وقت مفصل جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم
ایک دوست نے لکھا ہے کہ غیراز جماعت اصحاب کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کو منع کرکے نہ صرف قرآن شریف کا ایک اہم حکم منسوخ قرار دیدیا ہے۔ بلکہ مسلمانوں میں بزدلی اور پست ہمتی کے جذبات بھی پیدا کردیئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس اعتراض کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کا حکم منسوخ کردیا ہے۔ قرآنی شریعت دائمی شریعت ہے اور اس کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منصب ہے کہ وہ کسی قرآنی حکم کو منسوخ قراردیں کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہیں اور ایک خادم اور تابع کا یہ مقام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مخدوم اور متبوع کا کوئی حکم منسوخ کرے۔ پس یہ اعتراض محض جھوٹا اور بے بنیادہے جو لوگوں کو ہمارے خلاف اکسانے کیلئے ہمارے مخالفین نے مشہور کررکھا ہے۔ ہماری جماعت نے تو خدا کے فضل سے ان قرآنی آیتوں کو بھی قائم اور غیر منسوخ ثابت کیا ہے جنہیں بہت سے دوسرے مسلمان منسوخ قراردیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تکرار اور صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں اور نہ ہوسکتا ہے۔
دراصل جس بات کو نہیں سمجھا گیا وہ یہ ہے کہ شریعت کے بعض احکام بعض خاص حالات کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں یعنی بعض خاص قسم کے حالات میں ایک قسم کا حکم چلتا ہے۔ اور بعض دوسری قسم کے حالات میں دوسری قسم کا حکم نافذ ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن شریف حج کا حکم دیتا ہے مگر اس کے ساتھ یہ واضح شرط لگاتا ہے کہ ایک تو حج کرنے والے کے پاس حج کا خرچ موجود ہو اور دوسرے اس کے لئے رستہ میں امن بھی ہو۔ اب اگر کسی مسلمان کو یہ دونوں باتیں میسر ہوں گی تو اس پر حج فرض ہوگا اور اگر یہ باتیں میسر نہیں ہونگی تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا مگر حج فرض نہ ہونے کی صورت میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسے شخص کے لئے حج کی آیت منسوخ ہوگئی ہے۔ یہی حال جہاد بالسیف کا ہے کہ وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی کافر قوم مسلمانوں کے خلاف ان کے دین کو مٹانے اور اسلام کو نابود کرنے کی غرض سے تلوار اٹھائے اور ان حالات کی بنا پر مسلمانوں کی جماعت کا امام جہاد بالسیف کا فتویٰ دے۔ پس جہاں کہیں بھی اس قسم کے حالات پیداہوں گے جہاد بالسیف فرض ہوجائے گا اور جہاں یہ حالات نہیں ہونگے وہاں جہاد جائز نہیں رہے گا۔
اس کی موٹی مثال صلح حدیبیہ کے حالات میں ملتی ہے۔ مکہ کے قریش نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تلوار اٹھائی اور اسلام کو طاقت کے زور سے مٹانا چاہا۔ جس پر مناسب اتمام حجت کے بعد قرآن نے بھی ان کے خلاف جہاد بالسیف کا حکم دیا اور یہ خونریز لڑائی برابر چھ سال تک جاری رہی لیکن جونہی کہ قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے میدان میں صلح کی شرائط طے کیں اور ان کی طرف سے جبرفی الدین کی کیفیت باقی نہ رہی تو باوجود اس کے کہ وہ اب بھی اسلام کے دشمن تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف تلوار کا جہاد فوراً بند کردیا۔ یہ مثال جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک نہایت اہم اور معروف ومشہور واقعہ سے تعلق رکھتی ہے قطعی طور پر ثابت کرتی ہے کہ جہاد بالسیف کا حکم صرف خاص حالات کے ساتھ مشروط ہے اور جب یہ حالات مفقود ہوں تو تلوار کے جہاد کا حکم وقتی طور پر معلق ہوجاتا ہے۔ غور کرو کہ اگر جیسا کہ ہمارے معترض صاحبان خیال کرتے ہیں تلوار کا جہاد ہر حالت میں ہر کافر قوم کے خلاف فرض ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد کفار مکہ کے خلاف جہاد کیوں بند کیا۔ حالانکہ وہ اس صلح کے بعد بھی کافر اور دشمنِ اسلام تھے؟
یہی صورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ کی ہے آپؑ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اب تلوار کا جہاد ہمیشہ کے لئے بند ہے اور یہ کہ نعوذباللہ قرآن شریف کی متعلقہ آیات منسوخ ہوگئی ہیں۔ بلکہ آپؑ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار سے کام نہیں لے رہی اس لئے موجودہ حالات میں (صلح حدیبیہ کے ایام کی طرح) جہاد بالسیف کا حکم ملتوی سمجھا جائے گا چنانچہ آپؑ اپنی ایک مشہور نظم میں فرماتے ہیں:-
کیوں بھولتے ہو تم یَضَعُ الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفی ؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا ۱۱
ان اشعار میں التوا کا لفظ جس کے معنی وقتی طور پر پیچھے ڈالنے یا معلق کرنے کے ہیں۔ کتنا واضح اور کتنا صاف ہے! اور یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہادبالسیف کے حکم کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ صرف موجود الوقت حالات کے ماتحت (صلح حدیبیہ کے ایام کی طرح) معلق اور ملتوی قراردیا ہے۔ پھر اس التواکی تشریح کرتے ہوئے اگلے شعر میں فرماتے ہیں کہ:-
یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا
بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا ۱۲
یہ شعر بھی کتنا واضح اور کتنا زوردار ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جہاد بالسیف بند تو بے شک ہوگا۔ مگر وہ اس لئے بند نہیں ہوگا کہ نعوذباللہ یہ قرآنی حکم منسوخ ہوگیا ہے بلکہ محض وقتی حالات کی وجہ سے ملتوی ہوگا۔ کیونکہ وہ زمانہ امن کا ہوگا اور کوئی قوم اسلام کو مٹانے کی غرض سے شمشیر بکف نہیں ہوگی لیکن اگر آئندہ چل کر کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار اٹھائے گی تو امام وقت کے حکم سے وہ تلوار کا جواب تلوار سے پائے گی۔
بہرحال یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کا حکم ہرگز منسوخ قرار نہیں دیا۔ اور نہ ایک خادم رسول اور تابع قرآن ہونے کے لحاظ سے آپؑ کا یہ منصب تھا کہ کسی اسلامی حکم کو منسوخ فرمائیں۔ یہ صرف وقتی حالات کا فتویٰ تھا اور عین اس فتویٰ کے مطابق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد کفار مکہ کے متعلق جاری فرمایا اور یہ اسلام کا فتویٰ ہے باقی اگر اب یا آئندہ چل کر کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار اٹھائے اور طاقت کے زور سے خدائی نور کو بجھانا چاہے۔ تو یقینا امام کے حکم کے ماتحت اس کے خلاف جہاد بالسیف کا فتویٰ پھر عاید ہوجائے گا۔ فانھم وتدّبر۔ میرا یہ نوٹ صرف شرعی جہاد کے متعلق ہے جو خاص حالات میں امام کے فتویٰ کے ماتحت جائز قرار پاتا ہے۔ ورنہ عام جنگیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں اور ان کے متعلق کسی شرعی فتویٰ کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
پھر جہاد کے متعلق ہمارے دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف نے صرف جہاد بالسیف کی آیت ہی نازل نہیں فرمائی۔ بلکہ ہمارے خدانے دلائل وبراہین کے جہاد اور نشانات ومعجزات کے جہاد اور نفس کے جہاد کا بھی حکم دیا ہے بلکہ اس قسم کے جہاد کو افضل قراردیا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
۱۳
’’یعنی اے مردمومن ہم نے تجھے قرآن جیسی کتاب عطا کی ہے اب اسے ہاتھ میں لے کر دلائل وبراہین کے بڑے جہاد کے لئے نکل کھڑا ہو۔‘‘
اور ایک موقعہ پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگی غزوہ سے مدینہ کی طرف واپس تشریف لارہے تھے آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ:
رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر ۱۴
’’یعنی اے میرے ساتھیو! اب جنگ سے واپسی پر مدینہ میں سست ہوکر نہ بیٹھ جانا بلکہ اب تو ہم دراصل تلوار کے چھوٹے جہاد سے تبلیغ وعبادت کے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘
الغرض اسلام نے ہر قسم کے حالات کے لئے الگ الگ قسم کا جہاد مقرر کیا ہے۔ اگر دشمن مسلمانوں کے خلاف اسلام کو مٹانے کی غرض سے تلوار اٹھائے تو تلوار کا جہاد ہے۔ اگر وہ عقلی اعتراضوں کے ذریعہ اسلام پر حملہ آور ہو تو دلائل وبراہین کا جہاد ہے اگر وہ اسلام کے مقابلہ پر روحانی طاقت کا مظاہرہ کرے تو معجزات ونشانات کا جہاد ہے اور جب دوسری قسم کے جہادوں کے درمیان فرصت کی گھڑی نصیب ہو تو اس وقت نفس کا جہاد ہے یہی وہ لطیف حقیقت تھی جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نہایت دردمندانہ رنگ میں توجہ دلائی۔ کاش وہ سمجھتی۔ اے کاش وہ سمجھتی!
باقی رہا یہ سوال کہ جہاد بالسیف کے حکم کو شرعی فتویٰ کے ماتحت وقتی طورپر معلق قرار دینے سے بھی مسلمانوں میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہوتی ہے سو یہ ایک محض فلسفیانہ تخیل ہے۔ حقیقی شجاعت ضرورت کے وقت ظالم کے خلاف تلوار اٹھانے میں مخفی ہے نہ کہ ان لوگوں کے خلاف حملہ آور ہونے میں جو دین کے لئے جبر نہیں کرتے بلکہ حق یہ ہے کہ کنٹرول کے وقت میں اپنے آپ پر کنٹرول کرنا ہی بہادری کا مرکزی نقطہ ہے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ مقدس صحابی جنہوں نے تیرہ سال تک مکہ میں ہر قسم کے مظالم برداشت کئے اور سامنے سے انگلی تک نہیں اٹھائی بہادر نہیں تھے؟ اور کیا نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کے خلاف تلوار روک کر مسلمانوں کو بزدل بنانا چاہتے تھے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں۔ آپؐ تو خود فرماتے ہیں کہ:
لیس الشدید بالصرعۃ ولکن الشدید الّذی یملک نفسہ عندالغضب ۱۵
’’یعنی بہادر وہ نہیں جو بات بات پر جوش میں آکر لوگوں کو پچھاڑدے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔‘‘
پس ضرورت کے وقت ضبطِ نفس دکھانا شجاعت پیدا کرنے کا بھاری نفسیاتی نکتہ ہے نہ کہ بزدلی اور پست ہمتی پیداکرنے کا ذریعہ۔ آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تو خدا کے ایک برگزیدہ رسول تھے جنہوں نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ:-
’’شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ اگر کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو تُو دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیردے اوراگر کوئی تیرا کرتہ لینا چاہے تو تو چوغہ بھی اسے لینے دے۔‘‘ ۱۶
الغرض جمال وجلال سب اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے حالات کی باتیں ہیں اور سچا اور ابدی فلسفہ یہی ہے کہ صبر کے زمانہ میں جمال دکھا کر صبر کرنے والا بہادر ہے اور لڑنے کے زمانہ میں جنون کا روپ لے کر لڑوانے والا بہادر ہے اور مبارک ہے وہ جو اس نکتہ کو سمجھے!
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸ ؍فروری ۱۹۵۰ئ)





طوبیٰ اللغرباء والی حدیث پر الفضل کا نوٹ
اس حدیث کی اصل تشریح اور ہے
آج مورخہ ۲۵؍ فروری ۱۹۵۰ء کے الفضل میں طوبیٰ للغرباء والی حدیث پر ایک نوٹ شائع ہوا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ الٰہی سلسلوں کی ابتداء غریبوں اور کمزور لوگوں کے طبقہ سے ہی ہوا کرتی ہے ۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی ہوا کہ شروع شروع میں صرف غریب لوگوں نے مانا اور اب آخری زمانہ کے لئے بھی یہی مقدر تھا وغیرہ وغیرہ یہ مضمون اپنی جگہ بالکل درست اور صحیح ہے لیکن طوبیٰ للغرباء والی حدیث کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ عربی زبان میں غریب کے معنی (جس کی جمع غرباء ہے) اردو زبان والے غریب یعنی مفلس اور نادار کے نہیں ہیں بلکہ ’’بے وطن‘‘ اور ’’وطن سے دور‘‘ کے ہیں۔
دراصل طوبیٰ للغرباء (یعنی بے وطنوں کے لئے خوشخبری ہو) والی حدیث میں ایک اور لطیف مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ پوری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ غالباً اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ:
بدأ لاسلام غریباً وسیعود غریباً فطوبیٰ للغربائ۔
’’یعنی اسلام کے استحکام کی ابتداء بے وطنی کی حالت میں ہوئی ہے اور ایک زمانہ آرہا ہے کہ اسلام پھر بے وطن ہوجائیگا اور اس کے بعد پھر دوبارہ بے وطنی کی حالت میں ہی ترقی کرے گا۔ پس خوشخبری ہو اس بے وطنی کا زمانہ پانے والے لوگوں کے لئے۔‘‘
اس حدیث میں جو ایک نہایت لطیف معنی پر مشتمل ہے پہلی بے وطنی میں تو مدینہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ گو اسلام نے مکہ میں جنم لیا لیکن اس کا استحکام اس وقت سے شروع ہؤا جبکہ وہ اپنے اصلی گھر سے بے وطن ہو کر مدینہ میں پہنچا اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دراصل مدینہ کی ہجرت کے بعد ہی اسلام کے استحکام کا زمانہ شروع ہوا تھا ورنہ اس سے قبل وہ گویا ایک ٹھٹھرے ہوئے بیج کی طرح محصور پڑا تھا لیکن جونہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ ہجرت کرکے مدینہ میں پہنچے تو اس کے ساتھ ہی اسلام نہایت حیرت انگیز صورت میں ترقی کرنے لگ گیا۔ گویا وطنیت اسلام کے سامنے ایک بند کے طور پر کھڑی تھی جس کے ٹوٹنے پر اسلام کے زوردار دھارے نے سارے علاقہ کو دیکھتے ہی دیکھتے سیراب کردیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا پہلا حصہ ہے جو مدینہ کی ہجرت سے تعلق رکھتا ہے۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام پر پھر ایک اور ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب وہ گویادوبارہ بے وطن ہوجائے گا۔ اور اس دوسری بے وطنی کے زمانہ میں اس کی ترقی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ سو یہ دوسری بے وطنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔جبکہ گویا اسلام کا درخت اپنے اصل وطن سے بے وطن ہو کر ہمارے اس برعظیم میں سے اٹھنا اور بڑھنا شروع ہوا ہے۔ پس دراصل یہ حدیث اسلام کے دوعظیم الشان دَوروںکی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی ایک تو اس میں مدینہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ دونوں میں اسلام کی غربت یعنی بے وطنی کا رنگ نمایاں طور پر موجود ہے۔
اس کے علاوہ (تیسرے درجہ پر) اس حدیث میں جماعت احمدیہ کی قادیان سے ہجرت کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ سے مراد یہ سمجھی جائے گی کہ جماعت احمدیہ کی اس ہجرت کے ابتدائی دھکے کے بعد انشاء اللہ صداقت پنپنی شروع ہوجائے گی اور گویا ترقی کے زمانہ کی داغ بیل رکھ دی جائے گی۔
تعجب ہے کہ آجکل اسی حدیث پر ایک مفصل مضمون لکھنے کا ارادہ کررہا تھا مگر بیماری کی وجہ سے اب تک نہیں لکھ سکا کہ اچانک آج کے الفضل میں ایڈیٹر صاحب کا مضمون چھپ گیا۔ لہذا فی الحال یہ مختصر سا نوٹ اخبار میں بھجوارہا ہوں۔ بہرحال عربی زبان میں غریب کے معنی مفلس اور نادار کے نہیں بلکہ بے وطن یا وطن سے دور کے ہیں اور اسی کے مطابق اس حدیث کی تشریح ہونی چاہیئے اور یہی وہ معنی ہیں جس کے مطابق یہ حدیث ایک بڑے شائد مفہوم کی حامل بنتی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب ولاعلم لفاالاماعلمہ اللّٰہ
‎(مطبوعہ الفضل یکم مارچ ۱۹۵۰ئ)


بعض متفرق سوالوں کا جواب
(دعائوں میں ناکامی پر مایوسی،مردوں پر فاتحہ خوانی اور قُل کی رسم وغیرہ)
گذشتہ مضمون میں جہاد بالسیف کے مسئلہ کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب دے چکا ہوں اب ایک بہن کے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ یہ بہن لکھتی ہیں کہ ان کے لڑکے نے اپنی بیکاری دور کرنے کے لئے ایک امتحان دیا تھا مگر باوجود محنت کرنے اور دعائیں مانگنے کے وہ ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے بلکہ نعوذباللہ خدا کے متعلق بھی شکوک اٹھ رہے ہیں کہ اتنی دعائوں کے باوجود خدا نے میری نہیں سُنی۔ یہ بہن گو اپنی ذات میں بہت نیک اور مخلص ہیں مگر اپنے بچے کی وجہ سے فکر مند ہیں اور چاہتی ہیں کہ دعائوں کے اس پہلو پر کچھ روشنی ڈالی جائے تاکہ جماعت کے نوجوانوں کے لئے بصیرت اور سہارے کا موجب ہو۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ساری غلط فہمی دراصل دعائوں کے حقیقی فلسفہ کے نہ سمجھنے اور شریعت اور قضاء وقدر کے قانون میں امتیاز نہ کرنے کا نتیجہ ہے ورنہ بات بہت صاف ہے اور میں اس کے متعلق اپنی کتاب ’’ہمارا خدا‘‘ اور ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ حصہ سوم میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔
مختصر طورپر یہ جاننا کافی ہے (کیونکہ میں اس وقت بوجہ علالت حوالے درج کرنے سے معذور ہوں) کہ دعائوں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ہر انسان کی ہر دعا لازماً منظور ہونی چاہیئے اور پھر لازماً وہ اسی صورت میں منظور ہونی چاہیئے جس صورت میں کہ وہ چاہتا ہے ایک بالکل باطل نظریہ ہے جس کے قبول کرنے سے سارا نظامِ عالم درہم برہم ہونے لگتا ہے کیونکہ اس نظریہ کے قبول کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا دنیا کا آقا اور مالک نہیں بلکہ نعوذباللہ انسانوں کا غلام ہے اور اس بات کے لئے مجبور ہے کہ ہر بات میں لازماً ان کی خواہش کے مطابق چلے اور ظاہر ہے کہ جو ہستی ہر بات میں مجبور ہو اور کسی بات میں ذرہ بھر اِدھر اُدھر نہ ہوسکے وہ غلام ہوتی ہے نہ کہ آقا۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ دعائوں کے معاملہ میں بندوں کے ساتھ خدا کا تعلق دوستانہ رنگ کاہوتا ہے کہ کبھی وہ ان کی بات مانتا ہے اور کبھی اپنی بات منواتا ہے اور درحقیقت یہی دعائوں کے فلسفہ کا مرکزی نقطہ ہے۔ جس کے بغیر نہ تو خدا کی خدائی باقی رہتی ہے اور نہ بندے کی بندگی ۔ ہاں ہاں غور کرو کہ یہ کتنی غیرمعقول اور خلاف عقل بات ہے کہ انسان دنیا کی خالق ومالک ہستی کے متعلق تو یہ امید رکھے کہ وہ بہرحال اس کی مانے اور اس کی دعائوںکو ہر صورت میں قبول کرے لیکن خود خادم ہوکر اپنے مالک وآقا کی کسی خلاف مرضی تقدیر کو ماننے کے لئے تیار نہ ہو!!
دوسری بات اس تعلق میں یہ جاننی ضروری ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کی دعائیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور ایک شخص کی دعا قبول کرنے کا لازمی نتیجہ دوسرے شخص کی دعا کے رد کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک مالی اور باغبان ہے جس کا باغ سوکھ رہا ہے اور اسی پر اس کی ساری روزی کا دارومدار ہے اور وہ فوری بارش کی دعا مانگتا ہے مگر ایک دوسرا شخص مٹی کے برتن بنانے والا گلِ ساز ہے اور اس کے بہت سے برتن خشک ہونے کے لئے دھوپ میں رکھے ہیںاور وہ اس بات کے لئے دست بدعا ہے کہ خدایا ابھی بارش کو کچھ عرصہ روک کر رکھ تاکہ میری یہ زندگی کی پونجی تباہ نہ ہوجائے۔ اب یہ دونوں دعائیں ایسی ہیں کہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور مخالف پڑی ہوئی ہیں اور ایک کو قبول کرنا دوسری کو رد کرنے کے مترادف ہے۔ پس لامحالہ ان حالات میں یا تو ان دعائوں میں سے صرف ایک دعا ہی قبول ہوگی اور دوسری رد کردی جائے گی اور یا خدا تعالیٰ ان دونوں دعائوں کو نظر انداز کرکے ایک ایسا رستہ اختیار فرمائے گا جو باغبان اور گلِ ساز کی محدود ضرورتوں کے میدان سے باہر قدم رکھتے ہوئے علاقہ کی مجموعی ضرورت کے لحاظ سے مناسب ہوگا اور خدا اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے۔
تیسری بات یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض اوقات انسان ایک ایسی دعا مانگتا ہے جو درحقیقت خود اس کے لئے مضر ہوتی ہے لیکن وہ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا یا یہ دعا اگر اب نہیں تو آئندہ چل کر اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہونے والی ہوتی ہے مگر وہ علم غیب نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے نقصان کو نہیں جانتا تو اس صورت میں خدا کی رحمت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایسی دعائوں کو رد کردے۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کے ہاتھوں کو پکڑ سکتی ہے جو وہ اپنی نادانی سے شوق میں آکر آگ کے سُرخ ونیلگوں شعلوں کی طرف بڑھاتا ہے اور اس کے رونے اور چلّانے کی پروا نہیں کرتی تو خدا جو ارحم الراحمین ہے کس طرح اپنے بندوں کی ان نادانی کی دعائوں کو قبول کر سکتا ہے جو وہ بری چیزوں کو اچھا خیال کرتے ہوئے خدا سے مانگتے ہیں؟
پھر چوتھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بعض لوگ دعا کرتے ہوئے قضاء و قدر کے قانون کو بالکل بھلا دیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ محض دعا کی وجہ سے ظاہری اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے کامیاب ہوجائیں۔ مثلاً اگر کوئی امتحان دینا ہو تو محنت کرنے کے بغیر یا پوری محنت کرنے کے بغیر یا صحیح طریق پر محنت کرنے کے بغیر محض دعا کرنے یا کرانے سے امیدکرتے ہیں کہ ان کا کام ہوجائے گا حالانکہ خدا تعالیٰ کی باریک درباریک حکمت نے روحانی اور جسمانی نظاموں کو ایک دوسرے سے بالکل جدا رکھا ہے ۔ روحانی میدان کی کمی عام حالات میں جسمانی میدان پوری نہیں کرسکتا اور جسمانی میدان کی کمی عام حالات میں روحانی میدان پوری نہیں کرسکتا یہ گویا خدا تعالیٰ کی مرکزی حکومت کے ماتحت دو جدا جدا صوبائی حکومتیں ہیں جن میں ایک طرح کا ہوم رول قائم ہے گوشت کا قانون گوشت کے ساتھ ہے اور روح کا قانون روح کے ساتھ ہے۔ ۱۸ اگر خدا کا ایک برگزیدہ نبی بھی کوئی ایسی چیز کھائے گا جو ثقیل ہونے کی وجہ سے پیٹ میں درد پیدا کرنے والی ہے تو اس کا نبی ہونا اسے پیٹ کی درد سے نہیں بچا سکے گا۔ کیونکہ نبوت روحانی میدان سے تعلق رکھتی ہے اور ثقیل چیز سے پیٹ میں درد ہونا جسم کے قانون کا حصہ ہے۔ اسی طرح اگر دو ایسے آدمی گہرے پانی میں کودیںگے جن میں سے ایک نیک ہے اور دوسرا بد تو وہ نیک آدمی جو تیرنا نہیں جاتنا ڈوب جائے گا لیکن وہ بد آدمی جو تیرنا جانتا ہے بچ جائے گا۔ کیونکہ تیرنا یا ڈوبنا جسم کے قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ اور نیک آدمی کی نیکی اسے تیرنا سیکھنے کے بغیر ڈوبنے سے نہیں بچا سکتی۔
یہ فرق اور امتیاز اس لئے ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے اور بنی نوعِ انسان کی ساری ترقی رک جائے اور انسانی دماغ ایک ٹھوس اور منجمد پتھر کی طرح ٹھٹھک کر رہ جائے۔ مثلاً اگر قوانین طب کی تحقیق کے بغیر محض دعا کی وجہ سے لوگوں کی بیماریاں دور ہوجائیں تو کسی کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ طبی تحقیقاتوں کے پیچھے سرگردان ہو یا اگر محض دعا کے نتیجہ میں انسان ڈوبنے سے بچ جائے تو لوگ تیرنا کیوں سیکھیں اور کشتیوں اور جہازوں کو پانی کی سطح پر رکھنے کے اصول کیوں سوچیں؟ الغرض غور کیا جائے تو علم اور سائنس کے ہر شعبہ کی ترقی محض اس وجہ سے ہے کہ مادہ کاقانون روح کے قانون سے جدا رکھا گیا ہے۔ اور (مستثنیات کو الگ رکھتے ہوئے) جب تک انسان مادہ کے قانون پر حاوی نہ ہو وہ محض روح کی توجہ اور دل کی دعا سے مادہ کے میدان میں ترقی نہیں کرسکتا۔ لہذا بعض لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ ہم نے دعا کی تھی مگر پھر بھی فیل ہوگئے اور ہم نے سجدوں میں ناک رگڑی تھی مگرپھر بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے ایک خیال باطل ہے انہیں چاہیئے کہ امتحان کے لئے پڑھیں بھی اور دعابھی کریںاور دینوی مقاصد کے لئے ظاہری کوشش بھی کریں اور خدا کے حضور سربسجود بھی رہیں۔ کیونکہ دعا ایک روحانی تدبیر ہے اور محنت اور کوشش ایک ظاہری اور مادی تدبیر ہے اور دونوں کے ملنے سے ہی بہترین نتیجہ نکل سکتا ہے اور دراصل اسلامی توکل کا یہی سچا فلسفہ ہے کہ دعا اور دوا دونوں کو ملایا جائے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی رئیس آیااور اپنے اخلاص کے جوش میں مسجد نبویؐ کے باہر ہی اپنی اونٹنی کھلی چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوگیا۔ جب وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا تو اس کی اونٹنی ادھر اُدھر بہک کر غائب ہوچکی تھی وہ گھبرایا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نے تو آپؐ کی مجلس کے شوق میں خدا پر توکل کرتے ہوئے اونٹنی کو کھلا چھوڑدیا تھا مگر اب باہر گیا ہوں تو وہ غائب ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
اعقل ثم توکّل ۱۹
’’یعنی پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔‘‘
اللہ اللہ !! کیا ہی سادہ مگر کیا ہی لطیف کلام ہے اور روح اور جسم کی مرکب حکمت سے کتنا لبریز !! اور یہ وہی حدیث ہے جس پر مولانا رومی علیہ الرحمۃ اللہ نے یہ مشہور مصرع کہا ہے کہ
بر توکّل زانوئے اُشتر ببند
کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب مادی تدبیروں کو بہرحال اختیار کرنا ضروری ہے تو پھر دعا کا کیا فائدہ ہے مگر یہ محض نادانی کا اعتراض ہوگا ہم ہر روز اپنی جسمانی بیماریوں کے لئے مرکب نسخے استعمال کرتے ہیں جن میں سے بعض میں تین دوائیاں پڑتی ہیں اور بعض میں چار اور بعض میں پانچ اور بعض میں اس سے بھی زیادہ تو کیا ہم اپنے اہم دینی اور دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے دو دوائیاں بھی استعمال نہیں کرسکتے جن میں سے ایک روح کو تازہ رکھنے کے لئے ہے اور دوسری جسم کو چوکس وہوشیار اور مستعد بنانے کے لئے؟ دراصل دنیوی کاموں کے متعلق دعا سکھانے میں اسلام کے مدنظر دُہری غرض ہے ایک یہ کہ تامحض مادی باتوں میں پڑ کر مومن کی روح اور توجہ الی اللہ کا جذبہ کمزور نہ ہونے پائے اور دوسرے یہ کہ تامادی تدبیروں کے ساتھ دعا اور نصرت الٰہی کا زور شامل ہوکر ہمارے مقاصد کے حصول کو ہمارے لئے آسان ترکردے اور یہی ہمیشہ انبیاء اور صلحاء کی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں ظاہری تدبیر کے ساتھ دعا کو اور دینی مقاصد میں دعا کے ساتھ ظاہری تدبیر کو شامل کرتے رہے ہیں مگر اصل بھروسہ خدا کی ذات پر رکھتے رہے ہیں اور یہ صراطِ مستقیم کا مرکزی نقطہ ہے ہاں اگر کسی وقت کوئی ظاہری تدبیر میسر ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں اہل اللہ صرف دعا پر بھروسہ کرتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور اسی میں خدا ان کے لئے کامیابی کا رستہ کھول دیتا ہے مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے جس پر عام حالات کا قیاس نہیں ہونا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ وہ نوجوان جو کسی کام میں ناکامی دیکھ کر گھبراتا ہے اور مایوس ہونے لگتا ہے اسے چاہیئے کہ کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کو ضرور یاد رکھے۔
(۱)خدا ہمارا آقا ہے نہ کہ نعوذباللہ خادم۔ پس ضروری نہیں کہ وہ ہماری باتوں کو مانے بلکہ وہ دوستوں کی طرح بعض اوقات اپنے بندوں کی بات مانتا ہے اور بعض اوقات اپنی منواکر ان کے ایمان کا امتحان کرتا ہے۔
(۲) بسااوقات خدا کے مختلف بندوں کی دعائیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس صورت میں یہ ناممکن ہوتا ہے کہ خدا سب کی دعائیں قبول کرے۔ پس وہ جسے زیادہ حقدار دیکھتا ہے اس کی دعا قبول کرلیتا ہے اور دوسروں کے صبر کو آزماتا ہے۔ لہذا جو شخص اپنی دعائوں میں زیادہ مقبولیت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو زیادہ حقدار بنائے۔
(۳) بعض اوقات دعا کرنے والا اپنی نادانی میں ایک ایسی چیز کی خواہش کرتا ہے جو خدا کے علم میں ا س کے لئے (دین میں یا دنیا میں ۔حال میں یا مستقبل میں) نقصان دہ ہوتی ہے تو اس صورت میں خدا جو اپنے بندوں کے لئے ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہے ان کی دعا کو رد کرکے اس ذریعہ سے اس کے لئے ایک رحمت کا نشان قائم کرتا ہے۔
(۴) بعض اوقات بندہ دنیوی تدبیروں اور سامانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض دعا کے ذریعہ کامیاب ہونا چاہتا ہے یا دنیوی سامانوں کو اختیار تو کرتاہے مگر اس حد تک اختیار نہیں کرتا جس حد تک کہ اختیار کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں خدا اسے ناکام کرکے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ دنیا کے اسباب بھی ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں۔ پس ’’پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔‘‘
ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں مثلاً دعا میں جلد بازی کرنا یا سنتِ الٰہی کے خلاف دعا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں اس مختصر نوٹ میں صرف انہی چار باتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ البتہ جو دوست چاہیں وہ دوسرے لٹریچر میں مفصل مطالعہ کرسکتے ہیں۔
مُردوں پر فاتحہ خوانی اور قُل کی رسم وغیرہ
یہی خاتون دریافت کرتی ہیں کہ مُردوں پر فاتحہ خوانی کرنا یا قُل وغیرہ کی رسم بجالانا اور اسی طرح دوسری معروف رسمیں جو آجکل مسلمانوں میں عموماً رائج ہیں ان کی شرعی پوزیشن کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ جو بات اس بارہ میں قرآن وحدیث اور سنت سے ثابت ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب کوئی مسلمان مرنے لگے تو اس کے پاس سورہ یٰسین پڑھی جائے تاکہ ایک تو اس کی موت کی تکلیف میں کمی واقع ہو جو سورہ یٰسین کا روحانی خاصہ ہے۔ اور دوسرے اسے خدا کی طرف توجہ پیدا ہو جو کلام الٰہی سننے کا طبعی نتیجہ ہے اور حتی الوسع اس کے سامنے خدا اور رسول کا ذکر کیا جائے۔ پھر جب وہ فوت ہوجائے تو اس کی آنکھیں اور مُنہ بند کرکے اور اس کے اعضاء کو سیدھا کرکے اس کے مُنہ کو قبلہ رُخ کردیا جائے اس کے بعد اسے مسنون طریق پر غسل دے کر کفن پہنایا جاتا ہے اور اس کے بعد مقررہ نماز جنازہ پڑھ کر دفنادیا جاتا ہے اور پھر قبر کو ٹھیک ٹھاک کرکے آخری مختصر دعا کے بعد لوگ واپس آجاتے ہیں اس کے بعد مرنے والے کا تعلق دنیا سے کٹ کر خدا اور اس کے فرشتوں کے ساتھ جاپڑتا ہے اور مومنوں کو بہرحال اپنے آسمانی آقاسے عفوورحمت کی امید رکھنی چاہیئے اور اے میرے آقا میں نے تو بہرحال اپنی بے شمار لغزشوں کے باوجود تجھ سے ہمیشہ یہی امید رکھی ہے اور میں ہر حال میں تیرے عفوا ور تیری رحمت اور تیرے فضل اور تیری برکت کا طالب ہوں۔ وارجوامنک خیراً یاارحم الراحمین)
بس مختصراً یہی وہ مسنون حقوق ہیں جو اسلامی طریق کے مطابق ہر مرنے والے کے متعلق ادا کئے جاتے ہیں۔ جس کے بعد مرنے والے کے عزیزوں کے ساتھ افسوس اور ہمدردی کرنے کے علاوہ خود مرنے والے کے لئے صرف دعا ہی باقی رہ جاتی ہے جو اس کے عزیز یادوست یا شاگرد یا ہمسائے وغیرہ اس کے واسطے مانگتے ہیں اور مومنوں کی دعا علیٰ قدرِ مراتب مرنے والوں کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہے خواہ وہ قبر پر جاکر کی جائے یا غائبانہ کی جائے۔ اس کے علاوہ ایک جائز طریق یہ بھی ہے کہ جس شخص کو توفیق ہو وہ کبھی کبھی (مگر بغیر معین تاریخوں کے تاکہ رسم نہ بن جائے) مرنے والے کی طرف سے کوئی صدقہ کردے۔ صدقہ کے نتیجہ میں ان غریب لوگوں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہیں اس صدقہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور اگر مرنے والا اپنی زندگی میں خود صدقہ وخیرات کا پابند رہا ہو تو ایک طرح سے اس کے نیک عمل کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے۔
اس کے علاوہ باقی باتیں مثلاً رسمی طریق پر فاتحہ خوانی کرنا یا قبروں پر بیٹھ کر قرآن پڑھنا یا قُل یا چہلم وغیرہ کی رسوم ادا کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کی (کم ازکم میرے علم میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کی سنت میں کوئی سند نہیں ملتی اور یقینا بابرکت طریق وہی ہے جو سنت سے ثابت ہو۔ لوگوں نے اس قسم کی غیرمسنون رسموں میں الجھ کر دین کے صاف اور سیدھے طریق کو پیچ دار بنا دیا ہے اور پھر بعض رسمیں تو بیچارے غریب لوگوں کے لئے ان کے کسی عزیز کی موت کو گویا ایک چٹی بنادیتی ہیں جو انہیں بہت سے ناواجب بوجھوں کے نیچے دبادیتی ہے اور بجائے اس کے کہ مرنے والوں کے گھروں میں ان کے عزیز اور ہمسائے ایک دو دن تک کھانا بھجواکر ان کی پریشانی کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں ان پر دوسروں کے کھانے کا بوجھ ڈال کر ان کی پریشانی میں اضافہ کیا جاتا ہے اور سنتِ نبویؐ سے انحراف مزید براں ہے۔ پس ہمارے دوستوں کو ان سب غیرمسنون رسموں سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
ضمناً یہ بات بھی قابل ذکر ہو کہ کسی عزیز کے مرنے پر نوحہ کرنا یا بین ڈالنا یا چھاتی پیٹنا یا کپڑے پھاڑنا یا کسی اور طرح جزع فزع کرنا اسلام میں منع ہے۔ البتہ کسی عزیز کی موت پر غم اور صدمہ محسوس کرنا یا آنکھوں میں آنسو آجانا فطری رحمت کا حصہ ہے اور ہرگز منع نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ اور عزیزوں کی جدائی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے تھے اور جب اس قسم کے ایک موقعہ پر بعض صحابہ نے آپؐ کی صبر کی تعلیم کو دیکھتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم میرے دل کو خدا کی رحمت سے خالی سمجھتے ہو کہ کسی عزیز کی جدائی پر میری آنکھوں میں آنسو بھی نہیں آسکتے۔ میں نے صرف بے صبری دکھانے اور خدا کی تقدیر پر معترض ہونے اور نوحہ کرنے سے منع کیا ہے اور اپنے صاحبزادے حضرت ابراھیم کی وفات پر آپؐ نے یہ رقّت بھرے الفاظ فرمائے کہ:
انّابِفراقک یا ابراھیم لمحزونون ۔ ۲۰
’’یعنی اے ابراھیم ہمارے دل تیری جدائی کے صدمہ سے غمگین ہیں۔‘‘
پس اسلام فطرت کے چشموں کو ہرگز بند نہیں کرتا مگر بے صبری اور جزع فزع کے ابال کو ضرور روکتا ہے اور یہی اس کے وسطی مذہب ہونے کا ثبوت ہے۔
باقی بہنوں بھائیوں کے سوالوں کا جواب انشاء اللہ پھر کسی وقت دوں گا۔ اس وقت علالت کی وجہ سے کوفت محسوس کرنے لگا ہوں۔ وما توفیقی الاباللّٰہ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲؍مارچ ۱۹۵۰ئ)



اسلام اور زمین کی ملکیّت
فاروقی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ
حال ہی میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی ایک تازہ تصنیف شائع ہوئی ہے جس کا نام ’’اسلام اور زمین کی ملکیت‘‘ ہے ۔ بعض ضمنی مباحث کے علاوہ اس کتاب میں ان تین اہم سوالوں پر اسلامی نکتہ نظر سے بحث کی گئی ہے کہ:
(۱) کیا اسلام زمین کی انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے؟
(۲) کیا اسلام انفرادی ملکیت پر اس قسم کی کوئی حدبندی عاید کرتا ہے کہ ایک مالک کے پاس اس اس قدر رقبہ سے زیادہ زمین نہیں رہ سکتی؟
(۳) کیا اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کسی اور شخص کو کاشت پر دے اور اس سے اپنے حقِ ملکیت کے عوض میں بٹائی یا نقدلگان وصول کرے؟
یہ تین سوالات اس کتاب کا اصل موضوع ہیں۔ گو ضمنی طور پر بعض اور مباحث بھی اختصار کے ساتھ شامل کرلئے گئے ہیں۔ اس کتاب کے متعلق لاہور کے مشہور اخبار ’’آفاق‘‘ کی پچھلی اشاعت میں ایک صاحب فہیم احمد صاحب فاروقی ایم۔اے کا تبصرہ شائع ہوا ہے اور ایڈیٹر صاحب ’’آفاق‘‘ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اور صاحب فاروقی صاحب کے جواب میں لکھنا چاہیں تو ان کے لئے بھی ’’آفاق‘‘ کے صفحات حاضر ہیں۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں فاروقی صاحب کے تبصرہ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے میں اس خوشی کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کا یہ تبصرہ متانت اور وقار کے انداز میں لکھا ہوا ہے اور اس کی عبارت اور لب ولہجہ میں کوئی ایسی بات نہیں جسے شرافت اور سنجیدگی سے گرا ہوا سمجھا جائے اور ملک کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم اس کا ایک طبقہ اختلاف کے باوجود ہر بات کو متانت اور سنجیدگی کے ساتھ پرکھنے اور دلائل وبراہین کی کسوٹی پر جانچ پڑتا ل کرنے کے لئے تیار ہے اور دراصل یہی ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہٗ نفسی) کے اس حکیمانہ ارشاد کا مقصد ہے کہ’’ اختلاف امتی رحمۃ۔‘‘۲۱یعنی میری امت کا اختلاف رحمت کا موجب ہے۔‘‘ اس میں کیا شک ہے کہ اگر لوگ نیک نیتی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ پر قائم رہتے ہوئے (جس کی طرف اُمۃ کے لفظ میں اشارہ ہے) کوئی اختلاف کریں گے تو لازماً علم ترقی کرے گا اور دماغوں میں نئی روشنی کے لئے رستے کھلیں گے اور جب نیت بخیر ہوگی تو یا تو تنقید کے نتیجہ میں وہ شخص جس کے کسی نظریہ پر تنقید کی گئی ہے اپنی رائے بدل لے گا اور یا تنقید پر معقول جرح ہونے کے نتیجہ میں تنقید کرنے والا اپنے خیال کی اصلاح کرلے گا اور دونوصورتوں میں برکت ہی برکت ہے۔
ان تمہیدی سطور کے بعد میں محترم فاروقی صاحب کے تبصرہ کے مضمون کو لیتا ہوں۔ جہانتک میں سمجھ سکا ہوں زائد باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فاروقی صاحب کے تبصرہ کا خلاصہ ان دوباتوں میں آجاتاہے۔
اول یہ کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی کتاب ’’اسلام اور زمین کی ملکیت‘‘ میں شروع سے لے کر آخر تک اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسلام انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے اور یہ کہ وہ ایک مالک کی زمین کے رقبہ کے متعلق کوئی حد بندی عائد نہیں کرتا۔ مگر اس کے مقابل پر غریب زمینداروں اور کاشت کاروں کی غربت کو دور کرنے کے لئے کتاب میں کوئی علاج پیش نہیں کیا گیا۔
دوسرے یہ کہ کتاب میں اس دور سے تعلق رکھنے والے حوالے پیش کئے گئے ہیں جبکہ تمدن اور معاشرت کی بالکل ابتدائی حالت تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور نئے حالات کو نئے اصولوں کے ماتحت دیکھنا ہوگا، وغیرہ ذالک
یہ وہ دو محور ہیں جن پر فاروقی صاحب کا سارا تبصرہ چکر لگاتا ہے۔ بے شک فاروقی صاحب نے اس کے علاوہ بعض اور باتیں بھی بیان فرمائی ہیں مگر یہ باتیں زیادہ ترضمنی رنگ رکھتی ہیں اور تبصرہ کا مرکزی نقطہ اُوپر کی دوباتوں میں آجاتا ہے۔ ان دوباتوں میں سے پہلی بات کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ ہر کتاب کا ایک موضوع ہوا کرتا ہے اور اچھے مصنف کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی توجہ کو اپنی کتاب کے موضوع تک محدود رکھے اور بے شک کسی حد تک وہ بعض ضمنی باتوں کی بحث میں داخل ہوسکتا ہے۔ مگر یہ صرف ایک اچٹتی ہوئی نظر ہوا کرتی ہے۔ ورنہ مصنف ہاں اچھے اور حکیمانہ نظر رکھنے والے مصنف کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے موضوع کے مرکزی نقطہ سے اِدھر اُدھر نہ جائے۔ ورنہ یہ ان شاعروں والی بات ہوجائے گی جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ
۲۲
’’یعنی بعض شاعر اپنی جولانی میں کسی میدا ن کو نہیں چھوڑتے اور ایک ہی قطعۂ نظم میں (مجھے شاعر صاحبان معاف فرمائیں) اپنے سب تخیل کو کبھی کسی وادی میں اورکبھی کسی وادی میں بھگاتے پھرتے ہیں۔‘‘
اب حضرت امام جماعت احمدیہ کی یہ کتاب کوئی ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ تو تھی نہیں کہ جس میں ہر موضوع کو داخل کردیا جاتا بلکہ چند معین سوالوں کا ( جو اس زمانہ میں بعض حضرات کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں) جواب دینا اصل مقصد تھا اوریہ سوالات وہی ہیں جن کا خلاصہ اس نوٹ کے شروع میں درج کردیا گیا ہے اور وہ خالصتاً زمین کی ملکیت کے حق سے تعلق رکھتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ کتاب ان مخصوص سوالوں کا کافی وشافی جواب پیش کرتی ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ اگر رقبہ مملوکہ کی حدبندی نہ ہونے کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوں تو ان کا کیا علاج ہے تو یہ ایک جداگانہ سوال ہے جس کا اس کتاب کے موضوع کے ساتھ براہِ راست کوئی تعلق نہیں لیکن خدا کے فضل سے ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آچکی ہے اور علم دوست طبقہ اس لٹریچر کے مطالعہ سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ مثلاً حضرت امام جماعت احمدیہ ہی کی ایک اور تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ جس میں اس سوال کے متعلق بہت سیرکن بحث کی گئی ہے کہ اسلام کس طرح جائداد کے انفرادی حق کو تسلیم کرنے کے باوجود غربت کو دور کرنے اور کمزورلوگوں کو اوپر اٹھانے اور ملکی دولت کو مناسب صورت میں سمونے کا نظام پیش کرتا ہے۔ اسی طرح ہماری بعض اور تصنیفات میں بھی یہ سوال کافی زیربحث آچکا ہے۔ پس یہ کہنا کہ اسی کتاب میں سارے دورونزدیک کے سوالوں کو کیوں نہیں لیا گیا کوئی معقول جرح نہیں کہلاسکتی خصوصاً جبکہ(غالباً فاروقی صاحب تسلیم کریں گے) خود اس کتاب کے ایک حصہ میں بھی مختصر طور پر اس سوال پر کسی قدر روشنی ڈالی گئی ہے مگر پوری تفصیل کا نہ تو یہ موقعہ تھا اور نہ کتاب کا محدود موضوع اس کی اجازت دیتا تھا۔
اب رہا دوسرا سوال یعنی فاروقی صاحب کی جرح کا یہ حصہ کہ اس کتاب میں اس دور کے حوالے دیئے گئے ہیں جب کہ تمدن اور معاشرت ابھی ابتدائی حالت میں تھے لیکن اب دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں اور نئے نظریوں کی ضرورت ہے ۔ سو اس کے متعلق میں بڑی محبت کے ساتھ عرض کر وں گاکہ غالباً فاروقی صاحب نے یہ جرح کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ قرآنی شریعت سارے زمانوں کے لئے قیامت تک کے واسطے آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کا خدا (اور وہی ساری دنیا کا خدا ہے جس کے بغیر کوئی خدا نہیں) ایک عالم الغیب ہستی ہے جس پر کوئی مکانی یا زمانی غیب مخفی نہیں ہے وہ قرآن مجید کو نازل کرتے ہوئے صرف عربوں کے حالات اور صرف ساتویں صدی عیسوی کے حالات سے ہی واقف نہیں تھا بلکہ ساری قوموں کے حالات اور قیامت تک کے حالات اس کی آنکھوں کے سامنے تھے اور اس نے ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے قرآن شریف کو دائمی شریعت قرار دے کر نازل کیا جس کے بعد اس دنیا کے لئے کوئی اور ………………………………
…شریعت نہیں ۔ تو اس صورت میں ہمارے مہربان ناقد خود غور فرمائیں کہ ان کی اس جرح کا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ حوالے ایک قدیم دور سے تعلق رکھتے ہیں اور گویا موجودہ زمانہ کے مسائل کا علاج پیش نہیں کرتے ۔ محترمی فاروقی صاحب آپ بڑی خوشی سے قرآنی آیات اور احادیث رسول کی تشریح کے متعلق فرمایئے کہ ان کا یہ مطلب نہیں بلکہ وہ مطلب ہے ان سے وہ استدلال نہیں ہوتا بلکہ یہ استدلال ہوتا ہے مگر خدا را قوم کو اس خیال کی طرف نہ لے جائیے کہ قرآن و حدیث کے حوالے ایک پرانے دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کا دور دائمی ہے اور اس کا دامن دنیا کی آخری ساعت تک وسیع ہے آپ بے شک اس کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے ہیں آپ اسلامی شریعت کے لچک دار حصے کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں ۔مگر قرآن بہر حال وہی رہے گا ۔ حدیث وہی رہے گی اور اسلام کے مقدس حوالے بھی وہی رہیں گے ۔
دراصل شاید آپ نے غور نہیں فرمایا قرآن شریف ایک روحانی عالم ہے اسی طرح جس طرح یہ مادی دنیا ایک مادی عالم ہے ۔حضرت آدم کے وقت کی دنیا آپ کو موجودہ زمانہ کی ساری ضرورتیں مہیا کرتی چلی جاتی ہے ہاں تلاش اور جستجو سے دنیا کے مخفی خزانوں کو نکال نکال کر باہر لانا آپ کا کام ہے تو پھر یہی نظریہ قرآن کے روحانی عالم پر بھی کیوں چسپاں نہیں کرتے ؟ اور قوم کی نظریں اس خطرناک نقطہ کی طرف اٹھانے کے کیوں درپے ہیں کہ یہ تو پرانے دور کے حوالے ہیں ؟ ہاں بے شک اگر آپ کے پاس کوئی اور حوالے ہیں تو انہیں پیش کیجئے یا اگر موجودہ حوالوں کی کوئی اور تشریح ہے تو وہ دنیا کے سامنے رکھئے بس پھر خود بخود فیصلہ ہوجائے گا اور آپ بہرحال ہمیں خدا کے فضل سے قرآن و حدیث کے سامنے وقاف پائیںگے۔
اب میں ضمناً نہایت مختصر طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اقتصادی نظریہ کا فلسفہ کیا ہے۔ میں یہ تو نہیںکہہ سکتا کہ میرے اس مختصر بیان سے ہمارے دوست فاروقی صاحب کی تسلی ہوجائے گی (اور دراصل یہ دعویٰ کوئی شخص بھی نہیں کرسکتا ) مگر خدا کے فضل سے اتنی اُمید ضرور رکھتا ہوں اگر وہ میرے اس بیان پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو وہ اس میں کم از کم اپنے دماغ کے لئے سوچنے کا ایک مواد ضرور حاصل کر لیں گے ۔ مگر میں یہ امر دوبارہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جگہ میرا مقصد اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کر نانہیں ہے ۔بلکہ صرف اس نظام کے فلسفہ اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا اصل مقصد ہے اور وہ بھی صرف اصول کی حد اتک وماتوفیقی الا باﷲ العظیم ۔
قرآن شریف مسلمانوں کے متعلق یہ اصولی نظریہ پیش فرماتا ہے کہ
۲۳
’’یعنی اے مسلمانو! ہم نے تمہیں ہر قسم کی انتہائوں سے بچاتے ہوئے ایک وسطی امت بنایا ہے تاکہ تم ہر دوجانب کے انتہا پسندوں پر خدا کی طرف سے نگران اور گواہ رہو اور پھر رسول کو تم پر نگران اور گواہ مقرر کیا گیا ہے۔‘‘
یہ آیت کر یمہ گو بظاہر قرآن میں ایک اور بحث کے ضمن میں بیان کی گئی ہے لیکن جیسا کہ قرآن کا قاعدہ ہے ۔ یہ آیت دراصل ایک وسیع اصول کی حامل ہے اور اس میں اس نظریہ کا بیان کرنا مقصود ہے کہ قرآنی شریعت دنیا کے انتہائی نظریوں کے درمیان ایک وسطی رستہ پیش کرتی ہے ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کچھ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ کسی نہ کسی انتہا کی طرف جھکنے لگتی ہے ۔کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف آج سے کچھ زمانہ پہلے دنیا میں سرمایہ داری کا دور تھا ۔جبکہ سو سائٹی کے ایک مخصوص طبقہ نے پیدا کرنے کیذرائع کو اپنے اجارہ میں لے رکھا تھا اور ملک کا کمزور طبقہ غربت اور بے بسی کی دلدل میں پھنس کر کراہ رہا تھا اس صورت حال نے آہستہ آہستہ کمزور طبقہ میں بغاوت کے آثار پیدا کر نے شروع کئے اور نتیجہ اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا جبکہ امیروں کی دولت اورا میروں کی جائیدادیں ان سے چھین کر تمام ملک کی مشترکہ بہتری اور غریبوں کی پابحالی کے کئے حکومت کے ہاتھ میں دے دیں گئیں اور انفرادی ملکیت کا دور ختم ہوا یہ دونوں قسم کے نظریات کی انتہا تھی ایک میں سرمایہ داری اور غریب کو لوٹنے کی اور دوسرے میں لوگوں کے انفرادی حق اور انفرادی جدو جہد کو ملیا میٹ کرنے کی۔ پنڈولم کے چکر کی طرح ایک نتہا نے ختم ہو کر دوسری انتہا پیدا کر دی مگر جس طرح سرمایہ داری ایک غیر طبعی چیز تھی اسی طرح اشتراکیت بھی ایک غیر طبعی چیز ہے اور یقیناً آج سے کچھ عرصہ کے بعد سو سائٹی میں پھر بغاوت کے آثار پیدا ہوں گے اور لوگ حکومت کے استبداد کے خلاف انفرادی حق کے حصول کے لئے چلّائیں گے اور بعید نہیں کہ دنیا پھردوسری انتہا کی طرف چلی جائے اور جس طرح اب ایک دلدل میں سے نکل کر دوسری دلدل میں داخل ہو رہی ہے اسی طرح آئندہ چل کر پھر سابقہ دلدل میں پھنس جائے کیونکہ جب انسان ایک ظالمانہ نظام سے بھاگتا ہے تو عموماً اس کی دہشت میں دوسری انتہا سے ورے نہیں ٹھہر تا اور اس طرح ایک دورسؤ قائم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اسلام نے مسلمانوں کو امۃ ًوسطاً کہہ کر ان دونوں انتہائوں سے بچانے کی کوشش کی ہے اس نے انسان کی انفرادیت کو بھی قائم رکھا ہے اور اس کی اجتماعی زندگی کے اصول کو بھی اجاگر کیا ہے اس نے سرمایہ داری کے رستہ پر پڑ کر انسان کی اجتماعی زندگی کو مٹایا نہیں بلکہ انسانیت کے مختلف طبقوں کے درمیان محبت اور تعاون کا ایک وسیع رشتہ قائم کیاہے یہ رشتہ کچھ تو حکومت کے ذریعہ قائم کیاگیا ہے اور کچھ افراد کے نیک جذبات کو ابھار کر مستحکم کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اسلام نے انسان کی انفرادی حیثیت کو بھی زندہ رکھا اور اس کے ذاتی حق کو تسلیم کیا ہے اور انسان کو اس کی دماغی طاقتوں اور اس کی ذاتی جدو جہد کے پھل سے محروم نہیں کیا ۔کیونکہ یہ محرومی بالآخر انسان کی انفرادیت کو مٹاکر اسے ایک مشین یا پتھر کے بت کی شکل میں منتقل کر دیتی ہے۔ دراصل نسل انسانی کی ساری ترقی ایک طرف اس کے افراد کی انفرادیت اور دوسری طرف سو سائٹی کی اجتماعیت پر منحصر ہے اور ان دونوں نقوش کے ملنے سے ہی انسانیت کا ڈھانچہ مکمل ہوتا ہے محض انفرادی ترقی انسان کو ایک اچھا جانور بنا کررکھ دیگی اور اس سے زیادہ نہیں اور دوسری طرف محض اجتماعی ترقی انسانی سوسائٹی کو ایک ایسی مشین کی صورت میں بدل دے گی جس کے مختلف حصے دیکھنے میں تو انسان نظرآئیں گے لیکن فی الحقیقت بے حس اور بے جان پرزوں سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔
اوپر کے نظریہ کے ماتحت جس کی تائید میں بیشمار قرآنی آیات اور احادیث پیش کی جاسکتی ہیں مگر یہ اس کا موقع نہیں اسلام نے ایک نہایت حکیمانہ وسطی نظام پیش کیا ہے جو دونوں طرف کی انتہائوں سے بچتے ہوئے انسان کی انفرادیت اور سوسائٹی کی اجتماعیت دونوں کو زندہ رکھتا ہے وہ ایک طرف افراد کے انفرادی حق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی ذاتی جدو جہد کے پھل کو ان سے چھینتا نہیں مگر دوسری طرف وہ ان سے اپنی قوم اور اپنے غریب بھائیوں کی امداد کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانی کرتا ہے۔ یہ قربانی محض طوعی نہیں کہ جس کی مرضی ہو قربانی کرے اور جس کی مرضی ہو نہ کرے بلکہ اکثر صورتوں میں یہ قربانی جبری رنگ رکھتی ہے اور حکومت کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ امیروں کی دولت پر بھاری ٹیکس لگا کر غریبوں کی امداد کا انتظام کرے اوراس کے علاوہ کچھ حصہ طوعی قربانی کا بھی رکھا گیا ہے تاکہ سوسائٹی کے افراد میں باہم محبت اور اخلاص اور تعاون کے جذبات پیدا ہوں اور اسلام کا قانون ورثہ اور سود کی حرمت وغیرہ مزیدبراں ہے۔ اس طرح ایک طرف تو اسلام نے افراد کے ذاتی حق کو قائم کر کے انفرادیت کو زندہ رکھا ہے اور دوسری طرف قوم اور قوم کے غریب طبقہ کی خاطر افراد سے زیادہ سے زیادہ قربانی کرا کے جس میں کچھ حصہ جبری ہے اور کچھ طوعی اجتماعی زندگی کی داغ بیل قائم کی ہے اور یہی وہ وسطی نظریہ ہے جس سے قو میں دائمی زندگی پا سکتی ہیں۔ ورنہ ایک انتہا کے نتیجہ میں انفرادیت مرے گی اور دوسری انتہا کے نتیجہ میں زندگی کا خاتمہ ہوجائیگا اور بالآخر دونوں کا نتیجہ عالمگیر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔
یہ تو اسلام کے نارمل اقتصادی نظام کا مرکزی نقطہ ہے لیکن اسلام اس طرف سے بھی آنکھیں بند نہیں کرتا کہ بعض اوقات قوموں کی تاریخ میں ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہوسکتے ہیں کہ جب قحط وغیرہ کے نتیجہ میں غریبوں کے خوراک کے ذخیرے ختم ہوجائیں اور وہ بھوکے مرنے لگیں اور امیروں کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک موجود ہو تو اس قسم کے حالات میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ سب قومی ذخیروں کو ملا کر لوگوں میں ان کی ضرورت کے مطابق تقسیم کردو اور آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ :۔
’’یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں‘‘ بالآخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوںکہ میں تو بات کو تسلیم کرتاہوں کہ آج کل اسلامی سوسائٹی میں بھی ناگوار خلیجیں پیدا ہوچکی ہیں ۔ایک بے پناہ دولت میں لوٹتا پوٹتا ہے اور دو سرا طبقہ نان جویں تک سے محروم ہے اور اس سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ امیر طبقہ کے بیشتر کو (میںسب پر الزام نہیں رکھتا) اپنے غریب بھائیوں کی تکلیف کا احساس تک نہیں۔ گویا اقتصادی خلیج بھی موجود ہے اور جذباتی خلیج بھی۔ یہ صورت حال یقیناً بہت قابل اعتراض اور قابل اصلاح ہے لیکن اس کا علاج اشتراکیت میں نہیں بلکہ اسلام میں ہے ۔
پس جب اسلام میں ساری بیماریوں کا علاج موجود ہے تو ہمیں کیاضرورت ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر اشتراکیت کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور اسلام کو نعوذ باﷲ بیٹا ثابت کرنے کے علاوہ اس پیالے کے پینے کے درپے ہورہے ہیں ہمیں ایک زہر سے بچا کر دوسرے زہرکی طرف کھینچ رہا ہے۔ اگر حکومت ان فرائض کو ادا کرے جو اسلام اس پر عائد کرتا ہے اور اگر ان فرائض کو پورا کریں جو اسلام ………………………………………………
…نے ان کے ذمہ لگائے ہیں تو ہمیں خدا کے فضل سے اشتراکیت کی کھانڈ چڑھی زہر کی گولی کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام میں ہی ہمیں دنیا کی ساری جنت مل سکتی ہے جیسا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو ملی اور انشاء اللہ پھر ملے گی۔وآخر دعوٰ ناان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍مارچ ۱۹۵۰ئ)


ایک غلطی کی اصلاح
الفضل مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۵۰ء میں میرا ایک مضمون ’’فاروقی صاحب کے تبصرہ پر تبصرہ‘‘ شائع ہوا ہے جس میں فہیم احمد صاحب فاروقی ایم اے کے اس تبصرہ کا جواب ہے جو فاروقی صاحب کی طرف سے حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتاب ’’اسلام اور زمین کی ملکیت ‘‘ کے متعلق لاہور کے ہفت روزہ اخبار’’آفاق ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ حسب دستور کچھ تو کاتب صاحب نے اور کچھ پریس والوں نے میرے اس مضمون کو کافی مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض دوسری غلطیاں تو غالباً دوست خود غور کرکے درست کر سکیں گے مگر ایک غلطی ایسی ہے کہ شاید ازخود اس کی اصلاح کی طرف خیال نہ جائے ۔صفحہ ۵ کالم ۳ کے آخری نصف حصہ میں ایک فقرہ یوں درج ہے ۔
’’ دوسری انتباہ کے نتیجہ میں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔اس فقرہ کی صحیح صورت یوں ہے :۔
’’دوسری انتباء کے نتیجہ میں اجتماعی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا‘‘
احباب صحت فرمائیں۔ باقی ہر حصہ آخری کالم کے کناروں کے حروف کٹ جانے کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اس کا تو اب کوئی علاج نہیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ ؍مارچ ۱۹۵۰ئ)




ربوہ میں درویشوں کے اہل وعیال کیلئے مکانوں کی تجویز
مخیر احباب کیلئے خدمت اور ثواب کا عمدہ موقعہ
اس وقت کئی درویشوں کے رشتہ دار مکان کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہیں۔ اب تک ایسے درویشوں کے بیوی بچے عارضی طور پر کسی نہ کسی رشتہ دار کے پاس ٹھہر کر گذارہ کرتے رہے ہیں لیکن عرصہ لمبا ہوجانے کی وجہ سے مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں درویشوں کے اہل وعیال کی خاطر خواہ دیکھ بھال کا بھی کوئی انتظام نہیں اور پھر کئی قومی بچے تعلیم وتربیت سے بھی محروم رہتے جارہے ہیں ۔
ان حالات میں حضرت امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے یہ تجویز کی گئی ہے کہ ربوہ میں مستحق درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے فی الحال پندرہ عدد عارضی مکانات تعمیر کرائے جائیں ۔یہ مکانات کچے ہوں گے اور اوسطاًدو اڑھائی سو روپیہ فی مکان خرچ آئے گا۔
پس جماعت کے ذی ثروت اور مخیر دوستوں سے تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اس کارخیر میں حصہ لے کر عنداللہ ماجور ہوں ۔جماعت کے دوستوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت قادیان کے درویش وہ فرض ادا کر رہے ہیں جو دراصل ساری جماعت کا فرض ہے۔ پس ان کی خدمت حقیقتاًبڑے ثواب کا موجب ہے ۔
یہ چندہ محاسب صاحب صدرانجمن احمدیہ ربوہ (متصل چنیوٹ ) کے نام پر جانا چاہئے اور منی آرڈر کے کوپن پر نوٹ کردیا جائے کہ یہ چندہ درویشوں کے اہل و عیال کے مکانوں کی تعمیر کے واسطے ہے اور ساتھ میںمجھے بھی اطلاع بھجوادی جائے تامیں اپنے ریکارڈ میں درج کر کے اخبار میں اعلان کرا سکوں۔ جزاکم اﷲ احسن الجزائ۔ محاسب صاحب کی خدمت میں لکھا جارہا ہے کہ وہ اس فنڈ کے لئے ایک علیحدہ امانت کھول دیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۵۰ئ)
چوہدری بختاور علی صاحب کہاں ہیں
قادیان سے ایک دوست نے چوہدری بختاور علی صاحب سب انسپکٹر پولیس کا پتہ دریافت کیا ہے جو تقسیم سے پہلے کمتر ضلع فیروز پور میں تھے۔ اُن کا اصل وطن غالباً منٹگمری ہے ۔ اگر کسی صاحب کو ان کا موجودہ پتہ معلوم ہو یا وہ خود اس اعلان کو دیکھیں تو مطلع فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۵۰ئ)









اسلام اور زمین کی ملکیت
میرے تبصرے پر فاروقی صاحب کا تبصرہ
حضرت امام جماعت احمدیہ کی جدید تصنیف ’’ اسلام اور زمین کی ملکیت ‘‘ پر ’’آفاق‘‘ میں فہیم احمد صاحب فاروقی ایم۔ اے کا تبصرہ شائع ہوا تھا۔اس کے جواب میں میں نے ایک مختصر سا نوٹ لکھ کر ’’آفاق ‘‘ میں بھجوایا جو گویا فاروقی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ کا رنگ رکھتا تھا اور مجھے امید تھی کہ میرے اس نوٹ پر یہ بحث ختم ہو جائے گی۔ اس لئے نہیں کہ فاروقی صاحب لازماً میرے دلائل کی صحت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ اس لئے کہ جب ایک جواب کا جواب الجواب ہو جائے تو اس کے بعد عموماً خاموشی اختیار کر کے پبلک کو ٹھنڈے دل سے سوچنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن ۱۲ مارچ کے ’’ آفاق ‘‘ میں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ میرے اس جواب الجواب کے جواب میں فاروقی صاحب نے ایک اور مضمون لکھ کر شائع کرا دیا ہے اور اس میں بعض ایسی باتیں بیان کی ہیں جو مغالطہ پیدا کرنے والی ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ان کے اس تازہ مضمون کے جواب میں میں بھی کچھ لکھوں تاکہ کم از کم اس مغالطہ کو دور کر سکوں جو ان کی اس تحریر سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد میں فاروقی صاحب کے جواب میں ( اگر وہ اس بحث کو لمبا کرنا چاہیں ) کچھ اور عرض نہیں کروں گا کیونکہ اس طرح مناظرے کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور میرا تجربہ یہ ہے کہ مناظرے کا نتیجہ ضد اور سطحیت کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔پس بہر حال میری طرف سے اس بحث میں یہ آخری نوٹ ہے۔ اگر یہ فاروقی صاحب کی تسلی کا باعث نہ بن سکے تو کم از کم میری تسلی کے لئے وہ قرآنی آیت کافی ہو گی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی شخص ہر دوسرے شخص کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلی بات فاروقی صاحب نے اپنے اس مضمون میں یہ کہی ہے کہ میں نے اپنے نوٹ میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی تصنیف ’’ اسلام کے اقتصادی نظام ‘‘ کا ’’ کتاب ‘‘ کے لفظ سے ذکر کیا ہے ۔ حالانکہ فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ وہ تقریر ہے کتاب نہیں۔‘‘ مجھے حیرت ہے کہ فاروقی صاحب کو اس ریمارک کی کیا ضرورت پیش آئی۔ وہ خواہ تقریر تھی یا تصنیف ،بہر حال یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے فاروقی صاحب اپنے علمی مقالہ میں داخل کرناضروری خیال کرتے یا جس کے بیان کرنے سے امر زیر بحث پر کوئی اصولی روشنی پڑ سکتی تھی۔ علاوہ ازیں اگر کوئی تقریر بعد میںکتابی صورت میں شائع ہو جائے تو بہر حال وہ کتاب کہلاتی ہے اور دنیا بھر کا مسلمہ اصول اسے کتاب کے نام سے ہی یاد کرتا ہے۔ لیکن اگر فاروقی صاحب دنیا کے اس مسلّمہ اصول کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو میں یہ عرض کروں گا کہ کیا فاروقی صاحب قرآن کریم کو کتاب مانتے ہیں یا نہیں ؟ حالانکہ وہ گویا ان الہامی تقریروں کا مجموعہ ہے جو خدائے لم یزل کی طرف سے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے القاء کی گئیں۔ اگر تئیس سال کے عرصہ پر پھیلی ہوئی تقریروں کو خدا تعالیٰ قرآن شریف کے بالکل شروع میں ہی ’’‘‘ کے الفاظ کہہ کر دنیا کے سامنے پیش فرما تا ہے تو میری اس بات پر کہ میں نے ایک تقریر کو جو بعد میں کتابی صورت میں چھپ گئی ،کتاب کے نام سے پیش کیا۔ فاروقی صاحب چیں بچیں ہوتے ہوئے اچھے نہیں لگتے اور یوں تو کسی صاحب کو ناراضگی کے اظہارسے روکنا میرے بس کی بات نہیں۔
اس کے بعد فاروقی صاحب میرے تبصرے کے اس حصہ کو لیتے ہیں جہاں میں نے لکھا تھا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی کتاب ’’ اسلام اور زمین کی ملکیت ‘‘ میں صرف چند معین سوالوں کا جواب دیا ہے جو زمین کے حق ملکیت سے تعلق رکھتے ہیں یعنی آیا اسلام زمین کی ملکیت کے تعلق میں افراد کے حق کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں اور اگر کرتا ہے تو کس صورت میں ؟ کیونکہ یہی اس کتاب کا مخصوص موضوع تھا اور میں نے فاروقی صاحب کی جرح کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یہ کتاب کوئی انسائیکلو پیڈیا تو تھی نہیں کہ جس میں ہر موضوع کو داخل کر دیا جاتا۔ میرے اس نوٹ کے جواب میں فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ : -
’’ اگر کوئی مصنف زمین داری جیسے اہم مسئلہ کو پیش کرنے کے لئے انسائیکلو پیڈیا سے کم کوئی کتاب نہیں لکھ سکتا تو اسے انسائیکلو پیڈیا ہی لکھنا چاہئے ‘‘ ۔
مجھے افسوس ہے کہ اس جرح میں بھی فاروقی صاحب نے میرے نوٹ کو سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ میری بات بالکل صاف اور سیدھی تھی۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ہر کتاب کا ایک مخصوص موضوع ہوتا ہے اور ہر اچھے مصنف کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل کو اپنے موضوع سے باہر نہ جانے دے اور چونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس کتاب کا موضوع جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے زمین کے حق ملکیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے اس کتاب میں صرف اسی مخصوص مضمون کے متعلق ہی بحث کی گئی ہے۔ اب اس پر یہ جرح کرنا کہ اس میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی بحثیںکیوں نہیں آئیں ( بے شک یہ فاروقی صاحب کے الفاظ نہیں مگر ان کی جرح کا مرکزی نقطہ بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں )ایک ایسی جرح ہے جو کم از کم میری سمجھ سے بالا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اب پھر عرض کرتا ہوں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی یہ کتاب اشتراکیت کے موضوع پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ کتاب سرمایہ داری کے موضوع پر ہے بلکہ صرف ایک مخصوص سوال کے متعلقہے جو ’’ زمین کے حق ملکیت ‘‘سے تعلق رکھتا ہے جس کا تجزیہ میں نے اپنے پہلے مضمون میں تین معین سوالوں کی صورت میں پیش کیا تھااور ایک سوال کا اب اضافہ کر رہا ہوں کیونکہ وہ بھی اس کتاب کے موضوع کا حصہ ہے۔ بہرحال اگر فاروقی صاحب کے خیال میں یہ کتاب ان چار سوالوں کے جواب سے قاصر رہی ہے تو صاف صاف بتا دیں کہ ان میں سے فلاں سوال کا جواب نہیں آیا یا یہ کہ فلاں حصہ کا جواب غلط ہے بس پھر خود بخود فیصلہ ہو جائے گا۔
لیجئے میں ان سوالوں کو پھر دہرا دیتا ہوں جو اس کتاب کا اصل موضوع ہیں :
(۱) کیا اسلام زمین کی انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے؟ ( جواب مثبت میں )
(۲) اگر وہ انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے تو کیاوہ اس اجازت کے ساتھ اس قسم کی کوئی حد بندی لگاتا ہے کہ کسی ایک مالک کے پاس اس قدر رقبہ سے زیادہ زمین نہیں رہ سکتی؟ ( جواب منفی میں )
(۳) کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کسی اور شخص کو کاشت پر دے اور اس سے اپنے حق ملکیت کے عوض میں بٹائی یا لگان وصول کرے؟ یعنی وہی جسے آج کل کی اصطلاح میں زمینداری یا لینڈ لارڈازم کہا جاتاہے اور جس کا فاروقی صاحب نے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ( جواب مثبت میں )
(۴) کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی شخص کی زمین جو اس کی جائز ملکیت ہے اس سے زبردستی چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دی جائے؟ ( جواب منفی میں )
یہ وہ چار سوال ہیں جو کتاب ’’ اسلام اور زمین کی ملکیت ‘‘ کا مخصوص موضوع ہیں۔ اب فاروقی صاحب فرمائیں کہ ان چار سوالوں میں سے کس سوال کا جواب اس کتاب میں نہیں آیا ؟ اور اگر مطلب یہ ہے کہ ان چار سوالوں کے علاوہ بعض اور باتیں بھی شامل کیوں نہیں کی گئیں تو ( قطع نظر اس کے کہ اس کتاب میں کئی اور ضمنی باتیں بھی شامل ہیں ) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ وہ اس کتاب کے مخصوص موضوع سے باہر ہیں۔ مگر میں نے ساتھ ہی عرض کر دیا تھا کہ ہمارے دوسرے لٹریچر میں ان زائد سوالوں کا جواب بھی کافی و شافی موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ناقد صاحب اس لٹریچر کو ’’تقریر ‘‘ کہہ کر قابل التفات نہیں سمجھتے۔ گویا دلیل صرف ’ ’ کتاب ‘‘ میں بیان کی جا سکتی ہے تقریر میں نہیں سما سکتی۔
پھر فاروقی صاحب میرے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک طرف وہ زمینداری کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مانتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے بطن سے خرابیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور پھر ان خرابیوں کے ازالہ کے سوال کو الگ بھی سمجھتے ہیں۔‘‘ ہائے افسوس میں نے یہ کہاں لکھا ہے ؟ فاروقی صاحب خود میرے منہ میں ایک بات ڈالتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی تردید شروع فرما دیتے ہیں۔ محترم فاروقی صاحب ! میں نے تو یہ لکھا تھا کہ ’’ اگر رقبہ مملوکہ کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوں تو۔۔۔ ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آچکی ہے‘‘ اب ایک تو فاروقی صاحب نے یہ غضب ڈھایا ہے کہ میں نے تو یہ فقرہ رقبہ مملوکہ کی حد بندی کے سوال کے تعلق میں لکھا تھا۔ مگر وہ اس کا کانٹا بدل کر اسے زمینداری یعنی لینڈ لارڈازم کے سوال کے نیچے لے گئے ہیں۔ حالانکہ فاروقی صاحب خوب جانتے ہیں کہ یہ دونو سوال ایک دوسرے سے بالکل جدا اورمتغائر ہیں۔ یعنی لینڈ لارڈازم ( جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زمین کسی دوسرے شخص کو کاشت پر دینا ) اور چیز ہے اور رقبہ مملوکہ کی حد بندی کا سوال بالکل اور ہے اور یہ ہرگز قرین انصاف نہیں کہ میں تو ایک بات رقبہ مملوکہ کی حد بندی کی بحث کے تعلق میں بیان کروں اور فاروقی صاحب اسے زمینداری یعنی لینڈ لارڈازم کے سوال کی طرف کھینچ کر لے جائیں اور پھر اسے منسوب کریں میری طرف!
پھر جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے ظاہر ہے میں نے یہ فقرہ ’’ اگر ‘‘ کے لفظ کے ساتھ شروع کیا تھااور علم کلام کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو بات ’’ اگر‘‘ کے لفظ کے ساتھ بیان کی جائے اس کے متعلق ضروری نہیں ہوتا کہ وہ لکھنے والے کے عقیدہ کا جزو ہو بلکہ بعض اوقات بحث کے سارے پہلوئوں پر نظر ڈالنے کی غرض سے ایک بات بیان کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ وسعت پیدا کرنے کے لئے ’’ اگر‘‘ کا لفظ لگا دیا جاتا ہے لیکن فاروقی صاحب نے یہ دوسرا غضب ڈھایا کہ نہایت خاموشی ے ساتھ میرا یہ ’’ اگر ‘‘ بھی حذف کر گئے۔ اس کے علاوہ میں نے اس فقرہ کے آخر میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ ’’ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آ چکی ہے۔ ‘‘ مگر فاروقی صاحب نے یہ حصّہ چھوڑ کر اور صرف اوپر کا حصہ لے کر میرے بیان کو ہنسی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے اس پر میں اس کے سوا فاروقی صاحب سے کیا کہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے۔
لیکن ان ساری باتوں کے قطع نظر فاروقی صاحب کا یہ کہنا کہ ’ ایک طرف زمینداری کو اسلامی تعلیم کے مطابق مانا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے ۔۔۔ کہ اس کے بطن سے خرابیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں ‘‘ ۔ ان باتوں کو گویا متضاد قرار دینے کے مترادف ہے۔ مگر یہ اعتراض بھی فلسفہ شریعت کے خلاف ہے۔ اصول شریعت میں گہری نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اسلام میں توازن قائم کرنے کے اصول کوبھی تسلیم کیا گیا ہے۔ بہت سی باتوں میں شریعت ایک بات کو اچھا قرار دے کر اسے ایک طرف اپنی تعلیم کا جزو بناتی ہے بلکہ اس کا حکم دیتی ہے لیکن دوسری طرف بعض حالات میں اس کے امکانی نقصانات کو بھی تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ کون نہیں جانتا کہ نماز اور روزہ وغیرہ کتنی مبارک چیزیں ہیں مگر ہماری حکیمانہ شریعت نے ان بابرکت عبادتوں میں بھی دوسرے مصالح کے ماتحت کئی قسم کی بریکیں لگا رکھی ہیں۔ مثلاً نماز میں ساری رات جاگنے سے منع فرمایا ہے۔ روزہ میں مسلسل نفلی صیام کو ناجائز قرار دیا ہے۔ عورت کو اس بات سے روکا ہے کہ وہ خا وند کی اجازت کے بغیر کوئی نفلی روزہ رکھے وغیرہ وغیرہ اور نماز روزہ کا سوال تو الگ رہا بعض بظاہر نقصان رساں باتوں میں بھی اسلام نے اسی حکیمانہ توازن کو قائم کیا ہے۔ مثلاً ایک طرف خدا نے خود سانپ کو پیدا کیا ہے اور دوسری طرف حدیث میں آتا ہے کہ اس جانور کو حرم تک میں پناہ نہ دی جائے اور اگر نماز میں نظر آجائے تو نماز کو بھی ملتوی کر کے پہلے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا نے سانپ کو مارنے کا ہی حکم دینا تھا تو پھر اسے پہلے پیدا ہی کیوں کیا ؟ اس کا یہی جواب ہے کہ جہاں اس کے پیدا کرنے میں بعض فوائد ہیں وہاں اس کے مارنے میں بھی بہت سے فوائد ہیں۔ گویا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور اس طرح ایک حکیمانہ توازن قائم کر دیا گیا ہے مگر یہ اس کی تفصیل کا موقعہ نہیں۔ بہر حال اصولاً اس میں ہر گز کوئی اعتراض کی بات نہیں کہ مصلحت عامہ کے ماتحت ایک بات کی اجازت بھی دی جائے اور پھر اس کی بعض امکانی خرابیوں کی روک تھام کے لئے اس کے ساتھ مناسب شرطیں اور روکیں بھی لگا دی جائیں۔ مثلاً اسی دولت کی تقسیم والے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف اسلام نے انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کیا ہے لیکن دوسری طرف اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کوئی باپ اپنی ساری جائیداد اپنے صرف ایک بچے کے نام پر منتقل کر کے چلا جائے کیونکہ اس میں نہ صرف اولاد میں نا واجب رقابت پیدا ہوتی ہے بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ پس گو فاروقی صاحب نے میری بات کو صحیح رنگ میں پیش نہیں کیا مگر ان کا خیال اصولی رنگ میں بھی بہر حال غلط اور بے بنیاد ہے۔
مگر حق یہ ہے کہ یہ دعویٰ باطل ہے کہ معاشرت کی موجودہ خرابیاں زمینداری یعنی لینڈ لارڈازم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خرابیاں کسی ایک وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس کی تہ میں سینکڑوں وجوہات برسرکار ہیں۔ جن میں سے بعض قانون کے نقص کی وجہ سے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مذاہب کا حال ہے اور بعض عمل کے نقص کی وجہ سے ہیں جیسا کہ بد قسمتی سے اس زمانہ کے مسلمانوں کا حال ہے ۔ اور پھر یہ خرابیاں بھی کسی ایک دائرہ سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی اور تمدنی اور جذباتی وغیرہ کئی قسم کے میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور جب تک ہر میدان میں صحیح اصلاح کی صورت پیدا نہیں کی جائے گی اس وقت تک کسی ایک بات کو لے کر یہ خیال کرنا کہ اس کی طرف توجہ دینے سے الٰہ دین کے لیمپ کی طرح سارے روگ خود بخود دور ہو جائیں گے ایک خطرناک غلط فہمی ہے۔کیا بڑے زمیندار کی زمین چھین کر چھو ٹے زمیندار کا شتکار کو دے دینے سے اس چھا بڑی لگانے والے کی تسلی ہو جائے گی جو اپنے سامنے ایک عالیشان دوکان میں لاکھوں روپے کا مال دیکھ رہا ہے ؟ پھر کیا زمیندار کواس کی زمین سے محروم کر دینے کے نتیجہ میں اس غریب مزدور کا دل خوش ہو جائے گا جو ایک بڑے کارخانہ میں دو تین روپے یومیہ پاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے کا رخانہ کا مالک سونے میں لوٹتا پوٹتا ہے؟ پھر کیا کاشتکار کو زمیندار کی زمین مل جانے سے دفتر کے اس چپڑاسی کو اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا جو چالیس یا پچاس روپے ماہوار میں اپنی زندگی کی تلخ منزلیں کاٹ رہا ہے لیکن اسی دفتر میں اس کا افسر اڑھائی تین ہزار روپیہ ماہوار لے کر اپنے گھر کو عیاشی کا گہوارہ بنائے ہوئے ہے؟ اسی طرح دوسرے بے شمار میدانوں کا حال ہے جن میں ایک طرف حالات کے غیر معمولی تفاوت نے اور دوسری طرف احساس کی غیر معمولی شدت نے خیالات کا ایک زبردست ہیجان پیدا کر رکھاہے۔ پس اگر محض مادی قانون کے پیچھے چلنا ہے تو ہر میدان میں امتیاز کو اڑ ا کر سب کو ایک سطح پر لانا ہو گا اور اگر اسلام کے روحانی علاج کو اختیار کرنا ہے تو سب سے مقدم دلوں کی اصلاح کا سوال ہے۔ فاروقی صاحب نے خود مانا ہے کہ قرون اولیٰ کے زمانہ میں دولت کے اختلاف کے باوجود لوگ خوش تھے۔ یہ کیوں؟ بس اسی میں فاروقی صاحب کے اعتراض کا اصولی جواب آجاتاہے کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل مرض دولت کا اختلاف نہیں بلکہ دولت کا غلط استعمال ہے جس سے مراد وہ ناگوار تمدنی اور جذباتی خلیج ہے جس نے موجودہ زمانہ میں اخوت اسلامی کے نظام کو تہس نہس کر رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو بھائی سمجھے لیکن کیا آج کا بڑا زمیندار چھوٹے زمیندار کو اپنا بھائی سمجھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلعم کے زمانہ میںبڑا زمیندار چھوٹے زمیندار کو بھائی خیال کرتاتھا۔ پھر کیا آج کا بڑا تاجر چھوٹے تاجروں کو بھائیوں کی طرح ملنے کے لئے تیار ہے؟ ہرگز نہیں۔ حالانکہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں بڑا تاجر چھوٹے تاجروں سے بھائیوں کی طرح ملتا تھا۔ پھر کیا آج کا افسر اپنے ماتحتوں کو اپنی برادری کا حصہ یقین کرتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ حالانکہ قرون اولیٰ میں ہر افسر ( محکمانہ نظام کے علاوہ ) اپنے سب ماتحتوں کو اپنا عزیز سمجھتا اور اسی رنگ میں ان سے سلوک کرتا تھا۔ اسی طرح قربانی کی روح کا حال ہے کہ اپنے بھائیوں کے لئے جو قربانی کا جذبہ پہلے پایا جاتا تھا وہ اب موجود نہیں ۔ تو جب حالات یہ ہیں تو صرف بعض باتوں میں ظاہری اصلاح سے کس بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ ہاں دلوں کی اصلاح اور عمل کی اصلاح بے شک بھاری تغیر پیدا کر سکتی ہے۔ جیسا کہ دولت کے تفاوت کے باوجود اس نے قرون اولیٰ میں کیا لیکن اگر دل کا جذبہ اور جوارح کا عمل ٹھیک نہ ہو تو ظاہری اصلاح بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی اور ناگوار کش مکشوں اور رقابتوں کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
ان فی جسد الانسان مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب۔ ۲۴
’’ یعنی انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ اچھی حالت میں ہو تو سارا جسم اچھا ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور کان کھول کر سن لو کہ وہ دل ہے‘‘۔
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کہیں کوئی نقص واقعی موجود ہے تو اس کی اصلاح نہ کی جائے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ اصلاح اسلامی تعلیم کی روشنی میں ( نہ کہ اشتراکیت کی کورا نہ تقلید میں ) ظاہر اور باطن دونوں کی ہونی چاہئے لیکن بد قسمتی سے اب حال یہ ہے کہ نام تو اسلام کا رکھا جاتا ہے مگر سارے تغیرات کا بین السطور ڈھانچہ اشتراکیت سے مستعار لیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ اسی طرح کی ایک *** انتہا ہے جس طرح کہ دوسرے ملکوں کی سرمایہ داری دوسری طرف کی *** انتہا ہے اور صحیح نظام صرف اسلام نے پیش کیا ہے جو ایک طرف دولت کے انفرادی حق کو تسلیم کرتا ہے اور دوسری طرف اخوت اور قربانی اور تعاون باہمی کے نظام کو بھی بر سر کار لاتا ہے۔
فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے حالات بدل چکے ہیں اور پرانے زمانہ کے اصولوں کو موجودہ زمانہ پر چسپاں کرنا ٹھیک نہیں اور اس کی توضیح میں میری اس بات کو رد کرتے ہوئے کہ اسلام کی دائمی شریعت میں سارے زمانوں کی خرابیوں کا علاج موجود ہے ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ اس لحاظ سے تو تبصرہ نگار کے اصول کے مطابق آج بھی تیر اور تلوار سے جنگ ہونی چاہئیے۔ کیونکہ عہدرسالت اور خلافت راشدہ کی جنگیں انہی آلات کے ذریعہ جیتی گئیں۔‘‘ افسوس فاروقی صاحب پھر میری بات کو کہاں سے کہاں لے گئے۔ میں نے اصولی رنگ میں لکھا تھا کہ ’’ کیا قرآن و حدیث کے حوالے موجودہ زمانہ کے مسائل کا علاج پیش نہیں کرتے۔۔۔قرآن و حدیث کا دور دائمی ہے اور اس کا دامن دنیا کی آخری ساعت تک وسیع ہے۔ آپ بے شک اس کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی شریعت کے لچکدار حصہ کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں مگرقرآن بہر حال وہی رہے گا حدیث وہی رہے گی اور قرآن و حدیث کی محکمات بھی وہی رہیں گی۔‘‘ اب میرے اس صاف اور سیدھے اور اصولی نوٹ کو بدل کر اسے پرانے زمانہ کے آلات حرب کی بے جوڑ مثال دیتے ہوئے ٹالنے کی کوشش کرنا یقیناً تحقیق حق کا صحیح انداز قرار نہیں دیا جا سکتا اور پھر کیا فاروقی صاحب اتنی سی بات بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ زمین کی ملکیت کے حق کا مسئلہ ایک ایسی بات ہے جس کے سارے ارکان اسی طرح قرون اولیٰ میں موجود تھے جس طرح کہ وہ آج موجود ہیں۔ کیا قرون اولیٰ میں زمین موجود نہیں تھی اور صرف آج معرض وجود میں آئی ہے۔ پھر کیا قرون اولیٰ میں زمین کے مالک کا وجود نہیں تھا اور وہ صرف اب آکر پیدا ہوا ہے؟ اور پھر کیا قرون اولیٰ میں کاشتکار موجود نہیں تھے اور وہ صرف اس زمانہ کی پیداوار ہیں؟ تو جب یہ ساری چیزیں ( جو مسئلہ زمین کے بنیادی ارکان ہیں ) قرونِ اولیٰ میں بھی اسی طرح موجود تھیں جس طرح کہ وہ اب موجود ہیں تو پھر اس کی بے جوڑ مثال میں پرانے زمانے کے تیر و تلوار کے مقابلہ پر موجودہ زمانہ کی توپ و بندوق کا ذکر کر کے میری دلیل کی تضحیک کرنا ہرگز کوئی باوقار جرح نہیں کہلا سکتی لیکن بہرحال فاروقی صاحب کا قلم ان کے ہاتھ میں ہے اور مجھے اسے روکنے کا اختیار نہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ بے شک موجودہ زمانہ میں زمین اور زمین کا مالک اور کاشتکار اسی طرح موجود ہیں جس طرح کہ وہ پہلے زمانہ میں موجود تھے مگر لوگوں کے دل بدل چکے ہیں تو محترم فاروقی صاحب جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے اب بھی وہی عرض کروں گا کہ اس صورت میں اس چیز کا علاج کیجئے جو بدلی ہے اور اس چیز کے پیچھے نہ لگئے جو نہیں بدلی ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ موجودہ شکست خوردہ ذہنیت کے نتیجہ میں آپ اشتراکیت کے سیلاب سے غیر شعوری طور پر مرعوب ہو کر اسلام کی ہر اس بات کو چھوڑتے چلے جائیں گے جو آپ کے خیال میں موجودہ زمانہ کے مناسب حال نہیں اور اس مرض کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیں گے جو حقیقۃً اسلام کی روح کے مٹنے سے پیدا ہو رہی ہے۔ میں نے یہ الفاظ بڑے درد کے ساتھ لکھے ہیں۔ کاش وہ اسی درد کے ساتھ قبول کئے جائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶ ؍اپریل ۱۹۵۰ئ)


اسلام اور زمین کی ملکیت
میرے تبصرے پر فاروقی صاحب کا تبصرہ
اسلام کے ابتدائی دور اور موجودہ زمانہ میں حالات کی تبدیلی کا ذکر کرنے کے بعد فاروقی صاحب نے چند سطروں میں آیت ’’عفو ‘‘ اور ’’مسئلہ اکتناز‘‘کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ ان کا یہ بیان بہت مختصر ہے۔ میں ان کا مطلب پوری طرح سمجھ نہیں سکا ۔ غالباً ان کا منشاء یہ ہے کہ قرآن شریف نے آیت قل العفو میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جو مال کسی شخص کی ضرورت سے زائد ہو وہ اسے لازمًا دوسروں کو دے دے اور اسے ’’کننر‘‘ یعنی خزانہ بنا کر نہ رکھے۔ اگر یہی مطلب ہے تو افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے اس آیت کے صحیح مقصد اور اس کے سیاق و سباق اور اس کے دائرہ عمل کو نہیں سمجھا۔ یہ آیت اسلامی جنگوں کی شدت کے زمانہ میں ایسے صحابہ ؓ کے سوال پر نازل ہوئی تھی جو اس زمانہ میں اسلام کی بھاری جنگی ضروریات اور اس کے نتیجہ میں اسلام کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے بے دریغ خرچ کرنے کے خواہشمند تھے۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی گئی کہ قل العفویعنی اے رسول اپنے صحابہ ؓ سے کہہ دو کہ جو مال تمہاری واجبی ضروریات سے زیادہ ہو وہ خرچ کرو اور یا یہ کہ اپنے مال کا اچھا حصہ خرچ کرو۔ ( کیونکہ یہ ہی عربی زبان میں عفو کے دو معنی ہیں ) یعنی ایسا نہ ہو کہ ردی اور ناکارہ حصہ الگ کر کے خدا کو دے دو۔ اب میں حیران ہوں کہ اس سے وہ استدلال کس طرح ہو سکتا ہے جو فاروقی صاحب کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اول تو یہ آیت بعض صحابہ ؓ کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی تھی جو اپنی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے بے دریغخرچ کرنے کے لئے بے چین تھے اور پھر اس میں ہرگز کوئی جبر کا پہلو نہیں ہے۔ کہ بہر حال ہر مسلمان سے اس کا زائد مال چھین لیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر عمل فرماتے ہوئے سارے مسلمانوں کا زائد مال ان سے لے لیتے۔ مگر حدیث اور تاریخ میں اس بات کا قطعًا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ آپ نے یا آپ کے بعد خلفائے راشدین نے کبھی کسی مسلمان سے اس کے ذاتی مال کا کوئی حصہ یہ کہہ کر جبراً چھینا ہو کہ یہ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے۔ پس خدا کے لئے آیت کے ایسے معنی نہ کرو جس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہو کہ آپ کو ایک خدائی حکم ملا اور آپ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ باقی رہا ’’ کننر یا اکتناز‘‘ کا سوال یعنی اپنے مال کو بند ذخیرہ کی صورت میں دبا کر رکھنا اور اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا ۔سو یہ حقیقتاً اسلامی روح کے خلاف ہے اور اسی لئے جیسا کہ میں آگے چل کر لکھوں گا۔ اسلام نے کنوز پر بھاری ٹیکس لگا کر اس قارونی روح کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ مگر محترمی فاروقی صاحب ! اس سے اس بات کا جواز کہاں سے نکلا کہ زمینداروں کی زمینیں چھین کر کاشتکاروں کو دے دو۔ آخر ایک تعلیم یافتہ انسان کو مناظرہ کے جوش میں کوئی بے جوڑ بات تو نہیں کہنی چاہئے۔
پھر فاروقی صاحب میرے تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تبصرہ نگار نے ( یعنی میں نے )مصنف ( یعنی حضرت امام جماعت احمدیہ ) کے استدلالات کا اس طرح ذکر کیا ہے کہ گویا وہ نصوص صریحہ ہیں۔ حالانکہ قرآنی آیات اور ان کی تاویل و تفسیر دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس کے جواب میں میں اس کے سوا کیا عرض کر سکتا ہوں کہ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ میں نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے استدلالات کو ( قطع نظر اس کے کہ میرا ذاتی عقیدہ ان کے متعلق کیا ہے ) ہرگز نصوص صریحہ کے طور پر پیش نہیں کیا۔ اگر میں نے ایسا کیا ہے تو فاروقی صاحب میرے وہ الفاظ پیش فرمائیں۔ جہاں میں نے ایسا دعوٰے کیا ہے۔پھر خود بخود اس اعتراض کی حقیقت کھل جائے گی۔ میں نے تو فاروقی صاحب کے واسطے بھی اسی طرح استدلال کا رستہ کھلا رکھا ہے۔ جس طرح کہ وہ ہمارے لئے یا زید اور بکر اورعمرکے لئے کھلا ہے اگر فاروقی صاحب بھول گئے ہوں ۔ تو میرے ان الفاظ کو پھر ملاحظہ فرمائیں کہ ’’ آپ بے شک قرآن و حدیث کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی شریعت کے لچکدار حصہ کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں۔۔۔ بے شک آپ کے پاس کوئی اور حوالے ہیں تو انہیں پیش کیجئے یا اگر موجودہ حوالوں کی کوئی اور تشریح ہے تو وہ دنیا کے سامنے رکھیئے‘‘ کیا ان الفاظکا لکھنے والا اس جرم کا مستوجب سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے کسی شخص کے استدلالات کو ( نہ کہ اصل حوالہ جات کو ) نصوص صریحہ قرار دیا ہے ؟ محترم فاروقی صاحب! بے شک آپ جس طرح چاہیں تنقید کریں مگر خدارا اپنی تنقید میں انصاف کے دامن کو تو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
اسی ضمن میں فاروقی صاحب کو شکوہ ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مزارعت کے مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ فاروقی صاحب کا امام ابو حنیفہ ؓ کے متعلق کیا عقیدہ ہے۔ لیکن یقینا وہ امام صاحب موصوف کو نبی اللہ اور مامور من اللہ خیال نہیں فرماتے ہوں گے تو جب وہ نبی اور مامور نہیں تھے تو کسی فقہی عقیدہ میں ان سے اختلاف کرنا ہرگز گناہ کی بات نہیں ۔ خصوصاً جب کہ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں خود امام صاحب کے شاگرد رشید امام ابو یوسفؒ نے بھی ان سے اختلاف کیا ہے بہر حال اگر فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒ سے اختلاف کر سکتے ہیںاور امام شافعی ؒ امام ابو حنیفہؒ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اور امام احمد بن حنبلؒ امام شافعیؒ سے اختلاف کر سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر خود امام ابو حنیفہؒ کے وہ شاگرد جنہوں نے برسوں ان کے سامنے زانوئے تلمذّطے کر کے استفاضہ کیا ( یعنی امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ )اپنے استاد کے بیسیوں فقہی فتوئوں سے اختلاف کر سکتے ہیں ( جس کی مثالیں فقہ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں ) تو اگر کسی اور نے قرآن و حدیث کی بناء پر ان سے کسی فقہی مسئلہ میں اختلاف کا اظہار کیا تو یہ ہرگز کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ اختلاف امتی رحمۃ کی ایک دلچسپ مثال سمجھی جائے گی ۔ بے شک امام ابو حنیفہؒ نے بٹائی والی مزارعت ( یعنی زمینداری کے طریق پر کسی دوسرے سے اپنی زمین بٹائی پر کاشت کرانے ) کو جائز قرار نہیں دیا لیکن ان کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نے اسیجائز قرار دیا ہے اور کروڑوں حنفیصاحبان اس معاملہ میں امام ابو یوسفؒ کی رائے کے فتوے پرعمل کرتے رہے ہیںبلکہ حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیوںکاعملی مسلک ہمیشہ امام ابو یوسف ؓ کے خیال کے مطابق ہی رہا ہے۔ اور ان سے قبل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین اور صحابہ کرام کا بھی اسی کے مطابق عمل تھا تو پھر حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس ظنی اختلاف کو کس طرح قابل اعتراض قرار دیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً جبکہ آپ کا یہ اختلاف قرآن و حدیث کے واضح حوالوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے مبارک اسوہ پر ( جو اصل بنیادی چیز ہے۔ ) مبنی ہے ۔ جن میں سے کئی حوالے ’’اسلام اور زمین کی ملکیت ‘‘ میںپیش کئے جا چکے ہیں ا ور اس جگہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد فاروقی صاحب یہ جرح فرماتے ہیں کہ گویا میں نے موجودہ اقتصادی حالات کی اصلاح کو ’’ محض بھاری ٹیکسوں کے اندر محصور کر دیا ہے حالانکہ غرباء کی امداد محض ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتی‘‘۔ اگر میں بار بار اس بات کو دہرائوں کہ فاروقی صاحب میرے وہ الفاظ پیش فرمائیں جن میں میں نے اصلاح کے سوال کو ’’محض بھاری ٹیکسوں ‘‘ کے اندر محصور کیا ہے تو یہ ایک ناگوار صورت ہو جائے گی۔ اس لئے صرف اس قدر عرض کرتا ہوں کہ میں نے ایسا ہرگزنہیں لکھا اور میں ایسا لکھ بھی کیسے سکتا تھا جبکہ میں نے اپنے اس مضمون میں خود ’’ طوعی قربانی اور قانون ورثہ اور سود کی حرمت وغیرہ ‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا تھا کہ ’’ اس جگہ میرامقصد اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کرنا نہیں بلکہ صرف اس نظام کے فلسفہ اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا اصل مقصد ہے اور وہ بھی صرف اصول کی حد تک پس جبکہ میرے اس مضمون کا موضوع اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کرنا تھاہی نہیں تو پھر فاروقی صاحب کا یہ دعویٰ کہاں تک درست سمجھا جا سکتا ہے کہ میں نے اقتصادی حالات کی اصلاح کو محض ٹیکسوں کے اندر محصور کر دیا ہے میرا عقیدہ تو خلاصۃًیہ ہے کہ بعض باتوں جنہیں نقص قرار دیاجاتا ہے ۔وہ دراصل نقص ہی نہیں اور صرف ماحول کے تاثرات نے انہیں نقص کی صورت میں پیش کر رکھا ہے اور بعض باتیں واقعی قابل اصلاح ہیں مگریہ باتیں اسلام کی تعلیم سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ مسلمانوں کے موجودہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر یہ باتیں کسی ایک میدان کے اندر محصور نہیں بلکہ بہت سے میدانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اور ان میدانوں کا مرکزی نقطہ بہر حال موجودہ مسلمانوں کے دل اور مسلمانوں کے جوارح ہیں۔ فافھم و تدبر۔
بالٓاخر فاروقی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اس وفامیں ایک طرف عام بے چینی اور عام غربت کی حالت پائی جاتی ہے اور دوسری طرف ایک طبقہ بے پناہ دولت کا مالک بنا بیٹھا ہے تو کیا ایسے حالات میں بھی حکومت امیروں کی دولت پر ہاتھ ڈال کر اسے غریبوں کی فلاح و بہبود میں استعمال نہیں کر سکتی؟ اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک حکومت ایک طرف جمہور کی ( جس کی طرف سے اسے حکومت کا حق پہنچتا ہے) اور دوسرے طرف ایک رنگ میں خدا کی ( جو دنیا کا اصل مالک و آقا ہے) نمائندہ ہے اور اسے ملک و قوم کے عام حالات اور خاص حالات دونوں میں متعدد اختیارات حاصل ہیں مگر یہ اختیارات بہر حال غیر محدود نہیں بلکہ بعض بنیادی شرائط کے ساتھ مشروط ہیں مثلا ً
(۱) ایک ایسی حکومت جو اپنی مسلمان رعایا میں اسلامی ضابطہ ٔ نظام کو قائم کرنے کی مدعی ہو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی جو اسلام کی کسی ثابت شدہ اصولی تعلیم کے خلاف ہو اور انفرادی حق ملکیت کااصول یقینا اسلام میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ پس سوائے ایسی استثنائی صورتوں کے جب کسی رفاہِ عام کے کام کے لئے کسی انفرادی حق کو لینے کی حقیقی ضرورت پیش آ جائے۔ ( مثلا ً کسی پبلک رستہ یا ہسپتال یا سرائے یا چوک وغیرہ کی تعمیر) وہ کسی فرد سے اس کی جائز حقیقت کو اسکی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتی ۔
(۲) اگر اوپر کی قسم کے استثنائی حالات میں بھی حکومت کسی شخص کی ذاتی جائیداد اس سے لے گی تو اسے اس کا مناسب معاوضہ دینا ہو گا۔
(۳) قحط کی صورت میں جبکہ ایک طبقہ خوراک کی کمی کی وجہ سے فاقہ کی حد تک پہنچ رہا ہو اور دوسرے کے پاس اس کی اقل کی ضرورت سے زیادہ خوراک موجود ہو تو حکومت مؤخرالذکر طبقہ کے ذخائر سے ضروری حصہ لے کر مقدم الذکر طبقہ میں تقسیم کر سکتی ہے۔ ان حالات میں مؤخر الذکر طبقہ سے توقع کی جاتی ہے کہ اگر اس کے لئے ممکن ہو تو وہ اپنی خوشی سے اپنا زائد حصہ دے دے ورنہ حکومت مناسب قیمت ادا کر کے جبراً لے سکتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی فوجی یا قومی پارٹیسفر پر ہو اور رستہ میں اس کا زادِ راہ ختم ہو جائے تو اسے بھی اپنی اقل ضرورت کے مطابق اہل علاقہ سے اپنی خوراک حاصل کرنے کا حق ہے خواہ اس کے لئے جبر کرنا پڑے مگر مناسب قیمت بہر حال ادا کرنی ہو گی، سوائے اس کے کہ اہل علاقہ اپنی خوشی سے بلا قیمت دے دیں۔
(۴) اگر کسی افسر نے کوئی اراضی وغیرہ کسی شخص کو ناجائز طور پر دے دی ہو تو اس کے بالا افسر کو یا اگر وہ خود بالا افسر ہے تو اس کے بعد اس کے جانشین کو اسی شخص سے یہ اراضی وغیرہ واپس لے لینے کا اختیار ہے جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے سے پہلے کے امویخلفاء کے نا جائز عطیات کو واپس لے لیا تھا۔
(۵) حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی تصنیف میں جاگیر داریوںکو بھی ناجائز قرار دیا ہے اور ان کی واپسی کو جائز ۔بلکہ ضروری جاگیرداری سے مراد یہ ہے کہ حکومت کسی قطعہ اراضی کے متعلق وہ سرکاری معاملہ یا ٹیکس جو حکومت کا حق ہے، مالک زمین کو دے دے یا کسی اور شخص کی طرف منتقل کر دے۔ ہمارے ملک میں اس کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں اور جاگیرداری زمینداری سے ایک جداگانہ چیز ہے۔
یہ سب صورتیں جو اوپر کے پانچ فقرات میں بیان کی گئی ہیںجائز اور واجبی ہیں مگر ان مسنون اور جائز رستوں کو چھوڑ کر یونہی کسی شخص کی ذاتی جائیداد اس سے چھین لینا کسی طرح جائز نہیں اور یقینا اسلام افراد کے خلاف حکومت کے ظلم کے ہاتھ کو بھی اسی طرح روکتا ہے جس طرح کہ ایک فرد کے خلاف دوسرے فرد کے ظلم کو روکتا ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ دولت کو مناسب رنگ میں سمونے کے لئے اسلام کیا انتظام پیش فرماتا ہے۔ سو گو یہ میرے اس محدود مضمون کا حصہ نہیں مگر مختصر طور پر بعض باتیں عرض کئے دیتا ہوں کہ :
(اول) اسلام نے ورثہ کا ایک نہایت حکیمانہ اور تفصیلی قانون جاری فرمایا ہے جس کی رو سے ہر مرنے والے کا ترکہ اس کے تمام قریبی رشتہ داروں میں ( مردوزن( لڑکے لڑکیاں) ماں باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں ،بہنوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں میں) مناسب طریق پر تقسیم ہو جاتا ہے اور اگر اس قانون ِ ورثہ پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ملکی دولت لازما ًساتھ ساتھ تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے اور بڑی بڑی جائیدادوں کا وجود قائم نہیں رہ سکتا لیکن افسوس ہے کہ اور تو اور خود مسلمانوں نے اس قانون کی زد سے بچنے کے لئے کئی قسم کے حیلے بنا رکھے ہیں۔ بے شک اب ورثہ کے متعلق نیا قانون جاری ہو گیا ہے۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ اس میں بھی عملاً رخنے پیدا کئے جارہے ہیں اور بہر حال اس کا نیک نتیجہ کچھ وقت لے کر ہی ظاہر ہو گا۔ ورثہ کے علاوہ اسلام نے ہر شخص کو ایک تہائی جائیداد کی وصیت کا بھی حق دیا ہے جس کی وجہ سے نیک جذبات والے لوگ اپنے ترکہ کو مزید مستحقین میں تقسیم کرنے کا موقع پا سکتے ہیں اور ایسی وصیت میں ورثاء کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ بہر حال اسلام کا قانون ورثہ بھی دولت کو سمونے کا ایک بھاری ذریعہ ہے۔ بے شک اس سے امیروں کی دولت کا حصہ غریبوں کو تو نہیں پہنچتا۔ ( سوائے اس کے کہ کوئی وارث ہی غریب ہو یا وصیت کے طریق پر غریبوں کو فائدہ پہنچایا جائے لیکن غریبوں اور امیروں کی دولت کے درمیان نسبتی فرق میں ضرور کمی پیدا ہوتیہے اور ظاہر ہے کہ بے اطمینانی پیدا کرنے میں زیادہ دخل نسبتی فرق کا ہی ہوا کرتاہے۔
(دوم) دولت کے سمونے کا دوسرا ذریعہ زکوٰۃ کا نظام ہے جو حالات کے اختلاف سے اڑھائی فیصدی سے لے کر بیس فی صدی تک کی شرح کے حساب سے امیروں کی دولت پر لگائی جاتی ہے۔ اور اس جبری ٹیکس میںجس کا وصول کرنا حکومت کا کام ہے پہلا اور مقد م حق غریبوں کی پا بحالی کا مقرر کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے متعلق فرماتے ہیں کہ : -
تؤخذ من اغنیاء ھم و ترد الی فقرائھم ۲۵
’’یعنی زکوٰۃ وہ ٹیکس ہے۔ جو امیروں کی دولت سے کاٹ کر غریبوں کی طرف لوٹانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘‘۔
اس تعلق میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ زکوٰۃ کا ٹیکس صرف منافع پر ہی نہیں لگتا بلکہ سرمایہ پر بھی لگتا ہے اور اس لئے اس کے ذریعہ دولت کو سمونے کا ایک مؤثر ذریعہ قائم کر دیا گیا ہے۔ اور یہ جو بیس فی صدی کی بھاری شرح مقرر کی گئی ہے یہ ان اموال پر ہے جو بند ذخیروں کی صورت میں رکھے جاتے ہیں اور اس بھاری شرح میں حکمت یہ ہے کہ یا تو ان اموال کو صنعت و تجارت وغیرہ میں لگا کر بالواسطہ طور پر غریبوں کو فائدہ پہنچائو ورنہ اس مال کے جلد ختم ہو جانے کے لئے تیار رہو۔ زکوٰۃ کے مصرف میں ایک بات یہ بھی داخل کی گئی ہے کہ اس میں سے ان لوگوں کی امداد کی جائے جو کوئی ہنر تو رکھتے ہیں مگر اس ہنر کو استعمال کرنے کے لئے مناسب ذرائع نہیں رکھتے۔ اس طرح اس انتظام کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور کاٹیج انڈسٹری کی ترقی کا رستہ بھی کھولا گیا ہے۔ پھر زکوٰۃ کے مخصوص جبری ٹیکس کے علاوہ وہ عام تحریک جو غریبوں کی امداد کے لئے صدقات وغیرہ کی صورت میں اسلام نے جاری کی ہے وہ مزید برآں ہے اورا س تحریک کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتاہے کہ رمضان کے متعلق جو غریبوں کی خاص ضرورت کا زمانہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے۔ کہ آپ کا دستِ مبارک غریبوںکی امداد میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی۔
(سوم)اسلام نے سود کی ممانعت کر کے بھی دولتکو مناسب طور پر سمونے کا انتظام فرمایا ہے کیونکہ سود وہ *** ہے ۔جس کے ذریعہ لوگ بڑے بڑے انفرادی سرمائے پیدا کر کے چھوٹی تجارتوںکو تباہ کر دیتے ہیں اور یا پھر سرمایہ دار لوگ گھروں میں بیٹھے بیٹھے عوام الناس کا خون چوستے رہتے ہیں۔ اسلام نے سود کو حرام قرار دے کر امیروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے مالوں کو کھلے بازار میں لا کرصنعت وتجارت میں لگائیں اور اگر کسی بھائی کو قرض دیں تو یا تو قرض حسنہ کے طور پر دیں یا واجبی کفالت کی صورت میں رہن کا طریق اختیار کریں اور یا پھر کھلی تجارت میں کسی کے ساتھ شرکت کی صورت کو قبول کریں۔ اسی طرح اسلام میں جوأ بھی منع قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ بھی دولت کی ناواجب تقسیم کا ایک ناپاک ذریعہ ہے۔
(چہارم) اسلام نے حکومت کا یہ فرض بھی قرار دیا ہے کہ جو لوگ کسی حقیقی معذوری یا بیماری یا زیادتی عمر کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ان کی واجبی ضرورتوں کا انتظام حکومت کرے اور اگر اس غرض کے لئے اس کے عام محاصل کافی نہ ہوں تو وہ اس کے لئے امیروں کی آمدن پر مزید ٹیکس بھی لگا سکتی ہے۔
(پنجم) حکومت کے لئے یہ رستہ بھی کھلا ہے کہ وہ افتادہ سرکاری زمینوں کو ( جن کی کمی نہیں) مناسب طور پر غریب اور محنتی کاشتکاروں میں تقسیم کر کے ان کی خوشحالی کا دروازہ کھولے اور یقینا جو حکومت مستحق غریبوں کو چھوڑ کر سرکاری زمینیں امیروں میں تقسیم کر دیتی ہے وہ ایک غیر اسلامی طریق کی مرتکب ہوتی ہے۔
(ششم) حکومت کو میرے خیال میں خاص حالات کے ماتحت یہ حق بھی حاصل ہے کہ اگر ضروری خیال کرے تو کاشتکارں کے لئے زمینداروں کی زمین کی آمد میں موجودہ حصہ سے زیادہ شرح مقرر کردے۔ اس وقت موجودہ کاشتکار کسی جگہ تہائی اور کسی جگہ نصف حصہ لیتا ہے اور بعض خاص قسم کی فصلوں میں 3\5حصہ بھی لیتا ہے۔ مگر حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ اس شرح میں باہم رضامندی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ خاص حالات میں حکومت کو بھی اس معاملہ میں دخل دینے کا حق حاصل نہ ہو اور بہر حال وقتی حالات کے ماتحت کاشتکاروں کے حق میںشرح کی اقل حد مقرر کر نے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حکومت اس قسم کا قانون بھی بنا سکتی ہے جس میں کاشتکاروں کو اپنی تیار کی ہوئی زمینوں میں معقول عرصہ تک بے روک ٹوک بیٹھے رہنے کی تسلی حاصل ہو جائے۔
(ھفتم) حکومت کا یہ بھی فرض ہے اور یہ ایک نہایت ضروری فرض ہے کہ وہ کم تنخواہ والے لوگوں اور مزدوروں کی اجرت میں مناسب اضافہ کرے۔ انہیں ایک باوقار اور شریفانہ زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ موجودہ حالات میں یقینا تنخواہوں کا تفاوت بہت معیوب صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسلامی فوجوں میں ( جو ابتدائی زمانہ میں سب سے بڑی پبلک سروس تھی ) سپاہیوں اور افسروں کے درمیان اس حد تک کا ناگوار فرق ہرگز نہیں ہوتا تھا۔
یہ سب طریقے ایک طرف امیروں کی دولت کو کنٹرول کرنے اور دوسری طرف غریبوں کی پونجی اور ان کے قلبی اطمینان کو بڑھانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور یقینا اگر ہماری حکومت ان طریقوں پر پوری پوری توجہ دے اور دوسری طرف امیر لوگ موجودہ تمدنی اور جذباتی خلیج کو جو تباہ کن حد تک پہنچی ہوئی ہے کم کر کے اسلامی اخوت کی روح کا اظہار کریں یعنی غریبوں سے بھائیوں کی طرح ملیں انہیں اپنی دعوتوں میں بلائیں اور ان کی غریبانہ دعوتوں کو قبول کرنے میں ہتک محسوس نہ کریں ( یہ حدیث کے الفاظ ہیں ) ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں ان کے سامنے فرعونی انداز اختیار نہ کریں بلکہ رسول کریم ؐ کا نمونہ پیش کریں جو ایک بوڑھی عورت کو اپنے سامنے ڈر سے کانپتے ہوئے دیکھ کر اس کی طرف یہ محبت کے الفاظ کہتے ہوئے لپکتیتھے کہ ’’ مائی ڈرو نہیں ، ڈرو نہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں‘‘۔ ۲۶تو روح اگر یہ ہو اور نظام اسلام کا ہو تو جائدادوں کے انفرادی حق کو باطل کرنے اور کسی فرد کی ذاتی جائداد کو جبراًچھیننے کے بغیر سوسائٹی میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ قائم ہو سکتا ہے اور اس بات کی ہرگز ضرورت پیدا نہیں ہوتی کہ ہم اسلام کے مقدس دامن کو اشتراکیت کے ناپاک ہاتھوں کے سامنے پھیلا کر اس نظام کو اختیار کریں جو سرمایہ داری کی *** کی طرح دوسری انتہاء کی تباہی کا علم بردار ہے۔ بس اس کے بعد میں فاروقی صاحب کے جواب میں کوئی اور بات عرض نہیں کروں گا۔ وما علینا الا البلاغ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍اپریل ۱۹۵۰ئ)



چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
گزشتہ اعلان کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں کی طرف سے امداد درویشان کی مد میں رقوم وصول ہوئی ہیں ان کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو۔ جزاھم اﷲ احسن الجزائ۔
۱
اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک حال گوجرانوالہ
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۲
ڈاکٹر فتح دین صاحب بذریعہ مولانا غلام رسول راجیکی پشاور
۰ ۔ ۰۔ ۲۰
۳
شیخ محمد اکرام صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰ ۔ ۰۔۵
۴
چوہدری فضل احمد صاحب ڈسکہ
۰ ۔ ۰۔ ۵
۵
شیخ قدرت اﷲ صاحب برادر زادہ شیخ محمود اکرام صاحب مذکور
۰ ۔ ۰۔ ۵
۶
شیخ عظمت اﷲ صاحب
۰ ۔ ۰۔ ۵
۷
شیخ محمد بشیر صاحب آزاد منڈی مریدکے
۰ ۔ ۰۔ ۵
۸
مبارکہ بیگم طاہرہ صاحبہ معرفت شیخ محمد بشیر صاحب آزاد مذکور
۰ ۔ ۰۔ ۱
۹
اہلیہ لفٹیننٹ عبدالحمید صاحب آر۔ پی۔ اے راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔ ۵
۱۰
ماسٹر امیر عالم صاحب راولپنڈی
۰ ۔ ۰۔۵
۱۱
اہلیہ ماسٹر امیر عالم صاحب مذکور
۰ ۔ ۰۔ ۵
۱۲
بیگم میر شفیع احمد صاحب دہلوی حال لاہور
۰ ۔ ۰۔۵
۱۳
عاشق محمد صاحب جوڑہ کلاں (سرگودھا)
۰ ۔ ۰۔ ۵
۱۴
اصغری خانم صاحبہ اسلام آباد سٹریٹ گوجرانوالہ
۰ ۔ ۰۔۵
۱۵
سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد شریف صاحب بدوملہی
۰ ۔ ۰۔۵
۱۶
میجر سیّد حبیب اﷲ شاہ صاحب سیالکوٹ
۰ ۔ ۰۔۵
۱۷
فضل الٰہی صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کھاریاں
۰ ۔ ۰۔۲۰
۱۸
عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فتح الدین صاحب سیال (قادیان حال گھٹیالیاں)
۰ ۔ ۰۔۵
۱۹
فضل الرحمن صاحب چغتائی۔ سول سپلائی انسپکٹر ڈیرہ غازی خان
۰ ۔ ۰۔۷۰
۲۰
امینہ کوثر بیگم صاحبہ بنت محمد اسحق صاحب عابد شام نگر لاہور
بذریعہ عبدالجلیل خان صاحب
۰ ۔ ۰۔ ۳
۲۱
محمد شفیع صاحب اکاؤنٹس کلرک چیفس کالج لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۲
۲۲
بشیر احمد صاحب گورنمنٹ سٹیل اینڈ جنرل ملز مغلپورہ
۰ ۔ ۰۔۵
۲۳
عطیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسیٰ جان صاحب کوئٹہ
۰ ۔ ۰۔۴
۲۴
ایک دوست جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کیا۔
۰ ۔ ۰۔ ۶۰
۲۵
خان صاحب منشی برکت علی صاحب مطابق جوائنٹ ناظر بیت المال
از طرف اپنی اہلیہ مرحومہ
۰ ۔ ۰۔۱۵
۲۶
ملک حمید احمد صاحب ولد ملک نصراﷲ خان صاحب لالہ موسیٰ
۰ ۔ ۰۔۱۰
۲۷
چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری ڈسکہ
۰ ۔ ۰۔۲۰
۲۸
شیخ رشید احمد محمود صاحب چنیوٹی حال لاہور
۰ ۔ ۰۔۲
۲۹
میاں عبدالرحمن صاحب ولد محمد عاشق صاحب نانو ڈوگر
ضلع شیخوپورہ بذریعہ ماسٹر عبدالوہاب صاحب
۰ ۔ ۰۔۱۰
۳۰
حشمت علی صاحب پٹواری نہر رابانہ ضلع منٹگمری
۰ ۔ ۰۔۵
۳۱
اہلیہ چوہدری علی قاسم خان صاحب ڈھاکہ مشرقی بنگال
صدقہ بکرا کے لئے یہ رقم ربوہ بھجوائی گئی
۰ ۔ ۰۔۱۵
۳۲
بیگم کیپٹن ایچ۔اے کلیم صاحب بلوچ رجمنٹ میسور
۰ ۔ ۰۔ ۱۱
۳۳
منیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مقبول احمد صاحب شیخوپورہ
۰ ۔ ۰۔ ۲۵
۳۴
منیرہ بیگم صاحبہ مذکورہ از طرف اپنی والدہ صاحبہ مرحومہ
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۳۵
مبارک احمد صاحب انچارج سول ڈسپنسری ترناب پشاور
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۳۶
خان عبدالحمید خان صاحب آف ڈیرہ
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۳۷
عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فقیر اﷲ صاحب
آف مودی ننگل۔ سانگلہ ہل
۰ ۔ ۰۔ ۵
۳۸
ملک منظور احمد صاحب لاہور ہریکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۳۹
زینب بی بی صاحبہ کیلیاں والی سڑک لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۰
عبدالوہاب صاحب کیلیاں والی سڑک لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۲
۴۱
ثریا بیگم صاحبہ کیلیاں والی سڑک لاہور
۰ ۔ ۰۔ ۱
۴۲
محمد ابراہیم صاحب شکار ماچھیاں حال پسرور
۰ ۔ ۸۔ ۱
۴۳
ڈاکٹر محمد جی صاحب اسسٹنٹ سرجن سول ہسپتال ننکانہ صاحب
ایک صاحب کی طرف سے
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۴۴
ظہور الدین صاحب بٹ وکیل گوجر خاںراولپنڈی
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۴۵
ڈاکٹر محمد خان صاحب جودھ پور ضلع ملتان
(چھ ماہ تک دس روپے ماہوار کا وعدہ کیا ہے)
۰ ۔ ۰۔ ۱۰
۴۶
سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم سردار محمد صاحب ڈگری سندھ
(صدقہ بکرا کے لئے ربوہ بھجوائی گئی)
۰ ۔ ۰۔ ۲۰
۴۷
چوہدری نثار احمد صاحب سیالکوٹ حال سرگودھا
۰ ۔ ۰۔۵
۴۸
امۃ الوہاب بیگم صاحبہ اہلیہ محمد خورشید صاحب ریلوے آفس کراچی
۰ ۔ ۰۔ ۵
میزان:
۰۔۸۔ ۴۵۹
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍اپریل ۱۹۵۰ئ)





ربوہ میں ایک قادیانی درویش کی شادی
پنجاب اور یوپی کے دو مخلص خاندانوں کا اتصال
یہ خبر جماعت میں بہت خوشی کے ساتھ سنی جائے گی کہ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۵۰ء کو حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ربوہ کے مرکز میں بعد نماز عصر سعیداحمد صاحب بی ۔اے درویش قادیان اور طاہرہ بیگم سلمہا بنت سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو کے نکاح کا اعلان (چار ہزار روپیہ مہر ) فرمایا۔ حضور نے اپنے خطبہ نکاح میں اس شادی پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے ہر دو خاندانوں کے اخلاص اور قدامت اور دینداری کا ذکر فرمایا ۔چنانچہ چوہدری سعید احمد صاحب بی ۔اے درویش قادیان کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ چوھدری غلام محمد صاحب سکنہ پولامہاراں ضلع سیالکوٹ کے پوتے ہیں جو پرانے صحابی ہونے کے علاوہ بڑے مخلص اور اپنی جماعت کے امیر تھے۔ ایک بااثر اور معزز بزرگ ہیں اور خود چوہدری سعید احمد نے اپنی دنیوی ترقی کے مواقع کو خیر باد کہتے ہوئے (کیونکہ ان کے لئے ای اے سی میں منتخب ہونے کی تجویز ہوچکی تھی )قادیان میں درویشی زندگی کو ترجیح دی اور ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی ایک مخلص کارکن ہیں۔ دوسری طرف سیٹھ خیر دین صاحب لکھنؤ کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ جماعت لکھنؤ کے پریذیڈنٹ اور بہت نیک اوراعلیٰ قربانی کرنے والے مخلصین میںسے ہیں ۔چنانچہ ملکی تقسیم کے بعد انہوں نے سلسلہ کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنی آمد کے تیسرے حصہ کی ادائیگی کا وعدہ کیا جسے وہ بڑے اخلاص کے ساتھ نبھا رہے ہیں ۔پس میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے یہ رشتہ جانبین کے لئے بابرکت ہوگا۔
ایجاب و قبول کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی۔ سیٹھ خیردین صاحب کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اورچوہدری سعید احمد صاحب کی طرف سے ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب ولی تھے۔
خطبہ کے دوران میں حضور نے یہ اظہار بھی فرمایا کہ چونکہ ملکی تقسیم کے نتیجہ میں قادیان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ نہایت محدود (بلکہ عام حالات میں عملاً بند ) ہوچکا ہے ۔ ا س لئے میں نے اس بات کی تحریک کی تھی کہ اب قادیان کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کی جماعتوں میں رشتے کر کے قادیان میں اطمینان اور ترقی کی زندگی اختیار کریں ۔ سو یہ نکاح اسی مبارک تحریک کے نتیجہ میں قرار پایا ہے اور اس سے قبل ایک نکاح قادیان میں بھی ہوچکا ہے۔
اس موقع پر یہ اظہار کر دینا بھی مناسب ہے کہ جس پہلے نکاح کی طرف حضور نے ارشاد فرمایا وہ مولوی عبدالقادر صاحب درویش جنرل پریذیڈنٹ قادیان کا نکاح تھا جو ۱۰؍مارچ ۱۹۵۰ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پیر بشیر احمد صاحب سابق ڈیرہ دون کی ہمشیرہ نورجہاں بیگم کے ساتھ پانچ سو روپیہ مہر پر ہوا۔ اس نکاح کا اعلان الفضل مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۵۰ء میں ہوچکا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان ہر دو نکاحوں کو اپنے فضل و رحمت کی خاص برکت سے نوازے اور متعلقہ خاندانوں اور جماعت کے لئے مثمر ثمرات حسنہ بنائے۔ آمین یا ارحم الراحمین ۔ میں اس موقع پر اپنی طر ف سے اور اپنے صیغہ کی طرف سے خاندان سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنؤ اور خاندان چوہدری غلام محمد صاحب پولامہاراں ضلع سیالکوٹ اور عزیز چوہدری سعید احمد صاحب درویش اور اسی طرح اس سے پہلے کے نکاح کے متعلق میں مولوی عبدالقادر صاحب درویش اور ان کے سسرال کے خاندان کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍اپریل ۱۹۵۰ئ)






تعمیر مکانات درویشان کا چندہ
پہلی فہرست میں شامل ہونے کا ثواب حاصل کریں
ربوہ میں دریشوں کے بیوی بچوں کے لئے مکانات تعمیر کرانے کی تحریک الفضل میں شائع ہوچکی ہے ۔انشاء اللہ عنقریب اس چندہ کی پہلی فہرست کا اعلان کیا جائے گا جو دوست پہلی فہرست میں شامل ہونے کا ثواب حاصل کرنا چاہیں ۔انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنا چندہ دفتر محاسب صدرانجمن احمدیہ ربوہ (متصل چنیوٹ ) میں بھجوادیں اور ساتھ ہی مجھے بھی خط کے ذریعہ مطلع فرمائیں۔
و جزاھم اﷲ خیراً
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍اپریل ۱۹۵۰ئ)







احباب جماعت کی خدمت میں خاص دعائوں کی تحریک
جیسا کہ وقت کے حالات سے ظاہر ہے اور حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنے بہت سے اعلانوں اور تقریروں میں بار بار توجہ دلاچکے ہیں، یہ ایام بے حد نازک ہیں اور اس بارہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے وقتًا فوقتًا اپنے بعض رؤیا بھی شائع فرمائے ہیں اور بعض دوسرے احمدیوں کی خوابیں مزید براں ہیں۔ پس احباب جماعت کو چاہئے کہ آجکل خصوصیت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کا حافظ و ناصر ہو اور ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ ظاہر ہے کہ جہاں ایک طرف ہر خدائی جماعت کے رستہ میں لازماً بعض امتحان اور ابتلاء مقدرہوتے ہیں، وہاں دوسری طرف مومنوں کا یہ فرض بھی ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف امتحان کے وقت میں کامل صبر و ثبات سے کام لیں بلکہ آنے والے ابتلائوں کے پیش نظر خدا کے حضور اپنی متضرعانہ دعائوں کے ساتھ جھکے رہیں۔
اسی طرح آج کل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی بہت سے تقدیروں کے ساتھ انسانی کوششوں کی تاریں بھی لپٹی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض انسانوں کو تو اللہ تعالیٰ نے فضل و نصرت کے میدان میں غیرمعمولی طور پر مخصوص مقام عطا کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جس رنگ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہر مرحلہ پر جماعت کو استحکام اور ترقی عطا کی ہے وہ خدا کی خاص نصرت کی دلیل ہے۔ اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ موجودہ اور آنے والے امتحانوں کے پیش نظر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اپنی مخصوص دعائوں میں جگہ دیں۔
دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے موقعوں پر دعائوں کی قبولیت میں تین باتیں بڑا بھاری اثر رکھتی ہیں۔ ان میں ایک صدقہ و خیرات ہے جس پر ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا زوردیا ہے۔ دوسرے روزہ ہے جس پر امت کے صلحاء کا ہر زمانہ میں خاص عمل رہا ہے کہ وہ ہر پریشانی کے وقت میں نماز کے ساتھ نفلی روزہ کو شامل کرتے رہے ہیں اور تیسری بات اپنے نفس میں نیک تبدیلی اور انابت الی اللہ کا پیدا کرنا ہے جو اسلام کا اصل الاصول ہے کیونکہ جب بندہ ایک نیک تبدیلی کے ساتھ خدا کے حضور جھکتا ہے تو ہمارا مہربان آسمانی آقا بھی اس کی دعائوں کو لازماً زیادہ قبول فرماتا ہے۔
پس موجودہ نازک ایام میں دوستوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کی حفاظت اور ترقی اور حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت اور لمبی عمر اور بیش از پیش با برکت زندگی کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں اور جن دوستوں کو توفیق ہو وہ صدقہ و خیرات اور نفلی روزوں کے ذریعہ اپنی دعائوں کے لئے مزید مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش فرمائیں ۔و کان اﷲ معنا معکم اجمعین ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۶؍ اپریل ۱۹۵۰ئ)









درویشوں کے اہل و عیال کا خیال رکھا جائے
وقتی امداد کے لئے امراء صاحبان میرے دفتر میں رپورٹ فرمائیں
اس وقت کئی درویشوں کے اہل و عیال جو پاکستان میں ہیں مختلف قسم کی تکلیفوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور گو بعض امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان ایک حد تک ان کا خیال رکھتے ہیں لیکن بعض اس معاملہ میں پوری فرض شناسی سے کام نہیں لے رہے اور میرے دفتر میں گاہے گاہے شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں اور عموما ً یہ شکایتیں تین قسم کی ہیں (اوّل) عدم نگرانی کی وجہ سے بچوں کے خراب ہونے کی شکایت اور ( دوم ) مالی تنگی کی شکایت اور (سوم) مکان کی شکایت
ان میں سے پہلی شکایت سب سے زیادہ قابل افسوس اور قابل توجہ ہے اور اس معاملہ میں امراء مقامی اور پریذیڈنٹ صاحبان کی طرف سے غفلت کا کوئی جواز بھی نہیں۔ اگر مقامی کارکن درویشوں کے بچوں کی عمومی نگرانی بھی نہیں کر سکتے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عہدہ کے متعلق کس طرح سر خرو سمجھے جا سکتے ہیں۔ پس ہمارے دوستوں کو اس کام کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے ورنہ ایک قیمتی قومی پونجی کے ضائع جانے کا احتمال ہے۔
جہاں تک دوسری شکایت یعنی مالی تنگی کا سوال ہے۔ اس کے متعلق میرے دفتر کو لکھنا چاہئے کیونکہ گو باقاعدہ ماہوار وظیفہ کی منظوری کا طریق عمل لمبا ہوتا ہے لیکن وقتی اور عارضی امداد کے لئے میرے دفتر میںفنڈ موجود ہوتا ہے اور امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان کی تصدیق آنے پر اس فنڈ میں سے حسب گنجائش وقتی امداددی جا سکتی ہے اور کسی حد تک مخیر مقامی دوستوں کو خود بھی ثواب کمانا چاہئے۔ باقی رہا تیسری شکایت یعنی مکان کی مشکل کا سوال سو اس کے لئے جہاں تک مقامی حالات کے ماتحت ممکن ہو کوشش کی جائے۔ اور عموماً دیہات میں ایسا انتظام مشکل نہیں ہوتا۔ تنگی کے اوقات میں دوست اور عزیز دوسروں کے ساتھ مل کر بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔ صرف اخلاص اور قربانی کی روح کی ضرورت ہوتی ہے اور انشاء اللہ جب ربوہ میں مکانات بن جائیں گے تو بڑی حد تک اس شکایت کا ازالہ ہو جائے گا۔
بہر حال میں اس اعلان کے ذریعہ مقامی امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ درویشوں کے اہل و عیال کا خاص خیال رکھ کر عند اﷲ ماجورہوں کیونکہ اخوت اسلامی کا یہ ایک اہم ترین پہلو ہے اور مالی تنگی کی صورت میں وقتی اور عارضی امداد کے لئے میرے دفتر کو لکھا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸ ؍اپریل ۱۹۵۰ئ)
قادیان کے تازہ حالات
الحمد للہ ! سب بھائی خیریت سے ہیں
قادیان میں ہمارے جملہ دینی بھائی خیریت سے ہیںالبتہ محمود احمد صاحب مبشر اور میاں بدرالدین صاحب اور غلام جیلانی صاحب کچھ بیمار ہیں دوست ان کی صحت کے لئے دعا فرمائیں۔
گذشتہ دنوں میں جبکہ ہر دو حکومتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی تو گورداسپور کے مقامی حکام نے قادیان کے احمدیوں کو پولیس کے بغیر ادھر ادھر جانے سے روک دیا تھا لیکن اب پھر اس معاملہ میں سہولت پیدا ہوگئی ہے۔
انہیں ایام میں قادیان میں ہمارے بھائیوں کا ٹیلیفون کنکشن بھی کاٹ دیاگیا تھا لیکن وہ بھی پھر بحال کردیا گیاہے۔
گذشتہ ایام میں میاں فضل الٰہی صاحب درویش کی پھوپھی صاحبہ کاایک لمبی بیماری کے بعد ربوہ میں انتقال ہوگیا ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ میاں فضل الہٰی صاحب ایک مخلص کارکن ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس صدمہ میں ان کا حافظ و ناصر ہو۔
قادیان کے دو درویشوں کے نکاح کا اس سے پہلے اعلان ہوچکا ہے ۔اب تازہ خبر سے معلوم ہوا ہے کہ اب ایک تیسرے درویش مستری غلام حسین صاحب کی بھی قادیان میں شادی ہوئی ہے ۔ یہ تینوں شادیاں ہندو ستان کے احمدی خاندانوں میں ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے۔
گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں سے بعض احمدی خاندان قادیان میں پہنچے ہیں، ا ن میں بعض عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
اس وقت تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی لحاظ سے ہندوستان کی احمدی جماعتوںکی نگرانی قادیان کی صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کی جاتی ہے اور ہندوستانی جماعتوں کے چندے بھی قادیان میںپہنچتے ہیں۔ ۲۲؍ اپریل کو ہندوستان کے مختلف حصوں کی طر ف قادیان سے مبلغ بھجوائے گئے جو ہندوستان میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کریں گے۔ احباب انہیں اپنی دعائوں میں یادرکھیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲؍مئی ۱۹۵۰ئ)
اسلامی سزائوں کا بنیادی فلسفہ
ایک امریکن سیاح کے استفسار کے جواب میں
گزشتہ دنوں میں ایک امریکن سیاح لاہور آئے تھے اور انہوں نے ہمارے بعض دوستوں سے مل کر اسلامی سزائوں کے متعلق دریافت کیا کہ ان سزائوں کا فلسفہ کیا ہے اور ایسی سخت سزائیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ ان صاحب کو خصوصاً چور کی سزا کے متعلق اعتراض تھا جس کے لئے قرآن شریف نے ہاتھ کاٹے جانے کی سزا بیان فرمائی ہے۔ سو اس امریکن سیاح کے جواب میں جو مختصراً اشارات میں نے لکھ کر دئیے، وہ دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھجوا رہا ہوں۔
(۱) موجودہ مغربی نظام کے مقابل پر اسلامی سزائوں کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ تفاصیل میں جانے سے قبل دونوں نظاموں کے بنیادی نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔اس کے بغیر اس بحث میں صحیح بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی۔
(۲) اسلام جان کے بدلے جان کا حکم دیتا ہے۔ سو ائے اس کے کہ مقتول کے وارث اپنی خوشی سے دیت قبول کرنا منظور کر لیں۔ ( سورۃ بقرہ رکوع ۲۲) اس صورت میں حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کرے کہ اس معاملہ میں کسی قسم کے دھوکہ یا جبر و اکراہ کا طریق اختیار نہ کیا جائے اور قتل کی سزا کو بدلنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لینی بھی ضروری ہے کہ اس تبدیلی سے سو سائٹی میں نیک نتائج پیدا ہونے کی امید ہے (شورٰی رکوع۴)
(۳) قرآن شریف میں شادی شدہ مرد زانی یا شادی شدہ عورت زانیہ کے متعلق جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے رجم یعنی سنگساری کی سزا کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر قرآن شریف کا حقیقتاً یہی منشاء ہوتا کہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگساری کی سزا دی جائے تو اس سزا کا قرآن شریف میں صراحتًا ذکر ہونا چاہئے تھا۔ خصوصاًجبکہ غیر شادی شدہ شخص کے تعلق میں قرآن شریف نے رجم سے کمتر سزا یعنی دُرّے لگانے کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ ذکر بھی ایک ایسے مزعومہ واقعہ کی ضمن میں کیا ہے جو ایک شادی شدہ خاتون سے تعلق رکھتا تھا ( سورۃ نور رکوع نمبر ۱ و نمبر۲ نیز بخاری حدیث الافک)
(۴) اسلام میں مرتد کے قتل کی سزا کی کوئی سند نہیں جو سزا غلطی سے مرتد کی سمجھی گئی ہے، وہ دراصل غداری اور بغاوت کے جرموں کی سزا ہے جو ابتدائی زمانہ میں ارتداد کے ساتھ گویا لازم و ملزوم ہوتے تھے۔ ( مائدہ رکوع نمبر ۵)
(۵) قرآن شریف میں باغیوں اور ڈاکوئوں کے لئے جو سزا ہاتھ پائوں کے کاٹے جانے کی صورت میں مذکور ہے وہ درا صل ایسے مجرموں کے لئے ہے جو بے گناہ لوگوں کے خلاف خود اس قسم کے وحشیانہ افعال کے مرتکب ہوتے ہیں ( مائدہ رکوع نمبر ۵ و بخاری قصہ عرنبین) اور قرآن شریف اصولی طور پر فرماتا ہے کہ قصاص کے قانون میں لوگوں کے لئے زندگی کا سامان مہیا کیا گیا ہے ۔ ( بقرہ رکوع نمبر ۲۲)
(۶) غالباً صرف چور کی سزا ( یعنی قطع ید ) ہی ایسی ہے جو کسی قدر تشریح کی محتاج ہے لیکن اگر ہم اسلامی نظریہ کا غور سے مطالعہ کریں تو یہ تشریح چنداں مشکل نہیں رہتی اور اس تعلق میں ذیل کے نکات خصوصیت سے قابل غور ہیں :
(الف )اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ بعض سنگین قسم کے جرموں میں جرم کی توسیع اور جرم کے تکرار کو روکنے کے لئے سخت اور قابل عبرت سزا دی جائے ( سورۃ بقرہ رکوع نمبر ۲۲ و نور رکوع نمبر ۱)
اس کے مقابل پر مغربی سو سائٹی کا موجودہ نظام جھوٹے جذبات سے متاثر ہو کر ایک لمبے اور نیم مؤثر طریق کو اختیار کرتا ہے اور اس طرح جرم کو روکنے کی بجائے اسے پھیلنے اور سو سائٹی کے رگ و ریشہ میں سرایت کرنے میں مدد دیتا ہے۔
(ب) اسلام حسب ضرورت ایک فرد کے جسم کو سو سائٹی کی روح پر قربان کرنے میں تامل نہیں کرتا اور یقینا یہی فطری اور معقول صورت ہے ( بقرہ رکوع نمبر ۲۱ و مائدہ رکوع نمبر ۵) اس کے مقابل پر مغرب کا موجودہ نظام فرد کو مؤثر طریق پر روکنے میں تامل محسوس کرتا ہے اور اس تامل کی ڈگمگاتی ہوئی روح کے ذریعہ سو سائٹی کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔حالانکہ کوئی عقلمند شخص اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ ایک فرد پر رحم کرنے میں سوسائٹی اور قوم کو تباہ کر دینا ہرگز دانائی کا طریق نہیں۔ یقینا یہ جذبات کے جھوٹے اظہار کا رستہ ہے اور اس رستہ کے خطرناک نتائج سے تاریخ عالم کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
(ج) حضرت مسیح ناصری کا یہ مشہور قول بھی اس معاملہ میں صحیح نیتجہ پر پہنچنے میں اچھی مدد دیتا ہے کہ : -’’ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ‘‘۔ کیونکہ جہاںکہیں بھی اسلامی سزا کا طریق رائج کیا گیا ہے وہاں لازماً قلیل ترین عرصہ میں جرم کا وجود عملاً مفقود ہو گیا ہے لیکن اس کے مقابل پر دوسرے نظاموں کے ماتحت جرم عموماً ترقی کرتا ہے۔ یہ فرق اتنا ظاہر و عیاں ہے کہ کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔
(د) ایک اور غلط فہمی اس معاملہ میں یہ پیدا ہو رہی ہے کہ اعتراض کرنے والے اصحاب جہاں ایک طرف موجودہ سو سائٹی کے کثیر التعداد جرموں پر نگاہ رکھتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ ان سارے جرموں میں اسلامی سزا کے طریق کو خیالی طور پر جاری کر کے اپنے دل میں ایک سخت جذباتی دھکا محسوس کرتے ہیں کہ گویا اتنے لوگ ہاتھ کٹنے کے نتیجہ میں ٹند منڈ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ طریق یقینا انسانی ذہن میں ایک بالکل غلط نقشہ پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔صحیح نفسیاتی طریق یہ ہے کہ صرف ایک دو ابتدائی جرموں کی صورت میں قطع ید والی سزا کو ذہن میں لا کر بعد کے جرموں کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ اسلامی نظام کے ماتحت وقوع پذیر ہی نہیں ہوں گے کیونکہ دراصل یہی وہ صورت ہے جو اسلامی سزائوں کو جاری کرنے کے نتیجہ میں عملاً پیدا ہوتی ہے۔
(۷) باوجود اوپر کی اصولی تشریح کے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اسلام ہر قسم کی چوری میں ہاتھ کاٹے جانے کی سزا تجویز کرتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اسلام قطع ید کے معاملہ میںبہت سی دانشمندانہ شرطیںاور حد بندیاں لگاتا ہے جن میں سے بعض مختصر طور پر ذیل میں بیان کی جاتی ہیں :-
(الف) یہ کہ مسروقہ مال کھانے پینے کی قسم کی چیزوں کا نہیں ہونا چاہئے جو انسانی زندگی کے اقل سہارے کا موجب ہیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ایسے چور کے لئے قطع ید کی سزا تجویز نہیں فرماتے تھے جس نے کوئی پھل یا کھانے پینے کی چیز چرائی ہو۔ ( امام مالک و ترمذی) اسی طرح اگر سفر کے دوران میں کوئی شخص اپنی پونجی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے چوری کا مرتکب ہو تو اسے بھی قطع ید کی غرض سے سارق قرار نہیں دیا جائے گا۔ ( ابو دائود) بلکہ اس کے لئے کوئی اور مناسب سزا تجویز کی جائے گی۔
(ب) قطع ید کی سزا کے لئے چوری اہم ہونی چاہئے۔ معمولی چیزوں کی چوری جو کم قیمت کی ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق چوری کرنے والے کو ہاتھ کاٹے جانے کی سزا کی مستوجب نہیں بناتی۔ ( بخاری و مسلم )
(ج) چوری مشکوک یا مشتبہ صورت کی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مثلًا اگر کوئی شخص ایسے مال میں سے کوئی چیز لے لے جس میں دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کا بھی حصّہ ہے تو خواہ اس نے اپنے حصہ سے زیادہ ہی لے لیا ہو اسے قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اسی اصول کے ماتحت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے چوری کرنے والے سپاہی کو اس کے قبیح فعل کے باوجودقطع ید کی سزا نہیں دیتے تھے۔ ( ترمذی)
(د) قریبی رشتہ دار کے مال میں سے کوئی چیز لینا بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت سرقہ کی حد کے نیچے نہیں آتا۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے معروف حد کے اندر اند رہند زوجہ ابو سفیان کو اپنے خاوند کے مال میں سے بلا اجازت لے لینے کو قابل اعتراض خیال نہیں فرمایا۔(حالات بیعت ہند)
اسی طرح حضرت عمر ؓ نے اس شخص کو قطع ید کی سزاکے قابل نہیں سمجھا جو قومی بیت المال میں سے کوئی چیز چرا لیتا ہے گو وہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت کسی اور سزا کا مستحق سمجھا جائے۔
(ہ) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ایک نا بالغ بچے یا فاتر العقل شخص کی چوری بھی مستثنیات میں داخل ہے اور ایسے شخص کو ہرگز قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی۔
(و) اسی طرح حدیث میں صراحت آتی ہے کہ دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے والا شخص یاآنکھ بچا کر اڑا لے جانے والا شخص قطع ید والی سزا کے نیچے نہیں آتا اور نہ ہی امانت میں خیانت کا مرتکب انسان اس سزا کے نیچے آتا ہے۔( ترمذی) گو وہ دوسرے لحاظ سے مجرم سمجھا جائے۔
(ز) بالآخر وہ شخص بھی قطع ید کی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جاتا جو گرفتار ہونے سے قبل نادم ہو کر تائب ہو جاتا ہے۔ ( سورہ مائدہ نمبر ۶)وغیرہ وغیرہ
(۸) موت کی سزا کے متعلق مغربی ممالک میں جو بحث آج کل جاری ہے کہ آیا موت کی سزا قائم رکھی جائے یا کہ اڑا دی جائے وہ بھی اس مسئلہ کے حل کرنے میں اصولی روشنی ڈالتی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں تجربہ کے طور پر موت کی سزا اڑا دی گئی تھی لیکن اس کا نتیجہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے یعنی جرم بڑھ گیا اور موت کی سزا پھر بحال کرنی پڑی۔ یقینا غور کرنے والوں کے لئے اس تجربہ میں بھی ایک عمدہ اشارہ ہے۔
(۹) موسوی شریعت جسے تمام مسیحی اقوام اور مسیحی ممالک میں الہامی شریعت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں اسلام سے بھی زیادہ سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں اور حضرت مسیح ناصری موسوی شریعت کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں موسیٰ کی شریعت کو مٹانے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ پس کم از کم مغربی اقوام کے مذہبی لوگ اسلام کی سزائوں پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
(۱۰) اگر بعض لوگوں کی نظر میں اسلام کی جاری کردہ سزائیں زیادہ سخت بھی سمجھی جائیں تب بھی بہر حال اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام دنیا سے بدی کو مٹانے کا عزم لے کر آیا ہے نہ کہ اسے قائم کرنے اور پھیلانے کا حامی بن کر ۔
(۱۱) ضمناً اس بات کا اظہار بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ متاخرین میں بعض لوگ اس خیال کے بھی پیدا ہوئے ہیں جو قطع ید کے حکم کو ایک استعارہ قرار دیتے ہیں اور ہاتھ کے کاٹے جانے سے کوئی ایسی سزا دینا مراد لیتے ہیں جس سے گویا مجرم کو بے دست و پا کر کے محصور کر دیا جائے۔ لیکن یہ تشریح قابل قبول نہیں سمجھی جا سکتی اور نہ اس قسم کے وسیع عملی مسئلہ میں کسی قطعی اور یقینی دلیل کے بغیر اس قسم کی بے بنیاد تاویل کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
(۱۲) باقی رہا اعضاء کے قصاص کا سوال یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت وغیرہ۔ سو اوّل تواس کے متعلق جو قرآنی آیت ہے وہ تورات کے حکم کا ذکر کرتی ہے نہ کہ اپنا ( سورۃ مائدہ نمبر ۷) علاوہ ازیں جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے یہ ایک بالکل جائز قصاص کی صورت ہے جس کے بغیر سو سائٹی میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا اور اس حکم کے متعلق وہی اصولی نظریہ چسپاں ہو گا جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی و لکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب و من عفا واصلح فاجرہ علی اللّٰہ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍مئی ۱۹۵۰ئ)








پاکستان کی اسلامی حکومت میںمسلمانوں
اور غیر مسلموں کی مذہبی زندگی
ایک امریکن غیر مسلم کے سوال کے جواب میں
ایک غیر مسلم محقق نے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہری ہیں ہمارے ایک دوست سے پوچھا ہے کہ پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مذہبی زندگی پر کیا اثر پڑا ہے اور کیا پاکستان کی حکومت فی الحقیقت ایک اسلامی حکومت ہے وغیرہ ؟ اس سوال کے جواب میں جو مختصر اور اصولی نوٹ میں نے اس دوست کو لکھ کر بھجوایا ہے وہ دوسرے احباب کی دلچسپی کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے :-
(۱) مذہبی رنگ میں صحیح اسلامی حکومت تو وہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی اور جو آپ کے بعد خلفاء راشدین کے زمانہ میں جاری رہی۔ اس رنگ کی اسلامی حکومت خدا کے ازلی ابدی حقِ حکومت کی بناء پر براہ راست خدائی حکم کے ذریعہ قائم ہوتی ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا یا وہ نبی کی وفات کے بعد بظاہر مومنوں کے اتفاق رائے سے مگرفی الحقیقت خدا کے خاص بالواسطہ تصرف کے ماتحت قائم ہوتی ہے۔ جیسا کہ خلفاء راشدین کے زمانہ میں ہوا اور اس کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ میرے بعد صحیح اسلامی خلافت صرف تیس سال رہے گی، اس رنگ کی اسلامی حکومت کا دور ختم ہو گیا۔
(۲) پاکستان ان معنوں میں ضرور ایک اسلامی حکومت ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور اسے اسلام کے بتائے ہوئے جمہوری اصولوں کے مطابق چلانے کی تجویز ہے۔
(۳) اسلام کا جمہوری نظام چار بنیادی اصولوں پر قائم ہے :
(الف ) ایک منتخب شدہ صدر حکومت کا وجود۔
(ب) صدر حکومت کے مشورہ اور امداد کے لئے عوام کی ایک نمائندہ مجلس۔
(ج) سب شہریوں کے لئے مساویانہ حقوق۔
(د) غیر مسلم اقلیتوں کی مخصوص مذہبی اور جانی اورمالی اور آبروئی حفاظت۔
(۴) اقلیتوں کی حفاظت کے معاملہ میں ذیل کی باتیں خاص طور پر قابل لحاظ ہیں :-
(الف) چونکہ صحیح اسلامی حکومت مذکورہ فقرہ نمبر ۱ میں حالات پیش آمدہ کے ماتحت مذہبی اور نیم مذہبی جنگوں کا امکان رہتا ہے اس لئے ایسی حکومت کے تعلق میں اقلیتوں کے متعلق جزیہ کے مخصوص ٹیکس کا حکم دیا ہے، تاکہ جو غیر مسلم ان جنگوں سے الگ رہنا چاہیں ان کے لئے اس ٹیکس کے ذریعے رستہ کھلا رہے مگر دوسری قسم کی اسلامی حکومت ( مندرجہ فقرہ نمبر ۲) میں اس کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی حکومت میں غیر مسلموں پر جزیہ لگانا جائز ہے۔
(ب) جزیہ چونکہ جنگی خدمت میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔ اس لئے وہ اسلامی حکومت مندرجہ فقرہ نمبر ۱ میں بھی ایسے غیر مسلموں پر نہیں لگایا جا سکتا جو اپنے آپ کو بخوشی جنگی خدمت کے لئے پیش کریں جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے بعض غیر مسلم قبائل کی پیش کش پر ان کا جزیہ معاف کر دیا تھا۔
(ج) مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کی جانیں ایک جیسی قابل حفاظت ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو قتل کر دیتا ہے تو اس کے خلاف بھی قصاص کا حکم جاری کیا جائے گا۔
(د) اسلام نہ تو دین کی اشاعت کے لئے جبر کی اجازت دیتا ہے اور نہ اسے قائم رکھنے کے لئے جبر کا حامی ہے۔ پس مرتد ہونے والے شخص کو قتل کی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا بشرطیکہ وہ ویسے حکومت کا وفادار ہو۔
(۵)پاکستان نے ملک کے اس حصہ کے مسلمانوں کے لئے اپنے طریق پر زندگی گزارنے اور ترقی کرنے کا ایک بہت عمدہ موقعہ پیدا کر دیاہے اور اب یہ ان کا کام ہے کہ اس موقعہ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں۔ بے شک شروع میں خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں لیکن اس وقت بھی پاکستان کے مسلمانوں کی عمومی بیداری دنیا کے دوسرے مسلمانوں سے بہتر اور بڑھ کر ہے۔
(۶) اس وقت پاکستان میں خیالات و عقائد کے لحاظ سے چار فرقوں کے مسلمان پائے جاتے ہیں :-
(الف) حنفی فرقہ کے سُنّی مسلمان۔
(ب)اہل حدیث فرقہ کے سُنّی مسلمان
(ج) شیعہ فرقہ کے مسلمان
(د) احمدی مسلمان
(۷) یہ سب فرقے عقائد اور عمل میں بعض اختلافات رکھنے کے باوجود خدا کی توحید کے بنیادی عقیدہ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت اور قرآنی شریعت کے آخری اور عالمگیر ہونے کے متعلق اصولاً متحدو متفق ہیں۔
(۸) اشاعت دین کے لحاظ سے احمدیہ جماعت کے تبلیغی مراکز دنیا کے بیشتر حصوں میں قائم ہیں مثلاً انگلستان ۔ فرانس۔جرمنی۔سپین ۔سوئٹزرلینڈ۔ ہالینڈ۔شام و لبنان۔ مشرقی افریقہ ۔ مغربی افریقہ۔ ماریشس۔ ہندوستان۔ ملایا۔ جاواسماٹرا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ وغیرہ وغیرہ اور اس جماعت کا مذہبی اور تبلیغی لٹریچر بھی ساری دنیا میں کثرت سے پھیلایا جا رہا ہے۔
(۹) اسلامی شریعت دو حصوں میںمنقسم ہے ایک تو اس کا اصولی اور ٹھوس حصہ ہے جسے قرآن شریف محکمات کے لفظ سے یاد فرماتا ہے یہ حصہ غیر مبدّل ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے جس پر حالات کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دوسرا حصہ لچکدار ہے جس کے متعلق قرآن شریف متشابہات کی اصطلاح قائم فرماتا ہے یعنی ایسے احکام جو مختلف قسم کے حالات میں ملتی جلتی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ لچکدار حصہ ایک روحانی عالم کا رنگ رکھتا ہے جس طرح کہ یہ دنیا ایک مادی عالم کا رنگ رکھتی ہے اور بعینہٖ جس طرح آدم کے وقت کی مادی دنیا پرانی دنیا ہونے کے باوجود اپنی جدید تحقیقاتوں اور ایجادوں کے ذریعہ موجودہ زمانہ کی ساری مادی ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔ اسی طرح اسلامی شریعت کا یہ لچکدار حصہ بھی جدید تحقیق اور تفقہ کے نتیجہ میں اس زمانہ کے نئے نئے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کرتا ہے۔ مگر ضروری ہے کہ اس لچکدار حصہ کی تشریح اور تو ضیح کے لئے محکمات کی شمع ہر وقت ساتھ رہے۔
(۱۰) کمیونزم اور کیپٹلزم کو پاکستان میں کوئی مقام حاصل نہیں اور نہ کسی اسلامی حکومت میں حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ اوّل تو اسلام کا اخوت اور مساوات کا اصولی نظریہ اشتراکیت پر اسی طرح دروازہ بند کر رہاہے جس طرح کہ وہ سرمایہ داری پر بند کرتا ہے۔ دوسرے جہاں ایک طرف اسلام انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے وہاں دوسری طرف وہ دولت کو مناسب طور پر سمونے کے لئے ایک مؤثر مشینری بھی قائم فرماتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اسلام کو نہ صرف کمیونزم اور سرمایہ داری کے حملہ کے خلاف محفوظ کر رہی ہیں بلکہ اس کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار مہیا کر رہی ہیں جو انشاء اللہ بالآخر ان دونوں نظاموں کو مٹا کر رکھ دے گا۔
۲۷
‎(مطبوعہ الفضل ۴؍ مئی۱۹۵۰ئ)
اسلام میں چور کی سزا
انجیل کا ایک لطیف حوالہ
چند دن ہوئے میرا ایک نوٹ الفضل میں اسلامی سزائوں کے فلسفہ کے متعلق شائع ہوا تھا۔ اس میں اسلامی تعزیرات کے ماتحت چور کی سزا ( قطع ید ) کا بھی ذکر تھا اور میں نے بتایا تھا کہ اوّل تو اسلام نے ہر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کی صورت میں مقرر نہیںکی بلکہ اس کے لئے بھی بعض خاص شرطیں اور حد بندیاں لگائی گئی ہیں اور دوسرے میں نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ اسلام جھوٹے جذبات کا مذہب نہیں ہے کہ ایک چھوٹی چیز کو بچانے کے لئے بڑی چیز کو قربان کر دے بلکہ وہ بڑی چیز کو بچانے کے لئے چھوٹی چیز کو قربان کرتا ہے اور اگر ایک فرد کے عضو کو کاٹنے سے قوم کی روح اور سو سائٹی کے اخلاق کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے تو اسلام اس میں ہرگز تامل نہیں کرتا اور یہی اصلاح کا صحیح اور سچا فلسفہ ہے۔
اس تعلق میں مجھے انجیل کا ایک حوالہ ملا ہے۔ جو دوستوں کے فائدہ کے لئے درج ذیل کرتا ہوں۔ اس میں بعینہٖ اس نظریہ کو پیش کیا گیا ہے۔ جسے اسلام پیش کرتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں :
’’ اگر تیرا داہنا ہاتھ تجھے ٹھو کر کھلائے تو تو اس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضاء میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ جائے۔‘‘
کیا اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے والے مسیحی صاحبان اپنے ’’ خدا وند ‘‘ مسیح کے اس سنہری ارشاد پر غور فرمائیں گے؟ حق یہی ہے کہ اگر قوم اور سو سائٹی کی روح اور اس کے اخلاق کو بچانے کے لئے کسی ایک فرد کا ہاتھ کاٹنا پڑے تو یہ ہرگز مہنگا سودا نہیں ہے۔ پس اسلامی سزائوں پر اعتراض کرنا محض جھوٹے جذبات کا ابال ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ در اصل یہ وہی ہندوئوں والی ذہنیت ہے۔ جو ایک گائے کے بدلے میں بیس انسانوں کی جان لینے میں دریغ نہیں کرتے۔ فا فھم و تدبر
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۵۰ئ)
شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں
عید سے قبل دعا کے دن میرے ہاتھ میں ایک صاحب شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری نے ایک لفافہ دیا تھا جس کے اندر مسجد ربوہ اور مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کے ۲۰۰ روپے ملفوف تھے۔ یہ رقم ربوہ بھجوا کر خزانہ کی رسید منگوالی گئی ہے۔ شیخ صاحب موصوف مجھ سے یہ رسید موصول فرما لیں۔ دیگر آئندہ کے لئے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خزانہ ربوہ میں داخل ہونے والے چندے براہ راست یا بذریعہ مقامی جماعت ربوہ بھجوانے چاہئیں۔ مجھے یا کسی اور فردِ جماعت کو ایسے چندوں کی وصولی کا اختیار نہیں ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍مئی ۱۹۵۰ئ)







چندہ تعمیر مکانا ت درویشان کی پہلی فہرست
ذیل میں ان بھائیوں اور بہنوں کی فہرست درج کی جاتی ہے جنہوں نے میری تحریک پر ( جو حضرت صاحب کی اجازت سے کی گئی تھی ) ربوہ میں درویشوں کے رشتہ داروں کے مکانات کی تعمیر کے لئے چندہ دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اس فہرست کے اولین احباب ہیں جنہوں نے خدا سے توفیق پا کر اس کار خیر میں حصہ لیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی بہترین جزا عطا کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ دفتر محاسب ربوہ کی طرف سے بروقت رپورٹ نہ آنے کی وجہ سے یہ فہرست کسی قدر دیر سے شائع کی جا رہی ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے ۔ اور ان کے اس کار خیر کو دوسروں کے لئے نیک تحریک کا موجب بنائے۔ آمین۔ کئی درویشوں کے رشتہ دار اس وقت مکان کی وجہ سے بڑی تکلیف میں ہیں۔ اس لئے اس تحریک میں حصہ لینا خدا کے فضل سے بڑے ثواب کا موجب ہے۔ آئندہ جو دوست اس مد میں چندہ بھجوائیں۔ وہ مہربانی کر کے کوپن میں صراحت کر دیا کریں کہ یہ درویشوں کے مکانوں کا چندہ ہے۔ نیز جن احباب نے اس میں چندہ بھجوایا ہو مگر ان کا نام اس فہرست میں نہ آیا ہو۔ وہ اطلاع دے کر ممنون فرمائیں۔
(۱)
ملک عزیز احمد صاحب ایبٹ آباد ( بذریعہ دفتر محاسب ربوہ )
۰۔۰۔۲۰۰
(۲)
چوہدی محمد عبد اللہ صاحب چک نمبر ۷۸ جنوبی ضلع سرگودھا
۰۔۰۔۵
(۳)
خان عزیز احمد صاحب نائب تحصیلدار خانیوال
۰۔۰۔۱۰
(۴)
اہلیہ صاحبہ قاضی نصیر احمد صاحب بھٹی مذکور
۰۔۰۔۱۰
(۵)
شمیم احمد ابن قاضی نصیر احمد صاحب بھٹی مذکور
۰۔۰۔۲
(۶)
چوہدری ناظر علی صاحب سیکرٹری مال شاہ کوٹ لائل پور
۰۔۰۔۴
(۷)
با بو فقیر اللہ صاحب انسپکٹر بیت المال حلقہ چا بکسواراں لاہور
۰۔۰۔۲
(۸)
چوہدری حسن احمد صاحب رائے پور قادر آباد
۰۔۰۔۱۰
(۹)
چوہدری جان خان صاحب ولد عبدالمالک خان صاحب لاہور
۰۔۰۔۱۰
(۱۰)
عبد الوہاب خان صاحب ولد عبد المالک خان صاحب لاہور
۰۔۰۔۱۰
(۱۱)
علی شیر صاحب چک نمبر ۱۶۹ مراد
۰۔۰۔۲۰
(۱۲)
بابو فقیر اللہ صاحب حلقہ اسلامیہ پارک لاہور
۰۔۰۔۵
(۱۳)
شیخ محمد یوسف صاحب لائلپور
۰۔۰۔۲
(۱۴)
مرزا برکت علی صاحب پشاور
۰۔۰۔۵
(۱۵)
والد ہ صاحبہ مرزا برکت علی صاحب پشاور
۰۔۰۔۵
(۱۶)
غلام جعفر صادق صاحب ہیڈ ماسٹر چک ۲۹\۱۰ نیازی
ضلع ملتان بحساب جماعت احمدیہ میاں چنوں ( بذریعہ دفتر محاسب )
۰۔۰۔۲
(۱۷)
فیض احمد صاحب نمبر دار چک ۲۲\ E.Bمنٹگمری
۰۔۰۔۱۵۰
(۱۸)
الطاف احمد صاحب بھیرہ ضلع سرگودہا
۰۔۰۔۴۔۱
(۱۹)
سیٹھ محمد اسمعٰیل آدم صاحب کراچی
۰۔۰۔۵
(۲۰)
مہر بی بی و بشر یٰ بیگم صاحبہ بذریعہ علی احمد صاحب
مبلغ بھا کا بھٹیاں ( بذریعہ دفتر محاسب )
۰۔۰۔۵
(۲۱)
بذریعہ ملک عزیز احمد صاحب سیکرٹری مال
ایبٹ آباد ( بذریعہ دفتر محاسب)
۰۔۰۔۱۰
(۲۲)
کیپٹن سید نصیر احمد شاہ صاحب مالیر چھاؤنی کراچی
(بذریعہ دفتر محاسب ربوہ)
۰۔۰۔۱۰
(۲۴)
لانس نائک محمد صادق صاحب جماعت احمدیہ ایبٹ آباد
۰۔۰۔۲
(۲۵)
کیپٹن محمد عبد اللہ صاحب ( بذریعہ چیک رقمی ۵۰)
۰۔۴۔۴۹
(۲۶)
ملک منظور احمد صاحب لاہور ( وصولی میرے دفتر میں براہ راست)
۰۔۰۔۱
(۲۷)
اہلیہ صاحبہ مولوی محب الرحمن صاحب
۰۔۰۔۲۷
(۲۸)
شیخ محمد سعید صاحب برکت علی روڈ لاہور
( وصولی میرے دفتر میں براہ راست ہوئی )
۰۔۰۔۴
(۲۹)
اہلیہ صاحبہ شیخ محمد سعید صاحب مذکور
( وصولی میرے دفتر میں برا ہ راست ہوئی )
۰۔۰۔۵
(۳۰)
صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ
( بیگم میاں محمد احمد خان صاحب) رتن باغ لاہور
۰۔۰۔۲۰
(۳۱)
میاں غلام محمد صاحب اختر لاہور و اہل و عیال
( وصولی براہ راست میرے دفتر میں )
۰۔۰۔۱۰
(۳۲)
چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم بذریعہ مصلح الدین صاحب
سعدی احمدی چٹا گانگ ( وصولی براہ راست میرے دفتر میں )
۰۔۰۔۱۱۰
کل میزان:
۰۔۸۔۸۳۷
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍مئی ۱۹۵۰ئ)









خاندان نبوت
ایک نہایت ضروری اور بروقت انتباہ
الفضل مؤرخہ ۲۰؍ مئی ۱۹۵۰ ء کے صفحہ ۳ پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ایک اہم اعلان زیر عنوان ’’ خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق ایک ضروری اعلان ‘‘۔ شائع ہوا ہے اس اعلان میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ’’ خاندان نبوت ‘ ‘ کے الفاظ استعمال نہ کیا کریںکیونکہ ان الفاظ کے استعمال سے یہ دھوکہ لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندان نبوت ہے حالانکہ اصل نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت صرف ظلّی نبوت ہے (نہ کہ مستقل اور بلا واسطہ ) پس اصل خاندان نبوت صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے اور وہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اسے ان الفاظ سے یاد کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا یہ اعلان ایک نہایت اہم اور با موقعہ اعلان ہے جس کی اس وقت جماعت کو حقیقی ضرورت تھی اور حق یہ ہے کہ میں خود کچھ عرصہ سے اس کے متعلق الفضل میں لکھنا چاہتا تھا لیکن اس خیال سے کہ اس قسم کے معاملہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہوتے ہوئے کسی اور کا لکھنا مناسب نہیں۔ میں دانستہ خاموش رہا اور خدا تعالیٰ نے میری اس خواہش کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اﷲ کے اعلان کے ذریعہ پورا فرمایا ۔فالحمد للّٰہ علی ذالک۔
جو دلیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲنے اس اعلان کی تائید میں بیان فرمائی ہے وہ اصولاً نہایت مناسب اور پختہ ہے اور ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کے خدا داد امتیاز کو ہر جہت سے قائم رکھا جائے لیکن اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ دلیل بھی تھی کہ ایک اور لحاظ سے بھی ’’ خاندان نبوت ‘‘ کی اصطلاح نا مناسب اور نا درست ہے کیونکہ قرآنی تعلیم کے ماتحت نبوت کا انعام در حقیقت افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ خاندانوں اور قبیلوں اور قوموں کے ساتھ ۔ پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں نبی کا خاندان یا فلاں رسول کا خاندان یا فلاں مامور کا خاندان لیکن ہم کسی خاندان کو خاندانِ نبوت یا خاندانِ رسالت وغیرہ کا نام نہیں دے سکتے۔ چنانچہ اس بارہ میں قرآن شریف نہایت لطیف انداز میں فرماتا ہے کہ :
۲۸
یعنی ’’ اے بنی اسرائیل کی قوم خدا کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے اور تم کو بادشاہ بنایا‘‘
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے جہاں نبوت کے انعام کو ( تم میں نبی بنائے) کے الفاظ سے یاد فرمایا ہے وہاں ( اس کے مقابل پر ملوکیت یعنی بادشاہت کے انعام کا صرف ( تم کو بادشاہ بنایا ) کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ان ہر دو الفاظ کا فرق بالکل ظاہر و عیاں ہے جس میں یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جہاں نبوت ایک انفرادی انعام ہے جو حقیقتاً صرف ایک فرد کی ذات کے ساتھ مخصوص اور وابستہ ہوتا ہے اور ساری قوم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا وہاں ملوکیت یعنی بادشاہت درحقیقت ایک قومی انعام ہے جو ساری قوم کی طرف منسوب ہو سکتا ہے اور ہونا چاہئے۔ بے شک جس خاندان یا جس قوم میں کوئی نبی یا رسول مبعوث ہوتا ہے وہ اس خاندان یا قوم کے لئے بھی بھاری شرف اور فضیلت کا موجب بن جاتا ہے لیکن باوجود اس کے نبوت کے انعام کی نسبت بہر حال ذاتی اور انفرادی رہتی ہے مگر اس کے مقابل پر ملوکیت کے انعام کی نسبت گویا قومی رنگ اختیار کر لیتی ہے اور ساری قوم بادشاہ کہلانے کی حق دار بن جاتی ہے ۔اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ایک جگہ تم میں نبی بنائے کے الفاظ فرمائے ہیں اور دوسری جگہ ( تم کو بادشاہ بنایا) کے الفاظ رکھے ہیں تاکہ ان دو قسم کے انعاموں میں امتیاز قائم کر دیا جائے۔پس جب ہمارے علیم و حکیم خدا نے نبوت اور ملوکیت کے انعاموں میں امتیاز ملحوظ رکھا ہے کہ ایک کو انفرادی انعام گردانا ہے اور دوسرے کو قومی انعام قرار دیا ہے ’’ تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم خواہ مخواہ نئی اصطلاحوں کے شوق میں ’’ خاندان نبوت ‘‘ کی اصطلاح ایجاد کر کے اس خدائی امتیاز میں رخنہ نہ پیدا کریں۔ اس اصول کے ماتحت میرے خیال میں ’’ خاندان مسیحیت‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی درست نہیں ہوں گے بلکہ جیسا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے ’’ خاندان حضرت مسیح موعود ‘‘ کی اصطلاح ہی مناسب اور درست ہے۔ دراصل غور نہیں کیا گیا ورنہ یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی تھی کہ ’’ خاندانِ نبوت‘‘ کے معنی ’’ نبی کے خاندان ‘‘ کے نہیں ہیں۔ بلکہ ’’نبیوں کے خاندان ‘‘ یا ’’ نبوت والے خاندان ‘‘ کے ہیں اور ظاہر ہے کہ اوپر والی تشریح کی روشنی میں کسی نبی کے خاندان کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا درست اور جائز نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہ سوال ہو سکتا ہے کہ نبوت اور ملوکیت کے انعاموں میں یہ امتیاز کیوں رکھا گیا ہے کہ ایک کو انفرادی انعام قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کو قومی ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل خدا تعالیٰ کے ازلی ابدی قانون کے ماتحت نبوت کا انعام اوپر سے نیچے کو آتا ہے ۔ اور اس کے مقابل پر ملوکیت کا انعام حقیقتاً نیچے سے اوپر کو جاتا ہے یعنی جہاں نبی خدا کا نمائندہ ہوتا ہے وہاں ایک بادشاہ دراصل جمہور کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ اس بنیادی فرق کی وجہ سے ضروری تھا کہ نبوت کو انفرادی انعام قرار دیا جاتا اور ملوکیت کو قومی انعام قرار دیا جاتا اور یہی طریق ہمارے خدا ئے علیم و حکیم نے اختیار فرمایا۔ فا فھم و تدبر
میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی خاندان یاقوم میں نبی اور رسول کا مبعوث ہونا اس کے لئے عزت اور فضیلت کا موجب نہیں ہوتا۔ جس چیز کو خدا تعالیٰ نے فضیلت کا مقام عطا فرمایا ہے وہ بہر حال نہ صرف اس شخص کے لئے شرف اور فضیلت کا موجب ہو گی جو اس انعام کو فی نفسہٖ پاتا ہے بلکہ یقینا اس خاندان اور اس قوم کے لئے بھی شرف اور فضیلت کا موجب ہو گی جس کی طرف ایسا شخص منسوب ہوتا ہے اور اسی لئے اوپر والی آیت میں نبوت کو ذاتی اور انفرادی انعام قرار دینے کے باوجود اسے خاندانی اور قومی شرف اور فضیلت کا موجب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :-

یعنی ’’ اے بنی اسرائیل کی قوم خدا تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے ‘‘۔
ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ نبوت کے ایک انفرادی انعام ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ اسے خاندانی اور قومی شرف کا موجب بھی قرار دیتا ہے اور اسی لئے وہ ساری قوم کو مخاطب کر کے اپنا یہ انعام یاد دلاتا ہے۔ پس یہ بھاری کفرانِ نعمت ہو گا کہ نبوت اور رسالت کے انعام کو خاندانی اور قومی شرف کا موجب نہ سمجھا جائے۔
لیکن دوسری طرف خداتعالیٰ کے انعامات محض ایک اعزازی ڈگری کا رنگ نہیں رکھتے بلکہ ہر انعام کے ساتھ لازماً اس کے منصب کے مناسب ِحال کچھ ذمہ داریاں بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مبارکہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ :
۲۹
’’ یعنی اے نبی کی بیویو تم میں سے اگر کوئی کھلی کھلی بد اعمالی کی مرتکب ہو گی تو وہ خدا کی طرف سے دوہرے عذاب کی مستحق ٹھہرے گی……
لیکن تم میں سے جو خدا اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور نیک اعمال بجا لائے گی تو یقینا اسے ہم دوہرا اجر بھی عطا کریں گے۔‘‘
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے انعاموں کے دو نو پہلوئوں کو جو ایک طرف فضیلت اور دوسری طرف ذمہ داری سے تعلق رکھتے ہیں نہایت لطیف رنگ میں نمایاں کر کے بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ وہ خاندان جس کا کوئی فرد نبوت اور رسالت کے انعام سے مشرف ہوتا ہے اس کے افراد اگر ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم کریں تو خدا سے دہرا اجر پاتے اور دوہرے انعام کے مستحق ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم نہ کریں تو پھر وہ دہری سزا بھی پاتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ نبی کا خاندان ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ اگر وہ اچھا نمونہ قائم کرے تو بہت سے لوگ اس کے اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھاتے اور نیکی کی طرف رستہ پانے میں مدد حاصل کرتے ہیں لیکن اگر یہ خاندان اچھا نمونہ قائم نہ کرے تو وہ اپنے امتیازی مقام کی وجہ سے کثیر التعداد لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتا ہے۔
یہی وہ نور وظلمت اور جزا و سزا کا دہرا منظر ہے جو اس وقت ہمارے خاندان کے سامنے ہے۔ وہ اگر چاہیں اور خدا انہیں تو فیق دے تو ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم کر کے اپنے آسمانی آقا کے دہرے انعام کے وارث بن سکتے ہیں لیکن اگر خدا نخواستہ نیکی کے رستہ کو اختیار نہ کریں اور لوگوں کے لئے اچھا نمونہ نہ بنیں تو پھر انہیں نعوذ باللہ دہری سزا کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کاش ! اے کاش!! ہماری وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھیں حشرکے میدان میں نیچی نہ ہوں۔
ذالک ظننا با ﷲ و نر جوا من اﷲ خیرا و ما توفیقہ اِلا باﷲ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم جون ۱۹۵۰ئ)


چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست
ذیل میں چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست درج کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا ہے اور دین و دنیا میںان کاحافظ و ناصر ہو ۔آمین۔
دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ چندہ تعمیر مکانات درویشان چندہ امداد درویشان سے جداگانہ ہے اور دونوں میں خلط نہیں ہونا چاہئے۔
۱
صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ناصر آباد سٹیٹ سندھ
۰۔۰۔۵
۲
اے آرنگہت صاحبہ بنت ماسٹر خیر دین صاحب پورن نگر سیالکوٹ
۰۔۰۔۱۵
۳
حیدر علی صاحب چک 91/R.B ضلع لائلپور
۰۔۰۔۵
۴
بشارت احمد صاحب بی ایس سی ابن مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل
امیرجماعت قادیان
۰۔۰۔۶
۵
چوہدری بشارت علی صاحب نارووال ضلع سیالکوٹ
۰۔۰۔۵
۶
لجنہ اماء اللہ ملتان شہر بذریعہ حمیدہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ
۰۔۰۔۷
۷
دوست محمد صاحب کمپونڈر رسول ہسپتال بہاولنگر ریاست بہاولپور
۰۔۰۔۵
۸
صلاح الدین صاحب معرفت میاں وزیر محمدصاحب جسونت بلڈنگ لاہور
۰۔۰۔۱
۹
نذیر احمد صاحب صراف ڈسکہ
۰۔۰۔۲۰
۱۰
ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ صوبا سنگھ
۰۔۰۔۵
۱۱
بشریٰ بیگم صاحبہ بنت محمد امین صاحب زرگر قلعہ صوبا سنگھ
۰۔۰۔۵
۱۲
رشید اختر صاحبہ اہلیہ محمد مختار صاحب ٹھیکیدارقلعہ صوبا سنگھ
۰۔۰۔۱۰
۱۳
وزیر بیگم صاحبہ زوجہ حکیم دین محمد صاحب کھٹیاں ضلع لاہور
بذریعہ ڈاکٹر عطا ء اللہ صاحب
۰۔۰۔۱۵
۱۴
مبارکہ اختر صاحبہ بنت قاضی محمد شریف صاحب لاہور
۰۔۰۔۵
۱۵
ملک عنائت اللہ صاحب بدین(حیدر آباد سندھ)
۰۔۰۔۵
۱۶
نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالمنان صاحب راشدی سیالکوٹ
۰۔۰۔۵
۱۷
صوبیدار کرم دین صاحب چک ۹۶گ ب لائل پور
۰۔۰۔۴
۱۸
حمید ہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالکریم صاحب
۰۔۰۔۱
۱۹
محمد اسرائیل صاحب کراچی
۰۔۰۔۲۰
۲۰
شیخ محمد اکرام صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰۔۰۔۵
۲۱
شیخ قدرت اللہ صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰۔۰۔۵
۲۲
شیخ عظمت اللہ صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ
۰۔۰۔۵
۲۳
قاضی غلام نبی صاحب شیخوپورہ
۰۔۰۔۲
۲۴
ڈاکٹر چوہدری محمد خان صاحب جودھ پور(ملتان)
۰۔۰۔۱۰
۲۵
عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری نذیر احمدصاحب ناصر صراف ڈسکہ
۰۔۰۔۱۰
۲۶
اہلیہ صاحبہ سید سلیم شاہ صاحب حال لاہور
۰۔۰۔۲
۲۷
عطیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسیٰ جان صاحب کوئٹہ
۰۔۰۔۲
۲۸
چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم بذریعہ مصلح الدین صاحب احمدی
( چٹاگانگ مشرقی بنگال)
۰۔۰۔۲۰
۲۹
حفیظ اللہ صاحب سید والا
۰۔۰۔۵
۳۰
محمد اسرائیل احمد صاحب دفتر چیف انجینئر کراچی
۰۔۰۔۱۰
۳۱
عبدالعلی خان صاحب راولپنڈی
۰۔۰۔۵
۳۲
اکرم حسین کوثر احمد صاحب چہور چک ۱۱۷ضلع شیخوپورہ
۰۔۰۔۵
۳۳
عبدالمجید صاحب جنجوعہ کولاپور (بلوچستان)
۰۔۰۔۲۵
۳۴
عابدہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم (اہلیہ قریشی محمدیوسف صاحب بریلوی)
۰۔۰۔۵۰
۲۵
اہلیہ صاحبہ عبدالستار صاحب ریڈیو آپریٹر کراچی
۰۔۰۔۱۶
۳۶
ملک غلام نبی صاحب آف کھارا کوٹ احمد یاں سندھ
۰۔۰۔۵
۳۷
عاشق محمد صاحب پٹواری جوڑہ کلاں مجوکہ (سرگودہا)
۰۔۰۔۵
۳۸
لطیف احمد طاہر صاحب کراچی تفصیل نہیں پہنچی
۰۔۰۔۱۰
۳۹
بشیر احمد صاحب چغتائی لاہور
۰۔۰۔۱۰
۴۰
مرز ابرکت علی صاحب پشاور امداد درویشان
۰۔۰۔۵
۴۱
مرزابرکت علی صاحب پشاور( صدقہ برائے قادیان)
۰۔۰۔۵
۴۲
قاضی محمد عبداللہ صاحب ربوہ امداد لنگر خانہ قادیان
۰۔۰۔۵
۴۳
نذیر احمد صاحب ڈار افریقہ
۰۔۰۔۱۰
۴۴
آٹھ کس دوست بذریعہ عبدالوحید صاحب سلیم حلقہ اسلامیہ پارک لاہور
۰۔۰۔۸
۴۵
میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری (شیخوپورہ)
۰۔۰۔۱۰
۴۶
مولوی محمدابراہیم صاحب بقاپورہ ماڈل ٹائون
۰۔۰۔۵
میزان
۰۔۰۔۴۰۰


‎ (مطبوعہ الفضل ۴؍جون ۱۹۵۰ئ)




قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب
قادیان سے عزیزم مرزا وسیم احمدسلمہ ناظر دعوۃ و تبلیغ بذریعہ تار اطلاع دیتے ہیں کہ کل مورخہ ۴؍جون بروز اتوار قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب منایا جارہا ہے اس کی کامیابی کے لئے دعا فرمائی جائے۔
ملکی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ سلسلہ کی روایات کے مطابق قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب منایا جارہا ہے جس میں انشاء اللہ غیر مسلم اصحاب بھی آنحضرت ﷺ کے کمالات اور آپ کی بابرکت سوانح پر تقریر فرمائیں گے ۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر جہت سے کامیاب فرمائے اور اسلام کی تبلیغ اور ترقی کا ذریعہ بنادے اور یہ جلسہ آئندہ آنے والے بہت سے کامیاب جلسوں کا پیش خیمہ بن جائے۔ آمین یا ارحم الراحمین
‎(مطبوعہ الفضل ۴؍جون ۱۹۵۰ئ)






الہام ’’داغِ ہجرت ‘‘کا حوالہ مل گیا
غلبت الروم کے الہام کے متعلق ایک لطیف مکاشفہ
مجھے مدت سے ’’ داغِ ہجرت ‘‘ والے الہام کے حوالہ کی تلاش تھی لیکن نہ تو یہ الہام تذکرہ میں درج تھا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی کتاب یا تحریر وغیرہ میں ملتا تھا ۔ البتہ زبانی روایتوں میں اس کا کثرت کے ساتھ چرچا تھا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی ایک یادداشت میں یہ بات لکھ کر بھی رکھی ہوئی تھی کہ یہ الہام حضور کو اپنے دعویٰ کے ابتدائی ایام میں ہوا تھا۔
بایں ہمہ مجھے اصل حوالہ کی تلاش رہتی تھی۔ سو اب خدا کے فضل سے ایک ایسا حوالہ مل گیا ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسیتحریر پر براہِ راست مبنی تو نہیں ہے لیکن اپنی معین تاریخ کی وجہ سے اس کے متعلق یقینی قیاس ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسی ڈائری میں چھپ چکا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کسی اشتہار میں اس کا ذکر آچکا ہے اور یا کم از کم وہ کسی ایسی قلمی ڈائری میں محفوظ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی قلم بند ہو چکی تھی۔
بہر حال مجھے اب ایک دوست نے خط کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت ماہ اپریل ۱۹۱۳ ء کے صفحہ ۱۵۵ پر یہ الفاظ درج ہیں کہ :
’’ احمد( یعنی حضرت مسیح موعود ) بھی ہجرت کے متعلق خدا کے اس عام قانون سے مستثنیٰ نہیں تھے جو نبیوں کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک الہام جوآپ کو ۱۸ ستمبر ۱۸۹۴ ء کو ہوا تھا۔ اس میں آپ پر ’’ داغِ ہجرت ‘‘کے الفاظ القاء ہوئے تھے۔ جس سے پتہ لگتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی کسی دن ہجرت کرنی پڑے گی لیکن یہ بات ہم میں سے کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ ہجرت کس رنگ میں مقدر ہے۔‘‘ ۳۰
اس حوالہ میں اس الہام کی جو معین تاریخ درج ہے وہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ بہرحال وہ کسی اشتہار یا مطبوعہ ڈائری یا غیر مطبوعہ ڈائری سے لیا گیا ہے اور یہ حوالہ ہے بھی۱۹۱۳ ء کا جب کہ موجودہ حالات کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔
اس کے علاوہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر جو رسالہ زیر عنوان ’’ صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے ۔‘‘ ۱۹۰۸ ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لکھ کر شائع کیا تھا اس میں بھی ’’ داغِ ہجرت ‘‘ والا الہام درج ہے اور یہ بھی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ الہام اب نہیں بنا لیا گیا بلکہ ۱۹۰۸ ء میں بھی یہ الہام جماعت احمدیہ میں اچھی طرح شائع اور متعارف تھا۔
اسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دوسرے الہام کا بھی ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :
غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۳۱
’’ یعنی رومیوں کو قریب کی زمین میں مغلوب ہونا پڑے گا مگر وہ جلدی ہی پھر غالب ہو جائیں گے۔ ‘‘
اس کے متعلق یہ دوست لکھتے ہیں کہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی شائع شدہ دسمبر ۱۹۲۱ ء کے صفحہ۴۴ ، صفحہ ۴۵ پر اس الہام کے متعلق لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تو اس کے ساتھ ہی حضور کو یہ مکاشفہ بھی ہوا تھا کہ کوئی شخص قرآن شریف میں ادنٰی الارض ( قریب کی زمین) کے الفاظ پر انگلی رکھ کر کہتا ہے کہ اس سے مراد قادیان ہے۔ (تذکرہ المہدی حصّہ دوم شائع شُدہ ۱۹۲۱ئ)اس تعلق میں خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حوالہ سے واضح طور پر پتہ لگتا ہے غلبت الرّوم والا الہام بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۹۰۴ میں ہوا تھا۔ (تذکرہ ص ۴۶۹) دراصل قادیان سے ہجرت کرنے کے متعلق ہی تھا اور جب ادنیٰ الارض (یعنی قریب کی زمین) کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ اس سے مراد قادیان ہے تو پھر لا محالہ استعارہ کی زبان میں روم سے مراد مسلمان لئے جائیں گے اور اشارہ یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ آنے والی کش مکش میں اولاً مسلمانوں کو قادیان اور اس کے ارد گرد کے علاقہ (ضلع گورداسپور ) کے متعلق مغلوب ہونا پڑے گا جیسا کہ ملکی تقسیم کے وقت فیصلہ ثالثی میں ہوا لیکن اس کے بعد زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ خدا تعالیٰ حالات کو بدل کر پھر غلبہ کی صورت پیدا کر دے گا اور لطف یہ ہے کہ ادنیٰ الارض کے الفاظ ویسے بھی گویا الفاظ (Contiguous Area)کا لفظی ترجمہ ہیں جو فیصلہ ثالثی کی شرائط میں داخل تھے۔ فا فھم تدبر و انتظر۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍مئی ۱۹۵۰ئ)
ایک دوست کے سوال کا جواب
نبی۔ رسول اور مُحدّث میں کیا فرق ہے
ایک دوست جو غالباً جماعت احمدیہ میں شامل نہیںہیں، خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیںکہ نبی اور رسول اور محدث میں کیا فرق ہے۔ اور ان میں سے کس کو شریعت دی جاتی ہے۔ اور کس کو نہیں دی جاتی؟
اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر یاد رکھنا چاہئیے کہ نبی کا لفظ نباء سے نکلا ہے جس کے معنی خبر کے ہیں اور چونکہ عربی قاعدہ کے مطابق فعل کے مقابل پر اسم میں زیادہ شدت کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لئے نبی کے معنے ایسے شخص کے ہوں گے جو کسی کی طرف سے کوئی بڑی خبر پاتا ہے یا زیادہ کثرت سے پاتا ہے لیکن اصطلاحی طور پر نبی کے مفہوم میں ذیل کی تین باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔
(۱) اوّل یہ کہ اس کے ساتھ خدا کثرت سے کلام کرے۔
(۲) دوسرے یہ کہ یہ خدائی کلام اہم امورغیبیہ پر مشتمل ہو۔
(۳) تیسرے یہ کہ خدا اسے خود نبی کا نام دے۔
تیسری شرط اس لئے ضروری ہے کہ اس بات کو صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کسی شخص کے ساتھ اس کا مکالمہ و مخاطبہ اس حد کو پہنچ گیا ہے یا نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ نبی کا نام پانے کا مستحق ہو جائے۔
دوسری اصطلاح رسول کی ہے۔ سو یہ لفظ چونکہ رسالت سے نکلا ہے جس کے معنی پیغام کے ہیں۔ اس لئے رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے اور اصطلاحی طور پر رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے دنیا کے نام ( یا دنیا کے کسی حصہ کے نام ) کوئی خاص پیغام لے کر آئے اور اس کے لئے دو شرطیںضروری ہیں:-
(۱) اول یہ کہ وہ خدا کی طرف سے کوئی خاص پیغام لانے کا مدعی ہو۔
(۲) دوسرے یہ کہ اسے خدا کی طرف سے رسول کا نام دیا جائے۔ کیونکہ اس بات کو صرف خدا ہی جانتا ہے کہ آیا کسی کا لایا ہوا پیغا م اس نوعیت کا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے رسول کہلانے کا حقدار سمجھا جائے۔ ورنہ بعض اوقات عام مومنوں کی خوابوں یا الہاموں میں بھی خدائی اشارے یا خدائی پیغام شامل ہوتے ہیں مگر اس کی وجہ سے وہ رسول نہیں کہلا سکتے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ رسول کا لفظ انسان رسولوں کے علاوہ ان فرشتوں پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی بندے کے نام خدا کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آتے ہیں اور قرآن شریف میں بھی رسول کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرما تا ہے کہ :
۳۲
یعنی ’’ ہم نے تجھ سے پہلے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ ہی کبھی کوئی نبی بھیجا ہے کہ اس نے جب بھی اپنے مشن کی کامیابی کے لئے کوئی ( سکیم بنا کر ) آرزوئیں قائم کیں تو شیطان نے لازماً اس کی ان آرزوئوں میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کردی ۔‘‘
اس جگہ رسول کے لفظ میں انسان رسول اور ملائکہ رسول دونوں شامل ہیں۔ اسی لئے رسول اور نبی کے درمیان ولا ( اور نہ ہی ) کے الفاظ رکھ کر تفریق کی گئی ہے۔ ورنہ عام حالات میں اس کی ضرورت نہیں تھی۔
تیسری اصطلاح محدث کی ہے۔ یہ لفظ حدیث سے نکلا ہے جس کے معنی بات یا کلام کے ہیں۔ اور اصطلاحی طور پر محدث اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کے کلام سے مشرف ہو لیکن یہ کلام اپنی کیفیت اور کمیت میں اس درجہ کا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے اس الہام کا پانے والا نبی کہلا سکے مگر دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کلام کبھی کبھار الہام پانے والوں کی نسبت زیادہ کثرت کا رنگ رکھتا ہو۔
اوپر کی مختصر تعریفوں سے ظاہر ہے کہ نبی اور رسول میں تو درجہ کا فرق نہیں ہوتا بلکہ صرف جہت کا فرق ہوتا ہے لیکن نبی اور محدث میں جہت کا فرق نہیںہوتا بلکہ صرف درجہ کا فرق ہوتا ہے۔ ایک شخص نبی تو اس لحاظ سے کہلاتا ہے کہ وہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوتا ہے اور رسول اس لحاظسے کہلاتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بندوں کے نام کوئی خاص پیغام لے کر آ تا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ فرق جہت کا فرق ہے درجہ کا فرق نہیں لیکن دوسری طرف نبی اور محدث گو ایک ہی لائن اور ایک ہی جہت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں درجہ کا فرق ہوتا ہے یعنی جہاں ایک نبیکثرت کے ساتھ الہام پاتا اور کثرت کے ساتھ امور غیبیہ سے مشرف ہوتا ہے۔ وہاں ایک محدث کو اس درجہ کی کثرت حاصل نہیں ہوتی۔ گو وہ عام مومنوں کی نسبت جو کبھی کبھی کلام الہٰی سے مشرف ہو جاتے ہیں ضرور بڑا درجہ رکھتا ہے۔
اوپر کی تشریح سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر نبی رسول ہوتا ہے اور ہر رسول نبی ہوتاہے۔ ( اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ’’ غلطی کے ازالہ‘‘ میں فرمایا ہے ) کیونکہ کسی شخص کا نبی ہونا یعنی کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہونا اور مکالمہ بھی ایسا جس میں دنیا کے لئے اہم خبریں ہوں بے معنی ہو گا جب تک کہ وہ ساتھ ہی رسول نہ ہو اور کسی شخص کا رسول ہونا یعنی خدا کی طرف سے خاص پیغام لے کر آنا بے معنی ہو گا جب تک کہ وہ ساتھ ہی نبی ( یعنی کثرت مکالمہ سے مشرف ) نہ ہو لیکن دوسری طرف محدث کے لئے مبعوث ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف عام مومنوں کی نسبت کلام الٰہی سے زیادہ مشرف ہونا ضروری ہے۔ گو یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر محدث لازماً غیر مبعوث ہو۔ مثلاً قرآن شریف کی سورۃ حج والی آیت کی ایک قرأ ت یہ بھی آئی ہے کہ :
ما ارسلنا من قبلک من رسولٍ ولا نبی ولا محدّث ۔الخ
یعنی ’’ ہم نے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ ہی کبھی کوئی نبی اور محدث بھیجا ہے کہ شیطان نے اس کے رستہ میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ بعض محدث مبعوث بھی ہوتے ہیں اور اسلام کے اکثر مجدد محدث تھے۔ واللہ اعلم۔
اب رہا یہ سوال کہ ان میں سے کون شریعت لاتا ہے اور کون شریعت نہیں لاتا۔ سو محدث کے متعلق تو شریعت کے لانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ مبعوث ہو۔ البتہ نبیوں اور رسولوں میں سے بعض شریعت لائے ہیں اور بعض صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور تجدید کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد بنی اسرائیل میں بہت سے ایسے نبی آئے جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ صرف موسوی شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے گئے۔ ( سورۃ مائدہ رکوع ۷) حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی کوئی نئی شریعت نہیں لائے۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ : -
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔‘‘ ۳۳
ایک حدیث میں بھی اس مضمون کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کل نبی ایک لاکھ بیس ہزار گزرے ہیں جن میں سے ۳۱۵ رسول تھے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ :
عن ابی ذر قلت یا رسول اللّٰہ کم وفّٰی عدۃ الانبیاء قال مائۃ الف و عشرون الفاً الرسل من ذالک ثلاثٍ مائۃ و خمسۃ عشرۃ جماًغفیرًا ۳۴
یعنی ’’ ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ نبیوں کی تعداد کتنی گزری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک لاکھ اور بیس ہزار نبی گزرے ہیں جن میں سے تین سو پندرہ رسول تھے اور یہ تین سو پندرہ کی تعداد بہت بڑی تعداد ہے۔ ‘‘
اس جگہ یہ تو بہر حال مراد ہو نہیں سکتا کہ بہت سے نبی ایسے تھے جو رسول نہیں تھے یعنی انہوں نے خدا کی طرف سے کثرت کے ساتھ کلام پایا اور اہم امور غیبیہ سے مشرف بھی ہوئے اور خدا نے ان کا نام نبی بھی رکھا مگر پھر بھی وہ لوگوں کی طرف کوئی خدائی پیغام لے کر نہیں آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ نظریہ بالبداہت غلط اور نا درست ہے۔ پس لا محالہ اس جگہ رسو ل سے مراد صاحب شریعت رسول لینے ہوں گے اور حدیث کا منشاء یہ سمجھا جائے گا کہ ایک لاکھ بیس ہزار نبیوں میں سے شریعت لانے والے رسول صرف تین سو پندرہ تھے۔ گویا اس جگہ رسول کا لفظ مخصوص معنوں میں لیا جائے گا اور یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین سو پندرہ کی تعداد کے ساتھ جماً غفیرًا ( بہت بڑی تعداد) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد کے ساتھ یہ الفاظ استعمال نہیں کئے۔ حالانکہ تعداد یہ زیادہ ہے نہ کہ وہ۔ اس میں بھی یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ تین سو پندرہ کی تعداد شریعت لانے والے رسولوں کی ہے اور اس لحاظ سے یہ تعداد واقعی زیادہ ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا کی طرف سے دنیا میں وقتاً فوقتاً ۳۱۵ نئی شریعتیں پہنچی ہیں اور شریعتوں کے شمار کے لحاظ سے یہ ایک حقیقۃً بہت بڑی تعداد ہے۔ فہو المراد۔
خلاصہ یہ کہ ہر نبی رسول ہوتا ہے اور ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ان میں منصب اور درجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ صرف جہت کے لحاظ سے فرق ہے۔ یعنی اس لحاظ سے کہ وہ خدا سے خبریں پاتا ہے وہ نبی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے۔ پھر بعض نبی اور رسول تو خدا کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض کوئی شریعت نہیں لاتے۔ بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں۔ اس کے مقابل پر محدث نہ تو رسول ہوتا ہے اور نہ نبی بلکہ صرف خدا کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوتا ہے لیکن نبی کی نسبت درجہ اور کلام کی وسعت میں کمتر ۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ مختصر نوٹ ہمارے اس دوست کی تسلی کے لئے کافی ہو گا۔ و ا خر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۹؍جون ۱۹۵۰ئ)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شادیاں اور طلاقیں
کراچی کے ایک احمدی دوست خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ یہ جو بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت امام حسن ؓیا حضرت امام حسین ؓ نے اسی یا نوے شادیاں کی تھیں۔ اس سے کیا مراد ہے ؟ آیا ان کے لئے چار بیویوں کی حد بندی نہیں تھی اور اگر وہ ایک بیوی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری شادی کر لیتے تھے تو پھر اس کثرت کے ساتھ طلاق دینے میں کیا حکمت تھی ؟ خصوصاً جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کو نا پسند فرمایا ہے۔
اس سوال کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے حضرت امام حسن ؓ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ چھوٹے نواسے امام حسین ؓ سے۔ اور یہ درست ہے کہ بعض روایتوں میں حضرت امام حسن ؓ کی شادیوں کی تعداد نوے تک بیان ہوئی ہے اور اگر یہ مبالغہ بھی سمجھا جائے تو تب بھی اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امام حسن ؓ نے کثرت کے ساتھ شادیاں کی تھیں اور اسی کثرت کے ساتھ طلاقیں بھی دیں لیکن یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے کہ انہوں نے یہ ساری شادیاں ایک ہی وقت میں کی تھیں کیونکہ ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کی اسلام اجازت نہیں دیتا یہ استثناء صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی جو وہ بھی آخر میں آکر محدود ہو گئی ۔
باقی رہا طلاق دینے کا سوال ،سو گو یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالات میں طلاق دینے کو پسند نہیں فرمایا لیکن یہ ہرگز درست نہیں کہ آپ نے ہر حال میں طلاق کو پسند نہیں فرمایا ہے بلکہ آپ نے صرف ایسی طلاق کو ناپسند کیا ہے جو ناواجب جوش میں آکر یا نفسانی جذبات کے ماتحت دی جائے۔ ورنہ تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی ضرورت کے وقت جائز غرض سے طلاق دینا ہرگز نا پسندیدہ نہیں بلکہ یہ تو اسلامی شریعت کے حکیمانہ علاجوں میں سے ایک علاج ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص حالات کے لئے مقرر کر رکھا ہے اور صحیح احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ ایک دفعہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی تھی جس کا نام امیمۃ بنۃ الجون تھا ( بخاری کتاب الطلاق) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی) کسی صورت میں بھی نعوذ باللہ ایک ناپسندیدہ فعل کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی نے طلاق کی اجازت دی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شریعت نے اس فیصلہ کو خاوند کی رائے پر چھوڑا ہے نہ کہ امام یا قاضی کی رائے پر۔ تو جب ایک معاملہ جائز بھی ہے اور وہ چھوڑا بھی خاوند کی رائے پر گیا ہے تو زید یا بکر یا عمر کو اعتراض کا کیا حق ہو سکتا ہے۔ اگر حضرت امام حسن ؓ نے کسی وجہ سے ( جس کا ہمیں معلوم ہونا ضروری نہیں اور نہ ہمیں اس کی ٹوہ لگانے کی ضرورت ہے ) اپنی بعض بیویوں کو طلاق دی تو یہ معاملہ ان کی ذات سے تعلق رکھتا تھا اور ہمیں اس بحث میں جانے کا کوئی حق نہیںکہ ان طلاقوں میں غرض کیا تھی اور پھر اس بات کا بھی ہرگز کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے یہ طلاقیں نعوذ باللہ تقویٰ کے ماتحت نہیں دی تھیں بلکہ بعض روایتوں میں تو اس بات کا صریح اشارہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسن ؓ کی غرض دینی تھی نہ کہ دنیوی۔ چنانچہ ابن سعد کی ایک روایت ہے کہ : -
کان الحسن ؓ مطلاقا للنساء و کان لا یفارق امرا ۃً الَّا و ھی تحبہ ۳۵
’’ یعنی امام حسن ؓ نے بے شک بہت سی بیویوں کو طلاق دی مگر انہوں نے کبھی کسی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق نہیں دی کہ وہ انہیں محبت کی نظر سے نہ دیکھتی ہو۔ ‘‘
اس روایت میں یہ صاف اشارہ پایا جاتا ہے کہ حضرت امام حسن ؓ کا سلوک اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا مومنانہ اور مشفقانہ تھا کہ وہ انہیں بہر حال محبت کی نظر سے دیکھتی تھیں اور جب صورت حال یہ ہے تو لازماً ان کی طلاقوں میں نفسانی جوش یا نفرت کا جذبہ کار فرما نہیں سمجھا جا سکتا اور جب یہ نہیں تو ہمیں امام حسن ؓ کے ایک ذاتی اور نجی فعل میں جستجو کرنے اور ٹوہ لگانے کا کوئی حق نہیں۔
دراصل دنیا میں اکثر فتنے اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان دوسروں کے ذاتی اور جائز اعمال میں ناواجب دخل دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے یہ کام کیوں کیااور وہ کام کیوں نہیں کیا؟ہمارے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ شریعتِ اسلامی طلاق کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ اس کا فیصلہ خاوند کی ذاتی رائے پر چھوڑتی ہے جس میں کسی دوسرے کا دخل نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بزرگ کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ جس میں وہ شریعت کی رو سے بالکل صاحب اختیار ہے زیر بحث لایا جائے؟ بے شک اگر شریعت خاوند کو طلاق کی اجازت نہ دیتی یا اس اجازت کو امام یا قاضی اور جج کی منظوری کے ساتھ وابستہ کرتی ( جیسا کہ خلع میں ہے ) تو سوال کرنے والے کو سوال کرنے کا حق ہو سکتا تھاکہ ایسا کیوں کیا گیا لیکن موجودہ صورت میں اعتراض تو درکنار حقیقتاً محض سوال کا بھی حق پیدا نہیں ہوتا۔
مجھے اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضور نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ اگر انسان تقوی اللہ کو مدنظر رکھے تو خواہ سو شادیاں کر لے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر بعض جلد باز لوگوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت صاحب نے سو بیویوں کی اجازت دے دی ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک یہ بات پہنچی تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے تو ہرگز سو بیویوں کی اجازت نہیں دی اور نہ ہم ایسی اجازت دے سکتے ہیں۔ ہمارا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر تقویٰ مد نظر ہو تو بے شک اگر کسی کی ایک بیوی مر جائے یا اسے طلاق ہو جائے تو وہ چوتھی بیوی کے بعد پانچویں بیوی کر لے اور پانچویں کے بعد چھٹی کر لے اور چھٹی کے بعد ساتویں و علیٰ ھذا لقیاس اور ا س طرح خواہ سو تک نوبت پہنچ جائے کوئی حرج نہیں۔ بشر طیکہ تقویٰ مد نظر ہو اور حق بھی یہی ہے کہ ایک جائز بات میں جس میں شریعت نے کوئی حد بندی نہیں لگائی خواہ مخواہ روک پیدا کرنا دانشمندی کا طریق نہیں اور بزرگوں کے متعلق تو بہر حال حسن ظن کے مقام پر قائم رہنا چاہئے۔
اس تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبین صلعم میں تفصیلاً لکھا ہے۔ اسلام نے نکاح اور تعدد ازدواج کی سات غرضیں بیان فرمائی ہیں یعنی (۱)احصان یعنی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنا۔ (۲) بقا ئِ نسل (۳) رفاقتِ حیات اور تسکین قلب (۴) محبت و رحمت کے تعلقات کی توسیع (۵) انتظام یتامیٰ (۶) انتظام بیوگان اور (۷) نسل کی ترقی جو بقاء نسل سے ایک جداگانہ چیز ہے۔ تو جب نکاح میں بہت سی غرضیں مد نظر رکھی گئی ہیں تو لازماً اسی نسبت سے طلاق میں بھی بہت سی جائز غرضیں سمجھی جا سکتی ہیں لیکن چونکہ یہ ایک ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اس لئے ہمیں کسی فرد کے متعلق ان غرضوں کی تفصیلی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔
بالآخر اس بات کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ خواہ حضرت امام حسن ؓ کا ذاتی اور خاندانی مقام کتنا ہی بلند ہو۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ نبی یا مامور نہیں تھے۔ اس لئے ان کے اعمال اسوہ حسنہ کے معیار کے مطابق پرکھے جانے ضروری نہیں۔ یہ صرف انبیاء کا مقام ہے کہ ان کا ہر فعل اور ہر عمل اسوہ حسنہ کے رنگ میں قبول کیا جائے۔ فا فھم و تدبر
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍جون ۱۹۵۰ئ)


ایک دوست کے دو سوالوں کا جواب
(۱) جِنّات کا وجود
ایک صاحب جو جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ اپنا نام ظاہر کرنے کے بغیر خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ جنات کے وجود کے متعلق اسلام کی کیا تعلیم ہے؟ یعنی جن کس مخلوق کا نام ہے؟ اور کیا جیسا کہ عام لوگوں کا خیال ہے وہ انسانوںپر اثر ڈال کر انہیں اپنا گرویدہ یا دیوانہ بنا سکتے ہیں یا انسانوں کے ساتھ چمٹ کر انہیں اپنے قابو میں لانے کا اختیار رکھتے ہیں یا خود ان کے قابو میں آکر ان کی خدمت سر انجام دے سکتے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ
اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک قرآن شریف اور حدیث میں جن کا لفظ آتا ہے اور قرآن شریف میں ۲۶ جگہ اور حدیث میں اس سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہے لیکن جن سے مراد ہرگز وہ چیز نہیں جو آج کل عام لوگوں کے تخیل میں پائی جاتی ہے۔ دراصل عربی زبان میں جن کے معنے مخفی رہنے والی چیز کے ہیں۔ خواہ وہ اپنی تقویم یعنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا کہ صرف عادات کے طور پر مخفی ہو اور یہ لفظ عربی کے مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے مگر بہرحال ان سب معنوں میں مخفی ہونے یا پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ عربی میں فعل کی صورت میں جن کے معنے سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے کے ہیں۔ مثلا ً قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۳۶
’’ یعنی جب رات نے ابراہیم پر اندھیرے کا پردہ ڈالا۔‘‘
اس طرح جنین اس بچے کو کہتے ہیں جو ابھی ماں کے پیٹ میں مخفی ہوتا ہے اور جنون اس مرض کو کہتے ہیں جو دماغ کو ڈھا نک کر مختل کر دیتا ہے اور جنان دل کو کہتے ہیں جو سینے کے اندرمستور رہتا ہے اور جنۃ اس گھنے باغ کو کہتے ہیں جس کے درخت زمین کو اپنے سایہ میں ڈھانکے رکھتے ہیں اور مجنۃ اس ڈھال کو کہتے ہیں جس کے پیچھے لڑنے والا سپاہی اوٹ لے کر اپنا بچائو کرتا ہے اور جان اس چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں جو زمین کے سوراخوں میں چھپ کر رہتا ہے اور جنن اس قبر کو کہتے ہیں جو مردے کو اپنے اند رچھپا لیتی ہے اور جُنّۃ اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جو سر اور بدن کو ڈھانپتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس نہ صرف اس لفظ کی رُوٹ کے لحاظ سے بلکہ عربی محاورہ اور استعمال کے مطابق بھی جن کا لفظ تمام ان چیزوں پر بولا جا سکتا ہے جو یا تو اپنی بناوٹ کے لحاظ سے مخفی ہیں اور یا پھر وہ ایسے انسانوں پر بولا جا سکتا ہے جو بناوٹ کے لحاظ سے تو مخفی نہیں مگر اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر عوام الناس سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔
لہذا جن کے لفظ کے اس وسیع مفہوم کے ماتحت ہر جگہ کے مناسب حال جن کی تشریح کرنی پڑے گی یعنی : -
(۱) بعض جگہ جن کے لفظ سے ایسے روساء اور اکابر اور جبار لوگ مراد ہوں گے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے اور لوگوں سے جدا جدا رہتے ہیں۔ جیسا کہ مثلاً قرآن شریف فرماتا ہے کہ :-
۳۷
’’ یعنی اے بڑے لوگو ( جو اپنے آپ کو گویا انسانوں سے کوئی جداگانہ جنس خیال کرتے ہو) تم نے عام لوگوں کی کمزوری اور بے بسی سے بہت فائدہ اٹھایا ہے ‘‘۔
ظاہر ہے کہ اس جگہ جن سے مراد بڑے لوگ یعنی رئیس اور اکابر اور جبّار اور سرمایہ دار وغیرہ ہیں۔
(۲) بعض جگہ جن سے ایسی قومیں مراد لینی ہوں گی جو جغرافیائی لحاظ سے ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جو دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔ مثلا ً قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۳۸
’’ یعنی اے رسول تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے وحی الٰہی نے بتایا ہے کہ قرآنی تلاوت کو بعض ایسے قبیلوں کے لوگوں نے بھی سنا ہے جو دنیا سے کٹے ہوئے رہتے تھے اور انہوں نے قرآن کی تعریف کی ہے۔‘‘
اس جگہ جن سے علیحدہ رہنے والی غیر معروف اور دور افتادہ قومیں مراد ہیں اور
(۳) بعض جگہ جن سے مخفی ارواح مراد ہوں گی جیسا کہ دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۳۹
’’ یعنی ابلیس مخفی روحوں میں سے ایک تھا جس نے آدم کے بارہ میں خدا کی نافرمانی کر کے فسق کا طریق اختیار کیا۔‘‘
(۴) پھر بعض جگہ جن کے لفظ سے تاریکی میں رہنے والے جانور مراد ہوں گے جیسا کہ مثلا ً حدیث میں آتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو شام کے وقت خصوصیت سے ڈھانک کر رکھا کرو تاکہ ان کے اندر جن رستہ نہ پا سکیں ( مشکوٰۃ) اس جگہ جن سے پتنگے اور بیماریوں کے جراثیم وغیرہ مراد ہیں اور
(۵) پھر بعض جگہ جن سے مراد کیڑے مکوڑے بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ہڈی سے استنجا نہ کرو کیونکہ اس میں جنوں کی خوراک ہے (مشکوٰۃ) اور ظاہر ہے کہ اس سے چیونٹیاں اور دیمک وغیرہ کی قسم کے کیڑے مراد ہیں جو ہڈیوں کے ساتھ لگے ہوئے گوشت اور ان کے اندر کے گودے کو خوراک بناتے ہیں۔
الغرض جن کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہر حال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جن بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لوگوں کے لئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیزیں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے توہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔
ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے ( نہ کہ اصطلاحی طور پر ) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جن کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوتِ عملیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا۔ جب کہ تین سو تیرہ بے سر و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار سازو سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خا ک میں ملا دیاتھا۔ ( صحیح بخاری) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے فضل سے انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔
(۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا احیاء موتیٰ
انہی دوست کا دوسرا سوال یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ذکر آتا ہے کہ انہوں نے بہت سے مردے زندہ کئے۔ کیا اس طرح حضرت مرزا صاحب نے بھی کبھی اس قسم کا کوئی معجزہ دکھایا؟
اس سوال کے جواب میں یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ تو بالکل درست ہے کہ ہر سچے نبی اور رسول کو جو خدا کی طرف سے آتا ہے۔ ایسی آیات اور ایسی نشانیاں دی جاتی ہیں جن سے اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو سچے اور جھوٹے میں کوئی فرق نہ رہے اور انکار کرنے والوں کو یہ جائز عذر ہاتھ میں آ جائے کہ ہمیں کوئی نشان نہیں دکھایا گیا۔ اس قسم کے معجزات کو خواہ وہ علمی ہوں یا اقتصادی قرآن شریف نے آیات کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد ایسی نشانیاں ہیں جن سے ایک شخص پہچانا جائے اور یقینا مرزا صاحب نے بھی بے شمار معجزات دکھائے جن کا کسی قدر نمونہ حضور کی تصنیف حقیقۃ الوحی میں درج ہے لیکن یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی حکیمانہ تقدیر نے آیات اور معجزات کے متعلق بعض خاص شرطیں اور خاص حد بندیاں بھی لگا رکھی ہیںاور کسی نبی اور رسول کا معجزہ ان شرائط اور حد بندیوں کو توڑ نہیں سکتا جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ :
۴۰
’’ یعنی تم خدا کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے‘‘
ان سنتوں اور شرطوں میں سے ایک ضروری شرط اور ضروری سنت یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جسمانی مردے کبھی زندہ نہیں کئے جاتے بلکہ جسمانی مردوں کے زندہ کئے جانے کے لئے اگلا جہان مقرر ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
۴۱
’’ یعنی مرنے والے لوگوں اور اس دنیا کے درمیان ایک ایسی روک کھڑی کر دی جاتی ہے کہ کوئی مرنے والا شخص دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔۔۔ ہاں قیامت کے دن ضرور سب مردے زندہ کئے جائیں گے۔‘‘
اس قرآنی آیت سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جسمانی مردوں کا زندہ ہونا ایک خیال باطل اور خلاف تعلیم اسلام ہے۔ پس اس تعلق میں جو معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور رسول یا بزرگ کے بیان کئے جاتے ہیں وہ یا تو محض خوش عقیدگی کے قصے ہیں جس کی کوئی سند نہیں اور یا ان سے استعارہ کے طور پر روحانی مُردوں کا زندہ ہونا اور بے دین لوگوں کا دیندار ہو جانا مراد ہے جو کم و بیش ہر نبی کے زمانہ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ :
۴۲
’’ یعنی اے لوگو تم خدا کی آواز پر ضروری کان دھرا کرو اور اسی طرح رسول کی آواز پر بھی کان دھرو جبکہ وہ تمہیں اس صداقت کی طرف بلائے جو تمہاری مردہ روحوں کو زندہ کرنے والی ہے۔ ‘‘
اس آیت میں صاف طور پر بتایا گیا ہیکہ جب کبھی خدا کے رسول کے متعلق زندہ کرنے کا لفظ آتا ہے تو اس سے لا محالہ روحانی طور پر زندہ کرنا مراد ہوتا ہے نہ کہ جسمانی طور پر زندہ کرنا اور تاریخ و حدیث میں بھی قطعاً کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کسی جسمانی مُردے کا زندہ ہونا ثابت ہوتا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے قریبا ً گیارہ لخت جگر آپ کی زندگی میں فوت ہوئے اور آپ کی دو بیویاں بھی آپ کی زندگی میں رخصت ہوئیں اور آپ کے سینکڑوں جانثار صحابی بھی آپ کی زندگی میں شہید ہو کر یا دوسری طرح فوت ہو کر خدا کے حضور پہنچے لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ نے کبھی ان میں سے کسی ایک فرد واحد کو بھی جسمانی لحاظ سے زندہ کیا ہو؟ تو کیا یہ ہم مسلما نوں کے لئے غیرت کا مقام نہیں کہ جو اقتداری معجزہ ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتم النبیین اور سید ولد آدم فداہ نفسی نہیں دکھا سکا ( کیونکہ ایسا معجزہ خدا کی سنت کے خلاف ہے) اس کے متعلق نعوذ باللہ یہ خیال کیا جائے کہ یہ معجزہ حضرت عیسیٰ یا کسی اور نبی یا بزرگ نے سینکڑوں کی تعداد میں دکھایا اور محض ہاتھ کے اشارہ سے قبر میں سوئے ہوئے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر زندہ کرتے چلے گئے۔یقینا یہ سب یا تو محض خوش عقیدگی کے قصے ہیں اور یا ان سے استعارے کے رنگ میں صرف روحانی مردوں کا زندہ ہونا مراد ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں اور پھر کیا اس قسم کا اعتراض کرنے والے صاحبان اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر حضرت عیسیٰ نے واقعی اس طرح جسمانی مردے زندہ کئے ہوتے جس طرح کہ بظاہر انجیل میں مذکور ہے کہ ادھر حضرت عیسیٰ نے اشارہ کیا اور ادھر قبر ستانوں کے سینکڑوں مردے اٹھ کر ساتھ ہولئے تو پھر ایسا صریح معجزہ دیکھ کر انہیں سارے یہودیوں نے کیوں نہ مان لیا اور کیوں ان کے ماننے والوں کی تعداد صرف بارہ حواریوں تک محدود رہی؟
حق یہ ہے کہ جو شان ایک روحانی مردہ کے زندہہونے میں ہے وہ بھلا ایک جسمانی مردہ کے زندہ ہونے میں کب پائی جا سکتی ہے؟ ایک دنیا دار جسمانی مردہ کے زندہہونے کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایک قبر میں سوئے ہوئے انسان کو قبر سے اٹھا کر دو چار دن یا دو چار سال کے لئے دوبارہ سانس لینے اوراپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے یا تجارت وصنعت و حرفت میں مشغول ہونے کے لئے زندہ کر دیا جائے لیکن اس کے مقابل پر ایک روحانی مردہ کا زندہ ہونا اور ایک خدا کے منکر کا خدا پرست بن جانا اور ایک بے دین انسان کا دیندار ہو جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ گویا ایک مٹی میںلت پت انسان کو اٹھا کر اور ایک زمین کے کیڑے کو ہوا میں بلند کر کے ثریا تک پہنچا دیا جائے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک دہریہ اور مشرک اور بے دین اور مادہ پرست اور بد اخلاق اور جاہل قوم کو اپنی آواز سے اٹھا کر موحد اور خدا پرست اور دیندار اور علم و عرفان سے آراستہ قوم بنا دیا مگر افسوس کہ مادہ پرست اور شعبدہ پسند لوگوں کی آنکھیں ایک جسمانی مردہ کو دو چار دن یا دو چار سال زندہ ہوتے دیکھنے کے لئے ترستی ہیں مگر اس بے نظیر اور شاندار نظارہ کو دیکھنے اور اس سے متاثر ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتیں جس میں ایک مردہ قوم اور ایک مردہ ملک کو علم و عرفان اور روحانیت کی ابدی زندگی سے مالا مال کر دیا گیا۔
قتل الانسان ما اکفرہ۔
یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے معجزات کا ہے۔ حضور نے بھی خدائی سنت کے مطابق سینکڑوں معجزات دکھائے جن کے ذکر سے ہماری جماعت کا لٹریچر بھرا پڑا ہے لیکن پھر بھی لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے کون سا مردہ زندہ کیا اور قبر میں سوئے ہوئے کس شخص کو آواز دے کر جگادیا؟ میں کہتا ہوں کہ بے شک اپنے آقا اور سردار محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ نے کسی جسمانی مردے کو زندہ نہیں کیا لیکن اپنی روحانی قوت اور خدا داد طاقت کے ذریعہ آپ نے لاکھوں بے دین انسانوں کو دیندار بنا کر اور بے شمار مردہ روحوں کو زندگی کا پانی پلا کر وہ معجزہ دکھایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا حقیقتاً کسی اور نبی نے نہیں دکھایا۔ آج کل کی مادہ پرستی اور بے دینی کے ماحول میں کسی ایک مردہ روح کو زندہ کرنا بھی آسان کام نہیں لیکن حضرت مرزا صاحب نے خدا کے فضل سے کئی لاکھ بھٹکی ہوئی روحوں کو خدا کے آستانے پر لاڈالا مگر افسوس کہ مادہ پرست اور تماشہ بین لوگ ان باتوں کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں۔
لیکن کیا یہ بات بھی لوگوں کو نظر نہیں آتی کہ اپنی انتہائی غربت اور بے سرو سامانی کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی سی جماعت اپنے تبلیغی کام کی وجہ سے ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے؟ دوسرے مسلمان اس وقت چالیس کروڑ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں لیکن وہ کوئی ایک مشن یا ایک دارالتبلیغ بھی نہیں دکھا سکتے جو انہوں نے تبلیغ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے غیر مسلم ملکوں میں قائم کیا ہو لیکن ا س کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی سی جماعت نے دنیا کے تقریباً ہر ملک میں تبلیغی مرکز قائم کر رکھے ہیں۔ جہاں سینکڑوں مبلغ دن رات خدمت دین میں لگے رہتے ہیں۔ پس اگر یہ بات سچی ہے اور یقینا سچی ہے کہ :-
’’ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ‘‘
تو میں سوال کرنے والے دوست سے کہتا ہوں کہ جسمانی مردوں کے زندہ ہونے کا خیال چھوڑو کہ یہ خدا کی واضح سنت اور اٹل قانون کے خلاف ہے اور آئو اور روحانی مردوں کی زندگی کا نظارہ دیکھو کہ خود حضرت مسیح موعود کے زندہ کئے ہوئے مردے تو الگ رہے ان کے سینکڑوں خادم بھی اس وقت دنیا کے ہر گوشے میں اسلام کے آبِ حیات کی شیشی ہاتھ میں لئے ہوئے مردہ روحوں کو زندہ کرتے پھرتے ہیں۔ اگر چالیس کروڑ مسلمانوں کی طرف سے دنیا کے کسی ایک ملک میں ایک تبلیغی مشن کا بھی قائم نہ ہونا اور حضرت مسیح موعود کی چند لاکھ کی غریب جماعت کی طرف سے دنیا کے قریباً ہر ملک میں اسلامی تبلیغ کے بیشمار مشن قائم ہو جانا احمدیت کی سچائی اور احمدیت کے درخت کے پھل کی خوبی کی دلیل نہیں تومیں اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ یا تو پوچھنے والے کی آنکھ میں صداقت کو دیکھنے کا نور نہیں اور یا شاید بیان کرنے والے کی زبان میں ابھی تک قوتِ گویائی کا اتنا زور نہیں جو سچائی کو منوانے کے لئے ضروری ہے۔
وما علینا الا البلاغ و لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍جون ۱۹۵۰ئ)




صابر درویشوں کے بے صبر رشتہ دار
اس وقت قادیان میںتین سو سے اوپر درویش رہتے ہیں جنہوں نے مقدس مقامات کی آبادی اور حفاظت کے لئے اپنے آپ کو گویا وقف کر رکھا ہے ان میں سے اکثر ایسے اخلاص اور قربانی کا نمونہ دکھا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے لئے درد دل سے دعا نکلتی ہے ۔ان میں سے بعض کو اپنے رشتہ داروں کی جدائی کی وجہ سے تکلیف بھی ہے اور بعض کے خانگی معاملات میں بھی ایسی پیچیدگیاں ہیں جو ان کی واپسی کی متقاضی ہیں مگر پھر بھی وہ جماعت کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے نہائت درجہ صبر اور استقلال کے ساتھ قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور انہیںدین و دنیا کی بہترین نعمتوں سے نوازے ۔آمین ۔
لیکن بعض درویشوں کے بعض پاکستانی رشتہ دار بعض اوقات بے صبری کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات کا مطالبہ کرتے ہیںکہ ان کے رشتہ دار درویش کو قادیان سے واپس بلوادیا جائے۔میں ان کی مجبوریوں کو بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن صابر درویشوں کے ان بے صبر رشتہ داروں کو چند باتیں ضرور یاد رکھنی چاہئیں:
(اول)ابھی تو قادیان کی ہجرت پر صرف اڑھائی سال کا عرصہ گزرا ہے حالانکہ اس کے مقابل پرکئی بیرونی مبلغین دس دس بارہ بارہ سال کی خدمت اور عزیزوں کی جدائی کے بعد پاکستان واپس آئے۔ پس جب دین کی خدمت کرنے والے لوگ دس دس بارہ بارہ سال تک اپنے رشتہ داروں سے جدا رہ سکتے ہیںاور جدائی بھی ایسی کہ جو ہزاروں میل کے فاصلہ سے تعلق رکھتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف چند میل کے فاصلہ کی جدائی دو چار سال کے عرصہ کے لئے بھی برداشت نہ کی جاسکے ۔ قادیان واہگہ کے بارڈر سے صرف ۵۶میل دور ہے اور ڈاک کا انتظام بھی ایسا ہے کہ دوسرے یا تیسرے دن خط ضرور پہنچ جاتا ہے اور اب تو بارڈر پر عزیزوں کی ملاقات کا راستہ بھی کھل گیا ہے تو ان حالات میںدرویشوں کے رشتہ داروں کو چاہئے کہ صبر سے کام لیں اور بے چینی کا اظہار کرکے اپنے ثواب کو کم نہ کریں۔
(دوم) بعض درویشوں کے رشتہ دار لکھتے ہیں کہ اب جبکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بعض مزید احمدی قادیان پہنچ گئے ہیں تو ہمارے رشتہ دار کو واپس بلا دیا جائے۔ اپنے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت تک قادیان میں ہندوستان سے زیادہ تر بچے اور عورتیں اور بوڑھے مرد پہنچے ہیں اور ان میں سے اکثر خدمت کے قابل نہیں لیکن پھر بھی ان کی وجہ سے جس تعداد کا واپس بھیجنا مناسب سمجھا گیاوہ وہاں سے واپس بھجوادی گئی ہے اور اس طرح اگر آئندہ کوئی گنجائش نکلی تو اس کے مطابق مزید واپسی بھی ہوسکے گی گو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واپسی کب ہوگی۔
باقی رہا یہ سوال کہ فلاں شخص کیوں پہلے واپس آیا اور فلاں کیوں نہیںآیا۔ سو ہمارے دوستوں کو اس قسم کی بدظنی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ انہیں یادرکھنا چاہئے کہ ان کے سامنے تو صرف ان کی اپنی تکلیف ہے لیکن قادیان کے جن دوستوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ سب کی تکلیف کو سامنے رکھ کر اور ایک ایک کے حالات کا موازنہ کرکے فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے پوری دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور گو غلطی ہر شخص کر سکتا ہے مگر مومنوں کو اپنے بھائیوں پر بہرحال حسن ظنی سے کام لینا چاہئے۔
(سوم )بعض دوست مجھ پر زور دیتے ہیں کہ تم ہمارے فلاں درویش رشتہ دار کو واپس بلادو انہیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ کام میرے اختیار میں نہیں بلکہ اس کا فیصلہ اول تو حالات کی مناسبت اور دوسرے گورنمنٹ کی اجازت اور تیسرے قادیان کے احمدی افسروں کے انتخاب پر ہے اور اس انتخاب میں میرا دخل نہیں اور نہ اس معاملہ میں میرا کوئی اختیار ہے۔ دوسری طرف دوستوں کاصبر کرنا خود ان کے اپنے ختیار میں ہے۔ پس کتنے تعجب کی بات ہے کہ میرے متعلق تو اس بات کی توقع رکھی جاتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں لیکن خود ہمارے دوست وہ بات کرنے کو تیار نہیں جو ان کے اپنے اختیار میں ہے ۔
(چہارم) یہ بات بھی دوست جانتے ہیں کہ اگر کسی درویش کے رشتہ دار مالی لحاظ سے بے سہارا ہوں تو انہیں مناسب تصدیق کے بعد حسب گنجائش امداد بھی دی جاتی ہے جس میں ماہوار وظیفہ اور وقتی امداد دونوں چیزیں شامل ہیں ۔پس اگر کسی درویش کے رشتہ دار کو مالی مشکلات کی پریشانی ہو تو وہ اس کے لئے درخواست کر کے امداد حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسی درخواستوں پر قادیان سے رپورٹ حاصل کی جاتی ہے اور پھر حسب گنجائش مناسب مدد کا انتظام کیا جاتا ہے اور اگر گنجائش نہ ہو یا اس حد تک گنجائش نہ ہو جو ہمارے دوستوں کی خواہش ہے تو بہر حال ایسی صورت میں ہمارے دوستوں کو سچے مومنوں کی طرح صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ ۴۳
(پنجم) بالآخر میںدوستوں سے یہ بھی عرض کرونگا کہ یہ ایک خاص خدمت کا موقعہ ہے اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جو سلسلہ احمدیہ میں انشاء اللہ قیامت تک یادگار رہے گی۔ لوگ چند روپے کی خاطرفوجوں میں نوکریاں کرتے ہیں اور سالہا سال وطن سے دور رہ کر ہر قسم کے خطرات کے ماحول میں گولیوں کی بارش کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی زندگی گزارتے ہیں تو پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک خالص دینی کام کی خاطر چند سال کے لئے بھی صبرورضا کا نمونہ نہ دکھایا جائے۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ درویش بھی آخر انسان ہیں ۔اگر انہیں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے گھبراہٹ کے خط جائیں گے تو لازماً ان کے اندر بھی گھبراہٹ پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں ان کے جذبہ خدمت میں کمزوری آئے گی۔ پس ان کا فرض ہے کہ نہ صرف خود صبر و رضا کا نمونہ دکھائیں بلکہ اپنے رشتہ دار درویشوں کو ایسے خطوط لکھتے رہیں جن سے ان کی ہمتیں بلند ہوں اور خدمت کا جذبہ ترقی کرے۔ وقت تو بہر حال گزر جائے گا لیکن مبارک ہیں وہ جو ان نازک ایام میں خدمت دین کا اعلیٰ نمونہ دکھا کر خدا کے خاص انعاموں کے وارث بنیں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍جون ۱۹۵۰ئ)







درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے ضروری اطلاع
آئندہ قادیان کے متعلق شمس صاحب کے ساتھ خط و کتابت کی جائے
دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ میں بوجہ علالت کچھ عرصہ کے لئے رخصت لے رہا ہوں ۔میری جگہ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے میری رخصت کے ایام میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو میرا قائمقام مقرر فرمایا ہے ۔مولوی صاحب موصوف کا دفتر ربوہ میں ہوگا ۔ پس آئندہ تا اطلاع ثانی ۱۔ قادیان اور ۲۔ قادیان کے درویشوں اور ۳۔ درویشوں کے اہل وعیال اور ۴۔ دیگر متعلقہ کاموں کے متعلق مولوی جلال الدین صاحب شمس ربوہ متصل چنیوٹ کے ساتھ خط وکتابت کی جائے ورنہ خواہ مخواہ طوالت ہوگی اور خطوں کے ضائع جانے کا بھی اندیشہ ہے ۔
اس طرح آئندہ چندہ امداددرویشاں کی رقم محاسب صاحب صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے نام بھجوائی جائیں اور کوپن پر منسلکہ خط میں یہ صراحت کر دی جائے کہ یہ رقم چندہ امداد درویشاں کی ہے ۔
احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے کامل صحت عطا کر کے پھر خدمت کی توفیق دے ۔آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍جون ۱۹۵۰ئ)




حضرت پیر منظور محمد صاحب کی وفات
ابھی ابھی ربوہ (چنیوٹ) سے سید ولی اللہ شاہ صاحب امیر جماعت نے بذریعہ تار اطلاع دی ہے کہ صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب وفات پا گئے ہیں اور نماز جنازہ آج ( ۲۱ جون ) نماز مغرب کے بعد ہو رہی ہے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ حضرت پیر صاحب مرحوم بہت پرانے صحابیوں میں سے تھے بلکہ ایک طرح سے گویا پیدائشی احمدی تھے۔ کیونکہ ان کے والد صاحب مرحوم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقداور مصدق تھے۔ گو وہ سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پاگئے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی خوش عقیدگی میں دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا تھا کہ :
ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت پیر منظور محمد صاحب منشی احمد جان صاحب مرحوم لدھیانوی کے دوسرے صاحبزادے تھے۔ اُن کی ہمشیرہ صاحبہ جو حضرت اماں جی کہلاتی ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان کے بڑ ے بھائی پیر افتخار احمد صاحب ہیں جو خدا کے فضل سے اب بھی زندہ ہیں اور ربوہ میں رہائش رکھتے ہیں۔
حضرت پیر منظورمحمدصاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا بہت موقع ملا ہے اور اسی شوق میں انہوں نے خوش نویسی سیکھی تاکہ حضور کی کتابوں کی کتابت حضور کے منشاء کے مطابق بہترین صورت میںہو سکے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی کتابوں کے ایڈیشن اوّل پیر صاحب مرحوم ہی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کی کتابت کی خوبی اور دیدہ زیبی ظاہر و عیاں ہے۔ اس کے بعد جب پیر صاحب مرحوم جوڑوں کے درد کی وجہ سے معذو ر ہو گئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوری سے حضور کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں کو پیر صاحب نے ہی قرآن کریم ناظرہ پڑھایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مشہور نظم آمین میں پیر صاحب کے طریقہ تعلیم کی بہت تعریف فرمائی ہے اور ان کے لئے خاص دعا کی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
پڑھایا جس نے اُس پر بھی کرم کر
جزا دے دین اور دنیا میں بہتر
رہِ تعلیم اک تو نے بتا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی ۴۴
قاعدہ یسرنا القرآن جس نے بعد میں اتنی شہرت حاصل کی وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کی غرض سے ہی ایجاد کیا گیا تھا اور خدا کے فضل سے اس قاعدہ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں احمدیوں اور غیر احمدیوں نے اُس سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس وقت تک اُس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
وفات کے وقت حضرت پیر منظور محمد صاحب کی عمر غالباً چوراسی سال کی تھی۔آپ کے مزاج میں تصوف بہت غالب تھا مگر اس کے ساتھ زندہ دلی بھی بہت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول ؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے تھے۔
پیر صاحب مرحوم کے بچوں میں اس وقت صرف ہماری چھوٹی ممانی زندہ ہیں جو ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم کے ساتھ بیاہی گئیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیںبہت سی نعمتوں کے ساتھ نوازا۔ حضرت پیر صاحب کا ہمارے بڑے ماموں مرحوم حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ کے ساتھ خاص تعلق تھا۔
دعا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت پیر صاحب مرحوم کو اپنی خاص رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد اور ان کے نیک کام کا حافظ و ناصر ہو۔
میں اس وقت بستر میں بیمار پڑاہوں اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ انشاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو حضرت پیر صاحب مرحوم کے متعلق زیادہ تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ مجھ پر اُن کا دوہرا حق ہے، ایک اُن کے قدیمی صحابی ہونے کا اور دوسرے استاد ہونے کا۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳ ؍جون ۱۹۵۰ئ)


رویت ِ ہلا ل کا انوکھا طریق
اسلام نے ان معاملات میں عوام الناس کی سہولت پر بنیاد رکھی ہے
سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی میں ارادہ رکھتا تھا کہ انشاء اللہ رمضان کی برکات کے متعلق دوستوں کے فائدہ کے لئے ایک مضمون لکھ کر شائع کروں گا لیکن رمضان سے ایک ہفتہ پہلے بیماری نے اس طرح پکڑا کہ کسی مضمون کے ذریعہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا تو درکنار خود بھی روزوں سے محروم ہوا جاتا ہوں۔ مسلسل بخار اور انتڑیوں کی سوزش اور جگر کے بڑھ جانے نے نڈھال کر رکھا ہے۔ اس لئے اپنے اس ارادہ کو پورا نہیں کر سکا۔ احباب سے دُعا کی درخواست ہے ۔
لیکن اس رمضان کے شروع میں ایک ایسی بات پیش آئی ہے جس نے مجھے یہ مختصر نوٹ املا کرانے پر مجبور کر دیا ہے۔ جیسا کہ اخبار پڑھنے والے دوستوں کو معلوم ہو گا۔ اس سال گو پنجاب میں اتوار یعنی ۱۸ جون ۱۹۵۰ ء کو پہلا روزہ رکھا گیا ہے لیکن جیسا کہ پاکستان ٹائمز وغیرہ میں چھپاہے کراچی میں ہفتہ یعنی ۱۷ جون سے پہلی رات کو چاند دیکھا گیا اور اس تاریخ کو وہاں پہلا روزہ ہوا۔ خیر اس قسم کے اختلاف تو مطلع کے اختلاف کے نتیجہ میں بھی ہو جایا کرتے ہیں لیکن کراچی میں چاند دیکھنے کا جو طریق بیان کیا گیا ہے وہ بالکل انوکھا اور غالباً اسلام کی تاریخ میں اس قسم کی پہلی مثال ہے کیونکہ جیسا کہ اخباروں میں چھپا ہے کراچی میں جمعہ کی شام کو علماء کی ایک پارٹی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر فضا میں بلند ہوئی اور جب تک چاند نظر نہیں آیا۔ ( کیونکہ اس وقت قریب کی فضا میں بادل تھے۔) پارٹی بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ وہ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گئی۔ اس بلندی پر پہنچ کر سب سے پہلے جہاز کے پائیلٹ نے جہاز کے دیدیان میں سے جھانک کر ہلال کو دیکھا اور اس کے بعد اس کی دعوت پر علماء کی اس پارٹی کے ایک ایک فرد نے اس کی جگہ لے کر چاند کی زیارت کی اور پھر زمین پر اتر کر رمضان المبارک کا اعلان کر دیا گیا۔۴۵
بظاہر یہ طریق ایک نیا علمی طریق ہے اور غالباً اس سے پہلے کسی اسلامی ملک میں اس طریق کو اختیار نہیں کیا گیا اور شائد اکثر لوگ اس خبر کو پڑھ کر خوش بھی ہوئے ہوں گے کہ اس نئی ایجاد نے ہلال بینی کی مشکل کو حل کر دیا ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ طریق اسلامی منشاء کے خلاف ہے۔ کیونکہ اسلام نے اس قسم کے معاملات میں جو عام پبلک عبادتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس کے مخصوص طریقوں اور باریک علمی رستوں کی بجائے عوام الناس کی سہولت اور جمہور کے بدیہی منظر پر بنیاد رکھی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
الشھر تسع و عشرون لیلۃً فلا تصو موا حتیٰ تروا الھلال فان ۔۔علیکم فاکملوا العدّۃ ثلاثین ۔۴۶
’’یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی چاند کا مہینہ انتیس رات کا ہوتا ہے ( اور کبھی تیس رات کا ہوتا ہے ) پس اے مسلمانو تم رمضان کے روز ے اس وقت تک شروع نہ کیا کرو جب تک کہ شعبان کی انتیس تاریخ کے بعد چاند نہ دیکھ لو اور اگر انتیس تاریخ کی شام کو تمہارے علاقہ میں بادل ہوں تو اس صورت میں تیس کی گنتی پوری کر کے روزے شروع کیا کرو۔ ‘‘
اس صحیح حدیث میں جو غالباً بخاری اور مسلم دونوں میں آتی ہے ہلال کی رویت کایہ واضح اور صاف طریق بیان کیا گیا ہے کہ چونکہ چاند کا مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر انتیس شعبان کی شام کو چاند نظر آجائے اور لوگ اسے دیکھ لیں تو فبہا لیکن اگر انتیس کو چاند نظر نہ آئے اور بادل ہوں تو پھر تیس کی گنتی پوری کر کے اگلے دن سے روزہ شروع کرنا چاہئے۔ اب اس صاف اور سیدھے طریق کو چھوڑ کریہ خیال کرنا کہ ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر اور بادلوں سے اوپر پرواز کر کے چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے ایک خواہ مخواہ کا تکلف ہے جو اس قسم کے معاملات میں اسلامی منشاء کے خلاف ہے۔ دراصل ان عبادات کے معاملہ میں جو عوام الناس سے تعلق رکھتی ہیں اسلام نے کسی باریک علمی طریق پر بنیاد نہیں رکھی بلکہ پبلک کی سہولت اور عوام الناس کی رویت پر بنیاد رکھی ہے اور یہ اصول روزے کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر وسیع اسلامی عبادت کے معاملہ میں یکساں چلتا ہے مثلاً جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے نمازوں کے اوقات میں سورج کے طلوع اور زوال اورغروب پر بنیاد رکھی گئی ہے جو ایک بدیہی چیز ہے اور ہر شخص کی پہنچ کے اندر ہے نہ کہ کسی خاص طبقہ کی اجارہ داری۔ اسی طرح رمضان میں روزوں کے مہینہ کے آغاز کو چاند کی رویت پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور یومیہ روزہ کی ابتداء اور انتہاء کو سورج کے طلوع اور غروب کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور یہ بھی اسی طرح کی ایک بدیہی چیز ہے جو کسی خاص گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اسی طرح حج کے مہینہ اور حج کی تاریخوں کو چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے مگر حج کے روزانہ مراسم کو سورج کی حرکات کے ساتھ جوڑا گیا ہے گویا اس قسم کی ساری عمومی عبادتوں کو چاند اور سورج کی نظر آنے والی حرکات پر مبنی قرار دیا گیا ہے تاکہ عوام الناس ان کے متعلق خود اپنی تسلی اور رویت کے مطابق فیصلہ کر سکیں۔
اوپر کی تشریح میںضمناً اس سوال کا جواب بھی آ جاتا ہے جو بعض لوگ جلد بازی میں کیا کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ اسلام کے احکام اور اسلام کے اوقات صرف چاند کے ساتھ وابستہ کئے گئے ہیں اور گویا نظام قمری کو اختیار کر کے نظام شمسی کو ترک کر دیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بالکل غلط اور جہالت پر مبنی ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اسلامی عبادتوں کے احکام صرف چاند کے ساتھ ہی وابستہ نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب حالات چاند اور سورج دونوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یعنی اگر کسی امر میں عوام الناس کی سہولت چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے چاند کی حرکات پر مبنی قرار دے دیا گیا ہے اور اگر کسی امر میں پبلک کی سہولت سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ قرار دے دیا گیا ہے۔ پس نظام شمسی اور نظام قمری دونوں اسلامی نظام ہیں اور دونوں سے اسلام نے یکساں فائدہ اٹھایا ہے بلکہ شاید اسلام کے زیادہ احکام نظام شمسی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مثلاً نمازوں کے اوقات جو سب سے افضل ترین عبادت ہے کلیۃً سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے مقابل پر رمضان کے بعض احکام ( مثلاً رمضان کے مہینہ کا آغاز اور انجام) چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ ہیں اور بعض احکام ( مثلاً یومیہ روزے کا آغاز اور انجام) سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی حال حج کا ہے کہ اس کے مہینہ اور تاریخ کی تعیین تو چاند کے ساتھ وابستہ ہے لیکن تاریخوں کے اندر حج کے یومیہ مراسم سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ گویا موٹے طور پر نماز اور روزہ اور حج کے احکام کا ۳\۲ حصہ سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور ۳\۱ حصہ چاند کی حرکات کے ساتھ وابستہ رکھا گیا ہے اور اس سارے نظام میں یہی حکیمانہ اصول چلتا ہے کہ عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی رویت اور بدیہی حرکات پر بنیاد رکھی جائے۔ الغرض اسلام نے عبادتوں کے اوقات کو عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی حرکات پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس لئے میری ناقص رائے میں یہ بات درست نہیں کہ ان معاملات میں اسلامی عبادتوں کے احکام کو ان کے بدیہی میدان سے ہٹا کر کسی مخصوص علمی اور سائینٹفک طریق سے وابستہ کر دیا جائے اور عبادات کے اوقات کا فیصلہ ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری بن جائے۔
اسلام کے مقرر کردہ طریق میں ایک بھاری حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں ہر مسلمان کی ذاتی دلچسپی براہ راست قائم رہتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں دینی روح لازماً ترقی کرتی ہے اور عبادتوں کے اوقات کے انتظار اور تعیین میں ہر فرد کا ذاتی شوق نہ صرف حصہ دار بنتا ہے بلکہ بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے۔ دیکھو یہ کیسا روح پرور نظارہ ہے کہ شعبان کی انتیس تاریخ کو ہر مسلمان رمضان کے انتظا رمیں اور ہلال رمضان کی رویت کے شوق میں آسمان کی طرف نظریں اٹھائے رہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند کب نظر آتا ہے اور پھر وہ چاند کو دیکھ کر کتنی روحانی خوشی سے بھر جاتا ہے اور نئے زمانہ کی برکات کے واسطے کس طرح دعائوں وغیرہ میں منہمک ہو جاتا ہے لیکن ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چند علماء یا چند امراء کا فضا کی بلندیوں میں پہنچ کر چاند دیکھ لینا اور عوام الناس کا اس سے محروم رہنا اس ساری روحانی کیفیت اور اس سارے ذوق و شوق پر گویا پانی پھیر دیتا ہے۔ بے شک بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ باریک ہونے کی وجہ سے چاند صرف چند تیز نظر لوگوں کو نظر آتا ہے لیکن یہ بات شاذ ہے اور بہر حال قاعدہ یہی ہے کہ اکثر لوگ خود چاند کو دیکھ کر ذاتی شوق کو پورا کرتے ہیں اور جنہیں چاند نظر نہیں آتا۔ وہ بھی کم از کم اس کی جستجو اور تلاش میں کچھ وقت خرچ کر کے اپنے شوق و ذوق کے جذبے کو پورا کر لیتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ انتیس شعبان کی شام کو صحابہ کرام ؓ روزوں کے آغاز کے انتظار میں اس طرح باہر نکل نکل کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے کہ اس سے مدینہ کی گلیوں میں ایک خاص قسم کی روحانی کیفیت اور گہما گہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ کیفیت بھلا ہوائی جہازوں کی رویت کے ذریعہ کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟
لیکن سب سے زیادہ اہم بات غالباً مطلع کے اختلاف کی ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے زمین کے گول ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات کا مطلع جدا ہوتا ہے اور جن دو جگہوں میں ایک خاص نوع کا فاصلہ زیادہ ہو جائے وہاں مطلع کا فرق اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آتا ہے اور دوسری جگہ نظر نہیں آتا ۔ بہر حال جو چاند یہاں نظر آ رہا ہے ضروری نہیں کہ وہ خاص جہت کے فرق سے پانچ سات سو میل پیچھے کے علاقہ میں بھی نظر آئے خصوصاً جبکہ وہ افق کے قریب ہو اور اس کے طلوع کا وقت بھی تھوڑا ہو۔ بہر حال جغرافیائی لحاظ سے ہر جگہ کا مطلع جدا ہوتا ہے اور حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ہر علاقہ کے لوگوں کو اپنے مطلع کی رویت پربنیاد رکھنی چاہئے۔ چنانچہ :
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مسلمان شام سے مدینہ کی طرف آیا اور اس نے آکر خبر دی کہ شام میں فلاں دن چاند دیکھ کر روزہ رکھا گیا ہے۔ یہ دن مدینہ کی رویت ہلال کے خلاف تھا اس پر بعض مسلمانوں میں چہ میگوئی ہوئی اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ یا شائد حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھا کہ اس معاملہ میں اسلام کا کیا فتویٰ ہے انہوں نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے مقامی مطلع پر بنیاد رکھا کریں۔ پس اگر شام میں کسی اور دن روزہ رکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ شام والوں کے لئے وہی رمضان کا آغاز سمجھا جائے گا جبکہ انہوں نے شام میں چاند دیکھا لیکن ہم مدینہ والوں کے لئے رمضان کا آغاز اس تاریخ کے مطابق سمجھا جائے گا جبکہ مدینہ میں چاند دیکھا گیا۔ ۴۷
اس حدیث سے جو اس وقت میں نے یاد سے لکھی ہے۔ مگر اس کا معین حوالہ بعد میں تلاش کر کے پیش کیا جا سکتا ہے ثابت ہے کہ اسلام نے اس معاملہ میں مطلع کے اختلاف کو بھی ضرور ملحوظ رکھا ہے۔ یعنی اگر مطلع مختلف ہو جائے تو حکم یہ ہے کہ اپنی مقامی رویت کے مطابق عمل کرو۔ اب ظاہر ہے کہ جس طرح فاصلہ کے لحاظ سے مطلع بدلتا ہے اسی طرح وہ بلندی کے لحاظ سے بھی بدلتا ہے۔ زمین پر کھڑے ہو کر ہمارا مطلع اور ہوتا ہے اور پندرہ ہزار فٹ اوپر جانے کے نتیجہ میں وہ اور ہو جائے گا اور اس فرق کے نتیجہ میں یہ بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو چیز زمین پر کھڑے ہو کر نظر نہیں آسکتی وہ اوپر جانے سے نظر آنے لگے۔ دراصل جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے مطلع کا اختلاف زیادہ تر زمین کی گولائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جس طرح خاص جہت میں چند سو میل آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے زمین کے درمیانی حصہ کی گولائی کا عنصر کم و بیش ہو جاتا ہے اسی طرح لازماً وہ بلندی کے نتیجہ میں بھی بدل سکتا ہے اور بدلے گا۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ ہم پندرہ پندرہ ہزار فٹ فضاء میں بلند ہو کر چاند دیکھنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اس طرح مطلع کافی بدل سکتا ہے حالانکہ شریعت ہمیں ہمارے مقامی مطلع کی پابند قرار دیتی ہے نہ کسی دوسرے مطلع کی۔
خلاصہ یہ کہ چاند دیکھنے کا جو طریق اس سال کراچی میں ایجاد کیا گیا ہے وہ میری رائے میں درست نہیں کیونکہ :
(۱) وہ رویتِ عامہ کے اصول کے خلاف ہے۔
(۲) وہ عوام الناس کے جذبہ شوق و ذوق کو کم کرنے والا ہے۔ اور
(۳) اس میں مطلع بدل جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ایسے امور میںمقامی مطلع پر بنیاد رکھی جائے۔
میں نے یہ نوٹ بیماری کی حالت میں بستر میں لیٹے لیٹے املا کرایا ہے اور تکلیف کی وجہ سے اس کی نظر ثانی بھی نہیں کر سکا لیکن بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ہمارے دوستوں کو کم از کم ایک ذہنی خوراک مہیا کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ بالآخر میں پھر اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍جون ۱۹۵۰ئ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
رمضان کا آخری مبارک عشرہ
دوست ان ایام میں دعائوں اور نوافل کی طرف خاص توجہ دیں
میری صحت اس وقت تک کسی لمبے تحقیقی مضمون کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اب بھی ہر روز ہلکا بخار ہو جاتا ہے لیکن کسی نیکی کے موقع کو ضائع کرنا بھی بڑی محرومی ہے۔ اس لئے دوستوں کے فائدہ اور خود اپنے نفس کے تزکیہ کے لئے ذیل کا قلم برداشتہ نوٹ الفضل میں بھجوا رہا ہوں۔
ایک دو روز میں رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے۔ جس طرح عبادت کے لئے رمضان کا مہینہ گویا سال بھر کے بارہ مہینوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اسی طرح رمضان کے مہینہ کا نچوڑ اس کا آخری عشرہ ہے اور پھراس آخری عشرہ کا نچوڑ لیلۃ القدر ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ میں آیا کرتی ہے۔ اس عشرہ کے متعلق مومنوں کی مادرِ مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :-
اذا دخل العشر شَدَّ مئزرہ و احیی لیلہ و ایقظ اھلہ ۴۸
’’ یعنی جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کو باندھ لیتے تھے اور اپنی راتوں کو ( جو گویا انسانی زندگی کا مردہ حصہ ہوتا ہے ) زندگی کی روح سے معمور کر دیتے تھے اور اپنے اہل و عیال کو بھی خدا کی عبادت کے لئے بیدار رکھتے تھے۔‘‘
یہ کیسے شاندار الفاظ ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے امت کے آقا و سردار اور اپنے سرتاج کی عبادت کا نقشہ کھینچنے کے لئے استعمال فرمائے ہیں۔ یقینا کوئی بہتر سے بہتر مصور بھی اس سے زیادہ دلکش تصویر نہیں تیار کر سکتا۔
شَدَّ مئزرہ میں جہاں اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان مبارک ایام میں اپنی کمر کو کس کر گویا ایک مستعد اور جاں نثار خادم کی طرح اپنے آقا کے حضور استادہ کھڑے رہتے تھے وہاں ان الفاظ میں ( جن کے لفظی معنی ازار کے کسنے کے ہیں ) اس طرف بھی اشارہملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے ان آخری ایام میں اپنی بیویوں کے پاس جانے سے بھی کنارہ کشی فرماتے تھے کیونکہ حقیقہً یہی روزہ کی باطنی روح ہے کہ مومن اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ وہ خداکے رستہ میں نہ صرف اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ اسے اپنی نسل کی قربانی پیش کرنے میں بھی ہرگز کوئی تامل نہیں۔
اور احییٰ لیلہ کے الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ خدا کی سچی عبادت انسان کے اپنے نفس میں ہی زندگی کی روح نہیں پھونکتی بلکہ ارد گرد کی مردہ چیزوں میں بھی زندگی کی زبردست لہر پیدا کر دیتی ہے۔ یہ وہی لطیف نکتہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں اشارہ فرمایا ہے کہ :-
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا
یعنی پہلے ہم قرآن شریف کو صرف اپنی ذات میں ایک زندہ چیز خیال کرتے تھے جس طرح کہ موسیٰ کا عصا بظاہر بے جان ہونے کے باوجود ایک زندہ چیز تھا لیکن جب سوچا تو نظر آیا کہ وہ صرف اپنی ذات میں ہی زندہ نہیں بلکہ حقیقۃً زندگی بخش بھی ہے کیونکہ جو چیز بھی اس کے ساتھ چھوتی ہے وہ زندہ ہو جاتی ہے۔
اور لیلہ ( اپنی رات ) کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی راتیں ویسے ہی ہمیشہ عبادت کے ذریعہ زندہ رہتی تھیں تو پھر اس شاندار زندگی کا کیا کہنا ہے جو ایک پہلے سے زندہ چیز کو آپ کی مخصوص عبادت سے حاصل ہو جاتی تھی۔
بالآخر اَیقَظَ اَھلَہ کے لطیف الفاظ بھی ایک خاص حقیقت کے حامل ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ازدواج عام ایام میں بھی تہجد کی نماز کے لئے اٹھا کرتی تھیں تو پھر آخری عشرہ کے تعلق میں خاص طور پر ایقظ اھلہ کے الفاظ استعمال کرنے میں اس کے سوا کیا اشارہ ہو سکتا ہے کہ یہ راتیں ازدواجِ مطہرات کی گویا کُلّی طور پر جاگتے ہی کٹتی تھیں۔
پس جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے اہل و عیال کا یہ پاک نمونہ تھا تو دوسرے لوگوں کا بدرجہ اولیٰ فرض ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ کو عموماً اور رمضان کے آخری عشرہ کو خصوصاً خدا کی عبادت کے لئے وقف کر دیں اور آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت مقرر کرنا بھی دراصل اسی لطیف تحریک کی غرض سے ہے کیونکہ جیسا کہ ظاہر ہے اعتکاف ایک قسم کی عارضی اور وقتی رہبانیت ہے اور گو خدا کی حکمت ازلی نے مسلمانوں کو دائمی رہبانیت کی اجازت نہیں دی لیکن اعتکاف کی عبادت سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارا خدا کم از کم یہ ضرور چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں چند ایام ایسے بھی آئیں کہ وہ گویا دنیا کے دھندوں سے کلیۃً کٹ کرصرف خدا کے لئے زندگی گزار سکیں۔
بہر حال رمضان کا آخری عشرہ ایک نہایت ہی مبارک عشرہ ہے اور دوستوں کو اس عشرہ میں اپنے آقا کی مبارک سنت کے مطابق شد مئزرہ و احییٰ لیلہ و ایقظ اھلہ کا کم از کم کچھ تو نمونہ پیش کرنا چاہئیے۔
پھر جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے اس عشرہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جو اس مخصوص عشرہ کی بھی جان اور گویا روح کی روح ہے۔ اس رات کو اسلام میں لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے جس کے تین معنی ہو سکتے ہیں۔ یعنی (۱) عزت اور بڑائی کی رات جس میں انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے(۲) قوت اور قدرت والی رات جو ہر گرے ہوئے شخص کو اوپر اٹھانے کی طاقت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ خود اپاہج ہو کر نہ بیٹھ جائے اور ( ۳) وہ رات جس میں ہر شخص کی قدر اور پہنچ علیحدہ علیحدہ پہچانی جاتی ہے اور خدا کے فرشتے دیکھ لیتے ہیں کہ کون کس پانی میں ہے۔ اس رات کو خدا کی ازلی حکمت نے (جومومنوں کو تکیہ کر کے بیٹھ جانے سے بچانا چاہتا ہے ) اخفا کے پردہ میں رکھا ہے۔ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر ضرور فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو۔ یعنی اکیسویں رات یا تئیسویں رات یا پچیسویں رات یا ستائیسویں رات یا انتیسویں رات اور حدیث میں زیادہ امکان ستائیسویں رات کا بیان کیا گیا ہے چنا نچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت ابی بن کعب ؓ نے ایک موقعہ پر قسم کھائی کہ لیلۃ القدر یہی ستائیسویں رات ہے ( صحیح مسلم ) ممکن ہے کہ یہ اس مخصوص سال کے متعلق ہو۔ مگر بہرحال اتنا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تو وہ خدا کے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے اور عقل بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جس رات میں تین برکتیں جمع ہو جائیں یعنی اول جمعہ کی برکت جو گویا ہفتہ بھر کی نمازوں کی عید ہے اور دوسرے رمضان کی آخریعشرہ کی طاق رات کی برکت اور تیسرے ستائیسویں کی برکت جس کی طرف حدیث میں اشارہ ملتا ہے تو بہرحال اتنا تو ظاہر ہے کہ اسے خدا کی مخصوص برکتوں سے خالی نہیں سمجھا جا سکتا۔ گو پھر بھی کسی ایک رات پر تکیہ کر کے بیٹھ جانا ٹھیک نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کوئی دوسری رات ہو اور اس طرح انسان اصل لیلۃ القدر کی برکات سے محروم ہو جائے اور بہر حال جو شخص لیلۃ القدر کی تلاش میں زیادہ راتیں جاگے گا وہ لازماً زیادہ ثواب بھی پائے گااور یہی اس کے اخفا کا راز ہے۔
حدیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ رمضان کی انتیسویں رات بھی بڑی برکتوں والی رات ہوتی ہے چنانچہ جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی برکتوں اور بخششوں کا ذکر فرمایا تو بعض صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا یہی لیلۃ القدر ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا میں یہ تو نہیں کہتا مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ (چونکہ یہ رات بسا اوقات رمضان کی آخری رات ہوتی ہے اور بہر حال طاق راتوں میں وہ لازماً آخری رات ہوتی ہے ) اس لئے جس طرح ایک شفیق مالک اپنے مزدور کی مزدوری ختم ہوتے ہی فوراً اجرت دینے میں خوشی محسوس کرتا ہے اسی طرح ہمارا آسمانی آقا بھی انتیسویں رات کو اپنے بندوں کو بڑھ چڑھ کر اور نقد بنقد اجرت دینے کے لئے گویا بے قرار رہتا ہے۔ (مسند احمد ) پس میں اپنے دوستوں سے عرض کروں گا کہ اس رات کی برکتکو بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ گویا رمضان کا آخری تیر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی طریق تھا کہ آپ ؐ رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر زیادہ صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے ۔حتیٰ کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس مہینہ میں آپؐ کا ہاتھ صدقہ و خیرات میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی اور لازماً آپ ؐ کا یہ صدقہ و خیرات رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ عید کے قریب جو صدقۃ الفطر مقرر کیا گیا ہے اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ ایک تو اس ذریعہ سے رمضان کے آخر میںرمضان کی کمزوریوں کا کفارہ ہو جائے اور دوسرے عید کے مخصوص موقعہ پر غریب بھائیوں کی امداد کا بھی ایک رستہ کھل جائے۔ پس صاحب توفیق دوستوں کو رمضان میں صدقہ و خیرات کے پہلو کی طرف سے بھی ہرگزغافل نہیں رہنا چاہئیے اور فطرانہ تو بہرحال ہر ذو استطاعت مسلمان پر فرض ہی ہے۔
رمضان کے مہینہ کو دعائوں اور ان کی قبولیت کے ساتھ بھی خاص تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :-
۴۹
’’ یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے رمضان کے مہینہ میں دعائوں کے متعلق پوچھیں تو ان سے کہہ دو کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت قریب ہو جاتا ہوں اور دعا کرنے والوں کی دعائوں کو زیادہ سنتا اور زیادہ قبول کرتا ہوں۔‘‘
پس نہایت ہی بد قسمت ہے وہ انسان جسے رمضان جیسا مبارک مہینہ میسر آئے اور وہ اس میں خدا سے دعائیں کر کے اپنے لئے اور اپنے خاندان اوراپنیقوم کے لئے برکات کا ذخیرہ نہ جمع کر لے اور دعائوں کے لئے کوئی تخصیص نہیں کہ صرف دین کی دعائیں ہوں اور دنیا کی دعائیں نہ ہوں بلکہ حسب ضرورت اور حسب حالات ہر قسم کی دعائیں مانگی جا سکتی ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو دنیا کی کوئی ایسی اشد ضرورت درپیش ہے جو اس کی توجہ کو منتشر کر رہی ہے تو اسے چاہئیے کہ ضرور اس دنیوی ضرورت کے لئے دعا کرے ورنہ وہ اس شخص کے حکم میں آ جائے گا جو پیشاب اور پاخانہ کی فوری اور شدید ضرورت کے وقت بھی نماز پڑھنے کے لئے چلا جاتا ہے اور پھر نماز میں بے چین رہ کر پریشان خیالی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے حکم دیا ہے کہ پیشاب اور پاخانہ وغیرہ کی شدت کے وقت نماز پڑھنے کی بجائے پہلے اپنی حاجت کو رفع کرو اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہو۔ پس گو اصولی طور پر دینی دعائیں بہر حال زیادہ ضروری اور زیادہ مقدم ہیں لیکن اگر کسی شخص کو کوئی دنیوی ضرورت پریشان کر رہی ہو اور وہ اس کی طرف سے توجہ نہ ہٹا سکے تو اس کے لئے وقتی طور پر اس دنیوی ضرورت کی طرف توجہ دینا زیادہ مقدم ہو جاتا ہے۔ ہاں جس شخص کی ساری دعائیں دنیاہی کے لئے وقف ہوتی ہیں وہ ہرگز سچا مومن نہیں سمجھا جا سکتا۔ بلکہ ایک طرح سے وہ قرآنی وعید ۵۰کے ماتحت آتا ہے پس اعلیٰ مقام یہی ہے کہ عام حالات میں دینی اور جماعتی دعائوں کو مقدم کیا جائے اور اگر خدا کسی شخص کو یہ توفیق دے کہ اس کی ساری دعائیں ہی دینی اور جماعتی ضرورتوں کے لئے وقف ہوں اور اس کی دنیوی ضرورتیں اس کے دل میں ہرگز کوئی پریشان خیالی نہ پیدا کر سکیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے شخص کی دنیوی ضرورتوں کو خدا خود پورا فرمائے گا کیونکہ خدائے غیور و ودود سے یہ بات قطعاً بعید ہے کہ ایک شخص ساری دعائیں اس کے دین اور اس کی جماعت کے لئے وقف کر دے اور وہ پھر بھی اسے دنیا کی ذلت اور ناداری اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی *** میں مبتلا رکھے۔ ایسے شخص کے لئے یقینا زمین خود برکت کی فصل اگائے گی اور آسمان اس پر بے مانگے رحمت کی بارش بر سائے گا۔ بشرطیکہ وہ صبر اور رضا کے مقام پر قائم ہو۔ مگر افسوس کہ ایسے لوگ کم ہیں بہت کم۔
بہر حال میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں سے کہتا ہوں کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی برکات سے فائدہ اٹھائیں۔ کمروں کو باندھیں اپنی راتوں کو زندہ کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بیداری کی تحریک کریں اور بہر حال ان با برکت لیل و نہار کو خاص نوافل اور قرآن خوانی اور ذکر الٰہی اور دعائوں اور صدقہ و خیرات میں گزاریں اور گو رمضان کی مخصوص نفلی نماز تہجد ہے لیکن دوستوں کو دن کے نوافل کو بھی نہیں بھلانا چاہئے۔ جو ضحٰی کی نماز کی صورت میں مقرر کئے گئے ہیں اور نوافل میں یہی حکمت ہے کہ جس طرح ایک محبت کرنے والی ماں خوراک کا وقفہ لمبا ہو جانے پر اپنے بچے کونیند سے جگا کر بھی دودھ پلاتی ہے تا اس میں کمزوری نہ پیدا ہو۔ اسی طرح ہمارا حکیم و علیم خدا عشاء اور صبح کی نمازوں میں وقفہ لمبا ہو جانے پر اپنے بندوں کو رات کے وقت جگاتا ہے کہ اٹھو تمہاری عبادتوں کا درمیانی وقفہ لمبا ہو گیا ہے اس لئے ہمت کرو اور اٹھ کر یہ تھوڑی سی روحانی غذا کھا لو اور یہی حکمت ضحی کی نماز میں ہے کہ چونکہ صبح اور ظہر کی نمازوں کے درمیان بھی وقفہ زیادہ لمبا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس وقفہ میں بھی ایک نفل نماز رکھ دی گئی ہے تاکہ سچے مومنوں پر خدا کی جدائی کا زمانہ لمبا ہو کر روحانی کمزوری کا باعث نہ بن جائے۔ مگر دوسری طرف کمال حکمت سے ان نمازوں کو فرض بھی نہیں کیا گیا تاکہ وہ بوجھ کا باعث بھی نہ بن جائیں اور خود بخود خوشی سے پڑھنے کے نتیجہ میں ثواب بھی زیادہ ہو اس لئے ایک حصہ کو فرض قرار دیا گیا اور دوسرے کو نفل اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اشراق یا چاشت کی نماز کوئی جدا گانہ نماز نہیں بلکہ یہی ضحی کی نماز ہے جسے لوگوں نے زیادہ نام دے دئیے ہیں اور بعض انہیں غلطی سے الگ الگ سمجھنے لگ گئے ہیں۔
بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر مومن مسلمان کو چاہئیے کہ وہ حتی الوسع ہر رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کو دور کرنے اور اس سے تائب ہونے کا عہد کرے تاکہ اس کا رمضان صرف ایک جنرل ٹانک ہی ثابت نہ ہو بلکہ کسی معیّن بیماری کا علاج بھی مہیا کرے۔ ظاہر ہے کہ قریباً ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ پس ہر انسان اپنے دل میں اپنی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کے متعلق خدا سے عہد کر سکتا ہے کہ میں آئندہ اس بدی کا ارتکاب نہیں کروں گا ۔ مثلاً (۱) نمازوں میں سستی (۲) روزوں میں سستی (۳) زکوٰۃ میں سستی(۴) چندوں میں سستی(۵) تبلیغ کی طرف سے بے توجہی (۶) مرکز کے ساتھ وابستگی میں بے توجہی۔(۷) احمدیت کے مخصوص احکام میں غفلت (۸) اولاد کو احمدیت اور اسلام کی تعلیم پر قائم کرنے میں غفلت (۹) والدین کی خدمت کرنے میں غفلت(۱۰) بیوی یا خاوند کے ساتھ بد سلوکی (۱۱) ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی (۱۲) گالی گلوچ کی عادت (۱۳) بد نظری کی عادت (۱۴) وعدہ خلافی کا مرض (۱۵) قرض لے کر واپس نہ کرنے کا مرض (۱۶) کاروبار میں بد دیانتی (۱۷) رشوت ستانی (۱۸) بیوی کو بے پردہ کرنے کی طرف میلان (۱۹)سینما کا شوق(۲۰) تمبا کو نوشی کا چسکہ وغیرہ وغیرہ بیسیوں قسم کی کمزوریاں ہیں جن میں سے کسی ایک کے متعلق انسان اپنے دل میں خدا سے عہد کر کے رمضان میں تائب ہو سکتا ہے اور ایسے شخص کو یہ بے نظیر خوشی بھی حاصل ہو گی کہ میرا یہ رمضان میرے لئے بہر حال روحانی برکت سے خالی نہیں گیا۔ کیونکہ وہ معین طورپر جانتا ہو گا کہ میں نے خدا کے فضل سے اس رمضان میں فلاں کمزوری پر غلبہ حاصل کیا تھا۔
جماعتی دعائوں میں (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود ؑ پر درود (۲) اسلام اور احمدیت کی ترقی (۳) موجودہ جماعتی امتحان میں جماعت کی سرخروئی(۴) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور لمبی عمر اور حضور کے کاموں میں برکت (۵) جماعت کے مبلغین اور دیگر کارکنوں کی خدمات کی مقبولیت (۶)درویشان قادیان کے نیک مقاصد کے حصول اور (۸) جب تک قادیان بحال نہیں ہوتا مرکز ربوہ کے استحکام کے لئے دعائوں کو خاص طور پر مقدم رکھنا چاہئیے۔ اور یقیناجو شخص خدا کے کام کو مقدم رکھتا ہے اسے خدا بھی اپنی توجہ میں مقدم رکھے گا۔ لا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍جولائی ۱۹۵۰ئ)
موصی نمبر ۱
بابا حسن محمد صاحب بھی چل بسے
ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ بابا حسن محمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے، بروز جمعرات بوقت سات بجے شام بعمر اسی سال وفات پا گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بابا صاحب مرحوم اوجلہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور صحابیوں کی ایک خاص پارٹی کے رکن تھے جو چھ مخلصین پر مشتمل تھی یعنی ایک تو بابا صاحب مرحوم کے قریبی عزیز میاں عبدالعزیز صاحب مرحوم اور دوسرے سیکھواں متصل قادیان کے تین مشہور و معروف بھائی یعنی میاں جمال الدین صاحب مرحوم اور میاںامام دین صاحب مرحوم اور میاں خیر دین صاحب مرحوم ان چھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اوائل زمانہ میں ہی بیعت کی اور پھرآخر تک بیعت کے عہد کو نہایت اخلاص اور استقلال کے ساتھ نبھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ان کا قادیان میں آنا جانا بھی اکثر اکٹھا ہوا کرتا تھا۔
ان میں سے میاں عبد العزیز صاحب مرحوم نے ایک رات قیام گورداسپور کے دوران میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار تھے، حضور کی اس رنگ میں خدمت کی اور ساری رات اس طرح جاگ کر کاٹی کہ بعد میں حضور نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب کے واقعہ پر اپنے حواریوں کو بار بار دعا کے لئے جگاتے تھے اور وہ پھر بھی بار بار سو جاتے تھے مگر ہم نے منشی عبد العزیز صاحب کو بار بار سونے کے لئے کہا مگر وہ پھر بھی اپنے اخلاص میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوئے اور ساری رات خدمت میں لگے رہے۔
بہرحال بابا حسن محمد صاحب مرحوم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کے والد تھے۔ اس مقدس شش ممبر پارٹی کے رکن تھے جنہوں نے اوائل میں ہی احمدیت سے مشرف ہونے کی سعادت پائی اور پھر ان کی زندگی کا ہر نیا دن انہیں خدا سے قریب تر کرتا گیاافسوس کہ ایسے مخلص صحابیوں سے ہماری جماعت بڑی سرعت کے ساتھ محروم ہوتی جا رہی ہے اور نئی پود میں سے اکثر نے ابھی تک وہ درسِ وفا نہیں سیکھا جس کے بغیر خدائی جماعتیں دنیا پر چھا نہیں سکتیں۔
بابا حسن محمد صاحب نے قریباً اپنی ساری عمر وعظ و نصیحت اور قرآن شریف پڑھنے پڑھانے میں گزاری اور ان کے وعظ کا طریق بھی ایسا دلکش ہوتا تھا کہ سننے والے دیہاتی لوگ اس سے بہت محظوظ ہوتے اور فائدہ اٹھاتے تھے اور میرے خیال میں ان سے غالباً سینکڑوں عورتوں نے قرآن شریف پڑھا اور دینی مسائل سیکھے ہوں گے حتیٰ کہ جب وہ آخری ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حکم سے چنیوٹ میں مقیم ہوئے تو کئی غیر احمدی عورتیںبھی ان کے درس میں شامل ہوتی تھیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ ان کی وفات پر اس طرح روتی تھیں جس طرح ایک نیک اور شفیق باپ کی موت پر سعادت مند بچے روتے ہیں۔
لیکن غالباً بابا صاحب مرحوم کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ انہیں موصیوں میں سے موصی نمبر ۱ حاصل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۶ء کے شروع میں رسالہ الوصیت لکھ کر وصیت کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر سب سے اول نمبر پر لبیک کہنے والے بابا حسن محمد صاحب مرحوم ہی تھے اور ان کی وصیت کا نمبر1 درج ہوا اور دوسرا امتیاز ان کا یہ ہے کہ ان کے اکلوتے فرزند مولوی رحمت علی صاحب کو سمند رپار فریضہ تبلیغ ادا کرنے کا سب دوسرے مبلغوں سے زیادہ لمبا موقعہ ملا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً پچیس سال سے زیادہ جاوا سماٹرا میں تبلیغ کی سعادت حاصل کی ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد کی نیکی میں مومن باپ کا بھی ضرور حصہ ہوتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بابا صاحب مرحوم کو اپنے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍جولائی ۱۹۵۰ئ)





حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت
اوردرازی ٔ عمر کی دعائیں
بعض وجود دوسروں کی نسبت بہت زیادہ دعائوں کے حقدارہوتے ہیں
حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیماری کے اعلان کے نتیجہ میں جماعت کے اندر دعائوں اور صدقہ و خیرات کی ایک عام تحریک پائی جاتی ہے جو یقینا ایک بہت خوشکن علامت ہے۔ کیونکہ مومنوں کی درد مندانہ دعائیں کبھی ضائع نہیں جاتیں اور کسی نہ کسی رنگ میں ضرور با برکت نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ صدقہ و خیرات بھی ردِّ بلا اور ردِّ قضا کا ایک بہت آزمودہ نسخہ ہے لیکن ضروری ہے کہ دعائوں اور صدقہ و خیرات کا سلسلہ محض ایک وقتی ابال نہ ثابت ہو بلکہ ان خاص دعائوں کے سلسلہ کو معقول عرصہ تک جاری رکھنا چاہئیے اور دراصل امام کے متعلق دعائیں کرنا تو مومنوںکے ان اہم فرائض میں شامل ہے جس کی طرف سے انہیں کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہئیے بلکہ حق یہ ہے کہ جو شخص ایک الٰہی جماعت میں شامل ہو کر پھر جماعت کی مضبوطی اور ترقی اور امام جماعت کی درازی عمر اور اس کے کاموں میں برکت اور فضل و رحمت کی دعائوں کو اپنا روزانہ وظیفہ نہیں بناتا وہ یقینا سچا مومن کہلانے کا حقدار نہیں۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام امام میں بھی فرق ہوتا ہے اور اسی حقیقت کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ :
۵۱
’’یعنی خدا فر ماتا ہے کہ گو سب رسول رسول ہونے میں برابر ہیں مگر درجہ کے لحاظ سے ہم نے بعض رسولوںکو بعض دوسرے رسولوں پر فضیلت دی ہے‘‘
اب ظاہر ہے کہ خدائی فضیلت کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض رسول دوسرے رسولوں کی نسبت خدا کے زیادہ مقرب اور خدائی نصرتوں کے زیادہ جاذب ہوتے ہیں اور لازماً جو اصول رسولوں کے متعلق پایا جاتا ہے وہی خلفاء اور دیگر اماموں بلکہ عام مومنوں کے تعلق میں بھی کارفرما سمجھا جائے گا۔ آخر یہ کیا وجہ ہے کہ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین نے ان کے سامنے کئی دفعہ سرکشی کا رنگ اختیار کیا اور بالآخر وہ اپنی قوم کی بد عنوانیوں کی وجہ سے منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی شمالی عرب کے صحرا میں وفات پا گئے اور پھر کیا وجہ ہے کہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بارہ حواریوں سے زیادہ صحابی میسر نہیں آسکے اور ان میں سے بھی ایک نے غداری اور دوسرے نے بے وفائی سے کام لیا۔ حتیٰ کہ بقول عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ ؑکو اپنی قوم کے ہاتھوں صلیبی موت کا مزا چکھنا پڑا۔ وہاں اس کے مقابل پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کو یہ عدیم المثال کامیابی نصیب ہوئی کہ اکیس سال کے قلیل عرصہ میں سارا عرب شرک کی *** سے آزاد ہو کر تکبیر کے نعروں سے گونجنے لگ گیااور خدا کے فضل سے آپ کو صحابی بھی اس شان کے ملے کہ جب بدر کے میدان میں مسلمانوں اور کافروں کا پہلا مقابلہ ہوا اور اس وقت کافروں کی نسبت مسلمان تعداد اور سامان میں اتنے کم تھے کہ بظاہر حالات یہ گویا موت کا سامنا تھا۔ اس وقت آپ ؐ کے صحابہ نے آپ ؐ سے عرض کیا کہ:
’’ یا رسول اللہ آپ انشاء اللہ ہمیں موسیٰ کے صحابیوں کی طرح نہیں پائیں گے۔جنہوں نے موسیٰ سے کہہ دیا تھاکہ تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں بلکہ ہم خدا کے فضل سے آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک ہماری لاشوں پر سے گزرنے کے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔‘‘۵۲
اب سوچو کہ خدا کے رسولوں کی کامیابی میں یہ بھاری فرقکیوں ہے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ فرق خدا کی نصرت کے فرق کی وجہ سے ہے۔ میں کہتا ہوں بے شک یہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اس بات کی کیا وجہ ہے کہ کسی رسول کو زیادہ نصرت حاصل ہوتی ہے اور کسی کو کم۔ اس سوال کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیںکہ کوئی رسول اپنی فطری استعدادوں اور اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے زیادہ نصرت کا جاذب ہو سکتا ہے اور کوئی اتنا جاذب نہیں ہوتا۔
دراصل خد اور اس کے رسولوں کی مثال ایک براڈ کاسٹنگ ا سٹیشن اور ریڈیو سیٹ کی سی ہے۔ بیشک براڈ کاسٹنگ اسٹیشن میں یہ استعداد ہوتی ہے کہ وہ کوئی پیغام زیادہ زور اور شدت کے ساتھ نشر کرتا ہے اور کوئی پیغام اس زور اور شدت کے ساتھ نشر نہیں کرتا لیکن اس کے مقابل پر خود ریڈیو سیٹوں میں بھی پیغاموں کو وصول کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی صلاحیت میں بھاری فرق ہوتا ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایک براڈکاسٹنگ ا سٹیشن ایک ہی طاقت کے ساتھ ایک پیغام نشر کر رہا ہوتا ہے مگر ریڈیو سیٹوں کی طاقت کے فرق کی وجہ سے کوئی سیٹ اس پیغام کو زیادہ صفائی کے ساتھ وصول کرتا اور زیادہ طاقت کے ساتھ آگے پہنچاتا ہے مگر دوسرا سیٹ جو نسبتاً کمزور ہوتا ہے اس پیغام کو نہ تو اس صفائی سے وصول کر سکتا ہے اور نہ ہی اس طاقت کے ساتھ آگے پہنچا سکتا ہے۔
اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی کامیابی میں خدا کی نصرت کے علاوہ خود نبیوں کی اپنی قوت قدسیہ اور اپنے اوصافِ حمیدہ کا بھی بھاری دخل ہوتا ہے اور لازماً یہی اصول خلفاء اور دوسرے اماموں میں بھی چلتا ہے۔ پس جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہر خلیفہ اور ہر امام کے واسطے دعائیں کریں وہاں ہمارا بدرجہ اولیٰ یہ بھی فرض ہے کہ جو خلیفہ اور امام خدا کی نصرت کا زیادہ جاذب اور خدا کی طرف سے قوت قدسیہ کا زیادہ حامل ہو، اس کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ درد اور زیادہ سوز و گداز کے ساتھ دعائیں کریں کیونکہ اس کی زندگی سے محروم ہونا جماعت کے لئے بہت بھاری صدمہ اور بہت بڑا دھکا ہوتا ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کو پہچانتے ہوئے ان ایام کو بہت زیادہ دعائوں اور بہت زیادہ صدقہ و خیرات میں گزاریں اور اس کے ساتھ اپنے اندر نیک تبدیلی بھی پیدا کریں کیونکہ ہمارا قدر شناس خدا اپنے نیک بندوں کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ صدقہ و خیرات کا روپیہ کس صورت میں خرچ کیا جائے۔ سو اسلام نے اس کے تین عام طریق مقرر کئے ہیں اوّل صدقہ کے طور پر کوئی جانور ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرنا۔ دوسرے کھانا پکا کر بھوکوں اور بیوائوں اور یتیموں کو کھلانا اور تیسرے حاجت مندوں اور محتاجوں میں نقد روپیہ بانٹنا۔ پس حتی الوسع ان تینوں طریقوں پر صدقہ ہونا چاہئے اور ہر صورت میں خاص کوشش کے ساتھ حقیقی غریبوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کو مدد پہچانی چاہئیے اور اس کوشش میں ان لوگوں کو بھی نہیں بھلانا چاہئے جو بظاہر سفید پوش ہیں اور سوال سے حتی الوسع پرہیز کرتے ہیں مگر اندرون خانہ ان کی حالت سخت تنگی کی حالت ہوتی ہے اور زیادہ تر انہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۵۳
’’ یعنی مومنوںکی دولت میں ہم نے سائلوں کے علاوہ ان لوگوں کا بھی حق مقرر کیا ہے جو حیا اور خود داری کی وجہ سے سوال سے پرہیز کرتے ہیں مگر ویسے وہ حاجت مند اور غریب ہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ بھوکے جانوروں کو کھانا کھلانا بھی ثواب کا موجب ہے حتیٰ کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک کنچنی کو خدا نے صرف اس وجہ سے بخش دیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو جو پانی تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا پانی پلا کرپیاس کی موت سے بچایا تھا۔ پس اگر کوئی جانور ذبح کیا جائے تو اس کا کچھ گوشت جانوروں اور پرندوں کو بھی ضرورڈالنا چاہئے اور نقدی کی تقسیم میں بنیادی ضرورت والے لوگوں یعنی بیماروں اور بے لباس اور بے طعام غریبوں کو مقدم رکھنا چاہئے۔ اسی طرح ایسے غریب طالب علموں کو بھی جو ذہین اور ترقی کرنے والے ہیں مگر غربت کی وجہ سے حصول تعلیم کی بدولت سے محروم ہیں۔
نیز جیسا کہ میں ایک سابقہ اعلان میں ان دوستوںکو توجہ دلا چکا ہوں۔ عام حالات میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے صدقات اپنے حلقہ میں خرچ کئے جائیں کیونکہ ایک تو قریب کے لوگوں کے حالات زیادہ معلوم ہوتے ہیں اور حقیقی حاجتمند تلاش کرنے میںدقّت نہیں ہوتی اور دوسرے شریعت نے قریب والوں کا حق بھی زیادہ مقرر کیا ہے بلکہ وہ ایک گونہ ہمسایہ کے حکم میں ہیں جن سے حسن سلوک پر اسلام نے خاص زور دیا ہے لیکن اگر اپنے حلقہ میں حاجت مند کم ہوں یا مرکز کے غرباء کی امداد کا مزیدثواب حاصل کرنا بھی مقصود ہو تو ایسے مقامی صدقات کا کچھ حصہ مرکز میں بھی بھجوایا جا سکتاہے۔ نیز ایسے صدقات میں حاجتمند غیر احمدیوں بلکہ غیر مسلموں کی امداد سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ سب خدا کی مخلوق ہیں اور خدا سب کا رازق ہے اور تخلقوا با خلاق اﷲ (یعنی اپنے اندر خدا والے اخلاق پیدا کرو) کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ہمدردی میں سب کو شامل کریں ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍جولائی ۱۹۵۰ئ)






شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں
عید سے قبل دعا کے دِن میرے ہاتھ میں ایک صاحب شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری نے ایک لفافہ دیا تھا جس کے اندر مسجد ربوہ اور مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کے ۲۰۰ روپے ملفوف تھے۔ یہ رقم ربوہ بھجوا کر خزانہ کی رسید منگوالی گئی ہے۔ شیخ صاحب موصوف مجھ سے یہ رسید وصول فرما لیں۔ دیگر آئندہ کے لئے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خزانہ ربوہ میں داخل ہونے والے چندہ براہ راست یا بذریعہ مقامی جماعت ربوہ بھجوانے چاہئیں۔ مجھے یا کسی اور فردِ جماعت کو ایسے چندوں کی وصولی کا اختیار نہیں ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍مئی ۱۹۵۰ئ)







مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے لئے دعا
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مخلص بزرگوں میں سے ہیں اور صحابی ہیں۔ آجکل وہ ۱۰۲ ڈی بلاک ماڈل ٹائون میں بیمار ہیں اور انہوں نے ایک غیبی تحریک کی بناء پر مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے لئے الفضل میں احباب سے دعا کی تحریک کروں۔ سو میں امید کرتا ہوں کہ دوست جماعت کے اس مخلص بزرگ کو ضرور اپنی دعائوں میں یاد رکھیں گے۔ جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ گزرتے جاتے ہیں۔ لازماً اس مقدس جماعت کی قدر بڑھتی جاتی ہے اور اسی نسبت سے ان کے واسطے دعائیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں۔ اور دراصل یہ بھی خدا کی شکر گزاری کا ایک پہلو ہے۔
ومن لم یشکرالناس لم یشکر اللّٰہ ۵۴
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍جولائی ۱۹۵۰ئ)






مسئلہ تقدیر پر ایک اصولی نوٹ
کیا فوت ہو جانے والا مریض بہتر علاج سے بچ سکتا تھا؟
رمضان کے ایام میں جبکہ میں بستر علالت پر پڑا تھا۔ چوہدری عبد الغنی صاحب سکنہ کریام ضلع ہوشیار پور حال نرائن گڑھ ضلع لائل پور کا میرے پاس ایک خط پہنچا۔ جس میں چوہدری ظہور الدین پسر حاجی غلام احمد صاحب مرحوم سکنہ کریام کی جوانمرگ وفات کی خبر تھی اور اس کے ساتھ ہی یہ لکھا تھا کہ ظہور الدین مرحوم کو جو ایک بہت نیک اور مخلص نوجوان تھا۔ گائوں میں صحیح علاج میسر نہیں آیا بلکہ علاج میں بعض ایسی غلطیاں ہو گئیں جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ظہور الدین مرحوم کی موت کا باعث بن گئیں وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات کے لکھنے کے بعد چوہدری عبد الغنی صاحب نے لکھا کہ ظہور الدین مرحوم کی وفات کے متعلق اس کے عزیزوں اور جماعت کے دوسرے لوگوں میں ایک علمی اختلاف پیدا ہو گیا ہے جس کے متعلق آپ کی رائے کی ضرورت ہے اور وہ اختلاف یہ ہے کہ ظہور الدین مرحوم کا چھوٹا بھائی اور بعض دوسرے عزیز یہ کہتے ہیں کہ اگر چوہدری ظہور الدین مرحوم کو صحیح اور بروقت علاج میسر آ جاتا تو وہ بچ جاتا لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسرے احباب کہتے ہیں کہ خدائی تقدیر نے بہر حال پورا ہونا تھا۔ پس اگر ظہور الدین مرحوم کا مقدر وقت آ چکا تھا تو خواہ کچھ ہوتا اس نے بہرحال مرنا تھا اور اس میں صحیح اور غیر صحیح علاج کا کوئی سوال نہیں وغیرہ وغیرہ
یہ وہ سوال ہے جو رمضان کے ایام میں میرے پاس چوہدری عبد الغنی صاحب کی طرف سے پہنچا اور گو میں اس وقت بیمار تھا مگر حاجی غلام احمد صاحب مرحوم سکنہ کریام کی نیکی اور اخلاص اور علاقہ کی جماعت میں ان کی ممتاز پوزیشن کی وجہ سے میں نے ضروری خیال کیا کہ جو سوال ان کے مرحوم بچے کی وفات کے متعلق پیدا ہوا ہے اس کا مختصر سا جواب دے کر ان کے عزیزوں کی تسلی اور راہ نمائی کی کوشش کروں۔ چنانچہ میں نے بستر میں لیٹے لیٹے ہی انہیں ایک ۔۔۔جواب بھجوا دیا۔ جسے اب کسی قدر نظر ثانی کے بعد دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرا رہا ہوں۔ وما توفیقی الا باﷲ العظیم واﷲاعلم بما ھو الصراط المستقیم۔
سو جاننا چاہئیے کہ تقدیر کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے کے بغیر نہ تو خدا کی توحید ہی کامل ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کسی مومن کا ایمان مکمل سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو ایمان کے بنیادی رکنوں میں سے ایک رکن قرار دیا ہے۔ چنانچہ بخاری اور مسلم اور دیگر کتب حدیث میں قدرِ خیر و قدر شر پر ایمان لانے کو اسلام کی تکمیل کے لئے ایک بنیادی چیز قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ کی روایت آتی ہے کہ :
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الایمان ان تؤمن باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ رُسلہ والیوم الآخرو تؤمن بالقدر خیرہٖ و شرہ ۵۵
’’ یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایمان یہ ہے کہ تو خدا پر ایمان لائے اور ملائکہ اور خدا کی بھیجی ہوئی کتابوں اور خدا کے رسولوں اور جزا سزا کے دن پر ایمان لائے اور نیز اس بات پر ایمان لائے کہ خدا نے دنیا میں تقدیر خیر و شر جاری کر رکھی ہے۔‘‘
اور عقلاً بھی یہی بات درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ گو تقدیر کے مسئلہ کے بغیر خدا کو شائد خالق و باری و مصور تو یقین کیا جا سکے مگر اسے کسی طرح قادر یا متصرّف یا حاکم یا مالک یوم الدین نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ تقدیر کا قانون ہی ہے جس کی وجہ سے خد ادنیا کا حاکم یا متصرف ہے اور اس سارے کارخانوںکوچلانے والااور انسانوں کے اعمال اور دیگر اشیاء کے نیک و بد نتائج پیدا کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے اور قدرِ خیر کے ساتھ قدرِ شر کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تاہندوؤں یا بعض دیگر ادیان کی طرح یہ دھوکا نہ لگے کہ گویا شرکی تقدیر پیدا کرنے والا خدا خیر کی تقدیر پیدا کرنے والے خدا سے کوئی جداگانہ ہستی رکھتا ہے اور تا ہر امر میں خواہ وہ خیر کا ہو یا شر کا اور خواہ وہ کسی اچھے کام کا اچھا نتیجہ ہو یا برے کام کا برا نتیجہ ہو انسان بہر حال دنیا کے واحد لا شریک خدا کی طرف جھکنے اور رجوع کرنے کا سبق سیکھے۔ اگر اسے کوئی نعمت حاصل ہو تو وہ اس بات سے خائف رہے کہ میرا خدا میری ناشکری اور بد عملی پر اس نعمت کو چھین بھی سکتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف اور دکھ پہنچے تو وہ مایوسی کی طرف جھکنے کی بجائے اس امید سے معمور رہے کہ اصلاح کرنے اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے پر میرا خدا اس تکلیف کو دور کرکے میرے لئے پھر راحت اور برکت کا دور لا سکتا ہے اور دراصل یہی اس توحید کا مل کا مرکزی نقطہ ہے جس پر اسلام ہمیں قائم کرنا چاہتا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ جتنا یہ مسئلہ اہم ہے اتنی ہی اس میں غلط فہمی بھی زیادہ پیدا ہوئی ہے اور یہ غلط فہمی آج کی نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آتی ہے اور مسلمان علماء میں جبر و قدر کے مسئلہ کا اختلاف ایک ایسا آماجگاہ رہا ہے کہ خداکی پناہ۔ ایک فریق اس خیال کی طرف جھک گیا ہے کہ خدا نے ازل سے ہر انسان کے نیک و بد اعمال لکھ رکھے ہیں۔ اور وہ اپنی تقدیر کے اس نوشتہ کے مطابق چلنے پر مجبور ہے اور اس کی کوئی کوشش اسے اس رستہ سے ہٹا نہیں سکتی۔ ہا ں بے شک خدا ہر شخص کے میلان اور استعداد اور جدو جہد کو دیکھ کر حق و انصاف کے ساتھ دنیا کی آخری عدالت کرے گا۔یہ وہ طبقہ ہے جو جبر یہ کہلاتا ہے۔ اس کے مقابل پر دوسرا طبقہ قدر یہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس طبقہ کا یہ خیال ہے کہ انسان اپنے اعمال میںپوری طرح صاحب اختیار ہے کہ اگر چاہے تو نیکی اور صلاحیت اور کامیابی اور ترقی کا راستہ اختیار کر لے اور اگر چاہے تو بدی اور بد اخلاقی اور نا مرادی اور تنزل کے رستہ پر پڑ جائے اورا س کے انہی خود اختیاری افعال کے مطابق خدا تعالیٰ اس کے اعمال کے نتائج پیدا کرے گا۔ آجکل کی آزاد خیال دنیا کا بیشتر حصہ جبر یہ نظریہ کو کلیۃً رد کر کے بلکہ اسے مضحکہ خیز قرار دے کر کامل طور پر قدریہ نظریہ کی طرف جھکا ہوا ہے اور گو وہ خدا یا جزاسزا کا قائل نہ ہو مگر بہر حال انسان کو اس کے اعمال اور اس کے طریق کار کے انتخاب میں کلی طور پر آزاد اور صاحب اختیار خیال کرتا ہے اور دوسرا طبقہ دوسری انتہا پر جا کر انسانی اعمال میں کسی مجبوری کا بھی قائل نہیں۔ مگر حق یہ ہے اور نیچر اور فطرتِ انسانی کے گہرے مطالعہ سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ نہ تو انسان اپنے اعمال میںکلّی طور پر آزاد ہے اورنہکلّی طور پر مجبور ہے بلکہ بعض اعمال میں وہ بڑی حد تک آزاد ہے اور بعض میں وہ بڑی حد تک مجبورہے۔
انسانی اعمال کے آزاد ہونے کے لئے مجھے اس جگہ کسی مثال کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک واضح اور بدیہی بات ہے جو ہمارے روزمرہ کے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہے لیکن مجبوری کے ثبوت کا سوال بھی کوئی زیادہ غور نہیں چاہتا۔ اس کی ایک موٹی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پیدائشی طور جمالی صفات لے کر اس دنیا میں آیا ہے اور نرمی اور عفو کا طریق اس کی فطرت کا حصہ ہے اور وہ ہر غلطی پر سزا دینے کی بجائے محبت کے رنگ میں سمجھانے اور پندو نصیحت پر زور دینے اور بیشتر صورتوں میںعفو کے ذریعہ اصلاح کرنے کا رستہ اختیار کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص ہے جو فطرتاً جلالی صفات کا حامل ہے اور تادیب اور اجراء قانون اورغلطیوں کے ارتکاب کو سزاکے ذریعہ روکنے اور اختیارات کے زور سے ہر بدی کی اصلاح کرنے کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں اعمال میں حتیٰ کہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ان کے اس جداگانہ فطری میلان کا طبعی طریق پر اظہار ہو گا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس متضاد فطری میلان کی وجہ سے جمالی صفات والا انسان کبھی کبھی ناواجب نرمی اور غیر مناسب عفو کی غلطی کا مرتکب بھی ہو جائے گا اور اس کے مقابل پر جلالی صفات والا انسان کبھی کبھی اپنے فطری میلان کی وجہ سے ناواجب سخت گیری اور غیر مناسب سزا کی طرف بھی جھک جائے گا اور یہ دونوں قسم کے اعمال یقینا بڑی حد تک جبر یہ نظریہ کے ماتحت ہوتے ہیں کیونکہ جلال والا انسان فطرتًا اپنے جلال میں محصور ہے اور جمال والا انسان اپنے جمال میںمجبور ہے اور ان حالات میں یہ صرف ہمارا علیم وحکیم خدا ہی ہے جو سار ے حالات کو دیکھتے ہوئے اور ہر ضروری موجب رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حق و انصاف کے ترازو کو قائم رکھے گا۔
اس فطری اختلاف سے اولوالعزم نبی تک مستثنیٰ نہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے یہ قانون جاری فرمایا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور دانت کے بدلے دانت اور ہر زخم کے بدلے میں لازماً بالمقابل زخم پہنچایا جائے اور یہ بھی حضرت موسیٰ ہی تھے جنہوں نے غصہ میں آکر اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر اس طرح جھنجھوڑا کہ حضرت ہارون کو شماتتِ اعداء کا ڈر پیدا ہو گیا۔ بے شک غصہ کا موقعہ بجا تھا مگر اس میں بھی کیا شک کہ اس غصہ کے اظہار میں جلال کا رنگ بہت زیادہ غالب تھا لیکن اس کے مقابل پراسی سلسلہ کے نبی حضر ت عیسیٰ تشریف لاتے ہیں تو کس فروتنی سے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر طمانچہ لگائے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو کہ لو بھئی اس گال پر بھی اپنا غصہ نکال لو۔ اگر کوئی شخص تمہارا جبہ چھینے تو اسے اپنی قمیض بھی اتار کر دے دو۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ہر زمانہ کی جدا جدا ضرورتیں تھیں۔ میں کہوں گا بے شک درست ہے مگر آخر خدا نے بھی تو ان ضرورتوں کے مطابق ہی طبیعت رکھنے والے اشخاص چنے تو پھر بہر حال بات وہیں آگئی کہ بعض صورتوں میں انسانی فطرتوں کا رجحان اس کے عادات و اخلاق میں ایک حد تک مجبوری کا رنگ پیدا کر دیتا ہے اور اس مجبوری کو دیکھنا اور اس کے مطابق بندوں سے معاملہ کرنا صرف خدا کا کام ہے۔ اسی طرح ماحول کا بھی بھاری اثر ہوتا ہے جو بعض صورتوں میں قریباً قریباً مجبوری کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نیک ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اور اسے نیک ماحول اور نیک ہمسائے اور نیک سوسائٹی میسّر آتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی بہت سی عادتیں نیکی کے سانچہ میں ڈھل جاتی ہیں لیکن اس کے مقابل پر ایک دوسرا شخص بے دین اور بداخلاق ماں باپ کے گھر جنم لیتا ہے اور اسے ماحول بھی اچھا میسر نہیں ہوتا اور اس کے نتیجہ میں وہ ایک مشین کی طرح بے دینی اور بے اخلاقی کے چکر میں پڑ جاتا ہے تو کیا مقدم الذکر شخص کی نیکی اورمؤخر الذکر شخص کی بدی کامل آزادی کے اعمال سمجھے جا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں اسی طرح کئی اور قسم کی مجبوریاں یا نیم مجبوریاں ہیں جن کی عدالت صرف خدا ہی کر سکتا ہے اس کے مقابل پر ہزاروں باتوں میں انسان آزاد بھی ہے اور اس آزادی کی حقیقت کو بھی صرف خدا ہی جانتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ ۔۵۶ یعنی نیکی بدی کی عدالت کے متعلق حقیقی ترازو صرف خدا کا ترازو ہے جو قیامت کے دن قائم کیا جائے گا۔
مگر میں اپنا مضمون چھوڑ گیا کیونکہ میرا موجودہ مضمون لوگوں کے اخلاق و عادات کی آزادی یا مجبوری کے متعلق نہیں بلکہ تقدیر کے اس حصہ کے متعلق ہے جو مختلف قسم کے حالات پیش آنے پر تدابیر انسانی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی میرا اصل مضمون یہ ہے کہ کیا تقدیر کے قانون کا منشاء یہ ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ بہر حال ہو کر رہتا ہے خواہ انسان کچھ کرے یا کہ تقدیر سے یہ مراد ہے کہ انسان خدا کے قانون خیر و شر کے ماتحت اپنے لئے اچھے یا برے نتائج پیدا کرنے میں صاحب اختیار ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ظہور الدین مرحوم کی وفات یا اس کے صحیح اور غیر صحیح علاج کے نتیجہ کا سوال جو اس مضمون کا اصل محرک ہے، اسی بحث سے تعلق رکھتا ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ گو جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، تقدیر کوئی عجوبہ چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس روزمرہ قانون کا نام ہے جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں خواص الاشیاء یعنی قدر خیر و شر کی صورت میں جاری کر رکھا ہے۔ یعنی جن اعمال اور جن چیزوں کا خدا تعالیٰ نے اچھا نتیجہ مقرر کر رکھا ہے وہ تقدیر خیر کے نیچے آتی ہیں اور اجن اعمال اور جن چیزوں کا خدا نے خراب نتیجہ مقرر کر رکھا ہے وہ تقدیر شر کا حصہ ہیں۔ مثلاً یہ خدا کی تقدیر خیر ہے کہ دودھ پینے سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے یا کونین کھانے سے ملیریا کے کیڑے مرتے ہیں اور اس کے مقابل پر یہ خدا کی تقدیر شر ہے کہ مثلاً سنگریزے چبانے سے جسم میں کوئی طاقت نہیں آئے گی بلکہ الٹا نقصان ہو گا یا سنکھیا کھانے سے انسانی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی طرح نہ صرف خواص الاشیاء کے متعلق بلکہ چیزوں کی مقدار کے استعمال کے متعلق بھی خدا نے ایک حکیمانہ قانون مقرر کر رکھا ہے۔ مثلاً یہ خدا کی ایک تقدیر خیر ہے کہ سنکھیا ( جو در حقیقت ایک زہر ہے) اسے قلیل مقدار میں استعمال کرنا کئی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابل پر دودھ( جو دراصل ایک مقوی غذا ہے) اسے حد سے بڑھی ہوئی مقدار میں استعمال کرنا صحت کی تباہی بلکہ بعض صورتوں میں ہلاکت کا موجب ہو سکتا ہے۔ اور اسی دنیا کی ہزاروں، لاکھوں، کروڑوںبلکہ اربوں چیزوں کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جو خدائی قضاء وقدر کے ماتحت زندگی کو بنانے اور مٹانے میںلگی ہوئی ہیں اور یہی اصول مذہبی اور روحانی میدان میں چلتا ہے کہ ایک بات قدر خیر کے ماتحت اخلاق کو ترقی دیتی اور روحانیت میں جلا پیدا کر دیتی ہے اور لاریب یہی وہ قانون قدر خیر و شر ہے جسے اسلام ہمارے ایمان کا حصہ بنانا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ ہمارا خدا ایسا نہیں کہ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد معطل ہو کر بیٹھ گیا ہو بلکہ وہ ایک حاکم و متصرف خداہے۔ جس کا تصرف دنیا کے ذرہ ذرہ پر قائم ہے اور کوئی چیز اس کی حکومت سے باہر نہیں۔ یہ اُسی حکیم و قدیر خدا کا قانون ہے جو ایک انسان کو بیمار کرتا اور دوسرے کو شفا دیتا ہے اور ایک کو زندگی بخشتا اور دوسرے کو موت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے اور گو اعمال انسان کے ہیں مگر ان اعمال کا نتیجہ بہر حال خدا کا ہے جو ایک زبردست مشینری کے طور پر ہر وقت چکر میں ہے۔
لیکن چونکہ خدا کا قانون اُس کی مشیت پر مبنی ہے اور اس کی مشیت نہایت درجہ لطیف اور گہرے مادی اور روحانی فلسفہ پر قائم ہے۔ اس لئے خدا کی ازلی حکمت نے قانون قدر خیر و شر کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک عام قانون ہے جسے تقدیر عام یا تقدیر معلق کا نام دیا جاتا ہے اور دوسرے خاص قانون ہے جسے تقدیر خاص یا تقدیر مبرم سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تقدیر عام یا تقدیر معلق اس قانون کا نام ہے جو قانون قدرت یا قانون نیچر یا قانونِ قضاء و قدر کی صورت میں دنیا پر حاوی ہے۔ اور دنیا کی کوئی چیز اس کے تصرف سے باہر نہیںمثلاً یہ تقدیر معلق ہے کہ اگر کونین کھائو گے تو ملیریا کے کیڑے مریں گے اور اگر سنکھیا کھائو گے تو تمہاری اپنی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس تقدیر کو تقدیر معلق یعنی لٹکی ہوئی تقدیر اس لئے کہتے ہیں کہ یہ تقدیر ایک اٹل اور غیر مبدّل نتیجہ کی صورت میں جاری نہیں ہوتی بلکہ خاص قسم کے حالات اور خاص قسم کی شرائط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ یعنی اگر اس قسم کے حالات ہوں گے تو یہ نتیجہ پیدا ہو گا اور اگر دوسری قسم کے حالات ہوں گے۔ تو دوسرا نتیجہ پیدا ہو گا اور دنیا کا عام نظام اسی تقدیر کے ماتحت چل رہا ہے اور یہ تقدیر دنیا کے لئے ایک بھاری رحمت ہے کیونکہ دنیا میں دو سرے علوم کی ترقی اور سائنس کی عجیب و غریب ایجادات اور علم طلب کے باریک در باریک قوانین سب اسی تقدیر عام پر مبنی ہیں بلکہ اگر یہ تقدیر نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ عالم ایک آن واحد میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے اور دنیا میں کوئی نظام باقی نہ رہے مثلاً اگر آگ کبھی جلائے اور کبھی ٹھنڈا کر دے اور پانی کبھی بجھائے اور کبھی آگ لگا دے اور کونین کبھی ملیریا کے کیڑوں کو مارے اور کبھی اُنہیں بڑھانا شروع کر دے اور ان چیزوں کی کوئی خاصیت ان کے اندر ایک قانون کی صورت میں قائم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ یہ سارا نظام در ہم برہم ہو کر دنیا میں ہر چیز کا خاتمہ کر دے۔ پس خواص الاشیاء کا غیر مبدل وجود اور تقدیر عام کا پیش آمدہ حالات کے ساتھ معلق ہونا اور حالات کے بدلنے سے بدل جانا دنیا کے نظام اور دنیا کی ترقی کا حقیقی راز ہے۔ اس صورت میں اس بات میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر ایک خطرناک بیمار کو کسی وجہ سے صحیح علاج میسر نہیں آیا یا معالج کی غلطی یا ناواقفی سے غلط علاج ہو گیا تو ایسا بیمار خدا کی تقدیر عام کے ماتحت ضرور مرے گا کیونکہ جو حالات اسے پیش آئے۔ ان کا طبعی نتیجہ موت تھی اور اس صورت میں اس کے مرنے میں ہی دنیا کی ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اگر ایسے بیمار کو صحیح علاج میسر آ جائے۔ تو اس بات میں بھی ہرگز کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خدا کی تقدیر عام اور تقدیر معلق کے دوسرے پہلو کے ماتحت صحت یاب ہو کر بچ جائے گا۔ کیونکہ اس کے موجودہ حالات صحت اور شفا یابی کا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ اور چونکہ چوہدری ظہور الدین مرحوم کے حالات کو خدا کی تقدیر عام سے سمجھنے کا کوئی ثبوت یا قرینہ موجود نہیں اس لئے اس کے متعلق لازماً یہی سمجھا جائے گا کہ اگر اسے صحیح علاج میسر آجاتا تو وہ خدا کے فضل سے ضرور بچ جاتا۔
اس قسم کی تقدیر کی ایک نہایت دلچسپ مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ملتی ہے۔ جب حضرت عمر ؓ نے شام کی سرحد پر سلطنتِ روما کے مقابلے کے لئے اسلامی فوجیں بھجوائیں تو ان کی کمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی اور اپنے دیرینہ دوست اور رفیق کار حضرت ابوعبیدہ ؓ کے سپرد فرمائی ۔اتفاق سے اس محاذ پر طاعون کا وبائی مرض پھوٹا اور اس شدت سے پھوٹا کہ بہت سے مسلمان اس مرض کا شکار ہو گئے۔ جب حضرت عمر ؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کے ارفع دینی مقام کے پیش نظر انہیں لکھ کر بھیجا کہ آپ مدینہ واپس آجائیں مگر مصلحۃً اس ہدایت کی غرض ظاہر نہیں کی۔ حضرت ابو عبیدہ سمجھ گئے کہ کیوں بلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ ’’ کیا آپ مجھ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ میں اس خطرہ کے وقت میں مسلمانوں کو چھوڑ کر خود مدینہ پہنچ جائوں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘
’’حضرت عمرؓ نے یہ خط پڑھا تو رو پڑے۔ اور حکم دیا کہ اچھا اتنا تو ضرور کرو کہ اسلامی فوج اکٹھی اور گنجان صورت میں ڈیرا ڈالے پڑی ہے اور طاعون کا زور ہے۔ فوراً مسلمانوں کو صحت آور میدانوں میں پھیلا کر اس خطرناک مرض سے محفوظ کر دو۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ اس حکم کی تعمیل کے لئے تیار ہو گئے۔ مگر بعض مسلمانوں نے حضرت عمر ؓ کے اس ہدایت پر اعتراض کیا کہ’’ کیا آپ ہمیں خدا کی تقدیر سے بھگاتے ہیں؟ جو مقدر ہے وہ تو بہرحال ہو کر رہے گا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فوراً جواب دیا کہ :-
’’افسوس تم نے حقیقت کو نہیں سمجھا اور مسلمانوں کی جانوں کو ہلکا جانا۔ میں خدا کی تقدیر سے بھگا کر کسی اور کی تقدیر میں تو داخل نہیں کر رہا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا کی ایک قضا ( یعنی تقدیر شر) سے بھاگ کر اس کی دوسری قضا (یعنی تقدیر خیر) میں پناہ لے لو‘‘( یہ لفظ میرے ہیں مگر مفہوم حضرت عمرؓ کا ہے)
اللہ۔ اللہ ! حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد کسی عظیم الشان دانائی پر مبنی تھا کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے مگر افسوس کہ حضرت ابو عبیدہ (جن کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے میرے دل میں ان کی بہت محبت ہے) کے جسم میں وبا کا اثر ہو چکا تھا اور وہ باوجود نقلِ مکانی کے اس وبائی مرض میں مبتلا ہوکر شہادت پا گئے خیر وہ تو فوت ہو گئے اور آگے پیچھے سب نے مرنا ہے مگر اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر کا یہ زرین قول ہمارے ہاتھ آگیا ۔ جو مسئلہ تقدیر کی گویا جان ہے اور حق یہ ہے کہ یہ جان ہے تو جہان ہے۔
تقدیر کی دوسری قسم خدا کے استثنائی قانون سے تعلق رکھتی ہے جسے تقدیر خاص یا تقدیر مبرم کہتے ہیں۔ یہ تقدیر اٹل تقدیر ہوتی ہے جو یا تو حالات اور اسباب کے اثر سے بالکل ہی آزاد ہوتی ہے اور یا خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں اسباب اور حالات کو ایسے رنگ میں چلاتے ہیں کہ مطلوب اور مقدور نتیجہ بہر حال ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ اس تقدیر کی مثال زیادہ تر نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں ملتی ہے اور تقدیر عام کی طرح یہ تقدیر بھی خیر و شر دونوں صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے مثلاً جب کفار مکہ نے کفر پر اصرار کیا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحمت کی بجائے عذاب کا نشان مانگاتو آپ نے خدا سے خبر پا کر پیشگوئی فرمائی کہ مکہ کے فلاں فلاں ائمہ کفر مسلمانوں کے مقابلہ پر قتل ہو کر تباہ ہوں گے اور آپ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ ’’ میں گویا ان لوگوں کے گرنے کی جگہ کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ خدا کی تقدیر مبرم تھی جو آپ کو دکھائی گئی اور پھر عین اس کے مطابق مکہ کے یہ بد باطن رئیس بدر کے میدان میں اپنے سے کئی گنا کم طاقتور فوج کے مقابلہ میں کٹ کر خاک میں مل گئے اور ان کی کوئی تدبیر اس خدائی تقدیر کو بدل نہ سکی۔ اس طرح ہمارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کے کفر اور طغیانی کو دیکھ کر پیشگوئی فرمائی کہ چھ سال کے اندر اندر وہ ایک گو سالہ کی طرح چیختا چلاتا ہوا خدائی خنجر سے ذبح کر دیا جائے گا اور پھر عین اس کے مطابق وہ آریہ صاحبان کی لاتعداد مادی تدبیروں کے باوجود ایک غیر معلوم ہاتھ سے اپنے کیفر کردار کو پہنچا اور آج تک قاتل کا سراغ نہیں مل سکا اور جب اس کے قتل پرآریوں نے حسب عادت شور مچایا اور اعتراض کیا کہ اسے نعوذ باللہ مرزا صاحب نے خود قتل کروادیا ہے تو حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا سے علم پا کر فرمایا کہ اگر تم واقعی ایسا خیال کرتے ہو تو میدان میں آکر قسم کھائو۔ پھر اگر ایسی قسم کھانے والے لوگ (خواہ وہ تعداد میں ہزار ہوں) ایک سال کے اندر اندر ہلاک ہونے سے بچ جائیں اور ان کی ہلاکت خالصۃً خدائی ہاتھ سے نہ ہو جس میں کسی انسانی سازش کا دخل متصور نہ ہو سکے تو جان لو کہ میں جھوٹا ہوں اور میرا یہ نطق خدا سے نہیں اور آپ نے نہایت تحدی کے ساتھ لکھا کہ یہ تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ٹلے گی اور خواہ میرے مخالف اس تقدیر کے نتیجہ سے بچنے کے لئے دنیا بھر کے اسباب جمع کر لیں وہ اس اٹل خدائی تقدیر سے ہرگز محفوظ نہیں رہیں گے۔ یہ گویا مخالفین اسلام کے لئے تقدیر شر تھی مگر اس کے مقابل پر بسااوقات تقدیر مبرم تقدیر خیر کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ خدا کے نبیوں کا یہ ازلی نعرہ رہا ہے کہ :
۵۷
’’ یعنی خدا نے ہمیشہ سے یہ لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول بہرحال غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
یہ ایک تقدیر مبرم ہے جسے دنیا کی کوئی تدبیر ٹال نہیں سکتی۔ ایک لاکھ اور بیس ہزار نبیوں کے زمانہ میں دنیا نے اس تقدیر کا مشاہدہ کیا اور اسے کبھی غلط نہیں پایا۔ یہ تیر وہ ہے جو جب سے کہ دنیا بنی ہے آج تک خطا نہیں گیا اور نہ کبھی خطا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ :-
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے ۵۸
یہ صرف تقدیر مبرم کی شان ہے جس کے متعلق اس تحدی کے ساتھ اعلان کیا جا سکتا ہے اور جو صرف خاص خاص حالات میں ظاہر ہوتی ہے اور خدا نے اس تقدیر کا وجود اس لئے قائم کیا ہے کہ تا اپنی ہستی کے نشان ظاہر کرے اور جو لوگ تقدیر عام کی عینک سے خدا کو نہیں دیکھ سکتے وہ تقدیر خاص کی طاقتور دوربین کے ذریعہ ہی اس نور کا مشاہدہ کر لیں۔ مگر یہ ایک خاص چیز ہے جو صرف خاص حالات میں ظاہر ہوتی ہے اور میں اس بات کے ہرگز آثار نہیں دیکھتا اور نہ ہی اس بات کا کوئی قرینہ موجود ہے کہ عزیز ظہور الدین مرحوم کی وفات تقدیر مبرم کے ماتحت واقع ہوئی ہے۔ میں اپنے علم کے ماتحت یہییقین رکھتا ہوں کہ یہ ایک تقدیر عام کا حادثہ تھا جو حالات پیش آمدہ کے ساتھ معلق تھا اور اگر ظہور الدین مرحوم کو صحیح اور بروقت علاج میسر آجاتا تو یقینا اس کی تقدیر بدل جاتی اور اس کی جان بچ سکتی تھی واللّٰہ اعلم بالصواب ولا علم لنا الا ما علمنا اللّٰہ الوھاب
اس مسئلہ کا ایک پہلو خدا کے علم ازلی سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بھی کئی لوگوں کو دھوکا لگ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی سادگی میں خیال کرتے ہیں کہ جب خدا کو جو عالم الغیب ہے ہر چیز کے انجام کا علم ہے اور خدا کا علم بہرحال یقینی اور قطعی ہے جو کسی صورت میں غلط نہیں ہو سکتا تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ ہر چیز کا انجام بہرحال اسی صورت میں مقدر ہے جس صورت میں کہ وہ عملاً ظاہر ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بدل نہیں سکتا ورنہ نعوذ باللہ خدا کا علم غلط ثابت ہو گا جو ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ خیال محض سطحی تخیل کا نتیجہ ہے اور ہرگز درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا بلکہ انجام کی وجہ سے علم پیدا ہوتاہے اور ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ علم اور چیز ہے اور تقدیر بالکل جدا چیز ہے۔ اس کی موٹی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر کسی نیک اور خدا رسیدہ انسان کو خواب آئے کہ تین ماہ تک جاپان میں سخت زلزلہ آئے گا اور پھر اس کی یہ خواب عملاً پوری ہو جائے تو کیا کوئی عقلمند شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کی خواب کی وجہ سے یہ زلزلہ آیا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ خواب اس وجہ سے آئی کہ زلزلہ نے آنا تھا۔ اسی طرح بے شک خدا کو عالم الغیب ہونے کی وجہ سے یہ علم ہے کہ کس چیز کا کیا انجام ہونے والا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کے علم کی وجہ سے یہ انجام ہوا بلکہ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ فلاں چیز کا یہ انجام ہونے والا تھا اس لئے خدا کو اس کا علم تھا۔ پس بہرحال علم انجام کے تابع ہوا نہ کہ انجام علم کے تابع۔ کیونکہ اگر انجام دوسرے رنگ میں ہوتا تو یقینا خدا کا علم بھی اسی کے مطابق ہوتا۔ مثلاً فرض کرو کہ ظہور الدین مرحوم جس کی وفات اس مضمون کی محرک ہے غلط علاج کی وجہ سے نوجوانی کی عمر میں فوت ہو گیا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ خدا کو پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ ظہور الدین فلاں حالات کے نتیجہ میں فلاں وقت فوت ہو گا۔ مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ظہور الدین اس لئے فوت ہوا کہ خدا کے علم میں یہی وقت اس کی موت کا مقرر تھا اور اگر وہ اس وقت فوت نہ ہوتا تو خدا کا علم غلط ہو جاتا۔ یہ ایک محض طفلانہ استدلال ہے جس سے کوئی دانا شخص تسلی نہیں پا سکتا۔
اس ضمن میں میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ حدیث میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ جف القلم بما ھو کائن ( یعنی جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے اس کے متعلق خدائی قلم کی نوشت معین ہو کر خشک ہو چکی ہے) وہ بھی جیسا کہ بماھو کائن ( یعنی جو کچھ کہ آخری صورت میں ہونے والا ہے) کے الفاظ میں اشارہ ہے خدا کے علم ازلی کی بنا پر کہے گئے ہیں نہ کہ دنیا کی تقدیر عام کی بناء پر۔ ہاں بے شک تقدیر خاص یعنی تقدیر مبرم کو ضرور اس نظریہ سے تعلق سمجھا جا سکتا ہے اور اس صورت میں اس حدیث سے مراد یہ لی جائے گی کہ (۱) جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے وہ قدیم سے خدا کے علم میں ہے یا (۲) یہ کہ خدا کی مبرم تقدیریں ازل سے فیصلہ شدہ ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور دوسرے الفاظ میں یہی اس قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ ۵۹یعنی تم خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے۔ گویا تقدیر عام کی صورت میں تو یہ حدیث ہر چیز کے آخری انجام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جو بہرحال خدا کے علم میں ہے اور تقدیر خاص کی صورت میں وہ براہ راست تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جو ہر صورت میں اٹل ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
بالآخر میں ایک لفظ اس شبہ کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ فلاں نیک اور خوش سیرت انسان نہایت درجہ قابل رحم حالات میں جوان مرگ فوت ہو گیا مگر اس کے مقابل پر ایک بے دین اور بد اخلاق انسان لمبی عمر پا کر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ سو اس کے جواب میں یاد رکھناچاہئے کہ خدا نے دنیا میں دو علیحدہ علیحدہ قانون جاری کئے ہیں۔ ایک قضاء و قدر کاقانون ہے جو مادیت کے میدان میں تقدیر عام سے تعلق رکھتا ہے جس کی جزا سزا اسی دنیا میں ساتھ ساتھ جاری رہتی ہے اور اسی دنیا میں اس کے نتائج ختم ہو جاتے ہیں اور دوسرا قانون شریعت کا قانون ہیجو اخلاقیات اور روحانیت سے متعلق ہے جس کے حقیقی نتائج کے ظہور کے لئے اگلی زندگی اور اگلا جہان مقرر ہے اور خدا کی حکمتِ ازلی نے ان دونو قانون کے میدانِ عمل کو ایک دوسرے سے بالکل جدا اور آزاد رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص قضاء و قدر کے قانون کے ماتحت کوئی غلطی کرے تو اسے قانون قضاء وقدر کے مطابق سزا ملتی ہے اور اگر کوئی شخص قانون شریعت کے ماتحت کوئی غلطی کرے تو اسے قانونِ شریعت کے مطابق سزا ملتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ غلطی تو قضا و قدر کے قانون کے ماتحت ہو اور سزا قانون شریعت کے مطابق دی جائے یا غلطی تو قانون شریعت کی ہو اور سزا قانون قضاء وقدر کے مطابق ملے۔ گویا خدا کی مرکزی حکومت کے ماتحت یہ دو جدا جدا صوبائی حکومتیں قائم ہیں جن کو خدا کی حکمت ازلی نے پرونشل ایٹانومی دے کر ایک دوسرے سے آزاد رکھا ہوا ہے۔ اس لئے اگر ایک نیک آدمی بھی قضاء وقدر کا کوئی قانون توڑے گا مثلا کوئی ثقیل چیز کھالے گا تو اس کے پیٹ میں لازماً درد ہو گا اور قانون شریعت کی نیکی اسے اس درد سے ہرگز بچا نہیں سگے گی۔ اسی طرح اگر کوئی بد آدمی قضاء و قدر کے قانون کا فرمانبردار رہے گا تو اسے قانون شریعت کا جرم قانون قضاء و قدر کی نعمتوں سے ہرگز محروم نہیں کر سکے گا( سوائے مستثنیات کے جن کا اصول جداگانہ ہے) پس اگر کوئی نیک انسان کسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے جوانی کی موت مر جاتا ہے تو یہ ایک قضاء و قدر کا عام حادثہ سمجھا جائے گا جس میں قانون شریعت کی نیکی کا کوئی اثریا تعلق نہیں ہو گا اور نہ یہ نیکی اسے اس حادثہ سے بچا سکے گی۔ اس کے مقابل پر اگر ایک بد انسان قضاء و قدر کے میدان میں کسی غلطی کا مرتکب نہیں ہوتا اور قوانین صحت کی پابندی اختیار کرتا ہے تو وہ لمبی عمر پالے گا اور شریعت کے میدان کا جرم اسے قضاء و قدر کی نعمت سے محروم نہیں کر سکے گا۔ یہی خدائے حکیم و علیم کی سنت ہے ۔
الغرض تقدیر کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے جو بظاہر سادہ مگر حقیقۃً کافی پیچدار ہے اور اس کا اصولی خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں آ جاتا ہے:
(۱) جو نظام قانون قدرت یعنی قانونِ قضاء وقدر کی صورت میں خدا نے قائم کر رکھا ہے اور جس کے ماتحت یہ سارا کارخانہ عالم چل رہا ہے وہی وہ قدر خیر و شر ہے جس پر اسلام ہمیں ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تاکہ ہم توحید کے کامل مقام پر قائم رہیں۔
(۲) جو نظام بعض حصوں میں جبری ہے اور بعض میں اختیاری ہے اس لئے انسان کے اعمال کا حقیقی موازنہ صرف خدا ہی کر سکتا ہے جو ہر قسم کے حالات کا واقف اور ہر قسم کے غیب کا عالم ہے۔
(۳) تقدیر دو قسم کی ہے ایک تقدیر عام یعنی تقدیر معلق اور دوسرے تقدیر خاص یعنی تقدیر مبرم۔ تقدیر عام دنیا کے اس عام قانون قضاء و قدر کا نام ہے جو حالات پیش آمدہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اور حالات کے بدلنے سے بدل جاتا ہے اور ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بیمار صحیح علاج میسر آنے سے بچ سکتا تھا مگر اس کے مقابل پر تقدیر مبرم خدا کی وہ اٹل تقدیر ہوتی ہے جو ہر حال میں لازماً مقدر نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ یہ تقدیر عموماً نبیوں اور رسولوں کے ز مانہ میںمعجزات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
(۴)خدا کے عالم الغیب ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر چیز کا انجام بہرحال اسی صورت میں مقدر ہے جس صورت میں کہ وہ عملاً ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح بدل نہیں سکتا۔ کیونکہ حق یہ ہے کہ خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ انجام کی وجہ سے علم پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں باتوں میں بھاری فرق ہے۔
(۵) یہ اعتراض بالکل باطل ہے کہ بعض اوقات ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک نیک انسان مصیبت کی زندگی اٹھا کر یا اپنے غیروںکو دکھ میں مبتلا کر کے جوانی میں ہی مرجاتا ہے مگر ایک بد انسان لمبی عمر پا کر مرنے کی زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ اعتراض اس بات کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے کہ قضاء و قدر کے قانون اور شریعت کے قانون کا دائرہ بالکل علیحدہ علیحدہ ہے اور وہ ایک دوسرے میں دخل انداز نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون شریعت کی نیکی کسی شخص کو قضاء وقدر کے قانون کے نتیجہ سے نہیں بچا سکتی اور نہ قانون قضاء وقدر کی پابندی کسی شخص کو قانون شریعت کی نعمتوں کا وارث بنا سکتی ہے کیونکہ ۶۰ یہ مضمون بہت لمبا اور کسی قدر پیچدار بھی ہے مگر میں نے اسے اپنی طرف سے نہایت مختصر الفاظ میں سادہ طریق پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ خدا کرے کہ میرا یہ نوٹ ناظرین کی راہنمائی اور عملی تنویر کا موجب ہو اور اگر میری کوئی غلطی ہے تو خدا مجھے ہدایت نصیب کرے آمین۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمین
‎(مطبوعہ الفضل ۸ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)

مضمون ’’ مسئلہ تقدیر ‘‘ میں کتابت کی غلطیاں
پرسوں کے الفضل میں میرا ایک مضمون ’’ مسئلہ تقدیر ‘‘ کے متعلق شائع ہوا ہے۔ گو میں نے اس کی کاپی خود دیکھی تھی لیکن کاتب صاحبان تصحیح کرتے ہوئے بعض مزید غلطیاں کر گئے ہیں جن سے مضمون کے سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ بعض بڑی بڑی غلطیاں یہ ہیں احباب درست کر لیں۔
(۱) صفحہ ۴ کالم ۲ سطر ۱۱ میں ’’ اسی دنیا کی ہزاروں لاکھوں‘‘ کی بجائے ’’ اسی پر دنیا کی ہزاروں لاکھوں‘‘ ہونا چاہئے۔
(۲) صفحہ ۴ کالم ۳ سطر ۳۸ میں ’’ خدا کی تقدیر عام سے سمجھنے‘‘ کی بجائے’’ خدا کی تقدیر عام سے باہر سمجھنے‘‘ ہونا چاہئے۔
(۳) صفحہ ۵ کالم ۲ کی آخری سطر سے اوپر کی سطر میں ’’ بہرل ‘‘ کی بجائے ’’ بہر حال ‘‘ ہونا چاہئے۔
(۴) صفحہ ۶ کالم ۱ کی سطر ۱۰ میں ’’ اور حالات کے بدلنے سے‘‘ کی بجائے’’ اور اس کا نتیجہ حالات کے بدلنے سے ‘‘ ہونا چاہئے۔
(۵) صفحہ ۶ کی سطر ۳۲ میں’’ اپنے غیروں کی ‘‘ کی بجائے ’’ اپنے عزیزوں‘‘ ہونا چاہئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)





قادیان سے بھاگنے والے کی عبرتناک حالت
درویشوں کے رشتہ دار بھی کان دھریں
کچھ عرصہ ہوا جب کہ پرمٹ کی پابندی نہیں تھی قادیان کا ایک درویش اپنے رشتہ داروں کی ناواجب کشش اور بعض دنیا داری کے خیالات کے ماتحت قادیان سے بلا اجازت بھاگ گیا تھا۔ اسے اخراج از جماعت اور مقاطعہ کی سزا دی گئی اور اس کے علاوہ خدا کی طرف سے بھی اسے یہاں آکر اس قسم کے مصائب و آلام کا سامنا ہوا کہ اس کی حالت حقیقۃً عبرت ناک ہو چکی ہے۔ اس کی معافی کی درخواست پر حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے جو فیصلہ صادر فرمایا ہے وہ باوجود میری رخصت کے مجھے بھی اطلاع کی غرض سے لاہور میں پہنچا ہے اور میں نے اس پر قادیان کے دوستوں کو جو پرائیویٹ خط لکھا ہے وہ درویشوں کے رشتہ داروں کی اطلاع اور ہدایت کی غرض سے الفضل میں شائع کرا رہا ہوں۔ در اصل یہ زیادہ تر درویشوں کے بعض رشتہ دار ہی ہیں جو اپنے عزیز درویشوں کو تسلی اور ہمت افزائی کے خطوط لکھنے کی بجائے انہیں پریشانی کی اطلاعیں بھجواتے رہتے ہیں بلکہ جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے بعض اوقات ان اطلاعوں میں مبالغہ سے بھی کام لیتے ہیں جس کا اثر طبعاً کمزور طبیعت کے درویشوں پر پڑتا ہے اور ان میں بھی پریشانی اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو نے لگتی ہے۔ بے شک بعض درویشوں کے عزیزوں کو کافی مشکلات ہیں لیکن آخر خدائی جماعتیں بھی مشکلات میں سے گزرنے کے بعد ہی پروان چڑھا کرتی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ درویشوں کے رشتہ دار اور مقامی جماعتوں کے امراء اور صدر صاحبان اس خط کو جو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے اہم ارشاد پر مبنی ہے، غور سے پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ا للہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور حافظ و امیںرہے۔ آمین۔ خط ذیل میں درج ہے۔ خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور۔
بخدمت جناب بزرگان احباب و عزیزان قادیان
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ صاحبان کو ایک واقعہ کی اطلاع دیناضروری خیال کرتا ہوں جس کا میری طبیعت پر بہت بھاری اثر ہے۔ میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس قسم کے واقعات سے ہم سب کو بچائے اور جس طرح اس نے ہمیں اولاًاحمدیت کی نعمت عطا کی ہے اسی طرح آخر تک ہم پر اپنے فضل و رحمت کا سایہ رکھے اور ہمارا خاتمہ بخیر ہو۔ واستغفر اللّٰہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔
آپ سب میاں عبدالکریم سکنہ ترگڑی کو جانتے ہیں جو اپنے آپ کو خدمتِ سلسلہ کے لئے پیش کر کے بخوشی قادیان گیا لیکن قادیان جانے کے کچھ عرصہ بعد اس کے دل میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جدائی کا خیال اور اس کے ساتھ ہی اپنے بعض دنیوی کاموں کی کشش کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور اس نے پاکستان واپس آنے کی خواہش ظاہر کی اور جب اسے اُس وقت کے حالات کے ماتحت اس کی اجازت نہ ملی تو اسے شیطان نے ورغلایا کہ بلا اجازت قادیان سے بھاگ جائے۔ چنانچہ وہ موقع پا کر وہاں سے چوری بھاگ نکلا اور پاکستان پہنچ گیا۔ اس طرح اسے ایک وقتی خوشی جو ہمیشہ شیطانی تحریکوں کو قبول کرنے سے ہوا کرتی ہے، حاصل ہوئی لیکن اس کے بعد اسے خدائی تقدیر نے پکڑا اور وہ طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو کر خدائی گرفت کا ایک عبرتناک نمونہ بن گیا اور خود اس کا اپنا بیان ہے کہ اس کا تمام کاروبار تباہ ہو گیا اور وہ دنیا جس کے لئے اس نے بھاگنے کا رستہ اختیار کیا تھا خاک میںمل گئی اور اس پر اور اس کے رشتہ داروں پر جن کی کشش اور تحریک نے اسے اس حرکت پر آمادہ کیا تھا اس طرح اوپر تلے بیماریاں اور مصیبتیں آئیں کہ اس کے لئے زندگی بالکل اجیرن ہو گئی اور خود اس کے ضمیر نے بھی اس کے دل کو اس طرح ڈسنا شروع کیا کہ وہ جیتے جی زندہ درگور ہو گیا۔ میں آپ لوگوں کے سامنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ جب وہ چندماہ ہوئے ان مصائب کے چکر میں پڑنے کے بعد ایک دن میرے پاس لاہور آیا تو میں نے اسے پہچانا تک نہیں اور میں نے بس خیال کیا کہ گویا اس وقت میرے پاس ایک انسان نہیں بکہ کسی قبر سے نکلے ہوئے شخص کا بھوت کھڑا ہو۔ اس کے چہرے سے وحشت ٹپکتی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی اور اس طرح خشک اور بے نور تھیں کہ جیسے قدرت نے اسے آنسو بہانے تک کی تسلی سے محروم کر دیا ہو۔ جب اس نے رکتے رکتے مجھے اپنا نام اور پتہ بتایا تو میرے جذبہ رحم کے باوجود میرے دل سے یہ آواز اٹھی کہ اس شخص نے جماعت کے ایک نازکی ترین زمانے میں سلسلہ سے غداری کی جس پر خدا کی خاموش لاٹھی نے اُسے مردوں سے بدتر بنا رکھا ہے اور جس زندگی کی طرف وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر لپکا تھا، وہ زندگی اس سے دور بھاگ رہی ہے۔
یہ ایک نظارہ تھا جو میری آنکھوں کے سامنے آیا اور گزر گیا۔ گو اب تک میری آنکھیں اس کے تصور سے گھبراتی ہیں مگر میں نے اس کی حالت سے متاثر ہو کر اسے کہا کہ تم نے بھاری غلطی کی بڑی بھاری غلطی۔ اور ایسے نازک زمانہ میں سلسلہ کی غداری کا داغ لیا کہ جس سے زیادہ نازک زمانہ خیال میںنہیں آ سکتا۔ مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ تمہارا امتحان بھی سخت ہوا ہے بہت سخت۔ اب اگر تم سچی توبہ کرنا چاہتے ہو تو مجھے ایک درخواست لکھ کر دو جس پر تمہاری مقامی جماعت کی تصدیق ہو اور اس درخواست میں تم اس بات کا وعدہ کرو کہ تم ہر فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار ہو گے۔ پھر یہ درخواست قادیان جائے گی اور وہاں کی رپورٹ کے بعد حضرت صاحب کے سامنے پیش ہو گی اور پھر حضرت صاحب تمہارے گناہ کے کفارے کے لئے جو بھی سزا تجویز فرمائیں گے تمہیں اس کے لئے بخوشی تیار رہنا چاہئے۔ اس نے کہا ہاں ہاں میں وعدہ کرتا ہوں مگر خدا کے لئے مجھے قادیان بھجوا دیں۔ میں پھر وہاں سے نکلنے کا کبھی نام نہیں لوں گا۔ میں نے کہا یوں نہیں، جس نعمت کو تم نے خود اپنے ہاتھ سے ٹھکرایا اب وہ یونہی آسانی سے نہیں مل سکتی۔ اب تمہیں بہر حال خلیفہ وقت کے آخری فیصلہ کا انتظار کرنا ہو گا۔
اس پر اس نے واپس جا کر جماعت کی تصدیق کے ساتھ درخواست بھجوائی جس پر جماعت نے اس کے غیر معمولی مصائب اور اس کی توبہ کی تصدیق کی اور اس کی سفارش بھی لکھی جس کے بعد یہ درخواست قادیان بھجوائی گئی اور قادیان سے واپس آنے پر وہ حضرت صاحب کے سامنے پیش ہوئی۔ اس پر حضرت صاحب نے جو ارشاد لکھ کر ارسال فرمایا ہے وہ مجھے آج ہی ربوہ سے ہوتا ہوا یہاں ملا ہے اور میں اسے آپ اصحاب کی اطلاع اور عبرت کے لئے ذیل میں درج کرتا ہوں۔ حضور نے لکھا ہے کہ :-
’’ افسوس کہ قادیان سے بھاگنے والے کسی صورت میں معاف نہیں کئے جا سکتے جب تک کہ ویسی ہی سخت آگ میں نہ ڈالے جائیں۔ مگر یہ غلط ہے کہ یہ ( یعنی عبدالکریم) اس سزا کو قبول کرے گا۔ اگر قبول کرتا ہے تو اسے کہا جائے کہ پانچ سال تک کے لئے پنجاب سے چلا جائے اور اپنے کسی رشتے دار اور دوست سے (جن کی وجہ سے اس نے سلسہ سے غداری کی ) کوئی تعلق یا خط و کتابت نہ رکھے۔‘‘
میرے بزرگو دوستو اور عزیزو! یہ وہ فیصلہ ہے جو عبد الکریم کے اتنے بھاری مصائب کے باوجود خلیفہ وقت نے ہاں اسی خلیفہ وقت نے جسے آپ مصلح موعود یقین کرتے ہیں عبد الکریم کے متعلق صادر فرمایا ہے۔ گویا اس کے عذاب کی چکی ابھی تک گردش میں ہے۔ فاعتبرو ایا اولی الابصار
میرے دینی بھائیو! اس سزا کو سخت نہ خیال کرو کیونکہ ہر سزا کا اندازہ جرم کے مطابق لگایا جاتا ہے اور جماعت کے اس نازک ترین دور میں قادیان سے بلا اجازت بھاگنے اور سلسلہ کے ساتھ گویا اس کی زندگی اور موت کے زمانہ میں غداری کرنے کا جرم ایسا نہیں کہ خدا اسے آسانی سے معاف کر دے۔ ایسا شخص اپنی جس خیالی بھٹی کی آگ سے بھاگتا ہے، اسے اس بھٹی سے بدرجہا سخت تر حقیقی بھٹی میں سے گزرنا ہو گا اور تب جا کر اس کے گناہ کی تلافی کی امید ہو سکتی ہے۔ آخر ہمارا رحیم و کریم خدا وہی تو ہے جو جب اپنے بندوں کے کسی سخت جرم پر کسی سخت سزا کو ضروری قرار دیتا ہے تو پھر نہ تو وہ اس کے دکھ کا کوئی خیال کرتا ہے اور نہ اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی مصیبت کا کوئی لحاظ رکھتا ہے۔ چنانچہ ہمارا خدا تمہارا خدا اس دنیا کا خدا رحمت و بخشش کا مجسمہ کس جلال کے ساتھ فرماتا ہے کہ :-
۶۱
’’ یعنی خدا نے اپنے نظام کا مقابلہ کرنے والوںکو ہلاک کرکے زمین کیساتھ پیوست کر دیا اور اس وقت خدا کو اس بات کی وجہ سے کوئی تامل نہ ہوا کہ ان لوگوں کے عذاب کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور ان کے پیچھے رہنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔‘‘
ہماری جماعت پر بھی یہ ایک نازک ترین دور ہے۔ پس خدا کے لئے اس دور کی نزاکت کو سمجھو اور خدا کی تقدیر کا مقابلہ کرنے والوں میں سے نہ بنو ورنہ اگر تمہاراخدا ایک طرف رحیم و کریم ہے تو دوسری طرف وہ قہار اور شدید العقاب بھی ہے۔ اگر وہ ایک طرف دنیا کے سب عزیزوں سے بڑھ کر محبت کرنے والا ہے تو دوسری طرف جب اس کے عذاب کی چکی گھومتی ہے تو وہ باغیوں کو ریزہ ریزہ کئے بغیر نہیں چھوڑتی۔ اس وقت فرشتے بھی لرزہ بر اندام ہوتے ہیں اور نبیوں کی زبان پر بھی نفسی نفسی کے سوا کوئی اور لفظ نہیں آ سکتا۔
سو میرے عزیزو! آپ بھی اس وقت ایک غیر معمولی زمانہ میں غیر معمولی خدمت کے لئے کھڑے ہو ئے ہیں۔ اگر آپ اس خدمت میں سرخرو ہوئے تو صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے عزیز اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی خدا کی غیر معمولی نعمت سے حصہ پائیں گی اور خدا کے ابدی دربار میں آپ کے نام بڑی عزت کے ساتھ لکھے جائیں گے لیکن اگر آپ نے تھک کر یا کسی فتنہ کی رو میں بہہ کر خدا کے نظام سے غداری کی تو یاد رکھو کہ آپ کاشب و روز کی محنت سے کاتا ہوا سب سوت کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور آپ اسی طرح خدائی گرفت کا نشانہ بنیں گے جس طرح کہ پہلے لوگ بنے یا جس طرح کہ اب عبد الکریم بناجو کسی زمانہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک درویش تھا ۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ ہاں خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر مخلص اپنی مشکلات کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے اس طرح خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں کہ مجھے حقیقتہً ان کی حالت پر رشک آتا ہے مگر بعض نوجوان اپنی مشکلات کی وجہ سے پریشان بھی ہیں لیکن کیا کبھی کوئی خدائی قوم مشکلات اور قربانیوں کی آگ میں سے گزرنے کے بغیر کامیاب ہوئی ہے؟ کیا آپ لوگوں کے سامنے صحابہ کرام ؓکی قربانیاں موجود نہیں جنہوں نے مکہ میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی طرف سے منہ موڑ کر مدینہ میں اسلام کی خاطر اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا اور شہادت کے جام کو اس طرح پیا کہ جس طرح ایک پیاسا انسان ٹھنڈے شربت کو پیتا ہے۔ پس میری نصیحت یہ ہے کہ اوّل تو آپ لوگ صبر سے کام لیں کیونکہ آخر یہ دن جلد یا بدیر بیت جائیں گے۔ مسیحیت نے رہبانیت کی تعلیم دی اور لاکھوں عیسائی تارک الدنیا ہو گئے۔ کیا آپ لوگ دین حق کی خاطر چند سال کا جزوی تبتّل بھی اختیار نہیں کرسکتے ؟ لیکن اگر کسی کی مشکلات اس کے خیال میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہوں اور وہ اس کی وجہ سے اپنی پریشانی پر غلبہ نہ پاسکے تو وہ درخواست دے کر باقاعدہ اجازت طلب کرے لیکن دیکھنا دیکھنا حاشاو کلّاغداری کے رستہ پر کبھی قدم نہ رکھنا کہ اس تاریک وادی میں قدم رکھ کر پھر نجات کی کوئی راہ نہیں۔ کاش آپ لوگوںکو یہ معلوم ہو کہ میں نے یہ نصیحت کس درد کے ساتھ لکھی ہے اور کاش آپ میری اس نصیحت کی قدر کو پہچانیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ ہاں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)






عید الاضحی کی قربانیاں
کیا غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی ضروری ہے؟
کیا قربانی کی جگہ غرباء میں نقد روپیہ تقسیم کرنا جائز نہیں؟
ایک معزز دوست جو جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہیں، خط کے ذریعہ دریافت فرماتے ہیں کہ آج کل اخباروں میں جو عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کا مسئلہ زیر بحث ہے، اس میں صحیح اسلامی تعلیم کیا ہے اور قرآن شریف اور حدیث اور سنت سے کون سا مسلک درست ثابت ہوتا ہے یعنی : -
(۱)کیا عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے مستطیع غیر حاجیوں کے واسطے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے؟
(۲) کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ قربانی میں لاتعداد جانوروں کو ذبح کر دینے کی بجائے غرباء کی نقد امداد کر دی جائے؟
یہ وہ دو سوال ہیں جن کی طرف ہمارے دوست نے توجہ دلائی ہے اور جن پر آج کل جبکہ عیدالاضحی کی آمد آمد ہے، پاکستان کے اخباروں میں خوب بحث ہو رہی ہے۔ ایک طبقہ جو زیادہ تر نو تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اوّل تو غیر حاجیوں پر عید الاضحی کی قربانی واجب ہی نہیں بلکہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور اگر بالفرض غیر حاجیوں پر قربانی واجب بھی ہو تو پھر بھی آج کل کے مخصوص حالات میں جبکہ ایک طرف پاکستان میں جانوروںکی کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف انسانی ضروریات میں زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ دو تین دنوں میں بے شمار جانور ذبح کر کے بانٹ دینے کی بجائے بہتر صورت یہ ہے کہ ذی استطاعت لوگ غریبوں میں روپیہ تقسیم کر دیں تاکہ وہ یہ روپیہ اپنی اپنی مخصوص ضرورت کے مطابق استعمال کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ دوسری طرف دوسرا طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ جو سنت آج سے چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے قائم کی اور پھر اسے اسلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے نئے سرے سے زندہ کر کے اسلامی تعلیم کا ایک ضروری حصہ بنایا اور اس پر زندگی بھر عمل کیا اور کرایا وہ بہر حال قائم رہنی چاہئے اور جانوروں کی کمی یا مزعومہ کمی دوسرے ذرائع سے پوری کی جائے وغیرہ وغیرہ۔
اس مسئلہ کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم بتانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر الفاظ میں یہ بتا دیا جائے کہ عید الاضحی کس چیز کا نام ہے اور وہ اسلام میں کس طرح شروع ہوئی اور اس کی غرض و غایت اور حکمت کیاہے وغیرہ وغیرہ تاکہ اس سوال کا پس منظر واضح ہو جائے کیونکہ پس منظر کے بغیر کسی چیز کا صحیح تصور قائم نہیں کیا جا سکتا۔ سو جاننا چاہئے کہ :-
(۱) عید کے معنے ایسی اجتماعی خوشی کے دن کے ہیں جو بار بار آئے اور اسلام میں تین عیدیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایک جمعہ کی عید ہے جو سات دن کی نمازوں کے بعد آتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ساری عیدوں میں سب سے زیادہ اہم اور برکت والی عید ہے۔ گو تھوڑے تھوڑے وقفہ پر آنے کی وجہ سے لوگ عموماً اس کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ دوسرے عید الفطر ہے جو ہر سال رمضان کی تیس روزہ عبادت کے بعد آتی ہے اور اس کا نام عید الفطر اس واسطے رکھا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد گویا اس عید کے ذریعہ مومنوں کی افطاری ہوتی ہے اور تیسرے عیدالاضحی ہے جو ذوالحجہ مہینہ کی دسویں تاریخ کو حج کی عبادت کے اختتام پر ( جو نو تاریخ کو ہوتا ہے ) آتی ہے اور پاکستان میں یہ عید عرف عام میں بقر عید کہلاتی ہے اور بعض لوگ اسے بڑی عید بھی کہتے ہے۔
(۲) عید الاضحی کا نام عید الاضحی اس واسطے رکھا گیا ہے حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اسے اسی وجہ سے اس نام سے یاد فرمایا ہے کہ یہ قربانیوں کی عید ہے کیونکہ اضحٰی کا لفظ عربی زبان میں اضحاۃ یا اضیحہ کی جمع ہے جس کے معنے قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرا نام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے جس کے معنے قربانی والے دن کے ہیں اور یہ دونوں نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال فرمائے ہیںاور حدیث میں کثرت کے ساتھ آتے ہیں۔ اور حدیث کی کوئی کتاب بھی ان ناموں کے ذکر سے خالی نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ ان ناموں کے سوا اس دن کے لئے حدیث میں کوئی اور نام استعمال ہوا ہی نہیں۔ اس تعلق میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حج والی قربانیوں کے لئے قرآن شریف اور حدیث میں ھدی کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ اضحٰی کا لفظ جو عیدالاضحی کی قربانیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
(۳) جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے عید الاضحٰی ہجرت کے بعد دوسرے سال میں شروع ہوئی ( زر قانی و تاریخ الخمیس ) اور اس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں گویا نو دس ’’ بڑی عیدیں‘‘ آئیں۔ اس کے مقابل پر حج آپ نے صرف ایک دفعہ کیا ہے اور یہ وہی حج ہے جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے۔ یہ حج آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال میں ادا فرمایا۔ (طبری و فتح الباری شرح بخاری) اور اس کے صرف اڑھائی ماہ بعد آپ وفات پا گئے۔
(۴) قرآن شریف نے صراحت فرمائی ہے کہ حج کی عبادت کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ( سورۃ حج رکوع نمبر ۴) جنہوں نے خدائی حکم سے اپنے پلوٹھے فرزند حضرت اسمٰعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا۔ جہاں زندگی کے بقا کا کوئی سامان نہیں تھا اور حقیقۃً یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب کی تعبیرتھی جس میں آپ نے دیکھا کہ میں اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہوں۔ اس موقعہ پر خدا نے بچے کی قربانی کی جگہ ظاہر میں جانور کی قربا نی مقرر فرمائی مگر حقیقت کی رو سے انسان کی قربانی بھی بر قرار رہی۔ یہ گویا پہلا انسانی وقف تھا جو خدا کی راہ میں پیش کیا گیا تاکہ خدا تعالیٰ حضرت اسمٰعیل کو اس ’’ موت‘‘ کے بعد ایک نئی زندگی دے کر اس درخت کی تخم ریزی کرے جس سے بالآخر عالمگیر شریعت کے حامل سید ولد آدم فخر انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود با جود پیدا ہونے والا تھا۔ حج میں قربانی کی رسم اسی اسمٰعیلی قربانی کی ایک ظاہری علامت ہے تاکہ اس کے ذریعہ اس بے نظیر قربانی کی یاد زندہ رکھی جا سکے۔ جس کے شجرہ طیبہ نے مکہ کی بظاہر بے ثمر وادی میں وہ عدیم المثال ثمر پیدا کیا جس کے دم سے دنیا میں روحانیت زندہ ہوئی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
انا ابن الذبحین ۶۲
’’ یعنی میں دو ذبح ہونے والی ہستیوں کا فرزند ہوں ‘‘ ایک اسمٰعیل کا جسم جو گویا مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کر کے عملاً ذبح کردیا گیا اور دوسرے اسمٰعیل کی روح جو خدا کے حضور وقف علی الدین کے ذریعہ قربان ہوئی۔
عید الاضحی کی قربانیاں اسی مقدس قربانی کی یادگار ہیں مگر اس زمانہ کے روحانی تنزل اور مادی عروج پر انسان کیا آنسو بہائے کہ اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو زندہ رکھنا تو درکنار آج اکثر مسلمان عید الاضحی کا نام تک فراموش کر چکے ہیں ۔ چنانچہ جسے دیکھو عید الاضحی ( قربانیوں کی عید ) کی بجائے جو اس عید کا اصل نام ہے عیدالضحٰی ( صبح کے وقت کی عید) کہتاہوا سنائی دیتا ہے اور اس افسوسناک غلطی سے اچھے پڑھے لکھے لوگ حتیٰ کہ اخباروں کے نامہ نگار اور کئی ایڈیٹر صاحبان بھی مستثنیٰ نہیں۔ بھلا جو لوگ اپنی قربانیوں والی عید کے نام سے ’’ قربانی ‘‘ کا لفظ تک حذف کر کے اسے وقفِ طاق نسیاں کرچکے ہوں وہ اس کی قربانی کی عبادت کو کس طرح یاد رکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ یہ نام خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے ۔
(۵) یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے ( گو شائد اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ) کہ عید اضحی کی نماز صرف غیر حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور حاجیوں کے لئے مقرر نہیں اور نہ یہ نماز حج میں ادا کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حج خود اپنے اندر ایک بھاری عید ہے کیونکہ اس میں عید کے چاروں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ یعنی (الف) عبادت (ب) مومنوں کا اجتماع (ج) خوشی اور (د) عود یعنی اس دن کا بار بار لوٹ کر آنا۔ اس لئے شریعت نے عید اضحی کی نماز صرف غیر حاجی مقیم لوگوں کے واسطے رکھی ہے تاکہ جہاں ایک طرف حج کے ایام میں حاجی لوگ حج کی عید منا رہے ہوں وہاں غیرحاجی جنہیں کسی مجبوری کی وجہ سے حج کی توفیق نہیں مل سکی وہ اکناف عالم میں اپنی اپنی جگہ پر عید کر کے اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ رکھیں جس کا حضرت اسمٰعیل ؑ کے وجود میں آغاز ہوااور پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود باجود میں وہ اپنے معراج کو پہنچی۔ پس حدیث میں جہاں کہیں بھی عید اضحی کی نماز کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ ؐ کے صحابہ ؓ کی قربانی کا ذکر آتا ہے وہ لازماً غیر حاجیوں کی قربانی سمجھی جائے گی۔ عید اضحی کی قربانی کے عقبی منظر میں اوپر کی پانچ باتیں اتنی نمایاں اور واضح ہیں اور ان کی تائید میں ایسے روشن اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ کوئی شخص جو اسلامی تعلیم سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہو وہ خواہ کسی فرقہ کا ہو ان کے انکار کی جرأ ت نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے ان باتوں کی تائید میں حوالے اور شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی لیکن اگر کوئی شخص انکار کرے تو ان پانچ باتوں میں سے ہر بات کے متعلق یقینی اور ناقابل تردید ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں۔
اس کے بعد میں اصل سوال کو لیتا ہوں ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عید اضحی کے موقعہ پر غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی واجب ہے؟ اور اگر واجب ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئیے کہ اگر واجب یا ضروری کا سوال ہو۔ تو غیر حاجی تو درکنار حاجیوں پر بھی قربانی ہر صورت میں واجب نہیںہے بلکہ اس کے لئے شریعت نے بعض خاص شرطیں لگائی ہیں۔ مثلاًخالی حج کرنے والے پر ( جواصطلاحاً افراد کہلاتا ہے)قربانی واجب نہیں بلکہ صرف اس صورت میں واجب ہے کہ وہ حج اور عمرہ کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے والا ہو۔ جسے اسلامی اصطلاح میں تمتع یا قِران کہتے ہیں یا وہ ایسے حاجی پر واجب ہے جو حج کی نیت سے نکلے مگر پھر حج کی تکمیل سے پہلے کسی مجبوری کی بناء پر حج ادا کرنے سے محروم ہو جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے قربانی کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ قربانی کی بجائے روزہ کا کفارہ پیش کر سکتا ہے۔ پس جب ہر حالت میں حاجیوں کے لئے بھی قربانی فرض نہیںَ تو یہ کس طرح دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ غیر حاجیوں کے لئے وہ فرض یا واجب ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شک قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے غیر مستطیع لوگوں کے لئے قربانی واجب نہ سہی مگر کیا وہ ایسی طاقت رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے واجب ہے جو غیر حاجی ہوں؟ اس کے جواب میں اچھی طرح یاد رکھنا چاہئیے کہ گو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرض،واجب سنت وغیرہ کی فقہی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں مگر صحیح احادیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ عید اضحی کے موقعہ پر ہر قربانی کی اور اپنے صحابہ ؓکو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ
عن ابی عمرؓ قال قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی ۶۳
’’یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے اور آپ ؐ نے ہمیشہ عید اضحی کے موقعہ پر قربانی کی۔‘‘
بلکہ آپؐ کو عید اضحی کی قربانی کا اس قدر خیال تھا کہ آپ ؐ نے وفات سے قبل اپنے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے عید اضحی کے موقعہ پر قربانی کرتے رہنا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :-
عن حنش قال رایت علیا رضی اللّٰہ عنہ یضحی بکبشین فقلت لہ ماھذا قال ان رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اوصانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ ۶۴
’’ یعنی حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا کہ وہ عید اضحی کے موقعہ پر دو دنبے قربان کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دنبوں کی قربانی کیسی ہے؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ ؐ کی طرف سے ( آپ ؐ کی وفات کے بعد ) قربانی کرتا رہوں۔ سو میں آپ ؐ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں ‘‘ اور عید اضحی کے دن قربانی کرنا آپ ؐ کا ذاتی فعل ہی نہیں تھا بلکہ آپ ؐ اپنے صحابہ ؓ کو بھی اس کی تحریک فرماتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :-
عن البرائؓ قال خطبنا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم النحر فقال ان اول مانبداء بہ فی یومنا ھذا ان نصلی ثم نر جع فنحر فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا ۶۵
’’ یعنی حضرت براء ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عیداضحی کے دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دن پہلا کام یہ کرنا چاہئیے کہ انسان عید کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے۔ سو جس نے ایسا کیا۔ اس نے ہماری سنت کو پالیا۔‘‘
اوپر کی حدیث میں ایک طرح سے سنت کا لفظ بھی آگیا ہے اور چونکہ یہ اصطلاحی طور پر استعمال نہیں ہوا۔ اسی لئے اس سے وجوب کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے اور ایک دوسرے موقعہ پر آپؐ نے فرمایاکہ :
من وجد سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا۔ ۶۶
’’ یعنی جس شخص کو مالی لحاظ سے توفیق ہو اور پھر بھی وہ عید اضحی کے موقعہ پر قربانی نہ کرے۔ اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عید گاہ میں آ کر نماز میں شامل ہو۔؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد جس تاکید کا حامل ہے۔ وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں اور جیسا کہ آنحضرت صلعم کے ہر دوسرے ارشاد کو مقبولیت کی برکت حاصل ہوئی۔ اسی طرح اس ارشاد کو بھی صحابہ کرام ؓ نے اپنا حزر جان بنایا۔ چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ : -
عن جبلۃ ابن سیحم ان رجلاً سال ابن عمر عن الاضحیۃ اواجبۃ ھی فقال ضحٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والمسلمون فاعادھا علیہ فقال اتعقل ضحّٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والمسلمون۔ ۶۷
’’یعنی جبلہ ابن سیحم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ کیا عید اضحٰی کی قربانی واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلعم خود بھی قربانی کرتے تھے اور آپ ؐ کی اتباع میں صحابہ ؓ بھی کرتے تھے۔ اس شخص نے اپنے سوال کو پھر دہرایا اورکہا کیا قربانی واجب ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا۔ کیا تم میری بات سمجھ نہیں سکتے۔ میںکہتا ہوں کہ رسول اللہ صلعم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ ؐ کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی۔‘‘
آنحضرت صلعم کا یہ کام صرف شوق کی خاطر یا دوستوں اور غریبوں کو گوشت کھلانے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ آپ اسے ایک دینی کام سمجھتے اور بھاری ثواب کا موجب خیال فرماتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
’’ عن زید بن ارقم ؓ قال اصحاب رسول اللّٰہ صلعم یا رسول اللّٰہ ما ھذا الا ضاحی قال سنۃ ابیکم ابراھیم۔ قالو فی لنا فیھا یا رسول اللّٰہ قال بکل شعرۃ حسنۃ۔ ۶۸
’’ یعنی زید بن ارقم ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے آپ ؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ عید الاضحی کی قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا ۔ تمہارے جد امجد ابراہیم ؑ کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ کی بات ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا۔ قربانی کے جانور کے جسم کا ہر بال قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے۔ جو اسے خدا سے اجر پانے کا مستحق بنائے گی۔‘‘
اور ایک اور موقعہ پر آپ ؐ نے نہ صرف اپنی طرف سے قربانی کی بلکہ تحریک اور تاکید کی غرض سے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی دی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :-
’’ عن عائشہ ؓ ان رسول اللّٰہ صلعم امر بکبش ثم نجعلہ ثم قال بسم اللّٰہ اللّٰھُمَّ تقبل من محمد وال محمد و من امۃ محمد ۔ ۶۹
’’یعنی حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دنبہ منگوایا۔ پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ دنبہ خدا کے نام کے ساتھ ذبح کرتا ہوں اور پھر دعا فرمائی کہ اے میرے خدا اس قربانی کو تو محمد ( صلعم ) کی طرف سے اور محمد(صلعم) کی آل کی طرف سے اور محمد ( صلعم ) کی ساری امت کی طرف سے قبول فرما۔‘‘
کیا ان واضح اور قطعی روایتوں کے ہوتے ہوئے جو صرف نمونہ کے طور پر لی گئی ہیں کوئی سچا اور واقف کار مسلمان اس بات کے کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے ہے اور غیرحاجیوں کے لئے عید اضحٰی کے موقعہ پر کوئی قربانی مقرر نہیں۔ بے شک یہ درست ہے۔ قربانی صرف طاقت رکھنے والے لوگوں پر واجب ہے اور بعض احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی کر دے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جا سکتی ہے۔ مگر بہر حال عید اضحٰی کے موقعہ پر حسب توفیق قربانی کرنا ہمارے رسول (فداہ نفسی) کی ایک مبارک سنت ہے ۔ جس کے متعلق ہمارے آقا نے تاکید فرمائی ا ور اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا ہے۔
اس موقعہ پر بعض لوگ یہ سوال اٹھایا کرتے ہیں کہ بیشک حدیثوں میں عید اضحی کی قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن چونکہ قرآن شریف میں اس کا کوئی ذکر نہیں اس لئے ایک زائد قسم کی بات سمجھی جائے گی۔ جسے زمانہ کے حالات کے ماتحت ترک کیا جا سکتاہے۔ مگر یہ نظر یہ بالکل باطلی اور اباحت اور زندیقی رجحانات سے مامور ہے۔ کیا قرآن شریف نے یہ نہیں فرمایا کہ :
۷۰
’’ یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے رسول خدا کی سنت میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ جسے تمہیں اپنی زندگیوں کے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرماتا ہے اور با ر بار کثرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ :-
۷۱
’’یعنی اے مسلمانو خدا کی اطاعت کرو اور اس کے ساتھ ساتھ رسول کی اطاعت بھی کرو۔
اب اگر خدا کی اطاعت( یعنی دوسرے الفاظ میں قرآنی وحی پر ہی ) سارے اسلامی احکام کا خاتمہ ہو گیا تھا تو پھر قرآن شریف کو ان الفاظ کے زیادہ کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ ( یعنی رسول کی بھی اطاعت کرو) حق یہی ہے کہ چونکہ قرآنی وحی میں اختصار کی غرض سے کئی جگہ اجمال کا رنگ ہے ا ور ہر شخص اجمالی احکام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے کمال حکمت سے رسول کی اطاعت کو بھی شریعت کا حصہ قرار دیا ہے تاکہ شریعت میں کوئی پہلو عدم تکمیل کا باقی نہ رہے اور نہ کوئی شخص جھوٹے عذر بنا کر شریعت کے حکموں کو ٹال سکے۔ پس اگر ایک بات قطعی شہادت کے ذریعہ اور حدیث سے ثابت ہو جائے تو وہ ہمیں بہر حال قبول کرنی ہو گی اور میں اس شخص کی جرأت کو یقینا بے دینی کا مظاہرہ خیال کرتا ہوں جو محمد صلعم جیسے رسول کی اُمت میں ہو کر پھر یہ کہتا ہے کہ میں محمد ؐکی بات نہیں مانتا۔ وہ اپنی بیوی اوراپنے بچوں اور اپنے دوستوں کی تو روزانہ سینکڑوں باتیں مانتا ہے مگر جب افضل الرسل محمد رسول اللہ صلعم کی بات بیان کی جائے تو کہتا ہے یہ نہیں بلکہ کوئی قرآنی آیت پیش کرو۔
۷۲
لیکن حق یہ ہے کہ قرآن شریف بھی اس مسئلہ میں خاموش نہیں بلکہ اس نے بھی اپنے طریق کے مطابق قربانیوں کے مسئلہ پر اصولی روشنی ڈالی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ :-
۷۳
’’ یعنی اے رسول ہم نے تجھے اسلام کے ذریعہ ایک وسیع اور کامل نعمت عطا کی ہے۔ اب تجھے اس نعمت کو قائم رکھنے کے لئے چاہئیے کہ خدا کی نماز ادا کر اور اس کے رستہ میں قربانی دے اس کے نتیجہ میں دین و دنیا کی نعمتیں تیری طرف سمٹی آئیں گی اور تیرا دشمن خیر و برکت سے محروم رہے گا۔ ‘‘
یہ آیت بلکہ یہ سورۃ ( کیونکہ یہی ساری سورۃ ہے) مکہ کے آخری زمانہ میں یا مدینہ کے شروع زمانہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ ابھی تک کعبہ کفار کے قبضہ میں تھا اور حج بھی ابھی فرض نہیںہوا تھا۔اس لئے اس جگہ نحر یعنی قربانی کے لفظ میں حج کی قربانی مراد نہیں سمجھی جائے گی۔ بلکہ عام قربانی مراد سمجھی جائے گی۔ جس کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ وسیع موقع عید الضحیٰ کے ایام ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ عید اضحٰی کا دوسرا نام یوم النحر بھی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری جگہ حج کے احکام کی ضمن میں قرآن شریف فرماتا ہے کہ :
۷۴
’’ یعنی اے مسلمانو اگر تم کسی مجبوری کے نتیجہ میں حج سے روک دئیے جائو تو تمہیں چاہئے کہ اس کے کفارہ کے طور پر خدا کے رستہ میں قربانی کرو۔‘‘
اب بے شک یہ آیت نظام قربانیوںکے متعلق ہے جو حج کے ارادہ سے نکلیںاور پھر رستہ میں کسی مجبوری ( مثلاً بیماری یا دشمن کے روکنے یا زادراہ کے ضائع جانے وغیرہ ) کی وجہ سے حج کی تکمیل سے روک دئیے جائیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا درجہ نکتہ رس طبیعت نے غالباً اس قرآنی آیت میں بھی یہ اشارہ سمجھا کہ ہر سچے مسلمان کے دل میں طبعاً حج کی خواہش ہوتی ہے اور اگر وہ کسی مجبوری کی وجہ سے حج کے لئے نہیں جا سکتا تو ایک طرح اس کا معاملہ بھی گویا اس آیت کے نیچے آجاتاہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حج سے روک دئیے جائو تو قربانی دو۔ پس اگر غور کیا جائے تو اس آیت سے بھی عید اضحیٰ کی قربانی کا استدلال ہوتا ہے اور اغلب یہ ہے کہ جس طرح مثلاً! نماز کے اجمالی حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازوں کے وقتوں کی تعین فرما کر ان کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے حج سے روکے جانے کی صورت میں قربانی دینے کے حکم سے بھی یہ استدلال فرمایا ہو گا کہ ہر وہ مسلمان جو کسی مجبوری کی وجہ سے حج کو نہیں جاسکتا۔ وہ گویا بالمعنی اُحصِرتُمکے مفہوم میں آجاتا ہے اور اگر وہ قربانی کی طاقت رکھتا ہے ( کیونکہ طاقت کا ہونا بہر حال لازمی شرط ہے ) تو اسے چاہئیے کہ قربانی دے کر نہ صرف حضرت اسمٰعیل کی قربانی کی یاد کو زندہ رکھے بلکہ حج کی محرومی کا کفارہ بھی دے۔ بہر حال ایک طرف قرآن شریف میں فصل لربک وانحر ( نماز کو قائم کر اور قربانی دے ) کا حکم نازل ہونا اور دوسری طرف یہ قرآنی ارشاد کہ ’’ جب تم حج سے روکے جائو تو قربانی دو‘‘ اس بات کی طرف قطعی اشارہ کر رہے ہیں کہ قربانی کے حکم کی اصل بنیاد قرآن مجید پر ہی قائم ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی دراصل اسی قرآنی حکم کی فرع ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ آیا عید اضحی کی قربانی فرض ہے یا کہ واجب یا سنت وغیرہ؟ سو گو غیر اصطلاحی طور پر سنت کا لفظ اوپر کی حدیثوں میں آ چکا ہے مگر بہرحال یہ فقہاء کی اصطلاحیں ہیں جن میں ہمیں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارے لئے صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ قربانی کے حکم کی بنیاد قرآن نے قائم فرمائی اور پھر اس بنیاد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اقوال و ارشادات نے مستحکم کیا اور آنحضرت صلعم نے اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا۔ لیکن اگر کسی صاحب نے ائمہ فقہ کا مذہب اور ان کی اصطلاح میں بھی اس مسئلہ کا مطالعہ کرنا ہو تو اس کے لئے ذیل کے دو مختصر سے حوالے کافی ہونے چاہئیں۔
مع المسلمون علی ۔۔۔ ۷۵
یعنی عید اضحٰی کی قربانیوں کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہے ۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ عام آئمہ فقہ کے نزدیک تو عید اضحی کی قربانی ایک سنت موکدہ ہے لیکن حنفی اماموں کا یہ فتویٰ ہے کہ وہ محض سنت نہیں بلکہ واجب ہے اور بہر صورت اس کی شرط یہ ہے کہ انسان مالی لحاظ سے اس کی طاقت رکھتا ہو۔‘‘
اور ترمذی کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ :-
اختلفواان الاضحیۃ واجبۃ او سنۃ فذھب ابوحنفیۃ و صاحباہ انھاو اجبۃ علیٰ کل حر مسلم مقیم موسروعند الشافعی سنۃ موکدۃ وھو المشھور فی مذھب احمد و فی مذھب مالک انہ سنۃ واجبۃ علیٰ من استطاعھا۔ ۷۶
’’ یعنی اس بات میں اختلاف ہوا ہے کہ عید اضحی کی قربانی واجب ہے یا کہ سنت ؟ امام ابو حنیفہ اور ان کے دو ساتھیوں ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کا مذہب یہ ہے کہ یہ آزاد مقیم صاحب استطاعت مسلمان پر قربانی واجب ہے۔ مگر امام شافعی کے نزدیک وہ واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے اور یہی مشہور مذہب امام احمد کا ہے اور امام مالک کے نزدیک عید کی قربانی ایک ایسی سنت ہے جو واجب کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔ بشرطیکہ مالی لحاظ سے قربانی کرنے والے کو اس کی طاقت ہو۔‘‘
ان دو حوالوں سے ظاہر ہے کہ حنفی اماموں کے نزدیک (اور مغربی پاکستان میں قریباً پچانوے فی صدی مسلمان حنفی اصحاب ہی ہیں) عیداضحی کی قربانی ہر طاقت رکھنے والے مسلمان پر واجب ہے اور قریباً یہی مذہب امام مالک کا ہے مگر دوسرے دو اماموں کے نزدیک وہ واجب تو نہیں مگر سنت موکد ضرور ہے یعنی وہ ایسی سنت ہے جس کے متعلق شارع علیہ السلام نے اپنے قول و فعل کے ذریعہ خاص تاکید فرمائی ہے۔ پس اس سے زیادہ مجھے اس مسئلہ میں فقہی لحاظ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وحسبک ما قال اللّٰہ و الرسول والاجدم انہ ھو القول المقبول۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۵۰ئ)








عیدالاضحٰی کی قربانیاں
کیا غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی ضروری ہے؟
کیا قربانی کی جگہ غرباء میں نقد روپیہ تقسیم کر دینا جائز نہیں؟
اس سوال کا جواب پہلی قسط میں گزر چکا ہے کہ کیا عید الاضحٰی کے موقعہ پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے طاقت رکھنے والے غیر حاجیوں کے لئے بھی ضروری قرار دے گیا ہے۔ اب میں اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتا ہوں یعنی یہ کہ اگر عید الاضحی کے موقعہ پر غیر حاجیوں کی قربانی کا ثبوت ملتا بھی ہو تو پھر بھی کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ جانور قربان کر کے ضائع کرنے کی بجائے غریبوں میں نقد روپیہ تقسیم کر دیا جائے جو کئی قسم کی ضرورتوں میں ان کے کام آ سکتا ہے؟ سو اس کے متعلق اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ نقد روپے کی صورت میں غریبوں کی امداد کرنا موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس کا طریق موجود اور معلوم تھا اور خود قرآن شریف میں بھی جا بجا اس قسم کی امداد کی تحریک پائی جاتی ہے تو جب یہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھا اور آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اسے کئی موقعوںپر استعمال بھی فرمایا تو ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جب شارع علیہ السلام بلکہ خود ذات باری تعالیٰ نے عید اضحی کے موقعہ پر نقد روپے یا غلّہ ( جو آسانی سے نقدی میں منتقل کیا جا سکتا ہے ) کی تقسیم کی بجائے قربانی کا نظام قائم کر کے قربانیوں کی تاکید فرمائی۔ حالانکہ ان کے سامنے نقد روپے اور غلّہ وغیرہ کی تقسیم کا طریق موجود تھا تو لامحالہ اس طریق کے اختیار کرنے میں کوئی خاص مصلحت سمجھی جائے گی ورنہ ایک زیادہ معروف اور زیادہ سہل طریق کو چھوڑ کر قربانی کا طریق کیوں اختیار کیا جاتا؟ پس یہ فرق اور یہ امتیاز ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کا نظام مقرر کرنے میں خدا اور اس کے رسول کے سامنے کوئی خاص غرض مدنظرتھی اور پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے سامنے صرف زمانہ کے حالات تھے اور اسے موجودہ زمانہ کے حالات پر اطلاع نہیں تھی کیونکہ خداعالم الغیب ہے اور یقینا کسی زمانہ کا کوئی امر اس سے پوشیدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ استدلال اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دوسری عید یعنی عید الفطر کے موقعہ پر فطرانہ کی صورت میں غلہ یا نقد روپے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا ہے تو جب آپ عید الفطر کے موقعہ پر غلّہ یا نقد ی کا نظام جاری فر ما سکتے تھے تو آپ کے لئے اس بات میں کیا روک تھی کہ عید الاضحی کے موقعہ پر بھی یہی نظام جار ی فرما دیتے؟پس دونوں عیدوں کے انفاق کے طریق میں ایک بیّن اورنمایاں فرق قائم کرنا اس بات کی قطعی اور یقینی دلیل ہے ۔ کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے یہ امتیاز بہر حال کسی خاص مصلحت کی بناء پر قائم کیا گیا ہے۔ وھو المراد فافھم وتدبرو لا تکن من الممترین
یہ تواس سوال کا ایک اصولی جواب تھا ۔حقیقی جواب یہ ہے کہ ہماری شریعت جو ایک دائمی اور عالمگیر شریعت ہے اور حکیم و علیم ہستی کی طرف سے آئی ہے۔ فطرت انسانی کے سارے پہلوئوں کی تربیت کو ملحوظ رکھتی ہے اور گو تربیت انسانی کے بیسیوں پہلو ہیں مگر فطرت انسانی اور شریعت کے بغور مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ تربیت کے مختلف پہلوئوں میں سے شریعت نے دو پہلوئوں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور یہ دو پہلو مال اور جان کی قربانی سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ دو پہلو حقیقۃ ً ایک جڑھ کے حکم میںہیں۔ جس سے آگے دوسری شاخیں پھوٹتی ہیں۔ روحانی اور اخلاقی تربیت کے ان دو پہلوئوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے :
۷۷
’’یعنی خدا تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں ( النفس کے لفظ میں اپنی جان اور اپنے متعلقین کی جانیں ہر دو شامل ہیں ) اور ان کے مال اس شرط کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ وہ انہیں اس کے بدلہ میں جنت عطا کرے گا۔ ‘‘
اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ :
۷۸
’’یعنی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ خدا کے راستہ میں کوشش کرتے رہتے ہیںان لوگوںپر بھاری درجہ عطا کیا ہے جو (صرف ذاتی نماز روزہ میں مصروف رہ کر ) بیٹھے رہتے ہیں۔
پس مال اور جان کی قربانی اور ان قربانیوں کے لئے مومنوں کی تربیت کا انتظام اسلامی تعلیمات کا ایک اہم ترین حصہ ہے اور حق یہ ہے کہ یہ وہ وسیع میدان ہیں جس میں اسلام کی تمام قربانیاں مختلف صورتوں میں چکر لگاتی ہیں اور اسلام کے بیشتر احکام انہی دو قسم کی قربا نیوں کی تربیت کے لئے نازل کئے گئے ہیں کیونکہ یہ دونوں قربانیاں فطرت انسانی کے لئے بنیادی چیزیں ہیں۔ اگر اسلام صرف مال کی قربانی پر زور دیتا یا اگر وہ صرف جان کی قربانی پر زور دیتا تو اس ادھورے پروگرام کے ماتحت تربیت پانے والے لوگ یقینا ایسے ہوتے کہ ان کا آدھا دھڑ تو تندرست اور تروتازہ ہوتا اور باقی آدھا دھڑ کمزور اور لاغر ہونے کی وجہ سے نیم مردہ نظر آتا اور یہ لوگ قومی امتحانوں کے زمانہ میں یقینا کچے دھاگوں سے بہتر ثابت نہ ہوتے۔ پس اسلام نے کمال حکمت سے ان دونوں قسم کی تربیت کو اہمیت دے کر ان کی طرف یکساں توجہ دی ہے۔ اس نے مسلمانوں سے مالی قربانی بھی کرائی ہے اور جانی قربانی کی تربیت کے لئے بھی مناسب احکام صادر کئے ہیں۔ اور اسی مضمون کی طرف اوپر کی آیتوں میں اشارہ کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ حقیقی جنت انسان کو صرف اس صورت میں مل سکتی ہے ( خواہ وہ دنیا کی جنت ہو یا دین کی جنت ) کہ جب وہ مالی اور جانی دونوں قسم کی قربانی پیش کرے اور قوموں کی ترقی کا بھی اس دہری قربانی کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ انہیں لازماً جانی اور مالی ہر دو قسم کی قربانیوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ تب جا کر ان کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ پس اسلام نے جو عید الاضحٰی کے موقعہ پر جانوروں کی قربانی مقرر فرمائی ہے۔ اس میں یہی گہری غرض مد نظر ہے کہ تا اس ذریعہ سے مسلمانوں کو جانی قربانی کی طرف توجہ دلائی جائے اور یہ غرض عید الاضحی کی قربانی سے ہمیں اس طرح حاصل ہوتی ہے۔
(اوّل) اس طرح کہ اس قربانی کے ذریعہ حضرت اسمٰعیل کی قربانی کی یاد زندہ ہوتی اور تازہ رہتی ہے۔ جنہوں نے اپنا جسم اور اپنی روح دونو خدا کی راہ میں قربان کر دئیے اور پھر اس قربانی کے نتیجہ میں خدا نے محمد رسول اللہ صلعم جیسا مبارک ثمر پیدا کیا۔
(دوم) اس طرح کہ مسلمانوں کو اس ذریعہ سے توجہ دلائی جائے کہ جس طرح یہ بھیڑیں اور یہ بکریاں اور یہ اونٹ اور یہ گائیں جو انسانوں کی ملکیت ہیں اور ان کی جانیں انسان کے فائدہ کی خاطر قربان ہوتی ہیں۔ اسی طرح انسان کو بھی جو اشرف المخلوقات ہے چاہئیے کہ وہ بھی ضرورت کے وقت اپنی قوم اور اپنے دین اور اپنے خالق و مالک خد اکی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار رہے اور وقت آنے پر کچا دھاگہ ثابت ہونے کی بجائے لبیک لبیک کہتا ہوا آگے آ جائے۔
(سوم) اس طرح کہ جانوروں کے ذبح ہونے کا نظارہ دکھا کر مسلمانوں کے دلوں میں سے خوف اور دہشت کے ان دقیق جذبات کا استیصال کیا جائے جو اکثر گوشت نہ کھانے والی قوموں کے اندر پیدا ہو کر ان کی کمزوری کا موجب بن جاتے ہیں اور اسی لئے اسلام نے اس بات کی تحریک کی ہے کہ حتی الوسع قربانی کرنے والا خود اپنے ہاتھ سے قربانی کرے اور کم از کم کسی خاص مجبوری کے سوا اپنے سامنے قربانی کرائے۔ چنانچہ کتاب الفقہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ :-
ان یذبح بیدہ ان کان یعرف الذبح والا شھرھا بنفسہ ویامرغیرھا ۷۹
’’ یعنی قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ اگر وہ ذبح کرنا جانتا ہے تو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ورنہ دوسرے سے ذبح کراتے ہوئے قربانی کے وقت خود موجود ہو۔‘‘
یہ وہ عظیم الشان سبق ہیں جو قربانیوں کے حکم میں مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل کے بعض نو تعلیم یافتہ لوگ جو اسرار شریعت سے بالکل ناواقف ہیں اور ہر چیز کو مادی عینک کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں قربانیوں کی حکمت اور ان کی غرض و غایت کو سمجھنے کے بغیر شور مچا رہے ہیں کہ ان قربانیوں کو مٹا کر ان کی جگہ نقد امداد کا نظام قائم کر دیا جائے۔ گویا ان کے خیال میں اسلام میں مال کی قربانی کا نظام تو قائم رہے مگر جان کی قربانی کا جذبہ ختم کر دیا جائے اور شریعت کے آدھے دھڑ کو مفلوج کرکے انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا شیرازہ اس طرح بکھیر دیا جائے کہ اسے پھر مجتمع ہونے کی طاقت نہ رہے۔ اس حالت پرا س کے سوا کیا عرض کیا جائے کہ :
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملّا
کار طفلاں تمام خواہد شد
ایک اور جواب اس سوال کا یہ بھی ہے کہ جب ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلامی شریعت ہمارے علیم و حکیم خد اکی نازل کردہ ہے جو ہر قسم کی انسانی ضرورتوں اور ان ضرورتوں کے پورا کرنے کے مناسب طریقوں کو سب سے بہتر جانتا ہے اور ہمار ایہ بھی ایمان ہے کہ اسلام کی شریعت دائمی اور غیر مبدل ہے تو اس صورت میں ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس کے حکموں میں اپنے خیال سے تبدیلیاں کرتے پھریں اور اس طرح شریعت کو نعوذ باللہ انسانوں کے تخیل کا کھلونہ بنا دیں ۔ بے شک جہاں خود شریعت حالات کی رعایت ملحوظ رکھتی ہووہاں یہ رعایت ضرور مد نظر کھی جائے گی۔ مثلاً شریعت نے نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا دیا ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا وضو کرنے سے بیمار ہو جانے کا ڈر ہو تو وضو کو ترک کر کے تیمم کر لو۔ اسی طرح مثلاً شریعت نے کھڑے ہو کر نمازپڑھنے کا حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ رعایت رکھ دی ہے کہ اگر بیمار ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو یا شریعت نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیںلیکن اس حکم کے ساتھ یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو تو رمضان کے روزے ترک کر کے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لو وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب صورتیں بالکل جائز اور ہمارے دین متین کا حصہ ہیں مگر کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتاکہ شریعت نے عید اضحی کی قربانی کے معاملہ میں بھی اس قسم کی کوئی رعائت دی ہو۔ پس جب شریعت نے یہ رعائت نہیں دی اور شریعت دائمی اور ابدی ہے تو کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنی طرف سے شریعت کے احکام میں دخل دے کر کوئی نیا رستہ تجویز کرے۔
مگر جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں ایک رعائت اسلام نے قربانیوں کے معاملہ میں بھی ضروردی ہے اور یہ رعائت ۸۰( خدا انسان پر صرف اسی قدر ذمہ داری ڈالتا ہے جو اس کی طاقت کے اندر ہو) کے سنہری اصول کے ماتحت دی گئی ہے اس رعائت کا مقصد یہ ہے کہ صرف وہی لوگ قربانی کریں جن کی مالی حالت اس کی اجازت دے۔ غیر مستطیع لوگوں پر جو قر بانی کی طاقت نہیں رکھتے یہ بوجھ کسی صورت میں نہیں ڈالا گیا اور قربانی کے گوشت کے بہتر سے بہتر استعمال کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ خود بھی کھائو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی دو، اپنے ہمسایوں کو بھی ہدیہ بھجوا دو اور اپنے محلہ کے غریب اور مفلس لوگوں میں بھی تقسیم کرو تاکہ جانی قربانی کے سبق کے علاوہ اس عید کی خوشی میں جس طرح تمہاری روحیں حصہ لیتی ہیں اسی طرح تمہارے جسم بھی حصہ لیں اور تمہارے عزیز اور اقارب اور غریب ہمسائے بھی۔ اور عبادت کے اجر میں جسم کا حصہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب عبادت اور خدمت دین کے کام میں جسم اور روح دونو پر بوجھ پڑتا ہے تو یہ خدائے رحیم و حکیم کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ عبادت کی ادائیگی میں تو جسم اور روح دونو پر بوجھ ڈالے مگر اس کے اجر میں جسم کو محروم کر دے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے جہاں عیدوں کے روحانی پہلو پر زور دیا ہے وہاں آپ ؐ نے یہ حکیمانہ الفاظ بھی فرمائے ہیں کہ :
ایام التشتریق ایام اکلٍ و شرب و ذکر اللّٰہ۔ ۸۱
’’ یعنی اے مسلمانو عید کے ایام میں اپنے جسموں کا بھی حق ادا کیا کرواور انہیں دوسرے ایام کی نسبت زیادہ بہتر اور زیادہ سیر کن کھانا دو کیونکہ ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ یہ دن تمہارے کھانے پینے کے بھی دن ہیں‘‘
اللہ اللہ ہمارا آقا کتنا شفیق و مہربان ہے کہ اس نے انسانی اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے اس کے ذاتی جسم کے حق کو بھی فراموش نہیں کیا اور کس دانشمندی کے ساتھ فرمایا ہے کہ جہاںتم عید کے دن نمازیںپڑھو دعائیں کرو اور ذکر الٰہی میں وقت گزارو وہاں اپنے جسموں کو بھی ان خاص ایام میں خاص کھانا دے کر زیادہ راحت پہنچائو کیونکہ وہ بھی تمہاری دینی خدمت میں تمہاری روحوں کے مددگار رہے ہیں اور ان کا حق کسی صورت میں نظر انداز نہیںہونا چاہئیے اور پھر صرف خود ہی نہ کھائو بلکہ اپنے غریب بھائیوں کو بھی دو تا یہ نہ ہو کہ تمہارے گھر میں تو گوشت کی دیگیں چڑھیں اور تمہارے غریب ہمسائے ایک لقمہ اور ایک بوٹی تک کو ترسیں۔
یہ مضمون میرے اندازہ سے زیادہ لمبا ہو گیا ہے مگر اسے ختم کرنے سے قبل ایک آخری سوال کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل عید الاضحی کی قربانی کے خلا ف آواز اٹھانے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں گوشت کھانے والوں کی کثرت اور گوشت کے جانوروں کی نسبتاً قلت ہو گئی ہے۔ اس لئے ملک کے اقتصادی نظام کے ماتحت جانوروں کو بے دریغ ذبح کرنے سے بچانا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ کل کو نہ صرف گوشت کا قحط بلکہ زمیندارہ استعمال کے جانوروں کی قلّت بھی ملک کی خوراک کے سوال کو نازک صورت نہ دے دے۔ یہ سوال بظاہر اہم اور قابل غور نظر آتا ہے کیونکہ اس میں شبہ نہیں کہ ایک تو ملکی تقسیم کے فسادات کے دوران میں بعض جانور ضائع گئے اور دوسرے مغربی پاکستان میں خالص مسلمان آبادی کے بڑھ جانے سے گوشت کا خرچ بھی لازماً پہلے کی نسبت زیادہ ہو گیا ہے۔ اس لئے ایک حد تک جانوروں کی قلت کا اندیشہ سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اندیشہ اتنا حقیقی نہیںکہ قطع نظر دینی مسئلہ کے اس کی وجہ سے قربانیوں کو روکنے کا خیال پیدا ہو کیونکہ اول تو اگر غور سے دیکھا جائے تو قربانی کرنے و الے لوگ غالباً ساری آبادی کے لحاظ سے ایک فی صدی سے بھی کم ہوتے ہیں۔ مثلا ً لاہورجو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور غالباً وہ ہے بھی خاصہ متموّل شہر اس کی آبادی پندرہ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اب اگر اس میں اس کے تمول کے لحاظ سے دو فی صدی قربانی ہو تو یہ تیس ہزار جانور بنتا ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ لاہور میں اتنے جانوروں کی قربانی ہوتی ہو۔ تو اگر لاہور کا یہ حال ہے تو یقینا ملکی اوسط ایک فی صدی سے بھی نیچے رہتی ہو گی کیونکہ دیہات میں عموماً بہت ہی کم قربانی ہوتی ہے اور چھوٹے شہروں میں بھی قربانی کی طاقت رکھنے والا طبقہ یقینا زیادہ نہیں ہوتا۔ اور بعض احادیث میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ قربانی کرنے والے افراد موجود ہوں تو باوجود مستطیع افرد کی تعداد زیادہ ہونے کے سارے گھر کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہو جاتی ہے (نسائی ) اور اکثر فقہاء نے سنۃ عین کے الفاظ میں ایک گھر کو بلکہ بعض نے تو ایک خاندان کو ایک ہی یونٹ قرار دیا ہے (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ)اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کو عام تجارتی رنگ میں ذبح کرنے کا سلسلہ رک جاتا ہے اور گوشت کی دوکانیں عملا ً بند ہو جاتی ہیں کیونکہ گوشت کھانے والا طبقہ یا تو خود قربانی کر کے اپنے لئے گوشت مہیا کر لیتا ہے اور یا اسے اس کے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسائیوں کی طرف سے گوشت کا ہدیہ پہنچ جاتا ہے ۔ پس اگر ایک طرف عید کے ایام میں قربانی زیادہ ہوتی ہے تو دوسری طرف عام جانورں کے ذبح کا سلسلہ کم بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ فرق زیادہ نہیں رہتا۔
پھر قربانی کے لئے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے انتخاب کے واسطے بھی کچھ شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اس اس عمر سے کم عمر کا نہ ہو اور یہ کہ دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کیا جائے۔ چنانچہ جب ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک دودھ دینے والی بکری ذبح کرنی چاہی تو آپ نے فرمایا ایاک والحلوب۸۲یعنی دیکھنا دودھ والا جانور ذبح نہ کرنا ‘ اسی طرح شریعت نے گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمیوں کی شرکت جائز رکھی ہے تاکہ جانوروں کا بلا وجہ ضیاع نہ ہو۔ پس جب شریعت نے خود کمال حکمت سے مناسب شرطیں اور ضروری حد بندیاں لگا رکھی ہیں اور ان حد بندیوں کی وجہ سے جانوروں کا بے دریغ اتلاف ممکن نہیں رہتا تو خواہ مخواہ شریعت کے ا یک حکیمانہ حکم میں جو فردی اور قومی تربیت کے لئے ضروری ہے روک پیدا کر کے بے دینی کا داغ مول لینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ پھر طبی سائنس کی رو سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نر جانور بہت سی مادہ جانوروں میں نسل کشی کا سلسلہ قائم رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ پس اگر دودھ والے مادہ جانور محفوظ رہیں اور نر جانوروں میں اتنی کمی نہ آئے جو نسل کی ترقی کو مخدوش کر دے تو حقیقتہً کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اور زمیندارہ کام میں استعمال ہونے والے جانوروں کو تو ویسے بھی کوئی شخص ذبح نہیں کرتا اور نہ زمیندار اس گھاٹے کے سودے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے یہ خطرہ ایک خیالی خطرہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ بایں ہمہ اگر حکومت ضروری خیال کرے تو اسے یہ انتظامی حق حاصل ہے کہ قربانیوں کے معاملہ میں دخل دینے کے بغیر بعض خاص قسم کے کار آمد جانوروں کے ذبح کرنے کو ملکی مفاد کے ماتحت روک دے۔
اسی طرح پاکستان کی حکومت دوسرے ملکوں کی بیدار مغز حکومتوں کی طرح جانوروں کی نسلی افزائش کے واسطے بھی کئی قسم کی مفید تدابیر ختیار کر سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ اور امریکہ کے عیسائی ممالک میں ایک طرف سرد آب و ہوا اور دوسری طرف افراد کے نسبتی تمول کی وجہ سے بہت زیادہ جانور ذبح کئے جاتے اور بہت زیادہ گوشت کھایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر فی کس گوشت کی نسبت نکالی جائے تو یہ خیال کرنا بعید از قیاس نہ ہو گا کہ یورپ و امریکہ کا آدمی پاکستان کے آدمی کی نسبت غالباً تین چار گنا زیادہ گوشت کھا تا ہے لیکن باوجود اس کے وہاں جانوروں کے قحط کا کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں ایک طرف جانوروں کو موٹا کرنے اور دوسری طرف ان کی نسل کو بڑھانے اور تیسری طرف ان کی بیماریوں کو کم کرنے کی خاص تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے لیکن اس کے مقابل پر یہاں اکثر لوگوںکو شریعت کے احکام میں دخل دینے کے سوا کوئی تدبیر نہیں سوجھتی اور بد انتظامی کے نقص کو دور کرنے کا علاج صرف یہی نظر آتا ہے کہ شرعی قربانی کو روک کر جانوروں کومحفوظ کر لیا جائے۔ !! یہ ایک بہت افسوس کا مقا م ہے جس کی طرف اربابِ حل و عقد کو فوری توجہ دینی چاہیئے ورنہ بے دینی بھی پیدا ہو گی اور غلط علاج کی وجہ سے اقتصادی نظام بھی تباہ ہو جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ کہ :
(۱) عید الاضحٰی کا نام خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے جو اسے اسلام کی دوسری عید یعنی عید الفطر سے ممتاز کرتا ہے اور اس کا یہ نام ہی ( جو بد قسمتی سے آج کل غلطی سے عید الضحٰی مشہور ہو گیا ہے ) اس عید کی غرض و غایت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ عید الاضحی کے معنی قربانیوں کی عید کے ہیں اور یہ عید حضرت اسماعیل ؑ کے جسم اور روح کی قربانی کی یاد میں مقرر کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل و مکمل وجود پیداہوا۔
(۲) قرآن شریف نے کا حکم نازل کر کے اور اس کے ساتھ ۸۳ کا ارشاد شامل کر کے اسلام میں قربانیوں کی بنیاد قائم فرمائی ہے۔
(۳) حدیث میں اس بات کا واضح اور قطعی ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحٰی کا حکم نازل ہونے کے بعد ہمیشہ عید کے موقعہ پر قربانی فرمائی اور اس کی تاکید کی اور اسے بڑے ثواب کا موجب ٹھہرایا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو مسلمان قربانی کی طاقت رکھتے ہوئے قربانی نہیں کرتا خواہ سارے گھر کی طرف سے ایک ہی قربانی ہو اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عید گاہ میں آکر نماز میں شامل ہو؟
(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ماتحت مستطیع صحابہ نے بھی ہمیشہ عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کی اور اسے ایک مقدس سنت اور موجب ثواب نیکی شمار کیا۔
(۵) عید الاضحی کی قربانیوں کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجماعہے۔ فقہ کے اماموں میں سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے دونو ساتھی عید الاضحی کی قربانی کو طاقت رکھنے والے مسلمانوں کے لئے واجب قرار دیتے تھے اور قریباً یہی مذہب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو اسے سنت واجبہ شمار کرتے ہیں اور باقی دو اماموں نے اسے سنت موکدہ قرار دیا ہے۔ گو بہر حال سب کے نزدیک طاقت اور قدرت کا ہونا ضروری شرط ہے۔
(۶) یہ خیال کہ کیوں نہ قربانی کی جگہ نقد امداد کا انتظام جاری کر دیا جائے ایک باطل اور ملحدانہخیال ہے۔ کیونکہ
(الف) اس سے شریعت میں جو خدا اور رسول کی قائم کردہ ہے ناجائز دخل اندازی کا رنگ پیدا ہوتا ہے اور
(ب) اس سے وہ حکیمانہ غرض و غایت فوت ہو جاتی ہے جو قربانیوں کے نظام میں ملحوظ رکھی گئی ہے یعنی مسلمانوں کے اندر جانی قربانی کی روایات کو زندہ رکھنا اور اس کی تربیت دینا۔
(۷) یہ اندیشہ بالکل موہوم ہے کہ عید الاضحی کی قربانیوں سے ملک کے جانور اتنے کم ہو جائیں گے کہ خوراک کی قلت کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا اگر چودہ سو سال میں کسی ملک میں یہ خطرہ پیدا نہیں ہوا تو پاکستان میں کیوں پیدا ہو گا؟ خصوصاً جب کہ قربانی کرنے والا طبقہ ملکی آبادی کا ایک بہت ہی قلیل حصہ ہوتا ہے اور پھر شریعت نے خود بھی قربانی کے لئے مناسب حدبندیاں مقرر کر رکھی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر حکومت جانوروں کی نسلی افزائش اور ان کی بیماریوں کے انسداد کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرے تو جانوروں کی قلت کا کوئی دور کا امکان بھی نہیں رہتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس مسئلہ کے سارے ضروری پہلوئوں پر جو اس وقت زیر بحث ہیں اصولی روشنی ڈال دی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں دین کے لئے رغبت اور دینی باتوں کے لئے احترام کا جذبہ اور احکام شریعت کے سیکھنے کا شوق پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر موجودہ زمانہ کے مادی رجحانات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور جب تک دل بیمار ہے جراح کا علاج کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
ان فی جسد الانسان مضغۃ اذا فسد فسد الجسد کلہ واذا صلح صلح الجسد کلہ الا وھی قلب۔ ۸۴
’’ یعنی انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ خراب ہو جائے تو تمام جسم خراب ہو جاتا ہے اور اگر وہ ٹھیک ہو تو تمام جسم ٹھیک ہو جاتا ہے اور اے مسلمانو کان کھول کر سن لو کہ وہ دل ہے۔‘‘
پس ضرورت دل کے ٹھیک ہونے کی ہے کیونکہ گو خیالات اور اعمال کا آلہ دماغ اور اعضاء ہیں مگر تقویٰ کا مرکز دل ہے اور تقویٰ اس بیج اور جڑھ کا نام ہے جس سے تمام نیک خیالات اور نیک اعمال کا درخت پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے سلسلہ کے مقدس بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب کہا ہے کہ :
ہر اک نیکی کی جڑھ یہ اتقاء ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
پس اب میں اپنے ناظرین سے اجازت چاہتا ہوں۔
واخر دعونا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)
عید الاضحٰی والے مضمون کا تتمہ
قربانی کا گوشت سکھا کر ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے
عید الاضحی کی قربانی کے متعلق میرا مضمون دو قسطوں میں مکمل ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں میں نے ثابت کیا تھا کہ یہ خطرہ کہ عید کی قربانیوں سے ملک میں جانوروں کا قحط ہو جائے گا ایک بالکل موہوم اور خیالی خطرہ ہے کیونکہ اسلام نے قربانیوں کے تعلق میں بعض ایسی حکیمانہ شرطیں لگا دی ہیں کہ انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے یہ خطرہ حقیقہً کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ (۱) قربانی صرف مستطیع لوگوں کے لئے مقرر کی گئی ہے نہ کہ سب کے لئے اور (۲) اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ مستطیع لوگ موجود ہوں تو اس صورت میں صرف ایک شخص کی طرف سے ہی قربانی کافی ہو جاتی ہے۔ (۳)کم عمر جانوروں کی قربانی جائز نہیں رکھی گئی تاکہ نسل کی قلت کا خطرہ نہ پیدا ہو اور (۴) دودھ دینے والے جانوروں کی قربانی بھی درست نہیں سمجھی گئی۔ اور (۵) گائے یا بھینس یا اونٹ میں سات آدمیوں کی شرکت جائز قرار دی گئی ہے تاکہ خواہ نخواہ ضیاع کی صورت نہ پیدا ہو وغیرہ وغیرہ
اس کے علاوہ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ قربانی کے دنوں میں گوشت کی دوکانیں عموماً بند ہو جاتی ہیں اور تجارتی رنگ میں جانوروں کا ذبح ہونا رک جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف قربانی کی وجہ سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں تو دوسری طرف عام تجارتی ذبح کا سلسلہ بند ہو جانے سے اس تعداد میں کمی بھی آ جاتی ہے۔ ان ساری باتوں کا مجموعی نتیجہ یقیناً اس مزعومہ خطرہ کا مکمل انسداد کر دیتا ہے جو قربانی کی وجہ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس پر یہ بات مزید ہے کہ ترقی یافتہ حکومتوں کی طرح حکومتِ پاکستان کا بھی یہ فرض ہے کہ جانوروں کی افزائش نسل اور ان کی بیماریوں کی روک تھام کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرے۔ ان جملہ امور کے ہوتے ہوئے کون عقل مند یہ خیال کر سکتا ہے کہ عید الاضحی کی قربانیاں ( جو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہے) ملک میں جانوروں کی قلت کا موجب ہو سکتی ہیں؟
اس کے علاوہ ایک بات میرے سابقہ مضمون میں بیان ہونے سے رہ گئی تھی۔ اور وہ بھی اسلام کی حکیمانہ تدبیروں میں سے ایک اعلیٰ قسم کی تدبیر ہے جس سے قربانی کی روح کو زندہ رکھتے ہوئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کے ناواجب ضیاع کو بچایا ہے۔ یہ تدبیر قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عربوں میں یہ عام طریق تھا جسے اسلام نے بر قرار رکھا کہ اگر کسی موقعہ پر زیادہ جانور ذبح ہونے کے نتیجہ میں گوشت کی افراط ہو جاتی تھی تو وہ گوشت کو نمک وغیرہ لگا کرسکھا لیتے تھے اور پھر یہ گوشت ایک لمبے عرصہ تک خراب ہونے کے بغیر قابل استعمال رہتا تھا۔ چنانچہ اسلام نے قربانی کے گوشت کے متعلق بھی اس قسم کے ذخیرہ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی تحریک فرمائی ہے۔ اس طریق کو عربی زبان میں تشریق کہتے ہیں۔ یعنی گوشت کے ٹکڑے کاٹ کراسے مصالحہ وغیرہ لگانے کے بعد خشک کر لینا تاکہ وہ دیر تک محفوظ رہ سکے اور اس لئے عید الاضحی کے بعد کے ایام کو ایام تشریق ( یعنی گوشت کو خشک کر کے ذخیرہ کرنے کے دن ) کہتے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے گوشت کے متعلق فرماتے ہیں کہ :
کلو واطعموا وادخروا ۸۵
’’ یعنی اے مسلمانو عید الاضحٰی کی قربانیوں کا گوشت خود بھی کھائو اور دوسروں کو بھی کھلائو اور فالتو گوشت کو ذخیرہ بھی کرو‘‘۔
اس حکیمانہ تعلیم کی روشنی میں ہمارے حنفی آئمہ کا فتویٰ ہے کہ :
یندب اب یاکل من لحم اضحیتہ و یدخرو یتصدق والا فضل ان یتصدق ما لثلث و یدخرا الثلث و یتخذ الثلث لا قربائہ واصدقائہ۔ ۸۶
’’ یعنی قربانی کے متعلق یہ بات پسندیدہ ہے کہ قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائے اور اس میں سے آئندہ کے لئے ذخیرہ بھی کرے اور غریبوں میں تقسیم بھی کرے بلکہ افضل صورت یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت آئندہ کے لئے سکھا کر ذخیرہ کر لیاجائے اور ایک تہائی گوشت اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے رکھا جائے‘‘
اس مدبّرانہ تعلیم کے ماتحت گوشت کے ضائع جانے کا خطرہ ( اگر کوئی ہو بھی تو ) بالکل باطل ہو جاتا ہے اور گو عربوں میں ابتدائی طریق پر گوشت کو خشک کرنے کا رواج تھا اور یہ طریق اب بھی اختیار کیا جا سکتاہے لیکن موجودہ زمانہ میں کولڈ سیٹ اور مشین کے ذریعہ گوشت خشک کرنے کے لئے سائنٹفک طریقے بھی ایجاد ہو گئے ہیں جسے انگریزی میں ڈی ہائیڈریشن (Dehydration) کہتے ہیں اور ان طریقوں کے ذریعہ فالتو گوشت( اگر کوئی ہو ) بڑی آسانی کے ساتھ سکھا کر نہایت عمدہ صورت میں ذخیرہ کیا جا سکتاہے اور اس طرح قربانی کی اصل غرض و غایت بھی قائم رہتی ہے اور گوشت کے ضائع جانے کا اندیشہ بھی باقی نہیں رہتا بلکہ مسلمانوں کے لئے ایک زائد صنعت بھی نکل آتی ہے جس سے وہ تجارتی رنگ میں بھی کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
الغرض اسلام نے ہر رنگ میں اپنی تعلیم کو کامل ومکمل صورت دی ہے اور حق یہ ہے کہ جب اس تعلیم پر غور کیا جائے تو ہر سچے مسلمان کا دل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے شکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی زبان آپ کے درود کی دعا سے گونجنے لگتی ہے کہ کس طرح اس حبیبِ خدا فخر انبیاء نے آج سے چودہ سو سال قبل ہمیں وہ تعلیم دی جس میں فطرتِ انسانی کے ہر پہلو کو زندہ رکھنے اور نسل انسانی کی ہر ضرورت کو مہیا کرنے کا بہترین سامان موجود ہے۔ اس عظیم الشان احسان کا بدلہ ہمارے پاس اس درویشانہ دعا کے سوا اور کیا ہے کہ الھم صل علی محمد و علیٰ الِ محمد وبارک وسلم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۵۰ئ)







مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک عزیز کے سوالوں کا جواب
کچھ عرصہ ہوا میرا ایک مضمون مسئلہ تقدیر کے متعلق الفضل مورخہ ۸ ؍اگست میں شائع ہوا تھا۔ اس پر ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے ایک نوجوان محمد شریف صاحب جاویدبی ۔ایس سی سٹوڈنٹ نے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور خواہش ظاہر کی ہے کہ ان سوالوں کا جواب دے کر ان کی رہنمائی کی جائے۔ جاوید سلمہٗ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض دوسرے ہم جماعت دوستوں سے بھی ان سوالوں کا جواب دریافت کیا مگر وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے بلکہ میری طرح وہ بھی ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے آرزو مند ہیں۔
سو سب سے پہلے تو میں اس بات پر خوشی کا اظہارکرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں میں اس قسم کے علمی مسائل کے متعلق دلچسپی پیدا ہو رہی ہے جو قومی زندگی اور قومی ترقی کی ایک خوش کن علامت ہے مگر دوسری طرف مجھے افسوس بھی ہے کہ عزیز جاوید سلمہٗ نے ان سوالوں کے متعلق خود اپنے دماغ پر زور دے کر جواب معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ یقینا یہ سوال ایسے نہیں ہیں کہ احمدی نوجوانوں کی علمی استعداد سے بالا سمجھے جائیں۔ البتہ ان میں کچھ لفظی ہیر پھیر کی پیچیدگی ضرور ہے جسے سمجھنے کے لئے دماغ پر کسی قدر زور دینا پڑتا ہے لیکن اگر احمدی نوجوان اپنے دماغوںپر زور دینا نہیں سیکھیں گے تو اور کون سیکھے گا ؟ مگر بہر حال جواب سمجھ نہ آنے پر دوسرے سے پوچھ لینا اس بات سے بہت بہتر ہے کہ دل میں ایک کھٹک پیدا ہو اور انسان نہ تو اسے خود نکالے اور نہ اسے نکالنے کے لئے کسی دوسرے کی مدد حاصل کرے کیونکہ اس طرح دل میں زنگ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ دل کا زنگ ہر دوسری مرض سے بد تر ہے۔ اس کے بعد میں جاوید سلمہٗ کے سوالوں کا جواب لکھتا ہوں اور اس جواب کو میں دانستہ مختصر صورت میں لکھوں گا کیونکہ کالج کے سمجھدار طالب علموں کے لئے اشارہ کافی ہونا چاہئیے۔ گو بہر حال اسے سمجھنے کے لئے میرے اصل مضمون کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔
پہلا سوال جاوید سلمہٗ کا یہ ہے کہ ا گر جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے یہ نظریہ قبول کیا جائے کہ جو بیمار غلط علاج سے فوت ہو گیا وہ صحیح علاج سے بچ بھی سکتا تھا تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر انسان کی موت کا کوئی وقت مقرر نہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر انسان کو اس کی بیماریوں میں صحیح اور بروقت علاج میسّر آتا جائے تو اس نظریہ کے ماتحت وہ یقینا بہت لمبی بلکہ نہ ختم ہونے والی عمر پا سکے گا۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اس طرح تو انسان کی زندگی اس کے اپنے اختیار میں سمجھی جائے گی نہ کہ خدا کے اختیار میں؟ اس سوال کا ( جسے میں نے اپنے الفاظ میں ڈھال دیا ہے ) پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر ایک بیمار صحیح علاج سے صحت پا جاتاہے تو کیا یہ قانون بھی ( یعنی ایسے بیمار کا صحت پا جانا) خدا کا بنایا ہوا قانون نہیں؟ تو جب ایک بیمار کا صحیح علاج سے صحت پاجانا بھی خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہے تو بہر حال انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہی ہوا نہ کہ خود انسان کے اپنے ہاتھ میں۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا پر خدا کی حکومت اس کی اس قانون قدر خیر و شر کے ذریعہ سے ہی ہے جو اس نے خود بنایا اور خود رائج کیا ہے۔پس اگر کوئی شخص غلط علاج سے مرتا ہے تو خواہ یہ غلطی خود اس کی اپنی ہی ہو مگر بہر حال وہ مرتا خدا کے قانون کے ماتحت ہے اوراسی طرح اگر کوئی شخص صحیح علاج سے صحت پا جاتا ہے تو خواہ یہ صحیح علاج اس کی اپنی کوشش کا ہی نتیجہ ہواس کا صحت پانا بھی لازماً خدا کے قانون کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔ پس حکومت بہر حال خداکی ہی رہی نہ کہ انسان کی !!
دوسرا جواب اس سوال کا یہ ہے جسے ہمارے نوجوان عزیز نے بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے کہ خدا کی تقدیر عام کے ماتحت انسان کی موت صرف بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں ہی نہیں آتی بلکہ طبعی طریق پر بھی آتی ہے۔ پہلی صورت کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک مشین کو کوئی حادثہ پہنچے اور اس حادثہ کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ مشین کو کوئی حادثہ تو نہ پہنچے مگر لمبے استعمال کی وجہ سے اس کے پرزے گھس گھس کر طبعی رنگ میں اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جائیں۔ پس گو یہ بالکل درست ہے کہ ایک بیمار صحیح علاج سے بچ سکتا ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایسے شخص کے لئے موت کا دوسرا رستہ جو طبعی طریق پر مقرر ہے وہ بھی بند ہو گیا ہے؟ اگر ایک انسان بیماری یا حادثہ والی موت سے نہیں مرے گا لازماًکچھ عرصہ کے بعد وہ طبعی رنگ میں جائے گا جو انسانی مشین کے گھس گھسائو (Wear tear)سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دونوں قانون ہمارے خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ پس کسی صورت میں بھی اعتراض کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی۔ جاوید سلمہٗ کو غالباً دھوکہ یہ لگا ہے کہ وہ انسانی موت کو صرف بیماری یا حادثہ کا نتیجہ خیال کرتے ہیں حالانکہ موت کے لئے خدا کے قانون قدرت نے دو جداگانہ رستے مقرر کر رکھے ہیں یعنی ایک تو موت بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں آتی ہے جس کے معنی انسانی مشینری کے ٹوٹ پھوٹ جانے کے ہیں اور دوسرے وہ طبعی عمر پوری ہو جانے کے نتیجہ میں آتی ہے جس کے معنی انسانی مشین کے گھس گھس کر ختم ہو جانے کے ہیں۔ اسی لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ :
لکل دائٍ دوائٌ الا الموت۔ ۸۷
’’یعنی خد ا کے قانون میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے مگر جب ( انسانی مشین کے گھسنے کے نتیجہ میں ) موت کا وقت آجائے تو پھر وہ نہیں ٹلتا ۔‘‘
اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے دونوں پہلو نمایاں کر کے بیان فرما دئے ہیں یعنی ( ۱) اگر صرف بیماری کا سوال ہے تو وہ صحیح علاج سے ٹل سکتی ہے کیونکہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا خدا کے قانون میں علاج موجود نہ ہو لیکن (۲) اگر موت کا ہی وقت آ پہنچا ہے تو پھر خدا کی وہ اٹل تقدیر ہے جس کے لئے ہر انسان کو تیار رہنا چاہئیے۔
اسی سوال کے ضمن میں جاوید سلمہٗ کا دوسرا استفسار یہ ہے کہ جو شخص صحیح علاج کے میسر آتے رہنے کے نتیجہ میں بیماریوں وغیرہ کی موت سے بچ جاتا ہے اور پھر آخر اپنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر فوت ہوتاہے تو کیا ایسے شخص کی موت خدا کی تقدیر عام کے ماتحت سمجھی جائے گی یا نہیں؟ اور اگر وہ تقدیر عام کے ماتحت سمجھی جائے گی تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں گویا تقدیر عام بھی اٹل ہو گئی اور معلّق نہ رہی( یہ الفاظ میرے ہیں جن میں میں نے جاوید سلمہٗ کے سوال کو زیادہ معین اور زیادہ مضبوط صورت دے کر بیان کیا ہے ) اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک مطلق موت کا سوال ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک تقدیر مبرّم ہے جو کسی صورت میں ٹل نہیں سکتی۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۸۸
’’ یعنی ہر انسان کے لئے موت کے رستہ سے گزرنا مقدر ہو چکا ہے۔‘‘
لیکن جہاں تک موت کے وقت کا سوال ہے۔ وہ طبعی موت کی صورت میں بھی ایک تقدیر معلقہے جو آگے پیچھے ہو سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہرشخص جانتا ہے اور میڈیکل سائنس اس کی تصدیق کرتی ہے قانون قدرت کے گو ناگوں اثرات کے ماتحت مختلف انسانوں کی جسمانی مشینری مختلف طاقتوںکی ہوتی ہے۔ یعنی کوئی انسان زیادہ مضبوط قویٰکا مالک ہوتاہے اور کوئی نسبتاً کم مضبوط قویٰ رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں لازماً انسانی مشینری کے گھس گھس کر ختم ہونے کے زمانہ میں بھی فرقپڑجاتا ہے۔ پس طبعی موت کی صورت میں بھی ہر انسان کی زندگی کا زمانہ اور ہر انسان کی موت کا وقت مختلف سمجھا جائے گا اور مناسب احتیاط کے نتیجہ میں اس میں خفیف تبدیلی ممکن ہو گی مگر بہر حال جلد یا بدیر انسانی جسم کی فانی مشین کسی نہ کسی دن گھس گھس کر ضرو ر ختم ہو جائے گی۔فانھم و تدبر
اسی تعلق میں جاوید سلمہٗ کا تیسرا استفسا ر ہے کہ جب ایک انجام عملاً ظاہر ہو جائے یعنی مرنے والا بیمار مر جائے تو کیا پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر صحیح علاج ہوتا تو بیمار بچ جاتا۔ میں کہتاہوں کہ ہاں پھر بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب مثلاً ایک شخص ملیریا کی بیماری سے اس لئے مرتا ہے کہ اسے وقت پر کونین میسر نہیں آئی ہم اس بات کے کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگراسے کونین( جو ہمارے خدا کی ہی بتائی ہوئی ایک مادی تدبیر ہے) میسر آ جاتی تو وہ بچ جاتا کیونکہ بہرحال ان ہر دو صورتوں میں ہم خدا کی تقدیر کے اندر رہتے ہیں بلکہ یہ حق ہے کہ اگر ہم ایسا نہ سمجھیں تودنیا کی ساری علمی ترقی ختم ہو جاتی اور انسان جبری نظریہ پر قائم ہو کر ایک منجمد پتھر کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے اپنی حفاظت اور اپنی ترقی کا کوئی اختیار حاصل نہیں رہتا۔ آخر یہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہسپتالوں کا سلسلہ کیوں قائم ہے؟ کیا اسلئینہیں کہ بیماروں کو خدا کی تقدیر شر سے بچا کر اس کی تقدیر خیر کی طرف کھینچا جائے؟پھرکیا ہمارے رسول ( فداہ نفسی) نے اپنے بچے ابراہیم کی وفات پر یہ الفاظ نہیں فرمائے کہ :-
لو عاش لکان صدیقانبیاً ۸۹
’’ یعنی اگر میرا یہ بچہ ابراہیم ( اس بیماری سے بچ کر ) زندہ رہتا تو وہ یقینا خدا کا ایک صدیق نبی بنتا۔‘‘
اب اگربیماری سے بچنے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا یا اگر کسی بیمار کے فوت ہو جانے پراس کی زندگی کے امکانی پہلو کو سامنے رکھ کر کوئی بات کہی ہی نہیں جا سکتی تو پھر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بے سود اور عبث قرار پاتا ہے۔ خوب غور کرو کہ حضرت ابراھیم کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’ اگر وہ اس بیماری سے بچ جاتا اور زندہ رہتا تو وہ نبی ہوتا۔‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ؐ اس کی زندگی کے امکان کو تسلیم فرماتے تھے تو پھر اگر اسی اصول کے ماتحت میں نے بھی اس قسم کی امکانی بات کہہ دی تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
دوسرا سوال جاوید سلمہٗ کا یہ ہے کہ اگر جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے ’’ خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا بلکہ انجام کی وجہ سے علم پیداہوتا ہے ۔‘‘ تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا عالم الغیب نہیں کیونکہ انجام کے بعد تو علم ہر شخص کو ہو جاتا ہے اور خدا کی کوئی خصوصیت نہیں رہتی وغیرہ وغیرہ ۔مجھے عزیز جاوید سلمہٗ کے اس سوال پر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔ میں نے یہ ہرگز نہیںکہا تھا کہ انجام کے بعد خدا تعالیٰ کا علم پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ انجام کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا علم پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور میں حیران ہوں کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان اس واضح فرق کو نہیں سمجھ سکا۔ میرا مطلب بالکل صاف تھا کہ خدا چونکہ عالم الغیب ہے اس لئے اسے لازماً یہ علم ہوتا ہے کہ فلاں چیز کا انجام اس اس طرح ہوگا لیکن جیساکہ میں نے اصل مضمون میں جاپان کے زلزلہ کی مثال دے کر وضاحت کی تھی خدا کا یہ علم انجام کا باعث نہیں بنتا بلکہ ہونے والا انجام خدا کے علم کا باعث بنتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کسی چیز کا انجام کسی خاص رنگ میں اس لئے رونما نہیں ہوتا کہ خدا کو اس کا علم ہے بلکہ خدا کو علم اس لئے ہوتا ہے کہ اس چیز کا انجام ایک خاص رنگ میں ظاہر ہونے والا ہوتا ہے اور جب یہ فرق ظاہر و عیاں ہے تو اس پر یہ سوال اٹھا نا کہ انجام کے بعد تو انسان کو بھی علم ہو جاتا ہے ایک بالکل لا تعلق سی بات ہے جس کا امر زیر بحث سے کوئی دور کا بھی رشتہ نہیں کیونکہ میں نے انجام سے پہلے کے علم کا ذکر کیا تھا نہ کہ انجام کے بعد والے علم کا۔ بہتر ہو گا کہ عزیز جاوید میرے اصل مضمون کے اس حصہ کو ایک نظر دوبارہ دیکھ لیں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ رہے۔
تیسرا سوال جاوید صاحب کا یہ ہے کہ جب قانون قضاء و قدر اور قانون شریعت دو علیحدہ علیحدہ قانون ہیں جو ایک دوسرے میں دخل انداز نہیں ہوتے کیونکہ وہ دو ایسی صوبائی حکومتوں کی طرح ہیں جنہیں گویا خدا کی مرکزی حکومت کے ماتحت پروونشل اٹانومی حاصل ہے تو پھر دنیا کے کاموں میں خدا سے دعا مانگنے اور دینی رنگ میں صدقہ و خیرات کرنے کا کیا فائدہ ہے کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قضاء و قدر کے میدان میں ہونا توبہر حال وہی ہے جو قانون قدرت کے ماتحت مقدر ہے اور شریعت کے قانون کی نیکی اس میں اثر انداز نہیں ہو سکتی وغیرہ وغیرہ۔ عزیز جاوید سلمہٗ کا یہ سوال حقیقۃً دلچسپ سوال ہے اور مجھے اس سوال سے اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا کہ اوپر کے سوال سے افسوس ہوا تھا کیونکہ گو یہ اعتراض غلط ہے مگر بہر حال جاوید سلمہٗ کا خیال ایک باریک بات کی طرف گیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اپنے مضمون میں اس پہلو کو زیادہ واضح کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس کے بغیر نوجوانوں کے دلوں میں ایک ایسا وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے جو بعید نہیں کہ بعض خام خیال لوگوں کی دینداری کے جذبہ کے لئے بالآخر مہلک ثابت ہو لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر جاوید سلمہ زیادہ غور کی نظر سے دیکھتے تو صوبائی اور مرکزی حکومت کی مثال میں ہی اس شبہ کا اصولی جواب موجو د تھا۔ بے شک میں نے قانون قضاء و قدر اور قانون شریعت کے متعلق صوبائی حکومتوں کی مثال دے کر لکھا تھا کہ یہ حکومتیں ایک دوسرے کے میدان میں دخل نہیں دیتیں ( گو ضمناً اس تعلق میں میں نے استثنائی قانون کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا ) مگر اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ خدا کی مرکزی حکومت بھی صوبائی حکومتوں کے کام میں دخل نہیں دے سکتی بلکہ اگر غور کیا جائے تو مرکزی حکومت کا ذکر ہی اس بات کی طرف توجہ منتقل کر نے کے لئے کافی تھا کہ گویہ صوبا ئی حکومتیں ایک دوسرے کے مقابل پر آزاد ہیں مگر بہر حال وہ مرکزی حکومت کے ماتحت ضرور ہیں۔ پس جب انسان خدا سے دعا مانگتا ہے تو وہ گویادوسرے الفاظ میں خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہے اور خدا کی مرکزی حکومت بہر حال ایک بالا حکومت ۔۔۔۔ہے جسے صوبوں کی باہمی آزادی اور ان کے ایک دوسرے کے مقابل پر دخل نہ دے سکنے کے باوجود حسب ضرورت صوبوں کے کام میں دخل دینے کا حق حاصل ہے۔ پس دعا بالکل اور چیز ہے اور شریعت کے میدان کی عام نیکی بالکل اور چیز ہے۔ شریعت کے قانون کی نیکی بے شک قانون قدرت کے حادثات سے نہیں بچا سکتی کیونکہ جس طرح شریعت کا میدان خدائی حکومت کا ایک مستقل صوبہ ہے اسی طرح قضاء و قدر کا میدان بھی خدائی حکومت کا ایک دوسرا مستقل صوبہ ہے اور وہ ایکدوسرے سے آزاد بھی ہیں مگر دعا کو ایک بالکل جداگانہ حیثیت حاصل ہے کیونکہ دعا عمل کی نیکی کا کام نہیں بلکہ خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرنے کا نام ہے اور خدا کی مرکزی حکومت کو بہر حال اپنے ماتحت صوبوں میں ان کی عام اٹانومی کے باوجود دخل دینے کا اختیار ہے بلکہ اگر خدا جیسی ہستی کے لئے ایسا اختیار تسلیم نہ کیا جائے تو وہ حقیقۃً خدا ہی نہیں رہتا۔ لہٰذا دعا کو جو خدا کے حضور اپیل کا رنگ رکھتی ہے۔ شریعت کی عام نیکی ( یعنی نماز روزہ وغیرہ ) پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ فرماتے ہیں کہ :
لا یرد القضاء الا الدعاء ۔ ۹۰
’’ یعنی قضاء وقدر کے حادثات کو دعا کے سوا اور کوئی بات نہیں بدل سکتی۔‘‘
ان نہایت درجہ حکیمانہ الفاظ میں یہی اشارہ کیا گیا ہے کہ گو شریعت کی عام نیکی قضاء و قدر کے حادثات کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے آزاد اور جداگانہ میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر دعا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے کہ وہ قضاء و قدر کے حادثات کو بدل دے کیونکہ دعا خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرنے کا نام ہے اور خدا کو بہر حال اپیل سننے کا اختیار حاصل ہے اور خدا نے دعا کا قانون اس لئے جاری فرمایا ہے کہ تا دنیا میںا س کے مالکانہ تصرف کا شان قائم رہے اور تا نیک فطرت لوگوں کے لئے اس کے ذاتی تعلق کی طرف ایک دائمی کشش کا سامان مہیا کیا جائے۔ اسی طرح مصیبت کے وقت صدقہ و خیرات کرنا بھی دراصل دعا ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ صدقہ کے ذریعہ انسان گویا بزبان حال خدا سے اپیل کرتا ہے کہ اے میرے آقا جس طرح میں تجھے راضی کرنے کے لئے تیرے مصیبت زدہ بندوں کی تکلیف کو دور کرتا ہوں اسی طرح تو بھی میری تکلیف اور میرے دکھ کو دور فرما اور مجھے اس مصیبت سے نجات بخش۔ پس یہ خیال کرنا کہ چونکہ شریعت کے میدان کی عام نیکی قضاء و قدر کے حادثات سے نہیں بچا سکتی اس لئے دعا اور صدقہ و خیرات بھی بے سود ہیں ایک بالکل غلط اور بے بنیاد خیال ہے جسے نہ تو عقل کا سہارا حاصل ہے اور نہ شریعت کا ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میرا یہ مختصر نوٹ تعلیم یافتہ اصحاب کے لئے کافی ہونا چاہئے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)
تبلیغ کے سات زرّیں اصول
مبلّغ کی کامیابی کا معیار نومسلموں کی تعداد نہیںبلکہ
اس کی اپنی تبلیغی جدو جہد ہے
ہمارے ایک دوست جو ایک یورپین ملک میں تبلیغ اسلام کی غرض سے گئے ہوئے ہیں، ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تبلیغ کے کام میں ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل یہ درپیش رہتی ہے کہ ہماری تبلیغی جدو جہد کے نتیجہ کا معیار کیا سمجھا جائے؟ لوگ عموماً نو مسلموں کی تعداد سے کسی مبلغ کی کامیابی کا اندازہ لگاتے ہیں اور اگر کسی مبلغ کے زمانہ میں نو مسلموں کی تعداد کم ہو تو وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ مبلغ کامیاب نہیں رہا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں ملکی حالات کے ماتحت نو مسلموں کی تعداد شروع شروع میں زیادہ نہیں ہوتی وہاں نہ صرف مبلغ کو ناکام سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات خود مبلغ کے دل میں بھی ایک گونہ احساسِ کمتری کا جذبہ پیدا ہو کر اس کے تبلیغی شوق اور تبلیغی جدو جہد کو کمزور کر دیتا ہے۔ یہ الفاظ میرے ہیں مگر ہمارے اس دوست کے خط کا مفہوم کچھ اس سے ملتا جلتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس دوست نے اسلامی طریقِ تبلیغ کے متعلق بھی کچھ روشنی چاہی ہے۔
سو میں ذیل میں ان ہر دو سوالوں کا مختصر مگر اصولی جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ پہلے میں دوسرے سوال کو لیتا ہوں جو تبلیغ کے طریق سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ حقیقۃًاسی پر پہلے سوال کے جواب کا بڑی حد تک دارومدار ہے۔ سوال یہ ہے (گو اس میں پھر الفاظ میرے ہیں اور مفہوم ہمارے دوست کا ) کہ تبلیغ کا اسلامی طریق کیا ہے۔ یعنی اسلام نے تبلیغ کے طریق کے متعلق کونسی اصولی ہدایت جاری کی ہے؟سو اس کے جواب میں میں اس جگہ صرف چار قرآنی آیتوں پر اکتفا کروں گا جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے اندر وسیع معانی رکھتی ہیں۔ ایک جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ :-
۹۱
’’ یعنی اپنے خدا کے رستہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ دعوت دو اور اگر مجادلہ کا رنگ پیدا ہو جائے تو احسن دلائل کے ساتھ بحث کرو۔‘‘
یہ آیت جیسا کہ اس کے الفاظ سے عیاں ہے بظاہر بہت مختصر ہے مگر اس کے اندر معانی کا ایک وسیع دریا مخفی ہے جس سے ہر شخص اپنی استعداد اور اپنے حالات کے مطابق عظیم الشان فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لئے اس کے چار مرکزی لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ الفاظ (۱) حکمت (۲) موعظہ حسنہ(۳)مجادلہ اور (۴) احسن کے الفاظ ہیں۔ سب سے اول نمبر پر حکمت کا لفظ ہے جس کے معنے عربی زبان میں عقل اوردانائی کی بات کے ہیں جو حق و انصاف کے مطابق ہو اور اس میں بردباری اور وقار کا رنگ بھی پایا جائے اور چونکہ ایسی بات کے لئے مخاطب کے خیالات کا علم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ مرض کے مطابق علاج تجویز کیاجا سکے اس لئے حکمت کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ دوسرے فریق کے خیالات اور عقائد کے ازالہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہی جائے۔ پس حکمت سے ایسی عقلی دلیلیں مراد ہوں گی( اور اس کے اندر منقولی دلیلیں بھی شامل ہیں ) جو حق و صداقت کے مطابق دوسرے فریق کے خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کی جائیں اور یہی کامیاب تبلیغ کی سب سے پہلی شرط ہے۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اول تو وہ سمجھتے ہی نہیں کہ عقلی دلیل ہوتی کیا ہے بلکہ وہ ہر رطب ویابس کو عقلی دلیل خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر وہ عقلی دلیل کے سمجھنے کا شعور رکھتے بھی ہوں تو اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ یہ دلیل صداقت کے مطابق بھی ہے یا نہیں بلکہ فریق مخالف کو چپ کرانے کے لئے جو جائز و ناجائز ذریعہ بھی خیال میں آئے اسے بلا دریغ اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر اگر وہ صداقت کا خیال رکھیں بھی تو کم از کم اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ فریق مخالف کن خیالات اور کن عقائد کا انسان ہے۔ حالانکہ اس کے بغیر کوئی تبلیغ موثر اور کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ جب مرض کا ہی علم نہیں تو علاج کس طرح تجویز کیا جا سکتاہے۔ پس یاد رکھنا چاہئیے کہ کامیاب تبلیغ کی پہلی شرط حکمت ہے۔ یعنی ( الف ) صحیح عقلی دلیل استعمال کرنا (ب)صداقت پر قائم رہنا اور (ج)دوسرے فریق کے عقائد اور خیالات کو مدنظر کرنا۔
دوسرا لفظ اس قرآنی آیت میں موعظہ حسنہ ہے جس کے معنے عربی محاورہ میں اس کلام کے ہیں جس میں ایسے جذبات کاعنصر پایا جائے جو تبشیرو انذار یعنی ترغیب و تربیب کا رنگ رکھتا ہو یعنی اس میں بعض پہلو مخاطب کو محبت کے اظہار اور انعام و اکرام کے وعدہ کے ذریعہ کھینچنے والے ہوں اور بعض انکار اور نافرمانی کی صورت میں سزا اور عذاب کا منظر پیش کر کے خوف دلاتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ بسا اوقات محض خشک فلسفیانہ دلیلوں سے تسلی نہیں پاتی اور اگر تسلی بھی پا جائے تو اس کے اندر وہ زندگی کی حرکت پیدا نہیں ہوتی جو خدا کی طرف کھینچنے اور خدا کی طرف رغبت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ پس قرآن نے کامیاب تبلیغ کے لئے دوسری شرط یہ مقرر فرمائی ہے کہ اس میں صرف عقلی دلیلوں سے ہی کام نہ لیا جائے بلکہ جذباتی باتوں کو بھی داخل کیا جائے جو مخاطب کے دل میں ایک طرف صداقت کی محبت اور اسے قبول کرنے کے فوائد اور دوسری طرف باطل کی نفرت اور صداقت کو ردّ کرنے کے نقصانات کا احساس پیداکرنے والی ہوں۔ حدیث میں متعدد صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہمیں اس طرح وعظ فرماتے تھے کہ گویا اس وقت جنت دوزخ کھلے طور پر ہمارے سامنے آجاتے تھے اور ہم پورے یقین کے ساتھ محسوس کرنے لگ جاتے تھے کہ یہ رستہ باغ کا ہے اور یہ رستہ آگ کا ۔ پس کامیاب تبلیغ کے لئے دوسری ضروری شرط موعظۃ حسنہ یعنی اپنی تبلیغ میں عقلی دلیلوں کے علاوہ جذباتی باتوں کو بھی داخل کرنا تاکہ سننے والا اچھی طرح سمجھ لے کہ جو بات اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، وہ صرف عقلی لحاظ سے ہی درست نہیں بلکہ اسے قبول کرنے میں اس کا اپنا ہی فائدہ اور اسے ردّ کرنے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے اور پھر تاریخی مثالوں اور تمثیلوں وغیرہ کے ذریعہ بھی اس پہلو کو بہت اچھی طرح واضح کیا جائے۔ جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف نعوذ باللہ قصے بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ قرآن شریف قصوں کی کتاب نہیں بلکہ اس نے موعظۃ حسنہ کے اصول پر اپنی عقلی دلیلوں کو جذباتی باتوں کا خمیر دینا ضروری خیال کیا ہے۔
تیسرا لفظ اس آیت میں مجادلہ ہے۔ اس لفظ کے متعلق یاد رکھنا چاہئیے کہ گو روٹ ایک ہی ہے مگر حقیقتاً عربی زبان میں جدل اور جادل کے معنے میں فرق ہے جدل کے معنے جھگڑا پیدا کرنے اور مخالفت میں ناواجب شدت اختیار کرنے کے ہیں لیکن اس کے مقابلہ پر جادل میں ( جس سے مجادلہ کا لفظ نکلا ہے ) ایک دوسرے کے مقابل پربات کرنے اور اختلاف رائے کے طریق پرتبادلہ خیالات کرنے کے ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے ۹۲یعنی انسان سب مخلوق سے زیادہ جھگڑنے والا اور مخاصمت برپا کرنے والا ہے اور اس کے مقابل پر دوسری جگہ حضرت ابراہیم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۹۳’’ یعنی ابراہیم نے لوط کی قوم کے متعلق ہم سے سوال و جواب کے رنگ میںگویا بحث شروع کردی۔ بے شک ابراہیم بہت نرم دل اور رقّت اور شفقت کے ساتھ جھکنے والا انسان تھا۔‘‘ان دونوں استعمالوں سے ظاہر ہے کہ جہاں جدل کے معنے بے جا رنگ میں مخاصمت کرنے اور جھگڑا برپا کرنے کے ہیں وہاں مجادلہ کا لفظ عموماً محض سوال و جواب کے رنگ میں بحث کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بے شک قرآن شریف میں بعض مثالیں بظاہر اس استعمال کے خلاف بھی نظر آتی ہیں مگر یہ مثالیں ایسی ہیں کہ مناسب غور اور تدبر سے انہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال مجادلہ کے لفظ میں قرآن شریف نے تبلیغ کی تیسری شرط کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی یہ کہ تبلیغ کرتے ہوئے کبھی بے جا مخاصمت اور ناواجب جھگڑے کا رنگ نہ پیدا کیا جائے بلکہ مناسب اور معقول تبادلہ خیالات کی صورت تک محدود رہنا چاہئیے ورنہ ضد اور سطحیت کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اسی لئے دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۹۴’’ یعنی سچے مومنوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب انہیں جاہل لوگ ناواجب بحث میں الجھانا چاہیں تو وہ صداقت کے لئے سلامتی چاہتے ہوئے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔‘‘
چوتھا لفظ اوپر کی آیت میں احسن ہے جس کے معنے عربی زبان میں بہترین چیز کے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ اگر منکرِ صداقت کے ساتھ ایک مبلّغ کے لئے مبادلہ کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر اس مبادلہ میں بہترین دلائل سے کام لینا چاہئیے نہ کہ رطب و یابس کے ذخیرہ سے دلائل کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ کئی لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ مخالف فریق سے بات کرتے ہوئے اپنے دلائل کی تعداد بڑھانے کے شوق میں رطب و یابس کا طومار جمع کرتے جاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کچھ تو ان کے اپنے نفس کا دخل ہوتا ہے جو دلائل کی کثرت میں گویا اپنے لئے فخر کا سامان دیکھتا ہے اور کچھ واعظ یہ خیال کرتے ہیں کہ شائد اس طرح فریق ثانی مرعوب ہو کر خاموش ہو جائے گا لیکن نتیجہ عموماً الٹ نکلتا ہے کیونکہ ہوشیار مخالف فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مضبوط دلیلوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف کمزور دلیل کا ردّ کر دیتا ہے اور اس طرح بعض اوقات اسے باطل پر ہونے کے باوجود ایک جزوی اور وقتی کامیابی میسر آجاتی ہے۔ اس لئے ہمارا حکیم و علیم خدا تاکید فرماتا ہے کہ تم مجادلہ میں خواہ نخواہ دلائل کی کثرت کا خیال نہ کیا کرو بلکہ صرف ایسی دلیلیں استعمال کیا کرو جو ہر جہت سے احسن ہوں تاکہ دوسرے فریق کو تمہاری بحث کے کمزور حصہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک مبلّغ دلائل کی کثرت کے خیال کو ترک کر کے اپنے آپ کو صرف پختہ اور مضبوط دلیلوں تک محدود رکھے ۔ جنہیں قرآن شریف نے احسن کے لفظ سے یاد کیا ہے تو منکر صداقت کو کبھی اس کی ان دلیلوں پر حملہ کرنے اور انہیں غلط ثابت کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی اور اگر وہ ملمّع سازی کے رنگ میں اس کی جرأت کرے گا تو دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو خود ذلیل کرے گا۔ ۔۹۵ پس کامیاب تبلیغ کے لئے چوتھی ضروری شرط قرآن شریف یہ بیان کرتا ہے۔ کہ مبلّغ کی ہر دلیل جسے وہ مخالفوں کے سامنے پیش کرے ہر جہت سے احسن ہونی چاہئیے تاکہ اس کے خلاف باطل کو سر اٹھانے کی جرأت ہی نہ ہو۔ اسی طرح احسن کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ صرف دلیلیں ہی احسن نہ ہوں بلکہ ان کے پیش کرنے کا پیرایہ بھی احسن ہونا چاہئے۔ کئی مبلغ پختہ دلیل رکھتے ہوئے اپنے غلط پیرایہ کی وجہ سے وقتی طور پر زک اٹھا جاتے ہیں۔
پانچویں شرط قرآن شریف ایک دوسری آیت میں پیش فرماتا ہے جو یہ ہے:
۹۶
’’ یعنی صداقت کے پیغام بر پر صرف پیغام کا پہنچانا ہی فرض نہیں بلکہ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ یہ پیغام واضح اور غیر مشکوک الفاظ میں کھلے کھلے طور پر پہنچائے۔‘‘
اس قرآنی آیت میں تبلیغ کی یہ شرط بیان کی گئی ہے کہ ایک مبلّغ کو صداقت کے پہنچانے میں ایسا رنگ ہرگز نہیں اختیار کرنا چاہئیے جس میں یا تو مداھنت کی صورت پائی جائے یا انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر یا فریق ثانی کے غلط خیالات کا ناواجب لحاظ کرتے ہوئے گول مول بات کر جائے۔ حتیٰ کہ مخاطب کو اس بات کا احساس ہی نہ پیدا ہو کہ اسے کسی ایسی اہم صداقت کی طرف بلایا جا رہا ہے جس کا قبول کرنا اس کے لئے زندگی اور اس کا ردّ کرنا موت کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ طریق نہ صرف حق کی اشاعت کے لئے روک بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات بالواسطہ طور پر باطل خیالات کی تقویت کا بھی موجب ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے جو زنگ خود مبلّغ کے دل پر لگتا ہے۔ وہ مزید براں ہے اسی لئے خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ :
۹۷
’’ یعنی اے رسول جو پیغام ہم نے تجھے دیا ہے اسے خوب کھول کھول کر لوگوں تک پہنچا اور اس کے پہنچانے میں کسی قسم کا پردہ نہ رکھ۔‘‘
اس کے بعد تبلیغ کی چھٹی شرط قرآن شریف اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ :
۹۸
’’یعنی اے رسول لوگوں تک وہ سارا پیغام پہنچا جو تیرے رب نے تیرے سپرد کیا ہے اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا ( یعنی کچھ حصہ پیغام کا پہنچائے گا اور کچھ نہیں پہنچائے گا) تو خدا کے نزدیک تو اس کے پیغام کو پہنچانے والا نہیں سمجھا جائے گا۔‘‘
اس اہم آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک مبلّغ کا یہ فرض ہے کہ سارے کا سارا پیغام پہنچائے اور ایسا نہ کرے کہ لوگوں کی مخالفت کا خیال کر کے یا اپنی واہ واہ کرانے کے لئے بعض باتوں کا ذکر ترک کر دے۔ بعض مبلغوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اس بات سے ڈر کر کہ شاید فلاں تعلیم میرے مخاطبین کو اچھی نہ لگے بعض باتوں کو ترک کردیتے ہیں اور صرف ایسی باتیں زبان پر لاتے ہیں جن کے متعلق انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کو خوش کرسکیں گے اور مخالفت کا خطرہ نہیں رہے گا مگر خدا فرماتا ہے کہ یہ ایک خطرناک طریق ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ دراصل خدا کا پیغام پہنچاتا ہی نہیں بلکہ صرف اپنے نفس کی بات پہنچاتا ہے۔ خدا کے پیغام کے متعلق تو تب سمجھا جائے گا کہ وہ پہنچا دیا گیا کہ جب انسان بلا خوف لومۃ لائم ساری بات پہنچائے ورنہ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر کسی مریض کے لئے ایک نسخہ تحریر کرے لیکن دوائی دینے والا شخص جو طب کے علم سے ناواقف ہے اس نسخہ کی بعض دوائیوں کو حذف کر کے گویا ایک نیا نسخہ ہی تجویز کر دے مگر افسوس ہے کہ آجکل بعض مبلّغ اپنی طبیعت کی کمزوری یا اپنے ماحول کے ناواجب رعب کی وجہ سے ساری کی ساری صداقت کو پہنچانے سے ڈرتے اور گریز کرتے ہیں اور خداکے با برکت نسخہ کو بدل کر امید رکھتے ہیں کہ ہم خود اپنے جاہلانہ نسخہ سے مریض کو اچھا کر لیں گے۔ ۔۹۹
تبلیغ کی ساتویں شرط اس حکیمانہ آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
۱۰۰
’’ یعنی اے مومنو تم ایسی باتوں کے دعوے دار کیوں بنتے ہو جن پر تم خود عمل نہیں کرتے۔ خدا کے نزدیک یہ طریق نہایت درجہ ناپسندیدہ ہے کہ تم ایسی باتوں کے دعوے کروجن پر تمہارا اپنا عمل نہیں۔‘‘
اسی آیت میں مبلغین اسلام کو اسی زریں اصول کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب وہ کسی علاقہ میں مبلّغ بن کر جائیں تو انہیں چاہئیے کہ جو تعلیم وہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں، اس کا عملی نمونہ بھی پیش کریں ورنہ ان کی تبلیغ ایک نمائش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھے گی اور ہر عقلمند انسان یہی خیال کرے گا کہ یہ ایک صرف منافقانہ تبلیغ ہے جس کے اندر کچھ بھی حقیقت نہیں۔ پس ہر مبلغ کا یہ اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کا عملی نمونہ پیش کرے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
۱۰۱
’’ یعنی اے مسلمانو ہمارا یہ رسول تمہارے سامنے اس تعلیم کا بہترین نمونہ پیش کر رہا ہے جو وہ ہماری طرف سے لے کر آیاہے۔ پس جہاں تم اس کی باتوں کو سنو اور مانو وہاں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ تم اپنے اعمال بھی اس کے اعمال کے مطابق بنائو۔‘‘
حق یہ ہے کہ اگر قولی تبلیغ کے ساتھ مبلغ کا ذاتی نمونہ شامل نہ ہوتو اس کی تبلیغ ایک مردہ اور بے جان لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جو لوگوں کی کشش کا باعث ہونے کی بجائے یقیناً ان کے دلوں میں دوری اور بیزاری پیدا کرنے کا موجب بن جائے گی اور وہ اسے ایک سینما شو سے زیادہ حقیقت نہیں دیں گے۔
الغرض قرآن شریف اسلامی تبلیغ کے لئے سات سنہری اصول بیان فرماتا ہے یعنی :-
(۱) تبلیغ میں ایسے عقلی دلائل اوردانائی کی باتوں سے کام لیا جائے جو ایک طرف حق و صداقت پر مبنی ہوں۔ اور دوسری طرف ان میں فریق ثانی کے عقائد اور خیالات کو بھی ملحوظ رکھا جائے تاکہ بیماری کے مطابق صحیح علاج تجویز ہو سکے۔
(۲) تبلیغ میں عقلی دلائل کے علاوہ ایسی جذباتی دلیلیں بھی شامل کی جائیں جو تبشیرو انذار اور ترغیب وتربیب کے پہلو سے تعلق رکھتی ہوں تاکہ مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ اسے ایک ایسی صداقت کی طرف بلایا جا رہا ہے جسے قبول کرنا خود اس کی اپنی زندگی اورترقی کے لئے ضروری ہے اور جسے ردّ کرنا خود اس کے اپنے نقصان اور خسارہ اور روحانی موت کا باعث ہے۔
(۳) اگر فریق ثانی کے ساتھ بحث کی صورت پیدا ہو جائے تو اس میں ناواجب مخاصمت کا رنگ بالکل نہ آنے دیا جائے بلکہ صرف معقول اور باوقار تبادلہ خیالات تک اپنے آپ کو محدود رکھا جائے اور اگر دوسرے فریق کی طرف سے ضد اور کج بحثی کا طریق اختیار کیا جائے تو مبلّغ کو چاہئیے کہ صداقت کے لئے سلامتی چاہتے ہوئے اس مجلس کو چھوڑ دے۔
(۴) مجادلہ کی صورت میں دلائل کی تعداد بڑھانے کے لئے خواہ نخواہ رطب ویابس دلیلوں کاذخیرہ نہ جمع کیا جائے بلکہ صرف ایسی پختہ اور مضبوط دلیلیں پیش کی جائیں۔ ( خواہ وہ تھوڑی ہوں) جو ہر جہت سے احسن ہوں تاکہ فریق ثانی کمزور دلیلوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر صداقت پر پردہ نہ ڈال سکے۔
(۵) تبلیغ میں مداہنت کا رنگ بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ صاف صاف بات کی جائے اور قبول کرنے کے فوائد اور انکار کرنے کے نقصانات واضح طور پر بتا دئیے جائیں تاکہ فریق ثانی کو حقیقت کے سمجھنے اور اس کی اہمیت کو محسوس کرنے میں آسانی ہو اور وہ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو کوئی بات کھول کر بتائی ہی نہیں گئی۔
(۶) اپنے مخاطبین کے انکار سے ڈر کر یا ماحول سے مرعوب ہو کر یا خود اپنی واہ واہ کی غرض سے یہ نہ کیا جائے کہ خدائی پیغام کا وہ حصہ تو پہنچا دیا جائے جس کے متعلق خیال ہو کہ اسے فریق ثانی آسانی سے قبول کر لے گا۔ اور اس حصہ کو ترک کر دیا جائے جس کے متعلق انکار اور مخالفت کا اندیشہ ہو بلکہ ساری کی ساری صداقت پہنچائی جائے ورنہ ایسے شخص کے متعلق خدا کے دربار میں یہی لکھا جائے گا کہ اس نے خدا کا پیغام نہیں پہنچایا۔
(۷) مبلّغ کو اس تعلیم کا بہترین نمونہ بننا چاہئے جو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ورنہ اس کی تبلیغ بالکل بے اثر اور بے جان رہے گی۔
اب رہا سوال اس مضمون کا دوسرا سوال کہ اسلام نے تبلیغ کے نتیجہ کا معیار کیا مقرر کیا ہے ؟ یعنی کیا صرف نو مسلموں کی تعداد ہی وہ کسوٹی ہے جس سے ایک مبلّغ کی کامیابی کو پرکھا جاسکتا ہے یا کہ قرآن شریف اس کے علاوہ کوئی اور معیار بھی پیش فرماتا ہے؟ سو اس کے متعلق اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ گو طبعاً انسانی فطرت ٹھوس اور معین نتائج سے زیادہ خوش ہوتی ہے اور مومنوں کی تعداد تو ایسی چیز ہے کہ اس کا خیال ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذہن سے بھی اوجھل نہیں تھا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔ کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ :
انی مکاثر بکم الامم ۱۰۲
’’ یعنی اے مسلمانو اپنی تعداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرو کیونکہ میں قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابل پر اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔‘‘
مگر پھر بھی اس بات میں شبہ نہیں کہ ہر حال میں نو مسلموں کی تعداد ہی تبلیغ کے نتیجہ کا صحیح معیار نہیں ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:-
لم یصدق نبیٌ من الانبیاء ما صدقت و ان من الانبیاء نبیاً ما صدقہ من امتہ الا رجلٌ واحد ۱۰۳
’’یعنی مجھے سب دوسرے نبیوں میں سے زیادہ لوگوں نے قبول کیا ہے اور خدا کے نبیوں میں ایک نبی ایسا بھی گزرا ہے کہ اسے اس کی قوم میں سے ایک فرد واحد کے سوا کسی نے قبول نہیں کیا۔‘‘
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر حال میں ماننے والوں کی تعداد ہی کسی مبلّغ کی کامیابی کا آخری معیار نہیں ہوتی کیونکہ جب خدا کے نبی اور رسول بھی ایسے ہو سکتے ہیں جنہیں ایک ایک یا دو دو سے زیادہ لوگوں نے نہیں مانا اور دوسری طرف قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۱۰۴یعنی خدا کا یہ ازلی فیصلہ ہے کہ میں اور میرے رسول بہر حال غالب اور کامیاب ہوں گے تو اس سے ظاہر ہے کہ ہر حال میں ماننے والوں کی تعداد کو ہی غلبہ اور کامیابی کا معیار نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ اصول اتنا پختہ اور اتنا یقینی ہے کہ قرآن شریف افضل الرسل سید ولد آدم خاتم النبیین صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تک کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ :
۱۰۵
’’ یعنی اے رسول تیری ذمہ داری اس بات پر ختم ہو جاتی ہے کہ تو لوگوں تک خدا کا پیغام پوری طرح پہنچا دے۔ پھر آگے انکار کرنے والوں سے ان کے انکار کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔ ـ‘‘
اور دوسری جگہ فرما تا ہے کہ :
۱۰۶
’’ یعنی اے رسول ہم نے تجھے حق اور صداقت کے پیغام کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ پس تو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا دے۔ پھر جو لوگ اس پیغام کو ردّ کر کے خود دوزخ کا رستہ اختیار کریں ان کے متعلق تیری کوئی ذمہ داری نہیں سمجھی جائے گی۔‘‘
ان اصولی آیات میں قرآن شریف نے دو ٹوک فیصلہ فرمادیا ہے کہ اگر خدا کا ایک رسول( یا اس کی اتباع میں ایک مبلّغ) خدا کے پیغام کو کھول کھول کر پہنچا دے اور تبلیغ کی تمام ضروری شرطوں کو ملحوظ رکھے تو بس اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی اور لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے کے متعلق اس سے سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس معاملہ میں خدا انکار کرنے والوں سے پوچھے گاکہ تم نے میرے پیغام کو کیوں ردّ کیا اور جنت کا رستہ چھوڑ کر جہنم کے رستہ پر کیوں پڑ گئے اور کے الفاظ میں یہ مخفی اشارہ بھی ہے کہ جہاں خدا انکار کرنے والوںسے حساب لے گا وہاں وہ دوسری طرف خود رسولوں سے بھی حساب لے گا کہ کیا انہوں نے پیغام حق کے پہنچانے میں کسی قسم کی غفلت سے تو کام نہیں لیا؟ بہر حال ان آیات سے یہ ظاہر ہے کہ ماننے والوں کی تعداد کو خدا تعالیٰ نے کسی نبی کی کامیابی کا معیار نہیں قرار دیا اور لازماً یہی اصول ایک مبلّغ کے معاملہ میں بھی چلنا چاہئیے کہ اگر وہ صحیح طریق پر پیغام پہنچا دے اور اس میں کسی قسم کی سستی یا غفلت سے کام نہ لے اور ان تمام شرائط کو ملحوظ رکھے جو تبلیغ کے لئے ضروری ہیں تو اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ہاںجس طرح انکار کرنے والوں سے جو خود اپنی مرضی سے دوزخ کا رستہ اختیار کرتے ہیں، انکار کا حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح مبلّغ سے بھی اس بات کا حساب لیا جائے گاکہ کیا اس نے تبلیغ کا حق پوری طرح ادا کیا ہے؟ اگر اس نے یہ حق پوری طرح ادا کر دیا ہے تو خواہ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والا ایک شخص بھی نہ ہو وہ یقینا خدا کی نظر میں ایک کامیاب مبلّغ ہے اور کوئی دانا انسان اس کے کام پر نکتہ چینی نہیں کر سکتا لیکن اگر اس کے مقابل پر ایک مبلّغ نے چند سو لوگوں کو مسلمان تو بنا لیا ہے مگر خدا کے ترازو میں اس کی تبلیغی جدوجہد پوری نہیں اترتی تو باوجود اس ظاہری کامیابی کے وہ خدا کی نظر میں کبھی ایک کامیاب مبلّغ نہیں سمجھا جائے گا اور اسے اپنے حساب کے لئے تیار رہنا چاہئیے لیکن اس بنیادی اصول کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں سب سے زیادہ لوگوں کا حق قبول کرنا اور پھر آپ کا انی مکاثر بکم الامم فرمانا ظاہر کرتا ہے کہ گو اصولاً ماننے والوں کی تعداد ،کامیابی کا حقیقی معیار نہیں بلکہ اصل معیارخداکے رستے میںکوشش اور جدوجہد ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ سچی کوشش کرنے والوں کی کوشش کو ہرگز ضائع نہیں کرتا اور کسی نہ کسی رنگ میں انہیں ضرور ان کی محنت کا پھل عطا کر دیتا ہے۔
یہ تو سوال زیر بحث کا ایک اصولی جواب تھا لیکن موجودہ زمانہ میں جو کہ مادیت کے غیر معمولی زور اور عالمگیر انتشار کا زمانہ ہے۔ ایک خاص بات اور بھی یاد رکھنی چاہئیے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں دراصل ہمیں افراد کے خیالات کا مقابلہ درپیش نہیں بلکہ باطل نظاموں کا مقابلہ درپیش ہے اورنظاموں کے مقابلہ میں لڑائی کا طریق بدل جایا کرتا ہے۔ جہاں افراد کے خیالات کا مقابلہ ہو وہاں مبلّغ کی جدو جہد کی پہلی زد افراد پر پڑتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک ایک دو دو کر کے سعید روحیں صداقت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونی شروع ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ آہستہ آہستہ ان ایک ایک دو دو کے ملنے سے ایک بھاری جماعت بن جاتی ہے مگر جہاں اصل مقابلہ باطل نظام کے ساتھ ہو وہاں صداقت کی پہلی چوٹ کسی فرد پر نہیں پڑتی بلکہ نظام کے سواد یعنی ہیئت مجموعی پر پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ اس ہیئتِمجموعی میں تنزّل اور تشتط کے آثار شروع ہو جاتے ہیں اور گو بظاہر شروع شروع میں افراد اپنی جگہ پر قائم نظر آتے ہیں مگر نظامِ باطل کے محل کے کنگرے آہستہ آہستہ ٹوٹ کر گرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اس زمانہ میں یورپ اور امریکہ کی تبلیغ کا بھی زیادہ تر یہی حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں بھی اسلام کی ترقی نو مسلم افراد کی کثرت کے ذریعہ نہیں ہو گی بلکہ مادیت کے نظام باطل کے آہستہ آہستہ ٹوٹنے اور شکستہ ہو ہو کر گرنے کی صورت میں ہو گی اور اس کے بعد افراد کے داخلہ کا حقیقی وقت آئے گا۔ گویا جہاں گذشتہ زمانوں میں زیادہ تر افراد کے ذریعہ صداقت ترقی کرتی تھی وہاں موجودہ زمانہ میں اولاً آہستہ آہستہ صرف ایک عام فضا مادیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں پیدا ہونی شروع ہو گی اور اس کے بعد اس عام فضا کی تبدیلی کے نتیجہ میں حق ترقی کرے گا اور بالآخر افراد کے پلٹا کھانے کا وقت آ جائے گا۔ پس کم از کم میرے نزدیک یورپ و امریکہ کے موجودہ مبلّغوں کے کام کا معیار نومسلموں کی تعداد نہیں ( گو کسی حد تک اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) بلکہ ان کے کام کا اصل معیار یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے میدان میں مسیحیت یا مادیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں عام فضا میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے۔ بے شک یہ تول ذرا مشکل تول ہے لیکن خدا کاترازو بہرحال کسی چیز کو حساب سے باہر نہیں رہنے دیتا اور اس کے دئیے ہوئے عرفان کی طفیل سے علم میں راسخ لوگ بھی کافی حد تک صحیح اندازہ کر سکتے ہیں اور دراصل یہ اسی روحانی نبض شناسی کا نتیجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے پینتالیس سال قبل جب کہ مغربی ممالک کی مادیت اپنے معراج کو پہنچی ہوئی تھی فرمایا کہ :-
آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مردوں کی نا گہہ زندہ وار ۱۰۷
اس لطیف شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام افراد کے مسلمان ہونے کا ذکر نہیں فرماتے کیونکہ اس زمانہ میں یورپ کے مسیحی ممالک میں حقیقۃً کوئی نومسلم تھا ہی نہیں بلکہ اپنی روحانی فراست کے نتیجہ میں مغربی ممالک کی اس مجموعی فضاء کی تبدیلی کا ذکر فرماتے ہیں جو آہستہ آہستہ تثلیث کی گندی دلدل سے نکل کر توحید کے پاک و صاف چشمہ کی طرف آرہی تھی کیونکہ یہی وہ طریق ہے جس میں اس زمانہ کی مادہ پرست قوموں کا بالآخر اسلام کے مقابلہ میں شکست کھانا مقدر ہے۔
پس گو تعداد کی ترقی بہرحال ایک نظر آنے والی چیز ہے اور دیکھنے والوں کی توجہ اس طرف سے ہٹائی نہیں جا سکتی اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے اپنے لئے موجب فخر قرار دیا ہے ( اور کون سچا مسلمان ہے جسے اپنے آقا کے فخر میں حصہ دار بننے کی تڑپ نہ ہو) مگر پھر بھی اصولاً ایک مبلّغ کے کام کا اصل معیار اس کے نو مسلموں کی تعداد نہیں بلکہ اس کی وہ مخلصانہ کوشش اور جدوجہد ہے جس کے ذریعہ وہ صداقت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اگر وہ ایک فرد واحد کو بھی مسلمان نہیں بنا سکتا مگر اس کی کوشش معیار کے مطابق پوری اور اپنے ماحول کے لحاظ سے سچی اور بے داغ ہے تو وہ یقینا اس مبلّغ سے بہتر ہے جس نے بظاہر سینکڑوں نو مسلم بنائے مگر اس کی کوشش اس معیار کو نہیں پہنچتی جس کی اسلام اپنے خادموں سے توقع رکھتا ہے اور موجودہ زمانہ میں تو یورپ اور امریکہ کے ممالک میں خصوصاً مبلّغوں کی کامیابی کا اصل معیار فی الحال نو مسلموں کی تعداد نہیں ہے بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ وہ ’’ احرارِ یورپ کا مزاج‘‘ بدلنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے دنیا کا آئندہ انقلاب افراد میں ہو کر قوموں تک نہیں پہنچے گا بلکہ قوموں میں ہو کر افراد تک پہنچے گا اور یہی اس مخصوص موت کی عقلی تفسیر ہے جو حدیثوں میں دجّال کے انجام کے متعلق بیان ہوئی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ تبلیغ کے طریق کے متعلق تو اسلام یہ اصولی تعلیم دیتا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل مبارک عناصر کا مجموعہ ہونی چاہئیے۔ یعنی (ا) حکمت (ب) موعظہ حسنہ (ج) کج بحثیوں والے مناظرہ سے اجتناب (د) بحث میں صرف احسن دلیل کا استعمال اور (ہ) البلاغ المبین یعنی کھلا کھلا دو ٹوک انتباہ (و) ساری کی ساری صداقت پیش کرنا اور (ز) تعلیم کا عملی نمونہ پیش کرنا۔ اور دوسری طرف تبلیغ کی کامیابی کے معیار کے متعلق اسلام فرماتا ہے کہ :-
(۱) تبلیغ کا اصل معیار خود تبلیغ ہے یعنی جو شخص پوری دیانت داری اور پوری پوری توجہ اور محنت کے ساتھ لوگوں تک پیغام حق پہنچا دیتا ہے اور تبلیغ کی تمام ضروری شرائط کو ملحوظ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک فریضہ تبلیغ سے عہدہ بر آ سمجھا جائے گا خواہ اس کے ہاتھ پر حق قبول کرنے والوں کی تعداد تھوری ہی ہو یا بالکل ہی نہ ہو۔ البتہ جس طرح انکار کرنے والے اپنے انکار کے متعلق خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے اس طرح پیغام حق پہنچانے والا بھی اس بات کے متعلق جواب دہ ہو گا کہ اس نے فریضہ تبلیغ کے ادا کرنے میں کسی قسم کی سستی یا غفلت یا بزدلی یا بد عملی وغیرہ سے تو کام نہیں لیا۔
(۲) بایں ہمہ ہر مبلّغ کے دل میں یہ تڑپ ہونی چاہئیے کہ اس کے ذریعہ سے جتنی زیادہ سے زیادہ روحیں بچ سکیں انہیں بچانے کی کوشش کرے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اس جائز فخر کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ساعی ہو کہ انی مکاثر بکم الامم
(۳) باوجود اس کے موجودہ زمانہ میں جب کہ اسلام کا مقابلہ افراد کے باطل خیالات کی نسبت زیادہ تر قوموں کے نظام ہائے باطلہ کے ساتھ ہے اور مغربی اقوام کی مادیت (جس کا دوسرا نام دجال ہے )اسلام کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ مغربی ممالک کے مبلّغینکی تبلیغی کامیابی کا معیار فی الحال نو مسلم افراد کی تعداد سے چنداں تعلق نہیں رکھتا بلکہ ان کے کام کے اس پہلو سے تعلق رکھتا ہے کہ انہوں نے مادیت کے دیو ہیکل بت کو توڑنے کے لئے کیا جدو جہد کی ہے اور ان کے ذریعہ ’’احرارِیورپ کا مزاج‘‘ کس حد تک راہ راست پر آیا ہے۔ اس چیز کا تولنا اور پرکھنا ایک بڑے نازک ترازو کا متقاضی ہے لیکن خدا کالوزن الحق بھی وہ کامل و مکمل مشینری ہے جو کسیقابل شمار چیز کو حساب سے باہر نہیں چھوڑتی اور اس کے راسخ فی العلم بندے بھی اس کی دی ہوئی فراست کے ماتحت مبلّغوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس بات کا اندازہ کرنا جانتے ہیں کہ و ہ کتنے پانی میں ہیں۔
بس اس وقت اس مسئلہ کے متعلق صرف اسی قدر لکھنا کافی ہو گا۔ ولکل درجاتٌمما عملوا وما ربک بغافلٍ عما یعملون ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱ ؍اگست ۱۹۵۰ئ)
دومخلصین کی وفات
جیسا کہ الفضل کی مختصر سی خبر سے دوستوں کو اطلاع ہو چکی ہے ۔چند دن ہوئے ماسٹر مولا بخش صاحب سنوری لودھراں ضلع ملتان کے قریب اور ماسٹر محمد طفیل صاحب بٹالوی لائل پور میں وفات پاگئے ہیں ۔یہ دونوں بزرگ بہت نیک اور مخلص اصحاب میں سے تھے جو عرصہ ہوا اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہوچکے تھے اور پھر گذشتہ انقلاب کے نتیجہ میںقادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دونوں کو سلسلہ کے محکمہ تعلیم میں کافی خدمت کا موقع میسر آیا اور حسن اتفاق سے دونوں بالآخرمدرسہ احمدیہ سے (جو سلسلہ کی ایک مخصوص اپنی درس گاہ ہے ) اپنی ملازمت کا عرصہ پورا کرکے ریٹائرڈ ہوئے مگر اس ریٹائر منٹ کے بعد بھی ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا ۔ چنانچہ ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے چھوٹے بچوں اور ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوٹر کی حیثیت میں پڑھاتے رہے اور ماسٹر محمد طفیل صاحب مرحوم کو جلسہ سالانہ کے ایام میں سلسلہ کے مہمانوں کی خدمت کا نمایاں موقعہ ملتا رہا۔دونوں اصحاب موصی تھے اور نماز اور دیگر اعمال صالحہ کے بجالانے میں خوب چو کس اور مستعد تھے ۔
اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو ۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)




مولوی محمد امیر صاحب ڈبرو گڑھ آسام کی وفات
ڈبرو گڑھ آسام سے پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ایم۔اے ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ تعلیم بذریعہ تار اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے والد محترم مولوی محمد امیر صاحب وفات پاگئے ہیں۔ انّا ﷲ و انّا الیہ راجعون۔ مولوی صاحب موصوف پرانے اور مخلص احمدی تھے اور موصی بھی تھے۔ چونکہ ڈبروگڑھ میں جماعت تھوڑی ہے۔ اس لئے پروفیسر عطاء الرحمن صاحب درخواست کرتے ہیں کہ احباب کرام ان کے والد صاحب مرحوم کا جنازہ غائب پڑھ کر ان کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعا فرمائیں۔ مولوی محمد امیر صاحب حقیقۃً ایک بہت نیک اور بااخلاق بزرگ تھے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں فریقِ رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)






عید الاضحی کی قربانیاں
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ کن فتویٰ
جیسا کہ ناظرین کو معلوم ہے گزشتہ ایام میں عید الاضحی کی قربانی کے متعلق میرے تین مضامین ’’ الفضل ‘‘ میں اوپر تلے شائع ہو چکے ہیں ( ملاحظہ ہو الفضل ۱۸،۱۹،۲۰؍ اگست ۹۵۰ائ) اس کے بعد مجھے ایک دوست کے ذریعہ علم ہوا ہے کہ آج سے ۳۸ سال قبل یعنی ۱۹۱۲ ء میں بھی یہ سوال اٹھا تھا جبکہ ترکوں کی امداد کی غرض سے ( جو اس وقت ایک جنگ کی مصیبت میں مبتلا تھے) بعض مسلمانوں نے تجویز کی تھی کہ عید الاضحٰی کی قربانی کو روک کر اس کی جگہ ترکوںکو نقد روپیہ بھجوا دیا جائے۔ ان ایام میں اخبار ’’ زمیندار‘‘ لاہور میں کسی مسلمان وکیل کا ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا جس میں مسلمان علماء سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ان مسلمان علماء میں ہماری جماعت کے خلیفہ اوّل حضرت مولوی نور الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کا نام نامی بھی شامل تھا۔ اس پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اخبار’’ زمیندار‘‘ کا یہ پرچہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھجوا کر درخواست کی کہ حضور اس استفسار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ اس کے جواب میں جو خط حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی طرف سے ڈاکٹر صاحب موصوف کو موصول ہوا وہ انہوں نے انہی ایام میں اپنے نوٹ کے ساتھ ایک اشتہار کی صورت میں شائع کر دیا اور میں اس اشتہار کو ( گو افسوس ہے کہ مجھے اس کی صرف نقل ہی مل سکی ہے ) ناظرین کی دلچسپی اور راہ نمائی کی خاطر درج ذیل کرتا ہوں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فتویٰ میں بعینہٖ اسی خیال کا اظہار فرمایا ہے جو میں اپنے مضمونوں میں ظاہر کر چکا ہوں۔ فالحمد ﷲ علی ذالک ۔بہر حال ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب کے مطبوعہ اشتہار کی نقل درج ذیل کی جاتی ہے۔
فتویٰ متعلق قربانی عید الاضحی
اخبار زمیندار لاہور میں ایک وکیل صاحب نے عید کی قربانیوں کے متعلق حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفۃ المسیح) سے استفسار کیا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں زمیندار کا یہ پرچہ بھیج دیا۔ علاوہ اس کے ۸ نومبر ۱۹۱۲ ء کو جو پبلک جلسہ لاہور میں زمیندار ٹرکش فنڈ کے متعلق ہوا تھا۔ اس میں مولوی عبد العلی صاحب ہروی شیعہ عالم نے آیت۱۰۸سے استدلال کر کے فتویٰ دیاتھا کہ اگر ترکوں کی اس مصیبت کے وقت میں قربانی نہ دی جائے اور اس کے عوض میں نقد روپیہ ترکی بھجوا دیا جائے تو جائز ہے۔ اس کے متعلق بھی میں نے اپنے خط میں حضرت مولوی صاحب کو اطلاع کر دی تھی۔ اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب کی جو چٹھی مجھے موصول ہوئی ہے وہ ذیل میں شائع کی جاتی ہے۔ اس کے چھاپنے کی اس لئے بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ جلدی میں جناب مولانا شبلی صاحب نعمانی اور مولوی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی کی طرف منسوب کر کے بھی ایک بے دلیل فتویٰ شائع ہوا ہے جس کی بناء پر بعض اخباروں نے کھلے طورپر قربانی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ رقم ٹرکش ریلیف فنڈ میں دے دی جائے ۔ اس تحریک سے مسلمانوں کو بہت ابتلاء کا اندیشہ ہے اور شعائر اللہ کی بے حرمتی ہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب قبلہ نے اپنی اس چٹھی میں نہ صرف قربانی کے ضروری ہونے پر فتویٰ دیا ہے بلکہ ایک حقیقی مصلح کے طور پر قوم کی مرض اور اس کا علاج دونوں بتا دئیے ہیں اور قربانی روکنے کی بجائے دیگر ہر رنگ میں چندہ دینے کی تحریک کی ہے۔
‎خاکسار مرزا یعقوب بیگ ایل۔ایم۔ ایس لاہور
‎۱۴ نومبر ۱۹۱۲ ء
اصل خط مشتمل بر فتویٰ
پیارے مرزا السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاۃ
حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میںبڑی ضرورتیں تھیں۔ خلفاء کے زمانہ میں سخت سے سخت ضرورتیں تھیں مگر قربانی ترک نہیں کی گئی ۔ اس کا ترک شیعہ مذہب کے بھی خلاف ہے۔ باقی رہا کا فرمان سووہ صحیح ہے مگر جس طرح سے عالمِ شیعہ نے سمجھا ہے اس طرح نہیں۔ قربانی ہی اصل ہے۔ معلوم نہیں سے مولوی صاحب نے کیا مراد لیا ہے۔ افسوس یہ سب قرآن نہ سمجھنے کا وبال ہے۔ کیا مسلمانوں کے پاس اور مال ہی نہیں رہا کہ اب قربانی پر ہاتھ صاف کرنے لگے؟ اگر ایسے ہی مفلس ہیں تو نہ زکوٰۃ نہ قربانی نہ تعلیم پر روپیہ خرچ کریں چھٹی ہوئی اللہ اللہ ثم اللہ اللہ پہلے مکہ میں قربانیاں بند کریں۔ ترک خود قربانی کو بند کریں۔ قونسل کراچی۔ بمبئی۔ مدراس۔ کلکتہ۔ برما کیا کام کرتے ہیں۔۔۔آپ وطن اور زمیندار جیسے دانایانِ زمانہ سے دریافت کریں کہ قونصل کیا کام کرتے ہیں۔
متنفرنج تو اسلام کی سلطنت کو پسند ہی نہیں کرتے۔میں نے ان لوگوں کو ضروری تجارت کے متعلق خط لکھے جواب تک سے دریغ فرمایا انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ یونی ورسٹی کا جمع شدہ روپیہ دے دیں۔ ( ان دنوں میں مسلم یونی ورسٹی کے لئے بھاری رقم جمع ہوئی تھی ۔) شادی غمی کی فضولی کا روپیہ دے دیں۔ خود ترک فضولی کے بدلے روپیہ دے دیں۔ ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں فی کس ایک روپیہ ہی دے دیں۔ مگر خود شعائر اسلام کو ہاتھ سے نہ دیں۔ طرابلس کے غریب عرب جان دے رہے ہیں۔ ترک میدانی جنگ چند روز جاری رکھیں قد افلح المومنون للّٗہ العزۃ وللرسول و للمومنین۔ انا لننصر رسلنا والذین اٰمنوا فی الحیوٰۃ الدنیا۔ سچ ہے حرفے بس است
‎نور الدین از قادیان ۱۰ نومبر ۱۹۱۲ ء
حاشیہ۔ شیعہ عالم شیخ عبد العلی ہر وی کا ایک مضمون آج پیسہ اخبار میں نکلا ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ صرف حج کے موقعہ پر قربانی ہے اور سوائے اس کے نہیں۔ اس کے متعلق صرف اتنا ہی لکھنا کافی ہو گا کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور صحابہ کرام اور آئمہ محدثین اور مجددین کا عمل اور امت محمدیہ کے تیرہ سو سال کا تعامل صرف عالم ہروی کے اجتہاد سے باطل نہیں ہو سکتا۔‘‘
جو فتویٰ حاجی الحرمین حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا اوپر درج کیا گیا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ نے عید کی قربانیوں کو شعائراسلامی کا ضروری حصہ قرار دیا ہے اور اسے بند کرنے کو خلاف اسلام فعل گردانا ہے جس کا خیال محض جلدبازی یا نادانی یا دینی جذبہ کی کمی یا فقدان کی وجہ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ باقی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس قسم کا فتویٰ دینے والے علماء آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ اس سے شریعت اسلامی کی ایک نہایت لطیف حکمت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جو یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک جسم ہوتا ہے اور ایک روح جسم تو اس کی ظاہری شکل و صورت کا نام ہوتا ہے اور روح اس کے اندر کے مغز کا نام ہوتا ہے جس کی بناء پر اور جسے پیدا کرنے اور زندہ رکھنے کے لئے کسی عمل کا حکم دیا جاتا ہے۔ مثلا ً نماز کا جسم وہ ظاہری ارکان ( یعنی قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ اور ان کی مقررہ دعائیں ) ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے اور نماز کی روح وہ نیکی اور طہارت اور تقرب الی اللہ کا جذبہ ہے جسے خدا نماز کے ذریعہ مسلمانوں میں قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کی طرف مثلاً قرآن شریف ان الفا ظ میں اشارہ کرتا ہے کہ ۱۰۹( یعنی نماز خلاف اخلاق اور خلاف دین باتوں سے روکنے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ ) اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز مومن کا معراج ہے جس کے ذریعہ وہ خدا تک پہنچتا ہے مگر باوجود اس کے کہ نماز کی روح اس کی یہ اندرونی حقیقت ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ کوئی عالم دین یہ نہیں کہہ سکتا کہ نماز کی ظاہری صورت کو ترک کر دیا جائے کیونکہ جب جسم ہی نہیں ہو گا تو روح کہاں سے آئے گی۔ اور کہاں رہے گی؟
یہی فلسفہ قربانیوں کے اس حکم میں بیان کیا گیا ہے جس سے بعض علماء غلط استدلال کر رہے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
۱۱۰
’’ یعنی اے مومنو! قربانیوں کے جانوروں کا گوشت اور خون خدا کو نہیں پہنچتا بلکہ اسے تمہاری طرف سے وہ تقویٰ کی روح پہنچتی ہے جس کے ماتحت تم یہ قربانیاں کرتے ہو۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ اس قرآنی آیت میں ( خدا کو تقویٰ کی روح پہنچتی ہے ) کے الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے کہ قربانی کی ظاہری صورت کوئی چیز نہیں بلکہ تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے رنگ میں خرچ کرنا بھی کافی ہو سکتا ہے۔ یہ استدلال کتنا غلط کتنا بے بنیاد اور قرآنی محاورہ کے کتنا خلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشاء تھا جو بعض جلد باز لوگوں نے اس آیت سے سمجھا ہے تو پھر اس آیت کے ساتھ لگتی ہوئی آیت میں انہی قربانیوں کے متعلق یہ کیوں فرمایا گیا کہ :

’’ یعنی اے مسلمانو تم ان قربانیوں کا گوشت خود بھی کھائو اور اپنے باقناعت عزیزوں دوستوں اور ہمسایوں کو بھی کھلائو اور پھر ایسے لوگوں کو بھی کھلائو جو غریب اور مصیبت زدہ ہیں خواہ وہ سائل ہوں یاغیر سائل‘‘
اس آیت کے ساتھ جوڑ کر اوپر والی آیت کو بیان کرنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اس جگہ قربانیوں کی ظاہری صورت اور ان کی اندرونی روح دونوں کی حکمت بیان کرنا مقصود ہے۔ دراصل والی لطیف آیت میں خدا تعالیٰ نے وہی حکیمانہ انداز اختیار فرمایا ہے جو دیگر احکام شریعت کے متعلق اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی قربانیوں کے جسم ( یعنی ان کی ظاہری شکل و صورت ) کے ساتھ ساتھ ان کی اندرونی روح کی طرف بھی توجہ دلائی ہے تاکہ مسلمان صرف اعمال کے جسم میں ہی الجھ کر نہ رہ جائیں بلکہ اعمال کی اندرونی حکمت کی طرف بھی توجہ دیں اور اسے ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھیں مگر جیسا کہ دوسری آیت میں صراحت کی گئی ہے اس سے یہ استدلال کرنا ہرگز جائز نہیںکہ شریعت کے مقرر کردہ اعمال کی ظاہری صورت کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ کیا اس وجہ سے کہ نماز کی اصل روح قربِ الہٰی اور منکرات سے تحفظ ہے، نماز کے ظاہری ارکان یعنی قیام رکوع اور سجود وغیرہ کو چھوڑ ا جا سکتاہے ؟ اور کیا اس وجہ سے کہ روزہ کی اصل روح تبتل الی اللہ اور لذاتِ دنیوی سے بے رغبتی پیدا کرنا ہے، روزہ کی ظاہری شکل و صورت یعنی سحری کا کھانا اور دن کے اوقات میں اکل و شرب سے اجتناب اور شام کی افطاری کو ترک کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا اس وجہ سے کہ حج کی اصل روح مسلمانوں میں مرکزیت اور اجتماعیت کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خاطر ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ حج کے ظاہری مناسک یعنی بیت اللہ کا طواف اور عرفہ کے وقوف وغیرہ کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہرگز نہیں اور کوئی عالم دین ایسا فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کر سکتا تو پھر اگر اسی حکمت کے ماتحت قرآن نے قربانیوں کی ظاہری صورت کے علاوہ ان کی اندرونی روح کی طرف بھی توجہ دلائی تو اس کی وجہ سے قربانی کے ظاہری مناسک کو کس طرح ترک کیا جا سکتا ہے؟ اس ملحدانہ نظریہ کو قبول کرنے سے تو شریعت کا سارا ڈھانچہ ہی درہم برہم ہو جاتا ہے اور نہ نماز رہتی ہے اور نہ روزہ اور نہ حج اور نہ کوئی اور عبادت۔ فافھم و تدبر ولا تکن ولاتکونوا والممترین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۹؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)





برطانیہ میں تعدد ازدواج کی طرف رجوع
۱۱۱
خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ
’’ یعنی اسلام کی تعلیم اور اس کے ساتھ ترقی کے وعدے ایسے ہیں کہ بسا اوقات کافر لوگ بھی یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔‘‘اس عظیم الشان پیش گوئی کی صداقت پر تاریخ عالم نے بے شمار دفعہ مہر تصدیق ثبت کی اور انشاء اللہ قیامت تک کسی نہ کسی رنگ میں اس کا ظہور ہوتا چلا جائے گا۔ جب کبھی بھی مسلمانوں کو کوئی غیر معمولی کامیابی اور ترقی نصیب ہوئی اور دنیا جانتی تھی کہ یہ کامیابی اور یہ ترقی ان وعدوں کے مطابق ہے جو قرآن میں نہایت زور شور کے ساتھ کئے گئے ہیں تو اس وقت لازما ً مسلمان علاقوں کے قریب رہنے والے کافروں میں اسلام کی طرف غیر معمولی توجہ اور حرکت پیدا ہوئی جو اس بات کا عملی ثبوت تھی کہ ان کفار کے دلوں میں کا جذبہ موجزن ہو رہا ہے اور وہ بھی ان ترقیات میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں جو خدا نے مسلمانوں کے لئے مقدر کر رکھی ہیں اور بعض اقوام اور افراد نے تو قولاً بھی اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام ایک نہ ختم ہونے والی ترقی کی طاقت لے کر پیدا ہوا ہے۔ یہ کے فطری نعرہ کا ایک پہلو تھا جو تاریخ نے دیکھا۔ دوسری طرف اس بات کی مثالیں بھی کثرت کے ساتھ ملتی ہیں کہ بسا اوقات کفار نے اسلام کی تعلیم سے متاثر ہو کر اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی فلاں تعلیم ایسی ہے کہ کاش وہ ہم میں بھی ہوتی۔ اسلام کی اخوت کی تعلیم۔ اسلام میں انسانی مساوات کی تعلیم۔ اسلام میں جوئے کی حرمت۔ اسلام میں شراب کی حرمت۔ اسلام میں قتل کی سزائے موت۔ اسلام میں جمہوریت کا نظام۔ اسلام میں طلاق کا قانون وغیرہ وغیرہ بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق کبھی کوئی قوم اور کبھی کوئی قوم حسرت کے ساتھ اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ کاش یہ تعلیم ان میں بھی ہوتی جس کے دوسرے الفاظ میں یہی معنی ہیں کہ ۔ فطرت انسانی کا یہ نعرہ کہ ’ ’ کاش ہم بھی اس تعلیم کو ماننے والے ہوتے ‘‘ کبھی تو عمل کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے اور کبھی قول کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے مگر بہرحال وہ اس گہری حسرت کا علمبردار ہے جو ایک پاک اور فطری تعلیم کو دیکھ کرایک محروم فرد یا محروم قوم کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔
اس جگہ میں اس فطری نعرہ کی ایک تازہ مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جس کی گونج آجکل برطانیہ کی غیر اسلامی فضاء میں بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھ رہی ہے۔ سٹار ایجنسی نے لنڈن سے اطلاع دی ہے کہ :
’’ لنڈن ۳ ؍ستمبر۔ پروفیسر او کے لو جائے کی قیادت میں ایک کمیٹی یہاں اس بات کی تیاری کر رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبروں کے سامنے یہ تجویز پیش کی جائے کہ برطانیہ کے قانون شادی و بیاہ میں اصلاح ہونی چاہئیے۔ یہ مہم پارلیمنٹ کے اس اجلاس کے ساتھ ہی بلا توقف شروع کر دی جائے گی جو ۱۲ ستمبر سے منعقد ہونے والا ہے۔ یہ تحریک پروفیسر لو جائے کی اس جدید تصنیف کی اشاعت سے شروع ہوئی ہے جس کا نام’’ اب کوئی غیر شادی شدہ عورت نہیں رہے گی‘‘ ہے اور جس کے اس وقت تک ۳۵ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور ابھی تک پبلک میں اس کتاب کی بے حد مانگ ہے۔ مختصراً تجویز یہ ہے کہ ہر آدمی دو بیویاں کرے۔ پروفیسر لو جائے کا جنہوں نے برطانیہ کے اعداد و شمار کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔اندازہ ہے کہ اس طرح ملک کی ہر عورت کو خاوند مل جائے گا۔ ایسے لوگ جو ایک بیوی رکھنے پر بھی چنداں خوش نہیں اور اس کا انتظام نہیں کر سکتے انہیں ایک بیوی کی اجازت ہو گی۔ مگر ایسے لوگ تمام پبلک جگہوں میں ملکی عام آبادی سے ( جو تعدد ازدواج پر عامل ہو گی)علیحدہ بٹھائے جائیں گے۔ پروفیسر لو جائے نے ایک جدید مکمل ضابطہ ازدواج کا خاکہ تیار کر لیا ہے۔ اس ضابطہ کی رو سے موجودہ قانون کو ( اس کی جذباتی بنیاد سے ہٹا کر ) زیادہ عملی اور کاروباری رنگ دے دیا جائے گا۔‘‘
یہ خبر ( خواہ یہ تجویز فی الحال کامیاب ہو یا نہ ہو) بہر حال اسلام کی ایک عظیم الشان فتح ہے کہ وہ ملک جس نے سینکڑوں سال تک اسلام کی تعدد ازدواج والی تعلیم کا نہائت سختی کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ نعوذ باللہ اسے تعیش اور بد کاری تک کے قبیح الزامات کا نشانہ بنایا۔ آج وہی ملک اپنے گھریلو مسائل کے دبائو سے مجبور ہو کر اس تعلیم کی طرف رجوع کر رہا ہے بلکہ اسلام نے تو تعدد ازدواج کی صرف اجازت ہی دی تھی اور وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ مگر یہ ملک اسے ایک گو نہ جبر کا رنگ دے کر اپنے سیاسی قانون کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اور ایک بیوی پر قانع لوگوں کو گویا اچھوتوں کی طرح علیحدہ جگہ دے کر سوسائٹی کی نظروں میں مطعون کرنے کی تجویزیں سوچ رہا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر کسی تعلیم کی فتح ہو سکتی ہے؟ کیا کسی ’’ سر بلند قوم‘‘ کا سر اس سے بھی زیادہ نیچا ہونا ہے ممکن ہے؟ فاعتبرو ایا اولی الابصار
اس سے پہلے یورپ و امریکہ کی اقوام نے اسی میدان میں اسلام کے قانونِ طلاق کو نوازا۔ گو غلطی میں دوسری انتہاء کی طرف جھک گئے اور اب وہ تعدد ِ ازدواج کے اسلامی قانون کو اپنا نا چاہتے ہیں اور گو یہ ممکن ہے کہ ابھی اس قوم کے لئے اسلام کی طرف آنے میں چند اور جھٹکے کھانے مقدر ہوں کیونکہ اس قسم کے وسیع قومی تغیرات آہستہ آہستہ ہی ہوا کرتے ہیں۔ مگر بہرحال ہمارے خدا اور ہمارے رسول اور ہمارے قرآن کا یہ فرمان بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا کہ :
‎(مطبوعہ الفضل ۹؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)









گشتی چٹھیوں کی لغویت
مومنوں کو جھوٹے لالچوں اور دھمکیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے
ایک عرصہ سے ہمارے ملک میں یہ لغویت شروع ہے کہ کوئی شخص ایک گمنام چٹھی اپنے چند دوستوں اور واقف کاروں کے نام لکھ کر بھجوا دیتا ہے اور اس چٹھی میں اپنے مخاطبین سے درخواست کرتا ہے کہ آگے وہ بھی اسی طرح اپنے اتنے دوستوں اور واقف کاروں ( عمومًا یہ تعداد نو ہوتی ہے ) کے نام اس چٹھی کا مضمون لکھ کر بھجوا دیں اور اس طرح یہ گمنام چٹھی ملک میں چکر لگاتی پھرتی ہے۔چٹھی کا مضمون آگے جاری کر دیا تو اتنے عرصہ کے اندر اندر ( یا بلا تعیین عرصہ ) آپ کو کوئی غیر معمولی فائدہ پہنچے گا ورنہ اس عرصہ میں آپ کو کسی بھاری نقصان کے لئے تیار رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ اور سادہ لوح اور توہم پرست لوگ بعض اوقات اس چٹھی کے مضمون سے متاثر ہو کر اور بعض اوقات اس کے بشارت کے پہلو سے ’’ لالچ میں آکر ‘‘ اور بعض اوقات ا س کے انذار اور دھمکی سے ڈر کر اس چٹھی کے مضمون کو اسی طرح کی گمنام چٹھیوں کے ذریعہ آگے جاری کر دیتے ہیں اور اس طرح یہ لغویت کا چکر قائم رہتا ہے اور محکمہ ڈاک کے سوا کوئی فرد یا ادارہ اس دور سوء سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض توہم پرست لوگوں کو بعض فرضی فوائد یا خیالی نقصانات نظر آنے لگ جاتے ہوں۔
چونکہ ایسی گمنا م چٹھیاں بعض اوقات مجھے بھی پہنچی ہیں اس لئے مجھے شبہ ہوتا ہے کہ شائد ہماری جماعت کے بعض سادہ مزاج نوجوان بھی اس چکر میں پھنس گئے ہوں گے۔ گو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نظر عنایت کسی غیر از جماعت دوست کی طرف سے ہو جس نے مجھے بھی اس مخفی تجارت کے فوائد سے متمتع کرنا چاہا ہو۔ بہر حال خواہ ان چٹھیوں کا لکھنے والا کوئی ہو۔ میں دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک سرا سر لغو اور بے ہودہ کام ہے جس سے سمجھدار لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے اور اس بات کو سمجھنے کے لئے صرف سادہ سی دلیلیں کافی ہیں۔
(۱) سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ ایسا کرنے سے فائدہ ہوگا اور ایسا نہ کرنے سے نقصان ہو گا۔ یہ تو صرف خدا کا کام ہے جو دنیا کی تقدیر کا خالق و مالک ہے اور یا پھر یہ ان لوگوں کا کام ہے جو خداکے قانو ن قضاء و قدر یا قانون شریعت کو سمجھ کر ان قانونوں کے ماتحت لوگوں کو بھلائی اور برائی کا رستہ بتاتے ہیں اس کے سوا کسی اور شخص کو یہ حق یا اختیار حاصل نہیں کہ وہ خدائی تقدیر کا مالک و متصرف بن کر اس قسم کا دعو یٰ کرے کہ اگر یوں کرو گے تو یہ ہو گا اور اگر یوں نہ کرو گے تو وہ ہو گا۔ بے شک ایک عالم دین یہ کہنے کاحق رکھتا ہے کہ اگر خدا کی خاطر نماز روزہ ادا کرو گے تو روحانی رنگ میں یہ یہ فائدہ ہو گا اور اگر ان اعمال کی طرف سے سستی اور غفلت برتو گے تو روحانیت کو نقصان پہنچے گا اور اسی طرح ایک عالم اقتصادیات یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر اپنے کاروبار میں دیانت و محنت کے ان ان اصولوں کی پابندی اختیار کرو گے تو فائدہ ہو گا اور اگر ان کی طرف سے غفلت برتو گے تو نقصان ہو گا۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں ہمارے خدا کی بتائی ہوئی تقدیر ( خواہ وہ شریعت کی تقدیر ہے یا قضاء و قدر کی ) کا حصہ ہیں لیکن اس کے سوا کسی شخص کو یونہی استبدادی رنگ میں اپنے من گھڑت اصول کے ماتحت یہ دعویٰ کرنے کا اختیار نہیںکہ اس رستہ پر چلنے سے فائدہ ہو گا اور اس رستہ پر چلنے سے نقصان ہو گا بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے لوگ اس قرآنی وعید کے ماتحت آتے ہیں کہ ۱۱۲’’ یعنی ان اٹکل باز لوگوں کے لئے تباہی اور بر بادی ہے جو جہالت کی غشیوں میں مبتلا ہو کر بھولے پھرتے ہیں‘‘
(۲) دوسری دلیل اس طریق کے باطل ہونے کی اس کی مخصوص رازداری ہے۔ اگر یہ واقعی ایک نیکی کی بات ہیجس کا اختیار کرنا فائدہ کا موجب اور اس کا ترک کرنا نقصان کا باعث ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا نام ظاہر کر کے کھیلے میدان میں نہیں آتے؟ کیا آج تک دنیا میں کوئی رسول یا مصلح ایسا بھی گزرا ہے کہ وہ خود تو برقعہ پہن کر پیچھے بیٹھ گیا ہو اور گمنام اعلانوں کے ذریعہ لوگوں کے نام بشارت اور انذار کے پیغامات جاری کرتا رہے۔ پس کمیونزم کے فولادی پردہ (ا ٓیرن کرٹین ) کی طرح دراصل یہ رازداری ہی اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔
(۳) اس طریق میں مال کا ناواجب ضیاع بھی ہے کہ جو بات ایک اخباری اعلان کے ذریعہ بڑی آسانی کے ساتھ بغیر کسی خرچ کے ہزاروں لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ وہ خطوں اور پوسٹ کارڈوں کے ذریعہ سینکڑوں روپیہ خرچ کر کے پہنچائی جاتی ہے۔ اور اس رازداری کے چکر میں بسا اوقات ایک شخص کو ہی کئی کئیخط پہنچ جاتے ہیں۔
(۴) اس کے نتیجہ میں تو ہم پرستی بھی پیدا ہوتی ہے اور نیک و بد کاموں کی عقلی بنیاد کی بجائے وہم کا مرض ترقی کرتا اور خیالی امیدوں اور خیالی اندیشوں کا چکر قائم ہو کر انسانی دماغ کے ارد گرد ایک جوئے کا سا ماحول پیدا کر دیتا ہے۔
(۵) یہ طریق عملاً بھی باطل ثابت ہوتا ہے مثلاً مجھے ایسے خطوط کئی دفعہپہنچے ہیں اور میں نے دانستہ ہر دفعہ انہیں پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ہر دفعہ بقول شخصے ’ ’ انتظار ‘‘ کیا ہے کہ خط کے اندر درج شدہ وعید کب آتا ہے لیکن آج تک خدا کے فضل سے اس وعید کے حملہ سے محفوظ رہا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہوں گا اور میںامید کرتاہوں کہ اگر دوسرے لوگ بھی غور کریں تو انہیں بھی یہی نظر آئے گا کہ ایسے خطوں کے ’’ وعدے اور وعید ‘‘ سب محض خیالی بُت ہیں جنہیں سچے مسلمانوں کو اپنے دل کے کعبہ سے اس دعا کے ساتھ نکال پھینکنا چاہیے کہ ۱۱۳اسلام میں ان لغویات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
(۶) کہا جا سکتا ہے کہ ان خطوں میں بعض اوقات نیک باتیں بھی درج ہوتی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ بظاہر یہ درست ہے اور میں نے ایسے خطوں میں عام نیک باتوں کے علاوہ مسنون دعائیں بھی دیکھی ہیں لیکن کیاا گر شیطان کسی نیک انسان کا جبہ پہن کر آجائے تو اسے دوست سمجھا جا سکتا ہے؟ آخر وہ شیطان ہی تو تھا جو ایک دفعہ حضرت معاویہ ؓ کو صبح نماز کے لئے جگانے آیا تھا مگر اس کی وجہ سے وہ ولی اللہ نہیں بن گیا بلکہ شیطان کا شیطان رہا اور اس کی نیت بھی حضرت معاویہؓ کو ایک بڑے ثواب سے محروم کرنا تھی گو بظاہر اس کی تحریک نیک تھی اور پھر کیا قرآن شریف یہ نہیں فرماتا کہ ۱۱۴’’ یعنی اے رسول جب تیرے پاس منافق لوگ آتے ہیں تو بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں خدا جانتا ہے کہ تو بلا ریب اس کا رسول ہے مگر خدا اس کے ساتھ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ بہر حال اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے اور کذاب ہیں‘‘ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک بات اپنی ذات میں سچی ہوتی ہے مگر چونکہ وہ ایک شخص کے مونہہ سے جھوٹے طور پر نکلتی ہے اس لئے خدا کے نزدیک ایسے دعویٰ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور خدا اس بات کے کہنیوالے کو بر ملا طور پر جھوٹا قرار دیتا ہے۔ پس خواہ اس قسم کے گمنام خطوں کا مضمون سچا ہی ہو ہم ان خطوں کے لکھنے والوں کو بہرحال جھوٹا کہیں گے کیونکہ انہوں نے رستہ جھوٹا اختیار کیا۔ حق یہ ہے کہ مومنوں کو اسلام کی تعلیم کی حفاظت کے لئے شیطان کی ہر تحریک کے مقابلہ پر چوکس رہنا چاہیئے۔ خواہ وہ ان کے سامنے کوئی لباس پہن کر آئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :-
بہ ہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت را می بشناسم
(۷) آخری بات یہ ہے کہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ایسے خطوں میں کوئی نیک بات یا مسنون دعا لکھی ہو تو کیا ہم اس پر بھی عمل نہ کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی خط میں ایسی بات لکھی ہو کہ جو قرآن و حدیث سے صراحتہً ثابت ہے تو اس پر ضرور عمل کرو مگر اس لئے نہیں کہ یہ بات خط لکھنے والے نے لکھی ہے بلکہ اس لئے کہ اس کا حکم خدا اور اس کے رسول نے دیا ہے لیکن اگر اس میں کوئی ایسی عام قسم کی نیک بات لکھی ہو جو قرآن و حدیث میں صراحۃً مذکور نہیں تو بہتر یہ ہے کہ اس وقت اسے نظر انداز کر دیا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے خواہ وہ بظاہر اچھی بات ہی ہو کیونکہ اس طرح دل میں ایک مخفی زنگ لگنے کا امکان ہے اور باطل تحریک کے ساتھ تعاون کار نگ پیدا ہوتا ہے۔ باقی رہا ایسے خطوں کے مضمون کو گمنام چٹھیوں کے ذریعہ آگے چلانا۔ سو یہ بہر حال ایک لغو اور بے ہودہ فعل ہے جس سے ہر حال میں پرہیز لازم ہے اور ایسے خطوں کے لکھنے سے مخفی انعاموں کی امید رکھنا اور ان کے نہ لکھنے سے مصائب اورحوادث کا خوف کھانا تو ایک خطرناک قسم کی توہم پرستی اور دماغی قمار بازی کے سوا کچھ نہیں۔ جس سے ہمارے دوستوں کو اسی طرح دور بھاگنا چاہئیے جس طرح کہ وہ دوسری شیطانی تحریکوں سے دور بھاگتے ہیں ۔ لا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)







شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات
حضرت محمد اسماعیل مرحوم کا ایک اہم مکتوب
پشاور سے مجھے محترمی ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ایم بی بی ایس نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا ایک خط بھجوایا ہے جو حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کے ایک استفسار کے جواب میں ۴ ستمبر ۱۹۴۰ء کو شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات کے باعث کے متعلق طبی نقطہ و نگاہ سے لکھا تھا ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ خط جو مکرم منشی عبدالکریم صاحب کے واسطہ سے لکھا گیا مع استفسار ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موصوف احباب کے فائدہ کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے۔
سوال از مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب پشاور
سوال:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۔۱۵ میں سعد اللہ لدھیانوی کے لئے عربی اشعار میں چندالفاظ تحریر فرمائے۔ میری خاص توجہ شعر نمبر چار پر پڑی جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ میں تجھے ناز اور تکبر کے ساتھ چلتا ہوا دیکھتا ہوں کیا تو طعنۃ النجلاء والے دن کو بھول گیا۔
سعد اللہ نے بموجب مذکو رہ بالاپیشگوئی کے نیمانک پلیگ سے وفات پائی ۔ حضرت اقدس ؑ نے بھی اسکی وفات کو نیمانگ پلیگ سے ہی موسوم کیا اور تحریر فرمایا ہے کہ اس بیماری میں چونکہ پھیپھڑا پھٹ جاتا ہے اس لئے طعنۃ النجلاء کے لفظی معنوں کے لحاظ سے بھی یہ پیشگوئی مکمل طور پر پوری ہوئی ۔
اب جبکہ ہم نیمانگ پلیگ جس میں کہ پھیپھڑا بجائے پھٹ جانے کے منجمد ہوجاتا ہے اور اس کے ہوا کے خلیئے کچھ بلغم کچھ رطوبت کچھ دیگر مادیات سے بھر جاتے ہیں اور سانس کے ذریعہ ہوا کا آنا جانا رک جاتا ہے جو کہ باعث موت اور مہلک ہوتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دراصل سعدا للہ کی موت پھیپھڑے کے پھٹ جانے سے واقعہ نہ ہوئی ہوگی بلکہ اس کے اندر رطوبات کے منجمد ہوجانے کی وجہ سے ہوئی ہوگی ۔ چونکہ یہ نتیجہ باعث تسلی نہیں ہے اس سلئے استدعا ہے کہ ڈاکٹری نقطہ نظر سے روشنی ڈالی جاوے اور اس بیماری کی پیتھالوجی بھی مد نظر رہے۔
خاکسار ڈاکٹر محمد ؐعبد الرحمن عفی عنہ
جواب از حضرت ڈاکٹر محمد ؐاسماعیل صاحب مرحوم قادیان
الصفہ قادیان
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی منشی عبدالکریم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ :
آپ کا خط مجھے ملا۔ میں بسبب علالت کے لکھنے پڑھنے سے آج مکمل معذور تھا ۔تاہم مختصر جواب لکھ دیتا ہوں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم میں سعد اللہ کے لئے بددعا کی اور الہام ۔یعنی وہی بے نسل بھی رہے گا شائع کردیا۔ مقابل پر سعدا للہ کی بددعا بھی موجود ہے جو اس نے شائع کی۔ غرض الہام ابتر والا اور ساتھ ہی ایک مباہلہ دونوں پبلک کے سامنے آگئے۔ ابتر والا الہام تو آپ جانتے ہیںکہ پورا ہوچکا اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں۔ مباہلہ کی دعا جوتھی وہ بھی خدا تعالیٰ نے قبول کرلی اور جو جو حضرت اقدس ؑ نے سعدا للہ کے مقابل پر ان عربی اشعار مندرجہ تتمہ حقیقہ الوحی صفحہ ۱۴۔۱۵ میں مانگا تھا اسے لفظی طور پر قبول کرلیا اور جو الفاظ حضور نے اس بددعا میں لکھے ہیں وہ بھی صحیح طور پر پورے ہوگئے ۔منجملہ اس کے ایک شعر نمبر۴ صفحہ ۱۴ پر درج ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں تجھے ناز اور تکبر کے ساتھ چلتا دیکھتا ہوں کیا تو طعنۃ النجلاء والے دن کو بھول گیا یعنی اب تو تو ناز و تکبر سے پھر رہا ہے وہ دن بھی آتا ہے جب طعنۃ النجلاء تیرے سامنے آجائے گا طعن کے معنے نیزہ مارنا یا نیزہ سے زخمی کرنا اور طعنۃ النجلاء کے معنی ایسا زخم نیزہ کا جو بہت وسیع ہو ۔ یہ بد دعا کا لفظ ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس مباہلہ یعنی بددعا کو منظور کیا تو لفظوں کے احترام سے بالکل اسی طرح اس کو موت دی یعنی طاعون جو نمونیا پلیگ کی قسم کا تھا، اس سے وہ ہلاک ہوگیا ۔ طعنۃ کے معنی لفظی طاعون کے نہیں ہیں لیکن لفظی مشابہت طعنہ اور طاعون میں اتنی ہے کہ اس کی وفات خدائی نیزہ کے زخم سے ہوئی لیکن وہ گلٹی والی پلیگ سے بھی مر سکتا تھا اور صرف بخار والی پلیگ سے بھی مر سکتا تھا کیونکہ یہ ہر دو صورتیں بھی طاعون ہی کہلاتی ہیں لیکن لفظ نجلاء یعنی وسیع اور بڑے زخم کی تعریف کی وجہ سے خداتعالیٰ نے اسے وہ طاعون دیا جو وسیع اور بڑا زخم پیدا کرنے والا تھا ،یعنی نمونیا پلیگ ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ گلٹی والے اور صرف بخار والے طاعون میں اگرچہ وہ بھی طعنہ یعنی خدائی مار کا زخم ہے اتنی فراخی اور وسعت زخم کی نہیں ہوتی جتنی نمونیا والے طاعون میں، کیونکہ نمونیا والے طاعون میں دونوں پھیپھڑے اتنے متورم یعنی زخمی ہوجاتے ہیں کہ مریض انسان کے بلغم میں بکثرت خون آتا ہے۔ گویا فرشتوں نے اس کے پھیپھڑوںمیں واقعہ نیزے مارے ہیں اور ان کو خوب زخمی کردیا ہے۔ باقی دو قسم کے طاعون کے بیمار خون نہیں تھوکتے ۔اس لئے وہ صرف طعنہ یعنی طاعون سے یعنی الٰہی نیزہ کے زخم سے مرجاتے ہیں لیکن نمونیا پلیگ میں چونکہ خون کھنگار اور بلغم میں برابر آتا رہتا ہے اس لئے وہ صرف طعنہ نہیں بلکہ طعنۃ النجلا یعنی معمولی زخم نہںبلکہ وسیع زخم اور خون چکاں زخم والا بیمار ہوتا ہے اور جب پھیپھڑوں سے خون جاری ہوجائے خواہ بیماری سے خواہ کسی اور وجہ سے وہ بہرحال پھیپھڑے کے سیل Cellsاور اسکی باریک زخمی رگیں پھٹنے کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور یہ پھٹنا کسی ایک جگہ پھیپھڑے میں مثل چھری کے زخم کے نہیں ہوتا بلکہ ہر دو پھیپھڑے ہر جگہ سے متورم اور زخمی ہو کر خون دینے لگتے ہیں۔ ایسے پھیپھڑوں کو زخمی کہنا اور وسیع طور پر زخمی کہنا عربی اردو دونوں زبانوں میں فصاحت کہلاتا ہے نہ کہ قابل اعتراض ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السام نے سعدا للہ کے لئے طعنۃ النجلا یعنی وسیع زخم نیزہ کا مانگا تھا۔ خدا نے کہااچھا طعنہ بھی ملیگا (زخم نیزہ کا ) اور وہ طاعون کی شکل میں اور ایسا وسیع ہوگا کہ لوگ اور خود بیمار اس زخم کی شدت اور فراخی اور وسعت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور وہ جب تھوکے گا اور کھانسے گا توخون تھوکے گا تاکہ دیگر دوقسم کی طاعونوں کی نسبت ایک امتیاز نمایاں موجود ہو۔
زخمی ہو کر پھٹ جانا کے لفظ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی کہے پھیپھڑے سخت متورم ہو کر ان کے cells کی دیوار یں پھٹ گئی ہیں اور ان میں سے خون بہہ رہا ہے۔ پس کوئی بات بھی تو قابل اعتراض نہیں ۔ خدائی زخم اور خدائی نیزے ایسے لطیف ہوتے ہیں کہ باہر تو نشان نہیں ہوتا اور چھاتی کے اندر کے اعضاء چھلنی ہوجاتے ہیں۔ اقرب الموارد جو عربی کی مشہور لغت ہے اس میں لکھا ہے ۔ طعنۃ نجلا ء ایک محاورہ ہے جس کے معنے وسیع زخم کے ہیں ۔پس طاعون کے کیڑوں نے سعدا للہ کے ہردو پھیپھڑوں میں ہر جگہ زخم کردیئے اور یہ لفظ بالکل پورے طور پر اس پر صادق آگیا کیونکہ وہ بیوبائک پلیگ اور septicawicplageسے نہیں مرا بلکہ ایسے طاعون سے مرا جس میں سارے جہان نے اس کے زخم کے خون کو دیکھ لیا اور اس طاعون کی قسم سے وہ ہلاک ہوا جس کا زخم سب سے وسیع اور فراخ تھا۔ والسلام
(ڈاکٹر میر محمد اسماعیل )
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ ؍ستمبر ۹۵۰ٍئ)

عورت کی طرف سے نشوز اور اس پر مرد کاحق تادیب
بعض دوستوں نے مجھے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں جن کا جواب باری باری لکھنے کی کوشش کروں گا کیونکہ آجکل مجھے درد نقرس کے علاوہ ٹیکی کارڈیا یعنی نبض کی تیزی کا بھی عارضہ لاحق ہے اس لئے زیادہ توجہ جمانا مشکل ہے۔ امید ہے کہ دوست میرے ان سرسری جوابوں پر تسلی پانے کی کوشش کریں گے اور بہر حال ایسے جواب میں اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے اور پڑھنے والے کو اپنے دماغ پر بھی کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا پڑتا ہے جو بہر صورت مفید ہے۔
ربوہ سے صوفی خدا بخش صاحب لکھتے ہیں کہ یہ جو قرآن شریف میں آتا ہے کہ عورت کی طرف سے نشوز کی کیفیت ظاہر ہونے پر خاوند کو تادیب کا حق ہے جو ضرب یعنی جسمانی سزا کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اور نشوز اور ضرب کی اسلامی تشریح کیا ہے ؟ سو اس کے جواب میں ہمیں سب سے پہلے اُس قرآنی آیت پر نظر ڈالنی چاہئے جس میں بعض حالات میں مرد کو عورت کی تادیب کا مندرجہ بالا حق دیا گیا ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے :-
۱۱۵
’’ یعنی مرد عورتوں پر نگران اور محافظ ہیں بوجہ اس ( جسمانی اور دماغی ) فضیلت کے جو خدا کے قانون کے مطابق بعض کو بعض پر ( یعنی مردوں کو عورتوں پر ) حاصل ہے اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مالوں میں سے عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتوں کو اپنے خاوندوں کا فرمانبردار رہنا چاہئیے اور ان کی ( عزت اور ان کی اولاد اور ان کے مالوں کی ) غائبانہ حفاظت کرنی چاہئے تمام ان ذرائع کے ساتھ جو خدا تعالیٰ نے حفاظت کے لئے مقرر کر رکھے ہیں اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے تمہیں اپنی اہلی زندگی کے متعلق خوف لاحق ہو تمہیں چاہییے کہ انہیں پندو نصیحت سے سمجھائو اور ( اگر یہ طریق کارگر نہ ہو تو کچھ عرصہ کے لئے ) ان سے بستروں میں علیحدگی اختیار ر کر لو اور ( اگر یہ تدبیر بھی ناکام رہے تو ) تم انہیں مناسب جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو۔ پھر اگر اس کے بعد وہ سرکشی کا طریق چھوڑ کر فرمانبرداری کا رستہ اختیار کر لیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرو اور یاد رکھو کہ ( جس طرح تم اپنی عورتوں کے نگران اور محافظ ہو اسی طرح )خدائے بلند و برتر تمہارا نگران و محافظ ہے ( پس تمہیں عدل و انصاف کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے)‘‘۔
یہ وہ قرآنی آیت ہے جس میں عورتوں کی طرف سے نشوز ظاہر ہونے پر مردوں کو ان کی مناسب تادیب کا حق دیا گیا ہے جو انتہائی صورت میں ضرب کی حد تک پہنچ سکتا ہے۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ نشوز اور ضرب سے کیا مراد ہے۔ پہلے ہم نشوز کے مفہوم کو لیتے ہیں۔ سو جاننا چاہیئے کہ نشوز کے بنیادی معنے اونچا ہونے اور اپنے آپ کو بالا سمجھنے کے ہیں چنانچہ نشز عن مکانہ کے معنی ہیں ارتفع وامتنع ’’ یعنی وہ اونچا ہو گیا اور اس کی وجہ سے دوسروں سے کھچ گیا اور دور ہو گیا۔‘‘ اور جب کسی عورت کے متعلق کہا جائے کہ نشزت المراۃ بزوجھا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ استعمت علیہ وابغفۃ’’ یعنی فلاں عورت اپنے خاوند کی نافرمان ہے اور اس سے نفرت کرتی ہے اور اس کے ساتھ بغض رکھتی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ نشزت المراۃ علی زوجھا تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ عصبت علیہ و اخرجت من طاعۃ ’’ یعنی فلاں عورت اپنے خاوند سے سرکش ہو کر اس کی اطاعت سے نکل گئی ہے‘‘ (نھایۃ) اور نشوز المراۃ کے معنے ہیں بغضھا الزوجھا و رفع نفسھا عن طاعتہ۔ ’’ یعنی عورت کا اپنے خاوند کو نفرت اور بغض کی نظر سے دیکھنا اور اپنے آپ کو اس کی اطاعت سے بالا سمجھنا۔‘‘ ( مفر دات راغب ) اس تشریح سے نشوز کے یہ تین معنی ثابت ہوتے ہیں: -
(۱) خاوند کے مقابل پر اپنے آپ کو بڑا اور بالا سمجھنا۔
(۲) خاوند کی نافرمان ہو کر اس کی اطاعت سے نکل جانا اور اس کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا۔
(۳) خاوند کے ساتھ بغض رکھنا اور اسے نفرت کی نظر سے دیکھنا۔
گویا قرآن شریف فرماتا ہے کہ جب ایک عورت کی طرف سے اپنے خاوند کے متعلق یہ تین حالتیں ظاہر ہوں یعنی وہ خاوند کے مقابل پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور اس کی نافرمان ہو کر اس کی اطاعت سے نکل جائے اور اس کے ساتھ محبت اور احترام کی بجائے بغض اور نفرت کا سلوک کرے تو خاوند کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سب سے پہلے فعظوھن کے ماتحت پندو نصیحت کے رنگ میں بیوی کو سمجھا کر اور خدا اور رسول کی باتیں بتا کر اور گھر کے امن کی قدر و قیمت جتا کر اصلاح کی کوشش کرے لیکن اگر یہ کوشش ناکام رہے تو پھر دوسرے مرحلہ پر وہ واھجروھن فی المضاجع پر عمل کرتے ہوئے بیوی سے گھر میں کنارہ کشی اختیار کر لے اور اسے اپنے بستر کا ساتھی نہ بنائے مگر جیسا کہ حدیث میں صراحت آتی ہے اور قرآنی الفاظ میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے اس صورت میں بھی بیوی کو گھر سے ہرگز نہ نکالے بلکہ اسے گھر میں رکھتے ہوئے عملی علیحدگی کی سزا دے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو اس سزا کی اہمیت اور اس کی نفسیاتی تاثیر گھر میں رہتے ہوئے ہی زیادہ ظاہر ہو سکتی ہے لیکن اگر خدا نخواستہ یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوتو پھر تیسرے مرحلہ پر قرآن شریف اجازت دیتا ہے ۱۱۶ یعنی تم ایسی عورتوں کو جن پر نہ تو کوئی نصیحت ہی اثر کرے اور نہ ھجر فی المضاجع کا نسخہ ہی کارگر ثابت ہو مناسب جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جسمانی سزا جسے قرآن نے ضرب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اس سے کیا مراد ہے۔ سو لغت کی رو سے تو ضرب کے معنی مطلقاً مارنے کے ہیں۔ خواہ ہاتھ سے مارا جائے یا کہ چھڑی وغیرہ سے سزا دی جائے اور خواہ نرم چوٹ لگائی جائے یا کہ سختی سے مارا جائے لیکن حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ایسی واضح اور منصفانہ بلکہ مشفقانہ شرطیں لگا دی ہیںکہ نہ تو یہ تعلیم ظالم مردوں کے لئے ظلم کا بہانہ بن سکتی ہے اور نہ ہی وہ شریف اور سمجھدار عورتوں کی نظر میں قابل اعتراض خیال کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ :
الا واستوصوا بالنساء خیراً فا نما ھن عرانٍ عند کم۔۔۔ اِلَّا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فاھجروھن فی المضاجع واضربوھن غیر مبرحٍ۔۱۱۷
’’ یعنی اے مسلمانو ! عورتوں کے متعلق میری نصیحت کو مانو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں ایک امانت ہیں۔۔۔سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بدی اور بے حیائی کا طریق اختیار کریں۔ اس صورت میں ( اگر ان پر تمہاری نصیحت کارگر نہ ہو ) تو اولاً ان کے ساتھ بستروں میںعلیحدگی اختیار کرو اور اگر یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہو تو تم ایسی سرکش عورتوں کو جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو مگر یہ سزاسخت اور جسم پر نشان ڈالنے والی نہیں ہونی چاہئیے‘‘
اس حدیث میں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر گویا اپنی آخری وصیت کے طور پر بیان فرمائی غیر مبرح کے الفاظ قابل غور ہیں۔ اس سے عربی محاورہ کے مطابق ایسی جسمانی سزا مراد ہے جو زیادہ تکلیف دینے والی اور جسم پر نشان ڈالنے والی نہ ہو۔ چنانچہ عربی محاورہ ہے کہفَعلَ کَذا بَرَاحاً اے صِراحاً لا یَسْترجس کے یہ معنی ہیں کہ ’’ اس نے فلاں کام کھلے طور پر کیا جبکہ کوئی پردہ حائل نہیں تھا‘‘ (مفردات راغب) نیز کہتے ہیں کہ جاء بالکفر براحاً ’’ یعنی اس کی طرف سے کھلا کھلا کفر ظاہر ہوا۔‘‘ اور برح بہ الامر کے معنی ہیں کہ اتعبہ و اذاہ اذی شدیداً یعنی ’’ اس بات نے اسے کوفت میں ڈال کر بہت دکھ پہنچایا‘‘۔ ( اقرب الموارد) اور جب ضرباً غیر مبرح کے الفاظ استعما ل کئے جائیں تو اس کے معنی ہوتے ہیںغیر شاق ’’ یعنے ایسی مار جو دوسرے کو زیادہ تکلیف میں نہ ڈالے اور نہ ہی زیادہ تکلیف کا موجب ہو اور ضمناً اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ سزا بچوں اور نوکروں یا دوسرے لوگوں کے سامنے نہیں دینی چاہئیے بلکہ علیحدگی میں دینی چاہئیے۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ یہ جو آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ ضرباً غیر مبرح اس سے مراد کس قسم کی سزا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
بالسواک ونحوہ ۱۱۸
’’یعنی یہی مسواک یا اسی قسم کی دوسری چیز سے مارنا۔‘‘
اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ جو شریعت کے پہلے حامل تھے، ضرب کے متعلق قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔ پھر مارنے کی سختی کو روکنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس لطیف انداز میں فرماتے ہیں کہ :
ایضرب احدکم امراتہ کما یضرب العبد ثم یجا معھا فی آخر الیوم ۱۱۹
’’یعنی کیا عورتوں کو مارنے والے اس بات سے شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنی بیویوں کو اس طرح ماریں جس طرح کہ ظالم لوگ غلاموں کو مارتے ہیں اور پھر شام ہونے پر انہی بیویوں کے بستروں کی راہ ڈھونڈیں؟‘‘
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :
لا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت ۱۲۰
’’ یعنی زنہار عورت کو کبھی منہ پر نہ مارو اور نہ اسے کبھی گالی دو اور اگر کبھی سزا کے طور پر عملی علیحدگی اختیار کرو تو ایسی علیحدگی لازماً گھر کے اندر ہی ہونی چاہئیے‘‘۔
اور مارنے کی سزا کو مطلقاً ناپسند کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیںکہ :-
لقد طاف آل محمد نساء کثیر یشکو ازواجھن لیس اولئک بخیارھم۱۲۱
’’یعنی میرے اور میری بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں یہ شکایت لے کر آئی ہیں کہ ان کے خاوند انہیں مارتے ہیں۔ اے مسلمانو! سن لو کہ ایسا کرنے والے خاوند ہرگز اچھے مسلمان نہیں سمجھے جا سکتے ۔‘‘
گویا بالفاظ دیگر طلاق کی طرح جس کے متعلق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابغض حلال الی اﷲ الطلاق ( یعنی جائز باتوں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے ) شریعت نے خاص حالات میں جبکہ دوسرے تمام ذرائع ناکام ہو جائیں سرکش اور نافرمان عورتوں کے متعلق سزا کی اجازت تو بے شک دی ہے لیکن اسے ہرگز ایک اچھا فعل قرار نہیں دیا بلکہ صرف ایک مجبوری کا استثنائی قانون رکھا ہے اور حضرت عبد اللہؓ بن عباس کی تشریح کے ماتحت تو یہ سزا صرف ایک گونہ ناراضگی کی علامت ہی قرار پاتی ہے ورنہ مسواک سے مارنا کیا اور سزا کیا! اور ہمارے آقا (فداہ نفسی) کا ذاتی نمونہ یہ ہے کہ ایک وقت میں نو بیویاں رکھنے کے باوجود جس کے نتیجہ میں بعض اوقات گھر میں رنجش اور ناواجب مطالبات کی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی۔ آپ ؐ نے کبھی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ اور مربیانہ اور محسنانہ سلوک رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی بار بار یہی نصیحت کی ہے :
خیرکم خیرکم لاھلہ ۱۲۲
’’ یعنی اے مسلمانو! تم میں اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں اچھا ہے۔‘‘
اور اگر آپ نے استثنائی حالات میں خاوند کو سزا کی اجازت دی تو اس اجازت کو بھی ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ مشروط کر دیا کہ یہ اجازت کبھی بھی ایک دیندار خاوند کے ہاتھوں میں ظلم کا آلہ نہیں بن سکتی اور بے دین خاوند کو تو نہ اخلاق روک سکتے ہیں اور نہ شریعت ۔ دوسری طرف وہ کونسی سمجھدار خاتون ہے جو نافرمان اور سرکش اور کانگی امن کو برباد کرنے والی اور فاحشہ مبینہ کی مرتکب عورتوں کو بھی سزا کے قابل نہ سمجھے؟ جھوٹے جذبات کا معاملہ جداگانہ ہے مگر عقلمند انسان کی انصاف کی نظر اُسے اس کے سوا کسی اور نتیجہ کی طرف نہیں لے جاتی کہ جو توتعلیم اسلام نے دی ہے یقیناً وہی حق و انصاف کی تعلیم ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ جو عورتیں صریح طور پر نافرمانی اور سرکشی اور بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہیں، ان کے متعلق اسلام خاوند کو ( بوجہ اس کے کہ وہ گھر کا محافظ اور نگران ہے) سزا کی اجازت دیتا ہے مگر اس بدنی سزا سے پہلے دو مرحلے گزرنے ضروری ہیں۔ اول یہ کہ خاوند پندو نصیحت کے ذریعہ عورت کو سمجھانے کی کوشش کرے اور دوسرے یہ کہ اگر نصیحت کارگر نہ ہوتو احساس پیدا کرانے کی غرض سے اس سے گھر میں ہی عملی علیحدگی اختیار کرے لیکن اگر یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہو پھر بحالت مجبوری نافرمان اور سرکش اور ضدی عورتوں کے متعلق خاوند کو بدنی سزا کا حق دیا گیا ہے لیکن اس سزا کے لئے ہماری حکیمانہ شریعت نے یہ سات شرطیں ضروری قرار دی ہیں:-
(۱) یہ کہ ایسی سزاصرف نشوز کے ارتکاب پر دی جائے نہ کہ ہر غلطی پر اور دی بھی اس وقت جائے جبکہ نصیحت اور ھجر کی تمام تدابیر ناکام رہیں۔
(۲) یہ کہ ایسی سزا سے بدن پر کوئی نشان نہ پڑے ۔
(۳)یہ کہ سزا سخت اور تکلیف دہ نہ ہو بلکہ ہلکے رنگ میں دی جائے جیسے کہ مثلا ً مسواک کی چوٹ لگتی ہے۔
(۴) یہ کہ بہرحال چہرہ پر ضرب نہ لگائی جائے۔
(۵) یہ کہ یہ سزا دوسروں کے سامنے نہ دی جائے بلکہ علیحدگی میں دی جائے۔
(۶) یہ کہ عورت کی طرف سے اصلاح ہونے پر پچھلے تمام گلے شکووں کو بھلا کر دل صاف کر دیا جائے۔
(۷) یہ کہ پھر بھی عورتوں کو بدنی سزا دینے والے بحیثیت مجموعی اچھے لوگ نہیں سمجھے جا سکتے۔
اس قرآنی تعلیم کے لئے میں عورتوں کو ہی منصف بناتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے بتائیں کہ کیا ایک نا فرمان اور سرکش اور خاوند کی باغی اور فاحشہ مبینہ کی مرتکب عورت کے واسطے جبکہ اس کی اصلاح کے لئے تمام دوسرے ذرائع ناکام ثابت ہوں اس قسم کی سزا غیر منصفانہ سمجھی جا سکتی ہے؟ باقی رہا نیک اور شریف عورتوں کا سوال، سو انہیں تو اسلام سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ ۱۲۳
’’ یعنی دنیا کی نعمتوں میں سے بہترین نعمت نیک اور شریف بیوی ہے۔‘‘
اس ارشاد کے ہوتے ہوئے کون ظالم انسان اسلام کی تعلیم پر اعتراض کر سکتا ہے؟
قرآنی آیت کی تشریح کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان تین سزائوں کو جو قرآن شریف نے بیان کی ہیں یعنی (۱) پند و نصیحت (۲) عملی علیحدگی(۳) بدنی سزا۔ انہیں سب عورتوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں کے مختلف طبقات کے لئے مخصوص قرار دیا جائے اور آیت کا مفہوم یہ لیا جائے کہ جو عورتیں قولی نصیحت کے ذریعہ ماننے والی ہوں ان کے متعلق قولی نصیحت کا رستہ اختیار کیا جائے اور جو عورتیں عملی ناراضگی کے ذریعہ راہ راست پر لائی جا سکتی ہوں ان کی اصلاح عملی ناراضگی کے ذریعہ کی جائے اور جو عورتیں اپنی عادات اور روایات کی بناء پر صرف سزا سے ٹھیک ہو سکتی ہوں ان کے متعلق مقررہ شرائط کے ماتحت سزا کا طریق اختیار کیا جائے اور اس تشریح کے ماتحت بھی کوئی دانا شخص اس تعلیم پر اعتراض نہیں کر سکتا۔
بالآخر یہ بات بھی ضرور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآنی شریعت کے نزول کے وقت ہمارے آقا آنحضرت صلعم نے اور قرآنی شریعت کی عالمگیر اشاعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اپنے اہل خانہ کو بدنی سزا نہیں دی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان ارفع ہستیوں کی ازواجِ مبارکہ نے کبھی نشوز ہی نہیں کیا اس لئے ان کے تعلق میں سزا کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوںبے شک یہ درست ہے مگر کیا ہم اور تم بھی ان بزرگوں کے نام لیوا نہیں ہیں جن کے حسن سلوک اور حسن تدبیر نے ان کے اہل خانہ پر نشوز کے تمام رستے بند کر کے ان کے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا تھا؟ ولقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃحسنۃ یا اولی الالباب۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)






آنے والے حج کے دن بہت دعائیں کی جائیں
ان دعائوں کا بہترین وقت دن کا آخری حصہ ہے
موجودہ اطلاعات کے مطابق آنے والی عید الاضحی انشاء اللہ ۲۴ ستمبر کو بروز اتوار ہو گی۔ اس سے پہلا دن یعنی ۲۳؍ستمبر بروز ہفتہ حج کا دن ہے جو اسلام کی اہم ترین عبادتوں میں سے خاص برکتوں والی عبادت ہے۔ جب کہ چہار اکناف عالم سے مسلمانوں کی بڑی بھاری تعداد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ میں جمع ہو کر دنیا کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ با برکت مسجد یعنی مسجد الحرام اور اس کے ماحول میں ایک اجتماعی عبادت بجا لاتی ہے۔ اس عبادت کا مرکزی نکتہ عرفات کا قیام یعنی وقوف ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشاد کے مطابق ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی شام کو یعنی حج والے دن کے پچھلے حصہ میں ہوتا ہے۔ جسے عصر کی نماز سے لے کر مغرب تک کا وقت سمجھنا چاہئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علے وسلم کا طریق تھا کہ آپ ؐ عرفات کے رتیلے اور ٹیلے والے میدان میں عصر سے لے کر مغرب تک قیام فرماتے تھے جو اصطلاحاً وقوف کہلاتا ہے اور یہ ساراوقت ذکرِ الٰہی اور دعائوں میں گزارتے تھے اور عرفات کا نام بھی عرفات اسی لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں گویا بندوں کو اپنے آقا کی شناخت اور عرفان کا موقعہ میسر آتا ہے اور عرفات کی دعائوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی اہمیت دی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
وخیر الدعاء دعاء یوم عرفۃ و خیر ما قلت انا والنبیون من قبلی لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ۔۱۲۴
’’ یعنی بہترین دعا عرفات کے میدان کی دعا ہے اور میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی بہترین تعلیم یہ ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی اور عبادت کے قابل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے‘‘
اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ حج میں دعا کا بہترین موقع عرفات کے وقوف کا وقت ہے جو حج والے دن عصر سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے اور چونکہ خدا کی ہرنعمت میں ایک وسعت کا پہلو بھی ہوتا ہے، اس لئے اسلام میں اولیاء اور صوفیاء کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ وہ حج کے بغیر بھی اس وقت کو اپنے گھروں میں ذکرِ الٰہی اور دعائوں میں گزارتے رہے ہیں کیونکہ یہ وقت مخلص مومنوں کے لئے خدا کی خاص رحمتوں کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ :-
ما من یوم اکثر من ان یعتق اللّٰہ فیہ عبد اً من النار من یوم عرفۃ ۱۲۵
’’ یعنی عرفات کے دن سے بڑھ کر کوئی اور دن ایسا نہیں کہ جس میں خدا اپنے بندوں کو اس دن سے زیادہ آگ سے نجات عطا کرتا ہو۔‘‘
پس حج کا دن دعائوں کی قبولیت کا خاص دن ہے اور اگر اس سال رؤیت ہلال کے فرق کی وجہ سے یا ویسے ہی حج خلاف توقع جمعہ کے دن نہیں ہوا جب کہ اس دن میں دو بھاری برکتیں جمع ہو جاتیں ایک حج کی برکت اور دوسری جمعہ کی برکت مگر بہر حال حج حج ہی ہے خواہ وہ کسی دن آئے اور عرفات کا وقت بہر صورت عظیم الشان برکتوں سے معمور ہوتا ہے۔ پس دوستوں کو چاہئیے کہ آنے والے حج کے دن یعنی ۲۳؍ ستمبر بروز ہفتہ دن کے پچھلے حصہ میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اس کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں کہ یہ دن سال میں صرف ایک دفعہ ہی آتا ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ اگلے سال اسے یہ دن دیکھنا نصیب ہو گا یا نہیں اور حق یہ ہے کہ حقیقی عید بھی اسی کی ہوتی ہے جو حج کے دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ عصر کے وقت کو ویسے بھی اسلام کے ساتھ خاص نسبت ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کے موجودہ دور کے لحاظ سے مسلمانوں کی امت کو گویا عصر کے وقت پیدا کیا گیا ہے جو موجودہ سات ہزار سالہ دور کا آخری حصہ ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
انما اجلکم فی اجل من خلامن الامم ما بین صلوٰۃ العصر الی مغرب الشمس۔۔۔۔والا لکم الاجر مرتین ۱۲۶
’’ یعنی اے مسلمانو! ہمارا دور گزشتہ امتوں کے دوروں کے مقابل پر ایسا ہے کہ گویا عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت لیکن تمہارا اجر خدا کی تقدیر میں دوہرا رکھا گیا ہے۔‘‘
اور قرآن شریف نے بھی اس لطیف مشابہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے :
۱۲۷
’’ یعنی ہمیں قسم ہے دنیا کے موجودہ دور کے آخری حصہ کی جواب شروع ہو رہا ہے کہ آئندہ مادیت کی ترقی اور دجالی فتنوں کے انتشار کی وجہ سے انسان اپنی ظاہری ترقی کے باوجود روحانی لحاظ سے گھاٹے میں پڑتا چلا جائے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ہمارے اس برگزیدہ نبی پر ایمان لا کر اعمال صالح بجا لائیں اور دوسروں تک بھی پیغام حق پہنچاتے چلے جائیں اور ماحول کی مغویانہ کششوں کے باوجود خود بھی صبر و استقلال کے ساتھ نیکی پر قائم رہیں اور دوسروں کو بھی قائم کرنے کی کوشش کریں‘‘
ان لطیف آیات اور ان سے اوپر کی لطیف حدیث میں مسلمانوں کے زمانہ کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ بیشک منکروں اور بے دینوں کے لئے یہ وقت خسارہ کا وقت ہے مگر سچے مومنوں اور نیک لوگوں کے لئے یہی وقت خدا تعالیٰ کے خاص انعام پانے کا بھی وقت ہے کیونکہ دراصل ظلمت کی شدت ہی نور کی قدر کو بڑھاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ غالباً اسی نسبت سے عرفات کے وقوف کے واسطے عصر کا وقت چنا گیا ہے تاکہ مسلمان اپنے قومی زمانہ کی نسبت سے اپنی دعائوں میں زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کر سکیں اور شاید اسی نسبت سے ہی عصر کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دے کر اس کی حفاظت پر زیادہ زور دیا گیا ہو۔
بہر حال ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ آنے والے حج کا دن خاص طور پر دعائوں میں گزاریں اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ عصر سے لے کر مغرب تک دعائیں کریں کیونکہ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا یہ بھی ہمارے خدا کی ایک سنت ہے کہ بسا اوقات رات کے پھیلتے ہوئے پروں پر خدا کی خاص نعمتیں سوار ہو کر آیا کرتی ہیں۔
باقی رہا یہ کہ کیا دعائیں کی جائیں۔ سو یہ سوال ہر شخص کو اپنے دل سے پوچھنا چاہئے۔ کیا کوئی سوالی لوگوں سے یہ بات پوچھا کرتا ہے کہ میں کیا مانگوں۔ وہ طبعاً وہی چیز مانگتا ہے جس کی اسے یااس کیخاندان کو یا اس کی قوم کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ پس خود اپنی ضرورتوں کو دیکھو اور ان کی اہمیت کا اندازہ کرو اور پھر خدا سے مانگو۔ ہمارا خدا جو رب العالمین ہے۔ جسم کا بھی خدا ہے اور روح کا بھی خدا ہے۔ پس تمام مادی انعام بھی اس کے ہاتھ میں ہیں اور تمام روحانی انعام بھی اسی کے تصرف کے نیچے ہیں۔ پس جب کہ وہ مادیت اور روحانیت ہر دو جہانوں کا مالک ہے تو کیوں نہ اس سے ہر وہ اچھی چیز مانگی جائے جس کی ہمیںضرورت اور خواہش ہے اور قرآن نے کیا ہی با برکت دعا سکھائی ہے کہ :
۱۲۸
’’ یعنی اے خدا ہمیں دنیا میں بھی خیر و برکت عطا کر اور آخرت میں بھی خیر و برکت عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ‘‘۔
سچ ہے جس نے دنیا کے اندر دنیا میں ملنے والی حسنۃ پا لی اور آخرت میں آخرت کی حسنۃ حاصل کرلی اور وہ دنیا کی آگ سے بچ گیا اور آخرت میں آخرت کی آگ سے محفوظ ہو گیا۔ وہ خدا کی ابدی رحمت کے سایوں کے نیچے ہے جس سے کوئی طاقت اسے محروم نہیں کر سکتی۔ و اٰخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)










اسلامی پردہ کے متعلق ایک فیصلہ کن حدیث
عورت کا چہرہ یقیناپردہ میں شامل ہے
کچھ عرصہ ہوا اسلامی پردہ کے متعلق میرا ایک نوٹ ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس نوٹ میں میں نے اسلامی احکام پردہ کے متعلق سات نکات پیش کئے تھے جو میرے خیال میں پردہ کے مسئلہ میں اسلامی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ ہیں اور مفصل مضمون کے متعلق میں نے آئندہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا مگر افسوس ہے کہ ابھی تک مجھے اس کا موقعہ نہیں مل سکا۔ بہر حال ذیل کے مختصر نوٹ میں اپنا موعودہ مضمون تو نہیں مگر اسلامی پردہ کے متعلق صحیح بخاری کی ایک ایسی حدیث پیش کرتا ہوں جو میری رائے میں اس بحث کے مرکزی حصہ کے متعلق بالکل فیصلہ کن ہے اور وہ ہے بھی ہماری مادرِ مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سب سے زیادہ علم دین رکھنے والی تھیں۔ مفصل مضمون انشاء اللہ پھر کبھی الفضل میں شائع کرانے کی سعادت حاصل کروں گا۔
وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم
پردہ کی بحث کے تعلق میں تمہیدی طور پریہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ اسلام میں پردہ کے احکام ہجرت کے پانچویں سال حضرت زینب بنتجحش رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقعہ پر نازل ہوئے تھے۔ یہ حضرت زینب وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی تھیں اور آنحضرت صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے منشاء کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیاہی گئیں مگر مصلحتِ الٰہی سے یہ شادی کامیاب ثابت نہ ہوئی اور طلاق تک نوبت پہنچی۔ جس کے بعد حضرت زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آگئیں اور اسی مبارک تقریب کے موقعہ پر پردہ کے احکام نازل ہوئے۔ یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق سے پہلے ۵ ہجری کا ہے۔
اب جاننا چاہئے کہ خواہ اسلامی پردہ کی کوئی تشریح کی جائے۔ (ہمیں اس جگہ اس کی تفصیل سے غرض نہیں) بہر حال یہ ماننا پڑے گا کہ پردہ کے احکام کے ذریعہ اسلامی تمدن اور مسلمان عورتوں کے رہنے سہنے کے طریق میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آئی، ورنہ نئے احکام کے نزول سے پہلے بھی مسلمان عورتیں بے پردہ تھیں اور ان کے بعد بھی وہ بے پرد ہی رہیں تو ہر عقلمند انسان خیال کر سکتا ہے کہ یہ کوئی تبدیلی نہیں اور نہ اس صورت میں نئے احکام کی کوئی ضرورت تھی ۔ یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان احکام سے پہلے مسلمان عورتیں نعوذ باللہ ننگے بدن پھرتی تھیں اور ان احکام کے بعد انہیں بدن ڈھانکنے کا حکم دیا گیا مگر چہرہ بدستور ننگا رہا لیکن یہ خیال بھی ( اگر کوئی شخص ایسا خیال کرنے کی جرأت کرے ) بالبداہت باطل ہے کیونکہ اس بات کا ہرگز کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی یہ بات عقلاً باور کی جا سکتی ہے کہ پردہ کے احکام سے پہلے مسلمان عورتیں افریقہ کے وحشیوں کی طرح نعوذ باللہ ننگی پھرتی تھیں کیونکہ یہ بات تاریخی شہادت سے ثابت ہے کہ عربوں میں باقاعدہ لباس کا رواج تھا۔ پس بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو بھی تبدیلی ہوئی وہ ننگے بدن کو ڈھانپنے سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ بلکہ اس کے علاوہ کچھ اور تھی ۔ یہ تبدیلی کیا تھی؟ اس کا جواب مجھے اپنی طرف سے دینے کی ضرورت نہیں ہر شخص خود سوچ سکتا ہے کہ جب بدن ڈھانک کر اور باقاعدہ لباس پہن کر پھرنے والی عورتوں کو پردہ کا حکم دیا گیا تو لازماً اس سے چہرہ کا پردہ ہی مراد لینا ہو گا۔ پس خواہ پردہ کی تفصیل کچھ ہو بہر حال چہرہ پردہ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا ورنہ نئے احکام کے نزول کے کچھ معنے نہیں رہتے اور ان احکام کے نازل کرنے کی ساری عقلی بنیاد باطل چلی جاتی ہے۔ وھو المراد۔
اس تمہید کے بعد میں صحیح بخاری کی اس حدیث کو لیتا ہوں جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اور دراصل میرا یہ نوٹ اس وقت صرف اس حدیث تک ہی محدود ہے اور پردہ کے متعلق مفصل اور عمومی بحث کرنا اس جگہ میرا مقصد نہیں۔ بخاری کی یہ حدیث بنو مصطلق سے تعلق رکھتی ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو مصطلق کی شرارتوں کے انسداد کے لئے ان کے مقابلہ کے واسطے مدینہ سے نکلے تھے۔ یہ پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے اور شعبان ۰۵ ھ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بھی حضور کے ہمراہ تھیں۔ سفر سے واپسی پر جب ایک رات کے وقت آرام کی خاطر پڑائو کیا گیا تو حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک طرف ہو کررفع حاجت کے لئے گئی۔ جب میں وہاں سے واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے گلے کا ہار غائب ہے۔ میں اس کی تلاش کے لئے پھر واپس گئی۔ مگر اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا حکم دے دیا تھا۔ اب اتفاق یہ ہوا کہ جو لوگ حضرت عائشہ ؓ کے کجا وہ کو اٹھا کر اسے ان کے اونٹ پر رکھنے کے لئے مقرر تھے۔ انہوں نے خالی کجاوہ ہی اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دیا اور چونکہ حضرت عائشہ ؓ اس وقت بہت چھوٹی عمر اور ہلکے جسم کی اور خوراک بھی کم تھی۔ کجا وہ اٹھانے والوں نے اس بات کو محسوس نہ کیا کہ کجاوہ خالی ہے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ ؓ کے پیچھے رہ جانے کا علم ہوا اور اس طرح قافلہ حضرت عائشہ ؓکو پیچھے چھوڑ کر آگے روانہ ہو گیا۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر کہ قافلہ جا چکا ہے، بہت گھبرائی مگر میں نے ارادہ کیا کہ اب بہر حال یہاں سے ہلنا مناسب نہیں کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے پیچھے رہنے کا علم ہو گا تو آپ لازماً اس جگہ واپس تشریف لائیں گے۔ چنانچہ میں اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی۔ اور چونکہ رات کا وقت تھا مجھے نیند آ گئی اس کے بعد صبح کے قریب ایک صحابی صفوان بن معطل وہاں پہنچا۔ یہ وہ شخص تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کے پیچھے پیچھے رہنے کا حکم دیا تھا تاکہ گری پڑی چیزوں وغیرہ کا خیال رکھے۔ جب صفوان نے مجھے اس جگہ اکیلے سوئے ہوئے دیکھا تو اس نے مجھے فوراًپہچان لیا۔ کیونکہ وہ پردہ کے احکام سے قبل مجھے دیکھ چکا تھا اور اس نے گھبرا کرانا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ اس کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور میں نے اسے دیکھتے ہی جھٹ اپنا مونہہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا اور پھر اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا کر اور خود ساتھ ساتھ پیدل چل کر قافلہ تک پہنچا دیا۔ چنانچہ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کے الفاظ یہ ہیں:
کان صفوان بن معطل من وراء الجیش فاصبح عند منزلی فرائی سود انسانٍ نائمٍ فعرفنی حین رأَنی وکان رآنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عرفنی فخمرت و جھی بجلبا بی۔ ۱۲۹
’’ یعنی صفوان بن معطل لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ وہ صبح کے قریب میری جگہ پر پہنچا اور اس نے وہاں دور سے ایک انسان کو سوئے ہوئے دیکھا۔ جب وہ آگے آیا تو اس نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ مجھے پردہ کے احکام سے پہلے دیکھ چکا تھا اور میں اس کے انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ سے جاگ اٹھی اور میں نے اسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا۔‘‘
یہ حدیث صحیح بخاری کی حدیث ہے جو کتاب اللہ کے بعد اسلام میں صحیح ترین کتاب مانی گئی ہے۔ اور اس کی راوی خود حضرت عائشہ ؓ ہیں جو آنحضرت صلعم کی محبوب ترین بیوی تھیں اور دینی مسائل میں انہیں وہ عظیم الشان مرتبہ حاصل تھا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ـ:
عن ابی موسیٰ ؓ ما اشتکل علینا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیثً ۔۔۔فسائلنا عائشۃ الا وجدنا عندھا علماً ۱۳۰
’’ یعنی حضرت ابو موسیٰ ؓاشعری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم کے صحابہ پر کبھی کسی مسئلہ میں کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ ہمیں اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کے پاس صحیح حل نہ مل گیا ہو‘‘
اور پھر پردہ کا مسئلہ تو خصوصیت سے ایسا ہے کہ اس میں حضرت عائشہ ؓسے بڑھ کر کسی اور صحابی یا صحابیہ کا علم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ مسئلہ براہ راست آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں سیکھا تھا اور آپ کی زندگی میں ہی اس پر عمل کر کے اس کی ساری تفصیلات پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ پس جب حدیث صحیح بخاری کی ہو جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے اور روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہو جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مسئلہ میں یقینا سب مسلمانوں سے بڑھ کر علم رکھنے والی تھیں تو اس روایت کا درجہ ظاہر و عیاں ہے جس پر کسی تشریحی نوٹ کی ضرورت نہیں۔
اب ہم اس حدیث کے فقہی پہلو پر نظرڈالتے ہیں تو دو باتیں ایسی یقینی اور قطعیمعلوم ہوتی ہیں کہ ان میں کسی عقلمند انسان کے لئے کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی
پہلی بات حضرت عائشہ ؓ کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ :
فعرفنی حین رآنی و کان رآنی قبل الحجاب
’’یعنی صفوان نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ پردے کے احکام سے پہلے مجھے دیکھ چکا تھا۔‘‘
ان الفاظ سے روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ خواہ اسلامی پردہ کے احکام کی تفصیل کچھ سمجھی جائے۔ بہر حال یہ پردہ عدم شناخت کا موجب تھا اور اسی پردہ کے ہوتے ہوئے ایک غیر محرم مرد کے لئے کسی غیر عورت کی شناخت ممکن نہیں تھی ورنہ حضرت عائشہ ؓکبھی یہ الفاظ نہ فرماتیں کہ ’’صفوان نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ پردہ کے احکام سے پہلے مجھے دیکھ چکا تھا۔‘‘
یہ الفاظ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ اسلامی پردہ کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی عورت شناخت نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک ایسا پختہ اور ناقابل تردید استدلال ہے کہ کوئی شخص جو مجنون نہیں اس کے انکار کی جرأ ت نہیں کر سکتا۔
دوسری بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ :
فخمرت وجھی بجلبا بی
’’ یعنی جب میں صفوان کے الفاظ سے جاگی تو میں نے اُ سے دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ چہرہ کا ڈھانکنا اسلامی پردہ کا لازمی حصہ ہے ورنہ وہ یہ ہرگز نہ فرماتیں کہ میں نے صفوان کو دیکھ کر ’’ اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا‘‘ اگر چہرہ پردہ کے احکام میں شامل نہیں اور اسلام عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ کو چھپانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اسے ننگا رکھنے کی اجازت دیتا ہے تو حضرت عائشہ ؓ ( ہاں وہی عائشہ رضی اللہ عنہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی تربیت یافتہ اور آپ ؐ کی تعلیم سے واقف ترین بیوی تھیں) یہ کس طرح فرما سکتی تھیں کہ میں نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا؟ اور یاد رکھنا چاہئیے۔ جلباب ( یعنی چادر ) کا لفظ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ عربی زبان میں اوڑھنی یعنی دوپٹہ کے لئے نہیں بولا جاتا جو عورت کے زینت والے لباس کا حصہ ہوتا ہے بلکہ اس سادہ چادر کے لئے بولا جاتا ہے جو پردہ کی خاطر سارے لباس کے اوپر لپیٹی جاتی ہے۔ بہر حال حضرت عائشہ ؓ کے یہ الفاظ کہ میں نے صفوان کو دیکھ کر اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ چہرہ اسلامی پردہ کے احکام میں شامل ہے اور یہ کہ ہر مسلمان عورت کا فرض ہے کہ غیر محرموں کے سامنے جاتے ہوئے اپنے چہرہ کو ڈھانک کر رکھے۔
اس جگہ بعض لوگ یہ اعتراض پیش کیا کرتے ہیں کہ بعض روایتوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ عورت کا چہرہ ان استثنائی اعضاء میں شامل ہے جن کی طرف قرآنی آیت ( یعنی وہ حصہ جو مجبوراً ظاہر کرنا پڑے )میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے چہرہ کا پردہ ضروری نہیں مگر یہ استدلال بالکل غلط اور باطل ہے کیونکہ اول تو یہ روایتیں جو زیادہ تر مفسرین کے اقوال پر مبنی ہیں۔ بخاری کی اس پختہ اور صحیح حدیث کے مقابلہ پر کوئی وزن نہیں رکھتیں جو خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی اوپر درج کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ عربی کے مسلمہ محاورہ کے مطابق وجھ ( یعنی چہرہ ) کا لفظ کل چہرہ اور اس کے جزو دونوں پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ علم معانی و بلاغت میںیہ عام اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ایک لفظ جو ایک خاص مفہوم کے لئے وضع ہوتا ہے وہ کبھی زبان کی وسعت کے لحاظ سے اس کے جزو پر بھی بول دیا جاتا ہے اور عربی میں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں ( دیکھو مختصر معانی وغیرہ ) پس جو روایتیں وجہ ( یعنی چہرہ ) کو کی استثنیٰ میں شامل قرار دیتی ہیں۔ ان میں بھی لازماً چہرہ سے چہرہ کا جزو مراد لیا جائے گا نہ کہ سارا چہرہ اور اس صورت میں اس استثناء کا منشاء صرف یہ سمجھا جائے گا۔ کہ حسب ضرورت عورت رستہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں کو اور سانس لینے کے لئے اپنے ناک یا منہ کے دہانہ کو کھلا رکھ سکتی ہے۔ مگر بہر حال یہ بات بالکل غلط اور باطل ہے کہ سارا چہرہ پردہ سے مستثنیٰ ہے۔ کیونکہ اگر اسے درست مانا جائے تو پردہ کچھ رہتا ہی نہیں بلکہ ایک محض مذاق بن جاتا ہے۔ سوچو اور غور کرو کہ کیا پردہ کے احکام سے پہلے مسلمان عورتیں نعوذ باللہ ننگی اور بے لباس پھر تی تھیں کہ انہیں پردہ کا حکم دے کر یہ سمجھایا گیا کہ جسم ڈھانک لیا کرو مگر چہرہ بے شک ننگا رکھو؟ جسم ڈھانک کر پھرنے والی عورتوں کے متعلق پردہ کا حکم لازماً چہرہ کے متعلق ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اگر یہ نہیں تو پردہ کا حکم ایک بالکل بے معنی چیز قرار پاتا ہے۔ بے شک ایک آزاد خیال شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ پردہ کا حکم غیرمعقول ہے اور میں اسے نہیں مانتا۔ مگر اسلامی پردہ کو مان کر پھر سارے چہرہ کو مستثنیٰ سمجھنا ایک مجنونانہ خیال سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ علاوہ ازیں جب صحیح بخاری کی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ یقینی اور قطعی الفاظ میں یہ فرماتی ہیں کہ ’’ میں نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا‘‘ تو اس بات میں قطعاً کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ چہرہ اسلامی پردہ کا ضروری حصہ ہے اور جو شخص چہرہ کو پردہ سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے وہ دراصل موجودہ زمانہ کی آزادی کی رو سے متاثر ہو کر اسلامی تعلیم سے کھیلنا چاہتا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن شریف کے بعد اسلام کی صحیح ترین کتاب بخاری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد پردہ کے احکام کا بہترین علم رکھنے والی ہستی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ :
(۱) صفوان نے اس لئے حضرت عائشہ ؓکو شناخت کر لیا کہ وہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے انہیں دیکھ چکا تھا۔
(۲) حضرت عائشہ ؓ نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا۔
ان دونو باتوں سے جو مضبوط ترین شہادت سے ثابت ہیں اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلتا کہ:
(الف اسلامی پردہ ( جو بھی اس کی تفصیل سمجھی جائے) بہر حال عدم شناخت کا موجب ہے جس پر عمل کرتے ہوئے کوئی عورت شناخت نہیں کی جا سکتی اور
(ب) چہرہ ( جو عورت کی بہترین زینت ہونے کی وجہ سے اخفائے زینت کے حکم کا سب سے اہم حصہ ہے ) اسلامی پردہ کے احکام میں شامل ہے اور ہر دیندار عورت کا فرض ہے کہ غیر محرم مردوں کے سامنے جاتے ہوئے اپنا چہرہ ڈھانک کر رکھے۔
(ج) البتہ قرآنی آیت ۱۳۱کے ماتحت چہرہ کا ایک جزو یعنی رستہ دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سانس لینے کے لئے ناک یا منہ کا دہانہ بے شک حسب ضرورت کھلے رکھے جا سکتے ہیں اور اگر نیت بخیر ہو تو اس میں شریعت کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں ۔
قرآنی آیت یعنی زینت کا وہ حصہ جو مجبوراً ظاہر کرنا پڑے ) کے متعلق یہ بات بھی قابل تشریح ہے کہ عورتوں کے مختلف طبقات کے لحاظ سے بھی اس کے معنی مختلف ہو جائیں گے۔ کام کاج والی عورتوں کے متعلق اس آیت کا مفہوم طبعاً کسی قدر وسیع لیا جائے گا اور اس کے بعد دیہاتی عورتوں کا طبقہ آئے گا اور سب سے آخر میں شہری عورتوں کا طبقہ شمار ہو گا اور آگے ان مختلف طبقات میں بھی بعض ماتحت شاخیں بن جائیں گی اور در اصل قرآن شریف نے اس آیت کے الفاظ کو اسی لئے مجمل اور جامع رکھا ہے کہ تا مختلف حالات میں اس کی مختلف تشریح کی جا سکے۔ اسی اصول کے ماتحت بیمارعورتوں کا سوال بھی آتا ہے جو حسب ضرورت اپنے جسم کے ستر والے حصے بھی ( مثلا ً چہرہ اور پیٹ وغیرہ) ڈاکٹر کو دکھا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ وسعت ایک تندرست عورت کے متعلق ہرگز قبول نہیں کی جاسکتی۔
اس نوٹ کے تعلق میں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ یہ جو بخاری کی حدیث میں جلباب ( یعنی چادر ) کا ذکر آتا ہے۔ اس سے زینت والی اوڑھنی یا دوپٹہ مراد نہیں بلکہ وہ سادہ چادر مراد ہے جو زینت والے لباس کے اوپر پردہ کی غرض سے لی جاتی ہے اور دراصل برقعہ بھی حقیقہً جلباب ہی کی ایک قسم ہے مگر ظاہر ہے کہ موجودہ برقعہ اسلامی پردہ کا لازمی حصہ نہیں ہے بلکہ جو چیز بھی زینت والے لباس کے اوپر جسم اور لباس کی زینت کو چھپانے کی غرض سے اوڑھی جائے وہ جلباب کے مفہوم میں شامل ہے خواہ وہ چادر ہو جیسا کہ شریف دیہاتی عورتوں میں رواج ہے یا برقعہ ہو جیسا کہ شہری عورتیں استعمال کرتی ہیں۔ یا کوئی اور چیز ہو جو پردہ کی غرض سے جلباب کے مفہوم میں شامل سمجھی جا سکے اور اگر آج کل کے موجودہ برقعہ سے کوئی بہتر برقعہ ایجاد ہو سکے۔ جو ایک طرف اسلامی پردہ کی غرض وغایت کو پورا کر دے اور دوسری طرف عورت کی صحت اور چلنے پھرنے کی سہولت کے لئے زیادہ مفید ہو تو یقینا اس کا استعمال بھی بالکل جائز ہو گا بلکہ یہ ایک نہایت مفیدایجاد ہو گی جو یقینا بہت قابل تعریف اور قابل قدر سمجھی جائے گی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ خواہ جلباب کی کوئی صورت ہو۔ بہر حال اسے خود زینت کا موجب نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ جو چیز زینت کو چھپانے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ اسے کو زینت کا باعث بنا لینا یقینا پردہ کے احکام کو عملاً باطل کر دینے کے مترادف ہے۔ اسی اصول کے ماتحت پھول دار کپڑ ے یا شوخ رنگ کے جاذب نظر کپڑے کا برقعہ جس کی طرف آج کل بعض حلقوں میں میلان پیدا ہو رہا ہے ہرگز جائز نہیں سمجھا جا سکتا۔
بالآخر یہ اشارہ کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی پردہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں بند کر دیا جائے کیونکہ جس طرح آج کل کی بے پردگی ایک طرف کی ناواجب انتہاء اور اسلام کے خلاف ہے ۔ اسی طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے کا سخت پردہ بھی دوسری طرف کی ناواجب انتہا تھا۔ صحیح اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر ایک طرف اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اور مردوں اور عورتوں کے ناواجب اختلاط کو روکتا ہے تو دوسری طرف وہ عورتوں کو صحت کی درستی اور کام کی سہولت کے لئے جائز آزادی بھی عطا کرتا ہے۔ چنانچہ پردہ کی پابندی کے باوجود صحابہ ؓ کی عورتیں تعلیم حاصل کرتیں اور تعلیم دیتی تھیں۔ عیدوں کی نمازوں بلکہ عام نمازوں میں بھی مردوں کے ساتھ ایک طرف کھڑی ہو کرشامل ہوتی تھیں۔ حج کے تمام مناسک یعنی طواف اور سعی اور وقوف وغیرہ مردوں کے ساتھ شریک ہو کر بجا لاتی تھیں۔ سفروں میں محرم رشتہ داروں کے ساتھ بے روک ٹوک آتی جاتی تھیں۔ حسب ضرورت سواری کرتی، جنگوں میں نرسنگ وغیرہ کے فرائض سر انجام دیتی اور خاص اوقات میں تلوار بھی چلا لیتی تھیں۔
مسائل کے پوچھنے اور مسائل کے بتانے اور دیگر ضروری امور میں غیر محرم مردوں کے ساتھ گفتگو کرتی اور اپنی بات سناتی اور ان کی بات سنتی تھیں۔ معصوم تفریحی مناظر دیکھتیں اور ضروریات کی خرید کے لئے گھروں سے باہر نکلتی تھیں۔ الغرض ہر اس جائز کام میں حصہ لیتی تھیں جس میں ذاتی یا خاندانی ضرورت یا قومی ترقی کے لئے عورتوں کا حصہ لینا ضروری ہے۔ اور باوجود اس کے وہ پردہ بھی کرتی تھیں اور یہی وہ صحیح اور وسطی تعلیم ہے جسے اختیار کر نے پر دنیا دونو طرف کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر مجبور ہو گی۔
واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳ ؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)






ربوہ ۔چنیوٹ ۔احمدنگر کے سب دوست بخیریت ہیں
مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ ربوہ سرگودہا سے تار کے ذریعہ اطلاع بھجواتے ہیںکہ :
’’سیلاب کے پانی نے چاروں طرف سے ربوہ کو گھیر لیا تھا (گوخود ربوہ پانی سے محفوظ رہا ) مگر کل سے پانی کم ہو رہا ہے ۔ چنیوٹ اور احمد نگر کی سٹرک اب بھی غرقاب ہے مگر پیدل آدمی رستہ عبور کر سکتا ہے ۔ چنیوٹ ربوہ لالیاں کی ریلوے لائن بعض جگہ سے ٹوٹ گئی ہے مگر ربوہ ،احمد نگر، چنیوٹ کے سب دوست خیریت سے ہیں ۔
(ناظر اعلیٰ )
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)







کیا ایک محکوم شخص نبی نہیں بن سکتا
کیا صرف نبی کا لڑکا ہی نبوت کا انعام پا سکتا ہے ؟
ایک دوست محمد منیر صاحب قلعہ گوجر سنگھ لاہور سے دریافت کرتے ہیں کہ :-
(۱) کوئی ایسا شخص جو کسی حکومت کا غلام ہو نبی نہیں ہو سکتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکومت انگریزی کے غلام تھے پھر وہ کس طرح نبی بن گئے؟
(۲) نبوت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکوں کوہی مل سکتی تھی لیکن آپ کا کوئی لڑکا بھی زندہ نہ رہا اس لئے کوئی اور شخص کس طرح نبی بن سکتا ہے؟
پہلے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کسی کے غلام نہیں تھے بلکہ صرف سیاسی لحاظ سے حکومت انگریزی کے محکوم تھے اور محکوم اور غلام میں بھاری فرق ہوتا ہے۔ دوسرے یہ دعویٰ سرا سر باطل اور بے دلیل ہے کہ ایک محکوم شخص نبی نہیں بن سکتا۔ مدعی کا فرض ہے کہ پہلے اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرے۔ اس کے بعد اس کے جواب کے مطالبہ کا حق پیدا ہوتا ہے۔ تیسرے قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کئی نبی ایسے گزرے ہیں جو سیاسی لحاظ سے غیر حکومتوں کے محکوم تھے مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے انہیں نبوت کے انعام سے نوازا۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے کافر بادشاہ فرعون کی رعایا تھے۔ چنانچہ خود حضرت موسیٰ ؑفرعون سے فرماتے ہیں کہ ۱۳۲یعنی ’’ تو نے میری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے‘‘ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام بھی مصر کے بادشاہ کے ماتحت تھے۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے ۱۳۳’’ یعنی یوسف کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مصر کے بادشاہ کی حکومت کے ماتحت اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکے مگر ہم نے خود اس کے لئے اس کام کی تدبیر پیدا کی‘‘۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فلسطین کی رومی حکومت کے ماتحت تھے ۔چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ جو ’’ قیصر کا ہے قیصر کو دو ( یعنی ٹیکس اور سیاسی اطاعت) اور جو خدا کا ہے ( یعنی چندہ اور روحانی اطاعت) خدا کو ادا کرو۔‘‘ پس اگر یہ انبیاء کرام ایک غیر حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے نبی بن سکتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کی حکومت کے اندر رہتے ہوئے کیوں نبی نہیں بن سکتے؟ خدا نے تو نبوت کے انعام کے لئے صرف اس قدر اعلان فرمایا ہے کہ ۱۳۴’’ یعنی یہ بات صرف خدا ہی جانتا ہے کہ نبوت کے منصب پر کون شخص فائز ہونا چاہئیے اور خدا جسے چاہتا ہے نبی بنا دیتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ باقی سب دعوے باطل اور بے دلیل ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ چونکہ نبوت کا حق صرف بیٹے کو ہو سکتا ہے اس لئے جب آنحضرت صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی فرزند زندہ ہی نہ رہا جسے نبوت ملتی تو اس کے بعد اور کسی کو کیا حق ہو سکتا ہے؟ سو اس سوال کا اصولی جواب بھی اوپر ہی کی قرآنی آیت میں آ جاتا ہے جہاں خدا فرماتا ہے کہ نبوت کے انعام کا فیصلہ کرنا صرف ہمارا کام ہے۔ پس جب نبوت کا فیصلہ صرف خدا کی رائے اور خد اکے انتخاب پر ہے تو یہ دعویٰ کرنا کہ نبوت صرف بیٹے کو مل سکتی ہے ایک بالکل باطل دعویٰ ہے جس کی کوئی سند نہیں۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نبی تھا جس کی وجہ سے انہیں نبوت ملی؟ اور کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باپ نبی تھا جس کا ورثہ حضرت موسیٰ کو پہنچا؟ پھر کیا سرور کائنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبد اللہ نبی تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے انعام سے نوازا گیا؟ یہ سب جھوٹے خیالات اور باطل دعوے ہیں جن کی نہ قرآن شریف میں کوئی سند ہے اور نہ حدیث و تاریخ میں ہی ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ دوسری طرف اگر نبوت ورثہ میں پہنچتی ہے تو کیا حضرت نوح ؑ کے بیٹے کو وراثت ملی جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ ۱۳۵ ’’یعنی وہ ایک غیر صالح انسان تھا ‘‘ پھر کیا حضرت سلیمان کے بیٹے کو نبوت ملی ، جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ : ۔۱۳۶
’’ یعنی سلیمان کی حکومت اس فتنہ میں مبتلا ہوئی کہ سلیمان کا لڑکا صرف ایک بے جان جسم تھا جس کے اندر زندگی کی کوئی روح نہیں تھی۔‘‘
حق یہ ہے کہ روحانی ورثہ کے معاملہ میں ہمارا حکیم و علیم خدا جسمانی رشتہ کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ نہ اوپر سے نیچے کی طرف اور نہ نیچے سے اوپر کی طرف بلکہ اسے صرف ذاتی اوصاف پر مبنی قرار دیتا ہے۔ اگر ایک کافر یا مشرک باپ کا بیٹا روحانی ترقی کے رستہ پر گامزن ہوتا ہے اور نبوت کے اوصاف کا جاذب بنتا ہے تو خدا اسے نبوت کے انعام سے سرفراز کر دیتا ہے اور اس کا ایک غیر مومن باپ کا بیٹا ہونا اس کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بنتا۔ اس کے مقابل پر اگر ایک نبی کا لڑکا روحانی انعاموں کا جاذب نہیں بنتا تو وہ ان انعاموں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے باپ کا نبی ہونا اسے ہرگزان انعاموں کا حقدار نہیں بنا سکتا اور یہی اصول نبیوں کے بعد خلفاء کے تقرر میں بھی چلتاہے۔
باقی رہا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے متعلق فرمایا تھا کہ لوعاش لکان صدیقاً نبیا۔۱۳۷ یعنی اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو وہ ایک صدیق نبی بنتا ۔‘‘ سو یہ بالکل درست ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ہر نبی کا لڑکا یا نبی کا ہر لڑکا نبی بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے بچوں ( قاسم ، طاہر اور طیب) کے متعلق بھی ایسا فرماتے ۔ مگر آپ ؐ نے اپنے ان بچوں کے متعلق ہرگز یہ الفاظ نہیں فرمائے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ صرف ایک ذاتی اور انفرادی بات تھی جو حضرت ابراہیم کی ذات کو مدنظر رکھ کر فرمائی گئی۔ چونکہ ان کے اندر بالقوۃ طور پر وہ اوصاف موجود تھے جو نبوت کے انعام کے جاذب بنتے ہیں۔ اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق خدا سے علم پا کر فرمایا کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا لیکن اپنے کسی اور بچے کے متعلق ایسا نہیں فرمایا اسی طرح ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں حضرت اسمٰعیل ؑاور حضرت اسحٰق ؑمیںنبوت کا جوہر موجود تھا۔ اس لئے وہ نبی بنائے گئے مگر حضرت ابراہیم ؑکے باقی لڑکوں زمران اور یقسان اور ریان وغیرہ کو ہرگز یہ انعام نہیں ملا۔ پھر حضرت اسحٰق ؑکے بیٹے حضرت یعقوب میں نبوت کا جوہر موجود تھا۔ اس لئے انہیں نبوت ملی مگر حضرت اسحق ؑ کے بڑے لڑکے عیسو کو یہ انعام نہیں ملا۔ پھر حضرت یعقوب ؑ کے چھوٹے لڑکے حضرت یوسف ؑکو نبوت حاصل ہوئی۔ مگر حضرت یعقوب ؑ کے دوسرے گیارہ لڑکے اس انعام سے محروم رہے پھر حضرت دائود کے فرزند حضرت سلیمان کو تو نبوت ملی۔ مگر حضرت سلیمان کے لڑکے کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہوا بلکہ وہ الٹا جسد ( یعنی بے جان جسم ) کے نام کا مستحق قرار پایا۔ اور مزید انعام ملنا تو درکنار پہلے انعام کو بھی ہاتھ سے کھو بیٹھا۔
پس یہ دعویٰ بالکل باطل اور خلاف واقعہ ہے کہ نبوت ایک ورثہ کا انعام ہے۔ حق یہ ہے کہ نہ تو نبوت جسمانی ورثہ میں ملتی ہے اور نہ ہی نبوت کا ورثہ جسمانی لحاظ سے آگے چلتا ہے۔ پس جبکہ یہ دعویٰ ہی باطل اور قرآنی اور تاریخی شہادت کے سراسر خلاف ہے تو یہ اعتراض کس طرح ہو سکتا ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جسمانی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکے نہیں تھے اس لئے وہ کیونکر نبی بن گئے؟ سنو! وہ اسی طرح ہی بن گئے جس طرح کہ حضرت نوح ؑ نبی بنے بغیر اس کے کہ ان کا باپ نبی تھا۔ اور جس طرح کہ حضر ت ابراہیم نبی بنے بغیر اس کے کہ ان کاباپ نبی تھا۔ اور جس طرح کہ حضرت موسیٰ نبی بنے اور جس طرح کہ حضرت دائود نبی بنے اور جس طرح کہ حضرت عیسیٰ نبی بنے ۔ ہاں روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑضرور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فرزند ہیں اور یہی وہ گہری حقیقت ہے جس کی طرف آیت۱۳۸ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔’’ یعنی گو محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم جسمانی لحاظ سے کسی نرینہ بچے کے باپ نہیں مگر روحانی لحاظ سے وہ کروڑوں ، اربوں مومنوں کے باپ ہیں بلکہ آپ ؐ کے عظیم الشان روحانی فیض کی مہر تو آپ کی روحانی اولاد کے لئے نبوت تک کے انعام کا رستہ کھولتی ہے۔‘‘
اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے تو خصوصیت سے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انی معک یا ابن رسول اﷲ ۔۱۳۹’’ یعنی اے رسول خدا کے فرزند میں تیرے ساتھ ہوں‘‘
فافھم و تدبر و لاتقف ما لیس لک بہ علم ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)










قادیان میں عید الاضحی کی نماز
اس سال قادیان میں عید الاضحی کی نماز ۲۳؍ ستمبر کو بروز ہفتہ ادا کی گئی جس میں یو۔پی وغیرہ سے آئے ہوئے احمدیوں کو شامل کر کے قریباً چار سو احمدیوں نے شرکت کی۔ افسوس ہے کہ اس سال سیلاب کی پریشانی اور رستوں کی خرابی کی وجہ سے پاکستانی دوست قادیان میں زیادہ قربانی نہیں کرا سکے ۔ تاہم اس سال بھی پاکستان کے دوستوں کی طرف سے قادیان میں قریباً سات قربانیاں ہوئیں مقامی احباب کی قربانیاں اس کے علاوہ ہیں۔
عید کے متعلق جو مختصر رپورٹ مولوی عبدالقادر صاحب جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے موصول ہوئی ہے، وہ دوستوں کی اطلاع کے لئے درج کی جاتی ہے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سیّدی حضرت میاں صاحب زاد مجدہ العالی
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
امید ہے آنمکرم بخیروعافیت ہوں گے۔ جملہ درویشان آنمکرم کی صحت کاملہ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ کل بروز ہفتہ قادیان شریف میں عید کی تقریب منائی گئی۔ جملہ درویشان کی طرف سے آنمکرم کی خدمت میں عید مبارک عرض ہے۔
عید کی نماز آٹھ بجکر دس منٹ پر مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی۔ مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اﷲ تعالیٰ کا ایک عید الاضحی کا … خطبہ بڑھ کر سنایا۔ عید کی نماز خطبہ و دعا کے بعد جملہ احباب ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے اور بغلگیر ہوتے تھے۔ مکرم حضرت امیر صاحب و صاحبزادہ حضرت میاں وسیم احمد صاحب سے سب احباب نے مصافحہ کیا اور بغلگیر ہوئے۔ عید کی خوشی میں کھیلوں کا پروگرام بھی تھا جو بعد نمازِ عصر عمل میں آیا اور عشاء کی نماز کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک مشاعرہ بھی ہوا جس میں تمام نظمیں سنجیدہ الفاظ اور مذہبی رنگ کی حامل پڑھی گئیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ، حضرت امیر المؤمنین، حضرت نواب مبارکہ بیگم زاد مجدہا کی بعض نظمیں بھی پڑھی گئیں۔ اس موقع پر خاکسار نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مندرجہ ذیل نظم سنائی۔ تا وہ درویش جو اپنی ذاتی یا خاندانی حالات کی وجہ سے عارضی یا مستقل پرمٹ کے حصول کے لئے کہہ رہے ہیں انہیں تسلی دے کر یہاں مزید ٹھہرنے کی تحریک کی جائے۔ آنمکرم کے ملاحظہ کے لئے یہ اشعار ذیل میں رقم ہیں۔
کیا چلے جانا ہے تم کو قادیاں کو چھوڑ کر
چھوڑ کر دارالاماں جنت نشاں کو چھوڑ کر
جس کی ہر موج ہوا ہے جسم و جاں کی تازگی
ایسے پُر منظر چمن کے آشیاں کو چھوڑ کر
ہو نزول رحمتِ باری جہاں ہر خشت پر
کیسا جینا اُس زمین و آسمان کو چھوڑ کر
تم کو کیا معلوم کیا ہے داغِ ہجرت کی جلن
تلخیاں ہی تلخیاں ہیں اس مکاں کو چھوڑ کر
پوچھ اُن عشاق سے جو بے سروساماں گئے
کیا کہیں آرام جاں ہے قادیان کو چھوڑ کر
کیا ہی خوش قسمت ہو تم درویش کہتے ہیں تمہیں
نام یہ پایا ہے پر تم نے جہاں کو چھوڑ کر
ہیں تمہیں دشواریاں پر یہ نہیں جانے کا وقت
تخت گاہِ مہدیٔ آخر زمان کو چھوڑ کر
بیٹھ کر صبر و سکوں سے کاٹ لو کچھ اور وقت
تخت گاہ مہدیٔ آخر زمان کو چھوڑ کر
بیٹھ کر صبرو سکوں سے کاٹ لو کچھ اور وقت
کیا خبر قسمت میں کیا ہو گلستان کو چھوڑ کر
آخرش فتح نمایاں ہے انہی کے نام پر
جو یہاں بیٹھے رہیں گے سب جہاں کو چھوڑ کر
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)


مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک دوست کا سوال
کیا تقدیر مبرم بھی ٹل سکتی ہے ؟
کچھ عرصہ ہوا میرا ایک مضمون مسئلہ تقدیر کے متعلق شائع ہوا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد اس مضمون کا ایک تتمہ بھی شائع ہوا جو ایک احمدی نوجوان کے سوال کے جواب میں تھا۔ اب اسی تعلق میںماسٹر محمد عبد اللہ صاحب مقرب انگلش ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل کی طرف سے ایک اور سوال موصول ہوا ہے جس کا مختصر سا جواب ذیل میں درج کیاجاتا ہے ۔ ماسٹر صاحب موصوف لکھنے۔ ہیں کہ میں نے اپنے مضمون میں تقدیر کی ایک قسم تقدیر عام یعنی تقدیر معلق بیان کی تھی اور دوسری قسم تقدیر مبرم بیان کی تھی اور تقدیر مبرم کی تعریف میں نے یہ لکھی تھی کہ ایسی تقدیر جو نہ ٹلنے والی ہو۔ لیکن مقرب صاحب لکھتے ہیںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کے تعلق میں ایک جگہ اس پیشگوئی کو تقدیر مبرم لکھا تھا مگر پھر بھی وہ ٹل گئی ۔ اب بے شک اس تقدیر کے ٹلنے کو سنت اللہ کے مطابق جائز قرار دیا جائے لیکن بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کبھی کبھی تقدیر مبرم بھی ٹل جایا کرتی ہے ۔
اس سوال کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ گو مقرب صاحب نے حضرت مسیح موعوود علیہ السلام کی اس تحریر کا حوالہ نہیں دیا جس میں حضور نے محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ حوالہ کی اصل عبارت اس قسم کی الجھن کے حل کرنے میں بڑی ممد ہوسکتی ہے مگر تاہم میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوںکیونکہ مجھے بھی یہی یاد پڑتا ہے کہ حضور نے واقعی ایک جگہ محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم کے طور پر پیش کیا ہے اور خواہ اصل عبارت کی تفصیل کچھ ہو کیونکہ اس وقت وہ میرے سامنے نہیںہے۔ بہرحال اس بات سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقدیر مبرم کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں طبعاً وہ سوال پیدا ہوتا ہے جو مقرب صاحب کے دل میں کھٹکا ہے ۔
اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے جس پر غالباً مقرب صاحب نے غور نہیں کیا کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی کا مرکزی نقطہ محمدی بیگم کا نکاح نہیں تھا بلکہ بے دین رشتہ داروں کو جو اسلامی تعلیم پر تمسخر اڑاتے اور آیات اللہ کے وجود سے منکر تھے ایک نشان دکھانا اصل مقصد تھا اور پھر یہ پیشگوئی بھی دوپہلو رکھتی تھی ۔ ایک پہلو رحمت کے نشان کا حامل تھا اور دوسرا پہلو عذاب کے نشان کا علم بردار تھا ۔ رحمت کا نشان اس صورت میں ظاہر ہونا مقدر تھا کہ محمدی بیگم کے رشتہ دار (یعنی والدین اور ماموں وغیرہ ) اس کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کردیں اور عذاب کا نشان اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ وہ اس شادی سے منکر ہو کر محمد ی بیگم کو کسی اور شخص کے نکاح میں دیدیں ۔ آگے اس پہلو کی بھی دو شاخیں تھیں ایک شاخ تو یہ تھی کہ اگر محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دے تو وہ (یعنی محمدی بیگم کا والد ) تین سال کے اندر اندر ہلاک ہو کر اس جہان سے رخصت ہو جائے گا اور دوسری شاخ یہ تھی کہ جس دوسرے شخص کے ساتھ محمدی بیگم بیاہی جائے گی وہ اگر توبہ کے رنگ میں رجوع نہیںکرے گا تو اڑھائی سال کے اندر اندر فوت ہوجائے گا اور اس صورت میں (یعنی اس شخص کی ہلاکت کی صورت میں ) محمدی بیگم بیوہ ہو کر حضرت مسیح موعود کے نکاح میں آئے گی ۔ یہ وہ صورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور تحریروں سے اس پیشگوئی کی ثابت ہوتی ہے اور یہ نتیجہ جس کا خلاصہ میں نے اوپر درج کیا ہے ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ جو شخص بھی انصاف کی نظر سے اس پیشگوئی کے متعلق غور کرے گا وہ اس نتیجہ کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیںپہنچ سکتا مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ میرے لئے اس لمبی بات میں جانے کا زیادہ موقع نہیں ہے ۔
اس تمہید ی نوٹ کے سمجھ لینے کے بعد جاننا چاہئے کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے وہاں اس سے ہر گز ہر گز مطلق نکاح مراد نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر مرزا سلطان محمدبیگ ( خاوند محمدی بیگم ) نے توبہ اور رجوع کا رستہ اختیار نہ کیا اور شوخی اور گستاخی اور استہزا کے رستہ پر گامزن ہوا تو اس صورت میں ( نہ کہ کسی اور صورت میں) اولاً اس کی ہلاکت اور بعدہ محمدی بیگم کا حضرت مسیح موعود ؑ کے نکاح میں آنا ایک تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ٹلے گی ۔ گویا مطلق طور پر نکاح کو تقدیر مبرم قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ صرف مرزا سلطان محمد بیگ کی شوخی اور ہلاکت کی صورت میں تقدیر مبرم قرار دیا گیا تھا لیکن جیسا کہ ظاہر ہے اور ہماری طرف سے بار بار ثابت کیا جا چکا ہے، جب محمدی بیگم کا والد مقررہ میعاد کے اندر اندر فوت ہوگیا اور محمدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد بیگ نے فروتنی اور ادب اور توبہ کا رستہ اختیار کیا تو اذا فات الشرط فات المشروط کے مسلمہ اصول کے ماتحت محمدی بیگم کا نکاح بھی تقدیر مبرم نہ رہا اور یہ وہ حقیقت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی حقیقۃ الوحی میں وضاحت کے ساتھ بیان فرما دی ۔یعنی یہ کہ اس پیشگو ئی کا نکاح والا پہلو منسوخ ہوچکا ہے ۔ دراصل غور کیا جائے تو محمدی بیگم کی پیشگوئی …بالکل اسی قسم کی تقدیر مبرم تھی جس طرح کہ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے پنڈت لیکھرام کے مرنے پر یہ اعلان کیا تھا کہ اگر آریہ صاحبان کو یہ شبہ ہے کہ ہم نے اسے خود سازش کر کے قتل کرا دیا ہے تو وہ مرد میدان بن کر قسم کھاجائیں کہ واقعی ہم نے ہی اسے قتل کرا یا ہے اور اس صورت میں ایسی قسم کھانے والے (خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی ہوں) ایک سال کے اندر اندر ایسے آسمانی عذاب سے ہلاک ہوں گے جس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل متصور نہ ہوسکے اور حضور نے چیلنج کے طور پر باربار لکھا کہ اس صورت میں یہ ایک تقدیر مبرم ہوگی جو کبھی نہیں ٹلے گی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تقدیر مبرم آریہ صاحبان کے قسم کھانے کے ساتھ مشروط تھی نہ کہ مطلق اور چونکہ انہوں نے مطلوبہ قسم نہیں کھائی اس لئے یہ تقدیر بھی جاری نہیں ہوئی۔
اوپر کی بحث سے ظاہر ہے کہ دراصل تقدیر مبرم بھی دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک تو وہ حقیقی تقدیر مبرم ہوتی ہے جو بلا شرط بہرحال جاری ہوتی ہے جیسے کہ مثلاً اس دنیا میں انسان کی موت ایک تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ٹلتی یا مثلاً انسان کا اس دنیا میں مرکر پھر واپس نہ آنا ایک تقدیر مبرم ہے جو بہرحال جاری ہوتی ہے یا مثلاً خدا کے رسولوں کا بالآ خر اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ایک تقدیر مبرم ہے، جسے کوئی چیز بدل نہیں سکتی وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری قسم تقدیر مبرم کی وہ ہے جو کسی ظاہر یا باطن شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے ۔مثلاً جب یہ کہا جائے کہ اگر فلاں بات اس اس رنگ میں ہوئی تو لازماً اس کا یہ یہ نتیجہ نکلے گا تو یہ بھی ایک پہلو کے لحاظ سے تقدیر مبرم ہی ہوگی کیونکہ بیان کردہ شرط کے پورا ہونے کی صورت میں لازماً بیان کردہ نتیجہ پیدا ہوگا گویا اس صورت میں ایسی تقدیر مجموعی لحاظ سے تو تقدیر معلق ہوتی ہے لیکن اپنے متقابل پہلو ئوں کے لحاظ سے یہی تقدیر جدا گانہ پہلو میں جاکر تقدیر مبرم بن جاتی ہے ۔ چنانچہ حدیث میں جو بعض قسم کی تقدیر مبرم کے ٹل جانے کا ذکر آتا ہے اس سے بھی اسی قسم کی تقدیر مبرم ہی مراد ہے جو اپنے جدا گانہ پہلوئوں کے لحاظ سے تقدیر مبرم ہوتی مگر مجموعی لحاظ سے تقدیر معلق قرار پاتی ہے ۔ مثلا ً آنحضرت ﷺفرماتے ہیںکہ :
اکثر وا من الدعا ء فانّ الدعا یردّ القضاء المبرم۔۱۴۰
’’یعنی اے مسلمانو! دعائوں کی بہت عادت ڈالو کیونکہ دعا وہ چیز ہے جو مبرم تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے‘‘۔
اب ظاہر ہے کہ اس جگہ وہ حقیقی تقدیر مبرم ہرگز مراد نہیں جو ہر حال میں ایک اٹل تقدیر کے طور پر جاری ہوتی ہے اور کسی صورت بھی اپنا رستہ نہیں بدلتی جیسے کہ مثلاً موت یا عدم رجوع موتیٰ یا غلبہ رسل وغیرہ قانون ہے بلکہ اس جگہ وہ تقدیر مبرم مراد ہے جو مجموعی لحاظ سے تو تقدیر معلق ہوتی ہے مگر اپنے جدا گانہ پہلوئوں کے لحاظ سے اسے تقدیر مبرم کانام دیدیا جاتا ہے ۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ایسی تقدیر مبرم جو دراصل ایک مشروط قسم کی تقدیر ہوتی ہے۔ دعا اور صدقہ اور خیرات سے ٹل جاتی ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال حضرت نواب محمد علی خانصاحب مرحوم کے لڑکے میاں عبدالرحیم خان کی اس بیماری میں ملتی ہے جس میں وہ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں مبتلا ہوئے اور جب حضرت نواب صاحب مرحوم کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کی صحت کیلئے دعا فرمائی الہام ہوا کہ :
تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر ہے ۔۱۴۱
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیںکہ جب یہ وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا اور اس وقت بے اختیار میرے مونہہ سے نکل گیا کہ ’’یا الٰہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں‘‘ اس پر معاً وحی ہوئی کہ :
من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ ۔ ۱۴۲
’’یعنی خدا کی اجازت کے بغیر کو ن شفاعت کر سکتا ہے ۔؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس جلالی وحی سے میرا بدن کا نپ گیا ۔
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں میں خدا تعالیٰ نے تقدیر مبرم کا نام دینے کے باوجود ٹل سکنے والی تقدیر قرار دیا ہے اور دراصل یہی وہ استثنائی قانون ہے جس کے ذریعہ خدا نے مومنوں کے عرفان اور ایمان کی ترقی کا رستہ کھول رکھا ہے ورنہ اگر یہ نہ ہو تو خدا کے متلاشی دنیا کے لق و دق صحرا میں تڑپتے ہوئے رہ جائیں اور انہیں اس مادی عالم کے دود آمیز دھند لکے میں ہدایت کی کوئی روشن کرن نصیب نہ ہو ۔
وآخردعوٰ نا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍ستمبر ۱۹۵۰ئ)




زندگی کے بیمہ کے متعلق اسلامی نظریہ
ایک جائز ضرورت کو ناجائز طور پر پورا کرنیوالا نظام
سید ولی اللہ شاہ سلمہٗ مبلغ افریقہ اپنے ایک بزرگ کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ زندگی کے بیمہ کے متعلق جس کا اس زمانہ میں وسیع رواج ہو رہا ہے اسلامی نظریہ کیا ہے اور آیا اسے جائز سمجھنا چاہئے یا کہ ناجائز ؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ جہاں تک اس مسئلہ میں فتویٰ کے پہلو کا سوال ہے وہ جماعت احمدیہ کے مفتی (مولوی سیف الرحمن صاحب فاضل) ربوہ سے دریافت کرنا چاہئے کیونکہ فتویٰ دینا صرف ان کا کام ہے نہ کہ میرا یاکسی اور کا ۔ البتہ اس سوال کے متعلق عام اسلامی نظریہ ہر شخص اپنے علم کے متعلق بیان کر سکتا ہے اور میں اس بارے میں اپنا خیال مختصر طور پر درج ذیل کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ زندگی کا بیمہ جس صورت میں کہ وہ آج کل رائج ہے اور جہاں تک مجھے اس کا علم ہے، مجملاً یہ ہے کہ ملکی قانون کے ماتحت رجسٹر ہو کر مختلف بیمہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں ۔ یہ کمپنیاں تجارتی اصول پر قائم کی جاتی ہیںاور مناسب طریق پر سرمایہ مہیا کرنے کے بعد اپنا کام شروع کرتی ہیں۔ کام کا طریق یہ ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے مصالح اور پروگرام کے مطابق بعض سکیمیں تیار کرتی ہیں جنہیں بیمہ کمپنی کی اصطلاح میں پالیسی کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ان مختلف پالیسیوں کے مطابق خواہشمند لوگ اپنی اپنی پسندکی پالیسی اختیار کر کے اپنی زندگیاں اس کمپنی کے دفتر میں بیمہ کرا دیتے ہیں جس کا طریق عموماً یہ ہوتا ہے (میں اس جگہ تفاصیل کو نظر انداز کر رہا ہوں) کہ بیمہ کرانے والا شخص اپنے پاس سے کچھ روپیہ بیمہ کمپنی کو قسطوں میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور اس کے مقابل پر بیمہ کمپنی اس بات کی پابندی لیتی ہے کہ وہ اس شخص کے مرنے پر ( یا ایک مقررہ میعاد کے گزرنے پر یعنی جیسی بھی صورت ہو ) اس شخص کے ورثاء کو یا خود اس شخص کو یعنی جو بھی فیصلہ ہو) اس شخص کے ورثا کو یا خود اس شخص کو اس قدر روپیہ ادا کردے گی ۔ ان دونوں رقموں میں (یعنی وہ رقم جو بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے شخص سے وصول کرتی ہے) اور وہ رقم جو بیمہ کمپنی بیمہ کرنے والے شخص یا اس کے ورثا کو ادا کرتی ہے) بسا اوقات کافی فرق ہوتا ہے ۔ یہ فرق عموماً دو اصولوں پر مبنی ہوتا ہے اول : یہ کہ بیمہ کرانے والا شخص بیمہ کرانے کے بعد بیمہ کی مقررہ میعاد کے مقابل پرکتنی لمبی عمر پاتا یا کتنی جلدی مرتا ہے اور دوسرے یہ کہ اسے بیمہ کمپنی کے مقررہ اصولوں کے ماتحت اپنی رقم پرکتنے سود کا حق پیدا ہوتا ہے ۔ان دواصولوں کے مطابق بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے شخص کے ورثاء کو ( یا خود اسکو یعنی جو بھی صورت ہو ) اس کی اختیار کردہ پالیسی کے ماتحت مقررہ رقم ادا کر دیتی ہے۔ زندگی کے بیمہ کا یہ ایک نہائت مختصر سا اجمالی نقشہ ہے جس کے مطابق عموماًآجکل زندگی کے بیمے ہوتے ہیں اور اس انتظام کے ماتحت لوگ اس بات کے متعلق تسلّی پاجاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد یا ان کی اپنی زندگی میں جیسی بھی صورت ہو ان کے اہل وعیال دنیا میں بے سہارا نہیں رہیں گے بلکہ انہیں ان کی پسند کردہ پالیسی کے مطابق معقول رقم مل جائیگی جو بعض اوقات ان کی داخل کردہ رقم سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔
سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں شبہ نہیں کہ یہ انتظام اپنے اندر بعض خوبیاں رکھتا ہے اور وہ لوگ جو کوئی ایسی جائداد نہیں رکھتے جس سے ان کے بعد ان کے اہل و عیال کے گزارہ کے مطابق آمدن پیدا ہو سکے اس انتظام سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اس لئے اس کے مفید ہونے سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن دوسری طرف ہمارا عادل و امین مذہب اسلام تو اس حکیمانہ شان کا مذہب ہے کہ وہ شراب اور جوئے تک کو قطعی حرام قرار دینے کے باوجود ان کی بعض خوبیوںکو تسلیم کرتا ہے ۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱۴۳
’’یعنی اے رسول تجھ سے لوگ شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دے کہ ان دونوں چیزوں میں بھاری نقصانات ہیں مگر ان میں لوگوں کے لئے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں، اس لئے ہم نے انہیں حرام قرار دیا ہے ۔‘‘
اس نہایت درجہ پُر حکمت کلام میں خدا تعالیٰ نے شراب اور جوئے کو حرام قرار دینے کے باوجود ان کے بعض فوائد کو برملا تسلیم کیاہے۔ پس ہمیں بھی اس بات سے ہرگز انکار نہیں کہ زندگی کے بیمہ میں بھی بعض پہلو یقیناً مفید اور بے سہارا لوگوں کے لئے تسلی اور تسکین کا موجب ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک ابدی صداقت ہے کہ قومی اور ملکی قوانین کے بنانے میں صرف یہی بات نہیں دیکھی جاتی کہ کسی قانون میں کوئی فائدہ کاپہلو ہے یانہیں بلکہ اس کے فوائد اور اس کے نقصانات دونوں کو باہم تول کر اور موازنہ کرکے فیصلہ کیا جاتا ہے ۔اگر کسی چیز کے فوائد اس کے نقصانات سے زیادہ ہوں تو اسے مناسب حدبندیوں اور شرائط کے ساتھ جائز قرار دے دیا جاتا ہے لیکن اگر کسی چیز کے نقصان کا پہلو اس کے فوائد کے پہلو سے زیادہ بھاری ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے شراب اور جوائے کے تعلق میں صراحۃًبیان فرمایا ہے تو اسے ناجائز شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ زریں اصول ہے جسے قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال پہلے اختیار کیا اور آج دنیا بھر کی مہذب حکومتیں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس اصول پر عمل پیرا ہیں ۔سمجھ کی غلطی کی وجہ سے یا اخلاقی اور روحانی پہلوئوں کی اہمیت نہ جاننے کے باعث ٹھیک رستے سے بھٹک جانا اور بات ہے لیکن جہاں تک خالص اصول کا تعلق ہے غالباً آج دنیا کی کوئی مہذب قوم اور دنیا کاکوئی مہذب ملک اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ کسی قانون کو جاری کرتے ہوئے محض فائدہ کے پہلو کو دیکھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ فائدہ اور نقصان دونوں پہلوئوں کو دیکھنا اور پھر ان متقابل پہلوئوں کا باہمی موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ وہی اصول ہے جسے قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال قبل شراب اور جوئے کو حرام قرار دیتے ہوئے نہائت واضح الفاظ میں پیش کیا ہے ۔
اس طرح سود کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
۱۴۴
’’یعنی وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ بظاہر اپنے پائوں پر کھڑے تو ہوجاتے ہیں مگر ان کا کھڑا ہونا ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے شیطان نے انہیں سہارا دے کر کھڑا کردیا ہو مگر اس مسِ شیطان کی وجہ سے ان کی قلبی طاقتیں مختل ہوجاتی ہیںاور اور ان کے لئے اذیتوں اور فتنوں کا دروازہ کھل جاتا ہے…
پس اگر اب بھی کوئی شخص سود سے باز نہیں آئے گا تو ایسے لوگ سن لیں کہ وہ آگ میں جلیں گے (یعنی اس دنیا میں مادی ذہنیت کی جلن اور جنگوں وغیرہ کی آگ اور آخرت میں عذاب کی آگ اور اسی آگ میں ہمیشہ جلتے چلے جائیں گے۔سن لو کہ سود کو خدا مٹانا چاہتا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے حکیمانہ حکموں کے ناشکر گزار بندوںاور گنہگار لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
اس حکیمانہ آئت میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ بے شک بعض اوقات سود لوگوں کے لئے ظاہری قیام کا موجب بن جاتا ہے لیکن یہ قیام ایک شیطانی قیام ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بالآخر قلب انسانی کے اعلیٰ قویٰ تباہ ہوکر رہ جاتے ہیں اور دکھوں اور فتنوں کادروازہ کھل جاتا ہے (یہ لفظ یتخبطہ کا لفظی ترجمہ ہے ) اور پھر آگے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ سود سے قومی لحاظ سے لڑائیوں اور جنگوں کی آگ کا راستہ کھلتا ہے اور انفرادی لحاظ سے وہ اس لطیف روح کو کچل کر رکھ دیتا ہے جو صدقات کے ذریعہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں باہم ہمدردی اور تعاون پیدا کرنا چاہتا ہے۔
اوپر کی دو اصولی آیتوں سے ہمیں ذیل کی دو اہم باتوں کا سبق حاصل ہوتا ہے :۔
۱۔ ایک یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ایک بات میں بعض فوائد کے پہلو ہوں لیکن اگر اس کے نقصان کے پہلو اس کے فوائد کے پہلو سے بھاری ہیں تو اس کے فوائد کے باجود مومنوں کو ایسی چیز سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اسے اختیار کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ انسان چار آنے کے لالچ میں ایک روپیہ کھوبیٹھے۔
۲۔دوسری بات ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سود اور جؤا( شراب کا اس بحث سے تعلق نہیں) ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بعض فوائد کے باوجود ان کے نقصانات کا پہلو اتنا بھاری ہے کہ مومنوں کو ان سے بہر حال اجتناب کرنا چاہئے اور پھر ان آیات سے ان نقصانات کی نوعیت کی طرف اصولی اشارہ بھی کردیا ہے مگر اس جگہ اس کی تشریح میں جانا ہمارے موجودہ مضمون کے دائرے سے تعلق نہیں رکھتا ۔
اس تمہید کے بعد اور دراصل اس تمہید میں ہی اصل جواب آجاتا ہے یہ جاننا چاہئے کہ چونکہ اس وقت زندگی کے بیمہ کی جو پالیسیاں ہمارے ملک میں رائج ہیں ان میں جہاں تک مجھے علم ہے لازماً سود اور جوئے کا عنصر داخل ہوجاتا ہے اور اسلام نے ان دونوں چیزوں کو قطعی طور پر حرام کیا ہے ۔ اس لئے زندگی کا بیمہ بھی جس صورت میں کہ وہ آجکل رائج ہے اسلامی تعلیم کے ماتحت ناجائز سمجھا جائے گا۔ ہمیں یقیناً اس سوال کے ساتھ ہمدردی ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے ظاہری اسباب کے ماتحت ہر باپ یا ہرگارڈین کا یہ فرض ہے کہ اس کے لئے جہاں تک ممکن ہو اور جہاں تک اس کے حالات اجازت دیں اپنے پیچھے رہنے والے اہل وعیال کے گذارے کی تدبیر سوچے اور انہیں حتی الوسع بے سہارا چھوڑ کر نہ جائے لیکن ظاہر ہے کہ یہ انتظام ان بنیادی اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے جو خدائے اسلام نے مسلمانوں کی بہتری اور بہبودی کیلئے مقرر فرمائے ہیں اور اس میں کوئی عنصر ناجائز اور حرام باتوں کا ہرگز شامل نہیں کرنا چاہئے ۔یہ کہنا کہ مستقبل کا انتظام اپنی ذات میں ایک اچھی چیز ہے یقینا درست ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اسی دور اندیشانہ اصول کے ماتحت اسلام نے ورثہ کا قانون جاری فرمایا ہے اور پھر اسی اصول کے ماتحت اسلام نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ کوئی شخص کسی غیر وارث شخص کے لئے اپنی جائیداد کے تیسرے حصہ سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا۔ جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ کم از کم دوتہائی حصہ بہرحال وارثوں کے لئے محفوظ رہنا چاہئے اور اصولی طور پر بھی قرآن شریف ہدایت فرماتا ہے کہ :
۱۴۵
’’یعنی انسان کو صرف حال میں ہی مستغرق نہیں رہنا چاہئے بلکہ مستقبل کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھنا چاہئے کہ آیا اس کا مستقبل محفوظ ہے یا نہیں ۔‘‘
یہ آیت حقیقۃً اخروی اعمال کے پیش نظر نازل کی گئی ہے اور اس میں انسان کو ہوشیار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے دنیا کے اعمال میں آخرت کے حساب کتاب کو مدنظر رکھے مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اس آیت میں اس عمومی اصول کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنے دنیوی اعمال میں بھی مستقبل کو نظر انداز نہیں کرناچاہئے اور اپنے پیچھے اہل وعیال کا انتظام لازماً ہمارے مستقبل کا حصہ ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آنحضرت ﷺ اپنے صحابی سعدؓ بن ابی وقاص سے فرماتے ہیںکہ :۔
انک ان تدع ورثتک اغنیاء خیر من ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس فی ایدیھم۔۱۴۶
’’یعنی یہ بات کہ تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے غنی چھوڑ کر جائے اس بات سے بہت بہتر ہے کہ تو انہیں کنگال چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘
ان آیات قرآنی اور ان احادیث سے ظاہر ہے کہ اسلام نے مستقبل کے انتظام کو ہرگز ناپسند نہیں کیا (خاص متوکل لوگوں کا استثنائی معاملہ جدا گانہ ہے جن کا کفیل خود خدا ہوتا ہے )بلکہ اسے بہتر خیال کیا ہے اور اس کی تحریک فرمائی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وجہ سے ناجائز چیزوں کا استعمال جائز سمجھا جاسکتا ہے ۔ حرام چیز بہرحال حرام ہے اور اگر وہ کسی حلال چیز میں داخل ہوگی تو لازماً اسے بھی حرام کر دے گی ۔ مثلاً دودھ ایک حلال اور طیب چیز ہے مگر کوئی ہو شمند انسان ایسے دودھ کو نہیں پی سکتا جس میں چند قطرے پیشاب کے بھی شامل کردیئے گئے ہوں ۔پس بے شک مستقبل کا انتظام سوچنا برا نہیں بلکہ ہر طرح جائز اور واجبی ہے مگر اس انتظام میںسود اور جوئے (یعنی اتفاق کی کھیل ) کو شامل کرنا کسی طرح جائز نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ وہ چیزیں ہیں جو بالآخر اس انتظام کی ساری برکت کو تباہ کر کے رکھ دیں گی ۔
الغرض چونکہ آجکل بیمہ زندگی کی مروجہ پالیسیوں میں جہانتک مجھے علم ہے لازماً کسی نہ کسی جہت سے جوئے اور سود کا عنصر داخل ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اسلام میں قطعی طور پر حرام ہیں اس لئے وہ زندگی کا بیمہ بھی جو ان عناصر کا مرکب ہو ہرگز جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ہاں اگر کوئی ایسی پالیسی ایجاد ہوجائے جو سود اور جوئے کے عنصر سے بالکل پاک ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا یقیناجائز ہوگابلکہ یہ ایک اہم قومی ضرورت کو پورا کرنے والی چیز ہوگی۔ جس کے لئے سب خدا م اسلام اس کے موجد کے ممنون اور شکر گذار ہوں گے ۔یہ تو ظاہر ہے کہ بیمہ کا مسئلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود نہیں تھا بلکہ خالصۃً موجو دہ زمانہ کی پیدا وار ہے ۔ اس لئے اس کے متعلق شریعت میں براہ راست کوئی حکم یا ہدایت موجود نہیں ۔پس لازماً اس کے متعلق اسلام کی اصولی تعلیم کی روشنی میں قیاس کرنا ہوگا اور یہ قیاس سود اور جوئے کے صریح اور واضح احکام کی موجودگی میں یقینا اس کے خلاف جاتا ہے ۔
لیکن دوسری طرف موجودہ زمانہ کے پیچدار اقتصادی مسائل کا یہ تقاضا ہے کہ اس بارے میں کوئی نہ کوئی انتظام سوچا جائے۔ یہ درست ہے کہ اگر کامل اسلامی حکومت جسے مثالی یعنی آئیڈیل حکومت کہنا چاہئے قائم ہو اور وہ نعوذباللہ دیوالیہ نہ ہوچکی ہو تو ایسی حکومت کے وسیع ذرائع اور وسیع اختیارات کے ہوتے ہوئے یہ سوال حقیقۃً پیدا ہی نہیں ہوتا اور لوگ اس ارضی جنت کو حاصل کرلیتے ہیں جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ :
۱۴۷
’’یعنی سچی بہشتی زندگی (جو اس مادی عالم سے تعلق رکھتی ہے) یہ ہے کہ اے انسان تو اس میں بھوکا نہ رہے اور نہ ہی ضروری لباس سے محروم ہو اور نہ ہی پانی کی تکلیف اٹھائے اور نہ ہی سرچھپانے کی جگہ کے بغیر گرمی میں مارا مارا پھرے ۔
مگر جب تک حکومت کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک یہ ضروری ہے کہ اقتصادیات کے ماہر وں اور شریعت اسلامی میں گہری نظر رکھنے والوںکی ایک مشترکہ کمیٹی کے ذریعہ ایسی تدابیر کا جائزہ لیا جائے جن سے یا تو زندگی کے بیمہ کی کوئی ایسی صورت دریافت ہو جائے جس میں سود اور جوئے کے عنصر کا دخل نہ ہو اور یا بیمہ زندگی کے مقابل پر کوئی اور ایسا انتظام سوچاجائے جو قوم کی بے سہارا عورتوں اور بے سہارا بچوں اور بے سہارا بوڑھوں کے لئے تسلی بخش قیام کا موجب ہو ورنہ دیندار لوگ تو بہرحال رکیں گے خواہ انہیں اس کے لئے اپنا سب کچھ کھونا پڑے مگر اس بھوکے بیل کی طرح جو ایک چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر قریب کے سبز کھیت کی کشش کا مقابلہ نہیں کر سکتا، کمزور لوگ جو عموماً اقتصادی امور کو دینی امور پر زیادہ ترجیح دیتے ہیں آہستہ آہستہ ڈگمگانے شروع ہوجائیں گے ۔
پھر اگر سوچا جائے تو قوم میں قربانی کی روح کو ترقی دینے کے لئے بھی اس قسم کا انتظام ضروری ہے جس کے ذریعہ لوگ اپنے پیچھے اپنے اہل وعیال کے گذارے کے متعلق تسلی پائیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص جسے یہ خطرہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچے بالکل بے سہارا رہ جائیں گے وہ (سوائے ایسے خاص لوگوںکے جن کی نظر صرف خدا کی طرف ہوتی ہے اور جن کیلئے قربانی بہرحال ان کی روح کی غذا ہے ) کبھی اس دلیری اور جرأت کے ساتھ قربانی کی طرف (ہاں اس قربانی کی طرف جس میں موت و حیات کی بازی لگانی پڑتی ہے ) قدم نہیں اٹھا سکتاجس جرأت کے ساتھ کہ وہ شخص قدم اٹھا سکتا ہے جو یہ تسلی رکھتا ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچوں کے گذارے کا سامان موجود ہے ۔ پس اگر غور کیا جائے تو یہ سوال محض اقتصادی سوال ہی نہیں بلکہ حقیقۃًقومی ترقی اور قومی استحکام اور قومی تربیت کا بھی بھاری ذریعہ ہے جس کی طرف سے کوئی زندگی کا عزم رکھنے والی قوم آنکھیں بند نہیں کر سکتی لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ دوسروں کے پکے پکائے کھانے کی طرف شوق سے لپکتے ہیں خواہ اس میں گوبر ہی ملا ہوا ہو مگر خود اپنی تدبیر اور اپنی کوشش سے اپنے لئے پاک کھاناپکانے کے واسطے تیار نہیں ہوتے یا خلاصہ کلام یہ کہ :
۱۔ چونکہ بیمہ زندگی کی مروجہ پالیساں میرے علم میں سب کی سب ایسی ہیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں سود اور جوئے کا عنصر داخل ہوجاتا ہے اور چونکہ یہ دونوں چیزیں اسلام میں قطعی طور پر ناجائز ہیں اس لئے لازماً ایسی پالیساں بھی جائز نہیں سمجھی جاسکتیں جن میں سود یا جوئے کا عنصر شامل ہو۔
۲۔ ہاں اگر کوئی ایسی پالیسی ایجاد ہو سکے جس میں ان دو ناجائز عناصر کا دخل نہ ہو تو اس پر ہماری شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا بلکہ اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جہانتک ممکن ہو ہر مسلمان اپنے مستقبل کی طرف بھی نگاہ رکھے اور اپنے اہل وعیال کو ایسی حالت میں چھوڑ کر نہ جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔
۳۔جب تک حکومت کو ان امور میں ضروری مقام حاصل نہیں ہوتا یا جب تک بیمہ کمپنیاں کوئی ایسی پالیسی ایجاد نہیںکرتیں جو سود اور جوئے کے عنصر سے پاک ہو اس وقت تک یہ ایک قومی فرض ہے کہ باہم مشورہ سے کوئی ایسا انتظام سوچا جائے جس کی وجہ سے لوگ اپنے پیچھے اپنے اہل وعیال کے گذارے کے متعلق مطمئن ہوں اور نہ صرف وقت آنے پر امن کی موت مر سکیں بلکہ قربانی کی موت کے لئے بھی ہر وقت دلی شوق کے ساتھ تیار رہیں۔
وآخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین
‎(مطبوعہ الفضل ۳ ؍اکتوبر ۱۹۵۰ئ)
سیلاب کی تباہ کاریاں
سیالکوٹ سے دو دردناک واقعات کی اطلاع
مشرقی اور مغربی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے جو تباہی آئی ہے وہ اس ملک کی تاریخ میں بالکل بے مثال ہے۔ انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے علاوہ جن کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ مویشیوں کا نقصان تو بہت زیادہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت پر کافی اثر پڑنے کا احتمال ہے۔ اس سے بڑھ کر فصلوں اور غلّہ کے ذخیروں کا نقصان ہے۔ چنانچہ یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ صرف سیالکوٹ کے ضلع میں قریبا ً اسی ہزار من غلّہ ضائع ہوا ہے اور چاول کی کھڑی فصل کا نقصان بھی بہت زیادہ ہے۔ اسی پر دوسرے اضلاع کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ فصل ربیع پر بھی اثر پڑ نے کا امکان ہے لیکن غالباً اس تباہی کا سب سے زیادہ مہیب اور خطرناک پہلو مکانوں اور دیگر عمارتوں اور سڑکوں اور ریلوے لائینوں وغیرہ کا نقصان ہے جس کا حقیقی اندازہ ابھی تک ہو ہی نہیں سکا۔ کہا جاتا ہے کہ بے شمار دیہات اس سیلاب کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے بالکل ناپیدہو گئے ہیں اور شاید بعض ایسے بھی ہیں جن کا دوبارہ آباد کرنا مشکل ہو گا۔ الغرض یہ تباہی پنجاب کی تاریخ میں بالکل بے مثال ہے اور گویا حضرت نوح ؑ کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آ گیا ہے۔ مغربی پنجاب کے سولہ اضلاع میں سے دس ضلعے اس تباہی کی زد میں آئے ہیں اور بعض ضلعوں کی اقتصادی زندگی کو تو ایسا سخت دھکا لگا ہے کہ انہیں پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں کافی وقت اور بے شمار روپیہ درکار ہو گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ذی ثروت لوگ جنہیں خدا نے توفیق عطا کی ہے وہ اس مصیبت کے وقت میں آگے آئیں اور تباہ شدہ لوگوں کی بحالی کے لئے دل کھول کر امداد دیں کیونکہ ایسے غیر معمولی حالات میں صرف حکومت کے ذرائع پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہوتا:
ومن کان فی عونِ اخیہ کان اللّٰہ فی عونہ۔۱۴۸
اس تباہی کے بعض دردناک پہلو ایسے ہیں کہ انہیں سن کر کسی شخص کا دل پسیجے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ ابھی کل کی ڈاک میں مجھے سیالکوٹ سے چودھری نثار احمد صاحب کا خط آیا ہے جو لکھتے ہیں۔
’’گزشتہ ایام کے طوفانِ نوح کی وجہ سے سیالکوٹ میں جو تباہی نازل ہوئی اس
کے تصور سے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ الحمد للہ یہاں کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ گو بعض مکانات کو نقصان پہنچا ہے لیکن جانیں خدا کے فضل سے محفوظ رہیں۔ ضلع کے دیہات تو ہزاروں کی تعداد میں صفحہ ہستی سے ناپید ہو گئے۔ لوگوں نے تین تین چار چار دن درختوں کے اوپر چڑھ کر بسر کئے۔ ان میں اکثر سردی اور تکان اور بھوک کی وجہ سے نیچے گر کر طوفان کی نذر ہو جاتے رہے۔ ایک شخص نے بندے کو بتایا کہ اس کے بوڑھے والدین شدت سردی اور تکان کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے درخت سے نیچے گرے اور سیلاب میں بہہ گئے۔ ایک حاملہ عورت کے وضع حمل کا وقت درخت کے اوپر ہی آگیا۔ اور وہ بیچاری اس حالت میں اس تکلیف کو برداشت نہ کر سکی اور درخت سے نیچے گر کر سیلاب کی نذر ہو گئی۔ ‘‘
بظاہر یہ ایک محدود رقبہ کے انفرادی واقعات ہیں مگر ان سے قیاس کیا جا سکتاہے کہ زائد از نصف پنجاب کے طول و عرض میں تباہ حال لوگوں پر کیا کچھ گزری ہو گی۔ ہر شریف انسان کا دل اس قسم کے واقعات کا حال سن کر پگھلنے لگتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ان گذشتہ نبیوں کا زمانہ آ جاتا ہے جن کی قومیں ان کے انکار کی وجہ سے خدائی عذاب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح ؑاورھود ؑ اورصالح ؑ اور لوط ؑکی قوموں پر جو تباہی آئی وہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے جسے قرآن شریف نے بھی لوگوں کے انذار کے لئے پیش کیا۔ اسی قسم کی تباہی کا نمونہ گزشتہ سیلاب میں نظر آتا ہے اور اس سیلاب پر ہیحصرنہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ آجکل ساری دنیا مختلف قسم کے عذابوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ ایسے غیر معمولی حادثات میں لوگوں پر دہرا فرض عائد ہو تا ہے۔
(۱) پہلی دراصل بات یہ ہے کہ وہ اپنی حالت میں اصلاح پیدا کر کے خدا کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش کریں اور
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ مصیبت سے وقتی طور پر محفوظ رہے ہیں وہ اس مصیبت میں مبتلا ہو نے والے لوگوں کی کھلے دل سے امداد کریں اور یہ امداد دو طرح کی ہونی چاہئیے۔ایک تو اپنے قریب کے ماحول میں مصیبت زدہ لوگوں کی براہ راست مدد کی جائے اور دوسرے ان چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے جن کی حکومت کی طرف سے یا بعض دوسری تنظیموں کی طرف سے تحریک کی گئی ہے۔
یہ فرض ہماری جماعت پر خصوصیت سے عائد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک سلسلہ کی طرف سے گورنر صاحب پنجاب کے امدادی فنڈ میں تین ہزار روپے کی رقم دی جا چکی ہے اور متفرق افراد سلسلہ کی رقم اس کے علاوہ ہے لیکن ضرورت ہے کہ دوسرے اصحاب بھی اس کا رِ خیر میں حصہ لیں اور بالخصوص اپنے قریب کے ماحول میں مصیبت زدہ اصحاب کی امداد کا انتظام کریں کیونکہ الاقرب فالاقرب کا اصول اسلام میں مسلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍اکتوبر ۱۹۵۰ئ)










قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت
خواہشمند احباب ضروری کوائف کے ساتھ اپنی درخواستیں جلد بھجوائیں
گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی قادیان کے سالانہ مذہبی اجتماع کے موقع پر پاکستانی احمدیوں کی ایک پارٹی کے بھجوائے جانے کی تجویز ہے اور اس تعلق میں حکومت مغربی پنجاب سے ضروری انتظامات کے لئے درخواست کی گئی ہے ۔ اگر یہ درخواست منظور ہوگئی تو انشاء اللہ اس سال ایک سو اصحاب کی پارٹی دسمبر ۱۹۵۰ء کے آخری ہفتہ چار پانچ دن کے لئے قادیان جائے گی جو دوست اس پارٹی میں شریک ہونا چاہیں اور سفر خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں انہیں چاہئے کہ اپنے علاقہ کے امیر یا پریذیڈنٹ کے ذریعہ بہت جلد اپنی درخواست ذیل کے پتہ پر بھجوا دیں ۔ درخواست میں مندرجہ ذیل کوائف ضرور درج کئے جائیں:
۱۔ کیا درخواست کنندہ کا کوئی رشتہ دار اس وقت قادیان میںہے ۔اگر ہے توکون اوراس کے ساتھ درخواست کنندہ کا کیا رشتہ ہے ۔
۲۔درخواست کنندہ کتنے عرصہ سے قادیان نہیں گیا؟
۳۔ اگردرخواست کنندہ کی درخواست منظور کئے جانے کی کوئی خاص وجہ ہو تو اسے درج کیاجائے ۔
۴۔ درخواست میں اپنا نام اور مکمل پتہ بھی درج کیا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵ ؍اکتوبر ۱۹۵۰ئ)



ایک سابق درویش کی وفات
سرگودھا سے اطلاع ملی ہے کہ محمود احمد صاحب سابق درویش جو گزشتہ ماہ مئی میں بیمار ہوکر قادیان سے واپس آئے تھے وفات پاگئے۔ انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون۔ مرحوم ایک مخلص نوجوان تھا جس نے قادیان کے قیام کا زمانہ اخلاص اور خدمت کے ساتھ گزارا۔ دوست اپنے مرحوم بھائی کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔ اﷲ تعالیٰ اسے غریقِ رحمت کرے اور اس کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶؍اکتوبر ۱۹۵۰ئ)








دو بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک
قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ اس وقت قادیان میں دو درویش زیادہ بیمار ہیں یعنی
۱۔ محمود احمد صاحب کو سِل کا شبہ ہے اور وہ زیر علاج ہیں۔
۲۔ رفیع الدین صاحب جو چھت پر سے گرنے کی وجہ سے مجروح ہو گئے تھے گو پہلے سے آفاقہ ہے۔
اسی طرح بعض اور درویش بھی بیمار ہیں۔ سب کے لئے دعا فرمائی جائے کہ اﷲ تعالیٰ دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۰ئ)







قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت
خواہشمند احباب ضروری کوائف کے ساتھ اپنی درخواستیں جلد بھجوائیں
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی قادیان کے سالانہ مذہبی اجتماع کے موقع پر پاکستانی احمدیوں کی ایک پارٹی بھجوائے جانے کی تجویز ہے اور اس تعلق میں حکومت مغربی پنجاب سے ضروری انتظامات کے لئے ایک درخواست کی گئی ہے۔ اگر یہ درخواست منظور ہو گئی تو انشاء اﷲ اس سال ایک سو احباب کی پارٹی دسمبر ۱۹۵۰ء کے آخری ہفتہ میں چار پانچ دن کے لئے قادیان جائے گی۔ جو دوست اس پارٹی میں شریک ہونا چاہیں اور سفر خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں انہیں چاہئے کہ اپنے علاقہ کے امیر یا پریزیڈنٹ کے ذریعہ بہت جلد اپنی درخواست ذیل کے پتہ پر بھجوائیں۔ درخواست میں مندرجہ ذیل کوائف ضرور درج کئے جائیں۔
(۱) کیا درخواست کنندہ کا کوئی رشتہ دار اس وقت قادیان میں ہے۔ اگر ہے تو کون اور اس کے ساتھ درخواست کنندہ کا کیا رشتہ ہے؟ (۲) درخواست کنندہ کتنے عرصہ سے قادیان نہیں گیا۔ (۳)اگر درخواست کنندہ کی درخواست منظور کئے جانے کی کوئی خاص وجہ ہو تو اسے درج کیا جائے۔ (۴)درخواست میں اپنا نام اور مکمل پتہ بھی درج کیا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل یکم نومبر ۱۹۵۰ئ)




چالیس جواہر پاروں کی تصنیف
اور
دوستوں سے ضروری گزارش
میں کچھ عرصہ سے ’’ الفضل‘‘ کے لئے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا جس کی یہ وجہ تھی کہ میں ان ایام میں ایک جدید تصنیف ’’ چالیس جواہر پارے‘‘ کے لکھنے میں مصروف رہا۔ اس تصنیف میں چالیس چیدہ حدیثوں کا ترجمہ معہ ضروری تشریح درج کیا گیا ہے اور شروع میں مشہور جامعین حدیث کے مختصر سوانح اور ان کی کتابوں کے مجمل حالات اور حدیث کی معروف اصطلاحوں کی ضروری تشریح درج کی گئی ہے۔ کتاب کا حجم قریباً ایک سو صفحے ہے اور امید ہے کہ یہ کتاب انشاء اللہ اس جلسہ سالانہ پر چھپ کر شائع ہو جائے گی۔ اس مجموعہ میں ۴۰ کا عدد اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ ایک حدیث میں ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں جمع کر کے میری امت کے لئے محفوظ کر دے گا۔ میں قیامت کے دن اس کے حق میں شاہد اور شفیع ٹھہروں گا۔ سو میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ میں بھی اس عظیم الشان برکت نبوی ؐ سے حصہ پانے کی کوشش کروں۔ وما توفیقنا الا باﷲ العظیم۔ یہ چالیس حدیثیں صحاح ستّہ اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد سے لی گئی ہیں اور انتخاب میں یہ اصول مد نظر رکھا گیا ہے کہ فقہی مسائل کی بجائے انفرادی اور قومی اصلاح اور ملی ترقی والی حدیثوں کو ترجیح دی جائے۔ دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری اس تصنیف کو قبولیت کا درجہ عطا فرما کر میری مغفرت اور لوگوں کے فائدہ کا ذریعہ بنا دے۔ آمین یا ارحم الرحمین ۔ جو دوست اس مجموعہ کو خریدنا چاہیں وہ اعلان ہونے پر پبلشر کو لکھیں۔ میں توصرف ثواب کی خاطر کتاب لکھتا ہوں اور اپنا نسخہ بھی پیسے دے کر خریدتا ہوں۔
الغرض کچھ تو اوپر کی تصنیف کی وجہ سے اور کچھ بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے میں گزشہ ایام میں الفضل کے لئے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور اس عرصہ میں بعض وہ خطوط بھی محفوظ نہیں رہے جو مختلف دوستوں کی طرف سے میرے نام آئے تھے اور ان میں مختلف سوالوں کا جواب پوچھا گیا تھا۔ سو اگر ایسے دوست مجھے اپنا سوال دوبارہ لکھ کر بھجوادیں تو میں انشاء اللہ حسب توفیق ان کا باری باری جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ جو خطوط میرے پاس اس وقت محفوظ ہیں ان کے لکھنے والوں کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ لہذا صرف ایسے دوست اپنے سوالوں کو دہرائیں جو ان کے علاوہ ہیں:
(۱) غلام نبی صاحب مبلغ جھانسیہندوستان۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور دوسرے نبیوں کا ذکر متفرق طور پر پھیلا کر کیوں کیا گیا ہے اور حضرت یوسف کے ذکر کی طرح ایک ہی جگہ کیوں نہیں کر دیا گیا۔
(۲) سید شاہ احمد صاحب ہمدانی ربوہ۔ کیا افسانہ نویسی جائز ہے یا نہیں اور افسانوں میں سے کون سے افسانے جائز سمجھے جائیں اور کون سے ناجائز؟ نماز میں خدا کا تصور کس طرح کیا جائے؟
(۳) سید محمد شاہ صاحب سیفی کشمیر۔ امیر معاویہ نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگیں لڑیں۔ اس لئے امیر معاویہ ؓ کے متعلق کیا خیال رکھا جائے۔ اسلام میں پوتے پوتی کے ورثہ کا کیا حکم ہے۔ شق القمر کے معجزہ اور شب برات کے احترام کی کیا حقیقت ہے؟
(۴) محمد اقبال صاحب کراچی۔ قیامت کے وقت اور اسلامی شریعت کے دائمی ہونے کے متعلق اسلامی نظریہ کیا ہے؟
(۵) خورشید بیگم صاحبہ ماڈل ٹائون۔ ہاتھ کی لکیروں کی کیا حقیقت ہے۔ اگر بے حد دعائوں کے بعد بھی مقصد میں ناکامی ہو تو کیا سمجھا جائے؟
(۶) تاثیر صاحب کراچی۔ اگر کسی کو اپنی بیوی سے زیادہ محبت ہو تو کیا اس پربھی جنت میں حور ٹھونسی جائے گی؟ کمیونسٹ سوال کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کو کافی لمبے زمانہ کے بعد سیاسی غلبہ حاصل ہوا مگر اشتراکیت نے نسبتاً جلد غلبہ پا لیا؟
(۷) شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزرلینڈ ۔ مسیحی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے دفاعی جنگیں لڑیں مگر سپین اور آسٹریا وغیرہ کے حملوں میں کونسا دفاعی پہلو تھا؟اسلام مساوات کا مدعی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ طلاق کا اختیار تو مرد کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے مگر خلع کے لئے عورت کو قاضی کے سامنے جانا پڑتا ہے؟
(۸) ڈاکٹر محمد عمر صاحب جے پور ہندوستان ۔ اگر اسلام میں چہرہ کے پردہ کا حکم ہے تو حج کے موقعہ پر مسلمان عورتیں کیوں بے نقاب رہتی ہیں؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چہرہ پردہ میں شامل نہیں؟
(۹) عزیز محمد خان صاحب بہاولپور۔ ایک غیر احمدی مصنف کا سوال ہے کہ کیا صرف قرآنی احکام ہی دائمی ہیں یا کہ حدیث میں درج شدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی دائمی سمجھے جانے ضروری ہیں؟ کیوں نہ رسول ؐ کے احکام کو وقتی حالات کے تابع سمجھ کر شریعت کے اس حصہ کو موجودہ حالات میں قابل نظر ثانی قرار دیا جائے؟
(۱۰) ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب کوئٹہ۔ اشد مخالفین کے لئے جن کی مخالفت انتہاء کو پہنچ گئی ہو تباہی کی دعا کرنی بہتر ہے یا کہ ہدایت کی ؟
(۱۱) میرمسعود احمد صاحب کراچی ۔ میرے مضمون بیمہ زندگی کے متعلق بعض استفسارات اور بیمہ کے حق میں جذباتی اپیل۔
اگر اوپر کی فہرست میں کسی دوست کا ذکر رہ گیا ہو تو وہ مہربانی فرما کر اپنا سوال دوبارہ ارسال فرما دیں۔ میں انشاء اللہ باری باری اپنے وقت کی گنجائش اور دیگر حالات کے ماتحت جواب دینے کی کوشش کروں گا اور ضرور نہیں کہ اوپر کی ترتیب ملحوظ رکھی جائے مگر یہ خیال رہے کہ مجھ سے کوئی ایسا سوال نہ پوچھا جائے جس کے جواب میں شرعی فتویٰ کا رنگ پیدا ہوتا ہو کیونکہ اس کے لئے مفتی سلسلہ احمدیہ ربوہ کو لکھنا چاہئیے۔
نیز آجکل کچھ پریشانیاں لا حق ہیں ان کے دور ہونے کے لئے دوستوں سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے فکر و کرب کو اپنے فضل و رحم سے دور کر کے خدمت اور برکت کی زندگی عطا فرمائے اور نیک مقاصد کو پورا فرماتے ہوئے انجام بخیر کرے۔ میں سب دوستوں کے لئے دعا گو ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)




احباب کی دعاؤں کا شکریہ
میرے لڑکے مبشر احمد سلمہٗ کی شادی کے تعلق میں بہت سے احباب نے زبانی یا خط یا تار کے ذریعہ مبارکباد کی دعا کا ہدیہ بھیجا ہے جو ایک مومن کے لئے ایسے موقع پر بہترین ہدیہ ہے۔ میں ان سب دوستوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے لئے صمیم قلب سے دعا گو ہوں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزاء دے اور ان کو اور ان کے عزیزوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے اور حافظ و ناصر ہو۔ آمین یا ارحم الرحمین۔
نیز دوستوں سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ آئندہ بھی ہمیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارا حافظ و ناصر ہو۔ ہماری کمزوریوں کوتاہیوں پر مغفرت کا پردہ ڈالے۔ ہمارے گناہ بخشے۔ ہمیں اپنے فضل و رحم کے سایہ میں رکھے۔ ہمیں خدمت دین کی توفیق دے۔ ہمیں اپنی رضا کے رستوں پر چلائے اور ہمارا انجام بخیر کرے۔
ایں نست کامِ دِل اگر آید میسّرم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍نومبر ۱۹۵۰ئ)





خدائے اسلام کا زبردست انتقام
سپین کی زمین اسلام کے انتقام کی پیاسی ہے
قرآن شریف اور حدیث میں خدا تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان کی گئی ہیں جن کے لئے قرآن کریم نے اسماء حسنیٰ ( یعنی عمدہ اور خوبصورت صفات ) کا مبارک نام تجویز فرمایا ہے کیونکہ خدا کی تمام صفات خواہ وہ رحمت کی ہوں یا غضب کی بہر حال وہ بحیثیت مجموعی مخلوق کی ہی اصلاح اور بہتری اور ترقی کا موجب ہوتی ہیں۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا نے محمدؐ سے فرمایا ہے کہ’’ ان رحمتی غلبت غضبی‘‘ ۱۴۹:’’ یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ جن باتوں میں بظاہر خدا کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔ دراصل غور کیا جائے تو ان میں بھی اس کی رحمت کا پہلو ہی غالب ہوا کرتا ہے اسی قسم کی صفات میں خدا کی ایک صفت ذوانتقام اور منتقم ہے ’’ یعنی انتقام لینے والا خدا ‘‘۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:
۱۵۰
’’ یعنی خدائے اسلام غالب خدا ہے اور مجرم کو بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا ‘‘
اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
۱۵۱
’’ یعنی ہم مجرموں سے انتقام لے کر رہتے ہیں ۔‘‘
خدا کی یہ صفتِ انتقام ایسے باریک در باریک رنگ میں کام کرتی ہے کہ بعض صوفیاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بسا اوقات خدا کے نیک بندے بھی اس صفتِ الٰہی کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں رہتے۔ بے شک عفو اور درگزر کے ذریعہ کسی کا بچ جانا اور بات ہے ورنہ اگر کوئی نیک انسان بھی کسی دوسرے شخص کو کوئی ناواجب دکھ پہنچاتا ہے تو خدائے منتقم کی صفتِ انتقام اپنے مخفی اور باریک در باریک قانون کے ذریعہ کسی نہ کسی طریق پر کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ لے کر چھوڑتی ہے۔ حق یہ ہے کہ اسلام کا خدا اسلام کے لئے اور مسلمانوں کی جماعت کے لئے بلکہ ہر سچے مسلمان فرد کے لئے عجیب قسم کی غیرت رکھتا ہے اور گو وہ بسا اوقات عفو سے بھی کام لیتا ہے اور پردہ پوشی بھی فرماتا ہے لیکن بعض اوقات اس پردہ پوشی کے پردہ میں بھی اس کے انتقام کی مخفی تاریں اپنا خاموش کام کرتی چلی جاتی ہیں لیکن اس کی غیرت سب سے زیادہ جوش میں اس وقت آتی ہے جبکہ کوئی ظالم انسان اس کے قائم کئے ہوئے دین اور قائم کی ہوئی جماعت پر ظلم کا ہاتھ اٹھاکر انہیں مٹانے کے درپے ہوتا ہے۔
تاریخ اسلام کا یہ ایک کھلا ہوا ورق ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے قیصرو کسریٰ کے نام تبلیغی خطوط روانہ کئے تو اس پر بد بخت کسریٰ نے تو غصہ میں آکر آپ ؐ کا مکتوب مبارک پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا لیکن قیصر نے زیادہ شرافت دکھائی اور گو اس نے اپنے ماحول کے ڈر کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا مگر گستاخی کا رنگ بھی اختیار نہیں کیا بلکہ بعض تائیدی الفاظ بھی زبان پر لایا۔ روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو غیر مسلم فرمانروائوں کے رویہ کے متعلق اطلاع پہنچی تو آپ ؐ نے فرمایا :
اماھٰؤلَائِلا فیمزقون و اما ھو لا ء فسیکون لھم بقیہ ۱۵۲
’’ یعنی اب کسریٰ کی حکومت تو فوراً پاش پاش کر دی جائے گی لیکن قیصر کی حکومت کو کچھ مہلت ملے گی۔‘‘
چنانچہ یہی ہوا کہ خدائے ذوانتقام نے کسریٰ کی عظیم الشان حکومت کو جس کے رعب کے سامنے آدھی دنیا کانپتی تھی مسلمانوں کی بے سروسامان مٹھی بھر فوج کے سامنے اس طرح بکھیر کر رکھ دیا جس طرح کہ ایک تیز آندھی کے سامنے جنگل کا خس و خاشاک اڑتا ہے اور دوسری طرف قیصر کی حکومت مسلمانوں کے پے در پے حملوں سے بہت سا نقصان اٹھانے کے باوجو د سینکڑوں سال تک قائم رہی۔ کسریٰ کے لئے خدا کا جذبہ انتقام جوش میں تھا جس نے اس کے عظیم الشان محل کو ایک ہی ضرب سے خاک میں ملا دیا اور قیصر کے لئے خدا کی ذرہ نواز رحمت آڑے آئی اور گرتے گرتے قصر پر بھی سینکڑوں سال کی مہلت مل گئی۔ ان دونوں حکومتوں کی تقدیر میں ایک طرف خدائے منتقم اور دوسری طرف خدائے حلیم کی مخفی تاریں کام کر رہی تھیں اور بالآخر وہی ہوا جس کی رسول خدا نے خبر دی تھی۔
اسی قسم کا ایک واقعہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ افغانستان کی حکومت نے ( جو آجکل بد قسمتی سے پاکستان کے درپے ہو کر اپنے آپ کو خراب کر رہی ہے) امیر حبیب اللہ خان کے عہد میں جماعت احمدیہ کے ایک نامور بزرگ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کو محض احمدیہ عقائد کی وجہ سے انتہاء درجہ ظالمانہ حالات میں سنگسار کرا دیا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے خدا سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی کہ اس ظلم کی وجہ سے کابل کی مملکت میں ایک تباہی رونما ہو گی۔ چنانچہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد کابل اور اس کے گرد و نواح میں ایسا خطرناک ہیضہ پھوٹا کہ ہزاروں لوگ اس کا شکار ہو گئے اور پھر جب امیر امان اللہ خان کے عہد میں مولوی نعمت اللہ صاحب احمدی کو شہید کر کے اس ظلم کا اعادہ کیا گیا تو ابھی اس ظلم پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ امان اللہ خان کے خاندان کی صف ہی لپیٹ دی گئی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
الغرض نیک بندوں اور نیک جماعتوں کے خلاف ظلم کرنے والوں کے مظالم کا انتقام لینا خدا کی ازلی سنّت کا حصہ ہے جس کی مثالیں دنیا کے ہر زمانہ اور تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں اور ملتی چلی جائیں گی کیونکہ جس طرح خدا ازلی ہے اسی طرح اس کی صفات بھی ازلی ہیں اور اس کے نیک بندوں پر ظلم کر کے کوئی شخص بچ نہیں سکتا اور ضرور کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی وقت پر پکڑا جاتا ہے۔ مگر اس جگہ مجھے ایک خاص غرض کے ماتحت اسلام کی تاریخ میں سے دو ایسی درد ناک مثالیں پیش کرنی ہیں جو مسلمانوںکی دو بڑی تباہیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن میں سے ایک کا انتقام خدائے منتقم کا زبردست ہاتھ لے چکا ہے اور دوسری کے متعلق ابھی انتظار ہے۔ میری مراد تیرھویں صدی عیسویںمیں بغداد کی تباہی اور پندرھویں صدی عیسوی میں سپین سے مسلمانوں کا اخراج ہے۔ یہ دونوں تباہیاں اسلام کی تاریخ میں ایسی نمایاں اور ایسی بھیانک ہیں کہ ان کا حال پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو تے ہیں اور ہر غیرت مند مسلمان کا خون جوش مارتا اور دل جائز ولولہ انتقام سے بھر جاتا ہے۔
بنی امیہ کی سلطنت کے زوال کے بعد بغداد کا شہر اسلامی حکومت کا صدر مقام بنا تھا اور خلفاء بنی عباس کے زمانہ میں اس شہر نے اتنی حیرت انگیز ترقی کی کہ آجکل کی مخصوص ایجادوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ اس وقت کی دنیا کا سب سے زیادہ شاندار ،سب سے زیادہ آباد اور علوم و فنون کا سب سے بڑا مرکز تھا اور اس کا غلغلہ مشرق و مغرب کے دور دراز کونوں تک پہنچتا اور دوست و دشمن کے دلوں کو رعب اور ہیبت سے لرزہ بر اندام کرتا تھا اور گو آہستہ آہستہ عباسیہ سلطنت میں زوال آنا شروع ہو گیا مگر اس شہر کی آبادی تقریباً مسلسل بڑھتی گئی۔ حتیٰ کہ وہ بیس لاکھ نفوس تک پہنچ گئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے حقیقۃً حیرت انگیز تھی۔ اس وقت چین اور ماور النہرکے میدانوں سے تاتاری اور منگولی قبائل جو وحشت اور خونریزی کا مجسمہ تھے ایک کالی گھٹا کی صورت میں اٹھنا شروع ہوئے جس کے ہیبت ناک بازوئوں پر چنگیز خان کی بربریت سوار تھی اور اس کالی بلا نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری فضاء کو گھیر لیا اور گو خود چنگیز خاں کو اپنی زندگی میں بغداد پر حملہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا مگر وہ اپنی اولاد کے لئے اتنا رستہ صاف کر چکا تھا کہ اس کے جلد بعد ہی اس کے لڑکے ہلاکو خاں نے آندھی اور طوفان کی طرح بڑھ کر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور نہ صرف عباسیہ خاندان تہ تیغ ہوا بلکہ بغداد کی بیس لاکھ مسلمان آبادی میں سے سولہ لاکھ مسلمان منگولی لائو لشکر کی وحشیانہ تلوار اور خون آشام تیر وستان کا شکار ہوکرخاک میں مل گئے اور جو لوگ ادھر ادھر چھپ کر بچے انہیں دریا کا بند توڑ کر تہہ خانوں میں بند کر دیا گیا۔ جانیں تلف ہوئیں۔ جائیدادیں لٹیں۔ عزتیں مٹیں۔ کتب خانے برباد ہوئے اور نہ معلوم کتنی عصمتیں خاک میں مل گئیں اور دنیا کا یہ مرکز اعظم ایک آن واحد میں مٹی کا ڈھیربن کر رہ گیا۔ یہ تباہی تاریخ عالم میں بے نظیر تھی اور گو یہ مسلمانوں کے اپنے ہی اعمال کا ثمرہ تھی مگر کافر کے ہاتھوں مسلمان کی تباہی کا یہ نظارہ ایسا ہولناک تھا کہ اس کے تصور سے آج بھی آنکھیں نیچی ہونے لگتی ہیں مگر جس برق رفتاری سے یہ طوفان اٹھاتھا اسی برق رفتاری سے خدا کا انتقام بھی آیا اور دیکھو کہ کس شان سے آیا۔ ہاں دیکھو کہ کس شان سے آیا کہ ہلاکو خاں بت پرست فاتح کافر کالڑکا چند سال کے اندر جبکہ ابھی اس فتح کا خمار بھی نہیں اترا تھا کلمہ پڑھ کر اور فاتح سے مفتوح بن کر اسلام کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا۔ یہ بغداد کی تباہی کا پہلا انتقام تھا اور دوسرا انتقام اس طرح لیا گیا کہ منگولی قبائل کے چچازاد بھائیوں یعنی مغلوں میں سے خدا نے اس آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو پیدا کیا تا آپ کے ذریعہ اسلام کے دائمی غلبہ اور اس کی شان و شوکت کے دوسرے دور کی بنیاد قائم کی جائے۔ پس بے شک بغداد تباہ ہوا اور اسلام کی ظاہری شان و شوکت پر بڑی مصیبت آئی مگر اس کے انتقام نے بھی وہ فوق العادت شان اختیار کی جو دنیا کی تاریخ میں عدیم المثال ہے اور ہمیشہ عدیم المثال رہے گی۔
دوسری بڑی تباہی سپین یعنی ہسپانیہ کی ہے ابھی غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ زندہ ہی تھے کہ مسلمان مجاہد شمالی افریقہ کے رستہ سپین کے ملک میں جو یورپ کا ایک اہم حصہ ہے داخل ہوئے اور فاتحانہ یلغار کرتے ہوئے فرانس کی حدود تک پہنچ گئے اور اس کے بعد سپین میں اسلامی حکومت کا وہ دور شروع ہوا جو بعض لحاظ سے اسلام کی تاریخ کا سب سے زیادہ سنہری ورق ہے۔ مسلمانوں نے سات آٹھ سو سال تک سپین میں وہ شاندار حکومت کی جس کی شعاعیں آج تک دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ یہ حکومت صرف تلوار کی حکومت نہیںتھی بلکہ دل کی حکومت تھی ۔دماغ کی حکومت تھی۔ علم کی حکومت تھی ۔ عمل کی حکومت تھی۔ تہذیب کی حکومت تھی۔ تمدن کی حکومت تھی۔ فن حدیث کو چھوڑ کر جس کے لئے مدینتہ النبی ؐ کا قرب خاص مناسبت رکھتا تھا باقی سارے علوم میں سپین کے عربوں نے وہ شاندار ہستیاں پیدا کیں جو دیکھتے دیکھتے دنیا کی معلم بن گئیں اور آج تک دنیاکا لٹریچر ان کی بے مثل تصانیف کا مرہون منت ہے یورپ کے علماء اورفلاسفر اور حکیم خوشہ چین بن بن کر سپین میں آتے تھے اور عرب مفکروں کے سامنے زانوئے تلمیذی طے کر کے اپنے نو شتہ دانوں کو علم کے ذخیروں سے بھر بھر کر واپس لے جاتے تھے ۔تفسیر، فقہ، تاریخ، فلسفہ، طب، علم ، جراحی علم، جغرافیہ، علم ہیٔت اور علم ریاضی وغیرہ میں یورپ کے شاگردوں نے سپین کے عرب استادوں کی کتابیں پڑھیں اور پھر اپنی زبانوں میں ان کے ترجمے چھاپ کر اپنی قوموں کو علم کی روشنی پہنچائی۔ فن تعمیر میں ہسپانیہ کے عربوں نے وہ کمال پیدا کیا کہ جب سپین کی عیسائی اقوام نے آٹھ سو سال کی محکومی کے بعد اپنے مسلمان فاتحین کو اپنے ملک سے نکالا اور اپنے غیظ و غضب کے اندھے جوش میں عربوںکی ہر چیز کو مٹا کر رکھ دیا تو اس وقت بھی ان کے ظلم کا ہاتھ اپنے ملککی زینت کے خیال سے بعض ان عمارتو ں کے خلاف نہ اٹھ سکا جو عربوں نے ان کے ملک میں تعمیرکی تھیں۔ چنانچہ غر ناطہ کا بے مثل قصر الحمراء اور قرطبہ کی شاندار مسجد اب تک سر زمین سپین میں عربوں کے زمانہ حکومت کی مرثیہ خوانی کر رہی ہیں، لیکن غالباً سپین میں عرب حکومت کی سب سے بڑی فضیلت اس حقیقت میں مضمرہے کہ جب سپین کا فاتح عرب دو سو سال کی طویل لڑائی کے بعد بالآخر سپین سے نکالا گیا تو اس وقت اس کی پسپائی پر رونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ یورپ کی عیسائی اقوام بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ایک طرف مذہبی تعصّب کے جوش میں مسلمانوں کے سپین سے نکلنے پر خوشی منائی اور دوسری طرف اس سچی شہادت کے ساتھ اپنی کتابوں کے اوراق بھر دئیے کہ سپین کے مسلمانوں کا اخراج ملک کے لئے ایک بہت بڑی تباہی تھی۔ ایک عیسائی مورخ کے یہ الفاظ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ آیا سپین کے عیسائیوںنے مسلمانوں کو اپنے ملک میں سے نکال کر اپنی آزادی کی صورت میں زیادہ انعام پایا یا کہ عربوں کے علوم و فنون کو کھو کر زیادہ نقصان برداشت کیا۔ یہ ایک دشمن کی شہادت ہے والفضل ما شھدت بہ الاعدائٗ۔
لیکن اسپین میں اسلامی حکومت کی تباہی کا تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ وہاں اسلامی حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی اسلام کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ چنانچہ اب سپین کے وسیع جزیرہ نما میں ایک ملکی مسلمان متنفس بھی نظر نہیں آتا۔ عربی زبان کے آثارباقی ہیں۔ عربوں کی مخلوط نسل کے وہ لوگ بھی کافی مقدار میں موجود ہیں جنہیں بعد میں جبراً عیسائی بنا لیا گیا۔ عرب عمارتوں اور عربوں کی بنائی ہوئی نہروں اور ریلوں اور باغات کے نشان بھی نظر آتے ہیں مگر نہیں نظر آتا تو اللہ کا مسلمان بندہ اور نہیں نظر آتا تو محمد (صلعم) کا نام لیوا اور یہ وہ ملک ہے جس کا چپہ چپہ خدائے واحد کے نام سے صدیوں تک گونجتا رہا ہے اور جس کے غالباً ہر شہر اور ہر قصبہ کی زمین محمد رسول اللہ کے غلاموں کے سجدوں سے مزیّن ہوئی ہے۔ سپین کے علاوہ جس جس ملک میں بھی مسلمانوں کو دھکا لگا وہاں بہر حال کسی نہ کسی صورت میں اسلام باقی رہ گیا۔ بغداد مٹا تو پھر بھی اس کی آبادی بدستور اسلام کی حلقہ بگو ش رہی۔ بلغاریہ اور البانیہ سے مسلمان پیچھے ہٹے تو پھر بھی ان ملکوں میں اسلام کے نام لیوائوں کا ایک حصہ باقی رہا۔ ہندوستان میں مغلوں کی حکومت پر تباہی آئی تو پھر بھی دس کروڑ مسلمانوں کا ورثہ اپنے پیچھے چھوڑ گئی جو آج پاکستان کی گدی سنبھالے بیٹھے ہیں مگر جب اسلام سپین سے نکلا تو گویا اس کی جڑوں اور شاخوں اور پتوں اور پھولوں اور پھلوں سب پر تباہی آ گئی اور اس تباہی کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک یہ ہولناک آبادی بے انتقام پڑی ہے۔ بغداد نے اپنا انتقام لے لیا اور لے رہا ہے۔ ہندوستان نے بھی اپنا انتقام اولاً مسلمان آبادی کی صورت میں اور پھر پاکستان کی صورت میں لے کر کچھ اشک شوئی کر لی ہے مگر سپین ،ہمارا سپین، اسلامی حکومت کی آنکھ کا تارا سپین،بے انتقام پڑا ہے۔ سپین کی زمین ابھی تک اسلام کے انتقام کی پیاسی ہے۔ کیا خدائے اسلام جس نے اپنی کتاب میں اپنا نام خود ذوانتقام رکھا ہے۔ سپین کو بھول گیا؟ کیا اس نے سپین کے ان سینکڑوں ہزاروں علماء دین کو فراموش کر دیا جن کے نام اب تک علم و حکمت کے آسمان پر ستارے بن کر چمک رہے ہیں اور جن کی ہڈیاں سپین کے شہروں میں پیوند خاک ہیں؟ کیا ان لاکھوں مسلمان شہیدوں کیخون کی چھینٹیں ابھی تک عرش خدا وندی تک اڑ کر نہیںپہنچیں جنہوں نے اپنے خون کے دھارے سے سپین کی زمین میں اسلام کا رستہ کھولا اور پھر آٹھ سو سال کی بے مثل حکومت کے بعد خون کے دریا میں نہاتے ہوئے پیچھے ہٹ آئے؟ یہ کبھی ہو نہیں سکتا۔ یہ ہمارے خدائے منتقم کی صفاتِ ازلی کے خلاف ہے ۔یہ الاسلام یعلو ولا یعلٰیکا ایسا صریح بطلان ہے جسے خدائے اسلام کی غیرت کبھی برداشت نہیں کر سکتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا اب تک سپین کے معاملہ میں خاموش ہے؟ اس کی وجہ: -
’’ مجھ سے سنو جو گوشِ نصیحت ہوش ہے ‘‘
اسلام کا خدا ،ہماراخدا قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جنگ کے میدان میں کوئی سچی اسلامی فوج دشمن کے سامنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی سوائے ان دومعین صورتوں کے کہ:
۱۵۳
’’ یعنی ایک اسلامی فوج یا تو جنگی تدبیر کے طور پر میدان بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ سکتی ہے اور یا کسی اور اسلامی فوج اور کسی اور مسلمان جرنیل کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے کی نیت سے پیچھے آ سکتی ہے۔ اس کے سوا کوئی تیسرا رستہ نہیں۔‘‘
اب بات صاف ہے کہ بغداد اور بلغاریہ اور ہندوستان میں تو خدائے اسلام نے کے نسخہ پر عمل کیا اور ایک میدان سے فوجیں ہٹا کر دوسرے میدان میں ڈال دیں۔ اس طرح اگر اسلامی عظمت کا ایک نشان مٹا تو دوسرا نشان قائم رہا لیکن سپین کے معاملہ میں خدائے ذوالجلال و ذوالجلال کے نسخہ پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ یعنی سپین کے متعلق ایک نئے اسلامی لشکر اور نئے مسلمان جرنیل کے ساتھ جوڑ ملا کر حملہ کرنے کی سکیم بنائی گئی ہے اور یہ نیا جرنیل مسیح موعود ؑ ہے اور یہ نیا لشکر جماعت احمدیہ ہے جس کے ہاتھ سے سپین کا انتقام ازل سے مقدر ہو چکا ہے اور پھر جماعت احمدیہ میں سے یہ ذمہ داری خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل پر زیادہ عائد ہوتی ہے جس نے حضرت مسیح موعود ؑ کا دہراورثہ پایا۔ جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ پس جیسا کہ میں نے آج سے قریباً دو اڑھائی سال قبل ’’ اے ابنائے فارس ‘‘ کے عنوان کے ماتحت اپنے ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل کو مخاطب کیا تھا آج پھر کہتا ہوں کہ :
اے ابنائے فارس
تم پر اسلام کے انتقام کی دہری ذمہ داری ہے۔ تم نے ہر اس سر زمین کو دوبارہ فتح کرنا ہے جو اسلام کے ہاتھوں سے چھینی جا چکی ہے اور تم نے ہر اس نئی زمین میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے جو آج تک اس مبارک جھنڈے کی برکتوں سے محروم ہے۔ پس اٹھو اور کمر ہمت کسو کہ یہ تمہارا کام ہے اور اگر تم نے سستی یا غفلت نہ دکھائی تو انشاء اللہ یہ قلعہ تمہارے ہاتھ پر ہی سر ہو گا لیکن یاد رکھو کہ اسلام کا یہ دور جس کے تم وارث بنے ہو جمال کا دور ہے اس لئے خواہ دشمن کے پیدا کئے ہوئے حالات کی مجبوری کے لئے تمہیں کبھی کبھی جلال کے رستوںہونگے اور تمہارا اصل رستہ جمال کا رستہ ہے جس میں روحانیت کے زور اور دلائل کی قوت اور براہین کی روشنی سے دشمن کو زیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ قرآنی آیت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کے متعلق ہی ہے کہ ۱۵۴یعنی خدانے اپنا یہ رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا وہ اسے دنیا کے تمام دینو ںکے مقابل پرغالب کر دکھائے اور قریباً تمام مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ اس وعدہ کی پوری تکمیل مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ ہے ۔پس ضروری ہے کہ اس کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تم اپنے آپ کو ہدایت اور دین حق سے اچھی طرح آراستہ اور مسلح کرو۔ یعنی پہلے خود ہدایت اور دین حق پر قائم ہو اور پھر اپنے اندر وہ جوہر اور وہ تیاری پیدا کرو جو دوسروں کے دلوں کو مغلوب کرنے کے لئے ضروری ہے۔ خدائے علیم و قدیر کی تقدیر تمہارے ساتھ ہے اور خدا کی تقدیر کے ہوتے ہوئے جو شخص خود اپنی بد تدبیری سے اپنے لئے ناکامی کا سامان پیدا کرتا ہے اس سے بڑھ کر بد قسمت انسان کون ہو گا؟
یاد رکھو کہ کامیاب تبلیغ کے لئے پانچ باتیں نہایت ضرری ہیں جن کے بغیرنہ تو تبلیغ کرنے والے مبلغ کا دل و دماغ تبلیغ کی اہلیت حاصل کرتا ہے اور نہ اس شخص کے دل و دماغ کی کھڑکی کھلتی ہے جسے تبلیغ کی جاتی ہے اور یہ پانچ باتیں یہ ہیں :-
(ا) علم کی تکمیل یعنی دین اور اس کے لوازمات کا تفصیلی علم حاصل کرنا۔
(۲) علم کی درستی یعنی اپنے معتقدات کے مطابق سچا عمل رکھنا۔
(۳) روحانیت کا حصول یعنی خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور دعا کی عادت ڈالنا۔
(۴) جوش تبلیغ یعنی کلمہ حق پہنچانے کے لئے دل میں درد اور سینہ میں ولولہ پید اکرنا۔
(۵) پیرایہ تبلیغ یعنے پیغام حق کو احسن اور دلکش پیرایہ میں پہنچانا۔
جس شخص کو یہ پانچ باتیں حاصل ہو جائیں وہی اسلام اور احمدیت کا سچا مبلّغ ہے اور ایسے شخص کے تبلیغی حملہ کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔ اس کا ایک ایک وار دشمن کی صف بکھیرتا اور اک ایک ضرب دشمن کے کیمپ میں کھلبلی پیدا کردیتی ہے۔ تلوار کا کاٹا بچ سکتا ہے اور بسا اوقات ظاہر میں مغلوب ہو کر دل میں انتقام کا جذبہ بھی پیدا کر لیتا ہے مگر روحانی تیروں سے زخمی ہونے والا شخص اور علم کی تلوار سے کاٹا جانے والا انسان ہمیشہ کے لئے مارنے والوں کے قدموں میں گر کر اسی کا ہو جاتا ہے۔ پس اے ابنائے فارس! گو ہر سچا احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی فرزند اور تمہارا دینی بھائی ہے مگر چونکہ تم نے دوہرا ورثہ پایا ہے اس لئے تم دہری ذمہ داری کے نیچے ہو۔ پس اٹھو اور حسن دین اور حسن اخلاق اور حسن جمال سے آراستہ ہو کر میدان میں آئو کہ دنیا کی قومیں تمہارا راہ دیکھتی ہیں اور سپین کی زمین تمہارے روحانی انتقام کی پیاسی ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)





حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھاکے لئے خاص دعائوں کی تحریک
حضرت امان جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کی صحت کچھ عرصہ سے بہت گر گئی ہے اور کمزوری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بے شک عمر بھی زیادہ ہے کیونکہ اس وقت ان کی عمر قریباً پچاسی سال کی ہے (وہ ۱۸۸۴ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیاہی گئی تھیں) اور عمر کے نتیجہ میں صحت کا گرنا اور کمزوری کا بڑھنا ایک طبعی امر ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے حضر ت امان جان کی صحت میںغیرمعمولی فرق آیا ہے اور طبیعت زیادہ مضحمل رہنے لگ گئی ہے۔ پس میں تمام مخلصین جماعت سے عرض کرتا ہوںکہ وہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا کی صحت اور درازی عمر کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مبارک تعویز کو ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے اور حضرت اماں جان کی برکتوں کے زمانہ کو جوحقیقہً بے نظیر ہیں۔ہمارے لئے لمبے سے لمبا کر دے آمین یا ارحم الرحمین ۔میں بعض قرائن سے سمجھتا رہا ہوں کہ شائد اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کو کم و بیش بانوے سال کی عمر عطا کر ے گا لیکن یہ محض قیاس ہے۔ جس کی تائید میں میرے پاس کوئی یقینی دلیل نہیں ہے۔ اور گزشتہ چند ماہ میں حضرت اماں جان کی صحت اس سرعت کے ساتھ گری ہے کہ میرے دل میںڈر پیدا ہونے لگا ہے والامر بید اﷲ وھو المستعان و نرجوا من اﷲ خیراً۔
حضرت اماں جان اطال اللہ ظلھا کے وجود کی برکت اس بات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان فرمایا کہ:
یتزوج ویولدلہ۔ ۱۵۵
’’ یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس شادی سے اس کی اولاد بھی ہو گی۔‘‘
اس حدیث کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صراحت فرمائی ہے کہ اس میں حضرت ام المؤمنین کی طرف اشارہ ہے ۔ پھر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے بھی خدا نے فرمایا کہ :
اُذْکُرْ نِعْمَتِی رَئَیْتُ خَدِیْجَتِی۔۱۵۶
’’یعنی میری نعمت کو یاد رکھ کہ تو نے میری موعود ہ خدیجہ کو پالیا۔ ‘‘
پس حقیقۃً حضرت ام المؤمنین کا مقام بہت ہی بلند اور آپ کا وجود بہت ہی مبارک ہے اور اس سے بڑھکر برکت کا کیا ثبوت ہوگا کہ خود خدا نے آپ کو اپنے پاک مسیح کے لئے چنا اور آپ کو نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بلکہ تمام مومنوں کی ماں قرار دیا ۔حق یہ ہے کہ آپ کے انفاس مبارکہ کے ذریعہ گویا ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السام ابھی تک زندہ ہیں کیونکہ خاوند اور بیوی گویا ایک ہی وجود کا حکم رکھتے ہیںاور مبارک بیوی کی زندگی میںمقدس خاوند کی زندگی کی جھلک نظر آجایا کرتی ہے اور ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری نسل میںسے ہیں، ہمارے لئے تو حضرت اماں جان کا وجود دوہری برکت اور دوہری نعمت اور غیر معمولی روحانی سہارے کا ذریعہ ہے ۔ گزشتہ ایام میں میرے دل کو بعض پریشانیاں لاحق تھیں۔ میں ان دنوں میں حسب دستور حضرت اماں جان کی خدمت میں روزانہ صبح و شام حاضر ہوتا ۔تھوڑی دیر پاس بیٹھ کرجو خدمت بھی میسر ہوتی بجالاتا اور پھر دعا کے لئے عرض کر کے واپس آجاتا اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتا کیونکہ نہ اس وقت میرا دل اس کی ہمت پاتا تھااور نہ حضرت اماں جان کی صحت اس کی اجازت دیتی تھی۔ ایک دن میں اسی طرح دعا کے واسطے عرض کرکے واپس آنے لگا تو نہ معلوم کیا خیال آیا کہ مجھ سے از خود فرمایا:
’’میاں مجھے تمہاری تکلیف کا علم ہے میں تمہارے واسطے دعا کرتی ہوں‘‘
مائیں ہر ایک کی ہوتی ہیں مگر ہم ایسی شفیق اور مبارک اور دعا کرنے والی ماںکہاں پائیں گے ؟خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھااصل غرض یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا کا وجود حقیقۃً ساری جماعت کے لئے ایک بہت بھاری نعمت ہے اور گو ایسے وجودوں کی برکت ان کے بعد بھی جاری رہتی ہے کیونکہ ایسے مبارک وجود مقناطیس کا رنگ رکھتے ہیں جو اپنے ساتھ چھونے والوں کو بھی برکت سے بھر دیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ زندگی کی برکت بالکل اور قسم کی برکت ہوتی ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک دھوپ میں چلنے والے شخص کے سرپر بادل کا سایہ ساتھ ساتھ رہے اور پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے حضرت ام المؤمنین مدظلہا صرف ہماری ہی ماں نہیں ہیں بلکہ حقیقۃً سب احمدیوں کی ماں ہیں ۔ پس اب جبکہ ان میں کمزوری کے آثار زیادہ ظاہر ہو رہے ہیں۔ میں سب بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتا ہوں کہ وہ حضرت اماں جان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کی حالت میں جماعت کے سروں پر اور ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے۔ ان کی برکتوں کے سایہ کو لمبا کرے اور ہمیںان کی برکتوں اور دعائوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق دے ۔ آمین یا ارحم الراحمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)

عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہٗ کی بچی کی ولادت
ابھی ابھی عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہٗ کا ربوہ سے خط آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے بچی عطا کی ہے ۔یہ بچی حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پوتی اور ننھیال کی طرف سے حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے بھانجہ محترمی میر عبدالسلام کی نواسی ہے دوست دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ نوزائیدہ بچی کو والدین کے لئے قرۃ العین بنائے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)








کتاب چالیس جواہر پارے چھپ رہی ہے
کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنی جدید تصنیف ’’ چالیس جواہر پارے ‘‘ کے متعلق اعلان کیا تھا کہ وہ انشاء اللہ اس جلسہ سالانہ کے موقعہ پر شائع ہو جائے گی۔ اب خدا کے فضل سے یہ کتاب بالکل مکمل ہے اور کاتب نے کتابت شروع کر دی ہے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ دسمبر کے وسط تک چھپ کر تیار ہو جائے گی۔ اس کتاب میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی چالیس منتخب حدیثوں کا متن اور ترجمہ اور ضروری تشریح درج ہے اور تشریح کی ذیل میں بے شمار زائد حدیثوں کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ کتاب کے شروع میں ایک تمہید بھی ہے جس میںفن حدیث اورمصطلحات حدیث اور مشہور کتب حدیث کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں۔ حدیثیں زیادہ تر انفرادی کیریکٹر کی بلندی۔ اصلاح بین الناس اور قومی ترقی کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں۔ حجم غالباً ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہو گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل وکرم سے یہ مجموعہ نہ صرف سکولوں اور کالجوں کے طلباء اور طالبات کے لئے بلکہ ہر اس شخص کے لئے جو اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا دلکش نمونہ معلوم کرنے کا خواہشمند ہے نیز نو مسلموں کے لئے بھی انشاء اللہ بہت مفید اور با برکت ثابت ہو گا۔ بہرحال مدت سے میری یہ خواہش تھی جو خدا نے پوری کرنے کی توفیق دی۔ اب اسے پڑھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا اور اس کی اشاعت کو وسیع کرنا احباب کا کام ہے۔ قیمت جس کا ابھی تک مجھے بھی علم نہیں(کیونکہ میں تو صرف ثواب کی خاطر سے لکھنے والا ہوں) بعد میں معلوم ہو جائے گی لیکن میرا خیال ہے کہ غالباً بارہ آنے فی نسخہ کے لگ بھگ ہو گی۔ ملنے کا پتہ یہ ہے۔
(۱) ربوہ میں۔ بک ڈپو تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ ربوہ( ضلع جھنگ)
(۲) لاہور میں مکتبہ تحریک بالمقابل نمبر ۱۶۰ انارکلی لاہور
جو احباب خریدنا چاہیں اوپر کے پتہ پر اپنا آرڈر بھجواسکتے ہیں۔ میں اپنے لئے صرف دوستوں کی دعاکا طالب ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)

اسلام کے انتقام والے مضمون کے متعلق دوستوں کا سوال
خدا کے لئے نفسِ مضمون کی طرف توجہ دیجئے!
۲۱؍ نومبر ۱۹۵۰ ء کے الفضل میں میرا ایک مضمون زیر عنوان ’’ خدائے اسلام کا زبردست انتقام‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس پر دو دوستوں نے سوال کہلا کربھیجے ہیں۔ یہ سوال نفسِ مضمون سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بعض ثانوی باتوں پر پیدا ہوئے ہیںجو میرے مضمون میں ضمنی طور پر بیان کی گئی تھیں۔ مجھے یقینا بہت خوشی ہوتی اگر اصل مضمون کے متعلق کوئی بات کہی جاتی کیونکہ اصل مضمون کو نظر انداز کر کے محض ضمنی اور ثانوی امور کی طرف توجہ دینا کوئی اچھی علامت نہیں سمجھی جا سکتی۔ تاہم چونکہ مجھ تک یہ سوال پہنچے ہیں اس لئے مختصر اشارہ کے رنگ میں جواب دیتا ہوں۔
پہلا سوال ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب کی طرف سے ہے جو یہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مغل لکھا ہے لیکن حضور نے ایک الہام الہٰی کی بنا پر اپنے آپ کو ’’ ابنِ فارس‘‘قرار دیا ہے؟ اس کے متعلق پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئیے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو کبھی کبھی ’’ ابنِ فارس‘‘ لکھا ہے تو اس کے مقابل پر آپ نے بے شمار دفعہ مغل بھی لکھا ہے تو جب خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے آپ کو مغل لکھا ہے تو آپ کی اتباع میں میرا آپ کو مغل لکھ دینا قابل اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بے شک خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ تم ’’ ابنِ فارس‘‘ ہو اور اس کی وجہ سے آپ نے اپنے آپ کو ’’ ابنِ فارس‘‘ کے طور پر پیش بھی کیا مگر باوجود اس کے آپ نے ہزاروں مرتبہ اپنے آپ کو مغل بھی لکھا بلکہ آپ کے الہا م میں بھی آپ کو مرزا کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
اصبر سنفرغ یا مرزا۔ ۱۵۷
’’ یعنی مرزا ! ذرا ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔‘‘
اوپر کے الہام کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا بھی ہے جس میں آپ نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دربار میں دیکھا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا:
مرزا حاضر ہے۔
اب ظاہر ہے کہ مرزا صرف مغلوں یا ان کے توابع کا ہی لقب ہے نہ کہ ہر ایرانی کا کیونکہ ایران میں سینکڑوں سال سے سید اور پٹھان وغیرہ بھی بستے ہیں مگر وہ مرزا نہیں کہلاتے۔ بے شک بعض اوقات بعض غیر مغلوں کو بھی مرزا کا خطاب ملا ہے مگر وہ مغلوں کے توابع کے طور پر ملا ہے نہ کہ مستقل حیثیت میں۔ بہر حال جس طرح فارس کا لفظ الہامی ہے اسی طرح مرزا کا لفظ بھی الہامی ہے۔
دوسرا جواب اس سوال کا یہ ہے کہ دراصل یہ دونو باتیں ٹھیک ہیں۔ یعنی یہ بھی ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل تھے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ ابنِ فارس بھی تھے۔ مغل تو آپ قومی لحاظ سے تھے اور اہلِ فارس آپ اپنے آبائو اجداد کے آخری وطن کے لحاظ سے تھے اور یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور ہر گز متضاد نہیں۔ابتدائی زمانوں میں قوموں میں غیر معمولی حرکت ہوا کرتی تھی اور وہ نقلِ مکانی کر کے ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف اور دوسرے ملک سے تیسرے ملک کی طرف جاتی رہتی تھیں۔ یہی مغلوں کے ساتھ ہوا کہ اوائل میں وہ چین کے شمال مغربی علاقہ میں آباد تھے۔ اور پھر آہستہ آہستہ حرکت کر کے مملکتِ فارس کی حدود میں داخل ہو گئے۔ اس لئے وہ ایک جہت سے مغل بھی رہے اور دوسری جہت سے اہلِ فارس بھی بن گئے۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جیسے کہ مثلاًسید شروع میں عرب میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں ان میں سے بہت سے لوگ نقل مکانی کر کے ہندوستان میں آگئے۔ اس طرح وہ عربی بھی رہے اور ہندوستانی بھی بن گئے۔ پس اب اگر انہیں کوئی شخص اصل کے لحاظ سے عربی کہہ دے اور دوسرا بعد کے وطن کے لحا ظ سے ہندو ستانی کہہ دے تو دونو باتیں درست سمجھی جائیں گی اور کوئی تضاد نہیں ہو گا۔ یہی حال ہندوئوں یعنی آرین نسل کا ہے جو شروع میں کا کیشیا کے شمالی علاقہ میں آباد تھے اور پھر ان کا ایک حصہ مغربی یورپ کی طرف چلا گیا اور دوسرا ہندوستان آگیا۔ اور اس طرح انہوں نے بھی گویا دہرا وطن اختیا کر لیا۔ الغرض میری رائے میں ( واللہ اعلم بالصواب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مغل اور ابنِ فارس ہر دو الفاظ درست ہیں۔ آپ مغل ہیں کیونکہ آپ قومی لحاظ سے مغل ہیں اور آپ ابنِ فارس بھی ہیں کیونکہ آپ کے آبائو اجداد کا آخری وطن فارس تھا جس طرح کہ مثلاً حضرت سلمان فارسی کے آبائو اجداد کا آخری وطن فارس تھا۔ گو اصل کے لحاظ سے وہ بھی بعض روایتوں کے مطابق دوسری جگہ کے تھے۔ واللّٰہ اعلم وھو العلیم الخبیر۔
تیسرا جواب اس سوال کا یہ ہے کہ اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل نہ بھی ہوں بلکہ صرف اہل فارس میں سے ہوں( کیونکہ یہ سوال غالباً ابھی مزید تحقیق چاہتا ہے) تو پھر بھی میری دلیل اصولی طور پر قائم رہتی ہے۔ کیونکہ میں نے محض ضمنی طور پر مغلوں کو منگولیوں کا چچا زاد بھائی کہہ کر یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ اگر ایک بھائی نے اسلام کے قلعہ کو مسمار کرنا چاہا تو دوسرے بھائی کو خدا نے اس قلعہ کی مرمت اورمضبوطی کے لئے کھڑا کر دیا اور ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے اہل فارس بھی گویا منگولیوں کے ہی قائم مقام ہیں کیونکہ اول تو ان دونو کا وطن پہلو بہ پہلو تھا اور گویا دونو ہمسائے تھے اور دوسرے بغداد پر منگولیوں کا حملہ فارس کے رستہ ہی ہوا تھا۔ پس بالفرض اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل نہ بھی ہوں بلکہ صرف اہل فارس میں سے ہوں تو پھر بھی یہ حقیقت بہر حال قائم رہتی ہے کہ جس ملک سے فتنہ اٹھا تھا اسی ملک کو خدا نے اپنے انتقام کی تکمیل کے لئے فتنہ کے استیصال کا ذریعہ بنایا۔ پس عملاً بات وہی رہی۔ فافھم و تدبر۔
دوسرا سوال تعلیم الاسلام کالج کے ایک غیر معلوم الاسم دوست کا ہے جو مولوی ارجمند خاں صاحب کے ذریعہ مجھے پہنچا ہے۔ مولوی صاحب موصوف نے مجھے بتایا ہے کہ کالج میں کوئی صاحب کہتے تھے کہ میرے مضمون میں ہلاکو خان کو چنگیز خان کا لڑکا اور مسلمان ہونے والے منگولی رئیس کو ہلاکو خان کا لڑکا لکھا گیا ہے جو درست نہیں کیونکہ ہلاکو خان چنگیز خان کا پوتا تھا نہ کہ لڑکا اور مسلمان ہونے والا رئیس بھی ہلاکو خاں کا لڑکا نہیں تھا بلکہ پوتا تھا۔ اس دوست کے جواب میں عرض ہے کہ تاریخ سے مجھے بھی کچھ شدبد ہے اور جو بات سوال کرنے والے دوست نے کہی ہے میں اس سے بے خبر نہیں تھا لیکن میں نے دانستہ اپنے اس نکتہ پر زور دینے کی غرض سے کہ یہ تغیرات کتنی سرعت کے ساتھ نمودار ہوئے ان لوگوں کو اپنے مضمون میں بیٹے کے طور پر ظاہر کیا تھا کیونکہ عرف اور زبان کے مسلمہ اصول کے لحاظ سے پوتا بھی دراصل بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے اور دنیا کی ہر زبان میں پوتے کو بیٹے کے طورپر بیان کرنا جائز سمجھا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو پوتے کے بیٹوں اور پھر آگے ان کے بیٹوں کو بھی عرفاً بیٹے کہہ دیا جاتا ہے اور اس پر نہ تو زبان کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ اخلاق کے لحاظ سے کوئی بات قابل اعتراض سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو خدا کے ایک برگزیدہ رسول تھے، انجیل میں اپنے آپ کو کئی جگہ ابن دائود کہا ہے حالانکہ وہ حضرت دائود ؑ سے سینکڑوں سال بعد پیدا ہوئے تھے اور ابنِ آدم کا محاورہ تو بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اسی طرح بخاری میں آتا ہے کہ جب حنین کے میدان میں اکثر مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے تو ہمارے آقا سید الاولین والآخرین اور اصدق الصادقین صلے اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آگے بڑھے کہ :
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب۔ ۱۵۸
’’ یعنی میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبدالمطلب کا بیٹاہوں۔‘‘
اب ہر مسلمان جانتا ہے کہ آپ ؐ عبدالمطلب کے بیٹے نہیں تھے بلکہ پوتے تھے۔ پس اگر آپؐ نے جو اصدق الناس ہیں اپنے والد عبداللہ کا نام درمیان میں سے چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف ابن عبدالمطلب کہا تو یہ خاکسار ہلاکو خان کے باپ اور بیٹے کا نام ترک کرنے پر مورد اعتراض کس طرح بن سکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ چونکہ عرفاً اور استعمالاً بیٹے کے مفہوم میں پوتا اور پڑپوتا سبھی شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے میں نے ہلاکو خان کو چنگیز خان کا لڑکا اور مسلمان ہونے والے رئیس کو ( جس کا اسلامی نام غالباً احمد رکھا گیا تھا) ہلاکو خان کا بیٹا دانستہ لکھا تھا اور میری غرض یہ تھی کہ تا اس حقیقت کو نمایاں کیا جائے کہ یہ دونوں منگولی رئیس اپنے نام بردہ جد کی قریب ترین نسل سے تعلق رکھنے والے اور ان کی سیاست کے براہ راست وارث تھے۔ بہر حال جو بات حضرت عیسے ؑ نے کہی اسی قسم کی بات کہنے کی وجہ سے میرے مضمون پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور جو بات خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اسی قسم کا کلمہ زبان پر لانے کی بنا پر میرے مضمون کے خلاف حرف گیری زیب نہیں دیتی۔
بالآخر میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے پھر عرض کروں گا کہ ان کی نظر نفس مضمون کی طرف اٹھنی چاہئیے نہ کہ ان ضمنی باتوں کی طرف ۔ بے شک اگر واقعی کوئی غلطی ہو جائے خواہ مجھ سے یا کسی اور سے تو اس کی طرف توجہ دلانا برا نہیں بلکہ اصلاح اور شکرگزاری کا موجب ہے اور میں اسے ہرگز برا نہیں مانتا لیکن زیادہ خوشی کا موجب یہ بات ہوتی کہ ہمارے دوست نفس مضمون کی طرف توجہ دیتے۔ خود غور کرو اور سوچو کہ اگر کوئی نوجوان اٹھ کر یہ کہتا کہ میں آئندہ اپنے آپ کو سپین کے انتقام کے لئے تیار کروں گا تو ہم سب کو کتنی خوشی ہوتی مگر اصل مضمون کو نظر اندازکر کے ہلاکو خاںاور چنگیز خان کے رشتہ ناطہ کی بحث میں الجھنا کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا۔بات وہی ہے اور مجھے یہ بات پھر کہہ لینے دو کہ اے احمدی نوجوانو! سپین کی زمین ابھی تک اسلام کے روحانی انتقام کی پیاسی ہے ۔ اٹھو اور اس پیاس کو بجھانے کا انتظام کرو۔چنگیز خان اور ہلاکو خان خواہ مریں یا جئیں ہمیں اس سے کام نہیں اسلام زندہ ہونا چاہئیے اور سپین کی پیاس۔ ہاں ہاں سینکڑوںسال کی تپش والی پیاس اسلام کے انتقام سے بجھنی چاہئیے۔ پھر خواہ ہلاکو خان چنگیز خان کا بیٹا ہو یا کہ پوتا ہمیں اس بحث سے سروکار نہیں لیکن ہر احمدی نوجوان خواہ وہ بظاہر دین کے کام میں ہویا دنیا کے کام میں اسلام کا فرزند بننا چاہئے۔ مسیح موعود کا فرزند۔ محمد رسول اللہ کا فرزند۔ وقت بہت نازک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :
اے بے خبر بخدمتِ فرقاں کمر بند
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶ ؍نومبر ۱۹۵۰ئ)
اپنے درویش بھائیوں کو دعائوں میں یاد رکھیں
وہ آپ سب کے لئے دعا گو رہتے ہیں
(۱) قادیان کے درویش خدا کے فضل سے بخیریت ہیں اور اپنے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے مطابق خدمت سلسلہ میں لگے ہوئے ہیں۔ سب دوستوںکو چاہئیے کہ ہمیشہ اپنے درویش بھائیوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ وہ کئی لحاظ سے آپ کی خاص دعائوں کے مستحق ہیں اور پھر اس لحاظ سے بھی ان کا حق ہے کہ وہ ہمیشہ آپ سب کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ وَمَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشُکِرُ اللّٰہَ۔۱۵۹
(۲)آج کل بعض درویش زیادہ بیمار ہیں۔ انہیں خصوصیت سے دعائوں میں یاد رکھا جائے۔ ان میں میاں محمود احمد صاحب پشاوری اور رفیع الدین صاحب گجراتی اور میاں صدر الدین صاحب قادیانی دوستوں کی دعائوں کے زیادہ مستحق ہیں۔ اول الذکر عزیز کوسل کا عارضہ لاحق ہے جو جوانی کی عمر میں خطرناک ہوتا ہے۔ ثانی الذکر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور عام صحت بھی کمزور ہے اور آخر الذکر قادیان کے پرانے صحابی اور بہت ضعیف ہیں اور اب گویا چراغ سحری کا رنگ رکھتے ہیں۔ اسی طرح درویش محمد اشرف صاحب کے برادر نسبتی اور بچی بھی بہت بیمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا اور دوسرے سب درویشوں اور ان کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو۔
(۳) دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ درویش کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی بناء پر رکھا گیا ہے۔ جس میں ایک فرشتہ حضور کے سامنے ایک نان پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے۔ پس درویشوں کی مدد کرنے والے دوست ( خواہ یہ مدد روحانی ہو یا اخلاقی ہو یا مالی) حقیقۃً اس نان کے مہیا کرنے میں مدد دیتے ہیں جو خدا کے فرشتہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تھا ؟ و من کان فی عون اخیہ کان اللّٰہ فی عونہ وجزاکم اللّٰہ احسن الجزا فی الدنیا و الاخرۃ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۶نومبر ۱۹۵۰ئ)

قادیان جانے والی پارٹی کے متعلق ضروری اعلان
اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر جو دوست قادیان جانے کی خواہش رکھتے ہیں ان کی طرف سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں اور اس وقت تک یہ تعداد چار سو تک پہنچ چکی ہے اور ابھی مزید درخواستیں آرہی ہیں اور بعض دوست گھبرا گھبرا کر اوپر تلے یاد دہانیاں بھی بھجوا رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کی اطلاع کی غرض سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں ہر دوست کے ساتھ انفرادی خط و کتابت نہیں کی جاسکتی اور ابھی تک حکومت کی طرف سے آخری اجازت بھی نہیں پہنچی۔ بعد اجازت انتخاب ہونے پر صرف منتخب ہونے والے دوستوں کو اطلاع دی جائے گی۔ پس جن دوستوں کو مناسب وقت تک یہ اطلاع نہ پہنچے وہ سمجھ لیں کہ ان کا نام انتخاب میں نہیں آسکا اور انتخاب کرنے والوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیں۔ کیونکہ بہرحال جب جانے والوں کی تعداد محدود ہو تو لازماً انتخاب بھی محدود ہو سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰؍نومبر ۱۹۵۰ئ)






قادیان جانے کی درخواست دینے والے دوست متوجہ ہوں
جن دوستوں نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر قادیان جانے کی درخواست دی ہے انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنی ولدیت اور سکونت لکھ کر دفتر ہذا میں بھجوا دیں۔ اس وقت فہرست مرتب کی جارہی ہے اور انشاء اﷲ جلد ہی منتخب ہونے والے دوستوں کو رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع دی جائے گی۔ گو ابھی تک حکومت کی طرف سے آخری اجازت کا انتظار ہے جن دوستوں کو اطلاع نہ پہنچے وہ سمجھ لیں کہ وہ انتخاب میں نہیں آسکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)








حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی یاد میں
تبحّر۔تصوّف۔توکّل اور تواضع کا ارفع مقام
۲۶؍ نومبر ۱۹۵۰ء کا دن بہت مبارک دن تھا کیونکہ اس دن حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھیرہ تشریف لے گئے تھے اور وہاں جا کر احبابِ جماعت کی کثیر تعداد کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے مکان اور مسجد میں اجتماعی دعا فرمائی۔ یہ ایک خاص موقع تھا اور گو یہ خاکسار بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس مبارک تقریب میں شامل نہیں ہو سکا مگر جس طرح بعض مدینہ میں رہ جانے والے اصحاب ثواب کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفروں میں آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ اسی طرح میری روح بھی محسوس کرتی تھی کہ میں بھی اس دن لاہور میں رکے ہوئے ہونے کے باوجود اس تقریب میں شرکت کا ثواب پا رہا ہوں ۔ میں نے اس دن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے لئے بہت دعا مانگی۔ آپ کے تصور سے قرآن شریف کی تلاوت اور دن کے بیشتر حصوں میں آپ کے اوصاف حسنہ پر غور کرتا رہا۔
اس تقریب نے میرے دل میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کر کے مجھے تحریک کی ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ کے متعلق ایک مختصر سا مضمون لکھ کر ہدیہ ناظرین کروں تااگر خدا چاہے تو میرا یہ مضمون دوستوں کے دل میں نیکی کا محرک بن کر ان کے لئے باعث سعادت اور میرے لئے موجب ثواب و مغفرت ہو۔ و انما الاعمال بالنیات ولکل امرء مانوی۔۱۶۰
جیسا کہ دوستوںکو معلوم ہے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام علم دین اور علم طب کے سیکھنے میں خرچ کئے اور انہی ایام میں حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل کیا اور چونکہ طبیعت نہایت درجہ نیک اور سادہ تھی اور ذہن انتہائی طورپر زیرک اور رساپایا تھا۔ اس لئے ظاہری علم نے باطنی جوہر کے ساتھ مل کر آپ میں ایک خاص قسم کی شان پیدا کر دی تھی۔ میں اپنے ذوق کے مطابق آپ کی اس شان کو مربع ’’ت‘‘ کے ذریعہ ظاہر کیا کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے کسبی اور وہبیاور دلی اور دماغی کمالات کا خلاصہ ان چارقسم کی ت میں آجا تا ہے۔ یعنی تبحر۔ تصوف ۔ توکل اور تواضع۔
ظاہری علم کی تحصیل سے فارغ ہو کر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے ریاست جموں و کشمیر میں شاہی طبیب کے طور پر ملازمت اختیار کی اور اس خدمتِ خلق میں وہ شان پیدا کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے راجہ اور پرجاہر دو کے کے دل میں گھر کر لیا حتیٰ کہ کشمیر کے موجودہ راجہ کے والد ( جو اپنے زمانہ کے راجہ صاحب کے بھائی تھے) کے ساتھ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے تعلقات تو گویا بالکل دوستوں کی طرح ہو گئے اور یہی دوستی بالآخر اندرونی رقابتوں کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول ؓ کے اخراج از کشمیر کا باعث بنی مگر آپ کا یہ اخراج قدرت کی ایک مخفی تار تھی جس نے آپ کو کشمیر سے نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں لا ڈالا اور اس کے بعد آپ ہمیشہ کے لئے قادیان ہی کے ہو گئے اور ایک پاک مٹی کا دوسری پاک مٹی سے جوڑ مل گیا۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ کشمیر کے واقعات درس وغیرہ کے موقعہ پر اپنے مخصوص انداز میں اکثرسنایا کرتے تھے۔
ابھی آپ کشمیر میں ہی تھے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غائبانہ تعارف حاصل ہوا۔ جس کا موقع غالباً براہین احمدیہ کے ابتدائی حصہ کی اشاعت کے ذریعہ میسر آیا تھا اور اس کے بعد غائبانہ رنگ میں ہی خط و کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جو مزید حسنِ ظن اور جذب و کشش کا باعث بنا۔ اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھااور ابھی سلسلہ بیعت بھی شروع نہیںہوا تھا اور نہ کوئی جماعت تھی۔اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے گئے ۔ یہ اس روحانی استاد و شاگرد کی پہلی ملاقات تھی اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اپنے درسوں وغیرہ میں اس ملاقات کا ذکر بڑی محبت اور شوق کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کی غرض سے قادیان گیا تو بٹالہ سے یکّہ میں بیٹھ کر قادیان پہنچا۔ جب میں مسجد مبارک والے چوک میں پہنچا تو میں نے یکہ سے اترتے ہی ایک شخص سے پوچھا کہ ’’مرزا صاحب کہاں ہیں‘‘؟ اس وقت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا گمنامی کی حالت میں تھے اور قادیان میں حضور کے چچازاد بھائی مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب ہی مشہور و معروف تھے۔ اس لئے اس شخص نے یہ سمجھ کر کہ یہ نووارد انسان غالباً ان مرزا صاحبان کے متعلق پوچھتاہو گا۔ ان کے دیوان خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اندر چلے جائو مرزا صاحب یہیں بیٹھے ہوں گے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ میں نے جو آگے بڑھ کر دیوان خانہ میں جھانکاتو وہاں صحن میں یہ ہر دو ’’مرزئے‘‘مجلس جمائے بیٹھے تھے اور پرانے زمیندارہ طریق پر ان کے اردگرد بعض دوسرے لوگ بھی جمع تھے اور حقّہ کا دور چل رہا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے ایسا دھکا لگا کہ میں نے فوراً پلٹ کر یکہ والے کو آواز دی کہ تم ابھی ٹھہرو۔ میں بھی شاید تمہارے ساتھ ہی واپس چلا جائوں گا۔ اس کے بعدمیں مزید تسلی کی غرض سے دیوان خانہ کے اندر گیا اور حاضرین مجلس کو بلند آواز سے سلام کہا۔ فرماتے تھے کہ خدا نے مجھے اس قلبی دکھ سے کہ میں کہاں آگیا ہوں۔ جلدی نجات دینے کے لئے ایسا فضل فرمایا کہ میرا سلام سنتے ہی مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب میں سے کسی نے یا شاید کسی اورشخص نے کہا کہ آپ نے غالباً مرزا صاحب سے ملنا ہے۔ فرماتے تھے کہ یہ الفاظ سن کر میری جان میں جان آئی کہ یہاں کوئی اور ’’مرزا ‘‘ بھی ہے۔ ( یہ خود حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے الفاظ ہیں) اور میں نے جھٹ کہا کہ ہاں ہاں میں مرزا صاحب سے ہی ملنے آیا ہوں۔اس پر انہوں نے ایک آدمی میرے ساتھ کر کے مجھے مسجد مبارک میں پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اندر اطلاع بھجوائی تو چونکہ نماز کا وقت قریب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندر سے کہلا بھیجا کہ آپ مسجد میں تشریف رکھیں۔ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور جیسا کہ حضور ؑ نے ایک جگہ فرمایا ہے۔ حضرت خلیفہ اول ؓکو دیکھتے ہی حضور ؑ نے دل میں کہا کہ ھذا دعائی( یعنی یہ شخص تو میری دعا کا ثمرہ ہے) کیونکہ حضور ؑ نے اپنی خداداد فراست سے فوراً پہچان لیا کہ خدمتِ دین کے کام کے لئے میں جس قسم کا مددگار اپنے خدا سے مانگا کرتاہوں وہ مجھے آج مل گیاہے اور دوسری طرف حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی حضور ؑ کو دیکھ کر ہمیشہ کے لئے اسی دامن سے لپٹ کر رہ گئے۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجددیت کا دعویٰ تھا اور ابھی تک بیعت کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی جماعت تھی مگرحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کی روشنی سے پہچان لیا اور جان لیا کہ اگر موجودہ زمانہ کے طوفانِ ضلالت میں کوئی شخص اسلام کی کشتی کو بچانے کی اہلیت رکھتاہے تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے باصرا رعرض کیا کہ اگر خدا تعالیٰ آپ کو بیعت لینے کی اجازت اور ہدایت فرمائے تو میری درخواست ہے کہ سب سے پہلے میری بیعت قبول فرماویں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ابھی تک بیعت کا حکم نہیں ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا حکم ملا۔ تو انشاء اللہ آپ کی خواہش کا خیال رکھا جائے گا۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا اور حضور ؑ نے ۱۸۸۹ ء کے شروع میں لدھیانہ کے شہر میں پہلی بیعت لی تو سب سے اوّل نمبر پر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ نے ہی بیعت کی اور اس طرح آپ خدا کے فضل سے قرآنی اصطلاح کے مطابق اوّل بھی ہو گئے۔ اور سابق بھی بن گئے اوّل اس لئے کہ وقت کے لحاظ سے آپ احمدیت کے قبول کرنے والوں میں اوّل نمبر پر آگئے۔ اور سابق اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ اپنے علمی تبحرّاور روحانی مقام کے لحاظ سے بھی سب سے آگے تھے۔
اس کے بعد جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ریاست کشمیر کی ملازمت سے فارغہوئے تو اس وقت کے خیال کے ماتحت اپنے آبائی وطن بھیرہ میں واپس جا کر درس تدریس اور طب کے ذریعہ خدمتِ دین اور خدمتِ خلق کا سلسلہ شروع کرنا چاہا اور اپنے سابقہ مکان کو ناکافی خیال کرتے ہوئے ایک نئے اور وسیع مکان کی تعمیر بھی شروع کرا دی۔ اسی تعلق میں آپ غالباً کچھ سامان عمارت کی خرید کے واسطے لاہور تشریف لائے اور لاہور پہنچ کر خیال آیاکہ اب قادیان کے قریب آیا ہوا ہوں حضرت صاحب سے بھی مل آئوں۔ چنانچہ دو دن کی فرصت نکال کر قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ مولوی صاحب اب تو آپ فارغ ہیں۔ قادیان میں کچھ ٹھہریں گے نا؟ آپ نے اپنے خاص عاشقانہ انداز میں عرض کیا’’ ہاں حضور ٹھہروں گا‘‘۔ اس کے چند دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب آپ کو اکیلے تکلیف ہوتی ہو گی اپنے گھر سے بھی بلا لیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فوراً بیوی کو خط لکھ دیا کہ قادیان آ جائو ۔ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا۔ مولوی صاحب آپ کو کتابوں کے مطالعہ کا شوق ہے بہتر ہو گا کہ آپ اپنا کتب خانہ بھی قادیان منگوا لیں۔ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بھیرہ خط لکھ دیا کہ مکان کی تعمیربند کر دو اور میرا کتب خانہ قادیان بھجوادو۔کچھ عرصہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔ مولوی صاحب اب آپ بھیرہ کا خیال جانے دیں اور اسے بھول جائیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اور محبت اور فخر کے ساتھ فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھے کبھی خیال تک نہیں آیا کہ بھیرہبھی میرا وطن ہوتا تھا اور آپ نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان میں ہی ہمیشہ کے لئے دھونی رما دی اور لطف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ میں بھیرہ میں ایک مکان بنتا چھوڑ آیا ہوں۔ یہ وہ اخلاص و محبت کا ماحول تھا جس میں جماعت کی خشتِ اول قائم ہوئی۔
چونکہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو قرآن شریف سے انتہا درجہ کا عشق تھا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے اس لئے آپ نے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے قرآن شریف کا درس شروع کر دیا۔ یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اور اوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تفسیر کے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا کیونکہ آپ کا قاعدہ تھا کہ رحمت والے واقعات کی تشریح کر کے نیکی اور انابت الی اللہ کی رغبت دلاتے اور عذاب والے واقعات کے تعلق میں دلوں میں خشیت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور آپ کا درس بے حد دلچسپ اور ہر طبقہ کے لئے موجب جذب و کشش ہوا کرتا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے علم التفسیر کا ایک کثیر حصہ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کی تشریحات اورا نکشافات پر مبنی ہے اور آپ کے درس میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک وسیع سمندر ہے جس کا ایک حصہ موجزن ہے اور دوسرا ساکن اور عمیق اور اس میں سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق پانی لے رہا ہے۔ درس کے دوران میں بعض دفعہ لوگ سوال بھی کیا کرتے تھے اور حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتے تھے اور جواب میں مخاطب کے مذاق اور حالات کے پیش نظر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی لطیفہ بھی بیان کر جاتے تھے مگر بعض اوقات جب آپ کو سوال کرنے والے میں بلا وجہ سوال پوچھنے کا میلان محسوس ہوتا تھا یا آپ خیال کرتے تھے کہ یہ سوال ایسا ہے کہ وہ خود توجہ دے کر اس کا جواب سوچ سکتا ہے تو ایسے موقعہ پر یا تو خاموشی کے ساتھ گزر جاتے تھے یا کہہ دیتے تھے کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے خود سوچو۔ افسوس ہے کہ اس وقت کے نوٹ لینے والوں نے پوری احتیاط سے آپ کے اس درس کے نوٹ قلمبند نہیں کئے اور آپ کی تفسیر کا معتدبہ حصہ ضبطِ تحریر میں نہیں آسکا۔ ہاں سننے والوں کے سینے اب تک اس بیش بہا خزانہ کے امیں ہیں اور ہر احمدی تفسیر میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے علم کی روشنی نظر آتی ہے۔ خاکسار راقم الحروف نے بھی جب کہ میں بی۔ اے میں پڑھتا تھا تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف پڑھا اور پورا قرآن شریف ختم کر کے پھر اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آیا۔ یہ بھی گویا ایک پبلک درس تھا جس میں بہت سے دوسرے دوست بھی شریک ہوتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے قرآن کے درس کا نمایاں رنگ یہ ہوتا تھا کہ گویا ایک عاشق صادق اپنے دلبرو معشوق کو سامنے رکھ کر ۔۔۔۔ اس کے دلربا حسن و جمال اور دلکش خدوخال کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اللہ اللہ! کیا مجلس تھی اور اس مجلس کا کیا رنگ تھا!!
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس شوق میں آپ نے بے شمار روپیہ خرچ کر کے اپنی ذاتی لائبریری بنائی تھی جس میں تفسیر و حدیث ،اسماء الرجال ، فقہ،اصول فقہ ،کلام، تاریخ ،تصوف، سیاست ،منطق، فلسفہ ،صرف و نحو، ادب، کیمیا، طب، علم جراحی، علم ہئیت اور دیگر مذاہب وغیرہ کی نادر کتابیں موجود تھیں جن میں کئی قلمی نسخے بھی تھے اور آپ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ خود اپنے خرچ پر مولوی غلام نبی صاحب مصری کو مصر بھجوا کر وہاں کی بعض قلمی کتابوں کی نقول منگوائیں اور حق یہ ہے کہ اب تک حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا یہ ذاتی کتب خانہ ہی زیادہ تر جماعتی ضرورتوں میں کام آتا رہا ہے۔ کئی سیاح اور زائرین قادیان میں اس کتاب خانہ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے تھے کہ اس چھوٹے سے قصبہ میں علوم کا یہ نادر خزانہ کہاں سے آ گیا ہے۔ سر شاہ محمد سلیمان جو فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے ایک نہایت بلند پایہ علم دوست جج تھے انہیں ایک دفعہ سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی جو سارے ہندوستان میں تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں ملی۔ آخر انہیںپتہ لگا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میں موجود ہے۔ چنانچہ انہو ںنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی اجازت سے اس کا یہ نسخہ عاریۃً حاصل کیا اور پھر بحفاظت واپس بھجوادیا۔ لاریب کئی لحاظ سے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی یہ ذاتی لائبریری ہندوستان میں عدیم المثال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی بعض تحریروں میں آپ کے کتب خانہ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور یہ سب کچھ ایک نہایت محدود ذرائع والے انسان کے ذاتی ذوق و شوق کا ثمرہ تھا اور پھر یہ کتابیں محض جمع کرنے کے جذبہ کے ماتحت نمائشی رنگ میں اکٹھی نہیں کی گئیں بلکہ اس وسیع کتب خانہ کی ہر کتاب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے ذاتی مطالعہ میں آتی تھی اور جا بجا کتابوں کے حاشیہ پر آپ کے قلمی نوٹ پائے جاتے ہیں۔ اگر ایسے شخص کو بھی خصوصاً جبکہ وہ انتہا درجہ کا ذہین اور محنتی ہو، علم کے میدان میں تبحر کا مقام حاصل نہیںہو گا تو اور کس کو ہو گا؟ باوجود اس کے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ کئی قرآنی آیتیں جو مجھ سے کسی اور طرح حل نہیں ہوتی تھیں وہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت و برکت سے حل ہو گئیں۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو ایک خدائی بشارت کی بناء پر یہ دعویٰ تھا کہ میں خدا کے فضل سے ہر دشمن اسلام اور ہر دشمن صداقت کے ہر قسم کے اعتراض پر اس کا منہ بند کر سکتا ہوں۔فرمایا کرتے تھے کہ تسلی دینا میرا کام نہیں مگر معترض کے منہ بند کرنے کا میں ذمہ دار ہوں۔ چنانچہ اسلام اور احمدیت کے خلاف ہر اعتراض کرنے والا آپ کے برجستہ جواب سے خاموش ہو کر رہ جاتا تھا۔ خود سنایاکرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک مخالفِ اسلام نے غالباً تناسخ کے عقیدہ کے تعلق میں آپ کے سامنے اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کیا کہ ترجیح بلا مرجح ناممکن ہے ۔ آپ نے جھٹ اپنی جیب میں سے دو روپے نکال کر اس کے سامنے کر دئیے کہ ان میں سے ایک اٹھا لو ۔ وہ آدمی بھی کچھ سمجھ دار تھا ۔تھوڑی دیر سوچ کر کہنے لگا کہ آپ نے مجھے لاجواب تو کر دیا مگر میری تسلی نہیں ہوئی ۔ آپ نے فرمایا تسلی دینا خدا کا کام ہے۔ مگر میں تمہیں اسلام کے خلاف ایک قدم بھی چلنے نہیں دوں گا۔ امرتسر میں عبد اللہ آتھم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پندرہ دن تک مناظرہ رہا اور آتھم نے بیسیوں میدان بدلے مگر اس نے جس جھاڑی میں بھی پناہ لی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی جھاڑی میں اس کا پیچھا کر کے اس پر ضرب لگائی اور اسے کھلی رسی دی کہ جدھر چاہے بھاگ کر دیکھ لے اسے کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ مناظرہ کا یہ طریق حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے طریق سے بالکل مختلف تھا۔ اس لئے کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبر اور ہمت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت صاحب ہی کی ہمت تھی کہ آتھم کو پندرہ دن کی طویل مہلت دے کر اور اس کا رستہ کھلا چھوڑ کر ہر وادی اور ہر گھاٹی میں اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ہوتا تو خواہ آتھم کا دل مانتا یا نا مانتا اسے چند منٹ میں خاموش کرا کے بحث ختم کر دیتا۔ نظریوں کا دلچسپ اختلاف اسی نکتہ پر مبنی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدا داد منصب رسالت کی بناء پر ہر جہت سے دشمن کی تسلی کرانے کی کوشش فرماتے تھے مگر حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے دو منٹ میں خاموش کرا کے میدان صاف کر دینے کے موید تھے خواہ تسلی ہو یا نہ ہو۔ دونوں روحانیت کے میدان کے آزمودہ کار شکاری تھے مگر ایک شکاری اپنے شکار کے لئے کھلا رستہ چھوڑ کر اور ہر رستہ میں اس کا پیچھا کر کے اسے تھکا تھکا کر گراتا تھا تا وہ یہ محسوس کر لے کہ میں نے ہر جتن کر دیکھا مگر اس خدائی شکاری سے بچ کر نہ نکل سکا لیکن دوسرا شکاری اپنے شکار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کا رستہ بند کر دیتا تھا۔ اس فرق کی وجہ سے ایک شکاری کا شکار بسا اوقات اپنیبے بسی محسوس کر کے اپنی مغلوبیت پر تسلی پا جاتا تھا لیکن دوسرے شکاری کا شکار اپنا رستہ مسدود پا کر کڑھتا اور تلملاتا تو بہت تھا مگر ساتھ ہی خیال کرتا تھا کہ اگر ذرا رستہ مل جائے تو میں اب بھی بھاگنے کی ہمت رکھتا ہوں۔ لاریب روحانی اصلاح کے اصول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق ہی بہتر تھا لیکن حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے شکار کی مذبوحیکیفیت بھی بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ وہ دلچسپ فرق ہیں جو نبیوں تک میں چلتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے حضرت خلیفہ اوّل کا جذبہ اطاعت و احترام کمال کو پہنچا ہوا تھا اور آپ کو اس جذبہ میں اس قدر غلبہ تھا کہ بسا اوقات ظاہری سامانوں کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر کے خالص توکل الٰہی پر ایک قدم اٹھا لیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۴ ء میں دہلی تشریف لے گئے تو اس سفر میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ساتھ نہیں تھے۔ دہلی میں غالباً حضرت نانا جان مرحوم ؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو تار دلوائی کہ فوراً دلی پہنچ جائیں۔ تار لکھنے والے نے تار میں امیجی ایٹ لی ( یعنی بلاتوقف) کے الفاظ لکھ دئیے۔ حضرت خلیفہ اوّل کو جب یہ تار پہنچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے۔ تار کے ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا توقف بلایا ہے۔ میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سیدھے اڈہ خانہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ۔ گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمبل تو کسی شخص کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہیں آیا اور شاید اس وقت گھر میں کوئی رقم ہو گی بھی نہیں۔ اڈہ خانہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے یکہ لیا اور بٹالہ پہنچ گئے مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا۔ آپ خدا پر توکل کر کے اسٹیشن پر ٹہلنے لگ گئے۔ اتنے میں غالباً ایک ہندو رئیس آیا اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے آپ تکلیف فرماکر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور اسے میرے گھر پر دیکھ آئیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلی جا رہا ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے۔ میں اس وقت نہیں جا سکتا۔ اس نے بمنت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیںا سٹیشن پر لے آتا ہوں۔ آ پ اسے یہیں دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا اگر یہاں لے آئو اور گاڑی کا وقت ہوا تو میں دیکھ لوں گا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کو اسٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا اور یہ ہندو رئیس چپکے سے گیااور دلی کا ٹکٹ لا کر حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے حوالہ کیااور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے رب پر بھروسہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو خدا میرا کام رکنے نہیں دیتا۔ بہرحال اسی ایک واقعہ سے ( جس کی تفصیل میں ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو مگر بنیادی حقیقت یقینا یہی ہے ) آپ کے مقامِ اطاعت اور مقامِ توکل کی غیر معمولی شان ظاہر ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا کی اس شفقت کی شان بھی عیاں ہے جو اسے اپنے اس اطاعت شعار اور متوکل بندے کے ساتھ تھی۔
ایک دفعہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کے رشتہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ پوچھا۔ حضور نے ایک رشتہ کی سفارش فرمائی لیکن اس شخص کو کسی وجہ سے اس پر تسلی نہ ہوئی۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر اس نے عرض کیا کہ حضرت صاحب نے فلاں رشتہ تجویز فرمایا ہے۔ مگر میرا دل تسلی نہیں پاتا۔ آپ نے بے ساختہ فرمایا۔ خدا کی قسم اگر حضرت صاحب میری اکلوتی لڑکی امتہ الحی کے متعلق فرمائیں کہ اسے فلاں چوہڑے سے بیاہ دو تو مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو۔ ہمارا خدا بھی کتنا نکتہ نواز ہے اس نے حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی اس بات کو زمین سے اٹھا کر اپنی رحمت کے دامن میں جگہ دی اور بالآخر آپ کی یہی لڑکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیوی بن کر دارالمسیح میں داخل ہو گئی۔ بعض اوقات ہمارے خدا کا بھی کیسا نقد بنقد سودا ہوتا ہے۔
ادب اور تواضع کا یہ عالم تھاکہ ایک دفعہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا( اور اسی بیماری میں وہ فوت ہو گیا ) اور اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ ہی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا ۔ اس وقت مبارک احمد کی چارپائی دارالمسیح کے صحن میں بچھی ہوئی تھی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اسی چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓ تشریف لائے ۔ مبارک احمد کو دیکھا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بات کرنے کے لئے ایک سیکنڈ کی جھجھک اور تامل کے بغیر چارپائی کے ساتھ صحن میں ہی ننگی زمین یعنی فرش خاک پر بیٹھ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفقت سے فرمایا۔ مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ اس وقت بس یہی ایک چارپائی تھی جس پر مبارک مرحوم لیٹا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے۔ حضرت خلیفہ اول ؓ سرک کر چارپائی کے قریب ہو گئے اور ایک ہاتھ چارپائی کے ایک کنارے پر رکھ کر بدستور فرش پر بیٹھے بیٹھے عرض کیا۔ حضرت میں ٹھیک بیٹھاہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر محبت کے ساتھ فرمایا اور اس دفعہ غالباً حضرت خلیفہ اول کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا۔ مولوی صاحب یہاں میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھیں۔ حضرت خلیفہ اول ناچار اٹھے اور چارپائی کے ایک کنارے پر اس طرح جھک کر بیٹھ گئے کہ بس شاید چارپائی کے ساتھ آپ کا جسم چھوتا ہی ہو گا۔ یہ نظارہ میری آنکھوں دیکھے کا ہے اور ترتالیس سال گزر جانے کے باوجود میرا دل ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بے نظیر شفقت اور حضرت خلیفہ اول ؓ کے اس بے نظیر ادب و تواضع سے اس درجہ متاثر ہے کہ گویا یہ کل کا واقعہ ہے اور دراصل یہ ادب اور تواضع ہی حقیقی تصوف کی جان ہے۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انہی اوصاف حمیدہ اور کمالاتِ علمی اور روحانی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی بے حد قدر فرماتے تھے اور آپ کے ساتھ انتہا درجہ محبت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ؓ کی بیویوں میں یہ دلچسپ اختلاف ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان میں سے کس کے خاوند کے ساتھ زیادہ محبت ہے۔ آخر ہماری والدہ صاحبہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا تک معاملہ پہنچا اور ان کی رائے پوچھی گئی۔ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میرے علم میں تو بڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اول ؓ) کے ساتھ زیادہ محبت ہے مگر ابھی اس کا امتحان کئے لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کے سب سے زیادہ پیارے رفیق۔۔۔۔ابھی وہ اس فقرہ کو پورا نہیں کرنے پائی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلدی سے فرمایا۔ کیوں مولوی نورالدین صاحب کی کیا بات ہے؟ اور اس طرح یہ حل شدہ مسئلہ دوبارہ حل ہو گیا۔ مگر کیا حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کسی اور شہادت کی گنجائش چھوڑتا ہے کہ :
چہ خوش بودے اگر ہریک زامت نوردیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقیں بودے ۱۶۱
پھر خدا نے بھی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد احمدیت کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے صدیق ثانی کے منصب پر پر نوازا اور مرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلو میں جگہ عنایت کی۔
میرا مضمون کچھ لمبا ہو گیا ہے ۔ اس لئے اب آخری واقعہ جو میری ذات سے تعلق رکھتا ہے، بیان کر کے اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی حالت آخری بیماری میں نازک ہوئی اور بظاہر ناامیدی کی حالت پیدا ہو گئی تو مجھے لاہور سے تار کے ذریعہ بلایا گیا۔ جہاں میں بی۔ اے کے امتحان کی تیاری کے لئے آیا ہوا تھا۔ میں جب قادیان گیا تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی کے مردانہ کمرے میں بیمار پڑے ہوئے تھے اور کمزوری انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنا نحیف ہاتھ آگے بڑھا کر شفقت اور محبت کے ساتھ میرے سر پر رکھ دیا۔ یہ جمعرات کا دن تھا اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے ساتھ میری یہ آخری ملاقات تھی کیونکہ دوسرے دن جمعہ کے روز آپ کی روح آسمانی آقا کے حضور پہنچ گئی اور جس بات کا مجھے آج تک دکھ ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ ان ایام میں غیر مبایعین کا فتنہ انتہاء کو پہنچا ہوا تھا اور جماعت دو ٹکڑے ہوتی نظر آتی تھی۔ اس لئے ہم لوگ ہر دوسری بات کی طرف سے خیال ہٹا کر کلیۃً اس فتنہ کے سد باب کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور ہمارے اوقات کی ہر گھڑی اسی فکر اور اسی جدوجہد میں گزر رہی تھی جس کی وجہ سے میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کا چہرہ تک نہیں دیکھ سکا۔ جماعتی ضرورت کے ماتحت اس وقت یہی انہماک مقدم تھا مگر باوجود اس کے جذباتی رنگ میں میرے دل میں آج تک اس محرومی کا قلق ہے لیکن اب اس قلق کا علاج ( چوں علاجِ مے زمے) اس کے سوا کچھ نہیں کہ
زندہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں آں قصہِ پارینہ را
بالآخرمیں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے عرض کروں گا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری ’’ حیات نور الدین‘‘ کا ضرور مطالعہ کریں۔ جس کا بیشتر حصہ خود حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا املاء کروایا ہوا ہے اور لاریب یہ کتاب تصوف اور توکل اور تواضع کے موتیوں سے اس طرح مزین ہے کہ کوئی صاحبِ دل شخص اس کے مطالعہ کے بعد آپ کے ان روحانی کمالات کا گہرا نقش لئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خدا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیسے کیسے باکمال حواری عطا کئے تھے جو ہر دشمن کے لئے شکست کا پیغام اور ہردوست کے لئے علم و معرفت اور برکت اور رحمت کا سلام بن کر رہتیتھے۔ خدا کرے کہ ہم ان بزرگوں کے روحانی ورثہ کو زندہ رکھ سکیں۔ آمین یا ارحم الراحمین و آخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)









ایک غلطی کی اصلاح
حضرت ام المؤمنین کی شادی ۱۸۸۴ ء میں ہوئی تھی
۲۲ نومبر ۱۹۵۰ ء کے ’’ الفضل‘‘ میں میری طرف سے حضرت اماں جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے لئے دعا کی تحریک شائع ہوئی تھی اور اس کے بعد یہی تحریک غالباً ۲۷ نومبر ۱۹۵۰ ء کے الرحمت میںشائع ہوئی ہے ۔ اس تعلق میں مجھے ہندوستان کے دوستوں کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ ’’الرحمت‘‘میں حضرت ام المؤمنین اطال اﷲ ظلہا کی شادی کی تاریخ ۱۸۹۴ء چھپ گئی ہے۔ سو معلوم ہوتا ہے ’’الرحمت‘‘ میں کتابت کی غلطی سے غلط تاریخ درج ہو گئی ہے ورنہ میں نے۱۸۸۴ ء لکھا تھا اور یہی الفضل میں چھپا ہے۔ بہرحال دوست اس کی اصلاح فرما لیں کہ حضرت اماں جان اطال اللہ بقا ء ھا کی شادی کا سال ۱۸۸۴ء ہے نہ کہ ۱۸۹۴ء جو بالبداہت غلط ہے کیونکہ اس سے پہلے تو حضرت اماں جان مد ظلہا کے کئی بچے بھی پیدا ہو چکے تھے۔
نیز اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ خاکسار حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا کے لئے دوستوں کی خدمت میں پھر دعا کی تحریک کرتا ہے۔ مجھے کئی دوستو ں نے لکھا ہے کہ وہ پہلے بھی دعائیں کرتے تھے اور اب خصوصیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ فجز اھم اﷲ احسن الجزا۔ ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ حضرت اماں جان کی طبیعت پہلے سے قدرے بہترہے۔ فالحمد ﷲ علی ذالک و ان شکر تم لا زید نکم۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶؍دسمبر ۱۹۵۰)



ربوہ میں شادی کی مبارک تقریب
۱۰دسمبر ۱۹۵۰ء کو ربوہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم ؓ کی دختر سیدہ امتہ الہادی بیگم سلمہا کی شادی کی تقریب پیر صلاح الدین صاحب ای۔ اے ۔سی کے چھوٹے بھائی کیپٹن پیر ضیاء الدین صاحب (پسر حضرت پیر اکبر علی صاحب مرحوم ؓ ) کے ساتھ عمل میں آئی ۔ نکاح حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی علالت کے باوجود چند دوستوں کی موجودگی میں اڑھائی ہزار روپے مہر پر پڑھا اور اسی دن بعد دوپہر لڑکی رخصت ہو کر لاہور آگئی۔ دوست دعا فرمائیںکہ اللہ تعالیٰ اس شادی خانہ آبادی کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)







قادیان جانے والوں کے متعلق ضروری اعلان
حکومت نے تعداد اور تاریخ مقرر کر دی
احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ حکومت پاک پنجاب نے اطلاع دی ہے کہ قادیان کے سالانہ اجتماع پر جانے والوں کی تعداد ایک سو اور تاریخیں ۲۵ ؍دسمبر تا ۳۰؍ دسمبر مقرر ہو گئی ہیں۔ پس:
(۱) جن بھائیوں اور بہنوں کو میرے دفتر کی طرف سے رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع پہنچے وہ ۲۴ دسمبر ( بروز اتوار) کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جائیں مگر ان کے علاوہ دوسرے دوست قادیان جانے کی غرض سے تشریف نہ لائیں کیونکہ آخری فیصلہ کے بعد کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
(۲) قادیان جانے والے احباب موسم کی ضرورت کے مطابق اپنے ساتھ گرم بستر ضرور لائیں ورنہ تکلیف ہو گی۔
(۳) جن بہنوں کو لاہور آنے کی اطلاع پہنچے وہ اپنے ساتھ بچے ہرگز نہ لائیں کیونکہ بچوں کی علیحدہ منظوری ضروری ہوتی ہے۔
(۴) لاہور میں مردوں کے لئے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ۱۳؍ ٹمپل روڈ کے مکان پر ٹھہرنے کا انتظام ہو گا۔ اور عورتوں کے لئے جودھا مل بلڈنگ بالمقابل رتن باغ میں انتظام کیا گیا ہے۔
(۵) لاہور سے قادیان جانے اور پھر واپس آنے کے لئے فی کس دس روپے پیشگی وصول کئے جائیں گے جو روانگی سے قبل میرے دفتر میں باخذرسید جمع کرادینیچاہئیں۔
(۶) قافلہ کی روانگی انشاء اللہ ۲۵؍دسمبر ( بروز پیر) ساڑھے آٹھ بجے صبح رتن باغ لاہور سے ہو گی۔
(۷) جن احباب کو دعوت نامہ پہنچے وہ اپنے علاقہ کے ان احمدیوں سے مل کر آئیں جن کے رشتہ دار قادیان میں ہیں تاکہ ان کی طرف سے ضروری پیغام اور خیریت کی خبر لے جا سکیں۔
(۸) چونکہ یہ ایک مقدس سفر ہے۔ احباب دعا کرتے ہوئے گھر سے روانہ ہوں اور دعا کرتے ہوئے جائیں اور قادیان میں بھی خاص دعائوں کا پروگرام رکھیں اور دعا کرتے ہوئے واپس آئیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصرر ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)
نام کی تبدیلی
عزیزم لیفٹیننٹ سیّد سعید حسن صاحب حال کوئٹہ (جو ہمارے مرحوم ماموں حضرت میر اسحاق کے داماد ہیں) نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے اپنا نام سعید حسن سے تبدیل کر کے سعید احمد رکھ لیا ہے اور ان کا یہ نیا نام سرکاری طور پر منظور بھی ہو گیا ہے۔ پس احباب ان کے نام کی اس تبدیلی کو نوٹ فرما لیں اور آئندہ انہیں نئے نام یعنی سیّد سعید احمد سے یاد فرمایا کریں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)








مندرجہ ذیل دوست قادیان جانے کے لئے تیار ہیں
اس جلسہ پر قادیان جانے کے لئے یکصد دوستوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور انہیں رجسٹری خطوط بھجوائے جارہے ہیں۔ روانگی انشاء اﷲ ۲۵؍دسمبر (بروز پیر) صبح آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے ہو گی مگر جانے والے دوستوں کو ۲۴؍دسمبر کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جانا چاہئے اور صرف وہی دوست لاہور تشریف لائیں جنہیں دفتر ہذا کی طرف سے منظوری کی اطلاع پہنچے۔ دوسرے دوست تکلیف نہ فرمائیں۔ ذیل میں صرف ان دوستوں کی فہرست دی جاتی ہے جو صوبہ سندھ، ریاست خیر پور اور ریاست بہاولپور میں سے منتخب کئے گئے ہیں کیونکہ وہ دور کے علاقہ کے ہیں اور ان کے متعلق دہری احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ذیل کی فہرست میں پنجاب کے وہ دوست بھی شامل کر لئے گئے ہیں جن کی طرف سے خود درخواست نہیں آئی مگر ان کے درویش رشتہ داروں نے ان کے متعلق قادیان سے تاکیداً لکھا ہے کیونکہ ایسے دوستوں کے متعلق بھی دہری احتیاط ضروری ہے۔ ان کے علاوہ باقی دوستوں کو صرف رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی جارہی ہے۔ ذیل کی فہرست میں عورتوں کے نام بھی شامل نہیں کئے گئے کیونکہ ان کے متعلق فی الحال ایک روک پیدا ہو گئی ہے۔ اگر یہ روک دور ہو گئی تو پھر اطلاع دی جائے گی۔
(۱) چوہدری رستم علی صاحب (والد نذیر احمد صاحب درویش) محمود آباد اسٹیٹ (سندھ)
(۲) سردار خاں صاحب (ولد نذیر احمد صاحب درویش) محمود آباد اسٹیٹ (سندھ)
(۳) شاہ دین صاحب (برادر خدا بخش صاحب درویش) ظفر اسٹیٹ (سندھ)
(۴) عزیز دین صاحب (ولد بابا بھاگ صاحب درویش) کرونڈی (سندھ)
(۵) میاں عزیز الدین صاحب (ولد محمد صدیق صاحب درویش) محمود آباد اسٹیٹ (سندھ)
(۶) مولوی عبدالسلام صاحب عمر (خلف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل) لاکھا روڈ نوابشاہ (سندھ)
(۷) چوہدری غلام قادر صاحب چیمہ (والد منظور احمد صاحب درویش) چک ۸۴ (بہاولپور سٹیٹ)
(۸) چوہدری غلام محمد صاحب صاحب (والد نبی احمد صاحب درویش) دلیہ میر خاں شہانی
(ریاست خیرپور)
(۹) عبدالرحمن صاحب (برادر محمد عبداﷲ صاحب درویش) چک ایل۔۲/۳۲۲(ضلع ملتان)
(۱۰) چوہدری غلام محمد صاحب (والد بشیر احمد صاحب درویش) ظفر اسٹیٹ (سندھ)
(۱۱) فقیر محمد صاحب ننگلی (والد محمد اسمٰعیل صاحب درویش) چک ۹۶ (لائل پور)
(۱۲) محمد دین صاحب (والد غلام قادر صاحب درویش) چک ۴۶ شمالی (سرگودھا)
(۱۳) محمد شفیع صاحب (بہادر فتح محمد صاحب درویش) شیخ پور (گجرات)
(۱۴) محمد عبداﷲ صاحب (والد فضل الٰہی صاحب درویش) کھاریاں (گجرات)
(۱۵) چوہدری محمد شریف صاحب (برادر محمد طفیل صاحب درویش) کوٹ نیناں
(تحصیل شکرگڑھ سیالکوٹ)
(۱۶) محمد اسلم صاحب (برادر احمد حسین صاحب درویش) احمد نگر (جھنگ)
(۱۷) مستری ناظر دین صاحب (خسر محمد دین صاحب درویش)احمد نگر (جھنگ)
(۱۸) امام دین صاحب (پسر کرم الٰہی صاحب درویش) شامکے (شیخوپورہ)
(۱۹) عبدالریشد صاحب طالب علم (ولد دفعہ دار محمد عبداﷲ صاحب درویش) گجرات
(۲۰) محمد رمضان صاحب رنگریز (والد عبدالواحد صاحب درویش) ترگڑی (ضلع گوجرانوالہ)
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)






قافلہ قادیان کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ہوں گے
احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اﷲ نے اس جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والے قافلہ کا امیر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نمبر۱۳ ٹمپل روڈ لاہور کو مقرر فرمایا ہے۔ جن بھائیوں کو رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی گئی ہے انہیں ۲۴؍دسمبر (بروز اتوار ) کی شام تک لاہور پہنچ جانا چاہئے کیونکہ قافلہ انشاء اﷲ ۲۵؍دسمبر (بروز پیر) کی صبح کو آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے روانہ ہو گا۔ صرف وہی احباب تشریف لائیں جنہیں دفتر ہذا کی طرف سے اطلاع بھجوائی گئی ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)







قادیان میں ایک درویش کی اچانک وفات
قادیان کی ایک تازہ اطلاع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک درویش مسٹر ایچ حسن مالا باری حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے قادیان میں اچانک وفات پاگئے ہیں۔ مرحوم بعض دوسرے درویشوں کے ساتھ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد سلمہٗ کے استقبال کے لئے ریلوے اسٹیشن قادیان پر گئے تھے اور وہاں دل کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے اچانک وفات پاگئے ۔
انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔
مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور پانچ بچے چھوڑے ہیں جن میں سے بڑے لڑکے کی عمر ۹۔ ۱۰ سال کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہواور مرنے والے کو اپنی رحمت کے سایہ میںجگہ دے آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)






قادیان کے درویشوں میں پہلے بچہ کی ولادت
قادیان کی تازہ ڈاک سے معلوم ہوا ہے کہ ۱۲؍دسمبر کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مولوی عبدالقادر صاحب جنرل پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان کو پہلا لڑکا عطافرمایا ہے۔ قریباً ایک سال ہوا مولوی عبدالقادر صاحب موصوف کی قادیان میں ہی شادی ہوئی تھی جو درویشوں میں سب سے پہلی شادی تھی اور اب خدا تعالیٰ نے فضل سے انہیں فرزند عطا کیا ہے جو قادیان کے موجودہ دور میں سب سے پہلا بچہ ہے۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک۔ اللھم زد فزد۔
اﷲ تعالیٰ اس بچہ کی ولادت کو اپنے والدین کے لئے اور جماعت احمدیہ قادیان کے لئے مبارک کرے اور بچہ کو اسلام اور احمدیت کا خادم بنائے اور حافظ و ناصر ہو۔ آمین
یہ بچہ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی چشمہ والے حال دواخانہ طب جدید بڑا بازار میانی ضلع سرگودھا کا پوتا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍دسمبر ۱۹۵۰ئ)






۱۹۵۰ء
حوالہ جات
۱- التوبۃ :۱۹
۲- النور:۲۹
۳- مستدرک حاکم کتاب العلم حدیث نمبر ۳۹۱
۴- الماعون: ۵تا ۷
۵- صحیح البخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل النبی ﷺ
۶- ترمذی کتاب الدعوات باب فضل الدعاء
۷-
۸- اخبار زمیندار لاہور ۔ ۱۸؍دسمبر ۱۹۴۷ء
۹- نوائے وقت لاہور۔ یکم اگست ۱۹۴۷ء
۱۰- اخبار احسان لاہور ۔ ۲۱؍ فروری ۱۹۵۰ء
۱۱- ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۷۸
۱۲- ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۸
۱۳- الفرقان: ۵۳
۱۴- تفسیر روح المعانی سورۃ النساء آیت ۹۵، ۹۶
۱۵- مسند احمد بن حنبل روایت نمبر ۶۹۲۱
۱۶- متی باب ۵
۱۷- سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب بدأ الاسلام غریبا
۱۸- الرحمن: ۲۱
۱۹۔ ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب نمبر ۶۰
۲۰- بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی اِنّا بک لمحزونون
۲۱- جمع الجوامع او الجامع الکبیر للسیوطی جلد ۱ صفحہ ۱۱۶۴
۲۲- الشعراء : ۲۲۶
۲۳- البقرۃ : ۱۴۴
۲۴- بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدینہ
۲۵- صحیح البخاری کتاب الزکوٰ ۃ باب اخذا لصدقۃ من الاغنیاء وتردوالی الفقراء حیث کانوا
۲۶-
۲۷- الرحمن: ۲۸
۲۸- المائدہ : ۲۱
۲۹- الاحزاب : ۳۱، ۳۲
۳۰- ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) ۱۹۱۳ء
۳۱- تذکرہ صفحہ ۴۲۰
۳۲- الحج: ۵۳
۳۳- متی باب ۷ آیت ۱۷
۳۴- مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۲۱۲۵۷
۳۵- البدایہ و النہایۃ جلد ۸ صفحہ ۴۳
۳۶- الانعام: ۷۷
۳۷- الانعام: ۱۲۹
۳۸- الجن: ۲
۳۹- الکھف: ۵۱
۴۰- الاحزاب: ۶۳
۴۱- المومنون: ۱۰۱
۴۲- الانفال : ۲۵
۴۳- البقرہ: ۲۸۷
۴۴- بشیر احمد ،شریف احمد و مبارکہ کی آمین از درثمین اردو
۴۵- پاکستان ٹائمز لاہور ۔ مورخہ ۱۷؍ جون ۱۹۵۰ء
۴۶- بخاری کتاب الصوم باب قول النبی اذا رائیتم الھلال فصوموا و اِذا راٰیتموہ
۴۷- نیل الاوطار مصنفہ امام شوکانی
۴۸- بخاری کتاب صلوٰۃ التراویح باب العمل فی العشر الا واخرمن رمضان
۴۹- البقرہ: ۱۸۷
۵۰- الکھف : ۱۰۵
۵۱- البقرہ: ۲۵۴
۵۲-
۵۳- الذٰریٰت : ۲۰
۵۴- سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک
۵۵- مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان و الاسلام و الاحسان
۵۶- الاعراف:۹
۵۷- المجادلہ: ۲۲
۵۸- متفرق اشعار ۔ درثمین اردو۔ مجموعہ اشتہارات
۵۹- الفتح: ۲۴
۶۰- الرحمن: ۲۱
۶۱- الشمس : ۱۵
۶۲- الرحیق المختوم جلد ۱ صفحہ ۳۳ باب الاسرۃ النبویۃ
۶۳- سنن الترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ
۶۴- سنن ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن البیت
۶۵- بخاری کتاب الجمعۃ باب التکبیر الی العید
۶۶- نصب الرایۃ لا حادیث الھدایۃ جلد ۶ صفحہ ۲۰۷
۶۷- سنن الترمذی کتاب الاضاحی عن رسول اﷲ باب الدلیل علی ان الا ضحیۃ سنۃ
۶۸- سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ
۶۹- صحیح مسلم کتاب الا ضاحی باب استحباب الضحیہ وَ ذبحھا مباشرۃ بلا توکیل وتسمیۃ
۷۰- الا حزاب: ۲۲
۷۱- النساء : ۶۰
۷۲- المومنون : ۳۷
۷۳- سورۃ الکوثر
۷۴- البقرہ: ۱۹۷
۷۵-
۷۶- تحفۃ الاحوذی جلد ۵ صفحہ ۷۹
۷۷- التوبۃ : ۱۱۱
۷۸- النسائ: ۹۶
۷۹- کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعۃ جز ۱ صفحہ ۱۱۱۶ زیر عنوان مباحث الاضحیۃ
۸۰- البقرہ : ۲۸۷
۸۱- مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۱۹۸۹۶
۸۲- صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب جو ازاستتباعۃ غیرہ الٰی دارٍ من ثیق براضاہ
۸۳- البقرہ: ۱۹۷
۸۴- بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرء لدینہ
۸۵- بخاری کتاب الاضاحی باب مایوکل من لحوم لاضاحی و ما یتزودمنھا
۸۶- کتاب الفقھہ علی المذاہب الا ربعۃ جلد ۱ صفحہ ۱۱۱۴
۸۷- مسلم کتاب السلام باب لکل دائٍ دواء
۸۸- آل عمران: ۱۸۶
۸۹- سنن ابن ماجہ باب کتاب ماجاء فی الجنائز باب ماجاء فی الصلوٰۃ علٰی ابن رسول اﷲ
۹۰- سنن الترمذی کتاب القدر عن رسول اﷲ باب ماجاء لا یردّا القدر الاالدعاء
۹۱- النحل : ۱۲۶
۹۲- الکھف: ۵۵
۹۳- ھود: ۷۵
۹۴- الفرقان : ۶۴
۹۵- طٰہٰ : ۷۰
۹۶- العنکبوت: ۱۹
۹۷- الحجر : ۹۵
۹۸- المائدہ : ۶۸
۹۹- المومنون : ۳۷
۱۰۰- الصف : ۳
۱۰۱- الا حزاب : ۲۲
۱۰۲- سنن الترمذی کتاب الطھارۃ عن رسول اﷲ باب ماجاء فی فضل الطھور
۱۰۳- صحیح مسلم کتاب الایمان باب فی قول النبی انا اوّل الناس یشفع
۱۰۴- المجادلہ: ۲۱
۱۰۵- الرعد : ۴۱
۱۰۶- البقرہ : ۱۲۰
۱۰۷-
۱۰۸- الحج : ۳۷
۱۰۹- العنکبوت : ۴۶
۱۱۰- الحج : ۳۷
۱۱۱- الحجر : ۳
۱۱۲- الذٰریٰت:۱۱،۱۲
۱۱۳- بنی اسرائیل : ۸۲
۱۱۴- المنافقون : ۲
۱۱۵،۱۱۶- النساء : ۳۵
۱۱۷- سنن الترمذی کتاب الرضاع باب حق المرأۃ علٰی زوجھا
۱۱۸-
۱۱۹- السنن الکبریٰ جلد ۷ صفحہ ۳۰۵
کتاب القسم و النشوزِ باب الاختیار فی ترک الضرب روایت نمبر ۱۴۵۱۷
۱۲۰- سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علٰی زوجھا
۱۲۱- سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء روایت ۲۱۴۸
۱۲۲- سنن الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
۱۲۳- صحیح مسلم کتاب الرضاء باب خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ
۱۲۴- سنن الترمذی کتاب الدعوات عن رسول اﷲ باب فی دعاء یوم عرفۃ
۱۲۵- مسلم کتاب الحج باب فی فضل الحج و العمرۃ و یوم عرفۃ
۱۲۶- بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل
۱۲۷- العصر
۱۲۸- البقرہ :۲۰۲
۱۲۹- بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک
۱۳۰- سنن الترمذی کتاب المناقب عن رسول اﷲ باب من فضل عائشہ
۱۳۱- النور: ۳۲
۱۳۲- الشعرائ: ۲۳
۱۳۳- یوسف: ۷۷
۱۳۴- الانعام : ۱۲۵
۱۳۵- ھود:۴۷
۱۳۶- ص ٓ : ۳۵
۱۳۷- سنن ابن ماجہ باب کتاب ماجاء فی الجنائز باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اﷲ
۱۳۸- الاحزاب: ۴۱
۱۳۹- تذکرہ صفحہ ۴۹۰۔ طبع جدید
۱۴۰- جامع الاحادیث جلد ۲۳ صفحہ ۹۹
۱۴۱- تذکرہ صفحہ ۴۶۴ طبع جدید
۱۴۲- تذکرہ صفحہ ۴۶۵
۱۴۳- البقرۃ : ۲۲۰
۱۴۴- البقرہ : ۲۷۶، ۲۷۷
۱۴۵- الحشر : ۱۹
۱۴۶- بخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر من ان یتکففوا الناس
۱۴۷- طٰہٰ : ۱۱۹، ۱۲۰
۱۴۸- اتحاف الخیرۃ المھرۃ بزوائد المسانید العشرۃ جلد ۵ صفحہ ۱۸۱
۱۴۹- بخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی قول اﷲ تعالیٰ و ھو الذی یبدأ الخلق
۱۵۰- ابراہیم : ۴۸
۱۵۱- السجدۃ : ۲۳
۱۵۲- مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ جلد ۱۲ صفحہ ۱۶۶
۱۵۳- الا نفال : ۱۷
۱۵۴- الصف:۱۰
۱۵۵- مشکوۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الماعۃ و ذکر
۱۵۶- تذکرہ صفحہ ۳۰۸ طبع جدید
۱۵۷- تذکرہ صفحہ۱۰۲طبع جدید
۱۵۸- سنن الترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک
۱۵۹- بخاری کتاب بدء الوحی باب بدئِ الوحی
۱۶۰-
 
Top