• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملفوظات
حضرت مسیح موعودعلیہ الصّلوٰۃ والسلام
۱۸۹۱؁ء
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ فرماتے ہیں:
بعثت کی غرض’’مجھے خوب یاد ہے اور میں نے اسے اپنی نوٹ بک میں لکھ رکھا ہے کہ جالندھر کے مقام پر ایک شخص نے حضرت اقدس امام صادق اور حضرت مرزا صاحبؑ کی خدمت میں سوال کیا کہ آپ کی غرض دنیا میں آنے سے کیا ہے‘‘؟
آپ نے فرمایا کہ ’’میںاس لئے آیا ہوں ۔تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں ۔‘‘
ایمان کی اقسام :
ایک اور بات ہے جو میری نوٹ بک میں درج ہے اور وہ واقعہ بھی اسی جالندھر کا ہے۔ہماری جماعت کے ایک آدمی ہمارے بھائی منشی محمد اروڑا صاحبؓ نے سوال کیا کہ حضرت ایمان کتنی طرح کا ہوتا ہے؟آپ نے جو جواب اس کا فرمایا،بہت ہی لطیف اور سلیس ہے۔
فرمایا’’:ایمان دو قسم کا ہوتا ہے۔موٹا ؔاور باریکؔ۔موٹا ایمان تو یہی ہے کہ دین العجائز پر عمل کرے اور باریک ایمان یہ ہے کہ میرے پیچھے ہو لے‘‘۔۱؎
۱۸۹۵؁ء
جناب مفتی محمد صادق صاحب ؓ لکھتے ہیں :
’’۱۸۹۵؁ء میں جب میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا تو اس وقت بھی مجھے شوق تھا کہ آپ کے کلمات طیبات ایک کاغذ پہ نقل کر کے ہمیشہ لاہور لے جاتا اور وہاں کے احمدی احباب کو ہفتہ وار کمیٹی میں سنایا کرتا …اس وقت کی یاداشت میں سے کچھ نقل کر کے ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔ان ایام میں چونکہ تاریخ کا انتظام نہیں رکھا تھا ،اس لئے بلا تاریخ ہر ایک بات درج کی جاتی ہے ۔
بیعت اور توبہ
بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اورقیمت معلوم نہ ہو ،تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی۔ جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے ۔ مثلا روپیہ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ۔ توجس قسم کی شے ہے ، اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی۔ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تویونہی ایک کو نہ میں ڈال دے گا۔علی ہذالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے ۔اس کی زیادہ حفاظت کرے گا ۔اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔جس کے معنی رجوع ؔکے ہیں۔توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے ان کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے۔اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا۔ ا ب و طن کوچھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیںہوتی ہیں۔ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تواس کو سب یاردوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش وہمسائے،وہ گلیاں کوچے۔بازار سب چھوڑچھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس(سابقہ) وطن میں کبھی نہیں آتا۔ اس کا نام توبہ ہے۔ معصیت کے دوست اور ہوتے ہیںاور تقوی کے دوست اور۔ اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے جو توبہ کرتا ہے،اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالی رحیم وکریم ہے۔ وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطانہ فرماوے، نہیں مارتا۔ اِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ(البقرہ۲۲۳) میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اورپیار کرتا ہے اور اُسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے۔ دوسری قومیں خدا کو رحیم و کریم خیال نہیں کرتیں۔ عیسائیوں نے خدا کا تو ظالم جانا اور بیٹے کورحیم کو باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دیکر (مگر یہاں توبالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گذارہ نہ ہوتا۔ جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفیدبنائیں، توکیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ توبہ اورعمل کوقبول نہ کرے۔
گناہ اور توبہ کی حقیقت
گناہ کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ اللہ گناہ کو پیداکرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی مُعافی سُوجھے۔ جیسے مکھّی کے دوپر ہیں ۔ ایک میں شفا اور دُوسرے میں زہر۔اسی طرح انسان کے دور پر ہیں۔ ایک معاصی کا دوسرا خجالت، توبہ ، پریشانی کا۔ یہ ایک قاعدہ کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اُس کے بعد بچھتاتا ہے۔ گویا کہ دونوں پَراکٹھے حرکت کرتے ہیں۔ زہر کے ساتھ تریاق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا ؟ تو جواب یہ ہے کہ گویہ زہر ہے ، مگر کُشۃ کرنے سے حکم اکسیر کو رکھتا ہے۔اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہوجاتا۔ توبہ اس کی تلافی کرتی ہے۔ کبر اور عُجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے۔ جب نبی معصوم ؐ ستر بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ گناہ سے توبہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے اور جو گناہ جانتا ہے،وہ آخر اُسے چھوڑے گا۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان باربار رورو کر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخشش دیا۔ اب تیرا جوجی چاہے سو کر۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اُسے بالطبع بُرا معلوم ہوگا۔ جیسے بھیڑ کو مَیلا کھاتے دیکھ کر کوئی دوسراحِرص نہیں کرتا کہ وُہ بھی کھاوے، اسی طرح وہ اِنسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے۔ مُسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے، حالانکہ اور دُوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں۔ تو اس میں حکمت یہی ہے کہ نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور سمجھادیا ہے کہ اسی طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہوجاوے۔
دُعا تریاق ہے
گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کرکے دُعا سے ہرگز باز نہ رہے۔دعا تریاق ہے۔آخرگناہوں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا ۔جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے،آخر وہ ابنیا اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں ۔
توبہ جُزوِ بیعت ہے
یہ توبہ کی حقیقت ہے (جو اوپر بیان ہوئی)اور یہ بیعت کی جز کیوںہے؟تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہو ا ہے۔جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جیسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بیان بخشی ہو،تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے۔اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں (جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں)بشرطیکہ اس کے ساتھ سچا تعلق ہو ۔خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔اس کی شاخ ہو کرپیوند ہوجاوے۔جس قدر یہ نسبت ہو گی اسی قدر فائدہ ہو گا۔
رسمی بیعت فائدہ نہیں دیتی
بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی ۔ایسے بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے۔اسی وقت حصہ دار ہو گا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے ۔منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا،اس لیے ظاہری لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ ان کے کام نہ آیا ۔ تو ان تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا، تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔محبت اور اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہیے۔جہاں تک ممکن ہو اس انسان (مرشد)کے ہمرنگ ہو۔طریقوں میں اور اعتقاد میں۔نفس لمبی عمر کے دعوے دیتا ہے۔یہ دھوکہ ہے۔عمر کا اعتبار نہیں ہے۔جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے۔اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہیے۔۱؎
تہجد کی تاکید
اس زندگی کے کل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گذر گئے،تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا………؟
تہجد میں خاص اُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو۔درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آجا تا ہے۔رازق اللہ تعالیٰ ہے۔نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ظہر اور عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے،اس لیے یہ گنجائش رکھ دی ،مگر یہ گنجائش تین کے جمع ہونے میں نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھانا جبکہ ملازمت میں اور کئی امور میں لوگ سزا پاتے ہیں(اور مورد عتاب حکام ہوتے ہیں)تو اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف اٹھاویں تو کیا خوب ہے۔جو لوگ راستبازی کے لیے تکلیف اور نقصان اٹھاتے ہیں وہ لوگوں کی نظروں میں بھی مرغوب ہوتے ہیں۔اور یہ کام نبیوں اورصدیقوں کا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے دنیاوی نقصان کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی اپنے ذمے نہیں رکھتا، پوارا اجر دیتا ہے۔
انسان منافقانہ طرز نہ رکھے
(انسان کو لازم ہے)منافقانہ طرز نہ رکھے۔مثلاً اگر ایک ہندو(خواہ حاکم یا عہدیدار ہو)کہے کہ رام اور رحیم ایک ہے،تو ایسے موقع پر ہاں میں ہاں نہ ملائے۔اللہ تعالیٰ تہذیب سے منع نہیں کرتا۔مہذبانہ جواب دیوے۔حکمت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایسی گفتگو کی جاؤے جس سے خوا نخوا جوش پیدا ہو اور بیہودہ جنگ ہو۔کبھی اخفائے حق نہ کرے۔ہاں میں ہاں ملانے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔
یار غالب شوکہ تا غالب شوی
اللہ تعالیٰ کا پاس اور حیا رکھنی چاہیے۔ہمارے دین میں کوئی بات تہذیب کے خلاف نہیں۔
اسلام مظلوم ہے
اسلام !اسلام ہمیشہ مظلوم چلا آیا ہے۔جیسے کبھی دو بھائیوں میں فساد ہو تو بڑا بھائی بہ سبب اپنی عظمت اور پہلے پیدا ہونے کے اپنے چھوٹے بھائی پر خواہ نخواہ ظلم کرتا ہے ،اس لیے کہ وہ پیدائش میں اول ہونے سے اپنا حق زیادہ خیال کرتا ہے ،حالانکہ حق دونوں کا برابر ہے۔اسی طرح کا ظلم اسلام پر ہو رہا ہے۔اسلام سب مذاہب کے بعد آیا۔اسلام نے سب مذاہب کی غلطی ان کو بتلائی ،تو جیسے قاعدہ ہے کہ جاہل، خیر خواہ کا دشمن ہو جاتا ہے اسی طرح وہ سب مذاہب اس سے ناراض ہوئے کیونکہ ان کے دلوں میں اپنی اپنی عظمت بیٹھی ہوئی تھی انسان کثرت قوم ۔قدامت اور کچرت مال کے باعث متکبر ہو جاتا ہے رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک غریب قلیل اور نئے گروہ والے تھے اس لیے (ابتدا میں )انھوں(مخالفین)نے نہ مانا حق ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے
اسلام دوسری اقوام کا محسن ہے
اسلام ایسا مطہر مذہب ہے کہ کسی مذاہب کے بانی کو برا نہیں کہنے دیتا ۔دیگر مذاہب والے جھوٹ گالی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔دیکھو یہ عیسائی قو م آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کس قدر گالیاں دیتی ہے۔اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت زندہ ہوتے،تو آپ کی دنیاوی عظمت کے خیال سے بھی یہ لوگ کوئی کلمہ زبان پر نہ لا سکتے ،بلکہ ہزار ہا درجہ تعظیم سے پیش آتے۔امیر کابل اور سلطان روم ایک ادنی امت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہیں۔ان کو گالی نہیں دے سکتے۔بے ادبی سے پیش نہیں آ سکتے۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام لیا جائے،تو ہزاروں گالیاں سناتے ہیں ۔اسلام دوسری اقوام کا محسن ہے۔کہ ہر ایک نبی اور کتاب کو بری کیا۔اور خود اسلام مظلوم ہے۔اسلام کا مضمون لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ کسی دوسرے مذاہب میں نہیں ہے‘‘۔۱؎
۱۸۹۶؁ء
فرمایا:حضرت مسیح ؑ کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے وہ نزول ہے اور رجوع نہیں ہے۔اول تو واپس اانے والے کی نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجوع ہے اور رجوع کا لفظ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت کہیں نہیں بولو گیا۔دوم نزول کے معنی آسمان سے آنے کے نہیں ہیں۔نزیل مسافر کو کہتے ہیں۔
مخالفین کے لئے دُعا سے کام لینا چاہیے
فرمایا:ہم نے جو مخالفین پر بعض جگہ سختی کی ہے۔وہ ان کے تکبر کو دور کرنے کے واسطے ہے۔وہ سخت باتوں کا جوب نہیں،بلکہ علاج کے طور پر کڑوی دوائی ہے اَلْحَقُّ مُرّٔ۔لیکن ہر شخص کے واسطے جائز نہیں کہ وہ ایسی تحریر کو استعمال کرے۔ جماعت کو احتیاط چاہیے۔ہر ایک شخص پہلے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ لے کہ صرف ضد اور دشمنی کے طور پر ایسے لفظ لکھ رہا ہے یا کسی نیک نیت پر یہ کام مبنی ہے۔
فرمایا:مخالفین کے ساتھ دشمنی کے ساتھ نہیں پیش آنا چاہیے،بلکہ زیادہ تر دعا سے کام لینا چاہیے اور دیگر وسائل سے کوشش کرنی چاہیے۔1؎
۱۸۹۷؁ء
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
’’میں ہر گز اپنے آپ کو مولوی نہیںکہتا اور نہ میں راضی ہوں کہ کبھی مجھے کوئی مولوی کہے،بلکہ مجھے تو ایسے لفظ سے ایسا رنج ہوتا ہے،جیسا کہ کسی نے گالی دے دی ۔
فرمایا:لوگ تمہیں دکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے،مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھائیں،جوش نفس سے دل دکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو۔اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے۔ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے ‘‘۔۲؎
فرمایا: یہ آسمانی کام ہے اور آسمانی کام رک نہیں سکتا ۔اس معاملہ میں ہماراقدم ایک ذرہ بھی درمیان میں نہیں ۔
فرمایا:لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا۔
فرمایا:دولت مندوں میں نخوت ہے،مگر آجکل کے علماء میں اس سے بڑھ کر ہے ۔ان کا تکبر ایک دیوار کی طرحان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔میں اس دیوار کو توڑنا چاہتا ہوں ۔جب یہ دیوار ٹوٹ جاوے گی تو وہ انکسار کے ساتھ آویں گے۔
فرمایا:اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔خداتعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔نہ تیزی کرو ۔نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے،تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔اگر حرارت کی طرف تمہارا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمے سے نکلی ہے۔یہ مقام بہت نازک ہے‘‘۔۳؎
دسمبر۱۸۹۷؁ء
دارالامان قادیان سے بذریعہ پوسٹ کارڈ اطلاع ملی ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے:۴؎
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃًوَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(بقرہ:۲۰۲)
۲۵؍دسمبر۱۸۹۷؁ء
حضرت اقدس کی پہلی تقریر برجلسہ سالانہ
تقوی کی بابت نصیحت
حضورؑ نے فرمایا:۔
اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لیے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے،کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ نجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَقُوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُونَ۔(النحل۱۲۹)
ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰماموریت کا ہے تا وہ لوگ خواہ کسی قسم کے بغضوں ،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسا ہی روبہ دنیا میں تھے ،ان تمام آفات سے نجات پاویں۔
آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کل منہ کو کالا نہ کر دے۔اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے ۔صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں ۔صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے۔ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی صحت ایسی نہیں،تو اس کا غیض و غضب بڑھ جاتا ہے۔پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے۔جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ مسلمان کئی دفعی کافروں سے تہ تیغ کیے گئے۔جیسے چنگیز خان اور ہلاکوخان نے مسلمانوں کو تباہ کیا ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدی کیا ہے ،لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آے ۔اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللَّہ تو پکارتی ہے،لیکن اس کا دل اور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رو بدنیا ہے تو پھر اس کا قہراپنا رنگ دکھاتا ہے۔
قول وفعل میں مطابقت اللہ کاخوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول وفعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے ۔پھر جب دیکھے کہ اس کو قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ مورد غضب الہیٰ ہو گا ۔جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہووہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا ۔بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جائے پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے ؟اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے۔اور زبانی دعوے کرتی ہے۔وہ غنی ہے۔وہ پرواہ نہیں کرتا ۔بدر کی فتح کی پیش گوئی ہو چکی تھی،ہر طرح فتح کی امید تھی ،لیکن پھر بھی آنحضرت رورو کو دعا مانگتے تھے ۔حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح کا فتح کا وعدہ ہے،تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زات غنی ہے،یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہیٰ میں کوئی شرائط مخفی ہوں ۔
برکات تقویٰ
پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے ۔اس کا معیار قرآن ہے۔اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک نشان یہ بھی رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروھات دنیا سے آذاد کر کے اس کے کاموں کاخود کفیل ہو جاتا ہے۔جیسے کے فرمایا :وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَ جًاوَّ یَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔(الطلاق ۴،۳)جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں ،یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا ۔مثلاً ایک دکان دار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا ،اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے،لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں ۔خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اسے ایسے مواقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں ۔یاد رکھو خدا تعالیٰ کو جب کسی نے چھوڑا،تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔جب رحمان نے چھوڑ دیا ،تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔
یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔وہ بڑی طاقت والا ہے۔جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرا گے وہ جرور تمہاری مدد کرے گا۔وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَے اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہُ(الطلاق:۴)لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے ،وہ اہل دین تھے ۔ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لئے تھیں اور دنیوی امور حوالہ بخدا تھے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور میں حارج ہوں۔
متقی کے لئے روحانی رزق
ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو رزق دیتا ہے ۔یہاں میںمعارف کے رزق کا ذکر کروں گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوباوجود امی ہونے کے تمام جہان کامقابلہ کرنا تھا،جس میں اہل کتاب،فلاسفر،اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اور عالم فاضل شامل تھے ،لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدر کے ملا کہ آپ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں ۔
یہ روحانی رزق تھاجس کی نظیر نہیں ۔متقی کی شان میں دوسری جگہ یہ بھی آیا ہے ۔اِنْ اَوْلِیَآئُ ہُ اَلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال۳۵)اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیںجو متقی ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کے دوست۔پس یہ کیسی نعمت ہے کہ تھوڑی سی تکلیف سے خدا کا مقرب کہلائے۔آجکل زمانہ کس قدر پست ہمت ہے ۔اگر کوئی حاکم یا افسر کسی کو یہ کہہ دے کہ تو میرا دوست ہے،یا اگر کوئی کرسی دے اور اس کی عزت کرے ،تو وہ شیخی کرتا ہے ۔ فخر کرتا پھرتا ہے ،لیکن اس انسان کا کس قدر افضل رتبہ ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ اپنا ولی یا دوست کہہ کر پکارے۔اللہ تعالٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے یہ وعدہ فرمایا ہے ۔ جیسے کہ ایک حدیث بخاری میں وارد ہے:لَایَزَالُ یَتَقَرَّبُ عَبْدِیْ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ‘ فَاِذَااَحْیَیْتُہ‘ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرُہُ الَّذِیْ یُبْصِرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَاوَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَاوَلَئِنْ سَائَ لَنِیْ لَاَعْطَیْتَہُ وَلَئِنْ اِسْتَعَاذَ نِیْ لَاُعِیْدَنَّہ‘۔(صحیح بخاری۔ جز رابع۔ باب التواضع)یعنی اللہ تعالی میرا ولی ایسا قرب میرے ساتھ بذریعہ نوافل پیدا کر لیتا ہے۔
فرئض اور نوافل
انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے ،اس کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ایک فرائض ،دوسرے نوافل ۔ فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو ۔جیسا کے قرضہ اتارنا ۔یا نیکی کے مقابل پر نیکی ۔ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں ،یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو ۔جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا۔یہ نوافل ہیں ۔یہ بطور مکملات اور متممات فرائض کے ہیں۔اس حدیث میں بیان ہے کہ اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوفل سے ہو رہتی ہے۔مثلاً زکوہ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں ۔اللہ تعالٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ ،پاؤں حتٰی کے اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔
ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہو
بات یہ ہے کہ جب انسان نفس سے پاک ہوتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے،اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔جہاں لوگ ابتلا میں پڑتے ہیں وہاںیہ ا مر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خداکے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا۔خدا کی رضا اس کے بر خلاف ہوتی ہے۔ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے۔مثلاً غصہ میں آکر کوئی ایسا فعل اس سے سر ذد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں ۔فوجداریاں ہو جاتی ہیں،مگر اگر کسی کا یہ ارادہ ہو کہ بلا استصوب کتاب اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا اور اپنی ہر ایک پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا ۔تویقینی امرہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی۔جیسے فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَا بِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ(الانعام۶۰) سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے، توہم کو ضرور مشورہ ملے گا، لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا۔بسااوقات وہ اس جگہ مواخذہ میں پڑیگا۔ سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں۔وہ گویا اس میں محو ہیں۔سو جس قدر کوئی محویت میں کم ہے، وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے ،لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں ۔ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتَہ‘ بِالْحَذْبِ(الحدیث)جو شخص میرے ولی کا مقابلی کرتا ہے ۔اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے۔جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا کس قدر معاون ومدد گار ہو گا۔
متقی کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتاہے
لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں ،لیکن متقی بچائے جاتے ہیں ،بلکہ ان کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے۔مصائب کی کوئی حد نہیں۔انسان کا پنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزار ہا مصائب کے پیدا کرنے کافی ہیں،لیکن جو تقویٰ کے قلعے میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔
متقی کو اس دنیا میں بشارتیں ملتی ہیں
متقی کے لئے ایک اور بھی وعدہ ہے۔لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (یونس:۶۵)یعنی جو متقی ہوتے ہیں۔ان کو اسی دنیا میں بشارتیں سچے خوابوں کے ذریعے ملتی ہیں ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ صاحب مکاشفات ہو جاتے ہیں ۔ مکالمۃ اللہ کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ وہ بشریت کے لباس میں ہی ملائکہ کو دیکھ لیتے ہیں ۔جیسے کہ فرمایا:اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَائِکَۃُ (حٰم السجدہ:۳۱)یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت دکھاتے ہیں ،یعنی ابتلا کے وقت ایسا شخص دکھلا دیتا ہے کہ جو میں نے منہ سے وعدہ کیا تھا ،وہ عملی طور سے پورا کرتا ہوں۔
ابتلا ضروری ہے
ابتلا ضروری ہے۔جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یَتْرَکُوْٓ اَنْ یَّقُوْلُوْٓ اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(العنکبوت:۳)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنھوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت کی ،ان پر فرشتے اترتے ہیں۔ مفسروں کی غلطی ہے کہ فرشتوں کا اترنا نزع میں ہے ۔یہ غلط ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دل کو صاف کرتے ہیں اور نجاست اور گندی سے ،جو اللہ سے دور رکھتی ہے،اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ان میں سلسلہ الہام کے لئے ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے پھر متقی کی شان میں ایک اور جگہ فرمایا :اَلَآ اِنَّ اَوْ لِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(یونس:۶۳)یعنی جو اللہ کے ولی ہیں ان کو کوئی غم نہیں جس کا خدا متکفل ہو اس کو کوئی تکلیف نہیں ۔کوئی مقابلہ کرنے والا ضرر نہیں دے سکتا اگر خدا ولی ہو جائے ۔پھر فرمایا: وَاَلْبَشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ:(حٰم سجدہ:۳۱) یعنی تم اس جنت کے لئے خوش ہو جس کا تم کو وعدہ ہے۔
قرآن کی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے دو جنت ہیں ۔جو شخص خدا سے پیار کرتا ہے کیا وہ ایک جلنے والی زندگی میں رہ سکتا ہے ؟جب اس جگہ ایک حاکم کا دوست دنیوی تعلقات میں ایک قسم کی بہشتی زندگی میں ہوتا ہے،تو کیوں نہ ان کے لئے دروازہ جنت کا کھلے جو اللہ کے دوست ہیں،اگرچہ دنیا پر از تکلیف و مصائہے،لیکن کسی کو کیا خبر کہ وہ کیسی لذت اٹھاتے ہیں ؟اگر ان کو رنج ہوتوآدھ گھنٹہ تکلیف اٹھانا بھی مشکل ہے ،حالانکہ وہ تو تمام عمر تکلیف میں رہتے ہیں ۔ایک زمانی کی سلطنت ان کو دے کر ان کو اپنے کام سے روکا جاوے تو کب کسی کی سنتے ہیں؟اس طرح خوا مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں ،وہ اپنے ارادہ کو نہیں چھوڑتے۔
کامل نمونہ اخلاق ہمارے ہادی کامل کو یہ دونوں باتیں دیکھنی پڑیں۔ ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے ۔ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی ،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے استقلال میں فرق نہ آیا۔ جب قوم نے دیکھا کہ مصائب وشدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا ،تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا۔اپنا امیر بنانا چاہا ۔ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کرنے کا وعدہ کیا حتٰی کے عمدہ سے عمدہ بی بی بھی ۔بدیں شرط کہ حضرت بتوں کی مذمت چھوڑ دیں ۔لیکن جیسے کے طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہت کے وقت حضرت نے کچھ پرواہ نہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی۔سو جب تک خاص لذت نہ ہو ،تو کیا ضرورت تھی کہ آرام کو چھوڑ کر دکھوں میں پڑتے۔
یہ موقع سوا ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والتحیات کے کسی اور نبی کو نہ ملا کہ ان کو نبوت کا کام چھوڑنے کے لئے کوئی وعدہ دیا گیا ہو۔مسیح کو بھی یہ امر نصیب نہ ہوا ۔دنیا کی تاریخ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی یہ معاملہ ہوا کہ آپ کو سلطنت کا وعدہ دیا گیا اگر آپ اپنا کام چھوڑ دیں سو یہ عزت ہمارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے۔اسی طرح ہمارے ہادی کامل کو دونوں زمانے تکلیف اور فتح مندی کے نصیب ہوئے ،تاکہ وہ دونوں اوقات میں کامل نمونہ اخلاق کا دکھا سکیں ۔
اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لیے چاہا ہے کہ ہر دو لذتیں اٹھائیں۔بعض وقت لذات،آرام اور طیبات کے رنگ میں۔بعض وقت عسرت اور مصائب میں۔تاکہ ان کے دونوںاخلاق کامل نمونہ دکھا سکیں۔بعض اخلاق طاقت میں اور بعض مصائب میں کھلتے ہیں۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ دونوں باتیںمیسر آئیں۔سو جس قدر ہم آپؑ کے اخلاق پیش کر سکیں گے۔ کوئی اور قوم اپنے کسی نبی کے اخلاق پیش نہ کر سکیں گے۔ جسے مسیحؑ کاصرف صبرظاہر ہو سکتا ہے کہ وہ مار کھاتا رہا، یہ لیکن یہ کہاں سے نکلے گا کہ ان کو طاقت نصیب ہوئی۔ وہ نبی بیشک سچے ہیں۔لیکن ان کے ہر قسم اخلاق ثابت نہیں۔چونکہ ان کا ذکر قرآن میںآگیا، اس لیے ہم ان کو نبی مانتے ہیں۔والاانجیل میں تو ان کا کوئی ایسا خلق ثابت نہیں۔ جیسے اولوالعزم انبیاء کی شان ہوتی ہے۔ ایسا ہی ہمارے ہادی کامل بھی اگرابتدائی تیرہ برس کی مصائب میں مر جاتے،تو ان کے اوربہت سے اخلاق فاضلہ مسیح کی طرح ثابت نہ ہوتے، لیکن دوسرا زمانہ جب فتح کا آیا اور مجرم آپؑ کے سامنے پیش کیے گئے تو اس سے آپؑ صفت رحم اور عفو کا کامل ثبوت ملا اور اس سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کے کام کوئی جبر پر نہ تھے۔ نہ زبردستی تھی، بلکہ ہر ایک امر اپنے طبعی رنگ میں ہوا۔اسی طرح آپؑ کے اور بہت سے اخلاق بھی ثابت ہیں ۔سو اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا کہ:نَحْنُ اَوْلِیَآوُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ(حم السجدہ۳۲ )کہ ہم اس دنیا میں بھی اور آئندہ بھی متقی کے ولی ہیں سو یہ آیت بھی ان نادانوں کے ہے۔جنھوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا۔اگر نزع میں نزول ملائکہ تھا،تو حیٰوتہ الدنیا میں کیسے ولی ہوا۔
متقی کو آئندہ زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے
سویہ ایک نعمت ہے کہ ولیوں کو خدا کے فرشتے نظر آتے ہیں۔آئندہ کی زندگی محض ایمانی ہے،لیکن ایک متقی کوآئندہ کی زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے ۔انہیں اسی زندگی میں خدا ملتا ہے،نظرآتا ہے اور ان سے باتیں کرتا ہے۔سو اگر ایسی صورت کسی کو نصیب نہیں ،تواس کا مرنا اور یہاں سے چلے جانا نہایت خراب ہے ایک ولی کا قول ہے کہ جس کو ایک سچا خواب عمر میں نصیب نہیں ہوا۔اس کا خاتمہ خطر ناک ہے جیسے کہ قرآن مومن کے یہ نشان ٹھراتا ہے۔سنو!جس میں یہ نشان نہیں اس میں تقویٰ نہیں۔سو ہم سب کی یہ دعا چاہیے کہ یہ شرط ہم میں پوری ہو۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ،خواب،مکاشفات کا فیضان ہو،کیونکہ مومن کا یہ خاصہ ہے۔سو یہ ہونا چاہیے۔
بہت سی اور بھی برکات ہیں جو متقی کو ملتی ہیں۔مثلاً سورۃ فاتحہ میں جو قرآن کے شروع میں ہی ہے۔اللہ تعالیٰ مومن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دعا مانگیں :اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرَالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ۔(الفاتحہ۸۔۶)یعنی وہ راہ سیدھی بتلا ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام وفضل ہے۔یہ اس لئے سکھلائی گئی کہ انسان عالی ہمت ہو کر اس سے خالق کا منشاء سمجھے اور وہ یہ ہے کہ یہ امت بہائم کی طرح زندگی بسر نہ کرے،بلکہ اس کے تمام پردے کھل جاویں ۔جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ دلایت بارہ اماموں کے بعد ختم ہو گئی۔بر خلاف اس کے اس دعا سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کے منشاء کے مطابق ہو ،تو وہ ان مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور صفیاء کو حاصل ہوتے ہیں۔اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قویٰ ملے ہیں ۔جنہوں نے نشوونما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے۔ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں ،اس کے قویٰ ترقی نہین کر سکتے ۔عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیا کے حالات سنتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے اس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اسے بتدریج ان نعماء کا علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین ہو جاوے۔
علم کے تین مدارج
علم کے تین مدارج ہیں ۔ علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین مثلاً ایک جگہ سے دھواں نکلتا دیکھ کر آگ کا یقین کر لینا علم الیقین ہے،لیکن خود آنکھ سے آگ کا دیکھنا عین الیقین ہے۔ان سے بڑھ کر درجہ حق الیقین کاہے ۔یعنی آگ میں ہاتھ ڈال کر جلن اور حرقت سے یقین کر لینا کہ آگ موجود ہے۔پس کیسا وہ شخص بد قسمت ہے جس کو تینوں میں سے کوئی درجہ حاصل نہیں ۔ اس آیت کے مطابق جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں وہ کورانہ تقلید میں پھنسا ہو اہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْ فِیْنَالَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلُنَا(العنکبوت۷۰)جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہ دکھلا دیں گے یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ اِھْدِ نَاا لصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحہ ۶)سو انسان کو چاہیے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں دعا بالح کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے،فرمایا :مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی۔(بنی اسرائیل:۷۳)کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے۔ جس کی منشاء یہ ہے کہ اس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں۔آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی طیاری اسی جہان میں ہو گی۔پس کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے۔
اندھا کون ہے؟
اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے ۔ایک شخص کورانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو گیا ،مسلمان کہلاتا ہے۔دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے گھر پیدا ہو کر عیسائی ہو گیا۔یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا،رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔اس کی دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے۔خدا اور رسول کی ہتک کرنے والوں میں اس کا گذر ہوتا ہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں ۔اس میں محبت دین نہیں۔والا محبت والا محبوب کے بر خلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے؟غرض اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے کہ میں تو دینے کو تیار ہوں اگر تو لینے کو تیار ہے۔پس یہ دعا کرنا ہی اس ہدایت کو لینے کی تیاری ہے۔
متقی
اس دعا کے بعد سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی جو ھُدًی الِلْمُتَّقِیْنَ(البقرہ:۳)کہا گیا،تو گویا خدا تعالیٰ نے دینے کی تیاری کی ۔یعنی یہ کتاب متقی کو کمال تک پہنچانے کا وعدہ کرتی ہے۔سو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب ان کے لئے نافع ہے جو پرہیز کرتے اور نصیحت کو سننے کے لئے تیار ہوں۔اس درجہ کا متقی وہ ہے جو مخلیٰ بالطبع ہو کر حق کی بات سننے کو تیارہو۔ایسے کوئی مسلمان ہوتا ہے تو وہ متقی بنتا ہے۔جب کسی غیر مذہب کے اچھے دن آئے،تو اس میں اتقاء پیدا ہوا ،عجب غرور،پندار دور ہوا۔یہ تما م روکیں تھیں جو دور ہو گئیں ۔ان کے دور ہونے سے تاریک گھر کی کھڑکی کھل گئی اور شعاعیں اندر داخل ہو گئیں ۔
یہ جو فرمایا کہ یہ کتاب متقین کی ہے ہدایت ہے،یعنی ھُدًی الِّلْمُتَّقِیْنَ تو اتقا جو افتعال کے باب سے ہے اور یہ باب تکلف کے لئے آتا ہے،یعنی اس میں اشار ہے کہ جس قدر ہم یہاں تقویٰ چاہتے ہیں وہ تکلف سے خالی نہیں،جس کی حفاظت کے لئے اس کتاب میں ہدایت ہیں۔گویا متقی کو نیکی کرنے میں تکلیف سے کام لینا پڑتا ہے۔
عبد صالح
جب یہ گذر جاتا ہے تو سالک عبد صالح ہو جاتا ہے۔گویا تکلیف کا رنگ دور ہوا ۔اور صالح نے طبعاً وفطرتاً نیکی شروع کی۔وہ ایک قسم کے دارالامان میں ہے،جس کو کوئی خطرہ نہیں ۔اب کل جنگ اپنے نفسانی جذبات کے بر خلاف ختم ہو چکے ہیں اور وہ امن میں آگیا اور ہر قسم کے خطرات سے پاک ہو گیا ۔اسی امر کی طرف ہمارے ہادی کامل نے اشارہ کیا ہے ۔فرمایا کہ ہر ایک کے ساتھ شیطان ہوتا ہے ،لیکن میرا شیطان مسلم ہو گیا ہے۔ سو متقی کو ہمیشہ شیطان کے مقابل جنگ ہے ،لیکن جب وہ صالح ہو جاتا ہے، تو کل جنگیں بھی ختم ہو جاتیں ہیں ۔مثلاً ایک ریا ہی ہے جس سے اسے آٹھوں پہر جنگ ہے۔ متقی ایک ایسے میدان میں ہے، جہاں ہر طرف لڑائی ہے ۔اللہ کے فضل کا ہاتھ اس کے ساتھ ہو، تو اسے فتح ہو۔ جیسے ریا جس کی چال ایک چیونٹی کی طرح ہے۔ بعض وقت انسان بے سمجھے لیکن موقعہ پر دل میں پیدا ہونے کا موقع دے دیتا ہے ۔مثلاً ایک کا چاقو گم ہو جاوے اور وہ دوسرے سے دریافت کرے تو اس موقعہ پر ایک متقی کا جنگ شیطان سے شروع ہو جاتا ہے، جو اسے سکھاتا ہے کہ اس طرح دریافت کرنا ایک قسم کی بت عزتی ہے جس سے اس کے ا فروختہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپس میں لڑائی بھی ہو جاوے۔ اس موقع پر ایک متقی کو اپنے نفس کی بد خواہش سے جنگ ہے ۔اگر اس شخص میں محض للہ دیانت موجودہو تو غصہ کرنے کی اس کو ضرورت ہی کیا ہے، کیونکہ دیانت جس قدر مخفی رکھی جاوے۔ اسی قدر بہتر ہے۔ مثلاً ایک جوہری کا راستہ میں چند چور مل جاویں اور چور آپس میں اس کے متعلق مشورہ کریں۔ بعض اسے دولت مند بتلاویں اور بعض کہیں وہ کنگال ہے ۔اب مقابلتاً یہ جوہری انہیں کو پسند کرے گا جو اسے کنگال ظاہر کریں گے۔
اعمال سے اخفاء اچھا ہے
اسی طرح یہ دنیا کیا ہے۔ ایک قسم کی دارالبتلا ہے ۔وہی اچھا ہے ،جو ہر ایک امر خفیہ رکھے اور ریا سے بچے۔ وہ لوگ جن
کے اعمال للہی ہوتے ہیں وہ کسی پر اپنے اعمال ظاہر نہیں ہونے دیتے یہی لوگ متقی ہیں ۔
میں نے تذکرۃ الاولیا میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ کوئی اس کی مدد کرے ۔ایک نے صالح سمجھ کر ایک ہزار روپیہ دیا۔ انھوں نے روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی۔اس بات وہ رنجیدہ ہوا کہ جب یہاں ہی تعریف ہو گئی تو شائد ثواب آخرت سے محرومیت ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جو دینا نہیں چاہتی ؛چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا۔ جس پر ہر ایک نے *** کی اور کہا کہ جھوٹا ہے۔ اصل میں روپیہ دینا نہیں چاہتا۔ جب شام کے وقت وہ بزرگ گھر گیا۔ تو وہ شخص ہزار روپیہ لے کر اس کے گھر آیا اور کہا کہ آپ نے میری سر عام تعریف کر کے مجھے محروم ثواب آخرت کیا، اس لیے میں نے یہ بہانہ کیا۔ اب یہ روپیہ آپ کا ہے ،لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں بزرگ۔ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک مورد لعن وطعن ہوا ،کیونکہ کل کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے روپیہ واپس کر دیا ہے۔
ایک متقی تو اپنے نفس امارہ کے بر خلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھپاتا ہے اور خفیہ رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک بد معاش کسی بد چلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے، اسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور دوڑتا ہے کہ کوئی اس کو دیکھ لے۔سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتا ہے۔ تقویٰ کے مراتب بہت ہیں ،لیکن بہر حال تقویٰ کے لئے تکلف ہے اور متقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اس جنگ سے باہر ہے۔ جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر اوپر ریاء کا ذکر کیا ہے جس سے تقویٰ کو آٹھواں پہر جنگ ہے۔
ریاء اور حلم کا جنگ
بسا اوقات ریاء اورحلم کا جنگ ہو جاتا ہے۔ کبھی انسان کا غصہ کتاب اللہ کے بر خلاف ہوتا ہے۔گالی سن کر اس کا نفس جوش مارتا ہے۔ تقویٰ اس کو سکھلاتا ہے کہ وہ غصہ کرنے سے بعض رہے۔جیسے قرآن کہتا ہے:وَاِذَا مَرُّوْ بِاللَّغْوِ مَرُّوْ کِرَاماً (الفرقان۷۳)ایسا ہی بے صبری کے ساتھ اسے اکثر جنگ کرنا پڑتاہے۔بے صبری سے مراد یہ ہے کہ اس کو راہ تقویٰ میں اس قدر دقتوں کا مقابلہ ہے کہ مشکل سے وہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے، اس لئے بے صبر ہو جاتا ہے۔ مثلاًایک کنواں پچاس ہاتھ تک کھودنا ہے۔ اگر دو چار ہاتھ کے بعد کھودنا چھوڑ دیا جاے، تو محض یہ ایک بد ظنی ہے۔ اب تقویٰ کی شرط یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے احکام دئے ،ان کو اخیر تک پہنچائے اور بے صبر نہ ہو جاوے۔
راہ سلوک میں مبارک قدم دو گروہ ہیں
راہ سلوک میں مبارک قدم دو گروہ ہیں۔ایک دین العجائز والی جو موٹی موٹی باتوں پر قدم مارتے ہیں۔ مثلاً احکام شریعت کے پابند ہو گئے اور نجات پا گئے۔ دوسرے وہ جنھوں نے آگے قدم مارا۔ ہر گز نہ تھکے اور چلتے گئے؛ حتیٰ کہ منزل مقصود تک پہنچ گئے، لیکن نامراد وہ فرقہ ہے کہ دین العجائز سے تو قدم آگے رکھا ،لیکن منزل سلوک کو طے نہ کیا۔ وہ ضرور دہریہ ہو جاتے ہیں ۔ جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو نمازیں بھی پڑھتے رہے ۔چلہ کشیاں بھی کیں، لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا۔ جیسے ایک شخص منصور مسیح نے بیان کیا کہ اس کی عیسایت کا باعث یہی تھا کہ وہ مرشدوں کے پاس گیا ،چلہ کشی کرتا رہا،لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا،تو بد ظن ہو کر عیسائی ہو گیا۔
صدق و صبر
سو جو لوگ بے صبری کرتے ہیں، وہ شیطان کے قبضے میں آجاتے ہیں۔ سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔ بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مردودومخدول ہے۔ ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب تو فیصلہ ہو گیا۔ اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہو گا۔ وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ اگر ملعون ہوں، تو ملعون ہی سہی۔ غنیمت ہے کہ مجھے ملعون تو کہا جاتا ہے۔ ابھی یہ باتیں مرید سے ہو رہیں تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے ۔سو یہ سب صدق وصبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے۔
استقامت
یہ جو فرمایا ہے کہ :وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْ فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلُنَا(العنکبوت۷۰)یعنی ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جدو جہد کرنا ہو گا۔ ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں ۔بلکہ جان دینے کے لئے تیار رہنا اس کاکام ہے۔ سو متقی کی نشانی استقامت ہے ۔جیسے کہ فرمایا: اِنَ الَّذِیْنَ قَالُواْ رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حٰم السجدہ ۳۱)یعنی جنہوں نے کہا کہ رب ہمارا اللہ ہے اور استقامت دکھائی اور ہر طرف سے منہ پھیر کر اللہ کو ڈھونڈا۔ مطلب یہ کہ کامیابی استقامت پر موقوف ہے اور وہ اللہ کو پہنچاننا اور کسی ابتلا اور زلازل اور امتحان سے نہ ڈرنا ہے۔ ضرور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ مورد مخاطبہ ومکالمہ الہیٰ کی طرح ہو گا۔
ولی بننے کے لئے ابتلا ضروری ہیں
بہت سے لوگ یہاں آتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر عرش پر پہنچ جائیں اور واصلین سے ہو جایں ۔ایسے لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں ۔وہ انبیا کے حالات کو دیکھیں ۔یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صد ہاولی فی الفور بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْ آاَنْ یَّقُوْلُوْ ااٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(العنکبوت۳)جب تک انسان آزمایا نہ جاوے فتن میں نہ ڈالا جاوے، وہ کب ولی بن سکتا ہے۔
ایک مجلس میں بایزید وعظ فرما رہے تھے۔ وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا ،جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا۔ اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے ۔جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسمعیل کو لے لیا۔ کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوتے ہیں ۔وَتِلْکَ اَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (آل عمران ۱۴۱)سو اس شیخ زادہ کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے۔ کہاں سے ایسا خوارق آگیا کہ لوگ اس کی طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے ۔یہ باتیں خدا تعالیٰ نے حضرت بایزید پر ظاہر کیں ،تو انھوں نے قصہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لمپ میں پانی سے ملا ہوا تیل جل رہا تھا۔ تیل اور پانی میں بحث ہوئی۔ کہ پانی نے تیل کو کہا کہ تو کثیف اور گندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے ۔میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں ۔اس کا باعث کیا ہے؟تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں، تو نے وہ کہاں جھیلی ہیں ۔جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی۔ ایک زمانہ تھا، جب میں بویا گیا ،زمین میں مخفی رہا، خاکسار ہوا۔ پھر خدا کے ارادہ سے بڑھا۔ بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا۔ پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا۔ کولہو میں پسا گیا۔ پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی۔ کیا ان مصائب کے بعد بھی بلندی حاصل نہ کرتا؟
یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب وشدائد کے بعد درجات پاتے ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جاکر بلا مجاہدہ وتزکیہ ایک دم میں صدقین میں داخل ہو گیا۔ قرآن شریف کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب و زلازل نہ آویں، جنھوں نے بعض اوقات تنگ آکریہ بھی کہہ دیا ۔حَتّٰی یَقُوْلُ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرُاللّٰہِ قَرِیْبٌ(البقرہ:۲۱۵)اللہ کے بندوں ہمیشہ بلاوں میں ڈالے گئے۔ پھر خدا نے ان کو قبول کیا ۔
ترقیات کی دو راہیں
سلوک
صوفیوں نے ترقیات کی دو راہیں لکھی ہیں۔ ایک سلوکؔ دوسرا جذبؔ ۔سلوک ؔوہ ہے جو لوگ آپ عقلمندی سے سوچ کر اللہ ورسول کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔جیسے فرمایا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاَتْبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲)یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننا چاہتے ہو، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرو۔ وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنھوں نے وہ مصائب اٹھایں کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتیں۔ ایک دن بھی آرام نہ پایا۔ اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے۔ جو اپنے متبوع کے ہر قول وفعل کی پیروی پوری جدوجہد سے کریں۔متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا۔ سہل انگار اور سخت گداذ کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا۔ یہاں جو اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اول رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلمکی مکمل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے۔ اسی کا نام سلوک ہے۔ اس راہ میں بہت مصائب وشدائد ہوتے ہیں ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوتا ہے۔
جذب
اہل جذب کادرجہ سالکوں سے بڑھاہواہے۔اللہ تعالی انہیںسلوک کے درجہ پر ہی نہیں رکھتا، بلکہ خود اُن کو مصائب میں ڈالتا اور جا ذبہ ازلی سے اپنی طرف کھنچتا ہے۔ کُل انبیا محزوب ہی تھے۔ جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ان سے فرسودہ کار اور تجربہ کار ہو کرروح چمک اٹھتی ہے۔ جیسے کہ شیشہ یش لوہا اگرچہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے ۔لیکن صیقلوں کے بعد ہی مجلی ہوتا ہے؛ حتیٰ کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا منہ نظر آجاتا ہے۔ مجاہدات بھی صقیل کا کام ہی کرتا ہے۔ دل کا سقیل یہاں تک ہونا چاہیے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آجاوے۔ منہ کا نظر آنا کیا ہے؟تَخْلَقُوْا بِاْخْلَاقِ اللّٰہِ کا مصداق ہونا۔ سالک کا دل آئنہ ہے جس کو مصائب وشدائد اس قدر صقیل کر دیتے ہیں کہ اخلاق النبی اس میں منعکس ہو جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی قدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے۔ ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی مومن با آئینہ ہونے کے نجات نہ پائے گا۔ سلوک والا خود صقیل کرتا ہے، اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے ،لیکن جذب والا مصائب میں ڈالا جاتا ہے۔خدا خود اس کا مصقل ہوتا ہے اور طرح طرح کے مسائب وشدائد سے صقیل کر کے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کردیتا ہے۔دراصل سالک ومجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے سو متقی کے دو حصے ہیں ۔سلوک وجذب۔
ایمان بالغیب
تقویٰ جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں، کس قدر تکلف کو چاہتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ: ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ(البقرہ:۳،۴)اس میں ایک تکلف ہے ۔مشاہدہ کے مقابل ایمان بالغیب لانا ایک قسم کے تکلف کو چاہتا ہے۔ سو متقی کے لئے ایک حد تک تکلف ہے ،کیونکہ جب وہ صالحہ کا درجہ حاصل کرتا ہے تو پھر غیب اس کے لیے غیب نہیں رہتا ،کیونکہ صالحہ کے اندر سے ایک نہر نکلتی ہے ،جو اس میں سے نکل کر خدا تک پہنچتی ہے۔ وہ خدا اور اس کی محبت کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی۔(بنی اسرائیل:۷۳)اسی سے ظاہر ہے کہ جب تک انسان پوری روشنی اس جہاں میں نہ حاصل کر لے ۔وہ کبھی خدا کا منہ نہیں دیکھے گا۔ سو متقی کا یہی کام ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے سرمہ تیار کرتا رہے،جس سے اس کا روحانی نزول الماء دور ہو جائے۔ اب اس سے ظاہر ہے کہ متقی شروع میں اندھا ہوتا ہے ۔مختلف کوششوں اور تزکیوں سے وہ نور حاصل کرتا ہے۔ پس جب سوجاکھا گیا اور صالح بن گیا ۔پھر ایمان بالغیب نہ رہا اور تکلف بھی ختم ہوگیا ۔جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکو برای العین اسی عالم اسی عالم میں بہشت ودوزخ سب کچھ مشاہدہ کرایا گیا ۔جو متقی کو ایک ایمان بالغیب کے رنگ میں ماننا پڑتا ہے ۔وہ تمام آپ کے مشاہدہ میں آگیا ۔اس آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اگرچہ اندھا ہے اور تکلف کی تکلیف میں ہے، لیکن صالح ایک دارالامان میں آگیا ہے اور اس کا نفس نفس مطمئنہ ہو گیا ہے ۔متقی اپنے اندر ایمان بالغیب کی کیفیت رکھتا ہے ۔وہ اندھا دھند طریق سے چلتا ہے ۔اس کو کچھ خبر نہیں ہر ایک بات پہ اس کا ایمان بالغیب ہے ۔یہی اس کا صدق ہے اور اس صدق کے مقابل خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ فلاح پائے گا ۔اُوْلٰٓیِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(البقرہ:۶)
اقامت صلوۃ
اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے۔وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ(البقرہ:۴) یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتاہے۔ یہاں لفظ کھڑی کرنے کو آیا ہے ۔یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو متقی کا خاصہ ہے۔ یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے۔تو طرح طرح کے وساوس کا اسے مقابلہ ہوتا ہے جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے،جس کو اس نے کھڑا کردیا ہے جب اس نے اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اس کے حضور قلب میںتفرق ڈال رہاہے۔ وہ ان سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ پریشان ہوتا ہے۔ ہر چند حضور وذوق کے لئے لڑتا مرتا ہے، لیکن نماز جو گری پڑتی ہے، بڑی جان کنی سے اسے کھڑا کرنے کی فکر میں ہے۔ بار بار اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دعا مانگتا ہے اور ایسے صراط المستقیم کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اس کی نماز کھڑی ہو جائے۔ان وساوس کے مقابل میں متقی ایک بچہ کی طرح ہے، جو خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے۔ روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ(الاعراف:۱۷۷)ہورہاہوں۔ سویہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنی ہوتی ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہو گا۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دور کرنا چاہتے ہیں ؛حالانکہ وہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی منشاء کچھ اور ہے کیا خدا نہیں جانتا؟حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)کو قول ہے کہ ثواب اس وقت تک جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے، تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے۔ گویا صوم الصلوۃ اس وقت تک اعمال ہین جب تک ایک جدوجہد سے وساوس کا مقابلہ ہے، لیکن جب ان میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہو گیا اور صاحب صوم و صلوۃ تقویٰ کے تکلف سے بچ کر صلاحیت رنگین ہو گیا، تو اب صوم صلوۃ اعمال نہیں رہے۔ اس موقع پر انہوں نے سول کیا کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے ؟کیونکہ ثوب تو اس وقت تھا جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا۔ سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے ۔یہ نماز اس کی ایک غذا ہے، جو اس کے لئے قرۃ العین ہے۔ یہ گویا نقد بہشت ہے۔
مقابل میں وہ لوگ جو مجاہدات میں ہیں ۔وہ کشتی کر رہے ہیں۔ اور یہ نجات پا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا سلوک جب ختم ہوا، تو اس کے مسائب بھی ختم ہو گئے۔ مثلاً ایک مخنث اگر یہ کہے کہ وہ کبھی کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا، تو وہ کونسی نعمت یا ثواب کو مستحق ہے ۔اس میںتو صفت بد نظری ہے ہی نہیں لیکن اگر ایک مرد صاحب رجولیت ایسا کرے تو ثواب پائے گا۔ اسی طرح انسان کو ہزاروں مقامات طے کرنے پڑتے ہیں۔ بعض بعض امور میں اس کی مشاقی اس کو قادر کر دیتی ہے۔ نفس کے ساتھ اس کی مصالحت ہو گئی۔ اب وہ ایک بہشت میں ہے ،لیکن وہ پہلا سا ثواب نہیں رہے گا۔ وہ ایک تجارت کر چکا ہے۔ جس کا وہ نفع اٹھا رہا ہے، لیکن پہلا رنگ نہ رہے گا۔ انسان میں ایک فعل تکلف سے کرت کرتے طبعیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے ۔ایک شخص جو طبعی طور سے لذت پاتا ہے ،وہ اس مقابل نہیں رہتا کہ اس کام سے ہٹایا جاوے۔ وہ طبعاً یہاں سے ہٹ نہیں ہو سکتا۔ سو اتق ا اور تقویٰ کی حد تک پورا انکشاف نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک قسم کا دعویٰ ہے۔
انفاق من رزق اللہ
اس کے بعد متقی کی شان میں وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (لبقرہ:۴) آیا ہے۔ یہاں متقی کے لئے مما کا لفظ استعمال کیا ،کیونکہ اس وقت وہ ایک اعمیٰ کی حالت میں ہے،اس لئے جو کچھ خدا نے اس کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ خدا کے نام کا دیا۔ حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا ،تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں۔سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے۔یہ ایک حجاب تھاجو اتقا میںلازمی ہے۔اس حالت اتقا کے تقاضے نے متقی سے خدا کے دئے میں سے کچھ دلوایا ۔رسول اکرم ؐنے حضرت عائشہ سے ایام وفات میں دریافت فرمایا کہ گھر میں کچھ ہے ۔معلوم ہوا کہ ایک دینار تھا۔ فرمایا کہ یہ سیرت یگانگت سے بعید ہے کہ ایک چیز بھی اپنے پاس رکھی جاوے ۔رسول اکر م صلی اللہ علیہ والہ وسلم اتقا کے درجے سے گزر کر صلاحیت تک پہنچ چکے تھے ۔اس لئے مما ان کی شان میں نہ آیا۔ کیونکہ وہ شخص اندھا ہے جس نے کچھ اپنے پاس رکھا اور کچھ خدا کو دیا، لیکن یہ لاذمہ متقی تھا، کیونکہ خدا کی راہ میں دینے سے بھی اسے نفس کے ساتھ جنگ تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ دیا اور کچھ رکھا ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیا اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا ۔
جیسے دھرم مہو تسو کے مضمون میں انسان کی تین حالتیں ذکر کی گئی ہیں جو انسان پر ابتدا سے انتہا تک وارد ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی قرآن کریم نے جو انسان کو تمام مراحل ترقی کے طے کرانے آیا۔اتقا سے شروع کیا ۔یہ ایک تکلف کا راستہ ہے۔ یہ ایک خطرناک میدان ہے ۔اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور مقابل بھی تلوار ہے ۔اگر بچ گیا تو نجات پا گیا ۔وَاِلَا اَسْفَلِ السَّافِلِیْنَ میں پڑ گیا ؛چنانچہ یہاں متقی کی سفات میں یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہم دیتے ہیں ،اسے سب کا سب خرچ کر دیتا ہے۔ متقی میں اس قدر ایمانی طاقت نہیں ہوتی جو نبی کی شان ہوتی ہے کہ وہ ہمارے ہادی کامل کی طرح کل کا کل خدا کا دیا ہوا خدا کو دے دے ۔اس لئے پہلے مختصر سا ٹیکس لگایا گیا ہے، تا کہ چاشنی چکھ کر زیادہ ایثار کے لئے تیارہو جائے۔
رزق سے مراد
وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔(البقرہ:۴)رزق سے مراد صرف مال نہیں، بلکہ جو کچھ ا ن کو عطا ہوا۔ علم، حکمت ،طبابت ۔یہ سب رزق میں شامل ہے۔ اس کو اسی میں سے خدا کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے۔
تدریج کے ساتھ تعلیم کی تکمیل
انسان نے اس راہ میں بتدریج اور زینہ بہ زینہ ترقی کرنا ہے۔ اگر انجیل کی طرح یہ تعلیم ہوتی کہ گال پر طمانچہ کھا کر دوسرے طمانچے کے لئے گال آگے رکھ دی جاوے۔ یا سب کچھ دے دیا جاوے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح تعلیم کے ناممکن التعمیل ہونے کے باعث ثواب سے محروم رہتے۔ لیکن قرآن شریف توحسب فطرت آہستہ آہستہ ترقی کراتا ہے۔ انجیل کی مثال تو اس لڑکے کی ہے جو مکتب میں داخل ہوتے ہی بڑی مشکل کتاب پڑھنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ ہو اللہ تعالیٰ حکیم ہے ۔اس کی حکمت کا یہی تقاضہ ہونا چاہیے تھا کہ تدریج کے ساتھ تعلیم کی تکمیل ہو ۔
اس کے بعد متقی کے لئے فرمایا :وَالَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(البقرہ:۵)یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو پہلی نازل شدہ کتب پر اور تجھ پر جو کتاب نازل ہوئی ،اس پر ایمان لاتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔یہ امر بھی تکلف سے خالی نہیں۔ ابھی تک ایمان ایک محویت کے رنگ میں ہے ۔متقی کی آنکھیں معرفت اور بصیرت کی نہیں۔ اس نے تقوی سے شیطان کا مقابلہ کر کے ابھی تک ایک بات کو مان لیا ہے ۔یہی حال اس وقت ہماری جماعت کا ہے۔ انھوںنے بھی تقویٰ سے مانا تو ہے۔ پر ابھی تک وہ نہیں جانتے کہ یہ جماعت کہاں تک نشوونما الہیٰ ہاتھوں سے پانے والی ہے ۔سو یہ ایک ایمان ہے جو بالآخر فائدہ رساں ہو گا۔
یقین کا لفط جب عام طور پر استعمال ہو،تو اس سے مراد اس کا ادنیٰ درجہ ہوتا ہے یعنی علم کے تین مدارج میں سے ادنی درجہ کا علم ،یعنی علم الیقین۔ اس درجہ پہ اتقا والا ہوتا ہے مگر بعد اس کے عین الیقین اور حق الیقین کا مرتبہ بھی تقویٰ کے مراحل طے کرنے کے بعد حاصل کر لیتا ہے۔
تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں ۔اس کے زریعے سے ان تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ جو انسان کی ہر ایک اندرونی طاقت وقوت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں ۔یہ تمام قوتیں نفس مارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں۔اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی۔ علم و عقل ہی برے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں ۔متقی کا کام ان کی اور ایسا ہی اور دیگر قویٰ کی تعدیل کرنا ہے۔
سچا مذہب قویٰ کا مربی ہوتا ہے
ایسا ہی جو لوگ انتقام ،غضب یا نکاح کو ہر حال میں برا مانتے ہیں ،وہ بھی صحیفہ قدرت کے مخالف ہیں اور قوی انسان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ سچا مذہب وہی ہے جو انسان قوی کا مربی ہو، نہ کہ ان کا استیصال کرے۔ رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسان میں رکھے گئے ہیں۔ ان کو چھوڑنا خدا کا مقابلہ کرنا ہے۔ جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا۔ یہ تمام امور حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں۔ اگر یہ امر ایسا ہوتا، ہی ہے تو گویا اس خدا پہ اعتراض ہے جس نے یہ قوی ہم میں پیدا کیے … پس ایسی تعلیمات جوانجیل میں ہیں اور جن سے قوی کا استیصال لازم آتا ہے، ضلالت تک پہنچاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کو تعدیل کا حکم دیتا ہے۔ ضائع کرنا پسند نہیں کرتا۔ جیسے فرمایا اِنَ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل:۹۱)عدل ایک ایسی چیز ہے، جس سے سب کو فائدہ اٹھاناچاہیے۔ حضرت مسیح موعود کا یہ تعلیم دینا کہ اگر تو بری آنکھ سے دیکھے ،تو آنکھ نکال ڈال اس میںبھی قویٰ کا استیصال ہے، کیونکہ ایسی تعلیم نہ دی کہ تو غیر محرم عورت کو ہر گز نہ دیکھ، مگر بر خلاف اس کی اجازت دی کہ دیکھ تو ضرور، لیکن زنا کی آنکھ سے نہ دیکھ۔ دیکھنے سے تو مانعت ہے ہی نہیں ۔دیکھے گا تو ضرور، بعد دیکھنے کے دیکھنا چاہیے کہ اس کے قوی پر کیا اثر ہوگا۔ کیوں نہ قرآن شریف کی طرح آنکھ کو ٹھوکر والی چیز ہی کے دیکھنے سے روکا ۔اور آنکھ جیسی مفید اور قیمتی چیز کو ضائع کر دینے کا افسوس لگایا۔
اسلامی پردہ
آجکل پردے پر حملے کیے جاتے ہیں۔لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردے سے مراد زنداں نہیں ،بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا، ٹھوکر سے بچیں گے ۔ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد اور عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں ،یسریں کریں۔ کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیںگے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہارہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو۔ کوئی عیب نہیںسمجھتیں۔یہ گویا تہذیب ہے، انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دیں۔ جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں ۔ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد وعورت ہر دو جمع ہوں ۔تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو ۔جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے ۔یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے اگر کسی چیز کوخیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو ۔لیکن اگرحفاظت نہ کرو۔ اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں، تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اورخود کشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی۔
انسانی قویٰ کی تعدیل اور جائز استعمال
اللہ تعالی نے جس قدر قوی عطا فرمائے،وہ ضائع کر نے کے لیے نہیں دئیے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوو نما ہے۔اسی لیے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی۔بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا۔جیسے فرمایاقَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ(المومنون۲)اور ایسے ہی یہاں بھی فرما یا:متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا۔وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(البقرہ۲)یعنی وہ لوگ جو تقوی پر قدم مارتے ہیں۔ایمان بالغیب لاتے ہیں۔نماز ڈگمگاتی ہے ۔پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں۔باوجود خطرات نفس بلا سوچے،گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخرکاروہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔وہ لوگ ہیں جوہدایت کے سرپر ہیں۔وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جارہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتاہے۔پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصودتک پہنچ جائیں گے اورراہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں، اس لیے شروع میں ہی اللہ تعالی نے ہمیں تقوی کی تعلیم دے کر ایک کتاب ہم کو عطا کی۔جس میں تقوی کے وصایا بھی دیئے۔
سوہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقوی ہے یا نہیں ۔
اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کرو
اہل تقوی کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقوی کے ایک شاخ ہے ،جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے، بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچناہی ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب وپندار کا نتیجہ ہے،کیونکہ غضب اس وقت ہوگا۔جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں،یاایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے۔یہ ایک چھوٹا کون ہے ۔یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔جس کے اندرحقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے۔بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔اس کی دلجوئی کرے۔اس کی بات کی عزت کرے۔کوئی چڑ کی بات منہ پرنہ لادے کہ جس سے دکھ پہنچے۔خدا تعالی فرماتا ہے۔وَلَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِْسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الاِْیْمَانِ۔وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(الحجرات:۱۲)تم ایک د وسرے کا چڑ کے نام نہ لو۔یہ فعل فساق وفجار کا ہے۔جو شخص کسی کو چڑاتا ہے ،وہ نہ مر ے گا۔جبتک وہ خود اسی طرح مبتلانہ ہو گا۔اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو،تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرمومعظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خا تعالے کے نزدیک بڑا وہ متقی ہے۔اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔(الجحرات:۱۴)
ذاتوں کا امتیاز
یہ جو مختلف ذاتیں ہیں۔یہ کوئی وجہ شرافت نہیں۔ خدا تعالی نے محض عرف کے لیے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چارپشتوںکے حقیقی پتہ لگا نا ہی مشکل ہے۔متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے۔جب اللہ تعالی نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کی کوئی سند نہیں۔حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقوی ہے۔
متقی کون ہیں؟
خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔وہب مغرور انہ گفتگو نہیں کرتے۔ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہتے ۔جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالی کسی کا اجار ہ دار نہیں۔وہ خاص تقوی کریگا وہ مقام اعلی کو پہنچے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے،لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی۔یہ تو فضل الہی تھا۔ ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے۔یہی فضل کے محرک تھے حضرت ابراہیم علیہ اسلام جو ابوالانبیا تھے، انھوں نے اپنے صدق وتقوی سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔خود آگ میں ڈالے گئے۔ ہمارے سیدومولی حضرت محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلمکا ہی صدق ووفا دیکھئے۔آپؑ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے،لیکن پروانہ کی۔یہی صدق ووفا تھا، جس کے باعث اللہ تعالی نے فضل کیا۔اسی لیے تو اللہ تعالے نے فرمایا:اِنْ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیَّ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْماً(الاحزاب۵۷)
ترجمہ:اللہ تعالیاور اس کے تمام فرشتے رسول پردرودبھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ـ!تم درودواسلام بھیجو نبی ؑ پر۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے ،لیکن خود استعمال نہ کیے۔ یعنہ آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی ۔آپ کی روح میں وہ سدق و وفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئیندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ آپ کی ہمت وصدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی۔ خود حضرت مسیح کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یا روحانی سدق وفا کا کہاں تک اثر ان کے پیرووں پہ ہوا۔ ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بدو باش کو درست کرناکس قدر مشکل ہے۔عادات راسخہ کا گنوانا کیسا محلات سے ہے ۔لیکن ہمارے مقدس نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا،جو حیوانوں سے بد تر تھے بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہیں کرتے تھے یتیموں کا مال کھاتے۔ مردوں کا مال کھاتے۔ بعض ستارہ پرست ،بعض دہریہ، بعض عناصر پرست تھے ۔جزیرہ عرب کیا تھا۔ ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا ۔
قرآن مجید کامل ہدایت ہے
اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن کریم ہر ایک قسم کی تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے۔ ہر ایک غلط عقیدہ یا بری تعلیم جو دنیا میں ممکن ہے ،اس کے استیصال کے لئے کافی تعلیم اس میں موجود ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عمیق حکمت و تصرف ہے۔
چونکہ کامل کتاب نے آکر کامل اصلاح کرنی تھی ۔ضرور تھا کہ اس کے نزوک کے وقت اس کے جائے نزول میں بیماری بھی کامل طور پر ہو۔ تا کہ ہر بیماری کا کامل علاج مہیا کیا جاوے۔ جو اس وقت یا اس کے بعد آئندہ نسلوں کو لاحق ہونے والی تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ قرآن شریف نے کل شریعت کی تکمیل کی۔ دوسری کتابوں کے نزول کے وقت نہ یہ ضرورت تھی نہ ان میں ایسی کامل تعلیم ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عظیم الشان معجزہ
ہمارے نبی اکمل ؐ کی برکات جس قدر ظہور میں آئیں ۔اگر تمام خوارق کو الگ کر دیا جائے، تو صرف آپ کی اصلاح ہی ایک عظیم الشان معجزہ ہے ۔اگر کوئی اس حالت پہ غور کرے، جب آپ آئے۔ پھر اس حالت کو دیکھے جو آپ چھوڑ گئے۔تو اس کو ماننا پڑے گا کہ یہ اثر بزات خود ایک اعجاز تھا ؛اگرچہ کل انبیا عزت کے قابل ہیں لیکن ذالک فض اللہ یوتیہ من یشاء( الجمعہ:۵)
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف نہ لاتے ،تو نبوت تو درکنار خدائی کا ثبوت بھی اس طرح نہ ملتا۔ آپ ہی کی تعلیم سے قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یا لد ولم یولد ولم یکن اللہ کفواً احد (الاخلاص)کا پتہ لگا ۔اگر تورایت میں کوئی ایسی تعلیم ہوتی اور قرآن شریف اس کی تصریح ہی کرتا تو نصاری کا وجود ہی کیوں ہوتا ۔
قرآن پاک میں سب سچائیاں ہیں
غرض قرآن شریف نے جس قدر تقویٰ کی راہیں بتلائیں اورہر طرح کے انسانوں اور مختلف عقل والوں کی پرورش کرنے کے طریق سکھلائے ایک جاہل، عالم اور فلسفی کے راستے ہر طبقہ کے سوالات کے جواب۔ غرضیکہ کوئی فرقہ نہ چھوڑا، جس کی اصلاح کے طریق نہ بتائے۔ یہ ایک صحیفہ قدرت تھا۔ جیسے کہ فرمایا فیھا کتب قیمۃ(البینۃ:۴)یہ وہ صحیفے ہیں جن میں کل سچائیاں ہیں۔یہ کیسی مبارک کتاب ہے کہ اس میں سب سامان اعلیٰ درجہ تک پہنچنے کے موجود ہیں۔
مسیح ومہدی
لیکن افسوس ہے کہ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ ایک درمیانی زمانہ آوے گا جو فیج عوان ہے۔یعنی حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک میرا زمانہ برکت والا ہے۔ ایک آنے والے مسیح ومہدی کا، مسیح ومہدی کوئی دو الگ ا شخاص نہیں ان سے مراد ایک ہی ہے۔ مہدی ہدایت یافتہ سے مراد ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسیح مہدی نہیں ۔مہدی مسیح ہو یا نہ ہو، لیکن مسیح کے مہدی ہونے سے انکار کرنا مسلمان کا کام نہیں۔ اصل میں اللہ تعالی نے یہ دو الفاظ سب وشتم کے مقابل بطور ذب کے رکھے ہیں کہ وہ کافر ،ضال، مضل نہیں ،بلکہ مہدی ہے۔ چونکہ اس کے علم میں تھا کہ آنے والا مسیح و مہدی کو دجال و گمراہ کہا جائے گا ،اس لئے اسے مسیح مہدی کہا گیا۔ دجال کا تعلق اخلد الی الارض(الاعراف:۱۷۷)سے تھا اور مسیح کا رفع آسمانی ہونا تھا ۔سو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہونی تھی۔ ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح ومہدی کا زمانہ ،یعنی ایک زمانے میں قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی۔ لیکن اس تعلیم پر فیج اعوان کے زمانے نے پردہ ڈال دیا۔ جس پردہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانے میں مقدر تھا۔ جیسے کہ فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک تو موجود جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں لما یلحقو بھم(الجمعہ:۴)آیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالٰ نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالیٰ اس دین کو ضائع نہیں کرے گا۔ بلکہ آنے والے زمانے مین خدا تعالیٰ حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا ۔آثار میں ہے۔ کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہو گی ۔کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہو گا اور صرف قرآن سے استنباط کرکے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرے گا۔ جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہو گئی ہوں گی۔
سلسلہ موسویہ ومحمدیہ میں مماثلت
قرآن شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکو مثیل موسیٰ قرار دے کر فرمایا:انا ارسلنا الیکم رسولا شاھداً علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولاً(المزمل:۱۶)یعنی ہم نے ایک رسول بھیجا ۔جیسے موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ ہمارا رسول مثیل موسیٰ ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: وعد اللہ الذین آمنو منکم وعملو الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (النور:۵۶) کہ اس مثیل موسی کے خلفاء بھی اسی سلسلہ کے ہوں گے۔ جیسے کہ موسی کے خلفاء سلسلہ وار آئے۔ اسی سلسلہ کی معیاد چودہ برس تک رہی۔ برابر خلفاء آتے رہے ۔ یہ ایک اللہ تعالی کی طرف سے پیش گوئی تھی کہ جس طرح سے پہلے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ ویسے ہی اس سلسلہ کا آغاز ہو گا۔ یعنی جس طرح موسی نے ابتدا میں جلالی نشان دکھلائے اور قوم کو فرعون سے چھڑایا ۔اس طرح آنے والا نبی بھی موسیٰ کی طرح ہو گا۔ فکیف تتقون ان کفرتم یوم یجعل الولدان شیبا السماء منفطر بہ کان وعدہ مفعولا (المزمل:۱۸،۱۹) یعنی جس طرح ہم نے موسی کو بھیجا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے وقت کفار عرب بھی فرعونیت سے بھرے ہوئے تھے ،وہ بھی فرعون کی طرح باز نہ آئے۔ جب تک انہوں نے جلالی نشان نہ دیکھ لیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کام موسی کے کاموں سے تھے ۔اس موسی کے کام قابل پذیرائی نہ تھے، لیکن قرآن شریف نے منوایا۔ حضرت موسی کے زمانے میں گو فرعون کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو نجا ت ملی ،لیکن گناہوں سے نجات نہ ملی، وہ لڑے اور کج دل ہوئے اور موسی پر حملہ آور ہوئے، لیکن ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے پوری پوری نجات قوم کو نجات دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر طاقت ،شوکت، سلطنت اسلام کو نہ دیتے، تو مسلمان مظلوم رہتے اور کفار کے ہاتھ سے نجات نہ پاتے ۔اللہ تعالی نے ایک تو یہ نجات دی کہ مستقل اسلامی سلطنت قائم ہو گئی۔ دوسرے یہ کہ گناہوں سے ان کو کامل نجات ملی ۔خدا تعالی نے ہر دو نقشے کھینچے ہیں کہ عرب پہلے کیا تھے اور پھر کیا ہو گئے ۔اگر ہر دو نقشے اکٹھے کیے جائیں ،تو ان کی پہلی حالت کا ندازہ ہو جائے گا۔ سو اللہ تعالی نے ان کو دونوں نجاتیں دیں۔ شیطان سے بھی نجات دی اور طاغوت سے بھی ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا مقام
جو صدق و وفا آپ نے اور آپ کے صحابہ ؓ کرام نے دکھلایا اس کی نظیرکہیں نہیں ملتی ۔جان دینے تک سے دریغ نہ کیا۔ حضرت عیسی کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا اور نہ ہی کوئی منکر الہی تھا۔ برادری کے چند لوگوں کو سمجھانا کونسا بڑا کام ہے۔ یہودیت تورایت تو پڑھے ہوئے تھے ۔اس پر ایمان رکھتے تھے۔ خدا کو وحدہ شریک جانتے تھے ۔بعض وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ حضرت مسیح کیا کرنے آئے تھے۔ یہودیوں میں تو اب بھی تورایت کے لئے بڑی غیرت پائی جاتی ہے۔ نہ کار یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید اخلاقی نقص یہود میں تھے۔ لیکن تعلیم تو تورایت میں موجود ہی تھی۔ باوجود اس سہولت کے کہ قوم اس کتاب کو مانتی تھی۔ حضرت مسیح نے وہ کتاب سبقاً سبقاً وہ کتاب استاد سے پڑھی تھی۔ اس کے مقابل ہمارے سید ومولی ہادی کامل امی تھے ۔آپ کا کوئی استاد نہ تھا اور یہ ایک واقعہ ہے کہ مخالف بھی اس مر سے انکار کر سکے۔ پس حضرت عیسی کے لئے دو آسا نیاں تھیں۔ ایک تو برادری کے لوگ تھے اور جو بھاری بات ان سے منوانی تھی ،وہ پہلے ہی مان چکے تھے۔ ہاں کچھ اخلاقی نقص تھے، لیکن باوجود اتنی سہولت کے حواری بھی درست نہ ہوئے۔ لالچی رہے۔ حضرت عیسی اپنے پاس روپیہ رکھتے تھے۔ بعض حواری چوری بھی کرتے تھے؛ چنانچہ وہ (حضرت مسیح ) کہتے ہیں۔ کہ مجھے سر رکھنے کی اجازت نہیں۔ لیکن ہم حیران ہیں کہ ایسا کہنے کے کیا معنی ہیں۔ جب گھر بھی ہو۔ مکان بھی ہو۔ اور مال میں گنجائش اس قدر کہ چوری کی جاوے ۔تو پتہ بھی نہ لگے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ دکھانا یہ منظور ہے کہ باوجود ان تمام سہولتوں کے کوئی اصلاح نہ ہو سکی۔ پطرس کو بہشت کی کنجیاں تو مل جاویں، لیکن وہ اپنے استاد کو *** دینے سے نہ روک سکے۔
اب اس کے مقابلہ میں انصا فاً دیکھا جاوے کہ ہمارے ہادی اکمل کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جان نثار ریاں کیں ۔جلا وطن ہوئے، ظلم اٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے ،جانیں دیں۔ لیکن صدق ووفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا ۔وہ سچی الہی محبت جوش تھا۔ جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی ،اس لئے خوا ہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے ۔آپ کی تعلیم تزکیہ نفس اپنے پیرووں کو دنیا سے متنفر کر ادینا۔ شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہادینا ۔اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔ یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے صحابہ کا ہے اور ان میں جو باہمی الفت ومحبت تھی ۔اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان فرماہے :الف بین قلوبھم لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم(الانفال:۶۴)یعنی جو تالیف ان میںہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی،خوا ہ سونے کا پہاڑبھی دیا جاتا۔ا ب ایک اور جماعت مسیح موعودؑکی ہے جس نے اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔صحا بہ کی تو وہ پاک جماعت تھی۔جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑاہے۔کیا آ پ لوگ ایسے ہیں،جب خداکہتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے ساتھ وہ لوگ ہوںگے،جو صحابہ کے دوش بدوش ہوں گے۔صحابہ تو وہ تھے جنھوں نے اپنا مال،اپناوطن راہ حق میں دیدیااور سب کچھ چھوڑ دیا۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا۔ ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا،تو گھر کا کل اثاثہ لے آئے۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے دریافت کیا کہ گھر میںکیا چھوڑآئے،توفرمایا کہ خدااور رسول کو گھر چھوڑ آیاہوں۔رئیس مکہ ہوااور کمبل پوش،غرباء کا لباس پہنے۔یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہیدہو گئے۔ ان کے لیے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں(تلواروںکے نیچے بہشت ہے،لیکن ہمارے لیے تو اتنی سختی نہیں،کیونکہ یضع الحرب ہمارے لیے آیا ہے،یعنی مہدی کے وقت لڑا ئی نہیں ہو گی۔
جہاد کی حقیقت
اللہ تعالی بعض مصائح کے رو سے ایک فعل کرتا ہے اور آئندہ جب وہ فعل معرض اعتراض ٹھہرتا ہے،تو پھر وہ فعل نہیں کرتا۔اولاًہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی تلوار نہ اٹھائی مگر ان کوسخت سے تکالیف برداشت کرنی پڑیں ۔تیرہ سال کا عرصہ ایک بچہ کو بالغ کرنے کے لئے کافی ہے اورحضرت مسیح کی معیاد تو اگر اس معیاد میںسے دس نکال دیں تو پھر بھی کافی ہوتی ہے ۔غرض اس لمبے عرصہ میں کوئی یا کسی رنگ کی تکلیف نہ تھی جو اٹھانی نہ پڑی ہو ،آخر کار وطن سے نکلے تو تعاقب ہوا ۔دوسری جگہ پناہ لی تو دشمن نے وہاں بھی نہ چھوڑا۔ جب یہ حالت ہوئی تو مظلوموں کا ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لئے حکم ہوا ۔اذن للذین یقاتلون با نھم ظلمو وان اللہ علی نصر ھم لقدیر۔الذین اخرجوامن دیارھم بغیر حق الا ان یقولواربنا اللہ(الحج۴۰۔۴۱) کہ جن لوگوںکے ساتھ لڑائیاں خواہ مخواہ کی گئیں اور گھروں سے نا حق نکالے گئے،صرف اس لیے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارارب اللہ ہے۔سو یہ ضرورت تھی کہ تلوار اٹھائی گئی۔والاحضرت کبھی تلوار نہ اٹھاتے۔ہاں ہمارے زمانہ میں ہمارے برخلاف قلم اٹھائی گئی ہے،قلم سے ہم کو اذیت دی گئی اور سخت ستایا گیا، اس لیے اس کے مقابل پر قلم ہی ہمارا حربہ ہے۔
جماعت کے لیے نصیحت
میںباربار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مواخذاکے قابل ہے اہلیت زیادہ مواخذہ کے لائق تھے۔وہ لوگ جو دورہیں،وہ قابل مواخذہ نہیں ،لیکن تم میں ضرور ہو۔ان پر کوئی ا یمانی زیادتی نہیں،تو تم میں اوران میں کیا فرق ہوا۔تم ہزاروںکے زیر نظر ہو۔و ہ لوگ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات وسکنات کو دیکھ رہے ہیں۔وہ سچے ہیں۔جب مسیحؑ کے ساتھی صحابہ کے ہمدوش ہونے لگے ہیں،تو کیا آپ و یسے ہیں؟جب آپ لوگ ویسے نہیں،تو قابل گرفت ہیں۔گویہ ابتدائی حالت ہے،لیکن موت کا کیا اعتبار ہے،موت ایک ایسا ناگزیرامرہے جو شخص کو پیش آتا ہے جب یہ حالت ہے،توپھر آپ کیوں،غافل ہیں۔جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا،تو یہ امر دوسرا ہے،لیکن جب میرے پاس آئے۔میرادعوی قبول کیا اور مجھے مسیح مانا،تو گویا من وجہ آپ نے صحابہ کرام کے ہمدوش ہونے کا دعوی کر دیا۔تو کیا صحابہ نے کبھی صدق ووفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا۔ان میں کوئی کسل تھا۔کیا وہ دل آزاد تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟کیاوہ منکسر المزاج نہ تھے،بلکہ ان میں پر لے درجہ کا انکسار تھا۔سو دعا کرو کہ اللہ تعالی تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے،کیونکہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالی اس کی مدد نہ کرے اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پائو،تو گھبرائو نہیںاھدناالصر اط المستقیم کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالی تم کو اپنی راہ دکھلائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاتربیت پائی۔وہ پہلے کیا تھے۔ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے۔پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آبپاشی کی۔آپ نے ان کے لیے دعائیںکیں۔بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا جسطرح حضور علیہ اسلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔وہ دن کا یارات انتظار نہ کرتے تھے۔تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو،تہجدمیں اٹھو،دعا کرو،دل کو درست کرو۔کمزوریوں کوچھوڑ دو اور خداخدا تعالی کی رضا کے مطابق اپنے قول فعل کوبنائو ۔یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو وروبنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائیگا۔اللہ تعالی اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔خدا تعالی سے ناامیدمت ہو۔ ع
برکرمیاںکا رہا دشوار نیست
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بننا ہے؟افسوس انھوں نے کچھ قدرنہ کی بیشک انسان نے (خدا کا)ولی بننا ہے۔اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا،تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہو گی۔اس کی طرف حرکت خواہ آہستہ ہو گی،لیکن اس کے مقابل خدا تعالی کی حرکت بہت جلد ہو گی،چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ والذین جاھدوافینا لنھدینھم (العنکبوت:۷۰)سوجوجو باتیں میںنے آج وصیت کی ہیں،ان کو یادرکھو کہ ان ہی پر مدارنجات ہے۔تمہارے معاملات خدا اور خلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں۔جن میں رضا الہی مطلق ہی ہو۔پس اس سے تم نے واخروین منھم لما یلحقوا بہم(الجمعہ:۴) کے مصداق بننا ہے۔
اسرائیلی اور اسمٰعیلی سلسلوں میں مسیح کی بعثت
ہاں جیسے کے آگے بیان ہو چکا ہے۔ خدا کی حکمت بالغہ نے یہی پسند کیا کہ اسرائیلی اور اسمعیلی دو حصے دنیا میں قائم کرے۔ پہلا سلسلہ حضرت موسیٰ سے شروع ہو کر حضرت مسیح تک ختم ہوا اور یہ چودہ سو برس تک رہا اسی طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے لے کر آج چودہ سو برس پہ ایک مسیح کے آنے کا اشارہ ہے ۔عد دچودہ کو ایک خاص نسبت یہ بھی ہے کہ انسان چودہ برس پہ بلوغ پا لیتا ہے ۔حضرت موسیٰ کو خبر ملی تھی کہ مسیح اس وقت آئے گا۔ جب یہودیوں میں بہت فرقے ہوں گے۔ ان کے عقائد میں سخت اختلاف ہو گا ۔بعض کو فرشتوں کے وجود سے انکار۔ بعض کو قیامت و حشر اجساد سے انکار۔ غرض جب طرح طرح کے عملی بد اعتقادی پھیل جائے گی۔ تب بطور حکم کے مسیح ان میں آوے گا۔ اس طرح ہمارے ہادی کامل آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم کو اطلاع دی کہ جب تم میں بھی یہودیوں کی طرح کثرت سے فرقے ہو جاویں گے اور ان کی طرح مختلف قسم کی بد اعتقادیاں اور بد عملیاں شروع ہوں گی۔ علماء یہود کی طرح بعض بعض کے مکفر ہوں گے۔ اس وقت اس امت مرحومہ کا مسیح بطور حکم کے آئے گا۔ جو قرآن شریف سے ہر امر کا فیصلہ کرے گا۔ وہ مسیح کی طرح قوم کے ہاتھ سے ستایا جائے گا اور کافر قرار دیا جائے گا ۔اگر ان لوگوں نے کم سمجھی سے اس شخص کو دجال اور کافر کہا، تو ضرور تھا کہ ایسا ہوتا۔کیونکہ حدیث میں آچکا تھا کہ ٓانے والا مسیح کافر اور دجال ٹھہرایا جائے گا۔ لیکن جو عقیدہ آپ کو سکھا یا جاتا ہے وہ بالکل صاف اور اجلا ہے اور محتاج دلائل بھی نہیں۔ برہان قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے۔
وفات مسیح
پہلا جھگڑا وفات مسیح کا ہی ہے ۔کھلی کھلی آیات اس کی حمایت میں ہے ۔یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی(آل عمران:۵۶)پھر فلما توفیتنیکنت انت الرقیب علیھم (المائدہ:۱۱۸)یہ عذر بالکل جھوٹا ہے کہ توفی کے معنی کچھ اور ہیں ۔ابن عباسیؓ اور خود کامل ہادی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے معنی اماتت کے کر دئے ہیں ۔یہ لوگ بھی جہاں کہیں لفظ توفی استعمال کرتے ہیں ۔تو معنی اماتت اور قبض روح کے مراد لیتے ہیں ۔قرآن شریف نے بھی ہر ایک جگہ اس لفظ کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔ اس لئے اس پر تو ہاتھ کہیں نہ پڑا اور جب مسیح ناصری کی وفات ثابت ہے تو ضرور ہے کہ آنے والا اسی امت میں سے ہو۔ جیسے کہ اماموکم منکم(الحدیث ) اس کی تصریح کرتا ہے۔ وہ لوگ جو نیچری ہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس ابتلا ء سے بچ گئے، کیو نکہ وفات مسیح کے تو وہ قائل ہی ہیں، اور مسیح موعود کا ذکر اس قدر تواتر رکھتا ہے کہ جس تواتر سے انکار محال ہے۔ علاوہ ازیں قرآنی اشار ات بھی آنے والے کے شاہد ہیں، اس لئے ایک عقلمند اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسیح آئے گا۔
مسیح کو اس زمانے سے کیا خصوصیت ہیـ؟
ہاں بعض کا حق ہے کہ یہ اعتراض کریں کے مسیح کو اس زمانے سے کیا خصوصیت حاصل ہے ؟ اس کا یہ جواب ہے کہ قرآن شریف نے اسراعیلی اور اسمعیلی دو سلسلوں میں خلافت کی مماثلت کا کھلا کھلا اشارہ کیا ہے۔ جیسے اس آیت سے ظاہر ہے۔ وعد اللہ الذین امنو منکم وعملو االصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (النور۵۶)اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودھویں صدی پر بعدحضرت موسی آیا ،وہ مسیح ناصری تھا۔ مقابل میں ضرورتھا کہ اس امت کا مسیح بھی چودھویںصدی کہ سرپہ آوے۔علاوہ ازیں اہل کشف نے اسی سدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اہلحدیث کا اتفاق ہو چکا ہے کہ علامت صغریٰ اور علامت کبریٰ ایک حد تک پوری ہو چکی ہے ،لیکن اس میں کس قدر ان کی غلطی ہے… علامات کل پوری ہو چکی ہیں۔ بڑی علامت یا نشان جو آنے والے کا ہے وہ بخاری شریف میں یکسر الصلیب ویقتل الخنزیر لکھا ہے ۔یعنی نزول مسیح کا وقت غلبہ نصاریٰ اور صلیبی پر ستش کا زور ہے۔ سو کیا یہ وہ وقت نہیں ؟کیا جو کچھ پادریوں سے نقصان اسلام کو پہنچ چکا ہے، اس کی نظیر آدم سے لے کر آج تک کہیں ہے؟ہر ملک میں تفرقہ پڑ گیا۔ کوئی ایسا خاندان ایسا اسلامی نہیں کہ جس میں سے ایک آدھ آدمی ان کے ہاتھ میں نہ چلا گیا ۔ہر سو آنے والے کا وقت صلیب پرستی کاغلبہ ہے۔ اب اس سے زیادہ اور کیا غلبہ ہو گا کہ کس طرح درندوں کی طرح اسلام پر کینہ پروری سے حملے کیے گیے ہیں۔ کیا کوئی گروہ مخالفین کا ہے کہ جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نہایت وحشیانہ الفاظ اور گالیوںسے یاد نہیں کیا؟اب اگر آنے والے کا وقت یہ نہیں تو بہت جلدی وہ آیا بھی تو سو سال تک آئے گا ،کیونکہ وہ مجدد کا ہے۔ جس کی بعثت کا زمانہ صدی کا سر ہوتا ہے ۔تو کیا اسلام میں موجود وقت میں اس قدر اور طاقت ہے کہ ایک سدی تک پادریون کے روز افزوں کا مقابلہ کر سکے۔ غلبہ حد تک پہنچ گیا اور آنے والا آگیا۔ ہاں اب وہ دجال کو اتمام حجت سے ہلاک کرے گا ۔کیونکہ حدیثوں میں آچکا ہے کہ اس کے ہاتھ پر ملتوں کی ہلاکت مقدر ہے نہ لوگوں کی یا اہل ملل کی تو ویسا ہی پورا ہوا ۔
مسیح موعود کی تائید میں آفاقی نشانات
آنے والے کاایک نشان یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں ماہ رمضان میں کسوف خسوف ہوگا۔اللہ تعالی کے نشان سے ٹھٹھا کرنے والے خدا سے ٹھٹھا کرتے ہیں ۔کسو ف وخسوف کا اس کے دعوی کے بعد ہونا یہ ایک ایساا مر تھا۔ جو افترا اور بناوٹ سے بعید تر ہے۔ اس سے پہلے کوئی کسوف خسوف ایسا نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا کہ جس سے اللہ تعالیٰ کو کل دنیا میں آنے والے کی منادی کرنی تھی ؛چنانچہ اہل عرب نے بھی اس نشان کو دیکھ کر اپنے مزاق کے مطابق درست کہا ۔ہمارے اشتہارات بطور منادی جہاں جہاں نہ پہنچ سکتے تھے ۔وہاں وہاں اس کسوف خسوف نے آنے والے کے وقت کی منادی کردی۔ یہ خدا کا نشان تھا جو انسانی منصوبوں سے بالکل صاف تھا ۔خواہ کوئی کیسا ہی فلسفی ہو وہ غور کرے اور سوچے کہ جب مقرر کردہ نشان پورا ہو گیا، تو ضرور ہے کہ اس کا مصداق بھی کہیں ہو ۔یہ امر ایسا نہ تھا کہ جو کسی حساب کے ماتحت ہو۔ جیسے کہ فرمایا تھا یہ اس وقت ہو گا جب کوئی مدعی مہدویت ہو چکے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آدم سے لے کر اس مہدی تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔اگر کوئی شخص تاریخ سے ایسا ثابت کرے۔ تو ہم مان لیں گے۔
ایک اور نشان یہ بھی تھا کہ اس وقت ستارہ ذوالسنین طلوع کرے گا۔یعنی ان برسوں کا ستارہ جو پہلے گزر چکے ہیں ۔یعنی وہ ستارہ جو مسیح ناصری کے ایام میںطلوع ہوا تھا۔ اب وہ ستارہ بھی طلوع ہو گیا جس نے یہودیوں کے مسیح کی اطلاع آسمانی طور سے دی تھی۔ اسی طرح قرآن شریف کے دیکھنے سے بھی پتہ لگتاہے۔واذا العشار عطلت واذاالوحوش حشرت واذا البحار سجرت واذاالنفوس زوجت واذا الموء ودۃسئلت بای ذنب قتلت واذاالصحف نشرت(التکویر:۵تا ۱۱)
یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی ۔اعلی درجہ کی سواری اور بار برداری جن سے ایام سابقہ میں ہوا کرتیں تھیں۔ یعنی اس زمانے میں سواری کا انتظام کچھ ایسا عمدہ ہو گا کہ یہ سوریاں بے کار ہو جایں گی۔ اس سے ریل کا زمانہ مراد تھا۔ وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ان آیات کا تعلق قیامت سے ہے ۔وہ نہیں سوچتے کہ قیامت میں اونٹنیاں حمل دار کیسے کر سکتیں ہیں، کیوں کہ عشار سے مراد حمل اونٹنیاں ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ اس زمانہ میں چاروں طرف نہریں نکالی جائیں گی اور کتابیں کثرت سے اشاعت پائیں گی ۔غرضیکہ یہ سب نشان اسی زمانہ کے متعلق تھے۔
مسیح موعود کی جائے ظہور
اب رہا مکان کے متعلق ۔سو یاد رہے کہ دجال کا خروج مشرق میں بتایا گیا ہے۔ جس سے ہمارا ملک مراد ہے؛ چنانچہ صاحب جج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان میں ہو رہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ظہور مسیح اسی جگہ ہو گا، جہاں دجال ہو پھر اس گاوںکا نام قدعہ قرار دیا ہے ۔جو قادیان کا مخفف ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یمن کے علاقہ میں بھی اس نام کا کوئی گاؤں ہو۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یمن حجاز سے مشرق میں نہیں بلکہ جنوب میں ہے۔ آخر اسی پنجاب میں ایک اور قادیان بھی لدھیانہ کے قریب ہے ۔
اس کے علاوہ خود قضا ء قدرنے اس عاجز کا نام رکھوایا ہے تو وہ بھی ایک لطیف اشارہ اس طرف رکھتا ہے۔ کیونکہ غلام احمد قادیانی کے عددبحساب جمل پورے تیرہ سو نکلتے ہیں۔ یعنی اس نام کا امام چودھویں صدی کے آغاز پہ ہو گا۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اشارہ اسی طرف تھا۔
حوادث ارضی وسماوی
حوادث بھی ایک علامت تھی ۔حوادث سماوی نے قحط، طاعون اور ہیضہ کی صورت پکڑ لی۔طاعون وہ خطر ناک عذاب ہے کہ اس نے گورنمنٹ تک کو زلزلہ میں ڈال دیا اور اگر اس کا قدم بڑھ گیا، تو ملک صاف ہو جائے گا۔ ارضی حوادث لڑائیاں، زلزال تھے جنھوں نے ملک کو تباہ کیا۔ مامور من اللہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ثبوت میں آسمانی نشان دکھاوے ۔ ایک لیکھرام کا نشان کیا کچھ کم نشان تھا۔ ایک کشتی کے طور پر کئی سال تک ایک شرط بدھی رہی۔ پانچ سال تک برابر جنگ ہوتا رہا۔ طرفین نے اشتہرات دئے۔ عام شہرت ہو گئی۔ ایسی شہرت کہ جس کی مثال بھی محال ہے ۔پھر ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے کے کہا گیا تھا۔ کیا اس واقعہ کی کوئی اور نظیر ہے ؟دھرم مہو تسو کے متعلق بھی کئی دن پہلے اعلان کیا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ ہمارا مضمون سب پر غالب رہے گا۔ جن لوگوں نے اس عظیم الشان اور پر رعب جلسہ کو دیکھا ہے ۔وہ خود غور کر سکتے ہیں کہ ایسا جلسہ میںغلبہ پانے کی پیش از وقت دینی کائی اٹل یا قیاس نہ تھا ۔پھر آخر وہی ہوا جیسے کہا گیا و اخر دعونا الحمد للہ رب العلمین ۔



۲۷دسمبر۱۸۹۷؁ء بعد نماز ظہر
حضرت اقدس کی دوسری تقریر
ہر ایک شخص سفر آخرت کی تیاری رکھے
حضور نے فرمایا:۔
اس وقت میری غرض بیان کرنے سے یہ ہے کہ چونکہ انسانی زندگی کا کوئی بھی اعتبار نہیں، اس لیے جس قدر احباب اس وقت میرے پاس جمع ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں، کہ شائد آئیندہ سال جمع نہ ہو سکیں اور ان دنو ں میں میں نے ایک کشف دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے۔ گو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کشف کے مصداق کون کون احباب ہوں گے۔
اور میں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہے تا ہر ایک شخص بجائے خود سفر آخرت کی تیاری رکھے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے کہ مجھے کسی کا نام نہیں بتلایا گیا، لیکن میں یہ اللہ تعالیٰ کے علام سے خوب جانتا ہوں کہ قضا وقدر کا ایک وقت ہے اور ضرور ایک وقت اس فانی دنیا کو چھوڑنا ہے، اس لئے یہ کہنا نہایت ضروری ہے کہ ہر شخص ہر دوست جو اس وقت موجود ہے ،وہ میری باتوں کو قصہ گو کی داستانوں کی طرح نہ سمجھیں، بلکہ یہ ایک وعظ من جانب اللہ اور مامور من اللہ ہے۔ جو نہایت خیر خواہی اور سچی بھلائی اور پوری دل سوزی سے باتیں کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے وجود پرایمان
پس میں اپنے دوستوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ خوب یاد رکھو اور دل سے سنو اور دل میں جگہ دو کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اپنے وجود اور توحید کو پر زور اور آسان دلائل سے ثابت کیا ہے۔ ایک بر تر ہستی اور نور ہے۔ وہ لوگ جو اس زبر دست ہستی کی قدرتوں اور عجائبات کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے وجود میں شکوک ظاہر کرتے ہیں اور شبہ کرتے ہیں ۔سچ جانو بڑے ہی بد قسمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی زبر دست ہستی اور مقتدر وجود کے اثبات کے متعلق ہی فرمایا۔ افی اللہ شک فاطر السموت والارض(ابراہیم:۱۱)کیا اللہ کے وجود میں بھی شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے ؟دیکھو یہ تو بڑی سیدھی اور صاف بات ہے کہ ایک مصنوع کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے۔ ایک عمدہ جوتے یا صندوق کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کی ضرورت کا معاً اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پھر تعجب پہ تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کیونکر انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ ایسے صانع کے وجود کاکیو نکر انکار ہو سکتا ہے۔جس کے ہزار عجائبات سے زمین وآسمان پُر ہیں ۔پس یقیناً سمجھ لو کہ قدرت کے ان عجایبات اور صنعتوں کو دیکھ بھی جن میں انسانی ہاتھ عقل و دماغ کا کام نہیں۔ اگر کوئی بے وقوف خدا کی ہستی اور وجود میں شک لائے ۔تو وہ بد قسمت انسان شیطان کے پنجے میں گرفتار ہے اور اس کو استغفار کرنا چاہیے ۔خدا کی ہستی کا انکار دلیل اور رویت کی بنا پر نہیں، بلکہ اللہ جل شانہ کی ہستی کا انکار کرنا باوجود مشاہدہ کرنے کے اس کی قدرتوں اور عجائبات مخلوقات اور مسنوعات کے جو زمین و آسمان میں بھرے پڑے ہیں۔ بڑی ہی نابینائی ہے۔
نابینائی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک آنکھوں کی بینائی ہے اور دوسری دل کی، آنکھوں کی بینائی کا اثر ایمان پر کچھ نہیں ہوتا، مگر دل کی بینائی کا اثر دل پر پڑتا ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے پورے تذلل اور انکسار کے ساتھ ہر وقت دعا مانگتا رہے کہ وہ اسے سچی معرفت اور حقیقی بصیرت اور بینائی عطا کرے اور شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے۔
آخرت پر ایمان
شیطان ک وساوس بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطر ناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا ہو کر است خسر الدنیا ولاخرۃ کر دیتا ہے ۔آخرت کے متعلق ہے، کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستاں سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رد ہو گیا اور دونوں جہانوں سے گز را ہوا۔اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر سچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے ور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے۔
ابرار کا طریق زندگی
جس قدر ابرار خیار ،اور راستباز انسان دنیا میں ہو گزرے ہیں جو رات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ میں ہی صبح کر دیتے ہیں ۔کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے ۔اور برے برے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟نہیں ۔یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام ہر گز نہیں ہو سکتے ،جو روحانی قوت اور طاقت کر سکتی ہے۔ بہت سے انسان آپ نے دیکھے ہوں گے جو تین یا چار بار دن میں کھاتے ہیں اورخوب لذیذ اور مقوی اغذیہ پلاو وغیرہ کھاتے ہیں ،مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ صبح تک خراٹے مارتے رہتے ہیں اور نیند ان پر غالب رہتی ہے۔ یہاں تک کہ نیند اور سستی سے بالکل مغلوب ہو جاتے ہیں کہ ان کو عشاء کی نماز بھی دو بھر اور مشکل عظیم معلوم دیتی ہے؛ چہ جائیکہ وہ تہجد گزار ہوں۔
دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعم پسند اور خورد ونوش کے دلدادہ تھے۔ جو کفار پر غالب تھے؟نہیں یہ بات تو نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی ان کی نسبت آیا ہے کہ وہ قائم اللیل اور سائم الدبر ہوں گے ۔ ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتیں تھیں اور ان کی زندگی کیسے بسر ہوتی تھی۔ ؟قرآن کریم کی ذیل کی آیت شریفہ ان کے طریق زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے۔ومن رباط الخیل تر ھبون بہ عدو اللہ وعدوکم (انفال:۱۶) اور یا ایھا الذین امنو اصبرو وصابرو ورابطو ا(آل عمران:۲۰۱)اور سرحد پہ گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں ۔اے مومنو! صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو۔
رباط کے معنی
رباط ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ صحابہ کو اعداد کے مقابل کے لئے مستعد رہنے کا حکم دیتا ہے ۔اور اس رباط کے لفظ سے انہیں پوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ان کے سپرد دو کام تھے۔ ایک ظاہری دشمن کا مقابلہ اور دوسرا روحانی مقابلہ اور رباط لگت میں نفس اور نفسانی دل کو بھی کہتے ہیں اور یہ ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام کرتے ہیں۔ جو سدھائے ہوئے اورتعلیم یافتہ ہوں۔ آجکل گھوڑوں کی تعلیم وتربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ان کو سدھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام سے تعلیم دی جاتی ہے ۔اگر ان کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں ،تو وہ بالکل نکمے ہوں اور بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں ۔
یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رباط بھی تعلیم یافتہ ہونے چاہیے اور ان کے قویٰ اور طاقتیں ایسی ہونی چاہییںجو اللہ تعالیٰ کی حدود کے نیچے نیچے چلیں، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہو۔ تو وہ اس حرب اور اجدال کا اکم نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طور پر پر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے ۔جیسا کہ لڑائی اور میدان جنگ میں علاوہ توائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس طرح اس اندرونی حرب اور جہاد کے لئے نفوس انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم مطلوب ہے ۔اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شیطان اس پر غالب آجائے گا اور وہ بہت بری طرح ذلیل اوررسواہوگا۔مثلاً اگر ایک شخص توپ تفنگ ،اسلحہ حرب بندوق وغیرہ تو رکھتا ہو، لیکن اس کے استعمال اور چلانے سے ناواقف محض ہو۔ تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کبھی عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا ۔اور تیر وتفنگ اور سامان حرب بھی ایک شخص رکھتا ہو اور ان کا استعمال بھی کرنا جانتا ہو ۔لیکن اس کے بازو میں طاقت نہ ہو تو وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف طریق اور طرز استعمال کا سیکھ لینا بھی کار آمد اور مفید نہیں ہوتا۔ جب تک ورزش اور مشق کر کے بازو میں توانائی اور قوت پیدا نہ کر لی جائے ۔اب اگر ایک شخص جو تلوار چلانا تو جانتا ہے لیکن ورزش اور مشق نہیں رکھتا ،تو میدان حرب میں جا کر یونہی تین چار دفعہ تلوار کو حرکت دے گا اور دو ایک ہاتھ مارے گا۔ اس کے بازو نکمے ہو جائیں گے اور وہ تھک کر بالکل بے کار ہو جائے گا اور خود ہی آخر کار دشمن کو شکار ہو جائے گا۔
مجاہدہ اور ریاضت
پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لوکہ نرا علم وفن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی۔ جب تک کہ عمل اور مجاہدہ اور ریاضت نہ ہو۔ دیکھو سرکار بھی فوجوں کو اسی خیال سے بے کار نہیں رہنے دیتی۔ عین امن وآرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ برپا کر کے فوجوں کو بے کار نہیں بیٹھنے دیتیں اور معمولی طور پر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو ہر روز ہی ہوتی رہتی ہے۔
جیسا میں نے ابھی بیان کیا کہ میدان کا ر زار میں کامیاب ہونے کے لئے جہاں ایک طرف طریق استعمال اسلحہ وغیرہ کی تعلیم اور واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دوسری طرف ورزش اور محل استعمال کی بھی بڑی بھاری ضرورت ہوتی ہے اور نیزحرب ضرب کے لئے تعلیم یافتہ گھوڑے ہونے چاہییں۔یعنی ایسے گھوڑے جو بندوقوں اور توپوں کی آواز سے نہ ڈریں اور گرد وغبار سی پرا گندہ ہو کر پیچھے نہ ہٹیں، بلکہ آگے ہی بڑھیں ۔اسی طرح نفوس انسانی کامل ورزش ا ور پوری ریاضت اورحقیقی تعلیم کے بغیر اعداء اللہ کے مقابل میدان کار زار میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
عربی زبان کی خوبی
لغت عربی بھی عجیب چیز ہے ۔رباط کا لفظ جو آیہ مزکورہ میں آیا ہے جہاں دنیاوی جنگ وجدل اور فنون جنگ کی فلاسفی پر مشتمل ہے۔ وہاں روحانی طور پر اندرونی جنگ اور مجاہدہ نفس کی حقیقت اور خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب سلسلہ ہے ۔ اسی لئے عربی زبان ام السنہ ہے۔ اس سے وہ کام نکلتے ہیں، جو دوسری زبان سے ممکن نہیں اور انشاء اللہ یہ معارف نہایت وضاحت اور لطافت سے کتاب منن الرحمن کے ذریعہ سے ظاہر ہوں گے، جو میں نے آجکل عربی زبان کی فضیلت اور اس کو ام الاسنہ ثابت کرنے کے بارے میں شروع کی ہے ۔معلوم ہو جائے گا کہ یورپین لوگوں کی تحقیقاتیں بالکل نکمی اور ادھوری ہیں ۔ اور ان کو بھی پتہ لگ جائے گا ۔کہ زبانوں کی گمشدہ ماں بھی اس زمانہ ہی میں جہاں اور گمشدہ دینی صداقتیں مل گئی ہیں۔ مل گئی ہے اور وہ عربی ہی ہے۔ الغرض عربی زبان کی لغت جسمانی سلسلہ میں روحانی سلسلہ بھی دکھلائی جاتی ہے ۔اس لئے کہ جسمانی امور اور جسمانی باتیں خارجی طور پر ہمارے مشاہدے میں آتیںہیں اور ہم ان کی ماہیت نہایت سہولت اور آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔پس ان پر قیاس کر کے روحانی سلسلہ اور روحانی امور کی فلاسفی سمجھ میں آنی مشکل نہیں ہوتی اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور برکت ہے جو اس نے اس تاریکی اورضلالت کے زمانہ میں معرفت کا نور آسمان سے اتارا۔ تا کہ بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھلائے اور ایسا طریق اور پیرا یہ ظاہر کرتا ہے جو اب تک راز کے طور پر تھا ۔وہ کیا؟یہی لغت عرب کی فلاسفی اور ماہیت سے استدلال۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کی قدر کرتے اور اس کے لینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔
اسلام کو جنگ کی دو قوتیں دی گئی تھیں
اب دیکھو کہ یہی رباط کا لفظ جو ان گھوڑوں پر بولا جاتا ہے جو سرحد پر دشمنوں سے حفاظت کے لئے باندھے جاتے ہیں ۔ ایسا ہی یہ لفظ ان نفسوں پر بھی بولا جاتا ہے جو اس جنگ کی تیاری کے لئے تعلیم یافتہ ہوں ۔جو انسان کے اندر ہی شیطان سے ہر وقت جاری ہے۔یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ اسلام کو دو قوتیں جنگ کی دی گئیں تھیں۔ ایک قوت وہ تھی جس کا استعمال صدر اول میں بطور مدافعت اور انتقام کے ہوا۔ یعنی مشرکین عرب نے جب ستایا اور تکلیفیں دیں، تو ایک ہزار نے ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کر کے شجاعت کا جوہر دکھایا اور ہر امتحان میں اس پاک قوت و شوکت کاثبوت دیا۔وہ زمانہ گزر گیا اور رباط کے لفظ میں جو فلسفی ظاہری قوت جنگ اور فنون جنگ کی مخفی تھی وہ ظاہر ہو گئی۔
اس زمانہ میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب ہیں
اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ظاہری جنگ کے مطلق ضرورت اور حاجت نہیں۔ بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا۔کیونکہ اس وقت باطنی ارتداد اور الحاد کی اشاعت کے لئے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے ،اس لئے ان کا مقابلہ بھی اسی قسم کے اسلحے سے ضروری ہے۔ کیونکہ آجکل امن وامان کا زمانہ ہے اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے ۔آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ ا ور احکام کی بجا آوری کر سکتا ہے ۔ پھر اسلام جو امن کا سچاحامی ہے،بلکہ حقیقتاً امن اور سلم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے کیونکر اس زمانہ امن وآزادی میں اس پہلے نمونے کو دکھانا پسند کر سکتا تھا ؟پس آجکل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ مطلوب ہے ۔کیونکہ
کہ حلوا چو یکبار خوردند وبس
موجودہ زمانہ میں جہاد
ایک اور بات بھی ہے کہ اس پہلے نمونے کو دکھانے میںایک اور امر بھی ملحوظ تھا۔ یعنی اس وقت اظہار شجاعت بھی مقصود تھا۔
جو اس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ محمود اور محبوب وصف سمجھی جاتی تھی اور اس وقت توحرب ایک فن ہو گیا ہے کہ دور بیٹھے ہوئے بھی ایک آدمی توپ اور بندوق چلا سکتا ہے، مگر ان دونوں میں سچا بہادر وہ تھا جو تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہوتا۔ مگر آجکل کا فن حرب تو بزدلوں کا پردہ پوش ہے ۔اب شجاعت کا کام نہیں، بلکہ جو شخص آلات حرب جدید اور نئی توپیںوغیرہ رکھتا ہے اور چلا سکتا ہے وہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔اس حرب کا مدعا اور مقصد مومنوں کے مخفی مادہ شجاعت کا اظہار تھا اور خدا تعالیٰ نے جیسا چاہا، خوب طرح سے اسے دنیا میں ظاہر کیا۔ اب اس کی حاجت نہیں رہی ،اس لئے کہ ان جنگ نے فن اور مکیدت اور خدیعت کی صورت اختیار کر لی ہے اور نئے نئے آلات حرب اور پیچدار فنون نے اس قیمتی اور قابل فخر جوہر کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ابتدائے اسلام میں دفا عی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کے لئے اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل وبراہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا ،اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا ،لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا، بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف(تلوار)کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلی کر کے مخالفوں کو پست کیا جائے، اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے
گر حفظ مراتب نکنی زندیقی
اس وقت قلم کی ضرورت ہے
اس وقت جو ضرورت ہے ۔وہ یقیناً سمجھ لو۔ سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکاید کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائینسی اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ میں کب اس میدا ن کے قابل ہو سکتا تھا ۔یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو ۔میں نے ایک وقت ان اعتراضات اور حملات کو شمار کیا تھا ۔جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کیے ہیں ،تو ان کی تعداد میرے خیال اور اندازہ میں تین ہزار ہوئی تھی اورمیں سمجھتا ہوں کہ اب تو تعداد اور بھی بڑھ گئی ہو گی۔ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بنا ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین ہزار اعتراض وارد ہو سکتا ہے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ یہ اعتراضات تو کو تاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں، مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں جہاں اعتراضات کو شمار کیا ، وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہہ مین دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں۔ جو عدم بصیرت کی وجہ سے معتر ضین کو دکھا ئی نہیں دیں اور درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے ،وہیں حقائق اور معارف کو مخفی خزانہ رکھا ہے۔
مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض
اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک ا عتراضات کا کیچڑ جو ان درخشاں جوہرات پر تھوپا گیا ہے۔ ان سے ان کو پاک صاف کروں۔ خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ ومقدس کرے۔
الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں ۔کس قدر بے وقو فی ہو گی کہ ہم ان سے اٹھم اٹھا ہونے کو تیار ہو جائیں ۔میں تمہیں کھول کر بتاتا ہوں کہ ایسی صور ت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ وجدل کا طریق جواب میں اختیار کرے۔ تو وہ اسلام کو بد نام کرنے والا ہو گا۔اور اسلام کا کبھی بھی ایسا منشاء نہ تھا کہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اٹھائی جائے۔ اب لڑائیوں کی اغراض جیسا کہ میں نے کہا ہے۔ فن کی شکل میں آکر دینی نہیں رہیں۔ بلکہ دنیوی اغراض ان کا موضوع ہو گیا ہے۔ پس کس قدر ظلم ہو گا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے ۔اب زمانہ کے ساتھ حرب کا پہلو بدل گیا ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں ۔راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں۔یہ خدا تعالیٰ کاایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے اور اگر مسلمان صرف قیل وقال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں۔ تو یہ ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ لاف و گزف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ توحقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند فرماتا ہے۔جیسا کہ فرمایا : ان اللہ مع الذین اتقو اوالذین ھم مھسنون(النحل:۱۲۹)
عقل سے بھی کام لینا چاہیے
ہم کو عقل سے بھی کام لینا چاہیے ،کیونکہ انسان عقل کی وجہ سے مکلف ہے ۔کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کو ماننے پر مجبور نہیں ہو سکتا ۔قوی کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی۔لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا(البقرہ:۲۸۷) اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے اور نہ شرائع واحکام خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کیے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے سے ہی اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ بے ہودہ ضعیف انسان اور کہاں کا ان حکموں پر عمل درآمد ؟خدا تعالیٰ اس سے برتر و پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے ۔ہاں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کوئی آدمی شریعت کی تا بعداری اور خدا کے حکموں کی بجا آوری کر ہی نہیں سکتا۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ پھر خدا کو شریعت کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ ان کے خیال اور اعتقد میں گویا اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ پہلے نبیوں پہ شریعت نازل کر کے عبث اور بے ہودہ کام کیا۔ اصل میں خدا کی ذات پاک پر اس قسم کی عیب تراشی کی ضرورت عیسائیوں کو اسی کفار کے مسئلہ کی گھڑت کے لئے پیش آئی ۔مجھے حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ایک اخترائی مسئلہ کی بنیود قائم کرنے کے لئے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ خدا کی ذات پر کس قسم کا گندہ حرف آتا ہے۔
قرآنی تعلیم کا ہر ایک معلل با اغراض ومصالح ہے
ہاں! یہ خوبی قرآنی تعلیم میں ہے کہ اس کا ہرحکم معلل با اغراض ومصالحہ ہے اور اس لئے بجا قرآن مجید میں تاکید ہے کہ عقل ،فہم، تدبر، فقاہت اور ایمان سے کام لیا جاے اور قرآن مجید اور دوسری کتابون میں یہی مابہ لا امتیاز ہے ۔اور کسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبر کی دقیق اور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرات ہی نہیں کی۔ بلکہ انجیل خاموش کے چالاک اور عیار حامیوں نے اس خیال سے کہ انجیل کی تعلیم زور کے مقابل بے جان محض ہے۔ نہایت ہوشیاری سے اپنے عقائد میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفار ہ ایسے راز ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی ۔بر خلاف اس کے فرقان حمید کی یہ تعلیم ہے۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنہار لایت لا ولی الالباب الذین یذکرون اللہ(آل عمران:۱۹۱،۱۹۲)یعنی آسمان کی بناوٹ اور زمین کی بناوٹ اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنا دانشمندوں کو اس اللہ کا صاف پتہ دیتے ہیں۔ جس کی طرف مذہب اسلام دعوت دیتا ہے ۔اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانشمند اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں۔
اسلام کا خدا
جان لیں کہ اسلام کا خدا ایسا گو رکھ دھندا نہیں کہ اسے عقل پر پتھر مار کر بہ جبر منوایا جائے۔ اور صحیفہ فطرت میں کوئی بھی ثبوت اس کے لئے نہ ہو، بلکہ فطرت کے وسیع اوراق میں اس کے اس قدر نشانات ہیں ،جو صاف بتلاتے ہیں کہ وہ ہے۔ ایک ایک چیز اس کائنات میں اس نشان اور تختہ کی طرح ہے جو ہر سڑک اور گلی کے سر پر اس سڑک یا محلے یا شہر کا نام معلوم کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔ خدا کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اس موجودہ ہستی کا پتہ ہی نہیں بلکہ مطمئن کر دینے والا ثبوت دیتی ہے۔ زمین و آسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اور بناوٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں ۔بلکہ اس خدائے احد الصمد لم یا لد ولم یو لد کی ہستی دکھاتی ہے جو زندہ اور قائم خدا ہے اور جسے اسلام پیش کرتا ہے ؛چنانچہ پادری فنڈر جس نے پہلے پہل ہندوستان میں آکر مذہبی نظاروں میں قدم رکھا اور اسلام پر نکتہ چینیاں کیں، اپنی کتان میزان الحق میں خود ہی سول کے طور پر لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں تثلیث کی تعلیم نہ دی گئی ہو۔ تو کیا وہاں کے رہنے والوں پر آخرت میں مواخذہ تثلیث کے عقیدے کی بنا پر ہو گا ۔پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے توحید کا مواخذہ ہو گا۔ اس سے سمجھ لو کہ اگر توحید کا نقش ہر ایک شے میں نہ پایا جاتا اور تثلیث ایک بناوٹی اورمصنوعی تصویر نہ ہوتی۔ تو عقیدہ توحید کی بناء پر مواخذہ کیوں ہوتا؟
توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے
بات اصل میں یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ہی الست بربکم قالوابلیٰ(الاعراف:۱۷۳)نقش کیا گیا ہے اور تثلیث سے کوئی مناسبت جبلت انسانی اور تمام اشیائے عالم کو نہیں۔ ایک قطرہ پانی کا دیکھو، تو وہ گول نظر آتا ہے۔ مثلث کی شکل میں نظر نہیں آتا۔ اس سے بھی صاف طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے۔ خوب غور سے دیکھو کہ پانی کا ایک قطرہ گول ہوتا ہے اور کروی شکل میں توحید ہی ہوتی ہے، اس لئے کہ وہ جہت کو نہیں چاہتی ہے اورمثلث شکل جہت کو چاہتی ہے؛ چنانچہ آگ کو دیکھو۔ شکل بھی مخروطی ہے اور وہ بھی کرویت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس سے بھی توحید کا نور چمکتا ہے۔ زمین کو لو۔ اور انگریزوں سے ہی پوچھو کہ اس کی شکل کیسی ہے؟ کہیں گے گول ۔الغرض طبعی تحقیقاتیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں توحید ہی توحید نکلتی چلی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ اس آیت ان فی خلق السموت والارض(آل عمران:۱۹۱)میں بتلاتا ہوں کہ جس خداکو قرآن پیش کرتا ہے اس کے لئے زمین آسمان دلائل سے بھرے پڑے ہیں ۔
مجھے ایک حکیم کا مقولہ بہت ہی پسند آتا ہے ۔کہ اگر کل کتابیں دریا برد کر دی جاویں، تو پھر بھی اسلام کا خدا باقی رہ جائے گا۔ اس لئے کہ وہ مثلث اور کہانی نہیں۔ اصل میں پختہ بات وہی ہے ،جس کی صداقت کسی خاص چیز پر منحصر نہ ہو کہ اگر وہ نہ ہو تو اس کا پتہ ہی ندارد۔ قصہ کہانی کا نقش نہ دل پہ ہوتا ہے۔ نہ صحیفہ فطرت میں جب تک کسی پنڈت ،پاندھے یا پادری نے یاد رکھا۔ ان کا کوئی وجود مسلم رہا۔ زاںبعد حرف غلط کی طرح مٹ گیا۔
تعلیم قرآن کی شہادت قانون قدرت کی زبان سے ادا ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :انہ لقرانکریم فی کتاب مکنون لا یمسہ لا المطھرون (الواقعہ:۷۸تا۸۰) بلکہ یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے۔ کیا مطلب کے قراان مجید ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے۔ اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے ۔جس کو صحیفہ فطرت کہتے ہیں۔ یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانون قدرت کی زبان سے ہی ادا ہوتی ہے ۔اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائیں ۔
ضرورت الہام
ہر ایک آدمی چونکہ عقل سے مدارج تعلیم پر نہیں ہے پہنچ سکتا ،اس لئے الہام کی ضرورت پڑتی ہے، جو تاریکی میں عقل کے لئے ایک روشن چراغ ہو کر مدد دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فلاسفر بھی محض عقل پر بھروسہ کر کے حقیقی خدا کو نہ پا سکے ؛ چنانچہ افلاطون جیسافلاسفر بھی مرتے وقت کہنے لگا کہ میں ڈرتا ہوں۔ ایک بت پر ایک مرغا میرے لئے ذبح کرو۔اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی۔ افلاطون کی فلاسفی، اس کی دانائی اور دانشمندی اس کو وہ سچی سکینت اور اطمینان نہیں دے سکے جو مومنوں کو حاصل ہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ الہام کی ضرورت قلبی اطمینان اور دلی استقامت کے لئے اشد ضروری ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے عقل سے کام لو اور یاد رکھو کہ جو عقل سے کام لے گا۔ اسلام کا خدا اسے ضرور ہی نظر آجائے گا۔کیونکہ درختوں کے پتے پتے پر اور آسمان کے اجرام پر اس کا نام برے جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے ،لیکن بالکل ہی عقل کے تابع نہ بن جاؤ، تاکہ الہام الہیٰ کی وقعت کو نہ کھو بیٹھو۔ جس کے بغیر نہ حقیقی تسلی اور نہ اخلاق فاضلہ نصیب ہو سکتے ہیں۔ بر ہمو لوگ بھی شانتی اور سچا نور نجات کا حصہ نہیں کر سکتے ،اس لئے کہ وہ الہام کی ضرورت کے قائل نہیں۔ ایسے لوگ جو عقل کے بندے ہو کر الہام کو فضول قرار دیتے ہیں ۔میں بالکل ٹھیک کہتا ہوں کہ عقل سے بھی کام نہیں لیتے۔ قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولو الالباب فرمایا ہے ۔پھر اس کے آگے فرمایا ہے الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم (آل عمران:۱۹۲)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اولو الالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلہ شانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ عقل ودانش ایسی چیزیں ہیں جو یوں ہی حاصل ہو سکتی ہیں ۔ نہیں ۔
سچی فرست
بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ اس واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فرست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الہیٰ سے دیکھتا ہے ۔صحیح فرست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا۔ کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویی میسر نہ ہو ۔
اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ تو عقل سے کام لو ۔فکر کرو ۔سوچو تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں۔کتاب مکنون اور اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پار سا طبع ہو جاو ۔ٔجب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا سنحانک فقنا عزاب النار(آل عمران:۱۹۲) تمہارے دل سے نکلے گا۔ اس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تاکہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں۔ ظاہر ہوں۔
الہام کی روشنی
خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف عقل ہی کے عطیہ سے مشرف نہیں فرمایابلکہ الہام کی روشنی اور نور بھی اس کے ساتھ مرحمت فرمایا ہے ؛ان کو ان راہوں پر نہیں چلنا چاہیے۔ جن پر خشک منطقی اور فلاسفر چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر لسانی قوت غالب ہوتی ہے اور روحانی قوی بہت ضعیف ہوتے ہیں۔ دیکھو قرآن شریف میں خدا تعالی اپنے بندوں کی تعریف میں اولی الایدی والابصار (ص:۴۶)فرمایا ہے کہیں اولی الاسنہ نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کو وہی پسند ہیں۔ جو بصر اور بصیرت سے خدا کے کام اور کلام کو دیکھتے ہیں اورپھر اس پر عمل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں بجز تزکیہ نفس اور تطہیر قوائے باطنیہ کے ہر گز حاصل نہیں ہو سکتیں ۔
فلاح دارین کے حصول کا طریق
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاو، تو پاکیزگی اختیار کرو۔ عقل سے کام لو اور کلام الہی کی ہدایات پر چلو۔ خود اپنے تئیں سنو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاو۔ تب البتہ کامیاب ہو جاو ٔگے ۔کسی نے کیا اچھا کہا ہے
سخن کزدل بروں آید نشیند لا جرم بردل
پس پہلے دل پیدا کرو ۔اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو۔ کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور لسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ زبان سے قیل وقال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں کہ تکبر، غرور اور بد کاریوں سے بچو، مگر جو ان کے اپنے اعمال ہیں اور جوکرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ۔ان کا ندازہ اس سے لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دل پر کہاں تک ہوتا ہے۔
قول فعل میں مطابقت
اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں لم تقو لون ما لا تفعلون
(الصف:۳)کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر کود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے۔
تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس سے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول وفعل میں پوری مطابقت تھی۔
میری ان باتوں پر عمل کرو
میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تا تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے عضاء ہو گئے ہیں۔ ان باتوں پر عمل کرو ۔اور عقل اور کلام الہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندرپیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔ اس لئے کہ ٓاجکل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیت کے مسلئے کی بناء پر ہے۔ اس لئے لازم ہواکہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں ،تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔
علوم جدیدہ کی تحصیل
میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں۔وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویاعقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضادچیزیں ہیں چونکہ خودفلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشے ہیں کہ علومِ جدیدہ کو پڑھنا ہی جائزنہیں۔ اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔
سچافلسفہ قرآن میں ہے
مگر وہ سچافلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں۔ جن کے دل اور دماغ سے متکبر انہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوںکااعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں۔
علوم جدیدہ کو اسلام کے تابع کرنا چاہیے
پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو ۔لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور خود اپنے اندر الہی نور نہ رکھتے تھے ۔وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے ۔الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے۔یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے ۔یعنی دینی خدمات وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو۔
بات یہ ہے کہ ان علوم کی تعلیمیں پادریت اور فلسفیت کے رنگ میں دی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان تعلیمات کا دلدادہ چند روز تو حسن ظن کی وجہ سے جو اس کو فطرتاً حاصل ہے رسول اسلام کا پابند رہتا ہے ،لیکن جوں جوں ادھر قدم بڑھتا چلا جاتا ہے،اسلام کو دور چھوڑ دیتا ہے اور آخر ان رسوموں کی پابندی سے بالکل ہی رہ جاتا ہے اور حقیقت سے کچھ تعلق نہیں رہتا۔یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور ہوا ہے یکطرفہ علوم کی تحقیقات اور تعلیم میں منہمک ہونے کا۔ بہت سے لوگ قومی لیڈر کہلا کر بھی اس رمز کو نہیں سمجھ سکے کہ علوم جدیدہ کی تحصیل جب ہی مفید ہو سکتی ہے ،جب محض دینی خدمت کی نیت سے ہو اور کسی اہل دل آسمانی عقل اپنے اندر رکھنے والے مرد خدا کی صحبت سے فائدہ اٹھایا جائے۔
میرا ایمان یہی کہتا ہے کہ اس دہریت نما نیچریت کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ جو شیطانی حملے الحاد کے زہر سے بھرے ہوئے علوم طبعی ،فلسفی یا ماہیت دانوں کی طرف سے اسلام پر ہوتے ہیں ۔ان کا مقابلہ کرنے کے لئے یا اُن کا جواب دینے کے لئے اسلام اور آسمانی نور کو عاجز سمجھ کر عقلی ڈھکوں اور فرضی اور قیاسی دلائل کو کام میں لایا جاتا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مجیب قرآن مجید کے مطالب سے دور جا پڑتے ہیں اور الحاد کا ایک چھپا ہوا پر وہ اپنے دل پر ڈال لیتے ہیں ۔جو ایک وقت آکر اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل نہ کرے،تو دہریت کا جامہ پہن لیتا ہے اوروہی رنگ دل کو دیتا ہے۔جس سے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔
آجکل کے تعلیم یافتہ لوگوں پر ایک اور بڑی آفت جو آکر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو دینی علوم سے مطلق مس نہیں ہوتا ۔پھر جب وہ کسی ہیت دان ے فلسفہ دان کے اعتراض پڑھتے ہیں، تو اسلام کی نسبت شکوک اور وساوس ان کو پیدا ہو جاتے ہیں ۔تب وہ عیسائی یا دہریہ بن جاتے ہیں۔ایسی حالت میں ان کے والدین بھی ان پر بڑا ظلم کرتے ہیں ۔کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے ذرا سا وقت بھی ان کو نہیں دیتے۔اور ابتدا ہی سے ایسے دھندوںاور بکھیڑوں میں ڈال دیتے ہیں جو انہیں پاک دین سے محروم کر دیتے ہیں۔
دینی تعلیم وتربیت کا صحیح وقت
یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہر ہی مناسب اور موزوں ہے۔جب داڑھی نکل آئی ،تبضرب یضرب یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہو گا۔طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے ۔انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی نہیں وتا۔مجے خوب یاد ہوتا ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں ،لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میںعلم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کرلیتے ہیں۔اور قوی کے نشوونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دل نشین ہو جاتے ہیں کہ پھرضائع نہیں ہو سکتے۔غرض یہ ایک طویل امر ہے ۔مختصر یہ کہ تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہیے کہ دینی تعلیم ابتدا سے ہی ہو ۔اور میری ابتدا سے یہ ہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے۔اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے۔دیکھو تمہارے ہمسایہ قوموں یعنی آریوں نے کس قدر حیثیت تعلیم کے لئے بنائی کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا ۔کالج کی عالیشان عمارت اور سامان بھی پیدا کیا۔اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی طرف توجہ نہ دیں گے،تو میری بات سن رکھیں کہ ایک وقت بچے بھی ان کے ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔
صحبت کا اثر
مثل مشہور ہے،’’تخم تاثیر صحبت را اثر‘‘اس کے اول جزو (حصہ)پر کلام ہو تو ہو،لیکن دوسرا حصہ’’صحبت رااثر‘‘ایسا ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ اس پر ہم کو زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہر ایک شریف قوم کے بچوں کا عیسائیوں کے پھندے میں پھس جانا اور مسلمانوں حتیٰ کہ غوث وقطب کہلانے والوںکی اولاد اور سادات کے فرزندوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنا دیکھ چکے ہیں ان صحیح النسب سیدوںکی جو اولاد اپنا سلسلہ حضرت امام حسینؓ تک پہنچاتے ہیں ۔ہم نے کرسچن عیسائی دیکھی ہے ۔اور بانی اسلام کی نسبت قسم قسم کے الزام (نعوذ باللہ)لگاتے ہیں ۔ایسی حالت میں بھی اگر کوئی مسلمان اپنے دین اور اور اپنے نبیؐ کے لئے غیرت نہیں رکھتا ،تو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا ؟
اگر تم اپنے بچوں کو عیسائیوں ،آریوں اور دوسروں کی صحبت سے نہیں بچاتے یا کم از کم نہیںبچانا چاہتے،تو یاد رکھو کہ نہ صرف اپنے اوپر بلکہ قوم پر اور اسلام پر ظلم کرتے اور بہت بڑا بھاری ظلم کرتے ہو۔اس کے یہ معنی ہیں کہ گویا تمہیں اسلام کے لئے کچھ غیرت نہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزت تمہارے دل میں نہیں ۔
راستباز اور متقی بنو تا کہ عقل میں جودت اور ذہانت پیدا ہو
ذرا سوچو اور سمجھو ۔خدا کے واسطے عقل سے کام لو اور اس لئے کہ عقل میں جودت اور ذہانت پیدا ہو راستبازی اور متقی بنو ۔ پاک عقل آسمان سے آتی ہے اور اپنے ہمراہ ایک نور لاتی ہے ،لیکن وہ جوہر قابل کی تلاش میں رہتی ہے۔اس پاک سلسلہ کا قانون وہی قانون ہے جو ہم جسمانی قانون میں دیکھتے ہیں ۔بارش آسمان سے پڑتی ہے۔لیکن کوئی جگہ اس بارش سے گلزار ہوتی ہے اورکہیں کانٹے اور جھاڑیاں ہی اگتی ہیں اور کہیں وہی قطرہ بارش سمندر کی تہہ میں جا کر ایک گوہر شاہوار بنتا ہے۔بقول کسے
در باغ لالہ رویدودر شورہ بول خس
اگر زمین قابل نہیں ہوتی ،تو بارش کا کچھ فائدہ نہیں پہنچتا،بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہوتا ہے۔اسی لئے آسمانی نور اترا ہے اور وہ دلوں کو روشن کرنا چاہتا ہے۔اس کے قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہو جاؤ تا ایسا نہ وہ کہ بارش کی طرح کہ جو زمین جوہر قابل نہیں رکھتی ،وہ اس کو ضائع کر دیتی ہے۔تم بھی باوجود نور کی موجودگی کے تاریکی میں چلو اور ٹھوکر کھا کر اندھے کنویں میں گر کر ہلاک ہو جاو ۔اللہ تعالیٰ مادر مہربان سے بھی بڑھ کر مہربان ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق ضائع ہو۔وہ ہدایت اور روشنی کی راہیں تم پر کھولتا ہے،مگر تم ان پر قدم مارنے کے لئے عقل اور تزکیہ نفوس سے کام لو ۔جیسے زمین کے جب تک ہل چلا کر تیار نہیںکی جاتی ،تخمریزی اس میں نہیں ہوتی۔اسی طرح جبتک مجاہدہ اور ریاضت سے تزکیہ نفوس نہیں ہوتا،پاک عقل آسمان سے اتر نہیں سکتی۔
اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تائید میں غیرت کھا کر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کو محو کرنے کے لئے جس قسم کی کوششیں ہو رہیں ہیں نہ ہوتیں،تو چنداں حرج نہ ہوتا ۔لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمن ویسار ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں ۔مجھے یاد ہے اوربراہین احمدیہ میں بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں ۔عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلامونوں کی تعداد بھی چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئیں ہیں۔عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر ہے۔اگر اس زیادتی تعداد کو جو اب تک اس تصنیفات میں ہوئی ہیں چھوڑ بھی دیا جائے،تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں ۔اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت میں نہ ہوتا۔اور انا لہ لحافظون(الحجر:۱۰)اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقیناً سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام ونشان تک مٹ جاتا،مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔مجھے افسوس اور رنج اس امر کا ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ناطے بیاہ کے برابر بھی تو اسلام کا فکر نہیں کرتے اور مجھے اکثر بار پڑھنے کا اتفاق بھی ہواہے کہ عیسائی عرتوں تک مرتے وقت لکھو کھا روپیہ عیسائی دین کی ترویج اور اشاعت کے لئے وصیت کر جاتی ہیں اور ان کا پنی زندگیوں کا عیسائیت کی اشاعت مین صرف کرنا تو ہم روز دیکھتے ہیں ۔ہزار ہا لیڈیز مشنری،گھروں او کوچوں میں پھرتی ہے اور جس طرح بن پڑے نقد ایمان چھینتی پھرتی ہے۔مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ پچاس روپیہ بھی اشاعت اسلام کے لئے وصیت کر کے مرا ہو ۔ہاں شادیوں اور دنیاوی رسوم پر تو بے حد اسراف ہوتے ہیں اور قرض لے کر بھی دل کھول کر فضول خرچیاں کی جاتی ہیں ،مگر خرچ کرنے کے نہیں ،تو صرف اسلام کے لئے نہیں۔افسوس !افسوس! ! اس سے بڑھ کر اور مسلمانوں کی حالت قابل رحم کیا ہو گی؟
ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے
اصل بات یہ ہے کہ بد اعمالی کا نتیجہ بد اعمالی ہوتا ہے۔اسلام کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہو جاتی ہے مجھے یاد آیا تذکرۃ الاولیاء میں میں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست نوے برس کی عمر کا تھا۔اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی ،تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر دانہ ڈال رہا تھا ۔کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڈھے تو کیا کرتا ہے؟اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز مسلسل بارش ہوتی رہی ہے۔ چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تو عبث یہ حرکت کرتا ہے۔تو کافر ہے۔تجھے اجر کہاں۔بوڑھے نے جواب دیا ۔مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا۔بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا ،تو دور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بڈھا طواف کر رہا ے۔اس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو وہی بولو ۔کیا میرا دانہ ڈالنا ضائع گیا ،یا ان کا عوض ملا؟
نیکی کا اجر ضائع نہیں ہوتا
اب خیال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا بھی اجر ضائع نہیں کیا ،تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کر دے گا؟مجھے ایک صحابی کاذکر یاد آیا۔کہ اس نے کہا یا رسول اللہ(آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے اپنے کفر کے زمانے میں بہت سے صدقات کیے ہیں۔کیا ان کا اجر مجھے ملے گا۔آپؐ نے فرمایا۔کہ وہی صدقات تو تیرے اسلام کا موجب ہو گئے۔
نیکی کیا چیز ہے؟
نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا،لیکن یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے۔شیطان ہر ایک کی راہ میں لوگوں کی را زنی کرتا ہے اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے۔مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی اور صبح باسی بچ رہی۔عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہین۔ابھی ایک لقمہ نہیں لیا کہ دروازہ پر آکر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی۔کہا کہ سائل کو باسی روٹی دے دو۔کیا یہ نیکی ہو گی؟باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی۔تیغم پسند اسے کیوں کھانے لگے؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ویطعمون الطام علی حبہ مسکیناویتیماًواسیراً(الدھر:۹) یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں۔سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا۔الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا لذیذاور پسندیدہ رکھا ہوا ہے۔کھانا شروع نہیں کیا ۔فقیر کی صدا پر نکال دے،تو یہ تو نیکی ہے۔
بے کار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا۔نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ نصح صریح ہے:لن تنالو البر حتیٰ تنفقو مما تحبون(آل عمران:۹۳) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے،اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی خوشی کا حاصل کرنا چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو۔کیا صحابہ کرام ؓمفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاسل ہوا۔دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ،تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی،ملتا ہے۔پھر خیال کرو کہ رضی اللہ تعالیٰ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضامندی کا نشان ہے،کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟
بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے،حاصل نہیں ہو سکتی۔جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں ،خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پرواہ نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔
سچا مسلمان کون ہے؟
میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جائے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے، اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ایسا آدمی تو ال(عرف عام)کے طور پر مومن یا مسلمان ہے۔جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔ مسلمان وہی ہے جو اسلم وجھہ للہ کا مصدا ق ہو گیا ہو۔وجہ منہ کو کہتے ہیں ۔مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دیں ہوں ۔وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔مجھے یاد آیا کہ کسی مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی تو مسلمان ہو جا۔مسلمان خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔یہودی نے اس فاسق سے کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔یہودی نے اپنا قصہ بیان کیا کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا ،مگر دوسرے دن مجھے اس قبر میں گاڑنا پڑا۔اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا۔اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تو مسلمان ہے؟تو وہ جواب دیتا۔الحمد للہ ۔
پس یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی،جب تک کہ عمل نہ ہو۔محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے:کبر مقتاً عنداللہ ان تقولوا مالا تفعلون (الصف:۴)
اسلام کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کا طریق
ان پھر میں اپنے پہلے موضوع کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ یعنی صابروا ورابطوا (آل عمران:۲۰۱)جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پائے۔اسی طرح تم بھی تیار رہو۔ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے نکل کر اسلام کو صدمہ پہنچائے۔میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو،تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو۔اور پھر تم اس خدمت کا شرف اور استحاق حاصل ہو۔تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔قومیں ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتیں ہیں۔اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی،تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں کے ساتھ ہی شامل حال ہوا کرتا ہے۔اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناو جن سے اسلام کو داغ لگ جاویں۔بد کاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمان سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے۔پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔موریوںاور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے۔مجھے ایسی خبریںیا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے۔جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے مورد عتاب ہوئے۔دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں۔اپنی بد اعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچا تے،بلکہ اسلام پر ہنسی کرواتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ کسی گذشتہ مردم شماری کے وقت مسٹر ایبٹسن صاحب نے اپنی رپورٹ میں بہت کچھ لکھا تھا۔میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں۔پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر(جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے)نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے۔
اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہے
تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔مسلمان کو پوچھنے پر الحمد للہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے۔ اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں ۔تو میں تمہیں بشارت دیت ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا مجھے یاد ہے کہ ایک ہندو سر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا کہ امرتسر یا کسی جگہ میں وہ سر رشتہ دار تھا جہاں ایک ہندو در پردہ نماز پڑھا کرتا تھا،مگر بظاہر ہندو تھا۔میں اور دیگر دوسرے سارے ہندو اسے بہت برا جانتے تھے اور ہم سب اہلکاروں نے مل کر فیصلہ کر لیا کہ اس کو ضرور موقوف کرائیں ۔سب سے زیادہ شرارت میرے دل میںتھی۔میں نے کئی بار شکایت کی کہ اس نے یہ غلطی کی ہے۔اور یہ خلاف ورزی کی ہے۔مگر اس پر کوئی التفات نہیں ہوتی تھی۔لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہواتھا کہ اسے ضرور موقوف کروادیں گے۔اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لیں تھیں اور میںنے وقتاً فوقتاٍ ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے رو برو پیش کر دیا تھا۔صاحب اگر بہت ہی غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیا کرتا تھا۔تو جوں ہی وہ سامنے آجاتا،تو گویا آگ پر پانی پڑ جاتا ۔معمولی طور پر نہایت نرمی سے فہمائش کر دیتا ۔گویا اس سے کوئی قصور سر زد نہیں ہوا ۔
تقویٰ کو رعب دوسروں پر بھی پڑ تا ہے
اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے ۔اور خدا تعالیٰ متقیوں کوضائع نہیںکرتا ۔میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو برے اکابر میں سے ہوئے ہیں۔ان کا نفس بڑا مطہر تھا۔ایک بار انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے برداشتہ ہے۔میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشو ا تلاش کروں جومجھے سکینت اور اطمینان کی راہ دکھلائے۔والدہ نے جب یہ دیکھا کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا،تو ان کی بات کو مان لیا اور کہا کہ اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں ۔یہ کہہ کر اندر گئین اور اسی مہریں جو اس نے جمع کیں ہوئی تھیں ،اٹھا لائی اور کہا کہ ان مہروں سے حصہ شرعی کہ موافق چالیس مہریںتیریں ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی۔اس لئے چالیس مہریں تجھے بحصہ رسدی دیتی ہوں۔یہ کہہ کر چالیس مہریں ان کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیںاور کہا کہ امن کی جگہ پہنچ کر نکال لینا اور عند الضرورت اپنے سرف میں لانا۔ سید عبدالقادر صاحب نے اپنی والدہ سے عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت فرمایں۔انہوں نے کہا کہ بیٹا جھوٹ کبھی نہ بولنا۔اس سے بڑی برکت ہوگی۔اتنا سن کر آپ رخصت ہوئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل میں سے ہو کر آپ گزرے ،اس میں چند راہزن قزاق رہتے تھے۔جو مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔دور سے سید عبد القادر صاحب پر بھی ان کی نظر پڑی۔قریب آئے،تو انہوں نے کمبل پوش فقیر سا دیکھا۔ایک نے ہنسی سے دریافت کیا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟آپ ابھی اپنی والدہ سے تازہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہ بولنا۔فی الفور جواب دیا کہ ہاں چالیس مہریں میری بغل کے نیچے ہیں۔جو میری والدہ صاحبہ نے کیسہ کی طرح سی دی ہیں۔اس قزاق نے سمجھا کہ یہ ٹھٹھا کرتا ہے ۔دوسرے قزاق نے جب پوچھا تو اس کو بھی یہی جواب دیا ۔الغرض ہر ایک چور کو یہی جواب دیا۔وہ اسے اپنے میر قزاقان کے پاس لے گئے کہ بار بار یہی کہتا ہے۔امیر نے کہا۔اچھا۔اس کا کپڑا دیکھو تو سہی۔جب تلاشی لی گئی،تو واقعی چالیس مہریں بر آمد ہوئیں ۔وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے۔ہم نے ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔امیر نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ بتا دیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا کے دین کی تلاش میں جاتا ہوں ۔روانگی پر والدہ صاحبہ نے نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ کبھی نہ بولنا۔یہ پہلا امتحان تھا۔میں جھوٹ کیوں بولتا۔یہ سن کر امیر قزاقان رو پڑا اور کہا کہ اہ !میں نے ایک بار بھی خدا تعالیٰ کا حکم نہ مانا۔چوروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا ہے۔اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا اور توبہ کرتا ہوں ۔اس کے کہنے کے ساتھ ہی باقی چوروں نے بھی توبہ کر لی… میں ’’چوروں قطب بنایا اِی‘‘اسی واقعہ کو سمجھتا ہوں ۔الغرض سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یا ایھا الذین امنو اصبروا(آل عمران:۲۰۱) صبر ایک نقطہ کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر دائرہ کی شکل اختیار کر کے سب پر محیط ہوجاتا ہے۔آخر بد معاشوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے۔کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اس کا رعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہوجا تا ہے۔
تقویٰ کے اجزاء
تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔عُجُبؔ، خود پسندیؔ،مال حرام سے پرہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے۔اس کے دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اد فع بالتی ھی احسن (المومنون:۹۷ )
اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟اس ہدایت میںاللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے،تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر سبر کیا جائے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے برھ کر ہے جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو۔یوں تو ایک زرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے،لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ
لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش
’’فاسق آدمی جو انبیاء کے مقابل پر تھے۔خصوصاً وہ لوگ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے مقابلہ پر تھے۔ان کا ایمان لانا معجزات پر منحصر نہ تھا اور نہ معجزات اور خوارق ان کی تسلی کا باعث تھے،بلکہ وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلمکے اخلاق فاضلہ کو ہی دیکھ کر آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تھے۔اخلاقی معجزات وہ کام کر سکتے ہیںجو اقتداری معجزات نہیں کر سکتے لاستقامۃ فوق الکرامۃکا یہی مفہوم ہے اور تجربہ کر کے دیکھ لو کہ استقامت کیسے کرشمے دکھاتی ہے۔کرامت کی طرف تو چنداں التفات ہی نہیں ہوتا۔خصوصاً آجکل کے زمانے میں۔لیکن اگر پتہ لگ جائے کہ فلاں شخص بااخلاق آدمی ہے،تو اس کی طرف جس قدر رجوع ہوتا ہے۔وہ کوئی مخفی امر نہیں۔اخلاق حمیدہ کی زد ان لوگوں پر بھی پڑتی ہے جو کئی قسم کے نشانات کودیکھ کر بھی اطمینان اور تسلی نہیںپاسکتے۔‘‘ بات یہ ہے کہ بعض آدمی ظاہری معجزات اور خوارق کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں اور بعض حقائق اور معارف کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں ۔مگر اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی ہدایت اور تسلی کا موجب اخلاق فاضلہ اور التفات ہوتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ایک قسم کے خوارق اور معجزات حاصل تھے۔ہم آپ کی شان کیا بیان کریں ۔جس طرف دیکھو،بے شمار معجزات ملیں گے۔ہر سہ اقسام بالا کے معجزات ملیں گے۔ہر سی اقسام بالا کے معجزات کا آپؐ مجموعہ تھے۔ظاہری کوارق مثل شق القمرؔ وغیرہ،دیگر معجزات جن کی تعداد تین ہزار سے بھی زائد ہے۔معارف اور حقائق کے معجزات سے تو سارا قرآن شریف لبریز ہے جو ہر وقت تازہ اور نئے ہیں اور بلحاظ اخلاقی معجزات کے خود آ پ ؐ کا وجود مقدس انک لعلی خلق عظیم(القلم:۵)کا مصداق ہے۔قرآن کریم اپنے اعجاز کے ثبوت میں ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ(البقرہ:۲۴)کہتا ہے۔یہ معجزات روحانی ہیں۔جس طرح وحدانیت کے دلائل دئیے ہیں۔اسی طرح پر اس کی حکمت، فصاحت، بلاغت کی مچل لانے پر بھی انسان قادر نہیں۔دوسرے مقام پر فرمایا:لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یا تون بمثلہ(بنی اسرائیل:۸۹)
قرآن مجید کی فصاحت اور بلاغت
غرض روحانی معجزات کے بارے میںکوئی یہ خیال نہ کر لے کہ یہ مسلمانوں کا زعم اور خیال باطل ہے۔ آجکل کے نیچری نہیں بلکہ وہ لوگ جو خلاف نیچر ہیں یہ نہیں مانتے کہ فصاحت وبلاغت قرآن شریف کا معجزاہ ہے۔سید احمد نے بھی ٹھوکر کھائی ہے اور وہ اس کی فصاحت اور بلاغت کو معجزہ نہیں مانتے۔جب ہم یاد کرتے ہیں،تو ہم کو فسوس ہوتا ہے کہ سید احمد نے معجزات سے انکار کیا ہے۔سید صاحب کسی طور سے معجزہ نہیں مان سکتے ۔کیو نکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک معمولی درجہ کا آدمی یا اعلی درجہ کا آدمی بھی نظیر نہیںبنا سکتا،مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ اتنا نہیں جانتے کہ قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ یتلوا صحفاًمطھرۃ فیھا کتب قیمۃ(البینۃ:۳:۴)ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں ۔کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے۔
قرآن مجید کی جامعیت
قرآن شریف حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور وہ رطب و یا بس فضولیت کا کوئی ذخیرہ اپنے اندر نہیںرکھتا۔ ہر ایک امر کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے ندر موجود ہے۔وہ ہر ایک پہلو سے آیت اور نشان ہے۔اگر کوئی اس امر کا نکار کرے تو تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں۔آجکل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں۔عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے۔لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی ہی بابت لکھا ہے۔نہ کہ ایک مردہ،مصلوب اور عاجز خدا کی بابت۔ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا۔اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گا۔جو اسلام نے پیش کیا ہے۔کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے۔غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اٹھے گا۔وہ اسلام کے ہی میدان کی طرف اٹھے گا۔یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے۔
قرآن مجید کا چیلنج
اگر کوئی شخص قرآن مجید کے اس معجزے کا نکار کرے تو ایک ہی پہلو سے ہم آزما لیتے ہیں۔یعنی اگر کوئی شخص قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں مانتا ،تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے بالمقابل ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم سے ہی دکھلا کر نکال دیں گے اور اگر وہ شخص توحید الہی کی نسبت دلائل قلم بند کرے تو وہ سب دلائل بھی ہم قرآن کریم سے ہی نکال کر دکھا دیں گے۔پھر وہ ایسے دلائل کا دعویٰ کر کے لکھے جو قرآن کریم میں نہیں پائے جاتے یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر دلائل لکھے جن کی نسبت اس کا خیال ہو کہ وہ قرآ ن میں نہیںہیں۔تو ہم ایسے شخص کو واضح طور پر دکھالا دیں گے کہ قرآن شریف کا دعویٰ فیھا کتب قیمۃ(البینۃ:۴)کیسا سچا اور صاف ہے،اور یا اصل وہ فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کر کے دکھلا دین گے اور بتلا دیں گے کہ تمام
‏missing
صداقتیں اور پاک تعلیمیںقرآن کریم میں موجود ہیں
الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں،لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے؛چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔لا یمسہ الا المطھرون (الواقعۃ:۸۰)ایسا ہی فصاحت، بلاغت میں (اس کا مقابلہ نہ ممکن ہے)مثلاً سورۃ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو،تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد عظمی جو اس تر تیب میں موجود ہیں۔ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہو سکیں۔کوئی سی صورت لے لو۔خواہ قل ھو اللہ احد ہی کیوں نہ ہو۔جس قدر نرمی اور ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں،وہ کوئی دوسرا بیان نہیں کر سکے گا۔یہ بھی فقط اعجاز قرآن ہی ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے۔جب بعض نادان مقاماؔت حریری یا سبعؔ معلّقہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں اوراس طرح پرقرآن کریم کی ناے نندیت پرحملہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اول تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعوی نہیں کیا اوردوم یہ کہ مصنف حریری خود قرآن کریم کی اعجازی فصاحت کاقائل تھا۔علاوہ ازیں معرضین راستی اورصداقت کو ذہن میں نہیںرکھتے بلکہ ا ن کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں مندرجہ بالا کتابیں حق اورحکمت سے خالی ہیں۔
اعجاز کی خوبی
اعجاز کی خوبی اور وجہ تو یہی ہے کہ ہر ایک قسم کی رعایت کو زیر نظر رکھے۔فصاحت اور بلاغت بھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔صداقت اور حکمت کو بھی نہ چھوڑے۔یہ معجزہ صرف قرآن شریف ہی کا ہے۔جو آفتاب کی طرح روشن ہے ا ور ہر پہلو سے اپنے اندر ا عجازی طاقت رکھتاہے۔انجیلؔکی طرح محض زبانی ہی جمع خرچ نہیں کہ’’ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دوــــ‘‘یہ لحاظ اور خیال نہیں کہ ایسی تعلیم حکیمانہ فعل سے کہا نتک تعلق رکھتی ہے اورانسان کی فطرت کا لحاظ اس میں کہاں تک ہے؟
اس کے مقابل میں قرآن کریم کی تعلیم پڑھیںگے،تو پتہ لگ جائے گا کہ انسان کے خیالات اس طرح ہر پہلو پر قادر نہیں ہو سکتے اور ایسی مکمل اور بے نقص تعلیم جیسی کہ قرآن شریف کی ہے، زمینی دماغ او رذہن کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔کیایہ ممکن ہے کہ ہمارے روبر وایک ہزار مسکین آدمی ہوںاور ان میں سے ہم چند ایک کو کچھ دے دیں اور باقی کا خیال تک بھی نہ کریں۔ ایسا ہی انجیل ایک ہی پہلو پر پڑی ہے۔باقی پہلوئوں کا اسے خیال تک بھی نہیں رہا۔ہم یہ الزام انجیل پر نہیں دیتے کیو نکہ یہ یہودیوں کی شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔جیسی ان کی استعدادیں تھیں،انہیں کے موافق انجیل آئی۔’’جیسی روح ویسے فرشتے۔‘‘اس میں کسی کا کیا قصور؟
انجیل کی تعلیم مختص الزمان تھی
اس کے علاوہ انجیل ایک قانون ہے مختص المقام والزمان اور مختص القوم۔جیساکہ انگریزبھی قوانین مختص المقام اور مختص الوقت نافذکر دیا کرتے ہیں۔جن کا بعدازوقت کوئی اثرنہیں رہتا ۔اسی طرح انجیل بھی ایک مختص قانون ہے۔عام نہیں۔مگر اس کے خلاف تعلیم قرآنی بہت وسیع ہے۔وہ قیامت تک ایک ہی لاتبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لیے ہے؛چنانچہ خدا تعالی فرماتاہے : وان من شیی الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم(الحجر:۲۲)یعنی ہم اپنے خزانوں میں سے بقدر معلوم نازل کرتے ہیں۔انجیل ضرورت(صرف)اسی قدر تھی،اس لیے انجیل کا خلاصہ صرف ایک صحفہ میں آسکتا ہے۔
قرآن سب زمانوں کے لیے ہے
لیکن قرآن کریم کی ضرورتیں تھیںسارے زمانہ کی اصلاح۔قرآن کا مقصدتھا وحشیا نہ حالت سے انسان بنانا ۔انسانی آداب سے مہذب ا نسان بنانا۔تاشرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو۔اور پھر با خداانسان بنانا۔گویہ لفظ مختصر ہیں،مگر ان کے ہزارہاشعبے ہیں۔چونکہ یہودؔیوں،طبیعیوؔں،آتش پرؔستوں اورمختلف اقوام میں بدروشنی کی روح کام کر رہی تھی ،اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے با علام الہی سب کو مخالف کر کے فر ماتا :یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا(الاعراف:۱۵۹)اس لیے ضروری تھا کہ قرآن شریف ان تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاً فوقتاًجاری رہ چکی تھیں اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعے سے زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئی تھیں۔قرآن کریم کے مد نظر تمام نوع انسان تھا نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ۔اور انجیل کے مدنظر(صرف)ایک خاص قوم تھی،اسی لیے مسیح علیہ اسلامنے بار بار کہا کہ’’میںاسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘
تورات کے بعد قرآن شریف کی ضرورت
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کیا لایا؟اس میں وہ کچھ تو ہے جو تورات میں درج ہے اور اسی کو تاہ نظری نے بعض عیسائیوں کو عدم ضرورت قرآن جیسے رسائل لکھنے پر دلیر کر دیا۔کاش وہ سچی دانائی اور حقیقی فراست سے حصہ رکھتے،تا وہ بھٹک نہ جاتے۔ایسے لوگ کہتے ہیں کہ توراتؔ میں لکھا ہے کہ تو زنانہ کر۔ ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ زنانہ کر۔ قرآن توحید سکھاتا ہے اور تورات بھی خدائے واحد کی پرستش سکھلاتی ہے۔ پھر فرق کیا ہوا؟ بظاہر یہ سوال بڑا پیچدارہے۔اگر کسی ناواقف آدمی کے سامنے پیش کیا جاوے،تو وہ گھبرا جاوے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے باریک اور پیچدار سوالات کا حل بھی اللہ تعالی کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں۔یہی تو قرآنی معارف ہیں۔جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں۔حقیقت یپ ہے کہ قرآن شریف اور توراتؔ میں تطابق ضرور ہے۔اس سے ہم کو انکار نہیں،لیکن توراتؔ نے صرف تین کو لیا ہے۔جس کے ساتھ دلائل،براہین اورشرح نہیں ہے، لیکن قرآن کر یم نے معقولی رنگ کو لیا ہے۔اس لیے کہ توراتؔ کے وقت انسانوں کی استعدادیںوحشیانہ رنگ میں تھیں(مگر قرآن شریف کے نزول کے وقت اسعدادیں معقولیت کا رنگ پکڑ گئی تھیں)اس لیے قرآن شریف نے وہ طریق اختیار کیا جو اخلاق کے منافع کو ظاہر کرتا ہے اور بتلاتاہے کہ اخلاق کے مفادیہ ہیں اور نہ صرف مفاداور منافع کوبیان ہی کرتا ہے،بلکہ معقولی طور پر دلائل اور براہین کے ساتھ ان کو پیش کرتا ہے۔تاکہ عقل سلیم سے کام لینے والوں کو انکار کی گنجائش نہ رہے۔جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ قرآن شریف کے وقت استعداردیں معقولیت کا رنگ پکڑ گئی تھیںاور توراتؔ کے وقت وحشیانہ حالت تھی۔حضرت آدم ؑسے لے کر زمانہ ترقی کرتا چلاگیا ہے۔یہاںتک کہ قرآن شریف کے وقت وہ دائرہ کی طرح پورا ہو گیا۔حدیث شریف میں ہے کہ زمانہ مسدیر ہو گیا۔اللہ تعالی فرماتا ہے:ماکان محمد ابا احد من رجا لکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین(الاحزاب۴۱:)
ضرورتیںنبوت کا انجن ہیں۔ظلماتی راتیں اس نور کو کھینچتی ہیں،جو دنیا کوتاریکی سے نجات دے۔اس ضرورت کے موافق نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور جب قرآن کریم کے زمانہ تک پہنچا،تومکمل ہو گیا۔اب گویا سب ضرورتیں پوری ہوگئیں۔اس سے لازم آیا کہ آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم الانبیاتھے۔اب بڑااورواضح فرق(تورات و قرآن کریم کی تعلیم میں ایک تو یہی ہے کہ قرآن شریف نے دلائل پیش کیے ہیں جن کو توریت نے مس تک نہیں کیا۔
قرآن شریف اور توریت کی تعلیم میں دوسرا فرق
اور دوسرا فرق یہ ہے کہ توراتنے صرف بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے اور دوسری قوموں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں رکھا۔اور یہی وجہ ہے کہ اس نے دلائل وبراہین پر زور نہیں دیا،کیونکہ توریت کی زیر نظر کوئی دوسرا فرقہ(یا مذہب)مثل دہرایہ، فلاسفیہ اور براہمہ وغیرہ کا نہ تھا،بخلاف اس کی قرآن شریف کے مخاطب چونکہ کل ملل اور فرقے تھے اور اس پر پہنچ کر تمام ضرورتیں ختم ہو گئی تھیں،اس لیے قرآن کریم نے عقائد کو بھی اور احکام عملی کو بھی مدلّل(طور پر بیان)کیا۔
چنانچہ قرآن مجید فرماتاہے:قل للمومنین یغضوامن ابصارھم و یحفظوا فرو جھم(النور:۳۱)یعنی مومنوں کو کہدے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج میں داخل ہیں جو قصص اورفحش باتیں سن فتنہ مین پڑ جاتے ہیں،اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تمام موریوں کو محفوظ رکھو اور فضولیات سے بالکل بند رکھوذالک ازکی لھم (النور:۳۱)یہ مومنوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریق تعلیم ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بد کاروں میں نہ ہوں گے۔
قرآن شریف دلائل وبراہین بھی خود ہی بیان کرتا ہے
دیکھو! قرآن نے اسی ایک امر کو جو تورایت میں بھی اپنے لفظوں اور اپنے مفہوم پر بیان ہوا ہے۔کیسا شرح وبسط کے ساتھ اور دلائل اور براہین کے ساتھ موکد کر کے بیان فرمایا۔یہی تو قرآنی اعجاز ہے کہ وہ اپنے پیرو کو کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہونے دیتا۔دلائل اور براہین بھی خود ہی بیان کر کے اسے مستغنی کر دیتا ہے۔قرآن شریف نے دلائل کے ساتھ احکام کو لکھا ہے اور ہر حکم کے جدا گانہ دئے ہیں ۔غرض یہ دو بڑے فرق ہیں،جو تورایت اور قرآن میں ہیں۔اول الذکر میں طریق استدلال نہین۔دعویٰ کی دلیل خود تلاش کرنی پڑتی ہے۔آخر الذکر اپنے دعویٰ کو ہر قسم کے دلیل سے مدلل کرتا ہے اور پھر پیش کرتا ہے اور خدا کے احکام کو زبر دستی نہیں منواتا،بلکہ انسان کے منہ سے سر تسلیم خم کرنے کی صدا نکلواتا ہے۔نہ کسی جبرو کراہ سے بالکل اپنے لطیف طریق استدلال سے اور فطری سیادت سے۔توریت کا مخاطب خاص گروہ ہے اور قرآن کے مخاطب کل لوگ جو قیامت تک پیدا ہوں گے۔پھر بتلاو کہ توریت اور قرآن کیوں کر ایک ہو جائیں اور توریت کے ہونے سے کیوں کر ضرورت قرآن نہ پڑے۔قرآن جب کہتا ہے کہ تو زنا نہ کر،تو کُل بنی نوع انسان اس کا مطلب ہوتا ہے لیکن جب یہی لفظ تورایت بولتی ہے،تو اس کا مخاطب اور مشار اِلیہ وہی قوم بنی اسرائیل ہوتی ہے۔اس سے بھی قراان کی فضیلت کا پتہ لگ سکتا ہے،مگر دور اندیش اور خدا ترس دل ہو تو۔
جسمانی اور روحانی خوارق
(علاوہ ازیں )تورایت اور قرآن میں یہ بھی ایک فرق عظیم ہے کہ قرآن جسمانی اور روحانی خوارق ہر قسم کے اپنے اندر رکھتا ہے۔مثلاً شق القمر کا معجزہ جسمانی معجزات کی قسم ہے۔
قانون قدرت کی تحدید نہیں ہو سکتی
بعض نادان شق القمر کے معجزے پر قانون قدرت کی آڑ میں چھپ کر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کو اتنا معلوم نہیںکہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور قوانین کا احاطہ اور اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ایک وقت تو وہ منہ سے خدا بولتے ہیں،لیکن دوسرے وقت چہ جائیکہ ان کے دل،ان کی روح خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان اور وراء الو راء قدرتوں کو دیکھ کر سجدہ میں گر پڑے۔اسے مطلق بھول جاتے ہیں۔اگر خدا کی ہستی اور بساط یہی ہے کہ اس کی قدرتیں اور طاقتیں ہمارے ہی خیالات اور اندازہ تک محدود ہیں ،تو پھر دعا کی کیا ضرورت رہی؟لیکن نہیں۔میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور ارادوں کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ۔ایسا انسان جو یہ دعویٰ کرے،وہ خدا کا منکر ہے۔لیکن کس قدر واویلا ہے اس نادان پر جو اللہ تعالیٰ کو لا محدود قدرتوں کا مالک سمجھ کر بھی یہ کہے کہ شق القمر کا معجزہ قانون قدرت کے خلاف ہے۔سمجھ لو کہ ایسا آدمی فکر سلیم اور دور اندیش دل سے بہرہ مند نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ کبھی قانون قدرت پر بھروسہ نہ کرلو۔یعنی کہیںقانون قدرت کی حد نہ ٹھہرا لوکہ بس خدا کی خدائی کا سارا راز یہی ہے۔پھر تو سارا تاروپود کھل گیا۔نہیں۔اس قسم کی دلیری اور جسارت نہ کرنی چاہیے۔جو انسان کو عبودیت کت درجہ سے گرا دے۔جس کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ایسی بے وقوفی اور حماقت کہ خدا کی قدرتوں کو محصور اور محدود کرنا۔کسی مومن سے نہیں ہو سکتی۔امام فخر الدین رازی کا یہ قول بہت درست ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقل کے پیمانے سے اندازہ کرنے کا ارادہ کرے گا ،وہ بے وقوف ہے۔دیکھو نطفہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔یہ لفظ کہہ دینے آسان اور بالکل آسان ہیں اور یہ بالکل معمولی سی بات نظر آتی ہے،مگر یہ ایک سر اور راز ہے کہ ایک قطرہ آب سے انسان کو پیدا کرتا ہے اور اس میںاس قسم کے قویٰ رکھ دیتا ہے۔کیا کسی عقل کی طاقت ہے کہ وہ اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچے۔طبیعیوں اور فلاسفروں نے بہتیرا زور مارا،لیکن وہ اس کی ماہیت پر اطلاع نہ پا سکے۔اسی طرح ایک ایک ذرہ خدا تعالیٰ کے تابع ہے۔اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ یہ ظاہری نظام بھی اسی طرح رہے اور ایک خارق عادت امربھی ظاہر ہو جاوے۔عارف لوگ ان کیفیتوں کو خوب دیکھتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہیں ۔بعض لوگ ایک ادنیٰ ادنیٰ اور معمولی باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیںاور شک میں پڑ جاتے ہیں۔مثلاً ابراہیم ؑ کو آگ نے نہیں جلایا۔یہ امر بھی ایسا ہے جیسا شق القمر کے متعلق۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اس حد تک آگ جلاتی ہے اور ان اسباب کے پیدا ہونے سے فرو ہو جاتی ہے۔اگر ایسا مصالحہ ظاہر ہو جاوے یا بتلا دیا جاوے،تو فی الفور مان لیں گے۔لیکن ایسی صورت میں ایمان بالغیب اورحسن ظن کا لطف اور خوبی کیا ظاہر ہو گ۔ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا خلق اسباب نہیں کرتا،مگر بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ نظر آتے ہیں اور بعض اسباب نظر نہیں آتے غرض یہ کہ خدا تعالیٰ کے افعال گو ناگوں ہیں ۔خدا تعالیٰ کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوتی اوروہ نہیں تھکتا وھو بکل خلق علیم(یٰسیں:۸۰)افعیینا بالخلق الاول(ق:۱۶) اس کی شان ہے۔اللہ تعالیٰ کے بے انتہا قدرتوں اور افعال کا،کیسا ہی صاحب عقل اور علم کیوں نہ ہو،اندازہ نہیں کر سکتا۔بلکہ اس کو اظہار عجز کرنا پڑتا ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔ڈاکٹر خوب جانتے ہیں۔عبد الکریم نامی ایک شخص میرے پاس آیا ۔اس کے پیٹ کے اندر ایک رسولی تھی،جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔ڈاکٹروں نے اس سے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔اس کو بندوق مار کر مار دینا چاہیے۔الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت با خوبی ڈاکٹروں کو معلوم نہیں ہو سکتی۔مثلاًطاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیںکہ اگرڈاکٹر کو پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے،تو اسے خود ہی دست لگ جاتے ہیں۔ انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیق میں محو ہو جاوے،لیکن بالآخر اس کو معلوم ہی ہوگا کہ اس نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو۔اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے۔پھر کیا عاجز انسان !ہاں، نادان فلسفی اس حیثیت اور شیخی پرخدا تعالیٰ کے ایک فعل شق القمر پر اعتراض کرتا اور اسے قانون قدرت کے خلاف ٹھہروتا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اعتراض نہ کرو۔نہیں کرو اور ضرور کرو۔شوق سے اور دل کھول کے کرو،لیکن دو باتیں زیر نظر رکھ لو۔اول خدا کا خوف(اور اس کی لامحدود طاقت) دوسرے (انسان کی نیستی اور محدود علم)برے بڑے فلاسفر بھی آخر یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ہم جاہل ہیں۔انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوتی ہے۔مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھوکہ عصبی مجوفہ کو وہ سب جانتے اور سمجھتے ہین،مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلاو کہ کیا ہے؟آواز کی ماہیت پوچھو تو کہہ دیںگے کہ کان کے پردے پر یوں ہوتا ہے اور وؤں ہوتا ہے،لیکن ماہیت آواز کاکچھ بھی نہ بتلا سکیں گے۔آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے۔کنہہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے۔دیکھئے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے،لیکن ہمارا سر ٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیںچلا جاتا ۔ہم بھی سلامت ہیںاور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے۔پس یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے۔اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں۔کون دم مار سکتا ہے ۔اس لئے خدا تعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا ناشتاب کاروں اور نادانوں کا کام ہے۔
خدا کی قدرتوں اور عجائبات کو محدود سمجھنا دانش مندی نہیں
خدا کی قدرتوں اور اور عجائبات کو محدود سمجھنا ، دونش مندی نہیں۔وہ اپنی ماہیت نہیں جانتا اور سمجھتا اور آسمانی باتوں پر رائے زنی کرتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا گیا ہے
تو کار زمیں رانکوساختی کہ باآسماں نیز پر داختی
انسان کو چاہیے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر قدم نہ مارے۔ اکثر امراض اور عوارض اسباب اور علامات ڈاکٹروں کو معلوم نہیں تو کیا ایسی کمزوری پر اسے مناسب ہے کہ وہ بساط سے بڑھ کر چلے؟ہر گز نہین۔بلکہ طریق عبودیت یہی ہے کہ سبحانک لا علم لنا(البقرہ:۳۳)کہنے والوں کے ساتھ ہو۔دیکھو ستارے جو اتنے بڑے بڑے گولے ہیں،آسمان میں بغیر ستون کے لٹکتے ہیں اور خود آسمان بغیر کسی سہارے کے سال ہا سال سے اسی طرح چلتے آرہے ہیں۔ چاند ہر روز دھلا دھلایا نکلتا ہے۔آفتاب ہر روز طلوع ہوتا ہے اور ٹھیک رفتار اور روش پر چلتا ہے۔ہمارے کاموں میں ضرور کوئی نہ کوئی غلطی ہوتی ہے،لیکن اللہ تعالیی کے کام دیکھو کہ یہی چاند سورج اپنے ایک ہی طریق پر چلتے ہیں۔اگر ہر روز ان باتوں کو سوچو کہ سورج ہر روز مقررہ طریق پر نکلتا ہے۔جہات کو بتلاتا ہے تو دیوانہ ہو جاو۔دیکھو ہم پر اتنی حالتیں آتیں ہیں اور سورج پر کوئی حالت نہیں آتی۔ایک گھڑی جو دو ہزار روپیہ کی ہو۔اگر وہ دس کی بجائے بارہ اور بارہ کی بجائے دس بجائے ،تو نکمی سمجھی جائے گی۔لیکن خدا تعالیٰ کی قائم کردہ گھڑی ایسی ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں اور نہ اس کو کسی چابی کی ضرورت ہوتی ہے۔نہ صاف کرنے کی حاجت۔کیا ایسے صانع کی طاقتوں کا شمار کر سکتے ہیں۔انسان حیران ہو جاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ ہماری اشیاء کپڑے وغیرہ جو استعمال میں آتے ہیں گھستے رہتے ہیں۔بچے جون اور بوڑھے ہو کر مرتے ہیں،لیکن جو سورج کل طلوع ہوا تھا آج بھی وہی سورج ہے اور ایک لا تعداد زمانہ سے اسی طرح چلا آیا ہے اور چلا جائیگا،مگر اس پر کوئی حالت تحلیل وغیرہ کی یا اثر زمانہ کا نہیں ہوتا۔کس قدر گستاخی ہے کہ ایک کیڑے ہو کر اس رافع ذات الہی پر حملہ کریں اور جلدی سے حکم دیں کہ خدا میںطاقت نہیں۔
انبیاء علیہ السلام کے معجزات کا مقصد
اسلام کا خدا بڑا طاقتور خدا ہے۔کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس کی طاقتوں پر اعتراض کرے۔ انبیاء علیہ السلام کو جو معجزات دئے جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی تجارب شناخت نہیں کر سکتے اور جب انسان ان خوارق عادت امور کو دیکھتا ہے،تو ایک بار تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔لیکن اگر اپنی عقل کا ادعا کرے اور تفہیم الہی کے کوچے میں قدم نہ رکھے تو دونوں طرف سے راہ بند ہو جاتی ہے۔ایک طرف معجزات کا انکار ،دوسری طرف عقل خام کا ادعا۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دقیق در دقیق کنہہ کے دریافت کرنے کی فکر میں وہ نادان انسان لگ جاتا ہے۔جو معجزات کی تہہ میں ہے اور جس کی فلاسفی زمینی عقل اور سطحی خیلات پر نہیں کھل سکتی۔اس سے وہ انکار کی طرف رجوع کرتے کرتے نبوت کے نفس کا ہی منکر ہو جاتا ہے اور شکوک اور وساوس کا ایک بہت سا ذخیرہ جمع کر لیتا ہے جو اس کی شقوت کا موجب ہو کر رہتا ہے۔کبھی یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ بھی ہمارے جیسا ایک آدمی ہے جو کھاتا پیتا اور حوائج انسانی رکھتا ہے۔اس کی طاقتیں ہم سے کیوں کر بڑھ سکتیں ہیں؟اس کی طاقتوں میں روحانیت کی قوت ،اور دعاؤں میں استجابت کا اثر کیوں کر خاص طور پر آجائے گا؟افسوس!اس قسم کی باتیں بناتے اور اعتراض کرتے ہیں۔جس کے سبب جیسا میں نے ابھی کہا نفس نبوت کاا نکار کر دیتے ہیں ۔سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ معمولی طور پر تو مانتے ہی نہیںاور غیر معمولی طور پر اعتراض کرتے ہیں۔اب یہ عمداً اورصریحاً ا نبیاء علیہ السلام کے وجود کا نکار نہیںتو اور کیا ہے ۔کیا انہی عقلوں اور دانشوں پر ناز ہے ۔کہ فلاسفر کہلا کر دہریہ یا بت پرست ہو گئے۔اللہ تعالیٰ کی مخفی طاقتیں کبھی الہام اور وہی کے سوا اپنا کرشمہ نہیں دکھلا سکتیں ۔وہ وحی اور الہام کے رنگ ہی میں نظر آتی ہیں۔
عقلمند وہ ہے جونبی کو شناخت کرتا ہے
یہ خدائے تعالیٰ کا فضل او راس کی رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اس نے دنیا میں اپنے نبی بھیجے۔عقل مند وہ ہے جو نبی کو شناخت کرتا ہے،کیوں کہ وہ خدا کو شناخت کرتا ہے اور بے وقوف وہ ہے جو نبی کا انکار کرتا ہے کیونکہ نبوت کا انکار الو ہیت کے انکار کو مستلزم ہے۔اور جو ولی کو شناخت کرتا ہے ،وہ نبی کو شناخت کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی الوہیت کے لئے بطور ایک میخ آ ہنی کے ہے اور ولی نبی کے لئے ہے۔اب ذراٹھنڈے دل سے سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرہ سو سال پہلے اس سلسلہ کو دنیا میں ظاہر کیا او آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے اس کو ظاہر کیا،لیکن آج تیرہ سو سال کے بعد اور اسوقت چودھویں صدی کے بھی پندرہ سال گزر گئے۔اس کو ااریوں،بر ہموؤں،طبیعوں اور دہریوں یا عیسائیوں کے سامنے بیان کرو،تو وہ ہنس دیتے ہیں اور تمسخر میں اُڑا دیتے ہیں۔ایسی مصیبت کے وقت میں کہ ایک طرف علوم جدیدہ کی روشنی،دوسری طرف طبیعیوں میں ایک خاص انقلاب پیدا ہو جانے کے بعد مختلف فرقوںاور مذہبوں کی کثرت ہے ۔ ان امور کا پیش کرنا اور لوگوں سے منوانا بہت ہی پیچیدہ بات ہو گئی تھی اور اسلام اور اس کی باتیںایک قصہ کہانی سمجھی جانے لگی تھیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے جو: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(الحجر:۱۰) کا وعدہ سے کر اسلام اور قرآن کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچا لیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا۔پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اگر ثبوت نہ ملیں تو یہ بالکل ٹھیک ہے کہ جیسا انسانی طبائع کا خاصہ ہے کہ وہ بد ظنی کی طرف جھٹ رجوع کر لیتی ہے۔تو اندرونی طور پر ہی لوگ ایک قصہ کہانی سمجھ کر قرآن سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔مثلاً دیکھو۔اگر اندر کھڑکا ہو،تو باہر والا خواہ مخواہ خیال کرے گا کہ اندر کوئی آدمی ضرور ہے،مگر جب وہ دو چار دن تک دیکھتا ہے کہ اندر سے کوئی نہیں نکلا،تو پھر اس کاخیال مبدل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔تو پھر بدوں ہی وہ اندر جانے کا سمجھ لیتا ہے کہاگر انسان ہوتا،تو اس کو کھانے پینے کی ضرورت پڑتی اور وہ ضرور باہر آتا۔اگر نبوت کے انوار وبرکات جو وحی ولایت کے رنگ میں آتے ہیں۔اس فلاسفی اور روشنی کے زمانہ میں ظاہر نہ ہوتے،تو مسلمانوں کے بچے مسلمانوں کے گھروں میںرہ کراسلام اور قرآن کو ایک قصہ کہانی اور داستان سمجھ لیتے۔اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق اور واسطہ نہ رہتا۔اس طرح پر گویا اسلام کو معدوم کرنے کا سلسلہ بند ھ جاتا،مگر نہیں !اللہ تعالیٰ کی غیرت،اس کا ایفائے وعدہ کو جوش کب ایسا ہونے دیتا تھا۔جیسا کہ میںنے ابھی کہا کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ:انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(الحجر:۱۰)
قرآن کا نام ذکر رکھنے کی وجہ
اب دیکھو۔قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیاہے،اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یا د دلاتا ہے۔جب اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لاتے ہیں،تو وہ مبالغہ کا کام دیتا ہے۔جیسا زَیْد عَدْل۔ کیا معنے؟زید بہت عادل ہے۔قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا،بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے،جوانسان کے اندر مختلف طاقتوںکی صورت میںرکھی ہے۔حلم ہے یثارؔہے، شجاعتؔ ہے، جبرؔہے،غضبؔ ہے،قناعتؔہے وغیرہ۔غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی،قرآن نے اسے یاد دلایا۔جیسے فی کتب مکنون(الواقعہ:۷۹)یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا۔اسی طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا۔ تاکہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے نادر ہے،یاد دلاوے۔غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا۔تا کہ انسان ان معارف اور حقئق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے،جن کا اسے پتہ نہ تھا،مگر افسوس کہ قرآن کی اس علت غائی کو چھوڑ کر جوھدی للمتقین (البقرہ:۳)اس کو صرف چند قصص کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور نہایت بے پروائی اور خود غرضی سے مشرکین عرب کی طرح اساطیر الاولین کہہ کر ٹالا جاتا ہے۔وہ زمانہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کا اور قرآن کے نزول کا۔جب وہ دنیا سے گمشدہ صداقتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا۔اب وہ زمانہ آگیا جس کی نسبت رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے،لیکن ان کے حلق سے نیچے قرآن نہیں اترے گا۔سو اب تم ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ لوگ قرآن کیسی خوش الحانی سے اور عمدہ قرات سے پڑھتے ہیں ،لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں گزرتا۔اس لئے جیسے قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے،اس ابتدائی زمانہ میںانسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش شدہ صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا۔
اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا
اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ انا لہ لحافظون(الحجر:۱۰) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخرین منھم لما یلحقوا بھم(الجمعۃ:۴)کا مصداق اور موعود ہے۔وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔میں پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیش گوئی کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ آپ نے اس زمانہ کی ہی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیںگے،لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔اب ہمارے مخالف۔نہیں نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے خوب گلے مروڑ مروڑ کر یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیی(آل عمران:۵۶)اور فلما تو فیتنی(المائدہ:۱۱۸)قرآن میں عجیب لہجے سے پڑھتے ہیں،لیکن سمجھتے نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اگر کوئی ناصح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔نہ کریں۔ اتنا تو کریں کہ اس کی بات ہی ذرا سن لیں۔مگر کیوں سنیں؟وہ گوش شنوا بھی رکھیں ۔صبر اور حسن ظن سے بھی کام لیں۔اگر خداتعالی فضل کے ساتھ زمین کی طرف توجہ نہ کرتا تو اسلام بھی اس زمانہ میں مثل دوسرے مذہبوں کے مردہ اور قصہ کہانی سمجھا جاتا ۔کوئی مردہ مذہب کسی دوسرے کو زندگی نہیں دے سکتا ،لیکن اسلام اس وقت زندگی دینے کو تیار ہے۔لیکن چونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ کوئی کام بغیر اللہ تعالیٰ کے اسباب نہیں کرتا۔ہاں یہ مار جدا ہے کہ وہ اسباب ہم کو دکھائی دیں یانہ،لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔اسی طرح آسمان سے انوار اترتے ہیں،جو زمین پر پہنچ کر اسباب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے کو تاریکی اور گمراہی میں مبتلا پایا اور ہر طرف سے ضلالت اور ظلمت کی گھنگھور گھٹا دنیا پر چھا گئی۔اس وقت اس تاریکی کودور کرنے اور ضلالت کو ہدایت اور سعادت سے تبدیل کرنے کے لئے ایک سراج منیر فاران کی چوٹیوں پر چمکا،یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم مبعوث ہوئے ۔
موجودہ زمانہ کی حالت اور ضرورت مصلح
اور ایسا ہی اس زمانہ میں جس میں ہم رہتے ہیں ایمانی طاقتیں مردہ ہو کر فسق وفجور نے ان کی جگہ لے لی ہے۔لوگوں کے معاملات ایک طرف۔عبادت دوسری طرف۔غرض ہر بات میں فطور آگیا ہے۔صرف یہ آفت ہی اگر ہوتی تو کچھ مضائقہ اور چنداں خطرہ نہ تھا،لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ سب سے بڑی آفت جس کا مجھے کئی بار ذکر کرنا پڑا ہے اور جس کا ہربہی خواہ اسلام کا دل محسوس کر چکا ہے یا کر سکتا ہے وہ،وہ زہریلہ اثر ہے جو آجکل کی طبعی طبابت اور ہیت اور جھوٹے فلسفے کے باعث اسلام اور اہل اسلام پر پڑ رہا ہے۔علماء تو اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ان کو خانہ جنگیوں اور اندرونی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی تکفیر بازی سے فرصت ملے،تو ادھر توجہ کریں۔زاہد اگر اپنی گوشہ نشینیوں میں بیٹھ کر اگر دعاوں سے کام لیتے تو بھی کچھ آثار پیدا ہوتے،مگر وہ پیر پرستی جو از سماع وغیرہ کی بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔حقیقی صوفی ازم کی جگہ اب چند رسومات نے لے لی ہے۔جن کا قرآن اور سنت سے پتہ نہیں چلتا۔الگرض ہر طرف سے اسلام عرضہ تیغ جہلاو سفہا ہو رہا ہے۔اس وقت میں کہ وہ ضرورتیں جو کسی مصلح اور ریفارمر کی آمد کے لئے لازم ہیں۔پورے انتہائی نقطے تک پہنچ چکی ہے۔ہر ایک شخص بجائے خود ایک نیا مذہب رکھتا ہے۔ان تمام امور اور حالات پر قیاس کر کے اسلام کی عمر خاتمہ کے قریب نظر آتی تھی۔ڈاکٹر اور طبیب جب کسی ہیضہ کے مریض کا بدن برف سا سر دیا اسے سر سام میں مبتلا دیکھے،تو اسے لا علاج بتا کر کھسک آتے ہیں۔اور حالت ردیہ دیکھ کر ڈاکٹر حاذق بھی یاس اور نامیدی ظاہر کر دیتے ہیں۔اب اس وقت اسلام کی حالت پر کچھ شک نہیں کہ اس کی انتہا یاس تک پہنچ گئی تھی،لیکن اگر وہ بھی انسان کے اپنے خیالات کا نتیجہ یا اپنی کوششوں کا ثمرہ ہوتا،تو ان مصائب اور شدائد کے دوران میں کہ ہر طرف سے اس پر زد پڑتی ہے اور اس کی اپنی اندرونی حالت بوجہ نفاق باہی کمزور ہو گئی ہے۔ایسی حالت میں کم از کم اسلام کا قائم رہنا ،جس کے معدوم کرنے کے لئے مخالفوں نے ناخنوںتک زور لگایا ہے اور لگا رہے ہیں۔بہت مشکل ہو جاتا۔کوئی سال نہیں جاتا جب کہ کوئی نئی صورت اسلام پرحملہ کرنے کی نہیں تراشی جاتی۔اگر کوئی ایجاد یا کل بنائی جاتی ہے۔اس کے اصول کو زیر نظر رکھ کر اسلام پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔
آجکل کی ترقی بھی اسلام کا ایک معجزہ ہے
الغرض ایسے فتنے کے وقت میں قریب تھا کہ دشمن اٹھے ہو کر ایک دفعہ ہی مسلمانوں کو بر گشتہ کر دیتے،لیکن اللہ تعالیٰ کے زبر دست ہاتھ نے اسلام کو سنبھالے رکھا۔یہ بھی ایک دلیل ہے اسلا م کی صداقت کی۔آجکل کی ترقی بھی اسلام کا ہی ایک معجزہ ہے۔پس دیکھو کہ مخالفوں نے اپنی ساری طاقتیں اور قوتیں حتٰی کی جان مال بھی اسلام کی نابود کرنے میں صرف کر دیا۔مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون(الحجر:۱۰) یعنی خدا آپ ہی ان نقوش فطرت کو یاد دلانے والا ہیاور وہی خطرہ کے وقت اسے بچا لے گا ۔اسلام کی کشتی خطرہ میں جا پڑ تھی۔پادروں کا حملہ جنھوں نے کروڑ ہا روپیہ خرچ کر کے اور طرھ طرح کے وعدے اور منافع یہاںتک کہ شرم ناک نفسانی حظوظ تک دکھا کر بھی لوگوں کو اسلام سے بد طن کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اسلامی عقائد کو بد نام کرتے ہیں۔دیکھو!مساک بارش کی وجہ سے استسقاء کی نماز پڑھی جاتی ہے۔اگر کل سے بارش برسانے میں کامیابی ہو جاوے ،جیسا کہ آجکل بعض لوگ امریکہ وغیرہ میں کوشش کرتے ہیں،تو اس طرح پر ایک رکن ٹوٹ جائے گا۔غرض میں کہاں تک بیان کروں ۔ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں اور اس کو بد نام کر نے کی کوشش ،ہاں انتھک کوشش کی جاتی ہے۔مگر ان لوگوں کے منصوبے اور ہتھکنڈے کیا کر سکتے ہیں۔خدا اس کو خود ان حربوں سے بچانا چاہتا ہے۔اور اس زمان ترقی میں اسلام کو بغیر امداد کے نہیں چھوڑا،بلکہ اس نے اسلام کی حفاظت کی اور اپنے سچے رسول اللہ سلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وعدوں کو سچا ثابت کر دیا اور اس کی مبارک پیش گوئیوں کی حقیقت کھول دی اور اس صدی میں ایک شخص پیدا کر دیا۔میں بار بار کہتا ہوں کہ وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔وہ صداقت کی روح اسلام میں پھونک دے گا۔وہ وہی ہے جوگمشدہ صداقتوں کو آسمان سے لاتا ہے اور لوگوں تک پہنچاتا ہے،وہ بد ظنیوں اور ایمانی کمزوری کو دور کرنا چاہتا ہے۔
بد ظنّی
بد طنی ایک ایسا مرض ہے اور ایسی بری بلا ہے جو انسان کو اندھا کر کے ہلاکت کے ایک تاریک کنوین میں گرا دیتی ہے۔بد ظنی ہی ہے جس نے ایک مردہ انسان کی پرستش کرائی۔بد ظنی ہی ہے جو لوگوں کو خدا تعالیٰ کی صفات خلق،رحم رازقیت وگیرہ سے معطل کر کے نعوذ باللہ ایک فرد معطل اور شے بے کار بنا دیتی ہے۔الغرض اس بد ظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ،اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا،تو مبالغہ نہیں ۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ماموروں سے بد ظنی کرتے ہیں۔وہ خدا تعالیٰ کی نرمتوں اور فضل کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہین۔غرض اگر کوئی ہمارے اس سلسلہ کو جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا۔انکار کریں تو ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ ہائے!ایک روح ہلاکت کے دروازہ کی زنجیر کھٹکھٹاتی ہے اور یہ سلسلہ ایسا روشن ہے کہ اگر کوئی شخص مستعددل لے کر دو گھنٹے بھی ہماری باتوں کو سنے،تو وہ حق کو پالے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاقی معجزات
اب میں چاہتا ہوں کہ چند باتیں کہہ کر اس تقریرکو ختم کر دوں۔ میں تھوڑی دیر کے لئے پھر معجزات کے سلسلے کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہا کہ ایک خوارق تو شق القمر وغیرہ کے علمی رنگ کے ہیں اور دوسرے حقائق المعارف کے تیسار طبقہ معجزات کا اخلاقی معجزات ہیں۔اخلاقی کرامت میں بہت اثر ہوتا ہے۔فلاسفر لوگ معارف اور حقائق سے تسلی نہیں پاسکتے ؛مگر اخلاق عظیمہ ان پر بہت بڑا اور گہرا اثر کرتے ہیں۔حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک درخت کے نیچے سوئے ہوئے پڑے تھے کہ ناگاہ ایک شور وپکار سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنگلی اعرابی تلوار کھینچ کر خود حضور پر آ پڑا ہے اس نے کہا اے محمد!(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بتا اس وقت تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟آپ نے پورے اطمینان اور سکینت سے جو آپ کو حاصل تھی فرمایا کہ اللہ آپ کا یہ فرمانا عام انسانوں کی طرح نہ تھا ۔اللہ جو خدا تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے۔ایسے طور سے آپ کے منہ سے نکلا اور دل پر ہی جاکر ٹھہرا ۔کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں،لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو ،وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔الغرض ایسے طور پر اللہ کا لفظ آپ کے منہ سے نکلا کہ اس پر رعب طاری ہو گیا اور ہاتھ کانپ گیا ۔تلوار گر پڑی۔حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہی تلوار اٹھا کر کہا کہ اب بتلا۔میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟وہ ضعیف القلب جنگلی کس کا نام لے سکتا تھا۔آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھلایا اور کہا جا تجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ مروت اور شجاعت مجھ سے سیکھ۔اس اخلاقی معجزے نے اس پر ایسا اثر کیا کہ وہ مسلمان ہو گیا ۔
سیر میں لکھا ہے کہ ابو الحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا ۔راستہ میں شیر ملا۔اور کہا کہ اللہ کے واسطے پیچھا چھوڑ دے۔شیر نے حملہ کیا اور جب کہا ۔ابوالحسن نے واسطے چھوڑ دے،تو اس نے چھوڑ دیا۔شخص مذکورہ کے ایمان میں اس حالت نے سیاہی سی پیدا کر دی اور اس نے سفر ترک کر دیا۔واپس آکر یہ عقدہ پیش کیا۔اس کو ابوالحسن نے جواب دیا کہ یہ بات مشکل نہیں۔اللہ کے نام سے تو واقف نہ تھا۔اللہ کی سچی ہیت اور جلال تیرے دل میں نہ تھا اور مجھ سے تو واقف تھا۔اس لئے میری قدر تیرے دل میں تھی۔پس اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں۔بشر طیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے اور اس کی ماہیت پر کان دھرے۔
اسی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاقی معجزات میںایک اور معجزہ بھی ہے کہ آپ کے پاس ایک وقت بہت سی بھیڑیں تھیں۔ایک شخص نے کہا۔اس قدر مال اس سے پہلے کسی کے پاس نہیں دیکھا ۔حضور نے وہ سب بھیڑیں اس کو دے دیں۔اس نے فی الفور کہا کہ لاریب آپ سچے نبی ہیں۔سچے نبی کے بغیر اس قسم کی سخاوت دوسرے سے عمل میںآنی مشکل ہے۔الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اس طرح کے تھے کہ انک لعلی خلق عظیم(القلم:۵)قرآن میں وارد ہوا۔
ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں
پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں،کیونکہ الاستقامۃ فوق الکرامۃ مشہور ہے۔وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی ان پر سختی کرے۔تو حتٰی الواسع اس کا جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دین۔تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں۔
انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔امارہ،لوامہ،مطمئنہ۔اماری کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالر سے گر جاتا ہے۔مگر حالت لوامہ میں سنبھال لیتا ہے۔مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستاں میں لکھی ہے۔کہ ایک بزرگ کو ایک کتے نے کاٹا ۔گھر آیا،تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ رکھا ہے۔ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔وہ بولی۔ آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟اس نے جواب دیا۔بیٹی!انسان سے کتپن نہیں ہوتا۔اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔نہیںتو وہ کپتن کی مثال صادق آئے گی۔خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔بہت بری طرح ستایا گیا،مگر ان کو اعراض عن الجھلین(الاعراف:۲۰۰)کا ہی خطاب ہوا ۔خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں بد زبانیاور شوخیاں کی گئیں۔مگر اس خلق مجسم زات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا،تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے۔اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہیں کر سکیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی زلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں میں گرے۔یا سامنے تباہ ہوئے۔غرض یہ سفت لوامہ کی ہے۔جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔روزمرہ کی بات ہے۔اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے۔جس قدر اس سے اعراض کرو گے،اسی قدر اس سے عزت بچا لو گے۔اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاو گے اور ذلت خرید لو گے۔نفس مطمئنہ کی حالت میں انسان لا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے۔وہ دنیا اور ماسوی اللہ سے باکلی انقطاع کر لیتا ہے۔وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے،لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا۔جہاں وہ ہوتا ہے۔وہ دنیا اور ہی ہوتی ہے۔وہاں کا آسمان اور زمین اور ہی ہوتی ہے۔
جماعت احمدیہ کے لئے بشارت عظیم
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ(آل عمران:۵۶)یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ان مریم سے ہوا تھا۔مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں۔ جو امارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہین؟نہیں،ہر گز نہیں۔جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے،تو یاد رکھو اور دل سے سن لو ۔میں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیںاور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہین،بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر (نہ سرف میری ذات تک)بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے۔جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسان کامل تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روھ تک لے کر آیا ۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا،تو مجھے کچھ بھی فکر اور اندیشہ نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی۔مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خدائے تعالیٰ کی بر گزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔پس ایسی صور ت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی(کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے)کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے،تو پھر میں اتنا ہی کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی۔جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاو۔
اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاو۔تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں1؎۔فقط



حضرت اقدس امام الزماں کی تیسری تقریر
۳۰ دسمبر۱۸۹۷؁ء
دوستوں کے لئے ہمدردی اور غم خواری
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوںکا تعلق ہمارے ساتھاعضاء کی طرح کا ہے اور یہ بات ہمارے روز مرہ کے تجربے میں آتی ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے عضو مثلاً انگلی ہی میں درد ہو،تو سار ا بدن بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح ہر وقت اور ہر آن میں ہمیشہ اس خیال اور فکر میں رہتا ہوں کہ میرے دوست ہر قسم کے آرام وآسائش سے رہیں۔یہ ہمدردی اور غم خواری کسی تکلف اور بناوٹ کی رو سے نہیں،بلکہ جس طرح والدہ اپنے بچوں میں سے ہر واحد کے آرام وآسائش کی فکر میں مستغرق رہتی ہے خوا وہ کتنی ہی کیوںنہ ہو ۔اسی طرح میں للہی دلسوزی اور غم خواری اپنے دل میں دوستوں کے لئے پاتا ہوں اور یہ ہمدردی کچھ ایسی اضطراری حالت پر واقع ہوئی ہے کہ جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کاخط کسی قسم کی تکلیف یا بیماری کے حالات پر مشتمل پہنچتا ہے،تو طبیعت میں بے کلی اور گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک غم شامل حال ہو جا تا ہے اور جوں جوں احباب کی کثرت ہو جاتی ہے۔اسی قدر یہ غم بڑھتا جا رہا ہے اور کوئی وقت ایسا خالی نہیں رہتا جب کہ کسی قسم کی فکر اور غم شامل حال نہ ہو،کیونکہ اس قدر کثیر التعداد احباب میں کوئی نہ کوئی،کسی نہ کسی غم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی اطلاع پر ادھر دل میں قلق اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے میں نہیں بتلا سکتا کہ کس قدر اوقات غموں میں گزرتے ہیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو ایسے ہموم اور افکار سے نجات دیوے۔اس لئے میں ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہتا ہوں اور سب سے مقدم دعا یہی ہوتی ہے کہ میرے دوستوں کو غم اور ہموم سے محفوظ رکھے،کیو ںکہ مجھے تو ان کے ہی افکار اور ر نج غم میں ڈالتے ہیں۔اور پھر یہ دعا مجموعی ہیت سے کی جاتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی رنج اور تکلیف پہنچی ہے۔تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو نجات دے۔ساری سر گرمی اور پورا جوش یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں۔دعا کی قبولیت میں بڑی بڑی امیدیں ہیں ۔
قبولیت دعا کے اصول
بلکہ میرے ساتھ میرے مولا کریم کا خاص وعدہ ہے کہ اجیب کل دعا ئک مگر میں خوب سمجھتا ہوں کہ کل سے مراد یہ ہے کہ جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچ جاتا لیکن اگر اللہ تعالیٰ تر بیت اور اصلاح چاہتا ہے تو رد کرنا ہی اجابت دعا ہوتا ہے۔بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ نے دعا رد کر دی؛حالانکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے۔اور وہ اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے۔کیوں کہ اس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رد ہی میں ہوتی ہے۔انسان چونکہ کوتاہ بین ہے اور دور اندیش نہیں،بلکہ ظاہر پرست ہے،اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو ،تو خدا پر بد ظن نہ ہو کہاس نے میری دعا نہیں سنی۔وہ تو ہر ایک کی دعا کو سنتا ہے۔ادعو نی استجب لکم(المومن:۶۱)فرماتا ہے۔رازور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی رد دعا ہی میں ہوتی ہے۔
دعا کا اصول یہی ہے۔اللہ تعالیٰ قبول دعا میں ہمارے اندیشہ اورخواہش کے تابع نہیں ہو تاہے۔دیکھو بچے کس قدر اپنی ماوں کو پیارے ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے،لیکن اگر بچے بے ہودہ طور پر اصرار کریں تو اور رو کر تیز چاقو یا ٓگ کا روشن چمکتا ہوا انگارہ مانگیں،تو کیا ماں باوجود سچی محبت اور حقیقی دل سوزی کے کبھی گوارا کرے گی کہ اس کا بچہ آگ کا انگارہ لے کر ہاتھ جلا لے یا چاقو کی تیز دھار پر ہاتھ مار کر ہاتھ کاٹ لے؟ہر گز نہیں۔اسی اصول سے اجابت دعا کا اصول سمجھا جا سکتا ہے۔میں خود اس امر میںایک تجربہ رکھتا ہوں کہ دعا میں جب کوئی جز و مضر ہوتا ہے تو وہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوتی ہے۔یہ بات خوب سمجھ آسکتی ہے کہ ہمارا علم یقین اور صحیح نہیں ہوتا ۔بہر سے کام نہایت خوشی سے مبارک سمجھ کر کرتے ہیںاور اپنے خیال میں ان کا نتیجہ بہت ہی مبارک خیال کرتے ہیں۔لگر انجام کار وہ ہی ایک غم اور ،مصیبت ہو کر چمٹ جاتے ہیں۔غرض یہ کہ خواہشات انسانی سب پر صادر نہیں کر سکتے کہ سب صحیح ہیں۔چونکہ انسان سہو اور نسیان سے مرکب ہوتا ہے،اس لئے ہونا چاہیے اور ہوتا ہے کہ بعض خواہش مضر ہوتیں ہیں۔اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو قبول کر لے تو یہ امر منصب رحمت کے صریح خلاف ہے ۔یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاوں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے،مگر ہر طب ویابس کو نہیں،کیوں کہ جوش بفس کی وجہ سے انسان انجام اور مال کو نہیں دیکھتا اور دعا کرتا ہے،مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ اور مآل بین ہے۔ان مضرتوں اورت بد نتائج کو ملحوظ رکھ کر جو اس دعا کے تحت میں بصورت قبول داعی کو پہن سکتے ہیں،اسے رد کر دیتا ہے اور یہ رد دعا ہی اس کے لئے قبول دعا ہوتاہے،پس ایسی دعائین جن میں انسان حوادث اور صدمات سے محفوظ رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے،مگر مضر دعاؤںکو بصورت رد قبول فرما لیتا ہے۔مجھے یہ الہام بار ہا ہو چکا ہے۔اجیب کل دعائک دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ہر ایک ایسی دعا جو نفس الامر میں نافع اور مفید ہے ،قبول کی جائے گی۔میں جب اس خیال کو اپنے دل میں پاتا ہوں،تو میری روح لذت اور سرور سے بھر جاتی ہے۔جب مجھے یہ اول ہی اول الہام ہوا قریباً پچیس یا تیس برس کا ہوتا ہے،تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں جو میرے یا میرے احباب کے متعلق ہوں گی۔ضرور قبول کرے گا ۔پھر میں نے خیال کیا کہ اس معاملے میں بخل نہیں ہونا چاہیے۔کیوں کہ یہ ایک الہام الہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفت میں فرمایا ہے ومما رزقنھم ینفقون(البقرہ :۴)پس میں نے اپنے دوستوں کے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ خواہ وہ یاد دلائیں یا نہ دلائیں ،کوئی امر خطیر پیش کریںیا نہ کریں۔ان کی دینی اور دنیاوی بھلائی کے لئے دعا کی جاتی ہے۔
قبولیت دعا کی شرائط
مگر یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہیے کہ قبول دعا کے لئے چند شرائط ہوتیں ہیں۔ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے بارے میں ہوتیں ہیں اوربعض دعا کروانے والے کے بارے مین ۔دعا کروانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مد نظر رکھے اورر اس کے اغناء ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے اورصلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنا لے۔تقویٰ اور راستبازی سے خداتعالیٰ کو خوش کرے،تو ایسی صورت میں دعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے۔اگر وہ خدا تعالیٰ کو نارا ض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے،تو اس کی شرارتیںاور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سد اورچٹان ہو جاتی ہیں۔اور استجابت کا دروزہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے۔
ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچائیں
پس ہمارے دوستوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤںکو ضالٔع ہو نے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی نا شالٔستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہے۔ان کو چاہیے کہ وہ تقوی کی راہ اختیار کریں،کیونکہ تقوی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیںتومغزشریعت تقوی ہی ہو سکتا ہے۔تقوی کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں،لیکن اگر طالب صادقہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل استقلال اور خلوص سے طے کرے،تو وہ اس راستی اورطلب صدق کی وجہ سے اعلی مدارج کو پا لیتاہے۔اللہ تعالی فرماتاہے۔انما یتقبل اللہ من المتقین۔(المامئدہ:۲۸) گویا اللہ تعالی متقیوں کی دعائوں کو قبول فرماتاہے۔یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا۔جیسا کہ فرمایاہے:ان اللہ لا یخلف المیعاد(الرعد:۳۲)پس جس حال میں تقوی کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفک شرط ہے،تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعاچاہے،تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔لہذاہماری جماعت کو لازمہے کہ جہاں تک ہو۔ہر ایک ان میں سے تقوی کی راہوں پر قدم مارے،تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمانی کا حصہ لے۔
نفس انسانی کی تین حالتیں
قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں۔ایک امارہ،دوسری لوامہ،تیسری مطمئنہ۔نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کے پنجے میں گویا گرفتار ہوتا ہے۔اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے،لیکن نفس لوامہ کی حالت مین وہ اپنی خطا کاریوں پر ناد م ہوتا ہے ۔ اور شرمسار ہوکر خدا کی طرف جھکتا ہے۔مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے۔کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے۔اور کبھی رحمان کی طرف۔مگر نفس مطمئنہ کی حالت میں وہ عباد الرحمٰن کے زمرے میں داخل ہو جاتاہے۔اور یہ گویا ارتفاعی نقطہ ہے،جس کے مقابل پر نیچے کی طرف نفس امارہ ہے۔اس میزان کے بیچ میں لوامہ ہے۔جو ترازو کی زبان کی طرح ہے۔انخفاضی نقطہ کی طرف اگر زیادہ جھکتا ہے تو حیوانات سے بھی بد تر اور ارذل ہو جاتا ہے اور ارتفاعی نقطہ کی طرف جس قدر رجوع کرتاہے ۔اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے اور سفلی اور ارضی حالتوں سے نکل کر علوی اور سماوی فیضان سے حصہ لیتا ہے۔
دنیا میں کوئی چیز منفعت سے خالی نہیں
یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بات میںمنافع ہوتا ہے۔دنیا میں دیکھ لو۔ اعلی درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں،جو انسان کے لئے منفعت اور فائدے سے خالی ہو۔یہ تمام اشیاء خوا وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کے صفات کے اظلال اور آثار ہیں۔اور جب صفات مین نفع ہی نفع ہے،تو بتلاؤکہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا۔اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں،تو اپنی غلطی اور نہ فہمی کی وجہ سے۔اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرت ہی ہے۔نہیں ، بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے۔اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں؛ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے۔دنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی ایک راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سوء فہم اور قصور علم کی وجہ سے مبتلائے عصاب ہوتے ہیں ۔پس اس سفاتی آنکھ کے روزن سے ہی ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اورحد سے زیادہ قیاس سے باہر نفع ہستی پاتے ہیں۔اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہو جاتا ہے۔اور یہ درجہ ان لوگوں کو ہی ملتا ہے جومتقی کہلاتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں۔جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے،جو اس کی معلومات میں اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جا تا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل ودماغ پر قبضہ کر لیتی ہے۔یہاں تک کہ وہ صم بکم عمی فھم لا یر جعون(البقرہ:۱۹)کا مصداق ہو کر ذلت اور تباہی کا موردن بن جاتا ہے،مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہورانسان اعلی درجہ کی راحت اور عزت پاتاہے؛چنانچہ خدا تعالی نے خود فرماتا ہے۔یاایتھاالنفس المطمئنۃارجعی الی ربک راضیۃمرضیۃ(الفجر:۸۲،۹۲)یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اورپھر یہ اطمینان خداکے ساتھ پایا ہے۔بعض لوگ حکومت سے بظاہر اطمینان اور سیری حاصل کرتے ہیں۔بعض کی تسیکن اور سیری کا موجب ان کا مال اور عزت ہو جاتی ہے۔اور بعض اپنی خوبصورت اور ہوشیار اولادواحفاد کو دیکھ دیکھ کر بظاہر مطمئن کہلاتے ہیں،مگر یہ لذت انواع وقسام کی لذات دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں دے سکتیں۔بلکہ ایک قسم کی ناپاکی حرص کو پیدا کر کے طلب اورپیاس کو پیدا کرتی ہیں۔استسقا ء کے مریض کی طرح ان کی پیاس نہیں بجھتی۔یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیتی ہے۔مگر یہاں خدا تعالی فرماتا ہے وہ نفس جس نے اپنا اطمینان خداتعالی میں حاصل کیا ہے۔یہ درجہ بندے کے لیے ممکن ہے۔اس وقت اسکی خوشحالی باوجود مال ومنال کے دنیوی حشمت اور جاہ وجلال کے ہوتے ہوئے بھی خدا ہی میں ہوتی ہے۔یہ زروجواہر،یہ دنیا اور اس کے دھندے،اس کی سچی راحت کا موجب نہیںہوتے۔پس جب تک انسان خدا تعالی ہی میں راحت اور اطمینان نہیں پاتا،وہ نجات نہیں پاسکتا،کیونکہ نجات اطمینان ہے کا ایک مترادف لفظ ہے۔
نفس مطمئنہ کے بغیر انسان نجات نہیں پا سکتا
میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میںمال ودولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولاداحفادرکھتے تھے۔جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتوںاور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑکی اور سر دآہیںمارنے لگے۔پس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے۔جوانسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا،بلکہ اس کوگھبراہٹ اور بے قراری کے عالم میں ڈال دیتا ہے، اس لیے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر پوشیدہ نہیںرہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل وعیال اور اموال کی محبت ہاں ناجائز اور بیجا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے۔اور ااکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے نا جائز کام کر گزرتا ہے،جواس میں اور خداتعالی میں ایک حجاب پیدا کردیتے ہیںاور اس کے لیے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں۔اس کو اس بات کا علم نہیںہوتا جب وہ ان سب سے یکایک علیحدہ کیا جاتا ہے اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی۔تب وہ ایک سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو،تو اس سے جسائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور درناک غم پیدا ہو جاتا ہے۔اب یہ مسئلہ منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے۔جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ ناراللہ الموقدۃالتی تطلع علی الافئدۃ(الھمزہ:۷۔۸)پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیر ت ناک عذاب اور درد میں متبلا کر دیتی ہے۔میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچی اوریقینی بات ہے کہ نفس مطمئنہ کے بدوں انسان نجات نہیںپا سکتا۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ نفس امارہ کی حالت میںانسان شیطان کا غلام ہوتا ہے۔اور لوامہ میں اسے شیطان سے ایک مجاہدہ اور جنگ کرنا ہوتا ہے۔کبھی وہ غالب ہو جاتا ہے۔اور کبھی شیطان،مگرمطمئنہ کی حالت ایک امن اور آرام کی حالت ہوتی ہے۔کہ وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔اس لئے اس آیت میں کہ یا ایتھا النفس المطمئنۃ (الفجر:۲۸) یہ صاف معلو م ہوتا ہے کہ اس آخری حالت میں کس قدر استراحت ہوتی ہے؛چنانچہ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نفس مطمئنہ اللہ کی طرف چلا آ۔ظاہر کے لحاظ سے تو یہ مطلب ہے کہ جان کند فی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے کہ اے مطمئن نفس اپنے رب کی طرف چلا آ۔وہ تجھ سے خوش اور تو اس سے راضی۔چونکہ قرآن مجید کے لئے ظاہر اور باطن دونوں برابر ہیں ۔اس لئے باطن کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ اے اطمینان تک پہنچے ہوئے نفس اپنے رب کی طرف چلا آ۔یعنی تیری طبعاًیہ حالت ہوچکی ہے کہ تو اطمینان اور سکینت کے درجے پر پہنچ گیا ہے اور تجھ میںاور اللہ تعالیٰ میں کوئی بعد نہیں ہے۔لوامہ کی حالت میں تو تکلیف ہوتی ہے۔مگر مطمئنہ کی حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پانی اوپر سے گرتا ہے۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے رگ وریشہ میں سرایت کر جاتی ہے۔اور وہ خدا ہی کی محبت سے جیتا ہے۔غیر اللہ کی محبت جو اس کے لئے ایک جلانے اور جہنم کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے۔اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا اس کا منشاء ہو جا تا ہے۔خدا تعالیٰ کی محبت ایسی حالت میں اس کے لئے بطور جان ہوتی ہے۔جس طرح زندگی کے لئے لوازم زندگی ضروری ہے۔اس کی زندگی کے لئے خدا اورصرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ہی اس کی سچی خوشی اور پوری راحت ہوتا ہے۔
انسانی ہستی کا مدعا
نفسِ مطمٔنہ کی یہ نشانی ہے کہ کسی خارجی تحریک کے بدوں ہی وہ ایسی صورت پکڑ جاتا ہے کہ خد اکے بدوں رہ نہیں سکتا اور یہی انسانی ہستی کا مدعا ہے اور ایس اہی ہونا چاہیے۔ فارغ انسان شکار،شطرنج، گنجفہ وغیرہ اشغال اپنے لیے پیدا کرلیتے ہیں۔ مگر جب مطمٔنہ ناجائز اورعارضی ا ور بسااوقات رنج اور کرب پیدا کرنے والے اشغال سے الگ ہوگیا۔ اب الگ ہوکر منقطع عالم اُسے کیوں یادآوے۔ اس لیے خدا ہی سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہ امر بھی دل سے محو نہیں ہوناچاہیے کہ محبت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک ذاتی محبت ہوتی ہے اور ایک محبت اغراض سے وابستہ ہوتی ہے۔ یا یہ کہو کہ اُس کا باعث صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں۔ جن کے دُور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہوکر رجن اور غم کا باعث ہوجاتی ہے۔ مگر ذاتی محبت سچی راحت پیدا کرتی ہے۔ چونکہ انسان فطرتاًخدا ہی کیلئے پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ ماخلقت الجن والانس الا یعبدون (الذاریات:۵۷) اس لیے خدا تعالیٰ نے اُس کی فطرت ہی میں اپنے لیے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور اپنے پوشیدہ اور مخفی درمخفی اسباب سے اُسے اپنے لیے بنایا ہوا ہے۔ پس جب انسان جھوٹی اور نمائشی۔ ہاں عارضی اور رنج پر ختم ہونے والی محبتوں سے الگ ہوجاتا ہے پھر وہ خدا ہی کیلئے ہوجاتا ہے اور طبعاً کوئی بُعد نہیں رہتا اور خدا کی طرف دوڑا چلا آتا ہے۔ پس اس آیت یا ایھا النفس المطمئنۃ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ خداتعالیٰ کا آواز دینا یہی ہے کہ درمیانی حجاب اُٹھ گیا اور بعدنہیں رہا۔ یہ متقی کا انتہائی درجہ ہوتا ہے۔ جب وہ اطمینان اور راحت پاتا ہے۔ دُوسرے مقام پر قرآن شریف نے اس اطمینان کا نام فلاح اور استقامت بھی رکھا ہے اور اھدناالصراط المستقیم میں اُسی استقامت یا اطمینان یا فلاح کی طرف لطیف اشارہ ہے اور خود مستقیم کا لفظ بتلارہا ہے۔
معجزات
یہ سچی بات ہے کہ خداتعالیٰ غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ خلقِ اسباب کرتاہے خواہ ہم کوان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہو، الغرض اسباب ضرورہوتے ہیں۔ اس لیے شق القمرینارکو فی برواوسلاما (الانبیاء:۷) کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں، بلکہ وہ بھی بعض مخفی درمخفی اسباب کے نتائج ہیں اور سچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں ۔ کوتاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اُسے نہیںسمجھ سکتے۔ مجھے تو یہ حیرت آتی ہے کہ جس حال میں یہ ایک امر مسلم ہے کہ عدمِ علم سے عدمِ شے لازم نہیں آتا، تونادان فلاسفر کیوں ان اسباب کی بے علمی پر جو اُن معجزات کا موجب ہیں اصل معجزات کی نفی کی جرأت کرتا ہے۔ ہاں ہمارا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے کسی بندے کو اُن اسباب مخفیہ پر مطلع کردے، لیکن یہ کوئی لازم بات نہیں۔ دیکھوانسان اپنے لیے جب گھر بناتا ہے ، تو جہاں ور سب آسائش کے سامانوں کا خیال رکھتا ہے، سب سے پہلے اس امر کو بھی ملحوظ رکھ لیتا ہے کہ اندر جانے اور باہر نکلنے کے لئے بھی کوئی دروازہ بنالے۔ اور اگر زیادہ سازوسامان ہاتھی، گھوڑے، گاڑیاں بھی پاس ہیں تو علیٰ قدرِ مراتب ہر ایک چیز اور سامان کے نکلنے اور جانے کے واسطے دروازہ بناتا ہے نہ یہ کہ سانپ کی بانبی کی طرح ایک چھوٹا سا سوراخ،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فعل یعنی قانونِ قدرت پر ایک وسیع اور پُر غور نظر کرنے سے ہم پتہ لگاسکتے ہیں کہ اس نے اپنی مخلوق کوپیدا کر کے یہ کبھی ہیں چاہا کہ وہ عبودیت سے سرکش ہوکر ربوبیت سے متعلق نہ ہو۔ ربوبیت نے عبودیت کے دُور کرنے کا ارادہ کبھی نہیں کیا۔ سچا فلسفہ یہ ہے جو لوگ عبودیت کو کوئی مستقل اختیار والی شے سمجھتے ہیں، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ خُدا نے اُس کوایسا نہیں بنایا۔ ہماری معلومات ، خیالات اور عقلوں کا باہم مساوی نہ ہونا اور ہر امر پرپوری اور کما حقہ روشنی ڈالنے کے ناقابل ہونا صریح اس امر کی دلیل ہے کہ عبودیت بُدوں فیضانِ ربوبیت کے نہیں رہ سکتی۔ ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ ملائک کا حکم رکھتا ہے اگر ایسانہ ہوتا، تو پھر دوا اور اس سے بڑھ کر دُعا کا اُصول ہی بے فائدہ اور بے جان ہوتا۔
زمین، آسمان اور مانی الارض والسموٰات پر نظر کرواور سوچوکہ کیا یہ تمام مخلوقات بذاتہٖ و بنفسہٖ اپنے قیام اور ہستی میں مستقل اختیار رکھتے ہیں یا کسی کے محتاج ہیں؟
تمام مخلوقات اجرامِ فلکی سے لے کر ارضی تک اپنے بناوٹ ہی میں عُبودیت کا رنگ رکھتی ہیں۔ ہر پتے سے یہ پتہ ملتا ہے اور ہر شاخ اور آوازسے یہ صدا نکلتی ہے کہ الوہیت اپنا کام کررہی ہے اس کے عمیق تصرفات جن کو ہم خیال اور قوت سے بیان نہیں کرسکتے، بلکہ کامل طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اپنا کام کررہے ہیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم (البقرہ:۲۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جامع صفات ِ کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزّہ ہے۔ وہی مستحقِ عبادات ہے۔ اسی کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حی بالذات اور قائم الذات ہے اور بجز اس کے اور کسی چیز میں حی بالذات ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی۔ کیا مطلب کہ اللہ تعالیٰ کے بُدوں اور کسی میں یہ صفت نظر نہیں آتی کہ بغیر کسی علت موجبہ کے آپ ہی موجود اور قائم ہویایہ کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم وموزوں سے بنایا گیا ہے۔ علت موجبہ ہوسکے۔ غرض اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کے سوا اور کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان مخلوقات عالم میں تغیر و تبدل کرسکتی ہو یا ہر ایک شے کی حیات کا موجب اور قیام کا باعث ہو۔
صوفیاء کے دو مکتبہ ہائے فکر وجودی و شہودی
اس آیت پر نظرکرنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وجودی مذہب حق سے وہ چلا گیا ہے اور اس نے صفات الہٰیہ کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ معلوم نہیں کرسکتا کہ اُس نے عبودیت اور الوہیت کے ہی رشتہ پر ٹھوکر کھائی ہے۔ اصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُن میں سے جو لوگ اہل کشف ہوئے ہیں اور اُن میں سے اہل مجاہدہ نے دریافت کرنا چاہا، تو عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ میں امتیاز نہ کرسکے اور خلق الاشیاء کے قائل ہوگئے۔
قرآن شریف قلب ہی پروارد ہوکر زبان پر آتا ہے اورقلب کا کس قدر تعلق تھا کہ کلام الہٰی کا مورد ہوگیا ۔ اس باریک بحث سے وہ دھوکہ کھاسکتے تھے۔ مگر بات یہ ہے کہ انسان جب غلط فہمی سے قدم اُٹھاتا ہے تو پھر مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتاہے۔ جیسا مَیں نے ابھی بیان کیا ہے۔ خداتعالیٰ کے تصرفات انسان کے سات ایسے عمیق درعمیق ہیں کہ کوئی طاقت ان کو بیان نہیں کرسکتی اور اگر ایسا ہوتا، تو اس کی ربوبیت اور صفاتِ کاملہ مندرجہ قرآن نہ پائی جائیں۔ ہمارا عدم ہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے اورایک سچی بات ہے کہ جب انسان ہر طرح سے بے اختیار ہونا ہے ، تو اس کا عدم ہی ہوتا ہے۔ اس باریک بھید کو بعض لوگ نہ سمجھ کر خلق الاشیاء ھوعین کہہ اُٹھتے ہیں ۔ وجودی اور شہودی میں سے اوّل الذکر تو ہی ہیں ، جو خلق الاشیاء ھوعین کہتے اور مانتے ہیں اور ثانی الذکر وُہ ہیں جو فناء نظری ے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ محبت میں انسان اس قدر استغراق کرسکتاہے کہ وہ فنافی اللہ ہوسکتا ہے اور پھر اس کے لئے یہ کہنا سزاوار ہوتا ہے ؎
من تن شُرم ، توُ جاں شدی، من تُوشُرم تو من شُدی
تاکس نگوید بعدازیں من دیگرم تُو دیگری
بایں ہمہ تصرفاتِ الہٰیہ کا قائل اُن کو بھی ہونا پڑتا ہے۔ خواہ وجُودی ہوں یا شہودی ہوں۔ اُن کے بعض اور اہل کمال بایزید بسطامی ؒ سے لے کر شبلی ؒ ، ذُوالنون ؒ اور محُی الدین ابن عربی ؒ تک کے کلمات علی العموم ایسے ہیں کہ بعض ظاہر طور پر اور بعض مخفی طور پر اسی طرف گئے ہیں۔مَیں یہ بات کھول کر کہنی چاہتا ہوں کہ ہمار ایہ حق نہیں کہ ہم اُن کے استہزاء کی نظر سے دیکھیں۔ نہیں نہیں۔ وُہ اہلِ عقل تھے۔ بات یوں ہے کہ معرف کا یہ ایک باریک اور عمیق راز تھا۔ اس کا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ بات تھی اور کچھ نہیں۔ خداتعالیٰ کے اعلیٰ تصرفات پر انسان ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہالک الذات۔ اُنہوں نے انسان کو ایسادیکھا اوراُن کے مُنہ سے ایسی باتیں نکلیں اور ذہن اُدھرمنتقل ہوگیا۔ پس یہ امربحضورِ دل یادرکھوکہ باوصیف کہ انسان صفائی باطن سے ایسے درجہ پر پہنچتا ہے(جیسا کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اس مرتبہ اعلیٰ پر پہنچے) کہ جہاں اُسے اقتداری طاقت ملتی ہے ، لیکن خالق اور مخلوق میں ایک فرق ہے اور نمایاں فرق ہے۔ اس کو کبھی دل سے دُور کرنا نہ چاہیے۔
انسان ہستی کے عوارض سے آواز نہیں۔ نہ یہاں نہ وہاں۔ کھاتا پیتا ہے۔ معاصی ہوتے ہیں۔ کبائر بھی اور صنعائر بھی اور اسی طرح پر اگلے جہان میں بھی بعض جہنم میں ہوگں گے اور بعض جنت الخلد میں۔ غرض یہ ہے کہ انسان کبھی بھی جامہ عبودیت سے باہر نہیں ہوسکتا، تو پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کونسا حجاب ہے کہ جب وُہ اُتار کر ربوبیت کا جامہ پہن لیتا ہے۔ بڑے بڑے زاہدوں اور مجاہدوں کے شامل حال عبودیت ہی رہی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبودیت
قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو۔ اور تو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دُنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہوسکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور باربار ان ماانا بشرمثلکم (الکہف:۱۱۱) ہی فرماتے رہے۔ یہاںتک کہ کلمۂ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بدوں مسلمان مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ سوچو! اور پھرسوچو!! پس جس حال میں ہادیٔ اکمل کی طرزِ زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقامِ قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا، تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔
تصرّفات کی دوقسمیں
ہاں!یہ سچی بات ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات بیحدو بے شمار ہیں۔ان کی تعداد اور گنتی ناممکن ہے ۔انسان جس قدر زُہد اور مُجاہدہ کرتا ہے اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے اور اس نسبت سے ان تصرفات کا ایک رنگ اُس پر جاتا ہے اور تصرفات اللہ کی واقفیت کا دروازہ اس پر کھُلتا ہے۔ اس امر کا بیان کردینا بھی مناسب موقع معلوم ہوتاہے کہ تصرفات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک باعتبار مخلوق کے اور دُوسرے باعتبار قرب کے ۔ انبیاء علیھم السلام کے ساتھ ایک تصرف تو اسی مخلوق کی نوعیت اور اعتبار سے ہوتاہے جو یاکل الطعام و یمشی فی الاسواق (الفرقان:۸) وغیرہ کے رنگ میں ہوتاہے۔ صحت ، بیماری وغیرہ اُس کے ہی اختیار میں ہوتا ہے اور ایک جدید تصرف قرب کے مراتب میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے طور پر اُن کے قریب ہوتاہے کہ اُن سے مخاطبات اور مکالمات شروع ہوجاتے ہیں اور اُن کے دعائوں کا جواب ملتا ہے، مگر بعض لوگ نہیں سمجھ سکتے اور یہانتک ہی نہیں، بلکہ نرے مکالمہ اور مخاطبہ سے بڑھ کر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ الوہیت کی چادر اُن پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنی ہستی کے طرح طرح کے نمونے ان کو دکھاتا ہے اور یہ ایک ٹھیک مثال اس قرب اور تعلق کی ہے ۔ کہ جیسے لوہے کو کسی آگ میں رکھ دیں ، تو وہ اثر پذیر ہوکر سرخ آگ کا ایک ٹکڑانظرآتا ہے۔ اُس وقت اُس میں آگ کی سی روشنی بھی ہوتی ہے اور احراق جو ایک صفت آگ کی ہے وُہ بھی اُس میں آجاتی ہے مگر بایں ہمہ یہ ایک بین بات ہے کہ وہ لوُ ہا آگ یا آگ کا ٹکڑا نہیں ہوتا۔
ایک مقام پر اہل اللہ سے ایسے افعال صادرہوتے ہیں جو اپنے اندر الوہیت کے خواص رکھتے ہیںاسی طرح ہمارے تجربہ میں آیا ہے کہ اہل اللہ قرب الہٰی میں ایسے مقام تک جاپہنچتے ہیں جبکہ ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بُو کو بتمام وکمال اپنے رنگ کے نیچے متواری کرلتیا ہے اور جس طرح آگ لوہے کو اپنے نیچے ایسا چُھپالیتی ہے کہ ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور ظلی طور پر وہ صفات الہٰیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔
اُس وقت اس سے بُدوں دُعا و التماس ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر الوہیت کے خواص رکھتے ہیں اور وہ ایسی باتیں مُنہ سے نکالتے ہیں جو جس طرح کہتے ہیں۔ اُسی طرح ہوجاتی ہیں۔ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور زبان سے ایسے اُمور کے صدور کی بصراحت بحث ہے۔ جیسا کہ مارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی(الانفال:۱۸) اور ایسا ہی معجزہ شق القمر اور اسی طرح پر اکثر مریضوں اور سقیم الحال لوگوں کو اچھا کردینا ثابت ہے۔ قرآن شریف میں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ ارشاد ہو اکہ ماینطق عن الھوٰی (النجم:۴) یہ اُس شدید اور اعلیٰ ترین قُرب ہی کی طرف اشارہ ہے اور رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تزکیہ نفس اور قُرب الہٰی کی ایک دلیل ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عبدمومن کے ہاتھ ، پائوں اور آنکھیں وغیرہ ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اعضاء للّٰہی طاعت کے رنگ سے ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا وہ ایک الہٰی آلہ ہیں، جن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً افعال الہٰیہ ظہور پذیرہوتے ہیں۔ یا ایک مُصفّا آئینہ ہیں، جس میں تمام مرضیاتِ الہٰیہ بصفائِ تام عکسی طورپر ظہور پکڑتی رہتی ہیں۔ یا یہ کہو کہ اس حالت میں وہ اپنی انسانیت سے بکلی دستبردار ہوجاتے ہیں۔ جیسے جب انسان بولتا ہے ، تو اُس کے دل میں خیال ہوتا ہے کہ لوگ اُس کی فصاحت اور خوش بیانی اور قادُر الکلامی کی تعریف کریں۔ مگر وہ لوگ جو خُدا کے بُلائے بولتے ہیں اور اُن کی رُوح جب جوش مارتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایک موج اُس پر اثرانداز ہوکر تموّج پیداکردیتی ہے اور اپنی آواز اور تکلم سے وُہ نہیں بولتے۔ بلکہ الہٰی حال اور جوش سے اور ایسا ہی جب وہ دیکھتے ہیں تو جیساکہ قاعدہ ہے کہ دیکھنے میں فکر شامل ہے۔ اُن کی رؤیت اپنے دخل سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے نور سے اور ان کو ایک ایسی چیز دکھا دیتاہے جو دُوسری پُرغور نظربھی نہیں دیکھ سکتی۔
مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے
جیسے آیا ہے کہ اتقوافراسۃ المؤمن یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیونکہ تمہاری آور دہے اور اس کی آمدتمہارا قال ہے، اُس کا حال ۔جیسے ایک گھڑی چلتی ہے۔ اس کے پُرزے تو اُسے چلاتے رہیں گے۔ ابر میں تم تین بجے کی جگہ سات بجے کا وقت کہہ سکتے ہو، مگر گھڑی جو اسی مطلب کے لئے بنائی گئی ہے،وُہ تو ٹھیک وقت بتلائے گی اور خطا نہ کرے گی۔ پس اگر اس سے جھگڑو گے تو بجزخفت کے کیا لوگے؟ اسی طرح سے یادرکھو کہ متقی کا یہ کام نہی کہ وہ اُن لوگوں سے جھگڑے اور مقابلہ کرے جو قرب الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں اور دُنیا میں مختلف ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔ پس مومن کے مقابلہ کے وقت ڈرو۔ اتقوا کے مصداق بنو۔ ایسا نہ ہو کہ تم جھوٹے نکلو اور پھر اس غلط کاری کے بدترین نتائج بھگتو۔ کیونکہ مومن تو اللہ تعالیٰ کے نُور سے دیکھتاہے اور وُہ نور تم کو نہیں ملا۔ اس لیے تم ٹیڑھے چل سکتے ہو، مگر مومن ہمیشہ سیدھا ہی چلتاہے تم خودہی بتلائو کہ کیا وہ شخص جو ایک تاریکی میں چل رہا ہے، اس آدمی کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ جو چراغ کی روشنی میں جارہا ہے؟ ہرگزنہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔ ھل یستوی الاعمیٰ والبصیر (الانعام:۵۱) کیا اندھا اور بینا مُساوی ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پس جب ہم اسباب کو دیکھتے ہیں ، تو پھر کس قدر غلطی ہے کہ ہم اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔
غرض یہ کہ مومن کی فراست سے درنا چاہیے اور مقابلۂ مومن کے لیے تیار ہوجانا دانشمند انسان کا کام نہیں ہے اور مومن کی شناخت انہیں آثار و نشانات سے ہوسکتی ہے جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں۔ اسی فراست الہٰیہ کا رُعب تھا جو صحابہ کرام ؓ پرتھا اور ایسا ہی انبیاء علیھم السلام کے ساتھ یہ رُعب بطور نشانِ الہٰی آتا ہے۔ وُہ پوچھ لیتے تھے کہ اگر یہ وحی الہٰی ہے تو ہم مخالفت نہیں کرتے اور وہ ایک ہیبت میں آجاتے تھے۔
متکلم کے قدر کے موافق اس کے کلام میں ایک عظمت اور ہیبت ہوتی ہے۔ دیکھو دُنیاوی حکام کے سامنے جاتے وقت بھی ایک تکلیف اور رُعب ہوتااور خیال ہوتا ہے کہ اُن کے ہاتھ میں قلم ہے۔ اسی طرح پر جو لوگ یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ مومن کے ساتھ خدا ہے، وُہ اس کی مخالفت چھوڑ دیتے ہیں اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو تنہا بیٹھ کر اُس پرغور کرتے ہیں۔اور مقابلہ کر کے سوچتے ہیں۔ یہ نہایت ضرور ہوتاہے کہ واقفِ راہ اور روشنی والے کے لئے دُوسرے تابع ہوجاویں۔ اور یہی حدیث اتقو فراسۃ المومن کا منشاء اور مفہوم ہے۔ یعنی جب مومن کچھ بیان کرے، تو خداتعالیٰ سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ وہ جو کچھ بولت اہے، وہ خداتعالیٰ کی طر ف سے بولتا ہے، مُدّعا یہ ہے کہ مومن جب خداسے محبت کرتا ہے تو الہٰی نور کا اُس پر احاطہ ہوجاتا ہے؛ گر چہ وہ نور اس کو اپنے اندر چھپا لیتاہے اورا س کی بشریت کو ایک حد تک بھسم کرجاتا ہے ۔ جیسے آگ میں پڑا ہوا لوا ہوجاتا ہے،لیکن پھر بھی وہ عبودیت اور بشریت تو ہوتی ہے۔ مگر وہ الوہیت کے رنگ کے نیچے متواری ہوجاتی ہے اوراس کے تمام قویٰ اور اعضاء للّٰہی راہوںمیں خداتعالیٰ کے ارادوں سے پُر ہوکر اس کی خواہشوں کی تصویر ہوجاتے ہیں۔ اور یہی وُہ امتیاز ہے جو اُس کو کروڑ ہامخلوق کی رُوحانی تربیت کا کفیل بنادیتا ہے اور ربوبیت تامہ کا ایک مظہر قراردیتا ہے۔ اگر ایس انہ ہو تو کبھی بھی ایک نبی اس قدر مخلوقات کے لئے ہادی اور رہبر نہ ہوسکے۔
رسولِ اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر مقام
چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل دُنیا کے انسانوں کی رُوحانی تربیت کے لئے آئے تھے۔ اس لیے یہ رنگ حضور علیہ السلام میں بدرجہ کمال موجود تھا ور یہ وُہ مرتبہ ہے۔ جس پرقرآن کریم نے متعدد مقامات پر حضور کی نسبت شہادت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابل اور اُسی رنگ میں آل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا ذکرفرمایا ہے۔ ماارسلنک الارحمۃ للعالمین(الانبیاء:۱۰۸) اور ایسا ہی فرمایا یاایھالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا (الاعراف:۱۵۹) قرآن شریف کے دُوسرے مقامات پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اُمی فرمایا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے آپؐ کا کوئی اُستاد نہ تھا۔ مگر بایں ہمہ کہ آپؐ اُمی تھے۔ حضور کے دین میں اُمیوں اوسط درجہ کے آدمیوں کے علاوہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور عالموں کو بھی کردیا۔ قل یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا کے معنے نہایت ہی لطیف طور پر سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جمیعاً کے دو معنے ہیں۔ اول تمام بنی نوع انسان یا تمام مخلوق۔ دوم تمام طبقہ کے آدمیوں کے لیے یعنی متوسط ، ادنیٰ اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور ہر ایک قسم کی عقل رکھنے والوں کے لئے ۔ غرض ہر عقل اور مزاج کا آدمی مجھ سے تعلق کرسکتا ہے۔
قرآن کریم کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے کہ اُسی اُمی نے کتاب اور حکمت ہی نہیں بتلائی، بلکہ تزکیۂ نفس کی راہوں سے واقف کیا اور یہانتک کہ ایدھم بروح منہ (المجادلہ:۲۳) تک پہنچادیا۔ دیکھو اور پُر غور نظر سے دیکھو کہ قرآن شریف ہر طرز کے طالب کو اپنے مطلوب تک پہنچاتا ہے اور ہر راستی اور صداقت کے پیاسے کو سیراب کرتا ہے، لیکن خیال تو کروکہ یہ حِکمت اور معرفت کا دَریا، صداقت اور نور کا چشمہ کس پر نازل ہوا؟ اسی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ، جو ایک طرف تو اُمی کہلاتا ہے اور دُوسری طرف وُہ کمالات اور حقائق اُس کے مُنہ سے نکل رہے ہیں کہ دُنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر پائی نہیں جاتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ تا لوگ محسوس کریں کہ اللہ تعالیٰ کے تعلقات انسان کے ساتھ کہانتک ہوسکتے ہیں؟ ہماری غرض اس بیان سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تعلقات بہت نازک درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ مُقَربین سے الوہیت کا ایساتعلق ہوجاتا ہے کہ مُخلوق پرست انسان اُن کو خداسمجھ لیتے ہیں۔یہ بالکل دُرست اور صحیح ہے کہ ؎
مردانِ خدا، خدانباشند لیکن زخداجُدانباشند
خداتعالیٰ اُن کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ بغیر دُعا ئوں کے بھی اُن کی امداد کرتاہے۔ مدعایہ ہے کہ انسان کا اعلیٰ درجہ وہی نفسِ مطمئنہ ہے جس پر مَیں نے گفتگو شروع کی ہے۔ اسی حالت میں اور تمام حالتوں سے ایسے لوازم ہوجاتے ہیں کہ عام تعلقِ الہٰی سے بڑھ کر خاص تعلق ہوجاتا ہے، جو زمینی اور سطحی نہیں ہوتا۔ بلکہ علوی اور سماوی تعلق ہوتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اطمینان جس کو فلاح اور استقامت بھی کہتے ہیں او راھدناالصراط المستقیم (الفاتحہ:۶) میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اسی راہ کی دُعا تعلیم کی گئی ہے اور یہ استقامت کی راہ ان لوگوں کی راہ ہے جو منعم علیھم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے افضال واکرام کے مورو ہیں۔ منعم علیھم کی راہ کو خاص طور پر بیان کرنے سے یہ مطلب تھا کہ استقامت کی راہیں مختلف ہیں۔ مگر وہ استقامت جو کامیابی اور فلاح کی راہوں کا نام ہے۔ وُہ انبیاء علیھم السلام کی راہیں ہیں۔ اس میں ایک اور اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اھدناالصراط المستقیم میں وُہ دُعا انسان کی زبان، قلب اورفعل سے ہوتی ہے اور جب انسان خدا سے نیک ہونے کی دُعا کرے تو اُسے شرم آتی ہے ، مگر یہی ایک دُعا ہے جو ان مشکلات کودُور کردیتی ہے۔ ایاک نعبدو ایاک نستعین(الفاتحہ:۵) تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی امداد چاہتے ہیں
دُعا کرنے سے پہلے تمام قویٰ کا خرچ کرنا ضروری ہے
ایاک نستعین پر ایاک نعبدکوتقدم اس لیے ہے کہ انسان دُعا کے وقت تمام قویٰ سے کام لے کر خداتعالیٰ کی طرف آتا ہے یہ ایک بے ادبی اورگُستاخی ہے کہ قویٰ سے کام نہ لے کر اور قانونِ قدرت کے قواعد سے کام نہ لے کر آوے۔ مثلاً کسان اگر تخمریزی کرنے سے پہلے ہی یہ دُعا کرے کہ الہٰی! اس کھیت کو ہرا بھرا کراور پھل پھول لا، تو یہ شوخی اور ٹھٹھا ہے۔ اس کو خداکا امتحان اور آزمائش کہتے ہیں، جس سے منع کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خدا کو مت آزمائو۔جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے مائدہ مانگنے کے قصہ میں اس امر کو بوضاحت بیان کیا گیا ہے۔ اس پر غور کرو اور سوچو۔
یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا ، وُہ دُعا نہیں کرتا، بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دُعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دُعا کے ہیں۔ پہلے لاز م ہے کہ انسان اپنے اعتقاد اعمال میں نظر کرے، کیونکہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پید اکردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہوجاتاہے۔ وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دُعا ہوئی ، تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔ وہ نادان سوچیں کہ دُعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیداکردیتا ہے اور ایاک نعبدکاتقدم ایاک نستعین پر جو کلمۃ دُعائیہ ہے اس امر کی خاص تشریح کررہا ہے۔ غرض عادۃ اللہ ہم یوُنہیں دیکھ رہے ہیں کہ وہ خلقِ اسباب کردیتا ہے۔ دیکھو پیاس کے بُجھانے کے لئے پانی اور بھوک مٹانے کے لئے کھانامہیاکرتا ہے، مگر اسباب کے ذریعہ۔ پس یہ سلسلۂ اسباب یوُنہی چلتا ہے اور خلقِ اسباب ضرورہوتا ہے، کیونکہ خدائے تعالیٰ کے یہ دو نام ہی ہیں۔ جیسا کہ مولوی محمداحسن صاحب نے ذکر کیا تھا کہ کان اللہ عزیزاً حکیماً (النساء:۱۵۹) عزیزتو یہ ہے کہ ہر ایک کام کردینا اور حکیم یہ کہ ہر ایک کام کسی حکمت سے موقع اور محل کے مناسب اور موزوں کردینا۔ دیکھو نباتات، جمادات میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں۔ تربدہی کو دیکھو کہ وہ ایک دو تولہ تک دست لے آتی ہے، ایس اہی سقمونیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ یُونہی دست آجائے یا پیاس بُدوں پانی ہی کے بُجھ جائے۔ مگر چونکہ عجائبات قدرت کا علم کرانا بھی ضروری تھا۔ کیونکہ جس قدر واقفیت اورعلم عجائبات قدرت کا وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اُسی قدر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات پراطلاع پاکرقُرب حاصل کرنے کے قابل ہوتاجاتا ہے۔ طبابت، ہیبت سے ہزار ہا خواص معلوم ہوتے ہیں۔
خواص الاشیاء کا ہی نام علم ہے
علوم ہیں ہی کیا؟ صرف خواص الاشیاء ہی کا تو نام ہے۔ سیارہ، ستارہ، نباتات کی تاثیریں اگر نہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم پر ایمان لانا انسان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ ایک یقینی امر ہے کہ ہمارے علم کی بنیاد خواص الاشیاء ہے۔ اس سے یہ غرض ہے کہ ہم حکمت سیکھیں۔ علوم کا نام حکمت بھی رکھاہے؛ چنانچہ فرمایا: ومن یوت الحکمۃ فقداوتی خیرا کثیراً۔(البقرۃ:۲۷۰)
اھدناالصراط المستقیم کا مقصد
پس اھدناالصراط المستقیم کا مقصد یہی ہے کہ اس دُعا کے وقت اُن لوگوں کے اعمال، اخلاق، عقائد کی نقل کرنی چاہییجو منعم علیہ ہیں۔جہانتک انسان سے ممکن ہو عقائد ، اخلاق اور اعمال سے کام لے۔ اس امر کو تم مشاہدہ میں دیکھ سکتے ہو جبتک انسان اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا، وہ تزقی نہیں کرسکتا یا اُن کو اصل غرض اور مقصود سے ہٹا کر کوئی اور کام اُن سے لیتاہے، جس کے لئے وُہ خلق نہیںہوئے۔ تو بھی وہ ترقی کی راہ میں نہ بڑھیں گے۔
اگر آنکھ کو چالیس روز بندرکھا جاوے گا، تو اس کے دیکھنے کی طاقت سلب ہوجاوے گی۔ پس یہ ضروری امر ہے کہ پہلے قویٰ کو اُن کے فطرتی کا موں پر لگائو، تو اور بھی ملے گا۔ ہمار ااپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جہانتک عملی طاقتوں سے کام لیا جاوے، اللہ تعالیٰ اُس پر برکت نازل کرتا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ اول عقائد، اخلاق، اعمال کودُرست کرو۔ پھر اھدناالصراط المستقیم کی دُعا مانگو، تو اُس کا اثر کامل طور پر ظاہر ہوگا۔
اُمتِ مرحومہ کہنے کی وجہ
خاص طورپر معلوم ہوتاہے کہ یہ اُمّتِ مرحُومہ ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے جس کے لئے آفات پیدا ہونے لگی ہیں۔ انسان کی حرکت گُناہوں اورمعاصی کی طرف ایسی ہے، جیسے کہ ایک پتھر نیچے کو چلا جاتا ہے۔ اُمتِ مرحومہ اس لیے کہلاتی ہے کہ معاصی کا زور ہوگیا۔ جیسے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ظھرالفساد فی البروالبحر(الروم:۴۲) اور دُوسری جگہ فرمایا: یحی الارض بعد موتھا (الروم:۲۰) ان سب آیات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دو نقشے دکھائے ہیں۔ اوّل الذکر میں تو اس زمانہ کا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔ اسی وقت بھی چونکہ دُنیا کی حالت بہت ہی قابلِ رحم ہوگئی تھی۔ اخلاق، اعمال، عقائد سب کا نام ونشان اُٹھ گیا تھا، اس لیے اس امت کو مرحومہ کہا گیا، کیونکہ اس وقت برے ہی رحم کی ضرورت تھی اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ماارسلنک الارحمۃ للعلمین(الانبیاء:۱۰۸) قابلِ رحم اس شخص شخص کو کہتے ہیں جسے سانپوں کی زمین پر چلنے کا حکم ہو۔ یعنی خطرات عظیمہ اور آفاتِ شدیدہ درپیش ہوں۔ پس اُمّتِ مرحومہ اس لیے کہا کہ یہ قابلِ رحم ہے۔ جب انسان کو مشکل کام دیاجاتا ہے ، تو وُہ مشکل قابلِ رحم ہوتی ہے۔ شرارتوں میں تجربہ کار، بداندیش خطاکاروں سے مقابلہ ٹھہرا اور پھراُمی جیسے حضرت نے فرمایا کہ اُمی ہیں اور حساب نہیں جانتے۔ پس اُمیوں کو شریر قوموں کا مقابلہ کرنا پڑا، جو مکائد اور شرارتوں میں تجربہ کار تھے، اس لیے اس کا نم اُمتِ مرحومہ رکھا۔ مسلمانوں کو کس قدر خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قابلِ رحم سمجھا۔ پہلے وعظِ انبیاء ایسے وقتوں میں آتے تھے کہ لوگ مکائد سے واقف نہ ہوتے اور بعض اپنی ہی قوم میں آتے تھے، لیکن اب لوگو مکائد اور دُنیا کے علوم وفنون اور فلسفہ و سائنس میں پکے ماہر ہیں اور راستبازوں کو اس جہان کے ظاہری علوم اور مادی عقلوں سے اور اُن کے پیچ درپیچ منصوبوں اور دائوں سے بہت کم مناسبت ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اے عیسیٰ ؑ! میں تیرے بعد ایک اُمّت کو پیداکرنے والا ہوں جو نہ عقل رکھے گی اور نہ علم یعنی اُمی ہوگی۔ آپؐ نے عرض کی یارب کیف یعرفونک؟ اے اللہ ! جب کہ وہ علم اور عقل سے بہرہ ورنہ ہوں گے ، تو تجھے کیونکر پہنچانیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا علم اور عقل دوں گا۔
اہلِ اسلام کو سماوی علُوم سے مناسبت ہے
اس سے بڑی بشارت ملتی ہے۔ جیسے ہمارے مخالفوں کو اَرضی علُوم سے مناسبت ہے، ایسے ہی اہلِ اسلام کو سماوی علوم سے۔ ایک گنوار مُسلمان کی سچی رؤیا اور خوابیں بڑے بڑے فلاسفروں، بشپوں اورپنڈتوں کے خوابوں سے طاقت میں بڑھ کر ہیں۔ ذٰلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء (الجمعۃ :۵) پس مُسلمانوںکو واجب ہے کہ اپنے اس محسنِ حقیقی کا شکر کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدیدٌ۔(ابراہیم:۸) یعنی اگر تم میرا شکرکروگے، تو مَیں اپنی دی ہوئی نعمت کو زیادہ کروں گا اور بصورت کفر عذاب میرا سخت ہے۔ یادرکھو کہ جب اُمت کومرحومہ قراردیا ہے۔ اور علومِ لدنیہ سے اُسے سرفرازی بخشی ہے، تو عملی طور پر شکر واجب ہے۔ الغرض اھدناالصراط المستقیم میں تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ ایاک نعبدکا لحاظ رکھیں، کیونکہ ایاک نعبد کو ایاک نستعین پر مقدم رکھا ہے۔ پس پہلے عملی طور پرشکریہ کرنا چاہیے اور یہی مطلب اھدنا الصراط المستقیم میں رکھا ہے۔ یعنی دُعا سے پہلے اسباب ظاہری کی رعایت اور نگہداشت ضروری طور پر کی جاوے۔ اور پھر دُعا کی طرف رجُوع ہو۔ اولاً عقائد، اخلاق اور عادات کی اصلاح ہو۔ پھر اھدناالصراط المستقیم۔
اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں
اب مَیں ایک اور ضروری اور اشد ضروری بات بیان کرنی چاہتا ہوں۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ لاپرواہی اور عدم توجہی سے نہ سُنے۔ یادرکھو کہ اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں۔ عام طور پر حدیث شریف میں مُسلمانوں کی یہی تعریف آئی ہے کہ ’’مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت ہیں۔‘‘
’’یہاں تک حضورؑ نے تقریر فرمائی تھی کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا؛ چنانچہ آپؑ نے اور کل حاضرین نے نہایت خلوص اورسچے جوش سے نماز عصرادا کی اور پھر سب کے سب ہمہ تن گوش ہوکر ’’مردِ خدا‘‘ کی باتیں سننے لگے اور آپ ؑ نے تقریر کو پھر شروع کیا۔ ایڈیٹر‘‘
مَیں نے اس ذکر کو چھوڑا تھا کہ اھدناالصراط المستقیم کی دُعا تعلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ انسان تین پہلو مدِنظر رکھے۔ اول ، اخلاقی حالت۔دوم، حالتِ عقائد۔ سوم،اعمال کی حالت۔ مجموعی طور پر یوں کہو کہ انسان خداداد قوتوں کے ذریعے سے اپنے حال کی اصلاح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ یہ مطلب نہیں کہ اصلاح کی صورت میں دعانہ کرے۔ نہیں اس وقت بھی مانگتا رہے ایاک نعبد وایاک نستعین میں فاصلہ نہیں ہے؛ البتہ ایاک نعبد میں تقدم زمانی ہے، کیونکہ جس حال میں اپنی رحمانیت سے بغیر ہماری دُعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع واقسام کی قوتیں اورنعمتیں عطافرمائیں۔ اس وقت ہماری دُعا نہ تھی اس وقت خدا کا فضل تھا اور یہی تقدم ہے۔
رحمانیت اوررحیمیت
یہ یادرہے کہ رحم دوقسم کا ہوتا ہے۔ ایک رحمانیت اور دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ رحمانیت تو ایسافیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے شروع ہوا۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل اپنے علم قدیم سے دیکھ کراس قسم کا زمین وآسمان اور ارضی اور سماوی اشیاء ایسی پیدا کی ہیں، جو سب ہمارے کام آنے والی ہیں اورکام آتی ہیں اور ان سب اشیاء سے انسان ہی عام طور پر فائدہ اُٹھاتا ہے۔ بھیڑبکری اور دیگر حیوانات جبکہ بجائے خود انسان کے لئے مفید شے ہیں تو وہ کیا فائدہ اُٹھاتے ہیں؟ دیکھو جسمانی اُمور میں انسان کیسی کیسی لطیف اور اعلیٰ درجہ کی غذائیںکھاتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کاگوشت انسان کے لیے ہے۔ ٹکڑے او رہڈیاں کتوں کے واسطے جسمانی طور پر جو حظوظ اور لذات انسان کو حاصل ہیں گوحیوان بھی اس میں شریک ہیں، مگر انسان کو وہ بدرجۂ اعلیٰ حاصل ہیں اور رُوحانی لذات میں جانور شریک بھی نہیں ہیں۔ پس یہ دوقسم کی رحمتیں ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طور پر تقدمہ کی صورت میں عناصر وغیرہ اشیاء پیداکیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں اور یہ ہمارے وجود، خواہش اور دُعا سے پہلے ہیں، جو رحمانیت کے تقاضے سے پیداہوئے۔
اوردُوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دُعا کرتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ غورکیا جاوے تومعلوم ہوگا کہ قانونِ قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دُعا کاتعلق ہے۔ بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں۔ہماری دُع اکا جو تعلق خداتعالیٰ سے ہے، مَیں چاہتا ہوں کہ اُسے بھی بیان کروں۔
ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہوکر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے، تو ماں کے پستان میں دُودھ جوش مارکر آجاتا ہے۔ بچہ دُعا کا نام بھی نہیں جانتا، لیکن اُس کی چیخیں دُودھ کو کیونکر کھینچ کرلاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دُودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں، مگر بچہ کی چلاہٹ ہے کہ دُودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں، تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کرلاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگرآنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کوانسان اپنے ذہن میں رکھ کر دُعا کی فلاسفی پر غور کرے، تو وُہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے۔ کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیداہوتا ہے۔ مانگتے جائوگے، ملتا جائے گا اُدْعونی استجب لکم (المومن :۶۱) کوئی تفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔
مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا
مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا، وہ جھوٹا ہے۔ بچہ کی مثال جو مَیں نے بیان کی ہے وہ دُعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتاہے،اسے مل نہیں سکتا۔رحمانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ہم میں رحمیت سے فیض اٹھانے کہ سکت پیدا کرے۔جو ایسا نہیںکرتا،وہ کافر نعمت ہے۔ایاک نعبد کے معنی ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ان ظاہری سامانوںاور اسباب کی رعایت سے جو تو نے عطا کیے ہیں۔دیکھو۔یہ زبان جوعروق اور اعصاب سے خلق کی ہے اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے۔ایسی زبان دعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے۔اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں،تو یہ ہماری شوربختی ہے۔بہت سی بیماریاںایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تویکد فعہ ہی زبان اپناچھوڑ بیٹھتی ہے۔یہاں تک کہ انسان گونگا ہو جاتاہے۔پس یہ کیسی رحمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے۔ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آجاوے،تو خاک بھی سنائی نہ دے۔ایسا ہی قلب کا حال ہے وہ جو خشوع وخضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہیں۔اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بیکار ہو جاتی ہیں۔مجنونوںکو دیکھو کہ ان کے قوی کیسے بیکار ہو جاتے ہیں۔تو کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خدادادنعمتوںکی قدر کریں؟اگر ان قوی کو جو اللہ تعالی نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کیے ہیں۔بیکار چھوڑ دیں،تو لاریب ہم کافر نعمت ہیں۔پس یادرکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں۔تو دعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیںلیا،تو دوسرے کو کب اپنے لیے مفید اور کار آمد بنا سکیں گے۔
سچی بصیرت مانگنے کی ہدایت
پس ایاک نعبدیہ بتلارہا ہے کہ اے رب العالمین! تیرے پہلے عطیہ کو بھی ہم نے بیکار اور بربادنہیں کیا۔ اھدناالصراط المستقیم میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ انسان خداتعالیٰ سے سچی بصیرت مانگے۔ کیونکہ اگر اُس کا فضل اور کرام دستگیری نہ کرے، تاعاجزانسان ایسی تاریکی اوراندھکار میںپھنساہوا ہے کہ وُہ دُعا ہی نہیں کرسکتا۔ پس جب تک انسان خدا کے اُس فضل کو جو رحمانیت کے فیضان سے اُسے پہنچا ہے کام میں لاکردُعانہ مانگے۔ کوئی نتیجہ بہتر نہیں نکال سکتا۔
مَیں نے عرصہ ہوا انگریزی قانون میں یہ دیکھتا تھا کہ تقادی کے لئے پہلے کچھ سامان دکھاناضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح قانونِ قدرت کی طرف دیکھو کہ جو کچھ ہم کو پہلے ملا ہے۔ اس سے کیا بنایا؟ اگر عقل و ہوش ، آنکھ کان رکھتے ہوئے نہیں بہکے ہوا اور حُمق اور دیوانگی کی طرف نہیں گئے، تو دعا کرو اور بھی فیضِ الہٰی ملے گا؛ ورنہ محرومی اور بدقسمتی کے لچھن ہیں۔
حکمت کے معنی
بسااوقات ہمارے دوستوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا۔ وہ دیکھیں گے کہ کوئی بھی بات نادانوں میں ایسی نہیں جو حکیم خدا کی طرف منسوب ہوسکے۔ حکمت کے معنی کیا ہیں؟ وضح الشیئی فی محلہٖ ۔ مگر اُن میں دیکھو گے کہ کوئی فعل اور حکم بھی اس کا مصداق نظر نہیں آتا۔ اھدناالصراط المستقیم پر جب ہم پُرغور نظر کرتے ہیں تو اشارۃ النص کے طور پر پتہ لگتا ہے کہ بظاہرتو اس سے دُعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ الصراط المستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے۔ لیکن ایاک نعبدویاک نستعین اس کے سر پر بتلارہا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں یعنی راہِ راست کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانتِ الہٰی کو مانگنا چاہیے۔
اخلاق سے کیا مراد ہے
اب سوچنا چاہیے کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو مانگنی چاہئیں ۔اوّل اخلاق، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اخلاق سے کوئی صرف نرمی کرنا ہی مراد نہ لے لے۔ خُلق اور خَلق دو لفظ ہیں، جوبالمقابل معنوں پردلالت کرتے ہیں۔ خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے۔ جیسے کان، ناک۔ یہانتک کہ بال وغیرہ بھی سب خَلق میں شامل ہیں اور خُلق باطنی پیدائش کانام ہے۔ ایس اہی باطنی قویٰ جو انسان اور غیرانسان میں مابہ الامتیاز ہیں، وُہ سب خُلق میں داخل ہیں۔ یہانتک کہ عقل فکر وغیرہ تمام قوتیں خلق ہی میں داخل ہیں۔
خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو دُرست کرت اہے۔ اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں، تو فرض کرنا پڑے گا کہ آدمی ہے؟ گدھا ہے؟یا کیا ہے؟ جب خُلق میں فرق آجاوے، توصورت ہی رہتی ہے ،مثلاً عقل ماری جاوے تو مجنون کہلاتا ہے۔ صرف ظاہری صورت سے ہی انسان کہلاتا ہے۔پس اخلاق سے مراد خداتعالیٰ کی رضا جوئی(جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں مجسم نظرآتا ہے) کا حصول ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کی طرزِ زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے۔ یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں۔ اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بناسکتے۔ اخلاق ایک اینٹ پر دُوسری اینٹ کا رکھنا ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہو، تو ساری دیوار ٹیڑھی رہتی ہے۔
کسی نے کیااچھا کہا ہے ؎
خشتِ اوّل چوں نہر معمار کج تاثریّا مے رَود دیوار کج
ان باتوں کو نہایت توجہ سے سننا چاہیے۔ اکثر آدمیوں کو مَیں نے دیکھا اور غور سے مُطالعہ کیا ہے کہ بعض سخاوت تو کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی غصہ وراور زوررنج ہیں۔ بعض حلیم توہیں، لیکن بخیل ہیں۔ بعض غضب اور طیش کی حالت میں ڈنڈے مارمار کرگھائل کردیتے ہیں، مگر تواضع اور انکسارنام کونہیں۔ بعض کو دیکھا ہے کہ تواضع اورانکسار تواُن میں پرلے درجہ کا ہے، مگر شجاعت نہیں ہے۔یہانتک کہ طاعون اور ہیضہ کانام بھی سُن لیں، تودَست لگ جاتے ہیں۔ مَیں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو ایسے طور پر شجاعت نہیں کرتا، اس کا ایمان نہیں۔ صحابہ کرام ؓ سے بھی بعض ایسے تھے کہ اُن کو لڑائی کی قوت اور جانچ نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو معذور رکھتے تھے۔ یہ اخلاق بہت ہیں۔ مَیں نے جلسۂ مذاہب کی تقریر میں اِن سب کو واضح طور پر اور مفصّل بیان کیا ہے۔ ہر انسان جامع صفات بھی نہیں اور بالکل محروم بھی نہیں ہے۔
رُسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ
سب سے اکمل نمونہ اور نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو جمیع اخلاق میں کامل تھے۔ اسی لئے آپؐ کی شان میں فرمایا: انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم:۵)ایک وقت ہے کہ آپؐ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کررہے ہیں۔ ایک وقت اتا ہے کہ تیر وتلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔سخاوت پر آتے ہیں، تو سونے کے پہاڑ بخشے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں، تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے۔ جو خداتعالیٰ نے دکھادیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے۔ جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرلے۔ اس کا پھل اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے۔ غرض کہ ہر چیز مفید ہو۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں۔ جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پَروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وُہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا، کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے کہ صحابہ ؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا، بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ مَیں ہوں۔کہتے ہیں حضرت ؐ کی پیشانی پر سترزخم لگے۔ مگر زخم خفیف تھے، یہ خُلقِ عظیم تھا۔
ایک وقت آتا ہے کہ آپؐ کے پا س اس قدر بھیڑبکریاں تھی کہ قیصروکسریٰ کے پاس بھی نہ ہوں۔ آپؐ نے وُہ سب ایک سائل کو بخش دیں۔ اب اگر پاس نہ ہوتا تو کیا بخشے۔ اگرحکومت کا رنگ نہ ہوتا، تو یہ کیونکر ثابت ہوتا کہ آپؐواجبُ القتل کفارِ مکہ کو باوجود مقدرت انتقام کے بخش سکتے ہیں۔ جنہوں نے صحابہ کرام ؓ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور مُسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں۔ جب وہ سامنے آئے تو آپؐ نے فرمایا لاتثریب علیکم الیوم (یوسف:۹۳) مَیں نے آج تم کو بخش دیا۔ اگر ایساموقع نہ ملتا تو ایسے اخلاقِ فاضلہ حضورؐ کے کیونکر ظاہر ہوتے ۔ یہ شان آپؐ کی اورصرف آپؐ کی ہی تھی۔ کوئی ایسا خُلق بتلائو جو آپؐ میں نہ ہو اور پھر بدرجۂ غایت کاملِ طورپر نہ ہو۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اخلاق بالکل مخفی ہی رہے۔ شریر یہود جن کو گورنمنٹ کے ہاں کُرسیاں ملتی تھیں اوررُومی گورنمنٹ ان کے گروہ کی وجہ سے عزت کرتی تھی۔ مسیحؑ کو تنگ کرتے رہے، مگر کوئی اقتدار کا وقت حضرت مسیح ؑ کی زندگی میں ایسا نہ آیا، جس سے معلوم ہوجاتا کہ وہ کہانتک باوجود مقدرتِ انتقام کے عفو سے کام لیتے ہیں۔ مگر برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ایسے ہیں کہ وُہ مشاہدہ اور تجربہ کی محک پر کامل المیعار ثابت ہوئے۔ یہ صرف باتیں ہی نہیں ، بلکہ اُن کی صداقت کا ثبو ت ہمارے ہاتھ میں ایسا ہی ہے، جیسے ہندسہ اور حساب کے اُصول صحیح اور یقینی ہیں اور ہم دو اور دو چار کی طرح اُن کو ثابت کرسکتے ہیں ، لیکن کسی اور نبی کا متبع ایسا نہیں کرسکتا۔ اسی لیے آپؐ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی جس کی جڑ ، چھال ، پھل ، پھول، پتے غرض کہ ہر ایک چیز مفید اور غایت درجہ مُفید۔ راحت رساں اورسُروربخش ہے۔ چونکہ جناب سرورکائنات علیہ التحیات کے بعد اُمت میں ایک فرقہ پیدا ہوگیا، اس لیے وہ جامعیت اخلاق بھی نہ رہی، بلکہ جُداجُدا اور متفرق طور پر وُہ مجموعۂ اخلاق پھیل گیا۔ اس لیے بعض آدمی بعض اخلاق کو آسانی سے صادر کرسکتے ہیں۔
تزکیۂ نفس اور فلاح
ہدایت الہٰی تو یہ ہے کہ قدافلح من زکھا وقد خاب من دسھا(الشمس:۱۰،۱۱) نجات پائے گا وہ شخص جس نے تزکیہ ٔ نفس کیا اور ہلاک ہوگیا وہ آدمی جس نے نفس کو بگاڑا۔ فلح چیرنے کو کہتے ہیں۔فلاحت زراعت کو کہتے ہیں۔ تزکیۂ نفس میں بھی فلاحت ہے۔ مجاہدہ انسانی نفس کو اُس کی خرابیوں اور سختیوں سے صاف کرکے اس قابل بنادیتا ہے کہ اس میں ایمان صحیح کی تخم ریزی کی جاوے۔ پھر وہ شجرِ ایمان بارآور ہونے کے لائق بن جاتا ہے۔ چونکہ ابتدائی مراحل اور منازل میں متقی کو بڑی بڑی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے فلاح سے تعبیر کیا ہے۔ دُوسری جگہ فرمایا ہے : قتل الخراصون الذین ھم فی غمرۃ ساھون (الذاریات:۱۱،۱۲) اللہ تعالیٰ کفار کا حال بیان کرتاہے کہ ستیاناس ہوگیا۔ اٹکل بازیاں کرنے والوں کا۔ جن کے نفوس غمرہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ غمرہ دبانے والی چیز کو کہتے ہیں، جوسَراُٹھانے نہ دے کھیت پر بھی غمرہ پرتا ہے، جسے کرنڈ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اٹکل بازیاں کرنے والوں کا ستیاناس ہوگیا۔ ہنوز اُن کے نفوس غمرہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ مومنوں کو اس آیت میں ایک نظیر دے کر متنبہ کیا جاتا ہے کہ جب تک غمرہ دُورنہ ہوتب تک علیٰ وجہ البصیرت کام نہیں ہوسکتااور وہ وہ اولوالابصار نہیں کہلاسکتے۔ قُتِل اس لیے فرمایا کہ وہ رحم کی جگہ ہے۔ گویا وہ فاعل بھی خود ہی ہیں۔اپنے آپ کو کود ہلاک کیا۔ بعض آدمیوں میں خراص ہونے کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ بصیرت اور دوراندیشی سے کام نہیں لیتے، بلکہ ظنُونِ فاسدہ اور اٹکلوں سے کام لیتے ہیں اور وُہ اسی میں اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ میری غرض یہ تھی کہ حصۂ اخلاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ پیش کروں۔ جو ایک فردِ اکمل تھے۔ زاں بعد متفرق طور پر آپؐ کے اخلاق سے حصہ لیا گیا۔ کسی نے ایک لیا اور دُوسرے نے کوئی اور۔ اور ایک کو دُوسرے میں غمرہ ہوگیا۔ جس طرح کسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس غمرہ کودُور کرے؛ ورنہ اس کا نتیجہ دُوسرے پودوں پر اچھا نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندرونی غمرہ کو دُور کرے؛ ورنہ اندیشہ ہے کہ دُوسری صفاتِ حسنہ کو بھی نہ کھو بیٹھے۔
لکل دائٍ دواء ٌ کاوسیع مفہوم
یہ بات ٹھیک نہیں کہ بعض اخلاق کے تبدیل پر انسان قادر ہے۔اور بعض پر نہیں۔ نہیں نہیں!ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے۔ لکل دائٍ دواء ٌ ۔ افسوس ! لوگ آپؐ کے اس مبارک قول کی قدر نہیں کرتے اور اس کو صرف ظاہری امراض تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔ یہ کس قدر نادانی اور غلطی ہے جس حال میں ایک فانی جسم کے لئے اس کی اصلاح اور بھلائی کے کل سامان موجودہیں، توکیا یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کی روحانی امراض کا مداوا اللہ تعالیٰ کے حضور کچھ بھی نہ ہو؟ ہے! اور ضرور ہے!!
یہ ایک واقعی اور یقینی بات ہے کہ خداتعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرتے ہیں، لیکن جو کسل اور سُستی سے کام کرتے ہیں ، وُہ آخرکار ہلاک ہوجاتے ہیں۔
پیرانہ سالی کی دو قسمیں
انسان پرجیسے ایک طرف نقص فی الخلق کا زمانہ آتا ہے، جسے بڑھاپاکہتے ہیں۔اُس وقت آنکھیں اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں اور کان شنوا نہیں ہوسکتے۔ غرض کہ ہر ایک عضوِ بدن اپنے کام سے عاری اور معطل کے قریب قریب ہوجات اہے۔ اسی طرح سے یادرکھو کہ پیرانہ سالی دو قسم کی ہوتی ہے۔ طبعی اور غیر طبعی۔ طبعی تو وہ ہے جیساکہ اُوپر ذکر ہوا۔ غیرطبعی وُہ ہے کہ کوئی اپنی امراجِ لاحقہ کا فکر نہ کرے، تو وہ انسان کو کمزور کرکے قل از وقت پیرانہ سال بنادیں۔ جیسے نظام جسمانی میں یہ طریق ہے ایسا ہی اندرونی اور رُوحانی نظام میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنے اخلاقِ فاسدہ کو اخلاقِ فاضلہ اور خصائلِ حسنہ سے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، تو اس کی اخلاقی حالت بالکل گرجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور قرآن کریم کی تعلیم سے یہ امر ببداہت ثابت ہوچکا ہے کہ ہر ایک مرض کی دوا ہے، لیکن اگر کسل اورسُستی انسان پر غالب آجاوے ، تو بجز ہلاکت کے اور کیا چارہ ہے۔ اگر ایسی بے نیازی سے زندگی بسر کرے جیسی کہ ایک بوڑھا کرتاہے، تو کیونکربچائو ہوسکتا ہے۔
تبدیل اخلاق مجاہدہ اور دُعا سے ممکن ہے
جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا، دُعا سے کام نہ لے گا وہ غمرہ جو دل پر پڑجاتا ہے، دُور نہیں ہوسکتا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیر واما بانفسم (الرعد:۱۲) یعنی خداتعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بَلا کو جو قوم پر آتی ہے دُور نہیں کرتا ہے، جب تک خود قوم اس کو دُور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمت نہ کرے، شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لاتبدیل سنت ہے۔ جیسے فرمایا: ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً۔ (الاحزاب:۶۳) پس ہماری جماعت ہویا کوئی ہو، وہ تبدیل اخلاق اُسی صورت میں کرسکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دُعا سے کام لیں ؛ ورنہ ممکن نہیں ہے۔
تبدیلِ اخلاق کے متعلق دومذہب
حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں۔ ایک تو وُہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیلِ اخلاق پرقادر ہے اور دُوسرے وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسل اورسُستی نہ ہواور ہاتھ پَیرہلاوے ، تو تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مجھے اس مقام پر ایک حکایت یادآئی ہے اور وہ یہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفرافلاطون کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازہ پر کھڑے ہوکر اندر اطلاع کرائی۔ افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک آنے والے کا حلیہ اور نقوشِ چہرہ کو معلوم نہ کرلیتا تھا، اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ اور وہ قیافہ سے استنباط کرلیتا تھا کہ شخصِ مذکور کیس اہے، کس قسم کا ہے۔ نوکر نے آکر اس شخص کا حلیہ حسبِ معمول بتلایا۔ افلاطون نے جواب دیا کہ اُس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاقِ رذیلہ بہت ہیں، مَیں ملنا نہیں چاہتا۔ اُس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سُنا، تو نوکر سے کہا کہ تم جاکر کہہ دو کہ جو کچھ آپ ے فرمایا ، وہ ٹھیک ہے، مگر مَیں اپنی عادات رذیلہ کا قلع قمع کرکے اصلاح کرلی ہے۔ اس پر افلاطون نے کہا ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے؛ چنانچہ اُس کو اندر بلایا اور نہایت عزت واحترام کے ساتھ اُس سے ملاقات کی۔ جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیں۔ وہ غلطی پر ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کرلیتے ہیں،پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے، تواس پر نگاہ نہیں کرتے۔
توبہ کے تین شرائط
توبہ دراصل حصولِ اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤیدّ چیز ہے اور انسان کو کاملِ بنادیتی ہے۔ یعنی جو شخص اپنے اخلاقِ سیّئہ کی تبدیلی چاہتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ توبہ کرے۔ یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں۔ بُدوں اُن کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں، حاصل نہیں ہوتی۔
ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں۔ یعنی اُن خیالات فاسدہ کو دُور کردیا جاوے جو ان خصائل رویہ کے محرک ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑ ابھاری اثرپڑتا ہے ، کیونکہ حیطۂ عمل میںآنے سے پیشتر ہرایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے۔ پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اُن خیالاتِ فاسدہ و تصوراتِ بد کو چھوڑدے۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہے، تو اُسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قراردے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے، کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہاہے ۔تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور مَیں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صور ت میں دیکھا۔ غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرت اہے، ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ پس جو خیالاتِ بالذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے۔یہ پہلی شرط ہے۔
دُوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا۔ ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وُہ اس کو ہر بُرائی پر متنبہ کرتا ہے، مگر بدبخت انسان اس کو معطل چھوڑدیتا ہے۔ پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چندروزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ یں کمی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہوجائیں گے۔آخر ان سب لذاتِ دُنیا کو چھوڑنا ہوگا۔ پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر اُن ارتکاب سے کیاحاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وُہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کاخیال پیداہو یعنی خیالاتِ فاسدہ و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے۔ جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پرپشیمان ہو۔
تیسری شرط عزم ہے۔ یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کرلے کہ پھر اُن برائیوں کی طرف رُجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا، تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطاکرے گا۔ یہانتک کہ وہ ستیئات اس سے قطعاً زایل ہوکر اخلاقِ حسنہ اور افعالِ حمیدہ اُس کی جگہ لے لین گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔ اس پر قوت اور طاقت بخشاً اللہ تعالیٰ کا کام ہے، کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔ جیسے فرمایا ان القوۃ للہ جمیعاً (البقرہ: ۱۶۶)
ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے۔ خلق الانسان ضعیفاً (النساء:۲۹) اُس کی حقیقت ہے۔ پس خداتعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ شرائط کو کاملِ کرکے انسان کسل اور سستی کو چھوڑدے اور ہمہ تن مُستعِد ہوکر خداتعالیٰ سے دُعا مانگے۔ اللہ تعالیٰ تبدیلِ اخلاق کردے گا۔
اصلی شہ زور کون ہے؟
ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑکو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیلِ اخلاق پر مقدرت پاوے۔ پس یادرکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیلِ اخلاق میں صرف کرو، کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔
خُلقِ عظیم بڑی بھاری کرامت ہے
مَیں نے کل یا پرسوں بیان کیا تھا کہ خُلق عظیم بڑی بھاری کرامت ہے جو خوارق عادت امور کو بھی مشتبہ کر سکتا ہے۔مثلاًاگر آج شق القمر کا معجزہ ہو،تویہ ہیئت و طبعی کے ماہراورسائنس کے دلدادہ فی الفورا س کوکسوف خسوف کے اقسام میںداخل کر کے اس کی عظمت کو کم کرنا چاہیں گے اور جو پرانا معجزہ اب پیش کرتے ہیں،تو اسے قصہ قرار دیتے ہیں۔مثلاً یہی کسوف و خسوف دیکھوجو رمضان میں ہوااور جوآیات مہدی میں سے ایک سمادی نشان تھا۔میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیںکہ یہ تو علم ہیئت کی رو سے ثابت تھا کی رمضان میں ایسا ہو۔یہ کہہ کر گویا وہ اس حدیث کی جو امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف سے ہے،وقعت کم کرنا چاہتے ہیں۔مگر یہ احمق اتنا نہیں سوچتے کہ نبوت ہر ایک شخص نہیں کر سکتا۔نبوت پیشگوئی کرنے کو کہتے ہیں۔یعنی ہرکس وناکس کا یہ کام نہیں کہ وہ پیشگوئیاں کرتا پھرے ۔پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تدعی مہدویت ومسیحیت کے زمانہ میں یہ کسوف خسوف رمضان میں ہو گا اور ابتدائے آفرینش سے آج تک کبھی نہیںہوا۔پس اگر عقلی طور پر کسی قسم کا اشتباہ ہو،تو ایسے مخالفوں کو چاہیے کہ وہ تاریخی طور پر اس پیشگوئی کی عظمت کو کم کر دکھائیں۔یعنی کسی ایسے وقت کا پتہ دیں جبکہ رمضان میںکسوف خسوف اس طور پر ہوا ہو کہ پہلے کسی مدعی نے دعوی بھی کیا ہوااور جس امر کا دعوی کیا ہوا اس امر کے ثبوت میں رمضان کے کسوف وخسوف کی پہلے کسی نبی کے زمانہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہو، مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی دکھلاسکے۔
میری غرض اس واقعہ کے بیان سے صرف یہ تھی کہ خوارق پر تو کسی نہ کسی رنگ میں لوگ عذرات پیش کر دیتے ہیں۔اور اس کو ٹالنا چاہتے ہیں،لیکن اخلاقی حالت ایک ایسی کرامت ہے،جس پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا اور قوی اعجاز اخلاق کو ہی دیا گیا ہے۔جیسے فرمایا:انک لعلی خلق عظیم(القلم:۵)یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے خوارق قوت ثبوت میں جملہ انبیاء علیہ السلام کے معجزات سے بھائے خود بڑھے ہوئے ہیں،مگر آپ کے اخلاقی اعجاز کا نمبر ان سب سے اول ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ نہیں بتلا سکتی اور نہ پیش کر سکے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو اپنے اخلاق سیّہ کو چھوڑ کر عادات ذمیمہ کو ترک کر کے خصائل حسنہ کو لے لیتا ہے اس کے لئے وہی کرامت ہے۔مثلاً اگر بہت ہی سخت تند مزاج اور غصہ ور ان عادت بد کو چھوڑتا ہے اور حلم اور عفو کو اختیار کرتا ہے یا امساک کو چھوڑ کر سخاوت،اور حسد کی بجائے ہمدردی حاصل کرتا ہے،تو بے شک یہ کرا مت ہے۔اور ایسا ہی خود ستائی اور خود پسندی کو چھوڑ کر جب انکساری اور فروتنی اختیار کرتا ہے،تو یہ فروتنی ہی کرامت ہے۔پس تم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا ہے کہ کرامتی بن جاوے۔میں جانتا ہوں کہ ہر ایک یہی چاہتا ہے۔تو بس یہ ایک مدامی اور زندہ کرامت ہے۔انسان اخلاقی حالت کو درست کرے کیوں کہ یہ ایک ایسی کرامت ہے،جس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا بلکہ نفع دور تک پہنچتا ہے۔مومن کو چاہیے کہ خلق اور خالق کے نزدیک اہل کرامت ہو جاوے۔ بہت سے رند اور عیاش ایسے دیکھے گئے ہیں جو کسی خارق عادت نشان کے قائل نہیں ہوتے ،لیکن اخلاقی حالت کو دیکھ کر انہوں نے بھی سر جھکا لیا ہے۔اور بجز اقرار اور قائل ہونے کے دوسری راہ نہیں ملی ۔بہت سے لوگوں کے سوانح میں اس امر کو پاؤ گے کہ انہوں نے اخلاقی کرامات ہی دیکھ کر دین حق کو قبو ل کر لیا ہے 1 ؎
میری باتوں کو ضائع نہ کریں پس میں پھر پکا ر کر کہتاہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ وہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کوصرف ایک قصہ گویا داستاں گو کی کہانیوں ہی کا رنگ نہ دیں ،بلکہ میں نے یہ ساری باتیں نہویت دل سوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے،کی ہیں۔ان کو گوش دل سے سنو اور ان پر عمل کرو۔
ہاںخوب یاد رکھو اور اس کو سچ سمجھو کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے ہاں جانا ہے۔پس اگر ہم عمدہ حالت میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو ہمارے لئے مبارکی اور خوشی ہے۔ورنہ خطر ناک حالت ہے۔یاد رکھو کہ جب انسان بری حالت میں جاتا ہے۔تو مکان بعید اس کے لئے یہاں سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔یعنی نزع ہی کی حالت میں اس میں تغیر شروع ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:انہ من یات ربہ مجرما فا ن لہ جھنم لا یموت فیھا ولا یحیٰ(طہ:۷۵)یعنی جو شخص مجرم بن کر آوے گا ۔اس کے لئے ایک جہنم ہے،جس میں نہ مرے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا۔یہ کیسی صاف بات ہے۔اصل لذت زندگی کی راحت اور خوشی میں ہی ہے۔بلکہ اس حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن و امان میں ہو ۔اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مردوں سے بد تر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ ہی زندہ کہلا سکتا ہے۔پس اس پر قیاس کر لو کہ جہنم کے درد ناک عذاب میں کیسی بری حالت ہو گی۔
مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق قطع کر لے
مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لیوے۔اس کو تو حکم تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا۔اور صادقوں کیساتھ ہو جاتا ،مگر وہ ہوا ہوس کا بندہ بن کر رہا اور شریروں اور دشمنان خدا اور رسول سے موافقت کرتا رہا۔گویا اس نے اپنے طرز عمل سے دکھا دیا کہ خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے۔یہ ایک عادۃُ اللہ ہے کہ انسان جدھر قدم اٹھا تا ہے،اس کی مخالف جانب سے وہ دور ہوتا جاتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دور ہو کر ہوا وہوس نفسانی کا بندہ ہو تا ہے،تو خدا اس سے دور ہوتا جاتا ہے اور جوں جوں ادھر قدم بڑھتے جاتے ہیںاُدھر کم ہوتے ہیں ۔یہ مشہور بات ہے کہ دل را بدل رہیست۔پس اگر خدا تعالیٰ سے عملی طور پر بیزاری ظاہر کرتا ہے،تو سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ بھی اس سے بے زار رہے اور اگر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور پانی کی طرح اس کی طرف جھکتا ہے ،تو سمجھ لے کہ وہ مہربان ہے۔محبت کرنے والے سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔وہ وہ خدا ہے کہ اپنے مھبوں پر بر کات نازل کرتا ہے اور ان کو محسوس کرا دیتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔یہاں تک کہ ان کے کلام میں ،ان کے لبوں میںبرکت رکھ دیتا ہے،اور لوگ ان کے کپڑوں اور ان کی ہربات سے برکت پاتے ہیں۔امت محمدیہ میںاس کا بین ثبوت اس وقت تک موجود ہے کہ جو خدا کے لئے ہوتا ہے،خدا اس کا ہو جاتا ہے۔
خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا
خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کوضائع نہیں کرتا۔یہ ممکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کر لے۔نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچا دے ۔امتحان دینے والا کامیاب نہ ہو ،مگر خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا ۔اس کا سچا وعدہ ہے کہ :والذین جاھدو ا فینا لنھدینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰)خدا تعالیٰ کی راوہوںکی تلاش میں جو بویا ہوا ہو ،وہ آکر منزل مقصود پرپہنچا۔دنیوی امتحانوں کی تیاریاں کرنے والے ،راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور ھالت کو ہم دیکھ کر رحم کر سکتے ہیں،تو اللہ تعالیی جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے۔اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا ؟ہر گز نہیں ۔ہر گز نہیں۔اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین(التوبہ:۱۲۰)اور پھر فرماتا ہے۔من یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ(الزلزال:۸)ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزار ہا طلب علم سالہا سال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھ کر روتا ہو رہ جاتے ہیں اور خود کشیاں کر لیتے ہیں۔مگر اللہ تعالیٰ کا فضل عمیم ایسا ہے کہ زرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا ۔پھر کس قدر افسوس کامقام ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گر ویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گویا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک امید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں،ہزار ہا رنج اور دکھ اٹھاتا ہے۔تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپیہ لگا دیتا ہے،مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہو گا ،مگر خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے کی(جس کے وعدے یقینی اور حتمی ہیں کہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت رائگاں نہیں جاتی)میں اس قدر دوڑ دھوپ اور سر گرمی نہیں پاتا ہوں ۔یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مرنا ہے۔کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کر بھی اس تجارت کی فکر میں نہیں لگ سکتے ۔جہاں خسارے کا نام ونشان بھی نہیں۔اور نفع یقینی ہے۔زمین دار کس قدر محنت سے کاشتکاری کرتا ہے،مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کیسا رحیم ہے اور کیسا خزانہ ہے کہ کوڑی بھی جمع ہو سکتی ہے۔روپیہ اشرفی بھی۔نہ چور چکار کا اندیشہ نہ یہ خطرہ کہ دیوالہ نکل جائے گا۔حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی ایک کانٹہ راستہ سے ہٹا دے ،تو اس کا بھی ثواب اس کو دیا جاتا ہے،اورت پانی نکلتا ہوا اگر ایک ڈول اپنے بھائی کے گھڑے میں ڈال دے ،تو خدا تعالیٰ اس کا بھی اجر ضائع نہیں کرتا۔پس یاد رکھو کہ وہ راہ جہاں انسان کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتا ۔وہ خدا کی راہ ہے۔دنیا کی شاہرہ ایسی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور ناکامیوں کی چٹانیں ہیں۔وہ لوگ جنھوں نے سلطنتوں تک کو بھی چھوڑ دیا،آخر بے وقوف تو نہ تھے۔جیسے ابراہیم ادہم،شاہ شجاع،شاہ عبد العزیز جو مجدد بھی کہلاتے ہیں۔حکومت،سلطنت اور شوکت دنیا کو چھوڑ بیٹھے۔اس کی یہی وجہ تو تھی کہ ہر قدم پر ایک ٹھوکر موجود ہے۔خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے؎۔ پس خدا تعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاو کہ کامیابی اسی میں ہے۔
اخلاقی کرامت
اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپناہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی دعا رد نہیں کرتا ہے۔پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدق نیت سے مانگو۔ میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے۔اگر کوئی کہے کہ میں کرامتی بننا نہیں چاہتا ،تو یہ یاد رکھے کہ شیطان اسے دھوکہ میں ڈالتا ہے۔کرامت سے عجب اور پندار مراد نہیں ہے۔کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے۔میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ عجب اور پندار تو کرامت اخلاقی میں داخل ہی نہیں۔پس یہ شیطانی وسوسہ ہے۔دیکھو یہ کروڑ ہا مسلمان جو روئے زمین کے مختلف حصص میں نظر آتے ہیں۔کیا یہ تلوار کے زور سے،جبرو اکراہ سے ہوئے ہیں؟نہیں ! یہ بالکل غلط ہے۔یہ اسلام کی کرامتی تاثیر ہے جو ان کو کھینچ لاتی ہے۔کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں۔منجملہ ان کے ایک خلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے۔انہوں نے جومسلمان ہوئے،صرف راستبازوں کی ہی کرامت دیکھی اور اس کا اثر پڑا ۔انہوں نے اسلام کو عزت کی نگاہ سے دیکھا۔نہ تلوار کو دیکھا بڑے بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلا م کی سچائی کی روح ہی ایسی قویٰ ہے،جو غیرقوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال رکھیں
جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔اس کا اثر ہمسایہ پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے۔ہماری جماعت پر اعتراض ایسے کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ترقی ہو گئی ہے اور تہمت لگاتے ہیں کہ افتراء غیض وغضب میں مبتلا ہیں۔کیا یہ ان کے لئے باعث ندا مت نہیں ہے۔کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے،کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امہات المومینین کہا گیا ہے۔گویا کہ حضور عامۃ المومنین کے باپ ہیں۔جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہو تا ہے اور حیات ظاہری کا باعث،مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا ہے اور اس مرکز اصلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بد نام کرے؟طوائف کے ہاں جائے اور قمار بازی کرتا پھرے۔شراب پیوے یا ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپکی بد نامی کا موجب ہوں۔میں جانتا ہوں کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا،جو اس فعل کو پسند کرے،لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے،تو پھر زبان خلق بند نہیں ہو سکتی۔لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں باپ کا بیٹا فلاں بد کام کرتا ہے۔پس وہ نہ خلف بیٹا خود ہی باپ کی بد نامی کا باعث ہوتا ہے۔اس طرح پر جب کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے۔وہ صرف اپنے آپ کو ہی ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لئے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادات اور ہدایت کی راہ سے محروم کر دیتا ہے۔پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آجاو،وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاو ،کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں،خالی واپس نہیں ہوتے،ہم تجربہ سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزار ہا دعائیں قبول ہوئی ہیں۔اور ہو رہی ہیں۔
یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لئے ہمدردی کا جوش نہیں رکھتا ،وہ بخیل ہے۔اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے،تو میرا فرض ہے کہ میں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں۔اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں ؎
کس بشنود یا نشود من گفتگوئے میکنم
اگر ایک شخص بھی زندہ طبیعت کا نکل آوے،تو کافی ہے کہ میں یہ بات کھول کر بیان کرتا ہوں کہ میرے مناسب حال یہ بات نہیں ہے کہ جوکچھ میں آپ لوگوں کو کہتا ہوں میں ،ثواب کی نیت سے کہتا ہوں۔نہیں!میں اپنے نفس میں انتہا درجے کا جوش اور درد پاتا ہوں گو وہ وجوہ نہ معلوم ہیں کہ کیوں یہ جوش ہے۔مگر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ جوش ایسا ہے کہ میں رک نہیں سکتا۔اس لئے آپ لوگ ان باتوں کو ایسے آدمی کی وصایا سمجھ کر کہ پھر ملنا شائد نصیب نہ ہو ۔ان پر ایسے کاربند ہوں کہ ایک نمونہ ہو اور ان آدمیوں کو جو ہم سے دور ہین،اپنے قول اور فعل سے سمجھا دو۔اگر یہ بات نہیںہے اور عمل کی ضرورت نہیںہے،تو پھر مجھے بتلاؤ کہ یہاں آنے کا مطلب کیا ہے۔میں مخفی تبدیلی نہیں چاہتا ۔نمایاں تبدیلی مطلوب ہے،تا کہ مخالف شرمندہ ہوں اور لوگوں کے دلوں پر یک طرفہ روشنی پڑے اور وہ نا امید ہو جاویں کہ یہ مخلاف ضلالت میں پڑے ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر بڑے بڑے شریر آکر تائب ہوئے وہ کیوں؟اس عظیم الشان تبدیلی نے جو صحابہؓ میںہوئی اور ان کے واجب التقلید نمونوں نے ان کو شرمندہ کیا۔
عکر مہ کا پاک نمونہ
عکرمہ کا حال تم نے سنا ہو گا۔احد کی مصیبت کا بانی مبانی یہی تھا اور اس کا باپ ابو جہل تھا،لیکن آخر کار صحابہؓ کرام کے نمونوں نے اسے شرمندہ کر دیا۔میرا مذہب یہ ہے کہ خوارق نے ایسا اثر نہیں کیا جیسا صحابہ کرام کے پاک نمونوں اور تبدیلیوں نے لوگوں کو حیران کیا ۔لوگ حیران ہو گئے کہ ہمارا چچا زاد کہاں سے کہاں پہنچا۔آخر کار انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ خوردہ سمجھا۔عکرمہ نے ایک دفعہ ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حملہ کیا اور دوسرے وقت دشمنوں کو درہم برہم کیا۔غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں صحابہ نے جو پاک نمونے دکھائے ہیں۔ہم آج فخر کے ساتھ ان کو دلائل اور آیات کے رنگ میں بیان کر سکتے ہین ؛چنانچہ عکرمہ کا ہی نمونہ دیکھو کہ کفر کے دونوں کفر عجب وغیرہ خصائل بد اپنے اندر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ بس چلے تو اسلام کو دنیا سے نابود کر دے،مگر جب خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس کی دستگیری کی اور وہ مشرف بااسلام ہوا ،تو ایسے اخلاق پیدا ہوئے کہ وہ عجب اور پندار نام تک کو باقی نہ رہا اور فروتنی اور انکسار پیدا ہوا کہ وہ انکسار حجۃ السلام ہو گیا اور صداقت اسلا مکے لئے ایک دلیل ٹھہرا۔ایک موقعہ پر کفار سے مقابلہ ہوا ۔عکرامہ لشکر اسلام کا سپہ سالار تھا۔کفا ر نے بہت سخت مقابلہ کیا۔یہاں تک کہ لشکر اسلام کی حالت قریب شکست کھانے کے ہو گئی۔عکرمہ نے جب دیکھا،تو گھوڑے سے اترا ۔لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں اترتے ہیں۔شاید ادھر ادھر ہونے کا وقت ہو ،تو گھوڑا مدد دے۔تو اس نے کہا۔اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آگیا ہے۔جب میں پیغمبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لشکر کامقابلہ کیا کرتا تھا۔میں چاہتا ہوں کہ جان دے کر گناہوں کا کفارہ ادا کروں۔اب دیکھئے کہ کہاں سے کہاں تک حالت پہنچی کہ بار بار محامد سے یاد کیا گیا۔یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کی رضا ان لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے۔جو اس کی رضا اپنے اندر جمع کر لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جا بجا ان لوگوں کو رضی اللہ عنھم کہا ہے۔میری نصیحت یہ ہے کہ ہر شخص ان اخلاق کی پابندی کرے۔
عقائدصحیحہ اور عمال صالحہ
علاوہ ازیں دو حصے اور بھی ہیں،جن کو مد نظر رکھنا صادق اخلاص مند کا کام ہونا چاہیے۔ان میں سے ایک عقیدہ صحیحہ کا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے۔وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانہ میں دکھائی گئی ہے۔بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں۔پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاو جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں۔اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے۔حصہ عبادت میں صوم،صلوۃ و زکوۃ وغیرہ امور شامل ہیں۔اب خیال کرو کہ مثلاً نماز ہی ہے۔یہ دنیا میں آتی ہے،لیکن دنیا سے نہیں آئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ قرۃ عینی فی اصلوۃ
نماز کے اوقات روحانی حالتوں کے ایک عکسی تصویر ہے
اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں ہیں،بلکہ اگر غور کرو تو یہ روحانی حلاتوں کی عکسی تصویر ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اقم الصلوۃ لدلوک الشمس(بنی اسرائیل:۷۹)یعنی قائم کرو نماز کو دلوک الشمس سے۔اب دیکھو کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے قیام الصلوۃ کو دلوک شمس سے لیا ہے۔دلوک کے معنوں میں گو اختلاف ہے،لیکن دوپہر کے وقت کے ڈھلنے کا نام دلوک ہے۔اب دلوک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں۔اس میں حکمت اور سر کیا ہے؟قانون قدرت دکھاتا ہے کہ روحانی مذلل اور انکسار کے مراتب بھی دلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں اور پانچ ہی حالتیں آتیں ہیں۔پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے۔جب ہزن اورہم وغم کے آثار شروع ہوتے ہیں۔اس وقت جب انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے،تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے۔اب اگر اس وقت زلزلہ آوے ،تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے۔اسی طرح پر سوچو کہ مثلاً اگر کسی شخص پر نالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہو گا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے،اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حلات میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا ،کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اس کو کچھ معلوم ہی نہ تھا۔اب خیال پیدا ہو کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا نہ کیا ہو؟اس قسم کے ترددات اور تفکرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دلوک ہے اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے۔اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہے۔فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جراح ہو رہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے۔یہ وہ ھالت اور وقت ہے جو نماز عصر کانمونہ ہے،کیونکہ عصر گھونٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں۔جب حالت اور بھی ناذک ہو جاتی ہے اور فرد قرار داد جرم لگ جاتی ہے،تو یاس اور نا امیدی بڑھتی ہے۔کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ اب سزا مل جائے گی۔یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے۔پھر جب حکم سنایا گیا اور کانسٹیبل یا کورٹ انسپکتر کے حالے کیا گیا ،تو ہو روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی کی تصویر ہے۔یہوں تک کہ نماز کی صادق صبح ظاہر ہوئی۔اور ان مع العسر یسراً(الم نشرح:۷)کی حالت کا وقت آگیا۔تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی تصویر اس کی عکسی تصویر ہے۔
القصہ میں پھر تم کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ تم جو میرے ساتھ ایک سچا تعلق پیدا کرتے ہو۔اس سے یہی غرض ہے کہ تم اپنے اخلاق میں ،عادات میں ایک نمایاں تبدیلی کرو ،جو دوسروں کے لئے ہدایت اور سعادت کا موجب ہو۔
۱۴ جنوری ۱۸۹۸؁ء
آخرت پر نظر رکھیں
فرمایا کہ لوگوں کو لازم ہے کہ آخرت پر نظر رکھیں۔عذاب سے پہلے ڈرنا چاہیے ؎
؎ مرد آخر بین مبارک بندہ ایست
دیکھو لوط وغیرہ قوموں کا انجام کیا ہوا۔ہر ایک کو لازم ہے کہ اگر دل سخت بھی ہو،تو اس کو ملامت کر کے خشوع وخضوع کا سبق دے۔ہماری جماعت کے لئے بہر ضروری ہے،کیونکہ ان کو تازہ معرفت ملتی ہے۔اگر کوئی دعویٰ تو معر فت کا کرے ،مگر اس پر چلے نہیں،تو یہ لاف وگزاف ہی ہے۔اس لئے ہماری جماعت دوسروں کی غفلت سے خود غافل نہ رہے اور ان کی محبت کو سرد دیکھ کر اپنی محبت کو ٹھنڈا نہ کرے۔انسان بہت رتمنائیں رکھتا ہے۔غیب کی قضا وقدر کی کس کو خبر ہے۔آرزوں کے موافق زندگی کبھی نہیں چلتی ہے۔آرزوں ک اسلسلہ اور ہے اور قجاو قدر کا سلسلہ اور ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے۔یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔اسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے،اس لئے دل کو جگ اجگا کر متوجہ کرنا چاہیے۔
فرمایا! افسوس کی بات ہے کہ عام طور پر مصائب کے آنے کی وجہ سے لوگوں کا عجب ونخوت دور نہیں ہوا۔میں سچ کہتا ہوں کہ یہ دور نہ ہوں گی۔جب تک لوگوں کی ضد اور آڑ دور نہ ہوگی۔میں دیکھتا ہوں کہ لوگ خدا تعالیٰ سے پوری مسالحت کے لئے تیار نہیں ہیں۔قحط کے دوران لوگوں نے محسوس نہیں کیا ۔ابتدا میں مکہ اور مدینہ کا فتویٰ بھی ڈرایا کرتا تھا ۔جب کوئی کہتا کہ مکہ معظمہ سے فتویٰ آیا ہے،تو لوگ ڈر جاتے تھے،لیکن اب مصائب کو دیکھ کر بھی نہیں ڈرتے۔میری رائے ہے کہ جب تک کہ لوگ کامل طور پر رجوع نہ کرین،تقدیر نہ بدلے گی۔ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیرو ا ما با نفسھم(الرعد:۱۲)
۱۵ جنوری ۱۸۹۸؁ء
شیعہ مذہب کے عقائد
فرمایا شیعہ مزہب اسلام کا سخت مخالف ہے۔اول۔شیعہ کا اعتقاد ہے کہ جبرائیل وحی لانے میں غلطی کھا گیا ہے۔دوم۔صحابہؓجو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعاؤں کے بعد حاصل ہوئے تھے،ان کے نزدیک معاذ اللہ مسلمان نہ تھے۔سوم۔قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب ہے۔اور جس کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ کر چکا ہے۔شیعہ کے اعتقاد کے موافق قرآن شریف اصلی نہیں ہے۔امام مہدی اصل قرآن غار میں لے جاکر چھپ رہے۔چہارم ۔بارہ اماموں تک ولایت ختم ہو چکی ،باقی قیامت تک اادمی وھشیوں کی طرح رہے اور خدا تعالیٰ کو ان سے محبت نہیں۔پنجم۔خدا تعالیٰ کے حبیب آنحضرت صلی الہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ ؓ کو گالیاں دینا درود شریف کے پڑھنے سے بھی زیادہ ثواب سمجھتے ہین۔ششم۔کسی اکابر اور اہل اللہ کو نیک نہیں سمجھتے۔میں نے اپنے استاد سے حضرت سید عبد القادر جیلانی کی نسبت سنا ہے کہ وہ گالیاں دیتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ بد نام یزید ہے۔اگر اس کی شراکت سے امام حسینؓ کی شہادت ہوئی،تو کیا برا کیا،لیکن آجکل کے شیعہ مل کر بھی وہ دینی کام نہیں کر سکتے جو اس نے کیا۔
طعام اہل کتاب
اہل کتاب کا کھان کھانے پر بابو محمد افضل صاحب کے سوال پرحضرت اقدس نے جواب دیا کہ ’’تمدن کے طور پر ہندووں کی چیز بھی کھا لیتیہیں۔اسی طرح عیسائیوں کا کھا نا بھی درست ہے،مگر بایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں،کوئی ناپاک چیز نہ ہو 1؎ ۔‘‘
۱۵ جنوری ۱۸۹۸؁ء
کو خواجہ کمال الدین صاحب بی اے کے ایل ایل بی کے امتحان میں کامیاب ہونے کی خبر آئی ۔فجر کی نماز کے بعد حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام اور مندرجہ ذیل مختصر سی تقریر فرمائی:
دنیوی کامیابیاں اورخوشیاں دائمی نہیں
انسان کو ہر قسم کی کامیابی پر ایک خوشی ہوتی ہے۔قرآن کریم سے تین قسم کی خوشیاں لہو،لعب، تفاخر معلوم ہوتی ہیں۔لہو میں اشیاء خوردنی شامل ہے اور لعب میں شادی وغیری کی خوشیاں اور تفاخر میں مال وغیرہ کی خوشیاں شامل ہیں یہ تین قسم کی خوشیاں ہیں۔ان سے باہر کوئی خوشی نہیں ہے۔مگر یاد رکھو کہ کامیابیاں اور یہ خوشیاں دائمی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ دل لگا و گے،تو سخت حرج ہو گا اور رفتہ رفتہ ایک وقت آجاتا ہے کہ ان خوشیوں کا زمانہ تلخیوں سے بدلنے لگتا ہے۔
دنیا کی کامیابی ابتلا سے خالی نہیں ہوتی ہیں ۔قرآن شریف میں آیا ہے خلق الموت والحیوۃ لیبلو کم (الملک:۳) یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ ہم تمہیں آزمائیں،کامیابی اور ناکامی بھی زندگی اور موت کاسول ہوتا ہے۔کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے۔جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خوشی ملتی ہے،تو اس میں جان پڑ جاتی ہے اور گویا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر ناکامی کی خبر آجائے،تو زندہ ہی مر جاتا ہے اوت بسا اوقات بہت سے کمزور دل آدمی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عام زندگی اور موت تو ایک آسان امر ہے،لیکن جہنمی زندگی اور موت دشوار ترین چیز ہے۔سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھ جات ہے۔اس کو ایک مزہ آتا ہے ۔ جب وہ گور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے۔اور دنیا کی کامیابی خدا شناسی کا ایک بہانی ہو جاتا ہے۔ایسے آدمی کے لیے یہ دنیوی کامیابیاں حقیقی کامیابی کا(جس کواسلامکی اصلاح میںفلاح کہتے ہیں)ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں۔میںتمھیںسچ سچ کہتا ہوںکہ سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوںمیںہرگز نہیںہے۔حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیںکر سکتا۔تم دیکھتے ہوکہ دولتمندزیادہ مال ودولت رکھنے والے ہر وقت خنداںرہتے ہیں،مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے۔جس کو کھجلانیسے راحت ملتی ہے،لیکن س خارش کا آخری نیتجہ کیا ہوتاہے؟یہی کہ خون نکل آتا ہے۔پس ان دنیوی اور عارضی کامیابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جائو،بلکہ ان کامیابیوںکو خدا شناسی کا ایک ذریعہقراردو۔اپنی ہمت اور کوشش پر نازمت کرواور مت سمجھو کہ یہ کامیابی ہماری کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے،بلکہ یہ سوچوکہ اس رحیم خدا نے جوکبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ہماری محنت کو بارورکیا ؛ورنہ کیا تم نہیںدیکھتے کہ صدہاطالب علم آئے دن امتحانوں میں فیل ہوتے ہیں۔کیا وہ سب کے سب محنت نہ کرنے والے اور بالکل غبی اور بلیدہی ہوتے ہیں؟نہیںبلکہ بعض ایسے ذکی اور ہوشیار ہوتے ہیںکہ پاس ہونے والوں میںسے اکثر کے مقابلہ میں ہوشیارہوتے ہیں۔اس لیے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خداتعالی کے حضور سجدات شکر بجالائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیںجانے سیا۔اس شکر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیسے محبت بڑ ھے گی اور ایمان میںترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاںملیں گی،کیونکہ خداتعالی فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے،تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا۔اوراگرکفران نعمت کرو گے،تو یادرکھو،عزاب سخت میں گرفتار ہوگے۔
مومن اور کافر کی کامیابی میں فرق
اس اصول کو ہمیشہ مدنظررکھو۔مو من کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے۔شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اہنا فضل کیا اور اس طرح پروہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔بظاہر ایک ہندو اور مومن کی کامیابی ایک رنگ میںمشابہ ہوتی ہے،لیکن یادرکھو کی کافر کی کامیابی ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا،بلکہ اپنی محنت،دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے،مگر مومن خداکی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خداسے ایک نیا معاملہ شروع ہوجاتا ہے اور اس میں تبدلی ہونے لگتی ہے ان اللہ مع الذین اتقوا (الخل:۱۲۹)خدا ان کے ساتھ ہے جو متقی ہوتے ہیں۔یادرکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں تقوی کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے۔اس کے معنے پہلے لفظ سے کیے جاتے ہیں۔یہاں مع کا لفظ آیا ہے یعنی جو خداکو مقدم سمجھتا ہے،خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ذلتوں سے بچالیتا ہے۔ میراایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ متقی بن جائے۔پھر اس کو کسی چیز کی کمی نہیں۔پس مومن کی کامیابیاںاس کو آگے لے جاتی ہیںاور وہ وہیںٹھہر جاتا۔
مبارک وہ ہے کامیابی اور خوشی کے وقت تقوی سے کام لے
اکثرلوگوںکے حا لات کتابوں میںلکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے،لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ قبول ہو گئی۔اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی،اس لیے اپنی دعاؤںکی قبولیت اور کامیابیوںپر نازاںنہ ہو،بلکہ خدا کے فضل اور عنایت کی قدر کرو۔قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حوصلہ میں ایک نئی زندگی آجاتی ،اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس سے اللہ تعالی کے فضل وکرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے فضل کو کوئی روک نہیںسکتا۔
بہت تنگدستی بھی انسان کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے۔اس لیے حدیث میں آیا ہے الفقرسواد الوجہ۔ ایسے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں،جو اپنی تنگدستیوں کی وجہ سے دہریہ ہوگئے ہیں۔مگر مومن تنگی پر بھی خداسے بدگمان نہیںہوتا اور اس کو اپنی غلطیوںکا نتیجہ قراردے کر اس سے رحم اورفضل کی درخواست کرتا ہے اور جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور اس کی دعائیںبارور ہوتی ہیں،تو وہ اس عاجزی کے زمانہ کو بھولتا نہیں بلکہ اسے یادرکھتا ہے۔غرض اگراس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالی سے کام پڑنا ہے،تو تقوی کا طریق اختیار کرو۔مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت رقوی اختیار کرلے اور بد قسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے۔ ؎۱
تقریر حضرت اقدس علیہ السلام
۱۸؍جنوری ۱۸۹۸؁ء
تقدیر تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کا نام معلّق ہے اور دُوسری کومُبْرم کہتے ہیں۔ اگر کوئی تقدیر معلق ہوتو دُعا اورصدقات اُس کو ٹلادیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل
سے اُس تقدیر کو بدل دیتا ہے۔ مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ وُہ اس دعا اور صدقات کا اثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرائے میں اُس کو پہنچادیتا ہے۔ بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقّف اور تاخیرڈال ڈال دیتا ہے۔
قضائے معلق اور مُبرم کا ماخذ اور پتہ قرآن کریم سے ملتا ہے۔ یہ الفاظ گو نہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں فرمایا ہے اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُم۔ (المومن:۶۱) دُعا مانگو۔ مَیں قبول کروں گا۔ اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعا قبول ہوسکتی ہے۔ اور دُعا سے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا کل کام دعا سے نکلتے ہیں۔ یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کل چیزوں پر قادر انہ تصرف ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ اس کے پوشیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبرہو یا نہ ہو، مگر صدہاتجربہ کاروں کے وسیع تجربے اور ہزار ہا دردمندوں کی دُعا کے صریح نتیجے بتلارہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اور مخفی تصرف ہے۔ وہ جو چاہتا ہے،محوکرتا ہے اور جو چاہتا ہے اثبات کرتا ہے۔ ہمارے لئے یہ امر جرور نہیں کہ ہم اس کہ تہہ تک پہنچنے اور اس کی کنہ اور کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شے ہونے والی ہے۔ اس لئے ہم کوجھگڑے اور مباحثے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ خداتعالیٰ نے انسان کی قضاوقدرکومشروع کررکھا ہے جو توبہ، خشوع ،خضوع سے ٹل سکتی ہے۔ جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت انسان کو پہنچتی ہے، تو وہ فطرتاً اور طبعاً اعمالِ حسنہ کی طرف رُجوع کرتا ہے۔ اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتا ہے جو اسے بیدار کرتا ہے اور نیکیوں کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے اور گناہ سے ہٹاتا ہے۔ جس طرح پرہم ادویات کے اثر کو تجربے کے ذریعہ سے پالیتے ہیں، اسی طرح پر ایک مُضطربُ الحال انسان جب خداتعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور رَبِّی رَبِّی کہہ کر اس کو پکارتا ہے اور دعامیں مانگتا ہے ، تو وہ رویائے صالحہ یا الہام صالحہ کے ذریعے سے ایک بشارت سے تسلّی پالیتا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق سے دُعا انتہا کو پہنچے ، تو وہ قبول ہوجاتی ہے۔ دُعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کاٹلنا ایسی ثابت شدہ صداقت ہے، جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اور کروڑہا صُلحا اور اَتقیا اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس امر پرگواہ ہیں۔
عبادات میں لذّت اور سُروررکھاگیا ہے نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے، مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے
ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلاخدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے، اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دُعاتسبیح اور تہلیل میں مصروف رہے، بلکہ اس میں انسان کا پنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک عام ذہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعلایٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کامزاآنا چاہیے ، وُہ مزا نہیں آتا۔ دُنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ، جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھاسکتا اور وہ اُسے تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے، اسی طرح وہ لوگ جو عبادات الہٰی میں حفظ اور لذات نہیں پاتے اُن کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے، کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دُنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خداتعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا، توپھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اُس کے لئے لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اُس کے لئے لذت اور سُرورنہ ہو۔ لذت اور سُرورتو ہے، مگر اُس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ والْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۷) اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سُرور بی درجۂ غایت کا رکھا ہو۔ اس بات کو ہم اپنے روز مرّہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں۔مثلاً دیکھواناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوتی ہیں، تو کیااُن سے وُہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا؟ کیا اس ذائقہ ، مزے اور احساس کے لئے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں۔ کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات ۔ حیوانات ہو یا انسان حظ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کُن اور سُریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد جو جوڑا پیدا کی اور مرد کو رغبت دی ہے۔ اب اس میں زبردستی نہی کی ، بلکہ ایک لذت بھی دکھلائی ہے۔ اگر محض توالد وتناسل ہی مقصود بالذات ہوتا تو مطلب پورا نہ ہوسکتا۔ عورت اور مرد کی برہنگی کی حالت میں ان کی غیرت قبول نہ کرتی کہ وہ ایک دُوسرے کے ساتھ تعلق پیداکریں۔مگر اس میں اُن کے لئے ایک حظ ہے اور ایک لذت ہے۔ یہ حظ اور لذت اس درجہ تک پہنچتی ہے کہ بعض کو تاہ اندیش انسان اولاد کی بھی پروا اور خیال نہیں کرتے، بلکہ ان کو صرف حظ ہی سے کام اور غرض ہے۔ خداتعالیٰ کی علت غائی بندوں کو پیدا کرنا تھا اور اس سبب کیلئے ایک تعلق عورت مرد میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظ رکھ دیا جو اکثرنادانوں کے لئے مقصود بالذات ہوگیا ہے۔ اسی طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں۔ اس میں بھی ایک لذت اور سُرور ہے اور یہ لذت اور سُرور دُنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالاتراور بلندہے۔ جیسے عورت اور مرد کے باہمی تعلقات میں ایک لذات ہے اور اس سے وہی بہرہ مند ہوسکتا ہے جو مرد اپنے قویٰ صحیحہ رکھتا ہے۔ ایک نامرداور مخنث وہ حظ نہیں پاسکتا اور جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کمبخت انسان ہے جو عبادتِ الہٰی سے لذت نہیں پاسکتا۔
عبودیّت اور بوبیّت کے رشتہ کی حقیقت
عورت اور مرد کا جورا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے۔ مَیں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذت مجسم جوجوڑ ہے وہ انسان اور خداتعالیٰ کا ہے۔ مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزانہ آئے، تو طبیب کے پاس جاتا اور کیسی کیسی منتیں اور خوشامدیںکرتا ہے۔ روپیہ خرچ کرتا ۔ دُکھ اُٹھاتا ہے کہ وُہ مزا حاصل ہو۔ وہ نامرد جو اپنی بیوی سے لذت حاصل نہیں کرسکتا۔ بعض اوقات گھبرا گھبرا کرخودکشی کے ارادے تک پہنچ جاتا اور اکثر موتیں اس قسم کی ہوجاتی ہیں۔ مگر آہ! وہ مریض دل ۔ وہ نامرادکیوں کوشش نہیں کرتا جس کی عبادت میں لذت نہیں آتی؟ اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہوجاتی؟دُنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے کیا کچھ کرتا ہے۔ مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وُہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا۔ کس قدر بے نصیب ہے ! کیسا ہی محروم ہے! عارضی اورفانی لذتوں کے علاج تلاش رتا ہے اور پالیتا ہے۔ کیاہوسکتا ہے کہ مُستقل اور ابدی لذت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں ۔ مگر تلاشِ حق میں مستقل اور پویہ قدم درکار ہیں۔ قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوں سے دی ہے۔ اس میں بھی سِرّاوربھید ہے۔ ایمان لانے والوں کو مریم اورآسیہ سے مثال دی ہے یعنی خداتعالیٰ مشرکین میں سے مومنوں کو پیداکرتا ہے۔ بہرحال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے یعنی جس طرح عورت اورمرد کا باہم تعلق ہوتا ہے، اسی طرح عبودیت اور ربوبیت کا رشتہ ہے۔ اگر عورت اور مرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہوتو وہ جوڑا ایک مبارک اور مفید جوڑا ہوتا ہے، ورنہ نظام خانگی بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذات حاصل نہیں ہوتا ہے۔ مرد اور جگہ خراب ہوتا ہے صدہا قسم کی بیماریاں لے آتا ہے۔آتشک سے مجذوم ہوکر دنیا میں ہی محروم ہوجاتا ہے۔ اوراگر اولاد ہو بھی جائے تو کئی پُشت تک یہ سلسلہ برابرچلا جاتا ہے اورادھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی اور عزت وآبُرو وک ڈبوکر بھی سچی راحت حاصل نہیں کرسکتی۔ غرض اس جوڑے سے الگ ہوکر کس قدر بدنتائج اور فتنے پیداہوتے ہیں۔اسی طرح انسان روحانی جوڑے سے الگ ہوکر مجذوم اور مخذول ہوجاتاہے۔ دُنیاوی جوڑے سے زیادہ رنج و مصائب کانشانہ بنتا ہے۔ جیساکہ عورت اور مرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقا کے لئے حظ ہے۔ اسی طرح عبودیت اور بوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقاء کے لئے حظ موجود ہے۔ صوفی کہتے ہیں جس کو یہ حظ نصیب ہوجاوے وہ دُنیا ومافیہا کے تمام حظوظ سے بڑھ کر ترجیح رکھتا ہے۔ اگر ساری عمرہ میں ایک بار بھی اس کو معلوم ہوجائے، تو اس میں ہی فنا ہوجاوے ، لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دُنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور اُن کی تمازیں صرف ٹکریں ہیں اور اوپر ے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشست و برخساست کے طور پر ہوتی ہیں۔ مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے، جب مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لئے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دُنیا میں معتبر اور قابلِ عزت سمجھے جاویں اور پھر اس نماز سے یہ بات ان کو حاصل ہوجاتی ہے، یعنی وہ نمازی اور پرہیزگار کہلاتے ہیں۔ پھر اُن کو کیوں یہ کھاجانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بیدل کی نماز کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے ان کو عزت نہ ملے گی اور کیسی عزت ملے گی۔
نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ اور اُس کا علاج غرض میں دیکھتاہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اس
لئے ہوتے ہیں کہ اُن کو اس لذت اور سُرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے۔ پھر شہروں اور گائوں میں تو اور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سوپچاسواں حصہ بھی تو پوری مُستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سرنہیں جھکاتا۔پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اُن کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذّن اذان دے دیتا ہے۔ پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے، گویا اُن کے دل دکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دُکانیں دیکھوتو مسجدوں کے نیچے ہیں۔ مگرکبھی جاکر کھڑے بھی تو ہیں ہوتے۔ پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کہ خداتعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں۔ نماز اور عبادت کا بھی ایکبار مزہ چکھادے۔ کھایا ہوا یادرہتاہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے، تو وہ اُسے خوب یادرہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیت کودیکھتا ہے، تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو، کچھ یادنہیںرہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نمازایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کرکئی قسم کی آسائشوںکوکھوکرپڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے، وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا، تو وہ پَے درپے پیالے پیتا جاتا ہے، یہانتک کہ اُس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔ دانشمند اوربزرگ انسان اس سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے۔یہانتک کہ اُس کو سرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے، جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ذہن میں ساری طاقتوں کا رُجحان نماز میںاُسی سُرور کا حاصل کرنا ہو اور پھرایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق وکرب کی مانند ہی ایک دُعا پیدا ہوکہ وہ لذت حاصل ہوتومَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقینا یقینا وہ لذت حاصل ہوجاوے گی۔ پھرنماز پڑھتے وقت اُن مفادکاحاصل کرنا بھی ملحوظ ہوجو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے۔ اِنَّ الحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ (ھود:۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو زائل کردیت ہیں۔ پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دُعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے ، وہ نصیب کرے۔ یہ جو فرمایا ہے اِنَّ الحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ(ھود:۱۱۵) یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے۔ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں، مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔ وُہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ اُن کی رُوح مُردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا۔ باوجودیکہ معنے وہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن وجمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نمازبدیوں کو دُورکرتی ہے۔نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔ نماز کا مغز اوررُوح وہ دُعا ہے جو ایک لذت اور سُرور اپنے اندررکھتی ہے۔
ارکان نماز کی حقیقت ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست وبرخاست ہیں۔ انسان کو خداتعالیٰ کے رُوبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب
خدمت گاران میں سے ہے۔ رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمالِ آداب اور کمالِ تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے۔ یہ آداب اور طُرق ہیں جو خداتعالیٰ نے طور یادداشت کے مقرر کردیئے ہیں اورجسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقررکیا ہے۔ علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے۔ اب اگر ظاہری طریق میں(جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بارِگراں سمجھ کراُتارپھینکنے کی کوشش کی جاوے۔ تو تم ہی بتائو۔ اس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے؟ اور جبتک لذت اور سُرور نہ آئے۔ اُس کی حقیقت کیونکرمتحقق ہوگی اور یہ اُس وقت ہوگا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذللل تام ہوکر آستانہ الوُہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے ، رُوح بھی بولے۔ اُس وقت ایک سُرور اور نور اور تسکین حاصل ہوجاتی ہے۔ مَیں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدرمراتب طے کرکے انسان ہوتا ہے۔ یعنی کہاں نطفہ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ۔ پھر نُطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ ۔ پھر جوان ، بُوڑھا۔ غرض ان تمام عالموں میں جو اُس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معرف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے۔ تو بھی وُہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِمقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے۔ غرض مدعایہ ہے کہ نماز میں لذت اور سُرور بھی عبادیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیداہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قراردے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے۔ اُس کافیضان اور پَر تو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہوتو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے۔
سچی نماز اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہوجاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسویٰ اللہ سے اُسے انقطاعِ تام ہوجاتا ہے۔
اُس وقت خداتعالیٰ کی محبت اُس پر گرتی ہے۔ اس اتصال کے وقت ان دوجوشوں سے، جو اُوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اورنیچے کی طرف عبودیت کا جوش ہوتا ہے۔ ایک خاص کیفیت پیداہوتی ہے۔ اس کا نام صلوٰۃ ہے۔ پس یہی وہ صلوٰۃ ہے جو سیئات کو بھسم کرجاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے۔ جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہرقسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خاروخس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہیں، آگاہ کرکے بچاتی ہے اور یہی وُہ حالت ہے جب کہ اِنَّ الصّٰلٰوۃَ تَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَر(العنکبوت:۴۶) کا اطلاق اس پر ہوتا ہے۔ کیونکر اس کے ہاتھ میں نہیں اُس کے دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہواہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلل ، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر گناہ کاخیال اُسے کیونکر آسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی۔ غرض ایک ایسی لذت ، ایسا سُرور حاصل ہوتا ہے کہ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اُسے کیونکر بیان کروں۔
غیراللہ کی طرف رجوع پھریہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جواپنے اصلی معنوں میں نماز ہے، دُعا سے حاصل ہوتی ہے۔ غیراللہ سے
سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے، کیونکہ یہ مرتبہ دُعا کا اللہ ہی کے لئے ہے۔ جب تک انسان پورے طور پر خفیف ہوکر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اُسی سے نہ مانگے۔ سچ سمجھو کہ وہ حقیقی طور پر سچامسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں۔ اسلام کی حقیقت ہی ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں۔ جس طرح پرایک بڑاانجن بہت سے کلوں کو چلاتا ہے۔ پاس اسی طورپر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت وسکون کو اُس انجن کی طاقتِ عظمیٰ کے ماتحت نہ کرلیوے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اِنِّیْ وَجَھْتُ وَجْھِیَ لَلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (الانعام:۸۰) کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے ، ویسے ہی ادھر کی طرف متوجہ ہوتو لاریب وہ مسلم ہے۔ وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہتعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھربھی جھکتا ہے ، وہ یادرکھے کہ بڑا ہی بدقسمت اور محروم ہے کہ اُس پر وُہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طورپراللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھُک سکے۔
ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جُھکتا ہے ، تو رُوح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداء ً ایک طرف کردی جاویں اور اُس طرف جھک کر پرورش پالیں) ادھر ہی جھکتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہوکراُسے منجمد اور پتھر بنادیتا ہے۔ جیسے وہ شاخیں۔پھردوسری طرف مڑنہیں سکتا۔ اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خداتعالیٰ سے دُورہوتی جاتی ہے۔ پس یہ بڑی خطرناک لوردل کو کپکپادینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دُوسرے سے سوال کرے۔اسی لئے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے، تاکہ اولاً وہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو۔ پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خودآجاتا ہے جب کہ انقطاعِ کلی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہوجاتا ہے۔ مَیں اس امر کو پھرتاکید سے کہتا ہوں افسوس ہے کہ مجھے وُہ لفظ نہیں ملے، جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی برائیاں بیان کرسکوں۔ لوگوں کے پاس جاکر منّت خوشامد کرتے ہیں۔ یہ بات خداتعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے۔ کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دُورپھینک دیتاہے ۔ میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے۔ مگر سمجھ میں خوب آسکتا ہے کہ جیسے ایک مرد ِ غیورّ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وُہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکارعورت کو واجب القتل سمجھتابلکہ بسااوقات ایسی وارداتیں ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے۔ عبودیت اور دُعا خاص اسی ذات کے مدِ مقابل ہیں۔ وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکاراجاوے۔ پس خوب یادرکھو! اور پھر یادرکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھُکنا خداسے کاٹنا ہے۔ نماز اورتوحید کچھ ہی کہو، کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے۔ اس وقت بے برکت اور بیسود ہوتی ہے جب اُس میں نیستی اورتذلل کی رُوح اور حنیف دل نہ ہو۔
رعایتِ اسباب دُعا کا شعبہ ہے سُنو! وہ دُعاجس کے لئے اُدْعُوْنِٓیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن:۶۱) فرمایا ہے۔ اس کے لئے
یہی سچی رُوح مطلوب ہے۔ اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں، تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے۔ پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اورسچ پوچھوتو کیا دُعااسباب نہیں؟ یااسباب دُعا نہیں؟ تلاشِ اسباب بجائے خود ایک دُعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ ہے۔ انسان کی ظاہری بناوٹ ، اس کے دو ہاتھ دوپائوں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی راہنماہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے۔ پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْ اعَلَی الْبِرِّوَ التَّقْویٰ(المائدہ:۳) کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔
ہاں! مَیں کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دُعا کرو۔ میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہیں تہمارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ امدادِ باہمی اور کامل رہنماسلسلہ دکھاتا ہوں۔ تم اس سے نکارکرو۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دُنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادرہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے۔ مگر پھر بھی ایک وقت اُن پرآتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ (الصف:۱۵) کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکڑ گدافقیر کی طرح صدادیتے ہیں مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہکہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں۔ جودعا کا ایک شعبہ ہے؛ ورنہ اللہ تعالیٰ پر اُن کو کامل ایمان اور اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلُنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْافِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (المومن:۵۲) ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ مَیںکہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مددکا خیال نہ ڈالے، تو کوئی کیونکرمددکرسکتا ہے۔
مامورمن اللہ کی طلب امدادکاسر
اصل بات یہی ہے کہ حقیقی مُعاون و ناصر وہی پاک ذات ہے، جس کی شان نعیم المولیٰ ونعم
النصیر ونعم الوکیل ہے۔ دُنیا اور دُنیا کی مددیں اُن لوگوں کے سامنے کَالْمَیّت ہوتی ہیں۔ وہ مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں، لیکن دُنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے کاروبار کا متولی خدا تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے۔ وَھُوَیَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (اعراف:۱۹۷) اللہ تعالیٰ ان کو مامورکردیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دُوسروں کے ذریعہ سے ظاہرکریں۔ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے، اس لئے کہ وقت نُصرتِ الہٰی کا تھا، اُس کوتلاش کرتے تھے کہ وُہ کس کے شامل حال ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑی غورطلب بات ہے۔ دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مدد نہیں مانگتا، بلکہ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ(الصف:۱۵) کہہ کر وہ اُس نصرت کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بیقرار دل کی طرح اس کی تلاش میں رہتا ہے۔ نادان اور کوتہ اندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وُہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے، بلکہ اسی طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لئے جو اس نصرت کا موجب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے۔ پس مامورمن اللہ کی طلب مداد کا اصل سر اور راز یہ ہی ہے جو قیامت تک اسی طرح پر رہے گا۔ اشاعتِ دین میں مامورمن اللہ دوسروں سے مددچاہتے ہیں۔ مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے، تاکہ دلوں میں خداتعالیٰ کی عظمت پیداکریں؛ ورنہ یہ ایک ایسی بات ہے کہ قریب یہ کفر پہنچ جاتی ہے۔ اگر غیر اللہ کو متولی قراردیں اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا اِمکان محال مطلق ہے۔ میں نے ابھی کہا ہے کہ توحیدتب ہی پوری ہوتی ہے کہ کل مُرادوں کا مُعطی اور تمام امراض کا چارہ اور مدار وہی ذاتِ واحد ہو۔لَاِاِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ کے معنی یہی ہیں۔صوفیوں نے اس میں الہ کے لفظ سے محبوط، مقصود، معبود مرادلی ہے۔
بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل توحیدپرکاربند نہیں ہوتا، اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی اور پھرمیں اصل ذکرکی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ نمازکی لذت اور سروراسے حاصل نہیں ہوسکتا مداراسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں۔ انانیت اور شیخی دور ہوکر نیستی اور فروتنی نہ آئے، خدا کاسچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔
مَیںپھرتمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خداتعالیٰ سے سچاتعلق۔حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو، تو نماز پرکاربندہوجائو اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری رُوح کے ارادے اورجذبے سب کے سب ہمہ تن نمازہوجائیں۔
٭٭٭
۱۹؍جنوری ۱۸۹۸؁ء
چودھویں صدی کے مجددکا کام بعدنماز مغرب فرمایا:’’عیسائیوں کا فتنہ اُمّ الفتن ہے، اس لیے چودہویں صدی کے مجدد کا کام یکسرُالصلیب
ہے۔ پھر چونکہ یہ علامت اُس پر صادق آئی، اس لئے چودہویں صدی کامجدد مسیح موعود قرار پایا۔ کیونکہ احادیث سے مسیح موعود کا کام یکسرُالصلیب ثابت ہے۔ اب جب کہ ہمارے مخالفوںکوماننا پڑتا ہے کہ چودہویں صدی کے مجدد کا کام یکسرالصلیب ہی ہونا چاہئے، کیونکہ اس کے سامنے یہی مصیبت ہے۔ پھر انکار کے لئے کون سی گنجائش ہے کہ مسیح موعود چودہویں صدی کا مجدد ہی ہوگا۔ ہماری توجہ ان لوگوں کی طرف ہے جن کو حق کی پیاس ہے، لیکن جو حق کی تلاش نہیں چاہتے ، جن کی طبیعتیں معکوس ہیں وُہ ہم سے کیا فائدہ اُٹھاسکتے ہیں؟ یادرکھوہدایت تواُن کو ہوتی ہے جو تعصب سے کام نہیں لیتے۔ وُہ لوگ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو تدبر نہیں کرتے۔ پس طالب ہدایت سمجھ لے کہ موجودہ حالتوں میں چودھویں صدی کے مجدد کا یہ کام ہے کہ کسرِ صلیب کرے۔کیونکہ صلیبی فتنہ خطرناک پھیلاہوا ہے۔ اسلام ایسادین تھا کہ اگر ایک بھی اس سے مرتدہوجاتا،توقیامت برپا ہوجاتی تھی، لیکن اب کس قدر افسوس ہے کہ مرتد ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور وُہ لوگ جو مسلمانوں کے گھر میں پیداہوئے تھے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل انسان کی نسبت جس کی پاک باطنی کی کوئی نظیردنیا میں موجود نہیں۔ قسم قسم کے دل آزاد بہتان لگارہے ہیں کہ کروڑوں کتابیں اس سیدالمعصُومین کی تکذ یب میں اُس گرہ کی طرف سے شائع ہوچکی ہیں۔ بہت سے مستقل ہفتہ وار اور ماہواراخباراور رسالے اس غرض کے لئے جاری کررکھے ہیں۔
پھر کیا ایسی حالت میں خداتعالیٰ کوئی مجدد نہ بھیجتا؟ اور پھر اگر کوئی مجدد آتا، تو تم ہی خداکے واسطے سوچ کر بتائو کہ کیا اس کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وُہ رفع یدین کے جھگڑے کرے یا آمین بالجہرپرمرتاپھرے۔
غورتوکروجو مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے طبیب اس کا علاج کرے گا، نہ کسی اور مرض کا۔رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی حدہوچکی ہے۔ لکھتا ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اپنی ماں سے سُن کر اس کوماردیا تھا۔ یہ غیرت اور حمیّت تھی مسلمانوں کی، مگر آج یہ حال ہوگیا ہے کہ توہین کی کتابیں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ غیرت نہیں آتی اور اتنا نہیں ہوسکتا کہ اُن سے نفرت ہی کریں ، بلکہ اُلٹا جس شخص کو خدانے خاص اس فتنہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور جلال کے لئے خاص قسم کی غیرت لے کر آیا ہے۔ اُس کی مخالفت کرتے ہیں اور اُس پر ہنسی اورٹھٹھاکرتے ہیں۔ خداتعالیٰ ہی ان لوگوں کو بصیرت کی آنکھ دے۔آمین‘‘
آنحضرت ؐ کی تائید ونصرت کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم
میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علو اور مرتبہ ظاہرکیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَرَاکَیْفَ فَعَالَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ(الفیل:۲)یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اوردُکھ اُٹھارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپؐ کو تسلی دیتا ہے کہ مَیں تیرا مویدوناصر ہوں۔ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا؟ یعنی اُن کا مکراُلٹا کر اُن پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانوراُن کے مارنے کے لئے بھیج دیئے۔ ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں، بلکہ مٹی تھی سجیل بھیگی ہوئی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کرکے آپؐ کی کامیابی اور تائیداور نصرت کی پیشگوئی کی ہے۔
یعنی آپ کی ساری کاروائی کو بربادکرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور تدابیر عمل میں لاتے ہیں۔ ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپن کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کا اُلٹا کردیتا ہے۔ کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیںہوتی۔ جیسے ہاتھ والوں کو چڑیوں نے تباہ کردیا۔ ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی۔ جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہو۔ تب ہی اللہ تعالیٰ اُن کے تباہ کرنے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملادینے کے سامان کردیتا ہے۔
پادریوں کا اُصول یہی ہے۔اُن کی چھاتی پر اسلام ہی پتھر ہے؛ ورنہ باقی تمام مذاہب اُن کے نزدیک نامَردہیں۔ ہندو بھی عیسائی ہوکر اسلام کے ہی رَدّ میں کتابیں لکھتے ہیں۔رامچندرا اور ٹھاکرداس نے اسلام کی تردید میں اپنا سارا زور لگا کر کتابیں لکھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اُن کا کانشنس کہتا ہے کہ اُن کی ہلاکت اسلام ہی سے ہے۔ طبعی طور پر خوف اُنہی کا پڑتا ہے، جن کے ذریعہ ہلاکت ہوتی ہے۔ ایک مُرغی کا بچہ بلی کودیکھتے ہی چلانے لگتا ہے۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے پیروعموماً اور پادری خصوصاً جو اسلام کی تردید میں زورلگارہے ہیں، یہ اسی لئے کہ اُن کو یقین ہے ، بلکہ اندر ہی اندر اُن کا دل اُن کو بتاتا ہے کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے، جولل باطلہ کو پیس ڈالے گا۔
احمدیت کے ذریعہ اسلام کا دفاع اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیاگیاہے۔مُسلمانوںمیںبہت کمزرویاں ہیں۔
اسلام غریب ہے اور اصحاب فیل زور میں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے۔ چڑیوں سے وہی کام لے گا۔ ہماری جماعت اُن کے مقابلہ میں کیاہے۔اُن کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اُن کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے، لیکن ہم اصحاب الفیل کا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلی کی آیات نازل فرمائی ہیں۔ مجھے یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خداتعالیی کی نصرت اور تائید اپنا کام کرکے رہے گی۔ ہاں پر وُہی یقین رکھتے ہیں، جن کو قرآن سے محبت ہے۔ جسے قرآن سے محبت نہیں، اسلام سے الفت نہیں وہ ان باتوں کی کب پرواکرسکتا ہے۔ اسلام اور ایمان یہی ہے کہ خدا کی رائے سے رائے ملائے۔ جو اسلام کی عزت اور اس کے لئے غیرت نہیں رکھتا، خواہ وہ کوئی ہو، خدا کو اُس کی عزت اور اُس کی غیرت کی پروا نہیں ہوتی اور وہ دیندار مسلمان نہیں۔ خداکی باتوں کو حقیر مت سمجھو اور ان لوگوں کو قابلِ رحم سمجھوجنھوں نے تعصب کی وجہ سے حق کا انکار کردیا اور کہدیا کہ امن کے زمانہ میں کسی کے آنے کی ضرورت ہے۔ افسوس اُن پر۔ وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کس طرح دشمنوں کے نرغہ میں پھنساہوا ہے۔ چاروں طرف سے اُس پر حملہ پرحملہ ہورہا ہے۔ رسول کریم ؐ کی توہین کی جاتی ہے۔پھر بھی کہتے ہیں کہ کسی کی ضرورت نہیں۔
قانون سڈیشن سے اسلام ہی فائدہ اُٹھاسکتا ہے قانون سڈیشن ہمارے لئے بہت مفیدہے۔صرف ہم ہی
فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔دوسرے مذہبوں کو ہلاک کرنے لئے یہ بھی ایک ذریعہ ہوگا۔ کیونکہ ہمارے پاس تو حقائق اور معارف کے خزانے ہیں۔ ہم ان کا ایک ایساسلسلہ جاری رکھیں گے جو کبھی ختم نہ ہوگا، مگرآریہ یا پادری کون سے معارف پیش کریں گے۔ پادریوں نے گذشتہ پچاس سال کے اندر کیا دکھایا ہے۔ کیا گالیوں کے سوا وہ اور کچھ پیش کرسکتے ہیں کہ اگر کسی آریہ یا پادری کو اپنے مذہب کے کمالات اور خوبیاں بیان کرنے کو بلایاجائے، تو وہ ہمارے مقابلہ میں ایک ساعت بھی نہ ٹھہرسکے۔
۱۹؍جنوری۱۸۹۸؁ء
کَفّارَہ مذہب کی اوّل اینٹ خداشناسی ہے۔ جب تک وُہ دُرست نہ ہو، دُوسرے اعمال کیونکر پاک ہوسکتے ہیں؟ عیسائی دوسروں کی پاک باطنی پر بڑے
اعتراض کیا کرتے ہیں۔ اورکفارہ کا اخلاق سوزمسئلہ مان کراعتراض کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب کفارہ کا عقیدہ ہوتواللہ تعالیٰ کے مواخذہ کاخوفرہ کیونکر سکتاہے؟ کیا سچ نہیں ہے کہ ہمارے گناہوں کے بدلے مسیح پر سب کچھ وارد ہوگیا۔ یہانتک کہ اُسے ملعُون قراردیا اور تین دن ھاویہ میں رکھا۔ ایسی حالت میں اگر گناہوں کے بدلے سزاہوتو پھر کفارہ کاکیا فائدہ ہوا؟ اُصول، کفارہ ہی چاہتا ہے کہ گناہ کیا جائے۔ یہ قاعدہ کی بت ہے کہ اُصول کا اثر بہت پڑتا ہے۔ دیکھو! ہندوئوں کے نزدیک گائے بہت پوتراور قابلِ تعظیم ہے اور اُس کا اثران میں اس حدتک ہے کہ اُس کا پیشاب اورگوبر بھی پوترکرنے والا اُن میں قراردیاگیا ہے اور گائے کے متعلق اس قدر جوش ان میں ہے ، جس کی کچھ بھی حد نہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ امر اُن میں بطور اُصول داخل کیاگیا ہے۔ یادرکھو۔اصول بطور ماں کے ہوتے ہیں او راعمال بطور اولاد کے۔ جب مسیح کفارہ ہوگیا ہے اور اس نے تمام گناہ ایمان لانے والے کے اُٹھالئے۔پھر کیا وجہ ہے کہ گناہ نہ کیے جاویں؟ تعجب کی بات ہے کہ عیسائی جب کفارہ کا اُصول بیان کرتے ہیں۔ تو اپنی تقریر کو خداتعالیٰ کے رحم اورعدل سے شروع کیا کرتے ہیں، مگر مَیں پوچھتاہوں کہ جب زیدؔ کے بدلے پھانسی بکر ؔ کو ملی تو یہ کونسا انصاف اور رحم ہے۔ جب یہ اصول قراردیدیا کہ سب گناہ اُس نے اُٹھالئے، پھر گناہ نہ کرنے کے لئے کونسا امر مانع ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ہدایت ہوتی کہ اُس وقت کے گناہ گار عیسائیوں کے لئے کفارہ ہوئے ہیں، تو یہ اور بات تھی، مگر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والوں کے گناہوں کے گٹھڑی یسوع اُٹھا کرلے گیا اور اس نے سزا بھی اُٹھالی۔ پھر گنہگارکو پکڑناکس قدرظلم ہے۔ اول تو بیگناہ کو گنہگارکے بدلے سزادینا ہی ظلم ہے اور پھر دُوسرا ظلم یہ ہے کہ اول گنہگاروں کے گناہوں کی گٹھڑی یسوع کے سر پر رکھ دی اور گنہگار کو مُژدہ سنادیاکہ تمہارے گناہ اُس نے اُٹھالیے اور پھر وہ گناہ کریں، توپکڑے جاویں۔یہ عجیب دھوکا ہے جس کا جواب عیسائی کبھی نہیں دے سکیں گے۔
کفّارہ پر ایمان لانے سے انسان گناہ پر دلیر ہوجاتا ہے اگرکوئی یہ کہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے
انسان گناہ کی زندگی سے نجات پاسکتا ہے اور گناہ کی قوت اس میں نہیں رہتی، تو یہ ایک ایسی بات ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لئے کہ یہ اُصول ہی اپنی جڑھ میں گناہ رکھتا ہے۔گناہ سے بچنے کی قوت پیداہوتی ہے۔ مؤاخذۂ الہٰی کے خوف سے لیکن وہ مواخذہ کا خوف کیونکر ہوسکتاہے جب کہ یہ مان لیا جاوے کہ ہمارے گناہ یسوع نے اُٹھالئے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ایسے اُصول کا انسان کبھی متقی نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ ہر ایک کام کو جس کی بِنا تقویٰ کے اُصولوں پرہو، ضروری نہ سمجھے گا۔یہ خوب یارکھوکہ پاک باطنی ہمیشہ اُصولوں ہی سے شروع ہوتی ہے؛ ورنہ
خُبثِ نفس نہ گردوبسالہامعلوم
پھرہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفّارہ کا مسئلہ ماننے والوں نے پاک باطنی کی عملی نظیریں کیا قائم کی ہیں؟ یورپ کی بداعمالیاں سب کو معلوم ہیں۔ شراب جواُم الخبائث ہے۔ اس کی یورپ میں اس قدر کثرت ہے کہ اُس کی نظیر کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔مَیں نے کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ اگر لندن کی شراب کی دوکانوں کو ایک لائن میں رکھا جائے تو پچھتر میل تک چلی جاویں۔ جس حالت میں اُن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر ایک گناہ کی معافی کاسرٹیفکیٹ دیا گیا ہے اور جس قدرگناہ کوئی کرے معاف ہیں تو اب سوچ کر عیسائی ہم کو جواب دیں کہ اس کا اثر کیاپڑے گا۔
اگرنعوذباللہ ہمارا یہ اصول ہوتا، توہم پر اس کا کتنا بُرا اثرپڑتا۔ نفسِ امأرہ توبہانہ ہی تلاش کرتا ہے جیسے شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنھاکا سہارالیلیا اور تقیہ کی آڑ میں جو کچھ کرلیں، سو تھوڑا ہے۔ مَیں اسی تقیہ اور امام حسینؓ کے فدیہ کے اصول کی بناپردلیری سے کہتاہوں کہ شیعوں میں مُتقی کم نکلیں گے۔ خلیفہ محمدحسین صاحب نے لکھاہے کہ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(الصافات:۱۰۸) سے جوقرآن میں آیا ہے۔ امام حسینؓ کا شہیدہونا نکلتاہے اور اس نکتہ پر بہت خوش ہوئے ہیں کہ گویا قرآن شریف کے مغز کو پہنچ گئے ہیں۔
اُن کی اس نکتہ دانی پر مجھے ایک پوستی کی حکایت یادآئی۔وُہ یہ ہے کہ ایک پوستی کے پاس ایک لوٹا تھا اور اُس میں ایک سوراخ تھا۔ جب رفع حاجت کو جاتا۔ اس سے پیشتر کہ وہ فارغ ہوکر طہارت کرے۔ سارا پانی لوٹے سے نکل جاتا تھا۔آخرکئی دن کی سوچ اورفکرکے بعداس نے یہ تجویز نکالی کہ پہلے طہارت ہی کرلیا کریں اور اپنی اس تجویز پر بہت ہی کوش ہوا۔ اسی قسم کا نکتہ اور نسخہ ان کو ملاہے۔ جو فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (الصافات:۱۰۸)سے امام حسین ؓ کی شہادت نکالتے ہیں۔ شیعہ لوگوں کو مسجدیں تک تو صاف نہیں رہ سکتی ہیں۔ ہم ایک شیعہ اُستاد سے پڑھاکرتے تھے اور وہاں کتے پیشاب وپاخانہ پھرجاتے تھے اور مجھے یادنہیں کہ کسی نے کبھی وہاں نماز پڑھی ہو۔ شیعہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے امام حسینؓ اور اہل بیت شہید ہوچکے ہیں۔ اُن کے غم میں رولینا اور ماتم کرلینا بس یہی کافی ہے۔ جنت کے لئے اور کسی عمل کی بجز اس کے ضرورت نہیں اور ایسا ہی عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح کاخون ہمارے لئے مُنجی ہوا۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر تمہارے گناہوں پر بھی بازپُرس ہونی ے اور تمہیں ان کی سزابھگتنی ہے، تو پھر یہ نجات کیسی ہے؟
اس اُصول کا اثر درحقیقت بہت بُراپڑا۔اگر یہ اصول نہ ہوتا ، تو یورپ کے ملکوں میں اس کثرت سے فسق وفجورنہ ہوتااور اس طرح بدکاری کا سیلاب نہ آتا جیسے اب آیاہوا ہے۔ لندن او رپیرس کے ہوٹلوں اور پارکوں میں جاکردیکھوکیا ہورہاہے اور ان لوگوں سے پوچھوجووہاں سے آتے ہیں آئے دن اخبارات میں ان بچوں کی فہرستیں جن کی ولادت ناجائزولادت ہوتی ہے، شائع ہوتی ہیں۔
کفّارہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے اب ہم تو اُصول ہی کو دیکھیں گے۔ ہمارے اصول میں تو یہ لکھا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالُ
ذَرَّۃٍ خَیْرًایَرَہُ(الزلزال:۸)اب اس کا اثر تم خودسوچ لوگے، کیا پڑے گا۔یہی کہ انسان اعمال کی ضرورت محسوس کرے گا اور نیک عمل کرنے کی سعی کرے گا۔ برخلافِ اس کے جب یہ کہا جاوے گا کہ انسان اعمال سے نجات نہیں پاسکتا۔ تویہ اُصول انسان کی ہمت اور سعی کو پست کردیگا اور اس کو بالکل مایوس اور بے دست و پابنادے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کا اُصول انسانی قویٰ کی بھی بیحرمتی کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی قویٰ میں ایک ترقی کا مادہ رکھا ہے ، لیکن کفارہ اس کوترقی سے روکتا ہے، ابھی مَیں نے کہا ہے کہ کفارہ کا اعتقاد رکھنے والوں کے حالاتِ آزادی اور بے قیدی کو جو دیکھتے ہیں تو یہ اسی اصول کی وجہ سے ہے کہ کتے اور کتیوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں۔ لنڈن کے ہائیڈ پارک میں علانیہ بدکاریاں ہوتی ہیں اور ّ*** بچے پیداہوتے ہیں۔ پس ہم کو صرف قیل وقال تک ہی محدودنہ رکھناچاہئے۔بلکہ اعمال ساتھ ہو نے چاہیں۔ جو اعمال کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ سخت ناعاقبت اندیش اور نادان ہے۔ قانونِ قدرت میں اعمال او ران کے نتائج کی نظریں تو موجود ہیں۔کفارہ کی نظیر کوئی موجود نہیں۔ مثلاً بھوک لگتی ہے، تو کھانا کھالینے کے بعد وہ فرد ہوجاتی ہے یا پیاس لگتی ہے، پانی سے جاتی رہتی ہے تو معلوم ہوا کہ کھاناکھانے یا پانی پینے کا نتیجہ بھوک کا جاتے رہنا یا پیاس کا بُجھ جانا ہوا۔ مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ بُھوک لگے زیدؔ کو اور بکر ؔ روٹی کھائے اور زیدؔ کی بُھوک جاتی رہے۔ اگر قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیرموجود ہوتی، تو شایدکفارہ کا مسئلہ مان لینے کی گنجائش نکل آتی، لیکن جب قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں تو انسان جو نظیردیکھ کر ماننے کا عادی ہے۔ اسے کیونکر تسلیم کرسکتا ہے ۔ عام قانونِ انسانی میں بھی تو اس کی نظیر ہیں ملتی ہے ۔ کبھی نہیں دیکھاگیا کہ زید ؔ نے خون کیاہو اور خالدؔ کو پھانسی ملی ہو۔غرض یہ ایک ایسا اُصول ہے جس کی کوئی نظیرہرگز موجود نہیں۔
اعمال صالحہ اورتقویٰ مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتاہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی۔ خداتعالیٰ کے حضوراگرکوئی چیزجاسکتی ہے، تو وہ یہی
اعمالِ صالحہ ہیں۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ(سورہ فاطر:۱۱) خودخداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اس وقت ہمارے قلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں کے برابر ہیں، لیکن فتح اور نُصرت اسی کو ملتی ہے جو متقی ہو خداتعالیٰ نے یہ وعدہ فرمادیا ہے۔کَانَ حَقًّاعَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ (الروم:۴۸) مومنوں کی نصرت ہمارے ذمہ ہے۔ اور لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لَلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً (النساء:۱۴۲) اللہ مومنوں پرکافروں کوراہ نہیں دیتا، اس لئے یادرکھوکہ تمہاری فتح تقویٰ سے ہے؛ ورنہ عرب تو نرے لکچراراور خطیب اور شاعرہی تھے۔انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فرشتے ان کی امداد کے لے نازل کیے۔ تاریخ کو اگر انسان پڑھے تو اُسے نظر آجائے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے جس قدرفتوحات کیں وہ انسان طاقت اور سعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک بیس سال کے اندر ہی اندر اسلامی سلطنت عالمگیرہوگئی۔ اب ہم کو کوئی بتاوے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ باربارفرماتا ہے اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقُوْ اوَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔(النحل:۱۲۹)
متقی اور مُحسن مُتقی کے معنی ہیں ڈرنے والا۔ ایک ترکِ شرہوتا ہے اور ایک اِفاضۂ خیرمتقی ترک شر کا مفہوم اپنے اندررکھتا ہے اور محسن افاضۂ خیرکو چاہتا ہے۔مَیں نے
اس کے متعلق ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک بزرگ نے کسی کی دعوت کی اور اپنی طرف سے مہمان نوازی کا پورا اہتمام کیا اورحق ادا کیا۔ جب وہ کھانا کھاچکے، تو بزرگ نے بڑے انکسار سے کہا کہ مَیں آپ کے لائق خدمت نہیں کرسکا۔ مہمان نے کہا کہ آپ نے مجھے پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ مَیں نے احسان کیا ہے ، کیونکہ جس وقت تم مصروف تھے، میں تمہاری املاک کو آگ لگادیتا تو کیا ہوتا۔ غرض متقی کاکام یہ ہے کہ برائیوں سے بازآوے۔ اسے آگے دوسرا درجہ افاضۂ خیر کا ہے۔ جس کو یہاں محسنون کے لفظ سے ادا کیاگیا ہے کہ نیکیاں بھی کرے۔ پورا راستباز انسان تب ہوتاہے جب بدیوں سے پرہیز کرکے یہ مطالعہ کرے کہ نیکی کون سے کی ہے؟
کہتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکرچاء کی پیالی لایا۔ جب قریب آیاتو غفلت سے وہ پیالی آپؓ کے سرپرگرپڑی۔ آپؓ نے تکلیف محسوس کرکے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا۔ غلام نے آہستہ سے پڑھا۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ(آل عمران:۱۳۵) یہ سُن کر امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کظلمت غلام نے پھر کہا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ۔ کظم میں انسان غصہ دبالیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے، مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی، اس لئے عفو کی شرط لگادی ہے۔ آپؓ نے کہا کہ مَیں نے عفوکای۔ پھر پڑھا واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ محبوب الہٰی وہی ہوتے ہیں جوکظم اور عفوکے بعد نیکی بھی کرتے ہیں۔آپؓ نے فرمایا: جاآزادبھی کیا۔ راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چائے کی پیالی گراکرآزاد ہوا۔ اب بتائو کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیداہوا۔
آنحضرت صلی اللہ وسلم کی قوتِ قُدسی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَقِمْ کَمَآاُمِرْتَ (ھود:۱۱۳) یعنی سیدھا ہوجا۔کسی قسم کی بداعمالی
کی کجی نہ رہے۔ پھر راضی ہوں گا۔ آپ بھی سیدھا ہوجا اور دُوسروں کو بھی سیدھا کر۔ عرب کے لئے سیدھا کرنا کس قدر مشکل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورۃ ھود نے بوڑھا کردیا۔ کیونکہ اس کے حکم کی رُو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سُپردہوئی ہے۔ اپنے آپ کو سیدھاکرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری کرنا، جہانتک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے، ممکن ہے کہ وُہ اس کو پورا کرے۔ لیکن دوسروں کو ویس اہی بنانا آسان نہیں ہے۔ اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان اورقوت قدسی کا پتہ لگتا ہے؛ چنانچہ آپؐ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی۔ صحابہ کرام ؓ کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ اُن کو کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران:۱۱۱) کہا گیا اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (البینۃ:۹) کی آوازاُن کو آگئی۔ آپؐ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا۔ غرض ایسی کامیابی آپؐ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعاتِ زندگی میں نہیں ملتی۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قار ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے، کیونکہ اگر نِرے قیل و قال اور رَیا کاری تک ہی بات ہو تو دُوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف! تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھائو اور اس میں ایک ایسی چمک ہوکر دُوسرے اس کو قبول کرلیں، کیونکہ جب تک اس مین چمک نہ ہوکوئی اس کو قبول نہیں کرتا۔ کای کوئی انسان میلی چیز پسند کرسکتا ہے؟ جب تک کپڑے میں ایک داغ بھی ہو، وہ اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح جبتک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہوگی، کوئی خریدار نہیں ہوسکتا۔ ہر شخص عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے اسی طرح جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکوگے۔
انسانی پیدائش کی اصل غرض سورۃ عصر میں اللہ تعالیٰ نے کفارہ اور مومنوں کی زندگی کے نمونے بتائے ہیں کفار کی زندگی بالکل چوپائوں کی سی
زندگی ہوتی ہے۔ جن کو کھانے اور پینے اور شہوانی جذبات کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا۔یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ (محمد:۱۳) مگر دیکھو اگر ایک بیل چارہ تو کھالے ، لیکن ہل چلانے کے وقت بیٹھ جائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ زمیندار اسے بوچڑ خانے میں جاکر بیچ دے گا۔ اسی طرح ان لوگوں کی نسبت (جو خداتعالیٰ کے احکام کی پیروی یا پروا نہیں کرتے اور اپنی زندگی فسق وفجور میں گذارتے ہیں) فرماتا ہے۔ قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآ ؤُ کُمْ۔(الفرقان:۷۸) یعنی میرا رب تمہاری کیا پروا کرتا ہے اگرتم اُس کی عبادت نہ کرو۔ یہ امر بحضور دل یادرکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے محبت کی ضرورت ہے اور محبت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک محبت تو ذاتی ہوتی ہے اور ایک اغراض سے وابستہ ہوتی ہے۔ یعنی اس کا باعثِ صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں۔جن کے دُور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہوکر رنج وغم کا باعث ہوجاتی ہے، مگر ذاتی محبت سچی راحت پیداکرتی ہے، چونکہ انسان فطرتاً خداہی کے لئے پیداہوا۔جیسا کہ فرمایا:مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات:۵۷) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہواہے اور مخفی درمخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سورہنا سمجھتے ہیں۔ وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دُورجاپڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری اُن کے لئے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے۔ یہی ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ پرایمان لاکرزندگی کا پہلوبدل لے۔موت کا اعتبار نہیں ہے۔ سعدیؒ کاشعر سچا ہے۔
مکُن تکیہ برعمرِ ناپائیدار مباش ایمن ازبازیٔ روزگار
عُمرِناپائیدارربھروسہ کرنادانشمندکاکام نہیں ہے۔ موت یونہی آکرلتاڑجاتی ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا جب کہ انسان اس طرح پر موت کے پنجہ میں گرفتا ر ہے۔ پھر اُس کی زندگی کا خداتعالیٰ کے سوا کون ذمہ دارہوسکتا ہے۔
خداکے لیے زندگی اگر زندگی خداکے لئے ہوتو اس کی حفاظت کرے گا۔ بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ سے محبت کارابطہ پیداکرلیتا
ہے، خداتعالیٰ آپس کے اعضاء ہوجاتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اُس کی دوستی یہانتک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ پائوں وغیرہ حتی کہ کہ اُس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات ِ نفس سے پاک ہوجاتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائزنہیں ہوتابلکہ ہر ایک فعل خدا کے منشاء کے موافق ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خداتعالیٰ اُسے اپنا فعل ہی قرار دیتا ہے۔ یہ ایک مقام ہے قربِ الہٰی کا جہاں پہنچ کر سلوک کی منزلوں کو پورے طورپرطے نہ کرنے والوں نے یا توٹھوکرکھائی ہے یا الہیات سے ناواقف اورقربِ الہٰی کے مفہوم کو نہ سمجھنے والوں نے غلط فہمی سے کام لیا ہے اور وحدتِ وجود کا مسئلہ گھڑلیا ہے۔ اس بات کو بھی ہرگز بھولنا نہ چاہئے کہ جہاں انسان ابتلامیں پڑتا ہے وہ فعل خداکے ارادہ سے موافق نہیں ہوتا۔ خداتعالیٰ کی رضاء اُس کے خلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے ہوتا ہے نہ کہ منشائے الہٰی کے ماتحت ، لیکن وُہ انسان جو اللہ تعالیٰ کا ولی کہلاتا ہے اور خدا جس کی زندگی کا ذمہ دارہوتاہے۔ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی حرکت و سکون بلااستصواب کتابِ الہٰی نہیںہوتی۔ وُہ اپنی ہر بات اور ارادہ پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور سے مشورہ لیتا ہے۔
پھر آگے کہا ہے کہ اُس کی جان نکالنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑا تردد ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ تردّدسے پاک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مصلحت کے لیے اُس کو موت دی جاتی ہے اور ایک عظیم مصلحت کے لئے اس کودوسرے جہان میں لے جایاجاتا ہے۔ نہیں تواُس کی بقاخداکو بڑی پیاری لگتی ہے۔ پس اگر انسنا کی ایسی زندگی نہیں کہ خداتعالیٰ کو اُس کی جان لینے میں تردّد ہوتو وہ حیوانات سے بھی بدتر ہے۔ ایک بکری سے بتہ سے آدمی گزارہ کر سکتے ہیں اور اس کا چمڑہ بھی کام آسکتا ہے۔ اور انسان کسی حالت میں کیا مَرکر بھی کام نہیں آتا، مگر صالح آدمی کا اثر اس کی ذرّیت پر بھی پڑتاہے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھاتی ہ۔ اصل یہ ہے کہ درحقیقت وہ مرتا ہی نہیں مرنے پر بھی اس کو ایک نئی زندگی دی جاتی ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام نے کہا ہے کہ مَیں بچہ تھا، بوڑھا ہوا۔ مَیں نے کسی خداپرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اُس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں، گویا متقی کی اولاد کا بھی خداتعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے،لیکن حدیث میں آیاہے۔ظالم اپنے اہل وعیال پر بھی ظلم کرتا ہے، کیونکہ ان پر اس کا بدَاثرپڑتا ہے۔
انسانی پیدائش کی غرض عبادت ہے پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیداکرنے سے خداتعالیٰ کی غرض
یہ ہے کہ تم اُس کی عبادت کروا ور اس کے لئے بن جائو۔ دُنیا تمہاری مقصودبالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے باربار اس ایک امرکو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اوریہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑاہواہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دُنیا کے کاروبار چھوڑدو۔ بیوی بچوں سے الگ ہوکر کسی جنگل یا پہاڑ میں جابیٹھو۔ اسلام میں اس کو جائز نہیں رکھتااوررہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چُست او رہوشیار اور مُستعد بنانا چاہتا ہے ، اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے۔ کہ جس کے پاس زمین ہو او روہ اس کا تردد نہ کرے، تو اس سے مواخذہ ہوگا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مُراد لے کہ دُنیا کے کاروبار سے الگ ہوجائے وُہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو۔ اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضاء مقصود ہو اور اُس کے ارادہ سے باہرنکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدّم نہ کرو۔
پس اگر انسان کی زندگی کا یہ مدّعا ہوجائے کہ وہ صرف تنعم کی زندگی بسرکرے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہاخوردونوش اور لباس وخواب ہی ہو اور خداتعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اُس کے دل میں باقی نہ رہے ، تو یادرکھو کہ ایساشخص فطرۃ اللہ کا مُقلب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے قویٰ کو بیکار کرلے گا۔ یہ صاف بات ہے کہ جس مطلب کے لئے کوئی چیز ہم لیتے ہیں اگر وہ وہی کام نہ دے، تو اُسے بیکار قراردیتے ہیں۔مثلاً ایک لکڑی کُرسی یا میز بنانے کے واسطے لیں اوراس کام کے ناقابل ثابت ہوتو ہم اُسے ایندھن ہی بنالیں گے۔ اسی طرح پر انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادتِ الہٰی ہے، لیکن اگر وہ اپنی فطرت کوخارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کرلیتا ہے، تو خداتعالیٰ اُس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔قُلْ مَایَعْبَوئُ ابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآ ؤُکُمْ(الفرقان:۷۸) مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیاء میں دیکھا کہ ایک جنگل میں کھڑاہوں۔شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جوہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے، ہاتھ میں چھُری ہے۔ جوانہوں نے اُن کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف مُنہ کیا ہو اہے۔مَیں اُن کے پاس ٹہل رہا ہوں۔مَیں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھاکہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں، تو مَیں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَایَعْبَوئُ ابِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآ وء ُکُم۔ یہ سنتے ہی اُن قصابوں نے فی الفورچھُریاں چلادیں اوریہ کہا کہ تم ہوکیا؟آخرگوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔
غرض خداتعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقاء کو عزیز رکھتاہے اورجواُس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پروا نہیں کرتا او راُس کو جہنم میں ڈالتا ہے، اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہرکرے۔ جیسے کلوروفارم نیند لاتاہے، اسی طرح پرشیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سُلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کردیتاہے۔
سورۃ العَصْرِ میں دوسلسلوں کاذکر مَیں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ سورۂ العصرمیں دوسلسلوں کا ذکرفرمایا ہے۔
ایک ابرارواخیارکا سلسلہ ہے اور دُوسرا فجار کا۔ کفاراور فجارکے سلسلہ کاذکر یوں فرمایا۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(العصر:۳) اوردوسرے سلسلہ کو اس طرح پرالگ کیا۔اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ (العصر) یعنی ایک وہ ہیں جو خُسران میں ہیں، مگر خسران میں مومن اور عملِ صالح کرنے والے نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ خسران میں وہ ہیں جو مومن اور عملِ صالح کرنے والے نہیں ہیں۔ یادرکھو کہ صلاح کا لفظ وہاں آتا ہے، جہاں فساد کابالکل نام ونشان نہ رہے۔ انسان کبھی صالح نہیں کہلاسکتا جب تک وہ عقاید رویہ اور فاسدہ سے خالی نہ ہو اور پھر اعمال بھی فساد سے خالی ہوجائیں۔ متقی کا لفظ بابِ افتعال سے آتا ہے اوریہ باب تصنّع کے لئے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متقی کو بڑا مجاہدہ اور کوشش کرنی پڑتی ہے اور اس حالت میں وہ نفسِ لوامہ کے نیچے ہوت اہے اور جب حیوانی زندگی بسرکرتاہے، اس وقت امارہ کے نیچے ہوت اہے اور مجاہدہ کی حالت سے نکل کر جب غالب آجاتا ہے، تومطمئنہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ متقی نفسِ امارہ کی حالت سے نکل کر آتا ہے اور لوامہ کے نیچے ہوتا ہے۔ اسی لئے متقی کی شان میں آیا ہے کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ گویا اس میں بھی ایک قسم کی لڑائی ہی کی حالت ہوتی ہے۔ وساوس اور اوہام آآکر حیران کرتے ہیں، مگر وہ گھبراتا نہیں اور یہ وساوس اُس کو درماندہ نہیں کرسکتے۔ وہ باربار خداتعالیٰ کی استعانت چاہتا ہے اور خداکے حضور چلاتا اورروتا ہے، یہانتک کہ غالب آجاتا ہے۔ ایساہی مال کے خرچ کرنے میں بھی شیطان اس کو روکتا ہے اوراسراف اور انفاق فی سبیل اللہ کو یکساں دکھاتا ہے؛ حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسراف کرنے والا اپنے مال کو ضائع کرتا ہے، مگر فی سبیل اللہ خرچ کرنے والا اس کو پھر پاتا ہے اور خرچ سے زیادہ پاتا ہے۔ اس لئے ہی مِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرہ:۴)فرمایاہے۔
صراطِ مستقیم
بات یہ ہے کہ صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہے کہ ہر ایک قسم کے فساد سے خواہ وہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق ، پاک ہو ، جیسے
انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اس وقت رکھتا ہے، جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پرہوں اور کوئی کم زیادہ نہ ہو۔لیکن اگرکوئی خلط بھی بڑھ جائے، تو جسم بیمارہوجاتاہے۔ اسی طرح رُوح کی صلاحیت کا مدار بھی اعتدال پر ہے۔ اسی کانام قرآن شریف کی اصطلاح میں الصراط المستقیم ہے۔ صلاح کی حالت میں انسان محض خداکاہوجاتاہے۔ جیسے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی حالت تھی۔ اور رفتہ رفتہ صالح انسان ترقی کرتاہوا مطئمنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدرہوتا ہے۔جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا:اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (الم نشرح:۲) ہم انشراح صدر کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔
انسان کا سینہ بیت اللہ ہے اور دل حجراَسود یہ بات بحضورِ دل یادرکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِاسود پڑا ہو اہے۔ اسی طرح قلب
سینہ میں پڑاہوا ہے بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیاہواتھا کہ کفار نے وہاں بُت رکھ دیئے تھے۔ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا۔ مگر نہیں اللہ نے اس کو ایک نظیر کے طورپررکھاقلبِ انسانی بھی حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ماسویٰ اللہ کے خیالات وُہ بُت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں۔ مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اس وقت ہواتھا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزارقدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جاپڑے تھے اور مکہ فتح ہوگیا تھا۔ ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھاہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ یَفْعَلُوْنَ مَایُوْمِرُوْنَ(النحل:۵۱) اسی طرح پرانسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے، اُس کی تعمیل کرتے ہیں۔ ایسا ہی تمام قویٰ اور جوارح حکمِ انسانی کے نیچے ہیں۔ پس ماسوِیٰ اللہ کے بتوں کی شکست اور راستیصاں کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے۔ یہ لشکرتزکیہ ٔ نفس سے تیارہوتا ہے اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے ؛ چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے۔ قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:۱۰) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہوجائے، تو کل جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اور یہ کیسی سچی بات ہے آنکھ،کان ،ہاتھ،پائوں،زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں، وہ دراصل قلب کے ہی فتوے پر عمل کرتے ہیں۔ ایک خیال آتا ہے، پھر وُہ جس عضو کے متعلق ہو وُہ فوراً اس کی تعمیل کے لئے تیارہوجاتاہے۔
میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آئو غرض اس خانہ کو بتوں سے پاک وصاف کرنے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور
اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں۔ اگر تم اس پر عمل کروگے، توان بتوں کو توڑڈالوگے ور یہ راہ مَیں اپنی خورد تراشیدہ نہیں بتاتا۔ بلکہ خدانے مجھے مامورکیا ہے کہ مَیں بتائوں۔ اور وُہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو۔ اور میرے پیچھے چلے آئو۔ یہ آواز نئی آواز نہیں ہے۔ مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا تھا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنَیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲) اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کروگے، تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہوجائوگے۔ تزکیۂ نفس کے لئے چلہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں۔ ارہ اور نفی واثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے، بلکہ اُن کے پاس ایک اور ہی چیز تھی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میںمحو تھے، جو نور آپؐ میں تھا۔ وُہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہوکرصحابہؓ کے قلب پر گرتا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا۔ تاریکی کے باجئے اُن سینوں میں نور بھرا جاتا تھا۔ اس وقت بھی خوب یادرکھو۔ وہی حالت ہے جب تک کہ وہ نور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے تمہارے قلب پر نہیں گرتا۔ تزکیہ نفس نہیں ہوسکتا۔ انسان کا سینہ مہبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے۔ بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو بت ہیں۔ وہ توڑے جائیں اور اللہ ہی اللہ رہ جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اَصْحَابِیْ۔ میرے صحابہؓ کے دلوں میں اللہ ہی اللہ ہے۔ دل میں اللہ ہی اللہ ہونے سے یہ مُراد نہیں کہ انسان وحدتِ وجود کے مسئلہ پر عمل کرے اور ہرکتے اور گدھے کو معاذ اللہ خداقراردے بیٹھے۔ نہیں نہیں۔ اس سے اصل غرض یہ ہے کہ انسان کا جو کام ہو اس میں مقصود فی الذات اللہ تعالیٰ ہی کی رضاہو نہ کچھ اور۔ اور یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب تک خداتعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو۔
برکریماں کا رہادُشوارنیست
قرآن کریم میں عِلمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے پھر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں عملی اور علمی تکمیل کی
ہدایت ہے ؛ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتحہ :۶) میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:۷) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اَتَم ہیں، وہ حاصل ہوجائیں ۔ جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے۔ جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے ، اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں۔ وہ ہدایت مُردہ ہدایت ہے۔ جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے۔جیسے اگر کسی کو دید کی ہدایت پر پورا عمل کرنے سے کبھی یہ اُمید ہیں ہوسکتی کہ وہ ہمیشہ کی مکتی یا نجات حاصل کرلے گا اور کیڑے مکوڑے بننے کی حالت سے نکل کر دائمی سرور پالے گا، تو اس ہدایت سے کیا حاصل، مگر قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اُس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔یہاں تک کہ اُس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں ۔وہ ایک شجرِ طیب کی مثال۔ جوقرآن شریف میں دی گئی ہے۔ بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ اُن میں پیدا ہوتا ہے۔پاس اگر کوئی شخص اپنے ایمان میں نشوونما کا مادہ نہیںرکھتا، بلکہ اس کا ایمان مُردہ ہے، تو اس پر اعمالِ صالحہ کے طیب اشجار کے بارورہونے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میںصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحہ:۷) کہ کر ایک قیدلگادی ہے۔یعنی یہ راہ کوئی بے ثمراور حیران اور سرگردان کرنے والی نہیں ہے، بلکہ اس پر چل کر انسان بامراد اور کامیاب ہوتا ہے اور عبادت کیلئے تکمیل عملی ضروری شے ہے؛ ورنہ وہ محض ایک کھیل ہوگا ، کیونکہ درخت اگر پھل نہ دے، خواہ وہ کتنا ہی اُونچا کیوں نہ ہو۔ مفید نہیں ہوسکتا۔
مامُورمن اللہ کے مخالفوں کا ایمان سَلب ہوجاتاہے ہمارے مخالفوں کی حالت ایسی ہے۔ جس سے سلبِ ایمان
کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ وہ نیک کو بُرااور مامُورمن اللہ کوکذاب سمجھتے ہیں۔ جس سے خداتعالیٰ کے ساتھ ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اور اب یہ صاف امر ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے مامور اور مسیح موعُود کے نام سے دُنیا میں بھیجا ہے جو لوگ میری مخالفت کرنے والے ہیں وہ میری نہیں خداتعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ جب تک مَیں نے دعویٰ نہ کیاتھا۔ بہت سے اُن میں سے مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اپنے ہاتھ سے لوٹالے کر وضوکرانے کو ثواب اور فخرجانتے تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو میری بیعت میں آنے کے لئے زور دیتے تھے، لیکن جب خدا تعالیٰ کے نام اور اعلام سے یہ سلسلہ شروع ہوا ، تو وہی مخالفت کے لئے اُٹھے۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اُن کی ذاتی عداوت میرے ساتھ نہ تھی، بلکہ عداوت اُن کو خداتعالیٰ سے ہی تھی۔ اگر خداتعالیٰ کے ساتھ اُن کو سچا تعلق تھا، تو اُن کی دینداری اور اتقاء اور خداترسی کا تقاضا یہ ہوناچاہئے تھا کہ سب سے اول وہ میرے اس اعلان پر لبیک کہتے اور سجداتِ شکر کرتے ہوئے میرے ساتھ مصافحہ کرتے، مگر نہیں۔ وہ اپنے ہتھیاروں کو لے کر نِکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے مخالفت کو یہاں تک پہنچایا کہ مجھے کافر کہا اور بے دین کہا۔ دجال کہا۔ افسوس ! ان احمقوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ جو شخص خداتعالیٰ سے قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اور اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ کی آوازیں سنتا ہو۔وہ اُن کی بدگوئی اور گالیوں کی کیا پروا کرسکتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کفر اور ایمان کا تعلق دُنیا سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ساتھ ہے۔ خداتعالیٰ میرے مومن اور ماموُر ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ پھر ان بیہودگیوں کی مجھے پروا کیا ہوسکتی ہے؟ غرض ان باتوں سے صاف پایاجاتا ہے کہ لوگ میرے مخالف نہ تھے بلکہ خداتعالیٰ کی باتوں کی انہوں نے مخالفت کی اور یہی وجہ ہے جس سے مامور من اللہ کے مخالفوں کا ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ اب یہ صاف بات ہے کہ میرے مخالف خداتعالیٰ سے مخالفت کررہے ہیں۔ میں اگر روشنی کی طرف آرہا ہوں اور یہ یقینی امر ہے کہ مَیں روشنی کی طرف آتا ہوں ۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے بے شمار نشان میری تائید میں ظاہر ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔بارش کی طرح یہ نشان آسمان سے اُتر رہے ہیں۔ تو پھر یہ بھی یقینی امر ہے کہ میرے مخالف تاریکی کی طرف جاتے ہیں۔ روشنی اور نورُ رُوح القدس کو لات اہے اور تاریکی شیطان کی قربت پیداکرتی ہے او راس طرح پرولی کی مخالفت سلب ایمان کردیت ہے۔ اور بئس القرین سے جاملاتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اصلاح تب ہوتی ہے کہ تکمیل عملی کے مراتب حاصل ہوجائیں۔ پس سورۃ العصر میں جواِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ فرمایا ہے۔ اس میں اٰمَنُوْا سے تکمیل علمی کی طرف ارشاد فرمایا۔ اور عَمِلُو االصّٰلِحٰتِ سے تکمیل عملی کی طرف رہبری کی حکمت کے بھی دوہی حصے ہیں۔ ایک علم اکمل اور اتم ہو۔ دُوسرے عمل اتم اور اکمل ہو۔
وتَوَاصَوْ ابِالْحَقِّ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ خسر سے محفوظ رہتے ہیں۔ اول وہ تکمیل علمی کرتے ہیں اور پھر عمل بھی گندے نہیں کرتے بلکہ علمی
تکمیل کو عملی تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور پھر یہ کہ جب انہیں کامل بصیرت حاصل ہوجاتی ہے اور ان کے کمال علم کا ثبو ت کمال ِ عمل سے ملتا ہے تو پھر وہ بخل نہیں کرتے، بلکہ وتو اصوا بالحق پر عمل کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی اس حق کی دعوت کرتے ہیں، جو انہوں نے پایا ہے۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اعمال کی روشنی بھی دکھاتے ہیں۔ وعظ اگر خود عمل نہیں کرتا ،تو اس کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں پڑسکتا۔ یہ بھی قاعدہ کی بات ہے کہ اگر خود آدمی کہے اور کرے نہیں، تو اس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ اگر زنا کارزنا سے منع کرے ، تو اُس کی اس حالت کے ثابت ہوجانے پر سننے والوں کے دہر یہ ہوجانے کا اندیشہ ہے، کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ اگر زنا کاری واقعی خطرناک چیز ہوتی اور خداتعالیٰ کے حضور اس ناپاکی پر سز املتی اور خداواقعی ہوتا، تو پھر یہ جع منع کرتاتھا، خود کیوں اس سے پرہیزنہ کرتا۔
مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص ایک مولوی کی صحبت کے باعث مسلمان ہونے لگا۔ ایک روز اُس نے دیکھا کہ وہی مولوی شراب پی رہا ہے تھا، تو اس کا دل سخت ہوگیا اور وُہ رُک گیا۔غرض تَوَاصَوْ ابِالْحَقِّ میں یہ فرمایا کہ وہ اپنے اعمال کی روشنی سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں۔
وَتَوَاصَوْابِالْصَبْرِ
اور پھر ان کا یہ شیوہ ہوتا ہے۔ تَوَاصَوْابِالْصَبْرِ یعنی صبر کے ساتھ وعظ ونصیحت کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ جلدی جھاگ مُنہ پر نہیں لاتے۔ اگر کوئی مولوی اور پیش رو ہوکر، امام اور رہنما بن کر جلدی بھڑک اُٹھتا ہے اور اس میں برداشت اور صبر کی طاقت نہیں تو وہ لوگوں کو کیوں نقصان پہنچاتا ہے؟ دُوسرے یہ بھی مطلب ہے کہ جو باتیں سننے والا صبرسے نہ سُنے، وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا۔ ہمارے مخالف بُردباری کا دل لے کر نہیں آتے اور صبر سے اپنی مشکلات پیش نہیں کرتے، بلکہ اُن کا تو یہ حال ہے کہ وہ کتاب تک تو دیکھنا نہیں چاہتے اور شورمچاکر حق کو ملبس کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ پھر وُہ فائدہ اُٹھائیں توکیونکراُٹھائیں۔ابوجہل اور ابولہب میں کیا تھا؟یہی بے صبری اور بے قراری تو تھی۔ کہتے تھے کہ تو خدا کی طرف سے آیا ہے تو کوئی نہر لے آ۔ ان کم بختوں سے صبر نہ کیا اور ہلاک ہوگئے؛ ورنہ زبیدہ والی نہر تو آہی گئی۔ اسی طرح پر ہمارے مخالف بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دُعا کرو اور وہ معاً قبول ہوجائے اور پھر اس کو حق وباطل کا معیار ٹھہراتے ہیں اور اپنی طرف سے بعض اُمور پیش کرکے کہتے ہیں کہ یہ ہوجائے اور وُہ ہوجائے ، تو مان لیں گے لیکن آپ کسی شرط کے نیچے ہیں آئے۔ افسوس یہی لوگ ہیں جو لَایُخَافُ عُقْبَہٰھَا (الشمس:۱۴) کے مصداق ہیں۔ یادرکھوصابر ہی شرح صدر کا رتبہ پاتا ہے۔ جو صبر نہیں کرتا، وُہ گویا خدا پر حکومت کرتا ہے۔ خود اس کی حکومت میں رہنا نہیں چاہتا۔ ایسا گُستاخ اور دلیرجو خداتعالیٰ کے جلال اور عظمت سے نہیں ڈرتا وہ محروم کردیاجاتا ہے اور اُسے کاٹ دیا جاتا ہے۔
صحبت صادقین پھر یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری بات ہے کُوْنُوْ امَعَ الصَّادِقِیْنَ(توبہ:۱۱۹) صادقوں کی صحبت میں
رہنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو دُور بیٹھ رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے، اس وقت فرصت نہیں ہے۔ بھلا تیرہ سو سال کے موعود سلسلہ کو جو لوگ پالیں اور اُس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رُسولؐ کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں، وہ فلاح پاسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ؎
ہم خدا خواہی وہم دُنیائے دوں ایں خیال است و محال است وجنوں
دین تو چاہتا ہے کہ مصاحبت سے گریز ہوتو دینداری کے حُصول کی اُمید کیوں رکھتا ہے؟ ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر رہیں اور فائدہ اُٹھائیں۔ مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دُنیا پرمقدم کرلیتے ہیں، مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے۔ یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اُسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے مکرکرنا مومن کا کام نہیں ہے۔ جب موت کا وقت آگیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی۔ وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس کی معلوم ہی نہیں ان کو جانے دو۔ مگر ان سب سے بڑھ کر بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والاتو وہ ہے جس نے اس سلسلہ کو شناخت کیا اور اُس میں شامل ہونے کی فکر کی۔ لیکن اُس نے کچھ قدر نہ کی۔ وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور اُن باتوں سے جو خداتعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سُنتے اور دیکھتے۔ وہ اپنی جگہ کیسے ہی نیک اور متقی اور پرہیز گار ہوں۔ مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیے۔ انہوں نے قدر نہیں کی۔ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیلِ عملی کی ضرورت ہے۔ پس تکمیل عملی بدُوں تکمیل علمی کے مُحال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے۔ تکمیل علمی مشکل ہے۔ بارہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا او رہم ہم جواب نہ دے سکے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور اُن باتون کو نہیں سنتے جو خداتعالیٰ اپنے سلسلہ کی تائیدمیں علمی طورپرظاہرکررہا ہے۔
پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خداپرایمان لاتے ہو اور دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا سچا وعدہ کرتے ہو، تو مَیں پوچھتا ہوں کہ اس پرعمل کیا ہوتا ہے کیا کُوْنُوْ امَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹) کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ اگر تم واقعی ایمان لاتے ہو اور سچی خوش قسمتی یہی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کو مقدم کرلو۔ اگر ان باتوں کوردی اور فضول سمجھو گے تویادرکھو خداتعالیٰ سے ہنسی کرنے والے ٹھہرو گے۔
سورۃ فاتحہ میں قرآنِ کریم کے تمام معارف درج ہیں سورۃ فاتحہ پر جو قرآن شریف کا باریک نقشہ ہے
اور ام الکتاب بھی جس کا نام ہے، خوب غورکرو کہ اس میں اجمال کے ساتھ قرآن کریم کے تمام معارف درج ہیں؛ چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمام محامداللہ ہی کے لئے ہیں۔ اس میں یہ تعلیم ہے کہ تمام منافع اور تمدنی زندگی کی ساری بہبودگیاں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں، کیونکہ ہر قسم کی ستائش کا مستحق بھی وہ نہیں ہے، جوکفر کی بات ہے۔ پس الحمدللہ میں کیسی توحید کی جامع تعلیم پائی جاتی ہے، جو انسان کودنیا کی تمام چیزوں کی عبودیت اور بالذات نفع ر سان نہ ہونے کی طرف لے جاتی ہے اور واضح اور بین طور پر یہ ذہن نشین کرتی ہے کہ ہر نفع اور سود حقیقی اور ذاتی طور پر خداتعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے۔کیونکہ تمام محامد اسی کے لئے سزا وار ہیں۔ پس ہر نفع اور سود میں خداتعالیٰ ہی کو مقدم کرو۔ اس کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے اگر خلاف ہوتو اولا دبھی دشمن ہوسکتی ہے۔ اور ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اُمہاتُ الصفات پھر اسی سورۃ فاتحہ میں خداکا نقشہ دکھایاگیا ہے، جوقرآن کریم منوانا چاہتا ہے اور جس کو وہ دُنیا کے
سامنے پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی چار صفات کو ترتیب وار بیان کیا ہے جو اُمہات الصفات کہلاتی ہیں۔جیسے سورۂ فاتحہ اُمّ الکتاب ہے، ویسے ہی جو صفات اللہ تعالیٰ کی اس میں بیان کی گئی ہیں۔ وہ بھی اُم الصفات ہی ہیں اور وہ یہ ہیں…رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلرَّحْمٰنِ ، الرَّحِیْمِ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ ان صفات اربعہ پرغورکرنے سے خداتعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آجاتا ہے۔ ربوبیت کا فیضان بہت ہی وسیع اور عام ہے اوراس میں کل مخلوق کی کل حالتوں تربیت اور اس کی تکمیل کے تکلف کی طرف اشارہ ہے۔ غورتوکرو۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سوچتا ہے، تو اس کی امید کس قدروسیع ہوجاتی ہے اور پھر رحمانیت یہ ہے کہ بُدوں کسی عملِ عامل کے اُن اسباب کو مہیاکرتا ہے۔جوبقائے وجود کے لئے ضروری ہیں۔ دیکھو چاند، سورج، ہوا،پانی وغیرہ بدوں ہماری دُعا ور التجاکے اور بغیرہمارے کسی عمل اور فعل کے اس نے ہمارے وجود کے بقاکے لئے کام میں لگا رکھے ہیں اور پھر رحیمیت یہ ہے کہ اعمال کو ضائع نہ کرے اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِکا تقاضا یہ ہے کہ بامراء کردے۔ جیسے ایک شخص امتحان کے لئے بہت محنت سے تیاری کرتا ہے، مگر امتحان میں دوچار نمبروں کی کمی رہ جاتی ہے، تو دنیوی نظام اور سلسلہ میں تو اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کو گرادیتے ہیں، مگر خداتعالیٰ کی رحیمیت اس کی پردہ پوشی فرماتی ہے اور اس کو پاس کرادیتی ہے۔ رحیمیت میں ایک قسم کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے۔ عیسائیوں کو خداذرہ بھی پردہ پوش نہیں ہے؛ ورنہ کفارہ کی کیا ضرورت رہتی؟ ایسا ہی آریوں کا خدانہ رب ہے نہ رحمان کیونکہ وہ تو بلا مُزد اور بلا عمل کچھ بھی کسی کو عطانہیں کرسکتا۔ یہانتک کہ دیدوں کے اصول کے موافق گناہ کرنا بھی ضروری معلوم دیتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کو اگرکسی اُس کے عمل کے معاوضہ میں گائے کا دودھ دینا مطلوب ہے، تو بالمقابل یہ بھی ضرور ہے کہ کوئی برہمنی(اگر یہ روایت صحیح ہو)زِنا کرے تاکہ اس فسقِ وفحش کے بدلہ میں وہ گائے کی جون میں جائے اور اس عامل کو دودھ پالئے، خواہ وہ اس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو۔ غرض جب تک ایسا سلسلہ نہ ہوگا ، کوئی عامل اپنے عمل کی جزاویدک ایشر کے خزانہ سے پانہیں سکتا، کیونکہ اس کا سارا سلسلہ جوڑتوڑ ہی سے چلتا ہے۔
مگراسلام نے وُہ خداپیش کیا ہے جو جمیع محامد کا سزا وار ہے اس لئے معطی حقیقی ہے وُہ رحمن ہے بدُوں عملِ عامل کے اپنا فضل کرنا ہے۔ پھر مالکیت یوم الدین جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے، بامراد کرتی ہے۔ دُنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دے گی، مگر خداتعالیٰ کی گورنمنٹ، کامل گورنمنٹ اور الانتہاخزائن کی مالک ہے۔ اس کے حضور کوئی کمی نہیں۔ کوئی عمل کرنے والا ہو۔ وہ سب کو فائزالمرام کرتا ہے اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلہ میں بعض ضعفوں اور سقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے۔وہ تواب بھی ہے۔ مستحی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہزار ہا عیب اپنے بندوں کو معلوم ہوتے ہیں، مگر ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بیباک ہوکر انسان اپنے عیبوں میں ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی حیا اور پردہ پوشی سے نفع نہیں اُٹھاتا، بلکہ دہریت کی رگ اس میں زور پکڑتی جاتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس بیباک کو چھوڑا جائے، اس لئے وہ ذلیل کیا جاتا ہے، مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو محمدحسین کی نسبت الہام ہواکہ اس میں کوئی عیب ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ ظاہرکردیں، مگر انہوں نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی حیامانع ہے۔ پھر انہوں نے اس کی نسبت ایک رؤیامیں دیکھا کہ اس کے کپڑے پھٹ گئے ہیں؛ چنانچہ اب وہ رؤیا پوری ہوگئی۔
غرض میرا مطلب تو صرف یہ تھا کہ رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے، مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق اگر کوئی کمی یا نقص رہ جائے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل ور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مگر رحیمیت میں فعل وعمل کو دخل ہے۔ لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے۔ خدا کا رحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے۔ اسی طرح مالک یوم الدین وہ ہے کہ اصل مقصد کوپورا کرے۔ خوب یادرکھو کہ یہ اُمہات الصفات رُوحانی طور پر خدانما تصویر ہیں۔ ان پر گور کرتے ہی معاً خدا سامنے ہوجاتا ہے اور رُوح ایک لذت کے ساتھ اُچھل کر اپس کے سامنے سربسجود ہوجاتی ہے؛ چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہسے جو شروع کیاگیا تھا ، تو غائب کی صورت میں ذکر کیا ہے، لیکن ان صفات اربعہ کے بیان کے بعد معاً صورت بیان تبدیل ہوگئی ہے،کیونکہ ان صفات نے خدا کو سامنے حاضرکردیا ہے۔ اس لئے حق تھا اور فصاحت کا تقاضہ تھا کہ اب غائب نہ رہے بلکہ حاضر کی صورت اختیار کی جائے۔ پس اس دائرہ کی تکمیل کے تقاضہ نے مخاطب کی طرف منہ پھیرا اور اِیَّاکَ نَعْبُدُوْ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ (الفاتحہ:۵) کہا یادرکھنا چاہئے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُوْ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ ہاں اِیَّاکَ نَعْبُدُو میں ایک قسم کاتقدمِ زمانی ہے کیونکہ جس حال میں محض اپنی رحمانیت سے بغیرہماری دُعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع و اقسام کی قوتیں اور نعمتیں عطافرمائیں۔ اس وقت ہماری دُعا نہ تھی بلکہ محض اس کا فضل ہمارے شاملِ حال تھا اور یہ تقدم ہے۔
رحمانیت اور رحیمیت مَیں پھر بیان کرتا ہوں اور یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ رحم دو قسم کا ہوتا ہے۔ اول رحمانیت اور دوسرا رحیمیت کے نام سے مُوسوم
ہے۔ رحمانیت تو ایس افیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے شروع ہوا۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمارے وجود سے پیشتر ہی زمین و آسمان ، چاند وسورج اور دیگر اشیاء ارضی وسماوی پیداکی ہیں، جو سب کی سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں۔ دُوسرے حیوانات بھی اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مگر وہ جب کہ بجائے خود انسان ہی کے لئے مفید ہیں اور انسان ہی کے کام آتے ہیں۔ تو گویا مجموعی طور پر انسان ہی اُن سب سے فائدہ اُٹھانے والا ٹھہرا۔ دیکھو جسمانی اُمور مٰں کیسی اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے۔ اعلیی درجہ کاگوشت انسان کے لئے ہے۔ ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے جسمانی طور پر تو کسی حد تک حیوان بھی شریک ہیں، مگر رُوحانی لذات میں جانور شریک نہیں ہیں۔ پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے ہی عطا ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو رحیمیت کی شان کے نمونے ہیں اور وہ دُعا کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور اُن میں ایک فعل کی ضرورت ہوتی ہے۔
دُعا اور قانونِ قدرت کا باہمی تعلق یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کو بیان کردیا جائے کہ قانونِ قُدرت میں ہمیشہ دُعا کا
تعلق ہے۔ آج کل کے نیچری طبع لوگ جو علوم حقہ سے محض بے خبراور ناواقف ہیں اور اُن کی ساری تگ ودو کا نتیجہ یورپ کے طرزِ معاشرت کی نقل اُتارنا ہے، دُع اکو ایک بدعت سمجھتے ہیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کے تعلق پر کچھ مختصر سی بحث کی جائے۔
دیکھو ایک بچہ بھوک سے بیتاب اور بے قرار ہوکر دودھ کے لیے چالتا ہے اور چیختا ہے، تو ماں کی پستان میں دُودھ جوش مارکر آجاتا ہے؛ حالانکہ بچہ تو دُعا کا نام بھی نہیں جانتا، لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اُس کی چیخیں دُودھ کو جذب کرلیتی ہیں ۔ یہ ایک ایسا امرہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے۔ بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دُودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسااوقات ہوتا بھی نہیں، لیکن جونہیں بچہ کی درد ناک چیخ کان میں پہنچتی ، فوراً دُودھ اُتر آیا ہے۔ جیسے بچہ کی ان چیخوں کو دُودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلاہٹ ایسی ہی اضطراری ہوتو وہ اُس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور مَیں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خداکے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور مَیں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتاہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دُعا کی صورت میں آتا ہے، میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس نہ کرسکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دُنیا سے اُٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ مَیں قبولیت دُعا کا نمونہ دکھانے لئے ہر وقت تیار ہوں۔
توعرض یہ ہے کہ قانوں قدرت میں قبولیت دعا کی نظریں موجود ہیں اور ہرزمانہ میں خداتعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے۔ اسی لئے اس نے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:۶،۷) کی دُعا تعلیم فرمائی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا منشاء اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے اھدنا الصراط المستقیم کی دُعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اَتم کر۔ ان الفاظ پرغورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہرتواشارۃ النص کے طور پر اس سے دُعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے ، لیکن اس کے سر پر اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ (الفاتحہ:۵) بتارہا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ یعنی صراطِ مستقیم کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانتِ الہٰی کو مانگنا چاہیے۔ پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے۔ جو اس کو چھوڑتا ہے، وہ کافرِ نعمت ہے۔ دیکھو! یہ زبان جو خداتعالیٰ نے پیدا کی ہے اور عروق و اعصاب سے اس کو بنایا ہے۔ اگر ایسی ہ ہوتی ، تو ہم بول نہ سکتے۔ ایسی زبان دُعا کے لیے عطاکی جو قلب کے خیالات اور ارادوں کوظاہر کرسکے(اگر ہم دُعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں، تو ہماری شوربختی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وُہ زبان کو لگ جائیں تو وہ یکدفعہ ہی کام چھوڑ بیٹھتی ہے) یہ رحیمیّت ہے۔ ایسا ہی قلب میں خشوع وخضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں ودیعت کی ہیں۔ پس یادرکھو۔ اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کردعا کرتے ہیں، تو یہ دُعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہوگی۔ کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا، تو دوسرے سے کیا نفع اُٹھائیں گے، اس لئے اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے پہلے ایاک نعبد بتارہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بیکار اور بربادنہیں کیا۔ یادرکھو! رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اُٹھانے کے قابل بنادے، اس لئے خداتعالیٰ نے جو اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۱) فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے، بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے۔ مانگنا انسانی خاصہ ہے اور جو استجابت جو اللہ تعالیٰ کا نہیں وُہ ظالم ہے۔ دُعا ایک ایسی سُرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوت اہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذت اور سُرور کو دُینا کو سمجھائوں۔ یہ تو محسوس کرنے سے ہی پتہ لگے گا۔مختصر یہ کہ دُعا کے لوازمات سے اول ضرور ی یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پیداکریں۔ کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو دُرست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا او ردُعا کرت اہے، وہ گویا خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا میں یہ مقصود ہے کہ ہامرے اعمال کو اکمل اور اتم کر اور پھر یہ کہہ کر کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور بھی صراحت کردی کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے اور مغضوب گروہ کی راہ سے بچا۔ جن پر بداعمالیوں کی وجہ سے عذابِ الہٰی آگیا او رالضالین کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھ کر تیری حمایت کے بُدوں بھٹکتے پھریں۔
ایک اور بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ اس جگہ لف و نشر مرتب ہے۔ اول اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ اللہ مستجمع جمیع صفات کاملہ۔ ہر ایک خوبی کو اپنے اندر رکھنے والا اور ہر ایک عیب اورنقص سے منزّہ ہے۔ دوم رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ سوم اَلرَّحْمٰن۔چہارم اِلرَّحِیْم۔ پنجم مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اب اس کے بعد جو درکواستیں ہیں وہ ان پانچوں کے ماتحت ہیں۔ اب سلسلہ یوُں شروع ہوتا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ یہ فقرہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کے مقابل ہے۔ یعنی اے اللہ تو جو ساری صفاتِ حمیدہ کا جامع ہے اور تمام بدیوں سے منزہ ہے۔ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ مسلمان اس خدا کو جانتا ہے، جس میں وہ تمام خوبیاں جو انسانی ذہن میں آسکتی ہیں موجود ہیں اور اس سے بالا تر اور ارفع ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسانی عقل اور فکر اور ذہن خداتعالیٰ کی ذات کا احاطہ ہرگز ہرگز نہیں کرسکتے۔ ہاں تو مُسلمان ایسے کامل ا لصفات خداکو مانتا ہے کہ تمام قومیں مجلسوں میں اپنے خدا کا ذکرکرتے ہوئے شرمندہ ہوجاتی ہیں اور اُنہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔
ہندوئوں کے نزدیک خدا کا تصور مثلاً ہندوئوں کا خدا جو اُنہوں نے مانا ہے او رکہا ہے کہ ویدوں سے ایسے خدا ہی کا پتہ لگتاہے۔
جب اُس کی نسبت وہ یہ ذکر کریں گے کہ اُس نے دُیا کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا اور نہ اس سے روحوں کو پیدا کیا ہے، تو کیا ایسے خدا کے ماننے والے کے لئے کوئی مضررہ سکتا ہے۔ جب اُسے کہا جائے کہ ایسا خدا اگر مرجائے، تو کیا حرج ہے، کیونکہ جب یہ اشیاء اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں اور قائم بالذات ہیں۔ پھر خداکی زندگی اور بقاکے لئے کیا ضرورت ہے۔ جیسے ایک شخص اگر تیرچلائے اوروُہ تیرا بھی جاہی رہا ہوکہ اُس شخص کا دم نکل جائے، تو بتائو اس تیر کی حالت میں کیا فرق آئے گا۔ ہاتھ سے نکلنے کے بعد دوہ چلانے والے کے وجود کا محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح پر ہندوئوں کے خدا کے لئے اگر یہ تجویز کی جائے کہ وُہ ایک وقت مرجاوے، تو کوئی ہندو اُس کی موت کا نقصان نہیں بتاسکتا۔ مگر ہم خد اکے لئے ایساتجویز نہیں کرسکتے، کیونکہ اللہ کے لفظ ہی سے پایا جاتا ہے کہ اس میں کوئی نقص اور بدی نہ ہو۔ ایسا ہی جب کہ آریہ مانت اہے کہ اجسام اور رُوحیں انادی ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارا یہ اعتقاد ہے پھر خدا کی ہستی کا ثبوت ہی کیا دے سکتے ہو؟ اگر کہو کہ اس نے جوڑا جاڑا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ جب تم پر مانو اور پر کوئی کو قدیم سے مانتے ہو اور اس کے وجود کو قائم بالذات کہتے ہو، تو پھر جوڑنا جاڑنا ، تو ادنیٰ فعل ہے۔ وہ جڑ بھی سکتے ہیں اور ایس اہی جب وہ یہ تعلیم بتاتے ہیں کہ خدا نے وید میں مثلاً یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں اپنے خاوند سے بچہ پیدا نہ ہوسکتا ہو، تو وہ کسی دوسرے سے ہمبستر ہوکر اولاد پیدا کرلے، تو بتائو ایسے خدا کی نسبت کیا کہا جائے گا؟ یا مثلاً یہ تعلیم پیش کی جائے کہ خدا کسی اپنے پریمی اور بھگت کو ہمیشہ کے لئے مکتی یعنی نجات نہیں دے سکتا بلکہ مہاپرلے کے وقت اس کو ضرور ہوتا ہے کہ مکتی یا فتہ انسانوں کو پھر اُسی تناسخ کے چکر میں ڈالے یا مثلاً خدا کی نسبت یہ کہنا کہ وہ کسی کو اپنے فضل وکرم سے کچھ بھی عطا نہیں کرسکتا، بلکہ ہر ایک شخص کو وہی ملتا ہے جو اُس کے اعمال کے نتائج ہیں پھر ایسے خدا کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے ۔ غرض ایسا خدا ماننے والے کو سخت شرمندہ ہوناپڑے گا۔
عیسائیوں کے نزدیک خدا کا تصور ایساہی عیسائی بھی جب یہ پیش کریں گے کہ ہمارا خدا یُسوع ہے اور پھر اُس کی نسبت وہ یہ بیان
کریں گے کہ یہودیوں کے ہاتھوں سے اُس نے ماریں کھائیں۔ شیطان اُسے آزماتا رہا۔ بھوک اور پیاس کا اثر اس پر ہوتارہا۔ آخر ناکامی کی حالت میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ تو کون دانشمند ہوگا جو ایسے خدا کے ماننے کے لئے تیار ہوگا۔ غرض اسی طرح پر تمام قومیں اپنے مانے ہوئے خدا کا ذکرکرتی ہوئی شرمندہ ہوجاتی ہیں، مگر مُسلمان کبھی اپنے خدا کا ذکر کرتے ہوئے کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوتا، کیونکہ جو خوبی اور عمدہ صِفت ہے، وہ اُن کے مانے ہوئے خد امیں موجود اور جو نقص اور بدی ہے اُس سے وہ منزہ ہے۔ جیسا کہ سُورۃ الفاتحہ میں اللہ کو تمام صفات حمیدہ کا موصوف قراردیا ہے۔ تو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کے مقابل میں اِیَّا کَ نَعْبُدُ ہے۔ اس کے بعد ہے رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ربوبیت کا کام ہے۔ تربیت اور تکمیل ۔ جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے، اس کو صاف کرتی ہے۔ ہر قسم کے گنداور آلائش سے دُوررکھتی ہے اور دُودھ پلاتی ہے۔ دُوسرے الفاظ میں یوُں کہو کہ وہ اُس کی مدد کرتی ہے۔ اب اس کے مقابل میں یہاں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ ہے پھر اَلرَّحْمٰن ہے جو بغیر خواہش ، بُدوں درخواست اور بغیر اعمال کے اپنے فضل سے دیتا ہے ۔ اگر ہمارے وجود کی ساخت ایسی نہ ہوتی، تو ہم سجدہ نہ کرسکتے اور رکوع نہ کرسکتے۔ اس لئے ربوبیت کے مقابلہ میںاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَفرمایا۔ جیسے باغ کا نشوونما پانی کے بغیر نہیں ہوتا۔ اسی طرح پر اگر خد اکے فیض کا پانی نہ پہنچے تو ہم نشوونما نہیں پاسکتے۔ درخت پانی کو چُوستا ہے۔ اس کی جڑوں میں دبانے اور سُوراخ ہوتے ہیں۔ علم طبعی میں یہ مسئلہ ہے کہ درخت کی شاخیں پانی کو جذب کرتی ہیں۔ اُن میں قوتِ جاذبہ ہے۔ اسی طر ح پر عبودیت میں ایک قوت جاذبہ ہوتی ہے جو خدا کے فیضان کو جذب کرتی ہے اور چوستی ہے۔ پس اَلرَّحْمٰن کے بالمقابل اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہے یعنی اگر اس کے رحمانیت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی۔ اگر یہ قویٰ اور طاقتیں اس نے عطا نہ کی ہوتیں ، تو ہم اس فیض سے کیونکر بہرہ ور ہوسکتے۔
ہدایت رحمانیت الہٰی سے ملتی ہے پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ اَلرَّحْمٰن کے بالمقابل ہے، کیونکہ ہدایت پانا کسی کا حق تو نہیں
ہے ، بلکہ محض رحمانیت الہٰی سے یہ فیض حاصل ہوسکتا ہے اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ اَلرَّحِیْمِ کے بالمقابل ہے ، کیونکہ اس کا ورد کرنے والا رحیمیت کے چشمہ سے فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اے رحمِ خاص سے دُعائوں کے قبول کرنے والے اُن رُسولوں اور صدیقوں اور شھیدوں اور صالحوں کی راہ ہم کو دکھا ، جنھوں نے دُعا اور مجاہدات میں مصروف ہوکر تجھ سے انواع و اقسام کے معارف اور حقائق اور کشوف اور الہامات کا انعام پایا اور دائمی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ سے معرفتِ تامہ کو پہنچے۔
رحیمیت کے مفہوم میں نقصان کا تدارک کرنالگا ہوا ہے۔ حدیث میں آیا ہے۔ اگر فضل نہ ہوتا، تو نجات نہ ہوتی۔ ایسا ہی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے آپؐ سے سوال کیا کہ یا حضرت! کیا آپؐ کا بھی یہی حال ہے۔ آپؐ نے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ۔ ہاں۔ نادان اور احمق عیسائیوں نے اپنی نافہمی اور ناواقفی کی وجہ سے اعتراض کیے ہیں، لیکن وُہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپؐ کی کمال عبودیت کا اظہار تھا جو خداتعالیٰ کی ربوبیت کو جذب کررہا تھا۔ ہم نے خود تجربہ کرکے دیکھا ہے اورمتعدد مرتبہ آزمایا ہے، بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلل کی حالت انتہا کو پہنچتی ہے اور ہماری رُوح اس عُبودیت اور فروتنی میں بہہ نکلتی ہے اور آستانہِ حضرت واہب العطایا پر پہنچ جاتی ہے تو ایک روشنی اور نور اوپر سے اترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے جیسے ایک نالی کے ذریعے سے مصفا پانی دُوسری نالی میں پہنچتاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار وبرکات پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر
فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدرآپؐ رُوح القدس کی تائیداور روشنی سے مؤیدّ اور منورہیں۔جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے یہانتک کہ آپؐ کے انواروبرکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابدالآباد تک اس کا نمونہ اور ظل نظرآتا ہے؛ چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خداتعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہورہا ہے، وہ آپؐ ہی کی اطاعت اور آپؐ ہی کی اتباع سے ملتا ہے۔ مَیں سچ کہتاہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خداتعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیںہوسکتا، جو اعلیٰ درجہ کے تزکیۂ نفس پر ملتے ہیں۔ جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کاثبوت خود خداتعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران:۳۲)اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندگی دلیل مَیں ہوں۔ ان نشانات کے ساتھ جو خداتعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو۔ غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کمال یہانتک ہے کہ اگر کوئی بڑھیا بھی آپؐ کا ہاتھ پکڑتی تھی تو آپؐ کھڑے ہوجاتے اور اسکی باتوں کو نہایت توجہ سے سُنتے اور جب تک وہ خود آپؐ کونہ چھوڑتی۔آپؐ نہ چھوڑتے تھے۔
مغضوب اور ضالین کی راہوں سے بچنے کی ہدایت اور پھرغَیْرَالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَالَا الضَّآلِیْنَ۔
مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے مقابل ہے۔ اس کا ورد کرنے والا چشمہ مالک یوم الدین سے فیض پاتا ہے جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ اے جزا و سزا کے د کے مالک ہمی اس سے بچا کہ یہودیوں کی طرح جو دُنیا میں طاعون وغیرہ بلائوں کا نشانہ ہوئے اور اس کے غضب سے ہلاک ہوگئے یا نصاریٰ کی طرح نجات کی راہ کھوبیٹھیں۔ اس میں یہود کا نام مغضوب اس لئے رکھاگیا ہے کہ ان کی شامتِ اعمال سے بھی اُن پر عذاب آیا، کیونکہ اُنہوں نے خداتعالیٰ کے پاک نبیوں اور راستبازوں کی تکذیب کی اور بہت سی تکلیفیں پہنچائیں اور یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ خداتعالیٰ نے جو یہاں سورۂ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی ور اس سورہ کو الضالین پر ختم کیا یعنی اُن کی راہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی۔ تو اس میں کیا سرتھا ۔ اس میں یہی راز تھا کہ اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اسی قسم کا زمانہ آنے والا ہے، جب کہ یہود کی تتبع کرنے والے ظاہر پرستی کریں گے اور استعارات کو حقیقت پر حمل کرکے خدا کے راستباز کی تکذیب کے لئے اُٹھیں گے، جیسا کہ یہود نے مسیح ابن مریم کی تکذیب کی تھی اور انہیں یہی مصیبت پیش آئی کہ اُنہوں نے اس کی تاویل پرٹھٹھا کیا اور کہا کہ اگر خدا کا یہی مطلب تا کہ ایلیاؔ کا مثیل آئے گا، تو کیوں خدا نے اپنی پیشگوئی میں اس کی صراحت نہ کی ۔ غرض اسی روش اور طریق پر اس وقت ہمارے مخالفوں نے بھی قدم مارا ہے اور میری تکذیب اورا یذادہی میں انہوں نے کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ میرے قتل کے فتوے دیتے اور طرح طرح کے حیلوں اور مکروں سے مجھے ذلیل اور نابود کرنا چاہا ۔ اگر خداتعالیٰ کے فضل سے گورنمنٹ برطانیہ کا اس ملک میں راج نہ ہوتا، تو یہ مدت سے میرے قتل سے دل خوش کرلیتے، مگر خداتعالیٰ نے ان کو ہر مُراد میں نامراد کیا اور وہ جو اس کا وعدہ تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النِّاسِ (المائدہ:۶۸) وُہ پورا ہوا۔
غرض اس دُعا میں غَیْرَ الْمَغْضُوْبِ کا فقرہ مُسلمانوں کے ایک گروہ کی اس حالت کا پتہ دیت اہے، جو وہ مسیح موعود کے مقابل مخالفت اختیار کرے گا اور ایسا ہی اَلضَّآلِیْنَ سے مسیح موعودکے زمانہ کا پتہ لگتا ہے کہ اس وقت صلیبی فتنہ کا زور اپنے انتہائی نقطہ پرپہنچ جائے گا۔ اس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے جو سلسلہ قائم کیا جائے گا وہ مسیح موعود ہی کا سلسلہ ہوگا اور اس لئے احادیث میں مسیح موعودکا نام خداتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کاسرالصلیب رکھا ہے ۔ کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ ہر ایک مجددفتن موجودہ کی اصلاح کے لئے آتا ہے۔ اب اس وقت خدا کے لئے سوچو، تو کیا معلوم نہ ہوگ اکہ صلیبی نجات کی تائید میں قلم اور زبان سے وُہ کام لیاگ یا ہے کہ صفحات عالم کو ٹٹولا جائے تو باطل پرستی کی تائید میں یہ سرگرمی اور زمانہ میں ثابت نہ ہوگی اور جب کہ صلیبی فنہ کے حامیوں کی تحریریں اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی ہیں اور توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت عزت او ر حقانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زُورکی راہ سے حملے کئے گئے ہیں، توکیا اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضہ نہیں ہونا چاہیے کہ اُ س کاسرالصلیب کو نازل کرے؟ کیا خداتعالیٰ کی غیرت کا تقاضہ نہیں ہوناچاہیے کہ اُس کاسرالصلیب کو نازل کر ے؟ کیا خداتعالیٰ اپنے وعدہ اِنَا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ۔(الحجر:۱۰) کو بھول گیا؟ یقینا یادرکھو کہ خداتعالیٰ کے وعدے سچے ہیں۔ اُس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ دُنیا نے اس کوقبول نہ کیا، مگرخدا تعالیٰ اُس کو ضرورقبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مَیں خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہوکر آیا ہوں۔ چاہوتو قبول کرو چاہو تو رَدّ کرو۔
مگر تمہارے رَدّ کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ خداتعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے ، وُہ ہوکر رہے گا، کیونکہ خداتعالیٰ نے پہلے سے براہینؔ میں فرمادیا ہے۔
صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلِہٖٖٖ وَکَانَ وَعْدًامَّفْعُوْلًا
۲۱؍جنوری ۱۸۹۸؁ء
استغفار عذابِ الہٰی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کاکام دیتا ہے بجائے خود مرضِ طاعون
عذاب شدید ہے۔ دُوسرا قانون اس پر سخت ہے۔جو دوسرا عذاب ہے اور مرض بھی بڑھ کرہے۔ عورت ہو یا بچہ ہو الگ کیا جاتا ہے اورگھر کو خالی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس مرض اور اس کے قانون پرغور کرکے میرے دل میں ایک درد پیدا ہوااور مَیں نے تہجد میں اس کے متعلق دُعا کی تو الہام ہو ااِنَّ اللّٰہُ لَا یُغَیِّرُمَابِقَوْمِ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد:۱۲)اب خیال ہوت اہے کہ وہ الہام جو ہواتھا کہ :’’کون کہہ سکتا ہے اے بجلی آسمان سے مت گر۔‘‘
شاید اسی سے متعلق ہو۔
مَیں تمہیں یہ سمجھانا چاہت اہوں کہ جو لوگ قبل از نزول بلا دُعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرتا ہے اور عذابِ الہٰی سے اُن کو بچالیتاہے۔ میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو۔ میں نصحاً اللہ کہتا ہوں اپنے حالات پرغورکرو۔ اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دُعا میں لگ جانے کے لئے کہو۔ استغفار، عذابِ الہٰی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کاکام دیتاہے۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(الانفال:۳۴) اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہٰی سے تم محفوظ رہو، تو استغفار کثرت سے پڑھو۔
گورنمنٹ کو اختیار ہوگا کہ مبتلا اشخاص کو علیٰحدہ رکھا جائے۔ گویا وہ لوگ جو علیٰحدہ کیے جائیں گے قبروں میں ہی ہوں گے۔ امیر وغریب ، مرد وعورت ، بوڑھے جوان کا کوئی لحاظ نہ کیا جاوے گا۔ اس لیے خدانخواستہ اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے ، جہاں تم میں سے کوئی ہو، تومَیں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو۔
اکثرمقامات میں سُناگیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا۔ میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ہے، جو خطرناک جُرم ہے۔ہاں گورنمنٹ کا بیشک یہ فرض ہے کہ وہ ایسے افسر مقرر کرے جو خوش اخلاق، متدین اور ملک کے رسم ورواج اور مذہبی پابندیوں سے آگاہ ہوں۔ غرض تم خود ان قوانین پر عمل کرو اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کو ان قوانین کے فوائد سے آگاہ کرو۔مَیں باربارکہتاہوں کہ دُعائوں کا وقت یہ معلوم ہوتا ہے۔ اس وبا نے پنجاب کا رُخ کرلیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک متنبہ اور بیدار ہوکر دُعا کرے اور توبہ کرے۔ قرآن شریف کا منشایہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر توبہ عذاب سے نہیں چھڑاسکتی۔
عذاب الہٰی سے بچنے کے طریقے اس لیے اس پیشتر کے عذاب الہٰی آکر توبہ کا دروازہ بندکردے، توبہ کرو۔ جب کہ دُنیا کے قانون
سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے ، تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانوں سے نہ ڈریں۔جب بلا سر پر آپرے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے۔چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کرے۔توبہ سے مراد یہ ہے کہ ان تمام بد کاریوں اور خدا کی ن ارضا مندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی پیدا کریںاور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کرین۔اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔عادات انسانی کو شائستہ کریں۔غضب نہ ہو۔توضع اور انکساری اس کی جگہ لے لیں۔اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا(الدھر:۹)یعنی خدا کی رض اکے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔
قصہ مختصر دعا سے ،توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو۔تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے۔

برامعلوم نہ ہو ۔کسی کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔دل شکستی نہ کی جاوے۔جماعت میں باہم جھگڑے فساد نہ ہوں۔دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نظر سے نہ دیکھو۔مال ودولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھو۔خدا رتعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے؛چنانچہ فرمایا ہے اِنْ اَکْرَمَکُمُ عِنْدَا للّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:۱۴)دوسروں کے ساتھ بھی پورے اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔جو بد اخلاقی کا نمونہ ہوتا ہے،وہ بھی اچھا نہیں۔ہماری جماعت کے ساتھ لوگ صرف مقدمہ بازی کا صرف بہانہ ہی ڈھونڈتے ہیں۔لوگوں کے لئے ایک طاعون ہے۔ہماری جماعت کے لئے دو طا عون ہیں۔اگر جماعت میں سے کوئی ایک بھی برائی کرے گا ،تو اس ایک سے ساری جماعت پر حرف آئے گا۔دانش مندی۔حلم اور در گزر کے ملکہ کو بڑھاؤ۔نادان سے نادان کی باتوں کا جواب بھی متانت اور سلامت روی سے دو۔یا وہ گوئی کا جواب یا وہ گوئی نہ ہو۔میں جانتا ہوں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں بھی کچھ ایسی ہی حکمت عملی تھی کہ اگر ایسا نہ کرتے،تو روز ماریں کھاتے پھرتے۔رومیوں کی سلطنت تھی۔یہود کے فقیہہ اور فریسی اس کے مقرب تھے۔اس وقت اگر وہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال نہ پھیرتے تو روز ماریں کھایا کرتے اور روز مقدمے ہوتے۔باوجود یکہ وہ ایسی نرم تعلیم دیتے تھے۔پھر بھی یہود ان کو دم نہیں لینے دیتے تھے۔اس وقت کی موجودہ حالت انجیل ہی کی تعلیم کو چاہتی ہو گی۔اس وقت ہماری جماعت کی حالت بھی قریباً ویسی ہی ہے۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ مارٹن کلارک عیسائی کے مقدمے میں محمد حسین نے بھی اس کی گواہی دی۔اب سمجھ لو کہ قوم سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔رہی گورنمنٹ اس کو بھی بد ظن کیا جاتا ہے اور گورنمنٹ کسی حد تک معذور بھی ہے۔اگر خدا نخواستہ وہ بد ظن ہو،کیونکہ عالم الغیب نہیں ہے۔اس لئے ہم کو اکثر مرتبہ گورنمنٹ کے حضور خاص طور پر میموریل بھیجنے پڑے اور اپنے حالات سے خود اس کو مطلع کرنا پڑا ،تا کہ اس کو صحیح اور سچے واقعات کو علم ہو۔مناسب ہے کہ ان ابتلاؤں کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں۔میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو۔
دنیا فنا کا مقام ہے۔آخر مرنا ہے،خوشی دین کی باتوں میں ہے۔اصلی مقصد تو دین ہی ہے۔
رمضان کی حقیقت رَمَض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔رمضان میں چونکہ انسان ا کل وشرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے۔دوسرے اللہ تعالیٰ
کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا ۔اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا،اس لئے رمضان کہلایا۔میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ عرب کے لئے یہ خصو صیت نہیں ہو سکتی۔روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق وشوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں،جس سے پتھر گرم ہو جاتے ہیں۔؎۱
۲۹ جنوری۱۸۹۸؁ء
روحانی طاقتوں پر معبود کا اثر انسان کی روحانی طاقتوں پر اس کے معبود کا اثر پڑتا ہے۔دیکھو!اگر کوئی ہندو آجائے،تو دور ہی سے اس سے
غفلت کی بو آتی ہے۔کیوں؟اس لئے کہ ان کا خود ساختہ معبود بھی تو ایسا ہی غافل ہے جب تک ایک انگریز کے کھانے کی گھنٹی کی طرح گھنٹی نہ بجے،تو وہ بیدار ہی نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ روحانی زندگی سے جو معرفت اور شفا حاصل ہوتی ہے،اس سے یہ لوگ محروم رہتے ہیں؛ورنہ جسمانی طور پر تو بڑے متمول اور آسودہ حال ہوتے ہیں۔
رزق ابتلا اور رزق اصطفاء اصل بات یہ ہے کہ رزق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ابتلا کے طور پر،دوسرے اصطفاء کے طور پر۔رزق ابتلا کے طور
پر تو رزق ہے،جس کو اللہ سے واسطہ نہیں رہتا ۔بلکہ یہ رزق انسان کو خدا سے دور ڈالتاجاتا ہے۔یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔اسی طرف اللہ نے اشارہ کر کے فرمایا ہے۔لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالِکُمْ(المنافقون:۱۰)تمہارے مال تم کو ہلاک نہ کر دیں اور رزق اصطفاء کے طور پر وہ ہوتا ہے،جو خدا کے لئے ہو۔ایسے لوگوں کا متولی خدا ہو جا تا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے،وہ اس کو خدا کا ہی سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے چابت کر کے دکھاتے ہیں۔صحابہؓ کی حالت دیکھو!جب امتحان کا وقت آیا ،تو جو کچھ کسی کے پاس تھا،اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ سب سے اول کمبل پہن کر آگئے۔پھر اس کمبل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی کہ سب سے اول خلیفہ وہی ہوئے۔غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی،خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آسکتا ہے،جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔؎۱
۳۰ جنوری ۱۸۹۸؁ء
دنیا اور دنیوی خوشیوں کی حقیقت دنیا اور دنیا کی خوشیوں کی حقیقت لہو ولعب سے زیادہ نہیں۔عارضی اور چند روزہ ہیں اور ان
خوشیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دور جا پڑتا ہے۔مگر خدا کی معرفت میں جو لذت ہے وہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ اور کسی حس نے اس کو محسوس کیا ہے۔وہ ایک چیر کر نکل جانے والی چیز ہے۔ہر آن ایک نئی راحت اس سے پیدا ہوتی ہے جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی۔
خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کاایک خاص تعلق ہے۔ اہل عرفان لوگوں نے بشریت اور بوبیّت کے جوڑہ پر بہت لطیف بحثیں کی ہیں۔اگر بچّے کا منہ پتھر سے لگائیں تو کیا کوئی دانشمند خیال کر سکتا ہے کہ اس پتھر میں سے دودھ نکل آئے گا اور بچہ سیر ہو جائیگا۔ہرگز نہیں۔اسی طرح پر جب تک انسان خداتعالی کے آستانہ نہیںگرتا،اس کی روح ہمہ نیستی ہو کر ربوبیت سے تعلق پیدا نہیں کر سکتی اور نہیںکرتی جبتک کہ وہ عدم یا مشابہ بالعدم نہ ہو،کیونکہ ربوبیت اسی کو چاہتی ہے۔اس وقت تک وہ روحانی دودھ سے پروش نہیںپاسکتا۔
لَہْو میںکھانے پینے کی تمام لذتیں شامل ہے۔ان کاانجام دیکھو کہ بجز کثافت کے اور کیا ہے۔زینت،سواری، عمدہ مکانات پر فخر کرنا یا حکومت وخاندان پر فخر کرنا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ بالآخر اس سے ایک قسم کی حقارت پیداہو جاتی ہے۔جورنج دیتی اور طبیعت کو افسردہ اور بے چین کر دیتی ہے۔
لَعْب میں عورتوں کی محبت بھی شامل ہے۔انسان عورت کے پاس جاتا ہے مگر تھوڑی دیرکے بعد وہ محبت اور لذت کثافت سے بدل جاتی ہے ،لیکن اگر یہ سب کچھ محض اللہ تعالی کے ساتھ ایک حقیقی عشق ہونے کے بعد ہو،تو پھر راحت پر راحت اور لذت پر لذت ملتی ہے۔یہاںتک کہ معرفت حقہ کے دروازے کھل جانے ہیں اوروہ ایک ابدی اور غیر فانی راحت میںداخل ہو جاتا ہے جہاں پاکیزگی اور طہارت کے سوا کچھ نہیں۔وہ خدا میںلذت ہے۔ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اوراسے ہی پائو کہ حقیقی لذت وہی ہے ۔ ؎۲
حضرت اقدس کی ایک تقریر
فرمودہ ۳۱جنوری۱۸۹۸؁ء
انسان بالطبع کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے یاد رکھو کہ فضائل بھی امراض متعدیہ کی طرح متعدی ہونے ضروری ہیں۔
مومن کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو اس درجہ تک پہنچائے کہ وہ متعدی ہوجائیں۔ کیونکہ کوئی عمدہ سے عمدہ بات قابل پزیرائی اور واجب التعمیل نہیں ہو سکتی،جب تک اس کے اندر ایک چمک اور جاذب نہ ہو۔اس کی درخشانی دوسروںکو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔اور جذب ان کو کھینچ لاتا ہے۔اور پھر اس فعل کی اعلیٰ درجے کی خوبیاںخود بخود دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرتیں ہیں۔دیکھو!حاتم کا نیک نام ہونا سخاوت کے باعث مشہور ہے۔گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ خلوص سے تھی۔ایسا ہی رستم وافسند یار کی بہادری کے افسانے عام زبان ذدہ ہیں؛اگرچہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ خلوص سے تھے۔میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا ،اس کے نیکی کے کام خوا کیسے ہی عظیم الشان نہ ہوں…وہ ریا کاری کے ملمع سے خالی نہیںہوتے۔لیکن چونکہ ان میں نیکی کی اصل موجود ہوتی ہے اور یہ وہ قابل جوہر ہیں،جو ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس لئے بایں ہمہ ملمع سازیوریا کاری وہ عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔
خواجہ صاحب نے ایک نقل میرے پاس بیان کی تھی اور خود میں نے بھی اس قصہ کو پڑھا ہے کہ سر فلپ سڈنی ملکہ الزبتھ کے زمانے میں قلعہ زلفن ملک ہالینڈ کے محاصرے میں جب زخمی ہوا ،تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدر پیاس کے وقت جب اس کے لئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھا،مہیا کیا گیا تو اس کے پاس ایک اور زمی سپاہی تھا جو نہایت پیاسا تھا۔ وہ سر فلپ سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا۔سڈنی نے اس کی یہ خواہش دیکھ کر پانی کا وہ پیالہ خود نہ پیا بلکہ بطور ایثار یہ کہہ کر اس سپاہی کو دے دیا کہ ’’ تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے‘‘مرنے کے وقت بھی لوگ ریا کاری سے نہیں رکتے۔ایسے کام اکثر ریا کاروں سے ہو جاتے ہیں،جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھاناچاہتے ہیں۔غرض کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ اس کی ساری باتیں بری حالت کی اچھی ہوں،لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اچھی باتوں کی کیوں پیروی نہیں کرتے؟اس کے جوب میں یہی کہوں گا کہ اصل بات یہ ہے کہ انسان فطرتاً کسی بات کی پیروی نہیں کرتا جب تک کہ اس میں کمال کی مہک نہ ہو اور یہی ایک سر ہے جو اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا ہے اور خاتما لنبین کے بعد مجددین کے سلسلے کو جاری رکھا ہے،کیونکہ یہ لوگ اپنے عملی نمونے کے ساتھ ایک جذب اور اثر کی قوت رکھتے ہیں اور نیکیوں کا کمال ان کے وجود میں نظر آتا ہے اس لئے کہ انسان بالچبع کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔اگر انسان کی فطرت میں یہ قوت نہ ہوتی،تو انبیاء علیہم السلام کی بھی ضرورت نہ رہتی۔
مامورین کی مخالفت کا سبب لیکن یہ بات کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے اور ان کی تعلیم کی
طرف عدم توجہی کیوں کی جاتی ہے؟اس کا باعث زمانہ کی وہ حالت وہتی ہے جو ان پاک وجودوں کی بعثت کا موجب ہو تی ہے۔زمانہ میں فسق فجور کا ایک دریا رواں ہوتا ہے اور ہر قسم کی بد کاریاں اور برائیاں خدا تعا لیٰ سے بعد اور حرمان اس نیک عمدہ مادے کو اپنے نیچے دبا لیتا ہے۔چونکہ بد کاریوں کے کمال کا ظہور ہو ا ہوتا ہے،اس لئے طبیعت کا یہ مادہ کہ وہ ہر کمال کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔اس طرف رجوع کر گیا ہوتا ہے اور یہی وہ سر ہوتا ہے کہ ابتداً انبیاء علیہم السلام اور ماموروں کی مخالفت اور ان کی تعلیم سے بے پروائی ظاہر کی جاتی ہے،آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ اس نیکی کے بروز اور کمال کی طرف توجہ ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ والاخرۃ عند ربک للمتقین(الزخرف:۳۶)
ظاہری نفاست کا اثر غرض انسانی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ ہر کمال کی پیروی کرنا چاہتی ہے۔دیکھ لو!انگریزوں کی نئی ایجادات سوئی،
چاقو وغیرہ تک کی کس قدر عزت کی جاتی ہے اور دیسی اشیاء کے مقابل میں ان کو کس قدر پسند کیا جاتا ہے؛حالانکہ ان میں بعض اشیاء اصلی نہیں ہوتیں بلکہ اکثر ملمع کی ہوتی ہیں،مگر ظاہری چمک دمک اس قدر ہوتی ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں اور اس کی روشنی ایک کشش کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔تم نہیں دیکھتے یہ جھوٹے زیور جو ملمع کیے ہوئے بکتے ہیں،ان کی تجارت کیسی سرعت کے ساتھ بڑ ھ رہی ہے۔اصلی اشیاء کے مقابل میںان کو رکھ کر دیکھو گے،تو معلوم ہو گا کہ اصلی،نقلی معلوم ہوتا ہے اور نقلی اصلی۔ان اشیاء کی طاہری چمک دمک میں ایک روشنی ہے جو ہمارے دیسی صناع اس کو دکھا نہیں سکتے،اس لئے باوجود یکہ لوگ صاف جانتے ہیں کہ یہ اشیاء ملمع شدہ ہیں۔لیکن اس دجل کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ہر ایک چیز ان کی دیکھو۔دیسی کپڑے،دیسی جوتے،جنٹلمین تعلیم یافتہ ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔کیوں؟صرف اس لئے کہ انگریزی اشیاء میں ایک خاص قسم کی نفاست اور عمدگی ہوتی ہے۔یہ لوگ چمڑے کو ایسا کماتے ہیں کہ اس میں نرمی اور چمک پیدا کر لیتے ہیں۔یہ کیا ہر ایک ادنی سی چیز کو دیکھو ایک تاگے کو ہی دیکھو ،کیسا خوبصورت ہوتا ہے۔غرض ہر ایک دیسی چیز کو بالمقابل نکما کر دیا ہے،بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ بعض رئیس دیسی چیزوں سے یہاں تک متنفر ہیں کہ ان کے کپڑے بھی پیرس سے دھل کر آتے ہیںاور پینے کا پانی بھی ولایت سے منگواتے ہیں۔
اس خریداری کا سر کیا ہے ۔انہوں نے ظاہری خوبصورتی اور چمک اور خوش نمائی رکھ دی ہے۔اس لئے لوگ ادھر جھک گئے ہیں۔جب یہ حالت ہے کہ دیانت دار اور بھی ہیں اور کفار کا بھی گروہ ہے۔لیکن کفار کی طرف رجوع ان کی نفاست اور چمک کی وجہ سے ہے۔یہی حال اخلاق اور کمال کا ہے۔پس جب تک ان کی دمک چمک یہاں تک نہ پہنچائی جائے۔نوع انسان پر اثر نہیں پڑ سکتا۔ جو لوگ خود کمزور ہوتے ہیں۔وہ دوسرے کمزوریوں کو جذب نہیں کر سکتے۔
قرآن کریم میں مخلوق کی قسم کھانے کی حقیقت
خدا تعالیٰ فرماتا ہے والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین اٰمنو و عملو الصلحٰت وتواصوا با لصبر(سورۃ العصر)
قسم ہے اس زمانہ کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ کی ۔آجکل ہمارے زمانہ کے کوتاہ اندیش مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں مخلوق کی قسم کیوں کھائی گئی ہے؛حالانکہ دوسروں کو منع کیا گیا ہے۔اور کہیں انجیر کی قسم ہے،کہیں دن اور رات کی اور کہیں زمین کی اور کہیں نفس کی؟اس قسم کے اعتراضوں کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام سنت اور عادت الہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات و احقاق کے لئے کسی ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے جو اپنے خواص کا عام طور پر بین اور کھلا کھلا اور بد یہی ثبوت رکھتے ہیں۔پس ان کی قسم کھانا ان کو بطور دلیل اور نثیر کے پیش کرنا ہوتا ہے۔
کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟ ہم اس اعراض کاواضح جواب دینے سے پیشترایک ضروری امراور بیان کرنا چاہتے ہیں۔ہر ایک مسلمان
کو یاد رہے کہ ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دارالحرب نہیںکہتے اور یہی ہمارا مذہب ہیـ؛اگرچہ اس مسئلہ میں علماء مخالفین نے ہم سخت اختلاف کیاہے اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ہم کو تکلیف دہی کا انھوںنے باقی نہیںرکھا،مگر ہم ان عارضی تکالیف اور آنی ضرور سانیوںکے خوف سے حق کو کیونکہ چھوڑ سکتے ہیں۔ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز دارالحرب نہیں ہے۔ہمارا مقدمہ ہی دیکھ لو۔ اگر یہی مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت میں ہوتا اور دوسری طرف ان کا کوئی گرویابرہمن ہوتا،تو بدوںکسی قسم کی تحقیق وتفیتش کے ہم کے پھانسی دے دینا کوئی بڑی بات نہ تھی،مگر انگریزوںکی سلطنت اور عہدحکومت ہی کی یہ خوبی ہے کہ مقابل میںایک ڈاکٹراورپھر مشہورپادری،لیکن تحقیقات اور عدالت کی کاروائی میں کوئی سختی کا برتائونہیں کیا جاتا۔کیپٹن ڈگلس نیاس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کی کہ پادری صاحب کی ذاتی وجاہت یا ان کے اپنے عہدہ اوردرجہ کا لحاظ کیا جاوے ؛چنانچہ انہوں نے لیماؔرچنڈصاحب سے جو پولیس گوردا سپوؔرکے اعلی افسر ہیں،یہی کہا کہ ہمارادل تسلّی نہیں پکڑتا۔ پھر عبدالحمید سے دریافت کیا گیا۔آخرکار انصاف کی رو سے ہم کو اس نے بری ٹھرایا۔پھریہ لوگ ہم کوار کان مذہبکی بجا آوری سے روکتے،بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے،جس کی وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کی اشاعت کا خاطرخواہ موقع ملااور اس قسم کا امناور آرام نصیب ہواکہ پہلی حکومتوں میں اس کی نظر نہیں ملتی۔پھر یہ صریح ظلم اوراسلامی تعلیم اور اخلاق سے بعید ہے کہ ہم ان کے شکر گذارنہ ہوں۔ یادرکھو! انسان جو اپنے جیسے انسان کی نیکیوںکا شکر گذارنہیں ہوتا،وہ خداتعالی کا شکر گذار نہیں ہوسکتا؛ حالانکہ وہاںسے دیکھتا ہے۔تو غیب الغیب ہستی کے انعامات کا شکر گذارکیونکرہوگا،جس کو دیکھتا بھی نہیں،اس لیے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہیں کہتے۔
ہاں!ہمارے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہے بلحاظ قلم کے۔پادری لوگوں نے اسلاؔم کے خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کی ہوئی ہے۔اس میدان جنگ میںوہ نیزہ ہائے قلم لے کر نکلے ہیںنہ سنان وتفنگ لے کر۔اس لیے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیارلے کر نکلنا چاہیے،وہ قلم اور صرف قلم ہے۔ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جاوے۔اللہ اوراس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آزاد حملے کیے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے ۔کیا امہاتؔالمومنین یادربارؔمصطفائی کے اسرار جیسی گندی کتاب دیکھ کر ہم آرام کر سکتے ہیں،جس کا نام ہی اس طرز پررکھا ہے۔جیسے ناپاک نادلوں کے نام ہوتے ہیں ۔تعجبّ کی بات ہے کہ دربارلندن ؔکے اسرار جیسی کتابیں تو گورنمنٹ کے اپنے علم میں بھی اس قابل ہوں کہ ان کی اشاعت بندکی جائے،مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کی دلآزادی کرنے والی کتاب کو نہ روکا جائے ۔ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کی درخوست کرنا ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہی نامناسب خیال کرتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے اپنے ممیوریل کے ذریعہ سے واضح کر دیا،لیکن یہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہی ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا خیال رکھے۔بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادی دے رکھی ہے کہ اگر عیسائی ایک کتاب اسلاؔم پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں،تو مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ اس کاجواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردیدمیں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے۔
اسلا می غیرت کا تقاضا میں حلفاً کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسی کتاب پر نظر پڑتی ہے تو دنیا اور مافیہا ایک مکھی کے کے برابر نظر آتی۔میں پوچھتا ہوں
جس کو وقت پر جوش نہیں آتا ،کیا وہ مسلمان ٹھہر سکتا ہے۔کسی کے باپ کو برا بھلا کہا جائے،تو وہ مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے،لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالیاں دی جائیں، تو ان کی رگ رحمت میں جنبش بھی نہ آوے اور پروا بھی نہ کریں۔یہ کیا ایمان ہے؟پھر کس منہ سے مر کر خدا کے پاس جائیں گے۔اگر مسلمانوں کا نمونہ دیکھنا چاہو،تو صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھو۔جنھوں نے اپنے جان ومال کے کسی قسم کے نقصان کی ہروانہیں کی۔اللہ اور اس کے رسول ؐکی رضا کو مقدّم کر لیا۔خداتعالی کی رضا پر راضی ہو جانا ہی ایک فعل تھا جو سارا قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے اور رضی اللہ عنہم کا تمغہ ان کو مل گیا۔پس جب تک تم اپنے اندروہ امتیاز۔وہ جوش حمیت اسلام کے لیے محسوس نہ کرو۔ہرگز اپنے آپ کو مل نہ سمجھو۔
ہماری جماعت یادرکھیکہ ہم ہندوستان کو بلحاظ حکومت ہرگزدارالحرب قرار نہیں دیتے۔بلکہ اس امن اور برکات کی وجہ سے جو اپنے مذہب کے ارکان کی بجا آوری اور اس کی اشاعت کے لیے گورنمنٹ نے ہم کو دے رکھیّ ہے۔ہمارادل عطر کے شیشہ کی طرح وفاداری اور شکر گذاری کے جوش سے بھرا ہوا ہے،لیکن پادریوں کی وجہ سے ہم اس کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔پادریوں نے چھ کروڑ کے قریب کتابیں اسلاؔم کے خلاف شائع کی ہیں۔میرے نزدیک وہ لوگ نہیں ہیں جو ان حملوں کودیکھیں اور سنیں اور اپنے ہی ہم وغم میں مبتلارہیں۔اس وقت جو کچھ کسی ممکن ہو،وہ اسلام کی تائید کے لیے کرے اور اس قلمی جنگ میں اپنی وفاداری دکھائے،جبکہ خود عادل گورنمنٹ نے ہم کو منع نہیں کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تائید اور غیر قوموں کے اعتراضوں کی تردید میں کتابیں شائع کریں،بلکہ پریس،ڈاک خانے اور اشاعت کے دوسرے ذریعوں سے مدودی ہے،تو ایسے وقت میںخاموش رہنا سخت گناہ ہے۔ہاں ضرورت ہے اس امرکی کہ جو بات پیش کی جاوے،وہ معقول ہو۔اس کی غرض دل آزادی نہ ہو۔جو اسلام کے لیے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا،وہ یادرکھے کہ خداتعالی ایسے انسان کا ذمّہ دار نہیں ہوتا۔اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیںاور جتنی تدابیر اپنی دنیوی اغراض کے لیے کرتا ہے۔اسی سوزش اور جلن اور درددل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہو رہے ہیں،میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟اور اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم پر سوزدل کے ساتھ خداتعالی کے حضور دعا کروں؟اگر اس قسم کی جلن اور درددل میں ہو تو ممکن نہیں کہ سچّی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے،تواس پر بھی رنج ہوتا ہے۔یہاںتک کہ ایک سو ئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے ۔پھر یہ کیسا ایمانؔاور اسلاؔم ہے کہ اس خوفناک زمانہ میں کہ اسلام پرحملوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سو رہے ہیں۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہفتہ وار اور ماہواری اخباروں اور رسالوں کے علاوہ ہر روزوہ کس قدر دوورقہ اشتہاراور چھوٹے چھوٹے رسالے تقسیم کرتے ہیں جن کی تعدادپچاّس پچاس ہزار اور بعض وقت لاکھوں تک ہوتی ہے؟اور کئی کئی مرتبہ ان کو شائع کرنے میں کروڑ ہاروپیہ پانی کی طرح بہادیا جاتاہے
مسیحیت اسلام کے خلاف کیوں ہے؟ یہ خواب یاد رکھو کہ پادریوں کے ذہن اور تصورمیں ہندؔوکچھ چیز نہیں ہیں اور نہ دوسرے
مذاہب وغیرہ کی ان کو چنداںپرواہے؛چنانچہ کبھی نہیں سنا ہو گا کہ جس قدر کتابیں اسلاؔم کی تردید میںیہ لوگ شائع کرتے ہیں،اسکے مقابلہ میںآدھی بھی ہندو مذہب کے خلاف لکھتے ہوں۔یہ لوگ دوسرے مذاہب سے چنداں غرض نہیں رکھتے ہیں،اس لیے کہ ان میں بجائے خودکوئی حقانیّت اور صداقت کی روح نہیں ہے۔وہ عیسویّت کی طرح خود مردہ مذاہب ہیں،لیکن اسلاؔم جو بھی مردہ ملّت بناناچاہتے ہیں۔چنانچہ میں نے ان کے اعراضوں کو ایک وقت شمار کیا تھا،ان کی تعداد تین ہزار تک پہنچ چکی ہے اور اب تو اس میں اور بھی اضافہ ہوا ہوگا۔
یادرکھو مفتری انسان وسوسہ میںڈالتا ہے۔چونکہ ان میںصدؔق،عفتؔ،راستبازی نہیں ہوتی ،اس لیے جوچاہتے ہیں کرتے ہیں۔امر تسری افغانوں کا پکا یقین ہے کہ یہ لوگ تارک الصلوۃ ہیںاور شراب پیتے ہیں۔جب دوسروںکے سامنے وہ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں،تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بزرگ زادہ ہیں،کیا جھوٹ بولیں گے؟اس سے وہ وسوسہ میں پڑتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ہاںسچ یہی ہے۔ اسی طرح یہ لوگ ریشہ دوانیاںکرتے ہیں۔غرض ایک تو پادری ہیں جو کھلے طور پر اسلامؔ کے خلاف کتابیں لکھتے اور شائع کرتے ہیں۔دوسرے انگریزی طرز تعلیم اور کتابوں میں بھی پوشیدہ طور پر زہریلا مادہ رکھا ہوا ہے۔فلسفی اپنے طرز پر اور مورخ اپنے رنگ میں واقعات کو بری صورت میں پیش کر کے اسلاؔم پر حملہ کرتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ اس وقت دو ہی قسم کے حملے ہوتے ہیںایک پادریوں کے اور دوسرے فلسفیوں کے۔پس اس وقت اپنے اسلام کو ٹٹولنا چاہیے۔
قرآن کریم میں مخلوق کی قسم کھانے کی فلاسفی میں پھر اصل کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی قسموں پر
جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا ہے۔بڑے غور وفکر کے بعد یہ راز ہم پر کھلا ہے کہ قرآن شریف کے جس جس مقام پر کو تہ اندیشوںنے اعراض کیے ہیں۔اسی مقام پر اعلی درجہ کی صداقتوںاور معارف کا ایک ذخیرہ موجودہ ہے۔جس پر ان کو اس وجہ سے اطلاع نہیں ملی کہ وہ حق کے ساتھ عداوت رکھتے ہیںاور قرآن شریف کو محض اس لیے پڑھتے ہیں کہ اس پر نکتہ چینی اور اعتراض کریں۔یادرکھو قرآن شریف کے دو حصّے ہیںبلکہ تین۔ایک تو وہ حصہ ہے جس کو ادنی درجہ کے لوگ بھی جو امّی ہوتے ہیںاور دوسراوہ حصہ ہے جو اوسط درجہ کے لوگوں پر کھلتا ہے۔اگرچہ وہ پورے طور پر امّی نہیںہوتے،لیکن بہت بڑی استعدادعلو م کی بھی نہیں رکھتے اور تیسراحصہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اعلی درجہ کے علوم سے بہرہورہیں اور فلاسفر کہلاتے ہیں۔یہ قرآن ہی کا خاصّہ ہے کہ وہ تینوںقسم کے آدمیوں کو یکساں تعلیم دیتا ہے۔ایک ہی بات ہے جو امّی اور اوسط درجہ کے آدمی اور اعلی درجہ کے فلاسفر کو تعلیم دے جاتی ہے۔
یہ قرآن شریف ہی کا فخر ہے کہ ہر طبقہ اپنی استعداداوردرجہ کے موافق فیض پاتا ہے۔الغرض یہ جو قرآن شریف کی قسم پر اعتراض کیا جاتا ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ قسم ایک ایسی شے ہے جس کو ایک شاہد کے منقود ہونے کی بجائے دوسرا شاہد قراردیا جاتا ہے۔قانوناً،شرعاً،عرفاًیہ عام مسلم بات ہے کہ جب فواہ مفقود ہو اور موجودہ نہ ہو،تو صرف قسم پر اکتفاکی جاتی ہے اور وہ قسم گواہی کے قائم مقام ہوتی ہے۔اسی طرح پر اللہ تعالی کی سنت قرآن کریم میں اس طرح پر جاری ہے کہ نظریات کو ثابت کرنے کے واسطے بدیہات کوبطورشاہد پیش کرتا ہے تاکہ نظری امورثابت ہوں۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں یہ طرز اللہ تعالی نے رکھا ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لیے اموربد یہی کو بطور شاہد پیش کرتا ہے اور یہ پیش کرنا قسموں کے رنگ میں ہے۔اس بات کو بھی ہرگزبھولنا نہ چاہیے کہ اللہ جلّ شانہ کی قسموں کو انسانی قسموںپر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔اللہ تعالی نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے،تو اس کا مدّعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کہ قسم کھاتی ہے اس کو ایک ایسا گواہ رئویت کا قائم مقام ٹھہراوے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے، کیونکہ اگر سوچ کر دیکھا جاوے،تو قسم کا اصل مفہوم جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا تھا۔شہادت ہی ہوتا ہے۔جب انسان مومولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آجاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتاہے،تااس سے وہ فائدہ اٹھاوے،جو ایک شاہد رویٔت کی شہادت سے اٹھانا چاہتا ہے،لیکن ایسا تجویز کرنا یا اعتقادرکھنا کہ بجز خدا تعالی کے کوئی اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزادہی یا کسی اور امر پر قادر ہے۔صریح کلمہ کفر ہے۔اس لیے اللہ تعالی نے اپنی تمام کتابوںمیں انسانوں کو یہی ہدایت فرمائی ہے کہ غیر اللہ کہ ہرگز قسم نہ کھاوے۔
اب اس بیان سے صاف معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالی کا قسم کھانا کوئی اور رنگ اور شان رکھتا ہے اور غرض اس سے یہی ہے کہ تاصحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسراردقیقہ کے حلوانکشاف کے لیے بطورشاہد پیش کرے اور چونکہ اس مدّعا کو قسم سے ایک مناسب تھی اور وہ یہ کہ جیسا کہ ایک قسم کھانے والامثلاً خداتعالی کی قسم کھاتا ہے،تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی میرے اس واقعہ پر گواہ ہے۔اسی طرح اور ٹھیک اسی رنگ میںاللہ تعالی کے بعض ظاہر درظاہر افعال،نہاںدر نہاںاسراراور افعال پر بطور گواہ ہیں اس لیے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہہ کو اپنے افعال نظریہّ کے ثبوت میں جابجا قرآن شریف میں پیش کیا اور یہ کہنا سراسرنادانی اور جہالت ہے کہ اللہ تعالی نے غیر اللہ کی قسم کھائی،کیونکہ اللہ تعالی درحقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی ۔اور اس کے افعال اس کے غیر نہیں ہیں۔ مثلاً اس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اس کی منشاء یہ ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجودہے،اس کی شہادت بعض اپنے افعال محقیہّ کے سمجھانے کے لیے پیش کرے۔
خداتعالی کی قسموں میں اسرارِمعرفت غرض اللہ تعالیٰ کی قسمیں اپنے اندر لا محدود اسرار معرفت کے رکھتی ہیں۔جن کو اہل
بصیرت ہی دیکھ سکتے ہیں۔پس خدا تعالیٰ قسم کے لباس میں اپنے قانون قدرت کے بد یہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔کہ خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب(قانون قدرت) اس کی قولی کتاب(قرآن شریف)پر شاہد ہو جاوے اور اس کے قول وفعل میں باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لئے مزید معرفت اور سکینت اور یقین کا موجب ہو اور یہ طریق قرآن شریف میں عام ہے۔مثلاً خدا تعالیٰ بر ہموں اور الہام کے منکروں پر یوں اتمام حجت کرتا ہے۔
والسمآء ذات الرجع(الطارق:۱۲)قسم ہے ان بادلوں کی جن سے مینہ برستا ہے۔رجع بارش کو بھی کہتے ہیں۔بارش کا بھی ایک مستقل نظام ہے۔جیسے نظام شمسی ہے۔رات اور دن کا اورکسوف خسوف کا بجائے خود ایک نظام ہے۔مرض کا بھی ایک نظام ہوتا ہے۔طبے اس ناظام کے موافق کہہ سکتا ہے کہ فلاں دن بحران ہو گا۔غرض یہ نظام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت اپنے ان ترتیب اور کامل نظام رکھتا ہے۔اور کوئی فعل اس کا ایسا نہیں جو نظام اور ترتیب سے باہر ہو۔
اللہ تعالیٰ جیسے یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں۔ویسے یہ بھی چاپتا ہے کہ لوگوں میں علوم کی روشنی پیدا ہو جاوے۔اور اس سے وہ معرفت کی منزلیں طے کر جاویں کیونکہ علوم حقہ سے واقفیت جہاں ایک طرف سچی خشیت پیدا کرتی ہے،وہاں دوسری طرف ان علوم سے خدا پرستی پیدا ہوتی ہے۔بعض بد قسمت ایسے بھی ہیں ۔جو علوم میںمنہمک ہو کر قضاء قدر سے دور جا پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہی شکوک پیدا کر بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو قضاء قدر کے قائل ہو کر علوم ہی سے دستبردار ہو جاتے ہیں،مگر قرآن شریف نے دونوں تعلیمیں دی ہیں اور کامل طور پر دی ہیں۔قرآن شریف علوم حقہ سے اس لئے واقف کرنا چاہتا ہے اور اس لئے انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ اس سے خشیت الہی پیدا ہوجاتی ہے۔اور انسان کو قضاء قدر کے نیچے رہنے کی اس لئے تعلیم دیتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کی صفت پیدا ہو اور وہ راضی برضا رہنے کی حقیقت سے آشنا ہو کر سچی سکینت اور اطمینان جو نجات کا اصل مقصد اور منشا ہے،حاصل کرے۔
ابھی جو مثال میں نے قرآن شریف سے قسم کے متعلق دی ہے کہ والسماء ذات الرجع یعنی قسم ہے آسمان کی جس میں اللہ تعالیٰ نے رجع کو رکھا ہے۔سما کالفظ فضا اور جو اور بارش اور بلندی کے معنوں میں بولو جاتا ہے۔رجع بار بار وقت پر آنے والی چیز کو کہتے ہیں۔بارش برسات میں بار بار آتی ہے،اس لئے اس کا نا م بھی رجع ہے۔اسی طرح پر آسمانی بارش بھی اپنے وقتوں پر آتی ہے۔والارض ذات الصدع(الطارق:۱۳)اور قسم ہے زمین کی کہ وہ ان وقتوں میں پھوٹ نکلتی ہے اور سبزہ نکالتی ہے۔
بارش کی جڑ زمین ہے۔زمین کا پانی جو بخارات بن کر اوپر اڑ جاتا ہے وہ کرہ مہریر پر پہنچ کر بارش بن کر واپس آتا ہے اور اس صورت میں چونکہ وہ آسمان سے آتا ہے،اس لئے آسمانی کہلاتا ہے۔پھر بارش کی ضرورت کے لئے ایک اور وقت خاص ہے۔ج مزار عین کو ضرورت ہوتی ہے ۔اگر بیائی کے بعد پڑے،تو کچھ بھی نہ رہے اور پھر بعض اوقات نشونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔غرض بارش اور مینہ کی ضرورت اور اس کے مفاد اور اس کے آسمان سے آنے کا نظارہ بالکل بد یہی ہے اور ایک ادنی درجہ کی عقل رکھنے والا گنوار دہقان بھی جانتا ہے۔علاوہ ازیں یہ بات ہی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر آسمانی بارش نہ ہو،تو زمینی پانی بھی خشک ہونے لگتے ہیں؛چنانچہ امساک باراں کے دنوں میں بہت سے کنویں خشک ہو جاتے ہیں اور اکثروں میں پانی بہت ہی کم رہ جاتا ہے،لیکن جب آسمان سے بارش آتی ہے،تو زمینی پانیوں میں بھی ایک جوش اور تموج پیدا ہونے لگتا ہے۔میرا مطلب اس مقام پر اس مثال کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کو ایک اور امر کے لئے بطور شاہد قرار دیا ہے،کیونکہ ان نظاروں سے تو ایک معمولی زمیندار بھی واقف ہے اورط جوا مر اس کے لئے ثابت کیا ہے وہ یہ ہے انہ لقول فصل وما ھو بالھزل(الطارق :۱۴،۱۵)بے شک یہ خدا کا کلام ہے اور قول فصل ہے۔اور وہ عین وقت پر ضرورت حقہ کے ساتھ باور حق وحکمت کے ساتھ آیا ہے،بے ہودہ طور پر نہیں آیا۔اب دیکھ لو کہ قرآن شریف جس وقت نازل ہوا ہے۔کیا اس وقت نظام روحانی یہ نہیں چاہتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہو اور کوئی مرد آسمانی آوے،جو اس گمشدہ متاع کو واپس لاوے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسل کے زمانے بعثت کی تاریخ پڑھو تو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کی کیا حالت تھی۔خدا تعالیٰ کی پرستش دنیا سے اٹھ گئی تھی اور توحید کا نقش پامٹ ہو چکا تھا۔باطل پرستی اور معبود باطلہ کی پرستش نے اللہ جلہ شانہ کی جگہ لے رکھی تھی۔دنیا پرجہالت اور ظلمت کاایک خوفناک پردہ چھایا ہواتھا۔دنیا کے تخت پر کوئی ملک،کوئی قطعہ،کوئی سر زمین ایسی نہ رہ گئی تھی جہاں خدائے واحد،ہاں ھیی القیوم خدا کی پرستش ہوتی ہو۔عیسائیوں کی مردہ پرست قوم تثلیث کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی اور ودیدوں میں توحید کا بیجا دعویٰ کرنے والے ہندوستان کے رہنے والے ۳۳ کروڑ دیو تاوں کے پجاری تھے۔غرض خدا تعالیٰ نے جو نقشہ اس وقت کے حالت کا ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ظھر الفساد فی البر والبحر(الروم:۴۲)یہ بالکل سچا ہے اور اس سے بہتر انسانی زبان قلم اس حالت کو بیان نہیں کر سکتی۔اب دیکھو جس طرح خدا تعالیٰ کا قانون عام ہے کہ عین امساک بارش کے وقت آخر اس کا فضل ہوتا اور باران رحمت برس کر شادابی بضشتا ہے،اسی طرح ایسے وقت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آسمان سے نازل ہوتا ۔گویا اس جسمانی بارش کے نظام کو دکھا کر روحانی بارش کی طرف رہنمائی کی ہے۔اب اس سے کون انکار کرے گا کہ بارش ہمارے مقاصد کے موافق ہوئی۔اس سے مطلب وہ ہے کہ جیسے وہ نظام رکھا ہے اسی طرح بارشوں کے لئے وقت رکھے ہیں۔اب دیکھ لو کہ کیا یہ بارش روحانی کا وقت نہ تھا؟ کس قدر جھگڑے تم لوگوں میں بپا تھے ۔اعمال گندے اور ایمان بھی گندے تھے۔اور دنیا ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والی تھی،پھر کیونکر وہ اپنے فضل کا مینہ نہ برساتا ۔جس نے جسم فانی کی حفاظت کے لئے ایک خاص نظام رکھا ہے،پھر روحانی نظام کو کیونکر نہ چھوڑتا ۔اس لئے بارش کے نظام کو بطور شاہد پیش کر کے قسم کے رنگ میں استعمال کیا،کیونکہ امر نبوت ایک روحانی اور نظری مار تھا اور کفار عرب اس نظام کو نہ سمجھ سکتے تھے،اس لئے وہ پہلا نظام پیش کر کے ان کو سمجھا دیا۔غرض یہ ایک سر ہے جس کو جاہلوں نے سمجھا نہیں اور اپنی نادانی اور عداوت حق کی بنا پر اعتراض کر دیا ہے۔اصل مفہوم کو جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقصود رکھا تھا چھوڑ دیا ہے۔
اللہ کو قرض دینے کا مفہوم اسی طرح پر ایک نادان کہتا ہے کہ من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً(البقرہ:۲۴۶)کون شخص ہے جو اللہ کو قرض
دے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے ۔احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوک ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟یہاں قرض کا مفہوم تو اصل یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے۔اس کے ساتھ افلاس اپنے سے لگا لیتاہے۔یہاں قرض سے مرادہے کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمال صالحہ دے۔اللہ تعالیٰ اس کی جزا اسے کئی گناہ کر کے دیتا ہے۔یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کاربوبیت کے ساتھ ہے۔اس پر غور کرنے سے اس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آجاتا ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ بدوں کسی کی نیکی،دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کا فر مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچا رہا ہے۔پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کیوں ضائع کرے گا؟اس کی شان تو یہ ہے۔من یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ(الزلزال:۸)جو ذرہ بھی نیکی کرے اس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرہ بدی کرے گا۔اس کی پاداش بھی ملے گی۔یہ ہے قرض کا اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے،چونکہ اصل مفہوم قرض کا اس سے پایا جاتا ہے۔اس لئے یہی کہہ دیا من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً(البقرہ:۲۴۶)اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے من یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ(الزلزال:۸)۔
عیسائیوں پر افتا دکی وجہ جاہل عیسائی جنہوں نے ایک عاجز اور ناتوان انسان کو خدا بنا لیا ہے اور اپنی بد کاریوں اور گناہوں کی گٹھڑی اس کے سر پر
رکھ دی ہے اور اسے ملعون تسلیم کیا ہے۔باوجود ان کے پاس *** کے سوا کچھ بھی نہیں۔دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔چونکہ خدا تعالیٰ کی پاک شریعت کو کفارہ کی بنا پر رد کر چکے ہیں۔اعمال صالحہ میں جو ایک لذت اور سرور ہوتا ہے،وہ انہیں حاصل نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کے سارے راستبازوں کو بٹمار اور ڈاکو قرار دینے کی وجہ سے ان پر وہ *** پڑی ہے۔اس لئے یہ بات کبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے راستبازوں کا نکار اور تکذیب ایک ایسی شے ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اور اس کی روحانی طاقتوں اور قوتوں کے لئے زہر قاتل کا کام کرتی ہے۔جو صادقوں کی نسبت سوء ظن کرتا ہے اور اس کی بے ادبی کرتا ہے وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب کر دیا جاتا ہے۔یہ *** عیسائیوں پر پڑی ہے کہ انہوں نے سارے راستبوزوں کو خطا کار ٹھہرایا۔
غرض اس آیت میں یہ لطیفہ ہے کہ بارشوں کا اپنے طور پر ایک نظام ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اب بارش کے دن قریب ہیں۔مثلاً یہ جانتے ہیں کہ پوہ اور ماگھ کے دنوں مین بارش ہوتی ہے۔اور ساون اور بادھوں کے دنوں میں ہوتی ہے۔پھر ایک یہ راض ہے کہ بارش بے ہودہ کبھی نہیں ہوتی۔درحقیقت وہی دن بارش کے لئے مفید ہوتے ہیں۔اسی طرح پر روحانی بارشوں کا سلسلہ چلتا ہے۔یہ ایک نظری بحث ہے۔اس لئے خدا تعالیٰ نے موٹی موٹی باتوں کو بطور شواہد کے پیش کیا ہے اور قسم کا لفظ شاہد کے قائم مقام بیان فرمایا ۔اس لفظ کو اسی طرح بیان کیا ہے؛جس طرح پر قرض کے لفظ کو جسے میں ابھی بیان کر چکا ہوں۔
محدثین اور مجددین کا سلسلہ اب ایک بات اور قابل غور ہے کہ ایک بارش تخمریزی کے لئے ہوتی ہے اور پھر ایک بارش اس تخم کے نشوونما اور سر
سبزی کے لئے ہوتی ہے۔اسی طرح نبوت کی بارش تخمریزی کے لئے ہوتی ہے اور محدثین اور مجددین کی بارش جو انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون(الحجر:۱۰)کے ضمن میں داخل ہیں۔اس تکم کے بار ور کرنے اور نشوونما دینے کے لئے میں نے بار ہا اس امر کا ذکر کیا ہے کہ نبوت الوہیت کے لئے بطور میخ کے ہوتی ہے۔جو شخص نبوت کا نکا ر کرتا ہے،رفتہ رفتہ وہ الوہیت کے انکار تک پہنچ جاتا ہے۔اور نبوت کے لئے ولایت بطور میخ کے ہوتی ہے۔ولی کے انکار سے رفتہ رفتہ ایمان سلب ایمان ہو جاتا ہے۔
اس وقت دیکھو کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تیرہ سو برس سے زائد عرصہ گزر گیا۔اگر خدا تعالیٰ اس وقت تک بالکل خاموش رہتا اور اپنی تجلی نہ فرماتا تو اسلام ایک قصہ اور کہانی سے بڑھ کر کوئی وقعت نہ رکھتا اور اس کو دوسرے مذاہب پر کوئی خصوصیت یا فضیلت نہ ہوتی۔جیسے ہندو اپنے بزرگوں سے منسوب خوارق کو پرانوں اور شاستروں میں لکھا ہوا بیان کرتے ہیں اور دکھا کچھ نہیں سکتے،اسی طرح پر اسلام کے اعجازی نشانوں کا ذکر مسلمان انہی کتابوں ہی میں بتاتے اور دکھا کچھ نہیں سکتے،تو دوسرے مذاہب پر اس کو کیا فضیلت حاصل رہتی اور انسان کی فطرت اس قسم کے واقع ہوتی ہے کہ اگر اسے دوسرے پر کوئی فضیلت نظر نہ آوے،تو اس سے بے رغبتی اور بے دلی ظاہر کرتا ہے۔اس طرح پر گویا اسلام سے ایک قسم کا ضعف ایمان پیدا ہوتا ہے،کیونکہ بدوں فضیلت کے ایمان قوی رہ ہی نہیں سکتا۔اس لئے نبوت کی زراعت کے واسطے ولایت ایک باڑ لگا دی گئی ہے۔پس غور کر کے دکھو کہ قسم پر اعتراض کرنے والوں کا جواب کیسا صاف اور لطیف ہے۔
فترت وحی کی حکمت اس مضمون کو دیکھ کر انسان کس قدر انشراح کے ساتھ قبول کر سکتا ہے کہ قرآن کریم کس قدر عالی مضامین کو کیسے اندازاور چرز سے
بیان کرتا ہے۔پھر قرآن شریف میں ایک مقام پر رات کی قسم کھائی ہے۔کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کی قسم ہے ۔جب وحی کا سلسلہ بند تھا۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک مقام تھا۔جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلہ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں،آتا ہے۔وحی کے سلسلے میں شوق اور محبت بڑھتی ہے،لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ پر پہنچاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے۔کیونکہ اس سے قلب اور کرب میں ترقی ہوتی ہے۔اور روح میں ایک بے قراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاوں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر یا رب !یارب!!کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبی کے ساتھ دوڑتی ہے۔جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ کیا گیا ہو ۔بے اختیار ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا ہے،اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بے حد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دورتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق کرب میں وہ لذت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے۔یاد رکھو!روح میں جس قدر اضطراب اور بے قراری خدا تعالیٰ کے لئے ہو گی۔اسی قدر دعوں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہو گا۔غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ مکالمات الہٰیہ کا ایک تعلق ہوتا ہے،آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا ان کو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور ان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے تو یہاں جو ضحیٰ اور لیل کی قسم کھائی،اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مدارج عالیہ اور مراتب محبت کا اظہار ہے ۔اور آگے پیغمبر خداؐکا ابراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو بنائے ہیں۔ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے۔ضحی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو۔ماودعک ربک ۔خدا تعالی نے تجھے رخصت نہیں کر دیا۔اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے۔جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند ر دیا جاتا ہے تا کہ ان میں دعاوں کے لیے زیادہ جوش پیدا ہو ۔اور ضحی اور لیل کو اس لیے بطور شاہد بیان فرمایا ۔تاآپؐ کی امید وسیع ہواور تسلیاور اطمینان پیدا ہو۔مختصر یہ کہ اللہ تعالی نے ان قسموں کے بیان کرنے سے اصل مدعایہ رکھا کہ تابد یہات کے ذریعہ نظریات کو سمجھائے اب سوچ کر دیکھو کہ یہ کیسا پر حکمت مسئلہ تھا،مگر ان بذبختوںنے اس پر بھی اعتراض کیا،
چشم بداندیش کہ بر کندہ باد عیب نمایدہنرشدرنظر
ان قسموں میں ایسا فلسفہ بھرا ہوا ہے کہ حکمت کے ابواب کھلتے ہیں۔
اس زمانہ کا جہاد غرض یہ حرب ہمارا کام ہے جس کی آج ضرورت ہے۔اس سے علوم کے دروازے بھی کھلتے ہیںاور مخالف بھی حجت اور بینہ سے ہلاک ہو
جاتے ہیں۔اور یہ خدا کا فضل ہے کہ پنجاب کے لوگ جن معارف اور حقائق سے آگاہ ہو تے جاتے ہیں۔بلاد شام اور دیگر ممالک اسلامیہ میں ان کے نام ونشان تک نہیں ہے۔اس لئے کہ ہم پر تو یہ مصیبت آچکی ہے۔ہر طرف سے حملہ پر حملہ ہو رہا ہے۔اس لئے ہم کو قوت متکفرہ سے کام لینا پڑتا ہے اور دعاوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے حضور ان مشکلات کو پیش کرنا پڑتا ہے،جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ہماری دستگیری فرماتا ہے اور اپنی کتاب کے حقائق اور معارف سے اطلاع دیتا ہے۔حکامء کہتے ہیں کہ جس قوت کو چالیس دن استعمال نہ کیا جائے،وہ بے کار ہو جاتی ہے۔ہمارے ایک ماموں صاحب تھے،وہ پاگل ہو گئے۔ان کی فصدلی گئی اور ان کو تاکید کی گئی تھی کہ ہاتھ نہ ہلائیں۔انہوں نے چند مہینے تک ہاتھ نہ ہلایا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ لکڑی کی طرح ہو گیا ۔غرض یہ ہے کہ جس عضو سے کام نہ لیا جائے،وہ بے کار ہو جاتا ہے۔
ہندووں میں جوگی اور ایسا ہی راہب وغیرہ جو عورتوں کے قابل نہیں رہتے۔اس کے دو ہی سبب ہوتے ہیں۔یا تو بد معاشیوں کی کثرت کی وجہ سے یا انقطاع کلی کے بعد اور اس امر کی ہزارو مثالیں موجود ہیں کہ جن عضا کو بے کار چھوڑا گیا۔وہ آخر بالکل نکمے ہو گئے۔
اس وقت ہم پر قلم کی تلواریں چلائیں جاتیں ہیں۔اور اعتراضوں کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بے کار نہ کریںاور خدا کے پاک دین اور اس کے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کے اثبات کے لئے قلموں کے نیزوں کو تیز کریں۔خصوصاً ایسی حالت میں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ہم کو یہ موقع دیا کہ اس نے سلطنت انگریزی میں ہم کو پیدا کیا۔
احسان کی قدر کرنا ہماری سرشت میں ہے محسن کے احسان کی شکر گزاری کے اصول سے نا واقفیت جاہم ہمارے اس
قسم کے بیانات اور تھریروں کو خوشامد کر سکتے ہی نہیں۔یہ قوت ہی ہم میں نہیں ہے۔ہاں احسان کی قدر کرنا ہماری سرشت میں ہے اور محسن کشی اور غداری کا ناپاک مادہ اس نے اپنے فضل سے ہم میں نہیں رکھا۔ہم گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانات کی قدر کرتے ہیں اور اس کو خدا کا فضل سمجھتے ہیںکہ اس نے ایک عادل گورنمنٹ کو سکھوں کے پر جفا زمانہ سے نجات دلانے کے لئے ہم پر حکومت کرنے کو کئی ہزار کوس سے بھیج دیا۔اگر اس سلطنت کا وجود نہ ہوتا ،تو میں سچ کہتا ہوں کہ ہم اس قسم کے اعتراضوں کی بابت ذرا سوچ بھی نہیں سکتے،چہ جائیکہ ہم ان کا جواب دے سکتے۔
اب ہم ان اعتراضوں کا جواب بڑی آذادی سے دے سکتے ہیں۔پھر اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی قدر نہ کریںتو یقیناً سمجھو کہ بڑے نا قدر شناس اور ناشکر گزار ہوں گے۔ہم کو غور اور فکر کا موقع ملا،دعاوں کا موقع ملا اور اس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ابواب ہم پر کھولے؛اگرچہ مبدء فیض وہی ہے،لیکن انسان اپنے میں ایک شے قابل بناتا ہے۔اس پر بلحاظ اس کی استعداد اور ظرف کے فیض ملتا ہے۔یہ خوشی کی بات ہے کہ اس تقریب کی وجہ سے ہندوستان اور پنجاب کے رہنے والے جوہر قابل بن رہے ہیںاور ان کی علمی طاقتیں بھی ترقی کر رہی ہیں۔
اس زمانہ کا ہتھیار قلم ہے مختصر یہ کہ یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں۔اس لئے ہم کو چاہیے کہ ہر گز بے کار نہ بیٹھیں۔مگر یاد
رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہمرنگ ہو۔جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں،اسی طرز کے ہتھیار لے کر ہم کو نکلنا چاہیے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔اس میں یہی سر ہے کہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیںہے،بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔
فتح کے لئے تقوی کی ضرورت ہے پھر جب یہ بات ہے تو یاد رکھو کہ حقائق اور معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لئے
ضرورت ہے تقویٰ کی،اس لئے تقویٰ اختیار کرو،کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون(النحل:۱۲۹)اور میں گن نہیں سکتا کہ یہ الہام مجھے کتنی بار ہوا ہے۔بہت ہی کثرت سے ہوا ہے۔
اگر ہم نری باتیں ہی باتیں کرتے ہیں،تو یاد رکھو کہ کچھ فائدہ نہیںہے ۔فتح کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی۔فتح چاہتے ہو تو متقی بنو۔
اشاعت اسلام کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہے میں ہندوؤں اور عیسایوں میں دیکھتا ہوں کہ عورتیں
بھی بہت بڑی جائیدادیں اور روپیہ اس کام کے لئے وصیت کر جاتے ہیں۔آجکل کے مسلمانوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
ہمارے لئے جو بڑی سے بڑی مشکل ہے وہ اشاعت کے لئے مالی مداد کی ضرورت ہے۔یہ تو تم یاد رکھو کہ آخر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔وہ خود ہی اس کا حامی وناصر ہے۔لیکن وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کو ثواب کا مستحق بنا دے،اس لئے نبیوں کو مالی امداد کی ضرورت پیش کرنی پڑتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدد مانگی۔اسی طرز پر جو منہاج نبوت کی طرز ہے۔ہم بھی اپنے دوستوں کو سلسلہ کی ضروریات سے اطلاع دیا کرتے ہیں،مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر ہم کچھ روپیہ بھی اشاعت کے لئے جمع کر لیں،تو یہ توظاہر بات ہے کہ اس قدر نہیں کر سکتے،جس قدر پادریوں کے پاس ہے اور اگر اتنا بھی کر لیںتو بھی میرا ایمان یہی ہے کہ فتح اسی کو ملتی ہے،جس سے خدا خوش ہو۔
اخلاق واعمال میں ترقی کریں اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق واعمال میں ترقی کریں۔اور تقویٰ اختیار کریں تاکہ خداتعالیٰ
کی نصرت اور محبت کا فیض ہمیں ملے۔پھر خدا کی مدد کو لے کر ہمارا فرض ہے اور ہر ایک ہم سے جو کچھ کر سکتا ہے،اس کو لازم ہے کہ ان حملوں کے جواب دینے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ہاں جواب دیتے وقت نیت یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو۔ ؎۱
جنوری ۱۸۹۸؁ء
مرکز میں آنے کی تلقین فرمایا:لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہہ جاتے ہیں کہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا،لیکن یہاں سے جاکر اس بات کو
بھول جاتے ہیں وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیںاگر وہ یہاں نہ آویں گے؟دنیا نے ان کو پکڑ رکھا ہے۔اگر دین کو دنیا پر ترجیح ہوتی،تو وہ دنیا سے فرصت پاکر یہاں آتے۔ ؎۲
یکم فروری ۱۸۹۸؁ء
’’آج تیسرا روز ہے۔الہام ہو کہ یوم تاتیک الغاشیۃ یوم تنجو کل نفس بما کسبت۔یعنی ایک خوفناک گزی ڈالنے والا۔انسان کو چاروں طرف سے گھیرنے والا وقت آنے والا ہے۔اس وقت ہر ایک شخص اپنے مال کے سببب سے نجات پائے گا۔اس وقت ہم ہر ایک شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزا دیں گے۔‘‘
حضرت اقدس نے ان الہامات کے بعد جماعت کو بڑی تاکید کی کہ تیاری کرو ۔نمازوں میں عاجزی کرو۔تہجد کی عادت ڈالو۔تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ گڑ گڑانے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جائع نہیں کرتا۔
ہمارے مبارک امام علیہ السلام بھی یہی بار باروصیت فرماتے ہیں کہ جماعت متقی بن جاوے اور نمازوںمیں خشوع وخضوع کی عادت کریں اور ایک روز بڑے درد سے فرمایا کہ اصلاح تقویٰ پیدا کریں۔ایسا نہ ہو کہ تم میری راہ میں روک بن جاؤ۔ ؎۱
بیرونی ممالک جانے والوں کے لئے خاص نصائح بابو محمد افضل صاحب نے ہندوستان سے افریقہ کی
طرف روانگی کے موقع پر حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کی کہ بعض غفلت کے مقامات سے شکوک شبہات و نفسانی ظلمتوں کا ایک دریا ہمرا ہ لائے تھے اور اب پھر انہی مقامات کو جانا ہے،اس لئے دعا کی جائے۔حضرت اقدس نے ایسی مشکلات سے نکلنے کے لئے مندرجہ ذیل چار امر بطور علاج بتائے:
(۱)قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہنا(۲)مو ت کو یاد رکھنا(۳)سفر کے حالات قلمبند کرتے رہنا(۴)اگر ممکن ہو تو ہر روز ایک کارڈ لکھتے رہنا۔ ؎۲
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا پاک کلمات دعائیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے
ہیں ۔’’اے رب العالمین!تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں اداکر سکتا ۔تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاوں۔میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے۔میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کر ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ثم آمین۔ ‘‘ ؎۳
حضرت اقدس کی پاک باتیں
۲۴ فروری ۱۸۹۸؁ء
مرید اور مرشد کا تعلق فرمایا:’’مرید ومرشد کے تعلقات ایسے ہوتے ہیںکہ ماں باپ اولاد کو اتنا عزیز نہیں سمجھتے،جتنا مرشد مرید کو جانتا ہے۔
ماں باپ جسمانی تربیت اور تعلیم کے لئے کوششیں کرتے ہیں،مگر مرشد مرید کی روحانی پیدائش کو موجب ہو تا ہے اور اس کی اندرونی تعلیم اور تربیت کا ذمہ دار ہو تا ہے بشر طیکہ راستباز ہو ۔اگر ریا کار اور دھوکہ باز ہو تو دشمن سے بھی بد تر ہوتا ہے۔‘‘ ؎۱
فروری۱۸۹۸؁ء
کثرت ازواج کثرت ازواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دودو ،تین تین،چار چار کر کے آرہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت
ہے۔اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جائے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزورہوں تو پھر ایک سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ان اللہ لا یحب المعتدین(البقرہ:۱۹۱)
غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیویوں کا ہی ہو جائے ،تو بھی غلطی کرتا ہے۔ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا۔اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جائو اوروہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کار روائیوں میں نہ ڈالو۔
انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے،تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔دیکھو تورایت میں کاہنوں کے فرقے کے ساتھ مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیں۔اور ہندوؤں کی برہمنوں کے لئے خاص رعائتیں ہیں۔پس یہ نادانی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے۔ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں۔
خدا کا تلون رحمت ہے خدا کا تلون رحمت ہے۔دیکھو یونس علیہ السلام کی قوم کے معاملے میں قطعی الہام دے کر جب لوگوں نے چیخنا چلانا شروع
کیاتوعذاب ٹلا دیا اور رحمت کے ساتھ ان پر نگاہ کی۔پس خدا کیتلون میں بھی ایک خاص لطف ہے،مگر اس کو وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں،جو اس کے سامنے روتے اور عجز ونیاز ظاہر کرتے ہیں۔مجھے بار ہا تعجب آتا ہے کہ انسان اپنے جیسے انسان کی خوشامد تو کرتے ہیں،مگر افسوس کہ خدا کی خوشا مد نہیں کرتے ۔
قبولیت دعا میں توقف کامیابی کا موجب ہے، یہ یاد رکھو کہ اگر جوب کے لئے جلدی جواب مل جاوے تو عموماً
اچھا نہیں ہوتا ۔پس دعا کرتے نہ امید نہ ہو ۔دعا میں جس قدر دیر ہو اس کا بظاہر کوئی جواب نہ ملے تو خوش ہو کر سجدہ ہائے شکر بجا لاو۔کیونکہ اس میں بہتری اور بھلائی ہے۔توقف کامیابی کا موجب ہوتا ہے۔
یونس علیہ السلام کی قوم سے عذاب ٹلنے کی وجہ دعا بہت بڑی سپر کامیابی کے لئے ہے۔یونس کی قوم گریہ وزاری اور دعا
کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی۔میری سمجھ میں محاتبت اور مغاضبت کو کہتے ہیں اور حوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی ۔پس یونس کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی۔اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے کی وجہ سے ا کو شکوہ اور شکایت کا گمان گزرا کہ پیش گوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی۔پس یہی مغاضبت کی حالت تھی۔اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے۔اور رونا دھونا اور صداقت فرد داد جرم کو بھی ردی کر دیتے ہیں۔اصول خیرات اسی سے نکلا ہے۔یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہیں۔علم التعبیر الرویا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔اس لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق قثبات دکھاتا ہے۔اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا ،جب تک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے۔حضرت یونس کے حالات میں در منشور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا ۔تجھے رحم کیا جائے گا ع
ایںمشت خاک راگر نہ بخشم چہ کنم
نماز عید شہر میں پڑھنے کی تعبیر منشی رستم علی کورٹ انسپکٹر دہلی کے خواب کی تعبیر میں فرمایا کہ نماز عید شہر میں پڑھنا بہت بڑی کامیابی ہے۔
ابو لہب اور حمالۃ الحطب سے مراد ابولہب قرآن کریم میں عام ہے نہ خاص ۔مراد وہ شخص ہے جس میں الہتاب واشتعال کا مادہ ہو۔
اسی طرح حمالۃالحطب۔ہیزم کش عورت سے مراد ہے۔جو سخن چین ہو۔آگ لگانے والی چغلخور عورت آدمیوں میں شرارت کو بڑھاتی ہے۔سعدی کہتا ہے ؎
سخن چین بد بخت ہیزم کش است
سورۃ تبت پر اعتراض سن کر فرمایا دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں ۔مگر رشک کا مقام دعا ہے۔میں نے اپنے احباب
حاضرین کے لئے جن کے نام یاد آئے یا شکل یاد آئی۔آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سر سبز ہو جاتی۔ہمارے احباب کے لئے یہ بڑی نشانی ہے۔
رمضان کا مہینہ الحمد للہ گزر گیا ۔عافیت اور تندرستی سے یہ دن حاصل رہے۔پھر اگلا سال نجانے کس کو آئے گا ۔کس کو معلوم ہے کہ اگلے سال کون ہو گا ۔پھر کس قدر افسوس کا مقم ہو گا ۔اگر اپنی جماعت کے ان لوگوں کو فراموش کر دیا جاوے جو انتقال کر گئے ہیں۔یہ ایسے وقت میں فرمایا کہ جب فہرست میں زندوں کے نام ثبت ہو رہے تھے۔
ظاہر پرستی گمراہی کا موجب ہے ظاہر پرستی سے یہود گمراہ ہو گئے۔ظاہر پرستی سے یہودیوں پر یہ آفت آئی کہ وہ مسیح علیہم السلام کا نکار
کرتے رہے اور نہ صرف یہی بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی انکار کرتے رہے۔ان کا یہ خیال تھا کہ مسیح آئے گا تو ایک بادشاہ ہو کر آئے گا۔اور بڑی شان وشوکت سے تخت دود پر جلوہ افروز ہو گا اور اس کے آنے سے پیشتر ایلیا آسمان سے اترے گا،مگر جب مسیح آیا۔تو اس نے ایلیا تو یوحنا کو بتایا اور آپ بجائے بادشاہ ہونے کے ایسی عاجزی دکھائی کہ سر رکھنے کو بھی جگہ نہ ملی۔اب ظاہر پرست یہودی کیونکر مان لیتے۔پس انہوں نے برے زور سے انکار کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔یہی مصیبت ہمارے زمانہ کے مولویوں اور ملاوں کو پیش آئی۔وہ منتظر ہیں کہ مسیح اور مہدی آکر لڑائیاں کرے گا،مگر خدا تعالیٰ نے یہ امر ہی ملحوظ نہ رکھا تھا اور بخاری نے یضع لحرب کہہ کر اس کا قضیہ ہی چکا دیا تھا۔یہ امن اور سلامتی کے خواستگار کو ماننا نہیں چاہتے۔ ؎۱
فروری۱۸۹۸؁ء
آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں میں دیکھتا ہوں کہ باوجود مصائب پر مصائب آنے کے اور ہر طرف خطرہ
ہیخطرہ دکھائی دینے کے لوگ ابھیتک سنگدلی اور عجب ونخوت سے کام لے رہے ہیں۔نادان کب تک اس بے فکری میں زندگی بسر کریں گے۔تا وقتیکہ لوگ جد نہیں چھوڑتے۔اپنی بری کرتوتوں سے بعض نہیں آتے اور خدا تعالیٰ سے مصالحت نہیں کرتے،یہ بلائیں اور مصیبتیں دور نہیں ہونے کی ۔میں نے دیکھا ہے اور خوب غور کیا ہے کہ قحط کے دنوں میں لوگوں نے ذرا بھی قحط کی مصیبت کو محسوس نہیں کیا ۔شراب خانے اسی طرح آباد تھے اور بد کاریوں اور بد معاشیوں کے بازار برابر گرم تھے۔ابتدا میں جب کوئی برائے نام فتویٰ مکہ مدینہ کے نام سے آجایا کرتا تھا۔تو لوگ ڈر جایا کرتے تھے اور مسجدیں آباد ہو جاتیں تھیں،مگر اس وقت شوخی اور بیبا کی حد سے بڑھ چلی ہے۔اللہ تعالیٰ ہی فضل کرے۔
عقلمند وہ ہے جو عذاب آنے سے قبل اس کی فکر کرتا ہے اور دور اندیش وہ ہے جو مصیبت سے پہلے اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
انسان کو یہی لازم ہے کہ آخرت پر نظر رکھ کر برے کاموںسے توبہ کرے،کیونکہ حقیقی خوشی اور سچی راحت اسی میں ہے۔یہ ایک یقینی امر ہے کہ کوئی بد کاری اور گناہ کا کام ایک لحظہ کے لئے بھی سچی خوشی نہیں دے سکتا۔بدکار،بدمعاش کو تو ہر دم اظہار راز کا خطرہ لگا ہوا ہے۔پھر وہ اپنی بد عملیوں میں راحت کا سامان کہاں دیکھے گا۔آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں۔ ع
مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست
دیکھو ان قوموں کا حال جن پر وقتاً فوقتاً عذاب آئے۔ہر ایک کو یہی لازم ہے کہ اگر دل سخت بھی ہو تو اسے ملامت کر کے خشوع خضوع کا سبق دے۔رونا اگر نہیں آتا،تو رونی صورت بنا دے۔پھر خود بخود آنسو بھی نکل آئیں گے۔
اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں ہماری جماعت کے لئے سب سے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں،کیونکہ ان
کو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے اس پر نہ چلے۔تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے۔پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سستی غافل نہ کر دے۔اور اس کو کاہلی کی جرات نہ دلا دے۔وہ ان کی محبت سخت دیکھ کر خود کو بھی سخت نہ کر لے۔
انسان بہت آرزوئیں اور تمنائیں رکھتا ہے۔مگر غیب کی قضا وقدر کی کس کو خبر ہے۔زندگی آرزوں کے موافق نہیں چلتی۔تمناوں کا سلسلہ اور ہے۔قضاو قدر کا سلسلہ اور ہے۔اور وہی سچا سلسلہ ہے۔خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔اسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہیے۔
توحید کا ایک پہلو توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت
میںمحو کر دے۔ ؎۱
یکم مئی۱۸۹۸؁ء
خلاف اسلام کتابوں کی ضبطی ’’جناب مولونا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے وہ میموریل پڑھ چکنے ے بعد جوحضرت مسیح موعود ؑ نے
انجمن حمایت اسلام کے میموریل دربارہ ’’امہات المومنین‘‘کی اصلاح کی غرض سے لکھا تھا۔ حضرت اقدس نے بآواز بلند فرمایا:‘‘
’’چونکہ یہ میموریل اسلام اور اہل اسلام کی حمایت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی عزت اور قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے اور اسلام کی پاکیزہ اور اصفیٰ شکل دکھانے کے لئے لکھا گیا ہے،اس لئے اس کو آپ صاحبان کے سامنے پڑھے جانے سے صرف یہ غرض ہے کہ تا آپ لوگوں سے بطور مشورہ دریافت کیا جائے کہ آیا مصلحت وقت یہ ہے کہ کتاب کا جواب لکھا جائے یا میموریل بھیج کر گورنمنٹ سے استدعا کی جائے کہ وہ ایسے منصفین کی سرزنش کرے اور اشاعت بند کر دے۔پس آپ لوگوں میں سے جو کوئی اس پرنکتہ چینی کرنا چاہے،تو وہ نہایت آزادی اور شوق سے کر سکتا ہے۔‘‘
(مجمع میں سے)’’ایک شخص بولا کہ اگر کتاب کی اشاعت بند نہ ہوئی تو پھر ہمیشہ تک طبع ہوتی رہے گی۔‘‘
اس پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ اگر ہم واقعی طور پر کتاب کی اشاعت بند نہ کرین جو اس کے رد کرنے کی صورت میں ہو سکتی ہے،تو گورنمنٹ سے ایک بار نہیں ہزار بار اس قسم کی مدد لے کر اس کی اشاعت بند کر دی جائے،تو وہ رک نہیں سکتی۔اگر اس تھوڑے عرصے کے لئے وہ برائے نام بند بھی ہو جائے،تو پھر بھی بہت سی کمزور طبیعت کے انسان اور بعض آنے والی نسلوں کے لئے یہ تجویز زہر قاتل ہو گئی۔کیونکہ جب ان کو معلوم ہو گا کہ فلاں کتاب کا جواب جب مسلمانوں سے نہ ہو سکا تو اس کے لئے گورنمنٹ سے بند کرانے کی کوشش کی ۔اس سے ایک قسم کی بد ظنی ہمارے مذہب کی نسبت پیدا ہو گی۔پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ ایسی کتاب کا جواب دیا جائے اور گورنمنٹ کی ایک سچی امداد یعنی آزادی سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسا شافی جواب دیا جائے کہ خود ان کو اس کی اشعت کرتے ہوئے ندامت محسوس ہو۔دیکھو جیسے ہمارے مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں ان کو جب معلوم ہو گیا کہ مقدمہ میں جان نہیں رہی اور مصنوعی جادو کا پتلا ٹوٹ گیا ،تو انہوں نے آتھم کی بیوی اور داماد جیسے گواہ بھی پیش نہ کیے۔پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کے دندان شکن جواب نہایت نرمی اورملاطفت سے دیا جائے۔پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرات نہ ہو گی۔ ؎۱
۲ مئی۱۸۹۸؁ء
بروز عید مقام قادیان زیر درخت بڑ۔جانب شرقیہ۔بعد نماز عید بتقریب جلسہ طاعون۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی۔
دنیا فانی ہے آپ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ اللہ جلہ شانہ نے قرآن شریف میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حدیث میں بھی فرمایا ہے کہ ایک زمانہ
ایسا گزرا ہے کہ انسان ، حیوان،چرند،پرند،زمین آسمان اور جو کچھ بھی زمین وآسمان میں ہے کسی چیز کا نام ونشان بھی نہ تھا۔صرف خدا ہی تھا۔یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔ولم یکن معہ شئی۔یعنی خدا کے ساتھ اور کوئی چیز نہ تھی۔ہم کو اس نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ خبر دی ہے کہ ایک زمانہ اور بھی آنے والا ہے۔جب کہ خدا کے ساتھ کوئی نہ ہو گا۔وہ زمانہ بڑا خوفناک زمانہ ہے،کیونکہ اس پر ایمان لانا ہرمومن اور ہرمسلمان کاکام ہے۔جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا،وہ مسلمان نہیں کافر ہے۔اور بے ایمان ہے۔جس طرح سے بہشت،دوزخ،انبیا اور کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ویسا ہی اس ساعت پر ایمان لانا لازم ہے۔جبکہ نفخ صور ہو کر سب نیست ونوبود ہو جائیں گے۔یہ سنت اللہ اور عادت اللہ ہے۔
آخرت کے وجود پر تین دلائل اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کو سمجھانے کے لئے تین طریق اختیار فرمائے ہیں :
ایک یہ کہ انسان کو عقل دی ہے کہ اگر وہ اس سے ذرا بھی کام لے تو اور غور کرے،تو یہ امر نہایت صفائی سے ذہن میں آسکتا ہے کہ انسان کی مختصر سی زندگی دو عدموں کے درمیان واقع ہے۔کبھی بھی ہمیشہ کے لئے باقی نہیںرہ سکتی۔قیاس سے مجہولات کا پتہ لگ سکتا ہے اور انسان معلوم کر سکتا ہے۔مثلاً اگر ہم غور کریں کہ ہمارے باپ دادے کہان ہیں اور اسی ایک بات کو سوچیں،تو ہمیں یہ مان لینا پڑے گا کہ ہم سب کو بھی اسی راستے پر چلنا ہو گا ،جس پر وہ گئے ہیں۔نادان ہے وہ انسان جس کے سامنے ہزار ہا نمونے ہو ں اور پھر بھی وہ ان سے سبق حاصل نہ کرے اور عقل نہ سیکھے۔عموماً دیکھا گیا ہے اور یہ ایک مانی ہو ئی بات ہے کہ ہر گاوں اور شہر میں زندہ لوگوں سے قبریں روز بروز زیادہ ہوتی جارہی ہیں اور بعض پرانے لوگوں کی قبریں مخفی اور بعض ظاہر ہوتی ہیں۔پھر بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جب کسی شہر میں کنواں کھودا جاتا ہے ،تو اس کی مٹی میں سے ہڈیاں نکلتی ہیں۔گویا عام طور پر زمین کے نیچے ہر جگہ قبریں ہی قبریں موجود ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ ظاہر طور پر نمو دار نہ ہوں۔جس سے انسان کے نابود شدہ طبقہ کا پتہ لگ سکتا ہے۔
دوسری دلیل اس زمانہ کے وجود پر یہ ہے کہ جس طرح پر کھیت میں سبزہ نکلتا ہے جو بہت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔مگر پھر ایک زمانہ اس پر آتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ہو کر خشک ہونے لگتا ہے اور پھر اس پر ایک دوسری حالت آتی ہے کہ وہ گرنے لگتا ہے۔تو اس وقت جب اس طرح نقصان ہونے لگتاہے تو بونے والا کسان اسے خودہی کاٹ ڈالتا ہے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اس طرح اڑ اڑ کر ضائع جائے۔ایسا ہی دنیا خداتعالی کا کھیت ہے۔جس طرح زمیندار مصلحت اور انجام بینی سے کبھی اپنے کھیت کو کچا ہی کاٹ لیتا ہے اوت کبھی ذراپختہ ہونے پر کاٹتا ہے۔اسی طرح سے انسان بھی پرورش پا کرخداوندی مشیّت اور ارادے کے موافق ٹھیک اپنے اپنے وقت پر کاٹے جاتے ہیں۔زمیندار کے فعل سے سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہیے۔کیونکہ انسان کی زندگی کا بھی ٹھیک یہی طرز ہے۔جس طرح سے بعض دانے اگنے بھی نہیں پاتے بلکہ زمین کے اندر ہی اندر ضائع ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بعض بچے شکم مادرہی ضائع ہو جاتے ہیں۔پھر بعض دانے پیدا ہونے کے چند روز بعد ضائع ہو جاتے ہیں۔ٹھیک اسی قانون اور عمل کے موافق انسان بھی بچہ،جوان اور بوڑھا ہوتا ہے اور خداتعالی کی مرضی کی درانتی اسے وقتًا فوقتًا مصلحت الہی سے کاٹتی رہتی ہے۔کبھی بچے مرتے ہیں جن کو کہتے ہیں کہ اٹھرا سے مرگئے۔صحیح البدن، توانا اور تندرست جوان بھی مرتے ہیں۔پھر عمر رسید ہو کر پیر ناتوان بھی آخر مرجاتے ہیں۔غرض یہ سلسلہ قطع وبرید کا دنیا میں ایسا جاری ہے جو ہر آن انسانوں کو سبق دیتا رہتا ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے ک جگہ نہیں۔پس یہ بھی ایک دلیل اس زمانہ کی آمد پر ہے۔
(۳)علاوہ ازیں اس زمانہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بھی دلیل پیش کی ہے اور وہ انبیا کے قہری معجزات ہین جن کے باعث ایک ہی وقت میں دنیا کے تختے الٹ دئیے گئے اور خلقت کا نام ونشان تک مٹا دیا گیا۔انسان اللہ تعالیٰ کے قہر کے ہاتھ میں ہے۔وہ جب چاہے اسے نابود کر دے۔اسی امر کو اللہ تعالیٰ نے دلیل کے رنگ میں پیش کیا ہے ۔بعض امراض اس ہیبت اور شدت سے پھیلتی ہیں کہ جن لوگوں نے ان کا دورا دیکھا ہو گا ،وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قیامت کا نمونہ ہوتا ہے۔
منجملہ ان ہیبت ناک امراض کے ایک طاعون بھی ہے۔جو اس وقت ہمارے ملک میں پڑی ہوئی ہے اور جس نے کراچی اور بمبئی میں بہت کچھ صفائی کر دی ہے اور اب پہاڑ پر سے (بالم پور)ونیزہ کلکتہ سے طاعوں پھیلنے کی متوحش خبریں موصول ہوئی ہیں۔غرض یہ ایک بڑا بھاری خطرہ ہے جو اس وقت سامنے ہے ۔اس لئے میری اس تقریر کرنے سے غرض صرف یہ ہے کہ چونکہ انسان کو بڑے بڑے ابتلا پیش آتے رہتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولنبلونکم بشی (البقرہ:۱۵۶)یعنی ہم تمہیں آزماتے رہیں گے کبھی ڈر سے اور کبھی مالوںمیں نقصان کرنے سے اور کبھی ثمرات کو تلف کرنے سے۔
اتلاف ثمرات سے مراد اتلاف ثمرات سے مراد تفاسیر میں اولاد بھی لکھی ہے اور اسی میں کوششوں کا جائع ہونا بھی ہے ۔مثلاً حصول علم کی کوشش
تجارت میں کامیابی کی کوشش زمینداری کی کوشش غرض ان کوششوں کا ضائع ہونا ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے۔انسان کو ہر وقت خیال ہوتا ہے کہ کامیاب ہو جاوں گا ،مگر خدا تعالیٰ کے علم میں اس کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ ناکام رہے یا کھیتی پیدا نہیں ہوتی یا تجارت میں کامیاب نہیں ہوتا ۔
طاعون ۔ایک قہری نشان آیت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے امتحان رکھے ہیں۔اول خوف۔دوم نقصان مال۔سوم
نقصان جان اورچہارم تلف ثمرات۔مگر یہ ایک دہشت ناک مقام اور خوف کی جگہ ہے کہ اس طاعون کی بیماری میں یہ ہر چار امتحان مجموعی طور پر اکٹھے ہو گئے ہیں ۔جن لوگوں کو واقعات حاضرہ ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے اور انسان کیا کچھ بھگت رہے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ واردات طوعون سے در حقیقت یہ چار امتحان یکے بعد دیگرے پیش آجاتے ہیں۔یہی نہیں کہ آدمی مر جاتا ہے،بلکہ گورنمنٹ انگلشیہ نے ایک خاص اور اشد ضرورت کی وجہ سے اور پھر مصلحت کی بنا پر جیسا کہ ایک مادر مہربان کو بعض دفعہ اپنے بچوں کی غورو پرداخت اور نگہداشت میں پیش آجاتی ہے۔یہ قانون پاس کیا ہے کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو ۔اس گھر سے تمام رہنے والے باہر نکال دئے جائیں۔اور عند الضرورت ہمسائے اور محلہ دار بھی اور پھر اشد ضرورت کی صورت میں گاؤں کا گاؤں ہی خالی کر دیا جائے۔بیمار الگ رکھے جائیں اور تندرست الگ۔اور وہ مقام جہاں ایسے لوگ رکھے جائیں کھلی ہوا میں ایسی جگہ پر ہو جس کے نشیب میں پانی نہ ہو اور تازہ ہوا کی خوب آمدورفت ہو سکے۔اس کے متصل ہی قبرستان بھی ہو ،تا کہ مرنے والے کو جلدی دفن کیا جاسکے۔تا ایسا نہ ہو کہ اس کے تعفن سے ہوا زیادہ زہریلی ہو جائے۔یہ ایک ایسا شدید ابتلا ہے کہ جس کی وجہ سے بمبئی پونا اور بعض دیگر مقامات میں لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے۔
غرض گورنمنٹ نے ان تدابیر کے اختیار کرنے میں جو نیکی سوچی ہے درحقیقت اس میں نیکی ہی ہے۔مگر اسے بدی قرار دیا جات ہے۔یہ نہویت افسوس کی بات ہے کہ جس شخص سے نیکی کی جائے ،وہ اس نیکی کو بدی سمجھتا ہے۔پھر اس پر مزید حیرت اور تعجب یہ ہے کہ گورنمنٹ نے یہ تدابیر انسداد مرض کچھ اپنے گھر سے وضع نہیں کیں بلکہ یونانی اطباء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جس گھر میں طوعون ہو جائے،وہ نہ صرف اس گھر بلکہ شہر اور ملک تک کا صفایا کر دیتی ہے۔اطباء نے اس کی بہت سی نظریں بھی دی ہیں۔کہ طاعون جیسی خوف ناک مرض نے بھی بس نہیں کیا جب تک کہ جنگل کو آبادی نہیں بنا دیا اور اسے اجاڑ کر نہیں رکھ دیا ۔کی اکثر لوگوں کو خبر ہی نہیں ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ باوجودیکہ یہ خطر ناک مرض بہت بری طرح پھیل رہی ہے اور ملک کہ ایک بڑے بھاری حصہ کو تباہ کر دینے کی دھمکی دے رہا ہے؛تا ہم میں نہیں دیکھتا کہ لوگوں کو ایک کھا جانے والا غم پیدا ہوا ہو۔جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار میں مصروف ہوئے ہوں۔میں نہیں دیکھتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوں یا نمازوں کی پابندی کا لتزام کرتے ہوں بلکہ جہاں تک دیکھا جاتا ہے ۔ہر جگہ ظلم اور بد اخلاقی کے طریقے استعمال میں آ رہے ہیں۔مرض طاعون کا قاعدہ ہے کہ وہ پرواز کر کے پرندے کی طرح دوسرے مقام پر جاپہنچتی ہے۔اس کی رفتار میں ایسا نظام نہیں ہے کہ وہ منزل بہ منزل جائے بلکہ دو چار سو کوس کا فاصلہ طے کر کے یکلخت دوسرے مقام پر جا پہنچتی ہے۔موجودہ حالات میں بمبئی اور جلندھر کے واقعات پر ہی غور کرو کہ ہر دو مقامات پر کس قدر فاصلہ ہے۔اب بتلاو کہ انسان اس کے جالندھر پہنچنے کی بابت کیا نظام رفتار قائم کر سکتا ہے۔الغرض اس کی رفتار کی نسبت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔آج عافیت سے گزر رہی ہے،نہ معلوم کل کیا ہو۔یہ نہایت خطر ناک مرض ہے۔اور اس کے دورے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔بعض اوقت ساٹھ ساٹھ سال تک اس کا دورہ ہوتا ہے جو ایک مسلمہ امر ہے۔ہیضہ کی طرح نہیں کہ ساون بھادوں کے مہینے میں آگیا اور بیس پچیس دن دورہ کر کے رخصت ہو گیا ۔طوعون کو حکیموں نے نیزہ سے مارنے والی لکھا ہے۔طاعون مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا نشانہ خطا نہیں جاتا اور اس کے باعث کثرت سے اموات ہوتی ہیں۔تورات میں بھی اس کا ذکر ہے۔حضرت موسیٰ کے وقت یہ مرض یہودیوں میں پڑی تھی۔تورات میں جہاں خدا نے پھوڑون کی مار سے ڈرایا ہے،اس سے طاعون ہی مراد ہے۔قرآن کریم میں یہودیوں کو نافرمانی کی وجہ سے طاعون سے ہلاک کرنے کا ذکر ہے۔
طاعون کے آنے کی وجہ تورات اور قرآن کریم کے ان مقامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرض انسان کی نافرمانی اور بد کاری سے تعلق رکھتی ہے ،
کیونکہ سنت اللہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ اقوام معصیت کے وقت اسی بیماری سے ہلاک ہوئیں۔یہ خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے ۔یہ تیسرا نشان قیامت کا ہے۔اس سے قیامت صغریٰ پیدا ہوتی ہے۔شاید وہ لوگ جن کو خبر نہیں،اس کو ایک افسانہ سمجھیں کہ جب یہ مرض یورپ اور بلاد شام اور عراق عجم میں پھیلی تھی وہاں اس کا ڈیرہ جم گیا تھا۔ ابھی اس ملک میں نووارد ہے۔اس لئے یہاں کے لوگوں کو اس کے اخلاق اور عادات کی کچھ خبر نہیں۔ایک طرف تو یہ لوگ خداتعالیٰ سے بے خوف اور بے خبر ہیںاور توبہ اور استغفار نہیں کرتے اور دوسری طرف گورنمنٹ کی تجاویز پر بھی عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے اور ان تجاویز کو بد ظنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیںاور مخالف کا شور مچاتے ہیں۔
میں سچ کہتا ہوں کہ مداہنہ کے طور پر کسی کی تعریف کرنا ہمارا کام نہیں۔یہ اصول ہے کہ جس گاوں میں یہ بیماری پھیلی ہوئی ہو ،وہاں کے لوگ الگ کیے جائین اور اس کی آمدورفت کے راستے بند کر دئے جائیں اور مریضوں کو ایک کھلے میدان میں رکھا جائے اور بسا اوقات سارے گاوں کو اکگ کر دیا جائے۔گویا اس سر زمین سے سب کو نکال دیا جائے۔نہایت مفید اور ضروری ہے۔ہماری کتابوؓ سے بھی اور تورات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس مرض کے مواد زمین ہی سے شروع ہوتے ہیں۔یہ خیال کیا جات ہے کہ یہ مرض چوہوں کے ذریعہ سے پھیلتا ہے۔یہ بھی منجملہ دیگر اسباب کے ایک سبب ہے ۔دراصل جو زمین بد کاریوں اور جفا کاریوں سے *** ہو جاتی ہے،اس میں یہ سمیت(زہر)پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے خوفناک طریقوں پر وہ مبتلا عذاب ہو جاتی ہے،مگر کوئی ہمیں یہ تو بتائے کہ گورنمنٹ نے کیا برائی کی جو یہ کہا کہ وہ با زدہ مکان کو چھوڑ دو ۔جو کام ہماری بھلائی کے لئے ہو اس میں برائی کا خیال پیدا کرنا دانش مند انسان کا کام نہیں۔جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر گورنمنٹ یہ حکم دے دے کہ طاعون کی مرض میں کوئی شخص گھر سے نہ نکلے،تو لوگ اس حکم کو بھی زیادہ نا گوار سمجھیں گے،کیونکہ جب گاؤں میں طاعون پھیلے گی اور لوگ مرنے لگیں گے،تو کوئی شخص بھی برداشت نہیں کرے گا کہ اس گھر میں رہے۔دیکھو جس گھر یا مکان سے کسی وقت سانپ نکلے تو اس گھر یا مکان میں داخل ہونے سے لوگ دہشت کھاتے ہیں،خواہ وہ سانپ مار بھی دیا جائے؛تاہم تاریکی کے وقت اس مکان میں کوئی شخص داخل نہیں ہوتا ۔یہ انسان کی ایک طبعی عادت ہے۔پھر حیرت ہے کہ ایک انسان اندیشہ کی جگہ سے واقف ہو اور پھر امن وچین کے ساتھ اس میں رہے۔کیا ہوسکتا ہے کہ جس گھر سے مردہ پر مردہ نکلنا شروع ہو جائے،تو اہل خانہ اس میں امن سے بیٹھے رہیں؟ہر گز نہیں۔بلکہ وہ خود ہی اس گھر کو فی الفور چھوڑ دیں گے اور اسے منحوس سمجھ کر اس سے کنارہ کر جائیں گے۔اگر یہ لوگ اسی حالت میں چھوڑ دیے جاتے اور گورنمنٹ کسی قسم کی مداخلت نہ کرتی تو پھر بھی یہ لوگ خود بخود وہی کرتے جو آج گورنمنٹ کر رہی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو طاعون کی مرض کی خبر نہیں اور وہ اس کو نزلہ وزکام کی طرح کی ایک عام مرض سمجھ لیتے ہیں۔
طاعون عذاب ہے اللہ تعالیٰ نے اس کانام رجز رکھا ہے۔رجز عذاب کو بھی کہتے ہیں۔لغت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اونٹ کی بن ران میں یہ مرض
ہوتا ہے اور اس میںایک کیڑا پڑ جاتا ہے جسے نغف کہتے ہیں۔اس سے ایک لطیف نکتی سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ کہ چونکہ اونٹ کی فطرت میں ایک قسم کی سر کشی پائی جاتی ہے۔جس کو یہ مرض ہوتی ہے تو اس سے یہ پایا گیا ہے کہ جب انسانوں میں بھی سر کشی کا مادہ پایا جاتا ہے،تو اس وقت ان پر یہ عذاب الیم نازل ہوتا ہے۔رجز کے معنی لغت میںدوام کے بھی آتے ہیں اور یہ مرض بھی دیر پا ہوتا ہے اور گھر سے سب کو رخصت کر کے نکلتا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بلا گھروں کی صفائی کر دینے والی،بچوں کو یتیم بناتی اور بے شمار بیکس عورتوں کو بیوہ بنا دیتی ہے۔
غیر صحت مندانہ ماحول بھی طاعون کاباعث ہے پھر رجز کے معنی میں غور کرنے سے اس کا باعث بھی سمجھ میں
آجاتا ہے کہ یہ مرض پلیدی اور ناپاکی سے پیدا ہوتا ہے۔جہاں اچھی طرح صفائی نہیں ہوتی اور مکان کی دیواریں بد نما اور قبروں کا نمونہ ہوتیں ہیں۔نہ روشنی کا انتظام ہوتا ہے،نہ تازہ ہوا آسکتی ہے۔وہاں عفونت کا زہریلہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے ،جس کے باعث یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔قرآن مجید میں جو آیا ہے۔والرجز فا ھجر(المدثر:۶)کہ ہر ایک قسم کی پلیدگی سے پرہیز کرو۔ہجر دور چلے جانے کو کہتے ہیں۔جس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی پاکیزگی چاہنے والوں کے لئے ظاہری پاکیزگی اورصفائی بھی ضروری ہے۔کیونکہ ایک قوت کا اثر دوسری پر اور ایک پہلو کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے۔
ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر انسان کی دو حالتیں ہوتیں ہیں۔جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کابھی لحاظ
رکھے۔پھر ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین(البقرہ:۲۲۳)یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں۔میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔ظاہری پاکیزگی طہارت کے ممد اور معاون ہے۔اگر انسان اسے ترک کر دے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے،تو باطنی پاکیزگی پاس بھی نہیں پھٹکتی۔پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے۔ہر نماز میں وضو کرے۔جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے۔عیدین اور جمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے۔اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کے وقت عفونت کا ندیشہ ہوتا ہے۔اس لئے غسل کرنے اور ساف کپڑے پہننے اور خوشبو لگا نے سے سمیت(زہر)اور عفونت سے روک ہو گی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے۔ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے۔
کافور کے خواص اس لیے مسلمان کو مرتے وقت کافور کا استعمال کرنا سنت ہے۔یہ اس لئے کہ کافور ایک ایسی چیز ہے جو وباقی کیڑوں کو مارتی اورسمیت کو
دور کرتی ہے اور انسان کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور بہت سی عفونتی بیماریوں کو روکتی ہے۔اس لئے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ مومنوں کو کافوری شربت پلایا جائے گا ۔آجکل کی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہو رہا ہے کہ کوفور جیسا کہ ہیضہ کے لئے مفید ہے،ویسا ہی طاعون مین بہت فائدہ بخش ہے۔میں اپنی جماعت کو بتلاتاہوں کہ یہ بہت مفید چیز ہے اور میرا اعتقاد ہے۔کیونکہ قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ یہ جلن کو روکتا ہے اور دل کو سکینت اور تفریح دیتا ہے اور ہمیں رغبت دلائی کہ ہم کافور کا استعمال کریں۔آجکل ایک اور بات ثابت ہوئی ہے کہ کوفور کے ساتھ جدوار استعمال کیا جائے تو ازمفید ہے۔جدوار کو سرکہ میں ملا کر گولیاں بنا لینی چاہئیںاور دو دو رتی کی گولیاں بنا کر تازہ لسی کے ساتھ استعمال کی جائیں۔اگر عورتوں اور بچوں کو یہ گولیاں روز مرہ استعمال کرائی جائیں،تو بہت مفید ہیں۔ہم بھی ایک دوائی طاعون کے لئے تیار کر رہے ہیںجو خدا تعالیٰ نے چاہا تو بہت مفید ہو گی۔دراصل یہ مرض کم بخت ایسا ہے کہ کسی علاج پر بھروسہ کرنا غلطی ہے،جب تک اللہ تعالیٰ کا ہی فضل نہ ہو ۔مگر عام اسباب تندرستی اور قانون صحت میں سے حفظ ماتقدم بھی ایک عمدہ چیز ہے اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔پس مناسب ہے کہ سمیت اور عفونت والی چیز وں سے پرہیز کیا جائے اور بعض تیز غذاوں سے جو دوران خون کو تیز کرتی ہیں۔جیسا کہ بہت گوشت اور بہت میٹھا یا حد سے زیادہ دھوپ میں پھرنا یا سخت اور شدید محنت کرنا ان سے پرہیز کرنا مناسب ہے۔
رعایت اسباب منع نہیں ہے رعایت اسباب ہماری اسلامی شریعت میں منع نہیں ہے۔کسی شخس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے
دریافتکیا کہ ہم دوا کریں۔آپؐ نے جواب فرمایا:کہ ہاں دوا کرو۔کوئی مرض ایسا نہیں،جس کی دوا نہ ہو۔ہاں یہ بالکل سچی بات ہے کہ کوئی بید یا ڈاکٹر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کی فلاں دوا ضرور فائدہ دے گی۔اگر ایسا ہوتا تو کیوئی شخص کیوں مرتا۔طبیبوں اور ڈاکٹروں کو چاہیے کہ متقی بن جاویں۔دوا بھی کریں اور دعا بھی۔تنہائی میںبہت بہت دعائیں مانگیں۔جن لوگوں نے گھمنڈ کیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو ہی ذلیل کیا۔لکھا ہے کہ جالینوس کو اسہال کے بند کرنے کا بڑا دعویٰ تھا۔خدا کی شان کہ وہ خود ہی اس مرض میں مبتلا ہوا۔اسی طرح بعض طبیب مدقوق ہو کر اور بعض مسلول ہو کر اس دنیا سے چل دئیے۔
اللہ تعالیٰ پر ہی کامل بھروسہ کرنا چاہیے اس بیان سے میری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کی حقیقت کھول دی اور ان کی بیجا
شیخی کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا۔جس قسم کا دعویٰ کیا اسی دعویٰ میںپست اور ذلیل ہوئے۔پس معلوم ہوا کہ انسان کو کسی قسم کا دعویٰ سزاوار نہیں ۔ہمارے والد صاحب مرحوم بھی مشہورطبیب تھے۔جن کا پچاس برس کا تجربہ تھا۔وہ فرمایا کرتے تھے کہ حکیمی نسخہ کوئی نہیںاور اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ تصرف اللہ کا خانہ خالی رہتا ہے۔خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے والا سعادت مند ہے۔انسان مصیبت میںبد دماغ نہ ہو اور غیر اللہ پر بھروسہ نہ کرے۔یکدفعہ ہی خفیف عوارض شدید ہونے لگ جاتے ہیں۔کبھی قلب کا علاج کرتے کرتے دماغ پر آفت آجاتی ہے۔کبھی سردی کے پہلو پر علاج کرتے کرتے گرمی کا زور چڑھ جاتا ہے۔کون ان بیماریوں پر حاوی ہو سکتا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔انسان ان حشرات الارض اور سمیات کوکب گن سکتا ہے،صرف بیماریوں کو بھی نہیں گن سکتا ۔لکھا ہے کہ صرف آنکھ ہی کی تین ہزار بیماریاں ہیں۔بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایسے طور پر غلبی کرتیں ہیں کہ ڈاکٹر نسخہ نہیں لکھ چکتا جو بیمار کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔
پس اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ میں آنا چاہیے ۔آجکل دیکھا جا تا ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے سخت غفلت اور استغناء ہے۔قبریں کھودیں جا رہی ہیں۔فرشتے ہلاکت کا مواد اکٹھا کر رہے ہیں اور لوگ کاٹے جا رہے ہیں ،مگر اس کے باوجود بھی نادان لوگ دھیان نہیں کرتے۔یہ وباء قادیان سے ۳۵ کوس کے فاصلے پر ہے گو شدت حرارت کی وجہ سے کم ہوتی جاتی ہے،مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ شدت حرارت کے ایام میں کم ہو گئی تو آئیندہ سال نہ آئے گی۔مجھے چند مرتبہ بذریعہ الہام اور رویا کے معلوم ہو ا ہے کہ یہ وباء اس ملک میں زور سے پھیلے گی۔جیسے میں پیشتر ازیں شائع کر چکا ہوں کہ سیاہ رنگ کے پودے لگائے جا رہے ہیں ۔لگانے والوں سے پوچھا،تو انہوں نے طاعون کے درضت بتلائے۔یہ بڑی خطرناک بات ہے۔
وعیدی پیش گوئیوں توبہ اور استغفار سے ٹل سکتی ہیں ایسا ہی میں یہ بھی بتلا چکا ہوں کہ وعید کی پیش گوئیاں توبہ اور
استغفار سے ٹل سکتی ہیں ۔یہاں تک کہ دوزخ کا وعید بھی ٹل سکتا ہے۔اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس کی طرف توجہ کریں،تو اللہ تعالیٰ اس ملک اور خطہ کو چاہے گا ،تو محفوظ رکھ لے گا۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔مگر فرماتا ہے۔قل ما یعبوابکم ربی لو لا دعاو کم(الفرقان:۷۸)ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم میری بندگی نہ کرو ،تو پرواہ کیا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ گلی گلی میں حکیم ہیں۔ہر جگہ ڈاکٹر موجود ہیں۔شفا خانے کھلے ہوئے ہیں۔ان کا علاج کرکے تندرست ہو جائیں گے،مگر ان کو معلوم نہیں کہ بمئبی اور کراچی میں کئی بڑے بڑے ڈاکٹر خود اس مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے ہیں اور جو لوگ مریضوں کی خدمت پر مامور ہو کر گئے تھے وہ خود ہی اس مرض کا شکار ہو گئے اس طرح سے اللہ تعالیٰ اپنے تصرفات کا مشاہدہ کراتا ہے۔کیونکہ محض ڈاکٹروں یا ان کے علاج پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ دوسرے عالم پر بھی ایمان پیدا ہو۔اب لوگ زور لگا کر دکھاویں کہ کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کو بدل سکتے ہیں۔جس طرح انسان ایک بالشت بھر زمین کے لئے مرتا ہے،سازشیں کرتا ہے اور مقدمات کی تکالیف اور زیر باریاں برداشت کرتا ہے وہ سوچے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر بھی ویسا ہی قلق اور کرب اپنے اندر پاتا ہے؟ہر گز نہیں ۔نادان انسان جب شدید مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے،تو اس وقت خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے۔جس پر اسے یونہی آزمائشی طور پر مہلت مل جاتی ہے،لیکن بعد اس کے پھر وہ ایسی چالیں چلتا ہے کہ گویا اس نے مرنا ہی نہیں۔معمولی امراض میں مبتلا ہو کر مر جانے پر اب لوگوں کے دلوں پر بہت تھوڑا اثر ہوتا ہے جو صرف دو چار یوم برائے نام قائم رہتا ہے۔بعد اس کے پھر وہی ہنسی مخول اور مزخر فات شروع ہو جاتے ہیں۔قبر ستان میں جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے مردے گاڑتے ہیں،مگر یہ کبھی نہیں سوچتے کہ آخر ایک دن مر کر ہم نے بھی خدا کے حضور جانا ہے۔اس لئے اب خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ معمولی اموات کچھ اثر انداز نہیں ہوتیں ۔امرتسر،لاہور میں روزانہ اموات کی تعداد ساٹھ ستر ہو گئی ہے اور کلکتہ وبمئبی میں اس سے بھی زیادہ لوگ مرتے ہوں گے۔گو نفس الامر میں میں یہ ایک خوفناک نظارہ ہے،مگر کون اس پر غور کرتا ہے۔کوتاہ اندیشہ انسان کہہ اٹھتا ہے کہ اس قدر اموات آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہیں،اس لئے ان کی چنداں پرواہ نہیں کرتا۔چونکہ دوسروں کی موت سے خود کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرا نسخہ اختیار کیا ہے اور طاعون کے ذریعہ سے لوگوں کو متنبی کرنا چاہا ہے۔اس لئے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ خیال کر کے کہ اب جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔ایسا نہ ہو کہ تم خدا تعالیٰ کو بھی ناراض کرو اور گورنمنٹ کو خطا کار ٹھہراو ۔گورنمنٹ کو بد نام کرنے سے کیا فائدہ۔طاعون تمہاری اپنی شامت مال سے آئی،اس لئے گورنمنٹ پر بھی تمہاری بدولت آفت آئی۔
طاعون کے ایام میں گورنمنٹ کے اقدامات درست تھے گورنمنٹ کو اگر تمہارے ساتھ سچی
ہمدردی نہیں،تو تم خود ہی بتلاو کہ وہ کیوں اس قدر روپیہ اس مرض کے تدارک پر خرچ کرتی ہے۔شفا خانے اور ڈاکٹر کیوں مقرر کیے ہیں۔پولیس کے ہزارو آدمی کیوں انتظام کے لئے مقرر کیے جاتے ہیں۔کیا گورنمنٹ کو کچھ شوق ہے کہ اس قدر اخراجات کثیر برداشت کرے؟نہیں بلکہ ملک کی یہ حالت دیکھ کر وہ اندر ہی اندر مادر مہربان کی طرح بے چین ہو رہی ہے۔گورنمنٹ بھی رعایا ہی سے ہے۔لوگوں کو شاید خبر نہیں ۔حدیث شریف میںآیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ طاعون ہی سے مارے جائیں گے۔منجموں کی بارتیں گو قابل ذکر نہیں۔مگر ہند اور یورپ کے منجم کہتے ہیں کہ نومبر۱۸۹۹؁ء میں ستارے جمع ہوں گے اور خوفناک وقت آئے گا ۔ہمیں تو اس کی چندا پروا نہیں تھی ،مگر ہم کو تو یہ غم ہے کہ الہامات میں بھی آئندہ دو جاڑوں کا سخت اندیشہ ہے؛بشر طیکہ لوگ راہ راست اختیار نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کریں ۔بد کاریاں،زنا کاریاں،چوریاںاور ہر قسم کے مکرو فریب اور بد اعمال چھوڑ کر نیکی اختیار کریں۔اور بد اعمالیوں سے کلی اجتناب کریں؛ورنہ سخت خطرہ اور اندیشہ ہے اور ایک نہایت سہم ناک اور ترسناک نظارہ ہمارے سامنے ہے۔اب بتلاو کہ کیا ہم اب گورنمنٹ کو قصور وار ٹھہرائیں۔
پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جاہلوں کی روش اختیار کرے اور احمقوں کو تاہ اندیشوں کے نقش قدم پر چلے۔میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ گورنمنٹ نے جس قدر ہدایات جاری کیں ہیں،وہ صحت کے لئے مفید ہیں۔ہماری تواریخ کی کتابوں مثل طبری وغیرہ میںجو ہزار سال پہلے کی تصنیف ہے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں جب لشکر اسلام ملک شام میں تھا تو وہاں وبا پڑی،جس پر لشکر اسلام کو پہاڑ بھیجنا پڑا ۔تو گویا یہ اس گورنمنٹ کا ہی مخترعہ نسخہ نہیں ،بلکہ گزشتہ اہل اسلام کے طر ز عمل سے بھی یوں ہی ثابت ہوتا ہے۔جس طرح انہوں نے نشیب کو چھوڑ کر پہاڑ کی بلندی کو اختیار کیا ۔اسی طرح اب بھی مرطوب اور نشیبی مکانات کو چھوڑ کر کھلے میدانوں میں مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔بو علی سینا نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ جن گھروں میں وبا کا مرض ہو ان کی صفای کی جائے کیونکہ جب تک سبب موجود ہے۔نتیجہ زائل نہیں ہو سکتا۔طبیب کیا کر سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ ماشہ دو ماشہ دوائی دے گا ،مگر اس عفونت کو جو سانس کے ذریعہ سے انر چلی جاتی ہے،اسے دوائی کیا کرے گی اور ایسے گھر میں رہ کر طاعون کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔لوگوں نے طاعون سے فوت شدہ لوگ نہیں دیکھے۔جس جگی طاعون کا مرض مر جاتا ہے وہ جگی ایسی عفونت آمیز ہو جاتی ہے کہ ناک نہیں دیا جا سکتا۔اس لئے گورنمنٹ کی تدابیر حفظ صحت کی نسبت بد ظنی کرنا ایک ناپاک خیال ہے۔گورنمنٹ نے اس مرض کی دفیعیہ کے لئے جو کچھ سوچا ہے،وہ بالکل صحیح ہے۔اس لئے ہماری جماعت کے لئے لازم ہے وہ اس بارہ میں گورنمنٹ کی مدد کریں اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں اور دوسرے لوگوں کو خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان سمجھائیں اور غلط فہمیوں کو دور کریں۔جیسا کہ بعض لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ گورنمنت نے رعایا کو مارنے کے لئے یہ تجویز کی ہے۔بھلا کوئی ان نادانوں سے پوچھے تو سہی کہ کیا یہ گورنمنٹ لکھو کھہاروپیہ لوگوں کو مارنے کے لئے صرف کر رہی ہے اور اسے اس قدر تکالیف برداشت کرنے کا شوق ہے؟نہیں۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ طاعون بہت مہلک مرض ہے۔
طاعون کیا ہوتی ہے؟ سب سے پہلے سمجھ لینا چاہیے کہ طاعون کیا ہوتی ہے ۔یہ ایک شدید تپ ہوتا ہے،جس کے ساتھ غشی،متلی،درد سر اور نسیان ہوتا
ہے۔لرزہ بہت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی بے چینی اور سراسمیگی ہوتی ہے۔ پھر چند روز کے بعد بن ران یا گردن یا پس گوش ایک پھنسی نکل آتی ہے،جو کبھی تو چھوٹی سی ہوتی ہے اور کبھی بڑی۔یہاں تک کہ سرسام ہو جاتا ہے اور گالباً یہ سب علامات چوبیس گھنٹے کے اندر ظاہر ہو جاتیں ہیں ۔عموماًا یسے مریضوں کا گورنمنٹ کو پتہ بہ مشکل لگتا ہے۔کیونکہ بیس بائیس گھنٹے تک تو لوگ اسے معمولی بخار سمجھ کر لا پرواہ رہتے ہیں،مگر بعد ازاں آثار طاعون دیکھ کر اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔غرض جب مرض کا پورا پورا اثر ہو چکتا ہے۔تو کہیں جا کر گورنمنٹ کے عمال کو پتہ چلتا ہے ۔اب اس ایک دو گھنٹے کے علاج سے کیا بن سکتا ہے۔وہ ہسپتال میں مرے گا نہیں تو کیا ہو گا۔پس یہ لوگوں کی اپنی نادانی اور حماقت ہے کہ اپنے قصور کو گورنمنٹ کے سر پر تھوپا جاتا ہے۔اگر اس میں گورنمنٹ کا کچھ قصور یا غلطی ہے تو تمہیں حق پہنچتا ہے کہ اسے ظاہر کرو ۔ورنہ اپنی غلطی کو گورنمنٹ کو متہم کرنا ناواجب ہے۔گورنمنٹ کی نیک نیتی اور خیر طلبی تو اس معاملے میں یہاں تک ہے کہ اس نے خود معززین سے مشورے لئے،پھر کاروائی کی،مگر چونکہ ہمارا ملکواقعی نیم وحشی اور جاہل ہے۔اس لئے ان کے ہاتھ میں سوائے غصہ اور بدظنی کے کچھ بھی نہیں۔اپنی غلط کاریوں کا الزام گورنمنٹ پر دیتے ہیں۔اور ذرا نہیں سوچتے۔کاش کہ یہ صد ہا انجمنیں،جو ہمارے ملک میں پھیل رہی ہیں ،اس کام کی طرف توجہ کریں اور جہلا کے دلوں سے یہ بد ظنیاں نکالنے کی کوشش کریں تو نی نوع کی کس قدر بھلائی ہو ۔تم لوگ غفلت کے لحافوں میں پڑے سو رہے ہو اور جن بے آراموں اور تکالیف میں تمہارے ہم جنس مبتلا ہیں،تمہیں ان کی خبر تک نہیں۔گورنمنٹ جس قدر روپیہ ان مصائب سے نجات دلانے کے لئے اپنی پیاری رعایا کے لئے صرف کر رہی ہے۔اگر چندہ کر کے وہ کرنا پڑتا اور یہ حکم ہوتا کہ گاوں گاوں کے لوگ یہ چندہ دیں تو کوئی شخص بھی یہ دینے کے لئے راضی نہ ہوتا ۔میں نے بھی ایک دوائی تیار کرنی چاہی ہے جس کی تیاری میں میں مصروف ہوں۔اللہ تعالیٰ شیخ رحمت اللہ صاحب کو جزائے خیر دے۔جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے دو صد روپیہ اس کار خیر میں دیا ہے ۔میں نے اس مرض کے اسباب کو خوب زیر نظر رکھ لیا ہے ۔بات یہ ہے کہ اس مرض کے کئی حصے ہوتے ہیں۔اس لئے طبیب کو مناسب اورلازم ہے کہ وہ ہر حصہ اور سبب کو رعایت کو ملحوظ رکھے۔ردی غزائیں اور سمی ہوائیں اس مرض کو بہت زیادہ پھیلاتی اور خطرناک بنا دیتی ہیں۔زمین کے نشیبہ حصہ سے ایسی ہوائیں تنفس کے ذریعہ غذا کے ذریعہ سے انسان کے خون میں سمیت اور عفونت پیدا کر دیتی ہیں ۔
جدید سائنسی تحقیقات سے اسلام کی تائید آجکل کی تحقیق میں طاعون کی جڑ کیڑے یا اجرام صغیرہ ثابت ہوئے ہیں ۔میں بھی
اس تحقیقات کو پسند کرتا ہوں کیونکہ اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت اور اسلا م کی صداقت ثابت ہوئی ہے۔
حدیث شریف میںجہاں طاعون کا ذکر آیا ہے وہاں نغف اس کا نام رکھا گیا ہے۔اور نغف اس کیڑے کو کہتے ہیں جو بکری اور اونٹ کی ناک سے نکلتا ہے اور اسے طاعون قرار دیا گیا ہے۔آجکل کی تحقیات پر بڑا فخر کیا جاتا ہے،مگر جس شخص نے مقدس اسلام کے بانی علیہ السلام کے پاک کلام کو پڑھا ہے۔اسے کس قدر لطف اور مزا آتا ہے جب وہ تیرہ سو سال پیشتر آپ کے پاک ہونٹوں سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔قرآن شریف نے بھی طاعون کو کیڑا ہی بتلایا ہے۔
اب اے نئی تحقیق پر اترانے والو!خدا کے لئے ذرا انصاف کو کام میں لاو اور بتلاو کہ کیا وہ مذہب انسانی افترا ہو سکتا ہے،جس میں ایسے حقائق پہلے سے موجود ہوں اور تیرہ سو سال کی محنتوں ،تحقیقتوں اور جان کینوں کا نتیجہ ہوں۔یہ قرآن کریم اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معقولی معجزات ہیں اور دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش کرنے والے کو بھی کہتے ہیں۔دل پر مدور دوران خون کا ہے۔آجکل کی تحقیق نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دوران خون کا مسلہ دریافت کیا ،لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا۔
طاعون کے اسباب اب پھر میں اصل مضمون کی طرف عود کرتا ہوں۔دوسرا سبب پلیدی،تیسرا سببب سمیت،چوتھا سبب تپ،پانچواں پھوڑے۔
ان اس امر میں ایک اختلاف ہے کہ آیا اصل سبب پھوڑے ہیں یا تپ۔ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ اصل تپ ہے اور یونانی اصل پھوڑے کو ٹھہراتے ہیں ۔میرے نزدیک بھی یونانیوں کے رائے صحیح ہے،کیونکہ تورات میں بھی پھوڑوں کا ہی ذکر ہے۔ہاں تپ لازمی ہے۔بعض اوقات تپ قائم مقام ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ،بلکہ بیمار تپ ہونے سے پہلے ہی رخصت ہو جاتا ہے۔غرض اس مرض کا اصل تپ نہیں بلکہ پھوڑا ہے۔پھوڑا اگر چیرا جائے اور اس سے مواد نکال دیا جائے تو تپ بھی کم ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ مریض تندرست ہو جاتا ہے۔بہر حال یہ مرض سخت مہلک اور خوفناک ہے۔اس لئے اس کو روکنے کی تدابیر بھی سخت لازمی ہیں،جن کے اجرا پر گورنمنٹ باوجود یکہ وہ سچی ہمدردی اور پوری غم خواری کے ساتھ رعیت کی بھلائی میں مصروف ہے،بد نام ہو گئی ہے۔جہاں تک نیک نیتی اور بنی نوع انسان کی اس غم خواری کے خیال سے جو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال رکھی ہے،میں نے ان تمام تجاویز پر جو گورنمنٹ نے مریضان طاعون کے متعلق شائع کی ہیں غور کیا ہے۔میں بلا خوف لومۃ لائم کہتا ہوں کہ وہ تجاویز بہت مناسب اور موزوں ہیں۔وہ یہ کہ اس گھر کو یا بعض اوقات عند الضرورت محلہ کو خالی کر دیا جائے۔اور مریض کو الگ رکھا جائے۔یہ بالکل درست اور عین مناسب ہے۔ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ ایک بچہ طاعون سے بیمار ہو اور اسے موجب قواعد ماں باپ سے علیحدہ کر دیا جائے تو وہ ضرور مر جائے گا۔ایسے معترضین کو معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں اس کے ماں باپ اس کے ہمراہ رہ سکیں گے،مگر وہ بھی طاعون کے مریض ہی شمار ہو کر ا تمام پابندیوں کے ماتحت ہوں گے،جو مبتلا شخص کے لئے ہیں۔انما الاعمال بالنیات موجودہ حالت میں گورنمنٹ کی نیت بالکل نیک ہے۔اسکی یہ منشاء ہر گز نہیں کہ خوا مخواہ لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔
اولی الامر کی اطاعت اور میری تو سمجھ میں ہر گز نہیں آتا کہ لوگوں کو خوا مخواہ ایک دوسرے کو علیحدہ کر کے گورنمنٹ کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟یہ گورنمنٹ پر
بد ظنی ہے۔قرآن شریف میں حکم ہے اطیعو اللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم(النساء:۶۰)یہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے اور اگر کوئی شخص کہے کہ منکم میں گورنمنٹ داخل نہیں،تو یہ اس امر کی صریح غلطی ہے۔گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے،وہ اسے منکم میں داخل کرتا ہے۔مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا ۔وہ ہم میں داخل ہے ۔اشارۃ النص کے طور پر قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حکم مان لینے چاہییں۔عام طور پر مسلمانوں کے لئے یہ لازم تھا کہ انسداد طاعون کے متعلق شکر گزاری کے میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجتے،مگر یہاں بجائے شکر گزاری کے نا شکر گزاری ہو رہی ہے اور کوئی معقول وجہ ناراضگی کی بجز اس کے معلوم نہیں ہوتی کہ عورتوں کی نبض مرد ڈاکٹر دیکھتے ہیں۔سو اس بارہ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اول تو اس نقص کے معلوم ہو جانے پر گورنمنٹ نے اس شکایت کو رفع کر دیا ہے اور دوائیاں مقرر کر دی ہیں جو مستورات کا ملاحظہ کرتیں ہیں۔مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا نہ بھی ہوتا ،تو بھی اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی۔
خاص حالات میں پردہ ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں۔پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیںہے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مر گئی،تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہیں رہا۔اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا۔مثل مشہور ہے۔مرتا کیا نہ کرتا۔مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔دین اسلام میں تنگی اور حرج نہیں۔جو شخص خوا مخواہ تنگی وحرج کرتا ہے،وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے۔گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئے ہیں۔جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحر وقت کے موافق عمل کرتی ہے۔کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع ہے۔
سعادت کی راہیں اختیار کریں اصل بات جو قابل غور ہے،وہ یہ ہے کہ انسان کو نیک بختی اور تقویٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اورسعادت کی
راہیں اختیار کرنی چاہییں۔تب ہی کچھ بنتا ہے۔ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم(الرعد:۱۲)خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا ۔جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو تبدیل نہ کرے۔خوا مخواہ کے طن فاسد کرنے اور بات کو انتہا تک پہنچانا بالکل بے ہودہ امر ہے۔سب سے ضروری بات یہ کہ لوگوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔نمازیں پڑھیں،زکواۃ دیں،اتلاف حق اور د کاریوں سے باز آئیں۔یہ امر بخوبی ثابت ہے کہ بعض وقت جب صرف ایک شخص ہی بدی کا ارتکاب کرتا ہے،تو وہ سارے گھر اور سارے شہر کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے۔پس بدیوں کو چھوڑ دو کہ وہ ہلاکت کا موجب ہیں۔ضلع جالندھر اور ہوشیار پورکے اس وقت کئی گاوں طاعون میں مبتلا ہیں۔پھر بیماری کے انسداد سے کیوں غفلت کی جائے۔گورنمنٹ پر جاہلانہ طور سے بد گمانی نہ کرو اور اگر تمہارا ہمسایہ بد گمانی کرتا ہے ،تو اس کی بد گمانی رفع کر نے کی کوشش کرو اور اسے سمجھاو۔انسان کہاں تک غفلت کرتا جائے گا۔اس دن سے ڈرنا چاہیے۔جب ایک دفعہ ہی وبا آپڑے اور سب کو تباہ کر ڈالے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے ہی جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔کیونکہ خوف خطر میں مبتلا ہونے کے وقت تو ہر شخص دعا اور رجوع الی اللہ کر سکتا ہے۔سعادت مندی یہی ہے کہ امن کے وقت دعا کی جائے۔انسان کو چاہیے کہ ان لوگوں کی حالت سے عبرت حاصل کرے جو اس خطرہ میں مبتلا ہیں۔یہاں سے تو بہت ہی قریب گاوں میں یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے۔وہاں کے حالات دریافت کر کے ہر شخص قبل از وقت عبرت حاصل کر سکتا ہے،اس وقت تک ضلع جالندھر میں یہ مرض بہت ترقی پر ہے۔گو ضلع ہوشیار پور میں کچھ کمی ہے۔
نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو تاہم میںیقین نہیں کرتا کہ وہ بالکل ناپید ہو جائیں گی۔ابھی اجاڑہ آنے والا ہے،اس
لئے پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاو ۔نمازوں کو باقاعدہ التزام کے ساتھ پڑھو۔بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں،یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی۔انہوں نے نماز کی معافی چاہی۔آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں ،اس لئے اس بات کو خوب یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے عمل کر لو ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ آسمان اور زمین اس کے امر سے قائم رہ سکتے ہیں۔بعض دفعہ وہ لوگ جن کے طبائع طبیعیات کی طرف مائل ہیں۔کہا کرتے ہیں کہ نیچری مذہب قابل اتباع ہے،کیونکہ اگرحفظ صحت کے اصولوں پر عمل نہ کیا جائے،تو تقویٰ اور طہارت سے کیا فائدہ ہو گا ؟سو واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ بعض اوقات ادویات بے کار رہ جاتیں ہیں اور حفظ صحت کے اسباب بھی کسی کام نہیں آسکتے۔نہ دوا کام آسکتی ہے نہ طبیب حاذق ،لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہو تو الٹا سیدھا ہو جایا کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ابتلاء دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ابتلاء کہ بچے اور اس کی ماں کو کنعان سے بہر دور لے جانے
کا حکم ہوا اور وہ ایسی جگہ تھی جہاں نہ دانہ تھا اور نہ ہی پانی۔وہاں پہنچ کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدکے حضور عرض کی کہ اے اللہ میں اپنی ذریت کو ایسی جگہ چھوڑتا ہوں جہاں دانہ پانی نہیں ہے۔حضرت سارہ کا ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح سے اسماعیل مر جائے،اس لئے اس نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہا کہ اسے کسی بے آب گیاہ جگہ میں چھوڑ آ۔حضرت ابراہیم ؑ کو یہ بات بری معلوم ہوئی ،مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ سارہ کہتی ہے،وہی کرنا ہو گا۔اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو حضرت سارہ کا پاس تھا۔حضرت سارہ نے اس واقعہ سے پہلے بھی ایک دفعہ حضرت ہاجرہ کو گھر سے نکالا تھا۔اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا فرشتہ اس سے ہم کلام ہو تھا۔کیونکہ ا نبیاء کے علاوہ غیر انبیاء سے بھی بذریعہ فرشتہ کلام کیا کرتا ہے؛چنانچہ حضرت ہاجرہ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا۔غرض حضرت ابراہیم ؑ نے ویسا ہی کیا اور کچھ تھوڑا سا پانی اور تھوڑی سے کھجوریں ہمراہ لے کر حضرت ہاجرہ اور اس کے بچے کو لے جاکر وہاں چھوڑ آئے جہاں اب مکہ آباد ہے۔چند دن کے بعد نہ دانہ رہا نہ پانی۔حضرت اسماعیل ؑ پیاس سے بے چین ہونے لگے ،تو اس وقت حضرت ہاجرہ نے چاہا کہ اپنے بچے کو ایسی بے بسی کی موت اپنی آنکھ سے دیکھے۔اس لئے حضرت ہاجرہ چند مرتبہ اس پہاڑ پر ادھر ادھر دوڑیں کیں کہ شاید کوئی قافلہ ہو ۔پہاڑ پر چڑھ کر گریہ وزاری کرنے لگیں ۔یہ ایسا وقت تھا کہ صرف ان کے پاس ایک ہی بچہ تھا۔خاوند سے الگ تھیں۔دوسرا بچہ پیدا ہونے کی امید نہیں تھی۔گویا بیوہ کی مانند آپ کا حال تھا ۔آپ کی گریہ وزاری پر فرشتے نے آواز دی ہاجرہ! ہاجرہ!!جب آپ نے ادھر ادھر دیکھا،تو کوئی شخص نظر نہ آیا۔بچہ کے پاس جب آئیں تو دیکھا کہ اس کے پاس پانی کا چشمہ بہ رہا ہے۔گویا اللہ تعالیٰ نے مردہ سے ان کو زندہ کر دیا۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر چشمہ کا پنی نہ روکتا،تو وہ تمام ملک میں پھیل جاتا اس قصہ کے بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی ایسی جگہوں پر جہاں دانہ پانی کچھ نہ ہو۔اس طرح اپنی قدرت کے کرشمے دکھایا کرتا ہے؛چنانچہ پانی کہ اس پہلے کرشمے نے حضرت اسماعیل ؑ کو زندہ کیا ،مگر وہ پانی جو حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ سے پھیلایا گیا ،اس کی شان میں فرمایا۔اعلمو ان اللہ یحی الارض بعد موتھا(الحدید:۱۸)گویا اس پانی سے دنیا زندہ ہوئی۔مدعا یہ ہے کہ جہاں ظاہری اسباب موجود نہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے بچاو کی ایک راہ نکال دی اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے کہ اس کے امر سے زمین آسمان قائم ہیں۔تو غور کرو جہاں اس قدر گرمی پڑتی ہے اور جہاں انسان کا نام ونشان نہ تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا بابر کت بنا دیا کہ کروڑ ہا مخلوق وہاں جاتی ہے اور ہر ملک اور قوم کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔وہ میدان جہاں حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں،وہی جگہ ہے جہاں دانہ تھا نہ پانی۔
اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرو اصل بات یہی ہے کہ جو خدا چاہتا ہے کرتا ہے۔ویرانہ کو آبادی اور آبادی کو ویرانہ بنا دیتا ہے۔شہر
بابل کے ساتھ کیا کیا؟جس جگہ انسان کا منصوبہ تھا کہ آبادی ہو ،وہاں مشیت ایزدی سے ویرانہ بن گیا اور الووں کا مسکن ہو گیا اور جس جگہ انسان چاہتا تھا کہ ویرانہ ہو ،وہ دنیا بھر کے لوگوں کا مرجع ہو گیا ۔پس خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوا اور تدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کر لو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی ہے۔استغفار کی کثرت کرو۔جن لوگوں کو کثرت اشغال دنیا کے باعث کم فرصتی ہے،ان کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرائض خدا وندی فوت ہو جاتے ہیں۔اس لئے مجبوری کی حالت میں ظہر اور عصر اور مغرب وعشاء کی نمازوں کا جمع کر کے پڑھ لینا جائز ہے۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر حکام سے نمازوں کے پڑھنے کی جازت طلب کر لی جائے،تو وہ اجازت دے دیا کرتے ہین،نیز اعلیٰ حکام کی طرف سے ماتحت افسروں کو اس کے بارے میں خاص ہدایات ملی ہوئی ہوتیں ہیں ۔ترک نماز کے لئے ایسے بے جا عذر بجز اپنے نفس کی کمزوری کے اور کوئی نہیں۔حقو ق اللہ اور حقوق العباد میںظلم وذیادتی نہ کرو۔اپنے فرائض منصبی نہایت دیانت داری سے بجا لاو۔گورنمنٹ پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی بد ظنی نہ کرو۔کیا تمہیں سکھوں کے عہد حکومت کے واقعات معلوم نہیں،جس وقت مسجدوں میں اذان دینی موقوف ہو گئی تھی۔گائے کو ذرا سی تکلیف دینے پر سخت ایذائیںاور بے حد ظلم ہوتے تھے۔پس ایسی مصیبت سے تم کو خلاصی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ بہت فاصلے سے اس سلطنت کو لایا ۔جس سے ہم نے بہت فائدہ حاصل کیا ہیاور امن امون سے اپنے فرائض مزہبی ادا کرنے لگے۔اس لئے ہمیں کس قدر شکریہ اس گورنمنٹ کا کرنا چاہیے۔خوب یاد رکھو کہ جو شخص انسان کا شکر ادا نہیں کرتا ،وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ۔یہ قاعدہ ہے کہ اگر انسان اپنے کسی عضو سے کام نہ لے،تو وہ ایک عرصہ کے بعد بے کار ہو جایا کرتا ہے۔مشہور ہے کہ اگر آنکھ کو چالیس دن تک بند رکھا جائے۔تو وہ بالکل اندھی ہو جائے۔اس لئے میں تم کو بتاکید نصیحت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے ہم پر بہت احسان ہیں۔حقائق اور معارف کی کثیر التعداد کہاںکہاں سے ہمیں میسر آتیں ہیں۔ان کی سلطنت کی آذادی سے ہم نے بہت فائدہ اٹھایاہے۔ہمارے مذہب پر حملے ہوئے اور دیگر مشکلات کا سامنا ہوا ،تو ہم نے کس طرح آذادی سے ان کا دفعیہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰)ہم پر کس کس قسم کے معارف کھولے۔جنہیں ہم نے دورونزدیک شائع کیا۔گورنمنٹ کی آزادی بھی ایک باعث ان کے کھلنے کا ہے۔بالآخر میں پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے سچا رشتہ قائم کرو اور گورنمنٹ کی نسبت بدظنی مت کرو بلکہ اس کی ہدایات کی تعمیل کرو اور اسے مدد دو۔ ؎۱
۱۶مئی۱۸۹۸؁ء
تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ دن بہت ہی نازک ہیں۔اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ
کسی کی پرواہ نہیں کرتا،مگر صالح بندوں کی۔آپس میں محبت اور اخوت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے کنارہ کش ہو جاؤ،کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آؤ۔ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاو۔اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔
تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاو گے اوراس کے دین کی حمایت میںساعی ہو جاو گے۔تو خدا تمام رکاوٹوںکو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاو گے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔اور کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتاہے۔اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے،مگر وہ پودے اور درخت جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں،ان کی مالک پرواہ نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر اپنے تنور میں پھینک دیوے۔سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو۔اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے،تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو،تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی بھی پرواہ نہیں۔ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتیں ہیں۔پر ان پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے،تو کتنی باز پرس ہوتی ہے۔سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بے کار اور لاپرواہ بناو گے،تو یمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا ۔چاہیے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شمار ہو جاو ۔تا کہ کسی وباء یا کسی آفت کو تم پر ہاتھ دالنے کی جرات نہ ہو سکے،کیونکہ کوئی بات بھی اللہ کی اجازت کے بغیر زمین پر نہیں ہو سکتی۔ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعتراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔لوگ تمہاری مخالفت کریں گے اور انجمن کے ممبر تم پر ناراض ہوں گے۔پر تم ان کو نرمی کے ساتھ سمجھاو اور جوش کو ہر گز کام میں نہ لاو۔یہ میری وصیت ہے۔اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تنگی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاو اور انجمن کے ممبرون کو ذہن نشین کرو کہ ایسا میموریل؎۱ فی الحقیقت دین کو ایک نقصان پہنچانے والا امر ہے اور اسی واسطے ہم نے اس کی مخالفت کی کہ دین کو صدمہ پہنچتا ہے۔ ؎۲
۲۵ جولائی۱۸۹۸؁ء
گالیوں کا احسن جواب مولوی محمد حسین ؔصاحب بٹالوؔی نے اپنے رسالہ اشاعت ؔالسنہ نمبر پنجم لغایت دوازوہم جلد ہثرو ہم بابت۱۸۹۵؁ء
بدست محمد ولد چوغہ قوماعوان ساکن ہموںؔ گکھڑ ضلع سیالکوٹ بھیجا۔جس میں حضرت مسیح موعود ؑ پر بہت نا واجب حملے کیے گئے تھے۔آپؑ نے ۲۵ جولائی۱۸۹۸؁ء کی سہ پہر کو اصل مرسلہ کی پیشانی پر مندرجہ ذیل عبارت لکھ کر قاصد کو دے دی:؎۱
’’رب ان کان ھذا الرجل صاداقاً فی قولہٖ فاکرمہ وان کان کاذبا فخذہ۔آمین۔‘‘؎۲
یکم اگست ۱۸۹۸؁ء
صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا:
خواب میں ہاتھ سے دانت کا گرنا منذر ہوتا ہے ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ داڑھ کا ایک حصہ جو بوسیدہ
ہو گئی ہے۔اس کو میں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اسے ہاتھ میں رکھا۔‘‘پھر فرمایا کہ
’’خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جائے،تو وہ منذر ہوتا ہے ورنہ مبشر۔‘‘
زاںبعد صادق نے اپنے دو خواب سنائے۔جن میں سے ایک نور کے کپڑوں کا ملنا اور دوسرے میں حضرت اقدسؑ کے دئے ہوئے مضمون کا خوشخط نقل کرنا تھا۔جس کی تعبیر حضرت اقدس نے کامیابی مقاصد فرمائی۔
تائید الہی سے مضامین کا دل پر نزول اس کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا کہ:’’تائیدات الہیہ ایک تو بین اور
ظاہر طور پر ظہور پذیر ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کو دیکھ سکتے ہیں،مگر بعض مخفی تائیدات ایسی ہوتیں ہیںجن کے لئے میری سمجھ میں کوئی قاعدہ نہیں آتا کہ عوام الناس کو کیوں کر دکھا سکوں۔مثلاً یہی عربی تصنیف ہے۔میں خوب جانتا ہوں کہ عربی ادب میں کہاں تک دسترس ہے،لیکن جب میں تصنیف کا سلسلہ شروع کرتا ہوں،تو یکے بعد دیگرے اپنے اپنے محل اور موقع موزون طور پر آنے والے الفاظ القاء ہوتے جاتے ہیں۔اب کوئی بتلائے کہ ہم کیوں کر اس تائید الیہ کو دکھلا سکیںکہ خدا کیونکر سینہ پر الفاظ نازل کرتا ہے۔اوت دیکھو اس ایام الصلح میں اکثر مضامین ایسے ہیں جن کا میری پہلی تصانیف میں ذکر تک نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سے پہلے وہ پہلے کبھی ذہن میں نہ گزرے تھے،لیکن اب وہ ایک ایسے طور پر آکر قلب پر نازل ہوئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آسکتا،جب تک خود تائید الہی شامل حال ہو کر اس کو اس قابل نہ بنا دیوے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ایسے بندون پر کرتا ہے جن سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ تصنیفات کے لئے جب تک صحت اور فراغت نہ ہو،یہ کام نہیں ہو سکتا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ان لوگوں ہی کو ملتا ہے جن سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہے۔پھر ان کو یہ سب سامان جو تصنیف کے لئے ضروری ہوتے ہیں،یکجا جمع کر دیتا ہے۔‘‘
رعایت اسباب جناب مولانا مولوی نور دین صاحبؓ کی طبیعت۳۱جولائی۱۸۹۸؁ء سے بعارضہ درد شکم علیل تھی،تو حضڑت اقدس نے آدمی بھیج کر خبر
منگوائی اور افاقہ کی خبر سن کر الحمد اللہ فرمایا۔اور فرمایا:
’’مولوی صاحب کا سِن اب انحطاط کا ہے،اس لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے گویا پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰکے قبضہ قدرت میں ہے،لیکن انسان کو یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ اسباب کی رعایت نہ رکھے۔‘‘
پھر فرمایا کہ:
۲۳اگست۱۸۹۸؁ء کی شام
حضورؑ نے پوچھا کہ:
جدید فلسفہ بے دینی کیوں پیدا کرتا ہے؟ ’’یہ موجودہ فلسفہ اکثر طبیعتوں میں بے دینی کیوں پیدا کر دیتا ہے۔‘‘
ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹی نے کہا’’دراصل جو طبیعتیں پہلے ہی سے بے دینی کی طرف مائل ہوتی ہیں،وہی اس سے اثر پذیر ہوتی ہیں؛ورنہ اکثر بڑے فلاسفر مزاج پادری اپنے مذہب میں پکے ہوتے ہیں ۔‘‘
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
’’ان باتوں پر غور کرنے کے بعد افسوس کے ساتھ ذہن دوسری طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو یہ پادری لوگ کالجوں اور سکولوں میں یہ فلسفہ اور منطق پڑھاتے ہیں اور دوسری طرف مسیح کو ابن اللہ اور اللہ مانتے ہیں اور تثلیث وغیرہ عقائد کے قائل ہیں،جو سمجھ ہی میں نہیں آتا کیونکر اس کو فلسفہ سے مطابق کرتے ہیں۔انگریزی منطق کی بناتو منطق استقرائی ہی ہے۔پھر یہ کونسا استقراء ہے کہ یسوع ابن اللہ ہے۔کونسی شکل پیدا کرتے ہوں گے۔یہی ہو گا کہ مثلاً اس قسم کے خواص جن لوگوں کے اندر ہوںوہ خدا یا خدا کے بیٹے ہوتے ہیں۔اور مسیح میں یہ خواص تھے۔پس وہ بھی خدا یا خدا کا بیٹا تھا۔اس سے تو کثرت لازم آتی ہے جو محال مطلقہ ہے۔میں تو جب اس پر غور کرتا ہوں،حیرت بڑھتی ہی جاتی ہے۔نہیں معلوم یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے؟
اسلامؔ کے پاک اصول ایسے نہیں ہیں کہ فلسفہ یا استقراء کی محک پر بھی کامل المعیارثابت نہ ہوں۔بلکہ میں نے بار ہا غور کی ہے کہ قرآن کریم کی نسبت جو آیا ہے فی کتاب مکنون(الواقعہ:۷۹)یہ کتاب مکنون آسمان اور زمین کی چھپی ہوئی کتاب ہے،جس کے پڑھنے پر ہر ایک شخص قادر نہیں ہو سکتا اور قرآن کریم اسی کتاب کا آئینہ ہے اور قرآن کریم نے وہی خدا دکھایا ہے،جس پر آسمان وزمین شہادت دیتے ہیں۔مگر یہ انیس سو برس کا تراشہ ہوا جعلی مردہ خدا کس سند اور شہادت پر خدا بنایا گیا ہے۔پس یہ اسلام ہی کی خوبی اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہی فخر ہے کہ وہ ایسا دین لے کر آئے جو ہمیشہ سے ہے اور جس کی تعلیم زمین اور آسمان کے اوراق میںبھی واضح طور پر موجود ہے۔‘‘؎۱
۲۵اگست۱۸۹۸؁ء
موجودہ فارسی ۲۵ اگست کی صبح کو فارسی زبان پر گفتگو کرتے ہوئے مولونہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے کہا کہ’’ایرانیوں نے آجکل اپنی توجہ تصنیفات کی طرف
بہت مبذول کی ہے اور اس کثرت سے عربی الفاظ استعمال کرتے ہیںکہ بجز روابط کے فارسی زبان کو کم دخل دیتے ہیں اور باب مفاعلہ،انفعال۔استفعال کو اس قدر کثرت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں کہ عقل حیران ہوتی ہے۔‘‘
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ’’فہمیدن وغیرہ قدیم زمانہ میں استعمال کرتے تھے۔آجکل بہت کم استعمال رہ گیا ہے۔‘‘
پھر مولانہ عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ ’’آجکل تو مفاہمہ،تفہیم وغیرہ ہی بولتے ہیں۔‘‘
عربی زبان کی وسعت اور اسلام کی تائید اس کے بعد اسی سلسلے میں حضرت ؑ نے فرمایا:کہ
’’عربی زبان بہت وسیع ہے اور ہر قسم کی اصلاحیں اس میں موجود ہیں اور تصنیفات اس قدر سے ہو رہی ہیں کہ جن کا علم بجز خدا کے اور کسی کو نہیں ہو سکتا۔صرف حدیث ہی کو دیکھو کہ کوئی کامل طور پر دعویی نہیں کر سکتا کہ اس نے علم حدیث کی کل کتابوں کو دیکھا ہو۔‘‘
پھر مولانا عبدالاکریم صاحب نے علی سبیل الذکر فرمایا کہ’’حال ہی میں مولوی نور الدین صاحب کے پاس مصر سے کتب خانہ خدیویہ کی ایک فہرست سات جلدوں میں آئی ہے۔وہ فہرست ایسے طور پر مرتب کی گئی ہے کہ اس کو پڑھ کر بھی مزہ آتا ہے۔ایسے ڈھنگ سے کتابوں پر نمبر دئے ہیں کہ ایک بالکل اجنبی بھی اگر لائبریری چلا جائے،تو وہ بلا تکلف عین کتا ب پر ہاتھ ڈالے گا؛بشرطیکہ ایک بار اس نے فہرست کو دیکھا ہو۔‘‘
اس پر حضرت اقدسؑ نے پوچھا کہ’’وہ کتابیں باہر جا سکتیں ہیں؟‘‘
’’مولوی صاحب نے فرمایا۔’’ہاں۔وہ لائبریریاں ایسی نہیں۔کتابیں نقل ہو سکتیں ہیں۔وغیرہ وغیرہ‘‘
اس پر جناب امام ہمام علیہ السلام نے فرمایاکہ:
’’خدا تعالیٰ نے اسلام کی کس قدر تائید کی ہے۔اگر کوئی نادان اسلام کی تائید الہی کا انکار کرتا ہے،تو اسے ماننا پڑے گا کہ کبھی بھی دنیا میں خدا نے کسی کی تائید نہیں کی۔زبان کا اس قدر وسیع ہونا اور پھر اس میں اس قدر کثرت کے ساتھ تصنیفات کا ہونا بھی اسلام ہی کی تائید ہے؛کیونکہ قرآن شریف ہی کی تائید ہوتی ہے۔کوئی اہل لغت جب کسی لفظ کے معنے لکھتا ہے،تو اگر وہ لفظ قرآن مجید میں آیا ہے،تو ساتھ ہی اس نے وہ آیت بھی لکھ دی ہے۔‘‘
یہان مولانہ عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ’’لسان العرب نے تو یہ طریق لازمی طور پر رکھا ہے۔‘‘پھر حضرتؑ نے اپنے سلسلہ تقریر میں فرمایا کہ :
’’سنسکرت وغیرہ زبانیں تو تقریبا مردہ ہو گئی ہیں ۔نہ ان میں تصنیفات ہیں نہ کچھ اور۔ایسا ہی عیسائیوں کا حال ہے کہ ان کی انجیل کو اصلی زبان کی طرف توجہ ہی نہیں رہی۔‘‘
اسلام کا پیدا کردہ روحانہ انقلاب پھر اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا:
’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پھر اسلام سے کیوں پر
خاش رکھی جاتی ہے۔اسلام کا خد اکوئی مصنوعی خدا نہیں،بلکہ وہی قادر خدا ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور پھر رسالت کی طرف دیکھو کہ اصل غرض رسالت کی کیا ہوتی ہے؟
اول یہ کہ رسول ضرورت کے وقت آئے اور پھر اس ضرورت کو بوجہ احسن پورا کرے۔سو یہ فخر بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسل ہی کو حاصل ہے۔عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آئے۔کسی سے پوشیدہ نہیں۔بالکل وحشی تھے۔کھانے پینے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے۔نہ حقوق العباد سے آشنا،نہ حقوق اللہ سے آگاہ۔چنانچہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ا ن کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ یاکلون کما تا کل لانعام(محمد:۱۳)پھر رسول پاک کی تعلیم نے ایسا اثر کیا یبیتون لربھم سجدا وقیاماً(الفرقان:۶۵)کی حالت ہو گئی۔یعنی اپنے رب کی تیاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے۔اللہ!اللہ!!کس قدر فضیلت ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سبب سے ایک بینظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہو گئی۔حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کر دیا اور مردا خور اور مردہ قوم کو ایک اعلیٰ درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنا دیا۔دونوں ہی خوبیاں ہوتیں ہیں۔علمی یا عملی۔عملی حالت کا تو یہ حال ہے کہ یبیتون لربھم سجدا وقیاماً(الفرقان:۶۵)اور علمی کا یہ حال ہے کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
دوسری طرف جب عیسائیوں کو دیکھتا ہوں،تو مجھے حیران ہی ہونا پڑتا ہے کہ حواریوں نے عیسائی ہو کر کیا ترقی کی۔یہود اہ اسکریوطی جو یسوع کا خزانچی تھا۔کبھی کبھی تغلب بھی کر لیا کرتا تھا اور تیس روپے لے کر استاد کو پکڑوانا تو اس کا ظاہرہی ہے۔یسوع کی تھیلی میں دو ہزار روپیہ رہا کرتا تھے۔ایک طرف تو ان کا یہ حال ہے بالمقابل رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ حال کہ بوقت وفات پوچھا کہ کیا گھرمیں کچھ ہے۔جناب عائشہؓ نے فرمایا کہ ایک دینار ہے۔حضور نے فرمایا کہ اس کو تقسیم کر دو۔کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ کا رسول خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرے اور گھر میں کچھ دینار چھوڑ جاوے۔
مجھے تو حیران ہی ہونا پڑتا ہے کہ عیسائی لوگ فلسفہ فلسفہ پکارتے ہیں۔ان کی الہیات کی فلسفی خدا جانے کہاں گئی۔کفارہ ہی کو دیکھو ۔ایک تصوری جانور کی طرح ہے۔کفارہ نے کیا بنایا۔علمی دلائل کو چھوڑ دیا جاوے۔تو بھی دیکھو کہ حواریوں کی نہ تو علمی اصلاح ہوئی اور نہ عملی۔علمی اصلاح کے لئے تو خود انجیل نے فیصلہ کر دیا کیہ وہ موٹی عقل والے تھیاور کم فہم اور لالچی تھے اور عملی اصلاح کا خاکہ بھی انجیل ہی نے کھینچ کر دکھلا دیا کہ کوئی لعنتیں بھیجتا ہے اور کوئی تیس روپے پر پکڑواتا ہے اور کیا کچھ گناہ کے آثار ۔تاریکی اور ظلمت تو اس دنیا ہی میں شروع ہو جاتی ہے۔جیسے فرمایا من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی(بنی اسرائیل:۷۳)اب یسوع کے شاگردوں کو دیکھو کہ کیا ان کی حالت میں تبدیلی ہوئی۔گناہ کے دور ہونے سے تو ایک قسم کی بصیرت اور روشنی پیدا ہوتی ہے،مگر ان میں کہاں۔پھر کفارہ نے کیا بنایا۔‘‘
۲۶ستمبر۱۸۹۸؁ء
کامیابی کی بشارت ۲۶ ستمبر کی صبح کو نماز فجرحضرت اقدس نے فرمایا :کہ
’’اب میری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی خواب بھی آتا
ہے،تو میں اسے اپنی ذات یا نفس سے مخصوص نہیں سمجھتا،بلکہ اسلام اور اپنی جماعت ہی کے متعلق سمجھتا ہوں اور میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اپنے نفس کا ذرا بھی خیال نہیں ہوتا۔چنانچہ تار میں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا۔اس کی حلاوت اس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی۔باینہمہ میں اس کو پئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے۔اتنا میٹھا اور کثیر شربت میں کیوں پی رہا ہوں۔مگر اس پربھی میں اس پیالے کو پی گیا۔شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بشارت ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جس قدر تعلقات انسان کے وسیع ہوتے جاتے ہیں،اسی قدر سلسلہ اس کے خواب کا بلحاظ تعلقات وسیع ہوتا جاتا ہے۔مثلاً اگر کلکتہ کا کوئی ایسا شخص ہو ،جس کو ہم جانتے بھی نہیں،تو اس کے متعلق کوئی خواب بھی نہ آئے گی؛چنانچہ کئی سال پہلے جب مجھے صرف چند آدمی جانتے تھے،اس وقت جو خواب آئی تھی وہ ان تک ہی محدود تھی اور اب کئی ہزار سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
ادویات کے متعلق سلسلہ گفتگو کا چل پڑا اور وہ اس تقریب پر کہ مولوی عبدالکریم صاحب کو کوئی دوا حضرت اقدس نے شب گذشتہ کو دی تھی۔اس کے اثر کے متعلق حضرت نے دریافت فرمایا ۔اسی ضمن میں ایسٹرن سیرپ اور کچلہ وغیرہ پر مختلف ذکر ہوتا رہا اور ان کے خواص میں سے اعصاب کی تقویت کا تذکرہ ہوا ۔
عربی زبان کے کمالات جس پر حضرت اقدس کو مولانا عبدالکریم صاحب نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ عصب کے لفظ مین فلاسفی بھری ہوئی ہے۔
کیونکہ عصب کے معنی ہیں باندھنا اور پٹھے بھی انسان کے عضاء کو رسیوں کی طرح باندھے رکھتے ہیں اور بالمقابل نرو((nerveکے لفظ میں بجز لفظ کے کچھ نہیں۔اس پر حضرت نے فرمایا:
’’یہ بھی رسول اکرم کا معجزہ ہے کہ الفاظ کے اندر علمی باتیں بھری ہوئی ہیں اور عربی زبان اس لئے خاتم الاسنہ ہے۔چونکہ قرآن جیسا عظیم الشان معجزہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیا،اس لئے اس کی عظمت علمی پہلو سے بہت بڑی ہے۔‘‘
پھر اس کے ضمن میںمنن الرحمن کی اشاعت کے متعلق تذکرہ ہوتا رہا۔حضرتؑ نے فرمایا کہ ’’بعض اسباب اور سامان کے بہم پہنچ جانے پر جو اس کے لئے ضروری ہیں،شائع ہو گئی۔‘‘
اپنی صداقت پر چار قسم کے نشانات
پھر اسی ذکر میں آپ نے فرمایا:’’میں نے بار ہا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے نشان مجھے دئے ہیں۔جن کو میں نے بڑے دعوے کے ساتھ متعدد بار لکھا اور شائع کیا ہے۔‘‘
اول۔عربی دانی کا نشان ہے۔اور یہ اس وقت سے مجھے ملاہے،جب سے کہ محمد حسیب بٹالوی صاحب نے یہ لکھا کہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا؛حالانکہ ہم نے پہلے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے۔جو لوگ عربی املاء اور منشاء میں پڑے ہیں وہ اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیںاور اس کی خوبیوں ک الحاظ رکھ سکتے ہیں۔مولوی صاحب (مولوی عبدالکریم صاحب سے مراد تھی)شروع سے دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اعجازی طور پر مدد دی ہے۔بڑی مشکل آکر پڑتی ہے۔جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا،تو اس وقت اللہ تعالیٰ وہ الفاظ القاء کرتا ہے۔نئی اور بناوٹی زبان با لینا آسان ہے،مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے۔پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قرار انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو،مدد لے لو اور خوا اہل زبان بھی بلا لو۔مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ ہر گز قادر نہیں ہو سکتے،کیونکہ یہ نشان قرآن مجید کے خوارق میں ظلی طور پر مجھے دیا گیا ہے۔
دوم۔ دعاوں کاقبول ہونا۔میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیںقبول ہوئی ہیں۔ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تو مستثنیٰ کرتا ہوں۔(کیونکہ ان کے طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے)اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی۔میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار یا دو لاکھ یا کتنی اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے۔
تیسرا۔نشان پیش گوئیوں کا ہے یعنی اظہار علی الغیب۔یوں تو نجومی اور رمال لوگ بھی اٹکل بازیوں سے بعض باتین ایسی کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹھیک ہوتا ہے اور ایسا ہی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں بھی کاہن لوگ تھے جو غیب کی خبریں بتلاتے تھے؛چنانچہ سطیح بھی ایک کاہن تھا،مگر ان اٹکل باز رماوں اور کاہنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور ملہم کے اظہار گیب میں فرق ہوتا ہے کہ ملہم اظہار غیب اپنے اندر الہی طاقت اور خدائی ہیبت رکھتا ہے؛چنانچہ قرآن پاک نے صاف فرمایا ہے کہ لا یظھر علے غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول(الجن:۲۷،۲۸)یہاں اظہار کا لفظ ہی طاہر کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک شوکت اور قوت ہوتی ہے۔
چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے،کیونکہ معقرف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے،جس کی تطہیر ہو چکی ہے۔لا یمسہ الا المطھرون(الواقعہ:۸۰)میں نے کئی بار کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں۔پھر مقابلہ کر لیا جاوے،مگر کسی نے جرات نہیں کی۔محمد حسین وغیرہ نے تویہ کہہ دیا کہ ان کو عربی کا صیغہ نہیں آتا اور جب کتابیں پیش کی گئیں تو بودے اور رکیک عذر کر کے ٹال دیا کہ یہ عربی تو اروی کچالوہے ،مگر یہ نہ ہو سکا کہ ایک صفحہ ہی بنا کر پیش کردیتا اور دکھا دیتا کہ عربی یہ ہے۔
غرض یہ چار نشان ہیں جو خاص طور پر میری صداقت کے لیے مجھے ملے ہیں ؎ ؛
۳اکتوبر ۱۸۹۸؁ء
ایک رویاء ۳اکتوبرکی صبح کو بعد نماز فجر فرمایا:کہ
ِرات کو بعد تہجد لیٹ گیا تو تھوڑی سی غنودگی کے بعد دیکھا کہ میرے ہاتھ میں
’’سرمہ چشم آریہ‘‘کے چارورق ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ آریہ لوگ اب خود اس کیاب کو چھپوارہے ہیں۔‘‘تعبیر میں فرمایاکہ ’’شاید اس سے یہ مراد ہو کہ آریہؔلوگوں کو جو بعض حجاب اور وساوس ہماری پیشگوئیوں متعلقہ لیکھرام وغیرہ کے متعلق ہیں۔وہ دور ہو جاویں۔اور ان پر اصل حقیقت کا انکشاف ہو جاوے۔مقدمہ کلارک میں رامؔ بھجدت وکیل آریہ تھا۔جب امرت سر کے سٹیشن پر مجھ سے ملا،تو اس نے صاف کہا کہ میں بلافیس اس مقدمہ میں اس لیے گیا تھا کہ شاید قتل لیکھرامؔ کا کوئی سراغ ملے،کیونکہ اس کے قتل یقین ہم کو آپ پر تھا۔ایسا ہی اور اقوام کو ایسا خیال ہو سکتا ہے۔پس اس خواب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالی ان پر اصل حقیقت کھول کر حجتّ ملزمہ قائم کردے۔‘‘ پھر فرمایا کہ’’پٹی والے جو اشتہاردکھائے گئے تھے،اس میں بھی یہی تھا کہ وہ لوگ خود چھپوارہے ہیں۔‘‘
پیشگوئی کی عظمت اس پر مولانہ مولوی نورالدیّن صاحبؓ نے فرمایا کہ جب وہ امر پورا ہوگا۔جس قدر عظمت اور قدر ہم کو ہوگی اور لوگوں کو کہاں۔ہم تو دیکھتے ہیں
کہ کیسے مشکلات درپیش ہیں۔حضرتؑ نے فرمایا۔کہ
’’بیشک صرف اسی میں نہیں بلکہ ہردعا اور پیشگوئی کی عظمت اور قبولیت میں یہی حال ہوتا ہے۔مثلاً اگر کسی لق ودق میدان میں جہاں ہزارہاکوس تک پانی نہیں ملتا۔کوئی شخص دعا کرے اور خداتعالی اپنے فضل سے اسے پانی کا پیالہ عطا کرے تو اس امرکو مجمل طور پر ان ،مشکلات اور لوازمات کو نظر انداز کر کے بیان کیا جاوے۔تو لوگ جو کل حالات پر آگاہ نہیں ،بجائے عظمت کے ہنسی کریں ۔مگر جب مشکلات سے واقف ہوں،تو پھر ایک خاص عظمت اور ہیبت سے اس کو دیکھیں گے۔ایسا ہی اگر کوئی ناخواندہ او راُمیّ آدمی انگریزی کی کتاب پڑھ جاوے،تو اس کی اُمیّت سے واقف لوگ اسے عظمت کی نگاہ سے دیکھیں گے،مگر ایک ایمؔ۔اے اوربیؔ۔اے اگر اس کتاب کو پڑھ جاؤے تو چنداں کیا،بالکل وقعت نہ دیں گے ،معمولی امر خیال کریں گے۔
غرض ہر ایک امر کہ عظمت اور عدم عظمت اس کے حصول کے لوازمات اور مشکلات پر ہوتی ہے۔‘‘
تیس ہزار دعائوں کی قبولیّت پھر فرمایاکہ
’’لوگ اس امر کو بھی جھوٹ جانیں گے۔جو ہم نے لکھ دیا
ہے کہ میری تیس ہزاردعائیں کم از کم قبول ہوئی ہیں،مگر میرا خدا خواب جانتا ہے کہ سچ ہے اور اس میں ذرابھی جھوٹ نہیں ۔کیونکہ ہر ایک کام کے لیے خواہ دینی ہویا دنیوی ۔دعاکی گئی ہے اور اللہ تعالی نے اسے موزو ن اورطیّب بنا دیا ہے۔‘‘
عربی تصنیفات میں دعا کے اثرات عربی تصنیفات میں ایک ایک لفظ دعا ہی کا اثر ہے؛ورنہ انسانی طاقت کا کام نہیں کہ تحدّی کرے۔
اگر دعا کا اثر نہیں تو پھر کیوں کوئی مولوی یا اہل زبان دم نہیں مار سکتا۔یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ اہل زبان کے رنگ اور محارہ پر ہماری کتب تصنیف ہوئی ہیں؛ورنہ اہل زبان بھی سارے اس پر قادر نہیں ہوتے کہ کل مسلم محاورات زبان پر اطلاع رکھتے ہوں پس یہ خداہی کا فضل ہے۔‘‘
۲جنوری ۱۸۹۹ء؁
رسالہ کشف الغطاء کی تصنیف کا مقصد ۸بجے دن کے حضرت اقدس امام ہمامؑ ایک کثیر التعداداحباب کے ہمراہ سیر کو تشریف لے
گئے۔ اثنائے راہ میں فرمایا:
’’یہ تکالیف اور ایذائیں جو مخالف کبھی بدزبانیوں کے رنگ میںجھوٹ اور افتراء سے بھرے ہوئے اشتہاروں کے ذریعے اور کبھی گورنمنٹ اور حکومت کو خلاف واقعہ اور محض جھوٹی باتوں کے بیان کرنے سے بدظن کر کے ہم کو پہنچاتے ہیں۔اگر ہماری اپنی ہی ذات تک محدود اور مخصوص ہوتیں،تو خدا بہتر جانتاہے کہ ہم کو ذرا بھی خیال نہ ہوتا ،کیونکہ ہم تو قربانی کے بکرے کی طرح اللہ تعالی کی راہ میں ہر وقت تیار ہیں،مگر اس کا اثر ہماری قوم پرپہنچتا ہے۔اور بعض لوگ ابھی ایسے کمزور بھی ہیں جو ابتلابرداشت نہیں کر سکتے،اس لیے ہم نے مناسب سمجھاہے کہ ان کا حالات کو چھاپ کر گورنمنٹ کے پاس بھیج دیں،کیونکہ اگر ہم خاموش رہیں تو ادھر مخالف ریشہ دوانیاںکرتے ہیں۔پھر اس کا اثر اچھا نہیں پڑتا۔چونکہ ہمارے دل صاف ہیں اور ہم بدباطن لوگوں کی طرح نفاق اور مداہنت سے کام نہیں لیتے اس لیے ہم کا کامل امید ہے کہ یہ رسالہ کشف الغطاء گورنمنٹ عالیہ کو ہمارے حالات اور ہمارے تعلقات سے اطلاع دے گا اورہمارے ہر دوست کے پاس بطور سارٹیفیکٹ کے رہے گا۔‘‘
۵ جنوری۱۸۹۹؁ء
مہر نبوت کی اصل حقیقت بعد نماز صبح مولوی قطب الدین صاحب ساکن بدو ملہی نے سوال کیا کہ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کتقین مبارک
کے درمیان جو مہر نبوت بتلائی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ رسولی کی طرح تھی۔اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟‘‘
’’فرمایا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مہر بنوت کے متعلق جو اعتراض کیا جاتا ہے۔ہمارے خیال میںیہ بالکل غلط بات ہے،مگر میں یہ بات اپنے سچے جوش اور اخلاص سے کہتا ہوں کہ میرا ایمان یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کسی نشان نبوت کو رسولی وغیرہ الفاظ سے نسبت دینا ایک مومن اور سچے مسلمان کا کام نہیں ۔یہ گستاخی اور شوخی ہے۔جو کفر کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ہم کو ایسے معاملات میں زیادہ تفتیش اور چھان بین کی ضرورت نہیں کہ وہ مہر نبوت کیا تھی؟اور کیسی تھی؟کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانات بین اور واضح طور پررکھے تھے۔ان میں سے ایک مہر نبوت بھی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وجود باجود سے انبیاء علیہم السلام کو ایسی ہی نسبت ہے جیسی کہ ہلال کو بدر سے ہوتی ہے۔ہلال کا وجود ایک تاریکی میں ہوتا ہے،لیکن جب وہ اپنے کمال کو پہنچ کر بدر بن جاتا ہے،تو وہ بدر اپنی پہلی حالت ہلال کا مثبت اور مصدق ہو جاتا ہے۔پس یقیناً سمجھو کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ آتے تو پہلے نبی اور ان کی نبوتوں کے پہلو مخفی رہتے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مسیح علیہ السلام پر احسان اب سوچو اور بتلاو کہ کیا موجودہ انا جیل سے
انسان طریق توحید کا پتہ لگا سکتا ہے۔کیسی حیران کر دینے والی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا نبی اس کی توحید کو قائم کرنے کے لئے آیا کرتا ہے یا اپنی خدائی منوانے؟پس اب موجودہ انجیل نے یہی نہیں کہ طریق توحید کو گم کر دیا ہے۔بلکہ ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور نبوت کو اڑا دیا ہے اور چہ جائیکہ وہ خدایا ابن خدا بنتے۔ان کو نبی کے درجے سے بھی گرا کر معاذ اللہ بہت برے درجے کا آدمی بنا دیا۔مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ذات نے آکر ان کی تعلیم کو زندہ کیا اور خودمسیح کی اپنی ذات اور وجود کے لئے مسیحائی کی کہ اس کو مردوںسے نکال کر اس زندگی میں داخل کیا،جو اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ بندوں اور رسولوں کو دی جاتی ہے۔
اسلام کی برتری تعلیم وہی کامل ہو سکتی ہے جو انسانی قویٰ کی پوری مربی اور متکفل ہو۔نہ یہ کہ ایک ہی پہلو پر واقع ہوئی ہو۔انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ وہ کیا کہتی ہے اور
اس کے بالمقابل قویٰ کیا تعلیم دیتے ہیں؟انسانی قویٰ اور فطرت خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب ہے ۔پس اس کی قولی کتاب،جو کتاب اللہ کہلاتی ہے یا اسے تعلیم الہی کہو۔اس کی ساخت اور بناوٹ کے مخالف اور متضاد کیوں کر ہو گی۔اسی طرح پر اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ آتے ،تو انبیاء سابقین کے اخلاق،ہدایات،معجزات اور قوت قدسیہ پر اعتراض ہوتے،مگر حضور نے آکر ان سب کو پاک ٹھہرایا۔اس لئے آپ کی نبوت کے نشانات سورج سے زیادہ روشن ہیں اور بے انتہا اور بے شمار ہین۔پس آپ کی نبوت یا نشانات نبوت پر اعتراض کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ دن چڑھا ہوا ہو اور کوئی احمق نابینا کہہ دے کہ ابھی تو رات ہی ہے۔میں پھر کہتا ہوں کہ دوسرے مذاہب تاریکی ہی میں رہتے ہیں،اگر اب تک رسول اکرم نہ آتے ،ایمان تباہ ہو جاتا اور زمین *** اور عذاب الہی سے تباہ ہو جاتی ۔اسلام شمع کی طرح منور ہے جس نے دوسروں کو بھی تاریکی سے نکالا ہے۔توریت کو پڑھو تو بہشت اور دوزخ کا پتہ ہی ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔انجیل کو دیکھو تو توحید کا نشان ہی نہیں ملتا۔اب بتلاو کہ اس میں تو شک نہیں کہ یہ دونوں کتابیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تھیں اور ہیں۔لیکن ان میں کون سی روشنی مل سکتی ہے۔سچی روشنی اور حقیقی نور جو نجات کے لئے مطلوب ہے،وہ اسلام ہی میں ہے۔توحید ہی کو دیکھو کہ جہاں سے قرآن کو کھولو وہ ایک شمشیر برہنہ نظر آتا ہے کہ شرک کی جڑ کاٹ رہا ہے۔ایسا ہی نبوت کے تمام پہلو ایسے صاف اور روشن نظر آتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر ممکن نہیں۔
ختم نبوت کی حقیقت ختم نبوت کو یوں سمجھ سکتے ہین کہ جہاں پر دلائل اور معرفت طبعی طور پر ختم ہوجاتے ہیں،وہ وہی حد ہے جس کو ختم نبوت کے نام سے
مسموم کیا گیا ہے۔اس کے بعد ملحدوں کی طرح نکتہ چینی کرنا بے ایمانوں کا کام ہے۔ہر بات مین بینات ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا معرفت کاملہ اور نور بصر پر موقوف ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری سے ایمان اور عرفان کی تکمیل ہوئی۔دوسری قوموں کو روشنی پہنچی۔کسی اور قوم کو روشن اور بین شریعت نہیں ملی۔اگر ملتی تو کیا وہ عرب پر کچھ بھی اپنا اثر نہ ڈال سکتی۔عرب سے وہ آفتاب نکلا کہ اس نے ہر قوم کو روشن کیا اور ہر بستی پر اپنا نور ڈالا۔یہ قرآن کریم ہی کو فخر حاصل ہے کہ وہ توحید اور نبوت کے مسئلے میں کل دنیا کے مذاہب پر فتحیاب ہو سکتا ہے۔یہ فخر کا مقام ہے کہ ایسی کتاب مسلمانوں کو ملی ہے۔جو لوگ حملہ کرتے ہیں اورتعلیم وہدایت اسلام پر معترض ہوتے ہیں۔وہ بالکل کو ر باطنی اور بے ایمانی سے بولتے ہیں۔
تعدد ازدواج کی اجازت مثلاً کثرت ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور
مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے کہ ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو۔ ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہعورتیں کرے۔مثلاً عورت اندھی ہو گئی ہے یا اور کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے ماور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیٰحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی،تو ایسی سورت میں نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو،تو بتلاو کہ کیا اس سے بد کاری اور بد اخلاقی کو ترقی نہ ہو گئی؟پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازواج کو روکتی ہے،تو یقیناً وہ بد کاری اور بد اخلاقی کی موید ہے،لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بد کاری کو دور کرنا چاہتا ہے،اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویان کرے۔ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے،بلکہ ایسی سورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں،پس جس قدر غور کرو گے یہ مسلہ صاف اور روشن نظر آئے گا۔عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسلہ پر نکتہ چینی کرے،کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے،تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہو گا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں گستاخیاں جائز نہیں رکھتے ۔علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا۔لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں۔پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے۔
اسلام کی لڑائیاں دفاعی تھیں ایسا ہی دوسرے مسائل غالمی اور جہاد پر بھی ان کے اعتراض درست نہیں؛کیونکہ تورویت میں ایک لمبا سلسلہ
ایسی جنگوں کا چلتا ہے؛حالانکہ اسلام کی لڑائیاںڈیفنسو(دفاعی)تھیں اور وہ صرف دس سال کے اندر ہی ختم ہو گئیں۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ مسائل ان کی کتابوں میں سے نکال سکتا ہوں۔اور ایسا ہی میرا دعویٰ ہے کہ تمام صداقتیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔اگر کوئی مدعی ایسی صداقتین پیش کرے کہ وہ قرآن میں نہیں۔میں اسے نکال کر دکھانے کو تیار ہوں۔ اسلامی شریعت نے وہ مسائل لئے ہیں جو طبعی اور فطرتی طور پر انسان کے لئے مطلوب ہیں اور جو ہر پہلو سے اس کے قویٰ کی تربیت کرتے ہیں۔ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ہاں!اسلام کے جو اعتراض غیر مذہب پر ہیں وہ ان کا جواب نہیں دے سکتے۔
سعید اور شقی کا چہرہ پس میں پھر کہتا ہوں کہ میری باتوں کو استخفاف اور استہزاء کی نظر سے نہ دیکھیں استہزاء سے کفر کا اندیشہ ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیت کا ادب اور
خوف ہونا چاہیے۔ہر ایک عارف ان باتوں کے ہزار ہا جواب دے سکتا ہے۔کیا چہروں میں ایسی علامات نہیں ہوتیں۔جن کو دیکھ کر ہم ایک سعید اور شقی،بد معاش اور خوش اطوار میں تمیز کر سکتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے آپ کا منہ دیکھ کر کہا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں۔اب وہ کونسا نشان تھا جو جھوٹوں میں ہوتا ہے اور آپ میں نہ تھا۔ایک امتیاز تو تھا جس کو بصیرت والال انسان دیکھ سکتا ہے۔ایسا ابلہ اوراحمق کون ہے،جو نیک اور بد کو چہرہ سے دیکھ کر تمیز نہیں کر سکتا۔مومن کا چہرہ اور ہر عضو اس کو ایک امتیاز بخشتا ہے اور اس کے باخدا ہونے پر دلالت کرتا ہے۔پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مہر نبوت میں ایک خصوصیت ہو تو بتلاو اس سے کیا استبعاد لازم آتا ہے۔سب کچھ ممکن ہے۔
صرف امور ایمانی پر ایمان لانا ضروری ہے بالآخر یہ یاد رکھو کہ یہ ایک فروعی بات ہے۔ہم کو ضرورت نہیں ہے کہ ان باتوں
میں پڑیں ۔اصول پر بحث ہونی چاہیے۔اصول کے اثبات پر فرع خود ہی ثابت ہو جاتی ہے ایمان لانا ضروری ہے۔اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں۔دشمن اگر گفتگو کرے،تو ہم اس کو روک سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر،ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں اورا نبیاء علیہم السلام وغیرہ امور ایمانی پر ایمان لا نا ضروری ہے اور ان سب باتوں کا ماننا اصول ہے،اور باقی امور ان پر متفرع ہیں اور یہ سب صفائی کے ساتھ ثابت شدہ صداقتیں ہیں۔تعلیم اسلام ایسی صاف ہے کہ ہر قوت کو اعتدال اور عین محل پر رکھتی اور رتبیت کرتی ہے اور یہ عظیم الشان معجزہ ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا۔دوسری تعلیمیں ایسی نہیں ۔کسی کا ناک نہیں تو کسی کے کان نہیں ہیں۔غرض وہ ناقص اور ادھوری ہیں۔مکمل خلقت تعلیم اسلام ہی کی ہے۔توحید،صفات باری تعالیٰ،نبوت اور اخلاق فاضلہ،تکمیل نفس وغیرہ امور جن کا انسان محتاج ہے۔وہ ایسے کامل اور روشن طور پر بیان ہوئے ہیں کہ ان میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں پڑتی۔باقی امور کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیوں کھاتے تھے؟کتنے بڑے نوالے لیتے تھے۔ان جھگڑوں میں مومن کو پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟مدار نجات ان باتوں پر نہیںہے۔ایسی باتیں جو اثر کے طور پر لکھی گئی ہیں۔اگر وہ نبوت حقی کے خلاف نہیں بلکہ مشابہ ہیں تو ایمان لائیں؛ورنہ تاویل کریں۔کچھ ضرورت نہیں کہ اس پر چناں اور چنیں کر کے لمبی اور فضول باتوں میں پڑیں۔
خاتم النبین کے معنی ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النبین کے بڑے معنی یہی ہیں کہ نوت کے امور کو آدم علیھم السلام سے لے کر
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم کیا۔یہ موٹے اور ظاہر معنی ہیں۔دوسرے یہ معنی ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہو گیا۔یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہو گئی،اس لئے الیوم اکملت لکم دینکم(المائدہ:۴)کا مصداق اسلام ہوگیا۔غرض یہ نشانات نبوت ہیں۔ان کی کیفیّت اور کنہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اصول صاف اور روشن ہیں اور وہ ثابت شدہ صداقتیں کہلاتی ہیں۔ان باتوں میں پڑنا مومن کو ضروری نہیں۔ایمان لانا ضروری ہے۔اگر کوئی مخالف اعتراض کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں ۔اگر وہ بند نہ ہو تو ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے اپنے جزوی مسائل کا ثبوت دے۔الغرض مہر نبوؔ ت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات نبوت میں سے ایک نشان ہے ،جس پر ایمان لانا ہر مسلمان مومن کو ضروری ہے۔ ؎ ۱
۵جنوری ۱۸۹۹ء؁
قبر سے روح کا تعلق (سوال مولوی قطب الدین صاحب)’’روح کا جو تعلق قبور سے بتلایا گیا ہے۔اس کی اصلیت کیا ہے؟‘‘
فرمایا:’’اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں آیا ہے،وہ بالکل سچ اور درست ہے۔ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کنہ کیا ہے؟جس کو معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں؛البتہ یہ ہمارا فرض ہو سکتا ہے کہ ہم یہ ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کو ئی محال عقلی لازم نہیں آتا۔
اور اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں۔درحقیقت یہ امر اسی قسم کا ہے،جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض امور کی سچائی اور حقیقت صرف زبان ہی سے معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کر کے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے رکھے ہیں ۔بعض خواص آنکھ کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتہ صرف کان لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ حص مشترک سے ان کا سراغ چلتا ہے اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قویٰ یعنی دل سے معلوم ہوتی ہیں۔غرض اللہ تعالیٰ نے صداقت معلوم کرنے کے لئے مختلف طریق اور ذریعے رکھے ہیں۔مثلا ً مصری کی ایک ڈلی کو کان پر رکھیں،تو اس کا مزہ معلوم نہیں کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتلا سکیں گے۔ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے،تو وہ اس کے ذائقہ کہ متعلق کچھ نہیں کہہ سکے گی۔اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے مختلف قویٰ اور طاقتیں ہیں۔اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو،تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں،تو کب ممکن ہے۔آجکل کے فلسفی مزاج لوگوں کو یہ بڑا دھوکہ لگا ہوا ہے کہ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے کسی صداقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔روز مرہ کے کاموں میں دیکھا جاتا ہے کہ سب کام ایک شخص نہیں کرتا بلکہ جدا گانہ خدمتیں مقرر ہیں۔سقہ پانی لاتا ہے۔دھوبی کپڑے صاف کرتا ہے،اورباورچی کھا نا پکاتا ہے ۔غرضیکہ تقسیم محنت کا سلسلہ ہم انسان کے خود ساختہ نظام میں بھی پاتے ہیں۔پس اس اصل کو یاد رکھیں کہ مختلف قوتوں کے مختلف کام ہیں۔انسان بڑے قوی لے کر آیا ہے اور طرح طرح کی خدمتیں اس کی تکمیل کے لئے ہر ایک قوت کے سپرد ہیں۔نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ اپنی عقلِ خام سے چاہتا ہے ؛ حالانکہ یہ بات غلط محض ہے۔ تاریخی اُمور توتاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربۂ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا۔ امورِ قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی۔ اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں۔ انسان دھوکہ میں مبتلا ہوکر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہوجاتا ہے جب کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف اُمور کی تکمیل کاذریعہ قراردے لیتاہے۔ مَیں اس اُصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا، کیونکہ ذرا سے فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روز مرّہ ہم ان باتوں کی سچائی دیکھتے ہیں۔ پس جب رُوح جسم سے مفارقت کرتی ہے یا تعلق پکڑتی ہے، تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہوسکتا۔ اگرایسا ہوتاتوفلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلانہ ہوتے۔
رُوح کے متعلق علوم چشمۂ نبوت سے ملتے ہیں اسی طرح قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے۔ یہ ایک صداقت
تو ہے، مگر اس کا پتہ دینااس آنکھ کا کام نہیں۔یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وُہ دکھلاتی ہے۔ اگر محض عقل سے اس کا پتہ لگانا چاہوتو کوئی عقل کا پُتلا اتنا ہی بتلائے کہ رُوح کا وجُود بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار ہا فلاسفردہریہ مزاج موجود ہیں جو منکرہیں۔اگر نری عقل کا یہ کام تھا، توپھر اختلاف کاکیا کام؟ ہزار اختلاف کا کیاکام؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے، تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کودیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجودبھی یقینی طور پر نہیں بتلاسکتی؛ چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کرسکے۔ فلاسفر تو روح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور رُوح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں۔ یہ تفاسیررُوح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمۂ نوبت سے ملی ہیں اور نِرے عقل والے تو دعویٰ ہی نہیں کرسکتے ۔ اگرکہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یادرکھو کہ اُنہوں نے منقولی طور پر چشمۂ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے۔ پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ رُوح کے متعلق علوم چشمۂ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امرکہ ارواح کا قبورکے ساتھ تعلق ہوت اہے، اُسی چشم سے دیکھناچاہیے اورکشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تودۂ خاک سے رُوح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السلام علیکم یااھل القبور کہنے سے جواب ملتا ہے۔ پس جو آدمی ان قویٰ سے کام لے جن سے کشفِ قبور ہوسکتا ہے، وہ اُن تعلقات کودیکھ سکتا ہے۔
ہم ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور مصری کی ڈلی رکھی ہو۔اب عقل محض ان پر کیا فتویٰ دے سکے گی۔ ہاں اگر اُن کو چکھیں گے، تو جُدا گانہ مزوں سے معلوم ہوجاوے گا کہ یہ نمک ہ اور وہ مصری ہے، لیکن اگر حسِ لِسان ہی نہیں تو نمکین اور شیریں کا فیصلہ کوئی کیا کرے گا؟ پس ہمارا کام صرف دلائل سے سمجھا دینا ہے۔ آفتاب کے چڑھنے میں جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آسکتا اور ایک مسلوب القوۃ کے طریقِ استدلال سے فائدہ نہ اٹھانے سے اس کا ابطال نہیں ۔ اسی طرح پر اگر کوئی شخص کشفی آنکھ نہیں رکھتا، تو وہ اُس تعلقِ ارواح کو کیونکردیکھ سکتا ہے؟ پس محض اس لیے کہ وُہ دیکھ نہیں سکتا، اس کا انکار جائزنہیں ہے۔ ایسی باتوں کا پتہ نِری عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس لیے انسان کو مختلف قویٰ دیئے ہیں۔ اگر ایک ہی سب کام دیتا تو پھر اس قدر قویٰ کے عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بعض کا تعلق آنکھ سے ہے اور بعض کا کان سے بعض زبان سے متعلق ہیں اور بعض ناک سے مختلف قسم کی حِسیّں انسان رکھتا ہے۔ قبور کے ساتھ تعلقِ ارواح دیکھنے کے لئے کشفی قوت اور حسِ کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، تو وہ غلط کہتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑ ہا اولیاء وصُلحاکا سلسلہ دُنیا میں گذرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بیشمار لوگ ہوگذرے ہیں اور وہ سب اس امرکی زندہ شہادت ہیں۔ گو اس کی اصلیت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کرسکیں یا نہ، مگر نفسِ تعلق سے انکار نہیں ہو سکتا۔ غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کیے دیتے ہیں۔ کان اگر نہ دیکھ سکیں تو ان کا کیا قصور؟وہ اور قوت کا کام ہے۔ ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ رُوح کا تعلق قبرکے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ انسان میت سے کلام کرسکتاہے رُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتاہے،جہاں اس کے لئے ایک مقام ملتا ہے۔مَیں پھر کہتاہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے۔ ہندوئوں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے۔ یہ مسئلہ عام طور پرمسلّمہ مسئلہ ہے۔ بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے رُوح کرتاہے اور یہ امر کہ کس جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلادے گی۔ جیالوجسٹ(عالمِ علم طبقات الارض) بتلادیتے ہیں کہ یہاں فلاح دھات ہے اور وہاں فلاں کان ہے۔ دیکھوان میں یہ ایک قوت ہوتی ہے جوفی الفور بتلادیتی ہے۔ پس یہ بات ایک سچی بات ہے کہ ارواح کا تعلق قبورسے ضرور ہوتاہے۔ یہاںتک کہ اہل کشف توجہ سے میت کے ساتھ کلام بھی کرسکتے ہیں اور اوہام اور اعتراضوں کا سلسلہ تو ایسالمباہے کہ ختم ہی ہیں ہوتا۔۱؎
دُعا کی برکات ’’اگردُعا نہ ہوتی، تو کوئی انسنا خداشناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا۔ دُعا سے الہام ملتا ہے۔ دُعا سے ہم خداتعالیٰ سے کلام کرتے ہیں۔
جب انسان اخلاص ور توحید اور محبت اور صدق اور صفاکے قدم سے دُعاکرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے۔ تب وُہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔‘‘
مُبارک وہ جو سمجھے ’’خدا سے صُلح کرو۔ سچی پرہیزگاری سے کام لو۔ آسمان اپنے غیر معلولی حوادث سے ڈرارہا ہے۔ زمین بیماریوں سے انذار کررہی ہے۔مبارک
وُہ جو سمجھے۔۱؎ (حضرت مسیح موعود ؑ)
۲۶؍جنوری ۱۸۹۹؁ء
ایڈیٹرصاحب اخبارالحکم لکھتے ہیں۔ جب لیل (دھاریوال کے پا س ایک گائوں ہے) جہاں حضرت اقدس ؑ نے بغرض پیروی مقدمہ ضمانت برائے حفظِ امن منجانب مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، دھاریوال تشریف لے جاتے ہوئے قیام فرمایا تھا۔(مرتب) سے روانہ ہوکر کھنڈہ(جہاں حضرت اقدس ؑ تشریف فرماتے تھے۔(مرتب)آپہنچے۔ تو حضر ت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہے ۔ چونکہ سُنایا گیا کہ محمدحسین بھی وہیں اُترنے والا تھا۔ اس لیے اچھا ہوا کہ ہم وہاں نہیں ٹھہرے۔ ایسے لوگوں سے دُور ہی رہنا اچھا ہے۔‘‘
ّنوٹ از مرتب) تبدیلِ فردوگاہ کا باعث یہ ہوا کہ حضرت اقدس ؑ بسواری پالکی روانہ ہوئے تھے اور حضرت مولانا نورالدین صاحب ؒ۔ اور چند اور دوست بٹالہ کے راستہ سے گاڑی پرسوار ہوئے تھے اور یہ امر مقررشدہ تھا کہ مقامِ نزول لیل ہی ہوگا، مگر حضرتِ اقدس ؑ کو راستہ میں رانی ایشرکور(سکنہ دھام ۔ سردار جیمل سنگھ کی بیوہ بہو) کا خاص آدمی پیغام لے کر ملا کہ آپؑ میرے ہاں قیام فرماویں؛ چنانچہ حضرتِ اقدس ؑ نے اس کا پیغام منظورفرمالیا اور وہیں قیام فرماہوئے، مگر گاڑی والے دوستوں کو اطلاع نہ ہوئی، اس لیے وہ لیل ہی پہنچے۔ بعد میں حضرتِ اقدس ؑ کے بُلوانے پر سب وہیں اکٹھے ہوگئے۔)
غیرمسلم کی دعوت اور نذر تھوڑی دیر کے بعدرانی ایشر کور نے اپنے اہلکاروں کے ہاتھ ایک تال مصری کا اور ایک باداموں کا بطور نذر پیش کیا اور کہلابھیجا،
بری مہربانی فرمائی۔ میرے واسطے آپ ؑ کا تشریف لانا ایسا ہے، جیسے سردار جیمل سنگھ آنجہانی کا آنا۔ حضرتِ اقدس ؑ نے نہایت سادگی اور اُس لہجہ میں جو ان لوگوں میں خداداد ہوتا ہے، فرمایاکہ ’’اچھا آپ نے چونکہ دعوت کی ہے ہم یہ نذر بھی لے لیتے ہیں۔‘‘
استقلال کھانا کھاچکنے کے بعد ایک سفید ریش شخص کی بابت عرض کیا گیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔حضرت اقدس ؑ نے نہایت فراخدلی سے فرمایا’’ ہاں‘‘ چنانچہ وُہ شخص پیش ہوا
اور اس نے اپنی درخواست منظوم پیش کی۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ’’استقلال سے اگر طبیب کاعلاج کیاجاوے وہ بہت مہربان ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ فائدہ بھی دیتا ہے۔‘‘
سفر میں روزہ آپ ؐ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ:
’’قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فمن کان منکم مریضاً اوعلی سفر فعدۃ من ایام اخر(سورۃ بقرہ:۱۸۵)یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے،جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں،اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے،تو کوئی حرج نہیں،مگر عدۃمن ایام اخر کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔‘‘
اس پر مولانہ نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ’’یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔‘‘
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایا’’سفر میں تکالیف اٹھا کر انسان جو روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔‘‘
۲۷ جنوری۱۸۹۹؁ء
بعد نماز صبح روانگی کا حکم ہوا۔جب کارخانہ(دھاریوال)کے قریب سے گزرے،تو اس کے متعلق ذکر میں فرمایا:
’’اس کو کسی قوت دیکھنا چاہیے۔دیکھی ہوئی چیز کچھ کام ہی دیتی ہے۔‘‘
ایک شخص نے کہا کہ حضرت میں نے ایک بار دیکھا،تو مجھے خدا تعالیٰ کی قدرت پر عجب جوش آیا اور جبتک میں نے چار رکعت نماز نہ پڑھ لی صبر نہ آیا۔حضرت نے فرمایا:
’’اصل بات یہ ہے کہ میں نے یہ ساری باتیں اس لئے ہیں کہ وہ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے،دیکھو کپڑے تک کو کس قدر طاقتیں دیں ہیںاور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تو ساری طاقتیں اور قوتیں ہیں۔‘‘
حضور کے لئے خیمہ چونکہ نہر پر لگایا گیا تھا۔نہر کو دیکھ کر اور اس کے ارد گرد درختوں کو دیکھ کر فرمایا۔’’بہت اچھی جگہ ہے۔‘‘
۲۶فروری۱۸۹۹؁ء
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ایک لیکچر کی تعریف حضرت مولانہ عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے
لیکچر(موسومہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی)کو حضرت اقدس ؑ نے پڑھا اور ۲۶فروری۱۸۹۹؁ء کو مسجد مبارک میں احباب سے فرمایا:
’’میں چاہتا ہوں کہ اسے ہمارے سب دوست ضرور پڑھیں۔اس لئے کہ اس میں بہت سے نکات لطیفہ ہیں اور یہ نمونہ ہے ایک شخص کی قوت تقریر کا اور اسی منوال پرمخصوصاًہماری جماعت کو مقرر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ ؎ ۱
۱۰مارچ۱۸۹۹؁ء
بلند ہمتی اور شجاعت صبح سیر کو جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
’’ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ہمت اخلاق فاضلہ میں سے ہے اور مومن
بڑا بلند ہمت ہوتا ہے اور اسے ہر وقت خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت اور تائید کے لئے تیار رہنا چاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔بزدل منافق کا نشان ہے۔مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے،مگر شجاعت سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس میں موقعہ شناسی نہ ہو۔موقعہ شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے۔وہ تہور ہوتا ہے۔مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی،بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اورتحمل کے ساتھ نصرت دین کے لئے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا ۔انسان سے کبھی ایسا فعل سرزد ہو جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کوناراض کر دیتا ہے اور کبھی خوش کر دیتا ہے۔مثلاً اگر کسی سائل کو دھکا دیا تو وہ سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دینے والا فعل ہوتا ہے،اس لئے اسے توفیق نہ ملے گی کہ وہ اسے کچھ دے سکے،لیکن اگر اس سے نرمی اور اخلاق سے پیش آئے گا،تو خواہ اسے پانی کا پیالہ ہی دے دے،تو ہو بھی ازالہ قبض کا موجب ہو جائے گا۔
استغفار۔قبض کا علاج انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے۔بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہوتا ہے،لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی حالت ہو جاتی ہے۔جب ایسی حالت ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بھی پڑھے۔نماز بھی بار بار پڑھے۔قبج کے دور ہونے کا یہی علاج ہے۔
حقیقی علم علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس سے خشیت الہی
پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء(فاطر ۲۹)اگر علم سے اللہ تعالٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوئی،تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔ ؎۱
۲۰اپریل۱۸۹۹؁ء بوقت عصر
خدا کا بھروسہ ’’اسلام کا خاصہ ہے کہ خداتعالیٰ پر بھروسہ ہوتا ہے۔مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہو۔عیسائیوں کو اس بات پر یقین نہیں۔ کیوں؟
انہوں نے جسمانی خدا بنایا ہے۔انسان کی بڑی خوشی جو زوال پذیر نہیں ہوتی،اور خطرات کے وقت اسے سنبھال لیتی ہے۔وہ خدا پر بھروسہ ہے۔اور یہ صرف اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ خدا پر بھروسہ کرو۔‘‘ ؎۲
۲۱اپریل۱۸۹۹؁ء یوم عید الضحیٰ۔
والدہ کی خدمت ’’پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ وہ والدہ کی عزت کرے۔اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اکرم ﷺ یمن کی طرف
منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہیں،مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاریاور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ حجور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی۔یا اویس کو یا مسیح کو۔یہ ایک عجیب بات ہے،جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی؛چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ان سے ملنے گئے،تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں۔ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ایک وہ ہے جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے کمہار بھی کم لیتے ہوں گے۔ہماری تعلیم کیا ہے؟صرف اللہ اور رسول پاک کی پاک تعلیم کا بتلا دینا ہے۔اگر کوئی میرے ساتھ تعلق قائم کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا،تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ایسے نمونے سے دوسروں کوٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔
مادر پدر آزاد کبھی خیرو برکت کا منہ نہ دیکھیں گے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی بھی خیرو برکت کا منہ نہیں
دیکھیں گے۔پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاو ۔بہتری اسی میں ہے؛ورنہ اختیار ہے۔ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے۔
عربی اور انگریزی سیکھنے کی تلقین میں یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ وہ عربی زبان سیکھیں کیونکہ عربی کی تعلیم کی بدوں قرآن
کریم کا مزا نہیں آتا۔پس ترجمہ پڑھنے کے لئے ضروری اور مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں۔آجکل تو آسان آسان طریق عربی کے پڑھنے کے لئے نکل آئے ہیں۔قرآن شریف کا پڑھنا جبکہ ہر مسلمان کا فرض ہے تو کیا اس کے معنے یہ ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کی کوشش نہ کی جاوے اور ساری عمر انگریزی اور دوسری زبانوں کے حاصل کرنے میں کھو دی جاوے۔ہاں یہ بات بھی یاد رکھو کہ چونکہ استحکام گورنمنٹ نے ایک قومی گورنمنٹ کی صورت اختیار کر لی ہے اس لئے قومی گورنمنٹ کی زبان بھی ایک قومیت کا رنگ رکھتی ہے۔پس ضروری ہے کہ اپنے مطالب واغراض کو حکام پر پورے طور سے ذہن نشین کرنے کے لئے انگریزی پڑھو،تاکہ گورنمنٹ کو فائدہ اور مدد پہنچا سکو۔‘‘
فونو گراف پھر زبانوں کے تذکرے پر فرمایا:
’’فونو گراف کیا ہے؟گویا مطبع ناطق ہے۔‘‘
تکلیف کی دوحیثیتیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی جب تک آسمان پر فتویٰ نہ ہو؛اگرچہ تکالیف تو پیغمبروں کو بھی پہنچتی ہے،مگر وہ از راہ محبت ہوتی ہے
اور ان میں ایک قسم کی تعلیم مخفی ہوتی ہے،ا جو ان مشکلات میں انبیاء علیھم السلام کا پاک گروہ اپنے طرز عمل اور چال چلن سے دیتا ہے اور بعض لوگوں پر دکھ کی مار ہوتی ہے اور وہ ان کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔من یعمل مثقال ذرۃ شرایراہ(الزلزال:۹) پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ استغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے کہ ایسا نہ ہو،بد اعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں۔
توبہ و استغفار جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے،تو عام طور پر دلوں میں اس کی محبت کا القاء کر دیتا ہے،لیکن جس وقت انسان کا شر حد سے زیادہ گزر جاتا ہے،
اس وقت آسمان پر اس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالٰٰ کے منشا ء کے موافق لوگوں کے دل سخت ہوتے جاتے ہیں،لیکن جونہی وہ توبہ استغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے،تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہوتا جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ اس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے۔غرض توبہ استغفار ایسا محرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا۔ ؎۱
۲۱ اپریل۱۸۹۹؁ء قبل مغرب
مسیح موعود کا کارنامہ کسر صلیب یہ کتاب جو لکھی گئی ہے،جب شائع ہو گی،تو ان لوگوں کو بھی پتہ لگ جاوے گا جو بار بار اعتراض کرتے ہیں کہ
آکر کیا بنایا؟میں حیران ہو جاتا ہوں جب اس قسم کے اعتراض سنتا ہوں۔کیا پھونک مار کر کچھ بنا دیا جاتا ہے؟مگر یہ لوگ دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ نمایاں طور پر دکھائے گا کہ کیا بنایا ہے۔کاش یہ لوگ موجودہ حالت وقت پر غور کرتے۔صدی میں سے سولہ سال گذر گئے۔ظلمت انتہا تک پہنچ گئی اور کوئی نہ آیا۔جو اصلاح کرتا۔یہ لوگ ذرا بھی انصاف نہیں کرتے۔مجھ پر اعتراض کرتے کرتے خدا پر اعتراض کر جاتے ہیں۔کیونکہ میں نے تو آکر کچھ بنایا ہی نہں اور خدا نے بنانے والا بھیجا نہیں،بلکہ باوجود اس کے کہ اور ضرورتیں اگر چھوڑ بھی دی جاویں تو ان عاقبت اندیش معترضوں کے موافق ایک گمراہ کرنے والا بھی آگیا اور پھر بھی وہ اصل مہدی نہ آیا اور نہ خدا نے اسے بھیجا ۔چودھویں صدی کو مبارک سمجھتے تھے پر کیا خاک مبارک نکلی ،جب ایک دجال آگیا!!!صدیق حسن اور عبد الحیی جو دعویٰ کرنے والے تھے وہ صدی کے سر پر ہی فوت ہو گئے؛ورنہ شاید وہی ان لوگوں کا سہارا ہوتے،لیکن خدا نے اپنے فضل سے دکھا دیا کہ یہ کام ان کا نہ تھا بلکہ کسی اور کا ۔
مجدد جو آیا کرتا ہے،وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیا کرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتانے۔خدا جو مدبر اور حکیم خدا ہے،کیا وہ نہیں دیکھتا کہ دنیا پر طبعیات اور فلسفہ کی زہریلی ہوا چلی ہے جس نے ہزار ہا انسانوں کو ہلاک کر دیا ہے۔صلیب پرست عیسائیوں نے کس کس رنگ میں لکھو کھہاروحوں کو خدا سے دور پھینک دیا ہے۔تو پھر کیا اس وقت ایسے مجدد کی ضرورت نہ تھی جو کسر صلیب کرے اور دلائل و بینات سے دکھاوے کہ صلیبی مذہب میں حقانیت کا نور نہیں۔اور ایک لکڑی پر ایمان لا کر انسان نجات کا وارث نہیں ٹھہر سکتا۔آئے دن پچاس ہزار اور ایک لاکھ اشتہار چھاپ کر چھاپ کر یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں اور ٹڈی دل کی طرح عورتیں بچے جوان اور بوڑھے لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اسلام پر حملہ کریں۔اس وقت اسلام پر وہ حملہ ہوا ہے جس کی انتہا نہیں۔ادھر خدا کا یہ وعدہ کہ انا لہ لحافظون(الحجر:۱۰) اور ادھر اننا عاقبت اندیش معترضین کی یہ دانا ئی کہ اسلام میں حفاظت دین کے لئے معرفت کا نور کر کوئی نہیں آیا،بلکہ دجال آیا ہے۔ افسوس!صد افسوس!!آہ!صد آہ!
یہی تو وقت تھا کہ خدا اپنی نصرت اور تائید کا روشن ہاتھ دکھاتا ۔مگر میں کہتا ہوں کہ اس نے دکھایا اور وہ اپنی چمکار دکھائے گا اور مخالفوں کو شرمندہ کر کے بتلا دے گا،کہ آکر بنانے والے نے کیا بنایا۔‘‘ ؎۱
۲۱اپریل۱۸۹۹؁ء
ستاری خدا تعالیٰ کی ستاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہوں اور خطاوں کو دیکھتا ہے،لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اس وقت تک جب تک وہ اعتدال کی حد
سے نہ گزر جاوے ڈھانپتا ہے،لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کم ھاصلہ ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات حلیم وکریم ہے۔طالم انسان اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے حلم پر پوری اطلاع نہ رکھنے کے باعث بے باک ہو جاتا ہے اس وقت ذو انتقام کی صفت کام آتی ہے اور پھر اسے پکڑ لیتی ہے۔ہندو لوگ کہا کرتے ہیں کہ پر میشر اورات میں ویر ہے۔یعنی خدا حد سے برھی ہوئی بات کو عزیز نہیں رکھتا۔با اینہمہ بھی وہ ایسا رحیم کریم ہے کہ ایسی حالت میں بھی اگر انسان نہایت خشوع خضوع کے ساتھ آستان الہی پر جا گرے،تو وہ رحم کے ساتھ اس پر نظر رکھتا ہے۔غرض یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری خطاوں پر معاً نظر نہیں کرتا اور اپنی ستاری کے طفیل رسوا نہیں کرتا،تو ہم کو بھی چاہیے کہ ہر ایسی بات پر جو کسی دوسرے کی رسوئی یا ذلت پر مبنی ہو۔فی الفور منہ نہ کھولیں۔
غفلت کا علاج استغفار ہے بعض لوگوں کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ان کو ایسے اسباب پیش آجاتے ہیں مثلاً ملازمت یا کوئی اور وجہ کہ ان کی عمر کا
یک بڑا حصہ ظلمانی حالت میں گزر جاتا ہے۔نہ پابندی نماز کی طرف توجہ کرتے ہیں،نہ قال اللہ اور قال لرسول سننے کا موقع ملتا ہے۔کتاب الہ پر غور کرنے کا ان کو خیال تک بھی ہیں ہے آتا۔ایسی صورتے میں جب ایک زمانی طلمت کا گزر جاوے تو یہ خیالات راسخ ہو کر طبیعت ثانیہ کا رنگ پکڑ جاتے ہیں۔پس اس وقت اگر انسان توبہ واستغفار کی طرف توجہ نہ کرے تو سمجھو کہ بڑا ہی بدقسمت ہے۔گفت اور سستی کا بہترین علاج استغفار ہے۔سابقہ غفلتوں اور سستیوں کی وجہ سے کوئی ابتلا ء بھی آجاوے تو روتوں کو اٹھ اٹھ کر سجدے اور دعائیں کرے اور خدا تعالیٰ کے حضور ایک سچی اور پاک تبدیلی کا وعدہ کرے۔
۲۲اپریل۱۸۹۹؁ء
افتراء کرنے والا کبھی مہلت نہیں پا سکتا ہمارے دعویٰ الہام ومکالمہ الہیہ کی اشاعت کو یوں تو بہت سال گزرے،لیکن اگر براہین کی
اشاعت سے بھی لیا جائے تو بیس سال ہو چکے ہیں۔ہمارے مخالف جو ہم کو جھوٹا اور اپنے دعوے میں مفتری قرار دیتے ہیں۔ان سے کوئی سول کرے کہ خدا تعالیٰ تو کسی مفتری کو جو اس الہام اور مکالمہ کا فترا کرے مہلت نہیں دیتا۔یہاںتک کہ رسول اکرم صلی الہ علہ والہ وسلم کو بھی فرمایا کہ اگر تو بعض باتیں اپنی طرف سے کہتا۔تو ہم شاہ رگ سے پکڑ لیتے۔پھر کسی اور کی کیا خصوصیت ہو سکتی ہے؟اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر الہام کا فترا ء کرنے والا کبھی بھی مہلت نہیں پا سکتا۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ ہمارا یہ سلسلہ خدا تعالیی کا قائم کردہ نہیں ہے۔تو کسی تاریخ سے ہمیں یہ پتہ دو کہ خدا تعالیٰ پر کسی نے افترا کیا ہو اور پھر اسے مہلت دی گئی ہو۔ہمارے لئے تو یہ معیار صاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ ۲۳ سال کا یک دراز زمانہ ہے۔اس صادق اور کامل نبی کے زمانے سے قریباً ملتا ہوا زمانہ اب تک ہم کو دیا ۔کیونکہ براہین کی اشاعت کو بیس سال ہوئے جو نا عاقبت اندیش معترضوں کے نزدیک افتراء کا پہلا زمانہ ہے۔اب تک تو ہم ایک مسلم اور صادق بلکہ جمہ سرتاجوں کے سرتاج صادق کے زمانے سے ملتا ہوا زمانہ پیش کرتے ہیں اور یہ ظالم کہے جاتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔افسوس ہماری تکذیب کے خیال میں یہ لوگ یہاں تک اندھے ہو گئے ہیں کہ ان کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ اس انکار کی زد رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کیسے پڑتی ہے۔کیونکہ اگر بیس بائیس سال تک بھیخدا کسی مفتری کو زندگی دے سکتا ہے تو پھر مجھے تو تعجب ہی آتا ہے۔نہیں بلکہ دل کانپ اٹھتا ہے کہ رسول اکرم صلی الہ علیہ والہ وسلم کی صداقت پر کیا دلیل پیش کریں گے؟ایک مسلمان،رسو اکرم صلی الہ علیہ والہ وسلم کے سچے متبع کے منہ سے جب وہ اتنا دراز عرصہ تک مدعی کو مہلت پاتا ہوا دیکھ لے کبھی یہ نہیں نکل سکتا کہ جھوٹا اور کاذب بھی اس قدر عرصہ دراز کی مہلتپا یتا ہے۔اگرکوئی اور بھی نشان اور دلیل ایسے ہی مدعی کی صداقت کی نہ ملے۔تب بھی ایک سچے مسلمان کو حسن ظن اور ایمانداری کے رو سے لازم آتا ہے کہ انکار نہ کرے،کیونکہ اس کا زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے سے مشابہ ہو گیا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ مفتری کو مہلت مل سکتی ہے،تو اس امر کا ثبوت دے،مگر مسلمان تو ایسا کہہ ہی نہیں سکتا۔پس ہمارے مخالف اب بتلائیں کہ کیا ایک کاذب دجال مفتری علی اللہ طرز استدلال نبوت میں شرک ہو سکتا ہے؟ماننا پڑے گا کہ ہر گز نہیں۔پھر وہ ہمارے دعوی کو سوچیں اور اس زمانہ پر غور کریں جو استدلال نبوت کا زمانہ ہے۔غرض ہر پہلو میں بہت سی باتیں ہیں جو سوچنے والے کو مل سکتی ہیں اور ایک دور اندیش ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؛ ؎۱
۲۲جون۱۸۹۹؁ء
حضرت اقدس نے کل باتوں باتوں میں فرمایا :کہ
’’یقینا یاد رکھو کہ خدا اپنے بندے کو کھبی ضائع نہیںکریگا اور ہر گز نہیں اُٹھائے گا، جبتک اُس کے ہاتھ سے وُہ باتیں پوری نہ ہو جائیں۔ جن کے لیے وہ آیا ہے۔ اسے کسی کی خصومت اور کسی کی بددُعا کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی ۔‘‘
اس کی تحریک یوُں ہوئی کہ کسی نے کہا کہ اب مخالف مُلہم صاحب کہتے ہیں کے اس سلسلہ کی تباہی اب قریب ہے ۔ کبُرت کلمۃ تخرُجُ من افواھھم ان یقُو لوُن الا کذبا(الکہف:۶)پھر بڑے دل سے فرمایاکہ:
تقوی و طہارت ’’ کل( یعنی ۲۲ جون ۱۸۹۹؁ء) بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاو اور تقوی کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمھارے ساتھ ہو گا۔‘‘
فرمایا: ’’اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کے میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقوی و طہارت اختیار کر لے۔‘‘ پھرفر مایا کہ’’ میں اتنی دُعا کرتا ہوں کہ دُعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتاہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا جبتک کوئی جماعت خدا تعالی کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے۔ خداتعالیٰ کی نُصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔‘‘ فرمایا تقوی خُلاصہ ہے تمام صُحف مقدسہ اور توریت ؔو انجیل ؔکی تعلیمات کا۔ قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میںخدا تعالی کی عیظم الشان مرضی اور پوُری رضا کا اظہار کر دیا ہے۔‘‘ فرمایا۔’’ میں اس فکر میں ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متقیوں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام انہیں سپرد کروں اور پھر میں دُنیا کے ہم و غم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مُردار دُنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ پروانہ کروں گا ۔‘‘
رات کس درد سے حضرت امامؑ فرماتے ہیں۔ آہ! اب تو خدا کے سوا کوئی بھی ہمارا نہیں ۔اپنے پرائے سب ہی اس پر تُلے ہوئے ہیں کہ ہمیں ذلیل کر دیں ۔رات دن ہماری نسبت مصائب اور گردشوںکے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اب اگر خدا تعالیٰ ہماری مدد نہ کرے ، تو ہمارا ٹھکانہ کہاں۔‘‘؎۱
۲۵ جون ۱۸۹۹؁ء
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کا عقیقہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے عقیقہ کے لیے ۲۵ جون اتوار کا دن مقرر تھا۔ حضرت اقدسؑ نے
اس کام کا اہتمام منشی نبی بخش صاحب کے سپرد کیا تھا، مگر اس دن صبح صادق سے پہلے بارش شروع ہو گئی۔صبح کی نماز معمول سے سویرے پڑھی گئی اور دوست تاریکی اور ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سو گئے۔جب دن چڑھے حضرت اقدسؑ بیدار ہوئے تو دریافت کیا کہ عقیقہ کا کوئی سامان نظر نہیں آتا۔ گائوں کے لوگوں کو دعوت کی گئی تھی اور باہر سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے۔ حضرتؑ کو فکر ہوئی کہ مہمانوں کو ناحق تکلیف ہوئی۔ ادھر مہتمم منشی صاحب بڑے مضطرب اور نادم تھے کہ حضور پاک میں کیا عذر کروں۔ منشی صاحب حاضر ہوئے اور معذرت کی۔ خیر کریم انسان اور رحیم ہادی کی ذات میں دُرشتی اور سخت نکتہ چینی تو تھی ہی نہیں۔فرمایا اچھا فُعل ما قُدر ۔‘‘تاہم مہتمم صاحب بار بار معذرت کے لیے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں دوڑے جاتے۔ اُن کے اس حال کودیکھ کر حضرت اقدسؑ کو اپنی ایک رویا یاد آ گئی جو چودہ سال ہوئے دیکھی تھی۔ جس کا مضمون یہ ہے کہ ایک چوتھا بیٹا ہو گا اور اس کا عقیقہ سوموار کو ہو گا۔‘‘
خدا تعالی کی بات کے پورا ہونے اور اللہ تعالی کے اس عجیب تصّرف سے حضرت اقدسؑ کو بڑی خوشی ہوئی۔ دُوسرے دن سوموار کو جب سب خدّام صحن اندرون خانہ میں بیٹھے تھے اور صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا سر مونڈا جا رہا تھا۔ حضرت اقدسؑ نے بڑے جوش اور خوشی سے یہ رویا سُنائی۔؎۲
۳۰ جون ۱۸۹۹ء؁
رات کو امراض وبائیہ کا تذکرہ ہوا۔ فرمایا:
’’ــیہ ا یّام برسات کے معمولاً خطرناک ہوا کرتے ہیں۔ ہند کے طبیب کہتے ہیں کہ ان تین مہینوں میں جو بچ رہے، وہ گویا نئے سرے سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا۔’’ یہ جاڑا بھی خوفناک ہی نظر آتا ہے‘‘۔ فرمایا۔’’ اطّبا بڑے بڑے پرہیزوں اور حفظ ماتقدم کے لیے احتیاطیں بتاتے ہیں؛ اگرچہ سلسلہ اسباب کا اور اُن کی رعایت دُرست ہے، مگر میں کہتا ہوں کہ محدوُدالعلم ضعیف انسان کہانتک بچار بچار کر غذا اور پانی کا استعمال کیا کرے۔ میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویز وحرزا اور کوئی احتیاط و دوانہیں۔ میں تو اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے مصلحت وموفقت پیدا کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو۔
ایک حدیث کا مطلب فرمایا:’’میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں،تا کہ اس حدیث کی خبر پوری ہو جائے
جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں چالیس برس موت دنیا سے اٹھ جائے گی،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نافع الناس اور کام کے آدمی ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا۔‘‘
۱۰جولائی۱۸۹۹؁ء سے قبل
’’مجھے خوب یاد ہے کہ جس روز سٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب قادیان میں حضرت کے مکان کی تلاشی کے لئے آئے تھے اور قبل از وقت اس کا کوئی پتہ اور خبر نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی۔
اللہ تعالی مامورین کی رسوائی پسند نہیں کرتا
اس کی صبح کو کہیں سے ہمارے میر صاحب نے سن لیا کہ آج وارنٹ ہتھکڑی سمیت آوے گا۔میر صاحب حواس باختہ سراز نشناختہ حضرت کو اس کی خبر کرنے اندر دوڑے گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بصد مشکل اس ناگوار خبر کے منہ سے برقع اتارا۔حضرت اس وقت نور القرآن لکھ رہیتھے اور بڑا ہی لطیف اور ناذک مضمون در پیش تھا۔سر اٹھا کر اور مسکرا کر فرمایا کہ:
’’میر صاحب!لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں،ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے۔‘‘پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا۔’’مگر ایسا نہ ہو گا،کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیںوہ اپنے خلفائے مامورین کی رسوائی پسند نہیں کرتا۔‘‘؎۲
ہفتہ مختتمہ۱۰ جولائی۱۸۹۹؁ء
ایک دینی خوشخبری پر بے پایاں مسرت اس ہفتہ میں جو سب سے عجیب اور دلچسپ بات واقع ہوئی اور جس نے ہمارے ایمانوں کو
بڑی قوت بخشی وہ ایک چٹھی کاحضرت کے نام آنا تھا۔اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا تھا کہ جلال آباد(علاقہ کابل) کے علاقے میں یوز آسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ یہ دونوں نبی شام سے یہاں آیا کرتاتھا اور سرکار کابل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترے کے نام ہے۔زیادہ تفصیل کا محل نہیں۔اس خط سے حضرت اقدس اس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ گواہ اور علیم ہے کہ اگر کوئی مجھے کروڑوں روپے لا دیتا تو میں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے۔‘‘
برادران!دینی بات پہ یہ خوشی کیا منانب اللہ ہونے کا نشان نہیں؟کون ہے جو آج اعلائے کلمۃ اللہ کی باتوں پر ایسی خوشی کرے؟
ایک رویاء اور اس کی تعبیر ہمارے دین کی تجوید اور تقویت کے لئے ایک نشان یہ ظاہر ہو اکہ ظہر کے وقت اچانک یہ خط آتا ہے اور صبح حضرت اقدس کو
یہ رویا ہوتی ہے کہ حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند گویا حضرت اقدس کے گھر میں رونق افروز ہوئی ہیں۔ حضرت اقدس رویا ء میں عاجز عبد لکریم کو جو اس وقت حجور کے پاس بیٹھا تھا۔فرماتے ہیں کہ ملکہ معظمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما ہوئی ہیں اور دو روز قیام فرمایا ہے۔ان کا کوئی شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے۔
اس رویا کی تعبیر یہ تھی کہ حضرت کے ساتھ کوئی نصرت الہی شامل ہوا کرتی ہے۔اس لئے کہ حضرت ملکہ معظمہ کا اسم مبارک وکٹوریہ ہے،جس کے معنی ہیں۔مظفرہ منصورہ اور نیز چونکہ اس وقت حجرت ملکہ معظمہ روئے زمین کے سالطین میں سب سے زیادہ کامیاب اور خوش نصیب ہیں،اس لئے آپ کا مہربانی کے لباس میں آپ کے مکان میں تشریف لانا بڑی برکت و کامیابی کا نشان ہے۔خدا کا علم وقدرت دیکھے۔ظہر کے وقت اس رویا کی صحیح تعبیر پوری ہو گئی۔اللہ اللہ! اس سے زیادہ نصرت کیا ہے ایسے سامان مل رہے ہیں کہ جن سے دنیا کے کل نصارٰی پر خدا کی روشن حجت پوری ہوتی ہے۔
مسیح موعود کا مشن حضرت مسیح موعو د نے فرمایا۔’’میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کا فرضی مسیح اور کام کیا کرتا یا کرے گا؟اس کی اوقت زندگی کی یہی تقسیم بتاتے ہیں کہ
دن کا ایک حصہ تو لکڑی یا لوہے یا پیتل یا سونے چاندی کی صلیبوں کے توڑنے میں بسر کرے گا اور ایک حصہ سوروں کے قتل کرنے میں صرف کرے گا ۔بس یہی کہ کچھ اور بھی؟‘‘فرمایا۔’’یہ لوگ نہیں سوچتے کہ وہ بات کیا ہے جس سے اتنے کروڑ نصاریٰ پر حجر حق پوری ہو کیونکہ اگر نری تلوار ہو تو وہ تو احقاق حق کے لئے کبھی آلہ بن نہیں سکتی۔کیا ایمان کبھی درشتی سے دلوں میں اتر سکتا ہے اورحجت اللہ اکراہ سے کسی کے دل کو فریفتہ کر سکتی ہے؟وہ تو اور بی الزام کا موجب ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز لٹھم لٹھا ہونے کے دلیل کوئی نہیں ۔‘‘فرمایا۔’’آگے تھوڑا مخلفین الزام لگاتے ہیںکہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے اور مسلمان اسے یون سچا کر دینا چاہتے ہیں اور معمولی کرامات ومعجزات سے بھی یورپ ودیگر نصاریٰ پر اثر نہیں پڑ سکتا،اس لئے کہ ان کی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سے جھوٹے نبی آئیں گے جو نشان دکھائیں گے۔پھر اب کیا ہے بجز اس کے کوئی ایسی حجت ظاہر ہو جس کے آگے گردنیں خم ہو جائیں اور وہ وہی راہ ہے جو خدا میرے ہاتھ سے پوری کرے گا۔‘‘
مامور سے مقابلہ کی تین راہیں اسی ہفتہ لاہوری ملہم صاحب کا خط آیا۔جس میںاس نے حضرت مسیح موعود اور آپ کے سلسلے کے خلاف ایک دو
پیش گوئیاں کی تھیں۔اس کے متعلق آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمدردی کے لئے کس قدر میرے دل میں تڑپ اور جوش ہے اور میں حیران ہوں کہ کس طرح ان لوگوں کو سمجھاوں۔یہ لوگ کسی طرح بھی مقابلے میں نہیں آتے۔تین ہی راہیں ہیں یا گذشتہ زمانہ کے نشانوں سے میرا مقابلہ کر لیں یا آئیندہ نشانوں میں مقابلہ کر لیں اور نہی تو یہی دعا کریں کہ جس کا وجود نافع الناس ہے وہ بموجب وعدہ الیہ واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض(الرعد:۱۸)دراززندگی پائے۔پھر عیاں ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کی نگا ہ میں کون مقبول و منظور ہے۔‘‘فرمایا:
خدا ئی الہام کا معیار ’’افسوس یہ لوگ چھوٹے چھوٹے معمولی الہامی ٹکروں اور خوابوؓ پر اترائے بیٹھے ہیں اور سمجھ نہیں سکتے کہ کسی الہام کے خدا کی طرف سے
ہونے اور دخل شیطان سے پاک ہونے کا معیار کیا ہے؟معیار یہی ہے کہ اس (خدائی الہام)کے ساتھ نصرت الہی ہو اور اقتداری علم غیب اور قاہر پیش گوئی کے ساتھ ہو؛ورنہ وہ فضول باتیں ہیں جو نافع الناس نہیں ہو سکتیں۔‘‘فرمایا۔’’اگر کوئی شخص کسی جلسے کے وقت دور بیٹھا ہوا کسی عظیم الشان بادشاہ کی باتیں معمولاً سن لے اور لوگوں کے سامنے آکر کہے کہ میں نے فلاں بادشاہ کی باتیں سنی ہیں تو اس کے کہنے سے اسے اور دوسرے لوگوں کو کیا حاصل؟تقرب سلطانی کے بعد کی باتوں کے نشان اور ہی ہوا کرتے ہیں۔جنھیں دیکھ کر ایک عالم پکار اٹھتا ہے کہ فلاں شخص درحقیقت بادشاہ کا مہبط کلام وسلام ہے۔‘‘فرمایا۔’’اگر میرے الہامات بھی ویسے ہی معمولی اور فضول ٹکڑے ہوتے۔اور ہر ایک میں علم الغیب اور اقتداری پیش گوئیں نہ ہوتی تو میں انہیں محض ہیچ سمجھتا ۔‘‘فرمایا۔’’بھلا کوئی شخص لیکھرام والی پیش گوئی کے برابر کوئی ایک ہی الہام بتا دے۔‘‘فرمایا۔’’میرے الہاموں سے قوم کو فائدہ اور قوموں کو فائدہ ہوتا ہے اور یہی معیار بڑا بھاری میار ہے جو میرے الہامات کے منجان اللہ ہونے پر دلالت کرتا ۔‘‘فرمایا۔’’میرے ساتھ خدا تعالیٰ کے معاملات اور تصرفات اور اس کے نشان میری تائید میں عجیب ہیں کچھ تو میری ذات کے متعلق ہیں۔کچھ میری اولاد کے متعلق ہیں اور کچھ میرے اہل بیعت کے متعلق ہیں اور کچھ میرے دوستوں کے متعلق ہیں اور کچھ میرے مخالفوں کے متعلق ہیں اور کچھ عامۃ الناس کے متعلق ہیں۔
لاہوری ملہم کے دوستوں میں سے ایک حافظ صاحب کا پیغام پہنچا کہ وہ گزشتہ نشانوں کا حوالہ سننا نہیں چاہتے تھے۔اس پر حجرت مسیح موعود نے فرمایا:
بار بار ملنے کی تلقین افسوس کے یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی کوئی بات بھی ناقدر دانی کے قابل نہیں ہوتی۔کیا یاک قوم کو ان سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ
نہیں کہا ۔اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتب یتلیٰ علیھم(العنکبوت:۵۲)کیا یہ گذشتہ نشانوں کا حوالہ نہیں۔‘‘فرمایا۔’’اب ایسا وقت ہے کہ ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ بہت دفعہ ملاقات کیا کریں،نئے نئے نشانوں کو دیکھنے سے جو روز بروز نازل ہوتے ہیں۔ان کے ایمان وتقویٰ میں ترقی ہو۔؎۱
سلسلہ احمدیہ کے قیام کا مقصد
جولائی۱۸۹۹؁ء
ایک معزز افسر جو کسی تقریب پر اگلے دن قادیان تشریف لائے،تو حضرت اقدس امامنا مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے بھی ان کی دعوت کی جبکہ سب مہمان کھانے کے لئے جمع ہوئے تو دستر خاون کے بچھائے جانے سے پہلے حضرت اقدس نے اس مہمان کو اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا۔؎۱
’’جب کبھی آپ اس جگہ قادیان میں تشریف لایں،بے تکلف ہمارے گھر میں تشریف لایا کریں۔ہمارے ہاں مطلقاً تکلف نہیں ہے۔ہمارا سب کاروباردینی ہے۔اور دنیا اور اس کے تعلقات اور تکلفات سے بالکل ہم جدا ہیں۔گویا ہم سنیا داری کے لحاظ سے مثل مردہ کہیں۔ہم محض دین کے ہیں اور ہمارا سن کارکانہ دینی ہے۔جیسا کہ اسلام میں ہمیشہ بزرگوں اور اماوں کا آتا ہے۔اور ہمارا کوئی نیا طریق نہیں بلکہ لوگوں کے اس اعتقادی طریق کو جو کہ ہر طرح سے ان کے لئے خطرناک ہے دور کرنا اور ان کے دلوں سے نکالنا ہمارا اصل منشاء اور مقصود ہے مثلاً بعض نادان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ غیر قوموں کے لوگوں کی چیزیں چرا لینا جائز ہے اور کافروں کا مال ہمارے لئے حلال ہے اور پھراپنی نفسانی خواہشوں کی خاطر اس کے مطابق حدیثیں گھڑ رکھی ہیں ۔پھر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جو دوباتہ دنیا میں آنے والے ہیں ،تو ان کا کام لاٹھی مارنا اور خونریزیاں کرناہے؛حالانکہ جبر سے کوئی دین دین نہیں ہو سکتا ۔غرض اس قسم کے خوفناک عقیدے اور غلط خیالات ان لوگوں کے دلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔جن کو دور کرنے کے واسطے اور پر امن عقائد ان کی جگہ قائم کرنے کے واسطے ہمارا سلسلہ ہے۔جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ مصلحوں کی اور اولیاء اللہ کی اور نیک باتں سکھانے والوں کی دنیا دار مخالفت کرتے ہیں۔ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے اور مخلافوں نے غلط خبریں محض افترا اور جھوٹ کے ساتھ ہمارے بر خلاف مشہور کی ہیں یہان تک کہ ہم کو ضرر پہنچانے کے واسطے گورنمنٹ تک غلط رپورٹیں کیں کہ یہ مفسدآدمی ہیں اور بغاوت کے ارادے رکھتے ہیں اور ضرور تھا کہ یہ لوگ ایسا کرتے ،کیونکہ نادانوں نے اپنے خیر خواہوں یعنی انبیاء اور ان کے وارثین کے ساتھ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ایسا ہی سلوک کیا ہے ،مگر خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک زیر کی رکھی ہے اور گورنمنٹ کے کارکن ان لوگوں کوخوب جانتے ہیں۔
کپتان ڈگلس کی دانائی اور انصاف چنانچہ کپتان ڈگلس صاحب کی دانائی کی طرف خیال کرنا چاہیے کہ جب مولوی محمد حسین صاحب
بٹالوی نے میری نسبت کہا کہ یہ بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اشتہار اس کے سامنے پڑھا گیا ،تو اس نے بڑی زیر کی سے پہچانا کہ یہ سب ان لوگوں کا افتراء ہے اور ہمارے مخالف کی کسی بات پر توجہ نہ کی ،کیوںنکہ اس میں شک نہیں کہ ازالہ اوھام وغیرہ دوسری کتب میں ہمارا لقب سلطان لکھا ہو ا ہے،مگر یہ آدسمانی سلطنت کی طرف اشارہ ہے اور دنیوی بادشاہوں سے ہمارا کچھ سرو کار نہیں ایسا ہی ہمارا نام حکم عام بھی ہے۔جس کا ترجمہ انگریزی میں کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے اور شروع سے یہ سب باتیں ہمارے رسول اکرم کی پیش گوئیوں میں مشہور ہیں کہ آنے والے مسیح کے یہ نام ہیں۔یہ سب ہمارے خطاب کتابوں میں موجود ہین اور ساتھ ہی ان کی تشریح بھی موجود ہے کہ یہ آسمانی سلطنتوں کی اصطلاحیں ہیں اور زمینی بادشاہوں سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم شر کو چاہنے والے ہوتے تو ہم جہاد وغیرہ سے لوگوں کو کیوں روکتے اور درندگی سے ہم مخلوقات کو کیوں منع کرتے۔غرض لپتان ڈگلس صاھب عقل سے ان سب باتوں کو پا گیا اور پورے پورے انصاف سے سب کام لیا اور دونوں فریق میں سے ذرا بھی دوسری طرف نہیں جھکا اور ایسا نمونہ انصاف پروری اور داد رسی کا دکھلایا کہ ہم بدل خواہش مند ہیں کہ ہماری گورنمنٹ کے تمام معزز احکام ہمیشی اسی اعلیٰ درجہ کے نمونہ انساف کو دکھلاتے رہیں گے جو نو شرروانی انصاف کو بھی اپنے کامل انصاف کی وجہ سے ادنی درجہ کا ٹھہراتا ہے اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اس گورنمنٹ کے پر امن زمانہ کو برا خیال کرے اور اس کے بر خلاف منصوبہ بازی کی طرف اپنا ذہن لے جاوے۔
سکھوں کے زمانے میںمسلمانوں پر مظالم یہ ہمارے دیکھنے کی باتیں ہیں کہ سکھّوں کے زمانہ میں مُسلمانوں کو کس قدر تکلیف
ہوتی تھی۔ صرف ایک گائے کے اتفاقاًذبح کیے جانے پر سکھّوں نے چھ سات ہزار آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور نیکی کی راہ اس طرح پر مسدُود تھی کہ ایک شخص مسمّی کمّے شاہ اس آرزُو میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دُعائیں مانگتا تھا کہ ایک دفعہ صحیح بخاری کی زیارت ہو جائے اور دُعا کرتا کرتا رو پڑتا تھا اور زمانہ کے حالات کی وجہ سے نا امید ہو جاتا تھا۔ آج گورنمنٹ کے قدم کی برکت سے وہی صحیح بخاری چار پانچ روپے میںمل جاتی ہے۔اور اُس زمانہ میںلوگ اس قدر دُور جا پڑے تھے کہ ایک مُسلمان نے جسکا نام خدا بخش تھا، اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا۔ بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیںکہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکّہ میں گزارہ ہو سکتاہے اور نہ قسطنطنیہ میں، تو پھر کس طرح سے ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے بر خلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔ اگر ہماری قوم کو خیال ہے کہ ہم گورنمنٹ کے برخلاف ہیں یا ہمارا مذہب غلط ہے تو ان کو چاہیے کہ وُہ ایک مجلس قائم کریں۔اس میں ہماری باتوں کو ٹھندے دل سے سُنیں تاکہ ان کی تسلّی ہواور اُن کی غلط فہمیاںدُور ہوں۔
جھوٹے کے مُنہ سے بدبو آتی ہے اورفراست والا اُس کو پہچان جاتا ہے۔ صادق کے کام سادگی اور یکرنگی سے ہوتے ہیں اور زمانہ کے حالات اس کے موید ہوتے ہیں۔
ضرورت زمانہ آجکل دیکھنا چاہیے کہ لوگ کس طرح عقائدحقّہ سے پھر گئے ہیں۔۲۰ کروڑ کتاب اسلام کے خلاف شائع ہوئی اور کئی لاکھ آدمی عیسائی ہوگئے ہیں۔
ہر ایک بات کے لیے ایک حد ہوتی ہے اور خشک سالی کے بعد جنگل کے حیوان بھی بارش کی امید میں آسمان کی طرف مُنہ اُٹھاتے ہیں۔آج ۱۳۰۰ برس کی دھوپ اور امساک باراں کے بعد آسمان سے بارش اُتری ہے۔ اب اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ برسات کا جب وقت آگیا ہے، تو کون ہے جو اُس کوبند کرے۔یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں کے دل حق سے بہت ہی دُور جا پڑے ہیں۔ ایسا کہ خود خدا پر بھی شک ہو گیا ہے۔
ایمان باللہ کی اہمیّت حالانکہ تمام اعمال کی طرف حرکت صرف ایمان سے ہوتی ہے۔ مثلاً سمّ الفار کو اگر کوئی شخص طبا شیر سمجھ بے تو بلا خلاف وخطرکئی ماشوں تک
کھا جاوے گا۔ اگر یقین رکھتا ہو کہ یہ زہر قاتل ہے تو ہر گز اس کو مُنہ کے قریب بھی نہ لائے گا۔ حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خُدا کے وجود پر ایمان ہو،کیونکہ مجازی حکام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پس پردہ کسی کا کیا فعل ہے۔ اور اگرچہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے، مگر اپنے دل کے اندر وُہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لیے اُس کو ہمارے مئواخذہ کا خوف نہیں اور دُنیا کی حکومتوں میںسے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات میںاور دن میں، اندھیرے میں اوراُجالے میں،خلوت میں اورجلوت میں،ویرانے میںاور آبادی میں، گھر میں اور بازار میںہر حالت میںیکساںہو۔ پس دُرستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میںاس کی نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینہ کے بھیدوں کی شاہد ہے ۔کیونکہ دراصل نیک وہی ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک ہواور جس کا دل اور باہر ایک ہے۔وہ زمین پر فرشتہ کی طرح چلتا ہے۔دہریّہ ایسی گورنمنٹ کے نیچے نہیںکہ وُہ حُسن اخلاق کو پا سکتے۔ تمام نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں؛چنانچہ سانپ کے سُوراخ کو پہچان کر کوئی انگلی اس میںنہیں ڈالتا۔جب ہم جانتے ہیں کہ ایک مقدار اسٹرکینیا کی قاتل ہے، تو ہمارا اس کے قاتل ہونے پرایمان ہے اور اس ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کو مُنہ نہیں لگائیں گے اور مرنے سے بچ جائیں گے۔
خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت تقدیر یعنی دُنیا کے اندر تمام اشیاء کاایک اندازہ اور قانون کے ساتھ چلنا اور ٹھہرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا کوئی
مُقدّر یعنی اندازہ باندھنے والا ضرور ہے۔ گھڑی کو اگر کسی نے بالا رادہ نہیں بنایا، تو وُہ کیوں اس قدر ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ اپنی حرکت کو قائم رکھ کر ہمارے واسطے فائدہ مند ہوتی ہے۔ ایسا ہی آسمان کی گھڑی کہ اُس کی ترتیب اور باقاعدہ اور باضابطہ انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ وُہ بالاارادہ خاص مقصد اورمطلب اور فائدہ کے واسطے بنائی گئی ہے ۔اس طرح انسان مصنُوع سے صانع کو اور تقدیر سے مقدر کو پہچان سکتا ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت کا ایک اور ذریعہ قائم کیا ہوا ہے۔اور وُہ یہ ہے کہ وہ قبل ازوقت اپنے برگزیدوں کو کسی تقدیر سے اطّلاع دے دیتا ہے اور اُن کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں وقت اور فلاںدن میں میںنے فلاںامر کو مقرّرکر دیاہے؛ چنانچہ وہ شخص جس کو خدا نے اس کام کے واسطے چُنا ہوا ہوتا ہے۔ پہلے سے لوگوں کو اطلاع دے دیتاہے کہ ایسا ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوجاتاہے جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے واسطے یہ ایسی دلیل ہے کہ ہر ایک دہریّہ اس موقع پر شرمندہ اور لاجب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہزاروںایسے نشانات عطا کیے ہیںجن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذایمان پیدا ہوتا ہے۔ہماری جماعت کے اس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں۔ کون ہے جس نے کم ازکم دو چار نشان نہیں دیکھے اور اگر آپ چاہیںتو کئی سو آدمی کو باہر سے بلوائیںاور اُن سے پُوچھیں۔اس قدر احبار اور اخیار اور متقی اور صالح لوگ جو کہ ہر طرح سے عقل اور فراست رکھتے ہیںاور دُنیوی طور پر اپنے معقول روز گاروں پر قائم ہیں۔ کیا ان کو تسلی نہیں ہوئی۔ کیا اُنھوںنے ایسی باتیںنہیں دیکھیں جن پر انسان کبھی قادر نہیںہے۔ اگر ان سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو اوّل درجہ کا گواہ قرار دے گا۔ کیا ممکن ہے کہ ایسے ہر طبقہ کے انسان،جن میںعاقل اور فاضل اور طبیب اور ڈاکٹر اورسوداگر اور مشائخ سجادہ نشین اور وکیل اور معزز عہدہ دار ہیں۔بغیر پُوری تسلی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیںکہ ہم نے اس قدر آسمانی نشان بجشپم خود دیکھے؟اور جبکہ وہ لوگ واقعی طور پر ایسا اقرار کرتے ہیںجس کی تصدیق کے لیے ہر وقت شخص مکذب کو اختیار ہے، تو پھر سوچنا چاہیے کہ ان مجموعہ اقرارات کا طالب حق کے لیے اگر وہ فی الحقیقت طالب حق ہے کیا نتیجہ ہونا چاہیے۔ کم سے کم ایک نا واقف اتنا تو ضرور سوچ سکتا ہے کہ اگر اس گروہ میںجو لوگ ہر طرح سے تعلیمیافتہ اور دانا اور آسودہ روز گار اور بفضل الٰہی مالی حالتوں میںدوسروں کے محتاج نہیںہیں۔اگر اُنھوںنے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیںکیا اور پُوری تسلی نہیںپائی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہو کر غربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس بسر کرتے ہیں اور اپنی اپنی مقدرت کے موافق مالی امدادمیں میرے سلسلہ کے لیے فدااور دلدادہ ہیں ۔
ہر ایک بات کا وقت ہے ۔بہار کا بھی وقت ہے اور برسات کا بھی وقت ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے ارادے ٹال دے۔
یکم اگست ۱۸۹۹ ء؁
معرفت الٰہی کے مو ضوع پر ایک ہندوسا دھوسے مکالمہ یکم اگست ۱۸۹۹ء؁ کو بعد مغرب ایک مشہورہندو
سادھو صاحب حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور حضورؑ سے باتیں کرتے رہے۔ یہ اس گفتگو کا خلاصہ یامفہوم ہے جس کو حافظہ کی مدد سے ہم نے اپنے الفاظ میں قلمبند کیا ہے۔ (ایڈیٹر الحکم)
حضرت اقدس ؑ:آپ کے ہاں جوگ کا طریق سنائن دھرم کے اُصول پر ہے یا آریہ سماج کے اصُول پر۔
سادھو: سناتن دھرم کے موافق۔
حضرت اقدسؑ: آریہ سماج ایک ایسا فرقہ ہے جس میں صرف کہنا ہے کرنا نہیں۔
سادھو:بیشک یہ لوگ گرُو کی ضرورت نہیں سمجھتے اور یہانتک کہ دیانند کو بھی گرُو کی حیثیت سے نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک راہ بتا گیا ہے ، اس پر چلنا چاہیے۔
حضرت اقدسؑ:آپ کے جوگ کے لئے بڑی بڑی مشقتیںہیں۔
سادھو:جی ہاں۔
حضرت اقدسؑ:اس مشقت کے بعد کیا کوئی ایسی قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس پریم کا پتہ لگ جاوے جو اس ریاضت کرنے والے کو خدا کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محبت کا پتہ اور وجود اس وقت تک نہیں ملتا،جب تک کہ دونوں طرف سے کامل محبت کا اظہار نہ ہو ۔ادھر سے محبت کے جوش میں ہر قسم کے دکھ اور تکالیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو اور ادھر سے یعنی پرمیشر کی طرف سے ایسا پرکاش (روشنی یا نور)اس کو ملے کہ وہ عام طور پر لوگوں میں متمیز ہو جاوے۔
سادھو:ہاں کچھ بل اور طاقت آہی جاتا ہے۔
حضرت اقدسؑ :بھلا کوئی ایسی طاقت اور بل کی بات آپ سنائیں جو آپ کی سنی ہوئی نہ ہو بلکہ دیکھی ہوئی ہو ۔یعنی آپ کے گروہ میں۔کیونکہ بات یہ ہے کہ سنی ہوئی بات کچھ ایسی موثر نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو بلکہ قصہ کہانی کے ذیل میں سمجھی جاتی ہے۔مثلاً جیسے کوئی کہے کہ کوئی دیش ہے،وہاں آدمی اڑا کرتے ہیں۔اب ہم کو اس کو ماننے میں ضرور کوئی تامل ہو گا ۔کیونکہ نہ تو ہم نے ایسے آدمی اڑتے ہوئے دیکھے ہیں نہ خود اڑے ہیں۔پس قوت ایمان اور یقین کے بڑھانے کے لئے سنی سنائی باتیں فائدہ نہیں پہنچاتی ہیں۔بلکہ تازہ بتازہ جو سامنے دیکھی جاویں اور اس سے بڑھ کر وہ جو خود انسان کی اپنی حالت پر وارد ہوں۔پس میرے اس سوال سے یہ غرض ہے کہ آپ کوئی ایسی بات بتلاویں،جو اس ریاضت کرنے والوں میں آپ نے دیکھی ہو یا سنی ہو۔
سادھو:ہاں جو ہمارے گرو تھے ان میں بعض بعض باتیں ایسی تھیں جو دوسرے کے من کی بات بوجھ لیتے تھے اور پھر جو منہ سے کہہ دیتے تھے ہو جاتا تھا اور پھر جو ان کے گرو تھے ان مین بھی بہت سی باتیں ایسی ہوتیں تھیں،مگر ان کو دیکھا نہیں؛تاہم دیکھنے کے برابر ہے،کیونکہ ان کو مرے کوئی اسی برس ہوئے اور ان کو دیکھنے والے ابھی موجود ہیں۔
حضرت اقدسؑ:آپ نے بھی کوئی ریاضتیں کیں تھیں؟
سادھو:جی ہاں ۔میں نے بھی کیں ہیں۔
حضرت اقدسؑ:اس میں کیا کھاتے تھے؟
سادھو:پہلے چاولوں کاآٹا کھایا کرتے تھے۔پھر صرف پانی جو پکا کر رکھا ہوا تھا یعنی ایک گاگر کا نصف جب رہ جاوے تو وہ رکھ لیا کرتے تھے اور اس میں سے سیر کچا صبح کو پی لیا کرتے تھے اور اسی وقت پیشاب کر لیا کرتے تھے اور کچھ نہیں۔
حضرت اقدسؑ:کیا سا میں لوہا وغیرہ تو نہ ہوتا تھا؟
سادھو:نہیں ۔
حضرت اقدسؑ:پھر کیا اس ریاضت کی حالت میں آپ کو کچھ عجیب وغریب نظارے نظر آئے؟
سادھو:ہاں کبھی روشنی نظر آتی تھی جو اندر ہو جاتی تھی اور دور دور سے آدمی آتے جاتے نظر آجاتے تھے۔(اس کے بعد چند منٹ خاموشی رہی۔پھر اس مہر سکوت کو سادھو صاحب نے اپنے اس ایک سوال سے توڑا ) (ایڈیٹر)
سادھو:کیا آپ پرمیشر کو اکار مانتے ہیں یا نرا کار؟
(حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اس موقعہ پر بطور تشریح عرض کیا کہ مورتی کے قابل یا ایسا خدا کے مورتی کی ضرورت نہ ہو)
اسلام کا خدا حضرت اقدسؑ:ہم جس خدا کو مانتے ہیں۔اس کی عبادت اور پرستش کے لئے نہ تو ان مشقتوں اور نہ ہی ان ریاضتوں کی ضرورت ہے
اور نہ کسی مورتی کی حاجت ہے۔اور ہمارے مذہب میں خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے اوراس کے قدرت نمائیوں کے نظارے دیکھنے کے لئے ایسی تکالیف کے برداشت کرنے کی کچھ بھی حاجت نہیں،بلکہ وہ اپنے سچے پریمی بھگتوں کو آسان طریق سے جو ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے ،بہت جلد ملتا ہے۔انسان اگر اس کی طرف ایک قدم اٹھاتا ہے ،تو ہو دو قدم آگے اٹھاتا ہے۔انسان اگر تیز چلتا ہے تو دوڑ کر اس کے ہردے میں پرکاش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حالت غیب میں رہنے کی حکمت میرے نزدیک مورتی بنانے والوں نے خدا تعالیٰ کی اس حکمت اور راز
کو نہیں سمجھا جو اس نے اپنے آپ کو بظاہر اپنے آپ کو حالت غیب میںرکھا ہے۔خدا تعالیٰ کا غیب میں ہی ہونا انسان کے لئے تمام تلاش اور جستجو اور کل تحقیقاتوں کی راہوں کو کھولتا ہے۔جس قدر علوم اور معارف انسان پر کھلے ہیں،ہو گو موجود تھے اور ہیں،لیکن ایک وقت میں وہ غیب میں تھے۔انسان کی سعی اور کوشش کی قوت نے اپنی چمکار دکھائی اور گوہر مقصود کو پا لیا ۔جس طرح پر ایک عاشق صادق ہوتا ہے۔اس کے محبوب اور معشوق کی غیر حاضری اور بظاہر آنکھوں سے دور ہونا اس کی محبت میں کچھ فرق نہیں ڈالتا بلکہ وہ ظاہری ہجر اپنے اندر ایک قسم کی سوزش پیدا کر کے اس پریم بھاؤ کو اور بھی ترقی دیتا ہے۔اسی طرح پر مورتی لے کر خدا کو تلاش کرنے والا کب سچی اورحقیقی محبت کا دعوایدار بن سکتا ہے؛جبکہ مورتی کے بدوں اس کی توجہ کامل طور پر اس پاک اور کامل حسن ہستی کی طرف نہیں پڑ سکتی۔انسان اپنی محبت کا خود امتحان کرے۔اگر اس کو اس سوختہ دل عاشق کی طرح چلتے پھرتے،بیٹھتے اٹھتے غرض ہر حالت میں بیداری کی ہو یا خواب کی،اپنے محبوب کا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور کامل توجہ اسی طرف ہے تو سمجھ لے کہ واقعی مجھے خدا تعالیٰ سے ایک عشق ہے اور ضرور ضرو خدا تعالیٰ کا پر کاش اور پریم میرے اندر موجود ہے،لیکن اگردرمیانی امور اور خارجی بندھن اور رکاوٹیں اس کی توجہ کو پھرا سکتی ہیں اور ایک لحظہ کے لئے بھی وہ خیال اس کے دل سے نکل سکتا ہے تو میںسچ کہتا ہوں کہ وہ خدائے تعالیٰ کا عاشق نہیں اور اس سے محبت نہیں کرتا اور اسی لئے وہ روشنی اور نور جو سچے عاشقوں کو ملتا ہے اسے نہیں ملتا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں آکر اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور خدا کا انکار کر بیٹھے ہیں۔نادانوں نے اپنی محبت کا امتحان نہیں کیا اور اس کا وزن کئے بدوں ہ خدا پر بد ظن ہو گئے ہیں۔پس میرے خیال میں خدا تعالیٰ کا غیب میں رہنا انسان کو رشدکو ترقی دینے کی خاطر ہے اور اس کی روحانی قوتوں کو صاف کر کے جلا دینے کے لئے تاکہ وہ نور اس میں پرکاش ہو ہم جو بار بار اشتہار دیتے ہیں اور لوگوں کو تجربہ کے لئے بلاتے ہیں۔بعض لوگ ہم کو دوکان دار کہتے ہیں۔کوئی کچھ بولتا ہے کوئی کچھ۔غرض ان بھانت بھانت کی بولیوں کو سن کر جو ہم ہر ملک میں جو اس دنیا پر آباد ہے ۔یورپ۔امریکہ وغیرہ میں اشتہار دیتے ہیں اس کی غرض کیا ہے۔
ہماری غرض ہماری غرض بجزاس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں کو اس خدا کی طرف رہنمائی کریں جسے ہم نے خو دیکھا ہے۔سنی سنائی بات اور قصہ کے رنگ میں ہم
خدا کو دکھانا نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنی ذات اور اپنے وجود کو پیش کر کیدنیا کو خد اتعالیٰ کا وجود منوانا چاہتے ہیں۔یہ ایک سیدھی بات ہے۔خدا تعالیٰ کی طرف جس قدر کوئی قدم اٹھاتا ہے خدا تعالیٰ اس سے زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اس کی طرف آتا ہے۔دنیا میں ہم دیکھتے ہیںجب کوئی معزز آدمی کا منظور نظر عزیز اور واجب التعظیم سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا اپنے اندر ان نشانات میں سے کچھ بھی حصہ نہ لے گا جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور بے انتہا طاقتوں کا نمونہ ہے۔
مقربان بارگاہ الٰہی کا مقام یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی تقاضا نہیں کرتی کہ اس کو ایسی حالت میں چھوڑے کہ ہو ذلیل ہو کر پیسا جاوے۔
نہیں بلکہ وہ خود وحدہ لا شریک ہے وہ اپنے اس بندے کو بھی ایک فرد اور لاشریک بنادیتا ہے۔دنیا کے تختہ پر کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں اور ہر حملہ کرنے والا اس کی طاقت سے بے خبر ہو کر جانتا ہے کہ میں اسے تباہ کر ڈالوں گا،لیکن آخر اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا بچ نکلنا انسانی طاقت سے باہر کسی قوت کا کام ہے۔کیونکہ اگر اسے پہلے سے معلوم ہوتا تو وہ حملہ بھی نہ کرتا۔پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے حضور ایک تقرب حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں اس کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتے ہیں ۔بظاہر اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ہر ایک مخالف اپنے خیا ل میں سمجھتا ہے کہ وہ مجھ سے بچ نہیں سکتا ،کیونکہ ہر قسم کی تدبیر اور کوشش کے نتائج اسے یہیں تک پہنچاتے ہیں،لیکن جب وہ اس زد میں سے ایک عزت اور احترام کے ساتھ اور سلامتی سے نکلتا ہے تو ایک دم کے لئے تو اسے حیران ہونا پڑتا ہے کہ اگر انسانی طاقت کا ہی کام تھا ،تو اس کا بچنا محال تھا،لیکن اب اس کا صحیح سلامت رہنا انسان کا نہیں بلکہ خدا کا کام ہے۔پس اس سے معلوم ہو اکہ مقربان بارگاہ الٰہی پر جو مخالفانہ حملے ہوتے ہیں،وہ کیوں ہوتے ہیں؟معرفت اور گیان کے کوچہ سے بے خبر لوگ ایسی مخالفتوں کو ایک ذلت سمجھتے ہیں،مگر ان کو کیا خبر ہوتی ہے کہ اس ذلت میں ان کے لئے ایک عزت اور امتیاز نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور ہستی پر ایک نشان ہوتا ہے۔اسی لئے یہ وجود آیات اللہ کہلاتے ہیں۔
غرض ہم جو اشتہار دے دے کر لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہماری یہی آرزو ہے کہ ان کو اس خدا کا پتہ دیں جسے ہم نے پایا اور دیکھا ہے اور وہ قرب راہ بتلائیں،جس سے انسان جلد باخد ا ہو جاتا ہے۔پس ہمارے خیال میں قصہ کہانی سے کوئی معرفت اور گیان ترقی نہیں پا سکتا جب تک کہ انسان خود عملی حالت سے نہ دیکھے اور یہ بدوں اس راہ کے جو ہماری راہ ہے میسر نہیں اور اس راہ کے لئے ایسی صعوبتوں اور مشقتوں کی ضرورت نہیں۔یہاں دل بکار ہے۔خدا تعالیٰ کی نگاہ د ل پرپڑتی ہے اور جس دل میں محبت اور عشق ہو اس کو مورتی سے کیا غرض؟مورتی پوجا سے انسان کبھی صحیح اور یقینی نتائج پر پہنچ نہیں سکتا۔
خدا تعالیٰ اخلاص و محبت کو دیکھتا ہے خدا تعالیٰ کی نگاہ انسان مخلص کے دل کے ایک نقطہ پر ہوتی ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ
اس کیخاطر وہخوش دلی سے ہر صعوبت،مکروہ کو برداشت کر لے گا۔یہ ضرور نہیں کہ کوئی بڑی بڑی مشقتیں کرے اور دائم حاضر باش رہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ خاکروب ہمارے مکان میں آکر بڑی تکلیف اٹھاتا ہے اور جو کام وہ کرتا ہے ہمارا ایک بڑا معزز اور مخلص دوست وہ کام نہیں کر سکتا،تو کیا ہم اپنے وفادار احباب کو بے قدر سمجھیں اور خاکروب کو معزز ومکرم خیال کریں۔بعض ہمارے ایسے بھی احباب ہیں جو مدتوں کے بعد تشریف لاتے ہیں اور انہیں ہر وقت ہمارے پاس بیٹھنامیسر نہیں آتا،مگر ہم خوب جانتے ہیں کہ ان کے دلوں کی بناوٹ ایسی ہے اور وہ اخلاص مودت سے ایسے خمیر کئے گئے ہیں کہ ایک وقت ہمارے بڑے بڑے کام آسکتے ہیں۔نظام قدرت میںبھی ہم ایسا ہی نظام دیکھتے ہیں کہ جتنا شرف بڑھ جاتا ہے ،محنت اور کام ہلکا ہو جاتا ہے۔ایک مذکوری کو دیکھ لو ۔انبار پروانوں کا اسے دیا جاتا ہے اور ایک ہفتہ کے اندر حکم ہے کہ تعمیل کے حاضر ہو۔برسات ہو، دھوپ ہو اجاڑہ ہو،دیہات کے راستے خراب ہوں۔کوئی عذر سنا نہیں جاتا اور تنخواہ پوچھو تو پانچ روپے۔اور احکام بالا دست کا معاملہ اس کے بالکل بر خلاف ہے۔
رہبانیت معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے اس قانون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون اپنے بر گزیدوں سے
ایسا ہی ہے۔خطر ناک ریاضتیں کرنا اور عضاء اور قویٰ کو مجاہدات میں بے کار کر دینا محض نکمی بات اور لا حاصل ہے۔اسی لئے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:لا رھبانیۃ فی الاسلام یعنی جب انسان کو صفت اسلام(گردن نہاد ن برحکم خدا دمواقفت تامہ بمقاد یر آلہیہ)میسر آجائے،تو پھر رہبانیت یعنی ایسے مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔
(اس کے بعد سادھو صاحب تشریف لے گئے اور کھانا رکھا گیا۔حضرت اقدس نے فرمایا۔کہ:)
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا۔اس لئے کہ وہ معرفت تامہ کا زریعہ نہیں ہے۔؎۱
۱۰ اگست۱۸۹۹ء؁ سے قبل:
دنیا کی خوشامد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں:
میں نے بار ہا اپنے محبوب مرشد سید الاولیا عیسیٰ موعود علیہ السلام
کی زبان مبارک سے سنا ہے۔آپ فرماتے ہیں:
’’ہم اس پر قادر ہیں کہ ایسی تقریریں کریں اور ایسی تحریریں شائع کریں کہ لوگوں کو مُصطلح صُلح کل کے ڈھانچہ میں ڈھلی ہوئی ہوں اور سب قومیں علی اختلاف المثارب خوش ہوجاویں اور حکام اور رعایا میں سے کسی کو بھی کبھی اُن پر نکتہ چینی کا موقع نہ مل سکے، مگر اس خسیس دُنیا کو خوش کرکے اپنے خدا کی دھتکارکی طاقت ہم کہاں رَکھ سکتے ہیں۔‘‘ ۱؎
ہفتہ مختتمہ۱۱اگست۱۸۹۹؁ء
بعض لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا کرتے تھے۔جس کے جواب میں ان کو تحریر کیا جاتا تھا ۔کہ دعا کی گئی،مگر بعد ازاں وہ دوبارہ لکھ دیا کرتے کہ’’کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔اور یہ دو حال سے خالی نہیں۔یا تو آپ نے دعا نہیں کی یا اگر کی ہے تو توجہ سے نہیں کی۔‘‘حضرت مولوی عبدا لکریم صاحب نے ایک دن عرض کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
دعا کی حقیقت ’’سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ دعا کے مضمون پر پھر قلم اٹھایا جائے۔کیونکہ پہلے مضامین اس بارے میں کافی ثابت نہیں ہوئے۔
دعا نہایت نازک امر ہے اور اس کے لئے شرط ہے کہ مستدعی اور داعی میں ایسا مستحکم رابطہ ہو جائے کہ ایک کا درد دوسرے کا درد ہو جائے اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہو جائے۔جس طرح شیر خوار بچے کا رونا ماں کو بے اختیار کر دیتا ہے اور اس کی چھاتیوں میں دودھ اتار دیتا ہے،ویسے ہی مستدعی کی حالت زار اوراستغاثہ پر داعی سراسر رقت اور عقد ہمت بن جاوے۔
توجہ اور رقت بھی خدا تعالیٰ کے ہاں سے نازل ہوتی ہے فرمایا اصل بات یہ ہے کہ سب امور خدا تعالیٰ
کی موہبت ہیں۔اکتساب کو ان میں داخل نہیں۔توجہ اور رقت بھی خدا تعالیٰ کے ہاں سے نازل ہو تی ہے۔جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی کے لئے کامیابی کی راہ نکال دے،تو وہ داعی کے دل میں توجہ اور رقت ڈال دیتا ہے،مگر سلسلہ اسباب میں ضروری ہوتا ہے کہ داعی کو کوئی محرک شدید جنبش اور حرکت دینے والا ہو ۔اس کی تدبیر بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ مستدعی اپنی حالت ایسی بنائے کہ اضطراراًداعی کو اس کی طرف توجہ ہو جائے۔‘‘
دعا اور خدمت دین فرمایا۔’’جو حالت میری توجہ کو جزب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں اپنے اندر دعا کی تحریک پاتا ہوں۔وہ ایک ہی بات ہے
کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کر لوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے لئے ،خدا کے رسول کے لئے،خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ایسے شخص کو جو درودو الم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچاتا ہے۔‘‘ فرمایا۔’’ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں۔جس طرز اور جس رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے کرے۔‘‘پھر فرمایا:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی قدرو منزلت ہے،جو دین کا خادم اور نافع الناس ہے۔ورنہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیڑوں کی موت مر جائیں۔‘‘
خدا تعالیٰ اور بندہ کا رابطہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :کہ
’’دو دوستوں میں دوستی اسی صورت میں نبھ سکتی ہے
کہ کبھی وہ اس کی مان لے اور کبھی یہ اس کی۔اگر ایک شخص صدا اپنی ہی منوانے کے درپے ہو جائے،تو معاملہ بگڑ جاتا ہے۔یہی حال خدا تعالیٰ اور بندے کے رابطے کا ہونا چاہیے ۔کبھی اللہ تعالیٰ اس کی سن لے اور اس پر فضل کے دروازے کھول دے اور کبھی بندہ اس کی قضاء وقدر پر راضی ہو جائے۔حقیقت یہ ہے کہ حق خدا تعالیٰ کا ہی کا ہے کہ وہ بندوں کا امتحان لے اور یہ امتحان اس کی طرف سے انسان کے فوائد کے لئے ہوتے ہیں۔اس کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ امتحان کے بعد جو اچھے نکلیں انہیں اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے۔‘‘
دنیاوی امور میں کھویا جانا خسارت آخرت کا موجب ہوتا ہے ایک نوجوان شخص نے حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دنیاوی مصائب کی کہانی شروع کی اور اپنے طرح طرح کے ہم وغم بیان کئے۔حضرت مسیح موعود نے بہت سمجھایا اور فرمایا کہ:’’ہمہ تن دنیاوی امور میں کھو جانا خسارت آخرت کا موجب ہوتا ہے اور اس قدر جزع فزع مومن کو نہیں چاہیے۔‘‘مگر وہ زور زور سے رونے لگا۔جس پر آپ نے سخت ناراضگی اور نا پسند یدگی کا اظہار فرما کر کہا کہ’’بس کرو۔میں ایسے رونے کو جہنم کا موجب بناتا ہوں۔میرے نزدیک جو آنسو دنیا کے ہم وغم میں گرائے جاتے ہیں۔وہ آگ ہیں جو بہانے والے کو ہی جلا دیتے ہیں۔میرا دل سخت ہو جاتا ہے ایسے شخص کے حال کو دیکھ کر جو جیفہ دنیا کی تڑپ میں کڑھتا ہے۔‘‘
مثالی توکل کی کیفیت ایک دن مجلس مسیح موعودؑ میں توکل کی بات چل پڑی،جس پر آپ نے فرمایا:
ؔ’’میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں۔جیسے سخت حبس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے،تو لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہو گی۔ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ یہ اب بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ:
’’جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے توجو ذوق وسرور ا للہ تعالیٰ پر توکل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو۔‘‘اور فرمایا:
’’ان دنوںمیں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والد صاحب اور بھائی صاحب کے طرح طرح کے ہموم وغموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کر رشک کھاتے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب آدمی ہے۔اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا۔‘‘
رسول اکریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مقام
ایک دفعہ ایک دوست نے جو محبت مسیح موعود ؑ میں فنا شدہ تھے۔آپ کی خدمت میں عرض کی کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں شیخین سے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم کے قریب قریب مانیں؟اللہ اللہ ! اس بات کو سن کرحضرت اقدس علیہ السلام کا رنگ اڑ گیا اور آپ کے سراپا پر عجیب اضطراب وبیتابی مستولی ہو گئی۔میں خدائے غیور وقدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضور ۱قدس کی نسبت اور بھی زیاد ہ کر دیا۔آپ نے برابر چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی۔بولتے وقت میں نے گھڑی دیکھ لی تھی اور جب آپ نے تقریر ختم کی۔جب بھی دیکھی۔پورے چھ ہوئے۔ایک منٹ کا فرق بھی نہ تھا۔
اتنی مدت تک ایک مضمون کو بیان کرنا اور مسلسل بیان کرنا ایک خرق عادت تھا۔اس سارے مضمون میں آپ نے رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیمات کے محامد وفضائل اور اپنی غلامی اور کفش برادری کی نسبت حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے اور جناب شیخین علیہم السلام کے فضائل بیان فرمائے اور فرمایا:
’’میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں کا مداح اور خاک پا ہوں۔جو جزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے،وہ قیامت تک اور کوئی شخص نہیں پا سکتا۔کب محمد رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم دنیا میں دوبارہ پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو جناب شیخین کو ملا۔‘‘؎۱
۱۷اگست۱۸۹۹؁ء
چند روز ہوئے بریلی سے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں،جس کی نسبت رسول خدا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم )نے احادیث میں خبر دی ہے؟خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھیں۔میں نے معمولاً رسالہ’’تریاق القلوب‘‘سے دو ایک ایسے فقرے جو اس کا کافی جواب ہو سکتے تھے لکھ دئے۔وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا اور پھر مجھے مخاطب کر کے لکھاکہ میں چاہتا ہوں کہ مرزاصاحبؑ خود اپنے قلم سے قسمیہ لکھیں کہ آیا وہ وہی مسیح موعود ہیں جس کا ذکر احادیث اور قرآن مجید میں موجود ہے؟میں نے شام کی نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے آگے رکھ دیا اور عرض کیا کہ ایک شخص ایسا کہتا ہے۔حضرت نے فوراً کاغذ ہاتھ میں لیا اور یہ چند سطریں لکھ دیں۔
’’میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اس پرچہ میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں،جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں،جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان احادیث صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں۔وکفی باللہ شھیداً۔‘‘
الرقم مرزا غلام احمد عفااللہ وایدہ ۱۷ اگست۱۸۹۹؁ء
اس ذکر سے میری دو غرضیں ہیں۔ایک یہ کہ اپنی جماعت کا ایمان بڑھے اور انہیں وہی ذوق اور سرور حاصل ہو جو یہاں کے خوش قسمت حاضرین کو اس گھڑی حاصل ہوا اور انہوں نے سچے دل سے اعتراف کیا کہ ان کو نیا ایمان ملا ہے اوردوسرے یہ کہ منکرین اور بد ظن اس اعلی بصیرۃ قسم پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سوچیں کہ متعمد کذاب اور مفتری مختلق کی یہ شان اور اسے یہ جرات ہو سکتی ہے کہ ذوالجلال خدا کی ایسی اور اس طرح اور ایسے مجمع میں قسم کھائے۔اللہ اکبر!اللہ اکبر!!اللہ اکبر!!!‘‘؎۱
۲۱اکتوبر۱۸۹۹؁ء
لالہ کیشوداس صاحب تحصیلدار بٹالہ اتفاق حسنہ سے قادیان میں وارد ہوئے اور حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے فقراء سے ملنے کا کمال شوق ہے۔
اور اسی شوق کی وجہ سے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت اقدس نے فرمایا:
مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض۔زندہ خدا پر زندہ ایمان پیداکرنا
بے شک اگر آپ کے دل میں اہل لوگوں کے ساتھ محبت نہ ہوتی،تو آپ ہمارے پاس کیوں آتے اور ایک دنیا دار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایک دنیا سے الگ گوشہ نشین کے پاس جاوے۔مناسبت ایک ضروری شے ہے اور اصل تو یہ ہے کہ جبکہ انسان ایک فنا ہونے والی ہستی ہے اور موت کا کچھ بھی پتہ نہیں کہ کب آجاوے اور عمر ایک ناپائیدار شے ہے پھر کس قدر ضروری ہے کہ اپنی اصلاح اور فلاح کی فکر میںلگ جاوے،مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اپنی دھن میں ایسی لگی ہے کہ اس کو آخرت کا کچھ فکر اور خیال ہی نہیں ہے۔۔خدا تعالیٰ سے ایسے لا پرواہ ہو رہے ہیں گویا وہ کوئی ہستی ہی نہیں ایسی حالت میں جبکہ دنیا کی ایمانی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تاکہ میں زندہ ایمان زند ہ خدا پر پیدا کرنے کی راہ بتلاوں۔جیسا کہ کڈ اتعالیٰ کا عام قانون ہے۔بہت لوگوں نے جو سعادت اور رشد سے حصہ نہ رکھتے تھے۔خدا ترسی اور انصاف سے بے بہرہ تھے۔مجھے جھوٹا اور مفتری کہا اور ہر پہلو سے مجھے دکھ دینے اورتکلیف پہنچانے کی کوشش کی ۔کفر کے فتوے دے کر مُسلمانوںکو بدظن کرنا چاہا اور خلاف واقعہ امور کو گورنمنٹ کے سامنے پیش کر کے اس کو بھڑکانے کی کوشش کی ۔جھوٹے مقدمات بنائے۔گالیاںدیں۔قتل کرنے کے منصوبے کیے۔غرض کونساامرتھاجو اُنھوںنے نہیں کیا، مگر میرا خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے ۔اُس نے مجھے اُن کی ہر شرارت سے پہلے اُن کے فتنہ اور اس کے انجام کی خبر دی اور آخر وہی ہوا جو اُس نے ایک عرصہ پہلے مجھے بتلایا تھا اور کچھ وہ لوگ بھی ہیںجن کو اللہ تعالیٰ نے سعادت،خداترسی اور نورایمان سے حصہّ دیا ہے۔جنھوں نے مجھے پہچانا اور اُس نُورکے لینے کے واسطے میرے گرد جمع ہوگئے جو مجھے خداتعالیٰ نے اپنی بصیرت اور معرفت بخشی ہے۔ان لوگوںمیںبڑے بڑے عالم ہیں۔گریجویٹ ہیں،وکیل اور ڈاکٹرہیں،معززعہدہ داران گورنمنٹ ہے۔تاجر اور زمیندارہیںاور عام لوگ بھی ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ناہل مخالف اتنا بھی تو نہیں کرتے کہ ایک حق بات جو ہم پیش کرتے ہیں۔ اس کو آرام سے سن ہی لیں۔اُن میںایسے اخلاق فاضلہ کہاں؟ورنہ حق پرستی کا تقاضا تو یہ ہے ؎
مرد باید کہ گیر داندر گوش گر نو شت است پند بر دیوار
مذہب حق اور توحید اس زمانہ میںمذہب کے نام سے بڑی نفرت ظاہر کی جاتی ہے اور مذہب حقہ کی طرف آنا، تو گویاموت کے منہ میںجانا ہے۔
مذہب حق وہ ہے جس پر باطنی شریعت بھی شہادت دے اُٹھے۔مثلاً ہم اسلام کے اصول توحید کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی حقانی تعلیم ہے کیونکہ انسان کی فطرت میںتوحیدکی تعلیم ہے اور نظارہ قدرت بھی اس پر شہادت دیتا ہے۔خداتعالیٰ نے مخلوق کو متفرق پیداکر کے وحدت ہی کی طرف کھینچا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت ہی منظور تھی۔پانی کا ایک قطرہ اگر چھوڑیں۔تو وہ گول ہو گا۔چاند،سُورج سب اجرام فلکی گول ہیں اورکرو یّت وحدت کو چاہتی ہے۔
تثلیث ہم اس وقت بے انتہا خداوں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ یہ تو ہے بھی ایک بیہودہ اور بے معنی اعتقاد اور بے شمار خدا ماننے سے امان اُٹھ جاتا ہے، مگر تثلیث کا
ذکر کرتے ہیں۔ ہم نے جیسا کہ قدرت کے نظائر سے ثابت کیا ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔اس طرح پر اگر خدا معاذ اللہ تین ہوتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں توچاہیے تھا کہ پانی،آگ کے شعلے اور زمین آسمان کے اجرام سب کے سب سہ گوشہ ہوتے تاکہ تثلیت پر گواہی ہوتی۔ اور نہ انسانی نُور قلب کبھی تثلیث پر گواہی دیتا ہے۔پادریوں سے پُوچھا ہے کہ جہاں انجیل نہیں گئی،وہاں تثلیث کا سوال ہو گا یا توحید،کا تو انھوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ توحید کا، بلکہ ڈاکٹر فنڈر نے اپنی تصنیف میں یہ اقرار درج کر دیا ہے۔ اب ایسی کھلی شہادت کے ہوتے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ تثلیث کا عقیدہ کیوں پیش کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سہ گوشہ خدا بھی عجیب ہیں۔ ہر ایک کے کام الگ الگ ہیں۔ گویا ہر ایک بجائے خود ناقص اور نا تمام ہے اور ایک دوسرے کا متمم ہے۔
مسیح کی الُوہیّت اور مسیح جس کو خدا بنایا جاتا ہے۔اس کی تو کچھ پُوچھو ہی نہیں۔ساری عمر پکڑدھکڑ میں گزری اور ابن آدم کو سر دھر نے
کو جگہ ہی نہ ملی۔ اخلاق کا کوئی کامل نمونہ ہی موجود نہیں۔تعلیم ایسی ادھوری اور غیر مکتفی کہ اس پر عمل کر کے انسان بہت نیچے جا گرتا ہے۔
وہ کسی دوسرے کو اقتدار اور عزت کیا دے سکتا ہے۔جو اپنی بے بسی کا خود شاکی ہے،اوروں کی کیا سن سکتا ہے۔جس کی اپنی ساری رات کی گریہ وزاری اکارت رہ گئی اور چلا چلا کر ایلی ایلی لما سبقتانی بھی کہا مگر شنوائی ہی نہ ہوئی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ آخر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا اوراپنے عتقاد کے مواقق ملعون قرار دیا۔خود عیسائیوں نے *** مانا ۔مگر یہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے *** ہوا ؛حالانکہ *** ایسی چیز ہے کہ انسان اس سے سیاہ باطن ہو جاتا ہے اور وہ کدا سے دور اور خدا اس سے دور ہو جاتا ہے۔گویا خدا سے اس کا کچھ تعلق نہیں رہتا۔اس لئے ملعون شیطان کا نام بھی ہے۔اب اس *** کو مان کر اور مسیح کو ملعون قرار دے کر عیسائیوں کے پاس کیا رہ جاتا ہے،سچ تو یہ ہے:’’*** نال ککھ نئیں رہندا۔‘‘گلے پڑا ڈھول ہے جو یہ لوگ بجا رہے ہیں۔غرض ان لوگوں کے عقائد کا کہانتک ذکر کیا جاوے۔حقیقت وہی ہے جو اسلام لے کر آیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا کہ میں اس نور کو جو اسلام میں ملتا ہے۔ان کو جو حقیقت کے جو یاں ہیں دکھاوں۔سچ یہی ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اور میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر انجیل اور قرآن کریم اور تمام صحف انبیاء بھی دنیا میں نہ ہوتے تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید ثابت تھی،کیونکہ اس کے نقوش فطرت انسانی میں موجود ہیں۔
مسیح کی انبیت خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے۔کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یاد گار ہو۔اب اگر مسیح خدا کا بیٹا
ہے تو پھرسوال ہو گا کہ کیا خدا کو مرنا ہے؟مختصر یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے عقائد میں نہ خدا کی عظمت کا لحاظ رکھا اورنہ قوائے انسان کی قدر کی ہے اور ایسی باتوں کو مان رکھا ہے کہ جن کے ساتھ آسمانی روشنی کی تائید نہیں ہے۔ایک بھی عیسائی ایسا نظر نہ آیا جو خوارق دکھا سکے اور اپنے ایمان کو ان نشانات سے ثابت کر سکے جو مومنوں کے ہوتے ہیں۔یہ فضیلت اور فخر اسلام ہی کو ہے کہ ہر زمانہ مین تائیدی نشان اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس زمانہ کو بھی خدا نے محروم نہیں رکھا۔مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ ان تائیدی نشانوں سے جو اسلام کا خاصہ ہے۔اس زمانہ مین اسلام کی صداقت دنیا پرظاہر کروں۔مبارک وہ جو ایک سلیم دل لے کر میرے پاس حق لینے کے لئے آتا ہے اور پھر مبارک وہ جو حق دیکھے تو اس کو قبول کرتا ہے۔‘‘ ؎۱
جلسہ الوداع کی تقریب پر حضرت اقدسؑ کی تقریر
بعثت کی غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ صلیب سے اتر آنے اورا س حادثہ سے بچ جانے کا قرآن شریف میں صحیح اور یقینی علم دیا گیا ہے،مگر افسوس ہے
کہ پچھلے ہزار برس میں جہاں اسلام پر اور بہت سی آگتیں آئیں۔وہاں یہ مسلہ بھی تاریکی میں پڑ گیا اور مسلمانوں میں بد قسمتی سے یہ کیال راسخ ہو گیا کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ قیامت کے نزدیک آسمان سے اتریں گے،مگر اس چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا تا کہ میں اندرونی طور پر جو غلطیاں مسلمانوں میں پیدا ہو گئیں ہیں،ان کو دور کروں اور اسلام کی حقیقت دنیا پر واضح کروں ور بیرونی طور پر جو اعتراضات اسلام پر کئے جاتے ہیں۔ان کا جواب دوں اور دوسرے مذاہب،اس کے غلط اعتقادات کا استیصال کروں جو انسان کے لئے خطر ناک طورپر مضر ہیں اور انسان کی روحانی قوتوں کی نشوونما اور ترقیات کے لئے ایک روک ہیں۔
عیسیٰ ابن مریم کے متعلق اصل حقائق منجملہ ان کے یہی ایک مسلہ ہے جو مسیح کے آسمان پر جانے کے متعلق ہے اور
جس میں بد قسمتی سے بعض مسلمان بھی ان کے شریک ہو گئے ہیں۔اسی ایک مسئلے پر عیسائیت کا دارومدار ہے کیونکہ عیسائیت کی نجات کا مدار اسی صلیب پر ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ مسیح ہمارے لئے مصلوب ہوا اور پھر وہ زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا،جو گویا اس کی خدائی کی دلیل ہے۔
جن لوگوں نے اپنی غلطی سے ا ن لوگوں کا ساتھ دیا ہے۔وہ یہ تو نہیں مانتے کہ مسیح صلیب پر مر گیا، مگر وہ اتنا ضرورمانتے ہیں کہ وہ زندہ(بجسد عنصری) آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ لیکن جو حقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحؑ ابن مریم اپنے ہمعصر یہودیوںکے ہاتھوں سخت ستایا گیا۔ جس طرح پر راستباز لوگ اپنے زمانہ میں نادان مخالفوںکے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں اور آخران یہودیوں نے اپنی منصوبہ بازی اور شرارتوںسے یہ کوشش کی کہ کسی طرح پر آپ کا خاتمہ کر دیں اور آپ کو مصلوب کر ادیں۔بظاہر وہ اپنی ان تجاویز میںکامیاب ہو گئے،کیونکہ حضرت مسیحؑ ابن مریم کو صلیب پر چڑھائے جانے کا حکم دیدیاگیا،لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے راستبازوںاور ماموروںکو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ان کو اس *** سے جو صلیب کی موت کے ساتھ وابستہ تھی بچالیااور ایسے اسباب پیدا کر دئیے کہ وہ اس صلیب پر سے زندہ اُتر آئے۔ اس امر کے ثبوت کے لیے بہت سے دلائل ہیںجو خاص انجیل سے ہی مل سکتے ہیں،لیکن اس وقت ان کا بیان کرنا میری غرض نہیںہے، جو شخص ان واقعات پر جو صلیب کے متعلق انجیل میں درج ہیں،غور کرے گا۔ تو ان کے پڑھنے سے اُسے صاف معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیحؑ ابن مریم صلیب پر سے زندہ اُتر آئے تھے اور پھر یہ خیال کر کے کہ اس ملک میںاُن کے بہت سے دشمن تھے اور دشمن بھی وہ جو اُن کے جانی دشمن تھے اور جیسا کہ وہ پہلے کہہ چکے تھے کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا، مگر اپنے وطن میںجس سے ان کی ہجرت کا پتہ چلتا ہے کہ اُنھوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس ملک کو چھوڑدیں اور اپنے فرض رسالت کو پورا کرنے کے لیے وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں نکلے اور نصیبین کی طرف سے ہوتے ہوئے افغانستان کے راستہ کشمیر میں آکربنی اسرائیل کو جو کشمیر میں موجود تھے،تبلیغ کرتے رہے اور اُن کی اصلاح کی اور آخرکاراُن میںہی وفات پائی۔یہ امر ہے جو مجھ پر کھولا گیا ہے۔
اس مسئلہ کی اہمیت اس ایک مسئلہ سے ہی عیسائیت کا ستون ٹوٹ جاتا ہے،کیونکہ جب صلیب پر مسیحؑ کی موت ہی نہیںہوئی اور وہ تین دن کے بعد
زندہ ہو کر آسمان پر گئے ہی نہیں،تو الوہیت اور کفارہ کی عمارت توبیخ و بنیاد سے گر پڑی اور مسلمانوں کا غلط خیال(جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کی سخت توہین ہوتی تھی کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر دوبارہ نازل ہوں گے ؛حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا یا پرانا نبی نہیں آسکتاجس کی نبوت پرآپ ؑ کی مُہر نہ ہو بھی دور ہو گیا۔اور قرآن شریف کی اصل اور پاک تعلیم سچی ثابت ہو گئی۔ کیونکہ قرآن شریف میں تو مسیحؑ کا صاف اقرارفلما توفیتنی کا موجود ہے،جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینے کی وجہ یہی وجہ ہے کہ ہم وفات مسیح کے مسئلہ پر زیادہ زور دیتے ہیں، کیونکہ اسی موت کے
ساتھ عیسائی مذہب کی بھی موت ہے اور اسی غرض سے میں نے کتاب مسیح ہندوستان میں لکھنی شروع کی ہے اور اس کتاب کے بعض مطالب کی تکمیل کے لیے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنی جماعت میں سے چند آدمیوں کو بھیجوں۔ جو اُن علاقہ جات میں جا کر ان آثار کا پتہ لگائیں، جن کا وہاں موجود ہونا بتایا جاتا ہے؛چنانچہ اس غرض کو مدنظررکھ کر ہم نے یہ جلسہ کیا ہے،تاکہ ان دوستوں کو رخصت کرنے کے لیے پہلے ہم سب مل کر اُن کے لیے دعائیں کریں کہ وہ خیروعافیت کے ساتھ اس مبارک سفر کے لیے رخصت ہوں اور کامیاب ہو کر واپس آئیں۔
حضرت مسیح کا واقعہ صلیب کے بعد نصیبین جانا اگرچہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سفر جو تجویز کیا گیا ہے۔ اگر نہ
بھی کیا جاتا، تو بھی خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لیے دیدیئے ہیں،جن کو مخالف کا قلم اور زبان توڑ نہیںسکتی، لیکن مومن ہمیشہ ترقیات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پیاسا ہوتا ہے۔ کبھی ان سے سیر نہیںہوتا۔ اس لیے ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ جس قدر ثبوت اور دلائل اور مل سکیں۔وہ اچھا ہے۔اسی مقصد کے لیے یہ تقریب پیش آئی ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو نصیبین کی طرف بھیجتے ہیں۔جس کے متعلق ہمیں پتہ ملا ہے کہ وہاں کے حاکم نے حضرت مسیحؑ کو(جبکہ وہ اپنی نا شکر گزار قوم کے ہاتھ سے تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔لکھا تھا کہ آپ میرے پاس چلے آئیے اور واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد اس مقام پر پہنچ کر انہوں نے بدقسمت قوم کے ہاتھ سے نجات پائی۔وہاں کے حاکم نے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ میرے پاس آجائیں گے تو آپ کی خدمت کی سعادت حاصل کروں گااور میں بیمارہوں میرے لیے دُعا بھی کریں) اگرچہ یہ امر ہمیں ایک انگریزی کتاب سے معلوم ہوا ہے،لیکن میںدیکھتا ہوں کہ روضتہؔ الصفا جو ایک اسلامی تاریخ ہے۔اس قسم کا مفہوم اس سے بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نصیبین میں ضرور آئے اور اسی راستے سے وہ ہندو ستان کو چلے آئے۔سارا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے،لیکن ہمارا دل تو گواہی دیتا ہے کہ اس سفر سے انشا ء اللہ حقیقت کھلا جائے گی اور اصل معاملہ صاف ہو جائے گا۔ممکن ہو کہ اس سفر میں ایسی تحریریں پیش ہو جاویں یا ایسے کتبے نکل آویں،جو حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر کے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالنے والے ہوں یا حوریوں میں سے کسی کی قبر کا کوئی پتہ چل جائے یا اور اس قسم کے امور نکل آویں،جو ہمارے مقصد میں موید ثابت ہو سکیں،اس لئے میںنے اپنی جماعت میں سے تین آدمیوں کو اس سفر کے لئے تیار کیا ہے۔ان کے لئے ایک عربی تصنیف بھی کرنا چاہتا ہوں،جو بطور تبلیغ کے ہو اور جہاں جہاں وہ جاویں۔اس کو تقسیم کرتے رہیں اس طرح اس سفر سے یہ بھی فائدہ ہو گا کہ ہمارے سلسلے کی اشاعت بھی ہوتی جائے گی۔
ایک مخلص اور وفا دار جماعت اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔میں دیکھتا
ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں ۔نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میںدیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔
حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی۔جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو۔حضرت مسیح علیہ السلام کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے ۔اور ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بیدلی بھی شامل تھی؛چنانچہ جب ان کو گرفتار کیا گیا ،تو پطرس جیسے اعظم الحوارتین نے اپنے آقا اور مرشد کے سامنے انکا ر کر دیا اور نیہ صرف انکار کیا،بلکہ تین مرتبہ *** بھی بھیج دی۔اور اکثر حواری ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔اس کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ ؓ نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا،جس کی نطیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی،انہوں نے آپ کی خطر ہر قسم کا دکھ اٹھانا سہل سمجھا۔یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپ کی خاطر جان تک دینے سے تامل اور افسوس نہیں کیا۔یہی صدق اور وفا تھی جس نے آخر کا ر ان کو بامرا د کیا۔اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کو بھی اس قدر اور قدر کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفا دوری اورصدق کا نمونہ دکھاتے ہیں۔جس دن سے میں نے نصیبین کی طرف ایک جماعت کے بھیجنے کا ارادہ کیا ہے۔ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس خدمت پر مامور کیا جائے اور دوسرے کو رشک کی نگا ہ سے دیکھتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ اس کی جگہ اگر اس کو بھیجا جائے۔تو اس کی بڑی ہی خوش قسمتی ہے۔بہت سے احباب نے اس سفر پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ،لیکن میں ان درخواستوں سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کو اس سفر کے واسطے منتخب کر چکا تھا اور مولوی قطب الدین اور میاں جمال دین کو ان کے ساتھ جانے کے واسطے تجویز کر لیا تھا۔اس واسطے مجھے ان احباب کی درخواستوں کو رد کرنا پڑا۔تاہم میں جانتا ہوںکہ وہ لوگ جنھوں نے بصد مشکل اور سچے اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی پاک نیتوں کے ثواب کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اپنے اخلاص کے موافق اجر پائیں گے۔
خدا تعالیٰ کی خاطر کی عظمت دور دراز بلا د اورممالک غیر کا سفر آسان امر نہیں ہے؛اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس وقت سفر آسان ہو گئے
ہیں۔لیکن پھر بھی یہ کس کو علم ہو سکتا ہے،کہ اس سفر سے کون زندہ آئے گا۔چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویوں اور دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر جانا کوئی سہل بات نہیںہے ۔اپنے کاروبار اور اپنے معاملات کو ابتری اور پریشانی کی حالت میں چھوڑ کر ان لوگوں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے اور انشراح صدر سے اختیار کیا ہے۔جس کے لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ بڑا ثواب ہے۔ایک تو سفر کا ثوا ب ہے،کیونکہ یہ سفر خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید کے اظہار کے واسطے ہے۔دوسرے اس سفر میںجو جو مشقتیں اور تکلیف ان لوگوں کو اٹھانی پڑیں گی،ان کا بھی چواب ہے۔اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا ،جبکہ من یعمل مثقال ذراۃ خیراً یرہ(الزلزال:۸)کے موافق وہ کسی کی ذرہ بھر نیکی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا،تو اتنا بڑا سفر جو اپنے اندر ہجرت کا نمونہ رکھتا ہے۔اس کا اجر کبھی ضائع ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ہاں یہ ضروری ہے کہ صدق اور اخلاص ہو۔ ریا اور دوسرے اغراض شہرت و نمودکے نہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ برو بحر کے شدائد ومصائب کو برداشت کرنا اور ایک موت کو قبول کر لینا بجز صدق کے نہیں ہو سکتا۔بہت سے بھائی ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے اور میں بھی ان کے واسطے دعاوں میںمصروف رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقصد میں کامیاب کرے اور خیرو عافیت سے واپس لاوے اور سچ تو یہ ہے کہ ملائکہ بھی ان کے واسطے دعائیں کریں گے اور وہ ان کے ساتھ ہوں گے۔
جماعت کی مروت اور ہمت اب میںیہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ہماری جماعت نے دو قسم کی مروت اور ہمت
دکھائی ہے۔ایک تو یہ گروہ ہے جنہوں نے سفر اختیار کیا اور اپنے آپ کو سفر کے خطرات میں ڈالا ہے اور ان مسائب اور شدائد کے برداشت کرنے کو تیار ہو گئے ہیں جو اس راہ میں انہیں پیش آئیں گی۔دوسرا وہ گروہ ہے جنہوں نے میری دینی اغرا ض و مقاصدمیںہمیشہ دل کھول کر چندے دئے ہیں۔ مَیں کچھ ضرورت نہیں سمجھتا کہ تفصیل کروں، کیونکہ ہرشخص کم وبیش اپنی استطاعت اور مقدرت کے موافق حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس اخلاص اوروفاداری سے ان چندوں میں شریک ہوتے ہیں۔ مَیں یہ خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت نے وُہ صدق اور وفا دکھایا ہے جو صحابہ ؓ ساعت العُسر میں دکھاتے تھے؛ اگرچہ اشتہار میں مَیں نے چند دوستوں کے نام لکھے ہیں ،جنھوں نے اپنے صدق و ہمت کا نمونہ دکھایا ہے ، لیکن اس سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ میں دوسروں سے بے خبر ہوں یااُن کی خدمات کو قابلِ قدر نہیں سمجھتا۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ کون سرگری اور اخلاص کے ساتھ میری راہ میں دوڑتا ہے۔ میں چونکہ بیمارتھا اور ابھی تک طبیعت ناساز ہے، اس لئے میں پوری تفصیل نہ دے سکا اور نہ مختصر سے اشتہار میں اتنی تفصیل ہوسکتی تھی۔ پس جن لوگوں کے نام درج نہیں ہوتے۔ اُن کو افسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے صدق اور اخلاص کو خُوب جانتا ہے۔
مالی قربانی محض للہ ہو اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے چندہ دیتا ہے یا ہماری دینی ضروریات میں شریک ہوتا ہے کہ اُس کا نام شائع کیا جائے ،
تویقینا سمجھو کہ وُہ دُنیا کی شہرت اور نام ونمود کا خواہشمند ہے، لیکن جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس راہ میں قدم رکھتا ہے اور خدمتِ دین کے لئے کمربستہ ہوتا ہے، اُس کو اس بات کی کچھ بھی پرواہیں ہوتی۔ دُنیا کے نام کچھ حقیقت اور اثر اپنے اندر نہیں رکھتے ہیں۔ نام وہی بہتر ہوتے ہیں ، جو آسمان پر رکھے جائیں۔ کاغذات کا کیا اثر ہے۔ ایک دن ہوتے ہیں اور دُوسرے دن ضائع ہوجاتے ہیں، لیکن جو کچھ آسمان پرلکھاجاتاہے وہ کبھی محو نہیںہوسکتا۔ اس کااثر ابدالآباد کے لئے ہوتا ہے، میرے بہت سے مخلص احباب ایسے ہیں جن کو تم میں سے شاید بہت ہی کم جانتے ہوں ، لیکن انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے ۔ مثلاً مَیں نظیرکے طور پر کہتا ہوں کہ مرزا یوسف بیگ صاحب میرے بہت ہی مخص اور صادق دوست ہیں۔ مَیں نے اُن کا ذکر اس واسطے کیا ہے کہ اس طرح پر بھائیوں میں باہم تعارف بڑھتا ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ مرزا صاحب اس وقت سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکررہا تھا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اُن کا دل محبت اوراخلاص سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہروقت سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش رکھتے ہیں۔ ایسا ہی اوربہت سے عزیزدوست ہیں اور سب اپنے اپنے ایمان اور معرفت کے موافق اخلاص اور جوشِ محبت سے لبریز ہیں۔
جبتک ایمان قوی نہ ہو کچھ نہیںہوتا اگرچہ مَیں جانتا ہوں کہ اعمال کی توفیق رفتہ رفتہ ملتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیںکہ جب
تک ایمان قویٰ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔ جس قدر ایمان قوی ہوتا ہے، اسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے۔ یہانتک کہ اگر یہ قوتِ ایمانی پورے طور پر نشوونما پاجاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے، کیونکہ کوئی امر اس کے سدِ راہ نہیں ہوسکتا۔ وُہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تامّل اوردریغ نہ کرے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اورقرآن کریم کے نزول کی غرض مَیں نے کئی دفعہ
اس سے پہلے بھی بیان کیا ہے اور اب بھی اس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے، اس لیے مَیں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو انبیاء ؑ کو بھیجتا ہے اورآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دُنیا کی ہدایت کے واسطے بھیجا اور قرآن مجید کونازل فرمایا تو اس کی غرض کیا تھی؟ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے۔ ایسا خیال کرنا کہ قرآن شریف نازل کرنے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی غرض اور مقصد نہیں ہے، کمال درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے۔ کیونکہ اس میں (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف ایک فعلِ عبث کو منسوب کیا جائے گا؛ حالانکہ اس کی ذات پاک ہے(سبحانہُ وتعالیٰ شانہ)
پس یادرکھو کہ کتابِ مجید کے بھیجنے اورآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تادُنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے۔ جیسے فرمایا: وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء:۱۰۸) اور ایس اہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ ھدی للمتقین(البقرہ:۳) یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ اُن کی نظیر نہیں پائی جاسکتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ف ہینے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالاتِ متفرقہ جو انبیاء ؑ میں تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کردیئے۔ اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے، وہ قرآن شریف میں جمع کردیئے۔ اور ایسا ہی جس قدر کمالات تمام اُمتوں میں تھے وُہ اس اُمت میں جمع کردیئے۔ پس خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ان کمالات کو پالیں اور یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہیے کہ جیسے وہ عظیم الشان کمالات ہم کو دینا چاہتا ہے، اُسی کی موافق اس نے ہمیں قویٰ بھی عطا کیے ہیں۔ کیونکہ اگر اس کے موافق قویٰ نہ دیئے جاتے ۔ تو پھر ہم ان کمالات کو کسی صورت اورحالت میں پاہی نہیں سکتے تھے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک گروہ کی دعوت کرے، توضرور ہے کہ وہ اُس گروہ کی تعداد کے موافق کھانا تیار کرے اور اُسی کے موافق ایک مکان ہو ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ دعوت تو ایک ہزار آدمی کی کرے اور اُن کے بٹھانے کے واسطے ایک چھوٹی سے کُٹیابنادے نہیں۔ بلکہ وہ اُس تعداد کاپورا لحاظ رکھے گا۔ اسی طرح پر خداتعالیٰ کی کتاب بھی ایک دعوت اور ضیافت ہے۔ جس کے لئے کل دنیا کو بلایا گیا ہے۔ اس دعوت کے لئے خداتعالیٰ نے جو مکان تیار کیا ہے وُہ انسانی قویٰ ہیں۔ جواُن لوگوں کو دیئے گئے ہیں جو اس امت میں ہیں۔ قویٰ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا ۔ اب اگر بیل، کتے یا کسی اور جانور کے سامنے قرآن کی تعلیمات کو پیش کریں تو وُہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے کہ اُن میں وہ قویٰ نہیں ہیں جو قرآن کریم کی تعلیمات کو برداشت کرسکیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ قویٰ دیئے ہیں کہ ہم اُن سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ خاتم النبیین ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا، جو خاتم المومنینؐ، خاتم العارفین ؐ اور
خاتم النبیین ؐ ہے اور اسی طرح پروہ کتاب اس پر نازل کی جع جامع الکُتب اور خاتم الکُتب ہے۔ رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہوگئی۔ تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلاگھونٹ کر ختم کردے۔ ایساختم قابلِ فخر نہیں ہوتا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مُراد ہے کہ طبعی طور پر آپ ؐ پر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے۔ یعنی وہ تمام کمالاتِ متفرقہ جو آدم ؑ سے لے مسیح ؑابن مریم ؑ تک نبیوں کو دیئے گئے تھے۔ کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی۔ وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کردیئے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات ، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں، وہ قرآن شریف پر آکرختم ہوگئے اورقرآن شریف خاتم الکُتب ٹھہرا۔
ہم بصیرت تام سے رسول اللہ کو خاتم النبیین مانتے ہیں اس جگہ یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ مجھ پر اور
میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں، اس کا لاکھوں حصہ بھی دُوسرے لوگ نہیں مانتے۔ اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وُہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے، مگر اُس کی حقیقت سے بے خبرہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتاہے اوراس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے ہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی ہیں کرسکتا۔ بجزان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔
دُنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پرآکر اُس کاکمال ہوجاتا ہے جب کہ اُسے بدر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے۔ جو لوگ یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبردستی ختم ہوگئی اور آنحضرت ؐ کو یونس ؑ بن متیٰ پر بھی ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اُنہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی اُن کو نہیں ہے۔ باوجود اس کمزوری فہم اور کمئی علم کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں۔ میں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اوراُن پر کیا افسوس کروں۔ اگر اُن کی یہ حالت نہ ہوگئی ہوتی اور وہ حقیقت اسلام سے بکلی دور نہ جاپڑے ہوتے، تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ ان لوگو کی ایمانی حالتیں بہت کمزورہوگئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں؛ ورنہ کوئی وجہ ہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اہل حق سے عداوت کرتے جس کا نتیجہ کافربنادیتا ہے۔
اعمالِ صالحہ کی پہچان یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے۔ ہم لاالہ الااللہ کہتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں
اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ مگرمَیں کہتا ہوں کہ اُن کے تمام اعمال، اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں، بلکہ محض ایک پوست کی طرح ہیں جس میں مغز نہیں ہے؛ ورنہ اگر یہ اعمالِ صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اعمالِ صالحہ تو تب ہوسکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں،لیکن اُن میں یہ باتیں کہاں ہیں؟میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک شخص مومن اور متقی ہو اور اعمال صالح کرنے والا ہو اور وہ اہل حق کا دشمن ہو؛حلانکہ یہ لوگ ہم کو بے قید اور دہریہ کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔میں نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کیا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے مامور کر کے بھیجا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی کچھ عظمت ان کے دل میں ہوتی،تو ہو انکار نہ کرتے اور اس سے ڈر جاتے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کے نام کی تخفیف کرنے والے ٹھریں،لیکن یہ تب ہوتا جبکہ ان میں حقیقی اور اصل ایمان اللہ تعالیٰ پر ہوتا اور وہ یوم الجزاء سے ڈرتے اور لا تقف ما لیس لک بہ علم(بنی اسرائیل:۳۷)پر ان کا عمل ہوتا۔
اولیاء اللہ کا انکار سلب ایمان کا موجب ہو جاتا ہے ان کی دماغی قوت اور ایمانی طاقت نے تو یہاں
تک انہیں پہنچا دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کا منکر تو کافر ہوتا ہے۔مگر ولی کے انکار سے کفر کیونکر لازم ہوتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کے انکار سے کیا حرج ہے؟یہ لوگ انکار اولیاء اللہ کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے کیا بگڑتا ہے؟مگر حقیقت یہ ہے کہ اولیا ء اللہ کا انکار سلب ایمان کا ماوجب ہوتا ہے۔جو شخص اس معاملہ میں غور کرے گا ،اسے اچھی طرح نظر آجائے گا ،بلکہ ایسے طور پر نظر آجائے گا،جیسے شیشے میں کوئی شکل دیکھتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ سلب ایمان دو طرح پر ہوتا ہے۔ایک تو انبیا کے انکار سے،جس سے کسی کو بھی انکار نہیں اور یہ مسلم بات ہے۔دوسرا اولیاء اللہ اور مامورین کے انکار سے سلب ایمان ہوتا ہے۔
انبیا ء کے انکار سے سلب ایمان تو بالکل واضح امر ہے اور سب جانتے ہیں،لیکن پھر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء کے انکار سے سلب ایمان اس لئے ہوتا ہے کہ نبی کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں یہ میرا قول ہے۔یہ میرا نبی ہے۔اس پر ایمان لاو۔میری کتاب کو مانو اور ،میرے احکام پر عمل کرو۔جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان نہیںلاتا اور ان وصایا اور حدود پر جو اس میں بیان کئے گئے ہیں،علم نہیں کرتا ہے۔وہ ان سے منکر ہو کر کافر ہو جاتا ہے۔
لیکن وہ صورت جس سے اولیا ء اللہ کے انکار سے سلب ایمان ہوتا ہے۔اور ہے۔ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:من عاد لی ولیاًفذنتہ للحرب۔یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمی کرتا ہے ،وہ گویا میرے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ محبت کرتا ہے اور محبت بھی ایسی جیسی کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے۔اور ایک دوسرا شخص بار بار کہے کہ یہ شخص مر جائے یا اس کی نسبت اور کسی قسم کی دلآزاری کی باتیں کہے اور اسے تکلیف دے تو وہ شخص کیونکر ایسی باتوں سے خوش ہو سکتا ہے اور وہ باپ جس کے بچے کے لئے وہ شخص بد دعائیں کر رہا ہو یا دیگر رنجدہ کلمات اس کے بچے کے لئے استعمال کر رہا ہو ایسے شخص سے کب محبت کر سکتا ہے؟اسی طرح پر اولیا ء اللہ بھی اطفال اللہ کا رنگ رکھتے ہیں،کیونکہ انہوں نے جسمانی بلوغ کا چولا اتارا ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پرورش پاتے ہیں۔وہ خود ان کا متولی متکفل اور ان کے لئے غیرت رکھنے والا ہوتا ہے۔جب کوئی شخص(خواہ وہ کیسا ہی نماز روزے رکھنے والا ہو) ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کے دکھ دینے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں پر اس کا غضب بڑھکتا ہے۔اس لئے کہ انہوں نے اس کے ایک محبوب کو دکھ دینا چاہا ۔اس وقت پھر نہ وہ نماز کام آتی ہے اور نہ وہ روزہ۔کیونکہ نماز اور روزہ کے ذریعہ سے اسی ذات کو خوش کرنا تھا۔جس کو ایک دوسرے فعل سے ناراض کر لیا ہے۔پھر وہ رضا کا مقام کیونکر ملے۔جب تک غضب الہی دور نہ ہو۔وہ اولیا ء اللہ کا مخالف نادان ان اسباب غضب سے ناواقف ہوتا ہے،بلکہ اپنے نماز روزے پر اسے ایک گھمنڈ ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کدا تعالیٰ کا غضب دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور وہ بجائے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے دن بدن اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا جاتا ہے۔یہاں تک کہ بالکل راندہ درگاہ ہو جاتاہے۔وہ شخص جو بالکل فنا کی حالت میں ہے اور آستانہ الوہیت پر گرا ہوا ہے اور آغوش ربوبیت میں پرورش پا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا ہے۔یہاں تک کہ اس کا بات کرنا اللہ تعالیٰ کی بات کرنا ہوتا ہے اور اس کو دوست خدا تعالیٰ کا دوست اور اس کا دشمن خدا تعالیٰ کا دشمن ہو جاتا ہے۔پس ایسے مومن کامل کا دشمن ہو کر کوئی شخص کیونکر مومن کامل ہو سکتا ہے اور ایسے ہی مومن کامل کی دشمنی سے اس کا ایمان سلب ہو جاتاہے۔اور اسے مغضوب الیہم میں سے بنا دیا جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اولیاء اللہ کی مخالفت اور ان کی ایذارسانی کبھی بھی اچھا پھل نہیں دے سکتی۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں ان کو ستا کر اور دکھ دے کر بھی آرام پا سکتا ہوں وہ سخت غلطی کرتا ہے اور اس کو نفس اسے دھوکہ دے رہا ہے۔
دوسری وجہ سلب ایمان کی یہ ہوتی ہے کہ ولی خدا تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں،کیونکہ ولی کے معنی قریب کے ہوتے ہیں۔یہ لوگ گویا اللہ تعالیٰ کے سامنے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ ایک محبوب کی طرح ہوتے ہیں،جن کے سامنے ایک دیوار حائل ہے۔خدا تعالیٰ نے اسے آنکھیں دی ہیں اور اسے ایسی بصیریت عطا کی ہے کہ اس کا ہر قول وفعل علی وجہ البصیرت ہوتا ہے۔اعمیٰ کی طرح نہیں،جو ٹھوکریں کھات ارہتا ہے اور ٹکریں مارتا رہتا ہے،بلکہ اس کے دل پر توخدا تعالیٰ کا نزول ہوتا ہے۔اور ہر قدم پر وہی اس کا رہنما اور متکفل بن جاتا ہے۔شیطان کی شرارت کی تاریکی اس کے نزدیک نہیں آسکتی،بلکہ ظلمت جل کر بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اسے سب کچھ روشن نظر آتا ہے۔وہ جو کچھ بیان کرتا ہے وہ حقائق اور معارف ہوتے ہیں۔وہ احادیث شریف کی جو تاویل کرتا ہے۔وہ صحیح ہوتی ہے،کیونکہ وہ براہ راست بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سن لیتا ہے اور اس طرح وہ اس کی اپنی روایت ہوتی ہے؛حالانکہ دوسرے لوگوں کو تیرہ سوبرس کے وسائط سے کہنا پڑتا ہے ۔پھر ان ہر دو میں کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ولی اللہ کا سارا ذخیرہ پاک معارف اور نور ہوتا ہے،لیکن جو شخص اس سے عداوت کرتا ہے،وہ اس کی ہر بات کی تکذیب کرتا ہے۔گویا کہ وہ یہ شرط کر لیتا ہے کہ وہ ولی اللہ کے ہر نکتہ معرفت کا نکار کرے گا۔پھر وہ اس کی ہر بات کا نکار کرتا رہتا ہے۔اس طرح پر اس کی ایمانی عرفانی دیوار کی اینٹیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں۔جب ایک شخص صراط مستقیم بتلا رہا ہے اور معارف اور حقائق کھول کھول کر بیان کر رہا ہے اور دوسرا شخص اس کی تکذیب کرتا ہے۔اس مقابلہ میں انجام کار نتیجہ کیا ہو گا؟یہی کہ(موخر الذکر)قرآن شریف کے عقائد کے مجموعہ کی تکذیب کرتا ہے۔کرتا رہے گا اور اسی لیے وہ خدا تعالیٰ کا بھی منکر ہوجاتا ہے اور اسی طرح اس کا ایمان سلب ہو جائے گا۔
غرض اس بات میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اولیاء اللہ کے انکار سے سلب ایمان ہو جاتا ہے۔اس لئے اولیا ء اللہ کے انکار سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔یہودیوں پر جو آفت آئی اور وہ مغضوب ہو گئے۔اس کی بھاری وجہ یہی تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلین سے انکار کرتے رہے اور ہمیشہ ان کی مخالفت اور ایذا رسانی میں حصہ لیتے رہے۔جس کا نجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا۔
آنحضرتؐ کے خاتم النبین ہونے کا ایک اور پہلو پھر میں اپنے کلام کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس امت میں بڑی بڑی استعدادیں رکھ دی ہیں۔یہاں تک کہ علماء امتی کانبیا ء بنی اسرائیل بھی احادیث میں آیا ہے؛اگرچہ محدثین کو اس پر جرح ہو،مگر ہمارا نور قلب اس حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے اور ہم بغیر چون چرا کے اس کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی بزرگ نے بذریعہ کشف بھی اس حدیث کا نکار نہیں کیا ،بلکہ اگر کچھ کیا ہی ہے تو تصدیق کی ہے۔اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ میری امت کے علماء ظاہری بنی اسرائیل کے نبیوں جیسے ہیں۔علماء کے لفظوںسے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔بعض لوگ الفاظ پر اڑ بیٹھتے ہیں اور ان کی معنی کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔
عالم ربانی کی تعریف یاد رکھو کہ علم ربانی سے یہ مراد نہیں ہوا کرتی کہ وہ سرف نحو یا منطق میںبے مثل ہو بلکہ عالم ربانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو
ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی زبان بے ہودہ نہ چلے،مگر موجودہ زمانہ اس قسم کا آگیا ہے کہ مردہ شو،تک بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں اور اسی لفظ کو اپنی ذات میں داخل کر لیا ہے۔اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لے لیا گیا ہے؛ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی گئی ہے ۔انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء ا(فاطر:۲۹)یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے۔اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں۔اب یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف وخشیت اور رتقویٰ اللہ کی نہ پائی جائیں وہ ہر گز ہر گز اس خطاب سے پکارے جانے کے مستحق نہیں ہیں۔
اصل میں علماء عالم کی جمع ہے اور علم اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن شریف سے ملتا ہے۔یہ نہ یونانیوں کے فلسفے سے ملتا ہے۔نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے،بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ قرآن کریم کے طفیل سے ملتا ہے۔مومن کا کملا اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجے پر پہنچے اور ایس حق الیقین کا وہ مقام حاصل ہو جو علم کا نتہائی درجہ ہے،لیکن جو لوگ علوم حقہ سے بہرور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیںوہ گو اپنے منہ سے اپنے آپ کو عالم کہیں مگر فی الحقیقت ایسے لوگ علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے۔ان میں بالکل پایا نہیں جاتا ،بلکہ ایسے لوگ بالکل خسارہ اور نقصان میں ہیں۔یہ اپنی آخرت دخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمیٰ(بنی اسرائیل:۷۳)جو آدمی اس دنیا میں اندھا ہے،وہ آخرت مین بھی اندھا اٹھایا جائے گا۔یعنی جس کو یہاں علم بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی،اسے وہاں کیا علم ملے گا۔اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے۔جو آدمی یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا،اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ وک آخرت کے دن دیکھ لے گا۔
لیکن جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم،جس کا نتیجہ خشیتہ اللہ ہے،عطا کیا جاتا ہے۔وہ وہی لوگ ہیں جن کو اس حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
سچے علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سچے علوم کا منبع اور سر چشمہ قرآن مجید میں اس امت کو دیا ہے۔جو
شخص ان حقائق اور معارف کو پا لیتا ہے،جو قرآن شریف میں بیان کئے گئے ہیں اور جو محض حقیقی تقویٰ اور خشیت الہی سے پیدا ہوتے ہیں،اسے وہ علم ملتا ہے جو اس کو انبیاء بنی اسرائیل کا مثیل بنا دیتا ہے۔ہاں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ایک شخص کو جو ہتھیار دیا گیا ہے اگر وہ اس سے کام نہ لے تو یہ اس کا پان قصور ہے نہ کہ اس ہتھیار کا ۔اس وقت دنیا کی یہی حالت ہو رہی ہے۔مسلمانوں نے باوجودیلہ قرآن شریف جیسی بے مثل نعمت ان کے پاس تھی جو ان کو ہر گمراہی سے نجات بخشتی اور ہر تاریکی سے نکالتی ہے،لیکن انہوں نیا س کو چھوڑ دیا اور اس کی پاک تعلیموں کی کچھ پرواہ نہ کی۔نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں۔یہاں تک کہ اگر اب ان کے سامنے حقیقی اسلام پیش کیا جاتا ہے تو چونکہ وہ اس سے بکلی بے خبر اور غافل ہیں،اس لئے حقیقی مومن کو بھی کافر کہہ دیتے ہیں ۔
ولی بننے کے لئے خدا داد قویٰ سے کام لو بہت سے لوگ ہیں جو اوباشانہ اور عیاشانہ حالات زندگی رکھتے ہیں اور وہ دنیا کا فخر،
دنیا کی عزت اور املاک و دولت چاہتے ہیں ۔اس قسم کی آرزوں اور تمناوں اور ان کے پورا کرنے کی تدبیروں اور تجویزوں ہی میں اپنی عمر کھو دیتے ہیں۔ان کی آرزوں کی انتہا نہیں ہوتی کہ موت پیغام آجاتا ہے۔اب ان کو بھی خدا تعالیٰ نے قویٰ دئے تھے۔انہیں قویٰ سے کام لیتے تو حق کو پا لیتے۔اللہ تعالیٰ نے تو کسی سے بھی بخل نہیں کیا،لیکن ایسے لوگ خود قویٰ سے کام نہیں لیتے۔یہ ان کی اپنی بد بختی ہے۔نیک بخت اور مبارک ہے وہ شخص جو ان خدادا قویٰ سے کام لے۔بہت سے آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے اوامر کی پیروی کرو اور نوہی سے پرہیز کرو۔تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے کیا ولی بننا ہے؟ اس قسم کا کلمہ میرے نزدیک کلمہ کفر ہے۔یہ خدا تعالیٰ پر بد گمانی ہے۔خدا تعالیٰ کے حضور کیا کمی ہے۔اس کے پاس سرکار کی طرح کوئی محدود نوکریاں تو نہیں ہیں جو ختم ہو جائیں۔بلکہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق پیدا کر لے وہ ان فیوض سے بہر وار ہو سکتا ہے جو پہلے راستبوزوں کو دئے گئے تھے؎ بر کریماں کار ہا دشوار نیست۔اللہ تعالیٰ نے جو اپنے محبوب بندوں کا نام ولی رکھا ہے تو کیا ولی بنانا خدا تعالٰٰ کے پاس مشکل ہو سکتا ہے۔ہر گز نہیں،بلکہ یہ اس کے لئے نہایت سہل امر ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ انسان راستی کے ساتھ اس کی راہ میں قدم رکھنے والا ہو اور اس کے راستے میںصبرو استقلال اور وفاداری کے ساتھ چلنے والا ہو ،کوئی دکھ تکلیف اور مصیبت اس کے قدم کو ڈگمگا نہ سکے۔جب انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے اور ان باتوں سے الگ ہو جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی نہ رضامندی کا موجب ہوتی ہے۔اور سچی پاکیزگی اور طہارت اختیار کر لیتا ہے اور گندی باتوں سے پرہیز کرتا ہے،تو خدا تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر لیتا ہے اور اس کے قریب ہو جاتا ہے،لیکن اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کرے اور گندگی سے نکلنے کی کوشش نہ کرے،تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا۔جیسے فرمایا:فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم(الصف:۶)
سلوک کی آسان راہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ ہمت نہ ہار بیٹھے۔یہ بڑی مشکلات نہیں ہیں۔میں تمہیں یقیناً کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہماری
مشکلات آسان کر دی ہیں۔کیونکہ ہمارے سلوک کی راہیں اور ہیں،ہمارے ہاں یہ حالت نہیںہے کہ کمریں جھک جایں یا ناخن بڑھا لیں،یا پانی میں کھڑے رہیں اور چلہ کشیاں کرتے رہیں یا اپنے ہاتھ خشک کر لیں اور یہاں تک نوبت پہنچے کہ اپنی صورتیں بھی مسخ ہو جائیں۔ان صورتوں کے اختیار کرنے سے بعض لوگ بخیال خویش با خدا بننا چاہتے ہیں،لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسی ریاضتوں سے خدا کیا ملنا ہے،انسانیت بھی جاتی رہتی ہے ،لیکن ہمارے سلوک کا یہ ہر گز طریق نہیں ہے،بلکہ اسلام نے اس کے لئے نہایت آسان راہ رکھ دی ہے اور وہ کشادہ راہ وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوںفرمایا ہے:اھدنا الصراط المستقیم(الفاتحہ:۶)یہ دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو سکھلائی ہے۔تو ایسے طور پر نہیں کہ دعا تو سکھلا دی،لیکن سامان کچھ بھی مہیا نہ کیا ہو ۔نہیں بلکہ جہاں دعا سکھلائی ہے وہاں اس کے لئے سامان بھی مہیا کر دیے ہیں۔چنانچہ اس سے اگلی صورت میں اس کی قبولیت کا اشارہ ہے،جہاں فرمایا:ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدیً للمتقین(البقرہ:۳)یہ گویا ایسی دعوت ہے جس کا سامان پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔
غرض یہ قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں۔اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتا ہے۔میںیقیناً کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق ووفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قویٰ سے محروم نہ سمجھے۔کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے۔جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیںملے گا۔خداتعالیٰ بڑا کریم ہے۔اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے،جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی بھی محروم نہیں رہا۔اس لئے تمہیں چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی ایک مواقع ہیں۔رکوع ،قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔فجر،ظہر ،عصر ،مغرب،عشاء۔ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں۔
نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہے نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے۔اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔
مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے،تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے۔الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے،جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے،تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔
گریہ وزاری اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے،اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہیے۔بعض لوگوں کاخیال ہے
کہ اللہ تعالیٰ کے آگے رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا۔بالکل غلط اور باطل ہے۔ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔اگر ان میںحقیقی ایمان ہوتا،تو وہ ایسا کرنے کی جرات نہ کرتے۔جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر فضل کیا ہے۔یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے ؎
عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرو اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست
خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ۔صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ۔اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے،اپنے ندر کر کے دکھاؤ۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے اندر عجیب عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل وبرکات ہیں،مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔اگر سچی محبت ہو تو خد اتعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے۔لیکن شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو۔
خدا کی محبت اور فضل خدا کی محبت ایسی شے ہے جو انسان کی سفلی زندگی کو جلا کر اسے ایک نیا اور مصفیٰ انسان بنا دیتی ہے۔اس وقت وہ
کچھ دیکھتا ہے جو پہلے نہیں دیکھتا تھا اور وہ کچھ سنتا ہے جو پہلے نہیں سنتا تھا۔غرض خدا تعالیٰ نے جو کچھ مائدہ فضل وکرم انسان کے لئے تیار کیا ہے،اس کے حاصل کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے استعدادیں بھی عطا کیں ہیں،اگر وہ استعدودیں تو عطا کرتا،لیکن سامان نہ ہوتاتب بھی ایک نقص تھا۔یا اگر سامان تو ہوتا ،لیکن استعدادیں نہ ہوتیں،تو کیا فائدہ تھا؟مگر نہیں،یہ بات نہیں ہے۔اس نے استعدا د بھی دی اور سامان بھی مہیا کیا۔جس طرح پر ایک طرف روٹی کا سامان پید ا کیا ،تو دوسری طرف آنکھ،زبان،دانت اور معدہ دے دیا اور جگر اور امعاء کو کام میں لگا دیا اور ان تمام کاموں کا مدار غذا پر رکھ دیا۔اگر پیٹ کے اندر ہی کچھ نہ جائے گا،تو دل میں خون کہاں سے آئے گا۔کیلوس کہاں سے بنے گا۔
اسی طرح پر سب سے اول اس نے یہ فضل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسلام جیسا مکمل دین دے کر بھیجا اور آپ کو خاتم النبینؐ ٹھہرایا اور قراان شریف جیسی کامل اور خاتم الکتاب عطا فرمائی۔جس کے بعد نہ تو قیامت تک کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی نیا نبی نئی شریعت لے کر اائے گا۔پھر جو قویٰ سوچ اور فکر کے ہیں۔ان سے اگر ہم کام نہ لیں اور خدا تعالیٰ کی طرف قدم نہ اٹھائیں تو کس قدر سستی اور کاہلی اور ناشکری ہے۔
انسانی زندگی کا مقصد غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلی سورت میں ہمارے لئے کس قدر مبسوط طریق پر فضل کی راہ بتا دی ہے۔اسی
صورت میں جس کا نام خاتم الکتاب اور ام الکتاب بھی ہے۔صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ایاک نعبد(گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشاء ہے اور اسے ایاک نستعین(الفاتحہ:۵)پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاںتک انسان کی اپنی طاقت، ہمت اور سمجھ میںہو،خداتعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعدپھر خداتعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لیے دُعا کرے۔انسانی زندگی کا مقصداور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے۔جس کو اس سُورۃمیںان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔ا ھدنا الصراط المستقیم(الفاتحہ:۶)صراط الذین انعمت علیہم(الفاتحہ:۷)یا اللہ۔ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا۔یہ وہ دُعا ہے جو ہر نماز میںاور ہر رکعت میںمانگی جاتی ہے۔اس دُعا کا اس قدر تکرار ہی اس کی ضرورت کو ظاہرکرتا ہے
جماعت احمدیہ کا نصب العین ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیںہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان
الفاظ کارٹ دینا اصل مقصُودنہیںہے،بلکہ یہ دُعاانسان کو انسان کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطانہ کرنے والا نسخہ ہے،جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہیے اور تعویذکی طرح مدنظر رکھنا چاہیے۔اس آیت میںچار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجاہے۔اگر انسان ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کر لے گا،تو گویا دُعامانگنے اور خلق انسانی کے حق کواداکردے گا اور ان استعدادوںاور قویٰ کے بھی کام میںلانے کا حق ادا ہو جائے گا۔جو اس کو دی گئی ہیں۔
آیت انعمت علیہم کی تفسیر اس بات کو کبھی بھُولنانہیںچاہیے کہ قرآن شریف کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر اور شرح ہیں۔
ایک جگہ ایک امربطریق اجمال بیان کیا جاتا ہے، تو دوسری جگہ وُہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے۔پس اس جگہ جو یہ فرمایا:صراط الذین انعمت علیہم(الفاتحہ:۷)تو یہ بطریق اجمال ہے، لیکن دوسرے مقام پر منعم علیہم کی خود ہی تفسیر کر دی ہے۔من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین(النساء:۷۰)منعم علیہم لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں۔نبی، صدیق،شھید،صالح،انبیاء ؑ میں یہ چاروں شاخیںجمع ہوتی ہیں۔کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے۔ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاںتک مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے عمل سے دکھادیا ہے۔کوشش کرے۔
آنحضرت کی راہ کو ہر گز نہ چھوڑو میںیہ بھی تمھیںبتادیناچاہتا ہوںکہ بہت سے لوگ ہیںجو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور
اداکے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیںیا خداتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں،لیکن میںتمھیں کہتا ہوںکہ جو طریق آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اختیارنہیں کیا۔وہ محض فضول ہے۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے بڑھ کر منعم علیہم کی راہ کاسچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے۔جن پر نبوّت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔آپؑ نے جو راہ اختیار کی وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے۔اس راہ کو چھوڑکر دوسری راہ ایجاد کرنا،خواہ وہ بظاہر کتنی ہی خوش کُن معلوم ہوتی ہو۔میری رائے میںہلاکت ہے اور خداتعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے۔
آنحضرت سلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی اتباع سے خد املتا ہے اور آپؐ کی اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمریں ٹکریں مارتارہے،گوہر مقصود اس کے ہاتھ نہیں آسکتا؛چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بدیں الفاظ بتاتا ہے: ؎
بزہدو رع وصدق وصفا ولیکن میفزائے بر مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی راہ کو ہر گز نہ چھوڑو۔میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں نے قسم قسم کے وظیفے تیار کر لئے ہیں۔الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں،لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں۔انبیاء کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور ارہ کے ذکر کریں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسی لئے اسوہ حسنہ فرمایا لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ(الاحزاب:۲۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقش قدم پر چلو اور ایک ذرہ بھر بھی ادھر یا ادھر ہونے کی کوشش نہ کرو۔
جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صراط الذین انعمت علیہم(الفاتحہ:۷)میں جس کی
طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے۔
مقام نبوت ان کمالات میں سے جو منعم علیہم گروہ کو دئے جاتے ہیں۔پہلا کمال نبوت کا کمال ہے۔جو بہت ہی اعلیٰ مقام پر واقع ہے۔ہمیں
افسوس ہے کہ وہ الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کمال کی حقیقت بیان کر سکیں۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر کوئی چیز اعلیٰ ہو اس کے بیان کرنے کے واسطے اسی قدر الفاظ کمزور ہوتے ہیںاور نبوت تو ایسا مقام ہے کہ انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اور درجہ اور مرتبہ نہیں ہے،تو پھر یہ الفاظ میں کیوں کر بیان ہو سکے۔مختصر اور ناکافی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب انسانی سفلی زندگی کو چھوڑ دیتا ہے اور بالکل سانپ کی کینچلی کی طرح اس زندگی سے الگ ہو جاتا ہے۔اس وقت اس کی حالت اور ہو جاتی ہے۔وہ بظاہر اسی زمین پر چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہے اور اس پر قانون قدرت کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے۔جیسے دوسرے لوگوں پر،لیکن باوجود اس کے بھی وہ اس دنیا سے الگ ہوتا ہے اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر جا پہنچتا ہے،جو نقطہ نبوت کہلاتا ہے۔اور جہاں وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کرتا ہے۔یہ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہ جب وہ نفس اور اس کے تعلقات سے الگ ہو جاتا ہے،تو پھر اس کا تعلق محض اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتا ہے اور اسی سے وہ مکالمہ کرتا ہے۔
کلام نفس انسان کی حالت ایسی واقع ہوئی ہے کہ یہ کبھی نکمااور بے کار نہیں ہوتا اور نفس کلام سے بھی کبھی فارغ نہیں ہوتا ہے۔نفس اور شیطان ہی سے اس
کا مکالمہ شروع رہتا ہے۔اگر کوئی اور بات کرنے والا نہ ہو۔بعض لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان بالکل خاموش ہے،لیکن درحقیقت وہ خاموش نہیں رہتا۔اس کا سلسلہ کلام اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ بہت ہی لمبا ہوتا ہے۔اور شیطانی رنگ میں اسے خود لمبا کرتا ہے اور بے شرمی سے اسے لمبا ہونے دیتا ہے۔یہ سلسلہ کلام کبھی خیالی فسق کے رنگ میں ہوتا ہے اور کبھی بے ہودہ اور جھوٹی تمناوں کے رنگ میں اور اس سے وہ کبھی فارغ نہیں رہتا۔جب تک کہ اس سفلی زند گی کو نہ چھوڑ دے۔یہ بھی یاد رکھو کہ اس قسم کے خطرات اور خیالات کا سلسلہ جسے انسان لمبا نہیں ہونے دیتا اور معمولی خیال کی طرح آکر دل سے محو ہو جاتا ہے وہ معاف ہیں ۔لیکن جب اس سلسلہ کو لمبا کرتا ہے اور اس پر عزیمت کرتا ہے،تو وہ گناہ ہے اور ان کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔
جب انسان ان خیالات کو جو اس کے دل میں پیدا ہو تے ہیں۔دور کر دیتا ہے اور ان کو لمبا نہیں ہونے دیتا،تو اس مین کچھ شک نہیں کہ وہ معافی کے قابل ہیں۔لیکن جب ان کے سلسلے کی درازی میں ایک لذت پاتا ہے اور ان کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔تب وہ قابل مواخذہ ہو جاتے ہیں،کیونکہ ان میںعزیمت شامل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے۔اس بات کو خوب یاد رکھ لو کہ کلام نفسی دو قسم کا ہوتا ہے۔کبھی شیطان جو خیالی فسق وفجور کے سلسلہ میں چلا جاتاہے اور آرزوں کے ایک لمبے سلسلہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب تک انسان ان دونوں سلسلوں میں پھنسا ہوا ہے،اسے شیطانی دخل کا بہت اندیشہ ہوتا ہے اور اس امر کا زیادہ امکان ہوتاہے کہ وہ اس طرح سے نقصان اٹھائے اور شیطان اسے زخمی کردے۔مثلاًکبھی کوئی منصوبہ باندھتا ہے کہ فلاں شخص میری فلاں غرض اور مقصد میں بڑا مخل ہے،اسے ماردیاجائے یا فلاں شخص نے مجھے تو کر کے بلایا ہے اس کا بدلہ لیا جائے ۔اور اس کی ناک کاٹ دی جائے۔غرض اسی قسم کے منصوبوں اور ادھیڑبن میں لگا رہتا ہے۔یہ مرض سخت خطر ناک ہے۔وہ نہیں سمجھتا کہ ایسی باتوں سے نفس کا کیا نقصان کر رہا ہوں اور اس سے میری اخلاق اور روحانی قوتوں پر کس قسم کا بڑا اثر پڑرہا ہے۔اس لیے اس قسم کے خیالات سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔جب کبھی کوئی ایسابیہودہ سلسلہ خیالات شروع ہو،تو فوراً اس کے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔استغفار پڑھو۔لاحول کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مدد اور توفیق چاہواور خداتعالیٰ کی کتاب کے پڑھنے میں اپنے آپ کو مصروف کر دو اور یہ سمجھ لو کہ اس قسم کے خیالی سلسلہ سے کچھ بھی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔اگر دشمن مر بھی جاوے تو کیا اور زندہ رہے تو کیا؟ نفع ونقصان کا پہنچانا خداتعالیٰ کے قبضہ واختیار میں ہے۔کوئی شخص کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔سعدؔی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیروؔاںبادشاہ کے پاس کوئی شخص خوشخبری لے کر گیا کہ تیرافلاں دشمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے۔نوشروؔاںنے اس کا کیا اچھا جواب دیا ؎
مرابمرگ عدوجائے شادمانی نیست کہ زندگی مانیزجاودانی نیست
پس انسان کو چاہیے کہ اس امر پر غور کرے کہ اس قسم کے منصوبوں اور ادھیڑوبن سے کیا فائدہ اور کیا خوشی۔یہ سلسلہ تو بہت ہی خطرناک ہے اور اس کاعلاج توبہ،استغفار،لاحول اور خداتعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ ،بیکاری اور بے شغلی میں اس قسم کا سلسلہ بہت لمبا ہو جایا کرتا ہے۔
دوسری قسم کلام نفس کی امانی ہے۔یہ سلسلہ بھی چونکہ بے جاخواہشوں کو پیدا کرتا ہے اور طمعؔ،حسدؔاور غرضی کے امراض اس سے پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے جونہی کہ یہ سلسلہ پیدا ہو۔فوراً اس کی صف لپیٹ دو۔میں نے یہ تقسیم کلام نفس کی جوکی ہے یہ دونوںقسمیں انجام کارانسان کو ہلاک کر دیتی ہیں،لیکن نبی ان دونوں قسم کے سلسلہ کلام سے پاک ہوتا ہے ۔
مقام نبوت کی حقیقت نبوت کیا ہے؟یہ ایک جو ہر خدا داد ہے۔اگر کسب سے ہوتا تو سب لوگ نبی ہو جاتے۔نبیوں کی فطرت ہی اس قسم
کی نہیں ہوتی کہ وہ اس بے جاسلسلہ کلام میں ہوں۔وہ نفسی کلام کرتی ہی نہیں؛حالانکہ دوسرے لوگوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ان سلسلوں میں کچھ ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا خانہ ہی خالی رہ جاتا ہے۔بر خلاف اس کے نبی اد دونوں سلسلوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ میں کچھ ایسے گم ہوتے ہیں اور اس کے مخاطبہ اور مکالمہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ ان سلسلوں کے لئے ان کے دل ودماغ میں سمائی اور گنجائش بھی نہیںرہتی،بلکہ ان کے دل ودماغ میں صرف اللہ تعالیٰ کا ہی سلسلہ کلام رہ جاتا ہے۔چونکہ ان کے پاس صرف وہی سلسلہ باقی ہوتا ہے۔اس لئے خدا تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے رہتے ہیں۔تنہائی اور بے کاری میں بھی جب ایسے خیالات کا سلسلہ ایک انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس وقت اگر کوئی شخص نبی کو بھی ویسی ہی حالت میں دیکھے ،تو شاید غلطی اور ناواقفی سے سمجھ لے گا کہ اب اس کا سلسلہ کلام بھی کدا تعالیٰ سے نہ ہو گا،مگر ایسا نہیں ہوتا۔نبی ہر وقت خد اتعالیٰ سے ہی باتیں کرتا رہتا ہے۔اور یہی دعا کرتا رہتا ہے کہ اے خدا میں تجھ سے پیار کرتا ہوںاور تیری ہی رضا کا طالب ہوں۔مجھ پر ایسا فضل کر کے میں اس نقطہ اور مقام تک پہنچ جاوں جو تیری رضا کا مقام ہے۔مجھے ایسے اعمال کی توفیق دے جو تیری نظر میں پسندیدہ ہوں۔دنیا کی آنکھ کھول کر وہ تجھے پہچانے ور تیرے آستانے پر گرے۔یہ اس کے خیالات ہوتے ہیں اور یہی آرزوئیں۔اور ان میں وہ ایسا فنا ہوتا ہے کہ دوسرا آدمی اس کو شناخت نہیں کر سکتا۔نبی اس سلسلے کو ذوق کے ساتھ دراز کرتا ہے اور پھر اس میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کی روح بہہ نکلتی ہے۔وہ پورے زور اور طاقت کے ساتھ آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور انت ربی انت ربی کہہ کر پکارتی ہے۔تب اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم جوش میں آتا ہے اور وہ اس کو مخاطب کرتا اور اپنے کلام سے اس کا جواب دیتا ہے۔یہ ایسا لذیذ سلسلہ ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ نہیں سکتا اور یہ لذت ایسی ہے کہ اس کو ادا نہیں کر سکتے۔پس وہ بار بار مستسقی کی طرح باب ربوبیت کو ہی کٹھکھٹاتا رہتا ہے اور وہاں ہی اپنے لئے راحت و آرام پاتا ہے۔وہ دنیا میں ہوتا ہے،لیکن دنیا سے الگ ہوتا ہے۔وہ دنیا کی کسی چیز کا آرزو مند نہیں ہوتا ،لیکن دنیا اس کی خادم ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کے قدموں پر دنیا کو دالتا ہے۔
یہ ہے مختصر حقیقت نبوت کے مقام کی۔یہاں کلام نفسی کے دونوں سلسلے بھسم ہو جاتے ہیں اور تیسرو سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جس کا مبداء اور منتہا خدا تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو جذب کرتا ہے اور اس میں اس قسم کے دخان اور اضغاث،احلام نہیں ہوتے جو نفسی کلام میں ہوتے ہیں۔بلکہ وہ دنیا سے انقطاع کلی کیے ہوئے ہوتاہے۔جیسے ایک نفسانی خواہشوں کا اسیر اپنی محبوبہ سے تعلق پیدا کر کے ہمہ گوش ہو کر تصور کرتا ہے۔اور اسے نفسانی لذات کا معراج پاتا ہے اور قطعاً نہیں چاہتا کہ وہ کسی دوسرے کو ملے۔اسی طرح سے نبی خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ اس تنہائی اور خلوت میں کسی دوسرے کا دخل ہر گز پسند نہیں کرتا۔وہ اپنی محبوبہ سے ہم کلام ہو تا ہے اور اسی میں لذت اور سکون پاتا ہے۔وہ ایک دم کے لئے بھی اس خلوت کو چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔لیکن خدا تعالیٰ اس کو دنیا کے سامنے لاتا ہے تا کہ وہ دنیا کی اصلاح کرے اور خدا نما آئینہ ٹھہرے۔نبی طبعاً ایک لذت اور کیفیت پاتا ہے اور ایس خدا تعالیٰ ہی میں چاہتا ہے۔اس سے زیادہ میں اس کی حقیقت اور کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا ؛اگرچہ دل اس لذت سے بھرا ہوا ہے اور اس ذکر کی درازی اور بھی لذت بخش ہے۔مگر وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جن میںاس کو ظاہر کر سکوں۔
کیا وجہ ہے کہ انبیاؑء بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جبکہ انبیاء ایسے فنا فی اللہ
ہوتے ہیں اور دنیا اس کی لذتوں سے دور بھاگتے ہیں،پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ بیویاں اور بچے بھی رکھتے ہیں؟ایسے معترضین اتنا نہیں سمجھتے کہ ایک شخص تو ان باتوں کا سیر اور ان فانی لذتوں میں فنا ہوجاتا ہے،لیکن اس کے خلاف انبیاء کا گروہ ان باتوں سے پاک ہوتا ہے۔یہ چیزیں ان کے لئے محض خادم کے طور پر ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں انبیاء ہر قسم کی اصلاح کے لئے آتے ہیں۔پس اگر وہ بیوی بچے نہ رکھتے ہوں،تو اس پہلو میں تکمیل اصلاح کیونکر ہو۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عیسائی لوگ معاشرت کے متعلق حضرت مسیح کا دنیا کے رو برو کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں ؟کچھ بھی نہیں۔جب وہ اس راہ سے ہی نہ واقف ہیں اور مدارج سے ہی بے خبر،تو ہو کیا اصلاح کریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی کمال ہے کہ ہر پہلو میں آپ کا نمونہ کامل ہے۔دنیا اور اس کی چیزیں انبیاء پر کوئی اثر نہیں دال سکتیںاور وہ فانی لذتوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے،بلکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف اس دریا کی ایک تیز دھار کی طرح جو پہاڑ سے گرتی ہے بہتا ہے اور اس کے رو میں ہر خس وخاشاک بہ جاتا ہے۔
غرض انبیا علیہم السلام ان چیزون کے غلام نہیں ہوتے،بلکہ یہ چیزیں ان کے لئے بطور خادم ہوتے ہیں اور ان کے اعلی درجے کے اخلاقی کمالات کا نمونہ ان کے اس ذکر اور ذوق میں جو خدا تعالیٰ کے تصور اور محویت میں انہیں ملتا ہے کچھ ہرج نہیں ہوتا۔وہ کچھ ایسے محو اور فنا ہوتے ہیں کہ دنیا سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔جب اس قسم کی ربودگی ہوتی ہے،تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے آوازیں آنے لگتی ہیں اور مکالمات الہیہ ہوتے ہیں۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب جذب کی قوت کسی چیز میں ہوتی ہے تو وہ دوسرے کو اپنے اندر جذب کرتی ہے۔انبیاؑء کے جذب میںاس قدر قوت ہوتی ہے کہ دنیا اور مافیہا کی ساری باتیں اس میں بھسم ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیض کو اپنی طرف کھینچنے لگتی ہیں اور اس سلسلہ کو باقی تمام سلسلوں پر تقدم اور فوق ہو جاتا ہے۔لیکن اس کے لئے مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر یہ راہ نہیں کھلتی۔جیسا کہ فرمایا:والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰)اور اسی کی طرف اشارہ ہے ایاک نعبد۔اگرچہ ایاک نعبد کو ایاک نستعین پر مقدم ہے،لیکن اگر پھر بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے سبقت کی ہوئی ہے۔ایاک نعبد بھی کسی طاقت نے کہلوایا ہے اور وہ قوت جو پوشیدہ ہی پوشیدہ ایاک نعبد کا اقرار کرتی ہے،کہاں سے آئی؟کیا خد اتعالیٰ نے ہی وہ عطا فرمائی ہے؟بے شک وہ خدا تعالیٰ کو ہی عطیہ ہے جو اس نے محض رحمانیت سے عطا فرمائی ہے۔اس کی تحریک اور توفیق سے یہ ایاک نعبد بھی کہتا ہے۔اس پہلو سے اگر غور کریں،تو اس کو تاخر ہے اور دوسرے پہلو سے اس کو تقدم ہے۔یعنی جب یہ قوت اس کو اس بات کی طرف لاتی ہے تو یہ تاخر ہو گیا اوربصورت اول تقدم۔اسی طرح پر سلسلہ نبوت کی فلاسفی کا خلاصہ یا مفہوم ہے۔
لوازم نبوت یہ تو ممکن ہے کہ ہزاروں ہا ہزار انسان ملہم ہونے کا دعویٰ کریں اور اثبات نبوت اور کلام الہی کی محبت قائم کرنے کے واسطے یہ ضروری
امر ہے،لیکن امر نبوت میں مقصود با لذات ایک اور امر ہوتا ہے جو خاص نبیوں سے مخصوص ہوتا ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شے آتیہے تو اس کے لوازم اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہ نہیں کہ وہ لوازم سے الگ ہو۔مثلاً جب کھانا کھائے گا ،تو اس کے کوازم ساتھ ہی ہوں گے۔ہر قسم کے برتن،پانی یہاں تک کہ کلال بھی دیں گے۔اسی طرح پر نبوت کے ساتھ لوازمات نبوت بھی ساتھ ہوتے ہیںاور منجملہ ان لوازمات کے ایک یہ بھی ہے کہ کلام نفسانی کا سلسلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور یہ امر اصل کیفیت کے لوازم میں سے ہے اور اس کے آثار اور علامات کی دلیل وہ پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ انہیں عطا کرتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ نبیوں کا ایک اور نام آسمان پر ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ آشنا بھی نہیں ہوتے اور بعض وقت جب وہ آسمانی نام دنیا کے سامنے پیش ہوتا ہے،تو لوگوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے۔مثلاً میرے ہی معاملہ میں خداتعالیٰ نے میرا نام مسیحؔ ابن مریم بھی رکھا ہے۔جس پر بعض نادان اعراض کرتے ہیں کہ تمہارانام تو غلامؔاحمدہے،مگر وہ اس راز کو سمجھ نہیں سکتے۔یہ اسرارنبوت میں سے ایک بات ہے۔
غرض جب دونوں قسم کے جھوٹے مکالمے ختم ہو جاتے ہیں،تو پھر اس کا دل بولتا ہے اور ہر وقت بولتا رہتا ہے۔حرکت کرتا ہے۔تب بھی اس سے آواز آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ہزار لوگ اس کے پاس اور اور قسم کی باتوں میں مشغول ہوں،مگر یہ اپنے اس سلسلہ میں لذّت پاتا ہے اور اپنے محبوب سے کلام کرنے میں مصروف رہتا ہے۔یہی وجہ اس کی جمعیّت قلب کی ہوتی ہے۔کوئی شوروشر اس کو پرا گندہ نہیں کر سکتا ۔عامطور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک عاشق چاہتا ہے کہوہ اپنے معشوق اور محبوب کے حسن وجمال پر پوری طرح اطلاع پالے اور ہر وقت اس سے کلام کرتا رہے،مگر ایسا نہیں ہوا کرتا۔اور اس قسم کی دنیاوی خواہشیں ذلیل ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والے اور اس کے عشق میں گمشدہ قوم یعنی انبیائؑ ان جھوٹے اور فانی عاشقوں کے عشق سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر جوش رکھتے ہیں،کیونکہ ان کا خدادہ خداہے جو جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے۔اور وہ ان پر بہت زیادہ توجہ کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا معمولی چال سے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔پس جس شخص کی توجہ ایسے خدا کی طرف ہوجائے اور وہ اس کی محبت میں کھویا جائے،تو اس محبت اور عشق الہی کی آگ اس کے امانی اور نفسانی خیالات کو جلادیتی ہے اور اس کے اندر روح ناطق بھر جاتی ہیاور وہ پاک نطق جواس کے اندر شروع ہوتا ہے،وہ خداتعالیٰ کا نطق ہوتا ہے ، جسے دوسرے رنگ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں۔کہ یہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے۔پس یہ ایک کمال نبوت ہے۔جسے انعمت علیھم میں بیان کیا گیا ہے۔اس لیے یہ ضروری بات ہے کہ جب انسان اھدناالصراط المستقیم۔صراط الذین انعمت علیھم(الفاتحہ:۷) کی دعا مانگے،تو اس کے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ وہ ا س کمال نبوت کو حاصل کرے۔
مقام صدیقیّت پھر دوسرا کمال صدیقوں کاکمال ہے۔صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راستبازی میں فنا شدا ہو اور کمال درجہ کا پابند راستبازاور
عاشق صادق ہو۔یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے،تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راستبازیوں کا مجموعہ اور ان کوشش کرنے والا ہو جاتا ہے جس طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے۔بقول شخصے ؎زرزرکشددرجہاں گنج گنج۔جب ایک شے بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے،تو اس میں اپنی قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے ۔
کمال صدیقیت کے حصول کا فلسفہ صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوریوں اور ناداری کو دیکھ کر اپنی
طاقت اور حیثیت کے موافق ایاک نعبد کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا ہے اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا،جھوٹی گواہی نہ دون گا اور نہ جزبہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹاکلام کروں گا۔نہ لغو طور پر نہ کسب خیر اور نہ دفع شر کے لئے۔یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا۔جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گایا ایاک نعبد پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے۔اور اس کا وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے۔ایاک نعبد سے آگے ایاک نستعین ہے۔خوا یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے،لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدا ء الفیوض اور صدق اور راستی کا سر چشمہ ہے۔اس کو ضرور مدد دے وے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا۔مثلاً جیسے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو تاجر اچھے اصولوں پر چلتاہے اور راستبازی اور دیانت کو ہاتھ سے نہیں دیتا۔اگر وہ ایک پیسہ سے بھی تجارت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسے کے بدلہ لاکھوں روپے دے دیتا ہے۔
صدیق پر معارف قرآنی کھولے جاتے ہیں اسی طرح پر جب عام طور پر ایک انسان راستی اور راستبازی سے محبت
کرتاہے۔ اور صدق کو اپنا شعار بنا لیتا ہے،تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھا دیتی ہے۔صدق مجسم قرآن مجید ہے اور پیکر صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک ذات ہے۔اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے مامور و مرسل حق اورصدق ہوتے ہیں۔ پس جب وہ اس صدق تک پہنچ جاتا ہے،تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور اسے ایک خاص بصیرت ملتی ہے۔جس سے معارف قرآنی اس پر کھلنے لگتے ہیں۔میں اس بات کے ماننے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں کرتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن پاک کے معارف کو سمجھ بھی سکے۔اس لئے کہ اس کے قلب کو اس سے مناسبت ہی نہیں،کیونکہ یہ تو صدق کا چشمہ ہے اور اسے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معارف قرآنی صرف اسی بات کا نام ہی نہیں کہ کبھی کسی نے کوئی نکتہ بیان کر دیا۔اس کی تو وہی مثال ہے۔؎
گاہ باشد کہ کود کہ ناداں بغلط بر بدف زند تیرے
انہیں قرآنی حقائق و معارف کے بیان کرنے کے لئے قلب کو مناسبت اور کشش اور تعلق حق اور صدق سے ہو جاتا ہے اور پھر یہاں تک اس میں ترقی اور کمال ہوتا ہے کہ وہ ما ینطق عن الھویٰ(النجم:۴)کا مصداق ہو جاتا ہے۔اس کی نگاہ جب پڑتی ہے ،صدق پر ہی پڑتی ہے۔اور اس کو ایک خاص قوت اور امتیازی طاقت دی جاتی ہے ۔جس سے وہ ھق وباطل میں فی الفور امتیاز کر لیتا ہے۔یہاںتک کہ اس کے دل میں ایک قوت آجاتی ہے۔جس کی ایسی تیز حس ہوتی ہے کہ اسے دور ہی سے باطل کی بو آجاتی ہے۔یہی وہ سر ہے جو لایمسہ الا امطھرون(الواقعہ:۸۰) میں رکھا گیا ہے۔
جھوٹ ترک کئے بغیر انسان مطہر نہیں ہو سکتا حقیقت میںجب تک انسان جھوٹ کو ترک نہیں کرتا،وہ مطہر نہیں ہو
سکتا۔نابکار دنیا دار کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ہوتا ۔یہ ہی ایک بیہودہ گوئی ہے۔اگر سچ سے گذارہ نہیں ہو سکتا،تو پھر جھوٹ سے ہر گز گذارہ نہیں ہو سکتا۔ افسوس کہ یہ بد بخت لوگ خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے۔وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بدوں گذارہ نہیں ہو سکتا۔وہ اپنا معبود اور مشکل کشا جھوٹ کی نجاست ہی کو سمجھتے ہیں ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جھوٹ کوبتوں کی نجاست کے ساتھ وابستہ کر کے بیان فرمایا ہے۔یقیناً سمجھو کہ ہم ایک قدم کیا ایک سانس بھی خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں لے سکتے۔ہمارے جسم میں کیا کیا قویٰ ہیں،لیکن کیا ہم اپنی طاقت سے ان سے کام لے سکتے ہیں؟ہرگز نہیں۔
خداتعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے معنی جو لوگ اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ان کا انجام اچھا نہیں
ہوتا۔خداتعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے، بلکہ خداتعالیٰ کے پیدا کردہ اسباب سے کام لینا اور اس کے عطا کردہ قوی کو کام میں لگانا۔پھر نتیجہ کے لیے خداتعالیٰ پر بھروسہ کرنا یہی حقیقی راہ ہے اور خدفاتعالیٰ کی قدر ہے،جو لوگ خدادادقوی سے کام نہیں لیتے اور صرف منہ سے کہہ دیتے ہیں کہہ ہم خداتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی قدر نہیں کرتے۔ بلکہ خداتعالیٰ کو آزماتے ہیں اور اس کی عطا کردہ قوتوںاور طاقتوں کو لغو قرار دیتے ہیں اور اس طرح پراس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتے ہیں اور ایاک نعبد کے مفہوم سے دور جا پڑتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے،بلکہ بغیر اس پر عمل کیے ایاک نستعین کا ظہور چاہتے ہیں،یہ ہرگز مناسب نہیں بلکہ جہانتک ہو سکے اور انسان کے امکان اور طاقت میں ہو۔رعایت اسباب ضرور کرنی چاہیے،لیکن ان اسباب کو اپنا معبود اور مشکل کشا قرار نہ دے، بلکہ ان سے کام لے کر پھر انجام کو تفویض الی اللہ کرے اور اس بات پر سجدات شکر بجا لاتے کہ خدا نے اس کو وہ طاقتیں اور قوی عطا فرمائے ہیں۔
فانی فی اللہ کا مقام خداتعالیٰ کے فضل اور تائید کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کھنچاجاتا ہے اور خداتعالیٰ میں
فنا ہو جاتا ہے تو اس سے وہ کام صادر ہوتے ہیں،جو خدائی کام کہلاتے ہیں اور اس پر اعلیٰ سے اعلیٰ انورار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔انسانی کمزوری کا تو کچھ بھی ٹھکانا نہیں ہے۔وہ ایک قدم بھی خداتعالیٰ کے فضل اور تائید کے بغیر نہیں چل سکتا۔میں تو یہاںتک یقین رکھتا ہو کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے مدد نہ ملے تو وہ رفع حاجت کے بعد ازار بند تک بھی باندھنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا۔طبیبوںؔ نے ایک مرض لکھی ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ انسان جن چھینک لے تو اس کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔یقیناً یادرکھو کہ انسان کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے خلق الانسان ضعیفاً(النساء:۲۹) انسان کا اپنا توکچھ بھی نہیں ہے۔سر سے لے کر پائوں تک اتنے اعضاء نہیں رکھتا،جس قدر کہ اس کو امراض لاحق ہوتے ہیں۔جب وہ اتنی کمزوریوں کا نشانہ اور مجموعہ ہے تو پھر اس کے لیے امن اور عافیت کی یہیسبیل ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف ہواور وہ اس کا سچا اور مخلص بندہ بن جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صدق کو اختیار کرے۔جسمانی نظام کی کل بھی صدق ہی ہے ۔جو لوگ صدق کو چھوڑ دیتے ہں اور خیانت کر کے جرائم کو پناہ میں لانے والی سپر کذب کو خیال کرتے ہیں۔وہ سخت غلطی پر ہیں۔
کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے آنی اور عارضی طور پر ممکن ہے اس
سے کسی انسان کو کچھ فائدہ حاصل ہو جائے،لیکن فی الحقیقت کذب کے اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندرسے ایک دیمک لگ جاتی ہے۔ایک جھُوٹ کے لیے پھر اسے بہت سے جھُوٹ تراشنے پڑتے ہیں،کیونکہ اس جھُوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے۔اس طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور رُوحانی قویٰ زائل ہو جاتے ہیں اور پھر اُسے یہانتک جرات اور دلیری ہو جاتی ہے کہ خداتعالیٰ پر بھی افتراء کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ کے مُرسلوں اور مامُوروں کی تکذیب بھی کر دیتا ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک اظلم ٹھہر جاتا ہے۔جیساکے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے من اظلم ممن افتری علی اللہ کذباً اوکذب باٰیٰتہ(الانعام:۲۱)یعنی اُس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افترا باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے۔یقینا یاد رکھو کہ جھوت بہت ہی بُری بلا ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطرناک نتیجہ اور کیا ہو گا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اُس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔پس تمھارے لیے یہ ضروری بات ہے کہ صدق اختیار کرو۔
صدق کے متعلق حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا واقعہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے
ذکر میں درج ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے طلب علم کے لیے نکلے،تو آپ کی والدہ صاحبہؓنے ان کے حصہ کی اسی اشرفیاں اُن کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیں اور یہ نصیحت کی کہ بیٹاجھُوٹ ہر گز نہ بولنا۔حضرت سید عبدالقادر جب گھر سے رخصت ہوئے،تو پہلی ہی منزل میں ایک جنگل میں سے اُن کا گزر ہوا۔جہاں چوروں اور قزاقوں کا ایک بڑا قافلہ رہتا تھا۔جہاں اُن کو چوروں کا ایک گروہ ملا۔اُنھوں نے آپؒ کو پکڑکر پُوچھا کہ تمھارے پاس کیا ہے؟آپؒنے دیکھا کہ یہ توپہلی ہی منزل میںامتحان درپیش آیا۔اپنی والدہ صاحبہؓ کی آخری نصیحت پر غور کی اور فوراًجواب دیا کہ میرے پاس اسی اشرفیاںہیں جو میری بغل کے نیچے میری والدہ صاحبہ نے سی دی ہیں۔وہ چوریہ سُن کر سخت حیران ہوئے کہ یہ فقیر کیا کہتاہے!ایساراستباز ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔وہ آپ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور سارا قصہ بیان کیا۔اس نے بھی جب آپؒ سے سوال کیا۔تب بھی آپؒ نے وہی جواب دیا۔آخر جب آپ کے پیراہن کے اس حصہ کو پھاڑ کر دیکھا گیا،توواقعی اس میں اسی اشرفیاں موجود تھیں۔اُن سب کو حیرانی ہوئی۔اس پر اُن کے سردار نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔اس پر آپؒ نے اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت کا ذکر کر دیا اور کہا کہ میں طلب دین کے لیے گھر سے نکلاہوں،اگر پہلی ہی منزل پر جھوٹ بولتا تو پھر کیا حاصل کر سکتا ۔اس لئے میں نے سچ کو نہیں چھوڑا ۔جب آپ نے یہ بیان فرمایا،تو قزاقوں کا سردار چیخ مار کر رو پڑا اور آپ کے قدموں میں گر گیا اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی۔کہتے ہیں کہ آپ کا سب سے پہلا مرید یہی شخص تھا۔
غرض صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی نجات دلا دیتی ہے۔سعدی نے سچ کہا ہے کی ؎ کس ندیدم کہ گم شد از راہ راست۔پس جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام اور انبیاء کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ وہ تمام راسبازوں کے نمونے اور چشمے ہوتے ہیں۔کونو مع الصدقین(التوبہ:۱۱۹)کا ارشاد اسی اصول پر ہے۔
صدیق پر قرآن کریم کے معارف کا فیضان مختصر یہ کہ دوسرا کمال انعمت علیہم میں صدیقوں کا کمال ہے اور اس کمال
کے حاصل کرنے پر قرآن شریف کے حقائق اور معارف کھلتے ہیں،لیکن یہ فضل اور فیض بھی محض تائید الہی سے آتا ہے۔ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے بغیر ایک انگلی کا ہلانا بھی مشکل ہے۔ہاں یہ انسان کا فرض ہے کہ سعی اور مجاہدہ کرے۔جہاں تک اس سے ممکن ہو اور اس کی توفیق بھی خدا تعالیٰ سے ہی چاہی۔کبھی اس سے مایوس نہ ہو۔کیونکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا ۔جیسا کہ خود بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔لا یا یئس من روح اللہ الا القوم الکفرون(یوسف:۸۸)اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر ناامید ہوتے ہیں۔نا امیدی بہت ہی بری بلا ہے۔اصل میں نا امید وہ ہوتا ہے،جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے۔
بد ظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے یہ خوب یاد رکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بد ظنی سے پیدا ہوتی ہیں۔اس لئے اللہ
تعالیٰ نے اس سے بہت منع فرمایا ہے اور پھر فرمایا کہ ان بعض الظن اثم(الحجرات:۱۳)اگر مولوی لوگ ہم سے بد ظنی نہ کرتے اور صدق و استقلال کے ساتھ وہ ہماری باتیں سنتے،ہماری کتابیں پڑھتے اور ہمارے پاس رہ کر ہمارے حالات کا مشاہدہ کرتے،تو ان الزامات کو جو وہ ہم پر لگاتے ہین،ہر گز نہ لگاتے۔لیکن جب انہوں نے خدا تعالٰی کے ارشاد کی عظمت نہ کی اور اس پر کار بند نہ ہوئے،تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ پر بد ظنی کی اور میری جماعت پر بھی بد ظنی کی اور جھوٹے الزامات اور اتہامات لگانے شروع کر دئے۔یہاں تک کہ بعض نے بڑی بے باکی کے ساتھ لکھ دیا کہ یہ تو دہریوں کا گروہ ہے اور یہ لوگ نمازیں نہیں پڑھتے۔روزے نہیں رکھتے۔وغیرہ وغیرہ۔اب اگر وہ اس بد ظنی سے بچتے تو ان کو جھوٹ کی *** کے نیچے نہ آنا پڑتا اور وہ اس سے بچ جاتے۔میں سچ کہتا ہوں کہ بد ظنی بہت ہی بری بلا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے اور دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے۔صدیقوں کے کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بد ظنی سے بہت ہی بچے۔اور اگر کسی کی نسبت کو ئی سوء ظن پیدا ہو،تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے،تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنیوالا ہے۔اس کو کبھی بھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے۔
غرض بد ظنی انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔یہاں تک لکھاہے کہ جب دوزخی لوگ جہنم میںڈالے جائیں گے،تو اللہ تعالیٰ ان سے یہی فرمائے گا کہ تم نے اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کی۔بعض لوگ اس خیال سے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خطا کاروں کو معاف کر دے گا اور نیکو کاروں کو عذاب دے گا۔ایسا خیال بھی بد ظنی ہے۔اس لئے اس کے صفت عدل کے سراسر خلاف ہے۔گویا نیکی اور اس کے نتائج جو قرآن شریف میں اس نے مقرر فرمائے ہیں،بالکل ضائع کر دینا اور بے سود ٹھہرانا ہے۔پس خوب یاد رکھو کہ بدظنی کا انجام جہنم ہے۔اس کو معمولی مرض نہ سمجھو۔بد ظنی سے نا امیدی اور نا امیدی سے جرائم اور جرائم سے جہنم ملتا ہے۔بد ظنی صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے۔اس لئے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا بے نظیر صدق آنحضرت صلی ا للہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے،
تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے۔آنحضرت صلی ا للہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکرصدیق نے جو صدق دکھایا،اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات ھاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتیٰ المقدور دعا سے کام لے۔جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین ہو جاتا ۔صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔
ابو بکری فطرت کیا ہے؟ ابو بکری فطرت کیا ہے؟اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقعہ نہیں،کیونکہ اس کی تفصیلی بیان کیلئے بہت وقت
درکار ہے۔میں مختصراً ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نبوت کا اظہار فرمایا۔اس وقت حضرت ابو بکرؓ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے۔جب واپس آئے،تو ابھی راستے میں ہی تھے کہ ایک شخص آپ سے ملا۔آپ نے اس سے مکہ کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناو۔ جیسا کہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ناسان سفر سے واپس آتا ہے،تو راستہ میں اگر کوئی اہل وطن مل جائے۔تو اس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے۔اس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔آپ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اس نے یہ دعویٰ کیا ہے،تو بلا شبہ وہ سچا ہے۔اسی ایک واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آپ کو کس قدرحسن ظن تھا۔معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیرت ہو اور مزید تسلی کی ضرورت ہو،لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اسے معجزے کی ضرورت ہی کیا ہے۔الغرض حضرت ابو بکر صدیقؓ راستہ میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دعویٰ نبوت سن کر ایمان لے آئے۔پھر جب مکہ میں پہنچے تو آنحضرتؐکی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے ۔اس پرحضرت ابو بکر صدیق نے کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ میں آپ کا پہلا مصدق ہوں۔آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھابلکہ آپ نے اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔
قول اور فعل میں مطابقت درحقیقت اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل باہم مطابقت رکھتے ہوں۔اگر ان میں
مطابقت نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا:اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم(البقرہ:۴۵)یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہو،مگر اپنی جانوں کو اس نیکی کے امر کا مخاطب نہیں بناتے،بلکہ بھول جاتے ہو۔اور پھر دوسری جگہ فرمایا:لم تقولون مالا تفعلون(الصف:۳)مومن کو دو رنگی نہیں اختیار کرنی چاہیے۔بزدلی اور نفاق ہر دو مومن سے دور رہتے ہیں۔ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست اور مطابق رکھو۔جیسا کہ صحابہ کرامؓ نے اپنی زندگیوں میں کر کے دکھا دیا،ایسا ہی تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاو۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو حضرت ابو بکرصدیقؓ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔آنحضرت
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس زمانے پر غور کرو کہ جب دشمن قریش ہر طرف سے شرارت پر تلے ہوئے تھے اور انہوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ کیا۔وہ زمانہ بڑا ابتلا کا زمانہ تھا۔اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جو حق رفاقت ادا کیا۔اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔یہ طاقت اور قوت بجز صدق ایمان کے ہر گز نہیں آسکتی۔آج جس قدر تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو۔اپنی اپنی جگہ سوچو کہ اگر اس قسم کا کوئی ابتلاء ہم پر آجائے۔تو کتنے ہیں جو ساتھ دینے کو تیار ہوں۔مثلاً گورنمنٹ کی طرف سے ہی تفتیش شروع ہو جائے کہ کس کس شخص نے اس شخص کی بیعت کی ہے،تو کتنے ہون گے جو دلیری کے ساتھ یہ کہہ دیں کہ ہم مبایعین میں داخل ہیں۔میں جانتا ہون کہ یہ بات سن کر بعض لوگوں کے ہاتھ پاوں سن ہو جائیں گے اور ان کو فوراً اپنی جائدادوںاور رشتہ داروں کا خیال آجائے گاکہ ان کو چھوڑنا پڑے گا۔
مشکلات کے وقت ہی ساتھ دینا ہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے،اس لئے جب تک انسان عملی طور پر ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے۔محض قول سے کچھ نہیں بنتا اور بہانہ سازی اس وقت تک دور ہی نہیں ہوتی۔عملی طور پر جب مصیبت کا وقت ہو۔تو اس وقت ثابت قدم نکلنے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔حضرت مسیح کے حواری اس آخری گھڑی میں جو ان کی مصیبت کی گھڑی تھی ۔انہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے تو منہ کے سامنے ہی آپ پر *** کر دی۔
حقیقت میں یہ بڑی غیرت کا مقام ہے۔حضرت امام حسینؓ پر بھی ایک ایسا وقت آیا تھا کہ جب مسلم نے۷۰ ہزار آدمیوں کو نماز پڑھائی اور ان سے حضرت امام حسین کی رفاقت کا عہد لیا،مگر جب کسی شخص نے یزید کے آنے کی خبر دی تو سب کے سب آپ کو تنہا چھوڑ گئے۔
عمل ایمان کا زیور ہے اس قسم کے واقعات بہت ڈراتے ہیں،اس لئے اپنے ایمانوں کو وزن کر و۔عمل ایمان کا زیور ہے۔اگر انسان کی عملی
حالت درست نہیں،تو ایمان بھی نہیں ہے۔مومن حسین ہوتا ہے۔جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے۔اگر وہ بد عمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں۔انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے،تو اس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے۔اور اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے،جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ناپاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے۔ایسا ایمان اسے حضرت مسیح کی طرح صلیب پر بھی چڑھنے سے نہیں روکتا۔وہ خدا تعالیٰ کے لئے اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے سے راضی ہوتا ہے۔جب وہ اپنی رضا کو رضائے الہی کے ماتحت کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو علیم بذات الصدور ہے،اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور اسے صلیب پر سے بھی زندہ اتار لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح سلامت نکال لاتا ہے،مگر ان عجائبات کو وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں،جو اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔
غرض حضرت ابو بکر صدیقؓ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا۔گو بعض کفا ر کی رائے اخراج کی بھی تھی۔مگر اصل مقصد اور اصل رائے آپ کے قتل پر تھی۔ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھایا۔جو ابدا لآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا۔اس مصیبت کی گھڑی میںآنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صداقت اور اعلی وفاداری کی ایک زبر دست دلیل ہے۔دیکھو۔اگر وائسرائے ہند کسی شخص کو کسی خاص کام کے لئے انتخاب کر لے تو اس کی رائے صائب اور بہتر ہو گی یا ایک چوکیدا ر کی۔ماننا پڑے گا کہ وائسرائے کا انتخاب بہر حال موزوں اور مناسب ہو گا،کیونکہ جس حال میں کہ وہ سلطنت کی طرف سے نائب السلطنت مقرر کیا گیا ہے اور اس کی وفاداری،فراست اور پختہ کاری پر سلطنت نے اعتماد کیا ہے۔تب ہی تو زمام سلطنت اس کے ہاتھ میں دی ہے۔پھر اس کی صائب تدبیری اور معاملہ فہمی کو پس پشت ڈال کر ایک چوکیدار کے انتخاب اور رائے کو صحیح سمجھ لینا نامناسب امر ہے۔
ہجرت میں رفاقت کے لئے حضرت ابو بکرؓ کے انتخاب کا سر یہی حال آنحضرت صلی الہ علیہ والہ وسلم
کے انتخاب کا تھا۔اس وقت آپ کے پاس ستر اسی صحابہ موجود تھے،جن میں حضرت علی ؓ بھی تھے،مگر ان سب میں سے آپ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو ہی انتخاب کیا۔اس میں کیا سر ہے؟بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے،اس لئے اللہ تعالیٰ ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کشف کے ذریعے اور الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موذون حضرت ابو بکر صدیقؓ ہی ہیں ۔ابو بکرؓاس ساعت عسر میں آپ کے ساتھ ہوئے۔یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا۔حضرت مسیح ؑپر جب اس قسم کا وقت آیا،تو ان کے شاگرد ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے ،اور ایک نے تو *** بھی کی۔مگر صحابہ کرام میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا۔ غرض حضرت ابو بکر نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کوغار ثور کہتے ہیں۔آپ جا چھپے۔شریر کفار جو آپ کو ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے،تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل ہی سر پر آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا بھی نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے۔اس وقت آپ نے فرمایا۔لا تحزن ان اللہ معنا(التوبہ:۴۰)کچھ غم نہ کھاؤ۔اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں؛چنانچہ فرمایا۔ان اللہ معنا۔معنا میں آپ دونوں شریک ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اور دوسرے پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو رکھا ہے۔اس وقت دونوں ابتلا ء میں ہیں۔کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والاہے ۔دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ ا س غار کی تلاشی کرو۔کیونکہ نشان پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جا تا ہے۔لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کس طرح ہو گا۔مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے،کبوتر انڈے دئے ہوئے ہیں۔اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں ۔ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔اور دیوانے کی طرح بڑھتے ہوئے آئے ہیں،لیکن آپ کے کمال شان کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق کو فرماتے ہیں۔لا تحزن ان اللہ معنا۔یہ الفاظ بڑی صفا ئی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں آپ نے زبان ہی سے فرمایا۔کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔اشارہ سے کام نہیں چلتا باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم ومخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔خدا تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ ہی کافی ہے۔ابو بکر صدیق کی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اور بھی ہے۔
آنحضرت ؐ کی رحلت کے وقت حضرت ابو بکر صدیق کی شجاعت جب آنحضرت صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر ؓ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہے، تو میں اسے قتل کردوں گا۔ ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بری جرأت اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہوکر خطبہ پڑھا۔ مامحمدالا رسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۵) یعنی محمد ؐ بھی اللہ کے رسول ہی ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی ہوگذرے ہیں۔ سب نے وفات پائی۔ اس پر وہ جوش فردہوا۔ اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہوگئے۔ ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہوگئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑدیں اوررنگ بدل گیا ہے۔ ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخلیفہ اور جانشین ہوا۔ میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگرپہاڑوں پر آتے، تو وہ بھی نابود ہوجاتے۔ اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کاکام نہیں۔ یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق ؓ نے ہی دکھائی۔ ممکن نہ ھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا۔ تمام صحابہ ؓ اس وقت موجود تھے۔ کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے۔وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے۔ اس آگ میں کون پڑے۔ حضرت عمرؓ نے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی۔ یہ اُن کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرد کیا اور اُن موذیوں کو ہلاک کیا۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے۔ لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کراُس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے، لیکن خداتعالیٰ نے اپنی عیت کا ثبوت دیا اور ساری مشکلات کو آسان کردیا۔
عیسائیت قبول کرنے کی ترغیبات خُونِ مسیح ؑ پرایمان لانا بھی سہل بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اس پر ایمان لانے سے ایک تو روٹی مِل جاتی
ہے دوسرے اباحت کی زندگی۔ اسلام میں تو اللہ اکبر کی آواز سے ہی نماز کے لئے اُٹھانا پڑتا تھا، مگر اب یہ حال کہ خونِ مسیح ؑ پر ایمان لاکر رات کو شراب پی کر سوگئے اور جب جی چاہا اُٹھے۔ کوئی باز پُرس نہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کا رُجوع عیسائیت کی طرف ہونا لازمی امرہے۔ لوگوں کی حالت کچھ اس قسم کی ہوگئی ہے کہ کہتے ہیں۔’’ ایہہ جہان مٹھا، اگلاکس ڈِٹھا۔‘‘
اس جہان میں بدمعاشیاںکولو، آگے دیکھاجائے گا۔ اس قسم کے لوگ روٹی، بے قیدی اور آرام کی زندگی عیسائیت ہی میں پاسکتے ہیں۔ اُن کے لیے کوئی ضروری امرنہیں۔ خواہ دس برس تک بھی غُسلِ جنابت نہ کریں۔ پس ان لوگوں کو جو عیسائی ہوئے ہیں دیکھ کر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دہریہ منش جومرتد ہوئے ہیں، اگر عیسائی نہ ہوتے تو باطنی طور پر بھی تو مرتد ہی تھے۔
چارقسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ازلی کافر جو بے قیدی اور اباحت کی زندگی کو چاہتے ہیں۔ اور تین قسم کے مومن ظالم لنفسہٖ، مقتصد۔ سابق بالخیرات ۔ پہلی قسم کے مومن وہ ہیں جو ظالم ہیں، یعنی ان پر کچھ جذباتِ نفس غالب آجاتے ہیں۔ دپوسرے میانہ رواور تیسرے خیرِ مجسم۔ اب ازلی کافر جو نفس کے غلام اور بندے ہیں۔ جن کی غرض و غایت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ بے قیدی کی زندگی بسر ہو اور روپیہ بھی برباد ہو۔ اُن کو اسلام سے کیا مناسبت، وہ تو عیسائیت کو پسند کریں گے کہ تنخواہ مل جائے اور کسی چیز کی ضرورت نہ رہے۔ اگر جائیں گے ، تو وہاں بھی محض اس غرض سے کہ صدہا خوبصورت عورتیں اچھے لباس پہن کر جاتی ہیں۔ وہاں بدنظری کے لئے جابیٹھے۔ غرض اس قسم کی اباحتی زندگی والوں کو اسلام سے کوئی مناسبت ہوہی نہیں سکتی۔
حضرت ابوبکر ؓ اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں اُس زمانہ میں بھی مسیلمہ نے اباحتی رنگ میں لوگوں کو جمع کررکھا تھا۔ ایسے
وقت میں حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کرسکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیداہوئی ہوں گی۔ اگر وہ قومی دِل نہ ہوتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان رنگ اُس کے ایمان میں نہ لاتا، تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبراجاتا، لیکن صدیق ؓ نبی ؐ کا ہم سایہ تھا۔ آپ کے اخلاق کا اثراس پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وُہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اُن کی زندگی اسلام کی زندگی تھی۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں۔ اُس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابوبکر رضی اللہ عنہ‘ نے کی ہے، اس کااندازہ کرلو۔ مَیں سچ کہتاہوں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں۔مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا ، تو اسلام بھی نہ ہوتا۔ ابوبکر صدیق ؓ کا بہت بڑااحسان ہے کہ اُس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا۔اپنی قوتِ ایمانی سے کُل باغیوں کو سزادی۔ اور امن کو قائم کردیا۔ اسی طرح پر جیسے خداتعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ مَیں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا۔ یہ پیشگوئی حضرت صدیق ؓ کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی۔ پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اُس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہیے۔ نظائر سے مسائل بہت جلد حل ہوجاتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا مقامِ صدیقیت اگرگذشتہ زمانہ میں اس کی نطیر دیکھی جائے تو پھر یوسف ؑ صدیق ہے۔
جس نے ایساصدق دکھایا کہ یوسف ؑ صدیق کہلایا۔ ایک خوبصورت، معزز اور جوان عورت جو بڑی بڑے دعوے کرتی ہے، عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکابِ فعل بدچاہتی ہے، لیکن آفرین ہے اس صدیق پر کہ خداتعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیا اور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دُکھ اُٹھانے کو آمادہ ہوگیا۔ یہانتک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کرلی؛ چنانچہ کہا : رب السجن احب الی ممایدعوننی الیہ (یوسف:۳۴) یعنی یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہے۔ اس سے حضرت یوسف کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیساپتہ لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیا مطلب کہ اُس کا نام نہیں لیا۔ یوسف ؑ اللہ تعالیٰ کے حُسن واحسان کے گرویدہ اور عاشقِ زار تھے۔ اُن کی نظر میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات جچ نہ سکتی تھی۔ وُہ ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ حدُود اللہ کو توڑیں۔
کہتے ہیں کہ ایک لمبا زمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایاجاتا ہے، وُہ جیل میں رہے۔ لیکن اس عرصہ میں کبھی حرفِ شکایت زبان پرنہ آیا۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کی تقدیرپرپورے راضی رہے۔ اس عرصہ میں بادشاہ کوکوئی عرضی بھی نہیں دی کہ اُن کے معاملہ کو سوچا جائے یا اُنہیں رہائی دی جائے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس خود غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھادیا۔ کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں، مگر اس صدیق نے اپناصدق نہ چھوڑا۔ خدانے ان کو صدیق ٹھہرایا۔ یہ بھی صدق کا ایک مقام ہے کہ دُنیا کی کوئی آفت ، کوئی تکلیف اور کوئی ذلت اُسے حدود اللہ کے توڑے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔ جس قدر بلائیں بڑھتی جاویں، وہ اُس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جیسا کہ مَیں بیان کرچکا ہوں کہ جب انسان ایاک نعبد کہہ کر صدق اوروفاداری کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے، تو خداتعالیٰ ایک بری نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آگرتی ہے اور اُسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بضاعتہ مُزجاۃ لاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اُسے عطاکرتا ہے اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہانتک قدم مارتا ہے کہ وُہ صدق اس کے لیے ایک خارق عادت نشان ہوجات اہے۔ اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھلتا ہے یعنی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔
مقامِ شہادت تیسرا کمال شہداء کام ہے۔ عام لوگ توشہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وُہ ہوتا ہے ، جو تیریابندوق سے مارا جائے یا کسی اور اتفاقی
موت سے مرجائے۔مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے۔ مَیں افسوس سے ظاہرکرتا ہوں کہ سرحد کے پٹھانوں کو یہ بھی ایک خبط سمایا ہوا ہے کہ وُہ انگریز افسروں پر آکر حملے کرتے ہیں اوراپنی شوریدہ سری سے اسلام کوبدنام کرتے ہیں۔انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اگر ہم کسی کافر یا غیر مذہب والے کو ہلاک کردیں گے، تو ہم غازی ہوں گے اور اگر مارے جائیں گے تو شہید ہوں گے۔ مجھے ان کمینہ فطرت مُلانوں پر بھی افسوس ہے، جوان شوریدہ سرپٹھانوںکو اُکساتے ہیں۔ وُہ انہیں نہیں بتاتے کہ تم اگرکسی شخص کو بلاوجہ قتل کرتے ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لاتلقوا بایدیکم الی التحلکۃ (البقرہ:۱۹۶) وُہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور فساد کرتے ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سخت سزا کے مستوجب ہیں۔ غرض عام لوگوں نے تو شہادت یہی سمجھ رکھی ہے اور شہید کا یہی مقام ٹھہرالیاہے۔ مگر میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جائے کچھ اور بھی ہے اور ایک کیفیت ہے ، جس کا تعلق دل سے ہے۔ یادرکھو کہ صدیقی نبی سے ایک قرب رکھتا ہے اور وہ اس سے دُوسرے درجے پر ہوتا ہے اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے۔ نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں، یعنی وہ صدیقی بھی ہوتا ہے اور شھیدبھی ہوتا ہے اور صالح بھی ہوتا ہے۔ لیکن صدیق اور شہید دو الگ الگ مقام ہیں۔ اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق ، شہید ہوت اہے یا نہیں؟ وُہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھاجاتا ہے۔ وُہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رُتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اُسے ایسی قوت عطاکرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں۔ وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلاتکلف صادر ہوتے ہیں۔ کوئی خوف اور رجاء اُن اعمالِ صالحہ کے صدُور کا باعث نہیں ہوتا، بلکہ وُہ اُس کی فطرت اور طبیعت کاجُزوہوجاتے ہیں۔ تکلف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا۔ جیسے ایک سائل کسی شخص کے پا س آوے، تو خواہ اُس کے پا س کچھ ہو یا نہ ہو، تو اُسے دینا ہی پڑے گا۔ اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے ہی سہی۔ مگر شہید میں اس قسم کا تکلف نہیں ہوتا اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے اور جُوں جُوں بڑھتی جاتی ہے۔ اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وُہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا۔ مثلاً ہاتھی کے سرپر ایک چیونٹی ہوتو وُہ اس کا کیا احساس کرے گا۔
کیا کِسی مقام پر نماز ساقط ہوجاتی ہے؟
’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کی ایک عبارت کی تشریح
فتوحات میں اس مقام کی طرف اشارہ کرکے ایک لطیف بات لکھی ہے۔ اور وُہ یہ ہے کہ جب انسان کامل درجہ پر پہنچتا ہے، تو اُس کے لئے نماز ساقط ہوجاتی ہے، جاہلوں نے اس سے یہ سمجھ لیا ہے کہ نماز ہی معاف ہوجاتی ہے۔ جیساکہ بعض بے قید فقیر کہتے ہیں ۔ اُن کو اس مقام کی خبر نہیں اور اس لطیف نکتہ پر اطلاع نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ابتدائی مدارجِ سلوک میں نماز اور دوسرے اعمال ِ صالحہ ایک قسم کا بوجھ معلوم ہوتے ہیںاور طبیعت میں ایک کسل اور تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب انسان خداتعالیٰ سے قوت پاکر اس مقام شہید پر پہنچتا ہے تو اس کو ایسی طاقت اور استقامت دی جاتی ہے کہ اُسے اُن اعمال میں کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی۔ گویا وہ اُن اعمال پر سوار ہوتا ہے اور صوم، صلوٰۃ، زکوٰۃ، ہمدردیِ بنی نوع، مروت، فتوت غرض تمام اعمالِ صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا صدُور قوتِ ایمانی سے ہوتا ہے۔ کوئی مصیبت ، دُکھ اور تکلیف خداتعالیٰ کی طرف قدم اُٹھانے سے اُسے روک نہیں سکتی۔ شہید اُسی وقت کسی شخص کو کہیں گے جب اُس کی قوتِ ایمانی اس سے وہ فعل دکھائے کہ آرام سے ان افعال کا صُدور ہو۔ جیسے پانی اُوپر سے نیچے کو گرتا ہے۔ اسی طرح پر شہید سے اعمالِ صالحہ کا صدُور ہوتاہے۔ شہید اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھتا ہے اوراُس کی طاقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے ۔جب یہ مقام کامل درجہ پرپہنچے، تو یہ ایک نشان ہوتا ہے۔
ابتلاء اور آزمائش میں شہید کا رویہ بعض آدمی دیکھے گئے ہیں کہ جب کوئی ابتلاء آجائے تو گھبرا اُتھتے ہیں اور خداتعالیٰ
سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اُن کی طبیعت میں ایک فسردگی پائی جاتی ہے، کیونکہ وُہ صلح جو کُلّی طورپرخداتعالیٰ سے ہونی چاہیے، اُن کو حاصل نہیں ہوتی۔ خداتعالیٰ سے انسان کی اُسی وقت تک صلح رہ سکتی ہے کہ جب تک اُس کی مانتارہے۔ یہ بھی یادرکھو کہ خداتعالیٰ کا معاملہ ایک دوست کا معاملہ ہے کبی ایک دوست دوسرے کی مان لیتا ہے اور دوسرے وقت اس کو اس دوست کی ماننی پڑتی ہے اور یہ تسلیم خوشی اور انشراح صدر سے ہونی چاہئے نہ کہ مجبوراً۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے: ولنبلو نکم بشی من الخوف والجوع (البقرہ:۱۵۶) یعنی ہم آزماتے رہیں گے گے۔ کبھی ڈراکر، کبھی بھُوک سے کبھی مالوں اور ثمرات وغیرہ کا نقصان کرکے۔ یہاں ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ بری محنت سے کوئی فصل تیا رکی اور یکا یک اُسے آگے لگ گئی اور وُہ تباہ ہوگئی۔ یادیگراُمور کے لئے محنت اور مشقت کی، مگرنتیجہ میں ناکام رہ گیا۔ غرض مختلف قسم کے ابتلاء اور عوارض انسان پر آتے ہیں اور یہ خداتعالیٰ کی آزمائش ہے۔ ایسی صُورت میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضاپر راضی اور اس کی تقدیر کے لئے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ وُہ بڑی شرح صدر سے کہتے ہیں۔ انا للہ واناالیہ راجعون(البقرہ:۱۵۷) کسی قسم کا شکوہ اورشکایت یہ لوگ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اُولٰئک علیھم صلوٰت۔الخ یعنی ہی وہ لوگ ہیں جن کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو مشکلات میں راہ دکھادیتا ہے۔ یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑ اہی کریم ورحیم اور بامروت ہے۔ جب کوئی شخص اس کی رضاکومقدم کرلیتا ہے اوراُس کی مرضی پر راضی ہوجاتا ہے تو وہ اُس کو اُس کا بدلہ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ غرض یہ تو وُہ مقام اور مرحلہ ہے جہاں وُہ اپنی بات منوانی چاہتا ہے۔ دوسرا مقام اور مرحلہ وُہ ہے جو اس نے ادعونی استجب لکم (المومن:۶۱) میں فرمایا ہے۔ یہاں وہ بندے کی بات ماننے کا وعدہ فرماتا ہے۔ پس شہیداس پہلے مقام پر کھڑا ہوت اہے۔ یعنی انشراح صدر کے ساتھ خداتعالیٰ کی بات مانتا ہے وُہ دوست کے ایلام کو برنگِ انعام مشاہدہ کرتاہے۔
مقامِ صالحیت چوتھا درجہ صالحین کا ہے یہ بھی جب کمال کے درجہ پر ہو، تو ایک نشان اور معجزہ ہوتا ہے۔ کا مل صلاح یہ ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فساد باقی
نہ رہے۔ بدنِ صالح میں کسی قسم کا کوئی خراب اور زہریلا مادہ نہیں ہوتا، بلکہ جب صاف اور موید صحت مواد اس میں ہو، تو اس وقت صالح کہلاتا ہے۔ جب تک صالح مادہ نہیں، تب تک اس کے لوازم بھی صالح نہیں ہوتے۔یہانتک کہ مٹھاس بھی اُسے کڑوی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح پر جب تک انسان صالح نہیں بنتا اور ہر قسم کی بدیوں سے نہیں بچتا اور خراب مادے نہیں نکلے، اس وقت تک عبادات کڑوی معلوم ہوتی ہیں۔ نماز پڑھتا ہے ، لیکن اُسے کوئی لذت اور سُرور نہیں آتا۔ وہ ٹکریں مارکر منحوس مُنہ سے سلام پھیر کررخصت ہوتا ہے، لیکن عبادات میں مزا اُسی وقت آتا ہے جب گندے مواد اندرسے نکل جاتے ہیں۔ پھر اُنس اور ذوق شوق پیداہوتا ہے۔ اصلاحِ انسانی اسی درجہ سے شروع ہوتی ہے۔
(اس قدرتقریرکے بعدحضرت مسیح موعود ؑ نے دُعا فرمائی اور جلسہ برخاست ہوگیا)
۱۰؍دسمبر۱۸۹۹ء
بروز اتوار۹؍بجے صُبح۔قادیان
مُفی محمدصادق صاحب سے جولاہور سے تین سال کے اندر طلبِ نشان والی پیشگوئی کے اشتہار کا انگریزی ترجمہ کراکرہمراہ لائے تھے۔ سیرپرجانے سے پہلے فرمایا:’’آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی‘‘فرمایا۔
حصُولِ ثواب کی راہ ’’اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمتِ ہے کہ ہم نے انگریزی نہیں پڑھی۔ وُہ آپ لوگوں کو ثواب میں شاملِ کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم انگریزی پڑھے ہوئے ہوتے، تو اُردو کی طرح اس کے بھی دوچار صفحے ہم روز لکھ دیا کرتے، مگرخدانے چاہا کہ جیسے آپ ہیں اور مولوی محمدعلی صاحب ہیں آپ لوگوں کو بھی ثواب دیا جائے۔‘‘
(اس پر مفتی محمدصادق صاحب نے عرض کی کہ یہ ہمت اور ثواب تومولوی محمدعلی صاحب کا ہی حصہ ہے۔)
فرمایا:’’عالمگیر کے زمانہ میں مسجد شاہی کوآگ لگ گئی،تولوگ دوڑے دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اورعرض کی کہ مسجد کوتو آگ لگ گئی۔ اس خبر کو سُنکر وہ فوراًسجدہ میں گِرا اور شکر کیا۔ حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت یہ کونساوقت شُکرگذاری کا ہے کہ خانۂ کو آگ لگ گئی اور مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے تو بادشاہ نے کہا کہ میں مدت سے سوچتا تھا اور آہِ سرد بھرتا تھا کہ اتنی بڑی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے اور اس عمارت کے ذریعہ سے ہزار ہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ کارِ خیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا ، لیکن چارون طرف سے مَیں اس کو ایسامکمل اور بے نقص دیکھتاتھا کہ مجھے کچھ سوجھ نہ سکتا تھا کہ اس میں میرا ثواب کسی طرح ہوجائے۔ سو آج خداتعالیٰ نے میرے واسطے حصول ثواب کی ایک راہ نکال دی۔ واللہ سمیع علیم۔‘‘
لیکھرام اورا س کے ساتھی اسلام پر حملہ کرنے میں اور مسلمانوں کے بیجادل دُکھانے میں آریوں کے درمیان ایک طرح کی تریمورتی تھی۔
جن میں سے سب سے بڑھ کر لیکھرام تھا اور اس کے بعد اندر من اور الکھ دھاری تھے۔‘‘فرمایا’’دیانند بھی تھا مگر اس کو ایساموقعہ نہیں تھااور نہ وُہ اس طرح سے کتابیں لکھتاتھا۔ ان تینوں نے اور خصوصاً لیکھرام نے بری بے ادبیاں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کا طریق ہے کہ جس راہ سے کوئی بدی کرے، اُسی راہ سے گرفتار کیا جاتا ہے ؛ چونکہ لیکھرام نے زبان کی چُھری کو اسلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف حد سے بڑھ کر چلاتا۔ اس واسطے خداتعالیٰ نے اُس کو چھری سے سزادی۔
لیکھرام کے معاملہ میں غیب کا ہاتھ
لیکھرام کے معاملہ میں غیب کا ہاتھ کام کرتاہوا صاف طور پر دکھائی دیتاہے۔ اس شخص (یعنی قاتل) کا شُدھ ہونے کے لئے اُس کے پاس آنا۔ اُس کا اس پر بھروسہ کرنا۔ یہانتک کہ اپنے گھر میں بلاتکلف اُس کو لے جانا، شام کے وقت دیگرملاقاتوں کا چلاجانا۔ ان کا اکیلا رہ جانا، عین عید کے دُوسرے دن اُس کا اس کام کے لئے عازم ہونا۔لیکھرام کا لکھتے لکھتے کھڑے ہوکر انگڑائی لینا اوراپنے پیٹ کو سامنے نکالنا اورچُھری کا وارکاری پڑنا۔ مرتے دم تک اُس کی زبان کو خدا کا ایسا بند کرنا کہ باوجود ہوش کے اورا س علم کے ہم نے اس کے برخلاف پیش گوئی کی ہوئی ہے۔ ایک سیکنڈ کے واسطے اس شبہ کا اظہار بھی نہ کرنا کہ مجھے مرزا صاحب پر شک ہے۔ پھر آج تک اُس کے قاتل کا پتہ نہ چلنا۔ یہ سب خداتعالیٰ کے فعل ہیں جو ہیبت ناک طورپر اس کی قدرت اور طاقت کا جلوہ دکھارہے ہیں۔‘‘فرمایا:
’’لیکھرام بڑا ہی زبان دراز تھا اور اس کے بعد کوئی ایسا شخص پید انہیں ہوا کیونکہ اذاھلک کسریٰ فلا کسری بعد اب اللہ تعالیٰ زمین کو ایسے لوگوں سے پاک رکھے گا۔‘‘
دیگرانبیاء کے معجزات فرمایا:’’دُنیا کے اندر جو نشانات حضرت موسیٰ ؑ یادیگر انبیاء ؑ نے اس طرح کے دکھائے ۔ جیسا کہ سوٹے سے سانپ بناتا۔
یہ سب شُبہ میں ڈالنے والی باتیں ہیں۔ خصوصاً اس موجودہ زمانہ میں جب کہ ہر طرح کی شعبدہ بازیاں مداری لوگ دکھاتے ہیں کہ انسان کی سمجھ میں ہرگز نہیں آتا کہ یہ امر کس طرح سے ہوگیا۔ انگریز لوگ ایسے ایسے کرتب شعبدہ بازی ک دکھاتے ہیں کہ مرا ہو اآدمی واپس آجاتا ہے اور ٹوٹی ہوئی چیزیں ثابت دکھائی دیتی ہیں۔ جیس اکہ آئین اکبری میں بھی ابوالفضل نے ایک قصہ بیان کیا ہے کہ ایک شعبدہ باز آسمان پر لوگوں کے سامنے چڑھ گیا اوراُوپر سے اس کے اعضاء ایک ایک ہوکر گِرے اور اُس نے اپنی بیوی کے لئے مُطالبہ کیا ور ایک وزیر پر شُبہ کیا کہ اُس نے چُھپارکھی ہے اور یہ اُس پر عاشق ہے اور پھر اُس کی تلاشی کی اجازت بادشاہ سے لے کر اُسی کی بغل سے نکال لی۔‘‘
فرمایا:’’ ایسی صورتوں میں پھرسوائے اس کے اور کچھ بات بائی نہیں رہتی کہ انسان ایمان سے کام لے اور انبیاء کے کاموں کو خداتعالیٰ کی طرف سے سمجھے اور شعبدہ بازوں کے کاموں کو دھوکا اورفریب خیال کرے اور اس طرح سے یہ معاملہ بہت نازک ہوجاتا ہے۔‘‘
قرآن شریف کا معجزہ لیکن خداتعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطافرمایا ہے، وُہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اُصولِ تمدن اور اس کی فصاحت
وبلاغت کا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان ہرگز نہیں کرسکتا اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا ہے۔ اس زمانہ کا کوئی شعبدہ بازی کا اُستاد ایسا کرنے کا ہر گز دعویٰ نہیں کرتا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نشانات کو ایک صاف تمیز عطافرمائی ہے، تاکہ کسی شخص کو حیلہ حجت بازی کا نہ رہے اور اس طرح خداتعالیٰ نے اپنے نشانات کھول کھول کر دکھاتے ہیں۔ جن میں کوئی شک وشُبہ اپنا دخل پیدانہیں کرسکتا۔‘‘
(ایک شخص نے عرض کی کہ ایک معترض اعتراض کرت اتھا کہ مرز اصاحب نے لیکھر ام کو خود مرواڈالاہے)
فرمایاکہ:’’ یہ ایک بے ہودہ اور جھوٹ بات ہے، مگ ران لوگوں کو یہ تو خیال کرناچاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع اور کعب کو کیوں قتل کروادیا تھا۔‘‘
فرمایا:’’ہماری سب پیشگوئیاں اقتداری پیشگوئیاں ہیں اور یہ اس بات کانشان ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔‘‘
قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت
فرمایا:’’لوگوں کی فصاحت اوربلاغت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ایک عرب نے لکھا ہے کہ سافرت الی روم وانا علیٰ جمل ماتوم۔ میں رُوم کو روانہ ہو ااور مَیں ایک ایسے اُونٹ پر سوار ہوا جس کا پیشاب بندتھا۔ یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں۔ مگر یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اُٹھاکر دوسری جگہ نہیں رکھا جاسکتا اور کسی کو دُوسرے لفظ سے بدلا نہیں جاسکتا، لیکن باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت اور بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘
(ایک شخص نے کسی صُوفی گدی نشین کی تعریف کی کہ وہ آدمی بظاہر نیک معلوم ہوتا ہے اوراگر اس کو سمجھایا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس بات کو پاجائے اور عرض کی کہ میرا اس کے ساتھ ایک ایساتعلق ہے کہ اگر حضور مجھے ایک خط اُن کے نام لکھ دیں ، تومَیں لے جائو گا اور امید ہے کہ اُن کو فائدہ ہو۔ اس پر آپؑ نے فرمایا:کہ)
’’آپ دوچاردن اور یہاں ٹھہریں۔ مَیں انتظار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خودبخود استقامت کے ساتھ کوئی بات دل میں ڈال دے ، تومَیں آپ کو لکھ دُوں۔‘‘ پھر فرمایا:
’’جب تک اِن لوگوںکو استقامت ،حُسنِ نیت کے ساتھ چند دن کی صحبت نہ حاصل ہوجائے، تب تک مشکل ہے۔ چاہیے کہ نیکی کے واسطے دل جوش مارے اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے دل ترساں ہو۔‘‘
کلمہ طیبہ شجاعت پید اکرتاہے اس شخص نے پھر عرض کی کہ ان لوگوں کو اکثر یہ حجاب بھی ہوتا ہے کہ شاید کسی کومعلوم ہوجائے ، تو لوگ
ہمارے پیچھے پڑجائیں ۔فرمایا:
’’اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگ لا الہ اللہ کے قائل نہیں ہوتے اورسچے دل سے اس کلمے کو دل سے نکالنے والے نہیں ہوتے۔‘‘فرمایا:’’جب زید وبکر کا خوف دل میں آتا ہے،تب تک لا الہ لا نقش دل میں نہیں جم سکتا۔‘‘فرمایا:
’’یہ جو دن رات مسلمانوں کو کلمہ پڑھنے کے لئے تحریص و تاکید ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر اس کے کوئی شجاعت پیدا نہیںہو سکتی۔جب آدمی لا الہ اللہ کہتا ہے تو تمام انسانوں اور چیزوں اور حاکموں اور افسروں اور دشمنوں اور دوستوں کی قوت اور طاقت ہیچ ہو کر انسان صرف اللہ تعالیٰ وک دیکھتا ہے اور اس کے سوائے سب اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتے ہیں۔پس وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ کام کرتا ہے۔اور کوئی ڈرانے والا اس کو ڈرا نہیں سکتا۔‘‘
فراست فرمایا:’’فراست بھی ایک چیز ہے۔جیسا کہ ایک یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے ہی فرما دیا کہ میں ان میں نبوت کے نشان
دیکھتا ہوں اور ایسا ہی مباہلہ کے وقت عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقابل پر نہ آئے،کیونکہ ان کے مشیر نے کہہ دیا تھا کہ میں ایسے منہ دیکھتا ہوں کہ اگر وہ پہاڑ سے کہیں کہ یہاں سے ٹل جا ،تو وہ ٹل جائے گا۔‘‘
فرمایا:’’اگر کسی کے باطن میں کوئی حصہ روحانیت کا ہے،تو وہ مجھ کو قبول کر لے گا۔‘‘
کتاب تعلیم لکھنے کی خواہش فرمایا:’’میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں اور مولوی محمد احمد صاحب اس کا ترجمہ
کریں۔اس کتاب کے تین حصے ہوں گے:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے نفس کے کیا کیا حقوق ہم پر ہوں گے۔اور تیسرا یہ کہ بنی نوع انسان کے کیا کیا ھقو ق ہم پر ہوں گے۔‘‘
اولیاء کی کرامات فرمایا:’’زمانہ نبوت تو نور علی نور تھا اور ایک آفتاب تھا،لیکن اس کے بعد کے اولیا ء کے جوخوارق وکرامات بتلائے جاتے ہیں۔وہ اپنے
ساتھ انکشاف نہیں رکھتے اور ان کی تاریخ کا صحیح پتہ نہیں لگ سکتا ؛چنانچہ شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی کرامات ان کی وفات کے دو سو سال کے بعد لکھی گئیں اور علاوہ اس کے ان لوگون کو یہ موقعہ دشمن کے مقابلہ کا نہیں ملا اور نہ ان کو ایسا فتنہ در پیش آیا،جیسا کہ ہم کو ۔‘‘
امر مقدر فرمایا:’’ابھی ہمارے مخالفون میں سے بہت سے آدمی ایسے بھی ہیں جن کا ہماری جماعت میں داخل ہو نا مقدر ہے۔وہ مخالفت کرتے ہیں پر فرشتے
ان کو دیکھ کر ہنستے ہیں کہ بالآخر تم ان ہی لوگوں میں شامل ہو جاو گے۔وہ ہماری مخفی جماعت ہے جو کہ ہمارے ساتھ ایک دن مل جائے گی۔‘‘
سیر سے واپس آکر آپ اندر تشریف لے گئے اور کھانے کے وقت دوبارہ تشریف لائے اور ملانوں کی نفس پرستیوںاور طلاق وحلالہ کی منحوس رسومات پر مختلف گفتگو فرماتے رہے۔ظہر اور عصر کی نمازوں میں جماعت کے ساتھ شریک ہوئے پھر شام کی نماز پڑھ لینے کے بعد سے نماز عشاء سے فراغت حاصل کر لینے تک احباب میں تشریف فرما رہے۔ایک دوست کاخط اور دیگر دو اخبارات بعد نماز سنے۔مولوی عبد الکریم صاحب نے میر حامد شاہ صاحب کی ایک نظم سنائی،جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور اسے اخبار میں چھپا دینے کا حکم دیا۔وہ نظم یہ تھی ؎
ڈنکا بجا جہاں میں مسیح کے نام کا خاد م ہے دین پاک رسول انام کا
لوقا دوسرے دنصبح نو بجے کی سیر میں لوقا کے ذکر پر جس کا بیان سیالکوٹ کے ایک اخبار میں سے گذشتہ دن سنایا گیا تھا،جس میں مرہم عیسیٰ کے ضمن میں لکھا گیا تھا۔
بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔آپ نے مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی اللہ دیا لودھیانی کو مزید تحقیقات کا حکم دیا۔دوران گفتگو میں فرمایا:
’’عربی میں لق چٹنی کو کہتے ہیں۔‘‘جس پر مفتی محمد صادق صاحب نے کہا کہ انگریزی میں لق چاٹنے کو کہتے ہیں۔اس پر آپ نے فرمایا کہ بات چٹنی تک تو پہنچ گئی ہے امید ہے کہ مرہم پٹی تک بھی نکل آوے۔فرمایا:انگریزی کتابوں اور تاریخ کلیسا سے اس کے حالات کے متعلق تحقیقات کرنی چاہیے۔یہ ایک نئی بات نکلی ہے۔پھر فرمایا:’’یہ کچھ مشکل امر نہیں ہے۔اگر ہم چاہیں تو لوقا پر توجہ کریں اور اس سے سب حال دریافت کریں،مگر ہماری طبیعت اس امر سے کراہت کرتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی اور کی طرف توجہ کریں۔خدا تعالیٰ آپ ہمارے سب کام بناتا ہے۔
کشف قبور یہ لوگ جو کشف قبور لئے پھرتے ہیں۔یہ سب جھوٹ لغو اور بے ہودہ بات ہے اور شرک ہے۔ہم نے سنا ہے۔اس طرف ایک شخص پھرتا ہے
اور اس کو بڑا دعویٰ کشف قبور کا ہے۔اگر اس کا علم سچا ہے،تو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے اور ہم اس کو ایسی قبروں پر لے جائیں گے جن سے ہم خوب واقف ہیں،مگر یہ سب بے ہودہ باتیں ہیں اور ان کے پیچھے پڑنا،وقت کو ضائع کرنا ہے۔سعید آدمی کو چاہیے کہ ایسے خیالا ت میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔اس طریق کو اختیار کرے،جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے صحابہ نے اختیار کیا۔
سر ود اس کے بعد مختلف گدی نشینوں کے حالات پر افسوس ہوتا رہا۔جو سرود وغیرہ بدعات میں گرفتار ہیں۔اس پر آپ نے فرمایا کہ:
’’انسان میں ایک ملکہ احتظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرود سے حظ اٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھوکہ لگتا ہے کہ میں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں،مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے۔خواہ اس میں شیطان کی تعریف ہو یا خدا کی۔جب یہ لوگ اس میں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں۔تو ان کے واسطے شیطان کی تعریف یا خدا کی ۔سب برابر ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس پر آج کی سیر ختم ہوئی۔پھر کھانے کے وقت آپ باہر تشریف لائے اور کھانا کھانے کے بعد حضور اقدس نے ایک تقریر فرمائی۔جو کچھ میںا س میںسے ضبط رکھ سکا وہ لکھتا ہوں۔اس زمانہ کا فتنہ فساد کا ذکر تھا۔فرمایا:
اس زمانہ کی بڑی عبادت ایک مسلمان کے لئے ضروی ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے،اس کو دورکرنے میں کچھ حصہ
لے۔بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنہ کو دور کرنے میں ہر ایک مسلمان کچھ نہ کچھ حصہ لے۔اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں،چاہیے کہ اپنی تقریر اورعلم کے ذریعے سے اور ہر ایک قوت جو اس کو دی گئی ہے ۔مخلصانہ کوششوں کے ساتھ اس کو دنیا سے اٹھا دے۔اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذت مل گئی،تو کیا فائدہ اگر دنیا میں ہی درجہ پا لیا تو کیا حاصل۔عقبی کا ثواب لو،جس کی انتہا نہیں۔ہر ایک مسلمان کو اللہ کی توحید اور تفرید کے لئے ایسا جوش ہوناچاہیے۔جیسا کہ خود اللہ کو پنی توحید کا ہے۔غور کرو کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا۔جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں جو آپ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو ۔کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھے رہیں؟اگر اس وقت کوئی شخص کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا اور جائز رکھتا ہے کہ کافر لوگ بے حیائی سے ہمارے نبی کریم صلی ا للہ علیہ والہ وسلم پر اتہام لگاتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے جائیں۔تو یاد رکھو کہ بے شک وہ بڑی باز پرس کے نیچے ہے۔چاہیے کہ جوکچھ علم اور واقفیت تمہیں حاصل ہے وہ اس راہ میں خرچ کرو۔اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاو۔حدیث شریف سے ثابت ہے کہ اگر تم دجال کو نہ بھی مارو تو وہ خود ہی مر جائے گا ۔مثل مشہور ہے ؎ ہر کمالے را زوالے۔تیرھویں صدی سے یہ آفتیں شروع ہوئیں اور اب وقت قریب ے کہ اُس کا خاتمہ ہوجائے اس لئے ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہانتک ہوسکے پوری کوشش کرے۔ نور اور روشنی لوگوں کو دکھائے۔
خداتعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا
اللہ تعالیٰ کے نزریک ولی اللہ اور صاحب ِ برکات وہی شخص ہے جس کو یہ جوش حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ اُس کا جلال ظاہر ہو۔ نماز میں جوسبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ کہا جاتاہے، وُہ بھی خداتعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عظمت ہوجس کی نظیر نہ ہو۔ نماز میں تسبیح وتقدیس کرنے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے کہ طبعاً جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھادے کہ اُس کی عظمت کے برخلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی۔ یہ بڑی عبادت ہے جو لوگ اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں، وہی موید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں جو لوگ خداتعالیٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے لئے جوش نہیں رکھتے۔ اُن کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بے کا رہیں۔ جب تک خداتعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو۔ یہ سجدے صرف منتر جنتر ٹھہریں گے ۔ جن کے ذریعہ سے یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے۔ یادرکھو کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو، فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے گوشت نہیں پہنچتے۔ ایس اہی تمہارے رکوع اور سجود بھی نہیں پہنچتے، جب تک اُن کے ساتھ کیفیت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کیفیت کو چاہتا ہے اور اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی عزت اورعظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں۔ جو لو گ ایسا کرتے ہیں وہ ایک باریک راہ سے گذرتے ہیں اور کوئی دوسرا شخص اُن کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ جب تک کیفیت نہ ہو انسان ترقی نہیں کرسکتا۔ گویا خداتعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اُس کے لئے جوش نہ ہوکوئی لذت نہیں دے گا۔
ہر ایک آدمی کے ساتھ ایک تمنا ہوتی ہے، لیکن کوئی شخص مومن نہیں بن سکتا۔ جب تک کہ ساری تمنائوں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کومقدم نہ کرلے۔ ولی قریبی اور دوست کو کہتے ہیں ۔ جو دوست چاہتا ہے، وہی یہ چاہتا ہے تب یہ ولی کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات:۵۷) انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش رکھے۔ تب وہ اپنے بانائے جنس سے بڑھ جائے گا اور خداتعالیٰ کی مقرب بندوں میں سے بن جائے گا۔ مردوں میں سے نہیں ہونا چاہیے کہ مردہ کے منہ میں ایک شے ایک طرف سے ڈالی جاتی ہے، تو دوسری طرف سے نکل آتی ہے۔ اسی طرح شقاوت کی حالت میں کوئی اچھی چیز اندر نہیں جاسکتی۔ یادرکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ذاتی جوش نہ ہو۔ جس کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد او رمنافع کی نہ ہو اور ایسا جوش ہو کہ خود بھی نہ جان سکے کہ یہ جوش مجھ میں کیوں ہے۔ بہت ضرورت ہے کہ ایسے لوگ بکثرت پیدا ہوں، مگر سوائے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے کچھ ہو نہیں سکتا۔
حالاتِ زمانہ زمانہ اور ضرورت مُصلح
اور جو لوگ اس طرح دینی خدمات میںمصروف ہوئے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ وہ خداتعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتے۔ جیساکہ ہرایک فصل کے کاٹنے کا وقت آجاتا ہے۔ ایس اہی اب مفاسد کے دُور کردینے کا وقت آگیا ہے۔ تثلیث پرستی حد کو پہنچ گئی ہے۔ صادق کی توہین اور گُستاخی انتہاتک کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر مکھی اور زنبور جتنی بھی نہیں کی گئی۔ زنبور سے بھی انسان ڈرت اہے اور چیونٹی سے بھی اندیشہ کرتا ہے،لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہنے میں کوئی نہیں جھجکتا۔ کذبوا بایاتنا کے مصداق ہورہے ہیں۔ جتنا مُنہ اُن کا کھل سکتا ہے۔ اُنہوں نے کھولا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر سب وشتم کئے۔ اب واقعی وہ وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ اُن کا تدارک کرے۔ ایسے وقت میں وہ ہمیشہ ایک آدمی کو پیداکیا کرتا ہے، جو اُس کی عظمت اور جلال کے لئے بہت جوش رکھتا ہے۔ ایسے آدمی کو باطنی مدد کا سہارا ہوت اہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کرتا ہے، مگر اس کا پید اکرنا ایک سنت کاپورا کرنا ہوتا ہے۔ ولن تجدلسنۃ اللہ تبدیلاً(الفتح:۲۴) اب وہ وقت آگیا ہے۔ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں عیسائیوں کو نصیحت فرمائی تھی کہ اپنے دین میں غلُونہ کریں۔ پر انہوں نے اس نصیحت پر عمل نہ کیا۔ اور پہلے وہ ضالین تھے، مگر اب مضلین بھی بن گئے۔ خداتعالیٰ کے صحیفۃ قدرت پر نظرڈالنے سے معلوم ہوت اہے کہ جب بات حد سے گذرجاتی ہے، توآسمان پر تیاری کی جاتی ہے۔ یہی اس کا نشان ہے کہ یہ تیاری کا وقت آگیا ہے۔ سچے نبی ورسو ومجدد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پرآوے اور ضرورت کے وقت آوے۔ لوگ قسم کھاکر کہیں کہ کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی تیاری ہو، مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ آپ ہی کیا کرتا ہے۔ ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حُجروں میں بیٹھ جائیں۔ تب بھی کام ہوجائے گا۔ اور دضال کو زوال آ جائے گا۔ تلک الایام نداولھابین الناس(آل عمران:۱۴۱) اُس کا کمال بتا تا ہے کہ اب اُس کے زوال کا وقت قریب ہے۔ اس کا ارتفاع ظاہر کرتاہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا۔اُس کی آبادی اُس کی بربادی کا نشان ہے۔ ہاں ٹھندی ہو اچل پڑی۔ اللہ تعالیٰ کے کام آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں۔
اگر ہمارے پا س کوئی بھی دلیل نہ ہوتی؛ تاہم زمانہ کے حالات پر نظر کرکے مُسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ دیوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے کہ مسیح ؐ ابتک کیوں نہیں کسرِ صلیب کے لئے آیا۔ اُن کو یہ نہ چاہیے تھا کہ اُسے اپنے جھگڑوں کے لئے بُلاتے، کیونکہ اُس کاکام کسرِ صلیب ہے اور اُسی کی زمانہ کو ضرورت ہے۔ اِسی لیے اُس کا نام مسیح موعود ہے۔ اگر ملانوں کو بنی نوع کی بھلائی اور بہبودی مدِ نظر ہوتی ، تو وہ ہرگز ایس انہ کرتے جیس اہم سے کررہے ہیں۔ اُن کو سوچنا چاہئے تھا کہ اُنہوں نے ہمارے خلاف فتویٰ لکھ کر کیا بنالیا ہے۔ جسے خداتعالیٰ نے کہا کہ ہوجائے اُسے کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہو۔ یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں یہ بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کہ کسی نہ کسی رنگ میں ہماری بات مشرق ومغرب تک پہنچادیتے ہیں ۔ ہم نے ابھی سُنا ہے کہ پیر گولڑوی ہمارے خلاف ایک کتاب لکھنے والا ہے۔ اس پر ہم خوش ہوئے کہ اس کے مریدوں میں سے جس کو ہمارے نام دعوے کی خبر نہ تھی، اس کو بھی خبر ہوجائے گی اوراس طرح انہیں ہماری کتابیں دیکھنے کی ایک تحریک پیدا ہوگئی۔ ۱؎
جلسہ سالانہ کی تقریر
۲۸؍دسمبر۱۸۹۹ء
تقریر اور وعظ میں محض للہیت مقصود ہو سب صاحبان متوجہ ہوکر سنیں ۔ مَیں اپنی جماعت اور کود اپنی ذات اور اپنے نفس
کے لئے یہی چاہتا اورپسندکرتاہوں کہ ظاہری قیل وقال جو لیکچروں میں ہوتی ہے۔ اُس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آکر اُس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادُو بھری تقریر کررہا ہے۔ الفاظ میں کیس ازور ہے۔ مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا، مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کاہی یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو جو بات ہو۔ خدا کے واسطے ہو۔ اگر اللہ کی رضا اور اس کے احکام کی تعمیل میرا مقصد نہ ہوتا، تو اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ مجھے تقریریں کرنی اور وعظ سُنانا تو ایک طرف، مَیں تو ہمیشہ خلوت ہی کو پسند کرتاہوں اور تنہائی میں وُہ لذت پاتا ہوں جس کوبیان نہیں کرسکتا، مگر کیا کروں بنی نوع کی ہمدردی کھینچ کھینچ کر باہر لے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جس نے مجھے تبلیغ پر مامور کیا ہ۔ مَیں نے یہ بات کہ ظاہری قیل وقال ہی کو پسند نہ کیاجائے، اس لیے بیان کی ہے کہ ہرخیر میں بھی شیطان کا حصہ رکھا ہو اہوتاہے۔ پس جب انسان وعظ کے لئے کھڑ اہوتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکر بہت ہی عمدہ کام ہے، مگر اس منصب پر کھڑا ہونے والے کو ڈرنا چاہیے کہ اس میں مخفی طور پر شیطان کا بھی حصہ ہے ۔ کچھ تو واعظ کے بخرہ میں آتا ہے اور کچھ سُننے والوں کے حصہ میں اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب واعظِ وظ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، تو مقصد اور دلی تمنا صرف یہ ہوتی ہے کہ مَیں ایسی تقریر کروں کہ سامعین خوش ہوجائیں۔ ایسے الفاظ اورفقرات بولوں کہ ہر طرف سے واہ واہ کی آوازیں آئیں۔ مَیں اس قسم کی تقریر کرنے والوں کے مقاصد کو اس سے بڑھ کر نہیں سمجھتا۔ جیسے بھڑوے، بقال ، قوال ، گویّئے یہی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے سننے والے ان کی تعریفیں کریں۔
پس جب ایک مجمع کثیر سننے والا ہو اور اس میں ہر ایک مذاق اور درجہ کے لوگ موجود ہوں ، تو خداکی طرف کی آنکھ کُھلی نہیں ہوتی۔ الا ماشاء اللہ مقصود یہی ہوتا ہے کہ سننے والے واہ واہ کریں۔ تالیاں بجائیں اور چیر زدیں ۔ غرض یہ حصہ شیطان کا واعظ یا بولنے والے میںہوتا ہے اور سامعین میں شیطانی حصہ یہ ہوتاہے کہ وُہ بولنے والے کی فصاحت وبلاغت زبان پر پوری حکومت اور قادرالکلامی، برمحل اشعار،کہانیوں اور ہنسانے والے لطیفوں کو پسند کریں اور داددیں تاکہ سخن فہم ثابت ہوں ۔ گویا اُن کا مقصود بجائے خود خدا سے دُور ہوتاہے اور بولنے والے کا الگ ۔ وُہ بولتاہے مگر خدا کے لئے اور یہ سنتے ہیں، مگر ان باتوں کو دل میں جگہ نہیں دیتے، اس لیے کہ وہ خداکے لئے نہیں سنتے۔یہ کیوں ہوتا ہے صرف اس بات کے واسطے کہ ایک لذت حاصل کریں۔ یادرکھو!انسان دوقسم کی لذتوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رُوح کی لذت ہے۔ دُوسری نفس کی لذت۔
رُوحانی لذت تو ایک باریک اور عمیق راز ہے۔ جس پر اگر کسی کو اطلاع مل جائے اور ساری عمرمیں ایک مرتبہ بھی جس کو یہ سُرور اور ذوق مل جائے وہ اس سے سرشار اور مست ہو جائے۔نفسا نی لذتیں ایسی ہیں کہ ہمیشہ آنی اور فانی ہوتی ہیں ۔نفسانی لذت وہ لذت ہے ،جس کے ساتھ ایک طوائف بازاروں میں ناچا کرتی ہے۔وہ بھی اس لذت میں شریک ہیں۔جیسے مولوی واعظ کی حیثیت میں گاتا ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ویسے ہی بازاری عور ت گاتی ہے ،اسے بھی پسند کرتے ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوت اہے کہ نفس یہی چیز ہے جو ایک وعظ کے وعظ سے بھی لذت اٹھاتا ہے اور دوسری طرف ایک بد کار عورت کے گانے سے بھی لطف اٹھاتا ہے؛حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ عورت بد کار ہے۔اس کے اخلاق،اس کی معاشرت بہت ہی قابل نفرت ہے لیکن اس پر بھی اگر وہ اس کی باتوں اور اس کے گانے سے لذت اٹھاتا ہے اور اس کو نفرت اور بد بو نہیں آتی،تو یقیناً سمجھو کہ یہ نفسانی لذت ہے؛ورنہ تو روح ایسی گھناونی اور متعفن شے پر راضی نہیں ہو سکتی۔اس قابل رحم واعظ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ مجھ میں پاک حصہ نہیں ہے۔ایسا ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے سامعین نہیں سمجھتے کہ ہم یہاں صرف نفسانی لذت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں اور خدا کا بخرہ ہم میں نہیں ہے۔پس میں خدا تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ ہماری تقریروں ،ہمارے بولنے اور بولنے والوں اور سننے والون میں سے اس ناپاک اور خبیث روح کے حصہ کو نکال کر محض للہیت بھر دے۔ہم جو کچھ کہیں خدا کے لئے،اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور جو کچھ سنیں،خدا کی باتیں سمجھ کر سنیں اور نیز عمل کرنے کے واسطے سنیں اور مجلس وعظ سے ہم صرف اتنا ہی حصہ نہ لے جائیں کہ یہ کہیں آج بہت اچھا وعظ ہوا۔
راستبازی اور ربانی واعظ مُسلمانوںمیں اِدبارا اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ؛ورنہ اس قدر کانفرنسیں اورانجمنیں
اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسَّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اورتقریں کرتے ہیں ، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے۔ بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آ نے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتی۔ وہاں لیکچراروں کی غرض جیس اکہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے۔ خواہ وہ مولوی ہوں یا نئے تعلیمیافتہ مسائخ ہوں یا صُوفی صرف واہ واہ سننا ہوتی ہے۔ تقریر کرتے وقت ان کے معبود سامعین ہوتے ہیں۔ جن کی خوشی اوررضامندی اُن کو مطلوب ہوتی ہے نہ کدا کی رضا، لیکن راستباز اور حقانی لوگ جو قیامت تک ہوں گے۔ اُن کا یہ مقصد اور منشاء کبھی نہیں ہوتا۔ اُن کا مقصود اور مطلوب خداہوتاہے اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی اور غمگساری جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ایک بڑاذریعہ ہے ۔ وُہ دُنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ جو خود اُنہوں نے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنا اُن کی تمنا ہوتی ہے، اس لیے وہ جو کچھ کہتے ہیں بلا خوفِ لومۃ لائم کہتے ہیں۔ اُن کی نگاہ میں سامعین ایک مُردہ کیڑے ہوتے ہیں۔ نہ اُن سے کوئی اجر مقصود ہوتاہے۔ نہ اُن کے واہ واہ کی پروا۔ غرض یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات لوگ اُن کی باتیں سن کر گھبراجاتے ہیں اور درمیان تقریریں اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اور بسااوقات گالیاں دیتے اور دُکھ دینے والی باتوں ہی پر اکتفانہ کرکے قسم قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔ اس سے صاف پتہ لگ جاتاہے کہ نفسانی لذت کا طالب اور خواہشمند کون ہوتاہے اور نفسانی لذت ہوتی کیا ہے۔ایک طوائف کا ناچ ہوتو ساری رات بھی جاگنا اوور زرد اون و دردِ سر خریدن کا مصداق ہونا بھی منظو ر، لیکن ایک حقانی واعظ کے چند کلمے جو نہایت خلوص اورسچے جوش اور حقیقی ہمدردی کی بنء پر اس کے پاک مُنہ سے نکلتے ہیں۔اُن کے لئے سننا دشورار اور گران ۔ مگر یہ حقانی واعظوں کی جمات ان باتوں سے نہ کبھی گھبراتی اور نہ تھکتی ہے کیوں؟ ان کے پیش نظر خدا ہوتاہے جو اپنی لاانتہاقدرتوں اورفوق الفوق طاقتوںکے ساتھ اُن پرجلوہ نمائی کرتا ہے، جو اُن پر سکینت اور استقلال نازل فرماتا ہے، پھر وُہ مرُدہ دُنیا داروں کی پرَواکیا کرسکتے ہیں۔
ربّانی واعظ کا اثر رُوح پر
یادرکھنا چاہیے کہ انسان کی پیدائش میں ایک رُوح کا حصہ ہے دُوسرے نفس کا جو بہت پھیلا ہوا ہے۔
اب آپ لوگ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز زیادہ ہوگی،اُس کا اثر زیادہ ہوگا۔ رُوح کاجوش ایسا ہے جیسے کوئی غریب الوطن ناواقف لوگوں میں آکربسے پس رُوح جو گمنام حالت میں ہوتی ہے۔ اُس پر بہت کم اثرہوتاہے۔روح کے اثر کی علامت یہ ہے کہ جب ربانی واعظِ اور حقانی ریفارمربولتاہے، تو وہ اپنے وعظ میں سامعین کو کالعدم سمجھتا ہے اور پیغام رساں ہوکر باتی پہنچاتا ہے۔ ایسی صورت می رُوح میں گدازش پیدا ہوتی ہے۔ یہانتک کہ وُہ پانی کے ایک آبشار کی طرح جو پیاڑ کے بلند کڑاڑے سے نشیب کی طرف گرتا ہے، بے اختیار ہوکر گرتی ہے۔ خداتعالیٰ کی طرف بہتی ہے او راس بہائو میں وہ ایک ایسی لذت اور سردرمحسوس کرتی ہے جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ پس وہ اپنے بیان اور اپنی تقریر میں وجہ اللہ کو دیکھتا ہے۔ سامعین کی اُسے پروا بھی نہیںہوتی کہ وہ سن کر کیا کہیں گے۔ اس کو ایک اور طرف سے ایک لذت آتی ہے اور انر ہی اندر خوش ہوتا ہے کہ میں اپنے مالک اورحکمران کے حکم اورپیغام کوپہنچارہا ہوں۔ اس پیغام رسانی میں جو مشکلات اور تکالیف اُسے پیش آتی ہیں وہ بھی اُ سکے لئے محسوس ا للذات اور مدرک الحلاوت ہوتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حددرجہ ہمدردی وغمگساری ایسے لوگ چونکہ بنی نوع کی ہمدردی میں محو ہوتے
ہیں ، اس لئے رات دن سوچتے رہتے ہیں اور اسی فکر میں کڑھتے ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اس راہ پر آجائیں اور ایک باراس چشمہ سے ایک گھونٹ پی لیں۔ یہ ہمدردی ، یہ جوش ہمارے سیدومولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں غایت درجہ کا تھا۔ اس سے بڑھ کر کسی دوسرے میں ہوسکتا ہی نہیں؛ چنانچہ آپ ؐ کی ہمدرددی اور غمگساری کا یہ عالم تھا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ کھینچ کر دکھایا ہے:۔ لعلک باخع نفسک الا یکون نوامومنین (الشعراء:۴) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کردے گا۔ اس غم میں کہ یہ کیوں مومن نہیں ہوتے۔ اس آیت کی حقیقت آپ پورے طور پر نہ سمجھ سکیں۔ تو جدا امر ہے۔ مگر میرے دل میں اس کی حقیقت یوں پھرتی ہے، جیسے بدن میں خون
بدل وردیکہ وارم ازبرائے طالبانِ حق نمے گردوبیان آں ورد ازتقریر کوتاہم
متأثرہونے کی اِستعداد پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ معلم جس رنگ اور طاقت کا ہو۔ اس کا اثر اسی حیثیت سے حسبِ استعداد
سُننے والوں پر ہوتاہے؛ بشرطیکہ استعداد میں قابلیت ہو۔ جو لوگ خداتعالیٰ سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور خوف اور خشیئت رکھتے ہیں۔ اُن پر اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا نشان یہ ہے کہ روح تزکیۂ نفس کے لئے دوڑتی ہے اور بے اختیار ہوہوکر خداتعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔ اگر نفسِ امارہ کے ساتھ تعلق زیادہ ہے اور اس کی حکومت کے نیچے ہے، تو طبیعت میں ایک اضطراب اور قلق سا پیدا ہوتاہے۔ اُس کی باتوں سے نفرت معلوم ہوتی ہے۔ وہاں بیٹھنے اور سننے کو جی نہیں چاہتا، بلکہ گھبراہٹ معلوم ہوتی ہے جب انسان اس قسم کی بے چینی اور بے لذتی ایک حقانی واعظ کی باتوں سے اپنے دل میں پائے تو اُس کو واجب ہے کہ وہ اپنی رُوح کی فکر کرے کہ وہ ہلاکت کے گڑھے پر پہنچی ہوئی ہے۔ خدا کی باتوں سے بے لطفی اور بے ذوقی۔
رُوحانی بیماریوں کا علاج اِس سے بڑھ کردُنیا میں ہلاک کرنے والی چیز کیا ہوگی، اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا علاج استغفار، خدا کے
حضور رجُوع ، اپنے گناہوں کی معافی کے لئے دعائیں اور اُن پر دوام۔ اگر اس نسخہ کو استعمال کیا جائے تو مَیں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اس بے لطفی سے ایک لطف اور اس بے ذوقی میں سے ایک ذوق پیدا ہوجائے گا۔ پھر وہی رُوح جو خدا کے حضور جانے سے بھاگتی اور خدا کی باتوں کے سننے سے نفرت کرتی تھی۔ خدا کی طرف گیند کی طرح لڑھکتی ہوئی چلی جائے گی۔
نفس کی تین اقسام نفس کی تین قسمیں ہیں۔ امّارہ۔ لوامہ۔مطمئننہ۔ مطمئنہ کی ایک حالت نفس زکیہ کہلاتی ہے۔نفسِ زکیہ بچوںکا نفس ہوتا
ہے جس کو کوئی ہو انہیں لگی ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کے نشیب وفراز سے ناواقف ایک ہموار سطح پر چلتے ہیں۔ نفس امارہ وہ ہے جب کہ دُنیا کی ہوا لگتی ہے۔ نفس لوامہ وہ نفس ہے جب کہ ہوش آتاہے اور لغزشوں کو سوچتا ہے اور کوشش کرتا ہے اوربدیوں سے بچنے کے لئے دعا کرتاہے۔ اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتا ہے اور نفسِ مطمئنہ وہ ہوتاہے جبکہ ہرقسم کی بدیوں سے بچنے کی بفضل الہٰی قوت اور طاقت پاتاہے اور ہر قسم کی آفتوں اور مصیبوتوں سے اپنے آپ کو امن میں پاتا ہے اور اس طرح پر ایک بُددت اور اطمینان قلب کو حاصل ہوتا ہے کہ کسی قسم کی گھبراہٹ اور اضطراب باقی نہ رہے۔
دماغ، دل اور زبان کا دائرۂ کار اس کی مثال اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں تین قسم کی حکومت رکھی ہے۔
ایک دماغ، دُوسرا دل ، تیسری زبان۔ دماغ عقول اور براہین سے کام لیتا ہے اور اُس کا یہ کام ہے کہ ہر وقت وہ ایک تراش خراش میں لگا رہتاہے اور نئی نئی براہین اور حجج کو سوچتا رہتاہے۔ اس کے سپرد یہی خدمت ہے کہ وہ مقدمات مرتب کرکے نتائج نکالتا رہتا ہے۔ قلب تمام وجود کا بادشاہ ہے۔ یہ دلائل سے کام نہیں لیتا ؛ چونکہ اس کا تعلق ملک الملوک سے ہے، اس لیے کبھی صریح الہام سے کبھی خفی الہام سے اطلاع پاتا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دماغ و زیر ہے۔ وزیرمدبر ہوتے ہیں۔ اس لئے دماغ تجاویز، اسباب ، دلائل اور نتائج کے متعلق کام میں لگا رہت اہے۔ قلب کو اُن سے کام نہیں ہے۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قوت حاسہ رکھی ہے۔ جیسے چیونٹی جہاں کوئی شیر ینی رکھی ہوئی ہو۔ معاً اس جگہ پر پہنچ جاتی ہے ؛ حالانکہ اس کے لئے دلیل اس امر کی نہیں ہوتی کہ وہاں شیرینی ہے بلکہ خداتعالیٰ نے اس میں ایک قوتِ حاسہ رکھی ہوئی ہوتی ہے جو اس کی رہبری کرتی ہے ۔ اسی طرح پر قلب کو چیونٹی کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ اس میں بھی وہ قوتِ حاسہ موجود ہے، جو اس کی رہنمائی کرتی ہے اور وہ دلائل و براہی اورترتیب مقدمات اور استخراج نتائج کی ضرورت نہیں رکھتا۔ گویہ امردیگر ہے کہ دماغ اس کے لئے یہ اسباب اور اُمور بھی بہم پہنچادیتا ہے۔
قلب کے معنی قلب کے معنے ایک ظاہری اور جسمانی ہیں اور ایک رُوحانی ۔ ظاہری معنی تو یہی ہیں کہ پھرنے والا۔ چونکہ دورانِ خون اسی سے ہوتاہے،
اس لیے اس کو قلب کہتے ہیں۔ روحانی طور پر اس کے یہ معنی ہیں کہ جو ترقیات انسان کرنا چاہتا ہے وہ قلب ہی کے تصرف سے ہوتی ہیں۔ جس طرح پر دورانِ خون انسانی زندگی کے لئے اشد ضروری چیز ہے، اس قلب سے ہوتاہے، اسی طرح روحانی ترقیوں کا اسی کے تصرف پر انحصار ہے۔
قلب اور دماغ کی ماہیت بعض نادان آج کل کے فلسفی بے خبر ہیں۔ وہ تمام عمدہ کاروبار کو دماغ سے ہی منسوب کرتے ہیں، مگر وہ اتنا
نہیں جانتے کہ دماغ تو صرف دلائل و براہین کا ملکہ ہے۔ قوتِ متفکرہ اور حافظہ دماغ میں ہے، لیکن قلب میں ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے وُہ سردار ہے یعنی دماغ میں ایک قسم کا تکلف ہے اور قلب میں نہیں بلکہ وہ بلا تکلف ہے۔ اس لیے قلب رب العرش سے ایک مناسبت رکھتا ہے۔ صرف قوتِ حاسہ کے ذریعہ دلائل و براہین کے بغیر پہچان جاتا ہے۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے ۔ استفت القلب یعنی قلب سے فتوے پوچھ لے۔ یہ نہیں کہ دماغ سے فتویٰ پوچھ لو۔ الوہیت کی تارا سی کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کوئی اس کو بعید نہ سمجھے ۔ یہ بات ادق اور مشکل تو ہے، مگر تزکیۂ نفس کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ مکرّمات قلب میں موجود ہیں۔ اگر قلب میں یہ طاقتیں نہ ہوتیں،تو انسان کا وجود ہی بے کار سمجھا جاتا ۔صوفی اور مجاہدہ کرنے والے لوگ جو تصوف اور مجاہدات کے مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ قلب سے روشنی اور نور کے ستون شہودی طور پر نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ایک خط مستقیم میں آسمان کو جاتے ہیں۔یہ مسئلہ بدیہی اور یقینی ہے۔میں اس کو خاص مثال کے ذریعے سے بیان نہیں کر سکتا ۔ہاں جن لوگوں کو مجاہدات کرانے پڑتے ہیں یا جنہوں نے سلوک کی راہوں کو تلاش کرنا چاہا ۔انہوں نے اسے اپنے مشاہدہ اور تجربہ سے صحیح پایا ہے۔قلب اور عرش کے درمیان گویا ایک باریک تار ہے۔قلب کو جو حکم کرتا ہے اس سے ہی لذت پاتا ہے۔خارجی دلائل اور براہین کا محتاج نہیں ہو تا ہے،بلکہ اندر ہی اندر خدا سے باتیں کر کے فتویٰ دیتا ہے۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ جب تک قلب قلب ہے لو کنا نسمع اونعقل(الملک:۱۱)کا مصداق ہوتا ہے۔یعنی انسان پر ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ جس میں قلب و دماغ کی قوتیں اور طاقتیں نہیں ہوتی ہیں۔پھر ایک زمانہ دماغ کا آتا ہے۔دماغی طاقتیں اور قوتیں نشونما پاتی ہیں اور ایک ایسا زمانہ ااتا ہے کہ قلب منور اور مشتعل اور روشن ہو جاتا ہے۔جب قلب کا زمانہ آتا ہے۔اس وقت انسان روحانی بلوغ حاصل کرتا ہے اور دماغ قلب کے تابع ہو جاتا ہے اور دماغی قوتوں کو قلب کی خاصیتوں اور طاقتوں پر فوق نہیں ہے ااتا۔یہ بھی یاد رہے کہ دماغی حالتوں کو مومنوںسے ہی خصوصیت نہیں ہے۔ہندو اور چوہڑے وغیرہ بھی سب کے سب ہر ایک دماغ سے کام لیتے ہیں۔جو لوگ دنیوی معاملات اور تجارت کے کاروبار میں مصروف ہیں،وہ سب کے سب دماغ سے کام لیتے ہیں۔ان کی دماغی قوتیں پورے طور پر نشوونما پائی ہوئی ہوتی ہیں اور ہر روز نئی نئی باتیں اپنے کاروبار کے متعلق ایجاد کرتے ہیں۔یورپ اور نئی دنیا کو دیکھو کہ یہ لوگ کس قدر آئے دن نئی ایجادیں کرتے ہیں۔قلب کا کام جب ہوتا ہے،جب انسان خدا کا بنتا ہے۔اس وقت اندر کی ساری طاقتیں اور ریاستیں معدوم ہو کر قلب کی سلطنت ایک اقتدار اور قوت ھاصل کرتی ہے۔تب انسان کامل انسان کہلاتا ہے۔یہ وہی وقت ہوتا ہے۔جبکہ وہ نفخت فیہ من روحی(الحجر:۳۰)کا مصداق ہوتا ہے اور ملائکہ تک اس سے سجدہ کرتے ہیں۔اس وقت وہ ایک نیا انسان ہوتا ہے۔اس کی روح پوری لذت اور سرور سے سر شار ہوتی ہے۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ لذت ایسی لذت نہیں جیسا کہ ایک ناعاقبت اندیش بد کار زنا کرنے میں پاتا ہے یاخوش الحانی کا شائق سرور اور خوش گلو کے گانے میں پاتا ہے۔نہیں بلکہ اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔روح کی لذت اس وقت ملتی ہے۔جب انسان گداز ہو کر پانی کی طرح بہنا شروع کرتا ہے۔اور خوف خشیت سے بہہ نکلتا ہے۔اس مقام پر وہ کلمہ بنتا ہے اور انما امرہ اذا ارادا شئیاًان یقول لہ کن فیکون(یس:۸۳)کا مفہوم اس میں کام کرنے لگتا ہے۔
کلمۃ اللہ اور روح کی حقیقت لوگوں نے کلمۃ اللہ کے لفظ پر جو مسیح کی نسبت آیا ہے۔سخت غلطی کھائی ہے اور مسیح کی کوئی خصوصیت
سمجھی ہے؛حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ہر انسان جب نفسانی ظلمتوں اور گندگیوں اور تیرگیوں سے نکل آتا ہے،اس وقت وہ کلمۃ اللہ ہوتا ہے۔
یاد رکھو کہ انسان کلمۃ اللہ ہے،کیونکہ اس کے اندر روح ہے،جس کا نام قرآن شریف میں امر ربی رکھا گیا ہے۔لیکن انسان نادانی اور ناواقفی سے روح کی کچھ قدرنہ کرنے کے باعث اس کو انواع اقسام کی سلاسل اور زنجیروں میں مقید کر دیتا ہے اور اس کی روشنی اور صفائی کو خطر ناک تاریکیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اندھا اور سیاہ کر دیتا ہے اور اسے ایسا دھندلا بناتا ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا،لیکن جب توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی ناپاک اور تاریک زندگی کی چادر اتار دیتا ہے،تو قلب منور ہونے لگتا ہے اور پھر اصل مبداء کی طرف رجوع کرتا ہے۔یہاں تک کہ تقویٰ کے انتہائی درجے پر پہنچ کر سارا میل کچیل اتر کر پھر وہ کلمۃ اللہ کا ہی رہ جاتاہے۔یہ ایک باریک علم اور معرفت کا نکتہ ہے۔ہر شخص اس کی تہہ تک نہیں ہے پہنچ سکتا۔
انسان کا کمال انسان کا کمال یہ ہے کہ اس میں حقیقی معرفت اور سچی فراست جو ایمانی فراست کہلاتی ہے(جس کے ساتھ اللہ کا ایک نور
ہوتا ہے جو اس کی ہر راہ میں رہنمائی کرتا ہے)پیدا ہو۔بدوں اس کے انسان دھوکے سے بچ نہیں سکتا اور رسم عادت کے طور پر کبھی کبھی نہیں بلکہ بسا اوقات سم قاتل پر خوش ہو جاتا ہے۔پنجاب وہندوستان کے سجادہ نشین اور گدیوں اے پیرزادے قوالوں کے گانے سے اور ہوحق کے نعرے مارنے اور الٹے سیدھے لٹکنے میں ہی اپنی معرفت اور کمال کا انتہا جانتے ہیں اور نا واقف پیر پرست ان باتوںکو دیکھ کر اپنی روح کی تسلی اور اطمینان ان لوگوں کے پاس تلاش کرتے ہیں۔مگر غور سے دیکھو کہ اگر یہ لوگ فریب نہیں ہیں دیتے تو اس میںشک نہیں کہ فریب خوردہ وہ خود ہیں۔کیونکہ سچا رشتہ جو عبودیت اور الوہیت کے درمیاں ہے۔جس کے حقیقی پیوند سے ایک نوراورروشنی نکلتی ہے اور ایسی لذت پیدا ہوتی ہے کہ دوسری لذت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔اس کو ان قلابازیوں سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ہم نہائے نیک نیتی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری نیت کیسی ہے۔پوچھتے ہیں کہ اگر اس قسم کے مشغلے عبادت الہی اور معرفت الہی کا موجب ہو سکتے ہیں اور انسانی روح کے کمال کا باعث بن سکتے ہیں،تو پھر بازیگروں کو معرفت کی معراج پر پہنچا ہوا سمجھنا چاہیے۔اور انگریزوں نے تو ان کھیلوں اور کرتبوں میں اور بھی حیرت انگیز ترقیاں کی ہیں اور باوجود ان ترقیوں کے ان کی معرفت خدا کی نسبت یا تو یہ ہے کہ وہ سرے سے ہی منکر اور دہریہ ہو جاتے ہیں اور اگر اقرار بھی کیا ہے تو یہ کہ ایک ناتواں بیکس انسان کو جو ایک عورت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا،خدا بنا لیا۔اور ایک خدا کو چھوڑ کر تین خدا ؤں کے قائل ہوئے۔جن میں سے ایک کو ملعون اور ہاویہ میں تین دن رہنے والا تجویز کیا۔اب اے دانشمندو!سوچو،اور اے سلیم فطرت والو!غور کرو کہ اگر اس الٹا سیدھا لٹکنے اور طبلہ اور سارنگی ہی کے ذریعہ خدا کی معرفت اور انسانی کمال حاصل ہو سکتا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس فن میں ماہر اور موجد انگریزوں کو جو قسم قسم کے باجے اور گانے کا سامان نکالتے ہیں،ایسی ٹھوکر لگی کہ وہ خدا کے بالکل منکر یا تثلیث کے قائل ہو گئے۔باوجود یکہ دنیوی امور میں ایجادات اور اختراعات میںان کی عقلیں ترقی پذیر سمجھی جاتی ہیں۔پھر اس پر اور بھی غور کرو اور سوچو کہ اگر یہی معرفت کا ذریعہ تھا،تو تھیٹروں میں ناچنے والے اور اچھا ناچنے گانے والے سب اعلیٰ درجے کے صاحب دل اور صاحب کمال ماننے پڑیں گے!افسوس ان لوگوں کو خبر ہی نہیں کہ خدا کی معرفت ہوتی کیا ہے؟اور انسانی کمال نام کس کا ہے؟وہ شیطانی حصہ کی شناخت نہیں کر سکے۔
رقت اور گریہ وبکا نہوں نے صرف چند قطرے آنسوؤں کے بہا بہا لینا اور دو تین چیخیں مار دینا ہی روح کی تسلی اور اطمینان کا موجب سمجھا رکھا ہے۔
بسا اوقات انسان ناول پڑھتا ہے۔جب اس کے کسی درد ناک حصہ پر پہنچتا ہے،باوصفیکہ جانتا ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے اور جھوٹا قصہ ہے،لیکن پھر بھی وہ ضبط نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ چیخیں مار مار کر رو پڑتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ محض رونا اور چلانا بھی اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔میں نے سنا ہے کہ ملوک چغتائیہ کے عہد سلطنت میں بعض لوگ ایسے ہوتے تھے جو شرط لگا کر یقینا رلا دیتے تھے اور ہنسا دیتے تھے اور اب تو یہ صریح یہ بات موجود ہے کہ طرح طرح کے ناول موجود ہیں۔بعض ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر دل بے اختیار ہو کر درد مند ہو جاتا ہے؛حالانکہ ان کو یقیناًبناوٹی قصے اور فرضی کہانیاں جانتے ہیں۔
اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ انسان دھوکہ کھاتاہے۔اور یہ اس وقت ہوتا ہے،جب انسان نفسانی اغراض اور روحانی مطالب میں تمیز نہیں کرتا۔جس قدر لوگ دنیا میں ہیں،ان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے،جو علامت حقیقیہ سے بے نصیب ہیں۔ان کے منہ سے معارف اور حقائق نہیں نکلتے،پھر رلا دیتے ہیں۔اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ حقائق اور معارف سے بہروار ہیں۔جو عبودیت کے رنگ سے رنگیں ہو کر الوہیت کے عظمت وجلال سے خایف اور ترساں ہو کر بولتے ہیں۔بلکہ اس کی تہہ میں وہی بات ہوتی ہے جو میں نے ابھی ناولوں اور کہانیوں کے متعلق بیان کی ہے۔وہ خود بھی نفس کی ہوا میں مبتلا ہوتے ہیں اور یوں رونا کچھ فائدہ نہیں رکھتا۔
آنسو کا ایک قطرہ بھی دوزخ کو حرام کردیتاہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی خشیت کا غلبہ دل
پر ہو اور اس میں ایک رقّت اور گدازش پیدا ہوکر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے ، تو وُہ یقینا دوزخ کو حرام کردیتا ہے۔ پس انسان ِ اس سے دھوکہ نہ کھائے کہ مَیں بہت روت اہوں۔ اس کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آنکھ دُکھنے آجائے گی اور یوں امراضِ چشم میں مبتلا ہوجائے گا۔
مَیں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کردیتا ہے لیکن یہ گریہ وبکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اس کے رسول کو رسول نہ سمجھے اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہو نہ صرف اطلاع بلکہ ایمان۔
طبیب جیسے ایک مریض کو جُلاب دیتا ہے اور اس کو ہلکے ہلکے دست آتے ہیں۔ وہ مرض کو ضائع نہیں کرتے، جب تک جگری دست نہ آویں۔ جو اپنے سات تمام مواد، رویہ اور فاسدہ کو لے کر نکلتے ہیں اور ہر قسم کی عفونتیں اور زہریں جنہوں نے مریض کو اندر ہی اندر مضمحل اور مضطرب کررکھا تھا۔ اُن کے ساتھ نکل جاتی ہیں۔ تب اُس کو شفاہوتی ہے۔ اسی طرح پر جگری گریہ وبکا آستانہ ٔ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مُفسد مواد کو لے نکل جاتا ہے اور اس کو پاک صاف بنادیت اہے۔ اہل اللہ کا ایک آنسو جو توبۃ النصوح کے وقت نکلتا ہے۔ ہوا وہوس کے بندے اور رَیاکار اور ظلمتوں کے گرفتار کے ایک دریا بہادینے سے افضل اور اعلیٰ ہے، کیونکہ وُہ خدا کے لئے ہے اور یہ خلق کے لئے یا اپنے نفس کے واسطے۔
اس بات کو کبھی اپنے دل سے محو نہ کرو کہ خداتعالیٰ کے حضور اخلاص اور راستبازی کی قدر ہے۔ تکلف اور بناوٹ اُس کے حضور کچھ کام نہیں دے سکتی۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے ذرائع اب اگر یہ سوال ہوکہ پھر اس درجہ کے حصول کے لئے کیا کیا جائے
اور قرآن کریم نے اس درجہ پر پہنچنے کا کیا ذریعہ بتایا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے دوباتیں اس کے لئے بطور اُصول کے رکھی ہیں۔ اوّل یہ کہ دُعا کرو۔ یہ سچی بات ہے۔ خلق الانسان ضعیفاً (النساء:۲۹) انسان کمزور مخلوق ہے۔ وُہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے بدوں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اس کا وجود اور اس کی پرورش اور بقاء کے سامان سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہیں۔ احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال ودولت پر ناز کرتا ہے، کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے۔ وہ کہاں سے لایا؟ اور دُع اکے لئے یہ ضرور بات ہے کہ انسان اپنے ضُعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے۔ جُوں جُوں وہ اپنی کمزوری پر غور کرے گا۔ اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا۔ اور اس طرح پر دُع اکے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا۔ جیسے انسان جب مصیبت میں مُبتلا ہوتا ہے اور دُکھ یا تنگی محسوس کرت اہے، تو بڑے زور کے ساتھ پُکارتا اور چلاتا ہے اور دوسرے سے مدد مانگتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ اپنی کمزوریوں اور لغزشو ں پر غور کرے گا اور اپنے آپ کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائے گا، تو اس کی روح پورے جوش اور درد سے بے قرار ہوکر آستانہ الوہیت پر گرے گی اور چلائے گی اور یارب یارب کہہ کر پکارے گی۔ غور سے قرآن کریم کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دعاکی تعلیم دی ہے۔ اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والاالضالین۔ (الفاتحہ:۶۔۷)
دُعا تب ہی جامع ہوسکتی ہے کہ وُہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو۔ پس اس دعا میں بہترین منافع جو ہوسکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کردیتی ہے۔ اُس سے بچنے کی دُعا ہے۔
منعم علیہ گروہ کی چار اقسام میں باربار کہہ چکا ہوں کہ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہیں۔ اول نبی دوم صدیق۔ سوم شہید ،چہار م صالحین۔
پس اس دُع امیں گویا ان چاروں گروہوں کے کمالات کی طلب ہے۔
نبی نبیوں کاعظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں؛ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے لا یظھر علی غیبہ احد الا من ارتضی من رسول (الجن : ۲۷:۲۸)
یعنی خداتعالیٰ کے غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتیں۔ ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے، جو لوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتاہے اور یہ بہت بڑ اعظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مرسلوں کا ہوتاہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی معجزہ نہیں۔ پیش گوئی بہت بڑا معجزہ ہے۔ تمام کتب سابقہ اورقرآن کریم سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ پیشگوئی سے بڑھ کر کوئی نشان نہیںہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل اور دائمی معجزات نادان اور بداندیش مخالفوں نے اس علم پر کبھی
غو رنہیں کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر اعتراض کیا ہے۔ مگر افسوس ہے اُن آنکھ بند کرکے اعتراض کرنے والوں کو یہ معلوم نہ ہو اکہ جس قدر معجزات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوئے ہیں۔ دُنیا میں کل نبیوں کے معجزات کو بھی اگر اُن کے مقابلہ میں رکھیں ، تو میں ایمان سے کہتاہوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بڑھ کر ثابت ہوں گے۔ قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے اور قیامت تک اور اس کے بعد تک کی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا یہ ہے کہ ہر زمانہ میں اُن پیشگوئیوں کا زندہ ثبوت دینے والا موجود ہوتاہے؛ چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے طور نشان کھڑا کیا اور پیشگوئیوں کا ایک عظیم الشان نشان مجھے دیا۔ تامیں اُن لوگوں کو جو حقائق سے بے بہرہ اور معرفت الہٰی سے بے نصیت ہیں۔ روزِ روشن کی طرح دکھادُوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کیسے مستقل اور دائمی ہیں۔
زندہ رسول ابدالآباد کے لئے صرف محمدرسول اللہ ؐ ہی ہیں کیابنی اسرائیل کے بقیہ یہود یا حضرت مسیح
علیہ السلام کو خُداوندخُداوند پکارنے والے عیسائیوں میں کوئی ہے جو ان نشانات میں میرا مقابلہ کرے۔میں پکار کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں۔ایک بھی نہیں۔ پھر یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداری معجزہ نمائی کی قوت کا ثبوت ہے۔کیونکہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ نبی متبوع کے معجزات ہی وہ معجزات کہلاتے ہیں، جو اس کے کسی متبع کے ہاتھ پر سرزد ہوں۔پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دیئے گئے ہیں۔جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عظا ہوا ہے۔یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ معجزات ہیں۔ اور کسی دوسرے نبی کے متبع کو یہ آج فخر نہیں ہے کہ وہ اس طرح پر دعوت کر کے ظاہر کر دے کہ وہ بھی اپنے اندر اپنے ہی متبوع کی قُدسی قوت کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے۔یہ فخر صرف اسلام کو ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ رسُول ابدالآباد کے لیے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں، جن کے انفاس طیبہ اور قوت قدسیہ کے طفیل سے ہر زمانہ میں ایک مردخدا خدانمائی کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔
نبی کا سب سے بڑا کمال،اظہار علی الغیب غرض بات تو یہ تھی کہ اسی دُعا میںنبیوں کے کمالات سے حصہ لینے
کی بھی دُعا ہے،کیونکہ منعم علیہ گروہ میںسب کا سردار انبیاء علیہم السلام کا گروہ ہے اور اُس کے کمالات میں سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اُن پر غیب کی باتیںجن کو پیش گوئیاںبھی کہتے ہیں،ظاہر کی جاتی ہیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس دُعا میں درحقیقت پیشگوئیاںمانگنے کی دُعا نہیں ہے۔بلکہ اس مرتبہ کے حصول کی ہی دُعا ہے جہاں پہنچ کر پیش گوئی کرتا ہے۔پیش گوئی کا مقام اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے قرب کے بدوں ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ ماینطق عن الھوٰی ( النجم:۴) کا مصداق ہوتا ہے اور یہ درجہ تب ملتا ہے جب دنافتدلی (النجم:۹) کے مقام پر پہنچے۔ جب تک ظلی طور پر اپنی انسانیت کی چادر کو پھینک کر الوہیت کی چادر کے نیچے اپنے آپ کو نہ چھپائے۔ یہ مقام اسے کب مل سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بعض سلوک کی منزلوں سے ناواقف صوفیوں نے آکر ٹھوکر کھائی ہے اور اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں اور اُن کی اس ٹھوکر سے ایک خطرناک غلطی پھیلی ہے، جس نے بہتوں کو ہلاک کرڈالا اور وُہ وحدتِ وجود کا مسئلہ ہے جس کی حقیقت سے یہ لوگ ناواقفِ محض ہوتے ہیں۔
میرا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ مَیں تمہیں یہ بتائوں کہ ماینطق عن الھوٰی کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے۔ اس وقت تک اُسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی۔ اور یہ درجہ اُس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ انسان قربِ الہٰی حاصل کرے۔ قربِ الہٰی کے لئے یہ ضرور ی بات ہے کہ تخلقوا باخلاق اللہ پر عمل ہو، کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کو ملحوظ خاطررکھ کر اُن کی عزت نہ کرے گا اور اُن کا پرتواپنی حالت اور اخلاق سے نہ دکھائے۔ وہ خداکے حضور کیونکر جاسکتا ہے۔ مثلاً خدا کی ایک صفت قدوس ہے۔پھر ایک ناپاک، غلیظ، ہر قسم کے فسق وفجور کی ناپاکی میں مبتلا انسان اللہ تعالیٰ کے حضور کیونکرجاسکتا ہے اور وہ خداتعالیٰ سے تعلق کیونکہ پیداکرسکتا ہے۔
غرض اس دُعا میں اول منعم علیہ گروہ کے کماِل مراتب کے حصول کی دُعا ہے۔ پس جب تک انسان اپنے نادرونی سلسلہ خیالات کو چھوڑ کر انا الموجود کی آواز نہ سُنے دعائوں میں لاگا رہے۔ یہ کمال تام کا درجہ ہے۔
صدیق
پھر دوسرا مرتبہ صدیق کا ہے۔ صدق کامل اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک توبۃ النصوح کے ساتھ صدق کو نہ کھینچے۔ قرآن کریم تمام صداقتوں کا مجموعہ اور صدق تام ہے۔ جب تک خود صادق نہ بنے۔ صدق کے کمال اور مراتب سے کیونکر واقف ہوسکتا ہے۔
صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اوراس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے ، کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے، اس لیے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ لایمسہ الا المطھرون (الواقعہ:۸۰) فرمایاگیا ہے۔
شھید
پھر تیسرا مرتبہ شہید کا ہے۔ عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا وغیرہ۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدوس رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتاہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا۔ وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہت اہے۔ یہانتک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لئے اپس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سررکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ باربار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں ۔ ایک ایسی لذت اورسُرور اس کی رُوح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے۔ وہ اُس کو ایک نئی زندگی ، نئی مسرت اور تازگی عطاکرتی ہے۔یہ ہیں شہید کے معنی۔
پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ وُہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اورجیسے شہد فیہ شفاء للناس (النحل:۷۰) کا مصداق ہے۔ یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں۔
اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے۔
صالح
چوتھا درجہ صالحین کا ہے۔ جن کو موادِ رویہ سے صاف کردیا گیا ہے اور اُن کے قلوب صاف ہو گئے ہیں۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تک موادِ رویہ دور نہ ہوں اور سومزاج رہے، تو مزہ زبان تک کا بھی بگڑ جاتا ہے، تلخ معلوم دیتا ہے اور جب بدن میں پوری صلاحیت اور اصلاح ہو اس وقت ہر ایک شے کا اصل مزہ معلوم ہوتا ہے اور طبیعت میں ایک قسم کی لذت اور سُرور اور چستی اور چالاکی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح پر جب انسان گناہ کی ناپاکی اور مُبتلا ہوتا ہے اور روح کا قوام بگڑ جاتا ہے تو روحانی قوتیں کمزور ہونی شروع ہوجاتی ہیں، یہانتک کہ عبادات میں مزہ نہیں رہتا۔ طبیعت میں ایک گھبراہٹ اور پریشانی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب موادِ رویہ جوگناہ کی زندگی سے پیدا ہوئے تھے، توبۃ النصوح کے ذریعہ خارج ہونے لگیں ت وروح میں وہ اضطراب اور بے چینی کم ہونے لگتی ہے۔ یہانتک کہ آخر ایک سکون اور تسلی ملتی ہے۔ پہلے جو گناہ کی طرف قدم اُٹھانے میں راحت محسوس ہوتی تھی اور پھر اُس فعل میں جو نفس کی خواہش کا نتیجہ ہوتاتھا اور جھکنے میں خوشی ملتی تھی۔ اب اس طرف جھکتے ہوئے دکھ اور رنج معلوم ہوتا ہے۔ روح پر ایک لرزہ پڑجاتا ہے۔ اگر اس تاریک زندگی کا وہم یا تصور بھی آجائے اور پھر عبادات میں لطف، ذوق ، جوش اور شوق پیدا ہونے لگتا ہے۔ رُوحانی قویٰ جو گناہ آمیززندگی سے مردہ ہوچکے تھے، اُن کا نشوونما شروع ہوتا ہے اور اخلاقی طاقتیں اپنا ظہور کرتی ہیں۔
یہ چارچیزیں ہیں۔جن کے لئے ہر انسان دنیا میں مامور کیا گیا ہے اور اس کے حصول کے لئے دُعا ہی ایک زبردست ذریعہ ہے اور ہم کو موقع دیا گیا ہے کہ پانچ وقت اُن مراتب کو مانگیں ، لیکن یہاں ایک اور مشکل ہے کہ اگرچہ اُدعونی استجب لکم (المومن:۶۱) فرمایا اور کہا گہا ہے اُجیب دعوۃ الداع اذادعان(البقرہ:۱۸۷) اورقرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا ئوں کو سنتا ہے اور وہ بہت ہی قریب ہے۔
قبولیت دُعا کے آداب
لیکن اگر خداتعالیٰ کی صفات اور اسماء کا لحاظ نہ کیا جائے اوردُعا کی جائے، تو وہ کچھ بھی اثر نہیں رکھتی۔ صرف اس ایک راز کے معلوم نہ ہونے کہ وجہ سے ہیں ، بلکہ معلوم نہ کرنے کی وجہ سے دُنیا ہلاک ہورہی ہے۔ مَیں نے بہت لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ ہم نے بہت دُعائیں کیں اور ان کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا۔ اور اس نتیجہ نے اُن کو دہریہ بنادیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہر امر کے لیے قواعد اور قوانین ہوتے ہیں۔ ایسا ہی دُعا کے واسطے قواعد و قوانین مقرر ہیں یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہماری دعاقبول نہیںہوئی، اس کا باعث یہی ہے کہ وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دُعا کے واسطے ضروری ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب ایک لانظیر اور بیش بہاخزانہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس کو پاسکتا ہے اور لے سکتا ہے۔کیونکہ یہ کبھی بھی جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر خدامان کر یہ تجویز کریں کہ جو کچھ اس نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور جو ہمیں دکھایا ہے۔ یہ محض سراب اور دھوکا ہے۔ ایسا وہم بھی انسان کو ہلاک کرسکتا ہے نہیں۔ بلکہ ہر ایک اس خزانہ کو لے سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی کمی نہیں۔ وہ ہر ایک کو یہ خزانے دے سکتا ہے پھر بھی اس میں کمی ہیں آسکتی۔
غرض وہ تو ہم کو نبوت کے کمالات تک دینے کو تیار ہے،، لیکن ہم اس کے لئے کی بھی سعی کریں۔ پس یادرکھو کہ یہ شیطانی وسوسہ اور دھوکہ ہے جو اس پیرایہ میں دیا جاتا ہے کہ دُعا قبول نہیںہوتی۔ اصل یہی ہے کہ وہ دعا قبولیت کے آداب اور اسباب سے محض خالی ہے۔ پھرآسمان کے دروازے اس کے لئے نہیں کھلتے۔ سُنو!قرآن شریف نے کیا کہا ہے۔ انما یتقبل اللہ من المتقین (المائدہ:۲۸) اللہ تعالیٰ متقیوں کی دُعائیںقبول کرتا ہے۔ جو لوگ متقی نہیں ہیں ، ان کی دُعائیں قبولیت کے لباس سے ننگی ہیں۔ہاں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت ان لوگوں کی پرورش میں اپنا کام کررہی ہے۔
متقی کی بعض دعائوں کے حسبِ منشاء پورا نہ ہونے کی حکمت
دُعائوں کی قبولیت کا فیض ان لوگوں کو ملتا ہے ، جومتقی ہوتے ہیں۔ اب میں بتاؤں گا کہ متقی کون ہوتے ہیں۔ مگرابھی میں ایک اور شبہ کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ جو متقی ہوتے ہیں۔ بظاہر اُن کی بعض دعائیں اُن کے حسب منشاء پوری نہیں ہوتی ہیں، یہ کیوں ہوتا ہے؟ یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ ان لوگوں کی کوئی بھی دعادرحقیقت ضائع نہیں کی جاتی ، لیکن چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اور وہ نہیں جانت اکہ اس دُعا کے نتائج اس کے حق میں کیااثر پیداکرنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کمال شفقت اور مہربانی سے اس دُعا کو اپنے بندہ کے لئے اس صورت میں منتقل کردیتاہے، جواس کے واسطے مفید اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جیسے ایک نادان بچہ سانپ کو ایک خوبصورت اور نرم شے سمجھ کر پکڑنے کی جرأت کرے یا آگ کو روشن دیکھ کر اپنی ماں سے مانگ بیٹھے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ماں خواہ وہ کیسی ہی نادان سے نادان بھی کیوں نہ ہو۔ کبھی پسند کرے گی کہ اُس کا بچہ سانپ کو پکڑے یا اپنی خواہش کے موافق آگ کا ایک روشن کوئلہ اُس کے ہاتھ پر رکھ دے ؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ جاتی ہے کہ یہ اُس کی زندگی کو گزند پہنچائے گا۔پس اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب اور عالم الکل ہے اور مہربان ماں سے بھی زیادہ رحی کریم ہے اور ماں کے دل میں بھی یہ رأفت اور محبت اُسی نے ڈالی ہے وہ کیونکر گوارا کرسکتا ہے کہ اس کاعزیز کوفی الفور منظور کرلے۔ نہیں بلکہ وہ اس کو رَدّ کردیتا ہے اور اس کے بجائے اس سے بھی بہتر اُس کو عطاکرتا ہے اور وہ یقینا سمجھ لیتا ہے کہ یہ میری فلاں دُعا کا اثر اور نتیجہ ہے۔ اپنی غلطی پر بی اس کو اطلاع ملتی ہے۔ غرض یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ متقیوں کی بھی بعض دُعاقبول نہیں ہوتی۔ نہیں اُن کی تو ہر دُعا قبول ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ اپنی کمزوری اور نادانی کی وجہ سے کوئی ایسی دُعا کر بیٹھیں جوان کے لئے عمدہ نتائج پیدا کرنے والی نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ اس دُعا کے بدلہ میں اُن کو وہ چیز عطاکرتا ہے ، جو اُن کی شے مطلوبہ کا نعم البدل ہو۔
مُتقی کون ہوتے ہیں؟
اب اس کے بعد پھر میں اصل مطلب کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ متقی کون ہوتے ہیں؟
درحقیقت متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتاہے۔ جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ہم مقربِ بارگاہ الہٰی ہیں او رپھر متقی نہیں ہیں بلکہ فسق وفجور کی زندگی بسرکرتے ہیں۔ اور ایک ظلم اور غضب کرتے ہیں جبکہ وہ ولایت اور قرابِ الہٰی کے درجہ کو اپنے ساتھ منسوب کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ متقی ہونے کی شرط لگا دی ہے۔
نصرت
پھر ایک اور شرط لگاتا ہے یا یہ کہو،متقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے ان اللہ مع الذین اتقوا۔ خدا اُن کے ساتھ ہوتاہے یعنی اُن کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے۔ پہلا دروازہ ولایت کا ویسے بند ہوا۔ اب دُوسرا دروازہ معیت اور نصرت الہٰی کا اس پر بند ہوا ۔ یادرکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اورفاسقوں کو نہیں مل سکتی۔ اس کاانحصار تقویٰ ہی پر ہے۔ خداکی اعانت متقی ہی کے لئے ہے۔
معاشی وسعت
پھرایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوت اہے اور حاجات مختلف رکھتا ہے۔ اُن کے حل اور رواہونے کے لیے بھی تقویٰ ہی کو اصول قراردیا ہے۔ معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہِ نجات تقویٰ ہی ہے۔ فرمایا۔ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لایحتسب (الطلاق:۳،۴)
معاشی وسعت پھرایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتاہے اور حاجات مختلف رکھتا ہے۔ اُن کے حل اور رواہونے کے لیے
بھی تقویٰ ہی کو اصول قراردیا ہے۔ معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہِ نجات تقویٰ ہی ہے۔ فرمایا۔ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لایحتسب (الطلاق:۳،۴) خدا متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مخرج پیداکردیت اہے اور اس کو غیب سے اُس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچادیتاہے۔ اُس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اُس کو پتہ بھی نہ لگے۔
اب غور کرکے دیکھ لو کہ انسان اس دُنیا میں چاہتا کیا ہے۔ انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سُکھ اور آرام ملے او راُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اُس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں۔
کفار کے مال ودولت کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال ودولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش و عشرت میں مہمک اور مست رہتے ہیں۔
مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ رکھتا ہوں۔وہ ایک سعیر اور سلاسل واغلال میں جکڑے ہوئے ہیں۔جیسے فرمایا ہے۔انا اعتدنا للکفرین سلا سلا واغلالاًو سعیراً(الدھر:۵)وہ نیکی کی طرف آہی نہیں سکتے۔وہ ایسے اغلال ہیں کہ اللہ کی طرف ان اغلال کی وجہ سے ایسے دبے پڑے ہیں کہ حیوانوں اور بہائم سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں۔ان کی آنکھ ہر وقت دنیا ہی کی طرف لگی رہتی ہے۔اور زمین کی طرف جھکتے جاتے ہیں۔پھر اندر ہی اندر ایک سوزش اور جلن بھی لگی ہوئی ہوتی ہے۔اگر مال میں کمی ہو جائے یا حسب مراد تدبیر میں کامیاب نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں۔یہاں تک کے بعض اوقات سودائی اور پاگل ہو جاتے ہیں۔یا عدالتوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔یہ واقعی بات ہے کہ بے دین آدمی سعیر سے خالی نہیں ہوتا،اس لئے کہ اس کو قرار اور سکون نصیب نہیں ہوتا،جو راحت اور تسلی کا لازمی نتیجہ ہے۔جیسے شرابی ایک جام شراب پی کر ایک اور مانگتا ہے اور ایک جلن سی لگی رہتی ہے۔ایسا ہی دنیا دار بھی سعیر میں ہے۔اس کی آتش آز ایک دم بھی بجھ نہیں سکتی۔سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متقی ہی کے لئے ہے۔جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کے لئے دو جنت ہیں۔
سچی خوشحالی متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں پا سکتا ہے،جو دنے ادر اور حرص وآز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیں مل سکتی۔جس قدردنیا زیادہ
ملتی ہے،اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آجاتی ہیں۔پس یاد رکھو کہ حقیقی راحت اور لذت دنیادر کے حصے میں نہیں آتی۔یہ مت سمجھو کہ مال کی کثرت عمدہ عمدہ لباس اور کھانے کسی خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ہر گز نہیں،بلکہ اس کا مدار ہی تقویٰ پر ہے۔
زبان کی حفا ظت
جبکہ ساری باتوں سے معلوم ہو گیا ہے کہ سچے تقویٰ کے بغیر کوئی راحت اور خوشی مل ہی نہیں سکتی،تو معلوم کرنا چاہیے کہ تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں۔جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ تقویٰ تما م جوارح انسانی اور عقائد زبان اخلاق وغیرہ سے ہیں۔نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے۔کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا؛حالانکہ ہو بات بری ہوتی ہے۔مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھا ل بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔اس بزرگ نے فرمایا کہ تم تو بہت ہی قابل رحم ہو۔ان تین فقروں میں تو نے اپنے تین ہی حجّوں کا ستیا ناس کر دیا۔تیرا مطلب اس امر سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کاظہار کرے کہ تو نے تین حج کئے ہیں۔اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے۔کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی،بیہودہ،بے موقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔
دیکھو۔اللہ تعالیٰ نے ایاک نعبد کی تعلیم دی ہے۔اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دور ہو جاتا ۔اس لئے ساتھ ہی ایاک نستعین کی تعلیم دے دی کے یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی طاقت اور قوت سے کرتا ہوں،ہر گز نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے،کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر ایاک اعبد یا ایاک استعین نہیں کہا۔اس لئے اس میں تقدم کے نفس کی بو آتی تھی اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔تقویٰ والا کل انسان کو لیتا ہے۔زبان ہی سے انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان ہی سے فرعونی صفات آجاتی ہے اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعما ل کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا ریاء بہت جلد پیدا ہو جاتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں۔حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی۔جیسے قول زور۔اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔یہ سخت غلطی ہے،اگر کوئی ایسا سمجھے۔میرا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جو اضطراراً سور کھا لے،تو یہ امر دیگر ہے۔لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دور نکل جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے۔غرض اس سے معلم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے۔اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی،جو تقویٰ کے خلاف ہو۔پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو،نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو۔
ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے۔جب تک یہ نہ سوچ لو مت بولو۔ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کا موجب ہو،نہ بولنا بہتر ہے،لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے۔اس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے۔دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا،تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئے۔لیکن آپ نے ایک دم بھر کے لئے بھی کسی کی پرواہ نہیں کی۔یہاں تک کہ جب ابو طالب آپ کے چچا نے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا۔اس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا۔آپ کا اختیار ہے، میرا ساتھ دیں یہ نہ دیں۔
پس زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کہنے سے روکنا چاہیے۔اسی طرح امر حق کے اظہار کے لئے کھولنا ضروی ہے۔یامرون ابالمعروف وینھون عن المنکر(آل عمران:۱۱۵)مومنوں کی شان ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثاببت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔پس یاد رکھو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ہاں محل اور موقعہ کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہو نا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلا ف بھی زبان کا کھولنا سخت گنا ہ ہے۔
قرآن کریم کی علت غائی تقویٰ ہے پھر دیکھو کہ تقویٰ ایسی اعلی درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے۔کہ قرآن کریم کی علت غائی
اسے ہی قرار دیا گیا ہے؛چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے،تو یوں ہی فرمایا ہے:الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدیٰ للمتقین(البقرہ:۲۔۳)میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔خدا تعالیٰ نے اس میں علل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے۔علت فاعلی،مادی،صوری،غائی۔ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار علل ہوتی ہیں۔قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے۔الم اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت جاننے والا ہے۔اس کلام کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل کیا ہے۔یعنی خدا اس کا فاعل ہے۔ذلک الکتب یہ مادہ بتایا۔یا یہ کہو کہ علت مادی ہے۔علت صوری لاریب فیہ ہر ایک چیز میں شک وشبہ اور ظنون فاسدپیدا ہو سکتے ہیں۔مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں کوئی لاریب فیہ نہیں ہے۔لاریب اس کے لئے ہے۔اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی شان یہ بتائی ہے کہ لاریب فیہ۔تو ہر ایک سلیم فطرت اور سعادت مند انسان کی روح اچھلے گی اور خواہش کرے گی کہ اس کی ہدایتوں پر عمل کیا جائے۔ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی اجلی اور اصفیٰ شان کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا؛ورنہ قرآن شریف کی خوبیاں اور اس کے کمالات،اس کاحسن اپنے اندر ایک ایسی کشش اور جزب رکھتا ہے کہ بے اختیار ہوہو کر دل اس کی طرف چلے آئیں۔مثلاً ایک خوشنما باغ کی تعریف کی جائے اور اس کی خوشبودار درختوں اور تروتازہ کرنے والی بوٹیوں اور روشوں اور مصفا پانی کی بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کا تذکرہ کیا جاوے،تو ہر ایک شخص کادل چاہے گا کہ اس کی سیر کرے اور اس سے حظ اٹھائے۔اور اگر یہ بھی بتا دیا جائے کہ اس میں بعض چشمے ایسے ہیں جو امراض مزمنہ اور مہلکہ کو شفا دیتے ہیں تو بھی زیادہ جوش اور طلب کے ساتھ لوگ وہاں جائیں گے۔اسی طرح پر قرآن شریف کی خوبیوں اور کمالات کو اگرنہایت خوبصورت اور موثر الفاظ میں بیان کیا جاوے، تو روح پورے جوش کے ساتھ اس کی طرف دوڑتی ہے۔
قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے اور حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس
سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے۔قرآن کریم میں ہی ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ھدیً للمتقین اور دوسری جگہ کہا لا یمسہ الاامطھرون(الواقعۃ:۸۰)اس سے مراد وہی متقین ہیںجوھدی للمتقین میں بیان ہوئے ہیں۔اس سے صاف طور پر معلوم ہو ا کہ قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے۔علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے۔دینوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے۔صرف ونحو۔طبعی،فلسفہ،ہیئت وطبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم صلوۃ کا پابند ہو اور امر الہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہو۔اپنے ہر قول وفعل کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے رکھے۔بلکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگار دہریہ منش ہو کر ہر قسم کے فسوق وفجور میں مبتلا ہوتے ہیں ۔آج دنیا کے سامنے ایک زبر دست تجربہ موجود ہے۔یورپ اور امریکہ باوجودیکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں،لیکن ان کی روح اور اخلاقی حالت بہت ہی قابل شرم ہے۔لندن کے پارک اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہیں ہم تو ان کاذکر بھی نہیں کر سکتے۔مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے۔اس میں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے۔جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے۔اور اس کے جلال و جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجو ع نہ کرے۔قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا اور روح کے ان خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا۔جو کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے۔قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں۔پس اس کے لئے تقویٰ بطور نرد بان کے ہے۔پھر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ بے ایمان،شریر،خبیث النفس،ارضی خواہشوں کے اسیر ان سے بہر وار ہوں۔اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف و نحو،معانی وبدیع وغیرہ علوم کا کتناہی بڑا فاضل کیوںنہ ہو۔د نیا کی نظر میں شیخ الکل فی الکل بنا بیٹھا ہو،لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا،تو قرآن شریف کے علوم سے اس کوحصہ نہیں دیا جاتا۔میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے تمام عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی،تو بد قسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب میںرہنے والوں کو اپنا امام بنا لیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں۔یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے۔جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی دین متین سمجھتے ہیں۔ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اورلب لباب یہ ہے کہ صرف ونحو کے جھگڑوں اور الجھیڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضالین کے لفظ پر مٹے ہیں۔قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں اور ہو کیو نکر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
ہاں اگر ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تزکیہ نفس کے دعوے کرتا ہے ۔وہ صوفیوں اور سجادہ نشینوں کا گروہ ہے،مگر ان لوگوں نے قرآن شریف کو تو چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہی طریق اختراع کر لئے ہیں۔کوئی چلہ کشیاں کرتا ہے۔کوئی لا الہ کے نعرے مارتا ہے۔کوئی نفی اثبات۔توجہ ۔حبس دم وغیرہ میں مبتلا ہے۔غرض ایسے طریق نکالے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے اور نہ قرآن کریم کا یہ منشا ء ہے اور نہ کبھی نبوت سلسلہ نے ایسے طریقوں کو پسند کیا۔غرض یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک انسان ایک پاک تبدیلی نہیں کرتا اور نفس کا تزکیہ نہیں کرتا،قرآن شریف کے معارف اور خوبیوں پر اطلاع نہیں ملتی۔قرآن شریف میں وہ نکاتاور حقائق ہیں جو روھ کی پیاس کو بجھا دیتے ہیں۔
کاش دنیا کو معلوم ہوتا کہ روح کی لذت کس چیز میں ہے اور پھر وہ معلوم کرتی کہ وہ قرآن شریف اورصاف قرآن شریف میں موجود ہے
ابدال کون ہیں دیکھو!جس جس قدر انسان تبدیلی کرتا چلا جاتا ہے،اسی قدر وہ ابدال کے زمرہ میں داخل ہوتا جاتا ہے۔حقائق قرآنی نہیںکھلتے،
جب تک ابدال کے زمرے میں داخل نہ ہو۔لوگوں نے ابدال کے معنی سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اپنے طور پر کچھ کا کچھ سمجھ لیا ہے۔اصل یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے قلب گناہ کی تاریکی اور زنگ سے صاف ہو جاتے ہیں۔شیطان کی حکومت کا استیصال ہو کر اللہ تعالیٰ کا عرش ان کے دل پر ہوتا ہے۔پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں۔تم لوگوں کو میں بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنی اندر تبدیلی کرے گا،وہ ابدال ہے۔انسان اگر خدا کی طرف قدم اٹھائے،تواللہ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے۔یہ سچی بات ہے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے۔دماغی قوت اور ذہنی ترقی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہو سکتا۔اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے۔متقی کا معلم خدا ہی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امت غالب ہوتی ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسی لئے امی بھیجا گیا ہے اور باوجودیکہ آپ نے کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو اسرتاد بنایا۔پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا۔قرآن شریف جیسی پاک،کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی۔جس کی فصاحت وبلاغت نے سارے عرب کو خوموش کر دیا۔وہ کیا بات تھی جس کے سب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم علوم میں سے بڑھ گئے۔وہ تقویٰ ہی تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے۔جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا۔
آپ کا اُمّی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقیٰ مطلب ہے نہ دنیوی چالاکیاں۔
تلاوت قرآن کریم کی غرض غرض قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے۔جس کے ذریعہ سے وہ ہدایت
کے منشاء کوحاصل کر سکے۔اب اس آیت میں تقویٰ کے تین مراتب کو بیان کیا ہے۔الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون(البقرہ:۴) لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں،مگر طوتے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے۔نہ خودسمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لیے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔زیادہ سے زیادہ یہ کہ سر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا۔قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے،مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔
نظام قرآنی اور آیت انی متوفیک کے الفاظ کی ترتیب یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میںایک عجیب و
غریب اور سچا فلسفہ ہے۔اس میںایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مد نظر نہ رکھا جاوے اور اس پرپورا غور نہ کیا جاوے،قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔اگر یہ لوگ جو قرآن شریف کے ق اور عین اورضاد پر لڑتے جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی تفسیق پر منہ کھولتے ہیں ۔
نظام قرآنی کی قدر کرتے،تو انی متوفیک ورافعک الی(آل عمران:۵۶)میں میرے ساتھ کیوں بر سر پر کاش ہوتے ہیں جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف ایک ترتیب کے طور پر ان واقعات کو بیان کرتا ہے جو خارجی طور پر اپنا ایک وجود رکھتے ہیں ۔کہ اے عیسیٰ ۔میں تجھے وفات دینے والا ہوں۔سوچنا چاہیے تھا کہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیٰ قرآن شریف نے کہا کہ کیوں۔اس کی ضرورت کیا پیش آئی تھی؟
یہودیوں ہی سے پوچھ لیتے تو یہ پتہ لگ جاتا۔ اصل بات جس کو میں نے بار ہا بیان کیا ہے یہ ہے کہ یہود حضرت مسیحؑ کو ملعون قرار دیتے ہیں۔معاذ اللہ۔اور اس کا ثبوت وہ دیتے ہیں کہ اُنھوں نے مسیحؑ کو صلیب کے ذریعہ قتل کر دیا،مگر قرآن شریف نے اس الزام کو دور کیا اور یہود کو ملزم کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے پاک بندوں کو ذلیل نہیں کرتا اور لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً۔(النساء:۱۴۲)اس کا سچا وعدہ ہے۔حضرت مسیحؑ جب صلیب پر چڑھائے گئے تو اُن کو اندیشہ ہوا کہ یہ لوگ مجھے صلیبی موت سے ہلاک کرنے کا موجب ٹھہرے ہیںاور اس طرح پر یہ *** موت ہو گی۔ اس ہلاکت کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحؑ کو یہ بشارت دی کہ میں تجھے طبعی موت سے وفات دوں گا اور تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے والا ہوں۔اس آیت کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے،مگر افسوس یہ لوگ کچھ بھی غور نہیں کرتے اور قرآن کریم کی ترتیب کو بدل کر تحریف کرنا چاہتے ہیں۔
کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہ تھا۔جو یوں کہہ دیتا کہ یا عیسی انی رافعک الی السماء۔پھرکونسی دقت اور مشکل اُس کو پیش آگئی تھی جو یا عسیٰ انی متوفیک ہی کہا۔غرض اس آیت میں جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ واقعات کی بناء پر ہے۔وہ احمق ہے جو کہتا ہے کہ ترتیب وائو سے نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہی غبی ہے کہ وہ اس کو نہیں سمجھ سکتا، تو اُس کو واقعات پر نظر کرنی چاہیے اور دیکھے کہ تطہیر رفع کے بعد ہوتی ہے یا پہلے اس تطہیر میں دراصل اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تیرے بعد ایک رُسول آئے گا جو حَکم ہوکر تیری نسبت جھگڑے کو فیصل کردے گا اور جس قدر الزامات یہودی تجھ پر لگاتے ہیں، اُن سے تجھے پاک ٹھہرائے گا۔ تین ترتیبوں کے تو یہ مخالف بھی قائل ہیں۔ یعنی رافعک الی و مطھرک من الذین کفرو وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا۔ یہ تو مانتے ہیں کہ مرتب کلام ہے۔ اس میں جو کچھ وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وہ پورا ہوگیا۔ جسمانی رفع کے قائل اس میں کچھ کہہ نہیں سکتے، مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب تین ترتیبوں کے وہ قاتل ہیں اور انہیں نے اس کو تسلیم کرلیا ہے تو توفی کے لفظ کو اُٹھانے کی بے فائدہ کوشش کیوں کرتے ہیں۔ بھلا یہ یہودی طرز اختیار کر کے بتائو تو سہی اس لفظ کو رکھو گے کہاں؟ اگر رفع کے بعد رکھو تو واقعاتِ خارجہ کے خلاف ہے۔ رفع اور تطہیر میں فاصلہ نہیں ہے، بلکہ رفع کے بعد تطہیرہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے اس الزام سے کہ وہ نبی بھی نہیں مانتے تھیا ور ملعون قراردیتے تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ ابن اللہ اور اللہ ہیں جس کو آسمان پراُٹھایا گیا اور وُہ ہمارے لئے ملعون ہوا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بَری کیا ہے۔ یہ دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ اُن کو الگ کرسکتے ہی نہیں۔ اور جاعل الذین اتبعوک کو دیکھو، تو وہ قیامت تک مطھرک کے بعد کسی دوسرے لفظ کو آنے ہی نہیں دیتا پھر اس کو رکھو گے ، تو کہاں رکھو گے جس طرح پر واقعات ظہور میں آئے۔ اسی طرز سے بیان کیا ہے۔ اب اُلٹ پُلٹ کر کہاں رکھ سکتے ہو۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ تمہیں خداتعالیٰ کے کلام کے ساتھ اس قدر دشمنی کیوں ہے، جو اس کی ترتیب توڑنا چاہتے ہو۔
عقیدہ حیاتِ مسیح ؑکے نقصانات کیا تم کو یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ؑ کی خدائی ثابت کرو۔ عیسائیوں کے اس مُردہ خدا کو کہیں تو
مرنے دو۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ ہم مسیح ؑ کو محض ایک بندہ اور نبی مانتے ہیں، دُوسری طرف اُن کی نسبت ایسے عقیدے رکھنے چاہتے ہو جو اُن کو خدا بناتے ہیں۔ اس کی وہی مثال ہے کہ ایک شخص تو کسی کی نسبت کہتا ہے کہ وُہ مرگیا، مگر دُوسرا کہتا ہے کہ نہیں مرا تو نہیں مگر نبض اُس کی نہیں چلتی۔ بذن بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ سانس بھی نہیں آتا۔
اے دانشمندو! غور تو کرو۔ اُس کے مرنے میں کیا شک رہا جس کی زندگی کا کوئی بھی اثر نہیں پایا جاتا۔
تم کہتے ہو کہ مسیح ؑ خدا نہیں۔ مگرمانتے ہو کہ وُہ آج تک زندہ ہے اور زمانہ کے اثر سے محفوظ اور لاتبدیل غیر متغیر ہے۔
تم کہتے ہو مسیح ؑ خالق نہیں، مگر مانتے ہو کہ اس نے بھی کچھ چڑیاں بنائی تھیں، جو اِن چڑیوں میں مل گئی ہیں۔
تم کہتے ہو مسیح ؑ خالق نہیں، مگر مانتے ہو کہ اس نے بھی کچھ چڑیاں بنائی تھیں، جو اِن چڑیوں میں مل گئی ہیں۔
تم کہتے ہو کہ مسیح ؑ عالمِ الغیب نہیں، مگر یہ مانتے ہو کہ وہ تمہارے کھانے پینے کی چیزوں اور تمہارے گھروں کے ذخیروں کی اطلاع دے دیتا تھا۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ مُسلمان کہلا کر ایک خدا کو تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف مان کر پھر اُس کی صفات ایک عاجز انسان کو دو۔ کچھ تو خدا کا خوف بھی کرو۔ یہی باتیں ہیں جنہوں نے نصاری کی قوم کو جرأت دلادی اور اُنہوں نے تمہاری قوم کا ایک بڑا حصہ گمراہ کرڈالا۔
تمہیں کب خبر ہوگی، جب سارا گھر لُٹ چکے گا؟ تم میرے ساتھ دشمنی نہیں کرتے، مگر اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہو۔مَیں نے کو نسی انوکھی بات کہی تھی۔مَیں تم سے کیا کچھ مانگتا ہوں۔پھر مجھ سے عداوت کی کیا وجہ؟ کیا اس لیے کہ مَیں کہتا ہوں کہ ایک ہی کامل الصفات ذات ہے جو عبادت کے قابل ہے۔ اس کے صفاتِ کسی انسان کو نہ دو۔ کیا اس لیے کہ مَیں یہ کہتا ہوں کہ دُنیا میں ایک ہی کامل انسان گزرا ہے، جس کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کیا اس لیے کہ میں کہتا ہوں کہ مسیح کے درجات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات سے ہرگز نہ بڑھائو۔ اس لیے کہ وہ اُن صفات سے ہرگز موصُوف نہیں، جن سے تم موصوف مانتے ہو۔ خدا کے لئے سوچو! یہ یادرکھو کہ آخر مرنا ہے اور خدا کے حضور جانا ہے۔
تقویٰ کے تین مراتب
غرض بات یہ تھی کہ قرآن شریف میں ترتیب کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور یہ آئتیں جو مَیں نے پڑھی تھیں،اُن میں
ترتیب کو ملحوظ رکھاگیا ہے۔ یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون۔(البقرہ:۴)
یادرکھو اتقا تین قسم کا ہوتاہے۔ پہلی قسم اتقا کی علمی رنگ رکھتی ہے۔ یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے۔ دُوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے۔ جیساکہ یقیمون الصلوٰۃ میں فرمایا ہے۔ انسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں۔ کھڑی نہیںہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یقرؤن نہیں فرمایا بلکہ یقیمون فرمایا۔ یعنی جو حق ہے اُس کے ادا کرنے کا ۔ سُنو! ہر ایک چیز کی ایک علت غائی ہوتی ہے۔ اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک بیل جو قلبہ رانی کے واسطے خریدہ گیا ہے۔ اپنے منصب پر اُس وقت قائم سمجھا جاوے گا، جب وہ کر کے دکھادے، لیکن اگر اس کی غرض و غایت کھانے پینے ہی تک محدو ر رہے ، تو اپنی علت غائی سے دُور ہے اور اس قابل ہے کہ اُس کو ذبح کیا جاوے۔
اقامتِ صلوٰۃ
اسی طرح یقیمون الصلوۃ میں لوازم الصلوٰۃ معراج ہے۔ اور یہ وُہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہوتا ہے۔ مکاشفات اور رویاء صالحہ آتے ہیں۔ لوگوں سے انقطاع ہوتا جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پید اہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ تبتل تام ہوکر خدا میں جاملتا ہے۔
صلی جلنے کو کہتے ہیں۔ جیسے کباب بُھونا جاتا ہے، اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے۔ جب تک دل بریان نہ ہو نماز میں لذت اور سُرور پیدا نہیں ہوتا۔ اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے سچے معنوں میں اُسی وقت ہوتی ہے۔ نماز میں شرط ہے کہ وہ بجمع شرائط ادا ہو جب تک وُہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوٰہ میں میلِ نماز کی ہے حاصل ہوتی ہے۔
یادرکھو صلوٰۃ میں حالؔ اورقالؔ دونوں کا جمع ہونا ضرور ی ہے۔ بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے۔ ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے، جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اُ سکا منشاء یہ ہے ۔ ایس اہی صلوٰۃ میں منشائے الہٰی کی تصویر ہے۔ نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضاء و جوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا بھی جاتا ہے۔ جب انسان کھڑا ہوتا ہے اور تحمید وتسبیح کرتاہے، اس کا نام قیام رکھا گیا ہے۔ اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ حمدوثناء کے مناسبِ حال قیام ہی ہے۔ بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سنائے جانتے ہیں، تو آخر کھڑے ہوکر ہی پیش کرتے ہیں۔ تو ادھر ظاہری طور پر قیام رکھا گیا ہے اور اُدھر زبان سے حمدوثنا بھی رکھی ہے۔ مظلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو۔ حمد ایک بات پر قائم ہوکر کی جاتی ہے۔ جو شخص مُصدق ہوکر کسی کی تعریف کرتا ہے ، تو ایک رائے پر قائم ہوجاتاہے۔ اس الحمدللہ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ سچے طور پر الحمدللہ اسی وقت کہہ سکتا ہے پورے طور پر اس کو یقین ہوجائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی، تو یہ رُوحانی قیام ہے۔ کیونکہ دل اس پر قائم ہوجاتا ہے اور پھرسمجھا جاتا ہے کہ وہ کھڑا ہے ۔ حال کے موافق کھڑا ہوگیا، تاکہ رُوحانی قیام نصیب ہو۔
پھر رکوع میں سُبحان ربی العظیم کہتا ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں۔ تو اس کے حضور جھکتے ہیں۔عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے رکوع کرے۔ پس سبحان ربی العظیم زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا۔
یہ اُس قول کے ساتھ حال دکھایا۔ پھر تیسرا قول ہے سبحان ربی الاعلیٰ ۔ اعلی افعل تفضیل ہے۔ یہ بالذات سجدہ کو چاہتا ہے۔ اس لیے اُس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرنا ہے۔ اس اقرار کے مناسب حال ہیئت فی الفور اختیار کرلی۔
اس قال کے ساتھ تین حال جسمانی ہیں۔ ایک تصویر اس کے آگے پیش کی گئی ہر ایک قسم کا قیام بھی کیاگیا ہے۔زبان پر جسم کا ٹکڑا ہے۔ اس نے بھی کہا اور وہ شامل ہوگئی۔
تیسری چیز اور ہے وہ اگر شامل نہ ہو، تو نماز نہیں ہوتی۔ وہ کیا ہے؟ وہ قلب ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو۔ اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کرکے دیکھے کہ درحقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہے اور جب سبحان ربی العظیم کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے۔ نہیں بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے۔ پھر تیسری نظر میں خد اکے حضور سجدہ میں گرا ہے۔ اس کی علو شان کو ملاحظہ میں لاکر اُس کے ساتھ ہی دیکھے کہ روح بھی الوہیت کے آستانہ پر گری ہوئی ہے۔ غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہولے۔ اس وقت تک مطمئن نہ ہو، کیونکہ یقیمون الصلوٰۃ کے معنی یہی ہیں۔ اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیونکہ ہو، تو اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ ماز پر مداومت کی جائے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو۔ابتدائی حالت میں شکوک و شبہات سے ایک ایک جنگ ضرور ہوتی ہے۔ اس کاعلاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگارہے ہیں اور خداتعالیٰ سے دُعائیں مانگتا رہے آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ یہ تقویٰ عملی کا ایک جزوہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انفاقِ رزق
اور دُوسری جزو اس کی مما رزقنا ھم ینفقون (البقرہ:۴) ہے کہ جو کچھ دے رکھا ہے ا سمیں سے خرچ کرتے ہیں عام لوگ رزق سے مراد اشیاء خوردنی لیتے ہیں ۔یہ غلط ہے جو کچھ قویٰ کو دیا جاوے وہ بھی رزق ہے۔ علوم و فنون وغیرہ معارف حقائق عطاہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر معاش مال میں فراخی ہو۔ سب رزق ہے۔
رزق میں حکومت بھی شامل ہے اور اخلاقِ فاضلہ بھی رزق ہی میں داخل ہیں یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اُس میں خرچ کرتے ہیں یعنی روٹی میں سے روٹی دیتے ہیں۔ علم میں سے علم اور اخلاق میں سے اخلاق علم کا دینا تو ظاہر ہی ہے۔
بُخل
یہ یادرکھو کہ وہی بخیل ہیں ہے جو اپنے مال میں سے کسی مستحق کو کچھ نہیں دیتا بلکہ وہ بھی بخیل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اور وہ دوسروں کو سکھانے میں مضائقہ کرے۔ محض اس لیے اپنے علوم وفنون سے کسی کو واقف نہ کرنا کہ اگر وہ سیکھ جاوے گا، تو ہماری بے قدری ہوجاوے گی یا آمدنی میں فرق آجائے گا، شرک ہے، کیونکہ اس صورت میں وہ اس علم یا فن کو ہی اپنا رازق اور خدا سمجھتا ہے۔ اسی طرح پر جو اپنے اخلاق سے کام نہیں لیتا ، وہ بھی بخیل ہے۔ اخلاق کا دینا یہی ہوتا ہے کہ جو اخلاقِ فاضلہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دے رکھے ہیں، اُس کی مخلوق سے اُن اخلاق سے پیش آوے۔ وہ لوگ اس کے نمونہ کو دیکھ کر خود بھی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
خلق کی تعریف
اخلاق سے اس قدر ہی مراد نہیں ہے کہ زبان کی نرمی اور الفاظ کی نرمی سے کام لے۔ نہیں بلکہ شجاعت، مروت ، عفت جس قدر قوتیں انسان کو دی گئی ہیں۔ دراصل سب اخلاقی قوتیں ہیں، اُن کا برمحل استعمال کرناہی اُن کو اخلاقی حالت میں حالت میں لے آتا ہے۔ ایک موقع مناسب پر غضب کا استعمال بھی اخلاقی رنگ اختیار کرلیتا ہے۔
یہ نہیں کہ انجیل کی طرح ایک ہی پہلو اپنے اندر رکھتی ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کردوسری پھیردو۔ یہ اخلاق نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم حکمت کے اُصول پر مبنی ہوسکتی ہے اگر ایسا ہو تو تمام فوجوں کا موقوف کردینا اور ہرقسم کے آلات حرب کو توڑ دینا لازم آئے گا اور مسیح دُنیا کو بطور ایک خدام کے رہنا پڑے گا، کیونکہ اگر کوئی کرتہ مانگے، تو چغہ بھی دینا پڑے گا۔ ایک کوس بیگارلے جانا چاہے ، تو دو کوس جانے کا حکم ہے۔ پھر عیسائی لوگوں کو کس قدر مشکلات پیش آئیں اگر وہ اس تعلیم پرعمل کریں تو نہ صرف اُن کے پاس ضروریات ِ زندگی بسر کرنے کو کچھ رہے اور نہ کوئی آرام کی صورت۔ کیونکہ جو کچھ اُن کے پاس ہوکوئی مانگ لے، تو پھر اُن کے پاس کیا رہ جاوے؟ اگر محنت مزدوری سے کمان چاہیں ، تو کوئی بیگار میں لگادے۔ غرض اس تعلیم پر زور تو بہت دیا گیا ہے اور پادریوں کو دیکھا ہے کہ وُہ بازاروں میں اس تعلیم کی بڑے شدومد سے تعریف کرکے وعظ کرتے ہیں، لیکن جب عمل پوچھوتو کچھ نہیں۔ گویا بگفتن ہی سب کچھ ہے۔ کرنے کے واسطے کچھ نہیں۔ اس لیے اس کا نام اخلاق نہیں ہے۔ اخلاق یہ ہے کہ تمام قویٰ کو جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں برمحل استعمال کیا جاوے۔ مثلاً عقل دی گئی ہے اور کوئی دوسرا شخص جس کو کسی امر میں واقفیت نہیں اس کے مشورہ کا محتاج ہے اور یہ پوری واقفیت رکھتاہے تو اخلاق کا تقاضا یہ ہوناچاہیے کہ اپنی عقلِ سلیم سے اس کو پوری مدد دے اور اس کو سچا مشورہ دے۔ لوگ ان باتوں کو معمولی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمار ا کیا بگڑتا ہے۔ اس کو خراب ہونے دو۔ یہ شیطانی فعل ہے۔ انسانیت سے بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے کو بگڑتا دیکھے اور اُس کی مدد کے لئے تیار نہ ہو۔ نہیں بلکہ چاہیے کہ نہایت توجہ اور دلدہی سے اس کی بات سُنے اور اپنی عقل و سمجھ سے اُس کو ضروری مدددے۔
لیکن اگر کوئی یہاں یہ اعتراض کرے کہ مما رزقناھم کیوں فرمایا مما کے لفظ سے بخل کی بو آتی ہے۔ چاہیے تھا کہ
ہرچہ داری خرچ کن درراہِ اُو
اصل بات یہ ہے کہ اس سے بخل ثابت نہیں ہوتا ۔ قرآن شریف خدائے حکیم کا کلام ہے۔حکمت کے معنی ہیں۔ شے راہ برمحل داشتن ۔ پس ممارزقناھم میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ محل اور موقع کو دیکھ کر خرچ کرو۔ جہاں تھوڑا خرچ کرنے کی ضرورت ہے، وہاں تھوڑا خرچ کرو۔جہاں بہت خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں بہت خرچ کرو۔
عفو
اب مثلاً عفو ہی ایک اخلاقی قوت ہے۔ اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا عفو کے لائق ہے یا نہیں ۔ مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہوجاتی ہے جو غصہ تو دلاتی ہے لیکن وہ معافی کے قابل ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اُن کی کسی شرارت پر چشم پوشی کی جاوے اور اُن کو معاف کردیاجائے تو وہ زیادہ دلیر ہوکر مزیدنقصان کا باعث بنتے ہیں۔مثلاً ایک خدمتگار ہے جو بڑا نیک اور فرماں بردار ہے۔ وہ چائے لایا۔اتفاق سے اُس کو ٹھوکر لگی اور چائے کی پیالی گر کر ٹوٹ گئی اور چائے بھی مالک پر گر گئی اگر وہ اُس کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہواور تیز اور تُند ہوکر اُس پر جاپڑے، تو یہ سفاہت ہوگی۔ یہ عفو کا مقام ہے، کیونکہ اس نے عمداً شرارت نہیں کہ ہے اور عفو اس کو زیادہ شرمندہ کرتا اور آئندہ کے لئے محتاط بناتا ہے، لیکن اگر کوئی ایسا شریر ہے کہ وہ ہر روز توڑتا ہے اور یوں نقصان پہنچاتا ہے ، تو اس پر رحم یہی ہوگا کہ اُس کو سزادی جائے۔ پس یہی حکمت ہے مما رزقنا ھم ینفقون میں ہر ایک مومن اپنے نفس کا مجتہد ہوتا ہے ۔وُہ محل اور موقع کی شناخت کرے اور جس قدر مناسب ہوخرچ کرے۔
انجیل کی ناقابلِ عمل تعلیم
مَیں ابھی بتاچکا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس کے بالمقابل انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھر دے وغیرہ وغیرہ۔کیسی قابلِ اعتراض ہے کہ اس کی پردہ پوشی نہیں ہوسکتی اور اس کی تمدنی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑا نرم خود اور تقدس مآب پادری بھی اس تعلیم پر عمل نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی انجیلؔ کی اس تعلیم کا عملی ثبوت لینے کے لئے کسی پادری صاحب کے مُنہ پر طمانچہ مارے ، تو وہ بجائے اس کے کہ دوسری گال پھیرے۔ پولیس کے پاس دوڑا جاوے گا اور اس کو حکام کے سُپرد کرادے گا۔
اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انجیل معطل پڑی ہے اورقرآن شریف پر عمل ہورہا ہے ۔ ایک مفلس اور نادار بڑھیا بھی جس کے پاس ایک جو کی روٹی کا ٹکڑا ہے۔ اس ٹکڑے میں سے ایک حصہ دے کر مما رزقنا ھم میں داخل ہوسکتی ہے۔ لیکن انجیل کی طمانچہ کھاکر گال پھیرنے کی تعلیم میں مقدس سے مقدس پادری بھی شامل نہیں ہوسکتا۔
بہ ہیں تفاوتِ راہ از کُجاست تابکجا
انجیل تو اس پہلو میں یہاں تک گری ہوئی ثابت ہوتی ہے کہ اور تو اور خود حضرت مسیح بھی اس پر پورا عمل نہ دکھا سکے۔ اور وہ تعلیم جو خود پیش کی تھی، علی پہلو میں اُنہوں نے ثابت کردیا کہ وُہ کہنے ہی کے لئے ہے؛ ورنہ چاہیے تھا کہ اس سے پیشتر کہ وُہ گرفتار ہوئے خود اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کردیتے اور دُعائیں مانگنے اور اضطراب ظاہر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، کرکے بھی دکھاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی ثابت ہوجاتا کہ وہ کفارہ ہی کے لئے آئے ہیں۔ کیونکہ اگر اُن کی زندگی کا یہی کام تھا کہ وہ خود کشی کے طریق سے دُنیا کو نجات دیں اور بقول عیسائیوں کے خدابجز اس صورت کے نجات ہی نہیں دے سکتا تھا، تو اُن کو چاہیے تھا کہ جس کام کے لئے وہ بھیجے گئے تھے وہ تو یہی تھ اپھر وعظ اور تبلیغ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیوں نہ آتے ہی یہ کہہ دیا کہ مجھے پکڑو اور پھانسی دے دو۔ تاکہ دُنیا کی رُستگاری ہو۔
قرآنی تعلیم انسانی قویٰ کی تکمیل کرتی ہے غرض قرآن شریف کی تعلیم ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور ذرہ
ذرہ اس کے آگے ہے اور اس نے ایسی تعلیم دی ہے، جو انسانی قویٰ کی تکمیل کرتی ہے اور عفو اور انتقام کو محل اور موقع پر رکھنے کے واسطے اس سے بڑھ کر تعلیم نظر نہیں آئے گی۔ اگر کوئی اس تعلیم کے خلاف اور کچھ پیش کرتا ہے تو وہ گویا قانونِ الہٰی کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے۔ بعض طبائع طبعاً عفو چاہتی ہیں اور بعض مار کھانے کے قابل ہوتی ہیں۔ سب عدالتیں قرآن شریف کی تعلیم کے موافق کھلی رہ سکتی ہیں۔ اگر انجیل کے موافق کریں تو آج ہی سب کچھ بند کرنا پڑے اور پھر دیکھو کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ انسان انجیلی تعلیم پر عمل کرہی نہیں سکتا۔ پس یہ دو نمونے علمی اور عملی تقویٰ کے ہوتے ہیں۔
۳-کلام الہٰی پر ایمان
لیکن اس کے سوا تیسری قسم تقویٰ کی ہے ویؤمنون بما انزل الیک (البقرہ:۵) انسان قوتِ شہادت کا محتاج ہے۔ ایسی
راہ اختیار نہ کرے کہ پاک شہادتوں سے دُور ہو۔ وُہ راہ خطرناک راہ ہے۔ جس میں راستبازوں کی شہادتیں موجود نہیں ہیں۔ تقویٰ کی راہ یہی ہے کہ جس میں زبردست شہادتیں ہر زمانہ میں زندہ موجود ہیں۔مثلاً تم نے راہ پوچھا کسی نے کہا کہ فلاں طرف جاتا ہے،مگر دس کہتے ہیں کہ نہیں یہ تو فلاں طرف جاتا ہے،تو اب تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ان بھلے مانس آدمیوں کی بات مان لو۔یہ یاد رکھو کہ شہادت پاکبازوں کی ہی مقبول اور موذون ہوتی ہے۔بد معاشوں کی پہادت کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکتی۔یہ تیسری قسم تقویٰ کی ہے جو یومنون بما انزل الیک میں بیان ہوئی ہے۔اس کو چھوڑ کر بھی بہت لوگ خراب ہوتے ہیں۔ہمارے ساتھ جو لوگوں نے مخالفت کی ہے،تو اسی وجہ سے انہوں نے تقویٰ کی اس قسم کو چھوڑ دیا ہے۔
وفات مسیح
خدا تعالیٰ کا کلام تیس آیتوں میں ہمارا موید ہے۔کبھی وہ یا عیسیٰ انی متوفیک(آل عمران:۵۶)کہہ کر کبھی فلما توفیتنی
کہہ کر کبھی محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۵)کہہ کر۔غرض کبھی کسی پیرایہ میں،کبھی کسی سورت میں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہی راہ سچی ہے۔جس پر ہم بفضلہ تعالیٰ قائم ہیں اور اسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت مسیح کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ معراج میں دیکھتے ہیں۔اور یہ پکی بات ہے کہ ان دونوں میں کوئی خاص فرق جو زندہوں اور مردوں میں ہونا چاہیے،انہیںبتایا کہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی عمر بتا کر شہادت دیتے تھے کہ وہ مر گیا اور کبھی آنے ولاے مسیح موعود اور اسرائیلی مسیح کا حلیہ جدا جدا بتا کر سمجھاتے ہیں کہ وہ مر گیا۔یہ شہادتیں تو حدیث اور قرآن کی ہیں۔ان کے علاوہ تمام صحابہ کی شہادت آنحضرت صلی اللہعلیہ والہ وسلم ہی کی وفات پر یہ ہوئی کہ سب نبی مر گئے۔حضرت عمر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت کہا کہ ابھی نہیں مرے اور تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے ہیں،مگر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھڑے ہو کر یہ خطبہ پڑھتے ہیں کہ ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۵) اب اس موقعہ پر جوایک قیامت ہی کا میدان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کل صحابہؓ جمع ہیں۔یہاں تک کہ اسامہ کا لشکر بھی روانہ نہیں ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت ابو بکر ؓبآواز بلند کہتے ہیںکہ محمد رسول اللہ کی وفات ہو گئی ہے اور اس پر استدال کرتے ہیں ما محمد الا رسول سے۔اب اگر صحابہؓ کے وہم گمان میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہوتی تو ضرور بول اٹھتے،مگر سب خاموش ہو گئے اور بازاروں میںیہ آیت پڑھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج اتری ہے۔
معاذ اللہ صحابہ ؓ نہ تھے جو وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے رعب میں آکر خاموش ہو رہے اور حضرت ابو بکر کی تر دید نہ کی۔نہیں ،اصل،بات یہی تھی جو حضرت ابو بکر صدیق نے بیان کی۔اس لئے سب نے گردن جھکا لی۔یہ ہے اجماع صحابہ کا ۔حضرت عمر بھی تو یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پھر آئیں گے۔اگر یہ استدلال کابل نہ ہوتا(اور اکامل تب ہی ہوتا جب کسی قسم کا استثناء نہ ہوتا )کیونکہ اگر حضرت عیسیؑ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے تو انہوں نے پھر آنا تھا تو پھر یہ استدلال کیا یہ تو ایک مسخری ہوتی)تو خو حضرت عمر ہی تردید کرتے۔
حضرت ابو بکر کا فہم قرآن
جبکہ آیت میں استثنائنہ تھا اور امر واقعہ یہی تھا ۔اس لئے صحابہ نے بلا استثناء اس امر کو تسلیم کر لیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ
جن کو قرآن مجید کا یہ فہم ملا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی(المائدہ:۴)پڑھی تو حضرت ابو بکر رو پڑے۔کسی نے پوچھا کہ یہ بڈھا کیوں روتا ہے،تو آپ نے کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے۔انبیاء علیہم السلام بطور حکام کے ہوتے ہیں۔جیسے بندوبست کا ملازم جب اپنا کام کر چکتا ہے،تو وہاں سے چل دیتا ہے۔اسی طرح انبیاء علیہم السلام جس کام کے واسطے دنیا میں آتے ہیں،جب اس کو کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔پس جب اکملت لکم دینکم کی صدا پہنچی تو حضرت ابو بکر نے سمجھ لیا کہ یہ آخری صدا ہے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کا فہم بہت بڑا ہوا تھا اور یہ جو احادیث میں آیا ہے کہ مسجد کی طرف سب کھڑکیاں بند کی جاویں،مگر ابو بکر کی کھڑکی مسجد کی طرف کھلی رہے گی۔اس میں یہی سر ہے کہ مسجد چونکہ مظہر اسرار الہی ہوتی ہے اس لئے حضرت ابو بکر صدیق کی طرف یہ دروازہ بند نہیں ہوگا۔انبیاء علیہم السلام استعارت اور مجازات سے کام لیتے ہیں۔جو شخص خشک ملاؤںکی طرح یہ کہتا ہے کہ نہیں ظاہر ہی ظاہر ہوتا ہے۔وہ سخت غلطی کرتا ہے۔مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ یہ دہلیز بدل دے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سونے کے کڑے دیکھنا وغیرہ امور اپنے ظاہری معنوں پر نہیں تھے بلکہ استعارہ اور مجاز کے طور پر تھے،ان کے اندر ایک اور حقیقت تھی۔
غرض مدعا یہی تھی کہ حضرت ابو بکرؓ کو فہم قرآن سب سے زیادہ دیا گیا تھا۔اسی لئے ابو بکر نے یہ استدلال کیا۔میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر یہ معنی بظاہر معارض بھی ہوتے۔تب بھی تقویٰ اور دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ ابو بکرؓ ہی کی مانتے۔مگر یہاں تو ایک لفظ بھی قرآن مجید میں ایسا نہیں ہے،جو حضرت ابو بکر کے معنوں کا معارض ہو
اب مولویوں سے پوچھو کہ ابو بکرؓ دانشمند تھا کہ نہیں؟کیا وہ ابو بکر نہ تھا جو صدیق کہلایا؟کیا یہی وہ شخص نہیں جو سب سے پہلے خلیفہ رسول اللہ کا بنا؟جس نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی کہ خطرناک ارتداد کی وبا ء کو روک دیا۔اچھا اور باتیں جانے دو۔یہی بتاو کہ حضرت ابو بکر کو منبر پر چڑھنے کی ضرورت کیا پیش آئی تھی۔پھر تقویٰ سے یہ بتاو کہ انہوں نے جو ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل(آل عمران:۱۴۵)پڑھا تو اس سے استدلال تام کرنا تھا یا ایسا ناقص کہ ایک بچہ بھی کہہ سکتا کہ عیسیٰؑ کو موتی سمجھنے والا کافر ہوجاتا ہے۔
افسوس!ان مخالفوں نے میری مخالفت اور عداوت میں یہی نہیں کہ قرآن کر چھوڑا بلکہ میتی عداوت نے ان کی یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ صحابہ ؓ کی کل جماعت پر انھوں نے اپنے طریق عمل سے کفر کا فتویٰ دیدیا اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے استدلال کو استخفاف کی نظرسے دیکھا۔
وفات مسیح ؑ پر اجماع
سارا قرآن شریف ہمارے ساتھ ہے۔ تیس آیات مخصوصاً مسیح علیہ السلام کی وفات پر گواہ ہیں۔معراج کی رات ،ابو بکر
صدؓیق کی تقریر اور صحابہ ؓ کا اجماع شاہد ہے۔ یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اجماع کے خلاف ایک بات کہی ہے۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اجماع ان کے ساتھ ہر گز نہیں ہے۔اوّل تو اجماع صحابہؓ ہی تک ہے اور ہم نے ابھی بتایا ہے کہ صحابہؓ کا اجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ وفات پر مسیح کہ وفات پر ہو چکا ہے ۔امام احمدحنبلؒ کہتے ہیں کہ صحابہ ؓ کے بعد اجماع کا دعوے جھوٹا ہے ماسوائے اس کے بھی بہت سے لوگ انکے خلاف اور ہمارے ساتھ ہیں۔معتزلہ مسیحؑ کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے قائل نہیں ہیں۔صوفیوں کا یہی مذہب ہے کہ وہ کہتے ہیں۔مسیح کی آمدبروزی ہے۔وقال مالک مات۔ امام مالکؒ موت ہی کے قائل ہیں۔ابن حزم کا بھی مذہب یہی ہے۔اب مالکی ۔ابن حزم کے ماننے والے اور معتزلہ اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔لیکن پھر بھی ،علیٰ سبیل تنزل، اگر ہم مان لے کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ ان میں سے نہیں ،تو بھی ہم تو کہتے ہیں کہ قرون ثلاثہ کے بعد زمانے کا نام فیج اعواج رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے رکھا ہے۔یعنی ایک ٹیٹرھا گروہ اور ان کی نسبت فرمایا لیسوامنی ولست منھم۔اب ان کے ہاتھ میں کیا رہا۔
صحابہؓ کے وارث ہم،قرآن اور حدیث کے مغز کے وارث توہم ہی ٹھہرے۔باقی رہی یہ بات کہ لکھا ہوا ہے کہ مسیح نازل ہو گا۔پس یاد رہے کہ نزول کا لفظ بہت وسیع ہے۔نزیل مسافر کو بھی کہتے ہیں۔
مسئلہ بروز
ماسوا اس کے اصل بات یہ ہے کہ جس کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو آخری زمانہ کا علم دیا گیا تھا۔آپ نے اس علم کے موافق
دو بروزوں کی خبر دی تھی۔اہل اللہ!اس بات کے قائل ہیں کہ مراتب وجود دو ہی ہیں۔میں اس کو مانتا ہوں۔قراان شریف سے یہی مستنبط ہوتا ہے۔صوفیائے کرام اس کو مانتے ہیں کہ کسی گزرے ہوئے انسان کی طبیعت،خو،ایک اور میں آتے ہیں۔ان کی اصطلاح میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قدم آدم پر ہے یا قدم نوح پر ہے۔اس کو بعض بروز بھی بولتے ہیں۔ان کا مذہب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لئے بروز ہے۔جیسے ہابیل کا بروز شیث علیہ السلام اور پہلا بروز تھا۔
ہبل نوحہ کو کہتے ہیں۔خدا نے شیث کو یہ بروز دیا۔پھر یہ سلسلہ برابر چلتا گیا۔یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بروز آنحضرت صلی الہ علیہ والہ وسلم تھے۔اسی لئے قل بل ملۃ ابراہیم ھنیفاً(البقرہ:۱۳۶) فرمایا۔اس میں یہی سر ہے۔ابراہیم دو اڑھائی ہزار سال کے بعد عبد اللہ کے گھر میں ظاہر ہوا۔غرض بروز کا مذہب ایک متفق علیہ مسئلہ ظہورات کا ہے۔
آخری زمانہ کے دو۲ فتنے
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آخری زمانہ کے واسطے خبر دی تھی کہ اس وقت دو رنگ کے فتنے ہوں گے۔
ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔اندرونی فتنہ یہ ہو گا کہ مسلمان سچی ہدایت پر قائم نہ رہیں گے اور شیطانی عمل دخل کے نیچے جائیں گے۔قمار بازی،زنا کاری،شراب خوری اور ہر قسم کے فسق وفجور میں مبتلا ہو کر حدود اللہ سے نکل جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نواہی کی پرواہ نہ کریں گے۔صوم صلوۃ کو ترک کر لیں گے اور امر الہی کی بے حرمتی کی جائے گی اور قرآنی احکام کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کیا جائے گا۔بیرونی فتنہ یہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ذات پر افتراء کئے جائیں گے اور ہر قسم کے دل آزار حملوں سے اسلام کی توہین اور تخریب کی کوشش کی جائے گی۔مسیحؑ کی خدائی کو منوانے کے لئے اور اس کی صلیبی *** پر ایمان لانے کے واسطے ہر قسم کے حیلے اور تدابیر عمل میں لائی جاویں گی۔غرض ان دونوں اندرونی اور بیرونی عظیم الشان فتنوں کی اصلاح کے لئے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ بشارت ملی کہ ایک شخص آپ کی امت میں سے مبعوث کیا جائے گا جو بیرونی فتنی اور صلیبی مذہب کی حقیقت کو توڑ دینے والا ہو گا اور اسی لحاظ سے وہ مسیح ابن مریم ہو گا اور اندرونی تفرقوں اور بے راہیوں کو دور کر کے ہدایت کی سچی راہ پر قائم کرے گا۔اس لئے مہدی کہلائے گا۔اسی بشارت کی طرف واٰخرین منھم میں بھی اشارہ ہے۔جبکہ یہ دونوں فتنے ہوں گے۔ان فتنوں کی بنیاد دو خبیث چیزوں پر ہوگی۔ایک فرقہ ہو گا جو الدجال کہلائے گا۔اور ایک یاجوج۔
دجال
الدجال۔اجل یہ ہے کہ اندر ناقص چیز اور اوپر کوئی صاف چیز ہو۔مثلاً اوپر سونے کا ملمع ہو اور اندر تانبہ ہو۔یہ دجل ابتدائے دنیا سے چلتا آرہا ہے۔مکرو فریب سے
کوئی زمانہ خالی نہیں رہا۔زر گزر کیا کرتے ہیں۔جیسے دنیا کے کاموں میں دجل ہے ویسے ہی روحانی کاموں میں بھی دجل ہوتا ہے یحرفون الکلم نع مواضعہ(النساء:۴۷)بھی دجل ہے۔جو یا عیسیٰ انی متوفیک(آل عمران:۵۶)کو الٹاتے ہیں۔یہ بھی دجل ہے۔مگرآخری زمانے کا دجل عظیم الشان دجل ہو گا۔گویادجالیت کا ایک دریابہہ نکلے گا۔الدجال پر ال استغراق کا ہے۔پس الدجال دجا جلہ مختلفہ کا بروز ہے۔یعنی پہلے جس قدرمختلف اور متفرق کید، حیلے،ضلالت اور کفر کے تھے۔کسی زمانہ میں نابکار لوگوں نے کچھ کہا۔ کسی نے کچھ کہا۔متفرق طور پر جس قدر اعتراضات اسلام پر کئے جاتے تھے،مگر وہ ایک حد تک تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اس وقت اعتراضات کا ایک دریا بہہ نکلے گا۔جیسے چھوٹی چھوٹی نہریں ندیاں مل کر ایک دریا بن جاتا ہے۔اسی طرح کل دجل مل کر ایک بڑا دجل ہو گا۔
چنانچہ اس زمانہ میں دیکھ لو کتنا بڑادجل ہو رہا ہے۔ہر طرف سے اسلام پر نکتہ چینیاں اور اعتراض کیے جاتے ہیں۔اور عیسائیوں نے تو حد کر دی ہے۔میں نے ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے،جو عیسائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں۔اُن کی تعداد تین ہزار تک پہنچتی ہے اور جس قدر کتابیں اور رسالے اور اشتہار آئے دن ان لوگوں کی طرف سے رسول اللہ علیہ وسلم پر اعتراضوں کی شکل میں شائع ہوتے ہیں۔اُن کی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔گویا ہندوستان کے مسلمانوں میں سے ہر ایک آدمی کے ہاتھ میں یہ لوگ کتاب دے سکتے ہیں۔پس سب سے بڑا فتنہ یہی نصاریٰ کا فتنہ ہے اور الدجال کا بُروز ہے۔
یاجُوج و ماجُوج
ایسا ہی یا جُوج۔یہ لفظ اجیج سے مشتق ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آتشی کاموں کے ساتھ اُن کا بہت بڑا تعلق ہو گا اور وہ آگ
سے کاملینے میں بہت مہارت رکھیں گے۔گویا آگ اُن کے قابو میں ہوگی اور دوسرے لوگ اس آتشی مقابلہ میں ان سے عاجز رہ جائیں گے۔اب یہ کیسی صاف بات ہے۔دیکھ لو کہ آگ کے ساتھ اس قوم کو کس قدر تعلق ہے۔کلیں کس قدر جاری ہیں۔اور دن بدن آگ سے کام لینے میں ترقی کر رہے ہیں۔
یہ دونوں بروز ہیںاور یہ دونوں کیفتیں جو متفرق طور پر تھیں،ایک وجود میں آئی ہیں۔ایسا ہی ماجوج ہیں اور یہ ایک پکی بات ہے کہ الناس علی دین ملوکھم۔انسان پر ملوک کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ملوک تو ملوک ہوتے ہیں۔ادنیٰ درجہ کے نمبرداروں تک کا اثر پڑتا ہے۔سکھوں کے زمانہ میںبہت سے لوگوں نے کیس رکھ لیے تھے اور کچھ پہن لیے تھے۔ایک شخص ہمارے قریب ایک گائوں میں بھی رہتا تھا۔اس کا نام خدا بخش تھا۔اس نے اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا۔
موضع ڈلّہ میں گلاب شاہ اور مہتاب شاہ دو بھائی تھے۔وہ گرنتھ ہی پڑھ کرتے تھے اور یہ معمولی بات ہے کہ ملُوک کے خیالات کا مذہب،طرزلباس،ہر قسم کے اُمور کا اخلاقی ہوں یا مذہبی بہت بڑا اثر رعایا پر پڑتا ہے۔جیسے ذکُور کا اثر اناث پر پڑتا ہے۔اس لیے فرمایا گیا ہے الرجال قوامون علی النساء(النساء:۳۵)اسی طرح پر رعایا پر ملوک کا اثر ضروری ہے۔سکھوں کی عملداری میں وہ پگڑیاں باندھا کرتے تھے اور اب تک بھی ریاستوںمیں اس کا بقیہ چلا جاتا ہے۔جب ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے،تو سب ایک ہی لفظ بولا کرتے تھے۔’’سکھ ہے‘‘
ایسا ہی اب اس عملداری میں سلطنت کا اثر رعایا پر پڑتا ہے۔طرزلباس ہی کو دیکھو کہ ہر ایک شخص انگریزی لباس کوٹ پتلون کوپہن کر فخر کرتا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو انگریزی ٹوپیاں بھی پہنتے ہیں۔سلطنت کی طرف سے کسی قسم کی ترغیب نہیں دی جاتی،کوئی حکم جاری نہیں کیا جاتا کہ لوگ اس قسم کا لباس پہنیں،مگر خود بخود طبائع میں ایک شوق دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے۔باوجودیکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیںجواس لباس کی تبدیلی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور اپنی جگہ سعی بھی کرتے ہیں کہ یہ طریق ترقی نہ پکڑے،مگر نہیںیہ ایک دریا ہے جو بہتا چلاجاتا ہے اور رُک نہیں سکتا۔انگریزی تعلیم کے ساتھ انگریزی طرز لباس ترقی پر ہے۔یہانتک کہ حجامت بنوانے میںبھی انگریزی طرز اور فیشن کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔یہ کیوں؟صرف اس لیے کہ الناس علی دین ملوکھم۔یہ مت سمجھو کہ طرز لباس ہی نے ترقی کی ہے۔نہیں یہ طرز بجائے خودایک خطرناک ترغیب ہے اور بہت سی باتوںکے لیے۔
انگریزی لباس کے بعد انگریزی طرز کی مجلسوں کا مذاق ترقی کرے گا اور کر رہا ہے۔عیسائیت نے خمر کو حرام نہیں کیا۔اس میںپردہ بھی ضروری نہیں۔قماربازی بھی ممنوع نہیں۔پھر کھانے میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں۔پس اس آزادی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب حقیقی جو انسان کو ایک حد بندی کے درمیان رکھنا چاہتاہے،اس سے لوگوں نے تجاوز شروع کیا۔انگریزی مجلسی مذاق میںشراب کا پینا لازمی امرہے۔جس محفل میںشراب نہ ہو وہ گویا مجلس ہی قابل نفرت ہے۔
پس وہ لوگ جو انگریزی طرز اور فیشن کے دلدادہ ہیںوہ کب دین کی حدود کے اندر آنے لگے؟اور مذہب کی طرف بُلانے والوں کی طرف اُن کو رغبت ہو تو کس طرح؟
میںسچ کہتا ہوں کہ لوگوں نے اس امر پر غور نہیں کی کہ عیسائیت کیونکہ اندر ہی اندر سرایت کر رہی ہے۔میں نے اس پر بہت غور کی ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک امر اس وقت عیسائیت کی طرف لے جانا چاہتاہے۔خصوصاً ایسی حالت میں کہ ان پادریوں نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ بھی اُس کو پھیلانے میں فروگذاشت نہیں کیا۔ہر قسم کے طریق اشاعت کو اُنھوں نے اختیار کیا ہے۔قطع نظر اس کے کہ وہ جائز ہے یا ناجائز۔یہ انگریزی فیشن ہی کا اثر ہے کہ اب علانیہ شراب پی جاتی ہے۔زناکاری کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہے،بلکہ اس کے ممداورمعاون امور پیدا ہوتے جاتے ہیں۔قمار بازی گو قانوناً جرم ہو،مگر اُس کی بعض ایسی صورتیں پیدا کر لی گئی ہیںکہ وہ قانوناًجائز ہی قرار دی گئی ہے۔عیسائی عورتوں کا بے پردہ پھرنا اور عام طور پر غیرمردوں سے ملنا جلنا اس نے ایسا خطرناک اثر کیا ہے کہ بہت سے لوگ ہیںجو عورتوں کو بے پردہ سیر کرانا پسند کرتے ہیںاور مُسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ عورت اور مرد کے حقوق مساوی ہیں،ان کو پردہ میںنہ رکھا جاوے کیونکہ یہ ظلم ہے۔
اسلامی پردہ
اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں،جس پر اعتراض واردہو۔
قرآن مُسلمان مردوں اور عورتوںکو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں۔جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں،تو محفوظ رہیں گے۔یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔افسوس کی بات ہے کہ انجیلؔ کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیںہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندنؔ کے پارکوں اور پیرسؔ کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے،اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیںہے،وہ بیشک جائیں،لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔
مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میںمشابہت نہ کریں۔اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟کیا پردہ داری یاپردہ داری کا۔
اسلام کی بات کوبگاڑنا اور اندھا دُھند اعتراض کرنا ظلم ہے۔اسلامؔتقویٰ سکھانے کے واسطے دُنیا میںآیا ہے۔میں یہ بیان کر رہا تھا کہ لوگ مُلوک کے دین پر ہوتے ہیں اور میں نے مختلف مثالوں کے ذریعہ اس امر کو بیان کر دیاہے۔اب دیکھ لو کہ جو حالات ابتر اس ملک میں ہوتے ہیںوہ کسی اور ملک نہیں ہیں ۔یہاں تک کہ مکہ مدینہ میں بھی نہیں ہوئے۔ایسی آزادی اور اباحت جو یہاں ہے۔اس کی نظیر کسی دوسرے ملک میں نہ ملے گی اور ان ملکوں میں چونکہ اس قسم کے محرکات پیش نہیں آئے، اس لیے وہاں خیالات بھی بہت ابتر نہیں ہوئے۔
برائی کے دو بروز۔دجاّل اور یا جوج وماجوج
اب پھر میں اصل مطلب کی طرف آتاہوں۔میں نے یہ بیان کیا
ہیکہ دو بروز ہیں ۔ایک ا لدجالؔ دوسرا یا جوج ماجوج کا۔الدجال کا بروزدہ ہے جوآدم علیہ السلام سے لے کر ایک سلسلہ چلا جاتا تھا۔جس قسم کی بدیاں اور شرارتیں مختلف طور پر مختلف وقتوں میں ظاہر ہوئیں۔آج ان سب کو جمع کر دیا گیا ہیاور ایک عجیب نظارئہ قدرت دکھایاہے۔ چونکہ اب انسانی عمروں کا خاتمہ ہے،اس لیے خاتمہ پر ایک بدیوں کا اور ایک نیکوں کا بروز بھی دکھایا۔
بدیوںکا بروز وہی ہے جس کو میں نے الدجاّؔل کہا ہے۔ تمام مکائد اور شراتوں کا وہ مجموعہ ہے۔اس آخری زمانہ میں ایک گروہ کو سفلی عقل اس قدردی گئی ہے کہ تمام چھپی ہوئی چیزیں پیداہو گئی ہیں۔اس نے دو قسم کا دجل دکھایا۔ایک قسم کا حملہ نبوت پر کیا اور ایک خداپر۔نبوت پر تو یہ حملہ تھا کہ منشائے الہیٰ کو بگاڑ اور دماغی طاقتوں کو انتہائی مدارجپر پہنچا کر الوہیت پر تصرّف کرنے کے لیے خدا پرحملہ کیا۔امراض مزمنہ کے علاج کی طرف توجہ کرنا،ایک کا نطفہ لیکر رحم میں بذریعہ کل ڈالنا۔بارش برسانے کے آلات ایجاد کرنا وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب امور اس قسم کے ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ الوہیت پر تصرف کرنا چاہتے ہیں۔یہ گروہ خود خدا بن رہا ہے اور دوسرا گروہ کسی اور انسان کو خدا بناتا ہے۔جو کچھ آج کل یورپؔ اور امریکہ میں ہو رہا ہے،اس کی غرض کیا ہے۔یہی کہ ایک آزادی اور حرص جو پیدا ہو گئی ہے۔اس کو پورے طور پر کام میں لا کرربوبیت کے بھیدوں کو معلوم کر کے خدا سے آزادہو جائیں۔
غرض جان ڈالنے کے،مردوں کے زندہ کرنے کے،بارش برسانے کے تجربے کرتے ہیں،یہاں تک ہی محدود نہیں،بلکہ ان کی تو کوشش یہ ہو رہی ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب ہمارے ہی قبضہ میں آجاوے۔
اگرچہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ تدبیر کرنا منع نہیں ہے، لیکن یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ گناہ ہمیشہ افراط یاتغریط سے پیدا ہوتا ہے۔مثلاًاگر انسان کو صرف ہاتھ لگا دو،تو گناہ نہیں ہے،لیکن اگر اس مکامار دو تو یہ گناہ ہے۔یہ افراط ہے اور تفریط یہ ہے کہ کسی کو اگر ایک پیالہ پانی دینے کی ضرورت ہو،تو وہ اس کو ایک قطرہ دے۔غرض موجودہ زمانہ میں دجال کا بروز ایک معجون مرکب ہے۔ایک حملہ خدا پر ہو رہا ہے ایک نبوت پر ۔ایک خدا کو انسان بناتا ہے دوسراآپ ہی خدا بنتاہے؟کیا یہ بات سچ نہیں ہے۔کتابیںدیکھو،اخبارات پڑھو تو پتہ لگے گاکہ کس قدر فساد برپا ہورہا ہے۔اور یہ دورنگی ظلم ڈھارہی ہے۔
یا جوج ماجوج کے فساد کی نسبت میں نے بتادیا ہے کہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے ۔اس کو شوکت ہے۔خد کی طرف رجوع کرنا،امانت دیانت کا اختیار کرنا،شراب،زنا،بدنظری،بدکاری،قماربازی
سے بچنا مشکل ہو رہا ہے۔بہت ہی تھوڑے شاید ایک آدمی فی ہزار جو بچتے ہوں گے۔
نیکی کے دو بروز
اب یہ بات کیسی صاف ہے کہ جبکہ بدی کے دو بروز تھے ،تو ایسا نیکی کے بھی دوبروز بدی کے مقابل ضروری تھے؛چنانچہ دو بروز
نیکی کے بھی رکھے۔دراصل وہ بھی ایک ہی چیز ہے۔جس کے دو نام ہیں ۔جیسے ایک ہی حالت میں مجسڑیٹ اور کلکڑ دو جدا گانہ عہدے ہوتے ہیں۔وہ نیکی کے بروز یہ ہیں کہ ایک تو اندرونی لحاظ سے ہے اور دوسرا بیرونی لحاظ سے ۔اندرونی لحاظ سے وہ مہدی اور بیرونی لحاظ سے مسیح ابن مریم۔
مسیح بن مریم
بیرونی طور پر مسیح کا کام کیاہے؟ جو اس کا یہ نام رکھا۔مسیح ابن مریم کا کام دفع شر ہو گا اور مہدیؔ کا کام کسب خیر؛چنانچہ غور کرو مسیح کا کام یقتل
الخنریراور یکسرالصلیب بتایا ہے۔یہی دفع شر ہے،لیکن ہمارا مذہب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دفع شر کے لیے تیغ وسنان لے کر جنگ کے واسطے نکلے گا۔
علماء جا یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کرے گا یہ صحیح نہیں بلکہ بالکل غلط ہے۔یہ کیا اصلاح ہوئی کہ ابھی آپ آئے اور آتے ہی تلوار پکڑ کر لڑائی کے واسطے میدان میں نکل آئے۔یہ نہیں ہو سکتا،صحیح اور سچی بات وہی ہے جو خداتعالیٰ نے ہم پر کھولی،جو احادیث کے منشاء کے موافق ہے کہ مسیح کوئی خونی جنگ نہ کرے گا اور نہ تلوارپکڑ کر لڑنا اس کا منصب ہے۔بلکہ وہ تو اصلاح کے لیے آئے گا۔ہاںیہ ہم مانتے ہیںکہ اس کا کام دفع شر ہے اور وہ حجج اور براہین سے کرے گا
مہدی
اور مہدی کا کام کسب خیر ہے ۔یعنی جو بدعادات اور فسق وفجور پھیلا ہو اہو گا۔وہ اس کو ہدایت سے بدل دے گا۔عیسیٰ کا لفظ عوس سے لیا گیا ہے۔جو دفع شر کی طرف
ایماہے۔ان ہر دو بروزوںمیں سر یہ ہے کہ مہدی کا بروز اکمل ہے، کیونکہ اس کا کام افاضہ خیر اور افاضہ خیرو دفع شر کی نسبت اکمل بات ہے۔ایک شخص ہے جو کسی کی راہ سے صرف کانٹے اٹھا دے۔یہ بے شک بڑاکام ہے،لیکن جو اس کو سواری دے اور اپنے گھرلے جاکر روٹی بھی کھلائے۔،یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔پس مہدی اکمل ہے۔اس لئے وہ خلیفۃ اللہ ہے۔عیسیٰ ابن مریم جو مہدی خلیفۃ اللہ کی بیعت کرے گا،اس میں یہی سر ہے اور مہدی کا بروزیوں بھی اکمل ہے کہ وہ دروصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بروز ہو گا اور آپ خاتم النبیاء تھے اور اکمل الانبیاء اس لئے اس کا بروز بھی اکمل ہی ہو گا۔
یہ دو بروز تھے۔علماء نے کیسا ظلم کیا کہ ایک بروز کو تو انہوں نے مان لیا کہ مہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلق اور نام پر ہو گا،لیکن عیسیٰ ابن مریمؑ کی نسبت یہی تجویز کیا کہ وہی آسماں سے اترے گا۔کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کیسے ذہن متنزل ہو گئے جو تنا قض پیدا کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے۔ایک جگہ تو بروز رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مان لیا۔اس کا قائم مقام خلیفۃ اللہ بن گیا۔مگر پھر یہ کیا ہوا کہ جو جھوٹاتھا،اسے خود کیوں آنا پڑا ۔وہ مہدی جسے افاضہ خیر دیا گیا ہے اور جو اکمل ہے اس کو بروزی رنگ میں لانے اور مسیح اب مریم کو اس کی بیعت کرانے کے واسطے خود اتارتے ہو۔ع
بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا
الائمۃ من القریش کے معنی
جب ان ے پوچھا جاوے کہ تم ایک نبی کو اتار کر جو اس کی بیعت مہدی کے ہاتھ پر کراتے ہو۔یہ کیا بات ہے۔
تو جواب دیتے ہیں کہ کیا کیا جاوے،حدیث میں آیا ہے۔الائمۃ من القریش ۔ہم کہتے ہیں کہ اگر اس حدیث کے وہی معنی ہوں جو تم قرار دیتے ہو تو چاہیے تھا کہ سلطنت روم کے سب لوگ باغی ہوتے۔
اگر پیش گوئی کے طور پر یہی نہ سمجھا جاوے۔پھر جو سلطنت روم کو خلیفۃ المسلمین قرار دیتے ہیں۔اس کے کیا معنی ہوئے؟اصل بات یہ ہے کہ پیغبمر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کشفی طور پر دکھایا گیا تھا کہ خلیفے قریش سے ہوں گے۔خوا ہ حقیقی طور پر یا بروزی طور پر۔جیسے دجال کا بروز بتایا ۔اسی طرح پر سلاطین مغلیہ وغیرہ بروزی طور پرقریش ہی ہیں۔خدا نے جو عہدہ ان کو دیا ہے وہ اس کے متکفل رہے۔جب تک خدا نے چاہا وہ سلطنت کرتے رہے۔جب تک کوئی بروز کے مسئلے کو نہیں سمجھتا،اس پیش گوئی کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا اور آخر اس کو اس پیش گوئی کو جھٹلانا پڑے گا۔
جب اصل قریش میں استعداد نہ رہی اور اس قوم میںوہ استعداد نہ پائی گئی،تو خدا نے وہ عہدہ اس کے حوالے کیا۔یہی وجہ ہے کہ طبعاً سلطان روم کی متابعت اختیار کی اور سچی محبت سے اس کو قبول کیا۔یہ تصنع اور بناوٹ سے نہیں ہوا،بلکہ دلوں نے یہ فتویٰ دیا کہ وہ خادم حرمین الشریفین ہے۔اظلالی امور ہمیشہ ہوتے ہیں اور ہوں گے یہ معنی ہیںالائمۃ من القریش کے۔
غرض یہ دو نام ایک ہی شخص کے تھے۔ایک کو افاضہ خیر کا درجہ ملا۔دوسرے کو دفع شر کا۔افاضہ خیر چونکہ بڑھ کر ہے۔اس کو دفع شر پر بزرگی دی جاتی ہے،اس لئے اس حیثیت سے وہ خلیفۃ اللہ کہلایاپس جیسے مقابل پر دو خبیث بروز تھے۔یہ خیر کے بروز ہیں ۔
اب اس کے متعلق ایک اور نکتہ بیان کر کے اس بیان کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ عیسیٰ کے نام میں دفع شر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور احمدؐ یا محمدؐ کے نام میں افاضئہ خیر کا مفہوم،یعنی نہایت ہی تعریف کیا گیا۔ تعریف اس نام پر ہوتی ہے۔جس کو خیر پہنچاو گے وہ بے اختیار تعرف کرے گا۔حمد کرنے کے ساتھ لازمی طور پر منعم الیہ السلام ہونا ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام محمد اس لئے ہی تھا کہ ہو افاضہ خیر ہے جو خلق کی طرف اشارہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدا نے وہ قصہ یاد دلایا۔اذ قا ل ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ(البقرہ:۳۱)اس قصہ میں پیش گوئی مزکور ہے۔اب میں اس کا بیان لمبا نہیں کرنا چاہتا۔بس اسی پر ختم کرتا ہوں کہ مسیح اور مہدی دراصل ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جو اس کی دو مختلف حیثیتوں کو ظاپر کرتے ہیں جو دفع شر اور افاضہ خیر ہیں۔افسوس ان علماء پر کہ انہوں نے افاضہ خیر کے بروز کو مانا اور دفع شر کے بروز سے انکار کیا۔‘‘
مرکز میں بار بار آنے کی تاکید دسمبر۱۸۹۹؁ء کے جلسہ سالانہ پر بہت کم لوگ آئے۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں۔وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خد ا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے،وہ پوری نہیں ہو سکتی۔جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور نہ آنے سے ذرا بھی اکتائیں۔‘‘اور فرمایا:
ـِؐؐ’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آے میں اُس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہو گا ۔اسے ڈرنا چاہیے کہ وہ شرک میں مُبتلا ہے۔ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے، توہمارے مُہمات کا متکفل خدا تعالیٰ ہے۔ہم پر زرابھی بوجھ نہیں ۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دُور پھینکنا چاہیے۔میں نے بعض کو یہ کہتے سُنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں۔ہم تو نکمے ہیں۔یُوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں۔وہ یہ یاد رکھیں،یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے اُن کے دلوں میں ڈالا ہے کہ اُن کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں۔‘‘
ایک دن حکیم فضلؔ دین صاحب نے عرض کیا کہ حضُور میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں۔حکم ہو تو بھیرہ چلا جائوں۔ وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا۔ یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضُورؑ کے کسی کام نہیںآتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو۔‘‘فرمایا:’’آپ کایہاںبیٹھنا ہی جہادؔ ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے۔‘‘
غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا:’’یہ عُذر کرنے والے وہی ہیں جنھوں نے حضرت نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے حضُور عُذر کیا تھا ان بُیوتنا عورت اور خدا تعالیٰ نے انکی تکذیب کر دی کہ ان یریدون الا فرارًا(الاحزاب:۱۴)فرمایا:’’ہمارے دوستوں کو کس نے بتایا ہے کہ زندگی بڑی لمبی ہے۔موت کا کوئی وقت نہیں کہ کب سر پر ٹوٹ پڑے۔اس لیے مناسب ہے کہ جو وقت ملے،اُسے غنیمت سمجھیں۔‘‘
فرمایا:’’یہ ایاّم پھر نہ ملیں گے اوریہ کہانیاں رہ جائیں گی۔‘‘
اپنے نفس پرقابو
فرمایا:’’میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوںاور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے
میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے۔آخروہی شرمندہ ہو گا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔‘‘
لوگوں کی تکا لیف اور شرارتوں سے آپ کبھی بھی مرعوب نہیں ہوتے۔اس بارہ میں فرمایا:
’’کوئی معاملہ زمین پر واقعہ نہیں ہوتا،جب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل نہیں کرے گا۔‘‘
ابتلا ء کے وقت حضرت اقدسؑ کا حال
جالندھرکے مقام میں فرمایا:
ابتلا ء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت
کے بض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے۔میرا تو یہ حال ہے کہ اگرصاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق اور محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں۔‘‘پھر یہ پڑھا:ھل تعلم لہ سمییاً۔(مریم:۶۶)
عفو در گذر
اپنے خادم حامد علی کو اپنی ڈاک ڈاکخانہ میں ڈالنے کو دی۔اسے وہ کہیں فرموش ہو گئی۔ایک ہفتے کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اس کے برآمد ہونے
پرحامد علی کو بلا کر اور خطوط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا’’حامد علی۔تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے۔فکر سے کام کیا کرو۔‘‘
دین کی ہتک
حرمات اللہ کی ہتک آپ کو گورا نہ تھی۔اس بارہ میں فرمایا:
’’میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا ٓنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے۔‘‘
نیکی کا اخفاء
اخراجات کے بارہ میں احباب کے خیالات کے بارہ میں آپ نے فرمایا:
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمل پاتا
ہوں کہ ایک پیسہ پر دو دو وقت بڑے آرام سے بسر کرتا ہوں۔ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے۔اس امتحان کے لئے میں نے چھ ماہ تک کچھ نہ کھایا۔کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھا لیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ مدت لمبی کی جاسکتی ہے۔اسی اثناء میں دو وقت کا کھاناگھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا خفاء منظور تھا۔اس اخفا ء کی تدابیر کے لئے جو زحمت اٹھانی پڑتی تھی۔شاید وہ زحمت اوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہو گی۔میں دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا۔اس حال میں نماز پانچوں وقت کی مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناوں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا۔‘‘
مناسب حال قویٰ
’’خدا تعالیٰ نے جس کام کے لئے کسی کو پیدا کیا ہے۔اس کی تیاری اور لوازم اور اس کے سر انجام اور مہمات کے طے کے لئے کے لئے
اس میں قویٰ بھی مناسب حال پیدا کیے ہیں۔دوسرے لوگ جو حقیقتاً فطرت کے مقتضاء سے وہ قویٰ نہین رکھتے اور ریاجتوں میں پڑ جاتے ہیں۔آخر کار دیوانے اور مخبط الحواس ہو جاتے ہیں ۔
نزول الہام کی کیفیت
اسی ضمن میں فرمایا :
’’طبیبوں نے نیند کے لئے طبعی اسباب مقرر کیے ہیں،مگرہم
دیکھتے ہیں کہ جب خد اتعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ ہم سے کلام کرے۔اس وقت پوری بیدا ری میں ہوتے ہیں اور یکدم ربودگی اور غنودگی وارد کر دیتا ہے اور اس جسمانی عالم سے قطعاً باہر لے جاتا ہے،اس لئے کہ اس عالم سے پوری مناسبت ہو جائے۔پھر یوں ہوتاہے کہ جب ایک بار کلام کر چکتا ہے۔پھر ہوش حواس واپس دے دیتا ہے۔اس لئے کہ ملہم اسے محفوظ کر لے۔اس کے بعد پھر ربودگی طاری کرتا ہے۔پھر یاد کرنے کے لئے بیدار کر دیتا ہے۔غرض اس طرح کبھی پچاس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے وہ ایک تصرف الہی ہوتا ہے۔اس طبعی نیند سے اس کو کوئی تعلق نہیں اور اطباء اور ڈاکٹر اس کی ماہیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔‘‘
سائل کے لئے بے قراری
ایک دن ایک سائل نے بعد فراغت نماز جبکہ آپ اندرون خانہ تشریف لے جارہے تھے،سوال کیا۔مگر ہجوم
کی وجہ سے اس کی آواز اچھی طرح سنی نہ جا سکی۔اندر جا کر واپس تشریف لائے اور خدام کو سوالی کے بلانے کے لئے ادھر ادھر دوڑایا،مگر وہ نہ ملا۔شام کو وہ پھر آیا۔ اس کے سوال کرنے پر آپ نے اپنی جیب سے کچھ نکال کر دیا۔چند یوم کے بعد کسی تقریب پر فرمایا کہ:
’’ اس دن جو وہ سائل نہ ملا۔میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ جس نے مجھے سخت بے قرار کیے رکھا تھااور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سر زد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہیں دیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آگیا؛ورنہ خد اجانے میں کس اضطراب میںپڑا رہتا اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے۔‘‘؎۱
کوئی نسخہ حکمی نہیں ۱۸۹۹؁ء’’ہمارے گھر میں مرزا صاحب(مراد اپنے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ خانصاحب مرحوم)پچاس برس تک علاج کراتے رہے۔
وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے،مگر ان کا قول تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔حقیقت میں انہوںنے سچ فرمایا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کچھ اثر نہیں کر سکتا۔‘‘
حکام برادری سے حسن سلوک ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔فرمایاکہ:
وفاداری ہو مسلمان کا فرض ہے۔وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں۔اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوںکہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جائے۔‘‘
برادری کے حقوق ہیں۔ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے؛البتہ ان باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں،ان سے الگ رہنا چاہیے۔‘‘
ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔‘‘
دعا اورقضاء قدر ’’جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے۔تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب بہم پہنچادیتا ہے۔دل میں ایک رقت اور سوزو گدازپیدا ہو جاتا
ہے،لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں رجوس اور رقت پیدا نہیں ہوتا۔طبیعت پر کتناہی زور ڈالو،مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنی رضا قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔اس لئے میں تو جب تک اذن الہی کے آثار نہ پا لوں،قبولیت کی امید کم کرتا ہوں اور اس کی قضاء قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں،کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے زیادہ ہیں۔‘‘
نسب کا تکبر نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے ’’اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا۔وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کر لیتا ہے۔اس
لئے قرآن شریفمیں فرمایا۔لن ینال اللہ لحومہا ولا دماوھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم(الحج:۳۸) اور دوسری جگہ فرمایا۔انما یتقبل اللہ من المتقین(المائدہ:۲۸)حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے۔یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے بھی ایسا ہی فرمایا اور قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ ہیں۔ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم(الحجرات:۱۴)
یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں۔کیا صد ہا پیغمبر ان میں نہیں آئے تھے؟مگر اس پیغمبر زادگی نے ان کو کیا فائدہ پہنچایا۔اگر ان کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ(البقرہ:۶۲)کے مصداق کیوں ہوتے۔خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے۔بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پا لوں گا ۔جو بالکل خیام خیال ہے۔کبیر کہتا ہے کہ اچھا ہوا۔ہم نے چماروں کے گھر جنم لیا۔کبیر اچھا ہوا کہ ہم اچھے بھلا سب کو کریںسلام،خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق سے پیار کرتا ہے اور اعمال صالح کو چاہتا ہے ۔لاف و گزاف اسے راضی نہیں کر سکتے۔
رفع کے معنی فرمایا کہ:’’قرآن شریف تو رفع اختلاف کے لئے آیا ہے۔اگر ہمارے مخالف رافعک الی کے معنی کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جسم سمیت آسمان پر
چڑھ گئے ہیں تو وہ ہمیں بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ان کا اعتراض تو یہ تھا کہ حضرت مسیح کا ارفع الی اللہ نہیں ہوا ۔یعنی اسے قرب الی اللہ نصیب نہیںہوا ۔اگر رافعک الی اس اعتراض کا جواب نہیں،تو پھر چاہیے کہ ان کے اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جائے۔‘‘
مرکز میںرہائش کی غرض دین ہو ایک مرتبہ کسی دوست نے عرض کی کہ وہ تجارت کے لئے قادیان آنا چاہتا ہے۔اس پر حضرت مسیح
موعود ؑ نے فرمایا کہ:
’’یہ نیت ہی فاسد ہے۔اس سے توبہ کرنی چاہیے ۔یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہیے۔اصل نیت یہی ہو۔اورا گر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہو،تو کوئی حرج نہیں ہے۔اصل مقصد دین ہو نہ کہ دنیا۔تجارتوں کے لئے اور شہر موذوں نہیں۔یہاں آنے کی اصلی غرض کبھی دین کے سوا اور نہیں ہونی چاہیے۔پھر جو کچھ حاصل ہو جائے وہ خدا کا فضل سمجھو۔‘‘
ہمدردی خلائق ’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں۔میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جائے تو میں تو یہ
چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاوں اور جہاں تک ممکن ہے،اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے۔اگر تم اس کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔
اپنے تو درکنار،میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اورہندوؤںکے ساتھ بھی اعلی اخلاق کا نمونہ دکھاو۔ان سے ہمدردی کرو۔لو ابالی مزاج ہر گز نہیںہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ میںباہر سیر کو جارہا تھا۔ایک پٹواری عبد الکریم صاحب میرے ساتھ تھے۔وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔راستہ میں کوئی بڑھیا کوئی۷۰،۷۵ برس کی ضعیفہ ملی۔اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا،مگر اس نے ایسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔اس نے وہ خط مجھے دیا۔میں اس کو لے کر ٹھہر گیا۔اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا،کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔
جماعت کے مستقبل کے بارے میں ایک کشف ’’مجھے بڑے ہی کشف صحیح سے معلوم ہوا کہ ملوک بھی
اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔یہاں تک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں۔وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ میں تجھے یہاں تک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
اللہ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر ان کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔‘‘؎۱
۱۸۹۹؁ء
صحبت صالحین قرآن شریف میں آیا ہے قد افلح من زکھا(الشمس:۱۰)اس نے نجات پائی جس نے پانے نفس کا تزکیہ کیا۔تزکیہ نفس کے واسطے صحبت
صالحین اورنیکوںکیساتھ تعلق پیداکرنابہت مفیدہے۔جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور کرنے چاہییں اور جو راہ پر چل رہا ہے۔اس سے راستہ پوچھنا چاہیے۔اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ دور کرنا چاہیے۔جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املا درست نہیں ہوتا۔ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بعد اخلاق بھی درست نہیں ہوتے۔آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے۔تو سیدھی روہ پر چلتا ہے؛ورنہ بہک جاتا ہے۔‘‘؎۲
۱۸۹۹؁ء
فرمایا:
خوف خدا ’’رات کے وقت جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور ہم اکیلے ہوتے ہیں،اس وقت بھی خدا کی یاد میں دل ڈرتا رہتا ہے کہ وہ بے یاز ہے۔‘‘
انکسار فرمایا:’’جب انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے اور عجز ومصیبت کی حالت نہیں رہتی،تو جو شخص اس وقت انکسار کو اختیار کرے اور خدا کو یاد رکھے وہ کامل ہے۔
؎ چوں بدولت برسی مست نگردی مردی۔‘‘
رویائے صادقہ خدا کے وجود پر دلیل ہیں مفتی محمد صادق صاحب نے اپنے گزشتہ رات کے خواب کا ذکر کیا۔
جو صبح پورا ہوا۔اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
’’جس چیز کا وجود نہیں۔اللہ تعالیٰ پہلے سے اس کی خبر دے دیتا ہے۔دہریہ لوگ کیوں اس پر غور نہیں کرتے۔‘‘
ایک الہام فرمایا:’’مجھے الہام ہوا ہے۔گورنر جنرل کی دعاوں کی قبولیت کا وقت
آ گیا ۔’’
فرمایا:’’گورنر جنرل سے مراد’’روحانی عہدہ ‘‘ہے۔‘‘؎۳
۶جنوری۱۹۰۰؁ء
حسن معاشرت عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کو برداشت کرنی چاہیے اور فرمایا:
ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔اس کا شکر ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاو کریں۔‘‘
ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔حضور اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا:
’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے۔‘‘
حضور بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگوفرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آواز کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہ نکلا تھا۔اس کے بعد بہت دیر تک میں استغفار کرتا رہا تھا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیںاور صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے۔‘‘
عفو در گزر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محمود چار ایک برس کا تھا۔حضور معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے اور مسودات لکھے ہوئے سارے رکھے تھے۔میاں محمود دیا سلائی لے کر
وہاں آئے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیں بجانے۔اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں۔سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودات آگ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلے نے اپنی طرف کھینچ لیا۔حضرت کو کسی عبارت کے سیاق کے لئے گزشتہ کاغذ دیکھنے کی ضرورت پڑ گئی ۔اس سے پوچھتے ہیں۔خاموش۔اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے۔آخر ایک بچہ بولتا ہے کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئے ہیں۔عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بد نداں کہ اب کیا ہو گا…حضور مسکرا کر فرماتے ہیں:
’’خوب ہوا۔اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہو گی اور اب خد اتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہم کو سمجھائے۔‘‘
اسی طرح ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ایک مضمون حضرت مسیح موعود ؑ کا گم ہو گیا۔جس کی تلاش میں انہیں بڑی تشویش ہوئی۔جب حضرت ؑ کو خبر ملی ،تو حضور نے آکر مولوی صاحب سے بڑا عذر کیا کہ کاغذ کے گم ہو جانے سے انہیں بڑی تشویش ہوئی۔پھر فرمایا:
’’مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر دوادوش اور تگا پو کیوں کیا گیا۔میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہتر ہمیں عطا فرمائے گا۔‘‘
حیا ایک دفعہ حضور کو سخت سر درد تھا۔پاس عورتوں اور بچوں کا شورو غل بپا تھا۔مولوی عبد الکریم صاحب نے عر ض کی کہ جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی۔حضور نے
فرمایا:’’ہاں اگر چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے عرض کی کہ پھر حضور کیوں حکم نہیں فرماتے۔حضورؑ نے فرمایا:
’’آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں۔میں تو نہیں کہہ سکتا۔‘‘
چشم پوشی ایک خادمہ نے گھر سے چاول چرائے اور پکڑی گئی،گھر کے سب لوگوں نے اس کو ملامت شروع کر دی۔اتفاقاً حضور ؑ اقدس کا بھی اس طرف سے گزر ہوا۔
واقعہ سنائے جانے پر حضور نے فرمایا:
’’محتاج ہے۔کچھ تھوڑے سے اس کو دے دو اور فضیحت نہ کرو۔خدا تعالیٰ کی ستاری کا شیوا اختیار کرو۔‘‘
خدمت خلق دہقانی عورتیں ایک دن بچوں کی دوائی لینے کے لئے آئیں۔حضور ان کو دیکھنے اور دوائی دینے میں مصروف رہے۔اس پر حضرت مولوی عبدالکریم
صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اسی طرح حضور کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔اس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔یہ مسکین لوگ ہیں۔یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھتا ہوں،جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہیں ہو نا چاہیے۔‘‘
بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے
ایک دفعہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا۔آپ اس سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں بلا کر بڑی درد انگیز تقریر فرمائی اور فرمایا:
’’میرے بزدیک یوں بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے۔گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں چلتے چلتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوںتجاوز کر جاتا ہے۔اگر کوئی شخص خودار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا ہو اور پورا متحمل اور برباد اور باسکون اور باوقار ہو،تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچے کو سزادے یا چشم نمائی کرے ۔مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہر گز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے،کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک جزب ٹھہرا لیں۔اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔
حضور کی چند دعائیں فرمایا:میں التزاماً چند دعائیں روز مانگتا ہوں۔
اول میں اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خدا وند کریم
مجھ سے وہ کام لے،جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضاکی پوری توفیق عطا فرمائے۔
دوم۔تو پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعامانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ عین نصیب ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔
سوم:پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں ۔
چہارم:پھر اپنے مخلص دوستوںکے لئے نا م بنام۔
پنجم:اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ انہیںہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔؎۱
تربیت اولاد فرمایا:’’حرام ہے مشیخی کی گدی پر بیٹھنا اور پیر بننا اس شخص کو جو ایک منٹ بھی اپنے متوسلین سے غافل رہے۔فرمایا:ہدایت اور تربیت حقیقی
خدا کا فعل ہے۔سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں۔اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے۔اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔آپ نے قطعی طور پر فرمایا اور لکھ کر بھی ارشاد کیا کہ ہمارے مدرسے میں جو استاد مارنے کی عادت رکھتا ہے اور اپنے اس نا سزا فعل سے باز نہ آتا ہو،اسے یکلضت موقوف کر دو۔فرمایا:ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سر سری طور پر قواعد اور آ داب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔بس اس سے زیادہ ہیں۔اور پھر اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔جیسا کسی سعادت کا تخم ہو گا۔وقت پر سر سبز ہو جائے گا۔‘‘
تکلفا ت سے پرہیز جب مہمانوںکے لئے مکان بنانے کی ضرورت پیش آئی تو بار بار یہی تاکید فرمائی کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسا خرچ کرنا عبث ہے۔
اتنا ہی کام کرو جو چند دن بسر کرنے کی گنجائش ہو جائے۔نجار تیر بندیاں اور تختے رندے سے صاف کر رہا تھا۔حضور نے اسے روک دیا اور فرمایا:
’’یہ محض تکلف ہے اور ناحق کی دیر لگانا ہے۔مختصر کام کرو۔فرمایا:اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی انس نہیں ہے۔ہم اپنے مکانوں کو اپنے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چند دن گزارہ کر لیں اور فرمایا کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میرا گھر ہو اور ہر گھر میں میری ایک کھڑکی ہو اورہر ایک سے ہر وقت واسطہ و رابطہ رہے۔‘‘
وقت کی قدر تکلفات میں وقت ضائع کرنا حضور ؑ کو نا پسند تھا۔اس کے متعلق حضور نے فرمایا:
’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے،یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے اور فرمایا :جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے،تو میں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کر لیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔فرمایا:ہم دین کے لئے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہیے۔‘‘
خدمت گذاری ایک دفعہ عبدالکریم صاحب نئے مکان میں چار پائی پڑی ہوئی تھی جس پر سو رہے تھے۔وہاںحضور ٹہل رہے تھے۔تھوڑی دیر بعدجاگے،
تو دیکھا کہ حضور فرش پر چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں۔مولوی صاحب ادب سے اٹھ کھڑے ہوئے۔حضور نے ادب سے پوچھا کہ کیوں اٹھ کھڑے ہوئے؟انہوں نے پاس ادب کا عذر کیا۔اس پر حضور نے فرمایا:
’’میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔‘‘
خاکساری لوگوں کو حضور سے بات کرنے میںکمال آزادی تھی اور ہر شخص بلا روک وٹوک حضور سے بات چیت کر سکتا تھا۔اس بارے میں حضور نے فرمایا کہ :
’’ میر ا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ڈریں،جیسا درندہ سے ڈرتے ہیں اور میں بت بننے سے سخت نفرت کرتا ہوں۔میں تو بت پرستی کو رد کرنے کے لئے آیا ہوں نہ کہ میں خود بت بن بیٹھوں اور لوگ میری پوجا کریں۔اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر زرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کو ئی بت پرست اور خبیث نہیں۔متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا،بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘
خلوت پسندی حضرت اقدسؑ خلوت کو بہت پسند کرتے تھے۔اس بارہ میں فرمایا:
’’اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا
ہے۔تو اس پاک ذات کی قسم کے میں خلوت کو ختیار کروں۔مجھے تو کشاں کشاں میدان عالم میں اسی نے نکالا ہے،جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے۔اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔میں قریب۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی کوئی لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت میں کرسی پر بیٹھوں۔مجھے طبعاً اس سے کراہت ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں،مگر امر آمر سے مجبور ہوں۔فرمایا:میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے۔‘‘
خادم دین ہی ہماری دعاؤں کا مستحق ہے تائید الہی پر اگر کوئی قلم اٹھائے یا کوشش کرے تو حضور بڑی قدر کرتے
تھے۔اس بارہ میں فرمایا:
’’اگر کوئی تائید دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میںآسمان پر جاویں۔وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بار ہا قسم کھا کر فرمایا کہ ہم ہر اک شے سے محض اللہ تعالیٰ کے لئے پیار کرتے ہیں۔بیوی ہو،بچے ہوں،دوست ہوں۔سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔
عہد دوستی کی رعایت ’’میرا مذہب ہے کہ جو شخص مجھ سے ایک دفعہ عہد دوستی باندھے۔مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں
نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے،میں اس سے قطع نہیں کر سکتا۔وہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں؛ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں سے کسی نے شتاب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو اور لوگوں کا ہجوم اس کے گرد ہو تو بلا خوف لومۃ لائم کے اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔فرمایا:عہد دوستہ بڑا قیمتی جوہر ہے،اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہیے اور دوستوں سے کیسی ہی نا گواری بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہیے۔‘‘؎۱
۱۰ جنوری۱۹۰۰؁ء
سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدارسی نے پانے کسی ضروری کام کے لئے مدارس واپس جانے کی جازت طلب کی کیونکہ ان کو واپسی کے لئے تار بھی آیا تھا۔اس پر حضرت مسیح موعوؑ نے فرمایا:
رمضان المبارک میں حضور کی مصروفیات ’’آپ کا اس مبارک مہینہ(رمضان)میں یہاں رہنا از بس ضروری ہے اور فرمایا:
ہم آپ کے لئے وہ دعا کرنے کو تیار ہیں جس سے باذن اللہ پہاڑ بھی ٹل جائے۔ فرمایا:آجکل میں احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں۔یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے۔میں تنہائی میں بڑی فراغت کے ساتھ دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بھی بہت سا حصہ دعاوں میں مصروف ہوتا ہے۔‘‘؎۱
۲فروری۱۹۰۰؁ء
اسلام ایک پاکیزہ دین عید الفطر کی تقریب پر حضرت اقدس ؑ نے ایک خاص جلسہ اس غرض کے لئے منعقد فرمایا تا کہ جنگ ٹرانسول کی
کامیابی کے لئے دعا کی جاوے اور مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کے حقو ق اور فرائض سے آگاہ کیا جاوے۔حضرت اقدس نے عید الفطر کے خطبہ میں مفصلہ ذیل تقریر فرمائی:
’’مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرنا چاہیے،جس نے ان کو ایک ایسا دین بخشا ہے جو علمی اور عملی طور پر ہر ایک قسم کے فساد اور مکروہ باتوں اور ہر ایک نوع کی قباحت سے پاک ہے۔‘‘
حمد کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کو معلوم ہو گا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کا مستحق اللہ تعالیٰ
ہی ہے۔اور کوئی انسان یا مخلوق واقعی طور پر اور حقیقی طور پر حمدو ثناء کی مستحق نہیں ہے اگر انسان بغیر کسی قسم کی غرض کی ملونی کے دیکھے تو اس پر بدیہی طور پر کھل جاوے گا کہ کوئی شخص جو مستحق حمد قرار پاتا ہے وہ یا تو اس لیے مستحق ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جبکہ کوئی وجود اور موجود کی خبر نہ تھی وہ اس کا پیدا کرنے والا ہو یا اس وجہ سے کہ ایسے زمانہ میں کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ معلوم تھا کہ وجود اور بقاء وجود اور حفظ صحت اور قیام زندگی کے لیے کیاکیا اسباب ضروری ہیں۔اُس نے وہ سب سامان مہیا کیے ہوں یا ایسے زمانہ میں کہ اس پر بہت سی مصیبتیں آسکتی تھیں۔اُس نے رحم کیا ہوا اور اُس کو محفوظ رکھا ہوا ور یا اس وجہ سے مستحق تعریف ہو سکتا ہے کہ محنت کرنے والے کی محنت کو ضائع نہ کرے اور محنت کرنے والوں کے حقوق پورے طور پر ادا کرے؛اگرچہ بظاہر محنت کرنے والے کے حقوق کا دینا معاوضہ ہے،لیکن ایسا شخص بھی محسن ہو سکتا ہے جو پورے طور پر حقوق دے۔یہ صفات اعلیٰ درجہ کی ہیںجو کسی کو مستحق حمدوثنا بنا سکتی ہیں۔اب غور کرکے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کامل طور پر ان صفات سے متصف ہے۔اور کسی میں یہ صفات نہیں ہیں۔
اولؔدیکھو صفت خلق اور پرورش۔یہ صفت اگرچہ انسان گمان کر سکتا ہے کہ ماں باپ اور دیگر محسنوں میں بھی پائی جاتی ہے،لیکن اگر انسان زیادہ غور کرے گا،تو اُس کو معلوم ہو جاوے گا کہ ماںباپ اور دیگر محسنوں کے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں،جن کی بنا پر وہ احسان کرتے ہیں۔اس پر دلیل یہ ہے کہ مثلاً بچہ تندرست،خوبصورت توانا پیدا ہو تو ماں باپ کو خوشی ہوتی ہے اور اگر لڑکا ہو تو پھر یہ خوشی اور بھی بڑی ہوتی ہے۔شاد یانے بجائے جاتے ہیں۔لیکن اگر لڑکی ہو تو گویا وہ گھر ماتم کدااور وہ دن سوگ کا دن ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتے۔بسا اوقات بعض نادان مختلف تدابیر سے لڑکیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں یا اُن کی پرورش میںکم التفات کرتے ہیں اور اگر بچہ لنجا،اندھا،اپاہج پیدا ہو،تو چاہتے ہیںکہ وہ مر جاوے اور اکثر دفعہ تعجب نہیں کہ خود بھی وبال جان سمجھ کرمار دیں۔میں نے پڑھا ہے کہ یونانی لوگ ایسے بچوں کو عمداً ہلاک کر دیتے تھے،بلکہ اُن کے ہاںشاہی قانون تھا کہ اگر کوئی ناکارہ بچہ اپاہج اندھا وغیرہ پیدا ہو تو اُس کو فوراً مار دیا جاوے۔اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ انسانی خیالات پرورش اور خبر گیری کے ساتھ ذاتی اور نفسانی اغراض سے ملے ہوئے ہوتے ہیں،مگر اللہ تعالیٰ کی اس قدر مخلوق کی(جس کے تصور اور بیان سے وہم اور زبان قاصر ہے اور جو آسمان اور زمین میں بھری پڑی ہے)خلق اور پرورش سے کوئی غرض ہر گز نہیں ہے۔وہ والدین کی طرح خدمت اور رزق نہیں چاہتا بلکہ اُس نے مخلوق کو محض ربوبیت کے تقاضا سے پیدا کیا ہے۔ہر ایک شخص مان لے گا کہ بوٹا لگانا پھر آب پاشی کرنا اور اس کی خبر گیری رکھنا اور ثمر دار درخت ہونے تک محفوظ رکھنا ایک بڑا احسان ہے۔پس انسان اور اُس کی حالت اور غور وپر داخت پر غورکرو تو معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس قدر انقلابات اور تغیرات میںاس کی دستگیری فرمائی ہے۔
دوسراؔپہلو جو میںنے ابھی بیان کیا ہے کہ قبل از پیدائش وجود ایسے سامان ہوں کہ تمدنی زندگی اور قویٰ کے کام کے لیے پورا پورا سامان موجود ہو۔دیکھو ابھی ہم پیدا بھی نہ ہوتے تھے کہ سامان پہلے ہی پیدا کر دیا۔منورسورج جوجو اب چڑھا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے عام روشنی پھیلی ہوئی ہے اور دن چڑھا ہوا ہے اگر نہ ہوتا۔کیا ہم دیکھ سکتے تھے یا روشنی کے ذریعہ جو فوائداور منافع ہمیں پہنچ سکتے ہیں۔ہم کس ذریعہ سے حاصل کر سکتے تھے؟اگر سورج اور چاند یااور کسی قسم کی روشنی نہ ہوتی تو بینائی بے کار ہوتی؛اگرچہ آنکھوں میں ایک قوت دیکھنے کی ہے،مگر وہ بیرونی اور خارجی روشنی کے بدوں محض نکمی ہے۔پس یہ کس قدر احسان ہے کہ قویٰ سے کام لینے کے لیے اُن ضروری سامانوں کو پہلے سے مہیا کر دیا اور پھریہ کس قدر رحمت ہے کہ ایسے قویٰ دیئے ہیں اور ان میںبالقوہ ایسی استعدادات رکھ دی ہیں جو انسان کی تکمیل اور وصول الی الغایت کے لیے ازبس ضروری ہیں۔دماغ میں،اعصاب میں،عروق میں ایسے خواس رکھے ہیں کہ انسان اُن سے کام لیتا ہے اور اُن کی تکمیل کر سکتا ہے،اس لیے کہ قوتوں کی تکمیل کا سامان ساتھ ہی پیدا کر دیا ہے۔یہ تو اندرونی نظام کا حال ہے کہ ہر ایک قوت اُس منشاء اور مفاد سے پوری مناسبت رکھتی ہے،جس میں انسان کی فلاح ہے اور بیرونی طور پر بھی ایسا ہی انتظام رکھا ہے کہ ہر شخص جس قسم کا حرفہ رکھتا ہے اس کے مناسب حال ادویات وآلات قبل از وجود مہیا کر رکھے ہیں۔مثلاً اگر کوئی جوتا بنانے والا ہے تو اس کو چمڑا اور دھاگہ نہ ملے تو وہ کہاں سے لائے اور کیونکر اپنے حرفہ کی تکمیل کرے۔اسی طرح اگر درزی کو کپڑا نہ ملے تو کیونکر سیئے۔اسی طرح ہر متنفس کا حال ہے۔طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم کیوں نہ ہو،لیکن اگر ادویہ نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتا ہے۔بڑی سوچ اور فکر سے ایک نسخہ لکھ دے گا،لیکن اگر بازار سے وہ دوا نہ ملے،تو کیا کرے گا۔کس قدر فضل ہے کہ ایک طرف تو علم دیا اور دوسری طرف نباتات جمادات حیوانات جو مریضوں کے لئے مناسب حال تھے پیدا کر دئے ہیں اور ان میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں جو ہر زمانہ میں اندیشہ ضروریات کے کام آسکتے ہیں۔غرض اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بھی غیر مفید پیدا نہیں کی اور نہ جس کے کواص محدود ہوں۔یہاں تک کہ پسو اور جوں تک بھی غیر مفید نہیں لکھا ہے کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو تو تو بعض دفعہ جوں کو احلیل میں شامل کر کے دینے سے پیشاب جاری ہو جاتا ہے۔انسان ان اشیاء کی مدد سے کہاں تک فائدہ اٹھاتا ہے۔کوئی تصور کر سکتا ہے؟پھر چوتھی بات پاداش محنت ہے۔اس کے لئے بھی خدا کا فضل در کار ہے۔مثلاً انسان کس قدر محنت ومشقت سے زراعت کرتا ہے۔اگر خدا تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ نہ ہو تو کیو نکر اپنے گھر میں غلہ لا سکتا ہے۔اسی کے فضل وکرم کے ساتھ اپنے ہر وقت پر ہر ایک چیز ہوتی ہے؛چنانچہ اب قریب تھا کہ اس خشک سالی میں لوگ ہلاک ہو جاتے،مگر خدا نے اپنے فضل سے بارش کر دی اور بہت سا حصہ مخلوق کو سنبھال لیا۔غرج اولاًبالذات اکمل اور اعلیی مستحق تعریف کا خدا تعالیٰ ہے۔اس لے مقابلہ میں کسی دوسرے کا ذاتی طورپر کوئی بھی استحقاق نہیں ۔
سورۃ الناس میں تین حقوق کا بیان اگر کسی دوسرے کو استحقاق تعریف کا ہے تو صرف طفیلی طور پر ہے۔یہ بھی خد اتعالیٰ کا رحم ہے کہ
باوجودیکہ وہ وحدہ لا شریک ہے،مگر طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شامل کر لیا ہے۔جیسے اسی سورۃ شریفہ میں بیان ہے:قل اعوذ برب الناس ملک الناس الہ الناس من شر الوسواس الخناس الذی یوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس۔(الناس:۲تا ۷)اس میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی مستحق حمد کے ساتھ عارضی مستحق حمد کا بھی اشارہ فرما یا ہے۔اور یاس اس لئے ہے کہ اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہو؛چنانچہ اس سورۃ میں تین قسم کے حق بیان ہوئے ہیں۔
فرمایا:’’تم پناہ مانگو اللہ کے پاس جو جامع جمیع صفات کاملہ کا ہے اور جو رب ہے اور ملک ہے لوگوں کا پھر جو معبود و مطلوب حقیقی ہے لوگوں کا۔لوگوںکا۔ یہ سورۃ اس قسم کی ہے کہ اس میں اصل توحید کو تو قائم رکھا ہے،مگر معاً یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی ضائع نہ کریںجو ان اسماء کے مظہر ظلی طور پر ہیں۔رب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ گو حقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا ہے اور تکمیل تک پہنچانے والا ہے۔
ربوبیت کے دو مظہر والدین اور روحانی مرشد لیکن عارضی اور ظلی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جو ربوبیت کے مظہر
ہیں۔ایک جسمانی طور پر،دوسراروحانی طور پر۔جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہیںدوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بھی ذکر فرمایا ہے۔وقضی ربک الاتعبدوالا ایاہ وبالوالدین احساناً۔(بنی اسرائیل:۲۴)یعنی خدا نے یہ چاہاہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔ حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔اس حالت میں ماں کیاکیا خدمت کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا کس طرح متکفل ہوتا ہے۔خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبرگیری کے لیے دو محل پیدا کر دیئے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پر تو محبت کا اُن میں ڈال دیا،مگر یاد رکھناچاہیے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے۔اور جبتک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فرد بشر خواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو یا کوئی حاکم ہو،کسی سے محبت نہیں کر سکتا اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفل میںہر قسم کے دکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیںیہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لیے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پس خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لیے رب الناس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے تا کہ اس ماجزی اور مشہود سلسلہ شکر گذاری سے حقیقی رب اور ہادی کا شکر گذاری میں لے لئے جائیں۔اسی راز کے حل کی یہ کلید ہے کہ اس سورۃ شریفہ کو رب الناس سے شروع فرمایا ہے الہ الناس سے آغاز نہیں کیا ہے ؛چونکہ مرشد روحانی تربیت خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق اس کی توفیق و ہدایت سے کرتا ہے۔اس لئے وہ بھی اس میں شامل ہے۔پھر دوسرا ٹکڑا اس میں ملک الناس ہے۔تم پناہ مانگو خدا کے پاس جو تمہارا بادشاہ ہے۔یہ ایک اور اشارہ ہے تو لوگوں کو متمدن دنیا کے اصول سے واقف کیا جائے اور مہذب بنایا جاوے۔حقیقی طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہے، مگر اس میں اشارہ ہے کہ ظلی طور پر دنیا میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں اور اسی لئے اس میں اشارۃ ملک وقت کے حقوق کی نگہداشت کی طرف بھی ایما ہے۔یہاں کافر اور مشرک اور موحد بادشاہ کسی قسم کی قید نہیں بلکہ عام طور پر یہ ہے کسی مذہب کا بادشاہ ہو۔مذہب اور اعتقاد کے حصے جدا ہیں۔قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور موحد وہ اور فلاں سلسلہ کا ہو بلکہ عام طور پر محسن کی نسبت فرمایا خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو۔ھل جزاء الاحسان الا الاحسان(الرحمان:۶۱)کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے۔
سکھوں کا زمانہ ایک آتشی تنور تھا اب ہم اپنی جماعت کو اور سب سننے والوں کو بڑی صفائی اور وضاحت کے ساتھ سناتے ہیںکہ سلطنت
انگریزی ہماری محسن ہے۔اس نے ہم پر بڑے بڑے احسان کیے ہیں۔جس کی عمر۶۰یا ۷۰ برس کی ہو گی وہ خوب جانتا ہو گا کہ ہم پر سکھوں کا ایک زمانہ گذرا ہے۔اس وقت مسلمانوں پر جس قدر آفتیں تھیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں۔ان کو یاد کر کے بدن پر لرزاں پڑتا ہے اور دل کانپ اٹھتا ہے۔اس وقت مسلمانوں کو عبادات اور فرئض مذہبی کی بجا آوریکو جو ان کو جان سے زیادہ عزیز تر ہے روکا گیا ہے۔بانگ نماز جو نماز کا مقد مہ ہے اس کو بآواز بلند پکارنے سے روکا گیا ہے۔اگر کبھی موذن کے منہ سے سہواً اللہ اکبر بآواز بلند نکل جاتا ہے تو اس کو مار دیا جاتا تھا۔اسی طرح پر مسلمانوں کے حلال وحرام کے معاملے میں بے جا تصرف کیا گیا ہے۔ایک گائے کے مقدمے میں ایک دفعہ پانچ ہزار غریب مسلمان قتل کئے گئے۔بٹالہ کا واقعہ ہے کہ ایک سید وہیں کا رہنے وال اباہر سے دروازے پر آیا۔وہاں گائیوں کا ہجوم تھا۔اس نے تلوار کی نوک سے ذرا ہٹایا اور ایک گائے کے چمڑے کو خفیف سی خراش پہنچ گئی۔وہ بے چارہ پکڑ لیا گیا۔اور اس امر پر زور دیا گیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے ۔آخر بڑی سفارشوں کے بعد اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔مگر اب دیکھو کہ ہر قوم اور ملک کو کیسی آزادی ہے۔ہم صرف مسلمانوں کا ذکر کرتے ہیں۔فرائض مذہبی اور عبادات کے بجا لانے میں سلطنت نے پوری آزادی دے رکھی ہے۔اور کسی کے مال وجان وآبرو سے کوئی ناحق تعرض نہیں۔بر خلاف اس پر فتن وقت کے کہ ہر شخص کیسا ہی اس کا حساب پاک ہو،اپنی جان ومال پر لرزتا رہتا تھا۔اب اگر کوئی خود اپنے چلن خراب کر لے اور اپنی بے اندامی اور ارتکاب جرائم سے خود مستوجب عقوبت ٹھہرجائے،تو اور بات ہے۔یا خود ہی سوء اعتقاد اور غفلت کی وجہ سے عباد ت میں کوتاہی کرے تو جداامر ہے،لیکن گورنمنٹ کی طرف سے ہر طرح کی پوری آزادی ہے۔اس وقت جس قدر عابد بننا چاہو بنو کوئی روک نہیں۔گورنمنٹ خود معابد مذہبی کی حرمت کرتی ہے اور اُن کی مرمت وغیرہ پر ہزاروں روپیہ خرچ کر د یتی ہے۔سکھوں کے زمانہ میں اس کے خلاف یہ حال تھا کہ مسجدوں میں بھنگ گھٹتی تھی اور گھوڑے بندھتے تھے۔جس کا نمونہ خود یہاںقادیان میںموجود ہے اور پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں اس کے نمونے ملیں گے۔لاہور میںآج تک کئی ایک مسجدویںسکھوں کے قبضہ میںہیں۔آج اس کے مقابل میں گورنمنٹ انگلشیہ ان بزرگ مکانوں کی ہر قسم کی واجب عزت کرتی ہے اور مذہبی مکانات کی تکریم اپنے فرائض میں سے سمجھتی ہے جیسا کہ انہی دنوںحضور وائسرائے لارڈ کرزن صاحب بہادر بالقابہ نے دہلی کی جامع مسجد میں جوتا پہن کر جانے کی مخالفت اپنی عملی حالت سے ثابت کر دی اور قابل اقتداء نمونہ باد شاہانہ اخلاق فاضلہ کا دیا اور اُن کی ان تقریروں سے جو وقتاً فوقتاً انھوں نے مختلف موقعوں پر کی ہیں،صاف معلوم ہو گیا ہے کہ وہ مذہبی مکانات کی کیسی عزت کرتے ہیں۔پھر دیکھو کہ گورنمنٹ نے کہیں منادات نہیں کی کہ کوئی باآواز بلند بانگ نہ دے یا روزہ نہ رکھے۔بلکہ انھوں نے ہر قسم کی تغذیہ کے سامان مہیا کیے ہیں۔جن کا سکھوں کے ذلیل زمانہ میں نام ونشان تک نہ تھا۔برف،سوڈاواٹر اور بسکٹ ڈبل روٹی وغیرہ ہر قسم کی غذائیں بہم پہنچائیں اورہرقسم کی سہولت دی ہے۔یہ ایک ضمنی امداد ہے جو ان لوگوں سے ہمارے شعائر اسلام کو پہنچی ہے۔اب اگر کوئی خود روزہ نہ رکھے تو یہ اور بات ہے۔افسوس کی بات ہے کہ مسلمان خود شریعت کی توہین کرتے ہیں۔چنانچہ دیکھو۔جنھوں نے ان دنوں روزے رکھے ہیں،وہ کچھ دبلے نہیں ہو گئے اور جنھوں نے استحقاف کے ساتھ اس مہینہ کو گذارہ ہے،وہ کچھ موٹے نہیںہو گئے۔ان کا بھی وقت گذرگیا۔ان کا بھی زمانہ گذر گیا۔جاڑے کے روزے تھے۔صرف غذا کے اوقات کی ایک تبدیلی تھی۔سات آٹھ بجے نہ کھائی چار پانچ کھالی۔باوجود اس قدر رعایت کے پھر بھی بہتوں نے شعائر اللہ کی عظمت نہیں کی اور خدا تعالیٰ کے اس واجب التکریم مہمان ماہ رمضان کو بڑی حقارت سے د یکھا۔اس قدر آسانی کے مہینوں میں رمضان کا آنا ایک قسم کا معیار تھا اور مطیع وعاصی میںفرق کرنے کے لیے یہ روزے میزان کا حکم رکھتے تھے۔خدا تعالیٰ کی طرف سے آسانی تھی۔سلطنت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے۔طرح طرح کے پھل اور غذائیں میسر آتی ہیں۔کوئی آسائش وآرام کا سامان نہیں،جو آج مہیا نہ ہو سکتا ہو ۔باینہمہ جو پرواہ نہیں کی گئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دلوں میں خدا پر ایمان نہیں رہا۔افسوس خدا کا ایک ادنیٰ بھنگی کے برابر بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔گویا یہ خیال ہے کہ خدا سے کبھی واسطہ ہی نہ ہو گا اور نہ اس سے کبھی پالا پڑے گا اور اس کی عدالت کے سامنے جانا ہی نہیں۔کاش منکرغور کریں اور سوچیں کہ کروڑوں سورجوں کی روشنی سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں۔افسوس کی جگہ ہے کہ ایک جوتے کو دیکھ کر یقینی طور پر سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسکا کوئی بنانے والا ہے،مگر یہ کس قدر بدبختی ہے کہ خدا تعالیٰ کی بے انتہا مخلوق کو دیکھ کر بھی اس پر ایمان نہ ہو۔یا ایسا ایمان ہو جو نہ ہونے میںداخل ہے۔خدا تعالیٰ کی ہم پر بہت رحمتیں ہیں۔ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ اس نے ہمیںجلتے ہوئے تنور سے نکالا۔سکھوں کا زمانہ ایک آتشی تنور تھا اور انگریزوں کا قدم رحمت وبرکت کا قدم ہے۔میں نے سنا ہے کہ جب اول ہی اول انگریزآئے تو ہوشیار پور میں کسی موذن نے اونچی اذان کہی؛چونکہ ابھی ابتدا تھی اور ہندوئوں اور سکھوںکا خیال تھا کہ یہ بھی اُونچی اذان کہنے پر روکیں گے۔یاان کی طرح اگر گائے کو کسی سے زخم لگ جاوے،تو اس کا ہاتھ کاٹیں گے۔اس اونچی اذان کہنے والے موذن کو پکڑ لیا۔ایک بڑا ہجوم ہو گیا اور ڈپٹی کمشز کے سامنے وہ لایا گیا۔بڑے بڑے رئیس مہاجن جمع ہوئے اور کہا حضور! ہمارے آٹے بھر شٹ ہو گئے۔ہمارے برتن ناپاک ہو گئے۔جب یہ باتیں اس انگریز کو سنائی گئیں تواسے بڑاتعجب ہوا کہ کیا بانگ میں ایسی خاصیت ہے کہ کھانے کی چیزیں ناپاک ہو جاتی ہیں۔اس نے سر رشتہ دار سے کہا کہ جب تک تجربہ نہ کر لیا جاوے اس مقدمہ کو نہ کرنا چاہیئے؛چنانچہ اس موذن کوحکم دیا کہ تو پھراسی طرح بانگ دے وہ ڈرا کہ شاید دوسرا جرم نہ ہو،مگر جب اس کو تسلی دی گئی اس نے اسی قدر زور سے بانگ دی۔صاحب بہادر نے کہا کہ ہم کو تو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔سر رشتہ دارسے پوچھا کہ تم کو کوئی ضرر پہنچا۔اس نے بھی کہا کہ حقیقتاً کوئی ضررنہیں پہنچا۔آخراس کو چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا۔جائو جس طرح چاہو بانگ دو۔اللہ اکبر یہ کس قدر آزادی ہے اور کس قدر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔پھر ایسے احسان پر اور ایسے انعام صریح پر بھی اگر کوئی دل گورنمنٹ انگریزی کا احسان محسوس نہیں کرتا۔وہ دل بڑا کافر نعمت اور نمک حرام اور سینہ سے چیر کرنکال ڈالنے کے لائق ہے۔
مذہبی آزادی خود ہمارے اس گائوں میںجہاں ہماری مسجد ہے ۔کارداروں کی جگہ تھی۔ہمارے بچپن کازمانہ تھا،لیکن میںنے معتبر آدمیوں سے سنا ہے
کہ جب انگریزی دخل ہو گیا تو چند روز تک وہی قانون رہا۔ایک کار دار آیا ہوا تھااس کے پاس ایک مسلمان سپاہی تھا وہ مسجد میں آیا اور موذن کو کہا کہ بانگ دے۔ اس نے وہی گنگنا کر اذان دی۔سپاہی نے کہا کہ کیا تم اسی طرح پربانگ دیتے ہو۔موذن نے کہا ہاں!اسی طرح دیتے ہیں۔ سپاہی نے کہا کہ نہیں کوٹھے پر چڑھ کر اونچی آواز سے اذان دے اور جس قدر زور سے ممکن ہے وہ دے۔وہ ڈرا،آخر اس نے زور سے بانگ دی۔تمام ہندو اکٹھے ہو گئے اور ملاں کو پکڑ لیا۔وہ بے چارہ بہت ڈرا اور گھبرا یا کہ کاردار مجھے پھانسی دے دے گا۔سپاہی نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔آخر سنگدل چھری ماربرہمن اس کو پکڑ کر کاردار کے پاس لے گئے اور کہا۔مہاراج!اس نے ہم کو بھرشٹ کر دیا۔کاردار جانتا تھا کہ سلطنت تبدیل ہو گئی ہے اور اب وہ سکھا چاہی نہیں رہی،مگر ذرا دبی زبان سے پوچھا کہ تو نے اونچی آواز سے بانگ کیوں دی؟سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہیں میں نے بانگ دی۔کار دار نے کہا۔کم بختو!کیوں شور ڈالتے ہو۔ لاہور میں تو اب کھلے طور پر گائے ذبح ہوتی ہے۔تم ایک اذان کو روتے ہو۔جائو چپکے ہو کر بیٹھ رہو۔الغرض یہ واقعی اور سچی بات ہے جو ہمارے دل سے نکلتی ہے۔جس قوم نے ہم کو تحت الثریٰ سے نکالا ہے۔اس کا احسان ہم نہ مانیں یہ کس قدر نا شکری اور نمک ّ*** ہے۔
پریس کی سہولت اس کے علاوہ بڑی جہالت پھیلی ہوئی تھی۔ایک بڈھے کمے شاہ نے بیان کیا کہ میںنے اپنے استاد کو دیکھا ہے کہ وہ بڑے تضرع سے دعا
کرتے تھے کہ صحیح بخاری کی ایک دفعہ زیارت ہو جائے اور بعض اوقات اس خیال سے کہ کہاں ممکن ہے دعا کرتے کرتے ان کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔
اب وہی بخاری دو چار روپیہ میں امرتسر اور لاہور سے ملتی ہے۔ایک مولوی شیر محمد صاحب تھے۔کہیں دو چار ورق احیاء العلوم کے ان کو مل گئے۔کتنہ مدت تک ہر نماز کے بعد نمازیوں کو بڑی خوشی اور فخر سے دکھایا کرتے تھے کہ یہ احیاء علوم ہے۔اور تڑپتے تھے کہ کہیں سے پوری کتاب مل جائے۔اب جا بجا احیاء العلوم مطبوعہ موجود ہے۔غرض انگریزی قدم کی برکت سے لوگوں کی دینی آنکھ بھی کھل گئی ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سلطنت کے ذریعہ دین کی کس قدر اعانت ہوئی ہے کہ کسی سلطنت میں ممکن ہی نہیں۔پریس کی برکت اور قسم قسم کے کاغذ کی ایجاد سے ہر قسم کی کتابیں تھوڑی تھوڑی قیمت پر میسر آسکتی ہیں اور پھر ڈاک خانہ کے طفیل سے کہیں سے کہیں گھر بیٹھے بٹھائے پہنچ جاتی ہے اور یوں دین کی صداقتوں کی تبلیغ کی راہ کس قدر سہل اور صاف ہو گئی ہے۔
مذہبی آزادی کے فوائد پھر منجملہ اور برکات کے جو تائید دین میں اس گورنمنٹ کے عہد میں ملی ہیں۔ایک یہ بھی ہے کہ عقلی قویٰ اور ذہنی طاقتوں میں
بڑی ترقی ہوئی ہے اور چونکہ گورنمنٹ نے ہر ایک مذہب والے کو اس کے مذہب کی اشاعت کی اجازت دی ہے۔اس طرح پر لوگوں کو ہر ایک مذہب کے اصول اور دلائل پرکھنے اور ان پر غور کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اسلام پر جب مختلف مذہب والوں نے حملے کئے،تو اہل اسلام کو اپنے مذہب کی تائید اور صداقت کے لئے اپنہ مذہبی کتابوںپر غور کرنے کا موقع ملا اور ان کی عقلی قوتوں میں ترقی ہوئی۔قاعدہ کی بات ہے کہ جیسے جسمانی قویٰ ریاضت کرنے سے بڑھتے ہیں۔ایسے ہی روحانی قویٰ بھی ریاضت سے نشوونما پاتے ہیں جیسے گھوڑا چابک سوار کے نیچے آ کر درست ہوتا ہے۔اسی طرح انگریزوں کے آنے سے مذہب کے اصولوں پر غور کرنے کا موقع ملا اور تدبر کرنے والوں کو استقامت اور استحکام مذہب حق میں زیادہ مل گیا اور جس جس موقع پر قرآن کے مخالفوں نے انگشت رکھی،وہیں سے غور کرنے والوں کو ایک گنج معارف کا ملا اور اس آزادی کی وجہ سے علم کلام نے معتدبہ ترقی کی اور وہ مخصوصاً اس جگہ ہوئی ہے۔اب اگر روم یا شام کا رہنے والا خواہ وہ کیسا ہی عالم فاضل کیوںنہ ہو،آجاوے تو وہ عیسائیوں کے یا ااریوں کے اعتراضات کا کافی جواب نہ دے سکے گا۔کیونکہ اس کو ایسی آزادی اور وسعت کے ساتھ مختلف مذاہب کے اصولوں کے موازنہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔غرض جیسے جسمانی طور پر گورنمنٹ انگلشیہ سے ملک مین امن ہوا ہے۔ایسے ہی روحانی امن بھی پوری طرح پھیلا۔چونکہ ہمارا تعلق دینی اور روھانی باتوں سے ہے،اس لئے ہم تو زیادہ تر ان امور کا ذکر کریں گے جو فرائض مذہب کے ادا کرنے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہم کو بطور احسان ملے ہیں۔
عبادات بجا لانے کی شرائط پس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان پوری آزدی اور اطمینان کے ساتھ عبادات کو تب ہی بجا لا سکتا ہے کہ اس میں چار شرطیں
موجود ہوں۔
اول:صحت۔اگر کوئی شخص ایسا ضعیف ہو کہ چار پائی سے اٹھ نہ سکے وہ صوم صلوۃ کا کیا پابند ہو سکتا ہے ۔اسی طرح پر حج زکوۃ وغیرہ بہت سے ضروری امور کی بجا آوری سے قاصر رہے گا۔اب دیکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ کے طفیل سے ہم کو صحت جسمانی کے بحال رکھنے کے لئے کس قدر سامان ملے ہیں۔ہر برے شہر اور قصبے میں ہسپتال ضرور ہے جہاں مریضوں کا علاج نہایت دل سوزی اور ہمدردی سے کیا جاتا ہے اور دوا غذا وغیرہ مفت دی جاتی ہے۔بعض بیماروں کو ہسپتال میں رکھ کر ایسے طور پر ان کی نگہداشت و غور پرداخت کی جاتی ہے کہ کوئی اپنے گھر میں بھی ایسی آسانی اور سہولت اور آرام کے ساتھ علاج نہیں کر سکتا۔حفظان صحت کا ایک الگ محکمہ بنا رکھا ہے،جس پر کروڑ ہا روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔قصبات اور شہر کی صفائی کے بڑے بڑے سامان بہم پہنچائے ہیں۔گندے پانی اور مواد ردیہ مضر صحت کے دفع کرنے کے لئے الگ انتظام ہیں۔پھر ہر قسم کی سریع الاثر ادویہ تیار کر کے بہت کم قیمت پر مہیا کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ ہر ایک آدمی چند ایک دوائیں اپنے گھر میں رکھ کر بوقت ضرورت علاج کر سکتا ہے۔بڑے بڑے کالج جاری کر کے طبعی تعلیم کو کثرت سے پھیلایا۔یہاں تک کہ دیہات میں بھی ڈاکٹر ملتے ہیں۔بعض خطر ناک امراض چیچک ،ہیضہ،طاعون وغیرہ کے دفیعہ کے لئے الگ محکمے ہیں۔جو ابھی طاعون کے متعلق جس قدر کاروائی گورنمنٹ کی طرف سے عمل میں آئی ہے وہ بہت ہی شکر گزاری کے قابل ہے۔غرض صحت کے لحاظ سے گورنمنٹ نے ہر قسم کی ضروری امدا د دی ہے۔اور اسی طرح پر عبادت کے لئے پہلی اور ضروری شرط کے پورا کرنے کے واسطے بہت بڑی مدد دی ہے۔
دوسری شرط ایمان ہے۔اگر خدا تعالیٰ اور اس کے احکام پر ایمان ہی نہ رہا ہو اور اندر ہی اندر بے دینی اور الحاد کا جزام لگ گیا ہو ۔پھر بھی تعمیل احکام الہی نہیں ہوتی۔جیسے بہت لوگ کہتے ہیں۔’’ایہہ جگ مٹھا تے اگلا کن ڈٹھا۔‘‘افسوس ہے۔ دوآدمیوںکی شہادت پر ایک مجر م کو پھانسی مل سکتی ہے،بلکہ باوجود ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور بے انتہا دلیوں کی شہادت موجود ہے،لیکن ابھی تک اس قسم کا الحاد ان لوگوں کے دلوں سے نہیں گیا۔ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے مقتدر نشانوں اور معجزات سے انا الموجود کہتا ہے۔مگر یہ کمبخت کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے۔غرض یہ شرط بھی بہت بڑی ضروری شرط ہے۔اس لئے بھی ہمیں گورنمنٹ انگلشیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔کیونکہ ایمان اور اعتقاد پختہ کرنے کے لئے عام تعلیم مذہبی کی ضرورت تھی۔اور مذہبی تعلیم کا انحصار مذہبی کتابوں کی اشاعت سے وابستہ تھا۔پریس ڈاکخانہ کی برکت سے ہر قسم کی مذہبی کتابیں مل سکتیں ہیں اور اخبارا ت کے ذریعہ تبادلہ خیالات کا موقعہ ملتا ہے۔سعید الفطرت لوگوں کے لئے بڑا بھاری موقع حاصل ہے کہ ایمان واعتقاد میں رسوخ حاصل کریں۔ ان باتوں کے علاوہ جو ضروری اور اشد ضروی بات ایمان کے رسوخ کے لئے ہے۔وہ خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جو اس شخص کے ہاتھ پر سرزد ہوتے ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتا ہے اور اپنے طرز عمل سے گمشدہ صداقتوں اور معرفتوں کو زندہ کرتا ہے۔سو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اس زمانہ میں جس کو پھر ایمان زندہ کرنے کے لئے مامور کیا گیا اور اس لئے بھیجا کہ تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں،وہ بھی اسی مبارک گورنمنٹ کے عہد میں آیا۔وہ کون ہے؟وہی جو تم میں کھڑا بول رہا ہے۔چونکہ یہ مسلم بات ہے کہ جب تک پورے طور پر ایمان نہ ہو ۔نیکی کے اعمال علی الوجہ الاتم بجا نہیں لا سکتا۔جس قدر کوئی پہلو یا کنگرہ ایمان کا گرا ہوا ہے،اسی قدر عمل انسان میں سست اورکمزور ہو گا۔اسی بناء پر وہ ولی کہلاتا ہے جس کا ہر پہلو سالم ہو اور وہ کسی پہلو سے کمزور نہ ہو ۔اس کی عبادات اکمل اتم طور پر سادر ہوتی ہوں۔غرض دوسری شرط ایمان کی سلامتی ہے۔
تیسری شرط انسان کے لئے طاقت مالی ہے۔مساجد کی تعمیر اور امور متعلقہ اسلام کی بجا آوری مالی طاقت پر منحصر ہے۔اس کے سوا تمدنی زندگی اور تمام امور کا اور خصوصاً مساجد کا انتطام بہت مشکل سے ہوتا ہے۔اب اس پہلو کے لحاظ سے گورنمنٹ انگلشیہ کو دیکھو۔گورنمنٹ نے ہر قسم کی تجارت کو ترقی دی۔تعلیم پھیلا کر ملک کے باشندوں کو نوکریاں دیں اور بڑے بڑے عہدے دئے۔سفر کے وسائل ناہم پہنچا کر دوسرے ملکوں میں جاکر روپیہ کما لانے میں مدد دی؛چنانچہ ڈاکٹر،پلیڈر،عدالتوں کے عہدے دار۔سر رشتہ تعلیم وغیرہ بہت سے ذریعوں سے لوگ معقول روپیہ کماتے ہیں اور تجارت کرنے والے سوداگر قسم قسم کے تجارتی مال سے ولایت اور دور دراز ملکوں افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں جاکر مالا مال ہو کر آتے ہیں۔غرض روز گار عام کر دیا اور روپیہ کمانے کے بہت سے ذریعے پیدا کر دئے۔
چوتھی شرط امن ہے۔یہ امن کی شرط انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کا انحصار علی الخصوص سلطنت پر رکھا گیا ہے۔جس قدر سلطنت نیک نیت اور اس کا دل کھوٹ سے پاک ہو گا اسی قدر یہ شرط زیادہ صفائی سے پوری ہو گی۔اب اس زمانہ میں امن کی شرط اعلی درجہ پر پوری ہو رہی ہے۔میں خوب یقین رکھتا ہوں کہ سکھوں کے زمانہ کے دن انگریزوں کے زمانہ ک راتوں سے بھی بہت کم درجہ پر تھے۔یہاں سے قریب ہی ایک بوٹر گاؤں ہے۔وہاں اگر کوئی عورت جایا کرتی تھی،تو رو رو کر جایا کرتی تھی کہ خدا جانے پھر واپس آنا ہو گا کہ بھی نہیں۔اب یہ حالت ہے کہ زمین کی انتہا تک بھی چلا جاوے،کسی قسم کا خطرہ نہیں۔سفر کے وسائل ایسے آسان کر دئے ہیں کہ ہر قسم کا آرام حاصل ہے ۔گویا گھر کی طرح ریل میں بیٹھا ہوا ہو یا سویا ہوا جہاں چاہے چلا جائے۔مال وجان کی حفاظت کے لئے پولیس کا وسیع صیغہ موجود ہے۔حقوق کی حفاطت کے لئے عدالتیں کھلی ہوئی ہیں۔جہاں تک چاہے چلا جاوے۔یہ سک قدر احسان ہے جو ہماری عملی آزادی کا موجب ہوئے ہیں۔پس جب کہ ایسی حالت میں جب کہ جسم اور روح پر بے انتہا احسان ہو رہے ہوں۔ہم میںصلح کاری اور شکر گزاری کا مادہ پیدا نہیں ہوتا ،تو تعجب کی بات ہے۔جو مخلوق کا شکر نہیں کرتا۔وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ۔وجہ کیا ہے؟اس لئے کہ وہ مخلوق بھی تو خدا ہی کافرستادہ ہوتا ہے۔اور خدا ہی کے ارادے کے تحت میں چلتا ہے۔الغرض یہ سب امور جو میں نے بیان کئے ہیںایک نیک دل انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسے محسن کا شکر گزار ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار اپنی تصنیفات میں اور اپنی تقریروں میں گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہیں،کیونکہ ہمارا ل واقعی اس کے احسانات کی نظر سے بھرا ہوا ہے۔احسان فراموش انسان نادان اپنی منافقانہ فطرتوں پر قیاس کر کے ہمارے اس طریق عمل کو جو صدق اخلاق سے پیدا ہوتا ہے،جھوٹی خوشامد پر حمل کرتا ہے۔
سچی توحید اب پھر میں اس اصل بات کی طرف عود کر بتانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس صور ت میں خدا تعالیٰ نے رب الناس فرمایا پھر ملک الناس آخر میں الہ الناس فرمایا۔
جو اصلی مقصود اور مطلوب انسان کا ہے۔الہ کہتے ہیں مقصود،معبود،مطلوب کو لا الہ الا للہ کے معنی یہی ہیں کہ لا معبود لی ولا مقصود لی ولا مطلوب لی الا اللہ۔یہی سچی توحید ہے کہ ہر مدح اور ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی کو ٹھہرایا جاوے۔
خناس کون ہے؟ پھر فرمایا من شر الوسواس الخناس(الناس:۵)یعنی وسوسہ ڈالے والے خناس کے شر سے پناہ مانگو۔خناس عربی میں سانپ کو کہتے
ہیں جیسے عبرانی میں نحاش کہتے ہیں،اس لئے کہ اس نے پہلے بھی بدی کی تھی۔یہاں ابلیس یا شیطان نہیں فرماتا۔تا کہ انسان کو اپنی ابتدا ء کی ابتلا یاد آوے کہ کس طرح شیطان نے ان کے ابوین کو دھوکہ دیا تھا۔اس وقت اس کا نام خناس ہی رکھا گیا تھا۔یہ ترتیب خدا نے اس لئے ترتیب فرمائی ہیء تا کہ انسان کو پہلے واقعات پر آگاہ کر کے جس طرح شیطاننے خدا کی اطاعت سے انسان کو فریب دے کر روگردان کیا ہے،ویسے ہی وہ کسی وقت ملک وقت کی اطاعت سے بھی عاصی اور روگردان نہ کر ادے۔یوں انسان ہر وقت اپنے نفس کے ارادوں اور منصوبوں کی جانچ پڑتال کرتا رہے کہ مجھ میں ملک وطن کی اطاعت کس قدر ہے اور کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگاتا رہے کہ کسی مدخل سے شیطان اس میں داخل نہ ہو جائے۔اب اس سورۃ میںجو اطاعت کا حکم ہے،وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہے،کیونکہ اصل اطاعت اسی کی ہے،مگر والدین،مرشد وہادی اور بادشاہ وقت کی اطاعت کا بھی حکم ہے،کیونکہ ان کی اطاعت کا حکم خدا ہی نے دیا ہے۔اور اطاعت کا فائدہ یہ ہو گا کہ خناس کے قابو سے بچ جاو گے۔پس پناہ مانگو کہ خناس کی وسوسہ اندازی کے شر سے محفوظ رہو،کیونکہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں کاٹا جاتا ۔ایک بار جس راہ سے مصیبت آئے دوبارہ اس میں نہ پھنسو۔پس اس سورۃ میں صریح اشارہ ہے کہ بادشاہ وقت کی اطاعت کرو ۔خناس میں خواس اسی طرح ودیعت رکھے گئے ہیں۔جیسے خدا تعالیٰ نے درخت پانی آگ وغیرہ چیزوں اورعناصر میںخواس رکھے ہیں۔عنصر کا لفظ اصل میں عن سر ہے۔عربی میں س اور ص کا بدل ہو جاتا ہے۔یعنی یہ چیز اسرار الہی میں سے ہے۔درحقیقت یہان پر آکر انسان کی تحقیقات رک جاتی ہے۔غرض ہر ایک چیز خدا ہی کی طرف سے ہے۔خواہ وہ بسائط کی قسم سے ہو خواہ مرکبات کی قسم سے۔جبکہ یہ بات ہے کہ ایسے بادشاہوں کو بھیج کر اس نے ہزار ہا مشکلات سے ہم کو چھڑایا اور ایسی تبدیلی بخشی کہ ایک آتشی تنور سے نکال کر ایسے باگ میںپہنچا دیا۔جہاں فرحت افزا پودے ہیں اور ہر طرف ندیاں جاری ہیں اور ٹھنڈی خوش گوار ہوا ئیں چل رہی ہیں۔پھر کس قدر نا شکری ہو گی اگر کوئی اس کے احسانات کو فراموش کر دے۔خاص کر ہماری جماعت کو جس کو خدا نے بصیرت دی ہے اور اس میں نفاق نہیں ہے۔کیونکہ انہوں نے جس سے تعلق پیدا کیا ہے اس میں نفاق نہیں ہے۔شکر گزاری کا بڑا عمدہ نمونہ بننا چاہیے۔
جماعت احمدیہ کی ایمانی فراست مجھے کامل یقین ہے کہ میری جماعت میں نفاق نہیں ہیں اور میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ان
کی فراست نے غلطی نہیں کی ہے،اس لئے کہ میں درحقیقت وہی ہوں جس کے آنے کو ایمانی فراست نے ملنے پر متوجہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ گوہ اور آگاہ ہے کہ میں وہی صادق اور امین اور موعود ہوں جس کا وعدہ لوگوں کو ہمارے سید مولیٰ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک زبان سے دیا گیا تھا،مگر جنہوں نے مجھ سے تعلق پیدا نہیں کیا وہ اس نعمت سے محروم ہیں۔فراست گویا ایک کرامت بھی ہے۔یہ لفظ فراست بفتح الفاء بھی ہے اور بکسر الفاء بھی زبر کے ساتھ اس کے معنی ہیں،گھوڑے پر چڑھنا۔مومن فراست کے ساتھ اپنے نفس کا چابک سوار ہوتا ہے۔خدا کی طرف سے اس کو نور ملتا ہے۔جس سے وہ راہ پاتا ہے۔اسی لئے رسول کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:اتقو فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ۔یعنی مومن کی فراست سے ڈرو ،کیونکہ وہ نور اللہ سے دیکھتا ہے۔غرض ہماری جماعت کی فراست حقہ کا بڑا ثبوت یہ ہے۔کہ انہوں نے خدا کے نور کو شناخت کیا۔
نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اسی طرح میں امید رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت عملی حالت میں ترقی کرے گی۔کیونکہ وہ منافق
نہیں اور وہ ہمارے مخالفوں کے اس طرز عمل سے بالکل پاک ہے کہ جب حکام سے ملتے ہیں تو ان کی تعریفیں کرتے ہیں اور جب گھر میں آتے ہیں تو کافر بتلاتے ہیں۔
سنو اور یاد رکھو کہ خدا اس طرز عمل کو پسند نہیں فرماتا۔تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو ۔اور مجض خدا کے لئے رکھتے ہو۔نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرو اور بدی کرنے والوں کو معاف کرو۔کو ئی شخص صدیق نہیں ہو سکتا،جب تک کہ وہ یکرنگ نہ ہو۔جو منافقانہ چال چلتا ہے اور دورنگی اختیار کرتا ہے،وہ آخر پکڑا جاتا ہے۔مثل مشہور ہے۔دروغ گورا حافظہ نبا شد۔اس وقت میں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سلاطین کو اکثر مہمیں پیش آتیں ہیں۔اور وہ بھی رعایا ہی کے بچاو اور حفاظت کے لئے ہوتی ہیں۔تم نے دیکھا ہے کہ ہماری گورنمنٹ کو سرحد پر کئی بار جنگ کرنا پڑی ہے،گو سرحدی لوگ مسلمان ہیں۔مگر ہمارے نزدیک وہ حق پر نہیں ہیں۔ان کا نگریزوں کے ساتھ جنگ کرنا کسی مذہبی حیثیت اور پہلوسے درست نہیں ہے اور نہ وہ حقیقتاً مذہبی پہلو سے لڑتے ہیں۔کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ گورنمنٹ نے مسلمانوں کو آزادی دی ہے۔بے شک دے رکھی ہے اور ایسی آزادی دے رکھی ہے،جس کی نظیر کابل اعوت نواح کابل میں رہ کر بھی نہیں مل سکتی۔امیر کے حالات اچھے سننے میں نہیں آتے۔ان سر حدی مجنونوں کے لڑنے کی کوئی وجہ بجز پیٹ کے نہیں ہے۔دس بیس روپے مل جاویں تو وہ غازی پن دور ہو جاتا ہے۔یہ لوگ ظالم طبع ہیں جو اسلام کوبدنال کرتے ہیں۔
بادشاہ اور محسن کے حقوق اسلام بادشاہ وقت اور محسن کے حقوق قائم کرتا ہے۔یہ دنی الطبع لوگ اپنے پیٹ کی خاطرحدود اللہ کو توڑتے ہیں اور ان کی
رذالت اور سفاہت اور سفاکی کا برا ثبوت یہ ہے کہ ایک روتٰ کے لئے باآسانی ایک انسان کا خون کر دیتے ہیں۔ایسا ہی آجکل ہماری گورنمنٹ کو ٹرانسوال کی ایک چھوٹی سی جمہوری سلطنت کے ساتھ مقابلہ ہے۔وہ سلطنت پنجاب سے بڑی نہیں ہے اور یہ سراسر اس کی حماقت ہے کہ اس قدر بڑی سلطنت کے ساتھ مقابلہ شروع کیا ہے،لیکن اسوقت جب کہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ہر ایک مسلمان کا حق ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔ ہم کو ٹرانسوال سے کیا غرض جس کے ہم پر ہزاروں احسان ہیں۔ہمارا فرض ہے کہ اس کی خیر خواہی کریں۔ایک ہمسایہ کے اتنے حقوق ہیں کہ اس کی تکلیف سن کر اس کا پتہ پانی ہو جاتا ہے،تو کیا اب ہمارے دلوں کو سر کار انگلشیہ کے وفادار سپاہیوں کے مسائب پڑھ کر صدمہ نہیں پہنچتا۔میرے نزدیک وہ بڑا سیاہ دل ہے جسے گورنمنٹ کے دکھ اپنے دکھ معلوم نہیں ہوتے۔یاد رکھو۔کہ جزام کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ایک جزام جسم کو لگ جاتا ہے۔جس کو کوڑھ کہتے ہیں۔اور ایک جزام روح کو لگ جاتا ہے۔ہمارے یہاں ایک شخص بازار میںراہ کرتا تھا ۔اگر کوئی مقدمہ کسی پر ہو جاتا ،تو پوچھا کرتا تھا کہ مقدمہ کی کیا صورت ہے؟اگر کسی نے کہہ دیا کہ وہ بری ہو گیا یا اچھی صورت ہے،تو اس پر آفت آجاتی اور چپ ہو جاتا،اگر کوئی کہہ دیتا کہ فرد قرار داد جرم لگ گئی ہے،تو بہت خوش ہوتا اور اس کو پاس بٹھا کر سارا قصہ سنتا۔غرض بعض آدمیوں کی فطرت میںبد اندیشی کا مادہ ہوتا ہے کہ وہ بری خبریں سننا چاہتے ہیں اور کسی کی برائی پر خوش ہوتے ہیں۔چونکہ شیطان کی سیرت ان کے اندر ہوتی ہے۔پس بدخواہی کسی بھی انسان کی اچھی نہیں ہوتی۔چہ جائیکہ محسن کی ہو،لہٰذا میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کا نمونہ اختیار نہ کریں،بلکہ پوری ہمدردی اور سچی خیر خواہی کے ساتھ برٹش گورنمنٹ کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں اور عملی طور پر بھی وفاداری کے نمونے دکھائیں ۔
محسن کا شکر کرو ہم یہ باتیں کسی صلح یا انعام کی خاطر ہیں کرتے۔ہم کو صلح اور انعامات اور دنیاوی خطابات سے کیا غرض۔ہماری نیات کو علیم خدا جانتا ہے کہ ہمارا
کام محض اس کے لئے اور اسی کے امر سے ہے۔اس نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ محسن کا شکر کرو۔ہم اس شکر گزاری میں اپنے مولاکریم کی اطاعت کرتے ہیں اور اسی سے انعام کی امید رکھتے ہیں۔سو تم جو میری جماعت ہو۔اپنی محسن گورنمنٹ کی خوب قدرکرو۔اب میں چاہتا ہون کہ ٹرانسوال کی جنگ کے لئے ہم دعا کریں:۔
[اس کے بعد حضرت اقدس نے نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور سب حاضرین نے جن کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز تھی۔دعا کی۔؎۱]
۱۱اپریل۱۹۰۰؁ء
یوم العرفات کو دعا [یوم العرفات کو علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی]
’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میںگزارنا چاہتا ہوں،اس لئے وہ دوست جو یہاںپر موجود ہیں۔اپنا نام مع جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیج دیں،تاکہ دعا کرتے وقت مجھے یاد رہے۔‘‘
[اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضورؑ کی خدمت میں بھیج دی گئی۔اس کے بعد اور احباب باہر سے آگئے۔جنہوں نے زیارت اور دعا کے لئے بے قراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دئے۔حضور نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ:
ؔ’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘
مغرب اور عشاء میںحضور تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھیں گئیں۔بعد فراغت فرمایا:
’’چونکہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاوں میں گزاروں۔ اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو۔‘‘
یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔دوسری صبح عید کے دن مولوی عبد الکریم نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی۔اس پر حضور نے فرمایا:’’خدا نے ہی حکم دیاہے۔‘‘اور پھر فرمایا کہ:
’’رات کو الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا۔شاید یہی مجمع ہو۔‘‘
خطبہ الہامیہ کا نشان یہ خطبہ جو اللہ تعالیٰ کے القاء وایماء کے موافق حضور نے عربی زبان میں پڑھا۔یہ خطبہ آیا ت اللہ میں سے ایک زبر دست آیت اور
لا نظیرہے جو ایک عظیم الشان گروہ کے سامنے پورا ہوا،اور ؔ’’خطبہ الہامیہ‘‘کے نام سے شائع فرما دیا گیا۔
جب حضرت اقدسؑ عربی خُطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے، تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حکم دیا کہ وُہ قریب ترہوکر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرا ت مولوی صاحبان تیارہوگئے، تو حضورؑ نے یاعباداللہ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثناء خطبہ میں حضرت اقدس ؑ نے بھی فرمایا:
’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں۔‘‘
جب حضرت اقدس ؑ خُطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے، تواکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب اُس کا ترجمہ سُنانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ مولانہ موصوف ترجمہ سُنائیں، حضرت اقدس ؑ نے فرمایا۔ کہ
’’اس خُطبہ کو کل عَرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دُعائیں کی ہیں۔ ان کی قبولیت کے لئے نشان رکھاگیا تھا کہ اگر مَیں یہ خُطبہ عربی زبان میں اِرتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دُعائیں قبول سمجھی جائیں گی۔ الحمدللہ کہ وُہ ساری دُعائیں بھی خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہوگئیں۔‘‘
سجدۂ شُکر اور اس کی قبولیت ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سُنارہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ ٔ شکرمیں
جاپڑے۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا۔ سجدہ سے سراُٹھاکر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھادیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘ ۱؎
۱ ؎ الحکم جلد4نمبر16صفحہ:5,6پرچہ مورخہ یکم مئی 1900
۱۲؍اپریل۱۹۰۰ء
حضرت اقدس ؑ کی دلی آرزُو حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلی آرزُو اور تمنارہتی ہے کہ ہمارے احباب کو یہاںدارالامان میں باربار
آنے کا موقع ملے اور اس طرح پر یہاں رہ کر ہر ایک شخص کو اپنے تزکیۂ نفس اور اور تصفیۂ باطنی اور تجلیۂ رُوح کے لئے عملی ہدایتیں مل سکیں۔ اس غرض کے پوراکرنے کے لئے آپؑ نے سال میں تین جلسے مقرر کررکھے ہیں۔ عیدین اور بڑے دن کی تعطیلوں میں۔ روئداد جلسہ عیدالاضحیہ درج ذیل ہے۔
آنحضرت ؐ اور مسیح موعود ؑ کی عیدالاضحیہ سے مناسب فرمایا:۔
’’آج عیدالاضحٰی کا دن ہے اور یہ
عید ایک ایسے مہینے میں آتی ہے، جس پر اسلامی مہینوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یعنی پھر محرم سے نیا سال شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک سِرّ کی بات ہے کہ ایسے مہینہ میں عید کی گئی ہے۔ جس پر اسلامی مہینہ کا یازمانہ کا خاتمہ ہے۔ اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آنے والے مسیح ؑ سے بہت مناسبت ہے ۔ وہ مناسبت کیا ہے؟ ایک یہ کہ ہمارے نبی کریم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ کے نبی تھے اور آپؐ کا وجود باجود اور وقت بعنیہٖ گویا عیدالضحٰے کا وقت تھا؛ چنانچہ یہ امر مُسلمانوں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ آپ ؐ نبی آخرالزمان تھے اوریہ مہینہ بھی آخرالشہور ہے، اس لیے اس مہینہ کو آپؐ کی زندگی اور زمانہ سے مناسبت ہے۔
دُوسری مناسبت ۔ چونکہ یہ مہینہ قربانی کا مہینہ کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حقیقی قربانیوں کا کامل نمونہ دکھانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ جیسے آپ لوگ بکری، اُونٹ ، گائے، دُنبہ ذبح کرتے ہو، ایسا ہی وُہ زمانہ گذرا ہے، جب آج سے تیرہ سو سال پیشتر خداتعالیٰ کی راہ میں انسان ذبح ہوئے۔ حقیقی طور پر عیدالضحیٰ وُہی تھی اور اُسی میں ضحٰی کی روشنی تھے۔
قربانی کی حقیقت یہ قربانیاںاس کا لب نہیں۔پوست ہیں۔روح نہیں جسم ہیں۔اس سہولت اور آرام کے زمانے میں ہنسی خوشی سے عید ہوتی ہے اور عید کی انتہا ہنسی خوشی
اور قسم قسم کے تعیشات قرار دئیے گئے ہیں۔عورتیں اسی روز تمام زیورات پہنتی ہیں۔عمدہ سے عمدہ کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔مرد عمدہ پوشاکیں پہنتے ہیںاور عمدہ سے عمدہ کھانے بہم پہنچاتے ہیں اور یہ ایسا مسرت اور راحت کا دن سمجھا جاتا ہے کہ بخیل سے بخیل انسان بھی آج گوشت کھاتا ہے۔خصوصاً کشمیریوں کے پیٹ تو بکروں کے مدفن ہو جاتے ہیں۔گواور لوگ بھی کمی نہیں کرتے۔الغرض ہر قسم کے کھیل کود۔لہوولعب کانام عید سمجھا گیا ہے،مگر افسوس ہے کہ حقیقت کی طرف مطلق توجہ نہیں کی جاتی۔
عیدالاضحیہ کی حقیقت درحقیقت اس دن میں بڑاسریہ تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس قربانی کا بیج بویا تھا اور مخفی طور پر بویا تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے
لہلہلاتے کھیت دکھائے۔حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دریغ نہ کیا ۔اس میںمخفی طور پر یہی اشارہ تھا کہ انسان ہمہ تن خدا کا ہو جائے اور خدا کے حکم کے سامنے اُس کی اپنی جان،اپنی اولاد،اپنے اقرباد اعزا کا خون بھی خفیف نظر آوے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو ہر ایک پاک ہدایت کاکامل نمونہ تھے،کیسی قربانی ہوئی۔خونوں سے جنگل بھر گئے۔گویا خُون کی ندیاں بہہ نکلیں۔باپوں نے اپنے بچوں کو،بیٹوں نے اپنے باپوں کو قتل کیا۔اور وہ خوش ہوتے تھے کہ اسلام اور خدا کی راہ میں قیمہ قیمہ اور ٹکڑے ٹکڑے بھی کیے جاویں،تو ان کی راحت ہے۔مگر آج غور کر کے دیکھو کہ بجز ہنسی اور خوشی اور لہو ولعب کے روحانیت کا کونسا حصہ باقی ہے۔یہ عید الاضحیہ پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں،مگر سوچ کر بتلائو کہ عید کی وجہ سے کسی قدر ہیں۔جو اپنے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیںجو اس ضحی میں رکھا گیا ہے۔عید رمضان اصل میں ایک مجاہدہ ہے اور ذاتی مجاہدہ ہے اور اس کا نام بذل الروح ہے۔مگر یہ عید جس کو بڑی عید کہتے ہیں،ایک عظیم الشان حقیقت اپنے اندر رکھتی ہے اور جس پر افسوس!کہ توجہ نہیں کی گئی۔خدا تعالیٰ نے جس کے رحم کا ظہور کئی طرح پر ہوتا ہے۔امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہ بڑا بھاری رحم کیا ہے کہ اور اُمتوں میں جس قدر باتیں پوست اور قشر کے رنگ میں تھیں،اُن کی حقیقت اس اُمت مر حومہ نے دکھلائی ہے۔سورت الفاتحہ میں جو خدا تعالیٰ کی یہ چار صفات بیان ہوئی ہیں کہ رب العالمینؔ،رحمنؔ،رحیمؔ،ملکؔیوم الدین اگرچہ عام طور پر یہ صفات اس عالم پر تجلی کرتی ہیں،لیکن اُن کے اندر حقیقت میں پیشگوئیاں ہیں جن پر کہ لوگ بہت کم توجہ کرتے ہیں۔اور وہ یہ ہے کہ
صفات الٰہیہ کے حقیقی مظہر صرف آنحضرتؑ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں صفتوں کا نمونہ دکھایا۔کیونکہ کوئی
حقیقت بغیر نمونہ کے سمجھ میں نہیںآسکتی۔رب العالمین کی صفت نے کس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نمونہ دکھایا؟آپؑ نے عین ضعف میںپرورش پائی۔کوئی موقع مدرسہ مکتب کا نہ تھا،جہاں آپؑ اپنے روحانی اور دینی قویٰ کو نشو ونما دے سکتے۔کبھی کسی تعلیم یافتہ قوم سے ملنے کا موقع ہی نہ ملا۔نہ کسی موٹی سوٹی تعلیم کا ہی موقع پایا اور نہ فلسفہ کے باریک اور دقیق علوم کے حاصل کرنے کی فرصت ملی۔پھر دیکھو کہ باوجود ایسے مواقع کے نہ ملنے کے قرآن شریف ایک ایسی نعمت آپؑ کو دی گئی،جس کے علوم عالیہ اور حقہ کے سامنے کسی اور علم کی ہستی ہی کچھ نہیں۔جو انسان ذرا سی سمجھ اور فکر کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھے گا،اس کو معلوم ہو جاوے گا کہ دُنیا کے تمام فلسفے اور علوم اُس کے سامنے ہیچ ہیںاور سب حکیم اور فلاسفر اس سے بہت پیچھے رہ گئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتردوعظیم الشان نبی گذرے ہیں۔ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔مگر ان دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا۔اُن میں کسی کی نسبت نبی اُمی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔یہ تحدی اور دعویٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہوا؛چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ماکنت تدری ما الکتب ولاالایمان ولکن جعلنہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادنا۔(الشوریٰ:۵۳)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو گویا شاہزادوں کی طرح تعلیم پائی تھی اور فرعون کی گود میں شاہانہ نشوونما پایا۔ان کے لیے اتالیق مقرر کیے گئے۔کیونکہ اس زمانہ میں بھی اتالیق مقرر ہوتے تھے اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فقر نہ ملتا،تو گویا فرعون کے بعد گدی نشین آپؑ ہی تھے اور اگر خدا کا فضل نہ ہوتا،تو نعوذ باللہ آپؑ کو فرعون بھی بننا تھا۔
یاد رہے کہ فرعونؔ کا لفظ برا نہیں۔اصل میں شاہان مصر کا یہ لقب تھا۔جس طرح پر قیصروکسریٰؔاشاہان روم وایران کا لقب تھا اور جس طرح پر آج زارروس اور سلطانؔروم کا لقب ہے۔میرا مطلب اس بیان سے صرف یہ ہے کہ اگرخدا تعالیٰ یہ دوسرا سلسلہ نہ شروع کر دیتا،تو ضرورتھا کہ وہی تخت نشین ہوتے اور یہ بھی سچی بات ہے کہ گو موسٰیؑ کی ماں کو بھی ایک درد اور دکھ پہنچا تھا کہ جیتی جان کو دریا میں ڈالا،لیکن اُس کی راحت اور مسرت کی کیا انتہاء ہو سکتی ہے۔جب کہ خود خدا تعالیٰ نے موسیٰؑ کی واپسی کا اس کو وعدہ دیا تھا۔الغرض موسیٰؑ کی تعلیم تو یوں شاہانہ رنگ میں ہوتی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی باقاعدہ ہوئی۔ میرے پاس ایک یہودی مصنف کی کتاب ہے۔اس نے صاف اور واضح طور پر لکھا ہے،بلکہ مسیحؑ کے اُستاد کا نام تک بتایا ہے اور پھر زد بھی کی ہے کہ اسی وقت سے توریتؔ اورصحف انبیاء کے مضامین انکو پسند آئے تھے اور جو کچھ انجیلؔ میں ہے وہ صحفؔانبیاء سے زائد نہیں۔اس نے بتلایاہے کہ ایک مدت دراز تک وہ یہود کے شاگرد رہے تھے،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کسی یہودی،نصاریٰ ہندی سے پوچھو کہ آپ نے بھی کہیں تعلیم پائی تھی،تو وہ صاف کہے گا کہ ہر گز نہیں!!! کتنی بڑی ربوبیت کا مظہر ہے۔انسان جب بچپن کی حالت سے آگے نکلتا ہے جو بلوغ سے پہلے ہے تو عام طور پر مکتب میں بٹھا دیاجاتا ہے۔یہ پہلا قدم ہوتا ہے،مگر آپؑ کی زندگی کا پہلا قدم ہی گویا اعجاز تھا۔چونکہ آپؑ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایاتھا۔اس لیے آپؑ کے وجود میں حرکات وسکنات میں بھی اعجاز رکھ دیئے تھے۔آپ ؑکی طرززندگی کہ الفؔ۔بےؔ تک نہیں پڑھا اور قرآن جیسی بینظیر نعمت لائے اور ایسا عظیم الشان معجزہ امت کو دیا۔پہلے نبی آئے اور ایک خاص وقت تک دُنیا میں رہ کر چل دئیے۔اور دین وہیں کالعدم ہو گیا۔اور خدا کو ان کا محو کرنا ہی منظور تھا،مگر اس دین کے اظلال وآثار کا قیام منظور تھا اور چونکہ کوئی دین معجزات کے بدوں رہ نہیں سکتا؛ورنہ چند روز تک سماعی باتوں پر یقین رہتا ہے۔پھر کہہ دیتے ہیں کہ’’ایہہ جہاں مٹھاتے اگلا کن ڈٹھا۔‘‘اس لیے خدا نے چاہا کہ اسلامؔ کے ساتھ زندہ معجزہ ہو۔
صداقت اسلام کا نشان کس قوت اور تحدی اور تعیین سے بتایاگیا تھا اور اس ذریعہ سے اسلامؔ کا نور ابد تک درخشاں ہے؛چنانچہ اس زندہ نور کی تصدیق
کے لیے اس زمانہ میں ہی دیکھو کہ لیکھرامؔ کے قتل ہونے سے پیشتر کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو جاوے گا۔غور کرو کہ وقتؔ،مدتؔ،صورتؔ موت کا بتادینا کیا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور پھر وہ اسی طرح مارا گیا جیسا کہ دعویٰ کیا گیا تھا۔جب یہ پیش گوئی کی گئی۔تھوڑے ہی عرصہ میں کروڑہا انسانوںمیں مشہور ہو گئی۔ہندو،مسلمان،عیسائی،سکھ ہر قوم وملت کے لوگ اس سے واقف ہو گئے۔یہانتک کہ عام بازاری لوگوں سے لے کر گورنمنٹ تک کو اطلاع ہو گئی اور خود آریوں نے بڑے زور وشور کے ساتھ مشتہر کیااور جہاں لیکھرام خود جاتا اس پیشگوئی کا ذکر کرتا اور شہرت دیتا اور جب پیشگوئی پوری ہوئی تو ایک عام شور بر پا ہو گیا۔یہاں تک کہ ہماری بھی خانہ تلاشی ہوئی۔تاکہ اس کی صداقت اور شہرت اس خاص ذریعہ سے اور بھی ہو اور یہ نشان ہمیشہ صفحہ دہر پرثبت رہے۔پھر مقدمات کے دوران میں سرکاری کاغذات اور مثلوںمیں اس پیشگوئی کے متعلق بیانات اور کاغذات درج اور شامل ہوئے۔الغرض یہ ایسا عظیم الشان نشان ہے جس کی نظیر کوئی قوم دکھلا نہیں سکتی۔کیا کسی انسانی طاقت اور فراست کا کام ہے کہ وہ کسی کی نسبت چاردن کی خبر بھی دے کہ فلاں وقت پر فلاں موت سے مر جا وے گا،مگر یہاں چھ سال پہلے وقت،صورت موت وغیرہ سے اطلاع دی گئی؛حالانکہ وہ تیس برس کا ایک مضبوط جوان آدمی تھا اور اس نے بھی تو میری نسبت کہا کہ میں تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائوں گا اور میں اس کی نسبت عمر میں بہت بڑا اور ضعیف اور قریباًدائم المریض تھا،مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ کی چمکار دکھلائی اور اس کو ہلاک کر کے اپنے سچے دین کی صداقت پر مہر کر دی۔
آریوں میں خدا شناسی نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آریہ کہلاتے ہیں۔اصلاً خدا کو پہچانتے ہی نہیں۔پھر ان میں خدا شناسی اور خدا بینی اور
خدا نمائی کی قوت کیونکہ پیداہو۔ان کا تو پہلا قدم ہی غلط ہے۔ان کے نزدیک تو مرنا جینا،عورت یا مرد ہونا۔بکری یا بیل بننا یہ سب کچھ شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔جبکہ یہ جنم اور اشیاء اعمال ہی کا نتیجہ ہیں تو پھر خدا کیا اور اس کے وجود کے اثبات کے لیے نئے نئے نشان اور معجزات کیا اور ان کی ضرورت ہی کیا رہی۔ان کا مذہب ہے کہ خدا پیدا کرنے والا نہیں۔ بلکہ صرف جوڑنے جاڑنے والا ہے۔جیسے معمار یا کمہار ہوتے ہیں۔مادہ موجود تھا۔ارواح بھی اتفاق سے موجود تھیں۔
پر میشر نے جھٹ جوڑ جاڑ کر مخلوق بنا لی۔نعوذباللہ۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ جب کہ ارواح اور ذرات قدیم سے موجود ہیں،تو اس پر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ جوڑنا جاڑنا پرمیشر کے بدوں نہ ہو،بلکہ طبعی طور پر دلیل تو یہ ملتی ہے کہ اشیاء کو طبعی طور پر تجاذب کی طرف میلان ہوتا ہے۔اگر یہ تجاذب اور کشش نہ ہو۔تو نہ اینٹ بن سکے اور نہ مکان رہ سکے اور نہ کوئیاور چیز دنیا میں موجود بو جودرہ سکے۔پس جب کہ آریہ لوگوں کے عقیدہ کے موافق روح اور مادہ قدیم سے ہیں اور طبیعات سے دلیل ملتی ہے کہ یہ تجاذب کا خاصہ ہے تو آریوں کو پرمیشر سے تو فراغت اور فرصت ہو گئی۔اب آریہ کے پاس پرمیشر کے ہونے کا کیا ثبوت اور نشان ہے۔
ایک طرف تو یہ ناپاکی ہے کہ خدا ہی کا پتہ نہیں؛چہ جائیکہ خدا بینی اور خدا نمائی کی راہیں بیان کر سکیں۔پھر یہ ظلم عظیم کہ ہر قسم کی چیزوں میںروحیں اعمال کا بدلہ پانے کے لئے آتی ہیں۔کبھی سور بنتے ہیں،کبھی کتا،کبھی بلی وغیرہ۔
تناسخ اس پر سوال ہوتا ہے کہ اگر کسی کی ماں مر جائے جبکہ ابھی وہ بچہ ہی تھا۔اور اس نے دوسری کسی جگہ پر جنم لیا اور جب دونوں بلوغ کو پہنچے اور باہم رشتہ ناطہ ہو کر بیاہ ہو گیااور ہم
بستری ہو کر اولاد کا سلسلہ چلا۔اس سے تو بڑی بے شرمی اور پرلے درجے کی بے حیائی کی بنیاد پڑی اور نہایت قابل شرم مذہب یہ مذہب ٹھہر گیا۔پرمیشر نے کوئی فہرست تو دی نہیں۔کہ اس قسم کے نشان سے ماں بہن شناخت ہو جائے گی اور حق تو یہ تھا کہ وید کے ذمہ یہ فرض تھا جہاں اس نے یہ پاکیزگی اور اخلاق کی جڑ کاٹنے والا مسئلہ ایجاد کیا تھا۔اگر اسے کوئی سوج اور سوچ بچار کی طاقت ہوتی تو ساتھ ہی علامات بھی بیان کر دیتا۔جس سے ایسے رشتوں کے اجتناب کرنے کی کلید ہاتھ میں کاریوں کے آجاتی ہے۔مگر ضروری تھا کہ وید کی تعلیم کی پیشانی پر نقص کا داغ لگا رہتا تا کہ ہر زمانہ میں تدبر کرنے والے اس کے بطلان میں پہچانے جا سکیں۔ایک طرف تو یہ حال ہے کہ نانی اور نانی کی بھی پڑ نانی تک کے رشتہ میں ناطہ نہیں کرتے۔اور ہم لوگوں میں جو چچا اور ماموں کی بیٹی سے رشتہ کرتے ہیں۔اس پر اعتراض کرتے ہیں۔مگر دوسری طرف آپ ماں بہن کے بھائی لانے میں کوئی دلیل نہیں دیتے۔یا تو ہزاروں کوس چلے گئے۔یا ماں بہن بیاہ لائے۔کیسا قوم میں ایسا اندھیر نہیں۔افسوس ان کے پرمیشر نے ان کو ناپاکی میں تو ڈال دیا اور پھر کوئی فہرست بھی نہ دی اور نہ بتلایا کہ فلاں گدھے یا بیل سے کام نہ لینا۔یہ تیرے فلاں رشتہ دار ہیں۔اور فلاں فلاں علامت والی عورت سے رشتہ نہ کرنا کہ وہ تیری حقیقی ماں یا دادی یا خالہ یا بہن یا بھتیجی جنم لے کر دوبارہ آئی ہے۔اصل میں یہ لوگ تو معذور ہیں۔یہ سارا ظلم پرمیشر کی گردن پر ہے۔جس نے فہرست نہ دی۔
نیوگ پھر تیسری ناپاکی جو ویدوں کی تعلیم کا عرق اور گل سر سبد بتائی گئی ہے۔نیوگ ہے۔جس کی تفسیر یہ ہے کہ ایک عورت خاوند کے جیتے جاگتے روبرو گیارہ آدمیوں سے ہم بستر ہو
سکتی ہے۔اگر مرد عورت جوان ہوں اور چند سال شادی پر گزر جائیں اور اورلاد نہ ہو،تو دوسرے کا نطفہ لینے کے لئے عورت اس سے ہم بستر ہو۔اس لئے کہ بدوں اولاد کے سرگ کا ملنا محال ہے۔اور دیوث شوہر کو لازم ہے کہ بیرج داتا کے لئے عمدہ معجونات اور لطیف مقویات تیار کرائے تا کہ وہ تھک نہ جائے اور کوئی ضعف اسے لاحق نہ ہو جائے اور وید کی رو سے بستر،رضائی اور چارپا ئی سب اس کی ہو۔اور غذا بھی اس کی کھاوے اور نصف بچے بھی لے لے۔سوچو!یہ کیسا خاوند ہے کہ ایک کوٹھری میں خود دیوث ہے اور دوسری کوٹھری میں اس کی بیاہتا بیوی غیر مرد سے منہ کالا کرا رہی ہے اور آریہ ان کی حرکات کی آوازیں سنتا ہے۔اور خوش ہو رہا کہ اب اس پانی سے اس کی امید کا کھیت ہرا بھرا ہو جائے گا۔حیف ایسے مذہب پر!خدا پر یہ ظلم!!عزت و آبرو پر یہ ظلم!!!وید ایسے کاموں کی اجازت دیتا ہے کہ ناپاک سے ناپاک آدمی بھی اب کے ارتکاب سے شرم کرتے ہیں۔دیانند نے لکھا ہے کہہ شبھ کرم یعنی مبارک کام بیچ میں ترک ہو گیا تھا۔اب آریہ ورت کے آریہ جاری کریں کہ اس میں ثواب ملتا ہے۔ہم کو ضرورت نہیں کہ اس کو طول دیں۔آریوں کی کتب مذہبی اور معتقدات کو کوئی دیکھے اور خود ہی ان بزرگوں سے پوچھ دیکھے۔امید ہے کہ بڑے فخر سے اس فعل عجیب کی خوبیاں بیان کریں گے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیم ان تمام مذاہب کو سامنے رکھ کر اور ان کی تعلیمات اور عقائد کی خوب چھان بین کر کے اسلام کی ضرورت اور عزت محسوس ہوتی ہے اور خدا
تعالیٰ کے عظیم فضل کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔کہ اس نے اسلام کو ایسے ناپاک عقیدوں سے پاک رکھا اور اس کی تعلیم کے ہر شعبے میں کمال اور اعجاز کا جلوہ دکھایا؛چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں قصاص پر بڑا زور تھا کہ دانت کے بدلے دانت،کان کے بدلے کان ،آنکھ کے بدلے آنکھ ہو اور مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں اس بات پر زور تھا کہ بدی کا مقابلہ نہ کیا جاوے۔اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دے۔کوئی ایک کوس بیگار میں لے جائے،تو دو کوس چلا جاوے۔کرتہ مانگے تو چادر بھی دے دے۔وغیرہ وغیرہ۔اب ہم کو دکھلاو کہ کوئی پادری اس پر عمل بھی کرتا ہے۔کوئی کسی پادری کے منہ پر طمانچہ مار کر دیکھ لے ۔یقیناً دوسرا گال پھیرنے کی بجائے کچہری میں گھسیٹ لائے گا اور ہر قسم کے جھوٹ اور فریب سے سزا دلوانے کی فکر کرے گا،مگر اسلام نے یہ تعلیم نہیں دی بلکہ وہ پاک تعلیم دی جو دنیا کی جان ہے اور انسان فطرتاً اس پر عمل کرتا ہے اور وہ یہ ہے:
جزواسیئۃٍسیئۃمثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ(الشوریٰ:۴۱)
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے ،لیکن اگر کوئی عفو کرے،مگر وہ عفو بے محل نہ ہو،بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو، تواس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دلیر ہو کر ڈاکہ زنی کرے گا۔اس کو سزا ہی دینی چاہیے۔لیکن اگر دو نوکر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہو کہ ذرا ہی سی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی ہیاور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے،تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں،مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے،اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے،اس کو سزا ہی ہی دی جاوے۔تو بتاو مناسب حکم وہ ہے جو قرآن مجید نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟وہ تقسیم ورویت محل چاہتا ہے۔یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مد نظر ہو،ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدبراور فراست بڑھتی ہے۔گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو۔اگر عفو سے فائدہ ہو تو معاف کرو،لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جزواسیئۃٍسیئۃمثلھاپر عمل کرو۔اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانہ میں روز روشن کی طرح ہیں۔آفتاب پر بھی کسی وقت بادل آجاتا ہے اور بظاہر ایک قسم کا دھندلا سا دکھائی دیتا ہے،لیکن اسلام کا چہرہ اس سے مصفا ہے۔عدم معرفت نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے اور بغض کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اس لئے موتیا بند کی حالت سے بھی گئے گزرے ہیں۔پھر کیا فیصلہ کریں۔
عیسائیت کے عقائد جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں۔سب کے سب بے برکت اور بے نور اور مردہ ہیں اور پاک تعلیم سے بے بہرہ محض ہیں۔
ہندووں نے مذہب کا وہ نمونہ دکھایا ۔عیسائیوں نے یہ نمونہ دکھایا کہ ایک عاجز بندے کو خدا بنا دیا ۔جس نے یہودی جیسی تباہ حال قوم سے جو ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ(البقرہ:۶۲)کی مصداق تھی۔ماریں کھایں اور آخر کار صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے عقیدے کے موافق ملعون ہو کر ایلی ایلی لما سبقتنی کہتے ہوئے جان دے دی۔غور تو کرو کہ کیا ایسی صفات والا کبھی خدا ہو سکتا ہے۔وہ توخد اپرست بھی نہیں ہو سکتا؛چہ جائیکہ وہ خود خدا ہو۔عیسائی دکھاتے ہیں کہ وہ اس کی ساری رات کی دعابے محض بے اثرگئی۔اس سے زیادہ بے برکتی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے اور اس سے کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے شفع ہو سکتا ہے۔ہم کو یاد نہیں کہ دو گھنٹے بھی دعا کے لئے ملے ہوئے ہوں اور وہ دعا قبول نہ ہوئی ہو۔ابن اللہ بلکہ خود خدا کا معاذ اللہ یہ حال ہے کہ ساری رات رو رو کر بلکہ چلا چلا کر خود بھی دعا کرتا رہا اور دوسروں سے بھی دعا کراتا رہا اور کہتا رہا کہ اے خدا تیرے آگے کوئی ھی چیز انہونی نہیں۔اگر ہو سکے تو یہ پیالہ ٹل جائے۔مگر وہ دعا قبول ہی نہیں ہوتی۔اگر کوئی کہے کہ وہ کفارہ ہونے کے واسطے آئے تھے،اس لئے وہ دعا قبول نہیں وہتی ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ کفارہ کے لئے آئے ہیں۔پھر اس قدر بزدلی کے کیا معنی ہیں۔اگر ایک افسر طاعون کی ڈیوٹی پر بھیجا جائے اور وی کہہ دے کہ یہاں خطرے کا محل ہے۔مجھے فلاں جگہ بھیج دو تو کیا وہ احمق نہ سمجھا جائے گا۔جبکہ مسیح کو معلوم تا کہ وہ صرف کفارہ ہونے کے لئے ہی بھیجے گئے ہیں۔تو اس قدر لمبی دعاوں کی کیا ضرورت تھی؟ابھی کیا کفارہ زیر تجویز امر تھا یا ایک مقرر شدہ امر تھا۔غرض ایک داغ ہو ۔وہ داغ ہوں۔جس پر بے شمار داغ ہوں،کیا وہ خدا ہو سکتا ہے؟خدا کیا وہ تو عظیم الشان انسان بھی نہیں ہو سکتا ۔
یہودیت یہودی بے چارے خود ضربت علیھم الذلۃ کے مصداق ہیں۔ان کی وہ حالت تھی کہ صورت ببیں حالش مپرس۔دنیا پرستی کے سوا کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ہمارے یہاں
ایک اسرئیلی محمد سلمٰن مسلمان ہو اہے اس سے پوچھو۔یہودیوںنے کھانے پینے کے سوا کچھ اور مقصود ہی نہیں رکھا۔خدا کی قدرت ہے جب ضربت علیھم الذلۃ کی حالت آئی تو وہ افعال بھی گئے جو ذلت کے جالب اور ذلت کے نتائج تھے۔اگر وہ تائب ہو جاتے تو پھر ضربت کیونکر صادق آتا۔اس پیش گوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شامت اعمال ان کے گلے کا ہار ہی رہے گی۔مرد صالح کے ساتھ ذلت اور بے رزقی نہیں ہوتی۔خدا کا نام عزیز ہے۔خدا میں ہو کر زندگی بسر کرنے والا ذلیل ہو ہی نہیں سکتا۔یہودیوں کی زندگی اگر ناپاکیوں کا مجموعہ نہ تھی تو پھر ضربت علیھم الذلۃ کی مار ا پر کیونکر پڑتی؟اس پر خوب غور کرو۔اس کے اندر یہ مخفی اسرار ہیں اور پتہ ملتا ہے کہ یہودی قوم کے اطوار بگڑ جائیں گے۔
اب ان مذاہب پر نظر ڈال کر سچے دل سے بتاؤ کہ کیا اسلام کے سوا اور کوئی طریق ہے،جس سے تمہارے دل ٹھنڈے ہو سکتے ہیں۔کیا ضربت علیھم الذلۃ کے مصداق یہودیوںسے کوئی روشنی اور نور پا سکتے ہیں؟کیا ایسے عیسائی جو ایک عاجز کمزور ناتواں نامراد انسان کو خدا بناتے ہیں،کوئی کامیابی کسی کو دے سکتے ہیں،جس کی اپنی ساری رات کی دعائیں اکارت اور بیسود گئی ہیں،وہ دوسروں کی دعاؤں پر کون سے ثمرات مرتب کر سکتا ہے؟جو خود ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر اقرار کرتا ہے کہ خدا نے اسے چھوڑ دیا،وہ دوسروں کو کب خدا سے ملا سکتا ہے؟
زندہ برکات صرف اسلام میں ہیں دیکھو اور غور سے سنو!یہ صرف اسلام ہی ہے جو اپنے اندر برکات رکھتا ہے اور انسان کو مایوس اور نہ مراد
ہونے نہیں دیتا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں اس کے برکات اور زندگی اور صداقت کے لئے نمونہ کے طور پر کھڑا ہوں۔کوئی عیسائی نہیںجو کہ یہ دکھا سکے کہ اسکا کوئی تعلق آسمان سے ہے۔وہ نشانات جو ایمان کے نشانات ہیں اور مومن عیسائی کے لئے مقرر ہیں۔کہ اگر پہاڑ کو کہیں تو جگہ سے ٹل جاوے۔اب پہاڑ تو پہاڑ۔کوئی عیسائی نہیں جو ایک الٹی ہوئی جوتی کو سیدھا کر کے دکھا دے۔مگر میں نے اپنے پر زور نشانوں سے دکھایا ہے اور صاف صاف دکھایاہے کہ زندہ برکات اور زندہ نشانات صرف اسلام کے لئے ہیں۔میں نے بے شمار اشتہار دیئے ہیں اور ایک مرتبہ سولہ ہزار اشتہار شائع کئے۔اب ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جھوٹے مقدمات کیے اور قتل کے الزام دئے۔اوراپنی طرف سے ہمیں ذلیل کرنے کے منصوبے گانٹھے،مگر عزیز خدا کا بندہ ذلیل کیونکر ہو سکتا ہے جس میں ان لوگوں نے ہماری ذلت چاہی۔اسی ذلت سے ہمارے لئے عزت نکلی۔ذلک فضل اللہ یو تیہ من یشاء(الجمعہ:۵)دیکھو ،اگر کلارک کا مقدمہ نہ ہوتا تو ابراء کا الہام کیونکر پورا ہوتا۔جو مقدمے سے پہلے سینکڑوں انسانوں میں شائع ہو چکا تھا۔یہ اسلام ہی ہے۔جس کے ساتھ معجزات اور ثبوت ہیں۔اسلام دوسرے چراغ کا محتاج نہیں،بلکہ خود ہی چراغ ہے۔اور اس کے ثبوت ایسے اجلیٰ بدیہیات ہیں کہ ان کا نمونہ کسی مذہب میں نہیں ۔ غرض اسلام کی کوئی تعلیم ایسی نہ ہوگی جس کا نمونہ موجود نہ ہو۔
آنحضرتؐ صفات الہیٰ کا مظہر ہیں میں نے سورۃ الفاتحہ(جس کو ام الکتاب اور مثانی بھی کہتے ہیں اور قراان شریف کی عکسی تصویر اور خلاصہ
ہے)کے صفات اربعہ میں دکھانا چاہا ہے کہ وہ چاروں نمونے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وجود میں ان صفات اربعہ کا نمونہ دکھایا۔گویا وہ صفات دعویٰ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود بطور دلیل کے ہے؛چنانچہ ربوبیت کا آپ کے وجود میں کیسا ثبوت دیا کہ مکہ کے جنگلوں کا سر گردان اور دس برس تک حیران پھرنے والا جس کے لئے کوئی راہ کھلی نظر نہ آتی تھی۔اس کی تربیت کا کس کو خیال تھاکہ اسلا م روئے زمین پر پھیل جائے گا اور اس کے ماننے والے۹۰ کروڑتک پہنچ جائیں گے۔مگر آج دیکھو کہ دنیا کا کوئی آبادقطعہ ایسا نہیں جہاں مسلمان نہیں۔پھر الرحمن کی صفت کو دیکھو۔ جس کی منشاء یہ ہے کہ عمل کے بدوں کامیابی اور ضرورتوں کے سامان بہم پہنچائے۔کیسی رحمانیت تھی کہ آپ کے آنے سے پہلے ہی استعدادیںپیدا کر دیں۔عمر اضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں کی طرح کھیلتا تھا۔ابو بکر صدیقؓ جو کافروں کے گھر میں پیدا ہوا تھا اور ایسا ہی اور بہت سے صحابہ آپ کے ساتھ ہو گئے۔گویا ان کو آپ کے لئے رحمانیت الہٰی نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا اور اس قدر امور رحمانیت کے اسلام کے ساتھ ہیں کہ ہم ان کو مفصل بیان بھی نہیں ہیں کر سکتے۔امیت رحمانیت کو چاہتی ہے اور نبی کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت فرمایا:ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً(الجمعۃ:۳)رحمانیت کا منشاء اس ضرب المثل سے خوب ظاہر ہے:
’’کر دے کرا دے اور اٹھانے والا ساتھ دے۔‘‘
اور یہ ظہور اسلا م کے ساتھ ہوا ۔اسلام گویا خدا کی گود میں ایک بچہ ہے۔اس کا سارا کام کاج سنوارنے والا اور اس کے سارے لوازم بہم پہنچانے والا خود خدا ہے۔کسی مخلوق کے بار ہا احسان اس کی گردن پر نہیں۔اسی طرح رحیم جو محنتوں کو ضائع نہ کرے۔اس کے خلاف یہ ہے کہ محنت کرتا رہے اور ناکام رہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رحیمیت کا اظہار دیکھو۔کیسے واضح طور پر ہوا ۔کوئی ایسی لڑائی نہیں ہوئی جس میں فتح نہ پائی ہو۔تھوڑا کام کر کے بہت اجر پایا۔بجلی کے کوندے کی طرح فتوحات چمکیں۔فتوحات الشام ،فتوحات المصر ہی دیکھو۔صفحہ تاریخ میں کوئی ایسا انسان نہیں جس نے صحیح معنوں میں کامیابی پائی ہو۔جیسے کامیابیاں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوملیں۔
صحابہ ؓ نے دنیا میں کامیابی حاصل کی پھر مالک یوم الدین جزا سزا کا مالک،اچھے کام کرنے والوں کو جزا دی جاوے؛اگرچہ کامل طور
پر یہ آخرت کے لیے ہے اور سب قومیں جزاوسزا کو آخرت ہی پر ڈالتی ہیں،مگر خدا تعالیٰ نے اس کا نمونہ اسلام کے لیے اس دُنیا میں رکھا۔ابوبکرؓ جو دوپہر کی دُھوپ میںگھر بار مال ومتاع چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور جس نے ساری جائداد کو دیکھ کر کہدیا۔بر باد شُد،برباد باشد۔سب سے انقطاع کر کے ساتھ ہی ہو لیا تھا۔اُس نے یہ مزہ پایا کہ آپؑ کے بعد سب سے پہلا خلیفہ بلا فصل یہی ہوا۔حضرت عمرؓجو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے۔اُنھوں نے یہ مزہ پایاکہ اُن کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے۔غرض اس طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی۔قیصرو کسریٰ کے اموال اور شاہزادیاں اُن کے ہاتھ آئیں۔لکھا ہے کہ ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا۔ملازمان کسریٰ نے سونے چاندی کی کرسیاںبچھوادیں اور اپنی شان وشوکت دکھائی۔اُس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسریٰ کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے؛چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنادیئے تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو۔
اسلامؔ کا جادہ اعتدال مذہب اسلام چونکہ اعتدال پر واقع ہوا ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے تعلیم یہی دی ہے اور مغضوب اور ضالین سے بچنے کی ہدایت فرمائی۔
ایک سچا مسلمان نہ مغضوب ہو سکتا ہے نہ ضالین کے زمرہ میں شامل ہو سکتا ہے۔مغضوب وہ قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا۔ چونکہ وہ خود غضب کرنے والے تھے،اس لیے خدا کے غضب کو کھینچ لائے اور وہ یہودی ہیں اور ضال سے مراد عیسائی ہیں۔
غضب کی کیفیت قوت سبعی سے پیدا ہوتی ہے اور ضلالت وہمی قوت سے پیدا ہوتی ہے۔اور وہمی قوت حد سے زیادہ محبت سے پیدا ہوتی ہے۔بیجا محبت والا انسان بہک جاتا ہے حبک الشی یعمی ویصم اس کا مبداء اور منشاقوت وہمی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ چادر کو بیل سمجھتا ہے اوررسی کو سانپ بناتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی شاعر نے اپنا معشوق ایسا قرار نہیں دیا،جو دوسروں سے بڑھ کر نہ ہو۔ہر ایک کے واہمہ نے نئی تصویر ایجادکی۔
قوت بہمیی میں جوش ہو کر انسان جادئہ اعتدال سے نکل جاتا ہے؛چنانچہ غضب کی حالت میں درندہ کا جوش بڑھ جاتا ہے۔مثلاً کتا پہلے آہستہ آہستہ بھونکتا ہے پھر کوٹھا سر پر اُٹھا لیتا ہے۔آخر کار درندے طیش میں آکر نوچتے اور پھاڑ کھاتے ہیں۔یہود نے بھی اسی طرح ظلم وتعدی کی بُری عادتیں اختیار کیں اور غضب کو حد تک پہنچا دیا۔آخر خود مغضوب ہو گئے۔قوت وہمی کو جب استیلاء ہوتا ہے،تو انسان رسی کو سانپ بناتا اور درخت کو ہاتھی بتلاتا ہے۔اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہوتی۔یہ قوت عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔اسی واسطے عیسائی مذہب اور بت پرستی کا بڑا سہارا عورتیں ہیں۔غرض اسلامؔ نے جادئہ اعتدال پر رہنے کی تعلیم دی،جس کا نام الصراط المستقیم ہے۔
میں اب چند فقرے عربی میں سنائوں گا۔کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مجمع میں کچھ عربی فقرے بولنے کا حکم دیا تھا۔پہلے میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی اور مجمع ہوگا۔جس میں یہ خدا کی بات پوری ہو،مگر خدا تعالیٰ مولوی عبدالکریم صاحب کو جزائے خیر دے کہ اُنھوں نے تحریک کی اور اس تحریک سے زبردست قوت دل میں پیدا ہوئی۔ اور اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور نشان آج پورا ہو۔‘‘ ؎۱
[مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور!کچھ جماعت کے باہمی اتفاق ومحبت پر بھی فرمایا جاوے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:
باہم اتفاق و محبت ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی
تھی۔ کہ تم وجود و احد رکھو؛ورنہ ہوا نکل جائے گی۔نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔اگر اختلاف ہو،اتحاد نہ ہو۔تو پھر بے نصیب رہو گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو۔اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو ۔کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو،تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔
میں دو ؔہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔اولؔ خدا کی توحید اختیار کرو۔دوسرؔے آپس میں محبت اور ہمددی ظاہر کرو۔وہ نمونہ دکھلائو کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوتی تھی۔ کنتم اعداء ً فالف بین قلوبکم (آل عمران:۱۰۴) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے۔یاد رکھو ! جبتک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے،وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔اس کا انجام اچھا نہیں۔میں ایک کتاب بنانے والا ہوں۔اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دئیے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے۔مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے۔دوسرا اُس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدیؔ کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔وہ ضرور ہو گی۔تم کیوں صبر نہیں کرتے۔جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جبتک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے،مرض دفع نہیں ہوتا۔میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔باہمی عداوت کا سبب کیا ہے۔بخلؔہے،رعونت ہے،خود پسندیؔ ہے اور جذباتؔ ہیں میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوںگا۔جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جبتک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ میں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو،وہ خشک ٹہنی ہے۔اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے،مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا،بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔چونکہ یہ سب باتیں میں کتاب میں مفصل لکھوں گا۔اس لیے اب میں چند عربی فقرے کہہ کر فرض ادا کرتا ہوں۔‘‘؎۱
دو انگریزوں کا قتل علاقہ پشاور میں ان دنوں کسی سفاک پٹھان نے دو بے گناہ انگریزوں کو قتل کر دیا۔اس پر ایک مجمع میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
’’یہ جو دوانگریزوں کو مار دیا ہے۔ یہ کیا جہاد کیا ہے؟ایسے نابکار لوگوں نے اسلامؔ کو بدنام کر رکھا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر ان سے برتائو کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے۔مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو کچل ڈالے۔لکھا ہے کہ حضرت علیؓ ایک کافر سے لڑے۔حضرت علیؓ نے اُس کو نیچے گر ایسا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اس نے حضرت علیؓ پر تھوکا۔حضرت علیؓ یہ دیکھ کر اس کے سینے پر سے اُتر آئے۔وہ کافر حیران ہوا اور پوچھا کہ اے علیؓ!یہ کیا بات ہے؟آپؓ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا،لیکن جب تو نے میرے منہ پر تھوکا،تومیرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا۔اس پر میں نے تجھے چھوڑ دیا۔حضرت علیؓ کے اس فعل کا اس پر بڑا اثر ہوا۔
میں جب کبھی ان لوگوں کی بابت ایسی خبریں سنتا ہوں تو مجھے سخت رنج ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے بہت دور جا پڑے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ثواب کا موجب سمجھتے ہیں۔
بعض مولوی مجھے اس لیے دجال کہتے ہیںکہ میں انگریزوں کے ساتھ محاربہ جائز نہیں رکھتا مگر مجھے سخت افسوس ہے کہ یہ لوگ مولوی کہلاکر اسلامؔ کو بدنام کر رہے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ انگریزوں نے تمہارے ساتھ کیا برائی کی ہے۔ اور کیا دُکھ دیا ہے۔شرم کی بات ہے کہ وہ قوم جس کے آنے سے ہم کو ہر قسم کی راحت اور آرام ملا۔جس نے آکر ہم کو سکھوں کے خونخوار پنجہ سے نجات دی اور ہمارے مذہب کی اشاعت کے لیے ہر قسم کے مواقع اور سہولتیں دیں۔اُن کے احسان کا یہ شکر ہے کہ بے گناہ انگریزی افسروں کو قتل کر دیا جائے؟میں تو صاف طور پرکہتا ہوں کہ وہ لوگ جو خون ناحق سے نہیں ڈرتے اور محسن کے حقوق ادا نہیں کرتے۔وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت جوابدہ ہیں۔ان مویولوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع کریں اور نا واقف اور جاہل لوگوں کو فہمائش کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے زیرسایہ وہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہیں اور یہ مبارک سلطنت نیکی اور ہدایت پھیلانے میں کامل مددگار ہے۔پس اس کے خلاف محاربہ کے خیالات رکھنے سخت بغاوت ہے اور یہ قطعی حرام ہے۔وہ اپنے قلم اور زبان سے جاہلوں کو سمجھائیں اور اپنے دین کو بدنام کر کے دنیا کو ناحق کا ضرر نہ پہنچائیں۔ہم تو گورنمنٹ برطانیہ کو آسمانی برکت سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرنا اپنا فرض۔
افسوس ہے مولویوں نے خودتو اس کام کو کیا نہیں اورجب ہم نے ان جاہلانہ خیالات کو دلوں سے مٹانا چاہا ۔تو ہم کو دجال کہا۔صرف اس واسطے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گزار ہیں۔مگر ان کی مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکتی تھی۔ہم نے بیسیوں رسالے اس مضمون کے عربی،فارسی،اردو،انگریزی میں شائع کیے۔اور ہزاروں اشتہار مختلف بلاد وامصار میں تقسیم کر دئیے ہیں۔اس لئے نہیں کہ ہم گورنمنٹ سے کوئی عزت چاہتے ہیں۔بلکہ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اوراگر ہم کواس خدمت کے بجا لانے میں کوئی تکلیف بھی ہو تو ہم پرواہ نہیں کرتے،کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ احسان کی جزا احسان ہے۔پس پوری اطاعت اور وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کی مسلمانوں کا فرض ہے۔‘‘؎۱
مئی۱۹۰۰؁ء
انبیاء میں ہمدردی کا جوش نبی کا آنا ضروری ہوتا ہے۔اس کے ساتھ قوتِ قُدسی ہوتی ہے اور اُن کے دل میں لوگوں کی ہمدردی، نفع رسانیا ور عام خیر خواہی کا
بیتاب کردینے والا جوش ہوتا ہے۔ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لعلک باخع نفسک الا یکونو امومنین (الشعراء:۴) یعنی کیا تُو اپنی جان کو ہلاک کردیگا اس خیال سے کہ وُہ مومن نہیں ہوتے؟ اس کے دو۲ پہلو ہیں ایک کافروں کی نسبت کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے۔ دُوسرا مُسلمانوں کی نسبت کہ اُن میں وُہ اعلیٰ درجہ کی رُوحانی قوت کیوں پیدا نہیں ہوتی۔ جو آپؐ چاہتے ہی؛ چونکہ ترقی تدریجاً ہوتی ہے۔ اس لیے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں، مگر انبیاء کے دل کی بناوٹ بالکل ہمدردی ہی ہوتی ہے اور پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جامع جمیع کمالاتِ نبوت تھے۔ آپؐ میں یہ ہمدردی کمال درجہ پر تھی۔ آپؐ صحابہ کو دیکھ کر چاہتے تھے۔ کہ پوری ترقیات پر پہنچیں۔ لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا۔ آخر صحابہ نے وہ پایا جو دُنیا نے کبھی نہ پایاتھا۔ اور وہ دیکھاجو کسی نے نہ دیکھا تھا۔
سارا مدارمجاہدہ پر ہے سارا مدار مجاہدہ پر ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے: والذین جاھدوافینا لنھد ینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰) جولوگ ہم میں ہوکر کوشش کرتے
ہیں۔ہم اُن کے لیے اپنی تمام راہیں کھول دیتے ہی۔ مجاہدہ کے بُدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر میں چور کو قُطب بنادیا۔ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسی ہی باتوں نے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی کی جھاڑ پھُونک سے کوئی بزرگ بن جاتا ہے۔
جو لوگ خد اکے ساتھ جلدی کرتے ہیں، وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دُنیا میں ہر چیز کی تدریجی ہے۔ رُوحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بُدوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور مجاہدہ بھی وہ ہوجو خداتعالیٰ میں ہو۔ یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضیتیں اورمجاہدہ جو گیوں کی طرح تجویز کربیٹھے۔یہی کام ہے، جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تاکہ مَیں دُنیا کو دکھلادُوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ قانونِ قُدرت ہے۔ نہ سب محروم رہتے ہیں اور نہ سب ہدایت پاتے ہیں۔‘‘ ۱؎
۱۴؍مئی ۱۹۰۰؁ء
صُحبتِ صالحین کی غرض بات یہ ہے کہ مُردوں سے مدد مانگنے کے طریق کو ہم نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ ضعیف الایمان لوگوں کاکام ہے کہ مُردوں
کی طرف رجوع کرتے ہیں اورزندوں سے دُوربھاگتے ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں لوگ اُن کی نبوت کا انکار کرتے رہے اور جس روز انتقال کرگئے تو کہا کہ آج نبوت ختم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مُردوں کے پاس جانے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ بلکہ کونوامعالصادقین(التوبہ:۱۱۹) کاحکم دے کر زندوں کی صُحبت میںرہنے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بارباریہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کرکے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ ایمان دُرست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحبِ ایمان کی صُحبت میں نہ رہے اور یہ اس لیے کہ چونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں ہر قسم کی طبیعت کے موافقِ حال تقریر ناصح کے مُنہ سے نہیں نکلا کرتی۔ کوئی وقت ایسا آجاتا ہے کہ اس کی سمجھ اور فہم کے مطابق اُس کے مذاق پر گفتگو ہوجاتی ہے۔ جس سے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اگر آدمی باربار نہ آئے اور زیادہ دِنوں تک نہ رہے، تو ممکن ہے کہ ایک وقت ایسی تقریر ہوجو اُس کے مذاق کے موافق نہیں ہے۔ اور اُس سے اُس میں بددلی پیداہوور وُہ حسنِ ظن کی راہ سے دُور جاپڑے اور ہلاک ہوجاوے۔
غرض قرآن کریم کے منشاء کے موافق تو زندوں ہی کی صُحبت میں رہنا ثابت ہوتا ہے۔
مددخداتعالیٰ سے ہی مانگنی چاہیے اور استعانت کے متعلق یہ بات یادرکھنا چاہیے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآن
کریم نے زوردیا ہے ؛ چنانچہ فرمایا کہ ایاک نعبدوایاک نستعین (الفاتحہ:۵) پہلے صفاتِ الہٰی رب، رحمن، رحیم، مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا۔ پھر سکھایا ایاک نعبدو ایاک نستعین یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ کسی انسان، حیوان، چرند پرند غرض کہ کسی مخلوق کے لئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے مگر ہاں دوسرے درجہ پر ظلی طور یہ حق اہل اللہ اور مردانِ خدا کو دیا گیا ہے۔ ہم کو نہیں چاہیے کہ کوئی بات اپی طرف سے بنالیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے اندراندررہنا چاہیے۔ اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے اور یہ امر لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ سے بھی بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس کے پہلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب و معبوداور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے۔
رسالتِ محمدّیہ کی حقیقت دُوسرے حصے سے رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا اظہارہو۔ یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ رسالت میں ایک امر ظاہر
ہوتا ہے اور ایک مخفی ہوتا ہے۔مثلاً لاالہ الااللہ ایک کلمہ ہے جسے رسالت مآب نے بایں الفاظ لوگوں کو پہنچایا ہے۔ لوگ مانیں یا نہ مانیں۔ یعنی رسالت کا کام صرف پہنچادینا تھا۔ مگررسالت کے یہ ظاہری معنی ہیں۔ ہم جب اور زیادہ غور کرکے بطون کی طرف جاتے ہیں، تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جو لاالہ الا اللہ کے ساتھ بطور ایک جزوغیرمنفک کے شامل ہوتی ہے۔ یہ صورت ابلاغ تک ہی محدود نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوتِ قدسیہ کے زور سے اس تبلیغ کو بااثر بنانے میں لانظیر نمونہ دکھایا ہے۔
نبی کی مادرانہ عطوفت اورقرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپؐ کو کس قدر سوزش اور گدازش لگی ہوئی تھی؛ چنانچہ فرمایا۔ لعلک باخع نفسک الا
یکونوامومنین(الشعراء:۴) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس فکر میں کہ یہ مومن کیوں نہیں بنتے۔ یہ پکی بات ہے کہ ہر نبی صرف لفظ لے کر نہیں آتا، بلکہ اپنے اندر وۃ ایکک درد اور سوز وگداز بھی رکھتا ہے، جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے۔ اور یہ درد اور اضطراب کبھی بناوٹ سے نہیں ہوتا، بلکہ فطرتاً اضطراری طور پر اس سے صادر وہت اہے، جیسے ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں مصروف ہوتی ہے۔ اگر بادشاہ کی طرف سے اُس کو حکم بھی دیا جاوے کہ اگر وُہ اپنے بچے کو دودھ نہ بھی دے اور اس طرح پر اُس کے ایک دو بچے مربھی جاویں تو اس کو معاف ہیں اور اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ تو کیا بادشاہ کے ایسے حکم پر کوئی ماں خوش ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ۔ بلکہ بادشاہ کو گالیاں دے گی اوردُودھ دینے سے رُک سکتی ہی نہیں۔ یہ بات اس کی طبیعت میں طبعاً موجود ہے اور دُودھ دینے میں اس کو کبھی بھی بہشت میں جانا یااُس کا معاوضہ پانا مرکوز اور ملحوظ نہیں ہوتا اوریہ جوش طبعی ہے جو اُس کو فطرت نے دیا ہے۔ ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی، تو چاہیے تھا کہ جانوروں کی مائیں بکری بھینس یا گائے یا پرندوں کی مائیں اپنے بچوں کی پرورش سے علیٰحدہ ہوجائیں۔ ایک فطرت ہوتی ہے، ایک عقل ہوتی ہے اور ایک جوش ہوتا ہے۔ مائوں کا اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف ہونا یہ فطرت ہے اس طرح پر مامورین جوآتے ہیں اُن کی فطرت میں بھی ایک بات ہوتی ہے ۔ وُہ کیا؟مخلوق کے لئے دلسوزی اور بنی نوح انسان کی خیر خواہی کے لیے ایک گدازش۔ وہ طبعی طور پر چاہتے ہیں کہ لوگ ہدایت پاوجاویں اور خداتعالیٰ میں زندگی میں زندگی حاصل کریں۔
پس یہ وہ ستر ہے جو لاالہ الا اللہ ممدرسول اللہ کے دُوسرے حصہ میں یعنی اظہار رسالتِ محمدیہ میں رکھا ہو اہے، جیسے پیغام پہنچانے والے عام طور پر پیغام پہنچادیتے ہیں ہیں اور اس بات کی پروانہیں کرتے کہ اس پر عمل ہو ہ ہو۔ گویا وُہ تبلیغ صرف کان ہی تک محدود ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے مامورین الہٰی کان تک بھی پہنچاتے ہیں اور اپنی قدسی قوت کے زور اور ذریعہ سے دل تک بھی پہنچاتے ہیں اور یہ بات کہ جذب اورعقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتاہے اور ظل اللہ بنتا ہے۔پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیھم السلام سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے آپ ؐ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتا۔وہ سخت گراں ہی اور اُسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں۔ ان ساری باتوں کو یکجائی طور پر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اوّل خداتعالیٰ مدددیتا ہے۔ پھر دُوسرے درجہ پر مامور من اللہ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں جوش ڈالا ہے اور وہ اِسی جوش اورتقاضائے فطرت کے ساتھ مخلوق کی بہتری میں ہر ایک قسم کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس لیے کہ والدہ کا نفس مزکی نہیں ہے اور یہ مزکی النفس لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں کو صادقین اس آیت کونوامع الصادقین میں فرمایا گیا ہے۔
منعم علیہ گروہ اب مَیں سورۃ فاتحہ کی طرف رُجوع کرکے کہتا ہوں کہ اھدناالصراط المستقیم (الفاتحہ:۶) میں انعمت علیھم کی راہ طلب کی گئی ہے او رمَیں نے کئی
مرتبہ یہ بات بیان کی ہے کہ انعمت علیھم میں چاروں گروہوں کا ذکر ہے۔ نبی۔ صدیق، شہید، صالح۔ پس جبکہ ایک مومن یہ دُعا مانگتا ہے، تو ان کے اخلاق اور عادات اورعلُوم کی درخواست کرتا ہے۔ اس پر اگر ان چارگروہوں کے اخلاق حاصل نہیں کرتا، تو یہ دُعااُس کے حق میں بے ثمرہوگی اور وُہ بے جان لفظ بولنے والا حیوان ہے۔ یہ چارطبقے ان لوگوں کے ہیں، جنہوں نے خداتعالیٰ سے علومِ عالیہ اور مراتب عظیمہ حاصل کیے ہیں۔ نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حدتک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے ہم کلام کرتے ہیں اور وحی پاتے ہیں اور صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں۔سب سے بڑا صدق لا الہ اللہ ہے اور پھر دوسرا صدق محمد رسول اللہ ہے۔وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں۔تیسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو شہید کہلاتے ہیں۔وہ گویا کدا تعالٰٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں شہید وہ ہی نہیں ہوتا جو قتل ہو جائے۔کسی لڑائی یا وبائی امراض میںمارا جائے،بلکہ شہید ایسا قوی الایمان انسان ہوتا ہے،جس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ ہو۔صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہتا ہے۔جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزا بھی درست ہوتا ہے۔پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے۔کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا ۔اسی طرح پرصالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا ۔اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے اور شہید،صدیق،نبی کا کمال ثبوتی ہے ۔شہید ایمان کو ایسا قویٰ کرتا ہے۔گویا خدا کو دیکھتا ہے۔صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا ہے اور کذب سے پرہیز کرتا ہے۔اور نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ روائی الہی کے نیچے آجاتا ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمال کسی اور دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکتا اور مولوی یا علماء کہتے ہیں کہ بس ظاہری طور پر کلمہ پڑھ لے اور نماز روزہ کے احکام کا پابند ہو جائے اور اس سے زیادہ ان احکام کے ثمرات اور نتائج کچھ نہیں اور نہ ان میںکچھ حقیقت ہے۔یہ بڑی بھاری غلطی ہے اور ایمانی کمزوری ہے۔انہوںنے رسالت کے مدعا کو نہیں سمجھا ۔
مامورین کی غرض اللہ تعالیٰ جو ماموروں اور مرسلوں کو خلق اللہ کی ہدایت کے واسطے بھیجتا ہے۔کیا اس لئے بھیجتا ہے کہ لوگ ان کی پرستش کریں۔نہیںبلکہ ان کو
نمونہ بنا کر بھیجتا ہے۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بادشاہ اپنے ملک کے کاریگروں کو کوئی تلوار دے تو اس کی مراد یہی ہے کہ وہ بھی دیسی تلوار بنانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو مامور اور مرسل ہوتے ہیں۔اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ سے متصف بناتا ہے۔اور دنیا کی طرف مامور کرتا ہے۔تا لوگ ان کے اخلاق اور کمالات سے حصہ لیں اور اسی طرز روش پر چلیں۔کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک فائدہ پہنچاتے ہیں،جب تک زندہ ہوں۔ گزرنے کے بعد تبتل ہوجاتا ہے۔اسی واسطے صوفی لوگ کہتے ہیں کہ زندہ بلی مردہ شیر سے بہتر ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:الر کتب احکمت ایتُہ(ھود:۲)الف سے مراد اللہ اور ل سے مراد جبرائیل اور ر سے مراد رسل ہیں۔چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کونسی چیزیں انسان کو ضروری ہیں۔اس لئے فرمایا کتب احکمت ایتُہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پکی اور استوار ہیں۔
استحکام کتاب اللہ قرآن کریم کی تعلیموں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح پر مستحکم کیا،تاکہ کسی قسم کا شک نہ رہے۔اور اسی لیے شروع میں فرمایا لاریب فیہ(البقرہ:۳)یہ
استحکام کئی طور پر کیا گیاہے۔
اولاً۔قانون قدرت سے استواری اور استحکام قرآنی تعلیموں کاکیاگیا۔جو کچھ قرآن میں بیان کیا گیا ہے قانون قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے ۔گویا جو قرآن میں ہے،وہی کتاب مکنون میں ہے۔اس کا راز انبیاء علیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا اور یہی وہ سرّہے جولایمسہ الاالمطھرون(الواقعتہ:۸۰) میں رکھا گیا ہے۔غرض پہلے قرآنی تعلیم کو قانون قدرت سے مستحکم کیا ہے۔مثلاًقرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت وحدہ لاشریک بتلائی۔جب ہم قانون قدرت میں نظر کرتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ضرور ایک ہی خالق ومالک ہے۔کوئی اس کا شریک نہیں۔دل بھی اسی ہی مانتا ہے اور دلائل قدرت سے بھی اسی کا پتہ لگتا ہے ،کیونکہ ہرایک چیز جو دنیا میں موجودہے وہ اپنے اندر کرویت رکھتی ہے۔جیسے پانی کا قطرہ اگر ہاتھ سے چھوڑیں،تو وہ کروی شکل توحید کو مستلزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ پادریوں کو بھی ماننا پڑا کہ جہاں تثلیث کہ تعلیم نہیں پہنچی وہاں کے رہنے والوں سے توحید کی پرتش ہو گی ۔چنانچہ پادری فنڈرؔ نے اپنی تصنیفات میں اس امر کا اعتراف کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم دنیا میںنہ بھی ہوتا ،تب بھی ایک ہی خدا کی پرستش ہوتی۔اس سے معلوم ہواکہ قرآن کریم کا بیان صحیح ہے،کیو نکہ اس کا نقش انسانی فطرت اور دل میں موجود ہے اور دلائل قدرت سے اس کی شہادت ملتی ہے۔بر خلاف اس کے انجیلی تثلیث کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانونقدرت اس کا مویّد ہے۔
یہی معنے ہیںکتب احکمت ایتہ کے۔یعنی قانون قدرت سے اس کی تعلیموں کو ایسا مستحکم اور استوار کیا گیا ہے کہ مشرک وعیسائی کو بھی ماننا پڑا کہ انسان کے مادہ فطرت سے توحید کی باز پرس ہو گی۔
دوسری وجہ استحکام کہ خداتعالیٰ کے نشانات ہیں،کوئی مامور دنیا میں ایسا نہیں آتا۔جس کے ساتھ تائیدات الہی شامل نہ ہوں اور یہ تائیدت اور نشانات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت پرشوکت اور پرقوت تھے۔آپؐ کے حرکات سکنات میں ،کلام میں نشانات تھے۔گویا آپؐ کا وجودازسرتاپانشانات الہی کا پُتلا تھا۔
تیسرا اِحکام نبی کا پاک چال چلن اور راستبازی ہے یہ منجلُہ ان باتوں کے ہے جو عقلمندوں کے نزدیک امین ہونا بھی ایک دلیل ہے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس سے دلیل پکڑی۔
چوتھا احکام جوایک زبردست وجہ استواری اور استحکام کی ہے۔ نبی کی قوت قدسیہ ہے۔ جس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ جیسے طیب خواہ کتنا ہی دعویٰ کرے کہ مَیں ایسا ہوں اور اس کو سدیدی خواہ نوکِ زبان ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر لوگوں کو اُس سے فائدہ نہ پہنچے تو یہی کہیں گے کہ اُس کے ہاتھ میںشِفا نہیں ہے۔ اسی طرح پر نبی کی قوتِ قدسی جس قدر زبردست ہو۔ اُسی قدر اُس کی شان اعلیٰ اور بلند ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے استحکام کے لئے یہ پشتیبان بھی سب سے بڑا پشیتبان ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ تقدسی اس درجہ پہ پہنچی ہے کہ اگر
تمام انبیاء علیھم السلام کے مقابلہ میں دیکھیں ، تو معلوم ہوگا کہ آپؐ کے مقابلہ میں کچھ نہیں کیا۔یہودی دُنیا کے کتے ہیں۔ عیسائیوں کو دیکھو تو وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے چشمے سے دُور جاپڑے۔ کوئی حضرت مریم ؑ کی پرستش کرتا ہے ۔ کوئی مسیح ؑ کو خداجانتا ہے اور دُنیا پرستی ہی شب و روز کا شغل اور کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیارکردہ جماعت کو اگر دیکھا جاوے، تو وہ ہمہ تن خدا ہی کے لئے نظر آتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں کوئی نظیر نہیں رکھتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپؐ ایک کام کے لئے آئے اور اُسے پورا کرکے اس وقت دُنیا سے رُخصت ہوتے جس طرح بندوبست والے پورے کاغذات پانچ برس میں مرتب کرکے آخری رپورٹ کرتے ہیں اورپھر چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ اُس دن سے لے کر جب قم فانذر(المدثر:۳) کی آواز آئی۔ پھر اذا جاء نصر اللہ (النصر:۲) الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ:۴) کے دن تک نظر کریں، تو آپؐ کی لانظیر کامیابی کا پتہ ملتاہے۔ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ خاص طور پر مامور تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو اپنی زندگی میں وہ کامیابی نصیب نہ ہوئی جو اُن کی رسالت کا منتہا تھی۔ وہ ارضِ مقدس اور موعود سرزمین کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکے، بلکہ راہ ہی میں فوت ہوگئے۔ کافر کب مان سکتا ہے اور ایک بے ایمان آدمی راہ میں فوت ہوجانے اور وعدہ کی زمین میں نہ پہنچ سکنے کی وُجوہات کب سننے لگا۔ وُہ تو یہی کہے گا کہ اگر مامور تھے، تو وہ وعدے زندگی میں کیوں پورے نہ ہوئے۔ سچی بات یہی ہے کہ سب نبیوں کی نبوت کی پردہ پوشی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی۔
تصویر یُسوع ایسا ہی مسیح علیہ السلام کی زندگی پر نظرکرو۔ ساری رات خود دُعا کرتے رہے۔ دوستوں سے کراتے رہے۔ آخر شکوہ پر اُترآئے اور ایلی ایلی لما سبقتنی
بھی کہہ دیا۔ یعنی اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اب ایسی حسرت بھری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مامُور من اللہ ہے۔ جو نقشہ پادریوں نے مسیح کی آخری حالت کا جما کردکھایا ہے، وُہ تو بالکل مایُوسی بخشتا ہے۔
لافیں تو اتنی تھیں کہ خدا کی پناہ اور کام کچھ بھی نہ کیا۔ ساری عمر میں کل ایک سو بیس آدمی تیار کیے اور وہ بی ایسے پست خیال اور کم فہم جو خدا کی بادشاہت کی باتوں کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے اور سب سے بڑا مصاحب جس کی بابت یہ فتوی تھا کہ جو زمین پر کرے، آسمان پر ہوت اہے اور بہشت کی کنجیاں جس کے ہاتھ یں تھیں۔ اُسی نے سب سے پہلے *** کی۔ اور وہ جو امین اور خزانچی بنایا ہوا تھا۔ جس کو چھاتی پر لٹاتے تھے، اُسی نے تیس درم لے کر پکڑوادیا۔ اب ایسی حالت میں کب کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسیح ؑ نے واقعی ماموریت کا حق ادا کیا۔
اور اس کے مقابل ہمارے نبی کریم ؐ کا کیساپکا کام ہے اس وقت سے جب سے کہا کہ مَیں ایک کام کرنے کے لئے آیا ہوں۔جب تک یہ نہ سُن لیا کہ الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴) آپ ؐ دُنیا سے نہ اُٹھے۔ جیسے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً (الاعراف: ۱۵۹) اس دعویٰ کے مناسب حال یہ ضروری تھ اکہ کل دنیا کے مکرو مکاید متفق طور پر آپ ؐ کی مخالفت میں کیے جاتے۔ آپؐ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کرکے کہا کہ فکیدونی جمیعاً (ہود:۵۶) یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو۔ سارے فریب مکر استعمال کرو۔ قتل کے منصوبے کرو۔ اخراج اور قید کی تدبیریں کرو، مگر یادرکھو سیھزم الجمع ویوتون الدبر(القمر:۴۶) آخری فتح میری ہے۔ تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔ تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہوجاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی۔ جیسے وہ عظیم الشان دعویٰ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً کسی نے نہیں کیا اور جیسے فکیدونی جمیعاً کہنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا۔ سیھزم الجمع ویولون الدبر یہ الفاظ اسی کے منہ سے نکلے جو خداتعالیٰ کے سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہو اپڑاتھا۔
غرض ان وجوہات پر ایک اجنبی آدمی بھی نظر ڈالے تو اُس کومعلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے صاف اورواضح طور پر کتاب اللہ کو مضبوط دمستحکم فرمایا ہے۔ اگر کوئی قانونِ قدرت پر نظر کرتا ہے، تو قول اور فعل کو باہم مطابق پاتا ہے۔ پھر اگر خوراق پر نظرکرتا ہے تو اِس قدر کثرت سے ہیں کہ حدِ شمار سے باہر ہیں۔ یہانتک کہ آپ ؐ کاقول و فعل اور حرکات وسکنات سب خوراق ہیں۔ قوتِ قُدسیہ کو دیکھتا ہے توصحابہ کرام ؓ کی پاک تبدیلی حیرت میں ڈالتی ہے۔پھر کامیابی کو دیکھتا ہے تو دُنیا بھر کے ماموروں اور مُرسلوں سے بڑھ کر تھے۔
اِن وجوہات احکام آیات کے علاوہ میرے نزدیک اور بھی بہت سے وجوہات ہیں۔ منجملہ ان کے ایک الٓرٰ کے لفظ رٰ سے پتہ لگتا ہے کہ یہ لفظ مجددوں اور مُرسلوں کے سلسلۂ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے۔ اب اس سلسلہ میں آنے والے مجددوں کے خوراق ان کی کامیابیوں ، ان کی پاک تاثیروں وغیرہ وجوہات احکام آیات کو گن بھی نہیں سکتے۔
متبعین کی کامیابیاں متبوع کی ہی کامیابیاں ہوتی ہیں اور یہ سب خوراق اور کامیابیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعد آپؐ کے متبعین مجددوں کے ذریعہ سے ہو ئیں اور قیامت تک ہوں گی،درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کامیابیاں ہیں۔ غرض ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا صاف طور پر بتلارہا ہے کہ مرُدوں سے استمداد خداتعالیٰ کی منشاء کے موافق نہیں۔ اگر مُردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی، تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں ہزار جو اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں، اس کا کیا مطلب تھا؟ مجددین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جاتا ؟ اگر اسلام مُردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقینا سمجھو کہ اس کا نام و نشان مِٹ گیا ہوتا۔ یہودیوں کا مذہب مُردوں کے حوالے کیا گیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائیوں نے مُردہ پرستی سے بتلائو کیا پایا؟ مُردوں کو پُوجتے پُوجتے خود مردہ ہوگئے۔ نہ مذہب میں زندگی کی رُوح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے۔ اول سے لے کر آخر تک مُردوں ہی کا مجمع ہوگیا۔
اسلام کا حیّ وقیوم خدا اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ اسلام کا خدا حی وقیوم خداہے۔ پھر وُہ مُردوں سے پیار کیوں کرنے لگا۔ وہ حی و قیوم خداتعالیٰ بار بار مُردوں کو
جلاتا ہے ۔یحی الارض بعد موتہا (الحدید:۱۸) تو کیا مُردوں کے ساتھ تعلق پیدا کراکرجلاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حی وقیوم خدا نے انالہ لحافظون(الحجر:۱۰) کہہ کر اُٹھایا ہو اہے۔ پس ہرزمانہ میں یہ دین کی حفاظت کا ذمہ اسی حی وقیوم خدا نے انالہ لحافظون (الحجر:۱۰) کہہ کراُٹھایاہوا ہے۔ پس ہرزمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے۔ یادرکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں۔
قرآن کریم کی تفصیل پھر فرمایا ثم فصلت۔ ایک تو وہ تفصیل ہے، جو قرآن کریم میں ہے۔ دُوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف وحقائق کے اظہارکا سلسلہ
قیامت تک دراز کیا گیا ہے۔ ہرزمانے میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ فلسفی اپنے رنگ میں ، طبیب اپنے مذاق پر، صُوفی اپنے طرز پربیان کرتے ہیں اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم و خبیر خدا نے رکھی ہے۔ حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہوا ور پھر عمل بھی کامل ہو۔ ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل وموقع پر رکھ سکے۔ حکمت کے معنی وضع الشیٔ فی محلہ اور کبیر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا۔ وُہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر یہ تعلیمیں ذہن نشین کرنی چاہیں؛ چنانچہ اسی کے مطابق تفاصیل کی ہیں۔ پھر اس کا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجدد و مصلح احیائِ دین کے لئے آتے ہیں، وُہ خودمفصّل آتے ہیں۔
قرآن کریم کا خلاصہ اور مغز اس کے بعد ایک عجیب سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی ہے یعنی اس قدرتفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں۔ان کا
خُلاصہ اور مغز کیا ہے الا تعبدووالا اللہ(ہود:۳) خداتعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذریات:۵۷)
عبادت کی حقیقت عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت ، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے، جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا
ہے۔ عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہوکہ گویا رُوح ہی رُوح ہو۔ اس کا نام عبادت ہے؛ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی جاوے، تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے، تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہوجاتے ہیں۔ پس انسان جو عبدادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری ،کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدانظرآئے گا۔
مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہوکر نشوونما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں وطیب ان میں لگیں گے۔ جو اکلہاد الم (الرعد:۳۶) کے مصداق ہوں گے۔ یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے، جہاں صُوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے۔ جب سالک یہاں پہنچتا ہے، تو خدا ہی کا جلوہ دیکھتا ہے۔ اس کا دل عرش الہٰی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر نزول فرماتا ہے۔ سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہوجاتی ہیں کہ انسان کی حالتِ تعبددرست ہو، جس میں رُوحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے۔ اسی مقام پر پہنچ کر انسان دُنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی ھذا الذی رزقنا من قبل واتوابہ متشابھاً (البقرہ:۲۶) کہنے کا حظ اور لُطف اُٹھاتا ہے۔
غرض حالتِ تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے، پھر فرمایا: اننی لکم منہ نذیر وبشیر(ھود:۳) چونکہ یہ تعبد تام کا عظیم الشان کام انسان بدُوں کسی اُسوہ ٔ حسنہ اور نمونہ ٔ کاملہ کے اور کسی قوتِ قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کرسکتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَیں اسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر ہوکر آیاہوں۔ اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول کرو گے تو تمہارے لیے بڑی بڑی بشارتیں ہیں۔ کیونکہ مَیں بشیر ہوں اور اگر رَدّ کرتے ہو تو یادرکھو کہ مَیں نذیر ہوکر آیا ہوں۔ پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دُکھوں کا سامنا ہوگا۔
بہشت اور جہنم اصل بات یہ ہے کہ بہشتی زندگی اِسی دُنیا سے شروع ہوجاتی ہے اور اسی طرح پر کو رانہ زیست جو خداتعالیٰ اور اس کے رسول سے بالکل الگ ہوکربسر کی
جائے ۔ جہنمی زندگی کا نمونہ ہے او روہ بہشت جو مرنے کے بعد ملے گا، اسی بہشت کا اصل ہے۔ اسی لیے تو بہشتی لوگ نعماء جنت کا حظ اُٹھاتے وقت کہیں گے۔ ھذاالذی رزقنا من قبل (البقرہ:۲۶) دُنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے۔وقد افلح من زکھا (الشمس:۱۰) پر عمل کرنے سے ملتا ہے۔ جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کرلیتا ہے، تو خداتعالیٰ کے انعام واکرام کا پاک سلسلہ جاری ہوجاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مُردن ظاہری۔ مرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وُہ اب رُوحانی طور پر پاتا ہے۔ پس یادرکھو کہ جب تک بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع نہ ہو۔ اورا س عالم میں اُس کا حظ نہ اُٹھائو۔ اُس وقت تک سیر نہ ہو اور تسلی نہ پکڑو۔ کیونکہ وُہ جو اس دنیا میں کچھ نہیں پاتا اور آئندہ جنت کی اُمید کرت اہے وہ طمع خام کرتا ہے۔ اصل میں وُہ من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل:۷۳) کا مصداق ہے۔ اس لیے جب تک ماسوی اللہ کے کنکر اورسنگریز ے زمین دِل سے دُور نہ کرلو اور اُسے آئینہ کی طرح مُصفااور سرمہ کی طرح باریک نہ بنالو۔ صبر نہ کرو۔
مُرشدِ کامل کی ضرورت ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کی مُزَ کی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طَے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اس کے انتظام و انصرام کے لئے
کے لئے اللہ تعالیٰ نے کاملِ نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپؐ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا، تاکہ ناعاقبت اندیش برہموئوں کا رَدّ ہو۔ جیسے یہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے۔ ملائی (گوڈی دینے) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا۔ اسی طرح پر یہ زمینداری جو رُوحانی زمینداری ہے۔ کاملِ طور پر کوئی نہیں کرسکتا، جب تک کسی کامل انسان کے ماتحت نہ ہو۔ جو تخمریزی، آبپاشی، ملائی کے تمام مَرحلے طے کرچکاہو۔ اسی طرح سے معلوم ہوتاہے کہ مُرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے۔ مُرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے، جیسے ایک نادان و ناواقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہو ااصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں سمجھتا ہے کہ وُہ گوڈی کررہا ہے۔ یہ گمان ہر گز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجائے گی۔ نہیں جب تک رسول نہ سکھلائے۔ انقطاع الی اللہ اور تبتلِ تام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اِستغفار اورتوبہ پھر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیونکہ حل ہو۔ اس کا علاج خود ہی بتلایا وان استغفر واربکم ثم توبواالیہ (ھود:۴) یادرکھو کہ یہ دوچیزیں
اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوتِ حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صُوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے او رپھرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان کو اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے۔خداتعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اُن پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔
یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں۔ ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دُوسراتریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تیئں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا۔ تو سمی قوت غالب آجاتی ہے، لیکن جب اپنے تیئں ذلیل و حقیر سمجھتا اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے۔جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے۔اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔یعنی یہ کہ اس وقت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے۔
غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو۔اول رسول کی اطاعت کرو دوسرے ہر وقت خدا سے مدد مانگو ۔ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو۔جب قوت مل گئی تو توبو الیہ یعنی خدا کی طرف رجوع کرو۔
استغفار کو توبہ پر تقدم حاصل ہے استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ایک وجہ تو استغفار کو توبہ پر تقدم ہے۔کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خداسے
حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا،تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس وقت کے بعد انسان اپنے پاوں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس کے پاس ایک وقت پیدا ہو جائے گی۔جس کا نام تو بو الیہ ہے۔اس لئے طبعی طور پر یہی ترتیب ہے۔غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے ۔سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا ،کیا کر سکے گا۔توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے ۔اگر استغفار نہ ہو،تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے ۔پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے،تو نتیجہ یہ ہو گا ۔یمتعکم متا عا حسناً الی اجل مسمی(ھود:۴)سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے۔جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے۔ہر ایک آدمی نبی رسول صدیق شہید نہیں ہو سکتا۔
غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امر حق ہے۔اس کے ااگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواظبت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پا لے گا۔یہی مطلب ہے اس آیت کا و یوت کل ذی فضل فضلہ(ھود:۴)لیکن اگر زیاوت لے کر آیا ،توخدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا اور اپنے فضل کو پا لے گا،جو طبعی طور پر اس کا حق ہے۔ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے۔مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ محروم نہ رکھے گا۔
بعض لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ میاں ہم نے کوئی ولی بنانا ہے؟جو ایسا کہتے ہیں وہ دنی الطبع کافر ہیں۔انسان کو مناسب ہے کہ قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر کام کرے۔
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں اب ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ُمردوں سے مددمانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں ہے کیا ،بلکہ زندوں کا ہی ذکر کیا ہے۔خدا
تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا ۔اگر اسلام کو مُردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیاآفت آتی۔مُر دوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔کیا ملتان میں قبریں تھوڑیں ہیں ۔’’گردو گرما گداد گو رستان۔‘‘اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار بار ملتان گیا ۔جہاں کس کی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔پاک پٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے؟اجمیر میں جا کر دیکھو۔بد عات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے۔غرض جب مُردوں کو دیکھو گے اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہدہ میں سوا بد عات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ نے جو صراط مستقیم فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے،مُردوںکی راہ نہیں۔پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حیی القیوم خدا کو پائے،تو وہ زندوں کو تلاش کرے،کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مُردہ،جن کی کتاب مُردہ،وہ مُردوں سے برکت پائیں،تو کیا تعجب ہے۔لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ ہے،جس کا نبی زندہ نبی،جس کی کتاب زندہ کتا ب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو۔وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوںاور قبروںکی تلاش میں سر گرداںہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!!!
زندوں کی صحبت تلاش کرو پس تم کو چاہیے کہ تم زندوں کی صحبت تلاش کرو اور باربار پاس کے پاس آکر بیٹھو۔ ہاں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دو مرتبہ میں
تاثیر نہیںہوتی۔ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ترقی تدریجاً ہوتی ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوئی۔ جو سلسلہ منہاج نبوۃ پر قائم ہوگا۔ اس میں بھی تدریجی ترقی کا قانون کام کرتا ہوگا۔ پس چاہیے کہ صحابہ ؓ کی طرح اپنے کاروبار چھوڑ کر یہاں آکر بار بار اور عرصہ تک صُحبت میں رہو تاکہ تم دیکھو جو صحابہ ؓ نے دیکھ اور پائو جو ابوبکر ؓ اور عمرؓ اور دیگر رضی اللہ عنہم نے پایا۔ کسی نے سچ کہا ہے:
یاتُوں لوڑ مقدمی یا توُں اللہ نُوں لوڑ
تم دیکھتے ہوکہ میں بیعت مَیں یہ اقرار لیتاہوں کہ دین کو دُنیا پر مقدم رکھوں گا۔ یہ اس لیے تاکہ مَیں دیکھو ں کہ بیعت کنندہ اس پر کیا عمل کرتاہے؟ ذرہ سی نئی زمین کسی کو مل جاوے تو وُہ گھربار چھوڑ کر وہاں جابیٹھتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ وہ وہاں رہے تاوہ زمین آباد ہو۔ محمد حسین جیسے کو بھی بار میں جاکر ٹھہرنے کی ضرورت آپڑی۔ پھر ہم جو ایک نئی زمین اور ایسی زمین دیتے ہیں جس میں اگر صفائی اور محنت سے کاشت کی جاوے ، تو ابدی پھیل لگ سکتے ہیں۔کیوں یہاں آکر لوگ گھر نہیں بناتے اور اگر اس بے احتیاطی کے ساتھ اس زمین کو کوئی لیتا ہے کہ بیعت کے بعد یہاں آنا اور چندروز ٹھہرنا بھی دوبھر اور مشکل معلوم دیتا ہے تو پھر اس کی فصل کے پکنے اور بارآور ہونے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے۔ خداتعالیٰ نے قلب کا نام بھی زمین رکھا ہے۔ اعلمو اان اللہ یحی الارض بعد موتہا (الحدید:۱۸) زمیندار کو کس قدر ترددد کرنا پڑتا ہے ۔ بیل خریدتا ہے۔ ہل چلاتا ہے۔ تخمریزی کرتا ہے۔ آبپاشی کرتا ہے۔ غرض کہ بہت بڑی محنت کرت اہے اور جب تک کود دخل نہ دے کچھ بھی نہیں بنتا۔ لکھا ہے کہ ایک شخص نے پتھر پر لکھا دیکھا۔ زرع زر ہی زر ہے۔‘‘ کھیتی تو کرنے لگا، مگر نوکروں کے سُپرد کردی۔ لیکن جب حساب لیا۔ کچھ وصول ہونا تو درکنار کچھ واجب الادا ہی نکلا۔ پھر اُس کو اس موقعہ پر شک پیدا ہوا تو کسی دانشمند نے سمجھایا کہ نصیحت تو سچی ہے، لیکن تمہاری بے وقوفی ہے۔ خود مہتمم بنو، تب فائدہ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح پر ارضِ دل کی خاصیت ہے جو اُس کو بے عزتی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کو خداتعالیٰ کا فضل اور برکت نہیں ملتی۔ یادرکھو، مَیں جو اصلاحِ خلق کے لئے آیا ہوں جو میرے پاس آتا ہے وہ اپنی استعداد کے موافق ایک فضل کا وارث بنتا ہے، لیکن مَیں صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ جو سرسری طور پر بیعت کرکے چلا جاتا ہے اور پھر اُس کا پتہ بھی نہیں ملتا کہ کہاں ہے اور کیا کرتاہے۔ اُس کے لئے کچھ نہیں ہے وہ جیساتہی دست آیا تھا، تہی دست جاتا ہے۔
یہ فضل اور برکت صُحبت میں رہنے سے ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ ؓ بیٹھے۔ آخرنتیجہ یہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اللہ فی اصحابی۔ گویا صحابہ ؓ خدا کا رُوپ ہوگئے۔ یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ اُن کو ملتا۔ اگر دُور ہی بیٹھے رہتے۔ یہ بہت ضروری مسئلہ ہے ۔خدا کاقُرب ، بندگانِ خدا کاقرب ہے اور خداتعالیٰ کا ارشاد کونوامع الصادقین(التوبہ:۱۱۹) اس پر شاہد ہے۔ یہ ایک سر ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں۔ مامورمن اللہ ایک ہی وقت میں ساری باتیں کبھی بیان نہیں کرسکتا، بلکہ وُہ اپنے دوستوں کے امراض کی تشخیص کرکے حسبِ موقع اُن کی اصلاح بذریعہ وعظ و نصیحت کرتارہتاہے اور وقتاً فوقتاً وہ اُن کے امراض کا ازالہ کرتا رہتا ہے۔ اب جیسے آج میں ساری باتیں بیان نہیں کرسکتا۔ ممکن ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں، جو آج ہی تقریر سُن کر چلے جاویں اور بعض باتیں اس میں اُن کے مذاق اور مرضی کے خلاف ہوں، تو وُہ محروم گئے، لیکن جو متواتر یہاں رہتا ہے۔ وُہ ساتھ ساتھ ایک تبدیلی کرتا جاتا ہے اور آخر اپنے مقصد کو پالیتا ہے۔ ہر ایک آدمی سچی تبدیلی کا محتاج ہے۔ جس میں تبدیلی نہیں ہے، وہ من کان فی ھذہٖ اعمیٰ کا مصداق ہے۔
جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو مجھے بہت سوزو گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو۔ جو نقشہ اپنی جماعت کی
تبدیلی کامیرے دل میں ہے وُہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوامومنین۔(الشعراء:۴) مَیں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لیے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔ ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیح ؑ کہ وفات حیات پر جھگڑے اور مباحثہ کرتے پھرو۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے۔ یہ تو ایک غلطی تھی، جس کی ہم نے اصلاح کر دی، لیکن ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اس سے بہت دُورہے اور وُہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیداکرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جائو، اس لیے ہر ایک کوتم میں سے ضروری ہے کہ وُہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ مَیں پھرکہتا ہوں کہ یقینا یقینا جب تک ایک مدت تک ہماری صُحبت میں رہ کر یہ نہ سمجھے کہ مَیں اور ہوگیا ہوں، اسے فائدہ نہیں پہنچتا۔
فطرت اور عقلی حالت اور جذبات کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل ہوجاوے، تم کچھ بات ہے؛ ورنہ کچھ بھی نہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ دُنیا کے اشغال چھوڑ دو۔ خداتعالیٰ نے دُنیا کے شغلوں کے جائز رکھا ہے، کیونکہ اس راہ سے بھی ابتلاآتا ہے اور اسی ابتلا کی وجہ سے انسان چور، قمارباز،ٹھگ، ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بُری عادتیں اختیار کرلیتا ہے، مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ دینوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لیے مددکا سامان پیدا کرسکیں اور مقصُود بالذات اس میں دین ہی ہو۔ پس ہم دینوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ دن رات دُنیا کے دھندوں اور بکھیڑوں میںمنہمک ہوکر خداتعالیٰ کا خانہ بھی دُنیا ہی سے بھردو۔ اگ کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے۔ الغرض زندوں کی صحبت میں رہو تاکہ زندہ خدا کا جلوہ تم کو نظر آوے۔‘‘
۹؍جولائی ۱۹۰۰؁ء
دُعا بہترین ہمدردی ہے یادرکھو۔ ہمدردی تین قسم کی ہے۔ اوّل جسمانی، دوم مالی، تیسری قسم ہمدردی کی دُعا ہے۔ جس میں نہ صرف زر ہوتا ہے۔ وور نہ زور
لگانا پڑتا ہے اور اس کا فیض بہت ہی وسیع ہے ، کیونکہ جسمانی ہمدردی تو اس صورت میں ہی انسان کرسکتا ہے۔ جب کہ اس میں طاقت بھی ہو۔ مثلاًایک ناتواں مجروح مسکین اگر کہیں پڑا تڑپتا ہو، تو کوئی شخص جس میں خود طاقت اورتوانائی نہیں ہے، کب اُس کو اُٹھا کر مدددے سکتا ہے۔ اسی طرح پر اگر کوئی بیکس دبے بس ، بے سرو سامان انسان بھوک سے پریشان ہوتو جب تک مال نہ ہو۔ اس کی ہمدردی کیونکر ہوگی۔ مگر دعا کے سات ہمدردی ایک ایسی ہمدردی ہے کہ نہ اس کے واسطے کسی مال کی ضرورت ہے اور نہ کسی طاقت کی حاجت بلکہ جب تک انسان انسان ہے۔ وہ دُوسرے کے لیے دُعا کرسکتا ہے اور اس کو فائدہ پہنچاسکتا ہے۔ اس ہمدردی کا فیض بہت وسیع ہے اور اگر اس ہمدردی سے انسان کام نہ لے، تو سمجھو بہت ہی بڑا بدنصیب ہے۔
مَیں نے کہا ہے کہ مالی اور جسمانی ہمدردی میں انسان مجبور ہوتا ہے، مگردُعا کے ساتھ ہمدردی میں مجبور نہیں ہوتا۔ میر اتو یہ مذہب ہے کہ دُع امیں دشمنوں کو بھ باہر نہ رکھے۔ جس قدر دُعا وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دُعا کرنے والے کو ہو گا اور دُعا میں جس قدر بخل کرے گا۔ اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دُور ہوتا جائے گا اور اصل تویہ ہے کہ خداتعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان بھی کمزور ہے۔
لمبی عمر پانے کا نسخہ دُوسروں کے لئے دُعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمردراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو
لوگ دُوسروں کونفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں، اُن کی عمردراز ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اما ماینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد:۱۸) اوردُوسری قسم کی ہمدردی چونکہ محدود ہیں۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جاسکتی ہے۔ وُہ یہی دُعا کی خیر جاری ہے۔ جب کہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دُعا کے ساتھ اُٹھاسکتے ہیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو دُنیا میں خیر کا موجب ہوت اہے ۔ اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوت اہے۔ وہ جلدی اُٹھا لیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں شیر سنگھ چڑیوں کو زندہ پکڑ کر آگ پر رکھاکرتاتھا۔ وہ دو برس کے اندر ہی ماراگیا۔ پس انسان کو لازم ہے کہ وہ خیرالناس من ینفع الناس بننے کے واسطے سوچتا رہے اور مطالعہ کرتارہے۔ جیسے طبابت میں حیلہ کام آتا ہے۔ اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگارہے کہ کس راہ سے دُوسرے کوفائدہ پہنچاسکتا ہے۔
سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں۔ اور کچھ مولویت کی رگ ہو، تو اس کو بجائے کچھ دینے کے
سوال کے مسائل سمجھانا شروع کردیئے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رُعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سُست بھی کہہ بیٹھتے ہیں۔ افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے، جو ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے۔ اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے ، تو وہ خود گناہ کرتا ہے۔ اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا، بلکہ حدیث شریف میں لواتاک راکباً کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی خواہ سائل سوار ہوکر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیے اورقرآن شریف میں واما السآئل فلاتنھر(الضحٰی:۱۱) کا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک۔ اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک۔ پس یادرکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو، کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے۔ اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلدی ناراض نہ ہو۔ یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے۔
ایک نیکی سے دوسرے نیکی پیدا ہوتی ہے غور کرو کہ ایک نیکی کرنے سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح پر ایک بدی دُوسری بدی
کا موجب ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک چیز دوسری کو جذب کرتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے یہ تجاذب کا مسئلہ ہر فعل میں رکھا ہوا ہے۔ پس جب سائل سے نرمی کے ساتھ پیش آئے گا اور اس طرح رپ اخلاقی صدقہ دے دے گا ، تو قبض دُور ہوکر دُوسری نیکی بھی کرلے گا اور اُس کو کچھ دے بھی دے گا۔
اخلاق نیکیوں کی کلید ہے اخلاق دوسری نیکیوں کی کلید ہے۔ جو لگو اخلاق کی اصلاح نہیں کرتے وُہ رفتہ رفتہ بے خیر ہوجاتے ہیں۔ میرا تویہ مذہب کہ دُنیا
میں ہر ایک چیز کام آتی ہے۔ زہر اور نجاست بھی کام آتی ہے۔ اسٹرکنیا بھی کام آتا ہے۔ اعصاب پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔ مگر انسان جو اخلاقِ فاضلہ کو حاصل کرکے نفع رساں ہستی نہیں بنتا۔ ایساہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی کام نہیں آسکتا۔ مُردار حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کی تو کھال اور ہڈیاں بھی کام آجاتی ہیں۔ اُس کی تو کھال بھی کام نہیں آتی۔ اور یہی وہ مقام ہوتا ہے۔ جہاں انسان بل ھم اضل کا مصداق ہوجاتا ہے۔ پس یادرکھو کہ اخلاق کی درسی بہت ضروری چیز ہے، کیونکہ نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے۔
خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے۔ اخلاق ہے۔ دو لفظ ہیں۔ ایک خلق اور دوسرا خُلق۔ خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خلق باطنی پیدائش کا۔ جیسے ظاہر میںکوئی خوب صورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت۔ اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دلربا ہوت اہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ۔ لیکن ظاہری صورت چونکہ نظرآتی ہے، اس لیے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بدوضع ہو، مگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لیے اُس کو پسند کرتا ہے اور خُلق کو چونکہ دیکھا نہیں، اس لیے اُس کی خوبی سے ناآشنا ہوکر۔ اُس کو نہیں چاہتا۔ ایک اندھے کے لئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں۔ اسی طرح پردہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی، اس اندھے ہی کی مانند ہے۔ خلق تو ایک بدیہی بات ہے۔مگر خُلق ایک نظری مسئلہ ہے۔ اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی *** معلوم ہو۔ تو حقیقت کُھلے۔ غرض اخلاقی خوب صورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے، جس کو حقیقی خقب صورتی کہنا چاہیے۔ بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں۔ اخلاق نیکیوں کی کلید ہے۔ جیسے باغ کے دروازے پر قفل ہو۔ دُور سے پھل پھول نظرآتے ہیں ۔ مگر اندر نہیں جاسکتے۔ لیکن اگر قفل کھول دیا جاوے ، تو اند رجاکر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے۔ اخلاق کو حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کر اندر داخل ہونا ہے۔
ترکِ اخلاق ہی بدی اورگناہ ہے کسی کو اخلاق کی کوئی قوت نہیں دی گئی، مگر اس کو بہت سی نیکیوں کی توفیق ملی۔ ترکِ اخلاق ہی بدی اور گناہ
ہے۔ ایک شخص جو مثلاً زِنا کرتا ہے۔ اُس کو خبر نہیں کہ اُس عورت کے خاوند کو کس قدر صدمہ عظیم پہنچتا ہے۔ اب اگر یہ اُس تکلیف اور صدمہ کو محسوس کرسکتا اور اس کو اخلاقی حصہ حاصل ہوتا، تو ایسے فعلِ شیع کا مُرتکب نہ ہوتا۔ اگر ایسے نابکار انسان کو یہ معلوم ہوجاتا کہ اس فعلِ بد کے ارتکاب سے نوعِ انسان کے لئے کیسے کیسے خطرناک نتائج پیدا ہوتے ہیں تو ہٹ جاتا۔ ایک شخص جو چوری کرتا ہے۔ کمبخت ظالمِ اتنا بھی تو نہیں کرتا کہ رات کے کھانے کے واسطے ہی چھوڑ جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک غریب کی کئی سالوں کی محنت کو ملیا میٹ کردیت اہے اور جو کچھ گھر میں پاتا ہے۔ سب کا سب لے جاتا ہے۔ ایسی قبیح بدی کی اصل جڑ کیا ہے؟ اخلاقی قوت کا نہ ہونا۔ اگر رحم ہوتا اور وہ یہ سمجھ سکتا کہ بچے بھوک سے بلبلائیں گے۔ جن کی چیخوں سے دشمن کا بھی کلیجہ لرزتا ہے اور یہ معلوم کرکے کہ رات سے بھوکے ہیں اور کھانے کو ایک سوکھا ٹکڑا بھی نہیں ملا، تو پتا پانی ہوجاتا ہے۔ اب اگر ان حالتوں کو محسوس کرتا اور اخلاقی حالت سے اندھا نہ ہوتا، تو کیوں چوری کرتا۔آئے دن اخبارات میں دردناک موتوں کی خبریں پڑھنے میں آتی ہیں کہ فلاں بچہ زیور کے لالچ سے مارا گیا۔ فلاں جگہ کسی عورت کو قتل کرڈالا۔ مَیں کود ایک مرتبہ اس یسر ہوکر گیا تھا۔ ایک شخص نے بارہ آنے یا ۴ ((سوا روپیہ) میں ایک بچہ کا خون کیا تھا۔ اب سوچ کر دیکھو کہ اگر اخلاقی حالت دُرست ہوتوایسی مصیبتیں کیوں آئیں؟ ممکن ہے کہ اپنے جیسے انسان پر مصیبت آئے۔اور یہ محسوس نہ کرے۔
چارپایوں جیسے خصائل یاکلون کما تاکل االانعام (محمد:۱۳)
چارپایوں کی طرح کھاتے ہیں۔ اس کے کئی پہلو ہیں:
اول چار پایہ کیفیت اور کمیت میں فرق نہیں کرسکتا اور جو کچھ آگے آتا ہے اور جس قدر آتا ہے، کھاتا ہے۔ جیسے کتا اس قدر کھاتا ہے کہ آخرقے کرتا ہے۔
دوسرا یہ کہ انعام حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرتے۔ ایک بیل بھی یہ تمیز نہیں کرتا کہ یہ ہمسایہ کا کھیت ہے۔ اس میں نہ جائوں۔ ایسا ہی ہر ایک امر جو کھانے کے لحاظ سے ہو۔ نہیں کرتا۔ کُتے کو ناپاکی پاکی کے متعلق کوئی لحاظ نہیں اور پھر چارپایہ کو اعتدال نہیں۔
یہ لوگ جو اخلاقی اُصولوں کو توڑتے ہیں اور پروا نہیں کرتے کہ گویا انسان نہیں۔ پاک پلید کاتو یہ حال، عرب میں مُردے کتے کھالیتے تھے۔ ابتک اکثر ممالک میں یہ حال ہے کہ چوہوں اور کتوں اور بلیوں کو بڑے لذیذ کھانے سمجھ کر کھایا جاتا ہے۔ چوہڑے چمار مُردار کور قومیں یہاں بھی موجود ہیں۔
پھر یتیموں کا مال کھانے میں کوئی تردد و تامل نہیں۔ جیسے یتیم کا گھاس گائے کے سامنے رکھ دیا جاوے۔ بلا تردد کھالے گی۔ ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہے۔ یہی معنے ہیں والنار مثوی لھم (محمد:۱۳) ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔ غرض یادرکھو کہ دو پہلو ہیں۔ ایک عظمت الہٰی کا جور اُس کے خلاف ہے۔ وُہ بھی اخلاق کے خلاف ہے اور دوسرا شفقت علی خلق اللہ کا۔ پس جو نوعِ انسان کے خلاف ہو۔ وُہ بھی اخلاق کے برخلاف ہے۔ آہ! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو ان باتوں پر جو انسان کی زندگی کا اصل مقصد اور غرض ہیں۔ غور کرتے ہیں۔
خوساختہ وظائف واذکار بڑے بڑے صوفیوں ، سجادہ نشینوں نے اپنا کمال اس میں سمجھ رکھا ہے کہ بڑے لمبے چوڑے وظائف اور اذکارواشغال خود ہی تجویز
کرلیے ہیں۔اور اُن میں پڑ کر اصل کو بھی کھوبیٹھے ہیں۔ پھر بڑے سے بڑا کام کیاتو یہ کرلیا کہ چلہ کرتے ہیں۔ کچھ جو ساتھ لے جاتے ہیں۔ ایک آدمی مقرر کرلیتے ہیں جو دودھ یا کوئی اورچیز پہنچاآتا ہے۔ ایک تنگ و تاریک گندی سی کوٹھڑی یا غار ہوتی ہے اور اس میں پڑے رہتے ہیں ۔ خدا جانے وہ اس میں کس طرح رہتے ہیں۔ پھر بُری بُری حالتوں میں باہر نکلتے ہیں۔ یہ اسلام رہ گیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان چلہ کشیوں سے اسلام اور مُسلمانوں یا عام لوگو کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اس میں اخلاق میں کیا ترقی ہوتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علوِ شان سب عزتوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے۔ جس کا کل اسلامی دُنیا پر اثر
ہے۔ آپؐ ہی کی غیرت نے پھر دُنیا کو زندہ کیا۔ عرب جن میں زنا، شراب اور جنگ جوئی کے سوا کچھ رہا تھا اورحقوق العباد کا خون ہوچکا تھا۔ ہمدردی اور خیر خواہی نوعِ انسان کا نام ونشان تک مِٹ چکا تھا اور نہ صرف حقوق العباد ہی تباہ ہوچکے تھے بلکہ حقوق اللہ پر اس سے بھی زیادہ تاریکی چھاگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفات پتھروں، بوٹیوں اور ستاروں کودی گئی تھیں۔ قسم قسم کا شرک پھیلا ہوا تھا۔ عاجز انسان اور انسان کی شرمگاہوں تک کی پوجا دُنیا میں ہورہی تھی۔ ایسی حالتِ مکروہ کا نقشہ اگر ذرا دیر کے لیے ایک سلیم الفطرت انسان کے سامنے آجاوے ، تو وہ ایک خطرناک ظلمت اور ظلم وجور کے بھیانک اور خوفناک نظارہ کو دیکھے گا۔ فالج ایک طرف گرتا ہے، مگر یہ فالج ایسا فالج تھا کہ دونوں طرف گرا تھا۔ فساد کامل دُنیا میں برپا ہوچکا تھا۔ نہ بحَر میں امن و سلامتی تھی اور نہ برپرسکون وراحت۔ اب اس تاریکی اور ہلاکت کے زمانہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں۔آپؐ نے آکر کیسے کاملِ طور پر اس میزان کے دونوں پہلو درست فرمائے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اپنے اصلی مرکز پرقائم کردکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی طاقت کا کمال اس وقت ذہن میں آسکتا ہے۔ جبکہ اُس زمانہ کی حالت پر نگاہ کی جائے۔ مخالفوں نے آپؐ کو اور آپؐ کے متبعین کو جس قدر تکالیف پہنچائیں اور اس کے بالمقابل آپؐ نے ایسی حالت میں جب کہ آپؐ کو پورا اقتدار اور اختیار حاصل تھا۔ ان سے جو کچھ سلوک کیا، وہ آپؐ کی علوِ شان کو ظاہر کرتاہے۔
ابوجہل اور اس کے دُوسرے رفیقوں نے کونسی تکلیف تھی، جو آپؐ کے جاں نثار خادموں کو نہیں دی۔ غریب مسلمان عورتوں کو اُونٹوں سے باندھ کر مخالف جہات میں دوڑایا اور وہ چیری جاتی تھیں۔ محض اس گُناہ پر کہ وہ لاالہ الااللہ کی کیوں قائل ہوئیں۔ مگر آپؐ نے اس کے مقابل صبرو برداشت سے کام لیا۔ اور جبکہ مکہ فتح ہوا، تو لاتثریب علیکم الیوم (یوسف:۹۳) کہہ کر معاف فرمایا۔ یہ کس قدر اخلاقی کمال ہے۔ جو کسی دُوسرے نبی میں نہیں پایا جاتا۔ اللھم صل علی محمد وعلیٰ ال محمد۔
غرض بات یہ ہے کہ اخلاقِ فاضلہ حاصل کرو کہ نیکیوں کی کلید اخلاق ہی ہیں۔
۱۶؍جولائی ۱۹۰۰؁ء
دولطیف شعر
ہر کہ روشن شُددل و جان و ورُوں از حضرتش
کیمیا باشد بسر برون دمے درصحبتش
چیست دُنیا چوں شبِ تار وزماں ابرِ سیاہ
آفتابی رہنما یک ساعتی درخدمتش
عُزیر نبی کی دوبارہ زندگی کا راز اور مسئلہ وفات وحیات مسیح ؑ مسیح علیہ السلام کی وفات کے منکر اپنے دلائل میں
حضرت اعزیرکی زندگی کا سوال پیش کرتے ہیں کہ وہ سو برس مر کر پھر زندہ ہوا۔
مگر یاد رہے کہ یہ احیاء بعد الاماتت ہے اور احیاء کی کئی قسمیں ہیں۔اول یہ کہ کوئی آدمی مرنے کے بعد ایسے طور پر زندہ ہو جاوے کہ قبر پھٹ جاوے اور وہ اپنا بوریا باندھنا ستر بستر اٹھا کر دنیا میں آجائے۔دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ ایک نئی زندگی بخشے۔جیسے اہل اللہ کو ایک نئی زندگی دی جاتی ہے جس طرح پر ایک شخص نے خدا سے ڈر کر کہا تھا کہ میری راکھ اڑا دی جائے۔اس پر خدا تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا۔یہ راکھ کا اکٹھا کرنا بھی ایک جسمانی زندگی تھی۔مرنے کے بعد جو زندگی ملتی ہے۔وہاں تو راکھ کا اکٹھا کرنا نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ سب کچھ ہوا،مگر اپنے گھر تو نہ آیا۔مولوی صاحب نے کہا تھا کہ تسلی کے لئے ایک بات باقی ہے کہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے نشان بنا دیں گے۔میں نے کہا تھا کہ یہ ضروری نہ تھا لوگوں کے سمجھے ہوئے کہ موافق نشان ہو اور ایسا ہو کہ قبر پھٹ جاوے اور مُردہ نکل آوے۔یہ غلط بات ہے۔
بعض آدمی حجۃ اللہ آیات اللہ کہلاتے ہیں۔بعض وجود ہی نشان ہوتے ہیں۔بعض کے مرنے کے بعد نشان قائم رہتے ہیں۔یہ بیان کرنا تھا کہ اس اعتراض کا منشاء کیا تھا جس راہ کو ہم نے اختیار کیا ہے ،اس کے خلاف ہے۔ہمارے مخالفوں کا مسیح کی نسبت تو یہ اعتقاد ہے کہ وہ زندہ ہی ااسمان پر گئے اور زندہ ہی واپس آئیں گے،عزیر کے قصے سے اس کو کیا تعلق اور کیا مشابہت ہے؟
یہ مشابہت تو تب ہوتی کہ اگر معترض کا یہ مذہب ہوتا کہ مسیح علیہ السلام قبر پھٹ کر نکلیں گے۔جبکہ ان کا یہ مذہب ہی نہیں تو پھر تعجب کی بات ہے کہ اس قصہ کو جو قیاس مع الفارق ہے،کیوں پیش کرتے ہیں؟
ان کے معتقدات میں تو یہ ہے کہ کوئی اور شخص مسیح کا ہم شکل بن کر پھانسی ملا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہی اسی جسم سمیت اور اسی لباس میں آسمان پر اٹھائے گئے اور پھر یہ بھی تو نہے بتلاتے کہ وہ آسمان پر بیٹھے کرتے کیا ہیں؟بہشت میں نجاری ہی کا کام کرتے اور بہشتوں کے لئے تخت بناتے۔خیر ہم کو اس سے بحث نہیں ہے،مگر جو نقشہ پیش کرتے ہیں اس کو عزیر کے قصے سے کیا تعلق اور نسبت ہے؟
غرض اس سلسلہ میں یعنی مسیح کے قصے میں عزیر کا قصہ داخل کرنا خلط مبحث ہے۔ہمارا یہ مذہب ہے کہ عزیر کے قصہ کو مسیح کے آنے نہ آنے سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ہاں رنگ سوال اور ہو تو اور بات ہے۔یعنی عزیر کیوں زندہ ہوا؟ہم اس قسم کی حیات کے منکر ہیں اور سارا قرآن اول و آخر تک منکر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو تجویز بندوں کے لئے رکھی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے فرشتوں اس کی کتابوں وغیرہ پر ایمان رکھ کر خاتمہ اس طرح پر ہوتا ہے کہ فرشتہ ملک الموت آکر قبض روح کر لیتا ہے اور پھر اور واقعات پیش آتے ہیں۔منکر نکیر کرتے ہیں۔اعمال آتے ہیں پھر کھڑکی نکالی جاتی ہے ۔پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ موتی قیامت ہی کو اٹھیں گے۔یبعث اللہ الموتیٰ معالم میں لکھا ہے کہ رجوع موتی نہیں ہوتا۔
ایک اہم نکتہ قرآن کریم کے دو حصے ہیں کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے۔اور برؤعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں۔
بہ حیثیت جو ہدایت پیش کرتا ہے اس کا منشا ء ہے کہ مان لو جیسے ان تصو موا خیر لکم(البقرہ:۱۸۵)اب سوم شتر مرغ کی بیٹ کو کہتے ہیں،مگر اس کا یہ مطلب نہیں۔احکام میں صفائی ہوتی ہے جبکہ اس ہدایت کے سلسلے میں یہ فرمایا کہ ملک الموت ہوتا ہے اور پھر رفع ہوتا ہے اور حدیث میں اس کی تائید آئی ہے۔ایک جگہ فرمایا:فیمسک التی قضی علیھا الموت(الزمر:۴۳)یعنی جس نفس پر موت کو حکم دے دیتا ہے۔اس کو واپس نہیں آنے دیتا۔دیکھو یہ خدا کا کلام ہے۔قصہ کے رنگ میں نہیں ہے بلکہ ہدایت کے رنگ میں ہے۔
جو لوگ قصص اور ہدایت میں تمیز نہیں کرتے ،ان کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھتے ہیں۔کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے۔لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیراً(النساء:۸۳)اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہرائی گئی ہے،لیکن یہ نہ عاقبت اندیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو من عند غیر اللہ ٹھہراتے ہیں۔افسوس ان کی دانش پر!!!
ان لوگوںسے پوچھنا چاہیے کہ مقدم ہدایات ہیں یا قصص؟اور اگر ا دونوں میں تناقض پیدا ہو تو مقدم کس کو رکھو گے؟اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو مر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے اور ترمذی میں حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی شہید ہوئے ۔انہوں نے عرض کی کہ یا الہی! مجھے دنیا میں پھر بھیجو،تو خدا تعالیٰ نے جواب یہی دیا۔قد سبق القول منی(الحدیث)حرم علی قریۃ اھلکنا ھا انہم لا یرجعون(الانبیاء:۹۶)
اب قرآن کریم موجود ہے۔اس کی شرح حدیث شریف میں صاف الفاظ میں موجود ہے۔اس کے مقابلہ میں ایک خیالی اور فرضی کہانی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟
ہم پوچھتے ہیں کہ اس کے بعد کیا چاہتے ہو۔ہم قرآن اور حدیث پیش کرتے ہیں۔پھر عقل سلیم اور تجربہ بھی اس کا شاہد ہے۔ہماری طرف سے خود ساختہ بات ہوتی تو تم قصہ پیش کر دیتے،مگر یہاں تو ہدایت اور اس کی تائید میں حدیث پیش کی جاتی ہے۔اس کے بعد اور کیا چاہیے۔فماذا بعد الحق الا الضلال(یونس:۳۳)
قصوں کے حقائق خدا تعالیٰ کو بتانے ضروری نہیں،ان پر ایمان لاو اور ان کی تفاسیر حوالہ بخدا کرو۔
صوم کے لئے تو عربی بھی پوچھتے تھے ،ہر آیت میںحق طاہر ہوتا ہے۔
قصوں میں یہ بات ضرور نہیں۔مثلاً اب یہ ضرور نہیں کہ حضرت ابراہیم کے مخالف بت پرستوں کا حلیہ بھی بتلا دیا جائے۔اس قسم کے خیالات سوء ادبی پر مبنی ہوتے ہیں۔غرض یاد رکھو کہ قصص قرآنی میں بیہود چھیڑ چھاڑ درست نہیں ہے۔انسان پابند ہدایت نہیں ہو سکتا،جب تک کہ تصریح نہ ہو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہدایتوں کو آسان کر دیا۔اسی طرز پر اللہ تعالیٰ نے یہ صراحت کی ہے کہ مردے واپس نہیں آتے۔
ہمارے مخالفوں میں اگر دیانت اور خدا ترسی ہو تو عزیر کا قصہ بیان کرتے ہوئے ضرور ہے کہ وہ ان آیات کو بھی ساتھ رکھیں جس میں لکھا ہے کہ مردے واپس نہیں آتے۔پھر ہم بطریق تنزل ایک اور جواب دیتے ہیں۔
اس بات کو ہم نے بیان کردیا ہے او رپھر کہتے ہیں کہ قصوں کے لے اجمالی ایمان کافی ہے۔ ہدایات میں چونکہ عملی رنگ لانا ضروری ہوت اہے۔ اس لیے اُس کا سمجھنا ضروری ہے۔ ماسوا اس کے یہ جولکھا ہے کہ سو برس تک مُردہ رہے اَمَات کے معنے انام بھی آئے ہیں اور قوتِ نامیہ اور حسیہ کے زوال پر بھی موت کا لفظ قرآن کریم میں بولا گیا ہے۔ بہر حال ہم سونے کے معنے بھی اصحابِ کہف کے قصہ کی طرح کرسکتے ہیں۔ اصحابِ کہف اور عزیز کے قصہ میںفرق اتنا ہے کہ اصحابِ کہف کے قصہ میں ایک کتا ہے ار یہاں گدھا ہے اور نفس کتے اور گدھے دونوں سے مشابہت رکھتاہے۔ خدا نے یہودیوں کو گدھا بنایا ہے اور کتے کو بلعم کے قصہ میں بیان فرمایا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نفس پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ جو بیہوش ہوتاہے اُس کے ساتھ کتا ہوگا یا گدھا۔
غرض دوسرے طریق پر جس کا ہم نے ذکر کیا ہے امات کے معنی انام کرتے ہیں اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ سو برس چھوڑ کر کوئی دولاکھ برس تک سویا رہے، ہماری بحث یہ ہے کہ روح ملک الموت لے جاوے پھر واپس دُنیا میں نہیں آتی۔ سونے میں بھی قبضِ رُوح تو ہوتا ہے، مگر اس کو ملک الموت نہیں لے جاتا۔
اور عرصہ دراز تک سوئے رہنا ایک ایساامر ہے کہ اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ہندوئوں کی کتابوں میں دَم سادھنے (حبسِ دم کرنے) کی ترکیبیں لکھی ہوئی ہیں اور جو گ ابھیاس کی منزلوں میں دَم سادھنا بھی ہے۔ ابھی تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ اخبارات میں لکھا تھا کہ ریل کی سڑک تیار ہوتی تھی کہ ایک سادھو کی کٹیا نکلی ایسی ہی اخبارات میں ایک لڑکے کی بیس سال تک سوئے رہنے کی خبر گشت کررہی تھی۔ غرض یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک آدمی سو سال تک سویا رہے۔
لم یتسنہ کی حقیقت پھر یہ لفظ لم یتسنہ قابلِ غور ہے اور موجودہ زمانہ کے تجربہ پر لحاظ کرنے کے بعد لم یتسنہ کی حقیقت سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ایک ثقہ آدمی
لکھتا ہے کہ مَیں نے گوشت کھایا ہے جو میری پیدائش سے ۳۰ برس پہلے کا پکاہو اتھا۔ ہوا نکال کر بند کرلیا گیا تھا۔
اب ولایت یورپ اور امریکہ سے ہرروز ہزاروں لاکھوں بوتلوں میں لم یتسنہ کھانے پکے پکائے چلے آتی ہیں۔ لم یتسنہ کا اثرتو ہندوں کے جوگ پر پڑتا ہے اور آج کل کی علمی بلند پروازیوں کی حقیقت کھولتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے سے درج ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جیسے ہوا کے ایک خاص اثر سے کھانا مر جاتا ہے۔ اسی طرح انسان پر بھی اس کا اثر ہوتاہے اب اگر خاص ترکیب سے کھانے کو اس ہوا کے اثر سے محفوظ رکھ کر زندہ رکھا جاتا ہے، تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے۔
ممکن ہے کہ آئندہ کسی زمانہ میں درحقیقت بھی کُھل جائے کہ انسان پر کھانے کی طرح عمل ہوسکتا ہے۔ یہ علُوم ہیں۔ اُن کے ماننے سے کوئی حَرج لازم نہیں آتا۔
آج کل کی تحقیقات اور علمی تجربوں نے ایسے موزے بنالیے ہیں کہ انسان اُن کو پہن کر دریا پر چل سکتا ہے اور ایسے کوٹ ایجاد ہوگئے ہیں کہ آگ یا بندوق کی گولی اُن پر اپنا اثر نہیں کرسکتی۔ اسی طرح سے لم یتسنہ کی حقیقت جو قرآن کریم کے اندر مرکوز ہے، علمی طور پر بھی ثابت ہوجاوے ، تو کیا تعجب ہے؟ ہو ا کااثر کھانے کو تباہ کرتاہے اور انسان کے لئے بھی ہو اکا بڑ اتعلق ہے۔ ہوا کے دو حصے ہیں ایک قسم کی ہوا اندر جا تی ہے، تو اندر تازگی پیداہوتی ہے ۔ دُوسری دم کے ساتھ باہر آتی ہے جو جلی ہوئی متعفن ہوا ہوتی ہے۔ غرض اگر لم یتسنہ والی بات نکل آوے۔ تو ہمارا تو کچھ بھی حرج نہیں۔ بلکہ جس قدر علوم طبعی پھیلتے جاتے ہیں اور پھیلیں گے اسی قدر قرآن کریم کی عظمت اور خوبی ظاہر ہوگی۔
ہم تو آئے دن دیکھتے ہیں کہ ولایت کے پکے ہوئے شوربے اور گوشت ہندوستان میں آتے ہیں اور بگڑتے نہیں۔ ولائتی ادویات ہزاروں میل سے آتی ہیں اور مہینوں برسوں پڑی رہتی ہیں ، خراب نہیں ہوتی ہیں۔ مجھے ایک شخص نے بتلایا کہ اگر انڈے کو سرسوں کے تیل میں رکھ کر چھوڑیں، تو نہیں بگڑتا۔
اس طرح پر ممکن ہے کہ انسان کے شباب اور طاقتوں پر بھی اثر پڑے بعض مسلمانوں نے بھی دم سدھنے کی کوشش کی ہے ۔ خود میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مَیں دن میں دوبار سانس لیتا ہوں۔ یہ عملی شہادت ہے کہ ہوا کو سڑنے میں دخل ہے اس قسم کی ہوا سے جب بچایا جاوے تو انسان کی عمر بڑھ جاوے ، تو حرج کیا ہے اور عمر کابڑھنا مان لیں تو کیا حرج ہے۔
قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر حکمتیں ایجاد ہوتی ہیں یا تو طبعی طور پر خدا نے قاعدہ رکھا ہوا ہے یا عناصر کے نظام میں بات رکھی ہوتی ہے۔ کوئی محقق دیکھ کر بات نکال لیتاہے۔ ہم کو اس پر کوئی بحث نہیں ہے۔
ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علومِ طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے۔ قرآن کریم کی عظمت دُنیا میں قائم ہوگی۔
۱۷؍اگست ۱۹۰۰؁ء
مولانا عبدالکریم ؓ کا خطبہ اور حضرت اقدسؑ کی تعریف
مولاناعبدالکریم ؓ صاحب نے جو خطبہ۱۷؍اگست۱۹۰۰؁ء کو پڑھا۔ حضرت اقدس ؑ نے اُس کی تعریف فرمائی۔ مولانا نے دوبارہ اس خُطبہ کو اپنے قلم سے لکھا ہے اور کہا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میری یہ دل کی باتیں قبول کا شرف پائیں گی۔ کل صُبح کی اذان سے قبل مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے داہنے کان کے ساتھ بہت سے ٹیلیفون لگے ہیں۔ اور مختلف شہروں سے مختلف دوستوں کی طرف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ’’جو کچھ آپ ہمارے مسیح موعود ؑ کی نسبت کہتے ہیں۔ ہم اُس کو خوب سمجھتے ہیں۔‘‘ مجھے خیال پڑتا ہے کہ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں۔‘‘ تحدیث بالنعمت کے طور پر مَیں یہ بھی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعد نماز جمعہ حضرت اقدس ؑ سے کچھ عرض کرنے کے لئے اندر گیا۔ بعد اِدھر اُدھر کے ذکر کے مَیں نے خُطبہ کی نسبت حضور ؑ سے پوچھا ۔ فرمایا:۔
’’یہ بالکل میر امذہب ہے جو آپ نے بیان کیا۔‘‘ اور فرمایا
’’یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ معارفِ الہٰیہ کے بیان میں بلندچٹان پر قائم ہوگئے۔‘‘
۲۵۔۲۶؍اگست ۱۹۰۰؁ء
کی درمیانی شب
کسی زبردست نشان کا پیش خیمہ جُمعہ کے دن لاہور اسٹیشن پر سب مختلف المشارب لوگ جو ہمارے بغض میں ایک گھاٹ پانی پینے لگ گئے ہیں۔
یُوں جمع ہوگئے اور پیر صاحب گولڑوی کو سوار کراکر شہر کے اندر سے اس طرح تبرا کرتے گزرے جیسے روافض سینہ پیٹتے اور قدوسیوں کو کوستے جاتے ہیں۔ بطلان نے اسی طرح رونق پیداکرلی جیسے اُس دن جب کہ دوجہاں کے سردارؐ کو مکہ سے نکالا گیا تھا اور کفارِ قریش نے چند روز کے لئے چراغاں کرکے جھوٹی خوشی منائی تھی۔آج حق کو جھوٹا کہا جارہا ہے اور راستی پائوں تلے کچلی جارہی ہے اور بہت سے شقی چاروں طرف سے اُٹھتے ہیں۔ آج وُہ الہام پورا ہوا ، جو کچھ مدت ہوئی شائع کیا تھا۔
’’وُہ بیت الصدق کو بیت التزویر بناناچاہتے ہیں۔‘‘
رات حضرت مرسل اللہ علیہ وسلم اس امر پر دیر تک گفتگو فرماتے رہے ۔ فرمایا:
’’ان شوروں سے ہم پر کیا رُعب پڑ سکتا ہے۔ ہمیں تو یہ سارے شور ایک تمہید معلوم ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی اُس نصرت کی آمد کے لئے جو دیر سے معرضِ التوا میں ہے۔ عادت اللہ یُوں ہی ہے کہ جب تکذیب شدت سے ہوتی ہے ، تو غیرتِ الہٰی اسی قدر نُصرت کے لئے جوش مارتی ہے۔ آتھم کے شور پر جو ہماری تکذیب اور اہانت ہوئی۔ خداتعالیٰ کی غیرت نے بہت جلد لیکھرام کا نشان ظاہر کیا۔ اسی طرح ہم قویٰ اُمید رکھتے ہیں کہ یہ شورِ تکذیب پیش خیمہ ہے کِسی زبردست نشان کا۔ ممکن ہے کہ کوئی بدقسمت اس شور کے رُعب میں آکر کٹ جائے۔ اُس کا علاج ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ سنت اللہ یہی ہے۔‘‘
اگست ؍ ۱۹۰۰؁ء
حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے دُنیا میں لوگ حکام یا دُوسرے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی نفع اُٹھانے کی ایک خیالی اُمید پر
اُن کو خوش کرنے کے واسطے کس کس قسم کی خوشامد کرتے ہیں۔یہانتک کہ ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے اردلیوں اور خدمت گاروں تک کو خوش کرنا پڑتا ہے؛ حالانکہ اگر وُہ حاکمِ راضی اور خوش بھی ہوجاوے، تو اس سے صرف چند روز تک یا کسی موقعِ مخصوص پر نفع پہنچنے کی اُمید ہوسکتی ہے۔ اس خیالی اُمید پر انسان اُس کے خدمتگاروں کی ایسی خوشامدیں کرتا ہے کہ مَیں تو ایسی خوشامدوں کے قصور سے بھی کانپ اُٹھتا ہوں اور میرا دل ایک رنج سے بھر جاتا ہے کہ نادان انسان اپنے جیسے انسان کی ایک وہمی اور خیالی اُمید پر اس قدر خوشامدکرتا ہے۔ مگر اُس مُعطیِ حقیقی کی جس نے بُدوں کِسی معاوضہ کے اور التجا کے اس پر بے انتہا فضل کیے ہیں۔ ذرا بھی پروا نہیں کرتا؛ حالانکہ اگر وہ انسان اُس کو نفع پہنچانا بھی چاہیے تو کیا؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی نفع خداتعالیٰ کے بدُوں پہنچ ہی نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ اس سے پیشتر کہ وہ نفع اُٹھائے، نفع پہنچانے والا یا کود یہ اس دنیا سے اُٹھ جائے یا کِسی ایسی خطرناک مرض میںمبتلا ہوجائے کہ کوئی حظ اور فائدہ ذاتی اس سے اُٹھا نہ سکے۔ غرض اصل بات یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم انسان کے شاملِ حال نہ ہو۔ انسان کسی سے کوئی فائدہ اُٹھا ہی نہیں سکتا۔ پھر جبکہ حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ پھر کس قدر بے حیائی ہے کہ انسان غیروں کے دروازے پر ناک رگڑتا پھرے۔ ایک خداترس مومن کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وُہ اپنے جیسے انسان کی ایسی خوشامد کرے جو اُس کا حق نہیں ہے۔ متقی کے لئے خود اللہ تعالیٰ ہر ایک قسم کی راہیں نکال دیتاہے۔ اُس کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے کہ کسی دوسرے کو علم بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کود اس کا ولی اور مربی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بدے جو دین کو دُنیا پر مقدم کرلیتے ہیں۔ اُن کے ساتھ وہ رأفت اور محبت کرتا ہے؛ چنانچہ خود فرماتا ہے۔واللہ رئُ وف بالعباد۔(البقرہ:۲۰۸)
خداتعالیٰ کے بندے کون ہیں؟ یہ وُہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میںوقف کردیتے ہیں اوراپنی
جان کو خداکی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں، مگر جو لوگ دُنیا کی املاک وجائداد کو اپنا مقصود بالذات بنالیتے ہیں، وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں، مگر حقیقی مومن اور صادق مُسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کردے، تاکہ وہ حیاتِ طیبہ کا وارث ہو؛ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ اس للہی وقف کی طرف ایماء کرکے فرماتا ہے۔ من اسلم وجھہ للہ وھومحسن فلہ اجرہ عندربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (البقرہ:۱۱۳) اس جگہ اسلم وجھہ للہ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانۂ الوہیت پر گرے اور اپنی جان ، مال ، آبروغرض جو کچھ اس کے پاس ہے۔ خدا ہی کے لیے وقف کرے اور دُنیا اور اُس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے۔
حُصولِ دُنیا میں مقصود بالذات دین ہو کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دُنیا سے کچھ غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ
اللہ تعالیٰ دُنیا کے حصول سے منع کرتا ہے، بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔ یہ بزدلوں کا کام ہے۔ مومن کے تعلقات دُنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وُہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں، کیونکہ اُس کا نصب العین دین ہوتاہے اور دُنیا، اُس کا مال وجاہ دین کا خدام ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دُنیا مقصود بالذات نہ ہو۔ بلکہ حصولِ دُنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دُنیا کو حاصل کیاجاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دُوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اس طرح پر انسان دُنیا کو حاصل کرے، مگر دین کا خادم سمجھ کر۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ دُعا تعلیم فرمائی ہے کہ ربنا اٰتنافی الدنیا حسنہ وفی الاخرۃ حسنہ (البقرہ: ۲۰۶)اس میں بھی دُنیا کو مقدم کیا ہے ، لیکن کس دُنیا کو؟ حسنۃ الدنیا کو جو آخرت میں حسنات کو موجب ہوجائے۔ اس دُعاکی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دُنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی حسنۃ الدنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دُنیا کے لئے اختیار کرنے چاہیں۔ دُنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو۔ جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو۔ نہ ہم جنسوں میں کسی عاروشرم کاباعث ۔ ایسی دنیا بے شک حسنۃ لآخرۃ کا مُوجب ہوگی۔
سُست نہ بنو پس یادرکھو کہ جوشخص خدا کے لئے زندگی وقف کردیتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وُہ بے دست و پاہوجاتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ دین او رللہی وقف انسان کوہوشیار
اور چابکدست بنادیتا ہے۔ سُستی اور کسل اُس کے پاس نہیں آتا۔ حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا ہے تو میرے باپ نے جواب دیا کہ مَیں بڈھا ہوں۔ کل مرجائوں گا۔ پس اُس کو حضرت عمربں نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگائے۔ پھر میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ حصولِ دنیا سے منع نہیں کرتا، بلکہ حسنۃ الدنیا کی دُعا تعلیم فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پاہوکر بیٹھ رہے بلکہ اُس نے صرف فرمایا ہے لیس للانسان الا ماسعی (النجم:۴۰) اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ جدوجہد سے کام کرے، لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو۔ دین کو مقصود بالذات ٹھہرائو اوردُنیا اس کے لئے بطور خادم اور مرکب کے ہو۔ دولت مندوں سے بسااوقات ایسے کام ہوتے ہیں کہ غریبوں اور مُفلسوں کو وہ موقع نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں خلیفہ اول نے جو بڑے ملک التجار تھے مسلمان ہوکر لانظیر مدد کی اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ صدیق کہلائے اور پہلے رفیق اور خلیفہ اول ہوئے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان لکھا ہے کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تھے اور ابھی مکہ میں نہ پہنچے تھے کہ راستہ میں ہی ایک شخص ملا۔
اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سنائو۔ اس نے کہا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تمہارے دوست نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوبکر ؓ نے وہی کھڑے ہوکر کہا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو سچا ہے؛ چنانچہ جب مکے میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ سے دریافت کیا کہ کیا آپ ؐنے واقعی پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے؛ آپ ؐنے فرمایا۔ ہاں اور اُسی وقت مشرف باسلام ہوگئے۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو قبول اسلام کے لیے کسی اعجاز کی ضرور ت نہ پڑی۔ اعجاز بیسنی کے خواہشمند وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو تعارفِ ذاتی نہیںہوتا۔ لیکن جس کو تعارفِ ذاتی ہوجاوے، اُسے اعجاز کی ضرورت اور خواہش ہوتی ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے معجزہ نہیں مانگا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے واقف تھے اور خوب جانتے تھے کہ وہ راستباز اور امین ہے جھوٹا اور مفتری نہیں، جب کہ کسی انسان پر کبھی افترا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا۔
پس یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ نشان صرف اس لیے مانگا جاتا ہے کہ اس بات کے امکان کا اندیشہ گزرتا ہوکہ شاید جھوٹ ہی بولا ہو، مگر جب یہ بات اچھی طرح معلوم ہو کہ مدعی صادق اور امین ہے۔ پھر نشان بینی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ یہ بھی یادرہے کہ جو لوگ نشان دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ راسخ الایمان نہیں ہوسکتے بلکہ ہر وقت خطرہ کے محل میں رہتے ہیں۔ ایمان بالغیب کے ثمرات اُن کو نہیں ملتے۔ کیونکہ ایمان بالغیب کے اندر ایک فعل نیکی کا حُسن ظن بھی ہے۔ جس سے وہ جلد باز بے نصیب رہ جاتا ہے۔ جو نشان دیکھنے کے لئے جلدی کرتا اور زور دیتا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے حواریوں نے نزُول مائدہ کے لئے زور دیا تو خداتعالیٰ نے ان کو زجر بھی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم تو مائدہ نازل کریں گے، لیکن بعد نزُول مائدہ جو انکار کرے گا، اس پر سخت عذاب نازل ہوگا۔ قرآن شریف میں اس قصہ کے ذکر سے یہ فائدہ ہے کہ تابتلایا جاوے کہ بہترین ایمان کونسا ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات یوں تو اجلی بدیہییات سے ہوتے ہیں، لیکن اُ کے ساتھ ایک طرف اتمام حجت منظور ہوتاہے اور دُوسری طرف ابتلائے اُمت۔ اس لیے بعض اُمور ا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ایک ابتلا رکھتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ نشان مانگنے والے لوگ مستعجل اور حسن ظن سے حصہ نہ رکھنے والے ہوتے ہیں اور اُن کی طبیعت میں ایک احتمال اور شک پیدا کرنے کا مادہ ہوت اہے۔ تب ہی تو وہ نشان مانگتے ہیں۔ اس لیے جب نشان دیکھتے ہیں، تو پھر بیہودہ طور پر اس کی تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں اور اس کو کبھی سحر کہتے ہیں، کبھی کچھ نام رکھتے ہیں۔ غرض وہ وہم پیدا کرنے والی طبیعت اُن کو امرِ حق سے دُور لے جاتی ہے۔اس لیے مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم وُہ ایمان پیدا کرو جو ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کا ایمان تھا۔ رضی اللہ عنہم۔کیونکہ اس میں حُسنِ ظن اور صبر ہے اور وہ بہت سے برکات اور ثمرات کا منتج ہے اور نشان دیکھ کر ماننا اور ایمان لانا اپنے ایمان کو مشروط بنانا ہے۔ یہ کمزور ہوتا ہے اور عموماً باردَر نہیں ہوتا۔ ہاں جب انسان حُسنِ ظن کے ساتھ ایمان لاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے مومن کو وُہ نشان دکھاتا ہے جو اُس کے ازدیادِ ایمان کا موجب اور انشراح صدر کا باعثِ ہوتا ہے، خود اُن کو نشان اور آیت اللہ بنادیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقتراحی نشان کسی نبی نے نہیں دکھلائے۔ مومن صادق کو چاہیے کہ کبھی اپنے ایمان کونشان بینی پر مبنی نہ کرے۔
انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت مَیں پھر اصل بات کی طرف رجُوع کرکے کہتا ہوں کہ دولتمند اور متموّل لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اسی
لیے خداتعالیٰ نے ممارزقنھم ینفقون (البقرہ:۴) متقیوں کی صفت کا ایک جزو قراردیا ہے۔ یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور خادم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے۔ تعظیم الامرا اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ۔پس ممارزقنھم ینفقون میں شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم ہے۔
ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی ، تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کا کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے۔ آپؐ نے پوچھا ابوبکر! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا۔ اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نصف لے آئے۔ آپؐ، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! گھر میں کیا چھوڑ آئے۔ تو جواب دیا کہ نصف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے ، وہی اُن کی مراتب میں فرق ہے۔
دُنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علمِ تعبیر الرویاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مُراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایما ن کے حصول کے لیے فرمایا: لن تنالو االبرحتی تنفقو ا مماتحبون (آل عمران: ۹۳) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پائو گے۔ جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کروگے، کیونکہ مخلوقِ الہٰی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کاملِ اور راسخ نہیںہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے۔ دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دُوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لن تنالو االبرحتی تنفقو ا مماتحبون میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔
پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للہی وقف کا معیار اورمحک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے۔
انبیاء علیہم السلام کو ضرورتیں کیوں لاحق ہوتی ہیں مَیں یہاں ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام
کو ضرورتیں کیوں لاحق ہوتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اُن کو کوئی ضرورت پیش نہ آوے۔ مگر یہ ضرورتیں اس لیے لاحق ہوتی ہیں۔ تاکہ للہی وقف کے نمونے مثال کے طور پر قائم ہوں اور ابوبکرؓ کی زندگی کاوقف ثابت ہوا ور دنیا میں خدائے مقتدر کی ہستی پر ایمان پیدا ہواور ایسے للہی وقف کرنے والے دنیا کے لیے بطور آیت اللہ کے ٹھہریں اور اس مخفی لذت اور محبت پر دنیا کو اطلاع ملے،جس کے سامنے مال ودولت جیسی محبوب اور مرغوب شے بھی آسانی اور خوشی کے ساتھ قربان ہو سکتی ہے اور پھر مال ودولت کے خرچ کے بعد للہی وقف کو مکمل کرنے کے واسطے وہ قوت اور شجاعت ملے کہ انسان جان جیسی شے کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے سے دریغ نہ کرے۔
غرض انبیاء علہیم السلام کی ضرورتوں کی اصل غرض دنیا کی جھوٹی محبتوں اور فانی چیزوں سے منہ موڑنے کی تعلیم دینے۔اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا کرنے اور ابنائے جنس کی بہتری اور خیر خواہی کے لیے ایثار کی قوت پیدا کرنے کے واسطے ہوتی ہے؛ورنہ یہ پاک گروہ خزائن السموت والارض کے ما لک کی نظر میں چلتا ہے۔ان کو کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟وہ ضرورتیں تعلیم کو کامل کرنے اور انسان کے اخلاق اور ایمان کے رسوخ کے لیے پیش آتی ہیںؔ۔‘‘
یقین کا کامل مرتبہ مفسر کہتے ہیںکہ یقین سے مراد موت ہے،مگر موت روحانی مراد ہے اور یہ ظاہری بات ہے کہ اس کا مقصود بالذات کیا ہو۔جس کی تلاش کرنے کے
لیے یہاں ایماء اور اشارہ ہے۔
مگر میں کہتا ہوں کہ وہ روحانی موت ہو یا روحانی زندگی تمہاری زندگی خداہی کی راہ میں وقف ہو۔مومن کو لازم ہے کہ اس وقت تک عبادت سے نہ تھکے اور سُست نہ ہو۔جب تک یہ جھوٹی زندگی بھسم نہ ہو جاوے اور اس کی جگہ نئی زندگی جو ابدی اور راحت بخش زندگی ہے،اس کا سلسلہ شروع نہ ہو جاوے اور جب تک اس عارضی حیات دنیا کی سوزش اور جلن دور ہو کر ایمان میں ایک لذت اور روح میں ایک سکینت اور استراحت پیدا نہ ہو۔یقیناً سمجھو کہ جب تک انسان اس حالت تک نہ پہنچے۔ایمان کامل اور ٹھیک نہیں ہوتا۔اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ تو عبادت کرتا رہ جب تک کہ تجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہواور تمام حجاب اور ظلماتی پردے دور ہو کر یہ سمجھ میں نہ آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا،بلکہ اب تو نیا ملک،نئی زمین،نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں۔یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے،تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے۔ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے۔یہی وہ راز ہے جس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ اور میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابو بکرؓ کو دیکھے۔اور ابو بکرؓ کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔
ایمان ایک راز ہے مگر یاد رکھو۔ایمان ایک راز ہوتا ہے جو مومن اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو مخلوق میں سے اس مومن کے سوا دوسرا نہیں جان سکتا
انا عندظن عبدی بی کی حقیقت یہی ہے۔بعض اوقات وہ لوگ جو علوم حقہ اور معارف الٰہیہ سے بہرہ عر نہیں ہوتے۔کسی مومن کے ان تعلقات کے عدم علم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کو ہوتے ہیں۔اس کی بعض حالتوں مثلاً معاملات رزق وماش پر حیرت اور تعجب ظاہرکرتے ہیں اور کبھی یہ تعجب ان کو بدظنی اور گمراہی تک لے جاتا ہے،اس لیے ان کی نظر اپنے ہی محدود اسباب پر ہوتی ہے۔اور وہ اس راز اور سر سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ رکھتا ہے۔ناواقف ہوتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے اس راز کو ایسا بنائیں جو صحابہ کرامؓ کا تھا۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کریں غرض یہ ہے کہ انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے۔ میں نے
بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لیے وقف کر دی اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی۔مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلاؔم کی خدمت کے لیے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں،تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔
یاد رکھو کہ یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے،بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے۔کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاداور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لیے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے۔کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے؟ہر گز نہیں۔فلہ اجرہ عندربہ ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون(البقرہ:۱۱۳)اس للہی وقف کا اجر ان کا رب دینے والا ہے۔یہ وقف ہر قسم کے ہموم وغموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے۔
مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جبکہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم وغموم اور کرب وافکارسے خواستگار نجات ہے۔پھرکیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر توجہ ہی نہ کرے۔کیا للہی وقف کا نسخہ۱۳۰۰ برس سے مجرب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھہرے؟پھر اب کونسی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اٹھانے میں دریغ کیا جا وے۔
بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے ناآشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے۔نا واقف محض ہیں؛ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کو مل جاوے،تو بے انتہا تمنائوں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔
اپنا ذاتی تجربہ اور وصیت میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے۔
یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوںتو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔
پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے،بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا ۔تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا ،اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو نسیحت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئیندہ ہر ایک کا اختیار رہے کہ وہ اِسے سُنے یا نہ سُنے!اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے،تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی،میری موت،میری قربانیاں،میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھ۔اسلمت لرب العالمین(بقرہ:۱۳۲)جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا ،خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو،تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔پھر تم اپنے اندر دیکھو تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور خدا کے لئے زندگی وقف رکھنے کو عزیز سمجھتے ہیں۔ ؎۱
انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لئے زندگی وقف نہیں کرتا۔تو وہ یاد رکھے کہ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا ہے۔اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعض خام خیال کوتاہ فہم لوگو نے سمجھ رکھا ہے کہ ہر ایک آدمی کو جہنم میں ضرورجانا ہو گا ۔یہ غلط ہے ۔یہ غلط ہے۔ہاں اس میں شک نہیں کہ تھوڑے ہیں جو جہنم کی آگ سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ تعجب کی بات نہیں۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے قلیل من عبادی الشکور(سبا:۱۴)
جہنم کی حقیقت اب سمجھنا چاہیے کہ جہنم کیا چیز ہے؟ایک جہنم تو وہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد وعدہ فرمایا ہے۔دوسرے یہ زندگی بھی اگرخدا تعالیٰ کے لئے نہ
ہو،تو جہنم ہی ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لئے متولی نہیں ہوتا۔یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت ،مال وعزت،اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے راحت یا آرام سکینت کا موجب ہو جاتی ہے۔اوروہ دم نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟ہر گز نہیں۔وہ اطمینان اور وہ تسلی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے،ان باتوںسے نہیں ملتی وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے۔جس کے لئے انبیاء علیہم السلام خصوصاًابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی یہی وصیت تھی کہ لا تمو تن الا وانتم مسلمون(البقرہ:۱۳۳)لذات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔استسقاء کے مریض مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی۔یہان تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں ۔پس یہ بے جا آرزو اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کی ہے جو انسان کے دل کو راحت اور اقرار نہیں لینے دیتی،بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں وپیچاں رکھتی ہے۔اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہر گز پو شیدہ نہ رہے کہ انسان مال ودولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور از خود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے۔مال اور اولاد اسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے۔ان سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ نار اللہ موقو دۃ التی تطلع علی الافئدۃ(الھمزۃ:۷،۸)منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے۔پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلہ سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے ۔یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے۔
دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کی رگڑ سے الہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہو کر خدا سے دورہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بے قراری کا شکار ہو جاتا ہے۔لیکن جب کہ دنیا کی چیزوں سے جو تعلق ہو وہ خدا میں ہو کر ایک تعلق ہو اور ان کی محبت خدا کی محبت میں ہو کر۔اسی وقت باہمی رگڑ سے غیر اللہ کی محبت جل جاتی ہے اور اسی کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے۔پھر خدا کی رضا اس کی رضا اور اس کی رضا خدا کی رضا کا منشاء ہو جاتا ہے۔اسی حالت پر پہنچ کر خدا کی محبت اس کے لئے بمنزلہ جان ہوتی ہے اور جس طرح زندگی کے واسطے لوازم زندگی ہیں۔اسی کی زندگی کے واسطے خدا اور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خوشی اور راحت خدا ہی میں ہوتی ہے ۔پھر دنیا داروں کے نزدیک اسے کوئی رنج اور کرب پہنچے تو پہنچے،لیکن اصل یہی بات ہے کہ اس ہم وغم میں بھی وہ اطمینان اور سکینت سے الہی لذت لیتا ہے جو کسی دنیا دار کی نظر میں بڑے سے بڑے فارغ البال کو بھی نصیب نہیں۔
بر خلاف اس کے جو کچھ حالت اس کی اور انسان کی ہے،وہ جہنم ہے۔گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے۔
پھر حدیث شریف سے بھی پتی لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے۔امراض اور مسائب جو مختلف قسم کے انسان کو ہوتے ہیں۔یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہے اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گوہ ہوں ا ور جزا وسزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور کفارہ جیسے لغو مسئلہ کی تردید کریں۔مثلاً جزم ہی کو دیکھو کہ عضا گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضاء سے جاری ہے۔آواز بیٹھ گئی ہے۔ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے۔پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں۔عزیز سے عزیز بیوی،فرزند ،ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔بعض اندھے اور بہرہ ہو جاتے ہیں۔بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔پتھریاں ہو جاتی ہیں اور پیٹ میں رسولیاں ہو جاتی ہیں۔یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتیں ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پروہ نہیں کرتا ہے۔اس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے۔
اب پھر میں اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جہنم کے لئے اکثر انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا ہے۔اور پھر فرمایا کہ یہ جہنم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے۔ان کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے۔پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال انسان اپنی کورانہ عقل پر عمل کر لیتا ہے۔پس آخرت کا جہنم بھی ہو گا اور دنیا کے جہنم سے بھی مخلصی اور رہائی نہ ہو گی،کیونکہ دنیا کا جہنم تو اس جہنم کے لئے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے۔ ؎۱
وعظ کا منصب نا اہل پالیدلوگ سچی اور حکمت کی بات سن ہی نہیں سکتے اور جب کبھی کوئی بات معرفت اور حکمت کی ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ اس پر توجہ نہیں کرتے
بلکہ لا پرواہی سے ٹال دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ وہ لوگ جو حق کہیں وہ بھی تھوڑے ہیں۔محض اللہ تعالیٰ کے لئے کسی کو حق کہنے والے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔گویا ہے ہی نہیں۔علی العموم واعظ وعظ کہتے ہیں،لیکن ان کی اصل غرض اور مقصود صر ف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے کچھ وصول کریں اور دنیا کماویں۔یہ غرض جب اس کی باتون کے ساتھ ملتی ہے تو حقانیت اور للہیت کو اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے اور وہ لذت اور معرفت کی خوشبوجو کلام الہی کے سننے سے دل و دماغ میں پہنچتی ہے اور روح کو معطر کر دیتی ہے۔وہ خود غرضی اور دنیا پرستی کے تعفن میں دب کر رہ جاتی ہے اور اسی مجلس میں لوگ کہہ اٹھتے ہیں۔میان یہ ساری باتیں ٹکڑا کمانے کی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اکثر لوگوں نے امر بالمعروفاور نہی عن المنکر کو ذریعہ معاش قرار دے دیا ہے،لیکن ہر ایک ایسا نہیں ہے۔
ایسے پاک دل انسان بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے وہ مامور ہیں اور اس کے فر ض کو سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں۔وعظ کا منصب ایک اعلی درجہ کا منصب ہے۔اور وہ گویا شان نبوت اپنے اندر رکھتا ہے۔بشر طیکہ کہ انسان ترسی کو اپنے اندر لایاجاوے۔
وعظ کہنے والا اپنے اندر ایک خاص قسم کی اصلاح کا موقعہ پا لیتا ہے۔کیونکہ لوگون کے سامنے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے عمل سے بھی ان باتون کو کر کے دکھاوے جو وہ کہتا ہے۔
بہر حال اگر ایک آدمی اپنی ہی غرض اور منشاء کے لئے کوئی بھلی بات کہے تو اس پر یہ لازم نہیں آتاکہ اس سے اس لئے اعراض کیا جاوے کہ وہ اپنی کسی ذاتی غرض کی بناء پر کہہ رہا ہے۔وہ بات جو کہتا ہے وہ تو بجائے خود ایک عمدہ بات ہے۔نیک دل انسان کو لازم ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے جو وہ کہہ رہا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ان اغراض ومقاصد پر بحث کرتا رہے جن کو ملحوظ رکھ وعظ کہہ رہا ہے۔سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
گر نوشت است پند بر دیورا
قائل کی بجائے قول کی طرف دیکھو یہ بالکل سچی بات ہے کہ قول کی طرف دیکھو۔قائل کی طرف مت خیال کرو۔اس طرح پر انسان سچائی کے
لینے سے محروم رہ سکتا ہے اور اندر ہی اندر ایک عجب نخوت کا بیج پرورش پا جاتا ہے،کیونکہ اگر یہ صرف سچائی اور صداقت کا طالب ہے تو پھر دوسروں کے عیب شماری سے اس کو کیا غرض۔
واعظ اپنے لئے کوئی ایک بات نکال لے،مگر تم کو اس سے کیا غرض۔تمہارا مقصود اصلی تو طلب حق ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ بے موقع،بے محل،بے ربط بات شروع کر دیتے ہیں اور پتدونصیحت کرتے وقت امور مقتضائے وقت کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ان امراض کا لحاظ رکھتے ہیں۔جن میں مخاطب مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اپنے سوال کو ہی مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طرز بیان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اگر طرز بیان کو غور سے دیکھتے،تو ان کو وعظ کہنے کا بھی ڈھنگ آجاتا۔
ٓایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ سب سے بہتر نیکی کیا ہے۔آپ اس کو جوب دیتے ہیں کہ سخاوت۔دوسرا ٓکر یہی سوال کرتا ہے،تو اس کو جواب ملتا ہے۔ماں باپ کی خدمت۔تیسرا ٓتا ہے۔ اس کو جواب کچھ اور ملتا ہے۔سوال ایک ہی ہوتا ہے۔جواب مختلف۔اکثر لوگوں نے یہاں پہنچ کر ٹھوکر کھائی ہے اور عیسائیوں نے بھی ایسی حدیثوں پر بڑے بڑے اعتراض کیے ہیں،مگر احمقوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان مفید اور مبارک طرز جواب پر غور نہیں کیا۔
اس میں سر یہی تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جس قسم کا مریض آتا تھا۔اس کے حسب حال نسخہ شفا بتلا دیتے تھے۔جس میں مثلاً بخل کی عادت تھی اس کے لئے بہترین نیکی یہی ہو سکتی تھی کہ اس کو ترک کرے،جو ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا تھا،بلکہ ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا،اس کو اسی قسم کی تعلیم کی ضروت تھی کہ وہ ماں باپ کی خدمت کرے۔
جماعت کو نصیحت طبیب کے لئے جیسا ضروری ہے کہ تشخیص عمدہ طور پر کرے۔اسی طرح وعظ کے منصب کا یہ فرض ہے کہ وعظ و پند سے پہلے ان لوگوںکے امراض
کو مد نظر رکھتے جن میں وہ مبتلا ہیں۔مگر مشکل تو یہی ہے کہ یہ فراست اور معرفت حقانی واعظ کے سوا ملتی ہی دوسرے کو کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں باوصفیکہ سینکڑوں ہزاروں وعظ پھرتے ہیں،لیکن عملی حالت دن بدن پستی کی طرف جارہی ہے۔ہر قسم کے اعتقادی،ایمانی،اخلاقی غلطیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کرتی جا رہی ہیں۔یہ اس لئے کہ وعظوں میں حقانیت نہیں روح نہیں۔یہ سب کچھ ہے۔مگر میں اس وقت اپنے دوستوں کو یہی بتلانا چاہتا ہوں کہ چونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے ساتھ اپنے دلوں میں طلب حق کو محسوس کیا ہے۔وہ راستی اور صداقت کے لینے میں مضائقہ نہ کریں۔گو واعظ مختلف رنگوں اور پیرایوں میں اپنا سوال ہی پیش کرے،مگر تم کو نہیں چاہیے۔کہ صرف اس ایک وجہ سے اصل حکمت کو چھوڑ دو،کیونکہ وہ جوان کے سوال کو سن کر ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔وہ بھی تو غلطی پر ہے۔کیا کسی لعل اور گوہر نایاب کو صرف اس لیے پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ کسی بد بو دار اور میلی کچیلی ٹلی(دھجی کپڑے)میں بندھا ہوا ہے؟ہر گز نہیں ۔اس کے سوا اگر وعظ سوال کرتا ہے۔تو کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہیں تو یہ حکم دیا گیا ہے۔و اما السائل فلا تنھر(الضحیٰ:۴)اور سائل خواہ گھوڑے پر ہی سوار ہو کر آیا ہو،پھر بھی واجب نہیں کہ اس کو رد کیا جاوے۔تیرے لیے تو یہ حکم ہے کہ تو اس کو جھڑک بھی نہیں۔ہاں خدا تعالیٰ نے اس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے۔وہ اپنی خلاف ورزیوں کی خود سزا پا لے گا۔لیکن تمہیں یہ مناسب نہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک واجب العزت حکم کی نا فرمانی کرو۔غرض اس کو کچھ دے دینا چاہیے۔اگر پاس کچھ ہو اگر پاس کچھ نہ ہو تو نرم الفاظ سے اس کو سمجھا دو۔‘‘ ؎۱
بد ظنی فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی بھی توفیق مل جاتی ہے ۔جب پہلی ہی
منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے۔بد ظنی بہت بری چیز ہے۔انسان کو بہت سی نیکیون سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے نوبت یہان تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بد ظنی شروع کر دیتا ہے۔
اگر بد ظنی کا مرض بڑھ گیا ہوتا ،تو بتلاو ان مولویوں کو جنہوں نے میری تکفیر اور ایذا ہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔اور کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔کونسی وجوہ کفر کی اور میری تکذیب کی نظر آئی تھی ۔میں نے پکار پکار کر اور خدا کی قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں مسلمان ہوں۔قرآن کریم کو خاتم الکتاب اورر سول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خاتم الا نبیاء مانتا ہوں۔اور اسلام کو ایک زندہ مذہب اور حقیقی نجات کا ذریعہ دیتا ہوں۔خدا تعالیٰ کی مقادیر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہوں۔اسی قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہوں۔اتنی ہی نمازیں پڑھتا ہوں۔رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں۔پھر کونسی وہ نرالی بات تھی جو انہوں نے میرے کفر کے لئے ضروری سمجھی۔صریح ظلم ہے۔وہ اپنے گندے اعمال اور زندگی کو نہیں دیکھتے۔وہ زمین اور آسمان پر غور اور تدبر کر کے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان مصنوعات کا خالق ہے۔لیکھرام کے نشان سے مولویوں نے کیا فائدہ اٹھایا؟
آتھم کا نشان پھر آتھم کی پیش گوئی سے کیا فائدہ حاصل کیا۔اللہ اللہ کیسی صاف نکلی بلکہ اس کو مشکوک کرنے کی سعی کی؛حالانکہ اگر اس میں کوئی لازم باقی تھا تو آتھم پر جس
نے اپنی خاموشی اور ہمارے مطالبات کے جواب نہ دینے سے اس کی سچائی پر مہر کر دی۔جبکہ اس میں صریح شرط موجود تھی۔پھر ایک قانونی طبیعت کا آدمی بھی اس کے دو ہی معنی کرے گا۔ایک یہ کہ اگر شرط کی راعایت کرے تو بچ رہے۔ورنہ مر جائے۔
پھر بچ جانے کی صورت میں مومن کو چاہیے تھا کہ وہ اس مر کو تنقیح طلب قرار دیتا کہ آیا اس نے رعایت کی یا نہیں؟
یاد رکھو یہاں تو صریح اورصاف شرط موجود تھی کہ بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے،لیکن بعض اندازی پیش گوئیاںایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بظاہر کوئی شرط نہیں ہوتی اور در حقیقت میں وہ مشروط ہوتی ہیں۔یونس نبی کا قصہ صاف موجود ہے۔تفسیروں میں دیکھ لو کیا لکھا ہوا ہے؟باوصیکہ ایک ایسی نظیر قرآن شریف اور کتب سابقہ میں موجود ہے۔لیکن ہمارے معاملہ میں اسی بد ظنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ایک مقررہ قانون کی بھی پرواہ نہیں کرتے؛حالانکہ اس میں صریح شرط موجود ہے۔اور اس کا زندہ رہنا اور بچ جانا اس امر کی دلیل ہے کہ اس نے اس شرط سے فائدہ اٹھایا مگر اس شرط سے فائدہ اٹھانے کے ہمارے پا اس سے بھی بڑھ کر دلائل ہیں جو ایک موٹی عقل کا ٓدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ہماری طرف سے متواتر اشتہار پر اشتہار جاری ہوئے۔اور اس کی دعوت کی گئی کہ تم اس کی قسم کھاو اور اگر جھوٹی قسم کی پاداش میں ایک سال کے اندر ہلاک نہ ہو جاوں،تو میں اپنے آپ کو جھوٹا قرار دوں گا۔اور اسی قسم کے لئے چار ہزار تک کو انعام بھی دینا چاہا اور یہ بھی ثابت کر کے دکھلایا کہ بائیبل سے ایسی قسم کا کھانا گناہ نہیں بلکہ انکار کرنا گناہ ہے۔اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہم جھوٹے ہیں ،تو ہم پر نالش کرو۔پادریون نے بھی اس کو اکسایا اور ترغیب کی کہ تم اس کو نالش کرو،لیکن اس قدر کوششوں پر بھی وہ میدا ن میں نہ آیااور اپنی خاموشی اور اسلام پرنکتہ چینی اور اس کے خلاف تحریروں کی اشاعت سے رک کر اس نے بتلا دیا کہ حقیقت میں پیش گوئی کے موافق اس نے شرط سے فائدہ اٹھایا۔
پیش گوئی میں شرط کا ہونا خود ایک پیش گوئی ہے۔اگر اس نے شرط سے فائدہ نہیں اٹھانا تھا تو اس کو مشروط کرنے کے معنی کیا ہوئے۔
اب ایک متدین اور خدا ترس کو چاہیے کہ سوچے کہ آیا اتھم نے رجوع الی الحق کی شرط سے فائدہ اٹھایا ہے یا نہیں اور قسم کھانا خلاف شرع تھا تو کلارک اور پریم داس وغیرہ عیسائیوں نے قسم کھائی تھی یا نہیں۔علاوہ ازیں ہم نے توثابت کر کے دکھا دیا تھا کہ فیصلہ صحیحہ کے لئے قسم کھانا عیسائی پر واجب ہے۔
غرض یہ پیش گوئی مشروط تھی۔وہ سراسیمہ رہا۔شہر نہ شہر پھرتا رہا۔اگر اس کو خداوند مسیح پر پورا یقین اور بھروسہ ہوتا تو پھر اس قدر گھبراہٹ کے کیا معنی؟لیکن ساتھ ہی جب اس نے اخفائے حق کیا اور ایک دنیا کو گمراہ کرنا چاہا ،کیونکہ اخفائے حق بعض نا واقفوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر ہو سکتا تھا،تو اللہ تعالیٰ نے اپنے صادق وعدہ کے مو افق ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر اس کو اس دنیا سے اٹھا لیا اور جس موت سے وہ ڈرتا اوربھاگتا تھا اس نے اس کو آلیا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آتھم کے معاملہ میں لوگوں کو کیا مشکل پیش آسکتی تھی۔اس قدر قوی قرائن موجود ہیں۔اور پھر انکار!!! قرائن قویہ سے تو عدالتیں مجرموں کو پھانسی دے دیتی ہیں۔غرض یہ آتھم کا ایک بڑا نشان تھا۔اور براہین احمدیہ میں اس فتنہ کی طرف ساف صاف اور واضح لفظوں میں الہام د رج ہو چکا ہے۔
نشان مہو تسو پھر جلسہ مذہب کا نشان ایک بڑا نشان ہے۔خواجہ کمال الدین صاحب اور بہت سے دوست اس بات کے گوہ ہیں اور وہ قسم کھا کر بتلا سکتے ہیں کہ قبل از وقت
ان کو بتلا دیا گیا تھا اور اشتہار چھاپ کر شائع کر دیا گیا تھا کہ ہمارا مضمون بالا رہا اور ٹھیک اسی الہام کے موافق یہ نشان ہزار ہا انسانوں کے رو برو پورا ہوا اور اردو انگریزی اخبارات نے متفق اللفظ ہو کر اقرار کیا کہ ہمرا مضمون سب سے بالا رہا ۔
بریت کا نشان پھر جو مقدمہ ہم پر اقدام قتل عمد کا قائم ہوا جس میں ڈاکٹر کلارک جیسے لوگ شامل تھے اور مولوی محمد حسین نے بھی جاکر گواہی دی اور رام بھجدت وکیل
مشہور آریہ بھی پیروی کے لئے آیا۔کئی سو آدمی اس امر کے موجود ہیں کہ کس طرح پر قبل از وقت اس مقدمی کی ساری کیفیت اورصورت سے اطلاع دی گئی تھی اور آخر بریت کی بھی اطلاع دے دی جو اللہ تعالیٰ نے ابراء(بے قصور ٹھہرانا)کے الہام سے خبر دی تھی۔
یہ خدا کے غیب کی باتیں ہیں۔کیا انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر پیش گوئی کر کے اور ایسے وقت میں کہ مقدمے کا نام و نشان بھی نہیں۔اس کا سارا نقشہ کھینچ کر دکھلادیا جاوے۔
لیکھرام کا نشان پھر لیکھرام کا نشان ایک شمشیر برہنہ کی طرح تھا۔پانچ سال پیشتر بذریعہ اشتہارات فریقین کی طرف سے یہ پیش گوئی شائع کی گئی تھی اورخود لیکھرام
کہیں جاتا ۔اس پیش گوئی کو سناتا اس میں کوئی شرط نہ تھی اور وہ صاف تھی۔اگر وہ زندہ رہتا تو بے شک کوئی قیامت برپا ہو جاتی۔لیکن یہ تب ہوتا۔اگر خدا تعالیٰ کی باتیں نہ ہوتیں۔بے شک پھر انجام رسوئی کے ساتھ ہوتا۔کیا محمد حسین چپ رہتا؟اب بھی جب کہ یہ نشان پورا ہو گیا ہے اور لاکھوں انسانوں نے اس پیش گوئی کی صدقت کو تسلیم کر لیا۔وہ کہتا ہے کہ جماعت کے کسی آدمی نے قتل کر دیا ہو گا۔افسوس یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ مرید کیسا خاش اعتقاد ہو گا ،جو ایسے پیر پر بھی اعتقاد رکھ سکتا ہے جو اسے قتل کی ترغیب دے اور اپنی پیش گوئیوں کو اپنی سدقت کا معیار قائم کرے۔اور پھر ان کے پورا کرنے کے لئے مریدون کو ناجائز وسائل اختیار کرنے کی تعلیم دے؟شرم ہے ایسے خیالات پر۔
جو لوگ اس قسم کا خیال رکھتے ہیں وہ گویا ہماری نیک نہاد ،انساف پرور اور ہوشیار گورنمنٹ کو بھی بد نام کرنا چاہتے ہیں۔گورنمنٹ نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا،لیکھرام کے قتل کے متعلق اس نے پوری سر گرمی سے تحقیقات کی،لیکن ہمارا ور ہماری جماعت کا دامن اس خون سے بالکل صاف اور پاک ثابت ہوا۔
افسوس یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ کیا لیکھرام نے میرے کسی باپ اور دادا کو قتل کر دیا تھا ؟اس نے میری ذات کو کسی قسم کی تکلیف اور ایذایں دی۔ہاں اس نئے پا ک رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ذات پر وہ گستاخانہ حملے کیے اور وہ بے ادبیاں کیں کہ میرا دل کانپ اٹھا اور میرا جگر پارا پارا ہو گیا۔میں نے اس کی بے ادبیوں اور شوخیوں کو ٹکڑے ہوئے دل کے ساتھ خدا کے حضور پیش کیا۔اس نے ان شوخیوں اور گستاخیوں کے عوض میں اس کی نسبت مجھے یہ پیش گوئی عطا فرمائی۔پھر اس پیش گوئی میں اس کی موت،وقت ،صورت موت وغیرہ امور کو بخوبی بتلا دیا گیا تھا۔ہاتھ کا نشان بنایا جانا اور ’’بترس از تیغ بران محمدؐ‘‘کہنا یہ سب امور واضح طور پر موجود ہیں۔اب کوئی بتلائے کہ کیا اس وقت کہ جب کہ وہ ابھی چوبیس پچیس برس کا نوجوان تھا۔پانچ سال پیشتر اس وقت کی اطلاع دینا انسانی منصوبی کا دخل ہو سکتا ہے۔ہر گز نہیں۔یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔انسانی طاقت،انسانی فہم وفراست سے بالا تر اور بالاتر ہے۔ ۱ ؎
نشانات کی ضرورت اب بتلاو کہ کیا یہ نشانات اپنی صدقت اور ثبوت میں کسی اور خارجی دلیل کے محتاج ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ معجزات میں سے ایک
ہی کافی ہے؛چنانچہ جب ان سے معجزہ مانگا گیا،تو یہی کہتے رہے کہ یونس ؑ نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان نہ دیا جاوے گا۔
میں نے پہلے بتلا دیا کہ جو لوگ اندرونی حالات سے واقف ہوتے ہیں۔ان کے لئے نشانات کی کچھ بھی بڑی ضرورت نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ صرف رحم کر کے ان کے مزید اطمینان اور اپنی ہستی منوانے کے لئے نشانات ظاہر فرماتا ہے۔مجھ کو تعجب پر تعجب اور حیرت پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اولیا ء اللہ کے معجزات کے قائل ہیں اور ایسے خوراق ان کے بیان کرتے ہیں۔جن کے لئے نہ کوئی دلیل ہے نہ عقلی یا نقلی ثبوت ہے اور وہ بطور کتھا اور کہانی کے ان کے زمانہ کے بہت عرصہ بعد لوگوں میں مشہور ہوئے ہیں۔
شیعہ ہی سے اگرحضرت علیؓ کے معجزات مانگو،تو وہ اس قدر بیان کریں گے کہ گنتے گنتے تھک جائیں،مگر ثبوت جب مانگیں تو کچھ بھی نہیں۔سید عبد القادر جیلانی ؒکے خوارق بکثرت بیان کیے جاتے ہیں،مگر ان کی کسی کتاب میں منقول نہیں ہیں۔اب لوگ خدا سے ڈریں اور سوچ کر جواب دیں کہ جو باتیں صد ہا سال کے بعد لکھی گئی ہیں،ان کی تو تصدیق کی جاتی ہے،لیکن جو آنکھوں سے دیکھے گئے ہیں،ان کی تکذیب کی جاتی ہے۔افسوس یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں سوچتے کہ خبر معائنہ کے برابر نہیں ہوتی۔سنی ہوئی بات کسی واقعہ صحیحہ کی برابری نہیں کر سکتی۔اب میرے نشانات دیکھ کر جو ان نشانون کی تکذیب کی جاتی ہے۔یہ میری تکذیب نہیں یہ واقعات صحیحہ کی تکذیب ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب ہے۔
یہ یاد رکھو کہ یہ مصیبت اس لئے آئی ہے کہ تقویٰ اور طہارت اٹھ گیا ہے اور قانون الہی یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو خوف اور خشیت اٹھ جاتی ہے اور دلوں میں رقت اور روح میں گدازش نہیں رہتی۔اس وقت منذر نشان پیدا ہوتے ہیں۔یہ مقام تو ڈرنے کا تھا،مگر افسوس ان لوگوں نے اندھے اور بہرے ہو کر ان نشانات الیہہ کو (جو تضرع اور ابتہال پیدا کر سکتے تھے،ایمان میں ایک نئی زندگی بخش سکتے تھے)چھوڑ دیا اور صم بکم ہو کر گزر گئے۔ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ کا فتویٰ لگ چکا ہے۔صم بکم عمی لا یرجعون (البقرہ:۱۹)
ہماری جماعت کا فرج مگرہماری جماعت جس نے مجھے پہچانا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات کو باسی نہ ہونے دیں۔اس سے قوت یقین پیدا ہوتی ہے۔
اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان نشانات کو پوشیدہ نہ رکھے اور جس نے دیکھے ہیں وہ ان کو بتلا دے جوغائب ہیں،تا کہ برائیوں سے بچیں اور خدا پر تازہ ایمان پیدا کریں اور ان نشانات کو عمدہ براہین سے سجا سجا کر پیش کریں۔یاد رکھو! خدا کے دلائل اور براہین کو جو غور سے نہیں دیکھتے،وہ اندھے ہوتے ہیں اور حق کو دیکھ نہیں سکتے اور ان کے سننے کے کان نہیں ہوتے۔یہ لوھ چار پائے بلکہ ان سے بھہ بد تر ہیں اور خدا ان کی زندگی کا متکفل نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ مومن اور متقی کی زندگی کا ذمہ دار ہے۔ھو یتولی الصلحین(الاعراف:۱۹۷)اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور اور چار پایوں کے مشابہ ہیں ان کی زندگی کا کفیل نہیں۔بھلا بتاو کہ کوئی آدمی ذبح ہوتے ہوئے بکروںکے سر پر بیٹھ کر روتا ہے؟پھر جو لوگ بکروں سے بھی گئے گزرے ہیں،ان کی زندگی کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے؟
جانوروں کی زندگی دیکھ لو کہ محنتیں ان سے لی جاتی ہیں اور ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔پس جو انسان خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرتا ہے ۔اس کی زندگی کی ضمانت نہیں رہتی؛چنانچہ فرمایا قل ما یعبئو ا بکم ربی لو لا دعا وکم( الفرقان:۷۸)یعنی اگر تم اللہ کو نہ پکارو،تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا رکھتا ہے۔
’’یاد رکھو جو دنیا کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں یا اس سے تعلق نہیںرکھتے۔اللہ تعالیٰ ان کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتا۔‘‘ ؎۱
یکم ؍ستمبر ۱۹۰۰؁ء
خدا کی صفت غناء کا تقاضا حضرت مسیح موعودؑ نے خدا کے غناء ذاتی پر بہت موثر اور ڈر دلانے والی تقریر فرمائی۔فرمایا:
’’اگر چہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے انہ اوی القریۃ۔مگر خداتعالیٰ کسی کا محکوم نہیں رہنا چاہتا۔اس کی صفت غناء ہر دم تقاضاکرتی ہے کہ انسان کبھی ایمن اور مطمئن ہو کر نہ بیٹھ رہے۔اس کا منشاء ہے کہ انسان خوف و ہراس میں اوقات بسر کرے تا کہ ذل عبودیت کی حالت قائم رہے۔‘‘
فرمایا:’’ہیضہ خدا تعالیٰ کی تلوار ہے۔بہت بہت دعائیں مانگو کہ اللہ تعالیٰ اس سے گاؤں کو محفوظ رکھے۔اس لئے کہ مخالفوں کے نزدیک اور جگہوں کے لوگ تو شہید ہوتے ہیں۔مگر خدا نہ کرے جو یہاں تو پڑے تو یہ کہیں گے کہ ان پر غضب الہی پڑا۔‘‘ ؎۱
۳؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
تحفہ گولڑیہ کے متعلق الہامی بشارت تحفہ گولڑیہ میں بڑے بڑے دقئق معارف بیان ہوئے ہیں۔حضرت اقدس نے فرمایا:
’’ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام ہو ہے،جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ رسالہ بڑا بابرکت ہو گا،اسے پورا کرو اور پھر الہام ہوا۔قل رب ذدنی علما۔
چونکہ مضامین کی آمد بہت ہے اور وہ چاہتی ہے کہ درمیانی سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے،اس لئے کہ ٹوٹنے مے بسا اوقات پیش آمدہ مضمون فقت ہو جاتا ہے۔مناسب ہے کہ جمعرات تک پھر نمازیں ظہر اور عصر جمع کر کے پڑھی جائیں۔‘‘
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ پیش گوئی تجمع لہ الصلوۃ یوں ثابت اور پوری ہو گئی۔ ؎۲
۴؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
بڑا ثواب حضرت اقدس نے ایک دن مولانا عبد الکریم صاحب کو مخاطب ہو کر فرمایا:کہ
’’اب تو آپ بھی ہمارے ساتھ گالیوں میں شامل ہو گئے۔بڑا ثواب ہے۔‘‘؎۳
۷؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
ایک الہام حضرت کو کل درد سر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا:
’’انی مع الامراء اتیک بغتۃ‘‘
یعنی میں امیروں کے ساتھ تیری طرف اچانک آؤں گا
(اس الہام سے بشارت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اب امیروں کو اس آسمانی سلسلہ کی طرف توجہ دلا نی چاہتا ہے)
۸؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
کلام الہی کے تین طریقے رات مولانا نور الدین صاحب نے اس آیت کے معنی پوچھے۔وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآی حجاب
او یر سل رسولاً(الشوریٰ:۵۲)مولوی صاحب نے عرض کی کہ اس آیت سے بہت جھگڑا ہوا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا:
’’قبل اس کے کہ اس آیت کے حل کی طرف ہم متوجہ ہوں۔ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ تین ہی طریقے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے ۔چوتھا کوئی نہیں(۱)رویاء(۲)مکاشفہ(۳)وحی۔‘‘پھر نماز عشاء کا سلام پھیرنے کے بعد فرمایا:
’’مولوی صاحب! اس آیت کے معنی خوب کھل گئے ہیں۔من ورای حجاب سے مراد رویا کا ذریعہ ہے۔من ورای حجاب کے معنی یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں۔جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں۔اور یہی رویا ء کی ہیئت ہے۔
یرسل رسولا ً سے مراد مکاشفہ ہے۔رسول کا تمثیل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تمثیلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد بڑے جوش اور خوشی سے فرمایا:
’’قرآن کریم کیسے کیسے حقیقی اور عظیم علوم بیان فرماتا ہے۔اس آیت کے ہمرنگ انجیل وتورایت میں تو ڈھونڈ کر بتاؤ۔‘‘
مولوی صاحب نے پوچھا تھا۔اس تفسیر سے پہلے کہ من ورای حجاب سے یہ مطلب ہو کہ خدا تعالیٰ کا نظر آنا کوئی ضروری نہیں۔فرمایا:
’’یہ مطلب نہیں ۔یہ معنی ہی رویاء کے ہیں اور لفظمن ورای حجاب نے تو حقیقت رویا کے فلسفے کی بیان کی ہے۔‘‘؎۱
۸؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
ابتلاء موجب رحمت ہوتے ہیں شیخ رحمت اللہ صاحب کا خط دربارہ کسی ابتلاء کے حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا،جس پر حضور نے فرمایا:
’’ میں اس ابتلاء میں ان کے لئے بہت دعا کرتا ہوں۔اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ۔درحقیقت ابتلاء بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں کہ ایک طرف عبودیت مضطر ہو کر اور چاروں طرف سے کٹ کر اسی اکیلے سبب ساز کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور ادھر سے الوہیت اپنے فضلوں کے لشکر لے کر اس کی تسلی کے لئے قدم بڑھاتی ہے۔میں ہمیشہ یہ سنت انبیاء علیھم السلام اور سنت اللہ میں دیکھتا ہوں کہ جس قدرت اس گرامی جماعت کی رافت و رحمت ابتلا ء کے وقت اپنے خدام کی نسبت جوش مارتی ہے۔آرام و عافیت کے وقت وہ حالت نہیں ہوتی۔‘‘؎۱
۹؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
صبر کی تلقین حضرت اقدس نے قبل از نماز ظہر بڑی لطیف تقریر فرمائی اور مولانا عبد الکریم صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا:کہ
’’جو کچھ ہو رہا ہے ۔ارادہ الہی کے موافق ہو رہا ہے۔ضروری تھا کہ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے ان آثار کی صداقت پر مہر لگا دیتے۔جن میں لکھا ہے کہ مہدی موعود کے وقت بڑا شور برپا ہو گا اور اس کو سلف وخلف کے عقئد کے خلاف باتیں بنانے والا کہہ کر کافر ٹھہرایا جائے گا۔اس وقت ہمارے احباب کو ایسا ہی صبر کرنا چاہیے۔جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے مکہ معظمہ میں کیا۔ کوئی حرکت ان سے ایسی سر زد نہ ہوئی جو انہیں حکام تک پہنچاتی۔اس وقت کسی پر بھروسہ نہ کریں۔کہ فلاں شخص ہماری مدد کرے گا ۔یاد رکھیں۔اس وقت خداوند جل وعلا کے سوا کوئی ولی ونصیر نہیں۔‘‘؎۲
اولیا ء اللہ سے جنگ کا نتیجہ ایک شخص کسی شیخ عبد الرحمن کشمیری بازار کا شائع ہوا لمبا چوڑا اشتہار لے کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت
اقدس نے اس پر فرمایا:
’’اب ہماری باتیں ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اور درحقیقت جب تک آسمان سے نور نازل ہو کر قلوب کو با فہم نہ بنائے۔کوئی نہ سمجھا سکتا ہے۔اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے۔یہ ایام ابتلا ء کے ایام ہیں۔‘‘پھر فرمایا:
’’کیا یہی سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرنے کے سبب سے نہ صرف ایمان ہی سلب ہو جاتا ہے بلکہ عقلیں بھی سلب ہو جاتی ہیں۔اس وقت جو بولتا ہے یہی بولتا ہے اور بیسوں خط اطراف سے اس مضمون کے آتے ہیں کہ مہر علی شاہ نے مرزا صاحب کی ساری شرطیں منظور کر لی ہیں۔پھر وہ مقابلہ کے لئے کیوں نہ آئے۔اللہ اللہ ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے۔کوئی غور کرتا ہی نہیں کہ اصل بات کیا ہے۔‘‘؎۲
۱۵ ؍ستمبر۱۹۰۰؁ء
کلام الہی کی اقسام مطابق بستم جمادی الاولیٰ۱۳۱۸ھ بعد اداء نماز مغرب شرف دیدار مبارک حضرت اقدس ؑ حاصل گر دید۔فرمودند:
’’کلام الہی برسہ قسم است وحی،رویاء،کشف،وحی آنکہ بلا واسطہ شخصے بر قلب مطہرہ نبوی فرود آئد و آں کلام اجلیٰ دروشن مے باشند۔نظیرش بیان فرمودند کہ مثلاً حافظ صاحب نا بینا کہ پیش مانشستہ اند۔درسماع کلام ماہر گز۔ غلطی نمے خورندونمے دانند کہ آواز مسموع کلام غیرما باشد۔ اگرچہ از چشم ظاہر مارانمے بینند۔دیگر رویاء ومنام ست۔کہ آں کلام رنگین ولطیف وکنایہ داردوذوی الو جوہ است۔چون دیدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوارین دردست مبارک خویش یا معائنہ فرمودن۔یکے زوجہ مطہرہ خودرا اطول یدین ودیدن بقرہ وغیرہ ایں چنیں کلام الٰہی تعبیر طلب است۔سوم کشف است وآں تمثل است خواہ بصورت جبرائیل باشدیا فرشتہ یا دیگر اشیاء۔پس آیت شریفہ خواندند ان یکلمہ اللہ ہ الا وحیاً او من ورای حجاب او یرسل رسولاً(الشوریٰ:۵۲) ارشاد شد کہ سوائے امور ثلاثہ مذکورہ کلام الٰہی را طریقے نیستؔ۔‘‘
۱۳ ؍اکتوبر۱۹۰۰ء ؁
بیماری میں الٰہی مصالح عصر کے وقت فرمایا:
’’طبیعت بہت علیل ہے۔دُعا کرنی چاہیئے۔‘‘
اس پر مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ آپ وہ ہیں،جن کی نسبت خدا تعالیٰ کہہ چکا ہے انت المسیح الذی لا یضاع وقتہ۔میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو آپ کے درجات کی ترقی بہت ہی منظور ہے کہ ایک طرف تو آپ کے سپرد اس کثرت سے کام کر دیئے ہیں کہ ان کے تصور سے قوی سے قوی زہرہ آدمی کی پیٹھ ٹوٹ جاتی ہے اور اُس پر اس قدر بیماریوں کا ہجوم۔مسکرا کر فرمایا:
’’ہاں یہ تو ہمیں یقین ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے مصالح ملحوظ ہیں‘‘۔
احمد بیگ کے متعلق پیشگو ئی احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض کے متعلق فرمایا:
’’ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے غور کرے کہ چار شخصوں
کی موت کی نسبت ہماری پیش گوئی تھی۔جن میں سے تین ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک(داماد)باقی ہے،تو اس کی روح کانپ جائے گی کہ کس دلیری سے اور کیوں وہ اعتراض کر سکتا ہے۔اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے مصالح اس میں ہیں۔خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ راسبازوں کے مخالفوں عمریں بھی ان کے کارخانے کی رونق کے لئے لمبی کر دیتا ہے۔خدا تعالیٰ قادر تھا کہ ابو جہل اور اس کے امثال پر مکہ معظمہ مین یک جا اور ناگہاں بجلی پڑ جاتی اور بہت بڑی ایذا پہنچانے سے قبل ان کا استیصال ہو جاتا ہے،مگر ان کا تاروپود درہم برہم نہ ہوا۔جب تک بدر کا یوم نہ آگیا۔اگر ایسی ایسی کاروایاں جلد جلد پوری ہو جائیں،تو نبی بہت جلد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاوے اور وہ گرمی ہنگامہ کیونکر رنگ آرائے چہرہ ہستی ہو،جس کے قیام کے بغیر طرح طرح کے علوم اور حکمتیں بروئے کا ر نہیں آسکتیں۔خدا تعالیٰ صادق کو نہیں اٹھاتا،جب تک اس کا صادق ہونا آشکار نہ کر دے اور ان الزاموں سے اس کی تطہیر نہ کر دے،جو نا عاقبت اندیش اس پر لگاتے ہیں۔‘‘
بعد نماز عشاء فرمایا:
مہدی اور دجال کے متعلق احادیث میں آج کنزالعمال کو دیکھ رہا تھا۔مہدی اور دجال کی نسبت۸۵حدیثیں اس میں جمع کی گئی ہیں۔سب
حدیثوں میں یہی ہے کہ وہ آتے ہی یوں خونریزی کرے گا اور یوں خلق خدا کے خون سے روئے زمین کو رنگین کرے گا۔خدا جانے ان لوگوں کو جو ان احادیث کے وضاع تھے۔سفاکی کی کس قدر پیاس اور خلق خدا کی جان لینے کی کتنی بھوک تھی اور اس وقت عقلیں کس قدر موٹی اور سطحی ہو گئیں تھیں۔یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ اصول تبلیغ اور ماموریت کے قطعاًخلاف ہے کہ کوئی مامور آتے ہی بلا اتمام حجت کے تیغ زنی شروع کر دیتے ہیں۔تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آخری زمانہ کو حضرت خیر الانام رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ سے اتنا دور قرار دیا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جتنا بعد نبوت سے ہو گا۔اتنی ہی غفلت اور کسل اور اعراض عن اللہ کا مرض شدید ہو گا۔بانیہمہ آخری زمانہ کا مصلح اور مامور ایسا شخص قرار دیا ہے،جو آتے ہی تلوار سے کام لے اور اتمام حجت کا ایک لفظ بھی منہ پر نہ لائے۔وہ مصلح ہی کیا ہوا ۔وہ خونریز مفسد ہوا۔
افسوس آتا ہے کہ اس قدر تنا قضات کا مجموعہ وہ حدیثیں ہیں کہ اس سے زیادہ ہفوات اور لغویات میں بھی تناقض نہیں ممکن،مگر ان لوگوں کی دانشیں ان کی بیہودگی کی تہ تک نہ جا سکیں۔
فرمایا: میں ان حدیثوں کو پڑھ کر کانپ اٹھا اور دل میں گزرا اور بڑے درد کے ساتھ گزرا کہ اگر اب خدا تعالیٰ خبر نہ لیتا اور یہ سلسلہ قائم نہ کرتا ۔جس نے اصل حقیقت سے خبر دینے کا ذمہ اٹھایا ہے۔تو یہ مجموعہ حدیثوں کا اور تھوڑے عرصہ کے بعد بے شمار مخلوق کو مرتد کر دیتا۔ان حدیثوں نے تو اسلام کی بیخکنی اور خطرناک ارتداد کی بنیاد رکھ دی ہوئی ہے۔جبکہ حدیثیں یونہی بے مراد رہتیں اور ان کی بے بنیاد پیش گوئیاں جو محض دروغ بے فروغ اور باطل افسانے ہیں اور کچھ مدت کے بعد آنے والی نسلوں کے سامنے اسی طرح نامراد پیش ہوتیں۔توصاف شک پڑ جاتا کہ اسلام بھی اور جھوٹے مہا بھارتی مذہبوں کی طرح نرا کتھوں پر مبنی اور بے سرو پا مذہب ہے۔
اورآئیندہ نسلیں سخت ہنسی اور استہزاء سے اس بات کے کہنے کا بڑی دلیری سے موقع پاتیں کہ دجال کو خدا بنانے والا! اور خدا کی صفات کاملہ مستجمہ سے پورا حصہ دینے والا مذہب بھی کبھی مذہب حق اور مذہب توحید کہلانے کا استحقاق رکھ سکتا ہے۔‘‘؎۱
اشاعت ہدایت کی تکمیل مسیح موعودؑ کے ذریعہ مقدر ہے میری سمجھ میںنہیں آتا کہ یہ کس قسم کی اصلاح ہے۔
حالت تو یہ ہے کہ بعد زمانہ ہی بجائے خود بہت کچھ قابل رحم حالت ہوتی ہے۔اور اس پر تو اس وقت ہزاروں اور فتنے اور آفتیں بھی ہوںگی پھر قتال سے کیا فائدہ؟
اخیر میں یہ بھی لکھ دیا ہے لا مھدی الا عیسیٰ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات قرآن ہی سے ہے۔جب ہم اس ترتیب کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں۔یعنی تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت۔اول الذکر کی تکمیل چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہوئی۔جبکہ آیت الیوم اکملت لکم(المائدۃ:۴)نازل ہوئی اور دوسری تکمیل کے لئے بالاتفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح ابن مریم یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی۔سب مفسرین نے بالا اتفق لکھ دیا ہے کہ یہ آیت ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ (الصف:۱۰)کی تکمیل مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی۔اور جبکہ ہدایت کی تکمیل چھٹے دن ہوئی تو اشاعت ہدایت کی تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہونی چاہیے تھی اور قرآنی دن ایک ہزار برس کا ہوتا ہے۔گویا مسیح موعود چھٹے ہزار میں ظاہر ہو گا۔
مہدی کی حدیثوں کی نسبت فرمایا کہ سلطنت کے خیال سے وضع کی گئی تھیں۔
قرآن ہی پڑھنے کے قابل ہے ۔کیونکہ قرآن کے معنی ہی یہ ہیںآریوں نے قرآن کریم کے الفاظ نہ سمجھنے ہی کی وجہ سے خیر الماکرین الفاظ پر اعتراض کئے ہیں؛حالانکہ خود دید میں اندر کو بڑا مکار لکھا ہے۔؎۱
قرآن کے نام میں پیش گوئی اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان واعتقاد ہو تے ،تو ہم قو موں کو شر مساری سے
مُنہ بھی نہ دکھاسکتے ۔ میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی ۔تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے۔وہ یہ ہے کہ یہی قرآن پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ پڑھنے کے لائق کتاب ہو گی۔جبکہ اور کتابیں بھی اس کے ساتھ پڑھنے میں شریک کی جائے گی۔اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی۔اور کوئی حدیث کی یا او ر کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور دن رات کتاب اللہ ہی کی پڑھو۔بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی دن رات جھکا رہے۔ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن پاک کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتناء اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے۔اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔‘‘؎۲
۱۴ــــ؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
خلق آدمؑ اور زحل کی تاثیرات صبح کی سیر کے وقت حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
آدم علیہ السلام عصر کے وقت چھٹے دن پیدا ہوا تھا۔اس
وقت مشتری کا دورہ ختم ہو کر زحل کا شروع ہونے والا تھا۔چونکہ زحل کی تاثیرات خونریزی اور سفاکی کی ہیں۔اس لئے ملائکہ نے اس خیال سے کہ یہ زحل کی تاثیرات کے اندر پیدا ہو گا۔یہ کہا۔اتجعل فیھا من یفسد فیہا(البقرہ:۳۱)اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس طرح انسان ارضی تاثرات اور بوٹیوں کے خواص سے واقف ہوتا ہے۔اسی طرح پر آسمانی تاثیرات سے باخبر ہو تی ہے۔
بہترین دعا پھر فرمایا:ایاک نعبد میں جہاں الرب۔الرحمن۔الرحیم۔مالک یوم الدین(الفاتحہ:۲۔۳۔۴)کے حسن احسان کی طرف تحریک ہوتی ہے۔وہاں
انسان کے عاجزی اور بے کسی بھی ساتھ ہی محرک ہوتی ہے۔اور وہ ایاک نستعین کہہ اٹھتا ہے۔بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو تمام خیروں کی جامع ہو اور مانع ہو تمام مضرات کی۔اس لئے انعمت علیہم کی دعا میں حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت ؐ کے زمانہ تک کہ کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کے حصول کے لئے دعا ہے۔اور غیر المغضوب علیہم الا الضالین میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے۔
اسلام تلوار سے نہیں پھیلا اسلام کی نسبت جو کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا ہے۔یہ بالکل غلط ہے۔اسلام نے تلوار اس وقت تک نہیں اٹھائی جب تک کہ
سامنے تلوار نہیں دیکھی۔قرآن شریف میں صاف طور پر لکھا ہے کہ جس قسم کے ہتھیاروں سے دشمن اسلام پر حملے کرے،اسی قسم کے ہتھیار استعمال کرو۔مہدی کے بارے میں کہتے ہیں کہ آکرتلوار سے کام لے گا۔یہ صحیح نہیں ہے۔اب تلوار کہاں ہے جو نکالی جاوے۔پھر افسوس تو یہ ہے کہ باوجود یکہ مسیح ان لوگوں کے مسلمات کو تسلیم کرے گا اور فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اترے گا،مگر پھر بھی اس پر کفر کا فتویٰ دیا جائے گا۔جیسا کہ کتابوں سے ثا بت ہے بلکہ ایک شخص اٹھ کر کہہ دے گا ۔ان ھذا الرجل غیر دیننا۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ان دلائل سے باخبر ہوں،تاکہ ان کو کسی محفل میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی اور یعقوب علی صاحب اور چند دوست ایسی کتابیں سوال و جواب کے طور پر تالیف کریں جو ہمارے مقاصد کے لئے ہوں اور مدرسہ میں رائج کی جاویں۔‘‘؎۱
۱۷؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
کی صبح کو حضرت اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کو تشریف لے گئے۔اور فرمایا:
کشف اور الہام کی درمیانی حالت ’’بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک بات بتلاتے ہیں۔میں اس کو
سنتا ہوں،مگر آپ کی سورت نہیں دیکھتا ہوں۔غرض یہ ایک حالت ہوتی ہے جو بین الکشف والالہام ہوتی ہے۔‘‘
مسیح موعود کے دو نشان رات کو آپ نے مسیح موعوؑ کے بارے میں یہ فرمایا:
’’یجع الھرب و یصا لح الناس۔یعنی ایک طرف تو جنگ وجدال
اور حرب کو اٹھا دیا جائے گا۔دوسری طرف اندرونی طور پر مسالحت کرا دے گا۔گویا مسیح موعودؑ کے لئے دو نشان ہوں گے۔اور بیرونی نشان کے حرب نہ ہوگی۔دوسرا اندرونی نشان کہ باہم مصالحت ہو جاوے گی۔پھر اس کے بعد فرمایا۔سلمان منا اھل البیت سلمان یعنی صلحیں اور پھر فرمایا علی مشرب الحسن یعنی حضرت حسن میں بھی دو ہی صلحیں تھیں۔ایک صلح تو انہوںنے حضرت معاویہ کے ساتھ کر لی۔دوسری صحابہ کی باہم صلح کرا دی۔اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعودؑ حسنی ا لمشرب ہیں۔
حجج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مہدی حسنی ہو گا۔اس کے بعد فرمایا۔حسن کا دودھ پئے گا۔جو لوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپ کی آل میں سے ہو گا ۔یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہو گیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے کام بھی معلوم ہو گیا۔پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا۔جھوٹے ہیں۔اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتلائی گئی ہے۔کہ وہ دو صلحوں کا وارث ہو گا۔یعنی بیرونی طور پر بھی صلح کرائے گا اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کرا دے گا اور آل کا لفظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آل چونکہ وارث ہوتی ہے۔اس لئے انبیاء علیہم السلام کے وارث یا آل وہ لوگ ہوتے ہیں،جو ان کے علوم کے روحانی وارث ہوں۔اسی واسطے کہا گیا ہے کہ کل تقی و نقی الی۔
آیت ما کفر سلیمان کی تفسیر مولوی جمال الدین صاحب ساکن سید والہ نے قرآن کی اس آیت کی تفسیر پوچھی۔ما کفر
سلیمن(البقرہ:۱۰۳)فرمایا:بعض نابکار قومیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بت پرست کہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان کی تر دید کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید واقعات پر بحث کرتا ہے۔اور قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے۔اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے۔جیسے فرمایا ہے۔فیہا کتب قیمۃ اور یتلو صحفاً مطھرۃ(البینۃ:۳)پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں،بلکہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔مثلاً قرآن کریم نے جو سورۃ فاتحہ کو الحمد اللہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین اسماء سے شروع کیا ہے ،تو اس میں کیا راز تھا۔چونکہ بعض قومیںاللہ تعالیٰ کی ہستی پر اس کی صفات رب الرحیم رحمن ملک یوم الدین سے منکر تھیں۔اس لئے اس طرز کو لیا۔یہ یاد رکھو کہ جس نے قرآن مجید کے الفاظ اور فقرات کو جو قانونی ہیں،ہاتھ میں نہیں لیا۔اس نے قرآن کا قدر نہ سمجھا ۔
اب دیکھو یہاں خالق العالمین نہیں فرمایا۔بلکہ رب العالمین فرمایا اور رب العالمین اس لئے بھی فرمایا تا کہ یہ ثابت کر کے وہ بسائط اور عالم امر کا بھی رب ہے۔کیونکہ بسیط چیزیں امر سے ہیں اور مرکب خلق سے،اس لئے کہ بعض قومیں ربوبیت کی منکر ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم کو جو کچھ ملتا ہے مثلاً اگر دودھ ملتا ہے ،تو اگر ہم کوئی گناہ کر کے گائے بھینس وغیرہ کی جون میں نہ جاتے ،تو دودھ ہی نہ ہوتا اور خلق چونکہ قطع و برید کرنے کا نام ہے ۔اس لئے اس موقعہ پر رب العالمین کو جو اس سے افضل تر ہے۔بیان فرمایا،اسی طرح پر رحمانیت ۔رحیمیت کے منکر دنیا میں موجود ہیں۔
غرض قرآن کریم مذاہب باطلہ کے عقائد فاسدہ کو مد نظر رکھ کر ایک سلسلہ شروع فرماتا ہے۔اسی طرح پر اس قصہ میں حضرت سلیمانؑ کی بریت منظور ہے۔اور ان کو اس ناپا ک الزام سے بری کرنا مقصود ہے۔جو ان پر لگایا جاتا ہے کہ وہ بت پرست تھے۔خدا تعالیٰ نے فرمایا :وما کفر سلیمن سلیمان نے کفر نہیں کیا۔؎۱
۲۰؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
دو قسم کی مخلوق مولوی جمال الدین صاحب سید والہ نے اپنے واقعات سنائے۔جس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
’’آج میں اید نا ہ بروح القدس(البقرہ:۸۸)کی بحث لکھتا تھا۔جس میں میں نے بتایا ہے کہ مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں۔روح القدس کے فرزند وہ تمام سعادت مند اور راستباز لوگ ہیں۔جس کی نسبت قرآن شریف میں ان عبادی لیس لک علیہم سلطان (الحجر:۴۳)وارد ہے۔اور قراان کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے۔اول وہ جو روح القدس کے فرزند ہیں اور بن باپ پیدا ہونا کوئی خصوصیت نہیں۔ دوم شیطان کے فرزند۔؎۲
۲۱؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
ایک اہم پیش گوئی صبح کی سیر میں علماء سوء کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا: کہ
’’کوئی ایسا آدمی ہو جو ان کو جا کر سمجھا دے اور کہے کہ تم کوئی نشان مل کر
صدق دل سے دیکھو ۔‘‘پھر فرمایا۔’’یہ لوگ کم ہی امید ہے کہ تجوع کریں،مگر جو آئیندہ ذریت ہو گی،وہ ہماری ہی ہو گی۔‘‘؎۱
۲۴؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
دوزخ عارضی ہے اور بہشت دائمی صبح کی سیر میں دوزخ بہشت کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:کہ
قرآن شریف میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے بہشت کا ذکر فرمایا ہے،وہاں بہشت کے انعامات کی نسبت عطا غیر مجذوذ(ہود:۱۰۹)فرمایا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا۔اور اگر ایسا نہ ہوتا تو امید نہ رہتی اور مایوسی پیدا ہوتی۔اس لئے کہ بہشت کے دوامی انعاموں کو دیکھ کر مسرت بڑھتی ہے اور دوزخ کے ایک معین عرصہ تک ہونے سے امید پیدا ہوتی ہے۔جیسے کے ایک شاعر نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے ؎
گو یند کہ بحشر جستجو خواہد بود
واں یار عزیز تند خو خواہد بود
از خیر محض شرے نیاید ہر گز
خوش باش کے انجام نکو خواہد بود
ہمارا ایمان یہی ہے کہ دوزخ میں انسان ایک عرصہ تک رہیں گے،پھر نکل آئیں گے ۔گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہوسکی،ان کی اصلاح دوزخ کرے گا۔حدیث میں آیا ہے۔یاتی علے جہنم زمان لیس فیھا احد۔یعنی جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی متنفس نہیں ہوگا اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کٹھکھٹائے گی۔؎۲
معجزات کے اقسام معجزات مسیح ؑ پر گفتگو کے سلسلے میں فرمایا:کہ
’’معجزات تین قسم کے ہوتے ہیں۔دعائیہ ارہاصیہ اور قوت قدسیہ کے
معجزات ارہاصیہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا ۔قوت قدسیہ کے معجزات ایسے ہوتے ہیں ،جیسے رسول اکرم صلی ا للہ علیہ والہ وسلم نے پانی میںانگلیاں رکھ دیں تھیں اور لوگ پانی پیتے چلے گئے یا کنویں میں لعاب مبارک گرا دیا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا۔مسیح کے معجزات اس قسم کے بھی تھے۔خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘؎۲
۲۴؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
علم توجہ اور توجہ انبیاء میں فرق توجہ اور انبیاء علیہم السلا م کی دعا میںعظیم الشان فرق ہوتا ہے۔وہ توجہ جو مسمر یزم والے کرتے ہیں۔وہ ایک کسب
ہے۔اور وہ توجہ جو دعا سے پیدا ہوتی ہے ایک موہبت الہی ہے۔نبی چونکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی سے متاثر ہو جاتا ہے ،تو خدا تعالیٰ اس کی فطرت کو ہمہ توجہ بنا دیتا ہے اور اس میں قبولیت کا نفخ رکھ دیتا ہے۔‘‘؎۲
مقربان الہی کی علامت ؎ آن خدائے کہ ازو اہل جہاں بے خبر اند
برمن او جلوہ نمود ست گر اہلی بپذیر
(مسیح موعودؑ)
’’یہ تو ہر ایک قوم اک دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں سے ہیں کہ خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں،مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے کہ نہیں؟اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو ان دلوں سے پردہ اٹھا دے گا،جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے اور یہ پردوہ اٹھایا جانا بجز مکالمہ الیہیہ کے اور کسی صورت میں میسر ہیں آسکتا۔پس انسان حقیقی معرفت کے چشمے میں اس دن غوطہ مارتا ہے۔جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے انا الموجود کی اس کو خود بشارت دیتا ہے۔تب انسان کی معرفت سرف اپنے قیاس ڈھکو سلہ یا محج منقولی خیالات تک محدود نہیںرہتی۔بلکہ خدا تعالیٰ سے ا یسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن اس کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود ہی کی خبر نہیں۔بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر ان پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اسی طرح پر کہ ان کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے بڑھ کر ہوں۔ قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے اب کو اطلاع دیتا ہے۔تب ان کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعائیں سنتا ہے اور ہم کو اطلاع دیتا ہے اور مشکلات سے ہم کو نجات دیتا ہے۔اسی روز سے نجات کا مسئلہ بھہ سمجھ میں آجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے؛اگرچہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے۔مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ ہیں ۔یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے ؛تو خدا تعالیٰ اپنی خدا ئی کے جلال کے ساتھ اس کی تجلی فرماتا ہے اور اپنی روح اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدث کہتے ہیں۔
سچے مذہب کی علامت اور سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے ہین جو محدث کے درجے تکپہنچ جائیں جن
سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اول نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستبازجن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہو پیدا ہوتے ہیں تتنزل علیہم الملئکۃ الا ولا تخا فو اولا تحزنوا(حم السجدہ:۳۱)سو یہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس روشنی سے بے نصیب ہیں اور ان مذاہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلائل سے بڑھ کر ہے کہ مردہ ہر گز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سو جا کھے کے ساتھ پورا اتر سکتا ہے(ونعم ما قیل)
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے
یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے
’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔‘‘؎۱
اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین جاؤ ’’میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ الحمد اللہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین
سے یہ ثابت ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے۔یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے ساری صفتیں سزاوار ہیں ،جو رب العالمین ہے۔یعنی ہر عالم میں نطفہ میں مضغہ وغیرہ سارے عالموں میں۔غرض ہر عالم میں پھر رحمن ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے۔اب ایاک نعبد جو کہتا ہے ،تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت ،رحمانیت،رحیمیت،اور مالکیت صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہیے ۔کمال عبد انسان کا یہی ہے کہ تخلقو با خلاق اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے اور جب تک اس مرتبہ تک پہنچ نہ جاوے نہ تھک ہارے۔اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا وہ جاتا ہے جو عبادت الہی کی طرف اسے لے جاتا ہے۔اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو یفعلون ما یو مرون(النحل:۵۱)کی ہوتی ہے۔‘‘؎۲
۳۰؍اکتوبر۱۹۰۰؁ء
حسب معمول حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کو تشریف لے گئے،راستہ میں فرمایا:
نبوت اور قرآن شریف کی کلید میرے دعویٰ کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی۔جو شخص میرے دعویٰ کو سمجھ لے گا،نبوت کی حقیقت اور قرآن
شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جاے گی اور جو میرے دعویٰ کو نہیں سمجھتا۔ اس کو قرآن شریف پر اور رسالت پر پورا یقین نہیں ہو سکتا۔
اتباع امام قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت(الغاشیہ:۱۸)یہ آیت نبوت اور امت کے مسئلے کوکو حل کرنے کے واسطے
بڑی معاون ہے۔اونٹ کی عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے ابل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے۔اس میں کیا سر ہے؟ کیوں الی الجمل بھی تو ہو سکتا ہے؟
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور ابل اسم جمع ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجماعی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے۔یہ فائدہ حاصل نہ ہوتاتھا،اس لیے ابل کے لفط کو پسند فرمایا۔ اونٹوں میں ایک وسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے۔دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں۔اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے۔وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو۔پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں بھی برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے۔جیسے گھوڑے وغیرہ میں۔گویا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ مانا ہوا مسئلہ ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے افلا ینظرون الی الابل کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں۔اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے۔پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے۔
پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے ۔سب سے زیادہ صبر وبرداشت کا سبق ملتا ہے۔
پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ لمبے سفرو میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے۔غافل نہیں ہوتا ۔پس مومن کو بھی ہر وقت اہنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہیے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔فان خیر الزاد التقویٰ(البقرہ:۱۹۸)
انظر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح دیکھنا نہیں ہے،بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہے۔کہ جس طرح اونٹ پر تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہے۔اور ان میں اتباع امامت کی قوت ہے۔اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بنا دے،کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے۔
’’کیف خلقت‘‘میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو ابل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں۔‘‘؎۱
تناسخ ’’تناسخ کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی سخت توہین کا باعث ہے۔اور اخلاقی قوتوں کو خاک میں ملا دینے والا ہے۔کیونکہ جب یہ مان لیا گیا کہ دنیا میں جو کچھ ملتا ہے۔وہ ہمارے اعمال
کا نتیجہ ہے تو پھر یہ بھی ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ خدا بالکل معطل پڑا ہوا ہے۔کیونکہ خالق کے متعلق یہ مان لیا گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ملتا ہے وہ اپنے عملوں ہی سے ملتا ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص ایسے برے عمل نہ کرے گا کہ وہ گائے یا بھینس کی جون میں جاوے یا بھیڑ بکری بنے تو پھر دودھ ہی نہ ملے اور اسی طرح پر کچھ بھی ہیں مل سکتا ۔پھر ایسا خدا جو نہ کچھ پیدا کرتا ہے اور نہ کسی کو کچھ دیتا ہے۔وہ ایک معطل خدا نہ ہوا تو اور کیا ہوا؟پھر اس تناسخ کے مسئلہ سے اخلاقی قوتوں پر یہ بڑی زد پڑتی ہے کہ انسان میں جوغیرت کی قوت رکھی گئی ہے اس کا ستیا ناس ہوتا ہے۔کیونکہ جب کوئی ایسی فہرست وید نے نہیں دی کہ فلاں شخص فلاں جون میں چلا گیا ہے۔تو یہ کیوں ممکن نہیں کہ ایک آدمی کسی وقت اور کسی جون میں اپنی ماں بہن سے بھی شادی کر کے بچے پیدا کرے گا یا باپ گھوڑا بن جاوے اور بیٹا اس پر سوار ہو کر چابکوں سے اس کی خبر لے۔غرض کہ یہ مسئلہ بہت ہی برے اور ناپاک نتیجوں کا پیدا کرنے والا ہے۔تناسخ ہی کیا کم تھا جو آریوں نے نیوگ بھی ویدوں میں سے نکال لیا۔‘‘؎۱
۳نومبر۱۹۰۰؁ء
نکات عشرہ
۱۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر رحمانیت ورحیمیت رحمانیت کا مظہر تام محمد صلی اللہ وسلم ہے۔کیونکہ محمدؑ کے معنے ہیں بہت تعریف
کیا گیا۔اور رحمان کے معنی ہیں بلا مزدوبن مانگے بلا تفریق مومن وکافر کو دینے والا اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا۔ اس کی تعریف ضرور کی جائے گی۔پس محمدؑ میں رحمانیت کی تجلی تھی اور اسم احمدؑمیں رحیمیت کا ظہور تھا۔کیونکہ رحیم کے معنے ہیں۔محنتوں اور کوششوں کو ضائع نہ کرنے والا اور احمدؑ کے معنے ہیں تعریف کرنے والا اور یہ بھی عام بات ہے کہ وہ شخص جو کسی کا عمدہ کام کرتا ہے،وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اس کی محنت پر ایک بدلہ دیتاہے اور اس کی تعریف کرتا ہے۔اس لحاظ سے احمدؑ میں رحیمیت کا ظہور ہے۔پس اللہ محمد(رحمن)احمد(رحیم)ہے۔گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ان دو عظیم الشان صفات رحمانیت ورحیمیت کے مظہر تھے۔‘‘
۲۔دنیا ایک ریل گاڑی ’’دُنیا ایک ریل گاڑی ہے اور ہم سب کو عمر کے ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔جہاں جہاں کسی کا سٹیشن آتا جاتا ہے اس کو اُتار دیا جاتا
ہے۔یعنی وہ مر جاتاہے۔پھر انسان کس زندگی پر خیالی پلائو پکاتا اور لمبی امیدیں باندھتا ہے۔‘‘
۳معراج کا سر ’’معراج انقطاع تام تھا اور سر اس میںیہ تھا کہ تارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقطئہ نفسی کو ظاہر کیا جا وے۔آسمان پر ہر ایک روح کے لیے ایک نقطہ
ہوتا ہے۔اس سے آگے وہ نہیں جاتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطئہ نفسی عرش تھا اور رفیق اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معززومکرم نہیں ہے۔‘‘
۴۔نماز تعویذ ہے ’’نماز انسان کا تعویذ ہے۔پانچ وقت دعا کا موقعہ ملتا ہے۔کوئی دُعا تو سنی جائے گی۔اس لیے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہیے اور مجھے یہی
بہت عزیز ہے۔‘‘
۵۔فاتحہؔ کی ساتؔ آیات کی حکمت ’’سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں۔پس ہر ایک آیت
گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے۔‘‘
۶۔اصل جنت ’’اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے۔جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے۔جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں اور جنت کو جنت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ
نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔اصل جنت خدا ہے۔جس کی طرف تردو منسوب ہی نہیں ہوتا۔اس لیے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رضوان من اللہ اکبر(التوبہ:۷۲)ہی رکھا ہے۔انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردد میں ہوتا ہے،مگر جس قدر قرب الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تخلقواباخلاق اللہ سے رنگین ہوتا جاتا ہے،اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتاہے،جس قدر قرب الٰہی ہو گا۔لازمی طور پر اُسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گااور رفعؔ کے معنے اسی پر دلالت کرتے ہیں۔
نجات کامل خدا ہی کی طرف مرفوع ہو کر ہوتی ہے اور جس کا رفع نہ ہو وہ اخلدالی الارض(الاعراف:۱۷۷)ہو جاتا ہے۔پس رفع مسیحؑ سے مراد ان کے نجات یافتہ ہونے کی طرف ایما ہے اور یہ روحانی مراتب ہیں جن کو ہر ایک آنکھ دیکھ نہیں سکتی کہ کیونکر ایک انسان آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے۔‘‘
۷۔نزوؔل سے مُراد ’’نزولؔ سے مراد عزت وجلال کا اظہار ہوتا ہے۔پس ہمارا نزول بھی یہی شان رکھتا ہے۔پھر نزول سے پہلے منارہ کا وجود تو خود ہی ہو جائے گا۔
نزول سے مراد محض بعثت نہیں ہوتی۔‘‘
۸۔سورئہ فاتحہ کی جامع تفسیر الحمد للہ سے قرآن شریف اسی لیے شروع کیا گیا ہے تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی طرف ایما ہو اھدنا
الصراط المستقیم سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیں،تو آخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
دُعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہواور ہر شر سے بچاوے۔پس اھدنا الصراط المستقیم میں سارے خیر جمع ہیں۔اور غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں سب شروں حتٰی کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی دُعا ہے۔ مغضوب سے بالا تفاق یہودی اور الضالین سے نصاریٰ مراد ہیں۔اب اگر اس میں کوئی رمزاور حقیقت نہ تھی،تو اس دُعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی؟اور پھر ایسی تاکید کہ اس دُعا کے بدوں نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اُس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا۔بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کی طرف ایماء ہے۔اس وقت صراط مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے۔‘‘
۹۔مسیحؑ کی شبیہہ کا افسانہ ’’کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی شبیہہ کو رسولی دی گئی۔مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں حصر عقلی یہی بتاتا ہے کہ وہ شخص جو مسیحؑ کو شبیہہ بنایا گیا،یا
دشمن ہو گا یا دوست۔اگر وہ دشمن تھا تو ضرور تھا کہ وہ شور مچاتا کہ میں مسیحؑ نہیں ہوں اور میرے فلاں رشتہ دار موجود ہیں۔میرا اپنی بیوی کے ساتھ فلاں راز ہے۔مسیحؑ کو میں ایسا سمجھتا ہوں۔غرض وہ شور مچا کر اپنی صفائی اور بریت کرتا؛حالانکہ کسی تاریخ صحیح سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جو شخص صلیب پر لٹکایا گیا تھا،اس نے شور مچا کر رہائی حاصل کر لی تھی۔
اور اگر وہ مسیحؑ کا دوست اور حواری ہی تھا۔پھر صاف بات ہے کہ وہ مومن باللہ تھا اور وہ صلیب پر مرنے کی وجہ سے بلا وجہ ملعون ہوا اور خدانے اس کو ملعون بنایا۔رہی یہ بات کہ مصلوب ملعون کیوں ہوتا ہے؟ یہ عام بات ہے کہ جو چیز کسی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے،وہ اس کے ساتھ منسوب ہو جاتی ہے۔سولی کو مجرموں کے ساتھ تعلق ہے جو گویا کاٹ دینے کے قابل ہوتے ہیں اور خدا کا تعلق مجرم کے ساتھ کبھی نہیں ہوتا۔یہی *** ہے۔ اس وجہ سے وہ *** ہوتا ہے۔
اس لیے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک مومن ناکردہ گناہ ملعون قرار دیا جاوے۔پس یہ دونوںباتیں غلط ہیں۔اصل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کی کہ مسیحؑ کی حالت غشی وغیرہ سے ایسی ہو گئی جیسے مردہ ہوتے ہیں۔
۱۰۔انبیاء خبیث امراض سے محفوظ رکھے جاتے ہیں ’’انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل
بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔مثلاً آتشک ہو،جزام ہو یا ایسی کوئی اور ذلیل مرض۔یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کی ہوتی ہیں۔الخبیثٰت للخبیثین(النور:۲۷)اس میں عام لفظ رکھا ہے۔ اور نکات بھی عام ہیں۔اس لئے ہر خبیث مرض سے اپنے ماموروں اور برگزیدوں کو بچا لیتا ہے۔یہ کبھی نہیں ہوتا کہ مومن پر جھوٹا الزام لگایا جاوے اور وہ بری نہ کیا جاوے۔خصوصاًمصلح اور مامور یہی وجہ ہے کہ مصلح یا مور حسب نسب کے لحاظ سے بھی ایک اعلی درجہ رکھتا ہے؛اگرچہ ہمارا مذہب یہی ہے اور یہی سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تکریم اور تعظیم کا معیار صرف تقویٰ ہی ہے اور ہم یہ مانتے ہیں کہ چوہڑا بھی مسلمان ہو کر اعلیٰ درجہ کا قرب اور درجہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاصل کر سکتا ہے۔اور وہاں کسی خاص قوم یا ذات کے لئے فضل مخصوص نہیں ہے،مگر سنت اللہ اسی پر جاری ہے کہ وہ جس مامور یا مصلح مقرر فرماتا ہے،اس کو ایک اعلیٰ خاندان میں ہونئے کا شرف دیتا ہے۔اور یہ اس لئے کہ لوگوں پر اس کا ثر پڑے اور کوئی طعنہ نہ دے سکے۔‘‘؎۱
۱۵نومبر۱۹۰۰؁ء
نبی اور ولی کی عبادت میں فرق خیانت اور ریا کاری دو ایسی چیزیں ہیںکہ ان کی رفتار بہت ہی سست اور دھیمی ہے،اگر کسی زاہد کو فاسق کہہ دیا
جاوے تو اسے ایک لذت آجائے گی اس واسطے کہ وہ راز جواس کے اور اس کے محبوب ومولیٰ کے درمیان ہے وہ مخفی معلوم دے گا۔صوفی کہتے ہیں کہ خالص مومن جبکہ عین عبادت میں مصروف ہو اور وہ اپنے آپ کو پوشیدہ کر کے کسی حجرے یا کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے بیٹھا ہو ۔ایسی حالت میں گر کوئی شخص اس پر چلا جاوے تو وہ اسی طرح شرمندہ ہو جائے گا،جیسے ایک بد کار اپنی بدی کو چھپاتا ہے۔جیسے کہ اس قسم کے مومن کو کسی کے فاسق کہنے سے ایک لذت آتی ہے۔اس طرح دیانت دار کو کسی کے بد دیانت کہنے سے جوش میں نہیں آنا چاہیے۔
ہاں!انبیاء میں ایک قسم کا استثناء ہوتا ہے،کیونکہ اگر وہ اپنی عبادت اور افعال کو چھپائیں،تو دنیا ہلاک ہو جائے گی۔مثلاً اگر نبی نے نماز پڑھ لی ہو تو اور کوئی کہے کہ دیکھو ۔اس نے نماز نہیں پڑھی،تو اس کو چپ رہنا مناسب نہیں ہوتا اور اس کو بتلان آپڑتا ہے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔میں نے نماز پڑھ لی ہے۔اس لئے کہ اگر وہ نہ کہے،دوسرے لوگ دھوکہ میں پڑ کر گمراہ ہو سکتے ہے۔پس نبیوں کو ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادت کا ایک حصہ ظاہر طور پر کریں۔اور لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے تا کہ ان کو سکھا دیں۔یہ ریا نہیں ہوتی۔اگر کوئی کہے کہ خضر صاحب شریعت نہ تھا۔ولی تھا۔انبیاء علیہم السلام کے لئے دونوں حصے ہوتے ہیں۔اس لئے ان کو سراً وعلانیۃ نیکی کا حکم ہوتا ہے۔‘‘
میرے پاس آؤ اور میری سنو! ’’
میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے۔بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔مجھے ایک سماوی
آدمی مانو۔پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں،ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے۔ھو معنے قراان شریف کے وہ کرے گا،وہی صحیح ہوں گے۔اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا ،وہی حدیث صحیح ہو گی۔
ٍ ورنہ شیعہ سنی کے جھگڑے آج تک دیکھو کب طے ہونے میں آئے ہیں۔شیعہ اگر تبرا کرتے ہیں،تو بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت کہتے ہیں۔
بر خلافت دلش بسے مائل
لیک بو بکر شد دراں حائل
مگر میں کہتا ہوں کہ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں نہیں دیکھتے۔یہ حق پر ہر گز نہیں پہنچ سکتے۔اگر ان لوگوں کو اور یقین نہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ آخر مرنا ہے اور مرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ہوسکتی۔سب وشتم جب ایک شریف آدمی کے نزدیک پسندیدہ چیز نہیں ہے۔تو پھر خدا ئے قدوس کے حضور عبادت کب ہو سکتی ہے؟اس لئے تو میں کہتا ہوں کہ’’میرے پاس آؤ،میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آؤے‘‘۔میں تو سارا ہی چولہ اتارنا چاہتا ہوں۔سچی توبہ کر کے مومن بن جاؤ۔پھر جس امام کے تم منتظر ہو،میں کہتا ہوں کہ وہ میں ہوں۔اس کا ثبوت مجھ سے لو۔اس لئے میں نے اس خلیفہ بلافاصل کے سوال کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا۔میں ایسے گندے سوال کو کیوں کروں۔انہیں گندگوں کو نکالنے کے واسطے تو خدا نے مجھے بھیجا ہے۔
دیکھو!سُنّی اُن کی حدیثوں کو لغو ٹھہراتے ہیں۔یہ اپنی حدیثوں کو مرفوع متصل اور اَئمہ سے مروی قرار دیتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ سارے جھگڑے فضول ہیں۔اب مردہ باتوں کو چھوڑو اور ایک زندہ امام کو تلاش کروکہ تمہیں زندگی کی روح ملے۔اگر تمہیں خدا کی تلاش ہے،تو اس کو ڈھونڈو جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے۔اگر کوئی شخص خبث کو نہیں چھوڑتا،تو کیا ہم اندھے ہیں؟منافق کے دل کی بد بو نہیں سونگھتے۔ہم انسان کو فوراً تاڑ جاتے ہیں۔کہ اس کی بات اس بناء پر ہے۔پس یاد رکھو۔خدا نے یہی راہ پسند کی ہے جو میں بتاتا ہوں اور یہ قرب راہ اس نے نکالی ہے۔دیکھو جو ریل جیسی آرام دہ سواری کو چھوڑ کر ایک لنگڑے مریل ٹٹو پر سوار ہوتا ہے،وہ منزل پر پہنچ نہیں سکتا۔افسوس!یہ لوگ خدا کی باتو ں کو چھوڑ کر زید بکر کی باتوںپر مرتے ہیں۔ان سے پوچھو کہ وہ حدیثیں کس نے دی ہیں؟
میں تو بار بار یہی کہتا ہوں کہ ہمارا طریق تو یہ ہے کہ نئے سرے سے مسلمان بنو۔پھر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت خود کھول دے گا۔میں سچ کہتا ہوںکہ اگر وہ امام جن کے ساتھ یہ اس قدر محبت کو لغو کرتے ہیں زندہ ہوں۔تو ان سے سخت بے زاری ظاہر کرین۔
جب ہم ایسے لوگوں سے اعراض کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا اعتراض کیا ،جس کا جواب نہ آیا اور پھر بعض اوقات اشتہار دیتے رہتے ہیں۔مگر ہم ایسی باتوں کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں۔ہم کو تو وہ کرنا ہے جو ہمارا کام ہے۔
اس لئے یاد رکھو کہ پرانی خلافت کاجھگڑاچھوڑو۔ اب نئی خلافت لو۔ایک زندہ علی تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘؎۱
۸دسمبر۱۹۰۰؁ء
ایک الہام اور اپنی وحی پر یقین فرمایا:’’کل رات میری انگلی کے پوٹے میں درد تھا اور اس شدت کے ساتھ تھا کہ مجھے خیال آیا تھا کہ رات کیونکر بسر
ہو گی۔آخر ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا۔کُوْنِیْ بَرْداً وَّسَلَاماً اور سَلَاماً کا لفظ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ معاً درد جاتا رہا ایسا کہ کبھی ہوا نہ تھا۔‘‘
نیز فرمایا کہ:
’’ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتا ہے۔اس قدر یقین اور اعلیٰ درجہ البصیرۃیقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے ،جس قسم کی چاہو۔قسم دے دو۔بلکہ میرا تو یقین یہاںتک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروں،یا وہم بھی کروں کہ خدا کی طرف سے تو نہیں تو معاً کافر ہوجاوں ۔‘‘؎۲
۱۳دسمبر۱۹۰۰؁ء
نصرت الہی فیصلہ کن قاضی ہے الہی بخش لاہوری مخالف کی کتاب’’عصائے موسیٰ‘‘تمام وکمال پڑھ کر حضرت اقدس ؑنے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کی فضولیات کو چھوڑ کر چند گھنٹوںکا کام ہے اس کا جواب دے دینا،لیکن میں محض ترحم سے سے کچھ مدت تک اس کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ لوگ بھی خوش ہو لیں۔آخر پرانے رفیق تھے۔سچے جھوٹے میں نصرت الہی فرق کرتی ہے۔
نیز اسی اثناء میں بہت سے لوگوں کے فہم اور عقلیں اور ایمان ہمیں معلوم ہو جائیں گے کہ کون کون اس پر یویو کرتا ہے۔اور کیا کرتا ہے۔اور کون کون اس کے وسوسوں سے متاثر ہوتا ہے۔بہر حال مصلحت یہی ہے کہ ایک وقت تک اس سے اغماض کیا جاوے۔
یہ مت سمجھو کہ ہمارے حق میں یہ کتاب شر ہے۔یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نے اس سے ہماری خیر کا ارادہ فرمایا ہے۔آخری فیصلہ کی راہ خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور تائیدوں کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟جو اعتراض اس نے ہم پر کیے ہیں۔وہی نصاریٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتیات پر کرتے ہیں؟آخر انا فتحنا لک فتحاًمبیناًلیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر(الفتح:۲،۳)نے فیصلہ کر دیا کہ سارے جزوی اعترض باطل تھے۔حضرت موسیٰ پر آریوں نے کیا کیا اعتراض کیے کہ فر عونیوں کا مال انہوں نے غبن کیا اور بچے مارے اور یہ کیا اور وہ کیا۔مگر نصرت الہی نے غرق فرعون اور آپ کی نجات سے فیصلہ کر دیا کہ حق کس طرف تھا۔غرض نصرت الہی آخر کار بڑا فیصلہ کن قاضی ہوتی ہے۔
ہمارے اور ان کے درمیان یہی نصرت الہی اورتائیدات سماوی فیصلہ کن ہوں گی۔‘‘؎۱
۲۲دسمبر۱۹۰۰؁ء
وقت کی قدر کرو ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’ڈاکٹر صاحب!ہمارے دوست دو قسم کے ہیں۔ایک وہ جن کے ساتھ ہم کو
کوئی جناب نہیں اور دوسرے وہ جن کے ساتھ ہم کو حجاب ہے۔اس لئے ان کے دل کا اچر ہم پر پڑتا ہے اور ہم کو بھی ان سے حجاب رہتا ہے۔جن لوگوں سے ہم کو کوئی حجاب نہیں ہے۔ان میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ہم چاہتے ہیںکہ ہمارے وہ دوست جن کو ہم سے کچھ حجاب نہیں رہا،وہ ہمارے پاس رہیں۔کیونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ہم سب کے سب عمر کی ایک تیز رفتار گاڑی پر سوار ہیں اور مختلف مقامات کے ٹکٹ ہمارے پاس ہیں۔کوئی دس برس کی منزل پر اتر جاتا ہے۔کوئی بیس کوئی تیس اور بہت ہی کم اسی منزل پر جا کر۔جبکہ یہ حال ہے تو پھر کیا بد نصیب وہ انسان ہے کہ وہ اس وقت کی جو اس کو دیا گیا ہے۔کچھ قدر نہ کرے اور اس کو ضائع کر دے۔
نماز میں دعا اور تضرع ’’انسان کی زاہدنہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے۔وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریہ رہتا ہے،امن میں رہتا ہے۔جیسے ایک بچہ اپنی
ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے۔اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑ گڑانے والا اپنے ااپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے۔یاد رکھو کہ اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی۔نماز صرف ٹکڑوں کا نام ہی نہیں۔بعض لوگ تو نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگے مارتی ہے۔ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کر دیتے ہیں؛ھالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا۔اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضور الہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں۔نماز میںدعا مانگو ۔نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو۔
فاتحہ۔فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے۔یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی ہے،سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے،اس لئے سورۃ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے۔انسان کو واجب ہے کہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنا دے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے۔اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے۔
پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لے اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے نماز میں لذت کہاں۔‘‘؟
اپنی زبان میں دعا ’’یہ ضروی بات نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبان میں کی جائیں؛چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے،اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی
میں کرے۔انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص انس ہوتا ہے۔اور پھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے۔دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل اور مہارت کامل ہو ،ایک قسم کی اجنبیت باقی رہتی ہے۔اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دعائیں مانگے۔‘‘
موت سے بے فکر نہ ہوں کسی کو کیا معلوم ہے کہ ظہر اور عصر کے وقت تک زندہ رہے۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یکدفعہ ہی دوران خون بندہو کرجا نکل جاتی ہے۔
بعض دفعہ چنگے بھلے آدمی مر جاتے ہیں۔وزیر محمد حسن خاں صاحب ہوا خوری کر کے آئے تھے اور خوشی خوشی زینے پر چڑھنے لگے۔ایک زینہ چڑھے ہوں گے کہ چکر آیا،بیٹھ گئے۔نوکر نے کہا کہ میں سہارا دوں۔کہاں نہیں۔پھر دو تین زینے چڑھے پھر چکر آیا اور اسی چکر کے ساتھ جان نکل گئی۔ایسا ہی غلام محی الدین کونسلی کشمیر کا ممبر یکدفعہ ہی مر گیا۔غرض موت کے آجانے کا ہم کو کوئی بھی وقت معلوم نہیں ہے کہ کس وقت آجاوے۔اسی لیے ضروری ہے کہ اس سے بے فکر نہ ہوں۔پس دین کی غم خواری ایک بڑی چیز ہے۔جو سکرات الموت میں سر خرو رکھتی ہے۔قرآن شریف میں آیا ہے ۔ان زلزلۃ الساعۃشی عظیم(الحج:۲)ساعت سے مراد قیامت بھی ہو گی۔ہم کو اس سے انکار نہیں،مگر اس میں سکرات الموت ہی مراد ہے۔کیونکہ انقطاع تام کا وقت ہوتا ہے۔انسان اپنے محبوبات اور مرغوبات سے یک دفعہ الگ ہوتا ہے اور ایک عجیب قسم کا زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے۔گویا اندر ہی اندر وہ ایک شکنجہ میں ہوتا ہے۔اس لئے انسان کی تما تر سعادت یہی کہ وہ موت کا خیال رکھے اور دنیا اور اس کی چیزیںاس کی ایسی محبوبات نہ ہوں جو اس آخری ساعت میں علیحدگی کے وقت اس کی تکالیف کا موجب ہوں۔دنیا اور اس کی چیزوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا ہے
ایں ہمہ رابہ کشتنت آہنگ
گاہ بصلح کشند وگاہ بجنگ
قرآن کریم نے اس مضمون کو اس آیت میں ادا کر دیا ہے انما اموالکم واولادکم فتنۃ(الانفال:۲۹)اموالکم میں عورتیں داخل ہیں۔عورت چونکہ پردہ میں رہتی ہے،اس لئے اس کا نام ہی پردہ میں ہی رکھا گیا ہے اور اس لئے بھی کہ عورتوں کو انسان مال خرچ کر کے لاتا ہے۔مال کا لفظ مائل سے لیا گیا ہے۔یعنی جس کی طرف طبعاً توجہ اور رغبت کرتا ہے۔عورت کی طرف بھی چونکہ طبعاً توجہ کرتا ہے،اس لئے اس کو مال میں دخل فرمایا ہے۔مال کا لفظ اس لئے رکھا تا کہ عام محبوبات پر حاوی؛ورنہ اگر صرف نساء کا لفظ ہوتا۔تو اولاد اور عورت دو چیزیں قرار دی جائیں۔اور اگر محبوبات کی تفصیل کی جاتی،تو پھر دو جز میں بھی ختم نہ ہوتا۔غرض مال سے مراد کل ما یمیل الیہ القلب ہے۔اولاد کا ذکر اس لئے کیا کہ انسان اولاد کو جگر کا ٹکڑا اور اپنا وارث سمجھتا ہے۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ اور انسان کے محبوبات میں ضد ہے۔دونوں باتیں ہو سکتیں۔
بیوی سے حسن سلوک اس سے یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔نہیں۔نہیں۔ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم نے فرمایا ہے خیرکم خیرکم لاھلہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں۔وہ نیک کہاں۔دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے۔جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو۔اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر ذود کوب کرے۔ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان اپنی بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گی ہے،اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ و عاشرو ھن بالمعروف(النساء:۲۰)ہاں اگر وہ بے جا کام کرے،تو تنبیہہ ضروری چیز ہے۔
انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا ور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا۔
خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا،تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں موجود ہونے چوہیں۔اگر خاوند عورت سے کہے کہ تو اینٹوں کا ڈھیر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے،تو سا کا حق نہیں ہے کہ اعتراض کرے۔
مرشد اور مرید کا تعلق ایسا ہی قرآن اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کیساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیے۔جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہو۔مرشد کے کسی حکم کا
انکار نہ کرے اور اس کی دلیل نہ پوچھے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میںاھد نا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم (الفاتحہ:۶،۷)فرمایا ہے کہ منعم علیہ کی راہ مقیدر ہیں۔انسان چونکہ طبعاً آزادی کو چاہتا ہے پس حکم کر دیا ہے کہ اس راہ کو اختیار کرے۔تجربہ کار ڈاکٹر اگر غلطی بھی کرے،تو جاہل کے علاج سے بہتر ہے۔
ایک جاہل کے پاس اگر اعلیٰ درجہ کے تیز اوزار ہیں،لیکن ہاتھ حاذق ڈاکٹر نہ ہو تو وہ اوزار کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔کسی نے کہا ہے۔ ؎
اگر دست سلیمانی نہ باشد
چہ خاصیت دہد نقش سلیماں
پس قرآن کریم ایک تیز ہتھیار ہے،لیکن اس کے استعمال کے لئے اعلیٰ درجہ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔جو خدا کی تائیدات سے فیض یافتہ ہو۔
یہ ضروری بات ہے کہ دل پاک ہو۔لیکن ہر جگہ یہ دولت میسر نہیں آ سکتی تھی۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو پیدا کیا،مگر ہر شخص نبی نہیں ہوتا اور وہ تعداد کم ہے۔
آدم کہلانے کی حقیقت آدم ہی ایک ہے جو نطفہ کے بغیر پیدا ہوا ہے۔اسی طرح میرا یہ الہام ہے۔ارادت ان استخلف فخلقت ادم۔
یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کو کسی کی بیعت اور مریدی کی ضرورت نہ ہو گی،بلکہ جیسے آدم کو خدا نے اپنے جمالی اور جلالی ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔یہ خلیفۃ اللہ بھی اسی کے ہاتھ کا تربیت یافتہ اور اسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا ہو گا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ان سلسلوں سے الگ رکھا ہے۔جو منہاج نبوت کے خلاف ہیں۔اب جبکہ یہ حال ہے کہ دل کی پا کیزگی کا حاصل کرنا ضروری ہے۔اور یہ حاصل نہیں ہو سکتی،جب تک منہاج نبوت پر آئے ہوئے پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے۔اس کی صحبت کی توفیق نہیں مل سکتی ج تک اولاً انسان پر یقین نہ کرے کہ وہ ایک مرنے والی ہستی ہے۔یہی ایک بات ہے جو اس کو صادق کی صحبت کی توفیق عطا فرمائے۔حدیث شریف میں آیا ہے۔کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لئے نیکی کا ارادہ کرتا ہے،تو اس کے دل میں ایک وعظ پیدا کر دیتا ہے۔سب سے بڑھ کر واعظ یہ ہے کہ وہ کونوا مع اصادقین(التوبہ:۱۱۹)کی حقیقت کو سمجھ لے۔
صحابہ ؓ کا رنگ پیدا کریں صحابہؓ کرام کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت میں رہنے کے لئے کیا کچھ نہ کیا۔جو کچھ انہوںنے
کیا۔اسی طرح پر ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں۔بدوں اس کے وہ اس اصلی مطلب کو جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔پا نہیں سکتے۔کیا ہماری جماعت کو زیادہ حاجتیں اور ضرورتیں لگی ہوئی ہیں جو صحابہ ؓ کو نہ تھیں۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے اور آپ کی باتیں سننے کے واسطے کیسے حریص تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود ؑ کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہؓ کرام کے ساتھ ملنے والی ہے۔واخرین منھم لما یلحقوا بہم(الجمعۃ:۴)مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعودؑ والی جماعت ہے۔اور یہ گویاصحابہ ہی کی جماعت ہو گی اور وہ مسیح موعود ؑ کے ساتھ نہیں۔در حقیقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی ہیں۔کیونکہ مسیح موعودؑ آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تکمیل تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے وہ مامور ہو گا۔
اس لئے دل ہمیشہ غم میں دوبتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہ کے انعامات سے بہرہ ور کرے۔ان میں وہ صدق و وفا،وہ اخلاص اور اطاعت پیدا ہو جو صحابہ میں تھی۔یہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنے والے نہ ہوں۔متقی ہوں،کیونکہ خدا کی محبت متقی کے ساتھ ہوتی ہے ان اللہ مع المتقین۔‘‘؎۱(البقرہ:۱۹۵)
۲۶؍دسمبر۱۹۰۰؁ء
ایمان بالغیب نواب عماد الملک فتح نواز جنگ سید مہدی حسین ساحب بارایٹ لاء جو کہ علیگڑھ کالج کے ٹرسٹی تھے۔بڑے شوق اور اخلاص سے حضرت اقدس کی
خدمت میں حاضر ہوئے۔حضور نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:
’’ہر ایک قدم جو صدق اور تلاش حق کے لئے اٹھایا جاوے۔اس کے لئے بہت بڑا اجر اور ثواب ملتا ہے،مگر عالم مخفی عالم ہے،جس کو دنیا دار کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔
بات یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ باوجود آشکار ہو نے کے مخفی اور نہاں درنہاں ہے اور اس لئے الغیب بھی اس کا نام ہے۔اسی طرح پر ایمان بالغیب بھی ایک چیز ہے۔جو گو مخفی ہوتا ہے،مگر عامل کی عملی حالت سے ظاہر ہو جاتا ہے۔اس زمانہ میں ایمان بالغیب بہت کمزور حالت میں ہے۔اگر خدا پر ایمان ہو ،تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں میں وہ صدق و حق کی تلاش او ر پیاس نہیں پائی جاتی جو ایمان کا خاصہ ہے۔
ایمان کی قوت خدا کی راہ میں سختی کا برداشت کرنا ۔مسائب اور مشکلات کے جھیلنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جانا ایمانی تحریک ہی سے ہوتا ہے۔ایمان ایک قوت ہے۔جو سچی شجاعت
اور ہمت انسان کو عطا کرتا ہے ۔اس کا نمونہ صحابہ ؓ کرام رضوان اللہ اجمعین کی زندگی میں نظر آتاہے۔جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہوئے،تو وہ کونسی بات تھی کہ اس طرح پر ایک بیکس ناتواں انسان کے ساتھ ہو جانے سے ہم کو کوئی ثواب ملے گا۔ظاہری آنکھ تو اس کے سواک کچھ نہ دکھاتی تھی کہ اس ایک کے ساتھ ہونے سے ساری قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔جس کا نتیجہ صریح یہ معلوم ہوتا تھا کہ مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑے گا اور وہ چکنا چور کر ڈالے گا،اسی طرح پر ہم ضائع ہو جائیں گے۔مگر کوئی اور آنکھ بھی تھی جس نے ان مصائب اور مشکلات کو ہیچ سمجھا تھا اور اس راہ میں مر جانا اس کی نگاہ میں ایک راحت اور سرور کا موجب تھا۔اس نے وہ کچھ دیکھا تھا جو ان ظاہر بین آنکھوں کے نظارہ سے نہاں در نہاںاور بہت ہی دور تھا۔وہ ایمونی آنکھ تھی اور ایمونی قوت تھی جو ان ساری تکلیفوں اور دکھوں کو بالکل ہیچ دکھاتی تھی۔آخر ایمان ہی غالب اایا اور ایمون نے وہ کرشمہ دکھایا کہ جس پر ہنستے تھے۔جس کو ناتوں اور بیکس کہتے تھے۔اس نے اس ایمان کے ذریعہ سے ان و کہاں پہنچا دیا۔وہ ثواب اور اجر جو پہلے مخفی تھا۔پھر ایسا آشکار ہوا کہ اس کو دنیا نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ہاں یہ اسی کا ثمر ہے۔ایمان کی بدولت وہ جماعت صحابہ ؓ کی نہ تھکی اور نہ ماندہ ہوئی۔بلکہ قوت ایمانی کی تحریک سے بڑے بڑے عظیم الشان کام دکھائے۔اور پھر بھی کہا تو یہی کہا کہ جو حق کرنے کا تھا نہیں کیا۔ایمان نے ان کو وہ قوت عطا کی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سر کا دینا اور جانوروں کا قربان کر دینا ایک ادنیٰ سی بات تھی اور اہل اسلام نے جب کہ ابھی کوئی بین نتائج نظر نہ آتے تھے۔دیکھو!کس قدر مسلمانوں نے دشمنوں کے ہاتھوں سے کیسی کیسی تکلیفیں اور مصیبتیں محض لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کہنے کے بدلے برداشت کیں۔ایک وہ زمانہ تھا کہ سر دنیا کوئی بری بات نہ تھی اور یا ایک یہ زمانہ ہے کہ باوجود اس کے کے مخالف اس قسم کی اذیتیں نہیں دیتے۔ایک عادل گورنمنٹ کے سائے میں رہتے ہیں۔سلطنت کسی قسم کا تعرض نہیں کرتی۔علوم دین حاصل کرنے کے پورے سامان میسر ہیں۔ارکان مذہبی ادا کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ایک سجدہ کا کرنا بار گراں معلوم ہوتا ہے غور تو کرو کہاں سر اور کہاں صرف ایک سجدہ!اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج ایمان کیسا انحطاط کی حالت میں ہے۔
وضو اور نماز اور پھر ایسی حالت میں کہ نماز پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے۔اور یہ نزول الماء
کا مقدمہ ہے۔اور بہت سی بیماریاںاس سے پیدا ہوتی ہیں۔پھر بتلاؤ کہ و ضو کرتے ہوئے موت کیوں آجاتی ہے۔بظاہر کیسی عمدی بات ہے۔منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے۔مسواک کرنے سے منہ کی بد بو دور ہو جاتی ہے۔دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے۔پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے۔ناک میں کوئی بد بو داخل ہو ،تو دماغ کو پرا گندہ کر دیتی ہے۔اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے۔اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے۔اور اس کا اپنے مطالب عرض کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔دعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے۔زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے؛اگرچہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم وقت میں داد ہو جاتی ہیں۔پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے۔جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یا کھیل اور تماشوں میں ضائع کر دیںتو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے۔اگر قوی ایمان ہوتا ،قوی تو ایک ہی طرف اگر ایمان ہی ہوتا ،تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں آتی۔
ناصح سے تنفر باوجود اس کے کہ اس قدر ایمانی حالت گر گئی ہے۔اس پر بھی اگر کوئی اس کمزوری کو محسوس کرا کے اس کا علاج کرنا چاہے اور وہ راہ بتائے جس پر چل کر انسان خدا سے
ایک قوت اور شجاعت پاتا ہے ،تو اس کو کافر اور دجال کہا جاتا ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ ایما ن کا ایک نتیجہ یقین نہیں کر سکتے۔تو کم از کم فرض ہی کر لیں۔فرائض پر بھی تو بڑے بڑے نتائج مرتب ہو جاتے ہیں۔دیکھو!اقلیدس کا سارا مدار فرض پر ہی ہے،اس سے بھی کس قدر فوائد پہنچتے ہیں۔بڑے بڑے علوم کی بناء اولاً فرض ہی پر ہوتی ہے۔پس اگر ایمان کو بھی فرض کر کے ہی اختیار کر لیتے۔تب بھی یقین ہے کہ وہ کالی ہاتھ نہ رہتے،مگر یہاں تو یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ تو سرے ہی سے اسے بے معنی شے سمجھتے ہیں۔
صحابہؓ کا ایمان میں پھر صحابہ کی حالت کو نظیر کے طور پر پیش کر کہ کہتا ہوں کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لا کر اپنی عملی حالت میں دکھایا کہ وہ خدا جو غیب
الغیب ہستی ہے اور جو باطل پرست مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ اور نہاں ہے۔انہوں نے اپنی آنکھ سے ہاں آنکھ سے ہاں آنکھ سے دیکھ لیا ہے؛ورنہ بتاؤ تو سہی کہ وہ کیا بات تھی۔جس نے ان کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہونے دی کہ قوم چھوڑی،ملک چھوڑا،جائیدودیں چھوڑیں۔احباب اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا۔وہ صرف خدا پر ہی بھروسہ تھا۔اور ایک خدا پر بھروسہ کر کے انہوں نے وہ کر دکھایا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں،تو انسان تعجب اور حیرت سے بھر جاتا ہے۔ایمان تھا اور صرف ایمان تھا۔اور کچھ نہ تھا؛ورنہ بالمقابل دنیا داروں کے منصوبے اور تدابیر اور پوری کوششیں اور سر گر میان تھیں پر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ان کی تعداد جماعت ،دولت سب کچھ زیادہ تھا،مگر ایمان نہ تھا۔اور صرف ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے اور کامیابی کی صورت نہ دیکھ سکے۔مگر صحابہ نے ایمانی قوت سے سب کو جیت لیا۔انہوں نے جب ایک شخص کی آواز سنی۔جس نے باوصفیکہ امی ہونے کی حالت میں پرورش پائی تھی،مگر اپنے صدق اور امانت اور راستبازی میں شہرت یافتہ تھا۔جب اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں۔یہ سنتے ہی ساتھ ہو گئے اور پھر دیوانو کی طرح اس کے پیچھے چلے۔میں پھر کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک ہی بات تھی ۔جس نے ان کی یہ حالت بنا دی اور وہ ایمان تھا۔یاد رکھو!خدا پر ایمان بڑی چیز ہے۔
خدا تعالیٰ کی ہستی انگریزی اور مغربی قومیں دنیا کی تلاش اور خواہش میں لگی ہوئی ہے۔ابتد امیں ایک موہوم اور خیالی امید پر کام شروع کرتے ہیں۔سینکڑوں جانیں ضائع ہوتی
ہیں۔ہزروں لاکھوں روپے بر باد ہوتے ہیں۔آخر ایک بات پا ہی لیتے ہیں۔پھر کس قدر افسوس اور تعجب ان پر ہے۔جو کہتے ہیں کہ خد انہیں مل سکتا۔کس نے مجاہدہ اور سعی کی اور پھر خدا کو نہیں پایا؟خدا تو ملتا ہے اور بہت جلد ملتا ہے۔لیکن اس کے پانے والے کہاں ہیں؟؟؟
اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ خدا نہیں ہے۔تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نادانی اور بے وقوفی نہیں ہے جو خدا کا انکار کیا جاوے۔دنیا میں دو گواہوں کے کہنے سے عدالت ڈگری دے دیتی ہے۔چند گواہوں کے بیان پر جان جیسی عزیز چیز کے خلاف عدالت فتویٰ دے دیتی ہے اور پھانسی پر لٹکا دیتی ہے۔حالانکہ شہادتوں میں جعل اور سازش کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہوتا ہے۔لیکن خدا کے متعلق ہزاروں لاکھوں انسانوں نے جو اپنی قوم اور ملک میں مسلم راستباز نیک چلن تھے۔شہادت دی ہو،اسے کافی نہ سمجھا جائے۔اس سے بڑھ کر حماقت اور ہٹ دھرمی کیا ہو گی کہ لاکھوں مقدسوں کی شہادت موجود ہے اور پھر انہوںنے اپنی عملی حالت سے بتا دیا ہے اور خون دل سے یہ شہادت لکھ دی ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے۔اس پر بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے،تو وہ بے وقوف ہے اور پھر عجیب تو یہ بات ہے کہ کسی معاملے میں رائے دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علم ہو ۔جس شخص کو علم ہی نہیں،وہ رائے دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔روئے زنی کرے تو کیا وہ احمق اور بے وقوف نہ کہلائے گا۔ضرور کہالئے گا،بلکہ دوسرے دانشمند اس کو شرمندہ کریں گے کہ احمق جبکہ تجھے واقفیت ہی نہیں ،تو پھر تو رائے کس طرح دیتا ہے۔اس طرح پر جو خدا کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ نہیں ہے۔ان کا کیا حق ہے کہ وہ رائے دیں جبکہ الہیات کا علم ہی ان کو نہیں ہے اور انہوں نے کبھی مجاہدہ ہی نہیں کیا ہے۔
ہاں ان کو یہ کہنے کا حق ہو سکتا تھا۔اگر وہ ایک خدا پرست کے کہنے کے موافق تلاش حق میں قدم اٹھاتے اور خدا کو ڈھونڈتے۔پھر اگر ان کو خدا نہ ملتا تو بے شک کہہ دیتے کہ خدا نہیں ہے،لیکن جب کہ انہوںنے کوئی کوشش اور مجاہدہ ہی نہیں کیا ہے،تو ان کو انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔غرض خدا کا وجود ہے اور وہ ایک ایسی شے ہے کہ جس قدر اس پر ایمان بڑھتا جاوے،اسی قدر وقت ملتی جاتی ہے اور وہ نہاںدر نہاں ہستی نظر آنے لگتی ہے۔یہاں تک کہ کھلے کھلے طور پر اس کو دیکھ لیتا ہے اور پھر یہ قوت دن بدن زیادہ ہوتی جاتی ہے ۔یہی ایک بات ہے جس کی تلاش دنیا کو ہونی چاہیے،مگر آج یہ قوتیں دنیا میں نہیں رہی ہیں۔
اسلام کی ترقی یورپ کی اتباع میں نہیں اسلام جو یہ ایمونی قوت لے کر آیا تھا،بہت ضعیف ہو گیا ہے۔اور عام طور پر مسلمانوں نے محسوس کر لیا
ہے کہ وہ کمزور ہیں؛ورنہ کیا وجہ ہے کہ آئے دن جلسے اور مجلسیں ہوتی رہتی ہیں اور نت نئی انجمنیں بنتی جاتی ہیں۔جن کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام کی حمایت اور امداد کے لئے کام کرتی ہیں۔مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان مجلسوں میں قوم قوم تو پکارتے ہیں۔قومی ترقی قومی ترقی کے گیت تو گاتے ہیںلیکن کوئی مجھ کو یہ تو بتائے کہ پہلے زمانے میں جب قوم بنی تھی،وہ یورپ کے اتباع سے نبی تھی؟کیا مغربی قوموں کے نقش قدم پر چل کر انہوں نے ساری ترقیاں کی تھیں۔اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ ہاں اسی طرح ترقی کی تھی۔تو بے شک گناہ ہو گا اگر ہم اہل یورپ کے نقش قدم پر نہ چلیں۔
لیکن اگر ثابت نہ ہو اور ہر گزثابت نہ ہو گا۔پھر کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر،قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو اور انسان اور انسان سے باخدا انسان بنایا۔ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے۔جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں۔وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔
قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا۔تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لئے تھے۔پورے ہو گئے ہیں۔ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے۔اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔وہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔اور ا ہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ان لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میں بھی نہ کرتے تھے،جن کو کفار کہتے تھے۔جب تک اسلام کو اس حالت میں رہا وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا۔اس میں سر یہ تھا۔ ع
خدا داری چہ غم داری
مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیون کی کلید بھی ایمان تھا۔صلاح الدین کے مقابلہ پر کس قدر ہجوم ہوا تھا۔لیکن آخر اس پر کوئی قابو نہ پا سکا۔اس کی نیت اسلام کی خدمت تھی۔غرض ایک مدت تک ایسا ہی رہا۔جب بادشاہوں نے فسق وفجور اختیار کیا ۔پھر اللہ تعالی ٰکا غضب ٹوٹ پڑا اور رفتہ رفتہ ایسا زوال آیا جس کو تم اب دیکھ رہے ہو۔اب اس مرض کی جو تشخیص کی جاتی ہے،ہم اس کے مخالف ہیں۔ہمارے نزدیک اس تشخیص پر جو علاج کیا جاوے گا،وہ زیادہ خطر ناک اور مضر ثابت ہو گا۔جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا۔ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا ۔یہ تندرست نہ ہوں گے۔عزت اور عراج اسی راہ سے آئے گا جس راہ سے پہلے آیا۔
دین کو دنیا پر مقدم رکھیں میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سست ہو جاویں۔اسلام کسی کو سست نہیں بناتا ۔اپنی تجارتوںاور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں۔مگر میں
یہ ہر گز پسند نہیں کرتا کہ خدا کے لئے ان کا کوئی بھی وقت خالی نہ ہو۔ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو اس وقت بھی مد نظر رکھیں،تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کرے۔نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں۔دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔اصل مقصود دین ہو ۔پھر دنیا کے کام بھی دین کے کام ہی ہوں گے۔صحابہؓ کرام کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔تلوار اور لڑائی کا وقت ایسا خطر ناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور ہی سے انسان گھبرا اٹھتا ہے۔وہ وقت جب کہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے۔ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔نمازوں کو نہیں چھوڑا۔دعاؤں سے کام لیا۔اب یہ بد قسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں۔بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں۔جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقیاں کریں۔مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔پھر ایسی حالت میںکیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جب کہ وہ سب کی سب دنیا ہی کے لئے ہیں۔یاد رکھو جب تک لا الہ الااللہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو۔کبھی ترقی نہ ہو گی۔اگر تم مغربی قوموں کا نمونہ پیش کرو کہ وہ ترقیاں کر رہی ہیں۔ان کے لئے اور معاملہ ہے۔تم کو کتاب دی گئی ہے۔تم پر حجت ہو گئی ہے۔ان کے لئے الگ معاملہ اور مواخذہ کا دن ہے۔تم اگر کتاب اللہ کو چھوڑو گے۔تو تمہارے لئے اس دنیا میںجہنم موجود ہے۔
ایسی حالت میں قریباً ہر شہرمیں مسلمانوں کی بہتری کے لئے انجمنیں اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔لیکن کسی ہمدرد مسلمان کے منہ سے یہ نہیں نکلتاکہ قرآن کو اپنا امام بناؤ۔اس پر عمل کرو۔اگر کہتے ہیں تو بس یہی کہتے ہیں کہ انگریزی پڑھو،کالج بناؤ،بیرسٹربنو۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا پر ایمان نہیں رہا۔حاذق طبیب بھی اگر دس دن کے بعد دوا فائدہ نہ کرے تو اپنے علاج سے رجوع کر لیتے ہیں۔یہاں ناکامی پر ناکامی ہوتی جاتی ہے اور اس پر رجوع نہیں کرتے۔اگر خدا نہیں ہے تو اس کو چھور کر بے شک ترقی کر لیں گے ۔لیکن جب کہ خدا ہے اور ضرور ہے ۔پھر اس کو چھوڑ کر کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے اس کیبے عزتی کر کے اس کی کتاب کی بے ادبی کر کہ کہتے ہیں کہ کامیاب ہوں اور قوم بن جاوے کبھی نہیں۔
ہماری رائے تو یہی ہے کہ جس کو آنکھیں دیکھتی ہیں۔ترقی کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں۔اگر ہم ان باتوں کو ان دنیا پرستوں کی مجلس میں بیان کریں،تو ہو ہنسی میں اڑا دیں گے،مگر ہم کو رحم آتا ہے کہ افسوس یہ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے۔جو ہم دیکھتے ہیں۔آپ کو چونکہ خدا تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے کہ اس قدر دور دراز کا سفر اختیار کر کے اور راستہ کی تکلیف اٹھا کر آئے ہیں۔میںسمجھتا ہوں کہ اگر ایمانی قوت کی تحریک نہ ہوتی تو اس قدر تکلیف برداشت نہ کرتے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور اس قوت کی ترقی دے تا کہ آپ کو وہ آنکھ عطا ہو کہ ٓاپ اس روشنی اور نور کو دیکھ سکیں جو اس زمانہ میںاللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دنیا پر نازل کیا ہے۔
بعض اوقات انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کہیں جاتا ہے اور پھر جلد چلا جاتا ہے،مگر اس کے بعد اس کی روح میں دوسرے وقت اضطراب ہوتا ہے کہ کیوں چلا آیا۔ہمارے دوست آتے ہیں اور اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے جلد چلے جاتے ہیں،لیکن پیچھے ان کو حسرت ہوتی ہے کہ کیوں جلد واپس آئے۔
[یہاں مولوی سید مہدی حسین صاحب نے کہا کہ میرا بھی یقیناً یہی حال ہو گا۔اگر میں نواب محسن الملک صاحب اور دوسرے دوستوں کو تار نہ دے چکا ہوتا۔تو میں اور ٹھہرتا]
بہر حال میں نہیں چاہتا کہ آپ تخلف وعدہ کریں اور جب کہ ان کو اطلاع دے چکے ہیں،تو ضرور جانا چاہیے،لیکن میں امید کرتا ہوں کہ آپ پھر آئیں گے۔میں محض للہ اور نصیحتاً کہتا ہوں کہ آپ ایک دو ہفتہ تک کم از کم کسی دوسرے موقعہ پر یہاں رہ جائیں گے تو ااپ کو بہت فائدہ ہو گا۔آپ وہ باتیں سنیں گے،جس کے سنانے کے لئے مجھے خدا نے بھیجا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت کافر اس وقت یہی رائے لگاتے تھے۔ان ھذا لشی یراد(ص:۷)میں یہاںتو دکانداری ہے۔مخالف جس کو صحبت نصیب نہیں ہوتی۔اس کو صحیح رائے نہیں ملتی اور دور سے رائے لگانا صحیح نہیں۔کیونکہ جب تک وہ پاس نہیںآتا اور حالات پر اطلاع نہیں پاتا،کیونکر صحیح روئے حاصل کر سکتا ہے۔
یہ سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے میں دیکھتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جو بنیاد ایک سلسلہ آسمانی پر رکھی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔یہ
سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔اس کا پتہ اس طرز پر لگ سکتا ہے ،جس طرح پر انبیاٗ علیہم السلام کے سلسلوں کی حقانیت معلوم ہوئی ۔اور وہ راہ ہے صحبت میں صبر اور حسن ظن سے رہنے کی۔مخالفوں کو چونکہ اسباب نہیں ملتے اس لئے وہ صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔انسان جب تک ان طرح طرح کے خیالات اور راوں کے پروں کو چیر کر نہیں نکل آتا،اس کو سچی معرفت قوت اور مردانگی نہیں مل سکتی۔خوش قسمت وہی انسان ہے جو ایسے مردان خدا کے پاس رہ کر(جن کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بھیجتا ہے)اس غرض اور مقصد کوحاصل کرے۔جس کے لئے وہ آتے ہیں۔ایسے لوگ اگرچہ تھوڑے ہوتے ہیں،لیکن ہوتے ضرور ہیں۔وقلیل من عبادی الشکور(سبا:۱۴)اگرتھوڑے نہ ہوتے تو پھر بے قدری ہو جاتی۔یہی وجہ ہے کہ سونا چاندی لوہے اور ٹین کی طرح عام نہیں ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ مخالف بھی ہوں کیونکہ سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر شخص جو خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے،اس کے لئے امتحان ضروری رکھا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔احسب الناس ان یترکوا ان یقولو امنا و ھم لا یفتنون(العنکبوت:۳)امتحان خدا کی عادت ہے۔یہ خیال نہ کرو کہ عالم الغیب خدا کوامتحان کی کیا ضرورت ہے؟یہ اپنی سمجھ کی غلطی ہے کہ اللہ تعالیٰ امتحان کا محتاج نہیں ہے۔انسان خود محتاج ہے کہ تا کہ اس کو اپنے حالات کی اطلاع ہو اور اپنے ایمان کی حقیقت کھلے۔مخالفانہ رائے سن کر مغلوب ہو جاوے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قوت نہیں ہے۔جس قدر علوم فنون دنیا میں ہیں بدوں امتحان ان کو سمجھ نہیں سکتا ۔خدا کا امتحان یہی ہے کہ انسان سمجھ جاوے کہ میری حالت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مامور من اللہ کے دشمن ضرور ہوتے ہیں جو ان کو تکلیفیں اور ازیتیں دیتے ہیں۔توہین کرتے ہیں۔ایسے وقت میں سعید الفطرت اپنی روشن ضمیری سے ان کی صداقت کو پا لیتے ہیں۔پس ماموروں کے مخالفوں کا وجود بھی اس لئے ضروری ہے۔جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹے کا وجود ہے۔تریاق بھی ہیں تو زہریں بھی ہیں۔کوئی ہم کو کسی نبی کے زمانہ کا پتہ دے۔جس کے مخالف نہ ہوئے ہوں اور جنھوں نے اس کو دکاندار ،ٹھگ،جھوٹا مفتری نہ کہا ہوا ہو۔موسیٰ علیہ السلام کے اوپر بھی افترا ء کر دیا۔یہاں تک کہ ایک پلید نے تو زنا کا اتہام لگا دیا اور ایک عورت کو پیش کر دیا۔غرض ان پر ہر قسم کے افتراء کیے جاتے رہے تا کہ لوگ آزمانئے جاویں۔اور یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ خدا کے لگائے ہوئے پودے ان نابکاروںکی پھونک سے معدوم کیے جاویں۔یہی ایک نشان اور تمیز ہوتی ہے ان کے خدا کی طرف سے ہونے کی کہ مخالف کوشش کرتے ہیں کہ وہ نابود ہو جاویں اور وہ بڑھتے اور پھولتے ہیں۔ہاں جو خدا کی طرف سے نہ ہو۔وہ آخر معدوم اور نیست و نابود ہو جاتا ہے۔لیکن جس کو خدا نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے،وہ کسی کی کوشش سے نابود نہیں ہو سکتا ۔وہ کاٹنا چاہتے ہیں اور یہ بڑھتا ہے۔اس سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کا ہاتھ ہے جو اس کو تھامے ہوئے ہے۔
رسول اللہ کا کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے کہ ہر طرف سے مخالفت ہوتی ہے،مگر آپ ہر میدا ن میں کامیاب ہی ہوتے ہیں۔صحابہ کے لئے یہ کیسی دل خوش کرنے والی بات تھی۔جب وہ اس نظارے کودیکھتے تھے۔
اسلام کیا ہے؟بہت سی جانوں کا چندہ ہے۔ہمارے آباو اجدا چندہ ہی میں آئے ہیں۔اب اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کو کل ملتوں پر غالب کرے۔اس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے۔جس طرح پہلے مامور آتے رہے۔پس میری مخالفت میں بھی بہت سی باتیں سنیں گے اور بہت قسم کے منصوبے پائیں گے۔لیکن میں آپ کو نصیحتاً للہ کہتا ہوںکہ آپ سوچیں اور غور کریں کہ یہ مخالفتیں مجھے تھکا سکتی ہیں۔یا ان کا کچھ بھی اثر مجھ پر ہوا ہے؟ہر گز نہیں۔خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ ہے جو میرے ساتھ کام کرتا ہے؛ورنہ میں کیا اور میری ہستی کیا؟مجھے شہرت طلب کہا جاتا ہے۔لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس فرض ادا کرنے میں مجھے کس قدر گالیاں سننی پڑتی ہیں،مگر ان گالیوں کو جو دیتے ہیں اور ان تکلیفوں کو جو دیتے ہیں اور ان تکلیفوں کو جو پہنچاتے ہیں۔ایک لحظہ کے لئے بھی پرواہ یا خیال نہیں کرتا اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہوتا میررا خدا میرے ساتھ ہے۔ اور اگر میں خدا کی طرف سے آیا نہ ہوتا تو میری یہ مخالفت بھی ہر گز نہ ہوتی۔آپ کا اس قدر دور دراز سے سفر اختیار کر کے پھر تکالیف راہ برداشت کر کے آنا اللہ تعالیٰ کے حضور ایک اجر رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور توفیق دے کہ آپ اس سلسلہ کی طرف توجہ کر سکیں جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔آمین۔‘‘؎۱
۲۸؍دسمبر۱۹۰۰؁ء
سعید اور شقی بعد نماز جمعہ عام مجمع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مفصلہ ذیل تقریر فرمائی:
’’دیکھو،میں محض اللہ مختصر طور پر چند باتیں سناتا ہوں ۔ میری طبیت اچھی نہیں اور زیادہ باتوں کی حاجت نہیںہے۔کیونکہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے نیک اور پاک فطرت پیدا کی ہے اور جن کی استعدادیں عمدہ ہیں۔وہ بہت باتوں کے محتاج نہیں ہوتے اور ایک اشارہ کی اصل مقصد اور مطلب کو سمجھ لیتے اور بات کو پا لیتے ہیں۔ہاں جو لوگ اچھی فطرت اور عمدہ استعداد نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت پر اعتقاد نہیں ہے،وہ تو اپنی اغراض کی پیروی کرتے ہیں۔وہ ایسی پستی کی حالت میںپڑے ہوئے ہیں کہ اگر سب انبیاء علیہم السلام اکٹھے ہو کر ایک ہی وعظ کے منبر پر چڑھ کر نصیحت کریں،انہیں تب بھی کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
یہی وہ سر ہے کہ ہر نبی اور مامور کے وقت دو فرقے ہوتے ہیں۔ایک وہ ہیں جن کا نام سعید رکھاہے اور دوسرا وہ جو شقی کہلاتا ہے۔دونوں فرقے وعظ اور نصیحت کے لحاظ سے یکساں طور پر انبیاء علیہم السلام کے سامنے تھے اور اس پاک گروہ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ بخل نہیں کیا۔پورے طور پر حق نصیحت ادا کیا۔جیسے سعیدوں کے لئے ویسے اشقیاء کے لئے۔مگر سعید قوم کان رکھتی تھی جس سے اس نے سنا۔آنکھیں رکھتی تھی جس سے سمجھا،مگر اشقیاء کا گروہ ایسی قوم تھی ۔جس کے کان نہ تھے۔جو سنتی اور آنکھیں نہ تھیں،جس سے دیکتی نہ دل تھے جس سے سمجھتی اسی لئے وہ محروم رہی۔
مکہ کی مٹی ایک ہی تھی۔جس سے ابوبکر ؓ اور ابو جہل پیدا ہوئے ۔مکہ وہی مکہ ہے جہاں اب کروڑوں انسان ہر طبقہ اور ہر درجہ کے دنیا کے ہر حصہ سے جمع ہوتے ہیں۔اسی سر زمین سے یہ دونوں انسان پیدا ہوئے۔جن میں سے اول الذکر اپنی سعادت اور رشد کی وجہ سے ہدایت پا کر صدیقوں کا مال پا گیا اور دوسرا شرارت،جہالت بے جا عداوت اور حق کی مخالفت میںشہرت یافتہ ہے۔
یاد رکھو کمال دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ایک رحمانی،دوسرا شیطانی۔رحمانی کمال کے آدمی آسمان پر ایک شہرت اور عزت پاتے ہیں۔اسی طرح شیطانی کمال کے آدمی شیاطین کی ذریت میں شہرت رکھتے ہیں۔
غرض ایک ہی جگہ دونوں تھے ۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی سے کچھ بھی فرق نہیں کیا۔جو کچھ حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ۔وہ سب کا سب یکساں طور پر سب کو پہنچا دیا ۔مگر بد نصیب بد قسمت محروم رہ گئے اور سعید ہدایت پا کر کامل ہو گئے۔ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے بیسیوں نشان دیکھے۔انوار وبر کات الہٰیہ کو مشاہدہ کیا،مگر ان کو کچگ بھی فائدہ نہ ہوا،
اب ڈرنے کا مقام ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے ابو جہل کو محروم رکھا۔اس نے ایک عظیم الشان نبی کا زمانہ پایا جس کے لئے نبی ترستے گئے تھے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخر تک ہر ایک کی تمنا تھی،مگر انہیں وہ زمانہ نہ ملا۔اس بد بخت نے وہ زمانہ پایا ۔جو تمام زمانوں سے مبارک تھا۔مگر کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔اس سے صاف ظاہر ہے اور خوف کا مقام ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ نہ ہو اس کے سننے والے کان نہ ہو اور اس کا سمجھنے والا دل نہ ہو۔کوئی شخص کسی نبی اور مامور کی باتوں سے کچھ بھی فائدہ نہین اٹھا سکتا۔میں پھر کہتا ہوں کہ اسل یہی ہے کہ سرشت میں دو حصے ہوتے ہیں۔ایک وہ لوگ ہیں جن کے قویٰ عمدہ ہوتے ہیں اور وہ سعادت اور رشد کے پا جانے کے لئے استعدادوں سے یوں بھرے ہوتے ہیں۔جیسے ایک عطر کا شیشہ لبریز ہوتا ہے۔تیل اور بتی سب کچھ موجود ہو تا ہے۔صرف ایک ذرا سی ااگ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک ادنیٰ سی تحریک اور رگڑ سے روشن ہوا ٹھتی ہے۔
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھا،جس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بتی پہلے سے موجود تھے۔اس لئے رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کر کے روشن کر دیا۔اس نے آپ سے کوئی بحث نہیں کی۔کوئی نشان اور معجزہ نہ مانگا۔معاً سن کر صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہین۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ہاں،تو بول اٹھے کہ آپ گواہ رہیں کہ میں سب سے پہلے یمان لاتا ہوں۔
حسن ظن اور صبر یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ سوال کرنے والے بہت کم ہدایت پاتے ہیں۔ہان حسن ظن اور صبر سے کام لینے والے ہدایت سے پورے طور پر حصہ لیتے ہیں۔اس کا
نمونہ ابو بکرؓ اور ابو جہل دونوں موجود ہیں۔ابو بکرؓ نے جھگڑا نہیں کیا اور نشان نہ مانگے۔مگر اس کو وہ دیا گیا جو نشان مانگنے والوں کو نہ دیا گیا۔اس نے نشان پر نشان دیکھے اور خود ایک عظیم الشان نشان بنا۔ابو جہل نے حجت کی اور مخالفت اور جہالت سے بعض نہ آیا۔اس نے نشان پر نشان دیکھے مگر دیکھ نہ سکا۔آخر خود دوسروں کے لئے نشان ہو کر مخالفت ہی میں ہلاک ہوا۔اس سے ساف پتہ لگتا ہے کہ جس کی فظرت میں نور ایمان ہے۔انہین زیادہ گوئی کی ضروت نہیں۔وہ ایک ہی بات سے مطلب کو پہنچ جاتے ہیں۔ان کے دل میں ایک روشنی ہوتی ہے۔وہ معاً آواز کے سنتے ہی روشن ہو جاتے ہیں اور وہ الہی قوت جو ان کے اندر ہوتی ہے،اس کی آواز کو سن کر جوش میں آجاتی ہے اور نشو ونما پاتی ہے۔جن میں یہ قوت نہیں رہتی۔وہ محروم رہ کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔یہی طریق شروع سے چلا آیا ہے۔اب ہر شخص کو خوف کرنا چاہیے کہ اگر کسی زمانہ میں اصلاح کے لئے مامور پیدا ہوتا ہے تو جو لوگ اپنے اندر اس مامور کے لئے قبولیت اور ایمان کا رنگ پاتے ہیں،وہ مارک ہیں۔لیکن جو اپنے دل میں قبض پاتا ہے اور دل ماننے کی طرف رجوع نہیں کرتا ۔اس کو ڈرن اچاہیے کہ یہ انجام بد کے آثار ہیں اور محرومی کے اسباب۔
یقیناً سمجھ لو۔اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ جو حق کے قرائن اور دلائل دیکھ کر نہیں مانتا اور حسن ظن اور صبر سے کام نہیں لیتا اور تلاش رد میں رہتا ہے۔عمدہ سے عمدہ نشان اورت قویٰ سے قویٰ دلائل اس کے پاس آتے ہیں مگر وہ ان کو دیکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ،بلکہ رد کی فکر میں لگ جاتا ہے۔تو اس کو ڈرناچاہیے کہ اشقیاء والی عادت ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اس ماعت نے کبھی بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔جب انہوں نے اللہ کا پیغام سنا اور مامور من اللہ کی آواز ان کے کان میں پہنچی۔وہ مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فکر معکوس اور بخل اور بے جا عداوت کی وجہ سے اس کی تردید کی فکر میں لگ گئے۔پھر اسی پر بس نہیں کیا۔انسان چونکہ ترقی کرتا ہے۔دوستی ہو یا دشمنی۔آخر بڑے بڑے مقابلوں اورناپاک منصوبوں تک نوبت پہنچ کر ہلاکت کی گھڑی آجاتی ہے۔
ایسا ہی حال پیغمبر خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ہوا۔ایک گروہ نے ایمان میں وہ ترقی کی کہ بکریوں کی طرح خدا کے حکم پاکر ذبح ہو گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی کہ بیوی بچوں کا کیا حال ہو گا۔ان کو کچھ ایسی شراب محبت پلائی کہ لا پرواہ ہو کر جانیں دے دیں۔یہ تصرف اس نظارہ کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی۔
بیعت کے مغز کو اختیار کرو یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔یہ تو صرف پوست ہے۔مغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانون
قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔مغز ہی لیا جاتا ہے۔بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے اور نہ سفیدی جو کسی کام نہیں آسکتے اور ردی کی طرح پھینک دیے جاتے ہیں۔ہاںایک دو منٹ تک کسی بچے کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو۔
اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟جب تک مغز پیدا نہ ہو۔ایمان محبت اطاعت بیعت اعتقاد مریدی اور اسلام کا مدعی سچامدعی نہیں ہے۔یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کوئی بھی قیمت نہیں۔خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں ،موت کس وقت آجائے،لیکن یہ یقینی بات ہے کہ موت ضرور ہے۔پس نرے دعویٰ پر ہر گز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاو۔وہ ہر گز ہر گز فائدہ رساں چیز نہیں ۔جب تک انسان اپنے آپ پر بہت سی موتیں وار نہ کر ے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے۔وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔
انسان کی حقیقت انسان اصل میں اُنسان سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی اُنس ہوں۔ایک اللہ تعالیٰ سے اور دوسرا نبی نوع انسان کی ہمدردیسے جب یہ دونوں
انس اس میں پیدا ہو جاویں۔اس وقت انسان کہلاتا ہے اور یہی وہ بات ہے جو انسان کا مغز کہلاتی ہے اور اسی مقام پر انسان اولو الاباب کہلاتا ہے۔جب تک یہ نہیں کچھ بھی نہیں۔ہزار دعویٰ کر دکھاؤ،مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک،اس کے نبی اور اس کے فرشتوں کے نزدیک ہیچ ہے۔
اسوۂ انبیاء علیہم السلام پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام انسان نمونہ کے محتاج ہیں اور وہ نمونہ انبیاء علیہم السلام لکا وجود ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس بات پر
قادر تھا کہ درختوں پر کلام الہی لکھاتا،مگر اس نے جو پیغمبروں کو بھیجا اور ان کی معرفت کلام الہی نازل فرمایا۔اس میں یہی سر تھا کہ تا انسان جلوۂالوہیت کو دیکھے،جو پیغمبروں میں ہو کرظاہر ہوتا ہے۔
پیغمبر الوہیت کے مظہراور خدا نما ہوتے ہیں۔پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے،جو پیغمبروں کا مظہر بنے۔صحابہؓ کرام نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھو گئے کہ ان کے وجود میں کچھ اور باقی ہی نہیں رہا تھا۔جو کوئی ان کو دیکھتا تھا ا کو محویت کے عالم میں دیکھتا تھا۔پس یاد رکھو کہ اس زمانہ میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہو گی جو صحابہؓ کرام میں پیدا ہوئی تھی۔مریدوں معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہو گا۔یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں نشین کر لوکہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں۔اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل دخل موجود ہے۔
شیطان،جھوٹ ،ظلم،جزبات،خون۔طول امل۔ریا اور تکبر کی طرف بلاتاہے۔اور دعوت کرتا ہے۔اس کے بالمقابل اخلاق فاضلہ،صبر،محویت،فنا فی اللہ،اخلاص،ایما ،فلاح یہ اللہ تعالٰی کی دعوتیں ہیں۔انان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے۔پھر جس کی فطرت نیک ہے اور سعادت کا مادہ اس میں رکھا ہوا ہے۔وہ شیطان کی ہزار دعوتوں اور جز بات کے ہوتے ہوئے بھی اس فطرت رشید سعادت اور سلامت روی کے مادہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے اور خدا ہی میں اپنی راحت تسلی اور اطمینان کو پاتا ہے۔
ایمان کے نشانات مگر ہر چیز کے لئے نشانات ضرور ہوتے ہیں۔جب تک اس میں وہ نشان نہ پائے جاویں،وہ معتبر نہیں ہو سکتی۔دیکھو دواؤں کا طبیب
شناخت کر لیتا ہے ۔بنفشہ،خیار شنبر تربد میں اگر وہ صفات نہ پائے جاویں جو ایک بڑے تجربے کے بعد ان میں متحقق ہوئے ہیں۔تو طبیب ان کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے۔اسی طرح ایمان کے نشانات ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔یہ سچی بات ہے کہ جب ایمان انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت یعنی جلال تقدس کبریائی قدرت اور سب سے بڑھ کر لا الہ الا اللہ کا حقیقی مفہوم داخل ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندر سکونت اختیار کرتا ہے اور شیطانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے یا یہ کہو کہ آسمانی پیدائش کا وہ پہلا دن ہوتا ہے۔جب شیطانی زندگی پر موت وارد ہوتی ہے اور روحانی زندگیے بچے کا تولد ہوتا ہے۔
اسلام کا کامل خدا اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں اسی تولد کا ذکر فرمایا ہے۔الحمد للہ رب العالمیں ۔ملک یوم الدیں(الفاتحہ:۲تا۴)یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی
بیان کی گئی ہیں۔یعنی وہ خدا جس میں تمام محامد پائے جاتے ہیں۔کوئی خوبی خیال اور سوچ میں نہیں آسکتی۔جو اللہ تعالٰٰ میں نہ پائی جاتی ہو،بلکہ انسان کبھی بھی ان محامد اور خوبیوں کو جو اللہ کریم میں پائی جاتی ہیں کبھی بھی شمار نہیں کر سکتا۔جس خدا نے اسلام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور کتابوں نے جس خدا کی طرف دنیا کو دعوت دی ہے۔وہ کوئی نہ کوئی عیب اپنے اندر رکھتا ہے۔کسی کے ہاتھ نہیں ،کسی کے کان نہیں،کوئی گونگا ہے اور کوئی کچھ،غرض کوئی نہ کوئی عیب اور روگ موجود ہے۔مثلاً عیسائیوں نے جس خدا کو بنا رکھا ہے۔سوچنے والا انسان سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ ۱۹۰۰ برس کی مدت ان کے اس خیالی ڈھکو سلہ پر نہ گزر گئی ہوتی،تو کچھ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔اب صرف ایک بے ہودہ بات کی کہ ۱۹۰۰ برس سے یہ مذہب چلا آتا ہے۔کوئی دلیل مسیح کی خدا ئی کی نہیںہے۔توں بچہ جو کھانے پینے کا محتاج پاخانہ اور پیشاب کی حاجتوں کا پا بند تمام انسانی حوائج کا اسیر اور محتاج ہو خدا ہو سکتا ہے؟صرف اتنی ہی بات ہے کہ بات پرانی ہو کر انہوںنے قائم مقام دلیل کے بنا لی ہے۔ جیسے ہندوؤں کے خیال میں گنگا کے پانی میں ست اور برکت خیالی طور پر رکھی ہوئی ہے؛حالانکہ وہ ایک معمولی دریا ہے۔جس میں مینڈک کچھوے اسی طرح موجود ہیں،جیسے اور دریاؤںمیں۔اور اس میں مردوں کی ہڈیاں دالی جاتی ہیں۔اب اگر ایک ہندو سے اس کی دلیل پوچھیں،تو وہ یہی کہے گا کہ میرے دل میں دلیل ہے۔بیان نہیں کر سکتا۔ایسا ہی نادان آریوں نے جو پرمیشر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے،وہ ایک مستری اور کاریگر سے بڑھ کر نہیں،کیونکہ بجز جوڑنے جاڑنے کے خالقیت کے اعلیٰ جوہر سے وہ بے بہرہ ہیں۔روح اور ذات عالم پر اس کا کوئی تصرف نہیں۔کیونکہ اس نے ان کوپیدا ہی نہیں کیا۔وہ کبھی اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا۔کیونکہ پھر سارا کارخانہ ہی بگڑتا ہے۔اور ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔وہ اپنے کسی مخلص بندے کی دعا ہی نہیں س سکتا اور نہ اپنے فضل سے کسی کو کچھ دے سکتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کسی کو دیتا ہے ،وہ اس کے ہی کرموں کا پھل ہوتا ہے۔غرض ہر قوم نے اور کتاب نے جو خدا پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر شرم آجاتی ہے۔یہ فضیلت اور فخر اسلام کو ہی ہے۔کہ اس کو ماننے والا کبھی شرمندہ نہیںہوسکتا۔اس نے کامل خدا کا پلّہ پکڑا ہے اور اکمل ہی کے حضور جائے گا۔‘‘؎۱
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت یہ محض اللہ تعالیٰ کاحسان اور فضل ہے۔پھر پیغمبر خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت سے عظیم الشان
احسان فرمایا۔اگر آپ کا وجود باوجود دنیا میں نہ آتا ۔تو رام رام کہنے والوں کی طرح بہت سے جھوٹے اور بیہودہ اینٹ پتھر وغیرہ کے معبود بنائے جاتے۔اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ نبی معصوم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آیا اور بت پرستوں سے اس نے نجات دی۔یہی وہ راز ہے کہ یہ درجہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان احسانوں کے معاوضہ میں ملا کر ان اللہ و ملئکۃ یصلون علے النبی یا یھا الذین امنو ا صلو اعلیہ وسلموا تسلیماً(الاحزاب:۵۷)
ادھر ہندؤں نے ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کو خدا بنا رکھا ہے۔اس وقت کی حالت سے کوئی نہیں بتلا سکتا کہ موحد فرقہ کہاں رہتا تھا۔اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے تقاضے کا پتہ چلتا ہے کہ کیونکر تاریکی کے وقت اس کی غیرت ہدایت کا تقاضا کرتی ہے۔ہندو رام رام اور عیسائی ربنا الیسوع ربنا الیسوع پکارتے تھے۔کوئی ایسا نہ تھا جوخدا کانام لیتا۔کروڑوں پردوں میں خدا تعالیٰ کا اسم جلالی مخفی تھا۔اللہ جلہ شانہ نے جب احسان کرنا چاہا تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیدا کیا۔آپ کا نام محمد تھا۔جس کے معنی ہیں نہایت ہی تعریف کیا گیا۔جو باب تفصیل سے آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اس قدر قابل تعریف ٹھہرتا ہے۔جس قدر کام کرتا ہے۔پہلے نبی خاص قوموں کے لئے آئے تھے۔اور ایک نقص یہ تھا کہ ایک عظیم الشان اصلاح کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔مثلاً جب حضرت مسیح علیہ السلام آئے،تو ہو صرف نبی اسرائیل ہی کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے واسطے آئے اور یہودیوں کے پاس اس وقت تورایت موجود تھی۔وہی توریت کی تعلیمات عملدارآمد کے لئے کافی سمجھی گئی تھی اور یہودی تورایت کے احکام اور تعلیمات کے قائل اور ا پر قائم تھے۔ہاں بعض اخلاقی کمزوریاں تھیں،جو ان میں پیدا کی گئی تھیں۔
اور یہ صاف بات ہے کہ صرف اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنا ۔ان کے نقصانات کو بتلا دینا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ایک معمولی درجہ کا آدمی بھی ایساکر سکتا ہے۔اور اخلاقی واعظ ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسیح کا نام محمد نہ رکھا گیا۔کیوں ؟کہ ان کی خدمت ایسی اعلیٰ درجہ کی نہ تھی اور اسی طرح پر موسیٰ علیہ السلام جب آئے گو وہ ایک شریعت لے کر آئے مگر ان کا بڑا کام نبی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانا ہی تھا؛حالانکہ وہ قوم چار سو برس کی تلخیوں اور مصیبتوں کی وجہ سے خود اس بات پر آمادہ اور تیار تھی کہ کوئی ایسی تحریک ہو تو وہاں سے نکل کھڑے ہوں۔مادہ تیار تھا۔صرف تحریک اور محرک کی ضرورت تھی۔انسان جب کسی بیگار یا بیجا مشقت میں پکڑا جاوے،تو ہو خود اس سے نجات پانی چاہتا ہے۔ اور نکلنے کی خواہش کرتا ہے۔پس جب نبی اسرائیل فرعون کی غلامی میں پریشان ہو رہے تھے اور اندر ہی اندر وہ اس سے رہائی پانے کی فکر میں تھے۔اس وقت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر جب انہیں کہا کہ میں تم کو فرعون کی غلامی سے نجات دلاؤں گا تو وہ سب تیار ہو گئے۔بنی اسرائیل کے حالات اور واقعات کو بہ نظر غور دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی اصل غرض موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی کیا تھی؟بڑی باری غرض یہی تھی کہ وہ فرعون کی غلامی سے نکلیں؛چنانچہ روحانی امور اور خدا پرستی کے متعلق وہ ہمیشہ ٹھوکر کھاتے رہے۔اور بے جا گستاخیوں اور شوخیوں سے کام لیتے رہے۔یہاں تک کہ لن نو من لک حتیٰ نری اللہ جھرۃً(البقرہ:۵۶)اذھب انت وربک فقاتلا انا ھہنا قاعدون(المائدہ:۲۵)جیسے کلمات کہنے اور ذرا سی غیر حاضری میں گو سالہ پرستی کرنے سے بعض نہ آئے اور بات بات میں ضد اور اعتراض سے کام لیتے ۔ان کے حالات پر پوری نظر کے بعد صاف معلوم دیتا ہے کہ وہ صرف اور صرف فرعون کی غلامی ہی سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔خود اپنے آپ میں رہبری اور سرداری کی قوت نہ رکھتے تھے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام کی بات سنتے ہی تیار ہو گئے۔چونکہ بہت تنگ آچکے تھے مرتے کیا نہ کرتے اپنی سر خروئی انہوں نے اسی میں سمجھی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نکل پڑے،لیکن آخر کار موسیٰ کی کامیابیوں میں ٹھوکر کا پتھر بنے۔غرض حضرت موسیٰ کو بہت محنت اور مشقت کی ضرورت نہ پڑی۔قوم زندان غلامی میں گر فتار تھی اور تیار تھی کہ کوئی آئے۔تو اسے قبول کر لیں۔ایسی حالت میں کئی ایک لاکھ آدمیوں نے ایک دن میں قبول کر لیا اور انہوںنے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ کیسی قوم ہے اور موسیٰ کی تعلیم سے انہوں نے کیا کیا فائدہ اٹھایا ہے۔۔پس یہاں تک کہ ان کو مصر سے نکال لانا کوئی بڑا کام نہ تھا۔اصلاح کا زمانہ جب آیا اور موسیٰ نے جب کہا کہ ان کو خدا پرست قوم بنا کر وعدہ کی سر زمین میں داخل کریں ۔وہ ان کی شوخیوں اور گستاخیوں اور اندرونی بد اعمالیوں میں گزرا۔یہاںتک کہ خود حضرت موسیٰ بھی اس سر زمین میں داخل نہ ہو سکے اس لئے ان کا نام بھی محمد نہ ہو سکا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت غرض جہاں تک غور کرتے جاؤ۔یہ پتہ لگے گا کہ کوئی نبی اس مبارک نام کا مستحق نہ تھا۔یہاں تک
کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ آگیا اور وہ ایک خارستان تھا۔جس میںنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قدم رکھا اور ظلمت کی انتہا ہو چکی تھی۔میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے۔سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور ہو اصلاح کرنا چاہتے تھے۔جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کی ہر گز نہ کر سکتے تھے۔ان میں وہ دل اور قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی تھی۔اگر کوئی یہ کہے کہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا۔میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کو جزو سمجھتا ہوں،لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں۔بد نصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ہمارے نبی کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہو کام کیا ہے ،جو نہ الگ الگ اور نہ مل کر کسی سے ہو سکتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔

سراپا محمد رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر گرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا ؟تو انسان
وجد میں آکر الھم صلی علے محمد کہہ اٹھتا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوں۔ کہ یہ خیلای اور فرضی بات نہیں ہے۔قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا کیا۔ورنہ وہ کیا بات تھی کہ آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین اٰمنو ا صلو ا علیہ وسلموا تسلیماً(الاحزاب:۵۷)کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی۔پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان د نیا میں آیا کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہلایا۔
عادت اللہ اسی طرح پر ہے۔زمانہ ترقی کرتا ہے۔آخر وہ زمانہ آگیا جو خاتم النبین کا زمانہ تھا جو ایک ہی شخص تھا۔جس نے یہ کہا یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً(الاعراف:۱۵۹)کہنے کو تو یہ چند الفاظ ہیں۔اور ایک اندھا کہہ سکتا ہے کہ معمولی بات ہے مگر جو دل رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے اور جو کان رکھتا ہے وہ سنتا ہے۔جو آنکھیں رکھتا ہے وہ دیکھتا ہے۔کہ یہ الفاظ معمولی الفاظ نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں کہ اگر یہ معمولی لفظ تھے ،تو بتلاؤ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یا مسیح ؑ کو یا کسی بھی نبی کو بھی یہ طاقت کیوں نہ ہوئی کہ وہ یہ لفظ کہہ دیتا۔اصل یہی ہے کہ جس کو یہ قوت یہ منصب نہیں ملا وہ کیونکر کہہ سکتا ہے ۔میں پھر کہتا ہوں کہ کسی نبی کو یہ شوکت یہ جلال نہ ملا جو ہمارے نبی کرم کو ملا ۔بکری کو اگر ہر روز گوشت کھلاؤ،تو ہو گوشت کھانے سے شیر نہ بن سکے گی۔شیر کا بچہ ہی شیر ہو گا۔پس یاد رکھو کہ یہی بات سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور واقعی حقدار ایک تھا۔جو محمد کہلایا۔یہ داد الہی ہے۔جس کے دل ودماغ میں چاہے ۔یہ قوتیں رکھ دیتی ہے اور خدا خوب جانتا ہے کہ ان قوتوں کا محل اور موقعہ کونسا ہے۔ہر ایک کاکام نہیں کہ اس راز کو سمجھ سکے اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ انی رسول اللہ الیکم جمیعاً جب تک روح القدس کی خاص تائید نہ ہو یہ کام نہیں نکل سکتا۔
رسول اللہ میں وہ ساری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی ہیں جو محمد بنا دیتی ہیں تا کہ بالقوۃ باتیں بالفعل میں بھی آجاویں،اس لئے آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ انی رسول اللہ علیکم جمیعاً ایک قوم کے ساتھ جو مشقت کرنی پڑتی ہے ۔تو کس قدر مشکلات پیش آتی ہیں۔ایک خدمت گار شریر ہو تو اس کا درست کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔آخر تنگ اور عاجز آکر اس کو بھی نکال دیتا ہے۔لیکن وہ کس قدر قابل تعریف ہو گا جو اسے درست کرے اور پھر وہ تو بڑا ہی مرد میدان ہے جو اپنی قوم کو درست کر سکے؛حالانکہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔مگر وہ جو مختلف قوموں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے۔سوچو تو سہی کہ کس قدر کامل اور زبر دست قویٰ کا مالک ہو گا ۔مختلف طبیعت کے لوگ،مختلف عمروں،مختلف ملکوں،مختلف خیالات،مختلف قویٰ کی مخلوق کو ایک ہی تعلیم کے نیچے رکھنا اور پھر ان سب کی تربیت کر کے دکھانا اور وہ تربیت بھی کوئی جسمانی نہیں بلکہ روحانی تربیت،خدا شناسی اور معرفت کی بارک سے باریک باتوں اور اسرار سے پورا واقف بنا دینا اور نری تعلیم ہی نہیں بلکہ عامل بھی بنا دینا یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے۔دنیا کے لئے اجتماع بھی ہو سکتے ہیں۔کیونکہ ان میں ذاتی مفاد اور دنیوی لالچ کی ایک تحریک ہوتی ہے۔مگر کوئی یہ بتلائے کہ محض للہ کے لئے پھر ایسے وقت میں کہ اس جلالی نام سے کل دنیا ناواقف ہو پھر ایسی حالت میںاس کا اقرار کرنا کہ دنیا کی تمام مصیبتوں کو اپنے سر اٹھا لینا ہو ۔کون کسی کے پاس آسکتا ہے۔جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی عظیم الشان قوت جذب کی نہ ہو کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس کی طرف کھیچ آوے اور وہ تمام تکلیفیں اور بلائیں ان کے لئے محسوس اللذات اور مدرک الحلاوت ہو جاویں۔اب رسول اللہ اور آپ کی جماعت کی طرف غور کرو تو پھر کیسا روشن طور پر معلوم ہو گا کہ آپ ہی اس قابل تھے کہ محمد نام سے موسوم ہوتے اور اس دعویٰ کو جیسا کہ زبان سے کیا گیا تھا۔انی رسول اللہ الیکم جمیعاً اپنے عمل سے بھی کر دکھاتے؛چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجاً(النصر:۲،۳)اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میںآئے جب دین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کے جبکہ اس نظارے کو دیکھ لیا کہ ید خلون فی دین اللہ افواجاً۔
جب تک اس کو پورا نہ کیا ۔نہ تھکے ہوئے نہ ماندے ہوئے۔مخالفوں کی مخالفتیں،اعداد کی سازشیں اور منصوبے،قتل کرنے کے مشورے،قوم کی تکلیفیں آپ کے حوصلے اور ہمت کے سامنے سب ہیچ اور بے کار تھیں۔اور کوئی چیز ایسی نہ تھی جو آپ کو اپنے کام سے ایک لمحہ کے لئے بھی روک سکتی تھی!اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت تک زندہ رکھا۔جب تک کہ ٓاپ نے وہ کام نہ کر لیا جس کے واسطے آئے تھے۔یہ بھی ایک سر ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے جھوٹوں کی طرح نہیںآتے۔
اسی طرح پر آپ کے صدق نبوت پر آپ کی زندگی سب سے بڑا نشان ہے۔کوئی ہے جو اس پر نظر کرے؟آپ کو دنیا میں ایسے وقت پر بھیجا گیا کہ دنیا میں تاریکی چھائی ہوئی تھی اور اس وقت تک زندہ رکھا کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی(المائدہ:۴)کی آواز آپ کو نہ آگئی اور فوجوں کی فوجیں اسلام میں داخل ہوتی ہوئی آپ نے نہ دیکھ لیں۔غرض اس قسم کی بہت سی وجوہ ہیں،جن سے آپ کا نام محمد رکھا گیا۔
احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آپ کا ایک اور نام بھی رکھا گیا ۔وہ احمد ہے؛چنانچہ حضرت مسیح نے اس نام کی پیش گوئی کی تھی۔مبشراً برسول یاتی منن بعدی اسمہ
احمدہ۔‘‘(الصف:۷)یعنی میرے بعد ایک نبی آئے گا۔جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور جس کا نام احمد ہو گا۔یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو گا۔اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ اس کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے ۔اگر کسی کو ایک روپیہ دیا جاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار رو پیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے تعریف کرے گا۔غرض اس سے واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ ولہ وسلم نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا ۔دراصل اس نام میں ایک پیش گوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہو گا۔
محمد واحمد پھر آپ کے مبارک ناموں میں ایک سر یہ ہے کہ محمد اور حمد جو دو نام ہیں۔ان میں دو جدا جدا کمال ہیں۔محمد کا نام جلالی اور کبریائی کو چاہتا ہے۔جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا ہے اور
اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے۔کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے۔پس اس میں جلالی رنگ ہونا ضروری ہے۔مگر احمد کا نام اپنے اندر ایک عاشقانہ رنگ رکھتا ہے،کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے۔کیونکہ وہ اپنے محبوب اور معشوق کی تعریف کرتا رہتا ہے۔اس لئے جیسے محمد محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے اسی طرح احمد عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے۔اس میں ایک سر یہ تھا کہ آپ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی۔ایک تو مکی زندگی جو ۱۳ برس کے زمانے کی ہے اور دوسری مدنی زندگی ہے جو ۱۰ برس کی ہے۔مکہ کی زندگی میں اسم احمد کے نام کی تجلی تھی ۔اس وقت آپ دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وبکار اور طلب استعانت اور دعا میں گزرتی تھی۔اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو ،تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرع اور زاری آپ نے اس مکی زندگی میں کی تھی وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا۔پھر آپ کی تضرع اپنے لیے نہ تھی۔بلکہ یہ تضرع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی۔خدا پرستی کا نام ونشان چونکہ مٹ چکا تھا۔اور آپ کی روح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور سرور آچکا تھا۔اور فطرتاً دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے۔ادھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعدادیں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقعہ ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا۔غرض دنیا کی اس حالت پر آپ گریہ وزاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی۔اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔لعلک باخع نفسک الا یکو نو ا مومنین(الشعراء:۴) یہ آپ کی متضر عانہ زندگی تھی۔اور اسم احمد کا ظہور تھا۔اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے۔اس توجہ کو ظہور مدنی زندگی اور اسم محمد کی تجلی کے وقت ہوا ۔جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے واستفتحواوخاب کل جبار عنید(ابراہیم:۱۶)
مامورین پر ابتلاء یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں ۔دکھ دئے جاتے ہیں۔مشکل پر مشکل ان کے سامنے آتی ہے نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو
جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرت الہی کو جذب کریں۔یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے۔چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گزرے اور مدینہ میں دس برس۔جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے۔ہر نبی اور مامور من اللہ کے ساتھ یہی حال ہوا ہے کہ اوائل میں دکھ دیا گیا ۔مکار فریبی دکاندار اور کیا کہا گیا ہے۔کوئی برا نام نہیں ہوتا جو ان کا نہیں رکھا جاتا ۔وہ نبی اور مامور من اللہ ہر ایک بات کو برداشت کرتے ہیں اور ہر ایک دکھ کو سہہ لیتے ہیں۔لیکن جب انتہا ہو جاتی ہے تو پھر نبی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے دوسری قوت ظہور پکڑتی ہے۔اس طرح پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہر قسم کا دکھ دیا گیا اور ہر قسم کا برا ام آپ کا رکھا گیا ۔آخر آپ کی توجہ نے زور مارا اور وہ انتہا تک پہنچی جیسا کہ استفتحو سے پایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا۔وخاب کل جبار عنید تمام شریروں اور شرارتوں کے منصوبے کرنے والوں کا خاتمہ ہو گیا۔یہ توجہ مخالفوں کی شرارتوں کی انتہا پر ہوتی تھی۔کیونکہ اگر اول ہی ہو تو خاتمہ ہو جاتا ہے!!مکہ کی زندگی میںحضرت احدیت کے حضور گرنا اور چلانا نہ تھا۔اور وہ اس حالت تک پہنچ چکا تھا کہ دیکھنے والوں اور سننے والوں کے بدن پر لرزاں پڑ جاتا ہے۔مگر آخری مدنی زندگی کے جلال کو دیکھو جو شرارتوں میں سر گرم اور قتل اور اخراج کے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے۔سب کے سب ہلاک ہوئے اورباقیوں کو اس کے حضور عاجزی اور منت کے ساتھ اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے معافی مانگنی پڑی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا۔ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس
کا توقف ہو گیا۔اللہ تعالیٰ خوب مصلحت کو سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سر ہے۔ابو جہل نے کوشش کی کہ کوئی ا یسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہ کو قتل کر دے۔اس وقت حضرت عمر بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے۔اور شوکت رکھتے تھے۔انہوں نے آپس میں مقورہ کر کے رسول اللہ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمرؓ اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوشہید کرنے جاتے ہیں۔دوسرے وقت وہی عمر اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں۔وہ کیا عجیب زمانہ تھا۔غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ میں قتل کرتا ہوں۔اس تحریر کے بعد آپ کی تلاش اور تجسس میں لگے راتوں کو پھرتے تھے کے کہیں تنہا مل جاویں تو قتل کر دوں۔لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں۔لوگوں نے کہا نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔حضرت عمر یہ سنکر بہت ہی خوش ہوئے چنانچہ خانہ کعبہ میں آکر چھپ رہے۔جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لا الہ الااللہ کی آواز آتی ہوئی سنائی دی۔اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی آواز تھی۔اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے وہ ادھر ہی کو آرہی ہے۔حضرت عمر اور بھی احتیاط کر کے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے ،تو تلوار مار کر تن مبارک سر سے جدا کر دوںگا۔آپؐ نے آتے ہی نماز شروع کر دی۔پھر اس سے آگے کے واقعات حضرت عمر خود بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سجدہ میں رو رو کر اس قدر دعائیں کی کہ مجھ پر لرزہ طاری ہونے لگا۔یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ سجد لک روحی وجنانی یعنی اے میرے مولیٰ میری روح اور میرے دل نے بھی سجدہ کیا۔حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا۔آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچاہے اور ضرور کامیاب ہو جائے گا ۔مگر نفس امارہ برا ہوتا ہے۔جب آپ نماز پڑھ کر نکلے۔میں پیچھے پیچھے ہو لیا ۔پاؤں کی آہٹ جو آپؐ کو معلوم ہوئی ۔رات اندھیری تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا کہ کون ہے؟میں نے کہا کہ عمرؓ۔آپ نے فرمایا ۔اے عمرؓ نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا اور نہ دن کو ۔اس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم بد دعا کریں گے۔میں نے عرض کی کہ یا حضرت!بد دعا نہ کریں۔
حضرت عمر کہتے ہیں کہ وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی۔یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا۔
اب سوچو کہ اس تضرع اور بکا میں کیسی تلوار مخفی تھی کہ جس نے حضرت عمر جیسے انسان کو جو قتل کرنے کا معاہدہ کرنے کے لئے آتا ہے۔اپنی ادا کا شہید کر لیا۔اس توجہ اور زاری میں ایسی تلوار ہوتی ہے ،جو سیف وسنان سے بڑھ کر کام کرتی ہے۔غرض وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکی زندگی کاا سم احمد کے ظہور کا زمانہ تھا۔اس لئے مکہ میں عاشقانہ رنگ کا جلوہ دکھایا ۔اپنے آپ کو خاک میں ملا دیا اور ہزاروں موتیں اپنے آپ پر وارد کر لیں ۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس جوش ،وفا،تضرع،اور دعا وبکا کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ان موتون کے بعد وہ قوت وہ زندگی آپؐکو ملی کہ ہزاروں لاکھوں مردوں کے زندہ کرنے والے ٹھہرے اور حاشر الناس کہلائے اور ابتک اپنی قوت قدسی کے زور سے کروڑہا مُردوں کو زندہ کر رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔
پس اس مکی زندگی اور عاشقانہ ظہور کے بعد جو اسم احمد کی تجلی تھی۔دوسرا دور آپؐ کی جلالی زندگی اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ظہور کا معشوقانہ شان میں ہوا جبکہ مکہ والوں کی دشمی انتہا ہو چکی اور دعاؤں اور توجہ کی حد ہو گئی۔نابکار مخالفوں کی عداوت حد سے بڑھ کر بیت اللہ سے نکال دینے کا باعث ہوئی اور اس پر بھی بس نہ کی بلکہ تعاقب کیا اور اپنی طرف سے کو ئی دقیقہ تکلیف دہی اور ایذا رسان کا باقی نہ رکھا،تو آپ مدینہ تشریف لائے اور پھر حکم ہوا کہ مداخلت کی جاوے۔اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جو ش مارا اور جلال الہی نے اسم محمد کا جلوہ دکھانے کا ارادہ فرمایا جس کا ظہور مدنی زندگی میں ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دنیا میں آنے کی غرض و غایت تو صرف یہ تھی کہ دنیا پر اس خدا کا جلال ظاہر کریں،جو مخلوق کی نظروں اور دلوںسے پوشیدہ ہو چکا تھا اور اس کی جگہ باطل اور بیہودہ معبودوں،بتوں اور پتھروں نے لے لی تھی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جمالی اور جلالی زندگی میں جلوہ گری فرماتا اور اپنے دست قدرت کا کرشمہ دکھاتا۔
محبوب الہی بننے کے لئے واحد راہ اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پس رسول
اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک کامل نمونہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور محبوب الہی بننے کا ہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ قل ان کنتم تحبون اللہ فا تبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم(آل عمران:۳۲)یعنی تم ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گنا ہ بخش دئے جاویں،تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔
کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شے ہے جو رحمت الہی سے نامید ہو نے نہیں دیتی۔گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو۔
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت ومشقت اور چپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الہی کا حق دار نہیں بن سکتا ۔انوار و برکات الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں۔جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں نہ کھو جائے۔
اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے ۔اس کو وہ نور ایمان،محبت اور عشق دیا جاتا ہے۔جو غیر اللہ سے رہائی دیتا ہے۔اور گناہوں کی رستگاری اور نجات کو موجب ہوتا ہے۔اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے۔اور نفسانی جوش وجزبات کی تنگ وتاریک قبروںسے نکال دیا جاتا ہے۔اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے۔انا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی یعنی میں وہ مردوں کو اٹھا لینے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں۔غرض یہ ہے کہ وہ علوم جو مدار نجات ہیں۔یقینی اور قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیںہو سکتے۔جو تبوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن شریف کی یہ آیت صاف طور پر اور پکار کر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ حیات روحانی صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت سے ہی ملتی ہے اور وہ تمام لوگ جو بخل اور عناد کی وجہ سے نبی کرم کی متا بعت سے سر کش ہیں،وہ شیطان کے سائے کے نیچے ہیں۔اس میں اس پاک زندگی کی روح نہیں ہے۔جو بظاہر زندہ کہلاتے ہے۔لیکن مردہ ہے۔جبکہ شیطان اس کے دل پر سوار ہے۔
موت کو یاد رکھیں افسوس اس کو موت یاد نہیں ہے۔ موت کیا دُور ہے؟ جس کی بچاس برس کی عمر ہو چکی ہے۔ اگر وہ زندگی پالے گا تو دوچار برس اور پالے گا یا زیادہ سے
زیادہ دس برس۔ اور آخر مرنا ہوگا۔ موت یقینی شے ہے جس سے ہرگز ہرگز کوئی بچ نہیں سکتا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ روپیہ پیسہ کے حساب میں ایسے غلطاں پیچاں رہتے ہیں کہ کچھ حد نہیں، مگرعمر کا حساب کبھی بھی نہیں کرتے۔ بدبخت ہے وہ انسان جس کو عمر کے حساب کی طرف توجہ نہ ہو۔ سب سے ضروری اور حسا ب کے لائق جو شے ہے وہ عمر ہی توہے۔ ایس انہ ہو کہ موت آجائے اور یہ حسرت لے کر دُنیا سے کُوچ کرے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جیسے بہشتی زندگی اسی دُنیا سے شروع ہوجاتی ہے۔ جہنم کی زندگی بھی یہاں ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ جب انسان حسرت کے ساتھ مرتا ہے، تو بہت بڑے جہنم میں ہوتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ اب چلا۔ ہیضہ، طاعون، محرقہ، خفقان یا کسی اور شدید مرض میںمبتلا ہوتا ہے، تو موت سے پہلے ایک موت وارد ہوجاتی ہے۔ جو دل اور رُوح کو فرسُودہ کردیتی ہے۔ اور وُہ بھی حسرت ہوتی ہے۔ بعض امراض ایسے ہیں کہ دو منٹ میں دَم لینے نہیں دیتے اور جھٹ پٹ کام تمام کردیتے ہیں۔ جس نے بھی مطالعہ کیا کہ مَیں مرنے ولا جانور ہوں وہ اس عذاب سے بچنے کی فِکر میں ہوا جو انسان کو حسرت کے رنگ میں کھا جاتا ہے۔
ہمارے عزیزوں میں سے ایک کو قولنج ہوئی۔ آخر پیشاب بند ہوکرسیاہ رنگ کی ایک قے ہوئی اور اس کے ساتھ ہی گردن لٹک گئی۔ اس وقت کہا کہ اب معلوم ہوا کہ دُنیا کچھ چیز نہیں۔ یقینا یادرکھو کہ دُنیا کوئی چیز نہیں کون کہہ سکتا ہے کہ ہم سب جو اس وقت یہاں موجود ہیں، سالِ آئندہ میں بھی ضرور ہوں گے۔ بہت سے ہمارے دوست جو پچھلے سال موجود تھے، آج نہیں ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ اگلے سال ہم نہ ہوں گے۔ اسی طرح اب کون کہہ سکتا ہے کہ ہم ضرورہوں گے اور کس کو معلوم ہے کہ مرنے والوں کی فہرست میں کِس کس کانام ہے۔ پس بڑا ہی مُورکھ اور نادان ہے وہ شخص جو مرنے سے پہلے خدا سے صُلح نہیں کرتا اور جھوٹی برادری کونہیں چھوڑتا۔
بدصُحبت انسان کو ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک بدصُحبت بھی ہے۔ دیکھو ابوجہل خود تو ہلاک ہوا، مگر اور بھی بہت سے لوگوں کو لے مرا جو اس کے پاس جاکر بیٹھا کرتے
تھے۔اس کی صحبت اور مجلس میں بجز استہزا اور ہنسی ٹھٹھے کے اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ یہی کہتے تھے ان ھذا الشئی یراد (صٓ:۷) میاں یہ دوکانداری ہے۔
اب دیکھواوربتلائو کہ جس کو دوکاندار اورٹھگ کہاجاتا تھا، ساری دُنیا میں اسی کانُور ہے یا کسی اور کابھی۔ ابوجہل مرگیا اور اس پر *** کے سواکچھ نہ رہا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ بلند کو دیکھو کہ شب وروز بلکہ ہروقت درودپڑھا جاتا ہے اور ۹۹کروڑ مُسلمان اس کے خادم موجود ہیں۔ اگر اب ابوجہل پھر آتا،تو آکر دیکھتا کہ جسے اکیلا مکہ کی گلیوں میں پھرتا دیکھتاتھا، جس کی ایذادہی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ جب ۹۹ کروڑ انسانوں کے مجمع کو دیکھتا حیران رہ جاتا اور یہ نظارہ ہی اس کو ہلاک کردیتا۔ یہ ہے ثبوت آپؐ کی رسالت کی سچائی کا۔ اگر اللہ تعالیٰ ساتھ نہ ہوتا، تو یہ کامیابی نہ ہوتی۔ کس قدر کوششیں اور منصوبے آپؐ کی عداوت اور مخالف کے کئے، مگرآخر ناکام اور نامراد ہونا پڑا۔ اس ابتدائی حالت میں جب چند آدمی آپؐ کے ساتھ تھے کون دیکھ سکتا تھا کہ یہ عظیم الشان انسان دُنیا میں ہوگا اور ان مخالفوں کی سازشوں سے صحیح اور سلامت بچ کرکامیاب ہوجائے گا۔ مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر ہے کہ انجام خدا کے بندوں کا ہی ہوتا ہے۔ قتل کی سازشیں ، کفر کے فتوے، مختلف قسم کی ایذائیں ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے۔ یریدون لیطفو نور اللہ بافواھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (الصف:۹) یہ شریر کافر اپنے مُنہ کی پھونکوں سے نور اللہ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے۔ کافر بُرا مناتے رہیں۔
مُنہ کی پھُونکیں کیا ہوتی ہیں۔ یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا۔ کسی نے دوکاندار اور کافرو بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھادیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے، نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے لوگوں کے لشکر آسمان پر ہوتے ہیں۔ منکر اور زمینی لوگ اُن کو دیکھ نہیں سکتے۔ اگر ان کو معلوم ہو جاوے اور وہ ذرا سا بھی دیکھ پائیں تو ہیبت سے ہلاک ہوجائیں، مگر یہ لشکر نظر نہیں آسکتے۔ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی چادر کے نیچے نہ آئے۔
سعادتِ عظمیٰ کے حصول کی راہ مَیں پھر اصل مطلب کی طرف رجُوع کرکے کہتا ہوں کہ سعادتِ عظمیٰ کے حُصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی
راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرمادیا ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ(آل عمران:۳۲) یعنی آئو میری پیروی کرو، تاکہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو۔ اگر حقیقت مذہب یہی ہے ، تو پھر نماز کیا چیز ہے اور روزہ کیا چیز ہے۔ خود ہی ایک بات سے رُکے اور خود ہی کرے۔ اسلام محض اس کا نام نہیں ہے۔ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سررکھ دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرامرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں۔ یہ فخر اسلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کواولیت کا ہے۔ نہ ابراہیم کو نہ کسی اور کو۔ یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کنت نبیا وادم بین الماء والطین۔ اگرچہ آپؐ سب نبیوں کے بعد آئے، مگر یہ صدا کہ میر امرنا اور میرا جینا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، دُوسرے کے منہ سے نہیں نکلی۔
مُسلمان کی حقیقت اب دُنیا کی حالت کودیکھو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور
یا اب دُنیامیں مسلمان موجود ہیں۔ کسی سے کہا جاوے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو کہتاہے ۔ الحمدللہ جس کاکلمہ پڑھتا ہے، اس کی زندگی کا اُصول تو خدا کے لئے تھا، مگر یہ دُنیا کے لئے جیتا اور دُنیا ہی کے لئے مرتا ہے اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہوجاوے، دُنیا ہی اس کو مقصود ، محبوب اور مطلوب رہتی ہے پھر کیونکہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں۔
یہ بڑی غورطلب بات ہے اس کو سرسری نہ سمجھو۔ مُسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرلو۔مطئمن نہ ہو۔
یہ صرف چھلکا ہی چھلکا ہے۔ اگر بُدوں اتباع مُسلمان کہلاتے ہو۔ نام اور چھلکے پر خوش ہوجانا دانشمند کاکام نہیں ہے۔ لکھا ہے کسی یہودی کو ایک مسلمان نے کہا کہ تو مسلمان ہوجا۔ اس نے کہا تو صرف نام پر ہی خوش نہ ہوجا۔ مَیں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا اورشام سے پہلے ہی اُسے دفن کرآیا۔ پس حقیقت کوطلب کرو۔ نِرے ناموں پر راضی نہ ہوجائو۔کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبی کا امتی کہلا کرکافروں کی سی زندگی بسرکرے۔ تم اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھائو، وہی حالت پیدا کرو اور دیکھو اگر وہی حالت نہیں ہے، تو تم طاغوت کے پیرو ہو۔
غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہیے،کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے۔کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا ،جب تک رسول اللہ کی سچی اطاعت اور متا بعت نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ اسلام کیا چیز ہے؟پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو،تاکہ تم خدا کے محبوب بنو۔
اب میں پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حمد ہی سے محمد اور احمد نکلا ہے۔صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہی دو نام تھے۔گویا حمد کے دو مظہر ہوئے اور پھر الحمد للہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی چار صفتیں رب العالمین،الرحمن،الرحیم،مالک یوم الدین بیان کی ہیں۔
لحمد للہ کا مظہر امیں نے ابھی بیان کیا ہے کہ الحمد للہ کا مظہر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا ۔اب نبی کامل صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ان صفات
اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرامؓ کی تعریف میں پورا بھی کر دیا۔گویا اللہ تعالیٰ ظلی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے۔اس لئے فنا فی اللہ کے یہی معنی ہیں کہ انسان الہی صفات کے اندر آجاوے۔
مظہر صفات باری صلی اللہ علیہ والہ وسلم اب دیکھو کہ ان صفات اربعہ کا عملی نمونہ صحابہ میں کیسا دکھایا ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم پیدا ہوئے،تو مکہ کے لوگ ایسے تھے ،جیسے بچہ دودھ پینے کا محتاج ہو گیا،گویا ربوبیت کے محتاج تھے۔وحشی اور درندوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ ولہ وسلم نے ماںکی طرح دودھ پلا کر ان کی پرورش کی۔پھر رحمانیت کا پر تو کیا۔وہ سامان دئے کہ جن میں کوشش کو کوئی دخل نہ تھا۔قراان کریم جیسی نعمت اور رسول کریم ؐجیسا نمونہ عطا فرمایا۔پھر رحیمیت کا ظہور بھی دکھلایا کہ جو کوششیں کیں ان پر نتیجے مرتب کیے۔ان کے ایمانوں کو قبول فرمایا اور نصاریٰ کی طرح ضلالت میں نہ پڑنے دیا،بلکہ ثابت قدمی اور استلال عطا فرمایا۔کوشش میں یہ برکت ہوتی ہے کہ خدا ثابت قدم کر دیتا ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ میںکوئی مرتد نہ ہوا۔دوسرے نبیوں کے احباب میں ہزاروں ہوتے تھے۔حضرت مسیح کے تو ایک ہی دن میں پانسو مرتد ہو گئے۔اور جن پر بڑا اعتبار اور وثوق تھا،ان میں سے تو ایک نے تیس درہم لے کر پکڑوا دیا اور دوسرے نے تین بار *** کی۔
بات دراصل یہ ہے کہ مربی کے قویٰ کا ثر ہوتا ہے۔جس قدر مربی قویٰ التاثیر اور کامل ہو گا ،ویسی ہی اس کی تربیت کا اثر مستحکم اور مضبوط ہو گا۔
نبی کریمؐ کی قدسی کا ثبوت یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوت قدسی کے کامل اور سب سے بڑھ کر ہونے کا ایک ثبوت ہے کہ آپ کے تربیت
یافتہ گروہ میں وہ استقلال اور رسوخ تھا کہ وہ آپ کے لئے اپنی جان تک دینے سے دریغ نہ کرنے والے میدان میں ثابت ہوئے۔اور مسیح کے نقص کا یہ بد یہی ثبوت ہے کہ جو جماعت تیار کی،وہی گرفتار کرانے اور جان سے مروانے اور *** کرنے والے چابت ہوئے۔غرض رول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحیمیت کا اثر تھا کہ صحابہ میں ثابت قدم اور استقلال تھا۔پھر مالک یوم الدین کا عملی ظہور صحابہؓ کی زندگی میں ہوا کہ خدا نے ان میں اور ان کے غیروں میںفرقان رکھ دیا۔جو معرفت اور خدا کی محبت دنیا میں ان کو دی گئی۔یہ ان کی دنیا میں جزا تھی۔اب قصہ کو تاہ کرتا ہوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان صفات اربعہ کی تجلی چمکی۔
مسیح موعود ؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہو گی لیکن بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو،جو
پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہیں جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے۔چنانچہ فرمایا۔وآخرین منہم لما یلحقوا بہم(الجمعۃ:۴)یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو،بلکہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہو گی۔
اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے منہم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استغفار صحابہ ہی کی طرح ہو گا۔صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہو چکی تھی،مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔وہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تر بیت کے نیچے ہوں گے۔اس لئے علماء نے ان سب گروہ کا نام ہی صحابہ رکھا ہوا ہے۔جیسے ان صفات اربعہ کاظہور ان صحابہؓ میں ہوا ،ویسے ہی ضروری ہے کہ وآخرین منہم لما یلحقوا بہم کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو۔
اب دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا۔
واقعہ بدر میں مسیح موعودؑ کے زمانہ کی پیش گوئی بدر پر ایسے عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئیندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی۔
اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو کہتے ہیں۔اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایماء ہے۔او یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لئے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیرو برکت کی آئے گی۔خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں۔جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیش گوئی کی گئی تھی۔جس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام کہا ۔مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو دکاندار،خود غرض کہا گیا۔افسوس ان پر جنھوں نے دیکھا اور نہ دیکھا۔وقت پایا اور نہ پہچانا۔وہ مر گئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہو گا اور وہ رہ گئے جو اب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا کاذب ہے!!!ان کو کیا ہو گیا۔یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے۔اس وق بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی۔اور وہ مدد اذلۃ کی مدد تھی۔جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے۔اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں۔اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے۔اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہو گی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمیعت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جان تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا۔اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی جگی دعا کی اللھم ان اھلکت ھذہ العصابۃ لن تعبد فی الارض ابداًیعنی اے اللہ!اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہو گا۔
آج وہی بدر والا معاملہ سنو!میں بھی یقیناً آج یہ کہتا ہوں کہ وہ برد والا معاملہ ہے ۔اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے۔وہی بدر اور اذلۃ کالفظ
موجود ہے۔کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی؟نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے۔ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے۔تو بھاگ جاتی ہے اور کیا مجال ہے جو سر اٹھائیں۔اس ملک کا کیا حال ہے؟کیا اذلۃ نہیں ہیں۔ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا نہیں ہے ؟جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں،وہ ان میں پاؤ گے۔ٹکر گدا مسلمانوں ہی میں پاؤ گے۔جیل خانوں میں جاؤتو جرائم پیشہ گرفتار مسلمانوں ہی کو پاؤ گے۔شراب خانوں میں جاؤ،کثرت سے مسلمان۔اب بھی کہتے ہیں۔ذلت نہیں ہوتی؟کروڑ ہا ناپاک اور گندی کتابیں اسلام کے رد میں تالیف کی گئیں۔ہماری قوم میں مغل سید کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کوسنے لگے۔صفدر علی اور عماد الدین وغیرہ کون تھے؟امہات المومنین کا مصنف کون ہے؟ جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے۔اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلت نہیں ہوئی۔کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا رہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا،تب محسوس کرتے کہ ہاں اب ذلت ہوئی ہے!!!
آہ!میں تم کو کیوں کر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہو رہی ہے۔دیکھو!میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہ بدر کا ہی زمانہ ہے۔اسلام پر ذلت کا زمانہ آچکا ہے،مگر اب خدا نے چاہا کہ اس کی نصرت کرے؛چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے۔کہ میں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں۔اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو ۔اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔جس طرح پہلے صحابہ ؓ کے زمانہ میں چاروں صفات کی ایک خاص تجلی ظاہر ہوئی تھی۔اب پھر وہی زمانہ ہے اور ربوبیت کا وقت آگیا ہے۔نادان مخالف چاہتے ہیں کہ بچہ کو الگ کر دیں،مگر خدا کی ربوبیت نہیں چاہتی۔بارش کی طرح اس کی رحمت برس رہی ہے۔یہ مولوی حامی دین کہلانے والے مخالفت کر کے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بھجا دیں۔مگر یہ نور پورا ہو کر رہے گا۔اسی طرح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا ۔یہ خوش ہوتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں۔جب پادری اٹھ اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہارا نبی مر گیا۔اور زندہ نبی مسیح ہی ہے اور مس شیطان سے مسیح ہی بچا ہوا ہے۔اور مسیح نے مُردوں کو زندہ کیا ۔یہ بھی تائید کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں چڑیاں بھی بنایا کرتے تھے۔ایک شخص موحد میرے پاس آیا۔میں نے اس سے پوچھا کہ مسیح جو چڑیاں بنایا کرتے تھے۔اب تو وہ بہت ہو گئی ہوں گی۔کیا فرق کر سکتے ہو؟اس نے کہا ہاں مل جل گئی ہیں۔اسی طرح پر ان لوگوں نے مسیح کو نصف خدائی کا دعویدار بنا لیا ہے ۔ایسا ہی انہوںنے دجال کی نسبت مان رکھا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا ۔اور یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔افسوس کہ قرآن تو لا الہ لا اللہ کی تلوار سے تمام ان باطل معبودوں کو قتل کرے گا،جن میں خد اصفات مانی جائیں۔پھر یہ دجال کہاں سے نکل آیا ۔سورۃ فاتحہ میں یہودی اور عیسائی بننے سے بچنے کی دعا تو سکھلائی،کیا دجال کا ذکر خدا کو یاد نہ رہا تھا جو اتنا بڑا فتنہ تھا؟اصل یہ تھا کہ ان لوگوں کی عقل مارہ گئی۔اور یہ اس کے مصداق ہیں۔یکے بر سر شاخ وبن مے برید۔
یہ لوگ جب اس طرح پر اسلام کو ذلیل کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ ان نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحا فظون(الحجر:۱۰)قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا۔
کیا نہیں دیکھتے کہ کس طرح پر اس کے نشان ظاہر ہو رہے ہیں۔خسوف وکسوف رمضان میں ہو گیا۔کیا ہو سکتا ہے کہ مہدی موجود نہ ہو اور یہ مہدی کا نشان پورا ہو جاوے۔کیا خد اکو دھوکہ لگا ہے؟پھر اونٹ بیکار ہونے پر بھی مسیح نہ آیا۔آسمان اور زمین کے نشان پورے ہو گئے۔زمانہ کی حالت خود تقاضا کرتی ہے کہ آنے والا آوے،مگر یہ تکذیب ہی کرتے ہیں۔آنے والا آگیا۔ان کی تکذیب اور شور بکا سے کچھ نہ بگڑے گا۔ان لوگون کی ہمیشہ سے اسی طرح کی عادت رہی ہے۔خدا کی باتیں سچی ہیں اور وہ پوری ہو کر رہتی ہیں۔
پس تم ان صحبتوں سے بچتے رہو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اسلام کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرو۔؎۱
دسمبر ۱۹۰۰؁ء
حوا کی پیدائش فرمایا:حوا پسلی ہی سے بنائی گئی ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لاتے ہیں۔ہاں پھر اگر کوئی یہ کہے کہ ہماری پسلی ہی نہ ہوتی۔تو میں کہتا ہوں کہ یہ
قیاس قیاس مع الفارق ہے۔اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو ۔میں اگر خدا تعالیٰ کو قادر او ر عظیم الشان نہ دیکھتا تو یہ دعاؤں کی قبولیت کے نمونے جو دیکھتا ہوں،نظر نہ آتے۔دیکھو کپتان ڈگلس کے سامنے جو مقدمہ تھا اس میں کس کا تصرف تھا۔ڈاکٹر کلارک جیساآدمی جو مذہبی حیثیت سے اثر ڈالنے والا آدمی تھا۔پھر اس کے ساتھ آریوں کی طرف سے پنڈت رام بھجدت وکیل شریک ہوا اور مولوی محمد حسین جیسا دشمن بطور گواہ پیش ہوا ۔اور خود عبدا لحمید کا یہ بیان کے مجھے قتل کے لئے ضرور بھیجا تھا اور پھر اس کا یہ بیان امرت سر میں ہوا ۔ڈپٹی کمیشنر کے سامنے بھی اس نے یہی کہا ۔اب یہ کس کا کام تھا کہ اس نے کپتان ڈگلس کے دل میں ایک ڈاکہ ڈالا کہ عبد الحمید کے بیان پر شبہ کرے اور اصل حقیقت کے معلوم کرنے کے واسطے اسے دوبارہ پولیس کے سپرد کرے۔غرض جو کچھ اس مقدمہ میں ہوا ،اس سے صاف طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے تصرف کا پتہ لگتا ہے۔میرا مطلب اس مقدمہ کے بیان سے صرف یہ بڑی نادانی اور گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسی پیمانہ سے ناپیں ۔جس سے ایک عاجز انسان زید بکر کو ناپا جائے۔
پس یہ کہنا کہ آدم کی پسلی نکال لی تھی اور حوا اس پسلی سے نبی تو پھر پسلی کہاںسے آگئی۔سخت بے وقوفی اور اللہ تعالیٰ کے حضور سوء ادبی ہے۔
یاد رکھو۔یورپی فلسفہ ضلالت سے بھرا ہوا ہے۔ یہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ایسا ہی یہ کہنا کہ انسان پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا کہ اسے مٹی سے پیدا کیا ہو درست نہیں ہے۔نوعی قدم کا میں ہر گز ہر گز قائل نہیں ہوں۔ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے۔کئی بار دنیا معدوم ہوئی اور پھر از سر نو پیدا کر دی۔یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔جب ایک مر جاتا ہے تو یہ کیوں جائز نہیں کہ ایک وقت آوے کہ سب مر جاویں۔قیامت کبریٰ کے تو ہندو اور یونانی بھی قائل ہیں۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کے محدود القویٰ ہستی سمجھتے ہیں۔وہ ما قدرو االلہ حق قدرہ(الحج:۷۵)میں داخل ہیں جو ایک حد تک ہی خدا کو مانتے ہین۔یہ نیچریت کا شعبہ ہے۔
قرآن کریم یو صاف بتلاتا ہے ان ربک فعال لما یرید(ھود:۱۰۸)اور انما امرہ اذا ارادشیا ان یقول لہ کن فیکون(یٰس:۸۳)اللہ تعالیٰ کی ان ہی قدرتوں اور فوق الفوق نے میرے دل میں دعا کے لئے ایک جوش ڈال رکھا ہے۔
قبولیت دعا کا فلسفہ دعا بڑی چیز ہے!افسوس لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طرز اور حالت پر مانگی جاوے،ضرور قبول ہونی
چاہیے۔اس لئے جب وہ کوئی دعا منگتے ہیں اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے مطابق اس کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے،تو مایوس اور نامید ہو کر اللہ تعالیٰ پر بد ظن ہو جاتے ہیں؛حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعامیں مراد حاصل نہ ہو ،تب بھی نہ امید نہ ہو۔کیونکہ رحمت الہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید قرار نہیں دیا ۔دیکھو اگر بچہ ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہے تو ماں دور کر اس کو پکڑ لے گی۔بلکہ اگر بچہ کی اس نادانی پر ایک تھپڑ بھی لگا دے ،تو کوئی تعجب نہیں۔اسی طرح تو مجھے ایک لذت اور سرار آجاتا ہے۔جب میں اس فلسفہ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم اور خبیر خدا جانتا ہے کہ کونسی دعا مفید ہے۔
آداب دعا مجھے بار ہا افسوس آتا ہے ۔جب لوگ دعا کے لئے خطوط بھیجتے ہیں۔اور ساتھہی یہ لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے یہ دعا قبول نہ ہوئی تو ہم جھوٹاسمجھ لیں گے۔آہ!
یہ لوگ آداب دعا سے کیسے بے خبر ہیں۔نہیں جانتے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے لئے کیسی شرائط ہیں۔اس سے پہلے کہ دعا کی جاوے یہ بد ظنی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے ماننے کاحسان جتانا چاہتے ہیں اور نہ ماننے اور تکذیب کی دھمکی دیتے ہیں۔ایسا خط پڑھ کر مجھے بد بو آجاتی ہے اور مجھے خیال آجاتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ دعا کے لئے خط ہی نہ لکھتا ۔
میں نے کئی بار اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پھر مختصر طور پر سمجھاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔دوستوں میں ایک سلسلہ تبادل کا رہتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں میں بھی اسی رنگ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبادلہ یہ ہے کہ جیسے وہ اپنے بندیے کی ہزار ہا دعاؤں کو سنتا اور مانتا ہے۔اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔باوجود یکہ وہ ایک ذلیل سے ذلیل ہستی ہے ،لیکن اس پر فضل و کرم کرتا ہے۔اسی طرح اس کا حق ہے کہ یہ خدا کی بھی مان لے یعنی اگر کسی دعا میں اپنے منشاء اور مراد کے موافق ناکام رہے۔تو خدا پر بد ظن نہ ہو ،بلکہ اپنی اس نامرادی کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر انشراح صدر کے ساتھ راضی ہو جاوے اور سمجھ لے کہ میرا مولیٰ یہی چاہتا ہے۔
مومنوں کی آزمائش اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ۔ولنبلو نکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال الانفس والثمرات
(البقرہ:۱۵۶)خوف سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈر ہی ڈر ہے ۔انجام اچھا ہے۔اسی سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
پھر الجوع فقر وفاقہ تنگ کرتا ہے۔بعض اوقات ایک کرتہ پھٹ جاوے تو دوسرے کی توفیق نہیں ملتی۔جوع کا لفظ رکھ کر عطش کا لفظ چھوڑ دیا ہے،کیونکہ یہ جوع مے داخل ہے۔
نقص من الاموال بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ چور لے جاتے ہیں اور اتنا بھی نہیں چھوڑتے کہ صبح کی روٹی کھا سکیں۔سوچو!کس قدر تکلیف اور آفت کا سامنا ہوتا ہے۔
پھر جانوں کا نقصان ہے۔بچے مرنے لگ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک بھی نہیں رہتا۔جانوں کے نقصان میں یہ بات داخل ہے کہ خود تو زندہ رہے اور عزیز ومتعلقین مرتے جاویں۔کس قدر صدمہ ایسے وقت میں ہوتا ہے۔ہمارا تعلق دوستوں سے اس قدر ہے کہ جس قدر دوست ہیں اور ان کے اہل و عیال ہیں۔گویا ہمارے ہی ہیں۔کسی عزیز کے جدا ہونے پر اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ جیسا کہ کسی کو اپنی عزیز سے عزتز اولاد مر جانے کا ہوتا ہے۔
ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور محنتوں کے بعد آخر کی کامیابیاں بھی مراد ہیں۔ان کے ضائع ہونے سے بھی سخت صدمہ ہوتا ہے۔امتحان دینے والے اگر کبھی فیل ہو جاتے ہیں تو بار ہا دیکھا گیا ہے کہ وہ خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ایوب بیگ کی بیماری کی ترقی میں فیل ہو جانے ہی سے ہوئی ہے پہلے تو اچھا خاصہ تندرست تھا۔
غرض اس قسم کے ابتلاء جن پر آئیں۔پھر اللہ تعالیٰ ان کو بشارت دیتا ہے وبشر الصابرین یعنی ایسے موقعہ پر جہد کے ساتھ برداشت کرنے والوں کو خوشخبری اور بشارت ہے۔کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی ہے تو تو کہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔یاد رکھو کہ خدا کا خاص بندہ اور مقرب اس وقت ہی ہوتا ہے کہ ہر مصیبت پر خدا ہی کو مقدم رکھے۔غرض ایک وہ حصہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنی منوانا چاہتا ہے۔دعا کے معنی تو یہی ہیں کہ انسان خواہش ظاہر کرتا ہے کہ یوں ہو۔پس کبھی مولیٰ کریم کی خواہش مقدم ہونی چاہیے اور کبھی اللہ کریم اپنے بندے کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔
دوسرا محل معاوضہ کا یہ ہے کہ اد عونی استجب لکم ( المومن:۶۱)اس میں تناقض نہیں ہے۔جب جہات مختلف ہوں،تو تناقض نہین رہا کرتا ۔اس محل پر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مانتا ہے۔
قبولیت دعا کی شرط یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے کہ جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت فسق وفجور چھوڑ دے۔جس قدر قرب الہی انسان
حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا۔اسی لئے فرمایا :واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبو الی والیومنو ا بی لعلہم یر شدون(البقرہ:۱۸۷)اور دوسری جگہ فرمایا ہے:وانی لہم التناوش من مکان بعید(سبا:۵۳)یعنی جو مجھ سے دور ہوا ۔اس کی دعا کیوں کر سنو ں۔یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے۔یہ نہیں کہ خدا نہیں سن سکتا۔وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔مگر ئیہاں پر انسان کو قرب الہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق وفجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہو جاتا ہے۔جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے کیا سچ کہا ہے ؎
پیدا است ندارا کہ بلند ہست جنابت
جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے ،لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
نوافل کی حقیقت نادان انسان بعض اوقات وقت عدم قبول دعا سے مرتد ہو جاتا ہے۔صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہوجاتا ہے۔
ایک فرائض ہوتے ہیں دوسرے نوافل۔یعنی ایک تو وہ احکام ہیں جو بطور حق واجب کے ہیں اور نوافل وہ ہیں جو زائد از فرائج ہیں اور وہ اس لئے ہیں کہ تا فرائض میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو ،تو نوافل سے پوری ہو جائے۔
لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں ۔نہیں یہ ات نہیں ہے۔ہر فعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔
انسان زکوۃ دیتا ہے تو کبھی زکوۃ کے سوا بھی دے۔رمضان میں روزے تکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے۔قرض لے تو ساتھ کچھ زائد بھی دے۔کیونکہ اس نے مروت کی ہے۔
نوافل متمم فرائض ہوتے ہیں۔نفل کے وقت دل میں ایک خشوع اور خوف ہوتا ہے کہ فرائض میں جو قصور ہوا ہے وہ اب پورا ہو جائے۔یہی وہ راز ہے جو نوافل کو قرب الہی کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے گویا خشوع اور تذلل اور انقطاع کی حالت اس میں پیدا ہوتی ہے اور اسی لئے تقرب کی وجہ میں ایام ہیض کے روزے۔شوال کے چھ روزے یہ سب نوافل ہیں۔
پس یاد رکھو کہ خدا سے محبت تام نفل ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماتا ہے کہ میں پھر ایسے مقرب اور مومن بندوں کی نظر ہو جاتا ہوں،یعنی جہاں میرا منشاء ہوتا ہے،وہیں اس کی نظر پڑتی ہے۔
صادق موت کا بھروسہ نہیں رکھتا اور خدا سے غافل نہیں ہوتا ۔ان کے کان ہو جاتا ہے۔یہ اس نبات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں اللہ کی یا اس کے رسول کی یا اس کی کتاب کی تحقیر اور ذلت ہوتی ہے ،وہاں سے بیزار اور ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔وہ سن نہیں سکتے کوئی ایسی بات جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کے خلاف ہو نہیں سنتے اور نہیں ایسی مجلسوں میں بیٹھتے۔ایسا ہی فسق وفجور کی باتوں اور سماع کے ناپاک نظاروں اور آوازوں سے پر ہیز کرتے ہیں۔نامحرم کی آواز کا سن کر برے خیالات کا پیدا ہونازنا الاذن ہے۔اسی لئے اسلام نے پردہ کی رسم رکھی ہے۔
مسیح کا یہ کہنا ہے کہ زنا کی نظر سے نہ دیکھ۔کوئی کامل تعلیم نہیں ہے۔اس کے مقابل میں کامل تعلیم یہ ہے جو مبادی گناہ سے بچاتی ہے۔قل للمومنین یغضو امن ابصارھم(النور:۳۱)یعنی کسی نظر سے بھی نہ دیکھیں،کیونکہ دل اپنے اختیار میں نہیںہے۔یہ کیسی کامل تعلیم ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ہو جاتا ہوں اس کے ہاتھ۔بعض اوقات انسان ہاتھوں سے بہت بے رحمی کرتا ہے۔خدا فرماتا ہے کہ مومن کے ہاتھ بے جا طور پر اعتدال سے نہیں بڑھتے۔وہ نا محرم کو ہاتھ نہیں لگاتے۔پھر فرماتا ہے کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں۔اسی پر اشارہ ہے ما ینطق عن الھویٰ(النجم:۴) اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو فرمایا ،وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا اور آپ کے ہاتھ کے لئے فرمایا مارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمیٰ(الانفال:۱۸)غرض نفل کے زریعہ انسان بہت بڑا درجہ اور قرب حاصل کرتا ہے ۔یہون تک کہ وہ اولیاء اللہ کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔پھر من عادلی فقد بارزتہ بالحرب۔جو میرے ولی کا دشمن ہو ،میں اس کو کہتا ہوں کہ ابمیری لڑائی کے لئے تیار ہو جا۔حدیث میں آیا ہے کہ خد اشیرنی کی طرح،جس کا کوئی بچہ اٹھا لے جاوے۔اس پر جھپٹتا ہے۔
غرض انسان کو چاہیے کہ وہ اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ سعی کرتا رہے۔موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے کہ کس وقت آجاوے۔مومن کو مناسب ہے کہ وہ کبھی غافل نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔‘‘؎۱
۱۹۰۰؁ء
کامل یقین والوں کو شیطان چھو نہیں سکتا قاضی محمد عالم صاحب سکنی قاضی کوٹ نے اپنی بیماری کے ایام میں قاضی ضیاء الدین صاحب
سکنہ قاضی کوٹ کو جو قادیان میں تھے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرنے کو لکھا جس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
’’میں ضرور دعا کروں گا ۔آپ محمد عالم کو تسلی دیں۔احمد شاہ کی طرف وہم کے طور پر بھی خیال نہ لے جاویں۔واقعی وہ کچھ بھی نہیں ہے۔یہ وسوسہ شرک سمجھیں۔عوام کو بہکانا،طعن وتشنیع جتنا اثر کرے گا۔اسی قدر اپنے راستہ کو خالی تصور کریں۔کامل یقین والوں کو شیطان چھو بھی نہیں سکتا۔میرا تو یقین ہے کہ حضرت آدم کی استعداد میں کسی قدر تساہل تھا۔تب ہی تو شیطان کو وسوسہ کا قابو مل گیا۔واللہ اگر اس جگہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سا جوہر قابل کھڑا کیا جاتا تو شیطان کا کچھ بھی پیش نہ جاتا ۔‘‘
زندگانی کی خواہش گناہ کی جڑ ہے زندگانی کی زیادہ خواہش اکثر گناہوں کی اور کمزوریوں کی جڑھ ہے۔ہمارے دوستوں کو لازم ہے کہ مالک
حقیقی کی رضا میں اوقات عزیز بسر کرنے کی ہر وقت کوشش کرین۔حاصل یہی ہے؛ورنہ آج چل دینے اور مثلاً پچاس سال کے بعد کوچ کرنے میں کیا فرق ہے ۔جو آج چاند سورج ہے وہی اس دن ہو گا۔جو انسان نافع اور اس کے دین کا خادم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ خود بخود اس کی عمر اور صحت میں برکت ڈال دیتا ہے۔اور شرالناس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا ۔سو آپ سب کام ہر حال خدا میں ہو کر کریں۔خود اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا۔
تیس سال سے زائد عرصہ گزرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صاف صاف الفاظ میں فرمایا کہ تیری عمر اسی برس یا دو چار برس اوپر یا نیچے ہو گی۔اس میں بھی بھید ہے کہ جو کام میرے سپرد ہے۔اس قدر مدت میں کرنا منظور ہو گا ۔لہذا مجھے کبھی بھی اپنی بیماری میں موت کا غم نہیں ہوا۔
مجھے خوب یاد ہے کہ جن درختوں کے نیچے میں چھ سات سالہ عمر میں کھیلا کرتا تھا ۔آج بعینہ بعض درخت اسی طرح ہرے بھرے کھڑے ہیں ،لیکن میں اپنے حال کا کچھ اور ہی اور کا دیکھتا ہوں۔تم بھی اس کو تصور کر سکتے ہو ۔
یہ طعن و تشنیع ہمعصروں کی غنیمت سمجھیں۔اس میں اصلاح نفس متصور ہے۔جب یہ نہ ہوں گے تو پھر خدمت مولیٰ کریم اور ہدیہ قابل حضرت عزت کا کیا ہو گا؟آپ بیماری کی فکر کرتے ہیں۔تمہارے پہلے بھائی یعنی صحابہ تو بیعت ہی جان قربان کرنے کی کرتے تھے اور ہر حال منتظر رہتے تھے کہ کب وہ وقت آتا ہے کہ اپنے مالک حقیقی کے راستے میں فدا ہوں۔غرض ہر حال کیا صحت اور کیا بیماری۔آپ مولیٰ کریم سے معاملہ ٹھیک رکھیں۔س کام اچھے ہو جائیں گے۔؎۱
۴؍جنوری۱۹۰۱؁ء
ا یک الہام کا پورا ہونا حضرت امان جان ؓ کی طبیعت ۳جنوری۱۹۰۱؁ ء کو کس قدر ناساز ہو گئی تھی۔اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا:کہ
’’چند روز ہوئے میں نے اپنے گھر میں کہا کہ میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ تمہیں(حضرت اماں جان مراد ہیں )کچھ ہو گیا ہے اور پھر الہام ہوا ۔اصح زوجتی چنانچہ کل ۳ جنوری ۱۹۰۱؁ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہو گیا۔یکا یک بے ہوشی ہو گئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا ۔اسی طرح ایک عورت نے آکر بتا دیا۔‘‘
صوم رمضان فرمایا:رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے۔دعاؤں کا مہینہ ہے۔
’’نیز فرمایا۔’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں۔تب روزہ
چھوڑتا ہوں۔طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘
سادگی ’’یاد رکھو بچوں جیسی سادگی جب تک نہ ہو ۔اس وقت تک انسان نبیوںکا مذہب اختیار نہیں کر سکتا ہے۔‘‘؎۱
۱۱؍جنوری۱۹۰۱؁ء
زندگی کا ستون حضرت مسیح موعود ؑ کی طبیعت کچھ علیل تھی۔فرمایا:
’’ہر چیز کا ستون ہوتا ہے۔زندگی اور صحت کا ستون خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔‘‘؎۲
۱۲؍جنوری۱۹۰۱؁ء
ایک شخص نے سنایا کہ دور دور سے آپ کی کتابوںکی مانگ آتی ہے۔فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی ہے۔اپنی اپنی جگی تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
علمی معجزات فرمایا:’’معجزہ تو علم کا ہی بڑ اہوتا ہے۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہی تھا جو اب تک قائم ہے۔‘‘
یہ ذکر تفسیر الفاتحہ کے لکھنے پر ہوا جو کہ حضرت صاحب (پیر مہر علیشاہ)گولڑوی وغیرہ علماء کے مقابلہ میں اشتہار لکھ کر دے رہے ہیں۔فرمایا:
’’عالم علم سے پہچانا جاتاہے۔ہمارے مخالفین میں دراصل کوئی عالم نہیں ہے۔ایک بھی نہیں ہے؛ورنہ کیوں مقابلہ میں عربی فصاحت بلیغ تفسیر لکھ کر اپنا عالم ہونا ثابت نہیں کرتے۔ایک آنکھوں والے کو اگر الزام دیا جاوے کہ تو نابینا ہے تو وہ غصہ کرتا ہے۔غیرت کھاتا ہے اور صبر نہیں کرتا۔جب تک اپنے بینا ہونے کا ثبوت نہ دے ۔ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنا عالم ہونا اپنا علم دکھا کر ثابت کریں۔‘‘
فرمایا۔’’یہ جو کہا جاتا ہے کہ بہت سے عالموں نے اس سلسلہ کی مخالفت کی ہے۔خدا نے اپنی تحدیدوں اور دعووں کے ساتھ علمی معجزات ہماری تائید میں دکھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مخالفوں میں کوئی عالم نہیں ہے اور یہ بات غلط ہے کہ عالموں نے ہماری مخالفت کی ۔‘‘
۱۵جنوری۱۹۰۱؁ء
ایک عظیم معجزہ فرمایا:
’’آج رات کو الہام ہوا۔منعہ مانع من السماء یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا
مقابلہ نہ کر سکے گا ۔خدا نے مخالفین سے سلب طاقت اور سلب علم کر لیا ہے؛اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب اور شخص مہشاہ کی طرف ہے۔لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے۔تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک ہی وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس کی تفسیر کے مقابلے میں لکھنا چاہیں تو ہر گز نہ لکھ سکیں گے۔‘‘
فرمایا:’’انسان کا کام انسان کر سکتا ہے ۔ہمارے مخالف انسان ہین اور عالم اور مولوی کہلاتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ جو کام ہم نے کیا وہ نہیں کر سکتے۔یہی ایک معجزہ ہے۔نبی اگر ایک سونٹا بھی پھینک دے اور کہے کہ میرے سوا کوئی بھی اسے اٹھا نہ سکے گا ۔تو یہ بھی ایک معجزہ ہے؛چہ جائیکہ کہ تفسیر علمی تو ایک معجزہ ہی ہے۔‘‘
فرمایا:’’یہ تفسیر رمضان شریف میں شروع ہوئی جیسا کہ قرآن شریف رمضان شریف میں شروع ہوا تھا اور امید ہے کہ دو عیدوں کے درمیاں ختم ہو گی۔جیسا کہ شیخ سعدی نے کسی کے متعلق کہا ہے ؎
بروز ہمایوںوسال سعید بتاریخ فر خ میان دو عید
فرمایا:’’قرآن شریف کے معجزہ فصاحت و بلاغت کے جواب میں ایک دفعہ پادری فنڈر نے حریری اور ابوالفضل اور بعض انگریزی کتابوں کو پیش کیا تھا۔ مدت کی بات ہے۔ ہم نے اس وقت بھی یہی سوچا تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ اول تو ان مصنفین کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا کلام بے مثل ہے، بلکہ وہ خود اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے ہیں اور قرآن شریف کی تعریف کرتے ہیں۔ دوسرا ان لوگوں کی کتابوں میں معنٰی الفاظ کے تابع ہوکرچلتا ہے۔ صرف الفاظ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قافیہ کے واسطے ایک لفظ کے مقابل دُوسرا لفظ تلاش کیا جاتا ہے اور کلام میں حکمت اور معارف کا لحاظ نہیں ہوتا اور قرآن شریف میں التزام ہے حق اور حکمت کا۔اصل میں اس بات کا نباہنا کہ حق اور حکمت کے کلمات کے ساتھ قافیہ بھی دُرست ہو۔ یہ بات تائید الہٰی سے حاصل ہوتی ہے؛ ورنہ انسانوں کے کلام ایسے ہوتے ہیں جیساکہ حریری وغیرہ۔
۱۹؍جنوری ۱۹۰۱؁ء
استغفار کلیدِ ترقیات ہے ایک شخص نے اپنے قرض کے متعلق دُعا کے واسطے عرض کی۔ فرمایا:
’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونے
کے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔‘‘
۲۰؍جنوری۱۹۰۱؁ء
قرآن شریف میں مسیح موعود اور اُس کی جماعت کا ذکر فرمایا:’’قرآن شریف میں چارسورتیں ہیں، جو بہت
پڑھی جاتی ہیں۔ اُن میں مسیح موعود ؑ اور اس کی جماعت کا ذکر ہے۔(ا) سورۃ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ اس میں ہمارے دعوے کا ثبوت ہے۔ جیساکہ اس تفسیر میں ثابت کیا جائے گا۔(۲) سورۂ جمعہ میں آخرین منہم (الجمعۃ :۴) مسیح موعود ؑ کی جماعت کے متعلق ہے۔ یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ (۳) سورۂ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہو۔ اس کی پہلی اور پچھلی دس آیتوں میں دجال کا ذکر ہے۔ (۴) آخر ی سورۂ قرآن کی جس میں دجال کا نام خناس رکھا گیا ہے۔ یہ وُہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجال کے واسطے آیات ہے۔ یعنی نخاش۔ ایسا قرآن شریف کے اور مقامات میں بہت ذکر ہے۔
تفسیر سورہ فاتحہ تفسیر سورۃ فاتحہ ابھی تک لکھنی شروع نہیں ہوئی اور دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں۔ اس پر فرمایا:
’’اب تک ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا لکھیں۔ توکلا علی اللہ اس کام کو شروع کیا گیا ہے۔ ہم موجودہ مواد پر بھروسہ نہیں رکھتے۔ صرف خدا پر بھروسہ ہے کہ کوئی بات دل میں ڈالی جائے۔ یہ بات میرے اختیار میں نہیں۔ جب وُہ مواد اور حقائق جن کی تلاش میں مَیں ہوں، مجھے مل گئے تو پھر اُن کو فصیح و بلیغ عربی میں لکھا جائے گا۔ چونکہ انسانوں کو ثواب حاصل کرنے کے واسطے فکر اُٹھانا چاہیے۔ اس واسطے ہم فکر کرتے ہیں۔ آگے جب کوئی بات خداتعالیٰ القاء کرے۔ خدا سے دُعا مانگی جاتی ہے اور میرا تجربہ ہے کہ جب خدا سے مدد مانگی جاتی ہے ، تو وُہ مدد دیتا ہے۔
(تفسیر سے پہلے جوتمہید حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھی ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب نے عرض کی کہ پیر گولڑوی تفسیر نویسی سے پہلے ایک تقریر اور مباحثہ چاہتا تھا۔ سو اس تمہید میں یہ بھی ہوگیا۔ حضرت سید احمدشہید ؒ اور مولوی محمد اسمعیل ؒ شہید کا ذکر درمیان میں آیا۔)
فرمایا:
’’ان لوگوں کی نیتیں نیک تھیں، وہ چاہتے تھے کہ ملک میں نماز اور اذان اور قربانی کی رکاوٹ جو کہ سکھوں نے کر رکھی تھی دپور ہوجائے۔ خدا نے اُن کی دُعاکو قبول کیا اور اس کی قبولیت کو سکھوں کے دفعیہ اورانگریزوں کو اس ملک میں لانے سے کیا۔ یہ اُن کی دانائی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ لڑائی نہیں کی۔ بلکہ سکھوں کو اس قابل سمجھا کہ کہ اُن کے ساتھ جہاد کیا جاوے مگر چونکہ وہ زمانہ قریب تھا کہ مہدی موعود کے آنے سے جہاد بالکل بند ہو جائے۔ اس واسطے جہاد میں اُن کو کامیابی نہ ہوئی۔ ہاں بسبب نیک نیت ہونے کے اُن کی خواہش اذانوں اور نمازوں کے متعلق اس پوری ہوگئی کہ اس ملک میں انگریز آگئے۔
پھر فرمایا:۔
مسیح موعود اور مہدی کے آنے کا وقت ’’وقت دو ہوتے ہیں۔ ایک خارجی اور ایک اندرونی یعنی رُوحانی۔ خارجی وقت یہ ہے کہ رسول کریم ؐ
ؐ اور دلیوں ور بزرگوں کے کشوف نے مسیح موعود اور مہدی کا وقت چودہویں صدی بتلایا اور اندرونی یعنی روحانی وقت یہ ہے کہ زمانہ کی حالت یہ بتلارہی ہے کہ اس وقت مسیح آنا چاہیے۔ دونوں وقت اس جگہ آکر مل گئے ہیں۔‘‘
۲۲؍جنوری ۱۹۰۱؁ء
جماعتِ احمدیہ کی وجہ تسمیّہ (اس جماعت کا نام احمدی رکھا جانے پر کسی نے سُنایا کہ کوئی اعتراض کرتاتھا کہ یہ نیا نام ہے۔ اس پر کچھ گفتگو ہوئی۔)
فرمایا:’’لوگوں نے جو اپنے نام حنفی شافعی وغیرہ رکھے ہیں۔ یہ سب بدعت ہیں۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے۔ محمد اور احمدصلی اللہ علیہ وسلم۔آنحضرت ؐ کا اسمِ اعظم محمد ؐ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔ اس اللہ دیگر کل اسماء مثلاً حی، قیوم، رحمن،رحیم وغیرہ کا موصوف ہے۔ حضرت رسول کریم ؐ کا نام احمدؐ وہ ہے ۔ جس کا ذکر حضرت مسیح ؑ نے کیا یاتی من بعد ی اسمہ احمد(الصف:۷)
من بعدی کا لفظ ظاہرکرتا ہے کہ وُہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا۔ یعنی میرے اور ا سکے درمیان اور کوئی نبی نہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ نے یہ الفاظ نہیں کہے، بلکہ اُنہوں نے محمد رسول اللہ والذین امنو ا معہ اشداء(سورۃ الفتح:۳۰) میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ کی ہے۔ جب بہت سے مومنین کی معیت ہوئی جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ کئے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے آنحضرت ؐ کا نام محمد بتلایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ خود بھی جلالی رنگ میں تھے۔ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے آپؐ کا نام احمدؐ بتلایا۔ کوینکہ وہ خود بھی ہمیشہ جمالی رنگ میں تھے۔ اب چونکہ ہمارا سلسلہ بھی جمالی رنگ میں ہے۔ اس واسطے اس کا نام احمدیؐ ہوا۔
’’جمعہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے پیدا ہونے کا دن تھا ور یہ متبرک دن تھا۔ مگر پہلی اُمتوں نے غلطی کھائی۔ کسی نے شنبہ کے دن کو اختیار کیا، کسی نے یکشنبہ کے دن کو۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل دن کو اختیار کیا۔ ایس اہی اسلام فرقوں نے غلطی کھائی۔ کسی نے اپنے آپ کو حنفی کہا، کسی نے مالکی اور کسی نے شیعہ اور کسی نے سنی۔ مگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف دو ہی نام تھے۔ محمد ؐ اور احمدصلی اللہ علیہ وسلم۔ اور مُسلمانوں کے دو ہی فرقے ہوسکتے ہیں۔ محمدیؐ اور احمدیؐ۔ محمدیؐ اس وقت جب جلال کااظہار ہو۔ احمدیؐ اس وقت جب جمال کا اظہار ہو۔‘‘
استغفار اور یقین ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے لیے دُعا کریں کہ میرے اولاد ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتاہے۔ یادرکھو یقین بڑی چیزہے۔ جو شخص یقین میں کامل ہوتاہے۔ خداتعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے۔‘‘
۱۲؍فروری ۱۹۰۱؁ء
خداتعالیٰ پر بھروسہ شام کے بعد فرمایا:
’’ہم کو توخدا پر اتنا بھروسہ ہے کہ ہم تو اپنے لیے دُعا بھی ہیں کرتے، کیونکہ وہ
ہمارے حال کو خوب جانتا ہے۔ حضر ت ابراہیم ؑ کو جب کفار نے آگ میں ڈالا تو فرشتوں نے آکر حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا کہ آپ کو کوئی حاجت ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا بلیٰ ولکن الیکم لا ہاں حاجت تو ہے ،مگر تمہارے آگے پیش کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ فرشتوں نے کہا اچھا خداتعالیٰ کے ہی آگے دُعا کرو۔ تو حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا۔ علمہ من حالی حسبی من سوالی۔ وہ میرے حال سے ایسا واقف ہے کہ مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
۱۴؍فروری ۱۹۰۱؁ء
ابتلاء اس بات پر ذکر کرتے ہوئے کہ مومنین پر تکالیف اور ابتلاآیا کرتے ہیں۔ فرمایاہے:
ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی لڑکی کا آنحضرت کے
ساتھ نکاح کے واسطے عرض کیا او رمنجملہ اس لڑکی کی تعریف کے ایک یہ بات بھی عرض کی کہ وُہ اتنی عمر کی ہوئی ہے، مگر آج تک اس پر کوئی بیماری وارد نہیں ہوئی۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو لوگ خدا کے پیارے ہوتے ہیں۔ ان پر خدا کی طرف سے ضرور تکالیف اور ابتلاء آیا کرتے ہیں۔‘‘
(احباب میں سے ایک کو مخالفین کی طرف سے بہت تکالیف پہنچی ہیں۔ اس نے اپنا حال عرض کیا۔فرمایا:)
’’آپ نے بہت تکالیف اُٹھائی ہیں۔ یہ بات آپ میں قابلِ تعریف ہے جس قدر ابتلاء ہو اہے، اسی قدر انعام بھی ہوگا۔ ان مع العسر یسراً۔ (الم نشرح:۷)
مخالفین سے برتائو بعض مخالفین جو ہمارے دوستوں کے ساتھ سختی کرتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس کے ذکر میں اپنے دوستوں کو نرمی اور درگذر اور شرارت
سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’مخالفوں کے مقابلہ میں جوش نہیں دکھانا چاہیے۔ خصوصاً جو جوان ہیں۔ ان کو مَیں نصیحت کرتا ہوں۔ ضروری ہے کہ تم جلدی جلدی میرے پاس آئو۔ معلوم نہیں کہ تم کتنا زمانہ میرے بعد بسرکرو گے۔ پا س رہنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ انسان اگر رُو بخدا ہو ، تو وُہ تفسیر مجسم ہوتاہے او رپاس رہنے میں انسان بہت سے باتیں دیکھ لیتا ہے۔اور سیکھ لیتا ہے۔
سفر کی تعریف ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہو اکہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھراُدھر جانا پڑتا ہے۔ مَیں کس کو سفر سمجھو اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں۔میں
کتابوں کے مسائل نہیں پوچھتا ہوں۔ حضرت امام صادق ؑ کا حکم دریافت کرتا ہوں۔حضرت اقدس نے فرمایا:
’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ تین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔ انما الاعمال بالنیات۔ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وُہی سفر ہے۔‘‘
مسیح موعود ؑ کی خاطر نمازیں جمع کیے جانے کی پیشگوئی اور جیساکہ خداکے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ۔ ویسا ہی اُس کی
رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ فرض بھی خداکی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے۔
دیکھو۔ ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تجمع لہ الصلوٰۃ کی حدیث بھی پوری ہوری ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں؛ ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں؛ ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی، تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘
تفسیر سورۂ فاتحہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محامد تفسیر سورۃ فاتحہ کے ذکر میں
فرمایا:’’ کہ اس کتاب میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور محامد اس قدر بیان ہونے شروع ہوگئے ہیں کہ ختم کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ اگر دن پورے نہ ہوتے۔ تو مَیں چاہتا نہ تھا کہ بند کروں۔‘‘
ترقیات غیرمتناہی ہیں فرمایا: بہشت میں بھی مومنوں کے لئے ترقیات ہوتی ہیں اورترقیات انبیاء کے لئے بھی ہیں ؛ ورنہ دُرود شریف کیوںپڑھا جاتا ہے۔ہمارا
مذہب ہے کہ ترقیات غیر متناہی ہیں۔‘‘
صفاتِ جمالیہ فرمایا:’’ سارے قرآن شریف کا خلاصہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور اللہ تعالیٰ کی اصل صفات بھی جمالی ہیں اور اصل نام خدا بھی جمالی ہے۔ یہ تو کفارلوگ اپنی ہی
ہی کرتُوتوں سے ایسے سامان بہم پہنچاتے ہیں کہ بعض وقت جلالی رنگ دکھانا پڑتا ہے۔ اس وقت چونکہ اس کی ضرورت نہیں اس واسطے ہم جمالی رنگ میں آئے ہیں۔‘‘
ملکہ معظمہ کے متعلق یادگاروں کے قائم کرنے کاذکر درمیان آیا۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا: کہ
’’ہماری رائے میں ایک بڑا بھاری کالج یا شفاخانہ بننا چاہیے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم کارنامہ فرمایا:
’’مسیح ؑ کوتو لوگ اتنی لمبی عمر دینے کے واسطے
بے فائدہ سعی کرتے ہیں۔ اُن کی تھوڑی سی عمر نے کیا نتیجہ پیداکیا ہے، جو بڑی عمر کی خواہش کی جاوے۔ دُنیا صلیب پرستی سے بھرگئی ہے اور جابجا شرک پھیل گیا ہے۔ ہاں اگر اتنی عمر کا پانا کسی کے واسطے ممکن ہوتا۔ تو حضرت رسول کریم ؐ اس کے مستحق تھے۔ جنہوں نے تھوڑی سی عمر میں ایک دُنیا موحدّین سے بھردی اور اُن کے دل میں خدا کی محبت کا سچا جوش بھردیا۔‘‘
۱۵؍فروری ۱۹۰۱؁ء
کرکٹ جو قیامت تک کھیلی جائے گی قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے لڑکوں کا کیندبَلّا کھیلنے میں میچ تھا۔ بعض بزرگ بھی بچوں
کی خوشی بڑھانے کے واسطے فیلڈ میں تشریف لے گئے۔ حضرت اقدس ؑ کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میںآپ ؑ کو کہا کہ ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے۔ آپؑ اس وقت تفسیرفاتحہ لکھنے میں مصروف تھے ۔ فرمایا:
’’وُہ توکھیل کر واپس آجائیں گے، مگر مَیں وُہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا۔‘‘
۱۶؍فروری ۱۹۰۱؁ء
فاتحہ خلف الامام اس بات کا ذکر آیا کہ جوشخص جماعت کے اندر رُکوع میں آکر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ حضرت اقدس ؑ نے دُوسرے مولویوںکی رائے
دریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کیے گئے۔ آخرحضرت ؑ نے فیصلہ دیا اور فرمایا:
’’ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لاصلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو۔ ہرحالت میں اس کو چاہیے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے، مگر امام کو نہ چاہیے کہ جلدی جلدی سورۃ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ مقتدی سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہر حال مقتدی کو یہ موقع دیناچا ہیے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ وہ اُم الکتاب ہے ، لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتاہے آخر رکوع میں ہی آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا، تو اس کی رکعت ہوگئی؛ اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا۔ اس کی رکعت ہوگئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی۔ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں۔ وُہ اُم الکتاب ہے۔ اور اصل نماز ہی ہے، مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے، تو چونکہ دین کی بناء آسانی اور نرمی پر ہے اس واسطے حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔ وُہ سورۃ فاتحہ کا منکر نہیں ہے۔ بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رُخصت پر عمل کرتا ہے۔ میرا دل خدا نے ایسابنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہوجاتی ہے اور میرا جی نہیںچاہتا کہ مَیں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں بہ سبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے، تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہیے کہ رُخصت پر عمل کرے۔ ہاں جو شخص عمداً سُستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کتا ہے ، تو اُس کی نماز ہی فاسد ہے۔‘‘
۲۰؍فروری ۱۹۰۱؁ء
استغفار
ایک شخص نے قرض کے واسطے دُعا کے لئے عرض کی۔ فرمایا:
’’استغفار بہت پڑھا کرو۔‘‘
عربی تفسیر کے لئے غیبی قوت تفسیرلکھنے کے متعلق فرمایا:
’’ دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ اب تو ہم اس طرح جلدی جلدی
لکھتے ہیں۔ جیسے اُردو لکھی جاتی ہے۔ بلکہ کئی دفعہ تو قلم برابر چلتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کیا لکھ رہے ہیں۔‘‘
غیروں کے پیچھے نماز کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مُرید نہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ ؑ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے۔
حضرت ؑ نے فرمایا:
’’جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کرکے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ، رد کردیا ہے۔ اور اس قدر نشانوں کی پروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں، اس سے لاپروا پڑے ہیں۔ ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اور اللہ تعالیٰ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے۔ انما یتقبل اللہ من المتقین (المائد:۲۸) خداصرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے، اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نما زخود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں۔‘‘
مسیح موعود ؑ کو نہ ماننے کا نتیجہ ’’قدیم سے بزرگانِ دین کا یہی مذہب ہے کہ جو شخص حق کی مخالفت کرتا ہے اس کا سلب ِ ایمان ہوجاتاہے۔جو پیغمبر صلی
اللہ علیہ وسلم کو نہ مانے وُہ کافر ہے، مگرجو مہدی اور مسیح کو نہ مانے اس کا بھی سلبِ ایمان ہوجائے گا۔ انجام ایک ہی ہے۔ پہلے تخالف ہوتاہے پھر اجنبیت پھر عداوت پھرغلو اور آخر کار سلبِ ایمان ہوجاتا ہے۔‘‘
اخیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں ہوتی سوال ہوا کہ ابتدا میں بھی مسلمانوں کے درمیان آپس میں عداوت اور دشمنیاں ہوتی رہی ہیں اور اختلاف
رائے بھی ہوتا رہا ہے، مگر باوجود اس کے ہم کسی کوکافر نہیں کہہ سکتے۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ ؓ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی، یہ غلط ہے۔ اللہ تعلایٰ آپ اس کی تردید فرماتا ہے کہ نزعنا مافی صدورِ ھم من غل (الحجر:۴۸) برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں۔ مگر شادی، مرگ کے وقت وہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ اخیار میں خونی د شمنی کبھی نہیں ہوتی۔
منعم علیہ کون ہیں سوا ل ہوا کہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے، مگر آپ کے مُرید بھی نہیں ہیں۔ اُن کا کیا حال ؟ حضرت صاحب نے فرمایا:
’’وہ لوگ راہ ورسم اور تعلقات کس کے ساتھ رکھتے ہیں۔ آخر ایک گروہ میں اُن کو ملناپڑے گا۔ جس کے ساتھ انسان اپنا تعلق رکھتا ہے اُسی میں سے وہ ہوتا ہے۔‘‘
سوال ہوا کہ جو لوگ آپ کو نہیں مانتے وہ انعمت علیہم کے نیچے ہیں یا کہ نہیں؟
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ:
’’انعمت علیہم میں تو مَیں اپنی جماعت کو بھی شامل نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ خدا کسی کو نہ کرے جو کلمہ گو سچے دل سے قرآن پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو بشرطیکہ سمجھایا جاوے وہ اپنا اجر پائے گا۔ جس قدر کوئی مانے گا۔ اسی قدر ثواب پائے گا۔ جتنا انکار کرے گا۔ اتنی ہی تکلیف اُٹھائے گا۔
مَیں قسماً کہتاہوں کہ مجھے لوگوں کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جو ہمیں کافر نہیں کہتے۔ اُن کے دلوں کا خدا مالک ہے، مگر حضرت مسیح ؑ کا خالق اور حی ماننا بھی تو ایک شِرک ہے۔ اگر وہ کہیں کہ خدا کے اِذن سے کرتا تھا، تو ہم کہتے ہیں کووُہِ اذن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ دیا گیا۔ جو خدا کے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے خدا اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ جس کے ساتھ خداجنگ کرے اس کا ایمان کہاں رہا۔‘‘
ایک الہام
۲۳؍فروری ۱۹۰۱؁ء
حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا۔ کفینا ک المستھزئین۔
تفسیر اعجاز المسیح کی اعجازی شان تفسیر اعجاز المسیح کے متعلق یہ ذکر تھا کہ مخالفین میں سے کسی کو خدا نے یہ طاقت نہیں دی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔
اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’ قرآن شریف کے ایک معجزہ ہونے کے متعلق دو مذہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ خداتعالیٰ نے مخالفین سے صر ف ہمت کردیا۔ یعنی اُن لوگوں کو توفیق نہ ہوئی کہ اس وقت مقابلہ میں کچھ کرکے دکھلاتے اور دوسرا مذہب جو کہ صحیح اور سچا اور پکا مذہب ہے اور ہمارا بھی وہی مذہب ہے۔ وہ یہ ہے کہ مخالف خود اس بات میں عاجز تھے کہ مقابلہ کرسکتے۔ اصل میں ان کے علم اور عقل چھینے گئے تھے۔ قرآن شریف کا معجزہ ہماری تفسیر القرآن کے معاملہ سے خُوب سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہزاروں مخالف موجود ہیں جو عالم فاضل کہلاتے ہیں۔ کئی غیرت دلانے والے الفاظ بھی اشتہار میں لکھے گئے، مگر کوئی ایسانہ کرسکا کہ اس نشان کا مقابلہ کرتا۔‘‘
۲۴؍فروری ۱۹۰۱؁ء
صحیح بخاری اور مُسلم کی عظمت صحیح بخاری کے متعلق فرمایا:
’’یہی ایک کتاب ہے جو دُنیا کی تمام کتابوں میں سے قرآن
شریف کے بہت مطابق اور سب سے افضل اور صحیح ہے۔ اُس کی دوسری بہن گویا مُسلم ہے۔‘‘
مسیح موعود ؑ کی ایک جُزئی فضیلت آیت کریمہ ربنا الذی اعطیٰ کل شی ئٍ خلقہ ثم ھدی (طہ:۵۱) پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’اس عطا میں زیادہ تر دوقسم کے آدمی ہیں۔ ایک باشاہ، دوسرے مامورمن اللہ۔ یعنی پہلے خدا نے ان کو مامور بنایا۔ ثم ھدی یعنی پھر تبلیغ کے تمام سامان اُن کے لئے مہیا کردیئے، جیسا کہ خدا نے ریل ، تار،ڈاک، مطبع وغیرہ تمام اسباب ہمارے واسطے مہیاکردیئے جو پہلے انبیاء علیہم السلام کو حاصل نہ تھے۔ ہمارے واسطے یہ ایک جُزئی فضلیت ہے اور خدا کا فضل ہے اور جزئی فضیلت سے کسر شان کسی نبی کی لازم نہیں آتی۔‘‘
اہل اللہ کا حال فرمایا:
’’تفسیر کام کام تو ختم ہوگیا اور ہم چاہتے تھے کہ دوسرے ضروری کاموں کے شروع
کرنے سے پہلے دو تین دن آرام کرلیتے، مگر جی نہیں چاہتا کہ خالی بیٹھے رہیں۔ مثنوی مولانا رُوم میں لکھا ہے کہ ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان چاہتاہے کہ اس کو ہر وقت کوئی مُکیاں مارتا رہے۔ ایساہی اہل اللہ کا حال ہوتا ہے کہ وُہ آرام نہیں کرسکتے۔ کبھی خدا ان پر محنت نازل کرتا ہے اور کبھی وہ آپ کوئی ایسا کام چھیڑ بیٹھتے ہیں ۔ جس سے ان پر محنت نازل ہو۔
نہایت درجہ برکت کی بات یہ ہے کہ انسان خدا کے واسطے کسی کام میں لگا رہے جو دن بغیر کسی کام کے گزر جائے وُہ گویاغم میں گزرتا ہے۔ اس سے زیادہ دُنیا میں کچھ حاصل نہیں کہ انسان خداکے واسطے کام کرے اور خدا کے واسطے راستہ کھول دے اور اُسے مدد عطافرماوے۔ مگر بغیر اخلاص کے تمام محنت بے فائدہ ہے۔ خالصتہً للہ کام کرنا چاہیے۔ کوئی اور غرض درمیان میں نہ آوے۔‘‘
۲۵؍فروری ۱۹۰۱؁ء
جماعت کو اہم نصیحت اپنی جماعت کے لوگوں کو باہم محبت کرنے اور رُوحانی کمزوریوں کے سامنے نرمی کا برتائو کرنے کا حکم کرتے ہوئے اور اُس درد دل کا اظہار
کرتے ہوئے جو کہ آپ کو اپنی جماعت کی بہتری کے واسطے ہے فرمایا:
’’مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وُہ اپنے میں سے کمزور اور کچے لوگوں پر رحم کریں۔ اُن کی کمزوری کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اُن پر سختی نہ کریں اور کسی کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہ آئیں۔ بلکہ اُن کو سمجھائیں۔ دیکھو صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی بعض منافق آکر مل جاتے تھے۔ پرحضرت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتے ؛ چنانچہ عبداللہ ابن اُبی جس نے کہا تھ اکہ غالب لوگ ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے؛ چنانچہ سورۂ منافقون میں درج ہے اور اس سے مُراد اس کی یہ تھی کہ کفار مسلمانوں کو نکال دیں گے۔ اس کے مرنے پر حضرت رسول کریمؐ نے اپنا کُرتہ اس کے لئے دیا تھا۔
مَیں نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں دُعا کے ساتھ اپنی جماعت کی مدد کروں۔ دُعا کے بغیر کام نہیں چلتا۔ دیکھو صحابہ ؓ کے درمیان بھی جو لوگ دُعا کے زمانہ کے تھے، یعنی مکی زندگی کے ۔ جیسی اُن کی شان تھی ویسی دُوسروں کی نہ تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ جب ایمان لائے تھے، تو اُنہوں نے کیا دیکھا تھا۔ انہوں نے کوئی نشان نہ دیکھا تھا، لیکن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اندرونی حالات کے واقف تھے۔ اس واسطے نبوت کا دعویٰ سُنتے ہی ایمان لے آئے۔ اسی طرح میں کہا کرتاہوں کہ ہمارے دوست اکثر یہاں آیا کریں او ررہاکریں۔ گہرا دوست اور پورا واقف بن جانے سے انسان بہت فائدہ اُٹھاتا ہے۔ معجزات اور نشانات سے ایسا فائدہ نہیں ہوتا۔ معجزات سے فرعون کو کیا فائدہ ہوا۔ معجزات کے ہزاروں مُنکر ہوتے ہیں۔ اخلاق کاکوئی منکر نہیں۔ طالب ہوکر اصلی او رجگری حالت کو دریافت کرنا چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ آریہ لوگوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پراس قدر اعتراض کیے ہیں،لیکن
ان لوگوں کو آپؐ کے اصلی حالات اور اخلاقِ کریمہ کے صحیح جز مل جاتے تو یہ کبھی ایسی جرأت نہ کرے۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کے دو پہلو دکھلائے۔ ایک مکی زندگی میں جبکہ آپؐ کے ساتھ صرف چند آدمی تھیا ور کچھ قوت نہ تھی۔ دُوسرا مدنی زندگی میں جبکہ آپؐ فاتح ہوئے اور وہی کفار جو آپؐ کے ساتھ صرف چند آدمی تھے اور کچھ قوت نہ تھی۔ دُوسرا مدنی زندگی میں جبکہ آپؐ فاتح ہوئے اور وہی کفار جو آپؐ کو تکلیف دیتے تھے اور آپؐ نے لاتثریب علیکم الیوم کہہ کر اُن کو چھوڑد یا اورکچھ سزا نہ دی۔ ہمیں حضرت مسیح ؑ پر ایمان ہے اور ان کے ساتھ محبت ہے۔ مگر یہ کہنے میں ہم لاچار ہیں کہ اُن کو اپنے مخالفین پر قدرت اور طاقت نہیں ہوئی۔ اور ان کو یہ موقع نہیں ملا کہ دشمن پر قابو پاکر پھر اپنے اخلاق کا اظہار کریں۔ اور اگر ان کو یہ موقع ملتا ، تو معلوم نہیں وہ کیا کرتے۔ سچا مسلمان وہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آوے۔ مَیں دوباتوں کے پیچھے لگا ہو اہوں۔ ایک یہ کہ اپنی جماعت کے واسطے دُعا کروں۔ دُعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے ، مگر ایک نہایت جوش کی دُع اجس کا موقعہ کبھی مجھے مل جائے اور دوم یہ کہ قرآن شریف کا ایک خلاصہ ان کو لکھ دُوں۔
قرآن کریم کا اعجاز قرآن شریف میں سب کچھ ہے۔ مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔قرآن شریف کو پڑھنے والا جب ایک سال سے دوسرے سال میں
ترقی کرتا ہے ، تو وُہ اپنے گذشتہ سال کو ایسامعلوم کرتا ہے کہ گویا وہ تب ایک طفل مکتب تھا ۔ کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں ترقی بھی ایسی ہے۔ جن لوگوں نے قرآن شریف کو ذوالوجوہ کہا ہے۔ مَیں اُن کو پسند نہیں کرتا۔اُنہوں نے قرآن شریف کی عزت نہیں کی۔
قرآن شریف کو ذوالمعارف کہناچاہیے۔ ہر مقام میں سے کئی معارف نکلتے ہیں او رایک نکتہ دُوسرے نکتہ کا نقیض نہیں ہوتا، مگر زُودرنج، کینہ پروراورغصہ والی طبائع کے ساتھ قرآن شریف کی مناسبت نہیں ہے اور نہ ایسوں پر قرآن شریف کھلتا ہے ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس قسم کی تفسیر بنادوں۔ نرا فہم اور اعتقاد نجات کے واسطے کافی نہیں۔ جب تک کہ وہ عملی طور پر ظہور میں نہ آوے۔ عمل کے سوا کوئی قول جان نہیں رکھتا۔ قرآن شریف پر ایس اایمان ہونا چاہیے کہ یہ درحقیقت معجزہ ہے اور خد اکے ساتھ ایسا تعلق ہو کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔ جب تک لوگوں میں یہ بات پیدا نہ ہوجائے ، گویا جماعت نہیں بنی۔ اگر کسی سے ایسی غلطی ہوکہ وہ صرف ایک غلط خیال کی وجہ سے ایک امر میں ہماری مخالفت کرتا ہے، تو ہم ایسے نہیں ہیں کہ ہم اس پر ناراض ہوجائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے۔ ایک بچہ اگر بستر پر پاخانہ پھردے او رماں غصہ میں آکر اس کو پھینک دے، تو وہ خون کرتی ہے۔ ماں اگر بچہ کے ساتھ ناراض ہونے لگے اور ہرروز اس سے روٹھنے لگے۔ تو کام کب بنے۔ وُہ جانتی ہے کہ یہ ہنوز نادان ہے۔ رفتہ رفتہ خدا اس کو عقل دے گ اور کوئی وقت آتا ہے کہ یہ سمجھ لے گا کہ ایساکرنا نامناسب ہے۔ سو ہم ناراض کیوں ہوں ۔ اگر ہم کذب پر ہیں، تو خود ہمارا کذب ہمیں ہلاک کرنے کے واسطے کافی ہے۔ ہم اس راہ پر قدم مارنے والے سب سے پہلے نہیں ہیں۔ جو ہم گھبراجائیں کہ شاید حق والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیامعاملہ ہوا کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سنت اللہ کیا ہے ۔سرورِ انبیاء ؐ پر کروڑوں اعتراض ہوئے۔ ہم پرتو اتنے ابھی نہیں ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جنگ اُحدْمیں آپ ؐ کو ۷۰ تلواریں لگی تھیں۔ صدق کا بیج ضائع ہوتا۔ ابوبکری طبیعت تو کوئی ہوتی ہے کہ فوراً مان لے۔ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ مگر نشان کے ساتھ کوئی ہدایت نہیںپاسکتا۔ سکینت باطنی آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ تصرفاتِ باطنی یک دفعہ تبدیلی پیدا کردیتے ہیں۔ پھر انسان ہدایت پاتا ہے۔ ہدایت امرِ ربی ہے۔ اس میں کسی کو دخل نہیں۔ میرے قابو می ہوتو مَیں سب کو قُطب اور ابدال بنادُوں۔ مگر یہ اَمر محض خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ہاں دُعا کی جاتی ہے۔
صُلح کی دعوت ہم تیا رہیں کہ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ صُلح کرلیں۔ میرے پا س ایک تھیلہ اُن گالیوں سے بھرے ہوئے کاغذات کا پڑا ہے۔ ایک نیا کا غذ آیا تھا۔وہ بھی آج
مَیں نے اس میں داخل کردیا ہے۔ مگر ان سب کو ہم جانے دیتے ہیں۔ اپنی جماعت کے ساتھ اگرچہ میری ہمدردی خاص ہے۔ مگر مَیں سب کے ساتھ ہمدردی کرت اہوں اور مخالفین کے ساتھ بھی میری ہمدردی ہے۔ جیسا کہ ایک حکیم تریاق کا پیالہ مریض کو دیتا ہے کہ وہ شفا پاوے، مگرمریض غصہ میں آکر اس پیالہ کو توڑدیتاہے۔توحکیم اس پر افسوس کرا ہے اوررحم کرتا ہے۔ ہمارے قلم سے مخالف کے حق میں جو کچھ الفاظ سخت نکلتے ہیں۔ وہ محض نیک نیتی سے نکلتے ہیں۔ جیسے ماں بچہ کو کبھی سخت الفاظ بولتی ہے، مگر اس کا دل درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ صادق اور کاذب کامعاملہ خدا کے نزدیک ایک نہیں ہوتا۔ خدا جس کو محبت کے ساتھ دیکھتاہے۔ اس کے ساتھ اوردُوسروں کے ساتھ اس کا ایک سلوک نہیں ہوتا۔ کیا سب کے ساتھ اس کامعاملہ ایک ہی رنگ کا ہے۔
مخالفین ہم سے صُلح کرلیں۔ مِلنا جُلنا شروع کردیں۔ بے شک اپنے اعتقاد پر رہیں۔ ملاقات سے اصلی حالات معلوم ہوجاتے ہیں۔ امرتسر کے بعض مخالف سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے مُنکر ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ ایسی بدظنی کا سبب یہی ہے کہ وُہ ہم سے بالکل الگ ہوگئے ہیں۔ اس قسم کا انقطاع تو کمزور لوگ کرتے ہیں کہ بالکل الگ ہو جائیں۔ الحق یعلو اولایعلے تم ہم سے ڈرتے ہو۔ اگر ہم حقیر ہیں تو تم ہم پرغالب آجائو گے۔ اگر صُلح بھی نہیں کرتے ، تو پھر مقابلہ میں آنا چاہیے۔ مقابلہ کے وقت خدا صادق کی مدد کرتا ہے۔ کتب اللہ لاغلبن اناورسلی۔(مجادلہ:۲۲)
۲۶؍فروری۱۹۰۱؁ء
امام مہدی کی شان
اُمّتِ مُحمدیّہ میں پیغمبروں کاظِلّی سِلسِلہ فرمایا:’’اھدناالصراط المستقیم کی دُعا سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ظلی سلسلہ پیغمبروں کا اس
اُمت میں قائم کرناچاہتا ہے۔ مگر جیسا کہ قرآن کریم میں سارے انبیاء کا ذکر نہیں اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر کثرت سے ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ اس اُمت میںمثیل موسیٰ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مثیل عیسیٰ یعنی امام مہدی سب سے عظیم الشان اور خاص ذکرکے قابل ہیں۔‘‘
۲۸؍فروری ۱۹۰۱؁ء
انبیاء سے اجتہادی غلطی کا صدور فرمایا:
’’اجتہادی غلطی سب نبیوں سے ہو اکرتی ہے اور
اس میں سب ہمارے شریک ہیں اور یہ ضرور ہے کہ ایسا ہوتا ہے تاکہ بشرخدانہ ہوجائے۔ دیکھو حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق بھی یہ اعتراض بڑے زور شور سے یہود نے کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ مَیں بادشاہت لے کر آیاہوں اور وہ بات غلط نکلی۔ ممکن ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو یہ خیال آیا ہو کہ ہم باشاہ بن جائیں گے؛ چنانچہ تلواریں بھی خریدرکھی ہوئی تھیں، مگر یہ اُن کی اجتہادی غلطی تھی۔ بعد اس کے خدا نے مطلع کردیا اور انہوں نے اقرارکیا کہ میری بادشاہت رُوحانی ہے۔ سادگی انسان کا فخر ہوتاہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے جو کہا سو سادگی سے کہا۔ اس سے ان کی خفت اور بے عزتی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی۔ مگر ہجرت مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی اور انگوروں کے متعلق آپؐ نے یہ سمجھا تھا کہ ابوجہل کے واسطے ہیں۔ بعد میں معلوم ہو اکہ عکرمہ کے واسطے ہیں۔ انبیاء ؓ کے علم میں بھی تدریجاً ترقی ہوتی ہے۔ اس واسطے قرآن شریف میں آیا ہے قل رب زدنی علماً (طہ:۱۱۵) یہ آپؐ کا کمال اور قلب کی طہارت تھی جو آپؐ اپنی غلطی کا اقرار کرتے تھے۔ اس میں انبیاء ؐ کی خفِّت کچھ نہیں۔ ایک حکیم ہزاروں بیماروں کا علاج کرتا ہے۔ اگر ایک اُن مین سے مرجائے تو کیا حرج ہے۔ اس سے اُس کی حکمت میں کچھ داغ نہیں آجاتا۔ کبھی حافظ قرآن کو پیچھے سے لقمہ دیا جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ اب وُہ حافظ نہیں رہا۔ جو باتیں متواتر اور کثرتے سے ہوتی ہیں اُن پر حکم لگایا جاتا ہے۔‘‘
اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا فرمایا:
’’اخلاص والے کو خداضائع نہیں کرتا۔ ہمارے حضرت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس جنگل میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر خدا نے کیا کیا سامان بنادیئے۔ ایک آدمی کا قابو کرنا مشکل ہوتاہے۔ کتنے آدمی آپؐ کے ساتھ ہوگئے تھے۔ ہمارے متعلق اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ آخرمرید ہی ہوں گے تو ایساکریں گے۔ اس زمانہ میں دیکھو لوگ کیسی بے عزتی کرتے ہیں، مگراس زمانہ میں جو ثواب ہے وُہ پھر نہ ہوگا۔
یکم مارچ ۱۹۰۱؁ء
نماز کا اخلاص سے تعلق فرمایا:
’’نماز دُعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ مومن کے ساتھ کینہ جمع
نہیں ہوتا۔متقی کے سوا دُوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
۳؍مارچ۱۹۰۱؁ء
کمال ختم نہیں ہوتا فرمایا:
’’ختمِ ایمان یا ختمِ کمال نہیں ہوجاتا۔ خدا کی جناب میں بُخل نہیں ۔جو رنگ
ایک پر چڑھتا ہے وُہ دُوسرے پر چڑھ سکتا ہے۔ اگر نبی کی بات دوسرے میں نہ آسکے، تو اس کا وجود بے فائدہ ہو۔ ایک صُوفی ابن حزم نے لکھا ہے کہ مَیں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ کیا۔ یہاں تک کہ مَیں خود رسول اللہ ہوگیا۔‘‘
مارچ ۱۹۰۱؁ء
ایک متلاشی حق کا حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں آنا چند روزے حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں جُو ضلع گجرات سے
آیاہوا ہے۔ اس نے عرض کی کہ مجھے ابتداسے ہی دھرم بھائو اپنے اندر محسوس ہوتاتھا اور اُس کے موافق میں اپنے خیال میں بعض نیکیاں بھی کرتا رہا ہوں، مگر مجھے دُنیا اور اس کے طلبگاروں کو اپنے اردگرد دیکھ کربہت بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر بھی ایک کشمکش پاتا ہوں۔ مَیں ایک بار دریائے جہلم کے کنارے کنارے پھر رہا تھا کہ مجھے ایک عجیب نظارہ پریم (محبت) کا دکھایاگیا تھا ۔ جس سے مجھے ایک لذت اور سُرور محسوس ہوتا تھا۔ جس طرف نظر اُٹھاتا تھا آنند ہی آنند ملتا تھا۔ کھانے میں ، پینے میں ، چلنے میں، پھرنے میں، غرض ہر ایک حرکت میں ہراَدا میں پریم ہی پریم معلوم ہوتا تھا، چند گھنٹوں کے بعدیہ نظارہ تو جاتا رہا، مگر اس کا بقیہ ضرور دو ماہ تک رہا۔ یعنی اس نظارہ سے کم درجہ کا سرور دینے والا نظارہ۔ اس وقت مَیں عجیب گھبراہٹ میں ہوں۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ مَیں اِس کو پھر پائوں، مگر نہیں ملا۔ اسی کی طلب اور تلاش میں مَیں لاہور بابوا بناش چندرفورمین صاحب کے پاس آیا۔ جو برہم سماج کے سرگرم ممبر ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وُہ مجھ سے بجز چند منٹ کے اور وُہ بھی اپنے دفتر میں ہی نہ مل سکے۔ پھر مَیں پنڈت شونرائن ستیاننداگنی ہوتری کے پاس گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وُہ لوگ کسی قدر رُوحانیت کو محسوس کرتے ہیں۔ آخر مَیں کوئی دو مہنے تک ان کے ہائی سکول موگا میں بطور تھرڈ ماسٹر کام کرتا رہا اور اپنی اصلاح میں لگا رہا۔ وہاں جانا میرا صرف اس مطلب کے لئے تھاکہ مَیں اپنی لائف کو بنائوں۔ اس عرصہ میں کچھ مختصر سا نظارہ نظرآنے لگا، مگر میری تسلی اور اطمینان نہیں ہوا۔ جس شانتی اور پریم کا مَیں خواہش مند اور جو یا تھا وہ مجھے نہ ملا؛ اگرچہ مَیں صبر کے ساتھ وہاں رہنا چاہتا تھا، مگر بیمار ہوکر مجھے آنا پڑا۔ مَیں نے اپنے شہر میں شیخ مولابخش صاحب کو ایک مرتبہ جلسۂ اعظم مذاہب والا آپ کامضمون پرھتے ہوئے سُنا۔ مَیں اپنے خیال میں مَست اور متفکرجارہا تھا کہ اُن کی آواز میرے کان یں پڑی۔ میری رُوح نے غیر معمولی طور پر محسوس کیا کہ اس کلام میں لائٹ (نور) ہے اور یہ کہنے والا اپنے اندرروشنی ضروررکھتا ہے۔مَیں نے اس مضمون کو کسی مرتبہ پڑھا اور میرے دل میں قادیان آنے کی خواہش پیداہوئی، مگر لیکھرام کے قتل کے تازہ وقوعہ کے باعث لاہور میں مَیں اگر کسی مسلمان سے پتہ پوچھتا تھا ، تووہ پتہ نہ بتاتاتھا ۔ غالباً اس کو یہ وہم ہوتا ہوگا کہ شاید یہ مرزا صاحب کے قتل کو جاتا ہے۔ بہر حال میرے دل میں ایک کشمکش پیدا ہورہی تھی۔ اب وہ میری آرزو پوری ہوئی ے اورمَیں اپنی زندگی کو بنانا چاہتا ہوں۔ اسی غرض کے واسطے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اس پر حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں ارشادفرمایا:
اسلام کی حقیقت ’’حقیت یہی ہے کہ انسان کو پوست اور چھلکے پرٹھہرنا نہیں چاہیے اور نہ انسان پسند کرتا ہے کہ وہ صرف پوست پر قناعت کرے۔ بلکہ وہ آگے بڑھنا چاہتا
ہے۔ اور اسلام انسان کو اسی مغز اور روح پر پہنچانا چاہتا ہے۔ جس کا وہ فطرتاً طلبگار ہے۔ یہ نام ہی ایسا نام ہے کہ اس کو سُن کرروح میں ایک لذت آتی ہے اور کسی مذہب کے نام سے کوئی تسلی رُوح میں پیدا نہیں ہوتی۔ مثلاً آریہ کے نام سے کون سی رُوحانیت نکالیں۔ اسلام سکینت، شانتی، تسلی کے لئے بنایاگیا ہے۔ جس کے واسطے انسان کی رُوح بھوکی پیاسی ہویت ہے تاکہ اس کا نام سننے والا سمجھ لے کہ اس کا مذہب کا سچے دل سے ماننے والا اور اس پر عمل کرنے والا خدا کا عارف ہے، مگر بات یہ ہے کہ اگر انسا ن چاہے کہ ایک دم میں سب کچھ ہوجائے اور معرفتِ الہٰی کے اعلیٰ مراتب پر یکدفعہ پہنچ جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا۔ دنیامیں ہر ایک کام تدریج سے ہوتا ہے۔ دیکھو کوئی علم اورفن ایسا نہیں جس کو انسان تامل اور توقف سے نہ سیکھتا ہو۔ ضروری ہے کہ سلسلہ وار مراتب کوطے کرے۔ دیکھو! زمیندار کو زمین میں بیج بوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اول وہ اپنی عزیز شے اناج کو زمین ڈال دیتاہے جس کو فوراً جانور چُگ جائیں یا مٹی کھالے۔ یاکسی اور طرح ضائع ہوجائے مگر تجربہ اس کو تسلی دیتا ہے کہ نہیں ایک وقت آتا ہے کہ یہ دانے جو اس طرح پر زمین کے سپردکیے گئے ہیں۔ بارور ہوں گے اور یہ کھیت سرسبز لہلہاتا ہوا نظرآئے گا اور یہ خاک آمیختہ بیج رزق بن جائیں گے۔
اصلاح کے لئے صبر شرط ہے اب آپ غور کریں کہ دنیاوی اور جسمانی رزق کے لئے جس کے بغیر کچھ دن آدمی زندہ بھی رَہ سکتا ہے پھ مہینے درکار ہیں۔
حالانکہ وہ زندگی جس کا مدار جسمانی رزق پر ہے اَبدی نہیں، بلکہ فنا ہوجانے والی ہے۔ پھر رُوحانی رزق جو رُوحانی زندگی کی غذا ہے جس کو کبھی فنا نہیں او روُہ ابدالآباد کے لئے رہنے والی ہے۔ دوچاردن میں کیونکرحاصل ہو سکتا ہے؛ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک دم میں جو چاہے کردے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کے نزدیک کوئی چیز انہونی نہیں۔ اسلام نے ایساخدا پیش ہی نہیں کیا جو مثلاً آریوں کے پیش کردہ پرمیشر کی طرح نہ کسی رُوح (جیو)کو پیدا کرسکے۔ نہ مادہ کو اور ہ اپنے طلبگاروں کو اور صادقوں کو سچی شانتی اور ابدی مُکتی دے سکے۔نہیں بلکہ اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے۔ جو اپنی قدرتوں اور طاقتوں میں بے نطیر اور لاشریک خدا ہے۔ مگر ہاں اس کا قانون یہی ہے کہ ہر ایک کام ایک کام ایک ترتیب اور تدریج سے ہوتا ہے۔ اس لیے صبر اور حُسن ظن سے اگر کام نہ لیا جائے کامیابی مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مار کر آسمان پرپہنچادیئے تھے۔ مَیں نے کہا کہ تم غلطی کرتے ہو۔ خداتعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے۔ اگر ایک مکان میں فرش کرنے لگو ، تو پہلے ضروری ہوگا کہ اس میں کوئی حصہ قابلِ مرمت ہوتو اس کی مرمت کی جائے اور جہاں جہاں گندگی اور ناپاکی پڑی ہوئی ہو اس کو فینائل وغیرہ سے صاف کیا جائے۔ غرض بہت سے تدبیروں اور حیلوں کے بعد وہ اس قابل وہگ اکہ اس میں فرش بچھایاجائے۔ اسی طرح پر انسان کا دل اس سے پیشترکہ خداتعالیٰ کے رہنے کے قابل ہو۔ وہ شیطان کا تخت ہے او رسلطنت ِ شیطان میں ہے۔ اب دُوسری سلطنت کے لئے اس شیطانی سلطنت کا قلع قمع ضروری ہے۔
نہایت ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو حق کی طلب میں نکلے اور پھر حُسنِ ظن سے کام نہ لے۔ایک گل گوہی کو دیکھو کہ اس کو مٹی کا برتن بنانے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دھوبی ہی کو دیکھو کہ وہ ایک ناپاک اور میلے کچیلے کپڑے جب صاف کرنے لگتا ہے، تو کس قدر کام اس کو کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی کپڑے کو بھٹی پر چڑھاتا ہے کبھی اس کو صابن لگا تا ہے۔ پھر اس کی میل کچیل کو مختلف تدبیروں سے نکالتا ہے۔آخر وہ صاف ہوکر سفیدنکل آتا ہے اور جس قدر میل اس کے اندر ہوتی ہے، سب نکل جاتی ہے۔ جب ادنیٰ ادنیٰ چیزوں کے لیے اس قدرصبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ تو پھر کس قدر نادان ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کی اصلاح کے واسطے اور دل کی غلاظتوں اور گندگیوں کودُور کرنے کے لئے یہ خواہش کرے کہ یہ پھونک مارنے سے نکل جائیں اور قلب صاف ہوجائے۔
یادرکھو۔ اصلاح کے لئے صبر شرط ہے۔ پھر دُوسری بات یہ ہے کہ تزکیہ اخلاق اور نفس کا نہیںہوسکتا۔ جب تک کہ کسی مزکی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے۔ اول دروازہ جو کھلتا ہے، وُہ گندگی دُور ہونے سے کھلتا ہے۔ جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں۔ لیکن جب کوئی تریاقی صُحبت مل جاتی ہے، تو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دُور ہونی شروع ہوتی ہے، کیونکہ پاکیزہ رُوح کے ساتھ جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں رُوح القدس کہتے ہیں تعلق نہیں ہوسکتا جب تک کہ مناسبت نہ ہو۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تعلق کب تک پیدا ہو جاتا ہے۔ ہاں!’’ خاک شوپیش ازانکہ خاک شوی‘‘ پر عمل ہونا چاہیے۔ اپنے آپ کو اس راہ میں خاک کردے اور پورے صبر اور استقلال کے ساتھ اس راہ میں چلے۔آخر اللہ تعالیٰ اس کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور اس کو وُہ نور اور روشنی عطاکرے گا، جس کا وہ جو یا ہوتا ہے۔ مَیں تو حیران ہوجاتا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیںآتا کہ انسان کیوں دلیری کرتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ خداہے۔
مجاہدہ مَیں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مارکر غوث قطب بنادیتے تھے۔ میں نے اس کو یہی کہا کہ یہ دُرست نہیں ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا قانون
نہیں ہو۔ تم مجاہدہ کرو۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی راہیں تم پر کھولے گا۔ اس نے کچھ توجہ نہ کی اور چلاگیا۔ ایک مدت کے بعد وہ پھر میرے پاس آیا، تو اس کو اس پہلی حالت سے بھی ابتر پایا۔ غرض انسان کی بدقسمی یہی ہے کہ وُہ جلدی کا قانون تجویز کرلیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ جلدی کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں تو تدریج اور ترتیب ہے، تو گھبرااُٹھتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہریہ ہوجاتا ہے۔ دہریّت کا پہلا زینہ یہی ہے۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ یا تو بڑے بڑے دعوے اور خواہشیں پیش کرتے ہی کہ یہ ہوجائیں اور وہ بن جائیں اور یا پھر آخر اردزل زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایک شخص میرے پاس کچھ مانگنے آیا۔ جوگی تھا۔ اس نے کہا کہ مَیں فلاں جگہ گیا۔ فلاں مرد کے پاس گیا۔ آخر ا سکی حالت اور اندازِ گفتگو سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مانگ کر گذارہ کرلینا چاہیے۔اصل اور سچی بات یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔
گرنباشد بہ دوست راہ بُردن
شرطِ عشق استِ درطلب مُردن
اللہ تعالیٰ تو اخیر حدتک دیکھتاہے۔ جس کو کچا اورغدار دیکھتا ہے۔ وہ اس کی جناب میں راہ نہیں پاسکتا۔
طلب گار بایدصُبور و حُمول
کہ نشنیدہ ام کیمیا گر ملُول
کیمیا گرباوجودیکہ جانتا ہے کہ اب تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی صبر کے ساتھ اس پھونکا پھانکی میں لگا ہی رہتا ہے۔ میر امطلب اس سے یہی ہے کہ اول صبر کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اگر رُشد کا مادہ ہے تو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ اصل غرض تو یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے محبت پیدا ہو۔ لیکن مَیں کہتا ہوں کہ محبت تو ایک دوسرا درجہ ہے یا نتیجہ ہے۔ سب سے اول تو ضروری یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین پیدا ہو۔ اس کے بعد رُوح میں خود ایک جذب پیدا ہوجاتا ہے۔ جو خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف کھچی چلی آتی ہے۔ جس جس قدر معرفت اور بصیرت بڑھے گی۔ اسی قدر لذت اور سُرور بڑھتا جائے گا۔ معرفت کے بغیر تو کبھی لذت پید انہیں ہوسکتی۔ ذوق شوق کا اصل مبداء تو معرفت ہی ہے۔
معرفت معرفت ہی ایک شے ہے جس سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ معرفت اور محبت کے اجتماع سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے ، وُہ سرور ہوتاہے۔ یادرکھو کہ کسی خوبصورتی کا محض دیکھ لینا ہی تو محبت
پیدا نہیں کرسکتا۔ جبتک اس کے متعلق معرفت نہ ہو۔ یقینا سمجھو کہ محبت بدُوں معرفت کے محال ہے جو محبوب ہے اس کی معرفت کے بغیر محبت کیا؟ یہ ایک خیالی بات ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو ایک عاجز انسان کو خدا سمجھ لیتے ہیں۔ بھلا وہ خدا میں کیا لذت پاسکتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں کہ حضرت مسیح ؑ کو خدا بنارہے ہیں۔ اور اس پر خدامحبت ہے۔ خدا محبت ہے پکارتے پھرتے ہیں۔ اُن کی محبت حقیقی محبت نہیں ہوسکتی۔ ایک ادعائی اور خیالی محبت ہے جب کہ خداتعالیٰ کی بابت ان کو سچی معرفت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
محبت الہٰی کے ذرائع
عقیدہ کی تصحیح۔ نیک صحبت۔ معرفت۔صبروحُسنِ ظن۔دُعا
پس سب سے پہلے پھر یہ ضروری ہے کہ اول تصحیح عقیدہ کرے۔ ہندو کچھ اور پیش کرتے ہیں۔ عیسائی کچھ اور ہی دکھاتے ہیں۔ چینی کسی اور کو خدا پیش کرتے ہیں۔ مُسلمانوں کا وہی خدا ہے جس کو انہوں نے قرآن کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جب تک اس کو شناخت نہ کیا جائے، خدا کے ساتھ کوئی تعلق اور محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ نرے دعوے سے کچھ نہیں بنتا۔ پس جب عقیدہ کی تصحیح ہوجاوے تو دُوسرا مرحلہ یہ ہے کہ نیک صُحبت میں رہ کر اس معرفت کو ترقی دی جاوے اور دُعا کے ذریعہ بصیرت مانگی جاوے۔ جس جس قدر معرف اور بصیرت بڑھتی جاوے گی۔ اسی قدر محبت میں ترقی ہوتی جائے گی۔ یادرکھنا چاہیے کہ محبت بدوں معرفت کے ترقی پذیر نہیں ہوسکتی۔انسان ٹین یالوہے کے ساتھ اس قدر محبت نہیں کرت جس قدرتانبے کے ساتھ کرتا ہے۔ پھر تانبے کو اس قدر عزیز نہیں رکھتا جتنا چاندی کو رکھتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ اس کو ایک معرفت ان دھاتوں کے بابت ملتی ہے جو اس کی محبت کو بڑھاتی ہے۔ پس اصل بات یہی ہے کہ محبت میں ترقی اورقدروقیمت میں زیادتی کی وجہ معرفت ہی ہے۔ اس سے بیشتر کہ انسان سرور اور لذت کا خواہشمند ہو اس کو ضرور ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے، لیکن سب سے ضروری امر جس پر ان سب باتوں کی بنیاد رکھی جاتی ے۔ وہ صبر اور حُسنِ ظن ہے۔ جب تک ایک حیران کردینے والا صبر نہ ہو۔ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جب انسان محض حق جوئی کے لئے تھکانہ دینے والے صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور مجاہدہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق اس برہدایت کی راہ کھول دیتا ہے۔ والذین جاھدو افینا لنھدینہم سبلنا۔(العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہوکر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں۔ آخر ہم ان کی اپنی راہوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ اُن پر دروازے کھولے جاتے ہیں۔ یہ سچی بات ہے۔کو جو دڈھونڈتے ہیں وہ پاتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا۔
اے خواجہ دردنیست وگرنہ طبیب ہست
خداجوئی کے آداب ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کھڑا کھڑا بات کرکے چل دیتا ہے، وہ گویا خداسے ہنسی کرتا ہے۔ یہ خدا جوئی کا طریق نہیں ہے۔اور نہ
اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا قانون مقرر کیا ہے۔ پس اول شرط خدا جوئی کے لئے سچی طلب ہے۔ دوسری صبر کے ساتھ اس طلب میں لگے رہنا ۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر تجربہ بڑھتا جاتا ہے۔ پھر معرفت کے لئے زیادہ دیر تک صحبت میں رہنا ضروری ہوا یا نہیں؟ مَیں نے بہت سے آدمی دیکھے ہیں جو اپنی اوائل عمر میں دُنیا کو ترک کرتے اور چیختے اورچلاتے ہیں۔ آخر اُن کا انجام یہ دیکھا گیا کہ وہ دُنیا میں منہمک پائے گئے اور دُنیا کے کیڑے بن گئے دیکھو بعض درختوں کو سنیر و پھل لگا کرتے ہیں۔ جیسے شہتوت کے درخت کو عارضی طور پر ایک پھل لگتا ہے۔ آخر وہ سارے کا سار اگر جاتاہے۔ اس کے بعد اصل پھل آتا ہے۔ اسی طرح پر خدا جوئی بھی عارضی طور پر اندر پیدا ہوتی ہے۔ اگر صبر اور حسنِ ظن کے ساتھ صدق قدم نہ دکھایا جاوے ، تو وہ عارضی جوش ایک وقت میں آکر یہی نہیں کہ فروہوجاتا ہے، بلکہ ہمیشہ کے لئے دل سے محو ہوجاتا ہے اور دُنیا کا کیڑا بنادیتا ہے، لیکن اگر صدق و ثبات سے کام لیا جاوے تو اس عارضی جوش اور حق جوئی کی پیاس کے بعد واقعی اور حقیقی طور پر ایک طلب اور خواہش پید اہوتی ہے جو دن بدن ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی راہ میں اگر مشکلات اور مصائب کا پہاڑ بھی آجائے تو وہ کچھ بھی پروا نہیں کرتا اور قدم آگے ہی بڑھاتا جاتا ہے۔ پس وہ انسان جو اس جوش اور خواہش کے وقت صبر سے کام لے اور سمجھ لے کہ اس کو آخر عمر تک نبھانا ہے۔ وہ بہت ہی خوش طالع ہوتا ہے اور جو چند تجرے کرکے رہ جاتا ہے اور تھک کر بیٹھ رہتاہے تو اس کے ہاتھ میں صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ وُہ کہتاپھرتا ہے کہ مَیں نے بہت سے باتونی دیکھے اور دوکاندار پائے ایک بھی حق نُما اور خدا نُما نہ ملا۔
پس میری تو یہ نصیحت ہے۔ مَیں نہیں جانتا(کہ ہر ایک جو میرے پاس آتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خدا کے لئے آیا ہے اور خد اکو پانا چاہتا ہے) اُس کا کیا حال ہے۔ اس کی نیت کیسی ہے۔ مگر مَیں اتنا ضرورکہتاہوں کہ جو اللہ تعالیٰ کی تلاش میں قدم اُٹھاوے۔ سب سے اول اس کو لازم ہے کہ تصحیح عقائدکرلے۔یہ معلوم کرے کہ کس خدا کو وہ پانا چاہتا ہے۔ آیا اس خدا کی تلاش میں وہ ہے جو واقعی دُنیا کا خالق اور مالک خدا ہے اور جو تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں اورنقائص سے مبرا ہے۔ یا کسی عورت کے بچے خدا کی تلا ش میں ہے یا اور ایسے ہی کمزور اور ناتواں ۳۳کروڑ خدائوں کا جو یا ہے، کیونکہ اگر اصلی محبوب اور مقصود کنارے پر ہی پڑا رہے، تو سمندر میں غوطہ زنی سے کیا حاصل؟
مَیں مثال کے طور پر کہتاہوں مثلاً عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اسی طرح پر جس طرح عام انسان پیدا ہوتے ہیں اور کھاتا پیتاہگتا موتتا رہا۔ وہ خدا ہے۔ اب یہ تو ممکن ہے کہ ایک شخص کو اس سے محبت ہو، لیکن انسان دانش یہ کبھی تجویز نہیں کرتی کہ ایسا کمزور اور ناتواں انسان خدابھی ہوتا ہے۔ یا یہ کہ عورتوں کے پیٹ سے بھی خدا پیدا ہوا کرتے ہیں۔ جب کہ پہلا ہی قدم باطل پر پڑا ہے، تو دُوسرے قدم کی حق پر پڑنے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے۔جوشعاعیں زندہ خدا کامِل صفات سے موصوف خدا کو مان کر دل پرپڑتی ہیں۔ وُہ ایک مرنے والی ہستی ، ضُعف و ناتوانی کی تصویر پرستی سے کہاں؟؟؟
الطالب لا مذھب لہ طالب کوتوسارے تعصب اور عقیدے چھوڑ دینے چاہیں۔پھروہ سچے عقائد کی طلب میں لگے۔ تب بہتری کی اُمید ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے بنیادی اینٹ خدا ہونی چاہیے۔ تب آخری اینٹ بھی خدا ہی ہوگی۔ جلد بازی اچھی چیز ہیں ہے۔ یہ عموماً بدقسمت انسان کی محرومی کا موجب ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ ہماری صحبت میں نہ رہیں اور چلے جائیں اور دوچار باتیں بھی کہدیں کہ وہاں کیا تھا، کچھ نہ ملا، تو بتایئے ہمارا اس میں کیا نقصان ہوگا۔ دُنیا میں اس قسم کی باتیں کرنے والے بہت ہیں، لیکن محروم وبدقسمت ۔ دیکھو اقلیدس کی چند اشکال اگر ایک بچے کے سامنے رکھ دیں۔ ممکن ہے وہ بعض اشکال کو پسند کرے، لیکن اُن اشکال کی پسندیدگی ایسی نفع بخش تو نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ وہ ان کے نتائج سے بے خبر ہے اور نہیں جانتا کہ اُن سے کیا کیا فوائد پہنچ سکتے ہیں۔
میں نے اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھے بھی ہیں اور ان اعتراضوں کو جمع بھی کیا ہے جو اسلام پر کیے جاتے ہیں میں سچ کہتاہوں کہ جہاں ان ناواقفوں نے اعتراض کیا ہے وہیں حکمت کا خزانہ اور پیش بہا معارف اور حقائق کا دفینہ ہوتا ہے۔ ا کے ہاتھ میں بجز نادانی اور کورچشمی کے اور کچھ نہیں ہے۔ اعتراض کرکے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ تاریک دماغ کے انسان ہیں اور کجر و طبیعت رکھتے ہیں؛ ورنہ وہ معارف اور حقائق کی معدن پر اعتراض نہ کرتے ،اس لیے مَیں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نرمی اور تحمل کے ساتھ اصل حقیقت کی طلب میں لگیں۔
آپ خداجوئی کے طالب ہیں۔ آپ کے لئے عمدہ طریق یہی ہے کہ آپ پہلے تصحیح عقائد کریں۔ جس سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ وُہ خدا جس کی تلاش اور جستجو آپ کوہے۔ ہے کیا چیز؟ ا س سے آپ کی معرفت کو ترقی ملے گی اور معرفت میں جو قوتِ جذب محبت کی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یک محبت پیداکرنے کا موجب ہو گی۔ بُدوں اس کے محبت کا دعویٰ سنیروپھل کی طرح ہے جو چند روز کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔
یہ آپ یادرکھیں اور ہمارامذہب یہی ہے کہ کسی شخص پرخدا کا نور نہیں چمک سکتا ، جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو۔ یہ سچی بات ہے ہ فضل آسمان سے آتا ہے۔ جب تک خود خدا اپنی روشنی اپنے طلبگار پر ظاہر نہ کرے ۔ اس کی رفتار ایک کیڑے کی مانند ہوتی ہے اور ہونی چاہیے، کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہواہوتا ہے، لیکن جب اس کی روشنی اس پر چمکتی ہے، تو اس کا دل و دماغ روشن ہوجاتا ہے اور وُہ نور سے معمور ہوکر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے۔
حق جُو: حضُور مَیں مذہب کا پابند نہیں ہوں۔
حضرت اقدس ؑ: اگر کوئی اپنی جگہ یہ فیصلہ کرکے آوے کہ مَیں نے کچھ ماننا ہی نہیں تو اس کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور کہیں بھی کیا۔ لیکن اگر کوئی عقل رکھتا ہے تو اضطراراً اس کو ایک راہ پیدا کرنی پڑتی ہے۔
مذہب کیا ہے؟ مذہب کیا ہے؟ وہی راہ ہے جس کو وہ اپے لیے اختیار کرتا ہے۔ مذہب تو ہر شخص کو رکھنا پڑتااور وہ لامذہب انسان جو خدا کو نہیں مانتا اس کو بھی ایک راہ اختیار کرنی
لازمی ہے۔ اور وہی مذہب ہے۔مگر ہاں امر غور طلب یہ ہونا چاہیے کہ جس راہ کو اختیار کیا ہے،کیا وہ راہ وہی ہے جس پر چل کر اس کو سچی استقامت اور دائمی راحت اور خوشی اور ختم نہ ہونے والا اطمینان مل سکتا ہے؟
دیکھو!مذہب تو ایک عام لفظ ہے۔اس کے معنے چلنے کی جگہ یعنی راہ کے ہیں اور یہ دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ہر قسم کے علوم وفنون طبقات الارض ، طبعی ، طباعبت ، ہیئت وغیرہ میں بھی ان علوم کے ماہرین کا ایک مذہب ہوتا ہے۔ اس سے کسی کو چارہ ہوسکتا نہیں۔ یہ تو انسان کے لئے لازمی امر ہے۔ اس سے باہر ہونہیں سکتا۔ پس جیسے انسان کی رُوح جسم کو چاہتی ہے۔ معافی الفاظ اور پیرا یہ کو چاہتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو مزہب کی ضرورت ہے۔ ہماری یہ غرض نہیں ہے اور نہ ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ کوئی اللہ کہے یا گاڈ کہے یا پرمیشر ۔ ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جس کو وہ پکارتا ہے۔ اس نے اس کوسمجھاکیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ کوئی نام لو، مگر یہ بتائو کہ تم اسے کہتے کیا ہو؟ اس کے صفات تم نے کیا قائم کئے ہیں؟ صفاتِ الہٰی کا مسئلہ ہی تو بڑا مسئلہ ہے۔ جس پر غور کرنا چاہیے۔
حق جو: مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب کا کام فطرت کو دُرست کرنا ہے۔
حضرت اقدس ؑ:اس وقت کوئی بادشاہ ہے ۔مثلاً شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم ہے۔ اب اگر کسی اور کو کہیں بھی توتکلفات سے کہیں گے ، مگر ہو نہیں سکتا۔ ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ اس حقیقی خدا کی شناخت کیا جاوے اور باقی سب تکلفات چھوڑدیئے جائیں ، اس کا نام فطرت کی درستی ہے۔
اسلام کا دین فطرت ہے اسلام ہے کیا؟اسلام کاتو نام ہی اللہ تعالیٰ نے فطرت اللہ رکھا ہے۔ فطرتی مذہب اسلام ہی ہے۔ مگر ان باتوںکی حقیقت کب کھلتی
ہے۔ جب انسان صبر اور ثابت قدمی کے ستھ کسی پاک صُحبت میں رہے۔ ثابت قدمی میں بڑی برکتیں ہوتی ہیں۔ شہد ہی کی مکھی کو دیکھو کہ جب وہ ثابت قدمی اور محنت کے ساتھ اپنے کام میں لگتی ہے۔ تو شہد جیسی نفیس اور کارآمد شے تیارکرلیتی ہے۔ اسی طرح پر جو خدا کی تلاش میں استقلال سے لگتا ہے وہ اسکو پالیت اہے۔ نہ صرف پالیتا ہے، بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ وہ اُس کو دیکھ لیتا ہے۔ ارضی علوم کی تحصیل مٰں کس قدر وقت اور روپیہ صرف کرنا پڑتا ہے۔ یہ علوم روحانی علوم کی تحصیل کے قواعد کو صاف طور پر بتارہے ہیں۔ ہمارا مذہب جوروحانی علوم کے مبتدی کے لئے ہوناچاہیے۔ یہ ہے کہ وہ پہلے خدا کی ہستی ، پھر اس کی صفات کی واقفیت پیدا کرے ایسی واقفیت جو یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے۔ تب اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی صفاتِ کاملہ پر اس کو اطلاع مل جاوے گی اور اس کی رُوح اندر سے بول اُٹھے گی کہ پورے اطمینان کے ساتھ اُس نے خدا کو پالیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایسا ایمان پیدا ہوجاوے کہ وُہ یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے اور انسان محسوس کرلے کہ اس نے گویا خدا کو دیکھ لیا ہے اور اس کی صفات سے واقفیت حاصل ہوجاوے ، تو گناہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور طبیعت جو پہلے گناہ کی طرف جھکتی تھی اب ادھرسے ہٹتی اور نفرت کرتی ہے اور یہی توبہ ہے۔
اور یہ بات کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد طبیعت گناہ سے متنفر ہوجاتی ہے۔ یہ بات آسانی اور صفائی سے سمجھ میں آسکتی ہے دیکھو سنکھیا ہے یا اور زہریں ہیں بعض زہریلے جانور ہیں۔ انسان اُن سے کیوں ڈرتاہے؟ صرف اس لیے کہ تجربہ نے بتادیا ہے کہ اس درجہ پر یہ ذہر ہلاک کردیتے ہیں۔ بہتوں کو زہر کھاکر ہلاک ہوتے دیکھا ہے، اسی لیے طبیعت اس طرف نہیں جاسکتی ، بلکہ ڈرتی ہے۔ جب کہ یہ بات ہے پھر کیا وجہ ہے کہ قسم قسم کے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔یہانتک کہ اگر راستہ میںایک پیسہ پرا ہوا ہو تو جھک کر اس کو اُٹھالے گا؛ حالانکہ تھوڑے سے اعلان سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ پیسہ کس کا ہے۔ مَیں نے دیکھاہے کہ بارہ بارہ آنے پر معصُوم بچوں کی جانیں لی جاتی ہیں۔ عدالتوں میں جاکر دیکھو۔ کس قدر خوفناک اور تاریک نظارہ نظرآئے گا۔ تھوڑی تھوڑی بات پر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ فسق وفجور کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ خدا پر ایمان نہیں ہے۔ سانپوں اور زہروں سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے کہ اُن کو مہلک مانتے ہیں اور اُن کے خطرناک ہونے پر ایمان ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہوت ومَیں نہیں سمجھتا کہ کیوں گناہ سے نفرت پیدا نہ ہو۔
نیکی کے دوپہلو انسان کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ بدی سے بچے اور نیکی کی طرف دوڑے۔ اور نیکی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک ترک شر دوسرا فاجہِ خیر۔ ترکِ شر سے انسان
کامل نہیں بن سکتا۔ جب تک اس کے ساتھ افاضۂ خیر نہ ہو۔ یعنی دوسروں کو نفع بھی پہنچائے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر تبدیلی کی ہے اور یہ مدارج تب حاصل ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی صفات پر ایمان ہواور اُن کا علم ہو۔ جب تک یہ بات نہ ہو۔ انسان بدیوں سے بھی بچ نہیں سکتا۔ دُوسروں کو نفع پہنچانا تو بڑی بات ہے۔ بادشاہوں کے رُعب اور تعزیرات ِ ہند سے بھی تو ایک حد تک ڈرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے پھر کیوں احکم الحاکمین کے قوانین کی خلاف ورزی میں دلیری پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس کی کوئی اور وجہ ہے بجز اس کے کہ اُس پر ایمان نہیں ہے؟ یہی ایک باعث ہے۔
الغرض بدیوں سے بچنے کا مرحلہ تب طے ہوتاہے۔ جب خداپر ایمان ہو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہوناچاہیے کہ اُن راہوں کی تلاش کرے جو خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے اختیار کیں۔ وہ ایک ہی راہ ہے جس پر جس قدر راستباز اور برگزیدہ انسان دنیا میں چل کر خداتعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔ اس راہ کا پتہ یوں لگتا ہے کہ انسان معلوم کرے کہ خداتعالیٰ نے اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ پہلا مرحلہ بدیوں سے بچنے کا تو خداتعالیٰ کی جلالی صفات کی تجلی سے حاصل ہوتا ہے کہ وہ بدکاروں کا دشمن ہے۔
اور دوسرا مرتبہ خداتعالیٰ کی جمالی تجلی سے ملتا ہے اور آخر یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوت اور طاقت نہ ملے جس کو اسلامی اصطلاح کے موافق رُوح القُدس کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایک قوت ہوتی ہے، جو خداتعالیٰ کی طرف سیملتی ہے۔ اُس کے نزول کے ساتھ ہی دل میں ایک سکینت آتی ہے اور طبیعت میں نیکی کے ساتھ ایک محبت اور پیار پیدا ہوجاتا ہے۔
جس نیکی کو دوسرے لوگ بڑی مشقت اور بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ ایک لذت اور سُرور کے ساتھ اس کو کرنے کی طرف دوڑتا ہے۔ جیسے لذیذ چیز بچہ بھی شوق سے کھالیتا ہے۔ اسی طرح جب خداتعالیٰ سے تعلق ہوجاتا ہے اور اس کی پاک رُوح اس پر اُترتی ہے۔ پھر نیکیاں ایک لذیذ اور خوشبو دار شربت کی طرح ہوتی ہیں۔ وُہ خوبصورتی جو نیکیوں کے اندر موجود ہے اس کو نظر آنے لگتی ہے اور بے اختیار ہوہوکر ان کی طرف دوڑتا ہے۔ بدی کے تصور سے بھی اُس کی رُوح کانپ جاتی ہے
یہ اُمور اس قسم کے ہیں کہ ہم اُن کو الفاظ کے پیرایہ میں پورے طور سے ادا نہیں کرسکتے ، کیونکہ یہ قلب کی حالتیں ہوتی ہیں۔ محسوس کرنے سے ہی اُن کا ٹھیک پتہ لگتا ہے۔ اس وقت تازہ بتازہ اَنوار اس کو ملتے ہیں۔
رقتِ قلب انسان صرف اس بات پر ہی ناز نہ کرے اور اپنی ترقی کی انتہا اسی کو نہ سمجھ لے کہ کبھی کبھی اس کے اندر رقت پید اہوجاتی ہے۔ یہ رقت عارضی ہوتی ہے۔ انسان اکثر دفعہ ناول
پڑھتا ہے اور اس کے درد انگیز حصہ پر پہنچ کربے اختیار روپڑتا ہے؛ حالانکہ وہ صاف جانتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی اور فرضی کہانی ہے۔ پس اگر محض روپڑنا یا رقت کا پید اہوجانا ہی حقیقی سُرور اور لذت کی جڑ ہوتی ہے۔ تو آج یورپ سے بڑھ کرکوئی بھی رُوحانی لذت حاصل کرنے والا نہ ہوتا۔ کیونکہ ہزار ہا ناول شائع ہوتے اور لاکھوں کروڑوں انسان پڑھ کر روتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک بات موجود ہے کہ ہنسی کے مقام پر ہنس پڑتا ہے اور رونے کے مقام پر رو بھی پڑتا ہے اور اُن سے مناسب موقع پر ایک لذت بھی اُٹھاتا ہے، مگر یہ لذت کوئی روحانی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ کوئی کسی عورت پر عاشق ہوجاتا ہے اور اپنے فسق ہی میں اُس کے ہجر کے شعر بنابناکر کوش ہوتا ہے اور روا ہے۔ انسان کے اندر ایک طاقت ہے خواہ اُس کو محل پر استعمال کرے یا بے محل۔ پس اس طاقت پر ہی بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت اس لیے رکھی ہے کہ سچے سائل محروم نہ ہوں اور جب یہ برمحل استعمال ہو، تو ان کے لئے آنے والے رُوحانی مدارج کا ایک مقدمہ ہو اور یہ قویٰ کاکام دے۔
غرض یہ اُمور کہ کبھی روپڑنا اور کبھی دُنیا کی دُوسری چیزوں اور تعلقات سے انقطاع کرنا یہ عارضی ہوتے ہیں۔ اُن پر اعتبار کرکے بے دست و پانہ بنے۔
سچی معرفت کی بنیاد وُہ امور جن پر سچی معرفت کی بنا ہے، یہ ہیں کہ وہ خد اکی راہ میں اگر باربار آزمایا جائے اور مصائب اور مشکلات کے دریا میں ڈالا جائے۔تب بھی ہر گز
نہ گھبرائے۔ اور قدم آگے ہی بڑھائے۔ اس کے بعد اُس کی معرفت کا انکشاف ہوتا ہے اور یہی سچی نعمت حقیقی راحت ہوتی ہے۔ اس وقت دل میں رِقت پیدا ہوتی ہے، مگر یہ رقت عارضی نہیں ہوتی،بلکہ سُرور اور لذت سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ رُوح پانی کے ایک مصفیٰ چشمہ کی طرح خدا کی طرف بہتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ سمندر کے پہلے ایک سراب آتا ہے، وہ بھی سمندر ہی نظر آتا ہے۔ جو سراب کو دھوکا سمجھ کر آگے چلنے سے رہ جاتا اور مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے وہ ناکام اور نامراد رہتا ہے، لیکن جو ہمت نہیں ہارتا اور قدم آگے بڑھاتا ہے، وہ منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے مختلف کیفتیں انسانی روح کے اندر رکھی ہوئی ہیں۔ اُن میں سے اس رقت کی بھی ایک کیفیت ہے۔ کوئی فقط شعر خوانی یا خوش الحانی ہی سے متاثر ہوجاتا ہے۔ کوئی آگے چلتا ہے اور ان پر قانع نہ ہوکر صبر کے ساتھ اصل مرحلہ تک پہنچتا ہے۔ یہ یادرکھو کہ سچائی کے طالب کے واسطے یہ شرط ہے کہ جہاں سے اسے سچائی ملے لے لے۔ یہ ایک نور ہے جو اس کی رہبری کرتاہے۔ اس وقت دُنیا میں ایک کشاکش شروع ہے۔ آریہ اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ برہمو الگ بُلاتے ہیں۔ دیو سماج والے اپنی طرف دعوت کرتے ہیں۔ عیسائی ہیں وہ عیسائیت ہی کو پیش کرتے ہیں۔ غرض ہر قوم اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اُن کے درمیان اختلاف کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوتا جاتا ہے۔
ہماری دعوت۔ خدا کی تلاش
مگرہم جس بات کی دعوت کرتے ہیں اور جو کسی سچائی کے طلبگار کو بتلاسکتے ہیں وُہ خدا کی تلاش کرے۔ مثلاًآریہ ہیں وہ تمام
قدوسوں اورراستبازوں کو گالیں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیگ سچے اور سچار پریمی اور بھگت بھی کبھی نجات نہیں پاسکتا ان کے اُصول کے موافق خدا نے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اب بتائو کہ ایسے پرمیشر پر جو وہ پیش کرتے ہیں کسی سچے طالب کی امید کیونکہ وسیع ہوسکتی ہے اور کیونکر خدا کا جلال اور شوکت اُس کی روح پر ایک وقت پیدا کرکے گناہ کی طرف جانے سے بچا سکتی ہے۔ جب وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے تو میرے وجود کا ایک ذرہ بھی پید انہیں کیا پھر جب یہ مانا گیا کہ دید کے سوا خدا نے کسی اور ملک کو اپنے کلام سے فیض ہی نہیں بخشا، تو کس قدر مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ الغرض ہماری نصیحت تو یہی ہے کہ جو سچائی کی تلاش میں قدم رکھتا ہے اس کی غرض اور غایت خد اکی تلاش ہو۔ پھر معارف اور حقائق کا دریا بہہ نکلتا ہے۔ جب اس کو سچے خد اپر جو ایک ہی خدا ہے سچا ایمان پیداہوجائے۔
حقائق اور معارف کا تعلق علُوم سے ہے یارکھو حقائق اور معارف کا تعلق علوم سے ہے۔ جس قدر معرفت وسیع ہوگی، حقائق کھلتے جائیں
گے۔پس تحقیقات کرتے وقت دل کو بالکل پاک اور صاف کرکے کرے۔ جس قدر دل تعصب اور خود غرضی سے پاک ہو گا، اسی قدر جلد اصل مطلب سمجھ میں آجائے گا۔ نور اور ظلمت میں جو فرق ہے اسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی جانت اہے۔ سچی اور صحیح بات ایک ہی ہوتی ہے۔ پس دو لفظوں میںمیری ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا خط دو نقطوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ اُمور ہیں جو قابلِ غور ہیں۔ آپ یہاں رہیں اور صبر واستقلال سے ٹھہریں۔ خد اکے فضل سے کچھ بعید نہیں ہے کہ آپ کو اس راہ کا پتہ ملے جو کروڑ ہا مقدس انسانوں کا تجربہ شدہ ہے اور اب بھی جس کے تجرے کارموجود ہیں۔‘‘
حق جُو کا حضرت اقدس ؑ سے خلوص وعقیدت کا اظہار حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تقریر کو یہاں ختم کیا۔حق
جُوصاحبکچھ عرصہ تک قادیان میں رہے۔ انہوں نے حضرت اقدس کی صحبت میں رہ کر جو فائدہ اُٹھایا ۔ اُس کے اظہار کے لئے ہم اُن کے ایک خط کو بھی اُنہوں نے لاہور سے ہمارے نام بھیجا ہے یہاں درج کرتے ہیں:
مکری جناب شیخ صاحب ۔تسلیم
میری بے اَدبی معاف فرمادیں ۔مَیں قادیان سے اچانک کچھ وجوہاتھ رکھنے پر چلا آیا۔ مَیں اب یہاں سوچوں گا کہ مجھے اپنی زندگی پر لوک کے لئے کس پہلو میں گذارنی ہے۔ مَیں آپ کی جماعت کی جُدائی سے تکلیف محسوس کررہا ہوں۔
(۲) مَیں حضرت جی کے اخلاص کا حددرجہ مشکور ہوں اور جو کچھ رُوحانی دان مجھے نصیب ہوا اور جو کچھ مجھ پر ظاہر ہوا۔ اُس کے لئے نہایت ہی مشکور ہورہا ہوں۔مگر افسوس ہے دنیا میں سخت اندھکار ہے اور مَیں ایک ایک قدم پر گررہا ہوں۔ سوائے صُحبت کے اس حالت کو قائم رکھنامیرے لئے کٹھن ودشوار ہے۔
(۳) اس بات پر میر ایقین ہے کہ بے شک حضرت صاحب رُوحانی بھلائی کے طالبوں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہیں اور ان کی صحبت میں مستقل طور پر رہنا بڑا ضروری ہے۔ دُنیا کی حالت یاسی ہے کہ موتیوں کو کیچڑ میں پھینکتے ہیں اورکوڑیاں جمع کرتے ہیں اور جو شخص موتی سنبھالنے لگے اس کے سر پر مٹی پھینک دیتے ہیں۔ہائے افسوس کہ وہ کوڑیوں کو بھی موتی سمجھے بیٹھے ہیں۔ مَیں سخت گھبرا ہوا ہوں۔ ہاں میں کیا کرو اور کدھر جائوں۔ میری حالت بہت بُری ہے۔ تمام جماعت کی خدمت میں آداب ۔خصوصاً حضرت صاحب کی خدمت میں مودبانہ آداب عرض فرماویں اور میرے لیے حضرت صاحب اور تمام جماعت سے دُعا کروایں۔
آپ کا نیاز مند
وزیرسنگھ
یہ خط حضرت اقدس ؑ کے حضور پڑھ کر سنایا گیا۔حضور علیہ السلام نے ایڈیٹر الحکم کو مندرجہ ذیل جواب لکھ دینے کا حکم دیا:
’’صبراوراستقلال کے ساتھ جب تک کوئی ہماری صحبت میں نہ رہے ، وُہ فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ ان کو چاہیے کہ وُہ یہاں آجائیں اور ایک عرصہ تک ہمارے پاس رہیں۔‘‘
۷؍مارچ ۱۹۰۱؁ء
الہامات اور حدیث النفس میں امتیاز الہامات کے متعلق ذکر تھا کہ اس میں بہت مشکلات پڑتے ہیں ۔ فرمایا:
بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القاء کو الہام الہٰی سے تمیز نہیں کرسکتے اور دھوکا کھاجاتے ہیں ۔ خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پُرشوکت اور لذیذ ہوتی ہے۔ دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے۔ وُہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا ہم وزن کوئی نہیں وہ فولاد کی طرح گرنے والی ہوتی ہے۔جیساکہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ انا سنلقی علیک قولا ً ثقیلاً۔ ثقیل کے یہی معنی ہیں، مگر شیطان اور نفس کا اتقا ایسا نہیں ہوتا۔ حدیث النفس اور شیطان گویا ایک ہی ہیں۔ انسان کے ساتھ دو قوتیں ہمیشہ لگی ہوئی ہیں۔ ایک فرشتے اور دوسرے شیطان۔ گویا اس کی ٹانگوں میں دو رستے پڑے ہوئے ہیں۔ فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدددیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے ایدھم بروج منہ اور شیطان بدی کی طرف ترغیب دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے یوسوس ان دونوں کا انکار نہیںہوسکتا۔ ظلمت اور نور ہر دوساتھ لگے ہوئے ہیں۔ عدمِ علم سے عدمِ شے ثابت نہیں ہوسکتا۔ ماسوائے اس عالم کے اور ہزاروں عجائبات ہیں۔ گولایدرک ہوں۔ قل اعوذ برب الناس میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں ڈال رہا ہے۔ بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی جائیں۔ جیساکہ امیرلوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے والے ہیں۔
شیطانی وساوس کا علاج اس واسطے حقیقی رب الناس کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا۔ پھر دُنیوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختارِ مطلق کہنے لگ جاتا ہے۔اس پر فرمایا
کہ مالک الناس اللہ ہی ہے۔ پھر لوگوں کے وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیں اوران سے خوف و رجا رکھتے ہیں۔ اس واسطے الہٰ الناس فرمایا۔ یہ تین وساوس ہیں۔ ان کے دُور کرنے کے واسطے یہ تین تعویذ ہیں اور ان وساوس کے ڈالنے والا وہی خناس ہے، جس کا نام توریت میں زبانِ عبرانی کے اندر ناحاش آیا ہے جو حوا کے پاس آیا تھا۔ چھپ کر حملہ کرے گا، تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔ جیسا کہ پادریوں کا حملہ ہوتا ہے۔ یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوا کے پاس گیا ہو۔ بلکہ جیسا کہ اب چھُپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کرگیا تھا۔ کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھردیتا ہے اور وُہ اُس کا قائم مقام ہوجاتا ہے۔ کسی ایسے مخالفِ دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی اور وُہ بہشت جس میں حضر ت آدم ؑ رہتے تھے، وہ بھی زمین پر ہی تھا۔ کسی بدنے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا۔ قرآن شریف کی پہلی ہی سورت میں جو اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ مغضوبب علیہم اور ضالین لوگوں میں سے نہ بننا یعنی اے مسلمانو! تم یہود اور نصاریٰ کے خصائل کو اختیار نہ کرنا ۔ اس میں سے بھی ایک پیشگوئی نکلتی ہے کہ بعض مسلمان ایسا کریں گے ۔ یعنی ایک زمانہ آوے گا کہ ان میں سے بعض یہود اور نصاریٰ کے خصائل اختیار کریں گے۔ کیونکہ حکم ہمیشہ ایسے امر کے متعلق دیا جاتا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے بعض لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
قرآن خاص وحی ہے فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سار اکلام وحی ہوتا تھا۔مگر قرآن شریف
ایک خاص وحی ہوتا۔ وُہ ایک نور ہوتا۔‘‘
۱۰؍مارچ ۱۹۰۱؁ء
مشکلات کا واحد حل ایک شخص نے اپنی بعض مشکلات کے حل کے واسطے دُعا کے لئے عرض کی۔ فرمایا:
’’دُعاکریں گے۔‘‘
وُہ شخص اپنے کاموں میں شاید کسی اور پر بھروسہ رکھتا تھا۔ اس پر فرمایا:’’ انسان پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔‘‘
صرف خد اپر بھروسہ کرو۔جب انسان پر بھروسہ کروگے ۔ تب ہی خالی رہو گے۔ اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اسلام یہی ہے کہ صرف خدا کے لئے ہو جائو۔ پھر سارے مشکلات حل ہوجاتے ہیں۔‘‘ فرمایا:
’’خداتعالیٰ کا جلال اسی طرح ظاہر ہوتا ہے کہ دُنیا سے شرک کو دور کیا جائے، کیونکہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی نسبت خدا نے کہا ہے کہ یہ بخشا نہیں جائے گا۔ اس وقت بڑا شرک یہی ہے کہ مسیح ؑ کو خدابنایا جاتا ہے۔‘‘
فرمایا:
سورۂ اخلاص میں فتنہ ٔ نصاریٰ کاردّ ’’چونکہ نصاریٰ کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک سورۃ قرآن شریف کی تو ساری کی ساری
صرف ان کے متعلق خاص کردی ہے۔ یعنی سورۂ اخلاص اور کوئی سورۃ ساری کی ساری کسی قوم کے واسطے خاص نہیں ہے۔ احدخدا کا اسم ہے اور احد کے مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے۔ صمد کے معنی ہیں ازل سے غنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو۔ اقنومِ ثلٰثہ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے۔‘‘
۱۱؍مارچ ۱۹۰۱؁ء
’’ساری خوشیاں ایمان کے ساتھ ہیں‘‘۔ ؎۲
۲۱؍مارچ ۱۹۰۱؁ء
وجد وسُرور کا رُوحانیت سے تعلق نہیں فرمایا:
’’بعض انسانوں کو دیکھو گے کہ کافیاں اورشعرسن
کر وجد وطرب میں آجاتے ہیں ، مگر جب مثلاً ان کو کسی شہادت کیلئے بلایا جائے، تو عذر کریں گے کہ ہمیں معاف رکھو۔ ہمیں تو فریقین سے تعلق ہے۔ ہمیں اس معاملہ میں داخل نہ کرو۔ پس سچائی کا اظہار نہ کریں گے۔ ایسے لوگوں کے وجدوسرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ۔ جب کسی ابتلاء میں آجاتے ہیں، تو اپنی صداقت کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ اُن کا وجدوسرور قابلِ تعریف نہیں۔ یہ وجد وسُرور ایک عارضی چیز اور طبعی امر ہے۔ بعض مُنکرینِ اسلام جن کو تمام پاکبازوں سے دلی عداوت ہے۔ وُہ بھی اس سُرور سے حصہ لیتے ہیں ۔ ایک متعصب ہندو مثنوی مولوی رُومی رحمۃ اللہ علیہ پڑھ کر سرور حاصل کرتا تھا؛ حالانکہ وہ دشمن اسلام تھا کیا تم سانپ کو پاکباز مانو گے، جو بانسری سن کر سرور میں آجاتا ہے یا اُونٹ کو خدا رسیدہ قراردوگے جو خوش الحانی سے نشہ میں آجاتا ہے۔سچائی کا کمال جس سے خدا خوش ہوتا ہے وُہ یہ ہے ہ انسان خداتعالیٰ کے ساتھ اپنی وفاداری دکھائے۔ ایسے انسان کا تھوڑا عمل بھی دوسرے کے بہت عمل سے بہتر ہے۔مثلاً ایک شخص کے دو نوکر ہیں۔ ایک نوکر دن میں کئی دفعہ اپنے مالک کی خدمت میں آکر سلام کرتا ہے اور ہر وقت اس کے گرد پیش رہتا ہے۔ دوسرا اس کے پاس بہت کم آتا ہے، مگر مالک پہلے کو بہت قلیل تنخواہ دیت اہے اور دُوسرے کو بہت زیادہ۔ اس لیے کہ وُہ جانتا ہے کہ دُوسرا ضرورت کے وقت اُس پر جان بھی دینے کے لئے تیار ہے اور وفادار ہے اور پہلا کسی کے بہکانے سے مجھے قتل کرنے پر بھی آمادہ ہوجائے گا۔ یا کم از کم مجھے چھوڑ کر کسی دُوسرے کی ملازمت اختیار کرلے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خداتعالیٰ سے وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا، مگر پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے اور اشراق تک بھی پڑھتا ہے بلکہ کئی ایک اَوراد بھی تجویز کئے ہوئے ہیں، تووُہ خداتعالیٰ کی نظر میں ایک وفادار انسان سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، کیونکہ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ ابتلاء کے وقت وفاداری نہیں دکھلائے گا۔ جب انسان وفاداری اختیار کرے گا، تو سرور لازمی طور پر اس کو حاصل ہوجائے گا۔ جیسا کہ کھانا آتا ہے، تو دستر خوان بھی ساتھ آجاتاہے۔ مگر یادرکھنا چاہیے کہ کاملوں پر بھی بعض قبض کے وقت آجاتے ہیں، کیونکہ قبض کے وقت انسان کو سرور کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور اس کو زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے۔‘‘فرمایا:
دوسرے کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کی جائے ’’انسان دوسرے شخص کی دل کی ماہیت معلوم نہیں کر
سکتا اور اس کے قلب کے مخفی گوشوں تک اس کی نظر نہیں پہنچ سکتی ، اس لیے دُوسرے شخص کی نسبت جلدی سے کوئی رائے نہ لگائے، بلکہ صبر سے انتظار کرے۔ ایک شخص کاذکر ہے کہ اس نے خداتعالیٰ سے عہدکیا کہ مَیں سب کو اپنے سے بہترسمجھوں گا اور کسی کو اپنے سے کمتر خیال نہیں کروں گا۔اپنے محبوب کو راضی کرنے کے لئے انسان ایسی تجویزیں سوچتے رہتے ہیں۔ ایک دن اس نے ایک دریا کے پل کے پاس جہاں سے بہت آدمی گذررہے تھے ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور اس کے پہلو میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی ۔ ایک بوتل اس شخص کے ہاتھ میں تھی۔آپ پیتا تھا اور اُس عورت کو بھی پلاتا تھا۔ اُس نے اس پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ مَیں اس بے حیا سے تو ضرور بہترہوں۔ اتنے میں ایک کشتی آئی اور معہ سواریوں کے ڈوب گئی۔وہی شخص جو عورت کے پاس بیٹھا تھا، دریا میں سے سوائے ایک کے سب کو نکال لایا اور اس بدظن سے کہا کہ تُو مجھ پر بدظنی کرتا تھا۔ سب کو میں نکال لایا ہوں، ایک کو تو نکال لا۔ خدا نے مجھے تیرے امتحان کے لئے بھیجا تھا اور تیرے دل کے ارادہ سے مجھے اطلاع دی۔ یہ عورت میری والدہ ہے اوربوتل میں شراب نہیں دریا کا پانی ہے۔ غرض انسان دوسرے کی نسبت جلد رائے نہ لگائے۔
۳۱؍مارچ ۱۹۰۱؁ء
تقریرحضرت اقدس ؑ
بعثت مُرسلین کے متعلق خداتعالیٰ کی ازلی سُنت ’’سب صاحب اس بات کو سُن لیں کہ چونکہ ہماری یہ سب کاروائی خداہی
کے لیے ہے۔ وہ اس غفلت کے زمانہ میں اپنی حجت پوری کرنا چاہتا ہے جیسے ہمیشہ انبیاء علہیم السلام کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ زمین پر تاریکی پھیل گئی ہے تو وہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو سمجھاوے اور قانون کے موافق حجت پوری کرے۔ اس لیے زمانہ میں جب حالات بدل جاتے ہیں اور خداتعالیٰ سے تعلق نہیں رہتا۔ سمجھ کم ہوجاتی ہے۔ اس وقت خداتعالیٰ اپنے کسی بندہ کو مامور کردیتاہے تاکہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائے اور یہی بڑا نشان اس کے مامور ہونے پر ہوتا ہے کہ وہ لغو طور پر نہیں آتا ہے ۔ بلکہ تمام ضرورتیں اس کے وجود پر شہادت دیتی ہیں۔ جیسے ہمارے پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا اعتقادی اورعملی حالت بالکل خراب ہوگئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ظھرالفساد فی البروالبحر۔(الروم:۴۲) اس فساد عظیم کے وقت خداتعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کرکے بھیجا۔ جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوگئی۔ مخلوق پرستی کی بجائے خداتعالیٰ پوجا گیا۔ بداعمالیوں کی بجائے اعمالِ صالحہ نظر آنے لگے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں بھی دُنیا کی اعتقادی ور عملی حالت بگڑ گئی ہے اور اندرونی اور بیرونی حالت انتہاء تک خطرناک ہوگئی ہے۔ اندرونی حالت ایسی خراب ہوگئی ہے کہ قرآن تو پڑھتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا پڑھتے ہیں۔ اعتقاد بھی کتاب اللہ کے برخلاف ہوگئے ہیں اور اعمال بھی ۔ مولوی بھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور عوام بھی،مگر تدبرنہ کرنے میں دونوں برابر ہیں۔ اگر غور کرتے تو بات کیسی صاف تھی۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مثیلِ موسیٰ ؑ پیدا کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ پیداکرتا ہے پھر جب اس سلسلہ پر ایک دراز عرصہ گذرنے کے بعد ایک قسم کا پردہ سا چھا جاتاہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں اور سلسلہ اسی رنگ میں قائم کرتا ہے۔
قرآن شریف میں دو سلسلوں کا پتہ لگتا ہے۔اول بنی اسرائیل کا سلسلہ جو موسیٰ ؑسے شروع ہو ااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوگیا؛ چونکہ یہودگی بداعمالیاں آخری حد تک تک پہنچ گئی تھیں اور اُن میں یہاں تک شقادت اور سنگدلی پید اہوگئی تھی کہ وُہ انبیاء کے قتل تک مستعد ہوئے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غضب کی راہ سے اس سلسلہ کو جس میں ملوک اور انبیاء ؑ تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ پر ختم کردیا۔
مسیح ؑ کی بے باپ ولادت نشان ہے مَیں ہمیشہ سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بے باپ پیدا ہوئے تھے۔ اور ان
کا بے باپ پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرطِ تقویٰ نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہوگی، لیکن جب تقویٰ نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تاکہ دانشمند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہوگا۔ غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔ پہلی کتابوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھاکہ بنی اسماعیل میں بھی ایک سلسلہ اسی سلسلہ کا ہمرنگ پیدا ہوگا اور اس کے امام و پیشوا اور سردر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ توریت میں بھی یہ خبر دی گئی تھی۔ قرآن شریف میں بھی فرمایا ۔ کما ارسلنا الی فعرو رسولاً۔ (المزمل:۱۶) جیسے توریت میں مانند کا لفظ تھا۔ قرآن شریف میں کما لا لفظ موجود ہے۔
آں حضرت ؐ مثیل موسیٰ ؑ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالاتفاق مچیل موسیٰ ؑ ہیں۔ سورۃ نور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمدیہ موسویہ سلسلہ کا
مثیل ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا۔ لم نقصص (المومن :۷۹) کہہ دیا ۔ یہاں بھی سلسلہ محمدیہ میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں لیا۔ جیسے وہاں ابتدا اور انتہاء بتائی ، یہاں بھی یہ بتادیا کہ ابتدامثیل موسیٰ ؑ سے ہوگی اور انتہا مثیل عیسیٰ ؑ پر ۔گویا خاتم الخلفاء وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میںمسیح موعود کہتے ہیں۔ موعود اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا وعدہ کیاگیا ہے۔
آیت استخلاف میںمسیح موعود کی پیشگوئی وعداللہ الذین امنو امنکم وعملواالصلحت (النور:۵۶)میں خلفاء کے تقرر کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ
نے کیا تھا، اسی وعدہ میں وُہ خاتم الخلفاء بھی شامل ہے۔ اورنصِ قرآن سے ثابت ہوا کہ وہ موعود ہے۔ جو خط ایک نقطہ سے شروع ہو گا وہ ختم بھی ایک نقطہ پر ہی ہو گا۔پس جیسے وہاں کاتم مسیح ہے،یہاں بھی خاتم الخلفاء ہے۔اس لئے یہ اعتقاد اسی قسم کا ہے کہ اگر کوئی انکار کرے کہ اس امت میں مسیح موعود نہ ہو گا وہ قرآن سے انکار کرتا ہے اور اس کا ایمان جاتا رہے گا ۔اور یہ بالکل واضح بات ہے ۔اس میں تکلف اور بناوٹ کا نام نہیں ہے۔پھر جو شک وشبہ وہ قرآن شریف کو چھوڑتا ہے۔
سورۃ فاتحہ میں منعمین کاذکر اللہ تعالیٰ نے ا س کو کئی سورتوں میں بیان کردیا ہے۔ اول تو یہی سورۂ نور۔ دُوسری سورۂ فاتحہ جس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔
اس سورۃ میں تین گزشتہ فرقے پیش کیے ہیں۔ ایک وہ جو انعمت علیہم کے مصداق ہیں۔ دُوسرے مغضوب، تیسرے ضالین ۔ مغضوب سے یہ مخصوصاً مراد نہیں کہ قیامت میں ہی غضب ہوگا۔ کیونکہ کتاب اللہ کو چھوڑتا اور احکامِ الہٰی کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان سب پر غضب ہوگا۔ مغضوب سے مراد بالاتفاق یہود مراد ہیں اور الضالین سے نصاریٰ۔ اب اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ منعم علیہ فرقہ میں داخل ہونے اور باقی دو سے بچنے کے لئے دُعاہے اور یہ سنت اللہ ٹھہری ہوئی ہے۔ جب سے نبوت کی بنیادڈالی گئی ہے۔ خداتعالیٰ نے ی قانون مقررکررکھا ہے کہ جب وہ کسی قوم کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے، تو بعض اس کی تعمیل کرنے اور بعض خلاف ورزی کرنے والے ضرور ہوتے ہیں۔ پس بعض منعم علیہ بعض مغضوب اور بعض ضالین ضرور ہوں گے۔
اب زمانہ بآواز بلند کہتا ہے کہ اس سورۃ شریف کے موافق ترتیب آخر سے شروع ہوگئی ہے۔ آخری فرقہ نصاریٰ کا رکھا ہے۔ اب دیکھو کہ اس میں کس قدر لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ ایک بشپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ بیس لاکھ مسلمان مرتد ہوچکے ہیں اور یہ قوم جس زور شور کے ساتھ نکلی ہے اور جو جو جو طریق اُس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے اختیار کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان فتنہ نہیں ہے۔ اب دیکھو کہ تین باتوں میں سے ایک تو ظاہر ہوگئی ۔ پھر دوسری قوم مغضوب ہے۔ مجھے معلوم ہوت اہے کہ اس کا وقت بھی آگیا اور وہ بھی پورا ہورہا ہے۔ یہودیوں پر غضب الہٰی اس دُنیا میں بھی بھڑکا اور طاعون نے اُن کو تباہ کیا۔ اب اپنی بدکاریوں اور فسق وفجور کی وجہ سے طاعون بکثرت پھیل رہی ہے۔ کتمانِ حق سے وہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں۔ نہیں ڈرتے ۔ اب ان دونوں کے پور اہونے سے تیسرے کا پتہ صاف ملت اہے۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب چار میں سے تین معلوم ہوں، تو چوتھی شے معلوم کرلیتا ہے اور اس پر اس کو اُمید ہوجاتی ہے۔ نصاریٰ میں لاکھوں داخل ہوگئے ۔ مغضوب میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ منعم علیہ کا نمونہ بھی اب خدادکھانا چاہتاہے، جب کہ سورۃ فاتحہ میں دعا تھی اور سورۂ نور میں وعدہ کیا گیا ہے۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نور میں دُعا قبول ہوگئی ہے۔ غرض اب تیسرا حصہ منعم علیہ کا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس کو روشن طور پر ظاہر کردے گا اور یہ خداتعالیٰ کا کام ہے ، جو ہوکررہے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ انسان کو ثواب میں داخل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ استحقاق جنت کاثابت کرلیں۔ جیسا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںہوا۔ خداتعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ صحابہ کے بدوں ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرقسم کی فتوحات عطافرماتا، مگر نہیں خدا نے صحابہ کو شامل کرلیا تاکہ وہ مقبول ٹھہریں۔ اس سنت کے موافق یہ بات ہماری جماعت کو پیش آگئی ہے کہ بار بار تکلیف دی جاتی ہے اور چندے مانگے جاتے ہیں۔
ہمارے دو ضروری کام اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو، دُوسرے یورپ پر اتمامِ حجت کریں۔عرب پر اس لئے
کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں۔ ایک بہت بڑاحصہ ایساہوگا کہ اُن کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اُن کو پہنچائیں۔ اگر نہ پہنچائیں تو معصیت ہوگئی۔ ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ اُن کی غلطیاں ظاہرکی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بناکر خد ا سے دُور جاپڑے ہیں۔ یورپ کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ واقعی اخلد الی الارض کا مصداق ہوگیا ہے۔ طرح طرح کی ایجادیں صنعتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے تعجب مت کرو کہ یورپ ارضی علوم وفنون میں ترقی کررہا ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب آسمانی علوم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، تو پھر زمین ہی کی باتیں سُوجھا کرتی ہیں۔ یہ کبھی ثابت نہیںہوا کہ نبی کلیں بھی بنایا کرتے تھے۔ یا اُن کی ساری کوششیں اور ہمتیں ارضی ایجادات کی انتہا ہوتی تھیں۔
ایک قرآنی پیشگوئی کا ظہور آج جو اخرجت الارض اتقالہا کا زمانہ ہے۔ یہ مسیح موعود ہی کے وقت کے لیے مخصوص تھا؛ چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجادیں
اور نئی کانیں نکل رہی ہیں۔ ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے۔ میرے نزدیک طاعون بھی اسی میں داخل ہے۔ اس کی جڑ زمین میں ہے۔پہلا اثر چوہوں پر ہوتا ہے۔ غرض اس وقت زمینی علوم کمال تک پہنچ رہے ہیں۔ توہین اسلام کی حد ہوچکی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس پچاس ساٹھ سال میں جس قدر کتابیں، اخبار، رسالے توہین اسلام میں شائع ہوئے ہیں، کبھی ہوئے تھے؟ پس جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے ، تو کوئی مومن نہیں بنتا۔ جب تک کہ اس کے دل میں غیرت نہ ہو۔ بے غیرت آدمی دیوث ہوتا ہے۔
عبادت محبت ہی کا دوسر انام ہے اگر اسلام کی عزت کے لئے دل میں محبت نہیں ہے، توعبادت بھی بے سُود ہے، کیونکہ عبادت محبت ہی
کا دوسرا نام ہے۔ وہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جس پر کوئی سلطان نازل نہیں ہوا، وہ سب مشرک ہیں۔ سلطان تسلط سے لیا گیا ہے جو دل پر تسلط کرے اس لیے یہاں دلیل کا لفظ نہیں لکھا ہے۔
عبادت کیا ہے۔ جب انتہادرجہ کی محبت کرتاہے ۔جب انتہادرجہ کی اُمید ہو۔ انتہادرجہ کا خوف ہو۔یہ سب عبادت میں داخل ہے۔ غیر اللہ کی عبادت کا اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے۔ نہیں ۔ بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں۔ اگر کوئی مال سے انتہاء درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے۔خدا کابندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حدِ اعتدال تک رعایت کرتا ہے۔ اسلام میں محبت واُمید منع نہیں ہے، مگر ایک حد تک۔
اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمادیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اُسی سے ڈرتے اسی سے اُمید رکھتے ہیں۔ وُہ ایک سلطان رکھتے ہیں، لیکن جو نفس کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے۔ جو محکم طور پر دل کو پکڑے ۔ غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو جب تک وہ خدائی سلطان کا پیرو نہ ہو۔ شرک کرت اہے۔ پس ہم جو اپنی کاروائی کی دو طور پر اشاعت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اوراس سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہوسکتا کہ کس قدر سچے جوش اور خالصتہً اللہ اس کو پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اتفاق نہیں ہوا کہ انگریزی میں لکھ پڑھ سکتے۔ اگر ایس اہوت اتو ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کو تکلیف نہ دیتے، مگر اس میں مصلحت یہ تھی کہ تادوسروں کو ثواب کے لیے بلائیں؛ ورنہ میری طبیعت تو ایسی واقع ہوئی ہے کہ جو کام مَیں خود کر سکتا ہوں۔ اُس کے لئے کسی دوسرے کو کبھی کہتا ہی نہیں۔ اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چار برس زندگی پاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوجاتے۔دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ فتح عظیم جس کا آپؐ کے ساتھ وعدہ تھا، حاصل کرچکے تھے۔ رأیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا (النصر:۳) دیکھ چکے تھے۔ الیوم اکملت لکم (المائدہ:۴) ہوچکا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اُن کو محروم رکھے، بلکہ یہی چاہا کہ اُن کو بھی ثواب میں داخل کردے۔ اسی طرح پر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم کو اس قدر خزانے دے دیتا کہ ہم کو پروا بھی نہ رہتی۔ مگر خداثواب میں داخل کرتا ہے، جس کو وہ چاہتا ہے۔ یہ سب جو بیٹھے ہیں یہ قبریں ہی سمجھو،کیونکہ آخرمرنا ہے۔ پس ثواب حاصل کرنے کا وقت ہے۔مَیں ان باتوں کو جوخُدا نے میرے دل پر ڈالی ہیں۔سادہ اورصاف الفاظ میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ثواب کے لیے مستعد ہو جائو اور یہ بھی مت سمجھو ہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے، تو کچھ کم ہوجاوے گا۔خداتعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پوری ہوجائیں گی۔ من یعمل مثقال ذرۃ خیرآیرہ (الزلزال:۸)
یادرکھو۔ خدا کی توفیق کے بغیر دین کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ جوشخص دین کی خدمت کے واسطے شرح صدر سے اُٹھتا ہے۔ خدا اس کو ضائع نہیں کرتا۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ ایک پہلو تو مَیں کررہا ہوں، دُوسرے پہلو کو ہماری انگریزی خواں جماعت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے یہ تجویز کی ہے کہ تجارت کے طریق پر یہ کام جاری ہوجائے۔ دین کی اشاعت ہوجائے گی اور اُن کا کوئی حَرج نہ ہوگا۔ اُمید ہے کہ خدا اس کا اَجر دے گا۔
مَیںیہ صرف اپنی جماعت کے ارادوں کا ترجمہ کرتا ہوں۔ میرا منشاء تو اسی حد تک ہے کہ کسی طرح عرب اور دوسرے ملکوںمیں تبلیغ ہوجائے۔ یہ اُنہوں نے اپنی دانست میں سہل طریق مقرر کیا ہے جس کو تجارتی طریق پر سمجھ لیا جائے۔ تجارت کے اُمورظن غالب ہی پر چلتے ہیں۔ بہرحال یہ اُن کا ارادہ ہے۔ میرے نزدیک جہاں تک یہ امر مذہب سے تعلق رکھتا ہے، تو مَیں اس کی حماقت کرتا ہوں ۔ اگر یہ تجویز عمل میں نہ بھی آئے تب بھی یہ کام تو ہوجائے گا۔ بہر حال آپ غور کرلیں۔ اللہ تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے۔‘‘
یکم اپریل ۱۹۰۱؁ء
معرفت اور بصیرت ’’اکثر لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہم سے یہ سوال کیا اور ہم اس کا جواب نہ دے سکے۔ ایسی حالت میں انسان کچھ مذبذب اور کمزور ہو
جاتا ہے۔ یادرکھو۔ آئے دن وساوس میں پڑنا ناقص معرفت کا نتیجہ ہوتاہے۔معرفت اور بصیرت تو ایسی شے ہے کہ انسان فرشتوں سے مصافحہ کرلیتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ معرفت جیسی کوئی طاقت نہیں ہے۔پرندے کہاں تک اُڑ کر جاتے ہیں،لیکن معرفت والا انسان اُن سے بھی آگے نکل جاتا ہے اور بہت دُورپہنچ جاتا ہے پس اصل مدعا یہی ہے کہ ہمیں وہ یقین حاصل کرنا چاہیے جو اطمینان کے درجہ تک پہنچادیتا ہے۔ بدُوں اس کے انسان بالکل اُدھورااور ناقص ہے اور اس کی ترقی کے دروازے بند ہیں۔
مامورمن اللہ کی صحبت ضروری ہے ہماری جماعت کے لئے یہ امر ضروری پڑا ہوا ہے کہ وہ اپنے وقتوں میں کچھ وقت نکال کر آئیں اور یہاں
صحبت میں رہ کر اس غفلت کی تلافی کریں جو غیبوبت کے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے اور اُن شبہات کودور کریں جو اس غفلت کا باعث ہوتے ہیں۔ اُن کا حق ہے کہ وُہ اُن کو پیش کریں اور اُن کا جواب ہم سے سنیں۔ بھلا اگر کمزور بچہ جو ابھی دودھ پینے اور ماں کے کنارِ عطفت کا محتاج ہے۔ اس سے الگ کردیا جائے تو تم اُمید کرسکتے ہو کہ وُہ بچ رہے گا۔ کبھی نہیں۔ اسی طرح بلوغ سے پیشتر کے کمال اور معرفت کا حال ہے۔ انسان کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے۔ مامور من اللہ کی صحبت اس کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اگر وُہ اس سے الگ ہوجائے ، تو اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتاہے۔
مرکز میں باربارآنے کی ضرورت درحقیقت یہ ایک بہت ہی ضروری امر ہے۔ اگر خداتعالیٰ کسی کو توفیق دے اور وہ اس کوسمجھ لے کہ بار بار آنے
کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس سے یہی نہ ہوگا کہ وہ اپنے نفس کو فائدہ پہنچائے گا، بلکہ بہتوں کوفائدہ پہنچا سکے گا، کیونکہ جب تک خود ایک معرفت اور بصیرت پیدا نہ ہو وُہ دوسروں کو کیا راہ بتائے گا۔ یہی وجہ ہوتی ہے۔ کہ بعض شریرالطبع لوگ ایسے آدمیوں کو جن کو بار بار آنے کی عادت نہیںکوئی سوال کرتے ہیں؛ چونکہ انہوں نے جوابات سُنے ہوئے نہیں ہوتے اور ساکت ہوکر نہ صرف خود خفت اُٹھاتے ہیں، بلکہ دُوسروں کے لئے جو دیکھنے سُننے والے ہوتے ہیں۔ ٹھوکر کا موجب ہوجاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان مغلوب ہوجاتا ہے ،تو وُہ غالب کے اثر سے بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ بسااوقات اُس کے دل کو وُہ اثر سیاہ کردیتا ہے اور پھر قاعدہ کے موافق وہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُسی میں اُس کو موت آجائے، تو وُہ جہنم میںداخل ہوا۔ ان ساری باتوں پر غور کرکے ایک دانشمند اس نتیجہ پر ضرور پہنچے گا کہ اس بات کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ان زہروں کے دُور کرنے کے واسطے جو روح کو تباہ کرتی ہیں۔ کسی تریاقی صحبت کی ضرورت ہے۔ جہاں رہ کر انسان مہلکات کا علم بھی حاصل کرتا ہے اور نجات دینے والی چیزوں کو معرفت بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی واسطے ایک عرصہ سے میرے دل میں یہ بات ہے اور مَیں سوچتا ہوں کہ اپنی جماعت کا امتحان سوالات کے ذریعہ سے لُوں؛ چنانچہ مَیں نے اس تجویز کا کئی بار ذکر بھی کیا ہے؛ اگرچہ ابھی مجھے موقعہ نہیں ملا۔ لیکن یہ بات میرے دل میں ہمیشہ رہتی ہے کہ ایک بار سوالات کے ذریعہ آزماکر دیکھوں کہ جو کچھ ہم پیش کرتے ہیں ا سکے متعلق ان کو کہاں تک علم ہے اور انہوں نے ہمارے مقاصد اور اغراض کو کہاں تک سمجھا ہے۔ اور جو اعتراض اندرونی یا بیرونی طور پر کیے جاتے ہیں اُن کی مدافعت کہاں تک کرسکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی بھی ایسے نکل آویں جن کے نفس منور ہوجاویں اور پوری بصیرت اور معرفت کی روشنی انہیں مل جائے تو وُہ بہت کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔
 
Top