• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلِّی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود

ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۳ ؍ نومبر۱۹۰۱ء
فرمایاـ:’’ ایک ضروری اورغور طلب سوال ہے جس کو کل دنیا کی قوموں اور سب مذہبوں نے اپنی اپنی جگہ پر محسوس کیا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان کیوںکر بچ سکتا ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہر انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح نفس بے قابو ہو جاتا ہے اور مختلف قسم کے خیالات فاسدہ بدکاری کے آ آ کر اس کو گھیر لیتے ہیں۔ ان گناہوں سے بچنے کے واسطے ہر قوم نے کوئی نہ کوئی ذریعہ قرار دیا ہے اور کوئی حیلہ نکالا ہے۔ عیسائیوں نے اس عام ضرورت اور سوال سے فائدہ اٹھا کر ایک حیلہ پیش کیا ہے کہ مسیح کا خون نجات ہے۔
سب سے اول یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نجات ہے کیا چیز؟ نجات کی حقیقت تو یہی ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جاوے اور فاسقانہ خیالات آ آ کر دل کو سیاہ کرتے ہیں۔ان کا سلسلہ بند ہو کر سچی پاکیزگی پیدا ہو۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے گناہ سے بچنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر نجات طلب لوگوں کے سامنے یہ پیش کر دیا کہ مسیح کا خون ہی ہے جو گناہوں سے بچا سکتا ہے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر مسیح کا خون یا کفارہ انسان کو گناہوں سے بچا سکتا ہے تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کفارہ میں اور گناہوں سے بچنے میں کوئی رشتہ بھی ہے یا نہیں ؟ جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں باہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں مثلاً اگر ایک مریض کسی طبیب کے پاس آوے تو طبیب اس کا علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہدے تو میری کتاب کا جز لکھ دے تیرا علاج یہی ہے تو کون عقلمند اس علاج کو قبول کرے گا۔ پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کونسا رشتہ ہے، یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہو اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کر اپنے سر پر پتھر مار لے اور اس کے درد سر کا اسے علاج تجویز کر لے۔یہ کیسی ہنسی کی بات ہے پس ہمیں کوئی بتا دے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے کیا پیش کیا کیا ہے ۔جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے گناہوں کا علاج کیا؟ یسوع کی خود کشی میں جس گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے کوئی حقیقی رشتہ بھی نہیں۔ہم بارہا حیران ہوتے ہیں کہ حصرت مسیح کو یہ سوجھی کیا؟ جو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے آپ صلیب اختیار کی اگر وہ اس صلیب کی موت سے ( جو *** تک لے جاتی ہے اور عیسائیوں کے قول اور اعتقاد کے موافق کفارے کے لئے *** ہوجانا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہوں کی سزا ہے) اپنے آپ کو بچاتے اور کسی معقول طریق پر بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے تو وہ اس خود کشی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہ ہوتا۔
غرض کفارہ کے ابطال پر یہ زبردست دلیل ہے اور کفارہ میں باہم کوئی رشتہ نہیں۔پھر دوسری دلیل اس کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ کفارہ نے اس فطری خواہش کہ گناہوں سے انسان بچ جاوے کہاں تک پورا کیا ہے اس کا جواب صاف ہے کہ کچھ بھی نہیں چونکہ تعلق کوئی نہ تھا اس لئے کفارہ گناہوں کے اس جوش او رسیلاب کو روک نہ سکا اگر کفارہ میں گناہوں سے بچانے کی کوئی تاثیر ہوتی تو ، تو یورپ کے مرد و عورت گناہوں سے ضرور بچے رہتے ہر قسم کے گناہ یورپ کے خواص و عوام میں پائے جاتے ہیں اگر کسی کو شک ہو تو وہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں میں جا کر دیکھ لے کیا ہوتا ہے زنا کی کثرت خوف دلاتی ہے کہ کہیں زنا کے جواز کا ہی فتوی نہ ہو جاوے گو عملی طور پر تو نظر آتا ہے کہ ۔ شراب کا استعمال اس قدر کثرت سے بڑھتا جاتا ہے کہ کچھ روز ہوئے ایک عورت نے کسی ہوٹل میں پینے کو پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ پانی تو برتن دھونے یا نہانے وغیرہ کے کام آتا ہے پینے کے لئے تو شراب ہی ہوتی ہے پس اب غور کر کے دیکھو کہ گناہ کے سیلاب کو روکنے کے واسطے خون مسیح کا بندتو کافی نہیں ہوا بلکہ اپنی رو میں اس نے پہلے بندوں کو بھی توڑ دیا اور پوری آزادی اور اباحت کے قریب پہنچا دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفارہ تو بیشک گناہوں سے بچا نہیں سکتا مگر کیا کوئی اور طریق ہے ہے بھی جس سے انسان گناہوں سے بچ جاوے ؟ میں کہتا ہوں کہ ہاںعلاج ہے اور ضرور ہے اور وہ علاج یقینی علاج ہے مگر جیسے سچی باتوں کے ساتھ مشکلات ہوتی ہیں ویسے ہی یہ علاج بھی مشکلات سے خالی نہیں۔ یہ یاد رکھو کہ جھوٹ کے ساتھ مشکلات نہیں ہوتی ہیں، مثلاً ایک کیمیا گر جو یہ کہتا ہے کہ میں ایک دم ایک ہزار کا دو ہزار بنا دیتا ہوں وہ مشکلات اس فعل کے لئے نہیں رکھتا لیکن ایک زمیندار کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یا ایک تاجر کو اپنے مال کو کس طرح خطرہ میں ڈالنا پڑتا ہے ایسا ہی ایک ملازم قسم قسم کی پابندیوں اور ماتحتیوں کے نیچے آ کر کن مشکلات میں ہے پس تم سہل باتوں سے ڈرو جو پھونک مار کر سب کچھ ہٹا دینا چاہتے ہیں وہ خطرنا ک عیار ہیں۔
میرا مطلب ہے کہ عیسائیوں کا گناہ کا علاج تو بجز اباحت کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔عیسائی باش ہر چہ خواہی کن۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کے اعتقاد کی وجہ سے دہریت کی رگ پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے اور جس قدر سم الفار کی مہلک تاثیر کی ہیبت اس کو کھانے سے باز رکھتی ہے اس کی قدر بھی خدا کی ہیبت اس کو نافرمانی سے نہیں روکتی۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خدا کی عظمت ، اس کی ہیبت ، جلال اور اقتدار سے بے خبر ہے تب ہی تو نافرمانی اور سرکشی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور گناہ پر دلیر ہو جاتا ہیا ور نہیں ڈرتا ادنی درجہ کے حکام اور ان کی چپراسیوں تک کی نافرمانی سے اس کی جان گھٹ جاتی ہے، مگر خدا کی نافرمانی سے اس کے دل پر لرزہ نہیں پڑتا کیونکہ خدا شناسی کی معرفت اسے نہیں ملے گی۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کا علاج جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔سوا اس کے دوسرا علاج نہیں ہے اور وہ یہی ہے کہ خدا کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو ۔
تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کاملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ وہ بڑا قادر ہے وہ ذوالعذاب الشدید ہے یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر ایک بھسم کرنیو الی بجلی گراتا ہے پس جب تک انسان آمنت باللہ کی حدود سے نکل کر عرفت اللہ کی منزل پر قدم نہیں رکھتا اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پریقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارا روزانہ کا تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان سے ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً جب یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانش مند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک جانا بھی پسندکرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو ۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم ازکم تنہا جا سکے بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں۔پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر ہونے کا یقین پیدا نہ ہو،کوئی اور طریق خوا کسی کی خودکشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کر سکتا یقینا یاد رکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبا کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔ جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اورا س بات پر بھی ایمان لاتے ہیںکہ و ہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے۔ میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے نفس کا مغالطہ ہے سچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت سے جہاں سچی معرفت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں گناہ رہے۔
انسانی فطرت میں یہ خاصہ موجود ہے کہ سچی معرفت نقصان سے بچا لیتی ہے جیسا کہ سانپ یا شیر یا زہر کی مثال سے بتایا گیا ہے پھر یہ بات کیوں کر درست ہو سکتی ہے کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی دور نہ ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان فری میسنوں میں محض رعب کا سلسلہ ان کے اسرار کے اظہار سے روکتا ہے اور کچھ نہیں۔پھر خدا کی عظمت و جبروت پر ایمان گناہ سے نہیں بچا سکتا ؟بجا سکتا ہے اور اور ضرور بچا سکتا ہے ۔
پس گناہ سے بچنے کے لئے حقیقی راہ خدا کی تجلیات ہیں اورا س آنکھ کو پیدا کرنا شرط ہے جو خدا کی عظمت کو دیکھ لے اورا س یقین کی ضرورت ہے جو گناہ کے زہر پر پیدا ہو۔زمین سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آسمان اس تاریکی کو دور کرتا ہے اور ایک روشنی عطا کرتا ہے زمینی آنکھ بے نور ہوتی ہے جب تک آسمانی روشنی کا طلوع اور ظہور نہ ہو اس لئے جب تک آسمانی نور جو نشانات کے رنگ میں ملتا ہے کسی دل کو تاریکی سے نجات نہ دے انسان اس پاکیزگی کو کب پا سکتا ہے جو گناہ سے بچنے میں ملتی ہے پس گناہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش کرنی چاہئے جو یقین کی روشنی کے ساتھ آسمان سے اترتا ہے اور ایک ہمت ، قوت عطا کرتا ہے اور تمام قسم کے گردو غبار سے دل کو پاک کرتا ہے اسا وقت انسان گناہ کے زہر ناک اثرکو شناخت کر لیتا اورا س سے دور بھاگتا ہے جب تک یہ حاصل نہیں گناہوں سے بچنا محال ہے یہ طریق ہے جو ہم پیش کرتے ہیں اس پر اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو بے شک ہر شخص کو اجازت دیتے ہیںکہ وہ ہمارے سامنے اس اعتراض کو پیش کرے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی عیسائی کے سامنے اس اصل کو بیان کرے اور پھر اس کا کوئی اعتراض سن کر شرمندہ ہو۔ جو اعتراض اس پر ہو سکتا ہوبے شک کیا جاوے۔‘‘
فرمایا:’’بے شک یہ بات ہے جو کو میں خود بھی بیان کرنا چاہتا تھا ۔ یہ بات کہ ایسا یقین کیونکر پیدا ہو؟ اس کے لئے اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے یقین کے خواہش مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ’’
کونوا مع الصادقین(التوبۃ: ۱۱۹)
سے حصہ لے ۔ صادق سے صرف یہی مراد نہیںکہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے یہ بات تو بہت سے ہندؤوں اور ردہریوں میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات و قول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں گویا یہ کہو کہ اس کاوجود ہی صدق ہو گیا ہو اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لئے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات و سکنات ، افعال و اقوال میں خدائی کا نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے صحتِ نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کوہ اگر دہریہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ کہ صادق کا وجود خدانما وجود ہوتا ہے ۔
انسان اصل میں اُنْسَان سے ہے جو یعنی دو محبتوں کو مجموعہ ہے ایک انس وہ خدا سے کرتا ہے اور دوسرا انس انسان سے۔چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پاتا ہے اور دیکھتا ہے اور اپنی بنی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لئے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے وہ خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
انسان کے دراصل دو وجود ہوتے ہیں ایک وجود تو وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور جسے ہم تم سب دیکھتے ہیں، جسے لے کر وہ باہر آجاتا ہے اور یہ وجود بلاکسی فرق کے سب کوملتا ہے ،لیکن ایک اور وجود بھی انسان کو دیا جاتا ہے جو صادق کی صحبت میں تیار ہوتا ہے یہ وجود بظاہر ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اسے چھو کر یا ٹٹول کر دیکھ لیں مگر وہ ایسا وجود ہوتا ہے کہ اس وجود پر ایک قسم کی موت وارد ہو جاتی ہے وہ خیالات ،وہ افعال اور حرکات جو اس سے پہلے صادر ہوتے تھے یا دل میں گزرتے تھے یہ ان سے بالکل الگ ہو جاتا ہے اور شبہات سے جو اس کے دل کو تاریک کئے رہتے تھے ان سے اس کو نجات مل جاتی ہے او ریہی وجود حقیقی نجات ہوتی ہے جو سچی پاکیزگی کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ جب تک شبہات سے نجات نہیں اس کو تاریکی سے نجات نہیں اور سچی اس کو میسر نہیں ۔اور وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اس کی عظمت و ہیبت کا اس کے دل پر اثر نہیں ہو سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اور جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت کو بھی محروم ہی ہو گا جیسے کہ خدا نے خود فرمایا ہے:
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی( بنی اسرائیل:۷۳)
اس یہ یہ مراد تونہیں ہو سکتی کہ جواس دنیا میں اندھے ہیں وہ قیامت کو بھی اندھے ہوں گے بلکہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا کو ڈھونڈنے والوں کے دل نشانات سے ایسے منور کئے جاتے ہیں کہ وہ خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی عظمت و جبروت کا مشاہدہ کر تے ہیں یہاں تک کہ دنیا کی ساری عظمتیں اور بزرگیاں ان کی نگاہ میں ہیچ ہو جاتی ہے او راگر خدا کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس سے اس دنیا میں اس کو حصہ نہیں ملا توا س دوسرے عالم میں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
پس اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ ہے کسی غلطی کے بدوں شناخت کرنا اوراسی دنیا میں سچے اور صحیح طور پر اس کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کرنا ہی تمام روشنیوں اور تجلیات کی کلید ہے اسی سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو پہلے انسان کی گنہ گار حالت پر موت وارد کر تی ہے اوراس کو جلا دیتی ہے اور پھر اس کو وہ نور عطا کرتی ہے جو جس سے وہ گناہ کو شناخت کرتا اور اس کی زہر پر اطلاع پاکر اس سے ڈرتا اور دور بھاگتا ہے پس یہی وہ دوقسم کی آگ ہے جو ایک طرف گناہ کو جلاتی ہے اور دوسری طرف نیکیوں کی قدرت عطا کرتی ہے اور کا نام جلال او ر جمال کی آگ ہے کیونکہ گناہ سے تو جلالی رنگ اورہیبت ہی سے بچ سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میںہے اور مالک یوم الدین ہے تو انسان پر ایک ہیبت طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچا لے گی اور جمال نیکیوں کی طرف جذب کرتا ہے جب کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے تو بے اختیار ہو کر دل اس کی طرف کھینچا جائے گا اور ایک سرور او رلذت کے ساتھ نیکیوں کا صدور ہونے لگے گا ۔جیسے چاندی یا سونے کے صاف کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اسے کٹھالی میں ڈال کر خوب آگ روشن کی جاوے۔اس سے کا وہ سارا میل کچیل جو ملا ہوا ہوتا ہے فی الفور الگ ہو جاتا ہے اور پھر اسکو عمدہ اور خوبصورت زیور کی شکل میں لانے کے واسطے جو کسی حسین کے لئے بنایا جائے اس بات کی ضرورت ہے پھر آگ دے کر اسے مفید مطلب بنایا جائے۔
جب تک وہ ان دونوں آگوں کے بیچ میں رکھا نہ جاوے وہ خوبصورت اور درخشاں زیور کی شکل اختیار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح انسان جب تک جلالی اور جمالی آگ میں نہ ڈالا جائے وہ گناہ سوز فطرت لے کر نیک بننے کے قابل نہیں ہوتا۔
اس لئے پہلے گناہ جلایا جاتا ہے اور پھر جمالی آگ سے نیکی کی قوت عطا ہوتی ہے اورپھر فطرت میں ایک روشنی اور چمک آتی ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز بنا کر نیکی کی طرف جذب کرتی ہے ۔ اس وقت نیک پیدائش ملتی ہے۔سورۃ الدہر میں اس پیدائش کی حالت کا بیان کافوری اور زنجبیلی شربت کی مثال سے دیا ہے چنانچہ پہلے فرمایا
ان الأبراریشربون من کأ س کان مزاجہا کافورا(الدہر:۶)
یعنی مومن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ کافوری پیالے پیتے ہیں کافور کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کفرا ڈھانکنے کو کہتے ہیں ۔ اور کافور مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت ڈھانکنے والا ۔ایسے ہی طاعون بھی ہے ۔میں سمجھتا ہوں طاعون اس لئے نام رکھا ہے کہ یہ اہل حق پر طعن کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور طاعون اور دیگر امراض وبائی ہیضہ میں کافور ایک عمدہ چیز ہے اور مفید ثابت ہوئی ہے غرض کافوری پیالے کا پہلے ذکر کیا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اول یہ بتایا جائے کہ کامل ہونے کے لئے کافوری پیالہ پہلے پینا چاہئے تاکہ دنیا کی محبت سرد ہو جائے اور وہ فسق و فجور کے خیالات جودل سے پیدا ہوتے تھے اور جن کی زہر روح کو ہلاک کرتی تھی دبائے جائیں اور اس طرح پر گناہ کی حالت سے انسان نکل آئے پس چونکہ پہلے میل کچیل کا دور ہونا ضروری تھا اس لئے کافوری پیالہ پلایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا حصہ زنجبیلی ہے۔
زنجبیل اصل میں دو لفظوںسے مرکب ہے زنا اور جبل سے۔اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو ۔اور مرکب لفظ کے معنی یہ ہو ئے کہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور یہ صاف بات ہے کہ ایک زہریلے اور وبائی مرض کے بعد انسان کو اعلی درجہ کی صحت تک پہنچنے کے واسطے دو حالتوں میں سے گزرنا ہوتا ہے پہلی حالت وہ ہوتی ہے جب کہ زہریلے اور خطرناک مادے رک جاتے ہیں اور ان میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے اور زہریلے حملوں سے نجات ملتی ہے اور وہ مواد دبائے جاتے ہیں مگر اعضاء بدستور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قوت اور سکت نہیں ہوتی جس سے وہ کام کرنے کے قابل ہو ایک ربودگی کی سی حالت ہوتی ہے یہ وہ حالت ہوتی ہے کو جس کو کافوری پیالے پینے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس حالت میں گناہ کا زہر دبایا جاتا ہے اور اس جوش کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جو نفس کی سرکشی اور جوش کی حالت میں ہوتا ہے مگر ابھی نیکی کرنے کی قوت نہیں آتی۔
پس دوسری حالت جو زنجبیلی حالت ہے وہ وہی ہے جب کہ صحت کامل کے بعد توانائی اور طاقت آ جائے یہاں تک کہ پہاڑوں پر بھی چڑھ سکے۔اورزنجبیل بجائے خود حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ذکر سے بتایا کہ پہلے مومنوں کے گناہوں کی حالت پر موت آتی ہے اور پھر انہیں نیکی کی توفیق اور قوت ملتی ہے ۔ لیکن جب گناہوں پر موت آتی ہے تو وہ اس پستی کے گڑھے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جب تک اوپر چڑھنے کے لئے اسے زنجبیلی شربت نہ ملے پس نیکیوں کی توفیق عطا ہونے پر وہ پھر اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے کہ اور یہ پہاڑی گھاٹیاں وہی ہیں جو صراط الذین انعمت علیہم ( الفاتحہ:۷ ) میں بیان ہوئی ہیں۔خداتعالیٰ راست بازوں اور منعم علیہم کی راہہی وہ اصل مقصود ہے جوا نسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔
چونکہ خدا تعالیٰ واحد ہے اور وحدت کو پیار کرتا اس لئے سب کام وحدت کے ذریعہ کرتا ہے ۔وہ اگر چاہتا تو سب کو نبی بنا دیاتا مگر یہ امر وحدت کے خلاف تھا اس لئیے ایسا نہیں کیا تام ہم اس میں بخل بھی نہیں ہے ہر ایک شخص جو اس راہ کو اختیار کرنے کے ل ئے سچا مجاہدہ کرتا ہے وہ اس کا لطف اور ذوق اٹھا لیتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ امت میں ابدال ہوتے ہیں جن فطرت کو بدلا دیا جاتا ہے اور یہ تبدیلی اتباع سنت نبوی اور دعائوں سے ملتی ہے ۔
فرمایا:’’ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے ۔گناہ کی تعریف میں انہوں نے دھوکا کھایا ہے گناہ اصل میں جناح سے لیا گیا ہے اور ج کا تبادلہ گ سے کیا گیا ہے جیسے فارسی والے کر لیتے ہیں اور جناح عمدا کسی کی طرف میل کرنے کو کہتے ہیں پس گناہ ہے یہ مراد ہے کہ عمدا بدی کی طرف میل کی جاوے پس میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ حرکت سرزد ہو اور قرآن شریف میں اس کا ذکر بھی نہیں۔انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور اس لئے ناممکن ہے کہ عارفانہ حالت کے انتہائی مقام پر وہ ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ عارف بدی کی طرف میل کرے۔‘‘
فرمایا:’’عصی سے تو عمد نہیں پایا جاتا کیونکہ دوسری جگہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فنسی و لم یجد لہ عزما(طٰہٰٰ:۱۱۶)
عصی سے یاد آیا میرا ایک فقرہ ہے العصا علاج من عصی اس سے معلوم ہوتا کہ جلالی تجلیات سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے۔‘‘۱؎
۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء؁ بوقت سیر صبح ساڑھے آٹھ بجے
مسٹر ڈکسن سیاح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
حضرت اقدس :’’ ہماری دلی آرزو یہی ہے کہ آپ چند روز ہمارے پاس ٹھہریں ، تاکہ میں اسلام کی وہ روحانی فلاسفی جو اس زمانہ میں مخفی تھی اور جو خدا نے مجھے عطا کی ہے آپ کو سمجھائوں۔‘‘
مسٹر ڈکسن:’’میں آپ کا از بس ممنوں ہوں، مگر مجھے آج جانا ہی چاہئے میں نے کچھ کچھ سن لیا ہے۔‘‘
حضرت اقدس:’’ چونکہ آپ کو چلے جانا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ کچھ تو اپنے مقصد کو بیان کر دوں۔‘‘
انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنیکی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جوانہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں، نجات پائیں، حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے قریب آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتاناچاہتاہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں ،اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہ بری کرتا ہوں۔ دنیا میں لوگوں نے جسقدر طریقے اور حیلے گناہ سے بچنے کے لئے نکالے ہیں اور خدا کی شنا{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }خت کے جو اصول تجویز کئے ہیں۔وہ انسانی خیالات ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہیں اور محض خیالی باتیں ہیں جن میں سچائی کی کوئی روح نہیں ہے میں ابھی بتائوں گا اور دلائل سے واضح کروں گا کہ گناہوں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات پر کامل یقین انسان کو ہو جاوے کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے جب تک اس اصول پر یقین کامل نہ ہو گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں ہو سکتی دراصل خدا ہے اور ہونا چاہئے یہ دو لفظ ہیں جن میں بڑے غور اور فکر کی ضرورت ہے۔
پہلی بات کہ خدا ہے ، یہ علم الیقین بلکہ حق الیقین کی تہہ سے نکلتی ہے اور دسری بات قیاسی اور ظنی ہے مثلاً ایک شخص جو فلاسفر اور حکیم ہو وہ صرف نظام شمسی اور دیگر اجرام اور مصنوعات پر نظر کر کے صرف اتنا ہی کہہ دے کہ اس ترتیب محکم سے اور ابلغ نظام کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ ایک مدبر اور حکیم و علیم و صانع کی ضرورت ہے تو اس سے یقین کے اس درجہ پر ہرگز نہیں پہنچ سکتا جو ایک شخص خود اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اور اس کی تائیدات کے چمکتے ہوئے نشان اپنے ساتھ رکھ کر کہتا ہے کہ واقعی ایک قادر مطلق خدا ہے وہ معرفت اور بصیرت کی آنکھ سے اسے دیکھتا ہے اور ا ن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حکیم یا فلاسفر جو صرف قیاسی طور پر خدا کے وجود کا قائل ہے سچی پاکیزگی اور خدا ترسی کے کمال کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ نری ضرورت کا علم کبھی بھی اپنے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں رکھتا جو الہی رعب پیدا کر کے اسے گناہ کی طرف دوڑنے سے بچا لے اور تاریکی سے نجات دے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے مگر جو براہ راست خدا کا جلال آسمان سے مشاہدہ کرتا ہے وہ نیک کاموں اور وفاداری اور اخلاص کے لئے اس جلال کے ساتھ ہی اکی قوت اور روشنی پاتا ہے جو اسے بدیوں سے بچا لیتی اور تاریکی سے نجادیتی ہے اس کی بدی کی قوتیں اور نفسانی جذبات پر خداکے مکالمات اور پررعب مکاشفات سے ایک موت وارد ہوتی جاتی ہے اور وہ شیطانی زندگی سے نکل کر ملائکہ کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اشارے پر چلنے لگتا ہے جیسے ایک شخص آتش سوزندہ کے نیچے بد کاری نہیں کر سکتا اسی طرح جو شخص خدا کی تجلیات کے نیچے آتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے پس یہی وہ یقین اور معرفت ہوتی ہے جس کو انبیاء علیہم السلام آکر دنیا کو عطا کرتے ہیں جس کے ذریعہ وہ گناہ سے نجات پا کر پاک زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طریق پر خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور میرے آنے کی یہی غرض ہے کہ میں دنیا کو دکھا دوں کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے اور یہ بات کہ محض اس یقین ہی سے انسان پاک زندگی بسر کر سکتا ے اور گناہ کی موت سے بچ سکتا ہے ایسی صاف ہے جہ کے لئے ہم کو منطقی دلائل کی بھی ضرورت نہیں۔کیونکہ خود انسان کی فطرت اور روز مرہ کا تجربہ اور مشاہدہ اس کے لئے زبردست گواہ ہیں کہ جب تک یہ یقین کامل نہ ہو گا کہ خدا ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے اور سزا دیتا ہے کوئی اور حیلہ کسی صورت میں کارگر ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن اشیاء کی تاثیرات کی عمدگی کا ہم کو علم ہے ہم کیسے دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جاتے ہیں اور جن چیزوں کو اپنے وجود کے لئے خطرناک زہریں سمجھتے ہیں ان سے کیسے بھاگتے ہیں مثال کے طورپر دیکھوا س جھاڑی میں اگر ہمیں یقین ہو کہ سانپ ہے تو کیا کوئی بھی ہم میں سے ہو گا جو اس مین اپنا ہاتھ ڈالے یا قدم رکھ دے۔ ہرگز نہیں بلکہ اگر کسی بل میں سانپ کے ہونے کا معمولی وہم بھی ہو تو اس طرف گزرنے میں ہر وقت مضائقہ ہو گا طبیعت خود بخود اس طرف جانے سے رکے گی ایسا ہی زہروں کی بابت جب ہمیں علم پڑتا ہے مثلاً اسٹرکنیا ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مر جاتا ہے تو کیسے اس سے بچتے اور ڈرتے ہیں ایک محلہ میں طاعون ہو تو اس سے بھاگتے ہیں اور وہاں قدم رکھنا آتشیں تنور میں گرنا سمجھتے ہیں۔اب وہ بات کیا ہے جس نے دل میں خوف اور ہراس پیدا کیا ہے کہ کسی صورت میں بھی دل اس طرف ارادہ نہیں کرتا وہ وہی یقین ہے جو اس کی مہلک اور مضر تاثیرات پر ہو چکا ہے اس قسم کی بے شمار نظیریں ہم دے سکتے ہیں او ریہ ہماری زندگی میں روزمرہ پیش آتی ہیں۔
اب یہ بحثیں کہ گناہ سے بچنے کا یہ ذریعہ ہے یا یہ فلاں حیلہ ہے بالکل بے سود اور بے مطلب ہیں کیونکہ ج تک الہی تجلیات کے رعب اور گناہ کی زہریں اور اس کے خطرناک نتائج کا پورا علم نہ ہوایسا علم جو یقین کامل تک پہنچ گیا ہو گناہ سے نجات نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک خیالی اور بالکل بے معنی بات ہے کہ کسی خون گناہ سے پاک کر سکتا ہے ۔ خون یا خودکشی کو گناہ سے کیا تعلق ؟ وہ گناہ کے زائل کرنے کا طریق نہیں ہاں اس سے گناہ پیدا ہو سکتا ہے اور تجربہنے شہادت دی ہے کہ اس مسئلہ کو مان کر کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔
میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ گناہ سے بچنے کی سچی فلاسفی یہی ہے کہ گناہ کی ضرر دینے والی حقیقت کو پہچان لیں او ر اس بات پر یقین کر لیں کہ ایک زبردست ہستی ہے جو گناہوں سے نفرت کرتی ہے اور گناہ کرنے والے کو سزا دینے پر قادر ہے۔
دیکھو اگر کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس کا کچھ اسباب متفرق طور پر پڑا ہو تو یہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اسباب کا کوئی حصہ چرا لے خواہ چوری کے کیسے ہی قوی محرک ہوں اور وہ کیسا ہی بد عادت کا مبتلا ہو، مگر اس وقت اس کی ساری قوتوں اور طاقتوں پر ایک موت وارد ہو جائے گی اور اسے ہرگز جرأت نہ ہو سکے گی اور اس طرح پر وہ چوری سے ضرور بچ جائے گا اس طرح پر ہر قسم کے خطا کاروں اور شریروں کا حال ہے کہ جب انہيں ایسی قوت کا پورا علم ہو جاتا ہے جو ان کی شرارت پر سزا دینے کے لئے قادر ہے تو وہ جذبات ان کے دب جاتے ہیں یہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اور اس کے جزا و سزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے ۔ یہ نمونہیہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اورا سکے جزا و سزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے ۔ یہ نمونہ گناہ سے بچنے کے طریق کے متعلق خدا نے ہماری فطرت میں رکھا ہوا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس اصول کو آپ کے سامنے پیش کر دوں۔
کیا عجب آپ کو فائدہ پہنچے اور چونکہ آپ سفر کرتے رہتے ہیں اور مختلف آدمیوں سے ملنے کا آپ کو اتفاق ہوتا آپ ان سے اسے ذکر بھی کر سکتے ہیںاور اگر یہ طریق جو میں پیش کرتا ہوں آپ کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو میں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ جس قدر چاہیں جرح کریں یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے۔ اور میں ایسے تحفے دے سکتا ہوں۔
ہر شخص جو دنیا میں آتا ہے اس کا فرض ہونا چاہئے کہ دھوکے اور خطرہ سے بچے پس گناہ کے نیچے ایک خطرناک اور تمام خطروں اور دھوکوںسے بڑھ کرایک دھوکاہے۔میں آگاہ کرتا ہوں کہ اس سے بچنا چاہئے اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیونکر اور اگرچہ اس سے پہلے ایک اور مسئلہ بھی ہے جو خدا کی ہستی کے متعلق ہے مگر میں سردست اس کو چھوڑتا ہوںاور اس دوسرے مقصد کو لیتا ہوں جس کا ماحصل اور مدعا یہ ہے کہ ہر ایک آدمی بجائے خود نیک بننا چاہتا ہے اور نیکی کو اچھا سمجھتا ہے اختلاف اگر ہے تو ان طریقوں اور حیلوں میں ہے جو نیکی کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں مگر مشترک طور پر نفس نیکی کو سب پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں ۔جھوت بولنا کون پسند کرتا ہے جذبات نفسانی سے بچنے کو سب اچھا کہتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ باوجودبدیوں کو سمجھنے کے بھی ایک دنیا ان میں گرفتار ہے اور گناہ کے سیلاب میں بہتی ہوئی جا رہی ہے میں مثال کے طورپر کہتا ہوں کہ عیسائیوں نے انسان کو گنہ گار زندگی کو ہلاک کرکے نیکی اور پاکیزگی کے حصول کے لئے یہ راہ بتائی ہے کہ مسیح ہمارے لئے مر گیا اور ہمارے گناہوں کا بوجھ اس نے اٹھا لیا اور اس کے خون سے ہم پاک ہو گئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اور آپ کو بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ مسیح کے خون نے یورپ کی حالت پر کوئی نمایاں اثر اور تبدیلی پیدا نہیں کی بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر نظر کرکے سخت افسوس ہوتا ہے ان کی زندگی مرتاضانہ زندگی نہیں ہے بلکہ ایک آزادی اور اباحت کی زندگی ہے کتنے ہی جو سرے سے خدا ہی کے منکر ہیں اور بہت ہیں جو خدا کو مان کر اور مسیح ؑ کے خون پر پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اپنی حالت میں گرے ہوئے ہیں شراب کی وہ کثرت ہے جو کئی کئی میل تک شراب کی دکانیں چلی جاتی ہیں اور نامحرم عورتوں کو شہوت کی نظر سے نہ دیکھنا تو کیا ان کے دوسرے اعضاء بھی نہ بچ سکے۔میں عیسائیوں تک ہی اس گناہ کے سیلاب کو محدود نہیں کرتا میں صاف کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی ساری قومیں اس زہر کو کھا رہی ہیں اور ہلاک ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں نے باوجودیکہ ان کے پاس ایک روشن کتاب تھی اور اس میں کسی خون کے ذریعہ ان کو گناہ سے پاک کرنے کا وعدہ دے کر آزاد نہیں کیا گیا تھا لیکن وہ بھی خطرناک طور پر اس بلا میں مبتلا ہیں ہندؤوں کو دیکھو ان میں بھی یہی بلا موجود ہے یہاں تک کہ ان میں بعض قوموں نے جیسے آریہ ہیں نیوگ جیسے مسئلہ کو اپنے ایمانیات اور معتقدات میں داخل کر لیا جب کہ ایک مرد اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو تو اپنی بیوی کو دوسرے سے اولاد پیدا کرنے کی اجازت دے دے۔
غرض اس قسم کی ناپاک زندگی جو حقیقت میں گناہ کی *** ہے وہ عام ہو رہی ہے اور وہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیںہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھے دے دیا ہے او رمجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعل تاباں کے حصو ل کی راہ بتا دوں اس راہ پر چل کر میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ایک شخص یقینا یقینا اس کو حاصل کر لے گا اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں اور درحقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں سے کہتا ہوں کہ خدا ہے۔
اب اس میں صریح فرق ہے مگریہ فرق تب ہی نظر آ سکتا ہے جب آنکھ صاف ہو ایسی صاف آنکھ کے عطا ہونے پر پر انسان بنی نوع کے حقوق او رخدا کے حقوق میں تمیز کر کے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور یہ وہی آنکھ ہے جس کو دیکھنے کی آنکھ کہتے ہیں اس آنکھ کے ملنے پر وہ پاک زندگی شروع ہوتی ہے او ر گناہوں سے بچنے کا یہ ذریعہ تو کسی حالت میں درست نہیں ہو سکتا کہ کسی دوسرے کو سزا ملے اور ہمارے گناہ معاف ہو جائیں زید کو پھانسی ملے اور بکر بچ جاوے کیونکہ اس کے ابطال پر یہی دلیل کافی ہے کہ خارجی امور میں ہم اس کی کوئی نظیر نہیں پاتے اور اس طریق سے بچ نہیں سکتے بلکہ دلیر ہو تے ہیں مثلاً یہ کتا ہے یہ بھیڑیا نہیں ہے اصل میں اگر یہ بھیڑیا ہو اور ہم اس کو کتا سمجھیں تو بھی ممکن ہی نہیں کہ اس سے ڈریں اور وہ خوف کریں جو ایک خونخوار بھیڑیے سے کرتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ بھیڑیا ہے ہمارے علم وہ ایک کتا ہے لیکن اگر یہ علم ہو کہ یہ بھیڑیا ہے توا س سے دور بھاگیں گے اور اسے بچنے کے لئے اچھی خاصی تیاری کریں گے لیکن اگر یہ علم اور بھی وسیع ہو جاوے کہ یہ شیر ہے تو بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گا اور اس سے بچنے کے لئے اور بھی تیاری کریں گے غرض جمیع قوی پر ہیبت اور تاثیرکے علم سے ایک خاص اثر ہوتا ہے پس اب یہ کیسی صاف صداقت ہے کہ جس کو ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ پھر گناہوں سے بچنے کے واسطے کیا راہ ہو سکتی ہے؟
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اور میں ایسی صداقت پر قائم کیا گیا ہوں اور یہی حق ہے کہ جب تک خدائے قہار کی معرفت تام نہ ہو اور اس کی قوتوں اور طاقتوں کی ایک شمشیر برہنہ نظر نہ آجاوے انسان بدی سے بچ نہیں سکتا ۔
بدی ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور دل بے اختیار ہو ہو کر قابو سے نکل جاتا ہے خواہ کوئی یہ کہے کہ شیطان حملہ کرتا ہے کواہ کسی اور طرز پر اس کو بیان کیا جاوے یہ ماننا پڑے گا کہ آج کل بدی کا زور ہے شیطان اپنی حکومت اور سلطنت کو قائم کرنا چاہتا ہے بدکاری اور بے حیائی کے دریا کا بند ٹوٹ پڑا ہے اور وہ اطراف میں طوفانی رنگ میں جوش زن ہے پس کس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر مصیبت او رمشکل کے وقت انسان کا دستگیر ہوتا ہے اس وقت اسے ہر بلا سے نجات دے چنانچہ اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے دنیا نے اس سیلاب سے بچنے کے واسطے مختلف حیلے نکالے ہیںاور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے عیسائیوں نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے پھر اس کا علاج وہی ہے جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے یعنی یہ کہ وہ مفید اور نفع رساں چیزوں کی طرف رغبت کرتا ہے او رمضر اور نعقصاں رساں چیزوں سے دور بھاگتا ہے دیکھو سونے او رچاندی کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے توا س کی طرف کیسی رغبت کرتا ہے اور کن کن محنتوں اور مشکلات سے بہم پہنچاتا ہے اور پھر کن حفاظتوں سے اسے رکھتا ہے لیکن اگر کوئی شخص سونے چاندی کو تو پھینک دے اور اس کی بجائے مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اٹھا کر اپنے صندوقوں میں بند کر کے ان کی حفاظت کرنے لگے تو کیا ڈاکٹر اس کی دیوانگی کا فتوی نہ دیں گے ضرور دیں گے اسی طرح جب ہمیں یہ محسوس ہو جاوے کہ خدا ہے اور بدی سے نفرت کرتا ہے او رنیکی کو پیار کرتا ہے اورنیکیوں کو عزیز رکھتا ہے تو ہم دیوانہ وارنیکیوں کی طرف دوڑیں گے اور گناہ کی زندگی سے دور بھاگیں گے یہی ایک اصول ہے جو نیکی کی قوت کو طاقت بخشتا او ر نیکی کے قوی کو تحریک دیتا اور بدی کی قوتوں کو ہلاک کرتااور شیطان کی ذریت کو شکست دیتا ہے۔
جب واقعی طور پر اس آفتا ب کی طرح جو اس وقت دنیا پر چمکتا ہے ہے خدا پر ہمیں یقین حاصل ہو جاوے او رہم گویاخدا کو دیکھ لیں تو یقینا ہماری سفلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور اس کے بجائے ایک آسمانی زندگی پیدا ہو جاتی ہے جیسے انبیاء علیہم السلام اور دوسرے راستبازوں کی زندگیاں تھیں۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی رحمت فرماں برداروں اور راست بازوں پر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور نیکی اور پاکیزگی کا تحفہ لے کر جاتے ہیں اور شرارتوں اور بد کاریوں سے دور رہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ سے بعد اور حرماں کا موجب ہیں ایسے لوگ ایک چشمہ سے دھوئے جاتے ہیں جس کا دھویا ہوا پھرکبھی میلا اور ناپاک نہیں ہوتا اور انہیں وہ شربت پلایا جاتا ہے جس کا پینے والا کبھی پیاسا نہیں ہوتا انہیں وہ زندگی عطا ہوتی ہے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی ، انہیں وہ جنت دیا جاتا ہے جس سے کبھی نکلنا نہیں ہوتا ۔برخلاف اس کے وہ لوگ جو اس چشمہ سے سیراب نہیں ہوتے اور خدا کے ہاتھوں سے جس کا مسح نہیں ہوتا وہ خدا سے دور جاتے ہیں اور شیطان کے قریب ہو جاتے ہیں انہں نے خدا کی طرف آنا چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہ نہ ان میں تسلی کی کوئی راہ باقی ہے نہ ان کے پاس دلائل ہیں اور نہ تاثیرات ۔
ایک عیسائی سے اگر پوچھا جائے کہ کہ تو جو دعویٰ کرتا ہے کہ مسیح کے خون سے میرے گناہ پاک ہو گئے ہیں تیرے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟ وہ کون سے فوق العادت امور تجھ میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ایک غیر معمولی خدا ترسی اور نکو کاری کی روح تجھ میں پھونک دی ہے تو کچھ جوا ب نہ دے سکے گا۔ برخلاف اس کے کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اس کو ان خارق عادت امور کا زبر دست ثبوت دے سکتا ہوں اور اگر کوئی طالب صادق ہو اور ا س میں شتا کاری اور بدظنی کی قوت بڑھی ہوئی نہ ہو تو میں اسے مشاہدہ کرا سکتا ہوں۔
بعض ایسے امور ہو تے ہیں کہ اگر ان میں دلائل نہ بھی ملیں تو ان کی تاثیرات بجائے خود انسان کو قائل کر دیتی ہیں اور وہی تاثیرات دلائل کے قائم مقام ہو جاتی ہیں۔کفارہ کے حق ہونے کے اگر دلائل عیسائیوں کے پاس نہیں ہیں جیسا کہ وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک راز ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ان تاثیرات کو ہی پیش کریں جو کفارہ کے اعتقاد نے پیدا کی ہیں۔ یورپ کی اباحتی زندگی دور سے ان تاثیرات کا نمونہ دکھا رہی ہے اس سے بڑھ کر وہ کیا پیش کریں گے اور یہ عقل مندکے سمجھ لینے کے واسطے کافی ہے کیا اثر ہوا۔
ایک اور بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے جس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض آدمیوں کو بڑے بڑے دھوکے لگے ہیں اور وہ جادۂ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور وہ یہ انسان کی پیدائش ایک قسم کی نہیں۔
جیسا بوٹیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور جمادات میں بھی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں ۔ کوئی چاندی کی کان ہے کوئی سونے اور تانبے اور لوہے کی اسی طرح پر انسانی فطرتیں مختلف قسم کی ہیں بعض انسان اس قسم کی فطرت رکھتے ہیں کہ وہ ایک گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض کسی اور قسم کے گناہ سے مثلاً ایک آدمی ہے کہ وہ چوری تو کبھی نہیں کرتا لیکن زنا کاری اور اور قسم کی بے حیائی اور بے باکی کرتا ہے یا ایک زنا سے تو بچتا ہے لیکن کسی کا مال مار لینے یا خون کردینے کو گناہ ہی نہیں سمجھتا اور بڑی دلیری کے ساتھ ایسی بے ہودہ بات اور افعال کا مرتکب ہوتا ہے غرض ہر ایک آدمی کو جو دیکھتے ہیں تو اسے کسی نہ کسی قسم کے گناہ میں مبتلا پاتے ہیں۔اور بعض حصوں اور بعض قسم کے گناہوں میں بالکل معصوم ہوتے ہیں پس جس قدر افراد انسانوں کے پائے جاتے ہیں ان کی بابت ہم کبھی بھی قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے گناہ کرتے ہیں بلکہ کوء کسی میں مبتلا ہے کوئی دوسرے میں گرفتار ہے کسی قوم کی بابت وہ مغرب میں ہو مشرق میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بالکل گناہ سے بچی ہوئی ہے صرف اس قدر تو مانیں گے کہ فلاں گناہ وہ نہیں کرتی مگر یہ کبھی نہیں کہہ سکتے بالکل نہیںکرتی ۔ یہ فطرت اگر یہ قوت کہ بالکل گناہوں سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جائے ۔سچی تبدیلی کے بغیر کسی کو مل نہیں سکتی اور اسی تبدیلی کو پید اکرنا ہمارا کام ہے۔
جو لوگ صدق دل اور اخلاص کے ساتھ صحت نیت اور پاک ارادہ اور سچي تلاش کے ساتھ ایک مدت تک ہماری صحبت میں رہیں تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی تجلیات کی چمکار سے ان کی اندرونی تاریکیوں کو دور کر دے گااور انہیں ایک نئی معرفت اور نیا یقین خدا پر پیدا ہوگا اور یہی وہ ذریعے ہیں جو انسان کو گنا کے زہر کے اثر سے بچا لیتے ہیں اورا س کے لئے تریاقی قوت پیدا کر دیتے ہیں۔یہی وہ خدمت ہے جو ہمارے سپرد ہوئی ہے اور اسی ایک ضرورت کو میں پورا کرنا چاہتا ہوں جو انسا ن اس زنجیر اور قید سے نجات پانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے جو گناہ کی زنجیریں ہیں اسے اسی طریق پر نجات ملے گی۔
پس اگر کوئی قصہ کہانیں کو ہاتھ سے پھینک کر اور ان وہمی حیلوں اور خیالی ذریعوں کو چھوڑ کر کسی کی خود کشی بھی گناہ سے بچا سکتی ہے صدق اور اخلاص سے یہاں رہے تو وہ خدا کو دیکھ لے گا اور خدا کو دیکھ لینا ہی گناہ پر موت وارد کرتا ہے او رنہ اتنی ہی بات پر خوش ہو جانا کہ فلاں گناہ مجھ میں نہیںیا فلاں عیب سے میں بچا ہوا ہوں، حقیقی نجات کا وارث نہیں بنا سکتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی نے سڑکنیا کھا کر موت حاصل کی اور کسی سے سم الفار یا بادام کے زہر سے جان دے دی ۔ ہم کو اس سے کچھ غرض نہیں ہے کہ عیسائیوں کے طریق ِنجات پر یا کسی اور مذہب کے پیش کردہ دستور پر کوئی لمبی چوڑی بحث کریں۔ تجربہ اور مشاہدہ خود گوا ہے ہم تو صرف یہی طریق بتانا چاہتے ہیں جو خد ا نے ہمیں سمجھا یا ہے او رجس طریق پر ہمیں اطلاع دی ہے ۔
پس گناہوں سے بچنے کا سچا طریق جو مجھے بتایا گیا ہے او رجس کوکل انبیاء کی پاک جماعت اپنے اپنے وقت پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ یہی کہ انسانی جذبات پر انسان کو اسی وقت کامل فتح مل سکتی ہے اور شیطان اور اس کی ذریت کی شکست کا یہی وقت ہو سکتاہے جب انسان کے دل پر ایک درخشاں یقین نازل ہو کہ خدا ہے اور اس کی پاک صفات کے صریح خلاف ہے کہ کوئی گناہ کرے اور گناہ گاروں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے اور پاک بازوں کو اس کا فضل اور رحمت ہر بلا سے نجات دیتے ہیں اور یہ معرفت اور یہ یقین حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ان لوگوں کے پاس ایک عرصہ تک نہ رہیں اور جو خدا تعالیٰ سے شدید تعلق رکھتے ہیں اور خدا سے لے کر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس یہی ہماری غرض ہے جو لے کر ہم دنیا میں آئے ہیں اورا سی کو ہم نے آپ کو سنا دیا ہے اب آپ اس پر غور کریں اور جو سوال آپ کا اس پر ہو وہ آپ بے شک کریں۔٭
۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء؁
مسٹر ڈکسن:’’ کیا خدا اس جہان میں سزا دیتا ہے یا دوسرے جہان میں؟‘‘
حضرت اقدس :’’میں نے آپ کے سوال کو سمجھ لیا ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبیوںکی معرفت ہمیں بتایا ہے کہ اور واقعات صحیحہ نے جس کی شہادت دی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سزا و جزا کا قانون خدا نے ایسا مقرر کیا ہے کہ اس کا سلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اور جو شوخیاں اور شرارتیں انسان کرتا ہے وہ بجائے خود انہیں محسوس کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ان کی سزا اور پاداش جو یہاں ملتی ہے اس کی غرض تنبیہ ہوتی ہے تاکہ توبہ اور رجوع سے شوخ انسان اپنی حالت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرے اور خداتعالیٰ کے ساتھ عبودیت کا جو رشتہ ہے اس کو قائم کرنے میں جو غفلت اس نے کی ہے اس پر اطلاع پا کر اسے مستحکم کرنا چاہئے ۔ اس وقت یا تو انسان اس تنبیہہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی مدد سے چاہتا ہے اور یا اپنی شقاوت سے اس میں دلیر ہو جاتا اور اپنی سر کشی اور شرارت میں ترقی کر کے جہنم کا وارث ٹھہر جاتا ہے ۔اس دنیا میں جو سزائیں بطور تنبیہ دی جاتی ہیں ، ان کی مثال مکتب کی سی ہے۔ جیسے مکتب میں کچھ خفیف سی سزائیں بچوںکو ان کی غفلت اور سستی پر دی جاتی ہیں۔ اس سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ علوم سے انہیں استاد محروم رکھناچاہتا ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنی غرض پر اطلاع دے کر آئندہ کے لئے زیادہ محتاط اور ہوشیار بنا وے ۔اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جو شرارتوں اور شوخیوں پر کچھ سزا دیتا ہے ، توا س کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نادان انسان جو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے اپنی شرارت اور اس کے نتائج پر مطلع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت سے ڈر جاویاور اس کی طرف رجوع کرے۔ میں نے اپنی جماعت کے سامنے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب آپ کو بھی بتاتا ہوں کہ جب انسان ایک کام کرتا ہے ۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک فعل اس کے نتیجے کے طور پر مرتب ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کافی مقدار زہر کی کھا لیں گے توا س کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ہلاک ہو جائیں گے۔ اس میں زہر کھانا یہ ہمارا اپنا فعل تھا اور خدا کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوا کہ اس نے ہلاک کر دیا یا مثلاً یہ کہ اگر ہم اپنے گھر کی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر لیں، تو یہ ہمارا فعل ہے ۔اوراس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ کوٹھڑی میں اندھیرا ہو جائے گا اس طرح پر انسان کے افعال اور اس پر بطور نتائج اللہ تعالیٰ کے افعال کے صدور کا قانون دنیا میں جاری ہے جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے اور جسمانی نظام میں اس کی نظیریں ہم روز دیکھتے ہیں اسی طرح پر باطن کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور یہی ایک اصول ہے جو قانون سزا کے سمجھنے کے واسطے ضروری ہے اور وہ یہی ہے کہ ہماراہر ایک فعل نیک ہو یا بد اپنے فعل کے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔
اب عذاب اور راحت کو جو گناہوں کی پاداش میں یا نیکیوں کی جزا میں دی جاتی ہے ۔ہم بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور میں پوری بصیرت اور دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس فلاسفی کے بیان کرنے سے دوسرے تمام مذہب عاری اور تہی ہیں ۔ اس بات کوہر شخص جو خدا کو مانتا ہے اقرار کرتا ہے کہ انسان خدا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔اس لئے اس کی ساری خوشیوں کی انتہا ساری راحتوں کی غایت اسی میں ہو سکتی ہے کہ وہ سارے کا سارا خدا ہی کا ہو جاوے اور جو تعلق اُلُوہیّت اور عبودیّت میں ہو ناچاہئے یا یوں کہو کہ ہے جب تک انسان اس کو مستحکم نہیں کرتا اور ا سے حیّز فعل میں نہیں لاتا ۔وہ سچی خوشحالی کو پا نہیں سکتا۔انبیاء علیہم السلام کے آنے کی یہی غرض ہوتی ہے اور وہ اسی اہم مقصد کو لے کر آتے ہیں کہ وہ انسان کو یہ گم شدہ متاع واپس دینا چاہتے ہیں ۔جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان رشتہ کی ہوتی ہے،مگر جب انسان خدا سے دور ہٹ جاتا ہے تو اپنے آپ کو اس محبت کی زنجیر سے الگ کر لیتا ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان ہو نی چاہئے اور یہ فعل انسان کا ہوتا ہے اور اس پر خدا کا یہ فعل ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے دور ہٹتا ہے ۔ اور اسی بُعد کے لحاظ سے انسانی قلب پر تاریکی کا ظہور ہوتا ہے ۔ او رجس طرح آفتا ب کی طرف سے دروازہ بند کرنے پر ظلمت اور تاریکی سے کمرہ بھر جاتا ہے ۔ اسی طرح پر خدا سے منہ پھیرنے سے اندرونہ انسانی ظلمت سے بھرنے لگتا ہے اور جوں جوں وہ دور ہوتا جاتا ہے ظلمت بڑھتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور یہ ظلمت ہے جو جہنم کہلاتی ہے کیونکہ اسی سے ایک عذاب پیدا ہوتا ہے اب اس عذاب سے اگربچنے کے لئے وہ یہ سعی کرتا ہے کہ ان اسباب کو جو خدا تعالیٰ سے بعد اور دوری کا موجب ہوئے ہیں چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ رجوع کرتا ہے اور جیسے کھڑکیوں کے کھول دینے سے روشنی واپس آکر تاریکی کو دور کر دیتی ہے اسی طرح پر یہ سعادت کا نور جو جاتا رہا تھا وہ اسی انسان کو جو رجوع کرتا ہے پھر دیا جاتا ہے اور وہ اس سے پورا مستفید ہونے لگتا ہے۔
اور توبہ کی یہی حقیقت ہے جس کی نظیر ہم قانون قدرت میں صاف مشاہدہ کرتے ہیں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبیوں کے زمانہ میں جو قوموں پر عذاب آتے ہیں جیسے لوطؑ کی قوم پر یا یہودیوں کو بخت نصر یا طیطس رومی کے ذریعہ تباہ کیا گیاتو ان عذابوں کا موجب محض اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ان عذابوں اور دکھوں کا موجب وہ شرارتیں شوخیا ں اور تکلیفیں ہوتی ہیں جو وہ نبیوں سے کر تے اور انہیں پہنچاتے ہیں آخر ان کی شرارتیں ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں اور انہیں تباہ اور ہلاک کر دیتی ہیں جس طرح پر سیاست اور ملک داری کے اصولوں کی تہ میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ امن عامہ میں خلل انداز ہونے والوں کو وہ چور ہوں یا ڈاکو باغی ہوں یا کسی اور جرم کے مجرم محض اس لئے سزا دی جاتی ہے تاآئندہ کے لئے امن ہو اور دوسروں کو اس سے عبرت اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا ہوا ہے کہ وہ شریروں اورسرکشوں کو جو ا س کے حدود اور اوامر کی پرواہ نہیں کرتے سزا دیتا ہے تا حد سے نہ بڑھ جائیں۔جنہوں نے حد سے بڑھنا چاہا خدا نے انہیں وہیں تنبیہ کی۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سزا اور تنبیہہ اسی شخص کے لئے بھی جسے دی جاتی ہے اور دوسروں کے واسطے بھی عبرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے ہیں بطور رحمت ہے کیونکہ اگر سزا نہ دی جائے تو امن اٹھ جاتا ہے اور انجام کار نتیجہ بہت برا ہوتا ہے قانون قدرت پر نظر کرو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات رکھی ہوئی اور اسی فطرتی نقش ہی بناء پر قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ
ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب(البقرہ:۱۸۰)
یعنی تمہارے تمدن کے قیام کے لئے قصاص کاہونا ضروری ہے اگر افعال کے کچھ نتائج ہی نہیں ہوتے تو وہ افعال کیا ہوتے اور ان سے غرض مقصود ہوتی؟غرض ضروری اور واقعی طور پر یہ سزائیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک ظل ہیں اصل سزائوں اور ان کی غرض ہے عبرت۔
دوسرے عالم کے مقاصداور ہیں اور وہ بالا تر ہیں اور بالا تر ہیںوہاں تو
من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہٗ( الزلزال:۹)
کا انعکاسی نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی در مخفی گناہوں اور عزیمتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ دنیا اور آخرت کی سزائوں میں ایک بڑا فرق یہی ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیںاور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں وہان اسے ضرور سزا ملنی ٹھہری ہے کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بدوں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے۔عاقبت کی سزا اپنے اندر ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے جس کو کوئی مذہب بجز اسلام کے کامل طور پر بیان نہیں کر سکا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی و اضل سبیلا(بنی اسرائیل:۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا بلکہ اندھوں سے بھی بدتر۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے انسان اپنے ساتھ لے جاتا ہے جو یہاں ان حواس کو نہیں پاتاوہاں وہ ان حواس سے بہرہ ورنہیں ہوگا یہ ایک دقیق راز ہے جس کو عام لوگ سمجھ بھی نہیں اگراس کے یہ معنی نہیں تو یہ پھر بالکل غلط ہے کہ اندھے اس جہان میں بھی اندھے ہوں گے اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو بغیر کسی غلطی کے پہچاننا اور اسی دنیا میں صحیح طور پر اس کی صفات و اسماء کی معرفت حاصل کرنا آئندہ کی تمام راحتوں اور روشنیوں کی کلید ہے اور یہ آیت اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اسی دنیا سے ہم عذاب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس دنیا کی کورانہ زیست اور ناپاک افعال ہی اس دوسرے عالم میں عذاب جہنم کی صورت میں نمودار ہو جائیں گے اور وہ کوئی نئی بات نہ ہوں گے۔
جیسے ایک شخص گھر کے دروازے بند کر لینے سے روشنی سے محروم ہو جا تا ہے اور تازہ اور زندگی بخش ہوا اسے نہیں مل سکتی یا کسی زہر کے کھالینے سے اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح پر جب ایک آدمی خدا کی طرف سے ہٹتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو ایک ظلمت کے نیچے آ کر عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔گناہ اصل میں جناح تھا جس کے معنے میل کرنے اور اصل مرکز سے ہٹ جانے کے ہیں پس جب انسان خدا سے اعراض کرتا ہے اور اس نور کے مقابل سے ہٹ جاتا ہے اور اس روشنی سے دور ہو جاتا ہے جو صرف خدا کی طرف سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے تو وہ ایک تاریکی میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتی ہے پھر جس قسم کا یہ اعراض ہو اسی قسم کا عذاب اسے دکھ دیتا ہے لیکن اگر انسان پھر اسی مرکز کی طرف آناچاہے اور اپنے آپ کو اسی مقام پر پہنچا دے جو ایسی روشنی پڑنے کا مقام ہے تو وہ پھر اس گمشدہ نور کو پا لیتا ہے کیونکہ جیسے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے کمرہ میں روشنی کو ایسے وقت پا سکتے ہیں جب اس کی کھڑکیاں کھول دیں ویسے ہی روحانی نظام میں مرکز اصلی کی طرف بازگشت کرنا ہی راحت کا موجب ہو سکتا ہے اور اس دکھ درد سے بچاتا ہے جو اس مرکز کے چھوڑنے سے پیدا ہوا تھا اس کا نام توبہ ہے اور یہ ظلمت جو اسی طرح پر پیدا ہوتی ہے ضلالت اور جہنم کہلاتی ہے اور مرکز اصلی کی طرف رجوع کرنا جو راحت پیدا کرتا ہے جنت سے تعبیر ہوتا ہے اور گناہ سے ہٹ کر پھر نیکی کی طرف آنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاوے اس بدی کا کفارہ ہو کر اسے دور کر دیتا ہے اس کے نتائج کو بھی سلب کر دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان الحسنات یذھبن السیات (ہود:۱۱۵) یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں چونکہ بدی میں ہلاکت کی زہر ہے اور نیکی میں زندگی کا تریاق اس لئے بدی کے زہر کو دور کرنے کا ذریعہ نیکی ہی ہے یا اسی کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں ۔ عذاب راحت کی نفی کا نام ہے اور نجات راہت اور خوشحالی ہی کے حصول کا نام ہے اسی طرح پر جیسے بیماری اس حالت کا نام ہے جب حالت بدن مجری طبیعت پر نہ رہے۔اور صحت وہ حالت ہے امور طبیعیہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوں اور جیسے کسی ہاتھ پائوں یا کسی عضو کے اپنے مقام خاص سے ذرا ادھر ادھر کھسک جانے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور و ہ عضو نکما ہو جاتا ہے اگرچندے اسی حالت پر رہے ، تو پھر نہ خود بالکل بیکار ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے اعضاء پر بھی اپنا برا اثر ڈالنے لگتا ہے ۔ بعینہٖ یہی حالت روحانی ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے سامنے سے جو اس کی زندگی کا اصل موجب مایۂ حیات ہے ، ہٹ جاتا ہے اور فطرتی دین کو چھوڑ بیٹھتا ہے ، تو عذاب شروع ہو جات ہے اور اگر قلب مردہ نہ ہو گیا ہو ۔اور اس میں احساس کا مادہ باقی ہو۔ تو وہ اس عذاب کو خوب محسوس کرتا ہے اور اگر اس بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح نہ کی جاوے ، تو اندیشہ ہوتا ہے کہ پھر ساری روحانی قوتیں رفتہ رفتہ نکمی اور بیکار ہو جائیں اور ایک شدید عذاب شروع ہو جاوے ۔ پس اب کیسی صفائی کے ساتھ یہ امر سمجھ میں آجاتا ہے کہ کوئی عذاب باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندر ہی سے نکلتا ہے ۔ ہم کو اس سے انکار نہیں کہ عذاب خدا کا فعل ہے ۔ بے شک اس کا فعل ہے ۔ مگر اسی طرح جیسے کوئی زہر کھائے توخدا اسے ہلاک کر دے۔ پس خدا کا فعل انسان کے اپنے فعل کے بعد ہوتا ہے اسی کی طرف اللہ جلشانہٗ اشارہ فرماتا ہے
ناراللّہ الموقدۃ التی تطلع علی الأفئدۃ( الہمزہ:۷،۸)
یعنی خدا کا عذاب وہ آگ ہے جس کو خدا بھڑکاتا ہے اورا س کا شعلہ انسان کے دل ہی سے اٹھتا ہے ۔ اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہی ہے کہ عذاب کا اصل بیج اپنے وجود ہی کی ناپاکی ہے ۔ جو عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اسی طرح بہشت کی راحت کا اصل سرچشمہ بھی انسان کے اپنے ہی افعال ہیں ۔ اگر وہ فطرتی دین کا نہیں چھوڑتی اگر وہ مرکز اعتدال سے ادھر ادھر نہیں ہٹتا اور عبودیت الوہیت کے محاذ میں پڑی ہوئی اس کے انوار سے حصہ لے رہی ہے تو پھر یہ عضو صحیح کی طرح سے جو مقام سے ہٹ نہیں گیا اور برابر اس کام کو دے رہا ہے جس کے لئے خدا نے کو پیدا کیا ہے اور اسے کچھ بھی درد نہیں بلکہ راحت ہے۔
قرآن شریف میں فرماتا ہے
و بشر الذین آمنوا واعملوا الصالحات ان لہم جنت تجری من تحتہا الانہار( البقرہ:۲۶)
یعنی و ہ لوگ جو ایمان لئے اور اچھے عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہیں اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے جو رشتہ اور تعلق نہر جاوید اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ پانی کے بدوں سرسبز اور ثمر دار ہو سکے اس طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہے ہوں مفید اور کارگر نہیں ہو سکتا پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اس کے اندر سے نکلتا ہے ۔یاد رکھو اس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنا یا جاتا ہے ۔ پاک ایمان پودہ سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال ۔اخلاق فاضلہ یہ اس پودہ کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں۔اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خوا ب میں دیکھے جاتے ہیں ۔ مگر اس عالم میں محسوس اور مشاہدہ ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ لکھاہے کہ جب بہشتی ان انعاما ت سے بہر ہ ور ہوںگے تو کہیںگے
ھٰذا ا لذی رزقنا من قبل واتوا بہ متشا بھا (البقر ہ: ۲۶)
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہد یا انگور یا انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی نہیں وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے لحاظ سے بالکل اور کی اور ہوں گی ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جات ہے۔اور اگرچہ ان تمام چیزوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ کہ وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیںان کا سرچشمہ روح اور راستی ہے رزقنا من قبل سے یہ مراد لینا کہ و ہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالٰیکا منشا اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے اس لئے اس عالم میں اس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف ان کو پہچان لیں گے ۔
میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا ربط باہم اس طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے مگر اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ دنیا میں سزائیں تنبیہ اور عبرت کے لئے انتظامی رنگ کی حیثیت سے ہیں۔
سیاست اور رحمت دونوں باہم ایک رشتہ رکھتی ہیں اور اسی رشتہ کے اظلال یہ سزائیں اور جزائیں ہیں انسانی افعال اور اعمال اسی طرح پر محفوظ اور بند ہو جاتے ہیں جیسے فونو گراف میں آواز بند کی جاتی ہے جب تک انسان عارف نہ ہو اس سلسلہ پر غو رکر کے کوئی لذت اور فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
معرفت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اول خدا شناس ہو اور خدا شناسی حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی خدا نما انسان کی مجلس میں صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ ایک کافی مدت تک نہ رہے۔اس کے بعد وہ اس سلسلہ کو جو جزا سزا کا اور دنیا اور عقبی کا ہے بری سہولت کے ساتھ سمجھ لے گا س بیان پر غور کرنے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اور بہشت کی فلاسفی جوقرآن شریف نے بیان فرمائی ہے وہ کسی اور کتاب نے نہیں بتائی اور قرآن شریف کے مطالعہ سے یہ امر بھی کھل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو تدریجاً بیان فرمایا ہے مگر یہ راز ان پر ہی کھلتا ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور پاک نفس لے کر سوچتے ہیں کیونکہ کوئی عمدہ بات بدوں تکلیف کہ نہیں ملتی ہے یہ کہنا کہ ہر شخص اس راز پر کیوں اطلاع نہیں پا سکتا میں کہتا ہوں کہ دیکھو ہمارے حواس کے کام الگ الگ ہیں مثلاً آنکھ دیکھ سکتی ہے زبان چکھ سکتی ہے اور بول سکتی ہے کان سن سکتے ہیں گویاہر ایک حواس میں سے اپنے اپنے فرائض اور قوت کے کے ذمہ دار ہیں ۔ یہ کبھی نہیںہو سکتا ہے کہ کان کے پاس مصری کی ڈلی رکھ دی جائے اور وہ اس کا ذائقہ بتا دے۔اور آنکھ خارجی آوازیں سن لے یا زبان دیکھ لے پس اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی معرفت کے دقیق اسرار کو معلوم کرنے کے واسطے خاص قوی ہیں ۔ وہی ان پر اطلاع دے سکتے ہیں اور یہ قوی دئیے تو سب کو گئے ہیں لیکن ان سے کام ل ینے والے بہت تھوڑے ہیں ۔ظن کا کو ئی قوی اثر نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ فلاسفروں کی ایمانی حالت بہت کمزور ہوتی ہے اور وہ ظنیات سے آگے نہیں بڑھتے افلاطون جو بڑا مدبر اور دانشمند سمجھا جاتا تھا جب مرنے لگا تو اس نے یہی کہا کہ فلاں بت پر اس کے لئے مرغا چڑھا دینا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسا کمزور ایمان تھا توحید پر قائم نہ ہوا۔
پس وہ عظیم ذریعہ جس سے ایک چمکتا ہوا یقین حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی بصیرت کے ساتھ ایمان قائم ہو ایک ہی ہے کہ انسان ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو خدا تعالیٰ کے وجود پر زندہ شہادت دینے والے ہوں خود جنہوں نے اس سے سن لیا ہے کہ وہ ایک قادر مطلق اور عالم الغیب تمام صفات کاملہ سے موصوف خدا ہے۔
ابتداء میں جب انسان ایسے لوگوں کی صحبت میں جاتا ہے توا س کی باتیں بالکل انوکھی اور نرالی معلوم ہوتی ہیںوہ بہت کم دل میں جاتی ہیں گو دل ان کی طرف کھنچا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے ان کی معرفت کی باتوں کی ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جو کچھ گردو غبار دل پر بیٹھا ہوتا ہے صادق کی باتیں ان کو دور کر کے اسے جلا دینا چاہتی ہے تا اس میں یقین کی قوت پیدا ہو جیسے جب کبھی کسی آدمی مسہل دیا جاتا ہے تو دست آور پیٹ میں جا کر ایک گڑگڑاہٹ پیدا کر دیتی ہے اور تمام مواد ردّیہ اور فاسدہ کو حرکت اور جوش دے کر باہر نکالتی ہے اسی طرح پر صادق ان ظنیات کو دور کرنا چاہتا ہے اور سچے علوم اور اعتقاد صحیحہ کی معرفت کرانی چاہتا ہے اور وہ باتیں اس کے دل کو جس نے بہت بڑا زمانہ ایک اور ہی دنیا میں بسر کیا ہوا ہتا ہے ناگوار اور ناقابل عمل معلوم ہوتی ہیں لیکن آخر سچائی غالب آجا تی ہے اور باطل پرستی کی قوتیں مر جاتی ہیں اور حق پرستی کی قوتیں نشوو نما پانے لگتی ہیںمیں اس نور کو لے کر آیا ہوں اور دنیا میں قوت یقین پیدا کرنا چاہتا ہوں اور اس قوت کا پیدا ہونا صرف الفاظ اور باتوں سے نہیں ہو سکتا ، بلکہ یہ ان نشانات سے نشوونما پاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مقتدرانہ طاقت سے صادقوں کے ہاتھ پر ظہور پاتے ہیں۔
میرا مدعا یہی ہے کہ کہ دوسری کلام نہ کروں جب تک ایک امر سننے والے کے ذہن نشین نہ کر لوں اور سننے والا فیصلہ نہ کر لے کہ اس بات کو اس نے سمجھ لیا ہے یا اس پر کوئی اعتراض کرے۔٭
’’ کیونکہ سوال کرنا بھی ایک قسم کا علم پیدا کرنا ہوتا ہے السؤال نصف العلم مشہو رہے پس میں اس کو غنیمت سمجھتا ہوں کہ کسی کے دل میں امر حق کے متعلق سوال کرنے کی تحریک پیدا ہو جاوے۔
یقینا یاد رکھو کہ سچی معرفت ہر ایک طالب حق کو جو مستقل مزاجی سے اس راہ میں قدم رکھتا ہے مل سکتی ہے۔ یہ کسی کے لئے خاص نہیں ہاں یہ سچ ہے کہ جو غفلت کرتا ہے اور صدق نیت سے اس کی جستجو نہیں کرتا یہ کسی کے لئے خاص نہیںہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ جوغفلت کرتا ہے اور صدق نیت سے اس کی جستجو نہیں کرتا اس کا کوئی حصہ نہیں ہے‘ ورنہ خدا تعالیٰ تو ہرایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ سے رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اور اسی لئے فرمایا ہے
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا( العنکبوت:۷۰)
جن لوگوں نے ایک عورت یا بچے کو یا یوں کہو کہ انسان کو خدا بنایا ہے انہوں نے نہ خدا کو سمجھا ہے اور نہ انسان کی حقیقت پر غور کی ہے ۔ انسان کیا ہے ؟ وہ گویاکل مخلوقات الٰہیہ کی ایک مجموعی صورت ہے جس قدر مخلوق دنیا میں جیسی بھیڑ بکری وغیرہ موجود ہے سب انسانی قوی کی انفرادی صورتیں ہیں۔
جیسے ایک مصنف جب کوئی کتاب لکھنی چاہتا ہے ، تو پہلے متفرق نوٹ ہوتے ہیں پھر ان کو ترتیب دے کر ایک کتاب کی صورت لے کر آتا ہے اسی طرح پر کل مخلوقات انسانی قوی کے خاکے ہیں گویا یہ عملی صورت بتاتی ہے کہ انسان اعلی قوی لے کر آیا ہے پس عیسائی مذہب انسانی قوی کی توہین کرتا ہے اور انکی تکمیل اور نشوونما کے لئے ایک خطرناک روک پیدا کردیتا ہے جب کہ وہ انسان کو خدا بنا کر اس کے خون پر نجات کاانحصار رکھ دیتا ہے ۔
پس میں جو بات آپ کو پہنچانا چاہتا تھا وہ یہی ہے کہ میں انسان کو گناہ سے بچنے کا حقیقی ذریعہ بتاتا ہوں۔اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنے کی راہ دکھاتا ہوں یہی میرا مقصد ہے جس کو لے کر میں دنیا میں آیا ہوں میری دلی خواہش ہے کہ آپ اس کو سمجھ لیں اور خوب غور سے سمجھ لیں تا کہ جہاں کہیں آپ جائیں اوراپنے دوستوں میں بیٹھ کر اپنے سفر کے عجائبات سنائیں وہاں ان کو یہ باتیں بھی بتائیں جو میں نے آپ کو سنائی ہیں۔
مسٹر ڈکسن:’’ میں نے آپ کا مدعا خوب سمجھ لیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں کہیں میں جائوں گا میں یورپین لوگوں میں اس کا تذکرہ کروں گا‘‘۔
حضرت اقدسؑ: ہم نے تو آپ کا چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ آپ میں انصاف ہے ہماری دلی آرزو یہی تھی کہ آپ کچھ دنوں ہمارے پاس رہ جاتے تا کہ ہمیں پورا موقع ملتا کہ اپنے اصول آپ کو سمجھائیں اور آپ کو بھی غور کرنے اور بار بار پوچھنے کا موقع ملتا مگر تا ہم ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی غور کرنے والی طبیعت ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھائے گی انسان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نمونہ یہی ہے کہ و ہ راستی کے قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے بہت سے امورا یسے ہوتے ہیں کہ انسان محض ماں باپ کی تقلید کی وجہ سے باوجودیکہ اس صریح نقص دیکھتا ہے نہیں چھوڑتا۔ لیکن جو شخص سچے اخلاق اور اخلاقی جرأ ت سے حصہ رکھتا ہے وہ ان باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتا وہ صرف راستی کا خواہش مند ہے۔
بچپن میں دو قوتیں بڑی تیز ہوتی ہیں اول ہر ایک چیز اندر چلی جاتی ہے دوم خوب یاد رہتی ہے بجہ کبھی دلائل نہیں پوچھتا کہ کیوں یہ بات ہے مگر اصل شجاعت یہی ہے کہ ان باتوں کو شیر مادر کی طرح پیتا ہے جب اسے معلوم ہو جاوے کہ ان حقیقت اور معرفت کا رنگ اور قوت نہیں ہے تو انہیں چھوڑنے کے لئے فی الفور تیار ہو جاوے تمام قوی کا بادشاہ انصاف ہے اگر یہ قوت ہی انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔انسان دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ باطل کا ذخیرہ جمع کرے بلکہ اسے حقیقت شناس اور حق پرست ہونا چاہئیے۔دنیا میں چونکہ باطل ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ باطل پرست اسے سچ سے بھی زیادہ چمکدار دکھانا چاہیں مگر دانشمند کو دھوکا نہیں کھانا چاہئیے اس کو لازم ہے کہ سچائی کو پورے طور پر پرکھے اور پھر قبول کرے۔
میرے نزدیک تمام مذاہب کا اس وقت یہ حال ہے کہ گویا کل مذاہب کا ایک میدان لگا ہوا ہے اور ہر ایک بجائے خود کوشش کرتا ہے کہ اپنے مذہب کو سچا دکھائے مگر میں کہتا ہوں کہ روحانیت کو دیکھو کہ کس میں ہے اور تائیدی نشان کون اپنے ساتھ رکھتا ہے اور کون سا مذہب ہے جو گناہ کے کیڑے کو ہلاک کرنے کی قوت رکھتا ہے میں آپ کو اپنے تجربہ کی بنا ء پر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سچی معرفت جس کی گرمی سے گناہ سے کیڑا ہلاک ہوتاہ اسلام میں ملتی ہے اور کہ خدا تدعالی کی جس کی گرمی سے گناہ کاکیڑا ہلاک ہوتا ہے اسلام میں ملتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کسی کے خون سے اس کیڑی کو موت آوے بلکہ خون پڑ کر تو اور بھی کیڑے پیدا کرے گا اس لئے خون گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہرگز نہیں ہے۔ نجات اور پاکیزگی کی سچی اصل وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے اور ساری دنیا کو چاہئے کہ اسی کو تلاش کریں۔‘٭
۲۷؍نومبر۱۹۰۱ء؁
اس تقریر کو ختم کرتے کرتے نہر کا پل جو قادیان سے چار میل کے قریب ہے آ پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مسٹر ڈکسن حضرت صاحب سے رخصت ہو کر بٹالہ کو چلے گئے اور حضرت اقدس واپس تشریف فرما ہوئے۔
فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کاکلام جو اس کے برگزیدوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ عظیم الشان اعجاز اپنے اندر رکھتا ہے اور کوئی شخص تنہا یا دوسروں کی مدد سے مدد سے اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی صرف ہمت کر دیتا ہے اور اس طرح پر اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے وہ بار بار مخالفوں کو اس کی مثال لانے کی دعوت اور تحدی کرتا ہے لیکن کوئی اس کے مقابلہ کے لئے نہیں اٹھ سکتا ۔ قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کامل معجزہ ہے وہ دوسری کتابوں کی نسبت ہم نہیں دیکھتے کہ ایسی تحدّی کی گئی ہو جیسی قرآن شریف نے کی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے تجربہ اور قرآن شریف کے معجزہ کی بناء پر یہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا کا کلام ہر حال میں معجزہ ہوتا ہے لیکن قرآن شریف کا اعجاز جس کاملیت اور جامعیت کے ساتھ معجزہ ہے دوسرے کو ہم اس کی جگہ پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ بہت سی وجوہ اور صورتیں اس کے معجزہ ہونے کی ہیں اور کوئی شخص اس کی مثال بنانے پر قادر نہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ کلام ایسا معجزہ نہیں ہو سکتا وہ بڑے ہی گستاخ اور دلیر ہیں کیا وہ نہیں جانتے اور دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق بے مثل اور لانظیر ہے پھر اس کے کلام کی نظیر کیسے ہو سکتی ہے ؟ ساری دنیا کے مدبر اور صناع مل کر اگر ایک تنکا بنانا چاہیں تو بنا نہیں سکتے پھر خدا کے کلام کا مقابلہ وہ کیسے کر سکتے ہیں۔
محض کلام کے اشتراک یا الفاظ کے اشتراک سے یہ کہہ دینا کوئی معجزہ نہیں نری حماقت اور اپنی موٹی عقل کا ثبوت دینا ہے کیونکہ ان اعلی مدارج اور کمالات پر ہر شخص اطلاع نہیں پا سکتا جو باریک بین نگاہ دیکھ سکتی ہے میرا یہ مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص کلام لعل کی طرح چمکتی ہے لیکن بایں ہمہ قرآن شریف آپ کی خالص کلام سے بالکل الگ اور ممتاز نظر آتا ہے اس کی وجہ کیا ہے ۔
ہری چیز کے مراتب ہوتے ہیں مثلاً کپڑا ہے تو کھدر ، ململ ، اورخاصہ لٹّھا محض کپڑا ہونے کی حیثیت سے تو کپڑا ہی ہیں اور اس لحاظ سے وہ سفید ہیں بظاہر ایک مساوات رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ریشم بھی سفید ہوتا ہے لیکن کیا ہر آدمی نہیں جانتا کہ ان سب میں جدا جدا مراتب ہیں اور ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے ۔
؎گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
پس جس طرح پر ہم سب اشیاء میں ایک اور فرق دیکھتے ہیں اسی طرح کلام میں بھی مدارج اور مراتب ہوتے ہیں ۔جبکہ آنحضرت کا کلام جو دوسرے انسانوں کے کلام سے بالا تر اور عظمت اپنے اندر رکھتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اعجازی حدود تک پہنچتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے برابر وہ بھی نہیں تو پھر اور کوئی کلام اس سے مقابلہ کر سکتا ہے ۔
یہ تو موٹا اور بدیہی بات ہے کہ جس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن شریف معجزہ ہے لیکن اسس کے اور بھی بہت سے وجوہ اعجاز ہیں خدا تعالیٰ کا کلام اس قدر خوبیوں کا مجموعہ ہے جو پہلی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے وہ بجائے خود یہ چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہے اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔
کیونکہ کلام الہٰی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اس قدر قوت و شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلی درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا, اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے ا س اعلی مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات ِکمال آپؐ پر ختم ہوچکے تھے اؤر آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے آپ ؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچي ہوئی ہے۔
یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت ، کیا باعتبار مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرا ت تعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس سے چاہو مقابلہ کر و خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت ، خواہ بلحاط مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے گو ملاں میری مخالفت کی وجہ سے اس امر کو قبول نہ کریں ، لیکن اس سے قرآن شریف کے اعجاز میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ یہ لوگ جوش تعصب میں بعض وقت یہاں تک اندھے ہو جاتے ہیں کہ ادب کے کل طریقوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں لودہانہ کے مباحثہ کے وقت میں لہ ظہر و بطن میں نے پیش کیا تو مولوی محمد حسین کو جوش آگیا اور راوی کی مخالفت شروع کر دی۔کیا خدا کے کلام سے محبت اور ارادت کا یہی تقاضا ہونا چاہئیتھا یاد رکھو الطریقۃ کلہا ادب اگر اس کو درست نہ سمجھتا تھا تو قرآن شریف کی محبت کی وجہ سے اس قدر مخالفت بھی تو جائز نہ تھی۔
الغرض قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانہ نہیں ہو سکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اگر آج نشان دیکھنا چاہیں تو کہاں ہیں؟ کیا یہودیوں کے پاس وہ عصا ہے اور اس میں کوئی قدرت اس وقت بھی سانپ بننے کی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے ان کے ساتھ ہی ان معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود رہتے ہیں۔ ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوئی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی آپؐ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ہی موجود ہیںجو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنیو الا یہ دعوی کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیۃ اللہ ہو گیا ہوں لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم ، قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تاوہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کر دے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سوبرس پہلے ظاہر ہوتے تھے چنانچہ صدہا نشان اس وقت تک ظاہر ہو چکے ہیں اور ہر قوم ہر مذہب کے سرگروہوں کو ہم نے دعو ت کی ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آکر اپنی صداقت کے نشان دکھائیں مگرایک بھی ایسا نہیں کہ جن سے اپنے مذہبکی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طور پر دکھائے۔
ہم خدا تعالیٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہیں اور ہمارا یقین اور دعوی ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس کے مقابل نہیں ہے مثلاً میں علی وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کاکوئی امر پیش کریں وہ اپنی جگہ پر ایک نشان اور معجزہ ہے۔
مثلا تعلیم ہی کو دیکھیں تو وہ ایک عظیم معجزہ نظر آتی ہے او ر فی الواقع معجزہ ہے ایسے حکیمانہ نظام اور فطری تقاضوں کے موافق واقع ہوئی ہے کہ دوسری تعلیم اس کے ساتھ ہرگز ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی قرآن شریف کی تعلیم پہلی ساری تعلیموں کی متّمم اور مکمل ہے۔ اس وقت صرف ایک پہلو تعلیم کا دکھا کر میں ثابت کر تا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم اعلی درجہ پر واقع ہوئی ہے اور معجزہ ہے مثلاً توریت کی تعلیم( حالات موجودہ کے لحاظ سے کہو یا ضروریات وقت کے موافق) کا سارا زور قصاص اور بدلہ پر ہے۔جیسے آنکھ کے بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلہ دانت اور بالمقابل انجیل کی ساری تعلیم کا زور عفو و درگزر پر تھا اور یہاں تک اس کی تاکید کی کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف پھیر دو کوئی ایک کوس تک بیگار لے جائے تو دو کوس چلے جائو۔کرتہ مانگے تو چغہ بھی دے دو۔اس طرح پر ہر باب میں توریت اور انجیل کی تعلیم میں یہ بات نظر آئے گی کہ توریت افراط کا پہلولیتی ہے اور انجیل تفریط کا۔ مگر قرآن شریف ہر موقع او رمحل پرحکمت اور وسط کی تعلیم دیتا ہے جہاں دیکھو جس بارے میں قرآن کی تعلیم پر نگاہ کرو تو معلوم ہو گا کہ وہ محل اور موقعہ کا سبق دیتا ہے اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نفس تعلیم سب کا ایک ہی ہے لیکن اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ توریت اور انجیل میں سے ہر ایک کتاب نے ایک ایک پہلو پر زور دیا ہے مگر فطرت انسانی کے تقاضے کے موافق صرف قرآن شریف نے تعلیم دی ہے یہ کہنا کہ توریت کی تعلیم افراط کے مقام پر ہے اس لئے وہ خد اکی طرف سے نہیں یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ اس وقت ضرورتوں کے لحاظ سے ایسی تعلیم بکار تھی اور چوںکہ توریت یا انجیل قانون مختص المقام کی طرح تھیں اس لئے ان تعلیموں میں دوسرے پہلوئوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا لیکن قرآن شریف چوں کہ تمام دنیا اور تمام نوع انسان کے واسطے تھا اس لئے اس تعلیم کو ایسے مقام پر رکھا جو فطرت انسانی کے صحیح تقاضوں کے موافق تھی اور یہی حکمت ہے کیونکہ حکمت کے معنی ہیں وضع الشیئ فی محلہ یعنی کسی چیز کو اس کے اپنے محل پر رکھا پس یہ حکمت قرآن شریف نے ہی سکھلائی ہے۔
توریت جیسا کہ بیان کیا ہے ایک بے جا سختی پر زور دے رہی تھی اور انتقامی قوت کو بڑھاتی تھی اور انجیل بالمقابل بے ہودہ عفو پر زور مارتی تھی قرآن شریف نے ان دونوں کو چھوڑ کر حقیقی تعلیم دی ۔
جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فأجرہ علی اللہ( الشوریٰ:۴۱)
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس معاف کرنے میں اصلاح مقصود ہو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔٭
’’ اب اس تعلیم پر نگاہ کرو کہ نہ یہ توریت کی طرح محض انتقام پر ہی زور دیتی ہے اور نہ انجیل کی طرح ایسے عفو پر جو بسا اوقات خطرناک نتائج کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے مثلاً ایک خدمتگار ہے جو بڑا شریف اور نیک چلن ہے کبھی اس نے خیانت نہیں کی او رکوئی نقصان نہیں کیا اگر اتفاقا وہ چاء پلانے کے لئے آئے اور اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالیاں گر کر ٹوٹ جاویں تو اس وقت مقتضائے وقت کیا ہو گا کیا یہ کہ اس کو سزادیں یا معاف کر دیںایسی حالت میں ایسے شریف خدمت گار کو معاف کر دینا اس کے واسطے کافی سزا ہو گی۔لیکن ایک شریر خدمتگار جو ہر روز کوئی نہ کوئی نقصان کرتا ہے اس کو معاف کردینا اور بھی دلیر کر دینا ہے اس لئے اس کو سزا دینی ضروری ہوگی مگر انجیل یہ نہیں بتاتی انجیل پر عمل کر کے تو گورنمنٹ کو چاہئیے کہ اگر کوئی ہندوستان مانگے تو وہ انگلستان بھی اس کے حوالے کرے۔ کیا عملی طور پر انجیل مانی جاتی ہے ہرگز نہیں گورنمنٹ کے سیاست مدن کے اصولوں پر مختلف محکموں کا قائم کرنا اور عدالتوں کا کھولنا دشمن کی حفاظت کے لئے فوجوں کا رکھنا وغیرہ وغیرہ جس قدر بھی امور ہیں انجیل کی تعلیم کے موافق نہیں ہیں اس لئے انجیل کی تعلیم کے موافق کوئی انتظام ہو سکتا ہی نہیں۔
غرض قرآن شریف کی تعلیم جس پہلو اور جس باب میں دیکھو اپنے اندر حکیمانہ پہلو رکھتی ہے افراط یا تفریط اس میں نہیں ہے بلکہ وہ نقطۂ وسط پر قائم ہوئی ہے اور اسی لئے امت کا نام بھی
امۃ وسطا ( البقرۃ:۱۴۴)
رکھا گیا ہے ۔یہ بات کہ انجیل یا توریت کی تعلیم کیوں اعتدال اور وسط پر واقع نہیں ہوئی اس سے خدا تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور نہ ہی اس کی تعلیم کو ہم خلاف آئین و حکمت کہہ سکتے ہیں کیونکہ حکمت کے یہی معنی ہیں کہ وضع الشیئی فی محلہ۔ اس وقت کی حکمت کا تقاضا ایسی ہی تعلیم تھی ۔ جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ سزا کے وقت سزا دینا بھی حکمت ہے اور عفو کے وقت عفو ہی حکمت ہے اسی طرح پر اس وقت طبائع کی حالت کچھ ایسی ہی واقع ہوئی تھی کہ تعلیم کو ایک پہلو پر رکھنا پڑا۔ بنی اسرائیل چار سو برس تک فرعون کی غلامی میں رہے تھے اس وجہ سے ان لوگوں کے عادات اور رسوم کا ان پر بہت اثر پڑا ہوا تھا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے اطوار و عادات اور آئین ملک داری کا اثر رعایا پر پڑتا ہے بلکہ ان کے مذہب تک کا اثر جا پڑتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ الناس علی دین ملوکہم ۔ چنانچہ سکھوں کے زمانہ میں عام لوگوں پر بھی یہ اثر پڑا تھا کہ لوگ عموما ڈاکہ زن اور دھاڑوی ہو گئے تھے۔ ہری سنگھؔ و غیرہ براتیں ہی لوٹ لیا کرتے تھے اسی طرح پرفرعونیوں کی غلامی میں رہ کر بنی اسرائیل عدل کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے ان پر ہمیشہ ظلم ہوتا تھا وہ بھی اعتداء اور ظلم کر بیٹھے تھے پس ان کی اصلاح کے لئے تو پہلا مرحلہ یہی چاہئے تھا کہ ان کو عدل کی تعلیم سکھائی جاتی اس لئے یہ تعلیم ان کو دی گئی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ۔اس تعلیم پر وہ اس قدر پختہ ہو گئے کہ پھر انہوں نے انتقام لینا ہی شریعت کی جان سمجھ لیا او رمذہب یہ ہو گیا کہ بدلہ نہ لیں تو گنہ گار ٹھہریں گے۔ اس واسطے جب حضرت مسیح علیہ السلام آئے اور انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کی حالت ایسی ہو گئی ہے تو انہوں نے حد درجہ عفو کی تعلیم دی کیونکہ جس قدر زور کے ساتھ وہ انتقام پر قائم ہو چکے تھے اگر اس سے بڑھ کر عفو کی تعلیم نہ دی جاتی تو وہ مؤثر ثابت نہ ہوتی اس لئے ان کی تعلیم کا سارا دارو مدار اسی پر بس رہا پس ان اسباب اور وجوہ کے لحاظ سے یہ دونوں تعلیمیں اگرچہ اپنی جگہ ہی حکمت ہیں لیکن ان کو قانون مختص المقام یا قانون مختص الوقت کی طرح سمجھنا چاہئے۔
ابدی اور دائمی قانون ……خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں بعضی آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتاہے مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں مثلاً سفر کے لئے نماز یا روزہ کے متعلق اور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اور ۔ باہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی ہے گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کے برقع لے کر پھرتی رہے۔ اسی طرح پر توریت اور انجیل کے احکام آنی اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے قرآن شریف قانون مستقل ہے اور توریت ، انجیل اگر قرآن شریف نہ آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ کہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے۔
میں نے بعض احمقوں کو اعتراض کرتے سنا ہے کہ ایسا کیوںکیا گیا۔خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں کو کیوں منسوخ کیا ، کیا اس کو علم نہ تھا پہلے ہی مکمل اور مستقل ابدی شریعت بھیجنی تھی ۔ یہ اعتراض بالکل نادانی کا اعتراض ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے ضروری ہے کہ علم نہ ہو اگریہ صحیح ہے کہ ہر نسخ میں عدم علم ثابت ہوتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب کہ جو کپڑے برس یا دو برس کے بچے کو پہنائے جاتے ہیں کیوں وہی کپڑے پانچ ، دس یا پچیس برس کے ایک جوان کو نہیںپہنائے جاتے؟ کیا ہو سکتا ہے کہ گز آدھ گز کا کرتہ ایک نوجوان کو پہنایا جاوے ؟ یقینا کوئی سلیم الطبع انسان اس بات کو پسند نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسی حرکت پر ہنسی اڑائے گا ۔ اب اس مثال سے کیسی صفائی کے ساتھ ثابت ہو تا ہے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے عدم علم ثابت ہو۔ جب ہم بجائے خود معرض تغیر میں ہیں تو ہماری ضرورتیں اس تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں پھر ان تبدیلیوں کے موافق جو نسخ ہو تا ہے وہ ایک علم اور حکمت کی بنا ء پر ہوا یا عدم علم پر ۔ یہ اعتراض سراسر جہالت اور حمق کا نشان ہے جیسے پیدا ہونے والے بچے کے منہ میں روٹی کا ٹکڑہ یا گوشت کی بوٹی نہیں دے سکتے اسی طرح پر ابتدائی حالت میں میں شریعت کے وہ اسرار نہیں مل سکتے جو اس کے کمال پر ظاہر ہوتے ہیں طبیب ایک وقت خود مسہل دیتا ہے اور دوسرے وقت جب کہ اسہال کا مرض ہو اس کو قابض دوا دیتا ہے۔ ہر حالت میں وہ ایک ہی نسخہ کس طرح لکھ سکتا ہے ۔
غرض قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلی درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی اور عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں رسول اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں کیا اسو قت جبکہ ساری قوم آپ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ
سیھزم الجمع و یولون الدبر( القمر:۴۶)
چھوٹی بات ہو سکتی تھی ۔ اسباب کے لحاظ سے تو کوئی ایسا فتوی دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر آپ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور آکر اسی طرح وقوع میں آتا ہے پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے واے سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لا نظیر ہیں دنیا کی کسی کتاب کی پیشگوئیوں کو پیش کر دیا کیا یہ مسیح کی پیشگوئیاں ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں جہاں صرف اتنا ہی کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے آندھیاں آئیں گی مرغ بانگ دے گا وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کی معمولی باتیں تو ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے اور یہ حوادثات ہمیشہ ہی ہوتے رہتے ہیں پھر اس میں غیب گوئی کی قوت کہاں سے ثابت ہوتی ہو۔ اس کے مقابلہ میں قرآن شریف کی پیشگوئی دیکھو۔
الم۔ غلبت الروم فی ادنی الأ رض و ھم من بعد غلبھم سیغلبون۔فی بضع سنین للہ الأمر من قبل و من بعد و یومئذ یفرح المؤمنون( الروم:۲تا۵)
میں اللہ بہت جاننے والا ہوں۔رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں یقینا غالب ہونے والے ہیں پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہوگا جب مومن بھی خوشی کریں گے۔
اب غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیش گوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرے میں تھی نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر یومئذ یفرح المؤمنون کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے؛ چنانچہ جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدرؔ کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی ۔ اسی طرح سورۂ یوسف میں آیات للسائلین کہہ کر اس سارے قصہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے۔
غرض جہاں تک دیکھا جاوے قرآن شریف کی پیشگوئیاں بڑے اعلی درجہ پر واقع ہوئی ہیں اور کوئی کتاب اس رنگ میں ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پیشگوئیاں یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پوری ہو گئی تھیں بلکہ ان کاسلسلہ برابرجاری ہے؛چنانچہ بہت سے پیشگوئیاں تھیں جو اب پوری ہو رہی ہیں اوربہت اب بھی باقی ہیں جو آئندہ پوری ہوں گی۔
منجملہ ان پیشگوئیوں کے جوا س وقت پوری ہو رہی ہیں اس سلسلہ کی پیشگوئی ہے جو قرآن شریف کے اول سے شروع ہو کر آخر تک چلی گئی ہے ؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں صراط الذین انعمت علیہم کہہ کر مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اور پھر اس سورت میں مغضوب اور ضالین دو گروہوں کا ذکر کے یہ بھی بتا دیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس وقت ایک قوم مخالفت کرنے والی ہو گی جو مغضوب قوم یہودیوں کے نقش قدم پر چلے گی۔اور ضالین میںیہ اشارہ کیا کہ قتل دجّال اور کسرِصلیب کے لئے آئے گا،کیونکہ مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصاریٰ بالاتفاق مراد ہیں اور آخر قرآن شریف میں بھی شیطان کا ذکر کیا , جو اصل دجّال ہے اور ایسا ہی سورۂ نور کی آیت استخلاف میں مسیح موعود خاتم الخلفاء کی پیشگوئی کی اور سی طرح سورۂ تحریم میں صراحت کے ساتھ ظاہر کیا کہ اس امت میں بھی ایک مسح آنے والا ہے کیونکہ جب مومنوں کی مثال مریم کی سی ہے تو اس امت میںکم ا ز کم ایک شخص تو ایسا ہو جو مریم صفت ہو اور مریم میں نفخ روح ہو کر مسیح پیدا ہو توا س مومن میں جب نفخ روح ہو گا تو خو د ہی مسیح ہو گا۔٭
ان پیشگوئیوں کا ظہور جو اس سلسلہ کی صورت میں ہوا ہے تو کیا یہ چھوٹی سی بات ہے ۔ یہ سلسلہ بہت بڑی پیش گوئی کا پورا ہونا ہے جو تیرہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں پر جاری ہوء۔ اس قدرمدت دراز پہلے یہ خبر دینا قیافہ شناسی اوراٹکل بازی نہیں ہو سکتی اور پھر یہ پیشگوئی اکیلی نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ ہزاروں وہ آیات و نشانات ہیں جو اس وقت کے لئے پہلے سے بتا دئیے گئے تھے اور ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے خود یہاں ہزاروں نشانوں کا سلسلہ جاری کر دیا چنانچہ کئی سو پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں ۔ جو قبل از وقت ملک میں شائع کی گئیں پھر وہ اپنے وقت پر پوری ہوئی ہیں ۔ جن کو ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں ۔ اب کیا قرآن کریم کا معجزہ اس کی پاک تعلیم کا نتیجہ اور اثر ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تاثیر انفاس کے ثمرات نہیں ۔ ماننا پڑے گاکہ یہ سب کچھ آپ ہی کے طفیل ہے کیونکہ یہ مسلم بات ہے۔
خارقے کز ولی مسموع است
معجزہ آن نبی متبوع است
اس لئے جس قدر یہ نشانات اور آیات یہاں ظاہر ہو رہی ہیں یہ درحقیقت رسول اللہ ا ہی کے خوارق اور معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف ہی کی پیش گوئیاں ہیں کیونکہ آپ ہی کے اتباع اورقرآن شریف ہی کی تعلیم کے ثمرات ہیں ۔ اور اس وقت کوئی اور مذہب ایسا نہیںہے جس کا پیروا ور متبع یہ دعوی کر سکتا ہو کہ وہ پیشگوئیاں کر سکتا ہے یا اس سے خوارق کا ظہور ہوتا ہے اس لئے اس پہلو سے قرآن شریف کا معجزہ تمام کتابوں کے اعجاز سے بڑھا ہوا ہے۔
پھر ایک اور پہلو فصاحت بلاغت ایسی اعلی درجہ کی اورمسلم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کی بھی اسے ماننا پڑا ہے قرآن شریف نے فأ توا بسورۃ من مثلہٖ( البقرہ:۲۴) کا دعوی کیا۔ لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لا سکے عرب جو برے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے تھے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلہ سے عاجز ہو گئے۔
اور پھر قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوے اور معانی اور مطالب کی پرواہ نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلی درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے۔
ایک جگہ فرماتا ہے کہ یتلوا صحفا مطھرۃ فیہا کتب قیمہ( البینہ:۳،۴) یعنی ان پر ایسے صحائف پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میںپاکیزہ تعلیم اور اخلاق فاضلہ کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفات رذیلہ کو دور کرکے بھی دکھا دے اور ان کی جگہ اعلی درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ سارے عیبوں اور برائیوں کو مجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوںسے ان کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپ کے فیوضات اور اور برکات میں قوت تھی کہ تئیس برس کے اندر کل ملک کی کایا پلٹ دی۔
ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی قرآن کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کوا س میں بھر دیا ہے ۔ سورۂ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کل مراتب کو بیان فرمایا ہے اس میں ہر قسم کے شرکوں کا رد کر دیا ہے ۔ اسی طرح سورۂ فاتحہ کو دیکھو کہ کس قدر اعجاز ہے چھوٹی سی سورۃ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے۔اور پھر اس میں خدا تعالٰیکی ہستی ، اس کی صفات ,دعا کی ضرورت اس کی قبولیت کے اسبا ب اور ذرائع ، مفید سود مند دعائوں کا طریق ، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھلائی ہے ، وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رد اس میں موجود ہے۔
اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں، مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم بھی پیش کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بری بات کرتا سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں یہ کسی مذہب میں نہیںیہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے جس کا نمونہ اس سورۃ فاتحہ میں دکھایا ہے کہ ایک ایک لفظ مذاہب باطلہ کی تردید کر رہا ہے ۔
مثلاًفرمایا:الحمد للہ ساری تعریفیں خواہ و ہ کسی قسم کی ہوں وہ اللہ تعالٰیہی کے لئے سزا وار ہیں اب س لفظ کو کہہ کر ثابت کیا کہ قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے کیونکہ اللہ کا لفظ اس ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں۔ اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حسن کے یا بلحاظ احسان کے پس دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں ۔ دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالیٰ کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں او ریہ لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری طرح تردید کرتا ہے مثلاً عیسائیوں کو لو ۔ وہ جس اللہ کو مانتے ہیں وہ ایک عاجز ضعیف عورت کا بچہ ہے جس کا نام یسوع ہے جو معمولی بچوں کی طرح دکھ درد کے ساتھ ماں کے پیٹ سے نکلا اور عوارض میں مبتلاء رہا ۔ بھوک پیاس کی تکلیف سے سخت بے چین رہا ار سخت تکلیفیں اور دکھ اسے اٹھانے پڑے جس قدر ضعف اور کمزوریوں کے عوارض ہوتے ہیں ان کا شکار رہا آخر یہودیوں کے ہاتھوں پیٹا گیا اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا۔
اب اس صورت کو جو یسوع کی ( عیسائیوں نے جس کو خدا بنا رکھا ہے ) انجیل سے ظاہر ہوتی ہے کسی دانشمند کے سامنے پیش کرو کیا وہ کہہ دے گا کہ بے شک اس میں تمام صفات کاملہ پائی جاتی ہیں اور کوئی نقص اس میں نہیں ہرگز نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں اور نقصوں کا پہلا اور کامل نمونہ اسے ماننا پڑے گا، تو الحمد للہ کہنے والا کب ایسے کمزور اور مصلو ب اور ملعون خدا کو مان سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عیسائیوں کے بالمقابل ایسے خدا کی طرف بلاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں سکتا۔
پھر آریہ مذہب کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پرمیشر وہ ہے جس نے ذرات عالم اور ارواح ِعالم کو بنایا ہی نہیں بلکہ جیسا وہ ازلی ابدی ہے ، ویسے ہی ہمارے ذرات جسم وغیرہ بھی خدا کے بالمقابل اپنی ایک مستقل ہستی رکھنے والی چیزیں ہیں جو اپنے قیام اور بقاء کے لئے اس کی محتاج نہیں ہیں بلکہ ایک طرح وہ اپنی خدائی چلانے کے واسطے ان چیزوں کا محتاج ہے وہ کسی چیز کا خالق نہیںاور پھر اس بات کا سمجھ لینا بھی کچھ مشکل نہیں کہ جو خالق نہیں وہ مالک کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا ہی ان کا اعتقاد ہے کہ وہ رازق کریم وغیرہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس سے زائد اسے کچھ مل سکتا ہی نہیں۔
اب بتائو اس قدر نقص جس خدا میں پیش کئے جاویں عقل سلیم ک اسے تسلیم کر نے کے لئے رضا مند ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پر جس قدر مذاہب باطلہ دنیا میں موجود ہیں الحمد للہ کا جملہ خدا تعالیٰ کے متعلق ان کے کل غلط اور بے ہودہ خیالات و معتقدات کی تردید کرتا ہے۔
پھراس کے بعد رب العالمین کا لفظ ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اللہ وہ ذات جمیع صفات کاملہ ہے جو تمام نقائص سے منزہ ہو اور حسن و احسان کے اعلی نکتہ تک پہنچا ہو اہو تاکہ اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں۔ اور روہ کے جوش اور کشش سے اس کی عبادت کریں۔اس لئے پہلی خوبی احسان کی صفت رب العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے جس کے ذریعہ کل مخلوق فیض ربوبیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے مگر اس کے بالمقابل باقی سب مذہبوں نے جو اس وقت موجود ہیں اس کا بھی انکار کیا ہے مثلاً آریہ جیسا کہ ابھی بیان کیا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ سب اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور خدا کی ربوبیت سے وہ ہرگز ہرگز بہرہ ور نہیں ہے کیونکہ جب وہ اپنی روحوں کا خالق ہی خدا کو نہیں مانتے اور ان کو اپنے بقا ء و قیام میں بالکل غیر محتاج سمجھتے ہیں تو پھر اس صفت ربوبیت کا بھی انکار کرنا پڑا۔
ایسا ہی عیسائی بھی اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ وہ مسیح کو اپنا رب سمجھتے ہیں اور ربنا المسیح ربنا المسیح کہتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جمیع مافی العالم کا رب نہیں مانتے بلکہ مسیح کو اس فیض ربوبیت سے باہر قرار دیتے ہیں اور خو دہی اس کو رب مانتے ہیں اسی طرح پر عام ہندو بھی اس صداقت کے منکر ہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک چیز اور دسری چیزوں کو رب مانتے ہیں۔
برہم سماج والے بھی ربوبیت تامہ کے منکر ہیں کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ کرنا تھا وہ سب یک بار کر دیا اور یہ تمام عالم اور اس کی قوتیں جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں مستقل طور پر اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اب معطل محض ہے غرض جہاں تک مختلف مذاہب کو دیکھا جاوے اوران کے اعتقادات وغیرہ کی پڑتال کی جاوے تو صاف طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے قائل نہیں ہیں یہ خوبی جو اعلی درجہ کی خوبی ہے اور جس کا مشاہدہ ہر آن ہو رہا ہے صرف اسلام ہی بتاتا ہے کہ اور اس طرح پر اسی ایک لفظ کے ساتھ ان تمام غلط اور بے ہودہ اعتقادات کی بیخ کنی کرتا ہے جو اس صفت کے خلاف دوسرے مذاہب والوں نے خود بنا لئے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عمل عامل کے عطا کرتا ہے مثلا جب انسان پیدا ہوتا ہے توا س کے قیام و بقاء کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں پیدا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے۔ آسمان ، زمین،سورج،چاند ،ستارے،پانی،ہوا،وغیرہ وغیرہ یہ تمام اشیاء اس نے انسان کے لئے بنائی ہیں یہ اس صفت رحمانیت ہی کے تقاضے ہیں لیکن دوسرے مذاہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کر سکتا ہے آریہ تو سرے سے ہی اس مسئلہ کو مانتے ہی نہیں جب کہ رب العالمین کے معنی بیان کرتے وقت بتایا ہے۔ عیسائیوں نے بھی کفارہ کا مسئلہ درست کرنے کے لئے یہی اعتقاد رکھا ہے کہ وہ بلامبادلہ رحم نہیں کر سکتا ، مگر آریوں سے تو یہ پوچھنا چاہئیے کہ یہ زمین ، چاند ،سورج، ہوا ، پانی جو موجود ہے وہ کن گذشتہ کرموں کا پھل ہے۔٭
پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے پرثمرات نتائج مترتب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ سست اور نکما ہو جاوے گا۔ یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی او رنیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ اس وقت کہلاتا ہے جب کہ لوگوں کی دعا، تضرع ، او ر اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلائوں اور تضییع اعمال سے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے۔
رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے یہ انسان کے لئے ا یک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رد کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذاہب اباحت کی طرف مائل ہیں او ر وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کب قائل ہو سکتاہے سید احمد خان مرحوم نے بھی دعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پر وہ فیض جو دعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے وہ اس سے محروم رکھا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت مالک یوم الدین بیان کی ہے ۔جو لوگ قیامت کے منکر ہیں اس میں ان کا رد موجود ہے اسکی تفصیل قرآن میں بہت جگہ آئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی اس صفت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ کامیابی کی راہ پیدا ہوتی ہے اور ایک حق ہوتا ہے مگر مالکیت یو م الدین وہ حق اور ثمرہ عطا کرتی ہے ۔
اور فقرہ ایاک نعبد تمام باطل معبودوں کی تردید کرتا ہے اور مشرکین کا رد اس میں موجودہے کیونکہ پہلے اللہ تعالے کی صفات کاملہ کو بیان فرمایا ہے اس سے مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ
ایاک نعبد( الفاتحہ:۵)
یعنی صفات کاملہ والے خدا جو رب العالمین، رحمن، رحیم ، مالک یوم الدین ہے ،تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں ۔ یہ ہر چہار صفات جوا م الصفات کہلاتی ہیں معبودان باطلہ میں کہاں پائی جاتی ہیں جو لوگ پتھروں یا درختوں یا حیوانات اور دوسری چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ان میں ان صفات کو ثابت نہیں کر سکتے۔
اسی طرح ایاک نستعین میں ان لوگوں کا رد ہے جو دعا اور اس کی قبولیت منکر ہیں۔ اور
اہدنا الصراط المستقیم صرا ط الذین انعمت علیہم
میں آج کل کے مولویوں کا رد ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا اور ان برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے۔
یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو ا ب گو یا بے اثر مانتے ہیں اور حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں کیونکہ اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیںہو سکتا جو منعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دعاکے مانگنے کا فائدہ کیا ہوا مگر نہیں یہ ان لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں خدا تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا دروازہ اب بھی اسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر یہ دعویٰ کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے توا یسا شخص جھوٹا اور کذاب ہے۔
سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بعض عبارتیں ایسی تھیں جو قرآن کے رنگ کی تھیں مولوی عبدالحی جنہوں نے اتباع سنت کیا ہے اور مجھے ان سے بہت محبت ہے ان کا مذہب توحید کا تھا۔وہ بدعات اور محدثات سے جدا رہتے تھے۔
وہ ان عبارتوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن کے موافق ہیں توا س کا کیا جواب دیں؟ تو فرماتے ہیں کہ ولیوںکے کرامات اور خوارق انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کی ہی طرح ہوتے ہیں۔اس لئے یہ قرآن ہی کا معجزہ ہے اصل یہی ہے کہ کامل اتباع سنت کی بعد خوارق اور معجزات کا دروازہ بند ہو گیا ہے تو پھر معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بھاری ہتک ہو گی ۔
یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا انا اعطیناک الکوثر( الکوثر:۱) یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ان شانئک ھوالأبتر(الکوثر:۳) تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
روحانی طور پر لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے اس آیت کو ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسو ل اللہ و خاتم النببین(الاحزاب:۴۱) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے ۔ اور انا اعطیناک الکوثر سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو ا س پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے۔
اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو ماننا پڑے گا اور ماننا چاہئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی ابدالآباد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں ؛چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہو رہے ہیں۔
سچی بات یہی ہے کہ اگر اہدنا الصراط المستقیم نہ ہوتا تو سالک جو اپنے نفس کی تکمیل چاہتے ہیں مرہی جاتے۔ لاہور میں ایک مولوی عبدالحکیم صاحب سے مباحثہ ہوا تھا تو ہم نے اس کو یہی پیش کیا تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے مکالمات سے کیوں ناراض ہوتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تو محدث تھے اس نے صاف طور پر انکار کیا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی طور پر کہا تھا حضرت عمربھی محدث نہ تھے یہ محال ہے کہ آئندہ کسی کو الہام ہو ۔ان کو اس پر بالکل ایمان نہیں ہے وہ مکالمات کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہوں نے گونگا خدا مان لیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن شریف میںجو یہ آیا ہے لہم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا (یونس:۶۵) اس کا ان کے نزدیک کیا مطلب ہے اور جب ملائکہ ایسے مومنوں پر نازل ہوتے ہیں اور ان کو بشارتیں دیتے ہیں تو وہ بشارتیں کس طرف سے دیتے ہیں۔اس اعتقاد پر پھر قرآن شریف کا ان کو انکار کرنا پڑے گا کیونکہ سارا قرآن شریف اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ مکالمہ کا شرف عطا ہوتا ہے اگر یہ شرف ہی کسی کو نہیں ملتا تو پھر قرآن شریف کی تاثیرات کا ثبوت کہاں سے ہو گا اگر آفتاب دھندلا اور تاریک ہے تو اس کی روشنی پر کوئی کیا فرق کر سکے گا۔او رکیا یہ کہہ کر فخر کرے گا کہ اس میں روشنی نہیں بلکہ تاریکی ہے۔٭
اس طرح پر قرآن شریف کی تاثیرات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی برکات کے لئے یہ اعتقاد کرنا کہ وہ ایک وقت خاص پر ایک شخص خاص ہی کے لئے تھے آئندہ کے لئے ان کا سلسلہ بند ہو گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی اور توہین ہے اور نہ صرف قرآن شریف اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی بلکہ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر اعتراض کرنا ہے۔
یاد رکھو کہ نبیوں کا وجود اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ محض ریا کاری اور نمود کے طور پر ہو اگر ان سے کوئی فیض جاری نہیں ہوتا اور مخلوق کو روحانی فائدہ نہیں پہنچتا۔ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ صرف نمائش کے لئے ہیں ۔اور ان کا عدم وجود معاذ اللہ برابر ہے۔مگر ایسا نہیں ہے وہ دنیا کے لئے بہت سے برکات اور فیوض کے باعث بنتے ہیں اور ان سے خیر جاری ہوتی ہے جس طرح آفتاب سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے اور اس کا فائدہ کسی خاص حدتک جا کر بند نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض وبرکات کا آفتا ب ہمیشہ چمکتا ہے اور سعادت مندوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ( آل عمران:۳۲)یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا آپ کی سچي اطاعت اور اتباع انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتی ہے۔
پس جب کہ آپ کی اتباع کامل اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک محبوب اپنے محب سے کلام نہ کرے ۔ اگر یہ مانا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو باوجود محبوب بنانے کے پھر بھی اس سے کلام نہیں کرتا تو ، یہ محبوب معاذ اللہ ابکم ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے لئے یہ نقص ٹھہراتا ہے کہ وہ کلام نہیں کرتے ، مگر ہم یہ ثابت کرنے کو تیار ہیں۔اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کے آثار اور ثمرات ہر وقت پائے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ خدا جو ہمیشہ سے ناطق خدا ہے اپنا لذیذ کلام دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے۔اور قرآن شریف کے اعجاز کا ثبوت اس وقت بھی دے رہا ہے یہ قرآن شریف ہی کا معجزہ ہے کہ جو ہم تحدی کر رہے ہیں کہ ہمارے بالمقابل قرآن شریف کے حقائق و معارف عربی زبان میں لکھو اور ک سی کو یہ قدرت نہیں ہوتی کہ مقابلہ کے لئے نکل سکے۔ہمارا مقابلہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے کیونکہ وآخرین منہم لما یلحقوا بہم( الجمعہ:۴) جو فرمایا گیا ہے ۔اس وقت جو تعلیم کتاب والحکمت ہو رہی ہے اس کی اصل غرض یہی ہے کہ قرآ ن شریف کا معجزہ ثابت ہو۔
ماحصل یہ ہے کہ قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا۔اس کے فیوض و برکات کا در ہمیش جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت او رعزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گااور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا۔
کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی۔جیسے آپ پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا انی رسول اللہ الیکم جمیعا( الاعراف:۱۵۹)اور ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین(الانبیاء:۱۰۸)جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے اس الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیںہوگا۔جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواب کی تعبیر میں معبرین نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ہر شخص کی حیثیت اور حالت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔اگر کوئی آدمی غریب ہے تو اسکی خواب اس کی ہمت اور مقاصد کے اندر ہو گی امیر کی اپنے رنگ کی اور بادشاہ کی اپنے رتبہ کی ۔ کوی غریب مثلا اگر یہ دیکھے کہ اس کے سر میں خارش ہوتی ہے تو اس سے یہ مراد ہونے سے رہی کہ کہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھا جاوے گا بلکہ اس کے لئے تو یہی مراد ہوگی کہ وہ کسی کے جوتے کھائے گا۔جیسے استعدادوں کے دائرے مختلف ہیں اسی طرح پر کلام الہٰی کے دوائر بھی مختلف ہیں ۔
اسی طرح پر کرامات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جب کہ رکھا ہوا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ کلام کا اعجاز نہ کرھا جائے جیسے ہر زمانہ میں کرامات ہوتی رہی ہیں۔اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کے ثبوت ک ے لئے کلام کا معجزہ بھی رکھا ہے جیسے حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی وہ چند سطریں معجزہ تھیں۔اس زمانہ میں بھی قرآن شریف کے کلام کے اعجاز کے لئے کلام کا معجزہ دیا گیا ہے اسی طرہ پر جیسے دووسرے خوارق اور نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور خوارق کے ثبوت کے لئے دئے گئے ہیں جس جس قسم کے نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تھے اسی رنگ پر اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نشانات کو رکھا ہے۔کیونکہ یہ سلسلہ اسی نقش قدم پر ہے اور دراصل وہی سلسلہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بروزی آمد کی پہلے ہی سے پیشگوئی ہو چکی تھی اور آخرین منھم ( الجمعہ:۴) میں یہ وعدہ کیا گیا تھا پس جیسے آپ کو اس وقت کلام کا معجزہ اور نشان دیا گیا تھا اور قران شریف جیسی لا نظیر کتاب آپ کو ملی ۔اسی طرح پراس رنگ میں آپ کی اس بروزی آمد میں بھی کلام کا نشان دیا گیا,دیکھ لو کس قدر تحدی کے ساتھ غیرت دلانے والے الفاظ میں مقابلہ کے واسطے بلایاگیا ہے مگر کسی کو ہمت اور حوصلہ بھی نہیں ہوتا ۔خدا تعالیٰ نے ان کی ہمتوں کو سلب کر لیا ہے اور ان کے علوم اور قابلیتوں کو چھین لیا ۔باوجودیکہ یہ لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور اپنے علوم کی لاف زنیاں کرتے تھے۔مگر اس مقابلے میں خداتعالی نے ان سب کو ذلیل اور شرمندہ کیا ۔
دوسرا بڑاعظیم الشّان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شق القمر تھا اور شق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ہوا ۔اسوقت بھی اللہ تعالیٰ ٰ نے کسوف وخسوف کا ایک نشان دکھایاگیاہے ۔یہ مسیح موعو داور مہدی کے لیے مخصوص تھا۔اور ابتدائے دُنیا میںسے کبھی اس رنگ میںیہ نشان نہیںدکھایاگیاتھا ۔یہ صرف مسیح موعود کے زمانے کے لیے رکھاگیاتھا اور احادیث میںآیات مہدی میںسے اُسے قرار دیاگیاہے جس کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ میرے ہی نام پر آئے گا ۔ اس میں یہی نکتہ ہے جونشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودئیے گئے تھے اس رنگ کے نشان یہاںبھی دئیے جانے ضروری تھے کیونکہ یہ آمد آپ ہی کی ہے ۔
غرض قرآن شریف بدوںغور خوض بدوںمحوداثبات اپنے اندر زندگی کی روح رکھتا ہے اور بُدوں کسی نسبتی لحاظ یامقابلہ کے مستقل اعجاز ہے اور اس وقت جو اعجازکلام دیاگیاہے ۔ یہ گویا اُس اعجاز کواس طرح پر دکھایاگیا ہے جیسے ایک عمارت کو ایک نقشہ کے رنگ میںدکھایاجاتا ہے اور ایک شیشے کو دوسرے شیشے میںدکھایاجاوے ۔مسلمانوںکے لیے یہ امر کس قدر رنج کا موجب ہوتاہے ۔اگر یہ مان لیاجاتاکے کوئی خوارق اور نشانات اُن کو نہیںدیئے گئے کیونکہ پچھلے نشانات آنے والے لوگوںکے لیے بطور کہانی کے ہوجاتے ہیں۔سو انسانی فطرت تو تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتی ہے ۔مجھے ان خشک موحدوںپر افسوس ہی آتاہے جویہ سمجھ بیٹھے ہیںکے خوارق کاکوئی نشان نہیںاور نہ ان کی ضرورت ہے خشک زندگی سے تو مرنابہتر ہے ۔اگر خداتعالیٰ نے اپنے فضل کوبند کردیاہے اور قفل لگا دیاہے تو پھر ھدناالصراط المستقیم کی دُعاتعلیم کرنے کی کیاضرورت تھی ۔یہ تووہی بات ہوئی کہ ایک شخص کی مشکیںباندھ دی جاویںاور پھر اس کو ماریںکے تُواب چل کر کیوںنہیںدکھاتا۔بھلا وہ کس طرح چل سکتا ہے فیوض وبرکات کے دروازے تو خود بند کر دیئے اور پھر یہ کہہ بھی دیا کہ اھدناالصراط المستقیمکی دعا ہر روزنماز میں کی مرتبہ مانگا کرو ۔ اگرقانون قدرت سے یہ رکھا تھا کہ آپ کے بعد معجزات اور برکات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا اورکوئی فیض نہیں ملنا تھا تو پھر اس دعا سے کیا مطلب۔
اگر اس دعا کا کوئی نتیجہ نہیں تو پھر نصاریٰ کی تعلیم اور آثار اور نتائج اور اس کی تعلیم کے آثار اور نتائج میں کیا فرق ہوا لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلا سکو گے مگر اب وہ جوتی بھی سیدھی نہیں کر سکتے لکھا ہے میرے جیسے معجزات دکھا ؤ گے، مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا لکھا ہے کہ زہریں کھا لو گے تو اثر نہیں کریں گی۔ مگر اب سانپ ڈستے اور کتے کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دعا کا نہیں دکھا سکتے۔ ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے۔
عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اس میں زندگی اور روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر انہون نے نبی کا طریق چھوڑ دیا ہے۔
اب اگر ہم بھی اقرار کر لیں اب نشانات اور خوار ق نہیں ہوتے اور یہ دعا جو سکھائی گئی ہے اس کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں تو کیا اس کے معنے یہ نہیں ہوں گے کہ یہ اعمال معاذ اللہ بے فائدہ ہیں۔ نہیں خدا تعالیٰ جو دانا اور حکمت والا ہے وہ نبوت کی تاثیرات کو قائم رکھتا ہے۔ اور اب بھی اس نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ اس امر کی سچائی پر گواہ ہو قرآن شریف کے جس قدر اعجاز معارف معجز کلامی کے میں نے نے جمع کئے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو ظاہر کر رہا ہے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کے خوارق کا ثبوت ہو یہی ایک ہتھیار اور حربہ ہے جو ہم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جس کے ساتھ ہم مذاہب باطلہ کے سحر کو توڑنا چاہتے ہیں ہم قرآن شریف کو زندہ کلام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اسے منتر بنانا نہیں چاہتے۔٭
جاننا چاہئے کہ عالم آخرت درحقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے من کان فی ھذہ أعمی فھو فی الآخرۃ أعمی(بنی اسرائیل :۷۳) یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا۔ ہمیں اس تمثیلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے اور ذرا سوچنا چاہئے کہ کیونکر روحانی امور عالم رؤیاء میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ وجود عدم غیبت حس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں ۔ جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ اس دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصل جس میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں سے مقدس لوگ باذنہ تعالیٰ آئندہ کی خبریں دیتے ہیں اور خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں۔ بسا اوقات عین بیداری میں ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ آتا ہے اوروہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے۔اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے کشف کی اعلی قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیریں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آگیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑ جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اٹھاتی جاتی ہے۔اورد وسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواسی ظاہری بخوبی اپنا کام دے رہے ہیں بلکہ لذت اس لذت نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بکل خلق علیم (یٓس ٓ:۸۰)ہے ایک قسم کے خلق کا تماشہ دکھا دیتا ہے پس جب کہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا ہی میں نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر ایک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہو گی اور میزان اعمال نظر آئیں گے اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے امور روحانی جسمانی شکل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقل مند تعجب کرے کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا ہی میں عارفوں کو دکھادیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھا دے بلکہ ان تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں یہ تمثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں جو اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے۔
یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک محجوب آدمی قصہ کی طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں سو جس کی نظر کی حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے سلسلہ میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تلنا اور لوگوں کا پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایساہی اعمال کو خوش شکل یا بدشکل انسانوں کی طرح لوگوں پرظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ او ر شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ ، یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں۔‘‘٭
۳؍دسمبر۱۹۰۱ء؁
سب صاحبوں کو معلوم ہو ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے ۔ میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہئیے۔
اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے یجمع لہ الصلوٰۃ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلا کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لامہدی الا عیسیٰ والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا ا ہل الہام لوگ محدثین تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے تو جب یہ حالت ہے کہ پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالے کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوںیہ پیشگوئی جو اس حدیث تجمع لہ الصلاۃ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہو گا کہ اس کے لئے نماز جمع کی جاوے گی اب یہ علامت جب پوری ہو گئی اور ایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگا ہ سے دیکھنا چاہیے۔کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں۔
دیکھو انسان کے اپنے اختیار میں اس کی موت فوت نہیں ہے اب اس نشان کے پورا ہونے پر تویہ لوگ رکیک اور نامعقول عذر تراشتے ہیں اور اعتراض کے رنگ میں پیش کرتے اور حدیث کی صحت اور عدم صحت کو لے بیٹھے ہیں لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ اس نشان کے پورا ہونے سے پہلے ہی ہماری موت آجاتی تو یہی لوگ اس حدیث کو جس کو اب موضوع ٹھہراتے ہیں آسمان پر چڑھا دیتے اور اس سے زیادہ شور مچاتے جو اب مچا رہے ہیں دشمن اسی ہتھیار کو اپنے لئے تیز کر لیتے لیکن اب جب کہ وہ صداقت کا ایک نشان اور گواہ ٹھہرتا ہے توا س کو نکما اور لاشے قرار دیا جاتا ہے پس ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کہہ سکتے ہیں انہوں نے تو صد ہا نشانات دیکھے مگر انکار پر انکار کیا ور صادق کو کاذب ہی ٹھہرایااور کس نشان کو انہوں نے مانا جو اس کی امید ان سے رکھیںکیا کسوف و خسوف کا کوئی چھوٹا نشان تھا اس کے پور ا ہونے سے پہلے تو اس کو نشان قرار دیتے رہے مگر جب پورا ہو گیا تو اس کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی بہرحال مخالفوں کی کور چشمی اور تعصب کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ اب رہی اپنی جماعت خدا کا شکر ہے کہ اس کے لئے کوئی ابتلاء نہیں کیونکہ جس نے دمشق کے منارہ پر چڑھنے والے اور فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زرد پوش مسیح کے اترنے کی حقیقت کو اللہ کے فضل سے سمجھ لیا ہے اور جس نے خدا کی صفات والے دجال کا انکار کر کے دجال کی حقیقت حال پر اطلاع پا لی ہے اور ایسا ہی دابۃ الارض اور دجال متعلق ان لوگوں نے خانہ ساز مجموعوں کو چھوڑا ہے اور اس قدر باتوں پر جب وہ مجھ پر نیک ظن کرنے کے باعث الگ ہوگئے ہیں تو یہ امر انکی راہ میں روک اور ابتلاء کا باعث کیون کر ہو سکتا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ اب تک صرف حسن ظن تک نہیں رہی بلکہ خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت اور بصیرت کے مقام تک پہنچایا دیا ہے اور وہ دیکھ چکے ہیں کہ میں وہی ہوں جس کا خدانے وعدہ کیا تھا ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں دوست دشمن ، دورونزدیک،ہر مذہب و ملت کے لوگ ان کے گواہ ہیں زمین نے اپنے نشانات الگ ظاہر کئے آسمان نے الگ وہ علامت جو میرے لئے مقرر تھیں وہ سب پوری ہو گئیں پھر اس قدر نشانات کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوتا ہے میں دعوی سے کہتا ہوں تم میں سے ہرایک پر خدا نے ایسا فضل کیا ہے ایک بھی تم میں سے ایسا نہیں جس نے اپنی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ایک بھی نہیں پھر ایسی بصیرت اور معرفت بخشنے والے نشانوں کے بعد مجھ پر حسن ظن ہی نہیں رہا بلکہ میری سچائی اور خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے پر تم علی وجہ البصیرۃ گواہ ہو اور تم پر حجت پوری ہو چکی ہے۔
پھر وہ بڑا ہی بد قسمت اور ناد ان ۔جواتنے نشانوںکے بعد اس پیشگوئی کے پوراہونے پر ابتلاء میںپڑے جو اس کے ازد یاد ایمان کا موجب اور باعث ہونی چاہئیے جوکے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکے آنے والے موعو دکایہ بھی ایک نشان ہے کے اس کے لیے نمازجمع کی جائے ۔پس تمھیںخداکاشکر گزار ہونا چاہئے کے یہ نشان بھی پوراہوتاہواتم نے دیکھ لیا۔اگر کوئی یہ کہے کے یہ حدیث موضو ع تومیںنے پہلے اسکے بابت ایک جواب یہ دیا ہے کہ محدثین نے خود تسلیم کر لیاکہ اہل کشف اور مامور تنقید احادیث میںاُن کے اصولوںکا محتاج اور پابند نہیںہوتے ۔توپھرجبکہ خداتعالیٰ نے مجھ پراس حدیث کی صحت کوظاہر کر دیا ہے تواس پرزور دیناتقویٰ کے خلاف ہے پھر میںیہ بھی کہتاہوںکہ محدثین خود ہی مانتے ہیںاور حدیث میںسونے کے کنگن پہننے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ کیا با ت تھی کہ حضرت عمر نے ایک صحابی کو سونے کے کنگن پہنادئیے۔چنانچہ ا س صحابی نے بھی انکار کیا ۔مگر وہ حضرت عمر نے اُسے پہناکر ہی چھوڑے ۔کیا وہ اُس حرمت پر آگاہ نہ تھے ؟تھے اور ضرور تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہزاروں حدیثوںکو قر بان کرنے کوتیار تھے ۔اب غور کا مقام ہے کے جب ایک پیشگوئی کے پوراہونے پر حرمت کا جو ازگرا دیا ۔توبلامطرولاعذروالی بات پر انکار کیوں؟
احادیث میںتو یہانتک آیا ہے کے اپنے خواب کو بھی سچاّکرنے کی کوشش کرو چہ جائیکہ نبی کریم کی پیشگوئی جس شخص کو ایسا مو قع ملے تو اوروہ عمل نہ کرے اور اس کوپورا کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔وہ دشمن اسلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو معاذاللہ جھوٹاٹھہراناچاہتا ہے اورآپکے مخالفوںکواعتراض کا موقع دینا چاہتا ہے۔
صحابہؓ کا مذہب یہ تھا کہ وہ آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوںکے پوراہونے پر اپنی معرفت اور ایما ن میں ترقی د یکھتے تھے اور وہ اس قد ر عاشق تھے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر کو جاتے ا ور پیشگوئی کے طور پر کہہ دیتے کہ فلاں منزل پر نماز جمع کریں گے اور ان کو موقعہ مل جاتا تو وہ خواہ کچھ ہی ہوتا ضرور جمع کر لیتے۔ اور خود آنحضرت کی طرف ہی دیکھو کہ آپ ؐ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے کس قدر مشتاق تھے۔ ہم کو کوئی بتائے کہ آپؑ حدیبیہ کی طرف کیوں گئے کیا کوئی وقت ان کو بتایا گیا تھا اور کسی میعاد کی اطلاع دی گئی تھی پھر کیا بات تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپؐ چاہتے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو جائے یہ ایک باریک بہتر اور دقیق معرفت کا نکتہ ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ انبیاء اور اہل اللہ کیوں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی ایک غیر معمولی رغبت اور تحریک اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔
جس قدر انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں یا اہل اللہ ہوئے ہیں ان کو فطرۃً رغبت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالی کے نشانوں کو پورا کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہوتے ہیں مسیح نے اپنی جگہ داؤدی تخت کی بحالی والی پیش گوئی کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ۔کہ اپنے شاگردوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جس کے پاس تلواریں اور ہتھیار نہ ہوں وہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خریدے۔ اب اگر پیشگوئی کو پورا کرنے کی فطری خواہش اور آرزو نہ تھی جو انبیاء علیہم السلام میں ہوتی ہے تو کوئی ہم کو بتائے کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟اور ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر یہ طبعی جوش نہ تھا توآپ کیوں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے جب کہ کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا ؟ بات یہی ہے کہ یہ گو وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی حرمت اور عزت کرنا ہے اور چونکہ ان نشانات کے پورا ہونے پر معرفت اور یقین میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ پورے ہوں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نشان پورا ہوتا تو سجدہ کیا کرتے تھے۔جب تک دل دھوئے نہ جاویں اور ایمان حجاب اور زنگ کی تہوں سے صاف نہ کیا جاوے سچا اسلام اورسچی توحید جو مدار نجات ہے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور دل کے دھونے اور حجب ظلمانیہ کے دور کرنے کا آلہ یہی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جن سے خود خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبوت پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور جب تک سچا ایمان نہ ہو جو کچھ کرتا ہے وہ صرف رسوم اور ظاہرداری کے طور پر کرتا ہے۔
پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات تھی تو میرا نور قلب کب اس کے خلاف کرنے کی رائے دے سکتا تھا اس لئے میں نے چاہا کہ یہ ہونا چاہئیے تاکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہو ممکن تھا کہ ایسے واقعات پیش نہ آتے لیکن جب ایسے امو رپیش آگئے کہ جن کی مصروفیت از بس ضروری تھی اور توجہ ٹھیک طور پر چاہئے تھی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور وہ پوری ہوئی اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا والحمد للہ علی ذلک۔
میرا ان نمازوں کو جمع کرنا جیسا کہ میں کہہ چکاہوں اللہ تعالیٰ کے اشارہ اور ایماء القاء سے تھا؛حالانکہ مخالف تو خواہ مخواہ بھی جمع کر لیتے ہیں مسجد میں بھی نہیں جاتے۔ گھروں ہی میں جمع کر لیتے ہیں۔ مولوی محمد حسین ہی کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا اس نے کبھی حاکم کے پاس جاتے وقات نماز جمع کی ہے یانہیں؟ پھرخدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان پر کیوں اعتراض کیا جاوے۔اگر تقوی اور خدا ترسی ہو تو اعتراض کرنے سے پہلے انسان اپنے گھر میں سوچ لے کہ کیا کہتا ہوں۔اور اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا اور کس پر پڑے گا۔
میںنے اس اجتہاد میں یہ بھی سوچا کہ ممکن تھا کہ ہم دس دن ہی میں کام کو ختم کر دیتے۔ جو اس پیشگوئی کا پورا ہونے کا موجب اور باعث ہوا ہے مگرا للہ تعالیٰ نے ایسا ہی پسند کیا کہ جب یہ لوگ اپنے نفس کی خاطر دو مہینے نکال لیتے ہیں تو پیشگوئی کی تکمیل کے لئے ایسی مدت چاہئے جس کی نظیر نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگرچہ وہ مصالح ابھی تک نہیں کھلے۔ مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ضرور کھلیں گے۔
دیکھو ضعف دماغ کی بیماری بدستور لاحق ہے اور بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ موت قریب ہو جاتی ہے تم میں سے اکثر نے میری ایسی حالت کو معائنہ کیا اور پھر پیشاب کی بیماری عرصہ سے ہے گویا دو زرد چادریں مجھے یہ پہنائی گئی ہیں ایک اوپر کے حصہ بدن میں اور ایک نیچے کے حصہ بدن میں اس بیماریوں کی وجہ سے وقت صافی کم ملتا ہے مگر ان ایام میں خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا کہ صحت بھی اچھی رہی اور کام ہوتا رہا مجھے تو افسوس اور تعجب ہوتا ہے کہ لوگ جمع بین الصلوٰتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں کسوف وخسوف کا اجتماع ہوا یہ بھی میرا ہی نشان تھا اور واذالنفوس زوجت( التکویر:۸) بھی میرے ہی لئے ہیں۔اور وآخرین منہم لما یلحقوا بھم( الجمعہ:۴)بھی ایک جمع ہی کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئیے ہیں چنانچہ مطبع کے سامان کاغذ کی کثرت ڈاک خانوں ، تار ریل ، اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں ا ب فونو گراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی بلکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی۔
جس کے فرمایا گیا تھا اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی (المائدہ:۴)
اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھی ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناپہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپؐ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ آخرین منہم لما یلحقوا بھم ( الجمعہ:۴)کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ اس لئے اللہ تعالٰینے تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے اور پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ سارے ادیان کو جمع کیا جائے گا اور ایک دین کو غالب کیا جائے گا یہ بھی مسیح موعود کے وقت کی ایک جمع ہے کیونکہ لیظہرہ علی الدین کلہ (الصف:۱۰) مفسروں نے مان لیا ہے مسیح موعود ہی کے وقت ہو گا۔
پھر یہ بھی کہ وہ امن کا زمانہ ہو گا کہ بھیڑیا اور بھیڑ ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے جیسا کہ اس وقت نظر آتا ہے ہمارے مخالفوں نے ہمارے قتل کے کس قدر منصوبے کئے مگر وہ کیوں کامیاب نہ ہو سکے اسی گورنمنٹ کے حسن انتطام اور امن کی وجہ سے ۔ پھر خدا نے یہ بھی ارادہ فرمایا ہوا تھا کہ اس زمانہ میں حقائق و معارف جمع کر دے ۔
میں دیکھتا ہوں کہ جیسے ظہر و عصر جمع ہوئے ہیں کہ ظہر آسمان کے جلالی رنگ کا ظل ہے اور عصر جمالی رنگ کا اور خدا تعالیٰ دونوں کا اجتماع چاہتا ہے اور چونکہ میرا نام اس نے آدم بھی رکھا ہے اور آدم کے لئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے یعنی جلالی اور جمالی رنگ دونوں اس میں رکھے اس لئے اس جگہ بھی جلال اور جمال کا اجتماع کر کے دکھادیا۔
جلالی رنگ میں طاعون وغیرہ اللہ تعالیٰ کی گرفتیں ہیں اور انہیں سب دیکھتے ہیں اور جمالی رنگ ميں اس کے انعامات اور مبشرانہ وعدے ہیں اور پھر میری دانست میان اللہ تعالیٰ نے میرے سا تھ ایک اور جمع خبر بھی رکھی ہے جس کی خدا نے مجھے اطلاع دی اور وہ یہ ہے کہ میری پیدائش کے ساتھ ایک لڑکی بھی اس نے رکھی ہے اور پھر قومیت اور نسب میں بھی ایک جمع رکھی اور وہ یہ ہماری ایک دادی سیدہ تھی اور دادا صاحب اہل فارس تھے۔ اب بھی خدا نے اس قسم کی جمع ہمارے گھر میں رکھی کہ ایک صحیح النسب سیدہ میرے نکاح میں آئی اس طرح جیسے اب بھی خدا نے ایک عرصہ پہلے بشارت دی تھی اب غور تو کرو کہ خدا نے کس قدر اجتماع یہاں رکھے ہوئے ہیں ان تمام جمعوں کو خدا نے مصلحت عظیمہ کے لئے جمع کیا ہے ۔
ہماری جماعت کے لئے تو یہ امر دور از ادب ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں پیش کریں یا ان کے وہم میں بھی اس قسم کی باتیں آئیں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں جو کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی تفہیم اور اشارہ سے کرتا ہوں پھر کیوں اس کو مقدم نہیں کرتے اور پیش گوئی سمجھ کر عزت نہیں کرتے جیسے حضرت عمرؓ نے آنحضرت ؐ کی پیشگوئی سمجھ کر ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دئیے تھے۔اب تم بتائو کہ اور کیا چاہتے ہو۔خدا نے اس قدر نشان تمہارے لئے جمع کر دئے ہیں اگر خدا تعالیٰ پر ایمان ہو تو کوئی وہم اور خیال اس قسم کا پیدا نہیں ہو سکتا جس سے اعتراض کا رنگ پایا جائے اور اگر اس قدر نشان دیکھتے ہو ئے بھی کوئی اعتراض کرتا اور علیحدہ ہوتا ہو تو بے شک نکل جائے اور علیحدہ ہو جاوے اس کی خدا کو کیا پرواہ ہے۔ وہ کہیں جگہ نہیں پا سکتا، جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم و عدل ٹھہرایا ہے اور تم نے مان لیا ہے پھر نشانہ اعتراض بنانا ضعف ایمان کا نشان ہے حکم مان کر تمام زبانیں بند ہوجانی چاہئیں اگر مخالفوں کا خیال ہو تو انہوں نے پہلے کیا کچھ نہیں کہادجال بے ایمان کافر کفر تک ٹھہرایا اور کوئی گالی تک باقی نہ رہنے دی جو انہوںنے نہیں دی اور کوئی منصوبہ شرارت تکلیف دہی کا نہيں رہا جوا نہوں نے نہیں سوچا اور پھر باقی کیا رہ گیاجو غیروں کی پروا کرتا اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتاجب تک خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حکم کی بات کے سامنے اپنی زبانوں کو بند نہ کرو گے وہ ایمان پیدا نہیں ہوسکتا جو خدا چاہتا ہے اور جس غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے ۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرایہ عمل اپنی تجویز اور خیال سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تفہیم سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے لئے ہے میں کسی اور حکم کی ضرورت نہیں سمجھتا جو چاہتا ہے اس کو قبول کرے اور جس کا دل مریض ہے وہ الگ ہو جائے میں ایسے لوگوں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ کثر ت سے استغفار کرے ر اور خدا سے ڈریں ایسانہ ہو کہ خدا انکی جگہ اور قوم لاوے۔
ایک بار مجھے الہام ہوا تھا کہ کوئی شخص میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ ھذا الرجل یجیح الدین یہ شخص دین کی جڑھ اکھاڑتا ہے میں خوش ہوا کیونکہ آثار میں ایسا ہی لکھا ہے کہ مسیح اور مہدی کی نسبت ایسے فتوے دئے جائیں گے حجج الکرامہ میں ایسا ہی لکھا ہے ان عربی نے لکھا ہے جب مسیح نازل ہو گا تو ایک شخص کھڑا ہو کر کہے گا ان ھذ الرجل غیر دیننا۔
اور مجدد صاحب کے مکتوبات دوم میں صاف لکھا ہے کہ مسیح جو کچھ بیان کرے گا وہ اسرار غامضہ ہوں گے اور لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے حالانکہ وہ قرآن سے استنباط کرے گا پھر بھی لوگ ا س کی مخالفت کرین گے ۔اصل بات یہ ہے کہ جیسے مسیح موعود کے ساتھ جمع کا ایک نشان ہے عوام کے خیال کے موافق ایک تغیر بھی اس کے ساتھ ضروری ہے کیونکہ وہ بحیثیت حکم ہونے کے تمام بدعات اور خرابیوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو ئی ہیں دور کرے گااور لوگ ان کو تغیر دین کے نام سے یاد کریں گے۔میں پوچھتا ہوںکہ اگر تم مخالفوں سے ڈرتے ہو تو پھر مجھے قبول کرنے کا کیا فائدہ ہوا میری مخالفت میں کافر اور دجال ٹھہرائے گئے اور ااس سے بڑھ کر کیا ہوگا اور پھر اگر یہی بات ہے کہ اس کو تغیر دین کہتے ہیں تو بتائو کہ میں نے جہاد کی حرمت کا فتوی دیا ہے اور شائع کر دیا ہے کہ دین کے لئے تلوار اٹھانا حرام ہے پھر اس کی پرواہ کیوں کرتے ہو ہمارے مخالف تو یضع الجزیۃ کہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ یضع الحرب درست ہے غرض اگر اب یہ چاہیں کہ ان لوگوں کے پنجوں سے بچ جائیں، یہ مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے جب تک پورے برگشہ نہ ہو جائیں پس اب’’ یک در گیر محکم گیر ‘‘پر عمل کرو۔
جو شخص ایمان لاتا ہے ۔اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔ یاد رکھو۔ظن مفیدنہیں ہو سکتا ۔خداتعالیٰ خود فرماتا ہے ۔اِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیئاً۔(یونس:۳۷)یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو با مراد کر سکتی ہے ۔یقین کے بغیرکچھ نہیںہو تا۔ ا گر انسان ہر بات پر بدزنی کر نے لگے تو شائد ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے ۔وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید ا س میں زہر ملا دیا ہوبازار کی چیزیںنہ کھا سکے ۔کہ ان میںہلا ک کر نے والی کوئی شے ہو ۔پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے یہ ایک موٹی مثا ل ہے اسی طرح پر انسا ن رو حا نی میں ا س سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ اب تم ہے خود سو چ لو او ر اپنے دلو ں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جوبیعت کی ہے او ر مجھے مسیح مو عو د حکم۔عد ل ماناہے تو اس ما ننے کے بعد میرے اسی فیصلہ یافعل پر اگر دل میںکوئی کد ور ت یا رنج آتا ہے ،تواپنے ایمان کی فکر کرو ۔وہ ایمان جو خدشات اور تو ہمات سے بھر ا ہو ا ہے ،کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح مو عو د وا قعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سا منے اپنے ہتھیار ڈال دو ۔ اور اسکے فیصلوں کو عز ت کی نگا ہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی پاک باتوں کی عز ت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو ۔رسو ل اللہ علیہ وسلم کی شہاد ت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمھارا امام ہو گا وہ حکم عدل ہو گا اگر اس پر تسلی نہیں ہو ئی توپھر کب ہو گی۔یہ طریق ہر گزاچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میںزنیاںبھی ہوں ۔میںاگر صاد ق نہیں ہوںتوپھر جائو اور صادق تلا ش کر و اور یقینا سمجھوکہ اس و قت اور صاد ق نہیںمل سکتا ۔او ر پھر اگر کوئی دوسرا صاد ق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ صلی علیہ وسلمنے مجھ کو دیاہے۔
جن لوگوں نے میراانکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے ،وہ اور بھی بد قسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہو ۔
اصل بات یہ ہے کہ معاشرت بھی رتبہ کو گھٹادیتی ہے ،اس لیے حضرت مسیح ؑ کہتے ہیںکہ نبی بے عزت نہیں ہوتا ۔مگراپنے وطن میں۔اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کو اہل وطن سے کیا کیاتکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے۔ سو یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنت چلی آئی ہے۔ہم اس سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔اس لیے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا۔یہ اسی سنت کے موافق ہے مایاتیہم من رسول الا کانو ابہ یستھزء ون(الحجر:۱۲)افسوس ا گر یہ لوگ صاف نیت سے میرے پاس آتے تو میں ان کو وہ دکھاتا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور وہ خدا خود انپر اپنا فضل کرتا اور انہیںسمجھا دیتا ، مگر انہوں نے بخل اور حسد سے کام لیا ۔اب میں ان کو کس طرح سمجھائوں۔
جب انسان سچّے دل سے حق طلبی کے لیے آتا ہے ،تو سب سے فیصلے ہو جاتے ہیں۔لیکن جب بد گوئی اور شرارت مقصود ہو ،تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔میں کب تک ان کے فیصلے کرتا رہوں گا ۔
حجج الکرامہ میں ابن عربیؔکے حوالے سے لکھّا ہے کہ مسیح موعوؑدجب آئے گا،تو اسے مفتری اور جاہل ٹھہرایا جائے گا۔اور یہاںتک بھی کہا جاوے گا کہ وہ دین کو تغیر کرتا ہے ۔ اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔اس قسم کے الزام مجھے دیے گئے جاتے ہیں ۔ان شبہات سے انسان تب نجات پا سکتا ہے،جب وہ اپنے اجتہاد کی کتاب ڈھانپ لے اور اس کی بجائے وہ یہ فکر کرے کہ کیا یہ سچا ہے یا نہیں۔بعض امور بیشک سمجھ سے با تر ہوتے ہیں ،لیکن جو پیغمبر وں پر ایمان لاتے ہیں۔وہ حسنِ ظن اور صبر و استقلال سے ایک وقت کا انتظار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کو کھول دیتا ہے رسول اللہ اکے وقت صحابہ سوال نہ کرتے تھے ،بلکہ منتظر رہتے تھے کہ کوئی آکر سوال کرے تو فائدہ اٹھا تے تھے،ورنہ خود خاموش سرتسلیم کئے بیٹھے رہتے تھے اور جرأت سوا ل کرنے کی نہ کرتے تھے۔میرے نزدیک اصل اور اسلم طریق یہی ہے کہ ادب کرے۔جوشخص آداب النبیؐ کونہیں سمجھتا اوراس کو اختیار نہیں کرتا۔اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے۔
وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں،جو ایک ہی دن میں حق الیقین کے درجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔یاد رکھوکہ ایک ظن ہوتا ہے اور ایک یقین ۔ظن صرف خیالی بات ہوتی ہے اور اس کی صحت اور سچائی پر کوئی حُکم نہیں ہوتا۔بلکہ اس میں احتمال کذب کا ہوتا ہے لیکن یقین میں ایک سچائی کی روشنی ہوتی ہے یہ سچ ہے کہ یقین کے بھی مدارج ہیں۔ایک علم الیقین ہوتا ہے پھر عین الیقین اور تیسرا حق الیقین ۔جیسے دور سے کوئی آدمی دھواں دیکھتا ہے تو آگ کا یقین کرتا ہے اور یہ علم الیقین ہے اور جب جا کر دیکھتا ہے تو وہ عین الیقین ہے اور جب ہاتھ ڈال کر دیکھتا ہے کہ وہ جلاتی ہے تو وہ حق الیقین ہے ۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ابھی ظن سے مخلصی نہیں ہوئی ؛ جبکہ سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جو مامور آتے خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کے ساتھ ابتلاء ضرور ہوتے ہیں پھر میں کیوں کر ابتلاء کے بغیر آ سکتا تھا۔اگرا بتلاء نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے آ جاتے۔تا کہ ان کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملتاکہ آنے والے کے لئے لکھا ہے کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہو گا۔اوراسی طرح حضرت مسیحؑ کے وقت ایلیا ہی آجاتا کہ ان کو ٹھوکر نہ لگتی ایک یہودی فاضل نے اس پر ایک بڑی کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے لئے یہی کافی ہے ایلیا نہیں آیا۔اور اگر خدا ہم سے پوچھے گا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب پیش کردیں گے ۔
اس قدر معجزات جو حضرت مسیح سے صادر ہوئے بیان کئے جاتے ہیں کہ وہ مردوںکو زندہ کرتے تھے ایلیا کو بھی زندہ کر کے لے آتے ۔ایماناً بتائو کہ ایلیا کا ابتلا بڑا تھا یا نمازوں کو جمع کرنے کاابتلا ء،لوگ جس نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا ۔ اب اس قدر لوگ جو گمراہ ہوئے اور مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر رہے تو اس کا باعث وہی ایلیا کا ابتلاء ہی ہے یا کچھ اور غرض ابتلا کا آنا ضروری ہے مگر سچا مومن کبھی ان سے ضائع نہیں کیا جاتا ۔اس قسم کے لوگوں نے کسی زمانہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔کیا حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں انہوں نے فائدہ اٹھایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔
میں نے عام طور پر شائع کیا کہ استجابت دعا کا نشان مجھے دیا گیا ہے جو چاہے میرے مقابلے پر آئے میں نے کہا کہ جو مجھے حق پر نہیں سمجھتا وہ میرے ساتھ مباہلہ کر لے میں نے یہ بھی شائع کیا کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کا ایک نشان مجھے عطا ہوا اس میں مقابلہ کر کے دیکھ لو مگر ایک بھی ایسا نہ ہوا جو میرے سامنے آتا اور میری دعوت کو قبول کر لیتا ۔پھر خدا نے مجھے بشارت دی کہ ینصرک اللہ فی مواطن اور اس کا ثبوت دیا کہ ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا پس اگر ان نشانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا اور اس کی تسلی نہیں ہوتی پھر وہ کسی اور کے پاس جاوے یا کسی عیسائی کے پاس جاوے اور تسلی کر لے اگر کر سکتا ہے لیکن سچائی کو چھوڑ کر تسلی کہاں؟ فما ذا بعد الحق الا الضلال( یونس:۳۳)
ایسے لوگ لا من الاحیاء و لا من الاموات کے مصداق ہوتے ہیں غرض نمازوں کے جمع کرنے میں ایک راز اور سر تھا اور انما الاعمال بالنیات۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آیا یہ سستی اور کسل کی وجہ تھا یا ایک مقبول اور مبارک طریق پر ۔
یاد رکھو کہ اس قدر نشانات دیکھ کر بھی جسے کوئی شک وشبہ گزر سکتا ہے تو اسے ڈرنا چاہئے کہ شیطان عدو مبین ساتھ ہے۔میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر غوثیت اور قطبیت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام ہوتے ہیں جو لوگ مجھے قبول کرتے ہیں ان کی دین و دنیا بھی اچھی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ( آل عمران:۵۶)
درحقیقت وہ زمانہ آتا ہے کہ ان کو امیت سے نکال کر خود قوت بیان عطا کرے گا اور وہ منکروں پر غالب ہوں گے،لیکن جو شخص دلائل اور نشانات کو دیکھتا ہے اور پھر دیانت ،امانت،انصاف کو ہاتھ سے چھوڑتا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ من اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بآیاتہ (الانعام:۲۲) تم بہت سے نشانات دیکھ چکے ہو اور حروف تہجی کے طور پر اگرایک نقشہ تیار کیا جاوے،تو کوئی حرف باقی نہ رہے گا کہ اس میں کئی کئی نشان نہ آئیں۔تریاقؔ القلوب میںبہت سے نشان جمع کئے گئے ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے پُورے ہوتے دیکھے۔
اب وقت ہے کہ تمہارے ایمان مضبوط ہوں اور کوئی زلزلہ اور آندھی تمہیں ہلانہ سکے۔ بعض تم میں ایسے بھی صادق ہیں کہ اُنہوں نے کسی نشان کی اپنے لیے ضرورت نہیں سمجھی۔ گو خدا نے اپنے فضل سے ین کو سینکڑوں نشان دکھا دئیے۔ لیکن اگر ایک بھی نشان نہ ہوتا، تب بھی وہ مجھے صادق یقین کرتے اور میرے ساتھ تھے،چنانچہ مولوی نورالّدین صاحب کسی نشان کے طالب نہ ہوئے۔انہوں نے سنتے ہی آمنّا کہہ دیا اور فاروقی ہو کر صدّیقی عمل کر لیا۔ لکھّا ہے کہ حضرت ابو بکر شام کی طرف گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو راستہ میں ہی آنحضرت ا کے دعویٰ نبوّت کی خبر پہنچی وہیں اْنہوںنے تسلیم کر لیا‘‘۔
حضرت اقدسؑ نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ مولانا مولوی نُورالدین صاحب حکیم الامّت ایک جوش اور صدق کے نشہ سے سرشار ہو کر اُٹھے اور کہا کہ مَیں اس وقت حاضر ہوا ہوں کہ حضرت عمر ؓنے بھی رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضوررضیت باللہ ربّاوبمحمد نبیا کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اب میں اس وقت صادق امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے حضور وہی اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک اور وہم حضور کے متعلّق نہیں گزرا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں۔اور میں نے ہمیشہ اس کو آداب نبوّت کے خلاف سمجھا ہے کہ کبھی کوئی سوال اس قسم کا کروں۔ میں آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں۔رضینا با للہ ربا وبک مَسِیحاومھدیا ٭
اس تقریر کے ساتھ ہی حضرت اقدسؑ نے بھی اپنی تقریر ختم کر دی
سیّدنا حضرت امام آخرالزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والّسلام نے فرمایا:
ایک بہت ہی ضروری امر ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں، اگر چہ میرے طبیعت بھی اچھی نہیںہے لیکن کل نواب صاحب جو جانیوالے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں بیان کروں تاکہ وہ بھی سن لیں اورجماعت کے دوسرے لوگ بھی سن لیں اور وہ یہ ہے:
کہ تمام انبیاء علیہم السّلام جو دنیا میںآئے ہیں۔ اگر چہ انھوں نے جو احکام دنیا کو سنائے وہ مبسوط اور مُطَوَّل تھے اور بہت کچھ جزئیات بھی بیان کر دیں اور تمام امُور جو توحید ، تہذیب، معاملات اور معاد کے متعلق ہوتے ہیں۔ غرض جس قدر امُور انسان کو چاہئیں، ان سب کے متعلق وہ ہر قسم کی ہدائتیں اور تعلیمیں لوگوں کودیا کرتے تھے۔ باوجود ان ساری جزئی تعلیموں اور ہدایتوں کے ہر ایک نبی کی اصل غرض اور مقصد یہ رہا کے لوگ گناہوں سے نجات پاکر اور ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے بکلّی نفرت کر کے خدا ہی کے لیے ہو جاویں۔انسانی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد بھی ینی ہے کہ وہ خدا کے لیے ہو جائے۔ اس لیے انبیاء علیہم السّلام کی بعثت کی غرض اسی مقصد کی طرف انسان کو رہبری کرنا ہوتا ہے کہ وہ امنی گم گشتہ متاش اور مقصد کو پھر حاصل کرے۔ گناہ اگر چہ بہت ہیں اور ان کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں۔ یہانتک کہ ہرادنیٰ قسم کی غفلت بھی گناہ میں داخل ہے۔ لیکن عظیم الشان گناہ جو اس مقصدِ عظیم کے بالمقابل انسان کو اصل مقصد سے ہٹانے کے لیے پڑا ہوا ہے، وہ شرک ہے۔انسان کی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد یہ ہے کہ وہ خدا ہی کے لیے ہو جائے اور گناہ اور اس کے محرکات سے بہت دور رہے اِس لیے کہ جُوں جُوں بدقسمت انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے ،اُسی قدر اپنے اصل مدّعا سے دور ہوتا جاتا ہے۔ یہانتک کہ آخر گرتے گرتے ایسی سفلی جگہ پر جا پڑتا ہے جو مصائب اور مشکلات اور ہر قسم کی تکلیفوں اور دکھوں کا گھر ہے جس کو جہنّم بھی کہتے ہیں۔
دیکھو انسان کا اگر کوئی عضو اپنی اصل جگہ سے ہٹا دیا جائے۔ مثلاً بازُو ہی اگر اُتر جاوے یا ایک انگلی یا انگوٹھا ہی اپنے اصل مقام سے ہٹ جاوے، تو کس قدر درد اور کرب پیدا ہوتا ہے۔ یہ جسمانی نظارہ رُوحانی اور اُخروی عالم کے لیے ایک زبردست دلیل ہے اور جہنّم کے وجُود پر ایک گواہ ہے۔ گناہ یہی ہوتا ہے کہ انسان اس مقصد سے جو اس کی پیدائش سے رکھا گیا ہے، دُور ہٹ جاوے۔ پس اپنے محل سے ہٹنے میں صاف درد کا ہونا ضروری ہے۔
شِرک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر جہنّم کا وارث بنا دیتا ہے۔ شِرک کی کئی قِسم ہیں۔ ایک تو وہ موٹا اور صریح شِرک ہے جس میں ہندو، عیسائی ،یہودی اور دوسرے بُت پرست لوگ گرفتار ہیں۔ جس میں کسی انسان یا پتھّر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوںاور کیو تائوں کو خدا بنا لیا گیا ہے؛اگر چہ یہ شِرک ابھی تک دُنیا میں موجود ہے، لیکن یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا کچھ ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں۔ یہ جُدا امر ہے کہ وہ قومی مذہب کی حیثیت سے بظاہر ان بے ہودگیوں کا اقرار کریں، لیکن دراصل بالطبع لوگ ان سے متنفّر ہوتے جاتے ہیں، مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طور پر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانہ میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا۔
ہم یہ ہرگز نہیں کہتے اور نہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ اسباب کی رعایت بالکل نہ کی جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے رعایتِ اسباب کی ترغیب دی ہے اور اس حدتک جہاں تک یہ رعایت ضروری ہے۔ اگر رعایتِ اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتون کی بیحُرمتی کرنا اور خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشّان فعل کی توہین کرنا ہے، کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ بالکل رعایتِ اسباب کی نہ کی جاوے، ضروری ہوگاکہ تمام قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور ان سے کام نہ لیا جاوے۔ اور اُن سے کام نہ لینا اور ان کو بے کار چھوڑ دینا خدا تعالیٰ کے فعِل کو لغو اورعبث قرار دینا ہے۔جو بہت بڑا گناہ ہے۔ پس ہمارا یہ منشاء اور مذہب ہرگز نہیں کہ اسباب کی رعایت بالکل ہی نہ کی جاوے،بلکہ رعایتِ اسباب اپنی حدتک ضروری ہے۔آخرت کے لیے بھی اسباب ہی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور بدیوں سے بچنا اور دوسری نیکیون کو اختیار کرنا اس لیے ہے کہ اس عالَم میں سکھ ملے، توگویا یہ نیکیاں اسباب کے قائم مقام ہیں۔
اسی طرح پر یہ بھی خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوںکے پورا کرنے کے لیے اسباب کو اختیار کیا جاوے۔ نوکری والا نوکری کرے۔ زمیینداری کے کاموں میں رہے۔ مزدور مزدوریاں کریں تا وُہ اپنے عیال واطفال اور دُوسرے متعلّقین اوراپنے نفس کے حقوق کو ادا کر سکیں۔ پس ایک جائز حد تک یہ سب دُرست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا، لیکن جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر پُورا بھروسہ کرے اور سارا دارومداراسباب ہی پر جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اُس کے اصل مقصد سے دُور پھینک دیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہو تا، تو مَیںبھوکا مر جاتا ہے۔ یا اگر یہ جائد اد یافلاں کام نہ ہوتا، تو میرا بُرا حال ہو جاتا۔ فلان دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی۔ یہ امُور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اَور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلّی دُور جا پڑے۔یہ خطرناک شرک ہے، جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وفی السماء رزقکم و ما تو عدون(الذار یات : ۲۳)
اور فرمایا
و من یتوکل علے اللہ فھو حسبہ (الطلاق: ۴)
اور فرمایا
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب(الطلاق:۳،۴)
اور فرمایا۔
وھو یتولی الصا لحین (الاعراف: ۱۹۷)
قرآن شریف اس قسم کی آیتون سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیون کا متوّلی اور متکفل ہوتا ہے توپھر جب انسان اسباب پر تکیہ ا ور توکل کرتا ہیتو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنے ہے اور ان اسباب کو حصہ دینا ہے اور ایک اور خدا اپنے لیے ان اسباب کاتجویز کرتا ہے؛ چونکہ وہ ایک پہلوکی طرف جھکتا ہے ۔اس سے شرک کی طرف گویا قدم اُٹھاتا ہے ۔ جو لوگ حکّام کی طرف جھکے ہوتے ہیں اور اُن سے انعام یا خطاب پاتے ہیں۔ اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کے پرستار بن جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اُس کے اصل مقصد سے اُٹھا کر دُور پھینک دیتا ہے۔پس انبیاء علیہم السّلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میںتناقض نہ ہونے پاوے، بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وُہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں۔ کہ ساری عزّتیں، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لیے مقدم ہیکہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جب کے انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ محسن حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اُسی سے ہے۔کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا۔ جب انسان اس پاک حالت کوحاصل کرے تو وُہ مُوحد کہلاتا ہے۔غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھرون یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نا بنائے، بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گذرے۔
تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجُود کے اغراض کو بھی درمیان سے اُٹھادیا جاوے اور اس کی نفی کی جاوے۔ بسا اوقات انسان کے زیرِنظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے کہ فلاں نیکی مَیںنے اپنی طاقت سے کی ہے ۔ انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی، ہی قوّت سے منسُوب کرتا ہے۔ انسان موحِدّ تن ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کردے۔
لیکن اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان جیسا کہ تجربہ دلالت کرتا ہے۔ عموماً کوئی نہ کوئی حصّہ گنہ کا اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بعض موٹے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض اوسط درجا کے گناہوں میں اور بعض باریک در باریک قسم کے گناہوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسے بخل، ریاکاری یا اور اسی قسم کے گناہ کے حِصّوں میں گرفتار ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے رہائی نہ ملے، انسان اپنے گمشدہ انوار کو حاصِل نہیں کر سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسی ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسّر نہیں ہے۔ مثلاً حج۔یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔ پھر راستہ میں امن ہو۔ پیچھے جو متعلقین ہیں۔ اُن کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہو اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔ ایسا ہی زکواۃ ہے۔یہ وُہی دے سکتا ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ ایسا ہی نماز میں بھی تغیرّات ہو جاتے ہیں۔
لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں۔ وہ ہے: لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔اصل یہی بات ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اس کے مکمّلات ہیں۔ توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچّا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی محبُوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے۔ جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرہے والا ہو، تو وُہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں۔ ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اُن پر اس کے ایمان میں آگئی ہے۔ تب وہ لا الہ الا اللہ منہ سے نکالتا ہے اور محمد رسول اللہ جو اس کا دوسرا جُزو ہے وُہ نمونہ کے لیے ہے۔کیونکہ نمونہ اور نطیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السّلام نمونون کے لیے آتے نیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے۔کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐ میں جمع ہیں۔
آپؐ کا نام اسی لیے مُحمّدہے کہ اس کے معنی ہیں، نہایت تعریف کیا گیا۔ مُحمّد وُہ ہوتا ہے جس کی زمین و آسمان پر تعریف ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دُنیا کے لوگوں نے ان کو نہایت حقارت کی نِگاہ سے دیکھا انہیں ذلیل سمجھا اور بخیلِ خویش ذلیل کیا، لیکن آسمان پر اُن کی عزّت اور تعریف کرتی ہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے۔وُہ خدا تعالیٰ کے حضور راستباز ہوتے ہیںاور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ دُنیا ان کی تعریف کرتی ہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے، مگر آسمان اُن پر *** کرتا ہے۔ خدا اور اس کے فرشتے اور مقرّب اس پر *** بھیجتے ہیں۔ تعریف نہیں کرتے۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین و آسمان دونوں جگہ میں تعریف کیے گئے اور یہ فخر اور فضل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ملاہے۔ جس قدر پاک گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مِلا وہ کِسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ یُوں تو حضرت موسیٰؑ کو بھی کئی لاکھ آدمیوں کی قوم مِل گئی، مگر وہ ایسے مستقل مزاج یا ایسی پاکباز اور عالی ہمّت قوم نہ تھی جیسی صحابہ کی تھی۔رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ قوم موسیٰ کا یہ حال تھا کہ رات کو مومن ہیں تو دن کو مُرتد ہیں۔ آنحضرتؐ اور آپ کے صحابہؓ کا حضرت موسیٰؑ اور اس کی قوم کے ساتھ مقابلا کرنے سے گویا کُل دُنیا کا مقابلا ہو گیا۔ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہر گز پائی نہیں جاتی۔ احادیث میں اُن کی بڑی تعریفیں آئی ہیں۔ یہانتک فرمایا۔ اللہ اللہ فی اصحابی اور قرآن کریم میں بھی ان کی تعریف ہوئی۔ یبیتون لر بھم سجّداوقیاما۔ (الفرقان:۶۵)
موسیٰ کی جماعت جن مشکلات اور مصائب طاعون وغیرہ کے نیچے آئی ۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت اس سے ممتازاور محفوظ رہی اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور انفاس طیّبہ اور جزب اِلی اللہ کی قوت کا پتہ لگتاہے کے کیسی زبردست قوتیں آپ کو عطاکی گئی تھیں ۔جو ایسا پاک اور جانثار گروہ اکٹھاکر لیا ۔ یہ خیال بالکل غلط ہے جو جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یوںہی لوگ ساتھ ہو جاتے ہیںجب تک ایک قوت جزبہ اورکشش کی نہ ہو۔ کبھی ممکن نہیں ہے کے لوگ جمع ہوسکیں ۔میرامذہب یہ ہے کے آپ کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی ۔ اسلام کی ترقی کا یہ رازہے کہ نبی کریم ﷺکی قوت جزب بہت زبر دست تھی اور پھر آپ کی باتوں میں وہ تاثیر تھی کہ جو سنتاتھاوہ گرویدہ ہو جاتاتھا ۔ جن لوگوںکوآپنے کھینچا۔ان کوپاک صاف کر دیا ۔ اور اس کے ساتھآپ کی تعلیم ایسی سادہ اور صاف تھی کے اس میں کسی قسم کے گورکھ دھندے اور معمے تثلیث کی طرح نہیں ہیں ۔چناچہ نیپولین کی بابت لکھا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور کہا کرتا تھا کہ اسلام بہت ہی سیدھا سادہ جو خداکے سامنے یا انسان کے سامنے شرمندہ نہیں ہوسکتا ۔قانون قدرت اور فطرت کے ساتھ ایساوابستہ ہے کے ایک جنگلی بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے تثلیث کی طرح کوئی لا یخل عُقدہ اس میں نہیں جس کو نہ خدا سمجھ سکے اور نہ ماننے والے جیساکے عیسائی کہتے ہیں ۔تثلیث قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کے پہلے بت پرستی اور ادہام پرستی کرے اور عقل وفکر کی قوتوں کوبلکل بیکار اور معطل چھوڑدے حالانکہ اسلام کی توحید ایسی ہے کے ایک دنیا سے الگ تھلگ جزیرہ میںبھی وہ سمجھ آسکتی ہے ۔یہ دین جو عیسائی پیش کرتے ہیں عالم گیر اورمکمل نہیں ہو سکتا اور نہ انسان کوئی تسلی یا اطمینان پاسکتاہے ۔ مگر اسلام ایک ایسا دین ہے جو کیا بااعتبار توحید اور اعمال حسنہ اور کیا تکمیل مسائل ۔سب سے بڑھ کر ہے ۔ہزاروں قسم کی بد کا ریوں یہودیوں میں جو مو سیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے پائی جاتی ہیںاور مسیح کی حواریوں کا ذکربھی کر نا نہین چاہتے جن میں سے ایک نے چند کھوٹے درہم لے کر اپنے آقا کو پکڑا دیا اور ایک نے *** کی اور کسی نے بھی وفاداری کا نمونہ نہ دکھایا ۔لیکن صحاب کی حالت کو دیکھتے ہیں تو ان میں کوئی جھوٹ بولنے والا بھی نظر نہیںآتا ۔ ان کے تصور میں بھی بجُزروشنی کے کچھ نظر نہیںآتاحالانکہ جب عرب کی ابتدائی حالت پر نگاہ کرتے ہیں وہ تحت الثریٰ میںپڑے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔بت پرستی میں منہک تھے یتیموںکا مال کھانے اور ہر قسم کی بدکاریوں میں دلیر اور بے باک تھے ۔ ڈاکوں کی طرح گذارہ کرتے تھے ۔ گویا سر سے پیرتک نجات میں غرق تھے ۔پھر میں وہ پوچھتاہوں وہ کونسااسم اعظم تھا جس نے اُن کوجھٹ پٹ کایا پلٹ دی اور ان کو ایسا نمونہ جس کی نظیر دُنیا کی قوموں ہر گزنہیں ملتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر کوئی بھی معجزہ پیش نہ کریں تو اس حیرت انگیز پاک تبدیلی کے مقابلہ میں کسی خودساختہ ایک آدمی کا دُرست کرنا مشکل ہو تاہے ۔ مگر یہاں تو ایک قوم تیار کی گئی جنھوںنے اپنے ایمان اور اخلاص کا وہ نمونہ دکھایا کہ بھیڑبکری کی طرح اس سچائی کیلیے ذبح ہوگئے جس کو انھوں اختیار کیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے وہ زمینی نہ رہے تھے بلکہ رُسول اللہ ﷺکی تعلیم ہدایت اور مو ئثر نصیحت نے ان کو آسمانی بنادیا تھا ۔ قدسی صفات ان میں پیدا ہوگئی تھیں ۔دنیا کی خباثتوں اور ریاکاریوں سے وہ ایسے سبک اور ہلکے پھلکے کر دئیے گئے تھے کے ان میں پرواز کی قوت پیدا ہو گئی تھی ۔یہ وہ نمو نہ ہے جو ہم اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اسی اصلاح اور ہدایت کا باعث تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طورپرآنحضرت ﷺکا نام محمد رکھاجس سے زمین پر بھی آپ کی ستائش ہوئی ۔کیو نکہ آپ نے زمین کو امن صلحکاری اور اخلاق فاضلہ اور نیکو کاری سے بھردیا تھا ۔
میںنے پہلے بھی کہا ہے کہ آنحضرت ﷺکے جس قدر اخلاق ثابت ہوے ہیں وہ کسی اور نبی کے نہیں ،کیونکہ اخلاق کے اظہار کے لیے جب تک موقع نہ ملے کوئی اخلاق ثابت نہیں ہو سکتا ۔مثلاًسخاوت ہے۔ لیکن اگر روپیہ نہ ہوتو اس کا ظہور کیونکر ہو ، ایسا ہی کسی کو لڑائی کا موقع نہ ملے تو شجاعت کیو نکرثابت ہو ۔ ایسا ہی عفو،اس صفت کووہ ظاہر کر سکتا ہے جسے اقتدارحاصل ہو ۔ غرض سب خلق موقع سے وابستہ ہیں ۔ اب یہ سمجھنا چاہئے یہ کس قدر خدا کے فضل کی بات ہے کہ آپ کو تمام اخلاق کے اظہار کے موقعے ملے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہ موقعہ نہیںملے مثلاًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخاوت کا موقع ملا ۔آپ کے پاس ایک موقع پر بہت سی بھیڑبکریاں تھیں ۔ ایک کافر نے کہا کے آپؐکے پاس اس قدر بھیڑ بکری جمع ہیں قیصر وکسریٰ کے پاس بھی اس قدر نہیں ۔ آپؐنے سب کی سب اس کو بخش دیں ۔ وہ اسی وقت ایمان لے آیا ۔ کہ نبی کے سوااور کوئی اس قسم کی عظیم الشان سخاوت نہیں کر سکتا ۔ مکہ میں جن لوگوں نے دکھ دئیے تھے ۔ جب آپؐ نے مکہ کو فتح کیا تو آپؐ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے ، مگر آپؐ نے رحم کیا اور لاتثریب علیکم الیوم کہدیا ۔ آپؐ کا بخشناتھا کہ سب مسلمان ہوگئے ۔ اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیاکسی نبی میں پائے جاتے ہیں ۔ ہر گزنہیں وہ لوگ جنھوں نے آپؐ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دی تھیں اور ناقابل عفو ایذائیں پہنچائی تھیں۔آپ نے سزا دینے کے قوت اور اقتدار کو پا کر فی الفور ان کو بخش دیا ؛حالانکہاگر ان کو سزا دی جاتی ،تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا ،مگر آپؐ نے اس وقت عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا ۔یہ وہ امور تھے کے علاوہ معجزات کے صحابہ پر مؤثر ہوئے تھے ۔ اسلیے آپؐاِسمِ بامسمیٰ محمدؐ ہو گئے تھے ۔ﷺ۔اور زمین پرآپؐ کی حمد ہو تی تھی اور اسی طرح آسمان پر بھی آپؐ کی تعریف ہو تی تھی اور آسمان پر بھی آپؐ محمدؐ تھے یہ نام آپؐ کا اللہ تعالیٰ نے بطورِنمونہ کے دنیاکو دیا ہے ۔جب تک انسان اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پید انہیں کرتا،کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر نہیں کر سکتا ۔ جبتک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بنا دے؛چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا
قُل ْاِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ َفَاتَّبِعُوْنِيْیُحبِبْکُم ُاللہ ٍٰ(آل عمران ؛۳۲)
یعنی محبوبِ اِلہی بننے کے لیے ضروری ہے کے رسول اللہ ﷺکی اتباع کی جاوے ۔سچیّ اتباع آپؐکے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے ،مگر افسوس ہے کہ آج کل لوگوں نے اتباع سے مُراد صرف رفع یدین ۔ آمین بالجہراور رفع سبابہ ہی لیا ہے ۔ باقی امور کو جو اخلاق فاضلہ آپ ؐکے تھے۔اُن کو چھوڑدیا۔ یہ منافق کا کام ہے کہ آسان اور چھوٹے اُمور بجالاتاہے اور مشکل کو چھوڑتاہے ۔ سچّے مومن اور مخلص مسلمان کی ترقیوںاور ایمانی درجوں کا آخری نقطہ تو یہی ہے کہ وہ سچّامتبّع ہو اور آپؐ کے تمام اخلاص کو حاصل کرے جو سچائی کو قبول نہیں کرتا ۔ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتاہے ۔کروڑںمسلمان دنیا میںموجود ہیں اور مسجدیںبھی بھری ہوئی نظرآتی ہیں ۔مگر کوئی برکت اور ظہور ان مسجدوں کے بھرے ہونے سے نظر نہیںآتا ۔اس لیے کے جو سب کچھ جاتاہے محض رسوم اور عادات کے طور پرکیا جاتاہے ۔ وہ سچّااخلاص اور وفاجو ایمان کے حقیقی لوازم ہیں ۔ان کے ساتھ پائے نہیں جاتے ۔سب عمل ریاکاریاور نفاق کے پردوں کے اندر مخفی ہو گئے ہیں ۔ جُوں جُوں انسان ان کے حالات سے واقف ہو تاجاتاہے ۔ اندرسے گنداورخبثت نکلتاآتاہے مسجدسے نکل کر گھر کی تفتیش کرو تویہ ننگ ِاسلام نظر آئیں گئے ۔مثنوی میں ایک حکایت لکھی ّہے کے ایک کوٹھا ہزارمن گندم سے بھرا ہوا خالی ہوگیا ۔ اگر چُوہے اس کونہیں کھا گئے ،تووہ کہاںگیا پس اسی طرح پچاس برسوں کی نماز وں کی جب برکت نہیں ہوئی ۔اگر ریااور نفاق نے ان کو باطل اور حبط نہیںکیا تووہ کہاںگئیں ۔خداکے نیک بندوں کے آثار پائے نہیں جاتے ۔ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتاہے ۔ اگر وہ نسخہ اس کے لیے مفید اورکارگر نہ ہوتو ،چند روزکے تجربے کے بعد اس کو بدل دیتاہے اورپھر اس کو تشخیص کرتاہے ، لیکن ان مریضوںپر تو وہ نسخہ استعمال کیا گیا ہے جو ہمشہ مفید اور زُود اثر ثابت ہو ا ہے تواس سے معلوم ہوتاہے کے انھوںنے نسخہ کے استعمال میں غلطی اور بد پرہیزی کی ہے۔ یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کے ارکان اسلام میں غلطی تھی اور نماز روزہ حج زکوۃ موئثر علاج نہ تھاکیو نکہ اس نسخہ نے ان مریضوں کو اچھا کیا جن کی نسبت لاعلاج کا فتویٰ دیاگیا تھا۔
میں جانتاہوںجن لوگوں نے ان ارکان کو چھو ڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ اُن کی شامت ِاعمال ہے اور وہ قرآن شریف تو کہہ چکاتھا ۔ اَلْیَوْم َاَکْملْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ:۴)
اکمال دین ہو چکاتھااور اتمام ِ نعمت خداکے حضورپسندیدہ دین اسلام ٹھہرچکاتھا ۔ اب پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجادکرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف کا خیال پڑھنایا اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر و اذکار نکال لینا یہ لذّتِ روح کے لیے نہیںہے ، بلکہ لذّتِ نفس کی خاطر ہے لوگوں نے لذّتِ نفس اور لذّتِ روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے ؛حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اگر لذّتِ نفس اور لذّت روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کے ایک بد کا ر عورت کے گانے سے بدَمعاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے۔کیا وہ اس لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گئے ۔ہر گز نہیں جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگاہے کے وہ نفس اور رُوح کی لذّت میں کوئی فرق نہیں کرسکتے اور نہ وہ ان بیہودگیوں میں رُوح کی لذّت اور اطمینان نہ پائے ان میں نفس مطمئنہّ نہیں ہے جو بُلہّے شاہ کی کافیوں میں لذّت جو یاں ہیں روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے ۔٭
اپنی شامت ِاعمال کو نہیں سوچا اُن اعمال خیرکو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ، ترک کردیا اور ان کی بجائے خودتراشیدہ دُرود وظائف داخل کر لیے اور چند کافیوں کو حفظ کر لینا کافی سمجھا بُلہّے شاہ کی کافیوں پر وجد میںآجاتے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کے قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو ،وہا ں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں ،لیکن جہاںاس قسم کے مجمع ہوں وہاںایک گروہ کثیر جمع ہو جاتاہے ۔نیکیو ں کی طرف یہ کم رغبتی اور نفسانی او ر شہوانی اُمور کی طرف توجہ صاف ظاہر ہوتی ہے کہ لذّت روح اور لذّت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھاہے ۔
دیکھاگیا ہے کہ بعض ان رقص و سرُود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاںاُتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھے ہی وجدہوجاتاہے ۔اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیداہو گئے ہیں اصل بات یہ کہ جنہوںنے نمازسے لذّت نہیں اُٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں ۔وہ روح کی تسلّی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہو تا ہے ۔مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لو گ جو اس قسم کی بد عتیں مسلمان کہلاکر نکالتے ہیں ۔ اگر خوشی اور لذّت سامان اسی میں تھا تو چائیے تھاکے پیغمبر خدا ﷺ جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیامیں تھے ، وہ بھی اس قسم کوئی تعلیم دیتے یااپنے اوراعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے ۔ میں ان مخالفوں سے بڑے بڑے مشائخ اور گدّی نشین اور صاحبِ سلسلہ ہیں۔پوچھتا ہوںکہ کیاپیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درودووظائف اور چلہ کشیاں،اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے اگر معرفت اور حق شناسی کا یہی ذریعۂ اصل تھے۔مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شر یف میں یہ پڑھتے ہیں۔اَلیوَ ْمَ َاَکْمَلْتْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدہ:۴)
اوردوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو توڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف توظالم طبع لوگ مجھ پرافتراکرتے کہ گویامیںایسی مستقل نبو ت کا دعویٰ کرتاہوںجو صاحب شریعت نبی ﷺکے سوا الگ نبوت ہے ، مگر دُوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیںکرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خودکر رہے ہیں۔جب خلافِ رسول اور خلافِ قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہيں اب اگر کسی دل میں انصاف اور خداکا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کر تے ہیں جب کہ اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا امام اور حکم مانتے ہیںکیا ارّہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعوی تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں۔
یقینا یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے۔جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتا کچھ نہیں۔ سعدی نے کی اچھا کہا ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفی
ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالی نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ن لوگوں نے اپنے بدعتوں کے ذریعے قائم کی ہیں ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی الگ شریعت بنا لو۔بغدادی نماز ، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتا لگتا ہے اور ایسا ہی یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے آنحضرت کے وقت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو وجود بھی نہ تھا۔پھر یہ کس نے بتایا تھا ۔شرم کرو۔یا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اسی کا نا م ہے ؟اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میںنے خاتم النبین کی مہر کو توڑا ہے ۔اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میںبدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبو ت پر ایما ن لا کر آ پکے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آ نے کی ہی کیا ضرو ر ت ہو تی ۔تمھار ی ان بد عتو ں اور نئے نبو تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبّوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے۔ پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے، جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدّی نشینوں کو سجدہ کرنا یااُن کے مکانات کا طواف کرنا، یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں۔
غرض اﷲ تعالی۱ نے اس جماعت کو اسی لیے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت اور عزّت کو دوبارہ قائم کریں۔ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبّت کی خصُوصیّت کیا رہی۔ تو پھر اگر یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا نیں۔ جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقا ہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں۔ مدینہ طیبّہ تو جاتے نہیں مگر اجمیرؔ اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پائوں جاتے نیں۔ پاک پٹن کی کھڑ کی میں سے گذر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے۔ کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عُرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچّے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انھوں ہے کیا بنا رکھاہے۔ اگرخدا تعالیٰ کو اسلامؔ کی غیرت نہ ہوتی اور ان الدین عند اﷲالاسلام (آلِ عمران: ۲۰) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا۔ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپؐ کی نبوّت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے؛ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامُور اور مَہدی بنا کر بھیجا۔
آج دو قسم کے شرک پیدا ہو چکے ہیں۔ جنھوں نے اسلام کو نابود کرنے کی بیحد سعی کی ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا ، تو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مِٹ جاتا، مگر چونکہ اُس نے وعدہ کیا ہوا تھا انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحافظون ( الحجر : ۱۰) یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقعہ ہو، تو وُہ خبر لے۔ چوکیدار کا کام ہے کہ وُہ نقب دینے والوں کو پُوچھتے ہیں۔ اور دُوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے نین۔ اسی طرآج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلامؔ کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو نیار ہو گئے تھے۔ اس لیے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاجِ نبوّت قائم کرے۔ یہ مواد اسلامؔ کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخر اب پھوٹ نکلے۔ جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کرنکلتا ہے۔ اسی طرح پر اسلامؔ کی مخالفت کے بچّہ کا خُروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پُورے جوش اورقوّت میںہے، اس لیے اس کو تباہ کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حَربہ نازل کیا اور اس مکرُوہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا، دُور کرنے کے لیے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعوے اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لیے اس نے ظاہر کی ہیں، دکھا دیا ہے۔
عادۃاﷲ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب بگاڑ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اصلاح کے لیے کسی کو پیدا کر دیتا ہے۔ ظاہر نشان تو اس کے صاف ہیں۔ کہ صدی سے انیس برس گذر گئے اور اب تو بیسواں سال بھی شروع ہو گیا۔اب دانشمند کے لیے غور کا مقام ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھ گیا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کا ہر صدی کے سر پر مُجدّدکے مبعوث کرنے کا وعدہ الگ ہے۔ اور قرآن شریف اور اسلام کی حفاظت اور نصرت کا وعدہ الگ۔زمانہ بھی حضرت کے بعد مسیحؑ کی آمد کے زمانہ سے پوری مشبہت رکھتا ہے۔ جو نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعُود کے آنے کے مقرر کیے ہیں، وُہ پورے ہو چکے ہیں۔ تو پھر کیا اب تک بھی کوئی مصلح آسمان سے نہیں آیا؟آیا اور ضرور آیا ۔ اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق عین وقت پر آیا۔ مگر اس کی شناخت کرنے کے لیے ایمان کی آنکھ کی ضرورت ہے ۔٭
جماعت کے قیام کی غر ض
پھرعقلمند کو ماننے میں کیا تأمّلہو سکتا ہے۔ جب وہ ان تمام اُمور کو جو بیان کیے جاتے ہیں، یکجائی نظر سے دیکھے گا۔ اب میرا مدّعا اور منشاء اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کیے ہیں۔ اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اورپھر خیرالقُرون کا زمانہ آجاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ آخرین منہم میں داخل ہوتے ہیں، اس لیے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اُتار دیں۔ اور اپنی ساری توجّہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔ فیج اعوج (ٹیڑھی فوج) کے دشمن ہوں۔ اسلام پار تین زمانے گذرے ہیں۔ ایک قُرون ثلاثہ اِس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لیسوامنی ولست منھم۔ یعنی نہ وُہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ فیج اعوج کا ذکر اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور اخرین منہم لما یلحقو ابہم (الجمعۃ: ۴) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے۔ معدُودے چند کے سِوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔
ہم کو اس بات کا اعتراف ہے ۔ کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گذرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو۔ مگر وہ ابدال اور اولیاء اﷲ جو اس درمیانی زمانہ میں گُذرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر اسلامؔ سے دُور جا پڑے تھے۔ کچھ بھی چیز نہ تھے۔ اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوُت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فیج اعوج رکھ دیا۔ مگر اب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک اور گروہ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گروہ کہلائے، مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانُونِ قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میںتدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لیے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور کزرع (کھیتی کی طرح) ہو گی۔ اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں، جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اﷲ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے، ابھی بہت دُور ہیں۔ وُہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں، جبتک وہ خصوصیّت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔ توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو ۔ تبتّل اِلی اﷲ ایک خاص رنگ کا ہو۔ ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو۔ حقُوقِ اخوان میں خاص رنگ ہو۔
تما م انبیاء علیہم السلا م کی بعثت کی غر ض مشتر ک یہی ہو تی ہے ۔ کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاویاور بنی نو ع انسا ن اور اخو ا ن کے حقو ق اور مہبت میں ایک خا ص رنگ پیدا کے جاوے جب تک یہ باتیں نہ ہو ں تمام امور صر ف رسمی ہوں۔خدا تعا لیٰ کی محبت کی بابت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن بعض اشیاء بعض سے پہچانی جاتی ہیں مثلاایک درخت کے نیچے پھل ہوں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے اوپر بھی ہوں گے لیکن اگر نیچے کچھ بھی نہیں تو اوپر کی بابت کب یقین ہوسکتاہے اسی طرح پر بنی نو ع انسان اور اپنے اخوا ن کے ساتھ جو یگانگت اور محبت کا رنگ ہو اور وہ اس اعتدال پر ہو جو خدا تعا لیٰ کی محبت کا رنگ بھی ضرور ہے
دیکھو دنیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مر نے والے ہیں ۔قبر یں منہ کھولے ہو ئے آوازیں مار رہی ہیںاور ہر شخص اپنی اپنی نو بت پر جا داخل ہو تا ہے۔ عمر بے اعتبا ر او رز ندگی ایسی ناپائدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی ۔اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اٹھانے تک زندہ رہیںگے یا نہیں ۔پھر جب یہ حال یہ ہے کہ مو ت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی با ت ہے کہ وہ یقینی ہے ٹلنے والی نہیں تو دانش مند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اسکے لیے تیار رہے ۔اسی لیے قرآن شر یف میں فر مایاگیا ہے فلا تموتن الا و انتم مسلمون( البقرۃ:۱۳۳)
ہر وقت جب تک انسان خدا تعالی سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان پر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔
اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹامگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔اس لئے ان حقوق میں دوزخ بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتاہے۔ادعونی استجب لکم( المومن:۶۱) میںاللہ تعالی نے کوئی قیدنہیں لگائی کہ دشمن کے حق میں دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہئے شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے اس سے سینہ صاف اور اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے اسلئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اسکے عزیزوں سے کوئی ادنی درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئیے اور ان سے محبت کرنی چاہئیے کیونکہ یہ خدا کی شان ہے۔
بداں را نیکاں بہ بخشد کریم
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئیے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فأنھم قوم لا تشقی جلیسہم یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کے ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔
یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جو تخلقو باخلاق اللہ میں پیش کی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک عیسائی حق جو کی گفتگو
منشی عبدالحق صاحب قصوری طالب علم بی۔اے کلاس جو عرصہ تین سال سے عیسائی تھے الحکم اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں اس پرحضرت خلیفۃ اللہ نے ان کو لکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دو مہینہ تک یہاں قادیان میں آ کر رہیں چنانچہ انہوں نے دارالامان کا قصد کیا ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۱ء؁ کو بعد دوپہر یہاں آ پہنچے پس اس عنوان کے نیچے ہم جو لکھیں گے سردست یہ انہی کے متعلق ہو گا ۔
پہلی ملاقات
حضرت جر ی اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعداء کی طبیعت بوجہ کثرت کار جو آج کل حضور رات کے بہت بڑے حصہ تک اس میں مصروف رہتے تھے کیونکہ ایک طرف میگزین کے لئے مضمون ترجمہ کے واسطے دینا تھا دوسری طرف المناؔرکے لئے موجودہ رسالہ لکھ رہے تھے۔پھر قریبا دو سو سے زائد عظیم الشان نشانوں اور پیشگوئیں کی تریتب کہ لئے ان پیشگوئیوں اور نشانوں کو مرتب اور جمع کررہے تھے…… دو تین روز سے ناساز تھی۔مگر مہمانوں اور اس نووارد حق جو مہمان کے لئے آج آپ نے سیر کو تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ ۹؍بجے کے قریب آپ باہر تشریف لے چلے۔باہر نکلتے ہیں منشی عبدالحق صاحب عیسائی کو حضور کے سامنے پیش کر دیا گیا او رجو کچھ گفتگو ہوئی اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔
حضر ت اقدس : آپ کو عیسائی ہوئے کتنا عرصہ گزرا اور کیا اسباب پیش آئے؟
منشی عبدالحق: مجھے عیسائی ہوئے اس دسمبر میں تین سال ہو جاتے ہیں چونکہ بعض عیسائی میرے دوست تھے اور ان سے میل ملاقات رہتی تھی اور فیروز پور میں پادری نیوٹن صاحب تھے وہ بھی بڑی مہربانی سے پیش آتے تھے یہی اسباب میرے عیسائی ہونے کے ابتداء میں پیدا ہوئے۔
حضر ت اقدس : یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ دو مہینے کے واسطے یہاں آگئے بظاہر یہ بات آپ کی حق جوئی کی نشانی ہے۔
منشی عبدالحق: جناب میں کالج سے نام کٹوا کر آیا ہوں رخصت نہیں ملتی تھی۔
حضر ت اقدس : یہ تو اور بھی ہمت کا کام ہے میرے نزدیک بہتر اور مناسب طریق جو آپ کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے اب یہ ہے کہ کہ آپ ان اعتراضات کو جو اسلام پر رکھتے ہیں اور اہم ہیں سلسلہ وار لکھ لیں اور ایک ایک کر کے پیش کریں ہم انشاء للہ ان کے جواب دیتے رہیں گے اور جس جواب سے آپ کی تسلی نہ ہو آپ اسے بار با پوچھ لیں اور صاف صاف کہدیں کہ اس سے مجھے اطمینان نہیں ہوا مگر ان اعتراضوں میں اس بات کا لحاظ رکھیںکہ وہ ایسے ہوں کہ کتب سابقہ میں اس قسم کے اعتراضوں نام و نشان نہ ہو ورنہ تضییع اوقات ہی ہو گا جب آپ اعتراض کر چکیں گے پھر آپ کو اسلام کی خوبیاں بتائیں گے کینکہ یہ دو ہی کام ہیں ایک آپ کردیں ۔ دوسرا ہم خود کریں گے۔
اسلام کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں
تبدیل مذہب کے دو باعث ہوتے ہیں سب سے بڑا باعث وہ جزئیات ہوتی ہیں جن کو غلط فہمی اور غلط بیانی سے کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے اور اصول مذہب کو اس کے مقابلہ میں بالکل چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے مثلا اسلام کی بابت جب عیسائی لوگ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو اسلامی جنگوں پر کلام کرنے لگتے ہیں ؛حالانکہ خود انکے گھر میں یشوع او ر موسی کے جنگوں کی نظیریں موجود ہیں۔اور جب وہ اسلامی جنگوںسے کہیںبڑھ کر مورد ِاعتراض ٹھہر جاتے ہیں ، کیونکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے ۔ اور ان میںوہ شدّتاواور سخت گیری ہر گزنہ تھی ، جو موسیٰ اور یسوع کے جنگوںمیں پائی جاتی ہے ۔ اگر وہ یہ کہیں کے موسیٰ اور یسوع کی لڑائیا ں عذاب الٰہی کے رنگ میں تھیں ۔تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذاب ِالٰہی کی صورت میں تسلیم نہیںکرتے ۔ موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے ۔ بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلے میں تو بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں اصل بات تو یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیس الٰہیہ سے ناواقف تھے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السّلام کے مخالفو ں کہ مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا،کیونکہ وہ بڑاغفور رحیم ہے ۔ پھر اسلامی جنگوںمیں موسوی جنگوںکے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیّت ہے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐکے خادموں نے مکّہ والوں نے برابر تیرہ سال تک خطرناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ اُن ظالموںنے دئیے ۔ چناچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض بڑے بڑے عذابوں سے مارے گئے :چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذائوں کے ساتھ مار دیا ۔ یہاں تک کے ایک عورت کو دو اُونٹوں سے باندھ دیا اور پھران کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری عورت کو چیر ڈالا اس قسم کی ایذارسانیو ں اور تکلیفوں کو برابرتیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کہ ساتھ برداشت کیا ۔ اس پر بھی انھوں نے اپنے ظُلم کونہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ۔ اور جب آپ ؐ نے خداتعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پاکر مکّہ سے مدینہ کو ،ہجرت کی ۔ پھر بھی انھوں نے تعاقب اور آخرجب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑ ھائی کر کے گئے ،تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا ، کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا اہل مکّہ اپنی شرارتوںاور شوخیوں کی پاداش میںعذابِ الٰہی کا مزہ چکھیں ،چناچہ خداتعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا ، کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے بازنہ آئیں گئے ، توعذابِ الٰہی سے ہلاک کئے جائیں گئے وہ پُوراہوا۔ خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی گئی
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہ عَلیٰ نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ۔ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِحَقِِّ (الحج۴۰،۴۱)
یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی ۔ جن کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لیے اجازت دی گئی ) کے اُن پر ظُلم ہوا ہے ۔ اور خداتعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پرقادر ہے ۔ یہ وُہ مظلُوم ہیںجو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے ۔ ان کا گناہ بجزاس کے اور کوئی نہ تھا کہ اُنھوں نے کہا کہ ہماراربّ اللہ ہے یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے پھر جس قدر رعائتیں اسلامی جنگوں میں دیکھوگے ۔ ممکن نہیںکہ مُوسوی لڑائیوں میں لاکھوں بیگناہ بچو ّں کا ماراجانابوڑھوں اور عورتوںکا قتل ، باغات اور درختوںکاجلاکر خاک سیاہ کردینا ، تورات سے ثابت ہے۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروںسے وہ سختیاںور تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں ، پھر ان دفاعی جنگوںمیں بھی بچوں کو قتل نہ کر نے ، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ۔ اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کس کاپلہ بھاری ہے ۔ غرض یہ بیہودہ اعتراض ہیں ۔ اگر انسان فطرت سلیمہ رکھتاہو تو وہ مقابلہ کر کہ خود حق پاسکتاہے کیا موسیٰ کے زمانہ اور خدا تھا اور محُمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کوئی اور ۔ اسرئیلی نبیوں کے زمانہ جیسے شریر اپنی شرارتوں سے بازنہ آتے تھے ۔اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی میںحد سے نکل گئے۔ پس اس خدانے جو رؤوفُ و رحیم بھی ہے ۔ پھر شریرو ں کے لیے اس میں غضب بھی ہے ، اُن کواِن جنگوں کے ذریعے جوخود اُنھو ںنے ہی پیدا کی تھیں ۔سزادے دی ۔ لوط کی قوم سے کیا سلوک ہوا ،نوح کے مخالفوں کا کیا انجام ہوا ۔ پھر مکّہ والوںکو اگر اس رنگ میں سزا دی ، تو کیوںاعتراض کرتے ہو ۔کیا کوئی عذاب مخصُوص ہے کے طا عون ہی ہو یاپتھر برسائے جائیں ۔ خداجس طرح چاہے عذاب دے دے ۔
سُنّتِ قدیمہ اسی طرح پر جاری ہے ۔ اگر کوئی ناعاقبت اندیش اعتراض کرے۔ تواُسے موسیٰ کے زمانہ اور جنگوں پر اعتراض کا موقعہ مل سکتا ہے ۔جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کوئی رعایت روانہیں رکھی گئی ۔ نبی کریم کے زمانہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ آجکل عقل کا زمانہ ہے اور اب یہ اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھ سکتے ، کیو نکہ جب کوئی مذہب سے الگ ہو کر دیکھے گا ، تو اُسے صاف نظر آجائے گاکہ اسلامی جنگوں میں اوّل سے آخر تک دفاعی رنگ مقصُود ہے اور ہر قسم کی رعائتیں روا رکھی ہیں ، جو موسیٰ ؑور یسُوع کی لڑائیوں میں نہیں ہیں ۔ایک آریہ کی کتاب میری نظر سے گذری ۔ اس نے موُسوی لڑائیوں پر بڑے اعتراض کیے ہیں ، مگر اسلامی جنگوں پر اسے کوئی موقعہ نہیں ملا ۔ مجھ سے جب کوئی آریہ یا ہندُو اسلامی جنگوں کی نسبت دریافت کرتا ہے ۔تواُسے میں نرمی اور ملاطفت سے یہی سمجھاتاہوں کہ جو مارے گئے وُہ اپنی ہی تلوارسے مارے گئے ۔جب اُن کے مظالم کی انتہاہوگئی توآخر اُن کو سزادی گئی اور ان کے حملوںکو روکاگیا ۔
مجھے پادریوںکے سمجھانے اور اُن سے سمجھنے والوںپر سخت افسوس ہے کہ وہ اپنے گھر میں موسیٰ ؑکی لڑائیوں پر توغور نہیںکرتے اور اسلامی جنگوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں اور سمجھنے والے اپنی سادہ لوحی سے اُسے مان لیتے ہیں ۔ اگر غور کیا جاوے ، توموسوی جنگوں کااعتراض حضرت مسیح ؐپر بھی آتاہے ۔کیونکہ وہ توریت کو مانتے تھے اور حضرت موسیٰ کو خداکا نبی تسلیم کرتے تھے ۔ اگر وہ اِن جنگوں اور ان بچوّں اور عورتوں کے قتل پر راضی نہ تھے ، تو اُنھوں نے اُسے کیوں مانا۔گویا وہ لڑائیاںخود مسیح نے کیں اور اِن بچّون اور عورتوں کو خود مسیح نے ہی قتل کیا۔
اور اصل یہ ہے کے خود مسیح علیہ السلام کو لڑائیوں کا موقعہ ہی نہ ملا ، ورنہ وہ کم نہ تھے انہوںنے تو اپنے شاگردوں کوحکم تھا کہ کپڑے بیچ کر تلواریںخریدیں ۔ یہ بالکل سچّی بات ہے کہ قرآن شریف ہماری رہنمائی نہ کرتا،تو ان نبیوں پر سے ایما اُٹھ جاتا ۔ قرآن شریف کا احسان ہے تمام نبیوںپڑادرمحمدﷺ کا احسان ہے کہ اُنہوں نے آکر ان سب کو اس الزام سے بَری کر دکھایا ۔
قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو ،توصاف معلوم ہو جائے گا کے اس کی یہی تعلیم ہے کہ کسی سے تعرضن کرو ۔جنھوںنے سبقت نہیںکی اُن سے احسان کرو اور ابتداء کرنے والوںکرنے والوں اور ظالموں کے مقابلہ میں دفاع کا لحاظ رکھو ، حد سے نہ بڑھو۔ اسلام کی ابتداء میں ایسی مشکلات درپیش تھیں کہ اِن کی نظیر نہیں ملتی ۔ ایک کے مسلمان ہونے پر مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ہزاروں فتنے بپاہوتے تھے اورفتنہ توقتل سے بھی بڑھ کر ہے پس امن عامہّ کے قیام کے لیے مقابلہ کرنا پڑا ۔ اگر ہندواس پر اعتراض کرتے تو کچھ تعجّب اور افسوس کی جا نہ تھی ، مگر خودجن کے گھر میں اس سے بڑھ کر اعتراض آتا ہے ۔اُن کواعتراض کرتے ہوئے دیکھ کر تعّجب اور افسوس ہوتاہے ۔ عیسائیوں نے اس قسم کے اعتراض میں بڑا ظلم کیا ہے ۔کیا اِن میں ایسا ہی ایمان ہے ۔پھر منجلہ اور جزئیات کے غلامی کے مسئلہ پر اعتراض کرتے ہیں ۔ حالانکہ کے قرآن شریف نے غلاموں کے آذاد کرنے کی تعلیم دی ہے اور تاکید کی ہے اور جو اور جو کسی کتا ب میں نہیں ہے ۔ اس قسم کے جُزئیات کو یہ لوگ محل اعترا ض ٹھہر ا کر ناواقف لوگ اورآزاد طبع نو جوا نوں کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔پس آپکو منا سب ہے کہ آپ اعتراض کرتے وقت اس امر کابڑا بھاری لحا ظ کریں کہ اسے گناہ اور محل اعترا ض ٹھہرائیں جو خد ا نے گنا ہ قرار د یا ہو، نہ وہ جو کہ پادری تجو یزکر یں ۔ میںسولہ سترہ سال کی عمر سے ان سے ملتا تھا ۔مگر اس نور کی وجہ سے جو خدا نے مجھے دیا تھا میں ہمیشہ سمجھ لیتا تھا کہ یہ دھو کا دیتے ہیں ۔،،
تعدّدِادوج
اسی طرح پر تعدّد ازدواج کے مسئلہ پر اعتراض کر دیتے ہیں ۔ مگر مجھے سخت افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ اِن نادانو ں نے یہ اعتراض کرتے وقت اس بات پر ذرا بھی خیال نہیں کہ اس کا اثر خود اُن کے خداوند پر کیا پڑتا ہے۔مجھے سخت رنج آتاہے جب میںدیکھتاہوں کہ پادریوں کے اس اعتراض نے حضرت عیسیٰ ؐ پر سخت حملہ کیا ہے۔کیوںکہ جس کہ گھر میںحضرت مریم گئی تھیں۔اس کے پہلے بیوی تھی ۔ پھر یہ اولاد کیسی قرار دی جائے گی۔علاوہ ازیں جبکہ مریم نے اور اس کی ماںنے یہ عہد خدا کہ حضور کیا ہوا تھا ۔کہ اس کا نکا ح نہ کروںگی پھر وہ کیا آفت اور مشکل پیش آئی تھی جو نکاح کر دیا ۔ بہتر ہوتاکہ روح القدس کابچہّ مقدس ہیکل میں ہی جنتی ۔ بڑے افسوس کہنا پڑتا ہے کے انھوںنے اپنے گھر میںنگاہ نہیںکی ۔ورنہ اس قوم کا فرض تھا کہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺکے قبول کرنے والے یہی ہوتے ، کیونکہ ان کے ہاں نظائرموجود تھے ،مگر جیسے اس وقت کو انھوں
الحکم جلد ۶ نمبر ۲تا ۶ صفحہ ۴تا ۲ پرچہ ۱۷جنوری ۱۹۰۲؁ء
نے کھودیا ۔ آج بھی یہ مسیح موعود کوقبول نہیںکرتے ، حالانکہ ایلیاؔکا قصّہ اُن میں موجودہے اور اسی پر مسیح کی صداقت کا سارا معیار ہے ۔ اگر مسیح واقع مُردوں کو زندہ کرتے تھے ۔تو کیو ںپھونک مار کر ایلیاؔکو زندہ نہ کر دیا،یہود ابتلاسے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا ،جو ایلیاؔکی تاویل سے پیش آئیں۔ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے ۔وہ اس میں صاف لکھتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ ہم سے مسیح کے انکارکا سوال کرے گا،تو ہم ملا کی نبی کی کتاب سامنے رکھ دیںگے۔کہ کیا اس میں نہیں لکھا کہ مسیح سے پہلے ایلیاؔ آئے گا ۔اس میں یہ کہاں ہے کہ یوحناؔ آئے گا۔اس پر اس قسم کی جزئیات کویہ لوگ بد نما صورت میںپیش کر کہ دھوکا دیتے ہیں ۔ آپ اپنے اعتراضوں کے انتخاب میں ان اُمور کو مدِنظر رکھیں جو میں نے آپ کو بتادئیے ہیں ۔
دین کا معاملہ بہت بڑا اہم اور نازک معاملہ ہے اس میں بہت بڑی فکر اور غور کی ضرورت ہے ۔اس میں وہ پہلو اختیار کرنا چاہئے، جو مشترک اُمّت کاہے ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیںہو سکتی جس کے نظائر موجود نہ ہو ں ۔ مثلاًایک شخص کہے کے ایک صندوق میں ایک ہزار روپیہ رکھاتھا اور وہ جادو کے ذریعہ ہوا ہو کر اُڑگیا ، تو اُسے کو ن مانے گا ۔ اسی طرح پر عیسائیوں کے معتقدات کا حال ہے ۔ آپ اپنے اعتراض مرتب کر کہ پیش کریں اور انشاء اللہ ہم جواب دیں گے ۔‘‘
تثلیث اور کفّارہ
منشی عبدالحق صاحب:’’اگرآپ تثلیث اور کفارہ کو توڑ کر دکھا دیں، تو میں شاید اور کچھ نہ پوچھوں گا ۔‘‘
حضرت مسیح موعوؑد:’’تثلیث اور کفارہ کی تردید کے دلائل تو ہم انشاء اللہ اتنے بیان کریںگے کہ جو ان کے ابطال کے لیے کافی سے بڑھ کر ہوں گے ، مگر میری رائے میں جو ترتیب میںنے آپ کو اشارہ کی ہے اس پر چلنے سے بہت بڑافائدہ ہوگا ۔ اس وقت میںخلط نہیں کرناچاہتا ، لیکن میں مختصر اور اشارے کے طور پر اتناکہناضروری سمجھتاہوںکہ اس وقت تین قومیںیہود ،مسلمان اور عیسائی موجودہیں ۔ ان میںسے یہود اور مسلمان بالاتفاق توحید پر ایمان لاتے ہیں ۔لیکن عیسائی تثلیث کے قائل ہیں ۔ اب ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تثلیث تعلیم ِحق تھی اور نجات کایہی اصل ذریعہ تھاتو پھر کیا اندھیرا مچاہوا ہے کہ تورایت میں اس تعلیم کا کوئی نشان نہیںملتا۔ یہودیوںکے اظہار لے کر دیکھ لو ۔اس کے سواایک اور امر قابل ِغور ہے کے یہودیوں کے مختلف فرقے ہیں اور بہت سی باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے، لیکن توحید کے اقراس میں ذرا بھی اختلاف نہیں اگر تثلیث واقعی مدار نجات تھی تو کیا سارے کے سارے فرقے ہی اس کو فراموش کر دیتے اور ایک آدھ فرقہ بھی اس پر قائم نہ رہتا۔ کیا یہ تعجب خیز امر نہ ہو گا جکہ ایک عظیم الشان قوم جس میں ہزاروں فاضل ہر زمانہ میں موجود رہے اور برابر مسیح علیہ السلام کے وقت تک جن میں نبی آتے رہے ان کو ایسی تعلیم سے بالکل بے خبری ہو جاوے جو موسیٰ علیہ السلام کی معرفت انہیں ملی ہو اور مدار نجات بھی وہی ہو یہ بالکل خلاف قیاس اور بے ہودہ بات ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خود تراشیدہ عقیدہ ہے نبیوں کے صحیفوں میں اس کا کوئی پتہ نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ حق کے خلاف ہے پس یہودیوں میں توحید پر اتفاق ہونا تثلیث پر کسی کا ایک بھی قائم نہ ہونا صریح دلیل اس امر کی ہے کہ یہ باطل ہے ؛ حالانکہ خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں بھی تثلیث کے متعلق ہمیشہ سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یونی ٹیرین فرقہ اب تک موجود ہے میں نے ایک یہودی سے دریافت کیا تھا کہ توریت میں کہیں تثلیث کا بھی ذکر ہے اور یا تمہارے تعامل میں کہیں اس کا بھی پتہ لگتا ہے اس نے صاف اقرار کیا کہ ہرگز نہیں ہماری توحید وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے اور کوئی فرقہ ہمارا تثلیث کا قائل نہیں اس نے یہ کہا کہ تثلیث پر مدار نجات ہوتا تو ہمیں جو توریت کے حکمو ں کو چوکھٹوں اور آستینوں پر لکھنے کا حکم تھا کہیں تثلیث کے لکھنے کا بھی ہوتا۔پھر دوسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ باطنی شریعت میں اس کے لئے کوئی نمونہ نہیں ہے باطنی شریعت بجائے خود توحید چاہتی ہے ۔ پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابوں میں اقرار کر لیا ہے کہ اگر کوئی شخص کیس ایسے جزیرہ میں رہتا ہو جہاں تثلیث نہیں پہنچی اس سے توحید کا ہی مطالبہ ہو گا۔نہ تثلیث کا پس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ باطنی شریعت توحید کو چاہتی ہے نہ تثلیث کو ۔ کیونکہ تثلیث اگر فطرت میں ہوتی تو سوال اس کا ہونا چاہئے تھا۔
پھر تیسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ جس قدر عناصر خدا تعالی نے بنائے ہیں وہ سب کروی ہیں پانی کا قطرہ دیکھو اجرام سماوی کو دیکھو زمین کو دیکھو اس لئے کرویت میں ایک وحدت ہوتی ہے پس اگر خدا میں تثلیث تھی تو چاہئیے تھی کہ مثلث نما اشیاء ہوتیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے جو تثلیث کا قائل ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دے ہم کچھ توحید کے متعلق یہودیوں کا تعامل باوجود اختلاف فرقوں کے باطنی شریعت میں اس کا اثرہونا اور قانون قدرت میں اس کی نظیر ملنا بتاتے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی تقوی سے کام لے تو وہ سمجھ لے گا کہ تثلیث پر جس قدر زور دیا گیا ہے وہ صریح ظلم ہے ۔
انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کبھی غیر تسلی کی راہ اختیار نہیں کرتا اس لئے پگڈنڈیوں کی بجائے شاہراہ پر چلنے والے سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور ا س پر چلنے والوں کے لئے کسی قسم کا خوف و خطرہ نہیں ہوتا۔
کسر صلیب
عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارے پاس تو ایک دریا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اگر مجھے مبعوث نہ بھی فرماتا تب بھی زمانہ نے ایسے حالات اور اسباب پیدا کر دئیے تھے کہ عیسائیت کا پول کھل جاتا۔ کیونکہ خدا تعالی کی غیرت اور جلال کے یہ صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جاتا جوا نسانی حوائج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناء اپنے اندر نہیں رکھتا۔
میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ و ہ صلیب سے زندہ اتارا گیا اور ا ور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر چلا آیا جہاں اس نے ۱۲۰ سال کی عمر میں وفات پائی ۔اور تک اس کی قبر خانیارؔ کے محلہ میں یوز آسفؔ یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے ۔
اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو محکم اور مستحکم دلائل کی بناء پرنہ ہو بلکہ صلیب کے جو واقعات انجیل میں لکھے ہیں خود انہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا سب سے اول یہ کہ خود مسیح نے اپنی مثال یونس سے دی ہے کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مر کر او رپھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی او ر وہ اس فکر میںہو گیا کہ اس کو بچایا جاوے اور اسی لیے پیلاطوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کو چھوڑ دینے کی کوشش کی اور آخر کار اپنے ہاتھدھوکر ثابت کیا کہ میں اس سے بری ہوں۔اورپھر جب یہودی کسی طرح ماننے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشس کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب دی گئی اور چونکہ صلیب پر بھوک پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر مصلوب انسان مر جایا کرتا تھا وہ موقعہ مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اسے صلیب پر سے نہ اتار لیا جاتا کیونکہ یہودیوں کی شریعت کی رو سے یہ سخت گناہ تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہل رات پر صلیب چڑھا دیا گیا تھا اس ل ئے بعض واقعات آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفور اتار لیا گیاپھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں مگر مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔
پھر مسیح کی لا ش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کا شا گر د تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پلاطو س کو عیسائی شہدوںمیں لکھاہے اور اس کی بیوی کوولیہ قرار دیا گیا اور ان سب سے بڑھ کرمرہم عیسیٰ کا نسخہ ہے جس کو مسلما ن، یہود ی ،رومی اور مجوسی طبیبوں نے بلا اتفاق لکھا ہے کہ مسیح کے زخموں کے لیے تیار ہوا تھا اور اس نام مر ہم عیسیٰ مرہم حواریین اور مر ہم رسل اور مرہم شلیخہ وغیر ہ بھی رکھا ۔کم از کم ہزا ر کتاب میں یہ نسخہ مو جو د ہے اور یہ کوئی عیسائی ثا بت نہیں کر سکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کوئی زخم مسیح کولگے تھے ۔اور اس وقت حواری بھی موجو د تھے ۔اب بتا ئو کہ کیا یہ تما ماسبا ب اگر ایک جا جمع کیے جاویں ، تو صا ف شہادت نہیں دیتے کہ صلیب پر زند ہ بچ کر اتر آیا تھا۔
اس پر اس وقت ہمیں کوئی لمبی بحث نہیں کرنی ہے یہودیوں کے جو فرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے وہ ان کی تلاش میں ادھر چلے آئے۔ اور پھر آخر کشمیر ہی میں انہوںنے وفات پائی۔اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری دراصل بنی اسرائیل ہیں چنانچہ برنئیر نے اپنے سفر نامے میں یہ یہی لکھا ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوتا ہے اور واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اتر آئے ہیں تو کفارہ کا کیا باقی رہ جاتا ہے۔
پھر سب سے عجیب تر تو یہ بات ہے کہ عیسائی جس عورت کی شہادت سے مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں وہ خود ایک اچھے اور شریف چال چلن کی عورت نہ تھی۔
( الحکم جلد۶ نمبر ۳ صفحہ ۳۔۴ مورخہ۲۴؍جنوری۱۹۰۲ء؁)
تلاش حق کے آداب
’’ یاد رکھو کہ ایک فعل انسان کی طرف سے اولا سرزد ہوتا ہے پھراس میں جو اثر یا خاصیت مخفی ہو۔خدا تعالی کا ایک فعل اس پر مترتب ہو کر اسے ظاہر کر دیتا ہے مثلا جب ہم اپنے گھر کی کھڑکی کوبند کر لیتے ہیں تو یہ ہمارا فعل ہے اور اس پر خدا تعالی کا فعل یہ سرزد ہوتا ہے کہ اس کوٹھڑی میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت بند ہو کر تاریکی ہو جائے گی پس یہ ایک عاد ت اللہ قدیم سے اسی طرح پر چلی آتی ہے۔اور اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا ہے کہ انسانی فعل پر خدا کی طرف سے یہ سرزد ہوتا ہے اسی طرح پر جیسے یہ نظام ظاہری ہے اندرونی انتظام میں بھی یہی قانون ہے جو شخص صاف دل ہو کر تلاش حق کرتا ہے اور اگر کچھ نہیں تو کم از کم سلب عقائد ہی کی حالت میں آتا ہے تو وہ سچائی کو ضرور پا لیتا ہے لیکن اگر وہ اپنے دل میں پہلے سے ایک بات کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ضد اور تعصب کے حلقوں میں گرفتار دل لے کر آتا ہے توا س کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا معاندانہ جوش بڑھ کر فطرت کے انوار کو دبا لیتا ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق نہیں پاتا۔پس خدا تعالی سے پاکیزگی اور ہدایت کے پانے کے لئے خود بھی اپنے اندر پاکیزگی کو پیدا کرنا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ انسان بخل اور تعصب کو چھوڑ دے اور اپنے نفس کو ہر گز دھوکا نہ دے ۔یہ بالکل سچ ہے کہ جو شخض تلاش حق کا دعوی کر کے نکلتا ہے اور پھر اپنی جگہ پہلے ہی کسی مذہب کے اصول کو فیصلہ کر کے قطعی بھی قرار دے لیتا ہے ،و دنیا کا طالب ہوتا ہے جو دنیاکی فتح و شکست پر مرتا ہے میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کو مانتا ہے ۔ نہیں میرے نزدیک وہ دہریہ ہے ۔پاک دل جو کسی زجر و توبیخ کی پرواہ نہیں کرتا اور جو اقرار کرلینے میں ندامت اور شرمساری نہیں پاتا وہی ہوتا ہے جو حق کو پالیتا ہے ۔ ایسے ہی دل پر خدا کے انوار نازل ہوتے ہیں۔ یاد رکھو خدا تعالی ہر گز ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتا جو اس کی جستجو میں قدم رکھتا ہے ۔ وہ یقینا ہے او رجیسے ہمیشہ سے اس نے اناالموجود کہا ہے اب بھی کہتا ہے ۔
جس طرح پر حضرت مسیح پر وحی ہوتی تھی اس طرح اب بھی ہوتی ہے میں سچ کہتا ہوں کہ یہ نرادعوی نہیں اس کے ساتھ روشن دلائل ہیں کہ پہلے کیا تھا جو اب نہیں اب بھی وہی خدا ہے جو سدا کلام کرتا چلا آیا ہے اس نے اب بھی دنیا کو اپنے کلام سے منور کیا ہے ۔‘‘
کفارہ
ایک اور ضر ور ی با ت ہے جومیں کہنی چاہتا ہوں اور کفا رہ کے متعلق ہے کفارہ کی اصل غر ض تو یہی بتائی جاتی ہے کہ نجا ت حاصل ہو اور نجا ت دوسر ے الفا ظ میں گناہ کے زند گی اور اس کی موت سے بچ جانے کا نام ہے مگر میں اپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ خداکے لیے انصا ف کر کے بتائو کہ گناہ کو کسی کی خود کشی سے فلسفیا نہ طور پر کیا تعلق ہے۔اگر مسیح نے نجات کامفہو م یہی سمجھا اور گناہوں سے بچنے کایہی طریق انہیں سوجھا ، اتو پھر نعو ذ باللہ ہم ایسے آدمی کو تورسو ل بھی نہیں ما ن سکتے کیونکہ اس سے گناہ رک نہیں سکتے ۔ آپکو یور پ کے حالا ت اور لنڈن اور پیر س کے واقعا ت اچھی طر ح معلوم ہو ں گے ۔بتاؤ کون سا پہلو گنا ہ کا ہے جو نہیں ہو تا ۔سب سے بڑھ کرزنا تورا ت میںلکھا ہے مگر دیکھو کہ سیلا ب کس زورسے ان قوموں میں آیا ہے جن کا یقین ہے کہ مسیح ہما رے لیے مرا ۔خو د کشی کے طریق سے بہتر یہی تھاکہ مسیح دعا کر تا کہ اور بھی عمرملے تا کہ وہ نصیحت اور وعظ ہی کے زریعے لوگوںکو فائدہ پہنچاتا۔مگر یہ سوجھی تو کیا سوجھی ؟۔
اسکے علا وہ ایک اور با ت بھی ہے جو میں نے پیش کی تھی اور اب تک کسی عیسائی نے اس کا جواب نہیں دیا اور وہ یہ ہے کہ مسیح ہما ر ے بدلے *** ہوا ۔اب *** کے معنوں کے لیے عبرا نی یا عربی کے لغا ت نکال کر دیکھ لو کہ ملعو ن وہ شخص ہوتا ہے جس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہو ۔اوروہ خداسے دور ہو اب عیسائیوںنے بلاتفا ق اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے *** ہوا چنا نچہ تین دن کے لیے اسے ہاویہ میں بھی رکھتے ہیں اب یہ *** قر بانی جو ان کے عقیدہ کے موافق ہوئی ۔نجا ت سے کیا تعلق ہے
غر ض جس قدر اس پر غور کر تے جائیں گے ۔اسی قدر اس حقیقت کھلتی جائے ہی ۔میںآپ کو بتا تا ہوں کہ اصل میں مسیح کے متعلق عیسائیوںاور یہودیوںدو نو ںنے افرا ط وتفر یط سے کا م لیا ہے عیسائیو ں نے تو یہاں تک افراط کی ایک عاجز انسا ن کو جو ایک ضعیفہ عورت کے پیٹ سے عام آدمیوں کی طرح پیدا ہوا خدا بنا لیا۔اور پھر گرایا بھی تو یہاں تک کہ اسے ملعون بنایا اور ہاویہ میں گرایا۔یہودیوں نے تفریط کی یہاں تک کہ معاذ اللہ اسے ولد الزنا قرار دیا او ربعض انگریزوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور سارا الزام حضرت مریم پر لگایا مگر قرآن شریف نے آکر دونوں قوموں کی غلطیوں کی اصلاح کی عیسائیوں کو بھی بتایا کہ وہ خدا کا رسول تھا اور خدا نہ تھااور وہ ملعون نہ تھا مرفوع تھا اور یہودیوں کو بتایا کہ وہ ولدالزنا نہ تھا بلکہ مریم صدیقہ عورت تھی أ حصنت فرجھا کی وجہ سے اس میں نفخ روح ہوا تھا یہی افراط و تفریط اس زمانہ میں بھی ہوئی ہے اور خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ان کی اصل عزت کو قائم کروں مسلمان ناواقفی سے انہیں انسانی صفات سے بڑھ کر قرار دینے میں غلطی کرتے ہیں اور ان کی موت کے راز کی حقیقت سے ناواقف ہیں عیسائی مصلوب قرار دے کر ملعون بناتے ہیں پس اب وقت آیا ہے کہ مسیح کے سر پر سے وہ الزام دور کئے جاویں جو ایک بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کئے تھے پس اسلام کا کس قدر احسان مسیح پر ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان باتوں پر پورا غور کر لیں گے میں آپ کو بار بار یہی کہتا ہوں کہ جب تک آپ کی سمجھ میں کوئی بات نہ آوے اسے آپ بار بار پوچھیں؛ورنہ یہ اچھا طریق نہیںہے کہ ایک بات کو آپ سمجھیں نہیں اور کہہ دیںکہ ہاں سمجھ لیا ہے اس کا نتیجہ برا ہوتا ہے سراج الدین جو یہاں آیا تھا اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ فائدہ نہ اٹھایا اس نے آپ کو کچھ کہا تھا؟
منشی عبدالحق صاحب:’’ہاں مجھے منع کرتے تھے کہ وہاں مت جائو کچھ ضرورت نہیں ہے جب ہم نے ایک سچائی کو پا لیاپھر کیا ضرورت ہے کہ اور تلاش کرتے پھریں اور یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ جب میں آیا تھا تو وہ مجھے تین میل تک چھوڑنے آئے تھے اور پسینہ آیا ہوا تھا۔‘‘
(ایدیٹر) سلیم الفطرت لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت اور ہمدردی پر غور کریں اور اس جوش کا اندازہ کریں جو اس فطرت میں کسی کی روح کو بچا لینے کیلئے ہے کیا تین میل تک جانا محض ہمدردی ہی کے لئے نہ تھاورنہ میاں سراج الدین سے کیا غرض تھی اگر فطرت سلیم ہو تو آپ اس جوش ہمدردی ہی سے حق کا پتہ پا لے ہمارے لئے ایسا سچاجوش رکھنے والے تجھ پر خدا کا سلام بر تو اے مرد سلامت )
حضر ت مسیح موعو دؑ: اس پسینہ سے اس نے یہ مراد لی کہ گویا جواب نہیں آیاافسوس !آپ اس سے پوچھتے تو سہی کہ پھر وہ یہاں رہ کر نمازیں کیوںپڑھتا تھا اور کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ میری تسلی ہو گئی میرے سامنے ہوتو میں اس حلف دے کر پوچھوں سامنے ہونے سے کچھ تو شرم آجاتی ہے۔
منشی عبدالحق :’’ میں نے نمازوں کا حال پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہاں میں پڑھا کرتا تھا اور آخر میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کسی سرد مقام پر جا کر فیصلہ کروں گا اور یہ بھی مسٹر سراج الدین نے کہا تھا کہ مرزا صاحب شہرت پسند ہیں، میں نے چار سوال پوچھے تھے ان کا جواب چھاپ دیا۔‘‘
حضر ت اقدس :’’ اس میں شہرت پسندی کی کوئی بات نہیں ہم حق کو کیوں چھپاتے اگر چھپاتے تو گنہ گار ٹھہرتے اور معصیت ہوتی۔ خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تو پھر میں حق کا اظہار کروں گااور جو کام میرے سپرد ہوا ہے اسے مخلوق کو پہنچائوں گا اور اس بات کی مجھے کچھ پروا نہیں کہ کوئی شہرت پسند کہے یا اور کچھ۔آپ ان کو پھر خط لکھیں کہ وہ یہاں کچھ دن اور رہ جاویں۔‘‘
الغرض ان باتوں میں آپ مکان کے قریب پہنچ گئے۔ اور اس وقت حضرت اقدس نے منشی عبدالحق صاحب کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پا سکتا ہے جو بے تکلف ہے پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو یہ کہہ کر آپ گھر میں تشریف لے گئے۔‘‘۱؎
۲۴؍دسمبر۱۹۰۱ء؁
مامور من اللہ کا نشان
حضرت مسیح موعود:’’ما مُور ان امُور کی جواس پر کھولے جاتے ہیں،اشاعت نہ کرے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ مخلوق پر ظلم کرتا ہے اور خو د اللہ تعالی کے سپرد کردہ فرض کو انجام نہیں دیتا مامور کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ اشاعت حق سے نہیں رکتا۔اور ہمیںافسوس ہوتا ہی جب انجیل میں ایسے فقرا ت دیکھتے ہیں جن میںمسیح اپنے آپکوچھپانے اور کسی پر ظاہر نہ کرنے کی تعلیم اپنے شاگردوںکودیتا ہے مامور من اللہ میںایک شجاعت ہوتی ہے۔اس لیے وہ کبھی بھی اپنے پیغام پہنچانے اوراشا عت حق میںنہیںڈرتا ۔شہا د ت حقہ کا چھپانا سخت گناہ ہے پس میںکیو نکراس حقیقت کو چھپا سکتا ہوں ۔جو خدا نے مجھ پر کھولی ہے ۔میرے نزد یک یہ طریق بہت ہی مناسب ہے جو یہ اس طر ح پر مر تب ہو جا یا کر ے ۔آپ نے اب دوبا ر ہ سن لیا ہے ۔اس پر غور کریں اور جو کچھ آ پ کو شک با قی ہو بے شک پو چھ لیں ،،۔
مسٹر عبدالحق :میں اس پر مز ید غور کرو ں گا ،،۔
حضر ت مسیح مو عود :میںآپ کی اس با ت کو بہت پسند کرتا ہوں کہ جلد ی نہیں کی ۔آپ بے شک چار پا نچ روز تک اس پرکافی غو رکر لیں،،۔
مسٹر عبد الحق ,,۔میںنے آج ایک سوا ل قرآ ن شر یف کی ضرور ت پر سوچا تھا، مگر وہ اس تقریر میں آچکا ہے میںایک سوا ل یہ بھی پو چھنا چاہتا ہوںکہ یہ جوکہا جا تا ہے کہ انجیل میںتحریف ہو گئی ہے ۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ اصل کہا ں ہے تو اس کا کیا جوا ب ہے۔‘‘
حضر ت مسیح مو عو د :’’یہ سوال آپ کا ایک نیا سوا ل ہیاور پہلے سوا لو ں سے الگ ہے ۔ میںیہ چاہتا ہوں کہ تداخل نہ ہو ۔ میں اس سوا ل کا جواب بیا ن کرو ں گا ، مگر اول مناسب یہی ہے کہ آپ اپنے سوا لوںکے جوا ب پرغورکرکے اورجو کچھ ان کے متعلق پوچھنا ہوپوچھ لیں ۔ سو جب وہ طے ہو جائیں ، پھر میںآپ کے اس سوال کا جواب دوںگا ۔ مگر تداخل کو میںمناسب نہیں سمجھتا۔ جیسے تداخل طعام درست نہیں ہے ۔یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ کھا لیا ۔ پھر کچھ اور ۔اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوُ ئہضم ہو کر ہیضہ یا قے یا کسی اور بیماری کی نوبت آئے ۔ اسی طرح تداخل کلام منع ہے ۔ تداخل کلام سے کوئی بات محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ اور انسان اس سے کو ئی فائدہ نہیںاُٹھاسکتا ، بلکہ وہ وقت ضائع چلاجاتا ہے ۔ میری عین مراد یہی ہے کہ یہ سوالات آپ کے باترتیب ہوںاور ہر سوال کی ایک مدد رکھی جاوے اور اس کو دوسراقراردے لیا جاوے ۔اس وقت میرا مقصد یہ نہیںہے کہ میں خلط مبحث کر کے اپنا وقت ضائع کروں اور آکو فائدہ سے محروم رکھوں ، بلکہ میںچاہتا ہوںکہ آپ کو پور افائدہ پہنچائوںجو میرے امکان اور طاقت میں ہے اور اس کے لیے میری رائے میں یہی طریق مناسب ہے جو اختیار کیا گیا ہے ۔میں اس سوال کا جواب دیتے وقت آپکو بتائوں گا کہ تحریف کے خیالات شروع میں مسلمانو ںسے پیدانہیں ہوئے بلکہ انجیل کے ماننے والوں ہی کی طرف سے خیالات کی ابتداء ہوئی ہے اور میں اس کو جیسا میں نے کہا ہے اور دوسرے وقت پر رکھتا ہوں ۔جب آپ پہلے سوالوں کہ جوابات سمجھ لیں گے ۔ جو لوگ بحث ومباحثہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور تلاش حق اُن کا مقصد نہیں ہوتا ۔وہ ایک ہی جلسہ میںطے کر لینا چاہتے ہیں ۔ میں اس کو مذہبی قمار بازی کہتا ہوں ۔ جیسے قمار باز اپنی چابک دستی اور چالاکی سے ہاتھ مارنا چاہتے ہیں اور اسی طرح پر یہ لوگ کرتے ہیں۔اور ہم نے تجربے سے دیکھ لیا ہے کے اصل بات کو چھپاتے ہیں ۔اور فرضی اور خیالی باتیں پیش کرتے ہیں ۔ پس میں اس کو بہت ہی بُرا سمجھتاہو ں کے انسان مذہبی قمار بازی کے لیے دست درازاورخداکا ذرا بھی خوف اور حیانہ کرکے اپنی چالاکیوں سے کام لے ۔ یہ مذہبی قماربازی کب ہوتی ہے جب دنیا کی ہار جیت اور خیالی فتح وشکست مدِّنظر ہو اور احباب اور ہمعصروں کی نگاہ میں واہ واہ سننے اور فتحیاب کہلانے کا خیال دل میں ہو۔ یہ قمار بازی دنیا کی قماربازی سے بہت ہی بڑھ کر نقصان رساں ہے، کیونکہ اس میں تو صرف مال کا زیاں ہے، مگر اس قمار بازی میں دین اور دنیا دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ اور تمام اخلاقی اور روحانی قوتیں جو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات کا وارچ بہا سکتی ہیں، ہاردی جاتی ہیں۔ اور اس متاع کے ہارنے سے جو رنج پیدا ہوتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے۔ پس اس قمار بازی کے خیال کو کبھی پاس بھی آنے نہیں دینا ثاہیے۔ اگر مقصدِعظیم یہ ہو کہ راستبازوں کے نور سے حصّہ ملے۔ کبھی کوئی شخص اس نور کو نہیں پاسکتا اور اس متاع کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ جو فطرت سلیم اس کے پاس ہے۔ جبتک حق گوئی اور حق جوئی اور پھر قبولِ حق کے لیے ساری دنیا کو اس کے سامنے مردہ قرار نہ دے لے ا ور ان امورکے لیے خدا تعالیٰ سے ایک عہد کرے۔ جو ایسا عہد خدا تعالیٰ سے نہیں کرتا وہ خدا کو مان کر بھی دہریہّ ہے۔ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے امراض کا بُحران ہو تاہے۔اسی طرح مختلف ملتوں اور مذہبوں کے بحران کے یہ ایّام ہیں۔شیطان کی بھی یہ آخری جنگ ہے۔اس لیے وہ تمام آلات حرب و ضرب لے کر حق کے مقابلہ میں نکلا ہے۔اور وہ پُورے زور اور پوری طاقت سے کوشش کرتا ہے کہ حق پر غلبہ پاوے مگر خود یُسے بھی یقینِ کامل ہے کہ اُس کی ساری کوشش بے سود اور بے فائدہ ہوگی اور بہت جلد وہ وقت آتا ہے کہ شیطان مارا جاوے گا اور ملائک کی فتح ہو گی، مگر بایں ہمہ وہ اپنی پُوری طاقت سے اس وقت میدان میں آیا ہے اور اس کے بالمقابل حق بھی ہے اور اس کے سامان اور ہتھیار بھی آسمان سے نازل ہو رہے ہیں۔ چونکہ اس وقت دونوں میدان میں ہیں۔ پس تم کو واجب ہے کہ حق کا ساتھ دو۔
حق کی شناخت کے نشان
اور میں نے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب پھر بتاتا ہوں کہ حق کی شناخت کے واسطے تین نشان ہیں۔ ان پر اگر تم اس کو جسے حق کہا جاتا ہے، پَرکھ لو گے تو تم کو شیطان دھوکا نہ دے سکے گا؛ ورنہ اس نے اپنی طرف سے التباس حق و باطل کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
اور وہ نشان یہ ہیں۔ اوّل نُصُوصِ صریحہ یعنی جو معتقدات ہم رکھتے ہیں۔ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کا نام و نشان خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر اس کے متعلق منقولی شہادت یعنی نصوص صریحہ قطعیّہ نہ ہوں، تو خود سوچنا ناہیئے کہ اس کو کہاں تک وقعت دی جاسکتی ہے۔ مثلاً جیسے کیمیا گر کہتا ہے کہ میں ایک ہزارکا دس ہزار کر دیتا ہوں تو کیا ضروری نہیں کہ ہمیں علم ہو کہ پہلے کتنے ایسے بزرگ گزرے ہیں۔ لیکن جب ہم اس پر غور کریں گے، تو معلوم ہو گا کہ ہزاروں نے ایسی باتوں میں آکر نُقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے اسی علاقہ میں ایک کیمیا گر اسی طرح پر دو آدمیوں کو ایک ہی وقت میں ٹھگ کر لے گیا۔ غرض پہلا نشان نصوصِ صریحہ کا ہے۔ اس کے ذریعہ اگر ہم عیسائیوں کے عقا ئد کو پَرکھتے لگیں، تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ترا ملمّع ہے۔ حق کی چمک اس میں نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کل بیان کیا تھا کہ تثلیث اور یسوع کی خدائی کی بابت اگر یہودیوں سے پُوچھا جاوے اور ان کی کتابوں کو ٹٹولا جاوے، تو صاف جواب ہے کہ وہ کبھی تثلیث کے قائل نہ تھے۔ اور نہ کبھی انہوں نے کسی جسمانی خدا کی بابت اپنی کتاب میں پڑھا تھا۔ جو کسی عورت کے پیٹ سے عام بچّوں کی طرح حیض کے خُون سے پرورش پاکر نو مہینے کے بعد پیدا ہونے والا ہو۔ اور انسانوں کے سارے دُکھ خسرہ چیچک وگیرہ جو انسانوں کو ہوتے ہیں اُٹھا کر آخر یہودیوں کے ہاتھ سے مارکھاتا ہوا صلیب پر چڑھایا جاوے گا اور پھر ملعُون ہو کر تین دن ہاویہ میں رہے گا۔ یا باپؔ بیٹاؔ رُوح اؔلقدس کے مجموعہ اور مرکّب خدا ہی کا ذکر اُن کی کتابوں میں کہیں ہوتا ۔ اگر ہے تو ہم عیسائیوں سے ایک عرصہ سے سوال کرتے رہے ہیں۔ وہ دکھائیں۔ بر خلاف اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے منجملہ اور اعتراضوں کے جو اُس پر کیے۔سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ خدا کا بیٹا اور خدا بنتا ہے۔ اور یہ کُفر ہے۔ اگر یہودیوں نے توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں یہ تعلیم پائی تھی کہ دنیا میں خود خدا اور اس کے بیٹے بھی ماریں کھاتے کے لیے آیا کرتے ہیں اور انھوں نے دس پانچ کو دیکھا تھا۔ تو پھر انکار کی وجہ کیا ہوسکتی تھی؟ اصل حقیقت یہی ہے کہ اس معیار پر یہ عقیدہ کبھی پُورا نہیں اُتر سکتا، اس لی کہ اس میں حقانیّت کی رُوح نہیں ہے۔
دوسرا طریق شناختِ حق اور اہلِ حق کا یہ ہے کہ عقلِ سلیم بھی ان کی مُمّک اور معاون ہو۔ عقل ایسی چیز ہے کہ اگر اسے چھوڑ دو۔ تو دین اور دُنیا دونوں کے کاموں میں فتور پیدا ہوتا ہے۔ اب عقل کے معیار پر اس کو کَسا جاوے تو وہ دُور سے ان عقائد کو ردّ کرتی ہے۔ کیا عقل کے نزدیک یہ بات قابلِ تسلیم ہوسکتی ہے کہ ایک عاجز مخلوق بھی جس میں انسانیّت کے سارے لوازم اور بشری کمزوریوں کے سارے نمونے موجود ہیں، خدا ہوسکتا ہے۔ کیا عقل اس بات کو ایک لمحہ کے لیے بھی رَوارکھ سکتی ہے کہ مخلُوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے مُنہ پر تھُوکیں اور اس کو پکڑیں اور سُولی پر کھینچیں اور وہ یہ ساری ذلّ دیکھ کر اور خدا ہو کر اپنی رُسوائی کا تماشہ دکھاتا رہے؟ کیا عقل مان لیتی ہے کہ ایک عورت کا بچّہ جو نَو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خُونِ حیض کھاوے اور آخر عام بچّوں کی طرح چلّاتا ہواشرمگاہ سے پیدا ہو وہ خدا ہوتا ہے۔ کیا کسی دل کو اس پر اطمینان ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر ساری رات موت سے بچنے کے لیے دُعا کرتا رہے۔ اور قبول نہ ہو۔ ایسا ہی کبھی عقل یہ تجویزنہیں کر سکتی کہ کسی کی خودکشی سے دوسرے کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اگر مسیح کے روٹی کھانے سے حواریوں کے پیٹ بھر جاتے تھے اور عقل کے نزدیک یہ جائز ہے، تو شاید یہ بھی سچ ہو کہ کسی کے دردِ سر کا علاج اپنے سر میں پتھّر مارنا بھی ہے۔
تیسرا ذریعہ شناخت کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی سچّے مذہب کو ضائع نہیں کرتا اور اہلِ حق کو ہر گز نہیں چھوڑتا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا باغ ہے اور کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص باغ لگا کر اپنے باغ کی طرف سے بالکل لا پَروا ہو جاوے، نہیں بلکہ اس کی آبپاشی، شاخ تراشی اور حفاظت وغیرہ تمام امُور کا جو اس کی سرسبزی اور شادابی کے لیے ضروری ہیں، پُورا اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ اپنے راستبازوں اور دی ہوئی صداقتوں کی تائید کے لیے ہمیشہ تازہ بتازہ تائیدات دیتا رہتا ہے جن کی توشنی میں صادق چلتا ہے اور شناخت کیا جاتا ہے۔
عیسائیت میں کوئی زندہ نشان نہیں
اب عیسائیوں کے عقائد اور مذہب کو اس معیار پر بھی آزما کر دیکھ لو کہ ان میں بُجز بوسیدہ ہڈیوں اور مُردہ باتوں کے اور کیا رکھا ہے۔ بالاتفاق وہ مانتے ہیں کہ اُن میں آت ایک بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے مذہب کی صداقت اور خُون مسیح کی سچّائی پر اپنے نشانات کی مُہر لگا سکے۔ یہ تو بڑی بات ہے۔مَیں کہتا ہوں کہ انجیل کے قراردادہ نشانوں کے موافق تو شاید ایمان دار ہونا بھی ایک امر محال ہوگا۔
اچھا! زندہ نشانات کو تو جانے دو۔ عیسائی مذہب جو اپنے تائیدی نشانوں کے لیے مسیح کی قبر کا پتہ دیتا ہے کہ اس نے فُلاں قبر سے مُردہ اُٹھایا تھا۔ وہ بُجز قِصّوں کے اور کیا وقعت رکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے میں نے بار ہا کہا ہے کہ یہ سلبِ امراض کے اعجوبے جو بعض ہندُو سنیا سی بھی کرتے ہیں اور اس ترقی کے زمانہ میں مسمریزم والے بھی دکھاتے ہیں۔آج کوئی معجزات کے رنگ میں نہیں مان سکتا اور پیشگوئی ہی ایک ایسا زبردست نشان ہے، جو ہر زمانہ میں قابلِ عزّت سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسیح کی جو پیشگوئیاں انجیل میں درج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ قحط پڑیں گے، زلزلے آئیں گے۔ مُرغ بانگ دے گا۔ وغیرہ۔ اب ہر ایک گائوں میں جا کر دیکھو کہ ہر وقت مُرغ بانگ دیتے ہیں یا نہیں اور قحط اور زلزلے بالکل معمولی باتین ہیں، جو آجکل کے مدّبر تو اس سے بھی بڑھ کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں وقت طوفان آئیگا۔ فلاں وقت بارش شروع ہو گی۔
رُسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھو کہ کس طرح پر چھ سو سال پہلے کہا کہ ایک آگ نکلے گی جو سبزہ کو چھوڑ ے گی۔ اور پتھّر کو گلائے گی اور وہ پُوری ہوئی۔ اس قسم کی درخشاں پیشگوئیاں تو پیش کریں۔ میں نے ایک ہزار روپیہ کا انعام کا اشتہار مسیح کی پیشگوئیوں کے لیے دیا تھا، مگر آج تک کسی عیسائی نے ثابت نہ کیا کہ مسیح کی پیشگوئیاں ثبوت کی قوت اور تعداد میں میری پیشگوئیوں سے بڑھ کر ہیں۔ جن کا گواہ سارا جہان ہے۔
مسیح کے مُعجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہٰی کا پتہ نہیں لگتا۔ جبکہ آج اس سے بڑھ کر طبّی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاًایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا ۔ جس میں ایک وقت پر غسل کرنے والے شفاپالیتے تھے۔ اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے ہندوستان میں بھی بعض چشموں یا کنوئوں کے پانی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ ایک کنوئیںکے پانی سے جذامی اچھی ہو نے لگے ۔اب عیسائی مذہب کے کن تا ئیدی نشانوں کو ہم دیکھیں۔پچھلوںکا یہ حال ہے اور اب کوئی دکھا نہیں سکتا۔ اسی طرح پار ہی اگر مان لینا ہے تو ہندوئوں نے کیا قصور کیا ہے۔؎ٰ کہ اُن کے ۳۳ کروڑ دیوتائوں کو نہ مانا جائے اور پورانوں کے قصّوں کو تسلیم نا کیا جائے۔ دیانندؔ نے ایک جدید طریق نکال کر ہندوئوں کے مذہب پر تو ہاتھ صاف کیا کہ رامؔ کا نام وید میں نہیں ہے، مگر خود جو کچھ ویدوں کا خلاصہ پیش کیا وہ بھی ایک گند نکالا۔
مذہب کا خلا صہ
مذہب کا خلا صہ دو ہی با تیں ہیںاور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پرآ کر ٹہر تا ہے۔یعنی حق اللہ اور حق العباد ۔مگر ان دونو ں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا اور اسے وید کی تعلم کا عطر بتا یا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ حق دو ہی ہیں ایک خدا کے حقو ق کہ اسے کس طرح پر ماننا چا ہیے اور کس طر ح پر اس کی عباد ت کر نی چاہیے ۔دوم بندوں کی حقوق یعنی اس کی مخلو ق کے سا تھ کیسی ہمدردی اور مواسا ت کرنی چاہیے ۔
دیانند نے اسکے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میںپھر بتاؤںگا۔پہلے یہ ظاہر کر دوں کہ عیسائیوںنے بھی ان دونوںاصولوں میں سخت بیہودہ پن ظاہر کیا ہے ۔حق اللہ اور حق العباد مگر ان دونوں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا او ر اسے وید کی تعلیم کا عطر بتایا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حق دو ہی ہیں۔ ایک خدا کے حقوق کہ اسے کس طرح پر ماننا چاہئے اور کس طرح اس کی عبادت کرنی چاہئے دوم بندوں کے حقوق یعنی اس کی مخلوق کے ساتھ کیسی ہمدردی اور مواسات کرنی چاہئے۔دیانند نے بھی اس کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میں پھر بتائوں گا پہلے یہ ظاہر کر دوں کہ کہ عیسائیوں نے بھی اس کے دونوں اصولوں میں سخت بے ہودہ پن ظاہر کیا ہے حق اللہ میں نے تو دیکھ لیا کہ انہوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا جو موسی اور راستبازوں پر ظاہر ہواتھا اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا اور حقوق العباد کی وہمٹی پلید کی کہ کسی طرح پر وہ درست ہونے میں نہیں آتے۔انجیل کی ساری تعلیم ایک ہی طرف جھکی ہوئی ہے ااور انسان کی کل قوتوں کی مربی نہیں ہو سکتی اول تو کفارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اتلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مل سکتی ہے کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے مسیح کے خون نے گناہوں کی نجاست کو دور کردیااور دھو دیا ہے ؛ حالانکہ عام طور پر خون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں او رکیونکر یقین کریں، چوری کرنے بیگانہ مال لینے ڈاکہ زنی خون کرنے جھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی اگر باوجود کفارہ پرایمان لانے کے بھی گناہ گنا ہ ہی ہیں تو میری سمجھ میںنہیں آتا کہ کفار ہ کے کیامعنی ہیں۔
غرض حقوق العباد کو پورے طور پر ادا کرنے اور بجا لانے کے لئے اللہ تعالی نے انسان کو مختلف قوتوں کا مالک بنا کر بھیجا تھا اور اس سے منشاء یہی تھا کہ اپنے محل پر ہم ان قوتوں سے کام لے کر بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں مگر انجیل کا سارا زور حلم اور نرمی ہی کی قوت پر ہے؛ حالانکہ یہ قوت بعض موقعوں پر زہر قاتل کی تاثیر رکھتی ہے۔
روحانی زندگی کی ترکیب
اس لئے ہماری یہ تمدنی زندگی جو مختلف طبائع اور اختلاط اور ترکیب سے بنی ہے اپنی ترکیب اور صورت میں بالطبع یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قوی کو محل اور موقعہ پر استعمال کریں لیکن انجیل محل اور موقعہ شناسی کو تو پس پشت ڈالتی ہے اور اندھا دھند ایک ہی امر کی تعلیم دیتی ہے کہ کیا ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری طرف پھیر دینا عملی صورت میں بھی آسکتا ہے اور کرتہ مانگنے والے کو چغہ دینے والے آپ نے بھی دیکھے ہیں اور کیا کوئی آدمی جو انجیل کی تعلیم کا عاشق زار ہو کبھی گوارا کر سکتا ہے کہ کوئی شریر اور نابکار انسان اس کی بیوی پر حملہ کرے تو وہ لڑکی بھی پیش کر دے۔
جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صحت اور صلاحیت کے لئے ضرو رہے کہ مختلف غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف لباس پہنیں ویسے ہی روح کی صلاحیت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشوونما کے واسطے لازم ہے کہ اس قاعدہ کو مدنظر رکھیں جسمانی تمدن میں جس طرح پر گرم و سرد نرم سخت حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے اسی طرح پر روحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا ہونا ایسی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ روح کی بھلائی کے لئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یا نہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس او ر غیور انسا ن کی نگاہ میں ایسا معلم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدانے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں ۔
پس اگرا نجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے تو میں آپ سے انصافاً پوچھتا ہوں کہ خدا سے ڈر کر بتائیں کہ یہ خدا کے اس فعل کی ہتک نہیں ہے کہ اس نے مختلف قوتیں اور استعدادیں انسان کی روح میں رکھ دی ہیں ۔
انجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے
اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ صرف نرمی اور حلم ہی کی قوت سے ساری قوتوں کا نشوونما ہو سکتا ہے تو اس کی دانشمندی میں کوئی شک کرے گا بحالیکہ خود خدا کی صفات بھی مختلف ہیں او ر ا ن سے مختلف افعال کا صدور ہو تا ہے اور خود کوئی عیسائی پادری ہم نے ایسا نہیں دیکھا کہ مثلا سردی کے ایام میں بھی گرمی ہی کے لباس سے کام لے اور ویسی غذاؤں پر گزارہ کرے یا ساری عمر ماں ہی کا دودھ پیتا رہے یا بچپن ہی کے چھوٹے چھوٹے کرتے پاجامے پہنا کرے غرض اس قسم کی تعلیم پیش کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے اگر ایمان اور خدا کا خوف ہو اگر نرمی اور حلم ہی کافی تھا تو پھرکیا یہ مصیبت پڑی کہ انجیل کے ماننے والوں کو دیوانی اور فوجداری جرائم کی سزائوں کے لئے قانون بنانے پڑے اور سیاست اور ملک داری کے آئین کی ضرورت ہوئی ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری طرف پھیرنے والوں کو فوجوں اور پولیس کی کیا ضرورت !! خدا کے لئے کوئی غور کرے ۔ پس اسی اصول نے تمام حقوق العباد پر پانی پھیر دیا ہے جب کہ ساری قوتوں ہی کاخون کر دیا۔
اسلام کل انسانی قوی کا متکفل ہے
اب اس کے مقابل میں دیکھو کہ اسلام نے کیسی تعلیم دی اور کس طرح پر ساری قوتوں اور طاقتوں کا تکفل فرمایا۔ اسلام نے سب سے اول یہ بتایا ہے کہ کوئی قوت اور طاقت جو انسان کو دی گئی ہے فی نفسہٖ وہ بری نہیں ہے بلکہ اس کی افراط یا تفریط اور برا استعمال اسے اخلاق ذمیمہ کی ذیل میں داخل کرتا ہے اور اس کا برمحل اور اعتدال پراستعمال ہی اخلاق ہے ۔یہی وہ اصول ہے جو دوسری قوموں نے نہیں سمجھا اور قرآن نے جس کو بیان کیا ہے اب اس اصول کو مدنظر وہ کہتا ہے جزاؤ سیئۃ سیئۃ مثلہا فمن عفا و اصلح(الشوری:۴۱) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے لیکن جس نے عفو کیا اور اس عفو میں اصلاح بھی ہو عفو تو ضرو ررکھا ہے مگر یہ نہیں کہ اس عفو پر شریر اپنی شرارت میں بڑھے یا تمدن اور سیاست کے اصولوں اور انتظام میں کوئی خلل واقع ہو بلکہ ایسے موقع پر سزا ضروری ہے عفو اصلاح ہی کی حالت میں روا رکھا گیا ہے ۔اب بتائو کہ کیا یہ تعلیم انسانی اخلاق کی متمم ہو سکتی ہے یا نرے طمانچے کھانے۔قانون قدرت بھی پکار کر اسی کی تائید کرتا ہے۔اور عملی طور پر بھی اس کی تائید ہوتی ہے انجیل پر عمل کرنا ہے تو پھر آج ساری عدالتیں بند کر دو اور دون کے لے پولیس اور پہرہ اٹھا دو تو دیکھو کہ انجیل کے ماننے سے کس قدر خون کے دریا بہتے ہیں اور انجیل کی تعلیم اگر ناقص او ر ادھوری نہ ہوتی تو سلاطین کو جدید قوانین کیوں بنانے پڑتے۔
آریوں کے عقائد
غرض یہ حقوق العباد پر انجیل کی تعلیم کا اثر ہے۔اب میں یہ بھی بتا دینا چا ہتاہوں کہ دیانندؔنے جووید کا خلاصہ ان دونوں اصولوں کی رو سے پیدا ہوا ہے وہ کیا ہے ۔ حق اللہ کے متعلق کے تو اُس نے یہ ظلم کیا ہے کے مان لیا ہے کے خدا کسی چیز کا بھی خالق نہیں ہے ۔بلکہ یہ ذرّات اور اَرواح خود بخود ہی اس کی طرح ہے ۔ وہ صرف اُن کا جوڑنے جاڑنے ہے ۔ جس کو عربی زبان میں مؤلّف کہتے ہیں ، اب اس سے بڑھ کر حق اللہ کا ائلاف اور کیاہو گا کہ اس کی ساری صفات ہی کو اُڑا دیا اور عظیم الشان صفت خالصیٔت کا زور سے انکار کیا گیا ۔ جبکہ وہ جوڑنے جاڑنے والاہی ہے ۔تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کیاگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کے وہ ایک وقت مر بھی جاوے گا، تو اس سے مخلوق پر کیا اثر پرسکتا ہے ۔کیونکہ جب اس نے اُسے پیداہی نہیں کیا ، تووہ اپنے وجودکے بقااور قیام میں قائم بالذّات ہیں اُس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جوڑنے جاڑنے سے اس کا کوئی حق اور قدرت ثابت نہیں ہوتی ۔جبکہ کے اجسام اور روحوں میں مختلف قوتیں اتصال اور انفصال کی بھی موجود ہیں ۔ روح میںبڑی بڑی قوتیںہیں ۔ جیسے کشف کی قوت ۔ انسانی روح جیسی یہ قوت دکھاسکتے ہیں اور کسی کا روح نہیں دکھا سکتا ۔ مثلاًگائے یا بیل کا ۔اور افسوس ہے کہ آریہ ان ارواح کو بھی معہ اُن کی قوتوں اور خواص کے خدا کی مخلوق نہیں سمجھتا۔ اب سوال یہ ہوتاہے جب یہ اشیاء اجسام اورارواح خود بخود قائم بالذّات ہیں اور ان میں اتصال اور انفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو وجود باری پر اُن کے وجود سے کیا دلیل لی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ جب میںیہ کہتا ہوں کہ یہ سوٹا ایک قدم چل سکتا ہے ۔ دوسرے قدم پر اس کے نہ چلنے کی کیا وجہ ؟
وجود باری پر دو ہی قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں ۔ اوّل تو مصنوع کو دیکھ کر صانع کے وجود کی طرف ہم انتقال ذہن کاکرتے ہیں۔وہ تو یہاںمفقود ہے ، کیونکہ اس نے کچھ پیداہی نہیں کیا ۔ کچھ پیداکیا ہو تو اس سے وجودخالق پر دلیل پیدا کریںاور یا دوسری صورت خوارق اور معجزات کی ہوتی ہے ۔اس سے وجود باری پر زبردست دلیل قائم ہوتی ہے مگر اس کے لیے دیانند ؔاور سب آریوںنے اعتراف کیا ہے کہ ویدؔمیںکسی پیش گوئی یا خارق عادت امر کاذکر نہیں اور معجزہ کوئی چیز نہیںہے اب بتاو کونسی صورت خدا کی ہستی پر دلیل قائم کرنے کی اُن عقیدہ کے رو سے رہی ۔ پھر اُن کا ایسا خدا ہے کہ کوئی ساری عمر کتنی ہی محنت ومشقت سے اُس کی عبادت کرے ،مگر اس کو ابدی نجات ملے گی ہی نہیں۔ ہمیشہ جوُنوںکے چکر میں اُسے چلنا ہو گا کبھی کیڑا مکوڑااور کبھی کچھ کبھی کچھ بنناہوگا ۔
حقوق العباد کے متعلق اتناہی کافی ہے اُن میں نیوگؔکا مسئلہ موجود ہے کہ اگر ایک عورت کے اپنے خاوند سے اولاد نہ ہوتی ہوتو وہ کسی دوسرے مرد سے ہمبسترہو کر اولاد پیدا اور کھانے پینے مقویات اور بستر وغیر ہ کے سارے اخراجات اُس بیرج داتا کے اس خاوند کے ذمہّ ہوںگے ، جو اپنی عورت کو اُس سے اولاد لینے کی اجازت دیتا ہے ۔اس سے بڑھ کر قابل ِشرم اور کیا بات ہوگی ۔ یہ تو مختصر سا مونہ ہے ۔یہاںقادیاں میں پنڈت سومراج ایک مدرس تھا جو آریہ ہے اُس کو میں نے ایک جماعت کے رو برو بلایا جس میں بعض ہندو بھی تھے اور اُس سے یہ مسئلہ پوچھا ۔تو اُس نے کہا ہاںجی کیا مضائقہ ہے ۔ اب ہمیںتواس کے ُمنہ سے یہ سُن کر تعجب ہی ہودوسرے ہندوؔرام رام کرنے لگے ۔میں نے سُن کر کہا بس آپ جائیے ۔غرض یہ ہے اُن میں حقوق العباد کالحاظ۔
مِسٹر عبداکحق صاحب: میں نے آپ کی کتاب ’’ آریہ دھرم ‘‘پڑھی ہے
حضرت مسیح موعود : ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کے ہر سچّا مذہب اور سچّا عقید ہ ان تین نشانو ں یعنی نصوصؔ، عقل ؔاور تائید ِؔ سمادی سے شناخت کیا جاتا ہے اور عیسائی مذہب کی بابت میں مختلف پہلوؤں سے مختصر طور پر آپ کو دکھایا کہ اس معیار پر پورانہیں اترتا ۔ یہودیوں کی کتابو ںتثلیث اور کفّارہ کا کوئی پتہ نہیں اور کھی وہ بیٹے خداکے منتظرہی نہ تھے اور عقل دُور سے دکھے دیتی تھے نشانات کا یہ حال کہ ایمانداروںکے نشان کا پایا جانابھی مشکل ہے ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے ۔میَں نے جب اُسے کہا کہ تو پیش گوئی کر تو گبھرایا اور مجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمو ن بتادیں ۔مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ تو اسکو قبول کر لے ۔ جب مَیں نے اس کو بھی قبول کر لیا ،تو کئی سَو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخیت نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے ۔ غرض حق ایسی چیز ہے کے اپنے ساتھ نصوص اور عقل کی شہادت کے علاوہ نور کی شہادت بھی رکھتاہے اور یہ شہادت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہی ایک نشان مذہب کی مذہب کی زندگی کا ہے ،کیو نکہ جو مذہب زندہ خدا کی طرف سے ہے اس میں ہمیشہ زندگی کی روح کا پایا جانا ضروری ہے تا اس کے زندہ خدا سے تعلق ہونے پر ایک روشن نشان ہو۔ مگر عیسائیوں میں یہ ہر گز نہیںہے۰‘حالانکہ اس زمانے جو سائنس اور ترقی کا زمانہ کہلاتاہے ایسے خارق عادت نشانوں کی بڑی بھاری ضرورت ہے جو خداتعالیٰ کی ہستی پر دلائل ہو ں ۔ اب اس وقت اگر کوئی مسیح کے گذشتہ معجزات جن کی ساری رونق تالاب کی تاثیر دُور کر دیتی ہے سُنا کر اُس خدائی کو منوانا چاہے تو اس کے لیے لازمی بات ہے کے جوہ خود کوئی کرشمہ دکھائے ، ورنہ آج کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیںہے جو ایسے انسان کی خدائی ثابت کر دکھائے جو ساری رات روتارہے اور اُس کی دُعابھی قبول نہ ہو اور جس کی زندگی کے واقعات نے اُسے ایک ادنیٰ درجہ کا انسان ثابت کیا ہو ۔ پس میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خداتعالیٰ خوب جانتا ہے کے میں اس میں سچّا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچّائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خداہے اور وہ اپنے صلیب برادرو ںکی نجات کاباعث ہوا ہے اور ان کی دُعاؤںکو قبول کرتا ہے ، باوجود یکہ اس کی خود دُعا قبول نہیںہوئی توکسی پادری ؔ یا راہب ؔکو میرے مقابلہ پر پیش کرو کہ وہ یسوع مسیح مدد اور توفیق پا کر کوئی خارق عادت نشان دکھاے میں اب میدان میں کھڑا ہو ںاور میں سچّ سچّ کہتا ہوںکے میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوںوہ ہر وقت میرے سامنے اورمیرے ساتھ ہے ، میں پکار کر کہتا ہوںمسیح کو مجھ پر زیادت نہیں ، کیونکہ میں نور محمدؐی کا قائم مقام ہوں ، جو ہمیشہ اپنی روشنی سے زندگی کے نشان قائم کرتاہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔تسلی پانے کے لیے اور زندہ خدا کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ روح میں کی تڑپ اور پیاس ہے اور اس کی تسلی آسمانی تائیدوں اورنشانو ںکے بغیر ممکن نہیںاور میں دعویٰ سے کہتاہوں کے عیسائیوں میں یہ نور اور زندگی نہیں ہے بلکہ یہ حق اور زندگی میرے پاس ہے ۔میں ۲۶برس سے یہ اشتہار دے رہاہوں اور تعجب کی بات ہے کوئی عیسائی پادری مقابلہ پرنہیںآتا ۔ اگر اِن کے پاس نشانات ہیں تو کیوں انجیل کے جلال کے لیے پیش نہیں کرتے ۔ ایک بر میں نے سولہ ۱۶ ہزار اشتہار انگریزی اُردو میں چھاپ کر تقسیم کیے ۔ جن میں اب بھی کچھ ہمارے دفتر میںہو گے ۔ مگر ایک بھی نہ اُٹھاجو یسوع کی خدائی کا کرشمہ دکھاتا اور اُس بت کی ہمایت کرتا ۔ اصل میں وہاں کچھ ہے ہی نہیں ۔ کوئی پیش کیا کرے ۔ مختصر یہ کے حق کی شناخت کے لیے یہ تین ہی ذریعے ہیں اور عیسائی مذہب میںتینوں مفقود ہیں ۔
خدا کا شکر ہے کے آپ کو اچھا موقع مل گیا ہے اور آپ یہاںآگئے ہیں ۔ ان تقریروںکی ترتیب سے بہت فائدہ ہوگا آپ ان کو خوب غور سے سُن لیا کریں اور پھر جب آپ کو اس میں کچھ کلام باقی نہ ہو تو اس پر دستخط کر دیاکریں تاکے ہمارایہ وقت رائیگاں نہ جاوے اور سُود مند ثابت ہو ۔ سراج ؔ الدین کے لیے جو وقت ہم نے دیاہے اگر اسی طرح پرتقریر لکھی جاتی توایک حجت رہتی اُس نے اپنے عمل سے دوسرے کو بھی بد ظنّی کا موقع دیا میری تو سمجھ میںنہیںآتا کہ ایک شخص جب ایک جگہ سچّائی کو چھوڑتاہے وہ دوسری جگہ سچّائی سے کیونکر پیارکرسکتاہے ۔
مسٹر عبدالحق : ہاں مجھے دستخط کرنے میںکیا عُذر ہو سکتاہے اور میرا اس میں کوئی حرج نہیں ہے
حضرت مسیح موعود ؑ: بات یہ ہے کے ساری جُرأت دل کی پاکیزگی سے پیدا ہو تی ہے ۔ اگر دل صاف ہے تو اُسے کوئی بات روک نہیں سکتی ۔
مسٹر عبدالحق : میںنے جب یہاںآنے کا ارادہ کیا توایک عیسائی ے ذکر کیا ، تواس نے آپ کو گالی دی ۔ اور مجھے یہ ناگوار معلوم ہوا ۔ میں نے کہا کہ یہ تو بُری بات ہے گالی دینے کے کیا معنے ۔ اس نے کہا وہ ہمارا دُشمن ہے ۔ میں نے کہا انجیل امیں تولکھاہے دُشمنوںسے پیار کرو ۔ یہ کہاںلکھاہے کہ دُشمنوںکو گالیا ںدو ۔ پھر میںنے مسٹر سراج دین سے اس کا ذکرکیا اُنھوںنے بھی اُس کو اچھّا نہ سمجھا ۔بعض آدمیوںکی حالت یہاںتک پہنچی ہوئی ہے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ : گالیاں دیتے اس کی تو مجھے پرواہ نہیں ہے ۔ بہت سے خطوط گالیوں کے آتے ہیں جن کا مجھے محصول بھی دینا پڑتاہے اور کھولتاہوںتوگالیا ںہوتی ہیں ۔ اشتہاروں میں گالیاںدی جاتی ہیں ۔ اور اب تو کھلے لفافوں پر گالیاںلکھ کر بھیجتے ہیں۔ مگر ان باتوںسے کیا ہوتا ہے ۔اور خداکانورکہیںبجھ سکتاہے ؟ ہمیشہ نبیوں، راستبازوں کے ساتھ ناشکروںنے یہی سلوک کیاہے ہم جسکے نقش قدم پر آئے ہیں مسیح ناصری اس کے ساتھ کیا ہوا ۔اورہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیاہو ا ۔ اب تک ناپاک طبع لوگ گالیاںدیتے ہیں ۔ میںتو بنی نوح انسان کاحقیقی خیر خواہ ہوں ۔ جو مجھے دُشمن سمجھتاہے وہ خود اپنی جان کادُشمن ہے (اتنے میں مکان کے قریب پہنچ گئے اور حضرت ؑنے پھرفرمایاکہ ) آپ مہمان ہیں آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو ، مجھے بے تکلف کہیں ۔ کیونکہ میں تواندر رہتا ہوںاور نہیںمعلوم ہوتاکہ کس کوکیاضرورت ہے ۔آجکل مہمانوںکی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں ۔ آپ اگر زبانی کہناپسند نہ کریں، تو مجھے لکھ کر بھیج دیاکریں ۔ مہمان نوازی تومیرافرض ہے ۔‘‘
تیسری ملاقات
۲۴دِسمبر۱۹۰۱؁
مسٹر عبد الحق : کفاّرہ کامسئلہ تو میں نے سمجھ لیا ہے تثلیث کاردّکریں ۔‘‘
حضرت مسیح موعود ؑ: ‘‘میںنے سب سے پہلے اسی لیے آپ کو کہاتھاکہ آپ اپنے اعتراض پیش کریںجواسلام پر ہوتے ہیںاور خود اپنی تقریر کے ضمن میںجہادؔ ،غلامی ؔ تعدادؔازدواج پر کچھ باتیںکی تھیںتاکہ آپ کو اس پر اعتراض کرنے کاموقع ملے ۔
میری رائے میںطالب حق کافرض ہے کہ جوبات اس کے دل میںخلجان کرے اس کو فوراً پیش کردے ، ورنہ وہ ایمان کوکمزور کرے گی اور روحانی قوتوں پر بُرااثر ڈالے گی ۔ جیسے کوئی خراب غذا کھالے تو وہ اندر جاکر خرابی پیداکرتی ہے اور قے یادست کی صورت میںنکلتی ہے۔ اس طرح کوئی گندہ عقیدہ اندر رہ کر فسادکرنے سے نہیںرکتا ۔ اور اس کافسادیہی ہے کے انسان کے اخلاق چال چلن پر بُرااثر ہوجاتاہے اوروہ ایک مجذوم کی مانند بن جاتاہے ۔پس جوچیز آپ کے دل میںکھٹکے آپ اُسے پوچھیںاور تثلیث کے ردّمیں مختصر میںکہہ چکاہوں اوراب میںآپ سے اُس کے دلائل سُنناچاہتاہوں ، کیونکہ اُس کابار ِثبوت آپ پرہے جو اَسے مدارِنجات ٹھہراتے ہیں اور ایک گردہ کثیر سے اختلاف کرتے ہیں مثلاً ایک شخص ایک معمولی بات کے خلاف دُنیانے مانی ہے کے انسان آنکھ سے دیکھتاہے اورزبان سے چکھتاہے اور بولتاہے اور کانوںسے سُنتاہے یہ کہے کے انسان آنکھ سے بولتاہے اور کان سے دیکھتاہے توقانون کی رُو سے ثبوت اس کے ذمہ ّ ہے ۔
اس طرح پر تثلیث کاتوکوئی فائدہ نہیں ، یہودی جو ابراہیمی سلسلہ میں ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیںاور صاف کہتے ہیں کہ ہماری کتابوںمیںاس کاکوئی نام ونشان نہیںبر خلاف اس کی توحید کی تعلیم اور نہ آسمان پر نہ زمین پر نہ پانی پر میںغرض کہیںبھی دُوسراخداتجویز کرنے سے منع کیاگیاہے ۔
پھر میں نے قانون قدرت سے آپ کو ثابت کر دکھایاکہ توحیدہی سے ماننی چاہئیے ۔ پھر باطنی شریعت میں توحیدکے کے نقوش ہیں ۔ اب آپ جو نقل وعقل ، اور باطنی شریعت کے خلاف کہتے ہیں کہ خداایک نہیں بلکہ تین تویہ ثبوت آپ ہی کے ذمّہ ہے یہ مسئلہ ایساہے کہ ہمیںتو فقط اس کے سُننے ہی کاحق ہے ۔ کیونکہ نبیوںاور راستبازوںکی تعلیم کے صریح خلاف ہے ۔
میںخداکوحاضر ناظر جان کر کہتاہوںاور خدانے میرے دل کو اس سے پاک بنایا ہے کہ اس میںبے انصافی ہو ۔ اس کا بار ثبوتآپ کے ذمّہ ہے رکیک تاویلوںکام نہیںچلتااورنہ اُن سے تسّلی ہوسکتی ہی ۔ آپ خود دل میںانصاف کریںکہ راستباز کے بغیر کوئی کام نہ کرے گاجومیںکرتاہوں۔
پس اپ جس قدرمفصل اس پر لکھ سکیںوہ لکھ کر سُنادیں۔ مگر اتنایادرکھیںکہ وہ دعویٰ اپنے نفس میںابہام رکھتاہے ۔ بعض آدمیوںکو یہ دھوکالگ جاتاہے کہ وہ دعویٰ اوردلیل میںفرق نہیںکر سکتے ۔ دعوے کے لیے دلیل ایک روشن چراغ ہوتی ۔پس دعویٰ اور دلیل میںفرق کر لینا ضروری ہے ۔۱؎ ( اس پر مسٹر عبدالحق نے کہا کہ میںکل لکھ کر سُنادوںگا اور حضرت اقدس تشریف لے گئے ۔)
چوتھی مُلاقات
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۱؁؁ء
آ ج احبا ب بہت کثر ت سے آ گئے تھے اور لا ہو ر ، وزیر آ باد ، راولپنڈی ،علا قہ کا بل ، جموں گو جرا نوالہ ، امر تسر ،کپور تھلہ ،لودھا نہ ، سا نبھر وغیرہ مقا ما ت سے اکثر دوست آچکے تھے ۔حضر ت اقد سؑ حسب معمو ل سیر کو نکلے اور خدّام کے زمر ہ میں یہ نو رخدا چلا ۔احبا ب کا پروا نوں کی طر ح ایک سودو سر ے پر گرنابھی بجا ئے خو د دیکھنے والے کے لیے ایک عجیب نظا رہ تھا ۔الغر ض مسٹرعبدالحق صا حب نے کل کے حضرت ا قد س کے ارشا د کے موا فق ایک مختصر سی تحر یر پڑھ کرسنا ئی جو انکے اپنے خیال میں تثلیث اور مسیح کی الوہیت کے دلائل پر مشتمل تھی ۔اس کو سن لینے کے بعدحضرت ا قد س نے اپنا سلسلہء کلا م یوںشروع فرما یا :۔
تثلیث والُوہیّت ِمسیح
اصل بات یہ ہے کے یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے اور اس سے کوئی دانشمند انکار نہیںکر سکتا ہر آدمی جس غلطی میںمبتلاہے یاجس خیال میںگرفتا ر ہے وہ اس کے لیے اپنے پاس کوئی نہ کوئی وجوتِ رکیکہ ضرور رکھ تا ہے ،مگر دانشمند اور سلیم الفطرت انسانکا خاصہ ہے کہ وہ ان کی توزین کر کے اصل نتیجہ کو جو سچائی ہو تی ہے تلاش کرنے لگتا ہے ۔اب اسی اصول کے موافق عیسا ئیوں نے بھی اپنے اس عقیدہ تثلیث کے موافق کچھ باتیں بنا رکھی ہیں ۔جن کو وہ دلائل قرار دیتے ہیںاور سمجھتے ہیں۔مگر ابھی آپکو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دلائل کیا وقعت رکھ سکتے ہیںاور ان میںکہاںتک قوت اور زور ہے ۔جس حال میںعیسائیوںمیںایسے فرقے بھی موجود ہیںجو مسیح کی اُلوہیتّ اور خدائی کے قائل نہیںاور نہ تثلیث ہی کو مانتے ہیں ۔جیسے مثلاََیُونی ٹیرین تو کیا وہ اپنے دلائل اور وجوہات انجیل سے بیان نہیں کرتے وہ بھی تو انجیل ہی پیش کرتے ہیں ۔اب اگر صراحتََا بلا تاویل انجیل میں مسیح کی الُوہیّت یا تثلیث کا بیان ہو تا تو کیا وجہ ہے کہ یُونی ٹیرین فرقہ اس سے انکار کرتا ہے؛حالانکہ وہ انجیل کو اسی طرحمانتا ہے جس طر ح دوسرے عیسائی۔
پیش گوئیاںتوریت کی پیش کی جاتی ہیں۔ انکے متعلق بھی ان لوگوں نے کلام کی ہے اور ایک یونی ٹیر ین کی بعض تحریریں میرے پاس ابتک موجودہیں۔ کیااُنھوںنے اُنکو نہیں پڑھا اور نہیں سمجھا قرآن شریف نے کیاخوب کہاہے ۔
کُلُّ حِزْبِِ بِماَلَدَیْمْفَرِحَوْنَ (الروم: ۳۳)۔
میری مُراداس کے بیان کرنے سے صرف یہ ہے تاویلات رکیکہ اور ظنیّ باتیں توایک باطل پرست بھی پیش کرتاہے ۔ مگر کیا ہمارا یہ فرض نہیںہوناچاہئیے کہ ہم اس پر پورا غور کریںیونیٹرین لوگو ں نے تثلیث پرستوں کے بیانات ان پیشگوئیوں کے متعلق سُن کر کہاہے کے یہ قابل شرم باتیںہیں جو پیش کرنے کے قابل نہیںہیں ۔ اور تثلیث اوراُلوہیّت مسیح کاثبو ت اسی قسم ہو سکتا ہے تو پھر با ئبل سے کیا ثا بت نہیں ہو سکتا۔
لیکن ایک محقق کے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ان کو پڑھ کر ایک تنقیح طلب قرار دے اور پھر اندرونی اور بیرونی نگاہ سے اس کو سوچے۔ اب ان پیسگوئیوں کے متعلق جھانتک میں کہہ سکتا ہوں یہ امر قابل غور ہیں۔
اوّلؔ۔ کیا ان پیشگوئیوں کی بابت یہودیوں نے بھی (جن کی کتابوں میں یہ درج ہیں) یہی سمجھا ہوا تھا کہ ان سے تثلیث پائی جاتی ہے یا مسیح کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
دومؔ۔کیا مسیح نے خود بھی تسلیم کیا کہ یس پیشگوئیاں میرے ہی لیے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اُن کا مصداق قرار دے کر مصداق ہوتے کا عملی ثبوت کیا دیا؟اب اگر چہ یہ ایک لمبی بحث بھی ہو سکتی ہے کہ کیا درحقیقت وہ پیشگوئیاں اصل کتاب میں اسی طرح درج ہیں یا نہیں، مگر اس کی کچھ چنداں ضرورت نہ سمجھ کر ان دو تنقیح طلب اُمور پر نظر کرتے ہیں۔
یہودیوں نے جو اصل وارثِ کتابِ توریت ہیں اور جن کی بابت خود مسیح نے کہا ہے کہ وہ موسیٰؑ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ کبھی بھی ان پیشگوئیوں کے یہ معنے نہیں کئے جو آپ یا دُوسرے عیسائی کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی مسیح کی بابت یہ خیال رکھ کر کہ وہ تثلیث کا ایک جُزو ہے منتظر نہیں؛ چنانچہ میں نے اس سے پہلے بہت واضح طور پر اس کے متعلق سُنایا ہے اور عیسائی لوگ محض زبردستی کی راہ سے ان پیشگوئیوں کو حضرت مسیح پر جماتے ہیں جو کسی طرح بھی نہیں جمتی ہیں ب ورنا علما ء یہودکی کوئی شہادت پیش کرنی چاہیے کہ کیا وہ اس سے یہی مراد لیتے ہیں جو تم لیتے ہو۔
پھر انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو (وہ کوئی بہت بڑی کتاب نہیں) اُس میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح نے ان پیشگوئیوں کو پورا نقل کرکے کہا ہو کہ اس پیشگوئی کے رُو سے میں خدا ہوں اور یہ میری اُلوہیّت کے دلائل ہیں،کیونکہ نِرا دعویٰ تو کسی دانشمند کے نزدیک بھی قابلِ سماعت نہیں ہے اور یہ بجائے خود ایک دعویٰ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں مسیح کو خدا بنایا گیا ہے۔ مسیح نے خود کبھی دعویٰ نہیں کیا تو کِسی دُوسرے کا خواہ مخواہ اُن کو خدا بنانا عجیب بات ہے۔
اور پھر اگر بفرض محال کیا بھی ہو تو اس قدر تناقض اُن کے دعویٰ اور افعال میں پایا جاتا ہے کہ کوئی عقلمند اور خدا ترس اُن کو پڑھ کر انہیں خدا نہیں کہہ سکتا، بلکہ کوئی بڑا عظیم الشان انسان کہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انجیل کے اس دعویٰ کو رد کرنے کے لیے تو خود انجیل ہی کافی ہے، کیونکہ کہیں مسیح کا ادّعاثابت نہیں۔ بلکہ جہاں اُن کو موقع ملا تھا کہ وُہ اپنی خدائی منوالیتے وہاں اُنھوں نے ایسا جواب دیا کہ ان ساری پیشگوئیوں کے مصداق ہوتے سے گویا انکار کر دیا اور ان کے افعال اور اقوال جو انجیل میں درج ہیں وہ بھی اسی کے مویّد ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ خدا کے لیے تو یہ ضرور ہے کہ اُس کے افعال اور اقوال میں تناقض نہ ہو؛ حالانکہ انجیل میں صریح تناقض ہے۔ مثلاً مسیح کہتا ہے کہ باپ کے سوا کسی کو قیامت کا عِلم نہیں ہے۔ اب یہ کیسی تعجّب خیز بات ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کی عینیّت ایک ہی ہے تو کیا مسیح کا یہ قول اس کا مصداق نہیں کہ دروغ گوارا حافظہ نباشد، کیونکہ ایک مقام پر تو دعویٰ خدائی اور دوسرے مقام پر الوہیّت کے صفات کا انکار اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ انجیل میں مسیح پر بیٹے کا لفظ آیا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انجیل محّرف یا مبدّل ہے۔ بائبل کے پڑھنے والوں سے یہ ہر گز مخفی نہیں ہے کہ اس میں بیٹے کا لفظ کس قدر عام ہے۔ اسرائیل کی نسبت لکھّا ہے کہ اسرائیل فرزندِ من است بلکہ نخست زادۂ من است اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا۔ اور خدا کی بیٹیاں بھی بائبل سے تو ثابت ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے کہ تم خدا ہو۔ اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا۔ اب ہر ایک مُنصف مزاج دانشمند غور کرسکتا ہے کہ اگر اِبن کا لفظ عام نہ ہوتا، تو تعجّب کا مقام ہوتا ۔ لیکن جنکہ یہ لفظ عام ہے اور آدمؑ کو بھی شجرۂ ابناء میں داخل کیاگیا ہے اور اسرائیل کو نخست زادہ بتایا گیا ہے اور کثرتِ استعمال نے ظاہر کر دیا ہے کہ مقدسوں اور راستبازوں پر یہ لفظ حُسنِ ظن کی بناء پر بولا جاتا ہے۔ اب جبتک مسیح پر اس لفظ کے اطلاق کی خصُوصیّت نہ بتائی جاوے کہ کیوں اس انبیّت میں وہ سارے راستبازوں کے ساتھ شامل نہ کیا جاوے اس وقت تک یہ لفظ کچھ بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب یہ لفظ عام اور قومی محاورہ ہے تو مسیح پر اُن سے کوئی نرالے معنے پیدا نہیں کرسکتا۔میں اس لفظ کو مسیحؑ کی خدائی یا انبیّت یا الُوہیت کی دلیل مان لیتا، اگر یہ کسی اور کے حق میں نہ آیا ہوتا۔
میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتا ہوں کہ ایک پاک دل رکھنے والے اور سچّے کانشنس والے کے لیے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں ہوسکتی اور ان الفاظ کی کچھ بھی وقعت نہیں ہوسکتی، جبتک یہ ثابت کرکے نہ دکھایا جاوے کہ کسی اور شخص پر یہ لفظ کبھی نہیں آئے اور یا آئے تو ہیں مگر مسیح ان وجُوہاتِ قویّہ کی بنا پر اَوروں سے ممتاز اور خصُوصیّت رکھتا ہے۔ یہ تو دورنگی ہے کہ مسیح کے لیے یہی لفظ آئے تو وہ خدا بنایا جاوے اور دوسروں پر اطلاق ہوتو وہ بندے کے بندے۔
اگر یہ اعتقاد کیا جاوے کہ خُدا خود ہی آکر دُنیا کو نجات دیا کرتا ہے یا اس کے بیٹے ہی آتے ہیں، تو پھر دَور لازم آئے گا۔ اور ہر زمانہ میں نیا خدا یا اس کے بیٹوں کا آنا ماننا پڑے گا۔ جوصریح خلاف بات ہے۔ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ وہ کیا نشانات تھے جن سے حقیقتاً مسیحؑ کی خدائی ثابت ہوتی ۔کیا معجزات؟اوّل تو سِرے سے ان معجزات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوّت ہی کا کوئی ثبوت نہیں۔ اگر ہم اس سوال کو درمیان میں نہ بھی لائیں اور اس بات کا لحاظ نہ کریں کہ اُنہوں نے ایک محقق اور چشم دید حالات لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں لکھے۔ تب بھی ان معجزات میں کوئی رونق اور قوت نہیںپائی جاتی جبکہ ایک تالاب ہی کا قِصّہ مسیح کے سارے معجزات کی رونق کو دُور کر دیتا ہے اور مقابلتاً جب ہم انبیاء سابقین کے معجزات کو دیکھتے ہیں، تو وہ کسی حالت میں مسیح کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں۔ کیونکہ بائبل کے مطالعہ کرنے والے خُوب جانتے ہیں کے پہلے نبیوں سے مُردوں کا زندہ ہوتا ثابت ہے، بلکہ بعض کی ہڈّیوں سے مُردوں کا لگ کر بھی زندہ ہونا ثابت ہے؛ حالانکہ مسیح کے خیالی معجزات میں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ مسیح کی لاش نے کوئی مُردہ زندہ نہیں کیا پھر بتاؤ کہ مسیح کو کون سی چیز خدا بنا سکتی ہے؟کیا پیشگو ئیاں؟ ان کی حقیقت میںنے پہلے بتادی ہے کہ مسیح کی پیشگوئیاں پیشگوئی کا رنگ ہی نہیںرکھتی ہیںجو باتیں پیشگوئی کے رنگ میںمندرجہ ہیںوہ ایسی ہیںکہ ایک معمولی آدمی بھی اُن سے بہتر باتیںکہ سکتا ہے اور قیافہ شناس مدبر ؔ کی پیشگوئیاں اُن سے بدرجہابڑھی ہوئی ہوتی ہیں میںعلی الاعلان کہتاہوں کہ اگر اس وقت مسیح ہوتے ، تو جس قدر عظیم الشان تائید ی نشان پیشگوئی کہ رنگ میںخدامیرے ہاتھ پر صادرکھیے ہیں ۔ وہ ان کو دیکھ کر شرمندہہوجاتے ہیں اور اپنی پیشگو ئیوں کا کہ زلزلے آئیںگے ۔ مری قحط پڑیںگے یامُرغ بانگ دیگا کبھی مارے ندامت کے نام نہ لیتے ۔
پھر آپ ہی ہمیںبتائیںکہ کس طرح پر ہم مسیح کو مانیں کہ وہ خدا تھا ۔ خدائی کا دعویٰ ان میںنہیں ۔ صحف سابقہ کی پیشگوئیوں کے اپنے متعلق ہونے کا انھوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اپنے متعلق ہونے کا کوئی ثبوت دیا۔ پھر سلب صفات ِخدائی کو ہم ان میںدیکھتے ہیں ۔قیامت کے بابت انہیں اقرار ہے کہ مجھے اس کاعلم نہیں ،باپ اوت بیٹے کے باوجود متحدنی الوجود ہونے کے ایک کا عالم دوسرے کاجاہل ہونا قابلِ لحاظ ہے ۔تقدّس کا یہ حال ہے کہ خود کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو ۔صرف باپ ہی کو نیک ٹھہراتا ہے۔ پھر یہ اختلاف بھی باپ بیٹے کی عینیّت کے خلاف ہے ۔صرف ابن کا لفظ ان کی خدائی کو ثابت نہیں کر سکتا ۔کیونکہ حقیقت اور مجازمیں باہم تفریق کرنے کے ہم مجاز نہیں ہو سکتے ۔کہ کہدیں کہ یہاں تو حقیقت مراد ہے اور فلاں جگہ مجاز ہے۔یہی لفظ یا اس سے بھی بڑھ کر جب دوسرے انبیاء اور راست بازوں اور قاضیوں پر بو لا جاوے ،تو وہ نرے آدمی ہیں اور مسیح پر بولا جاوے ،توہ خود خدا اور ابن بن جاویں ۔یہ تو انصاف اور راستی کے خلاف ہے ۔اور پھر گویا نئی شریعت اور نئی کتاب بناتا ہے۔اس سے کوئی فائدہ نہیں۔
پادریوںنے خیالی اورفرضی طور پر مسیح کی خدائی کے ثبوت کے لیے بڑے ہاتھ پائوںمارے ہیں , مگر آجتک ایک بھی رسالہ یا تحریر ان کی میری نظر سے نہیں گزری اور کوئی پادری میں نے نہیں دیکھا ۔جس نے مسیح کے معجزات کے چہرہ سے تالاب کے قصّہ کے داغ کو دور کیا ہو اور جب تک انجیل میں یہ قصّہ درج ہے ۔یہ داغ اٹھ نہیں سکتا ۔ میں بار بار آپ کو اس امر کی طرف توجّہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھو ۔رہاپو لوسؔجس کی باتوں سے خدائی نکا لی جاتی ہے۔وہ اپنے چال چلن کے لحاظ سے بجائے خود غیر معتبراور اس کے لیے مسیح کی کوئی پیش گوئی نہیں۔پھرآپ ہی بتائیں کہ ایک دانشمند اسے خدا کس طرح مان کہ ایسے خدا کی کوئی پرستش کر سکتا ہے ۔ہر گز نہیں ۔ مسیح کی زندگی اس کی پوری ناکا می اور نا مرادی کی تصویر ہے۔ آج وہ زندہ ہو تے تو ان کو وہ نشانات دیکھ کر جو اس مسیح کے ہاتھ پر صادر ہو رہے ہیں شرمندہ ہونا پڑتا ۔کیا یہی قبولیت دعا ہوتی ہے کہ ساری رات چلّاتا رہا اور کسی نے بھی نہ سنا اور آخری ساعت میں خدا کا شکوہ کرتا ہوا رخصت کہ
اِیلی اِیلی لِمَاسَبَقْتَنِیْ۔
خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجااورتائیدی نشانات دکھائے اسوقت جو خد انے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے کے اورجو نشانات میری تائیدیںمیںظاہر ہوتے ہیں ان کی نظیر تو پیش کرو ۔ مثلاًڈگلس کا مقدمہ جو دیندار پادریوں کی کوشس اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دُوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والوںکی طرف سے کیا گیا ۔کئی سو آدمی اس بات کے گواہ موجود ہیں کہ کس طرح پر قبل ازوقت کل واقعات سے اطلاع دی گئی اورخدانے کسطرح ہر قسم کی ذلت سے محفوظ رکھا ۔
پہلے امرت سَر میں جب یہ مقدمہ دائر کیاگیا ۔ تو ڈپٹی کمشنر نے چالیس ہزار کی ضمانت کے ساتھ وارنٹ جاری کر دیا ۔ مگر خداکی قدرت دیکھو کہ وہ اسے جاری نہ کر سکا۔ وہ اس کی کتاب میںرہ گیا ۔ پیحھے جب اُسے یہ معلوم کرایا گیا کہ ایسے وارنٹ کااجرانا جائز ہے تو اس نے گو رداسپور تار دی کہ وارنٹ روکا جاوے ، مگر وہاںپہنچا ہی نہ تھا ۔ آخر یہ مقدمہ چلا ۔ عیسائیوںنے ہر طرح سے میرے سزادلانے میںسعی کی ۔ مگر خدا نے اپنی قدرت کانشان دکھایا ۔ اور میری اہانت چاہنے والوںکی اہانت کی ۔ڈگلس صاحب نے نہایت ہی عزّت واحترام سے مجھے بُلایا اور کرسی دی حالانکہ مجھے ان باتوں کی ذرہ ھی پروانہیں ۔ آریہ اور بعض مسلمان بھی ان کے شریک تھے ۔ پنڈت رام بھجدت پلیڈجو آریہ ہے وہ بلا فیس آتاتھااور اس نے مجھے خود کہا کہ وہ اس لیے شریک ہواہے کہ لیکھرام کے قاتل کا پتہ چل جاوے ۔ محمد حسین گواہ ہو کر آیا اور کرسی مانگ کر بہت ذلیل ہو ا۔ آخر جب ساری کاروائی ہو چکی اور عبدالحمید نے صاف اقرار کر لیا کہ مجھے قتل کے لیے بھیجا ہے ۔ پوری مسل مرتب ہوجانے پر خدا نے اپنی قدرت کی چمکار دکھائی اور ڈگلس کے دل میںڈال میںدیا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔اُس نے کپتان لیمارچنڈکو کہا کہ میرا دل اطمینا ن نہیں پاتا پھر عبدالحمیدسے دریافت کرو ۔
آخر عبدالحمید نے اصل رازبتادیا کہ مجھے سکھایاگیا تھا ۔ پھر ڈپٹی کمشنر کو تا ر دیا گیا اور نتیجہ وہی ہوا جس کی خبر مقدمہ کے نشان سے پہلے تمام شہروںمیںشائع ہوچکی تھی ۔ ایسا ہی لیکھرام کا نشان اور صدہانشان ہیں ۔
جماعت کے لحاظ سے بھی گر دیکھا جاوے تو مسیح ناکام اُٹھا ۔ حواریوںنے سامنے قسمیں کھائیںاور *** کی ۔ ادھر یہ حال ہے کہ ہمارے ایک مخلص دوست عبدالرحمان نام کاجو نواح کابل میں رہتا تھا محض ہماری وجہ سے ایک سال قید رکھاگیا کہ وہ توبہ کرے ۔ مگر اُس نے موت کو انکا ر پر ترجیح دی ۔ آخر کہتے ہیں کہ اُسے گلاگھونٹ کر مار دیاگیا اور جیسااس نے کہا تھا مرنے کے بعد ایک نشان اس کاظاہر ہو ا۔مجھے افسوس ہے عیسائی اپنے ایمان کی متاع پولوس کی باتوں پر ہر دیتے ہیں ۔علاوہ برآں انجیل ؔ کا ایک بہت بڑاحصہ بھی یہی تعلیم دیتاہے کے خدا ایک ہے مثلاً جب مسیح کو یہودیوںنے اس کے اُس کفر کے بدلے میں یہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے ۔ پتھراؤ کرناچاہا، تو اس نے صاف کہا کہ کیا تمھاری شریعت میںیہ نہیں کے تم خدا ہو ۔ اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت توچائیے تھا ۔مسیح اپنی برتیت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر ملزم کرتے اور اس حالت میں کے ان پر کفر کا الزام لگایاگیاتھا ۔ توان کافرض ہوناچاہئیے ۔ تھاکے وہ فی الحقیقت خُدایاخُداکے بیٹے ہی تھے تو یہ جواب دیتے کے یہ کفر نہیںہے بلکہ میںواقعی طور پر خداکا بیٹاہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لیے تمھاری ہی کتابوں میںفُلاں فُلاںموقع پر صاف لکھاہے کہ میںقادرِمطلق عالم الغیب خداہو ںاور لاؤ میںدکھادوں اور پھر اپنی قدرتوںاور طاقتوں سے ان کو نشانات ِخدائی بھی دکھادئیے اوروہ کام جو انھوںنے خدائی کے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دیدئیے ۔ پھر ایسے بیّن ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہہ یاایسی فریسی کی طاقت تھی کے انکار کرتا ۔ وہ توایسے خداکو دیکھ کر سجدہ کرتے ہیں۔ مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیاکہہ دیا کہ تمھیں خدالکھا ۔ اب خداترس دل لے کر غور کرو کہ یہ اپنی خدائی کاثبوت دیایا ابطال کیا غرض یہ باتیں ایسی ہیںکے ان کوبیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے ۔میںاس کو آپ ہی کے انصاف پر چھوڑتاہوں۔توراتؔ ،اسلامؔ,قانون قدرت ۔باطنی شریعت توحید کی شہادت دیتے ہیںاور عیسائی یسوع کی خدائی کے یہ دلائل دیتاہے کہ کتب ِسابقہ میںاس کی بشارتیں ہیں( جن کو یہودیوںنے کبھی تسلیم نہیںکیاکہ وہ خود خدایا اس کے بیٹے کے لیے ہیںبلکہ وہ مسیح کے آنے سے پہلے ہی پوری ہوچکی ہیں) اور پر انجیل ؔ کے بعض اقوال بتاتے ہیں کے اس کایہ حال ہے کہ اصل کاپتہ ہی نہیں ، کیونکہ اصل زبان مسیح کی عبرانی تھی اور خود مسیح اپنی الگ انجیل کا ذکر کرتے ہیں ۔ پھر مسیح نے کہیں اپنی خدائی کا دعوی ٰنہیںکیا یہودیو ںکے پتھراؤکرنے پر اور اس کے کفر کے الزام پر ان کا قومی اور کتابی محاورہ پیش کر کے نجات پائی ۔ اپنی خدائی کا کوئی ثبوت نہ دیا ۔ اور اپنے سے کبھی فوق العادت کام کو نہ دکھایا۔ معجزات کا وہ حال پیشگوئیوں کی وہ حالت ، علم کی یہ صورت کہ اتنا پتہ نہیں کہ انجیر کے درخت کو اس وقت پھل نہیںہوگا ، اختیار کایہ حال کہ اسے لگا نہیںسکا ۔ ساعت کاعلم دے سکتا، ضعف وتوانائی اتنی کہ طمانچے اور کوڑے کھاتاہو اصلیب پر چڑھتاہے یہودی کہتے ہیںکہ خداکابیٹاہے تو اترآ۔ اُترناتودرکنار انکو کچھ جواب بھی نہیںدے سکتا ۔ چال چلن کاوہ حال کہ اُستاد بھی عاق کر دیتا ہے اور یہودیوںکے اِلزامات کئی پشت تک اوپر ہوتے ہیںاور کوئی جواب نہیںدیاجاتا ۔٭
۲۶دسمبر ۱۹۰۱؁
مسیح کے حالات ازروئے بائبل
اور پھر مسیح کے حالات پڑھو توصاف معلوم ہوگا کہ یہ شخص کبھی بھی اس قابل نہیںہو سکتاکہ نبی بھی ہو ۔ چہ جائے کے خدایا خداکابیٹا ہے ۔ تدبیر عالم اورجزا سزا کے لیے عالم الغیب ہونا ضروری ہواور یہ خداکی عظیم الشان صفت ہے، مگر میںابھی دکھاآیاہو ںاُسے قیامت تک کاعلم نہیںاور اتنی بھی اسے خبر نہ تھی بے موسم انجیر کے درخت کے پاس شدّت بھوک سے بے قرار ہو کر پھل کھانے کو جاتاہے اور درخت کو جسے بذات خودکوئی اختیار نہیں ہے ۔ کے بغیر موسم کے پھل دے سکے ، بد دُعا دیتا ہے اوّل تو خداکو بھوک لگنا ہی تعجب خیز امرہے اور یہ خوبی صرف انجیل ؔ خداہی کوحاصل ہے کہ بھوک سے بے قرار ہوتا ہے پھر اس پر لطیفہ یہ بھی ہے ۔ آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہے کے اس درخت کو پھل ہی نہیںہے اورپھر اگر یہ علم نہ تھا توکاش کوئی خدائی کرشمہ ہی وہاںدکھاتے اور پھر بے بہارے پھل اس درخت کو لگادیتے ۔ تادُنیاکے لیے ایک نشان ہوجاتا ، مگر اس کی بجائے بد دُعادیتے ہیں ۔ اب ان باتوںکے ہوتے یسوع کو خدابنایاجاتاہے ؟ میںآپ کو سچّی خیر خواہی سے کہتاہوں کہ تکلف سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ایک شخص ایک ہی وقت میںاپنی دو حیثیتںبتاتاہے ۔باپ بھی اور بیٹابھی ۔خدابھی اور انسان بھی ۔کیاایساشخص دھوکا نہیںدیتا ہے ۔
انجیل کے جن مقامات کا آپ ذکر کرتے ہیں وہاں سیاق وسباق پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ وہ اسکی خدائی کے ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ،کیونکہ وہ اس کی انسانیت ہی کو ثابت کرتے ہیںاور انسانیت کے لحاظ سے بھی اسے عظیم الشان انسانوں کی فہرست میں داخل نہیں کرت جب اسے نیک کہا گیا تو اس نے انکار کیا اگر اس کی روح میں بقول عیسائیاں کامل ِتطہّر اور پاکیزگی تھی ۔پھر وہ یہ بات کیوں کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو ۔علاوہ بریں یسُوع کی زندگی پر بہت سے اعتراض اور الزام لگائے گئے ہیں اور جس کا کوئی تسلّی بخش آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا ۔
ایک یہودی نے یسُوع کی سوانحعمری لکھی ہے اور وہ یہاں موجود ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ یسُوع ایک لڑکی پرعاشق ہو گیا تھااور اپنے استاد کے سامنے اس کے حسن وجمال کا تذکرہ کر بیٹھا تواستاد نے اُسے عاق کر دیا اور انجیل کے مطالعہ سے جو کچھ مسیح کی حالت کاپتہ لگتا ہے وہ آپ سے بھی پوشیدہ نہیںہے کے کس طرح پردہ نا محرم نوجوا ن عورتوں سے ملتا تھااور کس طرح پر ایک بازاری عورت سے عطر ملواتا تھااور یسوع کی بعض نانیوں اور دادیوں کی جو حالت بائبل سے ثابت ہوتی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ۔ ان میں سے تین مشہور ومعروف ہیں ان کے نام یہ ہیں بنت سبع، ؔ راحاب ؔ ،تمر،ؔ اور پھر یہودیوںنے اس کی ماںپر جو الزام لگائے ہیں وہ بھی ان کتابو ںمیں درج ہیں۔ ان سب کو اکٹھاکر کے دیکھیں تو اس کا یہ قول کے مجھے نیکنہ کہو اپنے اندر حقیقت رکھتاہے اور فروتنی یا نکسار کے طور پر ہر گزنہ تھا جیسابعض عیسائی کہتے ہیںاب میں پوچھتاہوںکہ جس شخص کے اپنے ذاتی چال چلن کا یہ حال ہواور حسب نسب کایہ توکیا خداایساہی ہواکرتاہے یہ
با تیں اللہ تعا لیٰ کے تقد س کے صر یح خلا ف ہیں خدا اپنی قد رت سے کبھی الگ نہیں ہوا ۔ اور یسو ع کی نسبت صا ف معلو م ہے کہ پورا ناتواں اور بے علم تھا۔ پھر یسو ع کی راست بازی میں کلام ہے پہلے کہا کہ میںداؤدکا تخت قائم کر نے کے وا سطے آیا ہو ں اور حوار یوںکو کپڑے بیچ کرتلوا ریں خر ید نے کی بھی تعلیم دی ، لیکن جب دا ل گلتی نظرنہ آئی تو اسکو یہ کہ کر ٹا ل دیا کہ آسما نی با دشا ہت ہے کیا داؤد کا تخت آسما نی تھا ۔اصل یہ ہے کہ ابتداء میںاسے خیا ل نہ تھا کہ کو ئی مخبر ی کی جاوے گی،لیکن آخر جب مخبری ہوئی اور عدالتو ں میںطلبی ہوئی،آنکھ کھلی اورآسمانی سلطنت پراسے ٹا لا ۔
بھلااس قسم ضعفاور ب علمی اور ایسے چال چلن کے ہوتے ہوئے کہیںخدابننا ،کہیں بیٹا کہلانا اور انسا ن ہونا یہ سا ری باتیں ایک ہی و قت میں جمع ہو جائیں کس قدر حیرت کو بڑحا نے والی ہیں ۔
پولو س کا کردار با قی رہاپولو س کا اجتہاد یااُس کے اقوال۔ ٔن لوگوں نے پولوس کے چال چلن پر غور کی ہے اور جیسا کہ اس کے بعض خطوس کے فقرات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وُہ ہر مذہب والے کہ رنگ میں ہو جاتا تھا۔تمہیں خوب معلوم ہے اور اس کے حالات میں آزاد خیال لوگوں نے لکھا ہے کہ اچھے چال چلن کا آدمی نہ تھا۔ بعض تاریخوں سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کاہن کی لڑکی پر عاشق تھا اور ابتدا میں اُس نے بڑے بڑے دُکھ عیسائیوں کو دیئے اور بعد میں جب کوئی راہ اُسے نہ ملی اور اپنے مقصد میں کامیابی کا کوئی ذریعہ اُسے نظر نہ آیا تو اس نے ایک خواب بنا کر اپنے آپ کو حواریوں کا جمعدار بنالیا۔ خود عیسائیوں کو اِس کا اعتراف ہے کہ وہ بڑا سنگدل اور خراب آدمی تھا اور یُونانی بھی پڑھا ہوا تھا۔ میں نے ٔہانتک غور کی ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ وس ساری خرابی اس لڑکی ہے کے معاملہ کی تھی اور ایسائی مذہب کے ساتھ اپنی دشمنی کامِل کرنے کے لیے اس نے یہ طریق آخری سو چاکہ اپنا اعتبار جمانے کے لیے ایک خواب سُنادی اوار عیسائی ہو گیا اور پھر یُسوع کی تعلیم کو اپنے طرز پر ایک نئی تعلیم کے رنگ میں ڈال دیا۔مین کہتا ہوں کہ عیسائی مذہب کی خرابی اور اس کی بدعتوں کا اصل باتی یہی شخص ہے اور اس کے سوا میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شخص ایسا ہی عظیم الشان تھا اور واقعی یُسوع کا رسول تھا اور اس قدر انقلابِ عظیم کا موجب ہونے والا تھا کہ خطرناک مخالفت کے بعد پھر یُسوع کا رُسول ہونے کو تھا تو ہمیں دکھائو کہ اس کی بابت کہاں پیشگوئی کی گئی ہے کہ ان صفات والا ایک شخص ہوگا اور اُس کا نام ونشان دیا ہو اور یہ بھی بتایا ہو کہ وُہ یُسوع کی خدائی ثابت کریگا؛ ورنہ یہ کیا اندھیر ہے کہ پطرس کے *** کرنے اور یہودا اسکریوطی کے گرفتار کرانے کی پیشگوئی تو یُسوع صاحب کر دیں اور اتنے بڑے عیسوی مذہب کے مجتہد کا کچھ بھی ذکر نہ ہو۔
اِس لیے اس شخص کی کوئی بات بھی قابلِ سند نہیں ہوسکتی ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہے وہ کون سے دلائل ہیں۔ وہ بجائے خود نرے دعوے ہی دعوے ہیں۔ میں بار بار یہی کہتا ہوں اور اس لیا مکرّر سہ مکرر اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ آپ سمجھ لیں کہ انجیل ہی کو یسُوع کی خدائی کے ردّ کرنے کے لیے آپ پڑھیں۔ وہ خود ہی کافی طور پر اس کی تردید کر رہی ہے۔ اگر وُہ خدا تھا تو کیوں اس نے بالکل نرالی طرز کے معجزات نہ دکھائے۔ میں نے تحقیق کر لیا ہے کہ اُن کے معجزات کی حقیقت سلبِ امراض سے کچھ بھی بڑھی ہوئی نہ تھی۔ جس میں آجکل یورپ کے مسمریزم کرنے والے اور ہندو اور دُوسرے لوگ بھی مشّاق ہیں اور خیالات ایسے بیہودہ اور سطحی تھے کہ صرع کے مریض کو کہتا ہے کہ اس میں جِنّ گھُسا ہوا ہے؛ حالانکہ اگر صرع کے مریض کو کونینؔ، کچلہؔ،فولادؔ دیں اور اندر دماغ میں رسولی نہ ہو تو وُہ اچھّا ہو جاتا ہے۔ بھلا جِنّ کو مرگی سے کیا تعلّق۔ چونکہ یہودیوں کے خیالات ایسے ہو گئے تھے۔ ان کی تقلید پر اِس نے بھی ایسا ہی کہہ دیا۔ اور یا یہ کہ جیسے آجکل جادُو ٹونے کر نیوالے کرتے ہیں کہ بعض ادویات کی سیاہی سے تعویذ لکھ کر علاج کرتے ہیں اور بیماری کو جِنّ بتاتے ہیں۔ ویسے ہی اس نے کہہ دیا ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ مسیح کے معجزات کو مُسلمانوں نے بھی غور سے نہیں دیکھا اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور اُن سے سُن سُن کر اُن کے معنے غلط کر لیے ہیں۔ مثلاً اکمہؔ وہ مرض ہے کہ جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہے اور اس سے بھی یہ اچھّے ہو جاتے ہیں۔
یُسوع کی عاجزی یسُوع ضُعفؔ، ناتوانیؔ، بیکسیؔ اور نامرادیؔ کی سچّی تصویر ہے اور عام کمزوریوں میں انسانوں کا شریک ہے ۔ کوئی امر خاص اس میں پایا نہیں جاتا۔ کُتب سابقہ کی پیشگوئیوں کا جو ذخیرہ پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں صدہا اختلاف ہے۔ اوّل تو خود یہودیوں میں اُن کے وہ معنی ہی نہیں جو عیسائی کرتے ہیں۔ اور دوسرے ان تفسیروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وُہ پوری ہو چکی ئی ہیں۔ ایک شخص عرصہ ہوا میرے پاس آیا تھا۔آخرخدا نے اس پراپنا فضل کیا اور وہ مُسلمان ہو گیا اور مُسلمان ہی مرا۔ اس کے واسطے یہودیوں کو لکھا تھا اور اُن سے دریافت کیا تھا اوراصل وارث تو یہودی ہی ہیں کہ جو ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پاتے چلے آئے تھے۔ انہی کا حق تو ہے کہ وہ اس کی صحیح تفسیر کریں اور خود مسیح نے بھی فقیہوں اور فریسیوں کی بات ماننے کا حکم دیا ہے گو اُن کے عمل سے منع کیا ہو۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں اختلاف یہ ہے۔ اوّل الذکر ان سے ابنیّت اور الُوہیّت نکالتے ہیں اور آخر الذکر کہتے ہیں پُوری ہو چکی ہیں۔ انصاف کی رُو سے وہی حق پر ہیں۔ جنھوں نے ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پائی اور ان باتوں کی تجدید سے ایمان تازہ کیے اور برابر چودہ سو برس تک خدا کی باتیں سُنتے آئے تھے۔ حضرت مسیح موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو سال بعد یعنی چودھویں صدی میں آئے تھے اور جیسے اس زمانہ میں مسیح دیا گیاتھا۔ کہ تا موسوی جنگوں کے اعتراض کو اپنی تعلیم سے دُور کر دے اور خاتمہ جنگ و جدال پر نہ ہو۔ ویسے ہی اس اُمّت کے لیے مثیل موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے چودھویں صدی پر مسیح موعود مبعوث کیا گیا تا اپنی پاک تعلیم کے ذریعہ جہاد کے غلط خیال کی اصلاح کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلامؔ تلوار سے ہرگز نہیں پھیلایا گیا ،بلکہ اسلام اپنے حقائق اور معارف کی وجہ سے پھیلا ہے۔
غرض یہودی پیشگوئیوں کی بحث میں غالب آجائیں گے اور حق اُن کے ساتھ ہے۔ اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ یہودی معقول بات کہتے ہیں۔ جیسے ایلیا کے بارے میں اُنھوں نے کہا ہے اور ایسا ہی اس بارے میں اُن کے ہاتھ میں سہادتوں کا ایک زرّیں سلسلہ ہے۔ اور اگر کوئی چاہے تو اُن کی کتابیں اب بھی منگوا کر دکھا سکتے ہیں۔ یہی میں نے سراجؔالدین کو بھی کہا تھا۔
دیکھو انسان ایک برتن کو لیتا ہے تو اسے بھی دیکھ بھال کر لیتا ہے۔ پھر ایمان کے معاملہ میں اتنی لا پراوائی کیوں کی جاتی ہے؟ پس یہ پیشگوئیاں تو یُوں رَدّ ہوئیں۔ اب باقی رہے انجیل کے اقوال تو سب سے پہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اصل انجیل ہی اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیوں یہ امر قرین قیاس نہ مانا جائے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے، کیونکہ مسیح اور اس کی ماں کی زبان عبرانی تھی۔ جس مُلک میں رہتے تھے۔ وہاں عبرانی بولی جاتی تھی۔ صلیب کی آخری ساعت میں مسیح کے مُنہ جو کچھ نِکلا وہ عبرانی تھا۔ یعنی۔ایلی ایلی لما سبقتانی۔ اب بتائو کہ جب اصل انجیل ہی کا پتہ مذارد ہے، تو اس ترجمہ پر کیا دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے اصل انجیل پیش کرو۔ اس صورت میںتو عیسائی یہودیوں سے بھی گِر گئے، کیونکہ انہوں نے اپنی اصل کتاب کو تو گم نہیں کیا۔
پھر انجیل میںمسیح نے کہا ہے کہ ’’میری انجیل‘‘ اب اسن لفظ پر غور کرنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسوّدہ انجیل کا کوئی مسیحؑ نے بھی لکھا ہو اور یہ تو نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا کی وحی کو محفوظ کرے اور اس کی حفاظت کا کام دُوسروں پر نہ ڈالے کہ وّہ جو چاہیں سو لکھ لیں۔
پولوسؔ کی بابت میں پہلے کہہ آیا ہوں کہ جس کی تحریروں یا تقریروں پر اپنی خدائی کا نحصار تھا۔ تعجّب کی بات ہے کہ خدا ہو کر اس کے واسطے مُنہ سے ایک لفظ بھی پیشگوئی کا نہ نکلا، بلکہ چاہیے تھا کہ وصیّت نامہ لِکھ دیتے کہ پولوس اس مذہب کا جمعدار کیا جاوے گا اور جب یہ نہیں تو پھر اس کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ خود بخود مجتہد بن بیٹھا۔ اس کو یہ سارڑیفیکیٹ ملا کہان سے تھا؟ یہی وجہ ہے کہ یہ یسوعی مذہب نہیں بلکہ پولُوسی ایجاد ہے، غرض صدق اور اخلاص بڑی نعمت ہے جس کو خدا دے۔ مختصر یہ کہ خُدا بہتر جانتا ہے اور مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ میں تو اپنے دشمن کا بھی سب سے بڑح کر خیر خواہ ہوں۔ کوئی میری باتوں کو سُنے بھی۔ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے۔ آپ اس پر غور کریں اور اس پر جو کچھ باقی رہ جاوے اُسے بیان کریں۔
[ حضرت اقدسؑ نے اپنی تقریر کو اس مقام پر ختم کر دیا تھا کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ مِسٹر عبد الحق صاحب نے اپنی تقریر میں عماد الدین کے حوالہ سے ایک بات تثلیث کے ثبوت میں کہی ہے کہ وضُو کرتے وقت تین دفعہ ہاتھ دھوتے ہیں۔ یہ تثلیث کا نشان ہے۔ اس پر بھی کچھ فرمایا جاوے۔] فرمایا:
’’یہ تو بالکل بیہودہ اور کچی باتیں ہیں۔ اس طرح پر ثبوت دینا چاہو تو جتنے مرضی ہو خدا بنا لو۔ عمادؔالدین کی اِن باتوں پر پادری رجبؔ علی نے ایک ریویو لکھا تھا اور اس نے بڑا واویلا کیا تھا کہ ایسی باتوں سے عیسائیت کی توہین ہوتی ہے؛ چونکہ وُہ کچھ ظریف طبع تھا کہ عمادؔالدین سے تثلیث کے ثبوت میں یہ بات رہ گئی اور پھر ایسی مثال دی جو قابلِ ذکر نہیں۔
اس نے لکھا کہ عمادؔالدین بالکل ایک آدمی تھا۔ میں نے اُس کو اُردو کی عبارت کا مطلب بیان کرنے ہی کی دعوت کی تھی، جس کا جواب نہ دے سکا۔ اور ’’نورالحق‘‘ کا جواب آجتک نہ ہوا؛ حالانکہ پانچ ہزار روپیہ انعام بھی تھا۔ ایسی باتیں تو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دیکھو آخر مرنا ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے۔ دین کے معاملہ میں بڑی غوروفکردرکارہے اورپھرخداکافضل ‘‘۔؎ٰ
‎اس نے لکھا کہ عمادؔالدین بالکل ایک آدمی تھا۔ میں نے اُس کو اُردو کی عبارت کا مطلب بیان کرنے ہی کی دعوت کی تھی، جس کا جواب نہ دے سکا۔ اور ’’نورالحق‘‘ کا جواب آجتک نہ ہوا؛ حالانکہ پانچ ہزار روپیہ انعام بھی تھا۔ ایسی باتیں تو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دیکھو آخر مرنا ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے۔ دین کے معاملہ میں بڑی غوروفکردرکارہے اورپھرخداکافضل ‘‘۔؎ٰ
۲۷ ؍دسمبر۱۹۰۱؁ء بعد از نمازِعصر
تقریر
مامور من اللہ کی باتیں توجّہ سے سننی چاہئیں سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے اور پورے غوراور فکر کے ساتھ سنو ،کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے ۔اس میں غفلت اور سستی اور عدم توجہ بہت برے نتیجے پیدا کرتی ہے ۔جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیںا ورجب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے ،تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں۔ ان کو بو لنے والیکے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں، مگر سُنتے نہیں۔ دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اُسے توجہ اور بڑی غور سے سُنو۔ کیونکہ جو توجہ سے نہیں سُنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صُحبت میں رہے اُسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
جب خدا تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں مامُور کر کے بھیجتا ہے تو اس وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وُہ جو اُن کی باتوں پر توجہ کرتے اور کان دھرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اُسے پُورے غور سے سنتے ہیں۔ یہ فریق وہ ہوتا ہے جو فائدہ اٹھاتا ہے اور سچّی نیکی اور اس کے برکات وثمرات کو پالیتا ہے۔ دُوسرا فریق وُہ ہوتا ہے جو اُن کی باتوں کو توجہ اور غور سے سُننا تو ایک طرف رہا۔ اُن پر ہنسی کرتے اور اُن کو دُکھ دینے کے لیے منصوبے سوچتے اور کوششیں کرتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو اس وقت بھی اسی قاعدہ کے موافق دو فریق تھے۔ ایک وُہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سُنا اور پُورے غور سے سُنا اور پھر آپؐ کی باتوں سے ایسے متاثر ہوئے اور آپؐ پر ایسے فدا ہوئے کہ والدین اور اولاد۔احبّاء اور اعزّہ غرض دُنیا میں جوچیز انہیں عزیز ترین ہوسکتی تھی۔اس پر آپؐ کے وجود کو مقدم کر لیا۔ اچھّے بھلے آرام سے بیٹھے تھے۔ برادری کے تعلقات اور احباب کے تعلڈات سے اپنے خیال کے موافق لُطف اُٹھارہے تھے۔ مگر اس پاک وجود کے ساتھ تعلّق پیدا کرتے ہی وُہ سارے رشتے اور تعلّق اُن کو چھوڑ نے پڑے اور اُن سے الگ ہونے میں اُنہوں نے ذرا بھی تکلیف محسوس نہ کی، بلکہ راحت اور خوشی سمجھی۔ اب غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا چیز تھی؟ جن سے ان لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ اپنے تمام دنیوی مفاد اور منافع اور تمام قومی اور ملکی تعلقات کو قطع کرنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ نہ صرف آمادہ بلکہ انہوں نے قطع کر کے اور اپنی جانوں کو دے کر دکھا دیا کہ وہ آپؐ کے ساتھ کس خلوص اور ارادت سے ہوئے تھے۔ بظاہر آپ کے پاس کوئی مال ودولت نہ تھا جو ایک دُنیا دار انسان کے لیے تحریص اور ترغیب کا موجب ہو سکے۔ خود آپ نے ہی یتیمی میں پرورش پائی تھی تو وہ اوروں کو کیا دکھا سکتے تھے۔
انبیاء کو حقؔ اور کششؔ دی جاتی ہے میں کہتا ہوں کہ بیشک آپؐ کے پاس کوئی مال و دولت اور دنیوی تحریص وترغیب کا ذریعہ نہ تھا اور ہر گز نہ تھا، لیکن آپؐ کے پاس وہ زبردست چیزیں جو حقیقی اور اصلی، موثر اور جاذب ہیںتھیں۔ وہی اُنھوں نے پیش کیں اور انھون نے ہی دُنیا کو آپؐ کی طرف کھینچا۔ وہ تھیں حق اور کشش۔ یہ دو چیزیں ہی ہوتی ہیں۔ جن کو انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں۔ جبتک یہ دوتوں موجود نہ ہوں انسان کسی ایک سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ پہنچا سکتا ہے۔ حق ہو کشش نہ ہو کیا حاصل؟کشش ہو لیکن حق نہ ہو۔ اس سے کیا فائدہ؟ بہت سے لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں کہ اُن کی زبان پرحق ہوتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ وہ حق مفید اور موثر ثابت نہیں ہوتا۔کیوں؟ وُہ حق صرف اُن کی زبان پر ہے اور دل اس سے آشنا نہیں اور وُہ کشش جو دل کی قبولیّت کے بعد پیدا ہوتی ہے اُس کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے وُہ جو کچھ کہتا ہے جس اوپرے دل سے کہتا ہے اسی طرح پر اُس کا اثر ہوتا ہے۔
سچّی کشش، حقیقی جذب اور واقعی تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس حق کو جسے وہ بیان کرتا ہے، نہ صرف آپ قبول کرے، بلکہ اس پر عمل کر کے اس کے چمکتے ہوئے نتائج اور خواص کو اپنے اندر رکھتا ہو۔ جبتک انسان خود سچّا ایمان ان اُمور پر جو وہ بیان کرتا ہے، نہیں رکھتا اور سچّے ایمان کے اثر یعنی اعمال سے نہیں دکھاتا۔ وہ ہر گز ہرگز سوثر اور مفید نہیں ہوتے۔ وُہ باتیں صرف بدبُودار ہونٹوں سے نکلتی ہیں جو دوسروں کے کان تک پہنچنے میں اور بھی بدبودار ہو جاتی ہیں، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ظالم وسفاک حق کا یُوں بھی خُون کرتے ہیں کہ چونکہ اس کے برکات اور درخشاں ثمرات اُن کے ساتھ نہیں ہوتے اس لئے سننے والے محض خیالی اور فرضی باتیں سمجھ کر ان کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور یُوں دوسروں کو محروم کر دیتے ہیں۔
غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ شخص جو دُنیا کی اصلاح اور بہتری کا مدّعی ہے جبتک اپنے ساتھ حق اور کشش نہ رکھتا ہو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور وُہ لوگ جو توجہ اور غور سے اسکی بات کو نہیں سُنتے وہ اُن سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ جو کشش اورحق بھی رکھتے ہوں۔
رُوحانی رات اور دن جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اور اس قانونِ قدرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیںہوتی۔ اسی طرح دُنیا پر اس قسم کے زمانے آتے رہتے ہیں کہ کبھی رُوحانی طور پر رات ہوئی ہے اور کبھی سلوعِآفتاب ہو کر نیا دن چڑھتا ہے؛ چنانچہ پچھلا ایک ہزار جو گذرا ہے، رُوحانی طور پرایک تاریک رات تھی جس کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ ایک دن ہے جیسا کہ فرماتا ہے ۔ ان یو ما عندربک کالف سنۃمما تعدون (حج: ۴۸) اس ہزار سال میں دنیا پر ایک خطرناک ظُلمت کی چادر چھائی ہوئی تھی۔ جس مین ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کو ایک باپاک کیچڑ میں ڈالنے کے لیے پوری تدبیروں اور مّاریوں اور حیلہ جوئیوں سے کام لیا گیا ہے اور خود ان لوگوں میں ہر قسم کے شِرک اور بدعات ہوگئے جو مُسلمان کہلاتے تھے، مگر اس گروہ کی تسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لیسو امنی ولست منہم۔ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں۔ غرض جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ ہزار سالہ رات تھی جو گذر گئی۔ اب خدا تعالیٰ نے تقا ضا فرمایا کہ دُنیاکو روشنی سے حصّہ دے اس شخص کو جو حصّہ لے سکے، کیونکہ ہر ایک اس قابل نہیں ہے کہ اس سے حصّہ لے چنانچہ اُس نے مجھے اس صدی پر مامُور کر کے بھیجا ہے، تا کہ میں اسلامؔ کو زندہ کروں۔
جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پُورے طور پر اور اصلی معنوں میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ بہتوں کو مخلص نہ بنا سکے ۔ ذرا سی غیر حاضری میں قوم بگڑ گئی باوجودیکہ ہارُونؑ ابھی ان میں موجود تھے۔ اور قوم نے گو سالہ پرستی اختیار کی اور ساری عمر قسم قسم کے شکوک و شبہات پیش کرتے رہے۔ کبھی بھی انشراح قلب کے ساتھ ساری قوم باوجود بہت سے نشانوں کے دیکھنے کے مخلص نہ ہوسکی۔ اور ایسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناکام رہے۔ یہانتک کہ حواری بھی جیسا کہ انجیلؔ میں لکھا ہے۔ بگڑ گئے اور بعض مرتد ہو کر لعنتیں کرنے لگے۔ فقیہ اور فریسی جو موسیٰ کی گدّی پر بیٹھنے والے تھے اُن کو نصیب نہ ہوا کہ اس آسمانی نُور سے حصّہ لیتے اور ان سچّائی کی باتوں کو جو حضرت مسیح علیہ السلام لے کر آئے تھے، قبول کرتے اور توجہ سے سُنتے۔ اگر چہ کہا جائے گا کہ ان کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ جو مسیح کی علامتوں اور نشانات کے متعلق پیشگوئیوں کے رنگ میں تھیں۔ لیکن اگر توجہ کرتے اور رشید ہوتے اور ان کو قوتُ حاسّہ ملی ہوتی، تو ضرور فائدہ اِٹھالیتے اور زور دیکر مشکلات سے نکل جائے۔ ان اُمور اور واقعات پر نگاہ کرنے سے طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ انسان اپنے ہی حربہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ جو لوگ توجہ نہیں کرتے اور اس کے وجود کو بے سُود اور فضول قرار دیتے ہیں اور اس کی پاکیزہ باتوں پر کوئی غور نہیں کرتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وُہ محروم رہ جاتے ہیں۔جیسا میں نے شروع میں کہا تھا کہ توجہ اور غور سے سُننا چاہیے اور جو لوگ توجہ اور غور سے نہیں سُنتے وہ ایسے ہی لوگ ہو تے ہیں۔ جو کان رکھتے ہوئے نہیں سنتے۔اسی طرح پر میں اب یُوں کہتا ہوں کہ یہی وہ لوگ ہیں ۔ جن کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہوتے ہیں اور جن کے کانوں اور آنکھوں پر پردے ہوتے ہیں۔اس لیے وہ خدا تعالیٰ کے مامُوروں اور مرسلوں کی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور اُن سے فائدہ نہ اٹھا کر محروم ہو جاتے ہیں اور آخری عذاب الہٰی میں گرفتار ہو جاتے ہیں‘‘۔
مامورین کی باتوں سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ
لیکن جو حسن ِظن سے کا م لے کر صبرو استقلال کے ساتھ اس کی باتوں کو متو جّہ ہو کر سنتے ہیں وہ فائدہ اُٹھالیتے ہیں ، آخر سچائی کی چمک خود اُن کے دل کو روشن کر دیتی ہے ۔ اُن کی انکھیںکھل جاتی ہیں اور اُن کے کانوںمیںنئی قوت پیدا ہوتی ہے ۔ دل فکر کرتاہے اور عمل کا رنگ پیداکرتا ہے جس سے وہ سکھ پاتے ہیں۔
دنیامیںہی ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کو نیکی اور بھلائی کاموقع ملے اور وہ اُسے کھو دے تو اس موقع کے ضائع کرنے سے اس کو ایک درد محسوس کرتاہے ۔اس طرح پر جنھوںنے انبیاء علیہ السّلام کازمانہ پایااور اس موقع کو کھو دیا ۔ وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اہل دنیا اس سے بے خبر ہیںاگر اہل دنیا کو مُردوں کے حالات پر اطلاع ہو سکتی اور مُرد ے دنیا میں دوبارہ آکر اپنے حالاے آکر سناسکتے توسب فرشتوں کی سی زندگی بسر کرنے والے ہوتے اور دنیا میں گناہ پر موت طاری ہوجاتی لیکن خداتعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا اور اس معاملے کو پردہ خفا میں رکھا ہے ، تاکہ نیکی اور ثواب کا اجر ضائع نہ ہو جاوے دیکھو اگر امتحان سے پہلے سوالات کو شائع کر دیا جاوے تو ان کے جوابات میں لیاقت کیا معلوم ہو سکتی ہے ؟اسی طرح پر خداتعالیٰ جو مواخذہ کا پریق رکھاہے ، اس کو افراق تفریط سے بچاکر رکھاہے ۔
ایمانیات میںا خفاء
اگر اللہ تعالیٰ سارے پردے کھول دیتااور کوئی امرمخفی اور پوشیدہ نہ ہوتا اور مُردے آآکر کہہ دیتے کہ جنّت ونار سب حق ہیں توبتائوکہ کوئی دہریہّ اور بت پرست رہ سکتاہے ؟
مثلاًاگر یہاں ہی کے دو چار مُردے آکرحقیقت بتادیں اور اپنے پوتوںعزیزوں کو بتائیںتوکوئی رُو گردان وہ سکتاہے ؟ہر گز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا۔ اب اگر کوئی آفتاب پر ایمان لاوے کہ یہ ہے اور روشنی دیتاہے توبتائو اس ایمان کا کوئی ثواب اسے مل سکتاہے ؟کچھ بھی نہیںاس طرح پر اللہ تعالے ٰنے ایمان کی قدرو قیمت اور نیکی کی جزاکے لیے یہ پسند فرمایا ہے کہ کچھ خفابھی ہو ۔ دانشمند آدمی سعادت مند پاتاہے ۔بیوقوف اس سے محروم رہ جاتاہے اور پھر کوئی ایمانی امرایسا نہیں ہے جس میں حقیقت اور فلسفہ نہ ہو ۔ اس خفامیںعظیم الشان فلسفہ ہے جیساکہ میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر ایسا انکشاف ہو تاکہ کوئی چیز مخفی نہ رہ جاتی ۔ معادکا حال ۔اور خداکی رضاکاپتہ معلوم ہوجاتاہے ۔ تونیکی نیکی نہ رہتی اور نہ اس کی کوئی قدرہوتی ۔ مشہودمحسوس چیزوںپر ایمان لانے سے کوئی ثواب نہیں مل سکتا۔مسجد پر درخت یا آفتاب پر ایمان لانیوالااوران کے وجودکااعتراف کرنے والاکسی جزاکا مستحق نہیںہے ،لیکن جو مخفی کو معلوم کر کے ایمان لاتاہے ۔وہ بے شک قابل تعریف فِعل کا کرنے والاٹھہرتاہے اور مدح اور تعریف کامستحق ٹھہرتاہے ۔ جب بالکل انکشاف ہو گیا ,پھرکیا؟اسی طرح پر اگرکوئی ۲۹دن کے ہلال کو دیکھتاہے توبے شک اس کی نظر قابل تعریف ہو گی ۔ لیکن اگر کوئی چودہ دن کے بعد جبکہ بدر ہوگیا اور عالمتاب روشنی نظر آتی ہے لوگوں کو کہے کے آئومیںتمھیںچاند دکھائوں میںنے دیکھ لیاہے تووہ مسخرہ اور فضول گو ٹھہرایاجائے گا۔
غرض قابلیت فراست سے ظاہر ہوتی ہے ۔خدانے کچھ چھپایاہے اور کچھ ظاہر کیاہے ۔ اگر بالکل ظاہر کرتا تو ایمان کاثواب جاتارہتا اور بالکل چھپاتاتوسارے مذ اہب تاریکی میںدبے رہتے اور کوئی بات قابل اطمینان نہ ہوسکتی اور آج کوئی مذہب والادوسرے کو نہ کہہ سکتا کہ تو غلطی پر ہے اور نہ مواخذہ کااصول قائم رہ سکتا تھا کیونکہ یہ تکلیف ملایطاق تھی مگر خداتعالیٰ فرمایا ہے :
لاَیُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًااِلَّاوُسْعَہَا(البقرہ:۲۸۷)
پس خداکافضل ہے کہ ہلکا سا امتحان رکھاہو اہے جس میں بہت مشکلات نہیں ، باوجود یکہ عالم ایسا اَدقّ ہے کہ جوجاتاہے پھر واپس نہیں آتا ہے ۔ پھر بھی خداتعالیٰ نے انواروبرکات کاایک سلسہ رکھاہے جس سے اس دنیاہی میں پتہ لگ جاتاہے اور وہ مخفی اُمور متحقق ہوجاتے ہیں ۔۱؎
آج کل کے فلاسفروںنے مُردوںکے واپس آنے لی بہت تحقیقات کی ہے ۔امریکہ میںایک شخص کومارکر دیکھاکے آیامرنے کے بعد شور باقی رہتاہے یانہیں ۔ اس شخص کو جس پر تجربہ کرناچاہا۔کہہ دیاگیاکہ تم نے آنکھ کے اشارے سے بتا دینا مگر جب وہ ہلاک کیا گیا تو کچھ بھی نہ کر سکا کیونکہ یہ ایک سر الہی ہے جس کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ انسان جب حد سے گزر تا ہے تو سر کی تلاش اور فکر میں ہوتا ہے مغربی دنیا میں جو زمینی تحقیقات میں لگی ہوئی ہے وہ ہر فلسفہ میں ادب سے دورنکل جاتی ہے اور انسانی حدود کو چھوڑ کر آگے قدم رکھنا چاہتی ہے مگر بے فائدہ مختصر یہ کہ اللہ تعالی نے ان امور کو جو ایمانیات سے متعلق ہیں نہ تو اس قدر چھپایا ہے تکلف کی حدت تک پہنچ جائیں اور نہ اس قدر ظاہر کیا ہے کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اور اور کوئی فائدہ اس پر مترتب نہ ہو سکے۔باوجود ان ساری باتوں کے آج اسلام کے لئے خوشی کا دن ہے کہ معمورۂ عالم میں کوئی اس دن کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ اپنی روشن ہدایتوں اور عملی سچائیون کے ساتھ زندہ نشانات اور زندہ برکات کا ایک زبر دست معجزہ اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کے مقابلہ کے کسی میں طاقت نہیں۔
یہ بات کہ اسلام اپنی پاک تعلیم اور اس کے زندہ نتائج کے ساتھ اس وقت معمورۂ عالم مین ممتاز ہے نرا دعویٰ ہی دعویٰ نہیں، بلکہ خداتعالیٰ نے اپنے بندے کے ذریعہ اس سچائی کو ثابت کر دیا ہے اور کل مذاہب و ملل کو دعوت حق کر کے اس نے بتادیاہے کہ فی الحقیقت اسلام ہی ایک زندہ ہے اور جسے ابھی تک شک ہو وہ میرے پاس آئے اور ان خوبیوںاور برکات کوخود مشاہدہ کرے مگر طالبِ صادق بن کر آئے نہ جلد باز معترض ہوکر ۔
آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی بعثت۔آنحضرتﷺجس زمانہ میں دنیا میں ظاہر ہوئے اور خداتعالیٰ کے جلال اور گم گشتہ توحید کو زندہ کرنے کے لیے آپ مبعوث ہوئے ۔ اس زمانہ ہی کی حالت پر اگر کوئی سعادت مند سلیم الفطرت غور کن دل لیکر فکر کرے ، تو اس کو معلوم ہوگا کے آپ ؐکی سچائی پر ایک روشن دلیل ہے اور دانشمنداس وقت ہی کو دیکھ کر اقرار کرے اور معجزہ بھی طلب نہ کرے ۔
پادری فنڈ رصاحب نے اپنی کتاب ’’میزان الحق ‘‘میں سوال یہ کیاہے کہ کیاسبب ہے جو آنحضرت ﷺنے نبوت کادعویٰ کیا اور خداتعالیٰ نے ان کو نہ روکا ؟اس سوال کاپھر آپ جواب دیتاہے کہ اُس وقت چونکہ عیسائی بگڑگئے تھے اُن کے اخلاق اور اعمال بہت خراب تھے ۔ انھوں نے سچّی راست بازی کاطریق چھوڑدیاتھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنبیہ کے لیے آنحضرت ﷺکو بھیجااور اس لیے آپؐنہ روکا۔اس سے یہ نادان عیسائی آنحضرت ﷺکی سچّائی کا تواعتراف نہیں کرتا، بلکہ معترض کی صورت میں اس کو پیش کرتاہے ۔
میں کہتا ہوں کہ کیا اس وقت کے حسبِ حال کسی مصلح کی ضرورت تھی یا یہ کہ ایک کا جو ایک ہاتھ کاٹا ہوا ہے تو دوسرا بھی کاٹا جاویجو بیمار ہے پتھر مار کر ماردیاجاوے ۔کیا یہ خداتعالیٰ کے رحم کے مناسب حال ہے ؟
اصل بات یہ کے اس وقت جیساکہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں وہ تاریکی زمانہ تھا اور دیانندؔنے اپنی کتاب میں تسلیم کیاہے اورتاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ ہندوستا ن میں بت پر ستی ہو رہی تھی ۔ نہ صر ف ہندو ستا ن میں بلکہ کل معمورہ ٔ عا لم میں ایک خطر نا ک تا ریکی چھا ئی ہوئی تھی ،جس کا اعترا ف ہر قو م اور ملت کے موّرخو ں اور محققوںنے کیا ہے اب ایسی حا لت میں نبی کر یم ﷺکا و جو د با جو د بے ضرو رت نہ تھا۔بلکہ وہ کل دنیا کے لیے ایک رحمت کا نشا ن تھا :چنا چہ فر ما یا :۔
وَما َاَرْسَلْنٰک اِلَّارَحْمَتہ لِلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء:۱۰۸ )
یعنی اے نبی کر یم ہم نے تمھیں تما م عا لم پررحمت کے لیے بھیجاہے ۔آپکو تو کچھ معلو م نہ تھا کہ اس و قت آریاور ت کی کیا حا لت ہے اور کس خطر نا ک بت پر ستی کے غار میں گرا ہوا ہے ۔یہاں تک کہ انسا ن کی شر م گاہ کی پرستش بھی ان و ید ؔکے ماننے والو ں میںمرّو ج تھی اور نہ آ پ کو معلو م تھا کہ بلا د ِشا م کے عیسا ئیو ں کا کیا حا ل ہے وہ کس قسم کی انسا ن پر ستی میں مصروف ہوکر اخلاق اور اعمال صالحہ کے قیود سے نکل کر بالکل تاریک زندگی بسر کررہے تھے ۔اور نہ آپ کواس بات کاعلم تھا ۔ ایران،اور مصر میںکیا ہورہا؟غرض آپؐ توایک جنگل میں پیداہوئے تھے ۔ نہ اس وقت کوئی تاریخ مدون ہوئی تھی جو آپؐنے پڑھی ہوتی ۔ نہ کسی مدرسہ اور مکتب میںاپؐنے تعلیم پائی۔جو معلومات وسیع ہوتے اورنہ کوئی ذرائع لوگوںکے حالات معلوم کرنے کے تھے جیسے تار یا اخبار یا ڈاکخانے وغیرہ۔
آپؐ کو تو دنیاکے بگڑجانے کی اطلاع صرف خداتعالیٰ ہی کی طرف سے ملی۔جب یہ آیت اتری
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:۴۲)
یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے۔د ر یا ؤں سے مراد وہ لو گ ہیں جن کو پا نی دیا گیا یعنی شریعت اور کتا ب اللہ ملی اور جنگل سے مرا د وہ ہیں ،جن کو اس سے حصّہ نہیں ملا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اہلِ کتا ب بگڑ گئے اورمشرک بھی۔ الغر ض آپ کا زما نہ ایسا زمانہ تھا کہ دنیا میں تا ریکی پھیلی ہو ئی تھی۔
دلائل صدا قت اس و قت اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا تاتاریکی کو دور کریں ۔ ایسے پر فتن زمانہ مین(کہ چاروں طر ف فسق و فجور کی ترقی تھی اور شر ک و دہر یت کا زور تھا کہ نہ اعتقاد ہی درست تھے اور نہ اعما ل ِصا لحہ اورنہ اخلا ق ہی با قی رہے تھے )آپؐ کا پیدا ہونا بجائے خود آپؐ کی سچا ئی اور منجا نب اللہ ہو نے کا ایک زبر دست ثبو ت ہے ۔ کا ش کوئی اس پتر غو ر کرے ۔عقلمند اور سلیم الفطر ت انسا ن ایسے وقت پر اآنے والے مصلح کی تکذیب کے لیے کبھی جلدی نہیںکر سکتا ۔ اور کم از کم اس کو اتنا تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت پر آیا ہے ۔وباء طاعو ن اور ہیضہ کی شد ت کے وقت اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں ان کے علا ج کے لیے آیا ہوں ، کیا اس قدر تسلیم کر نا پڑے گا یہ شخص ضرو رت کے وقت پر آیا ہے؟ بیشک ماننا پڑے گا ۔اسی طر ح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے لیے پہلی دلیل یہی ہے کہ آپ ؐ جس وقت تشریف لائے ، وہ وقت چاہتا تھا کہ مردے ازغیب بیرون آیدوکارے بکند۔اسی کی طر ف قرآن ِکر یم نے اس آیت میںاشا رہ کیا ہے :
بالحق انزلنا ہ و بالحق نزل( بنی اسرائیل:۱۰۶)
پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کی شناخت کی پہلی دلیل یہی ہوتی ہے کہ اس وقت اور موقع پر نگاہ کی جاوے کہ کیا اس وقت کسی مرد آسمانی کے آنے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
ایک شخص اگرنہروں کی موجودگی اور متعدد کنؤوں کے ہوتے ہوئے پھر ان میں ہی کنوا ں لگاتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس نے خیر جاری کے لئے یہ کام کیا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے جسمانی جنگل میں پیدا ہوئے ویسے ہی روحانی جنگل بھی تھا مکہ میں اگر جسمانی ا ور روحانی نہریں نہ تھیں تو دوسرے ملک روحانی نہر نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے اور زمین مر چکی تھی جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے
اعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتہا(الحدید:۱۸)
یعنی یہ بات تمہیںمعلوم ہے کہ زمین سب کی سب مر گئی تھی اب خدا تعالی نئے سرے سے زندہ کرتا ہے پس یہ زبر دست دلیل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کہ آپ ایسے وقت میں آئے کہ ساری دنیا عام طور پر بدکاریوں اور بداعتقادیوں میں مبتلا ہو چکی تھی اور حق و حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے خالی ہو گئی تھی۔پھر دوسری دلیل آپؐ کی سچائی کی یہ ہے کہ آپؐ ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف اُٹھا ئے گئے۔ جب وُہ اپنے فرضِ رسالت پورے طور پر ادا کر کے کامیاب اور بامُراد ہو چکے۔ حقیقت میں جیسے مامُور من اﷲ کے لیے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا وُہ وقت پر آیا ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں۔ اُس نے اُن بیماروں کو جن کے علاج کے لیے وُہ آیا، اچھّا بھی کیا یا نہیں ۱؎ ‘‘؟
عربوں کی اخلاقی اور روحانی حالت
زیادہ تفصیل کی اس مقام پر ضرورت نہیں،کیونکہ اس مجمع میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو بخوبی علم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کا کیا حال تھا۔ کوئی بدی ایسی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ جیسے کوئی ہر صیغہ اور امتحان کو پاس کر کے کامل اُستاد ہر فن کا ہو جاتاہے۔ اسی طرح پر وہ بدیوں اور بدکاریوں میں ماہر اور پُورے تھے۔ شرابی،زانی،یتیموں کا مال کھانے والے، قمار باز۔ غرض ہر برائی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے، بلکہ اپنی بدکاریوں پر فخر کرنیوالے تھے۔ اُن کا قول تھا۔
ماھی الا حیا تنا الدنیا نموت انحیا (الجاثیۃ: ۲۵)
ہماری زندگی اسی قدر ہے کہ یہاں ہی مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں۔حشر نشر کوئی چیز نہیں۔ قیامت کچھ نہیں۔ جنّت کیا ہے اور جہنّم کیا؟ قرآن شریف کے احکام جن بدیوں اور برائیوں سے روکتے ہیں وہ سب مجموعی طور پر ان میں موجود تھیں۔ان کی حالت کا یہ نقشہ ہے۔ جس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ وُہ کیا تھے۔ ایک موقع پر فرماتا ہے۔ یتمتعون ویاکلون (محمّد :۱۳) کھاتے ہیں اور تمتع اُٹھاتے ہیں یعنی اپنے پیٹ کی اور دوسری شہوات میں مبتلا اور اسیر ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب انسان جذباتِ نفس اور دیگر شہوات میں اسیر اور مبتلا ہوجاتا ہے تو چونکہ وہ طبعی تقاضوںکو اخلاقی حالت میں نہیں لاتا اس لیے ان شہوات کی غلامی اور گرفتاری ہی اس کے لیے جہنّم ہو جتی ہے اور اُن ضرورتوںکے حصول میں مشکلات کا پیش آنا اس پر ایک خطرناک عذاب کی صورت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس حال میں ہیں گویا جہنّم میں مبتلا ہیں۔
قرآنِ مجید قصّوں کا مجموعہ نہیں
یہ بات ہر گز ہر گز بھُول جانے کے قابل نہیں ہے کہ قرآن شریف جو خاتم الکتب ہے۔در اصل قصّوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنی غلط فہمی اور حق پوشی کی بناء پرقرآن شریف کو قصوں کا مجموعہ کہا ہے۔ اُنھوں نے حقائق شناس فطرت سے حصہ نہیں پایا؛ ورنہ اس پاک کتاب نے تو پہلے قصّوں کو بھی ایک فلسفہ بنا دیا ہے اور یہ اس کا احسانِ عظیم ہے، ساری کتابوں اور نبیوں پر؛ ورنہ آج ان باتوں پر ہنسی کی جاتی اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجوداتِ عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کر رہے ہیں۔ اس نے آسمانی علوم اور کشفِ حقائق کے لیے ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ جس نے ان تمام باتوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصّوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھی اور اس سائنس کے زمانہ میں اُن پر ہنسی ہورہی تھی۔ علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا۔
بہشت ودوزخ کی حقیقت
پہلے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل خیالی اور سادہ طور پر بہشت و دوزخ کو رکھا گیا تھا۔ حضرت مسیحؑ نے پھانسی پانے والے چور کو یہ تو کہہ دیا کہ آج ہم بہشت میں جائیںگے،مگر بہشت کی حقیق پر کوئی نکتہ بیان نہ فرمایا۔ ہم اس وقت اس سوال کو سمنے لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ عیسائیوں کے انجیلی عقیدے اور بیان کے موافق وُہ بہشت میں گئے یا ہاویہ میں، بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ بہشت کی حقیقت اُنھوں نے کچھ بیان نہیں کی۔ہاں یُوں تو عیسائیوں نے اپنے بہشت کی مساحت بھی کی ہوئی ہے۔ بر خلاف اس کے قرآن شریف کسی تعلیم کو قصّے کے رنگ میں پیش نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ایک علمی صُورت میں اُسے پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی بہشت ودوزخ کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے۔ من کان می ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳) یعنی جو اس دُنیا میں اندھا ہے، وُہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ کیا مطلب کہ خدا تعالیٰ اور دُوسرے عالم کے لذّات کے دیکھنے کے لیے اسی جہان میں حواس اور آنکھیں ملتی ہیں۔ جس کو اس جہاں میں نہیں ملیں، اس کو وہاں بھی نہیں ملیں گے۔ اب یہ امر انسان کو اس طرف متّوجہ کرتا ہے کہ انسان کا فرض نے کہ وہ اِن حواس اور آنکھوں کے حاصل کرنے کے واسطے اسی عالم میں کوشش اور سعی کرے تاکہ دُوسرے عالم میں بینا اُٹھے۔ ایسا ہی عذاب کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے۔ ناراﷲالموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ (الھمزۃ : ۷،۸) یعنی اﷲ تعالیٰ کا عذاب ایک آگ ہے۔ جس کو وُہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل ہی پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عذابِ الٰہی اور جہنّم کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اور گندے ارادے اور عزم اس جہنّمکا ایندھن ہیں۔ اور پھر بہشت کے انعامات کے متعلق نیک لوگوں کی تعریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : یفجرو نہا تفجیرا (الدّھر : ۷) یعنی اس جگہ نہریں نکال رہے ہیں ۔اور پھر دُوسری جگہ مومنوں اور اعمالِ صالحہ کرنیوالوں کی جزاء کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : جنت تجری من تحتھا الانہار اب میں پُوچھتا ہوں کہ کیا کوئی ان باتوں کو قصّہ قرار دے سکتا ہے۔ یہ کیسی سچّی بات ہے۔ جو یہاں آبپاشی کرتے ہیں وہی پھَل کھائیں گے ۔ غرض قرآن شریف اپنی ساری تعلیموں کو علوم کی صورت ور فلسفہ کے رنگ میں پیش کرتا ہے اور یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ نے ان علوم حقہ کی تبلیع کے لیے اِس سلسلہ کو خود قائم کیا ہے۔ کشفِ حقائق کا زمانہ ہے۔
پس یاد رکھنے چاہیے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے۔ جو اِن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں۔ علمی رنگ دیدیا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے، کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وُہ
انہ لقول فصل وما ھو بالھزل (الطارق : ۱۴،۱۵)
وُہ میزان ،مہیمن، نُور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اُسے قصّہ سمجھتے ہیں۔ اِنھوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا، بلکہ اس کی بے حُرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھا نا چاہتے ہیں۔ اور وُہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصّے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے۔ اس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار باراس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ن یاس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نُور پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خُوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامُور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔
اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجُوع کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی۔ اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دُنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے؛ چنانچہ فرمایا ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷) یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا۔ اس کے واسطے دو بہشت ہیں۔ یعنی ایک بہشت تو اسی دُنیا میں مل جاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرباک جہنّم ہے، لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کرکے اس عذاب اور درد سے دم ِ نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذباتِ نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور و۲ہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یُوں بہشتی زندگی اِسی دنیا سے اُس کے لیے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنّمی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کر دیا ہے۔
اس وقت میرا صرف یہ مطلب ہے کہ میں اس دوسری دلیل کی طرف تمہیں متوّجہ کروں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت پر خدا تعالیٰ نے دی ہے یعنی یہ کہ آپؐ جس کام کے لیے آئے تھے، اس میں پُورے کامیاب ہو گئے۔میں نے بتایا ہے کہ جب آپؐ تشریف لائے تو آپؐ نے ہزار ہا مریضوں کو مرض کے آخری درجہ میں پایا۔ جو اُن کی موت تک پہنچ گیا تھا، بلکہ حقیقت میں وہ مر ہی چکے تھے جیسا کہ اس وقت کی تاریخ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر انصافاً کوئی سوچے کہ اپنے خدمت گار کے عیب دور نہیں کر سکتے تو جو شخص ایک بگڑی ہوئی قوم کی ایسی اصلاح کر دے کہ گویا وُہ عیب اُس میں تھے ہی نہیں تو اس سے بڑھ کر اس کی صداقت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلماتوں نے اس طرف توجّہ نہیں کی؛ ورنہ یہ ایسے روشن دلائل ہیں کہ دوسرے نبیوں میں اُس کے نظائر بہت ہی کم ملیں گے۔ مثلاً جب ہم آپؐ کے بالمقابل حضرت مسیحؑ کو دیکھتے ہیں، تو کسقدر افسوس ہوتا ہے کہ وہ چند حواریوں کی بھی کامل اصلاح نہ کر سکے اور ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے۔ یہانتک کہ بعض کو شیطان بھی کہا۔ وہ ایسے لالچی تھے کہ یہودا اسکریوطی جو مسیح کا خزانچی تھا۔ بسااوقات اس تھیلی میں سے جو اُس کے پاس رہا کرتی تھی۔ کبھی کبھی چُرا بھی لیا کرتا تھا۔ آخر اسی لالچ نے اُسے مجبور کیا کہ وہ تیس درہم لیکر اپنے اُستاد اور مُرشد کو گرفتار کرادے۔ اِدھر جب نبی کیم س کے صحابہؓ کی طرف دیکھتے ہیں تو اُنہوں نے اپنیجانیں دے دینی آسان سمجھیں، بجائے اس کے کہ اُن میں گدّاری کا باپاک حصّہ پایا جاتا۔ یُورپین موّرخوں تک کو اس امر کا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں جو اُنس و فاداری اور اطاعت اپنے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھٰ اس کی نظیر کسی دوسرے نبیوں کے متبیعین میں نہیں ملتی ہے۔ خصوصاً مسیح علیہ السلام تو اس مقابل میں بالکل تہی دست ہیں ۔ اب جبکہ اس قدر غلو اُن کی شان میں کیا گیا ہے اور باوجود کمزوریوں کی ان مثالوں اور واقعات کے ہوتے ہوئے جو انجیلؔ میں موجود ہیں، اُن کو خدا بنایا گیا ہے۔ ان کی قوتِ قدسی اور جذب وکشش کا یہ نمونہ پیش کیاگیا ہے کہ وہ چند حواریوں کو بھٰ دُرست نہ کر سکے، تو اور اُن سے کیا اُمّید ہوسکتی ہے۔ عیسائی جب حواریوں کی اعتقادی اور عملی کمزوریوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ مسیحؑ کے بعد اُن میں قوت اور طاقت آگئی تھی اور وُہ کامل نمونہ ہوگئے تھے، مگر یہ جواب کیسا مضحکہ خیز اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کا مِصداق ہے۔ کہ چراغ کی موجودگی میں تو کوئی روشنی نہیں۔ چراغ کے بُجھ جانے کے بعد روشنی ہوگئی۔ کیا خُوب!!!
ایک نبی کے سامنے تو وہ پاک وصاف نہ ہو سکے۔ اس کے بعد ہو گئے؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ مسیح اپنی قوتِ قُدسی کے لحاط سے اور بھی کمزور اور ناتواں تھا۔ معاذاﷲ یہ ایک نحوست تھی کہ جبتک حواریوں کے سامنے رہی وُہ پاک نہ ہو سکے اور جب اُٹھ گئی، تو پھر رُوح القدس سے معمور ہو گئے۔ تعجّب!!
بہت سے انگریزمصنّفوں نے بھی اِس مضمون پر قلم اُٹھایا ہے اور رائے ظاہر کی ہے کہ مسیح نے ایک گروہ پایا تھا جو پہلے سے توریت کے مقاصد پر اطلاع پاچکے تھے اور فقیہوں فریسیوں سے خدا کی باتیں سُنتے تھے۔ اگر وُہ راستبازی اور پاکباز ہوتے تو کوئی تعجّب کی بات نہ تھی اور چودہ سو برس تک لگاتار ان میں وقتاً فوقتاً نبی اور رسول آتے رہے، جو خدا کے احکام اور حدود سے انہیں اطلاع دیتے رہے۔ گویا اُن کے نُطفہ میں رکھا ہوا تھا کہ وُہ خدا کو مانیں اور خدا کے حدود کی عظمت کریں اور بدکاری سے بچیں۔ پھر کیونکر ممکن تھا کہ وہ اس تعلیم سے جو مسیح انہیں دینے چاہتا تھا۔ بے خبر ہوتے۔
مسیح اگر انہیں دُرست بھی کر دیتے تب بھی یہ کوئی بڑی قابل تعریف بات نہ تھی، کیونکہ ایک طبیب کے کامل علاج کے بعد اگر کوئی دوسرا اچھّا کردے، تو یہ خوبی کی بات نہیں۔ اس لیے بفرضِ محال اگر مسیح نے کوئی فائدہ پہنچایا بھی ہو تو بھی یہ کوئی قابل تعریف بات نہیںہے، لیکن افسوس ہے کہ یہاں کسی فائدہ کی نظیر بھی نظر نہیں آتی۔ یہودؔ نے تیس روپیہ لے کر اُستاد کو بیچ لیا اور پطرسؔ نے سامنے کھڑے ہو کر *** کی اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے اُحد اور بدر میں آپؐ کے سامنے سَر دیدیئے۔ اب انصاف کا مقام ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے اور قرآنِ شریف نہ ہوتا تو ایسے نبی کی بابت کیا کہتے جس کی تعلیم اور قوتِ قُدسی کے نمونے یہودؔ ا اسکریوطی اور پطرسؔ ہیں۔
قوتِ قدسی کا یہ حال اور تعلیم ایسی اُدھوری اور ناقص کہ کوئی دانشمند اُسے کامل نہیں کہہ سکتا اور نہ صرف یہی بلکہ انسان کی تمدّنی، معاشرنی اور سیاسی زندگی کو اُس سے کوئی تعلّق ہی نہیں اور پھر لُطف یہ کہ اُس کے کوئی تاثیرات باقی نہیں ہیں۔
دعویٰ ایسا کیا کہ عقل، کانشنس، قانُونِ قدرت اور متقدمین کے عقائد اور مسلّمات کے صریح خلاف۔ ان انگریز مصنّفوں کو اقرار کرنا پڑا ہے کہ اگر قرآن نہ آتا، تو بہت بری حالت ہوتی۔ اُنہوں نے اِعتراف کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں، وحشیوں کو دُرست کیا اور پھر ایسے صادق اور وفادار لوگ تیار کیے کہ اُنہوں نے اس کی رفاقت میں کبھی اپنے جان ومال کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اِس قسم کی وفاداری اوراطاعت، اِیثاراور جانثاری پیدا نہیں ہوسکتی جبتک مقتدا اور متبوع میں اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور جذب نہ ہو۔ پھر لکھتا ہے کہ عربوں کو سچّی راستبازی ہی نہ سکھائی گئی تھی، بلکہ اُن کی دماغی قوتوں کی بھی تربیّت کی تھی۔ حواری تو ایک گائوں کا بھی انتظام نہ کرسکتے تھے، مگر صحانہؓ نے دُنیا کا انتظام کر کے دکھا دیا۔کون کہہ سکتا ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کے والدین نے حکومت اور سلطنت کی تھی اور اس لیے وہ انتظامِ ملک داری اور قوانینِ سیاست سے آگاہ تھے۔ نہیں۔ہرگز نہیں۔ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیّت اور قرآن شریف کی کامل تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف اُس نے اُن کو فرشتے بنادیا اور دوسری طرف وہ عقلِ مجسّم ہوگئے ؎ٰ۔
یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگر ناقابل علاج مریضوں کو اچھّا کر دے، تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑیگااور جو اس پر بھی اس کی حذاقت کا اقرارنہ کرے، اس کو بجز احمق اور نادان کے اور کیا کہیںگے۔ اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھّا کیا؛ حالانکہ ان مریضوں میں سے ہر ایک بجائے خود ہزار ہا قسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا۔جیسے کوئی بیمار کہے سَر درد بھی ہے۔ نزول ہے۔ استسقاء ہے۔ وجع المفاصل ہے۔ طحال ہے۔ وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنا دیتا ہے۔ اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سواچارہ نہیں ہے۔ ایسا ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھّا کیا اُن میں ہزاروں روحانی امراض تھے۔جس قدر اُن کی کمزوریوں اور گناھ کی حالتوں کا تصور کر کے پھر اُن کی اسلامی حالت میں تغیّر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں۔ اسی قدر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ ضد اور تعصب ایک الگ امر ہے جو اپنی تاریکی کی وجہ سے سچائی کے نور کو دیکھنے کی قوت کو سلب کر دیتا ہے، لیکن اگر کوئی دل انصاف سے خالی نہیں اور کوئی سرعقلِ صحیح سے حصہ رکھنے والا ہے تو اس کو صاف اقرار کرنا پڑیگا کہ آپؐ سے بڑہ کر عظیم الشان پاکیزگی کی طرف تبدیلی کرا دینے والا انسان دنیا مین نہین گذرا۔ اللہم صل علی محمد وآلہ۔
اب بالمقابل ہم پُوچھتے ہیں کہ مسیح نے کس کا علاج کیا؟ اُنہوں نے اپنی روحانیت اور عقدِ ہمّت اور قوتِ قُدسی کا کیا کرشمہ دکھایا؟
زبانی باتیں بنانے سے تو کچھ فائدہ نہیں جبتک عملی رنگ میں اُن کا نمونہ نہ دکھایا جاوے جبکہ اس قدر مبالغہ اُن کی شان میں کیا گیا ہے کہ بایں ضُعف و ناتوانی اُن کو خدا کا منصب دیدیا گیا ہے۔ تو چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی عام رحمت اپنا اثر دکھاتی اور اقتداری قوت کوئی نیا نمونہ پیش کرتی کہ گناہ کی زندگی پر دنیا میں موت آجاتی اور فرشتوں کی زندگی بسر کرنے والوں سے دُنیا معمور ہو جاتی، مگر یہ کیا ہو گیا کہ چند خاص آدمی بھی جو آپ کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے، دُرست نہ ہو سکے۔
عیسائی اپنے خدا یُسوع کا مقابلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں، مگر تعجّب ہے کہ انہیں شرم نہیں آتی کہ وُہ اس طرز پر کبھی ایک قدم بھی چلنا گوارا نہیں کرتے۔ اور اس طریق پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا مقابلہ کریں، تو اُنہیں معلوم ہو جاوے۔
یا درکھو کہ نبی تخلقوا باخلاق اللہ ثابت کرنے کے لئے آتے ہیں۔اوراپنی عملی حالت سے دکھا دیتے ہیں کہ وہ اخلاق اللہ کا پورا نمونہ ہیں ۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں جس قدر اشیاء خدا تعالی نے پیدا کی ہیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی پہلو سے انسان کے لئے مفید ہیں جیسے درخت بنایا ہے اس کے پتے اور اس کا سایہ اور اس کی چھال اس کی لکڑی اس کا پھل غرض اس کے سارے حصے کسی نہ کسی رنگ میں انسان کے لئے فائدہ بخش ہیں سورج کی روشنی سے انسان کو بہت سے فائدحاصل کرتا ہے اور اسی طرح پر تمام چیزیں ہیں جو انسان کے لئے مفید اور نفع رساں ہیں مگر ہم کو عیسائیوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ انہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بھی قرار دیا ہے مگراس کا کوئی فائدہ دنیا پر ثابت نہیں کر سکتے اور کوئی اس کی مقتدرانہ تجلی کا نمونہ ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا چاہئے تو یہ تھا کہ ان کا ابن اللہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند کا مصداق ہوتا مگر جب اس کی سوانح عمری پر غور کرتے ہیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ا س نے کچھ بھی نہیں کیا نری خود کشی اور دوسروں کی مصبیت دیکھ کر اپنی جان پر کھیل جانا یہ کیا دانشمندی اور مصلحت ہے اور اس سے ان مصیبت زدوں کو کیا فائدہ ؟
انصاف اور ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں مسیح کو بالکل ناکامیاب ماننا پڑتا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسم کا موقعہ ملا ہے مسیح کو نہیں ملا اور یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ یہی وجہ کہ مسیح کو کامل نمونہ ہم کہہ نہیں سکتے انسان کے ایمان کی تکمیل کے دو پہلو ہوتے ہیں اول یہ دیکھنا چاہئے کہ جب وہ مصائب کا تختۂ مشق ہو اس وقت خدا تعالی سے کیسا تعلق رکھتا ہے ؟کیا وہ صدق ،اخلاص ،استقلال ، اور سچی وفاداری کے ساتھ ان مصائب پر انشراح صدر سے اللہ تعالی کی رضا کو تسلیم کرتا ہے اورا س کی حمد و ستائش کرتا ہے یا شکوہ و شکایت کرتا ہے اور دوسرے جب اس کو عروج حاصل ہو اور اس کے اقبال کو فروغ ملے تو کیا اقتداراور اقبال کی حالت میں وہ خدا ئے تعالی کو بھول جاتا ہے اور اسکی حالت میں کوئی قابل اعتراض تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔یا اسی طرح خداتعالی سے تعلق رکھتا ا ورا س کی حمد وستائش کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو عفو کرتا اور ان پر احسان کر کے اپنی عالی ظرفی اور بلند ہوصلگی کا ثبوت دیتا ہے۔
مثلا ایک شخض کو کسی نے مارا ہے اگر وہ اس پر قادر ہی نہیں ہوا کہ کہ اس کو سزا دے سکے اور اپنا انتقام لے پھر بھی وہ یہ کہے کہ دیکھومیں نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا تو یہ بات اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتی اور اس کا نام بردباری اور تحمل نہیں رکھ سکتے کیونکہ اسے قدرت ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ایسی حالت ہے کہ گالی کے صدمہ سے بھی رو پڑے تو یہ ستر بی بی از بے چادری کا معاملہ ہے اس کو اخلاق اور بردباری سے کیا تعلق ۔
مسیح کے اخلاق کا نمونہ بھی اسی قسم کا ہے اگر انہیں کوئی اقتداری قوت ملتی اور اپنے دشمنوں کا انتقام لینے کی توفیق انہیں ہوتی پھر اگر وہ اپنے دشمنو ں سے پیار کرتے اور ان کی خطائیں بخش دیتے تو بے شک ہم تسلیم کر لیتے کہ ہاں انہوں نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا ہے لیکن جب یہ موقعہ ہی ان کو نہیں ملا تو تو پھر انہیں اخلاق کا نمونہ ٹھہرانا صریح بے حیائی ہے ۔جب تک یہ دونوں پہلو نہ ہوں خلق کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔اب مقابلے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوکہ جب مکہ والوں نے آپؐ کو نکالا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپ ؐ کو پہنچاتے رہے آپ ؐکے صحابہ کو سخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے۔ اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے کام آپ نے لیا وہ ظاہر بات ہے ۔لیکن جب خدا تعالی کے حکم سے آپؐ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے آپؐ اور آپ ؐکی جماعت پر کی تھیںآپؐ کو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپؐ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا ، کیوں کہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتار ہو چکے تھے مگر آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے سب کو چھوڑ دیا اور کہا
لا تثریب علیکم الیوم۔
یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کے مصائب اور تکالیف کا نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح اپنے جانستاں دشمنوں کو معاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مکہ والوں نے آپ کی نری تکذیب نہیں کی تھی ۔نری تکذیب سے جو محض سادگی کی بناء پر ہوتی ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالی سزائیں نہیں دیتا ہے لیکن جب مکذب شرافت اور انسانیت سے دور نکل کر بے حیائی اور دریدہ دہنی سے اعتراض کرتا ہے اور اعتراضوں ہی حد تک نہیں رہتا بلکہ ہر قسم کی ایذا دہی اور تکلیف رسانی کے منصوبے کرتا ہے اور پھر اس کو اس حدتک پہنچاتا ہے توا للہ تعالی کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اپنے مامور اور مرسل کے لئے وہ ان ظالموں کو ہلاک کردیتا ہے ، جیسے نوح کی قوم کو ہلاک کیا یا لوط کی قوم کو اس قسم کے عذاب ہمیشہ ان شرارتوں اور مظالم کی وجہ سے آتے ہیں جو خدا کے ماموروں اور ان کی جماعت پر کئے جاتے ہیں ؛ورنہ نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک او ر عالم عذاب کے لئے رکھاہے ۔ عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایذا کے درجے تک پہنچانے سے آتے ہیں اور تکذیب کو استہزاء اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں اگر نرمی اور شرافت سے یہ کہا جاوے کہ میں نے اس معاملہ کو سمجھا نہیں اس لئے مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے تو یہ انکار عذاب کو کھینچ لانے والا نہیں ہے کیونکہ یہ تو صرف سادگی اور کمی علم کی وجہ سے ہے میں سچ کہتا ہوں کہا گر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہوتا توا للہ تعالی نہ پکڑتا ساری قومیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں سزا پاتی ہیں۔خدا تعالیٰ نے تویہاں تک فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن سننے کے منکر ہوں اس کے لئے اسلام میں جبر و اکراہ نہیں جیسے فرمایا:
لا اکراہ فی الدین( البقرہ:۲۵۷)
لیکن اگر کوئی قتل کرے گا یا قتل کے منصوبے کرے گا اور شرارتیں اور ایذا رسانی کی سعی کرتا ہے تو ضرورہے کہ وہ سزا پاوے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ مجرمانہ حرکات پر ہر ایک پکڑا جاتا ہے پس مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اور مجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اور ان کے وجود سے ارض مقدس اور اس کے گردونواح کو صاف کر دیا جاتا مگر یہ رحمۃ للعالمیں اور
انک لعلی خلق عظیم
کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنو ں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے
لا تثریب علیکم الیوم
اب پادری ہمیں بتائیں کہ مسیح کے اس خلق کو ہم کہاں ڈھونڈیں ؟ ان کی زندگی میں آپؐ کا نمونہ کہاں سے لائیں جب کہ وہ ان کے عقیدے کے موافق ماریں ہی کھاتا رہا۔اور جس کو سر رکھنے کی جگہ نہ ملی ۔( اگر ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے ایک نبی اور مامور کی نسبت یہ گمان کریں کہ وہ ایسا ذلیل اور مفلوک الحال تھا) انسان کا سب سے بڑا نشان اس کا خلق ہے لیکن ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والے معلم کی عملی حالت میں اس خلق کا ہمیں کوئی پتہ نہیں لگتا ۔
دوسروں کو کہتا ہے کہ گالی نہ دو مگر یہودیوں کے مقدس فریسیوں اور فقیہوں کو حرامکار , سانپ کے بچے آپ ہی کہتا ہے ۔یہودیوں کے بالمقابل اخلاق پائے جاتے ہیں وہ اسے نیک استاد کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور یہ ان کو حرام کار کہتے ہیں اور کتوں اور سؤروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ باوجودیکہ وہ فقیہہ اور فریسی نرم نرم الفاظ میں کچھ پوچھتے ہیں۔اور وہ دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی رومی حکومت میں کرسی نشین تھے۔ ان کے مقابلے کے سوالوں کا جواب تو بہت نرمی سے دینا چاہئیے تھا اور خوب ان کو سمجھانا چاہئے تھا؛ حالانکہ یہ بجائے سمجھانے کے گالی پر گالی دیتے چلے جاتے ہیں کیا اس کا نام اخلاق ہے میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف نہ ہوتا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے تو مسیح کی خدائی اور نبوت تو ایک طرف شاید کوئی دانشمند ان کوکوئی عالی خیال اور وسیع الاخلاق انسان ماننے میں بھی تامل کرتا یہ قرآن شریف کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عام ہے تمام نبیوں پر اور خصوصا مسیح پر کہ اس نے ان کی نبوت کا خود ثبوت دیا۔
پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہئے کہ اخلاقی حالت تو خیر یہ تھی ہی کہ یہود کے معزز بزرگوں کا آپ گالیاں دیتے تھے لیکن جب ایک وقت قابو آگئے تو اس قدر دعا کی کہ جس کی کوئی حد نہیں مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی دعاجیسا کہ عیسائیوں کے عقیدے کے موافق بالکل رد ہو گئی اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نہ ہوا؛اگرچہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کرتے چاہئے تو یہ تھا اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اس وقت دکھا دیتے جس سے بیچارے یہود اقرار اور تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے مگر یہاں الٹا اثر ہو رہا ہے اور
او خود گم است کرا رہبری کند
کا معاملہ نظر آتا ہے ۔ دعائیں کرتے ہیں چیختے چلاتے ہیں مگر افسوس وہ دعا سنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی *** کے زہر سے لبریز ہے ، نہیں ملتا اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اسے دیانہیں جاتا۔ ایک طرف طرف تو تعلیم دیتا کہ جو مانگو سو ملے گا دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کا نمونہ دکھاتا ہے اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کوکیا تسلی اور اطمینان خدائے ناکام میں مل سکتا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں
غرض جس پہلو سے مسیح کا مقابلہ آنحضرت سے بایںدعویٰ خدائی کیا جاوے تو صاف نظر آتاہے کہ مسیح کو آپ ؐسے کوئی نسبت ہی نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے ۔
آپ کیابلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کہ اور کیابلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعائوںکی قبولیت کے غرض ہرطرح ہر پہلومیںچمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کرغبی سے غبی انسان بھی بشرطیکہ اُس کے دل میںبیجاضد اور عداوت نہ ہو ۔ صاف طور پر مان لیتاہے کہ آپؐ تَخَلَّمُّوْابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کاکامل نمونہ اور کامل انسا ن ہیں، لیکن جب کوئی مسیح کے حا لات پر نظر کرتاہے ۔تو ایک دانشمند اور منصف مزاج انسان کو تامل ہوتاہے کہ ایک ایسے انسان کو جو مہذّب اورشریفانہ باتوںکاجواب گالی سے دیتاہے ،نیک اُستاد کہنے والوںکوسانپ اور سانپ کے بچّے اور حرامکار کہتاہے ۔خداتوایک طرف نبی ہی تسلیم کرے۔
مسیح پر ایمان لانے میںیہودکی مشکلات
ان ساری باتوںکے علاوہ یہود کو ایک بڑی عجیب مشکل درپیش تھی ۔ جس میںبظاہر وہ حق پرہوسکتے ہیں ۔اور وہ یہ تھی کہ ملاکیؔنبی کی کتاب میںوہ پڑھ چکے تھے مسیحؑ کے آنے کے آنے سے پہلے ایلیاؔکاآسمان سے اُترناضروری ہے ۔جب تک وہ نہ آوے مسیح نہ آوے گا ۔اب اُن کے سامنے کسی کے دوبارہ آنے کی نظیر موجود نہیں اورایلیاؔکاآسمان سے اُترنا وہ اپنی کتابوںمیںپڑھتے آئے تھے ۔اُنھوںنے ایلیاؔکو آتے دیکھانہیں ۔مسیح نے آنے کادعویٰ۔اُسے تسلیم کریں ،تو کیونکر ۔مسیح نے جو فیصلہ ایلیاؔکے آنے کا کیاکہ وہ یوحنّاؔکے رنگ میںآگیا یہودیوںکے پاس بظاہر اس کے انکار کے لیے وجوہات تھیں، کیونکہ اُن کو ایلیاؔکا وعدہ دیاگیا تھا، نہ مثیل ایلیاؔکا۔اور اس سے پہلے کوئی واقعہ اس قسم کا نہ ہواتھا ۔اس لیے اُن کو مسیح کاانکار کرناپڑا ۔
ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے ۔اُس نے بڑے زور سے اس بات پربحث کی ہے اور پھر اپیل کرتاہے کے بتائو ایسی صورت میںہم کیا کریں ۔ بلکہ اُس نے یہاںتک لکھاہے کہ اگر خداتعالیٰ ہمیںاس کے متعلق بازپرس کرے گا ، ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر اُسکے سامنے رکھ دیںگے۔
غرض ایک مشکل تو یہودیوں کو یہ پیش آئی کہ مسیح مصلوب ہوگیا اور صلیب کی *** نے ان کے کذب پر ایک اور رنگ چڑھادیا ۔کیونکہ وہ توریتؔمیںپڑھ چکے تھے کے جھوٹانبی صلیب پر لٹکایاجاتاہے اوروہ مُلعون ہوتاہے ۔پس اُنھوںنے یہ خیال کیا کہ ایک طرف تو ایلیاؔآیانہیں اور یہ مسیح ہونے کامدعی ہے اور ایلیاکے جو قصے پر جو فیصلہ دیتاہے ۔وہ بظاہر ملاکی نبی کی کتاب کے خلاف ہے ،اس لیے کاذب کی مخالفت اور خود مسیح کے طرزعمل اور سلوک نے یہودیو ں کو اور بھی برافروختہ کر دیا تھا۔ جب وہ اِن کو حرمکار ۔سانپ اور سانپ کے بچّے کہہ کر پکارتے تھے ۔پس اُنھوں نے صلیب کے لیے کوشش کی اور جب صلیب پر چڑھادیا تو ان کے پہلے خیال کو اوربھی مضبوطی ہو گئی ۔ کیو نکہ اُنھوں نے دیکھا کہ یہ صلیب پرلٹکایا جاکر *** ہو گیا ہے ۔اس لیے سچُانہیں ہے ۔
اب انھوں نے یقین کر لیا کہ جب یہ خود *** ہو گیا ،تو دوسروںکا شفیع کیسے ہو سکتاہے ۔صلیب نے اس کے کاذب ہو نے پر مہر لگا دی ۔دو،گواہوںکے ساتھ انسان پھانسی پسکتا ہے ۔اُنھوںنے اس وقت بھی کہا کہ تُو سچّاہے تو اُتر آ مگر وہ اُتر نہ سکا۔اس امر نے اُن کو بد ظن کر دیا۔٭
بقیہ ّ تقریر ۲۷ دسمبر ۱۹۰۱؁ء
*** کامفہوم
عیسائی چونکہ *** کے مفہوم اور منشاء سے ناواقف تھے ، اس لیے مسیح کو مُلعون قرار دیتے وقت اُنھوں نے کچھ نہیں سوچاکہ اُس کاانجام آخر کیا ہو گا ؟علاوہ بریں چونکہ عربی سے اُنہیں بغض تھا ،اس لیے عبرانی میں بھی پوری مہارت حاصل نہ کر سکے ۔یہ دونوںزبانیں ایک ہی در خت کی شاخیں ہیں اور عربی جاننے والے کے لیے عبرانی کاپڑھنا سہل تر ہے ، مگر عیسائی بوجہ بغض عبرانی لُغت سے بھی فائدہ نہ اُٹھاسکے ۔
*** کامفہوم یہ ہے کہ ۰۰۰۰کوئی خداتعالیٰ سے سخت بیزار ہو جاوے اور خداتعالیٰ اس سے بیزار ہو جاوے ۔ عیسائیوںکے اپنے مطبع کی چھپی ہوئی لغت کی کتابیں جو بیروت سے آتی ہیں ۔ان میں بھی *** کے یہی معنے لکھے ہو ئے ہیں ۔اور یعن شیطان کو کہتے ہیں ۔مجھے ان لوگوںکی سمجھ پر افسوس آتاہے کہ اُنھو ں نے اپنے مطلب کی خاطر ایک عظیم الشان نبی کی سخت بے حُرمتی کی ہے اور اس کو یعن ٹھہرایاہے اور انھوں نے اس پرکچھ بھی توجہ نہیں کی کہ *** کاتعلق دل سے ہوتاہے ۔جب تک خداسے بر گشتہ نہ ہولے۔ملعون نہیں ہو سکتا ۔اب کسی عیسائی سے پوچھو کہ کیا عربی اور عبرانی لُغت میں *** کے یہ معنی متفق علیہ ہیں یانہیں ؟پھر اگر دل میں شرارت یاہٹ دھرمی نہیں ہے اورمحض خداتعالی ٰ کی رضاکے لیے ایک مذہبکو اختیار کیاجاتاہے تو کیاایک *** ہی کامضمون عیسائی مذہب کے استیصال کے لیے کافی نہیں ہے؟ اوّل غور کرے جب یہ بات مسلّم تھی اور پہلے توریتؔمیں کہا گیا تھا کہ وہ جو کاٹھ پر لٹکایا وہ *** ہے اور ہ وہ کاذب ہے ۔ تو بتائو جو خودملعون اور کاذب ٹھہرایاگیاہے ۔وہ دوسروں کی شفاعت کیاکرے گا؟
اوخوشتن گمُ است کرارہبری کُند
میں سچ کہتاہو ں جب سے ان عیسائیوں نے خداکوچھوڑکر اُلوہیّت کاتاج ایک عاجز انسان کے سر پررکھ دیاہے اندھے ہو گئے ہیں اُن کو کچھ دکھائی نہیںدیتا ۔ایک طرف اُسے خدابناتے ہیں ۔دوسری طرف صلیب پر چڑھاکر اُسے *** ٹھہراتے ہیں اور تین دن کے لیے ہادیہ میں بھیجتے ہیں ۔کیا وہ دوزخ میں دوزخیوں کو نصیحت کرنے گئے تھے یااُن کے لیے وہاں جاکر کفّارہ ہو نا تھا ؟
حضرت مریم ؑکے یُوسف سے نکاح پر اعتراضات
مختصر یہ کہ اس قسم کے فساد موجود ہیں ۔اب اصل مطلب یہ ہے کہ یہی نہیں بلکہ کوئی بھی اخلاقی حالات مسیح کے ثابت نہیں ۔صرف رُسول اللہ ﷺکے سہارے سے ماناگیا ۔اگر انجیل کے بناپر ہی مانناپڑتاتو پھر ان مشکلات میں پڑکر کون تسلیم کر سکتاہے ۔عیسائیوںنے اور انجیل نے تو اور بھی داغ لگائے ہین۔یہودی جس قسم کے الزام لگاتے ہیں ان کو تو بیان کرنے سے بھی شرم معلوم ہو تی ہے ۔ یہ دلیر قوم اس کی ماں کو بھی مہتّم کرتی ہے ۔ ایک اور خطرناک معاملہ ہے جس کا جواب عیسائیوں کے پاس ہر گز نہیں ہے اور وہ یہ ہے کے مریم کی ماں نے عہد کیاتھا وہ بیت المقدس کی خدمت کرے گی اور تارکہ رہے گی نکاح نہ کرے گی ۔اور خود مریم نے بھی یہ عہد کیاتھا کہ میں ہیکل کی خدمت کروں گی ۔باوجود اس عہد کے پھروہ کیا بلایاآفت پڑی کہ یہ عہد توڑاگیا اور نکاح کیاگیا ۔اُن تاریخو ں میں جویہودی مصنّفین نے لکھی ہے اور باتوں کو چھوڑکر بھی اگر دیکھا جاوے یہ لکھاہے کہ یُوسف کو مجبور کیا گیاکہ وہ نکاح کر لے اور اسرائیلی بزرگوں نے اُسے کہا کہ ہر طرح تمھیں نکاح کرنا ہو گا ۔ اب اس واقعہ کو مدِّنظر رکھ کر دیکھو کہ کس قدر اعتراض واقع ہو تے ہیں ۔
اوّلؔ جب عہد باندھاگیاتھاتوپھر خداکی ماں اور نانی نے اپنے عہد کو کیوں توڑا ؟
دومؔجبکہ عیسائیوں کے نزدیک کثرت ازدواج زناکاری ہے تو وہ اس کاکیا جواب دیتے ہیں کہ یُوسف کی پہلی بیوی بھی تھی کیا وہ اپنے آپ یہ الزام اپنی مقّدس کنواری پر قائم نہیں کرتے ؟
سومؔجب کے حمل ہو چکاتھاتو پھر حمل میں نکاح کیوں کیا گیا؟
یہ تین زبر دست اعتراض ہیں جو اس پر ہو تے ہیں ۔اورباتوں کو اگر چھوڑدیاجائے ۔ مثلاًیہ کے جب فرشتہ نے اگر مریم کو بشارت دی تھی کہ تیرے پیٹ میں خداآتاہے تو اُسے چاہئیے تھاکہ شور مچادیتی اوردنیاکو آگاہ کر تی کے خداکااستقبال کرنے کے لیے تیار ہو جائو ، وہ میرے پیٹ سے پیداہو گا ۔پھر اس کو چھپایاکیو ں گیا ۔ہم اس قسم کی اعتراضوں کو سرِدست چھوڑدیتے ہیں لیکن جو تین بڑے اعتراض اوپر کیے گے ہیں اُن کاجواب عیسائیوں کہ پاس حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مریم کو ہیکل میں پیٹ ہوگیاتھااور مریم نے یہ سمجھاتھاکہ لوگوںکو اگر بتایاگیاکہ مجھے فرشتہ نے آکر بیٹا پیداہونے کی ہونے کی بشارت دی ہے ،تو لوگ ٹھٹھا کریںگئے اورکہیں گئے کے اس کو بیاہ کے خواب آتے ہیں ۔کوئی بدکار ٹھہرائے گا۔لیکن جب پیٹ چھپ نہ سکا اورچرچاہونے لگا تو آخر سب کو فکر پڑی ۔اگر پہلے سے بتادیتی جب فرشتے نے آکر کہاتھا ،تو شاید اس قدر شور نہ ہو تا ۔لیکن اُنھوں نے یہی سمجھاکہ اس وقت اگر بتایاتویہی کہیں گئے کہ خاوندمانگتی ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے اگر کنواری لڑکی ذراسابھی کوئی ذکر کر بیٹھے تو لوگ اس کی نسبت یہی نتیجہ نکال لیتے ہے۔پس وہ ڈرتی ہی رہی اوریہی اس نے سوچاکے خاموش رہوں ،لیکن جب چار پانچ مہینے کے بعد جب پیٹ بڑھااورپردہ نہ رہ سکا ۔ تو پھر رہانہ گیا ۔تو ہیکل کے بزرگوں کو بخوبی معلوم ہو گیا کے مریم حاملہ ہے اور انہیں فکر پیداہوئی اور جیسا کے یہ دیکھاجاتاہے کہ شریف خاندان کی لڑکی حاملہ ہو جاوے ۔تو جھٹ پٹ اس کا نکاح کر دیتے ہیں تاکے ناک نہ کٹ جاوے ۔ان بزرگو ں کو بھی یہی فکر پیدا ہو ئی ۔کیو نکہ وہ اصل واقعہ سے بالکل بے خبر اور نہ آشناتھے ۔اس لیے اُنہوں نے ان باتوں کی ذرابھی پرواہ نہ کی کہ اس نکاح سے عہد شکنی کاارتکاب ہو گا یادوسری شادی کی وجہ سے بقول یُسوع مسیح یہ زناکاری ٹھہرے گی ،یاحاملہ کانکاح کرنا جائز نہیں ہے ۔عزیزوں نے بھی سمجھاکے اگر اب خاموشی کی گئی اور نکاح نہ کیا گیا ۔ تو ناک کٹ جائے گی ،اس لیے نکاح کردیاگی جس پر اس قدر اعتراض ہو تے ہیں ۔
اناجیل کی مبالغہ آرائی
مگر غو ر طلب سوال یہ ہے کے ان انجیل تویسوں نے اس واقعہ پ پرکیوںدیانت داری کے ساتھ روشنی نہیں ڈالی ۔ یہ دیانت داری کے خلاف ہے ۔ ایک جگہ ایک انجیل نویس لکھتاہے یسوع نے اس قدر کا م کیے کہ وہ اگر لکھے جاتے تو دنیا میں نہ سماسکتے ۔ مگر اس عقلمندی کی سمجھ پر افسوس آتاہے کی اس ایک ہی جملہ نے انجیل کی ساری حقیقت کھول دی کہ اس میں جو کچھ لکھاگیا ہے ایسی مبالغہ آمیز باتیں ہیں ، کیونکہ یہ کسی ہنسی کی بات ہے جو کام تین برس میں ہوسکتے ہیں وہ دنیامیں نہیں سماسکتے ۔جب محدود زمانے میں سماگئے توپھر مکائی طور پر کیوں محدود نہیں ہو سکتے ۔
اس قسم کے ردّی مواد سے بھراہواعیسائی مذہب کاپھوڑاہے ۔پھوڑوںکے پھوٹنے کا ایک وقت مقررہوتاہے ۔نصرانی مذہب بھی ایک پھوڑاہے جو اندر پیپ سے بڑاہواہے اس لیے باہر سے چمکتاہے ۔لیکن اب یہ وقت آگیاہے کے یہ ٹوٹ جاوے اور اس کی اندرونی غلاظت ظاہر ہو جاوے ۔
انگریزی گورنمٹ کے عہدمیں مذہبی آزادی
ابھی سکھوں کازمانہ گزرہ ہے جس میں شائستگی بالکل جاتی رہی ۔عالم باعمل نہ رہے تھے ۔اگر کسی کو شبہات پڑتے اور وہ کوئی سوال کرتا ۔تواس کو واجب القتل کاہونے کافتویٰ دیاگیا ۔یہ زمانہ ایساہی ہو گیا تھا ۔مگر اب خداتعالیٰ نے فضل کیا۔ایک مہذّب اورشائستہ علم دوست گورنمٹ کو ہم پر حکمران کیا جس نے عدل اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہی ہے اور مذہبی آزادی کی برکت سے ساری قوموں کو مستفیدکیا ۔ اب وہ وقت آگیا ہے کے مذہب کے متعلق سوال کرنے والوں سے کوئی سختی نہیں کی جاتی اور ہر ایک سائل کو جواب دیاجاتاہے۔
مسیح موُعودؑکی بعثت کی غرض
جب زمانہ نے اس قسم کی ترقی کی اور اشاعت کے سارے سامان اور ذریعے پیدا ہوگئے ۔تو اللہ تعالیٰ نے اسلام ؔکو کل اُمتوں پرغالب کرنے کے لیے مجھے مامور کر کے بھیجا ۔
حقیقیی محی اموات صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ ﷺکو جب دنیا میں بھیجا تھا ، اس وقت کل تَری خشکی فساد سے بھر چکی تھی ۔آپؐ نے آکر بہت سے بگڑے ہوئوں کو بنادیا ۔ یہ بات سَر سَری نگاہ کے دیکھے جانے کے قابل نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں بڑے بڑے حقائق ہیں ۔ او رنبی کریم ﷺکی عظمت اور بزرگی کا پتہ لگتاہے کیونکہ بجز اعلی درجہ کے مقدس راستباز کے کوئی دوسرے کو درست نہیں کر سکتا جس کی اپنی قوت قدسی کمال کے درجہ پر نہ پنہچی وہ ایسی قوت اس میںپیدانہ ہو چکی ہو ۔ جو ساری ناپاکیوں کے اثر کو زائل کر دے وہ دوسروں کو درست نہیں کر سکتا۔ یو ں تو ہر ایک نبی نے اپنے اپنے وقت میں اپنی قوم کی اصلاح کی اور اس کو درست کیا ۔مگر جس شان اور مرتبہ کی اصلاح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے ۔اس کو کسی اور کی اصلاح نہیں پنہچ سکتی ۔بلکہ اس کے مقابل دوسری اصلاحیں ہیچ نظر آتی ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ٹیڑھی قوم کو پورے طور سے درست نہ کر سکے اور حضرت مسیح چند حواریوں کی سچّی تبدیلی نہ کر سکے ۔ اس لیے جب اس مقابلہ میں نبی کریم ﷺکو تو صاف اقرار کرنا پڑتاہے کہ ایک ہی ہے جس نے لاکھوں کڑوڑوں مُردوں کو زندہ کیا ۔ محی اگر ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے ۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح مردے زندہ کیا کرتا تھا ۔جس نے اپنے چند حواری بھی زندہ نہ کیے ان کے پاس ہمیشہ مردے ہی رہے ۔میں ہمیشہ حیران ہوا کرتا ہوں اور حقیقت میں یہ حیران ہونے کی بات ہے کہ وہ حیات کیسی ہے جس کے ساتھ فنا لگی ہوئی ہے ۔یہ مسئلہ ہی غلط ہے جو کہے کہ فلاں شخص زندہ کرتا ہے ۔اگر زندہ کرنے کا مفہوم اور مطلب نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کیوں فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَیْ عَلَیْہَا الْمَوْ تَ(الزّمر: ۴۳ )فرماتا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ محاورہ ہی ہے ، ورنہ اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے کہ ایک طرف کہے کہ زندہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف کہہ دے کہ زندہ ہو جاتا ہے ۔
اگر مسیح سچ مچ مُردہ زندہ کرتاتھا تو قرآن شریف ضرور اس کی نسبت فرماتایحی المتوفی کیونکہ توفی کالفظ وہاں آتاہے جہاں روح ہو ۔ موت تو اس سے پہلے بھی آسکتی ہے ۔اور توفی کالفظ اس لیے بھی استعمال کیاجاتاہے تاکہ یہ ثابت کیاجاوے کے مرنے کے بعد بھی روح باقی رہتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے کس قدر حیرت اور افسوس کی جگہ ہے کہ معجزات مسیح پر بحث کرتے ہوئے لوگ پوری توجہ نہیں کرتے ۔قرآن کریم پڑھ لیتے اور سنت رسول اللہ پر نظر کرتے تو یہ مسئلہ سمجھ آجانا کچھ بھی مشکل نہ تھا ۔
انبیاء کے معجزات زمانہ مناسب حال ہوتے ہیں
صحیح تاریخ ایک عہدہ معلم ہے اس سے پتہ لگتاہے ہر نبی کے معجزات اس رنگ کے ہوتے ہیں ،جس کا چرچااور زور اُس کے وقت میں ہو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سحر کا بہت بڑازور تھا۔ اس لیے ان کو جو معجزادیاگیاوہ ایساتھاکے اس نے اُن کے سحر کو باطل کر دیااور ہمارے نبی کریم کے وقت میں فصاحت وبلاغت کازور تھا اس لیے آپؐکو قرآن کاکریم کاایک معجزہ اسی رنگ کا ملا ۔یہ رنگ اسی لئے اختیار کیا کہ شعر اء جادو بیان سمجھے جا تے تھے اور ان زبان میں اتنا اثر تھ ا کہ وہ جو چاہتے تھے چند شعر پڑھ کر کرا لیتے تھے ۔جیسے آج کل جو دلیری اور حوصلہ پیدا کر دیتی تھی ۔ہر حربہ میں وہ شعر سے کام لیتے تھے اور فی کل واد یہیمون( الشعراء:۲۲۶)کے مصداق تھے۔اس لیے اُس وقت ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام بھیجتا۔ پس خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور اسی کلام کے رنگ میں اپنا معجزہ پیش کر دیا۔ جبکہ اُن کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ
انکنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبد نا فاتوابسورۃ من مثلہ…(البقرہ : ۲۴)
تم جو اپنی زباندانی کا دم مارتے اور لاف زنی کرتے ہو اگر کوئی قوت اور حوصلہ ہے تو اس کلام کے معجزہ کے مقابل کچھ پیش کر کے دکھائو، لیکن باوجود اس کے کہ وُہ جانتے تھے کہ اگر کچھ نہ بنایا (خصوصاً ایسی حالت میں کہ جب تحدّی کر دی گئی ہے کہ تم ہر گز ہر گز بنا نا سکوگے) تو مُلزم ہو کر ذلیل ہو جائیں گے۔ پھر بھی وہ کچھ پیش نہ کر سکے۔ اگر وہ کچھ بناتے اور پیش کرتے تو صحیح تاریخ ضرور شہادت دیتی، مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی نے کچھ بنایا ہو۔ پس خدا تعالیٰ نے اُس وقت اُسی رنگ کا معجزہ دکھایا تھا۔
سلبِ امراض کا معجزہ
ایسا ہی یہودیوں میں سلبِ امراض کا نسخہ چلا آتا تھا۔ ہندوئوں میں بھی ہے۔ مسلماتوں میں بھی ہے۔ عیسائیوں میں بھی ہے۔ بلکہ انگریزوں میں تو آجکل یہ علم بہت ترقی کر گیا ہے۔ اس سے نبوّت کا ثبوت نہیں ہوتا اور نہ نبوّت سے اس کا کوئی تعلّق ہے کیونکہ یہ صرف مشق پر موقوف ہے اور ہر شخص جو مشق کرے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، عیسائی ہو یا دہریہ غرض کوئی بھی ہو وہ مشق کرنے سے اس میں مہارت پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیا اس سلب امراض کو نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عام بات ہے تو حضرت مسیح کے وقت میں چونکہ اس کا زور تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی رنگ کا معجزہ حضرت مسیح کو دے دیا۔ یہ خاصیّت ہر انسان میں موجود ہے کہ وہ توجہ کرتا ہے۔توجہ کرنے کے ساتھ ایک چیز اُس کے دل سے اُٹھ کر پڑتی ہے؛ چنانچہ مسیح نے کہا۔ کس نے مجھے چھوا ہے کہ میری قوت نکلی ہے۔ سلب امراض والے بھی یہی کہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مسیح کے معجزات اس رنگ میں آکر بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسیح کے معجزات پر ایک اور بڑا اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب ایسا تھا کہ لوگ اس کے پانی کے ہلنے کاانتظار کیا کرتے تھے ؎ٰ۔
اور وہ مانتے تھے کہ اس کو فرشتہ ہلاتا ہے۔ پس جو سب سے پہلے اس میں اُتر پڑتا۔ وہ اچھا جو جاتا تھا اور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مسیح اس تالاب پر اکثر جایا کرتے تھے۔ پھر کیا تعجّب ہے کہ مسیح نے بیماروں کے علاج کا کوئی نسخہ اس تالاب کی مٹی وغیرہ سے ہی تیار کیا ہو۔ تالا ب کے اس قصہ نے جو اناجیل میں درج ہے۔ مسیحی معجزات کی حقیقت کو اور بھی مشتبہ کر دیا ہے اور ساری رونق کو دور کر دیا ہے۔ اسی لیے عمادالدینؔ جیسے عیسائیوں کو ماننا پڑا ہے کہ تالاب والا قصہ الحاقی ہے۔ لیکن انجیل کے ان نادان دوستوں نے اتنا خیال نہیں کیا کہ اس باب کو محض الحاقی کہہ دینے سے مسیحی معجزات کی گئی ہوئی رونق نہیں آسکتی۔ بلکہ انجیل کو اور بھی مشتبہ قرار دینا ہے۔ کیونکہ پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس انجیل میں ایک باب الحاقی ہو اور حصہ اُس کا الحاقی نہ ہو اور جبکہ نسب نامہ کو الحاقی کہنے والے بھی موجود ہیں۔ پھر اس تالاب جیسے چشمے اور ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک میں ایسے چشمے ہیں جہاں جا کر اکثر مریض شفا پاتے ہیں۔ کشمیر میں بھی بعض چشموں کا پانی ایسا ہی ہے جن میں گندھک کا پانی اور نمک اور اَور اس قسم کے اجزاء ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس وہ معجزہ نما تالاب مسیح کے سارے معجزات پر پانی پھیرتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ مسیح کا اس تالاب پر جانا اور اس کی مٹی کا آنکھوں پر لگانا اور اپنے پاس رکھنا بھی بیان کیا جاتا ہے اور پھر عمادالدین اُسے الحاقی مانتا ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک حصہ الحاقی مان کر پھر آسمانی کہتے ہوئے اُسے شرم نہیں آتی۔
مسیح کی لکھی ہوئی انجیل نہیں۔ حواریوں کی زبان عبرانی میں نہیں۔ تیسری مصیبت یہ ہے کہ الحاقی بھی ہے اور پھر آخر یہ کہ تعلیم اُدھوری اور باقص اور نا معقول ہے اور اُسے پیش کیا جاتا ہے کہ نجات کا اصلی ذریعہ یہی ہے۔
الوہیّت مسیح
معجزات کا تو یہ حال ہے، پیشگوئیوں کا یہ حال ہے کہ ایسی پیشگوئیاں ہر مدّبر شخص تو درکنار عام لوگ بھی کر سکتے ہیں کہ لڑائیاں ہوںگی۔قحط پڑیں گے۔ مرغ بانگ دے گا۔ ان پیشگوئیوں پر نظر کرو تو بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ ان کو یہودی خدائی کا ثبوت کب تسلیم کرسکتے تھے۔ خدائی کے لیے تووہ جبروت اور جلال چاہیے جو خدا کے حسب حال ہے۔ لیکن یسوع اپنی عاجزی اور ناتوانی میں ضرب المثل ہے۔ یہنتک کہ ووائی پرندوں اور لومڑیوں سے بھی ادنیٰ درجہ پر اپنے آپ کو رکھتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ کس بناء پر اس کی خدائی تسلیم کی جاوے۔ کس کس بات کو پیش کیا جاوے۔ ایک صلیب ہی ایسی چیز ہے جو ساری خدائی اور نبوت پر پابی پھیردیتی ہے کہ جب مصلوب ہو کر ملعون ہو گیا تو کاذب ہونے میں کیا ماقی رہا۔ یہودی مجبور تھے۔ ان کی کتابوں میں کاذب کا یہ نشان تھا۔ اب وہ صادق کیونکر تسلیم کرتے؟ جو خود خدا سے دور ہو گیا وہ اوروں کے گناہ کیا اٹھائے گا۔ عیسائیوں کی اس خوش اعتقادی پر سخت افسوس آتا ہے کہ جب دل ہی ناپاک ہو گیا تو اور کیا باقی رہا۔ وہ دوسروں کو کیا بچائیگا ۔اگر کچھ بھی شرم ہوتی اور عقل و فکر سے کام لیتے تو مصلوب اور ملعون کے عقیدے کو پیش کرتے ہوئے یسوع کی خدائی کا اقرار کرنے سے اُن کو موت آجاتی۔ اب کسرِصلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہو گیا ہے۔ جس طرح پر چور پکڑا جاتا ہے تو اوّل اوّل وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں اور عورتوں بچوھ کی شہادت بھی کافی ہو جاتی ہے۔ کچھ کچھ مال بھی بر آمد ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس کو باحیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے۔ اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے۔ صلیب پر مرنا یسوع کو کاذب ٹھہراتا ہے۔ *** دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے۔ اور اپنا قول کہ یونسؑ کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا۔ باقی معجزات کو رد کرتا اور صلیب پر مرنے سے بچنے کو معجزہ ٹھہراتا ہے۔ عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے۔ یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جو ریت پر بنائی گئے تھی بالکل خاک سے ملا دیںاور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل توڑ ڈالا۔ مرہم عیسیٰ اس کے لیے بطور شاہد ہو گئی۔ غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانشمند سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں، تو اُسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیحؑ صلیب پر نہیں مرا۔ اس لیا کفّارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے، مالکل ماطل ہے۔
مسیح موعود کی بعثت کی غرض
پس یاد رکھو کہ یہ وہ حقائق ہیں جو اس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسیح موعودؑ پر کھولے ہیں۔ میں پکار کر کہتا ہوں کہ اب خدا کا وقت آگیا ہے۔ جو کچھ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا تھا۔ اُس کے پورا ہونے کا وقت آپہنچا کہ مسیح موعود صلیب کو توڑے گا۔ اس سے یہ مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ تھی کہ وہ صلیبیں توڑتا پھرے گا۔ کیونکہ اگر صلیب توڑنے ہی سے کوئی مسیح موعود ہو سکتا ہے تو پھر صلاحؔالدین اور حضرت عمر ؓ کے وقت میں بہت سی صلیبیں توڑی گئی تھیں۔ علاوہ بریں صلیب کے اس طرح پر توڑنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ اگر ایک لکڑی کی صلیب توڑی جاوے تو دس اور بن سکتی ہیں۔ چاندی سونے کی بن جاتی ہیں۔ مگر نہیں اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود کے لیے جو کسر صلیب مقرر کیا، تو اس سے یہ ہر گز مراد نہیں تھی کہ ان صلیبوں کو توڑتا پھرے گا۔ کیونکہ اس سے ظالم ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ پس جو لوگ یہ اعتقاد کرتے ہیں، وہ دین کو بدنام کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اس جسمانی جنگ سے بَری رکھا ہے اور اس کے لیے یہ مقرر کیا کہ یضع الحرب تا کہ اس دودھ میں مکھی نہ پڑ جاوے۔
مسیح موعود دنیا میں آیا تاکہ دین کے نام سے تلوار اُٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنی جج اور براہین سے ثابت کر دکھئے کہ اسلامؔ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہر گز مہتاج نہیں۔بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اُس کے حقائق و معارف و جج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلامؔ کے بزورِ شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں۔ اگر کسی کوشک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلامؔ اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے۔
مسیح مودعو د دنیا میں آیا تا کہ دینکے نام سے تلوا ر اٹھا نے خیا ل کو دو ر کر ے اور اپنی حجج اور برا ہین سے ثابت کر د کھا ئے کہ اسلا م ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشا عت میں تلوار کی مد د کا ہر گز محتا ج نہیں ۔
بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اُس کے حقائق اور معارف و حجج و برا ہین اور خدا تعالیٰ کی زند ہ تائیدات اور نشانات اور اس کاذاتی جذب ایسی ہی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہو ئی ہیں اس لیے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام ؔکے بزدر ِشمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں ۔اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کی لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں ۔اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کردیکھ لے کہ اسلام ؔاپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتاہے ۔
اب خداتعالیٰ چاہتاہے اور اس نے ارادہ فرمایاہے ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دور کردے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں ۔تلوار کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوںگے ۔یہ کہنا کہ سرحدی غازی آئے دن فساد کرتے ہیں ۔جہاد کے خیال سے یہ ایک بیہودہ بات ہے اوران مفسدوںکو غازی کہناسراسرنادانی اور جہالت ہے ۔ اگر کوئی جاہل مسلمان اُن کے ساتھ ذرا بھی ہمدردی رکھتاہے اس خیال سے کہ وہ جہاد کرتے ہیں ۔میںسچّ کہتاہوں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے جو مفسد کانام غازی رکھتا ہے اوراسلام کے بدنام کرنے والوں کی تعریف کرتاہے ۔
یہودیوںکے لیے خدانے جومسیح پیداکیا تھا اُس کی غرض بھی یہی تھی کہ یہودیوں کی اس آلائش کو دھوڈالاجائے جو جبر کے ساتھ اشاعت ِمذہب کو اُن سے منسوب کی گئی ۔اس طرح پر چودھویںصدی میں جو مسیح موعود خدااسلام کو دیا ہے، اس کی غرض اور مقصود بھی یہی ہے کہ اسلام کو اس عتراض سے صاف کرے کے اسلام کو جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے ، اس لیے اس کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا ۔
انگلستان اور فرانس اور دیگر ممالک یورپ میں یہ الزام بڑی سختی سے اسلام پر لگایا جاتاہے کہ وہ جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے ، مگر افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ نہیںدیکھتے کے اسلام لااکراہ فی الدین کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کیاوہ مذہب جو فت پاکر بھی گرجے نہ گرانے کاحکم دیتا ہے کیا وہ جبر کر سکتا ہے ،مگر اصل بات یہ ہے کہ ان ملاّنوںنے جواسلام کے نادان دوست ہیں یہ فساد ڈالا ہے ۔ اُنھوںنے خود اسلام کی حقیقت کو سمجھانہیں اور اپنے خیالی عقائد کی بناپر دوسروںکو اعتراض کاموقعہ دیا ۔جو کچھ عقائد ان احمقوںنے بنارکھے ہیں ۔ اُن سے نصاریٰ کو خوب مدد پہنچی ہے ۔اگر یہ لوگ جہاد کی صورت میںدھوکا نہ دیتے یا نہ کھاتے تو کسی کو اعتراض کا موقع ہی نہ مل سکتا تھا ، مگر اب خداتعالیٰ ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے پاک اور درخشاں چہرہ سے یہ سب گردو غبار دُور کرے اور اس کی خوبیوںاور حسن و جمال سے دنیاکو اطلاع بخشے،چناچہ اسی غرض اور مقصد کے لیے اس وقت جب کے اسلام دشمن کے نرغے میں پھنساہو اتھا بیکس اوریتیم بچہّ کی طرح ہو رہاتھا اُس نے اپنا یہ سلس قائم کیا ہے اور مجھے بھیجاہے ۔تامیں عملی سچاّئیوں اور زندہ نشانات کے ساتھ اسلام کو غالب کروں ۔؎ٰ
؎ٰالحکم جلد۶ نمبر ۱۶ صفحہ۵۔۶پرچہ۳۰اپریل ۱۹۰۲؁ء
۲۷دسمبر ۱۹۰۱؁ء (بقیہ تقریر)
دَابَّۃُ الْاَرْض
ان لوگوںنے اپنی رائوں اور خیالوں کو داخل کر کے اصل امر کو بد نما بنانے کی کو شش کی ہے ، ان کی وہی مثال ہے مَا دَلّٰہُمْ عَلیٰ مَوْتِہٖ اِلَّادَآبَّۃ الْاَرْضِ ۔(سبا:۱۵)یعنی سیلمان کی موت پر دلالت کرنے والا کو ئی امر نہ تھا ۔ یہ ساری شرارت گویا دابتہ الارض کی تھی کہ اس نے عصاکھالیا اور وہ گر پڑا ۔خداتعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچّ ہے ۔یہ قصے ّاور داستانیں نہیں ہیں ۔بلکہ یہ حقائق اور معارف ہیں اسلا م راستی کاعصاتھا۔جو اپنے سہارے کھڑاتھا اور اس کے سامنے کوئی آریہ ہندوعیسائی دَم نہ مارسکتاتھا ،لیکن جب سے یہ دابتہ الارض پیداہوئے اور اُنھوںنے قرآن کو چھوڑکر موضوع روایتوں پر اپنا انحصار رکھا ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے شروع ہوگئے دابتہ الارض کے معنے اصل میں یہ ہیں کہ ایک دیمک ہوتی ہے جس میںکوئی خیر نہیں جو لکڑی اور مٹی وغیرہ کو کھاجاتی ہے ۔اس میںفنا کامادہ ہے اور اچھی چیز کو فناکرنا چاہتی ہے ۔اس میںآتشی مادہ ہے
اب اس کا مطلب یہ ہے کے دابۃ الارض اِس وقت کے علماء ہیں جو جھوٹے معنے کرتے ہیں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں ۔جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کو حد سے بڑھاتے ہیں اوراُنکو خداتعالیٰ کی صفات سے مُتّصف قرار دیتے ہیں ۔جبکہ اُن کو مُحی اور شافی ۔عالم الغیب ۔غیر متغیر وغیرہ مانتے ہیں اور ایساہی اسلام ؔپر یہ جھوٹاالزام لگاتے ہیں کہ وہ تلوار کہ بدوںنہیںپھیلا۔بھوپال کے ایک مُلّابشیر نے مجھے دّجال کہا ،حالانکہ یہ لوگ خود دّجال ہیںجو مجھے کہتے ہیں۔کیونکہ وہ حق کو چھپاتے ہیں اور اسلام کو بد نام کرتے ہیں ۔غرض عصائے اسلام جس کے ساتھ اسلام کی شوکت اور رعب تھا اورجس کے ساتھ اَمن اور سلامتی تھی اس دابتہ الارض نے گرادیا ۔ پس جیسے وہ دابتہ الا ر ض تھا ۔یہ اس سے بد تر ہیں۔۱؎ اس سے تو صرف ملک میں فتنہ پڑاتھا مگران سے دین میںفسا د پیدا ہوا اور ایک لا کھ سے زائد لو گ مر تد ہو گئے ۔ایک وہ وقت تھا کہ ایک مرتد ہو جا تا ، اتو گو یا قیا مت آجا تی تھی یا اب یہ حا ل ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ مرتدہوگیااور کسی کو خیال بھی نہیںکہ کئی کروڑ کتابیں اسلام کہ خلاف نبی کریم ﷺکی توہین اور ہجو میں لکھی گئی ہیں۔ لیکن کسی کو خبر تک بھی نہیں کہ کیا ہو رہاہے اپنے عیش وعشرت میں مشغول ہیں او ردین کو ایک ایسی چیز قراردے دیاہے جس کانام بھی مہذّب سو سائٹی میں لیاجاناگناہ سمجھا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام پرجو اعتراض طبعی فلسفہ کے رنگ میں کیے جاتے ہیں اُن کاجواب یہ لوگ نہیں دے سکتے اور کچھ بھی بتانہیں سکتے ،حالانکہ اسلام پر جو اعتراض عیسائی کرتے ہیں ۔وہ خود ان کے اپنے مذہب پر ہوتے ہوتے ہیں سب سے بڑااعتراض جہاد پر کیا جاتاہے ۔لیکن جب غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہو جاتاہے کہ یہ اعتراض خودعیسائیوںکے مسلّمات پر پڑتے ہیں۔اسلام نے جہاد کو اُٹھایا اسلام پر اعتراض نہیں ۔ ہاںوہ اپنے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لڑائیو ں کاکوئی جواب نہیںدے سکتے اور خود عیسائیوںجو مذہبی لڑائیاں ہوتی ہیں ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ کو قتل کیا ۔ آگ میںجلایا اوردوسری قوموں پر جوظلم وستم کیا ۔جیساکہ سپین میں ہو ا۔اس کا کوئی جواب ان عیسائیوںکہ پاس نہیںہے اور قیامت تک یہ اس کا جواب نہیںدے سکتے ۔
یہ بات بہت درست ہے کہ اسلام اپنی ذات میں کامل ہے ،بے عیب اورپاک مذہب ہے ۔لیکن نادان دوست اچھّانہیںہوتا ۔اس دابتہ الارض نے نادان دوست بن کر اسلام کو جو صدمہ اورنقصان پنہچایاہے ۔اس کی تلافی بہت ہی مشکل ہے ،لیکن اب خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کے اسلام کا نور ظاہر ہوااور دنیاکو معلوم ہوجاوے کہ سچّااورکامل مذہب جو انسان کی نجات کامتکفّل ہے ۔ وہ صرف اسلام ہے اس لیے خداتعالیٰ نے فرمایا:
بخرام کہ وقت ِتونزدیک رسیدو پائے مُحمد یاں بَر منار بلند تر مُحکم اُفتاد
لیکن ان ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خداتعالیٰ کے سلسلہ کی قدر نہیں کی ۔بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ نور نہ چمکے یہ اس کو چھپانے کی کوشش ہیں ۔مگر وہ یاد رکھیں کے خداتعالیٰ وعدہ کر چکاہے ۔
واللہ متم نورہ و لوکرہ الکافرون (الصّف :۹ )
گالیوںکاجواب گالیوں سے نہ دیں
یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ،لیکن میں ان کی گالیوںکی پروا نہیں کرتا اور نہ اُن پر افسوس کرتاہوں ،کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آگئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرد مائیگی کو بجز اس کینہیںچھپاسکتے کہ گالیاںدیں ،کفر کے فتوے لگائیں ،جھوٹے مقدمے بنائیں اور قسم قسم کے اِفتراء اور بہتان لگائیں ۔وہ اپنی ساری طاقتوںکو کام لاکرمیرامقابلہ کر لیں اور دیکھ لیںکے آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتاہے۔میںاگر ان کی گالیو ںکی اگر پرواکروںتو وہ اصل کام جو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے رہ جاتاہے ،اس لیے جہاںمیںان کی گالیوںکی پروا نہیںکرتا۔میںاپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کے اُن کو مناسب ہے کے اُن کی گالیاںسُن کر برداشت کریں ۔اور ہر گزہر گز گالی کاجواب گالی سے نہ دو ، کیونکہ اسطرح پر برکت جاتی رہتی ہے وہ صبر اور بر دا شت کا نمو نہ ظا ہر کر یں اور اپنے اخلا ق دکھا یں ۔ یقینا یاد رکھو کہ عقل اور جو ش میں خطر نا ک د شمنی ہے جب جوش اور غصہ آ تا ہے ، تو عقل قا ئم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبرکر تاہے اوربرد باری کا نمو نہ دکھا تا ہے اس کو ایک نور دیا جا تا ہے جس سے اس کی عقل وفکر کی قو تو ں میں ایک نئی رو شنی پیدا ہو جا تی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے غصہ اور جوش کی حا لت میں چو نکہ د ل و دما غ تاریک ہوتے ہیں ۔ اسلیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہو تی ہے۔
اسلا م کی قدر کرو
میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہو ں کہ اسلا م کی جو حالت اس وقت ہو رہی ہے اور یہ مختلف فرقہ بند یاں جو آئے دن ہوتی رہتی ہیں اور مخالف اس پر دلیر ہو رہے ہیں اور بیبا کی سے حملے اور اعترا ض کرتے ہیں یہ سب اسی دابتہ الارض کا فسا د ہے ۔انھو ںنے ہی عیسائیوں کو مد د دی ہے مگر اب خداکا شکر کرو کہ اس نے عین وقت پر دستگیر ی فرمائی ہے ۔اوراس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔اس لیے تم کو منا سب ہے کہ اس فضلکو جو تم کو دیا گیا ہے ۔ضائع نہ کرو اور ادب کی نگاہ سے دیکھو اور اس مد د اور نصرت کی جو تمھیں دی گئی ہے قدر کرو ۔یقینا یاد رکھو کہ خدا کی مد د بدوں اور اس کے بلائے بغیر کوئی شخص راستی سے اور پو ری قو ت سے ایک امر کو بیا ن نہیںکر سکتا ۔بغیراس کے دلا ئل ملتے ہی نہیں اور طرز بیا ن نہیں دیا جا تا اوریہ بھی خداکاخاص فضل ہوتا ہے کہ اس طرز بیان سے نیکی کی قوت رکھنے والے اُس شخص کو جو خداکی قوت اور طاقت پاکر روح القدس سے بھر کر بولتا ہے شناخت کر لیتے ہیں ۔پس تم پر یہ خدا تعالیٰ کابہت بڑااحسان ہے اس نے تمہیں یہ قوت عطا کی اور شناخت کی آنکھ دی ۔اگر وہ یہ فضل نہ کرتا ،تو جیسے اور لوگ پردوں میں ہیں اورگالیاںدیتے ہیں ، تم بھی اُن میں ہوتے جس چیز نے تم کوکھینچاہے وہ محض خداکافضل ہے ، جیسے میاں عبدالحق ؔ ہی کو دیکھو کہ خداکافضل ہی ان کی دستگیری نہ کرتاتو یہ کیونکہ اس عیش کی جگہ سے نکل سکتے تھے خصوصاًا یسی حالت میںکہ ان کے پاس کئی ناصح بھی جمع ہوئے اور اُنھوں نے منع بھی کیا قادیان ؔ مت جائو ۔ بلکہ ایک نے گالی بھی دی ۔حلانکہ کہ گالی دینا ان کے مذہب میں منع ہے اور عام طور پر تہذیب اور شائستگی کے بھی خلاف ہے ،لیکن ان تمام باتوںپر خداکا فضل غالب آگیا اور اُن کو کھنیچ لایا ۔ اُن کو بدی کے اسباب ہی میسر نہ آئے،ورنہ اگر یہ بیوی کر لیتے تو پھر ابتلا پیش آجاتا ۔ مگرخدانے ہر طرح سے بچایاخد اتعالیٰ کا متحدث نہیں ہوتا ۔جس پر وہ اپنا کرم کرتاہے اُسے ہر طرح سے بچالیا ۔یہ خیال مت کرو کہ ہم مسلمان ہیں ۔اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو اور اس کے اند ر فلاسفی ہے جو زبان سے کہہ دینے سے نہیں حاصل ہوتی ۔
اسلام کی حقیقت ؔ
اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصّرفات کے نیچے آجانے کا نام ہے اور اس کاخلاصہ خداکی سچّی اور کامل اطاعت ہے ۔مسلمان وہ ہے جو اپناسارا وجود خداتعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے بُدوں کسی امید پاداش کے۔
من اسلم وجہہ للّٰہ وہومحسن ( ٰالبقرہ ۱۳)۱؎
یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے وقف کر دے اور سپرد کردے اور اعتقادی ؔ اور عملی طور پر اس کا مقصو داور غرض اللہ تعالیٰ کی ہی رضا اورخوشنودی ہو اورتمام نیکیاں اور اعمال ِحسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقت اورمشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذّت اور حلاوت کی کشش ہو ۔جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت اسے تبدیل کردے ۔
حقیقی مسلمان اللہ تعالی سے پیار کرتاہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب ومولا پیداکرنے والا اورمحسن ہے ۔ اس لیے اُس کے آستانہ پرسر رکھ دیتاہے ۔سچّے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میںکچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ اور نہ آرام ہیں اور نہ لذّات ہیں تو وہ اپنے اعمالِ صالحہ اور محبت ِالہٰی کو ہر گزہرگز چھوڑنہیں سکتا ،کیونکہ اس کی عبادات اور خداتعالیٰ سے تعلق اور اُس کی فرمابرداری اور اطاعت میں فناکسی پاداش یااجر کی بناء اورا میدپر نہیںہے ۔بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتاہے کے وہ حقیقت میں خداتعالیٰ ہی کی شناخت اُس کی محبت اور اطاعت کے لیے بنائی گئی ہے اور کوئی غرض اور مقصد اُس کا ہے ہی نہیں اس لیے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میںصرف کرتاہے تو اس کو اپنے محبوبِ حقیقی
؎ٰ : الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ صفحہ ۵۔۶مورخہ ۱۰ مِئی ۱۹۰۲؁ء
ہی کا چہرہ نظر آتا ہے بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاًنظرنہیں ہوتی میں کہتاہو ں کہ اگر مجھے ا س امر کایقین دلایا جاوے کے خداتعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو میں قسم کھاکر کہتا ہو ں میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے وہ ان تکلیفوں اور بلائو ں کو ایک لذّت اور محبت کے جو ش اور شوق کے ساتھ برادشت کرنے کوتیار ہے باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اوردکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خداکی اطاعت اورفرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لاانتہاموت سے بڑھ کر اور دکھوںاور مصائب کامجموعہ قراردیتی ہے ۔جیسے اگر کوئی بادشاہ عام علان کرائے کہ اگر کوئی ماںاپنے بچّے کو دودھ نہ دے گی ۔تو بادشا ہ اس سے خوش ہوکر انعام دیگا ۔توایک ماں کبھی گوارانہیں سکتی کہ وہ اس ا نعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچّے کو ہلاک کرے ۔اسی طرح ایک سچّامسلمان خداکے حکم سے باہر ہونا اپنے لیے ہلاکت کا موجب سمجھتاہے ۔خود اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اورآرا م کا وعدہ دیاجاوے۔
پس حقیقی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے کہ خداتعالیٰ کی محبت اوراطاعت کسی جزااورسزا کے خوف اور امید کی بناپر نہ ہو بلکہ فطرت کاطبی خاصہ اور جزو ہوکر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لیے ایک بہشت پیداکردیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے ۔کوئی آدمی بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔جبتک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے اس لیے میںتم کو جو میرے ساتھ تعلق ہو ۔اسی راہ سے داخل ہو نے کی تعلیم دیتا ہوں ۔ کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے ۔
مہدی کا زمانہ ۔ ایک عظیم الشان جمعہ
خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے ،جس کا نام اسلام ؔرکھا ہے ۔پھر نعمت میںجمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتما مِ نعمت ہوا ۔یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر اتمامِ نعمت جو
یظہرہ علے الدین کلہ(الصف:۱۰)
کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا۔ وہ جمعہ اب آگیا ہے ۔کیو نکہ خدا تعا لیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعو د کے سا تھ مخصو ص رکھا ہے اس لیے کہ اتما م ِ نعمت کی صو رتیں دراصل دو ہیں اول تکمیل ہدا یت ۔دوم تکمیل اشاعت ہدایت ۔اب تم غورکر کے دیکھو ۔تکمیل ہدایت تو آنحضرتﷺ کے زمانہ میںکامل طو ر پر ہو چکی ،لیکن اللہ تعا لیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدا یت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہو ر فرما دیںاور وہ زمانہ مسیح مو عو د اور مہدی کا زمانہ ہے ۔
‏Amira
یہی وجہ کہ لیظھرہ علی الدین کلہ (الصف : ۱۰) اس شان میں فرمایا گیا ہے۔تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے۔ در حقیقت اظہارُ دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعتِ مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے؛ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے۔ ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دئیے گئے ہیں۔ غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لیظھرہ علی الدین کلہ کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی(المائدہ : ۴)
کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعتِ ہدائت کی صورت میں دوبارہ اتمامِ تعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں واخرین منہم لما یلحقو ابھم (الجمعۃ : ۴)کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے۔ اتمامِ نعمت کا وقت آپہنچا ہے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں، مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائیگا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دیگا کہ اس کا نزیر سچا ہے۔
ٔجماعت کو نصیحت
میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے سعا دت مندوں کے لیے پییدا کردی ہے ۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے۔ اس بات پر ہر گز ہر گز مغرور نہ ہو جائو کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تربہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچا نے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آپہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمھیں سیراب کرے، کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ میں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا، کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے نچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کیے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا۔
توحید
اپنے خدا کو وحدہٗ لا سریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اشھد ان لاالہ الا اﷲ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اﷲ کے سوا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے مشرک بُت پرستوں کو سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے، تو ہر گز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تباہی اور مصیبت آئی اور اُن کی روح مجزوم ہو کر ہلاک ہو گئی ؎ٰ۔
ایسا ہی فرمایا
قل ھواﷲ احد۔اﷲالصمد۔لم یلدولم یولد ولم یکن لہ کفوااحد۔(اخلاص : ۲تا۵)
یعنی کہہ دو کہ وہ خدا ایک ہے۔ ھو خدا کا نام ہے۔ وہ ایک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔نہ کھانے پینے کی اس کو ضرورت نہ زمان یا مکان کی حاجت نہ کسی کا باپ نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر۔اور بے تغیر ہے۔ یہ چھوٹی سی سورت قرآن شریف کی ہے جو ایک سطرمیں آجاتی ہے، لیکن دیکھو کس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہر قسم کے شرک سے اﷲ تعالیٰ کی تنزیہہ کی گئی ہے۔
حصر عقلی میں شرک کے جس قدر قسم ہو سکتے ہیں اُن سے اُس کو پاک بیان کیا ہے۔ جو چیز آسمان اور زمین کے اندر ہے۔وہ ایک تغیر کے نیچے ہے، مگر خدا تعالیٰ نہیں ہے۔ اب یہ کیسی صاف اور ثابت شدہ صداقت ہے۔ دماغ اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ نورِ قلب جس کی شریعت دل میں ہے۔ اس پر شہادت دیتا ہے۔ قانونِ قدرت اسی کا مویّد ومصدّق ہے۔ یہنتک کہ ایک ایک پتہ اس پر گواہی دیتا ہے۔ پس اس کو شناخت کرنا ہی عظیم الشان بات ہے ۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ ثھوٹی سی سورت نازل کی یہ ایسی ہے کہ اگر توریت کے سارے دفتر کی بجائے اُس میں اسی قدر ہوتا تو یہود تباہ نہ ہوتے اور انجیل کے انتے بڑے مجموعہ کو چھوڑ کر اگر یہی تعلیم اُن کو دی جاتی تو آج دنیا کا ایک بڑا حصہ ایک مردہ پرست قوم نہ بن جاتا۔
مگر یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ جس پہلو سے دیکھو۔ مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے۔ مسلمانوں کا خداپتھرؔ، درختؔ،حیوانؔ، ستارہؔ، یا کوئی مردہؔ انسان ہے، بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے پیدا کیا اور حییّ وقیوم ہے۔
مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے۔ آپؐ کی رسالت مردہ رسالت نہیں، بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہرزمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں۔
چنانچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اُس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کل دنیا کے لیے ہے۔
قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (ال اعراف : ۱۵۹)
اور پھر فرمایا۔
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین (الانبیاء : ۱۰۸)
کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ
لا ریب فیہ (البقرہ : ۳) اور فیھا کتب قیمۃ (البینۃ : ۴) اور ایات محکمت۔قول فصل۔میزان۔مھیمن۔
غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لیے
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمت ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ : ۴)
کی مہر لگ چکی ہے۔ پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضاء الٰہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لیے قائم کیا تو اکثر انکار کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور لست مرسلا اور لست مؤ منا کی آوازیں بلند کرنے لگے۔
یاد رکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ توحید اعلیٰ درجہ کی جز ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہیے، مگر توحید کی تکمیل کے لیے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت الٰہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا۔
قراآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدّعایہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہٗ لا شریک ہے، ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور کل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہے ہے؛ چنانچہ لاالہ الا اﷲ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔ یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اسد کی مانند ساری توراتؔ اور انجیل میں نہیں اور دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے۔
الٰہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے۔ گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے۔ یاد رکھو کہ جو توحید بِدُوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادُھوری ہے۔
محبتِ الٰہی اور اپنی جماعت کو نصائح
خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین۔جودو۔اپنی اولاد۔اپنے نفس۔غرض ہر چیز پر اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے؛ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔
فاذکرواﷲکذکرکم ابا ء کم اواشد ذکرا (البقرہ : ۲۰۱)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو، بلکہ اس سی بھی زیادہ اور مسخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لیے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی مخبت ہوئی، تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لیے اواشد ذکرا رکھ دیا۔ اور اگر اواشدذکرا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا، مگر اب اس نے اُس کو حل کردیا۔ جو کہتے ہیں وہ کیسے گرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اُٹھے۔
بعض الفاظ ابتلا کے لیے ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو نصاریٰ کا انتلا منظور تھا۔اس لیے اُن کی کتابوں میں انبیاء کی یہ اصطلاح ٹھہر گئی، مگر چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے اس لیے پہلے ہی سے لفظ اب کو کثیر الاستعمال کر دیا۔مگر نصاریٰ کی بدقسمتی کہ جب مسیح نے یہ لفظ بولا تو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا اور دھوکا کھا لیاب حالانکہ مسیح نے یہ کہہ کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ تم الٰہ ہو اس شرک کو مٹانا چاہا، مگر نادانوں نے پروا نہ کی۔ اور اُن کی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی اُن کو ابن اﷲ قرار دے ہی لیا۔
یہودیوں کو بھٰ اس قسم کا ابتلا آیا۔ چونکہ موذی قوم تھٰ۔ اُن کی درخواست پر منّ وسلویٰ نازل ہوا۔ کیونکہ یہ طاعون پیدا کرنے کا مقدّمہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ وہ حد سے نکل جائیں گے اور اُن کی سزا طاعون تھی۔ اس لیے پہلے سے وہ اسباب رکھ دیئے۔
میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں کہ اصل توحید کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو۔ اور یہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جبتک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے، تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے۔ مگر مصیبت اور دقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے، تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہرسکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اُس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں، بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میرے غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔ اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس ثشمہ کے نزدیک نہیں آتا۔ جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقینا بے نصیب رہتا ہے۔اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمئہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جبتک خدا تعالیٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کرلے کہ خواہ دنیا کی وجاگت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ:
ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو
تم اُن راہوں سے آئو۔ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔ لیکن اُن سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرناچاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے، پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو پھینک دے۔تم یقینا یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھاسکتا اور نہ کوئی اُس ے فریب دے سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔
تم پر خدا تعالیٰ کی حجت سب سے بڑھ کر پوری ہوئی ہے۔ تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ہے۔ پس تم خدا تعالیٰ کے الزام کے نیچے ہو، اس لیے ضروری ہے کہ تقویٰ اور خشیت تم میں سب سے زیادہ پیدا ہو۔
ذوالقرنین
خدا تعالیٰ نے قراآن شریف میں مختلف طریقوں اور پہلوئوں سے اس سلسلہ کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور بتایا ہے یہانتک کہ ہر ایک قصہ میں اسکی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ذوالقرنین کا قصہ ہے اس میں اس کی پیشگوئی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنیں مغرب کی طرف گیا تو اُسے آفتاب غروب ہوتا نظر آیا۔ یعنی تاریکی پائی اور ایک گدلاچشمہ اس نے دیکھا۔ وہاں پر ایک قوم تھی۔ پھر مشرق کی طرف چلتا ہے تو دیکھا کہ اسیک ایسی قوم ہے جو کسی اوٹ میں نہیں اور وہ دھوپ میں جلتی ہے۔ تیسری قوم ملی جس نے یاجوج ماجوج سے بچائو کی درخواست کی۔ اب یہ بظاہر تو قصہ ہے، لیکن حقیقت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس زمانہ سے متعلق ہے۔ خدا تعالیٰ نے بعض حقائق تو کھول دیئے ہیں اور بعض مخفی رکھے ہیں۔ اس لیے کہ انسان اپنے قویٰ سے کام لے۔ اگر انسان نرے منقولات سے کام لے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا۔ ذوالقرنین اس لیا نام رکھا کہ وہ دو صدیوں کو پائے گا۔ اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو بھی جمع کر دیا ہے کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دو صدیوں کا صاحب ہو جاوے۔
ہندوئوں کی صدی بھٰ پائی اور عیسائیوں کی بھٰ۔ مفتی صاحب نے تو کوئی ۱۶ یا ۱۷ صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں۔
غرض ذوالقرنین کے معنے ہیں دو صدیاں پانے والا۔ اب خدا تعالیٰ نے اس کے لیے نین قوموں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی قوم جو مغرب میں ہے اور آفتاب وہاں غروب ہوتا ہے اور وہ تاریکی کا چشمہ ہے۔ یہ عیسائیوں کی قوم ہے۔ جس کا آفتابِ صداقت غروب ہو گیا اور آسمانی حق اور نور ان کے پاس نہیں رہا۔
دوسری قوم اس کے مقابل میں وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے، مگر آفتاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ یہ مسلمانوں کی قوم ہے، جن کے پاس آفتابِ صداقت قرآن شریف اس وقت موجود ہے۔ مگر دابتہ الارض نے اُن کو بے خبر بنادیا ہے ۔اور وہ اس سے اُن فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے بجز جلنے اور دکھ اٹھانے کے جو ظاہر پرستی کی وجہ سے اُن پر آیا۔ پس یہ قوم اس طرح پر بے نصیب ہو گئی۔ اب ایک تیسری قوم ہے جس نو ذوالقرنین سے اِلتماس کی کہ یا جوج ماجوج کے درے بند کر دے تاکہ وہ اُن کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں۔
وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا۔ خدا تعالیٰ کی تائیدات سے میں ان حملوں سے اپنی قوم کو محفو ظ کر رہا ہوں، جو یاجوج ماجوج کر رہے ہیں۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ تم کو تیار کر رہا ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو اور پنی سچائی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرو۔ تاکہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو اور تاریکی کے چشمہ کے پاس جانے والے نہ ٹھہرو اور نہ تم اُن لوگوں سے بنو جنہوں نے آفتاب سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ پس تم پورا فائدہ حاصل کرو اور پاک چشمہ سے پانی پیو تا خدا تم پر رحم کرے۔
بد قسمت انسا ن
وہ انسا ن بد قسمت ہو تا ہے جو خدا تعا لیٰ کے وعدو ں پر ایما ن لا کر وفا دا ر ی اور صبر کے سا تھ ان کا انتظا ر نہیں کر تا اور شیطا ن کے وعدو ں کو یقینی سمجھ بیٹھتا ہے، اس لیے کبھی بے دل نہ ہو جا ؤ اور تنگی اور عسر کی حا لت مین گھبراؤ نہیں خداتعالیٰ خود رزق کے معا ملہ میں فر ما تا ہے
و فی السماء رزقکم وماتو عدو ن(الذار یا ت:۲۳)
انسان جب خدا کو چھوڑتا ہے تو اپھر شیطا ن کا غلا م بن جاتا ہے ۔ وہ انسا ن بہت ہی بڑی ذمہ داری کے نیچے ہو تا ہے جو خدا تعالیٰ کی آیا ت اور نشانا ت کو دیکھ چکا ہو ۔پس کیا تم میں سے کو ئی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کو ئی نشا ن نہیں دیکھا ۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ لاکھوںکروڑوں انسان انکے گواہ ہیں ۔جو ان نشانو ں کی قدر نہیں کر تااور ان کو حقارت کی نگاہ سے د یکھتا ہے ،وہ اپنی جا ن پر ظلم کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ اسکو دشمن سے پہلے ہلا ک کرے گا ۔کیو نکہ وہ شد ید العقاب بھی ہے جو اپنے آپ کو درست نہیں کرتا وہ نہ صر ف اپنی جا ن پر ظلم کر تا ہے ۔ بلکہ اپنے بیوی بچو ں پر بھی ظلم کرتا ہے کیو نکہ جب وہ خو د تبا ہ ہو جا وے گا تو اس کے بیوی بچے بھی ہلا ک اور خوا ر ہوں گے ۔خداتعالیٰ اس کی طر ف اشا رہ کرکے فر ما تا ہے
ولایخاف عقبھا(الشمس:۱۶)
مرد چونکہ
الرجال قوامون علی النساء (النساء :۳۵)
کامصداق ہے ،اس لیے اگر وہ *** لیتاہے تو وہ *** بیوی بچّوںکو بھی دیتاہے اگر برکت پاتاہے تو ہمسائیوں اور شہروالوں تک بھی دیتاہے ۔اس وقت کل ملک میں طاعون کی آگ لگ رہی ہے ۔ وہ لوگ غلطی کررہے ہیں ، جو اس کو ملعون کہتے ہیں ،یہ خداتعالیٰ کاایک فرشتہ ہے جو اس وقت ایک خاص کام کے لیے مامور کیاگیا ہے۔اس کاعلاج خداتعالیٰ نے مجھے یہی بتایاہے ۔
ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر واما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
یہ طاعون بدکاریوں اور فسق وفجور اور میرے انکار اورستہزاء کانتیجہ ہے اوریہ رک نہیںسکتا جب تک لوگ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی نہ کریں اورسبّ شتم سے زبان کو نہ روکیں۔پھرفرماتاہے :
انہ ادی القریۃ۔
اس گائوںکو پریشانی اورنتشار سے حفاظت میںلے لیا ۔کیا اس گائوںمیں ہر قسم کے لوگ چوہڑے ،چمار ،دہریہ ّاور شراب پینے والے اور بیچنے والے اور اور قسم کے لوگ نہیںرہتے ۔مگر خدانے میرے وجود کے باعث سارے گائوںکو اپنی تباہی میںلے لیا اور اس افراتفری اور موت الکلاب سے اُسے محفوظ رکھا جو دوسرے شہروںاور قصبوںمیں ہوتی ہے ۔غرض یہ خداتعالیٰ کے نشان ہیں ، ان کو عزت اورعبرت کی نگاہ سے دیکھو اور اپنی ساری قوتوںکو خداتعالیٰ کی مرضی کے نیچے استعمال کرو ۔ توبہ اور استغفار کرتے رہو خداتعالیٰ اپنا تم پر فضل کرے۔
۲۸دسمبر ۱۹۰۱؁ء
مُرشد اور ُمرید کے تعلقات
مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اُٹھاتاہے ۔اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن اگر شاگرد اُستاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اُٹھاسکتا ۔ یہی حال مرید کاہے پس اس سلسہ میںتعلق پیداکر کے اپنی معرفت اور علم ک وبڑھاناچاہئیے ۔طالب ِحق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہر گز ٹھہرنا نہیں چاہئیے ، ورنہ شیطان لعین او رطرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیداہو جاتی ہے ۔اس طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لیے سعی نہ کر ے ،تو وہ گر جاتاہے ، پس سعادت مند کا فرض ہے وہ طلب دین میںلگارہے ۔ ہمارے نبی کریم ﷺسے بڑھ کر کو ئی
انسان کامل دنیا میںنہیںگزرا۔ لیکن آپ کو بھی
رب ذدنی علما(طہ: ۱۱۵)
کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی ۔ اور پھر کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کہ ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے ، جوںجوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اُسے معلو م ہوتاجاوے گا کے ابھی بہت سی باتیںحل طلب باقی ہیں بعض امور کو ابتدائی نگاہ میں (اس بچے کی طرح جو اقلید س کی اشکال کو محض بیہودہ سمجھتاہے )بالکل بیہودہ سمجھتے ہیں ، لیکن آخروہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لیے کس قدر ضروری ہے کے اپنی حیثت کو بدلنے کے ساتھ علم کو بڑھانے کے لیے ہر بات کو تکمیل کی جاوے ،تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑکر اس سلسہ کو قبول کیا ۔اگر تم اسکی بابت پُورا علم اوربصیرت حاصل نہ کرو گے ، تو اس سے تمھیں کیا فائدہ ہو اتمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی ۔ذراذراسی بات پر شکوک وشبہات پیداہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگاجانے کا خطرہ ہے ۔
دین کو ہر حال میں دُنیا پر مقدم کرنا چاہیے
دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک تو وہ جو اسلام ؔ قبول کرکے دنیا کے کاروبا ر اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہے۔شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے ۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے ۔ نہیں صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے ، مگر وہ دین کو دنیاپر مقدم رکھتے تھے ، انہوں نے اسلام ؔقبول کیاتو اسلام کے متعلق سچاعلم جو یقین سے اُن کے دلوں کو لبریز کر دے ۔ انھوں حاصل کیا ، یہی وجہ تھی کے وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔کوئی امر اُن کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا ۔
میر امطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہ وجاتے ہیں ۔ گویا دنیا کے پر ستار ہوجاتے ہیں ۔ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ او ر قابو پالیتا ہے ۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جودین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں ۔ یہ وہ گردوہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے ۔ اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے ۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتاہے ، اس لیے خداتعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ۔چناچہ فرمایا ہے ۔
ہل ادلکم علے تجارۃتنجیکم من عذاب الیم (الصف:۱۱)
سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے ، جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے ،پس میں بھی خداتعالیٰ کے ان ہی الفاظمیںتمہیں یہ کہتاہو ں کہ ۔
ھل ادلکم علے تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم ۔
میںزیادہ اُمید ان پر کرتاہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے ۔ جواس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو پالے ۔ اس لیے کبھی سست نہیںہونا چاہیے ۔ہر امر کو جو سمجھ میںنہ آئے پوچھناچاہیے تاکہ معرفت میں زیادت ہو ۔ پوچھناحرام نہیں بہ حیثیت انکار کے بھی پوچھناچاہیے اور عملی ترقی کے لیے بھی جو علمی ترقی چاہتاہے ۔ اس کو چاہیے کے قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کر لیں ۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے ۔۔
قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہاگوہر موجود ہیں ۔ جب تم کسی عیسائی سے ملو گے ، تو دیکھوگے کہ اُن میںنقالوں اور ٹھٹھے والوںکی طرح دیانت اور مفقود نظر آئے گی ۔ یوںتو ان میںسے بعض ایسے ہیں جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کے ترجمہ سے واقف ہیں ۔ مگر انھوں نے تو مشق تو کی ہے ۔ لیکن ان میں روحانیت نہیں ہے اور اس کاہمیںبارہاتجربہ ہو ا ہے جب ان کو بلایا گیا،تواُنھوں نے گریزکی ہے ۔اگر واقعی ان کی معرفت اور علم یقین کے درجہ تک پہنچاہواہے تو پھر یاوجہ ہے کہ وہ گریز کرتے ہیں ۔
لاہور کے بشپ کافرار
دیکھو لاہور کے بشپ صاحب نے لاہور میں بڑے اہم مضامین پر لیکچر دئیے اور اپنی قرآن دانی اور حدیث دانی کے ثبوت کے لیے بڑ ی کوشش کی ،لیکن اُسے ہم نے دعوت کی تو باجود یکہ پاپونیر ؔنے بھی اس کو شرمندگی دلائی ، مگر وہ صرف یہ کہہ کر ہمارادشمن ہے مقابلہ سے بھاگ گیا ۔ ہم کو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بشب صاحب تو مسیح کی تعلیم کا کامل نمونہ ہو نا چاہیے تھا ۔ اور اپنے دشمنو ں کو پیار کرو پر ان کا پورا عمل ہو تا اگر میں ان کا دشمن بھی ہو تا : حا لانکہ میں سچ کہتا ہوں ۔حدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نو ع انسان کا سب سے بڑھ کر خیر خوا ہ اور دو ست میں ہوں ۔ ہا ں یہ سچ ہے کہ میں ان تعلیمات کا دشمن ہو ں جو انسان کی رو حا نی دشمن ہیں اور اس کی نجا ت کی دشمن ہیں ۔غرض بشپ صا حب کو کئی بار اخباروں نے اس معا ملہ میںشرمندہ کیا ، مگر وہ سامنے نہ آئے ۔ عیسائیوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو سادہ دیکھتے ہیں تو چھوٹا ہے تو بیٹا بنا کر اور بڑا ہے تو با پ بنا کر اندر دا خل ہو تے ہیں۔اور دیکھتے ہیںکہ وہ اگر حالات سے واقف ہے تو پھر اس سے بغض کرتے ہیں اس لیے کہ جب خدا سے تعلق توڑبیٹھتے ہیں تو مخلوق سے سچی ہمدردی کیونکر پیدا ہو ، مگر ہماری جماعت خاص ہے اس کو عام مسلمانوںکی طرح نہ سمجھیں ۔
دَ ا بۃالارض
یہ مسلمان دابۃالارض ہیں اور اس لیے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتاہے ۔ جو زمینی باتیں کرتاہے وہ دابۃالارض ہے خداتعالیٰ نے ایساہی فرمایا تھا ۔ رُوحانی اُمور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میںمناسبت ہو ۔چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لیے اُنھوں نے عصائے دین کو کھالیا ۔جیسے سیلمان ؑکے عصاکو کھالیا تھا ۔ اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھاہے کہ جب جنّوں کو یہ پتہ لگا اُنھوں نے سر کشی اختیار کی ہے ۔ اسی طرح پر جب عیسائی قوم نے جب اسلام کی یہ حالت دیکھی ۔یعنی اس دابۃالارض نے عصائے رَستی کو کمزور کردیاتو ان قوموںکو اس پر وار کرنے کاموقع دیدیا ،جن وہ ہیں جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو حوّاسے آکر نحاش نے کیا تھا اس پیا ر کاانجام وہی ہونا چاہیے جو ابتدامیں ہوا۔آدم پر اس سے مصیبت آئی ۔ اُس وقت گویا وہ خداسے بڑھ کر خیر خواہ ہوگیا ۔ اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں، جو شیطان نے کی تھی،اس لیے قرآن شریف نے اوّل او ر آخر کو اس پر ختم کیا اس میں یہ سرِّتھاکہ تابتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والاہے قرآن شریف کے اوّل یعنی سورۃ فاتحہ کو
ولاالضالین
پر ختم کیا ۔ یہ امر تما م مفسر بلا تفا ق ما نتے ہیں کہ ضا لین سے عیسا ئی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے قل اعوذ برب س ۔مالک النا س الہ النا س۔من شرالو سوا سالخنا س۔الذی یو سوس فی صدورالناس۔من الجنۃ والنا س ۔(الناس:۲تا۷)
سورۃالناّس سے پہلے قل ھواللہ میں خداتعالیٰ کی تو حید بیا ن فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تر دید کی اس کے بعد سورۃالناّس کا بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کی طرف اشارہے ۔ پس آخری وصیت یہ کہ شیطان سے بچتے رہو ، یہ شیطان وہی نحاش جس کو اس سورۃمیں خنّاس کہا ، جس سے بچنے کی ہدایت کی ،اور یہ جو فرمایاکہ ربّ کی پناہ میں آئو ۔اس سے معلوم ہو اکہ یہ جسمانی اُمور نہیں ہیں ۔بلکہ روحانی ہیں خداکی معرفت اور معارف اور حقائق پر پکّے ہو جائو تو اس سے بچ جائو گے ۔اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے شیطان کی لڑائی خدااور اس کے فرشتوں سے آدم کے دساتھ ہو کر ہوتی ہے ۔ اور خداتعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کا پورے سامان کے ساتھ اُترے گا اور خدا کامسیح اس کا مقابلہ کرے گا ۔ یہ لفظ مثیح ہے جس کے معنی خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی حدیثوں میں مسیح لکھا ہے ، اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے ۔ غرض اس کے لیے مقدّر تھا اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزار کے آخر میں پیداہو کامیاب ہو ا ۔
سورۃالعصر میں دنیا کی تاریخ
سورۃالعصر میں دنیاکی تاریخ موجود ہے ،جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی اور یہ اصلی اور سچّی تاریخ ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کس قدر زمانہ گذراہے ، پس اس حساب سے اب ساتویں ہزار سے کچھ سال گذر گئے ہیں اورخاتم الخلفاء پر چھٹے ہزار کے آخر میں پیداہو ا تاکہ اوّل رابآخر نسبتے داردکامصداق ہو ۔آدم بھی چھٹے دن پیداہوا تھااللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتاہے اس چھ دن کے چھ ہزار ہوئے اور پھر آدم کی پیدائش چھٹے دن کے آخر میں ہوئی تھی اس لیے خاتم الخلفاء چھٹے ہزار کے آخر میں ہوااور ساتویں میں جنگ ہے ۔
حق اور باطل کی آخری جنگ
اس جنگ سے توپ وتفنگ کی لڑائی مراد نہیں بلکہ یہ عیسائیت اورالٰہی دین کی آخری جنگ ہے ۔ عیسائیت نیزمینی خدابنالیا ہے اور یہ وُہی خدا یا خیال خد اہے جیسے بہت سی عورتیں وہمی حمل رَجاَکر لیتی ہیں ۔یہاں تک کہ پیٹ میں وہمی طور پر حر کت معلوم ہوتی ہے اور پیٹ بڑھتابھی ہے ۔اس طرح پر فرضی مسیح بنالیا گیا ہے جسے خداسمجھاگیا ہے ۔غرض سچّے کے مقابل وہ کھڑاہے اب یہ لڑائی ان دونوں میں شروع ہے اور خدااس میں اپناچمکتاہوادکھلائے گا ۔
چالیس کروڑبھی سے بھی زائد انسان عیسائی ہوچکے ہیں جب اوّل ہی اوّل یہ لوگ آئے تومولوی ان کے حملوں اور اعتراضوںسے محض ناواقف تھے اُن کو پورا علم نہ اُن کے اعتراضو ں کا تھا اور نہ قرآن شریف کے حقائق سے ہی آگاہ تھے ، بر خلاف اس کے عیسائیوں کے پاس اقبال اور تالیف قلوب کے ذریعے تھے ،اس لیے اُن کی ترقی ہوتی گئی مگر اب اُن میں ایک بھی نہیں جو اس کے تنزل کو دیکھ سکے اب ان کا دور ختم ہونے والا ہے اور مختصر طور پر جعلی فرضی خد اکو سمجھ لیںگے اصل بات تو یہ ہے کہ عیسائیوں کا تاناباناآریہ سنائن سے بھی بودہ ہے ۔ کیونکہ اُنھوںنے ساری بنیاد حیات مسیح پر رکھی ہو ئی ہے اس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ساری عمارت گر جاتی ہے ۔ یہ بات اس زمانہ میں کہ وہ زندہ
آسمان پر گیا ہے،کوئی مان نہیں سکتا جبکہ دلائل قطعیتہ الدلالت کے ساتۃ ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تو لاش کے دھا دینے تک توبت پہنچ گئی ہے۔ کیونکہ(سرینگر) کشمیر میں اس کی قبر واقعاتِ صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئی ہے۔ ان ساری باتوں کے ہوتے ہوئے کون عقلمند یہ قبول کر سکتا ہے اور اِس کی موت دے ساتھ ہی صلیب۔ کفارہ۔ *** وغیرہ ساری باتیں علوم یقینیہ کی طرح غلط ثابت ہو جائیں گی۔ اِن ساری باتوں کے علاوہ یہ مذہب ایسا کمزور ہے کہ جو پہلو اس نے اختیار کیا ہے وہی بودا۔ایک *** ہی کے پہلو کو دیکھو۔ اگر اس پہلو کو اختیار نہ کرتے، تو بہتر تھا۔ کیونکہ جب یہ سچی بات ہے کہ *** کا تعلق دل سے ہے اور اس کا مھہوم یہ ہے کہ ملعون خدا کا اور خدا ملعون کا دشمن ہو جاوے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور وہ خدا سے برگشتہ ہو جاوے تو پھر کیا باقی رہا۔ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح کو شیطان لیے پھرا۔اگر جسمانی طور پر شیطان لیے پھرا ہوتا تو مسیح تماشہ دکھا سکتے تھے۔ اس کا کوئی معقول جواب تو نہیں دے سکے۔کسی یہودی کو شیطان کہہ دیا اور پھر تین مرتبہ شیطانی الہام ہوا۔ غرض اب عیسائی مذہب کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے۔
پس تم اپنی ہمت اور سر گرمی میں سُست نہ ہو۔ بہت سے مسلمان کہلا کر دوسرے امور میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ مگر تم خدا سے ڈرو اور سچی تبدیلی اور تقویٰ طہارت پیدا کرو۔ اس راہ میں سست ہوناشیطان کو نقب لگا کر ایمان کا مال لے جانے کا موقع دینا ہے۔
اس وقت وہی خدا جو آدم پر ظاہر ہوا تھا۔اور دوسرے نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے وہی مجھ پر ظاہر ہوا ہے۔ اس وقت خدا نے موقعہ دیا ہے کہ تم اپنے معلومات کو بڑھا سکو۔اس لیا جو ات سمجھ میں نہ آئے اُس کوفو راً پوچھ لینا چاہیے۔جو سمجھنے سے پہلے کہتا ہے کہ سمجھ لیا۔ اس کے دل پر ایک چھالا سا پڑ جاتا ہے۔ آخر وہ نا سور ہو کر بہہ نکلتا ہے۔ میں تھکتا نہیں ہوں، خواہ کوئی ایک سال تک پوچھتا رہے۔ پس اس موقع کی قدر کرو۔میری باتوں کو سنو اور سمجھو اور ان پر عمل کرو۔پھر خادم دین بنو۔ سچائی کو ظاہر کرو۔ خدا سے محبت کرنا اور مخلوق سے ہمدردی کرنا۔ یہ دونوں باتیں دین کی ہیں۔ ان پر عمل کرو؎ٰ۔
۸؍ جنوری ۱۹۰۲ء؁
ابتلاء اور ہم وغم کا فائدہ
فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا۔ مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب وغریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں۔ان میں سے ایک ہم و غم کی بھی حالت ہے۔ان اختلاف حالات اور تغیر وتبدیل اوقات سے اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے:
اگر دنیا بیک دستور ماندے
بسا اسرار ہا مستور ماندے
جن لوگوں کو کوئی ہم وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے ناواقف اور ناآشنا رہتے ہیں۔اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازم رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں۔اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے۔ سررشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو کسی لڑائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضاء جو حرکت کو چاہتے ہیں۔ اگر ان کو بالکل بیکار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے۔ بظاہر ورزش کرنے سے اعضاء کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پر ہماری فطرت کثھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیھ کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے۔ جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلائوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں۔ جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے، مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کی ابتلاء آویں۔اور تاکہ اﷲ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے۔
اﷲ تعلیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلاء نہیں آتا ان کا حال دیکھوکہ کیسا ہوتا ہے۔وہ بالکل دنیا اور اس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں اُن کا سر اوپر کی طرف نہیں اٹھتا۔ خدا تعالیٰ کا ان کوبھول کر بھی خیال نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں، کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لیے وہ راحت اور اطمینان کا سامان پیدا کرتے جو کسی مال و دولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں، لیکن جن پر اﷲ تعالیٰ کافضل ہوت اہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ان پر ابتلاء آتا ہے۔
جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلاء نہیں آیا، وہ بدقسمت ہیں۔وہ نازوتعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ان کی زبان ہے، مگر وہ حق بول نہیں سکتی۔ خدا کی حمد وثنا اس پر جاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف فسق وفجور کی باتیں کرنے کے لیے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے۔ ان کی آنکھیں ہیں، مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ وہ بدکاری کے لیے ہیں۔ پھر ان کی خوشی اور راحت کہاں سے میسر آتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ جس کو ہم وغم پہنچتا ہے۔ وہ بدقسمت ہے۔ نہیں۔ خدا اس کو پیار کرتا ہے۔ جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے۔ غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقع شدہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ یہ ثابت کرتے ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں۔ابتلائوں میں ہی دعائوں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعائوں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔
مجیب اور بولنے والا خدا صرف اسلامؔ پیش کرتا ہے
دنیا میں جس قدر قومیں ہیں۔ کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعائوں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعاکروں تو یہ مجھے جواب دیتاہے؟ ہر گز نہیں۔ کیاایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلامؔ کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جن سے کہا۔ ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو یاک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔ وہ مجاہدہ کرے اور دعائوں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعائوں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔
قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لیے جو گو سالہ پرستی کرتے ہیں اور گو سالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے۔ الایرجع الیھم قولا (طٰہٰ : ۹۰) کہ وہ اُن کی بات کا کوئی جواب اُن کو نہیں دیتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں۔ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعائوں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے، تو بتائو وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو۔ پھر اس کو بلا کر دکھائو۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں۔وہ یقینا کوئی جواب نہ دے گا، کیونکہ وہ مر گیا۔
عیسائیوں کو ملزم کرنے والا سوال
عیسائیوں کو ملزم کرنے کے واسطے اس سے بڑھ کر کوئے تیز ہتھیار نہیں ہے۔ ان سے پہلا سوال یہی ہونا چاہیے کہ کیا وہ ناطق خدا ہے یا غیر ناطق؟اگر غیر ناطق ہے تو اس کا گونگا ہونا ہی اُس کے ابطال کی دلیل ہے۔ لیکن اگر وہ ناطق ہ تو پھر اس کو ہمارے مقابل پر بلا کر دکھائو اور اس سے وہ بولیاں بلوائو جن سے سمجھاجاتا ہے کہ وہ انسان کی مقدرت اور طاقت سے باہر ہیں یعنی عظیم الشان پیشگوئیں اور آئندہ کی خبریں۔
مگر وہ پیشگوئیاں اس قسم کی ہی نہیں ہونی چاہئیں جو یسوع نے خود اپنی زندگی میں کی تھیں کہ مرغ بانگ دے گا۔ یا لڑائیاں ہوں گی۔ قحط پڑیں گے بلکہ ایسی پیشگوئیں جن میں قیافہ اور فراست کو دخل نہ ہو بلکہ وہ انسانی طاقت اور ھراست سے بالاتر ہوں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی پادری یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا کہ خدائے قادر کے مقابلہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان یسوع کی اقتداری پیشگوئیاں پیش کر سکے۔ غرض یہ مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کا خدا دعائوں کا سننے والا ہے۔
دُعاؤں کے نتائج میں تاخیر اورتو قّف کی وجہ
کبھی ایسا اتفا ق ہوتا ہے جہ ایک طالب علم نہا یت رقت اور درد کے سا تھ دعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقف واقع ہوتا ہے ۔اس کا سِرّ کیا ہوتا ہے ؟اس میںیہ نکتہ یاد رکھنے کے قا بل ہے کہ اول تو جس قد ر امور دنیا میں ہو تے ہیں ان میں ایک قسم کی تد ریج پا ئی جا تی ہے۔ دیکھو ایک بچّہ کو انسان بننے کے لیے کس قدر مراحلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں ۔ایک بیج کا درخت بننے کے لیے کس قدر توقّف ہوتاہے ۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے اُمور کا نفاذبھی تدریجاًہوتاہے ۔دوسرے اس توقّف میں یہ مصلحت الٰہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزم اور عقدِہمت میں پختہ ہوجاوے اورمعرفت میں استحکام اور رُسوخ ہو۔ یہ قائدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلٰی مراتب اور مدراج کو احاصل کرناچاہتا ہے اُسی قدر اس کو زیادہ محنت اور دقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہوتو انسان کامیابیوں کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا ۔اس لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے ۔
ان مع العسریسرا (الم نشرح:۷)
اسی لیے فرمایاہے کے ۔
دنیا میں کوئی کامیابی ایسی او رراحت ایسی نہیں ہے جس کی ابتداء اوراوّل میں کوئی رنج نہیں اور مشکل نہ ہو ۔ہمت کو نہ ہارنے والا مستقل مزاج فائدہ اُٹھالیتے ہیں اور کچّے اور ناواقف راستہ میں ہی تھک کر رہ جاتے ہیں پنجابی میں کسی نے کہا ہے ۔
ایہو ہیگی کیمیاجے دن تھوڑے ہو
پس جب خدا پر سچّا ایمان ہو کر وہ میری دُعاؤں ک وسننے والا ہے تو یہ ایمان مشکلات میں بھی ایک لذیذایمان ہو جاتاہے اور غم میں ایک اعلیٰ یاقوتی کاکام دیتاہے ۔ہموم وغموم کے وقت انسان کوئی پناہ نہ ہو تو دل کمزور ہو جاتاہے او رآخر وہ مایوس ہوکر ہلاک ہو جاتاہے اور خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتاہے ، بلکہ بہت سے ایسے بدقسمت یورپ کے ملکو ں میں خصوصاًپائے جاتے ہیں ۔جوذراسی نامرادی پر گوکی کھاکر مر جاتے ہیں ۔ ایسے کوگوں کاخود کشی کرنا خود اُن کے مذہب کی موت اورکمزوری کی دلیل ہے ۔ اگر اُس میں کوئی قوت اور طاقت ہوتی ہے اپنے ماننے والوں کو ایسی یاس اور نامرادی کی حالت میں نہ چھوڑتا۔ لیکن اگر خداتعالیٰ پر اُسے ایمان ہے او راس قادر کریم ہسی پر یقین رکھتاہے کہ وہ دُعائیں سُنتاہے ، تو اس کے دل میں ایک طاقت آتی ہے ۔
حقیقتِ دُعا
یہ دعائیں حقیقت میں بہت قابل قدر ہوتی ہیں اور دُعاؤں والا آخر کار کامیاب ہوجاتاہے ۔ہاں یہ نادانی اور سوء ادب ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ لڑناچاہے۔مثلاًیہ دُعاکرے کہ رات کے پہلے حصّہ میں سورج نکل آوے ۔اس قسم کی دُعائیں گستاخی میں داخل ہوتی ہیں وہ شخص نقصان اُٹھاتاہے اور ناکام رہتاہے جو گبھر انے والااور قبل ازوقت چاہنے ولاہو ۔ گر بیاہ کے دس دن بعد مرد عورت یہ خواہش کریں کہ اب بچّہ پیداہوجاوے ، تو یہ کیسی حماقت ہوگی ،اس وقت تو اسقاط کے خون اور چھچھڑوں سے بھی بے نصیب رہے گی ۔ اسی طرح جو سبزہ کو نمونہیں دیتاوہ دانپڑنے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔
میںنے ارادہ یہ کیاہواہے کہ ایک بار اورشرح وبسط کے ساتھ دُعاکے مضمون پر ایک رسالہ لکھوں۔مسلمان دُعاسے بالکل ناواقف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بد قسممتی سے ایسا موقعہ ملاکہ دعاکریں ، مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیااس لیے نامراد رہ کر سیّداحمدخانی مذہب اختیارکر لیادُعاکوئی چیزنہیں ۔یہ دھوکااور غلطی اس لیے لگتی ہے کہ وہ حقیقت ِدُعاسے محض ناواقف ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور پنی خیالی امیدوں کوپورانہ ہوتے دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں کے دُعاکوئی چیز نہیں اور اس سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں ۔
دُعاربوبیت اورعبودیت کاایک کامل رشتہ ہے ۔ گر دُعاؤں کااثر نہ ہوتاتو اس کاہونانہ ہونابرابر ہے۔ ۱؎
؎ٰالحکم جلد نمبر ۴۵صفحہ۱تا۳پرچہ۱۷دِسمبر ۱۹۰۲؁ء
۸جنوری ۱۹۰۲؁ء(بقیہ تقریر )
قبُولیّت دُعاہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل ہے
اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اُس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کے محوداثبات اُس کے ہاتھ میں ہے ۔
یمحواللہ مایشاء ویثبتت۔(الرعد:۴۰)
دیکھواجرام سمادی کتنے بڑے اور عظیم الشان نظر آتے ہیںاور ان کی عظمت کو دیکھ کر ہی بعض نادان اُن کی پرستش کی طرف جھک پڑتے ہیں او راُنھوں نے اُن میں صفات ِالٰہی کو مان لیا ہے ۔ جیسے ہندویا اور دوسرے بُت پرست یاآتش پرست وغیرہ جو سورج کی پوجاکرتے ہیں او راس کو اپنا معبود سمجھتے ہیں ۔کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیںکہ سورج اپنے اختیار سے چڑھتاہے یاچُھپتاہے ؟ہر گز نہیں اگر وہ کہیں بھی تووہ کیاثبوت دے سکتے ہیں ۔ وہ ذراسُورج کے سامنے یہ دُعاتو کریں ایک دن وہ نہ چڑھے یا دوپہر کو مثلاچُھپ جاوے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کوئی اختیار اور ارادہ بھی رکھتاہے ۔اس کا ٹھیک وقت پر طلو عاور غر وب تو صاف ظا ہر کرتا ہے کہ اس کااپناذاتی کوئی اختیار اور ارادہ نہیںہے ۔
ارادہ کا مالک تب ہی معلوم ہوتاہے کہ وہ دُعاقبول ہواور کرنیوالے امر کو کرے اور نہ کرنے والے نہ کرے ۔ غرض اگر قبولیت ِدُعانہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہو سکتے تھے اور ہوئے او ر حقیقت میںجو لوگ قبولیت دُعاکے قائل نہیں ہیں اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے ۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دُعااور اس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنم میں جاوے گا ، وہ خداہی کاقائل نہیں
اللہ تعالیٰ کی شناخت کایہی طریق ہے اس وقت تک دُعا کرتارہے جبتک خدااس کے دل میں یہ یقین نہ بھر دے او ر اناالحق کی آوازاس کو نہ اجاوے ۔
قبولیّت دُعاکے لیے صبر شرط ہے
اس میںشک نہیںاس مرحلے کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں ۔مگر ان سب کا علاج صبر سے ہوتاہے ،حافظ ؔنے اچھاکہا ہے ۔شعر
؎گویندسنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شوددلیک بخُونِ جگر شود
یادرکھوکوئی آدمی کبھی دُعاسے فیض نہیں اُٹھاسکتا ۔ جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دُعاؤںمیں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے ۔ اُس کو تمام قدرتو ں اور ارادوں کا مالک تصور کرو یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے ۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا ا و ر اسے جوا ب دے گا ۔جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں ‘ وہ کبھی بد نصیب اور مر ہو م نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں ۔ خدا تعا لیٰ کی قد رتیں اور طا قتیں بے شما ر ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لیے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چا ہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لیے بد ل دے ۔وہ گویا اللہ تعا لیٰ کی جنا ب میں گستا خی کر تا ہے اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے پھر یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں ایک دم میں سب کا م ہو جایئں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعا لیٰ کا کیا بگا ڑے گا ۔ اپنا ہی نقصا ن کرے گا ۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہا ں جائے گا
میں ان با تو ں کو نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہا نیاں ہیںکہ فلا ں فقیر نے پھو نک ما ر کر یہ بنا دیا وہ کر دیا ۔ یہ اللہ تعا لیٰ کی سنتااور قرآن شریف کے خلا ف ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔
ہر امر کے فیصلہ کے لیے معیا ر قرآن ہے ۔ دیکھو حضرت یعقو ب علیہ سلا م کا پیا را بیٹا یو سف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان کو الگ ہو گیا، آپ ؑ چالیس برس تک اس کے لیے دعا ئیں کرتے رہے۔اگر وہ جلد باز نہ ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا۔ چالیس برس تک دُعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا ۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دُعائیںکھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ یوسف کو بے فائدہ یاد کرتاہے ۔ مگر اُنھوں نے یہی کہاکہ میں خداسے وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ، بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا
انی لاجدریج یوسف (یوسف۹۵)
پہلے تو اتنا ہی معلوم تھاکہ دُعاؤں کاسلسلہ لمباہوگیاہے اگر اللہ تعالیٰ نے دُعاؤں میں محروم رکھناہوتاتو وہ جلد جواب دیتا،مگر اس سلسہ کو لمباہوناقبولیّت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھاکر کبھی محروم نہ کرتابلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسانہیں کرتا، وہ بھی سائل کو زیادہ دیر تک دروازے پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتاہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دُعاؤں کے زمانہ کی درازی پر ۔
وابیضت عینہ (یوسف ۸۵)
قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں۔ غرض دُعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چائیے ۔
اللہ تعالی ٰہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتاہے حضرت یقوب کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی ۔
مختصر یہ کہ دُعاکایہ اُصول ہے جو اس کو نہیں جانتاوہ خطرناک حالت میں پڑتاہے اور جو اس اُصول کو سمجھ لیتاہے اس کا انجام اچھااور مبارک ہوتاہے ۔
متقی کے لیے مصائب ترقی کا باعث ہوتے ہیں
اور جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتاہے تو۔ مگر مومن کے حق میںاس کی یہ عادت نہیں ہے ۔ اُن تکالیف کا انجام اچھاہوتاہے اور انجام کار متقی کے لیے ہی ہے ۔جیسے فرمایا:
العاقبۃالمتقین (القصص: ۸۳)
اُن کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں۔ وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتی ہیں تاکہ ان کا تجربہ ہو جاوے اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے اور یہ قائدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے شکنجہ کے دن آتے ہیں اس پر بہائمی زندگی کا اثر نہیںرہتا ۔ اس پر ایک موت ضرور آجاتی ہے اور خدا شناسی کے بعد وہ لذتیںاو رذوق بہائمی سیرت میں معلوم ہوتے تھے نہیں رہت ،بلکہ ان میں تلخی اور کدورت اور کراہت پیدا ہوتی ہے اور نیکیوں کی طرف توجہ کرنا ایک معمولی عادت ہوجاتی ہے پہلے جو نیکیوں کے کرنے میں طبیعت پر نگرانی اور سختی ہوتی تھی وہ نہیں رہتی ۔
پس یاد رکھو جب تک نفسانی جوشوں سے ملی ہوئی مُرادیں ہوتی ہیں اس وقت تک خداان کو مصلحتاًالگ رکھتاہے اور جب رجوع کرتاہے تو پھر وہ حالت نہیں رہتی ۔ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ دنیا روزے چند آخر کار با خدا وند ۔اتنا ہی کام نہیں کہ کھا پی لیا اور ببائم کی طرح زندگی بسر کر لی ۔انسان بہت بڑی زمہ داریاں لے کر آتا ہے ۔اس لیے آخرت کی فکر کرنی چاہئے اور اس کی تیاری ضروری ہیے ۔اس تیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج و تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو ۔بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کا مزہ چکھانا چاہتا ہے ۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمان:۴۷)
مصائب آتے ہیں تاکہ ان عارضی اُمور کو جو تکلف کے رنگ میں ہوتے ہیں نکال دے ۔ مولوی رومیؔنے کیا اچھا کہا ہے۔
عشق اوّل سر کش وخُونی بود
تا گریزو ہر کہ بیرونی بود
سید عبدالقادر جیلانی بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن بنناچاہتاہے تو ضرور ہے کہ اس پردکھ اور ابتلاء آویں اور وہ یہاں تک آئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کوقریب موت سمجھتاہے اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتاہے تو رحمت الٰہیہ کاجو ش ہوتاہے ۔ تو
قلنا یا نا رکو نی بردا و سلا ما (الانبیاء:۷۰)
کا حکم ہوتا ہے۔اصل اور آخری بات یہی ہے۔مگر نہ شنیدہ ای کہ چہ غم داری۔ ؎ٰ
۹ جنوری ۱۹۰۶؁ء
آیاتِ مُبین
میرے نزدیک آیات مبین وہ ہوتی ہیں ۔مخالف جن کے مقابلہ سے عاجز ہو جا وے ۔ خواہ وہ کچھ ہی ہو ۔جس کا مقابلہ نہ کر سکے وہ اعجا ز ٹھہر جا ئے گا جبکہ اس کی تحدّی کی گئی ہو ۔یاد رکھنا چا ہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔نبی کبھی جرأت کر کے یہ نہیں کہے گا کہ تم جو نشا ن مجھ سے مانگومیں وہی دکھا نے کو تیار ہوں اس کے منہ سے جب نکلے گا یہی نکلے گا
انماالایت عنداللہ (العنکبوت:۵۱)
اور یہی اس کی صداقت کا نشا ن ہو تا ہے کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا مگر وہ آنکھو ں کے اندھے ہیں ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہو تی ، اس کیے وہ ایسے اعترا ض کر تے ہیں اور نہ ذات باری کی عزت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہو تا ہے ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیںوہ وہی کر دے ۔سوئِ اَدب ہے اور ایسا خدا خداہی نہیں ہو سکتا ۔ ہا ں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امید اور حو صلہ دلایا کہ
ادعونی استجب لکم (المو من: ۶۱)
نہیں کہا کہ تم جو مانگو گے وہی دیا جاوے گا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسّلم سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے ، تو آپ ؐ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشر ا رسولا( بنی اسرائیل:۹۴)
خدا کے رسو ل کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آداب الہٰی کو مد نظر رکھتے ہیں ۔باتیں منحصر ہیں معرفت پر۔ جس قدر معرفت بڑھی ہو ئی ہو تی ہے اسی قدر خدا تعا لیٰ کا خوف اور خشیت دل پر مستولی اور سب سے بڑھ کر معرفت انبیاء علیہ سلام کی ہو تی ہے ۔اس لیے ان کی ہر بات اور ہر ادا میںبشریت کا رنگ جدا نظرآتا ہے اور تائید ات الہیہ الگ نظر آتی ہیں۔
ہما را ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نشا ن دیکھا تا ہے جب چاہتا ہے ،وہ دنیا کو قیامت بنانا نہیں چاہتا اگر وہ ایسا کھلا ہوا ہو کہ جیسے سو رج تو پھر ایمان کیا رہا اور اس کا ثوا ب کیا ؟ایسی صورت میں کو ن بد بخت ہو گا ۔ جو انکا ر کرے گا ۔ نشا ن بیّن ہوتے ہیں لیکن ان کو با ریک بین دیکھ سکتے ہیں اور کو ئی نہین ۔اور یہ دقت نظر اور معرفت سعادت کی وجہ سے عطا ہوتی ہے اور تقویٰ سے ملتی ہے شقی اور فاسق اس کو نہیں دیکھ سکتا ۔ایمان اسوقت تک ایمان ہے جب تک اس میں کوئی پہلو اخفاکا بھی ہو لیکن جب بالکل پردہ بر اندا ز ہو تو وہ ایمان نہیں رہتا ۔ اگر مٹھی بند ہو اور کوئی بتا دے کہ اس میں یہ ہے تو اس کی فراست قابل تعریف ہو سکتی ہے لیکن جب مٹھی کھو ل کر دکھا دی اور پھر کسی نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں تو کیا ہوا۔یا پہلی رات کا چاند اگر کوئی دیکھ کر بتائے ، تو البتہ اسے تیز نظر کہیں گے ، لیکن اگر چودہویں کا چا ند ہو گیا اس وقت کوئی کہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا ، وہ چڑھا ہوا ہے تو لوگ اسے پاگل کہیں گے ۔ غر ض معجزا ت وہی ہو تے ہیں جس کی نظیر لا نے پر دوسرے عا جز ہوں ۔انسا ن کا یہ کام نہیں کہ وہ انکی حد بند کرے کہ ایسا ہونا چاہیے ۔یا ویسا ہونا چاہیے ۔اس میں ضرور ہے کہ بعض پہلو اخفا کے ہوں کیو نکہ نشا نا ت کے ظا ہر کر نے سے اللہ تعالیٰ کی غر ض یہ ہو تی ہے کہ ایمان بڑھے اور اس میں عر فا نی رنگ پیدا ہو جس میں ذو ق ملا ہوا ہو ۔ لیکن جب ایسی کھلی با تیں ہوں گی تو اس میں ایما نی رنگ ہی نہیں آسکتا چہ جائیکہ عرفانی اور ذوقی رنگ ہو پس اقترحی نشانات سے اس لیے منع کیا جاتا ہے اور روکا جاتا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوء ادبی کی پیدا ہو جاتی ہے جو ایما ن کی جڑ کاٹ ڈا لتی ہے ۔
ایک پرانا الہا م
ابتدائے جنوری ۱۹۰۲؁ء کو ایک عرب صا حب آئے ہوئے تھے ۔ بعض لوگ ان کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے ۔حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۹ جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہا م ہوا
قد جرت عا دۃ اللہ انہ لا ینفع الا موات الا الدعاء
اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے ۔حضرت اقدس فرما تے ہیں کہ اس وقت پر میں نے دعا کی تو یہ الہام ہوا:
فکلمہ من کل باب ولن ینفعہ الا ھذا الدواء (ا ی الدعاء)
اور پھر ایک اور الہا م اسی عرب کے متعلق ہواکہ:
فیتبع القرآن کتا ب اللہ کتاب الصادق۔
چنانچہ ۹ جنوری۱۹۰۲؁ء کی صبح کو جب آپ ؑ سیر کو نکلے توحضرت اقدس ؑنے عربی زبان میں ایک تقر یر فرمائی ۔جس سلسلہ محمدیہ اور مو سویہ کی مشابہت کو بتایا اور پھر سورہ ٔنور کی آیت استخلاف اور سورۂ تحر یم سے اپنے دعاوی پر دلائل پیش کیے اور قرآن شریف اور احادیث کے مراتب بتائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عرب صاحب جو بڑے جوش سے بو لتے تھے بالکل صاف ہو گئے اور انہوںنے صدق دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ ا پنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے ، چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلا م تھا ۔ہم نے اس کی عزت وعظمت کے لحاظ سے ضروری سمجھا کہ گو پرانا الہام ہے ، لیکن چونکہ آجتک یہ سلسلہ اشاعت میں نہیں آیا ۔اس کو شا ئع کر دیا جاوے۔
نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں ؟
اس سوال کاجواب حضرت حجۃاللہ علیہ السلام نے ایک بار اپنی ایک مختصر تقریر میں دیاہے ۔فرمایا:
’’نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں ۔ جس کے اعمال بجائے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جائیں ۔مثلاًایک شخص خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرتاہے ۔ وہ ایسی وفاداری کرے کہ اُس کی وفاخارق ہوجاوے ۔اُس کی محبت اُس کی خارق عادت ہو ۔ہر شخص ایثار کرسکتاہے اور کرتابھی ہے ،لیکن اس ایثار کاخارق عادت ہو ۔غرض اس کے اخلاق ۔عبادات اور سب تعلقات جو خداتعالیٰ کے ساتھ رکھتاہے اپنے اندر ایک خارق عادت نمونہ پیداکریں ۔ تو چونکہ خارق عادت کاجواب خارق عادت ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر کرنے لگتاہے ۔ پس جوچاہتاہے کہ اس سے نشانات کاصدور ہو تو اس کو چاہئیے کے اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کے ان میں خارق عادت نتائج کے جذب کی قوت پیداہونے لگے ۔
انبیاء علیہ السلام میں یہی ایک نرالی بات ہوتی ہے ان کا تعلق اندرونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایساشدید ہوتاہے کہ دوسرے کسی کاہر گز نہیں ہوتا۔ ان کی عبودیت ایسارشتہ دکھاتی ہے کہ کسی اور کی عبودیت نہیں دکھاسکتی ۔ پس اس کے مقابلے میں ربُو بیّت اپنی تجلی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور نگ کاکرتی ہے ۔عبودیت کی مثال عورت کی سی ہوتی ہے کہ جیسے وہ حیااور شرم کے ساتھ رہتی ہے اور جب مرد بیاہنے جاتاہے تو ،وہ علانیہ جاتاہے ۔ اسی طرح پرعبودیت پروہ خفاء میں ہوتی ہے ۔لیکن اُلوہیت جب اپنی تجلی کرتی ہے تووہ پھر ایک بینؔامر ہوجاتاہے۔ اور ان تعلقات کاجو ایک سچّے مومن اور عبد اور اس کے ربّ میں ہوتے ہیں خارق عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتاہے ۔ انبیاء علیہ السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کل انبیا ء علیہم السلام سے بڑے ہوئے تھے ۔ اس لیے آپ کے معجزات ہی سب سے بڑے ہوئے ہیں۔۱؎
۱؎ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲صفحہ۳،۴ پرچہ ۳۱ مارچ۱۹۰۳؁ء
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء (شب)
طاعُون اور لوگوں کی حالت
طاعون کی خبریں سن کر فرمایا :
’’یہ خداکی طرف کس قدر تنبیہہ ہے اگر اب بھی دل بیدار نہ ہوں اور اب بھی خداسے صلح کا عہد باندھنے کے لیے مستعد نہ ہوں تو کیسی بد قسممتی ہے ۔ افسو س ہے کہ لوگ اب بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور فسق و فجور اور شوخیوں سے با زنہیں آتے ۔ اگر کسی کی اولاد اور عزیزوں پر آفت آجاوے ۔ تو ساری باتیں رہ جائیں۔پھر کس شیخی اور بھروسہ پر انسان خداسے اس قدر سر کشی کرتاہے؟وہ اُس کی حکومت سے بھاگ کر نہیں جاسکتا۔ جب یہ حال ہے توسب سے بہتر اور محفوظ طریق عذاب ِالٰہی سے بچنے کا توخود اُس کی ہی پناہ میں آتاہے ۔وہ احمق ہے جو خدا کے حدود ک وتوڑکر نکلتاہے اس لیے کے ایمان پاوے وہ مصیبت کو بلاتاہے اور عذاب کو جذب کرتاہے ۔ اب وقت ہے کے مسلمان اپنے ایمان اور توبہ کی تجدید کریں۔یہ وقت آیاہے کے خدااپنا وجود دکھاناچاہتاہے اور اپنی ہستی کو منواناچاہتاہے ۔
ایمان باللہ کی تین ذرائع
اللہ تعالیٰ پرایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خداتعالیٰ نے وہ تینوں ہی سُورۃافاتحہ میں بیان کردی ہیں :
اوّل۔ للہ تعالیٰنے اپنے حُسن کو دکھایا ہے جب کے جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو مُتّصِف کیاہے ۔ یہ قائدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپوی طرف کھینچ لیتی ہے ۔خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلو ں کو کھینچتی ہے ؔجیسے موتی کی آب ۔گھوڑے کی خوبصورتی ،لباس کی چمک دمک ،غرض یہ حُسن پھولوں ۔پتوں ،پتھروں ،حیوانات ،نباتات ، جمادات کس چیز میں ہو اس کا خاصہ ہے کے بے اختیار دل کو کھینچتاہے ۔ پس خداتعالیٰ نے پہلہ مرحلہ اپنی خدائی منوانے کاحُسن رکھاہے جب
الحمداللہ
فرمایا کہ جمیع اقسام حمدوستائش اسی کے سزاوار ہیں ۔
پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتاہے انسان جیسے حُسن پرمائل ہوتاہے اس لیے پھراللہ تعالیٰ نے
رب العالمین۔الرحمن۔الرحیم۔ملک یوم الدین ۔
صفات کو بیان کر کے اپنے احسان جکی طر ف توجہ دلائی ۔لیکن انسان کا مادہ ایساہی خراب ہو اور وہ حُسن اور احسان سے بھی سمجھ نہ سکے تو پھر تیسراذریعہ سورۃفاتحہ میں
غیر المغضوب
کہہ کر تنبیہہ کیا ہے ۔ اعلیٰ درجہ کے کوگ ت وحُسن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور جو اُن سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں ۔ لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں اُن کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے ۔ یہودیوں کو مغضوب کہاہے او ران پر طاعون ہی پڑی تھی ۔ خداتعالیٰ نے سورۃفاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ۔ یا یوں کہوکہ طاعون کے عذاب شدید سے ڈرایا ہے ۔ شیطان بیباک انسان پرایساسوار ہو ہے کہ وہ سُن لیتے ہیں ،مگر عمل نہیںکرتے ۔اصل یہ ہے کہ جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کردے ۔ خداتعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے ۔اب تو غذب ال۶ہی کے نمونے خطرناک ہیں ابھی تین مہینے باقی ہیں خداجانے کیا ہونے والا ہے۔
مخالفین کے لیے لمحہ فِکریّہ
مخالفین کی خطرناک فحش وتحریروں پر فرمایا:
کہ ہمارے اور اُن کے دل اللہ تعالیٰ ہی کہ ہاتھ میں ہیں ۔ خداتعالیٰ نیّتوں کو خوب جانتا ہے او ران افعا ل کو جو ہم کر رہے ہیں دیکھتا ہے ۔ وہ خود فیصلہ کر دے گا او رسچائی پر اپنی مُہر کر دے گا ۔ ہم کو تویہ تعجب آتاہے اگر یہ لوگ تقویٰ اور خداترسی سے کا م لیتے تو خوف کے محل اور مقام سے ڈر جاتے اور مخالفت میں اس قدر زبان درازی نہ کرتے ج۔ وہ دیکھتے کیا وہ وقت نہیں آیا ۔ مسیح موعود نازل ہو ؟ کیا صلیب کا غلبہ نہیں ؟ کیا اسلامؔکی توہین اور تضحیک نہیں کی جاتی ؟وہ دیکھتے کہ صدی میں انیس سال گزر گئے اور کوئی مدعی کھڑانہ ہو ا۔جو درماندہ اسلام کی حمایت کے لیے میدان میں آتا ۔
؁ پھر ضرورت اور وقت ہی اپنی نگاہ محدود نہ کرتے اگر وہ غور کرتے تو اُن کو معلوم ہوتا کہ آسمان نے صاف شہادت دے دی اور کسوف و خسوف ظاہر ہوگیا جو عظیم الشان نشان مقرر ہو چکاتھا ۔ تائیدی نشانوںکی تعداددن بدن بڑھ رہی ہے وہ اُسے دیکھتے سلسلہ کی ترقیات پر غور کرتے اور سوچتے کیا مفتری اس طرح ترقی کیا کرتے ہیں ؟
ان سب اُمور پر یکجائی نظر کے بعد تقویٰ کا تقاضاتو یہ تھا کہ اس قدر بینؔ شواہد ہوتے ہوئے بھی اگر ان کی نگاہ تاریک تھی ۔تو ہو خاموش ہو جاتے او رصبر سے انتظار کرتے کے انجام کیا ہوتا ہے ۔ مگر یہاں تو شورِعظیم میری مخالفت میںبرپا کیاگیا او ر گندی گالیا ں دی گئیں جن کی نظیر پہلے مخالفو ں میں بھی پائی نہیں جاتی ۔
حجج الکرمہ میں نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ آیا ت پوری ہوگئی ہیں اور پھر اپنی اولاد کو سلام کی وصیّت کرتاہے ۔ مگر کہتاہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو خود بھی ان مخالفت کرنے والوں ہی کے ہمراہ ہوتے۔یہ لوگ کب ماننے والے ہوتے جب تک وہی نظارہ آنکھوں سے نہ دیکھ لیں جو خیالی طور پر دل میں فرض کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ جو کچھ ان سے بن پڑتاہے میری مخالفت میں کریں مجھے ذر ابھی پرواہ نہیں کیونکہ یہ میرامقابلہ نہیں ۔یہ توخداسے مقابلہ کیا جاتاہے اگر میری اپنی مرضی پر ہوتا ۔ تو میں تخلیہ کو بہت پسند کرتاتھا۔ مگر میں کیا کر سکتا تھا جب کہ خداتعالیٰ نے ہی ایسا پسند کیا ہے ۔ یہ مقابلہ کریں ۔ مگر دیکھ لیں گے کے خداتعالیٰ کے ساتھ کو ئی جنگ نہے ں کرسکتا۔ وہ ایک طرفہ العین میں سالہاسال کی کاراوئی کو ملیا میٹ کر دیتا ہے ۔ اس لیے ہمں یہ خوشی ہے کہ ان کی مخالفت سے ذرابھی رنج نہیں ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے جو سار ی خوبیوںسے متصف ہے جیسے کہ
الحمد للہ
میں ہم کوپہلے ہی بتایا گیا ہے ۔ پھر خداداری چہ غم داری ہمیں ان کی مخالفت کا کیا فکر ؟ ہم کیوں بے حوصلہ ہوں ؟کیا معلوم ہے کہ اُس نے اُس مخالفت کے طوفان کے انجام کیا مقدر رکھاہے ؟یہ جو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے
واستفتحودخاب کل جبار عنیہ (ابراہیم :۱۶)
اس سے معلو م ہوتا ہے جب انبیاء او ر رسُل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت توجہ تام سے اقبال اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتاہے ۔
دخاب کل جبار عنیہ۔ استفتحوا
سنت اللہ کو بیا ن کرتاہے کہ وہ اس وقت فیصلہ چاہتے ہیں اور اس فیصلہ چاہنے کی خواہش ان میں پیدا ہی ا س وقت ہوتی ہے جب گویا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے پس ہم اپنی مخالفوں کی مخالفت کی کیا پرواہ کریں یہ مخالف نوبت بہ نوبت اپنے فرضیِ منصبی کو سر انجام دیتے ہیں ۔ ابتداء ان کی ہوتی ہے اور انجام متقیوں کا ۔
والعاقبۃللمتقین (الاعراف : ۱۲۹ ) ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۹ صفحہ ۶۔۶ پرچہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۲؁ء
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء

عصمت اور شفاعت
(ایڈیٹرکے اپنے الفاظ میں )
فرمایا :
تعجب ہے عیسائی لوگ شفاعت کے لیے عصمت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں کیوں کہ ان کہ ہاں فری عصمت شفاعت کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ شفاعت تب ہو سکتی ہے جب کہ شفیع معصوم ہو اور پھر وہ ابن اللہ ہو اور پھر صلیب پر لٹکایا جاکر ملعون ہو ۔ جب تک یہ تثلیث عیسائی مذہب کے عقیدہ کے موافق قائم نہ ہو ۔ شفیع نہیں ہوسکتا ۔ پھر وہ عصمت عصمت ہی کیوں پکارتے ہیں ۔ کیا اگر کوئی معصوم اُن کے سامنے پیش کیا جاوے یا ثابت کردیا جاوے تو وہ مان لیں گے کہ وہ شفیع ہے ؟ہر گز نہیں ۔ بلکہ عیسائی عقیدہ کے موافق یہ ضروری ہے کہ وہ خدا بھی نہ ہو بلکہ ابن اللہ ہو اور وہ مصلوب ہو کر جب تک ملعون نہ ہولے ۔ ہر گز ہرگز وہ شفیع نہیں سکتا اور پھر ایک اور بات قابل ِغور ہے کہ جب یسوع خود خدا تھا اور اس لیے علّۃ العلل تھا اور اس نے کل جہان کے گناہ بھی اپنے ذمے لے لے پھر وہ معصوم کیونکر ہو اور گناہوں کا تذکرہ ہم چھوڑتے ہیں جو یہودی مورخوں اور فری تھنکروں (آزاد خیا ل )نے ان کی انجیل سے ثابت کیے ہیں ۔ لیکن جب اس نے خو دگناہ اُٹھالیے اور بوجہ علت العلل ہونے کے سارے گناہوں کا کرانے والا ہی وہی ٹھہرا ۔ تو پھر اسے معصوم قرار دینا عجیب دانشمندی ہے ۔ پھر خداکا نام معصوم نہیں ۔ کیونکہ معصوم وہ ہو جس کا کوئی دوسرا عاصم ہو ۔ خدا کا نام عاصم ہے ۔ اس لیے جب شفاعت کے لیے انبیت کی ضرورت ہے اور اُس کے لیے بھی مصلوبیت کی *** ضروری ہے تو یہ سارا تانابانا ہی بنائے فاسد بر فاسدکا مصداق ہے ۔
حقیقی اور سچّی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لیے ضرورت ہے اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو ۔ تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کر ے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہوتاہے کہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتاہے مخلوق کو پہنچاوے ۔جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابلِ غور یہ ہے کہ جب تک یہ دونوں نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بحثیں فرضی ہیں ۔ مسیح کے نمونہ کودیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے ۔ ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بالمقابل ہمارے نبی کریم ﷺکامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انھوں نے عذاب الیم سے چھڑایااورگناہ کی زندگی سے اُن کو نکالاکہ عالم ہی پلٹ دیا ۔ایساہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا عیسائی جو مسیح کو مثیل موسیٰ قراردیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کرسکتے کے موسیٰ کی طرح اُنھوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تولنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کردیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھُڑالیا ہی یا پھنسادیا ہے اور یو ں کہنے توایک چوہڑابھی کہہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھڑایا مگر یہ ۔۔۔۔۔۔نرے دعوے ہی ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیںہے ۔پس عیسائیوں کایہ کہنا کہ مسیح چھوڑنے کے لیے آیا تھا ۔ ایک خیا لی بات ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ا۲ن کے بعد قوم کیی حالت بہت
بگڑگئی اور روحانیت سے بہت دور جاپڑی ۔


۰۵۔۳۔۲
ہاں سچّا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اورہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوںسے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر ا س کاثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپ ؐکی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمونہ بھیج دیتاہے اس کے بعد استغفار کا مسئلہ بھی قابل غور ہے ۔عیسائیوں نے اپنی جہالت اور نادانی سے اس پاک اصول پر نکتہ چینی کی ہے ،حالانکہ یہ انسان کی طبعی منزلوں میں سے ایک منزل ہے ۔
جاننا چاہئیے کے اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کیے ہیں۔اَلْحَیّ اور اَلْقَیّوم۔ الحیّ کے معنی ہیںخود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطاکرنے والا ۔القیّوم ؔخود قائم اور دوسروں کے قیام کااصلی باعث ۔ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں کے طفیل سے ہے ۔پس حیّؔکا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں
ایاک نعبد
ہے اور القیوم ؔچاہتا ہے کہ اس سے سہار اطلب کیاجاوے اس کو
ایاک نستعین
کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے ۔
حیّ کا لفظ عبادت کو اس لیے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا ہے اور پھر پید اکر کہ چھوڑ نہیں دیاہے ۔ جیسے مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اُس کا مر جانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے ، مگر انسان کو خداکی ضرورت ہر حال میں رہتی ہے ۔اس لیے ضروری ہواکہ خداسے طاقت طلب کرتے رہیںاور یہی استغفار ہے ۔ اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے ۔ پھر اس کو وسیع کر کے اُن لوگوں کے لیے کیاگیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کے اُن کے بُرے نتائج سے محفو ظ رکھا جاوے ، لیکن اصل یہ ہے ک انسانی کمزوریوں سے بچایا جاوے ۔ پس جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب اور دہریّہ ہے ۔ ۱؎
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء
مخالفانہ تحریروں کاجواب
مخالف جو گالیاں دیتے ہیں گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں ۔ ہم کو اُن کا جواب گالیوںسے کبھی دینا نہیں چاہئیے ۔ ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں ، کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے ،اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کو کم کریں ۔اُن کو تو مخاطب کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔یہ لوگ بجائے خود واجب الرحم ہیں ۔ہاں فضول باتوں کو نکال کر اگر کسی معقول اعتراض کا جواب عوام کو دھوکہ سے بچانے کے لیے دیا جاوے تو نامناسب نہیں ۔اگر ہم ان کے مقابل پر سخت زبانی کا استعمال کریں ۔تو یہ تو اپنے مرتبے کا بھی تذلّل ہے ۔اگر کبھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے تو وہ حق کی لازمی مرارت ہے جو دوا کے طور پر ہے جس کی نظیر انجیل اور نبیوں کے کلام میں پائی جاتی ہے ۔رِیس اور تقلید کرنا انبیاء کا کام نہیں۔نام تو وہی ہوتا ہے جو آسمان پر رکھا جاتا ہے ۔کسی کے ظالم ۔کافر کہنے سے کیا بنتا ہے ۔زمینی ناموںکا آخر خاتمہ ہو جاتا ہے اور آسمانی نام ہی رہ جاتے ہیں ۔ پس دنیا کے کیڑوں کے ناموں کی کیا پروا؟اُس نام کی قدر کرو جو آسمان پر نیک لکھاجاوے۔

مسیح کے دو زرد چادروں میں نزول
زرد چادروں سے مُراد اگر یہی ہے جوہمارے مخالف بیان کرتے ہیں توپھر عام ہندو جو گیوں اور مسیح میں مابہ الامتیاز کیا ہوگ ۔ اصل میں خداکی چادر اپنے الگ معنی رکھتی ہے اور وہ وہی ہیں جوخداتعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہوئے ہیں کہ دوزرد چادروں سے مُراد دو بیماریا ں ہیں جو مجھے لاحق حال ہیں ۔

آداب ِتبلیغ
دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں عوامؔ۔ متوّط ؔدرجے کے ۔اُمرائًؔ ۔ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں ۔ اُن کی سمجھ موٹی ہوتی ہے ۔ اس لیے اُن کو سمجھانہ بہت مشکل ہی ہوتاہے ۔ اُمراء کے لیے سمجھانہ بھی مشکل ہوتاہے ، کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبراجاتے ہیں اور اُن کا تکبر اور تعلیّ اور بھی سَدِّراہ ہوتی ہے ۔
اس لیے اُن کے ساتھ گفتگوکرنے والے کو چاہئیے کہ وہ اُن کے طرز کے موافق اُن سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو۔ قَلَّ وَدَلَّ مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لیے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئیے ۔ رہے اوسط درجہ کے لوگ ۔ زیادہ تر گردہ اس قابل ہوتاہے کہ ان کی تبلیغ کی جاوے ۔ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور اُن کے مزاجمیں وہ تعلیّاور تکبّر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو اُمراء کے مزاج میں ہوتی ہے ۔ ا س لیے ان کوسمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا ۔

بعثت انبیاء پر لوگ کس طرح ہدایت پاتے ہیں
جب انبیاء علیہم السّلام مامُور ہوکر دنیا میں آتے ہیں تو لوگ تین ذریعوںسے ہدایت پاتے ہیں ۔یہ اس کے لیے تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ظالم ؔ ۔ مقتصد ؔؔ۔ سابق بالخیرات ۔
اوّل ؔدرجے کے لوگ سابق ؔ بالخیرات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ وہ ایسے صاف دل اور سعید ہوتے ہیں کہ مامُور کے چہرہ ہی کو دیکھ کراسکی صداقت کے قائل ہوجاتے ہیںاور اُس کے دعویٰ کو ہی سُن کر اس ک وبرنگ دلیل سمجھ لیتے ہیں ۔ اُن کی عقل ایسی لطیف واقع ہوئی ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کی ظاہری صُورت اور اُن کی باتوں کو سُن کر قبول کرلیتے ہیں ۔
دُوسرےؔ درجہ کے لوگ مقتصدین ؔ کہلاتے ہیںجو ہوتے تو سعید ہیں ۔ مگر اُن کے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شہادت سے مانتے ہیں ۔
تیسرے ؔ درجے کے لوگ جو ظالمین ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کچھ ایسی واضع واقع ہوتی ہے وہ بجز مار کھانے اور سختی کے مانتے ہی نہیں ۔
جو لوگ بہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام جبرسے پھیلا ہے وہ تو بالکل جھوٹے ہیں ۔ کیونکہ اسلامی جنگیں دفاعی اصول پر تھیں ، مگر ہاں یہ سچّ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے قانون پر یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ تیسرے درجہ کے لوگ یعنے ظالمین کے لیے ایک طریق رکھا ہوا ہے جو بظاہر جبر کہلاتاہے اور ہرنبی کے وقت میں عوام کی ہدایت جبر کے کسی نہ کسی پیرایہ میں ہوتی ہے ، کیونکہ دُوربین سے دیکھنے والے کا مقابلہ مجرّد آنکھ سے دیکھنے والا نہیںکرسکتا ۔ جب کہ استعداد یں مختلف ہیں تو پھر سب کے لیے ایک ہی ذریعہ کیونکر مفید ہوسکتاہے ۔
بڑے مقبول اور مقرّب اور رسالت کی سچّی خلافت حاصل کرنے والے وہی ہوتے ۔ ج وسابق بالخیرات ہوتے ہیں اُن کی مثال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سی ہے آپ نے کو ئی معجزاء اور نشان طلب نہیںکیا سُنتے ہی ایمان لے آئے ۔
او رحقیقت میں یہ ہے بھی سچّ اس لیے کہ جس شخص کو مامُور کی اخلاقی حالت کی واقفیت ہو اس کو معجزہ اور نشان کی ہر گز ضرورت نہیں ہوتی ۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ
فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ (یونس : ۱۷ )
سابقین کوتویہ صورت پیش آتی ہے کہ وہ اپنی فراست صحیحہ ہے سے ہی تاڑ جاتے ہیں ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے لوگ آپؐ کو دیکھنے آئے ۔ایک یہودی بھی آیا اور اس سے ج لوگوں نے پوچھا تو اُس یہی کہا کہ یہ منہ تو جھوٹوں کا نہیں ہے اور مقتصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں اور تیسری قسم ظالمین کی ہے جو سختی سے مانتے ہیں ۔جیسے موسیٰ علیہ السّلام کے زمانے میں کبھی طاعون سے اورکبھی زلزلہ سے ہلاک ہوئے اور دُوسروں کے لیے عبرت گاہ بنے ۔یہ ایک قسم کا جبر ہے جو اس تیسری قسم کے لیے خداتعالیٰ نے رکھا ہوا ہے اور سلسل نبوّت میں ی لازمی طور پر پایا جاتاہے ۔
مامُور من اللہ شفیع ہوتا ہے
مامُور اللہ کی دعاؤں کا کُل جہان پر اثر ہوتا ہے اور یہ خداتعالیٰ کاایک قانون ہے جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ جن لوگوں نے شفیع کے مسئلہ سے انکار کیا انھوں نے سخت غلطی کھائی ہے ۔ شفیع کو قانون قدرت چاہتاہے ۔ اُس کو ایک تعلق شدید خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور دُوسرا مخلوق سے ۔ مخلوق کی ہمدردی اس میںاس قدر ہوتی ہے کہ یُوںکہناچاہئیے کہ اُس کے قلب کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہمدردی کے لیے جلد متاثرہوجاتاہے اس لیے وُہ خداسے لیتاہے اپنی عقدہمّت اور توجّہ سے مخلوق کو پہنچاتاہے اور اپنا اثر اُس پر ڈالتا ہے ۔اور یہی شفاعت ہے ۔
انسان کی دُعااور توجّہ کے ساتھ مصیبت کارفع ہونا یا مصیبت اور ذنوب کا کم ہونا یہ سب شفاعت کے نیچے ہے ۔ توجہ سب پر اثر کرتی ہے خواہ مامُور کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کانام بھی یا د ہونہ ہو ۔ ۱؎
۱۵جنوری۱۹۰۲؁ء (بقیہ تقریر )
مامُور کی صُحبت
شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ اہوتی ہیں ۔ لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیںمل سکتی جب تک صادق کی صُحبت اخلاص او رصدق سے اختیار نہ کی جاوے ۔ اس لیے قران شریف فرماتا ہے ۔
یاایھاالزین امنو اتقوا اللہ راکونو مع الصادقین (التوبہ ۱۹ )
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقاء کے مدارج کامل طور پر کھبی حاصل نہیں ہوسکتے جب تک صادف کی معیّت او رصُحبت نہ ہو ، کیونکہ اس کی صُحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس ِطیّبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتاہے ۔
قبول ہونے والی دُعاکا راز
دُعاجب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دل میں ایک جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے او ربسا اوقا ت اللہ تعالے ٰ خد ہی ایک دُعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اُس کا پیرایہ بتادیتا ہے جیسا کے فرمادیتا ہے
فتلقی ادم من ربہ کلمات (البقرہ ۳۸ )
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دُعا ئیں خود سکھادیتا ہے ۔
بعض اوقات ایسی دُعائیں ایسا حصّہ بھی ہوتا ہے جن ک ودُعا کرنے والا ناپسند کرتا ہے ، مگر وہ قبول ہو جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیات کے مصداق ہیں ۔
عسیٰ ان تکرھو شیئاوھوا خیرلکم ( البقرہ ۲۱۷)
مامُور من اللہ کی سچّی ہمدردی
مامُورمن اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچُی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوجاتی ہے اور جماعت سے بھی ۔ اس ہمدردی میں ہمارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے تھے ۔ اس لیے کہ آپؐ کُل دنیا کے لیے مامُور ہو کر آئے تھے اور آپ ؐ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الزمان کے طور پرتھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا اور ہمیشہ کے لیے نبی تھے ، اس لیے آپ ؐ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
لعلک باخع نفسک الایکونو مومنین ( الشعرا ء : ۴ )
‏Amira
اس کے لیے ایک تویہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی ھکر میں اپنی جان دے دیگا۔ اس آیت سے اس درد اور ھکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپؐ کو دنیاکی تباہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے۔ یہ تو آپؐ کی عام ہمدردی کے لیے ہے اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی ھکر میں تو اپنی جان دے دیگا۔ یعنی ایمان کو کامل بنانے میں۔
اسی لیے دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
یا ایھا الذین امنوا امنواباﷲورسولہ (النساء : ۱۳۷)
بظاہر تو یہ تخصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی، لیکن جب حقیقت حال پر غور کی جاوے، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ تکمیل چاہتا ہے۔
غرض مامور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اُس سے متاثر ہو تے ہے۔
اﷲ تعالیٰ اور اُس کے ماموروں کے درمیان دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔مامور تو اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوتا ہی ہے، لیکن بعض مقامات پر اﷲ تعالیٰ بھی مامور کا رسول ہو جاتا ہے۔ یہ ایک باریک بھید ہے جس کو ہر شخص جلدی نہیں سمجھ سکتا۔یہ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مامور اپنی جماعت کو اپنی منشاء کے موافق نہیں دیکھتا تو اس کے دل میں ایک درد پیدا ہوتا ہے اور اس پر ایک ٹھوکر لگتی ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ تمثیلی طور پر بعض افرادکو اُن کے عیوب اُن پر ظاہر کر دیتا ہے اور کبھی اس ھعل کا علم مامور اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے انسان دونوں کو ہوتا ہے اور کبھی ایک ہی کو۔
[ہم اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے ذرا مثال کے طور پر سمجھا دیتے ہیں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے بلکہ قریباً ہر ایک شخص پر اس قسم کے واقعات گزرے ہوں گے کہ جب کبھی وہ کسی گناہ کی حالت میں گرفتار ہونے کو ہوا ہے تو رویا میں حضرت اقدسؑ کی اُس نے زیارت کی اور اس گناہ کی حالت سے بچ گیا۔ اس قسم کے تمثیلات وہ ہوتے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ مامور کا رسول ہو کر اپنا فیض پہنچاتا ہے ؎ٰ]
بغیر تاریخ کے ۱۹۰۲ء؁
قضا اور دعا
قدر اور جبر پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں، مگر تعجب کی بات ہے کہ لوگ اس پر کیوں بحث کرتے ہیں۔ میرا مذہب یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد ہی اس قسم کی بحثوں کی بنیاد پڑی ہے؛ ورنہ انسانیت یہ چاہتی تھی کہ ان پر توجہ نہ کی جاوے ۔ جب روحانیت کم ہو گئی تو اس قسم کی بحثوں کا بھی آغاز ہو گیا۔
جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ
انما امرہ اذا ارادشبیئا ان یقول لہ کن فیکون (یٰسٓ : ۸۳)
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اُس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا اور ایسا ہی اس شخص نے بھی شناخت نہیں کیا جو اس کو علیم بذات الصّدور اور حیّ و قیوم کہ دوسروں کی حیات و قیام اسی سے ہے اور وہ مدبّر بالطّبع نہیں مانتا جو فلاسفروں کا عقیدہ ہے۔ غرض ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بُدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قانونِ قدرت ہے۔ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے دو آنکھیں ، دو کان ایک ناک دیئے ہیں۔ اتنے ہی اعضاء لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح عمر ہے اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں۔ بعض کے اولاد نہیں ہوتی۔ بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ غرض یہ امور خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
پس ہمارا مذہب یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیّت اور ربوبیّت ذرّہ ذرّہ پر محیط ہے؛ اگر چہ احادیث میں آیا ہے کہ بدی شیطان یا نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ بدی جس کو بدی سمجھا جاوے، مگر بعض بدیاں ایسی ہیں کہ اُن کے اسرار اور حکم اور مفہوم سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔ جیسے آدم کا دانہ کھانا۔ غرض ہزار ہا اسرار ہیں جو مستحد ثات کا رنگ دکھانے کے لیے کر رکھے ہیں قرآن شریف میں ہے۔
ماکان لنفس ان تموت الا باذن اﷲ (آلِ عمران : ۱۴۶)
تموت میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایسے ہی ہدائت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ لغو ہو جاتا ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست پیش کرو جس میں لکھا ہو کہ فلاں شقی ہے۔
انبیاء علیہم السلام جب دعوت کرتے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اثر مترتب ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی دعا کے ساتھ بھی۔اﷲ تععلیٰ قضا وقدر کو بدل دیتا ہے اور قبل ازوقت اس تبدیلی کی اطلاع بھی دیدیتا ہے۔ اس وقت ہی دیکھو کہ جو رجوع لوگوں کا اس سلسلہ کی طرف اب ہے۔ براہینؔ احمدیہ کے زمانہ میں کب تھا۔ اس وقت کوئی جانتا بھی نہ تھا۔
میں نے خود عیسائیوں کی کتابیں پڑھی ہیں ،لیکن اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایک طرفتہالعین کے لیے بھی عیسائی مذہب کی سچائی کا خیال میرے دل میں نہیں گزرا وہ قرآن شریف کی اس تعلیم پر کہ خدا کے ہاتھ میں ضلالت اور ہدایت ہے اعتراض کرتے ہیں، لیکن اپنی کتابوں کو نہیں پڑھتے۔ جن میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یا مثلاً یہ لکھا ہے کہ ھرعون کا دل سخت ہونے دیا۔ اگر لفظوں پر ہی اعتراض کرنا ہو تو عیسائی ہمیں بتائیں اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
بد دیانت آدمی سے تو مرے ہوئے کتے سے بھی زیادہ بد بُو آتی ہے۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ان پادریوں کا اسلام پر ایسا اعتراض نہیں ہے جو توریت اور انجیل کے ورق ورق پر صاف صاف نہ آتا ہو۔ ایسا ہی رگ وید اور فارسیوں اور سناتنیوں کی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔
قرآن شریف نے ان امور کو جن سے احمق معترضوں نے جبر کی تعلیم نکالی ہے۔ محض اس عظیم الشان اصول کو قائم کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے اور ہر ایک امر کا مبدء اور مرجع وہی ہے وہی علت العلل اور مسبّب الا سباب ہے۔ یہ غرض ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے علّت العلل ہونے کا ذکر فرمایا ہے: ورنہ قرآن شریف کو پڑھو اس میں بڑی صراحت کے ساتھ ان اسباب کو بھی بیان فرمایا جس کی وجہ سے انسان مکلّف ہو سکتا ہے۔
علاوہ بریں قرآن شریف جس حال میں اعال بَد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے۔ اگر قضا وقدر میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا، تو ان حدود شرائع کی ضرورت ہی کیا تھی۔
پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریھ دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پہنچانا چاہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضاوقدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدّبر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے لیے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو رد نہیں کرتا ۔ایک طرف دعا ہے۔دوسری طرف قضاوقدر ۔ خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ میں اس لیے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے، لیکن جس خدا نے کوئی ذرہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دیگا۔
تو کار زمین را نکو ساختی
کہ با آسمان نیز پر داختی
جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کسنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس سر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے۔ الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہیے اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے۔ الطریقۃ کلھا ادب۔
قضاوقدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے۔ دعا کے ستگ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے۔ جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہ۔ جو لوگ دعا سے منکر ہیں، ان کو ایک دھوکہ لگا ہوا ہے۔ قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں۔ ایک پہلو میں اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے۔
ولنبلو نکم بشیء من الخوف والجوع (البقرہ : ۱۵۶)
میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نون ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے۔اس سے اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اناللہ وانا الیہ راجعون (البقرہ : ۱۵۷) ہی ہے۔اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) میں ظاہر کیا ہے۔
پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہیے۔ صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا، جبتک کہ وقت کو شناخت نہ کرے۔
سید عبدالقادر جیلانی ؓ فرماتی ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے، بلکہ وہ تو یہانتک کہتے ہیں کہ شدیدالاختفا امور مشبہ بالمبرم بھی دور کیے جاتے ہیں۔
الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے۔یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعائوں کی ہے۔ اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں۔
چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مر گئے، مگر آپؐ نے کبھی سوال نا کیا کہ کیوں؟ جو لوگ فقراء اور اہل اﷲ کے پاس آتے ہیں۔ اکثر اُن میں سے محض آزمائش اور امتحان کے لیے آتے ہیں۔ وہ دعا کی حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں، اس لیے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔ عقلمند انسان اس سے ھائدہ اُٹھاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دعا نہ ہوتی تو اہل اﷲ مرجاتے۔ جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں ان کو دھوکا ہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے نا واقف ہیں۔
میرا جب سب سے پہلا لڑکا فوت ہوا تو اس کو ایک سخت غشی کی حالت تھی۔ گھر میں اس کی والدہ نے جب وہ نماز میں مصروف ہو گئے اور جب نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا تو اُس وقت چونکہ انتقال ہو چکا تھا۔ میں نے کہا کہ لڑکا مر گیا ہے انہوں نے پورے صبر اور رضا کے ساتھ اناﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا۔
خدا جس امر میں نامراد کرتا ہے، اس نامرادی پر صبر کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اسی صبر کا نتیجہ ہے کہ خدا نے ایک کی بجائے چار لڑکے عطا فرمائے۔
الغرض دعا بڑی دولت ہے۔ بے صبر ہو کر دعا نہ کرے، بلکہ دعائوںمیں لگا رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجائے‘‘۔
قرآن مجید میں فتنئہ دجال کا ذکر
اول بآخر نسبتے دارد
قرآنِ شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے
غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین۔(الفاتحہ : ۷)
پر ختم کیا ہے، لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں، تو دجال کا فتنہ اُن کے ہاں عظیم الشان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ دجال کا ذکر ہی بھول گیا ہو۔ نہیں ۔بات اصل یہ ہے کہ دجال کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں جو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ اول غیرالمغضوب علیہم غیر المغضوب سے مراد باتفاق جمیع اہل اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امّت پر آنے والا ہے جبکہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے۔ جنکہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے گا جیسا کہ حضرت مسیح ابنِ مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا۔ گرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی توہین اور تکفیر سے ہم کو بچا اور دوسرا عظیم الشان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے جو ولاالضالین میں بیان فرمایا ہے اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے۔ مثلاً غیر المغضوب کے مقابل میں سورۃ تبت یدا ہے۔ مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا۔اذیمکر بک الذی کفر۔اوقد لی یا ھا مان لعلی اطلع علیٰ الہ موسیٰ و انی لا ظنہ من الکاذبین۔تبت یداابی لھب ۔یعنی وہ زمانہ یاد کر جبکہ مکفر تجھ پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا۔ اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو۔کہے گا کہ میرے لیے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اﷲ ہونے کا مدعی ہے۔ خدا اس کا معاون ہے یا نہیں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں۔ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس میں دخل دیتا، مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے۔
غرض سورۃ تبت میں غیر المغضوب علیہم کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور ولاالضالین کے مقابل قرآن سریف کے آخر میں سورۃ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونوں کی تفسیر ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ وتار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتوی لگا کر… مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی۔ پس جیسے سورۃ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے۔ ان دونوں بلائوں سے محفوظ رہے کی دعا سکھائی گئے ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہے کی دعا تعلیم کی۔ تا کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ اول بآخر نسبتے دارد۔
سورۃ فاتحہ میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ کئی مرتبہ بیان کیا ہے مگر قرآن شریف کے آخر میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ بھی مختصر طور پر سمجھ لو۔
الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں۔ اصل تو قل ھواﷲ ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی شرح ہیں قل ھواللہ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاریٰ سے کہدو کہ اﷲ ایک ہے۔ اﷲ بے نیاز ہے۔ نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا۔ اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔
پھر سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی قل اعوذبرب الفلق۔ یعنی تمام مخلوق کے شرّ سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو رب الفلق ہے یعنی صبح کا مالک ہے۔ یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبض و اقتدار میں ہے۔ رب الفلق کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کرے گی۔اور پھر کھول کر کہا کہ شر غاسق اذا وقب اور میں اس اندھیری رات کے سر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شبِ تار ہے، پناہ مانگتا ہوں۔ پھر فرمایا
ومن شرالنفثت فی العقد (الفلق : ۵)
اور میں ان زنانہ سیرت لوگوں کی سرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوںپر پھونکیں مارتے ہیں۔
‏Lubna
گرہوں سے مراد وہ معضلات اور مشکلات شریعت ِ محمّدیہ ہیں ۔ جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگو ں کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ۔ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ نا واقف اور ضدّی مُلاں ہیں جو اپمی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیںاور زنانہ خصلت رکھتے ہیںکہ خدا کے مامورو مرسل کے سامنے آتے نہیں۔پس ان لوگوںکی شرارتوںسے پناہ مانگتے ہیںاور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیںاور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسدکرنے لگیں۔
اور پھر آخر ُسورۃ میںشیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دُعا تعلیم فرمائی ہے ۔جیسے سُورۃ فاتحہ کو الضّالین پر ختم کیا تھا۔ویسے آخری سُورۃ میں بھی خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور الضالین کا تعلق معلوم ہو۔ اور آدم کے وقت میںبھی خناس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں۔جنگ کے لیے آیا تھا۔اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے ۔ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لیے عیسائیوں اور مسلما نو ں نے با تفاق یہ با ت تسلیم کی ہے کہ آ خری زما نہ میں آدم اور شیطا ن کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی ، جس میں شیطا ن ہلا ک ہو جا و ے گا ۔ اب ان تما م امو ر کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جا تا ہے کیا یہ میرے اپنے بنا ئے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں ۔
کس طرح پر ایک دائر ہ کی طر ح خد ا نے اس سلسلہ کو رکھا ہو اہے ولا الضّالین پر سو ر ۃ فاتحہ کو قرآن کا آغا ز ہے ختم کیا ور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سو رتیں رکھیں جن کا تعلق سو رۃفا تحہ کے انجا م سے ہے ۔ ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرا ئی اور مجھے مسیح مو عو د بنا یا ، تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نا م رکھا ۔
یہ باتیں معمو لی باتیں نہیں ہیں ۔یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی رد ّنہیں کر سکتا ، کیو نکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہا تھ سے بنیا د رکھی ہے۔
شفیع کون ہو سکتا
شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی جفت کے ہیں ۔اس لیے شفیع وہ ہو سکتا ہے جو دو مقا مات کا مظہر اتم ہویعنی مظہر کا مل لا ہو ت اور نا سو ت کا ہو ۔ لاہوتی مقا م کا مظہر کا مل ہو نے سے یہ مرا د ہے کہ اس کا خدا کی طر ف صعود ہو ۔ وہ خدا سے حا صل کرے اور نا سو تی مقام کے مظہر کا یہ مفہو م ہے کہ مخلو ق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حا صل کرے وہ مخلو ق کو پہنچا دے اور مظہرکا مل ان مقا ما ت کا ہما رے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ,اسی کی طر ف اشا رہ ہے ۔
دنا فتدلی فکا ن قاب قو سین او اد نی (النجم :۹۔۱۰)
ہم دعویٰ سے کہتے ہین کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بِدو ں کامل حصہ مقا م لا ہو ت کا کسی نبی میں نہیں آیا اور ناسوتی حصہ چا ہتا ہے بشری لوا زم کو ساتھ رکھے اور حضور علیہ الصلوۃ و السلا م میں یہ ساری با تیں پوری پا ئی جاتی ہیں۔آ پ نے شا دیا ں بھی کیں ۔بچے بھی ہوئے دوستوں کا زمرہ بھی تھا ۔فتوحات کر کے اختیاری قوتوں کے ہوتے ہوئے انتقام چھوڑ کر رحم کر کے بھی دکھایا ۔جبتک انسان کے پیرایہ پو رے نہ ہوں،وہ پوری ہمدردی نہیں کرسکتا۔اس حصّہ اخلاقِ فاضلہ ہیںوہ نامکمّل رہے گا۔
3-3 -05/
مثلاؔ جس نے شادی ہی نہیں کی وہ بیوی اور بچّوں کے حقوق کی کیا قدر کر سکتا ہے اور اُن پر اپنی شفقت اور ہمدردی کا کیا نمونہ دکھاسکتا ہے ۔ رہبانیّت ہمدردی کو دور کر دیتی ہے او ریہی وجہ ہے کہ اسلام میں رہبانیّت کو نہیں رکھا۔غرض کا مل شفیع وہی ہوسکتا ہے ، جس میں یہ دونوں حصّے کامل طور پر پائیں جائیں ، چونکہ یہ ایک ضروری امر تھا کہ شفیع ان دونوں مقامات کا مظہر ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے ہی اس سلسلہ کو ظلِ قائم رکھا ہے ، یعنی آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا تو لا ہوتی حِصّہ تو اس میں یوں رکھ دیا ۔ جب کہا ۔
فاذا سریتہ ونفخت فیہ من روحی فقعو الہ ساجدین (الحجر :۳۰)
اور ناسوتی حصّہ یو ںرکھا کہ حوّا کو اس سے پید اکیا ۔
یعنی جب روح پھونکی تو ایک جو ڑ آدم کا خداتعالیٰ سے قائم ہو ا۔ اور جب حوّا نکالی تو دوسرا مخلوق کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناسوتی ہوگیا ۔ پس جب یہ دونوںحصّے کامل طور پر کاملِ انسان میں نہ پائے جائیں وہ شفیع نہیں ہو سکتا ۔ جیسے آدم کی پسلی سے حوّا نکلی اسی طرح کامل انسان سے مخلوق نکلتی ہے ۔

تصویر او رنماز
ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ۔جواب میںحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السّلام نے فرمایا :
’’کفار کے تبتعّ پر تو تصویر ہی جائز نہیں ۔ ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اُس کی حُرمت اضافی ہے ،اگر نفس تصویر مُفسد نماز تو مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا ۔ اس کا جوا ب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے۔ میں کہوں گا کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہو گا ۔ اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا ۔
اصل با ت یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ آیااس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ۔ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ
‏Amira
فرماتا ہے۔ والذین ھم عن اللغو معرضون (المومنون : ۴) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
مثلاً ہم نے ایک موقعہ پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے۔ اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ تاتثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے۔ جو حیّ وقیوم ازلی و ابدی غیر متغیر اور تجسّم سے پاک ہے۔ اس طرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو، تو شرع کلام نہیں کرتی کیونکہ جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے پاس کل نبیوں کی تصویریں تھیں۔ قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے، تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اسکے پاس دیکھی تھی۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ نفس تصویر کی حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویریں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہے۔ شریعت ایک پہلو سے حرام کرتے ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے۔ روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے۔ ؎
گر حفظ مراتب نہ کُنی زندیقی
حرمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بالنفس حرام ہوتی ہے، ایک با نسبت۔ جیسے خنزیر بالکل حرام ہے۔ خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا۔ سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہر ایک قسم کا حرام ہے۔ یہ حرام بالنفس ہے، لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسبِ حلال سے روپیہ پیدا کرے، تو حلال ہے۔ لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا۔ بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے۔ اناما الا عمال بالنیات۔
ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہو گی، بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی تونیہ کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے۔ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے۔
یاد رکھو اسلامؔ بُت نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل نا سمجھ موللیوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے۔
آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے۔ بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اُڑتے ہیں تو خود بخود اُن کی تصویر اتر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا نام مصور ہے۔ یصور کم فی الارحا م (اٰ لِ عمران : ۷) پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں۔ غیر حقیقی حرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہیے۔ اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں؛ ورنہ حرام۔
حدیثوں ہی پر تکیہ نہ کر لو۔ اگر قرآن شریف پر حدیث کو ژقدم کرتے ہو تو پھر گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ کیوں انہوں نے احادیث کو خود جمع نہیں کرایا، کیونکہ آپؐ نے کوئی حکم احادیث کے جمع کرنے کو نہیں فرمایا؛ حالانکہ قرآن شریف کو آپؐ خود لکھواتے اور سناتے تھے۔ بعض صحابہ نے احادیث کو اپنے طور پر جمع کیا، لیکن آخر انہوں نے جلا دیا۔ جب سبب دریا فت کیا تو یہی بتایا کہ آخر راویوں سے سنی ہیں ممکن ہے اس میں کمی بیشی ہوئی ہو۔اپنے ذمے کیوں بوجھ لیں۔ پس قرآن کو مقدم کرو اور حدیث کو قرآن پر عرض کرو۔ حکم نہ بنائو‘‘۔؎ٰ
۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۲ء؁
ضروری اعلان
حضرت مسیح موعود ادام اللہ فیوضہم نے ارشاد فرمایا ہے کہ الحکم کے ذریعہ اپنے تمام دوستوں کو اطلاع دی جاوے کہ چونکہ طاعون پنجاب کے اکتّر حصوں میں زور کے ساتھ پھیل گیا ہے اور پھیلتا جاتا ہے ایسی صورت میں یہ امر قرین مصلحت نہیں کہ ایسا مجمع ہو جس میں وبازدہ علاقون کے لوگ بھی شامل ہوں۔ اس لیے عیدالاضحیہ پر جو تجویز امتحان کی قرار پائی تھی وہ کسی دوسرے وقت کے لیے ملتوی کی جاتی ہے۔ وہ لوگ جن کے شہروں اور دیہات مین طاعون شدت کے ستھ پھیل گیا ہے؛ اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں۔اپنے مکانوں کی صفائی کریں اور انہیں گرم رکھیں اور ضروری تدابیر حفظ باتقدم کی عمل میں لائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں اور پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صلح کریں۔ راتوں کو اُٹھ اٹھ کر تحجدمیں دعائیں مانگیں۔ ہر ایک قسم کے فسق وخجور خیانت اور غلط کاری کی راہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچاسک گی۔ ونعم ماقیل۔
خور تابان سیہ گشت است از بدکاری مردم
زمین طاعون ہمی آرد پئے تخویف و انذارے
بہ تشویش قیامت ماندایں تشویش گر بینی
علاجے نیست بہر دفع آں جز حسن کر دارے ؎۲
۱۲ ؍ فروری ۱۹۰۲ء؁
معراج کے اسرار
معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کو مختلف آسمانوں پر دیکھا ہے۔ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے نبیوں کا سلسلہ زمانی طور پر بتایا ہے۔ سب سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ابُوالانبیاء تھے۔ دکھا یا ہے اور دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو؛ چونکہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کا زمانہ مشترک تھا، اس لیے ان کو اکٹھے بٹھایا۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے درجے پر تھے، اس لیے دوسرے آسمان پر ان کو دکھایا اور آدم کو پہلے آسمان پر دکھایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آدم تھے۔ اس لیا آپؐ کو پہلے آسمان پر دکھایا گیا۔
مذہب ایک سائنس ہے
اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے، بلکہ مذہب کو ایک سائنس (علم) بنادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف حقائق کا زمانہ ہے۔ جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ میں اس لیے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں۔
ذُوالقرنین اور مسیح موعود
یہ زمانہ چونکہ کشف حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق اور معارف مجھ پر کھول رہا ہے۔ ذوالقرنین کے قصے کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجے یہ سمجھایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے پیرایہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لیے رکھا ہے کہ قرن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا، اس لیے ذوالقرنین کہلائے گا۔ چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائی ہیں اور اسی طرح پر دوسری صدیاں ہندوئوں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں۔ اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے۔ اور پھر اسی قصہ میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ذوالقرنین نے تین قومیں پائیں۔ اول وہ جو غروبِ آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے۔ اس سے مراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے۔ یعنی شریعتِ حقہ اُن کے پاس نہیں رہی۔ روحانیت مر گئے اور ایمان کی گرمی جاتی رہی۔ یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جھلسنے والی دھوپ ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے۔ آفتاب یعنی شریعت حقٰہ اُن کے پاس موجود ہے، مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے، کیونکہ فائدہ تو حکمت عملی سے اُٹھایا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً روٹی پکانا۔ وہ گو آگ سے پکائی جاتی ہے، لیکن جبتک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے وہ روٹی تیار نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح پر شریعت حقہ سے کام لینا بھی ایک حکمت عملی کو چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں نے اس وقت باوجودیکہ اُن کے پاس آفتاب اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا۔
اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یاجوج ماجوج سے بچا۔ یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا۔ہے۔ غرض آج اِن قصوں کا علمی رنگ ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصہ پہلے بھی کسی رنگ میں گزرا ہے، لیکن یہ سچی بات ہے کہ اس قصہ یں وقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور پیشگوئی تھا جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا۔
اَلھُدیٰ اور اَلحَق سے مراد
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھر ہ علی الدین کلہ (الصف : ۱۰)
پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ھدی اور حق کے رکھے ہیں۔ ھدیٰ تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے۔ معما نہ رہے۔ یہ گویا ندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے، جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے؛ چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے۔ جاء الحق وز ھق الباطل۔ اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے۔ لیظھرہ علی الدین کلہ۔ یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا۔ یہ غلبہ تلوار او ر تفنگ سے نہیں ہوگا، بلکہ وجوہ ِ عقیلہ سے ہوگا۔
یاد رکھو کہ پاک صاف عقل کا خاصہ ہے کہ وہ قصوں پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اسرار کو کھینچ لاتی ہے۔ اسی واسطے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو حکمت دی گئے۔ اُن کو خیر کثیر دی گئی ہے۔
اِنّہٗ اٰوَی القَریَۃَ کے معنے
آجکل ہمارے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی توجہ طاعون کی طرف زیادہ ہے اور چونکہ یہ لوگ عارف تر ہوتے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ کی غنائِ ذاتی سے خائف تر بھی ہوتے ہیں۔ عموماً سیر اور بعد شام طاعون پر کچھ نہ کچھ تقریر ہو جاتی ہے انہ اوی القریۃ۔کا جو الہام ایک عرصہ سے آنحضرتؐ کو ہو چکا ہے۔اس کے متعلق فرمایا کہ میں اس کے معنی یقیناً یہی سمجھتا ہوں کہ وہ افرالتفری اور قیامت خیز نظارہ جو طاعونکی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اس سے اﷲ تعالیٰ قادیان کو ضرور محفوظ رکھے گا؛ اگر چہ یہ امر ممکن ہی ہو کہ کوئی کیس خدا نخواستہ یہاں ہوجائے ، مگر النّادر کا لمعدوم کے ضمن میں ہے؛ تا ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل او ر وعدہ کے موافق یقین ہے کہ وہ ہمیں تشویش اور سخت اضطراب سے ضرور محفوظ رکھے گا۔؎ٰ
۲۳ ؍ مارچ ۱۹۰۲ء؁
مامور من اﷲ کے مکذبین سے خدا تعالیٰ کا معاملہ
مامور من اﷲ کی صحبت میں رہنے والے لوگ بہت کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ایک حد تک علم صحیح اس تعلق کے متعلق جو مامور من اﷲ اور خدا تعالیٰ میں ہوت اہے حاصل کرتے ہیں، مگر وہ کامل علم جو اس مامور کو دیا جاتا ہے کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا۔ اور خدا تعالیٰ کا علم تو پھر اور ہی رنگ رکھتا ہے۔ جب مامور کی تکذشیب اور انکار حدتک پہنچ جاتا ہے تو پھر ٹھیک اسی طرح جیسے زمیندار جب فصل پَک جاتی ہے تو اس کے کاٹنے کے واسطے درانتی کو درست کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بھی مکذبوں کے لیے تیاری کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے حجت پوری کر چکا ہے۔ اس لیے اب ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خاموشی سے آسمانی ہتھیار اور حربے کو دیکھے۔دنیا میں ہم یہ قانون دیکھتے ہیں کہ جب ایک حاکم کو معلوم ہو جاوے کہ فلاں مظلوم ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ جس کا علم سب سے زیادہ صحیح اور یقینی ہے جو ہر حال کا بینا ہے، کیوں اس مظلوم صادق کی مدد نہ کرے گا۔ جو محض اس لیے ستایا گیا یہ کہ اس نے اﷲ تعالیٰ سے الہام پاکر یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔اﷲ تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اُن کی مدد کرتا ہے، لیکن ہاں یہ سنت اﷲ ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کو اس تکذیب اور انکار کی خبر نہیں کفر ہے۔وہ تو ابتدا سے جانتا ہے کہ کیا کِیا جاتا ہے۔
اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں۔ جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے۔ اسی طرح مخالف اپنے غلو میں ہر قسم کی با حیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔شیطان نے اُن کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان اُن کے لیے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقبلے میں بالکل چھوڑدیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلہ پر نگاہ کریں۔ جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعائوں کے لیے دیں۔
خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے
ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ ا سامر کو مد نظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں ۔مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے، تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے ۔ لیکن جناب الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ
ان اکرمکم عند اﷲاتقکم۔(الحجرات : ۱۴)
یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بہی وہیں رہے اور شریر اور باپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چوہکہ اس کا علم خدا کو ے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو *** کے نیچے آیا ہے۔
الٰہی اور شیطانی الہام میں فرق
اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ان میں علماء بھی ہیں۔ ملہم بھی ہیں تو یہ ایک خیالی بات ہے اور اس سے کوئی ھائدہ اس مقصد کو نہیں پہنچ سکتا جو انسانی ہستی کا ہونا چاہیے۔یادرکھو وہ امر جس پر خدا راضی ہوتا ہے جبتک وہ نہ ہو نہ علم صحیح ہوتا ہے نہ الہام مفید۔ جو شخص پاخانہ کا پاس کھڑا ہے۔ پہلے تو اُسے بدبو ہی آئے گی۔پھر اگر عطر اس کے پاس کیا جاوے تو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائیگا۔ جبتک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو کچھ نہیں ملتا۔ اور خدا سے قریب کرنے والی بات صرف تقویٰ ہے۔ سچی آواز سننے کے لیے متقی بننا چاہیے۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ہر آواز کو جو انہیں ئجاوے الہام ہی سمجھتے ہیں ؛ حالنکہ اضغاث احلام بھی ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو آوازیں انہیں سنائی دیتی ہیں،وہ بناوٹی ہیں۔ نہیں اُن کو آوازیں آتی ہوں گی، مگر ہم ہر آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار نہیں دے سکتے، جبتک اس کے ساتھ وہ انوار اور برکات نہ ہوں جو اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اسلیے ہم کہتے ہیں کہ ان الہام کے دعویٰ کرنے والوں کو اپنے الہاموں کو اس کسوٹی پر پَرکھنا چاہیے اور اس بات کو بھی اُنہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بعض آوازیں بری شیطانی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان آوازوں پر ہی فریفتہ ہو جانادانشمند انسان کا کام نہیں، بلکہ جبتک اندرونی نجاست اور گند دور نہ ہو اور تقویٰ کی اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل نہ ہو اور اس درجہ اور مقام پر انسان نہ پہنچ جاوے۔ جو دنیا ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی حقیر اور ذلیل بظر آوے اور اﷲ تعالیٰ ہی ہر قول و فعل میں مقصود ہو اس مقام پر قدم نہیں پڑ سکتا جہاں پہنچ کر انسان اپنے اﷲ کی آواز کو سنتا ہے۔ اور وہ آواز حقیقت میں اسی کی ہوتی ہے، کیونکہ اس وقت یہ تمام نجاستوں سے پاک ہو گیا ہوتا ہے۔
غرض نری آوازیں اور چندرسمی کتابوں کے پڑھ لینے سے فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ فیصلہ کی اصل اور سچی راہ وہی ہے جس کو تائیداتِ الٰہیہ کہتے ہیں۔ اُن سے ہی فیصلہ ہوتا ہے اور خدا ہی کا حربہ فیصلہ کرتا ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور ایسے مقام پر کھڑا ہے جو نجاست سے بالکل الگ ہے۔ وہ وہی پاک آوازیں سنتا ہے جو حضرت موسیٰ۔حضرت عیسیٰ۔حضرت نوح۔حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام نے سنیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سنا تھا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آوازوں کی صداقت اور عملی ظہور کے لیے انسانی ہاتھوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ خود خدا تعالیٰ ان کی چمکار دکھاتا ہے؛ اگر چہ یہ بہت ہی باریک باتیں ہیں جو معرفت کے اسرار میں داخل ہیں؛ تا ہم خوسبو اور بد بو اپنے مختلف نظاروں سے شناخت کی جاسکتی ہے۔ اچھے درخت کو کئی طرح پہچان لیتے ہیں۔پتوں سے بھی شناخت کر لیتے ہیں۔ میں نے ایک بار الائچی کا درخت انبالہ میں دیکھا اور ایک پتا اس کا لیکر سونگھا، تو اس میں الائچی کی خوشبو موجود تھی؛اگر چہ ابھی اس کے تین درجے باقی تھے، مگر خوشبو موجود تھی۔ دانشمند انسان بہت سے قرائن سے امر واقعی کو معلوم کر لیت اہے۔ خباثت بھی ہزاروں پردوں میں چھپی رہتی ہے اور تقویٰ بھی ہزاروں پردوں میں مخفی رہتا ہے، مگر اُن کے آثا ر اور قرائن سے بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جسے کوئی آدمی عین بدکاری کی حالت میں پکڑا جاوے تو اسے بہت ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ایک متقی جب اپنے تقویٰ کے سیر و عبادت میں مصروف ہو اور کوئی اجنبی اس پر گزرے توا س کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ شرمندگی کے موجبات تو ایک ہی ہیں ۔بددار اپنی بدکاری کو امر مستور رکھنا چاہتا ہے اور متقی اپنے تقویٰ کو۔غرض تقویٰ کے امور بہت پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ اس سر کی ملائکہ کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پھر دوسرے کو کیسے مل سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعلق تدلیٰ کا تھا اس کی کیفیت کو اﷲ تعالیٰ جس قدر سمجھتا تھا اس کو کسی دوسرے نے ہر گز نہیں سمجھا۔ نہ حضرت ابو بکرنے اُسے سمجھا نہ حضرت علی نے اور نہ کسی اور نے۔ آپ کا انقطاع تام اور اﷲ تعالیٰ پر توکل کرنا۔ اور مخلوق کو مرے ہوئے کیڑے سے ہیچ سمجھنا ایک ایساامر تھا جو دوسروں کو بظر نہ آسکتا تھا، مگر خدا تعالیٰ کی تائیدوں کو دیکھ کر لوگ یہ نتیجہ ضرور نکالتے تھے کہ جیسا خدا تعالیٰ سے سچا اور قوی تعلق اُس نے پیدا کیا ہوا ہے ۔خدا تعالیٰ نے بھی اس سے کوئی فرق نہیں کیاہے۔

قرآن کریم اور انجیل کی تعلیمات کا موازنہ
کیسی عظیم الشان بات ہے آپ کا کوئی ذلّت کا کبی نصیب نہیں ہو ا، بلک ہر میدان میں آپ ہر طرح معزّز ثابت ہوئے ہیں لیمن بالمقابل اگر مسیح کی حالت کو دیکھیں کہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اُنہیں کیسی ذلّت پر ذلُت نصیب ہوئی ہے بسااوقات ایک عیسائی شرمند ہ ہوجاتا ہے م، جب وہ اپنے اس خداکی حالت پر غور کرتا ہوگا جو اُنھوںنے فرضی اور خیا لی طور پر بنایا ہواہے ۔ مجھے ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اوراس خداکو جس کہ واقعات کس قدر انجیل سے ملتے ہیں ۔ رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے ترجیح کیونکردیتے ہیں مثلاؔیہی تعلیم ہے ایک گا ل پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو اب اس کے تمام پہلوؤ ں پر غور کر و صاف نظر آجائے گا یہ کیسی بودی اور نکمی تعلیم ہے ۔ بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ اُن سے بچّے خوش ہوجاتے ہیں بعض سے متوسط درجے کے لوگ او ربعض سے اعلیٰ درجے کے لوگ ۔
انجیل کی تعلیم صرف بچّوں کا کھلونا ہے کہ جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو اس قدر قویٰ عطا فرماتے ہیں ۔ ان سب کا موضوع او ر مقصود یہی ہے کہ وہ طمانچہ کھایاکرے ؟ انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے ، مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قویٰ کو بیکار چھوڑ دواور ایک ہی قوت پر زور دیتے جائو بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کامربّی ہے او ربرمحل قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیسا کے مسیح کی اس تعلیم کی بجائے قرآن شریف فرماتا ہے ۔
جزاواسیئۃ سیئۃ مثلھافمن عفی واصلح (الشوری: ۴۱)
یعنی بدی کی سزا تو اس قدر بدی ہے ، مگر عفو بھی کرو تو ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو ، وہ عفو بہ محل نہ ہو ، مثلاً ایک فرما بردار خادم ہے اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض ادا کرنے میں نہیں کرتا ۔ مگر ایک دن اتفاقاً اس کے ہاتھ سے گرم چائے کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ہی ٹوٹ جاوے بلکہ کس قدر گرم چائے سر پر بھی پڑجاوے تو اس وقت یہ ضرو ری نہیں کہ آقا اس کو سزا دے بلکہ اس کی حسب حا ل سزا یہی ہے کہ اس کو معا ف کر دیا جا وے ۔ ایسے وقت پر مو قع شنا س آقا تو خود شرمندہ ہو جا تا ہے کہ اس بیچا رے نو کر کو شر مندہ جوہو نا پڑے گا ، لیکن کوئی شر یر نو کر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر رو ز نقصا ن کر تا ہے اگر اس کو عفوکر دیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا ۔ اس کو تنبیہ ضروری ہے ۔ غرض اسلا م انسانی قویٰ کو اپنے اپنے مو قع اور محل پر استعما ل کر نے کی تعلیم دیتا ہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جا تی ہے گر حفظ مرا تب نہ کُنی زندیقی۔
غر ض حفظ مرا تب کا مقا م قر آن شریف نے رکھا ہے کہ عدل کی طر ف لے جا تا ہے ۔تمام احکا م میں اس کی یہی صورت ہے ۔ مال کی طرف دیکھو ۔نہ ممسک بنا تا ہے نہ مسرف ۔یہی وجہ ہے کہ اس امّت کا نا م ہی امَّتہ وَّسطاََرکھ دیا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السّلام
پھر دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کو دیکھنا چاہیے۔یہ قائدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے دل کی بات تو بادشاہ ہی جانتا ہے مگر جس پر وہ اسرار ظاہر کرتا ہے یا اپنی رضامندی کے آثار جس پر دکھاتا ہے ضروری ہے کہ ہم اس کو مقرب کہیں ۔اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کے قرب کا مقاموہ نظر آتا ہے جو کسی دوسرے کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔وہ عطایا اور نعماء جو آپؐ کو دیے گئے ہیں سب سے بڑھ کر ہیں اور جو اسرار آپؐ پر ظاہر ہوئے اور کوئی اس حد تک پہنچا ہی نہیں ۔قرآن شریف ہی کو دیکھ لو۔ کہ کس قدرعظیم الشا ن اپیشگوئیاں اس میں موجود ہیںحضرت مسیح کا مجھے بارہا خیال آتا ہے کہ یہ نادان کس شیخی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا مقابلہ کرنے بیٹھتے ہیں ۔ حضرت مسیح کا دعویٰ ہی تو بجائے خود محدود ہے ۔ وہ صاف کہتے ہے کہ میںبنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لیے آیا ہوں ۔
ضربت علیہم الذلۃ (آل عمران : ۱۱۳)
کی مصداق آپ کی دعوت کو مخاطب قوم تھی ۔ یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نمبر داری یا پتی دای کا دعویٰ کرے ۔ اب اُن کی ہمت استقلا ل اور توجہ اسی دعویٰ کی نسبت ہونی چاہئیے ۔ دوسری طرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
قل یا ایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ ( ا لا عراف ۱۵۹)
اب اس ہمت اور بلندی نظری اور توجہ کا مقابلہ کرو کیا یہی خدائی کی شان ہے یہودیوں کے چار گھروں کے سوا اور کسی کی اصلاح کے لیے بھی نہیں آئے ۔
خدا کے حسبِ حال توہونا چاہئیے تھا کہ آپ کی دعوت کا میدان بڑا وسیع ہوتا۔خیربنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوںکے لیے ہی دعوت سہی ۔ مگر اب یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ اس میں کا میابی کیا ہوئی ۔ غور کیا جاوے اور انجیل واقعات پر نگاہ کی جاوے تویہ راز بھی کھل جاتا ہے کہآپ کو ہر میدان میں ذلیل ہوناپڑادوشمنوں پر کامیابی نہ ملی۔ انہوں نے صلیب پر چڑھادیا اور قصّہ پاک ہوا۔
اس خدا کا مقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا ہے آپ ہر میدان میں مظفر ومنصور ہوئے ۔ آپ کے دوشمن آپؐ پر کبھی قابوُ اور غلبہ نہ پاسکے اور آپؐ کے سامنے ہی ہلاک ہوئے ۔ آپؐ کو بھیجا ایسے وقت میں گیا جبکہ زمانہ آپ ؐ کی ضرورت کو خودثابت کرتا تھا ۔اور اُٹھائے ایسے وقت گئے جبکہ کامل اصلاح ہو چکی تھی اور آپؐ اپنے فرض منصبی کو پوری کامیابی کے ساتھ ادا کر چکے اور
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴)
کی آواز آپؐ نے سن لی ۔
پھر مسیح کی طرف دیکھو آپ صلیب پر چڑھے ہوئے ہیں اور ایلی ایلی ما سبقتنی کے فریاد کرتے ہیں ۔یہودااسکریوطی تیس روپیہ پر اپنے اُستاد کو پکڑوا چکا ہے اور پطرس صاحب *** بھیجرہے ہیںب ۔مسیح کے لیے وہ نظارہ کیسا مایوسی بخش ہے۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپؐ کے جاں نثار رفیق کس طرح پر اپنی جانیں آپؐ کے قدموں پر قربان کر رہے ہیں۔ایسے وفادار اور فرماںبردار اصحاب اور رفیق کس کو ملے اور یہ وفاداری اور اطاعت میں فنا کہ اپنی جانوں تک کے دے دینے میں دریغ نہ کیا ۔آپ ؐ کی ذاتی قوت ِ قدسی کا ثبوت ہے جو مقابلہ کرنے سے مسیح میں کچھ بھی نظر نہیں آتی۔
قرآن کریم اور بائیبل
پھر اَسرار کی طرف نگاہ کرو ۔جس قدر اسرار اور رموز قرآن شریف میں ہیں توراتؔ اور انجیلؔ میں وہ کہا ں ۔ پھر قر آ ن شریف تمام امور کو صرف دعویٰ ہی کے رنگ میں بیان نہیں کر تا جیسے تورات ؔیا انجیل ؔجو دعویٰ ہی دعویٰ کر تی ہیں بلکہ قرآن شر یف استدلالی رنگ رکھتا ہے کو ئی با ت وہ بیا ن نہیں کرتا جس کے سا تھ اس نے ایک قوی اوا مستحکم دلیل نہ دی ہو ۔ جیسی قرآن شریف کی فصا حت وبلا غت اپنے اندر جذب رکھتی ہے ۔جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اس کے دلائل مؤثر ہیں۔غرض میرا مطلب ان ساری باتوں سے یہ ہے کہ سب سے بڑھ کرکامل اور مؤثر نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسّلم کاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی وا رث جماعت
اسی طرح پر اب بھی وہی خدا ہے جس نے رسو ل اللہ صلی علیہ وسلم پر احسا ن اور انعا م کیے اور اسی طرح پر اب بھی اس کے فضل اور بر کا ت کے انعام ہو رہے ہیں ۔ پس یاد رکھو کہ جو فریق اس حق کی مخا لفت کرتا ہے اور اسے مفتری کہتا ہے وہ جس قدر مخا لفت چاہیں کریں ۔ مخالف الہا م سنا ئیں ان کو آخر معلو م ہو جائے گا کہ غالب وہی ہوتا ہے جس کو خدا نے اپنا نور اور فضل دے کر بھیجا ہے اور خدا تعا لیٰ اپنی قدیم سنّت اور عادت کے موافق اس قو م پر اپنا فضل کرے گا جس کو اُس نے منتخب کیا ہے ۔وہی دنیا پر پھیلے گی اور وہی قرآن شریف ،اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وارث ہو گی۔
مومینین کے تین طبقے
دنیا میں ہمیشہ انسانوں کے تین طبقے ہو تے ہیں سابق بلخیرات ، مقتصداور ظالم ،سابقین کو نشانات اور معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وہ تو قراِئن اور حا لا ت موجود ہ سے پہچا ن لیتے ہیں ۔ مقتصدین کوکچھ حصّہ روشن دما غی کا ملا ہوا ہوتا ہے اور کچھ تاریکی کا ، اس لیے وہ دلائل اور معجزات کے محتا ج ہوتے ہیں مگر تیسرا طبقہ جو ظا لمین کا ہوتا ہے وہ چونکہ بہت ہی غبی اور بلید ہو تے ہیں ۔ بجُز مار کھا نے وہ نہیں مانتے ۔یہ ایک قسم کا جبر ہو تا ہے جو ہر مذہب حق میں پایا جاتا ہے، کیو نکہ ظالمین بجز اس کے سمجھ نہیں سکتے ۔حضرت مسیح کے لیے طیطاؤس رُومی کا اتفاق ہو گیا ۔ موسیٰ کی قو م جو پہلے ہی سے مزدوریوں اور فر عو ن کی سختیوںنالاں تھی اس نے حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبو ل کر لینا اپنی نجات کا مو جب سمجھا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے لیے وقتاََ فوقتاََ اُن پر عذاب بھیجتا رہا ۔کبھی طاعو ن کبھی زلزلے مختلف طریق پر انہیں منوا یااور اسی طر ح ہو تا رہا ہے ۔
غرض یہ ایک سنّت اللہ ہے کہ ظالمین کو اللہ تعالیٰ اس طر یق پر سمجھاتا ہے کیوں ۔ یہ فرقہ زیادہ بھی ہو تا ہے اور غبی بھی ۔اس وقت بھی یہ فر قہ زیا دہ ہے جو نشا نات خدا ے ظاہر کئے ان پر بھی جرح کر تے ہیں۔کسو ف و خسو ف کی حدیثکو مجرو ح قرار دیدیا ۔ لیکھرا م ؔ کی پیش گو ئی پر اعترا ض کر دیا ۔ہر نشا ن جو ظا ہر ہو تا ہے اعترض کر دیتے ہیں ، مگر خدا تو سب کا مر شد ہے اس نے تیسری صو رت اور آخری حجت اختیار کی ہے جو طا عو ن ہے ۔
طاعو ن کا علاج۔ تو بہ ۔ استغفا ر اور تہجّد
طاعون کا علا ج توبہ استغفا رہی ہے ۔یہ کوئی معمولی بلا نہیں بلکہ ارادہ الٰہی سے نازل ہو ئی ہے ۔یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت میں کسی کو نہ ہو ۔صحابہ میں سے بھی بعض کو طاعو ن ہو گئی تھی لیکن ہا ں ہم یہ کہتے ہیں کہ خد ا تعالیٰ کے حضور تضّرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود احکا م کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلا ل سے ہیت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصّہ لے گا اس لیے ہما ری جماعت کوچا ہیے کہ تہجّد کی نماز کو لازم کر لیں۔جو زیا دہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے ، کیو نکہ اس کو دُعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا اس وقت کی دعاؤں میں ایک خا ص تا ثیر ہو تی ہے ، کیو نکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں ۔جب تک ایک خا ص سو ز اور درد دل میں نہ ہو ۔ اس وقت تک ایک شخص خوابِ راحت سے بیدا ر کب ہو سکتا ؟ پس اس وقت کا اٹُھناہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے د عا میں رقت اور اضطرا ب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبو لیت دعا کاموجب ہو جاتے ہین ، لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیو نکہ نیند سے بڑھ کر جو بیدار کر رہا ہے پھر ایک اور با ت ضرو ری ہے جو ہما ری جماعت کو اختیار کرنی چاہیے اثر وہ یہ ہے کہ زبان کو پا ک کر نے سے گویا خدا تعا لیٰ وجود کی ڈیو ڑھی میں آجا تا ہے جب خدا تعالیٰ ڈیو ڑھی میں آگیا تو پھر اندرآنا کیا تعجب ہے ؟
پھر یا د رکھو کہ اللہ اور حقو ق عبا د میں دانستہ ہر گز غفلت نہ کی جاوے ۔جو ان اموار کو مّد نظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا ۔یا یوں کہو کہ جسے دعا کی تو فیق دی جاوے گی ۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بچ جاوے گا ۔ظاہری تدا بیر صفا ئی وغیرہ کی منع نہیں ہیں ۔ بلکہ بر توکل زانوئے اشتربہ بند ۔ پر عمل کر نا چا ہیے جیسا کہ ایا ک نعبد و وایا ک نستعین
سے معلو م ہو تا ہے ،مگر یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فر مایا ہے ۔
قد افللح من زکھا (الشمس:۱۰)
ہر شخص اپنا فر ض سمجھ لے کہ و ہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے تمہیںیا د ہو گا کہ مجھے الہا م ہو ا تھا۔
ایام غضب اللہ غضبت غضباشدیدا
یہ طاعو ن کے متعلق ہے مگر وہی خدا کے فضل کا امید وار ہو سکتا ہے جو سلسلہ دعا ، توبہ اور استغفار کا نہ توڑے اور عمداََ گناہ نہ کرے ۔
گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلا ک کر دیتی ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہے گناہ سے صرف خدا تعا لیٰ کا خوف اور اس کی محبت ہٹاتی ہے طاعون بھی گناہوں سے بچانے کے لیے ہے صوفی کہتے ہیں کہ سعید کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتے ۔
‏Amira
بعض کے حالات سنے ہیں کہ انہوں نے دعا کی کہ کوئی ہیبت باک نظارہ ہوتا کہ دل میں رقت اور درد پیدا ہو۔ اب اس سے بڑھ کر کیا ہیبت ناک نظارہ ہوگا کہ لاکھوں بچے یتیم کیے جاتے ہیں۔ بیوائوں سے گھر بھر جاتے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے نام و نشان نو جاتے ہیں اور کوئی باقی نہیں رہتا۔ اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو ایسے موقعوں پر ہمیشہ بچا لیتا ہے جبکہ بلائیں عذابِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوں۔ پس اس وقت خدا کا غضب بڑھا ہوا ہے اور حقیقت میں یہ خدا کے غضب کے ایام ہیں، اس لیے کہ خدا کے حدود و احکام کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور اس کی باتوں پر نہسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ پس اس سے بچنے کے لیے یہی علاج ہے کہ دعا کے سلسلہ کو نہ توڑو۔ اور توبہ و استغفار سے کام لو۔ وہی دعا مفید ہوتی ہے جبکہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مفر بظر نا آوے۔ جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جویاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے۔؎ٰ
۵ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
شام کو چند آدمی بیعت کیلئی آئے ہوئے تھے۔ آپ نے بعد بیعت بظاہر ان کو خطاب کر کے کل جماعت کو یوں ہدایت فرمائی:۔
استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو۔ موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔
جس وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے، لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کی سزا کو معاف کر دیتا اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا معاف کر دیتا ہے، اس لیے تم بھی اب ایسے ہو کر جائو کہ تم وہ ہو جائو جو پہلے نہ تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو۔ تمہارے دلوں میں رقت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جائو تو بے خوف اور نڈر ہو جائو۔ نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہیے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضٰ ہو گا یاناراض۔ نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز اس لیے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں ۔ بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں۔یہ کچھ نہیں۔
نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو۔ تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو‘‘۔
طاعون ایک غضبِ الٰہی ہے
طاعون جو دنیا میں آئی ہے اور اُس نے لاکھوں انسانوں کو زیرِ زمین کر دیا ہے، جس سے لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئے ہیں بلکہ کئی گھر بالکل تباہ ہو گئے اور خاندانوں کے خاندان بے نام ونشان ہو گئے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک غضب ہے جو انسانوں کی غفلت اور حد سے بڑھی ہوئی شرارت اور انکار کی وجہ سے آیا ہے۔
خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جب انسان غافل ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو اس وقت خدا کا غضب ئجوش میں آتا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو گئی تھی۔ کچھ تو خود گمراہ ہی تھے اور غفلت اور سستی ان میں آگئے تھی۔ سچے مذہب کے سچے عقائد کو چھوڑ بیٹھے تھے اور تمام اعمال صالحہ کی جگہ صرف چند رسوبات نے لے لی تھی۔ اس پر پادریوں نے اور بھی مٹی پلید کی۔ اُنہوں نے مختلف ذریعوں سے اس بیہودہ مذہب کو جس میں ایک عاجز انسان کو جو مر گیا ہے خدا بنایا گیا۔ لوگوں کے سامنے عجیب عجیب رنگ دے کر پیش کیا اور اس کے خون کو گناہوں کا کفارہ قرار دے کر بیباک زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی۔ حیلہ جو کے اس فتنہ کے ستھ ہی یہ نقص پیدا ہوا کہ انگریزی تعلیم اور انگریزی وضع نے بھی ایک قسم کی نصرانیت پھیلادی جبکہ سروں میں آزادی ہی آزادی کا خیال بھر گیا۔
ادھر یورپ کے فلسفہ اور طبیعات نے اپنی جدید تحقیقاتیں جو پیش کیں تو علماء نے اپنی کمی معرفت اور علوم حقہ سے بیخبری کے باعث اور بھی نڈصان اسلام کو پہنچایا۔ان میں سے بعض نے تو قرآن کریم کی تعلیمات کی اس فلسفہ سے دب کر ایسی تاویلیں شروع کر دیں جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے منشاء کیصریح خلاف تھیں اور بعض نے سرے سے ان علوم جدیدہ کے پڑھنے والوں کے اعتراضوں پر ان کوکفر کے فتوے دینے شروع کر دیئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی تعلیم نے جو آزادی پھیلا دی تھی۔ اس نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہوئے بچون کو بالکل بیباک کر دیا اور پھر ایک اور آفت یہ آئی کہ مسلمانوں میں سستی اور غفلت تو پیدا ہو ہی چکی تھی۔ سچے عقائد کو چھوڑ کر قسم قسم کی بدعتیں اور سلسلے خدا تعالیٰ کے سچے دین اور سلسلے کے خلاف پیدا کیے گئے اور مشرکا نا تعلیمات اور وظائف قائم کر لیے تھے۔
ان ساری آفتوں کے ہوتے ہوئے جب خدا تعالیٰ نے اپنے قدیم قانون کے موافق محض اپنے فضل سے ایک بندہ بھیج دیا جو ان ساری مصیبتوں کا چارہ گر اور مداوا تھا۔ ان لوگوں نے ناحق اسے تکلیف دی، اس کی مخالفت کے لیے اٹھے۔ جب ان کی مخالفت اور شرارت حد سے بڑھ گئے اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کی شوخیاں اور گستاخیاں اور بے جا ضد اور عدادت سے ملا ہوا اندار قابل سزا ٹھر گیا، تو اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس بندہ کی تائید کے لیے طاعون بھیجا۔ ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ اﷲ تعالیٰ اس مرض سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے۔ طاعون کوئی معمولی مریض نہیں ہے اور نہ اس کے دورہ کا کوئی خاص نظام ہے بلکہ بعض اوقات یہ سالہائے دراز تک اپنا سلسلہ جاری رکھتی ہے اور اس وقت تو طاعون خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص کام کے لیے مومور کی گئی ہے۔ وہ لوگ غلطی اور گناہ کرتے ہیں جو طاعون کو برا کہتے ہیں ۔یہ خدا کا فرشتہ ہے جو اس کے بندے کی سچائی پر ایک گواہی قائم کرنے کے لیے آیا ہے۔؎ٰ
طاعون کی شدت اور اس کے متعلق پیشگوئیاں
پس ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ خدا اس سے محفوظ رکھے۔ بظاہر طاعون ہر ایک گائوں کا دورہ کرے گی۔ یہ نہ سمجھو کہ کوئی باقی رہ جاوے گا۔ وہی بچ سکتا ہے جو توبہ اور استغفار میں مصروف ہے۔ اس لیے اس وقت ضروری ہے کہ اپنی جان اور اپنی بیوی بثوں پر رحم کرو۔ یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بدکاریاں اور شوخیاں اس حدتک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں کہ جب وہ خدا کے غضب سے ہلاک ہوتا ہے، تو اس *** اور غضب کا ثر اُس کی اولاد تک بھی پہنچتا ہے۔ اسی لیے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے ولا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶) عقبٰھا سے اولاد اور پسماندگان مراد ہیں۔ جہاں جہاں طاعون پھیلا ہے۔ لوگ کتوں کی طرح مرتے ہیں۔ بعض مردہ چوہوں کی طرح بد بُو دار ہو جاتے ہیں۔ کوئی اُن کو اُٹھا بھی نہیں سکتا اور ان کے جنازوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قبروں میں ڈالتے ہیں۔ بہت سے خطوط طاعون زدہ علاقوں اور گائوںسے آئے ہیں۔جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوئی جنازہ نہیں پڑھتا۔ مرداروں کی طرح مردوں کو گڑھے کھود کر ڈال دیا جاتا ہے، مگر تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ خدا تعالیٰ کا یہ غضب کیوں آیا؟
میں یقینا کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ آتے ہیں ۔ جب اُن کی باتوں کو لوگ نہیں مانتے اور شرارت اور شوخی سے اُن کا انکار کر کے ایزارسانی کی حدتک پہنچ جاتے ہیں۔ تو پھر خدا تعالیٰ کا غضب کسی نا کسی رنگ میں جوش میں آتا ہے؛ چناچہ پہلے نبیوں کے وقت میں کسی قوم کو کسی عذاب سے ہلاک کیا۔ کسی کو کسی سے،مگر اس وقت جو مسیح موعود کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ نے اس شرارت اور شوخی سے ملے ہوئے انکار کی سزا کے لیے ساعون کو مقرر کیا ہے: چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانہ کا نشان طاعون قرار دیا اور انجیل میں بھی اسی کی صداقت موجود ہے۔ براہین ؔاحمدیہ میں بھی آج سے پچیس برس پیشتر خدا تعالیٰ نے طاعون کے پھیلنے کی خبر دی تھی۔چونکہ اندار حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور انکار کے ساتھ شرارت اور ایزار سانی بھی ہے اور قسم قسم کے طعن کیے جاتے ہیں، اس لیے خدا تعالیٰ نے طاعون ہی کو سزا کے لیے بھیجا۔ اور یہ بات کہ مامون من اﷲ کی تکذیب اور ایذارسانی پر عذاب کیوں آتا ہے ایسی صاف ہے کہ تم اس کی مثال ایسی سمجھ سکتے ہو جیسے سرکار کسی چپڑاسی کو معاملہ وصول کرنے کے لیے بھیجے؛ حالانکہ وہ چپڑاسی بانچ چھ روپیہ موہوار کا ملازم ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کو معاملہ نا دے یا شرارت کر کے اس کو دکھ کے۔ تو گورنمنٹ سارے گائوں کو سزا دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے خواہ اس میں کیسے ہی معزز اور دولتمند زمیندار بھی ہوں۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے ماموروں کی بے عزتی کی جاوے، تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اس کا غضب پھڑک اُٹھتا ہے۔اس وقت وہ شریروں کو سزا دینے کے لیے اپنے بندے کی حمایت میں نشان ظاہر کرتا ہے۔
مسیح موعود کی بعثت کی غرض
پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بُری بات تو کہتے ہی نہیں۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو۔ نامزیں پڑھو اور جو غلطیانن مذہب میں پڑ گئے ہوئے ہیں، انہیں نکالتے ہیں؛ چنانچہ اس وقت جو میں آیا ہوں، تو میں بھی اُن غلطیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں جوفیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ تعلیم توحید کو مشکوک کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہیں۔ نہ زمانہ کا کوئی اثر اُن پر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور دو ہزار برس سے ابتک اسی طرح موجود ہے۔ کوئی تغیّر وتبّدل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا۔اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے، جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ زندہ نبی کو مردہ رسول قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور بے عزّتی اسلام کی کیا ہوگی، مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے، جنھوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئے بات پیدا کر لی۔ قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے، لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لیے رکھا تھا، کیونکہ میرا نام خدا نے حکم رکھا ہے۔ اب جو اس فیصلہ کے لیے آوے وہی اس غلطی کو نکالے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر خدا اُس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں س یاُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے ۔ خدا تعالیٰ نے جس کو حکم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتی ہیں۔بھلا دائی سے پیٹ چھپ سکتا ہے۔ قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا اور وہ آگیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا۔ جو فیج اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خود نقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا۔ اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدہ نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے۔ اس اپول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین۔ جب یہ مان لیا کہ مردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا۔ آخری انصاف کرنے والا یسوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاذاﷲ کچھ بھی نہ ہوئے؛ حالانکہ اُن کو رحمتہ للعالمین کہا گیا اور وہ کافتہ الناس کے لیے رسول ہو کر آئے۔ خاتم النبیین وہی ہوئے۔ ان لوگوں کا جنھوں نے مسلمان کہلا کر ایسے۔ بیہودہ عقیدہ رکھتے ہیں، یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں اُن میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے ۔تعوذباﷲ من ذٰلک۔ میں نے ایک بار ایک موحد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کیے جاویں اور پوچھا جاوے کہ خدا کا کونسا ہے اور مسیح کا کونسا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ مل جل ہی گئے ہیں ۔؎ٰ
پھر وہ دین جو خدا تعالیٰ کی توحید کا سرچشمہ تھا اور جس کی حمایت اور آبیاری کے لیے زمین صحابہ کے پاک خون سے سرخ ہو گئے تھی۔ اسی کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے ایک عورت کے بچہ کو عیسائیوں کا تتبع کر کے خدا بنادیا اور خدا کی صفات کو اس میں قائم کر دیا۔ جب یہانتک نوبت پہنچ گئے تو خدا تعالیٰ نے اپنی غیرت اور جلال کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا اور اُس نے اس نبی ناصری کے نمونہ پر (جس کو نادان مسلمانوں نے خدائی صفات سے متصف کرنا چاہا ہے)مجھے بھیجا ہے، مگر ان لوگوں نے جو ضد اور تعصب سے خالی نہ تھے بلکہ اُن کے دل ان تاریک بخارات سے سیاہ ہو چکے تھے، میری مخالفت کی اور اس مخالفت کو شرارت اور ایزارسانی کی حدتک پہنچا یا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں کے لیے غیرت رکھتا ہے، طاعون کو بھیجا۔ اور یہ اس وقت ہوا ہے جب ہر قسم کی حجت پوری ہو چکی۔ عقلی دلائل اُن کے سامنے پیش کیے گئے۔ نصوص قرآنیہ حدیثیہ سے اُن پر حجت پوری کی اور آخر خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانات بھی کثرت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ہر قسم کے نشان اُن کو ملے، مگ انہوں نے اُنکو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُن پر ٹھٹھا کیا۔ اس لیے آخری علاج طاعون رکھا گیا۔ یہ وہ نشان ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے براھین میں بھی کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں بھی مسیح موعود کے زامانہ کا یہ ایک نشان رکھا ہے۔ اس سے وہی بچیں گے جو توحید اختیار کریں گے اور عاجزی انسان کو خدا نہ بنائیں گے۔ اور خدائی صفات سے اس کو متصف نہ ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی قدر کریں گے۔
‏Amira
مسئلہ ٔ وفات مسیح کی اہمیّت
سب سے پہلی بات جو یاد رکھنی چاہیے ،وُہ وفاتِ مسیح کا مسئلہ ہے ۔یہ لوگ بعض وقت دھوکہ دیتے ہیں کہ وفات مسیح کی بحث کی ضرورت ہی کچھ نہیں؛ حالانکہ اصل جڑ یہی ہے۔ اس مسئلہ سے عیسائیوں کی ساری کارروائی باطل ہوتی ہے اور حضرت مسیح کی خدائی کی ٹانگ ٹوٹتی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر بر خلاف اور نبیوں کی وفات کے بہت ہی بڑا زور دیا ہے۔ اور تیس سے بھی زیادہ آیتوں میں اس مضمون کو بیان کیا؛ چنانچہ یعیسی انی متوفیک اور فلما توفیتنی وغیرہ آیتوں میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ ذکر موجود ہے۔ یہ بیوقوف کہتے ہیں کہ وفات نہیں ہوئی بلکہ خدا نے آسمان پر اُٹھا لیا۔ یہ غلطیاں ہیں جو کتاب اﷲ کے خلاف دین کی ہتک کے لیے لوگوں نے از خود پیدا کر لی ہیں۔ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی صفات عاجزا انسان کو دی جاویں۔ پھر کس شیخی پر یہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا اسلام اسی کا نام ہے کہ یہ اقرار کیا جاوے کہ کچھ مخلوق خدا کی ہے اور کچھ مسیح کی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایسے عقائد بنا کر ان لوگوں نے اسلام کی ہتک کی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت کی ہے۔
خالص توحید اسلام نے سکھائی
اسلام وہ مصفّا اور خالص توحید لے کر آیا تھا، جس کا نمونہ اور نام و نشان بھی دوسرے ملّتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگر چہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی توحید بیان کی گئی ہے اور کل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی توحید ہی کی اشاعت تھی۔ لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اس کا ہر گز پتہ نہیں ہے۔ پھر جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے مکدّر کرنا چاہا ہے، تو بتائو۔ اسلام کی توہین میں کیا باقی رہا۔اس پر اُن کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب اُن کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ستھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟ نہیں! بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت اُن پر پوری ہوتی ہے۔ جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سُن کر یہی کہا ہے۔
ما سمعنا مھذا فی ابا ئنا الاولین (مومنون : ۲۵)
مجددین کی ضرورت
تعجب کی بات ہے کہ تجدید کا قانون یہ روز مرہ دیکھتے ہیں۔ ایک ہفتہ کے بعد کپڑے بھی میلے ہو جاتے ہیں اور اُن کے دھلانے کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن کیا پوری صدی گزر جانے کے بعد بھی مجدد کی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے اور ضرور ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا۔ کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد اصلاح خلق کے لیے آتا ہے، کیونکہ صدی کے اس درمیانی حصہ مین بہت سی غلطیاں اور بدعتیں دین میں شامل کر لی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں فرماتا کہ اس کے پاک دین میں خرابی رہ جاوے، اس لیے وہ ان کی اصلاح کی خاطر مجدد بھیج دیتا ہے؛ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین پھر تابعین پھر تبع تابعین کے زمانے کیسے مبارک زمانے تھے۔ ان تین زمانوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خیرالقرون فرمایا ہے۔ بعد اس کے نیکی اور خیر میں کمی آتی رہی اور غلطیاں پیدا ہونے لگیں۔ یہنتک کہ بہت ہی خطر باک غلطیاں پیدا ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جس کا نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے، جس میں جھوٹ کثرت سے پھیل گیا اور جس کی بابت آپؐ نے فرمایا۔ لیسو امنی ولست منہم۔
ظہور مہدی و مسیح موعود کی غرض
اب اس زمانہ کے بعد خدا نے چاہا ہے کہ ان غلطیوں کو دور کرے اور اسلام کا حقیقی چہرہ پۃر دنیا کو دکھائے اور شرک اور مردہ انسان کی پرستش کو دور کرے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی طور پر ظہور ہوا۔ اور آپؐ کی عظمت کو مسیح کے مقابلہ میں ظاہر کرنے کے لیے خدا کی غیرت نے چاہا کہ احمدؐ کے غلام کو مسیح سے افضل قرار دیا۔
اسی بات کے لیس سورج چاند کو رمضان میں مقررہ تاریخوں پر پیشگوئی کے موافق کرہن لگا۔ یہ مولوی جب تک یہ واقع نہ ہوا تھا۔ مہدی کی علامتوں میں بڑے زور شور سے منبروں پر چڑھ چڑھ کر اس کو بیان کرتے تھے۔لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر اس نشان کو ظاہر کر دیا تو میری مخالفت کے لیے یہ خدا تعالیٰ کے اس جلیل الشان نشان کی بے حرمتی کرتے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک پیشگوئی کی توہین کرتے ہوئے حدیثوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں!!! افسوس۔
اسی طرح پر یہود کے بڑے بڑے مولوی فقیہ اور فریسی کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح آئے اُنہوں نے بھی اندار کیا۔ یاد رکھو حق میں ایک خوشبو ہوتی ہے او وہ خود بخود پھیل جاتی ہے اور خدا اس کی حمایت کرتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا تھا۔ اس وقت میں اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا، مگر اب پچاس ہزار سے بھی زیادہ انسان اس سلسلہ میں شامل ہیں اور اطراف عالم میں اس دعویٰ کا شور مچ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ اگر ساتھ نہ ہوتا اور اُس کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا، تو اس کی تائید کیونکر ہوسکتی تھی اور یہ سلسلہ قائم کیونکر رہ سکتا تھا؟
مخالفت کی وجہ
اور پھر یہ نہیں کہ اس طریق میں سب کو خوش کیا گیا تھا، نہیں بلکہ سب سے مخالفت اور سب کو ناراض کیا گیا۔ عیسائی الگ ناراض اور سب سے بڑھ کر ناراض ہیں، جبکہ اُن کو سنایا گیا یہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے آیا ہوں اور اُن کو دعوت کی گئے کہ تمہارا یسوع مسیۃ جس کو تم نے خدا بنایا ہے اور جس کی صلیبی موت پر جو تمہارے نزدیک *** موت ہے تمہاری نجات منحصر ہے۔ وہ تو ایک عاجز انسان تھا اور وہ کشمیر میں مرا پڑا ہے۔ عیسائی اگر ناراض تھے تو اور کسی قوم کے ستھ بھی صلح نہ رہی۔ آریوںؔکے ساتھ اگر مخالفت، جبکہ اُن کے بیوگ، تناسخ اور دوسرے معتقدات کی ایسی تردید کی گئی کہ جس کا جواب اُن سے کبھی نہ ہوسکے گا۔ اور آخر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بیّن نشان کے ساتھ اُن پر حجّت پوری کی اور اگر باہر والے باراض تھے۔ تو مسلمان ہی خوش ہوتے، مگر تم دیکھ لو کہ ان لوگوں کی جب غلطیاں نکالی گئیں۔ اُن کے مشائخ، پیر زادوں مولویوں اور دوسرے لوگوں کی بدعتوں او مشرکانہ رسومات کو ظاہر کیا گیا اور اُن کے خانہ ساز عقائد کو کھولا گیا تو یہ سب سے بڑھ کر دشمن ثابت ہوئے۔ اب ان سب لوگوں کی مخالفت کے ہوتے ہوئے اس سلسلہ کا ترقی کرنا۔ اور دن بدن بڑھنا بتائو خدا کی تائید کے بغیر ہو سکتا ہے؟ کیا انسانی منصوبوں سے یہ عظیم الشان سلسلہ چل سکتا ہے؟
انسان کی عادت میں داخل ہے کہ جب اسکی عادت اور عقیدہ کے خلاف کہا جاوے تو وہ مخالف ہو جاتا ہے اور ناراض ہو جاتا ہے۔ ایک ہندو کو جب گنگا کے خلاف ذرا سی بات بھی کہی جاوے تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ پھر کُل مذاہب کے خلاف کہا گیا۔ وہ کیوں ناراض نہ ہوتے اور اس پر اگر خدا کی طرف سے یہ کام نہ ہوتا تو تباہ ہو جاتا۔ اس قدر مخالفت کے ہوتے ہوئے اُس کا سر سبز ہونا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔
پھر عام پیروں اور مشائخ کی طرح نہیں کہ نزر و نیاز س یہی کام ہے خواہ وہ چور ی ی ہی ہو۔ اور کچھ بھی خدا تعالیٰ کی سچی شریعت کے متعلق نہیں بتاتے، بلکہ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وہ اس قدر جرأ ت نہیں کر سکتے کہ ایک چور مرید کو چوری کرنے سے منع کر سکیں یا سودخواریا بدکار کو اس کے عیبوں سے آگاہ کر سکیں ۔دنیا کے گدی نشینوں اور مہنتوں کا اس طرح پر گذارہ نہیں ہو سکتا۔
یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے
یہ خدا ہی کے سلسلہ میں برکت ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے۔؎ٰ
اُنہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے۔ خون تک کے مقدّمے بنوائے، مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو بایں ہوتی ہیں، وہ ضائع نہیں ہو سکتیں۔ میں تمہیں سث سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے ابتک اُس کو تیست و نبود کر چکے ہوتے۔ انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف س یہونے کا ثبوت ہے۔ پس جس قدر تم اپنی قوتِ یقین کو بڑھائو گے، اسی قدر دل روشن ہوگا۔
دعا کے آداب
قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا علیٰ کل شیئی قدیر خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو، بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو، جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی۔آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔نماز تو بہت جلدجلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مر کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہت یہیں۔ نماز کا اصل مغز اور ھوح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو، کیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخوست پیش کرے۔ اسے کیا فائدہ۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں، نماز میں کر لیا کرو۔ اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دئیے ہیں۔ سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے؛ چنانچہ اس دعا کو اﷲ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے۔
الحمد للہ رب العلمین۔الرحمن الرحیم۔ - الیٰ آخرہ۔
یعنی دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جاوے جس سے اﷲ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو، اس لیے فرمایا۔ الحمد للہ سب تعریفین اﷲ ہی کے لیے ہیں رب العلمین۔ سب کو پیدا کرنیوالا اور پالنے والا۔ الرحمٰن۔ جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے۔ الرحیم۔ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے۔ مالک یوم الدین۔ ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے، جب اﷲ تعالیٰ کو مالک یوم الد ین تسلیم کرتا ہے۔ دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے۔اُن کی اطاعت ضروری ہے، مگر اُن کو خدا ہر گز نہ بہائو۔ انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو۔ پھر یہ کہو۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اھد نا الصراط المستقیم ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں۔صدیقون۔شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے۔ اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے۔ ان لوگوں کی راہ سے بچا، جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے۔ اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو۔ طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں۔ یہ یقینا سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آہی نہیں سکتی، جبتک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے۔ روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھوکر، نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے۔ عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور نِدّ نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کرکے دکھائو۔
سلسلہ احمدیہ کے برحق ہونے کا ثبوت
خدا تعالیٰ کی دو زبر دست گوہیاں ہر بات میں ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ اولؔ گواہی اس کی کتاب کی ہے تو قرآن شریف ہے۔ قرآن شریف میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سب صحیح اور سچ ہے اور ہم ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس اس کو مانو۔ اور دوسریؔ گواہی اس کا کام کی ہے۔ زمین و آسمان اپنی شہادتوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو جو قائم کیا ہے اور مجھے جو پیدا کیا ہے تو اس میں بھی ان دونوں گواہیوں کو ساتھ رکھا ہے۔
اولؔ ۔حضرت عیساٰ علیہ السلام کے فوت ہونے کا بڑی صفائی کے ستھ قرآن شریف میں ذکر کیااور تیس آیتوں میں کھول کھول کر اُس کی موت بیان کی
دومؔ۔ قرآن شریف نے یہ بھی تعلیم دی کہ حقیقی مردے کبھی واپس نہیں ئسکتے۔
سومؔ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ ٹھہرا کر یہ تعلیم دی کہ جس طرح سلسلہ موسوی میں رسول آتے رہے محمدی سلسلہ میں بھی اس کا نمونہ اور نظیر ہو گی۔ گویا اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء کے نام پر مسیح کے نام سے آئے گا۔
چنانچہ ان وعدوں کے موافق جب خدا نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا تو میری تائید میں زمیں اور آسمان نے بھی اپنی شہادت کو ادا کر دیا۔
یعنی زمین کی حالت بجائے خود ایسی ہو گئے کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہی تہی کہ خدا کا مامور اور مصلح اس وقت آئے۔ وہ ہر قسم کے فساد سے لبریز ہو گئے تھی۔ اسلام پر خطرباک حملے شروع ہو چکے تھے۔ آسمان نے اپنے نشانوں سے میری شہادت دی؛ چنانچہ جس طرح پر پہلے کہا گیا تھا، اُسی طرح اپنے وقت پر کسوف و خسوف ہو گیا۔ زمین کے دوسرے نشانت میں سے طاعون بھی ایک بڑا نشان ہے۔ غرض جو کچھ تسلی کے لیے ضروری تھا۔ وہ خدا نے سب پورا کردیا۔ اگر کسی کو خبر نہیں تو اُسے چاہیے کہ ان کتابوں کو جو ہم نے لکھی ہیں پڑھے یا سنے کہ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشانات کو وقت پر پورا کیا ہے۔ بغیر علم کے انسان اندھا ہوتا ہے اور جہالت ایک موت ہے۔ پس اس نابینائی اور موت سے بچنا چاہیے۔ خدا کے نشانات سمندر کی طرح بہہ رہے ہیں۔ ایک زبر دست اور کھلا کھلا نشان طاعون کا ہے جو خدا تعالیٰ نے طعنہ کرنے والوں اور سفیہوں کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ بھی پورا ہو گیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس وقت غضب میں ہے۔ اُس کی باتوں پر ہنسی کی گئے۔ اس کے نشانوں کو ذلیل قرار دیا گیا، اس لیے خدا کے قہر کے دن آگئے۔ اب دیکھو گے کہ وہ کیا کرے گا۔ اب وہ وقت آیا ہے کہ یہ الہام پورا ہو رہا ہے۔
‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نا کیا لیکن خدا اُسے
قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔
اس لیے اب وہ وقت ہے کہ نیک بخت کو بھی ڈرنا چاہیے، کیونکہ خدا بے نیز ہے۔ موت کو یاد رکھو کہ یہ دن خدا کے غضب کے ہیں۔ نمازوں پر پکے ہو جائو۔ تہجد پڑھو اور عورتوں کو بھی نماز کی تاکید کرو۔
طاعون قہر الٰہی ہے
غرض یہ طاعون خدا کا قہر ہے۔ عقلمند وہی ہے جو ہوا پہچان لے اور خدا کی باتوں پر پدق دل س ے ایمان لے آئے۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جو اس وقت عذاب دے رہا ہے۔ وہ ایک خاص کام کے لیے عذاب دے رہاہے۔ ہمارے سلسلہ کی بابت مولویوں صوفیوں یا سطادہ نشینوں سے بات کرو تو وہ پہلے ہی گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ اب دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کا صبر کتنا بڑا صبر ہے کہ ہزار برس سے اوپر ہونے کو آیا ہے کہ خدا کے پاک نبیوں اور راستبازوں اور برگزیدوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اُن کی بیحرمتی اور ذلت کے لیے ہر قسم کے وسائل اختیار کئے جاتے ہیں آخر اُس نے ان سب نبیوں اور خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا۔

اور جب سے یہ قائم ہو اہے ۔ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہواہے جو پہلے راستبازوں کے ساتھ ہو اتھا،مگر آخر خداتعالیٰ نے ان حد سے بڑھے ہوئے بیباکوں اور شوخ چشموں کا علاج کرنا چاہا ۔
اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حلیم ہے ، مگر اس میں کلام نہیں کہ جب پکڑتا ہے توسخت پکڑتا ہے ، کیا سچّ کہاہے ۔ شعر ؎
ہاں مثو مغرور بر حلمَِ خدا
دیر گیرد سخت گیردمرترا
میرے ہاتھ پر توبہ کرناایک موت کوچاہتاہے
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک توبہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں ، یہ لوگ بڑے ہی دُور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں ۔ جیسے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہے اور جب سر پر آپڑتی ہے تب کچھ چونکتے ہیں ۔ اس لیے تم اس سے پہلے کہ خدا کا غذب آجاوے ، دُعاکرو اور اپنے آپ کوخد اکی پناہ اور حفاظت میں دیدو ، دُعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب دل میں درد اور رقّت پیدا ہو اور مصاء ب اور غضبِ الٰہی دُور ہو ، لیکن جب بلا سرپر آتی ہے بے شک اس وقت بھی ایک درد پیداہوتا ہے مگر وہ درد قبولیت دُعا کا جذب اپنے اندر رکھتا ہے ۔ یقیناسمجھوکہ اگر مصیبت سے پہلے دلوں کو گداز کروگے اور خدا کے حضور اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے گریہ وُبکا کرو گے توتمہارے خاندان اور تمہارے بچّے طاعون کے عذاب سے بچائے چائیں گئے ،اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی ، میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کوچاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک ا و ر
پیدائش حاصل کرو ۔
بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچّے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اوراپنے گناہوںسے سچّی توبہ کرتاہے ، غفور رحیم خد ااُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتاہے ۔ اور وہ ایساہوجاتاہے ،جیسے اس کے پیٹ سے نکلا ہے ۔ تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں ، ایک گائوں میں اگر ایک آدی نیک ہو ، تواللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤںکو تباہی سے محفوظ کرلیتاہے ، لیکن جب تباہی آتی ہے تو سب پر پڑتی ہے ، مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچالیتا ہے سنت اللہ یہی ہے کے اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں ۔
جیسے حضرت ابراہیم ؑ کا قصہ ہے کہ جب لُوط کی قوم تباہ ہونے لگی تو اُنھوںنے کہا کہاگر سَو میںسے ایک ہی نیک ہو تو کیا تباہ کردے گا ۔ کہا نہیں آخر ایک تک بھی نہیںکروں گا ۔فرمایاؔ ، لیکن جب حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر ۔
لا یخاف عقبھا۔
خد اکی شان ہو تی ہے پلیدوں کے عذاب پر وہ پرواہ نہیںکرتا کہ اُن کی بیوی بچّوں کاکیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لیے ۔
کان ابو ھماصالحا
کی رعات کرتا ہے حضرت موسیٰ اور خضر کو حکم ہو تھا کے ان بچّوںکی دیوار بنادواس لیے اُن کا باپ نیک بخت تھا ۔ اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے ، غرض ایسا تو رحیم کریم ہے ، لیکن اگر کوئی شرارت کرے اورزیادتی کرے تو پھر بہت بُری طرح پکڑتا ہے ۔ وہ ایسا غیّور ہے کہ اس کا غضب کو یکھ کر کلیجہ پھٹتاہے ۔ دیکھولُوط کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا ۔
اس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہورہی ہے کہ وہ خداتعالیٰکے غضب کو کھینچ لائی ہے تم بہت اچھّے وقت آگئے ہو اب بہتر اور مناسب یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو بدلالو اپنے اعمال میں اگر کوئی انحراف دیکھو تو اُسے دُور کر و ۔ تم ایسے ہوجاؤکہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خد اکا ۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتاہے ۔ اس کی دُعاقبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے ۔ ۱؎
اپنی زندگی میں انقلاب پیدا کرو
اس سلسلہ میںداخل تمہارا وجود الگ ہو ااور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ ۔ جو کچھ م پہلے تھے وہ نہ رہو ۔یہ مت سمجھو کہ تم خد اتعالیٰ کی راہمیں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤگے یا تمھارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گئے ۔نہیں ، خدا کا دامن پکڑنے والا ہر گز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے خداجس کا دوست اور مدد گار ہو ۔ اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں ، مومن اگر مشکلات میں ھی پڑے تو وہ ہر گز مصیبت میںنہیں ہو تا لیکن وہ دن ا س کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ خدا خودان کا محافظ اور ناصر ہوتا ہے یہ خد اجو ایسا خدا ہے کہ وہ ۔
علی کلی شئیً قدیر
ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حیّ القیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے ؟کبھی نہیں ۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتو ں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیرا ن رہ جاتی ے آگ میں پڑ کر حضرت ابرا ہیم علیہ السلامکا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز امر نہ تھا ۔ کیا ایک خطرنا ک طو فا ن میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلا مت بچ رہنا کو ئی چھو ٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں مو جود ہیں اور خو د اس زمانہ میںخدا تعالیٰ نے اپنے دست قدرت کے کر شمے دکھا ئے ہیں دیکھو مجھ پر خون اور اقدام ِ قتل کا مقد مہ بنا یا گے ۔ایک بڑا بھا ری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدّعی ہوا اور آریہ اورابعض مسلما ن اس کے معاون ہو ئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فر مایا تھا ۔ابراء ( بے قصور ٹھہرانا )
پس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کر و ابھی طا عون تمہا رے گاؤ ں میں نہیں ۔یہ خدا کا فضل و کرم ہے اس لیے توبہ کاوقت ہے اور اگر مصیبت سر پر آپڑی اس وقت تو بہ کیا فائدہ دے گی ۔جمّوں، سیالکوٹ اور لدھیانہ وغیرہ اضلا ع میں دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ایک طو فان برپا ہے اور قیامت کا ہنگا مہ ہو رہا ہے اس قدخوفناک موتیں ہوئی ہیں کہ ایک سنگدل انسا ن بھی اس نظا رہ کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکتا ۔چھو ٹا بچہ پا س پڑا ہوا تڑپ رہااور بلبلارہا ہے ما ں باپ سا منے مرتے ہیں ۔کوئی خبر گیر نہیں ہے بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ میں نے رویاء دیکھی تھی کہ ایک بڑا میدان ہے اس میں ایک بڑی نالی کھدی ہوئی ہے جس پر بھیڑیں لٹا کر قصاب ہا تھ میں چھری لئے ہوئے بیٹھے ہیں اور آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے حکم کا انتظا ر کرتے ہیں۔میں پاس ٹہل رہا ہوں ۔اتنے میں میں نے پڑھا ۔
قل ما یعبو بکم ربی لو لا دعا و کم(الفر قا ن : ۷۸)
یہ سنتے ہی انہو ں نے جھٹ چھری پھیر دی بھیڑیں تڑپتی ہیں اور وہ قصاب انہیں کہتے ہیں کہ تم ہو کیا ، گوہ کھا نے والی بھیڑیں ہی ہو وہ نظا رہ اس وقت تک میری آنکھو ں کے سامنے ہے ۔
غرض خدا بے نیاز ہے ،اُسے صا دق مومن کے سو ا اور کسی کی پرو اہ نہیں ہو تی ۔ اور بعدازوقت دعاقبول نہیںہو تی ہے۔
جب اللہ تعا لیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کر نا چا ہیے ،لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہو ں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا ۔ اُس وقت عذاب ِ الٰہی کو دیکھ کر تو بہ استغفا ر شرو ع کی اس سے کیا فا ئدہ ہو گا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا ۔
یہ ایسی بار ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اورکسی دولت مند کے گھر جاکر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہو نے کے اس مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں ۔ اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے ،لیکن ایک گھر والا چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی شربت او خشک روٹی کی بجائے پلاؤ اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی جائے اپنی خاص پو شاک اس کو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ دراصل تو بادشاہ تھا۔قاب ان لوگو ں سے کیا سلوک کرے گا۔صاف ظاہر ہے کہ انکمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا اور اس سے بد سلُوکی کی سخت سزا دے گا اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمّت اور طاقت سے بڑھ کر سلُوک کیا کیا وہ دے گا جو اسس کے وہمو گمان میں بھی نہیں آسکتا ۔
اسطرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا ۔مجھے کھانا نہ دیا ۔میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں پیاسا تھا ،مگر مجھے پانی نہ دیا۔وہ کہیں گے کہ یا رب العلمین کب؟وہ فرمائے گا ۔فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا۔۔اس کو دینا ایسا ہی تھا،جیسے مجھ کو ۔اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تونے روٹی دی کپڑا دیا۔وہ کہے گا کہ تُو تو رب العالمین ہے کہ کب گیا تھا کہ میں نے دیا۔تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا ۔
غرض نیکی وہی ہے جو قبل از وقت ہے ۔اگر بعد میں کچھ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ۔خدا نیکی قبول نہیں کرتا جو صطرت کے جوش سے ہو ۔کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں،مگر وہ رونا اور چلّانا چونکہ تقاضائے فطرت کا نتیجہ ہے اس لیے اس وقت سود مند نہیں ہو سکتا اور وہ اس وقت مفید ہے جو اس سے پہلے ہو تا ہے جبکہ امن کی حالت ہو ۔یقیناََسکجھو کہ کہ خدا کوپانے کا یہی گرہے جو قبل از وقت چوکنّا اور بیدار ہو تا ہے ۔ایسا بیدار گویا اس پر بجلی گرنے والی ہے اس پر ہر گز نہیں گرتی ۔لیکن جو بجلی دیکھ چلّاتا ہے ۔اُس پر گرے گی اور ہلاک کرے گی ۔وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ خدا سے ۔
اسی طرح سے جب طاعون گھر میں آگئی اس وقت اگر تو بہ استغفار شروع کیا تو وہ طاعون کا خوف ہے نہ خدا کا۔اس کا بُت طاعون ہے خدا معبُود نہیںاگر خدا سے ڈرتا ہے تواللہ تعالیٰاس فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کو نقصان نہ پہنچاؤ۔یہ مت سمجھوکہ طاعون گرمی میں ہٹ جاتی ۔سردی میںپھر یہ بلاآن موجود ہوتی ہے ۔بعض وقت اس کا دورہ ستّر ستّر برس تک ہو تا ہے ۔یہود پر بھی یہی بَلا پڑی تھی۔
غَیْرِ الْمَغْضُوْ بِمیںاللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے کہ ان یہو دیوں کے راہ سے بچائیو جن پر طاعون پڑی تھی ۔پس قبل از وقت عاجزی کرو گے ،تو ہماری دُعائیں بھی تمہارے لیے نیک نتیجے پیدا کریں گی ۔لیکن اگر تم غافِل ہو گئے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا ۔خدا کو ہر وقت یاد رکھو اور موت کو سامنے موجو د سمجھو ۔زمیندار بڑے نادان ہو تے ہیں۔اگر ایک رات بھی امن سے گزر جاوے تو بے خوف ہو جاتے ہیں ۔
دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہو تی ہے ۔اسی طرح پر امن کے دن محنت کے لیے ہیں۔اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کا مزہ پاؤ گے ۔اگرچہ زمین داریاور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میںنمازوں میں حاضر ہو نا مشکل معلوم ہو تا ہے اور بھی،مگر اب اگر اپنے آپ کواس کا عادی کر لوگے۔توپھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اپنی دعائوںمیں طاعون سے محفو ظ رہنے کی دعا ملا لو۔اگردعائیںکرو گے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا۔
دعائیںکرنے کے لیے نصیحت
دیکھواب تم کام کرتے ہو ۔اپنی جانو ں اور اپنے کنبہ پر رحم…کرتے ہو ۔بچوں پر تمھیں رہم آتا ہے ۔جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو ۔یہ بھی ایک طر یق ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو ۔رکوع میں بھی دعا کرو ۔پھر سجدہ میں دعاو ۔کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ رکھے ۔جو دعا کرتا ہے ۔وہ محروم نہیں رہتا ۔یہ کبھی ممکن نہیںکہ دُعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح ما را جاوے ۔اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے ۔وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے ۔ایک پکڑا جاتا ہے۔دوسرا بچایا جاتا ہے ۔غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچّا اخلاص پیدا ہو جاوے ۔؎ٰ
۱۰اپریل۱۹۰۲؁ء
دعا نہ کرنا سوء ادبی ہے
انبیا ء علیہم السّلام کے سلسلہ میں یہی رہا ہ کہ وہ پیشگو ئیو ں کے دئیے جانے پر بھی اور اللہ تعا لیٰ کے وعدوں پر سّچا ایمان رکھ کر بھی دعاؤں کے سلسلہ کو ہر گز نہ چھو ڑتے تھے ۔ اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غنا ء ذاتی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا کی شان لا یذرکہے اوریہ سوء ادب ہے کہ دعا نہ کی جاوے ۔ لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب آنحضرتﷺ بڑے اضطرا ب سے دعا کر رہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی کہ حضور !اب دعا نہ کریں ۔خدا تعالیٰ نے آپ کو فتحکا وعدہ دیا ہے ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم دُعا میں مصروف رہے
بعض نے اس پر تحریر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے زیا دہ نہ
نہ تھا بلکہ آنحضرت ﷺکی معرفت بہت بڑھی ہو ئی تھی اور ہرکہ عارف تر باشد خائف تربا شد ۔وہمعرفت آپکو اللہ تعالیٰ کے غنا ء ذاتی سے ڈراتی تھی ۔ پس دعا کا سلسلہ ہر گز چھو ڑنا نہیں چا ہیے۔
مسیح مو عو د کی دعا ؤں کی عظمت
۱۰اپریل۱۹۰۲؁؁؁؁؁ء صبح کی سیر میں فر مایا کہ
,,میں آج کل طاعو ن سے قادیا ن کے محفو ظ رہنے کے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں او باوجود اس کے کہ اللہ تعا لیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں لیکن یہ سوء ادب اور انبیاء کے طریق سے دور ہے کہ خدا کی لاید رکشان اور غِنا ء سے خوف نہ کیا جاوے ۔آج پہلے وقت ہی الہام ہوا ۔
دلم می بلرزد چو یاد آورم
منا جت شورید ہ اندرحرم
شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے حر م سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کر دیا ہو اور دلم مے بلزدخدا کی طرف ہے یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیںمیں انھیں جلدی قبو ل کرتا ہوں۔یہ خدا تعا لیٰ کے فضل اور رحمت کا نشا ن ہے دلم مے بلرزد بظا ہر ایک غیر محل سا محاورہ ہو سکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکا لنے میں مجھے تردد ہوتا ہے ۔
تو ریت میں جو پچتانا وغیرہ کے الفا ظ آئے ہیں ۔در اصل وہ اسی قسم کے محاور ہیں جو اس سلسلہ کی نا واقفی کی وجہ سے لوگوںنے نہیں سمجھے۔اس الہام میںخداتعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اورحرم کے لفظ میں گویاحفاظت کی طرف اشارہ ہے ۔(حرم کے لفظ پر خاکسارایدیٹر نے عرض کیا تھا… من داخالہ کا ن امنا اور بھی اس لفظ حرم کی تصدیق کر تا ہے اور اب ہم کہتے ہیں کہ انی احا فظ کلمن فی دارکا الہا م بھی اسی کا مو ید ہے ۔یاد آورماسی طرح ہے جیسے اذکر و نی اذکر کم(البقرہ:۵۳)
وَاَقَرِ ضُواللہ َقَرضاََحَسَناََ
اللہ تعالی ٰجو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مرا د نہیں ہوتی ہے کہ معا ذ اللہ اللہ تعا لیٰ کو حا جت ہے اور وہ محتاج ہے ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ وا پس کروں گا ۔یہ ایک طریق ہے اللہ تعا لیٰ جس سے فضل کر ناچاہتا ہے ۔
باپ کی شکل پر خدا تعا لیٰ کو دیکھنا
حضرت سید عبدالقا در جیلا نی رحمتہاللہ علیہ کا قول ہے رَایتُ رَبِیّ علیٰ صُو رَتہِ اَبِی یعنی میں نے اپنے ربّ کو اپنے با پ کی شکل پر دیکھا ۔ میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعا لیٰ کو دیکھا ان کی شکل بڑی با رعب تھی انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لیے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے ۔غر ض میں نے
‏Amira
دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے۔ اس میں سریّہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلق شدید رکھتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت تعلق اور شدت محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے۔کذکر کم ابا ء کم (البقرہ : ۲۰۱) اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے۔ انت منی بمنزلۃ اولا دی۔ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے۔
الہام
۱۰ ؍ اپریل کو الہام ہوا : ’’ افسوس صدا افسوس‘‘۔
اور ۱۱ ؍ اپریل کو الہام ہوا : ’’رہگرائے عالم جادوانی شد‘‘۔
بعثت مسیح موعود کا اصل منشاء
’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسے افضہ میں ہمارا ذکر ہے۔؎ٰ
۱۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
طاعون سے متعلق ایک اعتراض کا جواب
بعد ازنماز مغرب فرمایا :
طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور اُمراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں، لیکن سنت اﷲ یہی ہے کہ ائمّتہ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں ؛ چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے۔ اُن سب میں فرعون بچارہا؛ چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا کہ
انانا تی الارض ننقصھا من اطرا فھا (الرعد : ۴۲)
یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اﷲ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں توبہ کرنی ہوتی ہے یا اُن کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے۔
مسیح موعود کا مقام
فرمایا : کمالاتِ متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے۔ وہ سب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظلی طور پر ہم کو عطا کیے گئے۔ اور اسی لیے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، دائود، یوسف، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ ہے؛ چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بُت خانہ تھا اور لوگ بُت پرست تھے۔ اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیالی اور وہمی بتّوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور وحدانیّت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پہلے تمام انبیاء ظل تھے۔ نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔ مولانا روم نے جوب فرمایا ہے۔ ؎
نامِ احمدؐ نام جملہ انبیاء است
چوں بیامد صد نو دہم پیش ما است
نبی کریمؐ نے گویا سب لوگوں سے چندہ وصول کیا اور وہ لوگ تو اپنے اپنے مقامات اور حالات پر رہے پر نبی کریمؐ کے پاس کروڑوں روپے ہوگئے۔
ہندو اسلام کی طرف توجہ کریں گے
فرمایا : معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمگیر طوفانِ وبا میں یہ ہندوئوں کی قوم بھی اسلام کی طرف توجہ کرے؛ چنانچہ جب ہم نے باہر مکان بنوانے کی تجویز کی تھی۔ تو ایک ہندو نے ہم کو آکر کہا تھا کہ ہم تو قوم سے علیحدہ ہو کر آپ ہی کے پاس باہر رہا کریں گے اور نیز دو دھعہ ہم نے رویاء میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں اور ایک دفعہ الہام ہوا ہے کرشن رودرگوپال تیری مہما ہو۔ تیری استتی گیتا میں موجود ہے۔ لفظ رودر کے معنے نذیر اور گو پال کے معنے بشیر کے ہیں۔
اُمّتِ محمدی کی شان
فرمایا : عیسائیوں نے جو شور مچایا تھا کہ عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتا تھا۔اور وہ خدا تھا۔ اس واسطے غیرت الٰہی نے جوش مارا کہ دنیا میں طاعون پھیلائے اور ہمارے مقام کو بچائے تاکہ لوگوں پر ثابت ہو جائے کہ اُمت محمدی کا کیا شان ہے کہ احمد کے ایک غلام کی اس قدر عزت ہے۔ اگر عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتا تھا، تو اب عیسائیوں کے مقامات کو اِس بَلا سے بچائے۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں ہے، تا کہ عیسیٰ کی کسر شان ہو۔ جس کو خدا بنایا گیا ہے۔ ؎
چہ خوش ترانہ زد ایں مطرب مقام شناس
کہ درمیان غزل قولَ آشنا آورد
قرآن میں مسیح کی معصومیّت کے ذکر کی وجہ
قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسیٰ کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں بلکہ قرآن شریف اور حدیث نے ضرورتاً یہود کے منہ کو بند کرنے کیلئے یہ فقرے بولے ہیں کہ یہود تعوذباﷲ مریم کو زنا کا ر عورت اور حضرت عیسیٰ کو ولدالزنا کہتا تھے۔ اس لیے قرآن شریف نے اُن کا ذب کیا ہے کہ وہ ایسا کہنے سے باز آویں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسمانی برکات
فرمایا : حضرت رسول کریمؐ کے ہزاروں جسمانی برکات بھی تھے۔ آپؐ کے حُبّہ سے بعد وفات آپؐ کے لوگ برکات چاہتے تھے۔ بیماریوں میں لوگوں کو شفا دیتے تھے اور بارش نہ ہوتی تو دعا کرتے تھے اور بارش ہو جاتی تھی۔ ایک لاکھ سے زیادہ آپؐ کے اصحابی تھے۔بہتوں کی جسمانی تکلیفات آپؐ کی دعائوں سے دور ہو جاتی تھیں۔ عیسیٰ کو بنی کریمؐ کے ستھ کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ جس کے ستھ چند آدمی تھے اور ان کا حال بھی انجیلوں سے ظاہر ہے کہ وہ کس مرتبہ روحانیت کے تھے۔
اِس اُمّت کا فرعون
فرمایا : ابو جہل اس امت کا فرعون تھا، کیونکہ اس نے بھی نبی کریم کی چند دن پر ورش کی تھی جیسا کہ فرعون مصری نے حضرت موسیٰ کی پرورش کی تھی۔ اور ایسا ہی مولوی محمد حسین صاحب نے ابتداء میں براہینؔ پر ریویو لکھ کر ہمارے سلسلہ کی چند یوم پرورش کی۔
ایک الہام کی تشریح
حضرت اقدس ؑ نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا ۔ یا یحییٰ خذالکتاب بقوۃ والخیر کلہ فی القران۔ اور فرمایا کہ:
اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئے ہے کیونکہ حضرت یحییٰ ؑ کویہود کی ان اقوام سے مکابلہ کرنا پڑا تھا۔ جو کتاب اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں۔
اذان کے وقت کوئی اور نیکی کا کام کرنا
ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سنا رہا تھا۔ اذان ہونے لگی۔ وہ چُپ ہو گیا۔فرمایا :
’’پڑھتے جائو۔ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے‘‘۔
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے۔ میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا :
’’مت جائو۔ولا تلقو ابا یدیکم الی التھلکۃ (البقرہ : ۱۹۶) پچھلی رات کو اٹھ کر اُن کے لیے دعا کرو۔ یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جائو۔ ایسے مقام پر جانا گناہ ہے‘‘۔
قرآنی الفاظ میں الہامات کی حکمت
حضرت اقدس کو الہام ہوا۔ انت معی وانا معک۔انی بایعتک با یعنی ربی۔ فرمایا کہ :
اﷲ تعالی کا منشاء ہے کہ قرآن شریف کو حل کیا جائے اس واسطے اکثر الہامات جو قرآن شریف کے الفاظ میں ہوتے ہیں۔ ان کی ایک عملی تفسیر ہو جاتی ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہی زندہ اور با برکت زبان ہے اور تا کہ ثابت ہو جائے کہ تیرہ سو سال اس سے قبل ہی اسی طرح یہ خدا کا کلام نازل ہوا۔
قرآن مجید میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئیاں
فرمایا کہ :
اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے۔
والمرسلت عرفا۔فالعصفت عصفا۔والنشرات نشرا۔فالفرقت فرقا۔فالملقیا ت ذکرا۔
عذرا او نذرا (المرسلات : ۲ تا ۷)
قسم ہے ان ہوائون کی جو آہستہ چلتی ہیں۔ یعنی پہلا وقت ایسا ہو گا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے۔ پھر وہ زور پکڑے اور تیز ہو جاوے۔ پھر وہ ایسی ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے۔ اور پریشان خاطر کر دے۔ پھر ایسے واقعات ہوں کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کردیں۔ اس وقت لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ حق کس امر میں ہے۔ آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں۔ یہ سمجف میں آنا بعض کے لیے صرف حجت ہو گا۔ (عذراً) یعنی مرتے مرتے اُن کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے لیے (نذراً) یعنی ڈرانے کا موجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے بدیوں سے باز آویں۔؎ٰ
۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
الہامات
فرمایا کہ آج رات کو یہ الہام ہوا :
انی مع الرسول اقوم ومن یلومہ الوم افطر واصوم
یعنی میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہو نگا۔ اُن کی مدد کروں گا اور جو اس کو ملامت کرے گا۔ اُس کو ملامت کروں۔ روزہ افطار کروں گا اور روزہ رکھوں گا یعنی کبھی طاعون بند ہو جائے گی اور کبھی زور کرے گی۔
نماز جمعہ کے بعد انجمن حمایت اسلام کا اشتہار دربارہ دعا برائے دفعیہ طاعون آپ کو دکھایا گیا۔ جس کی تحریک پر آپ نے طاعون کا مختصر اردو اشتہار لکھا۔
بد گو بد باطن مخالف سے اعراض مناسب ہے
قادیان میں ایک بدگو بد باطن مخالف آیا ہوا تھا۔ اس نے احباب میں سے ایک کو بلایا۔ وہ اس کے ساتھ بات کرنے کو گیا۔ حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ :
’’ایسے خبیث مفسد کو اتنی عزت نہیں دینی چاہیے۔ کہ اُس کے ساتھ تم میں سے کوئی بات کرے‘‘۔
خوابوں کو جمع کرنے کے لیے ارشاد
فرمایا : ’’مختلف لوگوں کو جو رویاء ہوئے ہیں۔ کہ قادیان میں طاعون نہیں ہو گی۔ ان خوابوں کو جمع کر کے شائع کر دینا چاہیے‘‘۔
اصل مقصد تقدیس رسول ہے
مولوی محمد احسن صاحب ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ ان کو فرمایا کہ :
’’اصل میں ہمارا منشاء یہ ہے کہ رسول کریمؐ کی تقدیس ہو اور آپؐ کی تعریف ہو۔ اور ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اﷲ کے ضمن میں ہو‘‘۔
سلفِ لحین کے متعلق مسلک
فرمایا : ’’وفاتِ مسیح یا ایسے مسائل کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ کہہ آئے ان کے متعلق ہم حضرت موسیٰ ؑ کی طرح یہی کہتے ہیں کہ,, علمہا عند ربی (الأعراف : ۱۸۸) ‘‘
یعنی گذشتہ لوگوں کے حالات سے اﷲ تعالیٰ بہتر واقف ہے۔ ہاں حال کے لوگوں کو ہم نے کافی طور پر سمجھا دیا ہے اور حجت قائم کر دی ہے‘‘۔
ایک الہام کی تشریح
فرمایا : ’’ خدا تو چور کا بھی دشمن ہے۔ اگر میں مفتری ہوتا، تو وہ مجھے اتنی مہلت کیوں دیتا۔ ہاں اﷲ تعالیٰ کی عادت میں سے ہے کہ موافق مخالف ہر طرح کے لوگ دنیا میں ہوں تا کہ ایک نظارہ قدرت ہو۔ جن دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی اور لوگوں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے شور مچایا کہ پیشگو ئی غلط نکلی ۔ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا :
دشمن کا بھی خوب وار نکلا
تِس پر بھی وہ وار پار نکلا
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی ،لیکن جلدفہیم لوگ سمجھ جائیں گے اور نا واقف شرمندہ ہوں گے ۔
فرمایا:مکّہ والوں کو جب فتح کا وعدہ دیا گیا ۔تو ان کو ۱۳ سال اس کے انتظار میں گزر گئے ۔مگر آخر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا دن آگیا اور دشمن ہلاک ہو گئے ؛ ورنہ وہ کہا کرتے تھے مَتٰی ھٰذَ االْفَتْحُ(السجدہ:۲۹)
‏Amira
ابتلا تمحیص کے لیے آتے ہیں
فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ تمحیص کرنا چاہتا ہے تاکہ جیسا دوسرے پیروں کا حال ہے۔ ہمارے پاس بھی ہر طرح کے گندے اور ناپاک لوگ شامل نہ ہو جاویں۔ اس واسطے اس قسم کے ابتلا بھی درمیان میں آجاتے ہیں۔؎ٰ
۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
سوالات متعلقہ
بعض فقہی سوالات کے جوابات
ایک شخص نے عرض کی کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ :
’’جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کرلے جاتا ہے تو دے دیا جاوے، وہ زکوٰۃ سے متثنیٰ ہے‘‘۔
سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اُس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا :
’’اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا، تو اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تاھا اور درمیانی حالت میں تھا، تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے؛ بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہو۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
سوال ہوا: کہ اگر کسی جگہ امام نمار حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا :
’’پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر کوئی خاموش رہے نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو ون بھی منافق ہے۔ اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔
فرمایا :’’ اگر کوئی ایسا آدمی جو تم میں سے نہیں اور اُس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو ترک کرو اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جا ئو‘‘۔؎ٰ
۲۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
موجودہ عیسائیت درحقیقت پُولوسی مذہب ہے
فرمایا : ’’ جیسا کہ یہودی فاضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ مذہب نصاریٰ جس میں شریعت کا کوئی پاس نہیں۔ اور سؤر کھانا اور گیر مختون رہنا وغیرہ تمام باتیں شریعت موسوی کے مخالف ہیں۔ یہ باتیں اصل میں پولوسؔ کی ایجاد ہیں۔اور اس واسطے ہم اس مذہب کو عیسوی مذہب نہیں کہہ سکتے بلکہ دراصل یہ پولوسی مذہب ہے اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ حواریوں کو چھوڑ کر اور اُن کی رائے کے برخلاف کیوں ایسے شخص کی باتوں پر اعتبار کر لیا گیا تھا، جس کی ساری عمر یسوع کی مخالفت میں گذری تھی۔ مذہب عیسوی میں پولوس کا ایسا ہی حال ہے جیسا کہ باوانانک صاحب کی اصل باتوں کو چھوڑ کر قوم سِکھ گوروگو بند سنگھ کی باتوں کو پکڑ بیٹھی ہے۔ کوئی سند ایسی مل نہیں سکتی جس کے مطابق عمل کر کے پولوس جیسے آدمی کے خطوط اناجیل اربعہ کے ساتھ شامل کیے جا سکتے تھے۔ پولوسؔ خواہ مخواہ معتبر بن بیٹھا تھا۔ ہم اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا آدمی نہیں پاتے۔ جو خواہ مخواہ صحابی بن بیٹھا ہو‘‘۔ ۲؎
۲۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
اشتہار دافع البلا کی اشاعت کے لیے شیخ یعقوب علی صاحب کی امداد
اشتہار دافع البلاء کے متعلق حضرتؑ بہت تاکید کر رہے تھے کہ اس کو بہت جلد شائع کیا جائے۔ مگر مطبع میں ہفتہ کے اندر آٹھ سو چھپ سکتا ہے۔ اس پر شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کی کہ اخبار الحکم کے ہر دو پریس ہم دو دن کے لیے خالی کروا دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے بہت پسند فرمایا اور حکم دیا کہ ایسا کیا جاوے تا کہ یہ عشتہار وقت پر جلد شائع ہو جائے۔ اﷲ تعالیٰ شیخ صاحب موصوف کو جزائے خیر دے۔ اُن کے مطبع سے اس طرح وقتاً فوقتاً حضرت کے زیادہ ضروری کاموں میں نصرت ملتی رہتی ہے۔
الہام
حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا :
انی احافظ کل من فی الدار۔
فرمایا :
دار کے معنے نہیں کھلے کہ اس سے مراد صرف یہ گھر ہے یا قادیان میں جتنے ہمارے سلسلہ کے متعلق گھر ہیں۔ مثلاً مدرسہ اور مولوی صاحب کا گھر وغیرہ۔
۲۹ ؍ اپرریل ۱۹۰۲ء؁
چراغ الدین جمونی کا توبہ نامہ
ظہر کے وقت فرمایا :
میاں چراغ الدین جمّوں والے نے اپنا توبہ نامہ بھیج دیا ہے۔ یہ اُن کی بڑی سعادت ہے اور ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے دراصل کوئی افتراء نہیں کیا تھا بلکہ حدیث نفس اور اضغاث احلام سے ایک دھوکا لگ جاتا ہے۔ شیخ یعقوب علی الحکم میں شائع کر دیں کہ سب لوگ اُن کو اپنا بھائی سمجھیں اور خُلق کے ساتھ اُن سے پیش آویں۔
۲۸ ؍ اپریل کے الہام کا ذکر تھا۔ فرمایا کہ :
’’ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا گھر اتنا بڑا ہو تا کہ سارے جماعت والے اس کے اندر آجاتے‘‘۔
عیسائیوں کے باہمی اختلافات
عیسائیوں کے باہمی اختلافات کاذکر تھا اور ایک کتاب پڑھی جارہی تھی۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ موجودہ مذہب عیسوی اصل میں پولوسؔ نے فریب دہی سے بنایا ہے مسیح کا یہ مذہب نہ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا : کہ
’’دیکھو یہ لوگ آپ ہی عیسائیت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،کیونکہ لکھا ہے کہ اگر مسیح دجال کو نہ مارے گا۔ تب بھی وہ گل گل کر مر جائے گا‘‘۔؎ٰ
۳۰ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
الہام
فرمایا : آج رات کو الہام ہوا :
لو لا الا مر لھلک النمر
یعنی اگر سنت اﷲ اور امر الٰہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ ائمتہ الکفر آخیر میں ہلاک ہوا کریں۔ تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہو جاتے۔ لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں۔ اُن میں ایک خوبی اور عزم اور ہمت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے۔ اس واسطے اُن کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر توبہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں۔
فرمایا : اس بات میں بڑی لذت ہے کہ انسان خدا کے وجود کو سمجھے کہ وہ ہے اور رسول کو برحق جانے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے گزارے کے مطابق اپنی معیشت کو حاصل کرے اور دنیا کی بہت مراد یا بیوی کی خواہش کے پیچھے نہ پڑے‘‘۔۲؎
۵ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
الہامات
رات کے تین بجے حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا :
انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علو ا با ستکبار
یعنی میں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا۔ سوائے ان لوگوں کے جنھون نے تکبر کے ساتھ علو کیا۔فرمایا : علو دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک جائز ہوتا ہے اور دوسرا نا جائز۔ جائز کی مثال وہ علو ہے جو حصرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا اور ناجائز کی مثال وہ علو تھا جو فرعون میں تھا۔
اور فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہوا :
انی اری الملا ئکۃ الشداد
یعنی میں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملک الموت وغیرہ ہیں۔
فرمایا کہ : خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ و طہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پس سب کو چاہیے کہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں اور اگر کوئی فاسق اور فاجر دار میں داخل ہو جائے، تو اُس کا بچ رہتا یقینی کیونکر ہو سکتا ہے۔ ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے۔ کیونکہ جو لوگ علو استکبار نہ کریں۔ اُن کی حفاظت کا اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن انہ اوی القریۃ میں یہ امر نہیں۔ وہاں انتشار اور ہلچل شدید سے بثنے کا وعدہ معلوم ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ایسا امر نہیں کرتا۔ جس سے لوگوں کو جرأت پیدا ہو جائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں۔ متکبر علو کرنے والوں کے استثناء کی مثال ایسی ہے جیساکہ ایک کافر نے حضرت رسول کریمؐ کے زمانہ میں بیت اﷲ کی پناہ لی تھی۔ تو آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ کہ اس کو اسی جگہ قتل کر دو۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا گھر مفسد کو پناہ نہیں دیتا۔
اس گائوں میں دراصل اس قسم کے سخت دل اور مخالف دین اسلام لوگ موجود ہیں کہ اگر اس سلسلہ کا اکرام نہ ہوتا تو یہ سارا گائوں ہلاک ہو جاتا۔ اور اب بھی اگر ثہ ممکن ہے کہ بعض وارداتیں ہوں، مگر تا ہم اﷲ تعالیٰ ایک مابہ الامتیاز قائم رکھے گا۔
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود کا حکم
ایک سخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنک کا سودا اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معلملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جبتک کہ اس کے سارے پہلوئوں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُن کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے۔ ایمان صراط مستقیم سے وبستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے۔ مثلاً اگر دنیا میں سؤر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کی مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ ہان اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔ تب ہم
فمن اضطر غیر باغ ولا عاد (الانعام : ۱۴۶)
کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے۔ ہم فیالحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں۔ ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے۔ ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم بڑے عالیشان مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنیٰ کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے، مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں۔پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا۔ اس سائل کو لکھنا چاہیے کہ تم پہلے اپنے ایمان کا فکر کرو اور دو چار ماہ کے واسطے یہاں آکر ٹھہرو، تاکہ تمہارے دل و دماغ میں روشنی پیدا ہو اور ایسے خیالت میں نہ پڑو۔؎ٰ
۲۶ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
جماعت کو مباحثوں اور مقابلوںکی ممانعت
۲۶ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁ کو ۹ بجے دن کے خدام حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مختلف باتوں کے تذکرہ کے اثناء میں فرمایا :
’’میں بڑی تاکید سے اپنی جماعت کو جہاں کہیں وہ ہیں منع کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا مباحثہ مقابلہ اور مجادلہ نہ کریں۔ اگر کہیں کسی کو کوئی درشت اور نا ملائم بات سننے کا تفاق ہو، تو اعراض کرے۔ میں بڑے و ثوق اور سچے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری تائد میں آسمان پر خاص تیاری ہو رہی ہے۔ ہماری طرف سے ہر پہلو کے لحاظ سے لوگوں پر حجت پوری ہو چکی ہے۔ اس لیے اب خدا تعالیٰ نے اپنی طرھ سے اس کارروائی کے کرنے کا رادہ فرمایا ہے جو وہ اپنی سنت قدیم کے موافق اتمام حجت کے بعد کیا کرا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ بدزبانیوں اور فضول بحثوں سے باز نہ آئیں گے، تو ایسا نہ ہو کہ آسمانی کر روائی میں کوئی تاخیر اور روک پیدا ہو جائے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی طرھ کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے؛ چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے۔
فاصبر کما صبر اولو االعزم من الرسل ولا تستعجل لھم (الاحقاف : ۳۶)
اور فرماتا ہے۔
ولا تکن کصا حب الحوت (القلم : ۴۹)
اور
ھان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض (الانعام : ۳۶)
یہ حجت آمیز عتاب ا س بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں ثاہتے تھے، مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے، لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام و نشان مٹا دیا۔اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیں، افتراء پر دازیاں اور بدزبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سنکر اضطراب اور استعجال میں پڑیں۔ مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس لیے میں پھر اور بار بار بتاکید حکم کرتا ہوں کہ جنگ وجدال کی مجمعوں تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو۔ اس لیے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجت پوری کرنا۔ وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
تمہارا کام اب یہ ہونا ثاہیے کہ دعائوں اور استغفار اور عبادتِ الٰہی اور تزکیہ وتصفیہ تفس میں مشغول ہو جائو۔ اس طرح اپنے تیئںمستحق بنائو خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے؛ اگر چہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی، مگر تم خواہ نمواہ اُن پر مغرور نہ ہو جائو۔ ہر قسم کے حسد۔ کینہ۔بغض۔غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق وفجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفات سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کا ر ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
والعا قبۃ للمتقین (الاعراف : ۱۲۹)
اس لیے متقی بننے کی فکر کرو۔
سلسلہ احمدیہ کی عزت و عظمت
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ذکر کیا کہ حصور کی بیماری کی شدت میں میرے دل میں بہت رقت پیدا ہوئی، تو میں نے بہت دعا کی کہ مولا کریم اسلام کی عزت، قرآن کی عزت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور بالآ تیری اپنی عزت اور جلال کے اظہار کا بھی اس وقت یہی ذریعہ ہے۔ تو اس پر فرمایا :
بیماری کی شدت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ روح پر واز کر جائے گی۔ مجھے بھی الہام ہوا۔
الھم ان اھلکت ھذہ العصا بۃ فلن تعبد فی الارض ابدا۔
یعنی اے خدا اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر اس کے بعد اس زمین میں تیری پرستش کبھی نہ ہوگی۔
فرمایا : یقینا یاد رکھو۔ یہ سلسلہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا، تو دنیا میں تصرانیت پھیل جاتی اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی توحید قائم نہ رہتی۔ یا یہ مسلمان ہوتے جو اپنے ناپاک اور جھوٹے عقیدوں کے ساتھ نصرانیت کو مدد دیتے ہیں اور اُن کے معبود اور خدا بنائے ہوئے مسیح کے لیے میدان خالی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب کسی ہاتھ اور طاقت سے نابود نہ ہوگا۔ یہ ضرور بڑھے گا اور پھولے گا اور خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور فضل اس پر ہوں گے۔ جب تمہیں خدا کے زندہ اور مبارک وعدہ ہر روز ملتے ہیں اور وہ تسلی دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری دعوت زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔ پھر ہم کسی کی تحقیر اور گالی گلوچ پر کیوں مضطرب ہوں۔؎ٰ
۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
مامورین کی تمجید اور مدح وثنا کی حقیقت
۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁ کی شام کو مختلف باتوں کے تذکرہ میں یہ ذکر شروع ہوا کہ لوگ جناب کے اس فقرہ پر کہ میں مسیحؑ اور حسینؑ سے بڑھ کر ہوں۔ بہت جھلّا رہے ہیں۔حضور ؑ نے فرمایا :
’’دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ خو خواہ مخواہ بلا کسی قسم کے استحقاق کے اپنے تیئن محامد۔ مناقب اور صفاتِ محمودہ سے موصوف کرنا چاہتے ہیں۔ گو وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کی چادر آپ اورڑھ لیں۔ اسیسے لوگ *** ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبعاً ہرقسم کی مدح و ثنا اور منقبت سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے اختیار پر چھوڑ دیئے جاویں تو دل سے پسند کرتے ہیں کہ گوشئہ گمنامی میں زندگی گذار دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور باریک حکمتوں کی بناء پر اُن کی تعریف اور تمجید کرتا ہے اور درحقیقت ہونا بھی اسی طرح چاہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو وہ مامور کر کے بھیجتا ہے۔ اُن کی ماموریت سے اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اس کی حمدوثناء اور جلال دنیا میں ظاہر ہو۔ اگر ان ماموروں کی نسبت وہ یہ کہے کہ فلاں مامور جسے میں نے مبعوث کیا ہے ایسا نکمّہ بُزدل۔نالائق۔کمینہ۔سلفلہ اور ہر قسم کے فضائل سے عاری اور بیگانہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی اس کے ذریعہ سے کوئی صفت قائم ہوسکے گی۔ حقیقت میں خدا کا ان کی تمجید اور مدارج اور فضائل بیان کرنا اپنے ہی جلال اور عظمت کی تمہید کے لیے ہوتا ہے۔
وہ تو اپنے نفس سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے مدح وذم سے بے پروہ ہوتے ہیں؛ چنانچہ سالہاسال اس سے پہلے جبکہ نہ کوئی مقابلہ تھا نہ گرد و پیش میں کوئی مجمع تھا ۔نہ یہ مجلس اور اس کی کوئی تمہید تھی اور نہ دنیا میں کوئی شہرت تھی۔
7/3/05
خداتعالیٰ نے براہین ؔ احمدیہ میں میری نسبت یہ فرمایا کہ :
یحمدک اللہ من عرشہ ۔ نحمدک و نصلی ۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس و افتخاراللمومنین۔ یااحمد ۔

فرمایا : میں اپنے قلب کو دیکھ کر یقین کرتا ہوں کہ کل انبیاء علیہمالسلام طبعا ً ہر قسم کی تعریف او ر مدح و ثناسے کراہت کرتے تھے ، مگر جو کچھ خدا تعالیٰ نے اُن کے حق میں بیان فر مایاہے اور میںخداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں یہ الفاظ میرے الفاظ نہیں خداتعالیٰ کے الفاظ ہیں اور یہ اس لیے کہ خداتعالیٰ کی عزّت اور جلال اور محُمّدرُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت اور جلال کو خاک میں ملادیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰؑ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خد اکا عرش کانپتا ہے
اب جب کہ کرو ڑ ہا آدمی کی حضرت عیسیٰ کی مدح ثنا سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلو ق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلا ک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزتو ں کے کپڑے جو بیجا طور پر ان کو پہنا ئے گئے تھے ۔ اُ ن سے اُتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں ۔ پس ہماری نسبت یہ کلمات در حقیقت خد اکی اپنی عزت کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں ۔
میں حلفاً کہتا ہوں کے میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کے تمام محامد اور مناقب اور تمام صفات جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں۔ میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو ۔ میں یقینا جانتاہوں کے میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں ۔ یہ بھی درحقیقیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع ہیں ۔ اس لیے میں آپ ؐ کا ہی غلام ہوں اور آپؐ ہی کہ مشکوٰ اۃِ نبّوت سے نور حاصل کرنے ولا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں ۔ اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کے میں مستقل طور پر بلااستفاضہ آنحضرت ﷺسے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتاہو ں تو وہ مردود اور مخذول ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ابدی مُحر لگ چکی ہے۔ اس بات پر کوئی شخص وصول اِلی اللہ کے دروازے سے آنہیں سکتا ہے ۔ بجُز اتّباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶نمبر ۲۰ صفحہ ۷ ۔ ۸ پرچہ ۳۱ مئی ۱۹۰۲ ؁ء
۳۱ مئی ۱۹۰۲ء
شرک کی اقسام
شرک تین قسم کا ہے اول یہ کہ عام طور پر بت پرستی ,درخت پرستی وغیرہ کی جاوے یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فُلاں کام نہ ہوتا، تو میں ہلاک ہوجاتا یہ بھی شرک ہے ۔ تیسریؔ قسم شرک کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے وجود کہ سامنے اپنے وجود کو بھی شے سمجھا جاوے ۔ موٹے شرک میں توآج کل اس روشنی او ر عقل کہ زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا ، البتّہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شِرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے ۔ طاعون کے پھیلنے پر کوئی خیال نہیں کرتا کہ شامتِ اعمال سے پھیلی ہے اور اور اسباب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
‏ Amira
نماز عربی میں پڑھنی چاہئیے
نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئیے ۔ خداتعالیٰ نے جس زبان میں قر آن شریف رکھا ہے۔ اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذدار کے بیان کر سکتے ہیں، مگر اصل زبان کو ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا۔ کچھ بھی باقی نہ رہا۔
قرآن مجید میں طاعون کے متعلق پیشگوئی
قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون سے کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ جیسے فرمایا ہے
ان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیا مۃ او معذبو ھا۔ آلایتہ (بنی اسرائیل : ۵۹)
اس سے لازم آتا ہے کہ کوئی قریہ مسّ طاعون سے باقی نا رہے۔ اس لیے قادیان کی نسبت یہ فرمایا۔ انہ اوی القریۃ ۔ یعنی اس کو انتشار اور افراتفری سے اپنی پناہ میں لے لیا۔ سزائیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک بالکلیتہ ہلاک کرنے والی۔ جس کے مقابلہ میں فرمایا۔لو لا الاکرام لھلک المقام۔یعنی یہ مقام اہلاک سے بچایا جائے گا۔ دوسری قسم کی سزا بطور تعذیب ہوتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ نے قادیان کو ہلاکت سے محفوظ رکھا ہے اور تعدّی سزا ممنوع نہیں بلکہ ضروری ہے۔
آیات اﷲ
دانے کا کیا وجود ہوتا ہے، لیکن جمع کیے جاویں تو سیری کا موجب ہو جاتا ہے۔ ایک سیر خام میں قریباً پندرہ ہزار کے دانہ ہوتے ہیں۔ جس سے ایک آدمی بخوبی سیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر آیات اﷲ کو اگر جمع کیا جاوے اور قدر کی جاوے تو وہ روحانی سیری کا موجب ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نشانات کو اگر یکجائی طور پر دیکھا دانے کا کیا وجود ہوتا ہے، لیکن جمع کیے جاویں تو سیری کا موجب ہو جاتا ہے۔ ایک سیر خام میں قریباً پندرہ ہزار کے دانہ ہوتے ہیں۔ جس سے ایک آدمی بخوبی سیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر آیات اﷲ کو اگر جمع کیا جاوے اور قدر کی جاوے تو وہ روحانی سیری کا موجب ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نشانات کو اگر یکجائی طور پر دیکھا جاوے توا ن کی قوت و شوکت معلوم ہوتی ہے



۱۴؍جون ۱۹۰۲؁ء
مردوں کا جی اُٹھنا
ہم خدا تعالیٰ کے اسی قانون قدرت کو مانتے ہیں جو قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ جو مردہ ایسے ہیں کہقبر میں رکھے جاتے ہیں۔ اور اُن کے پاس ملائکہ آتے ہیں۔ اُن کی نسبت قرآن شریف کا یہی فتویٰ ہے
فیمسک التی قضی علیھا الموت (الزمر : ۴۳)
مگر برنگ دیگر غیر حقیقی موت میں احیا بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس قسم کے واقعات خود ہمارے ساتھ بھی پیش آئے ہیں ؛ چنانچہ مبارک کے متعلق اس قسم کی مو تیں فیمسک التی قضی علیھا الموت سے نہیں۔ اور وہ یہ احیاء ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ مردہ جی اٹھتا ہے۔
غرض خدا تعالیٰ نے جو قانون باندھا ہے اُسے ہم مانتے ہیں۔ اگر اس پر اعتبار نہ کریں اور یقین نہ لائیں توامن اُٹھ جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت جو کتاب اﷲ میں درج ہے۔ اس پر ہامرا ایمان ہے اور ہم اس پر بھی ایمن لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کے خلاف نہیں کرتا۔ مثلاً کوئی کہے کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو کیا خود کشی بھی کر لیتا ہے؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے۔ کہ کبھی نہیں کیونکہ ل
لہ الاسماء الحسنٰی (الحشر : ۲۵)
کوئی صفت اس سے منسوب نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنی صفات قدیمہ کے خلاف نہیں کرتا۔ غرض احیائے موتیٰ اور قانون قدرت کے متعلق ہمارا یہی مذہب ہے کہ ہم اس احیاء کے قائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان کیا ہے اور وہ قانون قدرت ہمارا امام ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے۔ یورپ کا فلسفہ اور اس کی محدود تحقیقاتیں ہمارے لیے رہبر نہیں ہو سکتی ہیں۔
ہمارا خدا قادر خدا ہے
ہم اپنے خدا تعالیٰ پر یہ قوی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے صادق بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اگر وہ آگ میں ڈالا جائے تو وہ آگ اس کو جلا نہیں سکتی۔ ہمارا مذہب یہی ہے کہ ایک آگ نہیں اگر ہزار آگ بھی ہو تو وہ جلا نہیں سکتی۔ صادق اُس میں ڈالا جاوے تو ضرور بچ جاوے گا۔ ہم کو اگر اس کام کے مقابلہ میں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ آگ میں ڈالا جاوے، تو ہمارا یقین ہے کہ آگ جلا نہیں سکے گی اور اگر شیروں کے پنجرہ میں ڈالا جاوے تو وہ کھانہ سکیں گے۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ ہمارا خدا وہ خدا نہیں جو اپنے صادق کی مدد نہ کر سکے، بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے جو اپنے بندوں اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعا بھی ایک فضول شئے ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ میں خدا تعالیٰ کی نسبت بیان کرتا ہوں اس کی قوتیں اور طاقتیں اس سے بھی کروڑ در کروڑ درجے بڑھ کر ہیں۔ جن کو ہم بیان نہیں کر سکتے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اگر قریؐ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر آ گ میں ڈال دیتے ، تو وہ آگ ہر گز ہرگز آپؐ کو جلا نہیں سکتی تھی۔ اگر کوئی محض اس بناء پر کہ آگ اپنی تاثیر نہیں چھوڑتی۔ انکار کرے تو وہ خبیث اور کافر ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے جب ان سب دشمنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ دیا۔
فکیدونی جمیعا (ھود : ۵۶)
تم سب مکر کر کے دیکھ لو میں اس کو ضرور بچا لوں گا۔پھر اگر کوئی یہ وہم بھی کرے کہ آگ میں ڈالتے تو معاذاﷲ جل جاتے یہ کفر ہے۔قرآن شریف سچا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں وہ کوئی بھی حیلہ اور فریب آپ کی جان لینے کے لیے کرتے۔ ال تعالیٰ ضرور اُن کے گزند سے محفوظ رکھتا جیسا کہ محفوظ رکھ کر دکھا دیا۔ جواہ وہ صلیب کا مکر کرتے خواہ آگ میں ڈالنے کا۔ غرض کوئی بھی کرتے۔ آخر محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وعدے کے موافق صادق ثابت ہوتے۔ جیسا کہ ہوئے۔ جس طرف ہم اپنی جماعت کو کھینچنا چاہتے ہیں وہ یہی عظیم الشان مرحلہ خدا شناسی کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیںکہ انشاء اﷲ تعالیٰ آہستہ آہستہ سب کچھ ہو جاوے گا۔

تبلیغ کا جوش
ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر نہ کھر پھر کر خدا تعالٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ لوگوں کو بحیالیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔
مسیح کی قبر کی اشاعت یورپ میں
یُورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفخے کا ہوتا کہ سب اُسے پڑھ لیں۔ اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے۔ جو واقعاتِ صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئے ہے۔ اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرلے۔اس قسم کا اشتہار ہوجو باہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جاوے۔
مضرِصحت چیزیں مضرِایمان ہیں
حدیث میں آیا ہے ومن حسن الاسلام ترک مالا یعنیہ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دے جاوے۔
اسی طرح پر یہ پان۔حقّہ۔زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اور بھی نڈصان اُن کا بفرض محال نا ہو، تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جاوے گی۔ یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بے ہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مُضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔
یہ سچی بات ہے نشوں اورتقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبی سور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے۔
بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال
منشی الٰہی بخش اور اُس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں۔تعجب ہے کہ حلال او رطیب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداﷲ غزنوی کی حالت پر نظر رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کو شرم آجاتی۔ مولوی عبد اﷲ کو بیویوں کا استغراق تھا، اس لیے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے۔ یہانتک کہآخیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کس وقت پڑتی ہے۔ میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میںاختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشنج ہوتا ہے۔ خدائے وحدہٗ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔ بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکد فعہ ہی دورہ ہوتا ہے۔ بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں۔
مگر مولوی عبداﷲ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ۔ انگور۔انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا۔انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کا استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فداپتھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی گھبراتے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی ران پر ہاتھ مار کر کہت یکہ اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو سارا جہان دشمن تھا۔ پھر اگر اُن کے لیے کوئی راحت کا سامان نہ ہو، تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کا فور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جائے۔
اسلام کا آئندہ غلبہ
اﷲ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لیے کرتا ہے؛ چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اُس کے فتوحات دور دراز تک پہنچے۔اس لیے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے
لا اکرا ہ فی الدین (البقرہ : ۲۵۷)
اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کہ اسلام جبر سے نہیں پھیلا۔ اﷲ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو پیدا کیا اور اس کا اکام یضع الحرب رکھ کر دوسری طرف
لیظھرہ علے الدین کلہ (الصف : ۱۰)
قرار دیا۔ یعنی وہ اسلام کا غلبہ مل ہالکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ و جدال کو عُٹھا دے گا۔ وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خوُنی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں۔
اسلام کا عظیم الشان اعجاز
اسلام کا سب سے بڑا اور عظیم الشان معجزہ جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی۔ وہ اس کی حقانیت اور روشنی ہے وہ کسی پہلو سے شرمندہ نہیں ہوتا۔تمام حقائق اور صداقتیں اسلام میں موجود ہیں۔ ہر ایک پہلو سے کامل۔سب کے حملوں کا جواب دیتا ہے اور دوسروں پر ایسا حملہ کرتا ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔
درازیٔ عمر کا راز
ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو، لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں؛حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں۔اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت۔دوسرے بنی نوع سے ہمدردی۔ لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عبد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے ۔پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے۔ اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اور اس کی صورت یہ ہے۔ اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ
وتواصوابالحق (العصر : ۴)
سے پایا جاتا ہے۔ انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے،لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس لیے اُس کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے۔ ہمدردیٔ خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو۔
اماماینفع الناس (الرعد : ۱۸)
کے مقابل پر ایک دوسری آیت ہے جو دراصل اس وسوسہ کا جواب ہے کہ عابد کے مقابل نفع رساں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور عابد کی کیوں نہیں ہوتی؟ اگر چہ میں نے بتا یا ہے کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے، جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے، لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے۔
قل مایعبؤا ابکم ربی لو لا دعاؤ کم (الفرقان : ۷۸)
یعنی ان لوگوں کو کہہ دو۔ کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ عابد زاہد جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بنوں اور جنگلوں میں رہتے اور تارک الدنیا تھے۔ ہمارے نزدیک وہ بودے اور کمزور تھے۔ کیونکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو شخص اس حدتک پہنچ جاوے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل معرفت ہو جاوے وہ کبھی خاموش رہ سکتا ہی نہیں۔ وہ اس ذوق اور لذت سے سرشار ہو کر دوسروں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔
حکمت ایمانیاں راہم بخواں
یقین ایک ایسی شے ہے جو انسان کو ایک قوت اور شجاعت عطا کرتا ہے۔یقین معلومات سے بڑھتا












صفحہ نمبر ۲۲۸
انبیاء کی بعثت کی اصل غرض
انبیاء کی بعثت کی اصل غرض یہ ہو تی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کریں جو اعمال صالحہ کی قوت عطا کرتا ہے اور گناہ سوز فطرت پیدا کرتاہے، کیونکہ اعمال صالہہ کبھی نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان اور معرفت پیدانہ ہو ، ہر ایک عمل معرفت صحیح اور عرفان کامل کے بعد اعمال صالحہ کی مدّ میں آتا ہے ۔لوگ جوکچھ اعمال صالحہ کرتے ہیں یا صدقات و خیرات کرتے ہیںیہ رسم اور عادت کے طور پر کرتے ہیں ، اُس معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتے جو ایمان علی اللہ کے بعد پیدا ہوتی ہے ؛چونکہ دنیا کی نیکیا ں اور بظاہر اعمال صالحہ رسم اور عادت کے طور پرہوتے ہیں ۔ اور دُنیاخداشناسی اور خدارسی کے مقاموں سے دور ہوتی ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرماتاہے جو آکر دنیا کو خداتعالیٰ پر ایمان لانے کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں ۔ باقی تمام اُمور اسی ایمان کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے اصل غرض انبیاء کے بعثت کے یہی ہوتی ہے ۔ کہ وہ انسان کو اس کی زندگی کے اصل منشاء عبودیت تامّہ سے آگاہ کریں اور خد اتعالیٰ پر عرفان بخش ایمان لانے کی تعلیم دیں۔
کُوْ نُوْ ا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
انبیاء علیہم السّلام تھوڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آیا کرتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام دُنیا کو رسم اور عادت سے نجات دینے اور سچّا اخلاص ار ایمان حاصل کرنے کی یہ راہ بتائی ہے کہ
کُوْ نُوْ مَعَ الصّٰادِ قِیْنَ۔(التوبہ ۱۱۹)
یہ سچّی بات ہے کہ اس کو کبھی بھولنا نہیں چاہئیے کہ جس نے نبی کی اطاعت کی اس نے اللہ تعا لیٰ کی عبادت کا حق ادا کردیا رسم اورعادت کی غلامی سے انسان اسی وقت نکل سکتا ہے ۔ جب وہ عرصہ دراز تک صادقوں کی صُحبت اختیار کرے اور اُن کے نقش قدم پر چلے ۔
مَایَنْفَع النَّاسَ فَیَمْکُتُ فِی ا لْاَرْض( الرعد : ۱۸ )ِ
یہ جو خداتعالیٰ نے فرمایاہے
ماینفع الناس فیمکت فی الارض ( الرعد : ۱۸ )
حقیقت یہی ہے کہ جو شخص دُنیا کے نفع رساں ہو۔ اس کی عمر دراز کی جاتی ہے ۔ اس پر جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھوٹی تھی ۔ یہ اعتراض صحیح نہیںہے ۔ اوّل اس لیے کہ انسانی زندگی کا اصل منشاء اور مقصدآنحضرت ﷺنے حاصل کیا ۔ آپؐ دنیا میں اس وقت آئے جب کہ دنیا کی حالت بالطّبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ ؐ اُس وقت اُٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی ۔
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴)
کی صدا کسی دوسرے آدمی کو نہیں آئی اور
اذا جا ء نصر اللہ والفتح۔ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا(النصر :۲،۳)
پوری کامیابی کا نظّارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اب جس حال میں کہ رسُول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے طور پر کامیاب ہو کر اُٹھے،پھر یہ کہنا کہ آپؐ عمر تھوڑی تھی سخت غلطی ہے ۔اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض اَبدی ہیں اور ہر زمانہ میں آپؐ کے فیوض کا در وازہ کُھلا ہوا ہے ۔ اس لئے آپ ؐ کو زندہ نبی کہا جا تا ہے اور حقیقی حیات آپؐ کو حاصل ہے طُول ِعمر کا جو مقصدتھا وہ حاصل ہو گیا ۔اور آیت کاے موافق آپ ؐ ا بدا لآباد کے لئے زندہ رہے ۔
مسیح علیہ السّلام کی وفات کے دو گواہ
مسیح علیہ السّلام کی وفات پر دو زبر دست گواہیاں علاوہ اور گو اہو ں کی شہادت کے موجو د ہیں ۔جن کا انکار ہرگز نہیںہوسکتااوّل خدا تعالیٰ کی شہادت جیسے
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (آل عمران :۵۶)
فرمایا ہے اور پھر دوسری شہادت رسُول اللہ علیہ وسلّم کی رؤیت کی ہے ۔ آپ ؐ نے یحیٰ علیہ السّلام کے ساتھ حضرت مسیحؑ کو دیکھا ۔ اب ان دو گواہوں کے خلاف یہ کہنا ہے کہ وہ زندہ ہے کہاں تک صحیح ہوسکتاہے ؟
رجُوع کا لفظ صعُود کے بعدہوتا ہے پھر جو لوگ مسیح کے معہ وجود عنصری آسمان پر چڑھنے ک وثابت کرتے ہیں ، ان کا فرض ہے کہ وہ مسیح کا رجُوع ثابت کریں ، کیونکہ نزول کے لیے صعُود الازم نہیں ہے ۔
صدق و وفا
حدیث میںآیا ہے کہ صوم وصلوٰ ۃسے درجہ نہین ملتا ، بلکہ اس بات سے جو انسان کہ دل میں ہے یعنی صدق ووفا ۔ خدا یہی چاہتاہے کے عمل صالح ہو اور اس کا اخفا ء ہو یا ریا کاری نہ وہو ۔
صدق بڑی چیز ہے اس کے بغیرعمل صالحہ کی تکمیل نہیںہوتی ۔ خداتعالیٰ اپنی سنّت نہیںچھوڑنا چاہتا ۔اس لیے فرمایا ہے ۔
والذین جاھدو افینالنہدینہم سبلنا ( العنکبوت :۷۰ )
خداتعالیٰ میںہوکر جومجاہد کرتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ اپنی راہیں کھول دیتا ہے ۔
وحد ت الوجود
بُت پرست بھی وجُودیوںکی طرح اپنے بُتوں کی مظاہر ہی مانتے ہیں۔ قرآن شریف اس مذہب کو ترویدکرتا ہے ۔ وہ شروع ہی میںیہ کہتا ہے الحمد للہ رب العلمین اگر مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں ، بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو ربّ العالمین نہ کہتا اب عالم توخداتعالیٰ میں داخل نہیں کیونکہ عالم کے معنے ہیں مایعلم بہ اور خداتعالیٰ کے لیے
لا تدرکہ الابصار (الانعام : ۴۔۱)
موجودات کو جو وہ عین اللہ کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے ۔ قرآن شریف نے عین ؔ اور غیر کی کوئی بحث نہیں کی محی الدین ابن عربی سے جو مندوب کرتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے کہ الحمد للہ الذی خلق الاشیاء وھوعینھا یہ بات صحیح ہے ۔ خداتعالیٰ فرمتاہے
لا تقف مالیس لک بہ علم ۔ ( بنی اسرائیل : ۳۷ )
جب انسان کوکچھ خبر نہیں ۔ پھر بتاؤ غیب کہ کہاں رہی ۔ یہ تو پکی بات ہے کہ صفات کِسی چیز کے الگ نہیںہوتے خواہ وہ کہیں چلی جاوے ۔ پانی کو خواہ لندن لے جاؤآخر وہ پانی رہے گا ۔ جب انسان خداہو تو اس کی صفات اس سے الگ ہونے لگیں خواہ کسی حالت میں ہو۔
استحالہ کے ساتھ اس کے صفات معدوم ہوجاتے ہیں ۔ ہر ایک چیز کابقا تو اس کے صفات ہی اس کے ساتھ ہے ۔ اگر ایک پھول کے صفات اُس کے ساتھ نہیں تو وہ پھول کیونکر ہوسکتا ہے ۔پس اگر انسان خداہے تو پھر ا س کی خدائی کے صفات کسی چیز کے اس کے ساتھ ہونے ضروری ہیں۔اگر صفات نہیں تو پھر نادانی سے اُسے خدا بنایا جاتاہے ۔ انسان ایسی ایسی مصیبتوں اور مشکلات میںگرفتار ہوتا ہے کہ ٹکریںمارتا پھرتاہے اور ایسا سرگرداں ہوتا ہے کہ کچھ پتہ نہیں لگتا ہزاروں آرزوئیںاور تمنائیں ایسای ہوتی ہیں کہ پوری ہونے میں نہیں آتیں ۔ کیا خداتعالیٰ کے ایسے ارادے بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کے پورے نہ ہوں ۔ اس کی شان تو یہ ہے ۔
اذا ارا شیئا ان یقول لہ کن فیکون ( یٰس : ۸۳)
اس سے صا ف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو انسان کواپنے ارادوں میںنامراد کرتا ہے ۔ وہ کوئی الگ اور طاقتور ہستی ہے اگر دونوں ایک ہوتے تویہ نامرادی نہ ہونے پاتی ۔یہ باتیں قرآن شریف کی تعکیم صریح خلاف ہیں اور خداتعالیٰ کے حضور خطرناک گستاخی کی باتیں ہیں ۔اس قسم کے اعتراض کرنا کہ پھر دنیا کیوں اس سے بنائی۔ بے ادبی ہے ۔ جب خداتعالیٰ کو قادر مان لیا، پھر ایسے اعتراضات کیوں کیے جاویں۔آریہؔ بھی اس قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیںوہ خداتعالیٰ کو اپنی قوت اور طاقت کے پیمانہ سے ناپنا چاہتے ہیں ۔
پھر دیکھو۔وجودیوں کے بڑے بڑے صُوفی مرے ہیں اور مرتے ہیں۔اگر وہ خدا تھے تو ان کوتو اس وقت خدائی کرشمہ دکھانا چاہئیے تھا۔نہ یہ کہ عاجز انسان کی طرح تڑپ کر جان دے دی ۔یاد رکھو انسان کی سعادت یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کاموں میں اپنا دخل نہ دے ،بلکہ اپنی عبودیت کا اعتراف کرے ۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے اور مذہب ہے کہ ایک فوق الفوق قادر ہستی ہے جو ہم پر کام کرتی ہے ۔جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے ۔ وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں وہ حیّ قیوم ہے اور ہم ایک عاجز مخلوق ۔قرآن شریف میں جو حضرت سلیمان اور بلقیس کا ذکر ہے کہ اس نے پانی کو دیکھ کر اپنی پنڈلی سے کپڑا اُٹھایا ، اس میں بھی یہی تعلیم ہے جو حضرت سلیمان نے اس عورت کو دی تھی وہ دراصل آفتاب پرستی کرتی تھی ، اس کو اس طریق سے اُنھوں نے سمجھایا کہ جیسے یہ پانی شیشہ کے اندر چل رہا ہے ۔ دراصل اوپر شیشہ ہی ہے ۔اسی طرح پرآفتاب کو راشنی اور صنیاء بخشنے والی ایک زبر دست طاقت ہے ۔
اور یہ اعتراض جو پیدا کیا جاتاہے کہ قرآن شریف غیریّت اُٹھانے آیا تھا ۔ اس کو وجُودیوںنے سمجھا نہیں۔ ۔قرآن شریف یک اتّحاد عام مُسلمان میں قائم کرتا ہے نہ یہ کہ خالق اور مخلوق کو متحدفی الذات کر دے ۔ طائر کے بغیر تو کچھ سمجھ میں نہیںآتا۔ پس ایسی کوئی مثال وجودیوں کو پیش کرنی چاہئیے جس سے معلوم ہوجاوے کہ خالق اور مخلوق ایک ہی ہیں ۔ انسان گناہ سے محبت کرتاہے ۔ پھر وہ عین خدا کیونکر ہوسکتاہے ۔ وجودی کہتے ہیں کہ تم نے غیریّت سے شریک بنالیا ہے ہم کہتے ہیں۔ یہ غلط ہے ہمتو مخلوق مانتے ہیں ۔ جس پر ساراتصرّف خداتعالیٰ کا ہے ، کیونکہ وہ حیّ وقیّوم خدا ہے ۔ جس کے سہارے سے زندگی قائم ہے ۔ خداتعالیٰ اس قسم کا حیّ وقیّوم نہیں ہے کہ جیسے معمار کی عمارت کو ضرورت نہیںہوتی کہ معمار اس کے ساتھ زندہ رہے یعنی اگر معمار مر جاوے توعمارت کو اس کے مرنے سے کوئی نقصان نہیںہوتا ، بلکہ مخلوق کسی صورت میں اس کے سہارے سے الگ ہو ہی نہیںسکتی ۔ بلکہ اور مخلوق کی زندگی اور قیام کا اصلی ذریعہ وہی ہوتا ہے ۔ ہم عین غیر کی بحث میں ہر گز نہیںپڑتے۔ قرآن شریف نے اصطلاحوں کو کبھی بیان نہیںکیا ۔ جو تعلقات خالق اور مخلوقات لے اُس نے بیان کیے ہیں۔ ان سے باہر جانا گستاخی اور بے ادبی ہے ۔
شیخ محی الدین سے پہلے اس وحدت وجود کا نام و نشان نہ تھا ہان وحدت شہودی تھی یعنی خداتعالیٰ کے مشاہدہ میں اپنے آپ کو فانی سمجھنا ۔ وحدت شہودی میں ’’من شُدی ‘‘استیلائے محبت کا تقاضا تھا۔ وجُودیوں نے اس سے تجاوز کرکہ وہ کام کیا جو ڈاکٹراور فلاسفر کرتے ہیں وہ خدائی کے حصّے دار بنتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ یہ وحدت وجود الے عموماً اباحتی ہوتے ہیں ۔ اور نماز و روزہ کی ہر گز پرواہ نہیںکرتے۔ یہاں تک کہ کنجروں (کنچنیوں ) کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں ۔ ان کو کوئی پرہیز اور کوئی عُذر نہیںہوتا ۔ شہود کی حقیقت تویہی ہے ۔ کہ جیسے لوہے کو آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم ہوجاوے کہ سُرخ آگ کی طرح ہوجاوے ۔ اس اگر چہ آگ کہ خواص پائے جاتے ہیں ؛ تاہم وہ آگ نہیںکہلا سکتا ۔ اس طرح جس شخص کو خداتعالیٰ سے تعلقات قومی اور شدید ہوتے ہیں اور فنافی اللہ کہ درجہ پر ہوتاہے ، تواس سے بسااوقات خارق اور عادت معجزات صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک قسم کی اقتداری قوت کانمونہ رکھتے ہیں ، لوگ اپنی غلط فہمی اور کمزوری سے یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہ خداہو ۔ شہودی حالت میں اکثر امور ان کی مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں ۔جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴) اور اذا جا ء نصر اللہ (النصر :۲)
کی صدا آپ ؐ کو آگئی ۔؎ٰ
۴؍اگست ۱۹۰۲ ؁ء
۴؍اگست کی شام کو بعد نماز مغرب حجۃاللہ حسب معمول تشریف فرما ہوئے ۔خدام پروانہ وار ارد گرد تھے ۔ایک نوجوان نے عرض کی کہ مَیں اپنا خواب بیان کرنا چاہتا ہوں ۔فرمایا:
’’کل صبح کو بیان کرو ۔مسنون طریق یہی ہے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح ہی کو خواب سنا کرتے تھے ‘‘۔
ایک زبردست نشان
اثنائے کلام میں اس امر پر تذکرہ ہو اکہ فیضی ساکن بھیں نے اعجاز المسیح کا جواب لکھنا چاہا تھا،جو خدائے تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو اعجاز المسیح کے ٹائیٹل پیجپر درج ہے ۔ بامراد نہ ہوسکا، بلکہ اس دنیا سے اُٹھ گیا ۔ حضرت حُجۃ اللہ نے فرمایا کہ :
یہ کس قدر زبر دست نشان ہے خداکی طرف سے ہماری تصدیق اور تائید میںکیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے ۔واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض ( الرعد: ۱۸ ) اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ ہمارے مخالف مشہور کرتے ہیں ۔ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا تو چاہئیے تھا کہ فیضی نے جولوگوں کی نفع رسانی کا کام شروع کردیا تھا ۔ اس میں اس کی تائید کی جاتی ، لیکن اس طرح پر اسکا جوانامرگ ہوجاناصاف ثابت کرتا ہے اس سلسلہ کی مخالفت کے لیے قلم اُٹھانا لوگوںکی نفع رسانی کاکام نہ تھا کم از کم ہمارے مخالفوں کوبھی اتناتو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی نیّت نیک نہ تھی ؛ ورنہ کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اس کی تائید نہ کی اور اس کو مہلت نہ ملی کہ اس کو تمام کرلیتا ۔
میرے اپنے الہام میں بھی یہی ہے
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض
تیس برس سے زیادہ عرصہ ہو اجب میں تپ سے سخت بیمار ہوا ۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ اسی اثنائے میں مجھے الہام ہو ا۔
واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض ،
یہ جو اعتراض کیا جاتاہے بعض مخا لف ِ اسلام میں بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے اُن کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے ۔ دیکھو ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا ۔ اصل بات یہ ہے کہ مخالف اعتراض نہ کر تے تو قرآن شریف کے تیس سپارے کہاں سے آتے ۔ جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے ۔ ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں۔ وہ مخالفت کر تے ہیں ۔ ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے۔ اب اگر مہر علیشاہ اتنا شو رنہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھاجاتا۔
اس طرح پرجو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقاء کا بھی یہی باعث ہے تاکہ اسلام کے اصو لوں کی خو بی اور حسن ظاہر ہو ۔اب دیکھ لو کہ نیو گ اور کفارہ کے اعتقاد والے مذہب موجود نہ ہوتے تو اسلام کی خوبیوں کا امتیا ز کیسے ہوتا ۔ غرض مخالف کا وجود اگر مفید ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے ۔ ۱؎
چھ اگست ۱۹۰۲
چھ اگست کی شام کومسیح مو عود ؑت تشریف لائے ۔پیر گو لڑی کی اس پرفن کاروائی کاذکر تھا جو اس نے اپنی کتاب سیف چشتیائی کی تالیف میں کی اور جس کا راز اگلی اشاعت میں بالکل کھول دیا جاوے گا اور دنیا کو دیکھایا جاوے گا کہ کفن کھسوٹ مصنّف بھی دنیا میں ہیں ۔ اس کے بعد امریکہ کے مشہور مفتری مدعی الیاس دُوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں دُوئی نے اپنے مخالف قوموں بادشاہوں اور سلطنتوںکی نسبت پیگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گئے ۔ اس پر حضرت اقدس ؑ کے رگ ِ غیرت و حمیّت دینی جوش میں آئی اور فرمایا کہ :
’’مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمنہے ۔ بہتر ہے اُس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لیے بلایاجاوے ۔ اسلام کے سوا دنیامیں کوئی سچّا مذہب نہیں ہے اور اسلام ہی کی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ صفحہ ۱۱ پرچہ ۱۰ اگست ۱۹۰۲؁ء
ہیں میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا‘تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ اس کی افتراء کو اس کی سزادے گا ۔‘‘
غرض یہ قرارپایا کہ ۱۷ اگست کو حضرت اقدس ؑ ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں۔ یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہوکر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوگا اور بھیجا جاوے گا ۔‘‘
الہام
نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں ۔ اور پیر گولڑی کی کتاب سیف چشتیائی بھی زیر نظر ہے ۔ اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا ہے :
انی انا ربک القدیر ۔ لا مبدل لکلماتی
۷ ؍ اگست ۱۹۰۲؁ء
۷؍اگست کی صبح کو حسب معمول سیر کو نکلے ۔ ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ حضور امسال شگا گو کی طرز پر ایک مذہبی کانفرنس جاپان میں ہونے والی ہے ۔ جس پر مشرقی دنیا کے مذاہب کے سر کردہ ممبروں کا اجتماع ہو گا اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں پر لیکچر دئیے جائیں گئے ۔کیا اچّھاہواگر حضور لی طرف سے تقریب پر کوئی مضمون لکھا جائے اور اسلام کی خوبیاں اس جلسہ میں پیش کی جاویں ۔ہماری جماعت کی طرف سے کوئی صاحب جیسے مولوی محمد علی صاحب ہیں ، چلے جائیں ۔ جاپان کے مصارف بھی بہت نہیں ہیں اور جاپان والوں نے ہندوستانیوں کو دعوت کی ہے کے وہ ہندستان سے جانے والوںکے لیے اپناالگ جہاز بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ۔ اس پر فرمایا کہ :
بیشک ہم تو ہر وقت تیار ہیں اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ وہ کب ہوگی اور اس کہ قواعد کیا ہیں ۔ تو ہم اسلام کی خوبیوں اور دُوسرے مذہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کر کہ دکھاسکتے ہیں اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوکہ ہر میدان میں کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب کہ تین جُزوہیں۔اوّل خداشناسی ۔مخلوق کہ ساتھ تعلق اور اس کے حقوق اور اپنے نفس کے حقوق۔جس قدرمذاہب اس وقت موجود ہیں بجُز اسلام کے جو ہم پیش کرتے ہیں سب نے بے اعتدالی کی ہوئی ہے ۔ پس اسلام ہی کامیاب ہوگا ۔
ذکر کیا گیا کہ وہ بُدھ مذہب ہے اس کا ذکر بھی اس مضمون میں آجانا چاہئیے ۔فرمایا:
بُدھ مت
بُدھ مذہب دراصل سنائن دھرم ہی کی شاخ ہے ۔ بُدھنے جو اوائل میں اپنے بیوی بچّوں کوچھوڑ دیا اور قطعی تعلق کر لیا ، شریعت ِ اسلام نے اس کو جائز نہیں رکھا ۔ اسلام نے خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنے اور مخلوق سے تعلق رکھنے میں کوئی تناقض بیان نہیں کیا ۔ بُدھ نے اوّل ہی قدم پر غلطی کھائی ہے اور اس میں ہی دہریّت پائی جاتی ہے ۔مجھے اس بات پہ کبھی تعجب نہیں ہوتاکہ ایک کُتّا مُردار کیوں کھاتا ہے جس قدر تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ انسان انسان ہو کر اپنی جیسی مخلوق کی پرستش کیوں کرتا ہے اس لیے ا س وقت جب خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے تو سب سے اوّل میرا فرض ہے کہ خدا کی توحید قائم کرنے کے لیے تبلیغ او راشاعت میں کوشش کروں ۔ پس مضمون تیار ہوسکتا ہے ا ر و وہاںبھیجا جاسکتا ہے ۔ پہلے قواعد آنے چاہئیں ۔
پھر فرمایا کہ :
اس مضمون کے پڑھنے کے لیے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے ۔ کاُن کی آواز بڑی بارُعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہو اہو ۔ تو اُسے خوب پرھ تے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک شخص اور بھی چاہئیے ۔
الرفیق ثم الطریق
پھر اس سلسلہ کلام میں فرمایا :
زمانہ میں باوجود استغراق دُنیا کے مذہب کی طرف بھی توجہ ہو گئی ہے اورمذہبی چھیڑچھاڑکاایسا سلسلہ جاری ہوگیا ہے کہ پہلے کبھی ایسا موقع نہیں ملا ۔
پھر اس ذکر پرانجمن حمایت اسلام کوبعض اخباروں نے توجہ دلائی ہے کہ وہ کوئی آدمی بھیجیں ۔ فرمایا :
ہمارے مخالف اسلام کو کیا پیش کریں گئے جب کے اسلام کی خوبیوں کاخود ان کو اعتراف نہیں ہے ۔اوّل خداتعالیٰ کی توحید اسلام نے بڑے زور سے قائم کی مگر جب یہ مسیح میں خدائی صفات کو قائم کرتے اور مانتے ہیں تو توحید کہاں رہی پھر برکا ت اسلام کا فخر ہے ۔مگر یہ لوگ اس سے بھی منکر ہیں ۔ اگر پہلے قصّے پیش کریں تو سنائن والے بھی کرسکتے ہیں ۔ اسلام تو اس پھل کی طرح جو تازہ بتازہ ہو ۔ جس کہ کھانے سے لذّت اور خوشی محسوس ہو تی ہے ، مگر اب ان لوگوں نے وہ حالت کر دینی چاہی ہے جیسے ایک سڑا ہو پھل ہو۔ جس کی عفونت دماغ کو خراب کر دے ۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کہ موافق اسلام کو تازہ ہی رکھا ہے اور اس لیے بجُزہمارے کوئی دوسرا اس کو پیش نہیں کرسکتا آج اسلام کو وہی کامیاب کر سکتا ہے جو بیان کرتے کرتے مسیح قبرتک پہنچادے ۔
پھر اسی سلسلہ میں فرمایاکہ :
خدا تعالیٰنے جو براہین میں وعدہ کیا تھا
ینصرک اللہ فی مواطن ۔
یعنی اللہ بہت سے میدانوں میں تیری مددکرے گا ۔اب تک جس قدر میدان ہمارے سامنے آئے خداتعالیٰ نے فتح دی ۔ ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ صفحہ ۴ پرچہ ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۲؁ء
۸ ؍اگست۱۹۰۲؁ء کی شام
امریکہ کے ڈاکٹر ڈوئی کے نام حضرت مسیح موعود ؑ کی چٹھی کا خلاصہ
حضرت اقدس علیہ السّلام نے مولوی مُحمد علی صاحب کووہ چٹھی دی جو ڈاکٹرڈوئی امریکہ کہ مشہور عیسائی مفتری کے نام لکھی ہے ؛چناچہ وہ چٹھی پڑھ کر سنائی گئی ۔ اس چٹھی کو ہم انشاء اللہ خیر ستمبر۱۹۰۲ ؁ء تک الحکم میں شائع کرنے کے قابل ہو سکیں گئے تاہم حاصل بالمطلب کے طور پر اتنا اب بھی لکھ دیتے ہیں کہ حضرت اقدس ؑ نے اس چٹھی میں ایک عظیم الشان فیصلہ کی بنیاد رکھ دی ے ۔ ہمارے ناظرین اخبار کو غالباًمعلوم ہوگا کہ ڈاکٹر ڈوئی کایہ دعوی ہے کہ وہ عہد نامہ کا رسول ہے ۔وہ الیاس پیغمبر ہے جس کا آنا مسیح سے پہلے ضرو ری تھا اس نے اپنے اخبار میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ وہ سلطنت وہ انسان وہ قوم ہلاک ہو جائے گی جو اس کو رسو ل نہیں مانتے اور مسلمانوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اور اس پیشگو ئی میں ہماری گورنمنٹ کو بھی داخل کر لیا ہے اور تمام دنیا کی سلطنتو ں کو شامل کیا ہے ۔
حضرت اقدّسؑ نے اس چٹھی کے ذریعہ ڈاکٹر ڈوئی کو دعوت کی ہے کہ ؛
اب فیصلہ کا طریق آسان ہے۔ اس قدر مسلمان کے ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں ،کیو نکہ مسیح موعو د ؑ جس کاڈاکٹر ڈو ئی انتظار کرتا ہے آگیا ہے وہ میں ہوں۔پس میرے ساتھ مقابلہ کرکے یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ کون کاذب اور مفتری ہے ۔ڈاکٹر ڈوئی اپنے مریدوں میںسے ایک ہزار آدمی کے دستخط دیگرایک قسم اس طرح شائع کر دے کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب اور مفتری ہے وہ راست باز اور صادق سے پہلے ہلاک ہو جاوے۔پس پھر کاذب کی موت خود ایک نشان ہو جاوے گا ۔
یہ خلاصہ اس چٹھی کا جس میں اور بھی بہت سے حقائق ہیں ۔حضرت اقدسؑ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا جاوے کہ یہ غلط خیال ہے کہ تلوار کبھی مذہب کا فیصلہ نہیں کر سکتی ہے یعنی مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے ضمن میں حضرت مسیح کی موت اور آپ کی قبر پر بحث کی ہے ۔اور ان واقعات کی بناء پر جو انجیل میں درج ہوئے ہیں ثابت کیا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے،بلکہ وہاں سے بچ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشمیر میں آکر فوت ہوئے ۔
اس چٹھی کے ختم کرنے کے بعد مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے ایک فارسی نظم غازیؔدگولڑیؔکے جواب میں پڑھی جو دوسری جگہ درج ہے ۔پھر مولوی جمال الدینصاحب سیکھواں والے نے ایک پنجابی نظم تصدیق المسیح میں جو سوہل کے خیاطوں کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہے ۔پڑھ کر سنائی جس میں حضرت حجۃاللہ کی صداقت کا معیار آپ کی عظیم الشان کامیابیاں اور دشمنوں کی نامرادیاں مذکور تھیں ۔ان نظموں کے پڑھے جانے کے بعد نماز عشاء ادا کی گئی ۔
۹؍اگست ۱۹۰۲ ؁
قیصر کی تاج پوشی
سیر میں مختلف تذکروں کے بعد قیصرِ ہند کے تاجپوشی کا ذکر آیا۔فرما یا کہ :
رعیّت کے بڑی خوش قسمتی ہے کہ شاہ ایڈ ورڈ ہفتم ہندو ستان کے سر پرست ہوئے ۔میری رائے تو یہ ہے کہ نوجوان بادشاہ کی نسبت بوڑھا بادشاہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید ہو تا ہے ۔کیو نکہ نو جو ان اپنے جذبات اور جو ش کے نیچے کبھی کبھی رعایا کے حقوق اور نگہداشت کے طریقوں میں فرد گذاشت کر بیٹھتا ہے ،مگر عمر رسیدہ بادشاہ اپنی عمر کے مختلف حصّوں میں گذر جانے کے باعث تجربہ کار ہو تا ہے ۔اس کے جذبات دبے ہوئے ہو تے ہیں ۔خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے ۔اس لئے وہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید اور خیر خواہ ہو تا ہے ۔
۹؍اگست ۱۹۰۲ ؁ ء کی شام
حضرت اقدس نمازمغرب سے فارغ ہو کر حسب معمول بیٹھ گئے ۔تھو ڑی دیر کے بعد کپور تھلہ سے آئے ہوئے دو تین احباب نے بیعت کی بیعت کے بعد ایک صاحب کی نسبت عرض کیا گیا یہ قاری ہیں آپ نے فرمایا کچھ سناؤ ۔چناچہ انہو ں نے حضرت اقدس کے ارشاد کے موافق سورۃ مریم کا ایک رکوع نہایت ہی عمدہ طور پر پڑھ کر سنایا۔اس کے بعد قاری صاحب سے حضرت اقدس معمو لی ر دریافت فر ماتے ہیں ۔زاں بعد قاری صاحب نے عرض کی کہ حضور بہت عرصہ سے مجھے اس امر کا اشتیاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھے ہو جاوئے ۔اس لئے آپ کوئی وظیفہ مجھے بتا دیجئے کہ ایک جھلک ہو جاوے اس پر حضر اقدس نے فرمایا ؛
زیارت ِرسُول صلی اللہ علیہ وسلّم
دیکھو آپ نے میری بیعت کی ۔جو شخص بیعت میں داخل ہو تا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مقاصد کو مدّنظر رکھے جو بیعت سے ہیں ۔یہ امُور کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوجاوے ۔ اصل منشاء اور مدّعات دُور ہیں ۔انسان کا اصل منشاء یہ ہر گز نہیں ہونا چاہئیے قرآن شریف میں بھی یہ اصل مقصد نہیں رکھا گیا ، فرمایا ہے
‏Aamira 12-03-05
ان کنتم تحبون اﷲ فا تبعونی یحببکم اﷲ (آلِ عمران : ۳۲)
اصل غرض رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سچی اتباع ہے۔ جب انسان آپ کی اتباع میں کھویا جاتا ہے، تو ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ ضمناً زیارت بھی ہو جاوے۔جیسے کوئی میزبان کسی کی دعوت کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے عمدہ کھانے لاتا ہے، لیکن ان کھانوں کے ساتھ وہ ایک دسترخوان بھی لے آتا ہے۔ ہاتھ بھی دھلائے جاتے ہیں، حالانکہ اصل مقصد تو کھانا ہوتا ہے۔اسی طرح پر جو شخص رسول اﷲﷺ کی سچی اتباع کرتا ہے۔ وہ اس کو اپنا مقصد ٹھہراا ہے۔اس کے ساتھ آپ کی زیارت کا ہو جانا بھی کسی وقت ممکن ہے۔ دیکھو بہت سے لوگ یہاں جو بیعت کرنے کے لیے آتے ہیں وہ مجھے دیکھتے ہیں۔لیکن اگر ان میں وہ تبدیلی جو میری اصل غرض ہے اور جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں،نہیں ہوتی تو میرے دیکھنے سے اُن کو کیا فائدہ ہوا۔
اس طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بڑا ہی بدبجت ہے اور اس کی کچھ بھی قدر اﷲ تعالیٰ کے حضور نہیں جس نے گو سارے انبیاء علیہم السلام کی زیارت کی ہو، مگر وہ سچا اخلاص وفاداری اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان خشیت اﷲ اور تقویٰ اس کے دل میں نہ ہو۔ پس یاد رکھو بری زیارتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ نے جو پہلی دعا سکھلائی ہے
اھد نا الصراط المستقیم صرا ط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۶،۷)
اگر اﷲ تعالیٰ کا اصل مقصود زیارت ہوتا تو وہ اھدنا کی جگہ ارناصور الذین انعمت علیہم کی دعا تعلیم فرماتا۔ جو نہہیں کیا گیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں دیکھ لو کہ آپ نے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ مجھے ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہو جاوے۔گو آپ کو معراج میں سب کی زیارت بھی ہو گئے۔ پس یہ امر مقصود بالذات ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔اصل مقصد سچی اتباع ہے۔
سورۃ فاتحہ کی دعا
چونکہ سورہ فاتحہ کا ذکر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ :
اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ اوّل متعم علیہم۔دوم مغضوب، سوم ضالین۔مغضوب سے مراد بالاتفاق یہود ہیں اور ضالین سے نصاریٰ۔اب تو سیدھی بات ہے کہ کوئی دانشمند باپ بھی اپنی اولاد کو وہ تعلیم نہیں دیتا جو اس کے لیے کام آنے والی نا ہو۔ پھر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کیونکر روارکھ سکتے ہیں کہ اس نے ایسی دعا تعلیم کی ہے کہ جو پیش آنے والے امور نے تھے؟ نہیں بلکہ یہ امور سب واقعہ ہونے والے تھے۔ مغضوب سے مراد یہود ہیں اور دوسری طرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُمّت کے بعض لوگ یہودی صفت ہو جائیں گے۔یہانتک کہ ان سے تشبہ اختیار کریں گے کہ اگر یہودی نے ماں سے زنا کیا ہو تو وہ بھی کریں گے۔ اب وہ یہودی جو خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اُن پر *** پڑی تھی۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں یہ سب واقعات پیش آئیں گے۔ وہ وقت اب آگیا ہے۔ میری مخالفت میں یہ لوگ ان سے یک قدم بھی پیچھے نہیں رہے۔
رشوت کی تعریف
اس کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ اُن کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جبتک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دین۔اُن کا کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دئیے جاتے ہیں۔فرمایا :
میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا نا جائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لیے کوئی مابہ الا حتظاظ کسی کو دیا جائے، لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں،بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آجاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے ظر سے محفوظ رہیں۔
استفتاء قلب
اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ بعض معاملات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ اصل میں حق پر کون ہے۔ فرمایا :
ایسی صورتوں میں استفتاء قلب کافی ہے۔ اس میں شریعت کا حصہ رکھا گیا ہے۔میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر اگر زیادہ غور کی جاوے تو امید ہے قرآن شریف سے بھی کوئی نص مول جاوے۔
بعد نماز عشاء حضور تشریف لے گئے۔
۱۰ ؍اگست ۱۹۰۲ء؁
۱۰؍اگست کی سیر میں شیعوں کے لاہوری مجتہد سید علی حائری کے دوسرے اشتہار یا رسالہ کا تذکرہ تھا۔جس میں علی حائری نے لغو اور بے معنی طریق پر حضرت امام حسین کی فضیلت کو کل انبیاء ؑ پر ثابت کرنے کی بالکل کوشش بیہودہ کی ہے۔اور ضمناً اس امر پر بھی ذکر ہوا کہ ہمارے مخالفین مکذبین کا جو انجام ہوا ہے۔وہ ایک زبردست نشان ہے۔مثلاً غلام دستگیر کا اپنی کتاب میں مباہلہ کرنا اور پھر اس کے چند روز بعد مرجاتا۔یا مولوی اسماعیل علیگڑھی کا مباہلہ کرنا اور ہلاک ہونا۔ایسا ہی لدھیانہ کے اول المکذبین مولوی عبدالعزیز کا تباہ ہونا یا دوسرے مخالفوں کا مختلف اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا اور اس سلسلہ کا کامیاب اور با مراد ہونا یہ عظیم الشان نشان ہے۔
سچا سُکھ
پھر باتوں ہی باتوں میں جناب نواب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص سے میں نے کہا کہ مومن ہی دنیا و آخرت میں سچا س۲کھ پاتا ہے۔ جس پر وہ شخص کہنے لگا۔ کہ پھر سب سے بڑے مومن تو انگریز ہیں۔اس پر حضرت حجۃاﷲ نے جو کچھ فرمایا۔اس کا خلاصہ وہ عنوان ہے جو ہم نے ا س نوٹ کے حاشیہ میں لکھ دیا ہے۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔کہ
یہ بات غلط ہے کہ سچا سکھ یا راحت کفار کو حاصل ہے۔ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ لوگ شراب جیسی چیزوں کے ایسے غلام ہیں اور اُن کے حوصلے کیسے پست ہیں۔اگر اطمینان اور سکینت ہو تو پھر خود کشیاں کیوں کرتے ہیں۔ایک مومن کبھی خودکشی نہیں کر سکتا۔جیسے شراب اور دوسرے نشہ بظاہر غم غلط کرنے والے مشہور ہیں۔اسی طرح سب سے بہتر غم غلط کرنے والا اور راحت بخشنے والا سچا ایمان ہے۔یہ مومن ہی کے لیے ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔(الرحمان :۴۷)
مخلوق پ رست دانشمند کہاں !
حضرت امام حسین کی فضیلت کے دلائل یا دعادی جو سید علی حائری نے بیان کیے ہیں۔اُن کے تذکرے پر حضرت اقدس نے ایک موقعہ پر فرمایا۔کہ :
مخلوق پرست کبھی دانشمند نہیں ہو سکتے۔اور اب تو زمانہ بھی ایسا آگیا ہے۔علمی تحقیقات اور ایجادوں نے خود دلوں پر ایک اثر کیا ہے اور لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ خیالی امور ہیں۔؎ٰ
۱۰،۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء؁
ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دار الامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجۃاﷲ کے حضور دعا کے لیے التجاء کی۔آپ نے فرمایا :
’’ہم دعا کریں گے‘‘
تیمارداری
۱۰؍اگست کی شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں، مگر پائوں کے متورّم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔حضرت نے خود اا؍اگست کو اُن کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا؛ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لیا آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے۔آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔زاں بعد بطور تبلیغ فرمایا : کہ
قبولیتِ دعا کی شرط
میں نے دعا کی ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔جبتک اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور امر نہ ہو۔دیکھو اہل حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں۔مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ کے امر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں۔جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امر اور اذن ہو،کیونکہ اس ادعونی تو کہا ہے مگر استجب لکم بھی ہے۔
یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خدا تعالیٰ سے صلح کر لے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لیے آیا ہے۔اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔جبتک انسان اﷲ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا۔اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا۔لیکن اگر انسان تبدیلی کرے۔تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت کرتا ہے۔اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے۔خدا تعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں،بلکہ اس کی تو شان ہے۔
انما امرہ اذا ارا دا شیئا ان یقول لہ کن فیکون (یٰس : ۸۳)
ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا۔ جس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا۔آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔اس نے معمولی بات سمجھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔دوسرے دن جب میں سیر کو گیا،تو مجھے اس ڈپٹی انسبکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا۔اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا۔اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے،تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی ،مگر اس کے لیے ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے،تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
ایسا ہی پہلی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ حزقئیل نبی کی کتاب میں درج ہے۔
انسان بہت بڑے کام کے لیے بھیجا گیا ہے، لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا۔تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے۔خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا،تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے۔پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے،جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔
ہمارے مرزا صاحب پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔اُن کا قول تھا کہ اُن کو کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا۔توبہ واستغفار بہت کرنی چاہیے۔تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے،تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا۔اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو۔اس لیے میں تو جب تک اذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں۔بندہ نہایت ہی ناتواں اور بے بس ہے۔پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حکام اور برادری سے سلوک
چوہدری عبد اﷲ خاں صاحب نمبردار بہلول پور نے سسوال کیا کہ حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔
ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔جان اور مال اُن کے ذریعہ امن میں ہیں اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتائو کرنا چاہیے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں؛البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛تا ہم اُن سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہیے۔ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا،وہ آخرت میں کیا اجرلے گا۔اس لیے سب کے لیے نیک اندیش ہونا چاہیے۔ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذارسانیوں سے بہ سبب بلاوجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔اُن کو جو سزا مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔محص انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذارسانی نہ ہو ،تو وہ اس دنیا مین عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔
رشوت
رشوت ہر گز نہیں دینی چاہیے۔یہ سخت گناہ ہے،مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں۔میں اس سے سخت منع کرنا ہوں۔لیکن ایسے طور پر بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے۔جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو،بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو۔تو یہ میرے نزدیک منع نہیں ہے۔اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی،بلکہ۔
لا تلقو ابایدیکم الی التھلکۃ۔(البقرہ : ۱۹۶)
فرمایا ہے۔
خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو
خان صاحب نواب خاں صاحب جاگیردار مالیر کوٹلہ نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ وہ ارادت کا اظہار کرتا ہے۔مگر چاہتا ہے کہ اس کی توجہ نماز کی طرف ہو جائے۔فرمایا :
یہ لوگ خدا تعالیٰ سے ایسی شرطیں کیوں کرتے ہیں۔پہلے خود کوشش کرنی چاہیے۔قرآن میں ایاک نعبد مقدم ہے۔خدا تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں۔اگر وہ خود کوشش کرنا چاہتے ہیں،تو مہینے تک یہاں آکر رہیں۔خدا نے فرمایا ہے۔
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یہاں وہ نماز پڑھنے والوں کو دیکھیں گے۔باتیں سنیں گے۔
خدا تعالیٰ تو غنی ہے۔ اگر ساری دنیا اُس کی عبادت نہ کرے تو اس کو کیا پروا ہے۔ہزاروں موتیں انسان قبول کرے تو خدا کو خوش کرسکتا ہے۔خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو یہ اچھا طریق نہیں۔
حدیث
حدیثیں دو قسم کی ہیں۔اوُل وہ جوصراحتاً بلا تاویل ہماری ممد اور معاون ہیں۔جیسے اما مکم منکم۔فامکم منکم۔لامھدی الا عیسیٰ وغیرہ۔اور دوم کچھ اس قسم کی ہیں۔جو ہمارے مخالف پیش کرتے ہیں۔ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ ذرا سی توجہ سے ان کا مضمون اور مفہوم ہمارے مطابق ہو جاتا ہے اور بعض بالکل محرف و مبدل قرآن شریف کے خلاف اقوالِ مر دودَہ ہیں۔ہم اُن کو رد کر دیں گے۔
خدا تعالیٰ کی آواز تو ہمیشہ آتی ہے،مگر مردوں کی نہیں آتی۔اگر کہیں کسی مردے کی آواز آتی ہے تو خا کی معرفت۔یعنی خدا تعالیٰ کوئی خبر اُن کے متعلق دے دیتا ہے۔اصل یہ ہے کہ کوئی ہو خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے۔ کہ آنراکہ خبر شد خبرش بازنیامد۔اﷲ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل و عیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے۔وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں۔اسی لیے فرمایا ہے :
فلا انساب بینہم (المومنون : ۱۰۲)
کہف والا قصہ ہماری راہ میں نہیں۔اگر خدا تعالیٰ نے اُن کو سلایا ہو اور پھر جگایا ہو،تو ہمارا کوئی حرج نہیں۔مسیح کی وفات سے اس کو کیا تعلق؟ مسیح کے لیے کہاں رقود آیا ہے۔
فضیلت کا مسئلہ
امام حسین ؑ پر میری فضیلت کا ذکر سنکر یونہی غصہ میں آتے ہیں۔قرآن نے کہاں امام حسین کا نام لیا ہے۔زیدؓکا ہی نام لیا ہے۔اگر ایسی ہی بات تھی تو چاہیے تھا کہ حسین کا نام بھی لے دیا جاتا۔اور پھر ماکان محمد ابا احدمنرجالکم کہہ کر اور بھی ابوت کا خاتمہ کر دیا۔اگر الاحسین کہہ دیا ہوتا تو شیعہ کا ہاتھ پڑسکتا تھا۔اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ان باتوں سے لا پروا ہوتے ہیں۔اُن کی تمنّا بھی یہ نہ تھی؛ ورنہ اﷲ تعالیٰ نبیوں کی تمنّا بھی پوری کر دیتا ہے۔
مخالفین سے معانقہ
قبل از نماز ظہر حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے؟ فرمایا :
میرے نزدیک ہر گز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں۔قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں۔اُن کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے،تو کیا وہ روارکھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے۔پھر جب یہ بات نہیں اﷲ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے۔
۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء؁
آنحضرتؐاور آپ کے صحابہؓکی فضیلت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں پر
بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام معمول کے موافق خدام کے حلقہ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ :
قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئے۔جس کے مقابل میں حضرت مسیحؑ بہت ہی کمزور ثابت ہوتے ہیں۔سورئہ مائدہ میں ہے کہ نزولِ مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے کہ
قالو انزید ان ناکل منھا و تطمئن کلو بنا ونعلم ان قد صد قتنا ونکون علیھا من الشاھدین
(المائدہ : ۱۱۴)
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے۔ان سب کے بعد اُن کا یہ درخواست کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اُن کے قوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے۔ورنہ یہ الفاظ کہنے کی اُن کو کیا ضرورج تھی۔و تطمئن کلو بنا ونعلم ان قد صد قتنا۔مسیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی ساتھا۔اور وہ اس جھاڑ پھونک کو معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے۔اُن کے مقابلہ میں صحابہ کرامؓ ایسے مطمئن اور قوی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت
رضی اللہ عنہم ورضواعنہ (البینۃ :۹)
فرمایا۔اور یہ بھی بیان کیا کہ اُن پر سکینت نازل فرمائی۔یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے۔اور رسولاﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرتی ہے۔صحابہ کا کہیں ذکر نہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ ہم اطمینانِ قلب ثاہتے ہیں،بلکہ صحابہ کا یہ حال کہ اُن پر سکینت نازل ہوئے۔اور یہود کا یہ حال
یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم (البقرہ :۱۴۷)
ان کی حالت بتائی۔یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یہانتک کھل گئے تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاریٰ کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہو جاتے تھے۔یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب!
اس پر عرض کیا گیا کہ حضور! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی احیائے موتی کی کیفیت کے متعلق اطمینان چاہا تھا۔کیا اُن کو بھی پہلے اطمینان نہ تھا؟ فرمایا :
انبیاء تلامیذالرحمٰن ہوتے ہیں،اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے
اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اﷲ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذالرحمٰن کہلاتے ہیں۔اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے۔اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔
کذلک لنثبت بہ فئوادک ور تلنہ ترتیلا۔ (الفرقان : ۳۳)
پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے۔جس دن نبی مامور ہوتا ہے اُس دن اور اُس کی نبوّت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے۔پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کہا۔ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے۔جس کی نسبت قرآن شریف نے خود فیصلہ کر دیا ہے۔
ابراھیم الذی وفی (النجم : ۳۸)
واذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمت فاتمھن۔ (البقرہ : ۱۲۵)
پھر یہ اعتراض کس طرح پر ہو سکتا ہے۔
کیا ایک بچہ مثلاً مبارک(سلمہٗ ربہٗ) جو آج مکتب میں بٹھایا وہ ایم اے۔بی اے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسی طرح انبیاء کی بھی حالت ہوتی ہے کہ ان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے۔دیکھو براہینؔ احمدیہ میں باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے وہ تمام آیات جو حضرت مسیحؑ سے متعلق ہیں میرے لیے نازل کی ہیں اور میرا ہام مسیح رکھا اور آدم۔دائود۔سلیمان غرض تمام انبیاء کے نام رکھے،مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں جبتک خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے وقت پر یہ راز نہ کھول دیا۔حواریوں نے جو اطمینانِ قلب چاہا ہے وہ ان سب نشانات کے بعد ہے جو وہ دیکھ چکے تھے،اس لیے وہ اعتراض کے تیچے ہیں کہ ان کو ضرور شک تھا۔
آیت فلما توفیتنی نصّ ہے مسیحؑ کے عدم نزول پر
اس کے بعد امریکہ کے مشہور کاذب اور مفتری ڈاکٹر ڈوئی کے اخبار کا خلاصہ برادر مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھ کر سنا یا۔اُس کے سننے کے بعد حضرت حجۃاﷲ نے پھر ذکر کیا کہ :
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
سورئہ مائدہ کی آیت پر آج پھر غور کرتے ہوئے ایک بئے بات معلوم ہوئے۔اور وہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح سے یہ سوال ہوا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو الہٰ بنالو تو وہ اپنی پریت کے لیے جواب دیتے ہیں کہ میں نے تو وہی تعلیم دی تھی جو تو نے مجھے دی تھی اور جبتک میں اُن میں رہا،اُن کا نگران تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی۔تو تُو اُن پر نگران تھا۔اب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ دوبارہ دنیا میں آئے تھے۔اور یہ سوال ہوا تھا قیامت میں تو اس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہیے تھا۔بلکہ اُن کو تو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ ہاں بیشک میرے آسمان پراٹھائے جانے کے بعد اُن میں شرک پھیل گیا تھا،لیکن پھر دوبارہ جا کر تو میں نے صلیبوں کو توڑا۔فلاں کافر کو مارا۔اُسے ہلاک کیا،اُسے تباہ کیا۔نہ یہ کہ وہ یہ جواب دیتے۔
وکنت علیہم شھید اما دمت فیھم۔ (المائدہ :۱۱۸)
اس جواب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ہر گز ہر گز خود دنیا میں نہیں آنا ہے اور یہ نصّ ہے اُن کے عدم نزول پر۔
۱۲؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(بوقت شام)
حضرت جریاﷲ فی حلل الانبیاء علیہ الصوٰۃ والسلام ادائے نماز کے بعد جلوس فرما ہوئے۔فرمایا کہ :
چونکہ یہ کتاب نزول المسیح تمام مسائل کی جامع کتاب بنانی چاہتا ہوں۔ اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ہمارے چند احباب میری کتابوں کے مضامین کی ایک ایک فہرست بنادیں ،تا کہ مجھے معلوم ہو جاوے کہ کون کون سے مضامین اس میں آچکے ہیں۔
اس کے بعد ایڈیٹر الحکم نے الحکم کا وہ نمبر پیش کیا جو ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء؁ کا چھپا ہوا ہے اور جس میں حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک خط مولوی عبدالرحمٰن صاحب لکھو کے والے کے نام حضرت حجۃاﷲ المسیح الموعود کے ایماء سے لکھا تھا اور جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر تو حضرت اقدس کے بر خلاف نام لیکر کوئی مخالف الہام پیش کریگا، تو ہلاک ہو جاوے گا۔غرض وہ مضمون ناظرین الحکم پڑھ چکے ہیں۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
اس کے بعد حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ مولوی محمد حسین صاحب کا ایک رسالہ آیا ہے۔جس میں چینیاں والی مسجد میں قیامت کے عنوان سے آپ نے ایک مضمون لکھا ہے۔جو مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف ہے۔لکھتے لکھتے ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ہم اس کو پرافٹ آف قادیان کے ساتھ ملاتے ہیں۔یعنی کفر کا فتویٰ دیتے ہیں؛چنانچہ اس کے نیچے پھر کفر کا فتویٰ مرتب کیا ہے۔
اس پر حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ : وجوہ کفر کیا ہیں؟
‏Amira
13-03-05
مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے ، جیسے کُتّے کاہڈی کا چسکا ہوسکتاہے اور رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ قرآن لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیساکہ ایک چپڑاسی یا مذکو ری کا درجہ پروانہ سرکاری لانے میں ہو تا ہے ۔
حضرت اقدس مسیح مو عو دؑ نے فرمایا :
ایسا کہنا کفر ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بے ادبی کرتاہے ۔احادیث ایسی ہقارت سے نہیں دیکھنا چاہئیے۔کفّار تو اپنے جنتر منتر کو یاد رکھتے ہیں ۔تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسولؐ کی باتوںکو یاد نہ رکھا ۔ قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور اس پر آپؐ عمل کرتے تھے اور دوسروںسے عمل کراتے تھے ۔ یہی سنّت ہے کہ اور اسی کو تعامل کہتے ہیں ۔ اور بعد میںاتمہ نے نہایت ہی محنت اور جانفشانی سے اس سنّت کو الفاظ میں لکھااور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی ۔ پس وہ حدیث ہوئی دیکھوبخاری اور مسلم کو کیسی محنت کی ہے ۔آخر انھوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے ۔ بلکہ جہاں تک بس چلا صحت وصفائی کے ساتھ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی سنّت کو جمع کیا اور کثر حدیثوںمثلاً بخا کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نورہے ۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسُول اللہ کے منہ سے نکلی ہیں۔
امامکم منکم
کی حدیث کیسے صاف ظاہر کتی ہے کہمسیح تم میںسے ہو گا ۔اور یہ عیسائیوں کا ردّہے ۔کیونکہ عیسائی فخر کرتے تھے ۔عیسیٰ پھر آئے گا اور دین عیسوی کو بڑھائے گا ،لیکن آنحضرت ؐ نے سنایا کہ ہم نے اس کو آسمان پر دیگر فوت شدولوگوں میں دیکھا اور پھر فرمایا کہ جوآنے والامسیح ہے وہ
امامکم منکم
ہوگا غرض احادیث کے متعلق ایسا کلمہ نہیں بولنا چاہئیے۔ہاں اس معاملہ میں غلو بھی نہیں کرناچاہئیے کہ اس کو قرآن اور تعامل سے بڑھ کر سمجھاجائے ، بلکہ جو کچھ قرآن اور سنّت کے مطابق حدیث میں ذکر ہو اہے اس کو ماننا چاہئیے ۔کیونکہ جب حدیث کی کتابیں نہ تھیں تب لوگ نمازیں پڑھتے تھے اورتمام شعائر اسلام بجالاتے تھے ۔
پس قرآن شریف کے بعد تعامل یعنی سنّت ہے ۔اور پھر حدیث ہے ۔جو اُن کے مطابق ہو ۔
مولوی محمد حسین نے پہلے اپنے رسالہ اشاعت السنّہ میں ایسا ظاہر کیاتھا کہ جو لوگ خدا سے وہی اور الہام پاتے ہیں وہ اپنے طور پر براہ راست احادیث کی صحّت کر لیتے ہیں بعض وقت قواعد علم حدیث کی روح سے ایک حدیث موضع ہوتی ہے اور ان کے نزدیک صحیح قراردی ہوئی اُن کے نزدیک موضع ۔غرضبات یہ ہے کہ قرآن اور سنّت اور حدیث تین مختلف چیزیںہیں ۔
مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق حضرت اقدس کا ایک پرانا خواب
اسکے بعد حضرت اقدس نے اپنا پراناخواب مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان فرمایا ۔جو کہ کتاب سراج منیر کے آخر میں درج ہے فرمایا کہ :
یہ بات ۹۴ء ؁ یا ۹۵ء؁ کی ہے جب ہم نے یہ رؤیاء دیکھا تھا کہ ہم نے جماعت کرائی ہے اور نماز عصر کا وقت ہے اور ہم نے قرأت پہلے بلند آواز سے کی ہے پھر ہم کو یاد آیا اور اس کے بعد ہم نے محمد حسین سے کہا کہ ہم خدا کے سامنے جائیں گے ہم چاہتے ہیں ہر بات میں صفائی ہو اگر ہم نے آپ کے متعلق کچھ سخت الفاظ کہے ہوں تو آپ معا ف کردیں ۔ا س نے کہا کہ میں کرتاہوں ۔پھر ہم نے کہا کہ ہم بھی معاف کرتے ہیں ۔ پھر ہم نے دعوت کی اور اسنے عذر ِخفیف کے ساتھ اس دعوت کو قبول کرلیا ۔اور ایک شخص سلطان بیگ نام چبوترہ پر قریب الموت تھا ج۔اور ہم نے کہا کہ ایسا ہی مقدر تھا ۔کہ اس مرنے کے وقت یہ واقعہ ہوا اور ایسا ہی مقدر تھا ۔کہ بہائوالدین کے مرنیکے وقت یہ بات ہو ۔

اس خواب کے بعد فرمایا :
واللہ اعلم بالصواب
خواب میںتعنیات شخصیہ ضروری نہیں ۔
پھر حضرت اقدس ؑ نے مولوی حسین صاحب کے ان دنوں کی حالت کا ذکر کیا ۔جب و ہ بات بات میںخاکساری دکھلاتے تھے اور قدم قدم پر اخلاص ر کھتے تھے اور جوتے اُٹھاکر جھاڑکر رکھتے تھے اور وضوکراتے تھے ۔اور کہتے تھے کہ میں مولویت کو نہیں چاہتا ج۔مجھے اجازت دو ت ومیں قادیان میں آرہاہوں اور فرمایا:کہ
کسی وقت کا خلاص اور خدمت انسان کے کام آجاتاہے ۔ شاید ان وقتوں کاا خلاص ہی ہو جو بالاآخرمولو ی محمد حسین صاحب کو اس سلسلہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیقدے ،کیونکہ وہ بہت ٹھوکریں کھاچکے ہیں ۔اورآخر دیکھ چکے ہیں کہ خد ا کے کاموں میں کوئی حارج نہیںہوسکتا ۔فرمایا:کہ
ایساہی اجتہادی طور پر ہمیں بعض لوگوں پر بھی حُسن ظن ہے کہ وہ کسی وقت رجوع کریں ج۔کیونکہ ایک دفعہ الہام ہو اتھا کہ ۔
’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں ۔وسوسہ پڑگیا ہے ۔پر مٹی
نظیف ہے ۔ وسوسہ نہیں رہے گا ۔ مٹی رہے گی ۔‘‘
اس کے بعد چند مختلف باتیں ہو کر نماز عشاء ادا کی گئی ۔
۱۳؍ اگست ۱۹۰۲ء؁
نماز مغرب کے بعد حضرت اقدس نے کل تجویز کی تکمیل کے لیے فرمایا :
مخالفین کے لیے اہم اعتراضات جمع کر لینے کا ارشاد
بہت بہتر ہو کہ اگر مخالفین کی کل کتابیں جمع کر کہ اُن کہ اہم اعتراضات کو یکجا کر لیا جاوے ۔
اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب نے اس چٹھی ے مضمون کا تتمہ پڑھ کر سنایا جو امریکہ کے مشہور کاذب مفتری الیاس ڈاکٹر ڈوئی کے نام کامقابلہ کے لیے لکھی گئی ہے ۔
خلاصہ تتمہ چٹھی بنام الیاس ڈاکٹر ڈوئی
اس تتمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۔حضرت اقدس ؑ نے اس میںلکھا ہے ؛کہ
صادق اور کاذب کی شناخت کامعیاروہ امر کبھی نہیںہوسکتا ۔جو مختلف قوموںمیں بطور امر مشترک ہو، مثلاًسلب امراض کا طریق ہے۔جس پرڈاکٹرڈوئی لاف زنی کیا کرتا ہے کہ فلاں شخص اچھاہوگیا کہ۔اور فلاں نے صحت پائی ۔یہ طریق اس قسم کا ہے کہ اس کے لیے راستبازاور متقی ہونے کی بھی ضرورت نہیں ۔ چہ جائیکہ یہ کسی کے مامور ہونے پر گواہ ہوسکے ،کیونکہ سلب امراض کا طریق ہندوؤںیہودیوں عیسائیوں میںیکساں پایا جاتا ہے اورمسلمانوں میں بھی بعض لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں ۔حضرت مسیحؑ جب امراض سلب کے معجزات دکھاتے تھے ۔ اس وقت بعض یہودی بھی اسقسم کے کام کرتے تھے اور ایک تالاب بھی ایساتھا جس میں غسل کرنے سے بعض مریض اچھّے ہوجاتے تھے ۔
غرض حضرت حجۃاللہ نے پہلے اس میںظاہر کیا کہ جو امر مختلف قوموں میں مشترک ہے اور جس کے لیے نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں ۔صادق اور کاذب کی شناخت کامعیار نہیںہوسکتا ۔پھر اس امر پر بحث کی ہے کہ ؛
اس کی ایک صورت ہے کہ کچھ بیمار لے کر بطور قرعہ اندازی صادق اور کاذب کو تقسیم کردئیے جائیں ایسی صورت میں صادق کے حصّہ بلمقابلہ کاذب زیادہ اچھّے ہوں۔ اس امرکی بیان میں یہ بھی ظاہرہے کہ اس طریق کو اپنے ملک میں اپنے مخالفوںکے سامنے میں نے پیش کیا ہے ، مگر کوئی مقابلہ کے لیے نہ آیا ۔
پھر حضرت اقدس نے ڈوئی کی تمدی پر بحث کی جو اس نے اپنے مخالفوں کے لیے کی ہے کہ میرے مخالف ہلاک ہو جائیں گے خصوصاً مسلمان حضرت حجۃ اللہ نے بڑے پُر زور اور پُر شوکت الفاظ میںلکھاہے کہ ؛
کُل مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں اور علاوہ ازیں یہ امر مشکوک ہوسکتاہے ۔اس کو یہ کہمے کی گنجائش ہے کہ مسلمان ہلاک تو ہوہی جائیں گے مگر پچاس یا ساٹھ کے اندر ۔ اور وہ خود اس عرصہ میں ہلاک ہوجائے گا۔پھر اس سے کون پوچھنے والاہوگا۔اس لیے بہترہے کہ سارے مسلمانوں کو چھو ڑکر میرے مقابلے میں آئے اور میںعیسائیوں کو خود ساختہ خداکی نسبت تمام مسلمانوں سے زیادہ کراہت اور نفرت رکھتا ہوں ۔ یہاں تک کہ اگر کل مسلمانوں نفرت عیسائیوں کے خداکی نسبت ترازو کا ایک پلہ میں رکھدی جاوے اور میری نفرت ایک طرف تو میرا پلہ اس سے بھاری ہوگا ۔ اور میں ایسے شخص کو جو عورت کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے بہت ہی بڑاگناہ گار اور ناپاک انسان سمجھتاہوں ۔ مگر ہاں میرا یہ مذہب کہ مسیح ابن مریم رسُول اس الزام سے پاک ہے ۔ اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیںکیا ۔ میں اسے اپنا ایک بھی سمجھتا ہوں ؛ اگر چہ خداتعالیٰ کافضل مجھ پر اس سے بہت زیادہ ہے ۔ اور وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اس کے کام سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔ تاہم میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوںاور میں نے اسے بارہادیکھاہے ۔ ایک بار میں نے اور مسیح ؑ نے ایک ہی پیالہ میں گائے کاگوشت کھایا تھا ، اس لیے میں اور وہ ایک ہی جوہڑ کے دو ٹکڑے ہیں ۔
غرض اس طرح پر حضرت حجۃاللہ نے بلحاظ اپنے کام اور ماموریت کے اور خداتعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کہ جو حضرت مسیح موعود کے شامل مال ہیں تحدیث بالنعمت اور تبلیغ کے طور پر ذکر فرمایا اور یہاں تک کہا؛ کہ
’’میں خدا سے ہوں اور مسیح مجھ سے ہے ۔‘‘
ان امور کے پیش کرنے کے بعد آپ نے جو پُر شوکت اور تحدّی کے ساتھ اس کو مقابلہ کے لیے دعوت کی ہے ۔کہ
اگر وہ سچّا ہے تو اسے چاہئیے مقابلہ کے لیے نکلے اور یہ دُعاکرے کہ
ہم دونوں میںسے جو کاذب ہے وہ صادق کے سامنے ہلاک ہو
یہ خلاصہ ہے کہ اس تتمہ کا جو ہم نے اپنے طور پر لکھا ہے ۔ اصل چٹھی ستمبر کے آخیر تک انشاء اللہ شائع ہوسکے گی ۔
آج کی ڈائری میں ایک اور ہم نے فرد گذاشت کیا تھا ۔ اسے یہاں درج کرنے دینا قرین مصلحت معلوم ہوتاہے ۔ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد سلمہ اللہ الاحد کے ایک کبوتر بلی نے پکڑلیا جو ذبح کر لیاگیا ۔فرمایا :
اس وقت میرے دل میں تحریک جوئی ہے کہ گویا عیسائیوںکہ خداکو ہم نے ذبح کر کے کھالیا ہے ۔پھر فرمایا :
انگریزبھی کبوترکاشکار کرتے ہیں ۔ اور بنی اسرائیل کی قربانیوں میں بھی شاید اس کا تذکرہ ہے وہر حال کبوتر ہمیشہ کھائے جاتے ہیں ۔ یادوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ عیسائیوں کے خداذبح ہوتے ہیں ۔ کیا یہ بھی کفارہ تو نہیں ہے ۔ ۱؎
۱۶؍اگست ۱۹۰۲ء؁ بوقت شام
رزق میں قبض و بسط
حضرت جری اللہ فی حلل الانبیا ء علیہ الصلوٰۃ والسّلام بعد ادائے نماز مغرب حسب معمول حلقہ خدام میں بیٹھ گئے کسی شخص نے ایک رقعہ دیا ۔ جو دفترمیگزین میں محرر کی اسامی کے لیے سفارش و خواہشپر مشتمل تھا ۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
قبض و بسط رزق کا سرّ ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ ایک طرف مو منوں سے اللہ تعا لیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں ۔
من یتو کل علی اللہ فھو حسبہ(الطلاق:۴)
یعنے جو اللہ تعالیٰ پر توکل کر تا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہے
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یر زقہ من حیث لایحتسب (الطلاق(۳،۴)
جو اللہ تعا لیٰ کے تقو یٰ اختیار کر تا ہے اللہ تعا لیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلو م بھی نہیں ہو تا ۔اور پھر فر ماتا ہے ۔
وفی السماء رزقکم وما تو عدون(الذ اریات:۲۳)
اور پھر اللہ تعا لیٰ اپنی ذات کی قسم کھا تا ہے کہ
فو رب السما ء والارض انہ لحق(الذاریت :۲۴)
آسمان اور زمین کے رب کی قسم ہیکہ یہ وعدہ سچ ہے ۔جیسا کہ تم اپنی زبان سے بو ل کر انکار نہیں کر سکتے ۔جب کہ اس قسم کے وعد ے اللہ تعا لیٰ نے فر مائے ہیں ۔پھر باوجود وعدو ں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی
‏Amira 13-3-05
آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی اور نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعائرِ اسلام صحیح ہوتا ہے، مگر وہ رزق سے تنگ ہیں۔رات کو ہے تو دن کو نہیں۔اور دن کو ہے تورات کو نہیں۔
جملہ معترضہ
یہاں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ جب میں پہلے یہاں آیا۔تو حضور علامات المقربین ایک رسالہ لکھ رہے تھے۔واپسی پر گجرات ٹھہرا،تو ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل مرزا صاحب کیا لکھ رہے ہیں۔میں نے کہا کہ
انا الا برار لفی نعیم (الانفطار : ۱۴)
کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔اس نے کہا کہ یہ کفار آرام میں نہیں؟ سارا دن بگھیاں چلتی رہتی ہیں۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
آپ کے اس آیت کے پڑھنے سے ایک اور آیت یاد آگئی۔
و لمن خاف مقام ربہ جنتان۔(الرحمان : ۴۷)
غرض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں،مگر تجربہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ہمارا یہ مذہب کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اﷲ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے۔یہ سب سچے ہیں۔اور سلسلہ اہل اﷲ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے۔کہ بھوکا مرا ہو۔مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیامان لیا گیا۔یہی نہیں کہ وہ فقروفاقہ سے بچے ہوئے تھے۔گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں،مگر اس قسم کا اضطراری فقروفاقہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراختیار کیا ہوا تھا۔مگر آپ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپؐ نے اختیار کیا ہوا تھا، نہ کہ بطور سزا تھا۔غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔بعض ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ بظاہر متقی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں۔ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب سچے ہیں،لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
یورپ کی پُرآسائش زندگی جنت نہیں
حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب نے پھر ذکر کیا کہ لندن سے ایک شخص نے مجھے خط لکھا ہے کہ لندن آکر دیکھو کہ جنت عیسائیوں کو حاصل ہے یا مسلمانوں کو۔میں نے اس کا جواب لکھا کہ سچی عیسائیت مسیح اور اس کے حواریوں میں تھی اورسچا اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ میں تھا۔پس ان دونوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔اس پر حضرت حجۃ اﷲ نے بہ تسلسل کلام سابق پھرارشاد فرمایا :
اِن روحانی امور میں ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ نتیجہ نکال لے۔یہ لوگ جو لندن جاتے ہیں۔وہ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ بڑی آزادی ہے۔شراب خوری کی اس قدر کثرت ہے کہ ساٹھ میل تک شراب کی دکاتیں چلی جاتی ہیں۔زنا اور غیر زنا میں کوئی فرق ہی نہیں۔کیا یہ بہشت ہے؟ بہشت سے یہ مراد نہیں ہے۔دیکھو۔انسان کی بھی بیوی ہے اور وہ تعلقات زوجیت رکھتا ہے اور پرندوں اور حیوانوں میں بھی یہ تعلقات ہوتے ہیں،مگر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایک نظافت اور ادراک بخشا ہے۔انسان جن حواس اور قویٰ کے ساتھ آیا ہے۔اُن کے ساتھ وہ ان تعلقات زوجیت میں زیادہ لطف اور سرور حاصل کرتا ہے۔بمقابلہ حیوابات کے جو ایسے حواس اور ادراک نہیں رکھتے ہیں۔اور اسی لیے وہ اپنے جوڑے کی کوئی رعایت نہیں رکھتے جیسے کتے۔
پس اگر انسان حواس کے ساتھ سرور حاصل نہیں کر سکتے بلکہ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں پھر اُن میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہوا۔یہ جو فرمایا ہے۔کہ مومن کے لیے ہی جنت ہے۔یہ اس لیے فرمایا ہے۔کہ سچی راحت دنیا کی لذات سے تب پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ساتھ ہو۔جو تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور حلال و حرام کی قید کو اُٹھا دیتا ہے وہ تو اپنے مقام سے نیچے گر جاتا ہے اور حیوانی درجہ میں آجاتا ہے۔
لندن میں جب ہائیڈ پارک میں حیوانوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں اور کوئی شرم و حیا ایک دوسرے سے نہیں کیا جاتا۔تو پھر ایک شخص انسانیت کو ضبط رکھ کر دیکھے تو ایسی بہشت اور راحت سے ہزار توبہ کرے گا کہ ایسی دیُّوث اور بے غیرت جماعت سے خدا بچائے۔ایسی جماعت کو جو ایسی زندگی بسر کرتی ہے بہشت میں سمجھنا حماقت ہے۔اصل یہی ہے کہ بہشت کی کلید تقویٰ ہے۔جس کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ نہیں اُسے سچی راحت کیونکر مل سکتی ہے۔بعض آدمی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جن کو خدا پر بھروسہ نہیں اور ان کے پاس روپیہ تھا وہ چوری چلا گیا۔اس کے ساتھ ہی زبان بند ہو گئے۔اور اُن (کفار) کو جو بہشت میں کہا جاتا ہے۔اُن کی خود کشیوں کو دیکھو کہ کس قدر کثرت سے ہوتی ہیں۔تھوڑی تھوڑی باتوں پر خود کشی کر لیتے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسے ضعیف القلب اور پست ہمت ہوتے ہیں کہ غم کی برداشت ان میں نہیں ہے۔جس کو غم کی برداشت اور مصیبت کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔اس کے پاس راحت کا سامن بھی نہیں ہے۔خواہ ہم ا سکو سمجھا سکیں یا نہ سمجھا سکیں اور کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے۔حقیقت الامر یہی ہے کہ لذائذ کا مزہ صرف تقویٰ ہی سے آتا ہے۔جو متقی ہوتا ہے اس کے دل میں راحت ہوتی ہے اور ابدی سرور ہوتا ہے۔دیکھو ایک دوست کے ساتھ تعلق ہو۔توکس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے،لیکن جس کا خدا سے تعلق ہو اُسے کس قدر خوشی ہو گی۔جس کا تعلق خدا سے نہیں ہے۔اُسے کیا امید ہو سکتی ہے۔اور امید ہی تو ایک چیز ہے جس سے بہشتی زندگی شروع ہوتی ہے۔
ان مہذّب ممالک میں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ جن سے پایا جاتا ہے کہ کوئی راحت نہیں۔ذرا راحت کا میدان گم ہوا اور جھٹ خود کشی کر لی، لیکن جو تقویٰ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اُسے وہ جا ودانی خوشی حاصل ہے جو ایمان سے آتی ہے۔
دنیا کی تمام چیزیں معرض تغیر وتبدل میں ہیں۔مختلف آفات آتی رہتی ہیں۔بیماریاں حملے کرتی ہیں۔کبھی بثے مر جاتے ہیں۔غرض کوئی نہ کوئی دکھ یا تکلیف رہتی ہے۔اور دنیا جائے آفات ہے۔اور یہ امرو سکھ کی نیند انسان کو سونے نہیں دیتے۔جس قدر تعلقات وسیع ہوتے ہیں،اسی قدر آفتوں اور مصیبتوں کا میدان وسیع ہوتا ہے اور یہ آفتیں اور بلائیں انسان کے منزلی تعلقات میں ایک غم کو پچاس بنا دیتی ہیں۔کیونکہ اگر اکیلا ہو تو غم کم ہو۔مگر جب بچے،بیوی،ماں باپ،بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار رکھتا ہے۔تو پھر ذرا سی تکلیف ہوئی اور یہ آفت میں پڑا۔اس قدر مجموعہ کے ساتھ تو اُس وقت راحت ہو سکتی ہے۔جب کسی کو کوئی بیماری اور آفت نہ ہو اور کوئی تکلیف میں نہ ہو۔
صرف مال موجبِ راحت نہیں ہے
یہ بات بھی غلط ہے کہ مال سے راحت ہو۔نرے مال سے راحت نہیں ہے۔اگر مال ہے صحت اچھی نہیں۔مثلاًمعدہ خراب ہے۔تو وہ کیا بہشتی زندگی ہوگی۔اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی راحت کا باعث نہیں۔سچی بات یہی ہے کہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے۔وہی ہر پہلو سے بہشتی زندگی رکھتا ہے۔کیونکہ اﷲ قادر ہے کہ وہ بلائیں اور آفتیں نہ آئیں اور مالی اضطرار بھی نہ ہو۔یا آئیں تو دل میں ایسی قوت اور ہمت بخش د یکہ وہ اُن کا پورا مقابلہ کر سکے۔
جس قدر پہلو انسان کی عافیت کے لیے ضروری ہے وہ کسی بادشاہ کیلئے بھی باتھ میں نہین ہیں بلکہ وہ سب ایک ہی کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔جسے چاہے دیدے۔
بعض لوگ اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ روپیہ پیسہ سب کچھ موجود ہیں۔مگر مسلُول مدقُوق ہو جاتے ہیں۔اور زندگی انہیں تلخ معلوم ہوتی ہے۔پس ان کروڑوں آفات کا جو انسان کو لگی ہوئی ہیں۔کون بندوبست کر سکتا ہے۔اور اگر رنج بھی ہو تو صبر جمیل کون دے سکتا ہے؟ اﷲ ہی ہے جو عطا کرے۔
صبر بھی بڑی چیز ہے۔ جو بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے وقت بھی غم کو پاس نہیں آنے دیتا۔بعض امیر ایسے ہوتے ہیں کہ عافیت اور راحت کے زمانہ میں بڑے مغرور اور متکبر ہوتے ہیں اور ذرا رنج آگیا۔تو بچوں کی طرح چلا اٹھے۔اب ہم کس کا نام لے سکتے ہیں کہ اس پر حوادث نہ آئیں اور متعلقین کو رنج نہ پہنچے؟ کسی کا نام نہیں لے سکتے۔یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے۔پرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو۔
بہشتی زندگی
اس لیے یہ بڑی غلطی ہے جو یونہی کسی کے سفید کپڑے دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہشتی زندگی رکھتے ہیں۔اُن سے جا کر پوچھو تو معلوم ہو کہ کتنی بلائیں سناتے ہیں۔صرف کپڑے دیکھ کر یا بگھیوں پر سوار ہوتے دیکھ کر شراب پیتے دیکھ کر ایسا خیال کر لینا گلط ہے۔ماسوا اس کے اباحتی زندگی بجائے خود جہنم ہے۔کوئی ادب اور تعلق خدا سے نہیں۔اس سے بڑھ کر جہنمی زندگی کیا ہوگی۔کتا خواہ مردار کھالے خواہ بدکاری کرے۔کیا وہ بہشتی زندگی ہوگی؟اسی طرح پر جو شخص مردار کھاتا ہے اور بدکاریوں میں مبتلا ہے۔حرام و حلال کے مال کو نہیں سمجھتا۔یہ *** زندگی ہے۔اس کو بہشتی زندگی سے کیا تعلق۔
یہ سچ ہے ۔کہ بہشتی زندگی یہی ہوتی ہے،مگر اُن کی جن کو خدا پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔اس لیے وہ
ھو یتولی الصالحین (الاعراف :۱۹۷)
کے وعدہ کے موافق خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تولّی کے نیچے ہوتے ہیں۔اور جو خدا تعالیٰ سے دور ہے۔اس کا ہر دن ترسال ولرزاں،ہی گذرتا ہے۔وہ خوش نہیں ہو سکتا۔سیالکوٹ میں ایک شخص رشوت لیا کرتا تھا۔وہ کہا کرتا تھا کہ میں ہر وقت زنجیر ہی دیکھتا ہوں۔بات یہ ہے کہ برے کام کا انجام بد ہی ہونا چاہیے۔اس لیے بدی ایسی چیز ہے کہ روح اس پر راضی ہو ہی نہیں سکتی۔پھر بدی میں لذت کہاں۔ہر برے کام پر آخر دل پر ٹھوکر لگتی ہے اور ایک کثافت انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کیا حماقت کی اور اپنے اوپر *** کرتا ہے۔ایک شخص نے تو بارہ آنے کے عوض میں ایک بچہ مار دیا تھا۔
غرض زندگی بجز اس کے کوئی نہیں کہ بدی سے بچے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔کیونکہ مصیبت سے پہلے جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔مصیبت کے وقت خدا اس کی مدد کرتا ہے۔جو پہلے سویا ہوا ہے وہ مصیبت کے وقت ہلاک ہو جاتا ہے۔حافظ نے کیا اچھا کہا ہے۔شعر
خیال زلف تو جستن نہ کار خاماں است
کہ زیرِ سلسلہ رفتن طریق عیاری است
خدا تعالیٰ غنی ہے۔بیکار نیز و غیرہ میں جو قحط پڑے،تو لوگ بچوں تک کو کھا گئے۔یہ اسی لیے ہوا کہ وہ کسی کے ہو کر نہیں رہے۔خدا کے ہو کر رہتے تو بچوں پر یہ بلا نہ آتی۔حدیچ شریف اور قرآن مجید سے ثابت ہے اور ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ والدین کی بدکاریاں بچوں پر بھی بعض وقت آفت لاتی ہیں۔اسی کی طرف اشارہ ہے
ولا یخاف عقبہا (الشمس : ۱۶)
جو لوگ لا اُبالی زندگی بسر کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔دیکھو دنیا میں جو اپنے آقا کو چند روز سلام نا کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے۔تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پرواہ کیوں کرے گا۔اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ اُن کو ہلاک کر کے اُن کی اولاد کی بھی پروا نہیں کرتا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مر جاوے اس کی اولد کی پروا کرتا ہے۔جیسا کہ ا س آیت سے بھی پتہ لگتا ہے۔
وکان ابو ھما صالحا۔ (الکہف : ۸۳)
اس باپ کی نیکی اور صلاحیت کے لیے خضر اور موسیٰ جیسے الوالعزم پیغمبر کو مزدور بنا دیا کہ وہ ان کی دیواردرست کردیں۔اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا۔خدا تعالیٰ نے لڑکوں کا ذکر نہیں کیا چونکہ ستّار ہے۔اس لیے پر دہ پوشی کے لحاظ سے اور باپ کے محل مدح میں ذکر ہونے کی وجہ سے کوئی ذکر نہیں کیا۔
پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کا مضمون آیا ہے۔کہ سات پشت تک رعایت رکھتا ہوں۔حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی متقی کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔غرض نشاط خدا رزق ہے جو غیر کو نہیں ملتا۔؎ٰ
۱۸؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(کی شام)
بیعت کی حقیقت
مرزا اعظم بیگ کے پوتے مرزا احسن بیگ نے بیعت کی درخواست کی۔اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
بیعت اگلے جمعہ کو کر لینا،مگر یہ یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے۔تو پھر یہ استخفاف ہے۔بیعت بازیچئہ اطفال نہیں ہے۔درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے،جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔پہلے تعلقات معدوم ہو کر نئے تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔جب صحابہؓ مسلمان ہوتے تو بعض کو ایسے امور پیش آتے تھے کہ احباب رشتہ دار سب سے الگ ہونا پڑتا تھا۔حضرت عمر رضیاﷲ عنہ ابو جہل کے ساتھ اسلام سے پہلے ملتے تھے۔بلکہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے منصوبہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاوے اور کچھ روپیہ بھی بطور انعام مقرر کیا۔حضرت عمر اس کام کے لیے منتخب ہوئے؛چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کو تیز کیا اور موقع کی تلاش میں رہے۔آخر حضرت عمر کو پتہ ملا کہ آدھی رات کو آپ کعبہ میں آکر نماز پڑھتے ہیں۔چنانچہ یہ کعبہ میں آکر چھپ رہے۔اور اُنہوں نے سنا کہ جنگل کی طرف سے لاالہ الا اللہ کی آواز آتی ہے اور وہ آواز قریب آتی گئے۔یہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آ داخل ہوئے اور آپؐ نے نماز پڑھی۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ آپؐ نے سجدہ میں اس قدر منا جات کی کہ مجھے تلوار چلانے کی جرأت نہ رہی؛چنانچہ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ آگے آگے چلے۔پیچھے پیچھے میں تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پائوں کی آہٹ معلوم ہوئے اور آپؐ نے پوچھا کون ہے۔میں نے کہا کہ عمر۔اس پر آپؐ نے فرمایا۔اے عمر! نہ تو دن کو میرا پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ رات کو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ آپؐ بددعا کریں گے۔اس لیے میں نے کہا کہ حضرت آج کے بعد میں آپؐ کو ایذانہ دوں گا۔عربوں میں چونکہ وعدہ کا لحاظ بہت بڑا ہوتا تھا۔اس لیے آنحضرتؐ نے یقین کر لیا،مگر دراصل حضرت عمر کا وقت آپہنچا تھا۔آنحضرتؐ کے دل میں گذرا کہ اس کو خدا ضائع نہیں کرے گا؛چنانچہ حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں وہ تعلقات جو ابو جہل اور دوسرے مخالفوں سے تھے یکلخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک تہی اخوت قائم ہوئی۔حضرت ابو بکرؓ اور دوسرے صحابہ ملے اور پھر ان پہلے تعلقات کی طرف کبھی خیال تک نہ آیا۔
غرض اس سلسلہ میں جو ابتلائوں کا سلسلہ ہوتا ہے۔بہت سی ٹھو کریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت سی موتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ہم قبول کرتے ہیں کہ ان انسانوں میں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ان میں بعض بزدل بھی ہوتے ہیں۔شجاع بھی ہوتے ہیں۔بعض ایسے بزدل ہوتے ہیں کہ صرف قوم کی کثرت کو دیکھ کر ہی الگ ہو جاتے ہیں۔انسان بات کو تو پُورا کر لیتا ہے۔مگر ابتلاء کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہے۔خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے۔
احسب الناس ان یتر کو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایمان لائیں اور امتحان نہ ہو۔غرض امتحان نہ ہو۔غرض امتحان ضروری شے ہے۔اس سلسلہ میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلا سے خالی نہیں رہ سکتا۔ہمارے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ۔؎ٰ
‏Amira 14-3-05
۱۹؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(کی شام)
دلائل صداقت
متقی کا منہ تو ایسے بند ہوتا ہے جیسے منہ میں روڑے ڈالے ہوئے ہوں۔متقی کبھی کفر کا دائرہ وسیع کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ ایمان کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ان مخالف مولویوں کی نسبت میرا یہ عقیدہ تھا کہ ان میں صفائی نہیں ہے۔اور ملونی سے ضرور بھرے ہوئے ہیں۔مگر یہ میرے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ان سے یہ کمینہ پن ظاہر ہوگا۔جو انہوں نے اب میری مخالفت میں ظاہر کیا ہے۔
چونکہ عمر گذرتی جاتی ہے جیسے برف ڈھلتی ہے اس لیے ہر روز یہ خیال آتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا ہو جو اُن کے پاس جاوے اور اُن کو فیصلہ کی راہ پر لاوے اور بتائے کہ ایک وہ وقت تھا کہ اﷲ تعالیٰ میری دعا کی نقل فرماتا ہے۔
تب لا تذرنی فر دا (الانبیاء : ۹۰)
اور
رب ارنی کیف تحی الموتی (البقرہ : ۲۶۱)
وہ زمانہ کہاں کہ دو آدمی ثابت کرنے مشکل ہیں۔اور یا اب یہ زمانہ ہے کہ فوجوں کی فوجیں آرہی ہیں۔ڈبل ازوقت کہ جیسا کہا تھا وہ کر دیا اور کر رہا ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب۔اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اُسے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا نے اپنی سنت قدیمہ کے موافق کیا اور جس طرح رسل آتے ہیں وہ اسی طرح پہچانے جاتے ہیں۔مجھے ان ہی آثار اور نشانات کے ساتھ شناخت کرو جو خدا کی طرف سے آتے ہیں۔وہ خدا کی محکم ہدایات کے خلاف نہیں کرتے۔ایسا نہیں کہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دیں۔دوسرے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں۔کہ وہ ضرورت کا وقت ہوتا ہے۔تیسرے یہ کہ تائیدِ الٰہی کے بدوں نہیں ہوتے۔صریح نظر آتا ہے کہ خدا تائید کرتا ہے۔
سچائی معلوم کرنے کی تین راہیں
جہانتک میں خیال کرتا ہوں۔سچائی کے تین ہی راہ ہیں۔اوّل نصوص قرآنیہ و حدیثیہ۔دوسرے عقل اور تیسرے خدا تعالیٰ کے تائیدات۔ان تینوں ذریعوں سے جو چاہے ہم سے ثبوت لے،مگر انسان بن کر نہ سفلہ پن کی طرح ۔ہم سب کو دعوت دیتے ہیں خواہ سو روپیہ روز خرچ ہو جاوے۔آکر آدمیت سے پوچھ لیں۔اب دور بیٹھے ہیں۔نہ کتاب ہے۔نہ غور ہے۔نہ فکر ہے۔سفلہ لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بد تر کام کرتے ہیں۔یہ طریق تو تقویٰ کے خلاف ہے۔اگر کوئی انسان ایسا ہو جو اُن پر رعب داب رکھتا ہو وہ انہیں جا کر سمجھائے۔دنیا دار لوگ اگر اُن کو کہیں تو اُن سے ڈرتے ہیں۔خدا کرے کہ کوئی ایسا دنیا دار ہو جس کو اس طرف توجہ ہو اور ان کو سمجھئے اور یہی خیال کرے۔کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے۔اس کو ہی دور کیا ہاوے۔غرض ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ پر آویں۔اور ہماری مخالفت کر کے تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ خود اپنی تائید کر رہا ہے۔پر نالہ کا پانی تو ایک اینٹ سے بند کر سکتے ہیں،مگر آسمان کا کون بند کر سکتا ہے۔یہ خدا کے کام ہیں۔چراغ کو تو پھونک مار کر بجھادیتے ہیں۔مگر چاند سورج کو تو کوئی پھونک مار کر بجھاوے۔خدا کے کام اونچے ہیں۔انسان کی وہاں پیش رفت نہیں جاتی۔وہاں نہ غبارہ جاوے اور نہ ریل۔یہ بھی عظمتِ الٰہی ہے۔تعالیٰ سانہٗ کا مصداق ہے۔آسمانی امور اونچے ہیں۔وہ تو آگے ہی آگے جاتے ہیں۔
عذاب سے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت
ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے گائوں سے آٹھ آدمیوں نے خط بھیجا ہے کہ اگر سچے ہو تو ہم پرعذاب نازل ہو جاوے۔فرمایا :
خدا تعالیٰ کے کام میں جلدی نہیں ہوتی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دکھ دئیے گئے اور بعض ایسے بیباک اور شریر تھے جو کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر پتھر برسیں۔مگر اسی وقت تو اُن پر پتھر نہ برسے۔خدا تعالیٰ کی سنت یہ نہیں کہ اسی وقت عذاب نازل کرے۔اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دے توکیا اسی وقت اس پر عذاب آجاوے گا۔عذات اپنے وقت پر آتا ہے جبکہ جرم ثابت ہو جاتا ہے۔لیکھرام ایک آریہ تھا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا۔آخر خدا تعالیٰ نے اس کی شرارتوں اور شوخیوں کے بدلے اس کو سزادی۔ارو وہی زبان چھری ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی جس سے وہ ٹکڑے کیا گیا۔پس خدا تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ اُسی وقت عذاب دے ۔یہ لوگ کیسے بیوقوف اور بدقسمت ہوتے ہیں۔عذاب مانگتے ہیں۔ہدایت نہیں مانگتے۔
خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں
اسی شخص نے کہا کہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سید ہو کر امتی کی بیعت کرتے ہو؟ فرمایا :
خدا تعالیٰ نا محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے۔
انا اکر مکم عند اللہ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں۔کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔مرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو کہا ہے کہ اے فاطمہؓ تُو اس بات پر ناز نہ کر کہ تو پیغمبر زادی ہے۔خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے۔اگر کوئی سید ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اﷲ ﷺکو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بیحرمتی کرے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو آلِ رسولؐ ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا۔
ان الدین عند اللہ الاسلام (آلِ عمران : ۲۰)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے۔اسلام ہے۔اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو۔یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں۔خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑادیا ہے۔یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لئے قبائل ہیں۔مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے جو متقی ہے وہ جبت میں جائے گا۔خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے۔خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز متقی ہی ہے۔پھر یہ جو فرمایا
انما یتقبل اللہ من المتقین (المائدہ : ۲۸)
کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔یہ نہیں کہا کہ من اسیدین۔پھر متقی کے لیے تو فرمایا
من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا ویر زقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۳-۴)
یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے۔اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔اب بتائو کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔اور پھر یہ فرمایا کہ متقی ہی اﷲ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا۔ولایت سے بڑھ کر اور کیا رتبہ ہوگا۔یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے۔بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے۔نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکّب ہوتا ہے۔نبوّت اور ولایت۔نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شائع مخلوق کو دیتا ہے۔اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتے ہے۔
پھر فرمایا ہے
ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین (البقرہ : ۳)
ھدی للسیدین نہیں کہا۔غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ہاں سید زیادہ محتاج ہیں۔کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
ذلک فضل اﷲ یئو تیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم (الجمعۃ :۵)
یہ ایسی بات ہے کہ جیسے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسمٰعیل کو نبوت کیوں ملی۔وہ نہیں جانتے ۔
تلک الایا م ندا ولھا بین الناس (آل عمران : ۱۴۱)
خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے ۔تو وہ مردودہے۔وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے۔اُس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔؎ٰ
اگست ۱۹۰۲ء؁ ۲؎
اخلاق الٰہیہ
سورۃ فاتحہ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے پیس کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رب العالمین بیان کی ہے۔جس میں تمام مخلوقات شامل ہے۔اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کا میدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ تمام چرند پرند اور کل مخلوق اس میں آجاوے۔پھر دوسری صفت رحمٰن کی بیان کی ہے۔جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہیے۔اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے۔غرض اس سورۃ فاتحہ میں جو اﷲ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئے ہیں۔یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہیے۔اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے۔خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں۔اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے۔اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہیے۔
اخلاقِ عالیہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کرتہ بھی دے دیا ہے۔اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔جبتک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے۔یہ اصلاح نہیں ہوتی۔زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں۔اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے؛ البتہ وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے علابیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا اور خطرباک دشمنی کرتا ہے۔اس کا معاملہ اور ہے۔جیسے صحابہ کو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی۔تو پھر باوجود تعلقات شدیدہ کے ا۲ن کو اسلام مقدم کرنا پڑا۔اور ایسے واقعات پیش آئے۔جن میں باپ نے بیٹے کو یا بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا۔اس لیے ضروری ہے کہ مراتب کا لحاظ رکھا جاوے۔
گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی
ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے۔لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زَد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے۔
جو لوگ بالجبر دشمن ہو گئے ہیں اُن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی نہیں کی بلکہ ابو جہل کا سر کٹنے پر سجدہ کیا۔لیکن جو دوسرے عزیز تھے۔جیسے امیر حمزہ جن پر ایک وحشی نے حربہ چلایا تھا۔تو باوجودیکہ وہ مسلمان تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ میری نظر سے الگ چلا جا،کیونکہ وہ قصہ آپؐ کو یاد آگیا۔اس طرح پر دوست دشمن میں پوری تمیز کر لینی چاہیے اور پھر اُن سے علیٰ قدر مراتب نیکی کرنی چاہیے۔
کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو
اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوئی۔کیا ساری گندم تخمریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے۔بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں۔بعض کسی اور طرح قابلِ ثمر نہیں رہتے۔غرض اُن میں سے جو ہو نہار ہوتے ہیں اُن کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا ۔خدا تعالیٰ کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی کزرع ہوتی ہے۔اسی لیے اس اصول پر ا۲س کی ترقی ضروری ہے۔پس یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ۔ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔تو کیا پہیل کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ا۲س کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔
تعاونو ا علی البر و التقوٰی (المائدہ :۳)
کمزور بھائیوں کا بار اُٹھائو۔عملی ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جائو۔بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔صحابہ کو یہی تعلیم ہوئے کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو،کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتائو کرے۔دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں۔تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ایسا ہر گز نہیں چاہیے۔بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہیاور برکات پیدا ہوتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں۔معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خلق کو گمراہ کرتے ہیں۔لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے۔کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی۔محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے۔اور تمام عادتوں پر رحم۔ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔یہان مدرسہ ہے۔مطبع ہے مگر کیا اصل اغراض ہمارے یہی ہیں۔یا اصل امور اور مقاصد کے لیے بطور خادم ہیں؟ کیا ہماری غرض اتنی ہی ہے کہ یہ لڑکے پڑھ کر نوکر یاں کریں یا کتابیں بیچتے رہیں۔یہ تو سفلی امور ہیں ان سے ہمیں کیا تعلق۔یہ بالکل ابتدائی امور ہیں۔اگر مدرسہ چلتا رہے تب بھی بنظرظاہر بیس برس تک بھی یہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا ۔جو اس وقت علیگڈھ کالج کی ہے۔یہ امر دیگر ہے کہ اگر خدا چاہے تو ایک دم میں اسے علیگڈھ کالج سے بھی بڑا بنادے۔مگر ہماری ساری طاقتیں اور قوتیں اسی ایک امر میں خرچ ہونی ضروری نہیں ہیں۔
اخوت و ہمدردی کی نصیحت
ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جبتک وہ آپس میں سثی ہمدردی نہ کریں۔جو پوری طاقت دی گئی ہے۔وہ کمزور سے محبت کرے۔میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے،تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا ،بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے؛حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے۔محبت کرے اور اُسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے۔مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے۔اگر عفو نہ کیا جائے۔ہمادردی نہ کی اجوے۔اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔پردہ پوشی کی جاوے۔جب یہ حالت پیدا ہو ت ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہین۔ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھا یا جاتا ہے۔بھائی کی پردہ پوشی۔کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لئے اشتہار دے۔پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟ دنیا کے بھائی اخوت کا طریق نہیں چھوڑ تے میں مرزا نظام الدین وغیرہ کو دیکھتا ہوں کہ ان کی اباحت کی زندگی ہے۔مگر جب کوئی معاملہ ہو تو تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔فقیری بھی الگ رہ جاتی ہے۔بعض وقت انسان جانور۔بندر یا کتے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو۔خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و تعمت اخوت یاد دلائی ہے ۔اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کریگا۔خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی اُمّیدیں ہیں۔اُس نے وعدہ کیا ہے۔
جاعل الذین اتبعوک فوقالذین کفرو االی یوم القیا مۃ (آل عمران : ۵۶)
میں یقینا جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا۔جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی۔مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں۔ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔دیکھو ایک دوسروں کا شکوہ کرنا،دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئے ہے۔پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔خدا تعالیٰ نے یہ نہی قوم بنائے ہے جس میں امیر غریب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں،کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی ساخیں ہیں۔
جھوٹ کی مذمّت
بدکاری فسق و فجو سب گناہ ہیں۔مگر یہ ضروری دیکھا جاتا ہے کہ شیطان نے جو یہ جال پھینکا ہے اُس سے بجز خدا کے فضل کے کوئی نہیں بچ سکتا۔بعض وقت یونہی جھوٹ بول دیتا ہے مثلا باز یگر نے دس ہاتھ چھلانگ ماری ہو تو محض دوسروں کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان کر دیتا ہے کہ چالیس ہاتھ کی ماری ہے۔اس قسم کی شرارتیں شیطان نے پھیلا رکھی ہیں اس لیے چاہیے کہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں۔ہر قسم کے لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کر نیوالی ہوں۔جھوٹ اس قدر عام ہو رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ درویش ؔ۔ مولویؔ۔قصہ گوؔ۔واعظؔ اپنے بیانات کو سجانے کے لیے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں۔اور اس قسم کے اور بہت سے گناہ ہیں جو ملک میں کثرت کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔؎ٰ
قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے۔جیسا کہ فرمایا ہے
فاجتنبو االرجس من الاوثان واجتنبو اقول الزور (الحج : ۳۱)
دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے۔اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے؛ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیںہوتا۔جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جات اہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے،تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔مدت تک ریاضت کریں۔تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔
کثرتِ گناہ اور اس کا علاج
اسی طرح پر اور قسم قسم کی بدکاریاں اور شرارتیں ہو رہی ہیں۔غرض دنیا میں گناہ کے سیلاب کا طوفان آیا ہوا ہے اور اس دریا کا گویا بند ٹوٹ گیا ہے۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ گناہ جو کیڑوں کی طرح چل رہے ہیں۔کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ جس سے یہ بلا دور ہو جائے اور دنیا جو خباثت اور گناہ کے زہر اور *** سے بھر گئے ہے۔کسی طرح پر صاف ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کو قریباً تمام مذہبوں اور ملتوں نے محسوس کیا اور اپنی اپنی جگہ پروہ کوئی نہ کوئی علاج بھی گناہ کا بتاتے ہیں۔مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس زہر کا تریاق کسی کے پاس نہیں۔اُن کے علاج استعمال کرکے مرض بڑھا ہے گھٹا نہیں۔
مثال کے طور پر ہم عیسائی مذہب کا نام لیتے ہیں۔اس مذہب نے گناہ کا علاج مسیح کے خون پر ایمان لانا رکھا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے یہودیوں کے ہاتھوں صلیب لٹکایا جا کر جو ملعون ہو چکا ہے۔اس کی *** نے ہم کو برکت دی۔یہ عجیب فلاسفی ہے کہ جو کسی زمانہ اور عمر میں سمجھی نہیں جا سکتی۔*** برکت کا موجب کیونکر ہو سکتی ہے اور ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ کیونکر ٹھہرتی ہے؟ ہم عیسائیوں کے اس طریق علاج کو عقلی دلائل کے معیار پر بھی پرکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے ۔اگر کم از کم عیسائی دنیا میں یہ نظر آتا کہ وہاں گناہ نہیں ہے،لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں حیوانوں سے بھی بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کی جاتی ہے۔تو ہم کو اس طریق انسداد گناہ پر اور بھی حیرت ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ کفارہ نہ ہوا ہوتا ۔جس نے اباحت کا دریا چلا دیا۔
اور پھر اس کو معافی گناہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔اسی طرح پر دوسرے لوگوں نے جو طریقے نجات کے ایجاد کئے ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اُن سے گناہ کی زندگی پر کبھی موت وارد ہوئے ہو۔پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شریر اور خطا کار قومیں معجزات دیکھ کر پیشگوئیان دیکھ کر باز نہیں آئیں۔حضرت موسیٰ کے معجزات کیا کم تھے۔؟ کیا بنی اسرائیل نے کھلے کھلے نشان نہ دیکھے تھے،مگر بتائو کہ اُن میں وہ تقویٰ اور خدا ترسی اور نیکی جو حضرت موسیٰؑ چاہتے تھے کامل طور پر پیدا ہوئے۔آخر
ضر بت علیہم الذلۃ والمسکنۃ (البقرہ : ۶۲)
کے مصداق وہ قوم ہو گی۔ پھر حصرت مسیح کے معجزات دیکھنے والے لوگوں کو دیکھو کہ اُن میں کہان تک نیکی اور پرہیز گاری اور وفاداری کے اصولوں کی رعایت تھی۔اُن میں سے ہی ایک اٹھا اور اے ربی تجھ پر سلام کہتے ہوئے پکڑوادیا ۔اور دوسرے نے سامنے *** کی۔ان ساری باتوں کو دیکھ کر پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا شئے ہے۔ جو انسان کو واقعی گناہ سے روک سکتی ہے؟۔
میرے نزدیک خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ایسی چیز ہے جو انسان کی گناہ کی زندگی پر موگ وارد کرتے ہے۔جب سچا خوف دل میںپیدا ہوتا ہے تو پھر دعا کے لیے تحریک ہوتی ہے اور دعا وہ چیز ہے جو انسان کی کمزوریوں کا جبر نقصان کرتی ہے۔اس لیے دعا کرنی چاہیے۔خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے۔
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
بعض وقت انسان کو ایک دھوکا لگتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک ایک مطلب کے لیے دعا کرتا ہے اور وہ مطلب پورا نہیں ہوتا تب وہ کھبرا جاتا ہے؛ حالانکہ گھبرانا نہ چاہیے۔بلکہ طلبگار باید صبور و حمول۔دعا تو قبول ہو جاتی ہے،لیکن انسان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا۔کیونکہ وہ اپنی دعا کے انجام اور نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا اور اﷲ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے لیے وہ کرتا ہے جو مفید ہوتا ہے۔اس لیے نادان انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئے؛ حالانکہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے علم میں یہی مفید تھا۔کہ وہ دعا اس طرح پر قبول نہ ہو بلکہ کسی اور رنگ میں ہو۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے آگ کا سرخ انگارہ دیکھ کر مانگے تو کیا دانشمند ماں اُسے دیدے گی؟ کبھی نہیں۔اسی طرح پر دعا کے متعلق کبھی ہوتا ہے۔غرض دائیں کرنے سے کبھی تھکنا نہیں چاہیے۔دعا ہی ایسی چیز ہے جو خدا کی طرف سے ایک قوت اور نور عطا کرتی ہے۔جس سے انسان بدی پر غالب آجاتاہے۔
/ 15/3/05
صداقت کے دلائل اور نشانات
مجھے با ر ہا اس امر کا خیال آیا کہ ہماری جماعت یہ افسو س نہیں کر سکتی کہ ہمیں خدا تعا لیٰ نے کچھ نہیں دکھایا ہے ۔بلکہ یہاں تو اس قدر ثبوت اور نشانات جمع کر دئیے ہیں کہ سلسلہ نبوت میں اس کی نظیریں بہت تھوڑی ملیں گی ۔ اللہ تعا لیٰ نے کوئی پہلو ثبوت کا خا لی نہیں رکھا ۔ نصو ص قرآنیہ و حدیثیہ ہماری تائد کرتے ہیں اور عقل اور قانو نِ قدرت ہماری مؤیدّ و معاون ہیں ۔ آسمانی تائیدات اور شواہد ہمارے ساتھ ہیں ۔ پھر کسی پہلو میں کمی نہں ۔ میں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ اپنی جماعت کی سہو لت اور آسانی کے لیے تین قسم کی تر تیبیں اپنے دعاومی دلائل کے متعلق دوں اور پھر وہ تر تیب شدہ نقشہ چھپ دیا جائے ۔ایک نقشہ تو حرو ف تہجی کی تر تیب پر ان نصوصِ قرآنیہ اورحدیثیہ کاہو جو ہمارے مؤیدّ ہیں ۔دوسرا نقشہ عقلی دلائل اور قانو ن قد رت کے شواہد کا ہو ۔ یہ بھی حرو ف تہجی کی ترتیب سے ہو ۔ ایسا ہی تیسرا نقشہ نشانات اورتائیدات ِسمادیہ کا ہو جو ہمارے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے ۔ یا خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ پر ظاہر کئے ۔مثلاًان کی ترتیب یوں سمجھئے:
(الف)
۱۔اِبْراء
اس سے ابراء کا نشان لو ۔یہ وہ نشان ہے جو مسٹر ڈگلس ۔ڈپٹی کمشنر گورد اسپور کے سامنے پورا ہو ا۔امر تسر کے ایک پادری ڈاکٹر کلارک نے مجھ پر اقدام ِ قتل کا مقدمہ بنایا تھا کہ عبدالمجید نام ایک شخص کو گویا میں نے قتل کے لیے بھیجا ہے یہ مقدمہ مسٹر ڈگلس کے سامنے پیش ہو ا ۔ او رخداتعالیٰ کے وعدہ اورپیش گوئی کے موافق مجھے بری کیا ۔جیساکے پہلے الہام ابراء ( بت قصورٹھہرانا ) ہو چکا تھا ۔جو لوگ اس وقت یہا ں ہمارے پاس موجود تھے ۔ اور دوسرے مقامات کے لوگ بھی اس امر کے گواہ ہیں ،کیونکہ مولوی عبدالکریم صاحب کی عادت ہے کہ جب وہ کوئی الہام وہ سنتے ہیں تو اُسے فوراً بذریعہ خطوط پھیلا دیتے ہیں ۔ اس طرح پر یہ الہامات جو اس مقدمہ کے نام و نشان سے بھی پہلے ہوئے تھے ہماری اپنی جماعت میں پورے طور پر اشاعت پاچکے تھے وہ اور سب لوگ جانتے ہیں کہ مقدمہ سے پہلے
ان ھذاالا تھدیدالحکام
اور صادق آں با شد کہ ایّام بلا (الخ) وغیرہ الہام ہوئے تھے ۔اور ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دیدی تھی کے ابراء ( بے قصور ٹھہرانا )
ایک دانشمند اور سلیم فطرت اس عظیم الشان نشان سے بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔اگراللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہ ہو تو اوربات ہے ، مگر خداترس اور متقی آدمی سمجھ لیتا ہے کہ یہ پیشگوئی اس طرز کی نہیں ہے جیسے راول ہاتھ دیکھ کر اناپ شناپ بتا دیتے تھے ۔ یہ خد اکی باتیں ہیںجو قبل از وقت ہزارہا انسانوں میں مشتہر ہوئیں اور آخر اسی طرح ہو ؛ ورنہ کیا کسی کے خیال اور وہم میں یہ بات آسکتی تھی کے مِسَل پورے طور پر مرتّب ہو جاوے اور عبدالحمید اپنا اظہار بھی دے کہ ہاں مجھے بھیجا ہے ۔آخری وقت پر جو فیصلہ لکھنے کا وقت سمجھا جاتا ہے ۔ خداتعالیٰ نے مسٹر ڈگلس کہ دل میں القاء کیا کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے اور اس کے دل کو غیر مطمئن کردیا؛ چناچہ اس نے کپتان لیمارچنڈ کو ( جوڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ) کہا کہ میرا دل اس سے تسلی نہیں پاتا ۔ بہتر ہے ک وتم اس مقدمہ کی تفتیش کرو اور اور عبدالحمید سے اصل حالات معلوم کرو ؛ چناچہ جو کپتان لیمارچنڈ نے اس سے پوچھا ، تو اس نے پھر وہی پہلا بیان دیا ، مگر جب کپتان صاحب نے اسے کہاکہ تو سچ سچ بتا عبدالحمید رو پڑا اور اقرار کیا کہ جمجھے تو سکھایاگیا تھا اب بتاؤ کہ کیا یہ انسان کا کام ہے ۔ کیا ہرروز یہ لوگ مقدمات میں اسی طرح کیا کرتے ہیں ۔ واقعات پر فیصلہ دیتے ہیں ۔ یا دل کی تسلّیوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ۔ جو وہ وعدہ کرچکا تھا وہی

ہونا تھا ۔ پس ابراطء کا نشان عظیم الشان نشان ہے جو الف کی مد میں ہے ۔
۲۔ اٰوٰی
اور پھر اسی طرح اس مد میں اٰوٰی کانشان ہے جو خداتعالیٰ نے قادیان کوطاعون کی افراتفری سے محفوظرکھنے کے متعلق دیا ہے ۔
انہ اوی القریۃ۔
ملک میں طاعون کثرت سے پڑاہو اہے اورخداتعالیٰ قادیان کے انتشار اور موت الکلاب سے محفوظ رہنے کی بشارت دیتا ہے ۔ کہ اس گاؤ ں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے ۔یعنی اس گاؤ ں پر خصوصیّت سے فضل رہے گا ۔ اوٰی کے اصل معنی یہ ہیں کہ اُسے منتشر نہ کیا جاوے اور جبکہ عام طور پر قانوناً یہ امر روارکھاگیا ہے کہ کسی گاؤں کو جبراً باہر نہ نکالا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ افراتفری موت الکلاب جو دوسرے شہروں میں پڑی ہے اس سے خداتعالیٰ قادیان کو محفوظ رکھے گا ۔ ینعنی یہاں طاعون ِ جارف نہ ہوگی ۔
۳۔ اَبْناَء
پھر اسی طرح الف کی مد میں ابناء کا نشان ہے ۔ کتابوں اور اشتہاروں کو پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ ہر ایک کی پیدائش سے پہلے ایک اشتہار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ لڑکا پیداہوگا ؛ چناچہ ان اشتہاروں کے موافق یہ لڑکے پیداہوئے ہیں اور پھر یہاں تک کہ تعداد بھی بتادی کہ چارلڑکے ہوں گے اور چوتھے لڑکے کی بابت یہ بھی اعلان کردیا کہ عبدالحق نہ مریگا جب تک چوتھالڑکا پیداہونے کی خبر نہ سُن لے ۔ ایسے ہی مولوی صاحب ( مولوی نور الدین صاحب کے بیٹے کی بابت جب سعداللہ نے اعتراض کیا تو خداتعالیٰ نے میری دعاؤں کے بعد مجھے بشارت دی کہ مولوی صاحب کہ ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا ۔ یہاں تک کے اس کے بدن پر پھوڑوں کے نشان کا بھی پتہ دیا گیا اور اس کا علاج بھی بتایا گیا ۔ اب کیا اشتہار پہلے سے نہیں دیاگیا تھا؟ اب دیکھ لو اس اشتہار لے موافقوہ بچّہ عبدالحی نام مولوی صاحب کے گھر میں پیدا ہوگیا ۔ اور اس کے پھوڑوں کے نشانات بھی ہیں۔ یہ وہی خصوصیتیں ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل کے وقت ہواکرتی ہیں ۔
۴۔ اَلَیْسَ اللہ بِکَاف ِ عَبْدَہٗ
پھر اسکے ساتھ اَلَیْسَ بِکَافِ عَبْدَہٗ ۔ کانشان ہے ۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اوراس وقت کا جب میرے والد صاحب کا انتقال ہو ا۔میں لاہور گیا ہو ا۔ مرزاصاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعے کو یہاں آگیا تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی ۔ پہلے بھی ہو اکرتا تھا ۔ اس وقت تخفیف تھی ۔ ہفتہ کے دن دوپہر کو حُقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا ۔ مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرا م کرو مَیں چوبارہ میں چلا گیا ۔ایک خدمت گا ر جمال ؔ نام میرے پاؤ ں دبارہا تھا ۔ تھوڑی سی غنودگی کہ ساتھ الہام ہو ا۔
والسماء والطارق ۔
اور معاً اس جے ساتھ یہ تفہیم ہوئی ۔ اب میں نہیںکہ سکتا کے لفظ پہلے آئے یا تفہیم ۔ قسم ہے آسمان کی اس حادثہ کو ج وغروب آفتاب کے بعد ہونے والا ہے ۔ گویا خداتعالیٰ عزا پرسی کرتا ہے ۔ یہ ایک عجیب بات ہے جس کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا ۔ ایک مصیبت بھی آتی ہے اور خدا اس کی عزاپرسی بھی کرتا ہے؛ چونکہ ایک نیا عالم شروع ہونے ولا تھا ۔ اس لیے خداتعالیٰ نے قسم کھائی مجھے دیکھ کر خداتعالیٰ کا عجیب احساس محسوس ہو ا کہ میرے والدصاحب کہ حادثہ انتقال کی وہ قسم کھاتا ہے اس الہا م کے ساتھ پھر معاً میرے دل میں بشریّت کہ تقاضے کہ موافق یہ خیال گزر ۔ اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے ۔ کچھ انعام انہیں ملتا تھا ۔ اورکچھ مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں ۔ جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی ۔ میں نے سمجھاکے اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے ، اس لیے ہمیں ابتلاء آئے گا یہ خیال تکلف کے پر نہیں بلکہ خداہی کی طرف سے میرے دل میں گزرا ۔ اور اس کے گزرنے کے ساتھہی پھر یہ الہام ہو ا۔
الیس اللہ بکاف عبدہ
یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؛چناچہ یہ الہام میں نے ملاؔ دامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں کھداہو االہام موجود ہے۔
اب دیکھ لو کہ اس وقت سے لے کر آج تک کیسا تکفّل کیا ۔ اگر کسی کو شک ہو تو ملادامل ؔ اورشرمپت ؔ سے پو چھ لے ۔ محمدشریف کی اولاد موجودہے ۔ شاید وہ مہر کن بھی ہو ۔ تکفّل بڑھتا گیا ہے یا نہیں جس جس قدر ضروتیں پیش آتی گئی ہیں ۔ خو داس نے وعدہ کے موا فق تکفل کیا ہے اور کر تا ہے اب یہ بتاؤ کہ کیا یہ کوئی چھو ٹاسا نشان ہے ۔ اس طرح پر الف میں اور بہت سے نشان آسکتے ہیں ۔
(ب)
پھر اب (ب)کی مدمیں سے دیکھو ۔ نمبر (۱) بشیرے ۔یہ لڑکا بشیر جو اب مو جو د ہے اس کی بابت پہلے اشتہا ر ہوا تھا اور اس اشتہا ر کے موا فق یہ پیدا ہو ا پھر اس کی آنکھو ں سے اس قدر پانی جاری تکہ آنکھیںبو ٹی کی طرح سر خ ہو گئی تھیں ۔ اور مجھے اند یشہ تھا کہ آنکھو ں کو خطرناک نقصان نہ پہنچے ۔ اس وقت میں نے دعا کی تب یہ الہام ہوا بَرقَ طفلی َبشیر۔بہت سے لو گ اس الہام کے بھی گواہ موجود ہیں،کیو نکہ میں الہام پو شیدہ تو رکھتا ہی نہیں ہوں ۔تبریق کے معنے ہیں آنکھو ں کا اچھا ہو نا ؛چنانچہ ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ یہ با لکل اچھا ہو گیا ۔ ۱ ؎
۲۔بشمبر داس
اسی طرح ب کی مد میں بشمبر داس کو داخل کر تی ہیں ۔ بشمبر داس قادیا ن کا رہنے ایک ہندو تھا اور ایک خشحا ل بر ہمن جو اس وقت پٹواری تھا ۔یہ دو نوں ایک مقدمہ میں ماخو ذ ہو ئے ۔ جس میں خو شحا ل کو دو سال اور بشمبر داس کو ایک سال کی قید کی سزاہوئی ۔ شرمپت رائے نے آکر مجھے دعا کے واسطے کہا اور میں نے دعا کی تو میں نے کشف میں دیکھا کہ میں نے اپنے ہا تھ سے نصف قید کاٹدی ہے پھر میں نے دیکھا کہ مسل واپس آکر نصف قید رہ جاوے گی اور وہ خو شحا ل اپنی پوری سزا بھگتے گا ۔ یہ خبر میںنے پہلے شرمپت کو دے دی ۔ وہ اب تک زندہ موجود ہے اور اگراس کو قسم دے کر پو چھا جاوے ،تو وہ انکار نہ کریگا۔غرض آخر جس طرح پر میں نے خبر دی تھی اور مجھے دکھایا گیا تھا ۔ وہی ظہور میں آیا یعنی مسل واپس آئی۔ اور اس میں بشمبرکی نصف سزا رہ گئی ۔ وہ نصف قید بھگت کر رہا ہو ا ۔ اس پر شرمپت نے کہا کہ تم چونکہ متقی ہو،اس لیے دعا قبو ل ہو گئی ۔چو نکہ اسلام کے ساتھ لوگوں کو بغض اور عداوت ہے ۔ اس لیے شرارت سے اسلام کی تعریف نہ کی ۔ اس مقدمہ میں جب اپیل کیا گیا ، تو رات کو علی محمد نام ایک شخص آیا اور اس نے آکر مجھے خبر دی کے وہ بری ہوگئے ہیں ۔ مجھے یہ خبر سن کر تعجب ہو اکیونکہ میں نے مذکورہ بالا پیشگوئی کی تھی ۔اس تردّد میں جب میں نے نماز پڑھی تو نماز ہی میں الہام ہو ا
انک انت ا لا علی ۔
وہ رات تو گزر گئی اور میں نے مذید تحقیقایت نہ کی لیکن صبح کو اصل حال معلوم ہو گیا کہ اپیل لے گئے تھے جس سے یہ ڑلط نتیجہ نکال لیا گیا کہ وہ بَری ہو گئے ہیں ۔آخرجیسا کہ میں نے کہا ہے اسی طرح پیشگوئی کے موافق مثل واپس آئی اور اس میں بشمبر کی قید نصف رہ گئی اور خوشحال کو پوری سزا بھگتنی پڑی ۔
اب بتاؤ یہ خدا تعالیٰ کی طرف کیسے زبر دست نشان ہیں ۔ ابتک ان واقعات کے زندہ گواہ مو جو د ہیں۔ ان سے قسم دے کر پوچھاجائے کے کیا قبل از وقت بتایا گیا تھا یا نہیں ؟ اور پھرٹھیک پیشگوئی کے مطابق ان کا ظہور ہو ا ہے یا نہیں ؟ پھر اسی طرح جھنڈاسنگھ نامی ایک زمیندار کے ساتھ درخت کاٹنے کامقدمہ تحصیل میں دائرتھا,۔ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہواکے ڈگری ہواجائے گی ۔ جب کوئی دس بارہدن ہوئے ، تو لوگوں نے نٹالہ سے آتے کہا کہ وہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے اور خود اس نے بھی آکر بطور تمسخر کہا کہ مقدمہ خارج ہو اگیا ہے ۔ مجھے اس خبر کے سننے سے اتنا غم ہواکبھی کسی ماتم سے بھی نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈگری کی خبر دی تھی ؛ یہ کیا کہتے ہیں ۔ وہ اسامی تھے اور ہم مالک اورمالک کی اجازت کی بغیر وہ درخت کاٹنے کے مجاز نہ تھے ؛ مختلف قسم کے پندرہ یا سولہ آدمی اس مقدمہ میں تھے ۔ مجھے بہت ہی غم محسوس ہو ا ۔ اور میں جیسے کوئی مبہوست ہوجاتا ہے ۔ سراسیمہ ہو کر سجدہ میںگر پڑا ۔ اور دعاکی تب ایک بلند آواز سے الہام ہو ا؛ ڈگری ہوئی ہے مسلمان ہے ۔‘‘یعنی آیا باور نمے کنی ۔صبح کو جب تحصیل گیا تو وہاں جاکر ایک شخص سے جو حاکم کا سررشتہ تھا ۔ میں نے دریافت کیا کہ فلاں مقدمہ خارج ہوگیا ہے ۔اس نے کہا نہیںا س میں تو ڈگری ہوئی ہے ۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ انہوں نے گاؤں میں مشہور کیا ہے کہ وہ مقدمہ خارج ہو گیاہے ۔ یہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا۔ کہ اصل بات یہ ہے کہ اس خبر میں وہ بھی سچّے ہیں ۔ جب حافظ ہدایت علی صاحب فیصلہ لکھنے لگے تو میں کہیں باہر چلاگیا تھا ۔ جب باہر سے آیا ،تو انھوں نے روبکارمجھے دی کے یہ مقدمہ خارج کر دیا ہے ۔ کہ سر رشتہ دار کہتا ہے کہ تب میں ان کو کہا کہ نے غلطی کی ہے ۔اس نے کہانہیں میں نے کمشنرکا فیصلہ جوا نھوں نے پیش کیا تھادیکھ لیا ہے ۔ میں نے ان کو کہا کہ فنانشل کمشنر کا فیصلہ بھی تو دیکھناتھا ۔ پھر اسے معلوم ہو اکہ وہ فیصلہ جو اس نے کیا تھا وہ غلط ہے ۔ اس نے رو بکار لے کر پھاڑ کر پھینک دی اور دوسری روبکارلکھی جس میںڈگری کافیصلہ دیا اور اس طرح پر پیشگوئی جوخداتعالیٰ نے قبل ازوقت مجھے بتلائی تھی ‘پوری ہوئی اس پیشگوئی کے بھی بہت سے لوگ گواہ ہیں اور ابتک موجودہیں ۔
(ث)
ثمانین حولا۔
پھر ث میں ثمانین حولا کی پیشگوئی ہے ۔ اس پیشگوئی پر ایک زمانہ گزر گیا۔ کوئی شخص ایک دم کے لیے بھی نہیں کہہ سکتاکہ میں زندہ رہوں گا۔ لیکن ایک خاص تعداد سالوں تک کی خبر دے دینا کیا یہ انسانی طاقت کاکام ہے ۔ اور پھر میرے جیسے آدمی کے لیے تو یہ قیافہ سے بھی ممکن نہیں ۔ جس کو دوبیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ باوجود ان بیماریوں اور ضعفوں کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ دینا کہ تیری اسیّ برس کہ قریب عمر ہوگی ۔ کیسا عجیب ہے ۔ اور حقیقت میں خداہی کی طرف سے اس قسم کی خبر ہوسکتی ہے ؛ ورنہ عاجز انسان کچھ نہیںکہہ سکتا ۔ یہ پیشگوئی بھی پوری شدہ ہی سمجھ لیجیے، کیونکہ بہت عرصہ اس پر گزر گیا ہے میری عمر اب ساٹھ سے متجاوز ہو چکی ہے ۔
۲۔ثُلَۃٗ مِنَّ الْاَوَّلِیْنَ
پھر ثؔہی کی تدمین ایک اور پیشگوئی ہے ۔جو اس سے بھی عجیب تر اور عظیم الشان ہے۔ کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
ثلۃ من الاولین وثلۃ من الا خرین ۔
اس سے ایک عظیم االشّان جماعت کے قائم کرنے کی خبر دیتا ہے ۔جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی ،اس وقت ایک آدمی بھی ہم کو نہیں جانتا تھا اور کو ئی یہا ں آتا جاتا نہ تھا۔براہینؔاحمدیہ میں یہ الہام درج ہے۔ لیکن اب دیکھ لو کہ ستّر ہزار سے زیادہ آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیںاور دن بدن ترقی ہو رہی ہے ۔خاص قادیان میں ایک کثیر جماعت مو جو د رہتی ہے ۔پھر کیا یہ کوئی جھوٹ بات ہے ۔یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب ۔اور بھی ثؔکی مدمیں پیشگو ئیاں ہیں مگر میں اس وقت صرف مثال کے طور پر ایک دو بیان کرتا ہوں ۔
ج
۱۔جنازہ اسی طرح جؔ کی مد میں جنازہ کاالہام ہے ۔ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب مرزاغلام قادر مرحوم فوت ہوئے ، توان کے مرنے سے پہلے جنازہ کا الہام ہو ا۔
۲۔ جمال الدین
اوراسی طرح جمال الدین کے متعلق بھی الہام ہو اتھا ۔ خواجہ جمال الدین صاحب جب اپنے امتحان منصفی میں فیل ہوئے ، تو میں نے دعاکی ۔ استغفار لہ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر ان کو جگہ دے دی ۔
۳۔جمع بین الصلوٰتین
پھر ج ؔ کی مد میں
جمع بین الصلوٰتین
کی پیشگوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہے ۔ اس پیشگوئی کو پوراکرنا اختیاری امر نہیںہے ۔ موت سر پر ہے ۔ خدا جو چاہتاہے کرتاہے ۔ وہ خود اس کی تکمیل کررہاہے ۔
‏Amira 15-3-05
جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بھی نہیں کرتا ہے۔ اس پیشگوئی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔کیونکہ لکھا ہے کہ تجمع لہ الصلوٰۃ۔یعنی اس کے لیے نماز جمع کی جائے گی۔ایسے امور جمع ہو جائیں گے کہ اس کے لیے نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو میں اپنا اعتقاد رکھتا ہوں۔اس کومین کسی کے دل میں نہیں دال سکتا۔میں ایک سچے مسلمان کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ جو آپؐ کی نبوت کے لیے بطور شہادت ہوں۔محبت کی جاوے۔ان میں سے یہ پیشگوئیاں بھی ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کشفی کیسی تیز ہے۔اور آپؐ کی نگاہ کیسی دور تک پہنچنے والی تھی کہ آپؐ نے سارا نقشہ اس زمانہ کا کھینچ کر دکھایا ۔ہم اس پیشگوئی کو جوتجمع لہ الصلوٰۃ ہے۔بہت ہی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس کے پورا ہونے پر ہمیں ایک راحت اور لذت آتی ہے جو دوسرے کے آگے بیان نہیں کر سکتے،کیونکہ لذت خواہ جسمانی ہو،خواہ روحانی۔ایک ایسی کیفیت اور اثر ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کمال درجہ کی عزت اور صداقت ثابت ہوتی ہے کہ آپؐ نے جو کچھ فرمایا۔وہ پورا ہوا۔اب بتائو کہ کیا یہ امور جو جمع نماز کے موجب ہوئے ہیں۔خود ہم نے پیدا کر لیے ہیں یا خدا تعالیٰ نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے؟ صحابہ نے اس پیشگوئی کو سنا مگر پوری ہوتے نہیں دیکھا اور اب جو پیشگوئی پوری ہوئی اور انہیں اس کی خبر ملتی ہے تو انہیں کیسی لذت آتی ہے۔میں سچ کہتا ہوں کہ جیسا اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ہم ایک لطف اور لذت اٹھارہے ہیں۔آسمان پر بھی ایک لذت ہے۔اس لیے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔صوفیوں نے لکھا ہے کہ بعض زمینی امور ایسے ہوتے ہیں کہ آسمان پر اُن کی خبر دی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں جو کچھ ہوتا ہے،اس کی خبر دی جاتی ہے اور اس کا انتشار ہوتا ہے۔غرض یہ بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔جس سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے۔اُن کو حقیر سمجھنا کفر ہے۔یہ دوہرا نشان ہے۔ایک طرف ہماری صداقت کیلئے کیونکہ ہمارے لئے یہ نشان رکھا گیا تھا۔دوسری طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہ آپؐ کی فرمائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی۔لوگ نالاقفی اور جہالت سے اعتراض کرتے ہیں ؛حالانکہ یہ امر بہت ہی قابل غور ہے۔کیا ہم نے خود ایسے امر پیدا کر لیے ہیں کہ نمازیں جمع کی جائیں؟پھر جب یہ امر سب خدا کی طرف سے ہیں تو پھر اعتراض کرنا ہی نری حماقت اور خبث ہے جو لوگ اس پیشگوئی پر اعتراض کرتے ہیں وہ مجھ پر نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بلکہ خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ نماز جمع نہ ہوگی،بلکہ ایک اچھی میعاد تک نماز جمع ہوتی رہے گی،کیونکہ ایک آدھ مرتبہ جمع کرنے کا اتفاق تو دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جاتا ہے۔پس یہ خدا کا زبردست نشان ہے جو ہماری اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک زبردست گواہ ہے۔
(ح)
۱۔حیات خاں
ایسا ہی پھر ح ؔ کی مد میں حیات خاں کا مقدمہ ہے ۔بہت سے لوگ اس امر کے گواہ ہیں۔یہانتک کہ اکثر ہندوئوں کو بھی معلوم ہے اور میرے لڑکے فضل احمد اور سلطان احمد بھی اس میں گواہ ہیں۔سردار حیات خاں ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہو گیا تھا۔میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لیے دعا کرو۔میں نے دعا کی تو مجھے دکھایا گیا یہ کہ کرسی پر بیٹھا عدالت کر رہا ہے۔میں نے کہا یہ تو معطّل ہو گیا ہے۔کسی نے کہا کہ اس جہاں میں معطّل نہیں ہوا۔تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہو جائے گا؛چنانچہ اس کی اطلاع دی گئے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہو گیا۔
۲۔حَانَ اَن تُعَانَ
ایسا ہی فحان ان تعان وتعرف بین الناس یہ پیشگوئی بھی وہیں موجود ہے۔کوئی ثابت کرے کہ اس الہام کے وقت کتنی جماعت تھی۔یا میں ہوتا تھا یا میاں شمس الدین جو براہینؔاحمدیہ کے مسودے لکھا کرتا تھا،مگر اب خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق لاکھوں کروڑوں انسانوں میں اس کو پورا کیا اور کر رہا ہے۔ہر نیا دن اس پیشگوئی کی شان اور عظمت کو بڑھا رہا ہے جوں جوں یہ سلسلہ ترقی کرتا جاتے ہے۔
(خ)
خسوف وکسوف
پھر خ ؔہے۔اس میں خسوف کسوف کی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔اس کو دیکھو کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کا نشان مقرر کیا تھا کہ اس کے وقت میں رمضان کے مہینہ خسوف اور کسوف ہوگا اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نشان ابتدائے آفرینش سے لے کر کبھی نہیں ہوا۔کس قدر عظیم الشان نشان ہے جس کی نظیر آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مہدی کے وقت تک پائی نہیں جاتی۔اب تجھے جو دجال اور کذاب کہا جاتا ہے۔کیا کاذب اور دجال کے لیے ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ نشان مقرر کیا تھا۔کیا خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا لگ گیا۔کہ ایک تو مجھے صدی کے سر پر بھیجا۔اور پھر وہ تمام نشانت اور علامات بھی قائم کر دیئے۔جو مسیح موعود اور مہدی موعود کے وقت کے مقرر تھے۔صلیب کا غلبہ بھی میرے وقت میں ہی ہو گیا۔اور پھر خسوف و کسوف کا نشان بھی پورا کر دیا۔اس قدر لمبا سلسلہ خدا نے دھوکے کا رکھا۔خدا تعالیٰ کی شان اس سے منزہ ہے۔کہ وہ کسی کو دھوکا دے۔مسلمانوں کی موجودہ حالت تو چاہتی تھی کہ کسی راستباز اور صادق کے ساتھ ان کی تائید کی جاتی نہ کہ کاذب اور مفتری کو بھیجا جاتا۔اور پھر یہ کہ کاذب کے وقت میں نشان وہ پورے کئے جو صادق کے لیے مقرر تھے۔کیا یہ تعجب کی بات نہ ہوگی؟اصل یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جبکہ اسلام بہت کمزور ہو گیا تھا اور بالکل رسم پرستی اور نام کے طور پر رہ گیا تھا اور جبکہ نصاریٰ کا فتنہ حد سے بڑھ گیا تھا۔اور انہوں نے اسلام کے ذلیل کرنے کے لیے ہر قسم کے منصوبے کئے اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہونے کے لیے مل مل کر اور اکیلے اکیلے زور لگایا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی گئے۔یہانتک کہ آپؐ کو معاذاﷲ جھوٹا نبی کہا گیا۔اور خطرناک الزام آپؐ کی پاک ذات پر لگائے اور کوئی دقیقہ اسلام کی ہتک اور بے عزتی کا باقی نہ رکھا گیا۔اور اپنے مذہب میں اس قدر غلو کیا۔کہ ایک ضعیفہ عورت کے بچہ کو خدائی کے تخت پر بٹھایا ۔اور ایک انسان کو خدا بنا کر پھر اس کو ملعون قرار دے کر اس کی *** کو برکت کا ذریعہ بنایا،تو خدا تعالیٰ نے جو غیور خدا ہے۔ایک عاجز انسان کو اپنے وعدہ کے موافق قائم کیا اور اس کی تائید اور نصرت کی۔اس کے لیے ان نشانوں کو پورا کیا جو اس وقت کے لیے مقرر تھے اور اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک اور توہین کا انتقام لینے والا ٹھہرایا۔اور وہ اس طرح پر کہ جس عاجز انسان مسیح ابن مریم کو خدا ٹھہرایا گیا تھا۔غیرت الٰہی نے اس کو مسیح ابن مریم سے افضل بنا کر دنیا میں بھیجا اور مسیح موعود اس کا نام رکھا۔مسیح موعود کا مسیح ابن مریم سے افضل ہونا خود یہود و نصاریٰ کے مسلمات سے ہے۔عیسائی اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی آمدثانی پہلی آمد کے مقابل میں جلالی ہو گی۔پہلی آمد ناکامی کی تھی۔اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہیے۔غرض خدا نے مجھے مسیح موعود ٹھہرایا اور میرے نشانات کو قوت اور تعداد میں مسیح کے نشانات سے بہت بڑھ کر ثابت کیا۔اگر کسی عیسائی کو شک ہو تو قوت ثبوت اور تعداد کے لحاظ سے میرے نشانوں کا اور مسیح کے نشانوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لے۔ان نشانوں میں سے ہی یہ خسوف وکسوف کا نشان ہے جو اپنے وقت پر میری صداقت اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر مہر کرنے کے لیے پورا ہوا۔میں نے سنا ہے کہ پٹیالہ میں ایک مولوی تھا۔اس نے جب دیکھا کہ خسوف وکسوف کا نشان پورا ہو گیا۔تو اس نے ہاتھ مار مار کر کہا۔کہ اب خلقت گمراہ ہو گی۔اب خلقت گمراہ ہوگی۔مگر اس احمق س یکوئی اتنا پوچھے کہ خدا تعالیٰ نے جب وہ نشان پورا کیا۔جو صادق کے لیے مقرر تھا۔پھر لوگ گمراہ ہوں گے یا ہدایت پائیں گے۔خسوف و کسوف کا نشان بہت بڑا نشان ہے۔
(د)
۱۔دیانند
پھر د ؔ کے مدمیں دیانند کے مرنے کی خبر ہے۔اس کو زندگی میں مرنے سے پہلے یہ خبر بذریعہ ایک رجسٹری شدہ خط کے اس کو دی گئی تھی۔اور شرمپتؔ اور ملاواؔمل موجود ہیں۔ان کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا تین مہینے پہلے یہ خبر دی گئے تھی یا نہیں؟
۲۔دلیپ سنگھ
اور اسی مدمیں دلیپ سنگھ کے نا کام ہونے کی پیشگوئی ہے۔ابھی اُس کے آنے کی کوئی خبر بھی نہیں تھی۔
بلاتاریخ
سید المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم
معصوم ہونے کے اسباب اور معصوم بنانے کے اسباب جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئے تھے وہ کسی دوسرے نبی کو کبھی نہیں ملے۔اسی لیے عصمت کے مسئلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام اور درجہ پر ہیں۔وہاں اور کوئی نہیں ہے۔خود کوئی کبھی معصوم نہیں بن سکتا،بلکہ معصوم بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔جس شخص کو کثیر التعداد مال مل گیا ہے۔اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چوری کرتا پھرے،لیکن جس پر خدا کی مار ہے اور گویا روٹیوں کا محتاج ہے اس سے تو ممکن بلکہ قرین قیاس ہے کہ اگر پاخانہ میں کوڑی پڑی ہوئی ہو تو وہ اُس کے اٹھانے میں بھی کوئی مضائقہ اور دریغ نہ کرے گا۔سورسولاﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کا بہت بڑا فضل تھا۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
وکان فضل اﷲ علیک عظیما (النساء : ۱۱۴)
اور اصل یہ ہے کہ انسان بچتا بھی فضل سے ہی ہے۔پس جس شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل عظیم ہو اور جس کو کل دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا ہو۔اور جو رھمۃ للعالمین ہو کر آیا ہو۔اُس کی عصمت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے۔عظیم الشان بلندی پر جو شخص کھڑا ہے ایک نیچے کھڑا ہوا اس سے مقابلہ کیا کرسکتا ہے۔مسیح کی ہمت اور دعوت صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں تک مخدود ہے۔پھر اس کی عصمت کا درجہ بھی اس حدتک ہونا چاہیے۔لیکن جو شخص کل عالم کی نجات اور رستگاری کے واسطے آیا ہے۔ایک دانشمند خود سوچ سکتا ہے کہ اس کی تعلیم کیسی عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہو گی اور اسی لیے وہ اپنی تعلیم اور تبلیغ میں کس درجہ کا معصوم ہوگا۔
حضرت مسیح ایک بار چھوڑ ہزار بار کہیں کہ مین خدا ہوں،لیکن کون ان کی خائی کا اعتراف کر سکتا ہے۔جبکہ انسانیت کا اقبال بھی آپ کے وجود میں نظر نہیں آتا۔دشمنوں کے نرغہ میں آپ پھنس جاتے ہیں اور اُن سے طمانچے کھاتے ہوئے صلیب پر لٹکائے جاتے ہیں۔باوجود یکہ وہ طعن کرتے ہیں کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے اُتر آ۔مگر آپ خاموش ہیں اور کوئی خدائی کرشمہ نہیں دکھاتے۔برخلاف اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خسروپرویز نے منصوبہ کیا اور آپؐ کو گرفتار کر کے قتل کرنا چاہا۔مگر اس رات خود ہی ہلاک ہو گیا۔اور ادھر حضرت مسیح کو ایک معمولی چپراسی پکڑ کر لے جاتا ہے۔تائید الٰہی کا کوئی پتہ نہیں ملا۔
غرض جس قدر ان امور کی تنقیح کی اجوے گی،اسی قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج عالیہ معلوم ہوں گے اور آپؐ ایک بلند مینار پر کھڑے دکھائی دیں گے اور سمیح آپؐ سے مقابلہ کرنے میں بہت ہی نیچے کھڑے ہوں گے۔اس سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کیا ہو گی کہ تیرہ سو برس بعد اپنے انفاس قدسیہ سے وہ ایک انسان کو تیار کرتے ہیں،جو مسیح ابن مریم پر فضیلت پاتا ہے۔بلحاظ اپنے کام اور کامیابی کے یعنی مسیح موعود سے مقابلہ کرنے میں بھی مسیح اپنی کامیابی اور بعثت کے لحاظ سے کم یہ۔کیونکہ محمدی مسیح محمدی کمالات کا جامع ہے۔جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام نبیوں کے کمالات یکجا جمع تھے۔اس لیے مسیح موعود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی ظہور ہے۔اُن کمالات کو اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی دعوت کی وجہ سے مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہے۔شعر
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
مسیح ناصری کا آسمان پر جانا
مسیح کو جو آسمان پر چڑھایا جاتا ہے تو سوال ہو سکتا ہے کہ وہ آسمان پر کیوں چڑھے؟ کیا ضرورت پیش آئی تھی؟عقل اس کے لیے تین شقیں تجویز کرتی ہے۔اور ان تینوں صورتوں میں مسیح کا صعودثابت نہیں ہوسکتا۔
شق اول : صلیب کی *** سے بچنے کے لیے۔کیونکہ تورات میں لکھا ہوا تھا کہ جو صلیب پر لٹکایا جاوے،وہ ملعون ہوتا ہے۔اب اگر مسیح کے صعودالی السماء سے یہ غرض تھی۔کہ وہ *** سے بچے رہیں،تو اس رفع کے لیے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو۔کیونکہ یہ رفع وہ ہے،جو قربِ الٰہی کا مفہوم ہے۔اور بعد موت ملت اہے۔اسی لیے
انی متوفیک ورافعک الی (آل عمران : ۵۶)
کہا گیا۔اور یہ وہی رفع ہے جو
ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر : ۲۹)
میں خدا نے بیان فرمایا ہے۔اور
مفتحۃ لہم الابواب (ص : ۵۱)
سے پایا جاتا ہے۔غرض اس رفع کے لیے جو *** سے بچنے کے لیے ہوا ور جو قرب الٰہی کے معنوں میں ہو،کیونکہ *** کی ضد رفع تو وہی ہے۔جس سے قرب الٰہی ہو۔یہ تو بجز موت کے حاصل نہیں ہوتا۔پھر جو لوگ ہمارے مخالف ہیں وہ چونکہ موت کے قائل نہیں۔اس لیے ان کے اعتقاد کے موافق مسیح کو ابھی رفع نہیں ہوا۔کیونکہ یہ رفع انسان کی آخری زندگی کا نتیجہ ہے اور یہ ان کو حاصل نہیں ہوا۔پس اس شق کے لحاظ سے تو ان کا آسمان پر چڑھنا باطل ہوا۔
دوسری غرض رفع سے یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح کوئی نشان دکھانا چاہتے تھے،مگر یہودی جن کو نہشان دکھانا مقصود تھا۔وہ اب تک منکر ہی چلے آتے ہین۔اُنہوں نے عین صلیب کے وقت نشان مانگا تو ان کو کوئی نشان کدھایا نا گیا۔پھر ایک نشان جو اُن کو دکھانا مقصود تھا وہ بجز شاگردوں کے کسی اور کو نہ دکایا گیا۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ صلیب پر جب ان سے نشان مانگا گیا تھا توا س وقت نشان دکھاتے یا کہہ دیتے کہ میں ئسمان پر اُڑجانے کا نشان تم کو دکھائوں گا۔اور صعود کے دن سب کو پکار کر کہہ دیتے کہ آئو اب دیکھ لو میں آسمان پر جاتا ہوں۔پھر جب اس قسم کا کوئی واقعہ یہودیوں نے نہیں دیکھا اور وہ اب تک ہنسی اُڑاتے ہیں اور خطر ناک اعتراض کرتے ہیں،تو یہ غرض بھی ثابت نہ ہوئی۔
مسیح علیہ السلام کے مقابلہ میں ہمارے نشانوں کو دیکھو کہ کیسے واضح اور صاف ہیں اور لاکھوں انسان اُن میں سے بعض کے گواہ ہیں۔براہین احمدیہ میں یہ الہام ۲۲ برس سے زیادہ عرصہ ہوا ہے درج ہے۔ یا تون من کل فج عمیق اور یا تیک من کل فج عمیق۔اب اس کی ابت محمد حسین ہی سے پوچھو کہ جب اس نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا۔کس قدر لوگ یہاں آتے تھے اور کہاں سے آتے تھے۔اور اب تو آنیوالے لوگوں کی بابت ہم سے دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔پولیس کا ایک کانسٹیبل یہاں رہتا ہے جو آنیوالے مہمانوں کی ایک فہرست تیار کر کے اپنے افسروں کے پاس بھیجا کرتا ہے۔ان کے کاغذات کو جاکر کوئی دیکھ لے تو اُسے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ پیشگوئی کس شان اور عظمت س یپوری ہو رہی ہے یہانتک کہ ہر شخص آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے۔اسی طرح اس کا دوسرا حصہ یا تیک من کل فج عمیق ۔ دیکھ لو کہاں کہاں سے تحفے تحائف چلے آتے ہین۔اور روپیہ آتا ہے۔اس کے لیے بھی ڈاک خانہ کے کاغذات اور محکمہ ریلوے کے رجسٹر شہادت کے لیے کافی ہو سکت یہیں۔اب ان نشانوں کا ذرا مسیح کے نشانوں سے مقابلہ تو کر کے دکھائو۔وہاں تو یہودی دُہایتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔اگر یہودی دیکھتے تو کیوں اندار کرتے اور یہاں مخالف تک اس بات کے گواہ ہیں اور صد ہانشان اس قسم کے ہیں۔جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاوے،تو کئی کتابوں کی ضرورت پڑے۔
تیسرا شِق مسیح کے صُعود کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی غرض فرار کی تھی۔یہ بالبداہت باطل ہے کیا زمین پر کوئی جگہ نا تھی۔اور
ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ (البقرہ : ۶۲)
کے مصداق یہودیوں سے پھر اتنا خوف ہوا کہ پہلے آسمان پر بھی نہ ٹھہر سکے ۔غرض جس پہلو سے اس مسئلہ کو دیکھا جاوے۔یہ بالکل غلط ہے۔ایک ہی صورت ہے کہ انہوں نے اپنی طبعی موت سے جان دی اور پھر دوسرے مقربوں کی طرح خدا نے ان کا رفع کر دیا۔بغیر اس کے اور کوئی صورت ایسی نہیں جو اعتراض سے خالی ہو۔
مسیح ناصری توجہ سے سلب امراض فرماتے تھے
علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں۔دواؔ سے،غذاؔ سے،عملؔ سے،پرہیزؔ سے علاج کیا جاتا ہے۔ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہوتا ہے،وہ توجہؔ ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلب امراض کیا کرتے تھے۔اور یہ سلب امراض کی قوت مومن اور کافر کا امتیاز نہیں رکھتی۔بلکہ اس کے لئے نیک چلن ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔نبی اور عام لوگوں کی توجہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی توجہ کسی نہیں ہوتی۔وہبی ہوتی ہے۔آجکل ڈوئیؔ جو بڑے بڑے دعوٰ کرتا ہے۔یہ بھی وہی سلب امراض ہے توجہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے سلبِ ذنوب بھی ہو جاتا ہے۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلب امراض ہوتا تھا،مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہوتا تھا۔اور اس وجہ سے آپؐ کی قوت قدسی کامل کے درجہ پر پہنچی ہوئے تھی۔دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے۔توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے۔جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی۔اس لئے سلب ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی۔کہ جو جماعت اُنہوں نے تیارکی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی۔اور یہانتک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی با اثر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سو برس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اس وقت میں رکھتی تھی۔مسیح اس میدان میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے۔
کافر اور مومن کی رؤیا میں فرق
اﷲ تعالیٰ نے وحی اور الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے، کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہوتا،تو پھر حجب پوری نہ ہو سکتی۔اس لیے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لیے اﷲ تعالٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے۔اور وہ ودیعت خواب ہے۔اگر کسی کو کوئی خواب سچی ک؛ھی نہ آئی ہو،تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے۔اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ
لا یکلف اﷲ نفسا الاوسعھا (البقرہ : ۲۸۷)
اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے۔میرا یہ مذہب ہے کہ ایک بدکار اور فاسق فاجر کو بھی بعض وقت سچی رؤیا آجاتی ہے اور کبھی کبھی کوئی الہام بھی ہو جاتا ہے۔گو وہ شخص اس کیفیت س یکوئی فائدہ اُٹھاوے یا نہ اُٹھاوے۔جبکہ کافر اور مومن دونوں کو سچی رؤیا آجاتی ہے،تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟عظیم الشان فرق تو یہ ہے کہ کافر کی رؤیا بہت ہی کم سچی نکلتی ہے اور مومن کی کثرت سے سچی نکلتی ہے۔گویا پہلا فرق کثرت اور قلت کا ہے۔دوسرے مومن کے لیے بشارت کا حصہ زیادہ ہے۔جو کافر کی رؤیا میں نہیں ہوتا۔سومؔ مومن کو رؤیا مصفا اور روشن ہوتی ہے۔بحالیکہ کافر کی رؤیا مصفا نہیں ہوتی۔چہرمؔ مومن کی رؤیا اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔
جماعت کے واعظین کی صفات
یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں۔لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں۔جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کرکے دکھئیں،تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے۔عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں،مگر خود اس پر عمل نہیں،وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے،بلکہ اُن کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے۔کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا۔تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں۔اس لیے سب سے اول جس چیز کی ضرورجت واعظ کو ہے وہ اُس کی عملی حالت ہے۔دوسری بات جو اُن واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو۔ثو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبا گئے کہ اب اس کا کیا جاوب دیں۔غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان مین زبان اور دل ہو۔یعنی پوری دلیری اور شجاع ت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف دہر اس کے اظہار حق کے لیے بول سکیں اور حق گوئی کے لئے اُن کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے۔یہ تین چیزیں جب حاصل ہو جائیں۔تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔
یہ شجاعت اور ہمت ایک کشش پیدا کرے گی کہ جس سے دل اس سلسلہ کی طرف کھچے چلے آئیں گے، مگر یہ کشش اور جذب دو چیزوں کو چاہتی ہے جن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔اول پورا علم ہو۔دوم تقویٰ ہو۔کوئی علم بدوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا ۔سنت اﷲ یہی ہے۔جب انسان پورا علم حاصل کرتا ہے،تو اسے حیا اور شرم بھی دامنگیر ہو جاتی ہے۔پس ان تینوں باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں۔اور یہ میں اس لیے چاہتا ہوں کہ کثر ہمارے نام خطوط آتے ہیں۔فلاں سوال کا جواب کیا ہے؟ فلاں اعتراض کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیں؟ اب ان خطوط کے کس قدر جواب لکھے جاویں۔اگر خود یہ لوگ علم صحیح اور پوری واقفیت حاصل کریں اور ہماری کتابوں کو غور سے پڑھیں تو وہ ان مشکلات میں نہ رہیں۔
ہماری جماعت کو عمل کی ضرورت ہے
یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے۔کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نامز نہیں پڑھتے اور شاععئر اﷲ کی حرمت نہیں کرتے۔پس میں تم سے یہ نہیں چاہتے کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھائو یہ نکمی حالت ہے۔خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے،تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے لکیا معنے ہیں؟میرے ساتھ وفاداری دکھائو اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو۔جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے۔وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا۔جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکائو کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔
سچا ہادی خیانت نہیں کر سکتا
جو شخص خدا کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کمزوری کو دور کرے۔سچا ہادی کبھی خیانت نہیں کر سکتا۔اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ جس طرز اور چال پر کوئی چلے خواہ اس کی زندگی اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہی ہو وہ پروا نہ کرے، تو سمجھ لو کہ وہ خدا کی طرف سے اصلاح کے لیے نہیں آیا۔بلکہ شیطان اس کا قرین ہے۔سچا ہادی جو دیکھتا ہے اس کی اصلاح کرتا ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ وہ کسی کی ذلت اور رسوائی نہیں کرنا چاہتا، مگر مسیض کے امراض کو شناخت کر کے ان کا علاج بتاتا ہے۔
خدمت دین بھی عمر بڑھاتی ہے
جو لوگ دین کے لیے سچا خوش رکھتے ہیں۔اُن کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی۔جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہیں۔کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے۔اور جو سچے دل سے خادم ہے۔وہ خدا کا عزیز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردد ہوتا ہے۔؎ٰ اس لیے فرمایا
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
۲۶؍اگست ۱۹۰۲ء؁
آپ حج کیوں نہیں کرتے
شیخ ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے خط کا جواب الحکم کی گذشتہ اشاعت میں کسی قدر بسط سے شائع ہو چکا ہے،لیکن اتمامِ حجت اور ایک نکتہ معرفت کے لیے اتنا اور عرض کرنا ضروری سمجھا ہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلواہ لالسلام کے حضور جب وہ خط پڑھا گیا۔اور یہ اعتراض پیش کیا گیا کہ آپ کیوں حج نہیں کرتے ؟تو فرمایا کہ :
میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل اور صلیب کی شکست ہے۔ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں۔بہت سے خنزیر مرچکے ہیں۔اور بہت سے سخت جان ابھی باقی ہیں۔اُن سے فرصت اور فراغت تو ہولے۔
شیخ بٹالوی صاحب اگر انصاف سے کام لیں،تو ا۱مید ہے یہ لطیف جواب انہیں تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔کیوں شیخ صاحب! ٹھیک ہے نا! پہلے خنزیروں کو قتل کر لیں؟
-16-03-05
بغیر تاریخ
ابتلاکی حالت میںخدا سے روٹھنانہیں چاہئیے
ایک دوست کو دوشمنوں نے سخت تکلیف دی اور ان کی شکائیتں بھی افسران بالادست سے کیں۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ان کو وہاںسے تبدیل ہوناپڑا ۔ اُنھوں نے اس کے متعلق دعاکے لیے عرض کیاکہ اس سے دشمن خوش ہوںگے یہ نہیں ہوناچاہئیے ۔ اس کے متعلق جو فرمایا؛ اس کاخلاصہ یہ ہے ؛
خداکے ساتھ روٹھنا نہیں چاہئیے اور خداتعالیٰ کا شکوہ کرناکہ اس نے ہماری نصرت نہیں کی سخت غلطی ہے ۔مومنوں پر ابتلا آتے ہیں ج۔رسوُل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک کیسی تکلیفیں اٹھاتے رہے ۔ طائف میں گئے ؛ تو پتھر پڑے ۔ اس وقت جب آپ ؐ کے بدن سے خون جاری تھا ۔ آپ ؐ نے صدق اور دعا کانمونہ دکھایا ۔ اور کیا پاک الفاظ فرمائے کہ یا اللہمیں یہ سب تکلیفیں اس وقت تک اُٹھاتا رہوں گا ۔ جب تک تو راضی ہو ۔ احان کا ہوناضروری ہے ۔ نبیوں اور صادقوں پر ابتلا آئے ہیںحضرت مسیح کودیکھو کہ کیسا ابتلا آیا ۔ ایلی ایلی لما سبقتنی ۔کہنا پڑا ، یہویوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھادیاغرض مومن کو گھبرانا نہیں چاہئیے ۔اس مضمون پر
‏Amira 16-3-05
ایک لمبی تقریر حضرت اقدس نے فرمائی جس کا خلاصہ آپ ہی کے اشعار میں ہے ہے:۔؎ٰ
صادق آں باشد کہ ایام بلا مے گزارد با مخبت با وفا (الہامی)
گر قضا را عاشقے گردد اسیر بوسد آں زنجیر راکز آشنا
ڈائری سے اقتباس
تقویٰ سے اکرام ہوتا ہے
مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پشاور سے تشریف لائے عندالملاقات حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا کہ :
’’خدا کا شکر ہے کہ مولوی صاحب با وجود ہمارے سلسلہ میں شامل ہونے کے ہر دلعزیز ہیں‘‘۔
اس پر مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور تقویٰ اور رزق حلال ایسی چیزیں ہیں کہ انسان کو معزز بناتی ہیں۔حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا :
حقیقت میں تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے انسان کا اکرام ہوتا ہے۔
طاعون کا ٹیکہ اور اسباب پرستی کی ممانعت
طاعون کے ٹیکہ کا ذکر تھا۔اس کے متعلق ایک مبسوط اشتہار تقویتہالایمان کے نام سے عنقریب شائع ہونا ہے جو چھپ رہا ہے۔وہ الحکم کی کسی اشاعت میں انشاء اﷲ کامل طور پر چھپے گا۔اسی ذکر کے اثناء میں اور اسی کے متعلق ایک لطیف بات فرمائی کہ :
دیکھو ایک زمیندار ہے اس کی زمین بارانی ہے اور ایک دوسرا ہے جس نے رات دن محنت کر کے کنوئیں سے آبیپاشی کی ہے اور اپنے کھیتوں کو پھر لیا ہے۔مگر آسمان پر یکایک بادل ہوئے اور بارانی زمین والے تمام کھیت پھر گئے۔اب دونوں میں سے زیادہ شکر گذار دون ہوگا؟ کیا وہ جس نے رات دن ایک محنت کر کے اپنے کھیت پھرے ہیں یا وہ جو آسمان کی طرف دیکھتا رہا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ جو رات کو سویا ہوا تھا اور صبح اُٹھ کر دیکھا،تو کھیتوں کو لابالب پایا۔
اس طرح پر ٹیکہ کے متعلق ایک تو ہم ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔اور ایک وہ ہیں جو اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔
اسباب سے اﷲ تعالیٰ نے منع تو نہیں فرمایا،مگر اس قدر محوفی الاسباب نہ ہونا چاہیے کہ شرک کی حدتک پہنچ جاوے۔اسباب سے جائز فائدہ اعتدال کی حدتک ضرور اُٹھانا چاہیے۔مگر شرک فیالاسباب نہ ہونے پائے اور یہ شرک اسباب اسباب سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
ہزاروں ہزار مخلوق جانتی ہے کہ جب ٹیکا کرانے والوں کو فائدہ ہوگا۔جیسا کہ ظاہر کیا گیا ہے،تو وہ شخص کس قدر خوش ہوگا اور کتنا بڑا نشان ہوگا جو یہ کہے گا کہ اوروں کو ٹیکہ نے فائدہ کیا اور مجھ کو خدا نے۔ولنعم ماقیل۔تُرا کشتی آور و مارا خدا۔
جس راہ پر ہم چلتے ہیں۔یہ مرحلہ دور ہے۔ہم اسباب کو چھوڑتے نہیں،لیکن اُن کو پوجتے بھی نہیں۔خدا نے اپنے فضل سے ایک نشان دیا ہے۔اس کی قدر کرتے ہیں۔اگر وہ ہم پر ظاہر نہ کرتا تو کچھ بات نہ تھی۔لیکن اب اس نشان کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی قدر کریں۔ہر ایک شخص اپنے صدق،ثباتاور قوت کو دیکھ لے۔ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔
اسباب پرستی،پتھر پستی سے بڑھ کر ہے۔پتھروں کو پوجا اگر محرقہ ہے،تو اسباب پرستی تپ دِق ہے جس نے دنیا کو ہلاک کر دیا ہے۔یاد رکھو جو اسباب میں دل لگاتا ہے،وہ شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
الدار والوں کی حفاظت کا قوی ذمہ خدا نے لے لیا ہے،مگر ایک دار تو وہ ہے جو خس و خاشاک و خاک کا بنا ہوا درودیوار والا گھر ہے اور ایک وہ جو ہمارے منشاء کے موافق روحانی طور پر اپنی تبدیلی کرتا ہے۔وہ بھی ہمارے دار میں ہے۔
برکت کا نشان
میرے پاس ایک شیشی مشک کی ہے جس میں سے میں کھایا کرتا ہوں۔اﷲ تعالیٰ جب کسی چیز کے سلسلہ کو منقطع کرنا نہیں چاہتا،تو جس طرح چاہے اس کو برکت دیدے۔میں نے گھر والوں سے کہا کہ لائو اس شیشی کو میں برکت دیتا ہوں؛چنانچہ میں نے اُس میں صھونک ماردی۔ڈاک کے وقت فضل الٰہی ایک شیشی لایا۔میں نے سمجھا کہ کوئی دوائی ہے اور رکھ دی۔مگر فجر کو جب اسے کھول کر دیکھا،تو وہ مشک نکلاممیں نے اس کو بلا کر پوچھا کہ کس نے بھیجی ہے۔اس نے کہا کہ وہ کاغذ گم ہو گیا۔اس شیشی پر بھی مرسل و فریسندہ کا نام نہیں ۔یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے برکت کا دیا ہے۔میں نے گھر میں خود پھونک ماری اور دوسرے دن وہ شیشی آگئی۔یہ خدا کے عجیب کام ہیں،جو آجکل ظاہر ہو رہے ہیں۔؎ٰ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک۔
۳۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء؁
رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ
رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ دراصل دونوں ایک ہی ہیں۔آدم زاد کی پرستش کرنے میں کوئی ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہے۔ایک بیٹے کی پرستش کرتا ہے تو دوسرا ماں کو بھی خدا بناتا ہے اور اس معاملہ میں وہ ؓقلمندی سے کام لیتا ہے۔جب بیٹا خدا ہے،تو ماں تو ضرور خدا ہونی چاہیے۔مگر اب وقت آگیا ہے کہ انسان پرستی کا شہتیر ٹوٹ جاوے۔
اصل تبلیغ توکل علے اﷲ سے ہوتی ہے
مفتی محمد صادق صاحب کو فرمایا جبکہ انہوں نے مسٹرویب کا ایک خط سنایا کہ :
اُن کو لکھ دو کہ عمر گذرتی جاتی ہے جو کرنا ہے اب کرلو۔دن بدن قویٰ کمزور ہوتے جاتے ہیں۔دس برس پہلے جو قویٰ تھے وہ آج کہاں ہیں؟گذشتہ کا حساب کچھ نہیں۔آئندہ کا اعتبار نہیں۔جو کچھ کرنا ہو آدمی کو موجودہ وقت کو غنیمت سمجھ کر کرنا چاہیے۔اب اسلام کی خدمت کر لو۔اول واقفیت پیدا کرو کہ ٹھیک اسلام کیا ہے؟اسلام کی خدمت جو شخص درویشی اور قناعت سے کرتا ہے۔وہ ایک معجزہ اور نشان ہو جاتا ہے جو جمعیت کے ساتھ کرتا ہے اس کا مزا نہیں آتا،کیونکہ توکل علی اﷲ کا پورا لطف نہیں رہتا اور جب توکل پر کام کیا جاوے تو خدا مدد کرتا ہے اور یہ باتیں روحانیت سے پیدا ہوتی ہیں۔جب روحانیت انسان کے اندر پیدا ہو تو وہ وضع بدل دیتا ہے۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح پر صحابہؓ کی وضع بدل دی۔یہ سارا کام اس کشش نے کیا جو صادق کے اندر ہوتی ہے۔یہ خیالات باطل ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ ہو تو کام چلے۔خدا تعالیٰ پر توکل کر کے جب ایک کام شروع کیا جاوے اور اصل غرض اس کے دین کی خدمت ہو تو وہ خود مددگار ہو جاتا ہے اور سارے سامان اور اسباب بہم پہنچاتا ہے۔
خواجہ کمال الدین صاحب
خواجہ کمال الدین صاحب کے ذکر پر فرمایا کہ :
بڑے سعید اور مخلص ہیں اور حقیقت میں مردانگی یہی ہے کہ جب تعلق پکڑے۔تو آخر تک نبھاوے۔یک درگیر ومحک م گیر۔
بنیظیر مجلس اور تائیدِ اسلام
یہ مجلس خود اﷲ تعالیٰ نے پیدا کردی ہے۔جس میں بیٹھ کر خدا نظر آتا ہے۔جو راستہ ہم صاف کرتے ہیں۔مشرق مغرب میں کہیں چلے جائو کسی جگہ وہ بات نہیں ملے گی۔کوئی ہفتہ ایسا نہیں گذرتا جب ایک یا دو باتیں اسلام کی تائید میں پیدا نہ ہوئی ہوں۔(۱۹۰۲۔۹۔۳۰)
بلاتاریخ
سچے مذہب کے پیروئوں کے ساتھ خدا ہوتا ہے
جو لوگ سچے مذہب کے پیرو ہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔اُن کے اور اُن یک غیروں میں ایک امتیاز ہوتا ہے۔جو تائید وہ اسلام کی کرتا ہے،وہ دوسروں کی نہیں کرتا۔اسلام کا خدا اپنے کلام کے ساتھ ایک شرف عطا کرتا ہے جو اور کسی کو نہیں ملتا اور اس طرح پر وہ قدرت کے نشان دکھاتا ہے اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں سکتا۔ہاں باتیں بنانے والے بہت ہو جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ انسان کے تابع ہو،بلکہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے تابع ہوں۔
بلاتاریخ
آج ہمیں کوئی دکھائے کہ اسلام کے سوا کونسا مذہب ہے جو اﷲ اور اس کی مخلوق کے لیے پاک ہدایت کرتا ہے۔
بلاتاریخ
دنیا کی بے ثباتی اور مصائب
دنیا ایسی ہے کہ یہ آرام کی جگہ نہیں،بلکہ ایک خارستان ہے۔خوشی کی جگہ نہیں۔اس کے ساتھ آلام و اسقام لگے ہوئے ہیں۔ہمارے خاندان میں پچاس کے قریب آدمی تھے۔وہ قریباً سب کے سب خاک کے نیچے چلے گئے۔بچوں بیویوں میں ابتلا آتے ہیں۔اس سے بھی انسان کو سبق ملتا ہے۔اس پر دنیا کی بے ثباتی اور حقیقت منکشف ہو جاتی ہے۔انسان چونکہ دو محبتوں کا مجموعہ ہے،کیونکہ انسان اصل میں اُنسَان ہے۔اس لیے اُنس،شفقت کا مادہ زیادہ ہے۔اگر اس میں یہ قوتیں نہ ہوتیں تو پھر بچوں اور دوسرے کمزور لوگوں کی پرورش کیونکر کرتا؟حقوق کا ادا کرنا،دوستی کے تعلقات یہ سب اُنس کو چاہتے ہیں۔
دوستوں کے لیے فکر و غم
اس طرح پر میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر یہ سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اس قدر میرے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں اور متعلقین کا غم اور فکر بڑھ رہا ہے اور ہر روز کسی نہ کسی عزیز یا دوست کی تکلیف کی کوئی نہ کوئی خبر آجاتی ہے تو میں اس سے سخت کرب اور بے آرامی میں رہتا ہوں اور بعض دقت تو یہانتک حالت ہوتی ہے کہ نیند بھی نہیں آتی۔یہ سچی بات ہے کہ جس قدر تعلقات بڑھتے ہیں اسی قدر غم اور فکر بڑھتا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حال لکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں بڑا خوش ہوں،کیونکہ بے تعلق ہوں مگر یہ کوئی فضیلت اور خوبی نہیں ہے۔اس سے اخلاق کے سارے شعبے مکمل نہیں ہوتے۔یہ نقص کی بات ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ بچے مرے تھے آپ نے جو ثبات قدم اور رضا بالقضا کا کامل نمونہ دکھایا کسی اور کی زندگی میں کہاں ملتا ہے؟؎ٰ
یکم اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
صبح کی سیر
حضرت اقدس علیہ الصلٰۃ والسلام حسب معمول حلقہ خدام میں سیر کو نکلے۔حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امر دہی نے ایک مختصر سا انٹروڈکشن اپنی جدید تصنیف کا (جو سائیں مہر شاہ گو لڑی کے متعلق آپ لکھ رہے ہیں) سنانا شروع کیا۔جس میں سائیں جی کے سرقہ مضمون کشتہ اعجاز المسیح محمد حسن بھیں اور اعجاز المسیح کا جواب با وجود سرقہ مضامین کے اردو زبان میں بشکل سیف چشتیائی لکھنے سے سائیں جی کی قلعی کھولی ہے کہ اس سے وہ الزام بھی سائیں جی پر قائم ہو گیا کہ عربی تفسیر نویسی کی دعوت میں واقعی لا جواب ہو یگا تھا۔اور اُسے کوئی قوت اور قابلیت نہیں جو حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں آتا؛ورنہ کیا وجہ ہے کہ اعجاز المسیح کا جواب اردو میں لکھا حالانکہ خانہ نشین ہو کر لکھا ہے۔بہرحال یہ لطیف اور یلح دیباچہ سنا یا گیا۔
واذالعشار عطلت (التکویر : ۵)
شہر سے باہر نکلتے ہی اونٹوں کی ایک قطار کھڑی تھی۔آپؑ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ :
یہ بعنیہ ریل گاڑی کی طرح ایک سلسلہ ہے اور کوئی جانور نہیں جس کو آگے پیچھے اس طرز سے باندھیں۔گاڑیاں بھی اسی طرح باندھی جاتی ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قدر فرمایا تھا۔خاکسار ایڈیٹر اس کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔اور اگر بات کا سلسلہ اور نہ چلا دیا جاتا تو امید تھی کہ اس نقطہ پر بات آجاتی کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اذالعشار عطلت کی پیشگوئی پوری ہو گئے ہے۔خصوصاً یہ نظارہ عرب میں اور بھی زیادہ حیرت انگیز اور مسرت بخش ہوگا۔جبکہ ان جنگلوں اور ریگستانوں میں جہاں یہ جہاز بیابان چلا کرتا تھا۔اب اس جگہ ریل گاڑی چلتی نظر آئے گی اور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی دکھائی دے گی۔
دودھاری تلوار گولڑوی کی کتاب سیف چشتیائی کے متعلق فرمایا۔کہ:
اس نے دوہرا کام کیا۔فیضی کی موت کا ہامری پیشگوئی کے موافق ہونا اس سے ثابت ہو گیا۔اور گولڑی کی پردہ دری ہو گئے۔اگر فیضی زندہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اصلاح کرتا۔یا اس ارادہ سے ہی باز آجاتا ۔مگر موت نے پیشگوئی کے موافق اُسے آلیا۔اور گولڑی اس کی کچی ہانڈی کھانے بیٹھ گیا اور نہ خیال کیا کہ اس کی ہر بات کی خود بھی تو تحقیق کرے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی پردہ دری کرالی۔اور محمد حسن کی بھی۔
مسیح علیہ السلام بن باپ تھے
حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب امر دہی نے انبالہ سے آئے ہوئے ایک خط کا تذکرہ کیا۔کہ کشتی نوح کے اس حصہ کو پڑھ کر جو الحکم میں شائع ہوا ہے۔انبالہ سے ایک مخلص دوست لکھتے ہیں کہ مسیح کے بھائی بہنوں کا جو حضرت اقدس نے ذکر کیا ہے۔اس سے شبہ ہوتا ہے کہ یوسف گویا مسیح کا باپ بھی تھا؟ فرمایا :
ہم مسیح کو بن باپ پیدا ہوا مانتے ہیں اور ہامری کتابوں۔رسالوں اور اخبار کی بہت سی تحریروں میں لکھا جا چکا ہے۔اور ہم اس بات کو کیا کریں کہ یہ تاریخی غلطی مسلمانوں میں پیدا ہوئے ہے جو صحیح تاریخ سے ثابت ہے کہ مریم کا یوسف کے ساتھ نکاح ہو گیا تھا۔اور پھر اس سے اولاد بھی ہوئے تھی۔ہم نے تو اس اولاد کا ذکر کیا ہے اور اسی قسم کی غلطی واقعہ صلیب کے متعلق ہے۔مسیح کو صلیب دیئے جانے کے دردناک قصے موجود ہیں۔اور ان علمأ کے نزدیک وہ چھت پھاڑ کر اُڑ گئے۔اب اس میں کس کا قصور ہے۔یہ تو ان کو بالکل خدا بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بشریت ان کے پاس نہ آجاوے۔
اور ایسا ہی حضرت مریم کو ساری عمر بتول ٹھہرانا کہ انہوں نے نکاح نہیں کیا۔بڑی غلطی ہے۔ان تاریخی امور سے ہم انکارنہیں کر سکتے۔مسیح کی نسبت ہمارا یہی مذہب ہے کہوہ بن باپ پیدا ہوئے۔
مریم علیہا السلام۔محصنہ ہونے کی حقیقت
مولوی مبارک علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس امر کی تائید میں کہ مریم علیہا السلام نے ساری عمر نکاح نہیں کیا۔یہ دلیل پیش کرتے ہیں۔کہ قرآن میں آیا ہے۔
والتی احصنت فرجھا (الانبیاء : ۹۲)
محصنات تو قرآن شریف میں خود نکاح والی عورتوں پر بولا گیا ہے۔
والمحصنات من النساء (النساء : ۲۵)
اور التی احصنت فرجھا کے معنے تو یہ ہیں۔کہ اس نے زنا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا۔یہ کہاں سے نکلا کہ اس نے ساری عمر نکاح ہی نہیں کیا۔
مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام
مسیح کے ایۃ اﷲ ہونے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ ایۃ اﷲ ہی ہوتا ہے۔براہینؔ احمدیہ میں مجھے مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے۔لنجعلک ایۃ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیت تھے۔مسیح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں۔عُزیر بھی ایۃ اﷲ تھے۔
مخالفوں کی طرف سے ہمارا حصہ
ان مخالفوں کی طرف سے ہمارے حصہ میں تو گالیاں ہی آئی ہیں۔اب اس رسالہ کشتی نوح کو پڑھ کر بھی بہت سی باتیں بنئیں گے اور گالیاں دیں گے۔کوئی فریبی اور مکار کہے گا۔کوئی کچھ۔
محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء
ابن مریم پر فضیلت کے دعویٰ کو یہ لوگ بڑی بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں،مگر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صریح وحی سے مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر ہے اور غور کر کے دیکھ لو ہر ایک بات اس سلسلہ کی موسوی سلسلہ سے بڑھی ہوئی ہے۔موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے آئے تھے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور فرمایا گیا۔
ما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ (الانبیاء : ۱۰۸)
پھر آپؐ کی تائیدات موسیٰؑ کی تائیدات سے بڑھ کر۔آپؐ کے اعجازی نشان بڑھ کر۔آپؐ کو جو کتاب دی گئے،وہ موسیٰؑ کی کتاب سے بڑھ کر۔ہمیشہ کے لیے۔غرض کل سامان بڑھ کر۔کامیابیاں بڑھ کر۔پھر کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء سے بڑھ کر نہ ہو؟ ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رحمۃللعالمین اور کافۃ للناس (سباء : ۲۹) کے لیے رسول ہو کر آیا۔جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق و معارف سب سے بڑھ کر ہیں۔پھر ان معارف اور حقائق کو پانے والا کیوں کم ہے؟
پھر
واخرین منہم لما یلحقو ابہم (الجمعۃ : ۴)
جو فرمایا گیا ہے یہ مسیح موعود کے زمانہ کے لیے ہے اور اس کے منہم کے وہی معنی ہیں جو اما مکم منکم میں منکم سے مراد ہے۔اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ گروہ بھی صحابہ ہی کا گروہ ہے حضرت عیسیٰ کے لیے یہ کہاں؟
اور پھر حضرت عیسیٰ اگر اسی شان سے آتے جس شان سے وہ پہلے آئے تو وہ وہ کام نہ کر سکتے جو مسیح موعودؑ کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ٹھہرایا ہے۔اُن کا دائرہ بہت تنگ اور چھوٹا تھا۔اور مسیح موعود کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان سب امور پر جب نگاہ کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود (مسیح محمدی) ابن مریم (مسیح موسوی) سے بڑھا ہوا ہے۔اور خود عیسائیوں نے بھی مسیح کی آمد ثانی کو پہلی آمد کے مقابلہ میں بڑھ کر مانا ہے۔
خدا تعالیٰ کا ایک احسان
خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ انگریزوں کی سلطنت میں ہمیں پیدا کیا؛ ورنہ اگر اسلامی سلطنت ہوتی،تو ان مولویوں ہی کے قابو میں ہوتی۔جو قتل کے فتوے اور کفر کے فتوے دیتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے انگریزوں کو بھیج دی۔جنہوں نے کل مذاہب کو آزادی دیدی۔اور ہمارے لیے ملک بھی چن کر مقرر کیا۔کل مذاہب کی کھچڑی جہاں موجود ہے۔ہم یہاں وہ کام کر سکت یہیں،جو مکہ مدینہ میں ہر گز نہ کر سکتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہم انگریزوں کی خوشامد کرتے ہیں۔بلکہ ہم
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان (الرحمان : ۶۱)
پر عمل کرتے ہیں۔خوشامدوہ کرتے ہیں جو الائمۃ من قریش مانتے اور سلطان روم کے لیے امیر المومنین ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں اور پھر دل میں کچھ رکھتے ہیں اور زبان سے کثھ کہتے ہیں۔ہم جو کچھ کہتے ہیں اور کرتے ہیں۔وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری کے لیے اور وہ محض خوشامد اور نفاق سے۔
(اس قدر بیان فر ما کر پھر حضرت تشریف لے گئے)
نمازِ ظہر اور عصر کے وقت کوئی بات قابل نوٹ نہیں۔حضرت حجۃاﷲ علی الارض تشریف لائے اور بعد ادائے نماز تشریف لے گئے۔؎ٰ
یکم اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
دربار شام
حسب معمول حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔خدام ایک دوسرے سے پہلے جگہ لینے کے لیے گرے پڑتے تھے۔آخر جب سب اپنی اپنی جگہ جہاں کسی کو ملی بیٹھ گئے۔تو حضرت حجۃاﷲ نے کشتیؔ نوح کی اشاعت کے متعلق فرمایا کہ:
امید ہے جمعہ تک اشاعت ہو جائیگی۔
اور پھر انگریزی سلطنت کے متعلق قریباً وہی گفتگو فرمائی ج صبح کی سیر میں فرمائی تھی۔ہاں اتنا اضافہ اور کیا کہ :
چونکہ مسیح ابن مریم کے ساتھ ہمیں مشابہت ہے۔اُن کے لیے جو اﷲ تعالٰ نے فرمایا یہ۔
واوینھما الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین (المومنوں : ۵۱)
یعنی واقعہ صلیب کے بعد ان کو ایک اُونچے ٹیلہ پر جگہ دی۔ہاں آرام کی جگہ اور پانی کے چشمے تھے۔اصل یہ ہے کہ اس جگہ یعنی واقعاتِ مسیح ابن مریم میں تو صرف ظل تھا اور یہاں اصل ہے۔ہم کو ایسی جگہ پناہ دی جہاں یہودیوں کا بس نہیں چل سکتا ۔یعنی سلطنت انگلشیہ کے ماتحت۔اب یہاں یہودی حملہ نہیں کر سکتے۔ہمارے لیے یہ پناہ کی جگہ ہے۔اور حقائق و معارف کے چشمے یہاں بہ رہے ہیں۔
اتنے میں آسمان پر مغرب کی طرف سے ایک غبار سا اُٹھا۔کبھی کبھی اس آندھی میں بجلی کے کوندنے کی چمک بھی نظر آتی تھی۔بعض احباب نے چاہا کہ نیچے چلیں۔حضور نے فرمایا :
دیکھ لو جو امر آسمان پر ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔
جناب میر صاحب نے عرض کی کہ حضور غور کر کے دیکھا جاوے تو پہلے زمانہ کی نسبت خدا کا فضل اب بہت زیادہ ہے۔فرمایا:۔
وہ زمانہ اس آخری زمانہ کا نمونہ تھا اور بطور ارہاص تھا۔صوفیوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم عصائے موسیٰ کا قائمقام تھا جو مذاہب مخالفہ کو کھانے والا ہے اور حقیقت بھی یونہی ہے۔قرآن شریف کے مقابل پر کوئی کتاب نظر نہیں آتی۔
مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک رؤیا
مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی ایک رئویا سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سیالکوٹ کے بازار میں ایک آریہ بڑے کلے تھلے والا وعظ کرتا ہے۔اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ وید کی دعائوں کی طرف توجہ کرو۔مجھے یہ سن کر جوش اور غیرت آئی اور میں نے کہا بیشک وید میں دعائیں تو ہیں،مگر اُن کی قبولیت اور مستجاب الدعوت لوگوں کی علامات کا کوئی نشان بتائو۔وید میں کہاں ہے۔اس پر وہ بہت ہی چھوٹا سا ہو گیا۔یہ خواب مبارک اور آریہ پر فتح کی دلیل ہے۔
فرمایا :
حقیقت میں خدا سے بے نصیب جانا ہی بڑا بھاری دوزخ ہے۔کسی نے کیا اچھا کہاہے۔ ؎
حکایتے ست کہ از روز گارہجراں است
اصل یہ ہے کہ جب انسان دنیا کو مقدم کر لیتا ہے خواہ جان و مال کے لیے یا دولت و ملوک کے لیے۔پھر اس کو دین کی طرف آنا مشکل ہو جاتا ہے،لیکن جن لوگوں نے دین کو طلب کیا ہے۔وہ اس مقام پر اس وقت تک نہیں پہنچے جبتک انہوں نے اﷲ تعالیٰ کو مقدم نہیں کر لیا۔اور منقطعین اور متبتلین میں داخل نہیں ہوئے۔ ؎
سخن اینست کہ مابے تو نخواہیم حیات
بشنو اے پیک سخن گیر وسخن باز رساں
قرآن شریف نے جو کہا ہے۔
اجیب دعوۃ الداع (البقرہ : ۱۸۷)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا جواب ملتا ہے۔پس وید کی دعئیں بے ثمر ہیں،جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔بلکہ ساری دعائیں اُلٹی ہی پڑتی ہیں۔
مسیح کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر
مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ آج میں تعبیر الرئویا پڑھ رہا تھا۔ایک مقام پر مجھے بہت ہی لطف آیا۔لکھا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسیٰ کو خواب میں دیکھے۔تو وہ دلالت کرتا ہے کہ نقل مکان کرے گا۔(ایڈیٹرعلم تعبیر الرئویا کی رو سے یہ کیسا عجیب استدلال ہے۔اس امر پر کہ مسیح اپنے ملک سے کشمیر میں ضرور آئے۔خصوصاً ایسی حالت میں کہ قرآن اور حدیث ان کی مؤید ہوں۔)
مفتی محمد صادق صاحب آج کل ایک کتاب سنا رہے ہیں۔جو داستانِ مسیح کہنی چاہیے۔اس میں واقعہ صلیب کو نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔اور ان اسرار سے پتہ لگتا ہے جو مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتار لیے جانے کے مؤید ہیں۔مفتی صاحب نے عرض کی کہ حضور میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ایک مقام پر لکھا ہے۔کہ جب مسیح کو صلیب پر چڑھانے کا حکم ہو چکا۔اور پیلاطوس اور اس کی بیوی کے چھوڑ دینے کی تدابیر میں کامیابی نہ ہوئی۔تو پیلاطوس کی بیوی نے کہا کہ ہمیں عملی تدابیر میں لگ جانا چاہیے اور اس کے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس کے بعد آندھی کا زور بڑھ گیا اور بارش کا اندیشاہ ہوا۔اس لیے نماز عشاء ادا کرلی گئے اور جلسہ بر خاست ہوا۔
‏Amira 17-3-05
۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
آج حضرت صاحبزادہ بشیرالدین محمود سلمہ اﷲ تعالیٰ کی بارات روڑکی کو قادیان سے علی الصباح روانہ ہوئے۔اس بارات میں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور جناب مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب اور جناب سید السادات میرنا صر نواب صاحب اور آپ کے صاحبزادہ میر محمد اسماٰعیل صاحب اور ڈاکٹر نور محمد صاحب اور صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب تعمانی اور مفتی محمد صادق صاحب تھے۔راہ میں مسنون طریق پر جناب میر ناصر نواب صاحب کو امیر قافلہ بنایا گیا۔اسی روز عشاء کی نماز روڑ کی میں ادا کی گئے۔جناب ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب جن کے ہاں بارات جانی تھی۔اسٹیشن ریلوے روڑ کی پر معہ اپنے دوستوں کے استقبال کے لیے تشریف لائے اور تمام لوازماتِ تواضع جو ہونے چاہیے تھے۔نہایت خندہ پیشانی اور شرح صدر سے ادا کئے۔
موت سے عبرت
حضرت اقدس حسب معمول وقت مقررہ پر سیر کو نکلے۔ابتدائے گفتگو میں فرمایا :
ہزار ہا بدبجت لوگوں سے قبریں بھری پڑی ہیں۔ہزاروں نامراد بادشاہ ان میں ہیں۔ہزاروں ہی بے نصیب اُن میں پڑے ہیں۔انسان اگر اپنے ہی خاندان کی موت پر قیاس کرے تو عبرت حاصل کر سکتا ہے۔عمر کا سلسلہ اپنے خاندان سے معوم کر سکتا ہے۔بعض خاندان ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی عمریں پچاس تک پہنچتی ہیں۔باگپور او ر ممالک متوسطہ کی طرف عمریں بہت ہی چھوٹی ہوتی ہیں۔اس طرف بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض خاندانوں کی عمریں چھوٹی ہیں۔اصل یہ ہے کہ یہ بھید کسی کو معلوم نہیں ہوا۔انگریز محقق با حق ٹکرّیں مارتے پھرتے ہیں کہ زمینداروں کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں۔یاد ماغی محنت کرنے والوں کی۔یہ صرف خیالی باتیں ہیں۔
انسان کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے۔بعض حیوانات کی عمریں بہت بڑی ہوتی ہیں۔مثلاً کچھوہ کی عمر بانچ ہزار برس تک ہوتی ہے۔اس لیے اس کو عربی میں غیلم کہتے ہیں۔کیونکہ یہ گویا ہمیشہ ہی جوان رہتا ہے۔سانپ کی عمر بھی بڑی ہوتی ہے۔ہزار ہزار برس تک۔
مرضئی مولیٰ
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
خدا تعالیٰ جس کام کو کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔چاروں طرف سے ایسے اسبا ب جمع ہوتے ہیں اور ایسا زور اور دبائو آکر پڑتا ہے کہ آخر وہ کام ہو ہی جاتا ہے۔بڑے بڑے رجے مہارا جے جو بعض اوقات مسلمان ہوئے۔خدا تعالیٰ کی مرضی اس طرح پر تھی۔چاروں طرف سے ایسا زور آکر پڑا کہ بجز اسلام کے چارہ نہ رہا۔
خدا کی مہلت سے فائداٹھانا چاہیے
مذہب ایک ایسی چیز ہے کہ مختلف مذہب کے لوگ یک جاجمع نہیں ہو سکتے۔سنۃاﷲ کا نہ سمجھنا بھی ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔قرآن شریف میں لکھا ہے کہ بعض وقت بلا کو ہم ٹلا دیئے ہیں،تو انسان بیباک ہو کر کہتا ہے کہ بلا ٹل گئے اور پھر شوخیاں کرنے لگتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر اﷲ تعالیٰ پکڑتا ہے اور ہلاک کر دیتا ہے۔پس اگر طاعون کم ہو جاوے تو اس سے دلیر نہیں ہونا چاہیے۔خدا تعالیٰ کی مہلت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔
مسیح موعود کے وقت میں وبا کا پھیلنا عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک تو مسلم ہی ہے۔ہندو بھی مانتے ہیں کہ آخری دنوں میں ایک وبا ہو گی اور اس وقت آنے والے کا نام رودّر گوپال ہوگا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام فرقوں میں جیسے آخری دنوں میں ایک موعود کے آنے کا عقیدہ مشترک ہے ویسے ہی یہ بھی مانا گیا یہ کہ اس وقت وبا پڑے گی۔
آدابِ دعا
پس دعائوں سے کام لینا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے۔اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے۔ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی س یاس کے حضور نہیں آتا وہ اس کی کیا پرواہ کر سکتا ہے۔دیکھو اگر ایک سائل کسی کے پاس آجاوے اور اپنے عجز اور غربت ظاہر کرے،تو ضرور ہے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک ہو۔لیکن ایک شخص جو گھوڑی پر سوار ہو کر آوے اور سوال کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر نہ دو گے تو ڈنڈے ماروں گا۔تو بجز اس کے کہ خود اس کو ڈنڈے پڑیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔خدا تعالیٰ سے اڑ کر مانگتا ہے اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کا موجب ہے۔دعائوں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اڑ کر مانگنا اور بات ہے۔یہ کہنا کہ میرا فلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کر دوں گا۔یا یہ کہہ دوں گا یہ بڑی ندانی اور شرک ہے اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے۔اسیے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں۔قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں ڈبول کروں گا۔بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن سریف میں لکھا ہوا ہے
اد عونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے۔
ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع (البقرہ : ۱۵۶)
ا لآیتہ۔اد عونی استجب لکم میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لنبلو نکم میں اپنی منوانی چاہتا ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے؛ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہر گز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے۔
ولنبلونکم بشی من الخوف جو فرمایا۔تو اس مقام پر وہ اپنی منوانا چاہتا ہے۔کبھی کسی قسم کا خوف آتا ہے اور کبھی بھوک آتی ہے۔ اور کبھی مالوںپر کمی واقع ہوتی ہے۔تجارتوں میں خسارہ ہوتا ہے اور کبھی ثمرات میں کمی ہوتی ہے۔اولاد ضائع ہوتی ہے او رثمرات برباد ہو جاتے ہیں اور نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں۔ایسی صورتوں میں خدا تعالیٰ کی آزمائش ہوتی ہے۔اس وقت خدا اپنی شان حکومت دکھانا چاہتا ہے اور اپنی منوانا چاہتا ہے۔اس وقت صادق اور مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہوہ نہایت اخلاص اور انشراح صدر کے ساتھ خدا کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اس پر خوش ہو جاتا ہے۔کوئی شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا۔اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
وبشر الصابرین (البقرہ : ۱۵۶)
پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو۔یہ نہیں فرمایا کہ دعا کر نیوالوں کو بشارت دو،بلکہ صبر کرنے والوں کو۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اگربظاہر اپنی دعائوں میں ناکامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خدا تعالیٰ رضا کو مقدم کرے۔اہل اﷲ کو نظر آجاتا ہے کہ یہ کام ہونہار ہے۔پس جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں؛ورنہ قضاوقدر پر راضی رہت یہیں۔اہل اﷲ کے دو ہی کام ہوتے ہیں۔جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہین تو دعا کرتے ہیں،لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضا وقدر اس طرح پر ہے،تو صبر کرتے ہیں۔جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا۔جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھا۔
جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ دو تقسمیں رکھ دی ہیں اور یہ اس کی سنت ٹھہرچکی ہے اور یہ بھی اس نے فرمایا ہے۔
لن تجد لسنۃاﷲ تبدیلا (الفتح : ۲۴)
پھر کس قدر غلطی ہے جو انسان اس کے خلاف چاہے۔میں نے بارہا بتایا ہے کہ انسان نے خدا کے ساتھ دوستانہ معاملہ رکھا ہے۔کبھی ایک دوست دوسرے کی مان لیتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے۔اور دعا بندہ اور خدا میں بھاجی کی طرح ہیں۔اگر انسان یہ سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کمزور رعایا کی طرح ہر بات مان لے۔تو یہ نقص ہے۔ماں بھی بچہ کی ہر بات نہیں مان سکتی۔کبھی بچہ آگ کی انگاریاں مانگتا ہے۔تو وہ کب دیتی ہے۔یا مثلاً آنکیں دکھتی ہوں تو ا۲سے زنک یا اور کوئی دوا ڈالنی ہی پڑتی ہے۔اس طرح پر بندہ چونکہ تکمیل کا محتاج ہے۔اُسے ماروںکی ضرورت ہے تا کہ وہ صدق و صفا اور ثبات میں کامل ثابت ہو۔
پھر دعا کرانے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صابر ہو۔جلد باز نہ ہو۔جو ذرا سی بات پر دجال کہنے کو تیار رہے۔پس وہ کیا فائدہ اٹھائے گا۔اسے تو چاہیے کہ صبر کے ساتھ انتظار کرے۔اور حسن ظن سے کام لے۔
جب خدا تعالیٰ نے لنبلو نکم فرمایا ہے،تو صبر کرنے والوں کے لیے بشارت دی اور اولئک علیہم صلوات بھی فرمایا ۔میرے نزدیک اس کے یہی معنی ہیں کہ قبولیت دعا کی ایک راہ نکال دیتا ہے۔حکام کا بھی یہی حال ہے کہ جس پر نارض ہوتے ہیں اگر وہ صبر کے ساتھ برداشت کرتا اور شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا تو اسے ترقی دیدیتے ہیں۔قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ابتلا آویں جیسے فرمایا۔
احسب الناس ان یتر کو اان یقولو اا منا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف امنا کہنے سے چھوڑے جائیں اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں۔
انبیاء علیہم السلام کو دیکھو۔اوائل میں کس قدر دکھ ملتے ہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دیکھو کہ آپ کو مکی زندگی میں کس قدر دکھ اٹھانے پڑے۔طائح میں جب آپ گئے تو اس قدر آپ کے پتھر مارے کہ خون جاری ہو گیا۔تب آپؐ نے فرمایا کہ کیسا وقت ہے۔میں کلام کرتا ہوں اور لوگ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہا کہ اے میرے ربّ! میں اس دکھ پر صبر کروں گا جبتک کہ تو راضی ہو جاوے۔
اولیاء اور اہل اﷲ کا یہی مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے۔سید عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں کہ عشق کا خاصہ ہے کہ مصائب آتے ہیں۔
اُنہوں نے لکھا ہے۔ ؎
عشقا ! برآ ! تو مغز گرداں خوردی
با شیر دلاں چہ رستمی ہا کردی
اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی
ہر حینہ کہ داری نکنی نا مردی
مصائب او ر تکالیف پر اگر صبر کیا جاوے اور خدا تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضا ظاہر کی جاوے تو وہ مشکلکشائی کا مقدمہ ہوتی ہے۔
ہر بلا کیں قوم را اور دادہ است
زیر آں یک گنج ہا بنہادہ است
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکلیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا۔دعامیں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے۔جن مقدس لوگوں نے خدا کے فضل اور فیوض کو حاصل کیا۔انہوں نے اس طرح حاصل کیا کہ خدا کی راہ میں مر مر کر فنا ہوگئے۔خدا تعالیٰ ان لوگوں کی خوب جانتا ہے۔جو دس دن کے بعد گمراہ ہو جانے والے ہوتے ہیں۔وہ اپنے نفس پر خود گواہی دیتے ہیں جبکہ لوگوں سے شکوہ کرتے ہی۔کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی۔
ہم لوگوں کی شامت اعمال کو روک نہیں سکتے۔وہ لوگ نامراد رہیں گے۔جو ولی اور مامور کا یہ معیار ٹھہراتے ہیں کہ اس کی ہر دعا اسی طرح قبول ہو جائے گی۔جس طرح وہ چاہتے ہیں۔اور جو ولی یا مامور ہونے کا مدعی ایسا دعویٰ کرے وہ بھی کذاب ہے۔حضرت یعقوبؑ چالیس برس تک دعا کرتے ہوں گے؟ جو لوگ آسمانی علوم سے ناواقف ہیں وہ ان اسرار کو نہیں سمجھ سکتے۔ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور وہ اندھا ہو گیا۔اس نے کہا کہ اسلام میرے لیے مبارک نہیں،اس لیے مرتد ہو گیا۔ایسے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ امام حسین رضیاﷲ عنہ فتوحات کے لیے دعا کرتے تھے۔ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔آپؐ نے فرمایا کہ تیرے لیے شہادت مقدر ہے اگر تو صبر نہ کرے گا تو اخیار ابرار کے دفتر سے تیرا نام کٹ جائے گا۔
نماز بھی ظہر ہی سے شروع ہوتی ہے جو زوال کا وقت ہے۔یہانتک کہ غروب تک بالکل تاریکی میں جا پڑتا ہے اور رات میں دعائیں کرتا ہے۔یہانتک کہ صبح میں سے جا حصہ لیتا ہے۔نماز کی تقسیم بھی بتاتی ہے کہ خدا نے اس تقسیم میں ایک صبح اور باقی چار ایسی رکھی ہیں جو تاریکی سے حصہ رکھتی ہیں؛ورنہ ممکن تھا کہ اقبال تک ختم ہو جاتیں۔
ایسا ہی سورۃ فاتحہ میں ایا ک تعبد و ایاک نستعین ایسے لفظ رکھے ہیں ج اس وقت منشاء کو ظاہر کرتے ہین۔ ایا ک نعبد کسے صاف پایا جاتا ہے کہ کچھ نہیں چاہتے ۔تیری عبادت کرتے ہیں اور ایاک نستعین سے دعا کرتے ہیں۔گویا ایاک نعبود اور ایاک نستعین میں ادعونی استجب لکم اور لنبلونکم کو ملا ہے۔نعبد تو یہی ہے کہ بھلائی اور برائی کا خیال نہ رہے۔سلب امید و امانی ہو۔اور ایاک نستعین میں دعا کی تعلیم ہے۔
بوقتِ ظہر
خواجہ غلام فرید صاحب کا ذکر خیر خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے کا ذکر ہوا: فرمایا
اس نے اپنے خط میں بڑی صفائی سے لکھ دیا تھا کہ میں آپ کے دعویٰ کا مصدق ہوں۔اور میں نے کبھی ساری عمر بدظنی نہیں کی۔یہ ایسا کام تھا جو دوسرے گدی نشینوں سے نہیں ہوا۔اور کسی نے خط کا جواب تک نہیں دیا اور کسی کو ایسی توفیق نہیں ملی۔میرے خیال میں وہ نیکی جو اس کی طبیعت میں سخاوت تھی اسی کا یہ ثمرہ تھا کہ اس تصدیق کی توفیق ملی۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک سخص مسلمان ہوا۔وہ اسلام لانے سے صہلے بڑا سخی تھا۔اس نے عرض کی کہ یا رسول ؐ اﷲ میں نے اسلام سے پہلے جو سخاوت کی ہے،اس کا بھی کوئی اجر ملے گا۔فرمایا وہی روپیہ تو تجھے اسلام میں کھینچ لایا ہے۔
بوقت عصر
حافظ محمد یوسف ضلعدار کے اشتہار کا ذکر
حافظ محمد یوسف ضلعدار کی باسی کڑھی کو پھر اُبال آیا۔تحفہ گولڑویہ کی اشاعت پر اس نے اشتہار دیا ہے۔ کہ
لو تقول علینا (الحاقہ : ۴۵)
پر جو اس سے مطالبہ کیا گیا۔کہ کوئی ایسا مفتری پیش کرو جس نے خدا پر تقول کیا ہو اور اپنے ان مفتریات کو شائع کیا ہو اور پھر اس نے ۲۳ برس کی مہلت پائی ہو۔تو پانچ سو روپیہ انعام دیا جاوے گا۔اس طرح پر قطع الوتین ایک لغو سا اشتہار کسی امر تسری عطارنے دیا تھا۔حافظ صاحب نے اپنے اشتہار میں اسی کا حوالہ دیکر اس بوجھ کوگردن سے اتارا۔اور ندوہؔ کے جلسہ میں حضرت کو بلایا ہے۔حضرت حجۃاﷲ نے تجویز فرمایا کہ اس کے متعلق ایک مختصر اشتہار ندوہؔ کو مخاطب کر کے لکھا جاوے۔چونکہ وہ اشتہار الگ طبع ہونا ہے جو کسی وقت الحکم میں شائع ہو جاوے گا۔انشاء اﷲ العزیز اس لیے ضرورت نہیں کہ اس مضمون کا اعادہ یہاں اپنے لفظوں میں کیا جاوے۔
دربارِ شام
ہمارے لیے خدا تعالیٰ کی عدالت کافی ہے
آج شیخ عبد الرشید صاحب زمیندار تاجر میرٹھ جو آج ہی آئے تھے۔حضرت اقدسؑ سے نماز سے فارغ ہوتے ہی ملے۔حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ان کو حضرت سے انٹروڈیوس کرایا۔ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ کے متعلق ذکر آنے پر شیخ عبدالرشید صاحب نے عرض کی کہ میں نے تو ارادہ کیا تھا کہ بذریعہ عدالت اسکے سخت توہین آمیز پر نوٹس لوں۔حضرت حجۃ اﷲ نے فرمایا :
’’ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے۔یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں‘‘۔
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے اپنی پنجابی نظم سنائی جو بہت لطیف اور معنی خیز ہے خصوصاً عورتوں کے لیے۔ہم نے ارادہ کیا ہے کہ عورتوں کے افادہ کے لیے اُس کو الگ چھاپ دیں۔
بعد نماز عشاء آج کا دربار ختم ہوا۔
۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
ندوہ کے لیے ایک اشتہار
آج جمعہ کا دن ہے۔حضرت اقدس کا معمول ہے کہ جمعہ کو سیر کو تشریف نہیں لے جاتے۔بلکہ نماز جمعہ کی تیاری کے لیے مسنون طریق پر غسل،حجامت،تبدیلی لباس،حناوغیرہ امرو میں مصروف رہتے ہیں۔اس لیے سیر کو تشریف نہیں لی گئے۔جمعہ س یپیشتر ندوہ کے لیے ایک اشتہار لکھا جو کل ۲ ؍اکتوبر کو عصر کے وقت تجویز کیا تھا؛اگر چہ یہ اشتہار صرف ایک صفحہ کا تجویز کیا تھا،مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور کلام میں وہ قوت اور روانگی دی ہے کہ جو اعجازی رنگ سے رنگین ہے اس لیے بجائے ایک صفحہ کے کئی صفحے ہو گئے۔
بین المغرب والعشاء
رسالہ اسلام النصاریٰ
شیخ عبد الحق صاحب نو مسلم نے اپنے ایک جدید رسالہ کا کچھ حصہ سنا یا۔اس غرض سے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اس رسالہ کا کوئی نام تجویر کر دیں ۔یہ رسالہ شیخ صاحب نے ایک عیسائی کے ٹریکٹ سچا اسلام نام کے جواب میں لکھا ہے۔جس میں اس نے عیسائیت کو سچا اسلام قرار دیا ہے۔حضرت اقدس نام تجویز کرنا چاہتے تھے۔کہ چند آدمیوں نے بیعت کی درخواست کی۔آپؑ نے فرمایا کہ :
بیعت کے بعد اس کا نام تجویز کرتا ہوں۔
چنانچہ بیعت کے لیے وہ آدمی پیش ہوئے اور آپؑ نے اُن سے بیعت توبہ لی۔اور پھر اس رسالہ کا نام اسلام نصاریٰ یا اسلام النصاریٰ تجویز فرمایا اور یہ تقریر فرمائی :
اس رسالہ کا نام اسلام النصاریٰ رکھو۔اور اصل رسالہ سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ لکھو کہ سچا اسلام تو یہ ہے کہ قولاً اور فعلاً خدا تعالیٰ کو اپنی ساری طاقتیں سپرد کر دی جاویں اور اس کے احکام کے آگے گردن رکھی جاوے۔کوئی اس کا شریک نہ ٹھہرایا جاوے اور ہر قسم کی بدراہی سے دور رہیں۔مگر یہ لوگ تو اس خدا سے دور ہیں۔جو اسلام نے بتایا اور کل نبیوں نے جس کی تعلیم دی۔یہودی تو ابھی مر نہیں گئے۔اُن سے پوچھو کہ وہ کس خدا کو مانتے ہیں۔وہ صاف کہتے ہیں کہ توریت نے اس خدا کو بیان کیا ہے جو قرآن نے بتایا ہے۔وہ انجیل کے خدا کو کب مانتے ہیں۔جو مریم کا بیٹا ہے جس کو عیسائیوں نے خدا بنایا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اس مقدمہ میں یہ بیان کیا جاوے کہ حقیقی اسلام کیا چیز ہے؟ عقل اور روشنئی قلب کس کو تسلیم کرتی ہے۔کیا عیسائیت یا اسلام کو؟
پھر اس میں عیسائی مذہب کی خرابیاں دکھائو کہ انجیل نے کیا تعلیم دی ہے۔مثلاً طلاق ہی کا مسئلہ دیکھو کہ انجیل میں لکھا ہے کہ جو طلاق دیتا ہے وہ زنا کرتا اور زنا کراتا ہے،لیکن اب واقعات اور ضرورتوں نے اُن کو مجبور کیا ہے کہ اس مسئلہ کی اہمیت کو تسلیم کریں؛چنانچہ امریکہ میں قانون بنایا گیا۔ایسا ہی شراب کا مسئلہ ہے۔جس کے بغیر عشاء ربانی کا مل نہیں ہوتی،مگر اس کی خرابیاں دیکھو کیسی ہیں۔اور ولایت کا یہ حال ہے کہ وہاں سادہ پانی پینے والے پر ہنسی ہوتی ہے اور پینے کے قابل صرف شراب سمجھی جاتی ہے۔اور پانی کو تو کپڑے ہی دھونے کے قابل قرار دیا گیا ہے۔اس طرح پر اس کی تعلیم پر ایک مختصر سی نظر کرو۔اُن کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔مگر افسوس یہ ہے کہ وہ کھانے کے دانت بھی خراب ہیں۔جب دکھانے کے دانتوں کا یہ حال ہے تو کھانے کے تو اور بھی خراب ہوں گے۔کوئی چیز بھی عمدہ نہیں۔خدا بنایا تو ایسا اور اعتقاد تجویز کئے تو ایسے۔تعلیم دی تو ایسی کہ اگر ایک ہفتہ اس تعلیم پر عمل کرنے کے لیے عدالتیں بند کر دی جائیں تو پتہ لگ جاوے۔اس شخص نے سچا اسلام نام رکھ کر دراصل اسلام کو گالی دی ہے۔کیونکہ اس نے اسلام کو چھوٹا ڈرار دیا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان کی نصرانیت کی قلعی کھولی جاوے۔اباحتی زندگی کو اسلام ٹھہراتے ہیں۔جو کچھ گند اس کتاب کے اندر ہے۔وہ اس نام ہی سے ظاہر ہے۔پس نصاریٰ کے اسلام کی حقیقت ضرور کھولنی چاہیے۔اسلام کا لفظ صرف قرآن نے ہی اختیار کیا ہے اور کسی نے یہ نام اختیار نہیں کیا۔
مسیح کی آمدِ ثانی
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ لاہور سے کسی مارکوئیس نام عیسائی نے بذریعہ خط دریافت کیا ہے۔کہ اس کے کیا معنے ہیں جو متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ جھوٹے مسیح او رنبی آئیں گے؟ حضرت نے فرمایا کہ :
اس کا جواب لکھ دیا جاوے اور اس سے پوچھا جاوے کہ یہ جو انجیل میں لکھا ہے۔کہ چور کی طرح آئوں گا۔اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا مسیح کا نام منافق بھی ہے۔کہیں بادلوں میں آنا لکھا ہے اور کہیں چور کی طرح۔ہم تو حَکم ہو کر آئے ہیں۔پہلے ان ساٹھ ستر اناجیل کا تو فیصلہ ہو لے کہ کون اُن میں سے سچی ہے اور کون جھوٹی۔ہم تو ایسے وقت آئے ہیں کہ ا س آیت کو پیش کرتے ہوئے بھی ان کو شرم آنی چاہیے۔کیونکہ ان کے حساب کے موافق تو مسیح کی آمد پر بیس برس گذر گئے۔اب تو قانونی معیاد بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہی۔اس لیے بعض اب مایوس ہو کر کلیسیاہی کو مسیح کی آمد ٹھہراتے ہیں اور اسی قسم کی بیجا اور رکیک تاویلیں کرتے ہیں۔پس اب جبکہ ان کے حساب اور اعتقاد کے موافق اب سچے مسیح کو بھی قدم رکھنے کو جگہ نہیں تو پھر فرشنوں کے ساتھ آنا اور وہ جلالی آمد تو غلط ہی ٹھہری۔چور کی طرح آنا ہی صحیح ثابت ہوا۔پہلے اپنے گھر میں اناجیل کا فیصلہ کر لیں۔جھوٹے مسیح جو لکھا ہے تو اب تو سچے کا وقت بھی گذر گیا۔تم خود بتائو کہ یہ زمانہ سچے مسیح کا ہے یا جھوٹے مسیح کا۔تمہارے بزرگوں نے مان لیا ہے۔اسی لئے جو عقلمند ہیں وہ اس مضمون کا ذکر بھی نہیں کرتے۔کیسی عجیب بات ہے کہ اس صدی سے آگے نہ کوئی مسلمان گیا ہے،نہ عیسائی۔نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ تمام کشوف اور الہام جو مسیح کے متعلق ہیں وہ چودھویں صدی س ےآگے نہیں جعتے۔لدھیانہ میں بھی ایک مرتبہ ایک عیسائی نے یہ سوال کیا تھا،مگر وہ ایسا لاجواب ہوا کہ آخر اس نے اعتراف کر لیا اور بعض عیسائی اس سے ناراض بھی ہو گئے۔
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے اپنی پنجابی نظم و فاتِ مسیح پر پڑھی۔بعد نماز عشاء دربار ختم ہوا۔
۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
سیر
آج کی سیر میں طاعون کے متعلق ادھر اُدھر کی مختلف باتیں ہوتی رہیں۔
ظہر
تحفۃالندّوَہ کے متعلق جو جدید اشتہار حضرت حجۃاﷲ نے لکھا ہے۔وہ ایک جزو کے قریب ہو گیا۔آپؑ نے فرمایا کہ :
اب اس کو رسالہ کی صورت میں شائع کیا جائے۔کتاب میں ایک برکت ہوتی ہے۔لوگ اشتہار کو اشتہار سمجھ کر پرواہ نہیں کرتے۔اس پرٹائیٹل پیج لگایا جاوے۔برہنہ مرد کب اچھا معلوم ہوتا ہے۔ٹائیٹل پیج اس کا لباس ہے۔اور اس کا نام تحفۃالندّوہ رکھ دو۔
آج تحفہ غزنویہ بیھ شائع ہو گیا۔چونکہ ندوہ کا اجلاس قریب ہے اور کشتی نوح کی اشاعت میں بھی جلدی ہے۔کثرتِ کام کی وجہ سے جو چار پریسوں پر ہو رہا ہے۔سب پتھر رُکے پڑے تھے۔عرض کیا گیا کہ کشتی نوح کی اشاعت میں دیر نہ ہو جائے۔فرمایا :۔
ٹیکہ کے متعلق جو ہمارا اصل منشاء تھا وہ الحکم کے ذریعہ شائع ہو گیا اور گورنمنٹ تک بھی پہنچ گیا اگر یہ رسالہ دو روز توقف سے بھی شائع ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (الحکم ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁)
بینالمغرب و العشاء
طاعون کا ذکر
بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔اور طاعون کا ذکر چلنے پر فرمایا :
خواہ کچھ ہی ہو اگر کوئی چاہے کہ یہ بلا ارضی تدابیر سے ٹل جاوے تو یہ محال ہے۔خدا کا ایک قانون ہے کہ جس قدر کوئی قابل قدر ہے اُسی قدر اُسے بچایا جاتا ہے۔دیکھو شہروں میں جو بکرے ذبح ہوتے ہیں۔وہ ان کیروں مکوڑوں سے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔جو پائوں کے نیچے آکر ہر روز مارے جاتے ہیں۔اور بکروں کی نسبت گائے زیادہ مفید ہے وہ اس کی نسبت کم ذبح ہوتی ہیں۔اور اُونٹ اس سے زیادہ مفید ہے وہ اس کی نسبت کم ذبح ہوتا ہے۔اس سے اصف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر قابل قدر جانور ہے اسی قدر کم ذبح ہوتا ہے۔انسان ان سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔اس پر وہ چھری نہیں چلتی جو اُن جانوروں پر چلائی جاتی ہے۔پھر ان انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔اسے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں۔اور نوعِ انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔اور خدا کے سچے فرماں بردار ہیں؛چنانچہ قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے
قل ما یعبؤ بکم ربی لو لا دعا ؤ کم (الفرقان : ۷۸)
اس کے مفہوم مخالف سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسروں کی پرواہ کرتا ہے اور وہی لوگ ہوتے ہیں جو سعادت مند ہوتے ہیں۔وہ تمام کسریں ان کے اندر سے نکل جاتی ہیں جو خدا سے دور ڈال دیتی ہیں اور جب انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے صلح کر لیتا ہے،تو خدا اس کے عذاب کو بھی ٹلا دیتا ہے۔خدا کو کوئی ضد تو نہیں؛چنانچہ اس کے متعلق بھی صاف طور پر فرمایا ہے
ما یفعل اﷲ بعذا بکم ان شکر تم (النسأ : ۱۴۸)
یعنی خدا نے تم کو عذاب د یکر کیا کرنا ہے۔اگر تم دیندار ہو اجئو۔طاعون بڑا خطرناک عذاب ہے۔بیوی بچے ہی نہیں تباہ ہوتے بلکہ یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ جنازہ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہو سکتا مرنے والا تو مر جاتے ہے دوسرے جو زندہ رہتے ہیں۔وہ بیھ مفقود العقل اور زندہ درگور ہوتے ہیں۔ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ گھر والے مردہ کو باہر پھینک آئے ہیں اور کنوں نے اس کو کھایا۔اور وہ بھی طاعون سے ہلاک ہو گئے۔اس خوفناک مرض میں تعہدّ خدمت کا بھی نہیں ہو سکتا۔تیمارداروں کو نفرت اور خوف ہوتا ہے۔خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے
قل ما یعبؤ ا بکم ربی لولا دعا ؤ کم (الفرقان : ۷۸)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا منشاء یہ ہے کہ جیسے تم نے میرے شعار کو چھوڑ دیا۔میں تمہاری بھی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔تجہیزوتکفین بھی ایک شعار ہے۔ارو اب تو یہ رسم ہو گئے ہے اور اس سے بڑھ کر نہیں۔مُلّا آتا ہے تو اس کی غرض چادر لینا ہوتا ہے۔جنازہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔تو اس کا ایک لفظ آگے نہیں جاتا۔بلکہ وہ تو یہی سوچتا رہتا ہے۔کہ کچھ نمک۔دانے اور پیسے ملیں گے۔اور پھر دیکھتا ہے کہ مردہ کے کپڑوں سے کوئی حصہ ملے گا۔غرض یہ تو مال تک بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔اپنے حقوق ہی جتاتے رہتے ہیں۔
جماعت ایک کنبہ ہے
حضرت اقدسؑ یہانتک بیان کر چکے تھے کہ ایک تارآگیا۔یہ تار مولوی غلام علی صاحب رہتا سی کی طرف سے تھا کہ میں بیمار ہو گیا ہوں۔میرے لیے ڈولی نہ بھیجو۔کچھ عرصہ تک حضرت مولوی صاحب کی بیماری کا ذکر کرتے رہے اور حالات پوچھتے رہے۔پھر فرمایا کہ :
ہماری جماعت جو اب ایک لاکھ تک پہنچی ہے۔سب آپس میں بھائی ہیں۔اس لیے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو۔جو گزر گئے وہ بیھ بڑے ہی مخلص تھے۔جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں،سید خصیلت علی شاہ۔ایوب بیگ۔منشی جلال الدین خدا ان سب پر رحم کرے۔
طاعون بیدار کرنے کا ذریعہ ہے
طاعون بھی ایک طرح اچھی ہی ہے،کیونکہ یہ غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ ہے۔اگر یہ سر پر نہ ہو،تو اس زمانہ میں شاید خوف ہی نہ رہے۔بڑے بڑے موذی طبع مفسد لوگوں کو بھی دیکھا ہے۔جہاں ہیضہ زور سے پڑتا ہے۔تو ان کے بھی خون خسک ہو گئے ہیں اور اپنے اپنے طور پر ڈر گئے ہیں۔ بعض دانشمند کہت یہیں کہ نفس چونکہ باز نہیں آتا ۔اس لیے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی محرک ہی ہو۔اس دنیا کا انجام کا رخاتمہ ہونا ہے اور دوسرا عالم بھی یقینی ہے اور وہ زندگی کا عالم ہے۔خواہ پہلی بار ہی اگر وہاں جاکر آنکھ کھلی اور بُرے آثار ہوں تو پھر بڑے مشکلات ہیں۔یہ بھی خدا کا بڑا رحم ہے،جو اس مردود ملک پر طاعون کا تازیانہ بھیج دیا۔جس سے غفلت دور ہوتی ہے۔خدا کی سنت ہے کہ جب انسان بہت ہی سخت دل ہو جاوے تو ایسے عذاب بھیج دیتا ہے۔انسان معمولی موت سے نہیں ڈرتا۔مگر اب جیسے ایک بڈھا اپنے آپ آپ کو قریب بہ قبر سمجھتا ہے۔ویسے ہی بیس برس کا نوجوان بھی۔غفلت اور شہوات کا نسہ ایسی چیز ہے کہ جب معمولی موت سے انسان نے سبق نہ لیا طاعون بھیج دی جو عذاب کی شکل میں ہلاک کر رہی ہے۔
الاستفتاء من ندوۃ العلماء
اس کے بعد مولانا مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنے عربی قصیدہ سنایا جو مندرجہ حاشیہ عنوان سے اُنہوں نے دو تین گھنٹہ میں لکھا ہے۔جب وہ قصیدہ پڑچکے تو مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے پنجابی نظم سنائی اور بعد نماز عشاء دربار ختم ہوا۔
۵؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
صبح کی سیر
اشاعتِ کُتب
نزول المسیح اور کشتی نوح کے متعلق تذکرہ پر فرمایا۔کہ کشتی نوح الگ بھی تقسیم ہو اور نزول المسیح کے ہمراہ بھی۔کیونکہ تقسیم کے وقت ہر ایک اپنی اپنی الگ سمت اختیار کرتا ہے۔دنیا میں یہ دون٭ن قوتیں جاذبہ اور مجذوبہ ہیں۔اور ان کا اثر بھی برابر جاری ہے۔اس لیے اس قسم کی تقسیم سے یہ فائدہ ہوگا۔کہ جو روحیں صرف تعلیم کی تلاش میں ہیں۔ان کی سیری اس تعلیم کو پڑھ کر ہو گی۔اور بعض روحیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ثبوت کی تلاش میں ہیں۔اُن کو نزول المسیح میں پورا ثبوت ملے گا۔اور اس سے فائدہ پہنچے گا۔بعض صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ امام کی کیا ضرورت ہے۔ان کے لیے بھی یہ مفید ہوگی۔پس یہ دو قسم کی اشاعت اچھی ہے۔اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے فائدہ پہنچے گا۔
المومنؔ اور الناسؔ
ثبوت اس قسم کے دیئے ہیں کہ اﷲ اکبر ! یہانتک کہ مشہودات اور محسوسات سے ایمان کی تقویت ہوتی ہے،لیکن جو ایمانی فراست سے حصہ رکھتے ہین۔وہ پہلے ہی سمجھ لیتے ہیں۔جو لوگ حق قبول کرت یہٰن وہ اسی وقت فراست والے کہلائے ہیں۔جب وہ اول ہی اول قبول کرتے ہیں۔خدا جو مومنوں کی تعریف کرتا ہے اور
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
کہتا ہے،اس لیے کہ اُنہوں نے اپنی فراست سے پہلے رسول اﷲ کو مان لیا۔لیکن جب کثرت سے لوگ داخل ہونے لگے۔اور انکشاف ہوگیا۔اس وقت داخل ہونے والے کا نام الناس رکھا۔اس حالت میں تو گویا منع کرتا ہے یہ کہہ کر
قالت الاعراب امنا قل لم تؤ منو ا ولکن قولو ااسلمنا (الحجرات : ۱۵)
یعنی یہ مت کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی۔ایمان اس وقت ہوتا ہے،جب ابتلاء کے موقع آویں۔جن پر ایمان لانے کے بعد ابتلا کے موقعے نہیں آئے۔وہ اسلمنا میں داخل ہیں۔اُنہوں نے تکلیف کا نشانہ ہو کر نہیں دیکھا،بلکہ وہ اقبال اور نصرت کے زمانہ میں داخل ہوت ۔یہی وجہ ہے کہ فخر کا نام اور خطاب ان کو نہ ملا۔بلکہ الناس ان کا انم رکھا،کیونکہ وہ ایسے وقت میں داخل ہوئے جب کام چل پڑا۔اور رسول اﷲ نے اپنی صداقت کی روشنی دکھلائی۔اس وکت دوسرے مذاہب حقیر نظر آئے،تو سب داخل ہو گئے۔
انبیاء کا استغفار
نبی بہت بڑی ذمہ داری لے کر آتا ہے۔اس لیے جب وہ اپنے کام کو کر چکتا ہے اور تبلیغ کر کے رخصت ہونے کو ہوتا ہے۔تو وہ وقت اس کا گویا خدا تعالیٰ کو چارج دینے کا ہوتا ہے۔ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرتا ہے اس پر استغفار کا لفظ بولتا ہے۔اسی طریق کے موافق رسول اﷲ کو بھی ارشادِ الٰہی ہوتا ہے
فسبح بحمد ربک واستغــفـرہ انہ کان توابا (النصر : ۴)
خدا تعالیٰ ہر ایک نقص سے پاک ہے اور جو کچھ سہو بشریت کی رو سے اس ذمہ داری کے کام میں ہوا ہے… تو اس سے استغفار چاہو۔جس کے سپرد ہزاروں کام ہوں۔اس کے لیے ضروری ہے۔اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو مقاصد عظیم الشان لے کر آئے تھے۔غرض یہ ایک چارج تھا جو آپ نے اﷲ تعالیٰ کو دیا۔اور جس میں آپ کی پوری کامیابی کی طرف پہلے اشارہ کر دیا۔اور یہ سورہ گویا آنحضرتؐ کی وفات کا ایک پروانہ تھا۔یہ بھی یاد رکھو کہ انبیاء کی زندگی اسی وقت تک ہوتی ہے جبتک مصائب کا زمانہ رہے۔اس کے بعد جب فتح و نصرت کا وقت آتا ہے۔تو وہ گویا اُن کی وفات کا ایک پروانہ ہوتا ہے۔کیونکہ وہ اس کام کو کر چکے ہوتے ہیں جس کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔اور اصل تو یہ ہے۔ کہ کام تو اﷲ کے فضل سے ہوتے ہیں۔مفت میں ثواب لینا ہوتا ہے۔جو شخص اس مین بھی خود غرضی۔سستی۔ریا کی آمیزش کرے۔وہ اصل ثواب سے محروم رہ جاتا ہے۔
انی احافظ کل من فی الدار کی تائید میں
ایک عرصہ ہوا میں نے خواب دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنارہے ہیں۔جو فصیلِ شہر ہے۔میں نے اس کو جودیکھا تو خوف آیا،کیونکہ وہ قد آدم بنی ہوئی تھی۔خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے۔مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ڈادیان بہت اونچی کی گئی ہے،اس لیے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے اور یہ دیوار گویا ریختہ کی بنی ہوئے ہے۔فرش کی زمین بھی پختہ کی گئے ہے۔اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے۔اور ارادہ ہے کہ ڈادیان کے ارد گرد بھی بنائی جاوے۔شاید اﷲ رحم کر کے ان بلائوں میں تخفیف کر دے۔؎ٰ
قادیان میں چند موتیں
آج معمولی موسی عوارض بخار وغیرہ سے یہاں کے چوڑھوں اور دوسری اقوام میں دو موتیں ہو گئے تھیں۔اس کا ذکر آیا۔فرمایا :
ایسی موتیں محرقہ تپ سے بھی ہوتی ہیں۔طاعون کے حملے ہی الگ ہوتے ہیں۔کوئی جنازہ پڑھنے اور اُٹھانے والا بھی نہیں ملتا۔بعض وقت ایک گھر میں جب یہ بلا داخل ہوتی ہے،تو اس گھر کے گھر صاف کر دیتی ہے۔اور عورتوں بچوں تک کو تو ہوتی ہی ہے۔جانوروں کو بھی ہو جاتی ہے۔
بلائوں اور خوف کی افادیت
طاعون بجائے خود انسان کے ایمان کے پرکھے جانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔اب طاعون تو مان نا مان میں تیرا مہمان ہو کر آئی ہے۔اگر طاعون نہ ہوتی تو سچے مسلمان کا پتہ لگنا ہی مشکل ہوتا۔جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔وہ اس وقت طاعون کو دیکھ کر جلد تبدیلی کرتے ہیں۔یہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی موتیں جو ہر روز ہوتی رہتی ہیں۔یہ گو انسان کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔اگر وہ ان سے عبرت حاصل کرے۔لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ وہ ناکافی ہیں اور وہ دنیا کے تعلقات پر موت وارد کرنے کے لیے اس قدر مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوتی ہیں جس قدر کہ اب طاعون۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ معمولی موتیں اب معمولی موتیں ہونے کی وجہ سے اس قدر خوفناک نہیں رہی ہیں۔لیکن اب طاعون کے حملوں سے ایک عالمگیر خوف ثھاگیا ہے اور یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کو اپنا ماویٰ وملجا بنایا جاوے۔غور کرکے دیکھو۔کہ کس قدر وحشت ہوسکتی ہے۔جب ایک گھر میں دو چار مردے پڑے ہوں اور کوئی اٹھانے اوالا بھی موجود نہ ہو۔غرض طاعون اب انسان کا جو ہر کھول کر دکھادیتی ہے۔مصیبت اور مشکلات بھی انسان کے ایمان کے پرکھنے کا ایک ذریعہ ہیں۔چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔
احسب اناس ان یتر کو اان یقو لو اامنا و ھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں جماعت کو بہت زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ یہ موت سب سے بڑھ کر منذرات میں سے ہے۔جو تبدیلی اس نظارہ موت سے ہو سکتی ہے۔وہ دوسری مُنذرات سے نہیں ہوتی۔
خدا تعالیٰ جو تبدیلی چاہتا ہے وہ اسی طرح ہوتی ہے۔یہ وقت ہے کہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعئیں مانگیں کہ ایک پاک تبدیلی انہیں عطا ہو۔جن لوگوں کی پاک تبدیلی خدا تعالیٰ دعائوں سے چاہتا ہے۔ان کی تبدیلی اس طرح پر ہوتی ہے کہ ا۲ن پر بلائیں اور خوف آتے ہیں۔جیسے فرمایا :
ولنبلو نکم بشییٔ من الخوف والجوع۔الآیۃ (البقرہ : ۱۵۶)
اگر انسان کے افعال سے گناہ دور ہو جاوے تو شیطان چاہتا ہے کہ آنکھ،کان،ناک تک ہی رہے اور جب وہاں بھی اُسے قابو نہیں ملتا۔تو پھر وہ یہان تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ رہے۔گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچاتا ہے،مگر جس دل میں خدا کا خوف ہے،وہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی۔شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی بڑائی میں ناکام و نامراد ہو کر اسے اپنے بوریابستر باندھنا پڑتا ہے۔بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں کہ وہ نفسانی قیدوں اور ناجائز خیالات سے الگ ہونا نہیں چاہتے اور کوئی بات ان پر مؤثر نہیں ہوتی۔آخر خدا تعالیٰ اُن پر یوں رحم کرتا ہے۔کہ بعض ابتلا آجاتے ہیں،تو وہ آہستہ آہستہ اُن سے باز آجاتے ہیں۔
قوموں کا باہمی جدال
اس وقت عام طور پر قوموں کا مناظرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش آگیا ہے مگر اس میں فتح و نصرت اُسی کو ملے گی جو خدا کے نزدیک تقویٰ والی ہو اور زبان کو سنبھال کر رکھے۔بندوں پر ظلم نہ کرے۔ان کے حقوق کی رعایت کرے۔سفر میں ۔حضر میں بنی نوع انسان کی ہمدردی اور رعایت کرے جو خدا تعالیٰ اس کی رعایت کرتا ہے۔جب وہ تقویٰ دیکھتا ہے تووہ خود اس کا ولی اور مددگار ہوتا ہے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے۔خدا تعالٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے۔وہ خود عدل ہے عدل کو دوست رکھتا ہے۔اس لیے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔جو تقویٰ کی تعایت کرتا ہے۔اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے۔اور اسی لیے اُس نے فرمایا :
انا اکر مکم عند اﷲ اتقٰکم (الحجرات : ۱۴)
پس ان مانظرہ میں متقی ہی کامیاب ہوگا۔
طائف عرب کی تجارنی اشیاء کا ذکر ہوتا رہا۔اور طائف کے ذکر پر فرمایا کہ:
وہ گویا اس ریگستان میں بہشت کا نمونہ ہے ۔
اسی ذکر میں یہ بھی کہا گیا۔کہ
عرب میں بازاروں میں ہر ایک چیز کبھی ختم نہیں ہوتی۔ہر وقت جس قدر چاہو میسر آسکتی ہے۔
‏Amira 19-3-05
برات کے ساتھ باجا بجانا
میاں اﷲ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں۔اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں۔فرمایا :
فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ہم کو مقصود ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں۔یعنی جب مقمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں۔غرض ان خرابیوں کو روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدّف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانے منع نہیں ہے،بلکہ ہسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں۔دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔مگر یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئے ہیں۔پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ باطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں۔یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچاہے،شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی۔کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
آتشبازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں،کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے۔اور باجابجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے،جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے۔اور نسب محفوظ رہے،کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے۔جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے۔یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے؛البتہ ریاکاری،فسق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے۔
شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔
لا یکلف اﷲ نفسا الا وسعھا (البقرہ : ۲۸۷)
باجا کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح وتقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے لیے ہے،پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدّف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلّت ہے،اس لیے شادی میں اعلان کے لیے جائز ہے۔
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
پھر یہ سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں۔وہ کیسا ہے؟ فرمایا :۔
اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے۔اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں،تو کوئی حرج نہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں۔تو آپؐ نے منع نہیں کیا،بلکہ آپؐ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپؐ نے اس کے لیے ’’رحمت اﷲ‘‘فرمایا۔اور جس کو آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہیر ہو جایا کرتا تھا۔غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں ،تو منع نہیں۔مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
بزہر و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ
یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان خود ان میں فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے،مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہ منع ہے۔اور پھر جو اسراف کرتا ہے،وہ سخت گناہ کرتا ہے۔اگر ریاکاری کرتا ہے،تو گناہ ہے۔غرض کوئی ایسا امر جس میں اسرافؔ،ریاؔ،فسق،ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف ہو وہ منع نہیں،گناہ نہیں۔کیونکہ اصل اشیاء کی حلّت ہے۔
ہر ایک کا کام نہیں کہ دین کے لیے بات کرے،پہلے خود متقی ہونا چاہیے تا کہ
سخن کزدل بُروں آید نشیند لا جرم بَردِل
کا مصداق ہو۔
منطقی بات بدبُو دار ہوتی ہے،کیونکہ اس میں برے دائو پیچ ہی ہوتے ہیں۔اس لیے منطقیانہ طریق کو چھوڑ کر عارفانہ تقریر کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔
۵؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
دربارِ شام
آج بعد عصر حضرت صاحبزادہ بشیرالدین محمود احمد سلمہ اﷲالاحد کی برات رُڑ کی سے واپس آئی تھی۔اس موقعہ پر ایڈیٹر الحکم نے اپنی احمدی جماعت کی طرف سے ایک مبارکباد کا خاص پر چہ شائع کیا جو برات کے دارالامان پہنچتے ہی شائع کیا گیا تھا۔
واقعہ صلیب کے بعد مسیح کی زندگی کے متعلق پطرس کی شہادت
قبل نما زمغرب جب حضرت جری اﷲ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو رُڑ کی سے آئے ہوئے احباب ملے جو برات میں گئے تھے۔حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے (جو حضرت اقدس کے سلسلہ میں ایک درخشندہ گوہر ہیں اور جو عیسائیوں کی کتابوں کو پڑھ کر ان میں سے سلسلہ عالیہ کے مفید مطلب مضامین کے اقتبامیں کرنے کا بے حد شوق اور جوش رکھتے ہیں)پطرس کے متعلق سنایا۔کہ رُڑ کی میں پادریوں س یمل کر میں ین اس سوال کو حل کیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر ۳۰ یا ۴۰ سال کے درمیان تھی۔ناظرین کو اس سوال ’’عمر پطرس کی ضرورت‘‘ کے لیے ہم الحکم کا وہ نوٹ یاد دلاتے ہیں جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ بعض کاغذات ا سقسم کے ہیں۔جن میں پطرس لکھتا ہے کہ میں نے مسیح کی وفات کے تین سال بعد ان کو لکھا ہے۔اور اب میری عمر ۹۰ سال کی ہے۔گویا مسیح نے جب وفات پائی،تو پطرس کی عمر ۸۷ سال کی ہوئی اور واقعہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر تیس اور چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے۔تو اب اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد کم از کم ۴۷ سال تک بموجب اس تحریر کے زندہ رہا۔اور پطرس ان کے ساتھ رہا۔اور یہ ثابت ہو گیا کہ صلیب پر مسیح نہیں مرا،بلکہ طبعی موت سے مرا ہے اور نہ آسمان پر اس جسم کے ساتھ اٹھایا گیا ،کیونکہ راس الحوارمیں پطرس اس کی موت کا اعتراف کرتا ہے اور موت اکا وقت دیتا ہے۔
مفتی صاحب نے یہ عظیم السان خوشخبری حضرت کو سانائی۔پھر نماز مغرب ادا ہوئی۔
بعد نماز مغرب
ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین کے اخلاص اور نورِ فراست کا ذکر
۳:۔ بعد ادائے نماز مغرب حصرج حجۃاﷲ حسب معمول شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔بیٹھتے ہی حصرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے مبارکباد دی اور عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر صاحب کو بہت ہی مخلص پایا ہے۔کوئی بات انہوں نے نہیں کو۔یہی کہا ہے کہ جو حکم دیا ہے وہ کرو۔بھائیوں میں سے بھی کوئی شریک نہیں ہوا۔فرمایا :
خدا تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے اور یہ تقریب پیدا کر دی کہ مخالف بھائیوں سے قطع تعلق ہو جاوے۔
پھر مولوی صاحب نے عرض کی کہ باوجود یکہ کوئی تکلف کی بات نہ تھی،مگر وہ بڑی ہی خاطر و تواضع سے پیش آئے اور اسی میں اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔فرمایا :
اُن میں اہلیّت اور زیر کی بہت ہے۔
اس پر حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ حضور جب الحکم میں میرا ایک خطبہ فلا وربک پر شائع ہوا تو انہوں نے بڑے ہی اخلاص اور صدق سے خط لکھا کہ اس کو پڑھ کر میرا ایمان بڑا قوی اور تازہ ہو گیا ہے۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
میں نے دیکھا ہے کہ اُن میں نورِ فراست ہے۔وہ باپ سے بھیا س معملہ میں گفتگو کیا کرتے تھے۔
حافظ محمد یوسف اور قطع الوتین حافظ محمد یوسف کا ذکر آگیا کہ :
اس نے اشتہار دیا ہے اور اس میں قطع الوتین کا حوالہ دیا ہے۔اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی ہے کہ ایک مفتری کو بھی وہ تسلیم کرتا ہے کہ ۲۳ برس تک زندہ رہتا ہے؛حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت کا یہ عملی زمانہ مقرر کیا ہے۔ایک انسان کو اگر لکھا جاوے کہ تیری شکل جانور جیسی ہے اس کی توہین ہے۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدّت کو کذّاب کی طرح کہنا سخت بے ادبی ہے۔آپ کی پاک زندگی کو مومن کبھی کسی ناپاک انسان کی زندگی سے مشابہت نہیں دے سکتا۔آپ کی آمد اس وقت ہوئے جب دنیا فسق وفجور اور فساد سے بھری ہوئی تھی اور آپ اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپ پورے کامیاب ہو گئے اور سب کام کر لیے۔اس اشتہار کا جواب لکھنا ضروری تھا۔اس لیے میں نے ایک رسالہ مختصر سا بنا دیا ہے اور ضروری ہے کہ اس پر ٹائیٹل پیج بھی لگا دیا جاوے۔بائیبل میں بھی چھوٹے چھوٹے صحیفے موجود ہیں۔اس میں چونکہ ندوہ کو تبلیغ ہے،اس لیے اس کا نام تحفۃ الندوۃ رکھ دیا ہے۔
مبارک بشارت
اب بہتر ہے کہ اس کے پیچھے ایک مبارک بشارت لکھ دی جاوے کہ عیسائیوں کے محقّقین کی تحریروں سے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب کے واقعہ کے بعد بھی زندہ رہے جیسا کہ پطرسؔ کی اس تحریر سے جو ملی ہے معلوم ہوا۔
اس تحقیقات سے ہر ایک محقّق کو خوش ہونا چاہیے،کیونکہ یہ ان کاغذات سے ثابت ہوئی ہے جو مسیح کے خاص حواری پطرسؔ کے لکھے ہوئے ہیں۔
دنیا میں اس وقت ایک عام تحریک ہو رہی ہے اور آئے دن ایک نہ ایک بات ہماری تصدیق اور تائید میں نکلتی آتی ہے۔یہ خدا کا کام ہے ۔اب دیکھ لو کہ یہ کاغذ نکل آئے ہیں جو پطرس کے لکھے ہوئے ہیں۔ہماری جماعت ان کو پڑھ کر خوش ہو گی اور ان کا ایمان بڑھے گا۔
خاتم النبیّن کے معنے
خاتم النبیّن کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی مُہر کے بغیر کسی کی نبوّت تصدیق نہیں ہوسکتی۔جب مُہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سَند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر اور تصدیق جس نبوّت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔
ہماری تعلیم
کشتی نوح میں مَیں نے اپنی تعلیم لکھ دی ہے اور اس سے ہر ایک شخص کو آگاہ ہونا ضروری ہے۔چاہیے کہ ہر ایک شہر کی جماعت جلسے کر کے سب کو یہ سنا دے۔ایک مستعد اور فارغ شخص کو بھیجدی جاوے جو پڑھ کر سنا دے اور اگر یونہی تقسیم کرنے لگو تو خواہ پچاس ہزار ہو کافی نہیں ہو سکتی ہیں۔اس ترکیب سے اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی اور وہ وحدت جو ہم چاہت یہیں جماعت میںپیدا ہونے لگے گی۔
دو گروہ
خدا تعالیٰ نے دو گروہ بنا دیئے ہیں۔جیسے صدر اسلام میں تھے۔ایک ضعفاء اور غرباء کا گروہ ہے اور دوسرے وہ جو نفسانیت رکھتے ہیں۔
دربارِ شام
۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
بعد ادائے نماز مغرب حصرت حجۃالارض حسب معمول شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔
میاں غلام رسول حجّام امرتسر نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا۔کہ مخالف کس طرح پر ان کو تکلیفیں دیتے ہیں۔اور اس ین یہ بھی ذکر کیا کہ وہ غلام محمد لڑکا جس نے یہاں س یجاکر ایک گندہ اشتہار شائع کیا ہے وہ سخت تکلیف میں ہے۔
ایک ہندو فقیر کوٹ کپورہ سے آیا ہوا تھا۔جو آج صبح بھی ملا تھا۔اس وقت پھر اس نے سلام کیا۔حضرت اقدس نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ :
یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کردینا چاہیے۔
چنانچہ ایک سخص کو حکم دیا گیا اور وہ ایک ہندو کے گھر اس کو کھانا کھلانے لے گیا۔
میاں غلام رسول نے پھر اپنی تکلیف کا ذکر کیا اور کہا کہ امرتسر کے مخالفوں نے باہم اتفاق کر کے یہ سازش کی ہے کہ جن گھروں میں کھانا پکانے جایا کرتا تھا۔اُن کو بند کر دیا ہے کہ وہ مجھ سے کھانا نہ پکوائیں۔
حضرت اقدس نے فرمایا :
صبر کرنا چاہیے۔خبر ہے کہ تمہارے لیے کتنے گھر خدا نے رکھے ہیں؟اون اُن سے دوچند سہ چند تم کو مل جائیں گے۔طاعون شروع ہو گئے ہے اور وہ ابھی ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔اس لیے تم ان باتوں کا ذکر ہی نہ کرو کہ گھر چھوٹ گئے ورنہ ثواب جاتا رہے گا۔
طاعون کی اقسام طاعون کے ذکر پر فرمایا :
تین قسم کی طاعون ہے۔اول صرف تپ چڑھتا ہے اور گلٹی بکلتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ سخت تپ ہی ہوتا ہے۔اور بعض ایسی ہوتی ہے کہ نہ تپ ہے نہ کچھ اور بس خاتمہ ہی ہو جاتا ہے۔
مچھلی کی ہڈی گلے میں پھنس جانے کا علاج
جناب نواب صاحب کے لرکے کے گلے میںایک ہڈی کا ٹکڑا پھنس گیا تھا۔مولوی صاحب اس کے علاج کے لیے گئے ہوئے تھے۔جب نواب صاحب کے ساتھ واپس آئے۔تو اُنہوں نے ذکر کیا۔کہ ہڈی پھنس گئے تھی اور شکر ہے کہ نکل گئی ۔فرمایا :
مچھلی کی ہڈی کا علاج تو سہل ہے کہ دہی سرکہ ملا کر پلایا جاوے،تو فوراً نکل جاتی ہے۔
اور فرمایا کہ :
خدا کا فضل قدم قدم پر انسان کو مطلوب ہے اگر اس کا فضل نہ ہو تو یہ جی نہیں سکتا۔
مسیح موعود کا ذکر قرآن کریم میں
مولوی عبد اﷲ صاحب کشمیری نے دھرم کوٹ میں جو ان کا مباحثہ ہوا تھا اس کا مختصر ساتذکرہ کیا اور مہر نبی بخش صاحب بٹالوی کا بھی ذکر کیا کہ وہ وہاں آئے تھے او انہوں نے ایک مختصر سی تقریر کی تھی۔مولوی عبداﷲ صاحب نے کہا کہ وہ بار بار یہ اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب کا نام قرآن س ینکال کر دکھائو اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
وہ احمق نہیں جانتے کہ اگر خدا تعالیٰ ایسے صاف طور پر کہتا تو اختلاف کیوں ہوتا؟ یہودی اسی طرح تو ہلاک ہو گئے۔بات یہ ہے کہ اگر خدا اس طرح پر پردہ برانداز کلام کرے تو ایمان ایمان ہی نہ رہے۔فراست سے دیکھنا چاہیے کہ حق کیا ہے؟ہماری تائید میں تو اس قدر دلائل ہیں کہ فراست والا سیر ہو کر کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔
یاد رکھو کہ گفتگو کرتے وقت ضروری ہے کہ پہلے مذہب متعین کر لو۔
اس پر حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب حکیم الامت نے عرض کیا کہ گور داسپور میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کچھ سوال کئے۔میں نے کہا تم نے کسی راستباز کو دنیا میں مانا ہے یا نہیں۔جن دلائل سے اس کو مانا ہے اسی دلیل سے حضرت اقدس سچے ہیں۔پھر خاموش ہو گیا۔
فرمایا :
یہ لوگ جو بار بار پوچھتے ہیں کہ قرآن میں کہاں نام ہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد رکھا ہے۔بورکت یا احمد وگیرہ بہت سے الہام ہیں۔میرا نام محمد رکھا
محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علے الکفار رحماء بینھم۔
اور احمد نام پر ہی ہم بیعت لیتے ہیں۔کیا یہ نام قرآن شریف میں نہیں ہیں؟ پھر جس قدر میرے نام اٰدم۔عیسیٰ۔داؤد۔سلیمٰن۔وغیرہ رکھے ہیں۔وہ سب قرآن میں موجود ہیں۔ماسوا س کے یہ سلسلہ اپنے ساتھ ایک علمی ثبوت رکھتا ہے۔اگر ان علمی امور کو یکجائی طور پر دیکھا جاوے،تو آفتاب کی طرح اس سلسلہ کی سچائی روشن نظر آتی ہے۔خدا تعالیٰ نے میرے سارے نبیوں کے نام رکھے ہیں اور آخر
جری اﷲ فی حلل الانبیاء
کہہ دیا ہے۔
‏Amira 20-3-05
مقامِ خاتم النبیین
ہم جس طرح پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔اور پھر یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا۔یہ بالکل سچی بات ہے۔ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو چشمئہ افادیت مانتے ہیں۔ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو۔وہ قابل تعریف نہیں ہے،مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں۔
یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
مکان محمد ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (الاحزاب : ۴۱)
یہ بالکل درست ہے۔خدا تعالیٰ نے آپؐ کی جسمانی ابوت کی نفی کی۔لیکن آپ کی روحانی ابوت کا استثناء کیا ہے۔اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تتو پھر اس طرح پر معاذ اﷲ یہ لوگ آپؐ کو ابتر ٹھہراتے ہیں،مگر ایسا نہیں آپ کی شان تو یہ ہے کہ
انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر انشانئک ھوالابتر (الکوثر : ۲ تا ۴)
اﷲ تعالیٰ نے ختم نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپؐ اب نہیں،مگر روحانی سلسلہ آپؐ کا جاری ہے۔لکن مافات کے لیے آتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپؐ خاتم ہیں۔آپؐ کی مہر سے نبوت کا سلسلہ چلتا ہے۔
ہم خودبخود نہیں بن گئے۔خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق جو بنایا وہ بن گئے۔یہ اس کا فعل اور فضل ہے۔یفعل مالیشاء۔خدا نے جو وعدے نبیوں سے کئے تھے۔ان کا ظہور ہوا ہے۔براہین میں یہ الہام اس وقت سے درج ہے۔
وکان امرا مقضیا۔صدق اﷲ ورسولہ وکان امرا مفعولا۔
وغیرہ اس قسم کے بیسیوں الہام ہیں۔جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہوا تھا۔اس میں ہمارا کچھ تصرف نہیں۔کیا جس وقت اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ وعدے فرمائے ہم حاضر تھے؟ جس طرح خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے،اسی طرح اس نے یہاں اپنے وعدہ کو پورا کیا۔آئندہ کے لیے اگر اس قسم کے جلسے گفتگو کے ہوں،تو سوالات پہلے قلمبند ہونے چاہئیں تا کہ ان کے جوابات دیکھ لیے جائیں،کیونکہ ہم تو ان بحثوں کا سلسلہ بند کر چکے ہیں۔
کیونکہ یہ کوئی بیٹر بازی نہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے مرتب ہو جاوے۔
حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے جو لکھا ہے کہ سورئہ نور سے نور حاصل کرو۔یہ ایک لطیف نکتہ معرفت ہے۔
ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حصہ ہی کو مسجد بنایا تھا۔اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا
’’ہاں۔ملا لیا جاوے‘‘۔؎ٰ
زاں بعد بعد نماز عشاء اجلاس ختم ہوا
۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ (بعد نماز عصر)
مولوی کرم الدین کی دھمکی کا جواب
مولوی کرم الدین صاحب بھیں نے سائیں مہر علی شاہ گولڑوی کے پردہ دری والے مضمون کو پڑھ کر اور سن کر ایک خط لکھا۔جس میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اب جو کچھ مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا۔فرمایا :
اُن کو لکھ دو کہ تمھاری دھمکی تم پر ہی پڑے گی۔جو دوسرے مولویوں پر پڑا ہے،وہی تم پر پڑے گا۔ہماری باتیں آسمانی ہیں۔ہم منصوبہ نہیں سوچتے۔یہ نامردی ہے۔کہ تم نے نام تک نہیں لکھا۔
دربارِ شام
مختلف مسائل پر گفتگو
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طبیعت بعارضہ زکام ناساز تھی۔بعد ادائے نماز مغرب جب آپ اجلاس فرما ہوئے تو ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب طبی مشورہ عرض کرتے رہے۔پھر مولانا مولوی محمد علی صاحب نے منشی مظہر علی صاحب کا خط طنایا جو میگزین کو پڑھ کر اس سلسلہ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے مزید اطمینان کے لیے چاہا تھا جو اقتراحی معجزات مانگنے والوں کو جواب دینا چاہیے۔جواب دیا اور فرمایا کہ :
خدا تعالیٰ نشان نمائی میں اپنی شرائط رکھتا ہے۔
اس کے بعد مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی نے اپنا ایک لطیف مضمون سنایا۔
پھر ٹیکہ طاعونپر مختلف باتیں ہوتی رہیں۔
اور طاعون کے ذکر آنے پر آپ نے اپنی پیشگوئی کو دہرایا: کہ
براہین میں اس کی خبر دی گئی ہے۔
اتیٰ امر اﷲ فلا تستعجلون۔
اور پھر نذیر نام رکھا اور کاہ کہ زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔اور پھر فرمایا کہ یہی زور آور حملے ہیں۔انسان جب کوئی بیمار ہی نہیں ہوتا،تو غافل ہوتا ہے۔لیکن جب زلزلہ کی طرح ہلایا جاتا ہے۔پھر تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔جیسے فرعون کا حال ہوا۔
دوزخ
حدیث آتش دوزخ کہ گفت واعظ شیخ
حدیث آتش روزگار ، ہجران است
خدا تعالیی سے جب انسان خدائی لے کر جاتا ہے،تو اس کے مثلات دوزخ ہونتے ہیں۔خدا تعالیٰ کے کلام میں کذب نہیں ہے۔
من یات ربہ مجرما (طہ : ۷۵)
سچ فرمایا ہے۔جب انسان عذاب اور درد میں مبتلا ہے؛اگر چہ وہ زندہ ہے،لیکن مردوں سے بھی بدتر ہے وہ زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ صلاح اور تقویٰ کے بدوں نہیں مل سکتی۔جس کو تپ چرھی ہوئی ہے اسے کیونکر زندہ کہہ سکتے ہیں۔سخت تپ میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات ہے یا دن ہے۔
شدھی اور شودر
مولانا مولوی نورالدین صاحب حکیم الامت نے عرض کیا کہ روڑکی میں بعض مسلمان آریہ ہو گئے ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ تمہیں کوئی نفع پہنچا۔اور اب شدھ ہو کر تم کس ورن میں ہوئے۔اُس نے کہا کہ شودر میں۔پھر دوسرے آریہ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔اس نے کہا کہ میں بھی شودر ہوں۔میں نے کہا کہ کیا آپ اپنی لڑکی ان کو دے سکتے ہیں۔خاموش ہی ہوگیا۔
پگٹ اور ڈوئی
مسٹر پگٹ کے متعلق ایک نوٹ فری تھنکر سے سنا یا گیا کہ لوگوں نے اس پر حملہ کیا۔پولیس نے بچادیا۔اور پھر مسٹر ڈوئی کا اخبار سنایا گیا۔اس نے ایک فقرہ لکھا ہے کہ مسیح نے دو ہزار رسؤ روں کو شیطان میں ڈال دیا۔تو گویا سؤر کے لیے موزوں جگہ شیطان ہے اور پھر سؤر کیلئے بہترین جگہ تمہارا پیٹ ہے۔
انجیل کی ایک تمثیل
انجیل میں ایک خمیر کی مثال ہے۔جس کو ناظرین کی دل چسپی کے لئے ہم انجیل متی کے ۱۳؍۲۳ سے نقل کرتے ہیں۔یہ مثال ڈوئی نے بیان کی ہے اور اس پر حجۃاﷲ نے مختصر سی تقریر کی۔وہ ذیل میں درج ہوگی۔وہ مثال انجیل میں یوں لکھی ہے۔
’’اس نے ایک اور تمثیل انہیں سنائی کہ آسمان کی بادشاہت اُس خمیر کی طرح
ہے جسے کسی عورت نے لیکر تین پیمانہ آٹے میں ملا دیا۔اور ہوتے ہوتے سب
خمیر ہو گیا‘‘۔ فرمایا :
اگر یہ صحیح ہے تو یہ پیشگوئی ہے۔عورت سے مراد دنیا ہے اور مسیح س یلے کر اس وقت تک تین ہی پیمانے ہوتے ہیں۔یعنی خود مسیح،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وقت یہ سلسلہ ۔ہم نے جو تعلیم لکھی ہے۔اور کشتئی نوخ میں چھپی ہے۔اس کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تین پیمانون کو ایک کیا گیا ہے۔عورت سے مراد دنیا ہے۔گو دنیا نے طبعاً تقاضا کیا کہ یہ سلسلے اس طرح پر قائم ہوں۔ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو پیش کرکے مسیح کی تعلیم کے زوائد کو نکال دیا ہے۔براہین کے الہامات میںمجھے اور مسیح ابن مریم کو ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے کہا گیا یہ۔؎ٰ
اس کے بعد نماز عشاء کا دربار ختم ہوا۔
۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ (صبح کی سیر)
یاجوج ماجوج یاجوج ماجوج کے تذکرہ پر فرمایا کہ :
من کل حدب ینسلون (الانبیاء : ۹۷)
کے بعد وہ خدا سے خنگ کریں گے۔اب گویا یہ خدا سے جنگ ہے۔یہ استعارہ ہے کہ جب اقبال یہانتک پہنچ جاوے کہ کوئی سلطنت ان کے مقابل نہ ٹھہرے تو پھر خدا سے جنگ کرنی چاہیں گے۔
خداسے جنگ یہی ہے کہ نا ان مین تضرع اور زاری ہے اور نہ دعا کی حقیقت پر نطر ہو بلکہ اسباب اور تدابیر پر پورا بھروسہ ہو۔اور قضا وقدر کا مقابلہ کیا جاوے۔ڈوئی کے سامنے جو ہمارا مقمہ تھا۔اس مین بھی خدا نے یہی فرمایا کہ ہم گویا اتر کر لڑے۔
انا تجالدنافانقطع العدو واسبا بہ۔
اور ا س میں دونوں دشمن نا کام اور نامراد رہے۔
جب قضاء قدر اٹل ہو تو پھر جو کوئی اس کا مقابلہ کرتا ہے،تو گویا خدا سے لڑائی کرتا ہے۔یورپ کی سلطنت ون اور خاص کر ہماری سلطنت کا بہت بڑا اقبال ہے۔حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر سلطنت میں طاعون جاوے گی۔ان کو خدا کے تصرف پر یقین نہین۔پہلے بادشاہوں کا یہی حال تھا کہ جب کوئی آفت رعایا پر آتی تو خود اُن میں تضرع کی حالت پیدا ہوئی اور وہ دعائیں کرتے اور کراتے اور صدقات سے کام لیتے۔مگر آج کل تدابیر اور اسباب ہی پر سارا بھروسا ہے۔دعائوں کو لغو اور بیہودہ شے سمجھا گیا یہ۔
اور اصل تو یہ ہے کہ قضاء قدر کا سارا سلسلہ تو سچے خدا پر ایمان لانا تھا۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مان لیا۔پھر اس سلسلہ پر کیوں ایمان لاتے۔
افیون کی مَضَرَّت فرمایا:۔
جو لوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئے ہے۔وہ موافق نہیں آتی۔دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قویٰ کو نابور کر دیتی ہے۔
انی احافظ کل من فی الدار
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو بشارت دی ہے۔یہ سچ ہے اور یہ ایک نشان ہے اس کی طرف سے۔اﷲ تعالیٰ کسی علاج س یمنع نہیں کرتا،بلکہ شہد اور مشک وغیرہ کا خود ذکر کرتا ہے۔اس لیے اگر ٹیکا ضروری ہوتا تو سب سے پہلے ہم کو حکم ہوتا۔خد گورنمنٹ کو بھی اس پر پورا وثوق نہیں ہے۔یہ الہام جو
انی احافظ کل من فیالدار
ہے اس مین ڈرایا بھی ہے جبکہ اس نے فرمایا ہے۔
الاالذین علو ابا ستکبار
جو لوگ فسق کی پرواہ نہی کرتے وہ اﷲ تعالٰ کی ذمہ داری سے الگ ہیں۔اور جن لوگوں کی زندگی کا درجہ ختم ہو گیا ہے وہ بھی الگ ہیں۔اور سب سے آخر یہ بات ہے کہ نسبتاً جو اُن میں ہیں وہ محفوظ رہیں گے۔قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ ال تعالیٰ مومنوں اور کافروں میں ایک فرق رکھ دیتا ہے اور ان میں فاروق ہوجاتا ہے اﷲ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔
اس زندگی پر کیا مزہ ہے جو حشائش پر ہاتھ مارتا ہے۔وہی زندگی بہشتی زندگی اور قابل قدر زندگی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ سے تمسک ہو؛ورنہ حشائش پر ہاتھ مارنے والوں کی زندگی کی تو ایسی مثال ہے۔جیسے بلے کے بچہ کے پیچھے کتا ہو اور وہ چُو یہ کہ بِل پر ہاتھ مارتا پھرے۔
کیا انسان ابتداء میں وحشی تھا
جناب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے ان سے اس امر پر گفتگو کی۔کہ انسان پہلے وحشی تھا اور وہ پھر ترقی کرتے کرتے تہذیب کے درجہ پر پہنچا ہے۔فرمایا کہ :
جب ہم انسان کو مہذب دیکھتے ہیں تو کیوں اس کی جڑ تہذیب نہ بتائیں۔قرآن شیف سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ثم ردد نہ اسفل سافلین۔ (الیتن : ۵ -۶)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے وحشی بن گئے۔میں کہتا ہوں۔کیا خدا تعالیٰ کو پہلا نمونہ عمدہ دکھانا چاہئیے تھا یا خراب اور اول الدن دردکا مصداق۔خدا نے برا بنایا تھا اور پھر ِگھِس گھِس کر خود عمدہ بن گیا۔خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور توہین ہے۔
مثنوی سے ایک مثال
اس کی تو وہی مثال ہے جو مثتوی میں ایک بہرہ کی حکایت لکھی ہے کہ وہ کسی بیماری کی عیادت کو گیا اور خود ہی تجویز کر لیا کہ پہلے مزاج پوچھوں گا۔وہ کہا گا۔اچھا ہے۔میں کہوں گا۔الحمدﷲ اور پھر میں پوچھوں گا۔آپ کیا کھاتے ہیں۔تو چوہکہ وہ بیمار ہے یہی کہے گا کہ مونگ کی دال کھاتا ہوں۔میں کہوں گا بہت اچھا۔اور پھر پوچھوں گا طیب کون ہے۔وہ کہے گا کہ فلاں ہے ۔میں کہوں گا۔خوب ہے۔دست شفا ہے۔لیکن جب وہاں گئے ۔تو
بہرہ۔ (مریض سے) آپ کا مزاج کیسا ہے؟
مریض۔مر رہا ہوں۔
بہرہ۔ الحمدﷲ۔
بہرہ۔ (مریض سے) آپ کی غذا کیا ہے؟
مریض۔خون جگر۔
بہرہ۔ بہت اچھی غذا یہ۔
بہرہ۔ (مریض سے) طبیب کون ہے؟
مریض۔ ملک الموت۔
بہرہ۔ طبیب اچھا ہے۔دستِ شفا ہے۔
ان لوگوں کی بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے۔
کستی نوحؑ
قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے۔کہ جب نوح کا بیٹا طوفان میں غرق ہونے لگا۔تو نوحؑ نے کہا کہ تو آجا۔تو اُس نا کہا کہ مجھے تیرے پاس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا۔گویا وہ نادان اپنے اسباب اور تدابیر سے بچنا چاہتا تھا۔مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ آج تجھے خدا سے کوئی بچانے والا نہیں۔اسی طرح پر میرے الہام میں بھی یہی ہے کہ
واصنع الفلک باعیننا ووحینا ولا تخا طبنی فی الذین ظلمو اانہم مغرقون۔
اور اس مسجد مبارک کے لیے فرمایا
من دخلہٗ کان اٰمنًا
یہ دلالت کرتے ہیں۔کہ ایک طوفانِ عظیم آنے والا یہ اور اس میں وہی لوگ بچیں گے۔جو میری کشتی میں سوار ہوں گے۔اور اب انی احافظ (اخ) بھی اس کا مؤید ہے۔اور وہ طاعون کا طوفان ہے اور براہین میں اس کی طرف اشارہ کر کے صاف فرمایا۔
انی امراﷲ فلا تستعجلون
اس وقت جو اس میں سوار ہوتے ہیں اور اپنی تبدیلی کرتے ہیں وہ بچ جائیں گے۔
طاعون فرمایا :
زمانہ کی رسم کے موافق اب لوگ طاعون کو کہتے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے۔یہ ایک قسم کا عام ارتداد ہے جو پھیل رہا ہے۔جو لوگ ڈاکٹر ہوتے ہیںک،وہ تیم دہریہ ہوتے ہیں۔وہ اپنے علاج اور اسباب پر اس قدر توکل اور تکیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔کہ خدا سے ان کو کوئی تعلق نہیں رہتا۔
پنجاب میں طاعون کا حملہ بہت بڑھ کر ہے۔بمبئی کراچی کا کوئی اوسط اس کے ساتھ مقابلہ نہیں کھاتا۔ارو یہ بہت بڑھی ہوئی تعداد موت کی ہے۔
پنجاب پر طاعون کا حملہ کیوں ہو رہا ہے؟ ہمارے نزدیک اس کی یہ وجہ ہے کہ خدا نے یہاں ایک سلسلہ قائم کیا ہے،تو اول المکذبین یہی لوگ ہوئے ہیں۔اور انہوں نے ہی کفر کے فتوے دیئے ہیں۔بعض آدمیوں نے کہا کہ یہ طاعون گویا ہماری سامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔یہ آواز کوئی بئی آواز نہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کہا گیا تھا۔
وان تصبھم سیئۃ یطیروابموسیٰ ومن معہ (الاعراف : ۱۳۲)
مگر مجھے یہ تعجب ہے کہ یہ لوگ طاعون کو ہماری شامت اعمال کا نتیجہ بتاتے ہیں۔لیکن مبتلا خود ہوتے ہیں؛حالانکہ اگر ہماری شامتِ اعمال تھی تو چاہیے تھا کہ طاعون کی خبر تم کو دی جاتی۔مگر یہ کیا ہوا کہ خبر بھی ہم کو دی گئے اور موتیں تم میں ہوتی ہیں۔بر خلاف ا سکے کہ ہماری حفاظت کا وعدہ کیا جاتا اور اسے ایک نشان ٹھہرایا جاتا ہے۔کچھ تو خدا سے ڈرو۔
خدا کے نذیر کے لیے زور آور حملے
خدا تعالیٰ کے نزدیک نذیر وہ ہوتا ہے جو خدا اس یک لیے تائیدی نشان جن میں اس کے مخالفوں کے لیے خوف ہو۔اوپر سے نازل کرتا ہے۔لکھا ہے کہ خدا اُسے قبول کرے گا۔اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زور آور حملے طاعون کے ہیں۔جن سے ہر راہ بند کی جاتی ہے اور منہ سے اقرار کرنا پڑتا ہے۔ یامسیح الخلق عدوانا۔
نَدوَہ
ندوہ کے متعلق ذکر تھا۔فرمایا :
اصل یہ ہے کہ متقی کے لیے تو بولنے کی جگہ نہیں ہے۔ہم نے جو کچھ لکھا ہے۔کہ
واﷲ مخرج ماکنتم تکتمون (البقرہ : ۷۳ )
یہ لوگ جو امرت سر میں آئے ہیں ان کی بھی چھوٹی تہذیب نہ رہے ،بلکہ اس کی حقیقت کھُل جاوے۔یادرکھو مداہنہ سے حق نہیں پھیلتا۔بلکہ رہی سہی برکت بھی جاتی رہتی ہے۔اگر کوئی شخص ڈر کر کہ یہ علماء کی جماعت ہے ان کے ساتھ ہو جاوے۔ہم کو اُس کی پرواہ نہیں۔جن لوگوں کے لیے سعادت مقدر یہ،ان کا حرج نہیں۔خدا تعالیٰ ان کا آپ محافظ ہے اور یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ بعض خبیث فطرت مرتد ہو جاتے ہیں۔آنحضرت س کے وقت میں بھی اور مسیح کے وقت میں بھی مرتد ہوئے۔
احمق نہیں جانتے کہ ہماری طرف سے بات ہوتی تو یہ شوکت کب رہتی۔طاعون ہی کے ذریعہ سے دس ہزار کے قریب لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو وہ خود اس سلسلہ کو ہلاک کر دیتا۔آخری حیلے ان لوگوں کے رشتوں ناطوں اور جنازوں کے متعلق ہوتے ہیں۔مکّہ والوں ین بھی کئے تھے۔مگر جیسے وہاں پہلے ہی سے فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان سے الگ ہیں۔ویسے ہی یہان بھی۔جہان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مشورہ کیا گیا تا۔اس کا نام دارالندوہ تھا۔وہ بھی آخری حیلہ تھا اور یہ بھی آخری حیلہ ہے۔
امرتسر مکّہ کی طرح ہو رہا یہ۔گندے اشتہار وہاں ہی سے شائع ہوتے ہیں۔ابو جہل کے اخوان و انصار وہاں موجود ہیں اور دارالندوہ کی کمی تھی۔وہ بھی آگیا۔
بعد عصر
عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب حضرت اقدسے اندر تشریف لے گئے۔تو لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملادامل جو قادیان کے آریوں میں پرانے آریہ ہیں اور حضرت اقدسؑ کی اکثر پیشگوئیوں کے گواہ ہیں۔اپنے اکثر احباب کو لے کر حضرت اقدس کی ملاقات کو آگئے۔آپ نے ان میں سے ایک شخص معمر سفید ریش کو مخاطب کر کے فرمایا :
کشمکش کی زندگی
دنیا کی کشمکش کی زندگی میں لذّت نہیں۔اگر خدا تعالیٰ کسی کو بیٹھے بٹھائے گذارہ دیدے تو کچھ ضرورت نہیں کہ انسان اہل حکومت کے پاس جاوے۔ان لوگوں کے پا سجانا یہ بیھ ایک قسم کا دوزخ ہے۔ان لوگوں کی حالت خارش کی طرح ہے۔کہ جو ایک مرض ہے اور کھجلا نے والوں کو اس میں ایک لذت ملتی ہے۔لیکن وہ شخص احمق ہی ہوگا جو اس لذت کو پسند کرے۔اسی طح حکام کے دروازوں پر جانا ایسا ہی ہے۔گوشہ نشینی کی زندگی ایک قسم کی بہشتی زندگی ہے۔کسی نے کہا ہے ؎
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
کسے را با کسے کارے نبا شد
بچپن میں جو بچوں کو مدرسہ میں بٹھا تے ہیں۔اس کی کسمکش ساری عمر یادرہتی ہے۔اُستاد کی حکومت کے نیچے ایک قسم کی تلخی معلوم ہوتی ہے۔ہمیں اس وقت تک بھی یاد ہے کہ چھٹی کے دن کے بعد یعنی ہفتہ کو جو مدرسہ کا جانا ہوتا تھا،تو سخت ناگوار گذرا کرتا تھا۔اور تو کچھ یاد نہیں رہا،مگر یہ درد ضرور یاد ہے کہ مدرسہ جانا ایک درد محسوس ہوا کرتا تھا،کیونکہ مرض کے خلاف بھی ایک درد ہی ہوا کرتا ہے۔اور جو لوگ حکام کے دروازوں پر جاتے ہٰں جیسے ذیلدار وغیرہ یا اور اسی قسم کے لوگ یہ عجیب عجیب قسم کے ابتلاء میں پھنس جاتے ہی۔بعض کو رشوت لینے کی عادت ہوجاتی ہے۔وہ آدمی بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس کو خدا کا شکر کرنا چاہیے جو کسی حکومت کے،نیچے نہیں اور جسے فکر نہیں کہ رات کو یادن کو کوئی آواز آئے گی۔بعض لوگ اسیسر ہونے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں،مگر میں ین دیکھا ہے کہ وہ بڑے پابند ہوتے ہیں۔ایک بار ایک اسیسر کو جو اپنے وقت پر نہیں آیا تھا۔سزا ہوئی۔اس نے کہا کہ میں شادی پر یا کہیں اور گیا تھا۔حاکم نے اُسے کہا کہ کیا تم کو معلوم نہ تھا۔کہ میں اسیسر ہوں اور سزا دے دی۔آخر چیف کورٹ نے اس کو بری کر دیا۔غرض اس قسم کے مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں اور پھر ان بیچاروں کی حالت تاتریاق از عراق آوردہشود کی مصداق ہو جاتی ہے خواہ اپیل میں بری ہو جاویں۔مگر وہ بے عزتی اور مصائب کا ایک بار تو منہ دیکھ لیتے ہیں۔کیا اچھا کہا ہے سعدیؔ نے : ؎
کس نیاید بخانۂ درویش
کہ خراج بوم و باغ گذار
جس قدر انسان کسمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے ا۲سے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئے ہوں۔اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئے ہیں۔فقیر نے کاہ جب ساری مرادیں ترک کر دیں، تو گویا سب حاصل ہو گئیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے۔لیکن جب قناعت کر کے سب کو ثھوڑ دے،تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذت ہو دکھ نہ ہو۔دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کو۔جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاھ کرت یہی۔وہ گویا اپنی کھال ا۲تارتے ہی۔اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسی ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو،لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں۔لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہیں۔اور روز بروز کچھ نہ کچھ ھرق آتا ہی جاتا ہے۔دنیا میں ڈاکٹر بھی ہی۔طبیب بھی ہیں۔مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا۔جب لوگ بڈھے ہو جات یہیں۔پھر ا۲ن کو خوش کرنے کو بعض لوگ آجاتے ہیں۔اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟ ساٹھ برس کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔رحمت علی ایک مذکوری تھا۔اس کا بیتا فقیر علی منصف ہو گیا تھا اور لوگ اس وجہ سے اس کی عزت بھی کیا کرتے تھے۔ڈپٹی قائم علی نے ایک دفعہ اس سے پوچھا تمہاری کیا عمر ہے؟ اس نے کہا کہ ۵۵ سال کی ہوگی؛ حالانکہ وہ ۶۵ سال کا تھا۔قائم علی نے اس کو کہاکہ کیا ہوا۔
ابھی تو بچے ہو ۔خود بھی وہ یہی بتایا کرتا تھا ۔میں نے کہا کہ ۵۵ کاس سال بڑا مشکل ہے ۔یہ ختم ہونے میں نہیں آتا ۔غرض انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے ۔دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ۶۰ کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہو نے لگتے ہیں ۔بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے وہ جو ۸۰یا۸۲ تک عمر پائے اور قویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں ؛ورنہ اکثر نیم سودائی ہو جاتے ہیں ۔اُسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں اور نہ اس میں عقل اور دما غ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے ۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوںپر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ درجوانی کا درجہانی کن ۔ اور مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یاد نہیں رہتا ۔ بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے اورآ خر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہئیے ۔
نشان زندگانی تا بسی سال
چو چل آمد فرد ریز د پرَد بال
انحاط عمر کا چالیس سال سے شروع ہوجاتا ہے ۔۳۰ یا ۳۵ برس تک جس قدر قد ہونا ہوتا ہے ، وہ پورا ہوجاتا ہے اور بعد اس کے بڈھے ہو کر پھولنا شروع ہوجاتا ہے اور پھولنے کا نتیجہ فالج ہوجاتا ہے ۔
شرمپت اس وقت جانے لگا ۔ فرمایا :
بیٹھو !ان کے ساتھ جانا ۔ یہ شرطِ وفا نہیں۔
پھر حضرت اقدس نے اس سلسلہ سابقہ میں فرمایاکہ :
جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کئے ہیں ۔ اُن میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے ، مگر اب سوچکر دیکھو کہ وہ ایک بُلبُلہ کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہوجاتے ہیں ۔ اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا ہے ۔ گذشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کے تصور سے دکھ بڑھتا ہے ۔ اس سے عقل مند کے لیے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان ابن الوقت ہو۔ رہی ہے انسان کی جو اس کے پاس موجودہے ۔ جو گذر گیا ۔ وہ وقت مر گیا ۔ اس کے تصورات بے فائدہ ہیں ۔ دیکھو جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت خوش ہوت اہے سب اُٹھاتے ہوئے پھرتے ہیں ۔ وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے ۔ اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں ہے ؟
سعدی ؔکہتا ہے ؎
من آنگہ سر تا جور داشتم
کہ بر فرقِ ظلِّ پد ر داشتم
اگر بر وجودم نِشستے مگس
پہ پریشاں شد خاطرے چند کس
یہ زمانہ کہاں مل سکتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ چلاجاتا تھا ۔ چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر روپڑا ۔ جب سے اس صحبت کوچھوڑ ا ، دکھ پایاہے ۔ پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے ۔ اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کے مر جاوے اور مرنے سے پہلے قویٰ مر جاتے ہیں ۔ دانت گر جاتے ہیں۔ آنکھیں جاتی رہتی ہیں ۔اور خواہ کچھ ہی ہو ۔آخر پتھر کا پتلاہواجاتا ہے شکل تک بگڑ جاتی ہے ۔ اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کہ آخرخود کشی کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگناچاہتا ہے ۔ یکدفعہ ان میں مبتلا ہواجاتا ہے اور اگراولاد ٹھیک نہ ہو تو اور بھی دکھ اُٹھاتا ہے ۔ اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یونہی گذر گئی ۔ مگر …دوہرا ؎
آگے کے دن پاچھے گئے ہر خدا سے کیونہ ہیت
اب پچتائے کیا ہوت ہے جب چڑیا چُگ گئیں کھیت
عقلمند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے ۔ خد اکو ایک سمجھے ۔ اس ے ساتھ کوئی نہیں ۔ ہم نے آزماکردیکھاہے ۔ نہ کوئی دیوی نہ کوئی دیوتا۔ کوئی کا م نہیں آتا ۔ اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پررحم نہیں کرتا۔ اگر کوئی آفت آجاوے ، تو کوئی نہیں پوچھتا ۔ انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں پس یا د رکھو کہ ایک پرور دگار کے سوا کوئی نہیںوہی ہے جو ماں کے دل میں محبت ڈالتا ہے ۔ اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا، تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی ۔ اس لیے اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو ۔ ۱؎
تحفۃ الندوۃ
۱۰ ؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ یوم جُمعہ
فرمایا:
نددہ میں وہ لوگ اتمام حجت کی غرض سے ہم بھیجے ہیں ۔ ورنہ کچھ بہترکی امیدہر گز نہیں ۔ کیونکہ ان کے اغراض عوام سے وابستہ ہیں ۔ یہاں تو ان کو تحفۃ الندرۃ دے کر بھیجا ہے ۔ اگر خدا نے چاہا تو نزول المسیح دلّی بھیجیں گئے ۔ والسّلام : ۔
۱۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ یوم شنبہ
جلدی میں رائے قائم نہ کریں
ایک صاحب نواردکوجن کانام مولوی حامد حسین صاحب تھا ۔ مخاطب کر کہ فرمایا:
بہتر ہے ۔کہ آپ پانچ سات دن یہاں قیام کریں اتنا عزم و جلد واپس چلا جانا ٹھیک نہیں ۔ دنیاوی کاموں میں لوگ کتنی تحقیقات اور چھن بین کرتے ہیں ۔ حقیقت میں جوشخص جلدی رائے قائم کر لیتا ہے ۔ وہ دوسروں کو بھی ابتلاء میں ڈالتا ہے ۔ پس خلاف واقعہ رائے ظاہر قائم کرنا خون کرنے کہ برابر ہے ۔ بہت باتیں ایسی ہوتی ہیںکہ جوں جوں انسان ان پر زیادہ غور کرتا ہے ،اسی قدر نتیجہ عمدہ نظر آتا جاتا ہے ۔
انسان کو سچائی تک پہنچنیکے واسطے دو باتوںکی ضرورت ہے ۔ اوّل خدا داد سمجھ اور سعادت ہو ۔ جن لوگوں کو مناسبت نہیں ہوتی ۔ ان کے دلوں میں کراہت اور اعتراض ہی پیدا ہوتے جاتے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے راستبازوں کا انکار کیا ۔
آپ دور دراز سے آئے ہیں اور آپ کو آتے ہی ایک روک پیدا ہو گئی ۔ اور ہم نے تو ایک ہی روک کا ذکر سنا ہے ۔ مخالفانہ گفتگو کے بجُزا حقاق حق نہیں ہوتا ۔ بہت لوگ منافقانہ طور پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ پس ایسے لوگ کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔تم خُوب جی کھول کراعتراضکرو ۔ہم پورے طور پر جواب دینے کو تیار ہیں ۔
سچّے مذہب کی شناخت
مولوی حامد حسین صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ تمام اہل مذاہب اپنے مذہب کو صحیح خیال کر رہے ہیں ۔ہم فیصلہ کس طور سے کریں؟فرمایا:
بات یہ ہے کہ آجکل بلکہ ہمیشہ سے سچّے مذہب کی شناخت کے لئے ضروری ہے کہ دو باتیں اس میں موجود ہوں۔اوّل کہ اس کی تعلیم پاک ہو ۔اور تعلیم پر انسان کی عقل اور کانشنس کا کوئی اعتراض نہ ہو ۔کیونکہ ناممکن ہے کہ خدا کے امور ناپاک ہو ں ۔دوم۔اس کے ساتھ تائیدات سمادیہ کاسلسلہ ایسا وابستہ ہو کہ جس کے ساتھ انسان خدا کو پہچان سکے اور اس کی تمام صفات کا مشاہدہ کرے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔گو انسان سچے مذہب میں ہی داخل ہو پر اگر اس کے ساتھ کشتی نہیں تو وہ ایسے چشمہ کی مثل ہے کہ جو ایسی جگہ واقع ہے جس کے ارد گرد پہاڑ یا دیوار یا ایسا خارستا ن ہے کہ وہاں ہم کسی طرح پہنچ نہیں سکتے ۔پس ایسا چشمہ ہمارے لئے فضول ہے ۔غرض ضروری ہے شرط یہ ہے کہ اس قدر اسباب موجود ہوں ۔جن سے پکّی طرح پر معرفت الٰہی پیدا ہو جاوے۔یہ بات بھی بد یہی ہے کہ انسان کو زیادہ مصیبت اس بات کی ہے کہ طرح طرح کے مصائب شدائدکسل وغیرہ کیڑے ایسے لگے ہوئے ہیں کہ اس کھاتے اور خداسے روکتے ہیں۔ اور انہیں کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان ایک بُعد پڑاہوا ہے ۔
پس اس مذہب میں ایسے وسائل ہوں جو اس کوروز بروز کھینچتے جاویں اور کامل یقین پیدا کرک ے خدا سے ملادیں ۔
دنیا تو یہی سمجھتی ہے کہ کیا ہم خدا کے منکر ہیں ۔لیکن اس کے اعمال کہتے ہیں کہ ضرور وہ منکر ہے ۔میں نے اس بات کا ذکراکثر کتابوں میںبھی کیا ہے ۔ دیکھو۔ اگر ایک سوراخ میں سانپ ہو ۔ تو کیا ایک شخص اس بات کو جان کر اس سوراخ کے قریب جاوے گا ۔ یا اس میں ہاتھ ڈالے گا ؟ ایک بن میں بہت سے درندے رہتے ہیں۔ کیا باوجود علم کے اس بَن میں کوئی جاوے گا ؟ایک زہریلے کھانے کو علم پاکر کھاوے گا ؟پس معلوم ہوا کہ یہ امر یقین کے لوازم میں سے ہے کہ جس چیز کو وہ مہلکسمجھتا ہے،اس کے قریب نہ جاوے ۔پس ایسا کیوں ہوتا ہیکہ ایک موقع پر حقوقِ انسانی کو چھینتا ہے ،تلف کرتا ہے ،رشوت لیتا ہے ،چوری کرتا ہے ،بد معاشی کرتاہے ،نہ غصّہ اعتدال پر ہے وغیرہ وغیرہ پھر پیرانہ سالی اس کو اب گناہوں سے چھڑاتی ہے ۔پر جب تک جسمانی قویٰ اس کے ساتھ ہیں ۔ہر ایک قسم کی بد کاریاں کرتا ہے پس معلوم ہو تا ہے کہ اس کا خدا پر ایمان نہیں ۔
ہر ایک شخص اپنے نفس سے گواہی لے سکتا کہ جیسا اس کا حق ہے اعتدال پر چلنے کا۔ویسا وہ نہیں چلتا۔پس بڑا مقصود یہ ہے کہ یہ جو بے اعتدالیاں انسان سے ظہو ر میں آتی ہیں ۔ان پر غور کرے کہ اُن کا سبب کیا ہے ۔تو آخر معلوم ہو گاکہ جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے ۔وہ پورا پورا نہیں ہے ۔
بعض دفعہ احسا ن سے اور بعض دفعہ خوف سے گناہ کم ہو جاتے ہیں ۔جیسے نسبتاََ شریر لوگ ایّام امراضِ طاعون و ہیضہ میں نمازیں شروع کر دیتے ہیں ۔پس ضروری ہے کہ جہاں دو باتیں پائی جاویں ۔ تعلیم پاک اور رفتہ رفتہ خدا تک پہنچ جانا۔وہی سچّا مذہب ہے ۔اور یہ دونو ں ذریعہ ایسے ہیں کہ سوائے اسلام کے کہیں نہیں ملیں گے ۔جس خدا کو اسلام پیش کرتا ہے ۔اس صفائی سے اور کسی مذہبنے پیش نہیں کیا ۔ایک طرف تو اسلام کی تعلیم اعلیٰ ہے دوسری طرف ایک شخص دس دن بھی تبدیلی کرے تو اس پر انوار و برکات نازل ہو نے شروع ہو جاتے ہیں ۔آجکل اسلام کے بہت فرقے ہو گئے ہیں ۔گویا گھر گھر ایک فرقہ بنا ہو ا ہے۔اس سے تشویش ہو گئی ہے ۔ایک طرف شیعہ ہیں کہ حسین ؓ کو مثل لات کے بنا رکھا ہے ۔تو ایک شخص کہہ دے گاکہ کہاں جاؤں ۔شیعہ حسین پرست بنے ہو ئے ہیں ۔خوارج علی کو گالیاں دیتے ہیں ۔درمیان میںاہلِ سنّت ہیں؛اگرچہ بظاہر اُن کا اعتدال نظر آتا ہے ، مگر اب اُنھوں نے ایسے قابلِ شرم اعتقاد بنارکھے ہیں کہ وہ شرک تک پنہچ گئے ہیں ۔ مثلاً مسیح کو خالق بنا رکھا ہے ۔ احیا ئے موتیٰ کرنے والا ماناہوا ہے ۔
پس مذہب وہی ہے جو قرآن کا معیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ؛اگرچہ انسان بظاہر گھبراتا ہے کہ اس پاک مذہب کو میں کس طرح پاؤں ۔ مگر یاد رکھو کہ جو یندہ یابندہ ۔ صبرتقویٰ ہاتھ سے نہ دے ؛ ورنہ خداتعالیٰ غنی ہے ۔ اس کو کسی کی کیا پرواہ ہے پس انسان خدا کے سامنے خاکسار بنے ۔ تو اس پر لطف اور احسان کرت اہے اور اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے ۔ توبہ ؔ دعا ؔ اور استعفار کرے اور کبھی نہ گھبراوے ۔ ہر ایک شخص بیمار ہے اور کبھی صحت نہیں پا سکتا ۔ جب تک خدا کونہ دیکھ لے پس ہر وقت اداس اور دل برداشتہ رہے اور تمام تعلقات کو توڑ کر خدا سے تعلق پیدا کرے ؛ ورنہ اس وقت تک جب تک کہ خداسے نہیں ملا یہ گندہ اور نجس ہے ۔
خداتعالی نے فرمایا ہے :
من کان فی ھذا ہ اعمیٰ فھوا فی الاخرۃ اعمیٰ۔ ا لآیۃ (بنی اسرائیل:۷۳)
خدا پر یقین بڑی دولت ہے ۔ پس اندھا وہی ہے جس کو اسی دنیا میں خد اپر پورا یقین حاصل نہیں ہوا ۔ پس جب اس کا حسن ؔ، جمال ؔ، جلال اس پر ظاہر ہوگا ، تو خدا کی تجلّی ہوگی ۔ اور پھر یقین یہ دیکھ کر ممکن نہیں کہ گناہ کی طرف انسان رجوع کرسکے ۔ پس گناہ بھی تبھی ہی کرتا ہے ۔ جب اس کو خد اپر شک پڑجاتا ہے ۔ پس جو شخص نفس کا خیر اخواہ ہے اس کو تو خدا پر یقین رکھنا چاہئیے ۔ مسیح کہ زمانہ میں تو گناہ کی کمی تھی ؛ مگر کفّارہ ہے دنیا کو گناہ سے پُر کر دیا ۔
انسا ن اپنی کوشش کچھ نہیں کر سکتا ۔ حدیث میں آیا ہے تم سب اندھے ہو ۔ مگر جس کو خدا آنکھیں دے۔تم سب بہرے ہو مگر جس کوکان دے وغیرہ وغیرہ ۔ پس جب انسان کو خدا ہدایت دینے لگتا ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے ۔ پس جب تک دل کا واعظ نہ ہو تو تسلّی نہیں ہو سکتی ۔ پس دینی امور میں جب تک تقویٰ نہ ہو روح القدس سے تائید نہیں ملے گی ۔ وہ شخص ضرور ٹھوکر کھا کر گرے گا ۔
اس دین کی جڑتقویٰ جاور نیک بختی ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک خدا پر یقین نہ ہو ۔ اور یقین سوائے خدا کے اور سے ملتا نہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ۔
والذین جاھدو فینا لنھدینہم سبلنا ( العنکبوت : ۷۰ )
پس انسان دنیا کوچھوڑکر اپنی زندگی پر نظر ڈالے اور اپنی حالت پر رحم کرے کہ میں نے دنیا میں کیا بنایا سوچے اور ظاہر ی الفاظ کی پیروی نہ ۔ اور دعاؤں میں مشغول رہے تو امید ہے کہ خدا اس کو اپنی راہ دکھا دے گا ۔نیک دل لے کر خد اکے سامنے کھڑا ہو اور رو رو کر دُعایں مانگے ۔ تضّرع اور عاجزی کرے ۔ تب ہدایت پاوے گا۔
ایک فرقہ وہ بھی ہے ری باتوں کو قبول نہیں کرتا ۔ اس سے ہماری بحث نہیں ۔ اُن کی سرشت میں انکا ر ہے ۔وہ موت کے بعد اس کا نتیجہ دیکھ لیں گے۔
سعادت مند کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ۔پتھر پر لو ہا مارنے سے آگ اس لئے نکلتی ہے کہ آگ پتھر میں موجود ہے اور وہ صرف ضرب کا محتاج تھا، مگر جس کے اندر موجودنہیں ۔اس میں سے کیا نکلے گا ۔
ہر ایک نیکی تب قبول ہو تی ہے جب اس کے اندر تقویٰ ہو ؛ورنہ قبول نہیں ہو تی ۔زندگی تو برف کے ٹکرے کی مثال رکھتی ہے ۔ ہزاروں پردوں میں رکھو پگھلتی جاوے گی۔
اصل میں مخالف کی بات کا امتحان مخالف سے پوچھ کر ہوتا ہے ۔ میں نے تو اپنا مَسلک بیان کردیا ہے ۔ میرے پاس بہت سے عیسائی آیا کرتے تھے ۔اب نہیں آتے ۔میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ زندہ مذہب ثابت کرو مُردہ تو ہمیں اُٹھاناپڑے گا اور زندہ ہمیںاُٹھادے گاکچھ جواب نہیں دے سکتے یورپ ،امریکہ میں سولہ ہزار اشتہار رجسٹری کرا کر بھیجا ۔کوئی جواب نہیں آیا
ہماراخدا زندہ ہے ۔ہماری آواز سنتا ہے ۔ہمیں جواب دیتاہے ۔ پس ہم صلیب پر چڑھے ہوئے خدا کو کیوں مانیں ۔ یہ لوگ شریر ہوتے ہیں اور ان کے پاس باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں ۔ میں پندرہ برس کا تھا جب سے ان کے اور میرے مباحثات شروع ہیں ۔ ان کے پاس صرف اعتراض ہی اعتراض ہیں ۔ اورہمیشہ آنحضرت ﷺؓ پر اعتراض کرتے آئے ہیں اور جاہلوں اور بد نصیبوں کو ان اعتراضات سے شک پڑ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ لوگ اس کو طبع دنیاوی دے کر ابتلا میںڈال کر مُر تد کر لیتے ہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ ۲۹لاکھ آدمی انھوں نے ہند میں مُر تد کیا ہے ؛ پس اسلام کا سخت دشمن یہی مذہب ہے ۔
طاعون کو دیکھا ہے کہ پہلے ہنود میں آتی ہے ۔ یعنی بمبئی ،سیالکوٹ ، جالندھر وغیرہ میں پہلے ہنود سے شروع ہوئی اور جب مسلمانوں میں گئی ۔ تو بھی پہلے ہنود کو شامل کر لیا ۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود
نوارد صاحب نے وجودی فرقہ کی نسبت سوال کیا ۔
فرمایا :
میرے نزدیک یہ بات بھی تدبّر کرنے کے لائق ہے ۔ یہی وجود اور شہود ، میرا مذہب تو یہ ہے کہ وہاں قدم رکھنا فعلی اور جرات ہے جہا ں انسان قدم رکھنے کامستحق نہیں ۔
وجودی فلسفی رنگ کادعویٰ کرتا ہے جس طرح ڈاکٹر مردہ کو پھاڑ کر اس کااندر دیکھ لیتا ہے میں نے اسی طرح خدا کو دیکھ لیا ہے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا ہے ۔
الحمد للہ الذی خلق الاشیاء وھواعینھا۔
یہ بہت بڑا دعویٰ ہے ۔ شہودی مذہب استیلاء محبت کا نام ہے ۔ جیسے لوہا اگر آگ میں نہایت سرخ کیا جاوے تو اس صورت میں کوئی دیکھنے والا اگر اس کو آگ کہہ دے تو ایک صورت سے معذور ٹھہر سکتاہے کیونکہ آگ اس پر مستول ہوئی ہوتی ہے ۔ کسی کا شعر ہے ؎
من تو شُد م تو من تو شُدی من تن شُدم تو جان شُدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
غرض شہودی مذہب کی یہ بناکہ انسان خداکہ وجودسے بہت بہرہ ور ہوسکتاہے جب خدااور مخلوق کی محبت ایک دل میں آکر جمع ہوتی ہے تو انسان پر ایک نیا رنگ چڑھتا ہے ۔ اور اس حالت میں وہ اپنے آپ کودیکھتا ہے کہ گویا بالکل خدا میں کھویاگیا ہے اور اپنے تئیں محو دیکھتا ہے اور خدا ہی نظر آتا ہے ۔ وجود ی ایک حقیقت کاطلب گار ہوتاہے۔ اس کو محبت سے کچھ تعلق نہیں ۔ جیسے آج کل کے وجودیوں کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے کہ میں خدا ہوں ۔
شہود والا کہتا ہے کہ انسان انسان ہے اور خدا خدایعنی شہود کے طور پراپنے تئیں طالب اور خد امیں کھویا ہو اپاتا ہے ۔
اگر انسان کو خدابنناتھا تو یا تو اس جہان میں خددا بنتایا آخرت میں خدابنتا ۔ مگر ثابت ہے کہ یہاں بھی انسان ہے اور وہاں بھی ۔ یہ جامہ تواس کے اوپر سے اترتانظر نہیں آتا ۔
ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص اپنا رنگ رکھتا ہے ۔ بہت لوگ قوالی میں ہی لذّت اُٹھاتے ہیں ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ عارفانہ مشرب نہیں ۔ پس اگر اس کی کوئی دلیل دنیا میں ہوتی ، توچاہئیے تھا کہ کوئی آدمی تو ایسا نظر آتا جس میں خدائی کے صفات ہوتے ۔
دنیاوی لوگوں کے من گھڑت خدا اور خدا کے مرسل بندہ کا مقابلہ یوں ہوسکتا ہے کہ مسیح کوتو خدامانا ۔ اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے والا خود مر گیا ۔ پس انصاف کرو کہ ایک شخص انسان کہلاتا ہے اور اپناکام خداپر چھوڑتا ہے ۔ اس کو پکڑنے والاخود مارا جاتا ہے ۔ یہودی جس کی صفت میں آیا ہے ۔
ضربت علیہم الذلۃ و المسکنۃ ( البقرہ : ۶۲)
وہ اس خدا کہنے والے جو کو ایک ہی گھنٹہ میں گرفتار کر لیتے اور مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔
فاعقبروا یا اولی الابصار۔
اگر کوئی یہ کہے کہ وہ محض خدائی تھی تو اس کو جانے دو ۔ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں ۔ خداہم سے باتیں کرتا ہے اورخوارق اور معجزات دکھلاتا ہے ۔ پر پھر بھی ہم انسان ہیںدیوار کاوجود ایک الگ چیز ہے ۔ اور دھوپ کاوجود الگ ہے ۔
الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین (الی آخرالسورۃ ) (الفاتحہ)
یہ ساری باتیں چاہتی ہیںکہ کوئی رب ہے اور کوئی چیز مخلوق بھی ہے ۔ پس ہم کو اپنی خدائی کاثبوت دیں ۔ خدانے انسان کو مخلوق پیداکیا ہے اور دنیا میں بھی مخلوق بنایا ہے ۔ پھر ہم چاند سورج وغیرہ کو کس طرح خدا مان لیں ۔
تمام انبیاء سے خوف ظاہر ہوتے رہتے ہیں اگر ان میں کچھ بھی خدائی کا رنگ ہوتا ،تو خوف کیوںآتا۔
میری جماعت میں بھی ایک شخص مولوی احمد جان صاحب وجودی تھے۔کبھی اُنہوں نے مجھ سے اس مسئلہ پر گفتگو نہیں کی۔اب تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔اور ساری عمر اسی میں گذاردی۔
ہم کسی کے زرخرید نہیں ۔ہم تو اَسلَم اور روشن تر راہ اختیار کرتے ہیں۔وجودیوں کے کوئی دشمن نہیں۔ ہم تو ان کو قابل رحم سمجھتے ہیں۔
اس پر نودارِدصاحب نے آیت ھوالاول والاخر (الحدید : ۴)
وحدت وجود کے ثبوت میں پیش کی۔فرمایا :
اﷲ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے کہ اس کی تفصیل بعض آیت کی بعض سے ہوتی ہے۔اول کی تفسیر یہ ہے کہ کان اﷲ ولم یکن معہ شیئی۔ اٰخر کے معنے کیے۔
کل من علیہا فان (الرحمان : ۲۷)
ہم تو انہی معنوں کو پسند کریں گے۔جو خدا نے بتلائے ہیں۔
افسوس ہے کہ اس زمانہ کے یہودی صوم وصلوٰۃ کے تو پابند ہی نہیں اور قرآن کو کبھی کھول کر دیکھا ہی نہیں۔ہاں میں اپنے اس ملک کی بات کرتا ہوں۔جس میں جالندھرؔ،بٹالاہؔ،ہوشیارؔپور،سیالکوٹؔ وغیرہ شامل ہیں۔ان لوگوں کو میں نے شراب خوروں،بھنگیوں اور دہریوں کی مجلس میں اکثر دیکھا یہ۔اکثر کہتے ہیں کہ وجودی وہ ہے کہ جو خدا کا نام بھی نہ لے بلکہ جو کچھ ہے مخلوق ہے۔پس یہ لوگ کہتے ہیں کہ اعلیٰ وجودی وہ ہے جس کو لوگ دہریہ کہتے ہیں۔پس ہر شخص اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہے۔
وکان اﷲ ولم یکن معہ شیئی
حدیث ہے۔اور حدیث اور توریت سے ثابت ہے کہ خدا تھا اور زمین اور آسمان وغیرہ میں سے کچھ نہ تھا۔یہ مسلم مسئلہ ہے تمام اہلِ کتاب کا۔پس ہمارا اختیار نہیں کہ مروڑ کر اور معنی کر لیں۔بعض آدمی مذاق کے دلدادہ ہوتے ہیں۔مگر مذاق بھی ایک قسم کا زہر ہے۔ہمیں مذاقی معنے پسند نہیں کرنا چاہئیں۔بلکہ توریت،قرآن اور حدیث کو دیکھنا چاہیے وہ یہی کہتی ہیں کہ ایک وقت ایسا تھا کہ ان موجودہ چیزوں میں سے ایک بھی نہ تھی۔
میرے خیال میں وخدت وجود بھی مذاق سے پیدا ہوا ہے۔کل کتبِ گذشتہ سے یہی معنی ثابت ہوتے ہیں اور اس کی تفصیل قرآن اور توریت میں موجود ہے۔اول تو ان بحثوں کی حاجت نہیں۔انسان کے واسطے پہلے تو یہی امر ضروری ہے کہ اجمالی طور پر خدا پر ایمان لاوے۔جب اس کا ایمان پیدا ہوگا،تو خود بخود اس پر حقائق کھلتے جاویں گے۔
دیکھو۔ایک مرض میں قوتِ ذائقہ جاتی رہتی ہے۔تُرشی،میٹھا،کڑوا،تمکین وغیرہ سب کچھ بے مزہ معلوم ہوتا ہے۔پس معلوم ہوا کہ قوتِ حاسہ بھی کام دے رہی ہے۔ایک قوت ناک میں ہوتی ہے جس کے وہ نہین رہتی اس کو اَخشَم کہتے ہیں۔بعض کے کانوں کے قوت ماری جاتی ہے۔پس جب اس طرح بعض قوتیں جاتی رہتی ہیں۔تو اسی طرح بعض اوقات دینی قوتیں بھی بے حس ہو جاتی ہیں۔اور انسان سید احمد خاں کی طرح دعا کا قبول ہونا اور ایسی باتیں نا ممکن خیال کر بیٹھتا ہے۔
قبولیت دعا کا ثبوت
دعا کے قبول ہونے پر ہامرا کامل ایمان ہے۔اور ہم نے اس کا نتیجہ بھی دیکھا ہے۔کہ لیکھرام کے قتل سے پہلے پانچ سال میں نے خبر دی تھی۔
میں نے سید احمد خاں کو لکھا تھا کہ میں نے لیکھرام کے واسطے دعا کی ہے،تومجھے خبردی گئے ہے کہ تیری دعا قبول ہو گئے ہے اور خدا تعالیٰ اس کو ہیبت ناک موت سے مارے گا۔یہی نمونہ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔کہ اگر یہ دعا قبول نہ ہوئی،تو تمہارے دعویٰ کا ثبوت ہوا۔اور اگر قبول ہو گئے تو تم اس عقیدہ سے توبہ کرنا ۔اور وہ لیکھرام کی موت دیکھ کر فوت ہوا۔
پس اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لا تدرکہ الابصار وھویدرک الابصار (الانعام : ۱۰۴)
آنکھیں تو اس کو دیکھ نہیں سکتیں۔اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے۔جب وجودی ہو گیا۔تو پھر باقی کیا رہ گیا۔
اصل میں یہ سب مذاقی باتیں ہیں۔ثبوت تو وہ ہے جس کا نمونہ انسان دکھلا دیوے۔آنحضرت ﷺ۔موسیٰ ؑ۔عیسیٰ ؑکے مصائب پر ذرا غور کرو۔
ان باتوں کے ذکر کی ضرورت نہیں۔اول خدا سے تعلق پیدا کرو۔جب انسان کسی گھر میں داخل ہوتا ہے،تو اندر کے حالات کا آپ ہی پتہ لگ جاتا ہے۔جبتک گھر سے ہزاروں کوس دور ہے تو اندر کے حالات کس طرح بتلا سکے گا۔یہ مناسب ہے کہ چند روز ہمارے پاس رہیں اور خاص ہمارے سلسلہ کے متعلق جو اعتراض ہوں وہ بیان کریں۔
تو کارے زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر د ا ختی
ہم نے بعض آدمی ایسے دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ اجی اس جھگڑے کو جانے دو۔رفعیدین اور انگلی کے اُٹھانے کا فیصلہ کرو۔مگر یہ اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے۔
تو دارد صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ سایہ کا وجود ہے کہ نہیں یعنی اس کی ذات ہے کہ نہیں۔
فرمایاؔ : وجود کے معنی ہیں مایوجد یعنی جو چیز پائی جاوے اس کی ہویت ہو یا نہ ہو۔آپ آئینہ دیکھتے ہیں، اس میں چہرہ نظر آتا ہے ۔ہویت تو نہیں یعنی ایک مستقل شے قائم بالذات ۔پس ہویت تو نہیں لیکن وجود ہے۔وجود اور ہے اور ہویت اور ہے۔
آفتاب نے جہاں ظل ہے وہاں بھی دھوپ ڈالنی ہے۔مگر ایک چیز نے درمیان آکر ظل پیدا کر دیا ہے۔آفتاب اور ظل کے درمیان جبتک اوٹ نہ ہو سایہ نہین ہو سکتا۔
خیر آپ کو بھی اس وجودیت سے کچھ مذاق ہے اور ہم آپ کے مذاق کے خالف ہیں۔
کن کا اطلاق پھر سوال ہوا کہ کن کا اطلاق کہاں آتا ہے۔فرمایا :
بات یہ ہے کہ آپ کئے مرتبہ خوابوں میں طرح طرح کے تمثلات دیکھا کرتے ہوں گے اور بظاہر آپ جانتے ہیں کہ ان کا وجود کچھ نہین’حکماء نے بھی لکھا ہے۔پس جس طرح ہمارے تصورات ہوتے ہیں اسی طرح خدائی صفات میں سے اس کے تصورات بھی ہیں۔پس جو تصور آتا ہے۔اگر انسانی ہے تو وہ ہیچ ہے اور اگر خدا کا ہے تو اس سے مخلوق پیدا ہو جاتی ہے۔مگر خدا کی کنہ میں ہم دخل نہین دے سکتے۔اسلم طریق یہی ہے کہ انسان لاتد رکہ الابصار پر ایمان رکھے ۔کہ میرا منصب نہیں کہ خد اکی کل صفات کو میں دیکھ لوں اور ان کی تحقیقات کر لوں۔
طبیب بیان کرتے ہیں کہ پانی سرد اور آگ گرم ہے۔مگر یہ نہیں بتلا سکتے کہ پانی سرد کیوں ہے اور آگ گرم کیوں ہے۔فلاسفر بھی یہان کُنہِ اشیاء میں آکر عاجز رہ گئے ہیں۔ یہاں افوض امر ی الی اﷲ پر چلے کہ ہم خدا پر چھوڑ دیں۔
بعض اکرابر محیالدین العربی وغیرہ کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس لیے کہ یہ بحث فضول ہے۔بہت امور مرنے کے بعد معلوم ہوں گے۔اور بہت سے ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی نہین معلوم ہوں گے۔
محی الدین بھی قائل ہیں کہ انسان متقی ہو۔اور خدا پر ایمان لانے والا ہو تو نجات پائے گا۔؎ٰ
۱۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
بعد ادائے نماز مغرب حسب معمول حضرت اقدس علیہ الصلوٰہ والسلام شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سلمہ الرحیم نے شحنہ ہند کے ایڈیٹر کا ایک کارڈ سنایا۔جس میں اس نے اپنا ایک خواب لکھا تھا۔کہ گویا وہ قادیان آیا ہے اور حضرت اقدس کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ سر پائوں سے لگا ہوا ہے۔اس پر حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا کہ :
انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں
تعبیر الرؤیا میں یہ صاف لکھا ہے۔کہ جو لوگ مامورین کو بری صورت میں دیکھتے ہیں۔وہ لوگ اپنی پردہ دری کراتے ہیں۔
مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب کے والد مرحوم نے ایک بار مجھ سے ذکر کیا۔کہ ایک ہندو ان کے پاس آیا کرتا تھا۔جو اسلام سے رغبت رکھتا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد وہ کشمیر سے آیا اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اب میں پکا ہندو ہو گیا ہوں۔لیکن پھر عرصہ کے بعد جو اس کو دیھا تو وہ عیسائی ہو گیا تھا۔جب اس سے وجہ پوچھی ۔تو اس نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تاریک کوٹھڑی میں دیکھا اور اس میں آگ جل رہی تھی (لعنۃاﷲ علیہ) گویا خبیث نے اس کو دوزخ سمجھا۔اور اس کے گرد پادریوں کو دیکھا۔اس سے میں نے نتیجہ نکالا کہ پادری حق پر ہیں۔اور آپؐ (معاذاﷲ) مغلوب ہو رہے ہیں۔مولوی صاحب کو تعبیر کا علم نہ تھا۔مجھ سے جب انہوں نے کہا تو میں نے کہا کہ اس کی یہی تعبیر ہے۔جو حالت اس شخص کی ہوئی؛چنانچہ تعطیر الانام میں ایسا ہی لکھا ہے۔کہ جب کسی نبی مامور و مرسل کو ردی حالت میں دیکھتا ہے۔مثلاً مجذوم دیکھتا ہے یا برہنہ دیکھتا ہے یا یہ کہ وہ بُری غذا کھاتے ہیں،تو سب اس کے اپنے ہی حالات ہوتے ہیں۔انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں اور اس کی اصل صورت دکھادیتے ہیں۔اور یہ بات ہماری اپنی تجربہ کردہ ہے۔کہ جب کوئی آدمی کسی مامور و مرسل کو بُری حالت میں دیکھتے ہیں تو جلدی ہی ان کی وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی عقوبت کے دن قریب ہوتے ہیں۔یہ میرے مجربات سے ہے۔
نووارد مولوی حامد حسین صاحب نے کہا کہ میں مکہ معظمہ میں تھا۔حاجی امداد اﷲ صاحب سے ایک شخص نے ایسا ہی کہا کہ میں نے ایسی شکل پر دیکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ تمہاری اپنی شکل ہے۔
اس کے بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نے جلسہ ندوۃالعلماء پر جو کارروائی کی تھی،اس کا تذکرہ کیا جس کو سن کر حضرت حجۃ اﷲ محظوظ ہوئے۔
پھر مولوی عبد اﷲ صاحب نے اس روئداد کے تتمہ کے طور پر مولوی محمد حسین صاحب کا کچھ ذکر کیا۔اور مولوی مبارک علی صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا۔یہ سب امرو جلسہ ندوہ کے متعلق ہمارے اپنے مضامین میں آئیں گے۔زاں بعد مولوی علی صاحب ایم۔اے نے آبزروؔر میں سے پایوؔ نیز کا نقل کیا ہوا ایک مذہب نئے عنوان سے پڑھا۔جس میں ڈاکٹر ڈوئی کو جو دعوت کی گئے ہے۔اس پر ریمارک تھا ۔پھر بعد نماز عشاء اجلاس ختم ہوا۔؎ٰ
صبح کی سیر
۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
۱۔حضرت حجۃاﷲ علی الارض حسب معمول سیر کو نکلے۔چند آدمیوں نے اپنے خواب سنائے۔آپ نے فرمایا :
باطل میں جو تیاریاں حق کی طرف آنے کے لیے ہو رہی ہیں۔ا۲س کے نظارے دکھائے جاتے ہیں۔رؤیا کا بھی عجیب عالم ہوتا ہے۔جن باتوں کا نام و نسان نہیں ہوتا وہ وجود میں لائی جاتی ہیں۔معدوم کا موجد اور موجود کا معدوم دکھایا جاتا ہے اور عجیب عجیب قسم کے تغیرات ہوتے ہیں۔آدمی کا جانور اور جانور کے آدمی دکھائے جاتے ہیں۔
۲۔ہمارے موجودہ مخالفوں اور دس برس پہلے کے مخالفوں میں بہت فرق ہو گیا ہے۔پہلے تو اپنے عقیدوں کو سچے ہی سمجھتے تھے۔مگر اب صرف نفاق سے کہتے ہیں جو کہتے ہیں؛ ورنہ ان عقائد کی غلطیوں کو دل میں تسلیم کر چکے ہیں
(جحدو ابھا واستیقنتھاانفسھم )(النمل : ۱۵)
ایک شخص جو اپنے تیئںسچا سمجھتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے۔مگر اب یہ بھروسہ نہیں کر سکتے۔اور اسی لیے اگر خواہ کئے ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جاوے۔یہ پانے آپ کو مد مقابل ہو کر نشانہ نہ بنائیں گے۔
۳۔مخالفوں کی کمی اور اپنی روزافزوں ترقی پر فرمایا :
یہ فوق العادۃ ترقی نہ ہو اگر تغیر واقع نہ ہوا ہو۔اُن کا خزانہ کم ہو رہا ہے اور ہمارا بڑھ رہا یہ۔اگر اُن کے پاس اپنی سچائی کے دلائل ہیں۔تو یہ لوگوں کو روک لیں ۔اگر کوئی بڑا سیلاب آیا ہوا ہو اور کسی کا گھر تباہ ہو رہا ہو اور اس کے پاس سامان بھی ہو۔تو کیا وہ اس کے روکنے کی سعی نہ کرے گا۔
ہمارے پاس جو ہر روز بیعت کے لیے آتے ہیں ان میں سے ہی آتے ہیں۔آسمان سے تو نہیں آتے۔
۴۔ندوۃالعُلماء کے جلسہ کی تقریب پر فرمایا کہ :
اشاعت رسالوں کی خوب ہو گئے۔بہت اچا ہوا۔بہت سے لوگ واقف ہو جائیں گے اور ان کو پڑھ لیں گے۔دہلی کے جلسہ سے پہلے نزول المسیح بھی تیار ہو جاوے تو اچھا ہے۔
۵۔ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ :
میاں نبی بخش صاحب عرف عبدالعزیز صاحب نمبردار بٹالہ کہ توبہ نامہ جو اُس نے بھیجا ہے۔الحکمؔ میں چھاپ دیا جاوے۔
اور ساتھ اپنا ایک رؤیا بھی جسے بار ہا آپ نے فرمایا ہے۔سنا یا کہ
میں نے ایک بار اس کے متعلق دیکھا تھا کہ گویا اسی راستہ ہم سیر کو نکلے ہیں تو اس بڑ کے درخت کے نیچے جو میران بخش حجام کی حویلی کے پاس ہے۔نبی بخش سامنے سے آکر ملا یہ اور اس نے مصافحہ کیا ہے۔یہ رؤیا ان دنوں کی ہے جب وہ مخالفت کے اشتہار چھپواتا پھرتا تھا۔
جماعت کی ترقی اور اس کے متعلق براہین احمدیہ میں پیشگوئیاں
۶۔جماعت کی ترقی پر اور مولوی محمد حسین کے ابھی تین سوتیرہ ہی کہتے رہنے پر فرمایا کہ :
بڑے زور سے ترقی ہو رہی ہے۔کیا وہ نہیں جانتا کہ خدا قادر ہے کہ ایک دم میں تین سو تیرہ سے تین لاکھ تیرہ ہزار کر دے۔یہ ترقی محمد حسین کے لیے تو اعجاز ہے۔اگر وہ سوچے اور سمجھے براہین احمدیہ کو پڑھے۔یہ کتاب میں نے اب تو نہیں بنالی ۔جس مین لکھا ہوا ہے کہ تیرے ساتھ فوجیں ہوں گی۔باوجود مولویوں کی اس قدر مخالفت کے پھر اس قوم کا ترقی کرنا کیا یہ معجزہ نہین۔جبکہ وہ اپنے ارادوں میں عاجز آگئے۔کس قدر جدّوجہد ان لوگوں نے ہمارے نابود کرنے کے لیے کی۔گورنمنٹ تک سے چاہا کہ کسی نہ کسی طرح سے ہم کو پھنسا ئیں۔مگر خدا تعالیٰ نے ایسی زور شور سے ترقی کی جس قدر زور انہوں نے مخالفت میں لگایا۔اب تو بات صاف ہو گئی ہے۔مردم شماری کے کاغذات سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ہماری جماعت تین سو تیرہ ہے یا ایک لاکھ کے قریب۔
طاعون نے ان کو دو طرح گٹھایا ہے۔کچھ مرتے ہیں اور اکثروں کو ادھر ملایا ہے۔اصل یہ ہے کہ جو بیج اچھی طرح بویا جاوے اور وقت پر بارش بھی ہو وہ دیکھتے ہی دیکھتے نشونما پاتا اور ترقی کرتا ہے۔دلوں کو کھینچنا اور قائم رکھنا یہ خدا کا کام ہے۔ان مخالفوں کو اگر اب ابو سفیان کی طرح نظارہ کرایا جاوے تو حیران ہو جائیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو اپنی فوج دکھائی اور عباس کو کہا کہ ان کے پاس ٹھہر کر دکھائو اور جب اس نے وہ نظارہ کیا تو اس نے کہا کہ تیرا بھتیجا بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔مگر اُس کو جواب دیا گیا کہ بادشاہی نہین نبوت ہے۔
براہین احمدیہ کے زمانہ پر غور کیا جاوے۔جب وہ چھپ رہی تھی۔اب تو نہیں بنائی گئے۔اس وقت کے الہامات اس میں درج ہیں۔جو انگریزی میں بھی ہیں اور عربی میں بھی۔
اذاجاء نصراﷲ والفتح وانتھی امر الزمان الینا الیس ھذابالحک
ایک مخلوق ہماری طرف رجوع کرے گی۔تو کہا جاجے گا۔
الیس ھذا بالحک۔وانتھی امر الزمان الینا۔
عربی میں بڑا عجیب فقرہ کہ زمانہ کا رجوع ہماری طرف ہوگا۔اور آخری فیصلہ ہمارے ہی حق میں ہوگا۔غرض بڑی بڑی پیشگوئیاں ہیں۔جیسے یہ کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ملوک کو بھی اس طرف توجہ ہو گی۔اور ان میں بھی اس سلسلہ کی اشاعت ہوگی۔ملوک اور رؤسا کے کان حق کے سننے سے بہرے ہوتے ہیں۔نہ خود ان کو عادت ہوتی ہے اور نہ ان کے پاس والے ایسے ہوتے ہیں۔ان کے مصاحب اور پاس رہنے والے بدوضع لوگ ہوتے ہیں۔اس لیے وہ اپنی سد دنیا کا باعث سمجھتے ہیں۔اگر وہ دین کی طرف توجہ کریں۔مگر خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے۔اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی۔
پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔اور چھ سات سے کم نہ تھے۔اصل یہ ہے کہ خدا کے کام تدریجی ہوتے ہیں۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ کی گلیوں میں تکلیف اُٹھاتے پھرتے تھے۔اس وقت کون خیال کر سکتا تھا اس شخص کا مذہب دنیا میں پھیل جائے گا۔
علم خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہیں ہوتا۔صحابہ کرام رضیاﷲ عنہم کے علم کا دائرہ بیھ اشاعت اسلام کے متعلق اتنا نہ تھا،جتنا اب ہے۔وہ تو یقین کرتے تھے کہ ہم فتح پائیں گے۔میرا مذہب تو یہ ہے۔خدا تعالیٰ ہی علیم و خبیر ہے۔ضوری نہیں کہ پیغمبروں پر بھی تفصیلی حالات ظاہر کئے جائیں ۔وہ جتنا علم چاہتا ہے دیتا ہے۔آنحضرت س اگر اس وقت آئیں تو اسلام کی اس قدر وسیع اشاعت اور ترقی کو دیکھ کر حیران ہو جائیں۔
صداقت کے چار قسم کے ثبوت
۷۔اپنے تائیدی ثبوتوں کے متعلق فرمایا کہ :
اب وہ اس کثرت سے ہو گئے ہیں کہ گنے بھی نہیںجاتے۔ہر روز زیادتی ہوتی رہتی ہے۔یہ خدا کا کلام ہے۔مجھے بارہا خیال آیا ہے کہ اگر کسی رئیس کو یہ خیال پیدا ہو تو جس ترتیب سے خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی سچائی کو ظاہر کیا ہے۔وہ ایک جلسہ کر کے اس ثبوت کو ہم سے لے۔یہ ثبوت چار قسم کے ہیں۔اگر عکل کو بھی اس میں داخل کر لیا جاوے۔
(۱)نصوصِ قرآنیہ وحدیثیہ۔(۲)آیات۱رضیہ وسماویہ۔(۳)ضرورت مشہودہ و محسوسہ۔
(۴)دلائل عقلیہ۔
اس ترتیب سے اگر عیسائیوں کے اس جلسہ کی طرح (جو پندرہ دن تک امرت سر میں ہوتا رہا) ایک جلسہ کیا جاوے اور قیصر سوم کی طرح جس نے ایک مذہبی جلسہ کیا تھا مذہب کی تحقیقات کے لحاظ سے نہ سہی بطور تماسا ہی کوئی کر کے دیکھے۔اس طرح پر آہستگی سے منہاجِ نبوت پر ہمارے ثبوت سُن لیے جاویں تو بہت بڑا مفید نتیجہ نکلے۔بے سک جس طریق پر حضرت موسیٰ کی نبوت یا حضرت عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔اس سلسلہ کو پر کھا جاوے۔
۸۔ایک بار حضرت نے پیشگوئیوں کے نقشہ کی تیاری کا حکم دیا تھا۔پھر وہ نقشہ تیار ہوا۔اس کے متعلق یاد دہانی کرائی گئے تو فرمایا کہ :
وہ پیشگوئیاں اب نزول المسیح میں چھپ رہی ہیں۔ان کی عبارات کا چست کرنا بھی ضروری تھا۔اب اس سے نقشہ بھی مرتب ہو سکتا ہے۔
آتھم کا رجوع الی الحق
(۹)آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ذکر کرتے ہوئے۔فرمایا کہ :
ہماری جماعت کو یہ مسائل مستحضر ہونے چاہئیں۔آتھم کے رجوع کے متعلق یاد رہے کہ پیشگوئی سنتے ہی اس نے اپنی زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھا اور کانپا اور زرد ہو گیا۔ایک جماعت کثیر کے سامنے اس کا یہ رجوع دیکھا گیا۔پھر اس پر خوف گالب ہوا۔اور وہ شہر بشہر بھاگتا پھرا۔اس نے اپنی مخالفت کو چھوڑ دیا اور کبھی اسلام کے مخالف کوئی تحریر شائع نہ کی۔جب انعامی اشتہاردے کر قسم کے لیے بلایا گیا،تو وہ قسم کھانے کو نہ آیا۔اخفائے شہادتِ حقہ کی پاداش میں اس پیشگوئی کے موافق جو اس کے حق میں کی گئے تھی۔وہ ہلاک ہو گیا۔یہ باتیں اگر عیسائی منصف مزاج کے سامنے پیش کی جاویں تو اس کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔غرض اس طرح پر مسائل کو یادرکھنا ایک فرض ہے اور کتا بوں کا دیکھنا ایک ضروری امر ہوتا ہے۔
رفع کے معنے
۱۰۔ رفع کے متعلق جو اعتراض کرتے ہیں اس کے لئے سمجھنا چاہئے کہ رفع سے یہودی تو یہی معنے سمجھے ہوئے تھے کہ جس پر *** پڑے اس کا روح آسمان پر نہیں جاتا ان کا یہ مذہب کب تھا کہ نجات کے لئے آسمان پر جانا ضروری ہے پس یہودیوں کی اصل غرض مسیح کو صلیب دینے سے یہ تھی ۔ان کے جسم سے ان کو کیا کام تھا ۔اللہ تعالیٰ کو بھی اسی اختلاف کا رفع سے جسمانی یہ تو یہودیوںکے اس الزام کی بریّت کہاں ہے ؟ اس طر ح پر قسم کے اعتراضوں کا جواب ـپہاڑوںکی طرح یاد ہونا چاہئے ۔مستحضر جواب دینا ہر ا کا کام نہیں اگر پکا جواب نہ ہو تو ؎ عذرنا معقول ثابت میکندالزام را۔کا معا ملہ ہوتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی سچائی کے تو ایسے دلائل دے دیئے ہیں۔کہ اگر یاد ہوں تو پھر کوئی مشکل نہیں ۔میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کے بعد پھر امتحان کی صورت رکھی جاوے۔رؤسا میں سے کسی کو خیال آوے کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے اور وہ اس کام کو اپنے ذمہ لے اور ایک جلسہ کر کے فیصلہ کرلے۔
۱۱۔ فرمایا :
طاعون کے متعلق سارے نبی پیشگوئی کرتے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعوں شدت سے پھیلے گی۔؎ٰ
۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
ندوۃ العلمأ اور اصلاح کا صحیح طریق
۱۹۰۲ء؁ میں ندوۃ العمأ کا سالانہ جلسہ بمقام امرتسر ہوا تھا۔اس جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے رسل بغرض تبلیغ بھیجے تھے۔۱۳؍اکتوبر کو جلسہ سے واپس آنے پر بعض اور لوگ بھی دارالامان آئے ۔سلسلہ کلام میں ندوہ کے متعلق ذکر آیا کہ وہ بحث مباحثہ سے الگ رہ کر اصلاح چاہتے ہیں۔اس پر فرمایا :
اگر ندوہ کا دعویٰ اصلاح ہے تو امر تنقیح طلب یہ ہے کہ اصلاح کس طرح ہو سکتی ہیاور کن راہوں سے ہو رہی ہے اور اسلام پر کیا حملہ ہو رہا ہے؟ اس کی مدافعت اور انسداد کی تدابیر کا سوال بے محل اور ایسا دعویٰ خیالی دعویٰ ہوگا۔
پھر قابل غور امر یہ ہے کہ ان ساری خرابیوں کا انسدادِ ارضی طاقت سے ہو سکتا ہے یا آسمانی تائیدات سے؟اگر ندوہ والے چاہتے ہیں کہ لوگ پڑھ کر یعنی انگریزی تعلیم حاصل کر کے نوکر ہو جاجیں او ر ان کو ملازمت کے لیے آسانیاں ہوں تو یہ دین کا کام نہیں ہے۔یہ تو قوم کو غلام بنانے کی تدابیر ہیں۔اور اگر ان کی غرض دینی اصلاح ہے تو پھر یاد رکھیں کہ ؎
خدا را بخدا تواں شناخت
اس اصل کو چھوڑ کر جو شخص چاہتا ہے کہ دینی اصلاح ہو جاوے۔وہ کبھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس خشک اور خیالی اصلاح سے کیا فائدہ ہوگا۔جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں نہیں ہیں۔وہ باتیں جو نری لفاظی کے طور پر بیان کی جاویں یا قصہ اور کہانی کی طرح گذشتہ امور پر جس کا حوالہ ہو۔ان کی پہلے سے کیا کمی ہے۔جو ایک خاص جماعت اپنا وقت اور غریب مسلمانوں کا روپیہ لے کر صرف کرے اور نتیجہ کچھ بھی نہ ہو۔میں اس قسم کی کارروائیوں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ایسی باتوں سے ریاکاری اور نفاق کی بُو آتی ہے۔کیونکہ یہ طریق اس مطلب اور گض کے حصول سے کو سوں دور ہے جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے اور جس طرح دنیا کی اصلاح ہوا کرتی ہے۔وہ رنگ اس میں موجود نہیں ہے۔
اصلاح کا طریق ہمیشہ وہی مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔جو اﷲ تعالیٰ کے اذن اور ایماء سے ہول۔اگر ہر شخص کی خیالی تجویزوں اور منصوبوں سے بگڑہوئی قوموں کی اصلاح ہوسکتی تو پھر دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے وجود کی کچھ حاجت نہ رہتی جبتک کامل طور پر ایک مرض کی تشخیص نہ ہو اور پھر پورے وثوق کے ساتھ اس کا علاج معلوم نہ ہولے کامیابی علاج میں نہیں ہوسکتی۔
اسلام کی جو حالت بازک ہو رہی ہے وہ ایسے ہی طبیبوں کی وجہ سے ہو رہی ہے جنہوں نے اس کی مرضکو تو تشخیص نہیں کیا اور جو علاج اپنے خیال میں گذرا اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر شروع کر دیا۔مگریقینا یاد رکھو کہ اس مرض اور علاج سے یہ لوگ محض ناواقف ہیں۔اس کو وہی شناخت کرتا ہے جس کو خد اتاعالیٰ نے اسی غرض کے لیے بھیجا ہے اور وہ میں ہوں۔
اصلاح احوال کے لیے آسمانی تدابیر کی ضرورت
اسلام کے اندر ایک خطرناک پھوڑا ہو گیا ہے اور یاک جذام باہر کی طرف سے ا۲سے لگ رہا ہے۔اندرونی پھوڑے کا باعث خود مسلمان ہوئے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات اور اُسوہ حسنہ کو چھوڑ کر اپنی تجویز اور رائے کے موافق اس میں اصلاح اور ترمیم شروع کر دی۔وہ باتیں جو کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہم وگمان میں بھی نہ آئی تھیں آج عبادت قرار دی گئے ہیں اور زہد و ریاضت کا بہت بڑا مدار انہیں پر رکھا گیا ہے۔ان باتوں کو دیکھ کر بیرونی دشمنو ںکو بھی موقع ملا اور وہ تیروتفنگ لے کر اسلام پر حملہ آور ہوئے اور اس کے پاک وجود کو چھلنی کر دیا اور اسے ایسی مکروہ ہیئت میں دشمنوں نے دکھانا شروع کر دیا کہ غیر تو غیر تھے ہی اپنوں کو بھی متنفر کر دیا۔ہر شخص نے اپنی طرز پر اس کی تصویر کو بھیانک بنانے کی فکر کی۔ایسی صورت میں زمینی حربہ اور ارضی تدابیر کام نہیں دے سکتی ہیں۔اس کے لیے ائسمانی حربہ ارو آسمانی تدابیر کی حاجت ہے۔اس لیے جب تک آسمانی کشش اور آسمانی تائیدات کسی کو نہ دی جاویں کامیابی ہو تو ہر زمانہ میں فلاسفر اور دانشمند مدّبر ہوتے ہی رہے ہیں۔انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہ گذرے ہین۔اب بھی موجود ہیں۔لیکن وہ فلاسفر اور ریفار مر خدا تعالیٰ سے اس قدر دور جا پرے ہیں کہ ان کے نزدیک شاید خدا تعالیٰ کا نام لینا بھی ایک گناہ اور غلطی قرار دیا گیا ہے۔پھر بتائو کہ یہ فلسفہ اور یہ اصلاح تمہیں کہان تک لے جائے گی؟اس سے کسی بہتری کی امیر درکھنا خطرباک غلطی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہی سنت رکھی ہے کہ اصلاح کے واسطے نبیوں کو مامور کر کے بھیجا ہے۔انبیاء علیہم السلام جب آتے ہیں تو بظاہر دنیا میں ایک فسادِ عظیم نظر آتا ہے۔بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے جدا ہو جاتا ہے۔ہزاروں ہزار جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔حصرت نوح علیہ السلام کے وقت طوفان سے ان کے مخالفوں کو تباہ کر دیا گیا۔موسیٰ علیہ السلام کے وقت اور دوسرے کئی عذاب وارد ہوئے اور فرعونکے لشکر کو غرق کیا گیا۔
غرض جوب یاد رکھو کہ قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قوب کو پیدا کیا ہے ۔نرے کلمات اور چرب زبانیاں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں۔بلکہ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہیے۔پس جس شخص نے قرآن سریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہین سمجھا کہ ہدایت آسمان س ےآتی ہے تو اس نے کیا سمجھا؟
الم یاتکم نذیر کا جب سوال ہوگا تو پتہ لگے گا۔اصل بات یہ ہے کہ ؎
خدا را بخدا تواں شناخت
اور یہ ذریعہ بغیر امام نہیں مل سکتا۔کیونکہ وہخدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نسانوں کا مظہر اور اس کی تجلیات کا مورد ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے
من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃالجاھلیۃ۔
یعنی جس نے زمانہ کے امام کو شناخت نہیں کیا ۔وہ جہالت کی موت مر گیا۔؎ٰ
۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
دربارِ شام
دعا بعد نماز
مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہار نپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے ۔یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں۔میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔اگر چہ وہ فروعی ہے،لیکن پوچھنا چاہتا ہوں۔اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں،لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے۔اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :
اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں۔اور صلوٰۃ بجائے خودا دعا ہی ہے۔بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے۔کہ ہندو ستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوتی ہے کہ تعید مل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں۔گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے،جس میں کراہت پائی جاتی ہے؛حالانکہ نماز ایسی سے ہے کہ جس سے ایک ذوق،اُنس اور سرور بڑھتا ہے۔مگر جس طریق پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضور پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں،بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔عام طور پر یہ حالب ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی،بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں؛حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے ام الادعیہ،اھدناالصراط المستقیم دعا مانگی جاتی ہے۔انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا۔جبتک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے۔اقیمواالصلوٰۃ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اقام الصلوٰۃ کرتے ہیں۔تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں۔نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اُسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی۔اور وہ فارغ ہی نہیں ہوتی۔اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا۔ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے۔اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی ا سے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا۔
مومن کو ہمیشہ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔مگر نماز کے بعد جو دعاؤںکا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے۔بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے۔میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوار و یہ بھی دعا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نامز پڑھتے ہیں۔پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا۔اس کایہی سبب ہے کہ وہ بماز پڑھتے ہیں۔جس پر خدا تعالیٰ *** بھیجتا ہے ایسی نمازوں کے لیے ویل آیا ہے۔دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے پھینک دینا چاہیے۔ہرگز نہیں۔اول اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوںکو بھی سنبھالے۔اس لیے نما زکو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے۔
سائل : الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں ۔ان کو تو دعا مانگنی چاہیے۔
حضرت اقدس : ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو۔سوائے قرآن شریف یک جو رب جلیل کا کالم ہے اور سوائے ادعیہ مثورہ کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھیں۔نماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو۔اس لیے ہر شخص کو جو عربی زبان نیں جانتا۔ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعائوں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے۔ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں۔اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نما زکے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں۔اور ہم بھی کر لیتے ہیں؛اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں۔مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے۔اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ رب العزۃ میں عرض کرنا چاہیے۔میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نما زکا تعہد کرو۔جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو۔فریضہ تو جامعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طُول دو۔اور چاہیے کہ اس میں گریہ وبکا ہو،تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے۔نماز ایسی شے ہے کہ سیّئات کو دور کر دیتی ہے۔جیسے فرمایا :
ان الحسنا ت یذھبن السیئات (ھود : ۱۱۵)
نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے۔حسنات سے مراد نما زہے،مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا اجتا ہے،کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں۔یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے،کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہین ہوتا۔نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہین کرتا۔آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حصور جانا ہے۔دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پا سجات اہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے۔اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے۔کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے۔پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نامزیں پڑھتے ہیں۔اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہور نہیں ہوتا۔میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نما زکو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے۔مگر یہان تو پچاس پچاس برس تک نما زپڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور روبدنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں۔ارو انہیں نہین معلوم کہ وہ نماوزں میں کیا پرھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے۔اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے۔طبیعتیں دو قسم کی ہیں۔ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں۔جیسے اگر ہندو کا کسی مسلام کے ساتھ کپڑا بھی چھو جائے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے؛حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا۔زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں۔اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں۔جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہین مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔یہ بدعت نہیں۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی ہوئیں۔لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی۔اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے۔ان کے نیچے جو حقیقت اور مغرز تھا وہ نکل گیا۔اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے،لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے۔یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے قرب کا کوئو قریب ذریعہ نہیں ۔یہ قرب کی کنجی ہے۔اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔اسی سے الہامات اور ماکالمات ہوتے ہیں۔یہ دعائوں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا ۔تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے۔جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں۔ہم دعائوں سے انکار نہیں کرتے۔بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعائوں کی قبولیت پر ایمان ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
فرمایا ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا۔اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے۔آپ سے التزام ثابت نہیں ہے۔اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی۔تقاضائے وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی۔اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپؐ کا سارا ہی وقت دعائوں میں گزرتا تھا۔لیکن نماز خاص خعینہ دعائوں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے۔اس لیے اس کا فرض یہ کہ جبتک اس کو درست نہ کر یاور اس کی طرف توجہ نہ کرے۔کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے۔اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نما زپڑھتا ہے تو پھر جارج نماز بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے۔ہم تقدیم نما زکی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض یہ۔مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے۔اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بُعد ہو گیا۔مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے،کیونکہ نماز میں اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اکرار،استغھار،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم پر درود ۔غرض وہ سب امرو جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔موجود ہیں۔ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے۔بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں۔مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں۔کہتے جاتے ہیں۔جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئے ہے وہ سمجھ لیتے ہیں۔
عربی کی بجائے اپنی زبان میں نما زپڑھنا درست نہیں
سائل : ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نما زاپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے۔
حضرت اقدسؑ: وہ اور طریق ہوگا۔جس سے ہم متفق نہین۔قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور رب جلیل کا کلام ہے۔اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ہم نے تو ان لوگوں کے لیے دعائوں کے واسطے کہا یہ،جو اُمّی ہیں۔اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کرسکتے ان کو چاہیے۔کہ اپنی زبان میں دعا کر لیں۔ان لوگوں کی حالت تو یہانتک پہنچی ہوئی ہے۔کہ مجھے معلوم ہے کہ فتح محمد ایک شخص تھا۔اس کی چچی بہت بڈھی ہو گئے تھی۔اس نے کلمہ کے معنے پوچھے تو اس کو کیا معلوم تھا کہ کیا ہیں۔اس نے بتائے تو اس عورت نے پوچھا کہ محمدؐ مرد تھا کہ یا عورت تھی۔جب اس کو بتایا گیا کہ وہ مرد تھا،تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی۔کہ پھر کیا میں اتنی عمر تک بیگانے مرد ہی کا نام لیتی رہی؟
یہ حالت مسلمانوں کی ہوگئی ہے۔؎ٰ
مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امر وہی نے جب حضرج حجۃاﷲ تقریر ختم کر چکے تو مستفسر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ صاحب سفر السعادت نے تو یہانتک لکھا ہے کہ نماز کے بعد دعا کی حدیث ثابت نہیں۔
حدیث پر میرا مذہب اس پر پھر حضرت اقدس نے سلسلہ کلام یوں شروع کیا کہ :
میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیے،کیونکہ یہ آنحضرت ؐ سے منسوب ہے۔جبتک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو۔تو مستحن یہی ہے کہ ا س پر عمل کیا جاوے،مگر نما زکے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں۔ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے۔جو قرآن شریف کے مخالف نہ ہو۔
اس کے بعد دو تین آدمیون نے بیعت کی درجواست کی اور آپ نے بیعت میں داخل کیا۔
مسٹر پگٹ
مولانا مولوی محمد علی صاحب۔ایم ۔اے نے مسٹر پگٹ اور فرانس کے ایک جدید مدعئی مسیحیت کے متعلق ولایت کے اخبار فری تھنکر سے دو نوٹ پڑھ کر سنائے۔اور مفتی محمد صادق صاحب نے ڈاکٹر ڈوئی کے اخبار کے بعض پیراگراف سنائے :
خان الیگزینڈر ڈوئی ڈوئی کے ذکر پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
یہ وہ شخص ہے جس نے الیاس ہونے کا دعویٰ کا ہے۔اور اپنے آپ کو عہد نامہ کا رسول کہتا ہے۔ہم نے اس کو دعوت کی ہے کہ اگر تو یسوع مسیح کو خد اسمجھتا ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خدا کی طرف سے مسیح موعود ہو کر آیا ہوں۔پس تو اس قسم کی دعا کر کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب ہے وہپہلے ہلاک ہو۔یہ جوش مجھے زیادہ اس لیے آیا ہے کہ اس نے تمام مسلمانوں کے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی ہے۔یہ شخص اسلام کا بڑا دشمن ہے۔
یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسیے وسائل پیدا کر دیئے ہیں۔کہ دنیا ایک سہر کا حکم رکھتی ہے۔اور
واذا النفوس زوجت (التکویر : ۸)
کی پیشگوئی پوری ہو گئے ہے۔اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں۔اور یہ ضروری امر ہے کہ ان کا مقابلہ ہو۔اور ان میں ایک ہی سچا ہوگا اور غالب آئے گا۔
‏Amira 22-3-05
لیظھر ہ علے الدین کلہ (الصف : ۱۰)
کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یہ مقابلہ مذاہب کا شروع ہو گیا ہے۔اور اس مذہبی کُشتی سلسلہ نری زبان تک ہی نہیں رہا،بلکہ قلم نے اس میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے۔لاکھوں نذہبی رسالے شائع ہو رہے ہین۔اس وقت مختلف مذاہب خصوصاً نصاریٰ کے جو حملے اسلام پر ہو رہے ہیں۔جو شخص ان حالات سے واقفیت رکھتا ہے اور اسے ان پر سوچنے کا موقع ملا ہے تو وہ ان ضرورتوں کو دیکھ کر بے اختیار ہو کر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اسلام کی طرف زیادہ توجہ کرے۔جو شخص اسلام پر ان حملوں کی رفتار کو دیکھتا ہے،تو وہ اس صرورت کو محسوس کرتا ہے،لیکن جس کو کوئی خبر ہی نہیں ہے وہ ان نقصانوں کی بابت کیا کہہ سکتا ہے جو اسلام کو پہنچائے گئے ہیں۔مسلمانوں نے نادن دوست کے رنگ میں اور غیر مذاہب والوں خصوصاً عیسائیوں نے دشمنی کے لباس میں ،وہ تو یہی کہتا ہے کہ اسلام کا کیا بگڑا ہے؟ مگر اسے معلوم نہیں کہ اسلام کی ظاہری ارو جسمانی صورت میں بھی ضعف آگیا ہے۔وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کو نہیں ۔اور دینی طور پر یہی وہ بات جو
مخلصین لہ الدین (البینۃ : ۶)
میںسکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا ہے۔
اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئے ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں۔اُن کے نزدیک مسلمان کُتوں اور خنزیروں سے بدتر ہیں۔ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلامنوں کو ہلاک کریں۔اگر ایک سچے مسلمان کو ان ارادوں پر اطلاع ملے جو یہ لوگ اسلام کے خلاف کہتے ہیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ ان کے تصور کے صدمہ ہی سے مر جاوے۔اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا اُن کا مقابلہ ممکن نہیں۔اور اسی غرض کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔
عیسائیت کا فتنہ ہی دجال کا فتنہ ہے
دجال بھی کتاب ہی کا پیرو ہونا چاہیے؛ورنہ دجل کیا کیا۔یہ تحریف کرتے ہیں۔پہلے حاشیہ پر لکھتے ہیں پھر ان مطالب کو متن میں داخل کرتے ہیں اور اس طرح پر آئے دن ان کی تحریف کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں۔جس میں انہوں نے انجیل کا ترجمہ نہیں کیا۔اور اپنے باطل عقیدوں کی اشاعت نہیں کی۔انہوں نے اپنی تحریروں اور رسالوں کے ذریعہ بہت بڑی خباثت اور گند کو پھیلا ہے۔ان کی تیّتیں اسلام کے للیے ہرگز بخیر نہیں ہیں۔آدم سے لیکر اس وقت تک ایسے مغوی اور مضل پیدا نہیں ہوئے۔جیسی کہ یہ قوم ہے۔روپیہ۔قوت۔شوکت جو آج ان کو ملا ہے اور کسی کو نہیں۔میں پوچھتا ہوں کہ یہ قوم اسلام کے معدوم کرنے میں کس قدر کوشش کرتی ہے۔اور کیا کیا طریقے انہوں ین اختیار کئے ہیں؟ اور اپنے ارادوں اور کوششوں میں کہاں تک کامیابی اس نے حاصل کی ہے؟ اب اس سوال کا جواب سوچ کر ہمیں بتائے کہ جب یہ عظیم السان فتنہ اور اسلام کے لیے دشمن ہے تو پھر اس کی پیشگوئی پھی تو ضرور ہونی چاہیے تھی۔پھر وہ کہاں ہے؟
قرآن شریف میں ولا الضالین تو کہا۔اگر دجال کوئی الگ چیز تھی تو چاہیے تھا ولاالدجال بھی کہا ہوتا۔غیرالمغضوب اور ولاالضالین کے متعلق تمام مفسر متفق ہیں کہ ان سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں۔جب پانچ وقت نمازوں میں ان فتنوں سے بچنے کے لیے دعا کی تعلیم کی گئے ہے کہ الضالین سے نہ کرنا ۔اور نہ مغضوب قوم میں سے بنانا تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑا اور اہم فتنہ یہی تھا۔جو ام الفتن کہنا چاہیے۔
مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ثابت ہوتاہے
اور باتوں کو جانے دو۔واقعات بھی تو کچھ چیز ہیں۔متشابہات کی بحث میں نہ پڑو۔مگر یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ پیشگوئیوں کے وہ معنے ہوتے ہیں جو واقعات کی رو سے صحیح ثابت ہو جائیں۔اب تیرہ سو برس گزر گئے اور محدثین کا اس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ کوئی کشف اور الہام چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتا۔سب گویا بالاتفاق یہی مانتے ہیں۔کہ مسیخ موعود کا زمانہ چودھویں صدی سے آگے نہیں۔خود عیسائی قوموں میں مسیح موعود کی بعثت کا وقت یہی سمجھا اور مانا جاتا ہے اور ضوریاتِ مشہودہ محسوسہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ آنے والے کے لیے یہی وقت ہے۔وہ علامات اور نشانات جو مقرر کئے گئے تھے۔سب اپنے اپنے وقت پر پورے ہو گئے۔یاجوج ماجوج بھی
من کل حدب ینسلون (الانبیاء : ۹۷)
کا نظارہ دکھارہے ہیں اور دجال بھی اپنے دجل اور فریب سے ایک عالم کو ہلاک کر رہا ہے۔مگر فرضی دجال جو مسلمانوں کے تخیّل میں ہے۔اس کا ابھی نام و نشان نہیں۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں تو لکھا ہوا ہے کہ :
وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االی یوم القیا مۃ (آل عمران : ۵۶)
واغرینا بینہم العدا وۃ والبغضاء الی یوم القیا مۃ (المائدہ : ۱۵)
والقیئنا بینہم العداوۃ والبغضاء (المائدہ : ۶۵)
یعنی قیامت تک عیسائیوں کا وجود پایا جاتا ہے۔لیکن یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود آکر عیسائیوں سے لڑائی کرے گا۔میں کہتا ہوں کہ پھر وہ دجال کہاں گیا۔جس کی بابت کہتے ہیں کہ حرمین کے سوا اس کا دخل ساری جگہ ہوگا۔اس تناقض کا جواب ان کے پاس کیا ہے۔دجال تو کھوٹ کرنے والا ہے۔اس یے اس کے معنے تاجر کے بھی ہیں۔سونے کا نام بھی دجال ہے اور شیطان کا بھی اصل یہی ہے کہ نصاریٰ کی قوم جو اسلام کی تخریب کے والے ہے اور طرح طرح مشن قائم کر کے اسلام کو نابود کرنا چاہتی ہے اور حق وباطل میں التباس کرتی ہے اور اپنی کتابوں میں تحریف کرتی ہے۔یہی وہ گروہ ہے،جس پر دجال کا اطلاق ہوا ہے۔کیونکہ دجال تو گروہ کا نام ہے۔اور جو فتور اس نے پیدا کیا ہے۔وہ عام طور پر محسوس ہو چکا ہے۔جو بازار ارتداد کا یہاں گرم ہے،وہ مصر اور دوسرے ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔تو اب ایک دانشمند سوچے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو فرضی دجال سے بچایا تو اس قریب تر آنے والی آفت کا کوئی سامن نہیں کیا؟ اور اس کا ذکر تک بھی نہ کیا؟ یہ غلط ہے۔خدا نے ذکر کیا اور اس سے بچایا ہے۔ہمارے نزدیک یہی گروہ دجال ہے۔لغت میں گروہ ہی کے معنے ہیں۔یہی تحریف وتبدیل کرتے ہیں۔قرآن شریف کا اگر ترجمہ کرتے ہیں وہ بھی ایسا۔اسلام کو معدوم کرنا اپنا فرض اور مدّعا رکھتے ہیں۔اور یہ گروہ نرے پادریانہ رنگ میں ہی اسلام پر حملہ آور نہیں بلکہ فلسفیانہ رنگ میں بھی حملہ کرتا ہے اور اپنی ذریت کو ایسی طرز پر تعلیم دینا چاہتا ہے۔کہ اعمال میں سُست ہو جاویں۔ناول ہیں تو اس طریق پر بھی اُن کو اسلام سے دور ہٹانا چاہتا ہے۔اور فسق وفجور کی زندگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور تاریخ ہے تو اس رنگ میں بھی بداعتقادی اور بدظنی پھیلانے کا خواہشمند ہے ۔غرض ہر پہلو سے اسلام سے بیزار کرانا چاہتا ہے اور یہ بات بالکل بدیہی ہے۔جو لوگ ان کی پالیسی سے آگاہ ہیںا۲ن کے مکائد اور اغراض کا علم رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی مخالفت کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔شفا خانوں کے اجراء سے بھی یہی غرض ہے۔غرض جو پیرایا اختیار کرتے ہیں۔اس میں اسلام کی مخالفت اصل مدّعا ہوتا ہے۔اور ارتداد علت غائی ہوتی ہے۔یہ اس قدر طریق لیے پھرتے ہیں۔کہ فرضی دجال کے وہم و خیال میں بھی نہ ہوں گے۔
پھر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتدا میں بھی ان کا ہی ذکر کیا جیسے کہ ولا الضالین پر سورہ فاتحہ کو ختم کیا۔اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ قل ھواﷲ سے لے کر
قل اعوذ برب الناس (النس : ۲)
تک غور کرو۔اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا۔ اور
تکا دالسموت یتفطرن منہ (مریم : ۹۱)
کہ۔بتائو اس دجال کا بھی کہیں ذکر کیا۔جس کا ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں۔پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجال کے لیے سورۃ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھو۔اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے۔غرض جہانتک غور کیا جاوے۔بڑی وضاحت کے ساتھ یہ امر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجال سے مراد یہی نصاریٰ کا گروہ ہے۔
دابۃ الارض
دابتہ الارض کے دو معنے ہیں ۔ایک تو وہ علماء جن کو آسمن سے حصہ نہیں ملا۔وہ زمین کے کیڑے ہیں۔دوسرے دابتہ الارض سے مراد طاعون ہے۔
دابۃ الارض تا کل منسا تہ (سبا : ۱۵)
قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ جبتک انسان میں روحانیت پیدا نہ ہو۔یہ زمین کا کیڑا ہے۔اور طاعون کی نسبت بھی سب نبیوں نے پیشگوئی کی تھی۔کہ مسیح کے وقت پھیلے گی۔تکلم الناس۔تکلیم کاٹنے کو بھی کہتے ہیں۔ارو خود قرآن شریف نے ہی فیصلہ کر دیا ہے۔اس سے ئگے لکھ دیا ہے کہ وہ اس لیے لوگوں کو کاٹے گی۔کہ ہمارے مامور پر ایمان نہیں لائے۔
یہ غور کرنے کے مقام ہیں۔اب زمانہ قریب آگیا ہے اور لوگ سمجھ لیں گے۔طاعون بڑا بھاری کتب مقدسہ اور احادیث میں مسیح موعود کا نشان ہے۔اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ہوئی تھی۔خدا تعالیی نے مجھے جو کچھ طاعون کی نسبت فرمایا ہے۔اُسے میں نے مفصل لکھ دیا ہے۔یہ میرا نشان ہے۔جس قدر اس کا تعلق پنجاب سے ہے،دوسرے حصہ ملک سے نہیں ہے۔یہ اس لیے کہ اصل جڑ اس کی پنجاب میں مخفی ہے۔سہارن پور وغیرہ میں جو لوگ اس سلسلہ کو ب۲ری نظر سے دیکھتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پنجاب کی طرف سے تکفیر کا فتویٰ تیار ہوا ہے اور پنجاب والوں نے پیش دستی کی ہے اور تہمتیں لگا کر بدنام کیا ہے۔مگر اب جو یہ بلا آئی ہے۔سوچ کر دیکھو تو دشمن اسی طریق سے مانے گا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تو یہ خیال کرتے ہو کہ وہ زمین میں دفن ہوئے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ عقیدہ کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر یہ کہ مسیح مردے زندہ کرتے تھے اور وہ خالق تھے ا۲نہوں نے پرندے بنائے یہاں تک کہ لاکھوں کروڑوں پر ندے اب بھی موجود ہیں۔میں نے ایک اہل حدیث سے پوچھا کہ اگر دوجانور پیش کیے جاویں،تو کیا آپ فرق کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں۔کہ یہ مسیح کا ہے اور وہ خد اکا ہے۔اس نے یہی کہا کہ اب رَل مِل گئے ہیں۔اس لیے تمیز نہیں ہوسکتی۔پھر جب حضرت عیسیٰ کو خالق مانتے ہیں۔محی مانتے ہیں۔عالم الغیب مانتے ہیں۔اور بقول اُن کے قرآن میں اُن کی موت کا بھی کہیں ذکر نہیں تو پھر خدا بنانے میں کیا شک رہا۔تعجب کی بات ہے کہ وہی متوفیک کا لفظ حضرت مسیح کی نسبت آئے۔تو اس کے معنے ہوں جسم سمیت آسمان پر اُٹھانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آئے تو کہہ دیا جائے کہ اس کے معنے ہیں مرنا۔اب غور کر کے بتائو کہ عیسائیوں کو کتنا بڑا موقع اور ہتھیار حملہ کرنے کا آپ د یدیا ہے۔اگر عیسائی سوال کریں تو پھر ان کے پاس کیا جواب ہے۔آپ نہ پڑھ سکیں گے کہ
انی متوفیک یا فلما توفیتنی
کیونکہ اس کے معنے انہوں نے آسمان پر زندہ اٹھانے کے کئے ہیں۔پھر کس آیت سے ان کی وفات ثابت کریں گے اور خدائی کو باطل کریں گے۔
یقینا سمجھو کہ ان ہتھیاروں سے ان پر فتح نہیں پاسکتے۔ان پر فتح اور کسر صلیب کے لیے وہی ہتھیار اور حربہ ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے۔بیشک مسلمانوں کو اس کی پروا نہین کہ اسلام پر کیا آفت آرہی ہے۔مگر خدا تعالیٰ کو پرا ہے جس کا باغ ہے اس کو پروا ہے۔اس کا باغ کاٹا جاتا ہے اور جلایا جاتا ہے۔اس کی غیرت نے اس کی حفاظت کے لیے تقاضا کیا ہے۔اور اب ایک سلسلہ خود اس نے قائم کیا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو رک سکے۔؎ٰ
ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
٭(۳۱؍اکست ۱۹۰۱ء؁ کو جناب بابو غلام مصطفیٰ صاحب میونسپل کمشنر وزیر آباد‘قادیان دارالامن آئے تھے اس تقریب پر حضرج حجۃاﷲعلی الارض علیہ السلام نے بطور تبلیغ مندرجہ ذیل تقریر فرمائی۔جو الحکم کی اس اور اگلی اشاعتوں میں درج ہوتی ہے۔وباﷲالتوفیق وھوخیر الرفیق۔ایڈیٹر)
نئی بات سنتے ہی اس کی مخالفت نہ کریں
اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان کسی بات کو خالی الذہن ہو کر نہیں سوچتا اور تمام پہلوئوں پر توجہ نہیں کرتا اور غور سے نہیں سنتا اس وقت تک پرانے خیالات نہیں چھوڑ سکتا اس لئے جب آدمی کسی نہی بات کو سنے تو اسے یہ نہیں چاہئیے کہ سنتے ہی اس کی مخالفت کے لئے تیار ہو جاوے بلکہ اس کا فرض ہے کہ اس کے سارے پہلوئوں پر پورا فکر کرے اور انصاف اور دیانت اور سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے خوف کو مد نظر رکھ کر تنہائی میں اس پر سوچے۔میں جو کثھ اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ کوئی معمولی اور سرسری نگاہ سے دیکھنے کے قابل بات نہیں بلکہ بہت بڑی اور عظیم الشان بات ہے میری اپنی بنائی ہوئی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کی بات ہے اس لئے جو اس کی تکذیب کے لئے جراب اور دلیری کرتا ہے وہ میری تکذیب نہیں کرتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر دلیر ہوتا ہے مجھے اس کی تکذیب سے کوئی رنج نہیں ہو سکتا البتہ اس پر رحم ضرور آتا ہے کہ نادان اپنی نادانی سے خدا کے غضب کو بھڑ کاتا ہے۔
ہر صدی کے سر پر مجدّ دکا ظہور
یہ بات مسلمانوں میں ہر شخص جانتا ہے اور غالباً کسی کو بھی اس سے بے خبری نہ ہوگی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ال تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کو بھیجتا ہے جو دین کے اس حصہ کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہوجی ہوتی ہے یہ سلسلہ مجددوں کے بھیجنے کا اﷲ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق ہے جو اس نے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
میں فرمایا ہے پس اس وعدہ کے موافک اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے موافق جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ سے وحی پا کر فرمائی تھی یہ ضروری ہوا کہ اس صدی کے سر پر جس میں سے انیس برس گذر گئے کوئی مجدداصلاح دین اور تجدید ملت کے لئے مبعوث ہوتا اس سے پہلے کہ کوئی خدا تعالیٰ کا مامور اس کے الہام اور وحی سے مطلع ہو کر اپنے آپ کو ظاہر کرتا ۔مستعد اور سعید فطرتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ صدی کے سر آجانے پر نہایت اضطراب اور بے قراری کے ساتھ اس مرد آسمانی کی تلاش کرتے اور اس آواز کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتے جو انہیں یہ مژدہ سناتی کہ میں خا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ کے موافق آیا ہوں۔
چودھوی صدی کا مجدّد
یہ سچ ہے کہ چودھویں صدی پر اکابر امت کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور تمام کشوف ارو رؤیا اور الہامات اس امر کی طرف ایما کرتے تھے کہ اس صدی پر آنے والا موعود عظیم الشان انسان ہو گا جس کانام احادیث میں مسیح موعود اور مہدی آیا ہے مگر میں کہوں گا کہ جب وہ وقت آگیا اور آنے والا آگیا تو بہت تھوڑے وہ لوگ نکلے جنہوں نے اس کی آواز کو سنا غرض یہ بات کوئی نرالی اور نئی نہیں ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجد د آتا ہے پس اس وعدہ کے موافق ضوری تھا کہ اس صدی میں بھی جو انیس سال تک گذر چکی ہے مجدد آئے اب اس دوسرے پہلو کو دیکھنا بھی ضوری ہے کہ کیا اس وقت اسلام کے لئے کوئی آفات اور مشکلات ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو کسی مامور کے لئے داعی ہیں جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام پر اس وقت دو قسم کی آفتیں آئی ہیں۔اندرونی اور بیرونی۔
اسلام کی اندرونی حالت
اندرونی طور پر یہ حالت اسلام کی ہو گئی ہے کہ بہت سی بدعتیں اور شرک سچی توحید کی بجائے پیدا ہوگئے ہیں اعمعال صالحہ کی جگہ صرف چند رسومات نے لے لی ہے قبر پرستی اور پیرپرستی اس حدتک پہنچ گئے ہے کہ وہ بجائے خود ایک مستقل شریعت ہو گئے ہے مجھ کو ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ مجبھ کو یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ اس امر کو انہوں نے نہیں سمجھا کہ میں کیا کہتا ہوں مگر اپنے گھر میں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ نبوت کا دعویٰ تو انہوں نے کیا ہے جنہوں نے اپنی شریعت بنالی ہے کوئی بتائے کہ وہ ورد اور وظائف جو سجادہ نشین اور مختلف گدیوں والے اپنے مریدوں کو سکھاتے ہیں ‘میں نے ایجاد کئے ہیں؟ یا میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور سنت پر عمل کرتا ہون اور اس پر ایک نقطہ یا شعشہ بڑھا نا کفر سمجھتا ہوں۔
اور ہزار ہا قسم کی بدعات ہر فرقہ اور گروہ مین اپنے اپنے رنگ کی پیدا ہو چکی ہیں تقویٰ اور طہارت جو اسلام کا اصل منشاء اور مقصود تھا جس کے لئے آنحضرت اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرناک مصائب برداشت کیں جن کو بجز نبوت کے دل کے کوئی دوسرا برداشت نہیں کر سکتا وہ آج مفقودو معدوم ہو گیا ہے۔جیل خانوں میں جا کر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے زنا‘ شراب اور اتلاف حقوق اور دوسرے جرئم اس کثرت سے ہو رہے ہیں کہ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کوئی خدا نہیں۔اگر مختلف طبقات قوم کی خرابیوں اور نقائص پر مفصل بحث کی جاوے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جاوے۔ہر دانشمند اور غور کرنے والا انسان قوم کے مختلف افراد کی حالت پر نظر کر کے اس صحیح اور یقینی نتیجہ پر پہنچ جاوے گا کہ وہ تقویٰ جو قرآن کریم کی علت غائی تھا جو اکرام کا اصل موجب اور ذریعہ شرافت تھا آج موجود نہین۔عملی حالت جس کی اشد ضرورت تھی کہ اچھی ہوتی اور جو غیروں اور مسلمانوں میں مابہ الامتیاز سخت کمزور اور خراب ہو گئی ہیں۔
بیرونی آفاتک،عیسائی مذہب کی طرف س یاسلام کی مخالفت
بیرونی حصہ میں دیکھو کہ جس قدر مذاہب مختلفہ موجود ہیں ان میں سے ہر ایک اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے۔خصوصیت کے ساتھ عیسائی مذہب اسلام کا سخت دشمن ہے عیسائی مشنریوں اور پادریوں کی ساری کوشش اس ایک امر میں صرف ہو رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اور جس طرح ممکن ہو اسلام کو نابود کیا جاوے اور اس توحید کو جو اسلام نے قائم کی تھی جس کے لئے اس کو بہت سی جانوں کا کفارہ دینا پڑا تھا‘ اسے ناپید کرکے یسوع کی خدائی کا دینا کو قائل کرایا جاوے اور اس کے خون پر یقین دلایا جاوے جو بے قیدی‘آزادی اور اباحت کی زندگی کو پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر وہ پاک غرض تقویٰ وطہارت و عملی پاکیزگی کی جو اسلام کا مدعا تھا‘مفقود کی جاوے۔عیسائی پادریوں نے اپنی ان اغراض میں کامیابی حاصل کرنے کے واسطے بہت سے طریقے اختیار کئے ہیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو مرتد کر لیا اور بہت س یہیں جن کو نیم عیسائی بنا دیا ہے اور بہت بڑی تعداد اور لوگوں کی ہے جو ملحدانہ طبیعت رکھتے ہیں اور اپنی طرز بود و باش اور رفتار و گفتار میں عیسائیت کے اثر سے متاثر ہیں۔نوجوانوں کی ایک جماعت اور مخلوق ہے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئی ہے اور کالجوں میں اس کی تربیت ہوئی۔وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی بجائے فلسفہ اور طبیعیات کی قدر کرتی ہے اور اس کو مقدم اور ضروری سمجھتی ہے اسلام اس کے نزدیک عر ب کے جنگلوں کے حسب حال تھا۔ان باتوں اور حالتوں کو جب میں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں‘ میں دوسروں کی بابت کچھ نہیں کہہ سکتا‘مگر میرے دل پر سخت صدمہ ہوتا ہے کہ آج اسلام ان مشکلات اور آفتوں میں پھنسا ہوا ہے اور مسلمانوں کی اولاد کی یہ حالت ہو رہی ہے جو وہ اسلام کو اپنے مذاق ہی کے خلاف سمجھتے ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو الٰہی حدود سے باہر تو نہیں ہوئے۔حلال کو حرام نہیں کرتے مگر وضع قطع لباس پسند کرتے ہیں انہوں نے ایک قدم نصرانیت میں رکھا ہوا ہے اب صاف سمجھ آتا ہے کہ اندرونی طور پر وہ بدعات اور مشرکانہ رسوم ہیں اور بیرونی طور پر یہ آفتیں۔خصوصاً صلیبی مذہب نے جو نقصان پہنچایا ہے اسلام وہ مذہب تھا کہ اگر ایک آدمی بھی اس سے نکل جاتا اور مرتد ہو جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی اور یا اب یہ حالت ہے کہ مرتدوں کی انتہا ہی نہیں رہی۔
خدا تعالیٰ کی خاص تجلّی کی ضرورت
اب ان تمام امور کو یکجا ئی طور پر کوئی عقلمند سوچے اور خدا کے لئے غور کرے کہ کیا خدا کی خا ص تجلی کی ضرورت نہیں ؟کیا ابھی تک خداتعالیٰ کے اس وعدہ حفاظت کے پورا ہونے کا وقت نہیںآیاکہ
انانحن نزلنا الذکروانالہ لحفظوں ( الحجر : ۱۰
اگر اس وقت اسکی مدد اورتجلی کی ضرورت نہیں تو کوئی ہمیں بتائے کہ وقت کب آئے گا ۔ غور کرو اور سوچو کہ ایک طرف تو واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں ک اس قسم کی ضرورتین پیدا ہو گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلی فرمائے اور اپنے دین کی نصرت عملی سچائی اور آسمانی تائیدات سے کر کہ دکھا وے دوسری طرف صدی نے مہر لگا دی ہے کے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے موافق ( جو اس کے برگزیدہ اور افضل الرسل خاتم الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہو اکہ ہر صدی کے سر پر تجدیددین کے لیے مجدد بناکر بھیجا جاوے گا) کوئی مجدد آناچاہئیے ۔ صدی میں سے انیس برس گذر گئے مگر اب تک باوجود ان ضرورتوں کے پیدا ہوجانے کے بھی کوئی مامور مبعوث نہیں ہو اتو پھر خدا کے لیے غور کرو کہ ا س میں اسلام کا کیا باقی رہتا ہے ؟کیا اس سے
انالحفظون
کے وعدہ خلاف ثابت نہ ہوگا ؟ کی اس سے ارسال مجدد کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باطل نہ ہوگئی ؟ کیا یہ نہ پایا جائے گا ۔ کہ اسلام ایسا مذہب ہے کہ اس پر آفتیں آئیں اور خدا تعالیٰ کو اس کے لیے غیرت نہ آئی ۔
پیشگوئی اور بشارات کے موافق خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا
اب کوء ہمارے دعویٰ کو چھوڑے اور الگ رہنے دے مگر ان باتوں کو سوچ کر جواب دے ۔میری تکذیب کر وگے تو اسلام کو ہاتھ سے تمھیں دینا پڑے گامگر میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے وعدے کہ موافق اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیکی بشارت کے موافق خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ
صدق اللہ و رسولہ
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں سچّی ہیں ظالم طبع ہے وہ انسان جو ان کی تکذیب کرتا ہے ۔ ۱؎
اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے
اب میرا یہ دعویٰ ہے کہ اس صدی پر میں تجدید دین کے لیے بھیجا گیا ہوںصاف ہیمیں زور سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور اس پر بائیس برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا ہے اس قدر تک میری تائیدوں کا ہونا یہ الزام اور حجت ہے کے تم لوگوںپر ۔کیونکہ میں حدیث اورقرآن کی بنا پر کیا ہے اب جولوگ میری تکذیب کریں گے وہ میری نہیں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں گے ۔ ان کو کوئی حق تکذیب کا نہیں پہنچتا ۔جب تک وہ میری جگہ دوسرا مصلح نہ پیش کریں کیونکہ زمانہ اور وقت بتاتا ہے کہ مصلح آنا چاہئیے ۔ کیونکہ ہر جگہ مفاسد پیداہوچکے ہیں ۔ اور قرآن شریف کہتا ہے کہ کہ ایسی آفتوں کے وقت حفاظت قرآن کے لئے مامور آتا ہے او رحدیث کہتی ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجددبھیجا جاتاہے پھر ضرورتیں موجود ہیں اوریہ وعدے حفاظت اور تجدید دین کے الگ ہیں تو ان ضروتوں اور وعدوں کے موافق آنے والے کی تکذیب کی تو دو ہی صورتیں ہیں یا کوئی اور مصلح پیش کیاجاوے ان وعدوں کی تکذیب کی جاوے ۔
حفاظتِ دین کی ضرورت
بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حفاظت کہ کوئی ضرور ت نہیں ہے وہ سخت غلطی کرتے ہیں دیکھو جو شخص باغ لگاتا ہے یا عمارت بناتا ہے تو کیا اس کا فرض نہیں ہوتا یا وہ نہیں چاہت کہ اس کی حفاظت اور دشمنوں کی وست بردسے بچانے کے لیے ہر طرح کوشش کرے ؟ باغات کے گرد کیسے کیسے احاطے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور مکانات کی آتشزدگیوں سے بچانے کے لیے نئے نئے مصالح تیار ہوتے ہیں ۔اور تجلی سے بچانے کے لیے تاریں لگائی جاتی ہیں یہ امور اس فطرت کو ظاہر کرتے ہیں جو بالطبع حفاظت کے لیے انسانوں میں پھر کیا اللہ تعالیٰ کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کرے ؟ بے شک حفاظت کرت ہے اور اس نے ہر بلا کے وقت اپنے دین کو بچایاہے ۔ اب بھی جب کے ضرو رت پڑی اس نے مجھے اسی لیے بھیجا ہے ۔ ہا ں یہ امر حفاظت کا مشکوک ہو سکتا ہے یا اس کا انکار ہوسکتا تھا ۔ اگر حالات اور ضرورتیں اس کی موید نہ ہوتیں ۔ مگر کئی کروڑ کتابیں اسلام کے رو میں شائع ہوچکی ہیں اور ان اشتہاروں اور دوورقہ رسالوں کا تو شمار ہی نہیں جو ہر روز اور ہفتہ وار اورماہوار پادریوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں ان گالیوں کو اگر جمع کیا جاوے جو ہمارے ملک کے مرتد عیسائیوں نے سید المصومین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک ازداوج کصی نسبت شائع کی ہیں تو کئی کوٹھے ان کتابوں سے بھرسکتے ہیں اوراگر ان کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھا جائے تو وہ کئی میل تک پہنچ جائیں ۔عماد الدین ۔صفدرعلی اور شائق وغیرہ نے جیسی تحریریں شائع کی ہیں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ۔عماد الدین کی تحریروں کے خطرناک ہونے کا بعض انصاف پسند عیسائیوں کو بھی اعتراف ہے چناچہ لکھنؤ سے جو ایک اخبار شمس الاخبار نکلا کرتا تھا اس میں اس کی بعض کتابوں پریہ رائے لکھی گئی تھی کہ اگر ہندوستان میں پھر کبھی غدر ہو گا تو اس میں ایسی تحریروں سے ہوگا ایسی حالتوں میں بھی کہتے ہیںکہ اسلام کاکیا بگڑ اہے اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرسکتے ہیں جن کویا تو اسلام سے کوئی تعلق درد نہیںاوریا وہ لوگ جنہوں نے حجروں کی تاریکی میں پرورش پائی ہے اور ان کو باہر کی دنیا کی چھ خبر نہیں ہے پس ایسے لوگ اگر ہیں توان کی کچھ پروا نہیں ہاں وہ لوگ جو نور قلب رکھتے ہیں جن کو اسلام کے ساتھ محبت اورتعلق ہے اور زمانہ کے حالا ت سے آشنا ہیں ان کو تسلیم کرنا پڑتاہے کہ یہ وقت کسی عظیم الشان مصلح کاوقت ۔ج
مامور الٰہی ہونے کی شہادتیں
غرض اس وقت میرے مامور ہونے کی بہت سی شہادتیں ہیں۔ اول ۔اندرونی شہادت ،دوم بیرونی شہادت ،سوم صدی کے سر پر مجددکی نسبت حدیث صحیح۔
چہارم ۔
انانحن نزلنا الذ کر و انا لہ لحفظون ( الحجر : صص۱۰ )
اب پانچویں اور زبردست شہادت میں اور پیش کرتاہوں اور وہ سورہ نوار میں وعدہ استخلاف ہے اس میں اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے ۔
وعداللہ الذین امنو منکم وعملوالصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ( نور : ۵۶ )
اس آیت میں وعدہ استلخلاف کے موافق جو خلیفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ہوں گے وہ پہلے خلیفوں کی طرح ہوں گے اسی طرح قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ فرمایا گیا ہے جیسے فرمایا:۔
اناا رسلناا لیکم ورسو لا شاھداعلیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا ۔ ( المزمل : ۱۶ )
اور آ پ مثیل موسیٰ استشناء کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں پس اس مماثلت میں جیسے کما کا لفظ فرمایاگیا ہے ویسے ہی سورہ نو ر میں کما کا لفظ ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کے موسوی سلسلہ اور محمدی میں مشابہت تامہ ہے موسوی سلسلہ سے کے خلفاء کا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے اس مماثلت کے لحاظ سے کم ازکم اتنا تو ضروری ہے کہ چودھویں صدی میں ایک خلیفہ اسی رنگ و قوت کا پیدا ہو جو مسیح سے مماثلت رکھتا ہو اور ا س کے قلب اور قدم پر ہو ۔پس اگر اللہ تعالیٰ اس امر کی اور دوسری شہادتیں اور تائیدیں نہ ہو ورنہ آـپؐ کی مماثلت میں معاذا للہ ایک نقص اورضعف ثابت ہو تا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ اس مماثلت کی تصدیق اورتائید فرمائی بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ مثیل موسیٰ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تر ہے ۔
مسیح موعود کی آمد کا مقصد
حضرت مسیح علیہ اسلا م جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر آیا بلکہ قرآن شریف کے احیا ء کے لیے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے ۔
تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھناچاہئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہو اتو اس کی دوصورتیں ہ یں ۔ اول تکمیل ہدایت ۔دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت من کل وجود آپؐ کی آمد اول سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپ ؐ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۃ جمعہ میں جو
اخر ین منھم ( الجمعۃ : ۷ ) والی آیت آپ ؐ کے فیض اور تعلیم سے ایک اورقوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بعثت اور بے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت پانے کاہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اورسلسلے مکمل ہو رہے ہیں چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا، ڈکخانوں ،تار برقیوں ، ریلوں ، جہازوں ، کااجرااور اخبارات کی اصل اشاعت ان سب امور نے مل ملاکر ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ آپ کامل ہدایت کے کمال کا دوسراجزوہے تکمیل اشاعت ہدایت پوراہورہا ہے ۔اور یہ اسی کے موافق ہے جیسے مسیح نے کہاتھا کہ میں توریت کو پوراکرنے آیا ہوں ۔اور میں کہتاہوں کہ میرا ایک کام یہ بھی ہے تکمیل اشاعت ہدایت کروں ۔غرض یہ عیسوی مماثلت بھی ہے ۔
مسیح موسوی اور مسیح محمدی میں مماثلت
علاوہ بریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جو آفتیں پیدا ہو گئی تھیں اسی قسم کی یہاں بھی موجود ہیں ۔اندرونی طور پر یہودیوں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی ۔اور تاریخ سے اس ا مر کی شہادت ملتی ہے۔توریت کے احکام انہوں نے چھوڑ دئیے تھے اور اس کی بجائے طالمود اوربزرگی کی روایتوں پر زیادہ زور دیتے تھے ۔اس وقت مسلمانوں میں بھی ایسی ہی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ کتاب اللہ چھوڑ دیا گیا ہے اوراس کی بجائے روایتوں اور قصوں پر زورمارا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ سلطنت کے لحاظ سے بھی ایک مماثلت ہے ۔ اس وقت رومی گورنمنٹ تھی اور اس وقت برٹش گو ر نمنٹ ہے ۔جس کے عدل و انصاف کاعام شہرہ ہے ۔ اور یہ میں پہلے بتاچکاہوں کہ وہ بھی چودھویں صدی میں آئے تھے اوراس وقت بھی چودھویں صدی ہے ۔
ان سب کے علاوہ ایک اور بھی سر ہے جو مماثلت کو مکمل کرتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ اخلاقی تعلیم پر زور دیتے تھے اور موسوی جہادوںکی اصلا ح کرنے آئے تھے ۔انہوں نے کوئی تلوار نہیں اٹھائی ۔مسیح موعود کے لئے بھی یہی مقرر تھا ۔کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو تعلیم کی عملی سچائیوں سے قا ئم کریاوراس اعتراض کو دور کرے جو اسلام پر اسی رنگ میں کیا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے ذریعہ پھیلایاگیا ہے ۔یہ اعتراض مسیح موعود کے وقت میں بالکل اٹھادیاجائیگا ۔کیونکہ وہ اسلام کے زندہ برکات اور فیوض سے اس سچائی کودنیا پر ظاہر کرے گااور اس سے ثابت ہوگا کہ جیسے آج اس ترقی کے زمانہ میں اسلام محض اپنی پاک تعلیم اوراس کے برکات اور ثمرات کے لحاظ سے موثرمفید ہے ۔ ایساہی ہمیشہ اور ہر زمانہ میںمفید اورموثر پایاگیاہے ۔کیونکہ یہ زندہ مذہب ہے ۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنے والے مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا۔
یضع الحرب
وہ لڑائیوںکو اٹھادے گا ۔ اب ان ساری شہادتوںکوجمع کر واوربتاؤ کہ کیااس وقت ضرورت نہیں کہ کوئی آسمانی مرد نازل ہوا؟ جب یہ مان لیا گیا کہ صدی پرمجدد آناضروری ہے تو اس صدی پر مجددضرور ہوگا پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت موسیٰ علیہ السّلام سے ہے تواس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجدد ہوکیونکہ ( مسییح ) چودھویں صدی کے پر موسیٰ پر آیا تھا اور آجکل چودھویں صدی ہے
چودہ کے عدد کوروحانی تغیّر سے مناسبت ہے
چودہ کے عدد کو بڑ ی مناسبت ہے چودھویں صدی کاچاند مکمل ہوتاہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے
ولقد نصراکم اللہ یبد ر و انتم اذلۃ ( آل عمران : ۱۲۴ )
میں اشارہ کیاہے ۔ یعنی ایک بدروہ تھا جب رسول اللہ ﷺنے مخالفوں پر فتح پائی اس وقت بھی آپ ؐ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے ۔بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت اذلۃ ہورہی ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیاہے
آنے والے موعود کی ایک علامت
احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ آنے والے موعود کے وقت دنیاظلم اور زُور سے بھری ہوئی ہوگئی ۔ظلم اورزُور سے یہ مراد نہیں کہ اسوقت حکومت ظالم ہوگی جو لوگ یہ سمجھتے ہیںوہ سخت غلطی کرتے ہیں آنے والے مسیح کے وقت میں ضروری ہے کہ سلطنت عادل ہو اور امن ہواوراہم اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرتے ہیں کہ ہم کوایسی عادل اورامن دوست گورنمنٹ اسنے عطا کی ہے جس کی نظیر آج دنیاکی کسی سلطنت میں نہیں ہے جیسے مسیح کے زمانہ میں رومی گورنمنٹ جو اپنے عدل و انصاف کے لیے مشہور تھی مگر ہماری گورنمنٹ رومی گورنمنت سے بدرجہا بہتر ہے اور بڑھ چڑھ کر عادل ہے یہاں تک کہ اس مقدمہ میں جو پادری ہٹری مارٹن کلارک کی طرف سے مجھ پر ہو اتھا کپتان ڈگلس سنے جو ان دنوں گورداس پور کاڈپٹی کمشنر تھا۔باوجود یکہ بعض کوتاہ اندیشوں کا یہ خیال تھا……کہ ایک معزز پادری کی طرف سے مقدمہ ہے ۔ لیکن اس انصاف پسند حاکم نے اصلیت کو نکال لیا اور معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ بعض ادنیٰ درجے کے آدمیون کی چالاکی کانتیجہ تھا۔کپتان ڈگلس جو آج کل دہلی میں ڈپٹی کمشنر ہیں ہمیشہ تک اس عدیم المثال کے باعث مشہور رہیںگے اور یہ تو گور منٹ کے ایک عہدہ دار کی مثال ہے اور ایسی ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں غرض احادیث میں آیا ہے کہ ج وہ موعود آئے گا تو دنیا ظلم اور زُور س بھری ہوئی ہو گی اس کا مطلب یہی ہے کہ اس وقت دنیا میں شرک اور زُور کا بہت زور ہو گا چنانچہ اس وقت دیکھ لو کیسی بت پرستی ،صلیب پرستی، مردہ پرستی اور قسم قسم کی پرستش ہو رہی ہے اور حقیقی اور سچّے خدا کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ۱؎
ایک مصلح کی ضرورت
اب ان تمام امور کو یکجا کر کے دانشمند غور کرے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں کیا وہ اس قابل ہے کہ سر سری نگا ہ سے اسے رد کر دیا جائے؟ یا یہ کہ اس پر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے ۔جو کچھ ہمارا دعویٰ ہے کیایہ صدی کے سر پر ہے یا نہیں ؟ اگر ہم نہ آتے تب بھی ہر ایک عقلمند اور خدا ترس کو لازم تھا کہ وہ کسی آنے والے کی تلاش کرتا ۔کیونکہ صدی کا سر آگیا تھا اور اب تو جب کہ بیس برس گزرنے کو ہیں اور بھی زیادہ فکر کی ضرورت تھی موجود فساد پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کوئی شخص اصلاح کے لئے آنا چاہئے ۔عیسائیت نے وہ آزادی اور بے قیدی پھیلائی ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں ہے اور مسلمانوں کے بچوں پر جو اس کا اثر ہوا ہے اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے ہی نہیں ہیں ۔
‏23- 3-05 Amira
کاسر الصلیب مسیح موعود کا ہی دوسرا نام ہے
ساری باتوں کو چھوڑ دو اس صلیبی فتنہ ہی کی اصلاح کے لئے جو شخص آئے گا اس کا نام کیا تکھا جائے گا؟ یہ فتنہ بالطبع اپنی اصلاح کرنے والے کا نام ک اسرا الصلیب رکھتا ہے اور یہ مسیح موعود کا دوسرا نام ہے قرآن اور حدیث نے مختلف طریقوں پر اس مضمون کو ادا کیا ہے اور آنے والے موعود کی بشارت دی ہے۔اس کو خوب سمجھ لینا چا ہئے۔کیونکہ جب انسان ناقص طور پر سمجھتا ہے گویا کچھ نہیں سمجھتا لیکن جب کامل غور اور فکر کے بعد ایک بات کو سمجھ لیتا ہے پھر مشکل ہوتا ہے کہ کوئی اسے گمراہ کر سکے۔اس لئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس سوال کو حل کرنے کی خوب فکر کریں۔یہ معمولی اور چھوٹی سی بات نہ سمجھیں بلکہ یہ ایمان کا معاملہ ہے جنت اور دوزخ کا سوال ہے۔
مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کا نتیجہ
میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاﷲ اﷲ تعالیٰ کو چھوٹا ٹھہرالیتا ہے جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ
انا نحن نزلنا الذکروانا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح محمدیؐ سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔مگر اس نے معاذاﷲ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے معاذاﷲ۔کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو
اخرین منھم لما یلحقو ابھم (الجمعہ : ۴)
میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ الحمد سے لے کر والناس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا پھر سوچو کہ میری تکذیب کوئی آسان امر ہے یہ میں ازخود نہیں کہتا بلکہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا۔
اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے انت منی وانا منک بے شک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے۔اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے۔ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ اس طرح پر کہ آپؐ نے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا۔وہ معاذاﷲ جھوٹا نکلا۔پھر آپ نے امامکم منکم فرمایا تھا وہ بھی معاذاﷲ غلط ہوا ہے اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت مسیح کے آنے کی بشارت دی تھی وہ معاذاﷲ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا۔اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ٹھہرے گا یا نہیں؟
پس پھر میں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں۔مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافربننا ہوگا مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہوگی مگر پہلے اپنی گمراہی اور روسیاہی کو مان لینا پڑے گا مجھے قرآن و حدیث کا چھوڑنے والا کہنے سے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑدینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا۔میں قرآن و حدیث کا مصدق و مصداق ہوں۔میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں میں کافر نہیں بلکہ انااول امؤمنین کا مصداق صحیح ہوں اور جو کچھ میں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے۔
خدا تعالیٰ سے فیصلہ طلب کریں
جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حک مانتا ہے اس کے لئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سنکر خاموش ہو جائے لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج؟خدا خود اس کو سمجھائے گا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے واسطے اس امر پر غور کریں اور اپنے دوستوں کو بیھ وصیت کریں کہ وہ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں۔بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہر کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گزرے گا کہ اس پر حق کھل جائے گا مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان شرائط کے ساتھ خدا تعالیٰ س یفیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضدو تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کرا لیتے ہیں کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے۔اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے۔
ایک مصلح کی ضرورت
اس وقت ضروری ہے کہ خوب غور کر کے دیکھا جاوے کیا عیسائی فتنہ نہیں ہے جو
من کل حدب ینسلون (الانبیاء : ۹۷)
کا مصداق ہو کر لاکھوں انسانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور مختلف طریق اس نے اپنی اشاعت کے رکھے ہیں۔اب وقت ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جاوے کہ اس فتنہ کی اصلاح کرنے والے کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کای رکھا ہے؟ صلیب کا زور تو دن بدن بڑھ رہا ہے اور ہر جگہ اس کی چھؤنیاں قائم ہوتی جاتی ہیں مختلف مشن قائم ہو کر دو ر دراز ملکوں اور اقطاع عالم میں پھیلتے جاتے ہیں اس لئے اگر اور کوئی بھی ثبوت اور دلیل نہ ہوتی تب بھی طبعی طور پر ہم کو ماننا پڑتا کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے جو اس فساد کی آگ کو بجھائے ۔مگر خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو صرف ضروریات محسوسہ مشہودہ تک ہی نہیں رکھا بلکہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وعزت کے اظہار کے لئے بہت سی پیشگوئیاں پہلے سے اس وقت کے لئے مقرر رکھی ہوئی ہیں جن سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت ایک آنے والا مرد ہے اور اس کا نام مسیح موعود اور اس کا کام کسر صلیب ہے اب اس ترتیب کے ساتھ ہر ایک سلیم الفطرت کو اتنا تو ماننا پڑے گا کہ بجز اس تسلیم کے چارہ نہیں کہ کوئی مرد آسمانی آوے اور اس کا کام اس وقت کسر صلیب ہی ہونا چاہیے۔
کسرِ صلیب کی حقیقت
لیکن غور طلب امر یہ ہے کہیہ جو فرمایا گیا ہے کہ کسر صلیب مسیح موعود کا کام ہو گا اس کا کیا مطلب ہے کیا وہ لکڑی کی صلیب کو توڑے گا؟ اور اس سے فائدہ کیا ہوگا؟صاف ظاہر ہے کہ لکڑی کی صلیب کو اگر توڑتا پھرے گا تو یہ کوئی عظیم الشان کام نہیں۔اور نہ اس کا کوئی معتد بہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر وہ لکڑی کی صلیب توڑے گا تو اس کی بجائے سونے چاندی اور دھاتوں کی صلیبیں عیسائی بنالیں گے اور ا س سے کیا نقصان ہوا اور پھر حضرت ابو بکر ؓ اور یزید اور صلاح الدین نے بہت سی صلیبیں توڑیں تو کیا وہ اس ایک امر سے مسیح موعود بن گئے؟نہیں‘ ہر گز نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں ہو سکتی کہ وہ لکڑی کی صلیب جو بعض عیسائیوں نے لٹکائی ہوئی ہے مسیح موعود تورتا پھرے گا بلکہ ا سکے اندر ایک حقیقت ہے اور ا سحقیقت کی تائید میں حدیث کا ایک اور لفظ یضع ا لحرب آیا ہے یعنی مسیح موعود لڑائیوں کواٹھادے گا اب ہمیں کوئی سمجھاوے کہ ایک طرف تو مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ وہ لڑائی کے سلسلہ کو یکدفعہ اٹھادے اور دین کے لئے لڑائی کا نام لینا حرام سمجھا جاوے اور دوسری طرف یہ بھی صاف ثابت ہوتا ہے اس منشاء کی کہ اس وقت لڑائیاں حرام ہوں گی۔اچھا‘لڑائیاں ہوں گی نہیں اور صلیب توڑنا مسیح موعود کا کام ہے پھر سوچ کر دیکھو کہ ہمارے اس دعویٰ کی تائید صاف طور پر ہوتی ہے یا نہیں کہ صلیب توڑنے سے یہ لکڑی یا پیتل وغیرہ کی صلیبیں (جو عیسائی شرک کے طور پر گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں) توڑنا مراد نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہی ہے جو ہم لے کر آئے ہیں ہم نے صاف طور پر اعلان کیا ہے کہ اس وقت جہاد حرام ہے کیونکہ جیسے مسیح موعود کا وہ کام ہے یضع الحرب بھی اس کا کام ہے۔اس کام کی رعایت سے ہم کوضروری تھا کہ جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ صاکر کریں پس ہم کہتے ہیں کہ اس وقت دین کے نام سے تلوار یا ہتھیار اٹھانا حرام اور سخت گناہ ہے ہم کو ان و حشی سرحدیوں پر افسوس آتا ہے کہ وہ آئے دن جہاد کے نام سے بعض وارداتیں کر کے جو دراصل اپنا پیٹ پالنے کے لئے کرتے ہیں اسلام کے نام کو بدنام کرتے ہیں اور امن میں خلل انداز ہوتے ہیں ایک سچے مسلمان کو ان وحشیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہئے تو پھر یکسر الصلیب کے کیا معنی ہیں؟توجہ سے سننا چاہئے کہ مسیح موعود کی بعثت کا وقت غلبہ صلیب کے وقت ٹھہرایا گیا ہے اور وہ صلیب کو توڑنے کے لئے آئے گا اب بمطلب صاف ہے کہ مسیح موعود کی آمد کی غرض عیسوی دین کا ابطال کلی ہو گا اور وہ حجت اور براہین کے ساتھ جن کو آسمانی تائیدات اور خوراق اور بھی قوی کر دیں گے اور صلیب پرستی کے مذہب کو باطل کرکے دکھادے گا اور ا سکا باطل ہونا دنیا پر روشن ہو جائے گا اور لاکھوں روحیں اعتراف کریں گی کہ فیالحقیقت عیسائی دین انسان کے لئے رحمت کا باعث نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ ہماری ساری توجہ اس صلیب کی طرف لگی ہوئی ہے۔صلیب کی شکست میں کیا کوئی کسر باقی ہے؟ موت مسیح کے مسئلہ نے ہی صلیب کو پاش پاش کر دیا ہے کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح صلیب پر مرا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے کشمیر میں آکر مرا۔تو کوئی عقلمند ہمیں بتائے کہ اس سے صلیب کا باقی کیا رہتا ہے۔اگر تعصب نے اور ضد نے بالکل ہی انسان کے دل کو تاریک اور اس کی عقل کونا قابل فیصلہ نہ بنادیا ہو تو ایک عیسائی کو بھی یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اس مسئلہ سے عیسائی دین کا سارا تا روپودادھڑ جاتا ہے۔؎ٰ
مسیح موعود کا ظہور غلبئہ صلیب کے وقت مقدر تھا
غرض یہ بات بالکل صاف ہے کہ مسیح موعود کو اﷲ تعالیٰ اس وقت بھیجے گا جب صلیب کا غلبہ ہوگا جس سے مراد یہ ہے کہ صلیبی دین کا فتنہ بڑھا ہوا ہوگا اس کی اشاعت اور توسیع کے لئے ہر ایک قسم کے حیلوں کو کام میں لایا جائے گا اور دنیا میں وہ طلم و زور جس کا دوسرے لفظوں میں شرک او ر مردہ پرستی نام ہو سکتا ہے‘ پھیلا یا جاوے گا اس وقت اﷲ تعالیٰ جس شخص کو بھیجے گا اس کا کام یہی ہوگا کہ اس ظلم و زور س یدنیا کو پاک کرے اور مردہ پرستی اور صلیب پرستی کی *** سے دنیا کو بجائے اس طرح پر وہ صلیب کو توڑے گا۔بظاہر یہ تنا قض معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کاموں میں سے یضع الحرب بھی لکھا ہے کہوہ لڑائیاں نہ کرے گا اور صلیب کے توڑنے میں لڑائیوں کی ضرورت ہے یہ تناقض سطحی خیال کے آدمیوں کو نظر آتا ہے جنہوں نے مسیح موعود کی آمد اور بعثت کی غرض کو ہر گز نہیں سمجھا حالانکہ یضع الحرب کا لفظ ہی کسر صلیب کی حقیقت کو بتاتا ہے کہ اس سے مراد جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے لکڑی یا دوسری چیزوں کی صلیبوں کو توڑنا نہیں بلکہ صلیبی ملت کی شکست ہے اور ملت کی شکست بینہ اور براہین سے ہوگی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
لیھلک من ھلک عن بینۃ (الانفال : ۴۳)
بہر حال ہمارے مخالف علماء جو مخالفت میں اس قدر غلو کرتے ہیں اگر ٹھنڈے دل سے اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین رکھ کر ان باتوں کو سوچتے تو یقینا ان کو اس کے سوا چارہ نہ ہوتا کہ وہ میرے پیچھے ہو لیتے وہ دیکھتے کہ صدی کا سر آگیا۔بلکہ ا س میں سے انیس سال گزرنے کو آگئے ہیں اور صدی پر مجدد کا آنا ضروری ہے ورنہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب لازم آتی ہے۔
عیسائیت کا عظیم فتنہ
اور جب وہ نصاریٰ کے فتنہ پر نظر کرتے تو ان کو نظر آتا کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی آفت اور فتنہ اسلام کے لئے کبھی پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا ہے ایسا خطرباک فتنہ کبھی نہیں اٹھا۔فلسفیانہ رنگ میں الگ‘طبعی رنگ میں الگ مذہب پر زد ہے۔ہر شخص جو کسی فن میں کسی علم میں کوئی دسترس رکھتا ہے وہ اسی پہلو سے اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے مرد‘ عورتیں واعظ ہیں اور وہ مختلف تدابیر سے اسلام سے بیزاری پیدا کرنی چاہتے ہیں اور عیسائیت کی طرھ لوگوں کو مائل کرتے ہیں۔شفا خانوں میں جاؤ تو دیکھو گے کہ دوا کے ساتھ عیسوی دین کا وعظ ضرور کیا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ بعض عورتیں یا بچے علاج کے لئے شفاخانہ میں داخل ہو گئے ہیں اور پھر ان کا پتہ اس وقت تک نہیں ملا جب تک وہ عیسائی بن کر ظاہر نہیں کئے گئے۔سادھوئوں کے رنگ میں وعظ کرتے ہیں۔غرض کوئی طریقہ وسوسہ اندازی کا ایسا نہیں جو اس قوم نے اختیار نہ کیا ہو۔اب اس فتنہ پر ان کی نگاہ ہوتی ۔تو ان کو ماننا پڑتا کہ اس فتنہ کی اصلاح و مدافعت کے لئے کوئی شخص خدا کی طرف سے ضرور آنا چاہئے۔قرآن شریف سے بے توجہی اور لا پرواہی پر نظر کرتے تو کہتے کہ
انا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
کے وعدہ کے موافق ضرور کوئی محافظ قرآن اس وقت آنا چاہئے اور پھر سلسلہ خلافت موسوی اور سلسلہ خلافت محمدی کی مشابہت پر نظر ہوتی تو ماننا پڑتا کہ اس وقت چودھویں صدی میں ایک خاتم الخلفاء ضرور آنا چاہئے۔
اس طرح پر ایک نہیں بہت سی باتیں تھیں جو ان لوگوں کی ہدایت اور راہبری کا موجب بن سکتی تھیں مگر نفس پرستی کی وجہ سے تعصب اور ضد سے انہوں نے ان پر غور نہیں کیا اور مخالفت اختیار کی۔ان امور کا جو میں پیش کرتا ہوں وہی انکار کر سکتا ہے جو گھر سے باہر نہیں نکلتا ور حجروں ہی میں پرورش پاتا ہے جو شخص کہتا ہے فتنہ نہیں ہوا تو میں اس کو متعصّب ہی نہین سمجھتا بلکہ وہ بے ادب اور گستاخ ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی عزت و تکریم کا خیال نہیں ہے اور اس سے بے خبر محض ہے۔مگر عقلمند اور دین سے واقف سمجھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ا س فتنہ کو خفیف نہیں سمجھا اور حقیقت میں خفیف نہیں۔میں بار بار اس امر پر اسی لئے زور دیتا ہوں کہ لوگوں کو اس امر پر اطلاع ملے۔ان کا ایک ایک پرچہ اگر دیکھا جاوے تو وہ ایک ایک لاکھ نکلتا ہے وہ وسائل اشاعت اور تبلیع کے جوا بپیدا ہو گئے ہیں پہلے کہاں تھے؟اس سے پہلے رد اسلام میں ایک رسالہ تو دکھائو ۔مگر اس صدی میں اگر ان رسالوں اور اخباروں اور کتابوں کو جو اسلام کے خلاف لکھے گئے ہیں‘ ایک جگہ جمع کرو تو ان کا اونچا ڈھیر کئے میل تک چلا جاوے بلکہ میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ یہ اونچا ڈھیر دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کی اونچائی سے بھی بڑھ جاوے اور اگر ان کو برابر سطح پر رکھا جاوے تو کئی میل لمبی لئن ہو۔اس وقت اسلام شہید ان کر بلا کی طرح دشمنوں کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے اور اس پر بھی افسوس ہے کہ مخالف کہتے ہیں کہ کسی شخص کی ضرورت نہیں۔ہم مجادلہ کرنے والے سے بات کرنا نہیں ثاہتے اور اس سے بحث کرنا بجز تضیع اوقات اور کچھ نہیں ہے۔ہاں جو طالب حق ہو وہ ہمارے پاس آئے اور یہاں رہے اور پھر ہر طرح اس کی تسلی اور اطمینان کو تیار ہیں مگر افسوس تویہ ہے کہ اس قسم کے لوگ پائے نہیں جاتے بلکہ مخالف تو دو چار دس منٹ میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ گویا مذہبی قمار بازی ہے اس طرح پر حک کھل نہیں سکتا۔آپ خود سوچیں کہ عیسائیت اسلام کو مگلوب کرنے کے واسطے کس قدر زور لگا رہی ہے کلکتہ کے بشپ نیلندن جا کر جو تقریر کی ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ کوئی آدمی گورنمنٹ انگلشیہ کا سچا خیر خواہ اور وفادار نہیں ہوسکتا جب تک وہ عیسائی نہ ہو۔ایسی تقریروں اور بحثوں سے کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ عیسائی نبانے کے لئے کس قدر کوشش یہ لوگ کرنی چاہتے ہیں اور ان کی نیت میں کیا ہے؟ وہ صاف چاہتے ہیں کہ کوئی مسلمان نہ رہ جاوے ۔عیسائی مشنریوں نے اس امر کو بھی تسلیم کیا ہے کہ جس قدر اسلام ان کی راہ میں روک ہے اور کوئی مذہب ان کی راہ میں روک نہیں ہے مگر یادرکھو اﷲ تعالیٰ اپنے دین کے لئے غیور ہے اس نے سچ فرمایا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
اس نے اس وعدہ کے موافق اپنے ذکر کی محفظت فرمائی اور مجھے مبعوث کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے موافق کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آتا ہے اس نے مجھے صدی چہاردہم کا مجدد کیا۔جس کا نام کا سرالصلیب بھی رکھا یہ اگر ہم ا سدعویٰ میں غلطی پر ہیں تو پھر سارا کاروبار نبوت کا ہی باطل ہوگا اور سب وعدے جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹوں کی حمایت کرنے والا ثابت ہوگا (معاذاﷲ) کیونکہ ہم اس سے تائیدیں پاتے ہیں اور اس کی نصر تیں ہمارے ساتھ ہیں۔
نزولِ مسیح اور دجال سے متعلق عام خیالات اور اصل حقیقت
اب ایک سخص کو بطور وسوسہ کے یہ اعتراض گذرتا ہے کہ مسیح آسمان سے اترے گا اور اس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہوگا اور وہ دجال کو جس کے ہاتھ میں خدائی کی ساری قوتیں ہوں گی اور روٹیوں کا پہاڑ اس کے ساتھ ہوگا وہ قتل کرے گا اور آسمان سے تو یونہی اتر آئے گا مگر دمشق کے منارہ پر آکر سیڑھی کے بغیر نہ اترے گا اور دجال مردوں کو زندہ کرے گا وغیرہ بہت سی باتیں ہیں جو نزول المسیح کے متعلق ان لوگوں ین بنا رکھی ہیں اور دجال کے لئے کہتا ہیں کہ وہ کانا ہوگا مگر دجال اس کے لئے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ اس لئے کانا ہے کہ وحدہٗ لاشریک ہے اور سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے اب ان باتوں پر اگر دانشمند غور کرے تو خود اس کو ہنسی آئے گی کہ کیا کہتے ہیں۔ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ خیالی امور نہیں بلکہ یقینی باتیں ہیں جن کے ساتھ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ ہیں اور تائیدات الٰہیہ بھی ہیں جو آج نہیں سمجھتا وہ آخر سمجھے گا۔اﷲ تعالیٰ کے نور کو کوئی بجھا نہیں سکتا۔
پیشگوئیوں میں استعارات کا استعمال
یاد رکھو ۔الفاظ کے معنے کرنے میں بڑی غلطی کھاتے ہیں بعض وقت الفاظ ظاہر پر آتے ہیں اور بعض اوقات استعارہ کے طور پر آتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلے لمبے ہاتھوںوالی بی بی فوت ہوں گی۔اور آپ ؐ کے سامنے ساری بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کردئیے اور آپ نے منع بھی نہ فرمایا ۔لیکن جب بی بی زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا ۔تو اس کے معنے کھلے کہ لمبے ہاتھوں والیسے مراد اس بی بی سے تھی جو سب سے زیادہ سخی تھی ۔ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی آیتیں موجود ہیںجن کے اگرظاہر معنے کئے جائیں ت کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا ۔جیسے فرمایا :
من کان فی ھذہ اعمی فھہوا فی الاخر ۃ ( بی اسرائیل : ۵۳ )
اب آپ پروزیر آباد میں حافظ عبدالمنان سے جواس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے ، دریافت کریں کہ کیا آیت کایہی مطلب ہے کہ جواس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اُٹھایا جائے گا ؟ یا ظاہر پر اس سے مراد نہیںلی جاتی ،کچھ اور مطلب ہے ۔ یقینا اس کویہی کہنا پڑے گا ۔ کہ بیشک اس کے معنے نہیں ہیں کہ ہر اندھا اورنابینا قیامت کو بھی اندھا اور نابینا اٹھے گا بلکہ اس سے مراد معرفت اوربصیرت کی نابینائی ہے ۔
جب یہ ثابت ہوتا ہے کہ ا لفاظ میں استعارات بھی ہوتے ہیں اور خصوصاً پیشگوئیوں میںالفاظ ہیں ،ان کو بالکل ظاہر ہی حمل کر لینا کونسی دانشمندی ہے ؟یہ وہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیںظاہر پرستی سے کام لیتے ہیں ۔مگر یاد رکھیں کہ
ان الظن لایغنی من الحق شیئاً (النجم : ۲۹) اوربعض الظن اثم (الحجر ۱۳ )
پس اگر بدظنی سے کام لیتے ہیں اورظاہر معنوں ہی پر حمل کرتے ہیں تو پھر نابینوںکو تونجات سے جواب ہوگا ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ خد اتعالیٰ کی کتابوں کی زبان محض ناواقف ہیں اگر واقف ہوتے تو سمجھتے کہ پیشگوئیوں میں کس قدراستعارات سے کام لیا جاتا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں تو اس سے مراد صحابہ ؓ کی شہادت تھی اور یہ کوئی خاص بات نہیں عام طور پر قانون الٰہی رؤیا اور پیشگوئیوں کے متعلق اس قسم کا ہے ۔ دیکھو حضرت یوسف ؑ کی رؤیا جو قرآن شریف میں ہے کیا اس سے سورج اور چاند اورستارے مراد تھے ؟ یا عزیز مصر کی رؤیا جس گائیاں دکھائی گئی تھیں اس سے فی الواقعہ گائیں مراد تھیں یاکچھ اور ؟ اس قسم کی ایک دو نہیں ہزاروں ہزار شہادتیں ملتی ہیں۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ نزول المسیح کہ معاملہ میں یہ لوگ ان کو بھول جاتے ہیں اور ظاہر الفاظ پر زور دینے لگتے ہیں ۔ ان معاملات میں اختلاف کے جڑ دو ہی باتیں ہواکرتی ہیں کہ مجاز اور اسعارہ کو چھوڑ کر اس کو حمل کر لیا جائے او رجہاں ظاہر مراد ہے وہاں استعارہ قرار دیا جائے ۔ اگر پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارہ نہیں ہے تو پھر کسی نبی کی نبوت کا ثبوت بہت مشکل ہوجاوے گا۔
عہد نامہ قدیم و جدید استعارات کااستعمال اور یہود کا ابتلاء
یہودی کو یہی مشکل اور آفت تو پیش آئی کیونکہ حضرت مسیح کے لیے لکھا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے ایلیا آئے گا ۔چنانچہ ملا کی کتاب میں یہ پیشگوئی بڑی صراحت سے درج ہے ۔یہودی اس پیشگوئی کے موافق منتظر تھے ۔کہ ایلیا آسمان سے آوے لیکن جب مسیح آگیا او رایلیا آسمان سے نہ اترا تو وہ گھبرائے ۔ ۱؎
اور یہ ابتلا ان کو پیش آگیا کہ ایلیا کا آسمان سے آنا مسیح کے آنے سے پہلے ضروری ہے اب انصا ف شرط ہے ۔اگر یہ فیصلہ کسی جج کے سامنے پیش ہو تو وہ بھی یہودیوں کہ حق میں ڈگری سے گا کیونکہ یہ صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ ایلیا آئے گا اوراس سے پہلے کوئی نظیر اس قسم کے بروز کی ان میں موجود نہ تھی جو مسیح نے یوحنا کو ایلیا بنایا ۔اب اگر چہ ہم ان کتابوںکی بابت تو یہی کہتے ہیں کہ
لاتصدقو ا و لا تکذبو
لیکن یہ بھی ساتھ ضروری بات ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیا ہے ۔
فسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ( النمل : ۴ ۴ )
علاوہ بریں اس قصہ ایلیا کی قرآن شریف نے کہیں تکذیب او رتردید نہیں کی اور عیسائی دونوقومیں بالاتفاق اس کو صحیح مانتی ہیں ۔ اگر یہ قصہ نہ ہوتا۔تو عیسائیوں کا حق تھا کہ وہ بول پڑتے اوراس کی تکذیب کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اگر اس قصہ کو غلط کہا جائے تو عیسائیوں کے لیے مشکلات سے نجات اور مخلصی ہے ۔ جواس کو صحیح مان کر ان کو پیش آتی ہیں لیکن جبکہ انہوں نے تکذیب نہیں کی اوراس کوصحیح تسلیم کر لیا ہے پھر کوئی وجہ نہیںہوسکتی کہ ہم بلاوجہ تکذیب پر آمادہ ہوں ۔حق یہی ہے کہ یہودیوں میں یہ خبر صحیح موجود تھی کہ مسیح آنے سے پہلے ایلیا آئے گا ۔
مسیح علیہ ا لسّلام کافیصلہ
اور اسی لیے جب مسیح آگیا ت وہ مشکل میں پڑ ے اور انہوں نے مسیح سے ایلیا کے متعلق سوال کیا اور مسیح نے یوحنا کی صورت میں اس کوتسلیم کر لیا ۔ یہاںسے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگریہ پیشگوئی صحیح نہ ہوتی تو سب سے پہلے مسیح کا یہ حق تھا کہ وہ بجائے اس کہ یہ کہتے آنے والا ایلیایوحنا ہی ہے ، یوں جواب دیتے کہ کوئی ایلیا آنے والا نہیں ہے مسیح نے اگر اس کو صحیح تسلیم نہ کیاہوتا تو وہ یوحنا کی مشکل میں ایلیا کو نہ اتارتے ۔یہ چھوٹی اور معمولی سی بات نہیں ۔مسیح کا یہودیوں کے اس اعتراض کو مان کر اس کا جواب دینا بھی اس امر کی روشن دلیل ہ کہ وہ بجائے خود اس امر کوصحیح اوریقینی سمجھتے تھے ۔یہودیوں کایہ عذر بہر حال قابل پذیرائی تھا اورمسیح نے اس کو قبول کر کے یہی جواب دیا ہے کہ آنے والا ایلیا یوحنا ہی ہے چاہو تو قبول کر و ۔ اب اگر استعارات کوئی چیز نہیں اورخداتعالیٰ کی پیشگوئیوں میں یہ جزو اعظم نہیں ہوتے تو پھر جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح ؐ کی اس تاویل کو تسلیم نہیں کیا، یہ بھی انکا ر کریںکہ وہ فیصلہ صحیح نہیں تھا کیونکہ یہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ایلیا والے قصہ کی مسلمان تکذیب تو کر نہیںسکتے کیونکہ قرآن شریف نے کہیں اس کی تکذیب نہیں کی اور تکذیب کے اول حق دار تو حضرت مسیح ؑ اور ان کے متبعین ہوسکتے ہیں جبکہ یہ بات ہے کہ استعارات کوئی چیز نہیں اور ہر پیشگوئی لازماً اپنے ظاہری الفاظ ہی پر پوری ہوتی ہے تو پھر ان کو گویا مانناپڑے گا یہودیوں کی طرح کہ مسیح ابھی نہیں آئے گا اورجب مسیح کے آنے کا بھی ہے ہواتو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی انکارکرنا پڑا اوراس طرح پر اسلام ہاتھ س جاتا ہے اسی لیے میں بار بار اس امر پر زور دیتا ہوں کہ میری تکذیب سے اسلام کی تکذیب لازم آتی ہے
اس صورت میںعقل مند سوچ سکتا ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کے قصہ کے رنگ میں مسیح کی آمد ثانی ہے اوران کا فیصلہ گویا چیف کورٹ کا فیصلہ ہے جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ نامراد رہتا ہے اگر حضرت عیسیٰ ؑ نے خودآنا تھا توصاف لکھ دیتے کے میں خود ہی آؤں گا۔ یہودی بھی تو اعتراض کرتے ہیںکہ اگر ایلیا کا مثیل آنا تھا توکیوں خدا نے یہ نہ کہا کہ ایلیا کا مثیل آئے گا ۔غرض جس قدر یہ مقدمہ ایلیا کا ہے اس پر اگر ایک دانشمند صفائی اور تقویٰ سے غور کرے تو صاف سمجھ آجاتا ہے کہ کسی کے دوبا رہ آنے سے کیا مراد ہوتی ہے اور وہ کس رنگ میں آیا کرتا ہے ۔دو شخص بحث کرتے ہیں ایک نظیر پیش کرتا ہے اور دوسرا کوئی نظیر پیش نہیں کرتا تو بتاؤ کس کا حق ہے کہ اس کی بات مان لی جاوے ؟یہی کہنا پڑے گا کہ ماننے کے قابل اسی کی بات ہے جو دلائل کے علاوہ اپنی بات کے ثبوت میں نظیر بھی پیش کرتا ہے اب ہم تو ایلیا کا فیصلہ شدہ مقدمہ جو خود مسیح نے اپنے ہاتھ سے کیا ہے بطور نظیر پیش کرتے ہیں یہ اگر اپنے دعویٰ میں سچّے ہیں تو دو چا ایسے شخصوں کے نام لے دیں جن کی آسمان سے اترنے کی دلیلیں مو جود ہیں سچ کے حق میں کوئی نہ کوئی نظیر ضرور ہوتی ہے اس مقدمہ میں تتقیح طلب امر یہی کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہو تو کے ااس سے اس شخص کا پھر آنا مراد ہوتا ہے یا اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی آمد ثانی سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی اس کا مثیل آئے گا اگر اس تتقیح طلب امر میں ان کا دعویٰ سچا ہے کہ وہ شخص خود ہی آتا ہے تو پھر حضرت عیسیٰ پر جو الزام عائد ہوتا ہے اسے دور کر کے دکھائیں ۔اول یہ ان کا فیصلہ فراست صحیحہ سے نہئن ہوا ۔اور دوسرے معاذاللہ وہ جھوٹے نبی ہیں کیونکہ ایلے اتو آسمان سے آیا ہی نہیں وہ کہاں سے آگئے ؟ اس صورت میں فیصلہ یہودیوں کے حق میں صادر ہوگااس کا جواب ہمارے مخالف ذرا ہم کو دے کر تو دکھائیں ۔لیکن یہ ساری مصیبت ان پر اس ایک امر سے آتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم استعارہ نہیں مانتے اصل بات یہی ہے اور وہی فیصلہ حق ہے جو مسیح نے دیا ہے کہ ایلیا کے آنے سے مرا یہ تھی کہ اس کی خو اور طبیعت پر اس کا مثیل آئے گا اس کے خلاف ہر گز ثابت نہیںہو سکتا۔مشرق یا مغرب میں پھرو اور اس کی نطیر لاؤ کہ دو بارہ آنے والا خود ہی آیا کرت اہے ۔
اس اعتقاد کو دل میں جگہ دو گے تو نتیجہ وہی ہو گا ۔کہ اسلام ہاتھ سے جائے گا ۔مسیح کو یہودیوں نے اس وجہ سے جھوٹا قرار دے ا۔کیا ہمارے مخالف مسلمان بھی چہتے ہین کہ اس کو جھوٹا قرار دیں ؟ پھر ایک اور اعتراض اسی قصّہ کی بدولت پیدا ہو تا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مسیح مردوں کو زندہ کرتے تھے یا وہ قدرتیں اور طاقتیں ان میں موجود تھیں جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہوئی کہانہوں نے ایلیا کو زندہ کر لیا یا آسمان سے بے اختیار خود نہ اتارلیا۔
میر ے مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے میرے مخالفوں کوضرور ہے کے کہ وہ اس قضیہ میں کو صاف کر لیں جو مسیح کو پیش آیا اورجس کافیصلہ انہوں نے میرے حق میں کیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچتی ہیں ۔اور جب تک وہ اپنے وقت پرظاہر نہ ہوں ۔ان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم کی نہیںجاسکتی ۔ لیکن جب ان کاظہور ہوتاہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہو جاتاہے کہ اس پیشگوئی کایہ مفہوم او رمنشاتھا ۔اور جو شخص اس کامصداق ہو یاجس کے حق میں ہو اس کوعلم دیا جاتاہے جیسے فقیہ اورفریسی برابر ایلیا کے دوبارہ آنے کاقصہ پڑھتے رہتے تھے اور وہ نہایت ہی شوق کے ساتھ اس کاانتظار کرتے رہے لیکن اس کی حقیقت اور اصلیت کا علم ان کو اس وقت عطا نہ ہواجب تک خود آنے والا مسیح ؑ جس کے آنے کاوہ نشان تھا ،نہ آگیا , پس یہ علم مسیح ؑ کو ملا اوراس نے آکر فیصلہ کیا کہ ایلیا کی آمد سے مراد یہ ہے ۔
اسی طرح پر حضرت یعقوب علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ السّلام کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے آخر جاکر آپ کو خبر ملی تو کہا
انی لاجد ریح یوسف ( یوسف : ۵ ۹)
ورنہ اس سے پہلے آپ کا کیا حال ہوا کہ قرآن شریف میں فرمایاگیا ہے
وابیضت عینیہ ( یوسف : ۸۵)
تک نوبت پہنچی اسی کے متعلق کیا اچھا کہاہے ؎
کسے پر سید زاں گم کردہ فرزند
کہ اے روشن گہر پیر خرد مند
ز مصرش بوئے پیراہن شمیدی
چرا در چاہ کنعاش نہ دیدی؟
ابتلا اور آزمائش کے غرض
یہ بیہودہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ہے یہی قانون چلا آیا ہے ۔قبل از وقت ابتلاء ضرور آتے ہیںتاکچوں اور پکوں میں امتیاز ہو اور مومنوں اور منافقوں میںبین فرق نمودار ہو اسی لیے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے
احسب الناس ان یترکو ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون (العنکبوت:۳)
یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر نجات پا جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کا کوئی امتحا ن نہ ہو ۔ یہ کبھی نہیں ہوتا ۔ دنیا میں بھی امتحان اور آزمائش کا سلسلہ مو جو د ہے جب دنیاوی نظام میں یہ نظیر موجود ہے تو رو حا نی عالم میں یہ کیوں نہ ہو ۔بغیر امتحان اور آزمائش کے حقیقت نہیں کھلتی ۔ ۔ازمائش کے لفظ سے یہ بھی دھو کا نہ کھانا چاہئے اللہ تعالیٰ کوجو
عالم الغیب اور یعلم اسروالخفی
ہے امتحان کی ضرورت ہے اور بدوںامتحان یا آزمائش کے اس کو کچھ معلوم نہیںہوتا ایساخیال کرنا نہ صرف غلطی بلکہ کفر کی حد تک پہنچتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات کا انکار ہے امتحان یا آزمائش کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے اور شخص زیر امتحان پر اس کی حقیقت ایمان منکشف ہو کر اسے معلوم ہو جاوے کہ وہ کہاں تک اللہ کے ساتھ صدق و اخلاص و وفا رکھتا ہے اور ایسا دوسرے لوگوں اسکی خوبیوں پراطلاع ملے ۔
پس یہ خیال باطل ہے۔اگر کوئی کہے کہ اﷲ تعالیٰ جو امتحان کرتا ہے تو اس سے پایا جاتا ہے کہ اس کو علم نہیں اس کو تو ذرہ ذرہ کا علم ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلا آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے کسی نے کیا اچھا کہا ہے
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ اندر
زیر آں گنج کرم بنہادہ اندر
ابتلائوں اور امتحانوں کا آنا ضروری ہے بغیر اس کے کشف حقائق نہیں ہوتا یہودی قوم کے لئے یہ ابتلا جو مسیح کی آمد تھا بہت ہی بڑا تھا اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے ضرور ہے کہ وہ ابتلائوں کولے کر آوے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی توریت میں مثیلِ موسیٰ والی موجود ہ لیکن کیا کہنے والے نہیں کہتے کہ کیوں اﷲ تعالیٰ نے پورا نام لیکر نہ بتایا اور سارا پتہ نہ دے دیا کہ وہ عبداﷲ کے گھر میں آمنہ کے پیٹ سے پیدا ہو گا اور اسما عیلی سلسلہ سے ہو گا تیرے بھائیوں کا لفظ کیوں کہہ دیا؟ اصل بات یہ ہے کہ اگر ایسی ہی صراحت سے بتادیا جاتا تو پھر ایمان ایمان نہ رہتا دیکھو اگر ایک شخص پہلی رات کا چاند دیکھ کر بتادے تو وہ تیز نظر کہلا سکتا ہے لیکن اگر کوئی چودھویں کا چاند دیکھ کر کہہ دے کہ میں نے بھی چاند دیکھ لیا ہے تو کیا لوگ اس پر نہسیں گے نہیں؟ یہی حال خدا تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کی شناخت کے وقت ہوتا ہے جو لوگ قرآن قویہ سے شناخت کر لیتے اور ایمان لے آتے ہیں اور اول المومنین ٹھہرتے ہیں ان کے مدارج اور مراتب بڑے ہوتے ہیں۔لیکن جب ان کا صدق آفتاب کی طرح کھل جاتا ہے اور ان کی ترقی کا دریا بہہ نکلتا ہے تو پھر ماننے والے عوام الناس کہلاتے ہیں۔
جب خدا تعالیٰ کا ہمیشہ سے ایک قانون سلسلہ نبوت کے متعلق چلا آتا ہے۔اور اس کے اپنے ماموروں کے ساتھ یہی سنت ہے تو میں اس سے الگ کیونکر ہو سکتا ہوں پس اگر ان لوگوں کے دل میں بخل اور ضد نہیں تو میری بات سنیں اور میرے پیچھے ہو لیں پھر دیکھیں کہ کیا خدا تعالیٰ ان کو تاریکی میں چھوڑتا ہے یا نور کی طرف لے جاتا ہے؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ جو صبر اور صدق دل سے میرے پیچھے آتا ہے وہ ہلاک نہ کیا جاوے گا۔بلکہ وہ اسی زندگی س یحصہ لے گا جس کو کبھی فنا نہیں۔اس قدر لوگ جو میرے ساتھ ہیں اور جواب اس وقت موجود ہین کیا ان میں سے ایک بھی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ایک نہیں سینکڑوں نشان خدا تعالیٰ نے دکھائے ہیں مگر نشانات پر ایمان کا حصر کرنا یہ ٹھوکر کھانے کا موجب ہو جایا کرتا ہے جس کا دل صاف ہے اور خدا ترسی اس میں ہے اس کے سامنے دوبارہ آین کے متعلق حضرت عیسیٰ ؑ کا ہی فیصلہ پیش کرتا ہوں وہ مجھے سمجھاوے کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں (کہ مسیح سے پہلے ایلیا کا آنا ضروری ہے) جو کچھ مسیح نے کہا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ یہودی تو اپنی کتاب پیش کرتے تھے کہ ملاکی نبی کے صحیفہ میں ایلیا کا آنا لکھا ہے مثیل ایلیا کا ذکر نہیں۔مسیح ؑ یہ کہتے ہیں کہ آنے والا یہی یوحنا ہے چاہو تو قبول کرو اب کسی منصف کے سامنے فیصلہ رکھو اوردیکھو کہ ڈگری کس کو دیتا ہے وہ یقینا یہودیوں کے حق میں فیصلہ دے گا مگر ایک مومن جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا کے فرستادے کس ٭آتے ہیں وہ یقین کرے گا کہ میسح نے جو کچھ کہا اور کیا وہی صحیح اور درست ہے اب اس وقت وہی معاملہ ہے یا کچھ اور؟ اگر خدا کا خوف ہو تو پھر بدن کانپ جاوے یہ کہنے کی جرات کرتے ہوئے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے افسوس اور حسرت کی جگہ ہے کہ ان لوگوں میں اتنا بھی ایمان نہیں جتنا کہ اس شخص کا تھا جو فرعون کی قوم میں سے تھا اور جس نے یہ کہا اگر یہ کاذب ہے تو خود ہلاک ہو جائے گا۔میری نسبت اگر تقویٰ سے کام لیا جاتا تو اتنا ہی کہہ دیتے اور دیکھتے کہ کیا خدا تعالیٰ میری تائیدیں اور نصرتیں کر رہا ہے یا میرے سلسلہ کو مٹا رہا ہے۔
قرآن کریم کے مقابلہ میں سُنت اور حدیث کا درجہ
میری مخالفت میں ان لوگوں نے قرآن شریف کو بیھ چھوڑ دیا ہے۔میں قرآن شریف پیش کرتا ہوں اور یہ اس کے مقابلہ میں احادیث کو پیش کرتے ہیں مگر یادرکھنا چاہئے کہ احادیث اس درجہ پر نہین ہین جو قرآن شریھ کا درجہ ہے اور نہ ہم احادیث کو کلام اﷲ کا درجہ دے سکتے ہیں احادیث تیسرے درجہ پر ہیں اور بالاتفاق مانی ہوئی بات یہ ہے کہ وہ ظن کے لئے مفید ہیں
ان الظن لا یغنی من الحق شیئا (النجم : ۲۹)
اصل میں تین چیزیں ہیں قرآن سنت اور احادیث۔قرآن خدا تعالیٰ کی پاک وحی ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور سنت وہ اسوہ حسنہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحی کے موافق قائم کر کے دکھایا قرآن اور سنت یہ دونو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام تھے کہ ان کو پہنچادیا جاوے۔اور یہی وجہ ہے کہ جب تک احادیث جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک بھی شعائر اسلام کی بجا آوری برابر ہوتی رہی ہے۔اب دھوکا یہ لگا ہے کہ یہ لوگ احادیث کو اور سنت کو ایک کر دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک چیز نہیں ہیں۔پس احادیث کو جب تک قرآن اور سنت کے معیار پر پرکھ نہ لیں ہم کسی درجہ پر رکھ نہیں سکتے۔لیکن یہ ہمارا مذہب ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ حدیث بھی جو اصول حدیث کی رو سے کیسی ہی کمزور او رضعیف ہو لیکن قرآن یا سنت کے خلاف نہیں تو وہ واجب العمل ہے ۔مگر ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ نہیں محدثین کے اصول تنقید کی رو سے جو صحیح ثابت ہووہ خود قرآن اور سنت کی کیسی ہی مخالف ہو اس کو مان لینا چاہئے۔اب عقلمند غور کریں۔اور خد اکا خوف دل میں رکھ کر فکر کریں کہ حق کس کے ساتھ ہے‘ ان کے یا میرے۔میں خدا کے کلام او راس کے پاک رسول کے عمل کو مقدم کرتا ہوں اور یہ ان لوگوں کی باتوں اور خیالی اصولوں کو مقدم کرتے ہیں جنہوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ یہ اصول تنقید احادیث کے ہم نے خدا کی وحی اور الہام سے قائم کئے ہیں۔
اگر یہی بات ہے کہ احادیث کے لئے قرآن اور سنت کے علاوہ کوئی اور معیار ہے جو محض اپنی دانش اور عقل سے قائم کیا گیا ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ سنیوں کی پیش کردہ احادیث یا شیعوں کی پیش کردہ احادیث صحیح نہ مانی جاویں۔کیوں ایک فریق دوسرے کو رد کرتا ہے۔اس کا جواب ہمیں کوئی کچھ نہیں دیتا۔ان ساری باتوں سے بڑھ کر اور ایک بات ہے کہ مولوی محمد حسین ضاحب نے اپنے رسالہ اشاعت السنتہ میں یہ اقرار کیا ہے کہ اہل کشف جو لوگ ہوتے ہیں وہ احادیث کی صحت کے لئے محدثین کے اصول تنقید احادیث کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کو ضعیف ٹھہرا سکتے ہٰن یا ضعیف کو صحیح کیونکہوہ براہ راست اﷲ تعالیٰ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اطلاع پاتے ہیں۔جب یہ بات ہے تو پھر مسیح موعود جو حکم ہو کر آئے گا کیا اس کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ احادیث کی صحت اس طریق پر کر سکے؟ کیا وہ خد اتعالیٰ سے فیض نہ پاسکے گا؟ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے محروم ہوگا؟ اگر ا سکو یہ مقدرت نہ ہوگی تو پھر بتائو کہ ایسا حکم کس کام کا اور مصرف کا ہوگا؟
اس لئے احادیث کو یہ لوگ جب مختلط کرنے لگیں تو اس امر کو کبھی بھولنا نہ ثاہئے کہ قرآن اور سنت سے اس کو الگ کر لیا جاوے ہمارے صلع میں حافط ہدایت علی صاحب ایک عہدہ دار تھے مجھے اکثر ان س یملنے کا تفاق ہوتا تھا ایک بار انہوں نے کہا کہ میں ان کتابوں کو جن میں مسیح اور مہدی کے آنے کا ذکر ہے دیکھ رہا تھا ۔ان میں ہزارون نشانیاں قائم کر رکھی ہیں چونکہ یہ ساری نشانیاں تو پوری ہونے سے رہیں اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ اس وقت جھگڑا ہی پڑے گا یہ لوگ اس وقت ماننے سے رہے جب تک وہ ساے نسان پورے نہ ہو لیں اور وہ نشان یک دفعہ پورے ہونے سے رہے حقیقت میں ان کی فراست صحیح نکلی اس وقت وہی ہوا انکار ہی کیا گیا۔
پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارات کا استعمال
اصل بات یہی ہے جس کو میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ پیشگوئیوں کا بہت بڑا حصہ مجازات اور استعارات کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ ظاہری رنگ میں بھی پورا ہو جاتا ہے یہی ہمیشہ سے قانون چلا آیا ہے ا س سے تو ہم انکار نہین کر سکتے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔اگر ساری حدیثیں پوری ہونی ہیں یعنی جو سنیوں کی ہیں وہ بھی اور جو شیعوں کی ہیں وہ بھی ‘ علیٰ ہذالقیاس تمام فرقوں کی تو یقینا یاد رکھو کہ پھر نہ کبھی مسیح ہی آئے گا اور نہ مہدی۔
دیکھو میری ضرورت سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی جب آپ تشریف لائے۔اب بتائو کہ کیا اس وقت سب نے آپ کو تسلیم کر لیا؟ اور کیا وہ سارے نشانات جو توریت یا انجیل میں آپ کے لئے رکھے گئے تھے پورے ہو گئے تھے؟ خدا کے واسطے سوچو جواب دو۔اگر وہ ساری روائتیں جو ان میں چلی آتی تھیں اور وہ ساری نسانیاں جو ان کی کتابوں میں پائی جاتی تھیں‘ پوری ہوگئی تھیں پھر یہودیوں کو کیا ہو گیا تھا جو انہوں نے انکار کر دیا کبھی ساری نشانیاں پوری نہیں ہوتیں کیونکہ ایسی بہت سی ہوتی ہیں جو خود تجویز کر لی جاتی ہیں اور بہت سی ایسی ہوتی ہیں جو کچھ اور مطلب اور مفہوم رکھتی ہیں جب سب راستبازوں کے وقت ان کا انکار کیا گیا اور یہی عذر پیش کیا گیا کہ نشانات پورے نہیں ہوئے تو اس وقت اگر انکار کیا گیا تو اسی سنت پر انہوں نے قدم مارا ہے میں کسی کی زبان انکار تو بند نہیں کر سکتا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ وہ میرے عذرات کو سن کر جواب دیں یونہی باتیں بنابا تو طریق تقویٰ کے خلاف ہے۔
اس سلسلہ کو منہاج نبوت پر آزمائیں
منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو آزمائیں اور پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے خیالی اصولوں اور تجویزوں س کچھ نہیں بنتا اور نہ میں اپنی تصدیق خیالی باتوں س یکرتا ہوں میں اپنے دعویٰ کو منہاج نبوت کے معیار پر پیش کرتا ہوں پھر کیا وجہ ہے کہ اسی اصول پر اس کی سچائی کی آزمائش نہ کی جاوے۔
جو دل کھول کر میری باتیں سنیں گے میں یقین رکھتا ہوں کہ فائدہ اٹھاویں گے اور مان لیں گے لیکن جو دل میں بخل اور کینہ رکھتے ہیں ان کو میری باتیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی ان کو تو احوَل جیسی مثال ہے جو ایک کے دو دیکھتا ہے اس کو خواہ کسی قدر دلائل دئیے جائیں کہ دو نہیں ایک ہی ہے وہ تسلیم ہی نہیں کرے گا کہتے ہیں کہ ایک احول خدمت گار تھا آقا نے کہا کہ اندر سے آئینہ لے آئو وہ گیا اور واپس آکر کہا کہ اندر تو دو آئینے پڑے ہیں کونسا لے آئوں آقا نے کہا کہ ایک ہی ہے دو نہیں ا!حوَل نے کہا تو کیا میں جھوتا ہوں؟ آقا نے کہا کہ اچھا ایک کو توڑدے جب توڑا گیا تو اسے معلوم ہوا کہ درحقیقت میری غلطی تھی مگر ان احولوں کا جو میرے مقابل ہیں کیا جواب دوں؟؎ٰ
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ بار باراگر کچھ پیش کرتے ہیں تو احادیث کا ذخیرہ جس کو خود یہ ظن کے درجہ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ان کو معلوم نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے رطب و یا بس امور پر لوگ ہنسی کریں گے۔
یہ ہر ایک طالب حق کا حق ہے کہ وہ ہم سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت مانگے۔اس کے لئے ہم و ہی پیش کرتے ہیںجو نبیوں نے پیش کیا۔نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ‘عقلی دلائل یعنی موجودہ ضرورتیں جو مصلح کے لئے مستدعی ہیں۔پھر وہ نشانات جو خد انے میرے ہاتھ پر ظاہر کئے میں نے ایک نقشہ مرتب کر دیا ہے۔اس میں دیڑھ سو کے قریب نشانات دئیے ہیں۔جن کے گواہ ایک نوع سے کروڑوں انسان ہیں۔بیہودہ باتیں پیش کرنا سعاد تمند کا کام نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اس کا فیصلہ منظور کرو۔جن لوگوں کے دل میں شرارت ہوتی ہے۔وہ چونکہ ماننا نہیں چاہتے ہیں۔اس لئے بیہودہ حجتیں اور اعتراض پیش کرتے رہتے ہیں۔مگر وہ یادرکھیں کہ آخر خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میں افترا کرتا۔تو وہ مجھے فیالفور ہلاک کر دیتا۔مگر میرا سارا کاروبار اسکا اپنا کاروبار ہے۔اور میں اسی کی طرح سے آیا ہوں۔میری تکذیب اس کی تکذیب ہے۔اس لئے وہ خود میری سچائی ظاہر کردے گا۔
پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنے کا نتیجہ
جو لوگ پیسگوئیوں کی حقیقت کو نہ سمجھ کر مجاز اور استعارہ کو ظاہر پر حمل کرنا چاہتے ہیں آخر ان کو انکار کرنا پڑتا ہے جیسے یہودیوں کو یہی مصیبت پیش آئی اور اب عیسائیوں کو پیش آرہی ہے اور اس کی آمد ثانی کے متعلق اکثر یہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ کلیسیاہی سے مراد تھی سارے نشانات عام لوگوں کے خیال کے موافق کبھی پورے نہیں ہوا کرتے ہیں تو پھر انبیاء کے وقت اختلاف اور انکار کیوں ہو۔یہودیوں سے پوچھو کہ کیا وہ یہ مانتے ہیں کہ مسیح کے آنے کے وقت سارے نشانات پورے ہو چکے تھے؟ نہیں یاد رکھو قانون قدرت اور سنت اﷲ اس معاملہ میں یہی ہے جو میں پیش کرتا ہوں
ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (الاحزاب : ۶۳)
انسانی خیالات انسانی تاویلات اور قیاسات بالکل صحیح اور قطعی اور یقینی نہیں ہوسکتے ان میں غلطی کا احتمال ہے ایک امر کے واقع ہونے سے پہلے جو رائے قائم کی جائے۔اس پر قطعیت کا حکم نہیں لگاسکتے ۔لیکن جب وقت آتا ہے تو سارے پردے کھل جاتے ہیں یہی وجہ تھی کہ آنے والے کا نام حکم رکھا گیا جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت اختلاف عام ہوگا ت؛ ہی تو اس کا نام حکم رکھا گیا پس سچی بات وہی ہوسکتی ہے جو حکم کے منہ سے نکلے۔
نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ کرے گا کیونکہ حدیث کو تو لوگوں کا ہاتھ لگا ہوا ہے مگر قرآن شریف خد اتعالیٰ کا لاتبدیل کلام ہے جس پر کسی انسانی ہاتھ نے کوئی کام نہیں کیا اب خدا تعالیٰ کا کالام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو پہلا اور ابدی معجزہ تھا اس کو پیش کیا جاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اقوال پیش کئے جاتے ہیں کیا یہ تعجب اور افسوس کی بات نہیں؟
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ خدا کے فضل سے سمجھدار اور فہیم معلوم ہوتے ہیں کیا حدیث کا وہ مرتبہ ہو سکتا ہے جو قرآن شریف کا ہے؟ اگر حدیث کا وہی مرتبہ ہے جو قرآن شریف کا ہے تو پھر نعوذباﷲ ماننا پڑے گا کہ آپؐ نے اپنا فرض ادا نہ کیا کیونکہ قرآن شریف کا اہتمام تو آپ نے کیا مگر حدیث کا کوئی اہتمام نہ ہوا اور نہ آپ نے اپنے سامنے کبھی حدیث کو لکھوایا ۔کیا کوئی فرض رسالت ادا نہیں کیا یہ مسلمان کا کام تو ہو نہیں سکتا بلکہ بڑے بے دین اور ملحد کا کام ہو گا پھر سوچ کر دیکھو کہ کیا حدیث کو آپ نے اپنے سامنے مرتب کروایا ۔یا قرآن شریف کو؟صاف ظاہر ہے کہ قرآن شریف ہی کو آپ نے اپنے بعد چھوڑا کیونکہ تعلیم قرآن ہی تھا ہاں یہ سچ ہے کہ آپ نے اپنی سنت کو بھی قرآن کے ساتھ رکھا اور اصل یہی ہے کہ نبی دو ہی باتیں لے کر آتے ہیں۔کتاب اور سنت۔حدیث ان دونوں سے الگ شیئے ہے اور یہ دونو حدیث کی محتاج نہیں ہیں ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ کی حدیث پر بھی عمل کرلینا چاہیے خواہ وہ محدثین کے نزدیک موضوع ہی ہو۔اگر قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔ہم تو یہاں تک حدیث کی عزت کرتے ہیں لیکن اس کو قرآن پر قاضی اور حکم نہیں بنا سکتے۔آپؐ نے نہیں فرما یا کہ میںتم میں حدیث چھوڑتا ہوں بلکہ فرمایا کتاب اﷲ چھوڑتا ہوں حضرت عمر ؓ نے بھی یہی کہا حسبنا کتاب اﷲ انہوں نے نہیں کہا کہ حدیث کافی ہے؟
کتاب اﷲ کا فیصلہ
اب کتاب اﷲ کو کھول کر دیکھ لو وہ فیصلہ کرتی ہے پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورۃ فاتحہ ہے جس کے بغیر نما زبھی نہیں ہوسکتی۔دیکھو ا سمیں کیا تعلیم دی ہے
اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم
والاالضالین (الفاتحہ : ۶‘۷)
اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے مغضوب سے بالاتفاق یہودی مراد ہیں اور ضالین سے عیسائی۔اگر اس امت میں یہ فتنہ اور فساد پیدا نہ ہونے والا تھا۔تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو الدجال کا تھا مگر یہ نہیں کہا ولاالدجال کیا خدا تعالیٰ کو ا سفتنہ کی خبر نہ تھی؟اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے۔ایک وقت امت پر ایسا آنیوالا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس مین آجاوے گا۔ارو یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیح ؑ کا انکار کیا تھا پس یہاں جو فرمایا کہ یہودیوں سے بچنے کی دعا کرو اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کر بیٹھنا اور ضالین یعنی نصاریٰ کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ ا سوقت صلیبی فتنہ خطرناک ہو گا اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہوگا دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ ا سکا بھی نام لیا جاتا اب سارے گرجوں میں جاکر دیکھو کہ کیا یہ فتنہ خطرناک ہے یا نہیں؟ اسی طرح قرآن شریف کو غور س یپڑھو اور سوچو کہ کیا اس نے یہ وعدہ نہیں کی
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
اور پھر آیت استخلاف میں ایک خاتم الخلافاء کا وعدہ دیا گیا ان سب امور کو یکجائی نظر سے اس طرح پر دیکھو!
اول۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف نے توریت کی پیشگوئی کے موافق مثیل موسیٰ تسلیم کیا ہے اس مماثلت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ جس طرح پر موسوی خلفاء کا سللسہ قائم ہوا۔آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایک سلسلہ خلافت قائم ہو۔اگر اور کوئی بھی دلیل اس کے لئے نہ ہو تب بھی یہ مماثلت بالطبع یہ چاہتی ہے کہ ایک سلسلہ خلافاء کا ہو۔
دوم۔آیت استخلاف میں اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر ایک سلسلہ خلافت قائم کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس سللسہ کو پہلے سلسلہ خلافت کے ہمرنگ قرار دیا جیسا کہ فرمایا
کما استخلف الذین من قبلھم (النور : ۵۶)
اب اس وعدہ استخلاف کے موافق اور اس مماثلت کے لحاظ سے یہ ضروری تھا کہ جیسے موسوی سلسلہ خلافت کا خاتم الخلفاء مسیح تھا ضرور ہے کہ سلسلہ محمدیہ کے خلفاء کا خاتم بھی ایک مسیح ہی ہو۔
سوم۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا امامکم منکم تم میں سے تمہارا امام ہوگا۔
چہارم۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد تجدید دین کے لئے بھیجا جاتا ہے اب اس صدی کا مجدد ہونا ضروری تھا اور مجدد کا جو کام ہوتا ہے وہ اصلاح فسادات موجودہ ہوتا ہے پس جو فساد اور فتنہ اس وقت سب سے بڑھ کر ہے وہ عیسائی فتنہ ہے ا سلئے ضروری ہے کہ اس صدی کا جو مجدد ہو وہ کاسرالصلیب ہو۔جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے۔
پنجم۔موسوی خلافت کی مماثلت کے لحاظ س یبھی خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا چودھویں ہی صدی میں ہونا ضروری ہے کیونکہ موسیٰ ؑ کے بعد چودھویں صدی میں مسیح ؑآئے تھے۔
ششم۔جو علامات مسیح موعود مقرر تھیں ان میں سی بہت سی پوری ہو چکیں جیسے کسوف خسوف کا رمضان میں ہونا جو دو مرتبہ ہو چکا۔حج کا بند ہونا۔ذوالسنین ستارہ کا نکلنا۔طاعون کا پھوٹنا۔ریلوں کا اجرا۔اونٹوں کا بیکار ہونا وغیرہ۔
ہفتم۔سورہ فاتحہ کی دعا سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا اسی امت میں سے ہوگا غرض ایک دو نہیں۔صدہا دلائل ا س امر پر ہیں کہ آنے والا اسی امت میں سے آنا چاہیئے اور اس کا یہی وقت ہے اب خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے میں کہتا ہوں وہ ہجو آنے والا تھا وہ میں ہوں۔قدیم سے خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔
نشاناتِ صداقت
جو نشانات میری تائید میں ظاہر ہوئے ہیں ان کو دیکھ لو۔مجھے افسوس ہوتا ہے جب ان مخالفوں کی حالت پر نظر کرتا ہوں کہ جن امرو کو بطور نشان پیش کیا کرتے تھے اب وہ جب پورے ہو گئے تو ان کی صحت پر اعتراض کرنے لگے مثلاً کسوف خسوف والی پیشگوئی کو اب کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نئہیں مگر ان سے پوچھے کہ جس کو خد اتعالیٰ نے صحیح ثابت کر دیا۔کیا اب وہ ان کے کہنے سے جھوٹی ہو جائے گی؟افسوس تو یہ ہے کہ اتنا کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں ئتی کہ اس سے ہم مسیح موعود کی تکذیب نہیں کرتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہیں میری تصدیق اور تائید کے لئے ایک کسوف خسوف ہی نہیں ہزار ہا دلائل اور شواہد ہیں اور اگر ایک نہ بھی ہو تو کچھ بگڑتا نہیں۔مگر اس سے تو یہ پایا جائے گا کہ یہ پیشگوئی غلط ہوئی۔افسوس یہ لوگ میری مخالفت میںسید الصادقین کی پیشگوئی کو باطل کرنا چاہتے ہیں ہم ا سپیشگوئی کو بڑے زور سے پیش کرتے ہیں یہ ہمارے آقا کی صداقت کا نشان ہے۔
پس حدیث جس کو تم ظن کی سیاہی سے لکھتے تھے واکعہ نے اس کی صداقت کو یقین تک پہنچا دیا اب اس سے انکار کرنا بے ایمانی اور *** ہے۔موضوع احادیث میں کیا محدثین یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے چور پکڑ لیا ہے نہیں بلکہ یہی کہیں گے کہ کسی کا حافظہ درست نہیں یا راست باز ہونے میں کلام ہے مگر محدثین نے یہ اصول تسلیم کر لیا ہے کہ ایک حدیث اگر ضعیف بھی ہو مگر اس کی پیشگوئی پوری ہو جاوے تو وہ صحیح ہوتی ہے پھر ا سمعیار پر کیونکر کوئی یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔
پس یاد رکھو کہ آنے والا یا تو نصوص صریحہ س یپرکھا جاتا ہے‘ وہ ا سکی تائید کرتی ہیں اور پھر عقل چونکہ بدوں نظیر نہیں مان سکتی عقلی نظائر اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور سب سے برھ کر خدا تعالیٰ کی تائیدیں ا سکے ساتھ ہوتی ہیں اگر کسی کو کوئی شک وشبہ ہو تو وہ میرے سامنے آئے اور ان طریقوں سے جو منہاج نبوت پر ہیں میری سچائی کا ثبوت مجھ سے لے۔میں اگر جھوٹا ہوں تو بھاگ جائون گا۔مگر نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے انیس برس پہلے مجھے کہاینصرک اﷲ فی مواطن
پس جس طرح نبیوں یا رسولوں کو پرکھا گیا‘ مجھے پرکھ لو اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس معیار پر مجھے صادق پاجو گے۔یہ باتیں میں نے مختصر طور پر کہی ہیں ان پر غور کرو اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو وہ قادر ہے کوئی راہ کھول دے گا اس کی تائید اور نصرت صادق ہی کو ملتی ہے۔فقط؎ٰ
نواب محمد علی خان صاحب کے ایک سوال کے جواب میں تقریر
جب حضرت صاحبزمیںتقریر ادہ بشیر احمد ۔ شریف احمداور مبارکہ بیگم کی آمین ہوئی اس وقت جیسا کہ حضرت حجۃاﷲ کا معمول ہے کہ خدا تعالیٰ کے انعام و عطا یا پر شکر یہ کے طور پر صدقات دیتے ہیں آپ نے شکریہ کے طور پر ایک دعوت دی اس پر حضرت نواب صاحب قبلہ نے ایک سوال کیا کہ حضور یہ جو آمین ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟
اس کے جواب میں حصرت حجۃاﷲ علیہ الصلوۃوالسلام نے جو کچھ فرمایا وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔؎ٰ (ایڈیٹر الحکم)
شُبہ کا ازالہ کروانا صفائی قلب کا نشان ہے
فرمایا جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جواے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر سوچا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے۔میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجہ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں۔بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان دے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں جس سے وہ اندر ہی نشونما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک و شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے ایسی کمزوری نفاق تک پہنچادیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوثھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے۔میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کرلے۔ہاں یہ سچ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر سوال کرنا مناسب نہیں اس سے منع فرمایا گیا ہے
لا تسئلو اعن اشیاء (المائدہ: ۱۰۲)
اور ایسا ہی اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ آدمی جاسوسی کرکے دوسروں کی برائیاں نکالتا رہے یہ دونو طریق برے ہیں لیکن اگر کوئی امر اہم دل میں کھٹکے تو اسے ضرور پیش کرکے پوچھ لینا چاہئے یہ ایسی بات ہے کہ اگر کوئی شخص خراب غذا کھالے اور وہ پیت میں جا کر خرابی پیدا کرے اور اس سے جی متلانے لگے تو چاہئے کہ فوراً قے کرکے اس کو نکال دیا جائے لیکن اگر وہ اس کو نکالتا نہیں تو پھر وہ آلات ہضم میں فتور پیدا کرکے صحت کو بگاڑدے گی جیسے ایسی غذا کو فوراً نکالنا چاہئے اسی طرح جو بات دل میں کھٹکے اسے جلد باہر نکال دو۔
غرض میں اس کو آپ کی سعادت کی نسانی سمجھتا ہوں کہ آپ جو بات سمجھ میں نہ آوے اسے پوچھ لیتے ہیں اور اس کو اعتراض بن جانے کا موقع نہیں دیتے۔
بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے انماالاعمال بالنیات اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیت کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا۔قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے۔مثلاً ایک باپ اگر اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھ اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ بچہ مرجاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتل عمد مستلزم سزا نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کو حل کر دیتا ہے۔
پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
تحدیثِ نعمت کے آداب
یاد رکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے
اما بنعمۃربک فحدث (الضحیٰ : ۱۲)
پر عمل کرے۔خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی ثاہئے اس سے خدا تعاسلیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس کی اطاعت اورفرماں برداری کیلئے جوش پیدا ہوتا ہے تحدیث کے یہی معنے نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہئے مثلاً ایک سخص کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ عمدہ کپڑے پہن سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑے پہنتا ہے اس خیال سے کہ وہ واجب الرحم سمجھا جاوے یا اس کی آسودہ حالی کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو ایسا شخص گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم کو چھپانا چاہتا ہے اور نفاق س یکام لیتا ہے دھوکہ دیتا ہے اور مغالطہ میں ڈالنا چاہتا ہے یہ مومن کی شان سے بعید ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب مشترک تھا۔آپ کو جو ملتا تھا پہن لیتے اعراض نہ کرتے تھے جو کپڑا پیش کیا جاوے اسے قبول کر لیتے تھے لیکن آپ کے بعد بعض لوگوں نے اسی میں تواضع دیکھی کہ رہبانیت کی جزوملادی۔بعض درویشوں کو دیکھا گیا ہے کہ گوشت میں خاک ڈال کر کھاتے تھے۔ایک درویش کے پاس کوئی شخص گیا اس نے کہا کہ اس کو کھانا کھلا دو اس شخص نے اصرار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ ہی کھائوں گا آخر جب وہ اس درویش کے ساتھ کھانے بیٹھا تو اس کے لئے نیم کے گولے تیار کرکے آگے رکھے گئے اس قسم کے امور بعض لوگ اختیار کرتے ہیں اور غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے باکمال ہونے کا یقین دلائیں مگر اسلام ایسی باتوں کو کمال میں داخل نہیں کرتا سلام کا کمال تو تقویٰ ہے جس سے ولایت ملتی ہے جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے ہم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے منشا کے خلاف ہے قرآن شریف تو
کلو امن الطیبت (المومنون : ۵۲)
کی تعلیم د یاور یہ لوگ طیب عمدہ چیز میں خاک ڈال کر غیر طیب بنا دیں۔اس قسم کے مذاہب اسلام کے بہت عرصہ بعد پیدا ہئے ہیں یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافہ کرتے ہیں ان کو اسلام سے اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ خود اپنی شریعت الگ قائم کرتے ہیں۔میں اس کو سخت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ہمارے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں ہماری بھلائی اور خوبی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ آپ کے نقش قدم پر چلیں اور اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں۔
عورتوں سے حُسنِ معاشرت
اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادۂ مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف میں لکھا ہے
عا شروھن بالمعروف (النساء : ۲۰)
مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے۔
دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیع الرسن کر دیا ہے دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہتا اور وہ کھلے طور پراسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا۔بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیزکوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پائوں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتاردی دوسری پہن لی۔یہ بڑی ہی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میںش دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپؐ ایسے خلیق تھے۔باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے آپ سودے خود خرید لایا کرتے تھے ایک بار آپؐ نے کچھ خرید ا تھا ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور مجھے دے دیں آپ نے فرمایا کہ جس کی چیز ہو اس کو ہی اٹھانی چاہئے اس سے یہ نہیں نکالنا چاہئے کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا بھی اٹھا کر لایا کرتے تھے غرض ان واقعات س ییہ ہے کہ آپ کی سادگی اور اعلیٰ درجہ کی بے تکلفی کا پتہ لگتا ہے آپؐ پاپیادہ ہی چلا کرتے تھے اس وقت یہ کوئی تمیز نہ ہوتی ھی کہ کوئی آگے ہے یا پیچھے۔جیسا کہ آت کے وضعدار لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ کوئی آگے نہ ہونے پائے یہاں تک سادگی تھی کہ بعض اوقات لوگ تمیز نہیں کرسکتے تھے کہ ان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ کی داڑھی سفید تھی لوگوں نے یہی سمجھا کہ آپ ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن جب حضرت ابو بکر ؓ نے اٹھ کر کوئی خادمانہ کام کیا اور اس طرح پر سمجھا دیا کہ آپ پیغمبرؐ ہیں تب معلوم ہوا۔؎ٰ
بعض وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ دوڑے بھی ہیں ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تا کہ حضرت عائشاہ آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو ان کا تماشاہ دکھایا اور پھر عمر حضرت ؓ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر بھاگ گئے۔
غرض جب انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو غور سے مطالعہ کرتا ہے تو اسے بہت کچھ پتہ ملتا ہے۔لیکن بعض احمق کورباطن ایسے بھی ہیں جو آپ کی زندگی پر تدبر تو کرتے نہیں اعتراض کرنے کے لئے زبان کھولتے ہیں یہ حال عیسائیوں اور آریوں کا ہے۔
سنت اور بدعت میں فرق
غرض اس وقت لوگوں نے سنت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطرناک دھوکہ لگا ہوا ہے وہ سنت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کرسکتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کر لی ہیں اور ان کو اپنی زندگی کے لئے کافی راہنما سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان کو گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں جب آدمی سنت اور بدعت میں تمیز کرلے اور سنت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن جو فرق نہیں کرتا اور سنت کو بدعت کے ساتھ ملاتا ہے اس کا انجال اچھا نہیں ہوسکتا۔
اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بین ہے اور پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کر کے دکھادیا ہے آپؐ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہان انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریاکاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے۔لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اما بنعمۃربک فحدث کا عملی اظہار کرے اور مما رزقنھم ینفقون پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں۔پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سو نہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں۔اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنا دیتی ہے ایک قصہ مشہور ہے۔
ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اسقدر اسراف نہیں کرنا چاہئے اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریاکاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئے ایک بھی نہ بجھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا۔اور یہ فرق بیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا ہے۔لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے نکلا جو اکڑ اکڑ کر چلتا تھا ارو صاف ظاہر ہے کہ اس سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا کہ یہ وضع خدا تعالیٰ کی نگاہ میں معیوب ہے مگراس وقت محبوب ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی شان اور شوکت کا اظہار اور فریق مخالف پر ایک رعب پیدا ہوتا ہے پس ایسی بہت سی مثالیں اور نظیریں ملیں گی جن سے آخر کار جا کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انماالاعمال بالنیات بالکل صحیح ہے۔
اسی طرح پر میں ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو۔ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے۔
آمین کی تقریب
میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اﷲ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایساہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے یہ لڑکے چونکہ اﷲ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہنمونہ ہیں اس لئے میں اﷲ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ارو قرآن کریم کی حقانیت اور خدو خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں اس وقت جب انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیااس تقریب پر میں چند دعائیہ شعر جن میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں۔؎ٰ
ہر کام میں نیت تقویٰ کی ہونی چاہئے
پس یہ میری نیت اور غرض تھی۔چناچہ جب میں نے اس کو سروع کیا اور یہ مصرعہ لکھا ؎
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
تو دوسرا مصرعہ الہام ہوا ؎
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
جس سے یہ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ بھی میرے اس فعل سے راضی ہوا ہے قرآن شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے

















کلید در دوزخ است آں نماز
کہ در چشم مردم گزاری دراز
ریاء الناس کے لئے خواہ کوئی کام بھی کیا جاوے اور اس میں کتنی ہی نیکی ہو وہ بالکل بے سود اور الٹا عذاب کا موجب ہو جاتا ہے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے کے فقراء خدا تعالیٰ کے لئے عبادت کرنا ظاہر کرتے ہیں مگر دراصل وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے واسطے کرتے ہیں انہوں نے عجیب عجیب حالات ان لوگوں کے لکھے ہیں وہ بیان کرتے ہیں۔ان کے لباس کے متعلق لکھا ہے کہ اگر میلے رکھیں گے تو عزت میں فرق آئے گا اس لئے امراء میں داخل ہونے کے واسطے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنیں مگر ان کو رنگ لیتے ہیں ایسا ہی اپنی عبادتوں کو ظاہر کرنے کے لئے عجیب عجیب راہیں اختیار کرتے ہیں مثلاً روزہ کے ظاہر کرنے کے واسطے وہ کسی کے ہاں کھانے کے وقت پر پہنچتے ہیں اور وہ کھانے کے لئے اصرار کرتے ہیںتو یہ کہتے ہیں کہ آپ کھائیے میں نہیں کھائوں گا مجھے کچھ عذر ہے اس فقرہ کے یہ معنے ہوتے ہیں مجھے روزہ ہے اس طرح پر حالات ان کے لکھے ہیں پس دنیا کی خاطر اور اپنی عزت اور شہرت کے لئے کوئی کام کرنا خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب نہیں ہوسکتا اس زمانہ میں بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو رہی ہے ہر ایک ثیز اپنے اعتدال سے گر گئے ہے عبادات اور صدقات سب کچھ ریاکاری یک واسطے ہو رہے ہیں اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے توڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اﷲ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے۔جبکہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اﷲ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پھر ہم دنیا کی پروا کیوں کریں؟ جو فعل اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خالف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے جو حدود الٰہی اور وصایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنت اسی کا نام ہے اور جو امرو وصایا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے خلاف نہ ہوں یا اﷲ تعالیٰ کے احکام کے خالف نہ ہوں اور نہ ان میں ریا کاری مد نظر ہو بلکہ بطور اظہارشکر اور تحدیث بالنعمۃ ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں۔ہمارے علماء سابقہ تو یہاں تک بعض اوقات مبالغہ کرت یہیں کہ میں نے سان ایک مولوی نے ریل کی سواری کے خلاف فتویٰ دیا اور ڈاکخانہ میں خط ڈالنا بھی وہ گناہ بتا تاتھا اب یہاں تک جن لوگوں کے حالات پہنچ جاویں ان کے پاگل ہونے یا نیم پاگل ہونے میں کیا شک باقی رہا؟ یہ حماقت ہے۔دیکھنا یہ چاہئے کہ میرا فلاں فعل اﷲ تعالیٰ کے فرمودہ کے موافق ہے یا خلاف ہے اور جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ کوئی بدعت تو نہیں اور اس سے سرک تو لازم نہیں آتا اگر ان امور میں سے کوئی بات نہ ہو اور فساد ایمان پیدا نہ ہو تو پھر اس کے کرنے میں کوئی ہرج نہیں انماالاعمال بالنیات کا لحاظ رکھ لے۔میں نے بعض مولیوںکی نسبت ایسا بھی سنا ہے کہ صرف ونخووغیرہ علوم کے پڑھنے سے بھی منع کرتے ہیں اور اس کو بدعت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ علوم نہ تھے پیچھے سے نکلے ہیں اور ایسا ہی بعض نے توپ یا بندوق کے ساتھ لرنا بھی گناہ قرار دیا ہے۔ایسے لوگوں کے احمق ہونے میں شک کرنا بھی غلطی ہے قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جیسی تیاری وہ کریں تم بھی ویسی ہی تیاری کرو یہ مسائل دراصل اجتہادی مسائل ہیں اور ان میں نیت کا بہت بڑا دخل ہے غرض ہامرا یہ فعل اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ محض اس کی شکر گزاری کے اظہار کے لئے ہے۔
ہمیشہ حُسنِ ظن ّ سے کام لیناچاہئیے
بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ یہاں کوئی کام ہوتا ہے اور جو لوگ حسن ظنی سے کام نہیں کیتے یا اسرار شریعت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ بعض انکو ابتلا آجاتا ہے اور وج کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں لبھی ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کہانیاںسنارہے ہیں اگر اس وقت نادان اور نااہل آپ کو دیکھے اور آپ کے اغراض کو مد نظر نہ رکھے تو اس نے ٹھوکر ہی کھانی ہے ۔یا ایک مرتبہ آپؐ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے اور دوسری بیوی نے آپ کے لیے شوربہ کا پیالہ بھیجا تو حضرت عائشہ ؓ نے اس پیالے کو گراکر پھوڑ دیا اب ایک ناواقف حضرت عائشہ کہ اس فعل پر اعتراضکرنے کی جرأ ت کر تا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوسر ے افعال پر نظر نہیں کرتا ایسے امور پیش آتے ہیں ۔جو دوسرے علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں ۔ اعتراض سے پہلے انسان کو چاہئیے کہ حسن ظن سے کام لے اور چند روز تک صبر سے دیکھے پھر خود بخودحقیقت کھل جاتی ہے کچھ عرصہ کا ذکر ہے کہ ایک مہمان آئی اور ان دنوں میں کچھ ایسا اتفاق ہو اچند بیبیوں سے نماز ساقط ہو گئیتھی اس نے کہا کہ یہاںکیا آنا کوئی نماز ہی نہیں پڑھتاحالانکہ وہ معذور تھیں اور عند اللہ ان پر کوئی مواخذہ نہ تھا مگر اس نے بغیر دریافت کئے اور سوچے ایسا کہہ دیا ۔
حضرت امّا ں جان کاعظیم نمونہ
تزکیہ دل میں ہوتا ہے ۔ بغیر اس کہ کچھ نہیں بنتا ۔ حالانکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں اس قدر التزام نماز کا ہے کہ جب پہلہ بشیر پیداہوا تھا ۔اس کی شکل مبارک سے بہت ملتی تھی ۔ وہ بیمار ہو اورشدت سے بخار چڑھاہوا تھا یہاں تک کہ اس کی حالت نازک ہوگئی ۔ اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تو انہوں کہا کہ میں نماز پڑھ لوں ج۔ جابھی نماز ہی پڑھتے تھے کہ بچہ فوت ہوگیا ۔ نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے ۔ میں نے کہا ۔ کہ اس کاتو انتقال ہوگیا ہے ۔ اس وقت میں نے دیکھ کہ انہوں نے بڑی شرح صدر کے ساتھ کہا
انا للہ واناالیہ رجعون ( البقرۃ : ۱۵۷ ۹
جب تک اس بچّے کابدلہ نہ دے لے ۔ چنانچہ اس کے فوت ہونے کے قریباً چالیس دن بعد محمود پیداہوا ۔اوراس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بچّے پیداہوئے۔
نماز کا مَغز دُعاہَے
غرض ظنون فاسدہ والا انسان ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے چونکہ اس کے پاس صرف رسمی امور ہوتے ہیں اس لیے نہ ا س کادین درست ہوتا ہے نہ دنیا ۔ ایسے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نماز کے مطالب سے ناآشنا ہوتے ہیں اور ہر گز نہیں سمجھتے کے کیا کر رہے ہیں نماز میں تو ٹھونگے مارتے ہیں لیکن نماز کے بعد دعامیںگھنٹہ گھنٹہ گذار دیتے ہیں تعجب کیے بات ہے کہ نماز جواصل دعاکے لیے ہے اور جس کا مغز ہی دعا ہے اس میں کوئی وہ دعا نہیں کرتے ۔نماز کے ارکان بجائے خود دعا کے لئے محرک ہوتے ہیں ۔حرکت میں برکت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیتھے بیٹھے کوئی مضمون نہیں سوجھتاجب ذرااٹھ کر پھرنے لگتے ہیںتو مضمو ن سوجھ گیا اسی طرح پر سب اعمال کا حال ہے اگر ان کی اصلیت کالحاظ اور مغز کا خیا ل نہ ہوتو وہ ایک رسم اور عادت رہ جاتی ہے اسی طرح پر روزہ خدا کے واسطے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے لیکن اگر حقیقت نہ ہوتو پھر یہ رسم ہے جاتی ہے ۔
خداتعالیٰ کے فضلوں پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئیے
یقینایاد رکھوکہ جو خدا تعالیٰ کے فضل پر خو ش نہیںہوتاہے او راس کاعملی اظہا ر نہیںکرتاوہ مخلص نہیں ہے میرے خیال میں اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضل پر سال بھر تک گاتا رہے تو وہ سال بھر ماتم کرنے والوں سے اچھا ہے جو امور قال اللہ اورقال الرسول کے خلاف ہوں یا ان میں شرک یاریا ہو اور ان میں اپنی شیخی دکھائی جاوے وہ امور اثم میں داخل ہیں اور منع ہیں د ف کے ساتھ شادی کاعلان کرنا بھی اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ اگر جھگڑا ہوتو ایسا علان بطور گواہ ہوجاتا ہے ایسا ہی اگر کوئی شخص نسبت اور ناطہ پر شکر وغیرہ اس لیے تقسیم کرتا ہے کہ وہ ناطہ پکا ہو جائے تو گناہ نہیں ۔ لیکن اگر یہ خیال نہ ہو بلکہ اس سے مقصد صرف اپنی شہرت اور شیخی ہو تو پھر یہ جائز نہیں ہوتے ۔اس طرح میرے نزدیک باجے کی بھی حلت ہے ۔ اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں دیکھتے بشر طیکہ نیت میں خلل نہ ہو ۔ نکاحو ں میں بعض وقت جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور وراثت کے مقدمات ہوجاتے ہیں جب اعلان ہوگیاہواہوتا ہیتو ایسے مقدمات میں انفصال سہل اور آسان ہواجاتا ہے اگر نکاح گم صم ہوگیا ہو اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی ہوتو پھر وہ تعلقات بعض اوقات قانوناًناجائز سمجھے جاکر اولاد محرم الارث قرار دے دی جاتی ہے ایسے امور صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہیں کیونکہ ان سے شرع کے قضایافیصل ہوتے ہیں ۔ یہ لڑکے جو پیدا ہوتے رہتے ہیں بعض وقت ان کے عقیقہ پرہم نے دو دو ہزار آدمیوںکو دعوت دی ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری غرض اس سے یہی تھی کہ تا اس پیشگوئی کا جو ہر ایک کے پیداہونے سے پہلے کی گئی تھی بخوبی اعلان ہوجاوے ۔
بَد ظنّی
بد ظنی سے حبط اعمال ہو جاتا ہے تذکرۃ الاولیا ء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو سب سے بد تر سمجھو ں گا ایک بار وہ دریا پر گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک جوان عو رت ہے اور ایک مرد بھی اس کے ساتھ ہے اور دونوں بڑی خوشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں وہاں اس نے دعا کی الٰہی میں اس شخص سے بہتر ہوں کیونکہ اس نے حیا چھو ڑدیا ہے اتنے میں کشتی آئی سات آدمی تھے وہ غرق ہو گئے وہ شخص جس کو اس نے شرابی سمجھا تھا دریا میں کود پڑا اور چھ کو بچا لایا اور ایک باقی رہا تو اس کو مخاطب کر کے کہا کہ تو نے ایسا گمان کیا تھا اب ایک باقی ہے اسے نکال لااس وقت اس نے سمجھا یہ تو مجھے ٹھوکر لگی ہے ۔ آخر اس سے اصل معاملہ پوچھا تو اس نے کہا کہ میں تیرے لئے خدا کا مامور ہوں یہ عورت میری والدہ ہے اور جس کو تو شراب کہتا ہے یہ اس دریا کا پانی ہے اور یہاں میں خدا تعالیٰ کے بٹھائے سے بیٹھاہوں ۔
غرض حسن ظن بڑی عمدہ چیز ہے اس کو ہاتھ نہیں دینا چاہئیے اور خداتعالیٰ کہ فضل او رانعام پر اس کاشکر کرنا کبھی ناجائز نہیں ہوسکتا جب تک محض اس کی رضا ہی مطلوب ہوا اور دنیا کی شیخی اور نمود غرض نہ ہو ۔ ۱؎
۱۵اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ ( صبح کی سَیر میں )
فرمایا :
’’دل اللہ کے قابو میں ہے جب تک وہ سمجھانے پر نہ آئے دل کب کھلتاہے اور کان کب سنتے ہیں ‘‘
’’منجملہ اسلام کی بہتری کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بڑے آدمی دیندار ہو جائیں اور یہ وقت پر مقدر ہے ‘‘
ریلوے مسیح موعود کی نشانی ہَے
فرمایا :
حقیقت میں یہ ریلوے مسیح موعود کا ایک نشان ہے قرآن شریف میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے
واذاالعشار عطلت ( التکویر : ۵)
فرمایا :
دین داری تقویٰ کے ساتھ ہوتی ہے یہ لوگ اگر غور کریں تو صاف معلوم ہوتاہے کہ
لیترکن القلاص
میں ریل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگر اس سے ریل مراد نہیںتو پھر ان کا فرض ہے کہوہ حادثہ بتائیں کہ جس سے اونٹ ترک کئے جاویں گے پہلی کتابوں میں بھی اشارہ ہے کے اس وقت آمدرفت سہل ہوجائے گئی۔
اصل تو یہ ہے کہ اس قدر نشانات طورے ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ اس میدان سے بھاگ ہی گئے ہیں جیسے کسوف خسوف رمضان میں کیا اس طریق پر نہیں ہو اجیسا کہ مہدی کی آیا ت کے لیے مقرر تھا؟ اسی طرح ابتدائے آفرنیشسے ایسی سواری بھی نکلی ہے ۔
فرمایا :
علامات دلالت کرتی ہیں کہ مسیح موعود پیداہوگیا ہے اگر یہ لوگ ہم کو نہیں مانتے تو پھر کسی اور کی تلاش کریں او ربتائیں کہ کون ہے کیونکہ جو نشانات اس کے مقرر کئے تھیوہ تو سب کہ سب پورے ہوگئے ۔
ظہور مہدی ؑ سے متعلق احادیث کا مرتبہ
محمد حسین اور صدیق حسن نے لکھا کہ مہدی کی حدیثیں مجروح ہیں مہدی اور مسیح گویا ایک شعر کے دو مصرعے ہیں ۔جب ایک مصرعہ ٹوٹ گیا توپھر دوسرا وزن پورا کرنے کہ لیے کیونکر صحیح ہو سکتاہے ان کے لیے بڑ ی مشکلات ہے عادت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ جب کوئی بات اس کی طرف سے پیداہوتی ہے تو لوگ اس کو تعجب انگیزی ہی سمجھتے ہیں یہودی اپنے خیال میں انتظار ہی کرتے رہے اور آنے والامسیح اور وہ نبی گذربھی گئے تعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفوںکہ ہاتھ میں مسیحؑ کی وفات کے متعلق کیا ہے جس سے ان کو پوری تسلی ملتی ہے ۔‘‘
سہ سَالہ پیشگوئی سے مُراد
(ایک صاحب شاہ جہان پور سے آنے والے نے پوچھا کہ سہ سالہ پیشگوئی سے کیا مرادہے ؟ )
فرمایا:۔
ان میں تین سال کے اندر بہت سی پیشگوئیاںپوری ہوچکی ہیں وہ سب اسی کے ماتحت ہیں او رپھر یہ
طاعون والی عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کے ذریعے قریباً دس ہزار لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوئے اور ابھی اڑھائی مہینے باقی ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اور کوئی خاص عظیم الشان نشان بھی دکھاوے جو ان سب سے بڑھ کر ہو پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے معجزات ظاہر ہوتے رہے ہیںلیکن مخالف یہی کہتے رہے
فلیا تنا بایۃ کما ارسل الاولون ( الانبیا ء : ۶ )
یہ کتا جو اب لکھی جارہی ہے ہر قسم کے معجزات کا مجموعہ ہے استجابت دعا کا نمونہ ہے اس میںموجود ہے خوارق او رپیشگوئیوں کایہ مجموعہ ہے کوئی غور کرکے دیکھے کہ کیاطاعون ہم نے خود بنالیا ہے اور پھر اعجاز المسیح چھوٹا نشان ہے ؟
’’منعہ مانع من السماء ‘‘
بھی اسی کے ساتھ ہے
نماز میں سُستی دور کرنے کاعلاج
(علی گڑھ کے ایک طالب علم نے اپنی حالت کاذکر کیا کہ نماز میںسستی ہوجاتی ہے اور میرے ہم مجلسوں نے اس پر اعتراض کیاہے او ران کے اعتراض نے مجھے بہت کچھ متاثر کیاہے اس لیے حضور کوئی علاج اس سستی کا بتائیں )
فرمایا :۔
جب تک خوف الٰہی دل میں طاری نہ ہو گناہدور نہیں ہوسکتا اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جہاںتک موقعہ ملے ملاقات کرتے رہوہم تو اپنی جماعت کو قبر کے سر پر رکھنا چاہتے کہ قبر ہر وقت مد نظر ہولیکن جو اس وقت نہیں سمجھے گا وہ آخر خدا تعالیٰ کے قہر ی نشان سے سمجھے گا ۔
طاعون کا نشان
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آخری دنوں مین آسمان سے ایک وبانازل کرے گا او ر اس سے ہلاک کر دے گا ان دنوں میں جب موت کابازار گرم ہو اور خدا تعالیٰ کی گرفت کاسلسلہ شروع ہو جائے پھر توبہ کرے اور سمجھے کہ زندگی ناچیز ہے اس سے کچھ فائد حاصل نہیں ۔توبہ اور خداتعالیٰ سے خوف اس وقت مفید ہوتا ہے
26-03-05
جبکہ خدا کاعذاب نہ آگیا ہو خدا تعالیٰ سے دور تر وہ ہے جو آنکھ کا اندھا اور دل کا سخت ہو اگر طاعون ن آتی تو بھی ایک دانشمند اور سعید الفطرت کے لیے یہ سبق کافی تھا کہ لوگو ںکے باپ دادا مر گئے اور مرتے جاتے ہیں اور یہاںکوئی ہمیشہ رہ نہیں سکتا۔لیکن اب تو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے مجھے اطلاع دی کہ
الامر اض تشاع والنفوس تضاع
مرضیں پھیلیں گی اور جانیں جائیں گی اور ایساہی فرمایا
غضبت غضبا شدیدا
میںسخت غذب میں بھر گیا ہوں یاد رکھو کہ یہ ساری باتیں ہونے والی ہیں اور ان کے آثارتم دیکھتے ہو پس لازم ہے کہ انسان ایسی حالت بنائے رکھے کہ فرشتے بھی اس سے مصافحہ کریں ہماری بیعت سے یہ رنگ آنا چاہئیے کہ خداتعالیٰ کی ہیبت اور جلال دل پر طاری رہے جس سے گناہ دور ہوں ۔ اگر ان پیشگوئیو ں پر کسی کو ایمان نہ ہوتو کم از کم اتنا ہی سمجھ لے اب توڈاکٹروں کی شہادت سے بھی معلوم ہوگیا ہے کہ خطرناک بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں ۔جبکہ ایسا خوف ناک نمونہ پیدا ہوگیا ہے تو وہ شخص کیساہی بد نصیب ہے جو اس وقت بھی غفلت سے زندگی بسر کرتا ہے ۔
اس بات پر تمام کتابوں کااتفاق ہے اور سب لوگ مانتے ہیںکہ آخری دنوں میں طاعون آئیگی سارے نبی اس کی خبر دیتے آئے ہیںاور یہ جو لکھاہے کہ آخری دنوں میں توبہ کادروازہ بند ہوجائے گا ‘ اس کے یہ معنے ہیںجب موت نے آکر پکڑلیا پھر کیا فائدہ توبہ سے فائدہ ہوگا ؟ پکڑاہوا تو درندہ بھی عاجز ہوجاتا ہے خداتعالیٰ سے ڈرنا چاہئیے اور خدا کاخوف اور خشیت کی پابندی ٔ نماز سے شناخت ہوتی ہے دیکھو انسان گورنمنٹ کے احکام کے کس قدر پابندی کرتا ہے پھر آسمانی گورنمنٹ کااحکام کی جس کو زمینی گورنمنٹ سے کوئی نسبت نہیں کیوں قدر نہیںکرتا ؟ یہ بڑا ہی خطرناک وقت ہے طاعون ایک عذاب الٰہی ہے اس سے ڈرو اور اچھانمونہ دنیا کو دکھاؤ اگر کوئی شخص سلسلہ ہو کر برا نمونہ دکھاتاہے تواس سے سلسلہ پر کوئی اعتراض نہیں آتا کیونکہ سمندر میں توہر ایک چیز ہوتی ہے لیکن وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اور اسے شرمندہ ہونا پڑے گا اس واسطے بہت دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ خدا تعالیٰ غفلت سے بیدار کرے ۔ سستیوں اور غفلتوں سے گناہ آتے ہیں اور پھر خدا کے خوف کانقشہ آنکھوں میں سے جاتا رہتا پس وہی سعید سعادت کے دامن کے اندر ہے جو اس خطرناک وقت میں ٹھٹھے کرنے والوں کے مجلس میں نہ بیٹھے اورخدا سے تنہائی میں دعائیں کرے اور اس سے ڈرے کہ ایسا نہ ہورات کو یا دن کے کسی حصہ میں ا س کا عذا ب آجاوے ۔
قرآن مجید کے ہوتے ہوئے ایک مصلح کی ضرورت
( پھر اسی نوجوان نے عرض کیا کہ انہوںنے یہ سوال بھی مجھ سے کیاکہ قرآن شریف تو محرف مبدل نہیں ہوا کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ )
فرمایا کہ :۔
کیا خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت کا ایک یہی باعث ہ کہ قرآت شریف محرف مبدّل ہوا اور علاوہ بریں قرآن شریف کی معنوی تحریف تو کی جاتی ہے جبکہ اس میں لکھا ہے کہ مسیح مر گیا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پڑچڑھ گیا اور تحریف کی ہوتی ہے ؟ یہ لوگ تحریف توکررہے ہیں اور پھر مسلمانوں کی عملی حالت بہت ہی خراب ہورہی ہے نیچریوںہی کو دیکھو ۔انہوں نے کیا چھوڑا ہے بہشت دوزخ کے وہ قائل نہیں ۔ وحی اور دعا اور معجزات کے وہ منکر ہیں انہوں نے یہودیوںکے کان بھی کاٹے یہاں تک کہ تثلیث میں بھی نجات مان لی ۔ یہ حالت ہوچکی ہے اور پھر کہتے ہیں کے کسی آنے والے کی ضرورت نہیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ دنیا توگناہ سے بھر گئی ہے مگر ان کی حالت ایسی مسخ ہوئی کہ وہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ کسی مصلح کی بھی ضرورت ہے مگر عنقریب وقت آتا ہے کے خدا تعالیٰ ان کو معلوم کرائے گااوراس کے غضب کا ہاتھ اب نکلتا آتا ہے ۔
زمانہ تو ایساتھاکہ رو رو کر راتیں کاٹتے مگر ان کی شوخی سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ہی بد بخت ہیں ۔
گناہ سے بچنے کاذریعہ
گناہ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کاخوف دل پر ہو اور جب خداتعالیٰ چاہتا ہے تو اپنا خوف ڈال دیتا ہے محبت بھی ایک ذریعہ ہے گناہ سے بچنے کاہے مگر یہ بہت ا علیٰ مقام ہے مگر خوف ایک عام ذریعہ ہے جس سے جوان بھی ڈر جاتا ہے‘خصوصاً ان دنوں میں بلکہ بعض طبیبوں کا قول ہے کہ جوانوں کو بوڑھوں کی نسبت طاعون کازیادہ خطرہ ہے کیونکہ خون میں زیادہ جوش ہوتا ہے پس یہ دن جن کو خدا کاقہر کے دن کہا جاتا ہے دراصل خداتعالیٰ کے رحم کے دن ہیں کیونکہ انسان کو بیدار کرنے والے اور غفلت سے نکالنے والے ہیں چونکہ لوگ غفلت اور گناہ سے باز نہ آتے تھے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ کی چمکار دکھائی۔یقینایادرکھو کہ اب دن برے آتے جاتے ہیں جیسا کہ سب نبیوں نے خبر دی تھی خدا تعالیٰ نے اپناپاک کلام مجھ پریہی بھیجا کہ اب عقوبت کے دن آتے جاتے ہیں جو اس وقت دعاکرے گا اور زور لگائے گا کہ نمازوں میں اس کو رونا آئے اور اس کا دل نرم ہوجائے اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا جب شدت عذاب ہو اور اس وقت ڈرنے لگتاہے توپھر شریر اور حق شناس میں کیا فرق ہوا؟
غرض اس وقت کے تعلقات جو خدا تعالیٰ سے قائم کرو گے وہ کام آئیں گے کیا اچھاکہا ہے حافظ نے ؎؎؎؎؎؎؎
چو کارے عمر ناپید است بارے آں اولیٰ
کہ روزے واقعہ پیش نگارے خودباشیم
اور ایک یہ بھی علاج گناہوں سے بچنے کا کہ کشتی نوح میں جو نصائح لکھی ہیں کہ ان کو ہر روز ایک بار پڑھ لیا کرو ۔
درِبار شام
حضرت مولانا نورالدین صاحب کی طبیعت کل ناساز تھی آج الحمدللہ اچھی تھی حضرت اقدس نے حال دریافت فرمایااورپھر فرمایا کہ :۔
ہم نے جو تصرفا ت اللہ کے دیکھے ہیں اس سے تو بعض وقت دواؤں کا بھی خیال نہیںآتا بعض وقت ہم کو دوا سے شفا ہو ئی اور بعض وقت محض دعاسے ۔ میں نے دعا کی کے بدون دوا کے شفا دے تو پھر اذن ہو ا کہ ہم نے شفاد ی اور شفا ہو اگئی ۔
اللہ تعالیٰ سُنتا ہے اور جواب دیتا ہَے
اس خدا پر ایمان لانے کاکیا مزا ہے جو قریب قریب بتوں کے ہو نہ سنتا ہو اور نہ جواب دے اس پر خدا پر ایمان لانے سے مزا آتا ہے جو قدرتوں اور تصرف پر ایمان نہیں رکھتا اس کا خدا بت ہے ۔ اصل میں خدا تو ایک ہی ہے مگر تجلیات الگ ہیں جو اس بات کاپابند ہے اس سے ایسا ہے سلوک ہوتا ہے اورجو متوکل ہے اس سے وہی ۔
اگر خداتعالیٰ ایسا ہی کمزور ہوتا ہے توپھر نبیوں سے بڑھ کر کوئی ناکام نہ ہوتا کیونکہ وہ اسباب پرست نہ تھے بلکہ خدا پرست اور متوکل تھے ۔ ۱؎
۱۶۔ اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ ( در بار ِشام)
ایک رؤیا
(بعدادائے نماز مغرب حضرت اقدس امام علیہ الصلٰوۃ شہ نشین پر اجلا س فرماہوئے تو آپ نے بیٹھے
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹صفحہ ۴تا ۶ مورخہ ۳۱اکتوبر ۱۹۰۲ء
ہی اپنی ایک رویا سنائی کہ
میں نے اپنے والد صاحب کو خواب میں دیکھا (دراصل ملائکہ کا تمثل تھا نگر آپ کی صورت میں ) آپ کے ہاتھ میںایک چھوٹی سی چھڑی ہے گویا مجھے مارنے کے لئے ہے میں نے کہا ۔ کوئی اپنی اولاد کو بھی مارتا ہے جب میں یہ کہتاہوں ۔تو ان کی آنکھیں پر آب ہو جاتی ہیں ۔پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ تو میں یہی کہتا ہوں ۔ آخر دو تین بار جب اسی طرح ہوا ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی ۔
فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک الہام میں یوں بھی فرمایا ہے ۔
انت منی بمنز لۃ او لادی۔
اور یہ قرآن شریف کی ایک آیت کہ موافق بھی ہے ۔
نحن ابنوا اللہ و احباوہ قل فلم یعذبکم ۱؎ ( المائدۃ:۱۹)
ختمِ نبّوت غیراُمّتی نبی کے آنے کو مانع ہَے
ختم نبوت بھی ایک عجیب سلسلہ ہے اللہ تعالیٰ نبوت کو بھی قائم رکھتا ہے اور اسی کے استفادہ سے ایک سلسلہ جاری کرتا ہے یہ تو ایک علمی بات ہے مگر کجا یہ کہ اس سلسلہ کو الٹ پلٹ کر دوسرے نبی کو لایا جاوے ۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی حکمت اورارادہ نہیںچاہتا کہ کوئی دوسرا نبی آوے ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ شریعت رکھتا ہو۔خواہ شریعت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی آپ کے سوا اور آپ کے استفادہ سے الگ ہو کر نہیںآسکتا ۔ ساری براہین احمدیہ اس قسم کی باتوں سے بھری پڑی ہے اور بہت سے الہام اس کے ممدومعاون ہیں ۔
علاوہ اس کے
کما استخلف الذین (النور :۵۶)
جو استخلاف کا وعدہ ہے یہبھی اسی امر پر صاف دلیل ہے کہ کوئی پرانا نبی اخیر تک نہ آوے ورنہ ’’کَمَا‘‘
باطل ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے کَمَاکے نیچے تو مثیل کو رکھا ہے ۔ عین کو نہیں رکھا پھر یہ کس قدر غلطی اوا جرات ہے کہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ایک بات اپنی طرف سے پیداکر لی جائے اور ایک نیا اعتقاد بنالیاجائے اور پھرکَمَا میں مدت کی بھی تعیین ہے کہ کیو نکہ مسیح ؑموسیٰ ؑکے بعد چو دھویں صدی میں آیا ت اس لئے ضروری تھا کہ آنے والا محمدی ؐ مسیح بھی چو دھویں صدی میں غرض آیت ان تمام امور کو حل کرتی ہے ۔ اگر کوئی سوچنے ولا ہو ۔
ابنِ مریم کے آنے سے مُراد
ابن مریم کا سوال بھی خدا تعالیٰ نے بڑی صفائی سے حل کیا ہوا ہے سورہ التحریم میں اس راز کو کھو ل دیا ہے کہ مومن مریم صفت ہوتاہے
‏Amira 26-3-05
اور پھر اس میں نفخ روح ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اسی ترتیب سے پہلے میرا نام مریم رکھا ۔پھر ایک وقت آیاکہ اس میں نفخ روح ہوا اب مریم کے حمل سے جیسے مسیح پیدا ہوا۔جو اسی روح القدس کے نفخ کا نتیجہ تھا اس لئے یہاں خود مسیح بنا دیا۔براہین احمدیہ کو قرآن شریف کی اس آیت کے ساتھ جو سورۃ تحریم میں بیان ہوئی رکھ کر دیکھو او رپھر اس ترتیب پر غور کرو کہ جو براہین میں رکھی ہے کہ پہلے نام مریم رکھا پھر نفخ روح کیا اور پھر یاعیسیٰ کہہ کر پکارا اس آیت کی تفسیر کے لئے بھی دراصل یہی زمانہ تھا زمانہ بھی ایک قسم کی عقیم کی صورت پر ہوتا ہے۔
اور روح اﷲ اس لئے کہا کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت مسیح کا تبریہ منظور تھا کیونکہ بعض اولاد میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے اس واسطے روح اﷲ کہہ کر اس الزام کو درو کیا غرض حضرت مریم کے متعلق جس قدرواقعات قرآن شریف میں ہیں وہی الہام یہاں بھی موجود ہیں
یلیتنی مت قبل ھذا (مریم : ۲۴)
در اصل جس قسم کی گھبراہٹ مریم کو تھی اسی قسم کا جوش اب بھی یہودیوں میں پیدا ہوا ہے اور ایسا ہی انی لک ھذا بھی براہین میں درج ہے۔
مولوی نذیر حسین دہلوی کی وفات کی خبر آنے پر الہام
مولوی نذیر حسین دہلوی کے مرنی کی خبر آئی تو زبان پر اس کے لئے جاری ہوا
مات ضال ھا ئما ؎ٰ
مسیح ناصری کے متعلق مروجہ عقائد کا نتیجہ
[ایک شخص نبی بخش نام ساکن بٹالہ نے آپؑ کو لکھا کہ میں عیسائیوں س بحث کرنے لگا ہوں حضور نے اس کو لکھا کہ]
تم عیسائیوں سے کیا مباحثہ کرو گے؟ ان کی ساری باتیں تو تم خود مانتے ہو۔عیسیٰ علیہ السلام کی زندہ آسمان پر سمجھتے ہو۔غیب دان‘ مردوں کو زندہ کرنے والا کہتے ہو۔اور پھر تمہارا یہ اعتقاد ہے کہ صرف وہی مسّ شیطان سے پاک ہے غرض اس قسم کے جب تمہارے عقائد ہیں تو پھر ان سے کیا بحث کرنی چاہتے ہو؟ اس سلسلہ کے بغیر اور کوئی صورت عیسائیوں سے مباحثہ کی نہیں رہی۔ہمارے مخالفوں نے تو اقبالی ڈگری کرالی ہوئی ہے اور ان کے تمام عقائد باطلہ کی تائید کی ہوئی ہے۔
مسیح علیہ السلام کے روح منہ ہونے کی حقیقت
میسح کو جو روح اﷲ کہتے ہیں اور عیسائی اس پر ناز کرتے ہیں کہ یہ مسیح کی خصوصیت ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے ان کو معلوم نہیں کہ قرآن شریف میں مسیح پر روح اﷲ کیوں بولا گیا اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے مسیح ابن مریم پر خصوصیت کے ساتھ بہت بڑا احسان کیا ہے جو ان کا تبریہ کیا ہے بعض ناپاک فطرت یہودی حضرت مسیح کی ولادت پر بہت ہی باپاک اور خطرناک الزام لگاتے ہیں اور یہ بیھ ہے کہ بعض ولد اس قسم کے ہوتے ہیں کہ شیطان ان کی پیدائش میں شریک ہو جاتا ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح ؑ اور حضرت مسیمؑ کے دامن کو ان اعتراضوں سے پاک کرنے کے لئے اور اس اعتراض س بچانے کے لئے جو ولد شیطان کا ہوتا ہے۔قرآن شریف میں
روح منہ (النساء : ۱۷۲)
کہا۔اس سے خدائی ثابت کرنا حماقت ہے کیوں کہ دوسری جگہ حضرت آدم کے لئے
نفخت فیہ من روحی (الحجر : ۳۰)
بھی تو آیا ہے۔یہ صرف تبریہ کیا ہے جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں وہ ان سے بحث خاک کریں گے۔؎ٰ
۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
(بعد نماز مغرب)
[میاں احمد دین صاحب اپیل بویس گوجرانوالہ سے حسب الحکم حضرت اقدس ؑ تشریف لائے ان کے اتنی جلدی تشریف لانے پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ]:۔
ریل بھی ایک عجیب شئے ہے ایک خارق عادت طور پر انسان کہیں کا کہیں جاپہنچتا ہے۔
(ایک شخص نے اپنی آنکھوں کے مرض سے شفا پانے کے لئے دعا کی در خواست کی)۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
’’اچھا کریں گے‘‘۔پھر فرما یا کہ :۔
آنکھ کان ناک وغیرہ اﷲ تعالیٰ کی امانتیں ہیں۔انعام کی بھی کیا عجیب راہ اختیار کی ہے۔اگر ایک آنکھ جاتی رہے تو کس قدر بلا بازل ہوتی ہے۔
پنجابؔ میں طاعون کی ترقی
پھر حضرت اقدسؑ نے نواب محمد علی خان صاحب سے طاعون کا حال مالیر کوٹلہ کی طرف دریافت فرمایا۔نواب صاحب نے جواب دیا کہ کچھ شروع ہے مگر کم۔اب کے دفعہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ ہفتہ کل ہندوستان مین تو کم ہے مگر خاص پنجاب میں بہت ترقی پر ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
’’پنجاب ہی بگڑا ہوا ہے کوئی اس کا سِرّ تو دریافت کرے‘‘۔
فرمایا:۔
’’حکماء نے لکھا ہے کہ الطاعون ھوالموت جس کے آثار ردی ظاہر ہوں۔رنگ سیاہ ہو جائے اور جلد جلد موت ہو تو وہ بلائے آسمانی ہوتی ہے۔ورنہ مسابہ بالطاعون گلٹیوں کا ہونا اور بخار کا ہونا طاعون نہیں۔ایک دفعہ ہمارے سب بچوں کو گلٹیاں نکل آئیں صرف اینٹ گرم کر کے سینکتے رہے۔سب کو آرام ہو گیا۔
طاعون تو ایک سِرّ مخفی کی طرح ہے۔ورنہ بعض اوقات اس کے عوض ہو کر پھر انسان کو کچھ نہیں ہوتا‘‘۔
احمد دین صاحب اپیل نویس نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ سرکار نے یہ قانون پا س کیا ہے کہ اگر ایک محلّہ میں ایک مریض کو طاعون ہو اور اس محلّہ کے پانچ کس یہ کہیں کہ اسے نکالا جائے اور پانچ صدیہ کہیں کہ نہ نکالو تو ان پانچ کی رائے پر عملدرآمد ہوگا۔اور اگر مریض یا اس کے ورثاء اس کی خلاف ورزی کریں تو زیر دفعہ ۱۸۸ وہ مجرم گردانے جائیں گے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ:۔
ایک طرح سے گورنمنٹ نے اپنے سر سے بلا اتار کر رعایا پر ڈال دی ہے۔محلہ میں اکثر عداوت وغیرہ بھی ہوتی ہے۔خواہ لوگ ایک مبتلائے مخار کو طاعون کہہ کر نکال دیں۔
الدار کی حفاظت
فرمایا:۔
آج میری زبان پر پھر یہ الہام جاری تھا۔
انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علو امن ا ستکبار۔ ؎ٰ
الاالذین علوا ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔خدا معلوم اس کے کیا معنے ہیں۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ متنبہ رہیں۔تقویٰ پر قائم رہیں۔ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ
اما بنعمۃ ربک فحدث (الضحیٰ : ۱۲)
اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے
ابیٰ واستکبر (البقرہ : ۳۵)
اور اس کے بارے میں ہے
ام کنت من العالین (ص : ۷۶)
یہ اس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے۔خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلیٰ کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے جیسے
انک انت الاعلیٰ (طہ : ۶۹)
مگر یہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ ۲؎
شاہ عبد العزیز صاحب کے ایک شاگرد کا غلط فتویٰ
شاہ عبداعزیز صاحب کے شاگردوں میں سے ایک کا ذکر ہوا فرمایا کہ :۔
ایک دفعہ وہ شاید بٹالہ میں تھے تو ایک نے حقہ کا فتویٰ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا (حالانکہ غلط تھا) کہ حقہ دو قسم کا ہے ایک وہ جو تکیوں میں ہوتا ہے دس دس دن تک پانی نہیں بدلتے اسے غسل نہیں دیتے وہ تو حرام ہے اور دوسرا جس کا پانی بدلتا رہتا ہے اور اسے غسل دیتے رہتے ہیں وہ حلال ہے۔
مردوں کے قبروں سے نکلنے کی تعبیر
پھر اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب ایک انگریزی کتاب حضرت اقدس کو سناتے رہے جس میں ایک موقعہ پر یہ بھی تھا کہ جب مسیح کو صلیب دی گئے تو اس وقت مردے قبروں میں سے نکلے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا:۔
عالم رؤیا میں مردہ کے قبر سے نکلنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ کوئی گرفتار آزاد ہو ممکن ہے کہ کسی نے اس وقت عالم کشفی میں یہ دیکھا ہو ورنہ یہ اپنے ظاہری معنوں میں ہرگز نہیں ہوا۔
طاعون کی کیا مجال ہے کہ اس کے پاس آئے
احباب میں سے ایک نے ذکر سنایا کہ آج قادیان میں ٹیکہ والے آئے تھے باہر باغ میں انہوں نے سب کو بلایا اور ایک لمبی تقریر کی جس میں ٹیکہ کے فوائد لوگوں کو بتلائے انجام یہ ہوا کہ سب سے اس امر پر اتفاق کر لیا کہ ہم ٹیکے لگوائیں گے۔تقریر کرنے والے صاحب رائے پرتاپ سنگھ تھے انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے مرزا صاحب کو بھی تاکید کرنی تھی مگر چونکہ انہوں نے ماننا نہیں اور ڈھنگ بنایا ہوا ہے اس لئے سردست ان کی خدمت میں کچھ نہیں کہتا پھر کسی وقت موقعہ ہوا تو کہوں گا میں یہاں پر نہ آتا مگر چونکہ متواتر طور پر رپورٹ پہنچی کہ چوڑھوں میں طاعون ہے ا سلئے آنا پڑا
اس پر حکیم نورالدین صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں نہالی چوڑھی آتی یہ میں نے اس سے طاعون کا حال دریافت کیا تھا کہنے لگی کہ طاعون تو ہے نہیں ایک لڑکی مری ہے وہ کئی دنوں سے بیمار گھی اب کہتے ہیں کہ طاعون سے مری۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
چوڑھوں میں ہمیشہ کبھی نہ کبھی ایسی موتیں ہوتی ہی رہتیں ہیں ایک دفعہ اسی موسم میں پچاس آدمی ہیضہ سے مر گئے تھے حالانکہ طاعون وغیرہ نہ تھی اور چوڑھوں کا محلہ تو ہم سے ایسا ہی دور ہے جیسے کہ ننگل۔بھینی؎ٰ۔یہ لوگ زبردستی اسے الحاق کرتے ہیں (آخر کار چوڑھوں کی موت کی یہ وجہ معلوم ہوئی کہ ان لوگوں نے مردہ مویشی اس وقت کھائے جب کہ وہ متعفن ہو گئے تھے)۔
پھر بیان کیا گیا کہ ٹیکہ والوں نے سرِدست کل اکابرین ہندو‘ مسلمان کے دستخط کرائے ہیں شاید کل یا پرسوں پھر آویں گے حضرت اقدس نے فرمایا :۔
ہمارے دستخط کشتی نوح میں ہیں جو خدا کے ساتھ سیدھا اور راست ہوگا تو طاعون کی کیا مجال کہ اس کے پاس آوے۔
پھر جماعت کو مخاطب کر کے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
صحابہؓ میں طاعون ہوتا رہا ہے ہاں انبیاء کو ہرگز نہیں ہوا۔اگر کوئی اس پر سوال کرے تو جواب یہی ہے کہ ہر ایک رنگ جدا ہے ثابت کرو کہ کوئی نبی طاعون سے مرا ہو ورنہ اگر ایسا ہو تا تو اﷲ تعالیٰ کے معا ملہ میں کس قدر فتنہ برپا ہوتا یہ کبھی نہیں ہوا کہ یہودیوں کو طاعون ہوا ہو تو موسیٰ ؑکو بھی ساتھ ہوا ہو ورنہ سارے یہودی مرتد ہو جاتے۔
طاعون کا علاج
ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ٹیکہ بھی علاج نہیں اور اﷲ تعالیٰ کا حفاظت کا وعدہ ہے تو پھر مرہم عیسیٰ اور جدوار کا استعمال کیوں بتلایا ہے
حضرت صاحب نے فرمایا کہ :۔
جو علاج اﷲ تعالیٰ بتلاوے وہ تو اسی حفاظت میں داخل ہے کہ اس نے خود ایک طریق حفاظب بھی ساتھ بتلا دیا اور انشراح صدر سے ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں لیکن اگر ٹیکہ میں خیر ہوتی تو ہم کو اس کا حکم کیا جاتا اور پھر دیکھتے کہ سب سے اول ہم ہی کرو اتے اگر خدا تعالیٰ آج ہی بتلادے کہ فلاں علاج ہے یا فلاں دوا مفید ہے تو کیا ہم اسے استعمال نہ کریں گے؟ وہ تو نشان ہوگا۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم خود کس قدر متوکل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تے اگر ہم عوام الناس کی طرح ٹیکہ کروائیں تو خدا پر ایمان نہ ہوا پہلے یہ تو فیصلہ کیا جائے کہ آیا ہم نے ۲۲ برس پہلے طاعون کی اطلاع دی۔کہ جس وقت طاعون کانام و نسان تک نہ تھا اور پھر ہر ۵ برس بعد اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی خبر دی جاتی رہی ہے پھر پنجاب کے متعلق خبر دی حالانکہ اس وقت کوئی مقام اس میں مبتلا نہ تھا۔پھر ایک دم پنجاب کے ۲۳ ضلعوں میں پھیل گئے وہ تمام کتابیں جن میں یہ بیان ہیںخود گورنمنٹ کے پاس موجود ہیں اگر ٹیکہ میں کوئی خیر ہوتی تو خدا خود ہمیں بتلا تا ارو ہم اس وقت سب سے پہلے ٹیکہ لگوانے میں اول ہوتے مگے جب گورنمنٹ نے اختیار دیا ہے تو یہ اختیار ہے گویا خدا تعالیٰ ہے نے ہمیں دیا ہے کہ جبراً اٹھوا دیا ہے۔
طاعون کے سلسلہ میں جماعت کو نصیحت
ہماری جماعت کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہی نہ ہو کہ وہ اس دعویٰ بیعت پر نازاں رہیں بلکہ ان کو انے اندر تبدیلی کرنی چاہئے دیکھو طاعون کئی بار موسیٰ ؑکے لشکر پر پڑی اب دشمن تو خوس ہوتے ہوں گے مگر موسیٰ ؑکو کس قدر شرمساری ہوئی ہوگی لکھا ہے کہ بلعم کی بددعا کی وجہ سے اسی(۸۰)ہزار وبا سے مر گئے تھے ؎ٰ گرچہ اور لوگ بھی گنہ گار تھے مگر موسیٰ ؑکی قوم اس وقت دوہری ذمہ داری تھی بہت کم لوگ ہیں جو کہ دوں کو صاف کرتے ہیں اگر ایک پاخانہ میں سے پاخانہ تو اٹھا لیا جاوے مگر اس کے چند ایک ریزے ماقی رہیں تو کسی کا دل گوارا رکتا ہے کہا س میں روٹی کھاوے اسی طرح اگر پاخانہ کے ریزے دل میں ہوں تو رحمت کے فرشتے ا س میں داخل نہیں ہوتے۔ ۲؎
الالذین علوا کا لفظ ہمیشہ دل میں خطرہ ڈالتا ہے کہ قضا و قدر مقدرہے بارہا قرآن شریف کو پڑھو ۳؎ اور اپنی اصلاح کرو اگر ہماری جماعت میں سے کسی کو طاعون ہوا تو مخالف ہی شور ڈالین گے کہ دیکھو
ٹیکہ نہ کرایا تو ہلاک ہوئے اور اگر وہ بچے رہے تو ہنسیں گے خدا کے کام اور حفاظت سے حصہ لینے والا وہ شخص ہے جو اپنے دل میں سمجھ لے کہ میں نے تبدیلی پیدا کر لی ہے صحابہ کرام ؓ کی طرح ہو جائے۔جس طرح انہوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے تھے۔ ۱؎
عذاب شدید آنے والا ہے فرق سے فرق ہوتا ہے اگر بیعت کے وقت وعدہ اور ہے اور پھر عمل اور ہے تو دیکھو کتنا فرق ہے اگر تم خدا سے فرق رکھو گے تو وہ تم سے فرق رکھے گا اگر ہماری جماعت میں سو آدمی مرجائیں تو ہم یہی کہیں گے کہ کہ ان کے دلوں میں فرق تھا کیونکہ ہمین کسی کے اندرونہ کا کیا حال معلوم ہے عیسیٰ اور موسیٰ کے وقت کیا ہوا۔ ۲؎







ہم دواؤں کی تاثیرات سے منکر نہیں ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ ادھر تم نے ٹیکہ نہ کرایا اور اگر چند ایک لگو مبتلا ئے طاعون ہوئے تو وہ لوگ کسی قدر ہنسیں گے جنہوں نے ٹیکہ کرایا ہوگا مگر بڑا بے وقوف ہے جو کہ اس دوا کو بھی نہ پیوے اور پھر اس دوا سے بھی محروم رہے کہ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ٹھیک نہ ہو تو وہ گویا دونو طرف سے محروم رہا ۳؎ پھر اگر ہماری جماعت میں سے کسی کو طاعون ہو گا تو اس کا اثر اس کے ایمان پر بھی پڑے گا وہ خیال کرے گا کہ میں تو بیعت میں تھا مجھے کیوں طاعون ہوئی خدا کسی کی ظاہری صورت کو نہیں دیکھتا وہ اس منشاء








کو دیکھتا یہ جو انسان نے اپنے دل میں بنایا ہوا ہے خدا کے ساتھ صفائی ایک مشکل کام ہے طاعون اگر چہ مومن کے واسطے ایک خوشی ہے مگر چونکہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ تمہاری شامت سے ئئی ہے اس لئے اگر یہ جماعت اسی طرح تباہ ہو جس طرح دوسرے تباہ ہوتے ہیں تو پھر تو ان کو خوب ثبوت مل جائے گا کہ واقعی ہماری شامت سے آئی ہے اور اگر ٹیکہ لگوانے والے بھی ہلاک ہوں اور تم بھی ہلاک ہو تو پھر بھی کوئی تمیز نہیں رہتی۔اس لئے تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں کشتی نوف میں میں نے بہت کثھ کہتا تھا مگر انشاء اﷲ پھر کسی دوسرے موقعہ پر لکھا جائے گا۔اتنا لکھا بھی کافی ہے۔
مجھے یہ فکر ہے کہ وہ مثل نہ ہو ’’یکے نقصان مایہ ودیگر شماتت ہمسایہ‘‘۔ایک تو مریں اور پھرجھوٹے کہلا کر مریں اگر ایک طرف مخالفوں کی ہزار موت ہو تو وہ نام نہ لیں گے اور ہمارا ایک بھی مرے تو ڈھول بجائیں گے خدا نے صورت تو نہیں دیکھنی۔اس نے دل دیکھنا ہے مگر لوگ تو ظاہر دیکھتے ہیں اور جس شخل کا نام رجسٹر بیعت میں ہے اسے جماعت مین خیال کرتے ہیں وہ تو رجسٹر میں صرف نام دیکھیں گے لیکن اگر خدا کے رجسٹر میں نام نہیں ہے تو ہم کیا کر سکیں گے خدا نے ترقی کا موقعہ خوب دیا ہے نفس کو لگام دینے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کونسا وقت ہوسکتا ہے اس وقت سے غافل نہ رہتا چاہئے اور محنت کرنی چاہئے۔
سالک اور مجذوب کی تعریف
وہ انسان جو آپ محنت کرتا ہے اسے سالک کہتے ہیں اور جسے خود خدا دیوے۔وہ مجذوب ہوتا ہے اور جو سویا رہے تو اسے کوئی کیا کرے
اناﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو اما بانفسھم ؎ٰ
بات سن کر صرف کان تک رکھنے سے فائدہ نہیں ہوتا جب تک دل کو خبر نہ ہو انسان ایک دو کامون سے سمجھ لیتا ہے کہ میں نے خدا کو راضی کر لیا۔حالنکہ یہ بات نہیں ہوتی۔
اطاعت کی حقیقت
اطاعت ایک برا مشکل امر ہے صحابہ کرامؓ کی اطاعت‘اطاعت تھی کہ جب ایک دفعہ مال کی ضرورت پڑی تو حضرت عمرؓ اپنے مال کا نصف لے آئے اور ابو بکرؓ اپنے گھر کا مال و متاع فروخت کر کے جس قدر رقہو سکی لے آئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ تم گھر میں کیا چھوڑ آئے؟انہوں نے جواب دیا کہ نصف۔پھر ابو بکرؓ سے دریافت کیا انہوں ین جواب دیا کہ اﷲ اور اس کا رسول گھر چھوڑ آیا ہوں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :۔
جس قدر تمہارے مالوں میں فرق ہے اسی قدر تمہارے اعمال میں فرق ہے۔
کیا اطاعت ایک سہل امرہے؎ٰ جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں جس طرح بہشت کے کئے دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اسی طرح دوزخ کے کئے دروازے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو ہمارے لئے تو دوہرا وقت ہے گورنمنٹ بھی ایک طرح سے مخالف ہے کیونکہ اگر گورنمنٹ کو ہم پر ایمان ہوتا ۲؎ تو وہ ہم سے کہتی کہ دعا کرو۔ادھر اخباروں نے شور مچایا ہے کہ ہم گورنمنٹ کی مخالفت کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں پس خوب یاد رکھو جس طرح دنیا میں ایک عام قانون قدرت خدا کا ہے کہ تربد اگر ہندو آفتاب مہتاب کی روشنی سے ہر ایک قوم مشترکہ فائدہ اٹھاتی ہے اور ایک خاص قانون ہے جو مومنین کے ساتھ برتا جاتا ہے وہ بہت لذیذ اور شیریں ہے اور بہت سے پھلوں سے بھرا ہوا ہے اور ان پھلوں کے درمیان شیرہ بھرا ہوا ہے نہ کہ نشتر۔۳؎
ہر ایک کو واجب ہے کہ خوب سمجھے اور اپنے بھائی کو سمجھاوے اور گھروں میں عورتوں کو سمجھا وے۔حاضر غائب کو بتلا دے۔دھوکا کھانے والے بہت ہوں گے کیونکہ ابتدائی حالت ہے اسم نویسی کرو اکر کوئی خیال نہ کرے کہ صرف اتنے ہی فعل سے وہ خد اکی حفاظت میں آگیا۔؎ٰ
۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز شنبہ (بوقت سیر)
الدار کی حفاظت کے متعلق الہام
فرمایا کہ :-
آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا :-
انی احافظ کل من فی الدار ولنجعلہ ایۃ لناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا۔عندی معالجات۔
اور یہ بھی الہام ہوا مگر اصل لفظ یاد نہیں کہ ایمان کے ساتھ نجات ہے۔
یعنی انی احافظ کو ایک آیت بنادیں گے اور کہ علاج ہمارے ہی پاس ہے مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی معلوم ہوتا ہے کہ اب اﷲ تعالیٰ کچھ کھلا کھلا دکھانا چاہتا ہے اب گویا بڑا معاملہ ہے ایک قوم تمنا سے ٹیکہ کراتی ہے دوسری طرف ہم ہیں جو بالکل خدا پر چھوڑتے ہیں جس وقت مجھے یہ الہام ہوا اس وقت میں نے گھر میں پوچھا کہ تم کو بھی کوئی خواب آیا ہے کیونکہ دیکھا ہے کہ میرے الہام کے ساتھ ان کو بھی کوئی مصدق خواب آجایا کرتا ہے انہوں نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا بکس ادویہ کا چراغ لایا ہے ۲؎ اور شیخ رحمت اﷲ صاحب نے روانہ کیا ہے جب کھولا گیا تو دیکھا کہ ہزارہا شیشیاں اس مین دوا کی ہیں کوئی بڑی کوئی چھوٹی۔تب گھر میں تعجب کیا کہ کبھی کدائیں ۳؎ دس بارہ شیشیاں منگوائی جاتی تھیں مگر یہ ہزار ہا شیشیاں کیوں منگوائی گئیں۔
یہ خواب بھی عندی معالجات کی تصدیق کرتا ہے مجھے بتلایا گیا ہے ان کو دکھلایا گیا۔ ۴؎
‏Amira 27-3-05
اسباب سے استفادہ جائز ہے
علاج حرام تو نہیں اب دیکھو اگنریزوں نے ریل بنائی ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔تار ایجاد کی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔تیلیاں ئگ جلانے کی ولایت سے آتی ہیں اسی طرخ اگر ان کی دوا ہو اور ہم استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں۔ہاں جو خدا بتلا دیوے وہ حارج نشان نہیں ہے اگر ٹیکہ کروا کر کہیں کہ نشان ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم کو علیحدہ رکھا جاتا ہے معلوم ہتا ہے کوئی مخفی امر ہے جو بعد ازاں معلوم ہوگا ورنہ ہم ان کی چیزیں اور ادویہ استعمال کرتے ہی ہیں۔؎ٰ
عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ جب تک طاعونی کیڑے کا طبیعت میں تعلق نہ ہو تب تک طاعون نہیں ہوتی اور دوسری طرف آپ وہ کیڑے داخل کرتے ہیں اور چیچک کے ساتھ اس کا قیاس مع الفارق ہے چیچک کا مادہ تو شیر مادر کے ساتھ آتا ہے مگر اس میں ظن کیا گیا ہے کہ بہت سی طبائع میں مادہ موجود ہی نہیں ہوتا صرف اس ظن پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے کسی طرح وہ مادہ نہ آجائے۔
مولوی محمد احسن صاحب نے ضکر کیا کہ حضور تخرج الصدور الی القبور کا آغاز تو ہو گیا ہے کیونکہ ادھر مولوی نذیر حسین دہلوی فوت ہوئے ادھر فتح علی شاہ فوت ہوا
حضرت اقدس نے فرمایا :-
ہاں- آپ نے خوب سمجھ
نجات ایمان کے ساتھ ہے
بعض رؤساء لاہور کے ٹیکہ لگوانے پر جو راضی ہوئے ہیں یہ امر ان کی شجاعت پردلالت نہیں کرتا بلکہ تَہَوُّر ہے کہ سرکاری راضی ہو ہاتھ بٹایا جاوے ابھی تک ہماری جماعت کو تو گورنمنٹ کا مخالف ہی خیال کیا جائے گا بڑی ضرورت خدا شناسی کی ہے سب امور خدا کے بعد ہیں جیسے ہم نے ابھی بتلایا کہ نجات ایمان کے ساتھ ہے۔ ۲؎
پھر ساکنان قادیان کے ٹیکہ لگوانے پر فرمایا :-
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ فاسق فاجر لوگ بھی ہیں اور ظاہری اسباب میں سے ٹیکہ بھی ہے۔
جب یہ لوگ اپنے ظنوں (یعنی ٹیکہ) پر یقین رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے یقین پر یقین نہ رکھیں۔
پھر مفتی محمد صادق صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ :-
ان سابقہ نوشتوں میں یہ تو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں طاعون ہوگی مگر یہ بھی لکھا ہے کہ نہیں کہ جس طرح کے الہامات جیسے ’’انی احافظ کل من فی الدار‘‘ ارو دوسرے ہمیں ہوئے ہیں ان کا بھی کوئی ذکر ہے کہ نہیں؟
مفتی صاحب نے کہا کہ دیکھ کر عرض کروں گا۔
پھر فرمایا کہ :-
انہ اوی القریۃ میں قریہ کا لفظ ہے قادیان کا نام نہیں ہے اور قریۃ، قیر سے نکلا ہے جس کے معنے جمع ہونے اور اکتھے بیٹھ کر کھانے کے ہیں وہ لوگ جو آپس میں مواکلت رکھتے ہوں اس میں ہندو اور چوڑھے بھی داخل نہیں ہیں۔کیونکہ وہ تو ہمارے ساتھ مل کر کھاتے ہی نہیں۔قریہ سے مراد وہ حصہ ہوگا جس میں ہمارا گروہ رہتا ہے۔
مسیح موعود کے اپنی جماعت کو طُور پر لے جانے کا مطلب
پھر ذکر ہوا کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ مسیح اپنی جماعت کو کوہ طور پر لے جائے گا۔
حضرت اقدس نے فرمایا :-
اس کے یہ معنے ہیں تجلی گاہ حق میں لے جانا ؎ٰ یعنی قرب اور ہیبت کے مقام پر لے جائے گا کہ جس سے جماعت کی تبدیلی ہوتی ہے کہ ایک طرف تو طاعون کو دیکھ کر اور دوسری طرف ہماری تعلیم کو دیکھ کر وہ خدا تعالیٰ کی تجلیات کو نظر میں رکھیں گے عظیم الشان معاملہ آپڑا ہے گورنمنٹ نے ہر ایک فرقہ کو لپیٹ لیا ہے۔
مولوی محمد احسن صاحب نے کہا کہ حضور یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے تھے کہ ہم گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں مگر اب کیا کہیں گے کیا یہ کاروائی تیکہ کی خوشامد سے ہے کہ جس سے ہم نے اتفاق نہیں کیا۔
نواب محمد علی خان صاحب نے کہا کہ ٹیکہ بھی کہاں تک لگے گا۔
اس پر حضرت اقدس نے ہنس کر فرمایا :-
وہی مثال ہے جس کا ذکر مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی مان بدار تھی اس نے اسے مار ڈالا لوگوں نے کہا کہ ماں کو کیوں مار ڈالا؟اس کے دوستوں کو مارنا تھا اس نے جواب دیا کہ ایک کو مارتا دو کو مارتا آخر کتنوں کو مارتا؟اس لئے اسے ہی مارنا مناسب تھا یہی حال ٹیکہ کا ہے۔
طاعون کا دورہ
میرے نزدیک طاعون کے جتنے عدد ہیں اتنے ہی سال تک اس کا دورہ ہوتا ہے حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں لوگ خدا سے لڑائی کریں گے تو اب یہ خد سے لڑائی ہی ہے لوگ خود کہیں گے کہ خدا سے لڑرہے ہیں۔
ہمارا الہام بھی ہے کہ اجھز جیشی یعنی میں اپنا لشکر تیار کر رہا ہوں ہمیں یہ تو خوشی ہے کہ سمجھ دار لوگ خوب خبردار ہو جاویں گے خدا کی قدرت ہے کہ وہی وقت آگیا ہے اور وہی موسم ہے جس کا ذکر تھا اور اس پر خدا تعالیٰ نے گواہی بھی دے دی اب یہ نہ مانیں توا صل میں خدا کا انکار ہے یہ لوگ ہمارے آگے حدیثیں پیش کرتے ہیں حالانکہ اس نے حکمہو کر آنا ہے پھر ان کو حکم تو یہ ہے کہ تم کو بولنا نہ چاہئے جو حکم کہے وہ مان لو تقویٰ ہوتا تو یہ لوگ کبھی نہ بولتے اگر فیالواقعہ ہی ان کے ہاتھ میں کوئی حدیث ہوتی تو پھر اسے غایت مرتبہ ظن کا ہوتا مگر اصل میں ان لوگوں کو یقین ہی نہیں ہے۔
مگر کیا قساوت قلبی ہے کہ جس قدر گندی اور فحش باتیں ہیں ارو تحقیر اور توہین ممکن تھی ارو جہاں تک ان کا ہاتھ پڑتا تھا وہ تمام افترا بنائے ۔صرف چند ایک باتیں گورنمنٹ کے قانون کے ڈر سے ا۲ن سے باقی رہ گئے ہیں۔اکالئے جو ہوئے۔
پھر میاں احمد دین صاحب عرائض نویس درجہ اول ساکن گوجرانوالہ سے حضرت اقدس بعض قانونی وجوہات پر گفتگو فرماتے رہے ایک مقام پر فرمایا کہ
قانون بھی ایک موم کی ناک ہوتا ہے اس لئے کچی بات ہر گز نہ پیش رکنی چاہئے اور ایسی کچی بات کے پیش کرنے سے تو اس کا پیش نہ کرنا ہی اچھا ہے۔
ایک نو مسلم پشاوری کا ذکر
نماز مغرب کے بعد حکیم نورالدین صاحب نے ایک نو مسلم پشاوری کا حال سنایا جو گزشتہ ماہ میں پساوری جماعت کے ساتھ پشاور سے آیا تھا اور حضرت سے بیعت کی تھی ان نو مسلم صاحب کو اہل اسلام پشاور نے امدادی چندہ کر کے ایک دکان کھول دی تھی حکیم صاحب نے بیان کیا کہ آج اس کا خط آیا ہے کہ مسلمانوں نے جو امدادی طور پر چندہ سے مجھے دکان کھول دی تھی وہ اب اس لحاظ سے ضبط کرلی ہیکہ میں قادیان گیا اور بیعت کی۔
حضرت اقدس نے فرمایا :-
ابتلاء ہے۔صبر کرنا چاہئے۔
پھر آج صبح جو گفتگو حفاظت الٰہی کے وعدوں کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام نے سیر میں کی تھی اس کا اعادہ حکیم نورالدین صاحب سے کیا اور اپنے الہام اور گھر کا خواب سنایا اس گفتگو میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا :-
سعید فرقہ جو کہ عذاب سے نجات پانے والا ہے وہ
انعمت علیھم (الفاتحہ : ۷)
ہے اور جو عذاب میں مبتلا ہونے والا ہے وہ
مغضوب علیھم (الفاتحہ : ۷)
ہے۔ مغضوب علیھم اور ضالین میں وہی فرق ہے جو ایک مرییض محرقہ اور مدقوق میں ہوتا ہے کہ ایک جلدی ہلاک ہو جاتا ہے اور ایک آہستہ آہستہ ہلاکت تک پہنچتا ہے مگر انجام کا دونو ہلاک ہوتے ہیں کوئی آگے کوئی پیچھے۔
کتب سابقہ میں حفاظت الٰہی کا وعدہ
پھر مفتی محمد صادق صاحب نے حسب الحکم حضرت اقدس ؑ وہ تمام حوالہ جات کتب سابقہ کے سنائے جن کا ارشاد حضرت اقدس نے آج صبح کی سیر میں کیا تھا اور اس کا خلاصہ یہ ہے۔
زبور ۹۱:-
’’وہ جو حک تعالیٰ کے پردہ تلے سکونت کرتا ہے سو قادر مطلق کے سایہ تلے رہے گا میریا خدا جس پر میرا توکل ہے یقینا وہ تجھ کو صیاد کے پھندے سے اور مہلک وبا سے رہائی دے گا۔وہ تجھے اپنے پروں تلے چھپائے گا…اور نہ اس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے اور نہ اس مری سے جو دوپہر کو ویران کرتی ہے تیرے آس پاس ایک ہزار گر جاویں گے اور دس ہزار تیرے دہنے ہاتھ پر۔لیکن وہ تیرے نزدیک نہ آوے گی تو نے حق تعالیٰ کو اپنا مسکن تیار کیا اس لئے تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی اور کوئی وبا تیرے خیمے کے پاس نہ پہنچے گی‘‘۔
لالہ شرمپت کا حسن ظن
پھر حضرت اقدسؑ نے ذکر سنایا کہ
شرمپت آریہ میرے پاس مشورہ لینے آیا تھا کہ مجھے بخار سا معلوم ہوتا ہے۔جسم گرم ہے۔ٹیکہ کرائوں یا نہ۔میں نے کہہ دیا کہ نہ کرائو کیونکہ اس میں تو حرارت اور زیادہ ہوگی۔
فرمایا :-
ان لوگوںکا دستور ہے کہ مجھ سے ہمیشہ مشورہ دریافت کرتے ہیں بلکہ لیکھرام کے قتل کے دنوں میں ایک دفعہ یہ دوا پوچھنے آیا تو میں نے کہا کہ اس وقت تو تم ہمیں دشمن جانتے ہو کہ اس کے قاتل ہم ہیں۔ہماری دوا تم کو لینی مناسب نہیں ہے مگر اس نے کہا کہ ہم کو یقین ہے آپ دوا دے دیں۔
ایک الہام
فرمایا :-
رات کو مجھے ایک اور فقرہ الہام ہوا تھا بھول گیا تھا اب یاد آیا ہے وہ یہ ہے
احسب الناس ان یتر کو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون
مخالفین سے شفقت
اس کے بعد میاں احمد دین صاحب عرائض نویس گوجرانوالہ نے مقدمہ کے متعلق کچھ گفتگو حضرت اقدسؑ اور آپ کے موجودہ احباب سے کی حضرت اقدسؑ نے ایک مقام پر فرمایاکہ:-
ہماری مراد سزا سے نہیں ہے کہ اسے سزا ضرور ہو۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جیسے یوسف کی حقیقت عزیز مصر کے سامنے کھل گئے تھی ویسے ہی ہماری بھی حقیقت کھل جائے۔یوسف نے جیل خانہ سے باہر قدم نہیں نکالا جب تک اپنا باعصمت ہونا ثابت نہ کرا دیا۔؎ٰ
۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ (بوقت سیر)
دابۃ الارض کی حقیقت
حسب معمول حضرت اقدسؑ سیر کے لئے باہر تشریف لائے اور نواب محمد علی خان صاحب کے مکان کے آگے آکر تھوڑی دیر نواب صاحب کا انتظار فرماتے رہے جب نواب صاحب تشریف لائے تو روانہ ہوئے اور فرمایا کہ :-
نئی تحقیقات نے دابۃالارض کی بہت تائید کی ہے اور اس کے معنے کھول دیئے ہیں کہ وہ یک کیڑا ہی ہے اور پھر یہ بیھ کہ بہت باریک ہے جیسے کہ سلیمان ؑ کے قصہ میں ہے
تاکل منسا تہ (سبا : ۱۵)
باریک ہی تھا تو اندر اندر کھاتا رہا اور پتہ نہ لگا اور
تکلمھم (النمل : ۸۳)
سے مراد بھی یہی ہے کہ طاعون ہو کیونکہ ایک اور مقام پر قرئن شریف میں ہے کہ ہم ہر ایک قریہ کو قیامت سے پہلے ہلاک کریں گے یا عذاب میں مبتلا کریں گے۔
مغضوب علیہ اور ضال کا فرق
مغضوب علیھم کا آخر جیسے موت ہے اسی طرح والضالین کا بھی آخر موت ہے مگرآہستہ آہستہ۔کیونکہ ضلالت کے معنے ہیں راستے سے بہتک جانا۔بھٹکتے پھرنا۔آخر انسان کو جب کوئی راہ نہ ملا تو مر ہی جائے گا ریگستانوں وغیرہ میں لوگ راستہ بھول کر مر ہی جاتے ہیں۔لیکھرام مغضوب علیہ تھا اور آتھم ضال کہ ایک جلدی مر گیا اور ایک آہستہ آہستہ سسکتا ہوا مرا اور آریہ بھی یہود میں داخل ہیں ان کا ھون وغیرہ تمام رسوم یہود سے ملتی ہیں بعض نے لکھا ہے کہ برہمن‘مصرجی اسی لئے کہلاتا ہیں کہ یہ لوگ مصر سے آئے تھے۔
ایک نفسیاتی نکتہ
ایک شخص کی حالت پر حضور نے فرمایا کہ :-
جوش والا آدمی درست ہونے کے لائق بہت ہوتا ہے مگر منافق نہیں ہوتا۔
سر سید احمد خان کی رائے
ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ سر سید احمد صاحب سے ایک دفعہ جب میری کتابوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ ان میں ذرہ خیر نہیں ہے۔
مولوی نذیر حسین دہلوی کا ذکر
مولوی نذیر حسین دہلوی متوفی کے ذکر پر بعض احباب نے یہ کہا کہ قوم اور برادری کی محبت ہی نے دراصل اسے اخفاء حق کے لئے مجبور کیا ہوا تھا۔حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :-
محبت دین کی ہی محبت ہوتی ہے صحابہ کرام ؓ کی بھی برادری‘قوم اور رشتہ داریاںتھیں مگر صحابہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لوگ دین کے دشمن ہیں تو اپنے ہاتھوں سے ان کو ہلاک کیا گر ان میں (نذیر حسین میں) تقویٰ ہوتا تو ایسے سخت دلی کے لکھے ہوئے خط نہ پہنچتے یہ کہہ دیتے کہ تقویٰ اجازت نہیں دیتا یہ تمام امور تقویٰ کے خلاف ہیں کہ قرآن شریف بین دلائل سے وفات مسیح ثابت کرتا ہے جیسے
فلما توفیتنی (البائدہ : ۱۱۸)
اور
قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
پھر خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں ان کو مردوں میں دیکھنا اور پھر تمام فرقے اسلام کے اور صوفی موت کو مانتے ہیں اور یہ لوگ اس بات کے قائل نہیں ہین سب سے پہلا اتفاق اسی امر پر ہوا کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں صرف قوم اور برادری کو مد نظر رکھ کر (نذیر حسین) نے انکار کیا۔
سنا تھا کہ نذیر حسین کہتا تھا کہ مجھے ایک ایسی بات یاد ہے کہ اگر بتائوں تو ہزاروں آدمی مرزا صاحب کے مرید ہو جاویں وہ تو ہزاروں داخل کراتا ہی رہ گیا یہاں لاکھوں داخل ہوگئے۔
حجرہ نشین لوگوں کو نہ تو آسمانی منطق نصیب ہوتی ہے اور نہ زمینی۔
مولوی اسمٰعیل شہید صاحب آئے تو سنگھڑ بھی گئے اور شیخ سلیمان سے ملے شاید جہاد کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ فقیر نے اپنے ہاتھ سے چڑیا بھی نہیں ماری تلوار کیسے اٹھاوے گا۔انہوں نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۳۶۳ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے تھے۔
پھر فرمایا کہ :-
اب تومیں یقین کرتا ہوں کہ وہ (نذیر حسین )ہماری جماعت میں داخل ہوا۔کئا مرتبہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی زندگی میں تو قائل نہ ہوا مگر جب فوت ہو گیا تو ہماری جماعت میں داخل ہوا۔
محمد حسین بٹالوی کا عقیدہ
محمد حسین بٹالوی کے ذکر پر فرمایا کہ :-
اس عمارت کے دو کونے ہیں ایک مہدی اور ایک مسیح۔مہدی کی نسبت وہ کہہ چکا تھا کہ کوئی حدیث بھی جرح سے خالی نہیں ہے جب ایک کونہ گر گیا تو دوسرا کس کام کا۔اسی لئے ہمارا انکار کر دیا یہ مسئلہ ایک مرکب شے ہے جیسے ایک پیالہ اگر اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ جائے تو باقی کس کام کا۔اور ایک پہلو سے محمد حسین ہمارے مفید مطلب ہوا کہ مہدی کی تردید کر چکا۔
‏Amira 28-3-05
(بوقت نماز ظہر)
مقدمہ بازی اچھی نہیں ہوتی
حکیم فضل دین صاحب کے مقدمہ پر حضرت اقدس ؑ غور فرماتے رہے اور بہت سی باتیں سننے کے بعد حضور نے فرمایا کہ :-
مقدمہ وہ بہت منحوس ہوتا ہے جس کا انجام بخیر نظر نہ آوے اور صاف وہ مقدمہ ہوتا ہے جس کے آثار فتح و نصرت کے جلد نظر آجاویں مقدمن بازی اچھی نہیں ہوتی۔بار بار حکام کے پاس جانا‘ ان کے متھے لگنا۔میری رائے تو یہ ہے کہ مراد بصد بگزار صلح کر لو۔
قرآن کے حکم کی تعمیل میں کوئی تکلیف نہیں
ایک صاحب نے کہا کہ حضور کو بھی شہدت کے لئے جانے کی تکلیف ہوگی اس نے اسی لئے آپ کی شہادت لکھائی ہے کہ یہ لوگ تکالیف کو دیکھ کر صلح کر لیں حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ:-
ہمیں کوئی تکلیف نہیں قرآن کا حکم ہے کہ جب گواہی کے لئے بلایا جاوے تو جائو۔میں کوئی بے دست و پاتو ہوں نہیں۔ہمیشہ پیدل بٹالہ آیا جایا کرتا تھا۔یہ تو کوئی بات نہیں چلنے پھرنے کی عادت ہے مگر یہ ایک منحوس بے حیثیت سا مقدمہ نظر آتا ہے مو من کو اپنی عزت کا پاس بھی کرنا چاہئے گندے آدمیوں سے یہ جگہ پر تھی معلوم نہیں کہ خدا کو کیوں یہ جگہ پسند آئی۔
(نماز عصر سے پیشتر)
نماز عصر سے پیشتر مولوی عبدالکریم صاحب نے اخویم عبدالعزیز صاحب کا خط سنایا جو سہار نپور سے آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ یہاں کے لوگوں میں ایک عجیب ولولہ اور شوق قادیان پہنچنے کا پیدا ہو رہا ہے۔
(نماز مغرب سے پہلے)
عصمت انبیاء
کسی پادری نے عصمت انبیاء کے متعلق چند ایک اعتراضات مولوی محمد علی صاحب کے پاس روانہ کئے ہوئے تھے اور نوح کا گنہگار ہونا بھی لکھا تھا کہ اس نے خلاف منشاء ایزدی اپنے بیٹے کے لئے دعا کی یہ اعتراض مولوی صاحب نے نماز مغرب سے پہلے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کئے۔حضرت اقدس نے فرمایا :-
کیا وجہ ہے کہ اس نے مسیح کا ذکر نہ کیا کہ ایک انجیر کے درخت کی طرف گیا اور جانتا تھا کہ اس میں پھل نہیں ہے پھر وہ جانتا تھا کہ صلیب ملنی ہے اور دعائیں کرتا رہا کہ مجھے نجات ملے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ثبوت میں
فقد لبثت فیکم عمرا (یونس : ۱۷)
کی دلیل پیش کرتے ہیں اس کے مقابلہ کا ایک فقرہ بھی انجیل میں نہیں ہے اور پیغمبر خدا کی تمام عمر کا یہ حوالہ ہے
فقد لبثت فیکم عمرا (یونس :۱۷)
استغفار کے اصل معنے تو یہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں۔؎ٰ
مسیح تو خود کنجریوں سے تیل ملواتا رہا۔اگر استغفار کرتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔
(بعد نماز مغرب)
پھر اس کے بعد اذان ہو کر نماز مغرب ہوئی ارو حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا کہ:-
الزامی جواب
مفتی محمد صادق صاحب جو کتاب سنایا کرتے ہیں جس میں مشیعہ عورت اور مشیع یہودی عاشق سلومی کا ذکر ہ یکہ وہ عورت سلومی مشیع کو چھوڑ کر یسوع کے شاگردوں میں جاملی۔اس لئے اس مشیع نے یہ سارا منصوبہ صلیب کا بنایا گویا ایک عورت کے واقعہ نے ان کی صلیب تک نویت پہنچائی۔
جس طرح بدظنیاں ان لوگوں نے نکالی ہیں ویسے ہی ہمارا بھی حق ہے ان کے نزدیک زیادہ شادیاں کرنا گناہ ہے مگر ایک بازاری عورت عطر ملتی ہے تیل بالوںکو لگاتی ہے بالوں میں کنگھی کرتی ہے اور یہ مہنت کی طرح بیٹھے ہوئے مزے سے سب کرواتے جاتے ہیں یہ بھی پوچھو کہ گناہ ہے یا نہیں۔ان کو لازم تھا ہ اعتراض نہ کرتے جو واقعات ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں وہی پیش کرنے پڑتے ہیں اور کیا جواب دیویں۔یہ کوئی چھوٹا اعتاض نہیں ہے کہ ان کو کنجریوں سے کیا تعلق تھا اور اگر کہو کہ اس کنجری نے توبہ کی تھی تو کنجری کی توبہ کا اعتبار کیا۔ایک طرف توبہ کرتی ہیں ایک طرھ پھر موڑھے پر بازار میں جا بیٹھتی ہیں۔
پھر شراب کو دیکھو کہ تمام گناہوں کی جڑھ ہے اس کی تخم ریزی مسیح نے کی۔شراب کے جائز رکھنے سے کروڑہا لوگوں کی گردن پر چھری پھر گئے جب انسان نشہ کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر چھوڑنا مشکل ہے یہ نشہ بھی کیا شئے ہے۔کہ ایک طرف زندگی کو کھا جاتا ہے دوسری طرف زندگی کا شہتیر بھی ہے نشہ والوں کو نشہ نہ ملے تو موت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
ایک نشہ کا سائل
ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے تین دن سے نسہ نہیں ملا اس کی حالت بہت ردی تھی اورنشہ کے لئے مجھ سے پیسہ طلب کرتی تھی میں نے تعجب کیا کہ یہ نہ روٹی کا سوال کرتی ہے نہ کپڑے کا اور نشہ کے لئے بے قرار ہے۔اسے عادت ہوگی اور اب اس کی زندگی کا گویا جزو ہوگیا ہے اس لئے اس کو اپنے بیان میں سچا جان کر میں نے ایک پیسہ اسے دے دیا۔
اس موقعہ پر حضرت اقدس نے حکیم نورالدین صاحب سے سوال کیا کہ کتنے عرصہ کے بعد انسان کسی نشہ کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ پھر اسے چھوڑ نہیں سکتا رو مجبور ہو جاتا ہے حکیم صاحب نے کہا کہ کسی جگہ شاید نظر سے تو نہیں گزرا مگر چالیس دن میں ایسا ہو سکتاہے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :-
ہر ایک شئے کے لئے چالیس دن ہی ہیں بات یہ ہے کہ شراب اور اس کے بہن بھرا (بھنگ افیون وغیرہ) ایسی خراب شئے ہیں کہ ان سے مٹی پلید ہوتی ہے مگر پھر وہ مذہب کیسے اچھا ہو سکتا ہے سج میں ایسی تعلیم ہو ہاں ایک صورت ہے یہ نشہ چھوٹ سکے کہ جیلخانہ میں بند ہوں داروغہ بھی ایساہو کہ کسی سے سازش نہ کرے پھر شاید یہ عادت چھوٹ جاوے۔
فرمایا کہ:-
یحییٰ جو نشہ نہیں پیتے تے تو معلوم ہوا کہا س وقت بھی منع تھا مسیح نے مرشد کی تقلید کیوں نہ کی۔
شائد کوئی یہ اعتراض کرے کہ اوائل اسلام میں تو حرمت تھی نہیں۔ا۱۳ برس کے بعد حرمت ہوئی تو جواب یہ ہے کہ اسلام تو آہستہ آہستہ صفائی کرتا جاتا تھا اور قوم بن رہی تھی جب قوم بن گئے تو حکم آگیا ابتداء میں تو صحابہ ؓ کو یہ مصیبت تھی کہ پانی بھی بھولا ہوا ہوگا شراب کا کیا ذکر ہے۔
ماموریت کا مقصد
ایک علی حائری نامی شیعہ کے رسالہ کا ذکر ہوا جس میں مصنف نے ہمارے مقابلہ میں اہل سنت کو خطاب کیا ہے کہ تم اور ہم ایک ہیں حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ:-
سنّیوں کو تو ایک کر لیا اب ان کو چاہئے کہ خارجیوں کو بیھ ایک کریں ان کا بھی حق ہے پھر کبھی مل کر علیؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دے لیا کریں اور کبھی وہ ابو بکرؓ و عمرؓ کو دے لیا کریں ہمیں خدا نے اس لئے مامور کیا ہے کہ جو حد سے زیادہ شانیں خدا کی مخلوق کی بنائی ہوئی ہیں ان کو دور کریں اس کے حصہ دار سنی بھی ہیں ان میں بھی شرک بہت پھیلا ہوا ہے۔
تازہ الہامات
پھر حضرت نے آج کے الہامات سنائے کہ:-
آج یہ الہام ہوئے
’’یریدون ان یطفئو انورک۔یریدون ان یتخطفواعرضک۔انی معک و مع اھلک‘‘
فرمایا کہ:-
خدا تعالیٰ ہمیں اکیلا کمزور ضعیف پا کر ہماری حمایت پر آسمان سے تار بھیج دیتا ہے۔؎ٰ
۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دو شنبہ
(بوقت سیر)
حسب معمول حضرت اقدسؑ سیر کے لئے نکلے اور طاعوں کے ذکر پر فرمایا کہ :-
اس موسم میں آج کل عموماً گلٹیاں بغل وغیرہ میں نکلا کرتی ہیں مگر جب تک ان کے ساتھ کوئی زہریلا مادہ نہ ہوتب تک طاعون نہیں کہلاتی۔
عیسائیوں کے چار سوالوں کا جواب
ایک شخص کے چار ساول دہلی سے آئے تھے جو کہ عیسائیوں کی طرف سے اس پر ہوئے تھے وہ شیخ یعقوب علی صاحب نے پڑھ کر سنائے۔
کلمہ اﷲ کی حقیقت
اول سوال اس مضمون پر تھا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ اول کلام تھا اور کلام سے خدا ہوا اور خدا کی روح سے مسیح پیدا ہوا اور قرآن نے بھی اسے کلمہ فرمایا ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :-
کلمہ تو میرے الہام میں میرا نام بھی رکھا گیا ہے تم اس کے معنے بتلائو پھر ہم ا سکے بتلائیں گے اگر کہو کہ الہام سچا نہیں تو آئو اول اس کا فیصلہ کر لیں
خدا تعالیٰ فرماتا ہے
یو من باﷲ وکلما تہ (الاعراف : ۱۵۹)
ما نفدت کلمات اﷲ (لقمان : ۲۸)
تو معلوم ہوا کہ قضاء و قدر کا نام بھی کلمہ ہے روح کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔روح الشیطان اور روح اﷲ پہلا لفظ ولد الزنا اور دوسرا اصیل پر بولا جاتا ہے۔
قرآن کریم کے مصدق ہونے کی حقیقت
دوسرا سوال اس مضمون کا تھا کہ جو قرآن جو انجیلوں کا مصدق ہے تو کیا اناجیل صحیح ہیں؟
فرمایا کہ :-
مصدق کے معنے قرآنی طور پر یہ ہیں کہ جو کچھ صحیح تھا اس کی تونقل کر دی اور جو نہیں لیا وہ غلط تھا پھر انجیلوں کا آپس میں اختلاف ہے اگر قرآن نے تصدیق کی ہے تو بتلائو کونسی انجیل کی کی ہے قرآن نے یوحنا متی وغیرہ کی انجیل کی کہیں تصدیق نہیں کی۔ہاں پطرس کی دعا کی تصدیق کی ہے اسی طرح کونسی توریت کہیں جس کی تصدیق قرآن نے کی۔پہلے توریت تو ایک بتائو قرآن تو تمہاری توریت کو محرف بتلاتا ہے اور تم میں خود اختلاف یہ کہ روتیت مختلف ہیں۔
قرآن کریم کا خطاب
تیسرا سوال۔قرآن نے خود رسول اﷲ کو کہا
ان کنت فی شک (یونس : ۹۵)
فرمایا :-
اول یہ بتلائو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا گیا کہ ماں باپ کی عزت کرو ان کے والدین کہاں تھے ہان یہ شک کا لفظ اول مسیح پر وارد ہو سکتا ہے کیونکہ اگر وہ قربان اور فدیہ ہونے کے واسطے ہی آیا تھا اور یہ قطعی فیصلہ تھا تو اس نے کیوں کہا کہ اے خدا یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے معلوم ہوا کہ اسے ضرور شک تھا قرآن میں جہاں شک کا لفظ ہے ہر ایک مخاطب کی طرف ہے نہ کہ خاص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خدا نے ہمیں قاعدہ بتلایا ہے کہ جو بات قرآن کے مطابق ہواس پر عمل کرو اور خو مخالف ہو اسے رد کر دو۔
کلمہ والی بات تو ہم تھوڑے دنوں تک خود شائع کرنے والے ہیں یہ تو کلمہ کلمہ لئے پھرتے ہیں اور یہاں خود میرا الہام ہے
انت منی بمنزلۃ او لادی۔
شریعت شارح کی محتاج ہے
جو مامور ہو کر آتا ہے اس کی ذاتیات سے الہام وابستہ نہیں ہوتے وہ تو شریعت کا شارح ہوتا ہے جس طرح حصرت مسیح کے وقت شریعت شارح کی محتاج تھی اسی طرح اس وقت بھی شریعت شارح کی محتاج ہو رہی تھی کیونکہ جس طرح اس وقت یہود کے ۷۲ فرقے تھے اسی طرح اسلام کے ۷۲ فرقے ہو گئے۔اب خدا ان سب کو ملا کر ایک بنانا چاہتا ہے۔
شیطان کی آخری جنگ
رات کے تین بجے کے قریب مجھے الہام ہوا :-
واما نرینک بعص الذی نعدھم للسلسلۃ السما ویۃ او نتوفینک۔جف القلم بما ھوکائن۔قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد۔والخیر کلہ فی القران۔فاتقواالنارالتی وقود ھاالناس والحجارۃ اعدت للکافرین۔
معلوم ہوتا ہے کہ آدمی دو قسم کے ہیں ایک وہ کہ جانتے تو نہیں مگر ان میںابھی انسانیت ہے دوسرے وہ جن کے آنکھ کان فہم وغیرہ سب جاتے رہتے ہیں اور حجارہ میں داخل ہیں وہ بیھ جہنم میں داخل ہوں گے جو کہ سمجھے ہوئے تو ہیں مگر بعض تعلقات دنیاوی کی وجہ سے وہ قبول نہیں کرتے معلوم ہوتا ہے اس مٰں کوئی تجویز ہے اور اس کو ابھی مخفی رکھا ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی ہونے والی ہے اور اﷲ کریم کچھ چشم نمائی کرنے والے ہیں اور یہ بیھ فرمایا کہ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہو چکا۔اب ٹل نہیں سکتا
لم یکن الذین کفرو امن اھل الکتاب منفکین حتی تاتیھم البینۃ
یہ براہین کا میرا الہام ہے مجھے خد انے اس لیء بھیجا ہے کہ ان اہل کتاب کو بینہ دکھلا کر دم بخود کیا جاوے عنقریب سمجھ لیویں گے کہ ان کو کوئی مفر نہیں۔مسلمانوں نے تو اقبالی ڈگری اپنے اوپر عیسائیوں کو دیدی۔آئو وہ فیصلہ ہمارے ساتھ بھی کرو جو انبیاء کے ساتھ ہونا چاہئے تا کہ آسمان سے اس کا فیصلہ ہو۔تم کہتے ہو مسیح کلمۃاﷲ ہے ہم کہتے ہیں ہمیں خدا نے اس سے بھی زیادہ درجہ دیا۔اگر یہ اعتراض ہو کہ مسلمان تم کو کافر کہتے ہیں تو دیکھو تم کو رومن کیتھولک کافر کہتے ہیں اور تم ان کو کافر کہتے ہو اور ڈوئی سب کو کافر کہتا ہے میرے پاس تو خد اکی گواہی ہے اور اس کے نشانات ہیں نہ کسوف وخسوف تھا۔نہ جماعت تھی‘نہ اس کی ترقی تھی نہ طاعون تھی یہ سب باتیں مجھے قبل ازوقت بتلائی گئیں اس ملک پر اتفاقاً افلاس کا سخت صدمہ آیا اور اس وجہ سے بہت سے بھوکے اور خبیث طبع لوگ جو نرے روڑی کے طالب تھے اس عیسائی فرقہ میں چند روپیوںکے لالچ میں شامل ہو گئے۔
اب یہ معلومہوتا ہے کہ دانیال اور حزقیل نبی کی کتابوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ یہ ایک آخری جنگ ہے جو کہ شیطانکی لڑائی کہلاتی ہے اور خود شیطان نے تو لڑائی کرنی نہین بلکہ انہی لوگوں کے ذریعہ سے ہورہی ہے پس ایسی لڑائیوں سے یہ ہمارے مخالفینکو خنشیٰ بنا دیویں گے اور آخر بات ہم پر ہی آکر پڑے گی ان ہمارے مخالفوں کا یہ مذہب ہے کہ کلمۃاﷲ اور روح اﷲ خالق اور مسّ شیطان سے بری اور آسمان سے دوبارہ دنیا میں واپس آنے والا یہ سب صفات حضرت مسیح ہی میں ہیں۔کمبخت ! خدا جانے کہاں کے کہاں چلے جاتے ہیں پھر کہتے ہیں
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
پھر یہ مصرعہ تو حضرت مسیح کے بارہ میں لکھنا چاہیے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان لوگوں کے خیال کے موافق آنحضرتؐ تو قتل دجال سے دست بردار ہو گئے کیونکہ مسیح نے آکر جو قتل کرنا ہوا اور اول حصہ بھی مسیح کا ہوا اور آخر حصہ بھی مسیح کا۔
ابتداء میں کلمہ تا اور کلمہ خد اکا کلام تھا وغیرہ وغیرہ یہ سب الحاقی عبارتیں ہیں ان کے پاس الحاقی عبارتیں ہوئیں اور ہماری پا س اصل۔آخر پر ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مرزائیوں سے بات نہ کرو ایک درخت کی چھوٹی ارو کمزور شاخ توایک چڑیا کو بھی ناز سے اپنے اورپر بٹھا لیتی ہے لیکن اگر اس کے اوپر مور بیٹھنا چاہے تو ایک سیکنڈ کیلئے برداشت نہیں کرسیکتے۔
زمانہ اور قرائن کے لحاظ سے دیکھو کہ جو باتیں تم مسیح پر چسپاں کرتے ہو وہ پورے طور پر ہم پر چسپاں ہوتی ہیں قیمتی پیشگوئیاں آمد ثانی پر تھیں وہ سارے کا سارا تھیلا ہم نے چھین لیا۔آمد اول میں تو ساری ذلت اور مار کھانے والی پیشگوئیاں ہیں اور جلال اور عظمت والی تو آمد ثانی پر تھیں جو کہ ہم کو ملیں۔
ایک تفسیری نکتہ
عندہ علم الساعۃ (الزخرف : ۸۶)
پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :-
یہ بات واقعی ہے اور قرآن پاک سے بھی ثابت ہے کہ ساعۃ سے اس جگہ مراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے یہ وہی زمانہ تھا اور جس ساعت کے یہ لوگ منتظر ہیں اس کا تو ابھی کہیں پتہ بھی نہیں ہے ایک پہلوسے اول مسیح کے وقت یہودیوں نے بدبختی لے لی اور دوسرے وقت میں نصاریٰ نے بدبختی کا حصہ لے لیا مسلمانوں نے بھی پوری مشابہت یہود سے کرلی۔اگر ان کی سلطنت یا اختیار ہوتا تو ہمارے ساتھ بھی مسیح والا معاملا کرتے۔
نشانوں کے ظہور کا وقت
جس طرح کھانگڑ بھینس کا دودھ نکالنا بہت مسکل ہے اسی طرح خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میںاترا کرتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ
انا لمد رکون (الشعراء : ۶۲)
وہ ایسا سخت مشکل کا وقت تھا کہ آگے سے بھی ارو پیچھے سے بھی ان کا موت ہی موت نظر آتی تھی سامنے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر۔اس وقت موسیٰ ؑ نے جواب دیا
کلا ان معی ربی سیھدین (السعراء : ۶۳)
پس ایسی ضرورتوں اور ابتلا کے اوقات میں نشان ظاہر ہوا کرتے ہیں جبکہ ایک قسم کی جان کندنی پیش آجاتی ہے چونکہ خد اکا نام غیب ہے اس لئے جب نہایت ہی اشد ضرورت آبنتی ہے تو امرو غیبیہ ظاہر ہوا کرتے ہیں لیکھرام کے قتل کی طرز اور وضع اور وقت اور تاریخ وغیرہ سب کچھ کس صفائی سے بتلایا گیا۔مگر بے ایمانوں کے واسطے تھوڑا ساشبہ اور ایمان والوں کے واسطے تھوڑی سی بات ایمان کے لئے باقی رکھ لی تھی بے ایمانی کی بات ہی ہوئی جو کہا ہ شاید ان کی جماعت میں سے کسی نے اس کو قتل کر دیا ہو۔
(بعد از نماز مغرب)
بعد ادائے نماز مغرب حضورؑ حسب معمول اجلاس فرماہوئے تو قادیان میں جو چوڑھوں میں چند آدمی مر گئے ہیں بہ ایں وجہ کہ ان ایام میں انہوںنے کئے ہلاک شدہ بھینسیں کھائی تھیں ان کا ذکر ہو کرتے ہوئے آخر طاعون کا تذکرہ ہو پڑا فرمایا :-
29-03-05
خداتعالیٰ کاجلال ظاہر ہو
ایک بار مجھے الہام ہو اتھا کہ قادیان میں نازل ہو گا اپنے وعدے کے موافق اور پھر یہ بھی تھا ۔
’’ الا الذین امنواوعملو االصلحت ‘‘
فرمایا:۔
طاعون کے خوف ناک نتائج یہ بھی ہیں کہ آخر کو جنگل بنادیتی ہے
اس پر حکیم نور الدین صاحب نے کہا کہ حضور میں نے پڑھا ہے کہ جویہ نئی آبادی ہوئی ہے اس پر پرانی آبادیوں کہ نشانات ملے ہیں اور یہ لکھا ہے کہ یہ قطعات آباد تھے اور طاعون سے ہلاک ہوئے تھے
حضرت اقدس ؑ نے فرمایاکہ :
خواہ موذی طبع لوگ ہزاروں ہی مر جاویں گے مگر میراجی یہ چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کاجلال ظاہر ہو اور دنیا کو خدا تعالیٰ کا پتہ لگے اور ثبوت ملے کہ کوئی قادر خدابھی موجود ہے اس وقت دہریت اورالحاد بہت پھیلا ہواہے خداتعالیٰ کی طرف سے بے پروائی ظاہر کی جاتی ہے اورجن لوگوںنے بظاہرخداتعالیٰ کااقرار بھی کیا ہے انہوں نے یاتو خطرناک شرک کیا ہے جیسے عیسائی اور دوسرے بت پرست مشرک اور پھر جنہوں نے بظاہر توحید کااقرار کر رکھاہے اور مسیح کو خدا کی صفات سے متصف ٹھہرا رکھا ہے علاوہ بریں خداتعالیٰ کی محبت کے نشان ان کے اعمال سے ثابت نہیں ہوتے ۔ اعمال میں سستی اور بیباکی اور گناہوں پر دلیری پائی جاتی ہے جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خداکاخوف دلوں پر نہیں رہا اس لئے میں چاہتا ہو کہ اس بیباکی کے دور کرنے میںبے شک ہزاروں ظالم طبع لوگ ہلاک ہوںتا کہ وہ دوسروںکیلئے عبرت ہو ۔ اور وہ خداتعالیٰ کی قدرتوںاور طاقتوں پر ایمان لانے والے ہوں ۔ دیہات کے لوگ تو جنگل کے وحشیوں کی طرح ہیں مگرشہروں میں جو تعلیم یافتہ ہیں ان کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہورہی ہے میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میںکبھی اعلائے کلمۃ اللہ اور اپنے اعمال کی اصلاح اور تبدیلی کاجوش نہیں ہے باپ دادا سے
لاالہ الااللہ
سن لیا اسی کو کافی سمجھا۔اعمال کی پرواہ نہیں ۔
یہ جو الہام ہو چکا ہے
انہ اوی القریۃ
اگر منتشر کرنے کاقانون منسوخ ن ہوتا تواس مفہوم کو اس الہام میں داخل سمجھا جاسکتا مگر اب جب کہ سب جگہ قانون منسوخ ہوگیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامنشاء یہی ہے جیساکہ دوسرے الہام
لولا الاکرام لھلک المقام
سے پایا جاتا ہے ۔ اس میں شوکت بھی ہے اورچشم نمائی ہے جیسے ایک مجرم کو جج ۳ سال کی سزا سے او رساتھ ہی کہہ دے کہ اصل میں ۱۴سال قید کی سزا کے لائق تھا مگرعدالت رحم کرکے ۳سال سزا دیتی ہے اسی طرح پر یہ الہام ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ جگہ بھی ایسی ہی تھی کہ ہلاک کی جاتی مگر خداتعالیٰ اپنے کلام کااکرام ظاہر کرناچاہتا ہے کہ اسی اکرام کی وجہ سے اسے ہلاکت سے بچالیا اوراس طرح پر یہ نشان ٹھہرا ۔
جماعت کو نصیحت
میری نصیحت اس وقت جماعت کو یہ ہے کہ یہ دن بڑے سخت اور ہولناک ہیںاس لئے جہاں تک ہوسکے اپنے دلوںکو اور آنکھوںکو برے جذبات سے روکیں اور اپنے اعمال اور چال چلن میں خاص تبدیلی پیدا کریں یہ وقت خاص تبدیلی کا ہے اور خداتعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا ہے پس اس وقت خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو میں نے سنا ہے کہ ایک شخص عین شادی کہ دن طاعون سے مر گیا ۔دنیا کی بے ثباتی کی کیسی ی عبرت بخش مثال ہے اگر دانشمند غور کرے تو ایک طرح سے یہ دن بڑے عجیب ہیں ان پر نظر کرنے سے موت یاد آتی ہے اور خداتعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتاہے او ریقین ہی ایک ایسی شے ہے جو اعلیٰ درجے کی لذت اور سرور صادق الیقن کو بخشا ہے جو کسی اور کو میسر نہیںآسکتے خداشناسی کے اس مسئلے پر اس وقت ہزاروں قسم کے حجاب اور گردغبارپڑے ہیں
‏Amira 29-3-05
اور وہ یقین جو لذت بخش نتائج اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ نہیں رہا اور وہ سرور جو دنیا کے تعلقات میں پیدا ہونے والے رنج و غم کو دور کرتا ہے اس وقت نہیں بلکہ یہ حالت ہو رہی ہے کہ اکسیر مل جاوے تو مل جاوے لیکن ایسے ئدمی اس زمانہ میں ملنے مشکل ہیں جو خد اتعالیٰ کی ہستی پر ایسا یقین رکھتے ہوںجس نے ان کی ساری قوتوں اور جذبات پر ایسا اثر کیا ہو اور ایسی معرفت عطا کی ہو جس سے ان کے گناہ کی زندگی پر موت وارد ہو چکی ہو میں سچ کہتا ہوں کہ ایسے دلوں کا ملنا بہت مشکل ہے جو ایمان اور اس کے لذت بخش نتائج کی معرفت سے بھرے ہوئے وں۔
ضرورتیں تو اس وقت بہت سی ہیں جو اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت کا ہاتھ دکھائے اور اپنی چمکار سے دنیا کو روشن کرے مگر سب سے بڑی ضرورت ایسی معرفت اور یقین کا پیدا کرنا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ طاعون اسی کو پورا کر رہی ہے ٹیکہ کا علاج اس وقت تک آخری سمجھا گیا لیکن اگر یہ علاج ٹھیک نہ ہوا تو پھر مشکل ہو گی ابھی تک اس کا پورا تجربہ بھی نہیں ہوا۔جب تک ایک عدد کثیر نہ ہو کیا کہہ سکتے ہیں مثلا لاہور میں ۵۰ یا ۶۰ ہزار آدمی تیکہ لگوائے اور پھر ایک دو جاڑے ان پر امن سے گذر جاویں تو کچھ پتہ ملے لیکن اگر چھ ماہ کے بعد اس کا اثر زائل ہو جاوے تو اور ہر ششماہی کے بعد یہ نسخہ گلے پڑا تو پھر تو کچھ نہیں احادیث میںجو آیا ہے کہ آخر خدا سے لڑائی کریں گے یہ اس قسم کی جنگ ہو گی جو خد اتعالیٰ کی قضا و قدر کے مقابلہ کے لئے ہر قسم کی تیاری کی جاوے گی میرے الہام میں ج
انی اجھز الجیش
آیا ہے اس سے مراد طاعون ہے اور ایسا ہی حضرت مسیح نے اپنی آمد کا زمانہ نوح کے زمانہ کی طرح قرار دیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے میرا نام بھی نوح رکھا ہے اور
واصنع الفلک
کا الہام ہوا اور
لا تخاطبنی فی الذین ظلمواانھم مغرقون
بھی فرمایا۔جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عظیم الشان طوفان آنے والا یہ اور پھر اس طوفان میں میری بنائی ہوئی کشتی ہی نجات کا ذریعہ ہوگی۔اب طاعون وہی طوفان ہے اور خدا کا زور آور حملہ اور اس کی چمکار ہے یہی وہ سیف الہلاک ہے جس کا براہین میں ذکر ہوا ہے طبیبوں اور ڈاکٹروں کو اقرار کرنا پرا ہے کہ اس کا کوئی نظام مقرر نہیں ہے کہ گرمی میں کم ہوتی ہے یا سردی میں۔کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہوں میں گرمیوں میں بھی اس کی کثرت میں فرق نہیں آیا غرض اس کا علاج بجز استغفار اور دعا اور اعمال میں پاکیزگی اور طہارت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔؎ٰ
۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
(بوقت سیر)
کوئی ۷ بجے کے قریب حضرت اقدسؑ سیر کے لئے تشریف لائے۔کپور تھلہ سے ثند ایک احباب آئے ہوئے تھے حضرت اقدسؑ نے ان سے ملاقات کی۔اور طاعون کا حال اس طرف کا دریافت کیا اس سے پیشتر حضرت اقدسؑ قادیان کے شامل کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے مگر آج آپ نے حکم صادر کیا کہ اس طرف (یعنی مشرقی طرف)چلئے۔گویا آج اس مشرقی زمین کے بخت بیدار ہوئے جس پر حضرت اقدسؑ کے مبارک قدم پڑنے تھے۔
عصمتِ انبیاء علیہم السلام
آج بھی وہی مضمون زیر بحث رہا جس پر گذشتہ ایام میں بحث تھی کہ عیسائی جو دوسرے نبیوںکو گنہگار ٹھہراتے ہیں مسیح کے گناہوں کو کیوں چھپاتے ہیں فرمایا کہ
ان کو (عیسائیوں کو) بحث میں ذلت اور ندامت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں۔دوسرے پر حملہ کرنے سے پیشتر اپنے گھر کی صفای تو کر لیں۔اگرموسیٰ ؑکے قتل پر اعتراض ہے تو وہ توریت کے بزول سے پہلے کا واقعہ یہ مگر مسیح کو کیا ہوا کہ انجیل نازل ہو رہی ہے اور کنجری سے تیل ملوا رہا ہے پھر موسیٰ ؑکا فعل ارادتاً نا تھا۔نہ اس کو مارنیکا ارادہ تھا اس لئے قتل کا الزام غلط ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک بیل کو ڈنڈا مارا اور وہ مر گیا۔مقدمہ عدالت میں گیا چونکہ یہ ایک اتفاقیہ امر تھا آخر عدالت نے اسے چھوڑ دیا۔
بلغ اشدہ
سے مراد وہ نبوت لیتے ہیں اس سے مراد نبوت نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ جب ہوش آیا اشد بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وحی کی اشد اور دوسری جسمانی اشد موسیٰ نے مکامارا۔اتفاقیہ ایسی جگہ لگ گیا کہ موت واقع ہو گئے۔
مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ الہام کا سلسلہ بعد بپتسمہ لینے کے شروع ہوا اور روح القدس بھی پیچھے ہی اترا ہے۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا :-
پھر یوں کہو کہ مسیح کے برکات کا سرچشمہ یحییٰ ہی تھا۔سچی پاکیزگی بلا روح القدس نہیں مل سکتی یحییٰ بھی اس پر ایمان نہیں لایا وہ کہتا تھا کہ میں آنے والے سے اول آیا ہوں مگر اس نے ان کو مسیح نہیں مانا اور اسی لئے جب اس سے پوچھا گیا کہ تو ایلیاء ہے تو اس نے انکار کر دیا نیک نیتی کے ساتھ اسے (یحییٰ کو ) کچھ امرو پیش آگئے اس نے خیال کیا ہو گا کہ جب اس نے خود میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تو یہ مسیح کیسے ہوگا۔ان (عیسائیوں ) پر سخت مشکلات ہیں بے وقوف ہیں جو اپنی پردہ دری کراتے ہیں۔
پھر حضرت اقدسؑ نے مفتی محمد صادق صاحب کو حکم دیا کہ :-
ملک صدق کا حال دیکھنا جس نے حضرت ابراہیمؑ کو تحفہ اور سوغات دیئے تھے کیونکہ یہ تین آدمیوں کو مسیح کے علاوہ بے گناہ کہا کرتے ہیں ایک ملک صدق۔دوسری مریم تیسرے یحییٰ۔ان کے نزدیک تومسیح اور مریم ہی مسّ شیطان سے پاک ہیں مگر قرآن نے مساوی رکھا ہے کہ ہر ایک راستباز مسّ شیطان سے پاک ہے کچھ تہمتیں چونکہ حضرت مسیح ؑپر آگئی تھیں کہ یہودی لوگ ان کو مس شیطان سے منسوب کرتے تھے اور طرح سرح کی باتیں کرتے اور الزام لگاتے تے اس لئے ان کا ذب ضروری تھا ن پر سخت الزابات تھے اور اب تک وہی چلے آتے ہیں سو خدا نے وہی (الازم) اتارے۔دوسروں (نبیوں ) پر اس قدر الزام نہ تھے اس لئے ان کے ایسے ذکر کی ضرورت نہ تھی یہ آنحضرت ؐ کی بزرگی کا خاصہ ہے کہ جیسے جیسے یہ بہت پیچھے پڑے ہیں اس طرف سے بہت سی بتیں نکلتی آتی ہیں لوگ کہا کرتے ہیں کہ ’’فقیراں دی بد دعا لگ جاندی ہے‘‘ اسی طرح عیسیٰ کی بددعا ان کو لگ گئی جو وہ دیا کرتے تھے کہ تم بے ایمن ہو یہ قاعدہ کیی بات ہے کہجب بات انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو بے ایمانوں سے جواب تو بن نہیں آتا اس لئے آخر خاموش ہو کر پیچھا چھوڑا تے ہیں۔
اندورنی مخالفوں کا ذکر
اندرونی مخالفوں کی حالت پر فرمایا کہ :-
اگر یہ کوئی تحریر نہیں کرتے تو دس بارہ آدمی مل کر آویں کہ ہمیں حق کی طلب ہے اور آدمیت کی بحث کریں جس میں چند ایک منصف مزج بھی موجود ہوں اور تمام باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں کہ حقیقت کھل جاوے مگر یہ لوگ ایسی بات کبھی نہیں چاہتے دراصل یہ لوگ اب سرد ہو گئے ہیں اپنی حفاظتوں کو مقدر رکھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی ان (مرزائیوں) سے نہ ملے۔ان کو جانے دو۔
پھر مولوی غلام قادر صاحب بھیروی کے ذکر اذکار دیگر احباب کرتے رہے کہ وہ وہابیوں کے سخت دشمن ہیں بلکہ ایک دفعہ میاں نجم الدین نے جب آپ کی بیعت کی تو اس نے طعنہ مارا کہ دیکھو تم نے وہی بات مانی جو ہم منواتے تھے اور ا سنے حضور کی مخالفت میں کبھی نہ قلم اٹھایا نہ زبان کھولی بلکہ وہ اس سلسلہ کو اس لئے پسند کرتا تھا کہ وہابیوں کی خوب خبر لی۔
پیشہ وروں کی ناز نمائی پر فرمایا کہ:-
یہ لوگ نز نمائی بغیر رہ نہیں سکتے ضرور کرتے ہیں۔
قبل و بعد از نماز مغرب
وسع مکانک
مغرب کی اذان سے پیشتر ہی حضرت اقدس بالائی مسجد میں تشریف لے آئے اور جس مکان کی خرید کے متعلق حضور نے کشتی نوح میں اشتہار دیا ہے اس کا ذکر کرتے رہے کہ :-
تو سیع مکان کی بہت ضرورت ہے جہاں تک ہو سکے جلدی فیصلہ کرنا چاہئے۔
پھر اذان ہوئی اور نماز ادا کر کے حصرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے۔ایک خط اخبار عام کے کار پردازوں کی طرھ سے حضرت اقدس کی خدمت میں آیا تھا جس کا راقم ایک شخص رحمت مسیح نامی بٹالہ سے تھا اس خط میں لکھا تھا کہ قادیان میں سخت طاعون پھوٹی ہے دھڑا دھڑ لوگ مر رہے ہیں مرزا صاحب کی جماعت بھی بہت طاعون س یتباہ ہو چکی ہے خود مرزا صاحب بھی مبتلائے طاعون ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اخبار عام نے اس خط کو بجنسہ حضرت اقدس کے پاس تصدیق کے لئے روانہ کر دیا تھا اس کا ذکر حضرت اقدس نے کیا۔راقم خط کے متعلق کہا کہ
حسن ظنی
بعض لوگ شدید فتنہ پر دازی سے ایسا کرتے ہیں کہ ایک خط لکھ کر دوسرے مخالف کا نام اس پر لکھ دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کیا معلوم کہ کس کا لکھا ہوا ہے میں نے اخبار عام کو لکھ دیا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے صرف چند ایک اموات چوڑھوں میں ہوئی ہیں سو ان کا باعث بھی مشکوک ہے کچھ ڈنگر مرے تے وہ چوڑھوں نے کھائے پھر جن لوگوں نے ان کو کھایا وہی مرے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ طاعون سے مرے۔
آخرین کا اخلاص
پھر تین صاحبوں نے حضرت اقدس سے بیعت کی جس میں ایک صاحب سید اختر الدین احمد ساکن کٹک بنگال بھی تھے مولوی عبد الکریم صاحب نے احمد حسین صاحب آمدہ از کٹک کی طرف س یایک کرنسی نوٹ او ر کچھ زیورات حضرت کی خدمت میں پیش کئے۔زیورات ان کی اہلیہ مرحومہ کی طرھ س یتے جن کی وصیت تھی کہ یہ خاص حضرت اقدس کی خدمت میں دینی خدمت کے لئے دیئے جائیں حصرت اقدس نے ان کے اخلاق کی تعریف کی اور فرمایا کہ :-
خدا ان کو
اخرین منھم (الجمعہ : ۴)
میں ملاوے۔؎ٰ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا مقام
صحابہ کرام کے ذکر پر فرمایا کہ :-
شیعہ سب و شتم تو کرتے ہیں مگر ان کا (صحابہؓ کا) کام دیکھو کہ ئیسے خد اکی مرضی تھی ویسے ہی اسلام کو پھیلا کر دکھا دیا خوب جانتے تھے کہ بیویاں مریں گی، بچے ذبح ہوں گے اور ہر ایک قسم کی تکلیف شدید ہو گی مگر پھر بھی خد اکے کام سے منہ نہ موڑا۔یہی فقرہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک جماعت وہ ہے کہ اپنا نحب (ذمہ)ادا کر چکے ہیں جیسے
منھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر (الاحزاب : ۲۴)
کیسا سرٹیفکیٹ ہے کہ بعض نے میری راہ میں جان دے دی۔ایک جان وہ جس پر عیسائی پھڑک رہے ہیں اور پیچھے سے یہ معلوم ہوا کہ وہ بھی نہیں دی گئی۔
استغفار کی حقیقت
ہم نے تحقیق کر لی ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ انسانی قویٰ جو کر توت کر رہے ہیں ان کا فراط و تفریط یعنی بے محل استعمال نافرمانی ہوتا ہے تو خد اکا لطف و کرم مانگنا کہ تو رحم کر اور ان کے استعمال کی افراط و تفریط سے محفوظ رکھ یعنی اﷲ تعالیٰ سے امداد طلب کرنی ہے۔مسیح بھی خد اتعالیٰ کی مدد کے محتاج تھے اگر کوئی اس طرح نہیں سمجھتا تو وہ مسلمان نہیں۔
بڑا فنا فی اﷲ وہ ہے جو کہ ہر آن میں خد اکی امداد چاہتا ہے جیسے
ایاک نعبد وایاک نستعین (الفاتحہ : ۵)
پھر مولوی محمد علی صاحب ایم-اے نے اپی فینی ایک انگریزی عیسائی پرچہ میں سے حضرت اقدس کو ایک مضمون سنایا جو ایک مسلمان کے قلم سے استغفار کے متعلق نکلا ہوا تھا جس میں اس نے اپنی نادانی سے ایک عیسائی کو یہ جواب دیا تھا کہ استغفار کا حکم آنحضرت (ﷺ) کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ اس سے امت مقصود ہے کہ آپ کی امت استغفار کرے۔
اس سے عیسائی پرچہ کے ایڈیٹر نے اس پر اعتراض کیا ہوا تا کہ اگر یہ حکم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے ہوا کہ امت کو تعلیم دیں تو امت کے روبرو پڑھ کر سنا دینا کافی تھا مگر ایک دن میں ستر ستر اور سو سوبار اتغفار کرنے اور پھر تنہائی میں کرنے سے کای فائدہ تھا؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ لوگ نادانی سے نہیں سمجھتے اس مسلمان شخص نے تو خود عیسائیوں کو اعتراض کا موقععہ دے دیا ہے اور یہ ا سکی کم فہمی ہے۔کہ اس نے خدو استغفار کا مطلب نہیں سمجھا اس سے مراد تو ترقی مراتب ہے۔
پھر ایک اور مسلمان کا مضمون اسی پرچہ میں سے سنایا جس نے لفظ ذنب کے متعلق لکھا ہوا تھا اور حضرت اقدسؑ کے مضمون مندجہ انگریزی میگزین میں سے اس کا جواب اقتباس شدہ تھااس سخص نے اپنے جواب میں اس انگریزی میگزین کا حوالہ بھی دے دیا تھا اس سے حضرت اقدس بہت خوش ہوئے کیونکہ اس ترتیب سے علاوہ جواب معقول ہونے کے اس سلسلہ کی یہ تائید ہوئی کہ تیرہ چودہ ہزار آدمیوں میں میگزین کا اشتہار ہو گیا جن کے پاس یہ عیسائی پرچہ جاتا ہے۔
بپتسمہ کا ظاہر اور حقیقت
پھر عیسائیوں کے بپتسمہ دینے کے وقت جو پانی وغیرہ چھڑکا جاتا ہے اور بعض ان کے فرقے اس وقت نئے دیندار کو ایک چھوٹے سے حوض میں دھکا دے دیتے ہیں اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
پانی کا لحاظ تو ہر ایک نے رکھ اہے ان لوگوں نے تالاب وغیرہ رکھا ہے اور قرآن نے گریہ وبکا کا پانی رکا ہے۔وہ ظاہر پر گئے ہیں اور قرآن شریف حقیقت پر گیا ہے جیسے
تری اعینھم تفیض من الدمع (المائدہ : ۸۴)
عیسائیت اور شریعت
عیسائی پرچہ اپی فینی میں قرآن کریم پر شریعت کے متعلق حملہ کیا ہوا تھا اور اس کے مقابل پر انجیل کو مبارک بتلایا ہاو تھا جس نے شریعت کو *** کہا ہے اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
جب ان میں شریعت کوئی نہین ہیتو اگر ان کو کہا جائے کہ نجاست کھائو تو کھا سکتے ہیں اور ماں کے ساتھ زنا کریں تو کر سکت یہیں پھر تعجب ہے کہیہ لوگ کپڑا کیوں پہنتے ہیں۔کیونکہ ان مذہب (شریعت سے) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔برائے نام گناہ گناہ کرتے ہیں اور اصل میں چاہتے ہیں کہ ہر ایک گناہ کو چالا کی سے ہضم کر لیں جب ہر ایک قسم کی بدکاری کرنے پر وہ تیار ہیں تو پھر گناہ کیا شئے ہے اگر باکرہ نمشیرہ یا لڑکی کو نکاح میں لاویں تو وہ حرام نہیں ہے اگر کہیں سابقہ کتب میں حرام ہے تو وہ ان کے نزدیک منسوخ ہیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جنگیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں پر فرمایا کہ
وہ تو جائز طور پر جن کو مارنا تھا مار چکے مگر ان لوگوں (عیسائیوں ) نے لاکھوں خون نا جائز طور پر کئے عیسائی مذہبی جنگوں سے پتہ لگتا ہے کہ کس قدر خون ناحق ہوئے ہیں۔؎ٰ
اسلامی جنگیں بالکل دفاعی لڑائیاں تھیں جب کفار کی تکالیف اور شرارتیں حد سے گذر گئیں تو خدا تعالیٰ نے ان کو طزا دینے کے لئے یہ حکم دیا مگر عیسائیوں نے جو مختلف اوقات میں مذہب کے ہام سے لڑائیاں کی ہیں ان کے پاس خدا تعالیٰ کی کونسی دستاویز اور حکم تھا جس کی رو سے وہ لڑتے تھے ان کو تو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کا حکم تھا۔ ۲؎
عُسر اور یُسر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم
انسان کا خلق اس کی فتح اور کامیابی کے متعلق ہوتا ہے کہ جو کچھ صبر و غیرہ اخلاق فاضلہ مصیبت اور بلا کے وقت دکھلاتا ہے وہی فتح اور اقبال کے وقت دکھلاوے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں قسم کے وقتوں پر اخلاق دکھانے کا موقعہ ملا جو خلق عظیم تنگی اور بلا کے وقت آپ نے مکہ میں دکھلائے تھے وہی آپ نے بادشاہ ہو کر دکھلایا۔
حضرت مسیح کا کوئی شعبہ خلق کا دکھلائو وہ تو اس سے بالکل فارغ ہیں بلا ثبوت توجوگی بھی مدعی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے نفس کو مارا ہوا ہے ستر بی بی ازبے چادری۔مسیح نے تو امام حسین ؑ جتنا حوصہ بھی نا دکھلایا کیونکہ ان کو مفر کی گنجائش تھی اگر چاہتے تو جاسکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہو کر جان دی اور مسیح کو تو مفرہی کوئی نہ تھا یہودیوں کی قید میں تھے حوصلہ کیا دکھلاتے ۔؎ٰ
۲۲ ؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
(بوقت سیر)
حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور مشرقی جانب آپ نے چلنے کا حکم دیا فرمایا کہ:-
اس طرف جنگل ہے ادھر ہی چلئے۔جلد جنگل میں نکل جاتے ہیں۔
انبیاء کی پیشگوئیوں کا امتیاز
نزول المسیح کے متعلق مفتی محمد صادق صاحب سے مخاسب ہو کر فرمایا کہ :-
پیشگوئی کا جس قدر تکرار ہوگا وہ ایک نیا نشان ہوگا خدا کا عمیق علم اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن باتوں کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ان کی قبل از وقت خبر دے دیتا ہے اس کا علم غیبوبیت س یپتہ لگتاہے جو کہ طاقتوں اور قدرتوں کے ساتھ بھرا ہوا ہوتا ہے اس علم میں غیب بھی ہوتا ہے اور طاقت بھی۔نجومی جھوٹا ہوتا ہے اس کے ساتھ طاقت نہیں ہوتی مگر انبیاء کی خبروں میں طاقت ہوتی ہے جیسے دشمن کا ادبار اور اپنا اقبال دشمن کو شکست اور اپنی فتح۔جو اسے نجومی کے ساتھ ملاتے ہیں وہ دھوکا کھاتے ہیں کیونکہ اس میں صراحت ہوتی ہے کہ وہ (نبی)ایسا وجود ہے کہ دشمن کو پامان کرنا چاہتا ہے یہ چھیڑ ثفاڑ جو عیسائیوں (کے اعتراضوں) کی ہوتی ہے آخرکسی حدتک بڑھتی جاوے گی مگر آخر کار فیصلہ ہوگا۔خدا تو ایک دم میں فیصہ کر سکتا ہے مگر وہ تماشہ دیکھنا چاہتا ہے زمین میں کشمکش رہتی ہے مگر آخر کار فرشتہ آکر ہاتھ مارتا ہے تو فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ۲؎
ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی
پھر ڈوئی اور پگٹ کا ذکر ہوا کہ اسے اس ماہ کے آخر میں ہمارا رسالہ مل جاوے گا فرمایا :-
معلوم نہیں اخبار میں ذکر کرے یا چپ رہے اس کے چپ رہنے سے معلوم ہوگا کہ وہ جسے خدا بنارہا ہے اسے کچھ جرات بھی ہے کہ نہیں۔اگر ذکگ نہ کیا تو معلوم ہو گا کہ اس عقیدہ میں اسے خود کھٹکا ہے جس جگہ اس نے ہاتھ ڈالا ہے اس کا اسے خود علم نہیں جو توحید پر نہیں ہوتا اسے اس کا قلب خود جھوٹا ثابت کرتا ہے ان لوگوں نے ہزاروں بحثیں کیں اور جلسے بھی کئے مگر اب تک کوئی ایسی بات نہ ثابت کرسکے کہ حضرت مسیح کو انسان سے بر تر کچھ خصوصیت ہے۔
29-3-05
ٹھاکر داس نے بھی مان لیا ہے کہ انجیل کتب سابقہ کاخلاصہ ہے کوئی نئی نہیں ہے مسیح صرف مصلوب ہونے کو آیا تھا ۔
ڈوئی کہ نزدیک انسان حقہ ‘ شراب اور سور کھانے سے کافر ہوجاتے ہے مگر انسان کو خدا بنانے سے نہیں ہوتا ۔دوسرے مشرک تو مثل چوہوں کے ہیں ان سے تووہ نفرت کرتا ہے اور جوبڑا بھاری مشرک ہاتھی کی مثل ہے اسے قبول کیا ہوا ہے قوم چونکہ اس شرک میں بہت ہی گرفتاردیکھا اس لئے دلیری نہ کر سکا کہ ان کی مخالفت کر ے ( مسیح کو خداماننے میں )
پگٹ
پگٹ کے ذکر پرفرمایاکہ
یہ لوگ بہت ہی گھبرائے ہوئے ہیں کہ آخر گھبرا گھبرا کر مسیح کو منگوارہے ہیں ۔ ڈوئی و پگٹ کے ودعاوی اشاعت پر فرمایا کہ
ان کی شہرت کاباعث اخبار ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں پنجاب کے اخبار تو گویا برائے نام ہیں وہاں تو ایک دن میں لاکھوںکو خبر ہوجاتی ہے ۔
ڈوئی کی نسبت اگر ہمارے مقابلہ پر پگٹ آئے تو بہت اثر ہوگا دجال ایک گردہ کانام ہے اور مسیح سیاحت کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ان لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا کہ خدا کی کتابوں کی توڑ مر وڑکر اپنے منشاء کے مطابق بنا لیا اور پھر فلسفہ کے رنگ میں خدائی کادعویٰ کیا ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک شاگر د استاد سے پڑھ رہا تھا سبق میں مثال آئی
’’ضرب زید عمروا ‘‘
شاگرد نے استاد سے پوچھا کہ زید نے عمرو کو کیوں مارا ؟استاد نے کہا کہ صرف ایک مثال ہے شاگرد نے کہا کہ یہ تواصل واقعہ ہے سبب بتلائیے کہ مار تک نوبت کیوں پہنچی ؟ آخر استادنے دیکھا کہ یہ پیچھا نہیں چھوڑتا تواس نے کہا کہ اب مجھے مار کر سبب یاد آگیا ہے کہ عَمرو نے و کاحرف چرا لیا ہے اور اپنے نام کے ساتھ لگا لیا ہے تب شاگرد نے کہا اب ٹھیک ہے باعث تو معلوم ہوگیا ۔
فرمایا :۔
پگٹ کو ضرور چٹھی لکھنی چاہئیے اگ مقابلہ کرے تو خوب اثر ہو گا اور لوگ بھی توجہ کریں گے ۔
مفتی صاحب نے کہا کہ چٹھی لکھ دی ہوئی ہے حضرت اقدس نے فرمایاکہ :۔
بہ نسبت امریکہ کے ولایت والوں کو ہم سے بہت واسطہ ہے اس کا اگر مقابلہ ہو ااوروہ مقابلہ لکھا جاوے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کردے ڈوئی نے توکم مرتبہ اختیار کیا ہے مثل غلاموں کے ۔ اگر وہ ( پگٹ ) ذرا دلیر بنے تو یہ (ڈوئی ) قابومیں آیا ہو اہے کیونکہ وہ اس کی مقررہ معیار کے اندرآگیا ہے ۔ کہدیوے کہ مسیح پانی کی طرح پگھل کر آسمان سے آیا ہے اور میرے اندر رچ گیا ہے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ دجال کے متعلق جب سوال ہو کہ کیا وہ ایسے اعلیٰ درجہ والاہوگا چاند سورج سب پر اختیار پاوے گا اور مردے زندہ کرے گا ؟ تو آپؐ نے فرمایا یہ جھوٹ ہے اسے رتی بھر اختیار نہ ہو گا صرف مکر اور حیلہ ہی ہوگا ۔
فرمایا:۔
ڈوئی نے ایک بات عجیب کی ہے کہ معجزات مسیح کی مٹی پلید کر دی ہے ۔سلب امراض کے معجزے ہی مسیح کی نسبت ان کے ہاتھا میں تھجے ویسے ہی ڈوئی بھی کرتا ہے اور جب کوئی اعتراض کر ے کہ تمہاری لڑکی اچھی نہ ہوئی توجواب دیتا ہے کہ مسیح سے بھی فلاں فلاں مریض اچھا نہ ہوا ۔
کیسے منحوس معجزے تھے جو شخص ان کے نزدیک کافر ہے وہ بھی معجزے دکھلاسکتا ہے حالانکہ موسیٰ ؑکی طرح اس نے سوٹے کو سانپ بنایااور نہ کچھ اور ۔
بس یہی ا ستدلال کافی ہے زہے خدائی کہ ایک کافر نے بھی وہی بات کر کے دکھادی ۔سلب امراض کوئی شئے نہیں یہودی بھی کرسکتے ہیں اور فاسق فاجر جو خداکی راہ سے غافل ہیں وہ بھی کر سکتے ہیں ڈوئی سے پوچھا جائے کہ مسیح کہ معجزات تو وہی ہیں جو تو کر رہا ہے او رتو ان لوگوں کے نزدیک کافر ہے اب بتلا کہ مسیح کے وہ معجزات کونسے ہیں جو اس کی خدائی پر دلیل ہیں ؟
آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصر روم جو کہ عیسائی تھا دراصل موحد تھا اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا اور جب اس کے سامنے مسیح وہ ذکر جو قرآنمیں درج ہے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کے میرے نزدیک مسیح کادرجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے حدیث میں بھی اس کی گواہی بخاری میں موجود ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کلام ہے جوتوریت میں ہے اس کی حثیت نبوت سے بڑھ کر نہیں ہے اسی پر یہ آیت نازل ہوئی
الم غلبت الروم فی اد نی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین للہ الامر من قبل ومن بعددیومئذیفرح المومنون ( الروم :۲تا ۵
یعنی روم اب مغلوب ہوگیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں ( ۹ سال میں ) پھر غالب ہوگا عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے کہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دونوں طاقتوں کااندازہ کرلیاتھا اور پھر فراست سے یہ پیشگوئی کردی تھی ۔
مسیح ؑکاسلب ِ امراض کامُعجزہ
ہم کہتے ہیںکہ اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر انداز کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلب امراض کر دیتا۔ اس طرح توسارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے رہے
یومئذ یفرح المومنون ( الروم : ۵ )
منتر جنتر بھی سلب امراض ہی ہیں مگر بڑا خبیث کام ہے اس لئیے اسلام میں اس کی بجائے خدا پر توقع کاحکم دیا گیا ہے اور صرف روحانی امراض کے لئیے سلب رکھاگیا ہے جیسے
قد افلح من زکھا ( الشمس : ۱۰)
حضرت مسیح تو روحانی امراض کاسلب نہ کر سکے اس لئیے گالیا ں دئیے چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلب امراض کا نمونہ صحابہ ہیں ۔ ۱؎
صحابہ کامقام اور شیعوں پرحجت
اسی طرح آزمائش کروکہ خدااور رسول کی راہ میں کس نے صدق دکھلایا ۔ آپس کی رنجشیںخانگی امور ہوتے ہیں ان کا اثر ( صحابہ ) پر نہیں پڑ سکتا ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ونزعنامافی صدورھم من غل ( الحجر : ۴۸) اور علی سرر متقابین ( الحجر : ۴۸)۔
یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آپس میں رنجشیں ہوں گی لیکن غِلّ
ان کے سینوں میں سے ہم کھنچ لیں گے وہ بھائی بھائی ہوں گے تختوں پر بیٹھنے والے ۔ اب شیعوںسے پوچھو کہ اس وقت زمانہ نبوی میں تو کوئی رنجش نہ تھی اور اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آپس میں صلح کرادیتے آخر یہ بات آئندہ زمانہ میں ہونے والی تھی ورنہ ا س طرح پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آتاہے کہ انہوں نے صلح کی کوشش توکی ہے مگر کامیاب نہ ہوئے ۔
‏Amira 29-3-05
یہ بات شیعہ پر بڑی دلیل ہے وہ صرف دو آدمیوں کا نام لیتے ہیں جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئے ہم کہتے ہیں کہ آیت تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری تھی نہ علیؓ پر اور نہ کسی اور پر۔اگر کہو کہ اس وقت ہی غل تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ نعوذباﷲ صحابہ ایسے سخت دل تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار کہا اور سمجھایا مگر کسی نے آپ کا کہنا نہ مانا۔یہ کیونکر ہو سکتا ہے یہ تو بڑی بے ادبی ہے۔
اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ بعد کی خبر ہے مگر خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کوئی شئے نہیں اسی لئے فرماتا ہے کہ تم اس پر خیال نہ کرو یہ بشریت کے اختلاف ہیں ہم ان کو بھائی بھائی بنادیویں گے خدا تعالیٰ ہی نے یہ پیشگوئی کی کہ ایسا ہو گا بعض آپس میں لڑیں گے پھر سب سے آخر جولوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے نیز فرمایا :-
وہ وہی گروہ تھے کہ جنہوں نے آپؐ کی صحبت نہ پائی مگر آپؐ کو دیکھ لیا۔ایسے لوگ تیسرے طبقہ میں ہیں اور بعض ان میں سے مرتد بھی ہو گئے تھے ان کی نسبت ہے کہ آپؐ (بروز قیامت) خدا تعالیٰ کو کہیں گے کہ یہ تو ایمان لائے تھے خدا تعالیٰ کہے گا ما تدری یعنی تجھ کو علم نہیں کیونکہ وہ لو آپ کی صحبت میں بہت قلیل رہے تھے اور وہی تھے جو پیچھے بعض ان میں سے مرتد بھی ہو گئے ارو زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے قتل ہوئے تھے اہل اسلام خود اس قسم کے مرتد مانتے ہیں جو صحابہ کہلاتے تھے مگر یہ تو قرآن ہے جو بتلاتا ہے کہ جو آپس میں موحدین ہوں گے ان میں بھی تفرقہ ہو گا ایک وہ موحّد تھے جنہوں نے کم وقت پایا اور پھر ان کی نسبت قرآن شریف نے کہا ہے
قالت الاعراب امنا قل لم تو منو اولکن قولوااسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلو بکم (الحجرات : ۱۵)
یعنی (یوں کہو کہ) ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا انہی کی طرف اشارہ ہے
ورایت الباس یدخلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۳)
کجا صحابہ کی شان اور کجا یہ لوگ۔ایک گروہ جان دے چکا۔خدا نے روح القدس سے اس کی تائید کی۔
بعض وقت غیر محل پر ذکر کرنے سے ایک عالم بھی گھبرا جاتا ہے جیسے اگر کوئی شیعہ کہے کہ…کون ہے تو خدا نے بتلا دیا کہ یہ لوگ جو پیچھے آئے تھے اور داخل اسلام ہوئے تھے۔
(مغرب و عشاء)
الدار کی توسیع
مجوزہ مکان کی تعمیر کے واسطے میر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ لکڑی کا بندوبست بہت جلد کرنا چاہئے اور مولوی عبدالکریم صاحب کو تاکید کی کہ
احباب کی توجہ چندہ کی طرف مائل کرنی چاہئے اور تاکید کرنی چاہئے کیونکہ یہ کام بغیر چندہ کے نہیں ہو سکتا۔
(اس مکان کی تعمیر کرنے کی علت غائی یہ ہے کہ توسیع مکان ہو جائے گی تو زیادہ احباب اس مٰن رہ سکیں گے اور خصوصیت کے ساتھ جو الہام
انی احافظ کل من فی الدار
ہے وہ تمام اس حفاظت خاص سے خصہ گیر ہو سکیں گے)
مولوی محمد علی صاحب نے ایک خط حامد سنو صاحب (ایک نو مسلم انگریز) کا پڑھ کر سنایا۔اس میں راقم نے اس امر پر تعجب کیا ہوا تھا کہ میگزین کی انگریزی مولوی محمد علی صاحب کی ہوتی ہے اور نیز راقم نے ایک کتاب تصنیف کی تھی اس کے متعلق بیان تھا کہ اگر اجازت ہو تو وہ حضرت اقدس کے نام مبارک پر طبع کی جاوے۔حضرت اقدس نے کہا کہ
اول وہ کتاب آجاوے دیکھ کر پھر رائے قائم کی جاوے گی۔
اور اس پر حضرت اقدس نے یہ بھی تجویز فرمایا کہ
ایک اہم ارشاد
اپنے عقائد کی ایک مختصر فہرست چھاپ دی جاوے کہ عقیدہ کے ہر پہلو کا اس میں بیان ہو معجزات۔فرشتے۔وحی۔حیات ووفات مسیح وغیرہ تا کہ جب کسی کو اپنے عقائد کی اطلاع دینی ہو تو جھٹ وہ روانہ کر دی جائے۔
میر ناصر نواب صاحب کی تائید پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
مولوی محمد علی صاحب کا ایسی عمدہ انگریزی لکھنا ایک خارق عادت امر ہے چنانچہ انگریزوں نے بھی خیال کیا ہے کہ ہم نے کوئی یورپین رکھا ہوا ہے جو کہ انگریزی رسالہ لکھتا ہے۔
مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ خد اکا فضل ہی ہے ورنہ ا سلسلہ سے پیشتر میرا ایک حرف تک کہیں شائع نہیں ہوا۔
گناہ کی تعریف
مفتی محمد صادق صاحب حسب الارشاد حضرت اقدس ایک عیسائی کی کتاب سے گناہ کی حقیقت سناتے رہے اس کتاب میں ایک جگہ گناہ کی تعریف یہ لکھی تھی کہ جو امر کانشنس یا شریعت کے خلاف ہو وہ گناہ ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا :-
قرآن سریف میں بھی ہے
لو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحب السعیر (الملک : ۱۱)
یعنی اگر ہم شریعت پر چلتے یا کانشنس پر ہی عمل کرتے تو اصحب السعیر سے نہ ہوتے۔
موسیٰ پر الزام مکا مارنے کا جو عیسائی لگاتے ہیں‘اس کی نسبت فرمایا کہ
وہ گناہ نہیں تھا ان کا ایک اسرائیلی بھائی نیچے دبا ہوا تھا طبعی جوش سے انہوں نیایک مکا مارا وہ مر گیا جیسے اپنی جان بچانے کے لیء اگر کوئی خون بھی کر دے تو وہ جرم نہیں ہوتا۔موسیٰ ؑکا قول جو قرآن شریف میں ہے
ھذا من عمل الشیطن (القصص : ۱۴)
یعنی قبطی نے اس اسرائیلی کو عمل شیطان (فاسد ارادہ )سے دبایا ہوا تھا۔
پھر اس کتاب میں خود غرضی کو گناہ کہا تھا حضرت اقدس نے فرمایا کہ
ہر ایک خود غرضی گناہ میں داخل نہیں ہے جیسے کھانا پینا وغیرہ جب تک کہ وہ خلاف کانشنس یا شریعت نہ ہو جب خدا کے حکم کو توڑ کر کوئی شہوات کی خواہش کرے تو گناہ ہے اور جو (اشارہ مسیح) اپنے نفس کے لئے نجات چاہتا ہے یہ خود غرضی ہے کہ نہیں؟
مسیح کے گناہ اٹھانے پر فرمایا کہ
اس نے تمام کے گناہ اُٹھا کر پھر گناہ کیا کہ اس کو معلوم تھا کہ دعا قبول نہ ہوگی مگر پھر بھی کرتا ہی رہا۔؎ٰ
۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁ (صبح کی سیر)
قرآن کریم کا مقام
اس سلسلہ مضمون میں فرمایا کہ:-
مسلمانوں میں قرآن کی عظمت نہیں رہی۔شیعہ ہیں وہ ائمہ کے اقوال کو مقدم کرتے ہیں اور دوسرے فریق حدیثوں کے ظنی سلسلہ کو قرآن پر قاضی بناتے ہیں۔
اسی ذکر میں عبد اﷲ چکڑالوی اور محمد حسین کی بحث کا ذکر آگیا فرمایا :-
چکڑالوی نے تفریط کی ہے اور حدیث کو بالکل لا شئے سمجھا ہے اور محمد حسین افراط کی طرف گیا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کو لا شئے سمجھتاہے۔
کتابُ اﷲ،سنّت اور حدیث
پھر آپ نے واضح اور بین طور پر اس مضمون پر کلام کیا کہ
ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اﷲ دوسرے سنت یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور تیسرے حدیث۔ہمارے مخالفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ سنت اور حدیث کو باہم ملایا ہے ہمارا مذہب حدیث کے متعلق یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن اور سنت کے صریح مخالف اور معارض نہ ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے خواہ وہ محدثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف کیوں نہ ہو جب کہ ہم اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں تو کیوں حدیث میں آئی ہوئی دعائیں نہ کریں جب کہ وہ قرآن شریف کے مخالف بھی نہیں۔قرآن شریف پر حدیث کو قاضی بنانا سخت غلطی ہے اور قرآن شریب کی بے ادبی ہے۔حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک بڑھیا نے حدیث پیشکی تو انہوں نے یہی کہا کہ میں ایک بڑھیا کے لئے قرآن شریف نہیں چھوڑ سکتا۔ایسا ہی حضرت عائشہ ؓ کے سامنے کسی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے ماتم کرنے سے مردہ کو تکلیف ہوتی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ قرآن میں تو آیا ہے
لا تزر وازرۃ وزراخری (انعام : ۱۶۵)
پس قرآن پر حدیث کو قاضی…بنانے میں اہل حدیث نے سخت غلطی کھائی۔
اصل بات یہ ہے کہ اپنی موٹی عقل کی وجہ سے اگر کوئی چیز قرآن میں نہ ملے تو اس کو سنت میں دیکھو اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جن باتوں میں ان لوگوں نے قرآن کی مخالفت کی ہے خود ان میں اختلاف ہے ان کی افراط تفریط نے ہم کو سیدھی اور اصل راہ دکھا دی جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کی افراط اور تفریط نے اسلام بھیج دیا۔
پس حق بات یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعہ تو اتر دکھا دیا ہے اور حدیث ایک تاریخ ہے اس کو عزت دینی چاہئے سنت کا آئینہ حدیث ہے۔
یقین پر ظن کبھی قاضی نہیں ہوتا کیونکہ ظن میں احتمال کذب کا ہے امام اعظم رحمۃاﷲعلیہ کا مسلک قابل قدر ہے انہوں نے قرآن کو مقدم رکھا ہے۔
نزول اور ختمِ نبوّت کی حقیقت
احادیث میں مسیح موعود کے لئے نزول من السماء نہیں لکھا نزول کا لفظ ہے اور یہ ظلی معنی رکھتا ہے نہ کہ حقیقی۔نزیل لغت میں مسافر کو کہتے ہیں کیا وہ آسمان سے اتر تا ہے بہر حال قرآن ہر میدان میں فتح یاب ہے۔آپؐ کو خاتم النبیین ٹھہرایا اور
اخرین منھم لما یلحقو ابھم
کہہ کر مسیح موعود کو اپنا بروز بتا دیا ہے۔
معراج ایک کشف تھا
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات اسی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریھ اس کو رد کرتا ہے اور حضرت عائشہ ؓ بھی رؤیا کہتی ہیں۔
حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا اور اتم اور اکمل تھا کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور آپؐ کو اسی جسم کے ساتھ جو بری طاقتوں والا ہوتا ہے معراج ہوا۔
پھر آپ نے ا س امر کی تائید میں چند آیات سے استدلال کیا کہ جسم آسمان پر نہیں جاتا یہ باتیں قریباً پہلے ہم بار بار درج کر چکے ہیں بخوف طوالت اعادہ نہیں کرتے۔
مسیح کی پیدائش اور خارق عادت اُمور
مسیح کی پیدائش کے ذکر پر فرمایا کہ
خدا کی سنت دو طرح پر ہوتی ہے ایک کثرتی جیسے عموماً عورت سے دودھ نکلتا ہے مگر بعض اوقات نر سے بھی نکلا کرتا ہے ایسے واقعات دنیا میں ہوئے ہیں یہ قلیل الوقوع واقعات خارق عادت کہے جاتے ہیں۔
۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
دربار شام
برادر مکرم محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے اپنے گائوں میں بعض لوگوں کے شکوک کے رفع کرنے کے واسطے بعض احباب کو حضرت اقدس کے ایما سے لے جانا چاہا اس کی تجویز ہوئی کہ مولوی عبد اﷲ صاحب اور مولوی سرور شاہ صاحب کو بھیجا جاوے۔
مسیح کی عصمت
پھر مفتی محمد صادق صاحب نے رسالہ بے گناہی مسیح سنایا۔
اس کے ضمن میں مندجہ ذیل نکات آپ نے بیان فرمائے :-
قرآن شریف میں خد اتعالیٰ کے اسماء مفعول کے لفظ میں نہیں جیسے قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں لکھا کیونکہ پھر بچانے والا اور ہوگا۔
اس پر حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور وجودیوں سے جب کبھی مجھے کلام کرنے کا موقع ملا ہے میں نے یہی کہا ہے کہ خدا کا نام موجودنہیں لکھا کیونکہ موجود بمعنی مدرک ہے اور خدا تعالیٰ کی شان ہے
لا تدرکہ الابصار (الانعام : ۱۰۴)
اور پھر یہ لفظ صحابہ میں بھی نہیں بولا گیا۔
فرمایا :-
جیسے مسیح پر کفر کا فتوٰ لگا کر ان کو صلیب پر چڑھایا گیا ایسا واقعہ کسی نبی کے ساتھ نہیں ہوا۔گناہ کا کمال کفر پر جاکرہوتا ہے اور مسیح پر یہودیوں نے کفر کا فتویٰ لگایا (ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں نے برخلاف اس کے آپ کو الامین اور المامون کہا۔مسیٰح کے مخالفوں کا ان کی نسبت کفر کا فتویٰ دینا اور آپؐ کے مخالفوں کا آپ کو الامین کہنا رتبہ اور درجہ میں اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بڑا فرق بتاتا ہے۔؎ٰ
۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
مولوی جمال الدین صاحب ساکن سید والا نے سوال کیا کہ حضرت زکریا ؑ کی بابت جو آیا ہے کہ
الاتکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا (آل عمران : ۴۲)
کیا اس سے یہ مراد ہے کہ وہ کلام نہ کریں گے۔فرمایا :-
اس سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ لاتستطیع نہیں کہا۔
معجزہ کی حقیقت
سلیمان ؑ کیلئے جو آیا ہے کہ لوہا نرم کر دیا اس نے کیا مراد ہے؟
فرمایا :-
تدابیر مشہودہ سے الگ ہو کر جو فعل ہوتا ہے اس میں اعجازی رنگ ہوتا ہے معجزات جن باتوں میں صادر ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے افعال ایسے ہوتے ہیں کہد وسرے لوگ بھی ان میںشریک ہوتے ہیں مگر نبی ان تدابیر اور اسباب سے الگ ہو کر وہی فعل کرتا ہے اس لئے وہ معجزہ ہوتا ہے اور یہی بات یہاں سلیمانؑ کے قصہ میں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کیا لوگ قصائد نہ کہتے تھے؟ کہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام فصیح وبلیغ پیش کیا تو وہ جوڑ توڑ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وحی سے تھا اس لئے معجزہ تھا کہ درمیان اسباب عادیہ نہ تھے۔آپ نے کوئی تعلیم نہ پائی تھی اور بدوں کوشش کے وہ کلام آپ نے پیش کیا۔غرض اسی طرح لوہا نرم کرنے کا معجزہ ہے کہ اس میں اسباب عادیہ نہ تھے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اور معنی بھی ہوں مشکلات صعب سے بھی مراث لوہا ہوتا ہے۔وہ حضرت سلیمان پر آسان ہو گئیں مگر اصل اعجاز کا کسی حال میں انکار نہیں کرتے ورنہ اگر خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہ ہو تو پھر خد اکو کیا مانا؟
ہم اس کو خارق عادت نہیں مان سکتے جو کرآن شریف کے بیان کردہ قانون قدرت کے خلاف ہو۔مثلاً ہم احیاء موتی حقیقی کا کیوں انکار کرتے ہیں؟ اس لئے کہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے
فیمسک التی قضی علیھا الموت (الزمر : ۴۳)
اسی طرح ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خد ااپنے جیساکوئی اور خدا بھی بنالیتا ہے کیونکہ یہ اس کی توحید کے خلاف ہے یا یہ کہ وہ خود کشی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی صفت حی و قیوم کے خلاف ہے اسی طرح اگر کوئی کہے کہ دنیا ہمیشہ رہے گی
اور یہاں ہی دوزخ بہشت ہوگا‘ ہم نہیں مان سکتے۔اس کی صفت
ملک یوم الدین (الفاتحہ : ۴)
کے خلاف ہے اور اس کے خلاف جا ٹھیرتا ہے
فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر (الشوری : ۸)
ایسا ہی ہم مان نہیں سکتے کہ اسی جسم کے ساتھ آسمان پر بھی چڑھ سکتا ہے کیونکہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے کہا کہ تو آسمان پر چڑھ جا‘آپ نے یہی فرمایا
سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسولا(بنی اسرائیل : ۹۴)
ایسا ہی مردے اگر واپس آسکتے تو چاہئے تھا کہ قرآن شریف ان کے لئے کوئی خاص قانون وراثت بیان کرتا اور فقہ میں کوئی باب اس کے متعلق بھی ہوتا غرض جو امور قرآن شریف کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہیں ہم ان کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
قرآن کریم کا تین
پوچھا گیا کہ قرآن کا جو نزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں یا کس طرح؟
فرمایا :-
یہی الفاظ ہیں اور یہی خدا کی طرف سے نازل ہوا قرات کا اختلاف الگ امر ہے
ما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی (الحج : ۵۳)
میں لا محدث قرأت شاذہ ہے اور یہ قرأت حدیث صحیح کا حکم رکھتے ہے جس طرح نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے۔
جبرائیل علیہ السلام کا نزول
پوچھا گیا جبرائیل کا نزول قلب پر ہوتا تھا یا ئواز آتی تھی فرمایا :-
اس میں بحث کی کچھ ضرورت نہیں جبرائیل کا تعلق قلب ہی س یہوتا ہے اور قرآن شریف میں یہ لفظ آیا بھی ہے مگر یہ عالم الگ ہی ہوتا ہے قرآن شریف جو تمام کتابوں اور علوم کا خاتمہ کرتا ہے اس لئے وہ بڑی اقویٰ وحی ہے اور شدت کے ساتھ اس کا نزول تھا۔
اسلام فطرتی مذہب ہے
ایک شخص نے اپنی رؤیا سنائی جس میں یہ آیت تھی
فطرت اﷲ التی فطر الناس علیھا (الروم : ۳۱)
فرمایا :-
اس کے معنی یہی ہیں کہ اسلام فطرتی مذہب ہے انسان کی نباوٹ جس مذہب کو چاہتی ہے وہ اسلام ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ اسلام میں بناوٹ نہیں ہے اس کے تمام اصول فطرت انسانی کے موافق ہیں۔تثلیث اور کفارہ کی طرح نہیں ہیں کہ جو سمجھ میں نہین ئسکتے۔عیسائیوں نے خود مانا ہے کہ جہاں تثلیث نہیں گئے وہاں توحید کا مطالبہ ہوگا کیونکہ فطرت کے موافق توحید ہی ہے اگر قرآن شریف نہ بھی ہوتا۔تب بھی فطرت انسانی توحید ہی کو مانتی ۔کیونکہ وہ باطنی شریعت کے موافق ہے ایسا ہی اسلام کی کل تعلیم باطنی شریعت کے موافق ہے برخلاف عیسائیوں کی تعلیم کے جو مخالف ہے دیکھو حال ہی میں امریکہ میں طلاق کا قانون خلاف انجیل پاس کرنا پڑا۔یہ وقت کیوں پیش آئی اس لئے کہ انجیل کی تعلیم فطرت کے موافق نہ تھی۔
مسیح کو صلیبؔ پر لٹکائے جانے کے دلائل
سوال کیا گیا کہ مسیح کو صلیب پر چڑھانا قرآن سے کہاں ثابت ہوتا ہے؟
فرمایا :-
ولکن شبہ لھم (النساء : ۱۵۸)
یہ واقعہ عیسائیوں اور یہودیوں کے متواترات سے ہے قرآن شریف اس کا انکار کیوں کرنے لگا تھا قرآن یا حدیث صحیح میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ مسیح چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا۔یہ صرف خیالی امر ہے کیونکہ اگر مسیحؑ صلیب پر چڑھایا نہیں گیا اور وہ کوئی اور شخص تھا۔تو دو صورتوں سے خالی نہیں یا دوست ہوگا یادشمن۔پہلی صورت میں مسیح نے اپنے ہاتھ سے ایک دوست کو ملعون بنایا جس *** سے خود بچنا چاہتا تھا اس کا نسانہ دوست کو بنایا۔یہ کون شریف پسند کر سکتا ہے پس وہ حواری تو ہو نہین سکتا اگر دشمن تھا تو چاہئے تھا کہ وہ دہائی دیتا اور شور مچاتا کہ میں تو فلاں شخص ہوں مجھے کیوں صلیب دیتے ہو میری بیوی اور رشتہ داروں کو بلائو میرے فلاں اسرار ان کے ساتھ ہیں تم دریافت کر لو۔
غرض اس تواتر کا انکار فضول ہے اور قرآن شریف نے ہرگز اس کا انکار نہیں کیا۔ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف نے تکمیل صلیب کی نفی کی ہے جو *** کا موجب ہوتی تھے۔نفس صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی نہیں کی اس لئے ماقتلوہ کہا اگر یہ مطلب نہ تھا تو پھر ماقتلوہ کہنا فضول ہو جائے گا یہ ان کے تواترات میں کہاں تھا؟ یہ اس لئے فرمایا کہ صلیب کے ذریعہ قتل نہیں کیا پھر ماصلبوہ سے اور صراحت کی اور لکن شبہ لھم سے اور واضح کر دیا کہ وہ زندہ ہی تھا یہودیوں نے مردہ سمجھ لیا۔
اگر آسمان پر اٹھا لیا جاتا تو خد اتعالیٰ کی کدرت پر ہنسی ہوتی کہ اصل مقصود تو بچانا تھا یہ کیا تماشا کیا کہ دوسرے آسمان سے پہلے بچاہی نہ سکا۔چاہئے تھا کہ ایک یہودی کو ساتھ لے جاتے اور ئسمان سے گرادیتے تا کہ ان کو معلوم ہو جاتا۔
فرمایا :













-
رفعنا ہ مکانا علیا (مریم : ۵۸)
میں ان کو ماننا پڑا ہے کہ ادریسؑ مر گیا۔صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ اگر حضرت ادریس کو ایسا مانیں تو پھر ان کے بھی واپس آنے کا عقیدہ رکھنا پڑتا ہے جو صحیح نہیں تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکے لئے توفی موجود ہے۔؎ٰ
۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
(بوقت صبح کی سیر)
یروشلم اور بیت المقدس سے مراد
اس تذکرہ پر کہ عیسائی اور یہودیوں میں پھر اس امر کی تحریک ہو رہی ہے کہ ارض مقدس کو ترکوں س یخرید لیا جاوے مختلف باتوں کے دوران میں فرمایا :-
یروشلم سے مراد در اصل دارالامن ہے یروشلم کے معنی ہیں وہ سلامتی کو دیکھتا ہے یہ سنت اﷲ ہے کہ وہ پیشگوئیون میں اصل الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس سے مراد اس کا مفہوم اور مطلب ہوتا ہے۔
اسی طرح پر بیت المقدس یعنی مسجد اقصی ہے ہماری اس مسجد کا نام بھی اﷲ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے کیونکہ اقصیٰ یا باعتبار بعد زمانہ کے ہوت اہے اور یا بعد مکان کے لحاظ سے اور اس الہام میں
المسجدالاقصی الذی بارکنا حولہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات زمانی کو لیا ہے اور اس کی تائید
واخرین منھم لما یلحقو ابھم (الجمعہ : ۴)
سے بھی ہوتی ہے اور بارکنا حولہ کا اس زمانہ کی برکات س یثبوت ملتا ہے جیسے تیل گاڑی اور جہازوں کے ذریعہ سفروں کی آسانی اور تاروڈاک خانہ کے ذریعہ سلسلہ رسل ورسائل کی سہولت اور ہر قسم کے آرام و آسائش قسم قسم کی کلوں کے اجراء سے ہوتے جاتے ہیں اور سلطنت بھی ایک امن کی سلطنت ہے۔
بنی اسرائیل
بنی اسرائیل خد اتعالیٰ کا دیا ہوا لقب ہے اسرائیل کے معنے ہیں جو خدا سے بے وفائی نہیں کرتے اس کی اطاعت اور محبت کے رشتہ میں منسلک قوم-حقیقی اور اصلی طور پر اسلام کے یہی معنی ہیں بہت سی پیشگوئیوں میں جو اسرائیل نام رکھا ہے یہ قلت فہم کی وجہ سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی ہیں۔اسرائیل سے مراد اسلام ہی ہے اور وہ پیشگوئیاں اسلام کے حق میں ہیں۔
ان الارض یرثھا عبادی الصالحون (الانبیاء : ۱۰۴)
فرمایا:-
اس ئیت س یصاف معلوم ہوتا ہے کہ الارض سے مراد جو شام کی طرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جواب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے خدا تعالیٰ نے یرثھا فرمایا یملکھا نہیں فرمایا اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو قبضہ اسی قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے ارض شام چونکہ انبیاء کی سر زمین ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو۔
یرثھا عباری الصالحون (الانبیاء : ۱۰۴)
فرمایا صالحین کے معنے یہ ہیں کہ کم ازکم صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو۔
مومنوں کی مدارج
مومن کی جو تقسیم قرآن شریف میں کی گئے ہے اس کے تین ہی درجے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔ظالم۔مقتصد۔سابق بالخیرات۔یہ اسن کے مدارج ہیں ورنہ اسلام کے اندر یہ داخل ہیں۔ظالم وہ ہوت اہے کہ ابھی اس میں بہت غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور متقصد وہ ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان سے اس کی جنگ ہوتی ہے مگر کبھی یہ غالب آجاتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے جو ان دونوں درجوں سے نکل کر مستقل طو رپر نیکیاں کرنے میں سبقت لے جاوے اور بالکل صلاحیت ہی ہو۔نفس شیطان کو مغلوب کر چکا ہو قرآن شریف ان سب کو مسلمان ہی کہتا ہے۔
ہماری جماعت ہی کو دیکھ لو کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ سب کی سب ہمارے مخالفوں ہی سے نکل کر بنی ہے اور ہر روز جو بیعت کرتے ہیںیہ اسن میں ہی س آتے ہیں ان میں صلاحیت اور سعادت نہ ہوتی تو یہ کس طرح نکل کر آتے۔بہت سے خطوط اس قسم کی بیعت کرنے والوں کے آتے ہیں کہ پہلے میں گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب توبہ کرتا ہوں مجھے معاف کیا جاوے۔غرض صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو تو وہ صالحین میں داخل سمجھا جاتا ہے۔
مسیح کا جنازہ
بعد ادائے نماز مغرب جب ہمارے سید ومولیٰ شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے تھے تو ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں۔میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب و استمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا۔
فرمایا :-
جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں۔وہ پڑھ لیں۔
العاقبۃللمتقین
ہمارے ناظرین منشی شاہدین صاحب سٹیشن ماسٹر مردان سے خوب واقف ہیں وہ اس سلسلہ میں قابل قدر شخص ہیں تبلیغ و اشاعت کا سچا شوق رکھتے ہیں جہاں جاتے ہیں ایک جماعت ضرور بنا دیتے ہیں الحکم کے خاص معاونین میں سے ہیں بہر حال ناظرین یہ بیھ جانتے ہیں کہ مردان میں بعض شریر النفس لوگوں کی طرف سے ان کو سخت ایذائیں دی گئیں اور آخر ان کی شرارت سے ان کی تبدیلی ہو گئے۔حضرت اقدس کے حضور جب ان کی تکالیف اور مصائب کا ذکر ہوا تھا تو آپ نے صبر اور استقابت کی تعلیم دی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر خدا تعالیٰ نے اظہار حق کیا افسران بالادست نے بدوں کسی قسم کی تحریک کے جو منشی صاحب کی طرف س یکی جاتی ۔از خود اس مقدمہ کی تفتیش کی اور انجام کار منشی شاہدین صاحب ترقی پر گوجر خان ایک عمدہ سٹیشن پر تبدیل ہوئے اور ان کے متعلق بہت ہی اطمینان بخش رائے افسروں نے قائم کی غرض جب منشی صاحب کی اس کامیابی کا ذکر ہوا فرمایا۔-
عاقیت متقی کے لئے ہے
برگردن اوربماندما بگذشت والا معاملہ ہو گیا خدا تعالیٰ نیک نیت حاکم کو اصلیت سمجھا دیتا ہے اگر اصلیت نہ سمجھیں تو پھر اندھیر پید اہو۔
بغداد کی تباہی
بغداد وغیرہ کی تباہی کے ذکر پر جو ہلا کونے کی۔فرمایا کہ :-
بدکاری حد سے بڑھ گئے تھی۔آخر خدا تعالیٰ نے اس طرح پر انکو تباہ کیا لکھا ہے کہ آسمان سے آواز آتی تھی
’’ایھا الکفار اقتلو االفجار‘‘۔
فرمایا- صادق مخالفوں کی شرارت اور ایذارسانی س یاگر مارا بی جاتا ہے تو وہ شہید ہوتا ہے مگر وہ ناعاقبت اندیش طاعون کا سکا ر ہونے کو باقی رہ جات یہیں جو ان کی شامت اعمال سے آتی ہے۔
اذان ایک عمدہ شہادت ہے
اذان ہو رہی تھی آپ نے فرمایا :-
کیسی عمدہ شہادت ہے جب یہ ہوا میں گونجتی ہوئی دلوں تک پہنچتی ہے تو اس کا عجیب اثر پڑتا ہے دوسرے مذاہب کے جس قدر عبادت کے لئے بلانے کے طریق ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے انسنای آواز کا مقابلہ دوسری مصنوعی آوازیں کب کر سکتی ہیں؟
جماعت کے لئے غلبہ کا وعدہ
اپنی جماعت کے ذکر پر فرمایا کہ
اﷲ تعالیٰ نے اس جماعت کے لئے وعدہ فرمایا ہے
وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االی یوم القیا مۃ
اور خدا کے وعدے سچے ہیں ابھی تو تخم ریزی ہو رہی ہے ہمارے مخالف کیا چاہتے ہیں؟ اور خدا تعالیٰ کا کیا منشاء ہے یہ تو ان کو ابھی معلوم ہو سکتا ہے اگر وہ غور کریں کہ وہ اپنے ہر قسم کے منصوبوں اور چالوں میں ناکام اور نامراد رہتے ہیں اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف کیا چاہتے ہیں؟ ان کا تو یہی مدعا اور مقصد تھا کہ اس جماعت کو نابود کر دیں مگر دیکھو انجام کیا ہوا؟ اگر اس اعجاز کامیابی کو جو ہمارے نبی کو حاصل ہوئی ابو جہل اس وقت دیکھے تو اس کو پتہ لگے۔کس قدر فوق العادۃ ترقی مخالفوں کی مخالفت اور شرارت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کر کے دکھائی۔یہی معاملہ یہاں ہے اگر یہ مخالف نہ ہوتے تو ایسی اعجازی ترقی یہاں بھی نہ ہوتی یعنی اس ترقی میں اعجازی رنگ نہ رہتا کیونکہ اعجاز تو مقابلہ اور مخالفت سے ہی چمکتا ہے ایک طرف تو ہمارے مخالفوں کی یہ کوششیں ہیں کہ وہ ہم کو نابود کردیں ہمارا سلام تک نہیں لیتے اور غائبانہ ذکر بھی نفرت سے کرتے ہیں دوسری طرف اﷲ تعالیٰ حیرت انگیز طریق پر اس جماعت کو بڑھا رہا ہے یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے؟
کیا یہ ہمارا فعل ہے یا ہماری جماعت کا؟نہیں یہ خد اتعالیٰ کاایک فعل ہے جس کی تہ اور سِرّ کو کوئی نہیں جان سکتا۔اب ان کو کس قدر تعجب ہوتا ہو گا کہ چند سال پہلے جس جماعت کو بالکل کمزور اور ذلیل اور ضعیف سمجھتے تھے کہ چند آدمی شامل ہیں اب اس کا شمار ایک لاکھ سے بھی بڑھ گیا ہے اور کوئی (دن) نہیں جاتا کہ بذریعہ خطوط اور خود حاضر ہو کر لوگ اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوتے یہ خدا کا کام ہے اور اس کی باتیں عجیب ہوتی ہیں۔؎ٰ
۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
(بوقت صبح کی سیر)
طاعون
حسب معمول آپ حلقہ خدام میں سیر کو نکلے طاعون کا تذکرہ سروع ہونے پر فرمایا کہ :-
قرآن شریف میں اس کو
رجز من السماء (البقرہ : ۶۰)
کہا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پر انسانی ہاتھ نہیں پڑسکتا اور نہ زمینی تدابیر اس کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ورنہ یہ عذاب آسمانی نہ رہے۔
طاعون جو اس کا نام رکھا ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے فاروق۔جب طعن اور تکذیب حد سے گذر جاتی ہے تو پھر اس کی پاداش میں طاعون ئتی ہے اور پھر صھائی کر کے ہی قہر الٰہی بس کرتا ہے۔
دابۃالارض اور طاعونؔ میں تعلق
عرض کیا گیا کہ
دابۃالارض (سبا : ۱۵)
اور
رجزمن السماء
میں کیا تعلق ہے؟
فرمایا :-
امر تو آسمانی ہی ہوتے ہیں یعنی اس طاعون کا امر آسمان سے آتا ہے اور وہ انسانی ہاتھوں سے بالاتر اہے اور اس کا معالجہ بھی آسمان ہی سے آتا ہے دبۃالارض طاعون کو کہتا ہیں اس لئے کہ اس کے کیڑے تو زمینی ہی ہوتے ہیں۔
طاعونی موت شہادت ہوتی ہے
عرض کیا گیا کہ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں۔تو پھر عذاب کیونکر ہوا
فرمایا جو لوگ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ طاعونی موت تو عذا ب الٰہی ہی ہے لیکن جو حدیث میں آیا ہے کہ اگر مومن ہو کر طاعون میں مرجاوے تو شہادت ہے۔تو یہ اﷲ تعالیٰ نے گویا ہر مومن کی پردہ پوشی کی ہے۔کثرت سے اگر مرنے لگیں تو شہادت نہ رہے گی۔پھر عذاب ہو جائے گا سہادت کا حکم شاذ کے اندر ہے کثرت ہمیشہ کافروں پر ہوتی ہے۔
اکثر یہ ایسی ہی شہادت اور برکت والی بات تھی تو اس کا نام رجزمن السماء نہ رکھا جاتا اور کثرت سے مومن مرتے اور انبیاء مبتلا ء ہوتے مگر کیا کوئی کسی نبی کا نام لے سکتا ہے؟ ہر گز نہیںپس یاد رکھو کہ اگر کوئی شاذ مومن اس سے مرجاوے تو اﷲ تعالیٰ اپنی ستّاری س یاس کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اس کے لئے کہا گیا کہ وہ شہادت کی موت مرتا ہے ماسوا اس کے میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن شریف کے متعارض ہو اور اس کی تاویل قرآن شریف کے موافق نہ ہ تو اسے چھوڑ دینا چاہئے حکم ہمیشہ کثرت پر ہوت اہے شاز تو معدوم کا حکم رکھتا ہے۔
دربارِ شام
بعد ادائے نماز مغرب اول چند آدمیوں نے بیعت کی پھر مفتی محمد صادق صاحب نے ڈوئی کے اخبار سے چند پیراگراف سنائے فرمایا :
یہ لغو اور کفر تو ہوتا ہے مگر اس سے تحریک ہو جاتی ہے اور تحریک بچہ کے بازیچہ سے بھی ہو جاتی ہے۔
یہی اعتراض میری سچائی کا گواہ ہے
ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے منشی رحیم بخش عرضی نویس کا خط پیش کیا جس میں دو سوال لکھے تھے پہلا سوال یہ تھا کہ براہین میں مسیح کی آمد ثانی کا اقرار تھا کہ وہی مسیح آئے گا پھر اس کے خلاف دعویٰ کیا گیا یہ نزلزل بیانی قابل اعتبار نہیں ہوگی فرمایا:-
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہم نے ایس الکھا ہے اور ہمیں یہ بیھ دعویٰ نہین ہے کہ ہم عالم الغیب ہیں ایسا دعویٰ کرنا ہمارے نزدیک کفر ہے اصل بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف س یہدایت نہ آوے ہم کسی امر کو جو مسلمانوں میں مروج ہو چھوڑ نہیں سکتے۔
براہین احمدیہ کے وقت اس مسئلہ کی طرف اﷲ تعالیٰ نے ہمیں توجہ نہیں دلائی۔پھر جبکہ ایک چرخہ کاتنے والی بڑھیا بھی یہی عقیدہ رکھتی تھی اور جانتی تھی کہ مسیح دوبارہ آئے گا تو ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جب تک کہ خدا کی طرف سے صریح حکم نہ آجاتا اس لئے ہمارا بھی یہی خیال تھا۔مخالفوں کی بے ایمانی ہے کہ ایک خیال کو وحی یا الہام بنا کر پیش کرتے ہیں ۔براہین میں یہ بات عامیانہ اعتقاد کے رنگ میں ہے نہ یہ کہ اس کی نسبت وحی کا دعویٰ کیا گیا ہو مگر جب خدا تعالیٰ نے ہم پر بذریعہ وحی اس راز کو کھول دیا اور ہم کو سمجھایا اور یہ وحی تواتر تک پہنچ گئے تو ہم نے اس کو شائع کر دیا۔انبیاء علیہم السلام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کسی امر پر اطلاع دیتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں۔دیکھو۔افک عائشہ ؓ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اول کوئی اطلاع نہ ہوئی یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہؓ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہا اگر ارتکاب کیا ہے تو توبہ کر لے ان واقعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوت اہے کہ آپؐ کو کس قدر اضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا
الخبیثت للخبیثین…والطیبت لطیبین (النور : ۲۷)
تو آپ کو اس افک کی حقیقت معلوم ہوئی اس سے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی فرق آتا ہے؟ ہرگز نہیں وہ شخص ظالم اور ناخدا ترس ہے جو اس قسم کا وہم بھی کرے۔اور یہ کفر تک پہنچتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب ہیں۔عالم الغیب ہونا خدا کی شان ہے۔یہ لوگ سنت انبیاء علیہم السلام سے اگر واقف اور آگاہ ہوں تو اس قسم کے اعتراض ہرگز نہ کریں افسوس ہے کہ ان کو گلستان بھی یاد نہیں جہاں حضرت یعقوبؑ کی حکایت لکھی ہے ؎
یکے پُرسید زاں گم کردہ فرزند
کہ اے روشن گہر پیر خرد مند
زمصرش بوئے پیراہن شمیدی
چرا در چاہ کنعانش نہ دیدی
بگفت احوال ما برق جہاں است
دمے پیدا و دیگر دم نہاں است
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشت پائے خود نہ بینم
اگر درویش بر یک حال ماندے
سر دست از دو عالم بر فشاندے
یہ سچی بات ہے اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے دکھائے بغیر نہیں دیکھتے اور اس کے سنائے بغیر نہیں سنتے اور اس کے سمجھائے بغیر نہیں سمجھتے۔اس اعتراف میں ہمارا فخر ہے ہم نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم عالم الغیب ہیں ہم نے انہیں خیالات کے مسلمانوں میں نشونما پایا تھا ایسا ہی مہدی و مسیح کے متعلق ہمارا علم تھا مگر جب خدا تعالیی نے اصل راز ہم پر کھولا اور حقیقت بتادی تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا اور نہ خود چھوڑا بلکہ دوسروں کو بیھ اس کی طرف اسی کے حکم سے دعوت دی اور اس کو چھڑایا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس امر کو نادان اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے اسی میں ہمارا فائدہ ارو ہماری تائید ہوتی ہے دیکھو براہین میں ایک طرف مجھے مسیح موعود ٹھہرایا ہے اور وہ تمام وعدے جو آنے والے مسیح کے حق میں ہیں میرے ساتھ کئے اور دوسری طرف ہم اپنے اسی قلم سے مسیح کے دوبارہ آنے کا اقرار کرتے ہیں اب ایک دانشمند اور خدا ترس مسلمان اس معاملہ میں غور کرے اور دیکھے کہ اگر یہ دعویٰ ہمارا افتراء ہوت ااور ہم نے ازخود بنایا ہت ایا منصوبہ بازی ہوتی تو اس قسم کا اقرار ہم اس میں کیوں کرتے یہ سادگی صاف بتاتی ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو علم دیا اسے ہم نے ظاہر کیا بظاہر یہ کاروائی متنا قض ہے مگر ایک سعید فطرت انسان کے لئے ایک روشن تر دلیل ہے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ نے ہم پر نہیں کھولا باوجود یکہ ہمارے ساتھ وہی وعدے جو مسیح موعود کے ساتھ کئے جاتے اور اسی براہین میں میرا نام مسیح رکھا جاتا ہے اور
ھوالذی ارسل رسولہ ۰الایۃ)
الہام ہوتا ہے مگر اسی قلم سے میں لکھتا ہوں کہ مسیح موعود دوبارہ آئے گا ہم نے
قیام فی ما اقام اﷲ
کو نہیں چھوڑا جب تک کہ آفتاب کی طرح کھل نہیں گیا یہی اعتراض ہامری سچائی کا گواہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلے پہل وحی آئی تو آپ نے یہی فرمایا
خشیت علی نفسی
بیوی کہتی ہے
کلا لا واﷲ
اور پھر بیوی نے کہا کہ آپؐ ضعفاء کے مدد گار ہیں آپ کو خد اضائع نہیں کرے گا پھر خدا تعالیٰ نے جب آپ پر امر نبوت کو واضح طو رپر کھول دیا تو آپ نے تبلیغ اور اشاعت میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔مومن اس مقام کو جہاں ہوتا ہے نہیں چھوڑتا جب تک خدا نہ چھڑائے۔
-3-4-05
مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ضمناً عرض کیا کہ تعجب کی بات ہے ایک قوم اور بھی تو ہے جس نے خدا کی اس راستباز اورصادق مسیح موعود کو تسلیم کیا ہے اور وہ اس پر ایمان لائی ہے اس کے سامنے کیا یہ باتیں نہیں ہیں ؟ مگر ان کو ان پر کوئی اعتراض نہیں معلوم ہوتا بلکہ ایمان بڑھتا ہے اور اس کی سچائی پر ایک عرفانی رنگ کی دلیل پیدا ہوتی ہے حضرت اقدس نے سن کر فرمایا
بے شک یہ تو سچائی کی دلیل ہے نہ اعتراض ۔ کیونکہ ماننا پڑے گا کہ تصنع سے یہ دعویٰ نہیںکیا گیا بلکہ میرا نام عیسیٰ رکھا اور لکھا کہ
لیضھر ہ علی الدین کلہ
میرے حق میں ہے اور ادھرکوئی توجہ نہیں ۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ اگر میرایہ کام ہوتاتواس میں دوبارہ آنے کا اقرار نہ ہوتا ۔یہ اقرار ہی بتاتا ہے کہ یہ خدا کاکام ہے
اس پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس نکتہ سے خاص ذوق اٹھا کاعرض کیا کہ یہ بعینہ وہی بات ہے جو قران شریف کی حقانیت پر پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ آنحضرت کاکلام ہوتا تواس میں زینب کاقصہ نہ ہوتا ۔حضرت اقدس نے پھر اس کلام میں فرمایا کہ
اب کونسی نئی بات ہے جس کاذ کربراہین کو طبع ہو ئے پچیس برس کے قریب ہوگزرے ہیں اور اس وقت کے پیدا ہوئے بچے بھی اب بچوںکے باپ ہیں اس میں ساری باتیں درج ہیں بناوٹ کامقابلہ اس طرح پر ہوسکتا ہے ؟کیاتیس برس پہلے ایک شخص ایسا منصوبہ کر سکتا ہے ؟ جبکہ اسے اتنا بھی یقین نہیں کے وہ اس قدر عرصہ تک زندہ رہے گا ج۔ پھر کیونکر میں اپنانام اتنے سال پہلے از خود عیسیٰ رکھ سکتا تھا اور ان کاموں کوجو اس کے ساتھ منسوب تھے اپنے ساتھ منسوب کرتا ۔ ہاں اس سے منصوبہ بے شک پایا جاتا اگر میں اس وقت لکھ دیتا کہ آنے والا میں ہی ہوں مگر اس وقت نہیں کہا باوجود یہ کہ
ھوالذ ی ارسل رسولہ بالھدی
کااعتراف کیاہے کہ میرے حق میںیہ خدا کاکام تھا کہ کمسیح کادعویٰ تواس میں بیان کیا گیا مگراس کو چھپایااورزبان سے یہ نکلوا دیاکہ وہ آئے گا میں حلفاً کہتا ہوں کہ آج جودعویٰ کیا گیا ہے براہین میں یہ سارا موجود ہے کہ ایک لفظ بھی کم بیش نہیں ہو اگر اس میں الہامات نہ ہوتے تواعتراض کی گنجائش ہوتی گو اس وقت بھی اعتراض فضول ہوتا کیونکہ وہ دعویٰ وحی سے نہیں تھا بلکہ اپنی ذاتی رائے تھی خداتعالیٰ نے یہ اس لئے کیا تا ظنون اور جعل سازی کے وہم دور ہوں ۔
مسیح موعو د کے قریشی ہونے کی حقیقت
دوسرا سوال ان کا اس امر پر تھا کہ آپ ؐ نے مسیح موعود کو لکھا ہے کہ وہ قریش میں سے نہیں اور پھر بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ قریشی ہے ا س کی مطابقت کیونکر ہو ؟
فرمایا : ۔
مسیح موعود کو جس طرزپر کہتے ہیں کہ وہ قریش میں سے نہیں وہ اس اعتبار سے نہیں جیسے قریش ہیں اہل فارس کو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں سے تھہڑایا ہے اور میرا الہام بھی ہے
سلمان منا اھل البیت
اسی نام سے مجھے اہل بیت میں داخل کیا ہے داخل کرنا اور بات ہے اور ہونا اور ۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے اہل فارس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت اور قریش سے ٹھہرایا ہے ا س لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلام سے قریش اور اہل بیت میں ہوں ۔
اس پر حضرت حکیم الامتہ نے
یسلب الملک من قریش
کاذکر کر کے عرض کیا کہ حضور ہم قریشیوں سے ملک چھینا گیا مگر کسی نے ہماری قوم سے غور نہیں کی کہ کیوں ایسا ہوا۔تکبر کا اتنا بڑا خطرناک مرض ہماری قوم میں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ۔سید لڑکی کسی دوسرے کے گھر میں دینا کفر سمجھا گیا ہے اس پر میر صاحب نے کہا کہ ہم سے کوئی پوچھاکرتا ہے تواس کو یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن او ر امام حسین رضی اللہ عنہا کی ایک بہن تھی کوئی ہمیں بتائے وہ کس سیدکودی گئی تھی ۔
بروز کی حقیقت
پھر بروز کے متعلق سلسلہ کلام یوں شروع ہوا۔
فرنایا:۔
نیکوں بدوں کے بروزہوتے ہیں ۔ نیکوںکے بروزمیں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود۔ہمار اعقیدہ یہ ہے کہ
اھد ناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم ( الفاتحہ : ۶،۷ )
نیکوں کا بروز او ر
ضالین
سے عیسائیوں کابروز اور
مغضوب
سے یہودیوں کا بروز مراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یابد گزرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں خدا تعالیٰ ان کے اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا ۔ ان کے رنگ میں اور آجاتے ہیں جب یہ امر ہے تواس سے انکار نہیں ہوسکتاکہ ابراراور اخیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے ر ہیںگے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلاجاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہوجاوے گاتو دنیا کابھی خاتمہ ہے لیکم وہ موعود جس کے سپرد عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کاوہ بروزہے ۔یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی ایک ہی ہے ۔
اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا
حضرت حکیم الامتہ نے مولوی ابو رحمت حسن صاحب کاذکر سنایا کہ وہ بڑے اخلاص سے خط لکھتے ہیں اور انہوں نے اپنے خط مین لکھا ہے کہ اس آیت پر مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے فرمایا کہ
جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیں توکیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں جب اس نے ان اعضاء کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعترا ض نہیں کرتے تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟دیکھنا یہ ہے کہ زبان عرب میں اس لفظ کااستعمال ان کے عرف کے نزیدیک کوئی خلاف تہذیب امر ہے جب نہیں تو دوسری زبانوں والوں کاحق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلاف تہذیب ٹھہرائیں۔ ہر سوسائٹی کے عرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں ۔ ۱؎
۲۹؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
(صبح کی سَیر)
دُرِّ حکمت
طاعون کے ذکر پر ضمناًفرمایا :۔
(۱)خدا کے کام عجیب ہوتے ہیں لوگ مغرور ہوکر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ پھر پکڑ تا ہے ۔
(۲) نادان انسان ذرا سی خوشی پر تکبر سے باتیں کرتا ہے مگر آخر متح اسی کی ہوتی ہے جس کے ساتھ خدا ہو ۔
(۳) اسلام میں ہمیشہ نصرانیت کی سر کوبی کی ہے اور اب وقت ہے کہ ان کے عقائد کے پردہ دری ہوگئی ہے اور اس کے بعد کسی کوحوصلہ نہ ہوگا کہ انسان کابچہ کوخدا بنائے ج۔
فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم
صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار اور مطیع فرمان تھے کہ کسینبی کے شاگردوں میں ایسی نظیر نہیں ملتی اورخدا کے احکام پر ایسے قائم تھے کہ قرآن شریف ان کی تعریفوں سے بھرا پڑا ہے لکھا ہے کہ جب شراب کی حرمت کاحکم ہوا تو جس قدر شراب برتنوں میں تھی گرادی گئی اور کہتے ہیں کہ اس قدر شراب بہی کہ نالیاں بہ نکلیں او رپھر کسی سے ایسا فعل شنیع سرزد نہ ہوااور وہ شراب کے پکے دشمن ہوگئے دیکھو یہ کیسے ثبات اوراستقلال علی الطاعت تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جس وفاداری ۔محبت اور ارادت اور جوش سے انہوںنے کی کبھی کسی نے نہیں کی ۔ موسیٰ علیہ السّلام کی جماعت کے حلات پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ وہ کئی بار پتھراؤکرناچاہتی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری توایسے کمزور اورضعیف الاعتقاد تھے کہ خود عیسائیوں کوتسلیم کرناپڑا ہے اور اور حضرت مسیح آپ انجیل میں ست اعتقادان کانام رکھتے ہیں انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ سخت غداری کی اور بے وفائی کانمونہ دکھایا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں الگ ہوگئے ایک نے گرفتارکرادیا دوسرے نے *** بھیج کر انکارکر دیا ۔
مگر صحابہ ؓ ایسے ارادت مند اور جان نثار تھے کہ خود خداتعالیٰ نے ان کی شہادت دی کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی راہ میں جانوں تک دینے میںدریغ نہیں کیا اور ہر صفت ایمان کی ان میں پائی جاتیں ۔
جس قدر مصائب اور تکالیف صحابہ ؓ کو ابتدائے اسلام میںاٹھانی پڑیں ان کی نظیر بھی کسی اور قوم میں نہیںملتی اس اس بہادر قوم نے ان مصیبتوں کو برداشت کرناگوارہ کیا لیکن اسلام کو نہیں چھوڑا ان مصیبتوں کی انتہاآخراس پر ہوئی کہ ان کووطن چھوڑنا پڑا اور نبی کریم ؐ کے ساتھ ہجرت کرنے پڑی اور جب خداتعالیٰ کی نظر میں کفار کی شرارتیں حد سے تجاوز کر گئیں اور وہ قابل سزا ٹھہر گئیں تو خدا تعالیٰ نے انہیں صحابہ ؓ کو مامور کیا کہ اس سرکش قوم کو سزا دیں چنانچہ اس قوم کوجو مسجدوں میںدن رات اپنے خدا کی عبادت کرتی تھی اورجس کی تعداد بہت تھوڑی تھی جس کے پاس کوئی سامان جنگ نہ تھا مخالفوں کے حملوں کوروکنے کے واسطے میدان جنگ میں آناپڑا ۔ اسلامی جنگیں دفاعی تھیں ۔
پھر ان جنگوں میں یہ چند سوکی جماعت کئی کئی ہزار کے مقابلہ میں آئی اور ایسی بہادری اور وفاداری سے لڑی اگرحواریوں کو اس قسم کاموقع پیش آتا توان میں سے ایک بھی آگے نہ ہوتا۔ ایک ذرا سے ابتلاء پر وہ اپنے آقا کوچھوڑ کاالگ ہوگئے توایسے معرکوں میں ان کاٹھہرنا ایک ناممکن بات ہے مگراس ایمان دار اور وفادار قوم نے اپنی شجاعت اور وفاداری کا پورانمونہ دکھایا اور جو کچھ جوہر انہوں نے دکھائے وہ سچے او رایمان اوریقین کے نتائج تھے موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کہا کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کرو تو انہوںنے کیا شرمناک جواب دیا
فاذھب انت و ربک فقاتلااناھھنا قاعدون ( المائدۃ : ۲۵)
تواورتیرا رب جاؤ اور لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گئے صحابہؓ کی لائف میں ایساکوئی موقع نہیں آیابلکہ انہوںنے کہا کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں جنہوں نے یہ کہا
فاذھب انت وربک
ایسی قوت شجاعت اور وفاداری کاجوش کیونکر پیدا ہوگیا تھا ؟ یہ سب ایمان اوریقین کانتیجہ تھا جو آپ ؐ کی قوت قدسی اورتاثیر کااثر تھاآپ نے ان کو ایمان سے بھر دیا تھا ۔
مسیح کے حواریوں کاایمان
مسیح کے حواریوں میں جو ایمانی قوت پیدانہیں ہوئی اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ان کے معجزات پر کوئی قومی ایمان اوربھرسہ نہ تھا ۔ بلکہ اصل بات یہی ہے جیسا کہ بعض عیسائی مصنفوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ حواری دنیا دار اورسطحی خیا ل کے آدمی تھے انہیں یہ خیال تھاکہ یہ بادشاہ ہوجائے گا ۔ تو اہم کو عہدے ملیں گے ان کاتعلق ایک لالچ کے رنگ میں مسیح کے ساتھ تھااس لیے وہ ایمانی قوت اور عرفانی مذاق ان میں پیدا نہ ہوا۔ اگر وہ معجزات مسیح کودیکھتے کہ مردوں کو زندہ کرتا ہے توکیا وجہ ہے کہ ایسے عجوبے دیکھ کر بھی ایمان میں قوت نہ آئے ۔ حقیقت یہی ہے کہ مسیح سے سلب امراض وغیرہ کے نشانات جو دیکھتے ہیں وہ ایسے عام تھے کہ یہودی بھی کرتے تھے اور ایک تالاب پربھی مریض جاکر اچھے ہوجایاکرتے تھے اس لئے ان باتوں نے معجزات مسیح کی کوئی عظمت دل میں پیدانہ کی اور وہ نور لیقین ومعرفت جو گناہوں کو زائل کرتا ہے ان میں پیدا نہیں ہوا۔ اس لئے یہودااسکریوطی جو مسیح کا خزانچی تھا اور جس کے پاس ایک ہزار روپیہ کی تھیلی رہتی تھی اس میں سے چرا لیاکرتا تھااور اسی لالچ نے اس کو تیس درہم لے کر گرفتار کرانے پر آمادہ کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح ؑ
مسیح کے پاس تو ایک ہزار کی تھیلی رہتی تھی اور تعجب کی بات ہے کہ باوجود یکہ ایک ہزار روپیہ پاس رہتا تھاپھر بھی کہتے ہیں کہ ابن آدم کو سر رکھنے کو جگہ نہیں ۔ آنحضرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہوتا وہ سخاوت کر دیا کرتے تھے ایک بار آپ کے گھر میں … ایک مہر تھی آپ ؐ نے اس کو لے کر تقسیم کر دیا ۔
مسیحؑ کا شوق ِجہاد
پادری جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں پر اعتراض کرتے ہیں اپنے گھر میں نگاہ نہیں کرتے ۔ آنحضرت ﷺکی لڑائیاں بالکل دفاعی تھیں مگر مسیح کو اس قدر شوق تھا کہ اس نے شاگردوں کو کہا کپڑے بیچ کر بھی ہتھیار خریدو ۔ اصل میں مسیح کی لڑائیاں نہ کرنا ’’ستر بی از چادری ‘‘ کامصداق ہے اگر موقع ملتا تو وہ ہر گز تامل نہ کرتے ۔ بلکہ اس قسم کی تعلیم سے جو انہوں نے ہتھیاروںکے خریدنے کی دی ج۔ صاف معلوم ہوتا ہے کے انہیں کس قدر شوق تھااور داؤد کے تخت کی وراثت کاخیال لگا ہواتھا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو آپ ؐ نے ان مخالفوں نے جنہوں نے سخت ایذائیں دی ہوئی تھیں اور جواب واجب القتل تھہر چکے تھے پوچھا تمہارا میری نسبت کیا خیال ہے انہوں نے کہا توابن کریم ہے توآپؐ نے فرمایا ۔ اچھا میں نے تم سب کو بخش دیا آپ کے اس رحم و کرم نے ان پر ایسا اثر کیا کہ وہ سب مسلمان ہوگئے حضرت مسیحؑکو اپنے ایسے اخلاق کا موقع ہی نصیب نہیں ہوااور حواریوں کے لئے تو مسیح کا آنا ایک قسم کاابتلا تھاکیونکہ ان کو کو ئی فائدہ نہ ہوا اور انہوںنے کچھ نہ سیکھا ۔
مسیح ناصری او رمسیح محمدی
فرمایا:۔
جو کامیابی اور اثر مسیح ابن مریم کا ہوا وہ توصاف ظاہر ہے اور جس کمزوری اور ناکامی کے ساتھ انہوں نے زندگی بسر کی وہ انجیل کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتی ہے مگر مسیح موعود جیسے زبردست اور قوت قدسیہ کے کامل اثر والے متبوع کاپیرو ہے اسی طرح پر اس کی عظمت اور بزرگی کی شان اس سے بڑھی ہوئی ہے جو کامیابیاں اور نصرتیں اس جگہ خدا نے ظاہر کی ہیں مسیح آنحضرتؐاپنے مثیل موسیٰ سے ہر پہلومیں بڑھے ہوئے تھے اور گویا آپ اصل اور موسیٰ آپ کاظل تھے اسی طرح مسیح موعود موسوی مسیح سے نسبت رکھتا ہے ۔
نصرا نیّت کااثر
نصرانیت کااثر آج کل عام ہورہا ہے بعض تو بالکل مرتد ہوگئے ہیں او ربعض نے اور نہیں فیشن میں ہی ان کی تتبع کر لیا ہے ۔
نیکی اور بدی کی کشش
فرمایا :۔ انسان کے اندر نیکی اور بدی کی ایک کشش ہے آدمی نیکی کرتا ہے مگر نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں نیکی کرتا ہے اسی طرح ایک شخص بدی کی طرف جاتا ہے لیکن اس سے پوچھا جاوے تو کدھرجاتا ہے وہ نہیں بتا سکتا ۔ مثنوی سومی میں ایک حکایت اس کشش پر لکھی ہے کہ ایک فاسق آقا کا ایک غلام تھاصبح کو جو مالک نوکر کو لے کر بازار سودا خریدنے کو نکلا توراستے میں اذان کی آوازسن کر نوکر اجازت لے کر مسجد میں نماز کو گیا اور وہاں ذوق اور لذت پیدا ہوا تو بعد نمازذکر میں مشغول ہوگیاآخر کار آقانے انتظار کر کے اس کو آوازدی اور کہا کہ تجھے اندر کس نے پکڑلیا تو نوکر نے کہا کہ جس نے تجھے اندر آنے سے باہر پکڑلیا ہے غرض ایک کشش لگی ہوئی ہے اسی کی طرف خدا نے اشارہ فرمایا ہے
کل یعمل علی شاکلتہ(بنی اسرائیل : ۸۵) ۱؎
۳۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
(صبح کی سیر )
الہام
’’نتیجہ خلاف امید ہے ‘‘
اس کی کوئی تصریح نہیں فرمائی گئی ۔
آج کی سیر میں متفرق مقامی اور آنی امور پر سلسلہ گفتگوشروع رہا اور ختم ہوا۔
( دربارِشام )
ضرورت عمل کی ہے
میان نبی بخش نمبر دار پنڈوری نے عرض کی کچھ پڑھا لکھاآدمی نہیں ہوں ۔
فرمایا:۔
علم کیا‘اصل ضرورت عمل کی ہے
قِیَا مٌ فِی ْ مَا اَقَامَ اللہ
۲۔ایک شخص نے ملازمت چھوڑ کر تجارت کے متعلق مشورہ پوچھا ۔ فر مایا :
نوکری چھوڑنی نہیں چاہئے ۔ قیام فی ما اقا م اللہ بھی ضرو ری ہے بلا وجہ ملازمت کو چھو ڑ نا اچھا نہیں ہے۔
طلب حق کیلئے ضرو ری امور
۳۔ ایک ہندو نے (جو اپنا نام طالب حق رکھتا تھا ) عرض کی کہ میں ایک عرصہ سے طلب ِ حق چاہتا ہوں مگر مجھے ابھی تک وہ راہ نہیں ملی ۔ فرمایا :۔
طلب حق کے لئے وہ چیزوں کی ضرورت ہے اول عقل سلیم چاہئے بعض لوگ طلب حق تو چا ہتے ہیں مگر غبی اور بلید طبع ہوتے ہیں اور قوت فیصلہ نہیں رکھتے اس لئے جو کچھ سمجھا یا جاوے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتے اور کل
مذاہب ان کے سامنے پیش کئے جاویں تو وہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان میں سے حق کس کے ساتھ ہے یہ بیماری ہے طبیبوں نے اس کو سو فسطائی عقل لکھا ہے ان پر وہم غالب نہ ہو ۔
دوم ۔ قبو ل حق کے لئے جرات رکھتا ہو بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ حق کو سمجھ تو لیتے ہیں مگر برادری کے تعلقات نہیں ٹوٹتے ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں یہ بزدلی بھی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔ پہلے پہل جو بچہ مدرسے میں بھیجا جاتا ہے اس کے سامنے تو ابجد ہی پیش کی جاتی ہے ۔ کوئی بڑی کتاب نہیں رکھی جاتی اسی طرح مذہب کی پر کھ میں پہلے نسبتاً موٹے موٹے اصولوں میں مقابلہ کر کے دیکھ لینا چاہئے کہ مذہب حق کون سا ہے مجھے تعجب آتا ہے کہ اس وقت مہب کا مقابلہ ہو رہا ہے اور امر حق صاف طور پر معلوم ہو سکتا ہے اور اس ہند ہی میں سب مذاہب موجود ہیں سناتن ، عیسائی ،آریہ ، مسلمان وغیرہ بڑے بڑے یہی مذہب ہیں ۔
مذہب کی جَڑ خدا شناسی ہَے
مذہب کی پہلی جزو اور جڑ ھ خدا شنا سی ہے جس کا پہلا قدم ہی غلط ہے اور بے ٹھکا نے ہے دوسرا قدم اس کا کب ٹھکانے پر ـپڑے گا اب اس اصل پر مذہب کو شناخت کرو ۔
سناتن دھرم
سناتن دھرم کو لو انہوں نے کوئی جڑی بوٹی پتھر درخت چاند سورج غرض مخلو ق میں کوئی چیز نہیں چوڑی جس کی پر ستش نہیں کی اور جس کو خدا نہیں بنایا اب جس مذہب کا خدا شناسی کے متعلق یہ عقیدہ ہو ۔ اس کو علوم حقہ سے حصہ کب مل سکتا ہے ؟ اس کی اخلاقی حالتیں کیو نکر درست ہو سکتی ہیں؟ وہ تو ریل کو بھی دیکھیں تو اسے بھی سجدہ کرنے کو تیار ہیں ۔ اور اسے بھی خدا ماننے لگتے ہیں ۔
آریہ دھرم
پھر ان لوگوں میں ایک اورفرقہ ہے جو اپنے آپ کواصلاح یافتہ سمجھتا ہے اوراس کوآریہ کہتے ہیں ۔
آریہ کی خداشناسی کایہ حال ہے کہ انہوں نے بر خلاف وید کے خداکی توحید کازبانی اقرار توکیا ہے وید اگنی وایووغیرہ کی پرستش کی گئی ہے لیکن یہ لوگ اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم بتوںکی پوجانہیںکرتے مگر خداشناسی مین باوجود اس اقرار کے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خداکو کسی چیز کاخالق نہیں مانتے اورصرف جوڑنے جاڑنے والامانتے ہیں جب خداکی اس عظیم الشان صفت سے انکار کیاگیا تو ایساناقص اور ادھورا خداکب کسی کے ماننے میں آسکتا ہے پھر انہو ں نے خدا کی دوسری صفتوں کا بھی انکار کیا مثلاً وہ مانتے ہیں کہ وہ کسی انسان کو کوئی چیز عطا نہیں کرسکتا ۔جو کچھ کسی کو ملتا ہے اس کے عملوں کی ہی پاداش ملتی ہے پھر انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو دنیا کا کا م نہ چل سکتا کیونکہ گائے،بھینس اور دوسری آرام دہ مخلوق نہ ہو سکتی اس قسم کا خدا انہوں نے مانا ہے گویا خدا شناسی کے مقام سے یہ مذہب بھی گرا ہوا ہے۔
عیسائیت
پھر ایک اور مذہب ہے جس کے اشاعت کے لئے کروڑ ہا روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہ عسائی مذہب ہے اس میں خدا شناسی کی اور بھی ردی حالت ہے وہ اول تو سرے سے خدا ہی کو تین مانتے ہیں اور یہ ایسامسئلہ انکے نزدیک ہے کہ وہ سمجھ میں آہی نہیں سکتے اور پھران تین میں سے ایک عاجز انسان بھی ہے جو مریم کے پیٹ سے پیداہوااورجس کی ساری عمر جیسا کے انجیل سے معلوم ہوتاہے کہ ایک کرب اور اضطراب میں گذری ۔ ماریں کھاتارہا اور آخر یہودیوں نے اسے پکڑکر صلیب پر چڑھادیا اب اگر خداکایہی نمونہ ہے تو کون اس پر ایمان لاسکتاہے ؟
اِسلام
مگراسی خداشناسی کے متعلق جو تعلیم اسلام نے دی ہے وہ ایسی صاف ہے کہ ہر عقلمند کواس کے ماننے پر مجبور ہوناپڑتا ہے ۔ اسلام بتاتا ہے کہ اللہ وہ ہے جو تمام اوصاف حمیدہ سے موصوف اور تمام نقصوں سے مبرا ہے اور وہ تمام اشیاء کاخالق اورمالک ہے وہ رحمان اوررحیم ہے ۔ اسلام کسی مخلوق کوخدایاخداکاہمسر نہیں بناتا۔وہ خالق اورمخلوق میں فرق بتاتاہے
اب اس اصل میں جب مقابلہ کیاجاوے توکیسے صاف اورواضح طور معلوم ہوجاتاہے کہ کوئی مذہب اس اصل میں اسلامکامقابلہ نہیں کرسکتا اوراسلام ہی سچامذہب ہے ۔
دوسری اصل
پھرمذہب کی دوسری جزویااصل یہ ہے کہ وہ مخلوق کے حقوق کیسے قائم کرتاہے اس اصل میں بھی دوسرے مذاہب سے مقابلہ کر کہ دیکھو لو ۔ آسیہ مذہب نے توایسا ظلم کیا ہے کہ بجز بے غیرتی کے اور معلوم نہیں ہوتا ۔ اس نے نیوگ کی تعلیم سی ہے کہ جس شخص کے گھر میں اولاد نہ ہوتو وہ اپنی عورت کو دوسرے شخص سے ہم بستر کرادے اور اولاد حاصل کر لے اب اس سے بڑ ھ کر پاکیزگی اور غیرت کاخون اور کیاہوگا کہ ایک شخص کو جس کی بد قسمتی سے دو چار سال تک اولادنہیں ہوئی ، کہہ دیا جاوے تواپنی بیوی کودوسرے آدمی سے ہم بستر کرا لے کیسی شرمناک بات ہے ۔یہاں قادیان میں ایک شخص موجود ہے اس سے جب نیوگ کی بابت پوچھا گیا تواس نے یہی کہاکیامضائقہ ہے ۔
اب کوئی عقلمند اس تعلیم کو کب گوارہ کر سکتا ہے میںنے پڑھاتھاایک بنگالی آریہ ہوگیا ایک برہمونی جب اس پر نیوگ کی حقیقت کھولی تو اس نے ستیارتھ پرکاش کوپھٹکار کر مارا اور کہاکہ یہ مذہب قبول کرنے کے لائق نہیںہے ۔ عیسائیوں نے مخلوق پر ظلم کیا کہ کفارہ کی تعلیم دے کر شریعت کو *** کہہ کر نیکی کادروازہ ہی بند کر دیا اور قوائے انسانی کی بے حرمتی کی ۔ جب کہہ دیا کہ کوئی نیکی کر ہی نہیں سکتا ۔ مگر اسلام مخلوق کی حقوق کو جائز اور مناسب مقام پر قائم کرتا ہے وہ ایسی تعلیم نہیں دیتا جو نیوگ کے پیرایہ میں دی گئی وہ انسانی قویٰ یبے حرمتی نہیںکرتا اورانسان کوکفارہ کی تعلیم دے کر ست نہیںبناناچاہتا اس نے شریعت کو *** نہیں بنایا بلکہ انسانی طاقتوں کے اندر اسے رکھا اس طرح معاملہ توبالکل صاف ہے اگروہم نہ ہواور قبول حق میں کوئی روک نہیںہوسکتی اگر بزدلی نہ ہو۔
سائل :۔ ان مذاہب کی بابت تو مجھے پہلے سے اعتراض ہیںمگر اسلام کی کتابیں میںنے نہیں پڑھی ہیں ۔فرمایا:
آپ قرآن شریف کو پڑھیں اس سے معلوم ہوجاوے گاوہ خداکی نسبت کیاتعلیم دیتا ہے اورمخلوق کی نسبت کیا؟ ان دونوں تعلیموں کو اگر آدمی غورسے دیکھ لے توحق کھل جاتا ہے ۔
پھر مفتی صاحب نے میور صاحب کی ایک تصنیف سنائی جواس نے مسلمانوں سے مناظرہ کرنے کے متعلق ہدایت پر لکھی ہے پھر چند لوگوں نے بیعت کی پھر طالب حق نے عرض کیاکہ مجھے خواب آیا تھا کہ توا مسیح کہ پاس جا اور اس سے پوچھ اگر وہ کہے کہ میں مسیح ہوں تو اپھر جو وہ کہے مان لے ۔
فرمایا:۔
ہم توسالہاسال اس دعویٰ کی اشاعت کر رہے ہیں اورخدانے صدہانشان اس کی تائیدمیں دکھائے ہیں جن کو خدانے سعادت اور فہم دیا ہے وہ سمجھ لیتے ہیں جس کو ان سے حصہ نہیں وہ محروم ہوجاتاہے
فرمایا :۔
حق شناسی کی راہ میں اگر وہم اوربزدلی نہ ہوتو کوئی مشکل نہیں ۔ مشرق اورمغرب میں تلاش کرو ۔ اسلام کے سواحق نہیں ملے گامجھے تعجب ہے کہ لوگ ایک پیسہ کی چیز لیتے ہیں تو اسے خوب دیکھ بھال کر لیتے ہیں مگر مذہب کے معاملہ میں توجہ نہیں کرتے اگر انسان توہمات میں گرفتا ر نہ ہو توآجکل مذہب کے حسن قبح معلوم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ۔ مقابلہ کر کہ دیکھ لو اگرسچامسلمان ہوجاوے توپاک ہوجاتاہے دوسرے مذاہب میں یہ نہیں۔کیا ایک عیسائی پاک ہوسکتا ہے ؟جس کوکفارہ پر ایمان لاتے ہیں عشاء ربانی میںشراب استعمال کرنی پڑتی ہے یاانجیل پر عمل کرکے وہ پاکیزگی میںترقی کر سکتا ہے ؟جس کی رو سے منع نہیں کہ غیر مردوںکے ساتھ عورتیں بڑے بڑے جلسوں میں جیساکہ ناچتی ہیں نہ ناچیں یہ تو قرآن ہی تعلیم دیتاہے تونامحرم کومت دیکھ۔ مجھے تعجب ہے کہ وہ کیاعقل ہے جوتاریکی کو روشنی سمجھتی ہے یہ امر دیگر ہے کہ کوئی سچامتبع نہ ہو لیکن جو ویدیاانجیل کاسچامتبع ہے اس کواسکی تعلیم پر عمل کر کے پورانمونہ دکھاناہوگااب اگر وید کے سچے متبع کی تصویر کھینچیں تو توضروری ہوگاکہ وہ وایواورگنی کوخداکہے ااور اولادنہ ہوتی ہوتو نیوگ کرالے مگر جو قرآن پر عمل کرتاہے اسے لازم ہے کہ وہ
وحدہ لاشریک
خداکو مانے او رہر قسم کی بے حیائی اورناپاکی سے دور رہے اورفسق و فجور سے بچے۔عورتیں پاک دامن ہوں ۔اب ان دونوںتصویروںپر غور کر لو اصلمیں ایک شخص جس دین کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ حقیقی نام اس وقت حاصل کرتا ہے جب اس کاسچامتبع ہو اور پابند مذہب ہو۔آپ قرآن کاایک جزبھی پڑھیں گے تو معلوم ہوجاوے گا ۔ ۱؎
۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۰۲ء؁
دربارشام
بعدادائے نماز مغرب اولاًچند آدمیوںنے بیعت کی ۔پھر میاں نبی بخش صاحب نمبر دار چک نمبر ۱۰۸نے دعا کی درخوست کی حضور کی محبت ہمارے دل میں بڑھے ۔
فرمایا:۔
خداکافضل
خداتعالیٰ نے جواخلاص اورتوجہ عطاکی ہے خود اس نے ابتداء کی ہے اس لئے شکر کرو کہ وہ اوربھی بڑھادے یہ محض اسی کافعل ہے جواس نے حق شناسی کی توفیق دی ورنہ اگردل سخت کر دے توانسان رجوع نہیں کر سکتا یہ اسی کہ فعل سے ہوتاہے جو یقین اوراخلاص عطاکرتاہے اوراس کے شکرپر اس کو بڑھاتاہے پس شکر کرو اس کافعل اور ترقی کرے نمازوں میں
ایاک نعبد وایاک نستعین
کاتکراربہت کرو
ایاک نستعین
خداکے فضل اورگمشدہ متاع کوواپس لاتاہے ۔ ۲؎
یکم نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز شنبہ
(بوقت سیر )
حضرت اقدس حسب دستور سیر کے لئے نکلے تمام راہ مولوی فتح دین صاحب حضرت اقدس کے مخاطب رہے حضرت اقدس بار بار ان کے ذہن نشین یہ امر کراتے رہے کہ مباحثات میں ہمیشہ دیگر طریق استدلال چھوڑ کر اس طریق کو اختیار کرناچاہئیے قرآن شریف مقدم ہے اور احادیث ظن کے مرتبہ پر ہیں قرآن شریف سے جو امر ثابت ہواس کوکوئی حدیث خواہ پچاس کروڑ ہوں ہر گز ردنہیں کرسکتیں چونکہ اس گفتگومیںمیاںفتح دین صاحب بھی بعض اوقات احادیث سے اپنے استنباط کرسکتیں چونکہ اس گفتگومیںدرج کئے ہیں مفصل حضرت اقدس کوسناتے رہے اورحضرت اقدس مختلف طور پر ان کوسمجھاتے رہے اس لئے ہم
حضرت اقد س کے کلمات کو مختصراًیہاںدرج کرتے ہیں
اِسلام کامدار قرآن شریف پر ہے
‏Amira 5-4-05
ان لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ تم خود قائل ہو کہ اصح کتاب قرآن شریف ہے احادیث ۱۵۰ برس بعد جمع ہوئیں پھر ان میں باہم تناقض ہے ایک میں مہدی کا ذکر ہے ایک میں ہے
لا مھدی الا عیسی
ایک طرف مہدی کی حدیث ضعیف لکھی ہے پھر کہتے ہیں کہ مسیح اوپر سے اترے گا تو ایک طرح سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی جب قرآن شریف بار بار اوپر کے آنے سے منع کرتا ہے تو حدیث جو کسی طرف سے خواہ حقیقتاً خواہ استعارہ کے طور پر قرآن شریف کے برابر نہ آسکے تو وہ ہر حال میں نا قابل اعتبار ٹھہرے گی ورنہ اس طرح اسلام درہم برہم ہو جائے گا۔تمام ستون اور مدار اسلام کا قرآن شریف پر ہے جب قرآن شریف میں ہے کہ عیسیٰ ؑفوت ہو گئے تو پھر انکار کیسا؟
’’فلما توفیتنی‘‘ (المائدہ : ۱۱۸)
کی نسبت آپ مولوی فتح دین صاحب کو سمجھاتے رہے۔پھر احادیث کے بیان کی طرف رجوع کر کے فرمایا
اگر ان کا حدیث پر اس قدر اعتبار ہے تو رفع یدین کی جو چودہ سو احادیث آئی ہیں اس پر کیوں نہیں عمل کرتے ہمارا مسئلہ خد اتعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق ہے جیسے یہ آمد مسیح کے منتظر ہیں ویسے ہی یہودی الیاس کے منتظر تھے۔پیغمبر کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس کا علم اتنا وسیع ہو جیسے خد اکا ہے یہ پیغبر پر جائز ہے کہ بعض امور کی تفصیل اس پر نہ کھل سکے۔جیسے کہ بہت سے آخرت کے امرو ہیں کہ انسان کو مرنے کے بعد معلوم ہوتے ہیں تو پھر یہ لوگ اپنے علم پر کیوں اس قدر باتیں کرتے ہیں یہودیوں کو الیاس کی انتظار تھی مسیح نے کہا یحییٰ الیاس ہے خواہ قبول کرو خواہ نہ کرو پھر اسی وقت جا کر یحییٰ سے دریافت کیا اور دریافت بھی ایسے الفاظ میں کیا ہو کہ اسے یہو جواب دینا پڑا کہ میں وہ الیاس نہیں ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ بار بار احادیث پیش کررتے ہیں اور ان میں سے نزول کو لیتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر اسی مسیح نے آنا تھا تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے کا حلیہ کیوں الگ بتلایا اور کہا کہ آنے والے مسیح کو تم اس طرح پہچانو۔اس کی کیا ضرورت تھی؟
مباحثہ میں بھی اصول رکھا جاوے کہ قرآن شریف مقدم ہے یہ منواکر ان سے کہا جاوے کہ تقدم قرآن تو اب مقبولہ فریقین ہے باقی امور اسی سے فیصلہ کر لو اگر حدیثوں پر سارا مدار ہے تو قرآن کی کیا ضرورت ہے جو کہتا ہے
الیوم اکملت لکم دینکم
جھوٹے دھوکے ہیں۔
انہ لعلم للسا عۃ
انہ لعلم للسا عۃ (الزخرف : ۶۲)
کے یہ معنے ہیں کہ یہودیوں کے ادبار اور ذلب کی نشانی مسیح کے آنے کا وقت تھا اور
جعلنا ہ مثلا لبنی اسرائیل (الزخرف : ۶۰)
بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے۔ ساعت کے معنی آخرت کے بھی ہیں
ان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ (النساء : ۱۶۰)
کے معنے یہ کرتے ہیں کہ وہ (مسیح) اب تک زندہ موجود ہیں جب آویں گے تو کل اہل کتاب ایمان لاویں گے اس کے متعلق ابو ہریرہؓ کی حدیث پیش کرتے ہیں حالانکہ تفسیر مظہری میں اس کے اوپر کس قدر مطاعن ہیں۔یہ کہنا کہ کل اہل کتاب اس وقت ایمان لاویں گے‘ غلط ہے قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت تک کافر موجود رہیں گے قرآن شریف کو ہر حالت میں مقدم رکھنا چاہئے قرآن کے نصوص قطعیہ بالکل فیصلہ کر دیتے ہیں۔
سورۃ تحریم میں ہے کہ مسیح بن مریم اسی امت میں سے ہوگا سورۃ النور میں ہے کہ تمام خلیفے اسی امت میں سے ہوں گے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کا نام حکم رکھا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ بہت فرقے ہوں گے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غلطیاں کثرت سے ہوں گی۔
نزول کی حقیقت
قرئن مجید میں نزول کی معنے مختلف مقامات پر مختلف ہیں اگر اعتراض ہو کہ پھر نزول کا لفظ استعمال ہی کیوں ہوا کوئی اور لفظ حدیث میں کیوں نہ آیا تو جواب یہ ہے کہ مسلم کی ایک حدیث میں مبعوث کا لفظ بھی آیا ہیے نزول کا لفظ اس لئے استعمال ہوا کہ اس وقت کل برکات اور فیوض اٹھ جاویں گے اور پھر آسمان سے نازل ہوں گے قرآن شریف میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہیکہ ہم نے آپؐ کو آسمان سے نازل کیا اور آسمان ہی سے پانی بھی اترتا ہے اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو کنوئیں بھی پانی نہین دیتے لمبے قحطوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اﷲ کافی ہے۔ہم قرآن کے بارے میں پوچھے جائیں گے نہ کہ زید اور بکر کے جمع کردہ سرمایہ کے بارے میں۔یہ سوال ہم سے نہ ہوگا کہ تم صحاح ستہ وغیرہ پر ایمان کیوں نہ لائے؟ پوچھا تو یہ جائے گا کہ قرآن پر ایمان کیوں نہ لائے؟
بحث کے اصول
بحث کے قواعد ہمیشہ یاد رکھو۔اول قواعد مرتب ہوں۔پھر سوال مرتب ہوں کتاب اﷲ کو مقدم رکھا جائے احادیث ان کے اقرار کے بموجب خود ظنیات ہیں یعنی صدق اور کذب کا ان میں احتمال ہے اس کے یہ معنے ہین کہ ممکن ہے کہ سچ ہو اور ممکن ہے کہ جھوٹ ہو لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن شریف تک ہی ہے۔پھر آپؐ فوت ہو گئے اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما جاتے کہ میں نے احادیث جمع نہیں کیں فلاں فلاں آوے گا تو جمع کرے گا تم ان کو ماننا۔
سُنّت اور حدیث
پس اول قرآن کو مقدم کیا جاوے اس کے بعد سنت۔سنت یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو احکام آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خود کر کے دکھلا دیا جیسے نماز پڑھ کر بتادی کہ صبح کی یوں ہوتی ہے شام کی یوں۔جیسے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف سے استنباط کئے۔ویسے ویسے آپؐ بتلاتے رہے اور جو آپؐ کے اقوال تھے ان کا نام حدیث ہے ایک سنت یہ بیھ تھی کہ آپؐ فوت ہو گئے قرآن شریف میں ہے
وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
یعنی سب رسول فوت ہو گئے آپؐ بھی فوت ہوں گے چنانچہ خد اکی بات پوری ہو گئے اور آپ فوت ہو گئے۔؎ٰ
نزولِ مسیحؑ
ہمارے ہاتھ میں تو ایک نظیر ہے اگر یہ پوچھیں کہ جو تاویل (نزول مسیح کی) تم پیش کرتے ہو کسی نے آگے بھی کی ہے تو ہم جواب دیتے ہیں کہ جس کے بارے میں تم کو مصیبت پڑی ہے (یعنی مسیحؑ کے) اس نے خود یہ تاویل کی ہے اس کو بھی اس وقت مصیبت پڑی تھی تو ہماری جماعت میں داخل ہو کر آخر اس کی رہائی ہوئی۔نظیر بھی کوئی شئے ہوتی ہے خدا تعالیٰ بھی اپنی سنت بطور نظیر ۲؎ کے پیش کیا کرتا ہے اگر انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آجاتے تو کوئی حرج نہ تھا آپؐ نے کوئی خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا نہ آپؐ خدا بنائے گئے مگر خدا نے مسیح کے منہ سے نکلوا کر اقرار کروالیا کہ دوبارہ آنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کوئی بادشاہ وہ طریق اختیار نہیں کرتا جس سے اس کی بادشاہی میں خلل آوے پھر خدا کیوں ایسا طریق اختیار کرے جس سے اس کی خدائی میں بٹہ لگے۔
مومن کو اﷲ رسوائی کی موت نہیں دیتا
پھر مولوی فتح دین صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بڑے خطاکار ہیں کئی فاسد خیال آتے رہتے ہیں اور طاعون کا زور ہو رہا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
میں یقینا جانتا ہوں کہ جس کو دل سے خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اسے وہ رسوائی کی موت نہیں دیتا۔ایک بزرگ کا قصہ کتب میں لکھا یہ کہ ان کی بڑی دعا تھی کہ وہ طوس کے مقام میں فوت ہوں ایک کشف میں انہوں نے دیکھا کہ میں طوس میں ہی مروں گا پھر وہ کسی دوسرے مقام میں سخت بیمار ہوئے اور زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اپنے شاگردوں کو وصیت کی کہ اگر میں مر گیا تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔انہوں نے وجہ پوچھی تو بتلایا کہ میری بڑی دعا تھی کہ میںطوس میں مروں مگر اب پتہ لگتا ہے کہ وہ قبول نہیں ہوئی اس لئے میں مسلمانوں کو دھوکا نہیں دینا چاہتااس کے بعد وہ رفتہ رفتہ اچھے ہو گئے اور پھر طوس گئے وہاں بیمار ہو کر مرے اور وہیں دفن ہوئے اس لئے مومن بننا چاہئے مومن ہو تو خدا رسوائی کی موت نہیں دیتا اور دل کے خیالات پر مواخذہ نہیں ہوتا جب تک کہ انسان عزم نہ کر لے ایک چور اگر بازار میں جاتا ہوا ایک صراف کی دوکان پر روپوں کا ڈھیر دیکھے اور اسے خیال آئے کاش کہ یرے پاس بھی اس قدر روپیہ ہو اور پھر اسے چرانے کا ارادہ کرے مگر قلب اسے *** کرے اور وہ باز رہے تو وہ گنہگار نہ ہوگا اور اگر پختہ ارادہ کرلے کہ اگر موقع ملا تو ضرور چرالوں گا تو گنہگار ہو گا ئدم ؑ کے قصہ میں بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ولم نج لہ عزما (طہ : ۱۱۶)
یعنی ہم نے اس کی عزیمت نہیں پائی
عصی ادم (طہ : ۱۲۲)
کے معنی ہیں کہ صورت عصیان کی ہے مثلا آقا ایک غلام کو کہے کہ فلاں رستے جا کر فلاں کام کر آئو وہ اگر اجتہاد کرے اور دوسرے راہ سے جاوے تو عصیان تو ضرور ہے مگر وہ نافرمان نہ ہوگا صرف اجتہادی غلطی ہوگی جس پر مواخذہ نہیں۔
خرگوش حلال ہے
پھر کسی نے خرگوش کے حلال ہونے پر حضرت اقدس سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ
اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی۔
حدیث کا مقام
حدیث کے متعلق ہمارا مذہب ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ہو تو اس پر عمل کر لیا جائے جب تک وہ مخالف قرآن نہ ہو۔
پھر سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
امام اعظم علیہ الرحمۃ نے رفع یدین پر کیوں عمل نہ کیا۔کیا اس وقت حدیث کے راوی نہ تھے راوی تو تھے مگر چونکہ یہ سنت اس وقت ان کو نظر نہ آئی اس لئے انہوں نے عمل نہیں کیا۔مولویوں کی بد قسمتی ہے کہ یہودونصاریٰ محرف ومبدل توریت کو لئے پھرتے ہیں اور یہ بجائے قرآن کے حدیثوں کو لئے پھرتے ہیں۔
غیرازجماعت کی نماز جنازہ
نماز جنازہ کا ذکر ہونے پر آپ نے فرمایا کہ
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کُرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جائے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہو تو پھر نہ پڑھنی چاہئے ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہامری جماعت دوسرے غیر ازجماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے
وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم (التوبۃ : ۱۰۴)
اس میں صلوٰۃ سے مراد جنازہ کی ناز ہے اور سکن لھم دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی ہے۔
فلما توفیتنی سے دو فائدے
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
سے دو فائدے ہماری جماعت کو اٹھانے چاہئیں ایک تو یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس میں کہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد میری امت بگڑی ہے جس کی مجھ کو خبر نہیں ہے پس اگر عیسیٰ ؑ ابھی تک فوت نہیں ہوئے تو پھر یہ بیھ مان لینا چاہیے کہ ابھی تک عیسائی صراط مستقیم پر ہیں اور بلحاظ دین کے ان میں کوئی فساد نہیں۔دوسری بات یہ کہ اگر اس آیت کا اطلاق ان پر ان کے دوبارہ آنے کے بعد ہے تو اس صورت میں مسیح ؑ (نعوذ باﷲ) بہت کذاب ٹھہرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال رہے اور اپنی قوم کی بد اعتقادی کی حالت دیکھ کر انہوں نے اس کی اصلاح کی اور صلیب کو توڑا اور خنزیروں کو قتل کیا اور پھر باوجود کامل علم کے خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں کہ مجھ کو خبر نہیں ہے۔
مباحثہ مُدّ کی روئیداد
عصر کی نامز سے پیشتر حضرت اقدس نے مجلس فرمائی سید سرور شاہ صاحب اور عبدال صاحب کشمیری جو کہ موضع مد میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تھے بخیرو عافیت واپس آئے اور حضرت اقدس سے نیاز حاصل کیا اور وہاں کے جلسہ مباحثہ کی تفصیل سنانے لگے حضرت اقدس نے اختصار ان تمام باتوں کا اعادہ فرمایا جو کہ آپ نے سیر میں فرمائی تھیں کہ مباحثہ میں ہماری جماعت کو کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے اور پھر تمام کیفیت مباحثہ سننے کے لئے شام کا وقت مقرر ہوا۔نماز مغرب کے بعد حضرت اقدس نے جلوس فرماتے ہی حکم صادر فرمایا کہ مباحثہ موضع مد کی کاروائی سنائی جائے چنانچہ عبداﷲ کشمیری صاحب سنانے لگے سب سے اول حصرت اقدس کو اس پر کمال افسوس ہوا کہ فریقین نے صرف بیس بیس منٹ اپنے اپنے دعاوی کے متعلق دلائل لکھنے کے لئے قبول کئے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
ایسی صورت میں ہرگز مباحثہ قبول نہیں کرنا چائے تھا یہ تو ایک قسم کا خون کرنا ہے جب ہم مدعی ہیں تو ہمیں اپنے دعاوی کے دلائل کے واسطے تفصیل کی ضرورت ہے جو کہ وقت چاہتی ہے اور جب دلائل لکھے جاتے ہیں تو توجہ ہوتی ہے اس میں فیضان الٰہی ہوتا ہے اس کا ہم کیا وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ کب تک ہو۔
غرضیکہ حصرت اقدس نے اس بات کو بالکل نا پسند فرمایا کہ وقت میں کیوں تنگی اختیار کی گیے پھر عبدال صاحب کشمیری نے وہ تمام تحریریں پڑھ کر سنائیں روئیدار سننے کے بعد حصرت اقدس پھر انہیں امرو کا بار بار اعادہ فرماتے رہے جو کہ سیر میں مناظرہ اور مباحثہ کے متعلق فرمائے تھے تا کہ سامعین کے ذہن نشین وہ باتیں ہو جائیں۔؎ٰ
۲؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ
(بوقت سیر)
مُدّ کے حالاتِ مباحثہ پر تبصرہ
حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی پھر اس مناظرہ کے متعلق حضور نے گفتگو شروع فرمائی جس کی کارروائی گذشتہ شب درج ہو چکی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ :-
آج کل ان مولویوں کا دستور ہے کہ چالیس‘ بچاس جھوٹ ایک دفعہ ہی بیان کر دیتے ہیں اب ان کا فیصلہ تین چار منٹ میں دوسرا فریق کس طرح کرے پادریوں کا بھی یہی طریق ہے۔کہ ایک دم اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں ایسے وقت میں یہ طریق اختیار کرنا چاہئے کہ ایک اعتراض چن لیویں اور اول اس پر فیصلہ کر کے پھر آگے چلیں اور دوسرا اعتراض لے لیں۔اول قواعد مقرر کئے جائیں یہ امر بھی دیکھا جائے کہ منہاج نبوت کو (دوسرا فریق) مانتا ہے یا نہیں۔ اس نے (مولوی ثناء اﷲ) بار بار عبداﷲ آتھم کی پیشگوئی کا تکرار کیا کہ وہ پوری نہ ہوئی۔اگر منہاج نبوت کا فیصلہ اولاً کر لیا جاتا تو اس طرح کا دھوکا وہ کب دے سکتا تھا۔
وعیدی پیشگوئی ٹل سکتی ہے
یونس ؑ نبی کی پیشگوئی موجود تھی اس میں کوئی شرط بھی نہ تھی اور درمنثور میں بھی حدیث ہے کہ یونسؑ نے کہا لن ارجع کذابا یعنی میں جھوٹا کہلا کر واپس نہ جائوں گا۔دیکھو۔اس میں کوئی شرط نہ تھی وعید میں خدا تعالیٰ کو حق لازم نہیں آتا کہ ضرور عذاب نازل کرے۔
دیکھا جاتا ہے کہ جب بلا آتی ہے تو صدقہ خیرات کرنے سے ٹل جاتی ہے صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ ایسی بلا کا قبل ازوقت بیان نہیں ہوتا نہ اس کی کوئی پیشگوئی ہوتی ہے اور پیشگوئی میں بلا کا قبل ازوقت بیان کر دیا جاتا ہے بہر حال وہ بیھ خدا تعالیٰ کے علم میں تو قبل ازوقت ہی ہوتی ہے قرآن شریف میں بار بار ذکر ہے کہ ہم نے فلاں قوم کی ہلاکت کا ارادہ کیا مگر جب انہوں نے توبہ کی تو پھر عذاب ہلاکت ٹل گیا توریت میں بھی ذکر ہے کہ موسیٰ ؑکی دعا سے بار بار عذاب ٹلتا رہا وعید میں تخلف جائز ہے۔اہل کتاب کا کوئی ایسا فرقہ نہیں جو اسے نہ مانتا ہو۔ہندو بھی مانتے ہیں کہ صدقہ سے بلا ٹل جاتی ہے جب ٹل گئے تو پیشگوئی بدل گئے قرآن مجید میں بھی ہے
یصبکم بعض الذی یعدکم (المومن : ۲۹)
یعنی عذابی پیشگوئیوں کا بعض حصہ تو پورا ہو گا اور بعض بوجہ توبہ استغفار ٹل جائے گا۔
نبی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے
منہاج نبوت کو دیکھا جائے تو صریح نظر آتا ہے کہ انبیاء سے اجتہادوں میں غلطیاں ہوئی ہیں جیسے عیسیٰ ؑنے کہا کہ تم ابھی نہیں مرو گے کہ میں واپس آجائوں گا تو یہ ان کا جتہاد تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے آنے سے یہ مراد نہ تھی بلکہ دوسرے کا آنا مراد تھا اور ممکن ہے کہ الیاس کا بھی یہ خیال ہو کہ میں ہی واپس آئوں گا اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کا سفر کیا تو حصرت عمرؓ کو ابتلا آیا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جتہاد اس طرف دلالت کرتا تھا کہ ہم فتح کر لیویں گے مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا اسی طرح ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے سمجھا تھا کہ ہجرت یمامہ کی طرف ہوگی مگر یہ بات درست نہ نکلی کیونکہ یہ آپ کا اپنا اجتہاد تھا کیونکہ خدا تعالیٰ پر لازم نہ تھا کہ ہر ایک باریک امر آپ کو بتلادے پس بحث مباحثہ میں اول مخالف سے منہاج نبوت کو قبول کروا کر اس پر دستخط کروالینے چاہئیں۔
پھر آتھم والی پیشگوئی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
وہاں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ بشرطیکہ حک کی طرف رجوع نہ کرے یہ تو نہیں لکھا کہ بشرطیکہ مسلمان ہو جاوے اس سے پہلے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال لکھ چکا تھا اور یہی وجہ مباحثہ کی تھی پھر جب میں نے پیشگوئی سنائی تو اس نے اسی وقت کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ توبہ توبہ میں تو دجال نہیں کہتا۔
عذابوں کے نزول کی وجہ
یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ صرف عیسائی ہونا یا بت پرست ہونا اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے ایسے عذابوں کے لئے تو قیامت کا دن مقرر ہے عذاب ہمیشہ شوخیوں پر آتا ہے اگر ابو جہل وغیرہ شرارتیں نہ کرتے تو عذاب نازل نہ ہوتا۔نرا باطل مذہب پر پابند ہونے پر نہ کوئی عذاب آتا ہے نہ کوئی پیشگوئی۔ہمیشہ زیادہ شوخیوں پر پیشگوئیاں ہوتی ہیں یہود کو مغضوب علیھم اسی لئے کہا کہ انہوں نے شوخیاں کیں گستاخیاں کیں اور ان پر غضب ورد ہوئے لیکن ضالین کو مغضوب علیھم نہ کہا حالانکہ آخرت میں تو عذاب یہود کو بھی ہوتا ہے اور نصاریٰ کو بھی۔مگر چونکہ انہوں نے شوخی نہ کی۔اس لئے دنیا میں ان پر غضب نازل نہیں ہوا انسان کیسے ہی بت پرست یا انسان پرست کیوں نہ ہو مگر جب تک شرارت نہ کرے عذاب نہیں آتا اگر ان باتوں پر بھی عذاب دنیا ہی میں آجائے تو پھر قیامت کو کیا ہوگا یہودیوں پر عذاب اسی لئے آئے کہ انہوں نے پیغمبروں کو دکھ دیئے ان کے قتل کے منصوبے کئے ان کی گستاخیاں کیں۔کافروں کے لئے اصل زنداں تو قیامت ہی ہے اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر دنیا میں کیوں عذاب آتا ہے تو جواب یہی ہے کہ شوخیوں کی وجہ سے آتا ہے۔
فرمایا-
عوام الناس سے ہمیشہ موٹی موٹی باتیں کرنی چاہئیں خدا تعالیٰ نے جو معجزات نبوت کی جزورکھے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام فائدہ اٹھائیں کیونکہ خواص کے لئے معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی ان کے لئے تو حقائق اور معارف ہی کافی ہیں عوام کو چونکہ یہ معرفت نہیں ہوتی اس لئے ان کے خوش کرنے کو معجزات رکھے گئے ہیں۔
مرکزی اخبارات کو محتاط رہنے کی ہدایت
نماز عصر کے بعد حضرت اقدس نے الحکم اور البدر کے ایڈھیٹروں کو بلا کرتا کید فرمائی کہ وہ مضامین قلمبند کرنے میں ہمیشہ محتاط رہا کریں ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کوئی بات غلط پیرایہ میں درج ہو جاوے یا کسی الہام کے الفاظ غلط شائع ہوں تو اس سے معترض لوگ دلیل پکڑیں اس لئے مناست معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مضامین مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو دکھا لیا کریں اس میں آپ کو بھی فائدہ ہے اور تمام لوگ بھی غلطیوں سے بچتے ہیں۔
مباحثہ مُدّ
نماز مغرب کے بعد حسب دستور جلوس فرماکر مباحثہ موضع مد کے حسن وقبح پر تذکرہ فرمایا
یہ مولوی لوگ عوام کو بھڑکانے کے واسطے عجیب عجیب حیلے گھڑتے ہیں اور حک رسی سے ان کو کوئی کام نہیں ہوتا۔
فرمایا کہ ولد الزنا میں حیا کا مادہ نہیں ہوتا اسی لئے خدا تعالیٰ نے نکاح کی بہت تاکید فرمائی ہے۔؎ٰ
۲؍نومبر ۱۹۰۲ء؁
صبح کی سیر
عربی نویسی میں مقابلہ
اس امر کا تذکرہ تھا کہ بعض نادان ملاں جب ہر طرح مقابلہ سے عاجز آجاتے ہیں اور ان پر اتمام حجت کے لئے کہا جاتا ہے کہ فصیح بلیغ عربی نویسی میں مقابلہ کر لو تو یہ کہہ کر پیچھا چھوڑاتے ہیں کہ ان کتابوں میںغلطیاںہیں حضور نے فرمایا کہ
غلطیاں نکالنے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس میں تویہ امر بجائے خود تنقیح طلب ہے کہ جو غلطی انہوں نے نکالی ہے خدو ان کی اپنی ہی غلطی تو نہیں مولوی محمد حسین صاحب نے جب عجبت لامری پر اعتراض کیا تھا کہ صلہ لام نہیں بلکہ من آتا ہے تو اسے کیسا شرمندہ ہونا پڑا بالمقابل لکھ کر تو بتائیں۔دعوت تو بالمقابل لکھنے کی ہے نہ غلطیاں نکالنے کی اور پھر ایسی حالت میں یہ بہانہ کب چل سکتا ہے جب نکالی ہوئی غلطیوں میں خود ان کی ہی غلطیاں ہو۔ ۲؎
۳؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بورز دوشنبہ
(بوقت سیر)
مباحثات کا طریق
حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے اور سیر کے دوران اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ
مباحثات میں ہمیشہ یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ فریف مخالف اپنی روباہ بازی سے سامعین کو دھوکا نہ دے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سامعین کے باطل عقائد کے موافق یہ لوگ ہماری طرف سے ایسی بتیں ان کو سناتے ہیں کہ جن سے وہ لوگ معاً بھڑک جاویں اور برانکیختہ ہو جاویں ایسی صورت میں پھر خواہ ان کے آگے کچھ ہی کہو وہ لوگ ایک نہیں سنتے جیسے مولوی صاحب نے کل اپنا ذکر سنایا تھا۔
پھر طریق بحث کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
بلاغت کا کمال یہ بیھ ہے کہ ایک بات دوسرے کے دل تک پہنچائی جائے ورنہ اگر کوئی کلام اس قابل ہو کہ آب زر سے لکھا جائے مگر متکلم اسے سمجھ نہیں سکتا تو پھر وہ فصیح نہیں کہلائے گا اس لئے کلام کرنے والے کو یہ تمام پہلو مد نظر رکھنے چاہئیں۔
‏ Noshen -6-04-05
مکذّبوںکے ذریعہ ہی حقائق و معارف کھلتے ہیں
فرمایا : ۔
کافروں کے لئیددرمیانی خوشی ہوتی ہے اور انجام خوشی متقیوںکے لئے ہوتی ہے خداتعالیٰ اگر چاہے تو ایک دم میںسب کاخاتمہ کرسکتا ہے مگروہ رونق چاہتاہے جب تک مکذب نہ ہوں توپھرمصدق کی حقیقت کیامعلو م ہوسکتی ہے مکذبوں کے ذریعہ ہی حقائق ہی ومعارف کھلتے ہیں اور خداتعالیٰ کی محبت اور نصرت کاپتہ ملتاہے اگر ایک شخص کے دل میںاگر ماںکی محبت ہے تواس کاکسی کو علم نہ ہوگامگر جب کوئی اسے ماں کی گالی دے گاتوجھٹاسے غصہ آجائے گااور معلوم ہوجائے گاکہ مان کی محبت اس کے دل میںہے ۔
ایک عِلمی مُعجزہ
فرمایا :۔
ان ہمارے مخالفوںکوغلطیاںنکالنے کو کوئی حق نہیں پنہچتاجب تک وہ اپنا منصب عربی دانی کا ثابت نہ کریں تب تک ان کو غلطی نکالنے کاحق نہیں ہے اعتراض کرنے کے لئے ضروری ہے کے اول زبان پر پورااحاطہ ہواگر ان لوگوں کوعربی زبان کاعلم ہے تو ہم جودس سال سے رسالے لکھ کرمقابلہ کے لئے بلارہے ہیں انہوں نے آج تک دس سطریں ہی دکھائی ہوتیں۔ورنہ جہالت سے تکذب کرنے سے کیابنتاہے یہ خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ لوگ بالمقابل لکھ نہیں سکتے ورنہ املا کرناکیامشکل امر ہے مگر ہمارے مقابلہ میں خداتعالیٰ نے ان کی زبان کو بندکردیا ہے ۔
دل میں بات بٹھانے کے واسطے بھی ایک ڈھب ہوتاہے کیونکہ اب تلوار کی لڑائی توہے نہیں ۔ زبانوں کی ہے اس لئے زبان کی تلوار جب مارے تو اوچھی نہ مارے ۔ایسی خوب مارے کہ دو ٹکرے ہوجائیں میں نے بار ہاارادہ کیا ہے کہ یہ لوگ کبھی مقابلہ پر نہیں آئیں گے کیونکہ کہ ان کے دلوں پررعب پڑگیاہے تواب جب کہ شکار ہمارے نزدیک نہیں آتاتو ہمیں چاہئیے کہ دو رسے بذریعہ بندوق کہ نشانہ بنائیں ۔
مباحثہ مُدّمیں ہماری فتح ہوئی
ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے اور تھوڑی دیر مجلس فرمائی مُدّکہ مباحثہ کاذکر ہوتارہافرمایاکہ :۔
درحقیقت تو ہم نے فتح پالی ہے صرف اتنی بات ہیکہ وہ دیہات کے لوگ تھے ان کوان باریک باتوں کی سمجھ نہیں آئی مجھے خشبو آتی ہے کہ آخر کار فتح ہماری ہے دسمبر کہ آخر تک جو نشان ظاہر ہونے والے ہین شاید یہ بھی ان میں سے ایک عظیم الشان نشان ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے جیساکہ فرمایا
والعاقبۃللمتقین (القصص : ۷۴)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرہ برس تک مکروہات ہی پہنچتے رہے ۔
عصر کی نماز کے لئے تشریف لائے تو اسوقت بھی مباحثہ مد کے متعلق ہی ذکر فرماتے رہے حضور نے فرمایاکہ
خداتعالیٰ کے بر گزیدوں کی یہ عجیب حالت ہوتی ہے جب ایک بات کی طرف توجہ ہوجائے تو پھر رات دن اسی کی توجہ رہتی ہے گویا کہ بالکل اس میںمستغرق ہیں اوردنیا مافیہماکی خبر نہیں ۔
مہمان تکلف نہ کیاکریں
بعد نماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول جلوس فرماہوئے تو میر صاحب نے عبدالصمد صاحب آمدہ از کشمیر کوآگے بلاکرحضور کے قدموںکے نزدیک جگہ دی اورحضرت اقدس سے عرض کی کہ ان کویہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں ۔ اوریہاں روٹی ملتی ہے ۔ حضرت اقدس نے فرمایا
اللہ تعالیٰ فرماتاہے
وماانامن المتکلفین ( ص : ۸۷ )
ہمارے مہمانوںمیں سے جوتکلف کرتاہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جوضرورت ہو کہہ دیاکرو۔پھر آپ نے حکم دیاان کے لئے چاول پکوادیاکرو ۔
مباحثہ مُدّ کاذکر
پھر حضرت اقدس مباحثہ مدکاذکر فرماتے رہے حضور نے فرمایاکہ
اس دن ہم نے سمجھاتھاکہ یہ مباحثہ کی کاروائی الحکم وغیرہ میں نہ چھپے مگر خداکویہ منظو ر نہ تھا۔
سرسَیّدکایورپ کی طرف مَیلان
سید احمد صاحب کے یورپ کی طلرف میلان پر فرمایاکہ
انسان جس شیئے کی طرف پوری رغبت کرتا ہے تواپھر اسی کی طرف اس کامیلان طبعی ہوجاتاہے اورآخر کار وہ مجبور ہوتا ہے ۔
ڈوئی کاذکر ہ
پھر ڈوئی کااخبار مفتی محمد صادق صاحب سناتے رہے حضرت اقدس نے فرمایاکہ
اس لئے سنتے ہیں کہ کہیں غیرت آجاتی ہے اور بعض اوقات کوئی عجیب تحریک ہو جاتی ہے ۔
ایک ایک حَرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتاہے
اس کے بعد ذکر چل پڑا کے کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے حضرت اقدس کوتمام مقابلہ کہ تحریروں میں مدددیتا رہا کہ اکثراوقات حضرت اقدس بیمار تھے اور میعاد و مقابلہ نزدیک آگئی تو پھر اسی حالت میں بڑی سختیوں سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر کتابیں لکھیں حضور نے فرمایا کہ
میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خداتعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بار بار میںلکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خداکی روح ہے جو تیررہی ہے قلم تھک جایاکرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے
ڈوئی کاذکر
پھر ڈوئی کی کسی بات پر فرمایا
اس کے وجود سے شیطان کاوجود ثابت ہوتاہے وہ بھی انسان کواسی طرح فریفتہ کرتاہے ۔ ۱؎
۴؍نومبر ۱۹۰۲ ء ؁بروزسہ شنبہ
(بوقت سیر)
علاقہ جہلم سے دو شخص بہت ضعیف العمر حضرت اقدس کی زیارت کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے بوجہ ضعیف العمر کے وہ چل نہیںسکتے تھے حضرت اقدس ان کی خاطر ٹھہر گئے اوران کے حالات دریافت فرماتے رہے۔
آیت مَاذَآاُجَبْتُمْ قَا لُوْلَاعِلْمَ لَنَا کی تفسیر
پھر حضور مشرق کی طرف سیر کو چلے سید سرور شاہ صاحب نے حضرت اقدس سے سوال کیاکہ قرآن شریف معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے دن ہر ایک رسول اپنی امت کاحالات سے لاعلمی ظاہر کرے گا جیسے قرآن شریف ہے
یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذاجبتم قالو لاعلم لنا (المائدہ : ۱۱۰)
تو پھراس آیت کے مفہوم کے مطابق اگر مسیح بھی اپنی امت کے حالات سے لاعلمی ظاہر کریں اگر چہ وہ زمانہ میں پھر چالیس برس ان لوگوں میں گذار بھی جائیں توآیت
فلما تو فیتنی
کے لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے رو برو کاذب کیسے ٹھہر سکتے ہیں ؟حصرت اقدس نے فرمایاکہ
یہ لاعلمی انبیاء کی ان کی اس امت کے بارے میں ہوتی ہے جو وہ ان کی وفات کے بعد ہوتی مسیح بھی کہتاہے
کنت علیہم شھیدمادمت فیھم (المائدہ : ۸ ۱۱)
تو پھر ان کو علم نہیں تو وہ شہید کس طرح ہوئے اور کس بات کے ہوئے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حالات سے لاعلمی ظاہر کر سکتے ہیںمگر صحابہ کرام کی نسبت نہیں کر سکتے کیونکہ آپؐ کوان کی حالات معلوم تھے اورآپؐ ان میں رہتے تھے اس قسم کی لاعلمی مرادہے یعنی اس امت کاذکر جو کہ نبی کے بعد آیاکرتی ہے یابہت آخری وقت پر آتی ہے اسے نبی کی صحبت سے کچھ حصہ نہیںملتا ۔
ایک تعبیر
پھر ایک صاحب نے جوخوا ب سنایا کہ میں رات کوہاتھی خواب میں دیکھااوریہ کہ حضرت اقدر اس کے سر کو تیل لگارہے ہیں حضرت اقدس نے تعبیر بیان فرمائی کہ
رات کے وقت ہاتھی دیکھنابہت عمدہ ہوتاہے اورتیل لگانابھی زینت ہے یہ اچھا ہے ۔
مرکزسے عربی رسالہ جاری کرنے کی خواہش
حضرت اقدس کے گذشتہ ایماپر عبداللہ صاحب نے کشتی نوح کے چند ورق کاجوترجمعہ عربی زبان میںکیاتھاوہ حضرت اقدس کوسناتے رہے حضرت اقدس نے فرمایا
اگریہ مشق کر لیںکہ اردو سے عربی اورعربی سے اردوترجمعہ کر لیاکریں تو ہم ایک عربی پرچہ یہاںسے جاری کر دیں۔
شرم
پھر شرم کے ذکر پرفرمایاکہ
ایک شرم انسان کودوزخ میں لے جاتی ہے اور ایک شرم جنت میں لے جاتی ہے جو شخص شرم کی وجہ سے اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتااس کے لئے شرم دوزخہے ۔ج
مولویوں کی حالت
پھر آج کل کے معترض مولویوںکی حالت پر فرمایا کہ
ان لوگوں نے بالکل پادریوں کاڈھنگ اختیار کیاہواہے جیسے وہ جب ملتے ہیں تو سب کچھ چھوڑ چھاڑکر آنحضر ت ﷺپر سب وشتم شروع کر دیتے ہیں اسی طرح یہ لوگ ہمارے سلسلہ میںکرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی تماشہ دیکھ رہاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںبھی کفار کیاکچھ نہ کرتے تھے اگر خداتعالیٰ چاہتاتواسی وقت کفارکوتباہ کردیتامگر اس نے ایسانہ کیا کچھ عرصہ ان کی ناز برداری کرتا رہا۔
ایک پیشگوئی کاپوراہونا
پھرسید سرور شاہ صاحب سے حضرت اقدس کچھ گفتگوان کے سفر امر تسر کے متعلق کرتے رہے ایک مقام پر فرمایا کہ
ہم نے مالی انعامات دے دے کر ان لوگوں کو اپنے مقابلہ میں بلایامگر نہ آئے مگرہم دینے سے تھکے نہیں ابھی اور دیں گے اور اگروہ اسے قبول نہ کریں گے تو وہ اپنے ہاتھوں سے ایک اور پیشگوئی ہمارے حق میں پوری کر دیں گے وہ یہ کہ حدیث شریف میں ہے کہ مسیح موعود مال سے گااوروہ لوگ نہ لیں گے تو اگر انکار کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کو پوراکرتے ہیں۔
مذہبی گفتگوکاطریق
فرمایا:۔
گفتگو ئیں ایسے طریق پر ہونے چاہئیںجہاں رؤساء بھی جلسہ میں ہوں اورتہذیب اورنر م زبانی سے ہر ایکبات کریں کیونکہ دشمن جب جانتاہے ہے کہ محاصرہ میں آگیا تو وہ گالی اوردرشت زبانی سے پیچھاچھڑاناچاہتاہے طالب حق بن کر ہر ایک کو بات کرنی چاہئیے اوریہ امر سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے
کتب اللہ لاغلبین اناو رسلی (المجادلہ : ۲۲)
اگر ہم حق پر نہیں تو ہم ایک غالب نہ ہوں گے ہم نے ان کو کئی بار لکھا ہے کہ سب متفق ہوجائیں کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہم ہماری طرف سے ان کواجازت ہے ان تمات مولویوں میںسے بہت ایسے ہیں کہ عربی لکھتے ہیں بلکہ اشعار بھی کہتے ہیں مگر ہمارے مقابل پر خداتعالیٰ ان کی زبان بندکر دیتاہے اوران کوایساامر پیش آتاہے کہ چپ رہ جاتے ہیں ۔
مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس حسب دستورشہ نشین پر جلوہ گر ہوئے سیدعبداللہ عرب صاحب نے ایک رسالہ ایک شیعہ علی حائری کے ر دمیں عربی زبان میں لکھا تھاجس کانام سبیل الرشاد رکھاحضرت اقدس کوسناتے رہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی کرتے جائو تاکہ تم کومشق ہو مگر عرب صاحب کوجرات نہ ہوئی کہ اتنی مجلس میںترجمہ ٹوٹے پھوٹے اردو میں سنادیں اس رسالہ میں ایک مقام پر حضرت اقدس نے فرمایاکہ
مسیح کے بارہ میں یہود کاموقف
مجھے اس جگہ ان کے الفاظ سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ یہود لوگ حضرت مسیح علیہ السّلام کودو وجہ سے ملعون ٹھہراتے تھے ایک ان کوولد الزناکہہ کر ا۔ دوسرامصلوب ہونے کابھی ذَبّ کرتا۔ جسم کے ساتھ آسمان پر جاناتوایک الگ تھلگ امر ہے اول ذَبّ دلالت کرتاہے کہ دوسرابھی ذَبّ ہو
اولاد الشیطان
پھریہ بات ہوئی کہ اہل شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ ولدالزناکی توبہ ہرگزقبول نہیں ہوتی اگرچہ وہ حسین ؑ اوربارہ اماموںکی بھی محبت رکھتاہو۔
حضرت قدس نے فرمایاکہ
توریت میں بھی ایسے ہی لکھاہے اوراس لئے وہ مسیح کوملعون کہتے تھے اس بات کی اصل قرآن شریف میں بھی ہے کہ اخداتعالیٰ نے اس میں تخصیص کی ہے ایک اولاد الرحمان اورایک اولاد الشیطان۔ کیونکہ جب شیطان نطفہ میں شریک ہوگیا توپھر اس کے قویٰ میں یہ بات جزو کہ آگئی ۔
ایک مقام پر ہے
بعدذلک زنیم (القلم: ۱۴)
یعنی یہ ولدالزناہے اورتجربہ بتلاتاہے کہ ولدالزناشرارت سے بازنہیں آیا کرتے ۔
وَمَاقَتَلُوْہُ
پھراس رسالہ میں
ماقتلوہ (النساء:۱۵۸)
کہ لفظ پر حضرت اقدس کویہ تحریک ہوئی کہ
ماقتلوہ
سوال ہوتاہے کہ یہودکیوں قتل کرتے تھے ان کی کیاغرض تھی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
بل رفعہ اللہ الیہ ( النساء : ۱۵۹)
‏Amira 6-4-05
یعنی قتلنا سے ان کی مراد لعنا تھی۔
ایک لطیف نکتہ
اہل عرب میں چونکہ ایک ہزار سے آگے شمار نہیں ہے حضر ت اقدس نے اس پر فرمایا کہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا میلان دنیا کی طرف نہ تھا ورنہ دوسری دنیا دار قوموں کی طرف لاکھوں کروڑوں تک گنتی وہ بھی رکھتے۔
وہ رسالہ سن کر حضرت اکدس نے تعریف کی کہ
عمدہ لکھا ہے اور معقوم جواب دئیے ہیں۔؎ٰ
۵؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
(بوقت سیر)
خاتمہ بالخیر چاہیئے
حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے۔ئتے ہی قاضی میر حسین صاحب مدرس عربی مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے والد ماجد مسمی غلام شاہ صاح تاجر اسپاں سے ملاقات ہوئی انہوں نے حصرت اقدس کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور نذر پیش کی حضرت اقدس ان کے حالات دریافت فرماتے رہے معلوم ہوا کہ آپ کی اسی سال سے زیادہ عمر ہے انہوں نے درخواست کی میرے خاتمہ بالخیر کی دعا فرمائی جاوے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
بس یہی بڑی بات ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو کسی نے نوحؑ سے دریافت کیا تھا کہ آپ تو قریب ایک ہزار سال کے دنیا میں رہ کے آئے ہیں بتلائیے کیا کچھ دیکھا۔نوحؑ نے جواب دیا کہ یہ حال معلوم ہوا ہے کہ جیسے ایک دروازے سے ئئے اور دوسرے سے چلے گئے تو عمر کا کیا ہے لمبی ہوئی تو کیا تھوڑی ہوئی تو کیا خاتمہ بالخیر چاہئے۔
پھر ایک بڑکے درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ
ہم سے تو یہ درخت ہی اچھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اس کے تلے ہم کھیلا کرتے تھے یہ اسی طرح ہے اور ہم بڈھے ہو گئے ہیں یہ سال بہ سال پھل بھی دیتا ہے۔
مباحثہ مُدّ کسی فتح کی بنیاد نظر آتا ہے
محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے عرض کیا کہ حضور موضع مد کے مباحثہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب تمہاری آنکھیں کیوں نہیں اچھی کر دیتے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
جواب دینا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا تھا جیسے قرآن مجید میں لکھا ہے
عبس وتولی۔ان جاء ہ الاعمی۔ (عبس : ۲-۳)
وہ کیوں نہ اچھا ہوا حالانکہ آپ تو افضل الرسل تھے اور بھی اندھے تھے ایک دفعہ سب نے کہا کہ یا حضرت ہمیں جماعت میں شامل ہونے کی بہت تکلیف ہوتی ہے آپ نے حکم دیا کہ جہانتک اذان کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کے لوگوں کو ضرور آنا چاہئے۔
فرمایا-
شریر آدمیوں کا کام ہے کہ آنکھ‘کان‘ٹانگ وغیرہ کاٹ کر پھر کلام کو ایک مسخ شدہ صورت میں پیش کرتے ہیں یہ مباحثہ بھی ہمارے لئے ایک فتح حدیبیہ کی صلح کی طرح کسی فتح کی بنیاد ہی نظر آتا ہے۔
جماعت کا اخلاص
پھر فرمایا کہ:
ہماری جماعت جان و مال سے قربان ہے اگر ہمیں ایک لاکھ کی ضرورت ہو تو وہ مہیا کر سکتے ہیں اول بار عوام الناس نے علمی باتوں کو نہ سمجھا اس لئے اب اﷲ تعالیٰ نشانوں سے سمجھاتا ہے۔
مولویوں کی حالت
زمانہ کے مولویوں کی حالت پر فرمایا کہ:
ایسے مولویوں کے ہوتے ہوئے دین کے استیصال کے پادریوں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
نبی سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے
پھر اعتراضون پر فرمایا
کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ ہم پر وہ تیکس لگاتے ہیں جو اول انبیاء کو معاف کرتے ہیں ان سے بھی اجتہاد غلطیاں ہوتی رہیں۔ہاں وحی میں غلطی نہیں ہوتی پھر اگر اجتہاد کو بھی غلطی سے مبرا خیال کرتے ہیں تو وہ اجتہاد کیوں نام رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ کو کھجوروں کے درختوں کے متعلق کچھ ہدایات دیں پھر جب نتیجہ وہ نہ نکلا تو آپؐ نے فرمایا کہ
انتم اعلم بامور دنیا کم
تو کیا اس سے آپ کی نبوت میں کوئی فرق آگیا ہے؟ اول ان سے پوچھا جائے کہ وہ کہاں تک اجتہاد میں معصومیت روا رکھتے ہیں۔
عربی کا ترجمہ آسان کام نہیں
ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو عربی زبان کی ھصاخت و بلاغت کا ذکر ہوتا رہا ماحصل یہ تھا کہ عربی زبان کا ترجمہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے بعض وقت ایک لفظ کے معنے ایک ایک سطر میں جا کر پورے ہوتے ہیں اور اس کا ترجمہ کرنا بھی ایک معجزہ ہوتا ہے۔
طاعون کا ٹیکہ
عصر کے وقت حضرت اقدس نے تشریف لا کر خبر سنائی کہ
گوجرانوالہ سے ایک کارڈ آیا ہے جس میں خبر ہے کہ ٹیکہ کا عمل گورنمنٹ نے بند کر دیا ہے اس خبر کی تصدیق یہاں بھی ہوئی ہے لالہ شرمپت میرے پاس آئے تھے انہوں نے کہا کہ گورداسپور میں بھی ٹیکہ کے جلسے بند ہو گئے ہیں اور دوائی ٹیکہ تمام واپس منگوائی گئی ہے۔
دیہات کیلئے منظوم پنجابی لٹریچر کی ضرورت
بعد نماز مغرب مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے ایک پنجابی نظم سنانے کی درخواست کی جس میں انہوں نے الفاظ بیعت اور شرائط بیعت کو منظوم کیا ہوا تھا جب وہ سنا چکے تو حصرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
پنجابی نظموں کا ایک مجموعہ تیار کر کے چھاپا جاوے اور یہ گائوں بہ گائوں لوگوں کو سناتے پھریں تا کہ خلق خدا کو ہدایت ہو تو یہ بہت مفید ہو۔
کتب’’کشتی نوح‘‘اور اخبارات
پھر کشتینوح پر اخباروں کے ریمارک کی نسبت فرمایا کہ
اول اخباروں نے کیسی مخالفت کی کہ گویا ہم نے گورنمنٹ کی راہ میں پتھر ڈال دیئے ہیں۔لیکن سول ملٹری گزٹ کی تعریف کی کہ اس نے کوئی چنداں مخالفت ہماری اس امر میں نہیں کی اور نہ بے ادبی کا طریق اختیار کیا۔معلوم ہوتا ہے یہ لوگ گورنمٹ کے بڑے مزاج دان ہوتے ہیں گورنمنٹ کے لئے رعایا مثل بچوں کے ہے ایک ماں کی طرح حد انسانیت تک خبر گیری ضروری ہے اگر یہ بات ثابت ہو گئے کہ ٹیکہ سے کوئی مفید تجربہ حاصل نہیں ہوا تو پھر طاعون کا کوئی علاج نہیں ئخر نظر آسمان کی طرف ہونی چاہئے خدا نے قوموں کو سزا دینے کے لئے اسے رکھا ہے توریت میں بھی اس کا ذکر ہے قرآن مجید میں بھی ہے بلکہ قرآن مجید میں تو چوہوں کا بھی ذکر ہے خدا کی عجیب قدرتوں کے دن ہیں جو قسمت والے ہوں گے وہ خدا پر ایمان لاویں گے۔
صحابہؓ کا زُہد
پھر عبد اﷲ عرب صاحب اپنی تصنیف رد شیعہ ہمیں سناتے رہے ایک مقام پر حصرت اقدس نے فرمایا کہ:-
صحابہ کرامؓ کو جو برابر بھی دنیا کی خواہش نہ تھی ان کا مدعا یہ تھا کہ خوں بہا کر بھی رسول اﷲ کے پیرو بن جاویں۔
پھر ایک مقام پر فرمایا کہ
سر الشہادتین (کتاب) میں میں نے ایک دفعہ پڑھا کہجب مسلم (امام حسین؎ٰ) دروازہ کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے یہ آیت پڑھی
ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین (الاعراف:۹۰)
اور اسی وقت ان کا سر کاٹا گیا یہ بات مجھ کو بڑی بے محل معلوم ہوئی۔
پھر عبد ال عرب صاحب اپنے تقیہ کے حالات سناتے رہے پھر انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اس گند سے ان کو نجات دی۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے جب تک انسان کی آنکھ نہ کھلے انسان کیا کر سکتا ہے۔ ۲؎
۶؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بورز پنچشنبہ
بعد نماز مغرب حضرت اقدس ؑشہ نشین پر جلوہ گر ہوئے فرمایا :-
آج میں نے کام میں بہت توجہ کی۔سر میں درد تھا ریزش بھی ہے اور گلا بھی پکا ہوا ہے جیسے کسی نے چیرا ہوا ہو۔اور مریض بھی بہت آئے اگر چہ حکیم نورالدین صاحب کو علاج کے لئے مقرر کیا ہوا ہے مگر بعض اپنے اعتقاد کے خیال سے مجھ سے ہی علاج کراتے ہیں۔
دنیا کی بے ثباتی
پھر دنیا کی بے ثباتی پر فرمایا کہ
چند روزہ زندگی ہے۔اس کا نظارہ کیا ہے۔کون ہے جو اپنے خویش واقارب کی موت کا نظارہ نہیں دیکھتا۔
اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو بے ثبات کر رکھا ہے جو آیا ہے اس کے اوپر جانا سوار ہے ہزار دو ہزار برس کی عمر ہوتی تب بھی کیا ہوتا۔مگر انسان کی عمر تو چیل اور گدھ جتنی بھی نہیں ہے اگریہ مضمون دل کے اندر چلا جائے تو اس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ ابراہیم ادھم اور شاہ شجاع وغیرہ پر ایسا اثر پڑا کہ اپنے اپنے تختوں سے نیچے اتر پڑے۔؎ٰ
۷؍نومبر ۱۹۰۲ء؁
بٹالہ کا سفر
بعد نماز فجر حضرت اقدس ؑبٹالہ جانے کے لئے تیار ہوئے ہر ایک شخص حضور کے ہمراہ جاتے کے لئے بے قرار تھا۔حصرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:-
چونکہ آج ہی واپس آجانا ہے اس لئے کوئی ضروری نہیں کہ سب لوگ ساتھ جاویں۔
آپ نے ایک اور طالب علم کو جو پاپیادہ ہمراہ تھا فرمایا:-
تم کو تو یونہی تکلیف ہوئی تھوڑی دیر شاید ٹھہرنا ہو گا سھر کی کوفت میں تم خواہ مخواہ ہمارے شریک ہو گئے۔ ۲؎
ایک نو مسلم کو نصیحت
بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ
ان کے حق میں دعا کیا کرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پرہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیّز شخص ہوتا ہے ساید خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔اسلام والدین کی خدمت س ینہیں روکتا۔دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرماں برداری کرنی چاہئے دل و جان سے ان کی خدمت بجالائو۔
بٹالہ کے سفر کے دوران
زندگی کا بھروسہ نہیں
راستہ میں مولوی قطب الدین صاحب سے ملاقات ہوئی۔جو کہ شاہ پور کی طرف ایک مریض کے علاج کے لئے گئے تھے مگر وہ مریض ان کے پہنچنے پر فوت ہو گیا یہ سن کر حضرت اقدس نے فرمایا انسان کا کیا ہے زندگی کا بھروسہ نہیں جہاں تک ہو سکے آنے والے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہونا چاہئے ساری بیمریوں کا علاج ہے مگر یہ موت ایسی بیماری ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں۔؎ٰ
بٹالہ پہنچ کر اس باغ میں جو کچہری کے سامنے ہے دیرا کیا اور حوائج ضروریہ کے بعد کاغذ طلب کیا۔فرمایا کہ راہ میں چند شعر کہے ہیں ان کو لکھ لوں چنانچہ مفتی صاحب نے اپنی نوٹ بک پیس کی اور آپ لکھنے لگے۔کھانا ساتھ ہی تھا حکم دیا کہ پہلے کھانا کھا لیا جاوے
منشی محمد یوسف صاحب اپیل نویس مردان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ
آپ ایک دینی جہاد کر رہے ہیں اﷲ تعالیٰ اس کی جزادے گا۔ ۲؎
میں نے ایڈیٹر الحکم کو حکم دیا ہے کہ وہ سارا مباحثہ الخکم میں چھاپ دیں جو زائد کا پیاں آپ کو مطلوب ہوں ان سے لے لیں زائد اخراجات آپ کو برداشت نہ کرنے پریں گے اور ثواب بھی ہو گیا
اور فرمایا کہ
آپ دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ جلدی اس سلسلہ کو پھیلا رہا ہے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس سلسلہ کو دنیا میں پھیلائے۔
ضمناً فرمایا کہ:-
کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے یہ خد اکا فعل ہے اور عجیب۔یہ خد اکا نشان اور اعجاز ہے۔
مسیح ناصریؑ کے متعلق صحابہ کرامؓ کا عقیدہ
فرمایا :-
یہ صحیح نہیں ہے کہ صحابہؓ حضرت مسیح کی اس شان کے قائل تھے جو خدائی کے ناواقف مسلمانوں نے ان کی بنا رکھی ہے اگر وہ مسیح کو اسی شان سے مانتے کہ وہ حقیقی مردے زندہ کرتے تھے اور حی وقیوم تھے تو ایک بھی مسلمان نہ ہوتا اور اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ان کی صفات کو یقین کرتے تو وہ اخلاص اور وفاداری ان میں پیدا نہ ہوتی۔
حضرت مسیح علیہ السلام پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا احسان
فرمایا:-
حضرت عیسیٰ ؑپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپؐ نے ان کا تبریہ کیا اور ان الزاموں سے پاک کیا جو ان پر ناپاک یہودی لگاتے تھے جو یہودی مسلمان ہوتا تھا کتنی بڑی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی رسالت کا اسے پہلے اقرار کرنا پڑتا ۔؎ٰ
فرمایا:-
عیسائی مذہب ایسا ہے کہ اس کو پیدا ہوتے ہی صدمہ پہنچا جیسے کوئی لڑکی پیدا ہوتے ہی اندھی ہو ایسا ہی اس مذہب کا خال ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کیا اور اس کو پاک کیا۔
نبی کا ہر سفر حکمتِ الٰہی پر مبنی ہوتا ہے
بٹالہ آنے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ
ہمارا یہاں آنا تو کوئی اور ہی حکمت رکھتا ہے ورنہ یہ شہادت کیا اور شہادت بھی لا علمی کی۔ ؎ٰ
اس پر آپ نے فرمایا کہ:-
دو بزرگ ابوالقاسم اور ابو سعید نام تھے۔اتفاق سے دونو ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ان کے ایک مرید نے کہا کہ میرے دل میں ایک سوال ہے اتفاس سے دونو ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ پیش کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مدینہ میں آئے تھے اس کی وجہ کیا تھی؟ ابوالقاسم نے کہا کہ بات اصل میں یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض کمالات مخفی تھے ان کا بروز اور ظہر وہاں آنے سے ہوا۔
ابو سعید نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے وہاں آئے تھے کہ بعض ناقص ۲؎ ابھی موجودتھے ان کی تکمیل کے لئے آئے۔
گویا دونو نے اپنے اپنے رنگ پر اپنی انکساری کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کی تکریم کی اسی طرح ہمارے یہاں آنے کی غرض تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ میاں نبی بخش سے ملاقات ہو گئی کچھ تبلیغ ہو جائے گی بہت لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا۔
شہادت کا چھپانا گناہ ہے
شہادت کے تذکرہ پر فرمایا کہ
شہادت کا چھپانا گناہ ہے اور جب سر کار بلائے تو ضرور حاضر ہونا چاہئے شہادت سے جب کسی کی بھلائی ہو اور حق کھل جاوے تو کیوں ادا نہ کرے۔ہر جگہ جو انسان قدم رکھتا ہے اس میں خدا کی حکمت ہوتی ہے زمین پر کچھ نہیں ہوتا جب تک آسمان پر تحریک اور مقدّر نہ ہو۔ ۳؎
ایک سائل نے آکر کچھ مانگا آپ نے میر صاحب کو حکم دیا کہ اس کو کچھ دے دیں اور جو آجائیں ان کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو۔
عیسائیوں سے مباحثات
ایک مولوی صاحب جو عیسائیوں سے مباحثات کے بہت شائق تھے انہوں نے حضور کا نیاز حاصل کیا حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:-
اب آپ لوگوں کے وہ پرانے ہتھیار کام نہیں دیتے وہ کند ہو گئے ہیں اور ان سے اسلام کو الٹا ضرر پہنچتا ہے انتیس لاکھ کے قریب مسلمان مرتد ہو چکے ہیں۔
فرمایا:
مباحثات کااثر بحیثیت مجموعی دیکھناچاہے فرداً فرداً کچھ پتہ نہیں لگاکرتا۔
منشی نبی بخش صاحب نے ایک عیسائی کاسوال پیش کیاکہ وہ
ماجعلنا لبشر من قبلک الخلد ( الانبیاء : ۳۵)
سے مسیح کی الوہیت ثابت کرتے ہیں۔
عیسائی لوگ اس آیت سے استدلال کر کے ان لوگوں کے سامنے الوہیت مسیح ثابت کرتے ہیں جس کاان لوگوں سے کچھ جواب بن نہیں آتا ۔عیسائی اس آیت سے مسیح سے علیہ السلام کو بشریت سے الگ کر کے ان کوقائل کرتے ہیں جب وہ زندہ آسمان پر ہیں تو بہر حال الوہیت کے رنگ میںہیں اگر مسیح علیہ السلام بشر ہوتے توفوت ہوگئے ہوتے ۔
فرمایا:۔
یہ سوال توان کابڑامعقول ہے ان مولویوں کوچاہئے کہ اس کاجواب دیں اب دیکھئے کہ مسلمانوںکے دو چارجلسوں میں یہ سوال پیش ہوااور مولوی اس کہ جواب میں ساکت رہیں اورقاصر رہیں توپھر اسلام کی ذریت پر کیااثر پڑسکتا ہے ایسے سوالوں کے بعد اگر مسلمان مرتد نہ ہوں تو کیا کریں ؟
اس کے علاوہ ان لوگوں کے ایسے عقیدے ہیں کہ اگر ان کاعیسائیوں کوپتہ لگ جائے توبحث کرنے کو ڈنکے کی چوٹ بلائیں یہ لوگ تو خطرناک ہیں ان لوگوں نے اگر مسیح ؑکو خدا نہیں بنایا توخدابنانے میں کوئی کثر بھی نہیں چھوڑی ان لوگوں کاتو وہی حال ہے جس طرح کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص مرا تو نہیں ۔ہاں مگر اس کی نبض بھی نہیںچلتی سانس لیتاپیٹ بھی پھول گیا ہے حرکت بھی نہیںکرتا غرض ساری علامات مردوں کی ہیں مگر مرانہیں ۔یہی ان لوگوں کاحال ہے کہ مسیح کوخدانہیں کہتے مگر خدائی کی ساری صفات کوان میں جمع کر دیتے ہیں ان عیسائیوں کاہم کیارد کریں ہمارے تو یہ اندر ونی عیسائی ہی امت پر چھری چلارہے ہیں ۔ ۱؎
الحکم درج ہے فرمایاکہ
بے شک ان لوگوں پر جومسیح کوزندہ آسمان پر بیٹھاتے ہیں یہ سوال بڑامعقول ہے انسان اپنے اقرار
سے پکڑتاجاتاہے ان مسلمانوں نے خود اقرار کر لیا ہے کہ مسیح زندہ ہے اورآسمان پر بیٹھا ہے اور ایساہی اس کے معجزات خالق طیور ہونابہت سی باتیں ہیں جن سے عیسائیوں کو مدد ملی ہے ہم عیسائیوں کو کیا روئیں ہمارے گھرمیں خود یہ مسلمان اسلام پر چھری چلا رہے ہیں ۔
الہام اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ کے معنی
لالہ کاہن چند صاحب مختار عدالت بٹالہ ( جو توحید پسند ہندو ہیں ) نے آپ سے الہام اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَامِنْکَ کی تشریح وتفسیر کے متعلق سوال کیا۔
فرمایا:۔
اس کاپہلا حصہ تو بالکل صاف ہے کہ تو جو ظاہر ہو۔ یہ میرے فضل اور کرم کانتیجہ ہے جس انسان کوخداتعالیٰ مامور کر کے دنیامیں بھیجتاہے اس کواپنی مرضی اور حکم سے مامور کر کے بھیجتا ہے جیسے حکام کابھی یہ دستور ہے اورقاعدہ ہے
اب اس الہام میں جو خداتعالیٰ فرماتاہے اَنامَنْکَ اس کایہ مطلب اور منشاء ہے کہ میری توحید میرا جلال اور میری عزت کا ظہور تیرے ذریعہ سے ہوگا ایک وقت آتا ہے کہ زمین فسق وفجور اورشر و فساد سے بھر جاتی ہے کوگ اسباب پرستی میں ایسے فنا اور منہک ہوتے ہیں کہ گویا خداکانام و نشان بھی نہیں ہوتا ۔
ایسے وقتوں میں خداتعالیٰ اپـنے اظہار کے واسطے ایک بندہ اپنی طرف بھیج دیتا ے ہندؤں نے جواوتار کامسئلا مانا ہے یہ بھی اسی کاہمرنگ ہے گویا خداتعالیٰ ان کامجازی طور پر بولتا ہے ۔
اس زمانہ میں اسباب پرستی اور دنیا پرستی اس طرح پھیل گئی ہے خداتعالیٰ پر بھروسہ اورایمان نہیں رہا اور الہاد کو زور ہے جو کچھ حالت اس وقت زمانہ کی ہورہی ہے اس پر نظر کر کے کہناپڑتا ہے کہ زمانہ بزبان حال پکار رہاہے کہ کوئی خدانہیں ۔
عملی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ کھلی بے حیائی اور فسق وفجور بڑ ھ گیا ہے یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ دلوں سے خداتعالیٰ پر ایمان اوراس کی ہیبت اٹھ گئی ہے اور کوئی یقین اس ذات پر نہیں ۔ ورنہ کیا بات ہے کہ اگر انسان کومعلوم ہوجاوے کہ اس سو راخ میں سانپ ہے ۔تووہ کبھی بھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا پھر یہ بے حیائی اور فسق وفجور۔اتلاف حقوق جوبڑھ گیا ہے کیا اس سے صا ف معلوم نہیں ہوتاکہ خداتعالیٰ پر ایمان نہیں رہا ۔ یا یہ کہوکہ خداگم ہوگیا ہے اس وقت خداتعالیٰ اپنے ظہور کا ارادہ فرمایا اور مجھے مبعوث کیا اس لئے مجھے کہا اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ ۔
اوراس کے یہی معنے ہیں کہ میراجلال اور میری توحید و عظمت کاظہور تیرے ذریعہ ہوگا چنانچہ وہ نصرتیں اور تائیدیں جواس نے اس سلسلہ کی کی ہیں اورجونشانات ظاہر ہوئے ہیں وہ خداتعالیٰ کی ہستی اس کی توحید اور عظمت کا اظہار کے ذریعے ہیں
یہ امر کوئی ایساامر نہیں کہ مشتبہ یا مشکوک ہو بلکہ تمام مذاہب میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے سمجھاجاتاہے یہ وہ وقت ہوتاہے جب اس کی ہستی اورتوحید اور صفات پر ایمان نہیں رہتا اورعملی رنگ میں دنیا دہریہ ہوجاتی ہے اس وقت جس شخص کوخداتعالیٰ اپنی تجلیات کامظہر قرار دیتا ہے وہ اس کی ہستی ، توحید اورجلال کے اظہار کاباعث ٹھہرتا ہے اوروہ اَنَامِنْکَ کامصداق ہوتاہے
اگر کوئی کہے کہ خداتعالیٰ کی کسی ذریعہ کی کیاضرورت ہے ؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ سچ ہے اس کوکوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مگراس نے اس عالم اسباب میں ایسا ہی پسند فرمایاہے ۔ دیکھو ۔پیاس لگتی ہے یابھوک لگتی ہے مگر یہ پیاس اور بھوک پانی اورکھانے کے بغیرفرد نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح جس قدر قوتیں اورطاقتیں ہیں اوران کے تقاضے ہیں وہ اسی طرح پورے ہوتے ہیں دنیاکی تمدنی زندگی کی اصلاح اور انتظام کے لئے اس نے بادشاہوں اور حکومت کے سلسلہ کاانتظام رکھا ہے جو شریروںکوسزادیتے ہیں اور مخلوق کے حقوق ان کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرتے۔خداخود اترکر نہیں آتا ۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ وہی حفاظت کرتاہے اورشریروں کی شرارت سے بچاتاہے اورمحفوظ رکھتاہے ۔
اسی طرح روحانی نظام کے لئے بھی اس کا ایساہی قانون ہے سچی پاکیز گی اور طہارت اوروہ ایمان جس سے معرفت ۔بصیرت اوریقین پیداہو ، خداہی کی طرف آتا ہے اوراس کامامور لے کر آتا ہے اور وہ ذریعہ ٹھہرتاہے خدا ے جلال اور عظمت کا۔ اورو ہ اس وقت آتا ہے جب دنیا میں سچی پاکیزگی نہیں رہتی اور خداتعالیٰ سے دوری اوربعد ایسا ہوتاہے کہ گویا خداہے ہی نہیں اورجب دنیا کے ہاتھ میں صرف پوست رہ جاتاہے اور مغز نہیں رہتا تب خداتعالیٰ اپنے کسی بندے کے ذریعہ اپنا ظہور فرماتاہے چونکہ اس زمانہ میں اس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے مجھے مخاطب کر کہ فرمایا اَنْتَ مَنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔
بابوکاہن چند ۔آپ نے اپنے رسالہ میں اورمعنے کئے ہیں ۔
فرمایا :۔
ہم نے اور معنے کبھی نہیں کئے ہم توہمیشہ یہی معنے کرتے ہیں آتھم نے بھی یہ سوال ہم سے کیا تھا اوراس کویہی جواب دیا گیا تھا انسان کو چاہئے کہ انصاف ہاتھ سے نہ دے یہ تو حلاوت کی بات ہے انسان اس سے اپنا ایمان بڑھاتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتو پھر یہ سلسلہ ہی ختم ہوجاتا ہے ۔آج کل لوگ خداتعالیٰ کے قائل نہیں رہے بلکہ دہریہ ہیں اس لئے خداتعالیٰ نے اپنے جلال کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک انسان کودنیا میں بھیجا ۔
کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاحْیَاکُمْ (البقرہ :۲۹ ) کی تشریح
پنڈت صاحب کے چلے جانے کے بعد ایک شخص نے یہ آیت
کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ( البقرہ۲۹ )) کے معنے پوچھے ۔
فرمایا:۔
انسان پر ایک زمانہ آتاہے کہ وہ نطفہ ہوتاہے اوراس کاکوئی وجودنہیں ہوتا پھر مدارج سِتّہ سے گذر کر اس پر ایک موت آتی ہے اور پھر اسے ایک احیاء دیا جاتا ہے یہ ایک مسلم مسئلہ ہے کہ ہر حیات سے پہلے ایک موت ضرورآتی ہے ۔
اس آیت میں صحابہ ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ایک زمانہ انپر ایساگذرا ہے کہ وہ بالکل مردہ تھے یعنی ہر قسم ضلات اورظلمت میں مبتلاء تھے پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ زندگی عطاہوئی اور پھر ان کے تکمیل اورایک موت ان پر وارد ہوئی جو فنا فی اللہ کی موت تھی اس کے بعد ان کوبقاباللہ کا درجہ ملا اورہمیشہ کے لئے زندگی پائی ۔
ایک حدیث کاذکر
ایک حدیث مولوی فتح الدین صاحب نے پیش کی جس کی تاویل کر کہ اسے مسیح موعود پر چسپاں جاتا تھا ۔
فرمایا:۔
کیا ضرورت ہے اس بات کی خداتعالیٰ نے کھلی کھلی تائیدیں ہمارے لئے رکھ دی ہیںکیا مَنَّا کُمْ ثَلٰثۃ‘‘ہمارے مخالفین کے لیے کافی نہیں ایک بخاری کا مَنْکُمْ (وَعَدَاللہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَنْکُمْ ) (النور : ۵۶ )
بعیت کرنے والے ہمارے بدن کے جُزو ہوگئے
منشی نعمت علی صاحب نے کھانے کے لئے عرض کیا ۔ فرمایا :۔
تکلف کی کیا ضرورت ہے ہم کھانا کھا چکے ہیں جب تم لوگوں نے بعیت کر لی توگویاہمارے بدن کے جزو ہوگئے پھر الگ کیارہ گیا یہ باتیں تو اجنبی کے لئے ہوتی ہیں ۔
جماعت کی اعجازی ترقّی
جماعت کی اعجازی ترقی کے ذکر پر فرمایا کہ
ہماری طرف سے کوئی سعی نہیں کی جاتی ہمارے واعظ نہیں بایں ہمہ اس قدر ترقی ہورہی ہے کہ عقل حیران ہے اوراصل یہ ہے کہ اگر ہمارری سعی اورکوشش سے کچھ ہوتاہے توشائد شرک ہوتاہے ۔اس لئے خداتعالیٰ خود جوچاہتاہے کرتا ہے ۔ ممالک مغربی و شمالی میں جہاں ہم کوتین آدمیوں کابھی علم نہیں مردم شماری کے رو سے نوسو سے زائد آدمی ہیں اوریہ جماعت اب ایک لاکھ سے زائد آدمی ہیں اور یہ جماعت اب ایک لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہے ۔ یہ خداتعالیٰ کے کام ہیں ۔ خودمخالف محرک ہورہے ہیں بعض لوگوں کے خطوط آئے ہیں کہ محمد حسین کے رسالوں میں کوئی مضمون دیکھتے تھے توان سے معلوم ہواکہ آپ حق پر ہیں اوربعض ایسے خطوط بھی آئے ہیں کہ کوئی فقیر ایک کتاب لایا تھا وہ کتاب چھوڑگیا اور اس کا پتہ نہیں ۔
غرض اس پر ذکر فرماتے رہے کہ
مخالفوں نے ہر طرح مخالفت کی مگر خدانے ترقی کی ۔ یہ سچائی کی دلیل ہے کہ دنیا ٹوٹ کر زور لگا دے اورحق پھیل جاوے ۔ اب ہمارے مقابل کونسا وقیقہ مخالف کاچھوڑاگیا مگر آخر ان کوناکامی ہی ہوتی ہے یہ خداکانشان ہے اس میں دو چیزوں نے بڑی مدد دی ۔ طاعون نے بعیت کرنے والوں کو بڑھایااور مردم شماری نے تصدیق کی ۔ ۱؎
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
حق کی یہ بھی ایک پہچان ہے کہ اوراس کی شناخت کایہ ایک عمدہ معیار ہے کہ دنیا اپنے سارے ہتھیاروں سے اس کی مخالفت پر ٹوٹ پڑے جان سے ، مال سے ، اعضاء سے ،عزت سے ، اور اندرونی اوربیرونی لوگ اور اپنے اور پرائے گویا سب ہی اس کی مخالفت پر کھڑے ہوجائیں اور پھربھی وہ حق آگے ہی آگے قدم رکھتاجائے اورکو ئی روک اس کی ترقی کو روک نہ سکے چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ
فکیدو نی جمیعا ثم لا تنظرون (ہود : ۵۶)
سو اس معیار سے ہمارے سلسلہ کوپرکھا جائے توایک طالب حق کے واسطے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتاہے دیکھو نہ ہماراکوئی واعظ ہے ، نہ لیکچرار اور دشمن کیا بیرونی کیااندرونی سب اکٹھے ہو کر ہمارے تباہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں کامیاب کیا اوردشمن ذلیل ہوئے کفر کے فتوے لگائے قتل مقدمہ مکیاغرض یہ کہ انہوں نے کوئی وقیقہ ہماری بربادی کااٹھانہ رکھا مگر کیا خداتعالیٰ سے کوئی جنگ کرسکتا ہے ؟ ہماری ترقی کے خود مخالف ہی باعث اورمحرک ہیں بہت لوگوں انہیںکے رسائل سے اطلاع پاکر ہماری بعیت کی ۔ اگرواعظ وغیرہ ہمار ی طرف سے ہوتے تو ہمیں ان کا بھی مشکور ہوناپڑتا اوریہ بھی ایک شعبہ شرک کا ہوجاتاہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچایا ایک آیپاشی اور تخم ریزی تو کسان کرتاہے اورایک خود خدا کرتاہے ہم اورہماری جماعت خداتعالیٰ کی تخم ریزی سے اورآبپاشی سے ہیں ۔ خدا کے لگائے ہوئے پودا کون اکھاڑسکتاہے ۔ ۱؎
مختلف باتوں کے دورا ن فرمایا:۔
قبول حق کے لئے قوت اور توفیق اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے اس کی توفیق کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
انبیا ء کے معجزات
انبیاء نے کبھی تماشے نہیں دکھائے البتہ جب ان پر شدائداورمصائب آتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے تماشہ دکھایا کرتاہے ۔جیسے
قلنا یانارکونی بردااوسلاماعلی ابراھیم ( الانبیاء : ۷۰ )
سے معلو م ہوتا ہے ایساہی ہم قتل مقدمہ بھی ایک نار تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے نجات دی ۔
ایک خواب کی تعبیر میں فرمایاکہ
انبیاء بھی قینچی کاکام کرتے ہیں ایک طرف سے قطع کرتے ہیں اوردوسری طرف پیوست کرتے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ پاک و صاف رہتے تھے
کسی شخص نے کہاکہ صحابہ ؓ کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے تھے اورپیوند لگے ہوئے ہوتے تھے
فرمایا:۔
یہ جھوٹ ہے میلے کچیلے ہونااوربات ہے اورپیوندلگے ہونے اوربات ہے قرآن شریف میں آیا ہے کہ
والرجزفاھجر (المدثر:۶)
پس پاک صاف ہوناضروری ہے ایساہی قرآن شریف میں فرمایا
لایمسہ الاالمطھرین ۱؎ ( الوقعہ : ۸۰ )
۸؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ
ہر احمدی کے لئے تین نصائح
مونگھیر سے محمد رفیق صاحب بی اے اورمحمد کریم صاحب تشریف لائے ہوئے تھے دونوں نے نماز فجر کے وقت حضرت اقدس سے بعیت کی ۔بعیت کر چکے تو حضور نے فرمایاکہ
ہماری کتابوںکو خوب پڑھتے رہوتاکہ واقفت ہواورکشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہاکرو اورہمیشہ خط بھیجتے رہو۔
مخالف باپ کے لئے دُعاکی نصیحت
ظہر کے وقت حضور نے ایک نواردصاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرضکی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے لکھا کرتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
توجہ سے دعا کرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی دعا باپ کے واسطے قبول ہواکرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہو گا ۔
مسیح موعُود کی صداقت کے متعلق خوابیں
لاہور سے ایک شخص کا خط آیا کہ اسے خواب میں حضرت اقدس کی نسبت بتلایا گیا ہے کہ آپ سچّے ہیں
-09-04-05
اس شخص کی ارادت ایک فقیر کے ساتھ تھی جوکہ داتا گنج بخش کے مقبرہ کے پاس رہاکرتاہے اس شخص نے فقیر سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ مرزا صاحب کی اتنے عرصہ سے ترقی ہونا ان کی سچائی کی دلیل ہے کہ پھرایک اورمست فقیر وہاں تھا اس نے کہاباباہمیں بھی پوچھ لینے دو دوسرے دن اس نے بتلایا کہ خدا نے کہا کہ مرزا مولا ہے پہلے فقیر نے کہا کہ مولناکہاہوگاکہ وہ تیرا اور میرا ہم جیسے سب کامولاہے ۔
حضرت اقدس نے فرمایاکہ
آج کل خواب اور رؤ یابہت ہوتے ہیں معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ لوگون کہ خوابوںکہ ذریعہ اطلاع دے خداتعالیٰ کے فرشتے اس طرح پھرتے ہیں جیسے آسمان ٹڈ ی ہوتی ہے وہ دلوں میں ڈالتے پھرتے ہیںکہ مان لومان لو ۔
پھر ایک شخص کاحال بیان کیا جس نے حضور کے رد میں کتاب لکھنے کاارادہ کیا تو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تو تو رد لکھتا ہے اور اصل میں مرزا صاحب سچے ہیں ۔
ساعَت کا علم کسی کونہیں
بعدنماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے اور ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایاکہ
اصل قیامت کا علم توسوائے خداتعالیٰ کے اور کسی کوبھی نہیں حتیٰ کہ فرشتوں کوبھی نہیں اور وہاں سَاعَۃکا لفظ ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے عورتوںکے حمل کی میعاد نوماہ دس دنوں میں کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کونسے دن وضع حمل ہوگا گھر کاہر ایک بچہ جننے کی گھڑی کامنتظر رہتاہے اسی قیامت کانام سَاعَۃ رکھا ہے کہ اس گھڑی کی کسی کو خبر نہیں ۔
خداتعالیٰ کی کتابوںمیں اس کی جو علامات ہیں ممکن ہے کہ ان سے کوئی آدمی قریب قریب اس زمانہ کاپتہ دیدے مگر اس سَاعَۃ کی کسی کو خبر نہیں جیسے وضع حمل کی ساعت کی کسی کو خبر نہیں ۔ ایک ڈاکٹر سے بھی پوچھو تو وہ بھی کہے گانو ماہ اوردس دن ۔ مگر جونہی نوماہ گزریں پھر فکر رہتی ہے کہ دیکھیں کون دے دن اور کونسی گھڑی ہوکتابوں سے معلوم ہوتاہے چھ ہزار سال بعد قیامت قریب ہے اب چھ ہزار سال گذر گئے ہیں قیامت تو قریب ہوگی مگراس گھڑی کی کسی کو خبر نہیں ۔
کشمیر سے ایک پُرانے صحیفہ کی برآمدگی
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے ایک خط سنایاجس کاخلاصہ یہ تھا کہ کشمیر سے ایک پرانا صحیفہ ایک پادری نے حاصل کیا ہے کہ جو کہ دو ہزار سال کا ہے اس میں مسیح کی آمد اوراس کے منجی ہونے کی پیش گوئی ہے حضرت اقدس نے فرمایاکہ
بعض وقت پادری لوگ عیسوی مذہب کی عظمت دل نشین کرانے کے واسطے ایسی مصنوعات سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اگر اس صحیفہ میں تثلیث کاذکر ہوتو سمجھناچاہئے کہ مصنوعی ہے کہ کیونکہ خود عیسویت کی ابتدامیں تثلیث کاعقیدہ نہ تھا بلکہ بعد میں واضع ہوا ہے ۔
عیسیٰ اصل ہَے یایسوع
پھر اس امر کاتذکرہ ہوتارہا کہ قدیم اوراصل لفظ عیسیٰ ہے یایسوع ۔ حضور نے فرمایا کہ
پرانانام عیسیٰ ہی ہے تمام عرب میں عیسیٰ کالفظ ہے یسوع کاذکر پرانے عرب اشعار میں بھی نہیں پایاجاتاچونکہ عیسیٰ نبی تھے اس لئے مصلحتاً انہوں نے کسی موقعہ پر عیسیٰ کو بدل کر یسوع بنا لیا ہو یہ بھی تعجب ہوتاہے کہ آج تک کسی اورنبی کانام نہیں الٹا صرف انہی کاالٹا اورمذہب انہیں کا الٹا ایسا ہی کسی کا شعر ہے ۔ ؎
نہ ہو کیونکر ہمارا کام الٹا
ہم الٹے، بات الٹی، یار الٹا
اس کے بعد حکیم نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ ساری انا جیل میں کہیں عیسیٰ کانام نہیں آیا یسوع کاآیا ہے۔ ۱؎
۹؍نومبر۱۹۰۲ء بروزیکشنبہ
اعجاز احمدی اللہ تعالیٰ کی خاص مددسے لکھی گئی ہَے
حسب معمول نماز مغرب کے بعد حضور شہ نشین پر جلوہ فروز ہوئے اور جو مضمون مشمولہ قصائد ۲؎عربی آج کل زیر تحریر ہے اس متعلق زبان مبارک سے ارشاد فرمایاکہ
اس کی نسبت دل گواہی دیتاہے ۔ کہ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔
(مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا)
آپ بھی دیکھیں گے تو پتہ لگ جائے گاجس طرح کلمہ کی گواہی دی جاتی ہے اسی طرح اس کی بھی گواہی دی جاتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے یہ حالت بھی ہوتی ہے کہ ذراسی اونگھ آئی اور ایک شعر الہام ہوگیا اسی طرح کئی اشعار اس میں الہامی ہیں وحی جلی بھی ہوتی ہے اورخفی بھی یہی معلوم ہوتاتھا کہ دل میں مضمون پڑجاتا ہے اور میں لکھتاہوں گویایہ میری طرف سے نہیں ہے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ) خداتعالیٰ کی مددسے اس قدر یقین ہے کہ یہ کاروبارایک دن میں ہوسکتاتھا دیرتواس لئے لگتی ہے دوبارہ دیکھنا پڑتا ہے کاپی وغیرہ بھی صحیح کرنا فرض ہے ہر ایک بات میں دیکھا گیا ہے کہ سب سامان خدا تعالیٰ نے اول ہی سے کیے ہوئے ہیں قصیدوں میں واقعات کا نبھانا ایک مشکل امر ہوا کرتا ہے شاعر ایسا نہیں کرسکتے ان کو قافیہ ردیف کے لئے بالکل بے جوڑ باتیں اور الفاظ لانے پڑتے ہیں ( اس مقام پر عربی کے دو فقرے مقامات حریری سے پڑھے جن میں محض تلازم شعرکے لئے بالکل بے تعلق باتیں ذکر ہوتیں تھیں اس کے بالمقابل
قل ھواللہ احد ۔اللہ الصمد (الاخلاص : ۲۔۳ ) کودیکھو ۔ ۱؎
قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کے دعویٰ پر بعض نادان آریہ کہدیتے ہیںکہ مقامات حریری وغیرہ بھی فصیح و بلیغ ہیں مگر وہ یہ بتا سکتے کہ ان میں دعویٰ کہاں کیاگیاہے اور ان کتابوں میں کہاں پر یہ بتصریح لکھاگیاہے کہ قرآن مجید کی تحدی کے مقابلہ میں ہیں اور علاوہ ازیں ان کو قرآن کی مقابلہ میں پیش کرنابالکل لغو ہے قرآن شریف میں حقائق و معارف کو بیان کیا گیا ہے اوران کتابوں میں صرف لفظوں کااتباع کیاگیاہے واقعات سے کوئی غرض ہی نہیں رکھی گئی ۔ ۲؎
مبائعین کی خوش قسمتی
آج کے مبائعین میں سے ایک نے کچھ اظہار محبت کے کلمات کہے حضرت اقدس نے فرمایاکے آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ جو بڑے بڑی مولوی تھے ان کے لئے خدانے دروازے بند کر دئے ہیں اور آپ پرکھول دئیے خداتعالیٰ کاآپ لوگوں پر بہت بڑاحسان ہے دعاکی درخواست پر فرمایاکہ
میں اپنے دوستوں کے لئے پنج وقتہ نمازوں میں دعاکرتاہوں اورمیں توسب کوایک سمجھتاہوں ۔
ایک پنجابی نظم
اس کے بعد ایک امر تسر ی دوست نے اپنی پنجابی نظم سنائی ۔جس میں انہوں نے اپنے ایک خواب کاذکر اور حضرت اقدس کی زیارت کاشوق اوربیعت کی کیفیت اورحضرت اقدس کے فیوض و برکات کاذکر دردِدل اور دلکش پیرایہ میں کیاہواتھا حضرت اقدس خود بار بار زبان مبارک سے فرماتے تھے کہ
’’درد اور رقت سے لکھاہواہے ‘‘
سَیّداحمد شہید کے شروع کردہ کام کااتمام
ایک مقام پر حضرت اقدس نے فرمایاکہ
ہند میں دو واقعہ ہوئے ہیں ایک سید احمد ؒ صاحب کااوردوسراہمارا ۔ ان کاکام لڑائی کرنا تھا انہوں نے شروع کردی مگر اس کااتمام ہمارے ہاتھوں مقدر تھا جوکہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہورہا ہے اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے وقت جونامرادی تھی وہ چھ برس بعد آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے رفع ہوئی ۔خداتعالیٰ بھی فرماتاہے کہ وہ کامیابی ا ب ہوئی ۔
دجّال کے دونوں آنکھیں عیب دار ہیں
دجّال کے ایک چشم ہونے پر فرمایاکہ
میں نے اس کی نسبت یہ بھی سنایادیکھاہے کہ اس کی دونوآنکھیں ہی عیب دار ہوں گی۔ جیسے کہاکرتے ہیں کہ ایک چشم گل اوردیگر بالکل۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے دوکتابوں پر غور کرتی تھی ایک توریت ، دوسرے قرآن مجید ۔سو قرآن مجیدکے متعلق تو آنکھ رہی نہیں اوروہ کچھ بھی نہیں دیکھتے اور توریت پر بھی کچھ دھندلی سی نظر ہے کہ اسے اپنی تائیدمیں برائے نام رکھتے ہیں ۔ ۱؎
۱۰ ؍ نومبر ۱۹۰۲ء بروزدو شنبہ
فجرکے وقت مولوی محمد علی صاحب شاعر سیالکوٹی سے فرمایا کہ
آپ کومختلف مقامات دیہات میں تبلیغ کے لئے پھرناہوگا
جسے مولوی صاحب نے بطِیبِ خاطر منظور کیا ۔
اعجاز احمدی
ظہر کی نماز سے پشتر حضرت اقدس نے مضمون زیر قلم ۲؎فرمایاکہ۔
کلام کامعجزہ آدم علیہ السلام سے لیکر آنحضرت ﷺکے زمانہ تک چارہزار برس ہوئے ہیں سوائے قرآن مجید کے اور کسی نے نہیں دکھایا اورنہ کسی نے دیکھا ۔ چونکہ یہ معجزہ ایک ہی کتاب کے متعلق ہے اس لئیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس پر زور ڈالاجائے کہ لوگ خوب سمجھ لیں ۔ کیاان مخالف لوگوں کے پاس قلم نہیں ہے؟ وقت نہیں یاالفاظ نہیں ؟ میراتو ایمانہے کہ یہ خداتعالیٰ کانشان ہے اورایک آفتاب کی طرح نظرآتاہے میں اسے بیان نہیں کر سکتا خداتعالیٰ ہی سب کچھ کروایاورنہ ہم توسب کچھ چھوڑبیٹھے تھے
مارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی ( الانفال : ۱۸)
کشتی نوح کی اشاعت کثرت سے کی جائے
خواجہ کمال الدین صاحب نے نماز مغرب سے پیشتر حضرت اقدس کانیاز حاصل کیااورپشاور اور کوہاٹ کاذکر سنایا کہ وہاں پر اکثر اشتہارات جو کہ ضمیمہ شحنہ ہند میرٹھ میں حضور کی مخالفت میں شائع ہوئے ہیں اس نظر سے پڑھے جاتے ہیں کہ گویا وہ حضور کے اشتہارات ہیں اسی مغالطہ سے سر حد کے لوگوں کے دلوں پر آپ کے متعلق خیالات ذہن نشین ہیں کہ نعوذباللہ جناب نے روزے اپنے خدام کو معاف کر دئیے ہیں اور نبی کریم ﷺکی ہتک کی ہے اور کہا ہے کہ نعوزباللہ وہ ایک جھوٹے نبی تھے میں ان سے افضل ہوں غرض یہ اشتہاراس واضع اور عنوان سے لکھے ہوئے ہیں کہ عوام الناس کو دھوکالگتاہے اوریہی خیال کیا جاتاہے کہ آپ کا
‏Amira 14-4-05
آپ کا مضمون اور آپ کی تحریر ہے
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
کشتی نوح وہاں کثرت سے تقسیم کر دی جائے یہی کافی ہے
خواجہ صاحب نے کہا ایک ذی وجاہت شخص کو میں نے دیکھا ہے کہ اس نے اسے پڑھ کر کہا کہ کتاب (کشتی نوح) تو عمدہ ہے اگر آخر میں مکان کے چندہ کا ذکر نہ ہوتا۔میں نے اسے جواب دیا کہ کیا تم سے بھی ایک پیسہ مرزا صاحب نے مانگا ہے؟ یا تم نے دیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب نے تو ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے جو ان سے تعلق ابنیت کا رکھتے ہیں۔کیا اگر ایک باپ اپنے بیٹوں سے دو ہزار اس لئے طلب کرے کہ اسے ایک مکان بنانا ہے تو کیا یہ فعل اس کا قابل اعتراض ہو گا؟ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔
مخالفین کے اشتہارات ترقّی میں مانع نہیں
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ سب باتیں توہیں لیکن اندر ہی اندر ترقی ہو رہی ہے خدا تعالیٰ کا فضل ہے اس طرح کے اشتہارات جو مخالفین کی طرف سے شائع ہوتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی کارروائی میں مضر معلوم نہیں ہوتے کیونکہ جب تک تپش نہ ہو بارش نہیں ہوتی۔ہم سب پر بدظنی نہیں کرتے انہیں میں سے لوگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم پہلے مخالف تھے گالیاں دیتے تھے مگر اب ایک راہ چلتے سے اشتہار دیکھ کر بیعت کرتے ہیں اس سے پیشتر بھی یہ کارروائیاں چپ چاپ نہیں ہوئیں۔مکہ میں کیا ہوتا رہا خدا تعالیٰ تماشا دیکھتا ہے کیا کفار امن سے رہتے تھے وہ بھی ہمیشہ ہر وقت لڑائیوں اور فسادوں میں رہتے تھے ابو جہل ہی کو دیکھو کہ بدر کی جنگ میں مباہلہ بھی کر لیا
اللھم من کان منا اقطع للرحم افسد فی الارض فاحنہ الیوم
یعنی ہم دونوں میں سے جو زیادہ قطع رحم کرتا ہے اور زمین میں فساد ڈالتا ہے اس کو آج ہی ہلاک کر پھر اسی دن وہ قتل ہو گیا اس کو تو یہی خیال تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فساد برپا کر دیا ہے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے اور ہر روز کا فتنہ برپا ہے لوگ آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے ناحق ان کو چھیڑ دیا ہے اس کا اسی بناء پر یہ خیال تھا کہ یہ ضرور مفسد ہے۔
ایک فتنہ *** ہوتا ہے اور ایک فتنہ رحمت ہوتا ہے کوئی نبی نہیں آیا جس نے فتنہ نہیں ڈالا ہمیشہ نوبت جدائی اور فساد کی پہنچتی رہی۔پھر آخر انہیں میں سے جو نیک تھے اﷲ تعالیٰ ان کو لے آتا رہا۔دنیا میں ہمارے اس سلسلہ کے متعلق گھر گھر شور ہے بعض آدمی رافضیوں سے بڑھ گئے ہیں *** کی تسبیح رات دن پھیرتے ہیں اور انہی مخالفوں میں سے بعض ایسے نکلے ہیں کہ جان قربان کرنے کو تیار ہیں ہم تو اﷲ تعالیٰ سے شرمندہ ہیں ہماری طرف سے کوشش ہی کیا ہوئی ہے آسمان پر ایک جوش ہے وہی کشاں کشاں لوگوں کو لا رہا ہے۔
عیسائیوں کا مذہب
اس کے بعد ایک شخص نظم سناتے رہے ایک مقام پر عیسائیوں کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ لوگ اتنا فلسفہ اور ہیئت پڑھ کر ڈوبے ہوئے ہیں چوڑھوں کا بھی کچھ مذہب ہوتا ہے کہ کچھ بات پیش کرتے ہیں مگر یہ تو بالکل ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔
خواب میں گالیاں دینے کی تعبیر
پھر ایک صاحب نے ایک خواب سنایا-ایک شخص اسے گالیاں دے رہا ہے حضور نے تعبیر فرمائی کہ
خواب میں جو شخص گالیاں دینے والا ہوتا ہے وہ مغلوب ہوتا ہے اور جس کوگالی دی جاتی ہے وہ غالب ہوتا ہے۔؎ٰ
۱۱؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
دینی کاموں کیلئے دن رات ایک کر دو
ظہر کے وقت حضور تشریف لائے اور احباب کو فرمایا کہ
یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس میں حصہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کر دے۔
کلام کا نشان دائمی ہوتا ہے
کلام کی فصاحت اور بلاغت پر فرمایاکہ
دوسری قسم کے جس قدر نشانات ہوتے ہیں وہ تو غائب ہو جاتے ہیں مگر اس طرح کا نشان ہمیشہ قائم رہتا ہے بھلا اب موسیٰ کے سانپ کو کوئی دکھا سکتا ہے؟ مگر کلام کا معجزہ اور نشان ایسا ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ فلاں شخص (مرد خدا) نے یہ کلام بطور نشان کے پیش کیا اور مخالف کچھ نظیر نہ لا سکے اور کچھ جواب نہ بن آیا۔
حافظ محمد یوسف کی نیش زنی
نماز مغرب سے پیشتر میر ناصر نواب صاحب نے امرتسر سے آکر بیان کیا کہ حافظ محمد یوسف صاحب ملے تھے اور ان سے باتیں ہوئیں آخروہ نیش زنی پر اتر آئے حضرت اقدس نے فرمایا-
اگر ہم کاذب ہیں تو ہم ادنیٰ سے ادنیٰ جو آدمی ہے اس سے بھی بدتر ہیں۔کاذب کی حقیقت ہی کیا ہوتی ہے۔
فارقلیط اور احمدؐ
نماز کے بعد مولوی محمد علی صاحب ایم-اے نے بیان کیا کہ ایک شخص نے فارقلیط کے بارے میں یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے معنے میگزین میں حق و باطل میں تمیز کرنے والا کے لئے گئے ہیں پھر یہ معنے لفظ احمد پر کیسے چسپاں ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فارقلیط سے مراد احمد ہے لفظ احمد کی پیشگوئی کا ذکر کتب سابقہ میں کہاں ہے؟
خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نے فرمایا کہ
ہمارے ذمہ ضروری نہیں ہے کہ موجودہ کتب توریت وغیرہ سے یہ لفظ نکال کر دکھائیں جب قرآن مجید نے ان کتب کو محرف و مبدل قرار دیا ہے تو ہم کہاں سے نکالیں؟ جب فارقلیط ہی محرف ہے تو ممکن ہے کوئی اور بھی لفظ ہو جس کے معنے احمدکے ہوں۔
لسان العرب میں لکھا ہے کہ فارقلیط لفظ فارق اور لیط کا مرکب ہے فارق بمعنی فرق کرتے والا اور لیط بمعنے شیطان۔یعنی شیطان کو الگ کر دینے والا دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام فارقلیط بھی ہے کیونکہ آپ صاحب فرقان ہیں اور فرقان کے معنے فرق کرنے والا کے ہیں اور
اعوذ باﷲ من اشیطن الرحیم
میں لفظ شیطان ہے جو لیط کا معنے ہے اس طرح آپ کا نام فارقلیط بھی ہو گیا اور احمد کے معنے بہت تعریف کرنے والا کے ہیں تو آپ سے بڑھ کر اور کون ہو گا جو توحید کے ذریعہ سے ہر ایک قسم کی شیطنت کو دور کرے فارقلیط بننے کے واسطے احمد ہونا ضروری ہے احمد وہ ہے جو دنیا میں سے شیطان کا حصہ نکال کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو قائم کرتے والا ہو فارقلیط کا منشاء دوسرے الفاظ میں احمد ہے۔
کرشن اور رامچندر کی پرستش
مدراس سے ایک ہندو عقیدت مند آئے حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ
آپ کے شہر میں کرشن اور رامچندر اور پتھر کے بتوں کی بھی پرستش ہوتی ہے؟ لالہ صاحب نے جواب دیا کہ ہاں لوگ کرتے ہیں مگر میں نہیں کرتا۔
مدراسؔ سے ہندو کا آنا بھی نشان ہے
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ
اب ان کا دور دراز مقام سے آنا بھی
یاتون من کل فج عمیق
کا مصداق ہے اگر ایسے نشانوں کو ہم جمع کریں تو دس ہزار سے بھی زیادہ نکلتے ہیں اور گواہ بھی محمد حسین کافی ہے۔
آتھم کا رجوع
آتھم کے تذکرہ پر فرمایا
یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ میں نے اسی وقت مباحثہ میں سنادیا تھا کہ اس مباحثہ اور پیشگوئی کی بنیاد یہ ہے کہ آتھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجال رکھا تو اسی وقت ’’آتھم نے توبہ توبہ کر کے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا کہ مرزا صاحب مجھے ناحق مارتے ہیں میں نے تو دجال نہیں کہا‘‘ (مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا مجھے یہ الفاظ خوب یاد ہیں) کیا یہ اس کا عمل رجوع تھا یا نہیں؟
لنڈن میں جھوٹے مسیح پگٹ کے بعد سچے مسیح کا قدم ہوگا
مفتی محمد صادق صاحب نے ایک خط مسٹر پگٹ مدعی مسیح کو لندن میں لکھ کر مزید حالات اس کے دعویٰ کے دریافت کئے تھے جس کے جوا ب میں اس کے سکرٹری نے دو اشتہار اور ایک خط روانہ کیا تھا وہ حضرت اقدس کو سنائے۔پگٹ کے اشتہار کا جو عنوان انگریزی لفظوں میں تھا اس کے معنے ہیں کشتی نوح-
حضرت اقدس نے فرمایا:-
اب ہماری کشتی نوح جھوٹی پر غالب آجائے گی یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں سوا ول لنڈن میں جھوٹا مسیح آگیا اس کا قدم اس زمین میں اول ہے بعد ازاں ہمارا ہو گا جو کہ سچا مسیح؎ٰ ہے اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجال خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرے گا تو موٹے رنگ میں اب اس قوم نے وہ بھی کر دکھایا ڈوئی امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور پگٹ لندن میں خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خد اکہتا ہے پگٹ کا خدا ہونا دوسرے لفظوں میں یہ گویا انجییل کی شرح آئی ہے اسے ایک فائدہ ہوا ہے کہ مسیح کو خد اماننے سے چھوٹ گیا کیونکہ آپ جو ساری عمر کے لئے خود خدا ہو گیا۔ ؎ٰ
۱۲؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بورز چہار شنبہ
آخری زمانہ کی علامات
بعد نماز مغرب مفتی محمد صادق صاحب نے سنایا کہ ایک انگریزی رسالہمیں لکھا ہے کہ ان ایام میں دنیا میں مختلف مقامات پر بڑی کثرت سے زلزلے آرہے ہیں اور آتشین مادے زمین سے نکل رہے ہیں اور زمین اونچی ہوتی جارہی ہے فرانس کے محققین نے لکھا ہے کہ دنیا کی قدیم سے قدیم تو اریخ میں زمین کے اس عظیم تغیر کی کہیں خبر نہیں ملتی۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یوں تو زمین سے ہمیشہ کانیں نکلتی رہتی ہیں اور آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہتے ہیں مگر اب خصوصیت سے ان زلزلوں کا آنا اور زمین کا اٹھنا یہ آخری زمانہ کی علامتوں میں سے ہے اور
اخرجت الارض اثقالھا (الزلزال : ۳)
اسی طرف اشارہ ہے زمانہ بتلا رہا ہے کہ وہ ایک نئی صورت اختیار کر رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ خاص تصرفات زمین پر کرنا چاہتا ہے۔
انزلنا الحدید
حکیم نورالدین صاحب نے عرض کی کہ لوہا آج تک اس کثرت سے زمین سے نکلا ہے کہ اگر ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک اور ہمالہ پہاڑ بن جائے۔لوہے کی کانوں کی آج تک تہہ نہیں ملی کہ کہاں تک نیچے ہی نیچے نکلتا آتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے بھی سونا اور چاندی کو چھوڑ کر
انزلنا الحدید (حدید : ۲۶)
ہی فرمایا ہے (یعنی یہی بنی نوع انسان کے لئے زیادہ نفع رساں ہے)
کلام کے معجزہ کی اہمیّت
پھر کلام کے معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ
صفحہ روزگار میں یاد رکھنے کے لئے جیسے یہ نشان ہوتا ہے اور کوئی نہین -یہ بیھ ایک ختم نبوت کا نسأن تھا اب بھی قرآن شریف کو جو کوئی دیکھے گا تو اسے معجزہ ہی نظر آئے گا اگر موسیٰ علیہ السلام کا سونٹا بھی اسی شان کا ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہ بیھ کسی صندوق میں آج تک محفوظ چلا آتا اور یہودی لوگ اس کی زیارت کرواتے کہ یہ موسیٰ کا سونٹا ہے جسے انہوں نے سانپ بنایا تھا یہی حال مسیح کے مریضوں کی صحت کا ہے اب تو عیسائی لوگ پچھتا تے ہوں گے کہ کاس عیسیٰ علیہ السلام کوئی کتاب ہی بنا کر چھوڑ جاتے مگر یہ خاصہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور کسی نبی کا نہیں۔
نیّت پر ثواب
مدراس سے جو لالہ صاحب آئے ہوئے تھے ان کی نسبت حضرت اقدس اور حکیم صاحب اور مولوی صاحب یہ تذکرہ کرتے رہے کہ اس شخص کے دل میں کیا شوق ہے کہ اتنی دور دراز مسافت طے کر کے زیارت کے لئے آیا ہے حالانکہ یہ شخص نہ ہماری باتیں سمجھ سکتا ہے نہ انگریزی جانتا ہے حضور نے فرمایا
اﷲ تعالیٰ ہر ایک کی نیت پر ثواب دے دیتا ہے؎ٰ
۱۳؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز پنچشنبہ
نَو تعلیم یافتہ مُلحدین
بعد نماز مغرب نئے روشنی کے تعلیم یافتہ جو کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے احکام کو جواب دیئے بیٹھے ہیں ان کے ذکر پر حضور نے فرمایا کہ
وہ خدا جس میں ساری راحتیں مخفی ہیں وہ ان سے بالکل دور ہو گیا ہے جیسے کروڑہا کوس دور ہے اس صورت میں ان کا پھر خدا تعالیٰ سے کیا تعلق؟اور جن کو یہ مہذب کہتے ہیں ان کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں-(گویا خدائی کا منصب و قالب سب ان کو دے دیا ہے) حب دنیا اور حب جاہ نے ان کو اندھا کر دیا ہے۔
ایک شخص نے ذکر کیا کہ علی گڑھ کے ایک طالب علم نے ایپی فینی میں ایک مضمون لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی گناہ سے خالی نہ تھے اگر چہ اور انبیاء سے بزرگ تر ہیں جن کے گناہ ان سے زیادہ تھے۔
حضرت اقدس نے فرمایا :ا-
اصل میں یہ لوگ مذہب سے خارج ہیں خدا تعالیٰ کا خوف مطلق نہیں۔صرف کنبہ کا ہے۔
وہابیوں کی ظاہرپرستی
اس کے بعد حضرت اقدس نے وہابیوں کے اخلاق اور ادب رسول پر اپنا ایک ذکر سنایاکہ ایک دفعہ جب آپ امرتسر میں تھے توغزنوی گردہ کے چند مولویوں نے آپ کو چائے دی چونکہ حضرت اقدس کے دائیں ہاتھ میں بچپن میں ضرب آئی ہوئی ہے اور ہڈی کوصدمہ پہنچاہوا ہے آپ نے بائیں ہاتھ سے پیالی لی تو اس پر غزنوی صاحبان نے فوراً بلاوجہ دریافت کئے کہناشروع کیا کے یہ خلاف سنت ہے آپ نے ان کوسمجھایاکہ آداب اور روحانیت بھی سنت ہیں پھر ان کو اصل وجہ بتلائی گئی اس کے بعد ان لوگوں نے آپ پر یہ اعتراض کیاکہ آپ نے تصنیفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعریف کی ہے اس قدر نہ چاہئیے تھی ہم تو ان کو اسی قدر مانتے ہیں ۔ جس قدر حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ یونس بن متی سے بھی زیادہ نہیں ہے ۔
جسمانی طور پر جس قدر ترقیات آج ہوئی ہیں کیاوہ پہلے زمانوں میں تھیں؟ اسی طرح روحانی ترقیات کاسلسلہ ہے کہ ہوتے ہوتے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا ۔خاتم النبیین کے یہی معنے ہیں جب ان (وہابیوں)کی یہ حالت ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کونسی سچی محبت کر سکتے ہیں اور کیافائدہ اٹھاسکتے ہیں ؟
فرمایاکہ
میرادل کبھی ان لوگوں سے راضی نہیں ہوا اور مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوتی کہ مجھے وہابی کہاجائے اورمیرانام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا ۔ میں ان کے مجلسوں میں بیٹھا رہاہوں ۔ ہمیشہ لفاظی کی بو آتی رہی ہے یہی معلوم ہو اکہ ان میں نراچھلکا ہے مغز بالکل نہیں ہے مولوی محمد حسین نے خود حدیث کی نسبت اپنی اشاعت الستہ میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک صاحب الہام یااہل کشف صحیح حدیث کو ضعیف کو صحیح قرار دے سکتاہے کیونکہ وہ کشفی حالت میں آنحضرت ﷺسے اس کی تصحیح کرالیتاہے مگر تاہم میں نے یہ التزام رکھا ہے کہ میں اپنے کشوف یاالہامات پرتحمل نہیں کرتا جب تک قرآن اور سنت اورصحیح حدیث اس کے ساتھ نہ ہو ۔ محمدحسین صاحب سے پوچھا جائے کہ جب عبداللہ صاحب غزنوی احادیث میں اس طرح دخل دے سکتے ہیں تو پھر حَکَمْ نے کیاگناہ کیا کہ اسے ہرر طب دیا بس ماننے پر مجبور کیاجاتا ہے ۔
باقی رہنے والی دوستی
شحنہ ہند جو مخالفت مولوی محمد حسین صاحب کی کی ہے اس پر فرمایاکہ جو لوگ اپنی نفساتی اغراض کے پر ستار ہوتے ہیں ان میں دوستی نہیں ہوتی تو وہ باقی رہتی ہے وہ ذات پاک قدوس ہے وہی دلوں میں پاکیز گی بھرتاہے اورسینوں کو کدورتوں سے صاف کرتاہے ۔
تقویٰ اور استقامت اختیار کرو
شیخ فضل حق صاحب نو مسلم پشاور سے آئے تھے ان کی مو جودہ حالت پر فرمایاکہ
اوائل میں جوسچامسلمان ہوتاہے اسے صبر کرناپڑتاہے صحابہ ؓ پر بھی ایسے زمانے آئے ہیں کہ پتے کھاکھاکر گذاراکیابعض وقت روٹی کاٹکڑا بھی میسر نہیں آتا تھا کوئی انسان کسی کہ ساتھ بھلائی نہیں کر سکتا جب تک خداتعالیٰ بھلائی نہ کرے جب انسان تقویٰ اختتیار کرتاہے توخداتعالیٰ اس کے واسطے دروازہ کھول دیتاہے
من یتق اللہ یجمل لہ مخرجا و یر زقہ من حیث لایحتب ( الطلاق : ۳ ۔۴ )
خداتعالیٰ پر سچاایمان لاؤ اس سے سب کچھ حاصل ہو گا استقامت چاہئیے انبیاء کو جس قدر درجات ملے ہیں استقامت سے ملے ہیں ۔ خالی خشک نمازوں سے کیاہوسکتاہے ؟
بَیعت پر آخر دَم تک قائم رہو
اس کے بعد تین احباب نے بیعت کی حضرت اقدس نے فرمایا :۔
جو بیعت کی ہے اس پر آخر دم تک قائم رہو ۔ تب خداتعالیٰ راضی ہوتا ہے ۔
طاعون کے ذکر پر فرمایاکہ
ہم کسی کہ ذمہ دار نہیں ہوسکتے خداتعالیٰ کاوعدہ ہے کہ جو شخص تقویٰ اختیارکرے وہ اس کو نجات دے گا اس لئے تقویٰ اختیار کرو ۔
فرمایا:۔
ہماری جماعت دراصل مطعون تو ہوچکی ہے کہ مخالفین کانشانہ بنی ہوئی ہے اسی طرح سے طاعون اپناکام اس میں کر چکی ہے ۔
ناول نویسی
ایک صاحب نے حکیم صاحب کی معرفت کہاکہ اگر بعض واقعات حَقَّہ کو ناول کے پیرایہ میں بیان کیا جائے تو یہ امر معیوب تونہیں ۔
اس میں مصیبت نہیں ہے مطالب سمجھانے کے واسطے ہمیشہ زید و بکر کاذکر فرضی طور پر رکھ لیتے ہیں خود تعزیرات ہند میں مثالیں موجود ہیں ۔ ۱؎
۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ؁بروز جمعہ
اس زمانہ کاجہاد
بعد نماز مغرب حضرت اقدس حسب معمول شہ نشین پر جلوہ گر ہوئے مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی نے رخصت طلب کی اور عرض کیا کہ میں جاکر صرف چندروز گھر پر رہوں گا پھر وہ بہ وہ پھر پنجابی نظم کے پیرایہ میںحضور کے سلسلہ کی تبلیغ اور اتمام حجت کروں گا
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ
یہ بہت عمدہ کام ہے اوراس زمانہ کایہی جہاد ہے جو لوگ پنجابی سمجھتے ہیں آپ ان کے لئے بہت مفید کام کرتے ہیں ۔
نجات خداکے فضل سے ہوتی ہے
سید سرور شاہ صاحب نے مدارس سے آنے والے ہندولالہ بڈباپا کی طرف سے عرص کیا کہ رات کو انہوں نے ایک سوال کیا کہ اسلام کے سواغیر مذاہب کے لوگ جو نیکی کرتے ہیں کیا ان کو نجات ہے کہ نہیں ؟
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کہ
نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کہ فضل سے ہوا کرتی ہے اس فضل کے حصول کے لئے خداتعالیٰ نے اپنا قانون ٹھہرایاہوا ہے وہ اسے کبھی باطل نہیں کرتا وہ قانون یہ ہے کہ
ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ آل عمران : ۳۲ ) اور ومن یبتع غیر الاسلام دینافلن یقبل منہ (آل عمران : ۸۶)
اگر اس پر دلیل پوچھو تو یہ ہے کہ نجات ایسی شئیے نہیں ہے کہ اس کے برکات اور ثمرات کاپتہ انسان کے مرنے کے بعد ملے بلکہ نجات تووہ امر ہے کہ جس کے آثار اسی دنیا میں ظاہرہوتے ہیں نجات یافتہ آدمی کو ایک بہشتی اسی دنیا میں مل جاتی ہے دوسرے مذاہب کے پابند بکلی اس سے محروم ہیں اگر کوئی کہے کہ اہل اسلام کی بھی یہی حالت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اسی لئے اس سے بے نصیب ہیں کتاب اللہ کی پابندی نہیں کرتے اگر ایک شخص کے پاس سے دوا ہو اور وہ اسے استعمال نہ کرے اور لاپروائی دکھائے تو وہ بہر حال اس کے فوائد سے محرومرہے گا یہی حال مسلمانوں کا ہے ان کے پاس قرآن مجید جیسی پاک کتاب موجود ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں ہیں مگر جولوگ خداتعالیٰ کلام سے اعراض کرتے ہیں وہ ہمیشہ انواراور برکات سے محروم رہتے ہیںپھر اعراض بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک صوری،ایک معنوی، یعنی ایک تو یہ ہے کہ ظاہری اعمال میں اعراض ہواور دوسرے یہ کہ اعتقاد میں اعراض ہو اور انسان کو انوار و برکات سے حصہ نہیں مل سکتاجب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خداتعالیٰ فرماتاہے کہ
کونو مع الصادقین ( التوبۃ :۱۱۹)
بات یہی ہے کہ خمیر سے خمیرلگتاہے اور یہی قائدہ ابتداء سے چلاآتاہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ کے ساتھ انوار اور برکات تھے جن میں صحابہ ؓ نے بھی حصہ لیا پھر اسی طرح خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ ایک لاکھ تک ان کی نوبت پہنچی اوراس سے بڑھ کر دلیل یہ ہے کہ سوائے اسلام کے اورکسی مذہب میں برکات نہیں ہیں اوراسلام کے سوا اورکسی مذہب میں رکھاہواکیا ہے ؟
ہندؤ ں کودیکھو وہ بت پرست ہیں عیسائیوں نے ایک عاجز خدابنارکھا ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ ہم بت پرست نہیں ہیں توجب ہم اس کی تفتیش کریں گے توثابت کر دیں گے ۔ آریہ لوگ غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں خود کلام خداکامتبع نہ ہونا اور یہ دعویٰ کرناکہ میں خداسے مل جاؤں گا یہ بھی گمراہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ اے لوگوں تم سب اندھے ہو مگر جسے میں آنکھیں دوں جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں خداکے کلام کے سوا نجات پالوں گا وہ بھی مشرک ہے نجات کی کنجی تو خداتعالیٰ بار بار یہی فرماتاہے کہ رسول کی پیر وی کرو اگر ایک باغ ہو اوراس میں لاکھوں پھل ہوں مگر جب تک باغبان اجازت نہ دے توکوئی بھی اس میں سے ایک پھل بھی نہیں کھاسکتا اسی طرح بازاروں میں کئی قسم کی اشیاء ہوتی ہے اور ہزاروں ہوتی ہیں مگر مالک کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں لے سکتا خداتعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کرنے کایہی ایک طریق ہے اور یہ آدم علیہ اسلام سے اسی طرح چلاآتاہے اس میں بحث کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر ایک نور اور معرفت کی نظیر اور جگہ نہیں مل ہی نہیں سکتی ۔
حقیقی کرامت
فرمایا:۔
انسان کاسے پہلا معجزہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ اسے تقویٰ بخشے جو دل پلید ہوتے ہیں ان کا بیان کرناہی بے فائدہ ہے اگرکوئی ہمارے پاس آکر کاغذ کاکبوتر بناکر دکھادے توکیااسے ہم کرامت سمجھ لیں گے ؟ بات یہی ہے کہ انسان کی زندگی پاک ہو فراست ہواور تقویٰ ہو۔ ۱؎
معجزہ کی حقیقت
دوسراسوال یہ تھاکہ معجزہ کی قسم کے بعض امور اور لوگ بھی دکھاتے ہیں ۔
فرمایہ کہ
میں قصوں کو نہیں سنتا یہ جو فرانس یا کسی اور جگہ کے قصے سنائے جاتے ہیں یہ کافی نہیں سب سے پہلے معجزہ تو یہ ہے کہ انسان پاک دل ہو بھلاپلید دل کیا معجزہ دکھاسکتاہے جب تک خداتعالیٰ سے ڈرنے والا دل نہ ہو تو کیا ہے ؟ ضروری ہے کہ متقی ہو اور اس میں دیانت ہو اگر یہ نہیں تو پھر کیا ہے ؟ تماشے دکھاوالے کیا کچھ نہیں کر تے جالندھر میں ایک شخص نے بعض شعبہ دکھائے اوراس نے کہا کہ میں مولویوں سے ان کی بابت کرامت کافتویٰ لے سکتاہوں مگر وہ خود جانتاتھا کہ ان کی اصلیت کیا ہے بعد میں وہ اس سلسلہ میں داخل ہوگیا اس نے توبہ کی ۔
جن ملکوں کے قصے بیان کئے جاتے ہیں وہاں اگر معجزے دکھانے والے ہوتے تو یہ فسق و فجور کے دریاوہاں نہ ہوتے ۔ خداتعالیٰ کے نشانات ایک پاک اثر ڈالتے ہیں اور اس کی ہستی کایقین دلاتے ہیں مگر یہ شعبدے انسان کو گمراہ کرتے ہیں ان کاخداشنای اور معرفت سے کوئی تعلق نہیں ہے اورنہ ہی یہ کوئی پاک تبدیلی
پیدا کر سکتے ہیں اس لئے کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے ۔ ۱؎
۱۵؍ نومبر ۱۹۰۲ء ؁ بروز شنبہ
تائیدات الٰہیہ کاذکر
ظہر کے وقت حضرت اقدس ان تائیدات الٰہی کاذکر فرماتے رہے جو ان ایام میں حضور کے شامل حال ہوتی جاتی ہیں اور باعث فتح ۔ نصرت و اقبال بن رہی ہیں ۔ ( یعنی اعجاز احمدی کی معجزانہ تصنیف اور اس کے بالمقابل مخالفوں کی شرمسار ی ۔) بعد ادائے نماز مغرب حضور شہ نشین پر جلوہ ا فروزہوئے ۔
طاعون کاعلاج
بعض مریضوں کے حالات اور ان میں فوری تیز جلابوں سے جوعمدہ نتائج پیدا ہوئے تھے ان کاذکر حکیم نور الدین صاحب کرتے رہے حضرت اقدس نے اس کی تائید میں فرمایاکہ :۔
جب بمبئی میں طاعون کثرت سے پھیلی تو وہاں سے زین الد ین محمد ابراہیم صاحب انجینئر نے لکھاتھا کہ یہ ایک بار ہا تجربہ شدہ اور مفید علاج دیکھا گیا ہے کہ طاعون کے آثار نمودار ہوتے ہی پانچ یا چھ تولہ کے قریب میگنیشیات سالٹ مریض کو پلا دیا گیا ہے تو اسے پھر بفضل خدا ضرور آرام آگیا ہے ۔ ۲؎
۱۶؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ
تر جمہ کافائدہ
ظہر کے وقت حضرت اقدس نے کچھ عرصہ مجلس فرمائی مولوی محمد احسن صاحب امروہی ایک نظر اعجاز احمدی پر کررہے تھے چونکہ یہ کتاب رات کو چھپی تھی اس لئے بعض جگہ سہو کاتب سے غلطی رہ گئی تھی اور بعض جگہ نقطہ وغیرہ لگانا یا دور کرنا رات کواندھیرے میں رہ گیا تھا اس کاذکر ہواتو حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ کوئی غلطی نہیں ہواکرتی کیونکہ ساتھ ہی ترجمہ ہے اگر کوئی لفظ عربی ہے اور نقطہ وغیرہ کی غلطی ہے تو یہ نیچے دیاہوا ترجمہ اس کی صحت کرتاہے اور اگر ترجمہ میں کوئی غلطی رہ گئی تو پھر اصل عبار ت عربی موجود ہے اس سے اس کی صحت ہو جاتی ہے ۔
وہی شخص فائدہ اُٹھائے گا جو سچّا تقویٰ اختیار کرے گا
نماز مغرب کے بعداعجاز احمدی کے بارے میں اور اس کے اثر کے متعلق مختلف احباب ذکر کرتے رہے پھر سید عبداللہ صاحب عرب نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ میرے اطراف میں درد ہوتارہتاہے ۔

طاعون کاخطرہ ہے اگر حضور اپنا کرتہ عطا فرمائیں تو میں اس پہنے رہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
‏Amira 17-4-05
ہم کرتہ تو دے دیںگے مگر بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کا کرتہ نہ ہو پھر کوئی شئے کام نہیں آتی دیکھو میں جانتا ہوں کہ گوباربار اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری اور میری جماعت کی اس ذلت کی موت سے حفاظت فرمائے گا۔مگر رسمی مسلمان یا رسمی بیعت والے کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے جب تک کہ ہمارے ساتھ والے کو حقیقی تقویٰ نصیب نہ ہو۔ایک مسلمان نے ایک دفعہ ایک یہودی کو کہا کہ تو مسلمان ہو جا اس یہودی نے کہا کہ تو اگر چہ مسلمان ہے مگر تو کوخئی عمدہ آدمی نہیں ہے اس لئے تم صرف صورت پر نازنہ کرو بلکہ حقیقت کام آتی ہے۔سنوأہمارے ہاں ایک دفعہ ایک لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام خالد رکھا گیا جس کے معنے ہیں ہمیشہ رہنے والا اور پھر اسی دن اسے دفن کر آئے وہ مر گیا اور خالد کا لفظ اس لڑکے کے کوئی کام نہیں آیا۔اسی طرح ہمیشہ انسان کے کام میں حقیقت اور روحانیت ہی کام دے گی۔
میرا دل ہر گز یہ قبول نہیں کرتا کہ ہماری جماعت میں جو سچاتقویٰ اور طہارت بھی رکھتا ہواور جسے خدا تعالیٰ سے سچا تعلق بھی ہو تو پھر خدا اسے ذلت کی موت مارے۔اگر چہ طاعون مختلف وقتوں میں آتی رہی ہے مگر ہر زمانہ کا حکم الگ الگ ہے بعض وقتوں میں ایسا کوئی آدمی نہ تھا جو اس وقت تم میں بول رہا ہے پس ایسے وقت خدا تعالیٰ فرق کرنا چاہتا ہے اور وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جو خد اتعالیٰ کے منشاء کو سمجھ کر سچا تقویٰ اختیار کرے گا اور خدا سے کوئی فرق نہ رکھے گا خدا تعالیٰ نے ہمیں خوب سمجھا دیا ہے کہ جو دل سعی اور فرق کرنے والے ہیں ان سے یہ عذاب خدا تعالیٰ نے پھیر دیا ہے اس لئے ایک متقی کب اس میں شریک ہو سکتا ہے اگر ہماری جماعت میں کوئی موت طاعون کی ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس میں کوئی نوع غفلت کی تھی میرے وہم اور خیال میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی کہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کی جائے کہ وہ مخلف الوعد ہو۔
اپنے اِرد گرد ایک دیوارِ رحمت بنالو
پس راتوں کو اٹھ کر روئو۔دعائیں مانگو اور اس طرح سے اپنے ارد گرد ایک دیوار رحمت بنالو خدا تعالیٰ رحیم کریم ہے وہ اپنے خاص بندہ کو ذلت کی موت کبھی نہیں مارتا۔(اگر خدا نخواستہ ہماری جماعت میں سے کسی کو ذلت کی موت آئی تو لوگ اعتراض کریں گے کیونکہ اگر ہم اشتہار نہ دیتے تو کسی کو اعتراض کا موقعہ نہ ملتا مگر اب تو ہم نے خود مشتہر کیا ہے اس لئے لوگ ضرور اعتراض کریں گے۔)پس تم کو چاہئے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو مجھے امید ہے کہ جو پورے درد والا ہو گا اور جس کا دل شرارت سے دور نکل گیا ہے خدا اسے ضرور بچائے گا توبہ کرو-توبہ کرو- مجھے یاد ہے ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہو گا اسی طاعون نہیں ہو گی اور جو شخص ضرر اٹھائے گا اپنے نفس سے اتھائے گا اگر تم خدا سے صفائی نہیں کرتے تو کوئی طبیب تمہارا علاج نہیں کر سکتا اور نہ کوئی دوا فائدہ بخش سکتی ہے یہ ذمہ داری صرف خد اکا فعل ہے دل کا پاک و صاف کرنا بھی ایک موت ہوتی ہے جب تک انسان محسوس نہ کرے کہ میں اب وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا تب تک اسے سجمھنے چاہئے کہ میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔جب اسے معلوم ہو کہ میں اب گندی زندگی جہالت اور طولِ امل سے بہت دور آگیا ہوں تو سمجھے کہ اب میں نے تقویٰ پر قدم رکھا ہوا ہے۔نفس بہت دھوکے دیتا ہے بیگانے مال کی خواہش رکھتا ہے حسد سے دوسرے کے مال کا زوال اور نقصان چاہتا ہے۔تو یہ باتیں آخری اور نفس سے نکلنے کی ہوتی ہیں۔اور یہ وہی آخری وقت ہے خد اکا خوف ایسی شئے ہے کہ انسان کی خصی کر دیتا ہے۔
ایک رؤیا
نماز عشاء کے بعد حضور پھے تھوڑی دیر کے لئے شہ نشین پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ
مجھے رؤیا ہوا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی سر سے ننگا میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آیا ہے اس سے مجھے سخت بدبو آتی ہے میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میرے کان کے نیچے طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے میں اسے کہتا ہوں کہ پیچھے ہٹ جا۔پیچھے ہٹ جا۔
آپ نے فرمایا کہ:-
اس کے ساتھ تفہیم الٰہی کوئی نہیں ہوئی۔؎ٰ
۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ء؁بروز دو شنبہ
اعجاز احمدی اور مخالفین
حضرت اقدسؑ آٹھ بجے کے قریب سیر کے لئے تشریف لائے اور قادیان کی مشرقی طرف چلے۔اعجاز احمدی کا ذکر ہوتا رہا۔ کہ یہ مخالف اب اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ہاں بعض یہ کہیں گے کہ اگر ہم چاہیں تو اس کا جواب لکھ سکتے ہیں اس پر نواب محمد علی خاں صاحب نے ایک ڈاکٹر صاحب کا ذکر سنایا کہ دہلی میں ایک مولوی نے اعجاز المسیح کو دیکھ کر یہی کہا تھا کہ اگر چاہیں تو ہم اس کا جواب لکھ سکتے ہیں مگر کون وقت ضائع کرے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ وہی مثال ہے کہ ایک شخص نے مشتہر کیا کہ میرے پاس ایک بکری ہے جو شیر کو مار لیتی ہے بشرطیکہ وہ چاہے۔
فرمایا
یہی حیلہ کریں گے اگر ہم چاہتے تو جواب لکھ سکتے ہیں،۔اسی طرح یہ لوگ ارادہ نہیں کرتے یہی ان کا حیلہ ہوتا ہے’پھر فامایا کہ
اعجاز احمدی کا اردو حصہ بھی ہمارے تمام رسالوں کا نچوڑ ہے۔پھر فرمایا کہ
ابھی کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت کے کون کون پوشیدہ لوگ ان کے درمیان ہیں وقت آئے گا۔تو سب آجائیں گے اس کی مثال ایک شرابی کی مثال ہے کہ وہ جب تک بیہوش ہوتا ہے تو سب کچھ کہتا رہتا ہے پھر جب ہوش ئائے تو سنبھل جاتا ہے اسی طرح ان لوگوں کو بھی حسد اور تعصب کی شراب کی بیہوشی ہے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کا انجام
ایک شخص نے ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اگر آخر کار ہماری جماعت میں داخل ہوں تو ان تصانیف اور دیگر تحریروں میں ان کی جو گت بن چکی ہے وہ صفحہ روز گار پر یاد گار رہے گی۔حضور نے فرمایا کہ
یہ تمام ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا خدا کی شان ہے کہ اس کے جو ارادے ہمیں ذلت پہنچانے کے تھے وہ تمام اس پر الٹ پڑے خود اس کی اپنی جماعت میں اس کی عزت نہ ہوئی۔
خدا تعالیٰ کی قدرتیں
فرمایا :-
خدا کی قدرتیں عجیب ہیں جس کو چاہے عزت عنایت کرے یہ تمام اس کی لہریں ہیں انسان کی غلطی ہے کہ ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتا ہے جس قدر وہ لذات چاہتا ہے خدا تعالیٰ قادر ہے کہ حلال ذریعہ سے پہنچاوے۔کوئی دوست کسی کی ایسی پاسداری نہیں کرتا جیسے وہ کرتا ہے۔اس کے خلق اسباب میں عجیب مزا آتا ہے ۔قتل کے مقدمہ پر نظر ڈالو کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ نے سب میں پھوٹ ڈال دی۔میرا تو یہ خیال ہے۔کہ اگر حاکم کے سامنے بھی آدمی جاوے تو اسے ہر گز نہ کو سے کیونکہ اگر خدا کو یہ راضی کرتا ہے تو خدا خود اس حاکم کے دل کو اس کی طرف پھیر دے گا سب کچھ اسی کے پنجہ میں ہے جسے جس طرف چاہے پھیر دے۔اس رنگ میں ایک مزا وجودی مذہب کا آجاتا ہے مگر ان کا قدم ذرا آگے پھسلا ہوا ہے لیکن اگر یہاں تک قدم نہ پڑے تو پھر توحید کا بھی مزا نہیں آتا۔
سب سے زیادہ ضروری شَے خد اکی ہستی پر یقین ہے
فرمایا :-
دراصل لوگوں کو شبہات پڑ گئے ہیں اس لئے وہ گناہ سے پر ہیز نہیں کرتے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ غفلت کا حصہ رہ جاتا ہے۔خد ااب چاہتا ہے کہ یہ لوگ سمجھ لیں جس طرح نوحؑ کے زمانہ میں ان کے بیٹے نے کہا تھا کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گا اسی سرف یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم طاعون سے بچنے کے لئے ٹیکہ کی پناہ میں آجائیں گے مگر نہیں جانتے کہ سب سے زیادہ ضروری شئے خد اکی ہستی پر یقین ہے بغیر اس یقین کے اعمال میں برکات ہر گز پید انہیں ہوتیں۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ چلو ذرا ہم بھی چلتے چلیں۔اگر لوگ آج ہی توحید پر قائم ہو جائیں تو آج ہی یہ بلا(طاعون) جاتی رہتی ہے خدا تعالیٰ انسان کے اعمال کو دیکھتا ہے کہ وہ توحید پر قائم ہیں کہ نہیں بہت سے عمل تو کل کے برخلاف اور توحید کے برخلاف ہوتے ہیں خواہ وہ کسی طرح سے لاالہ الا اﷲ کہے مگر وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور یہی فسق فجور ہوتا تھا مگر خد اکا خوف بیھ دلوں میں ہوتا تھا ایک وقت آتا ہے کہ لوگ
یامسیح الخلق عدوانا
کہیں گے مگر اس وقت وہ سب ناس ہی رہ جائیں گے جیسے
رایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۳)
مگر ایسے وقت پر ان لوگوں کو ایمان چنداں فائدہ نہیں دیتا ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
قل یوم الفتح لا ینفع الذین کفرو اایمانھم (السجدۃ : ۳۰)
اس سے
طلو ع الشمس من مغربھا
کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ توبہ قبول نہ و گی بلکہ یہ مراد ہے کہ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بخشے تو بخشے ان کی توبہ کوئی حقیقت نہ رکھے گی۔یہ امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوگا جیسے فرمایا
الا ماشاء ربک (ہود: ۱۰۹)
مگر مومنوں کے حق میں فرمایا۔
عطاء غیر مجذوذ (ہود : ۱۰۹)
طاعون مامور ہے اور لوگوں کیلئے ایک تازیانہ ہے
فرمایا :-
طاعون بھی مامور ہے اس کا کیا قصور ہے جیسے اگر ایک شخص سپاہی ہو تو خواہ اسے اپنے حقیقی بھائی کے نام وارنٹ ملے اسے اس کو گرفتار ہی کرنا پڑے گا کییونکہ فرض منصبی ہے میں تو خد اتعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ لوگوں کو سیدھا کرنے کا اب وقت آگیا ہے خدا کی رحمت عظیم ہے کہ اپنی طرف سے خود ہی ایک تازیانہ مقرر کر دیا کہ یہ لوگ غافل نہ رہیں۔اب یہ لوگ سالک نہ ہوئے بلکہ مجذوب ہوئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود دستگیری کی ہماری جماعت میں ہماری طرف سے نصائح کا سلسلہ تو جاری تھا مگر اس کا اثر کچھ کم ہی ہوتا تھا اب اس نے طاعون کا تازیانہ چالیا کیونکہ طاعون کو دیکھ کر ان لوگوں کے دل متاثر ہوں گے اور ان نصائح کو خوب سمجھیں گے اب ان لوگوں کے لئے ایک عمدہ موقعہ اولیاء اور اصفیاء بننے کا ہے ورنہ آرام کے زمانہ میں ان نصائح کا کای اثر ہوتا۔بعض وقت انسان مار کھانے سے درست ہوتا ہے اور بعض وقت مار دیکھنے سے۔زنا کی سزا کے لئے بھی خدا نے کہا ہے کہ لوگوں کو دکھا کر دی جائے۔اسی طرح دوسروںکو تازیانہ پڑ رہا ہے اور ہماری جماعت دیکھ رہی ہے بہت سے آدمی تھے جنہوں نے ہمارے منشاء اور ارادہ کو آج تک نہیں سمجھا تھا مگر اب خد ادوسروں کو تازیانہ لگا کر ان کو سمجھا رہا ہے
طائفۃ من المو منین (النور : ۳)
سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طائفہ میں کوئی کسر ہوگی۔اس کی اصلاح اس طرح سے ہو جائے گی کہ وہ دوسرے کو سزا ملتی دیکھ کر اپنی اصلاح کریں گے اور اس میں کل مومنوں کو بھی نہیں کہا بلکہ ایک طائفہ کو کہا ہے۔
ایک رؤیا
اس کے بعدے فرمایا کہ :-
رات میں نے خواب میں کچھ بارش ہوتی دیکھی ہے یونہی ترشح ساہے اور قطرات پڑرہے ہیں مگر بڑے آرام اور سکون سے۔
ایمان کی حفاظت سرگرمی سے ہوتی ہے
فرمایا :-
سرگرمی انسان کے اندر ہو تو ایمان رہتا ہے ورنہ نہیں۔کافور کے ساتھ کالی مرچ اس لئے رکھتے ہیں کہ کافور نہ اڑے۔اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کالی مرچ میں تیزی ہوتی ہے وہ اسے اڑنے سے بچائے رکھتی ہے۔؎ٰ
۱۸؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
ایک عظیم الشان رؤیا
فجر کی نماز کے بعد فرمایا کہ
نماز فجر سے کوئی بیس یا پچیس منٹ پیشتر میں ین خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خرید لی ہے کہ اپنی جماعت کی میتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام بہشتی مقبرہ ہے جو اس میں دفن ہوگا بہشتی ہوگا۔
پھر اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسر صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پرانی انجیلیں وہاں سے نکلی ہیں میں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جائیں اور وہ انجہیلیں لائیں تو ایک کتاب ان پر لکھی جائے۔یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ میں جاتا ہوں۔مگر اس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جائے میں نے کہا کہ خلیفہ نورالدین کی بھی ساتھ بھیج دو۔
یہ خواب حضرت اقدس نے سنایا اور فرمایا کہ
اس سے پیشتر میں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو سو خد اتعالیٰ نے آج اس کی تائید کر دی اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کر کے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہوگا۔
(بوقت ظہر و عصر)
ایک نشان
چند ایک احباب مع مولوی عبد الستار صاحب جو آج تشریف لائے تھے ان سے حضور نے ملاقات فرامئی ان کے تحفے تحائف لے کر جو انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کئے تھے فرمایا کہ
ان کا آنا بھی ایک نشان ہے اور اس الہام
یا تیک من کل فج عمیق
کو پورا کرتا ہے۔
‏Amira 19-4-05
کشمیر میں قبرِ مسیحؑ
مغرب کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرت اقدس حسب معمول مسجد کے شمال مغربی کونہ میں بیٹھ گئے اور فجر کی خواب پر حضرت اقدس اور اصحاب کبار تذکرہ کرتے رہے۔؎ٰحضور نے فرمایا کہ کشمیر میں مسیح کی قبر کا معلوم ہونے سے بہت قریب ہی فیصلہ ہو جاتا ہے اور سب جھڑے طے ہو جاتے ہیں اگر فراست نہ بھی ہو تو بھی یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ آسان بات کون سی ہے۔اب آسمان پر جانے کو کون سمجھے جو باتیں قرین قیاس ہوتی ہیں وہی صحیح نکلتی ہیں آج تک خدا کے اعلام سے اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا تھا۔مگر اب خود ہی اﷲ تعالیٰ نے بتلا دیا اب تخم ریزی تو ہوئی ہے امید ہے کہ کچھ اور امور بھی ظاہر ہوں گے عادت اﷲ اسی طرح ہے یہ خواب بالکل سچا ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح کی آمیزش نہیں ہے۔مجھے اس وقت خواب میں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا عظیم الشان کام ہے جیسے کسی کو لڑائی پر جانا ہوتا ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ہماری فراست نے خطا نہیں کی۔یہ عقدہ اﷲ تعالیٰ حل کر دے تو صد ہا برسوں کا کام ایک ساعت میں ہو جائے اور عیسائیوں اور ان مولویوں کے گھروں میں ماتم پڑ جائے۔
ایک صحابی نے عرض کی کہ حضور پھر تو سارے انگریز رجوع باسلام ہو جائیں فرمایا:-
دنیا میں ایک حرکت ہے اس کی مثال تو یہ ہے کہ جیسے تسبیح کا (دھاگہ ٹوٹ کر) ایک دانہ نکل جائے تو باقی بھی نہیں ٹھہرتے خواہ پادری پٹتے ہی رہ جائیں تمام انگریز ٹوٹ پڑیں گے اﷲ تعالیٰ کے دائو ایسے ہی ہوتے ہیں
مکرو اومکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین (آل عمران : ۵۵)
پھر ڈوئی کا اخبار آپ نے سنا اور فرمایا کہ
پگٹ کی شہرت ڈوئی سے بہت زیادہ ہے ۔؎ٰ
۱۹؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
(بوقت سیر)
یوم اموت ویوم ابعث حیا (مریم : ۳۴)
اس آیت پر فرمایا کہ
ان مولویوں کو حسرت ہی ہو گی کہ ابعث کا لفظ کیوں آیا کاش انزل کا لفظ ہوتا۔
پگٹ شیطان کا مظہر
اس کے بعد پگٹ کا ذکر ہوا کہ
ان لوگوں کو اس لئے دعویٰ کرنے کی جرأت ہو جاتی ہے کہ قوم نے مان لیا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ مسیح آئے ورنہ اگر قوم کی کثرت رائے اس طرف ہوتی کہ وہ وقت دور ہے تو یہ دعویٰ نہ کرتا۔شیطان کے بھی مظہر ہوتے ہیں شیطان نے اس زمانہ میں اپنے مظہر کے لئے پگٹ کو ہی پسند کیا ہے۔
فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت
فرمایا :-
فی زمانہ تصویر کی ان لوگوں کے بالمقابل کس قدر حاجت ہے۔ہر ایک رزم بزم میں آج کل تصویر سے اثر ڈالا جاتا ہے۔پگٹ کی بھی تصویر شائع ہوئی ہے فوٹو کے بغیر آج کل جنگ (روحانی) ناقص ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح کے ہتھیار مخالف تیار کریں تم بھی ویسے ہی تیار کرو اس سے فوٹو کا جواز ثابت ہے بندوقوں اور توپوں سے جنگ کرنے کا جواز بھی اسی طرح کیا گیا ہے ورنہ آگ سے مارنا تو حرام ہے جہاں ضرورت حقہ محرک اور مستدعی ہوتی ہے یا اس کے متعلق الہام ہوتا ہے اس مقام پر تصویر کی حرمت کی سند پیش کرنا حماقت ہے جبرائیل نے خود حضرت عائشہؓ کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی۔
مولوی محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں بھی ایسی ہی ضرورت پیش آئی ہو گی حضرت اقدس نے فرمایا :-
ایسا ہی معلوم ہوتا ہے
پھر فرمایا :-
ایک حرمت حقیقی ہوتی ہے ایک غیر حقیقی ہوتی ہے وہ اسبابِ داعیہ سے اٹھ جاتی ہے۔
انسان انسان میں فرق
سیر کے دوران راستہ میں ایک سائل بلک بلک کر سوال کر رہا تھا۔فرمایا :-
ایک یہ بھی انسان ہے اور ہم بھی ایک انسان ہیں۔کس طرح یہ ہر ایک دروازہ پر گرتا اورسوال کرتا ہے۔اگر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا تو ایسا کبھی نہ رہتا۔
می تواند شد مسیحا می تواند شد یہود
پگٹ کا نام
پھر فرمایا :-
پگٹ کے نام کا جو سر ہے اس میں خنزیر کے معنے پائے جاتے ہیں۔اب دیکھیں کہ یہ عیسائیوں کا خدا آسمان پر جاتا ہے کہ زمین میں دفن ہوتا ہے دراصل خدا تعالیٰ کو ان لوگوں پر سخت غیرت ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اس کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ ایسے لوگ ہوں۔اس حساب سے تو موسیٰ ؑاور دوسرے کل نبی معاذاﷲ اس (پگٹ) کے بندے ہوئے اور یہ بیھ عجیب بات ہے کہ ایک ہی سلطنت کے نیچے دو مدعی۔ایک جھوٹا ایک سچا جیسے طاعون ہمارے لئے مفید پڑی ہے ویسے ہی پگٹ نے گردن نکالی ہے جو کچھ اول مقرر ہو چکا ہے ضرور ہے کہ وہ تمام ظاہر ہو جاوے۔
ڈوئی کے ذکر پر فرمایا :-
جو دولت کی مشکلات میں پھنسا ہے اسے دین میں کب راہ مل سکتی ہے۔
زندون کا توسل جائز ہے
بعد نمازمغرب حضرت اقدس مسجد کے گوشہ میں تشریف فرما اہوئے۔ایک سوال پوچھا گیا کہ آیا دعا کے بعد یہ کلمات کہنے کہ یا الٰہی تو میری دعا کو بطفیل حضرت مسیح موعود ؑ قبول فرما۔جائز ہے یا نہیں؟
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
شریعت میں توسل احیاء کا جواز ثابت ہوتا ہے بظاہراس میں شرک نہیں ہے ایک حدیث میں بھی ہے۔؎ٰ
لفظ اوی کی حقیقت
فرمایا :-
قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اوی کا لفظ یہ چاہتا ہے کہ اول کوئی مصیبت واقع ہو۔اسی طرح الہام
انہ اوی القریۃ
چاہتا ہے کہ ابتداء میں خوفناک صورتیں ہوں۔اصحاب کہف کی نسبت بھی یہی
فا و االی الکھف (الکہف : ۱۷)
اور
واوینھما الی ربوۃ (المومنون : ۵۱)
ان تمام مقامات سے یہی مطلب ہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ آرام دے مصیبت اور خوف کا نظارہ پیدا ہوگا اور
لو لا الاکرام لھلک المقام
بھی اسی کے ساتھ ملتا ہے۔
اوائل عمر کی بیعت
ایک لڑکے کی بیعت کے ذکر پر فرمایا کہ
اوائل عمر کے لوگوں کی بیعت میں مجھے تردد ہوتا ہے جب تک انسان کی عمر چالیس برس کی نہ ہو تب تک ٹھیک انسان نہیں ہوتا۔اوائل عمر میں تلوّن ضرور آتا ہے میرا ارادہ نہیں ہوتا کہ ایسی حالت میں بیعت لوں مگر بدیں خیال کہ دل آزارگی نہ ہو بیعت لے لیتا ہوں۔انسان جب چالیس برس کا ہوتا ہے تو اسے موت کا نظارہ یاد آجاتا ہے اور جس کے قریب ابھی موت کا خوف ہی نہیں اس کا کیا اعتبار۔
مسلمان بادشاہوں نے عربی زبان کی ترویج نہ کرکے معصیت کی
اس کے بعد یہ ذکر ہوتا رہا کہ آج تک بہت تھوڑے ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اس امر کو محسوس کیا اور حسرت کی کہ کیوں ہندوستان کے شاہان اسلام نے اس ملک میں سوائے عربی کے دوسری زبانوں کو رواج دیا حالانکہ عربی ایک بڑی وسیع زبان تھی جس میں ہر ایک مطلب مکمل طور پر بیان ہو سکتا ہے اگر وہ ایسا کرتے تو یہ اسلام کی ایک بڑی امداد ہوتی مگر نہ معلوم کہ کیوں کسی کو خیال نہ آیا۔اس سے ایک نقص یہ بھی پیدا ہوا کہ ہندوستان کی اسلامی ذریت کو اس وجہ سے کہ ان کو اپنی مذہبی زبان کا علم نہیں ۔قرآن شریف اور دیگر علوم عربیہ سے بہت کم مَسّ ہے۔
حضرت اقدس بھی ان باتوں کی تائید فرماتے رہے اور فرمایا کہ
یہ ان سے ایک معصیت ہوئی۔
رسالت اور نبّوت
پھر رسالت اور نبوت کے مضمون پر حضرت اقدس ؑ فارسی میں تقریر فرماتے رہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے۔؎ٰ
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
ماکان محمد ابااخد من رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النبین (الاحزاب : ۴۱)
لکن اینجا برائے اسدراک آمدہ ست چوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس راپدرنیست۔پس ہماں اعتراض کہ بر دشمناں کردہ شدہ و گفتہ کہ
ان شانئک ھوالابتر (الکوثر : ۴)
بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لازم مے آیر گویا کہ خد اتعالیٰ تصدیق معترض مے کند برائے ازالہ ایں وہم فرمودہ است
ولکن رسول اﷲ وخاتم النبین
یعنی ہیچ ابدال و قطب و اولیاء بجز ختم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نخواہد شد۔حکام را ہمیں حالت است کہ اگر بر کاغذ مہر سرکاری نشود صحیح مے دانند۔ہر کسے راکہ الہا م و مکالمہ الٰہی مے شود از مہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم مے شودوازیں معنے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ راپدراست۔در یک معنے نفی نبوت مے شود و دریک معنے اثبات نبوت مے شود اگر بگوئینم کہ سلسلہ افادات نبوی منقطع شدہ واکنوں کسے را الہام و مکالمہ و مخاطبہ الٰہی نمے شود ہمہ اسلام تباہ میشود۔سلسلہ مار اایں مثال است کہ اگر کسے در آئینہ صورت مے ہیند آنچہ در شیشہ نظر مے آید چیزے دیگر نیست ہماں ہست کہ پیش شیشہ است۔ایں مردماں دریں آیت کریمہ غور نمے کنندو من خوب مے دانم کہ ایں ہمہ عقیدہ مے دارد کہ سلسلہ مکالمات الٰہیہ منقطع شدہ است۔کلام بمعنے وحی است در قرآن ہم زکر الہام نیامدہ بلکہ ذکر وحی آمدہ وقطعیت الہام و وحی یک معنے داردو نمے پندارند کہ اگر ایں سلسلہ منقطع شود باقی از برکات اسلام چہ مے ماند۔پس ہمیں معنے است کہ گفتم درمثال آئینہ و ظل کے ظل ہمہ نقوش اصل در خود واردو ظل نبوت ہمیں طور است البتہ آں نبوت منقطع است کہ بلا توسل و سلسلہ رسول اﷲ آید و ہر کسے کہ ازیں انکار مے کند کافر میشورد و ازدین خارج مے شود اگر دین بایں طور مردہ است کدام توقع نجات باید داشت اگر انسان اندریں عالم تکمیل معرفت نکند چہ دلیل دارد کہ در روز آخرت خواہد کرو بجز ایں صورت کہ ما پیش مے کنیم دیگر صورت نیست
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳)
ازبسیار مقاما ت قرآن معلوم مے شود کہ ایں امت خیر امت است پس کدام خیر است کہ درامت موسوی الہام مکالمہ و غیرہ مے شدی و در ایں امت نمے شود و کدام مشابہت ایناں رابامت موروی خواہدبود۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل کنندہ ایں عالم اند یعنی کمال ایں عالم بر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ختم شدہ وایں معنے ختم نبوت است کے کسے دیگر نبی نمے شود حتی کہ مہر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بر نبوت اور نشود چنانکہ مثال آن دریں دنیا دیدہ بود کہ ہیچ پروانہ سرصدیق نمے شود حتی کہ مہر سرکاری براو نبود۔پس ازیں ئیت معلوم میشود کہ اﷲ تعالیٰ بطور جسمانی نفی ابوت مے فرمائد و بطور روحانی اثبات نبوت میکند بہر حال ایمان باید آورد کہ برکات وافادات رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاری است۔
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
دریں آیت معنی محبت چیست ایں معنے ہر گز نیست کہ خدا ہر کسے راکہ محبت میکند دریں عالم اور اکورمے دارد۔اگر ایں دوناں را عقل بودے میدانندے۔انسان ہماں باشد کہ طالب مغز شود نہ کہ پوست ہمہ ابدال طالب مغز شدہ اند ایمان ہمیں است کہ ایشان میخواہند کہ چشم آنہا بینا شود نہ کہ کور باعث مغضوب شدن اہل اسلام چیست ہمیں کہ از زبان میگویند کہ ایمان آور دیم و در دل ہیچ شیئے نیست وہمیں معنے ایں آیت است
ماقدر وااﷲحق قدرہ (الحج : ۷۵)
وہمیں نابینائی کہ ذکر کردیم موجب فسق و فجوراست و برائے ہمیں بینائی خدا وند تعالیٰ ایں سلسلہ را قائم کردہ است کہ باز آں بینائی کہ رفتہ ہست پیدا شود خدا مے خواہد…کہ ثابت کند کہ آن نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ست وافادۂ آں ہم زندہ است اگر ایں نبود کدام فرق درنصاریٰ واسلام است‘آں مردہ وایں ہم مردہ۔آں قضہ و حکایت است ایں ہم قصہ و حکایت است اندریں صورت فیصلہ چگونہ شود۔خدا تعالیٰ ارادہ فرماید کہ آں برکات سماویہ بنماید واگر مردے مثل آں (نبی ﷺ) نمے آید چگونہ بنماید ایں ہمہ کار خدا است مابندگانیم و ہیچ امید فتح و شکست نداریم۔او خوب مے داند کہ کدام شوریدہ است بہر مصلحت کہ خواہد خواہد کرد۔؎ٰ
۲۰؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز پنچشنبہ
پگٹ کے متعلق ایک رؤیا
فرمایا :
رات کو میں نے پگٹ کے متعلق دعا کی اور صبح بھی کی۔مجھے یہ دکھایا گیا کہ کسی نے مجھے چار پانچ کتابیں دی ہیں جن پر لکھا ہوا تھا۔تسبیح تسبیح تسبیح بعد اس کے الہام ہوا
اﷲ شدید العقاب انھم لا یحسنون
اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یا یہ کہ آئندہ توبہ نہ کریں گے اور یہ معنے بھی اس کے ہیں لایومنون باﷲ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا اﷲ تعالیٰ پر یہ افتراء اور منصوبہ باندھا ارو اﷲشدید العقاب طاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جائے۔
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
چکڑالوی کا ذکر آنے پر معلوم ہوا کہ اس نے نماز میں بھی کچھ ردوبدل کی ہے التحیات اور درود شریف کو نکال دیا ہے اور بھی بعض تبدیلیاں کی ہیں ۔حضرت اقدس نے چکڑالوی کے فتنہ کو خطرناک قرار دیا اور آپ کی رحمت اور رحیمیت اسلامی نے تقاضا کیا کہ اس کے متعلق ایک اشتہار بطور محاکمہ کے لکھا جاوے جس میں یہ دکھایا جائے کہ اس نے اور مولوی محمد حسین نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی ہے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو صراط مستقیم پر رکھا ہے۔
فرمایا :- نبی ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے ہیں۔کتاب اور سنت۔ایک خدا کا کلام ہوتا ہے اور دوسرے سنت۔یعنی اس کتاب پر خود عمل کرکے دکھادیتے ہیں دنیا کے کام بھی بغیر اس کے نہیں چل سکتے دقیق مسائل جو استاد بتاتا ہے پھر اس کو حل کرکے بھی دکھادیتا ہے پس جیسے کلام اﷲ یقینی ہے سنت بھی یقینی ہے۔
خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر کھڑا رکھا ہے وہابیوں نے افراط کی اور قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے ئگے مسفیث کی طرح کھٹا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی حدیث کا انکار کر دیا۔اس سے فتنے اک اندیشہ ہے اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خد اتعالیٰ نے حکم ٹھہرایا یہ اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے۔اول خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو ایک لذت ٔتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا
فبای حدیثا بعداﷲ وایتہ یومنون (الجاشہ : ۷)
یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲) ؎ٰ
۲۱؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
لندن میں اوّل ولدالاسلام
حضرت اقدس اول شیخ رحمت اﷲ صاحب سے ان کے حالات سفر دریافت فرماتے رہے۔پھر حضور نے فرمایا کہ کیا آپ پگٹ سے ملنے گئے تھے شیخ صاحب نے سنایا کہ ہم نے بہت کوسش کی مگر وہ ہم سے ملا نہیں۔شیخ صاحب کو ایک اور فرزند ان کی یورپین مکوحہ سے جو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے جس کا نام حضرت اقدس کے ارشاد کے مطابق عبداﷲ رکھا گیا ہے اس کے حالات دریافت فرمانے کے بعد فرمایا کہ :-
لنڈن میں وہ اول ولدالاسلام ہے۔
بعد ازاں طاعون اور ٹیکہ کا ذکر ہوتا رہا۔حضور نے فرمایا :-
آخر کار آسمانی ٹیکہ ہی رہ جائے گا۔ ۲؎
جمعہ پڑھ کر فرمایا :-
رات میں نے محمد حسین اور چکڑالوی کے متعلق جو مضمون لکھا تھا تو میں نے دیھکا کہ یہ دونوں (یعنی چکڑالوی اور مولوی محمد حسین) میرے سامنے موجود ہیں تو میں نے ان کو کہا کہ
خسف القمر و الشمس فی رمضان فبای الاء ربکما تکذبن
اور آلاء سے مراد میں خود ہوں۔ ؎ٰ
۲۵؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
بعد ادائے نماز مغرب لوگوں کا دستور ہے کہ وہ پروانہ وار گرتے ہیں اور ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک قدم آگے ہو جائوں تاکہ حضرت اقدس کے دہن مبارک سے جو کلمات طیبات نکلتے ہیں وہ اچھی طرح سن سکوں یہ کشمکش دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ
’’آپس میں مل جل کر بیٹھ جائو جس قدر تم آپس میں محبت کرو گے اسی قدر اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘۔
مضمون زیر قلم کی نسبت ایک استفسار پر فرمایا کہ
یونہی امتحانا’’میں نے دیکھنا چاہا تھا کہ کچھ لکھ سکتا ہوں کہ نہین مگر چند ہی حرف لکھنے کے بعد سر کو چکر آگیا اور میں گرنے کے قریب ہو گیا۔
مصری اخبار اللواء کے اعتراض کا جواب
مپر کے اخبار اللواء نے کشتی نوح میں مندجہ آیت ؎۱ کا ذکر کرکے اعتراض کیا تھا کہ یہ لوگ قرآن کو نہیں سمجھتے اور ان کو پتہ نہیں کہ مامن داء الا ولہ دواء حدیث میں ہے اس پر ایمان نہیں لاتے۔حضور نے فرمایا کہ
اس نے ہمارے مطلب کو نہیں سمجھا اور پہلی آیت کو دیکھ کر صرف اپنے اندرونی بغض کی وجہ سے ایک شاعرانہ مذاق میں مضمون لکھنا شروع کر دیا۔ہم دوائوں سے کب انکار کرتے ہیں ہم توقائل ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک شئے میں فوائد رکھے ہیں لیکن چونکہ اﷲ تالیٰ نے اس (طاعون) کے متعلق ہمیں قبل ازوقت سمجھا دیا ہے کہ یہ اس کا حقیقی علاج ہے اور یہ امر اس نے ہمیں بطور نشان کے دیا ہے تو اب ہم نشان کو کیسے مشتبہ کریں۔جب اﷲ تعالیٰ کوئی نشان دے تو اس کی بے قدری کرنا صرف معصیت ہی نہیں بلکہ کفر تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ ؎
گر حفظ مراتب نہ گنی زندیقی
حفظ مراتب کا لحاظ ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی کبھی نہیں آتا یا افراط ہے یا تفریط۔خیر اب اس کے مقابلہ میں بھی لکھنے کا عمدہ موقعہ مل گیا ہے بہتر ہے کہ ایک اشتہار میں مختصراً اپنے دعاوی اور دلائل لکھا دیئے جائیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اب بہانے ڈھونڈتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب تبلیغ کا کوئی عمدہ ذریعہ نہ تھا تو اﷲ تعالیٰ اسی طرح دشمنوں کے ہاتھوں سے تبلیغ کراتا تھا کوئی شاعر آتا تو شعر کہہ جاتا لوگ برے برے پیرائوں میں آپؐ کا ذکر کرتے مگر سعید روحیں انہین کے الفأظ سے آپ کی طرف کھچی چلی آتیں۔یہ ہمیشہ سنت اﷲ ہے۔
سعادت کے نشان
بٹالہ میں طاعون کا ذکر سن کر فرمایا کہ
یہ سر زمین بہت گندی ہے خوف ہے کہیں تباہ نہ ہو جائے۔اﷲ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا۔خدا تعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے۔اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں جب عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے صدقات دیتا ہے اور امر الٰہی کی تعظیم اور خلق اﷲ پر شفقت کرتا ہے۔اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے یہی سعادت کے نشان ہیں درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے۔
خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے
فرمایا :-
اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اﷲ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے۔اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا تعالیٰ کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا علاج کرتا ہے بھلا کوئی دعویٰ سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں دوا سے فلاں مریض ضرور ہی شفا پا جائے گا ہرگز نہیں ۔بلکہ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ دوا الٹا ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے۔غرض حتمی علاج نہیں ہو سکتا ہاں خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے اس سے نقصان نہین ہوتا۔مگر یہ بات ذرا مشکل ہے کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے ایسے لوگوں کا اﷲ تعالیٰ خدو معالج ہوتا ہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ دانت میں سخت درد تھا میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے۔علاجِ دنداں اخراجِ دنداں۔اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گذرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمت الٰہی ہے اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے اسی فکر میں تھا کہ غنودگی آئی اور زبان پر جاری ہوا
واذمرضت فھویشفین
اس کے ساتھ ہی ماعً درد ٹھہر گیا ارو پھر نہیں ہوا غرضیکہ لگو اعتراض کے واسطے دوڑتے ہیں حقیقت کے واسطے نہیں دوڑتے اور نہ اسے دیکھتے ہیں۔اعتراض کی صورت کوئی نظر آجائے تو اس کے واسطے عید ہو جاتی ہے ہم نے کشتی نوح میں کہاں لکھا ہے کہ دوائیں لغو محض ہیں۔ٹیکہ نہ کروانے کی صاف وجہ لکھی ہے کہ چونکہ ہمیں آسمانی ٹیکہ لگایا گیا ہے جو کہ ایک نشان ہے اس لئے اس مادی علاج کو خدا تعالیٰ کے نشان میں مشترک کر کے ہم شرک کے مرتکب ہونا نہین چاہتے حقائق اپنے اپنے محل پر ہی چسپاں ہوسکتے ہیں دیکھئے روزہ کیسے خدا تعالیٰ کی رضا اور ثواب کا موجب ہے لیکن اگر کوئی عید کے دن روزہ رکھے تو کیا وہ ثواب کا مستحق ہو گا یا کسی عذاب کا؟ ان لوگوں نے ہمارے متعلق ذرا سوچ سے کام نہیں لیا اگر تقویٰ اور نیک نیتی سے کام لیتے اور سوچتے تو اتنا غوغا نہ کرتے بلکہ ان کو حق سمجھ آجاتا اور وہ ہلاک نہ ہوتے خدا تعالیٰ نیک نیت کو ضائع نہیں کرتا۔
مضع مُدّ میں میاں محمد یوسف صاحب کا بائیکاٹ
حضرت اقدس کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ موضع مد میں محمد یوسف صاحب کا پانی بند کرنے اور تعلقات لین دین‘گفتگو‘سلام پیام سب ترک کرنے کی تحریک جاری ہے اس لئے ان کے گھرانے کو سخت تکلیف ہے فرمایا کہ :-
خدا تعالیٰ آسمان پر دیکھتا ہے ان کو اس کا اجر دے گا اور تکلیف دینے والوں کو سزا د ے گا یونہی ان کو چھوڑتا نہیں۔
جنّات
جنات کے وجود اور ان کی معرفت اشیاء منگوانے اور کھانے کا سوال ہوا حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:
اس پر ہمارا ایمان ہے۔عرفان نہیں نیز جنات کی ہمیں اپنی عبادت‘معاشرت‘تمدن‘اور سیاست وغیرہ امور میں ضرورت ہی کیا ہے۔
خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ کریں
رسوﷲ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ فرمایا ہے
من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ
انسانی عمر بہت تھوڑی ہے سفر بڑا کڑا اور لمبا ہے اس واسطے زادراہ لینے کی تیاری کرنی چاہئے بیہودہ محض اور لغو کاموں میں پڑے رہنا مومن کی شان سے بعید ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ ہی صلح کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اس سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں۔اس سے برھ کر کوئی طاقت ور نہیں۔بات یہ ہے کہ نرے الفاظ اور باتوں سے کچھ نہیں بنتا جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دلوں میں نہ گاڑدے۔خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہی ہر مرض کا علاج ہوتا ہے میرے نزدیک یہ عالمگیر موت جو آتی ہے اس کا علاج بجز ایمان کے صیقل کرنے اور یقین کی جلا کے ہرگز ممکن نہیں۔
طاعون کا علاج
یہ (طاعون) زمینی چیز نہیں ہے کہ زمین اس کا علاج کر سکے یہ آسمان سے آتی ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا یہ
رجزمن السماء (العنکبوت : ۳۵)
ہے سابقہ انبیاء کے وقت بھی یہ بطور عذاب کے ایک نشان ہوتا رہا ہے پس اس کا علاج یہی ہے کہ اپنے ایمان کو اس کی انتہائی غایت تک پہنچا دو۔اس کے آنے سے پیشتر خدا تعالٰٰ سے صلح کرو۔استغفار کرو۔توبہ کرو۔دعاجوں میں لگو۔اس (مرض طاعون) کی کوئی دوائی نہیں ہے مرض ہتو دوا ہو۔یہ تو ایک عذاب الٰہی اور قہرایزدی ہے بجز تقویٰ کے اس کا اور کیا علاج ہے؟ یاد رکھو کہ اگر گھر بھر میں ایک بھی متقی ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کے سارے گھر کو بچائے گا بلکہ اگر اس کا تقوی کامل ہے تو وہ اپنے محلے کا بھی شفیع ہو سکتا ہے اگر چہ متقی مر بھی جائے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ موت ایک قہر الٰہی کا نمونہ ہے اور بطور نشان کے دنیا پر آئی ہیمیرا دل ہرگز شہادت نہیں دیتا کہ کوئی متقی اس ذلت کی موت سے مرے۔متقی ضرور بچایا جائے گا۔
کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو
میں نے بارہا انی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔جب کوئی طبیب کسی کو نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہرگز فائدہ نہ ہوگا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا۔جس سے وہ خود محروم ہے کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بنائو
قد افلح من زکھا (الشمس :۱۰)
یوں تو ہزاروں چور‘زانی‘بدکار‘شرابی‘بدمعاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں امتی وہی ہے جو آپ کی تعلیمات پر پورا کار بندہے۔
طاعون
یہ طاعون کوئی مرض نہیں صرف لوگوں کو سیدھا کرنے کے لئے آئی ہے تم کے سیدھا کرنے سے سیدھے نہ بنو بلکہ خدا تعالیٰ کے واسطے سیدھے ہو جائو تا کہ شرک سے بری رہو۔بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے صرف غریب لوگ ہی مرتے ہیۃ۔یہ ایک اور بدقسمتی ہے بجائے عبرت پکڑنے کے الٹا اعتراض کرتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف بیماری ہے اس کو نماز روزے اور نیکی بدی سے کای تعلق ہے۔ڈاکٹروں سے علاج کروانا چاہئے غرضیکہ بے باکی کی یہاں تک نوبت پہنچی ہوئی ہے اور طاعون تو خد اکا ایک آئینہ ہے جس میں خدا اپنا چہرہ دکھائے گا۔یاد رکھو کہ طاعون کا نام خدا نے رحمت نہیں رکھا کہ اس سے مرنے والا شہید ہو۔یہ تو زمانہ تحدی کا ہے بطور نشان کے آئی ہے مومن اور غیر مومن میں فرق کر کے جائے گی۔اس کا نام رجز ہے اور میرے الہام میں بھی اسے غضب کہا گیا ہے آج سے تیرہ سو برس پیشتر قرآن مجید میں اس کی خب ر ہے
اخرجنا لھم دابۃ من الارض تکلمھم…الخ (النمل : ۸۳)
یعنی جب گمراہی اور ضلالت کا زمانہ ہوگا ایسے وقت میں لوگوں کا ایمان خدا پر صرف بچوں کے کھیل کی طرح ہوگا۔تب ہم ان میں ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا غرض یہ (طاعون) خدا تعالیٰ کا ایک قہر ہے جس سے بچنے کے واسطے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنی نجاب کا آپ سامان کرے۔؎ٰ
۲۶؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
خدا تعالیٰ کی طرف رجوع
بعد نماز مغرب حصرت اقدس مسجد کے گوشہ میں جلوہ افروز ہوئے۔چند ایک نو وارد احباب نے بیعت کی اس کے بعد طاعون کے ذکر پر فرمایا :-
جو خدا تعالیٰ کی طرھ رجوع کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو لاپرواہے خدا تعالیٰ اس سے لا پروا ہے اب اس وقت بھی جو نہ سمجھے تو اس کی قسمت ہی بد ہے۔
چند نوجوانوں کا اخلاص
بیعت میں تین نوجوان ایسے بھی شامل تھے جو کہ صرف ایک دن کی رخصت پر آئے تھے عصر کے وقت قادیان پہنچے اور اگلے روز انہوں نے کیمپ میں حاضر ہونا تھا۔
ان کے اس اخلاص اور محبت پر فرمایا کہ
باوجود یکہ فوجی نوکر ہیں مگر خدا تعالیٰ نے دین کی محبت دل میں ڈال دی ہے صدق اور اخلاص لے کر آئے ہیں خدا تعالیٰ ہر ایک کو یہ نصیب کرے۔
سردرد کا علاج
ایک صاحب نے عرض کی کہ میرے سر میں درد رہتا ہے گرمی کے وقت سخت تکلیف رہتی ہے دعا فرمائی جائے۔حضرت اقدس نے فرمایا علاج بھی کیا ہے؟ اس نے عرض کی ہاں کیا ہے مگر فائدہ نہین ہوا۔فرمایا کہ
ہڈیوں کا شور بہ پیا کرو۔ہڈیاں ایسی لیں جن میں کچھ گوشت چمٹا ہوا ہو ان کو ابال کر شوربہ ٹھنڈا کرو کہ چربی جم جائے ۔اس چربی کو نکال دو۔باریک رومال پانی میں تر کر کے شوربہ اس میں چھانو کہ چربی اس میں لگ جائے اور خالص شوربہ رہ جائے وہ پیا کرو ہم دعا بھی کریں گے۔
صبر بھی ایک عبادت ہے
پھر اس شخص نے عرض کی کہ میرے گائوں میں ایک مولوی جو مدرسہ میں ملازم ہے سخت مخالف ہے اور مجھے بہت تکلیف دیتا ہے حضور دعا کریں کہ خد اتعالیٰ اس کی تبدیلی وہاں سے کر دے۔حضرت اقدس نے اس موقعہ پر تبسم فرمایا اور پھر اسے اس طرح سمجھایا کہ
اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔اگر تکلیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔پیغبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ (۱۳) برس دکھ اٹھائے تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں مگر آپ نے صحابہؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی۔آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو ثنیا میں پھیلائے۔اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے۔اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے۔کئی خط اس طرح کے آتے ہیںکہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں صبر بھی ایک عبادت ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے۔یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔دوسری عبادت کے واسطے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے اولے کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔صبر جیسی کوئی شیئے نہیں ہے۔
یہ زمانہ مامور مِن اﷲ کے آنے کا ہے
زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
عجیب بات ہے کہ ہندو بھی کہتے ہیں کہ یہ زمانہ ایک بڑے اوتار کا ہے۔نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ نزول مسیح میں کوئی شخص چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا۔(یعنی جس قدر مکاشفات اور اخبار ہیں وہ تمام چودھویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں) ترقی قمر بھی چودہ تک ہی معلومہوتی ہے۔جیسے قرآن شریف میں ہے
والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم (یس : ۴۰)
قرآن کریم کی ایک خاصیت
ایک حافظ نے درخواست کی کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کی میری منزل ٹھہر جائے مگر ناکامیاب ہی رہتا ہوں۔دعا فرمائیے۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
قرآن خود یہ خاصیت رکھتا ہے کہ اس نقص کو رفع کردے محبت سے پڑھتے رہو ہم بھی دعا کریں گے۔؎ٰ
۲۸؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
اعجاز احمدی کے متعلق جعفر زٹلی کے اعتراض کا جواب
بعد نماز مغرب حضرت اقدس مسجد کے گوشہ میں تشریف فرما ہوئے جعفر زٹلی نے اپنے اخبار میں لکھا تھا کہ یہ بیان غلط ہے کہ اعجاز احمدی پانچ دن میں تیار ہوئی بلکہ اس کا مسودہ ایک عرصہ سے تیار ہو رہا تھا۔صرف مُدّکے واقعات کا تھوڑا سا مضمون ان ایام میں بنالیا ہے۔اس سفید جھوٹ پر حضرت تبسم فرماتے رہے اور تعجب کرتے رہے کہ ان لوگوں کو اس قدر جھوٹ پر جھوٹ کی کس طرح جرأت ہوتی ہے پھر فرمایا کہ :-
ہر ایک بات کے واسطے فیصلہ ہوتا ہے جب تک خدا تعالیٰ ان لوگوں پر اول سبقت نہ کرے ہم بھی نہیں کرتے۔
صداقت کے دلائل کی بنیاد
اس کے بعد حضرت اقدس نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ :-
اگر طبیعت درست ہو جائے تو نزول مسیح کو مکمل کر کے ایک رسالہ بزبان فارسی تحریر کیا جائے جس میں دلائل کی بنیاد تین چیرزوں پر رکھی جائے جن کو ہر ایک نبی پیش کرتا رہا ہے اور اول نصوص۔ دوسرے معجزات۔تیسرے عقل۔
عادت ایک زنگ ہے
پھر فرمایا :-
مشکل یہ ہے کہ عادت بھی ایک زنگ ہے جب دل پر بیٹھ جائے تو ہزارہا دلائل ہوں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا جیسے ایک ہندو کے دل میں گنگا کی جو عظمت بیٹھی ہے اس سے دلائل پوچھو تو کچھ نہ دے گا صرف عادت کے طور پر اس کی بزرگی ہی مانتا جائے گا۔اسی طرح نزول مسیح کے بارے میں ان لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ وہ یہی مانتے ہیں کہ اسی جسم کے ساتھ آسمان سے آئے گا۔یہ مرض بھی دق کی طرح لگا ہے لیکن میں اس پر خوش ہوں کہ میرا خدا ہر ایک شئے پر قادر ہے۔وہ اس مرض کے دفعیہ کے ہزارہا سامان پیدا کرے گا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہ زمانہ مامور مِن اﷲ کے آنے کا ہے
زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
عجیب بات ہے کہ ہندو بھی کہتے ہیں کہ یہ زمانہ ایک بڑے اوتار کا ہے۔نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ نزول مسیح میں کوئی شخص چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا۔(یعنی جس قدر مکاشفات اور اخبار ہیں وہ تمام چودھویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں) ترقی قمر بھی چودہ تک ہی معلومہوتی ہے۔جیسے قرآن شریف میں ہے
والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم (یس : ۴۰)
قرآن کریم کی ایک خاصیت
ایک حافظ نے درخواست کی کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کی میری منزل ٹھہر جائے مگر ناکامیاب ہی رہتا ہوں۔دعا فرمائیے۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
قرآن خود یہ خاصیت رکھتا ہے کہ اس نقص کو رفع کردے محبت سے پڑھتے رہو ہم بھی دعا کریں گے۔؎ٰ
۲۸؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
اعجاز احمدی کے متعلق جعفر زٹلی کے اعتراض کا جواب
بعد نماز مغرب حضرت اقدس مسجد کے گوشہ میں تشریف فرما ہوئے جعفر زٹلی نے اپنے اخبار میں لکھا تھا کہ یہ بیان غلط ہے کہ اعجاز احمدی پانچ دن میں تیار ہوئی بلکہ اس کا مسودہ ایک عرصہ سے تیار ہو رہا تھا۔صرف مُدّکے واقعات کا تھوڑا سا مضمون ان ایام میں بنالیا ہے۔اس سفید جھوٹ پر حضرت تبسم فرماتے رہے اور تعجب کرتے رہے کہ ان لوگوں کو اس قدر جھوٹ پر جھوٹ کی کس طرح جرأت ہوتی ہے پھر فرمایا کہ :-
ہر ایک بات کے واسطے فیصلہ ہوتا ہے جب تک خدا تعالیٰ ان لوگوں پر اول سبقت نہ کرے ہم بھی نہیں کرتے۔
صداقت کے دلائل کی بنیاد
اس کے بعد حضرت اقدس نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ :-
اگر طبیعت درست ہو جائے تو نزول مسیح کو مکمل کر کے ایک رسالہ بزبان فارسی تحریر کیا جائے جس میں دلائل کی بنیاد تین چیرزوں پر رکھی جائے جن کو ہر ایک نبی پیش کرتا رہا ہے اور اول نصوص۔ دوسرے معجزات۔تیسرے عقل۔
عادت ایک زنگ ہے
پھر فرمایا :-
مشکل یہ ہے کہ عادت بھی ایک زنگ ہے جب دل پر بیٹھ جائے تو ہزارہا دلائل ہوں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا جیسے ایک ہندو کے دل میں گنگا کی جو عظمت بیٹھی ہے اس سے دلائل پوچھو تو کچھ نہ دے گا صرف عادت کے طور پر اس کی بزرگی ہی مانتا جائے گا۔اسی طرح نزول مسیح کے بارے میں ان لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ وہ یہی مانتے ہیں کہ اسی جسم کے ساتھ آسمان سے آئے گا۔یہ مرض بھی دق کی طرح لگا ہے لیکن میں اس پر خوش ہوں کہ میرا خدا ہر ایک شئے پر قادر ہے۔وہ اس مرض کے دفعیہ کے ہزارہا سامان پیدا کرے گا۔
جمعہ کی تعطیل
جمعہ کی تعطیل کے لئے ایک میموریل دربار دہلی کی تقریب پر گورنمنٹ ہند کی خدمت میں پیش کرنے کی تجویز حضرت اقدس نے کی ہے جو کہ عنقریب شائع ہوگا۔
جماعت کی ترقّی
اس کے بعد جماعت کی ترقی کا ذکر ہوا کہ :-
یہ ایک عظیم الشان امر ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ نے ان تین سالوں میں طاہر کیا ہے۔ان تین سالوں سے پیشتر ہماری جماعت صرف کئے سو تھی اور اب ان تین سالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ ہو گئے باوجود یکہ ہر طرف سے مزاحمت ہوتی رہی مخالفت میں کوئی فرق نہیں رکھا۔اور ناخنوں تک زور لگایا۔؎ٰ
۲۹؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز شنبہ
(بوقت سیر)
ٹیکہ طاعون کے منفی نتائج
آٹھ بجے کے قریب حضرت اقدس تشریف لائے اور احباب کے ہمراہ سیر کو چلے۔گذشتہ شب سول ملٹری گزٹ اور پایونیئر کے حوالہ سے ٹیکہ طاعون کے خطرناک نتائج جو حضرت اقدس کو سنائے گئے تھے کہ ملکوال میں انیس موتیں ٹیکہ لگنے کے باوجود ہوئیں۔اس پر فرمایا کہ
یہ بھی خدا تعالیٰ کی کتنی رحمت ہے ہمارے کشتی نوح میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اگر آسمانی تیکہ کے علاوہ اور اس کے مقابلہ پر کسی اور طرح سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے تو ہامرا دعویٰ جھوٹا۔
اس ٹیکہ کے انتظام پر گورنمنٹ کا لاکھوں روپیہ صرف ہوتاہے (مگر نتیجہ طاہر ہے۔)
اس میں بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہماری کشتی نوح پر بڑے بڑے متعصّب اخباروں نے حتی کہ مصر کے اَلِلّواء نے بھی مخالفت میں مضمون درج کیا گیا ان کی روسیاہی ہوئی یا نہیں؟ حق کا رعب ایسا ہوتا ہے کہ منہ بند ہو جاتے ہیں اب دیکھیں کہ اَللِّواج کیا لکھے گا اور اب بھی شرمندہ ہو گا یا نہیں؟
ایک دو دن اور ٹھہر جائیں اور دیکھ لیں۔ذرا طبیعت ٹھیک ہو جائے تو ان موتوں کے مفصل حالات دریافت کر کے پھر اَللِّواء کو پیش کئے جائیں یہ اس لئے ایک بڑا تازیانہ ہوگا یہ اﷲ تعالیٰ کی طاقتیں ہیں اور اسی کا کام ہے۔
سلسلہ کی تائید
تعجب ہے کہ اﷲ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔یہ بھی ایک عادت اﷲ ہے کہ مکذبین کی تکذیب خدا تعالیٰ کے نشانات کو کھینچتی ہے۔جب ان کی تکذیب ٹھنڈی ہو جائے گی تو یہ نشانات بھی ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔برسات میں جس قدر گرمی زیادہ ہوتی ہے اسی قدر بارش زور سے ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت کا نظارہ دکلا دیا ہے اس نے کیا کیا کچھ کیا ہے ہماری تائید میں آسمان کو چھوڑا نہ زمین کو‘مگر ان لوگوں نے کسی سے فائدہ نہ اٹھایا ہمیشہ سے ان لوگوں کا خیال تھا کہ صدی کے سر پر کوئی آیا کرتا ہے اس صدی میں سے بیس سال گزر گئے مگر آج تک ان کی سمجھ میں نہ آیا۔اب تو قیامت کا سامنا باقی ہے اور تو کوئی کسر باقی نہیں۔ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آپ ہر بات میں کامیات ہی ہوتے جاتے ہیں یہ تائید کیوں ہوتی ہے؟
ایمان کی لذّت
ایمان کی لذت بھی یہی ہے کہ خدا کی نصرتوں کو انسان آنکھوں سے دیکھ لے تب آنکھیں کھلتی ہیں جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ سچ یہی ہے تو پھر اس پر مرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے جب تک؎ٰ خدا تعالیٰ کی نصرتیں چمک کر ظاہر نہیں ہوتیں اس وقت تک تو تذبذت میں رہتا ہے مگر جب ان کی چمکار نظر آتی ہے تو سینہ کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں۔یہ کتنی خوشی کی بات ہے۔معلومہوتا ہے اب اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کا تزکیہ نفس کرنے لگا ہے اولیاء خدا تعالیٰ کے وفادار بندے ہی ہوا کرتے ہیں اور کون ہوتے ہیں۔
‏Amira 20-4-05
فرمایا۔یہ بھی ایک الہام ہے کہ
آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔
طاعون بھی ایک آگ ہے حدیث میں آیا ہے کہ بہشتی ایک دفعہ دوزخ کی سیر کو جائیں گے اور ایک پیر آگ پر رکھیں گے کہ آگ کس طرح جلاتی ہے تو آگ کہے گی اے مومن ذرا پیچھے ہٹ جا تو تو مجھے بجھاتا ہے۔
ایک رؤیا
عصر کی نماز سے پیشتر آپ نے تھوڑی دیر مجلس فرمائی اور ایک خواب بیان فرمایا۔جو حضور نے قریباً دو ہفتے قبل دیکھا تھا وہ خواب یہ ہے۔حضور فرماتے ہیں۔
میں ایک مقام پر کھڑا ہوں۔ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جائے مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ نہیں لے جا سکتا۔اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیا مگرمیرا قلب شہادت دیتا ہے کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے۔اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑ لیا میں جانتا تھا کہ موخرالذکر ایک مومن متقی ہے پھر اسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی چار یا چھ یا نو ماہ کی قید کا حکم دیا۔
غیروں کی مساجد میں نماز
ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ الحکم میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیراز جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔فرمایا:-
ٹھیک ہے اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں اکیلے پڑھ لو۔کوئی حرج نہیں اور تھوڑی سی صبر کی بات ہے
قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی مسجدیں برباد کر کے ہمارے حوالہ کر دے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا۔
عذاب کے بارہ میں عادت اﷲ
موجودہ حالت میں ہندوئوں کے طاعون سے زیادہ مرنے پر فرمایا کہ :-
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
اولم یرو اانا نا تی الارض ننقصھا من اطرا فھا (الرعد : ۴۲)
یعنی ہم دور دور سے زمین کو گھٹا تے چلے آتے ہیں یہ عادت اﷲ ہے کہ اول عذاب ایسے لوگوں سے شروع ہوتا ہے جو دور دور ہوتے ہیں اور ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں۔بیوقوف یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف انہیں کے لئے ہے ہمارے نہیں مگر عذاب لپک کر ان تک پہنچتا ہے جن کو خبر نہیں ہوتی اور بے پروا ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی اس میں حکمتیں ہوتی ہیں وہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اور شوخی کر لیں لوگوں کو اس طاعون کی خبر نہیں ہے وہ مجھے لکھتے ہیں اور اشتہاروں میں شائع کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک مرض ہے جس کا علاج ہو سکتا ہے اب ان پر لازم ہے کہ ڈاکٹروں سے علاج کروائیں۔آخر سول (CIVIL)نے لکھ دیا کہ ہم کہاں تک اس پر پردہ ڈالیں خود گورنمنٹ کو بھی اس ٹیکہ سے تکلیف پہنچی ہے۔
طاعون کی اقسام
فرمایا :-
طاعون تین قسم کی ہے ایک خفیف جس میں صرف گلٹی نکلتی ہے اور تپ نہیں ہوتا۔دوسری اس سے تیز کہ اس میں گلٹی کے ساتھ تپ بھی ہوتا ہے تیسری سب سے تیزا س میں تپ نہ گلٹی۔بس آدمی سویا اور مرگیا ہندوستان کے بعض دیہات میں ایسا ہی ہوا ہے کہ دس آدمی رات کو سوئے تو صبح کو مرے ہوئے پائے گئے۔اس کا اصل باعث طعن ہے یہ لوگ ٹھٹھہ کرتے ہیں مگر ان کو پتہ لگ جائے گا جو مخالف بکواس کیا کرتے ہیں ان پر یک لخت پتھر نہیں پڑا کرتے اول ان کو دور سے آگ دکھائی جاتی ہے تا کہ وہ توبہ کریں۔
خدا تعالیٰ اس وقت اپنا چہرہ دکھلانا چاہتا ہے
شیخ نور احمد صاحب نے عرض کی حضور اب بھی مخالف کہتے ہیں کہ ہمیں طاعون کیوں نہیں ہوتی۔ فرمایا:-
قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ لوگ خود عذاب طلب کرتے تھے کمبخت یہ نہیں کہتے کہ دعا کرو کہ ہمیں ہدایت ہو جائے طاعون ہی مانگتی ہیں دراصل یہ لوگ دہریہ ہیں خدا تپر ان لوگوں کو ایمان نہیں ہے خدا تعالیٰ اس وقت اپنا چہرہ دکھلانا چاہتا ہے۔اس وقت جس قدر عیاشی‘فسق و فجور۔حقوق العباد میں خصم وغیرہ ہو رہے ہیں کیا اس کی کوئی حد ہے۔ہمیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ دکانداروں کی طرح ایک دوکاندار ہے مگر عنقریب خدا تعالیٰ ان کو بتلا دے گا کہ دکان تو ہے مگر خدا تعالیٰ کی دکان ہے ایک صریح کشمکش آسمان سے ہے اور صریح خدا تعالیٰ کے ارادے معلوم ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔
قادیان آنے اوالا ہر تحفہ اور نذر ایک نشان ہے
میرا ایک پرانا الہام ہے
افلا یتدبرون امرک ولو کان من عند غیر اﷲ لوجدو افیہ اختلافا کثیرا
براہین کے وقت سے اسے دیکھو کہ کیسا برابر ایک سلسلہ چلا آرہا ہے میں اس امر پر ایک دفعہ غور کرتا رہا کہ
یاتون من کل فج عمیق ویا تیک من کل ھج عمیق
ان دونو الہاموں میں کیا مناسبت ہے تو معلوم ہوا کہ
یاتون من کل فج عمیق
سے یہ خیال پیدا ہوا کہ جب اس قدر لوگ آویں گے تو ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی چاہئے تو آگے بتلایا کہ
یاتیک من کل فج عمیق
یعنی وہ کھانے دانے بھی اپنے ہمراہ لائیں گے قادیان کے لوگ خوب واقف ہیں کہ اس وقت کیا حالت تھی۔کیا یہ انسان کا کام ہے کہ مدت دراز کے بعد جو بات ہونے والی تھی وہ اس قدر پیشتر بتلائی گئی۔اس لئے جو شخص آتا ہے اور جو تحفہ اور نذر وہ لاتا ہے ہر ایک ایک نشان ہوتا ہے اور اگر اس طرح سے ہم حساب کریں تو نشانات پچاس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔
تکالیف کے ازالہ کا طریق
ایک شخص نے اپنی خانگی تکالیف کا ذکر کیا۔ فرمایا کہ :-
پورے طور پر خدا تعالیٰ پر توکل‘یقین اور امید رکھو تو سب کچھ ہو جائے گا اور ہمیں خطوط سے ہمیشہ یاد کراتے رہا کرو ہم دعا کریں گے۔؎ٰ
۳۰؍نومبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ
(بوقت سیر)
تقویٰ
آٹھ بجے کے قریب حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لائے۔طاعون یک ذکر پر فرمایا کہ
خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہو رہا ہے مجھے تو اسی میں مزا آتا ہے ساری جڑھ تقویٰ اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے۔اور نفسانی جذبات دبتے ہیں۔
سلسلہ کی ترقی
پھر اعجاز احمدی اور اپنے سلسلہ کی بے نظیر ترقی پر فرمایا کہ :-
اگر کذاب کا یہ حال ہے تو پھر صدق کی مٹی پلید ہے ان لوگوں میں ایسی روحیں بھی ہیں۔جن پر ایک سخت انقلاب آئے گا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو سفیان ایک بڑا ضعیف القلب اور کم فراست والا آدمی تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فتح پائی تو اسے کہا کہ تجھ پرواویلا۔؎ٰ
اس نے جواب میں کہا کہ اب سمجھ آگئی ہے کہ تیرا خدا سچا ہے اگر ان بتوں میں کچھ ہوتا تو یہ ہماری اس وقت مدد کرتے۔پھر جب اسے کہا گیا کہ تو میری نبوت پر ایمان لاتا ہے؟ توا س نے تردد ظاہر کیا اور اس کی سمجھ میں توحید آئی۔نبوت نہ آئی۔بعض مادے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں فراست کم ہوتی ہے جو توحید کی دلیل تھی وہی نبوت کی دلیل تھی مگر ابو سفیان اس میں تفریق کرتا رہا۔اسی طرح سعید لوگوں کے دلوں میں اثر پڑ جائے گا سب ایک طبقہ کے انسان نہیں ہوتے۔کوئی اول جیسے صدیق اکبر ؓ۔کوئی اوسط درجہ کے۔کوئی آخری درجہ کے۔
میری ایک پرانی وخی ہے
یخرون علی الاذقان سجدا ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین
یعنی پیچھے آنے والے یہ کہیں گے ان کے لئے آگے خوشخبری بھی ہے
لا تثریب علیکم الیوم یغفر اﷲ لکم وھو ارحم الراحمین
محمد حسین کو فرعون کہا گیا ہے اور نذیر حسین کو ہامان۔ہامان کو ایمان نصیب نہ ہوا۔اسی طرح نذیر حسین بے نصیب گیا اور میرا استنباط یہ ہے کہ جس طرح فرعون نے
امنت انہ لا الہ الاالذی امنت بہ بنو ااسرائیل (یونس : ۹۱)
کہا تھا ویسے ہی یہ (محمد حسین) بھی کہے گا۔محی الدین صاحب ابن عربی نے لکھا ہے کہ قرآن مجید سے یہ ثابت نہیں کہ فرعون جہنم میں جاوے گا یہ ہے کہ اس نے اپنی قوم کو جہنم میں ڈالا۔شائد یہ رعایت اس کے ساتھ اس لیء ہو کہ اس نے موسیٰ ؑکو پالا۔پرورش کیا۔تعلیم دلوائی‘تربیت کی۔مگر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودوسرے کی تربیت کا ذریعہ نہیں ملا۔صرف خدا تعالیٰ نے ہی کی۔
نماز اور استغفار دل کی غفلت کا علاج
سیر سے واپس ہوتے ہوئے ایک حافظ صاحب نے آپ سے مصافحہ کیا اور عرض کی کہ میں نابینا ہوں ذرا کھڑے ہو کر میری عرض سن لیں۔حصور کھڑے ہوگئے اس نے کہا میں آپ کا عاشق ہوں اور چاہتا ہوں کہ غفلت دور ہو حضرت اقدس نے فرمایا کہ
نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ اے اﷲ !مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال۔صدق سے انسان دعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جائے جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی۔زمیندار ایک کھیت بوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا۔بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے نیک انسان کی یہ علامت ہے کہوہ بے صبری نہیں کرتا۔بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں۔اگر ایک انسان کنواں کھودے اور بیس ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اس وکت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے ارو اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھودلے تو گوہر مقصور پالیوے۔یہ خد اتعالیٰ کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نتعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی۔سعدی نے کیا عمدہ کہا ہے۔ ؎
گر نباشد بدوست راہ بردن
شرط عشق است درطلب مردن
مخالفتِ نفس بھی ایک عبادت ہے
مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ اور سولے مگر وہ مخالفت نفس کر کے مسجد چلا جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی محدود ہوتا ہے ورنہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو پھر ثواب نہیں۔عبدالقادر جیلانی رحمۃاﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ جب نفس مطمنہ ہو گیا تو ثواب کیسے رہا؟ نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا وہ اب رہی نہیں۔
بے صبر نہیں ہونا چاہئے
قرآن شریف میں ہے
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (الرحمان : ۲۷)
یعنی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور اس کا درجہ ثواب کا نہ رہا تو یہ بات بے صبری سے نہیں ملتی۔انسان کو یہاں تک صبر کرنا چاہئے کہ اس کا دل یقین کر لے کہ میرے جیسا کوئی صابر نہیں۔آخر خدا تعالیٰ مہربان ہو کر دروازہ کھول دیتا ہے اسی طرح ایک اور بزرگ کا قول ہے کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو تمام عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ عبادات ترک کر دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ عبادات کی بجا آوری میں اسے جو تکلیف ہوتی تھی وہ ساقط ہو جاتی ہے اب عبادات محبوبات نفس میں شامل ہو گئیں جیسے کھانا پینا وغیرہ اس کی محبوبات نفس تھیں ایسا ہی نماز‘ روزہ ہو گیا۔خدا تعالیٰ جیسا وفادار اور کوئی نہیں۔دوستی اور اخلاص کا حق جیسے وہ ادا کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا انسان بڑے جوش والا ہے وہ صبر سے حقوق ادا نہیں کر سکتا جلدی بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔
‏Amira 22-4-05
صحبت کا اثر
فرمایا :-
ہماری جماعت کو چاہئے کہ وقتاًفوقتاً ہمارے پاس آتے رہیں اور کچھ دن یہاں رہا کریں۔انسان کا دماغ جیسے خوشبو سے حصہ لیتا ہے ویسے ہی بدبو سے بھی حصہ لیتا ہے اسی طرح زہریلی صحبت کا اثر اس پر ہوتا ہے۔
مخالفین کی موجودہ حالت پر فرمایا کہ
مکہ معظمہ کی حالت کا تو کسی نے معائنہ نہیں کیا مگر اب اس وقت کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ ایسا ہی حال اس وقت تھا۔
مکّہ کے دو عمر
ابو جہل کو فرعون کہا گیا ہے۔مگر میرے نزدیک وہ تو فرعون سے بڑھ کر ہے فرعون نے تو آخر کہا
امنت انہ لاالہ الا الذی امنت بہ بنو ااسرائیل (یونس : ۹۱)
مگر یہ آخر تک ایمان نہ لایا؎ٰ مکہ میں سارا فساد اسی کا تھا اور بڑا متکبر اور خود پسند۔عظمت اور شرف کو چاہنے والا تھا اس کا اصل نام بھی عمر تھا اور یہ دونو عمر مکہ میں تھے خدا کی حکمت کہ ایک عمر کو کھینچ لیا اور ایک بے نصیب رہا اس کی روح تو دوزخ میں جلتی ہوگی اور حضرت عمرؓ نے ضد چھوڑ دی تو بادشاہ ہو گئے۔
سورۃ الکوثر کی تفسیر
فرمایا:-
جیسے
ان شانئک ھوالابتر (الکوثر : ۴)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے ایسا ہی میرا بھی الہام ہے۔
یہ کم بخت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اور روحانی طور پر ہر دو طرح ابتر قرار دبتے ہیں۔حالانکہ خد اتعالیٰ فرماتا ہے
انا اعطینک الکوثر (الکوثر : ۲)
یہاں کوثر کا قرینہ
ھصل لربک وانحر
ہے نحر اولاد کے لئے ہوتا ہے کہ جب عقیقہ ہوتا ہے تو قربانیاں دیتے ہیں۔پس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد نہ روحانی ہوئی نہ جسمانی تو تحر کس کے لئے آیا؟
عبد اﷲ غزنوی کا الہام
اس وقت قرآن کی عظمت بالکل دلوں میں نہیں رہی عبد اﷲ غزنوی صاحب کا بھی ایک کشف ہے جو اس کے متعلق تھا کہ اس میں ان کو الہام ہوا تھا کہ
ھذا کتابی وعبادی۔ فاقرأکتا بی علی عبادی۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا غصہ
حضرت عمرؓ س یکسی نے پوچھا کہ آپ بڑے غصہ والے ہوتے تھے اب غصہ مسلمان ہونے سے دور ہو گیا فرمایا-دور تو نہیں ہوا مقتصد ہو گیا ہے اور اب اپنے ٹھکانے پر چلتا ہے۔؎ٰ
۳۰؍نومبر ۱۹۰۲ء؁
دربار شام
برطانیہ اور کابل
فرمایا :-
گورنمنٹ انگلشیہ نے بڑی آزادی دے رکھی ہے ارو ہر قسم کا امن ہے مگر کابل میں تو لوگ ایک طرح سے اسیر اور مقید ہیں۔وہ باہر جانا چاہیں تو ان پر کئی قسم کی پا بندیاں ہیں اور بے ہودہ نگرانیاں کی جاتی ہیں خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اسی لئے اس مبارک سلطنت کے ماتحت رکھا۔
فرمایا :-
جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں وہ مرد نہیں بلکہ عورتیں ہیں۔
فرمایا :-
جو خدا کی پروا نہیں کرتا وہ برباد ہو جاتا ہے۔یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے انکار کیا یہ آثار اچھے نہیں۔اﷲ تعالیٰ بعض اوقات انصاف پسند کافر کو ظالم کلمہ گوکے مقابلہ میں پسند کرتا ہے اس سلسلہ کے لئے گورنمنٹ انگلشیہ کے سوا دوسری حکومتیں سخت مضر ہیں۔ان میں امن نہیں ہے۔ ؎ٰ
یکم دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دوشنبہ
(بوقت سیر)
حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا کہ
آج ہی کے دن سیر ہے کل سے انشاء اﷲ روزہ شروع ہوگا۔تو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تا کہ طبیعت روزے کی عادی ہو جائے اور تکلیف محسوس نہ ہو۔
مخالفین کی طرف سے اعجاز احمدی کا جواب لکھنے کی تیاری
اعجاز احمدی کی نسبت ایڈیٹر صاحب الحکم نے سنایا کہ شحنہ ہند نے لکھا ہے۔کہ شروع سال میں اس کا جواب اعجازی طو رپر شائع ہوگا اور اس نے تین ہزار روپیہ لوگوں سے طلب کیا ہے کہ اس روپے سے وہ کتاب تصنیف کر کے شائع کرے اور دس ہزار روپے انعام حاصل کرلے اس طرح سے تیرہ ہزار روپیہ لینا چاہتا ہے حضرت نے فرمایا :-
کیمیا گر دھوکہ باز اسی طرح سے نادانو کو دھوکہ دے کر لوٹا کرتے ہیں۔
مخالفت
مخالفت کے ذکر پر فرمایا کہ
اس سے تحریک ہو کر نشان ظاہر ہوتے ہیں اور مخالفوں کی تحریک ایسی ہے جیسے کل (مشین) سے کنواں نکالا جائے ورنہ موافقین جو آمنا کہہ کر چپ کر گئے۔ان سے کیا تحریک ہو سکتی ہے اعجاز احمدی سے خود لوگ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ قرآن دانی اور عربیت کی اصل جڑھ انہیں لوگوں میں (احمدیہ مشن میں )ہے کیونکہ وہ نتیجہ نکال لیں گے کہ جن کی عربی دانی یہ ہے کہ اس کی مثل لوگ نہیں لاسکتے تو ضرور ہے کہ قرآن دانی بھی انہیں میں ہو۔
ایک تفسیری نکتہ
اعجاز احمدی میں بہت سی پیشگوئیاں بھی ہیں اور
ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا ھاتو ابسورۃ من مثلہ (البقرۃ : ۲۳)
اس میں من مثلہ کے معنے بھی اکثر مفسرین نے کئے ہیں کہ اگر مقابلہ میں کوئی لکھ کر لائیں تو پیشگوئیاں بھی اسی طرح ہوں جیسے قرآن شریف میں ہیں ۔؎ٰ
عدوشود سبب خیر گر خدا خواہد
فرمایا :-
مخالف مامور کی عمر کو بڑھا تے ہیں اور وہ گویا سلسلہ نبوت کی رونق کا باعث ہوتے ہیں۔ان کی مخالفت سے تحریک پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے جب مخالفت اٹھ جاتی ہے تو گویا مامور بھی اپنا کام کر چکتا ہے اور وہ فتح یاب ہو کر اٹھایا جاتا ہے۔
دیکھو جب تک کفار مکہ کی مخالفت کا زور شور رہا اس وقت تک بڑے بڑے اعجاز ظاہر ہوئے لیکن جب
اذاجاء نصر اﷲ والفتح (النصر : ۲)
کا وقت آیا اور یہ سورۃ اتری تو گویا آپ کے انتقال کا وقت قریب آگیا۔فتح مکہ کیا تھی آپ کے انتقال کا ایک مکدمہ تھی۔غرض ان مخالفوں ہی میں سے نکل کر آتی ہے اور اگر یہ مخالفت نہ ہوتی تو اس زور شور سے تحریک اور تبلیغ نہ ہوتی۔ ۲؎
وجودی فرقہ کی حالت
فرمایا :-
ایک ذرہ حرکت اور سکون نہیں کر سکتا جب تک آسمان پر اول حرکت نہ ہو۔ذلت وجودی کی اس سے ہے کہ وہ اس مقام پر لغزش کھا جاتا ہے۔طریق تادت یہ تھا کہ وہ اس مقام پر ٹھہر جاتے اور جو فرق عبد اور معبود کا ہے اس سے ئگے نہ برھتے۔مگر وہ ایسے طریق پر ہیں کہ عملی حالت میں رہے جاتے ہیں نماز روزہ سے آخر کار فارغ ہو بیٹھتے ہیں۔بھنگ وغیرہ مسکرات استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔دہریت میں اور ان میں انیس بیس کا فرق ہے اور ان کی بیباکی دلالت کرتی ہے کہ اس فرقہ میں خیر نہیں ہے عیسائیوں نے ایک کو خدا بنا کر آگ لگائی اور انہوں نے ہر ایک وجود کو خد ابنایا۔نہدوجوں پر بھی ان کا بد اثر پہنچا ہے حرمت کی پروا نہیں ہے۔اس لئے مناہی وغیرہ سب جائز رکھتے ہیں۔صورت پرست ہوتے ہیں نامحرموں پر بدنظری کرتے ہیں اس زمانہ کا بگاڑ سخت ہے۔
اصل تقویٰ دنیا سے اُٹھ گیا یہ
فرمایا :-
اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے کوئی ہو گا جو
قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰)
کا مصداق ہو گا۔پاکیزگی اور طہارت عمدہ شئے ہے انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شئے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خد اتعالیٰ اسے اور سے مالدار کردے۔اسی طرخ زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خد اتعالیٰ اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔حدیث میں ہے کہ کوئی ثور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہین ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے اصل جڑ اور مقصور تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچاسکتے۔حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا تقویٰ سے سب شئے ہے قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے
ایاک نعبد وایا ک نستعین (الفاتحہ : ۵)
سے مراد بھی تقویٰ ہے۔کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوھ سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔
تقویٰ کے ثمرات
پھر دوسری سورت بھی
ھدی للمتقین
سے شروع ہوتی ہے۔نماز‘روزہ‘زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔
ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے
ان الذین قالو اربنا اﷲ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافو اولا تحزنوا (حم السجدۃ:۳۱)
اس سے بھی مراد متقی ہیں ثم استقامو ا یعنی ان پر زلزلے آئے۔ابتلا ء آئے۔ آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی۔تو اس کا اجر یہ ملا
تتنزل علیھم الملئکۃ
یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متولّی ہے۔
وابشرو ابالجنۃ التی کنتم توعدون (حم السجدۃ : ۳۲)
اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے۔اور اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے جیسے قرآن مجید میں ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (الرحمن : ۴۷)
پھر آگے ہے
نحن اولیؤکم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ (حم السجدۃ : ۳۲)
دنیااور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں۔
مومن کی دنیوی زندگی
بعض لوگ
ولمن خاف مقام ربہ جنتن
کی آیت کے معارض ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں
الدنیا سجن للمومن
اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ مومن کئی قسم کے ہوتے ہیں
فمن ھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرت (فاطر : ۳۳)
مقتصد سے مراد نفس لوامہ والے ہیں اور یہ (دنیا کی) تکلیف نفس لوامہ تک ہی ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کے ساتھ کشاکش نفس امارہ کی ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ راحت اور آرام کی یہ بات اختیار کر اور لوامہ وہ نہیں کرتا۔اس وقت انسان مجاہدہ کرتا ہے اور نفس امارہ کو زیر کرتا ہے اور اس طرح جنگ ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ امارہ شکست کھا جاتا ہے اور پھر نفس مطمنہ رہ جاتا ہے۔
یا ایتھاالنفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر : ۲۸‘۲۹)
یعنی تو میری جنت میں داخل ہو جا اور اسی وقت ہو جا اور مومن کی جنت خود خدا ہے۔یعنی جب وہ خد اکے بندوں میں داخل ہوا تو خد اتو انہیں میں ہے۔اور وہ اس کے عباد میں آگیا تو اب اس حالت میں وہ سجن کہاں رہا؟ ایک مرتبہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک وہ تکالیف میں ہوتا ہے جیسے جب کنواں کھودا جائے تو اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ پانی نکل آئے مطمنہ ہونا اصل میں پانی نکالنا ہے۔جب پانی نکل آیا۔اب کھودنے کی ضرورت نہیں ہے تو اس آیت میں ظالم سے مراد نفس امارہ والے اور مقتصد سے مراد نفس لوامہ والے اور سابق بالخیرات سے مراد نفس مطمنہ والے ہیں۔
پوری تبدیلی زندگی میں جب تک نہ آوے تب تک جنگ رہتی ہے اور لوامہ تک یہ جنگ ہے جب یہ ختم ہوئی تو پھر دارالنعیم میں آجاتا ہے۔اس وقت اس کا ارادہ خدا کا ارادہ اور اس کی مرضی خد اکی مرضی ہوتی ہے اور وہ ان باتوں لذت اتھاتا ہے جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔عارف جس کی خد اسے زاتی محبت ہو جائے تو اگر خد ااسے بتلا بھی دے کہ تو دوزخی ہے خواہ عبادت کر خواہ نہ کر تو اس کی خوشی اسی میں ہو گی کہ خواہ دوزخ میں جائوں مگر میں ان عبادات سے رک نہیں سکتا جیسے افیونی کو جب افیون کی عادت ہو جاتی ہے تو اسے کیسی ہی تکالیف ہوں اور خواہ وہ گھلتا ہی جائے مگر افیونکو نہیں چھوڑ تا۔جس طرح دنیا میں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کوایک دھن جب لگ جائے تو خواہ والدین کتنا روکیں منع کریں مگر وہ کسی کی نہیں سنتے اور اس دھن کی خوسی میں تکالیف کا بھی خیال نہیں ہوتا۔ایسا ہی اس مومن عارف کامل کا حال ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ اجر ملے گا یا نہیں ۔یہ مقام آخر ی مقام ہے جہاں سلوک کا سلسلہ ختم ہوت اہے اور اس کے سوا چارہ نہیں ۔اس حالت میں اس کا جوش کسی سہارے پر نہیں ہوتا۔کیونکہ جب تک انسان کسی سہارے سے کام کرتا ہے تو ممکن ہے شیطان اس میں کسی وقت دخل دیوے۔مگر یہاں ذاتی محبت کے مقام میں سہارا نہیں ہوتا جیسے ماں اور بچے کے جو تعلقات ذاتی محبت کے ہیں ان میں انسان تفرقہ نہیں ڈال سکتا۔ماں کی فطرتی محبت ایک دوسرے سے ملاتی ہے مثل مشہور ہے ’’ماں مارے اور بچہ ماں ماں پکارے‘‘اسی طرح اہل اﷲ خدا کی مار کھا کر کہاں جاسکتے ہیں۔بلکہ مار پڑے تو وہ ایک قدم اور بڑھاتے ہیں دوسرے تعلقات میں خدا کی محبت کا جلال زور کے ساتھ نازل نہیں ہوتا جیسے انسان کسی کو اپنا نوکر سمجھتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ نوکری اسی لئے کرتا ہے کہ اس کی اجرت ملے تو اسکی طرف محبت کامل سے التفات نہیں ہوتا اور وہ ایک نوکر شمار ہوتا ہے۔مگر جب کوئی شخص خدامت کرتا ہے اور آقا کو معلوم ہو کر یہ نوکری کی خواہش سے نہیں کرتا تو آخر کار بیٹوں میں شمار ہوتا ہے۔
خدا بڑا خزانہ ہے۔خدا بڑی دولت ہے۔
استغفار کی حقیقت
غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے۔بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آجاتی ہے۔اس لئے استغفار ہے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے۔عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے۔اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر ہی نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنے رکھتا ہے تو وہ بتلاویں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کونسا لفظ ہے۔غفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں۔تمام انبیاء اس کے محتاج تھے جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اتا ہی معصوم ہوتا ہے۔اصل معنے یہ ہیں کہ خد انے اسے بچایا معصوم کے معنے مستغفر کے ہیں۔
عیسائیت
عیسویت کی ترقی پر فرمایا کہ :-
جو ترقی انہوں نے کرنی تھی وہ کر چکے پورے طور پر انسان کو خد ابنا لیا۔اگر انسان خد ابن سکتا ہے تو پگٹ سے کیوں ناراض ہیں۔بہت خدا مل جائیں گے تو طاقت زیادہ ہوگی۔
بغیر عذر کے دعوت ردّ کرنا اچھی بات نہیں
ٰٰٰؒؒؒایک خادم نے عرض کی کہ ایک تقریب پر اس کے ہاں خوشی ہے اور کچھ کھانے کا انتظام کیا گیا ہے حضور بھی شام کو تشریف لا کر کھانا وہیں تناول فرماویں تو عین سعادت ہے۔
فرمایا :-
دعوت رحت کے وسطے ہوتی ہے۔مجھے ایسی مرض ہے کہ دن کے آخری حصہ میں وہ عود کرتی ہے اور میں بالکل چل پھر نہیں سکتا۔اسی لئے دیکھتے ہو کہ پھرنے کا وقت صبح کا رکھا ہے ابھی ابھی نماز سے پیشتر پائوں سرد ہو رہے تھے تو میں دوا پی کر آیا ہوں خیال آتا ہے کہ گھڑی گھڑی کیا کہوں کہ سرد ہو رہا ہوں اس لئے افتاں خیزاں آجاتا ہوں۔اس لئے شام کو میں جا نہیں سکتا ورنہ دعوت کا رد کرنا تو اچھی بات نہیں ہے مگر جب بیمار ہو تو انسان مجبور ہے۔
ماہِ رمضان کی عظمت اور اُس کے روحانی اثرات
مغرب کی نماز سے چند منٹ پیشتر ماہ رمضان کا چاند دیکھا گیا۔حضور ؑ مغرب کی نماز گذار کر مسجد کی سڈف پر چاند دیکھنے تشریف لے گئے اور چاند دیکھنے کے بعد پھر مسجد میں تشریف لائے۔
فرمایا کہ :-
رمضان گذشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا تھا۔
’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ‘‘ (البقرۃ : ۱۸۶)
سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے صوفیا نے لکھا ہے کہیہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے۔پس
انزل فیہ القران (البقرہ ۱۸۶)
میں یہی اشارہ ہے اس مٰں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں مجھے یاد ہے کہ خوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے۔میرے حق میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سلمان منا اھل البیت
سلمان یعنی الصلحان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ایک اندرونی اور دوسری بیرونی--اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مشرب حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی تو میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔
نشاط و خوانی تا بہ سی سال
چہل آمد فرو ریزد پر و بال
اب جب سے چالیس سال گزر گئے دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں۔ورنہ اول میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا تھا رو پیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ چھ میل بھی جائوں تو تکلیف ہوتی ہے چالیس سال کے بعد حرارت غریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے خون کم پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپرکئی صدمات تنج و غم کے گزرتے ہیں۔اب کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر بھوک کے علاج میں زیادہ دیر ہو جائے تو طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے۔
عباداتِ مالی و عبادات بدنی
خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں۔ایک عبادات مالی‘ دوسرے عبادات بدنی۔عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جن کے پاس نہیں وہ معذور ہیں اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ ساٹھ سال جب گذرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آجاتا ہے۔(کسی نے) یہ ٹھیک کہا ہے کہ پیری وصد عیب-اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اس کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں ؎
موئے سفید از اجل آرد پیام
انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔روزہ کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
وان تصومو اخیر لکم (البقرۃ : ۱۸۵)
یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔
فدیہ کی غرض
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے۔تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فض سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔یا اس فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ۔اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خد اتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
روزہ کی فرضیت
اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خد اتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیمار ی اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے انے آپ کو خد اتعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کردے جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درددل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا۔اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وبہانہ مجونہ ہو تو خد اتعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔
یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھائوں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص جو خد اتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے۔کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراض کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں۔لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔تکلفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان چاہے تو اس (تکلف) کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت ارو ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا تعالیٰ اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں۔جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں )ملا۔اور انہوں نے کہا کہ تونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے‘ اس سے باہر نکل۔اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رح م کرکے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔
خد اتعالیٰ کی شفقت
یہ لوگ ہیں کہ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں۔اس لئے خدا ن کو دوسری مشقتوں میں ڈالتا ہے اور نکالتا نہیں اور دوسرے جو خود مشقت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے۔انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالیٰ اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے۔ابراہیم ؑ کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو خد اتعالیٰ آگ سے بچاتا ہے۔ارو جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔یہ سلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش آئے۔اس سے انکار نہ کرے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو
واﷲیعصمک من الناس (المائدۃ : ۶۸)
کی آیت نازل نہ ہوتی۔حفاظت الٰہی کا یہی سر ہے۔؎ٰ
(اوپر کی تقریر فارسی زبان میں تھی میں نے افادۂ عام کی خاطر اردو میں ترجمہ کر کے لکھی۔ایڈیٹر)
۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
مولوی ثنا ء اﷲ کی حیلہ جوئی
عصر کے وقت جب حضور ؑ کی خدمت میں یہ بات پیش کی گئی کہ ثناء اﷲ لکھتا ہے کہ میری موت کی پیشگوئی کرو تو حضور نے فرمایا کہ :-
یہ حیلہ ہے ورنہ وہ جانتا ہے کہ ہم حکومت سے معاہدہ کر چکے ہیں کہ موت کی پیشگوئی نہ کریں گے اس لئے دیدہ دانستہ لکھتا ہے۔ورنہ ہم نے جو لکھ دیا ہے وہ خود حسب شرائط شائع کر دے کہ جو کاذب ہے وہ پیشتر مر جائے۔اسے اس طرح لکھنے سے کیوں خوھ آتا ہے اس طرح نہ لکھنا اور ہمیں لکھنا کہ پیشگوئی کریں یہ صرف حیلہ جوئی ہے ۔ ۲؎
۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
بعد از نماز مغرب
استغفار کی حقیقت
ماسٹر عبدالرحمان صاحب نو مسلم تھرڈماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان عیسائی پرچہ ایپی فینی سے ایک مضمون سناتے رہے۔جو کسی نے لفظ ذنب کے معانی پر مخالفانہ رنگ میں لکھا ہے کہ لفظ ذنب ایک ایسا لفظ ہے جو کہ قرآن میں کبائر گناہ پر بولا گیا ہے اور مرزا صاحب اس کے معانی کو وسعت دے کر جب یہ لفظ نبیوں کے حق میں آوے تو اس کے اور معنے کرتے ہیں اور جب عوام الناس پر بولا جائے تو اور معنے کرتے ہیں اور یہ لفظ اپنے معانی پر استعمال ہوتا ہے کہ گذشتہ گناہ جو انسان کر چکا ہے اس کی معافی طلب کی جائے۔اس سے اس نے استدلال کیا ہے کہ ضرور ہے کہ پیغمبر خدا (ﷺ) سے گناہ سرزد ہوئے ہوں۔
اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اگر استغفار کے یہ معنے ہیں کہ گذشتہ گناہوں سے معافی ہو تو پھر بتلائیں کہ آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے کون سا لفظ ہے۔گناہ سے حفاظت یعنی عصمت تو انسان کو استغفار سے ملتی ہے۔کہ انسان خداتعالیٰ سے چاہے کہ ان قویٰ کا ظہور اور بروز ہی نہ ہو۔جو معاصی کی طرف کھینچتے ہیں۔کیونکہ جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گذشتہ گناہ اس کے بخشے جائیں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قوی سے گناہ کا ظہور و بروز نہ ہو۔یہ مسئلہ بھی قابل دعا کے ہے۔ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اس وقت تو دعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرے۔اگر انجیل میں یہ دعا نہیں ہے تو پھر وہ کتا ب ناقص ہے۔انجیل میں یہ لکھا ہے کہ مانگو تو دیا جائے گا۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار مانگا آپ کو دیا گیا۔مسیح نے نہ مانگا ان کو نہ دیا گیا۔غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن مجید نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دونو راہ کا محتاج ہے کبھی گناہ کی مؓافی کا اور کبھی اس امر کا کہ وہ قویٰ ظہور وبروز نہ کریں۔ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قویٰ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے بغیر خودبخود بچے رہیں وہ کتاب کامل ہے عقل اور ضرورت خود دونو قسم کی دعا کا تقاضا کرتی ہے۔
پھر دیکھو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کے ہاتھ پر توبہ بھی نہیں کی کہ آپ کا گنہگار ہونا ثابت ہو۔مگر مسیح نے تو یحییٰ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کی۔ان سے تو یحییٰ ہی اچھا رہا جس نے کسی کی بیعت نہ کی۔اب بتلائو کس کا گنہگار ہونا ثابت ہے۔اگر مسیح گناہ سے صاف تھا تو اس نے غوطہ کیوں لگایا اور پھر روح القدس کا کبوتر ابتدا ہی سے کیوں نہ نازل ہوا؟
پھر استغفار کے معانی پر حضرت اقدس اور آپ کے برگزیدہ احباب وہ آیات قرآنی تلاش کر کے سناتے رہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ استغفار کی دعا آئندہ خطائوں سے حفاظت کے لئے ہے اور پھر تلاش کرتے کرتے انجیل سے بھی ایسی آیات نکل آئیں جس میں مسیح ؑ نے آئندہ گناہ سے بچنے کے لئے دعا مانگی ہوئی ہے۔؎ٰ
۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء ؁ بروز جمعہ
بعد از نماز مغرب
ایک احمدی کا اخلاص
مدراس میں ایک مخلص حضرت اقدس کے غیبہ عاشق ہیں۔ایک کذاب نے ان کو خبر سنائی کہ قادیان میں طاعون ہے حالانکہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ طاعون وہاں نہ آئے گی۔ان کے ایمان نے اس شنید پر یہ تقاضا کیا کہ ایک تار حضرت اقدس کی خدمت میں روانہ کیا جو اس مجلس میں پڑھ کر سنایا گیا۔اس میں درج تھا کہ اس خبر کے سننے سے میرے ایمان میں ترقی ہوئی ہے اور قادیان میں طاعون اس لئے آئی ہیکہ خدا تعالیٰ سچے مومنوں اور دوسرے لوگوں میں تمیز کر کے دکھلانا چاہتا ہے اور جو جو خبریں ان کو غلط پہنچی ہیں۔ہر ایک ان کی زیادت ایمان کا باعث ہوئی ہیں حضرت اقدس نے ان کے اخلاص کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ:-
ان کو اصل واقعات سے اطلاع دے کر اس شخص کا کذاب ہونا جتلا دیا جائے۔؎ٰ
۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ
اِسمِ اعظم
ظہر کے وقت تشریف لا کر حضرت اقدس نے بیان فرمای کہ :-
رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خد اتعالیٰ کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ایسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔پھر تیسرا آیا ارو وہ ایسا پرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا میں نے اس وقت غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جائوں میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا۔مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی:-
رب کل شیء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی
اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہو گی۔
ایک آریہ میرے پاس دوا لینے آیا کرتا ہے۔میں اسے یہ خواب سنائی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی لکھ دو۔میں نے لکھ دیا اور اس نے یاد کر لیا۔
ایک اور رئویا
اس خواب کے بعد پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گھوڑے کا سوار ملا۔جب میں گھر کے قریب آیا تو ایک شخص نے میرے ہاتھ پر پیسے رکھے ہیں۔میں نے خیال کیا کہ اس میں دونی چونی بھی ہوگی۔آگے آیا تو دیکھا کہ فجو (فضل نشاں )کشمیری عورت بیٹھی ہے۔پھر جب مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ہزارہا آدمی بیٹھے ہیں اور کپڑے سب کے پرانے معلوم ہوتے ہیں۔مسجد میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہوا ہے اس کی بڑی سے چارپائی ہے یہ معلوم نہیں کہ کس کا جنازہ ہے۔
مغرب کی نماز پڑھ کر حضرت اقدس تشریف لے گئے اور کوئی ایک گھنٹہ بعد مسجد میں تشریف لائے فرمایا کہ
آج جو خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کو نماز میں دعا کے طور پر پڑھا جائے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔
سُوئِ ظَنّ کرنا اچھا نہیں
بدظنی پر آپ نے فرمایا کہ :-
دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے۔انسان ایک آدمی کو بدخیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے۔کتابوں میں میں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اﷲ تھے انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھوں گا ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچے (دیکھا) کہ ایک شخص ایک جوان عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے اور ایک بوتل پاس ہے اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے ا ن کو دور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ میں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں۔مگر ان دونوں سے تو میں اچھا ہی ہوں۔اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا۔ایک کشتی آرہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہو۔میں نے تو چھ کی جان بچائی ہے اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پو چھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑ ھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جواب نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور میں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظر آتی ہے۔خد انے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو۔
پھر فرمایا کہ :-
خضر کا قصہ بھی اسی بناء پر معلوم ہوتا ہے سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا۔تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔؎ٰ
۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دوشنبہ
ایک رئویا
عصرکی نماز سے قبل حضور ؑ نے ایک رئویا سنائی فرمایا
میں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی ہے اور اس کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے میں نے اس میں پائوں رکھا تو دھنس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر میں نیچے ہی نیچے چلا گیا۔پھر ایک جست کر کے میں اوپر آگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیررہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر۔اور میں اس پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تیر رہا ہوں سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے۔میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجیے کہ عیسیٰ ؑتو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے۔نہ ہاتھ نہ پائوں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں ایک بجنے میں بیس منٹ باقی تھے کہ میں نے یہ خواب دیکھا ۔
بعد از نماز مغرب
بات وہ کرنی چاہئے جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو
ایک شخص امرتسری نے حضرت اقدس کو بہت فحش ارو گندی گالیاں دی تھیں۔ایک باغیرت اور مخلص خادم نے اس کا جواب درشتی سے دینا چاہا تھا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
جوس کے مقابلہ پر جو ش ہو تو فساد کا باعث ہوتا ہے اور بات وہ کرنی چاہئے جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔اگر ہم بدی کا جواب اس حد تک کی بدی سے دیویں تو پھر ہمارے کاروبار میں برکت نہیں رہتی۔جوش اور اشتعال کے وقت کے لکھے ہوئے مضامین میں فصاحت اور بلاغت جاتی رہتی ہے۔فصاحت اور بلاغت نرمی کا بیٹا ہے جس قدر نرمی ہوگی۔اسی قدر عبارت فصیح ہوگی اہل حق کو درہم برہم نہ ہونا چاہئے۔گندی بات قابل جواب ہی نہیں ہوا کرتی۔
احباب سے حضور کی شفقت
اصحاب کبار میں سے ایک نے ایک شئے طلب کی۔حضرت اقدس اسی وقت خود اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور وہ شئے لا کر دی۔؎ٰ
۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
بعد از نماز ظہر
رسل بابا امرتسری کی موت
حضرت اقدس ؑکو بذریعہ خط معلوم ہوا کہ رسل بابا امرتسر میں بعارضہ طاعون فوت ہو گیا ہے اس پر آپ مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں آکر گفتگو فرماتے رہے۔فرمایا کہ :-
گذشتہ شب کو مجھے یہ الہام ہوا ہے
سلام علیک یا ابراھیم
پھر اس کے بعد الہام ہوا
سلام علی امرک صرت فائزا
یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام ۔تیر کاروبار پر سلامتی ہو اور توبا مراد ہو گیا۔
اسی اثناء میں نماز عصر کا وقت آگیا تو آپ نے مسجد میں تشریف لا کر یہ الہام پھر سنایا اور رسل بابا کی موت پر ذکر ہوتا رہا کہ
تخرج الصدور الی القبور
کا الاہم بھی اس پر صادق آتا ہے اور الہام میں صدور کا لفظ ہے جو کہ جمع پر دلالت کرتا ہے اور جمعہ کے دن جب میں بیمار تھا تو مجھے یہ الہام ہوا تھا۔
یموت قبل یومی ھذا
یعنی یہ میرے اس دن سے پیشتر مرے گا۔یوم سے مراد جمعہ کا دن ہے جو کہ اصل میں خدا کا دن ہے۔
سلسلہ کی خارق عادت ترقی
پھر فرمایا کہ
ان تین سالوں میں خارق عادت ترقی ہوئی ہے۔براہین میں یہ پیشگوئی ہے کہ میں تمہارے لئے فوج تیار کروں گا وہ انہی تین سالوں میں تیار ہوئی۔
بعد از مغرب
دمشق کی خصوصیت
دمشق کے لفظ پر فرمایا کہ :-
اصل میں تثلیث کی جڑھ دمشق ہے۔یہ راز کی بات ہے اور سمجھنے کے قابل ہے مگر ہمارے مخالف خیال نہیں کرتے۔دمشق سے مشرقی طرف اترنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ تثلیث کا استیصال کرے گا۔مشرق ہمیشہ مغرب پر غالب ہوتا ہے۔؎ٰ
۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
(مابین مغرب و عشاء)
حالات کے مطابق دعا کے الفاظ میں تبدیلی
میرناصر نواب صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ دعا
رب کل شیء خادمک
والی جو الہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلم کے جمع متکلم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو حرج تو نہیں ؟حضرت اقدس نے فرمایا -
کوئی حرج نہیں ہے۔ ۲؎
۱۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز پنجشنبہ
بدن تکلیف اُٹھانے کیلئے ہے
بکثرت مضمون نویسی اور کاپی وغیرہ دیکھنے میں جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو مد نظر رکھ کر ایک خادم نے (ظہر کے وقت) اس تکلیف میں حضور کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
بدن تو تکلیف کے واسطے ہے۔اور کس لئے ہے۔
مِصری اخبار اَلِلّوِاء کا جواب
بعد ازیں فرمایا کہ :-
اللواء کے متعلق مضمون لکھ رہا ہوں نیچے فارسی ترجمہ بھی کر دیا ہے تا کہ اس کی اشاعت اتماماللحجۃ بخارا۔سمر قند وغیرہ ممالک میں بھی ہو جائے۔
پھر حضور فرمانے لگے کہ میں وہ مضمون لا کر بطور نمونہ سناتا ہوں چنانچہ آپ اندر گھر میں تشریف لے گئے اور مضمون لا کر اس کا عربی مسودہ اور فارسی ترجمہ سناتے رہے۔فرمایا کہ :-
اس مضمون کو میں نے تین طرح تقسیم کیا ہے۔اول۔اجمال رکھا ہے۔دوم۔تفصیل کی ہے کہ کیوں اس امر کی ضرورت پڑی کہ ٹیکہ سے ہم پرہیز کریں اور وجہ بتلائی ہے کہ ہمارا دعویٰ یہ ہے اور لوگ گالیاں دیتے اور سب و شتم کرتے ہیں۔سوم۔خدا تعالیٰ نے اب تک کیا تفریق کر کے دکھائی ہے۔اور مخالفوں کی مخالفت کے کیا نتائج ہوئے۔
آسمانی اور زمینی نشان
عشاء سے قبل قدرے مجلس کی اور اخبارات انگریزی سنتے رہے۔ایک مقام پر فرمایا کہ :-
خدا تعالیٰ جو نشانات دکھاتا ہے اشتہاری دکھلاتا ہے۔کسوف وخسوف بھی اشتہاری تھا اور وہ آسمانی تھا۔اب یہ طاعون بھی اشتہاری ہے اور یہ زمینی ہے۔اگر آج سے ایک ہزار برس پیشتر تک کی تواریج پنجاب دیکھتے جائو تو جیسی طاعون اب ہے اس کی نظیر نہ ملے گی ابھی تو اس کے پائوں جمے ہیں۔اگر یہ سرسری ہوتی تو اس کا دورہ ختم ہوجاتا۔موت اور خوف بھی خدا تعالیٰ کے رعب کا نظارہ ہے اور اصلأ کا وقت ہے ہر ایک قسم کی قبیح رسم خدو بخود دور ہو جائے گی۔ابھی تو کارروائی شروع ہے کسی کا قول ہے ؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؎ٰ
۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
خود نماز جنازہ پڑھانا
حضورؑ نے جمعہ مسجد اقصیٰ میں ادا کیا۔بعد ادائے جمعہ‘نماز جنازہ ایک احمدی بھائی مرحوم کی حضرت اقدس نے پڑھائی۔
ایک الہام
عصر کے وقت تشریف لا کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
یہ الہام ہوا ہے ۔اسکے ساتھ ایک اور عجیب اور مبشر فقرہ تھا۔وہ یاد نہیں رہا۔
ینادی مناد من السماء ۲؎
۱۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز شنبہ
ایک ہندوتاجر کی حضرت اقدسؑ سے عقیدت
عصر کے وقت نماز سے پیشتر ایک ہندو صاحب سودا گر پارچہ امرتسری نے آکر حضرت اقدس سے نیاز مندانہ طور پر نیاز حاصل کیا اور استفسار پر اس نے جواب دیا کہ ہم امرتسر میں ایک بڑے سودا گر ہیں۔اس طرف تمام علاقہ میں ہماری دوکان سے کپڑا آتا ہے میں اپنی آسامیوں سے روپیہ وصول کرنے آیا تھا میرے بھائی نے کہا تھا کہ حضور کی قدم بوسی کرتا آئوں۔
پھر عصر کی نماز ہوئی اور ہندو صاحب الگ ایک گوشہ میں بیٹھے رہے ۔بعد نماز وہ پھر نیاز حاصل کر کے اور دست بوسی کر کے رخصت ہوئے۔
بجلی چمکنے کی تعبیر
مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا جس میں انہوں نے بجلی دیکھی تھی۔اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :-
شائد کوئی تیس برس کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے بھی ایک خواب دیکھا کہ اب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے بجلی ثمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی۔؎ٰ
۱۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنبہ
ظہر کے وقت حضرت اقدس (علیہ السلام) تشریف لائے تو لاہور اور برما سے آئے ہوئے احباب نے نیاز حاصل کیا۔
دانت درد کا علاج
ایک صحابی کے دانت میں سخت درد تھا۔حضرت نے فرمایا کہ :-
اس کے لئے مجرب علاج یہ ہے کہ ایک بوٹی بنام کا رابار انہر کے کنارے ہوتی ہے بارہا آزمایا ہے کہ جب اسے لے کر منہ میں رکھا اور چبایا اور اس کا اثر دانت پر پہنچا کیسا ہی سخت درد کیوں نہ ہو آرام آجاتا ہے۔
ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کارابارا اور کاربالک ایک ہی شئے معلوم ہوتی ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
یہ عربی لفظ قلع وبرا ہوگا نہ کہ کاربالک۔
قیام فی ما اقام اﷲ
مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک شہادت پر گورداسپور جانا تھا۔مولوی صاحب نے کہا کہ مین یہاں سے باہر جانا نہیں چاہتا مگر اب تو اﷲ تعالیٰ لے چلا ہے خود تو میں نہیں جاتا۔حضرت اقدس نے فرمایہ کہ
قیام فی ما اقام اﷲ
یہی تو ہے۔
طاعون کا علاج
طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ:-
اس کے لئے جونک کا لگوانا اور زیادہ مقدار میں مگنیشیا کا جلاب دے کر پھر کیوڑہ اور نربسی وغیرہ مصفی خون ادویہ کا استعمال کرنا بہت مفید اور مجرب ہے کیونکہ اس میں خونی و سوداوی مواد ہوتے ہیں۔یہ ان دونو کا علاج ہے۔؎ٰ
۱۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دو شنبہ
سر درد اور متلی کا علاج
نماز مغرب ادا فرما کر حضرت اقدس تشریف لے جانے لگے تو مفتی محمد صادق صاحب نے سر درد اور متلی وغیرہ کی شکایت کی۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
آج شب کو کھانا نہ کھانا اور کل روزہ نہ رکھنا۔سکنجبین پی کر اس سے قے کر دو۔
صفائی رکھنے کی تاکید
پھر مفتی صادق صاحب کے مکان پکی نسبت دریافت کر کے فرمایا کہ :-
اس کے مالکوں کو کہو کہ روشندان نکال دیں اور آج کل گھروں میں خوب صفائی رکھنی چاہئے کپڑوں کو بھی ستھرا رکھانا چاہئے۔آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا تو سنت ہے۔قرآن شریف میں بھی لکھا ہے۔
وثیا بک فطھر والرجزفاھجر (المدثر : ۵‘۶)
(یہ کلام حضرت کا ہم نے بالواسطہ سن کر لکھا ہے۔ (ایڈیٹر)
بیعت کے ساتھ عمل صالح کی ضروری ہے
بعد از مغرب
تین اشخاص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی بعد بیعت آپ نے مبائعین کی طرف مخاطت ہو کر فرمایا کہ
آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے آج کل بلا کا زمانہ ہے طاعون ہر طرف پھیل رہی ہے صرف ماننے سے اﷲ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک عمل اثھے نہ ہوں۔کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہوتو نیک بنو۔متقی بنو۔ہر ایک بدی سے بچو۔یہ وقت دعائوں سے گذارو۔رات اور دن تضرع میں لگے رہو جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے تو خد اتعالیٰ کا غضب بھی بھڑکا ہوا ہوتا ہے۔ایسے وقت میں دعا۔تضرع۔صدقہ خیرات کرو۔زبانوں کو نرم رکھو۔استغفار کو اپان معمول بناجو۔نمزاوں میں دعائیں کرو۔مثل مشہور ہے کہ منتیں کرتا ہوا کوئی نہیں مرتا۔نرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا اگر انسان مان کر پھر اسے پس پشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوت اپھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت س یفائدہ نہیں ہوا بے سود ہے۔خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا۔
عملِ صالح کی تعریف
قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے عمل صالح اسے کہتے ہیں جرتگ؛ب۵س میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں وہ کیا ہیں۔ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے) عجب (کہ وہ عمل کرکے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے) اور قسم قسم کی بدکاریاں ارو گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔ان سے اعمال باطل ہو جات یہیں۔عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم۔عجبپ]ص:؎,۔ریا۔تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے۔ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو۔صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے اگر وہ ان دوائوں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہوگا۔
استغفار کی ضرورت
اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے اب آئندہ خد اتعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا اب زمانہ ہے کہ خد اتعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔بہت لوگ ہیں کہ خد اپر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اﷲ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔
بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسنا ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہواسے علم ہویا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کاہن اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔آج کل آدم ؑ کی دعا پڑھنی چاہئے۔
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین (الاعراف : ۲۴)
یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے غفلت سے زندگی بسر مت کرو جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی
رب کل شیء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی
سب اس کے ہاتھ میں ہے
یہاں تک آپ نے تقریر فرمائی تھی کہ اتنے میں مولوی عبد الکریم صاحب گورداسپور سے آگئے اور حالات سفر سناتے رہے۔سفر میں ہر قسم کے عوارض اور شکایت سے محفوظ رہنے پرحضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
ہمارا ایمان ہے کہ سب اس کے ہاتھ میں ہے خواہ اسباب سے کرے خواہ بلا اسباب؎ٰ
۱۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁بروز سہ شنبہ
طاعون اور مخالفین کا ایک عذر
نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس کچھ عرصہ بیٹھے رہے اور ایک شخص طاعون کے حالات سناتا رہا کہ جب لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مسیح موعود کو مان لو تو اس سے محفوظ رہو گے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ خد اکو کیوں نہ مانیں جو اس کے ایک بندے کو جا کر مانیں۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی یہی کہا کرتے تھے۔
آئینہ کمالات اسلام کا اثر ایک عرب پر
ظہر کے وقت مولوی عبد الکریم صاحب نے جناب ابو سعید عرب صاحب تاجر برنج رنگوں برما کے حالات حضرت کو سنائے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اول اول عرب صاحب ایک بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے پھر کتاب آئینہ کمالات اسلام کسی طرح ان کی نظر سے گزری تو اس نے اس سلسلہ کی طرھ توجہ دلائی اور حقیقت اسلام ان پر منکشف ہوئی۔حضرت صاحب پھر خود عرب صاحب سے ان کے حالات دریافت کرتے رہے اور پوچھا کہ آپ کتنے دن تک رہ سکتے ہیں۔عرب صاحب نے بیان کیا کہ میں نے کلکتہ سے سیکنڈ کلاس کا واپسی کا ٹکٹ لیا ہے جس کیا میعاد جنوری ۱۹۰۳ء تک ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
میری بڑی خوشی ہے کہ آپ اس دن تک ٹھہریں جب تک کہ ٹکٹ اجازت دیتا ہے۔
اس پر عرب صاحب نے بڑی نیاز مندی سے عرض کی کہیدث کرایہ کی فکر نہیں میں زیادہ بھی ٹھہر سکتا ہوں۔پھر عرب صاحب اپنی مذہبی زندگی کی کیفیت حضرت اقدس کو سناتے رہے کہ میں اس مشرب کا آدمی تھا کہ خدا کے وجود پر بھی ایمان نہ تھا یہی خیال تھاکہ کھانا ہے اور کمانا ہے۔آئینہ کمالات اسلام نے آخر اس غلطی سے نجات دے کر حضور کی محبت کا تخم دل میں جمایا ۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
حقیقی لذات خدا میں ہیں
خدا ہی کی تلاش کرو۔حقیقی لذت خدا ہی میں ہے۔جو لذات اس دنیا سے لے جاوے گا وہی اس کے ساتھ رہیں گے۔ایک دہریہ جب مرے گا تو اسے یہی خیال ہو گا کہ میں وہیں ہوں اور صرف جسم جدا ہوا ہے اس کو حسرت ہی حسرت رہے گی۔جسم کے اندھے اچھے ہیں اور قابل رحم ہیں بہ نسبت اس کے کہ دل کے اندھے ہوں۔سید احمد خان نے تفریط کی راہ لی۔اور ان (وہابیوں) نے افراط کی طرح طرح کی بدنماباتیں پیش کیں۔انسان ان کو کہاں تک قبول کرتا۔کوئی راہ تسلی اور سکینت کی نہ تھی۔کہ انسان مانتا۔
دین کا سارا حصہ ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدو خدا سمجھادے۔پھر جو سمجھنے والے ہوتے ہیں خد اتعالیٰ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں بٹھاتا جاتا ہے۔انسان کو پوری سعادت تک پہنچانے کے واسطے خدا تعالیٰ نے اور حواس رکھے ہیں۔اگر وہ نہ ہوتے تو پھر دین کو انسان سمجھ نہ سکتا اور اس وقت میں حقیقی طور پر انسان خدا پر ایمان لاتا ہے۔خدا پر ایمان اس کا ہے جسے خد انے ہی ایمان دیا ہو برہمو کی طرح زمین اور آسمان کو دیکھ کر پھر خد اکی ضرورت کو ماننا تو گویا اپنی طرف سے ایک خد اتجویز کرنا ہے اور اس طرح سے گویا خود انسان کا احسان خدا پر ہے کہ اس نے خدا کا پتہ لگایا ۔اصل میں اس روز سے انسان کو سچی زندگی حاصل ہوتی ہے جس دن سے وہ خدا پر احسان نہیں رکھتا بلکہ خدا کا اپنے اوپر احسان مانتا ہے کہ اس نے خود اپنے وجود سے اسے خبر دی اور اسی دن سے سفلی زندگی سے انسان کو نجات حاصل ہوتی ہے جس دن خدا کہے کہ میں غالب ہوں اور اس دن سے وہ ترک گناہ پر قادر ہوگا۔یہی وہ سلسلہ ہے جس سے انسان کو کامل یقین خدا پر حاصل ہوتا ہے مگر ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشذہ
دنیا میں بھی ہر ایک شخص انعام و اکرام کے قابل نہیں ہوتا۔اسی طرح خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام بھی خواص پر ہوتے ہیں۔
ایک چینی قیافہ شناس کی گواہی
عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کوپیش کیا وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیشکیں مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کا کلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخض ہر گز جھوٹ بولنے والا نہیں۔
طاعون کا الاج خدا تعالیٰ کے پاس ہے
نماز مغرب کے بعد طاعون کا ذکر ہوا فرمایا کہ :-
اب اس کا علاج خدا تعالیٰ کے پاس ہے عندی معلجات (الہام حضرت اقدسؑ) اور اب یہ آیت بالکل صادق آگئی ہے
وان من قریۃ الانحن مھلکو ھاقبل یوم القیمۃ او معذبوھا عذاباشدیدا (بنی اسرائیل : ۵۹)
یعنی ہم کوئی گائوں نہ چھوڑیں گے کہ اس کو ہلاک نہ کریں۔اسی طرح اب کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہمارے ہاں طاعون نہیںآئی اور جہاں اب تک نہیں آئی تو آخر آنے والی ہے۔؎ٰ
۱۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
علو اور تکبر سے مراد
نماز فجر سے پیشتر حضور ؑ نے تھوڑی دیر مجلس فرمائی اور
انی احافظ کل من فیالدار الا الذین علو اواستکبرو ا ۲؎
کے متعلق فرمایا کہ
اس میں علو اور تکبر سے یہ مراد نہیں ہے کہ مال و وجاہت کا تکبر ہو بلکہ ہر ایک شخص جو کہ عاجزی اور تذلل سے خدا کے سامنے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتا اور اس کے احکام کو ہیں مانتا وہ اس میں داخل ہے خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو۔
جماعت کو نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کی نصیحت
ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے تو نواب صاحب نے طاعون پر کچھ ذکر کیا جس پر حضور نے ذیل کی تقریر فرمائی۔
ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے۔اس وقت زمینی اسباب کچھ کام نہ آوے گا نہ منصوبہ اور حجت بازی کام آئے گی۔دنیا سے کیا دل لگانا ہے اور اس پر کیا بھروسہ کرنا ہے یہ ہی امر غنیمت ہے کہ خد اتعالیٰ سے صلح کی جائے اور اس کا یہی وقت ہے۔ان کو یہی فائدہ اٹھانا چاہئے کہ خد اسے اسی کے ذریعہ سے صلح کر لیں۔بہت مرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ دلالہ کا کام کرتی ہیں اور انسان کو خد اسے ملا دیتی ہیں۔خاص ہماری جماعت کو اس وقت وہ تبدیلی یک مرتبہ ہی کرنی چاہئے جو کہ اس نے دس برس میں کرنی تھی اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ان کو پناہ مل سکتی ہے اگر وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے دعائیں کریں تو ان کو بشارتیں بھی ہو جائیں گی۔صحابہؓ پر جیسے سکینت اتری تھی ویسے ان پر اترے گی صحابہؓ کو انجام تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا ہوگا مگر دل میں یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ خد اتعالیٰ ہمیں ضائع نہ کرے گا۔
دراصل سکینت اسی تسلی کا نام ہے۔جیسے میں اگر طاعون زدہ ہو جائوں اور گلے تک میری جان آجائے تو مجھے ہرگز یہ وہم نہیں ہوگا کہ میں ضائع ہو جائوں گا اس کی کیا وجہ ہے؟صرف وہی تعلق جو میرا خدا کے ساتھ ہے وہ بہت قوی ہے انسان کے لئے ٹھیک ہونے کا یہ مفت کا موقع ہے راتوں کو جاگو۔دعائیں کرو۔آرام کرو (لیکن) جو کسل ارو سستی کرتاہے وہ اپنے گھر والوں اور اولاد پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ تو مثل جڑھ کے ہے اور اہل و عیال اس کی شاخیں ہیں۔تھوڑے ابتلا کا ہونا ضروری ہے۔جیسے لکھا ہے
اخسب الناس ان یتر کو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
ابتلائوں کی غرض
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف تو مکہ میں فتح کی خبریں دی جاتی تھیں اور ایک طرف ان کو جان کی بھی خیر نظر نہ آتی تھی اگر نبوت کا دل نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا۔یہ اسی دل کا حوصلہ تھا۔بعض ابتلا صرف تبدیلی کے واسطے ہوتے ہیں۔عملی نمونے ایسے اعلی درجے کے ہوں کہ ان سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے کہاب میں وہ نہیں ہوں جو کہ پہلے تھا بلکہ میں ایک اور انسان ہوں۔اس وقت خدا تعالیٰ کو راضی کرو حتیٰ کہ تم کو بشارتیں ہوں۔کل کلھتے ہوئے ایک پرانا الہام نظر پڑا
ایام غضب اﷲ غضبت غضبا شدیدا ننجی اھل السعادۃ
یہاں اہل سعادت سے مراد وہ شخ ہے جو عملی طور پر صدق دکھلاتا ہے خالی زبان تک ایمان کا ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا جیسے صحابہؓ نے صدق دکھلایا کہ وہ ہتھیلی پر جانیں رکھ لیں۔اور بال بچوں تک کو قربان کیا مگر ہم آج ایک شخص کو اگر کہیں کہ سو کوس چلا جا تو وہ عذر کرتا ہے حتیٰ کہ آبرو عزت کا معاملہ پیش کرتا ہے اور کاروبار کا ذکر کرتا ہے کہ کسی طرح جانے سے رہ جائے مگر انہوں (صحابہؓ) نے جان‘مال‘آبرو‘عزت سب کچھ خاک میں ملا دیا۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں آفت آئی حالانکہ ہم نے بیعت کی تھی مگر ہم نے بار بارتر جماعت کو کہا ہے کہ نری بیعت اور صرفھ زبان سے ماننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔چاہئے کہ خد امیں گداز ہو کر ایک نیا وجود بن جائے‘سارا قرآن دیکھو کہ کہیں بھی صرف امنوا نہیں لکھ اہے ہر جگہ عمل صالح کا ساتھ ہی ذکر ہے۔غرضیکہ خد ایک موت چاہت اہے اور میرا تجربہ ہے کہ مومن پر دو موتیں ہرگز جمع نہیں کرتا کہ ایک موت تو اس کی خد اکے واسطے ہو ارو دوسری دنیا کی لعن طعن کے واسطے۔ایسے نازک وقت میں چاہئے کہ جماعت سمجھ جائے اور ایک تیر کی طرح سیدھی ہو جائے۔اگر ہزاروں آدمی بھی طاعون سے مرجائیں تو میں ہرگز خد اکو ملزم نہ کروں گا اور یہی کہوں گا کہ انہوں نے احسان کا پہلو چھوڑ دیا
اناﷲ لا یضیع اجر المحسنین (التوبہ : ۱۲۰)
بعض خوابوں کی تعبیرات
بوقت عشاء ایک شخص نے بیعت کی چند ایک احباب نے اپنے اپنے خواب سنائے جس میں سے ایک خواب یہ تھا کہ حضرت اقدس ہاتھی پر سوار ہیں اور وہ آپ کے حکم میں چلتا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
جو ہاتھی میں نے خواب میں دیکھا تھا اس کی بھی ایسی ہی حالت تھی اور اس سے مراد طاعون ہے کہ ہم اس پر سوار ہیں۔
ایک دوست نے خواب میں بیسنی روٹی دیکھی اس کی تعبیر میں فرمایا کہ :-
اس سے مراد کچھ تکلیف ہے۔؎ٰ
۱۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز پنجشنبہ
الہامات
بوقت ظہر حضرت اقدس اپنے الہامات کی تکرار فرماتے رہے جو کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کی نسبت تھے اور فرمایا کہ :-
یہ بھی ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔مگر وہ وقت ابھی نہیں آیا۔
سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے
ابو سعید عرب صاحب آمدہ ازرنگون نے عرض کی کہ ایک صاحب برما میں کہتے تھے کہ اگر میرزا صاحب صرف قرآن کی تفسیر لکھیں اور اپنے دعاوی کا ذکر اس میں ہرگز نہ کریں تو میں بہت سا روپیہ صرف کر کے اسے طبع کروا سکتا ہوں۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ:-
اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرئن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے ابتدا ہی میں ہے
صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین (الفاتحہ : ۵ تا ۷)
اب ان سے کوئی پوچھے کہ غیر المغضوب کون سا فرقہ تھا تمام فرقے اسلام کے اس پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری امت یہودی ہو جائے گی تو پھر بتلائو کہ اگر مسیح نہ ہوگا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے۔
متفرق امور
مغرب کی نماز ادا فرما کر حضور تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد تشریف لائے آکر ایک صحابی کو فرمایا کہ :-
اللواء پر جو مضمون لکھاہے وہ مطبع میں چلا گیا ہے ایک دو کاپیاں نکلیں تو آپ کو دکھادیں گے۔
شفقت کا نمونہ
ایک صاحب کے دانت میں درد تھا اس کے لئے حضرت اقدس نے کارابارا (ایک بوٹی )منگوائی تھی وہ اندر مکان میں تھی جناب میر صاحب نے کاہ کہ ان کے دانت میں درد ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
میں ابھی جا کر وہ سب بوٹی لا دیتا ہوں
مریض نے کہا حضور کو زحمت ہوگی حضرت اقدس نے اس پر تبسم فرمایا اور کہا کہ
یہ کیا تکلیف ہے
اور اسی وقت اندر جا کر حضور وہ رومال لے آئے جس میں وہ بوٹی تھی اور مریض کے حوالہ کی۔
لوہے کی قلم اور تلوار
اصحاب میں سے ایک نے عرض کی کہ آیت
لقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معھم الکتب والمیزان لیقوم الناس بالقسط
وانزلناالحدید فیہ باس شدید و منافع لناس (الحدید : ۲۶)
سے معلوم ہوت اہے کہ حدید نے اپنا فعل باس شدید کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کیا کہ اس سے سوامان جنگ وغیرہ تیار ہو کر کام آتا تھا مگر اس کے فعل منافع لناس کا وقت یہ مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے یکہ اس وقت تمام دنیا حدید (لوہے) سے فائدہ اٹھا رہی ہے (جیسا کہ ریل‘تار‘دخانی جہاز‘کار خانوں اور ہر ایک قسم کے سامان لوہے سے ظاہر ہے)
حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ :-
میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں۔مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے۔اس لئے لوہے کے قلم استعمال کرتا ہوں۔آنحضر تﷺ نے لوہے س یکام لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے۔
(حضرت اقدس جس قلم سے لکھا کرتے ہیں وہ ایک خاص قسم کا ہوتا ہے جس کی نوک آگے سے داہنی طرف کو مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس کیشکل تلوار کی سی ہوتی ہے۔ایڈیٹر)
۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁بروز جمعہ
الہام
نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
آج یہ الہام ہوا ہے :-
انی مع الافواج اتی
اپنا نمونہ ٹھیک بناویں
بعد ادائے نماز خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک خواب سنائی جس میں دیکھ اکہ زلزلہ آیا ہوا ہے۔
فرمایا کہ :-
یہی طاعون زلزہ ہے۔میں جماعت کو کہتا ہوں کہ یہ قیامت ہے جو آرہی ہے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے گا مگر صرف اتنی بات پر خوش نہ ہوں کہ بیعت کی ہوئی ہے۔قرآن مجید میں ہر جگہ امنوا کے ساتھ عمل صالح کی تاکید ہے۔اگر بعض آدمی جماعت میں سے ایسے ہوں کہجن کو خد اکی پروا نہیں اور اس کے احکام کی عزت نہین کرتے تو ایسے آدمیوں کا ذمہ دار نہ خد اہے اور نہ ہم۔ان کو چاہئے کہ اپنا اپنا نمونہ ٹھیک بناویں زلزلہ تو آرہا ہے۔
بعد نماز مغرب
تین رئویا
حضور نے اپنی تین رئویا ء سنائیں جو کہ آپ نے پیدرپے دیکھی تھیں۔
(اول) کہ ایک شخص نے ایک روپیہ اور پانچ چھوہارے رئویاء میں دیئے۔اس کے بعد پھر غنودگی ہوئی تو دیکھ اکہ تریاق القلوب کا ایک صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر علی شکرالمصائب لکھا ہوا ہے جس کے معنے ہوئے کہ
ھذہ صلۃ علی شکر المصائب۔
گویا یہ روپیہ اور چھوہارے شکر المصائب کا صلہ ہے۔تیسری دفعہ پھر کچھ ورق دکھائے گئے جن پر بیٹوں کے بارے میں کچھ لکھا ہوا تھا رو جو اس وقت یاد نہیں۔
الہامی دعائیں واحد متکلم کے صیغہ کو بصورت جمع پڑھنا
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا جس میں سوال تھا کہ دعا الہامیہ
رب کل سیء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی
کو صیغہ جمع متکلم میں پڑھ لیا جائے یا نہ۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اصل میں الفاظ تو الہام کے یہی ہیں (یعنی واحد متکلم) اب خواہ کوئی کسی طرح پڑھ لیوے۔قرآن مجید میں دونو طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں۔واحد کے صیغہ میں بھی جیسے
رب اغفرلی ولوالدی (نوح : ۲۹)
اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے
ربنا اتنا فیالدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (البقرہ : ۲۰۲)
اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہیجیسے اس ہماری الہامی دعا میں فاحفظنی سے یہی مراد نہیں ہے کہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے متعلقات اور جو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں۔جیسے گھر بار۔خویش و اقارب۔اعضاء و قویٰ وغیرہ۔
ایک عیسائی کمیٹی کے نزدیک مسیح کے ظہور کا یہی وقت ہے
مفتی محمد صادق صاحب ولایت کی ایک عیسائی کمیٹی کا ایک مضمون سناتے رہے جس میں مسیح کی دوبارہ آمد پر بہت کچھ لکھا تھا کہ وقت تو یہی ہے سب نشان پورے ہو چکے ہیں۔اگر اب بھی نہ آیا تو پھر قیامت تک نہ آوے گا۔
اس مضمون کو سن کر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اس نے بعض باتیں بالکل صاف اور سچی لکھی ہیں اور اس نے ضرورت زمانہ کو اچھی طرح محسوس کیا ہے۔بے شک اب ایک تختہ الٹنے لگا ہے اور دوسرا تختہ شروع ہو گا جس طرح یہ لوگ اس زمانہ میں مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں بلکہ اکثر ان کے انتظار کے بعد اب بے امید بھی ہو گئے ہیں اور اکثروں نے تاویلوںسے آمد ثانی کے معنے ہی اور کر لیء ہیں۔کیونکہ اس کے متعلق تمام پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور زمانہ کی نازک حالت ایک ہادی کو چہاتی ہے۔اسی طرح اسلامی پیشگوئیوں کے مطابق بھی یہی وقت ہے۔نواب صدیق حسن خاں نے لکھ اہے کہکل اہل مکاشفات اور ملہمین کے کشوف اور الہام اور رؤیاء مسیح کے بارے میں چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتے۔
مولوی مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑدیں گے
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور اب تو مولوی لوگوں نے وہ خطبے وغیرہ پرھنے چھوڑ دیئے ہیں جن سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی تھی۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اب تو وہ نام بھی نہ لیں گے اور اگر کوئی ذکر کرے تو کہیں گے کہ مسیح اور مہدی کا ذکر ہی چھوڑو۔؎ٰ
25-4-05
۲۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز شنبہ
عصر کے وقت حضور ؑ تشریف لائے تو فرمایا کہ :-
اخبار عام میں ان مقدموں کے حالات شائع ہو گئے ہیں اور ہمارے مقدمہ کو کھول کر نہیں بیان کیا بلکہ دبی زبان سے بیان کیا ہے۔پھر ذکر کیا کہ یہ الہام
یریدون ان یطفئوانورک۔یریدون انیتخطفواعرضک۔
اس کی ہمیں کیا خبر تھی کہ وہ ان واقعات کے متعلق ہیں تخطیف کے معنے اچک کرلے جانا ہے۔
قادیان کے اخبارات کی افادیت
قادیان کے اخباروں کے متعلق فرمایا کہ :-
یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں۔الہامات وغیرہ جھٹ چھپ کر ان کے ذریعہ شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوے تو ایک ایک کتاب کو چھپنے میں کتنی دیر لگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی۔
یورپؔمیں بے دینی پھیلے گی
عشاء سے قبل یورپ کی لامذہبی کے متعلق فرمایا کہ :-
عیسائی مذہب کی عمارت تو گرنی شروع ہو گئی ہے عنقریب سوائے پادریوں کے اور مذہب کہلائیں گے۔؎ٰ
۲۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁بروز یکشنبہ
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
مغرب اور عشاء کے درمیان مجلس فرمائی۔ڈاکٹر عبادال صاحب امرتسری اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو معتکف تھے) ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ :-
اعتکاف میں یہ ضروری نہین ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔(مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔
تلوار کا استعمال صرف دفاع کی خاطر تھا
پھر جہاد کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ :-
اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنا ہے اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہین ہو سکتی۔یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تلوار اٹھائی بالکل غلط ہے تیرہ برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صبر کرتے رہے پھر باوجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو ارو جو مشرک قومیں صلح اور امن کی خواستگار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی۔اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اﷲ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ میں لڑیں۔ورنہ اگر تعصب ہوتا تو یہ حکم پہنچتا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ دین کی اشاعت کے واسطے جنگ کریں لیکن ادھر حکم دیا کہ
لا اکراہ فی الدین (البقرہ : ۲۵۷)
یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور ادھر جب غایت درجہ کی سختی اور ظلم مسلمانوں پر ہوئے تو پھر مقابلہ کا حکم دیا۔
کمالات مجاہدہ سے حاصل ہوتے ہیں نہ کسی کے خون سے
دین اسلام ایسا دین ہے کہ اگر خد اہمیں عمر اور فرصت دے تو چند ایام میں ان لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کیسا میٹھا اور بہترین دین ہے۔کمالات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں مگر جنکو سہل نسخہ مسیح کے خون کا مل گیا وہ کیوں مجاہدات کریں گے۔اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر انکے لڑکے امتحان پاس کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں چاہئے کہ وہ صرف مسیح کے خون پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے کامیاب ہوویں اور کوئی محنت نہ کریں اور مسلمانوں کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مارمار کر پاس ہوں۔اصل بات یہ ہے
لیس للانسان الا ماسعی (النجم :۴۰)
اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب انے نفس کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے فسق و فجودر وغیرہ معلوم ہوتے ہیں۔آخر وہ یقین کی حالت پر پہنچ کر ان کو صیقل کر سکتا ہے لیکن جب خون مسیح پر مدار ہے تو مجاہدات کی کیا ضرورت ہے ان کی جھوٹی تعلیم سچی ترقیات سے روک رہی ہے۔سچی تعلیم والا دعائیں کرتا ہے کوششیں کرتا ہے آخر دوڑتا دوڑتا اور ہاتھ پائوں مارتا ہوا منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔جب یہ بات ان کو سمجھ آئے گی کہ یہ سب باتیں (خون مسیح پر بھروسہ) قصہ کہانی ہیں اور ان سے اب کوئی آثار اور نتائج مرتب نہیں ہوتے اور ادھر سچی تعلیم کی تخم ریزی کے ساتھ برکات ہوں گی تو یہ لگو خود سمجھ لیں گے انسان کھیتی کرتا ہے اس میں بھی محنت کرنی پڑتی ہے۔اگر ایک ملازم ہے تو اسے بھی محنت کا خیال ہے غرصیکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر کوشش میں لگا ہے اور سب کا ثمرہ کوشش پر ہی ہے۔ سارا قرآن کوشش کے مضمون سے بھرا پڑا ہے
لیس للانسان الا ماسعی (النجم : ۴۰) ؎ٰ
ان لوگوں کو جو ولایت میں خون مسیح پر ایمان لا کر بیٹھے ہیں کوئی پوچھے کہ کیا حاصل ہوا۔مردوں یا عورتوں نے خون پر ایمان لا کر کیا ترقی حاصل کی۔یہ باتیں ہیں جو بارباران کے کانوں تک پہنچانی چاہئیں یہ قصہ جھوٹا ہے کہخد اپیٹ میں رہا۔پھر اسے خسرہ وغیرہ نکلا ہوگا۔طفولیت کے عالم میں ماں بھی کوئی دھول دھپامار بیٹھی ہوگی۔لڑکوں میں کھیلتا ہوگا وہاں بھی مار کھاتا ہوگا۔اب اس نظارہ کو کوئی دیکھے کہ بڑا ہو کر بھی مار کھاتا رہا اور چھوٹا تھا تو بھی طمانچے پڑتے رہے۔ ؎ٰ
۲۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دوشنبہ
بوقت ظہر
حقیقی طاعون
طاعون کے ذکر پر فرمایا :-
بعض طب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب تک سرسام اور غشی نہ ہو تو صرف گلٹی کے ساتھ جو بخار ہوتا ہے اس سے اگر کوئی مرجائے تو اس کا نام طاعون نہیں بلکہ خاص طاعون کے دنوں میں یہ مرض مشابہ بالطاعون ہوا کرتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی طاعون کا لفظ ایسی موتوں پر نہیں آسکتا جس میں صرف گلٹی اور بخار ہو۔اور دوسرے علامات طاعون نہ ہوں۔
ایک الہام
پھر فرمایا کہ :-
گزشتہ شب کو دویا تین بجے یہ الہام ہوا اور بڑے زور سے ہوا
یا تی علیک زمن کمثل زمن موسی
اتنے برس سے یہ سلسلہ ہمارا جاری ہے مگر یہ الہام کبھی نہیں ہوا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر تیاری ہوئی ہے۔ ۲؎
مسیح بمعنی سیاح
مولویوں کے احادیث پیش کرنے پر فرمایا کہ :-
ان پر ایسا وثوق تو نہیں ہوتا جیسے کلام الٰہی پر کیونکہ خواہ کچھ ہی ہو‘ پھر بھی وہ مس انسان سے تو خالی نہیں۔مگر خدا تعالیٰ جس کی تنقیہ کرتا جائے وہ صحیح ہوتا جائے گا۔اگر احادیث میں نزول مسیح کا ذکر تھا تو دیکھئے قرآن شریف میں
وقفینا من بعدہ بالرسل (البقرۃ : ۸۸)
موجود ہے جو کہ اصل حقیقت کو واضح کر رہا ہے۔مولویوں نے اس بات کو نہیں سمجھا اور اور طرف دوڑتے رہے ۔مسیح کے معنے بہت سیر کرنے والا ہیں۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ جب وہ آسمان پر ہے تو اس نے سیر کہاں کی ہوگی اور لفظ مسیح کے معنے اس پر کیسے صادق آئیں گے۔ایک طرف اسے آسمان پر بٹھاتے ہیں دوسری طرف سیاح کہتے ہیں تو اس کی سیاحت کا وقت کونسا ہوا۔؎ٰ
مسیح بن باپ پیدا ہوئے
مغرب و عشاء کے درمیان حضرت اقدس تشریف لائے تو مکرم ابو سعید عرب صاحب نے ساول کیا کہ مسیح کی ولادت کے متعلق کیا بات ہے وہ بن باپ کس طرح پیدا ہوئے؟حضرت اقدس نے جواباً فرمایا :-
اذاقضی امرافانما یقول لہ کن فیکون (البقرۃ : ۱۱۸)
ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے اور قرآن شریف سے یہی ثابت ہے۔اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ یہود کے واسطے ایک نشان تھے جو ان کی شامت اعمال سے اس رنگ میں پورا ہوا۔زبور اور دوسری کتابوں میں لکھا تھا کہ اگر تم نے اپنی عادت کو نہ بگاڑا تو نبوت تم میں قائم رہے گی۔مگر خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ اپنی عادت کو بدل لیں گے۔اور شرک و بدعت میں گرفتار ہو جائیں گے۔جب انہوں نے اپنی حالت کو بگاڑا تو پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق یہ تنبیہی نشان ان کو دیا اور مسیح کو بن باپ پیدا کیا۔
بن باپ پیدا ہونے کا سِرّ
اور بن بات یدا ہونے کا سریہ تھا کہ چونکہ سلسلہ نسب کا باپ کی طرھ سے ہوتا ہے تو اس طرح سے گویا سلسلہ منقطع ہوگیا اور اسرائیلی خاندان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی کیونکہ وہ پورے طور سے اسرائیلی خاندان سے نہ رہے۔
مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (الصف : ۷)
میں بشارت ہے۔اس کے دو ہی پہلو ہیں یعنی ایک تو آپ کا وجود ہی بشارت تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے خاندان سے نبوت کا خاتمہ ہو گیا دوسرے زبان سے بھی بشارت دی۔یعنی آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور آپ کی زبانی بھی۔انجیل میں بھی مسیح نے باغ کی تمثیل میں اس امر کو بیان کر دیا اہے اور اپنے آپ کو مالک باغ کے بیٹے کی جگہ ٹھہرایا ہے۔بیٹے کا محاورہ انجیل اور بائبل میں عام ہے۔اسرائیل کی نسبت آیا ہے کہاسرائیل فرزند من بلکہ نخست زادہ من است۔آخر اس تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ بیٹے کے بعد وہ مالک خود آکر باغبانوں کو ہلاک کردے گا اور باغ دوسروں کے سپرد کر دے گا۔یہ اشارہ تھا اس امر کی طرھ کہ نبوت ان کے خاندان سے جاتی رہی۔پس مسیح کا بن باپ پیدا ہونا اس امر کا نشان تھا۔
پھر سوال کیا گیا کہ مسیح کے بن باپ پیدا ہونے پر عقلی دلیل کیا ہے؟ فرمایا :-
آدم کے بن باپ پیدا ہونے پر کیا دلیل ہے اور عقلی امتناع بن باپ پیدا ہونے میں کیا ہے ۔عقل انسان کو خدا سے نہیں ملاتی بلکہ خدا سے انکار کراتی ہے۔پکا فلسفی وہ ہوت اہے جو خدا کو نہیں مانتا۔بھلا آپ سوچ کر دیکھیں کہ اس بات میں عقل ہمیں کیا بتلاتی ہے کہ جو کچھ ہم بول رہے ہیں یہ کہاں جاتا ہے کیا کسی جگہ بند ہوت اہے یا یونہی ہوا میں اُڑ جاتا ہے۔عقل کے جس قدر ہتھیار ہیں وہ سب نکمے ہیں۔مگر ہم خد اتعالیٰ کے وعدوں اور نشانوں کو دیکھتے ہیں تب یقین کرتے ہیں کہ خد اہے۔ایک فلسفی اگر بہت خوض اور تدبر کے بعد کوئی نتیجہ نکالے گا تو وہ صرف اس قدر کہ ایک خدا ہونا چاہئے مگر ہے اور ہونا چاہئے میں بہت بڑا فرق ہے مثلا اگر ہم کہیں کہ اگر دو آنکھیں ہمارے آگے ہیں تو دو پیچھے کی طرف بھی ہونی چاہیں تھیں تا کہ انسان پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا اور اگر کوئی دشمن پیچھے سے حملہ کرنا چاہتا تو وہ اپنی حفاظت کر سکتا ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پیچھے کی طرف آنکھیں نہیں ہیں۔اسی طرح ہے اور ہونا چاہئے میں بہت فرق ہے۔غرضیکہ عقل سے بالکل خدا تعالیٰ کا وجود ثابت نہیں ہوسکتا۔
عقل کی حیثیت
عرب صاحب نے کہا کہ اسلام کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں؟
حضرت اقدس نے فرمایا :-
یہ سچ ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ عقل بالکل نکمی شئے ہے اس کی مثال ایسی ہے کہجیسے روٹی کے ساتھ سالن کی۔اس کے سہارے انسان کھانا خوب کھا لیت اہے۔ایسے ہی عقل ہے کہ اس سے (ذرا معرفت خدا )میں مزا آجاتا ہے ورنہ یوں (خالی) عقل اس میدان میں بڑی نکمی ہے۔خدا کی معرفت دوسرے حواس سے ہے کہ اس میں یہ عقل کوئی کام نہیں کرتی۔نہ تسلی دیتی ہے ایک ناکارہ ہتھیار کی طرح ہے۔
عرب صاحب نے سوال کیا کہ ہم تو مان لیں مگر دوسرے آدمی کو کیسے سمجھائیں کہ اور حواس ہیں۔؟حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :-
غیر کو ہم یہ جواب دیں گے کہ جو لوگ ایسی بات کے اہل ہیں ان کی صحبت میں رہو۔پھر پتہ لگے گاکہ ان حواس کے علاوہ اور حواس بھی انسان کے اندر ہیں۔خدا کی معرفت کا ان سے پتہ لگتا ہے اور بھی امرو ہیں جن پر انسان ایمان لاتا ہے؎ٰ مثلاً روح-ملائک-اب عقل ان کے متعلق کیا بتلا سکتی ہے-روح کے بقا اور ملائکہ کے متعلق کیا دلیل لاجو گے۔کوئی شئے ظاہری طور پر ثابت شدہ تو ہے نہیں۔آپ ہی بتلاویں کہ خدا‘روح ‘ملائک ان تین میں عقل نے کیا فیصلہ کیا ہے جو کچھ کیا ہے سب اٹکل ہے۔اصل بات کوئی نہیں اگر کہو کہ علت العلل کے سلسلہ سے خد اکی معرفت تامہ ہوتی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ علت اور معلول کے سلسلہ کوتو دہریہ بھی مانتے ہیں۔مگر پھر خدا کو نہیں مانتے ۔فلسفہ میں جو ذرا کچے رہتے ہیں وہ خدا کا نام لیتے ہیں ورنہ پکا فلسفی ضرور دہریہ ہوتا ہے۔
حکیم نورالدین صاحب نے اس مقام پر حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ مجوسی لوگ اس دور تسلسل کو چرخہ اورزنجیر کہتے ہیں اور انہیں سے یہ مسئلہ لیا گیا ہے۔
ہستی باری تعلیٰ کا ثبوت
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
ہم تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وجود جیسا اور کوئی وجود روشن ہی نہیں ہے۔اس مقام پر حکیم نورزالدین صاحب نے عرض کی کہ ایک دہریہ کا یہ مقولہ ہے کہ خدا کی ایک ہستی ضرور ہے مگر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہوتا ہے اور ایک اس کی جڑھ ہوتی ہے جس سے وہ پھول نکلا ہوا ہوتا ہے۔اسی طرح خد اتو مثل جڑھ کے ہے اور ہم پھول ہیں مگر پھول جڑھ سے زیادہ عمدہ اور مفید ہوتا ہے۔اسی طرح ہم خدا سے افضل اور برتر ہیں دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اگر انکار ہو سکتا ہے تو مخلوق کے وجود کا ہوسکتاہے خدا تعالیٰ کی ذات کا تصرف ہر آن اس کے ہر ذرہ ذرہ پر اس قدر ہے کہ گویا اس کی ہستی کچھ شئے ہی نہیں اور بلا اس کے تصرف کے ہم نہ کچھ بول سکتے ہیں نہ کچھ کر سکتے ہیں۔جو طالب حق ہے وہ ہماری صحبت میں رہے۔ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسی ہی ذات ہے جن صفات سے قرآن شریف میں لکھا ہے۔ان صفات سے ہم اسے ثابت کر کے دکھادیں گے۔بری نادانی کی بات یہ ہے کہ ایک عالم کی بات کو وہ دوسرے عالم کے حواس سے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ روزمرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک حواس دوسرے حواس کا کام نہیں لے سکتے مثلاً آنکھ ناک کا اور کان آنکھ کا کام نہیں دے سکتے۔جب خارج میں یہ حالت ہے تو باطن میں وہ کیا کہہ سکتے ہیں۔بات یہ ہے کہ انسان کو ایک اور حواس ملتے ہیں۔تب یہ اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر سکتا ہے۔بجز اس کے ہرگز نہیں کر سکتا۔ایک دہریہ سے یہ سوال ہے کہ قبل ازوقت طاقت اور اقتدار سے بھری ہوئی پیشگوئیاں جو ہم کرتے ہیں یہ کہاں سے ہوتی ہیں؟
اگر کہو یہ کوئی علم ہی ہے تو اس علم کے ذریعہ جو بھی کر سکتا ہے کرکے دکھائے۔ورنہ ماننا پڑے گا کہ ایک زبردست طاقت ہے جو الہام کر رہی ہے یہ پیشگوئیاں جو غیبوبیت کے رنگ اور طاقت اور اقتدار کے ساتھ ہوتی ہیں۔ان سے بڑھ کر اور کوئی نشان (خدا پر ایمان لانے کے واسطے) نہیں ہے نہ آسمان نہ زمین اور نہ کوئی اور شیئے۔ان پر نظر کر کے جو نتیجہ نکالیں گے اور جو بات پیش کریں گے وہ ظنی ہوگی۔یہی ایک بات (پیشگوئی والی) یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
لیکھرام کو قتل کروانے کے الزام کا جواب
عرب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے کہا کہ لیکھرام کو خود اپنے کسی جماعت کے آدمی کے ذریعہ سے مروا ڈالا ہے۔اس پر فرمایا کہ :-
ہمارے ساتھ ہزارہا جماعت ہے اگر ان میں سے کسی کو کہوں کہ تم جا کر مار آئو۔تو یہ میری پیروی اور بیعت کا سلسلہ کب چل سکتا ہے؟ یہ تو جب ہی چل سکتا ہے کہ صفائی ہو اور پیروئووں کو معلومر ہو کہ پاک باطنی کی تعلیم دی جاتی ہے اورجب ہم خود ہی قتل کے منصوبے لوگوں کو سمجھائیں تو یہ کاروبار کیسے چل سکتا ہے؟ اب یہ اس قدر گروہ ہیکوئی ان میں سے بولے کہ ہم نے کس کو اور کب کہا تھا کہ جا کر اس کو مار ڈالے۔
یہ سلسلہ منہاج نبوّت پر چل رہا ہے
پھر عقل کے شیدائیوں کی نسبت فرمایا کہ :-
جس طور سے ہم سمجھتے ہیں اور منہاج نبوت پر یہ سلسلہ چل رہا ہے اس کے بغیرآسکتی ۔یہ لوگ خواہ دہریہ ہوں یا نہ ہوں مگر بے بہرہ ضرور ہیں۔پاک زندگی‘استقامت‘توکل پورے طور پر نصیب نہیں ہوتا اور بڑے دنیا دار ہوتے ہیں۔
یتیم پوتے کا مسئلہ
عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔ایک شخص کا پوتا اگر یتیم ہے توجب یہ شخص مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ یتیم بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:-
دادے کو اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد وارث بیٹے قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ رکھا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو جاوے اور پھر آگے اس کے اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے
و اذا حضرالقسمۃ اولوا القربی والیتمی والمسکین فارزقوھم منہ
و قولوالھم قولا معروفا (النساء: ۹)
(یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو انکو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا بات مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔؎ٰ
27-4-05
۲۳؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز سہ شنبہ
ایک رئویا
نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس نے رئویا سنائی:-
میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں ایک دو آدمی ساتھ ہیں۔کسی نے کہا۔راستہ بند ہے ایک بڑا بحر زخار چل رہا ہے۔میں نے دیکھا تو واقعی کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ ثلا کرتا ہے۔ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے۔
چین میں عربی کتب بھیجنے کے متعلق گفتگو
ظہر سے پیشتر حضرت اقدس نے مجلس فرمائی اور فامایا کہ :-
چین میں اہل اسلام عربی زبان سے واقف ہیں کہ نہیں اور وہاں عربی کتب روانہ کرنے کے متعلق حضرت اقدس ابو سعید عرب صاحب سے گفتگو کرتے رہے پھر اشاعت کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا کہ:-
صحابہ کرامؓ نے کیا کیا کام کئے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مومنوں کی جانیں خرید لیں اور اب اس وقت اﷲ تعالیٰ نے بہت سی مشکلات کو دور کر دیا ہے۔
ایک الہام
اس کے بعد فرمایا کہ :-
رات کو الہام ہوا ہے :-
انہ کریم تمشی امامک وعادی من عادی
یعنی وہ کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلتا ہے۔جس نے تیری عداوت کی (گویا) اس کی عداوت کی۔
قرآنی ترتیب کا ایک سِرّ
فرمایا:-
کل جو الہام ہوا تھا
یاتی علیک زمن کمثل زمن موسی
یہ اسی الہام کے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دوسرے سے دن دن کے فاصلہ سے ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا کوئی تعلق آپس میں ضرور ہے یہاں بھی موسیٰ اور عادیٰ کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں بھی اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تو چل میں تیرے آگے چلتا ہوں۔
رسول کی قومی زبان میں الہام
بعض لوگ جہالت سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان میں الہام ہونا چاہئے جیسے
وماارسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراہیم : ۵)
مگر تم کو عربی میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟
تو ایک تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے پوچھوں کہ کیوں ہوتے ہیں اور اس کا اصل سر یہ ہے کہ صرف تعلق جتلانے کی غرض سے عربی میں الہامات ہوتے ہیں کیونکہ ہم تابع ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو کہ عربی تھے۔ہمارا کا روبار سب ظلی ہے اور خد اکے لئے ہے۔پھر اگر اسی زبان میں الہام نہ ہو تو تعلق نہیں رہتا۔اس لئے خد اتعالیٰ عظمت دینے کے واسطے عربی میں الہام کرتا ہے اور اپنے دین کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے جس بات کو ہم ذوق کہتے ہیں اسی پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ اصل متبوع کی زبان کو نہیں چھوڑتا۔اور جس حال میں یہ سب کچھ اسی (آنحضرت ﷺ) کی خاطر ہے اور اسی کی تائید ہے تو پھر اس سے قطع تعلق کیوںکر ہو۔اور بعض وقت انگریزی‘اردو‘فارسی میں بھی الہام ہوتے ہیں تا کہ خد اتعالیٰ جتلادیوے کہ وہ ہر ایک زبان سے واقف ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں الہام
اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراص ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہوتا تو آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے فارسی زبان میں الہام کیا’’ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم‘‘ آخر کار خد اکی رحمت کاروبار کرے گی اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہود نے کہاتھا کہ پیغمبر آخر زمان بنی اسرائیل میں سے ہونا چاہئے تھا اور جس قدر نبی آئے ہیں سب کے بارے میں اسی طرح شبہات پڑتے رہے ہیں۔عیسیٰ ؑکے وقت یہود کو کس قدر شبہات آئے۔پیغمبر خدا (ﷺ) کے وقت میں بھی پڑے کہ بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ آیا۔یہ عادت اﷲ ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہی مخفی رکھا جاتا ہے کہ ایمان بالغیب کی حقیقت رہے ورنہ پھر ایمان پر ثواب کیا مرتب ہو۔
حکم کا کام
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ حکم ہوگا جس کے یہ معنے ہیں کہ سچی بات پیش کرے گا اور رطب ویابس کو اٹھادے گا اور احادیث تو ذخیرہ ظنوں کا ہے شیعہ‘وہابی‘سنی وغیرہ جو تہتر فرقے اہل اسلام کے ہیں۔سب احادیث کو ہی پیش کرتے ہیں اور حکم کا کام ہے۔وہ ان میں تحقیق کرے اور جو سچی بات ہوا سے قبول کرے ورنہ پھر ہر ایک فرقہ کا حق ہے کہ اسے مجبور کرے کہ میری مان۔اور اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک کی پیش کردہ احادیث کو تم بلا اعتراض مان لیتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے فرقوں کی حدیثوں کو بھی ویسے ہی نہ مانا جائے۔پھر اس صورت میں وہ آنے والا حکم کیا رہا۔حکم کا لفظ بتلا رہا ہے کہ ایسے وقت میں کچھ لیا جاتا ہے اور کچھ چھوڑا جاتا ہے۔
مَوزوں پر مَسح
موزوں پر مسح کا ذکر ہوا تو حضرت اقدس نے فرمایا :-
سوتی موزوں پر بھی مسح جائز ہے اور آپ نے اپنے پائے مبارک کو دکھلایا جس میں سوتی موزے تھے کہ میں ان پر مسح کر لیا کرتا ہوں۔
اس زمانہ میں آخر دعائوں کے ساتھ مقابلہ ہوگا
ہمارے پیغمبر خدا (ﷺ) نے جب تیرہ سال تک تلوار نہ اتھائی تو مہدی کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ جس حالت میں تیرہ سو سال سے لگو دین سے ناواقف ہو گئے ہیں آتے ہی ان پر تلوار اٹھالیوے اور اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اگر امام مہدی نے لڑائی کے لئے آنا تھا تو اﷲ تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کے موافق پہلے مسلمانوں کی قوم کو جنگ آزمائی سے اگاہ کر دیتا اور ان کی طبائع کا میلان جنگ کی طرف ہوتا اور ایسے اسباب ہوتے کہ مسلمان جنگ میں مظاق ہوتے مگر اہل اسلام کی موجودہ حالت سے معلو م ہو تا ہے کہ ان کو جنگ سے کوئی انس نہیں اور جس قدر آج کل مہدی کے نام سے مدعی ہو کر یورپ کی اقوام سے جنگ کر چکے ہیں۔ان تمام نے شکستیں کھائی ہیں ان تمام باتوں اور اسباب سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الٰہی جنگ سے ہر گز نہیں ہے۔یقین رکھو کہ جسمانی تلواروں کے ساتھ ان کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے گا۔خود مسلم کی حدیث میں ہے کہ اس زمانہ میں آخر دعائوں کے ساتھ مقابلہ ہوگا۔جن کو نہ یہ روک سکتے ہیں اور نہ مقابلہ کر سکتے ہیں۔اور یہی دعائیں ہوں گی کہ جن سے مخالفوں میں روحانی تبدیلی ہو جائے گی۔
یاجوج ماجوج کے لمبے کانوں سے مراد
یاجوج ماجوج کے ذکر پر فرمایا کہ :-
ان کے لمبے کانوں سے مراد جاسوسی کی مشق ہے جیسے اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ تار کا سلسلہ اور اخبار وغیرہ سب اسی میں ہیں۔
موجودہ علامات سے عقلمند جانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا ارادہ جنگ کا ہوتا تو مسلمانوں کو نبرد آزمائی کے سامان میسر آتے اور ان میں قوت اور برکت بڑھتی مگر اہل اسلام تو دن بدن تنزل پر ہیں اور ان کی یہ حالت ہے کہ اگر ان کو سامان جنگ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یورپ کی سلطنتوں سے منگواتے ہیں اور خود نہیں تیار کر سکتے۔؎ٰ
۱۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
دنیا اور آخرت کی حسنات
عشاء کی نماز سے قبل جب حضرت اقدس نے مجلس فرمائی تو سید ابو سعید صاحب عرب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ دعا
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (البقرۃ : ۲۰۲)
کے کیا معنے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب‘شدائد‘ابتلا وغیرہ پیش آتے ہیں۔ان سے امن میں رہے۔دوسرے فسق وفجوراور روحانی بیماریاں جو اسے خد اسے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے تو دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونو طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے۔
خلق الانسان ضعیفا۔
ایک ناخن میں ہی درد ہو تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے میری زبان کے نیچے ذرا درد ہے اس سے سخت تکلیف ہے اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے جیسے بازاری عورتوں کا گروہ کہ ان کی زندگی کیسی ظلمت سے بھری ہوئی اور بہائم کی طرح ہے کہ خد ااور آخرت کی کوئی خبر نہیں تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خد اہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو خواہ آخرت کا ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اور
فی الاخرۃ حسنۃ
میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کے حسنہ کا ثمرہ ہے۔اگر دنیا کا حسنہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حسنہ کیا مانگنا ہے آخرت کی بھلائی ہی مانگو۔صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جن سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کی مزعہ کہتے ہیں کہ درحقیقت جسے خد ادنیا میں صحت‘عزت‘اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمال صالحہ اس کے ہوں تو امید ہوتی ہے کہ آخرت بھی اس کی اچھی ہوگی۔
کل یعمل علی شاکلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
بات بہت عمدہ ہے کہ انسان نیکی اور پاکیزگی کی طرف جھک جاوے۔دنیا میں مختلف فطرتیں ہوتی ہیں جس حد تک ایک سعید پہنچ جاتا ہے۔اس حد تک ہر ایک انسان نہیں پہنچتا۔بعض کھوپریاں ایسی ساخت کی ہوتی ہیں کہ اس کھوپری والے انسان سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ایک نیک ہوتا ہے وہ بدوں کی مجلس میں جا بیٹھے تو اسے کچھ حظ نہیں آتا۔اسی طرح ایک بد نیکوں کی محفل سے کوئی حظ حاصل نہیں کرتا۔گویا ایک سمندر درمیان میں حائل ہے۔کہ نہ ادھر کا آدمی ادھر جا سکتا ہے اور نہ ادھر کا ادھر آسکتا ہے۔ایک ہماری جماعت ہ یکہ جو کہیں مان لیتی ہے اور ہر طدرح تیار ہیں اور خوب سمجھے ہوئے ہیں اور ایک وہ ہیں کہ جب تک ہمیں دجال کافر وغیرہ نہ کہہ لیں اور گالیاں نہ دے لیں ان کو صبر نہیں آتا۔کیا ان کی آنکھیں نہیں یا کان نہیں یا دماغ نہیں۔سب کچھ ہے مگر
کل یعمل علی شاکلتہ ۔ ؎ٰ
۲۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز پنجشنبہ
ایک الہام
ظہر کے وقت جب حضرت اقدس تشریف لائے تو فرمایا کہ :-
رات کے وقت الہام ہوا ہے
انی صادق صادق وسیشھد اﷲ لی
یعنی میں صادق ہوں صادک ہوں عنقریب اﷲ میری شہادت دے گا۔
خبر نہیں کہ کس امر کے متعلق ہے۔یہ مقدمہ جو اس وقت جہلم میں ہوا ہے یہ تو ایک چھوٹی سی اور شخصی بات ہے اصل مقدمہ ہمارا تو وہ ہے جو کروڑہا آدمیوں کے ساتھ ہے اور جو قیامت تک نفع پہنچانے والا ہے۔
نماز مغرب کے بعد بیرون جات سے تشریف لائے ہوئے احباب نے حضور سے نایز حاصل کیا۔طاعون کا حال نو وارد احباب سے حضور دریافت فرماتے رہے۔
اَلِلّوَاء کے اعتراص کا فصیح و بلیغ جواب
مصر کے اخبار اَلِلّوَاء کے اعتراض پر حضور نے عربی میں جو رسالہ تحریر فرمایا ہے اس کی فصاحت پر مولوی عبد الکریم اور مولوی نور الدین صاحبان کلام کرتے رہے کہ انشاء اﷲ بہت ہی سعید روحیں عرب میں ہوں گی جو اسے دیکھ کر عاشق زار ہو جائیں گی۔حکیم صاحب بیان کرتے تھے کہ میں حیران ہو جاتا تھا اور جی چاہتا تھا کہ سجدہ کروں پھر حیران ہوتا کہ کون کون سے لفظ پر سجدہ کروں۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
ہمارا مطلب یہی ہے کہ چونکہ ہر وقت موقعہ نہیں ہوتا اکثر کام اردو زبان میں ہوتا ہے اس لئے دوہزار چھپوالیا جاوے جہاں کہیں عرب میں بھیجنے کی ضرورت ہوئی بھیج دیا۔مخالفت میں بھی ہمارے لئے برکت ہوتی ہے اور جو لکھتا ہے ہماری خیر کے لئے لکھتا ہے ورنہ پھر تحریک کیسے ہو۔
‏Amira 28\4-05
عیسائیت اختیار کرنے والے مسلمان
لوگوں کے عیسائی ہونے کے ذکر پر فرمایا کہ :-
اصل سچی بات یہی ہے کہ بجز ان لوگوں کے جن کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے سعادت رکھی ہے اور وہ احقاقِ حق چاہتے ہیں باقی سب اکل و شرب کے واسطے عیسائی ہوتے ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی منسبت نہیں رہتی۔
اسلام میں تقویٰ‘طہارت‘پاکیزگی‘صوم و صلٰوۃ وغیرہ سب بجا لانا پڑتاہے وہ لوگ اسے بجا نہیں لا سکتے حقیقت اسلام کی طرف نظر کی جاوے تو جن کی فطرت میں عیاشی بھری ہوئی ہے ان کو لے کر (یعنی مسلمان کرکے) ہم کیا کریں۔جہاں کہیں ان کی نفسنای اغراض پوری ہوں گی وہ وہاں ہی رہیں گے ان کو مذہب اسلام سے کیا کام۔جب ان کی اغراض میں فرق آئے پھر وہاں سے چلے جائیں گے۔ایسے لوگ بہت ہیں مگر ان کے لانے سے کیا فائدہ؟اس شخص کو لانا چاہئے جسے اول پہچانا جائے کہ اس کے اندر اسلام کو قبول کرنے کا مادہ موجود ہے تزکیہ نفس اور تقویٰ اختیار کر سکے گا اور ذرا سے ابتلا سے گھبرا نہ جائے گاتو ایسا شخص اگر مشرف باسلام ہو وے تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے۔میری طبیعت بیزار ہوتی ہے خواہ کوئی ہندو میرے پاس آوے یا عیسائی۔مگر دنیا کے گند سے بھرا ہوا ہو کہ جب ذکر کرتا ہے تو دنیا کا اور جو خیال ہے دنیا کا۔تو ایسے آدمی کو مسلمان کر کے کیا کیا جائے گا؟ رسوﷲ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسا ہی تھا۔جو لوگ متقی نہ رہے آخر وہ کافر ہو گئے۔ہماری جماعت کو چاہئے کہ تقوٰیٰ میں ترقی کرے۔۱؎ و ۲؎
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ
سفر کریں تو دین کی نیت سے کریں
عصر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو احباب میں سے ایک نے خواجہ کمال الدین صاحب کی وساطت سے سوال کیا کہ دربار دہلی میں شامل ہونے کا بہت شوق ہے۔اگر اجازت ہو تو ہو آئوں۔میں تو دل کو بہت روکتا ہوں مگر پھر بھی خیال غالب رہتا ہے کہ ہو آئوں۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
ہو آویں کیا حرج ہے۔ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کو ایک دفعہ خیال آیا کہ سفر کو جانا چاہئے پھر سوچا کس واسطے جائوں تو سمجھ میں نہ آیا کہ کس ارادہ اور نیت سے جانا چاہتے ہیں اس لئے پھر ارادہ ترک کیا حتیٰ کہ سفر کا خیال غالب آیا اور آپ جب اسے مغلوب نہ کرسکے تواس کو ایک تحریک الٰہی خیال کرکے نکل پڑے اور ایک طرف کو چلے۔آگے جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک درخت کے تلے ایک شخص بے دست وپا پڑا ہے۔اس نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ اے جنید! میں کتنی دیر سے تیرا منتظر ہوں تو دیر لگا کر کیوں آیا ۔تب آپ نے کاہ کہ اصل میں تیری ہی کشش تھی جو مجھے بار بار مجبور کرتی تھی تو اسی طرح ہر ایک امر میں ایک کشش قضا وقدر میں مقدر ہوتی ہے وہ پوری نہ ہو تو آرام نہیں آتا۔آپ سفر کریں تودین کی نیت سے کریں دنیا کی نیت سے جو سفر ہوتا ہے وہ گناہ ہوتا ہے اور انسان تب ہی درست ہوتا ہے کہ ہر ایک بات مٰں کچھ نہ کچھ اس کا رجوع دین کا ہو۔ہر ایک مجلس میں اس نیت سے جاوے کہ کچھ پہلو دین کا حاصل ہو۔حدیث شریف میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے مکان بنوایا ۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں تو آپ کے قدموں سے برکت ہو۔جب وہاں حضرت گئے تو آپ نے ایک دریچہ دیکھا پوچھا کہ یہ کیوں رکھا ہے اس نے عرض کی کہ ہوا ٹھنڈی آتی رہے۔آپ نے فرمایا کہ اگر تو یہ نیت کر لیتا کہ اذان کی آواز سنائی دے تو ہوا بھی ٹنڈی آتی رہتی اور ثواب بھی ملتا۔
سفر سے پہلے استخارہ اور اس کا طریق
پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
آپ استخارہ کر لیں۔استخارہ اہل اسلام مریں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لیء اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔اول رکعت میں سورۃ
قل یایھا الکفرون (الکافرون : ۲ تا ۷)
پفر لے اور دوسری میں
قل ھواﷲ (الاخلاص : ۲ تا ۵)
التحیات میں یہ دعا کرے۔
’’یا الٰہی میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے ہی سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کا جاننے والا ہے الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میںبہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو تومجھ کو اس سے باز رکھ‘‘۔
اور اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خد اتعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی۔یہ دل بھی عجیب شئے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔اس پر اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا ۔ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔؎ٰ
ایک حق جُو پنڈت سے مکالمہ
دو تین روز سے لاہور کے ایک معزز اور قدیمی رجیس خاندان کے ایک پنڈت صاحب دارالامان میں تشریف لائے ہوئے تھے حضرت اقدس کی زیارت اور آپ س یاستفادہ ان کا منشاء تھا۔۲۶ دسمبر کی شام کو حضرت مسیح موعود ؑ سے ان کا جو مکالمہ ہوا اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں (ایڈیٹر)
گناہ سوز فطرت کیونکر پیدا ہو
حضرت اقدسؑ- آپ نے کون کونسی کتاب دیکھی ہے؟
پنڈت صاحب- مثنوی مولانا روم صاحب اپنشد اور کئی مذہبی فقراء کی کتابیں مگر انسان کا اپنے نفس پر قابو پانا مشکل ہے یہ بالضرور انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔
حضرت اقدسؑ- اصل بات یہ ہے کہ جس طرح طبیب کے پاس کوئی بیمار جاتا ہے تو اس وقت تک وہ اس کا علاج نہیں کرسکتا۔جب تک وہ یہ تشخیص نہ کرلے کہ مرض کا اصل سبب کیا ہے اور جب وہ مرض کا اصل سبب معلوم کر لیتا ہے تو پھر وہ اس کا علاج تجویز کرتا ہے۔لیکن جب تک پورے پورے طور پر مرض کی تشخیص نہیں ہولیتی تو وہ عمدہ طور پر اس کا علاج نہیں سوچ سکتا۔ٹھیک یہی حال گناہ کا ہے کیونکہ گناہ ایک روحانی بیماری ہے جب تک اس کی ماہیت معلوم نہیں ہوتی۔اس وقت تک انسان گناہ سے بچ نہیں سکتا۔اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ انسان گناہ کی طرف کیوں جھکتا ہے اور یہ گناہ کا خیال پیدا ہی کیوں ہوتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ اس وقت تک انسان گناہ کرتا ہے جب تک وہ خد اسے بے خبر رہتا ہے بھلا کیا کوئی شخص جو چوری کرتا ہے وہ اس وقت کرتا ہے جبکہ گھر کا مالک جاگتا ہو اور روشنی بھی ہو یا اس وقت کرتا ہے؟ جبکہ گھر کا مالک سویا ہوا ہو اور ایسا اندھیرا ہو کہ کچھ دکھائی نہ دیتا ہو؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس وقت چوری کرتا ہے جب وہ یقین کرتا ہے کہ مالک بے خبر ہے اور روشنی نہیں ہے۔اسی طرح پر ایک شخص جو گناہ کرتا ہے وہ اس وقت کرتا ہے جبکہ خد اسے بے خبر ہو جاتا ہے اور اس کو اس پر کچھ یقین نہیں ہوتا نہ اس وقت جبکہ اس کو یقین ہو کہ خدا ہے۔اور وہ اس کے اعمال کو دیکھتا ہے اور اس کو سزا دے سکتا ہے اور یہ علم ہو کہ اگر میں کوئی کام اس کی خلاف مرضی کروں گا تو وہ اسکی سزا دے گا۔جب یہ علم اور یقین خد اکی نسبت ہو تو پھر گناہ کی طرف میل اور توجہ نہیں ہوسکتی۔جب انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ میں ہمیشہ اس کے متحت ہوں اور وہ میری بد اعمالیوں کی سزا دے سکتا ہے اور میرے اعمال کو دیکھتا ہے پھر جرات نہیں کر سکتا۔جیسے ایک بھیڑ کو بھیڑیئے کے سامنے باندھ دیا جاوے تو کسی دوسرے کے کھیت کی طرف جانا درکنار اس کے سمانے کتنا ہی گھاس کھانے کے لئے ڈالا جاوے تو وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی کیونکہ ایک خوف جان اس پر غلبہ کئے ہوئے ہے۔پس جبکہ ایک وحشی جانور تک اپنا اتنا اثر کر سکتا ہے کہ وہ کھانا تک چھوڑ دیتا ہے تو پھر انسان جب اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کے سامنے اسی طرح سمجھے۔اور یقین کرے کہ وہ دیکھتا ہے اور گناہ پر سزا دیتا ہے تو اس یقین کے بعد گناہ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ صاعقہ کی طرح اس پر گرے گا اور تباہ کر دے گا۔
پس یہ خوف جو خد اتعالیٰ کو بزرگ و برتر اور قدرت والا ماننے سے پیدا ہوتا ہے اس کو گناہ سے بچائے گا اور یہ سچا ایمان پیدا کرے گا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
گناہِ کبیر وصغیرہ
ایک گناہ کبیرہ کہلاتے ہیں جیسے چوری کرنا‘زنا‘ڈاکہ‘وغیرہ موٹے موٹے گناہ کہلاتے ہیں دوسرے صغیرہ جو بلحاظ بشریت کے انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں باوجود یکہ انسان اپنے آپ میں بڑا ہی بچتا اور محتاط رہتا ہے مگر بشریت کے تقاضے سے بعض ناطزا امور اس سے سرزد ہوجاتے ہیں۔جو دوسری قسم کے گناہ ہیں۔اسی طرح پر گناہ کے دور ہونے کے بھی دو ذریعے ہیں۔اول وہ ذریعہ ہے کہ بہت سے گناہ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے غلبہ خوف کے سبب سے دور ہو جاتے ہیں یعنی استیلاء خوف الٰہی ایک بھی ایسی شئے ہے جو گناہوں کو دور کرتی ہے اور س ے بچاتی ہے۔یہ ذریعہ ایسا ہے جیسے پولیس کے خوف سے انسان قانون کی خلاف ورزی سے بچتا ہے۔پھر دوسرا ذریعہ گناہوں سے بچنے کا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت پر اطلاع پانے کے بعد اس کی محبت بڑھتی ہے اور پھر اس محبت سے گناہ دور ہوتے ہیں ۔ان دونوں ذریعوں سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں۔
ایک اور قسم کے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ گناہ ان سے سرزد نہ ہو مگر وہ کچھ ایسے غفلت میں پڑ جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ گناہ ہو ہی جاتے ہیں لیکن یہ امر انسان کی فطرت اور رگ و ریشہ میں رچا ہوا ہے کہ وہ شدت خوف سے بچتا ہے جیسے میں نے کہا کہ شیر کے سامنے اگر بکری کو باندھ دیویں تو گھاس نہیں کھا سکتی یا حاکم کے سامنے کوئی انسان اکڑ کر کھڑا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اس کے سامنے نہایت عاجزی اور احتیاط سے خاموش کھڑا ہوگا۔یہ احتیاط اور عجز اور خوف اور حاکم کے رعب اور حکومت کا نتیجہ ہے لیکن یہی نتیجہ محبت سے بھی پیدا ہوتا ہے جب ایک شخص اپنے محسن کے سامنے جاتا ہے تو وہ اسکے احسان کو یاد کرکے خود بخود نرم ارو محتاط ہو جاتا ہے ارو ایک حیا اس کی آنکھوں میں پیدا ہوتا ہے۔محسن کے ساتھ محبت بڑھتی ہے جیسے کوئی شخص کسی کا قرضہ ادا کردے تو وہ اس سے کس قدر محبت کرتا ہے پھر اس محبت کے تقاضے سے وہ اس کی خلاف ورزی اور خلاف مرضی کرنا نہیں چاہتا یہ فرماں برداری اور اطاعت محبت ذاتی سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسنا کو اگر خد اتعالیٰ کے احسانات کا علم ہوجو اس پر اس نے کئے ہیں تو وہ اس کی محبت ذاتی کی وجہ سے گناہوں سے بچے گا اور پھر کوئی تحریک اس طرف نہیں لے جا سکتی اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دیوے اگر تم اس بچے کو دکھ دو گی اور دودھ نہ دو گی یہاں تک کہ اگر وہ بچہ مر بھی جاوے تو تم کو کوئی طزا نہ ملے گی بلکہ ہم انعام دیں گے تو وہ ہرگز ہرگز ان کی تعمیل نہ کرے گی اور ایسا کرنا پسند نہیں کرے گی۔اس لئے کہ اس کی فطرت میں بچہ کے ساتھ محبت کا ایک جوش ہے اور یہ جوش محبت ذاتی کا جوش ہے پس انسان جب خدا تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کی محبت کرنے لگتا ہے تو پھر اس سے جو نیکیاں صادر ہوتی ہیں اور گناہوں سے بچتا ہے تو وہ کسی طمع یا خوف سے نہیں بلکہ اسی محبت ذاتی کے تقاضے سے۔
محبت ذاتی کا یہ نشان یہکہ اگر محبت ذاتی والے کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اس کے اعمال کی پاداش میں اس کو بجائے بہشت کے دوزخ ملے گا یا اسے معلوم ہو کہ ان پر کوئی نتیجہ مرتب نہ ہوگا اور بہشت دوزخ کوئی چیز ہی نہیں جس کے خوف یا جس کی طمع کے لئے وہ احکام کی بجا آوری کرے تب بھی اس کی محبت میں کوئی فرق نہ آئے گا کیونکہ یہ خوف اور رجاء کے پہلوئوں کو دور کر کے فطرت کا رنگ پیدا کرتی ہے محبت ذاتی کا یہ خاصہ ہیکہ جب انسان کے اندر نشوونما پاتی ہے تو ایک آگ پیدا کر دیتی ہے جو اندر کی نجاستوں کو جلا کر صاف کرتی ہے یہ آگ ان نجاستوں کو جلاتی ہے جن کو بیم و رجاء جلانہ سکتے تھے پس یہ مقام انسان کے لئے تکمیل کا مقام ہے اور اس جگہ تک اسے پہنچنا ضروری ہے۔
پنڈت صاحب۔میں خدا کا منکر نہیں ہوں اور نہ اس کا بندہ ہونے کا منکر۔
حضرت اقدس۔بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان دو قسم کا ہے ایک وہ ایمان ہے جو صرف زبان تک محدود ہے اور اس کا اثر افعال اور اعمال پر کچھ نہیں۔دوسری قسم ایمان باﷲ کی ہے ہے کہ عملی شہادتیں اس کے ساتھ ہوں پس جب تک یہ دوسری قسم کا ایمان پیدا نہ ہو۔میں نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی خد اکو مانتا ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص خد اتعالیٰ کو مانتا بھی ہو اور پھر گناہ بھی کرتا ہو۔دنیا کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے ماننے اولوں کا ہے میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر یہ دیھکتا ہوں کہاس اقرار کے ساتھ ہی وہ دنیا کی نجاستوں میں مبتلا اور گناہ کی کدورتوں سے آلودہ ہیں پھر وہ کیا بات ہے کہ وہ خاصہ جو ایمان باﷲ کا ہے اس کو حاضر ناظرمان کر پیدا نہیں ہوتا؟ دیکھو! انسان ایک ادنیٰ درجہ کے چوہڑے چمار کو حاضر ناظر دیکھ کر اس کی چیز نہیں اٹھاتا پھر اس خدا کی مخالفت اور اسکے احکام کی خلاف ورزی میں دلیری اور جرأت کیوں کرتا ہے جس کی بابت کہتا ہے مجھے اس کا اقرار ہے میں اس بات کو مانتا ہوں کہ دنیا کے اکثر لگو ہیں جو اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہم خد اکو مانتے ہیں کوئی پر میشر کہتا ہے کوئی گاڈ کہتا ہے کوئی اور نام رکھتا ہے۔مگر جب عملی پہلو سے ان کے اس ایمان اور اقرار کا امتحان لیا جاوے اور دیکھا جاوے تو کہنا پڑے گا کہ وہ نرا دعویٰ ہے جس کے ساتھ عملی شہادت کوئی نہیں۔
2-5-05
انسان کی فطرت میں یہ امر وقعہ ہے کہ وہ جس چیز پر یقین لاتا ہے اس کے نقصانات سے بچنے اور اس کے منافع کو لینا چاہتا ہے دیکھو سنکھیا ایک زہر ہے اور انسان جبکہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کی ایک رتی بھی ہلاک کرنے کو کافی ہے تو کبھی وہ اس کو کھانے کے لئے دلیری نہیں کرتا اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے پھر کیوں وہ خد اتعالیٰ کو مان کر ان نتائج کو پیدا نہیں کرتا جو ایمان باﷲ کے ہیں۔اگر سنکھیا کے برابر بھی اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کے جذبات اور جوشوں پر موت وارد ہو جاوے مگر نہیں۔یہ کہنا پڑے گا کہ نرا قول ہی قول ہے ایمان کو یقین کا رنگ نہیں دیا گیا ہے یہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے اور دھوکا کھاتا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کو مانتا ہوں۔
پس پہلا فرض انسان کا یہ ہے کہ وہ اپنے اس ایمان کو درست کرے جو وہ اﷲ پر رھکتا ہے یعنی اس کو اپنے اعمال سے ثابت کر دکھائے کہ کوئی فعل ایسا اس سے سرزد نہ ہو جو اﷲ تعالیٰ کی شان اور اس کے اح کام کے خلاف ہو۔
یہ دھوکا جو انسان کو لگتا ہے کہ وہ خدا کو مانتا ہے باوجودیکہ عملی شہادت اس ایمان کے ساتھ نہیں ہوتی درحقیقت یہ بھی ایک قسم کی مرض ہے جو خطرناک ہے مرض دو قسم کی ہوتی ہے ایک مرض مختلف ہوتی ہے یہ وہ ہوتی ہے جس کا درد محسوس ہوتا ہے جیسے سردرد یا درد گردہ وغیرہ۔دوسری قسم کی مرض مرض مستوی کہلاتی ہے اس مرض کا درد محسوس نہیں ہوتا اور اس لئے مریض ایک طرح اس کے علاج سے تساہل اور غفلت کرتا ہے جیسے برص کا داغ ہوتا ہے بظاہر کوئی درد یا دکھ محسوس نہیں ہوتا لیکن آخر کو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے پس خد اپر ایسا ایمان جو عملی شہادتیں ساتھ نہیں رکھتا ہے ایک قسم کی مرض مستوی ہے۔صرف رسم و عادت کے طور پر مانتا ہے یا یہ کہ باپ دادا سے سنا تھا کہ کوئی خدا ہے اس لئے مانتا ہے اپنی ذات پر محسوس کرکے کب اس نے اﷲ کا اقرار کیا؟یہ اقرار جس دن اس رنگ میں پیدا ہوت اہے ساتھ ہی گناہوں کے میل کچیل کو جلا کر صاف کر دیتا ہے اور اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں جب تک آثار ظاہر نہ ہوں‘ ماننا نہ ماننا برابر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یقین نہیں ہوتا اور یقین کے بغیر ثمرات ظاہر نہیں ہو سکتے دیکھو جن خطرات کا انسان کو یقین ہوتا ہے ان کے نزدیک ہرگز نہیں جاتا مثلاً یہ خطرہ ہو کہ گھر کا شہتیر ٹوٹا ہوا ہے تو وہ کبھی بھی اس کے نیچے جانے اور رہنے کی دلیری نہ کرے گا یا یہ معلوم ہو کہ فلاں مقام پر سانپ رہتا ہے اور وہ رات کو پھرا بھی کرتا ہے تو کبھی یہ رات کو اٹھ کر وہاں نہ جائے گا کیونکہ اس کے نتائج کا قطعی اور یقینی علم رکھتا ہے پس اگر خد اکو مان کر ایک پیسہ کے سنکھیا جتنا بھی اثر اور یقین نہیں ہوتا تو سمجھ لو کہ کچھ بھی نہیں مانتا اور اصل یہ ہے کہ ساری خرابی کی جڑھ گیان کی کوتاہی ہے۔
پنڈت صاحبا- میرا اصل منشاء تو یہ ہے کہ خدا کی ہستی پر تو ایمان ہے مگر پھر بھی گناہ ہوتے ہیں۔
حضرت اقدس -آپ کیوں کہتے ہیں کہ ایمان ہے۔ایمان تو انسان کے نفسانی جذبات کو مردہ کر دیتا ہے اور گناہ کی قوتوں کوسلب کر دیتا ہے۔آپ کو یہ سوال کرنا چاہئے کہ گناہ سے بچنے کا کیا علاج ہے میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی ہو۔ایمان روشنی ہے اس کے سامنے گناہ کی ظلمت رہ نہیں سکتی بھلا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ دن بھی چڑھا ہوا ہو اور رات کی تاریکی بھی بدستور موجود ہو یہ نہیں ہوسکتا پس اصل سوال یہ رہ جاتا ہے کہ گناہ سے کیونکر بچیں اس کا علاج وہی ہے جو میں نے بیان کر دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا ہو۔
پنڈت صاحبا- بے شک میرا یہ کہنا کہ میں خد اکو مانتا ہوں اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے
حضرت اقدس- پس یہی اصل بات ہے جب تک عملی شہادتیں ساتھ نہ ہوں یہ نفس کا دھوکا ہے جو کہتا ہے کہ مانتا ہوں سچا ایمان گناہ کو باقی نہیں رہنے دیتا اور سچا ایمان کیونکر پیدا ہوتا ہے۔آپ یاد رکھیں جو مریض طبیب کے پاس اجتا ہے تو طبیب اس کی مرض کو تشخیص کر کے ایک علاج بتا دیتا ہے اس کا فرض ہے کہ بیمار کو متنبہ کر دے علاج کرنا نہ کرنا مریض کا اپنا اختیار ہے وہ یہ بتادے گا کہ داغ لگانے کی جگہ یہ تو داغ دویا جونک لگائو وغیرہ یعنی جو علاج ہو وہ بتا دے گا اسی طرح پر ہم اصل علاج بتادیتے ہیں کرنا نہ کرنا ہر شخص کے اپنے اختیار میں ہے۔
پس اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے نظر نہیں آتا اور نہ اس حواس سے ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ ان محسوسات میں سے ہوت اجن کے لئے یہ حواس ہیں تو بے شک وہ نظر آجاتا یا محسوس ہو سکتا مگر ان حواس میں سے کوئی حس اس کے لئے بکار نہیں۔-اس کی شناخت کے خاص وسائل ہیں اور اور حواس ہین گو حکیموں برہموئوں اور فلاسفروں نے بجائے خود ٹکریں ماری ہیں لیکن وہ سب غلطیوں مین مبتلا ہیں اور وہ ایمان جو انسان کی زندگی میں ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ان کو نصیب نہیں ہوا جب خدوا ن کی یہ حالت ہے تو وہ دوسروں کے لئے ہادی اور رہنما کیونکر ہو سکتے ہیں جو خود مشکلات میں مبتلا ہیں اور جن کو خدو سکینت اور اطمینان نہ ہو وہ اورون کے لئے کیا اطمینان کا موجب ہوں گے اس سلسلہ کی راہ کے چارغ دراصل انبیاء علیہ السلام ہیں۔پس جو شخص چاہتا ہے کہ وہ نور ایمان حاصل کرے اس کا فرض ہے کہ اس راہ کی تلاش کرے اور اس پر چلے بدوں اس کے ممکن نہیں کہ معرفت اور سچا گیان مل سکے جو گناہ سے بچاتا ہے اور ہر ایکک شخص فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس شئے کا تباع اس وقت حقیقی ایمان اور گیان پیدا کر دیتا ہے۔یہ سچ ہے یہ جب انسان سچائی پر قدم مارنے لگتا ہے تو اس کو مشکلات اور ابتلا پیش آتے ہیں برادری اور قوم کا ڈرا سے دھمکاتا ہے لیکن اگر وہ فیالحقیقت سچائی سے پیار کرتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے تو وہ ان ابتلائوں سے نکل جات اہے ورنہ ابتلا اس کا نفاق ظاہر کر دیتا ہے۔مومن کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دیوانہ بنے کسی ننگ وعار کی سچائی کے لئے پروا نہ کرے جب تک وہ ان قیود کا پابند ہے وہ مومن نہیں ہو سکتا۔
از عمل ثابت کن آں نورے کہ در ایمان تست
دل چو دادی یوسفے را راہ کنعاں را گزیں؎ٰ
۲۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز شنبہ
دربار دہلی کے موقعہ پر میموریل کی اشاعت
ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو مولوی محمد علی صاحب ایم -اے نے عرض کی کہ دربار دہلی پر جو میموریل روانہ کرنا ہے وہ طبع ہو کر آگیا ہے حضور نے حکم دیا کہ
اسے کثرت سے تقسیم کیا جائے کیونکہ اس سے ہامری جماعت کی عام شہرت ہوتی ہے ارو ہمارے اصولوں کی واقفیت اعلی حکام کو ہوتی ہے اور اس کی اشاعت ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ایک پادری کی تصنیف
عصر کے وقت حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف الئے تو آپ کو خبر دی گئی کہ ایک پادری صاحب بنام گر سفورق نے ایک کتاب اپنے زعم میں آپ کے دعویٰ کی تردید میں لکھی ہے اس کا نام رکھ اہے ’’میرزا غلام احمد قادیان کا مسیح اور مہدی‘‘ مگر حضور کے دعویٰ اور دلائل کو خوب مفصل بیان کیا ہے اور اس کی اشاعت امریکہ میں بہت کی گئی ہے اس پر ذکر ہوتا رہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے اس کی وہی مثال ہے کہ ؎
عدو شود سبب خیر گر خد اخواہد
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
پھر تو ہم کو بھی ضرور لکھنا چاہئے جب انہوں نے بطور ہدیہ کے کتاب ہمیں بھیجی تو ہمیں بھی ہدیہ بھیجنا چاہئے یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔مخالفوں کی توجہ سے بہت کام بنتا ہے میں نے آزمایا ہے کہ جہاں مخالف ٹھوکر کھاتا ہے وہاں ہی ایک بڑی حکمت کی بات ہوتی ہے۔
جو بات سمجھ نہ آئے دریافت کر لینی چاہئے
حسب دستور حضرت اقدس قبل از نماز عشاء تشریف لائے ایک خادم کی نسبت ایک شخص کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ اس نے نعوذباﷲ حضرت کے کسی فعل پر اعتراض کیا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا جب اس بیچارے کو خبر ہوئی تو اس نے مولانا عبدالکریم صاحب کی خدمت میں آکر اصل واقعہ بتلایا اور عرض کی‘راوی کو غلط فہمی ہوئی ہ یورنہ میرا ایمان ہے کہ حضور کا ہر فعل‘فعل الٰہی ہے جس پر اعتراض کرنا سخت درجہ کا کفر اور ضلالات ہے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اٹھ کر اصل واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں گذارش کیا اور خود اس خادم نے بھی عرض کی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
اوائل میں جماعت میں ایسی بات ہوا کرتی ہے اسی طرح جب پیغمبر خد ا(ﷺ) مدینہ میں تشریف لائے تھے تو آپؐ نے کچھ زمین ایک صحابی سے خریدنی چاہی تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے لڑکوں کے لئے رکھی ہے حالانکہ سب کچ تو آپؐ کے ہاتھ پر فروخت کر چکا ہوا تھا آخر وہی اصحاب تھے کہ جنہوں نے سب دینی ضرورتون کو مقدم رکھا اور اپنی جانوں تک کو قربان کر دیا۔ہماری جماعت کو چاہئے کہ ہمیشہ خیال رکھے کہ بعض امور تو سمجھ میں آسکتے ہیں اور بعض نہیں آسکتے تو جو سمجھ میں نہ آیا کریں ان کو پس پشت نہ کیا جاوے وہ دریافت کر لینے چاہئیں۔نیکی اسی کا نام ہے ورنہ حبط اعمال ہو جاتا ہے یہ ہمارا معاملہ اور کاروبار سب خد اکا ہے ہمارے نفس کو اس میں دخل نہین ہم نے اس خطا کو بخشا اور معاف کیا۔؎ٰ
۲۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز یکشنہ
ہر ایک ہلاکت کی راہ سے پرہیز کیا جائے
ظہر کے وکت مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک احمدی بھائی کی طرف حضرت اقدس کو توجہ دلائی کہ جن کے دانت میں کرکٹ کھیلنے سے ضرب ئگئی تھی اور نیچے کا لب بالکل پھٹ گیا تھا حضرت اقدس نے فرمایا
تعجب ہے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا جاتا ہے اس جگہ کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ہر ایک قسم کے شر اور بدعت میں اپنے آپ کو ڈالا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہر ایک ہلاکت کی راہ سے پرہیز کیا جائے۔لیاقت علمی اور شئے ہے۔کیا اگر انسان کو کوئی کھیل نہ آتی ہو تو اس کی لیاقت میں فرق آئاوے گا جن لوگوں کی یہ کھیل ایجاد ہے وہ تو مست ہیں ان کو تلف جان کی پروا نہیں مگر ہمیں تو پروا ہے۔
تعبیر رئویا میں ناموں کا بڑا دخل ہے
مغرب و عشاء کے درمیان چند ایک احباب نے اپنی اپنی رئویا سنائیں ناموں کی نسبت آپ نے فرمایا کہ
خوابوں میں ناموں کے الفاظ پر بڑا دارومدار ہوتا ہے تفائول کے واسطے ہمیشہ مان کے معانی کی طرف غور کرنا چاہئے۔لمبا سلسلہ نہ دیکھے نام کو دیکھ لے۔
خواب میں دشمن سے بھاگنے کی تعبیر
خواب میں دشمن سے بھاگنا ۔اس پر فرمایا کہ
اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دشمن پر فتح ہوگی۔اس کی نظیر میں معبروں نے موسیٰ ؑکے قصہ کو پیش کیا ہے کہ موسیٰ فرعون سے بھاگے وہ دشمن تھا انجام کا رآپ ہی فرعون پر غالب آئے۔؎ٰ
غیر معمولی ملاقات
قبل دوپہر حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور بعض احباب کو شرف قدم بوسی حاصل ہوا جناب ابو سعید عرب صاحب نے اپنے بعض احباب کا تذکرہ کیا کہ اور گونہ افسوس ظاہر کیا کہ ان کو سلسلہ کی آگاہی اور اطلاع نہیں۔حضرت حجۃاﷲ نے اس تحریک پر ایک مختصر سی تقریر فرمائی ہم بعد میں پہنچے تھے تاہم ابھی سلسلہ تقریر کا شروع ہی ہوا تھا ہم نے ایسی طرز پر اس کو قلمبند کای ہے کہ یہ سلسلہ نا تمام نظر نہ آئے گا انشاء اﷲالعزیز (ایڈیٹر الحکم )
دنیا دار الحجاب ہے
فرمایا :-
اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالحجب رکھا ہے کچھ چھپایا ہے کچھ ظاہر کیا ہے اس نے دنیا میں اپنے نبی اور رسول بھیجے مگر اپنا منہ چھپایا اس نے کتابیں اور شریعتیں نازل کیں مگر کسی نے ان کتابوں کو اترتے ہوئے نہیں دیکھا نبیوں کی معرفت پیشگوئیاں کیں بعض ان میں سے پوری ہو گئیں اور کچھ باقی رہ گئیں وہ لوگ جن کی نظر دینا کی سطح سے اوپر نہیں جاتی انہوں نے ان باتوں کو دیکھ کر اعتراض کیا اور کہہ دیا کہ فلاں بات پوری نہیں ہوئی مگر انہیں اﷲ تعالیٰ کی اس سنت پر اطلاع نہیں ہے اﷲ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا؟ کہ تا ایمان داروں اور جد بازوں میں امتیاز ہو ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے کہ اسے جو کچھ قیامت کو کرنا ہے وہ اسی دنیا میں کرکے دکھا سکتا ہے۔کیونکہ وہ
علی کل شیء قدیر (البقرۃ : ۲۸۵)
ہے مگر پھر ایمان ایمان نہ رہتا اور نہ اس کے ثمرات میسر ہوتے جو لوگ ایمان کی حقیقت کچھ نہ کچھ مخفی رہنا ضروری ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے۔
فمن ھم شقی وسعید (ہود : ۱۰۲)
دونو فریق اسی سے بنتے ہیں سعید جلد بازی نہیں کرتے بلکہ حسن ظن اور صبر سے کام لے کر ایمان لاتے ہیں اور جو شقی ہوتے ہیں وہ جلد بازی سے کام لے کر اعتراض کرتے ہیں جو لوگ منہاج نبوج کو نہیں چھوڑتے وہ ٹھوکر نہیں کھاتے اور کوئی ایسا اعتراض نہیں کرتے۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مجھ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہوسکتا جو پہلوں پر نہ ہوا ہو۔جو کوئی مجھ پر اعتراض کرے گا وہ دین سے خارج ہو کر اعتراض کرے گا۔
عرب صاحب نے حضرت حجۃاﷲ کے جذب کا تذکرہ کیا اور کہا کہ میں ۱۸۹۴ء میں لاہور آیا۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھے ایک کتاب آپ کی تصدیق میں اور ایک مولوی نے آپ کی تردید میں دی مگر میں نے دونو وہیں کسی کو دے دیں اور پروا نہ کی۔مجھے کہا گیا کہ قادیان آئوں مگر میں نہ آیا اور اب خدا کی شان ہے کہ وہ اس قدر فاصلہ (رنگون) سے مجھے لایا اور اسے قدر خرچ کثیر کر کے مجھے آنا پڑا۔
معرفتِ الٰہی سے نماز میں ذوق پیدا ہوتا ہے
عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں ہوتا۔
فرمایا :-
جب خدا کو پہچان لوگے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے۔دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنیٰ سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو ھپر دل خواہ نخواہ اس کی طرف کھنچاجاتا ہے اسی طرح پر جب انسنا اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اسکے حسن واخسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرھ دوڑتا ہے ارو بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے اصل نماز وہی ہے جس میں خد اکو دیکھتا ہے اس زدگی کا مزا اسی دن آسکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے تمام لذت اور ذوق دعا ہی میں محسوس ہو۔یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت و حیات کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا خواہ رات کو موت آئاوے یا دن کو۔جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا کبھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامراد جاتے ہیں وہاں ان کے لئے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذت اور خوشی حاصل کر سکیں۔
جہنم و جنت کی حقیقت
انسان جس لذت کا خوگرفتہ اور عادی ہو جب وہ اس سے چھڑائی جائے تو وہ ایک دکھ اور درد محسوس کرتا ہے ارو یہی جہنم ہے پس جبکہ ساری لذتیں دنیا کی چیزوں میں ممحسوس کرنے والا ہوتو ایک دن یہ ساری لذتیں تو چھوڑنی پڑیں گی پھر وہ سید ھا جہنم میں جاوے گا۔لیکن جس شخص کی ساری خوشیاں اور لذتیں خدا میں ہیں اس کو کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوسکتی وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو سید ھا بہشت میں ہوتا ہے۔
دل اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں
اصل بات یہ ہے کہ دل اﷲ کے اختیار میں ہے وہ جس وقت چاہتا ہے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے اور اس کو سمجھ ئجاتی ہے کہ سثا سرور اور خوشحالی اس میں ہے کہ خد اکو پہچانا جائے دیکھو میں اس وقت یہ بات تو کر رہا ہوں مگر میرے اختیار میںیہ بات نہین ہے کہ دلوں تک اس کو پہنچا بھی دوں یہ خد اہی کا کام ہے جو دلوں کو زندہ کرتا ہے اور بیدار کرتا ہے۔باقی تمام جوارح آنکھ‘ ہاتھ‘ وغیرہ ایسے ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں۔مگر دل مسلمان اس کے اختیار میں نہیں ہے اس وقت تک اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھنا چاہئے جب تک دل مسلمان نہ ہو جاوے جب تک وہ لہو لعب سے لذت حاصل کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کا وہی وقت ہے جب وہ دنیوی حیثیت سے دل برداشتہ ہو گیا ہے اور دنیا کی لذتیں اور خوشیاں ایک تلخی کا رنگ دکھائی دیتی ہیں جب یہ حالت ہو تو پھر انسان اپنے آپ کو مشاہدہ کرتا ہے کہ میں وہ نہیں رہا ہوں۔بلکہ اور ہو گیا ہوں پھر دل میں ایک کشش پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں لذت حاصل کرتا ہے اور ایسی محبت اسے نماز سے ہو جاتی ہے جیسے کسی اپنے عزیز کو دیکھ کر خوش ہوت اہے یہ ہے اصل جڑھ ایمان کی۔مگر یہ انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے ہم اس بات کو نمونہ نہیں بتاسکتے اور نہ الفاظ میں اس کو سمجھا سکتے ہیں کیونکہ الفأظ حقیقت کے قائم مقام نہیں ہوتے اس لئے جو یہ حالت آتی ہے تو پھر انسان اپنی گذشتہ زندگی پر حسرت و افسوس کرتا ہے کہ وہ یونہی ضائع ہو گئی کیوں پہلے ایسی حالت مجھ پر نہ آئی۔
نماز کی حقیقت
نماز کیا چیز ہے۔نماز در اصل رب العزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذائوں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گریہ وبکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پید اہو جائے گی اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے
نماز میں لذت و ذوق حاصل کرنے کی دعا
کہ اے اﷲ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجائوں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشنا سا ہے تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئیگا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کردے گی۔
خدا تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا مفہوم
عرب صاحب نے عرض کیا کہ خدا آسمان پر ہے فرمایا
اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے
لہ الاسماء الحسنی (طہ : ۹)
اس نے اپنے آپ کو علو ہی سے منسوب کیا ہے پستی کی طرف اس کو منسوب نہیں کر سکتے
سبحانہ وتعالی (الانعام : ۱۰۱)
علو کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور کشفی صورتوں میں آسمان سے نور نازل ہوتا ہوا دیکھا ہے ہم اس کی کنہہ اور کیفیت نہ بیان کر سکیں مگر یہ سچی بات ہے کہ اس کو علو ہی سے تعلق ہے بعض امرو آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور بعض نہیں۔ہر صورت میں فلسفہ کام نہیں آتا پس اصل بات یہی ہے کہ ایک وقت ایسی حالت انسنا پر آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آسمان سے اس کے دل پر کچھ گرا ہے جو اسے رقیق کر دیتا ہے اس وقت نیکی کا بیج اس میں بویا جائے گا۔؎ٰ
۲۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دو شنبہ
مغرب اور عشاء کے درمیان حضور تشریف لائے توآکر فرمایا
روزے ایک یادو اب رہ گئے ہیں بڑی آسانی سے گذر گئے۔
بوقت ضرورت جمع صلوٰتین
ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بچیں ہوا کرتا تھا حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے شرارتوں کے وقت جمع صلوٰتین رکھا ہے ظہر و عصر نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں۔
پنجابیوں کے ساتھ انگریزوں کا حُسنِ ظَن
بعص انگریز حکام کی قدر شناسی پر فرمایا کہ
زمانہ بدل گیا ہے اور پنجابیوں کے ساتھ انگریزوں کی ساری قوم کا حسن ظن ہے اور بعض ایسے انگریز ہوتے ہیں کہ ان کا ارادہ ہوتا ہے کہ ماتحت کو فائدہ پہنچاویں تا کہ وہ ان کو یاد رکھے۔
مِصرؔ میں تبلیغ
ایک احمدی حج کو جاتے ہوئے کچھ عرصہ مصر میں مقیم رہے اور ابھی تک وہیں ہیں اور حضرت اقدس کی کتب کی اشاعت کر رہے ہیں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر حکم ہو تو میں اس سال ۃج ملتوی رکھوں اور مجھے اور کتب ارسال ہوں تو ان کی اشاعت کروں۔
حضرت اقدس نے فرمایاکہ
ان کو لکھ ادیا جاوے کہ کتابیں روانہ ہوں گی ان کی اشاعت کے لئے مصر میں قیام کریں اور حج انشاء اﷲ پھر اگلے سال کریں (من اطاع الرسول فقد اطاع اﷲ)
روحانی سیر کی طرف متوجہ ہوں
ابو سعید صاحب عرب کو کمال شوق دلی کے جلسہ کا تھا کہ وہاں کی رونق دیکھیں چنانچہ انہوں نے اجازت بھی چاہی تھی اور حضرت اقدس نے اجازت دے بھی دی تھی مگر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ دعائے استخارہ کر لو چنانچہ دعا سے پھر ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ عرب صاحب دلی جانے سے رک گئے اور اب بھی یہاں ہی ہیں۔
حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا
فرمائیے اب دلی جانے کا خیال ہے یا نہیں؟
عرب صاحب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور اب تو بالکل جانے کو دل نہیں چاہتا۔
حضور نے فرمایا کہ
اب دوسری سیروں کو چھوڑ کر روحانی سیروں کی سرف متوجہ ہو جاویں یہ آپ کی سعادت کی علامت ہے کہ اتنی دور سے اس جلسہ کے واسطے آئے اور یہاں ٹھہر گئے اور اس قدر مقابلہ نفس کا کای۔ہر ایک کو طاقت نہیں ہوتی کہ جذب نفس کے ساتھ کشتی کرے۔آپ نے جن کو وہاں جاکر دیکھنا تھا ان کی صورتیں انسانون کی ہی ہوں گی مگر دل کا کای پتہ کہ وہ بھی انسانوں کے ہوں گے یا نہیں لوگ باوجود اس کے کہ ابتلائوں میں مبتلا ہیں مگر تکبر ان کے دماغ سے نہیں گیا ہم سے تمسخر وغیرہ اسی طرح ہے اور دلی والے پنجابیوں کو تو بیل کہتے ہیں (جس کے معنے پنجابی میں ڈھگا ہے) ان کے خیالوں میں صرف دینا کی زندگی ہے مگر جو لوگ بہروپیوں کے رنگ میں بولتے ہیں ان کو پاک عقل نہیں ملتی۔؎ٰ
۳۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز چہار شنبہ
مغرب اور عشاء کے درمیان حضور الیہ السلام نے مجلس فرمائی۔
نمازِ جمعہ کیلئے تین آدمی ہونا ضروری ہیں
ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھا کہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت نے فرمایا کہ
جمعہ کے لئے جماعت کا ہونا ضروری ہے اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں والا نہ (سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں)
شہرت پسندی سے اجتناب
ایک صاحب نے عرض کی حضور نے جہلم تاریخ مقدمہ پر جانا ہے اگر اجازت ہو تو اشتہار دیدیا جائے تاکہ ہر ایک اسٹیشن پر لوگ زیارت کے لئے آجائیں فرمایا کہ
جو ہمیں ملنے والے ہیں وہ تو اکثر ئتے جاتے رہتے ہیں جو لوگ جماعت میں داخل نہیں ہیں ان کے لئے سر درد خرید نے سے کیا فائدہ؟میری طبیعت کے یہ امر برخلاف ہے اگر وہ اہل ہوتے تو خود یہاں آتے اب اس طرح ان سے ملاقات تو وقت کا ضائع کرنا ہے۔
خَلق اور خُلق
ایک نووارد صاحب نے عرض کی کہ حضرت خلق کے کیا معنے ہیں
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
خَلق اورخُلق دو لفظ ہیں خَلق تو ظاہری حسن پر بولا جاتا ہے اور خُلق باطنی حسن پر بولا جاتا ہے باطنی قویٰ جس قدر مثل عقل‘فہم‘سخاوت‘شجاعت‘غضب وغیرہ انسان کو دیئے گئے ہیں ان سب کا نام خُلق ہے اور عوام الناس میں آج کل جسے خلق کہا جاتا ہے جیسے ایک شخص کے ساتھ تکلف کے ساتھ پیش آنا اور تصنع سے اس کے ساتھ ظاہری طور پر بڑی شیریں الفاظی سے پیش آنا تو اس کا نام خلق نہیں بلکہ نفاق ہے۔
خُلق سے مراد یہ ہے کہ اندرونی قویٰ کو اپنے اپنے مناسب مقام پر استعمال کیا جائے جہاں شجاعت دکھانے کا موقعہ ہو وہاں شجاعت دکھاوے جہاں صبر دکھانا ہے وہاں صبر دکھائے۔جہاں انتقام چاہئے وہاں انتقام لے۔جہاں سخاوت چاہئے وہاں سخاوت کرے۔یعنی ہر ایک محل پر ہر ایک قویٰ کو استعمال کرے نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے۔یہاں تک کہ عقل اور غضب بھی جہاں تک کہ اس سے نیکی پر استقامت کی جاوے خُلق ہی میں داخل ہے اور صرف ظاہری حواس کا نام ہی حواس نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر بھی ایک قسم کے حواس ہوتے ہیں ظاہری حواس تو حیوانوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاٍ اگر ایک بکری گھاس کھارہی ہے اوردوسری بکری آجائے تو پہلی بکری کے اندر یہ ارادہ پیدا نہ ہوگا کہ اسے بھی ہمدردی سے گھاس کھانے میں شریک کرے۔اسی طرح شیر میں اگر چہ زور اور طاقت تو ہوتی ہے مگر ہم اسے شجاع نہیں کہہ سکتے کیونکہ شجاعت کے واسطے محل اور بے محل دیکھنا بہت ضروری ہے انسان اگر جانتا ہے کہ مجھ کو فلاں شخص سے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے یا اگر میں وہاں جائوں گا تو قتل ہو جائوں گا تو اس کا وہاں نا جانا ہی شجاعت میں داخل ہے اور پھر اگر محل اور موقعہ کے لحاظ سے مناسب دیکھے کہ میرا وہاں جانا ضروری ہے خواہ جان خطرہ میں پڑتی ہو۔تو اس مقام پر جانے کا نام شجاعت میں داخل ہے۔جاہل آدمیوں سے جو بعض وقت بہادری کا کام ہوتا ہے حالانکہ ان کو محل بے محل دیکھنے کی تمیز نہیں ہوتی اس کا نام تہور ہوتا ہے کہ وہ ایک طبعی جوش میں آجاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کام کرنا چاہئے تھا کہ نہیں۔غرضیکہ انسان کے نفس میں یہ سب صفات مثل صبر‘ سخاوت‘قانتقام‘ہمت‘بخل‘عدم بخل‘ حسد‘عدم حسد ہوتی ہیں اور ان کو اپنے محل اور موقعہ پر صرف کرنے کا نام خلق ہے حسد بہت بری بلا ہے لیکن جب موقعہ کے ساتھ اپنے مقام پر رکھا جاوے تو پھر بہت عمدہ ہو جاوے گا۔حسد کے معنی ہیں دوسرے کا زوال نعمت چاہنا لیکن جب اپنے نفس سے بالکل محو ہو کر ایک مصلحت کے لئے دوسرے کا زوال چاہتا ہے تو اس وکت یہ ایک محمود صفت ہوجاتی ہے جیسے کہ ہم تثلیث کا زوال چاہتے ہیں۔
ملائک اور شیطان کا عقلی ثبوت
انسان کے اندر دو ملکے خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں ایک فرشتہ اور ایک شیطان۔
نووارد صاحب نے سوال کیا کہ فرشتہ اور شیطان کا عقلی ثبوت کیا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
آپ کے قویٰ میں کبھی نیکی کی طرف اور کبھی بدکاری کی طرف تحریک ہوتی ہے یا نہیں؟نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں۔پھر فرمایا کہ
کبھی بھوکے انسان کو دیکھ کر رحم بھی آجا تا ہے اور رحم کی تحریک ہوتی ہے؟
نووارد صاحب نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ
جب تحریک ہوتی ہے تو محرک کوئی اندر ہے جو تحریک کرتا ہے کیونکہ تحریک کے لئے محرک کا ہونا ضروری ہے اور انسان خود اس کا محرک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ حالت مفعول میں ہے تو پھر فاعل کیسے ہوگا(کیونکہ تحریک کا عمل اس پر ہوتا ہے اس لئے انسان مفعول ہے) تو اس نیکی کے محرک کو ہم فرشتہ اور بدی کے محرک کو شیطان کہتے ہیں۔شریعت کا علم نہرحال ہم سے بڑھ کر ہے جن امرو کے ہم زیر اثر ہیں شریعت نے ان کی تفصیل کر دی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم نہ مانیں یہ سب کچھ انسان کو محسوس ہوتا ہے اور ابھی آپ نے تسلیم کیا ہے۔اسی طرح مرنے کے بعد ایک شئے رہتی ہے آپ اسے مانتے ہیں اس کا نام روح ہے اسے علم بھی ہوتا ہے اسنان کتاب یاد کرتا ہے اگر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اس کے علم میں کوئی ھرق نہیں آتا اس سے ثابت ہے کہ علم روح کی صفت ہے نہ کہ جسم کی۔ورنہ ضرور تھا کہ ہاتھ کاٹنے سے اس کے علم میں فرق آجاتا۔اب ایک دہریہ جو کہ روح کا قائل نہیں ہے اس کے نزدیک تو پھر جسم کا حصہ کاٹنے سے علم کا کچھ حصہ ضرور جاتا رہتا اگر کہو کہ مجنون بھول جاتا ہے تو یہ بات غلط ہے مجنون ہرگز بھولتا نہیں ہے بلکہ ہر ایک شئے کا علم اس کے اندر مخفی ہوتا ہے جب اس کے جنون کی اصلاح ہو تو فوراً وہ علم آجاتا ہے جیسے آگ پتھر میں مخفی ہوتی ہے کہ رگڑ سے تو ظاہر ہوتی ہے ورنہ نہیں۔یہی حال مجنون کا ہوتا ہے ہم خود دیکھتے ہیں کہ ایک بات کرتے کرتے ایک لفظ ایسا وقت پر بھول جاتا ہے کہ ہر چند اس وقت یاد کریں مگر یاد نہیں آتا پھر دوسرے وقت خود ہی یاد آجاتا ہے (گویا ایک وقت ہر ایک بات کا علم نہ ہونے سے اس بات کا عدم علم ہر گز ثابت نہیںن ہوتا) تو مخفی ہونا اور شئے ہے اور محو اور نابود ہونا اور شئے ہے آج کل کے فلسفی لوگ ان باتوں میں سے بعض کو تو مانتے ہٰں اور بعض کو نہیں مانتے (تو اب جیسی غیر مرئی شئے خدا اور روح ہے ویسے فرشتے ہیں) مگر فرشتون کو نہیں مانتے تو یہ ان کی حماقت ہے پھر جو روح کو مانتے ہیں کیا ہمیں دکھلا سکتے ہیں کہ روح کیا شئے ہے۔انسان اگر مرتا ہے تو خواہ اسے کسی لوہے کے قالب میں ہی بند کردیں کہ جس میں ہوا کا بھی دخل نہ ہو مگر پھر بھی مرتے وقت کوئی ایسی شئے نظر نہ آوے گی کہ ہم کہیں کہ اسی کا نام روح ہے۔اور کہاں سے جان نکلتی ہے پھر اسی طرح انڈے میں کیا بتلا سکتے ہیں کہ کہاں سے داخل ہوتی ہے بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ انڈے میں بچہ مرا ہوا ہوتا ہے گویا روح داخل ہو کر پھر نکل بھی گئی اور نظر بھی کسی کو نہ آئی تو یہ ایک بھید ہے جس کی حقیقت کیا سمجھ آسکتی ہے ہرگز سمجھ میں نہیں آتی۔
دلائل کی دو اقسام
دلائل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک اِنّی اور ایک لِمّی۔کھوج نکال کر جاننا اس کا نام لمی ہے اور انی یہ ہے کہ آثار سے معلوم کر لینا جیسے قارورہ کو دیکھ کر طبیب گرمی تپ وغیرہ کا حال معلوم کر لیتا ہے۔یہ انی ہے اور تپ وغیرہ دیکھ کر قارورہ کی نسبت یہ سمجھ لینا یہ لمی ہے۔تو روح میں لمیت ہم دریافت نہیں کرسکتے مگر آثار بتلاتے ہیں کہ ایک شئے ہے تو اس طرح کے عجائبات کثیر ہیں۔
ظاہری اور باطنی رویت
اسی طرح ایک رویت آنکھ میں ہے کہ ہر ایک شئے کو دیکھتی ہے مگر ایک دیوار کے پیچھے ایک شئے ہوتی ہے تو نہیں دیکھ سکتی آنکھ کیون نہیں دیوار کے پیچھے دیکھ سکتی اس کے دلائل کیا بیان ہو سکتے ہیں اسی طرح ایک رویت روح میں ہے کہ بیٹھے بٹھائے دور تک دیھک لیتی ہے خوا وہ تین چار دیواریں درمیان میں خائل ہوں مگر اسے پروا نہیں ہوتی وہ اس شیئے کویہاں بیٹھے اس طرح دیکھتی ہے جیسے کھلی روشنی میں ایک شیئے نظر آتی ہے۔
اس پر نووارد صاحب حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہے اور تعجب ظاہر کیا۔حضرت اقدس نے فرمایا
خود ہم نے کئی دفعہ اس طرح دیکھا ہے کہ تین دیواریں درمیان میں حائل ہیں مگر ہم نے وہ شئے دیکھ لی۔خبر نہیں کہ اس وقت کیا ہوتا ہے دیوار مطلق رہتی ہی نہیں اور انہیں آنیکھوں سے اس وکت سب کچھ نظر آتا ہے۔
اس مقام پر حضرت اقدس نے ایک واکعہ سنایا کہ
ایک دفعہ ایک خاکروبہ نے ایک جگہ سے میلا اٹھایا اور اس کا یک حصہ چھوڑ دیا۔میں جو مکان مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا مجھے نظر آیا کہ اس نے ایک حصہ چھوڑ دیا ہے تو میں نے اس خاکروبہ سے کہا۔وہ سن کر حیران ہوئی کہ اس نے اندر بیٹھے کیسے دیکھ لیا میں نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ باوجود میلے کے سر پر موجود ہونے کے نہیں دیکھ سکتی حالانکہ مجھے اس قدر دور دراز فاصلہ سے دکھلادیا۔
نووارد صاحب نے عرض کی کہ پھر یہ بات اور اس رویت روحانی کا کیسے پتہ لگے اور سمجھ میں آوے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
بہت دیر صحبت میں رہے تو سمجھ میں آسکتا ہے اور اس کی نظیر یہ پیشگوئیان بھی ہیں جوے ہیں کیونکہ جو علوم پیش از وقت خدا بتلاتا ہے وہ بھی تو ایک قسم کی دیوار کے پیچھے ہیں جو کہ درمیان میں حائل ہوتی ہے اور ایک عرصہ کے بعد اس نے گرنا ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ قبل از وقت دکھلادیتا ہے اورا سی عالم میں یہ سب عجائبات ہیں۔کل یا پرسوں ایک نیچری کا خط آیا کہ میرے نزدیک تو انسان کے واسطے خدا شناسی ممکن ہی نہیں ہے تو بات یہی ہے کہ جب روحانی حضہ نہ دیا جاوے تب تک کیا پتہ لگتا ہے۔انسان اک خاصہ علم ہی ہے اگر علم نہ ہو تو صرف جسد ہی ہوا۔
رفع حجاب کے دو طریق
دو آدمی سعید ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کا اﷲ تعالیٰ بالذات رفع حجاب کرتا ہے اور اپنی خدائی طاقتوں سے اپنی ہستی ان پر کھول دیتا ہے۔دوسرے وہ جو ایسے آدمیوں کی صحبت میں رہ کر ان سے مستفید ہوتے ہیں۔جیسے صحابہ کرامؓ کی جماعت کہ ان کے تمام حجاب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے رفع ہوئے اور عظیم الشان نشانوں سے خد انے ان پر اپنی ہستی کو کھول دیا اور کامل معرفت ان کو ملی مگر بے ہودہ فلسفیوں سے ہرگز ممکن نہیں کہ یہ ایمانی حالت ان کو نصیب ہو۔
ایمان تو ایک چولہ بدل کر دو سرا اسے پہنا دیتا ہے اور اسے ایک فوق العادت طاکت دی جاتی ہے کوئی فلاسفر نہیں گذرا کہ جسے یہ طاقت ملی ہو۔افلاطوں وغیرہ بھی اس سے بے نصیب رہے پاکیزگی کی وراثت بجز انبیاء کے نہیں ئئی اور فلسفیوں وغیرہ میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
دنیا کی مصنوعات میں زیادہ تر مشغول ہونے سے دین کے پہلومیں ضرور کمزوری ہواہے سچی بات یہی ہے کہ انسان لمبی صحبت میں رہے چند ایک نمونے جب اسے مل جاتے ہیں تو پھر ٹھیک ہوجاتا ہے۔
خوابوں کی تعبیر
خواب میں نماز پڑھنے اور شیرینی کھانے کی تعبیر میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ کسی وقت چاہے گا تو نماز میں حلاوت عطا کرے گا
تبت یداابی لھب وتب
خواب میں پڑھنے پر فرمایا کہ
کسی دشمن پر فتح ہوگی
خوابوں کی تعبیر ہر ایک کے حال کے مطابق ہوتی ہے
فرمایا :-
خوابوں کی تعبیر ہر ایک کے حال کے موافق مختلف ہوا کرتی ہے ایک دفعہ ابن سیرین کے پاس ایک شخص آیا اور بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کوڑے کے ڈھیر پر ننگا کھڑا ہوں۔ابن سیرین نے کہا کہ اگر کوئی اور شخص کافر یا فاسق اس خواب کو بیان کرتا تو میں اس کی تعبیر اور بیان کرتا۔مگر تو اس تعبیر کے لائق نہیں ہے اس لئے سن کہ کوڑے اور کھاد سے مراد تو دنیا ہے جس میں تو موجود زندہ ہے اور ننگے ہونے سے مراد یہ ہے کہ تیرے صفات حسنہ سب لوگوں پر کھلے ہیں کیونکہ ننگا ہونے سے انسان کا سب ظاہر ہوجاتا ہے اسی طرح لگو تیری خوبیاں دیکھ رہے ہیںن تو مطلب اس سے یہ ہے کہ صالح آدمی کے خواب کی تعبیر اور ہوتی ہے اور شقی کی اور۔
پیدائش کے اَسرار
پھر اس کے بعد روح کا زکر چلا اور ایک شخص نے اس کے متعلق سوال کیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ
جس شئے نے پیدا ہونا ہوتا ہے تو روح کی استعداد اس شئے میں ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔
جیسے جیسے وہ تیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ عین لائق ہوتی ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے
ثم انشانہ خلقا اخر (المومنون : ۱۵)
پیدائش کے اَسرار
پھر اس کے بعد روح کا زکر چلا اور ایک شخص نے اس کے متعلق سوال کیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ
جس شئے نے پیدا ہونا ہوتا ہے تو روح کی استعداد اس شئے میں ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔
جیسے جیسے وہ تیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ عین لائق ہوتی ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے
ثم انشانہ خلقا اخر (المومنون : ۱۵)
میں نے ایک انڈے کو ایک دفعہ پیالی میں ڈالا دیکھا تو اس کی زردی اور سفیدی پانی کی طرح ہوئی ہوئی تھی۔اور اس کے درمیان میں ایک نقطہ خون کا خشخاش کے دانہ کی طرح تھا ارو اس کی کئی تاریں کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو نکلی ہوئی تھیں اور سوائے اس نقطہ کے اور کوئی حرکت اس میں نہ تھی تو میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ خلق اشیاء کا سلسلہ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ اول سر بنایا۔پھر ہاتھ پائوں وغیراہ بلکہ اس کی کاروائی یکساں ہوتی ہے اور سب کچھ پہلے سے ہی ہوتا ہے صرف نشوونما پاتا جاتا ہے میں نے بعض دائیوں کو کہا ہوا تھعا کہ جو بچے اسقاط ہوا کریں تو دکھایا کرو تو میں نے بعض بچے دیھکے ان کے بھی سب اعضاء وغیرہ بنے بنائے تھے خدا کا یہ خلق معمار کی طرح نہیں کہ اول دیواریں بنائیں پھر چوبارہ بنایا پھر اوپر اور کچھ بنایا بلکہ چار ماہ کے بعد جب روح کی تکمیل ہوتی ہے تو اس وقت
انشا نہ خلقا اخر
اس پر صادق آتا ہے تو بچہ حرکت کرنے لگتا ہے۔
تکمیل کے مراتب
جیسے دنیا کے سات دن ہیں یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ دنیا کی عمر بھی ساتھ ہزار برس ہے اور یہ کہ خدا نے دنیا کو چھ دن میں بنا کر ساتویں دن آرام کیا اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر شیئے چھ مراتب ہی طے کر کے مرتبہ تکمیل کا حاصل کرتی ہے نطفہ میں بھی اسی طرح چھ مراتب ہیں کہ انسان اول سلسلہ میں طین ہوتا ہے پھر نطفہ‘ پھر علقہ‘ پھر مضغہ‘ پھر عظاما‘ پھر لحما‘ پھر سب کے بعد
ان شا نہ خلقا اخر
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوت اہے کہ باہر سے کچھ نہیں آتا بلکہ اندر سے ہی ہر ایک نشونما پاتی ہے۔
رُوح سے متعلق آریوں کے عقیدہ کا رد
آریوں کا یہ اصول کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی روح اندر سے نکل کر آکاش میں رہتی ہے رات کو اور کے ساتھ مل کر کسی پتہ یا گھاس پر پڑتی ہے وہ پتہ یا گھاس کوئی کھالیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ روح بھی کھالی جاتی ہے جو کہ پھر دوسری جاندار شے میں نمودار ہوتی ہے اب اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بچہ خلق اور خلق میں ماں باپ ہر دو سے حصہ لیتا ہے اور جیسے جسمانی حصہ لیتا ہے ویسے ہی روحانی بھی لیتا ہے تفاوت مراتب کے لحاظ سے تناسخ کی ضرورت کو ماننا غلطی ہے یہ تو ہر ایک جگہ پایا جاتا ہے نباتات میں بھی ہم تفاوت مراتب کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح انسانوں میں بھی۔
آریوں کے دیگر عقائد
جس قدر بادشاہ اور راجے ہیں اگر وہ لوگ اس آرام کے ساتھ ایک مشقت عبادت کی نہ ملاویں گے تو وہ سخت عذاب پاویں گے۔خد اتعالیٰ نے بعض کو خود مشقت دے دی ہے اور بعض کو نہیں۔جو لوگ دنیا میں دولت رکھتے ہیں اور عیاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں ان سے حساب ہوگا جیسے ایک انسان سرد پانی پیتا ہے مگر اپنے بھائی کو نہیں دیتا تو سزا پائے گا۔جس حال میں کہ آگے جاکر سب کمی بیشی پوری ہو جانی ہے تو پھر اعتراص کیا ہے ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں کہ خد اہے ۔کشف و کرامات کے منکر ہیں۔روح اور پرمانو کو انادی مانتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ صرف جوڑ جاڑ پر میثر کے محتاج ہیں تو پھر جوڑنے میں ا سکی کیوں احتیاج ہوئی؟بلکہ جیسے وہ خود اپنے وجود اور صفات میں خود بخود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپس میں جڑ نہ سکتی ہوں؟ جب ایک انسان کا بدن اپنا ہے کپڑے اپنے ہیں تو پہننے کے واسطے دوسرے کی کیا ضرورت ہوئی؟ عیسائیوں کی طرح ان کے ہاتھ مین بھی اعتراص ہی اعتراض ہیں۔اسلام پر کثرت ازدواج کا اعتراض کرتے ہیں حالانکہ کرشن کی کئی ہزار بیویاں تھیں۔؎ٰ
یکم جنوری ۱۹۰۳؁ء
حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے عید کی مبارک صبح کو جو الہام بطور ہدیہ عید سنایا اس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں وہو ہذا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی
وحی الہی کی ایک پیشگوئی ہے جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہئے کہ ہر شخص اس کو خوب یاد رکھے۔
اول ایک خفیف خواب جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے ۔ پھر و ہ کشفی حالت وحی الہی کی طرف منتقل ہو گئی چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میںتھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں
یبدی لک الرحمن شیئا۔ اتی امر اللہ فلا تستعجلو ہ بشارۃ تلقا ہا النبیون
خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا خدا کا امر آرہا ہے تم جلدی نہ کرو یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے ۔
‏ Amira 5-5-05
صبح پانچ بجے کا وقت تھا یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی۔اس سے پہلے ۲۵ دسمبر ۱۹۰۲ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے حکایت تھی اور وہ یہ ہے :-
انی صادق صادق وسیشھد اﷲ لی
ترجمہ :-
میں صادق ہوں میں صادق ہوں عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا۔
یہ پیشگوئیاں باواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا امر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہور میں آئے گی۔اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہوگا تا دشمنوں کو شرمندہ کرے اور میری وجاہت اور عزت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلا دے۔
نوٹ :- چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خدا وند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے۔اس ہدیہ پر ہم شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم عنقریب ان نشانوں کے متعلق بھی ایک اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک گذشتہ سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں۔
المشتہر
مرزا غلام احمد قادیانی
یکم جنوری ۱۹۰۳ء
قادیان میں عید الفطر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید سے پیشر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول فرمائے۔گیارہ بجے کے قریب خد اکا برگزیدہ
جری اﷲ فی حلل الانبیاء
سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے مسجد اقپیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارک باد دی۔
اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریھ لائے اور آپ نے عید کی نماز پڑھائی اور ہر دو رکعت مٰں سورۃ فاتحہ سے پیستر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسب دستور اپنے ہاتھ اٹھائے
ظہر کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپٹا ہوا تھا۔
فرمایا کہ
کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اس لئے میں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے۔
تا عود صحت
فرمایا کہ
صحت تو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہو سکتا ہے۔
ہمت بلند رکھنی چاہئے
عصر کے بعد حضور نے مجلس فرمائی سید ناصر شاہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
ہمت بلند رکھنی چاہئے انسان اگر دنیوی امور میں ہمت ہار دے تو دینی امور میں بھی ہار دیتا ہے یہ عجیب چیز ہے کیونکہ گواہی دیتی ہے کہ قویٰ ٹھیک ہیں جو لوگ کم ہمت ہوں ان میں پست خیالی پیدا ہوجاتی ہے۔مسجدوں کے ملاں جو ہوتے ہیں ان کو دیکھو ۔ایک بار ہمارے میرزا صاحب مرحوم کے پاس یہاں کا ایک ملاں شکایت لایا کہ ہمارے جو گھر باہم تقسیم ہوئے ہیں تو مجھے چھوٹے قد کے آدمیوں کے گھر ملے ہیں اور ان کے مرنے سے بہت چھوٹا کفن ملا ہے یہاں تک حالت ان لوگوں کی گر جاتی ہے کہ ایک ملاں نے نماز جنازہ غلط پڑھی جب کہا گیا تو جواب دیا کہ اس کی مشق نہیں رہی۔
غرض دنیا کے ہر معاملہ میں ہمت نہ کی تو دین میں بھی پست ہمتی پیدا ہو جاتی ہے۔
پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں
میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طور پر نماز پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے نماز درست نہیں وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں اگر نہ ملے تو چھوڑ دیں معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جائے تو عبادت ہی ہے جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کر لے اور پکا ارادہ کر لے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے۔
تعبیر الرئویا
مغرب کے بعد ایک صاحب نے اپنا خواب سنایا جس مین انہوں نے انگوٹھی دیکھی۔
تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ :-
انگوٹھی سے مراد یہ ہے کہ انسان اسی حلقہ میں آجاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا تمثّل رئویا میں دیکھنا
سید عبد القادر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اﷲتعالیٰ کو اپنی ماں کی شکل پر دیکھا مگر میں نے (یعنی خود حضرت اقدس نے) ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا۔ یہ تمام اﷲ تعالیٰ کے تمثلات ہوتے ہیں ورنہ وہ تو تجسم سے پاک ہے پیغمبر خدا ﷺ نے ایک دفعہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ اپنے شانہ پر دیکھا۔
ایک الہام کی تشریح
آج کے الہامات میں خد اتعالیٰ نے فرمایا ہے۔
یبدی لک الرحمن شیئا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مخفی ہے جو کہ ظاہر ہوگا خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خد اکا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا۔
فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (السجدۃ : ۱۸)
(کوئی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قرۃ اعین ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے) در حقیقت چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھانا لایا جاتا ہے تو اس پر دستر خوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک عزت کی علامت ہوتی ہے
یبدی لک الرحمن
بھی دلالت کرتا ہے کہ میں تمہارے لئے کچھ ظاہر کروں گا یعنی کوئی شیئے ہے کہ اس وقت چھپائی ہوئی ہے۔
جماعت نشانوں سے درست ہوگی
میں کہتا ہوں کہ میری جمات نصائح سے درست نہ ہوگی بلکہ نشانوںسے درست ہوگی۔دہریت کی جڑ جب اندر ہوتی ہے تو قاعدہ کی بات ہے کہ اثر نہیں ہوا کرتا خدا کو خدا کے ہی ذریعہ سے پہچان سکتے ہیں۔دنیا میں جس شیئے کی معرفت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کی عظمت بھی اس پر کھل جاتی ہے اس وقت وہ اس سے متاثر ہو تا ہے جیسے دریا میں اپنے آپ کو دیدہ دانستہ نہیں ڈالتا۔شیر سامنے ہو تو اس کے مقابل نہیں جاتا جس جگہ سانپ کا خطرہ ہو تو اس جگہ نہیں گھستا اور ایک مقام پر بجلی پڑتی ہو تو وہاں سے بھاگتا ہے ایک طرف تو یہ لوگ دعویٰ امت کا کرتے ہیں دوسری طرف کر توت ایسی ہے کہ خدا کی پناہ تو اس کے کیا معنے ہوئے؟
ایک الہام
ایک میرا گزشتہ ایام کا الہام ہے یہاں ذکر کرنا یاد نہ رہا وہ یہ ہے :-
انی انا الصاعقۃ
مولانا عبد الکریم صاحب نے کہا کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا نیا اسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا حضرت اقدس نے فرمایا ۔
بیشک اسی طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں جیسے افطرواصوم یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں گویا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کا م ہوں گے کچھ حصہ چپ رہوں گا یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا اور یہی وقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں شدت گرمی اور شدت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اصوم کی حالت ہ یوار فروری مارچ اکتوبر وغیرہ میں زور کرتی ہے وہ گویا افطار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے
انی انا الصاعقۃ
نماز میں لذّت کے حضول کی شرائط
ایک نے عرض کی کہ نماز میں لذت کچھ نہیں آتی حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
نماز نماز بھی ہو۔نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہو گا جس کا ایمان قوی ہوگا وہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسے لذت ہے اور اس سے اول معرفت ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں انہیں پر فضل بھی کرتا ہے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خد اکی راہ میں بھی کرے پنجابی میں ایک مثل ہے ’’جومنگے سو مر رہے مرے سو منگن جا‘‘۔
دعا کی حقیقت
لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔دعا کرنا مرنا ہوتا ہے اس پنجابی مصرعہ کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے دعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مر جاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا یہ کہ اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہوگی۔پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتیٰ کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الٰہی سنت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا وند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے۔
خدا کا کلام فرمانا
اس مقام پر سائل نے کہا کہ جواب کیسے دیتا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
بات کر کے بتلا دیتا ہے
سائل نے کہا کہ خدا کیسے بات کرتا ہے ؟
فرمایا کہ
خد اکے فرشتے کلام کرتے ہیں اکثر دفعہ خد اکے فرشتوں نے ہمارے ساتھ کلام کی ہے مکالمات الٰہیہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان پر کلام جاری کر رہا ہے اور وہ ایسے طاقت اور شدت سے ہوتا ہے کہ جیسے ایک فولادی میخ دھنستی جاتی ہے ایسی لطافت ہوتی ہے کہ گویا خدا کا کلام ہے۔
نماز پڑھنے کا طریق
نماز پڑھو اور تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دعائیں مانگنی مطلق حرام نہیں ہے جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقعہ دیا گیا ہے اس وقت کثرت سے مانگو اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے ۔یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ترشحات ہوتے ہیں۔اس کوچہ میں اول انسان کو تکلیف ہوتی ہے مگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا جب اجنبیت جاتی رہے گی اور نظارہ قدرت الٰہی دیکھ لے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا۔قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاوے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے اصل میں سب لذات خد اتعالیٰ کی محبت میں ہیں۔ملعون لوگ (یعنی جو خد اسے دور ہیں) جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے۔بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں مثل بہائم کے ہیں۔جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے۔
صادقوں کی صحبت میں آجائو
دہلی کے جلسہ مین جو لوگ بڑے شوق سے جاتے ہیں سوائے اس کے کہ وہاں بعض مسخ شدہ شکلوں کو دیکھیں اور کیا دیکھیں گے یہ لوگ ایسے دور دراز خیالات میں آکر پڑے ہیں کہ جب فرشتہ آکر جان نکالے گا تو اس وقت ان کو حسرت ہوگی۔
ایمان لانے سے اور خد اکی عظمت کے دل میں ہونے کی اول نشانی یہ ہے کہ انسان ان تمام کو مثل کیڑوں کے خیال کرے ان کو دیکھ کر دل میں نہ ترسے کہ یہ فاخرہ لباس پہن کر گھوڑوں پر سوار ہیں۔در حقیقت ان لوگوں کی زندگی بد اور کتوں کی سی زندگی ہے کہ مرادار دنیا پر دانت مار رہے ہیں۔انسان کو اگر دیکھنے کی آرزو ہو تو ان کو دیکھیں۔جو منقطعین ہیں اور خد اکی طرف آگئے ہیں اور خد اان کو زندہ کرتا ہے ان کی زیارت سے مصائب دور ہوتے ہیں جو شخص رحمت والے کے پاس آوے گا تو وہ رحمت کے قریب تر ہوگا دنیا میں یہی بات غور کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
کونوامع الصدقین (توبہ : ۱۱۹)
یعنی اے بندو تمہارا بچائو اسی میں ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جائو۔
پھر نماز کی حلاوت کے سوال پر فرمایا کہ
نشونما رفتہ رفتہ ہوا کرتا ہے یہ آپن کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں آگئے اگر خدا نہ چاہتا تو آپ کی کرتے؟ ممکن تھا کہ اول دلی کی طرف جاتے تو وہاں سوائے لاف وگزاف کے کیا ساتھ لے جاتے یا چند ایک تماشے شعبدہ بازی کے دیکھ لیتے۔
سائل نے عرض کی کہ میرا خیال تھا کہ آپ ضرور جلسہ دہلی میں ہوں گے آپ کا کیمپ مع اپنی جماعت کے الگ ہوگا حضرت اقدس نے فرمایا
ہم ان باتوں سے ایسے متنفر ہیں کہ ان کے خیمے ہمارے نزدیک بھی ہوں تو ہم یہ خواہش کریں کہ خدا جلد تر ان کو یہاں سے اٹھادے جیسے ایک مردار جب پاس پ۰ڑا ہو تو اسے جلدی اٹھوادیتے ہیں کہ کہیں متعفن ہو کر بیماری کا باعث نہ ہو۔
سائل نے عرض کی کہ اس سے پیشتر مجھے بہت شوق جلسہ کا تھا مگر اب دو تین دن سے ذرا خیال تک بھی نہیں ہے حضور کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ
حق یہی ہے
رئویت ملائکہ
پھر سائل نے عرض کی کہ کیا ہم فرشتے کو دیکھ سکتے ہیں؟
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ
ہم ہر روز دیکھتے ہیں کبھی کشف میں۔کبھی رئویا میں۔ایک حالت رئویا کی ہوتی ہے وہ نیند میں ہوتی ہے اس میں غیبت حس ہوتی ہے کہ انسنا سو کر کہیں کا کہیں سیر کرتا ہے اور مکان اس کا بدلتا ہے مگر کشف میں مکان نہیں بدلتا۔کبھی غنودگی میں ہوتا ہے اور کبھی بیداری میں اور باوجود غنودگی کے حصہ کے پھر بھی ایک آواز کو سنتا ہے۔جانتا ہے کہ فلاں مکان میں ہوں ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسان کی شکل میں دیھکا یادنہیں کہ دو تھے یا تین آپس میں باتیں کرتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ تو کیوں اس قدر مشقت اٹھاتا ہے اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جائے میں نے سمجھا کہ یہ جو چھ ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرھ اشارہ ہے (اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزے کا بیان فرمایا جو کہ البدر نمبر ۱ میں زیر عنوان اسوہ حسنہ درج ہے)
فرمایا کہ
روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا بعض دفعہ اظہار میں سلب رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے مخفی رکھنا اچھا ہوتا ہے چونکہ میں مامرو تھا اس لئے کوئی مرض وغیرہ نہ ہوا ورنہ اگر کوئی اور ہوتا اور اس قدر شدت اٹھاتا تو ضرور مسلول مدقوق یا مجنون ہو جاتا۔
پھر ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی صورت میں نظر آیا اس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ خد اتعالیٰ تمہاری ساری مرادیں پوری کرے گا۔
اسی طرح ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک نالی شرقاً غرباً بہت لمبی صد ہا میل تک کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر صدہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار بیٹھا ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں اور ان کو دیکھ رہا ہوں ان کے نزدیک جاکر میں نے کاہ
قل ما یعبؤا بکم ربی لولا دعاؤکم (الفرقان : ۷۸)
انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیردیں کہ حکم ہوگیا۔معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آوازدی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہو گیا اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو میلا کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ان ایام میں پچہتر ہزار آدمی ہیضہ سے مرا تھا ۱۸۸۲ء کا ذکرہے۔
لیکھرام کے متعلق کشف
اس کے بعد حضرت اقدس نے لیکھرام کے متعلق کشف کا ذکر فرمایا جو کہ برکات الدعاء کے ٹائٹل پیج پر چھپا ہوا ہے۔
بعد ازیں فرمایا کہ
ایک دفعہ میں نے اسی لیکھرام کے متعلق دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر کٹا پڑا ہوا ہے اسے نیزہ سے پرو دیا ہے اور کاہ گیا ہے کہ پھر یہ قادیان نہیں آوے گا (ان ایام میں لیکھرام قادیان میں تھا اور اس کے قتل سے ایک ماہ پیشر کا یہ واقعہ ہے) فرمایا کہ
یہ عجائبات ہیں ختم ہونے میں نہیں آتے لیکھرام کے قتل کے وقت جب تلاشی میں کاغذات دیکھے گئے تو اس میں بہت سے خط نکلے جن میں لکھا تھا کہ وہ خبیث مارا گیا ہے اچھا ہوا کہ پیشگوئی پوری ہوئی اس میں جو پیشگوئی پوری کے الفاظ تھے وہ حکام کے ہر شک و شبہ کو دور کرتے تھے۔
تنہا احمدیوں کے لئے ہدایت
بعض احباب نے سوال کیا کہ کیا تنہا تماز پڑھ لیا کریں؟
فرمایا کہ
ہاں الگ اور تنہا پڑھ لیا کرو۔یہ سلسلہ خدا کا ہے وہ چاہتا ہے کہ ان سے الگ رہو عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ خدا جماعت کر دے گا۔؎ٰ
۲؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز جمعہ
(بوقت سیر)
ایک الہام
فرمایا :-
رات مجھے الہام ہوا
جاء نی ائل واختارواداراصبعہ واشار۔یعصمک اﷲ من العداویسطو بکل من سطا
آئل جبریل ہے فرشتہ بشارت دینے والا۔
(ترجمہ) آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا (یعنی چن لیا مجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھ کو دشمنوں سے بچائے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔
فرمایا:-
آئل اصل میں ایالت سے ہے یعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے یہاں جبریل نہیں کہا آئل کہا۔اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لئے فرشتہ کا نام آئل رکھ دیا پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن۔اور اشارہ کیا کہ
یعصمک اﷲ من العدا
وغیرہ۔
یہ بھی اس الہام سے جو پہلے ہوا تھا ملتا ہے کہ
انہ کریم تمشی اما مک وعادی من عادی
وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس کی عداوت کی چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا تھا یا زبان میں کم استعمال ہوتا ہوگا اس لئے الہام نے خود اس کی تفصیل کر دی۔
(یہ گذشتہ چند روز کا الہام ہے)
جس طرح انبیاء کے صفات ہوتے ہیں اسی طرح ملائکہ کے بھی صفات ہوتے ہیں اور اصبعہ کے اجتہادی معنے جو کچھ ہم کریں اصل واقعہ تو اس وقت معلوم ہو گا جب وہ ظہور پذیر ہوگا۔
ایک نووارا؎ٰ نے عرض کی کہ کاش مجھے بھی جبرائیل دکھایا جاتا فرمایا :-
جب خدا آپ کو وہ آنکھیں عنایت کرے گا تو آپ بھی دیکھ لیں گے۔
ومانتنزل الا بامرربک (مریم : ۶۵)
وہ تو خدا کے حکم سے نازل ہوتا ہے جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے رسالہ کفر کا لکھا تھا اور لوگوں کو بھڑکایا تھا کہ یہ مسلمان نہیں۔ان کے جنازے نہ پڑھو مسلمانوں کے قبرستان میں ان کو دفن نہ کرو اس وقت لوگ بفڑکے اور ہماری مخالفت عام ہو گئی اور بغض و عداوت حد سے بڑھ گیا اس وکت میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ بھائی غلام قادر کی شکل پر ایک شخص آیا مگر فوراً مجھے معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے میں نے کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ کہا
جئت من الحضرۃ ؎ٰ
میں جناب باری سے آیا ہوں چونکہ وہاں بہت لوگ معلوم ہوتے تھے مین نے اس سے الگ ہو کر ایک بات کرنے کی درخواست کی تو وہ علیحدہ ہو کر مجھے پوچھنے لگا میں نے کہا کہ لگو تو مجھ سے الگ ہو گئے ہیں کہا کہ نہیں تمہارے ساتھ ہیں معاً میری حالت کشفی جاتی رہی۔
حدیث کا مرتبہ
فرمایا :-
سچی بات تو یہ ہے کہ صرف حدیث کو مدار رکھا جائے اور قرآن کو ترک کر دیا جائے تو یہ ایک تباہی کا نشان ہے جو حدیثیں قرآن کے موافق ہیں ان کی تو عزت کرو اور تعظیم کرو اور دوسری کو ترک کردو۔
قیامت کے روز حشر ہوگا
عرب صاحب نے سوال کیا کہ قیامت کے دن لگو جس طرح مرتے ہیں اسی طرح اول و آخر تمبروار حاضر ہوں گے یا ایک دم تمام متقدمین و متاخرین اکٹھے اٹھیں گے۔
فرمایا :-
الگ الگ ثابت نہیں سب اکٹھے اٹھیں گے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا خدا بڑا قادر ہے دیکھو نطفہ کیا چیز ہے اور پھر اس سے کس طرح انسان کامل بن جاتا ہے ہر شخص جو خدا کو ماننے والا ہے سورج چاند وغیرہ اجرام کو دیکھ کر کیا وہ بتلا سکتا ہے کہ کن چھکڑوں پر یہ اسباب آیا تھا اور ان کا مصالحہ کہاں سے آیا تھا یہی ماننا پڑے گا اور پڑتا ہے کہ
انما امرۃ اذااراد شیئا ان یقل لہ کن فیکون (یس : ۸۳)
پھر ہم کو ایسا ہی ماننا چاہئے کہ قیامت کے روز سب کا ایک دم مقابلہ کرا دے گا اور جن حسرتوں میں مومن مر گئے تھے اور ان کو معلوم نہ تھا کہ ہمارے مخالفوںکا کیا حال ہوا وہ ان کو دکھلا دیا جائے گا کہ دیکھو اے راست باز بندو! یہ منکرین کا حال ہے تب ان راستبازوں کو لذت آوے گی پس خدا کو ہم مان ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کو صاحب مقدرت کلی نہ مان لیں پہلے اس کے کاموں کو دیکھو ہم سب کو ماننا پڑتا ہے کہ ان کا کوئی فاعل ہے پھر کیا وجہ کہ ایک حصہ میں اس کو ماننا اور ایک حصہ میں اس کا انکار کرنا اور شبہات میں پڑنا۔یا تو پہلی دفعہ ہی انکار کرنا چاہئے یا بکلی ماننا چاہئے خدا کی صفات اور کام غیر محدود ہیں کیا دنیا کی ہزار ہا مخلوق اس بات کی کافی دلیل نہیں کہ خد ابڑا قوی خدا ہے۔
خدا تعالیٰ کی صفات اَبدی ہیں
خدا کبھی معطل نہیں ہو گا ہمیشہ خالق ‘ ہمیشہ رازق‘ ہمیشہ رب ‘ ہمیشہ رحمان‘ ہمیشہ رحیم ہے اور رہے گا میرے نزدیک ایسے عظیم الشان جنروت والے کی نسبت بحث کر نا گناہ میں داخل ہے خدا نے کوئی چیز منوانی نہیں چاہی جس کا نمونہ یہاں نہیں دیا۔ ہم لڑکپن میں ایسا کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ گلہری کو جب مار دیا جائے تو وہ زنندہ ہو جائے تو بے حس و حرکت ہو جاتی ہے مگر پھر اگر اس کے سر کو گوبر میں دبا دیا جائے تو وہ زندہ ہو جایا کرتی ہے اسی طرح مکھی ۔ یہ موت حقیقی موت نہیں ہوتی نیند اور غشی بھی موت ہی ہے۔؎ٰ
‏Amira 11-5-05
قبر میں سوالات
عرب صاحب نے سوال کیا کہ فرشتہ مرنے کے بعد کس زبان میں سوال کرے گا؟
فرمایا:۔
ہمیں انگریزی ‘فارسی‘ اردو‘ عربی وغیرہ سب زبانوں میں الہام ہوتے ہیں فرشتہ ہر زبان بول سکتا ہے۔
سوال کیا کہ کیا فرشتہ یہی سوال کرے گا
من ربک ومن نبیک
اگر یہی سوال کرے گا تو اس کے جواب یاد کر لئے جائیں تو وہاں پاس ہو سکتے ہے
فرمایا:۔
نہیں یہ ایک ایمانی بات ہے یہی دو لفظ یاد کر کے دنیاوی امتحانوں کی طرح کبھی پاس نہیں ہو سکتے بلکہ انسان جس رنگ سے رنگین ہو گا وہی جواب اس کے منہ سے نکلے گا پھر لکھا ہے کہ
برجہ من الوجوہ
قبر میں رات یا رنج کا سامان مہیا کیا جائے گا۔
حشر اجساد
پھر عرب صاحب کے سوال پر فرمایا کہ
مرنے کے بعد مردے کا تعلق زمین سے ضرور رہتا ہے مومن کا تعلق ایک آسمان سے ہوتا ہے اور ایک زمین سے۔اصل حساب و کتاب تو برزخ میں ہو جائے گا مگر مقابلہ کرانا باقی رہ جاوے گا وہ حشر کو ہوگا۔ہزاروں انبیاء۔دجال۔کذاب۔کفار۔ملعون وغیرہ خطاب پاتے گئے قیامت میں اس لئے حشر ہوگا کہ ان کو عزت کی کرسی پر بٹھا کر اور مکذبوں کو ذلت کا عذاب دے کر دکھلایا جائے گا کہ دیکھوں کون صادق اور کون کاذب تھا۔
سوال کیا کہ حشر کو جسم ہوگا یا نہیں اور یہی جسم ہوگا یا کوئی اور؟
فرمایا :-
حشر میں جسم دیئے جائیں گے یہ نہیں کہ یہی ہوگا یا کوئی اور۔یہ مانی ہوئی بات ہے کہ تین سال کے بعد پہلا انسانی جسم ضائع ہو جاتا ہے اور اس کا قائم مقام نیا آجاتا ہے پھر ہمارا ایمان ہے کہ ایک بدن ملے گا مگر جس طرح اس علیم کے علم میں ہے ہمارا اس پر ایمان ہے کہ وہ قادر ہے کہ اس بدن سے بھی کچھ حصہ اسے دیدے اور اس کے سوا اور جسم بھی عطا کرے سوائے ذات باری کے کسی کی یہ صفت نہیں کہ ہمیشہ ابدی رہے اور یہ طاقت خدا ہی انسان کو دے گا کہ پھر وہ ابدی بن جاوے۔؎ٰ
پھر سوال کیا کیوں یہ مرتبہ صرف انسان کو ہی ملے گا اور حیوانا تکو نہیں دیا جائے گا؟
فرمایا :-
اس پر ہم جھگڑ نہیں سکتے جیسے ایک شخص سخاوت کرتا ہے ایک فقیر کو وہ پیسہ دیتا ہے اور دوسرے کو روپیہ۔مگر جس کو پیسہ ملا ہے وہ حق نہیں رکھتا کہ جھگڑا کرے بہشت والوں کو تو ابدی رہنا ہوگا اور حدیثوں میں بھی آیا ہے کہ دوزخی ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے۔جیسے فرمایا
یا تی علی جھنم زمان لیس فیھا احد
کیونکہ وہ بھی آخر خدا کے ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں ان پر کوئی زمانہ ایسا آنا چاہئے کہ ان کو عذاب کی تخفیف دی جائے۔
یہ معرفت کی باتیں ہوتی ہیں جہنم سے نکلیں گے۔مگر یہ نہیں لکھا کہ بہشت میں مومنین کی طرح ان کو بھی حصہ ملے گا ہاں ان کے ماتھے پر دوزخ کا نشان ہوگا۔
پھر سوال کیا کہ بہشت والوں کو روز کا عیش و آرام بھی دکھ ہو جائے گا۔
فرمایا :-
بہشت میں بھی ہر روز ایک تجدد ہوتا رہے گا اسی طرح دوزخیوں پر بھی لکھا ہے
بد لنھم جلودا غیرھا (النساء : ۵۷)
مگر خد اکا تجدد بے پایاں ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا خدا کے کاموں میں انتہا نہیں ۔فرماتا ہے
ولدینا مزید (ق: ۳۶)
یعنی زیادتی ہوتی رہے گی۔
پھر سوال کیا کہ میں نے آج تک روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں۔
فرمایا :-
خدا ہر ایک شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔؎ٰ
۳؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
صبح کی سیر
اﷲ اور رحمٰن
سیر کو نکلتے ہی سلسلہ کلام
یبدی لک الرحمن
الاہم سے شروع ہوا۔
فرمایا :-
رحمان اپنے اندر بشارت رکھتا ہے چونکہ یہ بشارت تھی اس لئے اس الہام میں رحمان کا لفظ رکھا ہے۔اور شیئا کے لفظ میں کچھ اخفا تھا جو گو اس کی عظمت کے لئے ہے مگر ایک اخفاء ضرور ہے اس لیء اس خیال سے کہ وہم پیدا نہ ہو پر اور واضح الفاظ میں فرمایا۔
بشارۃ تلقھا النبیون
یبدی لک الرحمن میں لام بھی انتفاع کے لئے فرمایا دوسرے الہام واﷲ یعصمک من العدا میں اﷲ کا لفظ اس لئے رکھا کہ اﷲ اپنے جلال کو چاہتا ہے اور اس عصمت میں اظہار جلال مقصود تھا اس کو استعمال فرمایا جو اسم اعظم ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت
اس ضمن میں فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
اناﷲ معنا (التوبہ : ۴۰)
اس معیت میں حصرت ابوبکر صدیق ؓبھی ہیں اور گویا کل جماعت آپ کی آگئی موسیٰ ؑنے یہ نہیں کہا بلکہ کہا
ان معی ربی (الشعراء : ۶۳)
اس میں کیا سر تھا کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ معیت کا اظہار کیا؟ اس میں یہ راز ہے کہ اﷲ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے رسول اﷲ ﷺ اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے لیکن موسیٰ ؑکی قوم شریر اور فاسق فاجر تھی۔آئے دن لڑنے اور پتھر مارنے کو تیار ہو جاتی تھی اس لئے ان کی طرف معیت کو منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی ذات تک اسے رکھ ااس سے رسول اﷲ ﷺ کی عظمت اور علو مدارج کا اظہار مقصود ہے۔
ایمان‘عرفان میں کیسے تبدیل ہوتاہے
فرمایا :-
یہ پیشگوئیاں جو ہیں یہ ایمان کو قوی کر کے عرفان بنا دیتی ہیں۔نری باتوں سے ایمان قوی نہیں ہو سکتا جب تک اس مٰن قوت کی شعاعیں نہ پڑیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ان نشانات سے پیدا ہوتی ہیں۔پس ان پیشگوئیوں کو خوب کان کھول کر سننا چاہئے دوسرے وقت جب یہ پوری ہوتی ہیں تو ایمان کی تقویت کا باعث ہو کر اس کو عرفان بنا دیتی ہیں۔اس لئے جو امر پیشگوئی پر مشتمل ہو میں اس کو ضرور سنا دیا کرتا ہوں اور میری غرض اس سے یہی ہوتی ہے۔یہ ایک نور بخشتی ہیں اور جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور نازل نہ ہو انسان غلطی میں پڑا رہتا ہے۔
تعبیر الرؤیا
ابو سعید عرب صاحب نے اپنی رئویا بیان کی کہ ایک کتا پیار سے کاٹتا ہے اور پھر اس نے ایک انڈا دیا جس کو انہوں نے توڑ ڈالا اور وہ بھاگ گیا ہے۔
فرمایا :-
کتا ایک برزخ ہے درندگی ارو چرندگی میں۔جب وہ محبت سے کاٹے تو محبت ہے اور کتے سے مراد خفیف سا دشمن ہوتا ہے اس کے انڈے سے مراد اس کی ذریت ہے جب اس کو توڑدیا تو گویا خفیف اور کمزور دشمن کی ذریت کو تلف کر دیا۔
توحید
فرمایا :-
جس بادشاہ کے ہم زیر سایہ ہیں اس کو چھوڑ کر دوسروں کے پاس جانا یہ توہین ہے۔
بئس الفقیر علی باب الامیر۔
مولوی محمد حسین اور اس کا رجوع
ابو سعید عرب صاحب نے اپنے ذوق سے بیان کیا کہ محمد حسین والی پیشگوئی یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فرمایا :-
اس میں کیا شک ہے۔زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا ہے۔کہ وہ رجوع کرے گا۔اور اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی مقدر کیا تھا۔اصل میں محمد حسین زیر ک آدمی تھا۔مگر میں دیھکتا تھا کہ ابتداء سے اس مین ایک قسم کی خود پسندی تھی۔پس اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ اس طرح پر اس کا تقیہ کر دے یہ اس کے لئے استفراغ ہے۔براہین میں ایک الہام درج ہے جس میں اس کا فرعون نام رکھا گیا یہ۔اس نے بھی آخر یہی کہا تھا کہ
امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنو ااسرائیل (یونس : ۹۱)
اس لئے اس کے لئے بھی امنت بالذی کا وقت مقدر ہے۔
اس پر پوچھا گیا کہ وہ کیا مار ہے جس کی وجہ سے یہ آخری سعادت اس کے لئے مقدر ہے۔فرمایا :-
یہ تو اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔مگر اس نے ایک کام تو کیا ہے۔براہین احمدیہ پر ریوریو لکھا تھا اور وہ واقعی اخلاص سے لکھا تھا کیونکہ اس وقت اس کی یہ حالت تھی کہ بعض اوقات میرے جوتے اٹھا کر جھاڑ کر آگے رکھ دیا کرتا تھا اور ایک بار مجھے اپنے مکان میں اس غرض سے لے گیا کہ وہ مبارک ہو جاوے اور ایک باراصرار کرکے مجھے وضو کرایا۔غرض بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا۔
کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ میں قادیان ہی میں آکر رہوں ۔مگر میں نے اس وقت اسے یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔اس کے بعد اسے یہ ابتلاء پیش آگیا۔کیا تعجب ہے کہ اس اخلاص کے بدلے میں خدا تعالیٰ نے اس کا انجام اچھا رکھا ہو۔؎ٰ
اس پر ایک بھائی نے سوال کیاکہ حضر اب اسے کیا سمجھیں۔ فامایا۔
اب تو حکم حالت موجودہ ہی پر ہوگا۔وہ دشمن ہی اس سلسلہ کا ہے۔دیکھو جب تک نطفہ ہوتا ہے اس کا نام نطفہ رکھتے ہیں گو اس کا انسان بن جاوے مگر جوں جوں اس کی خالتیں بدلتی جاتی ہیں اس کا نام بدلتا جاتا ہے۔مضغہ علقہ وغیرہ ہوتا ہے۔آخر اپنے وقت پر جا کر انسان بنتا ہے۔یہی حال اس کا ہے۔سردست تو وہ اس سلسلہ کا مخالف اور دشمن ہے اور یہی اس کو سمجھنا چاہئے۔
پھر اس ضمن میں فرمایا کہ
سزا اور عذاب صرف کفر ہی کے باعث نہیں آتا۔بلکہ فسق و فجور بھی عذاب کا موجب ہو جاتا ہے۔
خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے
فرمایا :-
کبھی کوئی جھوٹ اس قدر چل نہیں سکتا۔آخر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ۔کہ بدی کرنے والے جھوٹے اور فریبی اپنے جھوٹ میں تھک کر رہ جاتے ہیں۔پھر کیا کوئی ایسا مفتری ہو سکتا ہے جو برابر پچیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کر رہا ہو اور تھکا نہ ہو اور خد اکو بھی اس کے ئے غیرت نہ آوے بلکہ اس کی تائید میں نشانات ظاہر کرتا رہے۔یہ عجیب بات ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے۔
دیکھو یہ جو میری پیشگوئی ہے کہ میری عمر اسی برس کے قریب ہوگی کیا کوئی مفتری اس قسم کی پیشگوئی کر سکتا ہے اور خصوصاً اس پر تیس برس گذر بھی گئے ہوں ارو ایسا ہی اس وکت جب کوئی نہ جانتا تھا اور نہ یہاں آتا تھا۔یہ کہا
یاتون من کل فج عمیق
اور
یا تیک من کل فج عمیق
کیا یہ مفتری کر سکتا ہے کہ ایسا کہے اور پھر خدا بھی اسیے مفتری کی پروا نہ کرے بلکہ اس کی پیشگوئی پوری کرنے کو دور دراز سے لوگ بھی اس ک یپاس آتے ہین اور ہر قسم کے تحائف اور نقد بھی آنے لگیں۔اگر یہ بات ہو کہ مفتری کے ساتھ بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں۔پھر نبوت سے ہی امان اٹھ جاوے۔یہی نشان ہیں جو ہامری جماعت کی محبت اور اخلاص میں ترقی کا باعث ہو رہے ہیں۔مفتری اور صادق کو تو اس کے منہ ہی سے دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔
فرمایا :-
سچائی کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ صادق کی محبت سعید الفطرت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔احمق کو یہ راہ نہیں ملتی کہ نور کا حصہ لے۔وہ ہر بات میں بدگمانی ہی سے کام لیتا ہے۔
فرمایا :- ہم کو تکلف اور تصنع کی حاجب نہیں۔خواہ کوئی ہماری و ضع سے راضی ہو یا ناخوش۔ہامرا اپنا کوئی کام نہیں ہے۔خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے اور وہ خود کر رہا ہے۔
فرمایا :- جب انسان خدا کو چھوڑ تا ہے تو پھر مکائد پر بھروسہ کرتا ہے۔
اپنی سچائی پر بصیرت
فرمایا :-اﷲ تعالیٰ ہم کو محجوب ہونے کی حالت میں نہ چھوڑے گا۔وہ سب پر اتمام حجت کر دے گا۔یاد رکھو سماوی اور ارضی آدمیوں میں فرق ہوت اہے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔وہ خود ان کی عزت کو ظاہر کرتا ہے اور ان کی سچائی کو روشن کر کے دھاتا ہے۔اور جو اس کی طرف سے نہیں آتے اور مفتری ہوتے ہیں وہ آخر ذلیل ہو کر تباہ ہو جاتے ہیں۔
پیشگوئیوں کے اسرار
پیشگوئیوں کے متعلق فرمایا کہ
اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے اور اس کا کلام بہر حال سچا ہے۔ہان یہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ جسمانی رنگ میں پوری ہوتی ہیں کبھی روحانی رنگ میں۔اور منہاج نبوت میں اس کے نظائر موجود ہیں۔آنحضرت ﷺ نے دیکھ اکہ کچھ گائیں ذبح ہوئی ہیں تو وہ صحابہؓ کا ذبح ہونا تھا۔اور آپ نے دیھا کہ سونے کے کڑے پہنے ہوئے ہیں جو پھونک مارنے سے اڑگئے ہیں۔اس سے مراد جھوٹے پیغمبر تھے۔پس خد اکا کالم کسی نہ کسی رنگ میں ضرور سچا ہے۔
جماعت کے ازدیادِ ایمان کے لئے نشانات کا ظہور
فرمایا :-اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت کا ایمان کمزور رہے۔مہمان اگر نہ بھی چاہے تو بھی میزبان کا فرض ہے کہ اس کے آگے کھانا رکھ دے۔اسی طرح پر اگر چہ نشانوں کی ضرورت کوئی بھی نہ سمجھے۔تب بھی اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے نشانات ظاہر کر رہا ہے۔یہ بھی سچی بات ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کو نشانوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔حضرت مسیحؑ کے شاگردوں نے مائدہ کا نشان مانگا تو یہی جواب ملا کہ اگر اس کے بعد کسی نے انکار کای تو ایسا عذاب ملے گا جس کی نظیر نہ ہوگی۔
طالب کا ادب
پس طالب کا ادب یہی ہے کہ وہ زیادہ سوال نہ کرے اور نشان طلب کرنے پر زور نہ دے۔جو اس آداب کے طریق کو ملحوظ رکھتے ہیں خدا ان کو کبھی بے نشان نہیں چھوڑتا۔اور ان کو یقین سے بھر دیتا ہے۔صحابہؓ کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے نشان نہیں مانگے۔مگر کیا خد انے ان کو بے نشان چھوڑا؟ ہرگز نہیں۔تکالیف پر تکالیف اٹھائیں۔جانیں دیں۔اعداء نے عورتوں تک کو خطرناک تکلیفوں سے ہلاک کیا۔مگر نصرت نہوز نمودار نہ ہوئی۔آخر خدا کے وعدہ کی گھڑی آگئی اور ان کو کامیاب کر دیا۔اور دشمنوں کو ہلاک کیا۔یہ سچی بات ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔اگر وہ پہلے ہی دن سارے نشان ظاہر کے دے تو پھر ایمان کا کوئی ثواب اور نتیجہ ہی نہ ہو۔عرفان آکر یقین سے تو بھر دیتا ہے مگر اس میں کچھ بیھ شک نہیں کہ ان ساری ترقیوں کی جڑ ایمان ہی ہے۔اسی کے ذریعہ سے انسان بڑی بڑی منزلیں طے کرتا اور سیر کرتا ہے۔
سبحن الذی اسری بعبدہ (بنی اسرائیل : ۲)
سے یہی پایا جاتا ہے کہ جب کامل معرفت ہوتی ہے تو پھر اس کو عجیب و غریب مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں۔جو ادب سے اپنی خواہشوں کو مخفی رکھتے ہین۔تمام منہاج نبوت اسی پر دلالت کرتا ہے۔پہلے نشان بھی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ابتلا ہوتے ہیں۔
صدیقی فطرت حاصل کریں
پس صدیکی فطرت حاصل کرنی چاہئے۔انہوں؎ٰ نے کونسا نشان مانگا تا۔شام سے مکہ کو آرہے تھے۔راستہ ہی میں خبر ملی۔وہیں یقین لے آئے۔اس کی وجہ وہ معرفت تھی جو آپ کی تھی۔معرفت بڑی عمدہ چیز ہے۔جب انسان کسی کے حالت اور چال چلن سے پورا وقف ہو تو اس کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کو معجزہ اور نشان کی کوئی حاجت ہی نہی ہوتی حضرت ابو بکر صدیق آپ کے حالات سے پورے واقف تھے۔اس لئے سنتے ہی یقین کر لیا۔
تقویٰ اختیار کریں
فرمایا -ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے۔وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہوان چاہئے نہ یہ کہ تلوار اٹھائو۔یہ حرام ہے۔اگر تم تقویٰ کرنے والے ہوگے۔تو ساری دنای تمہارے ساتھ ہوگی۔پس تقویٰ پیدا کرو۔جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔وہ لوگ نیکی س یجنگ کر رہے ہی۔پس اگر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز موثر نہیں ہوسکتی۔اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے دخا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو جو لوگ دنیا کو خدا سمجھے ہیں وہ متوکل نہیں ہوسکتے۔
(اس سیر میں سے ہم نے مضمون غیر کو نکال کر آپ ہی تقریر کے مختلف فقروں کو یک جاجمع کر دیا ہے (ایڈیٹر)
جماعت کی تعداد
ظہر سے پہلے لودھیانہ سے آئے ہوئے احباب نے شرف نیاز حاصل کیا۔قاضی خواجہ علی صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا کہ میں نے ان کو کہا تھا قادیان چلو۔
فرمایا :-
اگر وہ یہاں آجاوے تو اس کو اصل حالات معلوم ہوں اور ہامری جماعت کی ترقی کا پتہ لگے وہ ابھی تک تین سو تک ہی کہتا ہے اور یاہں اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی تعداد زیادہ بڑھ گئی ہے۔اگر شبہ ہو تو گورنمنٹ کے حضور درخواست کر کے ہماری جماعت کی الگ مردم شماری کرالیں۔براہین احمدیہ میں جو لکھا تھا کہ
اذا جاء نصراﷲ والفتح وانتھی امرالزمان الینا۔الیس ھذابالحق
اب دیکھیں کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں۔گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں جو میموریل ستمبر ۱۸۹۹ء میں بھیجا گیا تھا۔اس میں صاف اس امر کی پیشگوئی ہے کہ یہ جماعت تین سال میں ایک لاکھ ہو جائے گی۔اور وہ پوری ہو گئی بہت سے لوگ ایسے ضعفاو غرباء میں سے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔مگر آنہیں سکتے۔
دنیا کے بارہ میں دین دار کا رویّہ
فرمایا ۔ دیندار آدمی دنیا داروں کی طرھ رجوع کرنے میں اپنی ذلت اور توہین سمجھتا ہے۔ایک صحابی پر رسول اﷲ ﷺ ناراض تھے۔اس وقت ایک بادشاہ نے اپنا سفیر اس کے پاس بھیجا اور چاہا کہ وہ اس کے پاس چلے آویں۔صحابیؓ نے اس خط کو لے کر تنور مین پھینک دیا اور رونا شروع کر دیا کہ ایک طرف تو میری یہ حالت ہیکہ آنحضرت ﷺ ناراض ہیں اور دوسری طرف میں یہاں تک گر گیا کہ ایک کافر میرے ایمان پر طمع کرنے لگا۔مجھ سے ضرور کوئی سخت معصیت ہوئی ہے۔جس قدر زیادہ دینداری اور خدا پرستی ہوگی۔اسی قدر اہل دنیا سے نفرت پیدا ہوگی۔
سلسلہ کی اشاعت
ہم کو جس قدر تکالیف دی گئی ہیں اور جس قدر سب و شتم کیا گیا ہے۔یہ ہماری تبلیغ کے لئے ذریعہ ہو گیا ہے۔جیسے جس قدر گرمی شدت سے ہو برسات بھی اسی نسبت سے زیادہ ہوتی ہے۔عرب کے لوگ عیش وعشرت اور ناپاک خواہشوں اور فعلوں مین مستغرق تھے۔انہیں مذہب اور مذہبی مباحثات سے کیا کام تھا مگر آنحضرت ﷺ کے مقابل میں یوں کھڑے ہو گئے جیسے کوئی بڑا عاشق مذہب دیندار ہوتا ہے۔یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ اس شور سے ساری قوموں میں جلد جلد آپ کی دعوت پھیل جائے۔انہوں نے آنحضرت ﷺ کو بڑی تکالیف دیں مگر آخر وہی ہوا جو خدا تعالیٰ کا منشا تھا۔اسی طرح پر یہاں دیکھ لو کہ کس قدر زور شور سے مخالفت ہوئی۔اور ہو رہی ہے۔بہت سے لوگ ہیں جو بدعات اور بدکاریوں میں مبتلا ہیں۔اکثر ہیں جو کنجریوں کے پیر بنے ہوئے ہیں۔اور بھنگ‘چرس‘ مدک‘ تاڑی‘ گانجا‘ شراب وغیرہ پیتے ہیں یہ دہریہ ہوتے ہیں مگر کوئی ان سے تعرض نہیں کرتا۔برخلاف اس کے ہماری اس قدر مخالفت کی جاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے مسئلہ وفات و حیات مسیح پر وہ شور اٹھایا گیا جس کی حد نہیں رہی۔قتل کے فتوے دئے گئے۔اس میں راز یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ کی اشاعت چاہتا ہے۔
دربارِ شام
بیعت کے بعد طاعون کا ذکر ہوا جس پر حضرت اکدس نے ایک لمبی تقریر طاعون کے متعلق فرمائی ہم کسی قدر تلخیص کے ساتھ اس کو ذیل میں لکھتے ہیں :-
تقویٰ کی ضرورت
فرمایا :-جب تک انسان تقویٰ میں ایسا نہ ہو جیسے اونٹ کو سوئی کے ناکے سے نکالنا پڑے اس وقت تک کچھ نہیں ہوتا۔جس قدر زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اسی قدر اﷲ تعالیٰ بھی توجہ فرماتا ہے۔اگر یہ اپنی توجہ معمولی رکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی معمولی توجہ رکھتا ہے۔
طاعون کا عذاب
خدا تعالیٰ نے فرمایا
گضبت غضبا شدیدا
یہ طاعون کے متعلق ہے اور پھر فرمایا
انی مع الرسول اقوم والوم من یلوم افطر واصوم
میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔اور اس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے۔میں روزہ کھولوں گا بھی اور روزہ رکھون گا بھی۔یہ سب الہام طاعون کے متعلق ہیں ۔ملامت ایک دل کے ساتھ ہوتی ہے ارو ایک زبان کے ساتھ۔زبان کے ساتھ تو یہی ملامت ہے جو مخالف کرتے ہیں۔لیکن دل کی ملامت یہ ہے کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ہم پیش کرتے ہین ارو ان پر عمل کے لئے تیار نہ ہو۔روزہ رکھوں گا اور کھولوں گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت تک گویا طاعون کا زور گھٹ جائے گا۔یہ روزے کے دن ہوں گے اور ایک وکت ایسا ہو گا کہ اس میں کثرت سے ہوگی۔اب دیکھا گیا ہے کہ کثرت سردی اور کثرت گرمی میں اس کی شدت اور تیزی رک جاتی ہے۔لیکن بہاری موسم فروری‘مارچ اور ستمبر اکتوبر میں اس کا زور بڑھ جاتا ہے۔مگر یہ یاد رکھنا چہائے کہ یہ دورے تھمنے والے نہیں ہیں خدا تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دورے شدید ہیں۔زمین پر خدا تعالیٰ سے غفلت اور سستی پھیل گئی ہے۔نیکیوں کی طرف توجہ نہیں رہی۔ایسی صورت میں کیا اس کا علاج ڈاکٹری اصولوں سے ہوگ ایا کوئی اور علاج اثر پذیر ہو سکے گا جب تک خدا تعالیٰ کی مرضی نہ ہو؟
مت خیال کرو کہ ہامرا ملک یا شہریا گائوں ابھی تک محفوظ ہے۔یہ کل دنیا کے لئے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنے وقت پر ہر جگہ پھرے گی۔اس کے دورے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔بعض وقت لوگ ان وجوہات کو نہیں سمجھ سکتے۔لیکن یاد رکھو کہ جو کچھ ہو رہا ہے اﷲ تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے ہو رہا ہے۔اب اس کے وجوہ موٹے ہیں۔بائیس برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین میں مجھے اس کی خبر دی اور پھر متواتر وقتاً فوقتاً وہ اطلاع دیتا رہا۔یہاں تک کہ جب ابھی پنجاب کے دو ضلعوں میں تھی تو اس نے مجھے بتایا کہ کل پنجاب اس کے اثر سے متاثر ہو جائے گا۔اس وکت لوگوں نے اس پر ہنسی کی۔مگر اب بتائیں کہ ان کی ہنسی کا کای جواب ہوا؟ اجنبی لوگ اگر نہ مانیں تو نہ سہی مگر ہماری جماعت جو دن رات نشانا تکو دیکھتی ہے اسے چاہیے کہ اپنی تبدیلی کرے۔جو شخص امن کے زمانہ میں خدا سے درتا ہے وہ بچایا جاتا ہے۔ڈرنے والے زمانہ میں تو ہر ایک ڈرتا ہے جب سونٹا اٹھا یا جاوے تو اس سے بھیڑ ‘ بکری‘ کتا‘ بلی سب ڈرتے ہیں۔انسان کی اس میں کون سے خوبی ہے۔یہ تو اس حالت میں ان سے جا ملا۔اس کی دانشمندی اور دوربینی اک یہ تقاضا ہونا چائیے تھا کہ پہلے ہی سے ڈرتا۔بعض گائوں میں سخت تباہی ہو چکی ہے یہاں تک کہ گھروں کے گھر مقفل ہو گئے۔جب زور سے پڑتی ہے تو پھر کھا جانے والی آگ کی طرح ہوتی ہے۔ایک بار بلاو شام میں پڑی تھی تو جانوروں تک کی صفائی اس نے کردی تھی۔یہ بڑی خطرناک بلا ہے۔اس سے بے خوف ہونا نادانی ہے۔حقیقی ایمان ایک موت ہے۔جب تک انسان اس موت کو اختیار نہ کرے۔دوسری زندگی مل نہیں سکتی۔
تقویٰ کی اہمیت
جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں۔وہ غلطی کرتے ہین۔ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے۔اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے۔مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہو سکتا پس اس حد تک صفائی کرو۔اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بثانے والا ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا۔تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ی ایسا نہ ہوتا۔تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا ۔انسان جب متقی ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور اس کے غری میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ
یرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۴)
پس یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے ارو انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خد اکے ولی ہو جاتے ہیں۔تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو۔لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل امی ہو مگر متقی ہو وہ معزز ہوگا۔یہ دن خدا تعالیٰ کے روزہ کے ہیں۔ان کو غنیمت سمجھواس سے پہلے کہ وہ اپنا روزہ کھولے تم اس سے صلح کر لو اور پاک تبدیلی کر لو جنوری کا مہینہ باقی ہے فروری میں پھر وہی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ایسی بلائوں کا باعث صادق کی تکذیب ہوتی ہے۔اس لئے اور کوئی علاج کا رگر نہیں ہوسکتا۔بعض صحابہؓ بھی اس مرض سے مرے ہیں لیکن وہ شہید ہوئے۔جیسے لڑائیاں جو دشمنوں کی ہلاکت کا موجب تھیں ان میں مرنے والے صحابہؓ بھی شہید ہوئے تھے جو نیک آدمی مرجاتا ہے اس کو بشارت شہادت ملتی ہے جو بد آدمی مرتا ہے ا سکا انجام جہنم ہے جو شخص نیکیوں میں ترقی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے پناہ مانگتا رہتا ہے۔اﷲ تعالیٰ اس کو بچا لیتا ہے۔دیکھو ایک لاکھ جوبیس ہزار یا کم وبیش واﷲ اعلم پیگمبر گذرے ہیں۔مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان مٰن سے کوئی طاعون سے بھی ہلاک ہوا تھا۔ہر گز نہیں۔یہ بلہ بھی مامور ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتی ہے۔اس کی مجال نہیں کہ بلا حکم کوئی کام کرے۔
(یہاں حضرت اقدس نے ہاتھی والی رئویا سنائی جو کئی مرتبہ شائع ہوئی)
پھر فرمایا کہ
اگر چہ آج کل کسی قدر امن ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ وہ وقت خطرناک زور کا قریب ہے اس لئے ہماری جماعت کو ڈرنا چاہئے۔اگر کسی میں تقویٰ ہو جیسا کہ خد اتعالیٰ چاہتا ہے۔تو وہ بچایا جائے گا۔اس سلسلہ کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے۔پس جو متقی بنیں گے ان کو معجزہ کے طور پر بچایا جائیگا۔
عرب صاحب نے پوچھا جو لوگ حضور کو برا نہیں کہتا اور آپ کی دعوت کو نہیں سنا۔وہ طاعون سے محفوظ رہ سکتے ہیں یا نہیں۔فرمایا :-
میری دعوت کو نہیں سنا تو خدا کی دعوت تو سنی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں۔پس جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے خواہ اس نے ہماری دعوت سنی ہو یا نہ سنی ہو کیونکہ یہی غرض ہے ہماری بعثت کی۔اس وکت تقویٰ عنقا یا کبریت کی طرح ہو گیا ہے کسی کام میں خلوص نہیں رہا بلکہ ملونی ملی ہوئی ہے۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس ملونی کو جلا کر خلوص پیدا کرو۔اس وقت
ظھر الفساہ فی البر والبحر (الروم : ۴۲)
کا نمونہ ہے۔آنحضرت ﷺ کے وقت یورپ اور دیگر ممالک کی بگڑی ہوئی حالتوں کا علم نہ تھا۔ خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان تھا اور اب عرفان کی حالت پیدا ہو گئی ہے جو چاہے ان ممالک میں جا کر دیکھ لے۔؎ٰ
۴؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز یکشنبہ
(بوقت سیر)
طاعون کی حتمی علاج
طاعون کے متعلق ذکر ہوا۔فرمایا کہ
ہمارا علاج کوئی کان دھر کر سنتا نہیں ہے مگر بہر حال آخری علاج یہی ہے۔لوگوں کی عادت ہو گئی ہے کہ ان کی نظر صرف اسباب پر رہتی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ آسمان سے سب کچھ ہوتا ہے۔جب تک وہاں نہ ہو زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا۔دہریت کا آج کل طبائع میں بہت زور ہے۔اخباروں میں ہمارے بتلائے ہوئے علاج پر ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طاعون کو خدا سے کیا تعلق ۔ایک بیماری ہے جس کا علاج ڈاکٹروں سے کرانا چاہئے۔
ایک صاحب نے لوگوں کا یہ اعتراض پیش کیا کہ طاعون سے اکثر غریب ہی مرتے ہیں مخالف اور امیر نہیں مرتے۔فرمایا۔
میرے الہاموں سے پایا جاتا ہے کہ ہم دور سے شروع ہوں گے۔مکہ میں جب قحط پڑا تو اس میں بھی اول غریب لوگ ہی مرے۔لوگوں نے اعتراض کیا کہ ابو جہل جو اس قدر مخالف ہے۔وہ کیوں نہیں مرا؟حالانکہ اس نے تو جنگ بدر میں مرنا تھا۔یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہوا کرتا ہے اور یہ اس کی عادت ہے اور پھر اس کے علاوہ یہ اس کی مخلوق ہے۔اس کو ہر ایک نیک و بد کا علم ہے۔سزا ہمیشہ مجرم کے واسطے ہوا کرتی ہے۔غیر مجرم کے واسطے نہیں ہوتی۔بعض نیک بھی اس سے مرتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں۔اور ان کو بشارت ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ سب کی نوبت آجاتی ہے۔اب رسل بابا جو مرا۔کیا وہ امیروں میں سے نہ تھا۔ہمارا بھی مخالف تھا۔
عذاب کی اقسام
ایک شخص نے سوال کیا کہ رسول اﷲ ﷺ کے وقت میں طاعون کیوں نہ پڑی ان کا بھی انکار ہوا تھا۔فرمایا۔
یہ ضرور نہیں ہے کہ خدا ہر وقت ایک ہی رنگ میں عذاب دیوے۔قرآن شریف میں عذاب کی کئی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ جیسے
قل ھواقادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم
او یلبسکم شیعا ویذیق تعضکم باس بعض (انعام : ۶۶)
جنگ و لڑائی وغیرہ کو بھی عذاب قرار دیا ہے۔عذاب بہت اقسام کے ہوتے ہیں کیا خدا تعالیٰ کے پاس عذاب کی ایک ہی قسم ہے؟ اور خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہر نشان میں ایک پہلو اخفا کا رکھتا ہے ورنہ وہ چاہے تو چن چن کر بڑے بڑے بدمعاش ہلاک کر دے سب لوگ ایک ہی دن میں سیدھے ہو جاویں۔
ایک الہام کی تشریح
مولوی محمد احسن صاحب نے کہا کہ حضور اب
الوم من یلوم
کا الہام خوب پورا ہوا۔حضور کے بتلائے ہوئے علاج پر لوگ کیا کیا باتیں بناتے تھے اور طریق ملامت ان لوگوں نے اختیار کیا ہوا تھا۔خدا تعالیٰ نے اس ملامت کے بدلے میں کیسی ملامت کی ہے۔جس ٹیکہ کو پیش کر کے ملامت کرتے تھے۔اب خود ہی اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ
خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اسے (طاعون کو) کبھی بند نہ کروں گا جب تک توبہ نہ کریں۔خدا تعالیٰ کا اصل مطلب تو طاعون سے افطار ہے (یعنی ہلاک کرنے کا) مگر پھر رحم آتا ہے تو روزہ رکھ لیتا ہے (یعنی درمیان مٰں وقفہ دے دیتا ہے) کہ لوگ اگر چاہیں تو توبہ کر لیں۔لوگوں سے اگر چہ ہمیں ہمدردی ہے مگر چوہکہ لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہیں اس لئے اس کو یاد کرانے کے واسطے تنبیہہ کی ضرورت ہے جیسے ایک لحاف کے اندر اکا استر بھی میلا اور پلید ہو اور باہر کا ابرہ بھی ویسے ہی خراب ہو۔اسی طرح اب اندرونی ارو بیرونی دونو حالتیں قابل اصلاح ہیں لوگوں کو یہ بات تعجب میں ڈال رہی ہے کہ ایسا ہوگا کہ خدا اپنی ہستی کو منواوے یہ ان کی غلطی ہے وہ اپنے وجود کو ضرور منواوے گا۔
آثار سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں جہان طاعون پڑی ہوئی ہے ابھی تک لوگ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ابھی کل امرتسر سے ایک اشتہار آیا ہے کہ تین سالہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس پر استہزاء کیا ہے حالانکہ ان کو چاہئے تھا کہ انتظار کرتے کہ ہم کیا لکھتے ہیں کم ازکم ہم سے دریافت ہی کر لیتے کہ ہم کیا کہتے ہیں۔
لوگوں کو بھی شرم نہیں آتی جو کہ ان کے گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہار پڑھتے ہیں کیا مولویوں کی پاکیزگی کا یہی نمونہ ہے ان لوگوں کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ مجھ پر چڑ کر نظم ونثر پڑھ دی۔سمجھ میں نہیں آتا۔بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے خود ہی توڑے تو توڑے۔
اشاعت کا بہتر طریق
جہلم کے سفر کے متعلق فرمایا کہ
میری طبیعت ہمیشہ شور اور غوغا سے جو کثرت ہجوم کے باعث ہوتا ہے متنفر ہے ایسے لوگوں سے ساتھ مغز خوری کرنا بے فائدہ ہے وہی وقت انسان کسی علمی فکر میں صرف کرے تو خوب ہے خدا تعالیٰ نے ہماری اشاعت کا طریق خوب رکھا ہے۔ایک جگہ بیٹھے ہیں نہ کوئی واعظ ہے نہ مولوی نہ لیکچرار جو لوگوں کو سناتا پھرے۔وہ خود ہی ہمارا کام کر رہا ہے بیعت کرنے والے خود آرہے ہیں بڑے امن کا طریق ہے۔؎ٰ
‏Amira 12-5-05
۵؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز دو شنبہ
مذہبی آزادی اور جہاد کی حقیقت
ظہر کے وقت حضور ؑ تشریف لائے تو سرحد کے لوگو ں کے جہاد کے بارے میں غلط فہمی کا ذکر چل پڑا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لا اکراہ فیالدین (البقرۃ : ۲۵۷)
کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے۔لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی۔اس کے سمجھے میں ان لوگوں کو غلطی ہوئی ہے۔اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اکرم ﷺ کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپؐ نے آتے ہی تلوار نہ اٹھائی۔ف لڑنے والوں کے سارھ لڑائیوں کا حکم ہے۔اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا۔کہ خود ابتداء لڑائی کا سبب کیا تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظلموا خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہیکہ تم بھی لڑو۔یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو۔بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو اب مقابلہ کرو۔مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کریں۔ایسے خیالات کی اشاعت کا الزام پادریوں پر نہیں ہے کہ ایک غافل شخص جسے دین کی حقیقت معلوم نہیں ہے اسے جبراً مسلمان کیا جائے۔اب ایک بنیا جس کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال کی ہے اور اسے دین کی خبر ہی نہیں تو اس کے گلے پر تلوار رکھ کر اس سے لالاہ الا اﷲ کہلانے سے کای حاصل ہوگا؟ خدا تعالیٰ کا منشا ہے کہ غفلت چونکہ بہت ہو گئی ہے۔اب دلائل سے سمجھا دیوے اگر جہاد کریں بھی تو کس سے کریں؟ سب سے اول تو انہیں مسلمانوں سے کرنا چاہئے کہ جنہوں نے دین کو تباہ کر دیا ہے۔صحابہ کرامؓ تو خد اکے فرشتے تھے۔اور جب ناعاقبت اندیش لگووں نے تلواریں اٹھائیں تو خدا نے ان کے ذریعہ ان کو سزائیں دلوائیں۔مگر آج کل کے یہ لوگ کہ جن کی مثال ڈاکوئوں کی ہے کیا یہ خدا کے وکیل ہو سکتے ہیں۔قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے۔خدا تعالیٰ نے اسی لئے چنگیز خاں کو ان پر مسلط کر دیا تھا تا کہ مماثلت پوری ہو جیسے یہودیوں پر بخت نصر کو متعین کر دیا تھا ویسے ہی ان پر چنگیز خاں کو۔اس کے وقت میں ایک بزرگ تھے ان کے پاس لوگ گئے کہ وہ دعا کریں۔انہوں نے جاوب دیا کہ تمہاری حرام کاریوں کی وجہ سے ہی تو چنگیز خاں مسلط ہواہے۔قتل کے بعد سنا ہیکہ چنگیز خاں نے اسلام کے علماء فضلاء کو بلا کر پوچھا کہ اسلام کیا ہے انہوں نے کہا کہ نیچ وقتہ نماز ہے۔کہنے لگا کہ یہ تو عمدہ بات ہے کہ اپنے کاروبار میں پانچ وقت دن میں خد اکو یاد کرتا۔پھر انہوں نے زکوٰۃ بتلائی۔اس کی بھی تعریف کی۔تیسرے انہوں نے حج بتلایا۔اس کی اسے سمجھ نہ آئی۔اس کے بیٹے کااسلام کی طرف رجوع تھا مگر آخر پوتا بالکل مسلمان ہو گیا۔اسی طرح بخت نصر یہودیوں پر مسلط ہوا تھا۔مگر خد اتعالیٰ نے اسے کہیں ملعون نہیں کہا ہے بلکہ
عبادالنا (نبی اسرائیل : ۶)
ہی کہا ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجرہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلط کر دیتا ہے۔
تعبیر الرئویا
قبل ازعشاء ایک صاحب نے ایک خواب سنائی جس میں ایک مرد ان کی موت کی خبر دی تھی اور یہ خواب بیعت سے پیشتر آئی تھی۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
جو بیعت کرتا ہے اس پر بھی ایک موت ہی آتی ہے۔خوابوں میں موت سے مراد موت ہی نہیں ہوا کرتی اور بھی موت کے بہت سے معنے ہیں خدا کو کوئی نہیں پا سکتا جب تک اس کی اول زندگی پر موت نہ آوے۔
دریا کی تعبیر پر فرمایا کہ
جو معارف اور علم رکھتا ہو اسے دریا سے ہی تعبیر کیا کرتے ہیں اور ابابیل سے مراد وہ جماعت اور لوگ جو اس سے فیوض حاصل کرتے ہیں۔
پھر موت کے ذکر پر فرمایا کہ
موت کے معنے رفعت درجات بھی لکھے ہیں اور صوفی کہتے ہیں کہ انسان نجات نہیں پاسکتا جب تک اس پر بہت موتیں نہ آویں حتیٰ کہ وہ ایک زندگی کو ناقص محسوس کر کے پھر اور ایک زندگی اختیار کرتا ہے۔پھر اس پر موت ہوتی ہے۔پھر ایک اور ہئی زندگی اختیار کرتا ہے۔اور اس طرح کئی موتیں اور کئی زندگیاں حاصل کرتا ہے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ خواب کی کتنی اقسام ہیں۔
خوابوں کی اقسام
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
تین قسمیں خوابوں کی ہوتی ہیں۔ایک نفسانی۔ایک شیطانی اور ایک رحمانی۔نفسانی جیسے بلی کو چھچھڑوں کے خواب۔شیطانی وہ جس میں ڈرانا یا وحشت ہو۔رحمانی خواب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیگام ہوتی ہیں اور ان کا ثبوت صرف تجربہ ہے۔اور یہ خد اکی باتیں ہیں۔جو اس دنیا سے بہت دور تر ہیں اگر ہم ان کے متعلق عقلی دلائل پر توجہ کریں تو نہ دوسرا اس سے سمجھ سکتا ہے نہ ہم سمجھا سکتے ہیں۔یہ خد اتعالیٰ کی ہستی کے نشان ہیں جو غیب سے دل پر ڈالتا ہے اور جب دیکھ لیتے ہیں کہ ایک بات بتلائی گئی اور وہ پوری ہوئی تو پھر اس پر خود ہی اعتبار ہو جاتا ہے۔اس عالم کے امور کا جو آلہ ہے وہ اسے شناخت نہیں کر سکتا۔یہ روحانی امور ہیں۔انہیں سے ان کو پہچانا جائے تو سمجھ آئے۔اور خواب اپنی صداقت پر آپ ہی گواہی دیتی ہیں۔خدائی امرو ایسے ہی ہوتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آیا کرتے اور اگر آجاویں تو ھپر خدا بھی سمجھ میں آجائے۔
ایک معجزانہ رئویا
پھر اس کے بعد حضرت اقدس نے اپنے ایک خاوب کا ذکر کای جس میں آپ نے دیھکھ اکہ اﷲ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر متمثل ہوا ہے اور آپ نے کچھ احکام لکھ کر دستخط کرائے ہیں۔آپ نے وہ تمام کاغذات دستخط کے واسطے حضرت احدیت میں پیش کئے۔اس وقت اﷲ تعالیٰ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھ اور ایک دوات جس میں سرخ روشنائی تھی وہ پڑی تھی۔اﷲ تعالیٰ نے قلم لے کر اس روشنائی سے لگائی مگر مقدار سے زیادہ روشنائی اس مٰں لگ گئی جیسے کہ دستور ہے کہ ایسی حالت میں چھڑک دیا کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے بھی چھڑک دیا اور کاغذات پر بلا دیکھے دستخط کر دیئے اور اس وقت میرے پاس عبد اﷲ سنوری اور حامد علی تھے۔اور میں سویا ہوا تھ اکہ یکا یک انہوں نے جگایا کہ یہ سرخ قطرات کہاں سے آئے دیکھا تو میرے کرتہ پر اور کسی جگہ پگڑی پر اور کہیں پاجامہ پر پڑے ہوئے تھے۔میرے دل میں اس وقت بڑی رقت تھی کہ خد اتعالیٰ کا مجھ پر کس قدر احسان ہے اور فضل ہے کہ کاغذات کو بلا دیھکے اور پوچھے دستخھط کر دیئے ہیں۔اب یہ کیا حیرانی کی بات نہیں ہے۔کہ میں نے تو ایک معاملہ خواب میں دیکھا اور اس کے قطرات ظاہر میں کپڑوں پر پڑے۔جو کہ اب تک موجود ہیں اور دو شاہد بھی ہیں۔
جماعت کی ترقی کا ایک نشان
پھر وہ وقت کہ ایک دو آدمی ہمارے ساتھ تھے اور کوئی نہ تھا اور اب دیکھتے ہیں کہ جوق در جوق آرہے ہیں۔
یا تون من کل فج عمیق
اور پھر اتنی ہی بات نہیں بلکہ اس کے اوپر ایک اور حاشیہ لگا ہوا ہے کہ مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ لوگ آنے سے رکیں مگر آخر کار وہ فقرہ پورا ہو کر رہا۔اب جو نیا شخص ہمارے پاس آتا ہے۔وہ اسی الہام کا یاک نشان ہوتا ہے۔
اجنبیت کی حالت میں انسان خد اکے کاموں سے نا آشنا ہوتا ہے۔اب جیسے یہ ریل ہے کہ یہاں کے لوگوں کے نزدیک تو عام بات ہے اور کوئی تعجب اور حیرت کا مقام نہیں مگر جہاں کہ دور دور آبادیوں میںیہ نہیں گئی اور نہ ان لوگوں نے اسے دیکھا ہے ان سے کوئی بیان کرے تو کب باور کریں گے کہ ایک سواری ہے کہ خود بخود چلتی ہے۔نہ اس میں گھوڑا ہے نہ بیل نہ اور جانور۔توجن کو ان خدائی امور کا تجربہ نہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ
پھر اسی صاحب نے اعتراض کای کہ بہت کوشش کی جاتی ہے مگر نماز میں لذت نہیں آتی۔
فرمایا :-
انسان جو اپنے تئیں امن میں دیکھتا ہے تو اسے خد اتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔حالت استغنا میں انسان کو خد ایاد نہیں آیا کرتا۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری طرف وہ متوجہ ہوتا ہے کہ جس کے بازو توٹ جاتے ہیں۔اب جو شخص غفلت سے زندگی بسر کرتا ہے۔اسے خد اکی طرف توجہ کب نصیب ہوتی ہے۔انسان کا رشتہ خدا تعالیٰ کے ساتھ عاجزی اور اضطراب کے ساتھ ہے لیکن جو عقلمند ہے وہ اس رشتہ کو اس طرح سے قائم رکھتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ میرا باپ دادا کہاں ہے اور اس قدر مخلوق کو ہر روز مرتا دیکھ کر وہ انسان کی فانی حالت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کی برکت سے اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ میں بھی فانی ہوں اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جہان چھوڑ دیا جائے گا۔اور اگر وہ اس میں زیادہ مبتلا ہے تو اُسے اِسے چھوڑ نے کے وقت حسرت بھی زیادہ ہوگی اور یہ حسرت ایسی ہے کہ خواہ آخرت پر ایمان نہ بھی ہو۔تب بھی اس کا اثر ضرور ہوتا ہے اور اس سے امن اس وقت ملتا ہے کہ جب فانی خوش حالی نہ ہو بلکہ سچی خوش حالی ہو۔بعض آدمیوں کو بیماریوں سے بعض کو دوسری تکالیف سے خدا کی طرف رجوع ہوتا ہے۔
مادری زبان میں نماز اور دعائیں
پھر سوال ہوا کہ اگر ساری نماز کو اپنی زبان میں پڑھ لیا جاوے تو کیا حرج ہے۔فرمایا کہ
خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہیے اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے خواہ فہم ہو یا نہ ہو اور ادعیہ ماثورہ بھی ویسے ہی پڑھے جیسے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلیں۔یہ ایک محبت اور تعظیم کی نشانی ہے۔باقی خواہ ساری رات دعا اپنی زبان میں کرتا رہے۔انسان کو اول محسوس کرنا چاہیے۔کہ میں کیسا مصیبت زدہ ہوں۔اور میرے اندر کیا کای کمزوریاں ہیں۔کیسے کیسے امراض کا نشانہ ہوں اور موت کا اعتبار نہیں ہے۔بعض ایسی بیماریاں ہیں کہ آدھ منٹ میں ہی انسان کی جان نکل جاتی ہے۔سوائے خدا کے کہیں اس کی پناہ نہیں ہے۔ایک آنکھ ہی ہے جس کی تین سو امراض ہیں۔ان خیالوں سے نفسانی زندگی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور پھر ایسی اصلاح یافتہ زندگی کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دریاسخت طغیانی پر ہے۔مگر یہ ایک عمدہ مضبوط لوہے کے جہاز میں بیٹھا ہوا ہے۔اور ہوائے موافق اسے لے جارہی ہے۔کوئی خطرہ ڈوبنے کا نہیں۔لیکن جو شخص یہ زندگی نہیں رکھتا۔اس کا جہاز بودا ہے۔ضرور ہے کہ طغیانی میں ڈوب جاوے۔عام لوگوں کی نماز تو برائے نام ہوتی ہے۔صرف نماز کو اٹیرتے ہیں اور جب نماز پڑھ چکے تو پھر گھنٹوں تک دعا میں رجوع کرتے ہیں۔
مغفرتِ الٰہی
ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ جب تک حرام خوری وغیرہ نہ چھوڑے تب تک نماز کیا لذت دے اور کیسے پاک کرے۔حضرت اقدس نے فرمایا :-
ان الحسنت یذھبن السیات (ھود : ۱۱۵)
بھلا جو اول ہی پاک ہو کر آیا اسے پھر نماز کیا پاک کرے گی۔
حدیث میں ہے کہ تم سب مردہ ہو مگر جسے خدا زندہ کرے۔تم سب بھوکے ہو مگر جسے خدا کھلاوے۔الح۔ایک طبیب کے پاس اگر انسان اول ہی صاف ستھرا اور مرض سے اچھا ہو کر آوے تو اس نے طبابت کیا کرنی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی غفوریت کیسے کام کرے۔بندوں نے گناہ کرنے ہی ہیں تو اس نے بخشنے ہی ہیں۔ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ گناہ نہ کریں جس میں سرکشی ہو ورنہ دوسرے گناہ جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں۔اگر ان سے بار بار خدا سے بذریعہ دعا تزلیہ چاہے گا تو اسے قوت ملے گی۔بلاقوت اﷲ تعالیٰ کے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس کاتزکیہ نفس ہو اور اگر ایسی عادت رکھے کہ جو کچھ نفس نے چاہا اس وقت کر لیا تواسے کوئی قوت نہیں ملے گی۔جب ان جوشوں کا مقابلہ کرے اور گناہ کی طاقت ہوتے ہوئے پھر گناہ نہ کرے ورنہ اگر وہ اس وقت گناہ سے باز آتا ہے جبکہ خد اتعالیٰ نے طاقتیں چھین لی ہیں تو اسے کای ثواب ہوگا۔مثلاً آنکھوں میں بینائی نہ رہے تو اس وقت کہے کہ اب میں غیر عورتوں کو نہیں دیکھتا تو یہ کیا بزرگی ہوئی۔بزرگی تو اس میں تھی کہ پیشتر اس کے کہ خد ااپنی دی ہوئی امانتیں واپس لیتا وہ اس کے بے محل استعمال سے باز رہتا۔
معرفت کے بغیر گناہ نہیں چھوٹ سکتا
اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی معیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔خدا تعالیٰ کی ہی معیت ہو تو تبدیلی ہوتی ہے اور پھر اس کی خواہشیں اور اور جگہ لگ جاتی ہیں ارو خدا کی نافرمانی اسے ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے موت۔بالکل ایک معصوم بچہ کی طرح ہو جاتا ہے۔اس لئے جہاں تک ہو سکے کوشش کریں کہ دقیق در دقیق پر ہیز گار ہو جاوے۔جب نماز میں کوئی خطرہ پیش آوے۔اس وقت سلسلہ دعا کا شروع کردے یہ مشکلات اس وقت تک ہیں کہ جب تک نمونہ قدرت الٰہی کا نہیں دیکھتا۔کبھی دہریہ ہو جاتا ہے کبھی کچھ۔بار بار ٹھوکریں کھاتا ہے۔جب تک خدا تعالیٰ کی معرفت نہ ہو گناہ نہیں چھوٹ سکتا۔دیکھو جو لوگ جاہل ہیں۔ڈاکہ مارتے ہیں۔چوریاں کرتے ہیں۔لیکن جن کو علم ہے کہ اس سے ذلت ہوگی۔خواری ہوگی وہ ایسے کام کرتے شرماتے ہیں کیونکہ ان کی عظمت میں فرق آتا ہے۔اس لئے ڈاکہ والوں کا یہ بھی علاج ہے کہ ان کی تعظیم کی جاوے اور ان کو بڑا آدمی بنا دیا جاوے۔تا کہ ھر ان کو ڈاکہ مارتا شرم آوے۔؎ٰ
۶؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
(بوقت سیر)
موت
اول طاعون کا ذکر ہوتا رہا پھر موت کی حالت کا ذکر آیا ۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ بیھ ایک وقت ہے جو انسان پر آتا ہے مگر یہاں آکر سب علوم ختم ہو جاتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں بتلاتا۔
بعض احباب اپنے اپنے خواب سناتے رہے اور حضرت اقدس تعبیر فرماتے رہے چند ایک ان میں سے واقفیت عام کے لئے درج کی جاتی ہیں۔
تعبیر الرئویا
خواب میں ختنہ کرنا :-
تقویٰ کا طریق اختیار کرنا ہے۔اس سے شہوات کا کاٹنا ہے۔
قیامت کی خبر سننا :-
اس سے مراد ہے کہ دینداروں کی فتح ہوگی اور دشمنوں کو ذلت۔کیونکہ قیامت کو بھی یہی ہونا ہے۔
قرآن شریف میں ہے کہ
فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر (الشوریٰ : ۸)
یہ اسی دن ہوگا دنیا کی رنگا رنگ کی وبائیں بھی قیامت ہی ہیں۔
طاعون کے بعد
میرے الہام میں ہے۔
یا تی علی جھنم زمان لیس فیھا احد
یہ طاعون کی نسبت ہے۔اسے بھی جہنم ہی کہا گیا ہے حالانکہ جہنم تو قیامت کو ہونا ہے۔
اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کارروائی ہولے گی تو پھر طاعون ایک دم چپ ہو کر سو جائے گی۔پھر اس کے بعد یہ بھی فرمایا ہے۔
یغاث الناس ویعصرون
پھر بارشیں ہوں گی۔کشادگی ہوگی۔فصلیں خوب پکیں گی۔موتوں سے لوگ بچیں گے۔پھر اس وقت لوگوں کا دعائیں کرنا کہ یہ طاعون دور ہو۔بے فائدہ ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جب ایک شخص پہر رات رہے اٹھ کر دعا شروع کر دے کہ بہت جلد ابھی دن نکل آوے تو خواہ وہ کچھ ہی کرے مگر دن تو اپنے وقت پر ہی چڑھے گا۔
جائز امور میں اعتدال
نیکی کے ذکر پر فرمایا کہ
’’نیکی کی جڑ یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذات وار شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حد اعتدال سے زیادہ نہ لے جیسا کہ کھانا پینا اﷲ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنا لیا ہے۔اس کا نام دین پر بڑھاتا ہے ورنہ یہ لذات دینا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے کمزور نہ ہو۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ یکہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو ساتھ یا آٹھ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کرکے اسے دم دلا دیتے ہیں۔اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں۔تا کہ اس کی پچھلی تھکان دور ہو جاوے تو انبیاء ؑنے جو حظ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپرد تھا اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے۔اسی واسطے رسول کریم ﷺ کسی وقت حضرت عائشہؓ کے زانو پر ہاتھ مار کر فرماتے کہ اے عائشہ راحت پہنچا۔مگر انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس مٰن ہی منہمک ہو جاتے۔انہماک بے شک ایک زہر ہے ایک بدقماش آدمی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر انہیں کھلتیں۔جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے۔خدا کو ضرور اس کا پاس ہوتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
اعدلو اھو اقرب للتقوی (المائدۃ : ۹)
تنعم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔چوری نہ کرے بلکہ جائز امور میں حد اعتدال سے نہ بڑھے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُسوۂ حَسنہ
ایک دفعہ حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔آپ اندر ایک حجرہ میں تھے۔حضرت عمرؓ نے اجازت چاہی۔آپ نے اجازت دے دی۔حضرت عمرؓ نے آکر دیکھا کہ صف کھجور کے پتوں کی آپ نے بچائی ہوئی ہے اور اس پر لیٹنے کی وجہ سے پیٹھ پر پتوں کے داغ لگے ہوئے ہیں’گھر کی جائداد کی طرف حضرت عمرؓ نے نظر کی تو دیکھا کہ ایک گوشہ میں تلوار لٹکی ہوئی ہے۔یہ دیکھ کر ان کے آنسو جاری ہوگئے۔آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ اے عمر تو کیوں رویا؟ عرض کی کہ خیال آتا ہے کہ قیصرو کسریٰ جو کہ کافر ہیں ان کے لئے کس قدر تنعم اور آپ کے لئے کچھ بھی نہیں۔فرمایا۔میرے لئے دنیا کا اسی قدر حصہ کافی ہے کہ جس میں حرکت کر سکوں۔میری مثال یہ ہے کہ جیسے ایک مسافر سخت گرمی کے دنوں میں اونٹ پر جا رہا ہو اور جب سورج کی تپش سے بہت تنگ آوے تو ایک درخت کو دیکھ کر اس کے نیچے ذرا آرام کر لیوے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو پھر اٹھ کر چل پڑے ۔تو یہ اسوۂ حسنہ ہے جو کہ اسلام کو دیا گیا ہے۔دنیا کو اختیار کرنا بھی گناہ ہے اور مومن کی زندگی اضطراب کے ساتھ گذرتی ہے۔
پھر ہماری دو آنکھیں ہیں اور کیا کچھ دیکھ رہی ہیں اور کوئی فولاد وغیرہ کی بنی ہوئی نہیں ہیں۔ذرا بینائی جاتی رہے تو پھر ہستی کا اندازہ ہو جاتاہے اور جب اندھا ہو توپھر موت ہی ہے۔تو دنیا کی زندگی کا بھی یہی حساب ہے۔
دنیوی زندگی ناقابل اطمینان ہے
مومن کو اس زندگی پر ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے۔اتنی بلائیں اس زندگی میں ہیں کہ شمار نہیں۔ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان کے پاخانہ کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور منہ کے راستہ پاخانہ آتا ہے اور اس کا نام ایلاوس ہے اور پھر اسی طرح گردہ اور مثانہ کی بیماریاں ہیں کہ رنگا رنگ کے سرخ‘ سبز ارو سیاہ پتھر بن جاتے ہیں اور ان کا کوئی خاص سبب بھی کیا بیان ہو سکتا ہے بلکہ امراء لوگ جو کہ عمرہ غذا اور نفیس پانی استعمال کرتے ہیں انہین کو ایسی امراض ہوتی ہیں۔اگر دو شخص ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ایک ہی قسم کی ان کی خوردونوش ہو۔پھر ایک ان میں سے ایسے عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔اس لئے طب کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ظنی علم ہے۔علل مادیہ میں یہ لوگ اسباب کی تحقیق کرتے ہیں مگر اس کا بھی سبب بتلاویں کہ جب الہام ہونے لگتا ہے یا کشف تو اس وقت نیند سی آنے لگتی ہے۔اس کے کیا اسباب ہیں۔ان لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کو ایک بات کا سبب معلوم نہ ہو تو اس سے انکار کر بیٹھتے ہیں اور اسی لئے وحی اور الہام کے منکر ہیں۔
یہ علوم بے انتہا ہیں۔جب تک بے اعتدالیوں کا حصہ دور نہ کریں۔اس سے واقف نہیں ہو سکتے۔
اما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی (النازعات : ۴۱)
جو خواہش جائز اپنے مقام اعتدال سے بڑھ جائے۔اس کا نام ھوی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رئویا
کوئی تیس سال کا عرصہ گذرا۔میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھاکہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے۔اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل ہی کی طرح پہنا ہوا ہے۔گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں۔اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ مرزا غلام احمد مرزا غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے۔میں نے کہا کہ میں ہوں۔کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے۔یہ تعریف سُن کر ملنے آیا ہوں۔مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا۔اس پر اس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے۔ایک آنکھ اوپر تھی اور ایک نیچے اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔’’ تہید ستان عشرت را‘‘ اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور موت وارد نہ کرے۔
اس مقام پر عرب صاحب نے حضرت کا ایک یہ شعر پڑھا۔جس میں یہ کلمہ منسلک تھا کہ
’’ میخواہد نگار من تہید ستان عشرت را‘‘
حضرت نے فرمایا کہ
میں نے پھر اس کلمہ کو اس مصرعہ میں جوڑ دیا کہ یاد رہے۔؎ٰ
آئینہ کمالات اسلام میں اس پر نظم لکھی ہے (ایڈیٹر بدر)
دربارِ شام ۲؎
عربی تصانیف کی اہمیت
عربی تصانیف کے متعلق اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ
یہ سلسلہ نہ ہوتا تو یہ سب مولوی ہماری جماعت یو نظر استخفاف سے دیکھتے اور کہتے کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔مگر اب خود ہی بولنے کے لائق نہیں رہے۔
اسے سلسلہ کلام میں ابو سعید عرب صاحب نے عرض کیا کہ اگر چہ میں نے حضور کی تصنیفات کا مطالعہ نہیں کیا۔مگر میرا ایمان ہیکہ حضور بالکل سچے ہیں اور مسیح اور مہدی کا دعویٰ حق ہے۔مگر دوسرے لوگوں سے کلام کرنے کے لئے میں چاہتا ہوں کہ حضور کی زبان مبارک سے مسیح موعود ہونے کا ثبوت سنوں۔
حضرت اقدس نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا ۔ہم اس کو اختصار کے طور پر لکھیں گے کیونکہ اس مضمون کے متعلق بسط کے ساتھ کلمات طیبات میں بھی ایک مضمون چھپ رہا ہے۔بہرحال آپ نے فرمایا :-
مسیح موعود ہونے کا ثبوت
قرآن پر تدبر سے نظر کرنے والے کو معلوم ہوگ اکہ دوسلسلوں کا مساوی ذکر ہے اول وہ سلسلہ جو موسیٰ ؑسے شروع ہو کر مسیح ؑپر ختم ہوتا ہے۔دوسرا جو آنحضرت ﷺسے شروع ہوتا ہے یہ اس شخص پر ختم ہونا چاہیے جو مثیل مسیح ہو۔کیونکہ آنحضرت ﷺ مثیل موسیٰ ہیں۔
انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا (المزمل: ۱۶)
اور پھر سورہ نور میں وعدہ استخلاف فرمایا کہ جس طرخ پر موسوی سلسلہ ہو گذرا ہے۔اسی طرح پر محمدی سلسلہ بھی ہوگا تا کہ دونو سلسلوں میں بموجب آیات قرآنی باہم مطابقت اور موافقت تامہ ہو۔چنانچہ جبکہ موسوی سلسلہ آخر عیسیٰ ؑپر ختم ہوا۔ضروری تھا کہ محمدی سلسلہ کا خاتم بھی عیسیٰ موعود ہوتا ان دونو سلسلوں کا باہم تقابل مرایا متقابلہ کی طرح ہے یعنی جب دوشیشے ایک دوسرے کے بالمقابل رکے جاتے ہیں تو ایک شیشہ کا دوسرے میں انعکاس ہوتا ہے۔
‏Amira 16-5-05
خاتم النبّیین صلی اﷲ علیہ اسلم کی عظمت
اور اس تقابل سلسلہ سے یہ بھی بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخری سلسلہ کا آخری موعود کس شان کا ہوگا کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ آخر آنے والا عظیم الشان ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبین ٹھہرے۔اگر یہ قاعدہ اور سنت نہ ہوتی۔تو پھر معاذ اﷲ آنحضرت ﷺ کی کوئی عزت اور عظمت باقی انبیاء سابقین پر نہ ہوتی لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی مصلحت دنیا میں عظیم الشان اصلاح چاہتی تھی اس لئے مناسب یہی تھا کہ ان سب سے پڑھ کر آپؐ کی عظمت دکھاوے تا کہ آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہو۔دنیاوی حکام بھی جب ایسی مصلحت رکھ لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس مصلحت کو مد نظر نہ رکھتا۔کبھی حکام دنیا پسند نہیں کرتے کہ آخر میں کسی نالائق کو بھیج دیں اور کہہ دیں کہ گویہ نالائق ہے مگر اس کی بات مان لو۔اب ایک شخص جو کل دنیا کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا کب ہو سکتا تھا کہ وہ ایک معمولی انسان ہوتا۔جس قدر انبیاء علیہم السلام آنحضرت ﷺ سے پہلے آئے وہ سب ایک خاص خاص قوم کے لئے آئے تھے۔اس لئے کہ ان کی شریعت مختص القوم اور مختص الزمان تھی ۔مگر ہمارے نبی وہ عظیم السان نبی ہیں جن کے لئے حکم ہوا کہ
ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء : ۱۰۸)
اور
قل یا یھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف : ۱۵۹)
اس لئے جس قدر عظمتیں آپ کی بیان ہوئی ہیں۔مصلحت الٰہی کا بھی یہی تقاضا تھا۔کیونکہ جس پر ختم نبوت ہونا تھا۔اگر وہ اپنے کمالات میں کبی رکھتا توپھر وہی کمی آئندہ امت میں رہتی ۔کیونکہ جس قدر کمالات اﷲ تعالیٰ کسی نبی میں پیدا کرتا ہے اسی قدر اس کی امت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جس قدر کمزور تعلیم وہ لاتا ہے اتنا ہی ضعف اس کی امت میں نمودار ہو جاتا ہے چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جس عظمت اور شان کا آنحضرت ﷺکو پیدا کیا۔اسی عظمت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ تقابل میں بھی وہی عظمت دکھاتا۔اور ہم ظاہر طور پر دیکھتے ہیں کہ دونوں تعلیموں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے جیسے کہ قرآن شریف حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہے توریت اور انجیل بالکل ان سے خالی ہے۔ان کی کل تعلیم قصص کے رنگ میں ہے اور قرآن شریف علوم کا خزانہ ہے۔ان دونو سلسلوں کا اقتضاء اس وجہ سے بھی تھا کہ چونکہ اسحاق ؑاور اسماعیل ؑدونو بھائی تھے اور دونو میں برکات کی تقسیم مساوی تھیں۔تصفیہ تقسیم تب ہی ہوتا کہ دونو سلسلوں میں باہم تطابق اور عین موافقت ہوتی ۔اسماعیل ؑ کی اولاد میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا۔ جس کی امت کو
کنتم خیر امۃ اخرجت لناس (آل عمران : ۱۱۱)
کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو۔کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہو سکتے ہیں۔پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے۔اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق و معارف کو سمجھ سکتے۔مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے ا سلئے شریعتاور کتاب علوم کا خزانہ ہے جو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے۔اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھا کہ ترقی علوم و فنون اسی زمانہ میں ہوتا۔بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا۔
قرآن شریف حقیقی علوم کا جامع ہے
اس مقام پر عرب صاحب نے سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ سے پیشتر بھی یونان وغیرہ میں علوم کا چرچا تھا۔ فرمایا :-
علوم سے مراد دنیوی علوم نہیں ہے۔اور نہ ہیں۔ان ارضی علوم سے کچھ تعلق نہیں۔علوم حقیقی وہی ہوتے ہیں جو انبیاء لے کر آتے ہیں۔اور ارضی اور سفلی علوم جو دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں۔جیسے تار‘ریل‘غبارہ یا کلوں کی ایجاد وغیرہ یہ کھیلیں ہیں اور ارضی چیزیں ہیں جو جونہی انسان مرجاتا ہے اس کے ساتھ ہی فنا ہو جاتی ہیں مگر وہ علوم جو انبیاء لے کر آتے ہیں وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ان کو کبھی فنا نہیں۔ان علوم سے مراد خدا کے علوم ہیں (پھر اسی سلسلہ میںاصل مطلب کی طرف رجوع کرکے فرمایا) یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف جو علوم لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی اور کتاب میںپائے نہیں جاتے ہیں۔توریت میں کسی علوم کا ذکر نہیں اور انجیل میں نشان تک بھی نہیں پایا جاتا۔قرآن کریم کی عظمت کے بڑے بڑے دلائل میں سے یہ بیھ ہے کہ اس میں عظیم السان علوم ہیں جو توریت و انجیل میں تلاش کرنے ہی عبث ہیں اور ایک چھوٹے اور بڑے درجہ کا آدمی اپنے اپنے فہم کے موافق ان سے حصہ لے سکتا ہے۔توریت کو دیکھو کہ ہستی باری تعالیٰ اور قیامت کے کیسے دلائل بھرے ہوئے ہیں۔اور پھر عقلی اور نقلی دونو طرح کے ثبوت ہیں۔قرون اولیٰ میں صرف نقل ہی نقل تھی۔پھر یہود۔نصاریٰ۔آریہ۔برہمو۔نیچری غرض سب فرقوں کا رد اس میں موجود ہے۔غرض قرآن مجید ایک اکمل اور اتم کتاب ہے۔اﷲ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ خلقت میں علوم حاصل کرنے کے دماغ موجود ہو گئے ہیں تو اس نے قرآن جیسی کتاب بھیج دی۔
موسوی سلسلہ وار محمدی سلسلہ میں مطابقت
غرض یہ سلسلہ موسوی سلسلہ سے کسی طرح کم نہ رہا۔رسول اﷲ ﷺ نے یہاں تک تو مماثلت اور مطابقت میں فرمایا کہ بدی کا حصہ بھی تم کو ویسے ہی ملے گا جیسے یہود کو ملا اور اس سلسلہ کی نسبت بار بار ذکر ہوا کہ آخر تک اس کی عظمت قائم رکھے گا۔سورۃ فاتحہ میں بھی اس کا ذکر ہے جبکہ
غیر المغضوب علیھم ولاالضالین (الفاتحہ : ۷)
فرمایا :-
مغضوب سے مراد یہودی ہیں۔
اب قابل غور یہ امر ہے کہ یہودی کیسے مغضوب ہوئے۔انہوں نے پیغمبروں کو نہ مانا اور حضرت عیسیٰ ؑ کا انکار کیا توضرور تھا کہ اس امت میں بھی کوئی زمانہ ایسا ہوتا اور ایک مسیح آتا جس سے یہ لوگ انکار کرتے اور وہ مماثلت پوری ہوتی ورنہ کوئی ہم کو بتائے کہ اگر اسلام پر کوئی ایسا زمانہ آنے اولا ہی نہ تھا اور نہ کوئی مسیح آنا تھا پھر اس دعا ھاتحہ کی تعلیم کا کیا فائدہ تھا۔
قرآن شریف کی مختلف آیات کے جبع کرنے سے اور پھر ان پر یکجائی نظر کرنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ آنے والا مسیح ضرور اس امت میں سے ہوگا اور حدیث بھی اس کی شرح کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اس امت میں سے ہوگا۔
غرض اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان سلسلوں میںبالکل مطابقت ہے۔اور محمدی سلسلہ میں آنے والا خاتم الخلفاء مسیح کے رنگ پر ہوگا۔حدیثوں میں بھی یہی آیا ہے کہ امامکم منکم یعنی وہ امام تم ہی میں سے ہوگا۔
مسیح موعود کس قوم سے ہوگا؟
سوال ہوا کہ مسیح کس قوم سے ہوا؟
فرمایا :- مہدی کی بابت تو مختلف روایات ہیں۔مگر مسیح کی بابت نہیں لکھا کہ وہ کس قوم سے ہوگا اور یہ لطف کی بات ہے کہ چونکہ کسی قوم کا ذکر نہیں ہے اور مسلمانوں کا خیال تھا کہ وہ اوپر سے آنے والا ہے۔اس لئے اس دعویٰ میں آج تک کسی کو جراات نہیں ہوئی کہ افتراء سے کام لیتا۔مہدی کاذب ہونے کے دعوے جو بہت لوگوں نے کئے اس کی وجہ یہی تھی کہ اس کی قوم کا ذکرتھا۔جہاں جس کو گنجائش ملی۔اس نے پائوں جما کر دعویٰ کردیا۔
مسیح ناصری شارح توریت اور مسیح موعود شارح قرآن ہے
پوچھا گیا کہ عیسائی لوگ تو توریت کو نہیں مانتے۔انجیل کو ہی مانتے ہیں۔فرمایا :-
انجیل میں ہرگز کوئی شریعت نہیں ہے بلکہ توریت کی شرح ہے اور عیسائی لوگ توریت کو الگ نہیں کرتے جیسے مسیح توریت کی شرح بیان کرتے تھے۔اسی طرح ہم بھی قرآن شریف کیشرح بیان کرتے ہیں۔جیسا کہ وہ مسیحؑ۔موسیٰ ؑسے چودہ سو برس بعد آئے تھے۔اسی طرح ہم بھی پیغمبر خدا ﷺ کے بعد چودھویں صدی میں آئے ہیں۔
مغضوب اور ضال
ایک شخص نے سوال کیا۔بعض مخالف کہتے ہیں کہ ہم بھی تو
اھدناالصراط المستقیم (الفاتحہ : ۶)
کہتے ہیں ہم کو یہودی اور مغضوب کیوں کہا جاتا ہے؟ فرمایا کہ
یہودی بھی تو ہدایت ابتک طلب کر رہے ہیں اور
اھدنا الصراط المستقیم
مانگ رہے ہیں اور توریت پڑھتے ہیں مگر گمراہ کیوں ہیں؟
خلیفہ کے معنے
عرب صاحب نے خلیفہ کے معنے دریافت کئے ۔فرمایا :-
خلیفہ کا معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے۔نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں۔انہیں خلیفہ کہتے ہیں۔
بنی اسرائیل کے انبیاء موسوی شریعت کے تابع تھے
مثلاً گذشتہ انبیاء میں جو خلیفے ہوئے وہ وہ تھے جو مقاصد توریت کے کھول کر بیان کیا کرتے تھے ورنہ تعلیم سب کی ایک ہی تھی۔یہود کو جو توریت میں یہ تعلیم دی تھی کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ۔مگر توریت کا اس عدل سے وہ مطلب نہ تھا جو یہودی لوگ اپنی جھوٹی روایتوں اور حدیثوں کی بناء پر اصل اخلاق کو دور کرکے ظاہری شریعت کے پیچھے لگ گئے کہ اگر ظاہر شریعت پر عمل نہ کریں گے تو گنہگار ٹھہریں گے اور عفو گویا بالکل نہ کرنا چاہیے۔حالانکہ اس سے خدا تعالیٰ پر حرف آتا ہے۔کہ وہ کیوں عفو کی عادت ترک کر بیٹھا۔ہاں یہ سث ہے کہ بنی اسرائیل چار سو سال کی غلامی کی وجہ سے فرعونیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے جو ظالمانہ طبیعت رکھتے تھے۔اس لئے بہت سے مفاسد ان میں پیدا ہو گئے تھے اور چال چلن خراب ہو گیا تھا۔اس ظالمانہ عادات کی بیخکنی کے لئے عدل کے رنگ میں یہ تعلیم ان کو دی گئی تھی مگر انہوں نے اس کو الٹھا سمجھا ورنہ ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اخلاق کا وہ حصہ جو عفو کہلاتا ہے بالکل زائل کر دیا گیا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بڑے سخت دل ہو گئے چنانچہ جب حضرت عیسیٰ ؑمبعوث ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ یہودیوں کی سخت دلی بہت بڑھی ہوئی ہے اور وہ کئی قسم کے فسق و فجور میں مبتلا تھے اس لئے انہوں نے آکر عفو کی تعلیم دی اور اخلاق کی تجدید کی۔یہ کہنا کہ انجیل ہی میں اخلاق بھرے ہوئے ہیں سخت غلطی ہے۔کیا پہلے نبیوں کی کتابیں جو ستر سے زیادہ ہیں’وہ سب اخلاقی تعلیم سے خالی ہیں؟ ہر گز نہیں۔مسیح نے کوئی نئی تعلیم نہیں دی۔اور نہ نئی شریعت پیش کی۔یہودی اب تک کہتے ہیں کہ عیسیٰ ؑنے جو کچھ لیا۔ہامرے ہی صحیفوں سے لیا ہے۔چنانچہ ایک یہودی نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس نے بتایا ہے کہ کون کون سے فقرے عیسیٰ ؑنے ان کی کسی کتاب سے لئے ہیں۔
سچی تعلیم کی علامت
غرض سچی تعلیم کی یہ نشانی ہے کہ وہ انبیاء کی تعلیم سے مشابہ ہو۔ان کا اصول ایک ہی ہوتا ہے اور اختلاف تب ہوتا ہے کہ اصول میں ہو۔ورنہ فروع میں اگر کوئی اختلاف ہو تو وہ اختلاف نہیں کہلاتا اور اگر فروع میں اختلاف ہو بھی تو اس کی مثال ایسی ہے کہ گرمیوں میں اور کپڑا ہوتا ہے سردیوں میں اور۔فروعات میں تبدیلیاں ضرور ہوا کرتے ہیں۔ایس اہی مثلاً ایک زمانہ تھا کہ شراب جیسی خبیث چیز کو لوگ بے دھڑک پیتے تھے اور پھر وہ زمانہ آپ کا آگیا کہ اس کی بیخکنی کی جاوے۔حضرت دانیال کو کہا گیا کہ آپ شراب پئیں تا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو جاوے اور بادشان وقت کا حکم ہے کہ جس کا چہرہ سرخ نہ ہوگا۔وہ مارا جاوے گا اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ شراب پیو مگر میں ساگ پات کھاتا ہوں اور دیکھنا کہ کس کا چہرہ زیادہ سرخ ہوتا ہے۔چنانچہ جب آپ آئے تو سب سے زیادہ آپ کا چہرہ سرخ تھا۔
مسیح نے تورات کی شریعت بحال رکھی
پوچھا گیا کہ مسیحؑ نے اپنے شاگردوں کو شریعت کے ماننے کا کیوں حکم نہ دیا؟ فرمایا کہ
وہ خود شریعت کو مانتے تھے اور شاگردوں کو ماننے کے لئے فرمایا۔اگر ان کے وقت میں شریعت منسوخ ہو گئی ہوتی تو یہ کیوں فرماتے کہ فریسی اور فقیہ جو موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں وہ جو کہیں سو کرو اور جو وہ کریں وہ نہ کرو۔اس سے صاف معلوم ہوا کہ شریعت توریت کی بحال تھیا رو انجیل میں بذات خود کوئی شریعت نہیں تھی۔
مسیح موعود ہونے کا ذکر قرآ ن میں
عرب صاحب نے سوال کیا کہ مسیح موعود کے متعلق قرئں میں کہان کہاں ذکر ہے۔ فرمایا
سورۃ فاتحہ۔سورہ نور۔سورۃ تحریم وغیرہ میں۔سورۃ فاتحہ میں تو
اھدنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ۶)
سورۃ نور میں
وعداﷲ الذین امانو امنکم (النور : ۵۶)
اور سورہ تحریم میں جہاں مومنون کی مثالیں بیان کی ہیں۔ان میں فرمایا
ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا (التحریم : ۱۳)
مقامِ مریمیّت
فرمایا :- اﷲ تعالیٰ نے مومنون کو اس میں دو قسم کی عورتوں سے مثال دی ہے۔ارول فرعون کی بیوی سے اورایک مریم سے۔پہلی مثال میں یہ بتایا ہے کہ ایک مومن اس قسم کے ہوتے ہیں جو ابھی اپنے جذبات نفس کے پنجے میں گرفتار ہوتے ہیں اور ان کی بڑی آرزو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ خد اان کو اس سے نجات دے۔یہ مومن فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں کہ وہ بنھی فرعون سے نجات چاہتی تھی مگر مجبور تھی۔لیکن جو مومن اپنے تئیں تقویٰ اور طہارت کے بڑے درجہ تک پہنچاتے ہیں اور احصانِ فرج کرتے ہیں توتعالیٰ ان میں عیسیٰ کی روح نفخ کر دیتا ہے۔نیکی کے یہ دو مرتبے ہیں جو مومن حاصل کر سکتا ہے مگر دوسرا بہت بڑھ کر ہے کہ اس میں نفخ روح ہو کر وہ عیسیٰ بن جاتا ہے یہ آیت صاف اشارہ کرتی ہے کہ اس امت میں کوئی شخص مریم صفت ہوگا کہ اس میں نفخ ہو کر عیسیٰ بنا دیا جائے گا۔اب کوئی عورت تو ایسی ہے نہیں اور نہ کسی عورت کے متعلق پیشگوئی ہے۔اس لئے صاف ظاہر ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اس امت میں ایک ایسا نسان ہوگا جو پہلے اپنے تقویٰ و طہارت اور احصان اور عفت کے لحاظ سے صفت مریمیت سے موصوف ہوگا اور پھر اس میں نفخ ہو کر صفات عیسوی پیدا ہوں گی۔اب اس کی کیفیت اور لطافت براہین احمدیہ سے معلوم ہوگی کہ پہلے میرا نام مریم رکھا ۔پھر اس میں روح صدق نفخ کرکے مجھے عیسیٰ بنایا۔مومنوں کی جو یہ دو مثالیں بیان ی ہیں۔وہ اس آیت ؎ٰ سے بھی معلوم ہوتی ہیں۔
(پھر اس کے متعلق آپ نے جو فرمایا۔بارہا الحکم میں درج ہوا ہے۔آخر اس لطیفہ پر اس کو ختم کر دیا کہ)
مریم صفات والے کے لئے ضرور ہے کہ وہ عیسویت کے رنگ میں تبدیل ہو جاوے۔اگر اس آیت میں صرف مریم کا لفظ ہوتا تو بہت سے افراد ہو سکتے تھے۔مگر خد اتعالیٰ نے احصان فرج اور نفخ روح کی قید لگا کر بتا دیا ہے کہ ایک ہی شخص ہوگا۔یہ ایک استعارہ تا۔جو کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔اس کے لئے یہی وقت مقدر تھا۔پھر عجیب تربات یہ ہے کہ مریم‘نفخ روح اور میرا نام عیسیٰ رکھنے کے الہاموں میں صرف نویا دس ماہ کا فاصلہ ہے جو کہ مدت حمل ہے۔ان تمام ترقیات کا سلسلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔کسی کو کیا خبر ہے کہ کس طرح ایک بیج زمین کے اندر کیا کیا بن کر آخر کار ایک پتہ بن جاتا ہے۔ ۲؎
۷؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
ظاہر وباطن میں اسلام کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے
حضرت اقدس حسب دستور سیر کے لئے تشریف لائے۔عرب صاحب نے انگریزی وضع قطع پر کچھ ذکر چھیڑا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہیے۔ویسے ہی ظاہر میں بھی دکھلانا چاہیے۔ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہیے۔جنہوں نے آج علیگڑھ میں تعلیم پا کر کوٹ پتلون وغیرہ سب کچھ ہی انگریزی لباس اختیار کر لیا ہے حتیٰ کہ وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی عورتیں بھی انگریزی عورتوں کی طرح ہوں اور ویسی ہی لباس وغیرہ وہ پہنیں۔جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوار حتیٰ کہ مذہب کوند کرنے لگتا ہے۔اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلفات سے نفرت کی ہے۔
چھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا کہ
شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا۔ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے۔اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا۔اور یہ فعل اس لیء کیا کہ تا امت کو تکلیف نہ ہو۔جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے۔مگر بالاکل اس کا پابند ہوان اورتکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کو نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے۔کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔
من تشابہ بقوم نھومنھم
سے مراد یہی ہے کہزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض دفعہ کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہدیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیا کرتے ہیں ارو صف پر بھی کھالیتے ہیں۔چارپائی پر بھی کھالیتے ہیں۔تو ایسی باتوں میں صرف گذارہ کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
تشبہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا۔ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شئے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے اور خواہش کیا ہے۔کہ کاش ان کے مذہب میں ہوتی اور انگریزوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر استعمال کئے ہیں مگر اب رسم پرستی کی خاطر وہ مجبور ہیں۔ترک نہیں کر سکتے۔
داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے
پھر عرب صاحب نے داڑھی کی نسبت دریافت کیا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ انسان کے دل کا خیال ہے بعض انگریز تو داڑھی اور مونچھ سب کچھ مندوا دیتے ہیں وہ اسے خوبصورتی خیال کرتے ہیں اور ہمیں اس سے ایسی کراہت آتی ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھناے کو جی نہیں چاہتا۔داڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے۔البتہ اگر بہت لمبی ہو جاوے تو کتوا دینی چاہیے۔ایک مشت رہے ۔خدا نے یہ ایک امتیاز مراد اور عورت کے درمیان رکھ دیا ہے۔
اُسترے کی مضرّت
ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے عرض کی کہ حضور آج کل ایک کتاب بلیگ گائڈ چھپی ہے وہ کل ڈاکٹروں کے پاس روانہ کی گئی اس میں ایک ہدایت ہے کہ ان طاعون کے ایام میں داڑھی ہرگز نہ منڈوانی چاہیے۔کیونکہ اگر ذرا بھی زخم ہوا۔تو طاعونی مادہ اس پر بہت جلد اثر کرتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
استروں سے بھی بعض وقت زہر اور آتشک کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔اس لئے ہمیشہ استرے کے استعمال کرنے میں بہت احتیاط لازم ہے اور اترے کا استعمال منہ پر تو بہت خطرناک ہے۔ہاں غیر مناسب بال جیسا کہ بعض رخسار پر ہوتے ہیں یا داڑھی کے زوائد وغیرہ کات دینے چاہئیں نہ کہ منڈوانے۔
پیشگوئی کی تفہیم میں احتیاط
پھر حضرت اقدس نے عرب صاحب سے مخاسب ہو کر فرمایا :-
رات کو جو آپ نے سوال کیا تھا وہ بے شک بہت ضروری تھا۔کیونکہ ایسے ملکوں میں جہاں لوگ بہت ناواقف ہیں سمجھانے کے لئے ضرور علم چاہئے۔
پھر اس مضمون کا متصر خلاصہ حضور نے اعادہ فرمایا کہ جو گذشتہ شب میں ہم درج کر چکے ہیں اور اس پر یہ ایزادی فرمائی کہ
پیشگوئی کے بارے میں یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ وہ ایسی کھلی کھلی ہوں کہ نام لے لے کر بتلایا جاوے ورنہ پھر یہی سوال آنحضرت ﷺ پر ہو سکتا ہے اور ویسے ہی ثبوت کی ضرورت آنحضرت ﷺ کے دعاوی پر آپڑتی ہے۔کیونکہ خدا نے توریت میں یہ تو ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں ایک نبی ہوگا اور پھر یہ کہ تمہارے بھائیوں میں سے ہوگا ۔مگر یہ تشریح نہ کی کہ یہ اسماعیل کی نسل میں ہوگا حالانکہ یہود کا بھی یہی خیال رہا کہ بنی اسرائیل سے ہوگا ورنہ کیا خد اتعالیٰ قادر نہ تھا کہ آپؐ کا نام۔آپؐ کے باپ کا نام۔آپؐ کے شہر کا نام سب کچھ پہلے بتلا دیتا اور کسی کو کوئی وجہ شک کی نہ رہتی۔مگر ایسے الفاظ تھے کہ ان سے اہل یہود نے فائدہ اٹھالیا۔اور ان کا ابھی تک یہی مذہب ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے مراد یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہوگا۔دوسری جگہ جہاں اہل یہدو نے ٹھوکر کھائی اور الیاس والا مقدمہ ہے کہ انہوں نے یوحنا کو الیاس نہ مانا۔غرض اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام امور پر یکجائی نظر ڈالے اور مومن اور متقی آدمی ہو تو پھر اسے ثبوت ملتا ہے کہ ایک طرف تو قرآن اور احادیث اور سابقہ کتب ہمارے ساتھ ہیں اور ایک طرف صدہا نشان جو کہ ظاہر ہو چکے ہیں اور ان میں سے ایک سو پچاس کا ذکر نزول المسیح میں ہے۔غرض یہ سنت اﷲ ہے کہ نشانوں سے صادق شناخت کیا جاتا ہے۔
یہود کے لئے ابتلاء کا مقام
اور سچی بات یہی ہے کہ اگر وہ ہم پر اعتراص کریں تواول حضرت عیسیٰ ؑاور آنحضرت ﷺ کی بعثت اور صداقت کا ثبوت پیش کریں۔پھر اُن سے جو کمی رہ جائے گی وہ ہم پوری کردیں گے۔یہودیوں کو دوبار حیرت کا مقام پیش آیا۔ایک تو مسیحؑ کے وقت کہ جب انہوں نے پوچھا کہ تجھ سے پیشتر آنے والا الیاس کہاں ہے؟ تو جواب دیا کہ وہ یوحنا ہے چاہو تو قبول کرو چاہو قبول نہ کرو اور دوسرے آنحضرت ﷺ کے وقت کہ آپ بنی اسماعیل میں سے ہوئے۔
بعل زبول
اور مسیح کو بھی دیوانہ کہا گیا تھا چنانچہ ان کا نام منکروں نے بعل زبول رکھا تھا۔بعل کے معنے رئیس اور زبول کے معنے مکھیاں جو کہ گندگی پر بیٹھتی ہیں یعنی کل گندگیوں کا سردار یہ ان کی سخت غلطی تھی اور مخالفت کی وجہ سے اسے کہتے تھے جیسے آنحضرت ﷺ کو ساحر اور مجنون کہتے تھے۔
قرآن کریم سے اس زمانہ کی خبر
ریل وغیرہ کے ذکر پر فرمایا کہ
اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو فائدہ پہنچایا ہے کہ سفر کا بہت آرام ہے ورنہ کہاں سے کہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان ایک دوسرے مقام پر پہنچتا تھا۔مدراس جہاں سیٹھ عبد الرحمان صاحب ہیں۔اگر کوئی جاتا تو گرمیوں میں روانہ ہوتا اور سردیوں میں پہنچاتا تھا۔اس زمانہ کی نسبت خدا تعالیٰ نے خبرد ی ہے
‏Amira 17-5-05
واذاالنفوس زوجت (التکویر : ۸)
کہ جب ایک اقلیم کے لوگ دوسرے اقلیم والوں کے ساتھ ملیں گے۔؎ٰ
واذاالصحف نشرت (التکویر : ۱۱)
یعنی اس وقت خط و کتابت کے ذریعے عام ہوں گے اور کتب کثرت سے دستیاب ہو سکیں گی۔
واذاالعشار عطلت (التکویر : ۵)
اس وقت اونٹنیاں بیکار ہوں گی۔ایک زمانہ تھا کہ یہاں ہزارہا اونٹ آیا کرتے مگر اب نام و نشان بھی نہیں اور مکہ میں بھی اب نہ رہیں گے۔ریل کے جاری ہونے کی دیر ہے۔
کسوف و خسوف اور شقّ القمر
پھر عرب صاحب نے کسوف وخسوف رمضان کی نسبت دریافت کیا کہ اس کا ذکر آپ کی کتب میں ہے کہ نہیں؟فرمایا کہ
یہ ایک پرانا چلا آتا تھا جو اس وقت پورا ہوا ہے۔براہین احمدیہ میں اس کا ذکر استعارہ کے طور پر ہے۔
وان یرو اایۃ یعرضواویقولواسحرمستمر (القمر : ۳)
یہ میرا الہام بھی ہے اور بعض محدثین کا مذہب یہ ہے کہ شق القمر بھی ایک قسم خسوف کا تھا۔
(مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے جواب دیا کہ عبد اﷲ بن عباس کا یہی مذہب ہے)
اور شاہ عبد العزیز بھی یہی کہتے ہیں اور ہامرا مذہب بھی یہی ہے کہ از قسم خسوف تھا۔کیونکہ بڑے بڑے علماء اس طرف گئے ہیں۔
طوفانِ نوح
نوح علیہ السلام کے طوفان کی نسبت فرمایا۔کہ
قرآن شریف سے یہ ثابت نہیں ہے کہ کل زمین کی آبادی کو اس وقت تباہ کر دیا تھا۔صرف نوح (علیہ السلام) کی قوم پر تباہی آئی تھی۔
مماثلت کی حقیقت
ایک شخص نے سوال کیا کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب مسیح ناصری کے آنے سے ختم نبوت ٹوٹتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے ختم نبوت نہیںٹوٹتی؟ فرمایا کہ
مسیح کا یہ دعویٰ کہاں ہے کہ جس طرح ہم اپنے آپ کو امت محمدیہ میں اور پھر آنحضرت ﷺ کی اتباع میں فنا شدہ کہتے ہیں۔انہوں نے بھی کہا ہو؟ وہ تو حضرت موسیٰ کی شریعت پر عمل کرنے والے تھے اور مماثلت کا سلسلہ چاہتا ہے کہ کوئی اور ہی آوے وہ نہ آویں۔مماثلت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ بالکل اس کا عین ہو۔جیسے کسی کو شیر کہیں تو اب اس کے لئے دم تجویز کریں۔اور پھر گوشت کا کھانا بھی۔خدا کے کلام میں استعارا ت ہوا کرتے ہیں۔مثلاً کسی کو کہا جائے کہ اس نے ایک رکابی چاولوں کی کھائی تو اس کے یہ معنے نہ ہونگے کہ وہ رکابی کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھاگیا۔
مماثلت میں صرف بعض پہلوئوں میں تشابہ ہوتا ہے جیسے آنحضرت ﷺ کو مثیل موسیٰ کہا کہ جیسے موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون سے چھڑایا ۔آنحضرت نے ابھی اپنی قوم کو طاغوت اور بتوں سے رہائی دلوائی۔مشابہت میں ہو بہو عین نہیں ہوتا۔ورنہ وہ تو پھر حقیقت ہوگی نہ کہ مشابہت۔
قادیان
عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آبادی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدر انبوہ ہے ورنہ اس غیر آباد جگہ میں کون اور کب آتا ہے۔فرمایا کہ اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال وغیرہ لاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔اسی کی طرف اشارہ ہے
لایلف قریش الفھم رحلۃ الشتاء والصیف (قریش : ۲‘۳)
ایک اعتراض کا جواب
لوگوں کے اس اعتراض پر کہ جو شخص لا وارث مرجاتا ہے اس کے وارث مرزا صاحب ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے بہت سے ملک املاک جمع کرتے جاتے ہیں۔فرمایا کہ
والد صاحب ایسے دنیاوی کاموں میں مجھے مامور کر دیا کرتے تھے اور ان کے حکم اور رضا مندی کے لئے اکثر مجھے عدالتوں میں بھی جانا پڑتا تھا۔جب سے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں کیا کسی نے دیھکا ہے کہ ہم نے اس باتوں میں کوئی حضہ لیا ہے۔حالانکہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اگر چاہیں تو لے لیویں۔
سیرت مسیح موعود کی چند باتیں
حضور نے نماز مغرب ادا کر کے مجلس کی اور ایک دو مختلف ذکروں کے بعد میاں احمد دین صاحب از گوجرانوالہ نے عرض کی کہ اگر جناب ٹھیک ٹھیک پتہ یہاں سے روانگی کا فر مادیں تو کچھ کھانے پینے کا انتظام کر کے گوجرانوالہ پر حاضر رہوں۔خدا کے برگزیدہ نے فرمایا کہ
ہمیں تو خدا ہی نے لے جانا ہے۔اسی کے حکم سے جانا ہے۔ابھی کیا معلوم کس وقت روانہ ہونا ہے۔انسان بہت عاجز اور ہیچ ہے۔خدا ہی کے ساتھ وہ جاتا ہے اور خدا ہی کے ساتھ آتا ہے۔
دیگر احباب نے عرض کی کہ ایک اور صاحب نے راستہ کی خوراک وغیرہ کا انتظام کر لیا ہے اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
دل میں جو اخلاص ہے اس کا ثواب آپ لیویں گے۔کیونکہ اب دعوت آپ کی طرف سے تو پیش ہو گئی۔
علالت طبع پر فرمایا کہ
اب دو تین دن سیر بند رہے گی۔کیونکہ آج کل بارشیں نہیں ہوتیں۔اس لئے راستہ میں خاک بہت اڑتی ہے اور اسی سے میں بیمار ہو گیا تھا۔
ایک صاحب نے کہا کہ چونکہ لگو حضور کے آگے چلتے ہیں۔اس لئے خاک اڑ کرآپ پر پڑتی ہے۔لیکن مجسمۂ رحمت انسان نے جواب دیا کہ
نہیں۔بارش کے نہ ہونے سے یہ تکلیف ہے۔(اﷲ اﷲ کیا رحم ہے اور حسن ظہن ہے کہ اپین احباب کو ہر گز ملزم نہیں ٹھہراتے )
سلسلہ کی تصنیفات
تصنیفات کے ذکر پر فرمایا کہ
خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہامرے مخالف ہازروں ہی ہیں اور ان کے مقابل میں ہماری جماعت بہت قلیل ہے۔مگر ہماری طرف سے جس قدر تازہ بتازہ کتابیں کثرت سے نکل رہی ہیں۔ان کی طرف سے معدودے چند بھی نہیں نکلتیں اور کوئی نکلتی بھی ہے تو اس میں گالیاں ہی ہوتی ہیں جو ان کے لئے شرم کی جگہ ہے۔
یہود اور نصاریٰ کی افراط اور تفریط
یہود اور عیسائیوں کی نسبت فرمایا کہ
وہ دونو ضدین ہیں۔ایک نے بڑھا دیا ہے ایک نے گھٹا دیا ہے۔ان کی مثال رافضیوں اور خارجیوں سے خوب ملتی ہے۔جیسے یہودی کے آگے عیسائی نہیں ٹھہرتا ایسے ہی خارجی کے آگے رافضی نہیں ٹھہرتا۔؎ٰ
۸؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز پنجشنبہ
جماعت کیلئے ضروری نصائح
نماز مغرب کے بعد شیخ نور احمد صاحب پلیڈر ایبٹ آباد اور سید حامد علی شاہ صاحب بدوملہی اور ایک اور صاحب نے بیعت کی۔
بعد بیعت حضرت اقدس نے فرمایا کہ
ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ا س پر آشوب زمانہ میں جبکہ ہر طرف ضلالت‘ غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔دنیا کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے۔دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصہ کو ترک کر دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں۔جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں۔لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔اس وقت تک کہ خد انے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرات نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو۔تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے۔لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے۔جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اور فصل پید اکر دیتا ہے۔
وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کاہ تھا۔
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون (الحجر : ۱۰)
بہت سا حصہ احادیث اک بھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دور رہیں اس لئے اب ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔
صرف ترک شر کافی نہیں
آدمی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے کہ بدی کر کے پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔بھلا یہ کونسی صفت ہے جس کے اوپر ناز کای جاوے۔شر سے اس طرح پرہیز کرنا نیکی میں داخل نہیں ہے۔اور نہ اس کا نام حقیقی نیکی ہے۔کیونکہ اس طرح تو جانور بھی سیکھ سکتے ہیں۔میاں حسین بیگ تاجر ایک شخص تھا اس کے پاس ایک کتا تھا وہ اسے کہہ جاتا کہ روٹی کو دیکھتا رہ تو وہ روٹی کی حفاظت کرتا۔اسی طرح ایک بلی کو سنا ہے کہ اسے بھی ایسے ہی سکھایا ہوا تھا۔جب بعض لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے امتحان کرنا چاہا۔اور ایک کوٹھڑی کے اندر حلوہ‘ دودھ اور گوشت وغیرہ ایسی چیزیں رکھ کر جس پر بلی کو ضرور لالچ آوے اس بلی کو چھوڑ کر دروازہ کو بند کر دیا کہ دیکھیں اب وہ ان اشیاء میں سے کھاتی ہے کہ نہیں۔پھر جب ایک دو دن کے بعد کھول کر دیکھا تو ہر ایک شئے اسی طرح پڑی تھی اور ملی مری ہوئی تھی اور اس نے کسی شئے کو ہلایا تک بھی نہ تھا۔اس لئے اب شرم کرنی چاہئے کہ انہوں نے حیوان ہو کر انسان کا حکم ایسا مانا اور یہ انسان ہو کر خدا تعالیٰ کے حکم کو نہیں مانتا۔ نفس کو تنبیہہ کرنے کے واسطے ایسی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور بہت سے وفادار کتے بھی مجود ہیں مگر افسوس اس کے لئے کہ جو کتے جتنا مرتبہ بھی نہیں رکھتا تو بتلادے کہ پھر وہ خدا سے کیا مانگتا ہے؟ انسان کو تو خدا نے وہ قویٰ عطا کئے ہیں کہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کئے۔شر سے پرہیز کرنے میں تو بہائم بھی اس کے شریک ہیں۔بعض گھوڑوں کو دیھکا ہے کہ چابک آقا کے ہاتھ سے گر پڑی۔تو منہ سے اٹھا کر اسے دیتے ہیں اور اس کے کہنے سے لیٹتے ہیں اور بیٹھتے ہیں اور اٹھتے ہیں اور پوری اطاعت کرتے ہیں تو یہ انسان کا فخر نہیں ہو سکتا کہ چند گنے ہوئے گناہ ہاتھ پائوں وغیرہ دیگر اعضاء کے جو ہیں ان سے بچا رہے۔جو لوگ ایسے گناہ کرتے ہیں وہ تو بہائم سیرت ہیں جیسے کتے بلیوں کا کام ہے کہ ذرا برتن ننگا دیکھا تو منہ ڈال لیا اور کوئی کھانے کی شئے ننگی دیکھی تو کھا لی۔تو ایسے انسان کتے بلی کے سے ہی ہوتے ہیں انجام کار پکڑے جاتے ہیں۔جیل خانوں میں جاتے ہیں جا کر دیکھو تو ایسے مسلمانوں سے زندان بھرے ہوئے ہیں ؎
حضرت انساں کہ حد مشترک را جامع است
می تواند شد مسیحا می تواند شد خرے
دنیا کیلئے کوشش حدِّاعتدال تک ہو
تو اب یہ موقع ہے اور خدا تعالیٰ کی لہروں کے دن ہیں یعنی جیسے بعض زمانہ خد اکی رحمت کا ہوتا ہے اور اس میں لوگ قوت پاتے ہیں۔ایسے ہی یہ وقت ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل دنیا کے کاروبار چھوڑ دیوے بلکہ ہمارا منشا یہ ہیکہ حد اعتدال تک کوشش کرے اور دنیا کو اس نیت سے کماوے کہ دین کی خادم ہو مگر یہ ہرگاز روا نہیں ہے کہ اس میں ایسا انہماک ہو جاوے کہ دین کا پہلو بھول ہی جاوے نہ روزہ کی خبر ہے نہ نماز کی۔جیسے کہ آج کل لوگوں کی حالت دیکھی جاتی ہے۔مثال کے طور پر دلی کا جلسہ ہی اب دیکھ لو جہاں کہتے ہیں کہ پندرہ لاکھ آدمی جمع ہوا ہے۔میرا تصور تو یہی ہے کہ سارے دنیا پرست ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ خد اسے نفرت دلانے والے سلاطین ہی ہیں کیونکہ یہ مثل ایک بردیوی کے ہوتے ہیں جس قدر ان کا قرب زیادہ ہوتا ہے۔اتنا ہی قلب سخت ہوتا ہے۔ہم کسی کو تجارت سے منع نہیں کرتے کہ وہ بالکل ترک کر دیوے مگر یہ کہتے ہیں کہ وہ ذرا سوچیں اور دیکھیں کہ ان کے باپ دادا کہاں ہیں؟بڑے بڑے عزیز انسان کے ہوا کرتے ہیں اور کس طرح وہ ان کے ہاتھوں میں ہی اٹھ جایا کرتے ہیں اور موت کس طرح آپس میں میں تفرقہ ڈال دیتی ہے۔
سال دیگر را کہ می داند حساب
تا کجا رفت آں کہ باما بود یار
اب طاعون کی بلا سروں پر ہے کہتے ہیں کہ اس کی معیاد ستربرس ہوا کرتی ہے ارو اس کے آگے کوئی حیلہ پیش نہیں جاتا سب (حیلے) فضول ہوا کرتے ہیں۔اور اسی لئے آتی ہے کہ خد اکے وجود کو منوا دیوے۔سو اسکا وجود برحق ہے۔اور خد اکی بلا سے سوائے خدا کے کوئی بچا نہیں سکتا۔سچا تقویٰ اختیار کرو کہ خد اتعالیٰ تم سے راضی ہو۔جب شریر کی گھوڑے کی طرح انسان ہوتا ہے تو ماریں کھاتا ہے۔اور جو خاص لوگ ہیں وہ اشارات سے چلتے ہیں جیسے سدھا ہوا گھوڑا اشارے سے چلتا ہے اور ان کو وحی اور الہام ہوتے ہیں ارو لطف کی بات یہ ہے کہ وحی کے معنے اشارہ کے بھی لکھے ہیں۔مگر جب مار کھانے کا زمانہ گذرجاتا ہے تو پھر وحی کا زمانہ آتا ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ یہ مرحلہ سہولت سے طے نہیں پاتا۔کیونکہ تقویٰ ایسی ظئے نہیں جو کہ صرف منہ سے انسان کو حاصل ہو جاوے بلکہ یہ شیطانی گناہ کا کوئی حصہ دار ہے۔اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ذرا سی شیرینی رکھ دیں تو بے شمار چیونٹیاں اس پر آجاتی ہیں۔یہی حال شیطانی گناہوں کا ہے اور اسی سے انسانی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے۔اگر خدا چاہتا تو ایسی کمزوری نہ رکھتا۔
ہر طاقت کا سرچشمہ خد اتعالیٰ ہے
مگر خدا تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ہر ایک طاقت کا سرچشمہ خد اہی کی ذات ہے۔کسی نبی یا رسول کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے طاقت دے سکے اور یہی طاقت جب خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے تو اس میں تبدیلی ہوتی ہے اس کے حاصل کرتے کے واسطے ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جاوے اور نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس مٰن کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا۔وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے۔جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے۔اس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے
دعا کے آداب
خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شئے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مد نظر رکھتے ہیں۔اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خد اتعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ
الحمد للہ رب العلمین
یعنی سب تعریف خد اکو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ الرحمن یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا۔ الرحیم یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ مالک یوم الدین جزا سزا اسی کے ہاتھ میں ہے۔چاہے رکھے چاہے مارے۔اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خد اہے جو کہ رب ہے۔رحمان۔رحیم ہے۔اسے غائب مانتا چلا آرہا ہے۔اور پھر اسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے۔
ایاک نعبد وایا ک نستعین۔اھدنا الصراط المستقیم
یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے۔اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔
‏Amira 19-5-05
پھر آگے
صراط الذین انعمت علیھم
یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔پھر
غیر المغضوب علیھم
نہ ان لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا۔اور
ولاالضالین
اور نہ ان کی جو دور جا پڑے ہیں۔
اھدنا الصراط المستقیم
سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے۔مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے۔تو جب تک اسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے۔علاج نہیں کر سکتا ۔اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے۔کہ جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔اس مقام پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیوں ضرورت تھی وہ تو پیشتر ہی سے صراط مستقیم پر ہوتے ہیں۔
تلمیذ الرحمن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
وہ یہ دعا ترقی مراتب اور درجات کے لئے کرتے ہیں بلکہ یہ
اھدنا الصراط المستقیم
تو آخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اﷲ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔؎ٰ
تقویٰ کی حقیقت
(پھر اصل مضمون تقویٰ پر فرمایا ) کہ
متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موتی باتوں جیسے زنا‘ چوری‘ تلف حقوق‘ ریا‘عجب‘حقارت‘بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔لوگوں سے مروت‘ خوشی خلقی‘ ہمدردی سے پیش آوے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔وہی اصل متقی ہوتے ہیں (یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے
لا خوف علیھم ولاھم یحزنون (البقرہ : ۶۲)
ہے۔اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے۔
وھو یتولی الصلحین (الاعراف : ۱۹۷)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے۔جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ان کے پائوں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے۔میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خد اکے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھٹ کر آتا ہے۔جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔
نماز کی اہمیت
خدا کی رحمت کے سر چشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے اس انسان کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خد اکا قدم بڑھتا ہے۔خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں۔اور اسی لئے جن پر یہ ہوتی ہیں۔ان کے لئے وہ نشان بولی جاتی ہیں۔(اس کی نظیر دیکھ لو) کہ پیغمبر خدا ﷺ پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتیٰ کہ قتل کے منصوبے کئے۔مگر آخر ناکامیاب ہی ہوئے۔خدا تعالیٰ یہ تجویز پیش کرتا ہے (اس خاص رحمت کے حضول کے واسطے جو اخلاق وغیرہ حاصل کئے جاویں تو) ان امروں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاوے نہ کہ ہمارے سامنے۔اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے۔کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں۔اور زکوٰۃ صاحب مال کو دینی پڑتی ہے۔مگر نماز ہے کہ ہر ایک (حیثیت کے آدمی) کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔اُسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اُسی سیکنڈمیں۔کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں۔اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے۔مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرھ یقین کی حاجت ہوتی ہے۔اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع‘ علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامین کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے دیوے۔بڑی تضرع سے دعا کرے۔ناامید اور بدظن ہر گز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لے گا۔اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خدو خدا بھی ملے گا تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے۔مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے۔ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خد اکو کیوں ہو۔
دعا اور ابتلاء
ایک صاحب نے عرض کی کہ بلعم باعور کی دعا کیوں قبول ہوئی تھی؟ فرمایا :-
یہ ابتلا تھا دعا نہ تھی آخر وہ مارا ہی گیا۔دعا وہ ہوتی ہے جو خدا کے پیارے کرتے ہیں ورنہ یوں تو خدا تعالیٰ ہندوئوں کی بھی سنتا ہے اور بعض ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔مگر ان کا نام ابتلا ہے دعا نہیں۔مثلاً اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا؟ اس کا وعدہ ہے۔
مامن دابۃ فی الارض الا علی اﷲ رزقھا (ھود : ۷)
کتے بلی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں۔کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے مگر
اصطفینا (فاطر : ۳۳)
کا لفظ خاص موقعوں کے لئے ہے۔
مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت
یہاں تک تقریر حضرت اقدس نے مبائعین کے واسطے کی جن میں سے ایک توشیخ نور احمد صاحب پلیڈر اور دوسرے حامد علی شاہ صاحب بدوملی تھے۔اس کے بعد حضور انور نے پھر ابو سعید عرب صاحب کو مخاطت ہو کر فرمایا کہ
آپ نے جو ثبوت مسیحیت کے دعویٰ کے بارے میں پوچھا تھا۔یہ بہت ضروری بات تھی اور اس کو خوب یاد رکھنا چاہئے۔اگر آپ سے کوئی ان ممالک (ملک برما) میں پوچھے کہ ہماری صداقت کا کیا ثبوت ہے تو مختصر طور پر یہی جواب دینا چاہئے کہ وہی ثبوت ہے جو کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اور آنحضرت ﷺ کے سچے ہونے کا ہے تمام انبیاء کی صداقت کے دو ہی ثبوت ہوتے ہیں۔اول۔کتب سابقہ میں ان کا ذکر مگر وہ استعارہ کے رنگ میں ضرور ہوتا ہے اور اس میں ایک پہلو ٹھوکر کا بھی ہوتا ہے۔جیسے یہود کو دھوکا لگا کہ آنحضرت ﷺ کو تو بنی اسرائیل میں سے آنا چاہئے تھا۔بنی اسماعئیل میں سے کیوں ہوئے۔اور پھر اسی طرح مسیح کے وقت الیاس کے منتظر رہے۔ان معاملوں میں اب تک جھگڑتے ہیں یہ سب ان کی بکواس ہے۔
اسی طرح ہمارا ذکر کتب سابقہ میں ہے۔اگر کوئی ہم سے بھی اسی طرح بکواس سے جھگڑا کرے تو انہیں میں سے ہوگا۔
دوسرا ثبوت نشانات ہیں جن سے بہت صفائی سے استنباط ہوتا ہے وہی ثبوت ہمارے ساتھ بھی ہیں اور جس قاعدہ سے خدا تعالیٰ نے یہ نشانات دکھلائے ہیں اگر اسی طرح شمار کریں تو یہ بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ
یاتون من کل فج عمیق
اور
یاتیک من کل ھج عمیق
کی تحت میں آکر ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے ہر ایک ہدیہ اور نذر جو پیس ہوتی ہے ایک ایک نشان الگ الگ ہے مگر ہم نے صرف ایک سو پچاس نشان نزول المسیح میں درج کئے ہیں۔جن کے ہزارہا گواہ موجود ہیں۔پھر دیکھو یہ کس وقت کی خبر ہے۔قرآن کے نصوص‘ حدیث کی اخبار اور مکاشفات اور رویاء وغیرہ سب ہماری تائید میں ہیں’پھر اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نشانات۔پھر زمانہ کی موجودہ ضرورت‘ یہ سب ثبوت پیش کرنے کے قابل ہیں۔اس وقت خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ لوگوں کو غلطیوں سے نکالے اور تقویٰ پر قائم کرے۔خدا تعالیٰ جس کو چاہے گا بلا تا جاوے گا۔یہ اس کی طرف سے ایک دعوت ہے جو بلایا جاتا ہے۔اسے فرشتے کھینچ کھینچ کر لے آتے ہیں۔؎ٰ
۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
مولوی ثناء اﷲ صاحب کا قادیان آنا
عصر کے وقت خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر ہوئی کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری قادیان آئے ہوئے ہیں مگر آپ نے اس کے متعلق صرف یہی فرمایا کہ ہازروں لوگ راہرو آتے ہیں ہمیں اس سے کیا؟
مغرب کی نماز باجماعت ادا کر کے جب حضرت اقدس دولت سرا کو تشریف لے چلے تو ایک شخص نے ہاتھ میں قلم دوات لئے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں کچھ کاغذات پیش کئے۔اس قلم دوات سے اس کی یہ غرض تھی کہ حضرت سے رقعہ کی رسید لے مگر حضرت نے توجہ نہ کی اور اس کے وہ کاغذات لے کر تشریف لے گئے اور جب عشاء کی نماز کے واسطے تشریف لائے تو فرمایا کہ
ایک ہی مضمون کے دو رقعے مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے پہنچے ہیں۔نہ معلوم دو رقعوںکی کیا غرض تھی۔
اس وقت یہ عقدہ حل ہوا کہ غالباً دوسرا رقعہ دستخط یعنی رسید رقعہ لینے کی غرض سے تھا۔مگر قاصد کو رسید مانگنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ رقعہ اس وقت سید سرور شاہ صاحب کے حاوالہ کیا گیا۔کہ وہ اسے پڑھ کر اہل مجلس کو سنا دیویں۔
اس کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا :-
ہم تیار ہیں وہ ہفتہ عشرہ آرام سے سب باتیں سنے اور اگر اس کا منشاء مباحثہ کا ہو تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ اب مدت ہوئی کہ ہم مباحثات کو بند کر چکے ہیں۔اگر اس کو طلب حق کی ضرورت ہے تو وہ رفق اور آہستگی سے اپنی غلطی دور کروائے۔طالب حق کے لئے ہمارا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ہاں جو شخص ایک منٹ رہ کر چلا جانا چاہتا ہے اور اسے فتح اور شکست اور ہار اور جیت کا خیال ہے وہ مستفید نہین ہو سکتا۔بجز ایسے شخص کے جو نیک نیت بن کر آوے ہم تو دوسرے کے ساتھ کلام کرنا بھی تضیع اوقات خیال کرتے ہیں۔ہمیں تعجب ہے کہ وہ کیوں گھمار کے ہاں جا کر اترے۔چاہئے تھا کہ مستفیدوں کی طرح آتا اور ہمارے مہمان خانہ میں اترتا۔
پھر فرمایا۔ہم اس رقعہ کا صبح کو جواب دیں گے۔
اس کے بعد حضرت اقدس نماز سے فارغ ہو کر تشریف لے چلے تو ثناء اﷲ صاحب کے قاصد نے آوازدی کہ حضرت جی۔مولوی ثناء اﷲ صاحب کے رقعہ کا کیا جواب ہے حضرت نے فرمایا کہ صبح کو دیا جائے گا۔
قاصد نے کہا کہ میں آکر جواب لے جائوں یا آپ بذریعہ ڈاک روانہ کریں گے۔حضرت اقدس نے فرمایا۔خواہ تم آکر لے جائو خواہ ثناء اﷲ آکر لے جاوے۔پھر آپ نے قاصد کا نام پوچھا ۔اس کہا محمد صدیق۔؎ٰ
۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز یکشنبہ
مولوی ثناء اﷲ کے رقعہ کا جواب
فجر کی نماز کو جب حضرت اقدس تشریف لائے تو قبل از نماز آپ نے وہ رقعہ جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کے رقعہ کے جواب میں تحریر فرمایاتھا۔احباب کو سنایا۔وہ رقعہ یہ تھا۔
بسم اﷲ الرحمن الرحم نحمدہ ونصلی علی رسو لہ الکریم
از طرف عایذ باﷲ الصمد غلام احمد عافاہ اﷲ واید
بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب۔
آپ کا رقعہ پہنچا۔اگر آپ لوگوں کی صدق دل سے یہ نیت ہو۔کہ اپنے شکوک و شبہات پیشگوئیوں کی نسبت یا ان کے ساتھ اور امور کی نسبت بھی جو دعویٰ سے تعلق رکھتے ہوں‘ رفع کروایں تو یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہوگی اور اگر چہ میں کئی سال ہوئے کہ اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں۔کہ میں اس گروہ مخالف سے ہرگز مباحثات نہ کروں گا کیونکہ اس کا نتیجہ بجز گندی گالیوں اور اوباشانہ کلمات سننے کے اور کچھ نہیں ہوا مگر میں ہمیشہ طالب حق کے شبہات دور کرنے کے لئے تیار ہوں۔اگر چہ آپ نے اس رقعہ میں دعویٰ تو کر دیا ہے کہ طالب حق ہوں مگر مجھے تامل ہے کہ اس دعویٰ پر آپ قائم رہ سکیں۔کیونکہ آپ لوگوں کی عادت ہے کہ ایک بات کو کشاں کشان بے ہودہ اور مباحثات کی طرف لے آتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے مباحثات ہرگز نہیں کروںل گا۔سو وہ طریق جو مباحثات سے بہت دور ہے کہ آپ اس مرحلہ کو صاف کرنے کے لئے اول یہ اقرار کریں کہ آپ منہاج نبوت سے بہر نہیں جائیں گے۔اور وہی اعتراض کریں گے جو آنحضرت ﷺ پر یا حضرت عیسیٰ ؑ پر یا حضرت موسیٰ ؑپر یا حضرت یو نسؑ پر عائد نہ ہوتا ہو اور حدیث اور قرآن شریف کی پیشگوئیوں پر زد نہ ہو۔دوسری شرط یہ ہوگی کہ آپ زبانی بولنے کے مجاز نہ ہوں گے۔صرف آپ مختصر ایک سطر یا دوسطر تحریر دے دیں گے کہ میرا یہ اعتراض ہے۔پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا۔اعتراض کے لئے لمبا لکھنے کی ضرورت نہیں ایک سطر یا دو سطر کافی ہیں۔تیسری یہ شرط ہوگی‘ کہ ایک دن میں صرف ایک ہی آپ اعتراض پیش کریں گے کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے۔چوروں کی طرح آگئے ۔اور ہم ان دنوں بباعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹہ سے زیادہ صرف نہیں کرسکتے۔یاد رہے کہ یہ ہرگز نہ ہوگا کہ عوام کا لانعام کے روبرو آپ واعظ کی طرح ہم سے گفتگو شروع کر دیں بلکہ آپ نے بالکل منہ بند رکھنا ہوگا۔جیسے صم بکم ۔یہ اس لئے کہ تا گفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہو جاوے۔اور صرف ایک پیشگوئی کی نسبت سوال کریں۔میں تین گھنٹہ تک اس کا جاوب دے سکتا ہوں اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کو متنبہ کیا اجوے گا۔کہ اگر ابھی تسلی نہیں ہوئی تو اور لکھ کر پیش کرو۔آپ کا کام نہیں ہوگا کہ اس کو سناویں ہم خود پڑھ لیں گے۔مگر چاہئے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو۔اس طرز میں آپ کا کچھ حرج نہیں ہے کیونکہ آپ تو شبہات دور کرانے آئے ہیں۔یہ طریق شبہات دور کرانے کا بہت عمدہ ہے۔میں باواز بلند لوگوں کو سنادوں گا کہ اس پیشگوئی کی نسبت مولوی ثناء اﷲ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہے اور اس کا یہ ئواب ہے۔اس طرح تمام وساوس دور کر دیئے جائیں گے۔لیکن اگر چاہو کہ بحث کے رنگ میں آپ کو بات کا موقعہ دیا جاوے تو ہر گز نہ ہوگا۔۱۴؍جنوری ۱۹۰۳ء تک میں اس جگہ ہوں۔بعد میں ۱۵؍جنوری کو ایک مقدمہ پر جہلم جائوں گا۔سو اگر چہ بہت کم فرصتی ہے۔لیکن ۱۴؍جنوری تک آپ کے لئے تین گھنٹے تک خرچ کر سکتا ہوں۔اگر آپ لوگ کچھ نیک نیتی سے کام لیویں تو یہ ایسا طریق ہے کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ورنہ ہمارا اورآپ لوگوں کا آسمان پر مقدمہ ہے خود خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا۔والسلام علی من اتبع الہدی۔سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ بذریعہ تحریر جو سطر دو سطر سے زیادہ نہ ہوایک ایک گھنٹہ کے بعد اپنا شبہ پیش کرتے جاویں گے اور میں وہ وسوسہ دور کرتا جائوں گا۔ایسے ہی صدہا آدمی آتے ہیں اور وسوسہ دور کرا لیتے ہیں۔ ایک بھلا مانس شریف آدمی ضرور اس ابات کو پسند کرے گا۔اس کو وساوس دور کرانے ہیں اور کچھ غرض نہیں۔لیکن وہ لوگ جو خدا سے نہیں ڈرتے ان کی تو نیتیں ہی اور ہوتی ہیں۔
میرزا غلام احمد
اور فرمایا کہ
یہ طریق بہت امن کا ہے۔اگر یہ نہ کیا جاوے تو بدامنی اور بد نتیجہ کا اندیشہ ہے۔
پھر فرمایا کہ
ایک رئویا
ابھی حجر کو میں نے ایک خواب دیکھا۔
کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے۔اس کے ایک طرف کچھ اشتہار ہے اور دوسری طرف ہماری طرف سے کچھ لکھا ہوا ہے جس کا عنوان یہ ہے
یقیۃ الطاعون
اس کے بعد فجر کی نماز ہوئی تو حضرت اقدس نے قلم دوات طلب فرمائی اور فرمایا کہ تھوڑا سا اور اس رقعہ پر لکھنا ہے۔
اتنے میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کے قاصد پھرآموجود ہوئے اور جواب طلب کیا۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ ابھی لکھ کر دیا جاتا ہے۔
پھر بقیہ حصہ آپ نے لکھ کر اپنے خدام کے حوالہ کیا کہ اس کی نقل کر کے روانہ کردو۔
وہ حصہ رقعہ کا یہ ہے۔
’’بالا آخر اس غرض کے لئے اب آپ اگر شرافت اور ایمان رکھتے ہیں تو قادیان سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جاویں۔
دو قسموں کا ذکر ہوتا ہے (۱) اول چونکہ میں انجام آتھم میں خد اسے قطعی عہد کر چکا ہوں کہ ان لوگوں سے قطعی بحث نہیں کروں گا۔اس وقت پھر اسی عہد کے مطابق قسم کھاتا ہوں کہ میں زبانی آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا۔صرف آپ کو یہ موقعہ دیا جاوے گا کہ آپ اول ایک اعتراض جو آپ کے نزدیک سب سے بڑا عتراض کسی پیشگوئی پر ہوایک سطر یا دو سطے یا حد تین سطے تک لکھ رک پیش کریں جس کا یہ مطلب ہو کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی اور منہاج نبوت کی رو سے قابل اعتراض ہے اور پھر چپ رہیں اور میں مجمع عام میں اس کا جواب دوں گا جیسا کہ مفصل لکھ چکا ہوں۔پھر دوسرے دن دوسری پیشگوئی اسی طرح لکھ کر پیش کریں۔یہ تو میری طرف سے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جائوں گا اور کوئی زبانی بات نہیں سنوں گا اور آپ کی مجال نہیں ہوگی کہ کوئی کلمہ بھی زبانی بول سکیں اور آپ کو بھی خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ سچے دل سے آئے ہیں تو اس کے پابندہ ہو جاویں اور ناحق فتنہ و فساد میں عمر بسر نہ کریں۔اب ہم دونو میں سے ان دونو قسموں میں سے جو شخص اعراض کرے گا اس پر خدا کی *** ہو اور خدا کرے کہ وہ اس *** کا پھل بھی اپنی زندگی میں دیکھ لے۔آمین۔سو میں دیکھوں گا کہ آ؁ سنت نبویہ کے موافق اس قسم کو پورا کرتے ہیں یا قادیان سے نکلتے ہوئے اس *** کو ساتھ لے جاتے ہیں چاہئے کہ اول آپ اس عہد موکد قسم کے آج ہی ایک اعتراض دو تین سطے کا لکھ کر بھیج دیں اور پھر وقت مقرر کر کے مسجد میں مجمع کیا جائے گا۔اور آپ کو بتلا یا جاوے گا اور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وساوس دور کر دئے جائیں گے‘‘۔
رقعہ دے کر آپ تشریف لے گئے اور اندر سے حضور نے کہلا بھیجا کہ رقعہ وہاں ان کو جا کر سنا دیا جاوے اور پھر ان کے حوالہ کیا جاوے۔
چنانچہ یہ رقعہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کو پہنچا دیا گیا۔تھوڑے عرصہ کے بعد پھر مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے جواب الجواب آیا۔؎ٰ
‏Amira 23-5-05
یہ نا معقول اور اصل بحث سے بالکل دور جواب سنکر حضرت اقدس کو بہت رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ
ہم نے جو اسے خدا کی قسم دی تھی اس سے فائدہ اٹھاتا یہ نظر نہیں آتا۔اب خد اکی *** لے کر واپس جانا چاہتا ہے۔جس بات کو ہم بار بار لکھتے ہیں کہ ہم مباحثہ نہیں کرتے جیسا کہ ہم انجام آتھم میں اپنا عہد دنیا میں شائع کر چکے ہیں۔تو اب اس کا منشا ہے کہ ہم خدا کے اس عہد کو توڑدیں۔یہ ہرگز نہ ہوگا۔اور پھر اس رقعہ میں کس قدر افتراع سے کام لیا گیا ہے کیونکہ جب ہم اسے اجازت دیتے ہیں کہ ہر ایک گھنٹہ کے بعد وہ دو تین سطریں ہماری تقریر پر اپنے شبہات کی لکھ دیوے تو اس طرح سے خواہ اس کی دن میں تیس سطور ہو جاویں ہم کب گریز کرتے ہیں اور خواہ ایک ہی پیشگوئی پر وہ ہم سے دس دن تک سنتا رہتا اور اپنے وساوس اس طرز سے پیش کرتا رہتا۔اسے اختیار تھا۔پھر ایک دوسرا جھوٹ یہ بولا ہے۔کہ لکھتا ہے کہ آپ مجمع پسند نہیں کرتے۔بھلا ہم نے کب لکھا ہے کہ ہم مج۶مع پسند نہیں کرتے بلکہ ہم تو عام جلسہ چاہتے ہیں۔کہ تمام قادیان کے لوگ اور دوسرے بھی جس قدر ہوں جمع ہوں تا کہ ان لوگوں کی بے ایمانی کھلے کہ کس طرح یہ لوگوں کو فریب دے رہے ہیں۔اگر اسے حق کی طلب ہوتی تو اسے ہمارے شرائط ماننے میں کیا عذر تھا مگر یہ بدنصیب واپس جاتا نظر آتا ہے۔
پھر مولوی محمد احسن صاحب کو حضور نے فرمایا کہ
آپ اس کا جواب لکھ دیں مجھے فرصت نہیں۔میں کتاب لکھ رہا ہوں۔
یہ کہہ کر حضور تشریف لے گئے اور مولوی محمد احسن صاحب نے رقعہ کا جواب تحریر فرمایا اس کے بعد کوئی جواب مولوی ثناء اﷲ صاحب کی طرف سے نہ آیا۔اور وہ قادیان سے چلے گئے۔؎ٰ
۱۲؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز دوشنبہ
اﷲ تعالیٰ کے راستے میں زمین دینے کا ایک طریق
ظہر کے وقت ایک شخص نے حصرت اقدس سے عرض کی کہ میرے پاس کچھ زمین ہے۔
مگر ایک عرصہ سے اس کی آبادی کی کوشش کرتا ہوں۔لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوتی۔اس لئے اب ارادہ ہے کہ اسے خدا کے نام پر احمدیہ مشن کی خدمت میں وقف کردوں۔شاید اﷲ تعالیٰ اس میں آبادی کردے اور وہ دین کی راہ میں کام آوے۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ
آپ کی نیت کا ثواب تو خدا تعالیٰ آپ کو دے گا لیکن آپ خود وہاں جا کر آبادی کریں اور اخراجات کاظت وغریہ نکال کر پھر جو کچھ اس میںسے بچا کرے وہ اﷲ کے نام پر اس سلسلہ میں دے دیا کریں۔ ۲؎
۱۳؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز سہ شنبہ
نمازِ فجر کے وقت
ابو سعید عرب صاحب نے عرض کی کہ چونکہ جناب نے جمعرات کو روانہ ہونا ہے۔اور آدمی زیادہ ہوں گے اس لئے ریلوے کمروں کو ریزرو کرو ا لینے سے آرام ہوگا۔
حضرت صاحب نے فرمایا کہ
ہاں۔یہ امر مناسب ہے کہ تکلیف نہ ہو۔
الٰہی جماعتوں میں ارتداد
خاکسار ایقیٹر نے مولوی جمال دین صاحب سید والہ کی طرف سے عرض کی کہ ایک حافظ نے ان کو بلا کر بہت ناجائز دھمکیاں دی ہیں۔اور کچھ آدمی جو بیعت میں داخل تھے ان کو بہکا کر بیعت سے توبہ کروائی ہے۔مولوی صاحب نے درخواست کی ہے کہ دعا کی جائے کہ خد اان کو نیچا دکھاوے۔
فرمایا :- مرتد ہونا یہ بھی ایک سنت اﷲ ہے۔موسیٰ علیہ السلام کے وقت مین بھی مرتد ہوئے۔ آنحضرت ﷺ کے وقت بھی مرتد ہویء اور عیسیٰ ؑکے وقت کا تو ارتداد ہی عجیب ہے۔
خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ایک جائے گا تو وہ اس کے بدلے میں ایک جماعت دے دیگا۔
مواہب الرحمٰن کی اشاعت
چونکہ آج کل رات دن ایک عربی کتاب برائے تبلیگ زیر طبع ہے۔پروف کی صحت پر اور اس کے پروف وغیرہ دیکھے جانے میں صرف اس لئے کمال احتیاط سے کام لیا جاتا ہے کہ فرقہ مولویوں نے اب ہر قسم کی بددیانتی غلط بیانی کو حضرت میرزا صاحب کے مقابلے میںجائز رکھا ہوا ہے۔پروف کی صحت پر فرمایا کہ
ان لوگوں کو کیا علم ہے کہ ہم کس طرخ راتوں کو کام کر کرکے کتابیں چھپواتے ہیں اور پھر اگر پریسمین کی ذرا سی غلطی رہ جاوے تو ان لوگوں کو اعتراض کا موقعہ مل جاتا ہے۔حالانکہ خود محمد حسین نے میرے سامنے ایک دفعہ اشاعت الستنہ کی ثھپوائی پر اعتراف کیا کہ ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔لیکن ان لوگوں کی حالت مسخ شدہ ہے کہان سے کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔
کمرہ گرم کرنے کے متعلق ہدایت
حضرت اقدس نے ظہر کے وقت سید فضل شاہ صاحب کو یہ فرمایا کہ
آپ کا کمرہ بہت تاریک رہتا ہے اور ا س میں نم بھی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔اآج کل وبائی دن ہٰں۔رعایت اسباب کے لحاظ سے ضروری ہے کہ وہاں آگ وغیرہ جلا کر مکان گرم کر لیا کریں۔
کتاب مواہب الرحمٰن
مغرب کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے طبع کی نسبت فرمایا کہ
امید ہے کہ یہ معجزہ کی طرح پھرے گی اور دلوں میں داخل ہوگی۔اول و آخر کے سب مسائل اس میں آگئے ہیں۔خدا کی قدرت ہے۔دیر کا باعث ایک یہ ہو جاتا ہے کہ لغات جو دل میں آتے ہیں پھر ان کو کتب لغت میں دیکھنا پڑتا ہے۔میرا دل اس وقت گواہی دیتا ہیکہ اندر فرشتہ بول رہا یہ۔جب مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہوں گے تو ان کا بھی ایسا ہی حال ہوگا کیونکہ وہ بھی ہماری تائید میں ہی ہے۔رات آدھی رات جب تک مضمون ختم نہ ہولے۔جاگتا رہوں گا۔؎ٰ
۱۴؍جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز چہار شنبہ
فجر کے وقت فرمایا کہ
میں کتاب تو ختم کر چکا ہوں۔رات آدھی رات تک بیٹھا رہا۔نیت تو ساری رات کی تھی مگر کام جلدی ہی ہو گیا۔اس لئے سو رہا۔اس کا نام مواہب الرحمٰن رکھا ہے۔
ایک سَقہ کی وفات اور اس پر الہام کا انطباق
ایک سقہ جو کہ حضرت اقدس کے ہاں پانی بھراکرتا تھا وہ ایک ناگہانی موت س یمر گیا۔اور اسی دن اس کی شادی تھی۔اس کی موت پر آپ نے فرمایا کہ مجھے خیال آیا کہ
قتل خیبۃ وزید ھیبۃ
جو وحی ہوئی تھی وہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔؎ٰ
۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
خدا کے کام کیلئے جاگنا جہاد ہے
فٔر کے وقت فرمایا کہ
رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت علیل تھی وہ بیھ جاگتے رہے۔وہ اس وقت تشریف نہیں لا سکیں گے۔یہ بیھ ایک جہاد ہی تھا۔رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہاو کرتا ہے مگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خد اکے کام میں گزارے۔ایک صحابی کا ذکر ہے کہ وہ جب مرنے لگے تو روتے تھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا موت کے خوف سے روتے ہو تو کہا موت کا کوئی خوف نہین مگر یہ افسوس ہے کہ یہ وقت جہاد کا نہیں ہے۔جب جہاد کیا کرتا تھا۔اگر اس وقت یہ موقعہ ہوت ا۔تو کیا خوب تھا۔
فرمایا کہ
میرع اعضاء توبے شک تھک جاتے ہیں مگر دل نہیں تھکتا۔وہ چاہتا ہے کہ کام کئے جائو۔
مولوی ثناء اﷲ کا ذکر
بابو شاہ دین صاحب نے ثناء اﷲ کے آنے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ
آخر *** لے کر چلا گیا اور جو منصوبہ وہ گھڑکے لایا تھا۔اس میں اسے کامیابی نہ ہوئی ہم نے اس کا ذکر اور جواب وغیرہ اس عربی کتاب میں کر دیا ہے۔اب جہلم سے واپس آکر بشرط فرصت اردو میں لکھیں گے۔؎ٰ
۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء؁٭
دعا اور اس کے آداب
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بوقت سیر مندرجہ ذیل تقریر فرمائی (ایڈیٹر الحکم)
دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں۔بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آداب دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں۔کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں۔اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں۔ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے۔دعا کے لئے سب سے اول اس مار کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے۔اور اﷲ تعالیٰ پر یہ سوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔بعض اوقات دیکھ اگیا ہے کہ اس قدر دعا کی گئی کہ جب مقصد کا شگوفہ سر سبر ہونے کے قریب ہوتا ہے۔دعا کرنے والے تھک گئے ہیں۔جس کا نتیجہ ناکامی اور نامرادی ہو گیا ہے۔اور اس نامرادی نے یہاں تک برا اثر پہنچایا کہ دعا کی تاثیرات کا انکار شروع ہوا۔اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ پھر خد اکا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں۔اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دعائوں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دعائیں کی گئی کیوں کر قبول نہ ہوئیں؟ مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھوکر کھانے اوالا انسان اگر اپنے عدم استقلال اور تلوّن کو سوچے تو اسے معلوم ہو جائے کہ ساری نامرادیاں اس کی اپنی ہی جلد بازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہین’جب پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامراد کرنے والی مایوسی بڑھ گئی۔پس کبھی تھکنا نہیں چاہیئے۔
دعا کی ایسی ہی حالت ہے ۔جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے۔اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا ۔اس وقت کوئی کای سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشونما پا کر پھل لائے گا۔باہر کی دنای اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا۔دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا۔مگر ظہار بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اس کا طبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔وہ یہ چاہتا ہے۔کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا۔مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے ۔وہ صبر سے ان کی نگرانی کرتا اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہے۔ارو اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہیکہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے یہی حال دعا کا ہے اور بعینہ اسی طرح دعا نشونما اور مثمربثمرات ہوتی ہے۔جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور پبر کرنے والے مال اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔
قبولیتِ دعا کیلئے صبر اور محنت کی ضرورت
یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جب کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کر سکتے ۔حالانکہ خد اتعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے۔
دیکھو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے۔پہلے نباتات کی نشونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا۔چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔پھر کچھ حکرت محسوس ہونے لگتی ہے۔اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔بچہ کا پیدا ہونا مان کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے۔مرد شاید ان تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کر سکیں جو اس مدت حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھیایک نئی زندگی ہوتی ہے۔اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے۔تب کہیں جا کر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے۔اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلون اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے۔اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔آخر آنے والا زمانہ آجاتا ہے۔دعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جبکہ گویا مراد کا بچہ پید اہوتا ہے۔دعا کو پہلے ضروری ہیکہ اس مقام اور حدتک پہنچایا جاوے۔جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپرا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعائیں اس شیشہ پر آکر جمع ہوتی ہیں اور ان حرارت اور حدت اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے۔پھر یکا یک وہ کپڑا جل اٹھتا ہے۔اس طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہنچے ۔جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نامرادیوں کو جلادے اور مقصد مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے
پیدا است ندلا را کہ بلند است جنابت
مدت دراز تک انسان کو دعائوں میں لگے رہنا پڑتا ہے۔آخر خدا تعالیٰ ظہار کر دیتا ہے۔میں نے اپنے تجربہ سے دیھکا ہے اور گذشتہ راستبازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملاہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے لیکن جس امر میں جلد جواب مل جاتا ہے وہ ہونے والا نہیں ہوتا۔عام طور پر ہم دنیا مٰں دیکھتے ہیں۔کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت اضطراب ارو عاجزی سے مانگتا ہے اور کچھ دیر تک جھڑکیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آرخ اس کو بھی کچھ شرم آہی جاتی ہے۔خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو۔پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے۔تو کیا دعا کرنے والے کا ایک معمولی سائل جتنا بھی استقلال نہیں ہونا چاہئے؟ خدا تعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا۔جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ پیدا کیوں نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوائی کھالے تو اس وکت کیا بچا پیدا ہوگا۔یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہوگی؟اسی طرح جو شخص قبل ازوقت جلدی کرتا ہے۔وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچ جاتا ہے۔بعض ایسی حالت میں دہریہ ہو جاتے ہیں۔ہمارے گائوں میں ایک نجار تھا۔اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مر گئی۔اس نے کہا اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دعائیں کیں تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مرتی۔اس طرح پر وہ دہریہ ہو گیا۔لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اس کا ایمان بڑھتا اور سب کچ ہو بھی جاتا ہے زمین کی دولتیں خدا تعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں۔وہ ایک دم میں سب کچھ رک سکتا ہے۔کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنا دیا۔اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیا۔اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا۔انسان اگر تقویٰ اختیار کرے۔خدا تعالیٰ کا ہو جاوے تو دنای میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو۔مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جواں مرد ہو کر دکھائے۔دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاکاری و شرک کی نہ ہو۔
ابراہیم علیہ السالم میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابو الملت اور ابو الخفاء قرار دیا۔اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں، کہ شمار میں نہیں آسکتیں یہی صدق اور اخلاص تھا۔
دیکھو ابراہیم ؑ نے ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو۔پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہو گئی؟ ابراہیم ؑ کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا۔لیکن رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔
عبادات میں جسم اور روح کی شمولیت ضروری ہے
ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھادیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں ۔جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے۔اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔اس لئے قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا
لن ینال اﷲ لحومھا ولا دما و ھا ولکن ینا لہ التقوی منکم (الحج : ۳۸)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیان کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنثتا ہے۔حقیقت میں خد اتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتااہتا ہے۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت کیا ہے؟اس کا جاوب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم س یخدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔روح اور جسم کا باہم خد اتعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا۔اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آہی جاتی ہے۔اسے طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں۔مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا۔اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے۔اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے۔اگر چہ خد انرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا۔مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے۔اس لئے نماز میں آخر ی مقام سجدہ کا ہے۔جب انسان نیاز مندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے۔جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے۔کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے پائوں پر اپنا سر رکھ دیتے ہٰں۔اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں۔اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خہاص تعلق ہے ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو اجتا ہے۔جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں ارو آنسو اور پرمردگی ظاہر ہوتی ہے۔اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کے لئے ایک انجن ہے۔اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے۔
غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونو برابر چلتے ہیں۔روح میں جب عاجزی پید اہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔اگر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے۔مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیا زمندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے۔
عبادات میں لذت اور راحت
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذت نہیں آتی۔مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے۔ایسا ہوت اہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے۔دیکھو ٹرانسوال (اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی (ایڈیٹر الحکم) میں جو لوگ لڑتے ہیں۔باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں۔اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔؎ٰ
ان کو قومی حمیت اور پاسداری موت کے منہ میں خوشی کے ساتھ لے جاتی ہے۔ادھر قوم ان کی محنتوں اور جانفشانیوں کی قدر کر رہی ہے۔جبکہ اغراض قومی متحد ہیں۔پھر ان کی محنتوں کی قدر کیوں ہوتی ہے؟ ان کے دکھ اور تکالیف کی وجہ سے۔ان کی محنت اور جانفشانی کے باعث۔
غرض ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے۔اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے۔
ان مع العسر یسرا ( الم نشرح : ۷)
اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی۔ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضرری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں۔ جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اٹھائیگا۔وہی تبدیل صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے۔میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اٹھانے کا دعویٰ کرے۔
عبادات میں تکلیف برداشت کرنے کی حقیقت
قرآن شریف میں
لا یکلف اﷲ نفسا الا وسعھا (البقرہ : ۲۸۷)
آیا ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں ہے۔جس میں پڑ کر انسان اپنے ہاتھ سکھا لے یا اپنی دوسری قوتوں کو بیکار چھوڑدے یا اور قسم قسم کی تکالیف شدیدہ میں اپنی جان کو ڈالے۔عبادت کے لئے دکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رکے جو عبادت کی لذت کو دور کرنے والے ہیں۔ اور ان سے رکنے میں اولاً ایسی ضرور تکلیف محسوس ہوگی۔اور خد اتعالیٰ کی ناراضامندیوں سے پرہیز کرے۔مثلاً ایک چور ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ چوری چھوڑے بدکار ہے تو بدکاری اور بد نظری چھوڑے… اسی طرح نشوں کا عادی ہے تو ان سے پرہیز کرے۔اب جب وہ اپنی محبوب اشیاء کو ترک کرے گا۔تو ضروری ہے کہ اول اول سخت تکلیف اٹھاوے مگر رفتہ رفتہ اگر استقلال سے وہ اس پر قائم رہے گا تو دیکھ لے گا کہ ان بدیوں کے چھوڑنے میں جو تکلیف اس کو محسوس ہوتی ہے۔وہ تکلیف اب ایک لذت کا رنگ اختیار کرتی جاتی ہے۔کیونکہ ان بدیوں کے بالمقابل نیکیاں آتی جائیں گی اور ان کے نیک نتائج جو سکھ دینے والے ہیں وہ بھی ساتھ ہی آئیں گے۔یہاں تک کہ وہ اپنے ہر قول و فعل میں جب خدا تعالیٰ ہی کی رضا کو مقدم کرلے گا اور اس کی ہر حرکت اور سکون اﷲ ہی کے امر کے نیچے ہوگی تو صاف اور بیّن طور پر وہ دیکھے گا کہ پورے اطمینان اور سکینت کا زالے رہا ہے۔یہ وہ حالت ہوتی ہے۔جب کہا جاتا ہے کہ
لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (البقرہ : ۶۳)
اسی مقام پر اﷲ تعالیٰ کی ولایت میں آتا ہے اور ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آجاتا ہے۔
یاد رکھو کہ جب انسان خد اتعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خد اکی نظر میں مکروہ اور اس کے منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا ثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہییہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانہ الوہیت پر بے اختیار ہو کر گر پڑتی ہے یہ طریق ہے عبادت میں لذت حاصل کرنے کا۔
تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنی عبادت میں لذت کا یہ طریق سمجھتے ہیں کہ کچھ گیت گا لئے یا باجے بجا لئے اور یہی اس کی عبادت ہوگی۔اس سے دھوکا مت کھائو۔یہ باتیں نفس کی لذت کا باعث ہوں تو ہوں مگر روح کے لئے ان میں لذت کی کوئی چیز نہیں ان سے روح میں فروتنی اور انکساری کے جو ہر پیدا نہیں ہوتے اور عبارتکا اصل منشاء گم ہو جاتا ہے۔طوائف کی محفلوں میں بھی ایک آدمی ایسا مزا حاصل کرتا ہے تو کیا وہ عبادت کی لذت سمجھی جاتی ہے؟ یہ باریک بات ہے جس کو دوسری قومیں سمجھ ہی نہیں سکتیں کیونکہ انہوں نے عبادت کی اصل غرض اور غایت کو سمجھا ہی نہیں۔
اسلام میں رہبانیت پسندیدہ نہیں
قرآن شریف سے پہلے دو قومیں تھیں۔ایک براہمہ کہلاتی تھی جو رہبانیت کو پسند کرتی تھی اور اپنی زندگی کا اصل منشا یہی سمجھ بیٹھے ہوئے تھے۔عیسائی قوم میں بھی ایسے لوگ تھے جو راہب ہونا پسند کرتے تھے اور ہوتے تھے رومن کتھولک۔عیسائیوں میں اب تک ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ طریق ان میں جاتی ہے کہ وہ راہبانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔مگر اب ان کی رہبانیت اس حد تک ہی ہے کہ وہ شادی نہیں کرتے ورنہ ہر طرح عیش و عشرت اور آرام کے ساتھ کوٹھیوں میں رہتے اور مکلف لباس پہنتے اور عمدہ کھانے کھاتے ہیں اورجس قسم کی زندگی وہ بسر کرتیہیں۔عام لوگ جانتے ہیں ۔مگر میری مراد رہبانیت سے اس وقت یہی ہے کہ وہ فرقہ جو اپنے آپ کو تعذیب بدن میں ڈالتا تھا اور دوسرا فرقہ ان کے مقابل وہ تھا جو اباحت کی زندگی بسر کرتا تھا۔اسلام جب آیا تو اس نے ان دونو کو ترک کیا اور صراط مستقیم کو اختیار کیا۔اس نے بتایا کہ انسان نہ رہبانیت اختیار کرے جس س یوہ نفس کش ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کو بالکل بیکار چھوڑ دے اور اس طرح پر ان اخلاق فاضلہ کے حصول سے محروم ہو جاوے۔جو ان قوتوں کے اندر ودیعت کئے گئے ہیں کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ جس قدر قوتیں انسان کود ی گئی ہیں یہ سب کی سب دراصل اخلاقی قوتیں ہیں۔غلط استعمال کی وجہ سے یہ اخلاق بداخلاقیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔اس لئے اسلام نے رہبانیت سے منع کیا اور فرمایا کہ
لا رھبانیۃ فی الاسلام۔
اباحت
اسلام چونکہ انسان کی کامل تربیت چاہتا ہے اور اس کی ساری قوتوں کا نشونما اس کا مقصد ہے۔اس لیء اس نے جائز نہیں رکھا کہ وہ طریق اختیار کیا جاوے جو انسان کی بے حرمتی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی توہین کرنے والا ٹھہر جاوے اور پھر اسلام کا منشاء یہ ہے کہ وہ انسان کو افراط و تفریط کی راہوں سے اس اعتدال کی راہ پر چلاوے جو صراط مستقیم ہے ۔اس لیء اس نے اباحت کے مسئلہ کی بھی تردید کی جو دوسرا فرقہ تھا جو قرآن شریف س یپہلے موجود تھا۔وہ سب کچھ جائز سمجھتا تھا رو آزادی اور بے قیدی میں اپنی زندگی بسر رکتا تھا۔ساری راحتوں اور لذتوں کی معراج سمجھتا تھا۔مگر اسلام نے اس کو رد کیا اور انسان کو بے قید بنانا نہ چاہا کہ وہ نماز کی ضرورت سمجھے ۔نہ روزہ کی۔غرض کسی پابندی کے یچے ہی نہ رہے۔اور ایک وحشی جانور کی طرح مارا مرا پھرے۔اب تک بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ہ وجودی مذہب جو بدقسمتی سے پھیلا ہوا ہے دراصل ایک اباحتی فرقہ ہے اور نماز روزہ کی کیوئی ضرورت نہیں سمجھتا اور ممنوعات اور محرمات س پرہیز نہیں کرتا۔اسی لئے اسلام نے یہ بھی جائر نہ رکھا۔
عقیدہ کفارہ کے نقصانات
رہبانیت اور اباحت انسان کو اس صدق اور وفا سے دور رکھتے تھے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔اس لئے ان سے الگ رکھ کر اطاعت الٰہی کا حکم د یکر صدق اور وفا کی تعلیم دی جو ساری روحانی لذتوں کی جاذت ہیں۔یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص کسی سہارے پر چلتاہے۔وہ سست الوجود اور کاہل ہوتا ہے جیسے بچے اپین والدین کی سرپرستی کے نیچے اپنی فکر معاش با ضرورت کے پیدا کرنے سے کاہل اور لاپروا ہوتے ہیں۔یا عیسائی لوگ جس طرح پر اعمال میں مستعد نہیں ہوسکتے۔کیونکہ کفارہ کا مسئلہ جب ان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسیح نے ان کے سارے گناہ اٹھالئے۔پر سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ کونسی چیز ہو سکتی ہے جو ان کو اعمال کی طرف متوجہ کرے۔اعمال کا مدعا تو نجات ہے اور یہ ان کو بلا مشقت محنت صرف خونی مسیح پر اتنا ایمان رکھنے سے (کہ وہ ہمارے لئے مر گیا۔ہامرے گناہوں کے بدلہ *** ہوا) مل جاتی ہے تو اب نجات کے سوا اور کیا چاہیے پھر ان کو اعمال حسنہ کی ضرورت کیا باقی رہی۔اگر کفارہ پر ایمان لا کر بھی نجات کا خطرہ اور اندیشہ باکی ہے تو یہ امر دیگر ہے کہ اعمال کئے جائیں لیکن اگر نجاب خون مسیح کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔تو کوئی عقلمند نہیں مان سکتا کہ پھر ضرورت اعمال کی کیا باقی ہے۔
روافض بھی سہارے ہی پر چلتے ہیں اور پانی جگہ عیسائیوں کی طرح امام حسین ؓ کے خون کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک اگر اعمال کی ضرورت ہے تو فقط اتنی کہ ان کے مصائب کو یاد کرکے آنکھوںسے آنسوں گرا لئے یا کوء سینہ کوبی کرلی۔سارے اعمال حسنہ کی روح یہی اشک باری اور سینہ کوبی ہے۔مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس کو نجات سے کیا تعلق؟
اسی لئے میں یہ تعلیم کبھی دینا نہیں چاہتا اور نہ اسلام نے دی کہ تم اپنے گناہوں کی گٹھڑی کسی دوسرے کی گردن پر لاد دو اور خود اباحت کی زندگی بسر کرو۔قرآن شریف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے۔
لا تزر وازرۃ وزراخری (الانعام : ۱۶۵)
ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور نہ دنیا مٰں اس کی کوئی نظیر خد اتعالیٰ کے عام قانون قدرت میں ملتی ہے۔کبھی نہیں دیکھ اجاتا کہ زید مثلاً سنکھیا کھالیوے اور اس سنکھیا کا اثر بکر پر ہو اجے اور وہ مر جاوے۔یا ایک مریض ہو اور دوسرے آدمی کے دوا کھالینے سے وہ اچھا ہو اجوے بلکہ ہر ایک بجائے خود متاثر ہوگا۔پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص ساری عمر گناہ کرتا رہے اور دلیری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا رہے اور لکھ دے کہ میرے گناہوں کا بوجھ دوسرے شخص کی گردن پر ہے جو شخص ایسی امید کرتا ہے وہ ؎
دماغ بیہدہ پخت و خیال باطل بست
کا مصداق ہے۔
پس اسلام کسی سہارے ر کھنا نہیں چاہتا کیونکہ سہارے پر رکھنے سے ابطال اعمال لازم آجاتا ہے۔لیکن جب انسان سہارے کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے۔ارو اپنے آپ کو ذمہ وار ٹھہراتا ہیاس وقت اس کو اعمال کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ کنا پڑتا ہے اس لئے قرآن شریف نے فرمایاہے
قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰)
فلاح وہی پاتا ہے۔جو اپنا تزلیہ کرتا ہے خود اگر انسان ہاتھ پائوں نہ ہلائے تو بات نہیں بنتی۔
شفاعت کا فلسفہ
مگر اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں۔ہامرا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے۔اور اس پر یہ نص صریح ہے
وصل علیھم ان صلوٰ تک سکن لھم (التوبہ : ۱۰۳)
یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میںن نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے۔
شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہیکہ گناہوں کی زندگی پر ایکموت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آجاتی ہے جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بیکار نہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے۔
شفاعت اور کفارہ میں فرق
شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کو نہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے اور شفاعت اور کفارہ کو ایک قرار دیا۔حالانکہ یہ ایک نہیں ہوسکتے۔کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا ہے اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک۔جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے۔وہ ہیچ ہے۔ہامرا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد او راس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہیاور علمی پیرایہ اس کے ساتھ موجود ہیجو دوسرے مذاہب کے عقائد میں نہیں ملتا۔شفاعت اعمال حسنہ کی محرک کس طرح پر ہے؟
اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی۔کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کاہلی اور سستی پیدا ہوتی ہے بلکہ فرمایا۔
اذا اسا لک عبادی عنی فانی قریب (البقرہ ۱۸۷)
یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے ساول کریں کہ وہ کہان ہے وت کہدے کہ میں قریب ہوں۔قریب والا تو سب کچھ کر سکتا ہے ۔دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے۔ا سلیء فرمایا کہ کہدو میں قریب ہوں۔پس یہ آیت بھی قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے ارو ہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایک ایمان کامل پیدا ہو اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے۔بہت سی دعائوں کے رد ہونے کا یہ بیھ سر ہے کہ دعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دعا کو مسترد کرالیتا ہے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کو قبول ہونے کے لائق بنایا جاوے کیونکہ اگر وہ دعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہوگی اور فائدہ اور نتیجہ ا سپر مرتب نہیں ہوسکے گا۔
اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت ﷺ کو فرمایا
صل الیھم انصلوٰ تک سکن لھم (التوبہ : ۱۰۳)
تیری صلوٰۃ سے ان کو ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے۔دوسری طرف
فلیستجیبو الی ( البقرہ : ۱۸۷)
کا بھی حکم فرمایا ان دونو آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کرانے اولے کے تعلقات۔پھر ان تعلقات س یجو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی پتہ لگتا ہے۔کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے۔ارو خود کچھ نہ کیا اجوے اور نہ کہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرتؐ کی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جاوے۔غرض نہ اسلام میں رہبانیت ہے نہ بیکا رنشینی اک سبق۔بلکہ ان افراط اور تفریط کی اختیار کرو اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالو نہ یہ کہ سارا دن کھیل اور کود اور تماشوں اور شکار میں گذارو یا ناول خوانی میں بسر کرو اور رات کو سو کر یا عیاشی میں۔؎ٰ
خد اتعالیٰ کا قرب پانے کی راہ
خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔حضرت ابراہیم ؑ نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔چنانچہ فرمایا ہے۔
وابرھیم الذی وفی (النجم : ۳۸)
ابراہیم ؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفاداری دکھائی۔خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے۔اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو۔یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی۔بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے۔وہ بت ہے اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہا س کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں۔پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ابراہیم ؑ کوجو یہ خطاب ملا۔یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔
ابراہیم الذی وفی (النجم : ۳۸)
کی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔اﷲ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے۔ارو عمل دکھ سے آتا ہے۔لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خد اتعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔دیکھو۔ابراہیمؑ نے جب اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیاری کر لی تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی۔اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خد اتعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔ہمارے ہاتھ میں جسم تو ہے روح نہیں ہے۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا تعلق جسم سے ہے اور جسمانی امور کا ثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔اس لیء یہ کبھی خیال نہ کرنا چاہیے کہ جسم س ے روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔جس قدر اعمال انسان سے ہوتے ہیں۔وہ اسی مرکب صورت سے ہوتے ہیں الگ جسم یا اکیلی روح کوئی نیک یا بد عمل نہیں کرتی۔یہی وجہ ہے کہ جزا سزا میں بھی دونو کے متعلقات کا لحاظ رکھا گیا یہ۔بعض لوگ اسی راز کو نہ سمجھے کی وجہ سے اعتراض کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا بہشت جسمانی ہے۔حالانکہ وہ اتنا نہیں جانتے جب اعمال کے صدور میں جسم ساتھ تھا توجزا کے وقت الگ کیوں کیا جاوے؟غرض یہ ہے کہ اسلام نے ان دونو طریقوں کو جو افراط اور تفریط کے ہیں چھوڑ کر اعتدال کی راہ بتائی ہے۔یہ دونو خطرناک باتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔مجرد تعذیب جسم سے کچھ نہیں بنتا ارو محض آرام طلبی سے بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔
ولایت کا مقام
ایک مرتبہ ایک شخص میرے پاس نور محمد نام ٹانڈہ سے آیا تھا۔اس نے کہا کہ غلام محبوب سجانی نے ولی ہونے کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے۔اب ولایت کا معیار یہی رہ یگا ہے کہ غلام محبوب یا کسی نے سر ٹیفکیٹ دے دیا۔حالانکہ ولایت ملتی نہیںجب تک انسان خدا کے لئے موت اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو جاوے۔دنیامیں بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جب کو کچھ بھی معلوم نہیں کہ وہ دنیا میں کیوں آئے ہیں۔حالانکہ یہی پہلا سوال ہے جس کو اسے حل کرنا چاہیے۔خود شناسی کے بعد خدا شناسی پیدا ہوتی ہے جب وہ اپنے فرائض کو سمجھتا ہے اور مقاصد زندگی پر غور کرتاہے۔اسے معلو م ہو تا ہے کہ میری زندگی کی غرض خدا شناسی ہے اور اس پر ایمان لاتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔تب وہ فرائض کو ادا کرتا اور نوافل کو شناخت کرتا ہے۔وہ روحانیت جو ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اب اسے تلاش کرو کہ کہاں ہے؟ نہ مولویوں میں ہے نہ راگ سننے والے صوفیوں میں۔یہ گو سالہ صورت ہیں روحانیت سے بے خبے ہو کر ہزار سال تک بھی اگر مغز مارتے رہیں تو کچھ نہیں بنتا۔یہ لحوم اور دماء ہیں تقویٰ نہیں’پھر لحوم اور دماء اﷲ تعالیٰ کو کیسے پہنچ سکتا ہے۔
روح و جسم کا تعلق ابدی ہے
دہریہ روح کا ہی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی چیز ہے ہی نہیں۔اور پھر کہتے ہیں کہ حشر اجساد کوئی چیز نہیں۔یہاں روح تعلیم پا کر آئندہ کیا کرے گی۔یہ خیالی باتیں ہیں’ان میں معقولیت نہیں ہے۔اگر ورح کوئی چیز نہیں ہے تو پھر یہ کیابات ہے کہ جسم پر جو فعل واقع ہوتے ہیں ان کا اثر اندرونی قوتوں پر بھی پڑتا ہے۔مثلاً اگر مقدم الراس پر چوٹ لگ جاوے تو فساد کے ساتھ انسان مجنون ہو جاتا ہے یا حافظہ جاتا رہتا ہے۔مجنونوں کی روح تو وہی ہے۔نقص تو جسم میں ہے۔جسم کا اگر اچھا انتظام نہ رہے تو روح بیکا رہو اجتی ہے وہ بدوں جسم کسی کام نہیں ہے اس لئے ہمیشہ جسم کی محتاج ہے جس کا انتظام عمدہ ہو روحانی حالت بھی اچھی ہوگی۔چھوٹے بچہ میں کیوں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ عواقب الامور کو سمجھ سکے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ابھی قویٰ کا نشونما کامل نہیں ہوا ہوتا۔
اسی طرح بیٹ میں جو نطفہ جاتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ روح اس کے ساتھ کہان سے چلی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی دراصل ایک مخفی قوت چلی جاتی ہے جو انبساط اور نشاط کا باعث ہوتی ہے۔اسی طرح اناج میں بھی وہی کیفیت چلی آتی ہے ۔اسی کی طرف مولوی رومی نے اشارہ کر کے کہا ہے ؎
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
نا فہم اور کوڑ مغز لوگوں نے اس شعر کو تناسخ پر حمل کر لیا ہے اور کہتے ہیں اس سے تناسخ ثابت ہوتا ہے مگر اس کو معلوم نہین کہ یہ دراصل تغیرات نطفہ کی طرف ایماء ہے۔یعنی جن تغیرات سے نطفہ تیار ہوتا ہے۔اس کو اس شعر میں ظاہر کیا گیا ہے۔شائد بہت تھوڑے آدمی ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم ہو کہ نطفہ بہت سے تغیرات سے بنتا ہے۔جس اناج سے نطفہ بنا ہے۔نطفہ کی حالت میں آنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے اس کو بہت سے تغیرات میں ڈالا ہے اور پھر اس کو محفوظ رکھا ہے کیونکہ وہ درحقیقت نطفہ ہے‘ اپنے وقت پر وہ پیسا بھی جاتا ہے اور اس سے روٹی بھی تیار کی جاتی ہے لیکن وہ محفوظ کا محفوظ چلا آتا یہ۔آج کل نطفہ کے متعلق جو تحقیقاات ہوئی ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس میں کیڑے ہوتے ہیں یہ ایک الگ امر ہے۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل میں وہ ایک قوت ہے جو برابر محفوظ چلی آتی ہے ممکن ہے کہ جو کچھ ڈاکڑتون نے سمجھا ہو وہ اسی قوت کو سمجھا ہو۔ہر اناج کے ساتھ انسانیت کا خاصہ نہیں بلکہ وہ ہوہر قابل الگ ہی ہے اور اس کو وہی کھاتا ہے جس کے لئے وہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اسی دن کے لیء مقدر ہوتا ہے۔وہ نطفہ جس میں روحانیت کی جز ہے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ مضغہ علقہ وغیرہ چھ حالتوں میں سے گذرتا ہے اور ان چھ تغیرات کے بعد
ثم انشا نہ خلقا اخر (المومنون : ۱۵)
کا وقت آتا ہے اب اس آخری تبدیلی کو نشاء آخری کہا ہے یہ نہیں کہا
ثم انزلنا فیہ روحا اخر
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہر سے کوئی چیز نہیں آتی۔اب اس کو خوب غور سے سوچو تو معلوم ہوگا کہ روح کا جسم کے ساتھ کیسا ابدی تلعق ہے۔پھر یہ کیسی بے ہودگی ہے جو کہا جاوے کہ جسم کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ کس قدر زبردست ثبوت روح کی ہستی کا ہے۔اس کو کوئی معمولی نگاہس ے دیکھے تو اور بات ہے لیکن معقولیت اور فلسفہ سے سوچے تو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی شخص کامیاب نہیںہوا جو جسم اور روح دونو سے کام نہ کلے۔اگر روح کوئی چیز نہیں۔تو ایک مردہ جسم سے کوئی کام کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیا اس کے سارے قویٰ اور اعضاء موجود نہیں ہوتے۔اب یہ بات کیسی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ روح اور جسم کا تعلق جبکہ ابدی ہے ۔پھر کیوں کسی ایک کو بیکا رقرار دیا جاوے۔
دعا کے قوانین
دعا کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ جسم تکالیف اٹھاوے اور روح گداز ہو اور پھر صبر اور استقالال سے اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر حسن ظن سے کام لیا جاوے۔؎ٰ
ہر ایک کام کے لئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں۔جو انتظار نہیں کرتا اور چشم زدن میں چاہتا ہے کہ اس کا نتیجہ نکل آوے وہ جلد باز ہوتا ہے۔اور بامراد نہیں ہوسکتا۔میرے نزدیک یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا ہے کہ دعا کے زمانہ میں ابتلا کے طور پر اور بھی ابتلا آتے ہیں۔جیسے حضرت موسیٰ ؑ جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئے تو ان کو پہلے مصر میں فرعون نے یہ کام دیا ہوا تھا۔کہ وہ آدھا دن اینٹیں پاتھا کریں ارو آدھا دن اپنا کام کیا کریں۔لیکن جب حضرت موسیٰ ؑ نے ان کو نجات دلانے کی کوشش کی۔تو پھر شریروں کی شرارت سے بنی اسرائیل کا کام بڑھا دیا گیا اور انہیں حکم خملا کہ آدھا دن تو تم اینٹیں پاتھاکرو اور آدھا دن گھاس لایا کرو۔حضرت موسیٰ ؑکو جب یہ حکم ملا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سنایا تو وہ بڑے ناراض ہوئے۔اور کہا کہ موسیٰ۔خدا تم کو وہ دکھ دے جو ہم کو ملا ہے اور بھی نہوں نے موسیٰ ؑ کو بد دعائیں دیں مگر موسیٰ ؑ نے ان کو یہی کہا کہ تم صبر کرو۔تورات میں یہ سارا قصہ لکھا ہے کہ جوں جوں موسیٰ ؑانہیں تسلی دیتے تھے وہ اور بھی برافروختہ ہوتے تھے۔آخر یہ ہوا کہ مصر سے بھاگ نکلنے کی تجویرز کی گئی اور مصر والوں کے کپڑے اور برتن وغیرہ جو لئے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے۔جب حضرت موسیٰ ؑقوم کو لے کر نکل آئے تو فرعون نے اپنے لشکر کویل کر ان کو تعقب کیا۔بنی اسرائیل نے جب دیکھ اکہ فرعونیوں کا لشکر ان کے قریب ہے تو وہ بڑے ہی مضطرب ہوئے چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے۔کہ اس وقت وہ چلائے اور کہا
انا لمدرکون (الشعراء : ۶۲)
اے موسیٰ۔ہم تو پکڑے گئے مگر موسیٰ ؑ نے جو نبوت کی آنکھ سے انجام کو دیکھتے تھے۔انہیں یہی جواب دیا
کلا ان معی ربی سیھدین (الشعراء : ۶۳)
ہر گز نہیں۔میرا رب میرے ساتھ ہے۔
تورات میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا مصر میں ہامرے لئے قبریں نہ تھیں۔اور یہ اضطراب اس وجہ سے پیدا ہوا کہ پیثھے فرعون کا لشکر اور آگے دریائے نیل تھا وہ دیکھتے تھے کہ نہ پیچھے جا کر بچ سکتے ہیں اور نہ ئگے جا کر مگر اﷲ تعالیٰ قادر مقتدر خدا ہے۔دریائے نیل میں سے انہیں راستہ مل گیا ار سارے بنی اسرائیل آرام کے ساتھ پار ہو گئے۔مگر فرعونیوں کا لشکر غرق ہو گیا۔سید احمد خاں صاحب اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ یہ جوار بھاٹا تھا۔مگر ہم کہتے ہیں کہ کچھ ہو اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو ایسے وقت پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے راہ پیدا کردی۔اور یہی متقی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر ضیق سے اسے نجات اور راہ ملتی ہے۔
یجعل لہ مخرجا (الطلاق : ۳)
دعا اور ابتلاء
غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا ارو اس کی قبولیت کے زمان کے درمیانی اورقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلائوں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے ارو فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ان ابتلائوں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے۔کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ارو یہ دعا کی قبولیت کے اساب میں سے ہیں۔پس کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔اور بے صبری وار بے قراری سے اپنے اﷲ پر بد ظنی نہیں ہونا چاہئے۔یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی۔ایسا وہم اﷲ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔
‏Amira 26-5-05
قبولیت دعا کے سلسلہ میں ایک نکتہ
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک امر کے لئے دعا کرتا ہے۔مگر وہ دعا اس کی اپنی نا واقفی اور اندانی کا نتیجہ ہوتی ہے۔یعنی ایسا امر خدا تعالیٰ سے چاہتا ہے جو اس کے لئے کسی صورت سے مفید اور نافع نہیں ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی دعا کوتو رد نہیں کرتا لیکن کسی اور صورت میں پورا کر دیتا ہے۔مثلاً ایک زمیندار جس کو ہل چلانے کے لئے بیل کی ضرورت ہے۔وہ بادشاہ سے جا کر ایک اونٹ کا سوال کرے اور بادشاہ جانتا ہے کہ اس کو دراصل بیل دینا مفید ہوگا۔اور وہ حکیم دیدے کہ اس کو ایک بیل دے دو وہ زمیندار اپنی بیوقوفی سے کہہ دے کہ میری درخواست منظور نہیں ہوئی۔تو اس کی حماقت اور نادانی ہے۔لیکن اگر وہ غور کرے تو اس کے لئے یہی بہتر ھا۔اس طرح پر اگر ایک بچہ آگ کے سرخ انگارے دیکھ کر ماں سے مانگے تو کیا مہربان اور شفیق ماں یہ پسند کرے گی کہ اس کو آگ کے انگارے دیدے۔غرض بعض اوقات دعا کی قبولیت کے متعلق ایسے امور بھی پیش آتے ہیں۔جو لوگ بے صبری اور بدظنی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی دعا کو رد کرالیتے ہیں۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے زمانہ میں اور بھی درازی ہو جاتی ہے۔بنی اسرائیل اسی وجہ سے چالیس برس تک ارض مقدس میں داخل ہونے سے محروم ہو گئے کہ ذرا ذرا سی بات پر شوخیوں سے کام لیتے تھے۔میں کہتا ہوں کہ جس طرح بنی اسرائیل سے غلامی کے دنوں میں وعدے کئے گئے تھے۔اسی طرح پر اس امت کے لئے بھی ایک مماثلت ہے۔ان پر بھی ایک غلامی کا زمانہ آنے والا تھا۔اور اب وہی حالت غلامی کی ہے کیونکہ ہر پہلو اور ہر رنگ میں مسلمانوں کی حالت تنزل میں ہے اسی مماثلت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود کی تبلیغ کا زمانہ چالیس سال تک رکھا ہے۔جس طرح پر موسیٰ ؑنے وہ زمین نہ پائی تھی بلکہ یشوع بن نون ل گی ااسی طرح پر قبولیت کی ارض مقدس ان مولیوں کے نصیب معلوم نہیں ہوتی جو آئے دن مخالفت اور شرارت میں بڑھتے جاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ انکو کیا کہا گیا تھا۔کیا تعلیم ملی تھی اور اب انہوں نے اس پر کس حد تک عمل کیا ہے۔
قرآن شریف کے نصوص پر میرے دعویٰ کو پرکھیں
مجھے بڑی حیرت اور بڑا ہی تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں۔یہ قرآن شریف کو پڑھتے ہیں۔یہ احادیث کے درس دیتے ہیں اور مسلمانوں کے لیڈر اور سرگروہ بنتے ہیں۔دین کے اصول سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے مدعی ہیں مگر میرے معاملہ میں ان ساری باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔اور کچھ پروا نہیں کرتے کہ قرآن شریف کے نصوص کی بنا ء پر میرے دعوے کو سوچیں اور میری نسبت کوئی رائے دیتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھیں کہ ہم جو کہتے ہیں خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتے ہیں۔یا اپنے نفسانی اغراض اور جوشوں کو درمیان رکھ کر کہتے ہیں۔اگر خدا ترسی اور تقویٰ سے کام لیتے تو
لا تقف ما لیس لک بہ علم (بنی اسرائیل : ۳۷)
پر عمل کرتے اور جب تک میری کتابوں کو پورے طور پر نہ پڑھ لیتے اور میرے پاس رہ کر میرے طرز عمل کو نہ دیکھ لیتے کوئی رائے نہ دیتے۔مگر انہوں نے قبل از مرگ والیلا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے کلام اور رسول اﷲ ﷺ کے وعدوں کی کچھ بھی پروا نہ کی۔ان سب کو پس پشت ڈال دیا۔کم از کم تقویٰ کا طریق تو یہ تھا کہ وہ میرے دعویٰ کو سن کر فکر کرتے اور جھٹ پت انکار نہ کردیتے کیونکہ میں نے ان کو یہ کہا تاھا کہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے۔خدا نے مجھے بھیجا ہے۔وہ دیکھتے کہ کیا جس شخص نے اپنا آنا خدا کے حکم سے بتایا ہے۔وہ خد اکی نصرتیں ارو تائیدیں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے یا نہیں۔مگر انہوں نے نشان پر نشان دیکھے اور کاہ کہ جھوٹے ہیں۔انہوں نے نصرت پر نصرت اور تائید پر تائید دیکھی لیکن کہہ دیا کہ سحر ہے۔میں ان لوگوں سے کای امید رکھوں جو خدا تعالیٰ کے کالم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔خدا کے کلام کے ادب کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کا نام سنتے ہی یہ ہتھیار ڈال دیتے مگر یہ اور بھی شرارت میں بڑھے۔اب خود دیکھ لیں گے کہ انجام کس کے ہاتھ ہے۔میں دیکھتاہوں کہ میرے بلانے کے دراصل یہی لوگ محرک ہوئے ہیں ارو میری بعثت کے اسباب میں سے یہ بڑا سبب ہیں۔
مسلمانوں کے مرتد ہونے کا باعث مولوی ہیں
کیونکہ جس قدر لوگ نصرانی اور بے دین خہوئے ہیں وہ دراصل مولویوں کا قصور ہے۔جب کسی نے ان سے سوال کیا اور کوئی بات اس سے پوچھی تو انہوں نے جھٹ پت یہی فتویٰ دے دیا کہ یہ واجب القتل ہے‘ کافر ہو گیا۔بے دین ہو گیا۔اس کو مار ڈالو۔اعتراض کرنے والوں نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے یہی سمجھا کہ اسلام کے عقائد فی الحقیقت ایسے ہی کمزور اوربودے ہیں کہ وہ معقولیت کے آگے نہیں ٹھہر سکتے۔پس انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ ایسے دین کو چھوڑ دیں۔ہزاروں ہزار لوگ پائے جاتے ہیں جن کے مرتد ہونے کی وجہ یہی مولوی ہو گئے ہین۔یہ بات کہ وہ سوال کیوں کرتے ہیں بڑی سہل ہے۔یہ لوگ تیرہ سو برس کے بعد چونکہ پیدا ہوئے ہیں۔اس قدر بعد زمانہ کی وجہ سے گویا یہ تاریکی کا زمانہ کہنا چاہئے۔اس لئے ان کو حق حاصل ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے پوچھیں لیکن سوال کرنے پر انہوں نے ان کو گمراہ کر دیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ ان کو معذور اور واجب الرحم سمجھ کر نرمی سے پیش آتے۔اور ان کو سمجھاتے مگر الٹا نہوں نے ان کو اسلام سے بیزار کر دیا۔ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کی تعلیم کی خوبیانظاہر کروں اور پھر ان خوبیوں کا عملی ثبوت اور اس کی تاثیروں کو دکھائوں۔
مسیح موعود کے دو کام
پس اس وقت ہمارے دو کام ہیں۔
اول یہ کہ ان نشانوں کے ساتھ جو اﷲ تعالی دکھارہا ہے یہ ثابت کیا جاوے کہ مجیب اور ناطق خدا ہمارا ہی ہے جو ہماری دعائوں کو سنتا اور ان کے جواب دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ جو خدا پیش کرتے ہیں وہ
الا یرجع الیھم قولا (طہ : ۹۰)
کا مصداق ہو رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بوجہ ان کے کفر اور بے دینی کے ان کی دعائیں
ما دعاء الکفرین الا فی ضلل (الرعد : ۱۵)
کی مصداق ہو گئی ہیں۔ورنہ اﷲ تعالیٰ تو سب کا ایک ہی ہے۔مگر ان لوگوں نے اس کی صفات کو سمجھا ہی نہیں۔
پس یاد رکھو کہ ہمارا خدا ناطق ہے۔وہ ہماری دعائیں سنتاہے۔
ہماری جماعت کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے
ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعالق ہونا چائے۔اور ان کو شکر کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی نہیں چھوڑا۔بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔کیا کوئی تم میں سے ایسا بھی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھ اہو۔
ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے ۔خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو۔کیونکہ اگر سستی ہو۔تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیب معلومہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پرھے اگراعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہ و اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو۔تو پھر ہامرے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔
تعلیم کے موافق عمل کرنے کی نصیحت
ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پرعمل کرتا ہے۔لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا۔وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں ہنہیں ہے۔محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا۔اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔اعمال پروں کی طرح ہیں۔بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کرسکتا۔اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا جو ان کے نیچے اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں۔پرندوں میں فہم ہوتا ہے۔اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیںتو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں۔مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہو تو وہشہد نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں۔ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے۔کس قدر دور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں۔اور خطوط کو پہنچاتے ہیں۔اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں۔پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں ۔جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو ھپر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے سستی اور غفلت نہ کرے۔ہان یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے۔لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑجاتا ہے۔اس لئے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔
قرآنی قَسموں کا فلسفہ
مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ آریہ اور عیسائی اعتراض کر دیتے ہیں کہ قرآن شریف میں قسمیں کیوں کھائی ہیں۔اور پھر اپنی طرف سے حاشیہ چڑھا کر اس کو عجیب عجیب اعتراضوں کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں۔حالانکہ اگر ذرا بھی نیک نیتی اور فہم سے کام لیا اجوے تو ایسا اعتراض بیہودہ اور بیسود معلوم دیتا ہے۔کیونکہ قسوموں کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ قسم کھنا یکا اصل مفہوم اور مقصد کیا ہوتا ہے۔جب اس کی فلاسفی پر غور کیاجاوے تو پھر یہ خود بخود سوال حل ہو جاتا ہے اور زیادہ رنج اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔عام طو رپر یہ دیکھا جاتا ہے کہ قسم کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قسم بطور قائم مقام گواہ کے ہوتی ہے۔اور یہ مسلم بات ہے کہ عدالت جب گواہ پر فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر فیصلہ کرتی ہے۔یا قسم کھانے والے کی قسم کو ایک شاہد صادق تصور کرتی ہے۔یہ روز مرہ کی بات ہے۔
جہالت یا تعصب سے اعتراض کرنا اور بات ہے لیکن حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی بات کہنا اور۔
اب جب کہ یہ عام طریق ہیکہ قسم بطور گواہ کے ہوتی ہے۔پھر یہ کیسی سیدھی بات ہے کہ اسی اصول پر قرآن شریف کی قسموں کو دیکھ لیا جاوے۔۔کہ وہاں اس سے کیا مطلب ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے جہاں کوئی قسم کھائی ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے بدیہی کو گواہ ٹھہراتا ہے۔جیسے فرمایا
والسماء ذات الرجع۔والارض ذات الصدع۔انہ لقول فصل (الطارق : ۱۲ تا ۱۴)
اب یہ بھی ایک قسم کا محل ہے۔نادان قرآن شریف کے حقائق سے ناواقف اور انبلد ۔اپنی جہالت سے یہ اعتراص کر دیتا ہے کہ دیکھو زمین کی یا آسمان کی قسم کھائی۔لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اس قسم کے نیچے کیسے کیسے معارف موجود ہیں۔
اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ وحی الٰہی کے دلائل اور قرآن شریھ کی حقانیت کی شہادت پیش کرنی چاہتا ہے اور اس کو اس طرز پر پیش کیا ہے۔؎ٰ
اب اس قسم کی قسم پر اعتراض کرنا بجز ناپاک فطرت یا بلید الطبع انسان کے دوسرے کا کام نہیں۔کیونکہ اس میں تو عظیم الشان صداقت موجود ہے۔صحیفہ فطرت کی عام شہادت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کلام الٰہی اور نزول وحی کی حقیقت بتانا چاہتا ہے۔سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں۔جس سے میہہ برستا ہے۔آسمان اور زمین میں ایسے تعلقات ہیں جیسے نر و مادہ میں ہوتے ہیں۔زمین میں بھی کنوئیں ہتے ہیں لیکن زمین پھر بھی آسمانی پانی کی محتاج رہتی ہے۔جب تک آسامان سے بارش نہ ہو زمین مردہ سمجھی جاتی ہے ارو اس کی زندگی اس پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے آتا ہے۔اسی واسطے فرمایا ہے۔
اعلمو اان اﷲ یحی الارض بعد موتھا (الحدید : ۱۸)
اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آسمان سے پانی برسنے میں دیر ہو اور امساک باراں ہو تو کنوئوں کا پانی بھی خشک ہونے لگتا ہے۔اور ان ایام میں دیھکا گیا ہے۔کہ پانی اتر جاتا ہے۔لیکن جب برسات کے دن ہوں اور مینہہ برسنے شروع ہوں تو کنوآون کا پانی بھی جوش مار کر چڑھتا ہے کیونکہ اوپر کے پانی میں قوت جاذبہ ہوتی ہے اب براہموں سوچیں کہ اگر آسمانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو ئائیں اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر انسان کو دیا ہے۔اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے۔جس سے وہ برے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے۔لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو اجوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور قلب پر تاریکی پیدا ہو اجوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے۔کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے۔جیسے بارش ہوین پر زمین کی روئید گیان نکلنی شروع ہو جاتی ہیں۔اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے۔اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نور فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے۔اگر چہ یہ علی قدر مراتب ہوتی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے ۔خواہ وہ اس امر کو محسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اسی نور نبوت کے طفیل ہے۔
نزول وحی کی ضرورت کا ثبوت
غرض اس قسم میں نزول وحی کی ضرورت کو ایک عام مشاہدہ کی رو سے ثابت کیا ہے کہ جیسے آسامنی پانی کے نہ برسنے کی وجہ سے زمین مرجاتی اور کنوئوں کا پانی خشک ہونے لگتا ہے۔یہی قانون نزول وحی کے متعلق ہے۔
رجع پنی کو کہتے ہیں۔حالانکہ پانی زمین پر بھی ہوتا ہے۔لیکن آسمان کو ذات الراجع کہا ہے۔اس میں یہ فلسفہ بتایا ہے کہ اصلی آسمانی پانی ہی ہے۔چنانچہ کہا ہے ؎
باراں کہ در لطافت طبعش دریغ نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
جو کیفیت بارش کے وقت ہوتی ہے۔وہی نزول وحی کے وقت ہوتی ہے دو قسم کی طبیعتیں موجود ہوتی ہیں۔ایک تو مستعد ہوتی ہیں اور دوسری بلید مستعد طبیعت والے فوراسمجھ لیتے ہیں۔اور صادق کا ساتھ دے دیتے ہیںں۔لیکن بلید الطبع نہیں سمجھ سکتے اور وہ مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔دیکھو مکہ معظمہ میں جب وحی کا نزول ہوا ۔اور آنحضرت ﷺ پر خد اتعالیٰ کا کلام اترنے لگا تو ابوبکر ؓ اور ابو جہل ایک ہی سرزمین کے دوشخص تھے۔ابوبکرؓ نے تو کوئی نشان بھی نہ مانگا اور مجرد دعویٰ سنتے ہی آمنا کہہ کر ساتھ ہو لیا ۔مگر ابو جہل نے نشان پر نشان دیکھے مگر تکذیب سے باز نہ آیا اور آخر خدا تعالیٰ کے قہر کے نیچے آکر ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔
غرض خدا تعالیٰ کی وحی ہر قسم کی طبیعتوں کو باہر نکال دیتی ہے۔طیب اور خبیث میں امتیاز کر کے دکھا دیتی ہے۔وہ بہار کا موسم ہوتا ہے۔اس وٰقت ممکن نہیں کہ کوئی تخم شگفتگی کے لئے نہ نکلے۔لیکن جو کچھ ہو گا وہی بر آمد ہوگا۔نیک اور سعید الفطرت اپنی جگہ پر نمودار ہوتے ہیں۔اور خبیث الگ اور اس سے پہلے وہ ملے جلے ہوئے ہوتے ہیں جیسے گندم اور بھگاٹ کے دانے ملے ہوئے تو رہتے ہیںل لیکن جب زمین سے نکلتے ہیں تو دونو الگ نظر آتے ہیں۔مالک گندم کی حفاظت کرتا اور بھگاٹ کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔پس نزول وحی کے ثبوت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے۔جس کو ناندان پانی نادنای اور جاہالت سے اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے حالانکہ اس مٰں ایک عظیم الشان فسلفہ رکھاہوا ہے۔اسی طلئے
والسماء ذات الرجع۔والارض ذات الصدع (الطارق : ۱۲ تا ۱۴)
کہہ کر فرمایا
انہ لقول فصل (الطارق : ۱۲ تا ۱۴)
جو کلام الٰہی کے لئے بولا گیا ہے۔یہ ایک نظری امر تھا۔اس کے ثبوت کے لئے بدیہی امر کو پیش کیا ہے۔جیسے امساک باراں کے وقت ضرورت ہوتی ہے مینہہ کی۔اسی طرح پر اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہین۔زمین بالکل مرچکی ہے۔یہ زمانہ
ظھرالفسادفی البر والبحر (الروم : ۴۲)
کا مصداق ہو گیا ہے جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہل کتاب ہیں۔جاہل و عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں۔غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو۔دنیا کی حالت بدل گئی ہے۔روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیریں نظر آتی ہیں۔اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔خدا پرستی اور خد اشناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے۔اس لئے ا سوقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشنے۔خدا تعالیٰ کا شکر کرو۔اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ خد اتعالیٰ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی بناء پر دلائل عقلیہ اور نشانات بینہ سے اس سلسلہ کی صداقت کو ظاہر کر رہا ہے۔تعلیم کو اگر انسان دیکھے۔تو صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ سچی تعلیم یہی تعلیم ہے سج کو عقلمند قبول کریں گے۔اسلامی تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے کہ جس کو عدل کہتے ہیں۔اس تعلیم میں ایک کشش موجود ہے۔
اﷲ تعالیٰ (اسلام اور عیسائی تعلیمات کی رو سے)
سورہ فاتحہ میں جس خدا کو پیش کیا ہے دنی ا کا کوئی مذہب اسے پیش نہیں کرتا۔عیسائیوں نے جو خدا دکھایا ہے۔اس کے مقابلہ میں ہم کہتے ہیں
لم یلد ولم یولد (الاخلاص : ۴)
ہے۔ہاں اگر مریم کے پیٹ میں واقعی خدا آگی تھا تو چاہیے تھا کہ وہ پیت ہی میں مریم کو وعظ کرتے اور ایک لمبا لیکچر دیتے جس کو دوسرے لوگ بھی سن لیتے تو اس خارق عادت لیکچر کو سن کر ساتے شبہات دور ہو جاتے اور خواہ نخواہ ماننا پڑتا بلکہ اور بھی خدائی کا ثبوت ملتا۔اگر پیٹ ہی میں معجزے دکھانے شروع کر دیتے تو اور بھی معاملا صاف ہو جاتااور خواہ نخواہ ماننا پڑتا۔مگر بجائے اس کے کہ اس کو الوہیت کی کوئی عظمت ثابت ہوتی ۔ہر پہلو سے اس کا نقص اور کمزوری ہی ثابت ہوتی ہے۔
مریم کے نکاح سے تین قسمیں توڑی گئیں
مریم کا نکاح حمل میں کیا گیا جو شرعا جائز نہ تا۔اور ایک نکاح سے تین قسمیں توڑی گئیں۔یعنی ماں نے عہد کیا تھا کہ نکاح نہ کروں گی اور خود مریم نے بھی عہد کیا ہوا تھا۔اور ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور اعترص ہے جس کا جواب عیسائی نہیں دے سکتے۔عیسائی مذہب میں دوسری شادی منع ہے۔لیکن یوسف کی پہلی بیوی تھی۔اور بھی اس قسم کے اعتراض ہیں۔یہودیوں کی کتابوں کو پڑھو وہ کیا حقیقت بیان کرتے ہیں اور ہم کو تو ایسے اعترض کرتے ہوئے بھی افسوس اور حیا مانع ہوتے ہیں۔پادری عمادالدین نے اپنی کتابوں میں راحات‘ تمر او بنت سبع کی بابت لکھا ہے کہ وہ اچھے چال چلن کی عورتیں نہ تھیں۔وہ لکھتا ہے کہ خدا وند نے یہ کیا کیا کہ ایسے خاندان میں جنم لیا ۔پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ وہ ایسا کریم ہے کہ ایسے لوگوں میں بھی جنم لینے سے دریغ نہیںکیا۔مگر ایک دانشمند غور کرے کہ یہ کیسی وسعت اخلاق ہے۔
اسلام کا پیش کردہ خدا
لیکن ہمارا خدا
لم یلد (الاخلاص : ۴)
ہے اور کس قدر خوشی کا اور شکر کا مقام ہے کہ جس خدا کو ہم نے مانا اور اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہر طرح کامل اور قدوس ہے اور کوئی نقص اس میں نہیں۔دو خوبیان کامل طور پر اﷲ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔اور ساری صفات ان کو بیان کرتی ہیں۔چنانچہ اول یہ کہ اس میں ذاتی حسن ہے۔اور اس کے متعلق
لیس کمثلہ سیء (الشوریٰ : ۱۲)
فرمایا ،؎۔
قل ھو اﷲ احد (الاخلاص ۲)
فرمایا ۔ اور کہا کہ وہ الصمد ہے‘ بے نیاز ہے‘ نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کاکوئی بیٹا ہے۔نہ اس کا کوئی ہمتا اور ہمسر ہے۔
قرآن شریف کو غور سے پڑھو تو معلوم ہو گا کہ جا بجا اس کا حسن دکھایا گیا ہے پھر دوسری کشش احسان کی ہے۔ عیسائیوں نے خا ک احسان کا کیا نمونہ دکھایا یہی کہ اپنے بچہ کو پھانسی دے دیا۔مولوی صاحب ذکر کیا کرتے ہیں۔کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو کہہ رہا تھا کہ خدا نے اس جہان کو کیسے پیار کیا کہ اپنا بیٹا پھانسی دے دیا۔لڑکا یہ سن کر ڈر گیا۔اور بھاگ گیا۔اور جب اس سے ڈرنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے یہی کہا کہ جب خدا نے یہ حرکت کی تو تجھ سے کیا امید ہو سکتی ہے۔انسان خدا سے محبت کرتا ہے تو پھر اس کو سب سے مقدم کر لیتا ہے۔ہزاروں بھیڑ بکریاں موجود ہیں۔اگر محبت کا یہی نشان ہے اور مارنے والے عزیز ہوتے ہیں تو کیا یہ چیزیں خد اکو انسان سے عزیز ترین ہوتی ہیں؟ مگر ایسا نہیں۔لاکھوں چیزیں انسان کے لئے وہ ہلاک کرتا ہے۔پانی میں کیڑے رکھے ہوتے ہیں۔یہ بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ بسیط چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں۔
غرض یہ اصل صحیح نہیں ہے جو سمجھ لیا جاتا ہے۔کہ وہ جس سے پیار کرتا ہے اس کو ہلاک کرتا ہے۔سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے۔اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ خدا فرمایا ہے
کتب اﷲ لا غلبن انا ورسلی (المجادلہ :۲۲)
عیسائی اپنے خدا کی نسبت ایسا نمونہ پیش نہیں کرتے اور حقیقت میں نہیں ہے۔کیونکہ مسیح کا اپنا نمونہ یہ ہے کہ دشمنوں کے ہاتھوں میں سخت ذلیل ہوئے اور اس وقت وہ اگر خدا تھے یا خدا کے بیٹے تھے تو دشمنوں کو خطرناک ذلت پہنچنی چاہئے تھی مگر بظاہر دشمن کامیاب ہو گئے اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا ہی دیا۔لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں ہے اس نے اپنے رسولوں کی ہر میدان میں نصرت کی اور کامیاب کیا۔اب دوسرے مذہب اس کا نمونہ کہاں سے لائیں۔یہ یاد رکھو کہ ہمارا خدا کسی کو پھانسی دینا نہیں چاہتا جس قدر کام کریں گے اس میں عزت پائیں گے۔اس نے ہمارے قویٰ کو بیکار نہیں رکھا۔بقول سعدی ؎
حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است
رفتن بپائے مردی ہمسایہ در بہشت
خدا نے چاہا ہے کہ تم زنانہ سیرت نہ بنو بلکہ مرد بنو۔اب کیسی بات ہے۔کیسے احسان کئے ہیں کہ ہم پر حقائق و معارف کے خزانے کھولے ہیں۔کسی کے سامنے اس نے ہم کو شرمندہ نہیں کیا۔عیسائی کیسے شرمندہ ہوتے ہیں۔آریوں کو کیسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔کیا کوئی عیسائی فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہمار ے خداوند کی تین دادیاں نانیاں بدکار تھیں۔
الغرض انسان یا حسن کا گرویدہ ہوتا ہے یا احسان کا۔کامل طور پر یہ اسلام نے اﷲ تعالیٰ کی نسبت بیان کئے ہیں۔سورۃ فاتحہ میں پہکلے حسن و احسان ہی کو دکھایا ہے۔اگر ان سے انسان اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تو پھر تیسری صورت غضب کی بھی ہے۔اس لئے
غیر المغضوب علیھم والا الضالین (الفاتحہ : ۷)
کہہ کر ڈرایا ہے لیکن مبارک وہی سخص ہے جو اس کے حسن و احسان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے احکام کی پیروی کرتا ہے۔اس سے خد اقریب ہوتجاتا ہے اور دعائوں کو سنتا ہے۔
عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے
یاد رکھو کہ عقل روع کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے۔جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنتے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی۔
تقویٰ اختیار کرو
تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔صادق کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے اور تمہیں توفیق ملے۔یہی ہمارا منشاء ہے اور اسی کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔؎ٰ
۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء؁
رات آپ نے لاہور قیام فرمایا۔جہلم جانے کے لئے صبح کو حضور ؑ پا پیادہ سٹیشن کو روانہ ہوئے۔راستہ میں مولوی محمد احسن صاحب کے استفسار پر فرمایا کہ رات کو کثرت سے بار بار یہ الہام ہوا۔
اریک برکات من کل طرف
یعنی میں ہر ایک جانب سے تجھے اپنی برکتیں دکھائوں گا۔ ؎ٰ
 
Top