• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3



ملفوظات
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی
مسیح موعود و مہدی معہود
بانی جماعت احمدیہ
جلد سوم



حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب افتح اسلام میں اپنی کتاب فتح السلام میں دُنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچے کے لیے تائید ِ حق اوراشاعتِ اسلام کے کی جن پانچ شاخوں کا ذکرفرمایا ہے ان میں سے تیسری شاخ کے ضمن میں فرماتے ہیں :۔
’’ اُس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئی ہیں یاکی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیف کی نسبت نہایت مفید اور مؤثر اور جلد تردلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام نبی اس طریق کو ملحوظ رکھتے ہیں اور بُجز خداتعالیٰ کے کلام کے جو خاص طور پر بلکہ قلم بند ہوکر شائع کیاگیا باقی جس قدر مقالات انبیاء ہیں وہ اپنے اپنے محل پر تقریروں کی طرح پھیلتے رہے رہیں ۔عام قاعدہ نبیوں کا یہی تھا کہ ایک محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقتوں میں مختلف مجالس اور محافل میں اُ ن کے حال کے مطابق رُوح سے قوت پا کر تقریریں کرتے تھے ۔مگر نہ اس زمانہ کے متکلموںکی طرح کہ جن کو اپنی تقریر سے فقط اپنا علمی سرمایہ دکھلانا منظور ہوتا ہے یا یہ غرض ہوتی ہے کہ اپنی جُھوٹی منطق اور سوفطائی حجتوں سے کسی سادہ لوح کو اپنے بیچ میں لاویں اور پھر اپنے سے زیادہ جہنم کے لائق کریں ۔ بلکہ انبیا ء بڑی سادگی سے کلام کرتے ہیں اور جو اپنے دل سے ابلتا تھا وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔اُن کے کملاتِ قدسیہ عین محل اور حاجت کے وقت پر ہوتے تھے اور مخاطبین کو شغل یا افسانہ کی طرح کچھ نہیںسناتے تھے بلکہ اُ ن کو بیمار دیکھ کر اور طرح طرح کے آفاتِ روحانی میں مبتلا پاکر علاج کے طورپر اُن کو نصیحتیں کرتے تھے یا حججِ قاطعہ سے اُن کے اوہام رفع فرماتے تھے اور اُ ن کی گفتگومیں الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے تھے سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور واردین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور اُن کی ضرورتوں کے لحاظ سے اُن کے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ بابِ تقریر کھلا رہتا ہے کیونکہ برائی کو نشانہ کے دیکھ کر اس کے روکنے کے لیے نصائح ضروریہ کی تیر اندازی کرنا اور بگڑے ہوئے اخلاق کو ایسے عضو کی طرح پا کرجو اپنے محل سے ٹل گیا ہو اپنی حقیقی صورت اور محل پر لانا ۔جیسے یہ علاج بیمار کے ر و برو ہو نے کی حالت میں متصّور ہے اورکسی حالت میں کما حقّہ‘ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے چندیںہزارنبی اور رسول بھیجے اوران کی شرفِ صحُبت میں مشرف ہونے کا حکم دیاتا ہر ایک زمانہ کے لوگ چشمدید نمونوں کوپا کر اوران کے وجود کومجسم کلامِ الہٰی مشاہدہ کرکے انُ کی اقتداء کے لیے کوشش کریںـ‘‘۔


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحمدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الکَرِیم
وَعَلٰی عَبْدِہ الْمَسیحِ الْمَوْعُوْدِ
ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام
۱۷ جنوری ۱۹۰۳
ایک الہام کی تشریح
۱۷ جنوری ۱۹۰۳ کو کچہری جانے سے پیشتر اعلیٰحضرت نے ہمارے مخدوم جناب خان محمد عجب خان صا حب آف زیدہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ نے رخصت لی ہے ہمارے پاس بھی رہنا چاہیے خانصاحب نے دارالامان آنے کا وعدہ کیا اورتھوڑی دیر کے بعد پو چھاکہ
انْتَ مِنِّیْ وَانَا مِنْک
َپر لوگ اعتراضات کرتے ہیں ۔اس کا کیا جواب دیا جائے ؟
فرمایا:۔
اَنْتَ مِّنیْ تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہیں ہوسکتی میرا ظہو امحظ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے اور اسی سے ہے۔
دوسرا حصّہ اس الہام کا کسی قدر شرح طلب ہے سو یاد رکھنا چاہیئے کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا قرآن شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے وحدٗ لاشریک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں نہ افعال الٰہیہ میں ۔ سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمانِ کامل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان ہر قسم کے شرک سے پاک نہ ہو ۔توحید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو کیا بااعتبار ذات اور کیا بااعتبار صفات کے اور افعال کے بے مثل مانے نادان میرے اس الہام پر تو اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے لیکن اپنی زبا ن سے ایک خدا کا اقرار کرنے باجودبھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسرے کے لیے تجویز کرتے ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ ا لسلا م کو محی اور ممیت مانتے ہیں عالم الغیب مانتے ہیں ۔الحیّ القیوم مانتے ہیں ۔کیا یہ شرک ہے یا نہیں ؟ یہ خطرناک شرک ہے جس نے عیسائی قوم کو تباہ کیا ہے اوراب مسلمانو ں نے اپنی بد قسمتی سے اُن کے اس قسم کے اعتقادوں کو اپنے اعتقادات میں داخل کر لیا ہے پس اس قسم کے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے انسا ن میں خواہ وہ نبی ہو یا ولی تجویزنہ کرے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔ دُنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اس حد تک اسباب پر ست ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ۔ تو حید کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شرک فی الاسباب کا شائبہ باقی نہ رہے ۔ خواص کا الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہی بلکہ یہ ماننا چاہیئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے اُن میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔جیسے تُر بد اسہال لاتی ہے یا سم االفار ہلاک کرتا ہے ۔اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں رکھے ہوئے ہیں ۔اگر وہ نکال لے تو پھرنہ تُر بد دست آور ہوسکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے نہ اُسے کھا کر کوئی مَر سکتا ہے۔ غرض اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھادے اور صفات وافعال الٰہیہ میں کسی کوشریک نہ کرے تو توحید کی حقیقت متحقق ہوگی اوراُ سے موحدّ کہیں گے لیکن اگر وہ صفات و افعال الٰہیہ میں کسی دوسرے کے لیے تجویز کرتا ہے تو وہ زبان سے گو کتنا ہی توحید کو ماننے کا اقرارکرے وہ موحدّ نہیں کہلا سکتا ۔ ایسے موحدّ تو آریہ بھی ہیں جو اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس اقرار کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح اور مادہ کو خدا نے نہیں پیدا کیا ۔ وہ اپنے وجود اور قیام میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں گویا اپنی ذات میں ایک مستقل وجود رکھتے ہیں۔اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہو گا۔اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیںجو شرک اور توحیدمیں فرق نہیں کرسکتے۔ ایسے افعال اور اعمال اُن سے سر زد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقاد ات رکھتے ہیں جن میں صاف طور پرشرک پایا جاتا ہے مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہوجاتے یا فلاں کام درست نہ ہوتا ۔ پس انسان کو چاہیئے کہ اسباب کے سلسلہ کو حدِّ اعتدال سے نہ بڑھاوے اور صفات و افعال الٰہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے۔
ا نسان میں جو قوتیں اور ملکات اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ان میں وہ حد سے نہیں بڑھ سکتے مثلاً آنکھ اس نے دیکھنے کے لیے بنائی ہے اور کان سننے کے لیے ،زبان بولنے اور ذائقہ کے لیے ۔ اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کہ دیکھنے کا کام لے۔ان اعضاء اور قویٰ کے افعال اور خواص محدود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدود نہیں ہیں اور وہ لیس کمثلہ شیی ہے ۔غرض یہ توحید تب ہی پوری ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے واحد لا شریک یقین کیا جاوے اور انسان اپنی حقیقت کو ہا لکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت سمجھ لے ۔ کہ نہ میں اورنہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں ۔
رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے
اس سے ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم استعمالِ اسباب سے منع کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ہم اسباب کے استعمال سے منع نہیں کرتے بلکہ رعایتِ اسباب بھی ضروری ہے کیونکہ انسانی بناوٹ بجائے خود اس رعایت کو چاہتی ہے لیکن اسباب کا استعمال اس حد تک نہ کرے کہ اُ ن کو خداکا شریک بنا دے بلکہ اُن کو بطورخادم سمجھے جیسے کسی کو بٹالہ جانا ہو تو وہ یکّہ یا ٹٹو کرایہ کرتا ہے تو اصل مقصد اس کا بٹالہ پہنچنا ہے نہ وہ ٹٹو یا یکّہ ۔پس اسباب پر کُلی بھروسہ نہ کرے یہ سمجھے کہ ان اسباب میں اللہ تعالیٰ نے کچھ تاثیریں رکھی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو وہ تاثیریں بیکار ہوجائیں اور کوئی نفع نہ دیں ۔ اسی کے موافق ہے جو مجھے الہام ہوا ہے۔
رَبِّ کُلُّ شیْئٍ خَادِمُکَ
اسباب پرستی شرک ہے
بُت پرستوں کا شرک تو موٹا ہو تا ہے کہ پتھر بنا کر پو جا کر تے ہیں یا کسی درخت یا کسی اور شئے کی پرستش کر تے ہیں اس کو تو ہر ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے کہ یہ باطل ہے یہ زما نہ اس قسم کی بُت پرستی کا نہیں ہے بلکہ اسباب پرستی کا زمانہ ہے اگر کوئی بالکل ہا تھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہے اور سُست ہو جاوے تو اس پر خداکی *** ہوتی ہے لیکن جو اسباب کو خدا بنا لیتا ہے وہ بھی ہلاک ہو جا تا ہے۔میں سچ کہتا ہو ں کہ اس وقت یو رپ دو شرکو ں میںمبتلا ہے ایک تو مردہ کی پرستش کرر ہا ہے اور جو اس سے بچے ہیں اورمذہب سے آزاد ہو گئے ہیں وہ اسباب کی پرستش کر رہیں اور اس طرح یہ اسباب پرستی مرض دِق کی طرح لگی ہوئی ہے اور یورپ کی تقلید نے اس ملک کے نو جوانوں اورنو تعلیم یا فتہ لو گو ں کو بھی ایسی مرض میں مبتلا کر دیا ہے وہ اب سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ہم اسلام سے باہر جا رہے ہیں اور خدا پرستی کو چھوڑ کر اسباب پرستی کے دِق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔یہ دِق دور نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے دل میں خدا کی ایک نالی نہ ہو جو خدا تعالیٰ کے فیض اور اس کے اثر کو اس تک پہنچاتی ہے اور یہ نا لی اس وقت پیدا ہو تی ہے جب انسان ایک منکسرالنفس ہو جا ئے اوراپنی ہستی کو بالکل خالی سمجھ لے۔ جس کو فنا نظری کہتے ہیں۔
فنا کی حقیقت
فنا کی دو قسمیں ہیں ۔ایک فنا حقیقی ہوتی ہے جیسے وجودی مانتے ہیں کہ سب خدا ہی ہیں یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے اور یہ شرک ہے لیکن دوسری قسم کی فنا کی فنا نظری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہرا تعلق ہوکہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں ہستی ہو باقی سب ہیچ اور فانی ۔ یہ فنا اتمّ کا درجہ توحید کے اعلیٰ مرتبہ پر حاصل ہوتا ہے اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے ۔ جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھو یاجاتا ہے کہ اس کا اپنا وجود بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سُرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے ۔ ۱ ؎ اُس وقت وہ لوہا آگ ہی کے ہم شکل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح پر جب ایک راستباز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ در جہ پر پہنچ کر فنا فی اللہ ہوجاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے ۔ اَنْتَ مِنِّیْ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو دُعا سے ملتا ہے ۔ یاد رکھو دُ عا جیسی کوئی چیز نہیں ہے اِس لیے مومن کاکام ہے کہ ہمیشہ دُعا میں لگا رہے اور اس استقلال اور صبر کے ساتھ دُعا کرے کہ اس کو کمال کے درجہ تک پہنچا دے ۔اپنی طرف سے کوئی کمی اور دقیقہ فروگذاشت نہ کرے اور اس بات کی بھی پراہ نہ کرے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا بلکہ ؎
گر نبا شد بدوست راہ بُردن شرطِ عشق است درطلب مُردن
جب انسان اس حد تک دُعا کو پہنچاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دُعا کا جواب دیتا ہے جیسا کہ اُس نے وعدہ فرمایا ہے
اد عونی استجب لکم (المومن:۶۱)
یعنی تم مجھے پکارو مَیں تمہیں جواب دو گا اور تمہاری دُعا قبول کروں گا ۔حقیقت میں دُعا کرنا بڑا ہی مشکل ہے ۔جب تک انسان پورے صدق و وفا کے ساتھ اور صبر اور استقلال سے دُعا میں لگا نہ رہے تو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں جو دُعا کرتے ہیں مگر بڑی بے دِلی اور عجلت سے چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میںاُن کی دُعامثمر بہ ثمرات ہو جاوے حلانکہ یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے اس نے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فر مائے ہیں اور جس قدر کام دنیا میں ہو رہے ہیں وہ تدریجی ہیں ۔ اگرچہ وہ قادر ہے کہ ایک طرفۃ العین میں جو چاہے کر دے اور ایک کُنْ سے سب کچھ ہوجا تا ہے ۔مگر دُنیا میں اُس نے اپنا یہی قانون رکھا ہے ۔ اس لیے دُعا کرتے وقت آدمی کو اس کے نتیجہ کے ظاہر ہونے کے لیے گھبرانا نہیں چاہیئے ۔
اپنی زبان میں دُعا کرنے کی حکمت
یہ بھی یاد رکھو دُعا اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہو بلکہ چاہیئے کہ مسنون اَدعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دُعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پُورے طور پر اپنے خیلات اور حالات کا اظہار کر سکتا ہے اِس زبان میں وہ قادر ہوتاہے ۔
دُعا نماز کا مغز اور رُوح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں رُوح نہ ہو کچھ نہیں اور رُوح کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہواور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے ۔غرض دعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہو کر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اِس بات کا حقدار ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے کہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ۔ اصل حقیقت اَنْتَ مِنِّی کی تو یہ ہے اور عام طور پر ظاہر ی ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے ہے
اب اس کے بعد ایک اور حصّہ اس الہام کا ہے جو وَ اَنَا مِنْکَ ہے پس اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات ِ طیبہ حاصل کر چکا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے اَنْتَ مِنِّی۔ جو اس کے قرب اور معرفتِ الہٰی کی حقیقت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے اور یہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور اُسکی عزت او ر عظمت اورجلال کے ظہور کاموجب ہو اکرتاہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک عینی اور زندہ ثبوت ہوتا ہے اس رنگ سے اور اس لحاظ سے گویا اللہ تعالیٰ کا ظہور اس میں ہوکر ہوتا ہے ۔ اور خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئینہ ہو تا ہے۔ اس حالت میں جب اس کا ذکر خدا نما آئینہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ اُن کے لیے یہ کہتا ہے وَ اَنَا مِنْکَ ایسا انسان جس کواَنَا مِنْکَ کی آواز آتی ہے اُس وقت دُنیا میں آتا ہے جب خدا پرستی کا نام و نشان مِٹ گیا ہوتا ہے اس وقت بھی چونکہ دُنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اُس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا میں اُن لوگو ں کوجواللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں ۔ اس بناء پر اللہ تعا لیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا
۔انت منی وانا منک
اعتراض پیدا ہونے کی وجہ
اعتراض کرنے کا کیا ہے جب طبیعت میں فساد اور ناپاکی ہو تو وہ نیکی کی طرف آنا کب پسند کرتی ہے بلکہ خلافِ طبع سمجھ کر اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔میرے اس الہام کی سچّائی کا ثبوت اس پر اعتراض ہی ہیں ۔اگر خداتعالیٰ کا انکار اور دہریت بڑھی ہوئی نہ ہوتی تو کیوں اعتراض کیا جاتا ۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ا س وقت خدا تعالیٰ کا پاک اور خوشنما چہرہ دُنیا کو نظر نہ آتا تھااور وہ اب مجھ میں ہو کر نظر آئے گا اور آرہا ہے ۔ کیونکہ اُس کی قدرتوں کے نمونے اور عجائبات ِ قدرت میرے ہاتھ پر ظاہر ہورہے ہیں ۔ جن کی آنکھیں کھلی ہیں وہ دیکھتے ہیں مگر جو اندھے ہیں وہ کیونکر دیکھ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اس امر کو محبوب رکھتا ہے کہ وہ شناخت کیا جاوے اور اُس کی شناخت کی یہی راہ ہے کہ مجھے شناخت کرو ۱ ؎ یہی وجہ ہے کہ میرا نام اس نے خلیفۃ اللہ رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے
کنت کنزا مخفیافا حببت ان اعرف فخلقت ادم
اس میں آدم میرا نام رکھاہے ۔ یہ حقیقت اس الہام کی ہے ۔ اب اس پر بھی کوئی اعتراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دکھادے گا کہ وہ کہاں تک حق پر ہے۔ (الحکم جلد ۷نمبر۷ ۳صفحہ ۱،۲مورخہ ۱۰ کتوبر ۱۹۰۳؁ء )
حضرت اقدس ؑ جہلم میں
حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعو د الصلوٰۃوالسلام جب مقدمہ کریم الدین میں جہلم تشریف لائے تھے اور ضلع جہلم اوراس کے گردو نواح کی مخلوق آپ کی زیارت کے لیے کثیر التعداد جمع تھی اور جہلم کی کچہری کے احاط میں آدمزاد ہی نظر آتے تھے جس کی تصدیق جہلم کے اخبار نے بھی کی تھی اور جہلم کی کل مخلوق اور احکام بھی اس امرکو جانتے ہیں۔اس روز ۱۷ جنوری ۱۹۰۳؁ ء کو احاطہ عدالت میں آپ کرسی پر تشریف فرما تھے اور ارد گرد مریدان باصفا نہایت ادب کے ساتھ حلقہ زن تھے اور ہزاروں انسانوں کا مجمع موجود تھا ہمارے محترم مخدوم جناب خان محمد عجب خانصاحب آف زیدہ بھی آپ کی کرسی کے پا س ایڈیٹر الحکم کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ذیل میں ہم وہ تقریر لکھنا چاہتے ہیں جو اُس وقت احا طہ عدالت میں آپ نے فرمائی تھی ۔اس وقت جناب خان محمد عجب خانصاحب آف زیدہ نے جو اس قدرہجوم اور رجوع مخلوق کا د یکھا اور حضرت اقدس کے چہرہ پر نگا ہ کی تو خوشی اور اخلاص کے ساتھ اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اپنی سعادت اور خوش قسمتی کو یا د کر کے (کہ اِسوقت اُس عظیم الشان انسان کے قدمو ں میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہے جس کو رسول ﷺنے سلام کہا اورجس کا آنا اپنا آنا فرمایا ہے )عرض کیا کہ حضور میرا دل چاہتا ہے کہ میں کے دستِ مبارک کو بوسہ دوں ۔اس پر حضرت ِاقدس نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ اپنا ہا پھیلایا دیا اور خاں صاحب موصوف نے بہت ہی متاثر ہو کر اوررِقت ِقلب کے ساتھ آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیا اس پرحضرت حجۃ اللہ نے مؤثر تقررفرما ئی ۔فر ما یا :۔
بلند ہمتی
ہمت نہیں ہار نی چاہیے ۔ہمت اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے اور مومن بڑا بلند ہمت ہو تا ہے ہر وقت خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید کے لیے تیار رہناچاہیے اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرے بزدلی منافق کا نشان ہے ۔مومن دلیر اور شجاع ہو تا ہے مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں کہ اس میں مو قع شناسی نہ ہو مو قع شناسی کے بغیر جو فعل کیا جا تا ہے وہ تہوّر ہو تا ہے مو من میں شتابکاری نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت ہو شیاری اور تحمل کے ساتھ نصرتِ دین کے لیے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہو تا ۔
انسان سے کبھی ایسا کام ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے مثلاََ کسی سائل کو اگر دھکادیا تو سختی کا موجب ہو جا تا ہے اور خداتعالیٰ کو ناراض کر نے والا فعل ہو تا ہے اور اسے توفیق نہیں ملے گی کہ اسے کچھ دے سکے،لیکن اگر نرمی یا اخلاق سے پیش آویگا اور خواہ اُسے پیالہ پانی کا ہی دیدے تو ازالۂ قبض کا موجب ہو جا وے گا۔
قبض وبسط
انسان پر قبض وبسط کی حالت آتی ہے ۔بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑ ھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیداہو تا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔نمازوں میں لذّت اور سرور پیداہو تا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جا تا رہتا ہے اور نمازوں میں ایک تنگی کی سی حالت پیدا ہو جا تی ہے ۔جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کیساتھ استغفار کرے اور پھر درُود شریف بہت پڑھے ۔نماز بھی بار بار پڑھے۔قبض کے دوُر ہو نے کا یہی علاج ہے۔
حقیقی علم
حقیقی علمِ علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہو تاہے اور خشیت الہیٰ پیدا ہو تی ہے ۔جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمٰٓئُوا (سورۃ فاطر:۲۹)
اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہو تی تو یاد رکھو وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔ ۱؎
ایمان کیلئے مناسبت شرط ہے
قرآن شریف سے صاف طور پر معلوم ہو تا ہے کہ جب تک انسا ن کی فطرت میں سعادت اورایک مناسبت نہ ہو ایمان پیدا نہیں ہو تا ۔خدا تعالیٰ کے مامور اور مُر سل اگر چہ کھلے کھلے نشان لے کر آتے ہیں مگر اس میں بھی شُبہ نہیں کہ ان نشانوں میں ابتلاء اور اخفا کے پہلو بھی ضرور ہو تے ہیںسعید جو باریک بین اور دوُر بین نگاہ رکھتے ہیں اپنی سعادت اور مناسبتِ فطرت سے اُن اُمور کو جو دوسروں کی نگاہ میں مخفی ہو تے ہیں دیکھ لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں لیکن جو سطحی خیال کے لوگ ہو تے ہیں اور جن کی فطرت کو سعادت اور رُشد سے کوئی مناسبت اورحصّہ نہیں ہو تا وہ انکار کرتے ہیں اور تکذیب پر آمادہ ہو جا تے ہیں جس کا نتیجہ اُن کو برداشت کر نا پڑتا ہے ۔
دیکھو مکہ معظمہ میں جب آنحضرتﷺ کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکّہ ہی میں تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکّہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر ؓ کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپؐشہر میں بھی داخل نہیں ہو ئے تھے۔ راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پو چھا کہ کوئی نئی خبر سنائو اور اُس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگرچہ بعد میں بے انتہا معجزات آپ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے۔ لیکن ابو جہل باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالف اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کرتا رہا۔اِس میں کیا سِرّ تھا پیدائش دونو ں کی ایک ہی جگہ کی تھی ۔ایک صدیق ٹھہرتا ہے اور دوسرا جو ابو الحکم کہلاتا تھا وہ ابو جہل بنتا ہے ۔ اس میں یہی راز تھا کہ اس کی فطرت کو سچائی کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہ تھی غرض ایمانی امور مناسبت ہی پر منحصرہیں ۔ جب مناسبت ہوتی ہے تو وہ خود معلّم بن جاتی ہے اور امورِحقہ کی تعلیم دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ مناسبت کا وجود بھی ایک نشان ہوتا ہے ۔
میں بصیرت اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں اور مَیں وہ قوت اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مشاہدہ کرتا ہوں مگر افسوس مَیں اس دُنیا کے فرزندوں کو کیونکر دکھا سکوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سُنتے ہوئے نہیں سُنتے کہ وہ وقت ضرور آئیگا کہ خدا تعالیٰ سب کی آنکھ کھول دے گا اور میری سچائی روزروشن کی طرح دُنیا پر کُھل جائے گی لیکن وہ وقت وہ ہوگا کہ توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور پھر کوئی ایمان سود مند نہ ہوسکے گا ۔
میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت سلیم ہَے
میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت میں حق سے محبت اور اہلِ حق کی عظمت ہو تی ہے ۔جسکی فطرت سلیم ہے وہ دُور سے اُس خو شبوکو جوسچائی کی میرے ساتھ ہے سُو نگھتا ہے اور اُسی کشش کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کو عطا کرتا ہے میری طرف اس طرح کھنچے چلے آتے ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف جاتا ہے لیکن جس کی فطرت میں سلامت روی نہیں ہے اور جو مُردہ طبیعت کے ہیں اُن کو میری باتیں سود مند نہیں معلوم ہوتی ہیں وہ ابتلاء میں پڑتے ہیں اور انکا ر پر انکاراورتکذیب پر تکذیب کر کے اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کہ اُن کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
میری مخالفت کرنے والے کیا نفع اُٹھائیں گے کیا مجھ سے پہلے آنے والے صادقوں کی مخالفت کرنے والوں نے کوئی فائدہ کبھی اُٹھایا ہے اگر وہ نامراد اور خاسر رہ کر اس دُنیا سے اُٹھتے ہیں تو میرا مخالف اپنے ایسے انجام سے ڈر جاوے کیونکہ مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں صادق ہوں ۔ میرا انکاراچھے ثمرات نہیں پیدا کرے گا ۔ مبارک وہی ہیں جو انکار کی *** سے بچتے ہیں اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہیں ۔ جو حُسن ظنّی سے کام لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی صُحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ان کا ایمان اُن کو ضائع نہیں کرتا بلکہ برومند کرتا ہے ۔ مَیں کہتا ہوں کہ صادق کی شناخت کے لیے بہت مشکلات نہیں ہیں ۔ ہر ایک آدمی اگر انصاف اورعقل کوہاتھ سے نہ دے اور خدا کا خوف مدِّ نظر رکھ کر صادق کو پرکھے تو وہ غلطی سے بچا لیا جاتا ہے ،لیکن جو تکبّر کرتا ہے اور آیات اللہ کی تکذیب کرتا ہے اس کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی ۔
سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض
یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اُن پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت ﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا ۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوںجو اپنے دل میں اسلام کے لیے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت اُن کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سبّ وشتم اور توہین آنحضرتﷺ کی گئی ہو قرآن شریف کی ہتک ہو ئی ہوپھر مجھے مسلما نو ں حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہو تا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جا تا ہوں کہ ان میں اتنی حسِ بھی با قی نہ رہی کہ اس بے عزّتی کو محسوس کر لیں۔کیا آنحضرت ﷺ کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ وشتم پر بھی وہ آسمانی سلسلہ قائم نہ کر تا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہّ بند کر کے آپؐ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جب کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرتﷺ پر درُود بھجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے۔
مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآنِ شریف کی سچائیوں کو دکھائوںاور یہ سب کا م ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسِلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیا ت و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اس قدر ہو کہ روُئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔
اِس قدر صورتیں اس سلسلہ کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کر نابھی آسان نہیں ۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی تو ہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔
میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کر تا ہوں
کم فہم لوگ اعتراض کر تے ہیں کہ میں اپنے مدارج کو حدسے بڑھاتا ہو ں۔میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہو ں کہ میری طبیعت اور فطرت میں ہی یہ بات نہیں کہ میں اپنے آپ کوکسی تعریف کا خواہشمند پائوں اور اپنی عظمت کے اظہار سے خوش ہوں۔میں ہمیشہ انکساری اور گمنامی کی زندگی پسند کر تا ہوں لیکن یہ میرے اختیار اور طاقت سے باہر تھا کہ خداتعالیٰ نے مجھے باہر نکالا اور جس قدر میری تعریف اور بزرگی کا اظہار اس نے اپنے کلام میں جو مجھ پر نازل کیا گیا ہے کیا یہ ساری تعریف اور بزرگی آنحضرتﷺ ہی کی ہے احمق اس بات کو نہیں سمجھ سکتا مگر سلیم الفطرت اور باریک نگاہ سے دیکھنے والا دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس وقت واقع ضروری تھا کہ جب کہ آنحضرتﷺ کی اس قدرہتک کی گئی ہے اور عیسائی مذہب کے واعظوں اور منادوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ اُس سید الکو نین کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اور ایک عاجز مریم کے بچے کو خداکی کُرسی پر جا بٹھایا ہے۔اللہ تعالیٰ کی غیرت نے آپؐ کا جلال ظاہر کرنے کے لیے یہ مقدر کیا تھاکہ آپؐکے ایک ادنیٰ غلام کو مسیح ابن مریم بنا کے دکھا دیا۔ جب آپؐ کی اُمّت کا ایک فرد اتنے بڑے مدارج حاصل کر سکتا ہے تو اس سے آپؐ کی شان کا پتہ لگ سکتا ہے۔ پس یہاں خداتعالیٰ نے جس قدر عظمت اس سلسلہ کی دکھائی ہے اور جو کچھ تعریف کی ہے یہ درحقیقت آنحضرت ﷺ ہی کی عظمت اور جلال کے لیے ہے مگر احمق ان باتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
ظہو ر علاماتِ مسیح موعود ؑ
اس صدی میں سے بیس سال گذرنے کوہیں اور آخری زمانہ ہے چودھویں صدی ہے کہ جس کی بابت تمام اہلِ کشف نے کہا کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں آئے گا وہ تمام علامات اور نشانات جو مسیح موعود کی آمد کے متعلق پہلے سے بتائے گئے تھے ظاہر ہوگئے۔ آسمان نے کسوف وخسوف سے اورزمین نے طاعون سے شہادت دی ہے اور بہت سے سعادتمندوں نے ان نشانوں کو دیکھ کر مجھے قبول کیا اور پھر اَوربھی بہت سے نشانات اُن کی ایمانی قوت کو بڑھانے کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر کیے اور اس طرح پر یہ جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے ا؎
کوئی ایک بات ہوتی تو شک کرنے کا مقام ہوسکتا تھا مگر یہاں تو خدا تعالیٰ نے اُن کو نشان پر نشان دکھائے اور ہر طرح سے اطمینان اور تسلی کی راہیں دکھائیں ، لیکن بہت ہی کم سمجھنے والے نکلے ہیں ۔ حیران ہوتا ہوں کہ کیوں یہ لوگ جو میرا انکار کرتے ہیں ان ضرورتوں پر نظر نہیں کرتے جو اس وقت ایک مصلح کے وجود کی داعی ہیں ۔
مسلمانوں کی حالت
وہ دیکھیں کہ روئے زمین پر مسلمانوں کی کیا حالت ہے ۔ کیا کسی پہلو سے بھی کوئی قابلِ اطمینان صورت دکھائی دیتی ہے شان وشوکت کی حالت تو سلطنت کی صورت میں نظر آسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت اس وقت روم کی سلطنت ہے لیکن اس کی حالت کو دیکھ لو وہ بتیس دانتوں میں زبان ہورہی ہے اور آئے دن کسی نہ کسی خر خشہ اور مخمصہ میں مبتلا رہتی ہے ۔علمی حالت کے لحاظ سے سب رو رہے ہیں کہ مسلمان پیچھے رہے ہوئے ہیں اور نِت نئی مجلسیں اور کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں کہ مسلمانوںکی علمی حالت کی اصلاح کی جاوے ۔ دُنیوی لحاظ سے تو یہ حالت اور دینی پہلو کے لحاظ سے تو بہت ہی گری ہوئی حالت ہے کوئی بدعت اور فعل شنیع نہیں ہے جس کے مرتکب مسلمان نہ پائے جاتے ہوں ۔اعمالِ صالحہ کی بجائے چند رسوم رہ گئی ہیں ۔ جیلخانوں میں جاکر دیکھو تو زیادہ مجرم مسلماندکھائی دیں گے کس کس بات کا ذکر کیا جاوے مسلمانوں کی حالت اس وقت بہت ہی گری ہوئی ہے اور اُن پر آفات نازل ہورہی ہیں ۔ مگر کیا مسلمان ابھی چاہتے ہیں کہ وہ اَور پِیسے جاویں ۔ اس سے بڑھ کر اُن کی ذلیل حالت کیا ہوگی کہ وہ پاک دین جو بے نظیر دولت اُن کے پاس تھی اور ایمان جیسی نعمت وہ کھو بیٹھے ہیں ۔ اورمسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے عیسائی ہوکر آنحضرتﷺ کی توہین کرتے اور اسلام کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور یا اگرکُھلے طورپر عیسائی نہیں ہوئے تو عیسائیوں کے علوم فلسفہ وطبیات سے متاثر ہوکر مذہب کو ایک بیضرورت اور بیفائدہ شئے سمجھنے لگ گئے ہیں ۔
یہ آفتیں ہیں جو اسلام پر آرہی ہیں اور مَیں نہایت درداور افسوس سے سُنتا ہوں کہ اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں حالانکہ زمانہ پکار پُکار کر کہہ رہا ہے کہ اس وقت ضرورت ہے کہ کوئی شخص آئے آوے اور وہ اصلاح کرے مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت کیوں خاموش جبکہ اُس نے
انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون (سورۃ الحجر : ۱۰)
خود فرمایا ہے ۔اسلا م پر ایساخطرناک صدمہ پہنچا ہے کہ ایک ہزار سال قبل تک اس کا نمونہ اور نظیر موجود نہیں ہے ۔ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے اور وہ اس وقت سا ری طاقت اور زور کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے اور مجھے بھیجا ہے تامَیںہمیشہ کے لیے اُس کا سر کُچل دوں ۔
سلسلہ میں داخل ہونے کی ضرورت
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ حاجت نہیں ہے ہم نماز روزہ کرتے ہیں ۔وہ جاہل ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ سب اعمال اُن کے ُمردہ ہیں اس میں روح اور جان نہیں اور وہ آنہیں سکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ پیوند نہ کریں اور اس سے وہ سیراب کرنے والا پانی حاصل نہ کریں ۔تقویٰ اس وقت کہاں ہے ؟ رسم وعادت کے طور پر مومن کہلانا کچھ فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ خدا کو دیکھانہ جائے اور خدا کو دیکھنے کے لیے اور کوئی راہ نہیں ہے ۔(اس سفر میں حضرت حجۃاللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کھانسی کی شکایت تھی ۔ یہاں پہنچ کر پھر کھانسی کی شکایت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ’’ مَیں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو کچھ سنائوں مگر کھانسی روک ہوتی ہے)
غرض اس قدر ضرورتیں داعی ہیں کہ اُن کے بیان کرنے کے لیے بہت بڑا وقت چاہیئے اور پھر اس قدر نشانات ظاہر ہوئے ہیں کہ اُن کی بھی ایک بہت بڑی ضخیم کتاب تیار ہوتی ہے مَیں نے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کو جمع کرکے کہا ہے۔ ؎
آسماں بار دنشاں الوقت مے گوید زمیں :: ایں دوشاہد از پئے تصدیقِ ایستادہ اند ا ؎
سلسلہ کی مخالفت
خان عجب خاں صاحب ۔ایک بار مَیں پادریوں کے اعتراض سے بہت ہی تنگ ہوگیا وہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا ۔اس وقت مَیں نے دُعا کی کہ اے اللہ ! اسلام کو غالب کر ۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ اس نصرت کے وقت لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔حضرت اقدس ؑ ۔یہ با لکل سچ ہے عیسائیوں نے اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔ جس جس طرح سے اُن کا قابو چلا انہوں نے اسلام کے شجر پر تیر چلایا ہے ،لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ اس کا محافظ اور ناصر تھا ۔اس لیے وہ اپنے ارادوں میں مایوس اور نامراد ہوئے ۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت (جب ایسی حالت ہورہی تھی اور اسلام کی اس قدر مخالفت کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے یہ سلسلہ عظمتِ اسلام کو قائم کرنے کے واسطے کھڑے کیا اور اس کی تائید اور نصرت ہر ایک پہلو سے کی ) وہ بجائے اس کے کہ اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس پیاسے کی طرح جس کو ٹھنڈے اور برفاف پانی کا پیالہ مل جاوے شکر کرتے ، انہوں نے مخالفت شروع کی اور اسی طرح پر جو ہمیشہ سنّت اللہ چلی آتی ہے ہنسی اور استہزاء سے کام لیا ،۔خدا تعالیٰ کے نشانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور اُن سے منہ پھیر لیا ۔ مجھے ان لوگوں کی حالت پر رحم اور افسوس آتاہے کہ کیوں غور نہیں کرتے اور منہاج ِ نبوت پر اس سلسلہ کی سچائی کو نہیں سمجھتے ۔
صداقت کے دلائل
وہ دیکھتے کہ اس قدر نصرتیں اور تائیدیں جو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کیا یہ کسی مفتری اور کذّاب کوبھی ملی سکتی ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔ کوئی شخص نصرتِ الٰہی کے بغیر اس قدر دعویٰ کب کر سکتا ہے ۔ کیا وہ تھکتا نہیں ؟ اور پھر اللہ تعا لیٰ مفتری کے لیے اس قدر غیرت نہیں دکھاتا کہ اُسے ہلاک کرے ؟بلکہ اس کو مہلت دیتا جاتا ہے اور نہ صرف مہلت بلکہ اُس کی پیشگوئیوں کو بھی سچّا کر دیتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں اسی کی تائید کرتا ہے اور اسی کوفتح دیتا ہے ۔انسانی حکومت کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص افتراء کرتا ہے اور جھوٹی حالت بنا کر کہے مَیں عہدیدار ہوں تو وہ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سخت سزا دی جاتی ہے لیکن کیا تعجب کی بات نہیں کہ ایک مفتری اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا جاوے تو پھر نشان بھی دکھاتا جاوے اور اسے کوئی نہ پکڑے ۔ براہینِ احمدیہ کی اشاعت کو بیس برس کے قریب ہوئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ گائوں میں بھی ہم کوکوئی شناخت نہیں کرتا تھا ۔ گائوں والے موجود ہیں ۔خود مولوی محمّد حسین جس نے اس کتاب پر ریویو لکھا زندہ موجود ہے اُس سے پوچھو کہ اس وقت کیا حال تھا۔ایسے وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فوج درفوج لوگ تیرے پاس آئیں گے ۔ یا تون من کل فج عمیق دور دراز سے تیرے پاس لوگ آئیں گے ا ور تحائف آئیں گے ۔ پھر یہ بھی کہا کہ لوگوں سے تھکنا مت ۔ اب کوئی سوچے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے ی وعدے کس طرح پورے ہوئے ۔ ان فہرستوں کو گورنمنٹ کے پاس دیکھ لے جو آ نے والے مہمانوں کی مرتب ہوکر ہفتہ وار جاتی ہیں اور ڈاک خانہ اور ریل کے رجسٹروں کی پڑتال کرے جس سے پتہ لگے گا کہ کہاں کہاں سے تحائف اور روپیہ آرہا ہے اور قادیان میں بیٹھ کر دیکھیں کہ کس قدر ہجوم اور انبوہ مخلوق کا ہوتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے بشارت اور قوت نہ ملے تو انسان تھک جاوے اور ملاقاتوں سے گھبرا اُٹھے ۔ اُس نے یہ الہام کیا کہ گھبرانا نہ ویسے ہی قوت بھی عطا کی کہ گھبراہٹ ہوتی ہی نہیں اور ایسا ہی انگریزی ،اردو،عربی ،عبرانی میں بہت سے الہامات ہوئے جو اُس وقت سے چھپے ہوئے موجود ہیں اور پورے ہورہے ہیں ۔اب خدا ترس دل لے کر میرے معاملہ پر غور کرتے تو ایک نور اُن کی رہبری کرتا اور خدا کی رُوح اُن پر سکینت اور اطمینان کی راہیں کھول دیتی ۔ وہ دیکھتے کے کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے جو اس قسم کی پیشگوئی کرے ؟ انسان کو اپنی زندگی کے ایک دم کا بھروسہ نہیں ہوسکتا تو یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تیرے پاس دُور دراز سے مخلوق آئے گی اور ایسے زمانے میں خبر دیتا ہے جبکہ وہ محجوب ہے اور اس کو کوئی اپنے گائوں میں بھی شناخت نہیں کرتا ۔ پھر وہ پیشگوئی پُوری ہوتی ہے اس کی مخالفت میں ناخنوں تک زور لگایا جاتا ہے اور اس کے تباہ کرنے اور معدوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی مگراللہ تعالیٰ اس کو برومند کرتا اور ہر نئی مخالفت پر اس کو عظیم الشان ترقی بخشتا ہے ۔ کیایہ خدا کے کام ہیں یا انسانی منصوبوں کے نتیجے ؟ اصل یہی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب ۔مولویوں نے مخالفت کے لیے جُہلاء کو بھڑ کایا اور عوام کو جوش دلایا ، قتل کے فتوے دیئے ،کُفر کے فتوے شائع کئے اور ہر طراح سے عام لوگوں کو مخالفت کیلئے آمادہ کیا مگر کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور تائیدیں اَور بھی زور کے ساتھ ہوئیں ۔اُسی کے موافق جو اُس نے کہا تھا ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا مگر اللہ تعالیٰ اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا ۔‘‘
مہدی منتظر
جو مولوی مخالفت کے لیے شورمچاتے اور لوگوں کو بھڑکاتے ہیں یہی پہلے منبروں پر چڑھ کر رو رو کر دُعائیں کیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اب مہدی کا وقت آگیا ، لیکن جب آنے والا مہدی آیا توشور مچانے والے ٹھہرے اور اسی مہدی کو مضل اور ضال اور دجّال کہا اور یہاں تک مخالفت کی کہ اپنے خیال میں عدالتوں تک پہنچا کر اس سلسلہ کو بند کرنا چاہا ، مگر کیا وہ جو خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ان لوگوں کی امخالفت سے رُک سکتا ہے اور بند ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں ؟ اگر یہ اب بھی نہیں مانتے توآدم سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر دو کہ اس طرح پر بیس برس پہلے ایک آنے والے زمانہ کی خبر دی اور پھر ایسی حالت میں کہ لوگوں نے اس پیشگوئی ک وروکنے کی بہت کوشش کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور لوگوں کا کثرت کے ساتھ رجوع ہوا ۔ کیایہ نشان کم ہے اس کی نظیر دکھائو۔
پھر حدیث میں پڑھتے تھے کہ مہدی کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف و خسوف ہوگا اور جب تک یہ نشان پورا نہیں ہوا تھا اس وقت تک شورمچاتے تھے کہ یہ نشان پورا نہیں ہوا ، لیکن اب ساری دُنیا قریباً گواہ ہے کہ یہ نشان پورا ہوا ۔ یہاں تک کہ امریکہ میں بھی ہوا ۔ اوور دوسرے ممالک میں بھی پورا ہوا ۔ا ور اب وہی جو اس نشان کا آیاتِ مہدی میں سے ٹھہراتے تھے اس کے پورے ہونے پر اپنے ہی مُنّہ سے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہی قابلِ اعتبار نہیں ۔اللہ تعالیٰ انکی حالت پر رحم کرے ۔ میری مخالفت کی یہ *** پڑتی ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کی بھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں ۔
پھر مسیح موعود کے وقت کا ایک نشان طاعون کا تھا ۔ انجیل و توریت میں بھی یہ نشان موجود تھا اور قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان مسیح موعود ؑ کا خدا تعالیٰ نے ٹھہرایا تھا چناچہ فرمایا
وان من قریۃ الا نحن مھلکوھا (سورۃ بنی اسرائیل:۵۹)
یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ غور سے سمجھنے کے لائق ہیں اور اب دیکھ لو کہ کیا طاعون ملک میں ہوئی ہے یا نہیں ؟ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ مَیں نے جب طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی کی تو ملک میں اس کی ہنسی کی گئی اور اس اس پر ٹھٹھا کیا گیا ۔ لیکن اب ملک کی حالت اور طاعونی اموات کے نقشوں کو پڑھ کر بتائیں کیا یہ پیشگوئی پُوری ہوئی ہے یا نہیں ؟ یہ وہ باتیں ہیں جو سمجھنے کے لائق ہیں اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ایسا اعتراض تو کفار ہمیشہ سے نبیوں پر کرتے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں کوایسی باتیں مخالفوں سے سُننی پڑی تھیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اگر اس قسم کی باتیں ہوں تو پھر قیامت کا نمونہ ہوجاوے اور اس دنیا کو وہ قیامت بنانا نہیں چاہتا ۔ ایمان بالغیب بھی کوئی چیز ہے اگر ایسا ہو تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا مثلاً اگر کوئی شخص سورج پر ایمان لاوے تو بتائو یہ ایمان اس کوکیا نفع دے گا ؟ ایمان ہمیشہ اسی صورت اور حالت میں مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جب اس میں کوئی پہلو اخفاء کا بھی ہو لیکن جب کُھلی بات ہوتو پھر وہ مفید نہیں رہتا ۔
اولین کا مقام
دیکھو اگر کوئی شخص پہلی رات کے چاند کو دیکھ کربتا دے تو اُس کی تیز بینی کی تو تعریف ہو گی لیکن اگر چودھوں رات کے چاند کو جو بدر ہو تا ہے دیکھ کر شور مچاوے کہ میں نے چاند کو دیکھ لیا ہے تو اس کو سوائے مجنوں کے اور کوئی خطاب نہیں ملیگا۔ اسی طرح پر ایمان میں فراست اور تقویٰ سے کا م لینا چاہئے ۔اور قرائن قویہ کو دیکھ کر تسلیم کر لینا مو من کا کام ہے ورنہ جب بالکل پردہ برانداز معاملہ ہو گیا اور سارے گو شے کھُل گئے اس وقت ایک خبیث سے خبیث انسان کو بھی اعتراف کرناپڑے گا ۔ میں اس سوال پربار بار اس لئے زور دیتا ہوںکہ لوگو ں کو معلوم نہیں کہ نشانوں کی فلاسفی کیاہے۔یہ یادرکھنا چاہئے جیسامیں نے ابھی کہا ہے خداتعالیٰ کبھی قیامت کا نظارہ یہاں قائم نہیں کرتا اور وہ غلطی کرتے ہیں جو ایسے نشان دیکھنے چاہتے ہیں یہ محرومی کے لچھن ہو تے ہیں ۔آنحضرت ﷺپر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے آئیں تو آپ نے یہی جواب دیا
ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرََا رَّ سُوْ لاَََ (بنی اسرائیل ۹۴)
پو رے انکشاف کے بعد ایمان لا کر کسی ثواب کی اُمید رکھنا غلطی ہے ۔اگر کوئی مٹھی کھول دی جاوے اور پھر کوئی بتاوے کہ اس میں فلاں چیز ہے تو اس کی کوئی قدر نہ ہو گی۔
پس پہلے تقویٰ سے تو کام لو اور قرآن شریف کو دیکھو کہ ثواب اسی میں ہے جب ساری باتیں کھل گئیں تو پھر کیا جو اس انتظار میں رہے کہ یہ دیکھوں اور وہ دیکھوں وہ ہمیشہ ایمان اور ثواب کے دائرہ سے خارج رہے ہیں۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق مہاجر اور انصار رکھا ہے اور اُن کو
رَضِیَ اللہ ُعَنْھُم ْوَرَضُوْاعَنْہُ
میں داخل کیا ہے یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسے فرما یا۔
اَذَا جَآ ئَ نَصْر ا للہ ِ والْفَتْحُ۔وَرَاَیْتَ انَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فَیْ دِیْنِاللہ ِ اَفْوَاجاََ (سورۃالنصر:۲‘۳)
یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگر چہ وہ مسلمان تھے مگر ان کووہ مراتب نہیں ملے جو پہلے لو گو ں کو دئیے گئے۔پھر مہاجرین کی عزت سب سے زیا دہ تھی کیونکہ وہ لوگ اس وقت ایمان لائے جب ان کو معلوم نہ تھا کہ کامیابی ہو گی یا نہیں بلکہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا اور کفر کا دریا بہتا تھا۔خاص مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی اور مسلمان ہو نے والوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں ،مگر انہوں نے ایسے وقت میں قبول کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنکی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بڑے بڑے انعامات اور فضلوں کا وارث اُن کو بنایا۔ پس ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ فلاں وقت آئے گا اور انکشاف ہو گا تو آفتاب کی طرح کھول کر دکھا دیگا مگر اس وقت ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔پیغمبروں کو ماننے والوں میں ثواب اَوَّ لُوْن کو سب سے بڑھ کر ملا ہے اور انکشاف کا زمانہ تو ضرور آتا ہے لیکن آخر اُن کا نام ناس ہی ہو تا ہے
(اس مقام پر مولانا مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی نے عرض کیا کہ
متیٰ ھٰذَا الْفَتْحُ
کے جواب میں یہی کہاکہ تمہارا ایمان اُس دن فائدہ نہ دیگا )فرمایا :۔
بیشک اس بات کوسمجھنا سعادت ہے جس نے اوّل زمانہ میں یہ نہیں پائی اُس کی کوئی قابلیت اور خوبی نہیں ۔جب خدانے کھول دیا اس وقت تو پتھر اور درخت بھی بولتے ہیں ۔زیا دہ قابلِقدر وہ شخص ہے جو اوّل قبول کرتا ہے جیسے حضرت ابو بکر ؓ نے قبول کیا آپنے کوئی معجزہ نہیں مانگا اور آپکے مُنہ سے ابھی سنا تھا کہ ایمان لے آئے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی تجارت پر گئے ہوئے تھے اور جب سفر سے واپس آئے تو ابھی مکہ میں نہیں پہنچے تھے کہ راستہ میں کوئی ایک شخص آپ ملا اور اس سے مکہ کے حالات پوچھے ۔اُس نے کہا کہ اور تو کوئی تا زہ خبر نہیں ۔سب سے بڑھ کر تازہ خبر یہی ہے کہ تمہارے دوست نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سنکر کہا کہ اگر اُس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچاہے۔
اب غور سے دیکھو کہ حضرت ابو بکرؓ نے اس وقت کوئی نشان یا معجزہ نہیں مانگا بلکہ سنتے ہی ایمان لے آئے اور دعویٰ خود آنحضرت ﷺکے مُنہ سے بھی نہیں سنا بلکہ ایک شخص کی زبانی سنا ار فوراََتسلیم کر لیا ۔ یہ کیسا زبردست ایمان ہے روایت بھی آنحضرت ﷺ کے نام سے سنکر اُس میں جھوٹ کا احتمال نہیں سمجھا ۔ ۱؎
دیکھو حضرت ابو بکرنے کوئی نشان نہیں مانگا ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کا نا م صدیق ہوا ۔ سچائی سے بھرا ہوا ۔صرف مُنہ دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ یہ جھوٹا نہیں ہے۔ پس صادقوں کی شناخت اور اُن کا تسلیم کرنا کچھ مشکل امر تو نہیں ہو تا ۔ اُنکے نشانات ظاہر ہو تے ہیں لیکن کو رباطن اپنے آپکو شبہات اور خطرات میں مبتلا کر لیتے ہیں ۔وہ لوگ بڑے ہی بد قسمت ہو تے ہیں جو انتظار ہی میں اپنی عمر گزار دیتے ہیں اور پردہ برانداز ثبوت چاہتے ہیں۔ اُن کو معلوم نہیں کہ جیسا خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے ۔انکشاف کے بعد ایمان نفع نہیں دیتا۔ نفع میں وہی لوگ ہو تے ہیں اور سعادت مند وہی ہیں جو مخفی ہو نے کی حالت میں شناخت کر تے ہیں ۔
دیکھو جب تک لڑائی جاری ہوتی ہے اس وقت تک فوجوں کو تمغے ملتے ہیں اور خطاب ملتے ہیں لیکن جب امن ہوجا وے اس وقت اگر کوئی فوج چڑھائی کرے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ لُوٹنے کو آئے ہیں ۔
شیطان کی آخری جنگ
یہ زمانہ بھی رُوحانی لڑائی کا ہے ۔شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اُس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے اب تھوڑا زمانہ ہے ابھی ثواب ملے گا لیکن عنقریب وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا۔وہ وقت ہو گا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا اور نہ توبہ کا دروازہ ہو نے کے مصداق ہو گا۔ اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے ۔وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہو نا پڑیگا ۔ اُس کے دُنیاوی کا روبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اُس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔ لعنتیں سُنے گا مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہا ں سے ملے گا ۔
لیکن جب دوسرا وقت آیا اور اس زور کے ساتھ دُنیا کا رجوع ہو اجیسے بلند ٹیلہ سے پانی نیچے گرتا ہے اور کوئی انکارکرنے والا ہی نظر نہ آیا اُس وقت اقرار کس پایۂ کا ہو گا اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں۔ ثواب ہمیشہ دُکھ ہی کے زمانہ میں ہو تا ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضر ت ﷺکو قبول کر کے ا گر مکہ کی نمبرداری چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایک دُنیا کی بادشاہی دی ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کمبل پہن لیاا ور ہر چہ باداباد‘ ماکشتی درآب انداختنیم کا مصداق ہو کر آپکو قبو ل کیاتو کیا خداتعالیٰ نے اُنکے اجر کا کوئی حصہ باقی رکھ لیا ہرگز نہیں ۔جو خداتعالیٰ کے لئے ذرا بھی حرکت کر تا ہے وہ نہیں مرتا جب تک اس کا اجر نہ پا لے ۔ حرکت شرط ہے ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف معمولی رفتار سے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڈ کر آتا ہے۔ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے۔جو ہلال کو دیکھ لیتا ہے تیز نظر کہلاتا ہے لیکن چودھویں کے چاند کو دیکھ کر شور مچانے والا دیوانہ کہلائے گا۔
حضرت شہزادہ عبدالطیف کابلی کا مقام
اس موقع پر مولانا مولوی عبدالطیف صاحب نے عرض کی کہ حضور مَیں نے ہمیشہ آپ کو سورج ہی کی طرح دیکھا ہے کوئی امر مخفی یا مشکوک مجھے نظر نہیں آیا پھر مجھے کوئی ثواب ہوگا یانہیں ۔ فرمایا :۔آپ نے اس وقت دیکھا جب کوئی نہ دیکھ سکتا تھا ۔ آ پ نے اپنے آپ کو نشانہ ابتلاء بنا دیا اور ایک طرح سے جنگ کے لیے تیار کر دیا ۔اب بچ جانا یہ خدا کا فضل ہے ۔ ایک شحص جو جنگ میں جاتا ہے اس کی شجاعت میں تو کوئی شبہ نہیں اگر وہ بچ جاتا ہے اور سے کوئی گزند نہیں پہنچتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔ اسی طرح آپ نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا ہر دکھ اور ہر مصیبت کو اس راہ میں اُٹھانے کے لیے تیار ہوگئے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا ۔
مخالفوں کا ساحر کہنا
خان عجب خانصاحب :۔حضور پشاور میں میرے مخالف لوگ جمع ہوئے اور اُنہوں نے میرے والد سے کہا کہ اس کو منع کرو ۔مَیں نے اُن کو یہی جواب دیا کہ مَیں نے جس صداقت کو دیکھ لیا ہے اور خدا کے فضل سے سمجھ لیا ہے اب اُسے سچائی سمجھ کر مَیں کیونکر چھوڑ سکتا ہوں ۔اگر اب چھوڑوں تو مجھ سے بڑھ کر خطا کار اور زیاں کار کون ہوگا کیونکہ مجھ پر حجت پوری ہوچکی ہے ۔اس پر اُنہوں نے اَور تو کچھ نہ کہا صرف یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ جادو گر ہے فرمایا:۔جادوں گرکہلانا قدیم سے انبیاء علیہم السّلام کی سنّت چلی آتی ہے ۔ہم کو اگر کسی نے جادو گر کہا تو اُسی سنّت کو پورا کیا ۔
قرآن شریف اور حدیث کا مرتبہ
مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم تو قرآن شریف پیش کرتے ہیں جس سے جادوبھاگتا ہے اس کے بالمقابل کوئی باطل اور سحر نہیں ٹھہر سکتا ہمارے مخالفوں کے ہاتھ میں کیا ہے جس کو وہ لیے پھرتے ہیں ۔ یقینا یاد رکھو کہ قرآن شریف وہ عظیم الشان حربہ ہے کہ اُس کے سامنے کسی باطل کو قائم رہنے کی ہمت ہی نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی باطل پرست ہمارے سامنے اور ہماری جماعت کے سامنے نہیں ٹھہرتا اور گفتگو سے انکار کر دیتا ہے ۔ یہ آسمانی ہتھیار ہے جو کھبی کُند نہیں ہوسکتا ۔ ہمارے اندرونی مخالف اُس کو چھوڑ کر الگ ہوگئے ہیں ورنہ اگر قرآن شریف کی رُو سے یہ فیصلہ کرنا چاہتے تو اُن کو اس قدر مصبتیں پیش نہ آتیں ۔ ہم خدا تعالیٰ کا پیار اور یقینی کلام قرآن شریف پیش کرتے ہیں اور وہ اس کے جواب میں قرآن شریف سے استدلال نہیں کرتے ۔ ہمارا مذہب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو مقدم کرو جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوا ۔ جو قرآن شریف کے خلاف ہو ہم نہیں مان سکتے خواہ وہ کسی کا کلام ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پر ہم کسی کی بات کوتر جیح کس طرح دیں ۔ ہم احادیث کی عزت کرتے ہیں اور اپنے مخالفوں سے بھی بڑھ کر احادیث کو واجب العمل سمجھتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ وہ حدیث قرآن شریف کے کسی بیان کے متعارض یا متخالف نہ ہو ۔ اور محدثین کے اپنے وضع کردہ اُصولوں کی بناء پر اگر کوئی حدیث موضوع بھی ٹھہرتی ہو لیکن قرآن شریف کے مخالف نہ ہو بلکہ اس سے قرآن شریف کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ۔ تب بھی ہم اس کو واجب العمل سمجھتے ہی اور اس امر کا پاس کریں گے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن اگر کوئی حدیث ایسی پیش کی جاوے جو قرآن شریف کے مخالف ہو تو ہم کوشش کریں گے اُس کی تاویل کرکے اس مخالفت کو دور کردیں لیکن اگر وہ مخالفت دُور نہیں ہوسکتی تو پھر ہم کو وہ حدیث بہر حال چھوڑنی پڑے گی کیونکہ ہم اس پر قرآن شریف شریف کو چھوڑ نہیں سکتے ۔اس پر بھی ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ تمام احادیث جو اس میعار پر صحیح ہیں وہ ہمارساتھ نہیں وہ ہمارے ساتھ ۔بخاری اور مُسلم میرے د عو ے کی تائید وتصدیق کرتے ہیں جیسے قرآن شریف نے فرمایا کہ مسیح مر گئے اسی طرح بخاری اور مسلم نے تصدیق کی اور انی متو فیک (اٰل عمران:۵۶) کے معنے ممیتک کئے ۔جیسے قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بنی اسماعیل کو اسی طرح شرف عطاہوا جیسے بنی اسرائیل کوبزرگی دی تھی ویسے ہی احادیث سے یہ پایاں جاتا ہے ۔ ان لوگوں پر جو انکار کرتے ہیں افسوس ہے ۔ اُن کو رسم اور عادت نے خراب کردیا ہے ورنہ یہ میرا معاملہ ایسا مشکل اور پیچیدہ نہ تھا جو سمجھ میں نہ آتا ۔ قرآن شریف سے ثابت ،احادیث سے ثابت ،دلائلِ عقلیہ سے ثابت اور پھر تائیداتِ سماویہ اسکی مصدق ،اور ضرورتِ زمانہ اسکی مٔویّد ۔باوجود اسکے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ حق پر نہیں ۔
قرآن شریف وسُنّت کی خلاف ورزی
غور کر کے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن شریف وسُنّت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقعہ ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اُٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مرگیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے ۔حضرت عیسیٰ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی تو ہین کر کے کہتے ہیں کہ وہ مُردہ ہے ۔ سوچ کر بتائو کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم النبیاء ہے ایسا اعتقاد کر کے اس کی فضلیت اور خا تمیّت کویہ لوگ بٹہ نہیں لگا تے ؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرے ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر تو ہین اس لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے اور آنحضرت ﷺ کومُردہ کہلایا ہے۔ اسی کی سزا میں یہ نکبت اور بد بختی اُن کے شاملِ حال ہورہی ہے ۔ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں اور دوسری طرف اقرار کر لیتے ہیں کہ ۳۶ سال کے بعد مَرگئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مرا حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت کو فرماتا ہے وَ کَانِ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْماً (سورۃ النساء:۱۱۴) پھر کیا یہ ارشادِ الہٰی غلط ہے ؟ نہیں یہ بالکل درست اور صحیح ہے وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مُردہ ہیں ۔ اس بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کانہیں ہوسکتا ۔حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ میں ایسی فضیلت ہے جوکسی نبی میں نہیں ہے ۔ مَیں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے ۔
کس قدر افسو کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اسی نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ پر ہوا ہے اُسے زندہ کہا جاتا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم یہودی تھی اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ (سورۃ البقرہ :۶۲)
اب قیامت تک اُن کو عزّت نہ ملے گی ۔ اب اگر حضرت عیسیٰ پھر آگئے تو پھر گویا اُن کی کھوئی ہوئی عزّت بحال ہوگئی ۔اور قرآن شریف کا حُکم باطل ہوگیا جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن شریف کا ابطال اور آنحضرت ﷺ کی توہین لازم آتی ہے ۔ پھر تعجب ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ایسے اعتقادات رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو یہود کے لیے فتویٰ دیتا ہے کہ اُن میں نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور وہ ذلیل ہوگئے پھر اُن میں ذندہ نبی کیسے آسکتا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس کے سامنے قرآن شریف پیش کیا جاوے تو وہ انکار کے لیے لب کشائی نہ کرے مگر یہ قرآن شریف سُنتے ہیں اور پڑھتے ہیں وہ اُن کے حلق سے نیچے نہیں جاتا ورنہ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے
یَا عِیْسٰٓی اِنّیْ مُتَوَ فِّیْکَ وَرَا فِعُکَ اِلَیَّ
اور اس سے بڑھ کر خود حضرت مسیح کااپنا اقرار موجود ہے
فَلَمَّاتَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (سورۃ المائدہ:۱۱۸)
اور یہ قیامت کا واقعہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوگا کہ کیا تُونے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنائو ؟ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ جب تک مَیں اُن میں زندہ تھا مَیں نے تو نہیں کہا اور مَیںوہ وہی تعلیم دیتا رہا جو تو نے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھے وفات دیدی اس وقت تو ہی اُن کا نگہبان تھااب یہ کیسی صاف بات ہے۔اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت مسیح ؑ کو دُنیا میں قیامت سے پہلے آنا تھاتو پھر یہ جواب اُنکا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟اُن کو تو کہنا چاہیئے تھا کہ مَیں دُنیا میں جب دوبارہ گیا تو اس وقت صلیب پرستی کا زور تھا اور میری الوہیت اور انبیت پر بھی شور مچا ہوا تھا مگر میں نے جاکر صلیبوں کو توڑا اورخنزیروں کو قتل کیا اور تیری توحید کو پھیلایا ۔نہ یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو خود نگران تھا ۔ کیا قیامت کے دن حضرت مسیح ؑ جُھوٹ بولیں گے؟
ان عقائد کی شناخت کہاں تک بیان کی جاوے جس پہلو اور جس مقام سے دیکھو قرآن شریف کی مخالفت نظر آئے گی ۔
پھر یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ دیکھا جاوے حضرت مسیح ؑ آسمان پر جاکر کہاں بیٹھے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں جوکر حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہیں اور یحیٰ علیہ السلام بالاتفاق وفات یافتہ ہیں ۔ پھر مُردوں میں زندہ کا کیا کام ہے؟
غرض کہا ںتک بیان کروں ایک غلطی ہو تو آدمی بیان کرے یہاں تو غلطیاں ہی غلطیاںبھری پڑی ہیں ۔باوجود ان غلطیوں کے تعصّب اور ضِدّ بڑھی ہوئی ہے اور اس ضد کے سبب سچ کے قبول کرنے میں عذر کر رہے ہیں ۔ہاں جس کے لیے خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے اور اس کے حصّہ میں سعادت ہے وہ سمجھ رہاہے اور اس طرف آجاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کر دیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا ۔اگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہوتو خداکو اس خلافِ قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا ۔
احادیث کی تصحیح و تغلیط بذریعہ کشف
احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں ۔خصوصاً مولوی محمدحسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اُسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں ا؎
جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف اُن کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکم بنایا گیا ہے اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا ؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا طب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کریگا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر د ے گا اور جو صحیح ہونگی اُن کے صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکم کے معنے ہی کیا ہوئے ؟ جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟
مسیح موعود بطور حَکم و عدل
حَکَمْ کا لفظ صاف ظاہر کر تاہے کہ اس وقت اختلاف ہوگا اور ۷۳ فرقے موجود ہوں گے اورہر فرقہ اپنے مسلّمات کو جو اُس نے بنا رکھے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ جُھوٹے ہیں یا خیالی ،چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک اپنی جگہ یہ چاہے گا کہ اس کی بات ہی مانی جاوے اور جو کچھ وہ پیش کرتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کرلیا جاوے ایسی صورت میں اس حَکم کو کیا کرنا ہوگا ۔ کیا وہ سب کی بات مان لے گا یا یہ کہ بعض ردّکریگا اور بعض کو تسلیم کرے گا
غیر مقلّد تو راضی نہیں ہوگا جب تک اس کی پیش کردہ احادیث کا سارا مجموعہ وہ مان نہ لے اور ایسا ہی حنفی ،معتزلہ، شیعہ وغیرہ کُل فرقے تو تب ہی اُس سے راہوں گے کہ وہ ایک کی بات تسلیم کرے اور کوئی بھی ردّ نہ کرے اور یہ ناممکن ہے ۔ اگر یہ ہو کہ کوٹھڑی میں بیٹھا رہے گا اور اگر شیعہ اس کے پاس جائے گا تو اندر ہی اندر مخفی طور پر اُسے کہہ دیگا کہ تُو سچا ہے اور پھر سُنی اُس کے پاس جائے گا تو اُس کو کہہ دیگا کہ تُو سچا ہے ۔ تو پھر تو بجائے حَکم ہونے کہ وہ پکا منافق ہوا اور بجائے وحدت کی رُوح پھونکنے کے اور سچا اخلاص پیدا کرنے کے وہ نفاق پھیلانے والا ٹھہرا ۔مگر یہ بالکل غلط ہے ۔ آنے والا موعود حَکَمْ واقعی حَکَمْ ہو گا ۔ اُسکا فیصلہ قطعی اور یقینی ہے
ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر میں اور وہ ہمیشہ سوچتی رہتی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں اگر بارش زیادہ ہوگئی تو بیٹ والی نہیں ہے اور اگر نہ ہوئی تو بانگر والی نہیں ہے ۔یہی حال حَکَمْ کے آنے پر ہانا چاہیئے۔
وہ خود ساختہ اور موضوع باتوں کو ردّ کردیگا اور سچ کو لے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانام حَکَمْ رکھا گیا ہے ۔اسی لیے آثار میں آیا ہے کہ اُس پر کُفر کا فتویٰ دیا جاوے گا کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو ردّ کریگا وہی اُس پر کُفر کا فتویٰ دیگا ۔یہاں تک کہاہے کہ مسیح موعود ؑ کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کر کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا
اِنَّ ھٰذَاالرَّجُلَ غَیَّرَ دِیْنَنَا۔
اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے ۔اس سے بڑھ کر اَور کیا ثبوت اس امر کا ہوگا کہ وہ بہت سی باتوں کو ردّ کردیگا جیسا کہ اُس کا منصب اُس کو اجازت دیگا ۔
غرض اس بات کو سرسری نظر سے ہر گز نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ غور کرنا چاہیئے کہ حَکَمْ عدل کا آنا اور اس کا نام دلالت کرتا ہے کہ وہ اختلاف کے وقت آئے گا اور اس اختلاف کو مٹائے گا ۔ ایک کو ردّ کریگا اور اندرونی غلطیوںکی اصلاح کریگا ۔
وہ اپنے نُورِ فراست اور خد اتعالیٰ کے اعلام والہام سے بعض ڈھیروں کے ڈھیر جلادیگا اور پکی اور محکم باتیں رکھ لے گا ۔جب یہ مسلّم امر ہے تو پھر مجھ سے یہ اُمید کیوں کی جاتی ہے کہ مَیں اُن کی ہربات مان لو قطع نظر اس کے کہ وہ بات غلط اور بیہودہ ہے ۔اگر مَیں اُن کا سارا طب ویابس مان لُوں تو پھر مَیں حَکَمْ کیسے ٹھہر سکتا ہوں ؟
کشفِ حقیقت کیلئے اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہیں
یہ ممکن ہی نہیں ۔افسوس یہ لوگ دل رکھتے ہیں مگردیکھتے نہیں ،کان رکتے ہیں پر سُنتے نہیں ۔ اُن کے لئے بہترین راہ اب یہی ہے کہ وہ رو رو کر دُعائیں کریںاور میرے متعلق کشفِ حقیقت کیلئے اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق چاہیںاور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص محض احقاقِ حق کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے گا تو وہ میرے معاملہ کی سچائی پر خدا تعالیٰ سے اطلاع پائے گا اور اُس کا زنگ دور ہو جائے گا ۔بُجزاللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جو دلوں کو کھولے اور کشفِ حقائق کی قوت عطا کرے۔اسلام اس وقت مصیبت کی حالت میں ہے اور وہ ایک فناشدہ قوم کی حالت اختیار کر چکا ہے ۔ایسی حالت اور صورت میں ان لو گوں پر مجھے رونا آتاہے جو کہتے ہیں کہ الم کی اس تباہ شدہ حالت کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی ضروت نہیں ۔یہ لگ بیمار ہیں اور چایتے ہیں کہ ہلاک ہو جائیں ایسے بیماروں سے بڑھ کرکون واجب الرحم ہو سکتا ہے جو اپنی بیماری کوشفا سمجھے ۔یہی وہ مرض ہے جس کو لاعلاج کہنا چاہیے ۔اور ان کوگو ں پر اور بھی افسوس ہے جو خو د حدیثیں پڑھتے اور پڑ ھاتے ہیں کہ ہرصدی کے سر پر مجدد آیا کر تا ہے لیکن اس چودیں صدی کے مجدّد کا انکار کردیا ۔اور نہیں بتاتے کہ اس صدی پر جس میں سے بیس سال گزرگئے کوئی مجدّد آیا ہے کہ نہیں ؟خود پتہ نہیں دیتے اور آنے والے کا نام دجاّل رکھتے ہیں ۔ کیا اسلام کی اس خستہ حالی کامداوا اللہ تعالیٰ نے یہی کیا کہ بجائے ایک مصلح اور مردِ خدا کے بھیجنے کے ایک اور دجاّل کو بھیج دیا ؟یہ لوگ ایسے اعتقادرکھ کر خدا تعالیٰ کی اس پا ک کتاب قرآن مجید کی اور آنحضرت ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اِن پر رحم کرے۔
اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیاہے ۔اگر مُلاّ نوں کے پاس جائیں تو وہ اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔مسجدوں کو دوکانوں کا قائمقام سمجھتے ہیں ۔اگر چار روز روٹیا ں بند ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ نماز پڑھنا پڑھانا ہی چھوڑدیں ۔اس دین کے دو ہی بڑے حصّے تھے ایک تقویٰ دوسرے تائیدات سماویہ۔ مگر اب دیکھا جا تا ہے کہ یہ باتیں نہیں رہیں ۔عام طورپرتقویٰ نہیں رہااور تائیدات سماویہ کا یہ حال ہے کہ خود تسلیم کر بیٹھے ہیں کہ مدّت ہو ئی ان میں نہ کوئی نشانات ہیں نہ معجزات اور نہ تائیدات سماویہ کا کو ئی سلسلہ ہے ۔جلسئہ مذاہب میں مولوی محمد حسین نے صاف طورپر اقرار کیا تھا کہ اب معجزات اور نشانات دیکھانے والا کوئی نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ تقویٰ نہیں رہا کیونکہ نشانات تومتقی کو ملتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ دین کی تائید اور نصرت کرتا ہے مگر وہ نصرت تقویٰ کے بعد آتی ہے ۔آنحضرتﷺ کے نشانات اور معجزات اس لئے عظیم الشان قوت اور زندگی کے نشانات ہیں کہ آپ سیّدالمتقین تھے ۔آپ کی عظمت اورجلال کا خیال کرکے بھی انسان حیران رہ جا تا ہے ۔اب پھر اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کہ آپکاجلال دوبارہ ظاہرہو اورآپ کے اسمِ اعظم کی تجلّی دُنیا میں پھیلے اور اسی لئے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔یہ سلسلہ خداتعالیٰ نے اپنے ہا تھ سے قائم کیا ہے اور اس کی غرض اللہ تعالیٰ کی توحیداور آنحضرت ﷺ کا جلال ظاہر کرنا ہے اس سے کوئی مخالف اس کو گزند نہیں پہنچا سکتا۔
حیا ت مسیح کا عقیدہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ماننے سے شرک پیدا ہو تا ہے اور خداتعالیٰ اُس کو پسند نہیں کر تا اور آنحضرت ﷺ کی عظمت تو حید ہی سے ظاہر ہو تی ہے اس لئے خد تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ مسیحؑ کی موت کے پر دہ کو اُ ٹھا دے اور عالم کودکھا دے کہ در حقیقت حضرت مسیحؑ ایک عام انسانوں کی طرح تھے اُن میں کوئی خصوصیت اورالُوہیت نہ تھی و ہ و فات پا گئے۔
اور جیسے جسمانی طور پرَمر گئے روُحانی طو ر پر بھی عیسائی مذہب مَرگیا اور اُسمیں کو ئی قبولیت اور شرف کا نشان باقی نہیں ۔ایک بھی عیسائی نہیں جو کھڑا ہو کر دعویٰ سے کہ سکے کہ میں ان زندہ آثار اورنشانات سے جو زندہ مذہب کے ہیں اسلام کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔
چالیس کروڑ انسان جو مختلف اغراضِ انسانی کی بنا پر یا اور وجو ہات سے اس کو خدا بنا رہے ہیں۔وہ وقت آتا ہے کہ اس کی خدائی سے توبہ کریں گے اوراس کو عام انسانو ں میں جگہ دیں گے۔
مسلمانو ں پر افسوس ہے جنہوں نے عیسائیوں کی ہا ں میں ہاں ملائی ہے اور اس کوخدا بنانے میں مدد دی ۔ عیسائی کھُلے طور پرخدا مانتے ہیں اور یہ لوگ خدائی کی صفات دیتے ہیں ان کی ویسی ہی مثال ہے جیسے کو ئی شخص کہے کہ فلاںآدمی مَرگیا ہے لیکن دوسرآدمی کہے کہ ا بھی مَرا تو نہیں مگر بدن سرد ہے اور نبض بھی نہیں چلتی اور حرکت بھی نہیں تو کیا وہ مردہ نہ ہو گا ؟یہی حال حضرت عیسیٰ کی خدائی کے متعلق ہے ۔خدائی کی صفات اُن میں تسلیم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم خدا نہیں مانتے ۔اب غیرت مند مسلمان سوچ کر جواب دیں کہ جب حضر ت عیسیٰ ؑ کوخالق مانا جا تاہے ۔محُیی ما ناجاتاہے۔غیب دان مانا جاتا ہے ۔حیّ مانا جاتا ہے تو اور کیا باقی رہا ؟غرض مسلمانو ں کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے اور وہ سو چتے نہیں ۔اس وقت اگر اورنشاناتاور تائیدات ہمارے دعویٰ کی مصداق اور مؤیّدنہ ہو تیں تب بھی وقت ایسا تھا کہ وہ زبر دست ضرور ت بتا تا ہے۔ خدا تعالیٰ ہی ان کی آنکھیں کھوکے تو بات بنے گی۔
۱۸ جنوری ۱۹۰۳؁ء
تقدیرِمعلّق وتقدیرمُبرم
تقدیر دو قسم کی ہو تی ہے۔ایک کانام معلّق ہے اور دوسری کو مُبرم کہتے ہیں اگر کوئی تقدیرمعلّق ہو تو دُعا اور صد قات اس کو ٹلا دیتی ہیںاور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیرکو بدل دیتا ہے اور مُبرم ہو نیکی صورت میں وہ صدقات اور دُعااس تقدیرکے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچاسکتی ۔ہا ں وہ عبثاور فضول بھی نہیں رہتی۔کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے ۔وہ اس دعا اور صدقات کااثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرایہ میں اس کو پہنچادیتا ہے۔بعضصورتوں میں ایسابھی ہو تا ہے کہ خداتعالیٰ تقدیر میں ایکوقت تک توقف اور تاخیر ڈالدیتا ہے۔
ِ قضا ء معلّق ا ورمُبرم کا ماخذ اور پتہ قرآنِ کریم ہی سے ملتاہے ۔گو یہ الفاظ نہیں ۔مثلاً قرآن میں فرما یا ہے
اُدْعُوْ نِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۱)
دُعا مانگو میں قبول کروں گا ۔اب یہاں سے معلوم ہو تاہے کہ دُعا قبول ہو سکتی ہے اور دُعا سے عذاب ٹل جاتا ہیاور ہزار ہا کیا کُل کام دُعا سے نکلتے ہیں۔ یہ بات یا د رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کُل چیزوںپر قادرانہ تصرف ہے وہ جوچاہتا ہے کر تاہے ا سکے پو شیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبرہو نہ ہو مگر صد ہاتجربہ کا روں کے وسیع تجربے اور ہزار ہا دردمندوں کی دُعاؤں کے صریح نتیجے بتلارہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اورمخفی تصرف ہے۔وہ جوچاہتاہے محوکر تا ہے اور جو چاہتاہے اثبات کرتا ہے ۔ہمارے لئے یہ ضروری امرنہیں کہ اس کی تہہ تک پہنچے اوراسکی کُہنہ اور کیفیت کو معلوم کرنے کی کوشش کریںجبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شے ہونے والی ہے ۔اس لیے ہم کو اس جھگڑے اور بحث میں پڑنے کی کچھ حجت نہیں۔خداتعالیٰ نیانسان کی قضاء وقدر کو مشروط بھیرکھا ہیجوتوبہ خشوع وخضوع سے ٹل سکتی ہیں ۔جب کسی قسم کی تکلیف اورمصیبت انسان کو پہنچتی ہے تووہ فطرتاً اور طبعاًاعمالِحسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسو س کر تاہے جو اُسے بیدار کرتا اور نیکیوںکی طرف کھنچے لیے جاتاہے اور گناہ سے ہٹا تاہے ۔جس طرح پر ہم ادویات کے اثرکو تجربہ کے ذریعہ سے پا لیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطربالحال انسان جب خدا ئے تعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلّل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اورربی ربی کہہ ک اس کو پکارتا ہے اوردعائیں مانگتا ہے تو وہ رویائے صا لحہ یاالہامِ صحیح کے ذریعہ سے ایک بشارت اورتسلّی پالیتا ہے ۔مَیں نے اپنے ساتھ بارہا اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ دیکھا ہے کہ جب مَیں نے کرب وقلق سے کوئی دُعا مانگی ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے رئویا کے ذریعہ سے اگاہی بخشی ۔ہاں قلق اور اضطرار اپنے بس میں نہیں ہوتا ۔اس کا انشاء بھی فعلِ الٰہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق کیساتھ دُعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہوجاتی ہے ۔دُعا ،صدقہ اور خیرات سے عذاب کاٹلناایک ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کااتفاق ہے اور کروڑ ہا صلحا ء اتقیا ء اور اولیااللہ کے ذاتی تجربے اس امر پر گواہ ہیں ۔
نماز کی لذّت و سرور
نماز کیا ہے ؟ یہ ایک خاص دُعا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کا بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں ۔نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدائے تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے اس کی غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دُعا اور تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو ۔بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ ا س طریق سے اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے ۔
مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل عبادت اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیئے وہ مزا نہیں آتا ۔دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں لذّت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو ۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیزکا مزہ نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اسے بالکل تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح سے وہ لوگ جو عبادتِ الٰہی میں حظّ اور لذّ ت نہیں پاتے انکو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہیئے ۔کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہا ہے دُنیا میںکوئی چیز ایسی نہیںہے جس میں خدائے تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذّت نہ رکھی ہو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کیلئے پیدا کیا تو پھر کیاوجہ ہے کہ اس کی عبادت میں اس کے لیے ایک لذّاور سُرور نہ ہو ؟ لذّت اورسُرور نہ ہو ؟ لذّت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظّ اُٹھانے والا بھی تو ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان جب عبادت ہی کے لیے پیدا ہوا ہے ، ضروری ہے کہ عبادت میں لذّت اور سُرور بھی درجہ غایت کا رکھتا ہو ۔اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربہ سے خوب سمجھ سکتے ہیں مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نو شیدنی اشیاء انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو کیا اُن سے وہ ایک لذّت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اُس ذائقہ اور مزے کے احساس کے لیے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں ؟ کیا وہ خوبصورت اشیاء کودیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات ، حیوانات ہوں یا انسان حظ نہی پاتا ؟ کیا دلِ خوش کُن اورسُریلی آوازوں سے اس کے کان محفوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَوربھی اس امر کے اثبات کے لیے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذّ ت نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو رغبت دی ہے ۔اب اس میں زبر دستی نہیں کی بلکہ ایک لذّ ت بھی رکھ دی ہے ۔اگر محض توالد وتناسل ہی مقصود ہوتا تو مطلب پُورا نہ ہوسکتا ۔عورت اور مرد کی بر ہنگی کی حالت میں اُن کی غیرت قبول نہ کرتی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق پیدا کریں ۔مگر اس میںاُن کے لیے ایک حظ ہے اور ایک لذّت ہے ۔ یہ حظّ اور لذّت اس درجہ تک پہنچی ہے کہ بعض کوتاہ اندیش انسان اولاد کی بھی پراوہ اور خیال نہیں کرتے بلکہ اُن کو صرف حظّ سے ہی کام اور غرض ہے ۔ خدائے تعالیٰ کی علّتِ غائی بندوں کا پیدا کرنا تھا اور اس سبب کے لیے ایک تعلق عورت اور مرد میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظّ رکھدیا جو اکثر نادانوں کے لیے مقصود با لذات ہوگیا ہے ۔
اسی طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں ۔اس میں بھی ایک لذّت اور سُرورہے اور یہ لذّت اور سُرور دُنیا کی تمام لذّتوں اور تمام حظوظِ نفس سے بالاتر اور بالاتر ہے ۔ جیسے عورت اور مرد کے باہم تعلقات میں ایک لذّت ہے اور اس سے وہی بہرہ مند ہوسکتا ہے جو مرد ہے اور اپنے قویٰ صحیحہ رکھتا ہے ۔ ایک نا مرد اور مخنث وہ حظّ نہیں پا سکتا اور جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذّت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کم بخت انسان ہے جو عبادتِ الٰہی سے لذّ ت نہیں پا سکتا اورجیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذاکی لذت سے محروم ہے اسی طرح پر ہا ںایساہی وہ کم بخت انسان ہے جو عبادتِ الٰہی سے لذّ ت نہیں پا سکتا۔
عورت اورمرد کا جوڑا تو باطل اور عاضی جوڑا ہے۔ میں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذّت مجسم کا جوڑا ہے وہ انسان اور خدا ئے تعالیٰ کا ہے ۔مجھے سخت اضطراب ہو تا ہے اور کبھی کبھی یہ رنج میر ی جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزا نہ آئے ، طبیب کے پاس جا تا اورکیسی کیسی منتیںاور خوشامدیںکرتا اور روپیہ خرچ کرتا اور دُکھ اُٹھاتا ہے کہ وہ مزاحا صل ہو۔وہ نا مر د جو اپنی بیوی سے لذّت حاصل نہیں کر سکتا بعض اوقات گھبرا گھبراکر خود خوشی کے ارادے تک پہنچ جا تا ہے اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جا تی ہیں ۔مگر آہ! وہ مریضِ دل وہ نا مردکیوں کو شش نہیںکر تاجس کو عبادت میں لذت نہیں آتی اسکی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی؟دُنیا اور اس کی خو شیوں کے لئے تو کیا کچھ کر تا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پا تا۔کس قدر بے نصیب ہے۔ کیسا ہی محروم ہے! عاضی اور فانی لذتو ں کے علا ج تلاش کر تا ہے اور پا لیتا ہے ۔کیا ہو سکتا ہے کہ مستقل اور ابدی لذّت کے علاج نہ ہوں ؟ہیں اور ضرورہیں۔مگر تلاشِ حق میں مستقل اور پویاقدم در کا ہیں قرآنِ کریم میں ایک مو قع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوںسے دی ہے ۔اس میں بھی سِرّاور بھید ہے۔ ایمان لانے والے کو آسیہ اور مریم سے مثال دی ہے ۔یعنی خدا ئے تعالیٰ مشرکین میں سے مومنوں کو دا کر تا ہے۔ بہر حال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے یعنی جس طر ح عورتوں کا باہم تعلّق ہو تا ہے اسی طرح پر عبو دیّت اور ربوبیّت کا رشتہ ہے۔اگر عورت اور مرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فر یفتہ ہو تووہ جوڑا ایک مبارک اور مفید ہو تا ہے ور نہ نظامِ خانگی بگڑ جا تا ہے اور مقصود با لذّت حاصل نہیں ہو تا ہے۔ مرد اور جگہ خراب ہوکر صدہا قسم کی بیماریاں لے کر آتے ہیں ۔آتشک سے مجذوب ہوکر دُنیا میں ہی محروم ہوجاتے ہیں ۔اور اگر اولاد ہوبھی جائے تو کئی پشت تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے اور اُدھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی ہے اور عزّت وآبرو کو ڈبوکر بھی سچی راحت حاصل نہیں کرسکتی ۔غرض اس جوڑے سے الگ ہوکر کسِ قدر بد نتائج اور فتنے پیدا ہوتے ہیں ۔اسی طرح پر انسان رُحانی جوڑے سے الگ ہوکر مجذوب اور مخدول ہوجاتا ہے دُنیاوی جوڑے سے زیادہ رنج ومصائب کا نشانہ بنتا ہے جیسا کہ عورت اور مرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقاء کے لیے حظّ ہے اسی طرح پر عبودیّت اور ربوبّیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقا کے لیے حظّ موجود ہے ۔صوفی کہتے ہیں کہ یہ حظ جس کو نصیب ہو جائے وہ دُنیا اور مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑ ھ کر تر جیح رکھتا ہے ۔اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اُس کو معلوم ہوجائے تو وہ اس میں ہی فنا ہوجائے ۔لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دُنا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور ان کی نمازیں نری ٹکریں ہیں اور اوپرے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشت وبرخاست کے طور پر ہوتی ہے ۔
مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے کہ جب مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لیے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وُہ دُنیا میں معتبر اور قابلِ عزّت سمجھے جائیں اور پھر اس نماز سے یہ بات اُن کو حاصل بھی ہوجاتی ہے یعنی وہ نمازی پرہیز گا ر کہلاتے ہیں پھر کیوں ان کو یہ کھا جانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بے دلی کی نماز سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے اُن کو عزّت نہ ملے گی اور کیسی عزّ ت ملے گی
غرض مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اسی لیے ہوتے ہیں کہ اُن کو اس لذّت اور سُرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ کسل کی یہی ہے ۔ پھر شہروں اور گائوں میں تو اور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے ۔ سو پچاسواں حصّہ بھی تو پوری مستعدی اور سطی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتے ،پھر سوال یہی ہوتا ہے کیوں اُن کو اس لذّ کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی اس مزے کو انہوں نے چکھا ۔اَور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مئوذن اذان دے دیتا ہے ۔پھر وہ سُننا بھی نہیں چاپہتے ۔گویا اُن کے دل دُکھتے ہیں ۔یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں ۔بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دوکانیں دیکھو تومسجد کے نیچے ہیں مگر کبھی جاکر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے ۔
پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دُعا مانگنی چاہیئے کہ جس طرح اَور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذّتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے کھا یا ہوا یاد رہتا ہے ۔دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اُسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اس کے بالمقابل مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا ۔اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشو ں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا ۔اس لذّت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے ۔پھر نماز میں لذّت کیونکر حاصل ہو۔
میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پَے در پَے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔دانشمند اور زیرک انسان اس سے فائد ہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دَوَام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذّت ہوتی ہے جس کاحا صل کرنا اس کا مقصود بالذّات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سُرورکو حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دُعا پید اہوکر وہ لذّت حاصل ہوتو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقینا یقینا وہ لذّت حاصل ہوجائے گی ۔پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان کے پیشِ نظر رہے۔
اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰ تِ (ہود:۱۱۵)
نیکیا ں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں ۔پس اس حسنات کو اور لذّات کو دل میں رکھ کر دُعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے ۔یہ جو فرمایا ہے کہ
اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰ تِ ۔
یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کودُور کر تی ہیں یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ رُوح اور راستی کے ساتھ ۔وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔اُن کی رُوح مُردہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاںجو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حُسن وجمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقینایقینا بُرائیوںکو دُور کردیتی ہے ۔نماز نشت و برخاست کا نام نہیں ۔نماز کا مغز اور رُوح وہ دُعا ہے جو ایک لذّت اور سُرور اپنے اندر رکھتی ہے۔ ارکانِ نماز دراصل روُ حانی نشست وبر خا ست کے اظلا ل ہیں ۔
انسان کو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو نا پڑ تا ہے اور قیام بھی آ دابِ خد متگا ر ان میں سے ہے ۔رکو ع جو دوسرا حصّہ ہے بتلاتا ہے کہ گو یا طیا ری ہے کہ وہ تعمیل حکم کے لیے کس قدر گر دن جھکا تا ہے ۔اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذللّ اور نیستی کو جو عبادت کا مقصو د ہے ظاہر کر تا ہے ۔یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یا داشت کے مقرر کر دیئے ہیں ۔اور جسم کو باطنی طر یق سے حصّہ دینے کی خا طر اُن کو مقرر کیا ہے ۔علاوہ ازیں باطنی طر یق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھد یا ہے ۔اب اگرظاہری طر یق میں (جو اندونی اورباطنی طر یق کا ایک عکس ہے )صرف نقال کی طرح نقلیں اُتا ری جائیں اور اُسے ایک بار گر اں سمجھ کر کر اُ تا ر پھینکنے کی کو شش کی جا وے تو تم ہی بتلائو اس میں کیا لذّت اور حظ آ سکتا ہے۔اور جب تک لذّت اور سرور نہ آئے اُ س کی حقیقت کیو نکر متحقق ہو گی اور یہ اوقت ہو گا جبکہ روُح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہو کر آستانہ الوہیّت پر گر ے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بو لے۔ اس وقت ایک سرور اور نُور اور تسکین حاصل ہو تی ہے۔
میں اس کو اور کھو ل کر کہنا چاہتا ہو ں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہو تا ہے ۔یعنی کہاں نُطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نُطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ اور پر نُطفہ کے بعد مختلف مداعج کے بعد بچہ پھر جوان ،بوڑھا۔غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ ربو بیت کے مقابل میں اپنی عبودیّت کو ڈال دے ۔غرض مد عا یہ ہے کہ نمازمیں لذّت اور سرور بھی عبودیّت اور ربو بیت کے ایک تعلق سے پیدا ہو تا ہے جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربو بیت کا ذاتی تقاضا ہ نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تَو اس پر نہیں پڑتا ۔اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ در جہ کی لذت حا صل ہو تی ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی حظّ نہیں ہے اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جا تی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اورما سوی اللہ سے اُسے انقطاع ہو جا تا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے ۔اس اتصال کے وقت ان دوجو شوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیّت کا جوش ہو تا ہے ۔ایک خاص کیفیت پیداہو تی ہے اس کا نام صلوٰۃ ہے جوسیّئا ت کو بھسم کر جا تی اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستے کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے ۔اور ہر قسم کے خس وخاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خارخس سے جو اس کی راہ میں ہو تے ہیںآگا ہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ اُس کا اطلاق اس پر ہو تا ہے کیو نکہ اُس کے ہا تھ میں نہیں نہیں اُس کے شمعدانِ دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہو ا ہے تا ہے اور یہ درجہ کا مل تذلّل اور کا مل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حا صل ہو تا ہے پھر گنا ہ کا خیال اُسے کیو نکر آسکتا ہے اور انکا ر اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا فحشاء طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی غرض اسے ایسی لذت اور سرور حاصل ہو تا ہے کہ میں سمجھ نہیں سکتا کہ سے کیو نکربیان کروں ۔
پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دُعا سے حاصل ہو تی ہے غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے ۔کیو نکر یہ مر تبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے ۔سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مومن اور سچا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ۔اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہو ں یا بیرونی سب کی سب للہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہو ئی ہوں۔جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے۔پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حر کت و سکون تک کو اسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیو نکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے؟ اور اپنے آپ کو
اِنّیِْ وَجَّھْتُ وَجھِیَ لِلَّذِیْ فطر السموات ولارض(الانعام:۸۰)
کہتے وقت حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے دل سے بھی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لا ریب وہ مسلم ہے ۔وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یا د رکھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کیو نکر اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے ۔ترکِ نماز کی عادت اور روُح اور دل کی طاقتیں بھی (اس درخت کی طرح جس کی شاخیں ابتداًء ایک طرف کر دی جائیں اور پر ورش پا لیں)ادھر ہی جھُک جا تی ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیداہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے ۔جیسے وہ شاخیں پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتیں۔اسی طرح پر وہ دل اور رُوح دن بدن خداتعالیٰ سے دُور ہو تے جاتے ہیں ۔پس یہ بڑی خطر نا ک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے۔ اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تا کہ اوّلاً وہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الیٰ اللہ کا خیال ہو ۔پھر رفتہ رفتہ وہ وقت آجاتا ہے کہ انقطاعِ کلّی کی حالت میں انسان ایک نُور اور ایک لذّت کا وارث ہو جا تا ہے۔
میں ا س امرکو پھر تا کید سے کہتا ہو ں ۔افسوس ہے مجھے وہ لفظ نہیں ملتے جس میں مَیں غیر اللہ کی طرف رجوع کر نے کی بُرا ئیاں بیان کر سکوں ۔لوگوں کے پاس جا کر منّت و خوشامد کر تے ہیں ۔یہ بات خدائے تعالیٰ کی غیرت کو ہوش میں لاتی ہے (کیونکر یہ تو لوگوں کی نماز ہے)پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتاہے۔
میں مو ٹے الفاظ میں اس کو بیان کر تا ہوں گو یہ امر اس طر ح پر نہیں ہے مگر فوراً سمجھ میں آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مردِ غیّورکی غیرت تقا ضا نہیں کر تی کہ وہ آپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکر تے ہو ئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مر د ایسی حالت میںاس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بعض اوقات ایسی وارداتیں ہو جا تی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کی ہے ۔جب عبو دیت اور دُعا خاص اسی ذات کے مّد مقابل ہیں۔ وہ پسند نہیں کر سکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جائے یا پکارا جائے۔
پس خوب یاد رکھو اور پھریاد رکھو !کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کا نٹا ہے ۔نماز اور تو حید کچھ ہی ہو (کیو نکہ تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے)اسی وقت بے بر کت اور بے سود ہو تی ہے جب اس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اورحنیف دل نہ ہو!!سنو وہ دُعا جس کے لئے
اسعونی استجب لکم (المومن :۶۱)
فر مایا ہے اس کے لئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے اگر اس تضّرع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے۔
پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیںہے؟ یہ ایک غلط فہمی ہے ۔ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے۔ اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ہے ؟یااسباب دعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے او ردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ!!!
انسان کی ظاہری بناوٹ؛اس کے دو ہاتھ دو پاوں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنماء ہے ۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجد ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ
تعا ونوا علی البروالتقوی(المائدہ ۳ )؎
کے معانی سمجھنے میں دیکھے ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاشںاسباب بھی بذریع دعا کرو۔ امدادباہمی میں نہں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے انداراللہ تعالیکا قائم کردہ سلسلہ اور رہنما ء سلسلہ دیکھتا ہوں ۔تم اس سے انکار کرو۔اللہ تعالی نے اس بات کو اعر بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لیے انبیاء علیہم اسلام کا اک سلسلہ دنیا میں قائم کیا ۔اللہ تعالی اس بات پر قادر تھا۔اعر قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر اتا ہے کہ و ہ من انصاری الی اللہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ کیا وہ ایک ٹکٹرگدا فقیر کء طرحبولتے ہیں نہں من انصاری الی اللہ (ال عمران :۵۳) کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالی پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالے کا وعدہ
انا لننصر رسلنا والذینامنوا فی الحیوتہ ا لدنیا (المومن:۵۲)
ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے میں کہتا ہو ں کہ دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیو نکر مدد دے سکتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے
نعم الولی ونعم الوکیلانعمالنصیر
دنیا اور دنیا کی مددیںان لوگوں کے سامنے کا لمیت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی نہںرکھتی ہیں۔لیکںدنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لیے وہ یہ راہ بھی اختیارکرتے ہیں ۔ وہ حقیقت میں آپنے کاروبار کا متولی خدا تعالی ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے
وھویتولی الصالیحن (العراف:۱۹۷)
اللہ تعالی ان کو مامور کر دیتاہے کہ وہ آپنے کاروبار کو دوسروںکے ذریعے سے ظاہر کریں ۔ ہمارے رسو لﷺ مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے ۔اسی لیے کہ وہ وقت نصرت الہی کا تھا ۔اسکو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شاملِ حال ہوتی ہے ۔یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے ۔ دراصل مامور من اللہ لوگوںسے مدد نہیں مانگتا ۔بلکہ
من انصاری الی اللہ
کہہ کر وہ اس نصرت الہیہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراروں کی طرح اس کی تلاش میں ہوتا ہے ۔نادان اور کوتا ہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگو ں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اس طرح پر اس نشان میں وہ کسی دل کے لیے جو اس نصرت کا مو جب ہو تا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سر اور راز یہی ہے جو قیامت تک اسی طرح پر رہے گا ۔اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں ؟آپنے ادائے فرض کے لیئے تاکہ دلو ںمیں خدا تعالی کی عظمت کو قائم کریںورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیر اللہ کو متولی قرار دیں اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان محال ِمطلق ہے ۔میں نے ابھی کہا ہے کہ توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذات واحد ہو لاالہ الااللہ کے معنے یہیں ہیں ۔ صوفیوں نے الہ کے لفظ سے محبوب ، مقصود ، معبود ،مراد لی ہے بے شک اصل سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بند نہیں ہوتا ۔ اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی۔ اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجو ع کرکے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیںہو سکتا ۔ مداراسی بات پر ہے کہ جب تک برے ارادے ،ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں ۔ انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ أے خدا کا سچابندہ نہیں کہلا سکتا ۔ عبودیتِ کاملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔میںتمہیں پھر بتلاتا ہوں کہ اگر خدائے تعالیٰ سے سچا تعلق ، حقیقی ارتباطِ قائم کر نا چاہتے ہو تو نمازپر کار بند ہو جائو اور ایسے کار بند نہ ہو کہ نہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں ۔
عصمتِ انبیاء کا ملنا :
عصمتِ ابنیا ء کا یہی راز ہے یعنی نبی کیوں معصوم ہو تے ہیں ؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراقِ محبت الہیٰ کے باعث معصوم ہو تے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب ان قوموں کو دیکھتاہو ں جو شرک میں مبتلا ہیں جیسے ہندوجو قسم قسم کے اسم کی پرستش کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے عورت اور مردکے اعضا ء مخصوصہ تک کی پرستیش بھی جائزکر رکھی ہے حصولِ نجات یا مکتی کے قائل ہیں مثلاًاول الذکر یعنی ہندو گنگااِشنان اور تیرتھ یا ترا ور ایسے ایسے کفاروں سے گناہ سے موکش چاہتے ہیں اور عیسیٰ پرست عیسائی مسیح کے خو ن کو اپنے گناہو ں کا فدیہ قرار دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ جب تک نفس گناہ مجود ہے وہ بیرونی صفائی اور خارجی معتقدات سے راحت یا اطمینان کا ذریعہ کیونکر پاسکتے ہیں جب تک اندر کی صفائی اور باطنی تطیر نہیں ہوتی ناممکن ہے کہ انسان سچی پاکیزگی طہارت جو انسان کو نجات سے ملتی ہے پا سکے۔ ہاں اس سے ایک سبق لو جس طرح پر دیکھو بدن کی میل اور بد بو بدوں صفائی کے دور نہیں ہو سکی ۔ اور جسم کو انے والے خطرناک امراض سے بچا نہیں سکتی اسی طر ح ر وحانی کدورت اور میل جو دل پر ناپاکیوں اور قسم قسم کی بے باکیوں سے جم جاتی ہے دور نہیں ہو سکتی جب تک توبہ کا مصفا اور پاک پا نی نہ دھو ڈالے ۔ جسمانی سلسلہ میں ایک فلسفہ جس طرح پر مو جود ہے اسطرح پر روحانی سلسلہ میں ایک فلسفہ رکھا ہوا ہے ۔مبارک ہیں وہ لوگ جو اس پر غور کر تے ہیں ۔
گناہ کی حقیقت اور اس سے بچنے کے ذرائع:
میں اس مقام پر یہ بھی جتلانا چاہتا ہوں کہ گناہ کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ اس سوال کا جواب عام فہم الفاظ یہی ہے جب غیر اللہ کی محبت نسانی دل پر مستولی ہوتی ہے تو وہ اس مصفاّآئینہ پر ایک قسم کا ز نک سا پیدا کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ بالکل تا ریک ہو جاتا ہے اور غیریت آپنا گھر کرکے اسے خداسے دور ڈال دیتی ہے اور یہی شرک کی جڑہے لیکن دل پر اللہ تعالیٰ اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت آپنا قبضہ کرتی ہے وہ غیرت کو جلا کر اسے صرف آپنے لیے منتخب کر لیتی ہے پھر اس میں استقامت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اصل جگہ پر اجاتی ہے عضو کے ٹوٹنے اورپھر چڑھنے میں جس طرح تکلیف ہوتی ہے لیکن ٹوٹاہواعضو کہیں زیادہ تکلیف دیتا ہے جو اسے صرف مکرر رہے تو ایک وقت آجاتا ہے کہ اس کو بالکل کاٹنا پڑتاہے اسی طرح سے استقامت کے حصول کے لیے اولاًابتدائی مدارج اور مراتب پرا سی قدر تکلیف اور مشکلات بھی آتی ہیںلیکن اسکے حاصل ہونے پر ایک دائمی راحت اور خوشی پیدا ہو جاتی ہے رسول ﷺ کو جب یہ ارشاد ہو
فاستقم کما امرت( ھود:۱۱۳)
تو لکھاہے کہ آپ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے سور ئہ ہودنے بوڑھا کر دیا
غرض یہ ہے کہ جب تک انسان موت کا احساس نہ کرے وہ نیکیوں کی طرف جھک نہیں سکتا۔ میَں نے بتلایا ہے کہ گناہ غیر اللہ کی محبت دل میںپیدا ہونے سے پیداہوتا ہے اور رفتہ رفتہ دل پر غلبہ کر لیتا ہے ـ۔ پسںگناہ سے بچنے ا ور محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اورخداے تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت میںغور کرتا رہے کیونکہ اس محّبتِ الہٰی اور ایمان بڑھتا ہے اور جب خداہے تعالی کی محبت دل میں پیدا ہو جا ے تووہ گناہ کو جلا کر بھسم کر جاتی ہے ـ۔
دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساس ِموت ہے ۔اگر انسان موت کو آپنے سامنے رکھے تو وہ ان بدکاریوںاور کوتاہ اندیشیوں سے بازآجاے اورخداتعالی پر اسے ایک نیاایمان حاصل ہو آپنے سابقہ گناہوںپر توبہ اور نادم ہونے کا موقعہ ملے ۔ انسان عاجزکی ہستی کیا ہے ؟صرف ایک دم پر انحصار ہے ۔ پھر کیوںوہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیںڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا میطیع اور غلام ہو کر عمر ضائع کر دیتا ہے ۔میں نے دیکھاہے کہ ہندووںکو بھی احساسِ موت ہوا ہے ۔بٹالہ میںکشن چندنام ایک بھنڈاری ستر یا بہتربرس کی عمر کا تھا ۔ اس وقت اس نے گھربار سب کچھ چھوڑدیا اور کانشی میںجا کر رہنے لگا اور وہا ںہی مرگیا۔یہ صرف اس لیے کہ وہاںمرنے سے اس کی موکش ہو گی مگر یہ خیال اس کا باط تھا۔لیکن اس سے اتنا تو مفید نیتجہ ہم نکال سکتے ہیںکہ اس نے احساسِ موت کیا ار احساس موت انسان کو دنیاکی لذات میں با لکل مہنمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لیتا ہے ۔یہ بات کہ کانشی میں مرنا مکتی کا باعث ہو گا یہ اسی مخلوق پرستی کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑاہواتھا مگر مجھے تو سنحت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتاہوںکہ مسلمان ہندووںکی طرح بھی احساسِ موت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کودیکھوصرف اس ایک حکم نے کہ
فاستقم کما امرت
نے ہی بوڑھا کر دیا ۔ کس قدر احساسِ موت ہے ۔آپ کی یہ حالت کیوںہو ئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں۔ ورنہ رسول اللہﷺ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہاد ی کا مل اور قیامت تک کے لیے اور اس پر کُل دُنیا کے لیے مقرر فرمایا۔ مگر آپ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے اور قانونِ کتاب قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طر ح پر رسول ﷺ کی ز ندگی بھی فعلی کتاب ہے جو گویا قران کریم کی شرح اور تفسیر ہے ۔میرے تیس سال کی عمر میں ہی سفید بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم میرے والد ابھی زندہ ہی تھے ۔ سفید بال بھی گویا ایک قسم کا نشان ِموت ہوتا ہے جب بڑھآپا آتا ہے جس کی نشانی یہ سفید بال ہیں تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ مرنے کے دن اب قریب ہیں ۔مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت بھی انسان کو فکر نہیں لگتا ۔مومن تو ایک چڑیا اور جانور وںسے بھی اخلاق سیکھ سکتاہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی کھلی ہوئی کتاب اسکے سامنے ہوتی ہے ۔دنیا میں جس چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ انسان کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی راحتوں کے سمان ہیں ۔میں حضرت جنید رحمتہاللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے ۔میں نے مراقبہ بلّی سے سیکھا ہے ۔اگر انسان پرغور نگا ہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ جانور کھلے طور پر خلق رکھتے ہیں ۔میر ے مذہب میں سب چرندپرند ایک خلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے علم صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوق کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کل انسانوں کے کمالا ت بہیئت مجموعی ہمارے رسول ا للہ ﷺ میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃللعالمین کہلائے ۔
انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم: ۵)
میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اسی صورت میں عظمت ِاخلاق محمدیؐ کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے یہ ایک مسلم بات ہے کسی چیز کا خا تمہ اس کی علتِ غائی کے اختام پر ہوتا ۔جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں ۔کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلاآیا ہے اور کامل انسان پرآکر اس کاخا تمہ دوسرا ذریعہ گناہ سے بچنے کا احساس ِموت ہے ۔اگر انسان موت کو آپنے سامنے رکھے تو وہ ان بدکاریوںاور کوتاہ اندیشیوں سے بازآجاے اورخداتعالی پر اسے ایک نیاایمان حاصل ہو آپنے سابقہ گناہوںپر توبہ اور نادم ہونے کا موقعہ ملے ۔ انسان عاجزکی ہستی کیا ہے ؟صرف ایک دم پر انحصار ہے ۔ پھر کیوںوہ آخرت کا فکر نہیں کرتا اور موت سے نہیںڈرتا اور نفسانی اور حیوانی جذبات کا میطیع اور غلام ہو کر عمر ضائع کر دیتا ہے ۔میں نے دیکھاہے کہ ہندووںکو بھی احساسِ موت ہوا ہے ۔بٹالہ میںکشن چندنام ایک بھنڈاری ستر یا بہتربرس کی عمر کا تھا ۔ اس وقت اس نے گھربار سب کچھ چھوڑدیا اور کانشی میںجا کر رہنے لگا اور وہا ہی مرگیا۔یہ صرف اس لیے کہ وہاںمرنے سے اس کی موکش ہو گی مگر یہ خیال اس کا باط تھا۔لیکن اس سے اتنا تو مفید نیتجہ ہم نکال سکتے ہیںکہ اس نے احساسِ موت کیا ار احساس موت انسان کو دنیاکی لذات میں با لکل مہنمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لیتا ہے ۔یہ بات کہ کانشی میں مرنا مکتی کا باعث ہو گا یہ اسی مخلوق پرستی کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑاہواتھا مگر مجھے تو سنحت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتاہوںکہ مسلمان ہندووںکی طرح بھی احساسِ موت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کودیکھوصرف اس ایک حکم نے کہ فاستقم کما امرتنے ہی بوڑھا کر دیا ۔ کس قدر احساسِ موت ہے ۔آپ کی یہ حالت کیوںہو ئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں۔ ورنہ رسول اللہﷺ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اَور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہاد ی کا مل اور قیامت تک کے لیے اور اس پر کُل دُنیا کے لیے مقرر فرمایا۔ مگر آپ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے اور قانونِ کتاب قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طر ح پر رسول ﷺ کی ز ندگی بھی فعلی کتاب ہے جو گویا قران کریم کی شرح اور تفسیر ہے ۔میرے تیس سال کی عمر میں ہی سفید بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم میرے والد ابھی زندہ ہی تھے ۔ سفید بال بھی گویا ایک قسم کا نشان ِموت ہوتا ہے جب بڑھآپا آتا ہے جس کی نشانی یہ سفید بال ہیں تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ مرنے کے دن اب قریب ہیں ۔مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس وقت بھی انسان کو فکر نہیں لگتا ۔مومن تو ایک چڑیا اور جانور وںسے بھی اخلاق سیکھ سکتاہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی کھلی ہوئی کتاب اسکے سامنے ہوتی ہے ۔دنیا میں جس چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ انسان کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی راحتوں کے سمان ہیں ۔میں حضرت جنید رحمتہاللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے ۔میں نے مراقبہ بلّی سے سیکھا ہے ۔اگر انسان پرغور نگا ہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ جانور کھلے طور پر خلق رکھتے ہیں ۔میر ے مذہب میں سب چرندپرند ایک خلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے علم صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوق کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کل انسانوں کے کمالا ت بہیئت مجموعی ہمارے رسول ا للہ ﷺ میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃللعالمین کہلائے ۔ انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم: ۵) میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے ۔ اسی صورت میں عظمت ِاخلاق محمدیؐ کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے یہ ایک مسلم بات ہے کسی چیز کا خا تمہ اس کی علتِ غائی کے اختام پر ہوتا ۔جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی۔اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں ۔کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلاآیا ہے۔ اور کامل انسان پرآکر اس کاخا تمہ ہوگیا ۔
استقامت ہی انسان کا اسمِ اعظم ہے
میں یہ بھی بتلادینا چاہتا ہو ںکہ استقامت جس پر مَیں نے ذکر چھیڑا تھا۔ وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اھد نا الصراط المستقیم کے معنے بھی فنا ہی کی کے کرتے ہیں۔یعنی رُوح کے جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہو جائیں اور آپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مرَجا ئیں۔بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو آپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دُنیا ہی کے جوشوںاور ارادوںکی ناکامیوں میں اس دُنیا سے اُٹھ جا تے ہیں۔ہمارے بھائی صاحب مر حوم مرزاغلام قادر کو مقد ما ت میں بڑی مصروفیت رہتی تھی اور ان میں وہ یہانتک منہمک اور محورہتے تھے کہ آخر ان ناکامیوں نے ان کی صحت پر اثر ڈالا اور وہ انتقال کر گئے اور بھی بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو آپنے ارادوںکو خدا پر مقدم کر تے ہیں ۔آخر مار ہوائے نفس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو تے اور بجائے فائدہ کے نقصان اُٹھا تے ہیں ۔اسلام پر غور کرو گے تو معلام ہو گا کہ نا کامی صرف جھو ٹے ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے التفات کم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہو تا ہے جو اس کو نا مراد اور نا کام بنا دیتا ہے۔خصوصاً ان لو گوں کو جوبصیرت رکھتے ہیں جب وہ دنیا کے مقا صد کی طرف آپنے تمام جوش اور ارادے کے ساتھ جھُک جا تے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو نا مراد کر دیتا ہے۔لیکن سعیدوں کو وہ پاک اصول پیش ِنظر رہتا ہے جو احساسِ مو ت کا اصول ہے ۔وہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح ماں بآپ کا انتقال ہو گیا ہے یا جس طرح پر اور کوئی بزرگِ خاندان فوت ہو گیا ہے اسی طرح پر مجھ کو ایک دن مرنا ہے اور بعض اوقات آپنی عمر پر خیال کرکے کہ بڑ ھا پا آگیا ہے اور موت کے دن قریب ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔بعض خاندان ایسے ہو تے ہیں کہ ان میں عمریں علی العموم ایک خاص مقدار تک مثلاً۵۰ یا ۶۰ تک پہنچتے ہیں۔بٹالہ میں میاں صاحب کا جو خاندان ہے اُس کی عمریں بھی علی العموم اسی تک پہنچتی ہیں۔ اس طرح پر آپنے خاندان کی عمروں کا اندازہ اور لحاظ بھی انسان کو احساسِ موت کی طرف لے جا تا ہے۔
غرض یہ بات خوب ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ آخر ایک نہ ایک دن دُنیا اور اس کی لذّتوں کو چھوڑنا ہے تو پھر کیوں نہ انسان اس وقت سے پہلے ہی ان لذّات کے ناجائز طریقِ حصول چھوڑ دے ۔موت نے بڑے بڑے راستبازوں اور مقبولوں کو نہیں چھوڑا اور وہ نوجوانوں یا بڑے سے بڑے دولت مند اور بزرگ کی پرواہ نہیں کرتی ۔پھر تم کو کیوں چھوڑنے لگی ۔پس دنیا اور اس کی راحتوں کو زندگی کے منجملہ اسباب سے سمجھو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کا ذریعہ۔ سعدی نے اس مضمون کو یُوں ادا کیا ہے ؎
خوردن برائے زیستن وذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است
یہ نہ سمجھو کہ خدا ہم سے خواہ مخواہ خوش ہوجائے اور ہم احتظاظ میں رہیں مگر ایسے اندھوں کو اگر خدا کی طرف سے ہی پروانہ آجائے تو وہ ان لذّتوں کو جوجسمانی خواہشوں اور ارادوں کی پیروی میں سمجھتے ہیں نہ چھوڑیں گے اور ان کو اس لذّت پر جو ایک مومن کو خدا میں ملتی ہے ترجیح دیں گے ۔خدا تعالیٰ کا پروانہ موجود ہے جس کانام قرآن شریف ہے جو جنت اور ابدی آرام کا وعدہ دیتا ہے مگر اس کی نعمتوں کے وعدہ پر چنداں لحاظ نہیں کیا جاتا ۔اور عارضی اور خیالی خوشیوں اور راحتوں کی جستجو میں کسقدر تکلیفیں غافل انسان اُٹھاتا اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذرا سی مشکل کو دیکھ کر بھی گھبرا اُٹھتا اور بد ظنی شروع کر دیتا ہے۔کاش وہ ان فانی لذّتوں کے مقابلہ میں ان اَبدی اور مستقل خو شیوں کا اندازہ کر سکتا ہے ۔ان مشکلات اور تکا لیف پر فتح پانے کے لیے ایک کامل اور خطا نہ کرنے والا نسخہ موجود ہے جو کڑوڑ ہا راستبازوں کا تجربہ کردہ ہے ۔وہ کیا ہے؟ وہ وہی نسخہ ہے جس کو نماز کہتے ہیں ۔
نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دُعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعامِ الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے ،کہا گیا ہے کہ اللہ اسمِ اعظم ہے اللہ تعالیٰ نے تمام صفا ت کو اس کے تابع رکھا ہے ۔اب ذرا غور کرو ۔نماز کی ابتداء اذان سے شروع ہوتی ہے ۔اذان اللہ اکبرسے شروع ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لا الہ الا اللہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت کو ہی ہے کہ اس میں اوّل و آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور ۔مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم ور ملّت میں نہیں ہے ۔پس نماز جو دُعا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے مقدم رکھا ہے ۔ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے ۔
اسمِ اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کملات حاصل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے
اھدنا الصراط المستقیم
میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا
الذین قالو ربنا اللہ ثم استقامو اتتنزل علیھم الملئکۃ الا تخا فوا ولا تح زنو ا (حٰم السجدہ :۳۱ )
یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسمِ اعظم کے نیچے جب بیضہ بشریت رکھا گیا ۔پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے ۔ استقامت سے کیا مراد ہے ؟ہرایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے ۔مثلاً دُور بین کے اجزاء کو اگرجُدا جُدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی ۔غرض وضع الشئی فی محلہ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے ۔ پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اُسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کملات پیدا نہیں کر سکتی ۔دُعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسمِ اعظم جمع ہوں ۔اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا وہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت
ادعونی استجب لکم (المومن :۶۱)
کا مزا آجاتا ہے ۔پس مَیںچاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لیے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اُسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُس کی قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے ۔اس وقت بہت سے لوگ دُنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیتِ دُعا کے شاکی ہیں ۔لیکن مَیں کہتاہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دُعا کی قبولیت کی لذّت کو کیونکر پا سکیں گے۔قبولیتِ دُعا کے نشان ہم اسی دُنیا میں پاتے ہیں ۔استقامت کے نعد انسانی دل پر ایک برودت اور سکینت کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ کسی قسم کی بظاہر ناکامی اور نامُرادی پر بھی دل نہیں جلتا ۔لیکن دُعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذراذرا سی نامرادی بھی آتشِ جہنّم کی ایک لپٹ ہوکر دل پر مستولی ہوجاتی ہے اور گھبرا گھبرا کر بے قرار کئے دیتی ہے ۔اسی کی طرف ہی اشارہ ہے ۔
نار اللّٰہ المو قد ۃ التی تطلع علی الافئدۃ (الھمزہ ـ:۷،۸)
بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تپ بھی نارِ جہنّم کا ایک نمونہ ہے۔
اُمّت میں سلسلہء مجددین
اب یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پاجانا تھا ۔اس لیے ظاہری طور پر ایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دُنیا سے اُٹھنا تھا ۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ
کل ان کنتم تحبون اللہ فا تبعو نی (آل عمران :۳۲)
کیونکہ محبوب اللہ مستقیم ہی ہوتا ہے ۔زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لیے ہر نماز میں دُرود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا تاکہ اس دُعا کی قبولیت کے لیے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے ۔یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نام کا وجود ظلّی طور پر قیامت تک رہتا ہے ۔صوفی کہتے ہیں کہ مجدّ د ین کے اسماء آنحضرت ﷺ کے نام پر ہی ہوتے ہیں ۔یعنی ظلّی طور پر وہی نام انکو کسی ایک رنگ میں دیا جاتا ہے ۔
شیعہ لوگوں کا یہ خیال کہ ولایت کا سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوگیا محض غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کمالات سلسلہ نبوت میں رکھے ہیں ،مجموعی طور پر وہ ہادئی کامل پر ختم ہوچکے ۔اب ظلّی طور پر ہمیشہ کے لیے مجددین کے ذریعہ سے دُنیا پر اپنا پرتو ہ ڈالتے رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قیامت تک رکھے گا ۔
مَیں پھر کہتا ہوں کہ اس وقت بھی خدائے تعالیٰ نے دُنیا کو محروم نہیں چھوڑا ۔اور ایک سلسلہ قائم کیا ہے۔ ہاں اپنے ہاتھ سے اس نے ایک بندہ کو کھڑا کیا اور وہی ہے جو تم میں بیٹھا ہوا بول رہا ہے ۔اب خدا تعالیٰ کے نزولِ رحمت کا وقت ہے ۔دُعا ئیں مانگو ۔استقامت چاہو اور درود شریف جو حصولِ استقامت کا یک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو ۔مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ ﷺ کے حُسن اور احسان کو مدِّ نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دُعا کا شیریں اور لذّیذ پھل تُم کو ملے گا ۔
قبو لیت دُعا کے ذرائع
قبو لیت دُعا کے تین ہی ذریعے ہیں۔اوّل
ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی
دوم
یاایھاالذین امنوا صلوعلیہ وسلمو تسلیما
تیسرا موہبتِ الہٰی ۔اللہ تعالیٰ کا یہ عام قانون ہے کہ وہ نفوسِ انبیاء کی طرح دُنیا میں بہت سے نفاسِ قدسیہ ایسے پیدا کر تا ہے جو فطرتاً استقامت رکھتے ہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھو کہ فطرتاً انسان تین قسم کے ہو تے ہیں ایک فطرتاًظالم لنفسہٖ دوسرے مقتصد کچھ نیکی سے بہرہ ور اور کچھ برائی سے آلودہ ۔سوم بُرے کاموں سے متنفر اور سابق بالخیرات ۔پس یہ آخری سلسلہ ایسا ہو تا ہے کہ اجتباء اوراصطفاء کے مراتب پر پہنچتے ہیں اور انبیاء علیہ السلام کا گروہ اسی پاک سلسلہ میں سے ہو تا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے ۔دُنیا ایسے لوگو ں سے خالی نہیں ۔
بعض لوگ دُعا کی در خواست کر تے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرو۔ مگر افسوس ہے کہ وہ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہو تے ۔عنایت علی نے دُعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جا کر دُعا کرائیں ۔کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا ۔جبتک دُعا کرانے والااپنے اندر ایک صلاحیت اوراتّباع کی عادت نہ ڈال دُعا کارگر نہیں ہو سکتی۔مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے۔جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پرچلے تو فائدہ اُٹھا ئے گا ۔ایسے ہی دُعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں ۔تذکرہ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دُعا کی خواہیش کی۔بزرگ نے فرمایا کہ دُودھ چاول لائو ۔وہ شخص حیران ہوا۔آخر وہ لایا۔ بزرگ نے دُعا کی اور اس شخص کا کا م ہو گیا ۔آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کر نے کے لئے تھا۔ایسا ہی باوافرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہو ا اور وہ دُعا کے لئے آپ کے پا س آیا تو آپ نے فر مایا کہ مجھے حلوہ کھلائو اور وہ قبالہ حلوائی کی دو کان سے مل گیا۔
ان با توں کے بیان کر نے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دُعا کرنے والے اور کر انے والے میں ایک تعلق نہ ہو ۔متاثر نہیں ہو تی۔غرض جب یک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دُعا کر نے والے کا قلق دُعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثرنہیں کرتی ۔بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہو تے اور دُعا کا کوئی بیّن فائد ہ محسوس نہ کر کے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جا تے ہیں اور اپنی حالت کو قابلِ رحم بنالیتے ہیں ۔
بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دُعا کرو یا دُعا کرائو۔ پا کیزگی اور طہارت پیدا کرو۔استقامت چاہو اور تو بہ کے ساتھ گرِجائو کیو نکہ یہی استقامت ہے۔اس وقت دُعا قبو لیت، نماز میںلذت پیدا ہو گی۔
ذالک فضل اللہ یو تیہ من یشاء ا ؎
۲۰ جنوری ۱۹۰۳؁ء بروز سہ شنبہ
نشانا ت کی کثرت
بو قتِ عصر ۔فرمایا
خدا تعالیٰ کیسے تاڑ تاڑ نشان دکھلارہا ہے۔ ہم ابھی عدالت میں پیش بھی نہ ہوئے تھے اور نہ کسی کو معلوم تھا کہ انجام کیا ہو گا لیکن مواہب الر حمٰن میں لکھا ہواتھا کہ کرم دین کا مقدمہ خارج ہو جائے گا اور وہ ۱۵ تا ریخ سے ہی تقسیم ہو رہی تھی نلکہ بعض دوستوں نے کرم دین کو دکھلابھی دیا کہ تمہارے مقد مہ کی نسبت یہ کچھ لکھا ہے۔
مجلس قبل از عشاء فر ما یا :۔کھانسی کا زور ہو گیا ہے۔
ایک رئو یا ء
اس کے بعد ایک رئویا ء دریائے نیل والی سنائی جو کہ البدر جلد ۲ میں شائع ہو چکی ہے (وہاں غلطی سے ۱۹ تاریخ لکھی ہے اصلاح کر لی جاوے ۱؎ )
سراج الاخبار جہلم کی دروغ بیانی
اسکے بعد سراج الاخبار کی دروغ بیانی کا ذکر ہو تا ہے کہ اس نے لکھا ہے کہ جہلم میں جسقدر ہجوم لوگوں کا تھا وہ میاں کرم دین کے لئے تھا ۔حضرت اقدسؑ نے فر مایا کہ
جب وہ جہلم میں نالش کرنے گیا تھا تو کس قدر گروہ تھا؟ پھر وہ چندہ وغیرہ جمع کر تا رہا تو کسقدر گروہ تھا اور جہلم میں جو کئی سو آدمیوں نے بیعت کی وہ کس کی کی ؟وغیرہ وغیرہ۔
مسٹر پگٹ
مفتی محمّد صادق صاحب نے ایک انگریزی اخبار سنایا جس میں مسٹر پگٹ کا حال تھا ۔فر ما یا کہ رسولﷺ کے زمانہ میں بھی ایسے کاذب مدعی پیداہو ئے تھے جو کہ بہت جلد نابود ہوئے یہی حال اس کا ہو گا اس کے متعلق الہام ہے کہ (البدر جلد ۲ نمبر ۵ ۳۴؎ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳؁ء)
۲۱جنوری۱۹۰۳؁ء
(مجلس قبل ازعشاء)
حضرت اقدس نے حسب دستورمغرب ادا فرما کر مجلس فرمائی ما سٹر عبدالرحمن صاحب نومسلم نے ایک مضمون ایک اشتہار کا حضرت اقدس کو پڑھ کر سنا یا جو کہ ان تمام کی طرف سے جو کہ حضرت اقدس کے دست مبارک پر مشر ف با اسلام ہوے ہندووآریہ کے سر بر آوردہ ممبروںکی خد مت میںپیش کیا جا تا ہے۔اس میں انہو ںنے استدعاکی ہے کہ اگر ان کے نزدیک یہ نو مسلم جماعت مذہب اسلام کے قبول کرنے میں ظلطی پر ہے تو وہ ان کے پیش کردہ میعا رصداقت (جو کہ حضرت اقدس کے مضامین مباہلہ و مقابلہ سے اخذ شدہ ہیں ) کی رو سے حضرت مرزا صاحب سے فیصلہ کر کے انکا غلطی پر ہونا ثابت کردیویں ۔
حضرت اقدس نے اس تجویزکو پسند فرمایا اور کہا کہ
مذہب کی غرض یہی ہے کہ صرف آئندہ جہان میں خداتعالیٰ سے فائدہ حاصل ہو بلکہ اس موجودہ جہان میں بھی خدا تعالیٰ سے فائدہ حاصل کر نا چاہے ۔ ان لوگوں کے صرف دعوے ہی دعوے ہیں کوئی کام توکل اور تقویٰ کا ان سے ثابت نہیں ہوتا ۔مصیبت پڑے تو ہر ایک ناجائز کام کے لیے أمادہ ہو جاتے ہیں ۔
مصدق کے پیچھے نماز
خاںعجب خانصاحب ا ؎ تحصیلدار نے حضرت اقدس سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہو ں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں تو انکے پیچھے جاوئے کہ نہ ؟ فرمایا : ناواقف امام سے پوچھ لو ا گر وہ مصدّق ہو تو نماز اسکے پیچھے پڑھی جاوئے ورنہ نہیں ۔اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتا ہے اسلیے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتا ہے باربار ان میں گھسنا یہی اسکے منشاء کے مخالف ہے ۔
ایک احمدی کے فرائض
پھر تحصیلدار صاحب نے پوچھا کہ اپنے مقام پر جاکر ہمارا بڑا کام کیا ہونا چاہیے ؟فرمایا کہ ہماری دعوت کو لوگوں کو سنایا جاوے ۔ ہماری تعلیم سے ان کو واقف کیا جاوے ۔ تقویٰ اور توحید اور سچا اسلام ان کو سکھایا جاوے ۔
رئویاء کے ذریعہ ہدایت
اسکے بعد تین احباب نے بعیت کی ان میں سے ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں شریر ادمی تھا اور مجھ کو جھوٹے دعوے کر نے اور لوگوں کے حقوق چھین لینے اور ضبط کر نے کی خوب مشق تھی اور دوسرے بھی جسقدر معاصی مثل شراب وغیرہ تھے ان تمام میں میںَ مبتلا تھا ۔ چند دن ہوے کہ میں نے ایک ہندو سے اس طرح ظلم کیا اور اس کے حقوق ضبط کئے رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھتا ہوں وہی ہندو میرے ساتھ کلام کر رہا ہے کہ یا تو خدا تعالیٰ تجھے ہدایت کرے یا تجھے اس دنیا سے اٹھالیوے تاکہ ہم اسکے بعد تین احباب نے بعیت کی ان میں سے ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں شریر آدمی تھا اور مجھ کو جھوٹے دعوے کر نے اور لوگوں کے حقوق چھین لینے اور ضبط کر نے کی خوب مشق تھی اور دوسرے بھی جسقدر معاصی مثل شراب وغیرہ تھے ان تمام میں میںَ مبتلا تھا ۔ چند دن ہوے کہ میں نے ایک ہندو سے اس طرح ظلم کیا اور اس کے حقوق ضبظ کئے رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھتا ہوں وہی ہندو میرے ساتھ کلام کر رہا ہے کہ یا تو خدا تعالیٰ تجھے ہدایت کرے یا تجھے اس دنیا سے اٹھالیوے تاکہ ہم لوگ تیرے مظالم سے نجات پاویں اسکے بعد وہ نظر سے غائب ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ أسمان سے ایک شعلہ نور کاگرا اور جس مکان میںمیں تھا اس دروازے کی طرف آیا۔میں اٹھ کر اسے دیکھنے لگا تودیکھا کہ حضور ( حضرت مسیح موعود علیہ اسلام ) کی شکل کا ایک ادمی ہے ۔میں نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کیا تو نام نہیں جانتا ؟ اس کے بعد کہا کہ اب بس کر بہت ہوئی ہے پھر میں نے نام پوچھا تو بتلایا کہ
’’میرزاغلام احمد قادیانی ‘‘
اسکے بعد میری انکھ کھل گئی اور میں اپنے افعال اور کردار پر نادم ہوں اور اب اسی خواب کے ذریعے آپ کے پاس آیا ہوں ۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم کو خدا تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ اپنی حالت بدل دو اور سمجھو کہ ایک دن موت آنی ہے ۔خداتعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ گنہگار کو بلا سزا دئے نہیں چھوڑتا ۔توبہ کرنے سے گناہ بخشے جاتے ہیں خدا تعالیٰ بہت ہی رحم کرنے والا ہے مگر سزا بھی بہت دینے والا ہے ۔تمہاری فطرت میں کوئی نیکی ہوگی ورنہ عام طور پر اللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ اس طرض سے خبر دیوے اس لیے اپنی زندگی کو بدلواور عادتوں کو ٹھیک کرو پھر اس تائب نے عرض کی کہ میرا ایک مقدمہ چودہ صد روپے کا داخل دفتر ہوگیا ہے مگر اس میرا حق بہت تھوڑاہے اب اسے برامد کرائوں کہ نہ؟ فرمایا مدعا علیہ سے مل کر صلح کر لو۔
البدر جلد ۲ نمبر ۵ صفحہ۳۴ ۔۳۵مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء ؁

۲۲جنوری ۹۰۳ ۱ء بروزپنجشبہ
فاسد خیالات کا علاج
(بوقت ِظہر)
ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ پیش کیا جس میں یہ تحریر تھا کہ وہ ہر طرف افلاس سے گھرِا ہوا ہے اور ایسے ایسے خیالات اسکے دماغ میں آتے ہیں کہ اسے موت بہتر معلوم ہوتی ہے اور حضرت اقدس سے اس کا علاج چاہا تھا ۔حضور نے فرمایا کہ
ایسے خیالات کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ خوفِ خد ا پیدا ہوتا جائے اور کچھ آرام کی صورت بنتی جائوے ۱؎ گھبرانے کی بات نہیں ہے رفتہ رفتہ ہی دورہوں گے ۔جو گندے خیالات بے اختیار دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے انسان خداتعالیٰ کی د رگاہ میںمواخذ ہ کے قابل نہیں ہو ا کرتابلکہ ایسے شیطانی خیالوں کی پیروی سے پکڑاجاتاہے ۲؎ وہ خیالات جو اندر ہوتے ہیں وہ انسانی طاقت سے باہر اور مرفوع القلم ہیں ۔بے صبری نہ چاہیے ۔جلدی سے یہ بات طے نہیں ہوا کرتی۔وقت آئیگاتو دور ہونگی۔توبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور اعمال میں اصلاح کریں۔ایسے خیالات کا تخم زندگی کے کسی گذشتہ حصہ میں بویا جاتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں اور جب دور ہونے لگتے ہیں تو یکدفعہ ہی دور ہو جاتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی جیسے ہچکی کی بیماری کہ جب جانے لگے تو ایک دم ہی چلی جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتا۔ گھبرانے سے اور آفت پیداہوتی ہے۔آرام سے خدا سے مدد مانگے۔ خدا کی بارگا ہ کے سب کام آرام ہی سے ہوتے ہیں۔جلدی وہاں منظور نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی مرض ہے کہ جس کا علاج نہ ہو۔ ہاں صبر سے لگا رہے اور خداکی آزمائش نہ کرے ۔جب خدا کی آزمائش کرتا ہے تو خود آزمائش میں پڑتا ہے اور نوبت ہلاکت تک آجاتی ہے ۔ قابل نہیں ہو ا کرتابلکہ ایسے شیطانی خیالوں کی پیروی سے پکڑاجاتاہے ۲؎ وہ خیالات جو اندر ہوتے ہیں وہ انسانی طاقت سے باہر اور مرفوع القلم ہیں ۔بے صبری نہ چاہیے ۔جلدی سے یہ بات طے نہیں ہوا کرتی۔وقت آئیگاتو دور ہونگی۔توبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور اعمال میں اصلاح کریں۔ایسے خیالات کا تخم زندگی کے کسی گذشتہ حصہ میں بویا جاتا ہے تو پیدا ہوتے ہیں اور جب دور ہونے لگتے ہیں تو یکدفعہ ہی دور ہو جاتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی جیسے ہچکی کی بیماری کہ جب جانے لگے تو ایک دم ہی چلی جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتا۔ گھبرانے سے اور آفت پیداہوتی ہے۔آرام سے خدا سے مدد مانگے۔ خدا کی بارگا ہ کے سب کام آرام ہی سے ہوتے ہیں۔جلدی وہاں منظور نہیں ہوتی اور نہ کوئی ایسی مرض ہے کہ جس کا علاج نہ ہو۔ ہاں صبر سے لگا رہے اور خداکی آزمائش نہ کرے ۔جب خدا کی آزمائش کرتا ہے تو خود آزمائش میں پڑتا ہے اور نوبت ہلاکت تک آجاتی ہے ۔
صحابہ کرامؓ کا بے نظیر نمونہ
جہلم کے مقدمہ کی نسبت فرمایا :خدا کی طرف سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اسباب کیا شئے ہے کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری راہ میں جاوگے تو مراغما کثیرا پائوگے ۔صحتِ نیت سے جو قدم اٹھاتا ہے خدا اس کے ساتھ ہو تا ہے بلکہ اگر انسان بیمار ہو تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ صحابہؓ کی نظیر دیکھ لو دراصل صحابہ کرام ؓ کے نمونے ایسے ہیں کہ کل ابنیا کی نظیر نہیں ۔خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں ۔انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جانیں دیں اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم علیہ اسلام سے چلی آتی تھی اور سمجھ نہ آتی تھی مگرصحانہ کرامؓنے چمکاکر دکھلا دی اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰؑ کا تو حال ہی نہ پوچھو موسٰیؑ کو کس نے فروخت نہ کیا مگر عیسٰؑی ان کے حواریوں نے تیس روپے لے کر فروخت کر دیا قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ حواریوں کو عیسٰی ؑکی صداقت پر شک تھا جبھی تو مائدہ مانگااور کہا
ونعلم ان قد ان قد صدقتنا
تاکہ تیرا سچا اور جھوٹا ہو نا ثابت ہو جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ مائدہ سے بیشتر ان کی حالت نعلم کی نہ تھی پھر جیسی بے آرامی کی زندگی انہوں نے بسر کی اس کی نظیر کہیں نہیں پائی جاتی صحانہ کرامؓکا گروہ عجیب گروہ اور قابل پیروی گروہ تھا۔ ان کے دل یقیں سے بھر گئے ہوئے تھے۔تو آہستہ آہستہ اوّل مال وغیرہ دینے کو جی چاہتا ہے پھر جب بڑھ جاتا ہے تو صاحبِ یقین خدا کی خطر جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔
نماز مغرب کے بعد مقدمہ بازی کے اوپر ذکرچلا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایاکہ
اب اس وقت دیناکا یہ حا ل ہے کہ لوگوںنے خداکا کوئی خانہ خالی نہیں رکھا۔ گذشتہ کاروائی کا یہ لوگ خیال نہیں رکھتے اور نہ تجربہ کرتے ہیں کہ کیا کسی کو خیال تھا کہ مقدمہ جہلم کا یہ نتیجہ ہوگا ۔پھر جس خدا نے قبل ازوقت بتلایا اور ہم نے دو صد سے زائدکتب چھاپ کر فیصلہ سے بیشتر شائع کردیں جس میں ذکر تھا کہ اس مقدمہ میں ہماری فتح ہے وہی خدا اب بھی ہمارے ساتھ ہے ۔
ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است
خداکی معرفت ضروری ہے َ
ایک اخبار کی نسبت ذکر ہوا کہ مقدمہ کا نتیجہ قبل از وقت شائع کرنا دور اندیشی پر دلالت نہیں کرتا ۔فرمایا: جب ہی لوگ خدا کے قائل نہیں تو الہام کے کب قائل ہوں گے؟ ان لوگوں کو بے عقل بھینہیں کہنا چاہے بلکہ ان میں نور ایمان نہیں ہین کیا وہ کسی ایسے مفتری اور کذاب کی نظیرپیش کر سکتے ہیں کہ اس کی مخالفت پر ناخنوں تک زور لگایا گیا اور ہمیشہ قبل از وقت اپنے افترائشائع کرتا رہا ہو پھر وہ اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے ہوں بتلاویں تو سہی شد ومد سے ہم نے خبریں قبل از وقت پیش کی ہیں کسی اور نے بھی کیں ہیں ان لوگوں کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں جب تک خدا پر یقیں نہ ہو خدا کی معرفت ضروری ہے کوئی اسمانی امر ان کے نزدیک عظمت کے قابل نہیں ہے تعجب اتا ہے ایک طرف طاعون کا یہ حال ہے اور ایک طرف دلوں کی یہ سختی ۔کعئی اور برتن ہو تو انسان اس میں ہاتھ ڈال کر صاف بھی کرلے مگر ان کے دلوں کے برتن جن کے اندر زنگار بھرا ہوا ہے کیسے صاف ہوں عجیب معاملہ ہے جس قدر ہمیں انپر ضسرت ہوتی ہے اسی قدر ان کی نفرت اور بغضاور جوش بڑھتا ہے جیسے کوئی ادمی جس کا معدہ بلغم یا صفراسے بھرا ہوا ہو تو اسے کھانا کھانے سے تنفر ہوتا ہے کہ وہ کھانے کا نام سننابھی برداشت نہیں کر سکتا اور اس کا جی بیزار ہوتا ہے یہی خال ان کا ہے سچی بات کا نام تک نہیں سن سکتے کس کس کا نام لیں اور کس کس کی شکایت کریں سب ایک ہی ہیں مجھے خوب یاد ہے جب سے یہ الہام ہوا ہے ؛دنیا میں ا یک نذیر آیا مگر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردیگا؛ اب اس کا فہوم کہ زور آور حملوں سے اسکی سچائی ظاہر کرے گا قابلِ غورہے بیوقوف جانتے نہیں کہ یہ کاروبارمصنوعی کیسے چل سکتا ہے؟ ہمارے دیکھتے ہوئے ہزاروں چل بسے لیکن ان لوگوں کے نزدیک اب سب کچھ جائز ہے کل خوبیاں جو کہ صادقوں کے تجویزکرتے تھے اب سب کا ذبوں کو دیدی ہیں اور ایسے تہیدست ہوئے ہیں کہ کوئی خوبی صاد ق کی کر ہی نہیں سکتے ۔
ایک مبشرہ رئویاء
بعض متفرق رئویا ۱ ؎ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلا کے دن ہیں۔ رات کو میں نے دیکھا ایک بڑا زلزلہ مگر اس سے کسی عمارت وغیرہ کا نقصان نہیں ہوا۔ (البدر جلد ۵ صفحہ ۳۵۔۳۶مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء)
۲۳۔جنوری ۱۹۰۳ء بروز جمعہ
ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں
(بووقت عصر )
ایک عرب کی طرف سے ایک خط حضرت کی خدمت میں آیا جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ ایک ہزار روپیہ بھیج کر اپنا وکیل یہاں مقرر کردیویں تو میں آپ کے مشن کی اشاعت کرونگا ۔حضرت اقدس نے فرمایا؛ان کو لکھ دو ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ایک ہی ہمارا وکیل ہے جو عرصہ بائیس سال سے اشاعت کرہا ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا ضرورت ہے اورط اس نے کہہ رکھا ہے ۔
الیس اللہ بکاف عبدہ۔
(مجلس قبل از عشاء)
مغرب کے بعد مجلس ہوئی تو حضرت اقدس نے عجب خانصاحب تصیلدار سے استفسار فرمایا کہ اپ کی رخصت کس قدر ہے ۔ انہوںنے جواب دیا کہ چار ماہ ۔ فرمایا :۔
آپ کوتو پھر بہت دیریہاںرہناچاہیے تاکہ پوری واقفیت ہو۔
عجب حیرت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالی یہاںتازہ بتازہ سامان تقوی کے جماعت کے واسطے تیار کر رہا ہے ۔ اس طرف(یعنی منکرین کی طرف)اس کا کوئی نشان بھی نہیں ہے یہ لوگ الہام اور تقوی سے دور ہو جا تے ہیں اگر اب ان سے پوچھا جا وے کہ اہل حق کی کیا علامت ہے ؟تو ہرگز نہیں بتلا سکتے اور نہ اس بات پر اس بات پر قادر ہو سکتے ہیںکہ صادق اور کاذب کے درمیان کوئی مابہ الامتیاز کریںہمار ی مخالفت میں یہ حالت ہے کہ جو کچھ صادق کے لئے خدا نے مقرر کیا تھا اب ان کے نزدک گو یا کا ذب کو د یدگیا ہے جس قد ر نکتہ چینیاں بیا ن کر تے ہیں وہ تما م پیغمبرو ں پر صا د ق آتی ہے کمتر تقو ی اُن کے لیے یہ تھاکہ خاموش ر ہتے اگر ہم کاذب ہو تے ر فتہ ر فتہ خود تبا ہ ہو جاتے خداتعالیٰ فر ما تا ہے
ولاتقف مالیس لک بہ علم ۱ ؎
یہاںعلم سے مراد یقین ہے اب ان کی وہی مثال ہے
لھم قلوب لا یفقھون بھا ( لا عراف۱۸۰ )
مقدمہ جہلم پر بعض خلاف واقعہ باتیں اخبارات نے لکھی تھیں ان پر فرمایا کہ اس شور وغوغاکاجواب بجزخاموشی کے اور کیا ہے ۔
افوض امری الی اللہ ۔
اس کے بعد ایک شخص نے کھڑے ہو کر عر ض کی میر ے باپ اور قوم کیوا سطے دعا کی جا وے حضرت اقدس نے اسی وقت مبا رک اٹھا کر دعا کی اور کل حا ضر ین مجلس بھی شریک ہوے ۔ حضرت کی خدمت میںا یک شخص کی شکا یت کا کر تا ہے مگر اس کی زبان سے بعض ایسے کلمات نکلتے ہیں جس سے کو ئی خصوصیت حضور کے دعاوی کی تصد یق کی معلوم نہیں ہو تی فر ما یا ۔ایسے مشکوک الحا ل آدمی کا رکھنا اچھا نہیں ۔
مگر جب اس نے معذرت کی کہ یہ امر غلطی سے ایسا ہے تو فرمایا ۔ ایسی با تو ں سے انسان بیعت سے خارج ہو جا تا ہے ہمیشہ خیا ل ر کھنا چاہیے اور اسے معاف کرد یا ۔
(البدرجلد ۲ نمبر ۳۶ مو ر خہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳؁ء)
۲۴ ِجنوری ۱۹۰۳ء؁بر وز شنبہ
مجلس قبل از عشا ء فر ما یا َِ۔انب با ر ش ہو نے کی وجہ سے ِ
اب باررش ہونے کی وجہ سے گردوغبار کم ہے ۔ ایک دودن ذرا باہر آویں ۔( یعنی سیر کو جا یا کریں)
کر م دین کے مقد مہ کے حالا ت پر فرمایا ۔
زمینی سلطنت تو صرف آسمان سلطنت کے اظلال و آثار ہیںبغیر آسمان کی یہ سلطنت کیا کر سکتی ہے ۔ انسان بھی کیا عجیب شے ہے ۔اگر اللہ تعا لی کے ساتھ صدق و و فا میںترقی کے تو نورعلیٰ نور ۔ ورنہ اگر ظلمت میںگرے تو اس درجہ تک گر تا ہے کہ کو ئی حصہ تقو یٰ کا اس کے قو ل و اخلاق میںبا قی نہیں رہتا سب ظلمت ہی ظلمت ہو جا تا ہے ۔ فرما یا ۔ آج ایک کشف میںدکھایا گیا
تفصیلما اللہ فی ھز االباس بعد ماا شعتہ فی ا لناس ۔
اسکے بعد الہامی صورت ہو گئی اور زبان پر یہی جاری تھا ۔اس سے معلو م ہو تا ہے۔کہ مقد مہ کے متعلق جو قبل ازوقت پیشگو ئی کے رنگ میںبتایا گیا تھا اب اس کی تفصل ہو گی۔فر ما یا کہ ۔ جہلم سے واپسی پر یہ
ا لہام ہوا تھا ۔ انا نین ایا ت
ثنا ء اللہ کے ذکر فر ما یا کہ: ۔
اگر اس کی نیت نیک ہو تی تو ہمارا پیش کر دہ طر یق ضر ور قبول کر تا ۔ہما ری نیک نیتی تھی کہ ہم نے اس کے لیے ایسی راہ تجو یزکی قا ئم رہے ،حق ظا ہر ہو جا وے ۔ لو گو ں میں اشتعال اور فسا د نہ ہو ۔ عوام الناس کوفا ئدہ بھی پہنچ جاوے ۔ اگر اس کے دل میںتقویٰ ہو تا تو ضرور ما لیتا ۔ اور ہم نے عا م اجا ز ت دی تھی کی ہر گھنٹے کے بعد پھر اپنے شکوک و شہبا ت پیش کر دیوے خواہ اس طر ح ایک ما ہ تک کر تا ر ہتا ۔ اس طرح نیک نیتی سے کو ئی اپنی تشفی چا ہے تو ہم اسے چھ ما ہ تک اپنے پا س ر کھ سکتے ہیں ۔ اس کا سب بو جھ بر داشت کر سکتے ہیں مگر ان لو گو ںکی نیت درست نہیں ہو تی اس لے راضی نہیںہو تے ۔ اللہ تعا لیٰ پر ا یما ن نہیں ۔ دل ٹیٹرھے ہو گئے ہیں ۔
مر د م شماری میں خلا ف وا قعہ ر پو ر ٹ۔
مو لو ی عبدالکریم صاحب نے بیا ن کیا کہ سو ل ملٹر ی گز ٹ میں چو نکہ حسب د ستور مردم شما ر ی پر ریما ر ک لکھا جا ر ہا ہے انہو ں نے اس غلطی کو شا ئع کر دیا ہے ۔ کہ احمد یہ فر قہ کا با نی مر زا غلا م ا حمد ہے اس نے ا و ل ا بتد ا چو ڑھو ں سے کی ۔ پھر تر قی کر تے کر تے ا علی طبقہ کے آد می اس کے پیر و ہو گئے ۔ حضر ت اقد س فر ما یا۔ اس کی بہت جلد تدد یدہو نی چا ہیے ہما ر ی عزت پر سخت حملہ کیا گیا ہے ۔ چنا نچہ اسی و قت حکم صادرہوا کہ ایک خط جلد تر ا نگر یزی زبا ن میں چھا پ کر گو ر نمنٹ اور مرد م شما ر ی کے سپر نٹنڈ نٹ کے پا س بھیجا جا و ے تاکہ اس غلطی کا از ا لہ ہو اور لکھا جا و ے کہ گو ر نمنٹ کو معلو م ہو گا چو ڑھے ایک جر ائم پیشہ قو م ہے ان سے ہما را کبھی بھی تعلق نہیں ہو ا ۔ ایک شخص نا می مزر ا اما م د ین قا د یا ن میںہے جس سے ہما ر ی تیس بر س سے عد او ت چلی آتی ہے اور کو ئی میل ملا پ اس کا اور ہما را نہیں ہے ۔ اسکا تعلق چو ڑھو ں سے رہا اور اب بھی ہے ۔ اس کی عادت اور چا ل چلن کو ہم پر تھاپ دینا سخت درجہ کی دلا آزاری ہما ر ی اور ہمار ی جما عت کی ہے ۔اور یہ عزت پر سخت حملہ ہے اور بڑی مکروہ کا ر روائی ہے جو کہ سر ز د ہو ئی ہے ۔ اور چو ڑ ھے تو در کنا رہمیں تو ایسے لو گو ں سے بھی تعلق نہیں ہے جو کہ اد نی در جہ کے مسلما ن اور رذیل صفا ت ر کھتے ہیں ۔ ہما ر ی جما عت میں عمد ہ ا ور اعلیٰ درجہ کے نیک چا ل چلن کے لو گ ہیں ۔ اوروہ سب حسنہ صفا ت سے متصف ہیں ۔ اور ایسے ہی لو گو ں کو ہم سا تھ ر کھتے ہیں۔گو ر نمنٹ کو چا ہیے ۔ کہ صا حب ضلع گو ر د ا سپو ر ا ؎ سے اس امر کی تحقیقا ت کر ے ۔ اور عدل سے کا م لیکر اس آلو د گی کو ہم سے دور کر ے ۔ ہم خو د ا ما م د ین کو ا سی لیے نفر ت سے د یکھتے ہیں۔ کہ اس کا اسی قو م سے تعلق ہے ۔ پنجاب میں یہ مسلم امر ہے کہ جس شخص کے ز یا د ہ تر تعلقا ت چو ڑھو ں سے ہو ں اس کا چا ل چلن اچھا نہیں ہو ا کر تا ۔ اسی گو ر نمنٹ کا فرض ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کر ے ۔
(البد جلد۲نمر ۵ صفحہ ۳۶۔ ۳۷ مو ر خہ ۲۰ فر وری ۳ ۱۹۰ء؁)
۲۵ جنوری ۱۹۰۳ ء؁ بروز یک شنبہ
(مجلس قبل از عشاء)
آپ نے یہ تجویز کی کہ
بیعت کا رجسٹر بالکل اطمینان کی صورت میں نہیں معلوم ہوتا ۔اس لیے اب آئندہ اس کے فارم چھپواکر ایسی طرح سے رکھا جاوے کہ جب چاہیں فوراً تعداد مل جاوے اور اپنی جماعت کی تعداد معلوم کرنے کے واسطے مردم شماری کا محتاج نہ ہو نا پڑے ۔اگر سب بیعت کنندگان کے نام محفوظ ہوں تو اُن کو ضروری ضروری باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں ۔
۲۶ جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروز شنبہ
(بوقت ظُہر)
جب نماز کے لیے حضور تشریف لائے تو مولوی محمد احسن امروہی کو فرمایا کہ
مَیں نے رات کو خواب دیکھا کہ آپ میرے سامنے جائفل اور ایک گانٹھ نہیں معلوم سپاری کی یا سونٹھ کی پیش کر کے کہتے ہیں کہ یہ کھانسی کا علاج ہے ۔اس کے دیکھنے کے بعد مجھے دوگھنٹے تک کھانسی سے بالکل آرام رہا حالانکہ اس سے پیشتر مجھے کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی ۔
مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ رات کو مَیں نے خواب دیکھا کہ سلطان احمد (حضور کے لڑکے) آئے ہوئے ہیں ۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
میرے گھر میں ایک ایسی ہی خواب آئی تھی اس وہی تعبیر بتلائی جو آپ نے سمجھی یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوگا ۔سُلطان سے مُراد براہین اور نشان ہوا کرتا ہے ۔
(بوقت عصر)
حضرت اقدس نے تھوڑی دیر مجلس کی اور ثناء اللہ کے قادیان میں آنے کے متعلق ذکر ہوتا رہا۔
آپ نے فرمایا کہ
ہم نے تو اُسے بہت وسعت دی تھی جس قدر چاہتا ہر گھنٹہ کے بعد تین چار سطریں لکھ کر پیش کیا کرتا
اور اگر اُسے بیان کرنے کی نوبت دی جاتی تھی تو بھی اس شامت تھی کہ اُسے بہرحال جُھوٹ سے کام لینا پڑتا اخبار والوں اور عوام الناس کی شرارتوں اور خلافِ واقعہ بیانات کی نسبت فرمایا کہ:۔
اب ہماری جماعت کو چُپ ہی رہنا چاہیئے ۔جواب کچھ نہ دیں ۔خدا تعالیٰ ہی ان لوگوں سے سمجھے گا۔تعجب ہے کہ ثناء اللہ نے بالکل لیکھرام والی چال اختیار کی ہے جس کی غرض مباحثہ سے اظہار ِ حق نہ ہو اس سے مباحثہ کرنا لا حاصل ہے یہ کاروبار اب زمین پر نہیں رہا بلکہ آسمان پر ہے ۔
(مجلس قبل از عشاء)
حضرت اقدس مولوی عبدالطیف خانصاحب سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرتے رہے اور پھر اپنے چند ایک رئویا بتلائے جس سے ظاہر ہوتا تھ اکہ عدالت کی جو کاروائی جیسے زمیں پر جاری ہے ویسا ہی طریق خدا تعالیٰ نے بھی اختیا رکیاہوا ہے ۔منجملہ اُن کے ایک خواب تو وہ بیان کی جس میں سُرخی کے چھینٹے آپ کے لباس مبارک پر پڑے تھے۔ ا؎
حالانکہ وہ واقعہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا ۔اور ایک خواب آپ نے یہ بیان کیا کہ:۔
مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں ۔مَیں منتظر ہوں ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہے ۔اتنے میں جواب ملا ۔
اصبر سنفر یا مرزا
پھر مَیں ایک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں کچہری میں گیا ہوں ۔دیکھا تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صُورت پر کُرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔اور ایک طرف ایک سر رشتہ دار ہے کہ ہاتھ میں ایک مِسل لیے ہوئے پیش کررہا ہے ۔حاکم نے مِسل اُٹھا کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو مَیں نے باریک نظر سے دیکھا کہ ایک کُرسی اُس کے ایک طرف خالی پڑی ہوئی معلوم ہوئی ۔اُس نے مجھے کہا کہ اس پر بیٹھو اور مِسل اس کے ہاتھ میں لی ہوئی ہے۔اتنے میںمَیں بیدار ہوگیا ۔
پھر فرمایا کہ
جس طرح میرے کُرتے والی خواب ہے جس پر سُرخ روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے ویسے ہی ایک خواب پیغمبرِ خدا ﷺ کی بھی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ جنت کے باغوں میں سے ایک سیب آپ نے لے لیا ۔پھر اسی وقت بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ سیب ہاتھ میں ہی ہے ۔
ایمان کی حالت
فرمایا کہ
کوئی خدا پر ایمان نہیں رکھتا جب تک کہ وہ خود نشان نہ دیکھے یا اس کی صحبت میں نہ رہے جو کہ ان نشانوں کو دیکھنے والا ہے ۔خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ان سب مخالفوں کو ایک دَم میں ہی ہلاک کر دے مگر پھر ہم اور ہمارا سلسلہ بھی ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ یہ مخالفین کا شور و غوغا دراصل عمر کو بڑھاتا ہے ۔ خدا تعالیٰ بیشک سب کچھ کریگا اُن کو ذلیل وخوار بھی کرے گا ، لیکن وہ مالک ہے خواہ ایک دم کر دے خواہ رفتہ رفتہ کرے ۔خدا تعالیٰ کی عجیبدر عجیب قدرت ہے کہ جب ایک شخص کو اپنی طرف سے بھیجتا ہے تو خود بخود دو گرہ بن جاتے ہیں ۔ایک شقی اور ایک سعید ۔مگر یہ زمانہ گاہے گاہے وہ زمانہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے ۔دُوسرا زمانہ شکوک و شہبات کا زمانہ ہو تا ہے ۔ ا ؎
ختم نبّوت
فرمایا اخرین منھم (سورۃ الجمعہ:۴)
کے قائم مقام توریت کی ایک آیت تھی جس سے مسیح ؑ اسرائیلی کا گروہ مراد تھا اور یہاں
اخرین منھم سے ہمارا گروہ ۔
انجیل کے ذکر پر فرمایا کہ
عیسائی لوگ جو حضرت عیسیٰ کو خاتم ِ نبوت کہتے ہیں اور الہام کا دروازہ بند کرتے ہیں حالانکہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کے بعد ایک یُو حنّا گذرا ہے جس نے نبوت کی اور اس کے مکاشفات کی ایک الگ کتاب انجیلوں میں ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں ۔ختمِ نبوت پر محی الدین ابن عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ اُنکے نزدیک مکالمہ الٰہی اور نبوت میں کوئی فرق نہیں ہے اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے ۔ خود قرآن میں النبیّین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے ۔اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے اگر کوئی نئی شریعت کا دعویٰ کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الٰہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام توایک مرادہ مذہب ہوگا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا ۔کیونکہ مکالمہ کے بعد اَور کوئی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہوتو اُسے نبی کہا جئے ۔نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہلِ اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے ۔اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی اُمّت پر ہے ا ؎
اور اھدنا الصراط المستقیم ۔الصراط الذین انعمت علیھم (سورۃ الفاتحہ: ۶ ،۷)
کی دُعا ایک بڑا دھو کا ہو گی اور اُس کی تعلیم کا کیا فائدہ ہو گو یا یہ عبث تعلیم خدا نے دی ۔
نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہیَ
ہاں نبوت کے واسطے کثرت مکالمہ شرط ہیَ یہ نہیں کہ ایک دو فقرے گا ہ گاہ الہام ہوئے بلکہ نبوت کے مکالمہ میں ضروری ہے کہ اس کی کیفیت صاف ہو اور کثرت سے ہو ۔
نماز عشاء پڑھ کر حضرت نے کھڑے ہو کر مکالمہ نبوت پر تقریر کی اور مثال دیکر فرما یا کہ:۔
جب تک کہ یہ فرق نہ ہو تب تک کیسے پتہ لگ سکتا ہے ۔اب دیکھو جس کے پاس ایک دو روپے ہوں اور اُدھر بادشاہ ہے کہ اس کے پاس خزانے بھرے ہوئے ہیں تو ان دونوں میں فرق ہوگا کہ نہیں ؟ زردار وُہ بھی ہے اور بادشاہ بھی ہے مگر جس کے پاس ایک دو روپے ہوں اُسے بادشاہ کوئی نہ کہیگا ۔اسی طرح فرق تو کثرت کا ہے اور کیفیت اور کمیت کابھی ہے ۔نبوت کا مکالمہ اس قدر اعلیٰ اور اصفٰی ہوتا ہے کہ ایک بشریت اُسے برداشت نہیں کر سکتی مگر وہ جو اصطفاء کے درجہ تک ہو ۔فلا یظھر علی غیبیہ احد ا الا من ارتضی من رسول ۔(سورۃ الجنّ :۲۷:۲۸)
اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی اس طرح سے بار بار ظاہر کرتا ہے کہ ایک امر کو خواب میں دکھاتا ہے پھر اُسے کشف میں ۔پھر اس کے متعلق وحی ہوتی ہے اور پھر وحی کی تکرار ہوتی رہتی ہے حتٰی کہ وہ امر غیب اس کے لیے مشہودہ اور محسوسہ امور میں داخل ہوجاتا ہے اور جس قدر تکرار ایک مہم کے نفس میں ہوتا ہے اسی قدر تکرار اس کے مکالمہ میں ہوا کرتا ہے اور اصفٰی اور اجلیٰ مکالمہ انہی لوگوں کا ہتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا تزکیّہ نفس کرتے ہیں اس لیے تقویٰ اور طہارت کی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔
ثم اورثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (سورۃ فاطر : ۳۳)
ہم نے کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے اُن کو بنایا جن کو ہم نے چُن لیا ۔ یعنی ان لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جیسے ایک مکان کی کُل کھڑکیاں کُھلی ہیں کہ کوئی گوشہ تاریکی کا اُس میں نہیں اور روشنی خوب صاف اور کُھلی آرہی ہے ۔اسی طرح اُنکے مکالمہ کا حال ہوتا ہے کہ اجلی اور بہت کثرت سے ہوتا ہے ۔جیسے ایک تیل ادنیٰ قسم کا ہوتا ہے کہ دُھواں اور بدبُو بہت دیتا ہے ۔دوسرا اُس سے اچھا ۔یہی فرق مکالمہ کی کیفیت اور کثرت اور صفائی میں ہوتا ہے ۔کیا ایک لوٹے کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے اندر تھوڑا سا پانی رکھ کر کہے کہ مَیں بھی سمندر ہوں کیونکہ اس میں بھی پانی ہی ہوتا ہے ۔حالانکہ کس قدر فرق ہے سمندر میں جو پانی کی کثرت ہوتی ہے اُسکو لوٹے سے کیا نسبت ؟ پھر اس میں موتی ،سیپ اور ہزار ہا قسم کے جانور ہوتے ہیں ۔
اگر اس پر اعتراض ہوکہ اَور لوگوں کو کیوں خوابیں آتی ہیں جو کہ سچّی بھی نکلتی ہیں حتٰی کہ ہندوئوں میں بھی اور فاسق سے فاسق گروہ کنجروں میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض اوقات اُن کی خوابیں سچّی نکلی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کے سلسلہ کی تائید ہو ۔ کیونکہ اگر ایسے حواس دُنیا میں نہ ہوتے تو پھر امرنبوت مشتبہ ہوجاتا ایک نابینا آفتاب کو کیسے شناخت کر سکتا ہے ؟ وہی شناخت کرے گا جسے کچھ بینائی ہو چونکہ خدا کو منظور تھا کہ اتمامِ حجت ہو اس لیے یہ خواب کا سلسلہ سب جگہ رکھ دیا ہے تاکہ قبولیت کا مادہ ہر ایک جگہ موجود رہے اور اُن کو انکار نہ کرنے دیوے لیکن جو مادہ نبی کا ہوتا ہے اس کی شان اَور ہوتی ہے اور اُسے موہبت اور بہت سی مَوتوں کے بعد تیار کیاجاتا ہے۔
(البدر جلد ۲نمبر ۶ صفحہ ۴۲ مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء؁)
۲۷ جنوری ۱۹۰۳ء؁
(بوقت سَیر)
حضرت اقدس نے مخالفین کی نسبت فرمایا کہ !
مَیں نے اب ان سے اعراض کر لیا ہے کیونکہ جواب تو اس کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی ذرّہ تقویٰ کا ہو مگر جس حال میں کہ ان کے پاس اب سبّ و شتم ہی ہے تو اب حوالہ بخدا کیا ۔ اچھا طریق امن کا ہم نے پیش کیا ہے کہ شرافت سے آکر اپنے شُہبات دُور کراویں ۔ہمارے مہمان خانہ میں خواہ چھ ماہ رہیں ہم دعوت دیویں گے مگر جو شخص اوّل سے عزم بالجزم کر کے آتا ہے کہ شرارت سے باز نہ آویگا اُسے ہم کیا کریں ۔میرا ہمیشہ ہی خیال ہوتا ہے کہ کوئی گروہ نیک نیتی سے آوے اور مستفید ہو ۔ازالہ شہبات کی نیت ہو ۔ ہار جیت کا خیال نہ ہو ۔نیک نیتی تو عجیب شئی ہے کہ اسکی فوراً بُو آجاتی ہے اور جب جواب کافی ملے تو نیک نیّت تو اسی وقت اُسکی خو شبو پا کر بحث سے دستبردار ہوجاتا ہے ۔
اور ہم خاص پیشگو ئیوں پر بھی حصر نہیں رکھتے ۔کوئی پہلو اس سلسلہ کا لے لیوے ۔ہم ازالہ شہبات کردیویں گے ۔اگر گذشتہ پیشگوئیوں کے پہلو کو نہ لیویں تو خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آئندہ اَور نشانات دکھلادیوے۔
فرمایا کہ :۔
کل جو خواب مولوی محمد احسن صاحب کے دوا بتلانے کی نسبت بیان کیا تھا مَیں نے اُسی کے مطابق رات کو جائفل اور سونٹھ مُنّہ میں رکھا ۔اب کھانسی کا اس سے بہت فائدہ معلوم ہوتا ہے ۔
(البدر جلد ۲ نمبر ۶صفحہ ۴۳ مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء؁)
۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء؁
مورخہ ۲۷ ،۲۸ جنوری کے درمیان جو رات تھی ۔اس میں رات کو ایک بجے حضرت اقدس علیہ السلام مولانہ محمد مولانا محمد احسن صاحب امروہی کی کوٹھڑی میں تشریف لائے ۔دروازہ بند تھا ۔آپ نے کھٹکھٹایا مولوی صاحب نے لاعلمی سے پُوچھا کہ کون ہے ؟ حضرت اقدس نے جواب دیا کہ ’’ مَیں ہوں غلام احمد ‘‘ ا ؎ آپ کے دستِ مبارک میں لالٹین تھی آپ نے اندر داخل ہوکر فرمایا کہ اس وقت مجھے اوّل ایک کشفی صورت میں خواب کی حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر میں (اُمّ المومنین) کہتے ہیں کہ اگر مَیں فوت ہوجائوں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا ۔اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذر الہام ہوا ہے غَا سِقُ اللّٰہِ ۔مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ جو بچہ میرے ہاں پیدا ہونیوالا ہے وہ زندہ نہ رہے گا ۔اس لیے آپ بھی دُعا میں مشغول ہوں اور باقی احباب کو بھی اطلاع دے دیویں کہ دُعائوں میں مشغول ہوں ۔
(البدر جلد ۲ نمبر ۱،۲ صفحہ ۲ مورخہ ۲۳،۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء؁)
الہام غاسق اللہ کی شرح
غَاسِقُ اللّٰہِ الہام کی شرح آپ نے فرمائی اور فرمایا کہ :۔
غاسق عربی میں تاریکی کو کہتے ہیں جو کہ بعد زوال شفق اوّل رات چاند کو ہوتی ہے اور اسی لیے لفظ قمر پر بھی اس کی آخری راتوں میں بولا جاتا ہے جبکہ اس کا نُور جاتا رہتا ہے اور خسوف حالت میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔قرآن شریف میں
من شر غاسق اذا وقب (سورۃ الفلق :۴)
کے یہ معنے ہیں
من شر ظلمۃ اذا دخل
یعنی ظلمت کی برائی سے جب وہ داخل ہو ۔مَیں نے اس سے پیشتر یہ خیال کیا تھا کہ چونکہ عنقریب گھر میں وضع حمل ہونیوالا ہے تو شا ید یہ مولود کی وفات پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے مگر بعد میں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد ابتلاء ہے ۔اجتہادی امور ایسے ہی ہوا کرتے ہیں کہ اوّل خیال کسی اَور طرف چلا جاتا ہے ۔غرض یہ کہ اس کے معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر بطور ابتلاء کے ہے اور اس سے جماعت کا ابتلاء مراد نہیں ہے بلکہ منکرین کا جو کہ جہالت ،نادانی ،افتراء سے کام لیتے ہیں ۔آدم ؑ سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ دشمنوں کو بھی اُن کے افتراء وغیرہ کے لیے ایک موقعہ دیدیتا ہے ۔چناچہ بعض وقت کوئی شکست بھی ہوجایا کرتی ہے قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے ۔
ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ و تلک الایام نداو لھا بین الناس (سورۃ ال عمران :۱۴۱)
خدا تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کی جماعت کو فرماتا ہے کہ اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے تو تم نے بھی اپنے مخالفین کا ستیا ناس کر دیا ہواہے ۔اگر ہمارا یہ کاروبار قلم کا نہ ہوتا بلکہ تلوار سے کام لیتے تو آخر ہمیں بھی کوئی نہ کوئی شکست ہوئی ہی تھی یہ موقع افتراء کے خدا تعالیٰ دشمنوں کو اس لیے دیتا رہتا ہے کہ مقدمہ جلد ختم نہ ہو۔اور یہ سنت اللہ ہے ۔اب غور سے دیکھا جاوے تو اُحد میں رسول اللہ ﷺ کی اصل میں فتح تھی ۔ مگر دشمن ک وفضیلت سے کیا مطلب اُسے تو موقع ملنا چاہیئے ۔
ادھر آتھم کا مقدمہ ادر مقابلہ پر لیکھرام کا قتل ۔ان کی مثال ٹھیک ٹھیک اُحد اور بدر کی لڑائی تھی ۔
کلما اضاء لھم مثو افیہ و اذا اظلم علیھم قاموا (سورۃ البقرہُ۲۱)
منافقوں کا کام ہے مگر یہ لوگ قامو میں داخل ہیں ۔احتیاط سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہوتو دشمن کی آنکھ میں ابتلاء کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور اس لیے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں ۔
اس کے بعد حضرت اقدس نے گھر کے حالات سنائے کہ
رات کو اُن کو بہت تکلیف تھی ۔آخر خدا تعالیی نے آرام دیدیا مگر میرا ایمان اور یقین ہے کہ یہ تمام کام دُعائوں نے ہی کیا ہے ۔
عورتوں کے لیے یہ ولادت ایک پہلو سے موت اور ایک پہلو سے زندگی ہوتی ہے گویا ولادت کے وقت اُن کو اپنی بھی ایک ولادت ہوتی ہے ۔
گھر میں بھی رات کو ایک خواب دیکھا کہ بچہ ہوا ہے تو اُنہوں نے مجھے کہا کہ میری طرف سے بھی نفل پڑھنا اور اپنی طرف سے بھی ۔پھر ڈاکٹرنی کو کہا کہ ذرا اسے لے لو تو اُس نے جواب دیا کہ لُوں کیسے ؟وہ تو مردہ ہے تو انہوں نے کہا کہ اچھا پھر مبارک کا قدر قائم رہے گا ۔ مَیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ لڑکی اصل میں مُردہ بدست زندہ ہی ہوا کرتی ہے ۔
ایک الہام اور ایک خواب
آج صبح کو الہام ہوا ۔
سَاَ کْرِمُکَ اِکْرَاماً عَجَباً
اس کے بعد تھوڑی سی غنودگی میں ایک خواب بھی دیکھا کہ ایک چوغہ سنہری بہت ہی خوبصورت ہے ۔مَیں نے کہا کہ عید کے دن پہنو ں گا۔اس الہام میں عجب کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی نہایت ہی مئوثر بات ہے ۔مَیں نے یہی سمجھا کہ چونکہ رات کو بہت منذر الہام ہوا تھا تھا وہ تو پُورا ہو گیا ہے ۔اب اللہ تعالیٰ اس کے بالمقابل بشارت دیتا ہے ۔کیسی رحیم کریم ذات ہے۔
خواب اور انکی تعبیر یں
رات میں نے ایک اَور خواب بھی دیکھا کہ مَیں جہلم میں ہوں اور سنسار چند صاحب کے کمرے میں ہوتا ہوا آگے کوٹھی کے ایک اَور کمرہ کی طرف جا رہا ہوں ،رئویا کے معاملات میں انسانی عقل بالکل اندھی ہے ۔ لڑکی دیکھے تو لڑکا ہوتا ہے ۔اسی لیے معّبروں نے باب بالعکس ک ابھی باندھا ہے ۔ہمارے مخالف تمام باتوں کو ظواہر پر حمل کر لیتے ہیں ورنہ وہ عجیب در عجیب باتوں کو دیکھیں ۔ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک شخص قولنج کی بیماری میں مبتلا تھا اسے خواب میں کسی نے دیکھا کہ وہ مر گیا ہے ۔مَیں نے اس کی تعبیر کی کہ وہ اچھا ہوجاویگا آخر وہ اچھا ہوگیا
مقدمات کے ذکر پر فرمایا کہ :۔
حاکم بیچارے کیا کریں وہاں تو خدا پکڑ کر سب کچھ کرواتا ہے اصل میں خدا ہی خدا ہے وہ جب کوئی بات دل میں ڈالتا ہے تو دلوں کو ایسا پکڑتا ہے کہ باز اس طرح چڑیا کو پکڑ نہیں سکتا ۔اصل سلطنت اُسی کی سلطنت ہے ۔کیسے سے کیسا دشمن ہو مگر وہ اس کو بھی پکڑ لیتا ہے ۔
رب کل شی خادمک
بالکل ٹھیک ہے لوگ ملائکہ سے تعجب کرتے ہیں ۔میرے نزدیک تو یہ سب ملائک ہیں ۔ورنہ لُقمہ جو اندر ڈالا جارا ہے اگر وہ نہ چاہے تو کب ہضم ہو سکتا ہے ۔بغیر کامل تصّرف کے خدا کی خدائی چل سکتی ہی نہیں ۔
ان من شی ء الا یسبح بحمدہ (بنی اسرائیل : ۴۵)
کے یہی معنے ہیں ۔اسلام اور ایمان وہی ہے جو اس حد تک پہنچے اور اسی کو چھوڑ چھاڑ کر اب صرف رسم اور عادات رہ گئی ہیں ۔جن کی یہ حالت ہے اُن کو دُعائوں میں کیا مزا آسکتا ہے ا؎
عقیدہ وحدت الوجود
جالندھر سے ایک صاحب تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے عرض کی کہ وہاں وجود یوں کا بہت زور ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
اصل میں ان لوگوں کا اباجتی رنگ ہے ۔دہریوں میں اور ان میں بہت کم فرق ہے اُنکی زندگی بے قیدی کی زندگی ہوتی ہے ۔خدا کے حدود اور فرائض کابالکل فرق نہیں کرتے ۔نشہ وغیرہ پیتے ہیں ،ناچ رنگ دیکھتے ہیں ۔زنا کو اُصول سمجھتے ہیں ۔
ایک دفعہ ایک وجود ی میرے پاس آیا اور کہا کہ مَیں خدا ہوں ۔اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا ہوا تھا میں نے اُسکے ہاتھ پر زور سے چٹکی کاٹی حتیٰ کہ اس کی چیخ نکل گئی تو مَیں نے کہا کہ خدا کو درد بھی ہوا کرتا ہے ؟
پھر نووارد صاحب نے بیان کیا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے ۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
توریت میں یہ ذکر ہے اس کامطلب ہے کہ
تخلقوا با خلاق اللہ
یعنی خدا نے چاہا کہ انسان خدا کت اخلاق پر چلے ۔جیسے وہ ہر عیب اور بدی سے پاک ہے یہ بھی پاک ہو ۔جیسے اس میں عدل و انصاف اور علم کی صفت ہے وہی اس میں ہو اس لیے اس خلق کو احسن تقویم کہا ہے ۔
لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم (سورۃ التین: ۵)
جو انسان خدائی اخلاق اختیار کرتے ہیں وہ اس آیت سے مُراد ہیں اور اگر کُفر کرے تو پھر اسفل سافلین اس کی جگہ ہے ۔
وجودیوں سے جب بحث کا اتفاق ہوتو اوّل اُن سے خدا کی تعریف پوچھنی چاہیئے کہ خدا کسے کہتے ہیں ؟ اور اس میں کیا صفات ہیں ۔وہ مقرر کرکے پھر اُن سے کہنا چاہیئے کہ اب ان سب باتوں کا تم اپنے اندر ثبوت دو ۔یہ نہیں کہ جو وہ کہیں سُنتے چلے جائو اور اُن کے پیچ میں آجائو بلکہ سب سے اوّل ایک معیار خدائی قائم کرنا چاہیئے بعض ان میں سے کہا کرتے ہیں کہ ابھی ہمیں خدا بننے میں کچھ کسر ہے تو کہنا چاہیئے تم بات نہ کرو جو کامل ہو گذرا ہے اسے پیش کرو ۔
یہ ایک ملحد قوم ہے ۔تقویٰ ،طہارت ،صحتِ نیت ،پابندی احکام بالکل نہیں ۔تلاوتِ قرآن نہیں کرتے ہمیشہ کافیاں پڑھتے ہیں ۔اسلام پر یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ آج کل جس قدر گدی نشین ہیں وہ تمام قریب قریب اس وجودی مشرب کے ہیں ۔سچی معرفت اور تقویٰ کے ہر گز طالب نہیں ہیں ۔اسی مذہب میں دو شئے خدا کے بہت مخالف پڑی ہیں ایک تو کمزوری دوسرے ناپاکی ۔ یہ دونوخدا میں نہیں ہیں اور سب وجودیوں میں پائی جاتی ہیں ۔لُطف کی بات ہے کہ جب کسی وجودی کو کوئی بیماری سخت مثل قولنج وغیرہ کے ہو تو اس وقت وہ وجودی نہیں ہوا کرتا ۔پھر اچھا ہو جاوے تو یہ خیال آیا کرتا ہے کہ مَیں خدا ہوں ۔
(البدر جلد ۲نمبر ۷ صفحہ ۴۹ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۳ ء ؁)
۲۹ جنوری ۱۹۰۳ء؁ پنجشنبہ
(بوقت سیر)
فرمایا کہ ـ:۔
جھوٹ جیسا *** کام اَورکوئی نہیں اور پھر خصوصاً وہ جھوٹ جو کہ آبرو و عزّت وغیرہ پر ہوتا ہے جس پیٹ سے ایسی باتیں نِکلا کرتی ہیں اُسے نفس کہتے ہیں ۔
دشمن کی آبرو داری
اس کے بعد اسی آبرو کے مضمون پر حضرت اقدس نے ایک واقعہ بیان کیا ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ہر ایک کی آبرو حتٰی کے اپنے قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیت سے ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر مَیں نے اسے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہر گز نہ لگائو جس سے اُسے مفر نہ ہو ۔حالانکہ ان ہی لوگوں نے میرے پر جھوٹے الزام لگائے ۔جھوٹا مقدمہ بنایا ۔افتراء باندھے اور قتل اور قید میں کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا ۔میری عزّت پرکیا کیا حملے کر چکے ہوئے تھے ۔اب بتلائو کہ میرے پر کونسا خوف ایسا طاری تھا کہ مَیں نے اپنے وکیل کو ایسا کرنے سے روک دیا ۔صرف بات یہ تھی کہ مَیں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دے اور اسے کوئی راہ مفر کی نہ ہو ا ؎
آپ نے فرمایا کہ ’’میرے دل نے گوارہ نہ کیا ‘‘ اُس نے پھر کہا کہ یہ سوال ضرور ہونا چاہیئے تھا آپ نے فرمایا :۔
خدا نے دل ہی ایسا بنایا ہے تو بتلائو مَیں کیا کروں ۔
ایک صاحب آمدہ از جالندھر نے عرض کی کہ حضور وہاں شحنہ ہند نے بہت سے آدمیوں کو روک رکھا ہے اس کا کیا علاج کریں َفرمایا :۔
صبر کرو ایسا ہی پغمبر خدا ﷺکے وقت میں لوگ تو آپ کی مذمت کیا کرتے تھے مگر آپ ہنس کر فرم ایا کرتے تھے کہ اِن کی مذمت کو کیا کروں میرا نام تو خدا نے اوّل ہی محمد ﷺ رکھ دیا ہوا ہے ۔اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے بھی الہام کیا جو کہ آج سے بائیس برس پیشتر کا براہین میں چھپا ہوا ہے ۔
یحمدک اللہ ۲؎
یعنی خدا تیری تعریف کرتا ہے ۔
جھوٹ ایسی شئے ہے کہ آخر ایک دن آکر انسان اس سے تھک جاتا ہے ۔پھر اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو تَوبہ کرتا ہے ورنہ اسی طرح نامراد مرجاتا ہے۔
(بوقتِ ظہر )
پتھری کے اخراج کا نسخہ
تھوڑی دیر مجلس کی ۔بعض وقت مثانہ سے جو کنکر وغیرہ تکلیف دیکر نکلتے ہیں اُن کی نسبت فرمایا کہ
نرلسبی ۳ رتی اور وائنم اپی کاک کا استعمال اس کے واسطے نہایت مفید ہے اور چاول وغیرہ لیسدار اشیاء کا استعمال نہ کرنا چاہیئے ۔یہی لیس منجمد ہو کر کنکر بن جاتی ہے ۔
پھر فرمایاکہ
میرے والد صاحب کو بھی یہ مرض رہی ہے وہ مصبر کی گولیاں استعمال کیا کرتے تھے ۔بہت مفید ہیں اس میں مصبر ۔سہاگہ ۔بذرالبنج ۔فلفل وغیرہ ادویہ ہوتی ہیں ۔
(بوقت عصر)
ایک خط کے ذریعہ خبر ملی کہ جہلم میں اب پھر کرم دین کا ارادہ مقدمہ کا ہے اور وہ نگرانی کرنا چاہتا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایاکہ
گبھرانا نہ چاہیئے یہ تو خدا کے عجائبات ہیں ؎
ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است
فرمایا:۔
صبح کو ایک الہام ہوا تھا میرا ارادہ ہوا کہ لکھ لوں ۔پھر حا فظ پر بھروسا کرکے نہ لکھا ۔آخر وہ ایسا بھولا کہ ہر چند یاد کیا مچلق یاد نہ آیا ۔دراصل یہی بات ہے ۔
ما نسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا (سورۃ البقرہ :۱۰۷)
(مجلس قبل از عشاء)
جہلم سے مقدمہ کی نقل منگوائی گئی تھی ۔ حضرت اقدس سُنتے رہے ۔کسی نے کہا کہ اس پر ہم نالش کر سکتے ہیں ۔حضرت نے فرمایا کہ
ہم نالش نہیں کرتے یہ تواسرار الٰہی ہیں ایک برس سے خدا نے اس مقدمہ کو مختلف پیرائوں میں ظاہر کیا ہے۔ اب کیا معلوم کہ وہ اس کے ذریعہ سے کیا کیا اظہار کریگا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فعل مقدر خدا کی طرف سے تھا ۔
قانون کے ذکر پر فرمایا کہ
واضعانِ قانون نے بڑی دانشمندی سے کام لیا ہے کہ مذہبی امور کو دنیاوی اُمور سے الگ رکھا ہے ۔
کیونکہ مذہبی عالم کی باتوں کا دارومدار تو آخرت کے متعلق ہوتا ہے نہ کہ دنیا کہ متعلق ۔
مقدمات کے فیصلوں کی نسبت فرمایاکہ
میرا اپنا اُصول یہ ہے کہ بد تر انسان بھی اگر مقدمہ کرے تو اس میں تصرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے اس سے فیصلہ لکھوا تا ہے ۔انسان پر بھروسہ شرک ہے بلکہ اگر ایک بھیڑیئے کے پاس بھی مقدمہ جاوے تو اس کو خدا سمجھ عطا کردیگا۔ (البدر جلد ۲ نمبر صفحہ ۴۹۔۵۰ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۳ء ؁)
۳۰جنوری ۱۹۰۳ء؁ بروزجمعہ
( بو قت عصر )
ارشاد فر مایا کہ ۔ جو ا لہا م مجھ کو بھول گیا آ ج یا دکیا ہے اور وہ یہ ہے ۔
ان اللہ مع عبا د ہ یو اسیک۔
یعنی اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اور تیر ی غمخواری کر یگا ۔
( البد ر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ ما ر چ ۱۹۰۳ء؁)
۳۱ جنو ری ۱۹۰۳ء؁
( بو قت عصر ۱ ؎ )
جہلم سے خبر آئی کہ کر م د ین نے حضرت اقد س پرایک اور مقدمہ مواھب الر حمن کے بعض الفاظ پر کیا ہے فرما یا ۔ اب یہ ان لو گو ںکی طر ف سے ابتداء ہے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ انکے مقابلہ میںکیا کیا تدابیر اختیار کر یگا ۔ یہ استغاثہ ہم پر نہیںاللہ تعالیٰ پر ہے ۔ معلوم ہو تا ہے کہ لو گ مقد مات کر کے تھکا نا چاہتے ہیں۔ الہام
ان اللہ مع عبادہ یو اسیک
اسی کے متعلق اجتہادی طور پر معلوم ہو تا ہے اور ایسا ہی الہام
سا کر مکاکراماعجبا
سے معلوم ہو تا ہے۔
خُدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دیگا
فرما یا :۔
ہما ری جماعت تو ایمان لا تی ہے مگر اصل میں مدار ایمان نشانو ں پر ہو تا ہے ۔اگر چہ انسان محسوس نہ کرے مگر اس کے اندر بعض کمزوریا ں ضرور ہو تی ہیںاور جب تک وہ کمزوریاں دُور نہ ہوں اعلیٰ مراتبِ ایمان نہیں مل سکتے اور یہ کمزوریاں نشانات ہی کے ذریعہ دُور ہو تی ہیں اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے نشانوں سے ان کمزوریوں کو دُور کرے اور جماعت اپنے ایمان میں تر قی کرے اب وہ وقت آگیا ہے کہ
ان اللہ علی نصر ھم لقدیر( سورۃالحج :۴۰)
کا نمونہ دکھائے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر سے صادق اور کاذب ،خائن اور مظلوم پو شیدہ نہیں ہیں اب ضروری ہے کہ سب گروہ متفق ہو کر میرے استیصال کے درپے ہوں جیسے جنگ احزاب میں ہوئے تھے جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب خداتعالیٰ نے چاہا ہے۔ مَیں نے جو خواب میں دیکھا کہ دریائے نیل کے کنارے پر ہوں اور بعض چلائے کہ ہم پکڑے گئے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ایسا وقت بھی آوے جب جماعت کو کوئی یاس ہو مگر مَیں یقین رکھتاہوں کہ خدازور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دیگا ۔اس وقت یہ پورا زور لگائیں گے تا کہ قتل کے مقد مہ کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھُوٹ گیا۔ یہ لوگ اب باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خداتعالیٰ کی طرف سے مَیں پیش کرتا ہو ں مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اکراما عجبا کیسے ہو تا ہے۔
شوقِ تبلیغ (در بار شام)
فر مایا :۔
سردست بیس جلد مواہب الرحمٰن کی مجلّد کروا کر مصِر کے اخبار نویسوں کو بھیجی جاویں اور اگر میری مقدرت میں ہو تا تو مَیںکئی ہزارمجلّد کر وا کر بھیجتا۔
فر مایا :۔
یہاں کے لوگوں کا تو یہ حال ہے ۔شاید مصر کے لوگ ہی فوئدہ اُٹھا لیں ۔جس قدر سعید رُوحیں خدا کے علم میں ہیں وہ اُن کو کھینچ رہا ہے۔
جماعت کو نصائح
بیعت کے بعد ایک شخص نے اپنے گا و ں میں کثرت طاعون کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ فر ما یا:۔
میں تو ہمیشہ دعا کر تا ہو ںمگر تم لو گو ں کو بھی چا ہئیے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو نما ز یںپڑھو اور تو بہ کر تے رہو ۔ جب یہ حا لت ہو گی تو اللہ تعالیٰ حفا ثت کر یگااور اگر سارے گھر میںایک شخص بھی ایسا ہو گا تو اللہ تعالیاس کے با عث سے دوسر و ںکی بھی حفا خت کرے گا۔ کو ئی بلا اور دکھ اللہ تعالیکے ارادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیکی نا فر ما نی اور مخالفت کی جا وے ۔ ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کا آتا ہے ۔ جو لو گ عا م ایمان ر کھتے ہیں اللہ تعا لی ان کی طر ف رجوع کر تا ہے اور آپ ان کی حفا ظت فر ما تا ہے ۔من کا ن للہ کا ن اللہ لہ ۔ بہت سے لو گ ہیں جو زبا ن سے لا الہ اللہ کا اقر ار کر تے ہیں اور اپنیاسلام اور ایما ن کا دیٰ کر تے ہیںمگر وہ اللہ تعا لیٰ کے لیے دکھ نہیںا ٹھا تے۔ کو ئی دکھ یا تکلیف یا مقدمہ آجا و ے تو فو را خدا کو چھو ڑ نے کو تیا رہو جا تے ہیںاور اس کی نا فر ما نی کر بیھٹتے ہیں۔ اللہ تعا لیٰ ان کی کو ئی پر وا نہیں کر تا مگر جو خا ص ایمان رکھتا ہو اور ہر حا ل میںخا کے سا تھ ہو اور دکھ اٹھا نے کو تیا ر ہو جاوے تو خا تعالے ٰاس سے دکھ اٹھا لیتا ہے اور دو مصیبتیں اس پر جمع نہیں کر تا دکھ کا اصل علا ج دکھ ہی ہے اور مو من پر دو بلائیں جمع نہیںکی جاتیں۔
ایک وہ دکھ ہے جو انسان خدا کے لیے اپنے نفس پر قبول کرتا ہے اور ایک وہ بلائے ناگہانی ۔ا س بلا سے خدا بچا لیتا ہے ۔پس یہ دن ایسے ہیں کہ بہت توبہ کرو ۔اگر چہ ہر شخص کو وحی یا الہام نہ ہو مگر دل گواہی دیتا ہے کہ خد تعالیٰ اُسے ہلاک نہ کرے گا ۔دُنیا میں دو دوستوں کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ایک دوست دوسرے دوست کا مرتبہ شناخت کرلیتا ہے کیونکہ جیسا وہ اس کے ساتھ ہے ایسا ہی وہ بھی اس کے ساتھ ہوگا ۔دل کودل سے راہ ہوتی ہے ۔محبت کے عوض محبت اور دغا کے عوض دغا ۔خد اتعالیٰ کے ساتھ معاملہ میں اگر کوئی حصّہ کھوٹ کاہوگا تو اسی قدر ادھر سے بھی ہوگا ۔مگر جو اپنا دل خدا سے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا ۔انسان کا پنا دل اس کے لیے آئینہ ہے وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے ۔پس سچّا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ سچّے دل سے اپنے گُناہوں کی معافی چاہواور وفاداری ور اخلاص کا تعلق دکھائو اور اس راہِ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پو چھے جائو گے ۔جب اسقدر اخلاص تم کو میست آجاوے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع کرے ۔ایسا شخص سارے گھر کو بچا لے گا ۔اصل یہی ہے ا س کو مت بھولو ۔نری زبان میں برکت نہیں ہوتی کہ بہت سی باتیں کرلیں ۔اصل برکت دل میں ہوتی ہے اور وہی بر کت کی جڑ ہے ۔زبان سے تو کروڑ ہا مسلمان کہلاتے ہیں جن لوگو ں کے دل خدا کے سا تھ مستحکم ہیںاور ا س کی طر ف سے آتے ہیںخدا بھی ان کی طر ف وفا سے آتا ہے اور مصیبت اور بلا کے وقت ان کو الگ کر لیتا ہے۔ یاد رکھو یہ طاعون خودبخود نہیں آئی اب جو کھوٹ اور بیوفائی کا حصّ ہ رکھتا ہے وہ بلا اور وبا سے بھی حصّہ لیگا مگر جو ایسا نہیں رکھتا خد اُسے محفوظ رکھے گا۔
مَیں اگر کسی کے لیے دُعا کروں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف نہیں وہ اس سے سچا تعلق نہیں رکھتا تو میری دُعا اُس کو کیا فائدہ دے گی ؟لیکن اگر وہ صاف دل ہے اور کوئی کھوٹ نہیں رکھتا تو مَیری دُعا اس کے لیے نور ’‘ علی نور ہوگی ۔
زمینداروں کو دیکھا جاتا ہے وہ دو دو پیسے کی خاطر خدا کو چھوڑ دیتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ خدا انصاف اور ہمدردی چاہتا ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ فسق وفجور فحشا ء اور بے حیائی سے باز آویں جو ایسی حالت پیدا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں ،مگر جب دل میں تقویٰ نہ ہو اور کچھ شیطان کا بھی ہو تو خدا شراکت پسند نہیں کرتا اور وہ سب چھوڑ کر شیطان کا کر دیتا ہے کیونکہ اس کی غیر ت شرکت پسند نہیں کرتی ۔پس جو بچنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ اکیلا خدا کا ہو ۔
من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ
خدا تعالیٰ کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کرتا ۔ساری دُنیا بھی اُس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اُس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔خدا تعالیٰ بڑی طاقت اور قدرت والاہے اور انسان ایمان کی قوت کیساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا ہے اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلّت نہ آوے گی ۔یاد رکھو خداتعالیٰ زبردست پر بھی زبر دست ہے بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے ۔سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دُعائوں میں لگے رہو اوراپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم وہ ۔پُورے طور پر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اُٹھاتا ۔نقصان کی اصل جڑ گُناہ ہے۔
سا ری عزتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔دیکھو بہت سے ابرار اخیار دُنیامیں گذرے ہیں ۔ اگر وہ دُنیا دار ہوتے تو اُن کے گذارے ادنیٰ درجہ کے ہوتے کوئی اُن کو پوچھاتا بھی نہ ۔مگر وہ خدا کے لیے ہوئے اور خدا ساری دُنیا کو اُن کی طرف کھینچ لایا ۔خدا تعالیٰ پر سچا یقین رکھو اور بدظنی نہ کرو ۔جب اِس کی بد بختی سے خد اپر بد ظنی ہوتی ہے تو پھر نہ نماز درست ہوتی ہے نہ روزہ نہ صدقات ۔بدظنی ایمان کے درخت کو نشو نما ہونے نہیں دیتی بلکہ ایمان کا درخت یقین سے بڑھتا ہے ۔
مَیں اپنی جماعت کو باربار نصیحت کرتا ہوں کہ یہ موت کا زمانہ ہے ۔اگر سچّے دل سے ایمان لانے کی موت کو اختیار کرو گے تو ایسی موت سے زندہ ہو جائو گے اور ذلّت کی موت سے بچائے جائو گے ۔مومن پر دو موتیں نہیں ہوتیں ۔جب وہ سچے دل سے اور صدق اور اخلاص کے ساتھ خدا کی طرف آتا ہے پھر طاعون کیا چیز ہے ؟ کیونکہ صدق و فا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ہونا یہی ایک موت ہے جو ایک قسم کی طاعون ہء اگر اس طاعون سے ہزار ہادرجہ بہتر ہے کیونکہ خدا کا ہونے سے نشانہ طعن تو ہو نا ہی پڑتا ہے پس جب مومن ایک موت اپنے اوپر اختیارکر لو تو پھر دوسری موت اس کے آگے کیا شئی ہے؟ مجھے بھی الہام ہوا تھا کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے ۔اگ وہ اخلاص اور وفاداری سے اس کا ہوجاتا ہے تو خداتعالیٰ اس کا ولی بنتا ہے لیکن اگ ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بیشک خطرہ ہوتا ہے۔ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔سینہ کا علم تو خدا کو ہی ہے مگر انسان اپنی خیانت سے پکڑاجاتا ہے۔اگر خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہیں تو پھر بیعت فائدہ دے گی نہ کچھ اور لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جائوے تو خداتعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے اپ کو خاص کرتے ہیں۔ ان پر تجلی کرتا ہے اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس کو بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہے اس لیے میں باربار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو ۔اگر دل پاک نہیںہے ہا تھ رکھناکیا فا ئدہ دیگا جب دل دور ہے جب دل اور زبا ن میںا تفا ق نہیںتو میر ے ہا تھ رکھ کر منا فقا نہ اقرار کر کر تے ہیںتو یادرکھو ایسے شخص کو دو ہر ا عذاب ہو گا مگر جو سچا اقر ار کر تا ہے اس کیبڑے بڑے گنا ہ بخشے جا تے ہیں اور اس کو ایک نئی زند گی ملتی ہے ۔ میں تو زبا ن ہی سے کہتا ہو ں دل میں ڈالنا خدا کا کا م ہے ۔ آحضرت ﷺنے سمجھا نے میں کیا کسر با قی ر کھی تھی ؟ مگر ابو جہل اور اس کے امثا ل نہ سمجھے آپ کو اس قد ر فکر اور غم تھا کہ خدا نے خود فر ما یا
لعلک با خع بفسک الا یکو نو امو منین (سو رت الشعر آء :۴)
اس سے معلو م ہوتا ہے کہ آحضر ے ﷺ کو کس قد ر ہمد ردی تھی ۔ آپﷺ چا ہتے تھے کہ وہ ہلا ک ہو نے سے بچ جا و یں مگر وہنہ سکے ۔ حقیقے میں معلم اور داعظ کا تواتنا ہی فر ض ہے کہ وہ نتا دیو ے ۔ دل کی کھر کی تو خداکے فضل سے گھلتی ہے ۔ نجا ت اسی کو ملتی ہے جو دل کا صاف ہو ۔ جو صاف دل نہیں وہ اچکا اور ڈاکو ہے ۔خدا تعالیٰ اسے بر ی طرح ما ر تا ہے ۔اب یہ طا عون کے دن ہیں ابھی تو انتداء ہے ۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ؛ آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا
آخر کی خبر نہیں مگر جو ابتدائی حالت میں اپنے آپ کو در ست کر یں گے وہ خداکی ر حمت کا بہت بڑا حق ر کھتے ہیںمگر جو لو گ صعقہ کی طر ح دیکھ کر ایمان لا یئں گے ممکن ہے کہ ان کی تو بہ قبول نہ ہو یا تو بہ کا مو قع نہ ملے ۔ ابتداء والے ہی کا حق بڑا ہو تا ہے ۔ قا عدہ کے موافق ۱۵ یا ۲۰ دن اور طا عو ن کے روزہ کے ہیں اور آرام کی شکل نظر آتی ہے مگر وقت آتا ہے کہ پھر روزکھولنے کا زما نہ شروع ہو گا ۔ اب خدا کے سوا کو ئی عا صم نہیں ہے ۔ ایما ندار قبول نہیں کر سکتا کہ خا کے ارادہ کے خلا ف کو ئی بچ سکتا ہے ۔ فا ئدہ اور ا من کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طر ف ایسا جھکے کہ خود محسوس کر لے کہ اب میں وہ نہیں رہا ہو ں اور مصفا قطر ہ کی طر ح ہو جا وے ۔
مخالفت کی شدت
خدا کی قدرت ہے کہ جو ںجو ں طا عون کا زما نہ قریب آتا جا تا ہے شو ر اور مفسد ہ مخالفت کا بڑھتا جا تا ہے ان کو ذرا بھی خداکا خوف ہے آج مجھے خیا ل آیا کہ شا ید
یا تی علیک زمن کمثل زمن مو سیٰ
والا الہام اور محاصرہ والی حدیث اسی طرح پو ری ہو کہ مقد ما ت کثر ت سے کر یں جیسے حضر ت مو سی سامنے نیل سے اور پیچھے لشکرِ فر عو ن سے محصو ر ہو گئے تھے اور ایسی خوفنا ک صورتیں پیداہو ں کہ بعض کمزورطبیعت والے چلائیں کہ ہم پکڑے گئے ۔ اس لئے خدا نے ایسے کمزو روں کو پہلے سے تسلی دے دی کہ مضبو ط اور قو ی دل ہو جاویں۔ بر اہین احمدیہ میں اس کی طر ف اشارہ ہے کہ ایک وقت نا خنو ںتک زور لگا ئیںگے اس وقت خدا تیر ے سا تھ ہو گا ۔
واللہ یعصمک من النا س ۔
اب خدا تعا لینے جو دن مقر ر کئے ہو ے ہیں وہ اگر نہ آویں تو ثواب کیسے ہے بر اہین میں اور بعض خوفنا ک صور تیں مزکو ر ہیں اور انجا م کا روہی ہوگا ۔ جس کی خدا نے خبر دی ہے اور ارادہ فر ما یا ہے ۔
ایک الہام ۔
فر ما یا:
۳۰ جنو ری ۱۹۰۳ ء؁کی صبح کو کو الہا م ہو ا تھا
لایموت احدمنرجالکماس
کے معنے ابھی نہیں کھلے ۔ مگر یہا ں حقیقی معنے مو ت کے نہیں ہو سکتے کیونکہ انبیاء پر بھی یہ آئی ہے ۔ غالبااور کو ئی معنے ہو ں گے۔ ۱ ؎ ( الحکم جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۵ تا ۷ مو ر خہ ۱۴ فر ور ی ۱۹۰۳ء؁)
یکم فر ور ی ۱۹۰۳ء؁
امتحا ن کے وقت جما عت کو استقامت کی بہت دعا کر نی چا ہیئے
فر ما یا کہ
یہ وقت جما عت کے امتحا ن کا ہے۔ د یکھیں کو ن سا تھ دیتا ہے۔ اور کو ن پہلوتہی کر تا ہے۔ اس لیے ہما رے بھا ئیوں کو استقامت کی بہت دعاکر نی چا ہیے۔ اور انفاق فی سبیل اللہ کے لئے وسیع حو صلہ ہو کر مال و زر سے ہر طر ح سے امداد کے لئے تیار ہو نا چاہیے۔ایسے ہی وقت تر قی درجات کے ہو تے ہیں ۔اُن کو ہاتھ سے نہ گنوانا چاہیئے۔ ۱؎
یکم فروری کو ایک دوسال کا الہام آپ نے اس کے متعلق سنایا۔
بلیۃ ما لیۃ۔
یعنی مالی ابتلاء۔
(البدر جلد ۲نمبر۳ مورخہ ۶ فروری ۱۹۰۳ء؁ )
۲ فروری ۱۹۰۳ء؁ (بوقتِ ظہر)
ایک رئویاء
حضرت احمد مُرسل یزدانی علیہ الصلوٰ ۃ السلام نے ایک رویاء ظہر کے وقت سُنائی کہ :۔
مَیں نے مرزا خدا بخش صاحب کو دیکھا کہ اُن کے کرتے کے ایک دامن پر لہُو کے داغ ہیں ۔پھر اَور داغ ان کے گریبان کے نزدیک بھی دیکھے ہیں ۔مَیں اس وقت کہتا ہوں یہ ویسے ہی نشان ہیں جیسے کہ عبداللہ سنوری صاحب کو جو کُرتہ دیا گیا ہے اس پر تھے ۔ (البدر جلد ۲نمبر۳ مورخہ ۶ فروری ۱۹۰۳ء؁ )
۵ فر وری ۱۹۰۳ء؁
اپنی جماعت کیلئے ایک بہت ضروری نصیحت
آج کل زما نہ بہت خر اب ہو ر ہا ہے قسم قسم کا شر ک بد عت اور کئی خر ابیا ںپید ا ہو گئی ہیں ۔ بیعت کے وقت جو اقر ار کیا جا تا ہے کہ د ین کو دنیا پر مقد م ر کھو ں گا ۔ یہ اقرار خدا کے سا منے اقرار ہے چا ہیئے کہ اس پر مو ت تک خو ب قا ئم ر ہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قا ئم ہو گے تو اللہ تعالیٰ دین ودینا میں بر کت دیگا ۔ اپنے اللہ کے مطا بق پورا تقویٰ اختیا رکر و ۔ زما نہ نا زک ہے ۔ قہر الٰہی نمودار ہو ر ہا ہے جو اللہ تعا لیٰ کی مر ضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لیگا ۔ وہ اپنی جا ن اور اپنی آل واولادپر ر حم کر یگا۔دیکھو انسا ن رو ٹی کھا تا ہے جب تک سیر ی کے موافق پو ری مقدارنہ کھا لے تو اس کی بھو ک نہیں جا تی ۔اگر وہ ایک بھو رہ روٹی کا کھا لیو لے تو کیا وہ بھو ک سے نجا ت پائے گا ؟ہر گزنہیں ۔ اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اُسے ہر گز نہ بچا سکے گا بلکہ باوجود اس قطرہ کے وہ مریگا ۔حفظِ جان کے واسطے وہ قدر ِ محتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھا لے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا ۔یہی حال انسان کی دینداری کا ہے جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو بچ نہیں سکتا ۔دینداری ،تقویٰ ،خدا کے احکام کی اطاعت کواس حد تک کرنا چاہیئے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بُھوک اور پیاس چلی جاتی ہے ۔
خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے اگر ایک حصّہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصّہ داری کو پسند نہیں کرتا ۔یہ سلسلہ اس کا اسی لیے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے ۔اگر چہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے ۔جو اپنے اندر سے شیطانی حصّہ نکال کر پھینک دیتا ہے وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے ۔لیکن اگر اس کے حصّہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو ۔بیعت کچھ چیز نہیں ہے جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہو گا ۔اسی طرح خدا کا معاملہ ہے وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے کیا ہو سکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو اس کانام تو نفاق ہے ۔انسان کو چاہیئے کہ اس مرحلہ میں زید و بکر کی پروا نہ کرے مرتے دم تک اس پر قائم رہو۔
بدی کی دو قسمیں ہیں ۔ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا ۔اس کی عظمت کو نہ جاننا ۔اُس کی عبادت اوراطاعت میں کسل کرنا ۔دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا ۔اُن کے حقوق ادانہ کرنے ۔اب چاہیئے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو ۔خدا کی اطاعت پر قائم رہو ۔جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو ۔قرآن کو بہت غور سے پڑھو ۔اس پر عمل کرو ۔ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو ۔پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو ۔غرضکہ کوئی ایسا حکم الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو ۔بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بیجا کینے ،بغض و حسد سے پاک کرو۔یہ باتیں ہیں جو خد اتم سے چاہتا ہے۔دوسری با ت یہ ہے کہ کبھی کبھی آتے رہو ۔جب تک خدا نہ چاہے کوئی آدمی بھی نہیں چاہتا ۔بیکی کی تو فیق وہی دیتا ہے۔دو ضرور یا د رک۔ایک دُعا ۔دوسرے ہم سے ملتے رہنا تا کہ تعلق بڑھے اور ہماری دُعا کا اثر ہو ۔
ابتلا ء سے کوئی خالی نہیں رہتا ۔جب سے یہ سلسلہ انبیاء اور رُسل کا چلا آرہا ہے جس نے حق کو قبول کیا ہے اس کی ضرور آزمائش ہو تی ہے ۔اسی طرح یہ جماعت بھی خالی نہ رہیگی گردو نواح کے مولوی کو شش کر یں گے کہ ہم تم اس راہ سے ہٹ جا ئو ۔تم پر کفر کے فتوے دینگے ،لیکن یہ سب کچھ پہلے ہی سے اسی طرح ہو تا چلا آیا ہے لیکن اس کی پروانہ کرنی چاہیئے جوانمرد ی سے اس کا مقابلہ کرو۔
ثابت قدمی دکھائو
پھر بیعت کنندگان نے منکرین کے ساتھ نماز پڑھنے کو پوچھا۔حضرت نے فر مایا کہ:۔
ان لو گوں کے ساتھ ہر گز نہ پڑھو اکیلے پڑھ لو ۔جو ایک ہو گاوہ جلد دیکھ لے گا کہ ایک اور اس کے ساتھ ہو گیا ہے۔ثابت قدمی دکھائو ۔ثابت قدمی میں ایک کشش ہو تی ہے ۔اگر کو ئی جماعت کا آدمی نہ ہو تو نماز اکیلے پڑھ لو مگر جو اسلسلہ میں نہیں اس کے ساتھ ہرگز نہ پڑھو۔جو ہمیں زبان سے بُرا نہیں کہتا وہ عملی طور سے کہتا ہے کہ حق کو قبول نہیں کرتا ۔ہا ں ہر ایک کو سمجھاتے رہو ۔خدا کسی نہ کسی کو ضرور کھینچ لے گا ۔جو شخض نیک نظر آوے سلام علیک اس سے رکھو لیکن اگر وہ شرارت کرے تو پھر یہ بھی ترک کر دو۔
( البدر جلد ۲ نمبر ۴ صفحہ ۱۳ مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۳؁ء)
۱۰ فروری ۱۹۰۳؁ء
یہ وقت دُعا اور تضرّع کا ہے
حضرت اقدس نے فرما یاکہ وہ اخبارات جو کہ آپ کی مخالفت میں ہمیشہ خلاف واقعہ باتیں درج کر تے ہیں اور گند اور فحش بیانی ان کا کام ہے ان کو ہر گز نہ لیا جاویاور نی اُن کے مقابلہ پر اشتہار وغیرہ دیا جائے ۔یہ اُن کو ایک اور موقعہ گند بکنے کا دیتا ہے ۔یہ وقت دُعا اور تضرّع کا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ کر دے۔ ( البدر جلد ۲ نمبر ۴ صفحہ۲۵ مورخہ ۱۳ فروری ۱۹۰۳؁ء)
۱۱ فر وری ۱۹۰۳؁ء بروز چہار شنبہ
عر ش
عرش کے متعلق ایک صاحب نے سوال کیا کہ
ثم استوی علی العرش
کے کیا معنے ہیں اور عرش کیا شئے ہے؟
عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق ہو نے کی بحث عبث ہے
فر مایا :۔اس کے بارے میں لو گوں کے مختلف خیالات ہیں کوئی تو اُسے مخلوق کہتا ہے اور کوئی غیر مخلوق لیکن اگر ہم غیر مخلو ق نہ کہیں تو پھر استوے با طل ہو تا ہے ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عر ش کے مخلو ق یا غیر مخلو ق ہو نے کی بحث ہی عبث ہے ۔ یہ ایک استعا ر ہ ہے جس میں اللہ تعا لیٰ نے اپنی اعلیٰ در جے کی بلند ی کو بیا ن کیا ہے یعنی ایک ایسا مقام جو کہ ہر ایک جسم اور ہر ایک نقص سے پا ک ہے اور اس کے مقا بلہ پر یہ دینا اور تمام عا لم ہے کہ جس کی انسا ن کو پو ر ی خبر بھی نہیں ہے ۔ ا یسے مقا م کو قد یم کہا جا سکتا ہے۔ لو گ اس میں حیر ان ہیں اور غلطی سے اسے ایک ما د ی شئے خیال کر تے ہیں اور قد ا مت کے لحا ظ سے جو اعتراض لفظ ثم کا آتا ہے ۔ تو با ت یہ ہے کہ قدامت میں ثم آجا تا ہے جیسے قلم ہا تھ میں ہو تا ہے تو جیسے قلم حر کت کر تا ہے ویسے ہاتھ حر کت کر تا ہے مگر ہا تھ کو تقدم ہو تا ہے ۔ آریہ لو گ خدا کی قدا مت کے متعلق اہل اسلا م پر اعتراض کر تے ہیں کہ انکا رخدا چھ سات ہزار بر س سے چلا آتا ہے ۔ آریہ لو گ خدا کی قدامت کے کودیکھ کر خدا کی عمر کا اندازہ کر نا نا دانی ہے ۔ ہمیں اس با ت کا علم نہیں ہے کہ آدم سے اول کیا تھا کس قسم کی مخلو ق تھی ۔ اس وقت کی با ت وہی جا نے
کل یو م ھو فی شان
وہ اور اس کی صفا ت قدم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم دید ے اور نہ اس کے کا م اس دینا میں سما سکتے ہیں ۔ خدا کے کلا م میں د قیق نظر کر نے سے لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابد ی ہے اور مخلو قا ت کی تر تیب اس کے از لی ہو نے کی مخالف نہیں ہے اور استعا رات کو ظا ہر پر حمل کر کے مشہودات پر لانا بھی ایک نا دا نی ہے ا سکی صفت ہے
لا تد ر کہ الا بصا ر و ھو دد دک الا بصا ر ( سو رت الا نعا م :۱۰۴)
ہم عر ش اور استو ی پر ایما ن لا تے ہیں اور اس کی حقیقت اور کنہہ کو خدا تعا لی کے حو الہ کر تے ہیں۔ جب دنیا وغیر ہ نہ تھی عر ش تب بھی تھا جیسے لکھا ہے
کا ن عر شہ علی الماء (ھو د :۸)
عرش ایک مجہول الکُنہ امر اور خُدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہَے
اس کے متعلق خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ ایک مجہول الکُنہ امر ہے اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے وہ
خلق السٰمٰوت و الارض
چاہتی تھی اس لیے وہ اوّل ہوکر پھر استوٰی علی العرش ہوا ۔اگرچہ توریت میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے مگر وہ اچھے الفاظ میں نہیں ہے اور لکھا ہے کہ خدا ماندہ ہوکر تھک گیا ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کسی کام میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے چہرہ اور خدّو خال وغیرہ اور دیگر اعضاء کا پورا پورا پتہ نہیں لگتا مگر جب وہ فارغ ہو کر ایک تخت یا چارپائی پر آرام کی حالت میں ہوتو اس کے ہر ایک عضو کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔اسی طرح استعارہ کے طور پر خدا کی صفات کے ظہور کو
ثُمَّ اسْتویٰ عَلَی الْعَرْشِ
سے بیان کیاہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد صفات الٰہیہ کا ظہور ہوا ۔صفات اس کے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہوتو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہوں تو رازق کو پہچانیں ۔اسی طرح اس کے علم اور قادر ِ مطلق ہونے کا پتہ لگتا ہے
ثُمَّ اسْتویٰ عَلَی الْعَرْشِ
خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو
خلق السٰمٰوت و الارض
کے بعد ہوئی ۔
اسی طرح اس تجلّی کے بعد ایک اور تجلّی ہوگی جب کہ ہر شئے فنا ہوگی ۔پھر ایک اَور تیسری ہوگی کہ ا حیاء اموات ہوگا ۔غرضیکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے اندر داخل ہونا روا نہیں ہے ۔صرف ایک تجلّی سے اُسے تعبیر کر سکتے ہیں ۔قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرش کو اپنی صفات میں داخل کیا ہے جیسے
ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیدُ
گویا خدا تعالیٰ کے کمالِ علو کو دوسرے معنوں میں عرش سے بیان کیا ہے اور وہ کوئی مادی اور جسمانی شئے نہیں ہے ورنہ زمین و آسمان وغیرہ کی طرح عرش کی پیدائش کا بھی ذکر ہوتا ۔اس لیے شُبہ گذرتا ہے کہ ہے تو شئے مگر غیر مخلوق اور یہاں سے دھوکا کھا کر آریوں کی طرف انسان چلا جاتا ہے کہ جیسے وہ خدا کے وجود کے علاوہ اَور اشیاء کو غیر مخلوق مانتے ہیں ویسے ہی عرش کو ایک شئے غیر مخلوق جُزاَز خدا ماننے لگتا ہے ۔یہ گمراہی ہے ۔اصل میں یہ کوئی شئے خدا کے وجود سے باہر نہیں ہے جنہوں نے اُسے ایک شئے غیر مخلوق قرار دیا وہ اسے اتم اور اکمل نہیں مانتے اور جنہوں نے مادی مانا وہ گمراہی پر ہیں کہ خدا کو ایک مجسم شئے کا محتاج مانتے ہیں کہ ایک ڈولے کی طرح فرشتوں نے اُسے اُٹھایا ہوا ہے ۔
لا یئودہ حفظھما (سورۃ البقرہ:۲۵۶)
چار ملائک کا عرش کو اُٹھانا یہ بھی ایک استعارہ ہے ۔ربّ۔ رحمٰن۔ رحیم اورمالک یوم الدین یہ صفات ِ الہٰی کے مظہر ہیں اور اصل میں ملائکہ ہیں اور یہی صفات جب ذیادہ جوش سے کام میںہوں گے تو اُن کو آٹھ ملائک سے تعبیر کیا گیا ہے جو شخص اُسے بیان نہ کر سکے وہ یہ کہے کہ یہ ایک مجہول الکُنہ حقیقت ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور حقیقت خدا کے سپرد کرے ۔اطاعت کا طریق ہے کہ خدا کی باتیں خدا کے سپرد کرے اور ان پر ایمان رکھے ۔اور اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کی تجلّیات ثلٰثہ کی طرف اشارہ ہے ۔
کَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَٓائِ کی کُنَہ خدا ہی کو معلوم ہے
کَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَٓائِ
یہ بھی ایک تجلّی تھی اور ماء کے معنے یہاں پانی بھی نہیں کر سکتے خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے یہاں کیا معنے ہیں ۔اس کی کُنہ خدا کو معلوم ہے ۔جنت کے نعماء پر بھی ایسا ہی ایمان ہے ۔وہاں یہ تو نہ ہوگا کہ بہت سی گائیں بھینسیں ہوں گی اور دُودھ دوہ کر حوض میں ڈالا جائے گا ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اشیاء ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں اور نہ زبان نے چکھیں ،نہ دل میں اُن کے فہم کا مادہ ہے ۔حالانکہ اُ ن کو دُودھ اور شہد وغیرہ ہی لکھا ہے جو کہ آنکھوں سے نظر آتا ہے اور ہم اُسے پیتے ہیں ۔ اسی طرح کئی باتیں ہیںجوکہ ہم خود دیکھتے ہیں مگر نہ تو الفاظ ملتے ہیں کہ اُن کو بیان کر سکیں نہ اُس کے بیان کرنے پر قادرہیں ۔یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر اُن کو مادی دُنیا پر قیاس کریں تو صدہا اعتراضات پیدا ہوتے ہیں ۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (سورۃ بنی اسرائیل :۷۳)
سے ظاہر ہے کہ دیدار کا وعدہ یہاں بھی ہے مگر ہم اُسے جسمانیات پر حمل نہیں کرسکتے۔
(البدر جلد۲ نمبر ۵ صفحہ ۳۷۔۳۸ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء؁)
۱۳ فر ور ی ۱۹۰۳ء؁
صدقہ اور دعا سے بَلاٹل جا تی ہے
بعدادایئگی جمعہ گر دونو اح کے لو گو ں نے بیعت کی اور حضر ت اقد س نے ان کے لیے ایک مختصر تقر یر نما ز روز ہ کی پا بند ی اور ہر ایک ظلم و غیر ہ سے بچنے پر فر ما ئی کہ اپنے گھر وں میں عو رتو ں لڑکو ں سب کو نیکی کی نصیحت کر یں اور جیسے در ختو ں اور کھیتو ں کو اگر پو را پا نی نہ دیا جا ئے تو پھل نہیں لا تے ۔ اسی طر ح جب تک نیکی کا پانی دل کو نہ دیا جا ئے تووہ بھی انسا ن کے لیے کا م نہیں ہو تا ۔ جو نیک بن جا تا ہے اس پر یہ طا عو ن نہیں پڑتی مو ت تو سب کو آتی ہے اور اس کا دروز ہ بند نہیں ہوتا ۔ مگر جن میں ایک قہر کی بو ہو تی ہے ونہیں ہوتی ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں سے پر ہیز کی تا کید فر ما ئی ۔ ابنیاء کی وٓیت یا د دلا ئی کہ صد قا اور دعا سے ما ل اور بد ن سے کسی کی خد مت کر دینی یہ بھی صد قہ ہے ۔
( البدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۴۴ مو رخہ ۲۷فر وری ۱۹۰۳ء ؁ )
دربار شام
ایک نووارداور حضرت اقدس علیہ السّلام
۱۳ فروری ۱۹۰۳ء ؁ کو ایک ڈاکٹر صاحب ا ؎ لکھنو سے تشریف لائے بقول اُنکے وہ بغدادی الاصل ہیں اور اب عرصہ سے لکھنو میں مقیم ہیں ۔اُن کے چند احباب نے اُن کو حضرت حجۃ اللہ علیہ السّلام کی خدمت میں بغرض دریافت حال بھیجا ہے چناچہ وہ بعد مغرب حضرت اقدس علیہ السّلام کے حضور حاضر ہوئے اور شرفِ ملاقات حاصل کیا جو گفتگو آپ سے ہوئی ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں ۔ (ایڈیٹر الحکم )
حضرت اقدس ۔ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟
نووارد ۔ مَیں اصل رہنے والا بغداد کا ہوں مگر اب عرصہ سے لکھنو میں رہتا ہوں ۔وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے مستعد کیا کہ قادیان جاکر کچھ حالات دیکھ آئیں ۔
حضرت اقدس۔ امرت سر میں آپ کتنے دن ٹھہرے؟
نووارد۔ پانچ چھ روز۔
حضرت اقدس۔ کیا کام تھا ؟
نووارد۔ محض یہاں کے حالات معلوم کرنا اور راستہ وغیرہ کی واقفیت حاصل کرنا ۔
حضرت اقدس ۔ کیا آپ کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں گے؟
نووارد۔ کل جائوں گا ۔
حضرت اقدس ۔ آپ دریافت حالات کے لیے آئے اور کل جایئں گے اس سے کیا فائدہ ہوا ؟ یہ تو صرف آپ کو تکلف ہوئی ۔دین کے کام میں آہستگی سے دریافت کرنا چاہیئے تاکہ وقتاً فوقتاً بہت سی معلومات ہوجائیں ۔جب وہاں آپ کے دوستوں نے آپ کو منتخب کی اتھا تو آپ کو یہاں فیصلہ کرنا چاہیئے ۔جب آپ ایک ہی رات کے بعد چلے جائیں گے تو آپ کیا رائے قائم کرسکیں گے؟ اب ہم نماز پڑھ کر چلے جائیں گے ۔ آپ کو کو موقعہ ہی نہ ملا ۔
اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے
کونو مع الصادقین (سورۃ التوبہ:۱۱۹)
کہ صادقوں کیساتھ رہو یہ معیت چاہتی ہے کہ کسی وقت تک صُحبت میں رہے کیو نکہ جب تک ایک حد تک صحبت میں نہ رہے وہ اسرار اور حقائق کُھل نہیں سکتے ۔وہ اجنبی کا اجنبی اور بیگانہ ہی رہتا ہے اور کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا ۔
نووارد۔ مَیں جو کچھ پوچھوں آپ اس کا جوب دیں ۔اس سے ایک رائے قائم ہوسکتی ہے ۔جن لوگوں نے مجھے بھیجا ہے انہوں نے تقیہ ۲؎ تو کیا نہیں کہ جاکر دیکھوں ۔آپ چونکہ ہمارے مذہب میں ہیں اور آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے اس کا دریافت کرنا ہم پر فرض ہے ۔
حضرت اقدس ۔ بات یہ ہے کہ مذاق ،تمسخر صحتِ نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کیلیئے تو یہ سُنت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں مگر حسرت ہنسی کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے ۔چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے
یحسرۃ علی العباد ما یا تیھم من رسول الا کانو بہ یستھزء ون (لیٰس:۳۱)
ناواقف انسان نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ وہ ہنسی اور مذاق میں ایک بات کو اُڑا نا چاہتا ہے مگر تقویٰ ہے جو اسے راہِ حق کی طرف رانمائی کرتا ہے ۔
میرا دعویٰ ایسا نہیں رہاجو اَب کسی سے مخفی ہو ۔اگر تقویٰ ہو تو اس کے سمجھنے میں بھی اب مشکلات باقی نہیں رہیں ۔اس وقت صلیبی غلبہ حد سے بڑھا ہوا ہے اور مسلمانوں کا ہر امر میں انحطاط ہورہا ہے ۔ایسی حالت میں تقویٰ کا یہ تقاضا ہے اور وہ یہ سبق دیتا ہے کہ تکذیب میں مستعجل نہ ہو ۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے وقت یہود نے جلدی کی اور غلطی کھائی اور انکار کر بیٹھے نتیجہ یہی ہوا کہ خدا کی *** اور غضب کے نیچے آئے ۔ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے غلطیاں کھائیں اور انکار کر دیا اور اس نعمت سے محروم رہے جو آپ لے کر آئے تھے ۔تقویٰ کا یہ لازمہ ہونا چاہیئے کہ ترازو کی طرح حق و انصاف کے دونوں پلّے برابر رکھے ۔اسی طرح اب ایسا زمانہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دُنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا تو اسی طرح مخالفت کا شوراُٹھا جیسے شروع سے ہوتا ٓیا ہے ،یہی مولوی جو اَب منکر ہیں اور کُفر کے فتوے دیتے ہیں میرے معبوث ہونے سے پہلے یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی بہت خراب ہے جس سے بھیڑیوں نے بھی پناہ مانگی ہے اور اب چودھویں صدی آئی ہے جس میں مسیح اور مہدی آئیگا اور ہمارے دُکھوں کا علاج ہوگا یہاں تک کہ اکثر اکابرینِ امت نے آنے والے کو سلام کی وصیت کی اورسب نے یہ تسلیم کیا کہ جس قدر کشوف اہل اللہ کے ہیں وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتے مگر جب وہ وقت آیا اور آنے والا آگیا تو وہی زبانیں انکار اور سبّ وشتم کے لیے تیز ہوگئیں ۔تقویٰ کم از کم تصدیق اور تکذیب کے دونوپہلو برابر رکھتے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بدوں نصوصِ قرآنیہ وحد یثیہ اور دلائل قویہّ عقلیہ وتائیدات سماویہ کے مان لیں۔مگر ہم یہ افسوس سے ظاہر کر تے ہیں کہ وہ مسلان جن کو قرآن شریف میں سورہ فاتحہ کے بعد ہی
ھدی للمتقین سکھایا گیاتھا اور جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی
ان اولیا ء ہ الا المتقون(انفال :۳۵)اور جن کو بتایا گیا تھا
انما یتقبل اللہ من المتقین
ان کو کیا ہو گیا ہے کہ انہو ں نے اس معاملہ میں اسقدر جلد بازی سے کا م لیا اور تکفیر اور تکذیب کے لئے دلیر ہو گئے ۔ان کا فر ض تھا کہ وہ میرے دعاوی اور دلائل کو سنتے اور پھر خدا سے ڈر کر اُن پر غور کر تے ۔کیا ان کی جلد بازی سے یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ انہوں نے تقویٰ سے کا م لیا ہے جلد بازی اور تقویٰ کبھی دو نو اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔نبیو ں کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا
فاصبر کما صبراولو العزم
پھر عام لو گوں کو کس قدر ضرورت تھی کہ وہ تقویٰ سے کا م لیتے اور خدا سے ڈرتے ۔
باوجودیکہ علماء کی اگر میرے دعویٰ سے پہلے کی کتا بیں دیکھی جا تی ہیں تو اُن سے کس قدر انتظار اور شوق کا پتہ لگتا ہے گویا وہ تیرھویں صدی کے علامات سے مضطرب اور بے قرار ہو رہے ہیں مگر جب وقت آیا تو اول الکافرین ٹھہرتے ہیں ۔وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ کہتے آتے تھے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد اصلاح فساد کے لئے آتا ہے اور ایک رُوحانی طبیب مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے بھیجا جا تا ہے ۔اب چاہیئے تو یہ تھا کہ صدی کا سرپا کر وہ انتظار کرتے ۔ضرورت کے لحاظ سے ان کو مناسب تھا کہ ایسے مجدد کا انتظار کرتے جو کسر صلیب کے لئے آتا کیو نکہ اس وقت سب سے بڑا فتنہ یہی ہے۔ایک عام آدمی سے اگر سوال کیا جاوے کہ اس وقت بڑا فتنہ کونسا ہے؟ تو وہ یہی جواب دیگا کہ پادریوں کا۔۳۰ لاکھ کے قریب تو اسی ملک سے مرُ تد ہو گیا ۔اسلام وہ مذہب تھا کہ ا گر ایک بھی مُرتد ہو تا تو قیامت آجا تی اسلام کیا اور ارتداد کیا ؟ایک طرف اس قدر لوگ مُرتد ہو گئے دوسری طرف اسلام کے خلاف جو کتا بیں لکھی گئی ہیں اُن کو جمع کریں تو کئی پہاڑ بنتے ہیں بعض پرچے ایسے ہو تے ہیں کہ کئی کئی لاکھ شائع ہو تے ہیں اور ان میں پیغمبر خدا ﷺ کی ہتک کے سوا اور کچھ نہیں ہو تا بتائو ایسی حالت اور صورت میں
انا لہ لحا فظون
کا وعدہ کہاں گیا؟اس نے وہ گالیاں سیّد المعصومین کی نسبت سنیں جن سے دُنیا میں لرزہ پڑگیا مگر اُسے غیرت نہ آئی اور کوئی آسمانی سلسلہ اس نے قائم نہ کیا؟کیا ایسا ہو سکتا تھا ۔جب چنداں بگاڑ نہ تھا تو مجدّد آتے رہے اور جب بگا ر حد سے بڑھ گیا تو کوئی نہ آیا ۔سو چو تو سہی ۔کیا عقل قبول کرتی ہے کہ جس اسلام کے کے لئے یہ وعدے اور غیرت خداتعالیٰ نے دکھائی جس کے نمونے صدرِ اسلام میں موجود ہیں تو اب ایسا ہوا کہ نعوذ بااللہ مر گیا ۔اب اگر پادری یا دوسرے مذاہب کے لوگ پو چھیںکہ کیا نشان ہے اس کی سچائی کا تو بتائو قِصّہ کے سوا کیا جواب ہے جیسے ہندو کوئی پستک پیش کر دیتے ہیں ویسے ہی یہ چند ورق لیکر آگے ڈال سکتے ہیں ۔بڑی بات یہ کہ معجزات کے لئے چند حدیثیں پیش کر دیں مگر کوئی کب مان سکتا ہے کہ ڈیڑھ سو برس بعد کے لکھے ہوئے واقعات صحیح ہیں ۔مخالف پر حجت کیو نکر ہو۔ وہ تو زندہ خدا اور زندہ معجزہ کو مانے گا۔
اس وقت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اور خرابیوں کے علاوہ اسلام کو بھی مردہ مذہب بتایا جاتا ہے حالانکہ نہ وہ کبھی مُردہ ۱؎ ہو گا ۔خداتعالیٰ نے اس کی زندگی کے ثبوت میں آسمان سے نشان دکھائے ۔کسوف خسوف بھی ہوا طاعون بھی آئی۔حج بھی بند ہو ا ۔
واذاالعشار عطلت (التکویر:۵)
کے موافق ریلیں بھی جاری ہوئیں ۔غرض وہ نشان جو اس زمانہ کے لئے رکھے تھے پورے ہوئے مگر یہ کہتے ہیں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔
ما سو ا اس کے وہ نشا ن ظاہر کئے تھے جن کے گواہ صر ف ہما ری جما عت کے لوگ ہیں ۔ بلکہ ہند و ا ور عیسائی بھی گو اہ ہیں اور اگر وہ د یانت ا ما نت کو نہ چھو ڑ یں تو ان کو سچی گو اہی د ینی پڑ ے گی ۔ میں نے با ر ہا کہا ہے کہ صاد ق کی شنا خت کے تین بڑے میعا رہیں۔ اول نصو ص کو د یکھو ۔ پھر عقل کہ کیا حا لا ت مو جو دہ کے مو افق کسی صادق کو آنا چا ہیئے یا نہیں ؟ تیسر ا کیا اس کی تا ئیدمیں کو ئی معجزات اور خو ارق بھی ہیں ؟ مثلاپیغمبر خدا ﷺ کے لئے د یکھتے ہیں کہ تو ر یت ا نجیل میں بشارات مو جو د ہیں ، یہ تو نصو ص کی شہا دت ہے اور عقل اس واسطے موید ہے کہ اس وقت نحر وبر میں فسا د تھا گو یا نبو ت کا ثبوت ایک نص یھا دوسر ا ضر ور ت تیسر ے وہ معجزات جوآپ سے صادر ہو ئے ۔
اب اگر کو ئی سچے دل سے طا لب حق ہو تو اسکو یہی با تیں یہا ں د یکھنی چا ہئیں اور اس کے مو افق ثبو ت لے ۔ اگر نہ پا ئے تو تکذیب کا حق اسے حا صل ہے اور اگر ثا بت ہو جا ئیں اور ہو پھر بھی تکذیب کرے تو میر ی نہیں کل انبیاء کی تکذیب کرے گا ۔
نو وارد ۔ اگر ان ضروریات کی بنا ء پرکوئی اور دعویٰ کرے کہ میں عیسیٰ ہوں تو کیا فرق ہو گا ؟
حضرت اقدس ۔ یہ فرضی بات ہے ایسے شخص کا نام لیں ۔اگر یہی بات ہے کہ ایک کاذب بھی کہہ سکتا ہے تو پھر آپ اس اعترض کا جواب دیں کہ اگر مسیلمہ کذّاب کہتا کہ تورت اور انجیل کی بشارت کا مصداق میَں ہوں تو آپ آنحضرت ﷺ کی سطائی کے لئے کیا جواب دینگے ؟
نو وارد ۔ میں نہیں سمجھا ۔
حضرت اقدس ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح ہوسکتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے وقت بھی تا بعض جھوٹے نبی مو جود تھے جیسے مسیلمہ کذّاب ،اسود عنسی ۔اگر انجیل اور توریت میں بشارت آنحضرت ﷺ کی موجود ہیں اسلے موافق یہ کہتے کہ یہ بشارت میرے حق میں ہیں تو کیا جواب ہو سکتا تھا؟
نو وارد ۔ میں اس کو تسلیم کر تا ہوں
حضرت اقدس ۔ یہ سوال اس وقت ہو سکتا تھا جب ایک ہی جزوپیش کرتا مگر میَں تو کہتا ہوں کہ میری تصدیق میں دلائل کا ایک مجموعہ میرے ساتھ ہے نصوصِ قرآنیہ حدیثیہ میری تصدیق کرتے ہیں ضرورتِ موجودہ میرے وجود کی داعی اور وہ نشان جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں وہ الگ میرے مصّدق ہیں ۔ہر ایک نبی ان امور ثلٰثہ کو پیش کر تا رہا ہے اور میں بھی یہی پیش کرتا ہوں ۔پھر کس کو انکار کی گنجائش ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے لئے ہے تو اُسے مقابلہ میں پیش کرو۔
(ان فقرات کو حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ السلام نے ایسے جوش سے بیان کیا کہ وہ الفاظ میں ادا ہی نہیں کرسکتا نتیجہ یہ ہو ا کہ یہاں نووارد صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور پھر چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کیا۔)
نو وارد ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے کیا یہ صحیح ہے؟ ۱ ؎
حضرت اقدس ۔ آنحضرت ﷺ کے لئے جو آیا ہے کہ آپ مثیل موسیٰ تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے عصا کا سانپ بنایا ہو ۔کا فر یہی اعتراض کرتے رہے ۔
فلیا تنا با یۃ کما ارسل الا ولون(الانبیاء:۶)
معجزہ ہمیشہ حالتِ موجودہکے موافق ہو تا ہے ۔پہلے نشانات کافی نہیں ہو سکتے اور نہ ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے نشان کا فی ہو سکتے ہیں ۔
نو وارد ۔ اس وقت آپ کے پاس کیا معجزہ ہے؟
حضرت اقدس ۔ ایک ہو توبیان کروں ۔ڈیڑھ سو کے قریب نشان میں نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں جنکے ایک لاکھ کے قریب گواہ ہیں اور ایک نوع سے وہ نشانات ایک لاکھ کے قریب ہیں ۔
نو وارد ۔ عربی میں آپ کا دعویٰ ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا۔
حضرت اقدس ۔ ہاں
نو وارد ۔ بے ادبی معاف ۔آپ کی زبان سے قاف ادا نہیں ہو سکتا ۔
حضرت اقدس ۔ یہ بہیودہ با تیں ہیں ۔ ۱؎ میَں لکھنئو کا رہنے والا ہوں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو میَں تو پنجابی ہو ں ۔حضرت مو سیٰ پر بھی یہ اعتراض ہو اکہ
لا یکا دیبین
اوراحادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہو گی ۔ (اس مقام پر ہمارے ایک مخلص مخدوم کو یہ اعتراض حسنِ ارادت اور غیرت ِ عقیدہ کے سبب سے ناگوار گزرا۔اوت وہ سُوئِ ادبی کو برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ حضرت اقدسؑ کا ہی حوصلہ ہے ۔اس پر نو وارد صاحب کو بھی طیش سا آگیا اور انہوں نے بخیال خویش یہ سمجھا کہ انہوں نے غصّہ سے کہا ہے اور کہا کہ میں اعتقاد نہیں رکھتااور حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر کہا کہ استہزاء اورگالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے۔ )
حضرت اقدس ۔ہم ناراض نہیں ہو تے یہاں تو خاکساری ہے
نو وارد ۔ میَں تو
و لکن لیطمئن قلبی (بقرہ :۲۶۱)
کی تفسیر چاہتا ہوں ۔
حضرت اقدس ۔ میں آپ سے یہی توقع رکھتا ہوں مگر اللہ جلّشانہ‘ نے اطمنان کا ایک ہی طریق نہیں رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اور معجزات دیئے اور حضرت عیسیی علیہ السلام کو اور معجزات دیئے اور آنحضرت ﷺ کو اور قسم کے نشان بخشے ۔میرے نزدیک وہ شخص کذاب ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میَں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور کوئی معجزہ اور تائیدات اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو۔مگر یہ بھی ہیرا مذہب نہیں کہ معجزات ایک ہی قسم کے ہو تے ہیں اورمیں اس کا قائل نہیں کیو نکہ قرآن شریف سے یہ امر ثابت نہیں کہ ہر ایک اقتراح کا جواب دیا جاتا ہے ۔مداری ۲؎ کی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا ۔آنحضرت ﷺ سے سوال کئے گئے کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے کتاب لے آئیں یا یہ کہ تمہارا سونے کا گھر ہو یا یہ کہ مکہ میں نہر آجائے مگر ان کا جواب کیا ملا؟ یہی
ھل کنت الا بشرا رسولا (بنی اسرائیل :۹۴)
انسان کو مئودب بادب انبیاء ہو ناچاہئیے ۔خداتعالیٰ جو کچھ دکھا تا ہے انسان اس کی مثل نہیں لا سکتا میری تائید میں ایک نوع سے ڈیڑھ سو اور ایک نوع سے ایک لاکھ نشانات ظاہر ہوئے ہیں۔ ۳؎
حضرت اقدس ۔ اچھا کیا آپ نے دو تین روز کا مصمّم ارادہ کر لیا ہے؟
نو وارد ۔ کل عرض کرونگا۔
حضرت اقدس ۔ میں چاہتا ہو ں کہ آپ دور دراز سے آئے ہیں کچھ واقفیت ضرور ہو نی چاہئیے ۔کم از کم تین دن آپ رہ جائیں ۔میَں یہی نصیحت کر تا ہو ں اور اگر اور نہیں تو آمدن بارادت ورفتن باجازت ہی پر عمل کریں ۔
نو وارد ۔ میَں نے یہاں آکر اوّل دریا فت کر لیا تھا کہ کوئی امر شرک کا نہیں ۔اس لئے میَں ٹھہر گیا کیو نکہ شرک سے مجھے سخت نفرت ہے۔
حضرت اقدس ۔ نے پھر جماعت کو خطاب کر کے فر ما یا کہ
میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی نو بت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کر نا چاہیئے کیو نکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مرید وں سے چاہتے ہیں ۔یہ بھی ہم انکا احسان سمجھتے ہیں کہ نر می سے بات کریں۔ ۱؎
پیغمبرِ خداﷺ نے فرمایا ہے کہ زیارت کر نیوالے کا تیرے پر حق ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیّت میں داخل ہے ۔اس لئے میں چاہتا ہو ں کہ آپ ٹھہریں ۔چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے۔ (الحکم جلد۷ نمبر ۷ صفحہ ۳تا۵ مورخہ ۲۱ فروری۱۹۰۳؁ء)
۱۴ فروری ۱۹۰۳؁ء
( صبح کی سیر)
چونکہ نوارد کو پوری طرح تبلیغ کرنا حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کا منشاتھا لہذا سیر میں بھی اس کوخطاب کر کے آپ نے سلسلہ تقریر شروع فرمایا ۱؎ (ایڈیٹر الحکم)
مامور کے آنے پر دو گروہ ہو جاتے ہیں
مَیں نے بہت غور کیا ہے کہ جب کوئی مامو ر آتا ہے تو دو گروہ خودبخود ہو جا تے ہیں ایک موافق دوسرا مخالف اور یہ بات بھی ہر ایک عقلِ سلیم رکھنے والا جانتا ہے کہ اس وقت ایک جذب اور ایک نفرت پیدا ہو جا تی ہے یعنی سعید الفطرت کھچے چلے آتے ہیں اور جو لوگ سعادت سے حصّہ نہیں رکھتے ان میں نفرت بڑھنے لگتی ہے۔یہ ایک فطرتی بات ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ۔
طبیب اس امر کو بخو بی سمجھ سکتا ہے کہ اس سے وہی شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو اوّل اپنے مرض کو شناخت کرے اور محسوس کریکہ میں بیمار ہو ں اور پھر یہ شناخت کرے کہ طبیب کون ہے ؟جب تک یہ دو با تیں پیدا نہ ہوں وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ۔یہ بھی یا د رہے کہ مر ض دو قسم کے ہو تے ہیں ۔ایک مرض مختلف ہو تا ہے جیسے قولنج کا درد یعنی جو محسوس ہو تا ہے اور ایک مستوی جیسے برص کے داغ کہ ان کا کوئی درد اور تکلیف بظاہر محسوس نہیں ہو تی ۔انجام خطر نا ک ہو تا ہے مگر انسان ایسی صورتوں میں ایک قسم کا اطمینان پا تا ہے اور اس کی چنداں فکر نہیں کر تا ۔اس لئے ضروری ہے کہ انسان اوّل اپنے مرض کو شناخت کرے اور اُسے محسوس کرے پھر طبیب کو شناخت کرے بہت سے لوگ ہو تے ہیں جو اپنی معمولی حالت پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ ۱؎
ّّیہی حال اس وقت ہو رہا ہے ۔اپنی حالت پر خوش ہیں اور کہتے ہیں مہدی کی کیا ضرورت ہے حالانکہ خدادانی اور معرفت سے بالکل خالی ہو رہے ہیں ۔
خدادانی اور معرفت بہت مشکل امر ہے ۔ہر چیز اپنے لوازمات کے ساتھ آتی ہے پس جہاں خدادانی آتی ہے اس کے ساتھ ہی ایک خاص معرفت اور تبدیلی بھی آجا تی ہے کبائر اور صغائر جو چیونٹیوں کی طرح ساتھ لگے ہوئے ہیں خداکی معرفت کیساتھ ہی وہ دور ہو نے لگتے ہیں یہانتک کہ وہ محسوس کر تا ہے کہ اب میں وہ نہیں بلکہ اور ہوں ۔خدادانی میں جب ترقی کرنے لگتا ہے تو گناہ سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے یہانتک کہ اطمینان کی حالت میں پہنچ جاتا ہے
نفس کی تین قسمیں
نفس تین قسم کے ہو تے ہیں ،ایک نفسِ امّارہ ؔ ایک لوامہ اور تیسرا مطمئنّہ پہلی حالت میں صم ’‘ بکم’‘ ہوتا ہے کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہو تا کہ کدھر جا رہا ہے امّارہ ؔ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے ۔اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تا ہے تو معرفت کی ابتدائی حالت میں لوامہؔکی حالت پیدا ہو جا تی ہے اور گناہ اور نیکی میںفرق کر نے لگتا ہے۔ گناہ سے نفرت کر تا ہے مگر پو ری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا۔ نیکی اور شیطا ن سے ا یک قسم ہو تا ر ہتا ہے ۔ یہانتک کہ کبھی یہ غا لب ہو تا ہے اور کبھی مضلو ب ہو تا ہے ر فتہ رفتہ وہ حا لت آجا تی ہے ۔کہ یہ مطمئنّہ کے رنگ میںآجا تا ہے اور پھر گنا ہو ں سے نر می نفر ت ہی نہیںہو تی بلکہ گنا ہ کی لڑائی میں یہ فتح پا لیتا ہے اور ان سے بچتا ہے اور نیکیاں اس سے بلا تکلف صادر ہو نے لگتی ہیں ۔ پس اس اطمینا ن کی حا لت پر پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے لو امہ کی حا لت پیدا ہو اور گنا ہ کی شنا خت ہو حقیقت میں بہت بڑی با ت ہے جو اُس کو شناخت نہیں کر تا اس کا علا ج نبیو ں کے پا س نہیں ہے ۔ ۱ ؎ نیکی کا پہلا دروزاہ اسی سے کھلتا ہے( کہ) اول اپنی کو رانہ زندگی کو سمجھے اور پھر بُری مجلس اور بُر ی صحبت کو چھو ڑکر طبیب کے پا س رہے اور جو کچھ وہ اس کو بتا وے اس پر عمل کر نے کے لیے ہمہ تن تیا ر ہو ۔ د یکھو بیما ر جب کسی طبیب کے پا س جا تا ہے تو یہ نہیں ہو تا کہ وہ طبیب کے سا تھ مبا حثہ شروع کر دے بلکہ اس کا فر ض یہی ہے وہ اپنامر ض پیش کرے اور جو کچھ طبیب اس کو بتائے ۲؎اس سے وہ فا ئد ہ اُٹھا ئے گا ۔اگراُس کے علا ج پر جر ح شروع کردے تو فا ئدہ کس طر ح ہو گا ۔
انسان کی پید ائش کی علّتِ غائی ۔
انسا ن کا فر ض ہے کہ اس میں نیکی کی طلب صاد ق ہو اور وہ اپنے مقصد زندگی کو سمجھے قر آن شر یف میں انسا ن کی زندگی کا مقصد یہ بتا یا گیا ہے ۔
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۔ (الذار یا ت ذ:۵۷ )
یعنی جن اور انسا ن کو اس لیے پید ا کیا ہے کہ وہ میری عبا د ت کر یں۔ جب انسا ن کی پیدائش کی علت غائی یہی ہے تو پھر چا ہیئے کہ خدا کو شنا خت کر یں ۔ جب کہ انسا ن کی پیدائش کی علت غا ئی یہ ہے کہ وہ خدا تعا لیٰ کی عبا دت کرے اور عبا دت کے واسطے اول معرفت کا ہونا ضروری ہے ۔ جب سچی معرفت ہو جا وے تب وہ اس کی خلا ف مر ضی کو تر ک کرتا اور سچا مسلما ن ہو جا تا ہے ۔ جب تک سچا علم پیدا نہ ہو کو ئی مفید نتیجہ پیدا نہیں ہو تا ۔ دیکھو جن چنروں کے نقصان کو انسا ن یقینی سمجھتا ہے ان سے بجتا ہے مثلاً سم الفارہے جا نتا ہے کہ یہ ز ہر ہے اس لیے اس کو استعمال کر نے کیلے جرات اور دلیر ی نہیں کر تا کیونکہ جا نتا ہے کہ اس کا کھا نا مو ت کے منہ میں جا نا ہے ۔ ایسا ہی کسی زہر یلے سا نپ کے بل میں ہا تھ نہیں ڈالتا۔ یا طا عون والے گھر میں نہیں ٹھہرتا اگر چہ جا نتا ہے کہ جو کچھ ہو تا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اشارے سے ہوتا ہے تاہم وہ ایسے مقامات میں جانے سے ڈرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر گناہ سے کیوں نہیں ڈرتا؟ ۱؎
انسان کے اندر بہت سے گناہ ایسی قسم کے ہیں کہ وہ معرفت کی خوردبین کے سوا نظر ہی نہیں آتے جُوں جُوں معرفت بڑھتی جاتی ہے انسان گناہوں سے واقف ہوتا جاتا ہے بعض صغائر ایسی قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ اُن کو نہیں دیکھتا لیکن معرفت کی خوردبین اُن کو دکھا دیتی ہے ۔
غرض اوّل گناہ کا علم ہوتا ہے ۔پھر وہ خدا جس نے
من یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ (الزلزال:۸)
(فرمایا ہے)اس کو عرفان بخشتا ہے ،تب وہ بندہ خدا کے خوف میں ترقی کرتا اور اس پاکیزگی کو پالیتا ہے جو اس کی پیدائش کا مقصد ہے ۔
جماعت کے قیام کی غرض
اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہوگیا ہے ۔بعض تو کُھلے طور پر بے حیایئوں میں گر فتار ہیں اور فسق وفجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکیکی مُلونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ)ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ۲؎ ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کی اہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے ۔اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے ۔وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اسکامنشاء ہے ۔
ایک پہلو تو میری بعثت اور ماموریت کا یہ ہے ۔دوسرا پہلو کسرِ صلیب کا ہے ۔کسرِ صلیب کے لیے جسقدر جوش خُدا نے مجھے دیا ہے اس کا کسی دوسرے کو علم نہیں ہوسکتا ۔صلیبی مذہب نے جو کچھ نقصان عورتوں مردوں اور جوانوں کو پہنچایا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔ ۳؎ہر پہلو سے اسلام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ طبابت کے رنگ میں یا صدقات وغیرہ کے رنگ میں ،عہدہ دار ہو تب ولیم میور کی طرح اپنے رنگ میں ۔غرض صد ہا شا خیں ہیں جو اسلام کے استیصال کے لیے انہوں نے اختیار رکھی ہیں ،یہ دل سے چاہتے ہیں کہ ایک فرد بھی اسلام کا نام لینے والا باقی نہ رہے اور آنحضرتﷺ کوماننے والا کوئی نہ ہو ۔ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن میں اُن کے جوش کو بیان کر سکیں ۔
ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے وہ جوش کسرِ صلیب کے لیے دیا ہے کہ دُنیا میں اس وقت کسی اَور کو نہیں دیا گیا پھر کیا ی جوش بدوں خدا کی طرف سے مامور ہوکر آنے سے پیدا ہو سکتا ہے ؟
جس قدر توہین اللہ تعالیٰ کی اور اس کے پاک رسول ﷺ کی گئی ہے کیا ضرور نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جو غیور ہے آسمان سے مدد کرتا ۔
غرض ایک طرف تو یہ صلیبی فتنہ انتہا ء کو پہنچا ہو اہے ۔دوسری طرف صدی ختم ہوگئی ،تیسری طرف اسلام کا ہر ایک پہلو سے ضعیف ہونا، کسی طرف نظر اُٹھا کر دیکھو طبیعت کو بشاشت نہیں ہوتی ۔ایسی صورت میں ہم چاہتے ہیں کہ پھر خدا کا جلال ظاہر ہو ۔مجھے محض ہمدردی سے کلام کرنا پڑتا ہے ورنہ مَیں جانتا ہوں کہ غائبانہ میری کیسی ہنسی کی جاتی ہے اور کیا کیا افتراء ہوتے ہیں۔ مگر جو جوش خدا تعالیٰ نے مجھے ہمدردی مخلوق کا دیا ہوا ہے وہ مجھے ان باتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا ۔مَیں دیکھتاہوں کہ میرا مولا میرے ساتھ ہے ۔ایک وقت تھا کہ ان راہوں میں مَیں اکیلا پھرا کرتا تھا۔اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ تو اکیلا نہ رہے گا بلک تیرے ساتھ فوج درفوج لوگ ہوں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ تو ان باتوں کو لکھ لے اور شائع کر دے کہ آج تیری حالت ہے پھر نہ رہے گی ۔مَیں سب مقابلہ کرنیوالوں کو پست کر کے ایک جماعت کو تیرے ساتھ کردُونگا ۔وہ کتا ب موجود ہے مکّہ معظمہ میں بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا گیا تھا۔بخارا میں بھی اور گورنمنٹ کو بھی اس میں جو پیشگوئیاں ۲۲ سال پیشتر چھپ کر شائع ہوئی ہیں وہ آج پوری ہورہی ہیں ۔کون ہے جو ان کا انکار کرے ۔ہندو مسلمان اور عیسائی سب گواہی دیں گے کہ یہ اس وقت بتایا گیا تھا جب مَیں اَحَد من الناس تھا ۔اس نے مجھے بتایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تیری مخالفت ہوگی مگر مَیں تجھے بڑھائوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اب ایک آدمی سے پونے دو لاکھ تک تو نوبت پہنچ گئی دوسرے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے
لیکھرام کے متعلق نشان
پھر آریوں کے مقابل میں ایک نشان مجھے دیا گیا جو لیکھرام کے متعلق تھا وہ اسلام کا دشمن تھا اور گندی گالیاں دیا کرتا اور پغمبرخدا ﷺ کی توہین کرتا تھا۔ یہاں قادیان آیا اور اس نے مجھ سے نشان مانگا میں نے دعا کی تو اللہ نے مجھے خبر دی چناچہ میں نے اس کو شائع کردیا اور یہ کوئی بات نہیں کل ہندوستان اس کو جانتا ہے کہ جس طرح قبل از وقت اس کی موت کا نقشہ کھنچ کر دکھایا گیا تھا اسی طرح پورا ہو گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے نشانات ہیں جو ہم نے اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں اور اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا تھکنے والا خدا نہیں وہ تکذیب کرنے والوں کے لیے ہر وقت تیار ہے مہں نے پنجاب کے مولویوں اور پادریوں کو ایسی دعوت دی ہے کہ وہ میرے مقابل میں آکرنشانات کو جو ہم پیش کرتے ہیں فیصلہ کرلیں اگر ان کو نہ مانیں تو دعا کر سکتا ہوں اور اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ اور نشان ظاہر کرے دیگا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صدق نیت سے اس طرف نہیں آتے بلکہ لیکھرامی حیلے کرتے ہیں ۱ ؎ مگر خدا تعالیٰ کسی کی حکومت کے نیچے نہیں ہے ۔
میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ پہلے ان خوارق کو جو میں پیش کرتا ہوں دیکھ لو اور منہاج ِنبوت پرسوچو۔ اگر پھر بھی تکذیب کے لیے جرات کرو گے تو خدا کی غیرت کے لیے زیادہ جنبش ہو گی اوروہ قادر ہے کہ کوئی امر انسانی طاقت سے بالاتر ظاہر کرے ۔ لیکھرام کی نسبت جب پیشگوئی کی گی تھی تو اس نے بھی میرے لیے ایک پیشگوئی کی تھی اور یہ شائع کردیا تھا کہ تین سال کے اندر ہیضہ سے ہلاک ہوجاوئے گامگر اب دیکھ لو کہ اس کی ہڈیوں کا بھی یہی نشان پایا جاتا ہے؟ مگر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح زندہ ہوں۔ یہ امور ہیں۔
اگر حق پسند توقف سے ان میں غور کرے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر نرے بحث کرنے والے جلد باز کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۲؎
منجملہ میرے نشانوں کے طاعون کا بھی ایک نشان ہے اس وقت میں نے خبر دی تھی جبکہ ابھی کوئی نام و نشان بھی اس کا نہ پایا تھا اور یہ بھی الہام ہوا تھا یا مسیح الحق عدوانا اب دیکھ کہ یہ وبا خطرناک طور پر پھیلی ہوئی ہے اور گائوں کے گائوں اس طرف رجوع کر رہے ہیں اور توبہکرتے جاتے ہیں کیا یہ باتی انسانی طاقت کے اندر ہیں؟ یہی امور ہیں خارق عادت کہلاتے ہیں۔
تجدیدِ دین کی ضرورت
نووارد۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر صدی پر مجدد ہونا چاہیے۔ ۱؎حضرت اقدس۔ہاں یہ تو ضروری ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے۔بعض لوگ اس بات کو سنکر پھر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے تو تیرہ صدیوں کے مجدّدوں کے نام بتائو۔مَیں اس کا پہلا جواب یہ دیتا ہوں کہ اُن مجددوں کے نام بتانا میرا کام نہیں یہ سوال آنحضرت ﷺسے کرو۔جنہوں نے فرمایا ہے کہ ہر صدی پر مجدد آنا ہے اس حدیث کو تمام اکابرنے تسلیم کر لیا ہے ۔شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی طرف سے ہے اور حدیث کی کتابیں جوموجود ہیں ان میں یہ حدیث پائی جاتی ہے کسی نے کبھی اس کوپھینک نہ دیا اور نہ یہ حدیث دینی چاہیے جبکہ یہ بات ہے تو پھر مجھ سے فہرست کیوں مانگی جاتی ہے ۔
میر ا یہ مذہب کہ عد مِ علم سے عد مِ شیئی لا زم نہیں آتا ۔ آنحضرت ﷺ کی طر ف جو منسو ب ہو اگر وہ قر آن شر یف کے بر خلا ف نہ ہو تو میں اس کی ما نتا ہو ں ۔ خو د ہی ان لو گو ں سے پو چھو کہ کیا یہ حد یث جھو ٹی ہے ؟تو پہلے اس کو نکا لو اور اگر شکی ہے تو پھر تقو یٰ کا تقا ضا تو یہ ہے کہ کم ازکم حد یث کی رو سے مجھے بھی شکی ہی ما ن لو عجیب با ت ہے حد یث کو شکی کہو اور مجھے کذاب ۔یہ تو تقو ی کا طر یق نہیں ۔ اگر بفر ض محا ل جھو ٹی ہے تو پھر جا ن بو جھ کر جھو ٹ کو آنحضرت ﷺ کی طر ف منسو ب کر نا تو *** کا کا م ہے ۔ سب سے پہلا کا م تو علما ء کا یہ ہو نا چا ہیئے کہ اس کو نکا ل ڈالیں مگر میں یقین دلا تا ہو ں کہ یہ حد یث جھو ٹی نہیں ہے صحیح ہے۔ یہ عا م طو ر پر مشہور ہے کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے نو اب صد یق حسن خا ں و غیر ہ نے ۱۳ مجذدگن کر بھی د کھا ئے ہیں مگر مَیں ان کی ضر ور ت نہیں سمجھتا ۔ اس حد یث کا یہ معیا ر نہیں بلکہ قر آن اس کی صحت کا گو اہ ہے ۔ یہ حد یث
انا نحن نذ لنا الذکر و انا لہ لحافظو ن۔( سو رت الحجر:۱۰)
کی شر ح ہے صد ی ایک عا م آدمی کی عمر کی ہو تی ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے ایک حد یث میں فر ما یا کہ سو سال بعد کو ئی نہ رہے گا جیسے صد ی جسم کو ما رتی ہے اسی طر ح ایک روحا نی مو ت بھی واقع ہو تی ہے اس لیے صدی کے بعد ایک نئی ذُرّیت پیدا ہو جا تی ہے ۔ جیسے ا نا ج کے کھیت اب دیکھتے ہیں کہ ہر ے بھر ے ہیں ۔ اس وقت میں با لکل خشک ہو ں گے پھر نئے سر ے سے پیدا ہو جا ئنگیے اس طر ح پر ایک سلسلہ جا ر ی ر ہتا ہے ۔ پہلے اکا بر سو سال کے اند ر فو ت ہو جاتے ہیں اس لیے خد ا تعالیٰ ہر صدی پر نیا ا نتظام کر دیتا ہے جیسے رزق کا سا مان کر تا ہے پس قر آن کی حما یت کے سا تھ یہ حد یث تو اتر کا حکم ر کھتی ہے
کپڑا پہنتے ہیں تو اس کی بھی تجد ید کی ضر ورت ہو تی ہے ۔ اسی طر یق پر نئی ذُرّیت کو تا زہ کر نے کیلئے سنت اللہ اسی طر ح جا ر ی ہے کہ ہر صد ی پر مجد د آتا ہے ۔ غر ض مجھ سے ایک حد یث کے مو افق گذشتہ مجددوںکا مواخذہ نہیں ہو سکتا ۔ میں اپنی صد ی کا ذمہ دار ہو ں ۔ ہا ں چو نکہ میں اس حد یث کو صحیح سمجھتا ہو ں اور قر آن شر یف کی حما یت سے صحیح ما نتا ہو ں پس اگر یہ لو گ اس حد یث کو جھو ٹا کہہ دیں اور حد یث کی کتا بو ں سے نکا ل د یں پھر میں خدا سے دعا کر دیگا اور یقینا وہ میر ی دعا کو سنے گا اور میں کشف سے نا بھی نتا دو نگا ۔ لیکن اگر یہ حد یث خو د ان کے مسلما ت کے مو افق ہی جھو ٹی نہیں اور نہیں ہے تو پھر خد ا سے ڈرد اور
لا تقف ما لیس لک بہ علم ( بنی اسر ایئل :۳۷ )
پر عمل کر و اور بہیودہ حیلے اور حجتیں نہ تر اشو ۔ یہ حد یث جن کتا بو ں میں درج ہے اور با و جو د جھو ٹی ہو نے کے اس کو ر کھا گیا ہے تو پھر کیو ں نہیں بانا نک کے شبد ان میں دا خل کر لیتے اور مو ضو را ت کے مجمو عہ میں لکھ لیتے ۔ پس کسی صو ر ت میں یہ مو اخذہ مجھ سے نہیں ہو سکتا ۔ ہزارو ں او لیا ء گذر چکے ہیں تو کیا مجھے لا زم ہے کہ میں ان کی بھی فہر ست دو ں ۔ یہ خدا تعا لیٰ کا علم ہے ۔ ہا ںخد ا نے مجھ پر یہ ظا ہر کر دیا ہے کہ یہ حد یث صیحح ہے اور قر آن شر یف اس کی تصد یق کر تا ہے ۔
عجیب با ت یہ ہے کہ مسیح موعود بقو ل اب صدیق حسن خا ں صا حب کے صد ی کے سر پر ہو گا اور یہ بھی وہ کہتے ہیں کہ چو د ھو یں صد یسے آگے نہ ہو گا ، مگر اب تو اس صد ی سے بیس سا ل گذر گئے ۔ پا نچواں حصہ صد ی کاگذر چکا اگر اب تک بھی نہیں آیا تو پھر سو سال تک ا نتظا ر کر تے ر ہیں ۔ اس صد ی میں اسلا م اہل صلیب سے کچلا جا وے گا ۔ جب پچا س سا ل میں یہ حا ل ہو گیا ہے کہ تیس لا کھ آدمی مر تد ہو چکے ہیں اور جیسی جیسی شو کت بڑھتی ہے ان کی شو خی بڑھتی گئی ہے ۔ یہا ں تک کہ ا مہا ت المو منین جیسی گند ی کتا ب شا ئع کی گئی
انجمن حما یت اسلا م لا ہو ر نے اسکے خلاف گو ر نمنٹ کے پا س میمو ر یل بھیجا ۔ اس کے میمو ر یل سے پہلے مجھے الہا م ہو چکا تھا کہ یہ میمو ر یل بھیجنا بیفا ئدہ ہے چنا نچہ میر ے دو ستوں کو جو یہاں رہتے ہیں اور انکو بھیجو دوسرے شہروںمیں ہیںمعلوم تھا کہ میں نے یہ الہام قبل از وقت ان کو بتادیا تھا آخر وہی ہوا اور گورنمنٹ نے اس پر کوئی کاروائی انجمن کے حسبِ منشاء نہ کی۔
مہدی اور جہاد
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا مہدی انا چاہیے جو جہاد کا فتویٰ دے اور انگریزوں اور دوسری قوموں سے لڑائی کرے۔ میں کہتا ہوں یہ بھی ظلط ہے اور حدیث سے بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والا موعود
یضع الحرب
کرکے دیکھائے گا یعنی لڑائیوں کو موقوف کریگا ۔دیکھو ہر چیزکے عنوان سے پہلے ہی سے نظر آجاتے ہیں ۔ جیسے پھل سے پہلے شگوفہ نکل آتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہوتا کہ مہدی آکر جہاد کرتا اور تلوار کے زور سے اسلام کی حمایت کرتا تو چاہیے تھا کہ مسلمان فنون حربیہ اور سپہ گری میں ۔۔۔۔۔ تمام قوموں سے ممتاز ہوتے اور فوجی طاقت بڑی ہوئی ہوتی مگر اس وقت یہ طاقت تو اسی قوم کی بڑھی ہوئی ہے اور فنونِ حرب کے متعلق جس قدر ایجادا ت ہو رہی ہیں وہ یوپ میں ہو رہی ہیں نہ کسی اسلامی سلطنت میں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے اور یضع الحرب کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے یہی ہونا بھی چاہیے تھا دیکھو مہدی سوڈانی وغیرہ نے جب مخالفت میں ہتھیار اٹھائے تو خدا تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا یہانتک کہ اس کی قبر بھی کھدوائی گئی اور ذلت ہوئی اس لیے کے خدا ے منشاء کے خلاف تھا۔ مہدی موعود کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ وہ تواسلام کو اس کی اخلاقی اور علمی وعملی اعجازات سے دلوں میں داخل کرے گا اور اس اعتراض کو دور کرے گا جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا وہ ثابت کر دکھاے گا کہ اسلام ہمیشہ اپنی عملی سچائیوں اور برکات کے ذریعہ پھیلاہے۔ ان تمام باتوںسے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تلوار سے کام لینا فنونِ حرب اسلام والوں کے ہاتھ میں ہوتے اسلامی سلطنتوں کی جنگی طاقتیں سب سے بڑھ کر ہوتیں اگرچہ حقیقی خبر تو خدا تعالیٰ سے وحی پانے والوں کو ملتی ہے مگر مومن کو بھی ایک فراست ملتی ہے اور وہ علامات و آثار سے سمجھ لیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے جب عیسائی قوموں کے مقابل آتے ہیں تو زک اُٹھاتے ہیں اور ذلت کا منہ دیکھتے ہیں کیا اس سے پتہ نہیں لگتا کہ خدا تعالیٰ کا منشا تلوار اٹھانے کا نہیں ہے یہ اعتراض صحیح نہیں غلط ہے۔
مسیح موعود کا یہی کام ہے کہ وہ لڑائیوں کو بند کردے کیونکہ یضع الحرب اس کی شان میں آیا ہے کیا وہ رسول اللہ ﷺکی پیشگوئی کو باطل کر دیگا ؟ معاذاللہ ۔قرآن شریف سے بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے کہ اس وقت لڑائی نہیں ہونی چاہیے کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جب دل اعتراضوں سے بھرے ہوے ہوں تو ان کو قتل کردیا جا وے تلوار اُٹھاکر مسلمان کیا جاوے وہ اسلام ہو گا یا کفر جو ان کے دلوں میں اس وقت پیدا ہوگا ؟
آنحضرتﷺ کی جنگیں محض دفاعی تھیں
رسول اللہ ﷺنے کبھی مذہب کیلئے تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ اتمامِ حجت کے بعد جس طرح پر خدا نے چاہا منکروں کو عذاب دیا۔وہ جنگیں دفاعی تھیں ۔تیرہ برس تک آ پ ستائے جاتے رہے اور صحابہ ؓنے جانیں دیں انہو ںنے (منکروں نے)نشان پر نشان دیکھے اور انکار کرتے رہے آ خرخداتعالیٰ نے ان کو جنگوں کی صورت میں عذاب سے ہلاک کیا ۔اس زمانہ میں طاعون ہے ۔ جوں جوں تعصب بڑھے گا طاعون بڑھے گی۔ قرآن شریف میں اس کی بابت خبردی گئی ہے
وان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبوھا۔(نی اسرائیل ، ۵۹)
پس اگر میں خدا کیطر ف سے ہو ں اور وہ بہتر جا نتا ہے کہ میں اسی کی طر ف سے ہو ں تو اس کے و عد ے پو ر ے ہو کر جو بشا رت کی پیشگو یئو ں کو نہیں ما نتے ۔ تو اس طا عو ن کی پیشگو ئی کو د یکھ لیں ۔ سعا دت سے انہیں کو حصہ ملتا ہے جو دور سے بلا کو د یکھتا ہے ۔
خدا تعا لیٰ پر تَقَوَّ لکر نیو الا ہلا ک ہو جا تا ہے ۔
صا دق کے لیے خدا تعا لیٰ نے ایک اور نشا ن بھی قر ار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضر ت ﷺ کو فر ما یا کہ اگر تو مجھ پر تَقَوَّ ل کرے تو میں تیر ا د ہنا ہا تھ پکڑ لو ں ۔ اللہ تعا لیٰ پر تَقَوَّ ل کرنیو الامفتری فلا ح نہیں پا سکتا بلکہ ہلا ک ہو جا تا ہے اور اب پچیس سا ل کے قر یب عر صہ گذرا ہے کہ خدا تعا لی ٰکی وحی کو میں شا ئع کر ر ہا ہو ں ۔ اگر افتر اء تھاتو اس تقو ل کی پا داش میں ضر ور ی نہ تھا کہ خدا اپنے وعدہ کو پو را کر تا ؟ بجا ے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صد ہا نشا ن میر ی تا ئید میں ظا ہر کئے اور نصر ت پر نصر ت مجھے دی ۔ کیا مفتر یو ں کے سا تھ یہی سلو ک ہو ا کر تا ہے ۔؟ اور دجا لو ں کو ایسی ہی نصر ت ملا کر تی ہے۔ ؟کچھ تو سو چو ۔ ایسی نظیر کو ئی پیش کر و اور میں دعو ی سے کہتا ہو ں ہر گزنہ ملیگی ۔
ہا ں میں یہ جا نتا ہو ں کہ طبیب تو مر یض کو کلو رو فا ر م سنگھا کر بھی دوائی اند ر پہنچا سکتا ہے ۔رو حا نی طبا بت میں یہ نہیں ہے بلکہ با تو ں کو مو ثر بنا نا اور دل میں ڈالنا خدا تعا لیٰ کا کا م ہے وہ چا ہتا ہے تو شو خی کو دور کر کے خو د اند را یک وا عظ پیدا کر د یتا ہے ۔
نو وارد۔
میں اہل اسلا م کی زیا د تی پر تعجب کر تا ہو ں ۔ آپ کے کلما ت میںمیں کو ئی وجہ کفر کی نہیں دیکھتا ۔
حضر ت اقد س
آ پ کتا بیں بھی د یکھ لیں تا کو ئی شک آپ کو با قی نہ رہے کہ کو ن سے ایسے کلما ت ہیں جو قا ل اللہ اور قا ل الر سو ل کے خلا ف ہیں ۔ میں ان کے کفر کی پر و ا نہیں کر تا ۔ ضر ور تھا کہ ایسا ہی ہو تا کیو نکہ ان کے ہی آثا ر میںلکھا ہو ا تھا ۔ کہ مسیح جب آئیگا تو اس پر کفر کے فتو ے د ئیے جائیں گے یہ پیشگو یئا ں کیسے پو ر ی ہو ئیں ؟یہ تو اپنے ہا تھ سے پو ر ی کر رہے ہیں ۔ مجد د صاحب اور نو ا ب صد یق حسن خا نصا حب کہتے ہیں کہ جب وہ آئے گا تو علما ء مخا لفت کر نیگے اور محی الد ین عر بی نے لکھا ہے کہ جب وہ آئیگا تو ایک شخص ا ٹھ کر کہے گا
ا ن ھذ االر جل غیر د یننا
اب جبکہ پہلے سے با تیں ہیں تو ہم خو ش ہو تے ہیں کہ یہ لو گ اپنے ہا تھ سے پو را کر ر ہے ہیں اب جبکہ یہ با تیں پہلے سے ہیں تو یہ بھی صدا قت کا نشا ن ہے اس لیے ہم ان با تو ں کی کچھ پر وا نہیں کر تے یہ جو کہتے ہیں کہ آسما ن سے مسیح آئیگا وہ ا تنا نہیں د یکھتے کہ قر آ ن شر یف میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ اسلا م وفا ت پا گئے ۱ ؎
آخر میں فر ما یا کہ
اگر وہ صحا بہ ؓ کا سا مذا ق اورمحبت ہو تی جو صحا بہؓ کے دل میں تھی تو یہ عقید ہ نہ رکھتے کہ وہ زند ہ ہیں۔ حضر ت عیسی کو خا لق بھی نہ ما نتے اور غیب دان بھی۔ (نہ ما نتے ) خد ا تعا لیٰ ان فسا دوں کورو ا نہیں ر کھتا۔ اور اس نے چا ہا ہے کہ اصلا ح کر ے ۔ہما را کا م اللہ کیلئے ہے اور اگر اللہ تعا لیٰ کا یہ کا روبا ر ہے اور اسی کا ہے تو کسی انسا ن کی طاقت میں نہیں کہ اس کو تبا ہ کر سکے اور کو ئی ہتھیار اس پر چل نہیں سکتا ،لیکن اگر انسا ن کا ہے تو پھر خو د ہی تبا ہ ہو سکتا ہے انسا ن کو زور لگا نے کی بھی کیا حا جت ہے ۔
در با ر شا م
نو وار صا حب کی وجہ سے تحر یک تو ہو ر ہی تھی ۔ اس لیے بعد ادا ئے نما ز مغرب حجتہ اللہ نے ایک مختصر سی جا مع تقر یر فر ما ئی ۔ جس کا ہم فقط خلا صہ د یتے ہیں ۔ فر ما یا :۔
حقیقت اسلا م
لو گ حقیقت اسلا م سے با لکل دو ر جا پڑ ے ہیں ۔ اسلام میں حقیقی زند گی ایک مو ت چا ہتی ہے۔ جو تلخ ہے لیکن جو اس کو قبول کر تا ہے آخر و ہی زند ہ ہو تا ہے۔ حد یث میں آیا ہے کہ انسا ن د ینا کی خو اہشو ں اور لذتو ں کو ہی جنت ہو تی ہے اس میں کو ئی شک نہیں کہ د نیا فا نی ہے اور سب مر نے کے لیے پیدا ہو ئے ہیں آخر ایک وقت آجا تا ہے کہ سب دو ست آشنا عز یز واقار ب جد ا ہو جا تے ہیں ۔ اس وقت جسقد ر نا جا ئز خو شیو ں اور لذتو ں کو را حت سمجھتا ہے ۔وہ تلخیو ں کی صو رت میں نمو دا ر ہو جا تی ہیں۔ سچی خو شحا لی اور راحت تقو یٰ کے بخیر حا صل نہیں ہو تی اور تقو یٰ پر قا ئم ہو نا گو یا ز ہر کا پیا لہ پینا ہے متقی کے لیے خدا تعا لی سا ر ی را حتو ں کے سا ما ن مہیا کر د یتا ہے
من یتق اللہ یجعل لہ مخر جا و یر ز قہ من حیث لا یحتسب (سو ر ت الطلاق :۳،۴)
پس خو شحا لی کا اصو ل تقو ی ہے لیکن حصو لِ تقو ی کیلئے نہیں چا ہیئے کہ ہم شر طیں با ند ھتے پھر یں تقو ی ا ختیا ر کر نے سے جو ما نگو گے میلیگا ۔ خد ا تعا لیٰ ر حیم وکر یم ہے ۔ تقو ی ا ختیا ر کر و جو چا ہو گے وہ دیگا ۔ جسقد ر اولیا ء اللہ اور اقطا ب گذرے ہیں۔ انہو ں نے جو کچھ حا صل کیا تقو ی ہی سے حا صل کیا ۔اگر وہ تقو ی ا ختیا ر نہ کر تے تو وہ بھی د نیامیں معمو لی انسانو ں کی حیثیت سے زند گ بسر کر تے ۔ دس بیس کی نو کر ی کر لیتے یا کو ئی اور حر فہ یا پیشہ اختیا ر کر لیتے ہیں اس سے زیا دہ کچھ نہ ہو تا ۔ مگر آج جو عر وج ان کو ملا اور جس قد ر شہر ت اَور عزت انہوں نے پا ئی ۔ یہ سب تقو ی ہی کی بد ولت تھی ۔ انہو ں نے ایک مو ت ا ختیا ر کی اس کے بد لہ میں پا ئی ۔
عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے رنگین ہو کر کرو
‏missing
صفحہ90تا93کے درمیان تک
ایسا ہی ایک حدیث میں آیاہے کہ ایک صحابی ؓ نے پوچھا کہ مَیں نے زمانہ جاہلیت میں سخاوت کی تھی مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اُسی سخاوت نے تو تجھے مسلمان کیا ۔
ہزاروں آدمی بغیر دیکھے گالیاں دینے کو تیا ر ہوجاتے ہیں لیکن جب آتے ہیں اور دیکھتے ہیں تو ایمان لاتے ہیں ۔میرا یہ مذہب نہیں کہ انسان صدق واخلاص سے کام لے اور وہ ضائع ہو جائے ۔
پھر حضرت حجتہ اللہ نے حضرت عمر ؓ کے ایمان لانے کا قصّہ بیان کیا جوکئی بار ہم نے الحکم میں درج کیا ہے اور اس بات پر آپ نے اپنی تقریر کو ختم کیا ؎
مردانِ خدا خدا نہ باشند لیکن از خدا جُدا نہ باشند
(الحکم جلد ۷نمبر ۷ صفحہ ۵ تا ۹ مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء ؁)
۱۵ فروری ۱۹۰۳ء؁
نووارد صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام
صبح کی سَیر
اعلیٰ حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ و السلام کو یہ مقصود تھا کہ جس طرح ممکن ہو اس شحص کو پُورے طور پر تبلیغ ہو اس لیے اس کی ہر بات اور اہر ایک اعتراض کو نہایت توجہ سے سُنکر اس کا مبسوط جواب فرماتے آج جب آپ سَیر کو تشریف لے چلے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصّہ سے سلسلہ تقریر شروع ہوا۔
رب ارنی کیف تحی الموتی (البقرہ:۲۶۱)
فرمایا کہ
رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْ تٰی کی لطیف تفسیر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصّہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معرفت آپ سے بھی بڑھی ہوئی تھی یہ آنحضرت ﷺ کی فضیلت کو ظابت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو یہ ارشاد ہوا
اَوَلَمْ تُوُْ مِن
ْ کیا تو اس پر ایمان نہیں لاتا ؟ اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا یہی جواب دیا بَلٰی ۔ ہاں مَیں ایمان لاتا ہوں مگر اطمینانِ قلب چاہتا ہوں ،لیکن آنحضر تﷺ نے کھبی ایسا سوال نہ کیا اور نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت پڑی ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے سے ہی ایمان کے انتہائی مرتبہ اطمینان اور رفان پر پہنچے ہوئے تھے اور یہ وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے ۔
ادبنی ربی فا حسن ادبی
تو یہ آیت آنحضرت ﷺ کی فضیلت کو ثبت کرتی ہے ۔ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی ایک خوبی اس سے پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا کہ
اولم تو من (البقرہ:۲۶۱)
تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مَیں اس پر ایمان نہیں رکھتا بلکہ یہ کہا کہ ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر اطمینان چاہتا ہوں ۔
پس جب ایک شخص ایک شرطی اقتراح پیش کرے اور پھر یہ کہے کہ مَیں اطمینانِ قلب چاہتا ہوں۔ تو وہ اس سے استدلال نہیں کرسکتا ۔کیو نکہ شرطی اقتراح پیش کرنیوالا تو ادنیٰ درجہ بھی ایمان نہیں رکھتا ۔بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب ا ؎ کے مقام پر ہے ااور تسلیم کرنے کو مشوط بہ اقتراح کرتا ہے۔ پھر وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ مَیں ابراہیم ؑ کی طرح اطمینانِ قلب چاہتا ہوں ابراہیم ؑ نے تو ترقی ٔ ایمان چاہی ہے انکار نہیں کیا اور پھر اقتراح بھی نہیں کیا بلکہ احیای موتیٰ کی کیفیت پوچھی ہے اور اس کوخدا تعالیٰ کے سُپرد کر دیا ہے ۔یہ نہیں کہا کہ اس مُردہ کو زندہ کر کے دکھا یُوں کر اور پھر اسکا جواب جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ بھی عجیب اور لطیف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار جانور لے اُن کو اپنے ساتھ ہلالے یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ ذبح کر لے کیونکہ اس میں ذبح کا لفظ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہلالے جیسے لوگ بٹیر یا تیتر یا بُلبل کا پالتے ہیں اور اپنے ساتھ ہلالیتے ہیں پھر وہ اپنے مالک کی آواز سُنتے ہیں اور اُ س کے بُلانے پر آجاتے ہیں ۔اس طرح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو احیاء اموات سے انکار نہ تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مُردے خدا کی آواز کس طرح سُنتے ہیں اس سے انہوں نے سمجھ لیا کہ ہر چیز طبعاً اور فطرتاً اللہ تعالیٰ کی مطیع اور تابع فرمان ہے ۔
نووارد ۔ کیا آنحضرت ﷺ کے لیے قرآن شریف میں ایسا فرمایا ہے جیسے حضرت ابراہیم کو خلیل فرمایا۔
سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت ؐ کو دیئے گئے
حضرت اقدس ۔ مَیں قرآن شریف سے یہ استباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت ﷺ کو دیئے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے ۔قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے چناچہ فرمایا
فیھا کتب قیمۃ (البینہ :۴) اور مافر طنا فی الکتاب (الانعام :۳۹)
ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کی اقتدا کر ۔
یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ امر دو قسم کا ہوتا ہے ۔ایک امر تو تشریعی ہوتا ہے جیسے نماز قایم کرو یا زکوٰۃ دو وغیرہ اور بعض امر بطور خلق ہوتے ہیں جیسے
یا نار کونی بر دا و سلا ما علی ابراہیم (الانبیاء:۷۰)
یہ امر جو ہے کہ تو سب کی اقتدا کر یہ بھی خلقی اور کونی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کملات کے جمیع انبیاء علیہ السلام میں متفرق طور پر موجود تھے ۔اس میں یکجائی طور موجود ہوں اور گویا اس کے داتھ جہی وہ کمالات اور خوبیوں آپ کی ذات میں جمع ہوگئیں۔
آیت خاتم النبیین کا حقیقی مفہوم
چناچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے کا ہی نتیجہ تھاکہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی اور یہ فرمایا کہ
ماکان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین (الاحزاب:۴۱)
ختمِ نبوت کے یہی معنے ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیا اور کمالات تجھ پر ختم ہوگئے اور آئندہ کے لیے کمالاتِ نبوت کا باب بند ہوگیا اور کوئی نبی مستقل طور پر نہ آئے گا ۔
نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنے خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوئی کرنے والا جولوگ براہ راست خدا سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اسطلاح ہوگئی تھی مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بند کر دیا اور مُہر لگا دی ہے کہ کوئی نبی آنحضرتﷺ کی مُہر کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔جب تک آپ کی اُمّت میں داخل نہ ہو اور آلے فیض سے مستفیض نہ ہو وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف نہیں پا سکتا ۔جب تک آنحضرت ﷺ کی اُمّت میں داخل نہ ہو ۔اگر کوئی ایسا ہے کہ وہ بدوں اس میں داخل ہونے اور آ نحضرت ﷺ سے فیض پانے کے بغیر کوئی شفِ مکالمہ الٰہی حاصل کر سکتا ہے تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔
آیت خاتم النبّیین حضرت عیسیٰ ؑکے دوبارہ نہ آنے پر زبردست دلیل ہَے
یہی ایک آیت زبردست دلیل ہے اس امر پر جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آنیوالا اس اُمّت میں سے ہوگا ۔کیونکہ وہ نبی ہوں اور آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شحص نبوت کا فیضان حاصل کر سکتا ہی نہیں جب تک وہ آنحضر تﷺ سے استفادہ نہ کرے جو صاف لفظوں میں یہ ہے کہ آپ کی اُمت میں داخل نہ ہو۔اب خاتم النبّیین والی آیت تو صریح روکتی ہے پھر وہ کس طرح آسکتے ہیں ۔یا اُن کو نبوت سے معزول کرو اور ان کی یہ ہتک اور بے عزتی روا رکھو اور یایہ کہ پھر ماننا پڑے گا کہ آنیوالا اسی اُمت میں سے ہو گا ۔نبی اصطلاح مستقل نبی پر بولی جاتی تھی مگر اب خاتم النبّیین کے بعد یہ مستقل نبوت رہی ہی نہیں ۔اسی لیے کہا ہے ۔
خارقے از ولی مسموع است معجزہ آں نبی متبوع است
پس اسبات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت ْﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسٰے علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کو کھو دیں ۔یہ آیت آنحضرت ﷺ کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے۔البتہ یہ امر آنحضرتﷺ کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی اُمت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہوسکتا تھا۔ لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے ۔اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرتﷺ کا آنا بلکل غیر مستقل ٹھہر جا ویگا کیونکہ آپ بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد رخصت ہوگئے اور حضرت مسیح آپ سے بھی پہلے رہے اور آخر پر بھی وہی رہے غرض اس عقیدہ کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنیوالے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کُفر ہے ۔
اس کے علاوہ قرآن شریف کی ایک اَور آیت بھی جو صاف طور پر مسیح کی آمدِ ثانی کو روکتی ہے اور وہی آیت ہے جو کل بھی مَیں نے بیان کی تھی یعنی
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (سورۃ المائدۃ:۱۱۸)
اگر حضرت مسیح قیامت سے پہلے دُنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہ کر انہوں نے کفّار اور مشرکین کو تباہ کی تھا جیساکہ اعتقاد رکھا جاتا ہے ۔پھر کیا خدا تعالیٰ کے سامنے ان کو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ
فلما توفیتنی کنت الرقیب علیھم (سورۃ المائدۃ:۱۱۸)
یا یہ کہنا چاہیئے تھا کہ مَیں نے تو کافروں اور مشرکوں کو ہلاک کیا اور ان کو جا کر اس شرک سے نجات دی کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو خدا نہ بنائو ۔
اس آیت پر خوب غور کرو ۔یہ ان کی دوبارہ آمد کو قطی طور پر ردّ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ختمِ نبوت والی آیت بھی ان کو دوبارہ آنے نہیں دیتی ۔اب یا تو قرآن شریف کا انکار کر دیا اگر اس پر ایمان ہے تو پھر اس باطل خیال کو چھوڑنا پڑے گا اور اس سچائی کو قبول کرنا پڑے گا جو مَیں لے کر آیا ہوں ۔
یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی اُمّت سے ہوگا اور حدیث
علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل
سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیلِ مسیح بھی تو ہو ۔اگرچہ محدثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہلِ کشف نے اس کی تصدیق کی ہے اور قرآن شریف خود اس کی تائید کرتا ہے ۔محدثین نے اہلِ کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کرلیتے ہیں جو محدثٰین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں ۔
(۱۰۱صفحہ سے)
نفس مطمئنہ کی حا لت والا ہی بڑ ا سعید اور با مر دا ہے
اصل مد عا تو یہ ہو نا چا ہیئے کہ انسا ن نفس مطمئنہ حا صل کر ے نفس کی تین قسمیں ہیں ۔ اما رہ ۔لو امہ ۔ مطمئنہ ۔بہت بڑا حصہ د نیا کا نفس اما رہ کے نیچے ہے ۔ اور بعض جن پر خدا کا فضل ہو ا ہے وہ لو امہ کے نیچے ہیں یہ لو گ بھی سعا دت سے رکھتے ہیں ۔ بڑا بد بخت وہ ہے جو بد ی کو محسوس ہی نہیں کر تا یعنی جو اما رہ کے ماتحت ہیں اور بڑاہی سعید اور با مر ادوہ ہے جو نفس مطمئنہ کی حا لت میں ہے ۔
نفس مطمئنہ ہی خدا تعا لیٰ نے فر ما یا ۔
یا یتھا النفس المطمئنت ار جعی الیٰ ر بک ر ا ضیت مر ضیت (الفجر :۲۹ ، ۲۷)
یعنی اے وہ نفس جو اطمینا ن یا فتہ ہے۔ اس حا لت میں شیطا ن کے سا تھ جوجنگ ہو تی ہے اس کا خا تمہ ہو جا تا ہے۔ اور خطا ب کے لا ئق تو مطمئنہ ہی ٹھہر ا یا ہے۔ اور اس آیت سے یہی معلو م ہو تا کہ مطمئنہ کی حا لت میں مکا لمہ الیٰ کے لا ئق ہو جا تا ہے ۔خدا کی طر ف واپس آ کے معنے یہی نہیں کہ مَر جا۔ بلکہ اما رہ اور لو امہ کی حا لت میں جو خد ا تعا لیٰ سے ایک بُعد ہو تا ہے مطمئنہ کی حا لت میں وہ مہجو ی نہیں ر ہتی اور کو ئی غبا ر با قی نہ رہ کر غیب کی آو از اس کو بلا تی ہے تو مجھ سے را ضی اور میں تجھ سے را ضی یہ ر ضا کا ا نتہا ئی مقا م ہو تا ہے ۔ پھرخدا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ اب میر ے بند و ں میں دا خل ہو جا ۔خد ا تعا لیٰ کے بند ے دنیاہی ہو تے ہیں مگر دنیا ان کو نہی پہچانتی ۔د نیا آسمانی بند وں سے دوستی نہیں کی وہ ان سے ہنسی کر تی ہے ۔ وہ الگ ہی ہو تے ہیں اور خد ا تعا لیٰ کی رِداء کے نیچے ہو تے ہیں۔ غر ض جب ایسی حا لت اطمینا ن میں پہنچتا ہے تو الہٰی اکسیر سے تا نباسونا ہو جا تا ہے ۔
و اد خلی جنتی
اور تو میر ے بہشت میں دا خل ہو جا ۔ بہشت ایک ہی چیز نہیں
و لمن خا ف مقا م ربہ جنتا ن ۔ (الر حما ن :۴۷)
خد ا سے ڈر نے والے کے لیے دو بہشت ہیں۔( الحکم جلد نمبر ۸ صفحہ ۳ مو ر خہ ۲۸ فر ور ی ۱۹۰۳ء؁)
۱۵ فر ور ی ۱۹۰۳ ء؁۔
(قبل ازظہر)
ایک صا حب گو ڑ گا وں سے تشر یف لا ئے ہو ئے تھے ۔ حضر ت اقد س سے شر ف بیعت حا صل کیا بعد از بیعت حضر ت اقد س نے ان کو مخا طب کر کے فر ما یا کہ ۔
مسنُو ن طو ر سے خدا کا فضل تلا ش کر و۔
ہما ری طر ف سے تو آپ کو یہی نصیحت ہے کہ مسنو ن طو ر سے خدا تعا لیٰ کا فضل تلا ش کر و۔ اللہ تعا لیٰ نے قر آن شر یف اور رسو ل کر یم ﷺ کو مبعو ث کر کے یہ ا مر صا ف طو ر پر بیان کر دیا ہے۔ کہ انکی پیرو ی کے سو ا کو ئی راہ اس کی ر ضا جو ئی کی با قی نہیں ہے ۔جو خدا تعا لیٰ کے فضلو ں کا جو یاں ہو ا سی دروازہ کو کھٹکھٹا ئے۔ اس کے لیے کھو لا جا ئے گا ۔بجزاس دروازہ کے تما م دروازے بند ہیں ۔ نبو ت ہما رے نبی ﷺ پر ختم ہو چکی۔ شر یعت قر آن شر یف کے بعد ہر گز نہیں آئے گی ۔ انسا ن کو کشو ف اور وحی اور الہا م کا بھی طا لب نہ ہو نا چا ہیئے بلکہ یہ سب تقو ی کا نتیجہ ہیں ۔ جب جڑ ٹھیک ہو گی تو اس کے لو ازم بھی خو د بخدد آجا ئیں گے ۔ دیکھو جب سو ر ج نکلتا ہے تو دھو پ اور گر می جو اس کا خا صہ ہیں ۔ خو د بخود ہی آجا تے ہیں ۔ اسی طر ح جب انسا ن میں تقو ی آجا تا ہے تو اس کے لوازم بھی اس میں ضر ور آجا تے ہیں ۔ دیکھو جب کو ئی دو ست کسی کے ملنے کے واسطے جا و ے تو اس کو یہ امید تو نہ ر کھنی چا ہیئے ۔کہ میں اس کے پا س جا تا ہو ں کہ وہ مجھے پلا و ،زردے اور قو ر مے اور قلیئے کھلا ئے گا اور میری خا طر تو اضع کر یگا نہیں بلکہ صا د ق دوست کی ملا قا ت کی خو ا ہش ہو تی ہے بجز اس کے اور کسی کھا نے یا مکا ن یا خد مت کی پر وا اور خیا ل بھی نہیں ہو تا مگر جب وہ اپنے صا دق دوست کے پا س جو اس سے مہجو ر تھا ۔ جا تا ہے تو کیا وہ اس کی خا طر داری کا کو ئی دقیقہ با قی بھی اٹھا رکھتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ اس سے بن پڑ تا ہے وہ اپنی طا قت سے بڑ ھ کر بھی اس کی توا ضع کے واسطے مکلف سا ما ن کر تا ہے
غر ض یہی حا ل رو حانیت اور اس دوست اعلیٰ کی ملا قا ت کا ہے ۔ الہا ما ت یا کشو ف وغیر ہ خبر و ں کے سہا ر ے وا لا ایما ن ، ایما ن کا مل نہیں ۔ وہ کمزور ا یما ن ہے جو کسی چیز کا سہا را ڈ ھو نڈھتا ہے ۔ انسا ن کی غر ض اور اصل مد را صر ف اضا ء الہیٰ اور وصول الی اللہ چا ہیئے۔ آگے جب یہ اس کی رضا حا صل کر لے گا تو خد ا تعا لی اس کو کیا کچھ نہ دیگا ۔ خودا س امر کی درخو است کر نا سو ء ادب ہے ۔
دیکھو اللہ تعا لیٰ قر آن شر یف میں فر ما یا ہے
قل ان کنتم تحبو ن اللہ فا تبعو نی یحببکم اللہ (آل عمران:۳۲)
خدا کے محبو ب بننے کیو اسطے رسو ل اللہ ﷺ کی پر و ی ہی ایک راہ ہے اور کو ئی دو سر ی راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے ۔ انسا ن کا مد عا صر ف اس ایک وا حد لا شر یک خدا کی تلا ش ہو نا چا ہیئے شر ک اور بد عت سے اجتنا ب کر نا چا ہیئے رسو م کا تا بع اور ہو ا وہو س کا میطع نہ بننا چا ہیئے ۔ دیکھو میں پھر کہتا ہو ں کہ رسو ل اللہ ﷺ کی سچی راہ کے سوا اور کسی طر ح انسا ن کا میا ب نہیں ہو سکتا ۔
ہما را صر ف ایک ہی رسو لؐ اور ایک ہی کتا ب ہے۔
ہما را صر ف ایک ہی رسو ل ہے۔ اور صر ف ایک ہی قر آن شر یف اس رسو ل پر نا زل ہواہے جس کی تا بعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں آج کل فقر اء کے نکا لے ہو ئے طر یقے اور گد ی نشینو ں اور سجا دہ نشینو ں کی سیفیا ں اور دعا یئں اور درود اور وظا ئف یہ سب انسا ن کو مستقیم راہ سے بھٹکا نے کا آلہ ہیں ۔ سو تم ان سے پر ہیز کر و۔ ان لو گو ں نے آنحضر ت ﷺ کے خا تم الا نبیا ء ہو نے کی مہر کو تو ڑنا چا ہا گو یا اپنی الگ ایک شر یعت بنا لی ہے۔ تم یا درکھو کہ قر آن شر یف اور رسو ل ﷺ کے فر مان کی پیر و ی اور نما ز روزہ و غیر ہ جو مسنو ن طر یقے ہیں ان کے سو ا خدا کے فضل اور بر کا ت کے دروازے کھو لنے کی اور کو ئی کنجی ہے ہی نہیں ۔ بھو لا ہو ا ہے وہ جو ان راہو ں کو چھو ڑ کر کو ئی نئی را ہ نکا لتا ہے ۔ ناکام مر یگا وہ جو اللہ اور اس کے رسو ل کے فر مو دہ کا تا بعدار نہیں بلکہ اور اور راہو ں سے اسے تلا ش کر تا ہے ۔
ہر قسم کے گنا ہو ں سے بچو
دیکھو گنا ہ کبیر ہ بھی ہیں ان کو تو ہر ایک جا نتا ہے اور اپنی طا قت کے مو افق نیک انسا ن سے بچنے کی کو شش بھی کر تا ہے مگر تما م گنا ہو ں سے کیا کبا ئر اور کیا صغا ئر سب سے بچو ۔ کیو نکہ گنا ہ ایک ز ہر ہے جس کے استعمال سے زند ہ رہنا محا ل ہے گنا ہ ایک آگ ہے ۔جو روحا نی قویٰ کو جلا کر خا ک سیا ہ کر د یتی ہے۔ پس تم ہر قسم کے کیا صغیرہ کیا کبیرہ سب اندرونی بیرونی گنا ہو ں سے بچو ۔آنکھ کے گنا ہو ں سے ،کان نا ک اور زبا ن اور شر مگا ہ کے گنا ہو ں سے بچو ۔ غر ض ہر عضو کے گنا ہ زہر سے بچتے رہو اور پر ہیز کر تے ر ہو ۔
نما ز گنا ہو ں سے بچنے کا آلہ ہے
نما ز گنا ہو ں سے بچنے کا آلہ ہے ۔نما ز کی یہ صفت ہے کہ انسا ن کو گنا ہ اور بد کا ری سے ہٹا دیتی ہے سو تم ویسی نما ز کی تلا ش کرو اور اپنی نما ز کو ایسی بنا نے کی کو شش کرو ۔ نما ز نعمتو ں کی جا ن ہے ۔ اللہ تعا لیٰ کے فیض اسی نما ز کے ذر یعہ سے آتے ہیں سواس کو سنو ار کر ادا کر و۔ تا کہ اللہ تعا لیٰ کی نعمت کی وارث بنو۔
ہما را طر یق نر می ہے
یہ بھی یا د ر کھو ہما را طر یق نر می ہے ۔ ہما ری جما عت کو چا ہیئے کہ اپنے مخا لفو ں کے مقا بل پر نر می سے کا م لیا کر ے تمہا ری آواز تمہا ر ے مقا بل کی آواز سے بلند نہ ہو ۔ اپنی آواز اور لہجہ کو ایسا بنا وکہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صد مہ نہ ہو وے ۔ہم قتل اور جہاد کے واسطے نہیں آئے بلکہ ہم تو متقو لو ں اور مر د ہ دلو ں کو زندہ کر نے اور ان میں زند گی کی روح پھو نکنے کو آئے ہیں ۔ تلو ار سے ہما را کا روبا رنہیں نہ یہ ہما ری تر قی کا ذریعہ ہے ہما را مقصد نر می سے ہے اور نر می سے اپنے مقا صد کی تبلیغ ہے ۔غلا م کووہی کر نا چا ہیئے جو اس کا آقا اس کو حکم کر ے ۔ جب خدا نے ہمیں نر می کی تعلیم دی ہے تو ہم کیو ں سختی کر یں ۔ ثوا ب تو فر ماں بر داری میں ہو تا ہے ۔اور دین اطا عت کا نا م ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہو اوہوس کی تابعد اری سے جو ش دکھا یں ۔
مغلو ب الغضب غلبہ ونصر ت سے محروم ہو تا ہے
یا د رکھو جو شخص سختی کر تا اور غضب میں آجا تا ہے اس کی زبا ن سے معا رف اور حکمت کی با تیں ہر گزنہیں نکل سکتیں ۔ وہ دل حکمت کی با تو ں سے محر وم کیا جا تا ہے جو اپنے مقا بل کے سا منے جلد ی طیش میں آکر آپے سے با ہر ہو جا تا ہے ۔ گند ہ ذہن اور بے لگا م کے ہو نٹ لطا ئف کے چشمہ سے بے نصب اور محر وم کئے جا تے ہیں ۔ غضب او حکمت دونو ں نہیں ہو سکتے جو مغلو ب لغضب ہو تا ہے اس کی عقل مو ٹی اور فہم کند ہو تا ہے ۔ اس کو کبھی کسی مید ان میں غلبہ اور نصر ت نہیں دئے جا تے ۔ غضب نصب جنو ن ہے جب یہ زیا دہ بھڑ کتا ہے تو پو را جنو ن ہو سکتا ہے ۔ہما ری جما عت کو چا ہیئے کل نا کر دنی افعا ل سے دور رہا کر یں ۔وہ شا خ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جا تی ہے سو دیکھو اگر تم لو گ ہما رے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شر ائط پر کا ر بند نہ ہو گے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں
نصیحت کا پیر ایہ
جسے نصیحت کر نی ہو اسے زبا ن سے کر و ۔ ایک ہی با ت ہو تی ہے وہ ایک پیر ایہ میںادا کر نے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسر ے سے پیر ایہ میں دوست بنا دیتی ہے پس
جا دلھم با لتی ھی احسن (البقر ہ:۲۷ )
کے مو افق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طر ز کلا م ہی کا نا م خدا نے رکھا ہے ۔ چنا نچہ فر ما یا ہے
یو تی الحکمت من یشاء(البقر ہ:۲۷)
مگر یا درکھو جیسی یہ با تیں حر ام ہیں ویسے ہی نفا ق بھی حرا م ہے ۔ اس بات کا بھی خیا ل رکھنا کہ کہیں پیرا یہ ایسا نہ ہو جاوے کہ اس کا رنگ نفاق سے مشابہ ہو ۔موقعہ کے موافق ایسی کاروائی کرو جس سے اصلاح ہو تی ہو۔ تمہاری نرمی ایسی نہ ہو کہ نفاق بن جاوے اور تمہارا غضب ایسا نہ ہو کہ بارود کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں ہی نہیں اتی ۔بعض لوگ تو سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں۔اگرہمیں کوئی گالی دیتا ہے تب بھی صبر کرو۔میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی کے پیرو مرشد کو گالیاں دی جاویں یا اس کے رسول کو ہتک آمیزکلمے کہے جاویں تو کیساجوش ہوتا ہے مگر تم صبرکرو اورحلم سے کام لو ۔
مسلوب الغضب بن جائو
ایسا نہ ہو کہ تمہارا اس وقت کا غصہ کوئی خرابی پیدا کردے۔ جس سے سارا سلسلہ بد نام ہو یا کوئی مقدمہ بنے جس سے سب کو تشویش ہو ۔ سب نبیوں کو گالیاں دی گئی ہیں۔ یہ انبیا کا ورہ ہے ۔ ہم اس سے کیونکر محروم رہ سکتے تھے ایسے بن جائو کہ گویا مسلوب الغضب ہو ۔تم کو گویا غضب کے قویٰ ہی نہیںدیئے گئے ۔دیکھو اگر کچھ بھی تاریکی کا حصہ ہے تونور نہیں آے گا۔ نور اور ظلمت جمع نہیں ہو سکتے۔ جب نور آجائے گا تو ظلمت نہیں رہے گی۔تم سارے ہی قویٰ پورے طور سے اللہ تعالیٰ کی فرمابردار ی میں لگادو جوجو کمی کسی قوت میں ہو اسے اس پان والے کی طرح جو گندے پان تلاش کرکے پھینک دیتا ہے اپنی گندی عادت کو پھینکو اور سارے اعضاء کی اصلاح کر لو یہ نہ ہو کہ نیکی کرو اور نیکی میں بدی ملادو ۔توبہ کرتے رہو۔استغفار کرو۔ دعا سے ہر وقت کام لو۔
ولی اللہ
ولی کیا ہو تے ہیں یہی صفا ت تو اولیاء کے ہو تے ہیں۔ ان کی آنکھ ،ہا تھ ،پا وں غر ض ہو ئی عضو ہو ۔منشا ء الہی کے خلا ف حر کت نہیں کر تے ۔خدا کی عظمت کا بو جھ ان پر ایسا ہو تا ہے کہ وہ خدا کی زیا رت کے بغیر ایک جگہ سے دسری جگہ نہیں جا سکتے پس تم بھی کو شش کرو ۔ خدا نجیل نہیں۔
ہر کہ عا رف تر است تر سا ں تر
دربا رشا م
قرآن شر یف کی ایک بر کت
ایک شخص نے عر ض کی کہ حضور میر ے واسطے دعا کی جا وے کہ میر ی زبا ن قرآن شر یف اچھی طر ح ادا کر نے لگے ۔قرآن شر یف ادا کرنے کے قابل نہیں اور چلتی نہیں ۔میری زبان کھل جاوے فرمایا کہ تم صبر سے قرآن شریف پڑھتے جاو۔اللہ تعا لیٰ تمہا ری زبا ن کو کھو ل دیگا ۔ قرآن شر یف میں یہ ایک بر کت ہے کہ اس سے انسا ن کا ذہن صا ف ہو تا ہے اور زبا ن کھل جا تی ہے بکلہ اطبا ء بھی اس بیما ری کااکثر یہ علا ج بتا یا کر تے ہیں ۔ (لحکم جلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۷ مو رخہ ۱۰ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)
۲۲ فر وری ۱۹۰۳ء؁
کچھ حصّہ رات کو آرام ضرور کر نا چا ہیئے
کچھ ایک مخلص کی بد خو ابی کے تذکر ہ پر فر ما یا :۔
دیکھو قرآن شر یف سورہ مزمل میں صا ف تا کید ہے کہ انسا ن کو کچھ رات کو آرام ضرور کر نا چا ہیئے ۔اس سے دن بھر کی کو فت اور تکا ن دور ہو کر قویٰ کو اپنا حر ج شد ہ ما دہ بہم پہنچا نے کا وقفہ جا تا ہے ۔ رسو ل اکر م ﷺکا فعل یعنی سنت بھی اسی کے مطا بق ثا بت ہے چنا نچہ فر ما تے ہیں اصلی و الو م۔
اصل میں انسا ن کی مثا ل ایک گھو ڑے کی سی ہے ۔ اگر ہم ایک گھو ڑے سے ایک دن اس کی طا قت سے ز یا دہ کا م لیں اور اسے آرام کر نے کا وقفہ ہی نہ دیں تو بہت قر یب ایسا وقت ہو گا کہ ہم اس کی وجو د کو ہی ضا ئع کر کے تھو ڑے فا ئدہ سے بھی محر و م ہو جا ئیں گے نفس کو گھو ڑے سے منا سبت بھی ہے ۔
بہتر ین وظیفہ
سیا لکو ٹ کے ضلع کا ایک نمبر دار تھا ۔ اس نے بیعت کر نیک کے بعد پو چھا کہ حضو ر اپنی ز با ن مبا رک سے کوئی وظیفہ بتا دیں۔
فر ما یاکہ نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اسی میں ساری لذت اور خزانے بھرے ہوئے ہیں۔صدق دل سے روزے رکھو ۔خیرات کرو۔درود اور استغفار پڑھا کرو۔اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو ۔ہمسایوں سے مہربانی سے پیش آئو۔بنی نوع بلکہ حیوانوں پر بھی رحم کرو۔ ان پر بھی ظلم نہیں چاہیے ۔خدا سے ہر وقت حفاظت چاہتے رہو کیونکہ ناپاک اور نامرادہے وہ دل جو ہر وقت خدا کے آستانہ پر نہیں گرتا وہ محروم کیا جاتا ہے ۔دیکھو اگر خدا ہی حفاظت نہ کرے تو انسان کا ایک دم گذارہ نہیں۔زمین کے نیچے سے لے کر آسمان کے اوپر تک کا ہر طبقہ اس کے دشمنوں کا بھرا ہوا ہے۔اگر اسی کی حفاظت شاملِ حال نہ ہو تو کیا ہو سکتا ہے۔ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ہدایت پر کار بند رکھے۔کیونکہ اس کے ارادے دو ہی ہیں۔گمراہ کرنا اور ہدایت دینا جیسا کہ فرماتا ہے ۔یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا۔پس جب اس کے ارادے گمراہ کرنے پر بھی ہیں تو ہر وقت دعا کرنی چاہیے کہ وہ گمراہی سے بچاوے اور ہدایت کی توفیق دے۔نرم مزاج بنو کیونکہ جو نرم مزاجی اختیار کرتا ہے خدا بھی اس سے نرم معاملہ کرتا ہے ۔اصل میں نیک انسان تو اپنا پائوں بھی زمین پر پھونک پھونک کر احتیاط سے رکھتا ہے تاکہ کسی کیڑے کو بھی اس سے تکلیف نہ ہو۔ غرض اپنے ہاتھ سے،پائوں سے،آنکھ وغیرہ اعضاء سے کسی نوع کی تکلیف نہ پہنچائو اور دعائیں مانگتے رہو ۔
تعدّدازدواج
مرزا خدا بخش صا حب ما لیر کو ٹلہ سے تشر یف لا ئے تھے۔ ا ن سے وہا ں کے جلسہ کے حا لا ت دریا فت فر ما تے رہے ۔ انہو ں نے سنا یا کہ ایک شخص نے ہو ں اعتراض کیا کہ اسلا م میں جو چا ر بیو یا ںرکھنے کا حکم ہے یہ بہت خر اب ہے اور سا ری بد اخلا قیو ں کا سر چشمہ ہے
حضر ت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
چا ر بیو یا ں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجا زت دی ہے کہ چا ر تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لا زم نہیں آتا کہ چا ر ہی کو گلے ڈھو ل بنا لے۔ قر آن کا منشا ء تو یہ ہے کہ چو نکہ انسا نی ضرورت مختلف ہو تی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چا ر تک اجا زت دی ہے ایسے لو گ جو ایک اعتر اص کو اپنی طر ف سے پیش کر تے ہیں اور پھر وہ خو د اسلا م کا دعو یٰ بھی کر تے ہیں میں نہیں جا نتا کہ ان کا ایما ن کیسے قا ئم رہ جا تا ہے ۔وہ تو اسلا م کے معتر ض ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانو ن بنا نے وقت کن کن با تو ں کا لحا ظ ہو تا ہے ۔ بھلا اگر ایک شخص کی بیو ی ہے اسے جذا م ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اند ھی ہو گی ہے یا اس قا بل ہی نہیں کہ اولا د اس سے حا صل ہو سکے وغیر ہ وغیر ہ عوارض میں مبتلا جا وے تو اس حا لت میں اب اس خا وند کو کیا کر نا چا ہیئے کیا اسی بیو ی پر قنا عت کر ے ؟ایسی مشکلا ت کے وقت کیا تد بیر پیش کر تے ہیں ۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معا شی زنا وغیر ہ میں مبتلا ہو گئی تو کیا اب اس خا وند کی غیر ت تقا ضا کر ے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیو ی کا خطا ب دیرکھے ؟ خدا جا نے یہ اسلا م پر ا عتر اض کر تے وقت اند ھے کیو ں ہو جا تے ہیں ۔ یہ با ت ہما ر ی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسا نی ضروریا ت کو ہی پو را نہیں کر سکتا ۔ اب ان مذکو رہ حا لتو ں میںعیسویت کیا تدبیر بتا تی ہے ؟ قر آن کی عظمت ثا بت ہو تی ہے کہ انسا نی کو ئی ایسی ضر ورت نہیں جس کا پہلے ہی اس نے قا نو ن نہ بنا دیا ہو ۔ اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلا ت کی وجہ سے کثر ت از دواج اور طلا ق شروع ہو تی جا تی ہے ۔ ابھی ایک لا رڈ کی با بت لکھا تھا کہ اس نے دوسر ی بیو ی کر لی آخر اسے سزا بھی ہو ئی مگر وہ امریکہ میںجا رہا ۔
غو ر سے دیکھو کہ انسا ن کے واسطے ایسی ضر ور تیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیا دہ بیو یا ں کر لی جب ایسی ضرور تیں ہو ں اور انکا علا ج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پو را کر نے کو قر آن شر یف جیسی اتم اکمل کتا ب بھیجی ہے ۔
شر اب کی مضّرت
اسی اثنا میں شر اب کا ذکر شر وع ہو گیا ۔ کسی نے کہا کہ اب تو حضو ر شر اب کے لسبکٹ بھی ایجا د ہو ئے ہیں فر ما یا :۔
شراب تو انتہا ئی شر م ۔حیا ۔عفت ۔ عصمت کی جا نی دشمن ہے انسا نی شر افت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتے ۔ بلے ۔ گد ھے ہو تے ہیں ۔ اس کا پیکر با لکل انہی کے مثابہ ہو جا تا ہے ۔ اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں نا کر دہ گنا ہ بھی ان میں شا مل ہو جا یا کر یں گے ۔ پہلے تو بعض کو شر م وحیا ہی روک دیتی تھی۔ اب بسکٹ لیے اور جیب میں ڈال لیے ۔ با ت یہ ہے کہ وجا ل نے تو اپنی کو ششو ں میں تو کمی نہیں رکھی کہ دنیا کو دفسق وفجو ر سے بھرد ے مگر آگے خدا کے ہا تھ میں ہے جو چاہے کر ے ۔اسلا م کی کیسی عظمت معلو م ہو تی ہے ایک حد یث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلا م پر کو ئی اعر اض کیا ۔ اس سے شر اب کی بد بو آئی ۔ اس کو حد ما ر نے کا حکم دیا گیا کہ شر اب پی کر اسلا م پر اعر اض کیا ۔ مگر اب تو کچھ حد وحسا ب نہیں ۔ شراب پیتے ہیں۔ زنا کر تے ہیں ۔ غر ض کو ئی بد ی نہیں جو نہ کر تے ہو ں مگر با یں ہمہ پھر اسلا م پر اعر اض کر نے کو تیا ر ہیں۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۸ صفحہ ۱۴ ۔۱۵ مو ر خہ ۲۸ ـــفر وری ۱۹۰۳ء؁)
۲۳ فر وری ۱۹۰۳ ء؁
(ظہر سے پہلے)
بنی اسر ائیل اور انکے مثیل ۔
فر ما یا :۔
جس طر ح اللہ تعا لیٰ نے فضائل میں اس قو م اسلا م کو امت مو سیؑ کا مثیل بنا یا ہے ایسے ہی زوا ئل بھی کل وہ اس قو م میں جمع ہیں جو ان میں پا ئے جا تے تھے ۔ یہ قو م تو یہو د کے نقش قد م پر ایسی چلی ہے جیسے کو ئی اپنے آقا ومو لی ٰمطا ع رسو ل کی پیر وی کر تا ہے یہو د کے واسطے قر آن شر یف میں حکم تھا کہ وہ دود فعہ فسا د کر یں گے اور پھر ان کی سزا وہی کے واسطے اللہ تعا لیٰ اپنے ان پر مسلط کر ے گا۔ چنا نچہ بخت نصر اور طیطوس دو نو نے ان لو گو ں کو بر ی طرح ہلا ک کیا اور تبا ہ کیا ۔ اس کی مما ثلث کے لیے اس قو م میں نمو نہ مو جو د ہے کہ جب یہ فسق وفجو ر میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکا م کی ہتک اور شعا ئر اللہ سے نفر ت میں ان آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزنیت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعا لیٰ نے ان کو بھی اسی طر ح ہلا کو چنگنیرخا ں وغیر ہ سے بر با د کر ایا ۔ لکھا ہے کہ اس وقت یہ آسما ن سے آواز آتی تھی
ا یھاالکفا ر اقتلو االفجار
غر ض فا سق فا جر انسا ن خدا کی نظر میں کا فر سے ذلیل اور قا بل نفر ین ہے ۔ اگر کو ئی کتا ب قر آن شر یف کے بعد نا زل ہو نے والی ہو تی تو ضر ور ان لو گو ں کے نا م بھی اسی طر ح عبا د النا میں دا خل کئے جا تے ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ آخر کا ر بخت نصر یا اسکی اولا دیت پر ستی وغیر ہ سے با ز آکر وا حد پر ایما ن لا ئی ہے اسی طرح ادھر بھی چنگنیرخا ں کی اولاد مسلما ن ہو گئی ۔ غر ض خدا نے مما ثلث میں طا بق النعل والا صاحب معا ملہ کر کے دکھا دیا ہے ۔
عا دل گو ر نمنٹ
بعض با د شا ہو ں کی معد لت گستر ی کے متعلق ذکر ہو ا ۔ آپ نے فر ما یا کہ:۔
ہما ری گو ر نمنٹ ہم نے اسے غو ر دیکھا ہے کہ نا زک معا ملا ت میںبھی بلا تحقیق کے کو ئی کا ر گذار ی نہیں کر تی ۔ بغا وت جیسے خطر نا ک معا ملا ت میں تو بلا تحقیق اور فر وجر م اور ثبو ت کے سوا گر فت نہیںکی جا تی ۔تو دوسر ے معا ملا ت میں بھلا کہا ں ایسا کر نے لگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اور حکا مِ وقت ہیں کہ انکے نزدیک بہم پہنچایا جا وے یا کو ئی لمبی تحقیقا ت کی جا وے ۔ دیکھئے ہما را مقد مہ پا دری والا بھی تو ایک بغا وت کے پہ رنگ میں تھا۔ کیو نکہ ایک پا دی نے جو ان کے مذ ہب کا لیڈرا ور گروما نا جا تا تھا ۔اس نے ظا ہر کیا تھا کہ گو یا ہم نے اس کے قتل کا منصوبہ کیا ہے اور پھر اس پر بڑ ے بڑے اور پا دریوں کی سفا رشیں بھی مگر بلا تحقیق کے ایک قد م بھی نہ اٹھا یا گیا اور آخر کا ر قو م کی پر واکر کے ہمیں بر ی کیاگیا ۔ غر ض یہ بھی ہم پر خدا کا ایک فضل ہے۔ کہ ایسی عا دل گو ر نمنٹ کے ما تحت ہیں ۔
(دربا ر شا م)
مسؑیح کی آمدِ ثانی
امریکہ کے ایک انگریز کا اشتہار سنایا گیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مسیحؑ کی دوبارہ آمد کایہی وقت ہے ۔وہ کل نشانات پورے ہوگئے جو آمد ِثانی کے پیش خیمہ تھے اور اس نے اس بیان کو بڑے بشپوں اور فلاسفروں کی شہادتوں سے قویٰ کیا ہے
حضر ت اقد س نے فر ما یا کہ :۔
اصل میں ان کی یہ با ت کہ مسیحؑ کی آمد ثا نی کا وقت یہی ہے۔ اور اس کے آنے کے تما م نشا نا ت پو رے ہو گئے ہیں ہما رے منشا ء کے مطا بق ہے اور راستی بھی اس میں ہے ان کی وہ با ت جو حق ہو ا جہا نتک وہ راستی کی حما یت میں ہو ا سے ردنہ کر نا چا ہیئے۔ یہ لو گ ایک طر ح سے ہما ر ی خد مت کر ر ہے ہیں ۔ اس ملک میں جہا ں ہما ری تبلیغ بڑی محنت اور صر ف کثیر سے بھی پو ر ی طر ح سے کما حقہ نہیں پہنچ سکتی ۔ وہا ں یہ ہما ری اس خد مت کو مفت اچھی طر ح سے پو را کر رہے ہیں ۔ انہو ں نے و قت کی تشخیص تو با لکل راست کی ہے۔ مگر نتا ئج نکا لنے میں سخت غلطی کر تے ہیں جو آنیو الے کی انتظا ر آسمان سے کر تے ہیں ۔
ہر سچے نبی کیسا تھ کو ئی نہ کو ئی جھو ٹا نبی آتا ہے ۔
اب آئے دن سنا جا تا ہے کہ کسی نے دعو یٰ کیا ہے کہ میں ہی مسیحؑ ہو ںہو جو آنیو الا تھا یا میں مہد ی ہو ں جس کا انتظار کیا جا تا تھا۔یہ سب کچھ ہما راے لیے مضر نہیں ہیں یہ تو ہما ری صدا قت کو اور بھی دوبالا کر کے دکھا تا ہے کیو نکہ مقا بلہ کے سو ا کسی کی بھلا ئی یا برائی کا پو را اظہا ر نہیں ہو سکتا ۔ یہ لو گ د عو یٰ کر تے اور چند روز پا نی اور جھا گ والا معا ملہ کرکے دنیا سے ر خصت ہو جا تے یا پا گل خا نہ کی سیر کو عوا نہ کئے جا تے ہیں۔ یہ ہما ری صداقت پر مہر ہیں۔ ہر نبی کے سا تھ کو ئی نہ کو ئی جھو ٹا نبی بھی آتا ہے چنا نچہ ہما رے نبی ﷺ کے وقت میں چا ر شخص ایسے تھے ۔ اسی طر ح اس زما نہ کے لیے بھی تھا بہت سے جھو ٹے نبی آویں گے سو یہ لو گ خو د ہی پیشگو ئی کو پو را کر تے ہیں بھلا کو ئی نتا وے کہ وہ مہد ی سو ڈانی اب کہا ں ہے ؟ یا پیرس کا مسیح کیا ہو ا ؟ انجا م نیک صر ف صا د ق ہی کا ہو تا ہے ۔ سا ر ے جھو ٹے اور مصنو عی آخر تھک کر رہ جا تے یا ہلا ک ہو جا تے ہیں اور جھو ٹ کے انجا م کا پتہ دوسر و ں کے لیے بطور عبرت کے چھو ڑجا تے ہیں۔
۶ ما رچ لیکھر ا م کے قتل کا دن
لا ہور کے آریہ تپر کا نے لکھا ہے کہ ہما را شہید ما رچ کی ۶ کو ایک بزدل مسلما ن کے ہا تھ سے ما را گیا تھا اس دن کی یا د گا ر قا ئم کر نی چا ہیئے کہ وہ دن بڑا متبر ک جا ننا چا ہیئے ۔ اس پر آپ نے فر ما یا کہ ۔
اصل میں ہما رے یہا ں کے آریہ بھو ل گئے۔ ان کو بھی چا ہیئے تھا کہ ۶ ما ر چ کا دن جلسہ کے واسطے مقر ر کر تے اور ان لو گو ں کو تو خصو صیت سے اس دن کی تعظیم کر نی چا ہیئے کیو نکہ لیکھر ام اصل میں اس جگہ سے یہ تبر کا ت لے گیا تھا ۔
تمبا کو نو شی مضر ت
ایک شخص نے امر یکہ سے تمبا کو نو شی کے متعلق اس کے بہت سے محبر ب نقصان ظا ہر کر تے اشتہا ر دیا ۔ اس کو آپ نے سنا ۔ فر ما یا کہ :۔
اصل میں ہم اس لیے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑکے ،نو جو ا ن تعلیمیا فتہ بطو ر فیشن ہی کے اس بلا میں گر فتا ر و مبتلا ہو جا تے ہیں تا وہ ان با تو ں کو سنکر اس مضر چیزکے نقصا نا ت سے بچیں ۔
فر ما یا ۔ اصل میںتمبا کو ایک دھواں ہو تا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے اسلا م لغو کا مو ں سے منع کر تا ہے اور اس میں نقصان ہی ہو تا ہے لہذااس سے پر ہیزہی اچھا ہے ۔
پیشگو ئیا ں ہستی با ریتعاا لیٰ کے متعلق معرفت بخشتی ہیں
اللہ تعالیٰ کی ہستی جس طر ح سے پیشگوئی دلا تی ہے ایسا اور کو ئی سچا علم نہیں معرفت کو زیا دہ کر نے کا صف یہی ایک طر یق ہے ۔ ہما ری نسبت بھی اللہ تعا لیٰ نے بر اہین احمد یہ میں فر ما یا ہے ۔
کہ تیر ی صداقت کو پیشگوئی کے ذریعہ سے ظا ہر کر و ں گا ۔
پنڈت دیا نند اور نیو گ
مجھے ایک دفعہ یہ خیا ل آیا کہ کیا وجہ تھی کہ د یا نند نے نے حیا ئی اور بے غیر تی کا مسئلہ نکالا ۔جسے کو ئی شر یف آریہ بھی بطیب خا طر پسندنہیں کر تا ۔ بلکہ اس کا نا م سنکر گرد ن نیچی کرلیتا ہے او ر چا ہ ندا مت میں غر ق ہو جا تا ہے تو میر ی سمجھ میں آیا کہ چو نکہ وہ شخص بغیر بیو ی کے تھا اس واسطے وہ سا رے اخلا ق جو بیو ی کے ہو نے سے وابستہ ہیں ان سب سے وہ محر م تھا ۔ غیر ت اور حمیت بھی کر سکا اور نہ سمجھا کہ اس طر ح سے میں ہزاروں لو گو ں کے گلے پر چھر ی پھیرتا ہو ں ۔یہی وجہ تھی ورنہ اگر اس کے عیا ل ہو تے وہ ہر گز ایسی بے عزتی کو روانہ رکھتا اب بہت سے شر یف آریہ ہیں جو اسے گلے پڑا ڈھو ل سمجھ کر ہی صر ف زبا ن سے ما ن لیتے ہیں ورنہ عملدرآمد بہت ہے ۔ (الحکم جلد ۷ نبمر صفحہ ۱۵ ۔۱۶ مو ر خہ ۲۸ فر ور ی۱۹۰۳ء؁)
۲۷ فر ور ی۱۹۰۳ء؁
(قبل از عصر)
مو لو ی عبد الکر یم صا حب نے عر ض کی کہ حضو ر اردو کتا بو ں کا تو کبھی بھی پر وف نہیں آتا ۔ فر ما یا :۔
اردو میں پنجابی الفاظ کا استعمال
اردوکیا بھیجنا ہو تا ہے وہ تو صا ف ہو تا ہے ۔ ہا ں بعض نا دا ن اتنا اکثر اعتر اض کر دیا کر تے ہیں۔ کہ اردو میں پنجا بی ملا دیتے ہیں مگر یہ ان کی غلطی ہے ۔ ایک شخص نے میر ی طر ف سے کسی ایسے ہی معتر ض کو جو اب دیا کہ تم انصا ف کر وکہ ا گر وہ اردو میں پنجا بی کے ا لفا ظ ملا د یتے ہیں تو غضب کیا ہو ا ۔؟ ان کی ملکی اور ما دری زبا ن ہے اس کا کیا حق نہیں ؟ جب وہ انگر یزی یاعر بی اور دوسر ے کی زبا ن کا لفظ اردو میں ملا تے ہیں تو تم اعتر ا ض نہیں کر تے مگر جب کو ئی پنجا بی کا لفظ مل جا وے تو اعتر ا ض کر تے ہو ۔ شر م توکر و ۔ اگر تعصب نہیں تو کیا ہے
(دربا ر شا م )
اپنا بو جھ خو د اٹھائیں
ایک شخص نے خط لکھا تھا کہ حضو ر مجھے کر ایہ بھیجا جا وے ۔ میں حا ضر خد مت ہو ں گا ۔ فر ما یا :۔
من جر ب المجر ب حلت بہ الند امہ ۔
ہم نے با ر بار ایسے لو گو ں کا تجربہ کر لیا ہے ان میں اخلا ص اور نیک نیتی نہیں ہو تی تو کیا ضر ور ت ہے کہ اس طر ح میر ا روپیہ ضا ئع کیا جا ئے وہی روپیہ دینی کا م میں خر چ ہو گا ۔ ایسا شخص جو معزز ہے وہ ہما رے حا فظ معین الد ین سے بھی گیا گذرا ہے یہ بھی ہمیںقر یبا پند رہ یا بیس روپے دے چکا ہے کبھی دو آنے اورکبھی ایک آنہ ما ہو ار دیتا ہے۔ تو ایسے بیکس شخص جب لنگر اور دیگر اخراج ت کے واسطے کچھ دے سکتے ہیں۔ تو وہ شخص کیو ں اپنا بو جھ نہیں سنبھال سکتا ؟ اور شر لعیت نے تو بو جھ بھی نہیں ڈا لا ۔ حج کی تو فیق نہ ہو تو حج بھی سا قط ہو جا تا ہے اسی طر ح اس جگہ بھی گھربٹھیے بٹھا ئے بیعت ہو سکتی ہے صر ف ایک پیسہ کا کا رڈ صر ف ہو تاہے ۔
رات کی فضیلت
فر ما یا :۔
میںنہیں سمجھتا کہ رات اور دن میں فر ق ہی کیا ہے ۔ صر ف نو را ور ظلمت کا فر ق ہے سو وہ نو ر مضو عی بن سکتا ہے بلکہ رات میں کو تو یہ ایک بر کت ہے۔ خدا نے بھی اپنے فیضا ن عطا کر نے کا وقت را ت ہی رکھا ہے چنا نچہ تہجد کا حکم را ت کو ہے ۔ رات میں دوسر ی طر فو ں سے فر اغت اور کش مکش سے بے فکر ی ہو تی ہے اچھی طر ح دلجمعی سے کا م ہو سکتا ہے رات کو مر دہ کی طر ح پڑے رہنا اور سو نے سے کیا حا صل ؟
انسا ن کی خو ش قسمتی
اگر ہو سکے تو د ین کی خد مت کر نی چا ہیئے اس سے زیا دہ خو ش قسمتی اور کیا ہے کہ انسا ن کا وقت ، وجو د ،قو یٰ ،ما ل ، جا ن خدا کے د ین کی خد مت میں خر چ ہو ۔ تو صر ف مر ض کے دورہ کا ا ند یشہ ہو تا ہے۔ ورنہ دل یہی کر تا ہے کہ سا ر ی سا ری رات کئے جا ویں۔ ہما ری تو قریبا تما م کتا بیں ا مر اض وعوا رض میں ہی لکھی گئی ہیں ازالہ وہا م کے وقت میں بھی ہم کو خا ر ش تھی ۔ قریبا ایک بر س تک وہ مر ض رہاتھا ۔
منشی اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے
اللہ اللہ ۔کیا ہی عمدہ قر آنی تعلیم ہے کہ انسا ن کی عمر کو خبیث اور مضر اشیا ء کے ضر ر سے بچا لیا ۔ یہ منشی چیزیں شر اب وغیرہ انسا ن کی عمر کو بہت گھٹا د یتی ہیں ۔اس کی قو ت کو بر با د کر د یتی ہیں ۔ اور بڑھا پے سے پہلے بو ڑھا کرد یتی ہیں ۔ یہ قر آنی تعلیم کا احسا ن ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گنا ہ کے ا مر اض سے بچ گئی جو ان نشہ کی چیزیں سے پیدا ہو تی ہیں ۔
قادیا ن کے آریہ سما ج کے جلسہ پر جو آریہ آئے تو ان کی گندہ دہنیسوں اور گا لی گلو چ کا کسی نے حضر ت ا قد س کی خد مت میں ذکر کیا۔ فر ما یا کہ :۔
زبا ن کی تہذیب کا ذریعہ
انسا نی زبا ن کی چھر ی تو رک سکتی ہی نہیں ۔ جب خدا کاخو ف کسی دل میں نہ ہو ۔انسانی زبا ن کی بے با کی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کا دل سچے تقویٰ سے محر وم ہے ۔ زبا ن کی تہذیب کا ذریعہ صر ف الہیٰ اور سچا تقو یٰ ہے ۔ ان کی گا لیو ں پر ہمیں کیا افسو س ہو ۔انہوں نے تو نہ خدا کو سمجھا اور نہ حق العبا د کو ۔ ان کو خبر نہیں کہ زبا ن کس چیز سے رُکتی ہے ۔
تما م قوت اور تو فیق خدا ہی کو ہے۔ اور اس کی عنا یت اور نصر ت سے ہی انسا ن کچھ لکھ پڑھ سکتاہے ۔ شا ید اس کتا ب کے خا تمہ کے لکھے جا نے سے اس قوم کی قو ت وہمت اور دلا ئل کا خا تمہ ہو جا وے ۔
صاد ق کی مخا لفت کا راز
میں نے کل سو چا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ جب کو ئی صاد ق خدا کی طر ف سے آتا ہے تو اس کو لو گ کتو ں کی طر ح کا ٹنے کو دوڑتے ہیں ۔ اس کی جا ن ۔ اس کا ما ل ۔ اس کی عزت وآبر و کے درپے ہو جا تے ہیں ۔مقدمات میں اس کو کھینچتے ہیں ۔گو ر نمنٹ کو اس سے بد ظن ر تے ہیں غر ض ہر طر ح ان سے بن پڑتا ہے اور تکلیف پہنچا سکتے ہیں اپنی طر ف سے کو ئی کسر با قی نہیں رکھتے۔ ہر پہلو سے اس کے استیصا ل کر نے پر آما دہ اور ہر ایک کما ن سے اس پر تیر ما ر نے کو کمر بستہ ہو تے ہیں۔ چا ہتے ہیں کہ ذبح کر دیں اور ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر کے قیمہ کر دیں ۔ادھر تویہ جو ش اٹھتا ہے مگر دوسر ی طر ف اس کے پا س ہزار دو ہزار لو گ آتے ہیں ۔ہزاروں کنجراور لنگو ٹی پو ش فقیر بنتے اور خلق اللہ کو گمر اہ کر تے ہیں مگر ان لو گو ں کو قتل اور کفر کا فتو یٰ کو ئی نہیں دیتا ان کی ہر حر کت بد عت اور شر ک سے پر ہو تی ہے ۔ ان کا کو ئی کا م ایسا نہیں ہو تا جو سر اسر اسلا م کے خلا ف نہ ہو۔ مگر ا ن پر کو ئی اعتر اض نہیں کیا جا تا ۔ ان کے لیے کسی دل میں جو ش نہیں اٹھتا غر ض اس میں سو چتا تھا کہ کیا حکمت ہے تو میر ی سمجھ میں آیا کہ اللہ تعا لیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ صادق کا ایک معجزہ ظاہر کرے۔ باوجود اس قسم کی ممانعت کے اور دشمن کے تیر وتبر کے چلانے کے صا د ق بچایا جا تا اور اسکی روزافزوں تر قی کی جا تی ہے خدا کا ہا تھ اسے بچا تا اور اس کو شا دا ب وسر سبز کر تا ہے ۔ خدا کی غیر ت نہیں چا ہتی کہ کا ذب کو بھی اس معجز ہ میں شریک کر ے ۔ اسی واسطے اس طر ف سے دنیا کے دلو ں کو بے پر وا کر دیتا ہے ۔ گو یا اس جھو ٹے کی کسی کو پروا نہیں ہو تی ۔ اس کا وجو ددلو ں کو تحر یک نہیں دے سکتا ۔ مگر بر خلا ف اس کے صا دق کا وجود تبا ہ ہو نے والے دلو ں کو نے قرا ر اور بے چین کر کے ایک رنگ میں ایک طر ح سے خبر دیتا ہے اور ان کے دل نے قرا ر ہو تے ہیں ۔کیو نکہ دل اندرہی ندر جا نتے ہیں کہ یہ شخص ہما را کا روبا ر تبا ہ کر نے آیا ہے ۔ اس واسطے نہا یت اضطر اب کی وجہ سے اس کے ہلا ک کر نے کو اپنے تما م ہتھیا روں سے دوڑتے ہیں مگر اس کا خدا خود محافظ ہو تاہے ۔ خدا اس کے واسطے طا عون کی طر ح وا عظ بھیجتا اور اس کے دشمنو ں کے واعظو ںپر ا سے غلبہ دیتا ہے ۔ وہ خدا کے واعظ کا مقا بلہ نہیں کر سکتے۔ اب دیکھیئے کہ اتنے لوگ جو ہر جمعہ کو جن کی نوبت اکثر پچاس ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے اُن کو کون بیعت کے لیے لا تا ہے ؟یہی طا عو ن کا ڈنڈاہے جو ان کو ڈرا کر ہما ری طرف لے آتا ہے ورنہ کب جا گنے والے تھے اسی فر شتہ نے ان کو جگا یا ہے۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۹،۱۰مو رخہ ۱۰ما رچ ۳ ۱۹۰ ء؁)
۲۸ فر وری ۱۹۰۳ ء؁
(دربا ر شام)
دربا ر شام میں آر یہ لو گو ں میں سے چند لو گ حضر ت اقد س کی زیا رت کے واسطے آئے ۔حضر ت نے پو چھا آ پ بھی جلسہ کی تقریب پر آئے ہیں ؟ انہو ں نے کہا حضو ر ہم لو گ تو اصل میں یہ با ت سنکر آئے ہیں کہ آپ کا بھی لیکچر ہو گا ورنہ ہما ری اس جگہ آنے کی چند اں خو اہش نہ تھی ۔
حضر ت اقد س نے فر ما یا کہ
مذہبی مبا حثا ت کے آداب
اصل با ت یہ ہے کہ ہم جا نتے ہیں کہ ہر قو م میں کچھ شر یف لو گ بھی ہو تے ہیں جن کا مقصد کسی بے جا حقا رت یا کسی کو بے جا گا لی گلو چ دینا یا کسی بزرگو ں کو بر ا بھلا کہنا ان کا مقصد نہیں ہو تا ۔مگر ہم تو جو کا م کر تے ہیں وہ خد ا تعا لیٰ کے حکم اور اسکی اجا زت اور اس کے اشارہ سے کر تے ہیں۔ اس نے ہمیں اس قسم کے زبا نی مبا حثا ت سے رو ک دیا ہو ا ہے چنا نچہ ہم کئی سا ل ہو ئے کہ کتا ب انجا م آتھم میں اپنا یہ معاہد ہ شا ئع بھی کر چکے ہیں اور ہم نے خدا سے عہد کیا ہے زبا نی مباحثات کی مجا لس میں نہ جا ویں گے ۔آپ جا نتے ہیں کہ ایسے مجمعو ں میں مختلف قسم کے لو گ آتے ہیں۔ کو ئی تو محض جا ہل اور دھڑے بندی کے خیا ل پر آتے ہیں کو ئی اس واسطے کہ تا کسی کے بزرگو ں کو گا لی گلو چ دیکر دل کی ہو س پو ری کرلیں اور بعض سخت تیز طبیعت کے لو گ ہو تے ہیں۔ سو جہا ں اس قسم کا مجمع ہو ا یسی جگہ جا کر مذہبی مباحثات کر نا بڑا نا زک معا ملہ ہے ۔کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب دو شخص مقابل میں کھڑے ہوتے ہیں جب تک وہ ثابت کرکے نہ دکھادیں کہ دوسرا مذہب بلکل غلطی پر ہے اور اس میں صداقت اور روحانیت کا حصہ نہیں وہ مردہ ہے اور خدا سے اسے تعلق نہیں ہے تب تک اس کو اپنے مذہب کی خوبصورتی دکھانی مشکل ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسرے کے معائب کا ذکر کرناہی پڑے گا۔جو غلطیاںہیں اس میں اگر ان کا ذکر نہ کیا جاوے تو پھر اظہارِ حق ہی نہیں ہوتاتو ایسی باتوں سے بعض لوگ بھڑک اٹھتے ہیں ۔وہ نہیں برداشت کرسکتے۔طیش میںاکر جنگ کرنے کو آمادہ ہوتے ہیں لہٰذا ایسے موقہ پر جانا مصلحت کے خلاف ہے اور مذہبی تحقیقات کے واسطے ضروری ہے کہ لوگ ٹھنڈے دل اور انصاف پسند طبیعت لے کر ایک مجلس میں جمع ہوں۔ایسا ہو کہ ان میں کسی قسم کے جنگ و جدال کے خیالات جوش زن نہ ہو ں۔تو بہتر ہو پھر ایسی حالت میں ایک طرف سے ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور جہاں تک وہ بول سکتا ہے نولے پھر دوسری طرف سے جانبِ مقابل بھی اسی طرح نرمی اور تہذیب سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اسی طرح بار بار ہو تا ہے کہ افسوس کہ ابھی تک ہمارے ملک میںاس قسم کے متحمل لوگ اور صبر اور نرم دلیِ سے تحقیق والے نہیں ہیں ابھی ایسا وقت نہیں ایا ہاں امید ہے کہ خدا جلدی سے ایسا وقت لے اوے گا ہم نے تو ایسا ارادہ بھی کیا ہے کہ یہاں ایک ایسا مکان تیار کرایاجائے جس میں ہر مذہب کے لوگ ازادی سے اپنی تقریریں کر سکیں۔درحقیقت اگر کسی امر کو ٹھنڈے دل اور انصاف کی نظر بردباری نہ سناجاوے تو اس کی سچی حقیقت اور تہ تک پہنچنے کے واسطے ہزاروں مشکلات ہوتے ہیں۔دیکھئے ایک معمولی چھوٹاسا مقدمہ ہوتا ہے تو اس میں جج کس طرح طرفین کے دلائل ،انکے عذر وغیرہ کس ٹھنڈے دل سے سنتا ہے اور پھر کس طرح سوچ بچارکر پوری تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا ہے بعض اوقات سال ہی گذرجاتے ہیں جب دنیا کے مقدمات کا یہ حالہے تو دین کے مقدمات کا کیونکر دو چار دس بارہ منٹ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے سائل کو سوال کرنا تو آسان ہے مگر جواب دینے والے کو جو مشکلات ہوتی ہیں انکا اندازہ کرنامشکل ہے ایک شخص اعتراض کردیوے کہ نظام شمس کے متعلق اور ستا رو ں اورزمین کے متعلق حا لا ت مجھے بتا دو اور جتنے وقت میں میںَ نے سوا ل کیا ہے اتنا ہی وقت دیا جا تا ہے کہ اتنے وقت کے اند را اند رجو اب دو ۔ ورنہ تم جھو ٹے ہو ۔ اب صا ف عیا ں ہے کہ جوا ب دنیے والا کیا کر ے ۔ وہ جب تک کئی جز کی کتا ب نہ لکھے تک جوا ب پو را نہ ہو نا ہو ا۔غر ض اس طر ح کی مشکلا ت ہیں جو ہم کو درپیش ہیں ۔یہ وجو ہ ہیں جو ہمیں ان جلسو ں میں جا نے سے روکتے ہیں ۔
تلا شِ حق کے آدا ب
اگر سا ئل ایسا کر ے کہ لو صا حب میں سوا ل کیا ہے تم جتبک اس کا جو اب کا مل کر و مَیں خا مو ش ہو ں تو جو اب دینے والے کو بھی مزہ آوے ۔ اصل میں جو با تیں خدا کے لیے ہو ں اور جو دل خدا کی رضا کے واسطے ایسا کر تا ہے اور اس کا دل سچے تقوی سے پر ہے وہ تو کبھی ایسا کر تا نہیں ۔ مگر آج کل زبا ن چھر ی کی طر ح چلتی ہے اور صر ف ایک حجت با زی سے کا م لیا جا تا ہے خدا کے لیے ایسا ہو گا تو وہ با تیں اور وہ طرزہی اور ہو تی ہے جو دل سے نکلتاہے وہ دل ہی پر جا کر بیٹھتا ہے۔حق جُو کے سو ا ل کی بھی ہم کو خوشبو آجا تی ہے ۔حق جو ہو تو اس کی سختی میں بھی ایک لذت ہو تی ہے ۔اس کا حق ہو تا ہے کہ جو امر اس کی سمجھ میں نہیں آیا ۔اس کے متعلق اپنی تسلی کرائے اور جب تک اس کی تسلی نہ ہو اور پو رے دلا ئل نہ مل جا ویںتب تک بیشک وہ پو چھے ہمیں بر ا نہیں لگتا ۔بلکہ ایسا شخص تو قا بل عزت ہو تا ہے جو با تیں خدا کیلیے ہو تی ہیں وہ کیا ں اور نفسا نی ڈھکو نسلے کہا ں؟
اعتراض کر نے میں جلدی نہ کرو
میں نے اپنی جما عت کو بھی با ر ہا سمجھایا کہ کسی پر اعتراض کر نے میں جلدی نہ کرو ہر پرانا مذہب اصل میں خدا ہی کی طر ف سے تھا مگر زما نہ دراز گذرنے کی وجہ سے اس میں غلطیا ں پڑگئی ہیں ۔ان کو آہستگی اور نر می سے دور کر نے کی کو شش کر و کسی کی طر ح اعتر اض کا تحفہ نہ دو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک کپڑا با ز ار سے لے کر سلا یا جا تا اور پہنا جا تا ہے چند روز کے بعد وہ پر انا ہو جا تا اور اس میں تغیر آکر کچھ اور کا اور ہی ہو جا تا ہے
سچے مذہب کی علا ما ت
اسی طر ح پر انے مذہب میں بھی صدا قت کی جڑ ضر ور ہو تی ہے۔ خدا راستی کے سا تھ ہو تا ہے اور سچا مذہب اپنے اندرزندہ نشا ن رکھتا ہے۔ کیو نکہ درحت اپنے پھلو ں سے شنا خت ہو تا ہے ۔گو رنمنٹ جو اس ورا ء الو را ء ہتی کا ایک نہا یت کمزور سا ظِلّ ہے خو د کسی جگہ حا کم مقر رفر ما یا ہو تا ہے۔ وہ کس دلیر ی سے کا م کر تا ہے اور ذرا بھی پو شید گی پسندنہیں کر تا ۔ مگر وہ ایک مضو عی ڈپٹی کمشنر یا تھا نہ دار وغیرہ جو جعلی طو ر کسی جگہ خود بخود حا کم بن کر لو گو ں کو دھو کہ دیتے ہیں ۔کیا وہ گو رنمنٹ کے سا منے ہو سکتے ہیں ؟ جب گو رنمنٹ کو یہ پتہ لگے گا اس کو ذلیل کر ے گی اور وہ ہتھکڑی لگ کر جیل خا نہ میں یا اور سزا ملے گی ۔ یہی حا ل ہے مذہبی راستی کا ۔جو خدا کی نظر میں صا دق ہو تا ہے اسمیں خدا کے نشا ن اور جرات اور صدا قت کے آثار ہو تے ہیں وہ ہر وقت زندہ ہو تا ہے اوراس کی عزت ہو تی ہے ۔
متقی کا مقا م
اصل میں خدا سے ڈرنیو الے کو تو بڑی بڑی مشکلا ت ہو تی ہیں ۔انسا ن پا ک صا ف تو جب جا کر ہو تا ہے کہ اپنے ارادو ں کو اور اپنی با تو ں کو با لکل تر ک کر کے خدا کے رادو ں کو اسی کی رضا کے حصو ل کے واسطے فنا فی اللہ جا وے ۔خودی اور تکبر اور نخوت سب اس کے اندر سے نلک جا وے ۔ اس کی آنکھ ادھر دیکھے جد ھر خدا کا حکم ہو ۔اس کے کا ن ادھر لگیں جدھر اس کے آقا کا فر ما ن ہو ۔اس کی زبا ن حق وحکمت کے بیا ن کر نے کو کھلے ۔اس کے بغیر نہ لے جب تک اس کے لیے خدا کا ازن نہ ہو اس کا کھا نا ۔پہننا ۔سونا ۔پینا ۔مبا شر ت وغیرہ کر نا سب اس واسطے ہو کہ خدا نے حکم دیا ہے تب تک اس سرجہ تک نہیں پہنچتا کہ متقی ہو ۔پھر جب یہ خدا کے واسطے اپنے اوپر مو ت واردکر تا ہے خدا کبھی اسے دوسری مو ت نہیں دیتا ۔
مَیںنیک دل انسان کو دور سے پہچا ن لیتا ہو ں
آج کل د یکھاجا تا ہے کہ جب لَبْ کھو لا جا تا ہے ۔تو ان کی با تو ں میں سے سوا ئے ہنسی ٹھٹھے دکھا نے والے کلما ت کے کچھ نکلتا ہی نہیں جو کچھ بر تن میں ہو تا ہے وہی با ہر نکلتا ہے ۔ انکی زبا نیں ان کے اند رون پر گو اہی دیتی ہیں۔مَیں تو نیک دل انسا ن کو دور سے پہچا ن لیتا ہو ں جو شخص پا ک کر دار اور سلیم دل لے کر آتا ہے مَیںتوا سی کے دیکھنے کا شو ق رکھتا ہو ں ۔اس کی تو گا لی بھی بر ٰ معلو م نہیں ہو تی ۔ مگر افسو س کہ ایسے پا ک دل بہت کم ہیں ۔
صبر اور حلم کا نمو نہ
ایک آر یہ صا حب بو لے کہ ا صل میں حضو ر جا ہل دو ہی قو میں ہیں۔ آپ برا نہ ما نیں تو مَیں عر ض کر دو ں ۔اول تو سکھ دوسرے ہما رے یہ مسلما ن بھائی ۔
اس پر حضر ت اقدس نے فر ما یا کہ
دیکھئے ایک سمجھنے والے کے لیے جا ہل سے زیا دہ اور کیا گا لی ہو سکتی ہے۔ کسی شخص کو اس کے منہ پر جا ہل کہنا بہت سخت گا لی ہے مگر سو چو تو کیا حاضر ین میں کو ئی ایک بھی بو لا ہے ؟ کیا اب بھی تمہیں اس مجلس کی نر می اور تہذیب پر کچھ شک ہے ؟ بہت ہیں جو ہما رے منہ پر گا لیا ں دے جا تے مگر ان میں سے ایک کی بھی مجال نہیں ہو تی کہ دم ما ر کر اس کو کچھ بھی کہہ جا وے ۔
ہم ان کو دن رات صبر کی تعلم دیتے ہیں ۔نر می اور حلم سکھا تے ہیں ۔یہ وہ قو م نہیں کہ آپ کے اس اصو ل کی مصداق بن سکے ۔ہا ں ہم البتہ عوا م النا س لو گو ں کے ذمہ دار نہیں ہیں ہم تب ما نیں اگر کسی آریہ لو گو ں کے مجمع میں اس طر ح کہدیں تم جا ہل ہو اور وہ صبر کر رہیں اور ایک کی بجا ئے ہزارنہ سنا ئیںتو ۔
مسلما ن کے اخلا ق
آپ نے مسلما نو ں کو نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ نے ان کے اخلا ق دیکھے ہیں ۔ان کا اور ان آریو ں کا مقا بلہ کیا جا وے تو بکر ی اور بھیڑیئے کا معا ملہ نظر آوے ۔عوا م جو ہما رے زیر اثر نہیں ہیں ان کا ذمہ نہیں لیتے ۔گا لی اور جوش دلا نے والے الفا ظ سنکر صبر کر نا مر دوں کا کا م ہو تا ہے۔ اگر کو ئی ایسا کر کے دکھا وے تو ہم جا نیں ۔نر می ہی مشکل ہے سختی تو ہر ایک شخص کر سکتا ہے ۔
خدا تعا لیٰ عمر کو کم وبیش کر سکتا ہے
کسی صا حب نے بیا ن کیا کہ آریو ں نے لیکچر میں کہا کہ عمر کو کم وبیش کر سکتا ہے ۔فر ما یا :۔
ہما را تو اعتقادہے کہ وہ ہر چیزپر قا درہے ۔وہ عمر کو بھی کر سکتا ہے اور زیا دہ بھی کر سکتا ہے۔
یمحواللہ مایشا ء ویتبث(سورت الر عد :۴۰ )
اگر ایسا نہیں ہو تا وہ کیوں مر تے ہو ئے انسان سے صد قا ت کر اتے ہیں ۔اور کیوں علاج معا لجہ کرا تے ہیں ؟ بلکہ عیسا یئو ں کا بھی یہی اعتقا د ہے ان کی کتا بو ں میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی پند رہ دن کی عمر رہ گئی تھی دعا سے پند رہ سا ل ہو گئے ۔ اصل با ت یہ ہے کہ یہ قوم نبو ت کی را ہ سے با لکل محر وم ہو نے کی وجہ سے اس راہ اور علم سے جا ہل مطلق اسی وجہ سے ایسے اعتر اض کر تے ہیں ۔روحا نیت سے بے بہر ہ ہو نے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسے اعتر اض ہر گز نہ کر تے ۔ ما دہ زاداند ھے کو آنکھیں کیو نکر دیں ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۱۰ ۔۱۱ با بت ۱۰ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)
یکم مارچ ۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیر )
حضر ت نو اب محمد علی خا نصا حب کے متعلق ایک الہا م
نو اب صا حب کو مخاطب کر کے فر ما یا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصو یر ہما رے سا منے آئی اور اتنا لفظ الہا م ہو ا حجت اللہ یہ امر کو ئی ذا تی معا ملا ت سے تعلق نہیں رکھتا ۔اس کے متعلق یو ں تفہیم ہو ئی کہ چو نکہ آپ اپنی برادر ی اور قو م میں سے اور سو سا ئٹی میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعا لیٰ نے آپ کا نا م حجت اللہ رکھا یعنی آپ ان پر حجت ہو ں گے ۔قیا مت کے دن ان کو کہا جا وے گا فلا ں شخص نے تم سے نکل کر اس صدا قت کو پر کھا اور ما نا ۔تم نے کیو ں ایسا نہ کیا ؟ یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہا ری طر ح کا ہی انساب تھا چونکہ خدا تعا لیٰ نے آپ کا نا م حجت اللہ رکھا آپ کو بھی چا ہیئے کہ آپ ان لو گو ں پر تحریر سے تقریر سے ہر طر ح سے حجت پو ری کر دیں ۔ ۱ ؎ اصل میں اس سا ری قوم کی حا لت قا بل رحم ہے عیش وعشر ت میں گم ہیں دنیا کے کیڑے بنے ہو ئے ہیں اور فنا فی یو رپ ہیں ۔خدا سے اور آسما ن سے تعلق نہیں ۔جب کسی کو ایسی قوم میں سے نکا لتا اور اس کی اصلا ح کر تا ہے تو اس کا نام اس قوم پر حجت رکھتا ہے ۔ہما رے بنی ﷺ کو بھی اسی وجہ سے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے۔
وجئنا بک علی ھو لا ئشھیدا(نسا ء :۴۲)
آنحضرت ﷺکے پاس ایک شخص آیا تھا ۔اس نے کچھ کہا تھا تو آپ نے فر ما یا بس کر ۔اب تو مَیںاپنی ہی امت پر گواہی دینے کے قا بل ہو گیا ہو ں۔ مجھے فکر ہے کہ میر ی امت کو میر ی گو اہی کی وجہ سے سزا ملیگی ۔
کلمتہ اللہ کی حقیقت
حضر ت عیسؑی کو اللہ تعا لیٰ نے کلمتہ اللہ خصو صیت کے سا تھ کیو ں کہا ۔اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی ولا دت پر لو گ بڑے گندے اعتراض کر تے تھے اس واسطے اللہ تعا لیٰ نے ان کو ان الزامو ں سے بری کرنے کے لیے فر ما یا کہ وہ توکلمتہ اللہ ہیں۔ ۲ ؎ ان کی ما ں بھی صدیقہ ہے یعنی بڑی پا کبا ز اور عفیفہ ہے ور نہ یو ں تو کلمتہ اللہ ہر شخص ہے ان کی خصو صیت کیا تھی چنا نچہ اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے کلمے اتنے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہو سکتے انہی عتراضوں سے ہی بر ی کر نے واسطے اللہ تعا لیٰ نے ان کو کہا کہ وہ شیطا ن کے مَس سے پا ک تھے ورنہ کیا دوسرے انبیا ء شیطا ن کے ہا تھ سے مس شد ہ ہیں ؟ جو نعو ذبا للہ دوسرے الفا ظ میں یو ں ہے کہ ان پر شیطا ن کا تسلط ہو تا ہے ۔اللہ تعا لیٰ تو فر ما تا ہے کہ شیطا ن کو کسی معمولی انسا ن پر بھی تسلط نہیں ہو تا تو انبیا ء پر کس طر ح ہو سکتا ہے ؟ اصل وجہ صر ف یہی تھی کہ ان پر بڑے اعتر اض کئے گئے تھے ۔اسی واسطے ان کی بریت کااظہار فر ما یا جیسے کہ اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے۔
وما کفر سلیمن (البقرہ: ۱۰۳)
کو ئی کہے کہ کیا انبیا ء بھی کا فر ہو اکر تے ہیں ؟نہیں ایسا نہیں ۔لو گو ں نے ان پراعتراض کیا تھا کہ وہ بت پر ست ہو گئے تھے ایک عو رت کے لیے ۔اس ا عتراض کا جوا ب دیا یہی حا ل ہے حضر ت عیسیٰؑ کے متعلق۔
اس دن کی سیر کے دوران ایک اور ذکر بھی ہو ا جوالبد ر میں یو ں درج ہے :۔
چو نکہ آج کے د ن بھی آ ریہ سما ج کا جلسہ تھا اور کثر ت سے اس جلسہ میں شا مل ہو ئے تھے کہ حضر ت میر زا صا حب کی زیا رت ہو گی۔مگر جب ان کو معلو م ہو اکہ مبا حثہ کی خبر غلط شا ئع کی گیء ہے تو اب وہ لو گ حضر ت کی زیا رت کے لیے تو مسجد میں آتے رہے اور بعض سیر میں آکرملے ان میں سے بعض نے پھر در خوا ست کی کہ آپ جلسہ میں آکر گفتگو کر یں ۔حضر ت اقدس نے فرما یا کہ :۔
گا لی او ر بر محل با ت میں فر ق
مذہبی با تو ں کو علمی رنگ میں بیا ن کر نا چا ہیئے اور یہ تب ہو سکتا ہے کہ جب انسان کو گیا ن حا صل ہو ورنہ بلا سو چے سمجھے کہہ دنیے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلا کر تا ۔ہر ایک مذہب میں کھلی کھلی با ت اور گیا ن کی با ت بھی ہو تی ہے جبتک انسا ن نفس کو صا ف کر کے با ت نہ کر ے تو ٹھیک پتہ نہیں لگتا ۔آج کل ہا ر جیت کو مد نظر رکھ کر لو گ با ت کر تے ہیں ۔اس سے فسا د کا اندیشہ ہو تا ہے ۔
با ربار جہا د،طلا ق ،کثر ت ازدوج، کو پیش کیا جا تا ہے ۔حا لا نکہ ان کے بزرگ سب یہ با تیں کر تے آئے ہیں ۔یہا ں کے آریہ ہمیشہ میر ے پا س آتے ہیںاور سوا ل وجواب بھی ہو تا ہے لیکن آپس میں نا راضگی کبھی نہیں ہو تی بعض(دفعہ) با ت اپنے محل پر چسپا ں کہی جا تی ہے لو گ اسے غلط فہمی سے گا لی خیا ل کر لیتے ہیں ان کو یہ علم نہیں ہو تا کہ گا لی اور بر محل با ت میں فر ق کر سکیں ۔بات یہ ہے کہ جب انسا ن پرانے عقیدہ پر جما ہوا ہو تا ہے تو اس کے عقیدے کو جب دوسرا بیا ن کر تا ہے تو اسے گا لی خیا ل کر تا ہے ۔
اس موقعہ پرایک ہندونے کہا آپ نے بعض جگہ گا لیا ں دی ہو ئی ہیں ۔فر ما یا کہ
کو ئی ایسی با ت پیش کر و جو اپنے محل پر چسپا ں نہیں ہے۔اس لیے کہتا ہو ں زبا نی تقر یر یں اچھی نہیں ہیں۔ اور تحریر کرتا ہوں کہ ہر ایک پڑھ کراپنی اپنی جگہ پر رائے قا ئم کر لے اور جو اس کا جی چا ہے کہے چنا نچہ اس مو قعہ پر حضر ت نے اس ہند وکو تحفہ آریہ یعنی ’’ نسیم دعو ت‘‘ نئی تصیف دی کہ وتم اسے دیکھو اور بتلاو کو نسی با ت ہے جو اپنے محل پر چسپا ں نہیں ہے۔‘‘ (البدرجلد نمبر ۸صفحہ ۵۷ مو رخہ ۱۳ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)ـّ )ـ
(قبل ازظہر)
حضر ت اقدس کی زیا رت کے لیے کا شی رام ویدلا ہو ر سے اور بعض اور لو گ تشر یف لا ئے حضر ت اقدس نے مخاطب کر کے ان کو فر ما یا :۔
اختلا ف مذہب کی حکمت
ا ختلا ف مذاہب کا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت علمی سے رکھا ہے یہ بھی ایک عمدہ چیزہے۔ اس سے انسا نو ں کی عقل بڑھتی ہے دنیا میں اگر کسی معا ملہ میں اتفا ق بھی کر تے ہیں تو اس کی بار یک دربا ریک جز ئیوں تک پہنچنامحا ل ہو جا تا ہے اور جزئی درجزئی نکلتی چلی آتی ہے ۔ تبا دلہ خیا لا ت کے لیے مجمعوں میں تقریریں کر نی بھی اچھی چیز ہیں لیکن ابھی تک ہما رے ملک میں ایسے مہذب لو گ بہت ہی کم ہیں بلکہ نہیں ہیں جو آرام اور امن کے سا تھ اپنے مخا لف رائے سن سکیں۔
میں نے خود یہ چا ہا تھا اور میرا ارادہ ہے کہ قادیا ن میں ایک جگہ ایسی بنا ویں جہاں مختلف لو گ مذاہب کے جمع ہو کر ا پنے اپنے مذہب کی صد اقت اور خوبیو ں کو آزادی سے بیا ن کر سکیں ۔میں دیکھتا ہو ں کہ اگر اظہا ر حق کے لیے مبا حثے اور تقریریں ہو ں تو بہت اچھی با ت ہے مگر تجربہ سے ثا بت ہو گیا ہے کہ ان میں فتنی وفسا د کا مظنہ ہو تا ہے ہے اس لیے میں ان مبا حثو ں کو چھوڑدیا ہے ممکن ہے دو چا ر آدمی ایسے بھی ہو ں جو صبر اور نر می کے سا تھ اپنے مخالف کی بات سن لیے لیکن کثرت ایسے لوگوںکی ہوگی جو عوام الناس میں سے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مخالف کے منہ سے ایک لفظ بھی اپنے مذہب کے خلاف نہیں سن سکتے خواہ وہ کتنا ہی نر م کیو ں نہ ہو ۔چو نکہ جب مخالف بیا ن کر ے گا تو کو ئی نہ کو ئی لفظ اس کے منہ سے ایسا نکل سکتا جو اس کے فر یق مخالف کی غلطی کے اظہا ر میں ہو گا اور اس سے عو ام میں جو ش پھیل جا تا ہے ایسی جگہ تو تب امن رہ سکتا ہے جب سمجھانے والا سمجھنے والا اس طر ح بیٹھیں کہ جیسے با پ بیٹے میں کو ئی بر ائی دیکھتا ہے اور اس کو سمجھاتا ہے یو وہ نر می اور صبر سے اس کو سن لیتا ہے ایسی محبت کی کشش سے البتہ فائدہ ہو تا ہے غیظ وغضب کی حا لت میں یہ امید رکھنا کہ کو ئی فا ئد ہ ہو خام خیا ل ہے ۔
ہندواور مسلمانوں کے با ہم تعلقا ت میں ابتری
اب مشکل آکر یہ پڑی ہے کہ ایک تودین کا اختلا ف ہی ہے پھر اس پر احقاق ِحق لو گو ں کی غرض نہیں رہی بلکہ بعض وعناد میں اس قدر تر قی کی گئی ہے کہ اپنے فریق مخالف کا نا م ادب یا عزت سے لینا گنا ہ سمجھا جا تا ہے میں ـ دیکھتا ہو ں کہ بڑی بے ادبی اور گستا خی سے با ت کر تے ہیں پہلے ہندو مسلما ن میں ایسے تعلقا ت تھے کہ بر ادری کی طر ح رہتے تھے اب تفرقہ پیدا ہو ا ہے کہ وہ اندرونی کشش جو ایک دوسر ے میں تھی با قی نہیں رہی ہے بلکہ تعصب اور دشمنی بڑھ گئی ہے پس جبکہ کو ئی حصہ انس اور کشش کا ہی با قی نہ ہو اور ہا ر جیت مقصو د ہو تو پھر اظہا ر حق کس طر ح ہو سکتا ہے ۔
اظہا رِ حق کیلئے ضروری امور
اظہا ر حق کے واسطے یہ ضروری امر ہے کہ تعصب سے اندر خا لی ہو اور بعض اور عنا دنہ ہو ۔ست است کے نر نے کے لیے بحث کا تو نا م بھی درمیا ن میں نہیں آنا چاہیئے بلکہ اس کو چا ہیئے کہ بحث کو چھوڑدے۔
میں یہ بھی ما نتا ہو ں اور یہی میرا مذہب ہے کہ ایک اور غلطی میں لو گ پڑے ہو ئے ہیںکسی مذہب پر حملہ کر تے وقت وہ اتنا غور نہیں کرتے کہ جو حملہ ہم کرتے ہیں اس مذہب کی کتا ب میں بھی ہے یا نہیں ؟ مسلمہ کتب کو چھوڑدیتے ہیں اور کسی کی ذاتی رائے کو لیکر اس کو مذہب کی خبر بنادیتے ہیں ۔
ہم بہت سی با تو ں میں آریہ مذہب کے خلا ف ہیں ۔اور ہم ان کو صحیح تسلیم نہیں کر تے لیکن ہم ان کو ویدپر نہیں لگا تے ہم کو کچھ معلو م نہیں ہے کہ اس میں کیا ہے ہا ں پند ٹدیا نند پر ضرور لگا تے ہیں کیو نکہ انہو ںنے تسیلم کر لیا ہے ہم تو اس عقید ہ کے خلا ف کہتے ہین جو شا ئع کر دیا ہے کہ یہ آریہ سما ج کا عقیدہ ہے اسی طر ح پر آریو ں کو اگر کو ئی اعتر اض کر نا ہو تو چا ہیئے کہ وہ قرآن شر یف پر کر یں یا اس عقیدہ پر جو ہم نے مان لیا ہو اور اس کو شائع کر دیا ہو یہ منا سب نہیں کہ جس با ت کو ہم ما نتے ہی نہیں خواہ نخواہ ہما رے عقیدہ کی طر ف اس کو منسو ب کر دیا جا ئے ۔
مبا حثہ اصو ل پر ہو نا چا ہیئے
اگر اس اصل کو مد نظر رکھا جا وے تو سا معین فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں ۔جب تک کتا ب کو کسی نے سمجھا اور پڑ ھاہی نہیں اس پر وہ اعتراض کر نے کا حق کس طر ح رکھ سکتا ہے ۔مذہب کے معا ملہ میں یہ ضروری با ت ہے کہ ما نی ہو ئی اصل پر بحث کر یں ۔اگر چہ ضروری نہیں کہ کل کتا بیں پڑھی جا ویں اس کے لیے تو عمر بھی وفا نہیں کر سکتی۔
مبا حثہ اصول پر ہو نا چا ہیئے ۔ ۱ ؎ جو بطوربحث کے ہیں اور چو نکہ عا م مجمعوں میںحق کو مشتبہ رکھا جا تا ہے ۔ انسا ن ضد اور تعصب سے کا م لیتا ہے میں نے خدا سے عہد کر لیا ہے کہ اس طر یق کو چھوڑدیا جاوے۔
یہ کتا ب (نسیم دعوت ۔مر تب ) میں نے اصول مبا حثہ کے لحا ظ سے لکھی ہے۔ اوراسی طریق سے جو میں نے پیش کیا ہے بحث کی ہے جو ہم کو گا لیا ں دیتے ہیں۔ ان کی گا لیوں کا کو ئی جوا ب نہیں دیتے کیو نکہ خدا تعا لیٰ نے ہم سے توگالیوں کی قوت ہی کھو دی ہے ۔کس کس کی گا لی کا جو اب دیں ۔ ۱ ؎
(البدرجلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۱۱۔۱۲ مو رخہ ۱۰ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)ـّ
۲مارچ ۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیر)
مسیح موعوؑد کے ذریعہ خا نہ کعبہ کی حفا ظت
صا حبزادہ سراج الحق صا حب نے عر ض کیا کہ حضورمیرے ایک دوست نے لکھا ہے کہ تم تو حج کر نے کو گئے ہو ئے ہو مگر ہمیں بھلا دیا ہے ۔ ۲ ؎
فر ما یا :۔اصل میںجو لو گ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی ایک طرح کا حج ہی ہے۔حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اوراس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں ۔
آنحضرت ﷺ نے جو کشف میں دیکھا تھا کہ دجّال اور مسیح موعود اکٹھے طواف کررہے ہیں ۔اصل میں طواف کے معنے ہیں پھرنا تو طواف دو ہی طرح کا ہو تا ہے۔ ایک تو رات کو چور پھرتے ہیں یعنی گھروں کے گرد طواف کر تے ہیں اور ایک چوکیدار طواف کرتا ہے مگر ان میں فرق یہ ہے کہ چور تو گھروں کو لوٹنے اور گھروں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ۔اور چوکیدار ان گھروں کی حفاظت اور بچائواور چوروں کے پکڑنے کے واسطے طواف کرتے ہیں۔یہی حال مسیح اور دجّال کے طواف کا ہے ۔دجّال تو دنیا میں اس واسطے پھرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تا دنیا کو خداکی طرف سے پھیر دے اور ان کے ایمان کو لُوٹ لیا جاوے مگر مسیح موعود اس کوشش میں ہے کہ تا اُسے پکڑے ا مارے اور اس کے ہاتھ سے لوگوں کے دین وایمان کے متاع کو بچاوے۔غرض یہ ایک جنگ ہے جو ہمارا دجّال سے ہو رہا ہے ۔
کا مل ایمان والے کو کسی نشان کی ضرورت نہیں ہوتی
ایک صاحب نے عرض کی حضور کیا وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو مبشرات کثرت سے ہوتے ہیں اور بعض کو کم بلکہ بالکل ہی نہیں ۔فرمایا کہ:۔
اصل میں اللہ تعالیٰ نے طبائع مختلف پیدا کی ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہو تے ہیں کہ اُن کی ایمانی قوت ہی ایسی مضبوط ہوتی ہے کہ اسے کسی نشان کی ضرورت نہیں ہوتی ۔اس کا یمان کامل ہو تا ہے دیکھو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کونسا نشان دیکھا؟یا کون سا خواب آیا ؟یا کوئی نشارت ہوئی تھی جس سے انہوں نے آپ کوپہچان لیا تھا اگر اُن کا کوئی خواب یا بشارت وغیرہ ہو تی تو اس کا ذکر حدیث شریف میں ضرور ہو تا ۔وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے راستہ میں واپسی پر انہوں نے ایک شخص سے پوچھا۔اپنے شہر کی کوئی نئی بات سنائو ۔اُس نے آنحضرت ﷺ کے دعویٰ نبوت سے آپ کو آگاہ کیا ۔فوراً نے چون وچرامان لیا ۔اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پہلے حالات دیکھے ہوئے تھے۔وہ بخوبی آگاہ تھے کہ یہ شخص کاذب یا مفتری نہیں ۔اُن کو پہلی واقفیت اور عقلِ سلیم نے آپ کو فوراً قبول کر لینے پر مجبور کیا۔زمانہ کی حالت کو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔وقت تھا ضرورت تھی ایک صادق نے خداکی طرف سے الہام پا کر دعویٰ کیا فوراً مان لیا ۔
اصل میں نشانات کی ضرورت بھی کمزور ایمان کو ہو تی ہے ۔کامل ایمان کو نشان کی ضرورت ہی نہیں۔
خداکے مقرب عذابِ الہٰی سے محفوظ رکھے جاتے ہیں
فرمایا کہ
خداکے عذاب سے اپنے آپکو محفوظ رکھنے کے واسطے خداکا قرب حاصل کر نا ضروری ہے۔ جتنا جتنا خدا سے انسان قر یب ہو تا ہے اتنا ہی وہ مصائب،شدائد اور بلائوںسے دوُر ہو تا ہے۔جو خدا کا مقرب ہو تا ہے اسے کبھی خدا کے قہر کی آگ نہیں کھاتی ۔دیکھو انبیاء کے وقت میں وبائیں اور طاعون سخت ہوتے رہے مگر کوئی بھی نبی ان عذابوں میں ہلاک نہیں ہوا۔ صحا بہؓ کے وقت میں بھی طاعون پڑا ۔اور بہت سے صحابہ ؓ اس سے شہید بھی ہوئے مگر اس وقت وہ صحابہ کے واسطے شہادت تھی کیونکہ صحابہ ؓاپنا کا م پورا کر چکے تھے اور اعلیٰ درجہ کی کامیابی اُن کو ہوچکی تھی اور نیز وہ کوئی تحدّی کا وقت بھی نہ تھا اور مرنا توہر انسان کے ساتھ لازمی لگا ہوا ہے۔اسی ذریعہ سے خداتعالیٰ کو اُن کی موت منظور تھی ۔ان کے واسطے شہادت تھی۔مگر جب کسی عذاب کے واسطے پہلے سے خبر دی جاوے کہ خدا آسمان سے اپنی ناراضگی کی وجہ سے قہر نازل کرے گا تو ایسے وقت میں وہ وبا رحمت نہیں۔ اور شہادت نہیں ہو کرتی بلکہ *** ہو اکرتی ہے پس خدا کی طرف دوڑو اسی کے پاس معالجے ہیں اور بچائو کے سامان ہیں۔ (الحکم جلد ۷نمبر ۹ صفحہ۱۲ ،۱۳ مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۳؁ء)
ماننے کے قابل حدیث اور خواب
ظہر کے وقت ایک شخص نے ایک پراگندہ سی خواب لکھ کر حضور سے تعبیر پو چھی تھی ۔اس پر آپ نے فر مایا کہ:۔
جس طرح سے حدیث ماننے کے قابل نہیں ہو تی جب تک قرآن کے موافق نہ ہو ۔اسی طرح کو ئی خواب بھی ماننے کے لائق نہیں جب تک ہمارے موافق نہ ہو ۔
عصر کے وقت چند سکھ حضرت اقدس کی ملاقات کے واسطے آئے اور اثناء ذکر میں آپ نے فرمایاکہ
زبان سے تو ایک انسان بھی اپنا بندہ نہیں بن سکتا خدا کیسے بن سکتا ہے۔محبت ہو گی تو سانجھ ہو گی کھوٹ سے کوئی خدا سے کیا لے سکتا ہے۔ (البدر جلد ۲نمبر۸ صفحہ۵۸ مورخہ۱۳ مارچ ۱۹۰۳؁ء)
دربا ر شام
خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی تلاش ضروری تھی
ایک صاحب نووار د ۱؎ تھے آپ نے اُن سے فر مایا :۔
دیکھودُنیا چند روزہ ہے کسی کو بقا نہیں اور یہ دُنیا اور اس کا جاہ وجلال ہمیشہ نہیں رہنے والے ۔چاہئے کہ اس وقت جو اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ قائم کیا ہے اس کو سمجھا جاوے ۔اگر وہ درحقیقت خدا ہی کی طرف سے ہے تو اس سے دور رہنا کیسا بد قسمتی کا موجب ہو گا ۔وقت نازک ہے ۔دنیا نے جس امر کو سمجھنا چاہیئے تھا اسے نہیں سمجھااور جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے تھی اس کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے ۔ خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی تلاش ضروری تھی۔دیکھو دنیوی ضرورتوں کے واسطے کس طرح دنیا کو شش کر تی اور جانکاہ محنتوں سے ان کے حصول کے ذریعہ کو سوچتی ہے۔ مگر دین کیا ایسا ہی گیا گذرا امر ہے کہ اس کے واسطے اتنی بھی تکلیف نہ بر داشت کی جاوے کہ چند روز کے واسطے ایک جگہ رہ کر اسلام کی تحقیق کی جاوے ۔ایک بیمار انسان جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو مریض کی اگر طبیب تشخیص کر بھی لیوے تو معالجہ میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا دوا دی جاوے۔
ضرورتِ الہام
ایک شہر میں پہنچ کر انسان پھر بھی خاص جگہ پر پہنچنے کے واسطے کسی رہبر کا محتا ج ہو تا ہے تو کیا دین کی راہ معلوم کر نے اور خداکی مرضی پانے کے واسطے انسانی ڈھکونسلے کام آسکتے ہیں؟ اور کیا سفلی عقل کافی ہو سکتے ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خود اپنی راہ کو نہ بتاوے اور اپنی مرضی کے وسائل کے حصول کے ذریعہ سے مطلع نہ کرے تب تک انسان کچھ کر نہیں سکتا ۔دیکھو جبتک آسمان سے پانی نازل نہ ہو زمین بھی اپنا سبزہ نہیں نکالتی گو بیج اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو ۔بلکہ زمین کا پانی بھی دوُر چلا جاتا ہے تو کیا رُوحانی بارش کے بغیر ہی رُوحانی زمین سر سبز ہو جاتی اور بار آور ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔خدا کے الہام کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔دیکھو یہ جو اتنے بڑے عاقل کہلاتے ہیں اور بڑے مو جد ہیں آئے دن تار نکلتی ہے ریل بنتی ہے اور انسانی عقل کو حیران کر دینے والے کا م کئے جاتے ہیں کیا ان کی عقل کے برابر بھی کوئی اورعقل ہے؟جب ایسے عاقل لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک عاجز ا نسان کو جو ایک عورت کے پیٹ سے عام لڑکوں کی طرح سے پیدا ہو اتھا اور اسی طرح عوارض وغیرہ کا نشانہ بنا رہا اور کھانا پینا سب کچھ کرتا ہو ایہودیوں کے ہاتھ سے سولی پر چڑھا یا گیا تھا اس کو خداوند بنایا ہو اہے اور اس کے کفارہ سے اپنی نجات جانتے ہیں اور ایسی بودی چال اختیا رکی ہے کہ ایک بچہ بھی اس پر ہنسی کرے۔اس کی کیا وجہ تھی؟صرف یہی کہ انہوں نے سفلی عقل پر ہی بھروسہ کیا اور ایک کوے کی طرح نجاست پر گر پڑے۔
دیکھو جب انسان خدا سے مدد چاہتا ہے اور اپنے آپ کو عاجز جانتا ہے اور گردن فرازی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد کر تا ہے ایک مکھی ہے کہ گندگی پر گر تی ہے اور دوسری کو خدا نے عزت دی کہ سارا جہان اس کا شہد کھاتا ہے یہ صرف اس کی طرف جھکنے کی وجہ سے ہے ۔پس انسان کو چاہیئے کہ ہر وقت
ایاک نعبد وایاک نستعین (الفاتحہ :۵ )
پر کار بند رہے اور اسی سے توفیق طلب کرے۔ ایساکرنے سے انسان خدا کی تجلیات کا کظہر بھی بن سکتا ہے۔چاند جب آفتاب کے مقابل ہوتا ہے تو اُسے نُور ملتا ہے مگر جوں جوں اس سے کنارہ کشی کرتا ہے توں توں اندھیرا ہو تا جاتا ہے۔یہی حال ہے انسان کا جب تک اس کے دروازہ پر گرارہے اور اپنے آپ کو اس کا محتاج خیال کرتا رہے تب اللہ تعالیٰ اُسے اُٹھاتا اور نوازتاہے ورنہ جب وہ اپنی قوتِ بازوپر بھروسہ کرتا ہے تو وہ ذلیل کیا جا تا ہے ۔ ۱؎
صادق کی معیت
کونو مع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
بھی اسی واسطے فرمایا گیا ہے ۔سادھ سنگت بھی ایک ضربالمثل ہے ۔پس یہ ضروری باتہے کہ انسان باوجود علم کے اور باوجود قوت اور شوکت کے امام کے پاس ایک سادہ لوح کی طرح پڑا رہے تا اس پر عمدہ رنگ آوے ۔سفید کپڑا اچھا رنگا جا تا ہے اور جس میں اپنی خودی اور علم کاپہلے سے میل کچیل ہوتا ہے اس پر عمدہ رنگ نہیں چڑھتا ۔صادق کی معیت ۱؎ میں انسان کی عقدہ کشائی ہو تی ہے اور اسے نشانات دیئے جاتے ہیں جن سے اس کا جسم منور اور رُوح تا زہ ہو تی ہے۔ (الحکم جلد۷نمبر۹صفحہ۱۳ مورخہ۱۰ مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۳ مارچ ۱۹۰۳؁ء
(بوقت سیر)
حضرت صاحب تشریف لائے تو کل کے نووارد مہمان بھی ہمراہ سیر کو چلے آپ نے انکو مخاطب کرکے فر مایا :۔
زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ ایک دن آنے کا ہے اور ایک دن جانے کا معلو م نہیں کب مرنا ہے ۔علم ایکطاقت انسان کے اندر ہے۔ اس کے اُوپر وساوس اور شبہات پڑتے ہیں ۔عادتوں کے کیڑے برتن کی میل کی طرح انسان کے اندر چمٹے ہو ئے ہیں ۔اس کا علاج یہی ہے کہ
کو نو مع الصادقین۔
پس اگر آپ چند روز یہاں ٹھہر جاویں تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے؟اس طح ہر ایک بات کا موقعہ آپ کو مل جائیگا دُنیا کے کا م تو یو نہی چلے چلتے ہیں۔
کارِ دُنیا کسے تمام نہ کرد ہر چہ گیر ید مختصر گیر ید
بہت لوگ ہمارے پاس آئے اور جلد رُخصت ہو نے لگے۔ ہم نے اُن کو منع کیا مگر ہوہ چلے گئے۔ آخر کار پیچھے سے انہوں نے خط روانہ کئے کہ ہم نے گھر پہنچ کر بنایا تو کچھ نہیں اگر ٹھہر جاتے تو اچھا ہو تا اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارا جلدی آنا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔
مسیح ِموعود کی صحبت میں رہنے کی تا کید
یہ مرحلہ اس لئے قابلِ طے ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بڑی تاکید فرمائی ہے کہ جب دنیا ختم ہو نے پر ہو گی تو اس اُمّت میں مسیح موعود پیدا ہو گا ۔لوگوں کو چاہیئے کہ اس کے پاس پہنچیںخواہ ان کو برف پر چل کر جانا پڑے۔ اس لیے صحبت میں رہنا ضروری ہے کیو نکہ یہ سلسلہ آسمانی ہے ۔پاس رہنے سے باتیں جو ہوں گی ان کو سنیگا جو کوئی نشان ظاہر ہو اُسے سوچے گا ۔آگے ہی زندگی کا کونسا اعتبار تھا مگر اب تو جب سے یہ سلسلہ طاعون کا شروع ہو اہے کو ئی اعتبار مطلق نہیں رہا۔ آپ نفس پر جبر کر کے ٹھہریئے اور جو شبہ وخیال پیداہو وہ سناتے رہیئے ۔اَن پڑھ اور اُمّی لوگ جو آتے ہیں ان کی باتیں اور شبہات کا سننا بھی ہمارا فرض ہے۔ اس سے آپ بھی اپنے شبہات ضرور سنایئے یہ ہم نہیں کہتے کہ ہدایت ہو نہ ہو ۔ہدایت تو امرِربیّ ہے ۔کسی کے اختیار یمیں نہیں ہے۔
مسلمان کون ہے؟
یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ہر ایک مسلمان کیوں مسلمان کہلاتا ہے؟ مسلمان وہی ہے جو کہتا ہے کہ اسلام برحق ہے ۔حضرت محمدﷺ نبی ہیں قرآن کتابِآسمانی ہے ۔اس کے معنے ہوتے ہیں کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان سے باہر نہ جائوں گا ۔نہ عقیدہ میں نہ عبادت میں ۔نہ عملدرآمد میں ۔میری ہر بات اور عمل اس کے اندر ہی ہو گا ۔
گدی نشین اور بدعات
اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے د یکھیں کہ آج کل گدی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں ۔اگر وہ خدا کی کتاب پر عمل نہیں کرتے توقیامت کو اس کا جواب کیا ہو گا کہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا ۔اس وقت طوافِ قبر ،کنجریوں کے جلسے اور مختلف طریقے ذکر جن میں سے ایک ارّہ کا ذکر بھی ہے ہوتے ہیں ۔لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھُول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں ۔نہ رسول کو بتائیں۔ جو رسول ﷺ کی عظمت جانتا ہے اسے ماننا پڑیگاکہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیئے۔
کتا ب اللہ کے خلاف جو کچھ ہو رہاہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النّار ہے۔اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجُز اس قانون کے جو مقرر ہے اِدھر اُدھر نہ جاوے ۔کسی کا کیا حق ہے کہ باربار ایک شریعت بناوے ۔
بعض پیر زادے چوڑیاں پہنتے ہیں ۔ مہندی لگاتے ہیں ۔لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں ۔سَدا سہاگن ان کا نام ہو تا ہے ۔اب ان سے کو ئی پوچھے کہ آنحضرت ﷺ تو مرد تھے۔اس کو مرد سے عورت بننے کی کیا ضرورت پڑی؟
ہمارا اُصول آنحضرت ﷺ کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سُنّت کے سوا نہیں ۔کس شئے نے ان کو جرأت دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں۔بجائے قرآن کے کا فیاں پڑھتے ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کا دل قرآن سے کھٹا ہو ا ہوا ہے ۔خدا تعالیٰ فر ماتا ہے جو میری کتا ب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آویگا اور کتا ب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہو گا ۔
بندگانِ خدا کی علامت
مگر جو خدا کے بندے ہو تے ہیں ان میں خوشبو اور بر کت ہو تی ہے فر یب اور مکر سے اُن کو کوئی غرض نہیں ہو تی ۔جیسے آفتاب اُسے چمکتا ہوا نظر آتا ہے ایسے ہی دور سے اس کی چمک دکھائی دیتی ہے اور دنیا میں اصلا چمک انہیں کی ہے ۔یہ آفتاب اور قمر وغیرہ تو صرف نمونہ ہیں ۔ان کی چمک دائمی نہیں ہے کیو نکہ یہ غروب ہو جاتے ہیں لیکن وہ غروب نہیں ہو تے ۔جس کو خدا اور رسول کی محبت کا شوق ہے اور ان کے خلاف کو پسند نہیں کرتا اور عفونت اور بد بو کو محسوس کرنے کا اس میں مادہ ہو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ طریق اسلام سے بہت بعید ہے ۔مثلِ یہود کے خدا نے انکو چھوڑ دیاہے۔ بلعم کی طرح اب مکر وفریب کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں رہا۔ صفائی والا انسان جلد دیکھ لیتا ہے کہ یہ جسم اس حقیقی رُوح سے خالی ہے۔
سجادہ نشینوں کے پَیرو سو چیں
انسان توجہ کرے تو پتہ لگتا ہے کہ جو لوگ صمّ’‘ بکمّ’‘ ہو کر سجادہ نشینوں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔اُن کو یہ خیال نہیں آتا ۔کہ وہ کونسی روشنی ہے جو خانہ کعبہ سے شروع ہوئی تھی اور تمام دنیا میں پھیلی تھی اور انہوں نے اس میں سے کس قدر حصّہ لیا ہے۔ان کو ہرگز وہ نور نہیں ملتا جو آنحضرت ﷺ مکہ سے لائے اواس سے کُل دنیا کو فتح کیا ۔آج اگر رسول اللہ ﷺ پیداہوں تو ان لوگوں کو جو اُمت کا دعویٰ کرتے ہیں کبھی شناخت بھی نہ کر سکیں ۔کونسا طریقہ آپ کا ان لوگوں نے رکھا ہے۔
شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرتؐ نے دیا ہے اُسے لے لے۔اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہٹے۔ اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں اُن کو مسجد بنایا ہو ا ہے ۔عر س وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاجِنبوت ہے نہ طریق سُنّت ہے۔اگر منع کرو تو غیظ وغضب میں آتے ہیں اور دشمن بن جاتے ہیں ۔چونکہ یہ آخری زمانہ ہے ایسا ہی ہو نا چاہیئے تھا لیکن اسی زمانہ کے فسادوں کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ نے فر مایا تھا کہ اس زمانہ میں اکیلا رہنا اور اکیلا مرجانا یا درختوں سے پنجہ مار کو مر جا نا ایسی صحبتوں سے اچھا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ سب چیزیں پوری ہو رہی ہیں انسان دوسروں کے سمجھائے کچھ نہیں سمجھتا ۔دل میں کسی بات کا بٹھا دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے ۔حدیث شریف میں ہے کہ خدا جب کسی سے نیکی کرتا ہے تو اسے کچھ عطا کرتا ہے ۔اس کے دل میں فراست پیداہو جاتی ہے اور دل ہی معیار ہو تا ہے مگر محجوب دل کام نہیں آتا۔یہ کام ہمیشہ پاک دل سے نکلتا ہے۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل:۷۳)
ان باتوں کے لئے دُعا کر نی چاہیئے۔
نیک اعمال کیلئے صحبت ِصادقین کی ضرورت ہے
خد اکے فضل کے سوا تبدیلی نہیں ہو تی اعمالِ نیک کے واسطے صحبت ِصادقین کا نصیب ہو نا ضروری ہے ۔یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگ ر چاہتا تو آسمان سے قرآن یو نہی بھیج دنتا اور کوئی رسول نہ آتا ۔مگر انسان کو عمل درآمد کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے ۔پس اگر نمونہ نہ بھیجتا رہتا تو حق مشتبہ ہو جا تا ۔
مخالفت کی وجہ
اب اس وقت علماء مخالف ہیں ۔اس کی وجہ کیا ہے ؟صرف یہی کہ میں بار بار کہتا ہو ں کہ یہ تمہارے عقیدے وغیرہ سب خلافِ اسلام ہیں۔اس میں میرا کیا گناہ ہے ؟مجھے تو خدا نے مامور کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ان غلطیوں کو نکال دیا جاوے اور منہاجِ نبوت کو قائم کیا جاوے ۔اب لوگ میرے مقابلہ پر قصّہ کہانیاں پیش کرتے ہیں ۔حالانکہ مجھے خود ہر ایک امر بذریعہ وحی والہام بتلایا جاتا ہے ۔ان کے کہنے سے میَں اسے کیسے چھوڑدوں ؟ان کا عقیدہ ہے کہ جب مسیح آویگا تو جس قدر غلطیاں ہو ں گی ان کو نکال دیگا اگر اس نے سب کچھ انہیں کا قبول کنا ہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا تو بتلائو کہ پھر اس کا کام کیا ہو گا ؟
آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی طریق ایسے لو گوں کا تھا کہ دور بیٹھے شور مچاتے اور پاس آکر نہ دیکھتے ۔ابو جہل نے مخالفت تو سالہاسالکی مگر پیغمبرخدا کی صحبت میں ایک دن بھی نہ بیٹھا حتٰی کہ مر گیا ۔اس لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے
ولا تقف ما لیس لک بہہ علم
اب ان سے پوچھا جاوے کہ بلا تحقیق کے کیوں فتوے لگاتے ہو؟
علامات ظہور مہدی ومسیح کا پورا ہونا
یہ خود کہتے تھے کہ صدی کے سر پر آنے والا ہے۔پھر انہیں کی کتا بوں میں لکھا ہوا تھا کہ کسوف وخسوف ہو گا ۔طاعون پڑے گی ۔حج بند ہو گا ۔ایک ستارہ جو مسیح کے وقت نکلا تھا نکل چکاہے ۔اونٹوں کی سواری بیکار ہو گئی ہے۔ اسی طرح سب علامتیں پوری ہو گئی ہیں، مگر ان لو گوں کا یہ کہنا کہ ابھی مسیح نہیں آیا یہ معنے رکھتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی کوئی پیشگوئی پوری نہ ہو ۔یہ سب اندرونی مشان ہیں ۔اب بیرونی دیکھئے کہ صلیب کا غلبہ کس قدر ہے۔نصاریٰ نے تردید اسلام میں کیا کیا کوششیں کی ہیں اور خود اندرونی طور پر تقویٰ ،زہد، ریاضت میں فرق آگیا ہے۔ برائے نام مسلمان ہیں ۔جھوٹی گوہیاں دیتے ہیں ۔خیانتیں کر تے ہیں ۔قرضہ لے کر دبا لیتے ہیں ۔اگر خدا کو یہ منظور ہو تا کہ اسلام ہلاک ہو جاوے اور اندرونی اور بیرونی بلائیں اُسے کھا جائیں تو وہ کسی کو پیدا نہ کرتا ۔اس کا وعدہ
انا نحن نز لنا الذکر وانالہ لحافظون (الحجر :۱۰)
کا کہاں گیا ؟اوّل تو تاڑ تاڑ مجدّد آئے مگر جب مسلمانوں کی حالت تنزّل میں ہوئی بد اطواری تر قی کر تی جاتی ہے سعادت کا مادہ ان میں نہ رہا اور اسلام غرق ہو نے لگا تو خدا نے ہاتھ اُٹھا لیا ؟جب کہو تو یہی جواب ہے کہ حدیثو ں میں لکھا ہے کہ تیس دجّال آئیں گے ۔یہ بھی ایک دجّال ہے ۔او کمبختو ! تمہاری قسمت میں دجّال ہی لکھے ہیں ؟غرض یہ باتیں غور کے قابل ہیں مگر دل کے کھول نے کی کُنجی خدا کے ہاتھ میں ہے ۔جبتک وہ نہ کھولے دل میں اثر نہیں ہو تا ۔ ابو جہل بھی چودہ برس تک باتیں سنتاہی رہا۔یہی ہماری جماعت ہے اس کی کون سی عقل زیادہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کو سمجھ لیا اور بعضوں نے نہ سمجھا ایسے ہی دماغ اعضاء وغیرہ باقی سب مخالفوں کے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو نہیں پہنچے۔انکے دلوں کو قفل لگے ہیں ۔
دکانداری کا جواب
مختلف اعتراضات کے جوب پر فرمایا کہ:۔
اسے دکانداری کہتے ہیں۔ ہے تو دکان مگر خدا کی اگر انسان کی ہو تی تو دیوالہ نکل جاتا ٹوٹ جاتی مگر خدا کی ہے جو محفوظ ہے۔
ہمارے گروہ کی خدا نے خود مدد کی ہے کہ جلدی ترقیدی کہ یہ مسجدوں کے مُلاں وغیرہ جب دیکھیں گے کہ اب اُن کی تعداد بہت ہے خود ہی ہاں میں ہاں ملا دیں گے۔
(قبل از عشاء)
ایک خانساماں کی استقامت
بٹالہ میں ایک خانساماں جو مشنری لیڈی کے ہاں ملازم تھا۔حضرت صاحب کا خادم تھا ۔مشنری لیڈی نے اُسے اس تعصّب کے باعث بر خواست کر دیا حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
اگر مکھن کھاتے دانت جاتے ہیں تو جاویں ۔
( مشنری لیڈی نے اُسے کہاتھا کہ تم اتنی دیر ہمارے پاس رہے اور اثر نہ ہوا ۔اس پر حضرت نے فر مایا کہ اثر تو ہوا کہ اس نے مقابلہ کر کے دیکھ لیا کہ حق اِدھر ہے۔ )
(البدر جلد ۲نمبر۸ صفحہ۵۹،۶۰ مورخہ۱۳ مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۴ مارچ ۱۹۰۳؁ء
(صبح کی سیر)
جو خد اکے واسطے کھوتا ہے اُسے ہزار چند دیا جاتا ہے
فرمایا کہ
جو شخص خدا کی طرف قدم اُٹھا تا ہے( اس پر) خدا سے نور اترتا ہے۔(وہ)اپنے فرشتوں کو اس کی خدمت کے واسطے مامور فرماتا ہے ۔جو اس ے واسطے کچھ کھوتا ہے اس کو اس سے ہزار چند دیا جاتا ہے۔دیکھو صحابہؓ میں سے سب سے پہلے حضر ت ابو بکر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اپنا سا را ما ل اللہ تعا لیٰ کی راہ میں خر چ کر دیا تھا اور کمبل پو ش بن پھر ا تھا ۔مگر جب اللہ تعا لیٰ نے اسے دیا تو کیا دیا ۔دیکھ لو کیسی منا سبت ہے کہ اس نے چو نکہ سب صحابہؓ سے اول خر چ کیا تھا اسے سب سے پہلے خلا فت کا تخت عطا کیا گیا ۔غر ض خدا کو ئی بخیل نیئں اور نہ اس کے فیض خا س خا ص ہیں ۔بلکہ ہر ایک جو صدق دل سے طا لب بنتا ہے ۔اسے عزت دی جا تی ہے یہ ہما رے دشمن تو اللہ تعا لیٰ سے جنگ کر تے ہیں بھلا ان سے آسما نی با تیں اور تا ئید ات رو کی سکتی ہیں ۔ہر گز نہیں پر نا لہ کے پا نی کو تو کو ئی رو ک بھی سکتا ہے مگر آسما ن سے مو سلا دھار با رش ہو نے لگ جا وے ۔ اس کو کو ن رو ک سکے گا اور اس کے آگے کو نسا نبد لگا ویں گے ؟ ہما را تو سا را کا روبا ر ہی آسما نی ہے پھر بھلا کسی کی کیا نجا ل کہ اس میں کسی کا حر ج یا خلل واقع کر سکے ۔
البد میں بعض مزید با تو ں کا ذکر ہے وہا ں لکھا ہے کہ حضور نے فر ما یا۔تجربہ ہے کہ جب ہند ووں میں سے مسلمان ہو تے ہیں تو وہ متقی ہو تے ہیں جیسے مو لو ی عبید اللہ صا حب ۔سنا تن دہر م والے زواید کو چھوڑ کر وہ تما م با تیں ما نتے ہیں جن کے ہم قا ئل ہیں ۔خدا کو ما نتے ہیں ۔ فر شتو ں پر بھی ان کا ایما ن ہے نیو گ کے سخت مخا لف ہیں ۔ جو لو گ اخلا ص سے اسلام میں داخل ہو تے ہیں ۔وہ کو ئی شرط نہیں با ند ھتے جو شر طیں پیش کر کے اسلا م لا نا چا ہتا ہے وہ ضرور کھو ٹ رکھتا ہے ۔ (البد جلد ۲ نمبر ۸ صفحہ ۶۰ مو رخہ ۱۳ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)
لمبی مو نچھوں کی تعبیر
ایک خوا ب کی تعبیر میں فر ما یا کہ
اصل میں زیا دہ لمبی لمبی( مو نچھیں) رکھنا بھی تکبر اور نجو ت کو بڑھا تا ہے اسی واسطے شر لعیت اسلا م نے فر ما یا ہے کہ مو نچھیںکٹواو اور داڑھی کو بڑھا و ۔یہ یہوداور عسیا ئی اور ہندووں کا کام ہے کہ وہ اکثرتکبر سے مو نچھوں کو بڑھا تے ہیں اور تا ودے کر ایک متکبرانہ وضع بنا تے ہیں خصو صا سکھ لو گ ۔مگر ہما ری شر لعیت کیا پا ک ہے کہ جس جگہ سے کاکسی قسم کی بدی کا احتما ل بھی تھا اس سے بھی منع کر دیا ۔بھلا یہ با تیں کسی اور میں کہا ں پا ئی جا تی ہیں ۔ (الحکم جلد ۷نمبر ۱۰صفحہ۲مو رخہ۱۷ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)
البد ر میں ہے :۔ ایک صا حب نے عرض کی کہ خو ا ب میںمیں نے اپنی مو نچھوں کو کتر ے ہو ئے دیکھا ہے فر ما یا کہ لبوں کے کتر ے سے مر اد انکسا ری اور توا ضع ہے زیا دہ لب رکھنا تکبر کی علا مت ہے جیسے انگزیز اور سکھ وغیر ہ رکھتے ہیں پیغمیبر خدا نے اسی لیے اس سے منع کیا ہے تکبر نہ رہے اسلا م تو توا ضع سکھا تا ہے جو خواب میں دیکھے تو اس میں فر وتنی بڑھ جا وے گی ۔ (البد جلد ۲ نمبر ۸ صفحہ ۶۰ مو رخہ ۱۳ ما رچ ۱۹۰۳ء؁)
۵ما رچ ۱۹۰۳ء؁
(دربا رشا م )
حضرت اقدس نے فا رسی میںفر ما یا لہذاس کا تر جمہ لکھا جا تا ہے :۔
دوستو ں کی جدا ئی پر غمگین ہو نا
خدا ئے تعالیٰ ۱ ؎ نے یہ با ت میر ے دل میں ڈالی ہے اور میر ی فطرت میں رکھ دی ہے کہ جب کو ئی دوست مجھ سے جدا ہو نے لگتا ہے مجھے سخت قلق اور درد محسو س ہو تا ہے میں خیا ل کر تا ہو ں کہ خدا جا نے زندگی کا بھر وسہ نہیں ۔پھر ملا قا ت نصیب ہو گی یا نہیں پھر میرے دل میں خیا ل آجاتا ہے کہ دوسروں کے بھی تو حقوق ہیں ۔بیو ی ہے ،بچے ہین اور شتہ دار ہیں ۔مگر تا ہم جو شند روز بھی ہما رے پا س رہتا ہے اس کے جدا ہو نے سے ہما ری طبیعت کو صدمہ ضرور ہو تا ہے ہم بچے تھے اب بڑھا پے تک پہنچ گئے ہیں ہمنے تجر بہ کر کے دیکھا ہے کہ انسا ن کے ہا تھ میں کچھ بھی نہیں بجنراس کے کہ انسا ن خدا کے سا تھ تعلق پیدا کر لے ۔

دُعا اَور تو کّل
سا ری عقد ہ کشا ئیا ں دعا کے سا تھ ہو جا تی ہیں ۔ہما رے ہا تھ میں بھی اگر کسی کی خیر خوا ہی ہے تو کیا ہے ۔صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے کیا دوست کے لیے اور کیا دشمن کے لیے ہم سیا ہ کو سفید اور سفید کو سیا ہ نہیں کر سکتے ۔ہما رے بس میں ایک ذرہ بھر بھی نہیں ہے ۔مگر جو خدا ہمیں اپنے فضل سے عطا کر دے۔
انسا ن کو مشکلا ت کے وقت اگر چہ اضطرا ب ہو تا ہے مگر چا ہیئے کہ تو کل کو کبھی بھی ہا تھ سے نہ دے ۔ آنحضر ت ﷺ کو بھی بد ر کے مو قع پر سخت اضطرا ب ہوا تھا ۔ ۱ ؎ چنانچہ عرض کرتے تھے
یاَرَب ان اھلکت ھذہ العصابۃ فلن تعبد فی الار ض ابدا
مگر آپ کا اضطراب فقط بشریٰ تقا ضا سے تھا کیو نکہ دوسری طرف توکل کو آپ نے ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیا تھا آسمان کی طرف نظر تھی اور یقین تھا کہ خدا تعالیٰ ہرگز مجھے ضائع نہیں کرے گا ۔یاس کو قریب نہیں آنے دیا تھا ایسے اضطرابوں کا انا تو انسانی اخلاقاور مدارج کی تکمیل کے واسطے ضروری ہے مگر انسان کو چاہیے کہ یاکو پاس نہ آنے دے کیونکہ یاس تو کفار کی صفت ہے ۔انسان کو طرح طرکے خیالات اضطراب کا وسوسہ ڈالتے ہیں مگر ایمان ان وساس کو دور کر دیتا ہے بشریت اضطراب خریدتی ہے اور ایمان اس کو دفع کرتا ہے
ایمان وعرفان کی حقیقت
دیکھو ایمان جیسی کوئی چیز نہیں ۔ایمان سے عر فا ن کا پھل پیدا ہو تا ہے ۔ایمان تو مجاہدہ اور کو شش کو چاہتا ہے اور عر فا ن خدا تعالیٰ کی موہبت اور انعام ہو تا ہے عرفان سے مراد کشوف اور الہامات جو ہر قسم کی شیطانی آمیزش اورظلمت کی ملونی سے مبّرا ہوں اور نو ر اور خدا کی طرف سے ایک شوکت کے ساتھ ہو ں وہ مراد ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے موہبت اور انعام ہو تا ہے۔یہ چیز کچھ کسی چیز نہیں مگر ایمان کسبی چیز ہو تا ہے اسی واسطے اوامر ہیں کہ یہ کرو ۔غرض ہزاروں احکام ہیں اور ہزاروں نواہی ہیں ۔ان پر پوری طرح سے کار بند ہو نا ایمان ہے۔
غرض ایمان ایک خدمت ہے جو ہم بجالاتے ہیں اور عر فان اس پر ایک انعام اور موہبت ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ خدمت کئے جاوے ۔آگے انعام دینا خدا کا کام ہے یہ مومن کی شان سے بعید ہو نا چاہیئے کہ وہ اس انعام کے واسطے خد مت کرے۔
خد اکی محبت میں محو ہو جائو
مکاشفات اورالہامات کے ابواب کے کھلنے کے واسطے جلدی نہ کر نی چاہیئے اگر تمام عمر بھی کشوف اور الہامات نہ ہوں تو گھبرا نا نہ چاہیئے اگر یہ معلوم کر لو کہ تم ایک عاشقِ صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں اس کے فراق میں بھو کا مر تا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش نہ پانی کی پرواہ ۔نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہوجائو کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہوجاوے پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مَر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے ۔ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے ۔نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ دیکھو ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذّت اُٹھا تاہے ۔اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر کے پیو ۔جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہو نے والے بنو جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کر لے کہ مَیں محبت کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہر گز نہ ہٹے ۔قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اُس جام کو منہ سے نہ ہٹائے ۔اپنے آپ کو اس کے لیے بیقرار و شیدا و مضطرب بنالو ۔اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے تو کوڑی کے کام کے نہیں ۔ایسی محبت ہوکہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ نہ ہو ۔نہ کسی قسم کی طمع کے مطیع بنو اور نہ کسی قسم کے خوف کا تمہیں خوف ا ؎
ہوچناچہ کسی کا شعر ہے کہ ؎
آنکہ تراشناخت جاں راچہ کُند فرزند و عیال خانماں راچہ کُند
دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانہ ہر دو جہاں راچہ کُند
مَیں تو اگر اپنے فرزند کاذکر کرتا ہوں تو نہ اپنی طرف سے بلکہ مجھے تو مجبوراً کرنا پڑتا ہے ۔کیا کروں اگر اس کے انعامات کا ذکر نہ کروں تو گنہگار ٹھہروں ۔چناچہ ہر لڑکے کی پہلے اُسی نے خود اپنی طرف سے بشارت دی ۔اب میں کیا کروں ۔غرض انسان کا اصل مدعاتو صرف یہی چاہیئے کہ کسی طرح خدا کی رضا مل جاوے۔
مدار نجات
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیظ خواب گویم ۱؎
مدار نجات صرف یہی امر ہے کہ سچا تقویٰ اور خدا کی خوشنودی اور خالق کی عبادت کا حق ادا کیا جاوے ۔الہامات و مکاشفات کی خواہش کر نا کمزوری ہے ۔مرنے کے وقت جو چیز انسان کو لذت دِہ ہو گی وہ صرف خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سے صفائی معاملہ اور آگے بھیجے ہوئے اعمال ہونگے جوایمان صادق اور ذاتی محبت سے صادر ہوئے ہوں گے ۔
من کان للہ کان اللہ لہ
اصل میں جو عاشق ہو تا ہے ۔آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو کی توجہ بھی اس کی طرف ہو جاتی ہے اور آخر کار ہو تے ہوتے کشش سے وہ اس سے محبت کر نے لگتا ہے اور عا شق معشو ق کا معشو ق بن جا تا ہے ۔جب جسما نی اور مجا زی عشق ومحبت کا یہ حا ل ہے کہ ایک معشو ق اپنے عا شق کا عا شق بن جا تا ہے تو کیا روحا نی رنگ میں جو اس سے زیا دہ کا مل ہے ایسا ممکن نہیں کہ جو خدا سے محبت کرنے والا ہو آخر کا ر خدا اس سے محبت کر نے لگے۔ اور وہ خدا کا محبوب بن جا وے ؟ مجا زی معشوقوں میں تو ممکن ہے کہ معشوق کو اپنے عا شق کی محبت کا پتہ نہ لگے مگر وہ خدا تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے اس سے انسا ن مظہر کر اما ت الہیٰ اور مو ر د عنا یات ا یزدی ہو جا تا ہے اور خدا تعا لیٰ کی چا رد میں مخفی ہو جا تا ہے ۔ان مکا شفا ت اور رویا ئاور الہا ما ت کی طر ف سے تو جہ پھیر لو اور ان امو رکی طر ف خود جرات کر کے درخوا ست نہ کر و ایسا نہ ہو کہ جلد با زی کر نے والے ٹھہر و۔اکثر لو گ مر ے پا س آتے ہیں کہ ہمیں کو ئی ایسا وردوظیفہ بتا دوکہ جس سے ہمیں الہا ما ت اور مکا شفا ت ہو نے شر وع ہو جا ویں ،مگر میں انکو کہتا ہو ں کہ ایسا کر نے سے انسان مشرک بن جا تا ہے شر ک یہی نہیں کہ بتو ں کی پو جا کی جا وے بلکہ سخت شر ک اور بڑامشکل مرحلہ تو نفس کے بت کو تو ڑنا ہو تا ہے ۔تم ذاتی محبت خر ید واور اپنے اندروہ قلق وہ سو زش وہ گداز وہ رقت پیدا کر و جو ایک عا شق صادق کے اندرہو تی ہے ۔دیکھو کمزورایما ن جو طبع یا خوف کے سہارے پر کھڑاہو وہ کا م نہیں آتا۔بہشت کی طمع یا دوزخ کا خو ف وغیرہ امو ر پر ا پنے ایما ن کا تکیہ نہ لگا و بھلا کبھی کسی نے کو ئی عا شق دیکھا ہے کہ وہ معشوق سے کہتا ہو کہ میں تو تجھ پر اپنے واسطے عا شق ہو ں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلا ں شئے دیدے ۔ہر گز نہیں ۔دیکھو ایسی طبعی محبت پیدا کر لو جیسے ایک ما ں کو اپنے بچہ سے ہو تی ہے ۔ما ں کو نہیں معلو م ہو تا کہ وہ کیو ں بچہ سے محبت کر تی ہے ۔اس میں ایک طبعی کشش اور ذاتی محبت ہو تی ہے ۔
دیکھو اھر کسی ماں کا بچہ گم ہو جا وے اور رات کا وقت ہو تو اس کی کیا حا لت ہو تی ہے ۔جو ں جوں رات زیا دہ ہو گی اور اندھیرابڑھتا جا وے گا اس کی حا لت دگر گو ں ہو تی جا وے گی یا زندہ ہی مر گئی ہے مگر جب اچا نک اس سے اس کا فرزند مل جا وے تو اس کی وہ حا لت کیسی ہو تی ہے ۔ ذرامقا بلہ کر کے تو دیکھو پس صر ف ایسی محبت ذاتی اور کا مل ایمان سے ہی انسا ن دارا لاما ن میں پہنچ سکتا ہے ۔سا رے رسول خدا تعا لیٰ کو اس لیے پیا رے نہ تھے کہ ان کو الہاما ت ہو تے تھے ان کے واسطے مکا شفا ت کے دروازے کھو لے گئے ہیں یا نہیں بلکہ ان کی ذاتی محبت کی وجہ سے وہ تر قی کر تے کر تے خدا کے معشوق اور محبوب بن گئے تھے ۔اسی واسطے کہتے ہیں کہ نبی کی نبو ت سے اس کی ولایت افضل ہے ۔
اسی لیے ہم نے اپنی جما عت کو با ر با ر تا کید کی ہے کہ تم کسی چیز کی بھی ہو س نہ رکھو ۔ پا ک دل اور بے طمع ہو کر خدا کی محبت ذاتی میں تر قی کر و ۔ب تک ذاتی محبت نہیں تب تک کچھ نہیں ۔مگر جو کہتے ہیں کہ ہم کو خدا سے ذاتی محبت ہے اور اس کے نشا ن ان میں نہیں پا ئے جا تے یہ ان کا دعو یٰ غلط ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ایک مجا زی عا شق میں تو عشق کے آثا اور نشا نا ت کھلے کھلے پا ئے جا ئیں بلکہ کہتے ہیں کہ عشق چھپا ئے سے چھپ نہیں سکتا تو کیا وجہ کہ روحا نی عشق پو شیدہ رہ جا وئے ۔اس کچھ نشان ظاہر نہ ہو ں ۔دھو کا کھا تے ہیں ایسے لو گ ان میں محبت ہی نہیں ہوتی ۔
صحبت صادقین اختیارکرو
اسی واسطے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے
کو نو امع الصادقین
یعنی صا دق لوگوں کی معیت اختیارکرو ۔ان کی صحبت میں مد تہائے درازتک رہو۔ کیو نکہ ممکن ہے کہ کو ئی شخص چند روز ان کے پا س رہ جا وے ۔اور ان ایا م میں حکمت الٰہی سے کو ئی ایسا امرواقع نہ ہو ۔کیو نکہ ان لو گو ں کے اختیار میں تو نہیں کہ جب چا ہیں کو ئی نشا ن دکھا دیں ۔اسی واسطے ضروری ہے کہ ان کی صحبت میں لمبا عر صہ اور درازمدت گذرجا وے بلکہ نشا ن دکھا نا تو درکنا ر یہ لو گ تو اپنے خدا کے سا تھ تعلقا ت کا اظہا ر بھی گنا ہ جا نتے ہیں ۔لکھا ہے اگر کو ئی ولی خلو ت میں اپنے خدا کے سا تھ خا ص حا لت اور تعلق کے جو ش میں ہو اور اس پر وہ حا لت طا ری ہو تو ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اس کے اس حا ل سے آگا ہ ہو جائے تو وہ ولی شخص ایسا شرمندہ اور پسینہ پسینہ ہو جا تا ہے ۔جیسے کو ئی زانی عین زنا کی حا لت میں پکڑا جا وے کیو نکہ یہ لو گ اپنے راز کو پو شیدہ رکھنا چا ہتے ہیں ۔ چو نکہ طبعا ایسا معاملہ تھا خدالیٰ نے اسی واسطے کہا
کونو امع الصادقین
کفار نے جو یہ کہا
ھا کہ مالھذا الرسول الطعام ویمشی فی الاسواق (الفرقان :۸)
تو انہوں نے بھی تو آنحضرتﷺ کی ظاہری حالتدیکھ کر ہی یہ کلمہ منہ سے نکالا تھا کہ کیا ہے جی ۔یہ تو ہمارے جیسا آدمی ہی ہے ۔کھاتا پیتا بازاروں میں پھرتا ہے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُن کو آنحضرت ﷺ کی صحبت کا فیض نہ تھا کہ اُن کو کوئی رسالت کا امر نظر آتا وہ معذور تھے انہوں نے جو دیکا تھا اسی کے مطابق رائے زنی کر دی پس اس واسطے ضروری ہے کہ مامور من اللہ کی صحبت میں دیر تک رہا جاوئے ممکن ہے کہ کوئی جس نے نشان کوہی نہ دیکھا ہو کہدے کہ جی ہماری طرح نماز روزہ کرتا ہے اور کیا ہے دیکھو حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے مگر واپ ایسی حالت میں مشکل ۔بہت ہیں جو وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں اس کی بھی یہی ہ ہے کہ وہاں کی حقیقت اُن کو نہیں ملتی ۔قشر کو دیکھو کہ رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں وہاں کی فیوض سے محروم ہو جاتے ہیںاپنی بدکاریوں کی وجہ سے اور پھر الزا م دوسروں پر دھرتے ہیں۔اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ ر ہاجاوئے تاکہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو صدق پُورے طور پر نورانی ہوجاوئے
(الحکم جلد ۷نمبر۱۰ صفحہ۳و۴مورخہ۱۷مارچ۱۹۰۳؁ء)
سناتن دھرم
ہندووں کا ذکر چل پڑا ۔فر ما یا :۔
یہ جو میں نے ایک اور رسا لہ لکھا ہے اس کا نا م سنا تن دھر م ہی رھا ہے یہ لو گ اسلا م کے بہت ہی قریب ہیں ۔ اگر زوائدکو چھوڑدیں ۔بلکہ میں نے ان سے سنا ہے اور پڑھا بھی ہے کہ جب یہ جو گی ہو کر خدا کے بہت قریب ہو جاتے ہیں ۔تو اس وقت بت پر ستی کو حرا م جا نتے ہیں ۔ابتداء میں صر ف تمثیلی طو ر پر بت پرستی انہو ں نے غلطی سے رکھ لی لیکن اعلیٰ مر اتب پر پہنچ کر اسے اس لیے چھو ڑدیتے ہیں کہ قر یب ہو کر پھر بعید نہ ہو ں اور اس حا لت میں جو مرتا ہے اسے جلا تے بھی نہیں بلکہ دفن کر تے ہیں ۔
کلمتہ اللہ
کلمتہ اللہ پر فر ما یا کہ :۔
وجو دیو ں کی طر ف تو ہم نہیں جا تے مگر جب تک کلمتہ اللہ نہ کہا جا وے توبا ت بھی نہیں بنتی ۔یہ علم بہت گہرا ہے ۔جو شئے خدا سے نکلی ہے اس پر رنگ تو خدا کا ہے مگر یہ لو گ اسے خدا سے الگ خیا ل نہیں کر تے ۔فیض کے یہ معنے ہیں کہ ہدایت ہو ۔
(البد ر جلد۲ نمبر۸ صفحہ ۶۱مورخہ۱۳مارچ۱۹۰۳؁ء)
۶ مارچ ۱۹۰۳؁ء
بَلا ئوں سے بچنے کا طریق
جمعہ کی نما ز مسجد اقصی ٰ میں ادا کر نے کے بعد چند ایک گر دونو اح کے آدمیو ں نے بیعت کی ۔بیعت کے بعد حضر ت اقدس کھڑے ہو گئے اور آپ نے ان سے مخا طب ہو کر فر ما یا کہ :۔
جب آدمی تو بہ کر تا ہے تو خدا تعا لیٰ اس کے پہلے گنا ہ بخش دیتا ہے ۔ ۱ ؎ قر آن میں اس کا وعدہ ہے ہر طرح کے دکھ انسا ن کو دنیا میں ملتے ہیں۔ مگر جب خدا کا فضل ہو تا ہے تو ان سب سے انسا ن بچتا ہے اس لیے تم لو گ اگر اپنے وعدہ کے مو افق قا ئم رہو گے تو وہ تم کو ہر ایک بلا سے بچا ئے گا ۔نما ز میں پکے رہو ۔جو مسلما ن ہو کر نما زنہیں ادا کر تا ہے وہ بے ایما ن ہے ۔اگر وہ نما ز ادا نہیں کر تا تو بتلا و ایک ہندو میں اور اس میں کیا فر ق ہے ؟ زمنیدا رو ں کا دستو ر ہے کہ ذراذرا سے عذر پر نما ز چھو ڑدیتے ہیں ۔کپڑ ے ۲ ؎ کا بہا نہ کر تے ہیں لیکن اصل با ت یہ ہے اگر کسی کے پا س اور کپڑے نہ ہو ں تو اسی میں نما ز پڑھ لے اور جب دو سر ا کپڑا مل جا وے تو اس کو بد ل دے ۔ اسی طر ح اگر غسل کر نے کی ضر ور ت ہو اور بیما ر ہو تو تمیم کر لے ۔خدا نے ہر ایک قسم کی آسانی کر دی ہے تا کہ قیا مت میں کسی کوعذر نہ ہو ۔
اب ہم مسلما نوں کو دیکھتے ہیں کہ شطر نج گنجفہ وغیر ہ بیہو دہ با تو ں میں وقت گذارتے ہیں ۔ان کو یہ خیا ل تک نہیں آتا کہ ہم ایک گھنٹہ نما ز میں دیں گے تو کیا حر ج ہو گا ؟سچے آدمی کو خدا مصیبت سے بچا تا ہے اگر پتھر بھی بر سیں تو بھی اسے ضرور بچادے گا ۔اگر وہ ایسا نہ کر ے تو سچے اور چھو ٹے میں کیا فر ق ہو سکتا ہے ؟لیکن
یاد رکھو کہ صر ف ٹکر یں ما رنے سے خدا را ضی نہیں ہو تا ۔ کیا دنیااور کیا دین میں جب تک پو ری با ت نہ ہو فا ئد ہ نہیں ہو اکر تا۔ جیسے میں نے کئی با ر بیا ن کیا ہے ۔کہ روٹی اور پا نی سیر ہو کر نہ کھا ئے پئے تو وہ کیسے بچ سکتا ہے ؟ یہ مو ت طاعون کی جو اب آئی ہے یہ اس وقت ٹلے گی کہ انسا ن قدم پو را رکھے ۱؎ادھورے قدم کو خدا پسند نہیں کر تا ۔
بد ی کو خدا کے خو ف سے چھو ڑدو
جو با ت طا قت سے با ہر ہے وہ تو خدا معا ف کر دیگا۔ مگر جو طا قت کے اندر ہے اس سے مواخذہ ہو گاجب انسا ن نیک بنتا ہے تو اس کے دائیں با ئیں آگے پیچھے خدا کی رحمت کے فر شتے ہو تے ہیںسچا مو من ولی کہلا تا ہے اور اس کی بر کت اس کے گھر اور اس کے شہر میں ہو تی ہے جو خدا تعا لیٰ کو نا راض کر تا ہے۔ وہ نجا ست کھا تا ہے ۔اگر انسا ن بد ی کو خدا کے خو ف سے چھو ڑ دے تو خدا اس کی جگہ نیک بدلہ اسے دیتا ہے ۔مثلا ایک چو ری کر تا ہے اور وہ چو ری کو چھوڑدے تو پھر خدا اس کی وجہ معا ش حلا ل طور سے کر دیگا ۔اسی طر ح زمیندا روں میں پا نی وغیرہ چر انے کا دستو ر ہو تا ہے اگر وہ چھو ڑدیں تو خدا ان کی کھتی میں دوسری طر ف سے بر کت دے دیگا ۔ایک نیک متقی زمیندا ر کے واسطے خدا تعا لیٰ با دل کا ٹکر ا بھیج دیا کر تا ہے اور اس کے طفیل دوسر ے کھیت بھی سیر اب ہو جا تے ہیں حد یث میں آیا ہے کہ چو ر جب چو ری کر تا ہے تو ایما ن اس میں نہیں ہو تا اور اند رونی جب زنا کر تا ہے تو ایما ن اسمیں نہیں ہو تا ۔
یا د رکھو کہ وسو سے جو بلا ارادہ دل میں پیدا ہو تے ہیں ان پر مواخذہ نہیں ہو تا جب پکی نیت انسا ن کسی کا م کی کر ے تو اللہ تعا لیٰ مواخذ ہ کر تا ہے اچھا آدمی وہی ہے جو دل کو با تو ں سے ہٹا دے ۔ہر ایک عضو کے گنا ہو ں سے بچے ۔ہا تھ سے کو ئی بد ی کا کا م نہ کرے ۔کا ن سے کو ئی بری با ت چغلی غیبت ۔ گلہ وغیرہ نہ سنے ۔آنکھ سے محر مات پر نظر نہ ڈالے ۔پا ئوں سے کسی گنا ہ کی جگہ چل کر نہ جا وے ۔
شریروں کیلئے مہلت
با ر با ر میں کہتا ہو ں کہ تم لو گ طا عو ن سے بے خو ف نہ ہو اور یہ نہ سمجھو کہ اب اس کا دورہ ختم ہو گیا ہے ۔جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو کیو ں نہیں آتی اور وہ بد ی پر مصر ہیں ان کو وہ ضرور پکڑ ے گی ۔اس کا دستو ر ہے کہ اول دور دور رہتی ہے ۔ب دیکھو مکہ میں قحط بھی پڑا ۔وبا بھی آئی لیکن ابو جہل کا با ل بھی بیکا نہ ہو ا حا لا نکہ وہ آنحضر ت ﷺ کا سخت دشمن تھا ۔چو دہ ۱۴ بر س تک خدا تعالیٰ نے اسے ایسا رکھا کہ سر درد تک نہ ہو ا ۔آخر وہا ں ہی قتل ہو ا جہا ں پغمیبرخدا نے اس کا نشا نبتا یا تھا ۔اس دنیا میں اللہ تعا لیٰ سب کا م پر دے سے کر تا ہے اگر وہ قہر ی تجلی ایک دن دکھا دے تو سب ہند و وغیر ہ مسلما ن ہو جا ویں ۔تم میں سے کو ئی تکبر اور غرور سے یہ نہ کہے کہ مجھے طا عو ن نہیں آتی ۔
خدا تعا لیٰ شریروں کو اس لیے مہلت دیتا ہے کہ شا ید با ز آجا ویں اور ہدا یت ہو ۔ ۱؎
بیعت کر نیوا لو ں کو نصیحت
آج تم لو گو ں نے تو بہ کی ہے ۔اگر سچے دل سے کی تو پہلے سا رے گنا ہ معا ف ہو گئے اب اس وقت سے پھر نیا حسا ب شر وع ہو گا ۔فر شتو ں کو حکم ہو ا ہے کہ تمہا رے گذشتہ اعما ل نا مے سب چا ک کر دیوں اور تم نے اب ایک نیا جنم لیا ہے یا درکھو کہ جیسے ایک آقا نے غلا م کے بہت سے گنا ہ معا ف کر دیئے ہو ں اور اسے تا کید ہو کہب اب کر وگے تو سخت سزا ہو گی ۔پھر اگر وہ کو ئی قصو رکر ے تو اسے سخت غصہ آتا ہے ۔ ایسا حا ل خدا کا ہے ۔خدا قہتا رہے اگر اسکے نعد کو ئی با ز نہ آیا تو اس کا غضب بھڑکے گا ۔جیسے وہ ستا ر ہے ویسا ہی منتقم اور غیو ر بھی ہے قر آن کو بہت پڑھو ۔ نما ز کو ادا کر و ۔عورتوں کو سمجھا و ۔بچوں کو نصیحت کر و ۔کو ئی عمل اور بد عت ایسی نہ کر و جس سے خدا تعا لیٰ نا راض ہو ۔
اگر ایسا کرو گے تو خدا تعا لیٰ تم میں اور دوسرے لو گو ں میں فر ق کر کے دکھلا دے گا ۔
(مجلس قبل ازعشاء)
جس صا حب نے کل حضر ت اقد س سے رخصت طکب کی تھی ان سے مخا طب ہو کر حضر ت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
یہی منا سب ہے کہ عید کی نما ز کے بعدروانہ ہو ں کیو نکہ پھر سخت گر می کا مو سم آنے والا ہے سفر میں بہت تکلیف ہو گی میں نے جیسا آپ سے وعدہ کیا ہے دعا کر تا رہو نگا مجھے کسی امیر یا با دشا ہ کا خطرہ نہیں ہے۔میر اکا م دعا کر نا ہے ۔
تو بہ کی انتہا فنا ہے
رخصت ہو نے والے احمد ی دوست نے کہا کہ حضر ت جب سے میں آپ پر ایما ن لا یا ہو ں ۔میں آج تک فر ق نہیں کر سکا کہ میری محبت آپ سے زیا دہ ہے یا آنحضر ت ﷺ سے اور ایسے ہی نہیں معلو م کہ میں خدا سے زیا دہ پیا را کر تا ہو ں یا آپ سے۔
حضر ت ا قدس نے فرما یا کہ
یہ فطر ت انسا نی ہے
یعمل علے شا کلتہ
یہی ہے ۔جب زرکو آگ میں ڈالتے ہیں تو آخر کا ر وہ ایسا ہی ہو جا تا ہے کہ آگ میں اور اس میں کو ئی فر ق نہیں ہوہتا اور آگ سے ہو جا وے تو بھی مفید شئے ضرور رہتا ہے ۔صر ف اتنی با ت ہو تی ہے کہ چر ک اس میں نہیں رہتا ۔آگ اپنے رنگ میں لا کر چر ک اس سے دورکر دیتی ہے ۔
تو بہ کی انتہا فنا ہے ۔جس کے معنے رجو ع کے ہیں یعنی خدا تعا لیٰ کے نزدیک ہو نا ۔یہی آگ ہے جس سے انسا ن صا ف ہو تا ہے ۔جو شخص اس کے بزدیک قد م رکھنے سیڈر تا ہے کہ کہیں آگ سے جل نہ جا وے وہ نا قص ہے لیکن جو قدم آگے رکھتا ہے اور جیسے پر وانہ آگ میں گر کر اپنے وجو د کو جلا تا ہے ویسے ہی وہ بھی گر تا ہے ۔وہ کا میا ب ہو تا ہے ۔مجا ہدا یت کی انتہا فنا ہی ہے ۔
مقا م لقا ء
اس کے آگے جو لقا ء ہے وہ امر کسی نہیں بلکہ وہبی ہے ۔اس کا روبا ر کا انتہا مر نا ہے اور یہ تخمر یزی ہے ۔اس کے بعد روئیدن یعنی پیدا کر نا وہ فعل خداکا ہے ۔ایک دا نہ زمین میں جا کر جب با لکل نیست ہو تا ہے تو پھر خدا تعا لیٰ اسے سبز ہ بنا دیتا ہے مگر یہ مر حلہ بہت خو فنا ک ہے ۔
با لکل ٹھیک کہا ہے ؎
عشق اول سر کش وخو نی بو د : تا یز د ہر کہ نیر ونی بود
جب آدمی سلو ک میں قدم رکھتا ہے تو ہزار ہا بلا اس پر نا زل ہو تی ہیں جیسے جنا ب اور دیو نے حملہ کر دیا ہے مگر جب وہ شخص فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اب واپس نہ ہو ں گا اور اسی راہ میں جا ن دے دو نگا تو پھر وہ حملہ نہیں ہو تا اور آخر کا ر وہ بلا ایک با غ میں متبد ل ہو جا تی ہے اوت جو اس سے ڈرتا ہے اس کے لیے وہ دوزخ بن جا تی ہے ۔ اس کا انتہا ئی مقا م با لکل دوزخ کا تمثل ہو تا ہے تا کہ خدا تعا لیٰ اسے آزما وے جس نے اس دوزخ کی پر وا نہ کی وہ کا میا ب ہوا ۔یہ کا م بہت نا زک ہے ۔بجز مو ت کے چا رہ نہیں ۔
(البد ر جلد نمبر ۸ صفحہ ۶۲ مو رخہ ۱۳ ما رچ ۱۹۰۳ ء؁)
۹ ما رچ ۱۹۰۳ ء؁
دوران سیر
وبا زدہ علا قہ میںما مو ر یا نبی کے جا نے کی تعبیر
ایک شخص کی خوا ب پر فرما یا کہ :۔
معبر ین نے لکھا ہے کہ اگر وبا ئی جگہ پر کو ئی ما مو ر نبی گیا ہو ا دیکھا جا وے تو جا ننا چا ہیئے کہ وہا ں آرام ہو گا کیو نکہ وہ لو گ خدا کی رحمت سا تھ لا تے ہیں ۔
ایک رئویا
فرمایا کہ
رات کو میں نے ایک خواب دیکھی کہ ایک شخص نے مجھے ایک پروانہ دیا ہے وہ لمبا سا کاغذ ہے میں نے پڑھا تو لکھاہوا تھا کہ عدالت سے چار جگہ کے لیے طاعون کا حکم جاری کیا گیا ہے اس پروانے سے پایا جاتا تھاکہ اس کا اجراء میںَنے کیا ہے جیسے کاغذات محافظ دفتر کے پاس ہوتے ہیں ویسے ہی میرے پاس ہے میںَ نے کہا کہ یہ حکم ایک عرصہ سے ہے اور اس کی تکمیل آج تک نہ ہوئی ؟اب میں اس کا کیا جواب دو نگا ۔اس سے مجھے ایک خوف طاری ہوا اور تمام رات اسی خدشہ میں رہا اور اس پر روشن خط میں لفظ طاعون لکھا تھا گویا حکم میرے نام آتا ہے اور میں جاری کرتا ہوں پھر میں نے دیکھا ہ اپنی جماعت کے چند آدمی کُشتی کر رہے ہیں میں نے کہا آئو ۔میں تم کو ایک خوان سنائوں مگرر وہ نہ آئے ۔میں نے کہا کیوںنہیں سنتے جو شخص دا کی باتیں نہیں سنتا وہ دوزخی ہوتا ہے ۔
التحیات میں انگشت سبابہ اُٹھانے کی حکمت
ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ کیوں اُٹھاتے ہیں ؟ فرمایا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اُٹھایا کرتے تھے اس لیے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی ۔ خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح اور وہ عادت ہٹاکرفرمایا کہ خدا کوواحد لا شریک کہتے وقت یہ اُنگلی اُٹھایا کرو تا اس سے وہ الزام اُٹھ جاوئے ۔ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے ۔اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی ۔
اس کے بعد اس امر پر ذکر رہا کہ
ہر ایک فروہ میں نذیر آیا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہے ۔اسی لیے رام چند راور کرشن وغیرہ اپنے زمانے کے نبی وغیرہ ہوں گے ۔
تبلیغ کیلئے مفت اشاعت
عرب صاحب نے سوال کیا کہ لو گ آپ کو سا دہ مزاج کہتے ہیں اس لیے کہ کتب مفت تقسیم کی جا تی ہیں ۔گفتہ اند کہ نکو ئی کن وررآپ انداز ۔کتا بیں ہم مفت دیتے ہیں مگر اس میں ہما ری سا دگی نہیں ہے نہ ہم غلطی پر ہیں ۔ہما را منشا ء تبلیغ کا ہو تا ہے ۔اگر ہزا ر کتاب شا ئع ہو اور ایک شخص بھی راہ راست پر آجا وے تو ہما را مطلب پورا ہو گیا ۱ ؎
ایک جا مع درس
نو ما رچ کے دربا ر شا م میں حضر ت حجتہ اللہ مسیح مو عو دعلیہ الصلوٰتہ واسلا م نے ایک مامع تقر یرفر ما ئی ۔ ہم کو افسو س ہے کہ اس روز ہم ایک مصر فیت کی وجہ سے مو جو دنہ تھے اس لیے اس تقر یر کو خود قلمبند نہیں کر سکے تا ہم ہما رے ایک عزیز نے اس ک کچھ نو ٹ لیے تھے جن کو مر تب کر کے نا ظر ین کے فا ئد ے کے لیے
ما لا ید رک کلہ لا یترک کلہ
پر عمل کر نے کے لیے اسے ہی پیش کر دیتے ہیں ۔ (ایڈیٹرالحکم)
نو مبا ئعین کو نصیحت
چند احباب بتقریب نما ز عید الا ضحی دارالا ما ن میں تشر یف لا ئے اور انہو ں نے بیعت کی ۔ حضر ت اقدس اما م پا ک علیہ اسلا م نے کھڑے ہو کر یہ تقر یر فر ما ئی ۔
فر ما یا :۔
دیکھو جس قدر آپ لو گو ں نے اس وقت بیعت کی ہے اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چندکلما ت بطو رنصیحت کے کہتا ہو ں ۔چا ہیئے کہ اسے پو ری تو جہ سے سنیں ۔
آپ لو گو ں کی یہ بیعت۔بیعت تو بہ ہے ۲ ؎ تو بہ دو طر ح ہو تی ہے ایک تو گذشتہ گنا ہو ں سے یعنی انکی اصلا ح کر نے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیا ں کر چکا ہے ان کی تلا فی کر ے اور حتی الو سع ان بگاڑوں کی اصلا ح کی کو کشش کر نا اور آیند ہ کے گنا ہو ں سے با ز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچا ئے رکھنا ۔
تو بہ
اللہ تعا لیٰ کو وعدہ ہے کہ تو بہ سے تما م گنا ہ جو پہلے ہو چکے ہیں معا ف ہو جاتے ہیں بشر طیکہ وہ تو بہ صدق دل اور خلا ص نیت سے ہو اور کو ئی پو شیدہ وغا با زی دل کے کسی کو نہ میں پو شیدہ نہ ہو ۔ وہ دلو ں کے پو شیدہ اور منفی رازوں کو جا نتا ہے وہ کسی کے دھوکہ میں نہیں آتا پس چا ہیئے کہ اس کو دھو کا دینے کی کو کشش نہ کی جا وے اور صدق سے نہ نفا ق سے اس کے حضو ر تو بہ کی جا وے ۔
تو بہ انسا ن کے واسطے کو ئی زائدیا بے فا ئدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صر ف قیا مت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسا ن کی دنیا اوع دین دو نو سنو ر جا تے ہیں ۔اوراسے اس جہا ن میں اور آنے والے جہا ن دونومیں آرام اور خو شحا لی نصیب ہو تی ہے ۱ ؎ ۔
دیکھو قر آن شر یف میں اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے ۔
ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الا خر تہ حسنتہ وقنا عذاب النا ر (البقرہ :۲۰۲)
اے ہما رے رب ہمیں اس دنیا میں بھی آرا م اور آسا ئش کے سا ما ن عطا فر ما اور آنے والے جہا ن میں آرا م اور را حت عطا فر ما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔
دیکھو دراصل ربنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک با ر یک اشا رہ ہے کیو نکہ ربنا کا لفظ چا ہتا ہے ۲ ؎ کہ وہ بعض اور ربو ں کو جو اس نے پہلے بنا ئے ہو ئے تھے ان سے بیزاہو کر اس رب کی طر ف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درداور گداذ کے سوا انسا ن کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا ۔رب کہتے ہیں بتد ریج کما ل کو پہنچا نے والے اور پر ورش کر نیوالے کو ۔اصل میں انسا ن نے بہت سے اربا ب بنا ئے ہو تے ہیں اپنے حیلوں اور دغابا زیو ںپر اسے پورا بھر وسہ ہو تا ہے تو وہی اس کے رب ہو تے ہیں ۔اگر اسے اپنے علم کا یا قو ت با زو کا گھمنڈہے تو وہی اس کے رب ہیں ۔اگر اسے اپنے حسن یا ما ل ودولت پر فخر ہے تو وہی اس کے رب ہے غر ض اس طر ح کے ہزا رو ں اسبا ب اس کے سا تھ لگے ہو ئے ہیں ۔جب تک ان سب کو تر ک کر کے ان سے بزار ہو کر اس وا حد لا شر یک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیا ز نہ جھکا ئے اور ربنا کی پر درد اور دل کو پگھلا نے والی آوازوں سے اس کے آستا نہ پر نہ گر ے ۔تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا ۔پس ایسی دلسو زی اور جا نگدازی سے اس کے حضور اپنے گنا ہو ں کا اقر ار کر کے تو بہ کر تا اورا سے مخا طب کر تا ہے کہ ربنا یعنی اصلی اور ر حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر اپنی غلطی سے دوسر ی جگہ بہکتے پھر تیرہے ۔اب میں ان جھو ٹے بتو ں اور با طل معبو دو ں کو تر ک کر دیا ہے اور صد ق دل سے تیر ی ربو بیت کا اقرارکر تا ہو ں ۔تیر ے آستا نہ پر آتا ہو ں ۔
غر ض بجزاس کے خدا کو رب بنا نا مشکل ہے جب تک انسا ن کے دل سے دوسر ے رب اور ان کی قدرومنزلت وعظمت ووقا رنکل نہ جا وے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربو بیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھا تا ۔بعض لو گو ں نے جھو ٹ ہی کو رب بنا یا ہو ا ہو تا ہے وہ جا نتے ہیں کہ ہما را جھو ٹ کے بد وں گذارہ مشکل ہے بعض چو ری وراہزنی اور فر یب دہی ہی کو اپنا رب بنا ئے ہو ئے ہیں ۔ان کا اعتقا دہے بکہ اس راہ کے سو اان کے واسطے کو ئی رزق کا راہ ہی نہیں ۔سوان کے اربا ب وہ چیزیں ہیں ۔دیکھو ایک چو ر جس کے پا س سا رے نقب زنی کے ہتھیا ر مو جو دہیں اور را ت کا مو قعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کو ئی چو کیدا ر وغیر ہ بھی نہیں جا گتا ہے تو ایسی حا لت میں وہ چو ری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جا نتا ہے جس سے اس کا رزق آسکتا ہے ؟ وہ اپنے ہتھیارو ں کو ہی اپنا معبو د جا نتا ہے۔غر ض ایسے لو گ جن کو اپنی ہی حیلہ با زیو ں پر اعتماد اور بھروسہہو تا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کر نے کی کیا حاجت ؟ دعا کی حا جت تو اسی کو ہو تی ہے جس کے سا رے راہ بندہو ں اور کو ئی راہ سوائے اس در کے نہ ہو ۔اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے ۔غر ض
ربنا اتنا فی الدنیا حسنت الخ
ایسی دعا کر نا صر ف نہیں انہیں لو گو ں کا کا م ہے جو خداہی کو اپنا رب جا ن چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سا منے اور سا رے اربا ب با طلہ ہیچ ہیں ۔
آگ سے مردا صر ف وہی آگ نہیں جو قیا مت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پا تا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طر ح کی آگ ہے ۔تجربہ کا ر جا نتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں مو جو د ہے طر ح طر ح کے عذاب خو ف ۔حزن ۔فقرہ فا قے ۔امر اض۔نا کا میا ں۔ذلت وادبا ر کے اند یشے ۔ ہزاروں قسم کے دکھ ۔اولا د ۔بیو ی وغیر ہ کے متعلق تکا لیف اور رشتہ داروں کے سا تھ معا ملا ت میں الجھن ۔غر ض یہ سب آگ ہیں ۔تو مو من دعا کر تا ہے کہ سا ری قسم کی آگو ں سے ہمیں بچا ۔جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوا رض سے جو انسا نی زندگی کو تلخ کر نے والے ہیں اور انسا ن کے لیے بمنزلہ آگ ہیں بچا ئے رکھ ۔
سچی تو بہ ایک مشکل امر ہے ۔ بجز خد اکی تو فیق اور مددکے تو بہ کر نا اور اس پر قائم ہو جا نا محا ل ہے ۔تو بہ صر ف لفظوں اور با تو ں کا نا م نہیں ۔دیکھو خدا قلیل سی چیز سے خو ش نہیں ہو جا تا ۔کو ئی ذرا سا کا م کر کے خیا ل کر لینا کہ بس اب ہم نے جو کر نا تھا کر لیا اور رضا کے مقا م تک پہنچ گئے یہ صر ف ایک خیا ل اور وہم ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک با دشا ہ کو ایک دانہ کر یا مٹی کی مٹھی دے کر خو ش نہیں کر سکتے ۔بلکہ اس غضب کے مو ردبنتے ہیں تو کیا وہ احکن الحا کمین اور با دشا دہو ں کا با دشا ہ ہما ری ذرا سی نا کا رہحر کت سے یا دو لفظو ں سے خو ش ہو سکتا ہے ۱؎ خدا تعا لیٰ پو ست کو پسند نہیں کر تا وہ مغز چا ہتا ہے ۔
شرک کی حقیقت
دیکھو خدا یہ بھی نہیں چا ہتا کہ اس کے سا تھ کسی کو شرک کیا جا وے ۔بعض لو گ اپنے شر کا ء نفسا نی کے واسطے بہت حصہ رکھ لیتے ہیں اور پھر خدا کا بھی حصہ مقرر کر تے ہیں ۔سوایسے حصہ کو خدا قبو ل نہیں کر تا وہ خا لص حصہ چا ہتاہے ۔اس کی ذات کے سا تھ کسی کو شر یک بنا نے سے زیا دہ اس کو غضبنا ک کر نے کا اور کو ئی آلہ نہیں ہے ۔ایسا نہ کر و کہ کچھ تو تم میں تمہا رے نفسا نی شر کا ر کا حصہ ہو اور کچھ خدا کے واسطے ۔خدا تعالیٰ فر ما تا ہے کہ میں گنا ہ معا ف کر وں گا مگر شرک نہیں معا ف کیا جا وے گا ۔
یا درکھو شر ک یہی نہیں کہ بتو ںاور پتھر وں کی تر اشی ہو ئی مو رتو ں کی پو جا کی جا وے۔ یہ تو ایک مو ٹی با ت ہے یہ بڑ ے بیو قو فوں کا کا م ہے دا نا آدمی کو تو اس سے شر م آتی ہے ۔شر ک بڑا با ر یک ہے وہ شر ک جو اکثر ہلا ک کر تا ہے وہ شر ک فی الا سبا ب ہے یعنی اسبا ب پر اتنا بھر وسہ کر نا کہ گو یا وہی اس کے مطلوب ومقصودہیں جو شخص دنیا کو دین پر مقد م رکھتا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھر و ہو تا ہے اور وہ امید ہو تی ہے جو دین و ایما ن سے نہیں ۔نقد فا ئد ہ کو پسند کر تے ہیں اور آخر ت سے محروم ۔جب وہ اسبا ب پر ہی اپنی سا ری کا میا بیو ں کا مدار خیا ل کر تا ہے تو خدا تعا لیٰ کے وجو د تو اس وقت وہ لغو محض اور بے فا ئدہ جا نتا ہے اور تم ایسا نہ کر و ۔تم تو کل اختیا ر کرو۔
تو کل
تو کل یہی ہے ۲؎کہ اسبا ب جو خدا تعا لیٰ نے کسی امر کے حا صل کر نے کے واسطے مقرر کئے ہو ئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو ۔اور پھر خود دُعائوں میں لگ جائوکہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر ۔صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کوبھی برباد اور تہ وبالا کر سکتے ہیں ۔انکی دست برد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا ۔
حقیقتِ توبہ
توبہ کے معنی ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف گے قدم بڑھانا ۔توبہ ایک موت کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا۔توبہ کے بعد انسان ایسا بن جائوے کہ گویا نئی زندگی پا کر زندگی میں آیا ہے نہ اس کی وہ چال ہو نہ اس کی وہ زبان نہ وہ ہاتھ نہ پائوں۔سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے۔دیکھنے والے جان لیے کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اَور ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں ۔یہ برات کا سر چشمہ ہے۔در حقیقت اولیائاور صلحاء یہی گ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں ۔وہ گناہ سے دور اور خدا سے قریب ہوجاتے ہیں ۔کامل توبہ کرنے والا شخص ہی ولی ،قطب اور غوث کہلاسکتا ہے ۔اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے اس کے بعد بلائیں جو انسان کے واسطے مقدرہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں ۔
انبیاء اور مومنو ں پر مصائب آنے کی حکمت
اس سے یہ خیال نہ آوے کہ پھر انبیاء اورنیک مومنوں کو کیوں تکلیفیں آتی ہیں ؟ان لوگو پر بھی بعض بلائیں آتی ہیں اور ان کے واسطے آثار رحمت ہوتی ہیں ۱ ؎ ۔دیکھو ہمارے نبی ﷺپر کیسی کیسی مصائب آتی تھیں ۔اُن کو گنِنابھی کسی بڑے دِل کا کام ہے ۔اُن کے نام سے ہی انسان کے بدن پر لرزہ آتا ہے ۔پھر جو کچھ سلو ک آنحضر ت ﷺ کے ہمر اہیوں سے ہو ئے ۔ان کی بھی تا ریخ گو اہ ہے کیا کو ئی ایسی بھی تکلیف تھی جو آنحضر ت ﷺ اور آپ کے صحا بہؓ کو پہنچا ئی نہ گئی ہو ؟ جس طر ح ان کی ایذاء وہی میں کفا رنے کو ئی وقیقہ با قی نہ اٹھا رکھا تھا ۔اسی طر ح اللہ تعا لیٰ نے بھی ان کے کما لا ت میں کو ئی کمی با قی نہ رکھی ۔اصل میں ان لو گو ں کے واسطے یہ مصا ئب اور سختیا ں تر یا ق ہو جا یا کر تی ہیں ۔ان لو گو ں کے واسطے خدا کی رحمت کے خزا نے انہیں سختیوں ہی کی وجہ سے کھو لے جا تے ہیں ؎
ہر بلا کیں قو م را حق دادہ است ؛ زیر آں گنج کر م بنہادہ است
مگر ایسے وقت میں انسا ن کو چا ہیئے کہ صبر جمیل کر ے اور خدا تعا لیٰ سے بدظن نہ ہو ۔وہ لوگ تو خدا کے اسلام کو انعا م کے رنگ میں دیکھتے ہیں اور ابتلا ء میں لذت پا تے ہیں ۔قرب کے مر اتب جس چر ح جلد ابتلاء کے وقت میں چے ہو تے ہیں وہ یو ں زہد وتعبد یا ریا ضت سے تو سا لہا سا ل میں بھی تما م نہیں کئے جا تے ان کو گو ں میں سے جو خدا کے قر ب کا نمونہ بنے اور خلق کی ہدا یت کا تمغہ ان کو دیا گیا یا وہ خدا تعا لیٰ کے محبوب ہوئے ۔ایک بھی نہیں جس پر کبھی نہ کبھی مصائب اور شدائد کے پہا ڑ نہ گر ے ہو ں ۔ان لو گو ںکی مثا ل مشک کے نا فہ کی سی ہو تی ہے ۔وہ جب تک بندہے اس میں اور ایک پتھر یا مٹی کے ڈھیلے میں کچھ تفا وت نہیں پا یا جا تا مگر جب اس پر سختی سے جر احی کا عمل کیا جا وے اور اسکو چھری یا چا قو سے چیراجا وے تو معاًاس میں سے ایک خوشکن خوشبونکلتی ہے جس سے مکا ن کا مکان معطرہو جا تا ہے۔ اور قریب آنے والا بھی معطر کیا جا تا ہے۔ سویہی حا ل ابنیاء اور صادق مو منوں کا ہے کہ جب تک ان کو مصائب نہ پہنچیں تب ان کے اندرونی قویٰ چھپے رہتے ہیں اور ان کی ترقیا ت کا دروازہ بندہو تا ہے ان لو گو ں کے قویٰ دو قسم کے موقعوں پر اظہارپذیرہو تے ہیں ۔بعض تو مصائب وشدائد اور دکھوں کے زما نہ میں ۔کیو نکہ یکطرفہ کا روائی قابل اعتماد نہیں ہو تی ۔ممکن ہے کہ ایک شخص جس نے بچپن سے خوشحالی اور آرام اور آسائش کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ۔اس کے قو یٰ کا پورا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے اور دوسرابچپن سے غربت کی ماراوربد حالی میں مبتلا رہا ہے اس کے قویٰ کا بھی پورا اندازہ کرنا مشکل ہے کسی شخص کے اخلا ق فا ضلہ اور اس کے خلق کے متعلق اس کے حالا ت کا اندازہ تب ہی ہو سکتا ہے جب اس پر انعام وابتلا ء ہر دوطرح کے زما نے آچکے ہو ں ۔سواس امر کے دیکھنے کے لیے بھی ہما رے بنی ﷺ کی سی اور کو ئی مثال نہیں کیو نکہ با قی انبیاء میں سے اکثر ایسے تھے کہ انہوں نے نہا یت کا رایک زمانہ دیکھا دوسرے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔مثلا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ہمارا اعتقادہے کہ وہ خدا تعا لیٰ کے بر گزیدہ اور پاک بنی تھے ۔خدا کے نزدیک ان کے بڑے مدارج ہیں مگر آنحضر ت ﷺکے مقابل میں رکھ کر اگر ان کو کسی کسوٹی پرپرکھا جا وے تو ان کے اخلا ق بہت گر ہوئے معلوم ہو تے ہیں ۔انہوں نے قتداراور ثروت کا زما نہ نہ پا یا اور نہ اس کے متعلق ان کے اخلا ق کا اظہا ر ہو ا ۔ہمیں تو قر آن شر یف مجبورکر تا ہے ورنہ ہم اگر ان کے حا لات کے لحاظ سے اور ان کی عا م سوانح کی وجہ سے دیکھیں تو وہ تو ایک کا مل انسا ن کے مر تبہ سے بھی گر ے ہو ئے معلوم ہو تے ہیں کجا یہ کہ عسیا ئی ان کو قسوس کا مر تبہ دے بیھٹے ہیں ۔بھلا ان کا صبر، ان کی داودودہش ،ان کی جو دوسخا کا کو نسا نمونہ دنیا میں با قی رہا ہے ۔ان کی شجا عت کے اظہا ر کا کو نسا مو قعہ تھا ۔کس جنگ میں انہو ں نے ا س امر کا ثبو ت دیا ۱؎۔ ان کی بعثت کا زما نہ صرف تین سال تھا اور وہ بھی مصائب کا زما نہ ۔مقابلہ پرصرف ایک ہی قوم تھی جو معدے ودے چندسے زیا دہ ہر گزنہ تھی ۔ان کا پیش کردہ امر بھی ان کے لیے کو ئی نر الانہ تھا جس کی مثال پہلے نہ پا ئی جا تی ہو ۔قوم پہلے ہی تو حیدپسند تھی ان کے خلا ق اور انکے عقائدکا بہت سا حصہ اچھا تھا ۔ان میں خدا تر س اور گو شہ نشین وغیرہ بھی تھے ۔غرض ان کا کا م نہایت سہل اور آسان تھا ادھر ہما رے بنی ﷺ کی طرف دیکھوکہ آپ کی نبوت کے زما نہ میں سے ۱۳ سال مصائب اور شدائدکے تھے اور دس سال قوت وثروت اور حکومت کے ۔مقابل میں کئی قومیں ۔اول تو اپنی ہی قوم تھی ۔یہودی تھے عیسائی تھے۔بت پرست قوموں کا گروہ تھا ۔مجوس تھے وغیرہ ۔جن کا کا م کیا ہے ؟ بت پرستی ۔جو ان کا حقیقی خدا کے اعتقادسے پختہ ا عتقاد اور مسلک تھاوہ کو ئی کا م کر تے ہی نہ تھے جو ان بتو ں کی عظمت کے خلاف ہو ۔شراب خوری کی ۔یہ نوبت کہ دن میں پا نچ مر تبہ یا سات مرتبہ شراب ۔بلکہ پا بی کی بجا ئے شر اب ہی سے کا م لیا جا تا تھا ۔حرام کو تو شیرمادرجا نتے تھے اور قتل وٖیرہ تو ان کے نزدیک ایک گا جر مولی کی طر ح تھا ۔غر ض کل دنیا کی اقوام کا نچوڑاور گندے عقائدکا عطر ان کے حصہ میں آیا ہو اتھا ۔اس قوم کی اصلاح کرنی اور پھر ان کو دوست کر نا اور پھر اس پر زمانہ وہ کہ یکہ وتنہا بے رومددگا رپھرتے ہیں کبھی کھا نے کو ملا اور کبھی پھوکے ہی سورہے جو چند ایک ہمراہی ان کی بھی ہر روز بری گت بنتی ہے ۔بے کس اور بے بس ۔ادھر کے ادھراور ادھرکے ادھرمارے مارے پھرتے ہیں ۔وطن سے بے وطن کر دئے گئے ہیں ۔
پھر دوسرازما نہ تھا کہ تما م جزیرہ عرب ایک سرے سے دوسرے سرے تک غلا م بنا ہو اہے ۔کہ مخا لفت کے رنگ میں چوں بھی نہیں کر سکتا اور ایسا اقتدار اور رعب خدا نے دیا ہو اہے کہ اگر چا ہتے تو لک عرب کو قتل کر ڈالتے اگر ایک نفسا نی انسا ن ہو تے تو ان سے ان کی کر رتو توں کا ندلہ لینے کا عمدہ مو قع تھا ۔جب الٹ کر مکہ فتح کیا تو
لا تثریب علیکم الیوم
فرما یا ۔
غرض اس طر ح سے جو دونوزما نے آنحضر ت ﷺ پر آئے اور دونوکے واسطے ایک کا فی موقع تھا کہ اچھی طرح سے جانچے پرکھے جا تے اور ایک جو ش یا فوری ولولہ کی حا لت نہ تھی ۔آنحضر ت ﷺکے ہر طرح کے اخلا ق فا ضلہ کا پو را پوراامتحان ہو چکا تھا اور آپ کے صبر ۔استقلال ۔عفت ۔حلم ۔بردبا ری ۔شجاعت ۔سخاوت جودوغیرہ وغیرہ کلاخلاق کا اظہارہوچکا تھا اور کوئی ایسا حصہ نہ تھا کہ با قی رہ گیا ہو۔
حضرت امام حسینؓکی شہادت
غرض ایسے ایسے مصائب ہیں جو ان کے لیے رحمت ہیں اور ان سے ان لوگوں کے اندرونی گُن ظاہر ہوتے ہیں ۔دیکھو حضرت امام حُسین ؓ جنہوں نے ہمیشہ ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اورسیّد سیّد کر کے پکارے جاتے تھے ۔انہوں نے بھی تو سختی کا زمانہ نہ دیکھا ۔ان کو ایسے ایسے زمانے دیکھنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھا کہ وہ اُن صحابہ ؓکے مراتب کو پہنچ سکتے ۔ان کی ساری زندگی ناز ونعمت میںگذری تھی نہ انہوں نے کسی جہاد میں حصہ لیا تھا نہ کسی کفر ہی کوتوڑاتھا تو خدا نے جو اُن کو شہید کیا ۔کیااُن پر ظلم کیا ؟ہرگز نہیں ۔انہوں نے پچاس پچپن برس کی عمر تک وہ زمانہ نہ دیکھا تھاکہ شدائدکیا ہوا کرتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی نہ دیکا کہ جب صحا بہؓ بکریوں کی طرح ذنجہوتے تھے تو پھر ان کا کیا تھا کہ وہ شہداء میں درجہ پا تے یا کسی آخرت میں خدا کے قرب میں عزت پا تے ۔کیاان کو فاطمہ رضی اللہ عنیا کا بیٹا کہلا نے کا فخر بس تھا ؟ اور ان کے واسطے یہی کا فی تھا ؟ نہیں اس سے تو رسول اللہ ﷺ نے بھی منع فر ما یا تھا ۔اس سے کو ئی حق قرب الہیٰ نہیں ہو سکتا یھا ۔غرض انکی اپنی تو ایسی بطاہر کا رنمائی نہ تھی جس سے وہ ان درجات اعلیٰ کے وارث یا حقدار ہو تے ۔مگر چونکہ ان کو آنحضر ت ﷺ سے ایک قسم کا تعلق تھا ۔اللہ تعالیٰ نے نہ چا ہا کہ آنحضر ت ﷺ سے اس قسم کا تعلق رکھنے والے کو ضائع کر ئے ۱؎سو ان کے واسطے ایسے ایسے ساما ن میسر کر دئے کہ وہ خدا کی راہ میں شہادت پا نے کے قابل ہو گئے اور اس طرح وہ سابقین کے ساتھ مل گئے جن کے حالات سے وہ محض نا واقف تھے ۔ایک ذراسی تکلیف اور اجر عظیم مل گیا ۔شیعہ ہیں کہ اس حکمت الہیٰ کی طرف تو غور نہیںکر تے اور الٹا روتے ہیں کہ ان کوشہیدکر دیا ۔
ابتلا ء پر صبر کا اجر
پس تم مومن ہو نے کی حا لت میں ابتلاء کوبرانہ جا نو اور براوہی جا نے گا جو مومن کا مل نہیں ہے قرآن شریف فر ما تاہے کہ۔
النبلونکم بشیی ء من الخوف والجوع ونقصمن الا موال والا نفس والثمرات وبشرالصابرین الذین اذااصابتھم مصیبت قالوااناللہواناالیہ راجعون ْ (البقرہ :۱۵۷)
خدا تعالیٰ فرما تا ہکہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جا ن سے یا اولاد یا دکھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کرنیگے نگر جو ایسے وقتوں میں صبر کر تے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لو گوں کو بشارت دوکہ ان کے واسطے اللہ تعا لیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہاور ان پر خدا کی بر کتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون یعنی ہم اور ہمارے متعلق کل اچیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کاران کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا ۔اور وہ لوگ مقام رضا میں بودوباش رکھتے ہیں ۔ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خداتعا لیٰ نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں ۲ ؎ ۔
مُہتد ی سے مراد
مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعا لیٰ کے منشاء کو پالیا اور اس کے مطابق عملدرآمد کرنے لگ گئے ۔ایسے ہی لوگ تو ولی ہو تے ہیں ۔انہیں کو تو لوگ قطب کہتے ہیں یہی تو غوث کہلاتے ہیں پس تم کو شش کرو کہ تم بھی ان ندارج عالیہ کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکو۔
خدا تعا لیٰ نے انسا ن سے نیا یت تنزل کے رنگ میں دوستانہ برتا ؤ کیا ہے ۔دوستانہ تعلق کیا ہو تا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی با ت ما ن لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منواناچاہتا ہے چنانچہ خدا تعا لیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
اور اذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیبدعوت الداع اذادعان الایت (البقرہ :۱۸۷)
سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ انسا ن کی با ت ما ن لیتا ہے اور اس کی دعا کو قبول فر ما تا ہے اور دوسری
فلیستجیبوالی ولیومنعابی ۔
الایت اور
ولنبلونکم
آیت سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اپنی با ت منوانا چا ہتا ہے ۔
بعض لوگ خدا تعا لیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ ہما ری دعا کو قبول نہیں کر تا ۔اولیا ء لو گو ں پر طعن کر تے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قنول نہیں ہوئی ۔ اصل میں وہ نا دان اس قانون الہیٰ سے آشنامحض ہو تے ہیں جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑاہو گا وہ خوب اس قاعدہ سے آگا ہ ہوگا ۔خدا تعا لیٰ نے ما ن لینے کے اور منوانے کے دونمونے پیش کئے ہیں ۔انہی کو ما ن لینا ایمان ہے تم ایسے نہ بنوکہ ایک ہی پہلو پر زوردو ۔ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کر نیوالے بنو ۔ ۱ ؎
مصائب کی لذت
مومن کے لیے مصائب ہمیشہ نہیں رہتے اور نہ لمبے ہو تے ہیں ۔بلکہ اس کے واسطے رحمت ،محبت اور لذت کا چشمہ جا ری کیا جا تا ہے ۔عاشق کوگ عشق کے غلبہ وقتوں اور اس کے دردوں میں ہی لذت پا تے ہیں ۔یہ با تیں گوایک خشک محض انسا ن کے لیے سمجھانی مشکل ہیں مگر جنہوں نے اس راہ قدم مارا ہے وہ ان کو خوب جا نتے ہیں بلکہ ان کو تو معمولی آرام اور آسایش میں وہ چین اور لذت نہیں ہو تی جو دکھ کے اوقات میں ہو تی ہے ۔
مثنوی رومی میں ایک حکایت ہے کہ ایک مرض ایسا ہے کہ اس میں جب تک اس کو مکے مارتے کو ٹتے اور لتاڑتے رہتے ہیں تب تک وہ آرام میں رہتا ہے ورنہ تکلیف میں رہتا ہے سویہی حا ل اہل اللہ کا ہے کہ جب تک ان کو مصائب وشدائد کے مشکلات آتے ہیں اور ان کو مار پڑتی رہے تب تک وہ خوش ہو تے ہیں اور لذت اٹھا تے ہیںورنہ بے چین اور بے آرام رہتے ہیں ۔
مومن کے جو ہرمصائب سے کھلتے ہیں
خدا تعا لیٰ قادرتھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کی ایذاء نہ پہنچنے دیتا اور ہرطرح سے عیش وآرام میں انکہ زندگی بسر کرواتا ۔ان کی زندگی شاہا نہ زندگی ہو تی ۔ہر وقت ان کے لیے عیش وطرب کے سامان مہیاکئے جا تے مگر اس نے ایسا نہیں کیا ۔اس میں بڑے اسراراور رازنہاں ہوتے ہیں ۔دیکھووالدین کو اپنی لڑکی کیسی پیاری ہو تی ہے بلکہ اکثر لڑکوں کی نسبت زیادہ پیاری ہو تی ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ والدین اس کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں وہ وقت ایسا ہو تا ہے کہ اس وقت کو دیکھنا بڑے جگر والوں کا کا م ہو تا ہے ۔۱؎دونو طرف کی حالت ہی بڑی قابل رحم ہو تی ہے قریبا چودہ پندرہ سال ایک جگہ رہے ہوئے ہو تے ہیں ۔آخر ان کی جدائی کا وقت نہایت ہی رقت کا وقت ہو تا ہے اس جدائی کو بھی نادان بے رحمی کہہ دے تو بجاہے مگراس کی لڑکی میں بعض ایسے قویٰ ہو تے ہیں جس کا اظہاراس علیحد گی اور سسرال میں جا کر شوہر سے معاشرت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے جو طرفین کے لیے موجب برکت اور رحمت ہو تا ہے ۔
یہی حال اہل اللہ کا ہے ۔ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہو تے ہیں کہ جب تک ان پر تکالیف اور شدایدنہ آویں ان کا اظہار ناممکن ہو تا ہے ۔
دیکھو اب ہم لوگ جو آنحضر ت ﷺ کے اخلاق بیان کر تے ہیں بڑے فخر اور جرأ ت سے کا م لیتے ہیں یہ بھی تو صرف اسی وجہ سے ہے کہ آنحضر ت ﷺ پروہ دونومامانے آچکے ہو ئے ہیں ورنہ ہم یہفضیلت کس طرح بیان کر تے ۔دکھ کے زمانہ کو بری نظر سے نہ دیکھو یہ خداسے لذت کو اور اس کے قرب کو اپنی طرف کھنیچتا ہے اسی لذت کو حاصل کر نے کے واسطے جو خدا کے مقبولوں کو ملا کرتی ہے دنیوی اور سفلی لذّات کو طلاق دنیی پڑا کرتی ہے ۔خدا کا مقر ب بننے کے واسطے ضروری ہے کہ دکھ سہے جاویں اور شکر کیا جاوے اور نئے دن ایک نئی موت اپنے اوپر لینی پڑتی ہے جب انسا ن دنیوی ہواوہوس اور نفس کی طرف سے بکلی موت اپنے اوپر وار دکرلیتا ہے تب اسے وہ حیات ملتی ہے جو کچھ کبھی فنا نہیں ہوتی ۔پھر اس کے بعد مرنا کبھی نہیں ہو تا ۔
قرآن کا نزول بحالت غم ہو ا ہے
آنحضر ت ﷺ نے فر مایا ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہو ا ہے ۔تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو ۔اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ آنحضر ت ﷺ کی زندگی کا بہت بڑا حصہ غم والم میں گذرا ہے
توبہ کا درخت اور اس کا پھل
توبہ کے درخت بو ۱ ؎ لو تا تم اس کے پھل کھا و۔توبہ کا درخت بھی بالکل ایک باغ کے درخت کی ما نند ہے جو جوحفا ظیتں اور خدمات اس باغ کے لیے جسمانی طورسے ہیں وہی اس توبہ کے درخت کے واسطے روحانی طور پرہیں پس اگر توبہ کے درخت کا پھل کھا نا چاہوتو اس کے متعلق قوانین اور شرایط کو پورا کرو ورنہ بے فائدہ ہو گا ۔
یہ خیال نہ کرو کہ توبہ کرنا مرنس ہو تا ہے ۔خدا قلیل شئے سے خوش نہیں ہو تا اور نہ وہ دھوکہ کھاتا ہے ۔دیکھواگر تم بھوک کو دورکرنے کے لیے ایک لقمہ کھا نے کا کھا و یا پیاس کے دور کرنے کے لیے ایک قطرہ پانی کا پیوتو ہرگزتمہاری مقصد براری نہ ہو گی ۔ایک مرض کے دفع کرنے کے واسطے ایک طبیب جو نسخہ تجویزکرتا ہے جب تک اس کے مطابق پوراپورا عمل نہ کیا جاوے تب اس کے فائدہ کی امید امر موہوم ہے ۲؎ اور پھر طبیب پر الزام ۔غلطی اپنی ہی ہے اسی طرح توبہ کے واسطے مقدار ہے اور اس کے بھی پر ہیز ہیں ۔بدپر ہیز بیمار تندرست نہیں ہو سکتا ۔
خدا سے صلح پیدا کرو
اب طاعون کے متعلق اللہ تعا لیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرما یا کہ
انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علواباستکبار۔
دیکھو خدا تو سب کا خداہے مگر اس کے تعلقات خاص خاص کے ساتھ خاص خاص ہیں ۔جتنی ۳؎ جتنی کو ئی اس سے صلح کر تا ہے اتنا ہی وہ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔تم میں سے ہر ایک کو بھی وہ آواز آسکتی ہے ۔جو مجھے آئی ۔اگر تم سچی تبدیل اور اس سے صلح پیدا کرو ۔خدا بخیل نہیں مگر ہا ں اس نے ایک اندازہ رکھا ہو ا ہے جب تک اس تک انسا ن نہ پہنچے تو وہ کا مل نہیں ہو تا اور نہ اس پر و ہ فیض جا ری کیا جا تا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شرابی کو اگر پوری مقدار شراب کی نہ دی جاوے تب تک وہ بہیوش نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح جب اس انتہا ئی درجہ محبت تک ترقی نہ کی جاوے تب تک لا حا صل ہو تا ہے قانوننن قدرت جس طرح جسمانی چیزوں کے واسطے ہے ایسے ہی روحانی امور کے واسطے بھی ہے ۔
دیکھوابوالحسن خرقانی ۔بایزید بسطامی یا شیخ عبد القادر جیلانی صاحب رحمتہ اللہ علیم اجمعین وغیرہ یہ سب خداتعالیٰ کے مقر ب تھے اورانہوں نے بھی شریعت ہی کی پا بندی سے یہ درجہ پا یا تھا ۔ نہ کہ کو ئی شریعت بنا کر ۔جیسا کہ آج کے گدی نشین کر تے ہیں یہی نما ز تھی اور یہی روزے تھے مگر انہوں نے اس کی حقیقت اور صل غرض کو سمجھا ہو ا تھا بات یہ تھی کہ انہوں نے نیکی کی مگر سنوار کر ۔انہوں نے اعمال کو بیگا ر کے طور پر پورانہ کیا تھا بلکہ صدق اور وفا کے رنگ میں ادا کرتے تھے سوخدا نے ان کے صدق وسداد کو ضائع نہ کیا ۔خدا کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتا وہ ایک پیسی کے بدلے میں جب تک ہزار نہ دے تب تک نہیں چھوڑتا ۔پس جب کسی انسان میں وہ برکات اور نشانات نہیں ہیں ۔ ۱؎ اور وہ خدا کی محبت اور تقویٰ کادعویٰ کرتا ہے ۔خدا پر الزام نہیں لگا تا بلکہ اپنا گندظاہر کر تا ہے ۔خدا کی جناب میں بخل ہرگز نہیں ۔پس کو شش کرو کہ اس کی رضا کے موافق عمل درآمد کر سکو ۔اگر مصائب کے وقت میں تم مومن ہواور خدا تعا لیٰ سے صلح کر نے والے اور اس کی محبت میں آگے قدم بڑھا نیوالے ہو تو وہ رحمت ہے تمہا رے واسطے ۔کیونکہ خدا قادر ہے کہ آگ کو گلزار کردے اور اگر تم فادق ہو تو ڈروکہ آگ ہے جو بھسم کر نے والی ہے اور قہر اور غضب ہے جو نیست ونابود کر نے والا ہے فقط
(الحکم جلد ۷نمبر ۱۱صفحہ ۹۔۱۳ مورخہ ۲۴ ی؍مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۱ مارچ ۱۹۰۳ء؁
(قبل ازعشاء)
عشاء سے قبل ایک شخص نے خواب بیا ن کی کہ کا ن میں اس نے کچھ با ت سنی ہے اس کی تعبیر میں فرما یا کہ :۔
داہنا کا ن دین ہو تا ہے اور با یا ں دنیا ۔کا ن میں با ت کا ہو نا بشا رت پر محمول کیا جا تا ہے
پھر ایک ذکر فر ما یا کہ :۔
جو خداکی طرف رجوع کرتا ہے ایک دن کا میا ب ہو ہی جا تا ہے ہا ں تھکے نہ ۔کیونکہ خدا کے واسطے لہریں ہو تی ہیں جیسے باد نسیم چلتی ہے۔ ویسے رحمت کی نسیم بھی اپنے وقت پر چلا کر تی ہے ۔انسا ن کو ہمیشہ تیا ررہنا چا ہیئے ۔ (البدا جلد ۲ نمبر ۹ صفحہ ۶۸ مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء؁
نظر آئے گی دنیا کو تیرے اسلام کی رفعت
مسیحا کا بنے گا جب یہاںمنار ۔ یا اللہ !
منار ۃ ا لمسیح کی بنیادی اینٹ
بعد نما ز جمعہ حضر ت حجتہ اللہ المسیح الموعود علیہ الصلٰوت واسلام کے حضور ہما رے مکر م دوست حکیم فضل الہیٰ صاحب لا ہو ری ۔مرزا خدا بخش صاحب ۔ شیخ مولا بخش صاحب ۔قاضی ضیا ئالدین صاحب وغیرہ !احباب نے عر ض کی کہ حضورمنار المسیح کی بنیادی اینٹ حضور کے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی منا سب ہے ۔فر ما یا کہ :۔
ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیاد رکھی جاوے گی ۔اب آپ اینٹ لے آئیں میں اس پرد عا کروں گا اور پھر جہاںمیں کہوں وہاں آپ جا کر رکھدیں ۔چنا نچہ حکیم فضل الہیٰ صاحب اینٹ لے آ ئے ۔اعلٰحضرت نے اس کو ران مبارک پر رکھ لیا ۔اور بڑی دیر تک آپ نے لمبی دعا کی معلوم نہیں کہ آپ نے کیسی کیسی اور کس کس جوش سے دعائیں اسلام کی عظمت وجلا ل کے اظہار اور اس کی روشنی کے کلاقطاع واقطارعالم میں پھیل جا نے کی ہو ں گی ۔وہ وقت قبولیت دعا کا معلوم ہوتا تھا ۔جمعہ کا مبارک دن اور حضرت مسیح مو عود علیہ اسلام منار المسیح کی بنیادی اینٹ رکھنے سے پہلے اس کے لیے دلی جوش کے ساتھ دعا ئیں مانگ رہے ہیں ۔دعا کے بعد آپ نے اس انیٹ پر دم کیا اور حکیم فضل الہیٰ صاحب کو دی کہ آپ اس کومنار المسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں ۔ غرض اس عظیم الشان مینار کی بنیاد کے برگز ید ہ ماموراور مسیح ومہدی علیہ اسلام کے ہا تھ سے ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء؁ کو رکھدی گئی ۔
(الحکم جلد۷ نمبر ۱۰صفحہ ۴ مورخہ ۷؍۱مارچ ۱۹۰۳ء؁)
حجر ہ دعا
بعد نمازجمعہ ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء؁ کو حضر ت اقدس نے تجویز فر ما یا کہ :۔
چونکہ بیت الفکرمیں اکثر مستورات وغیرہ اور بچے بھی آجا تے ہیں اور دعا کا موقعہ کم ملتا ہے اس لیے ایک حجر ہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جا وے۔ جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجا ئش ہواور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تا کہ اس میں کو ئی اور نہ آسکے ۔اس طرح سے مجھے دعا کے لیے عمدہ وقت اور موقعہ مل سکے گا ۔ ۱؎
۱۴مارچ ۱۹۰۳ء؁
حکا م کو نیکی کی تلقین کرنی چاہیئے
نماز عشاء قبل مفتی محمد صادق صاحب نے اخبار سول ملڑی میں طاعون کا مضمون پڑھ کر سنایا ۔اس مضمون کو سنکر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
یہ لوگ اللہ تعا لیٰ کا لفظ ہرگز منہ پر نہیں لائے حالا نکہ اگر حاکم منہ سے ایک بات نکلتی ہے تو ہزاروں آدمیوں پر اس کا اثر ہو تا ہے ۔بٹالہ کا ذکر کہ ایک دفعہ ایک اکسڑ ااسسٹنٹ مکشنرجو کہ ایک دیسی آدمی تھا اس کے منہ سے یہ بات نکلی کہ نماز پڑھنی چا ہیئے ۔اس پر بہت سے مسلمانوں نے نماز شروع کردی ۔ اسی طرح کبھی گورنمنٹ کی طرف سے یہ تاکیدہو کہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں تو دیکھئے پھر لوگوں کی کیا تبدیلی ہو تی ہے مگر اس وقت امر اء لوگ ایسے فسق وفجورمیں مبتلا ہیں کہ گویا یہ ان کے نطفہ کا ایک جزوبن گیا ہے ۔
عورتو ںکے حقوق
اس کے بعد مفتی صاحب نے ایک مضمون سول ملڑی گزٹ سے سنایا جو کہ اسلامی عورتوں کے حقوق پرتھا ۔اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
ابھی کچھ دن ہو ئے کہ آنحضر ت ﷺ کی شان میں ایک گندہ مضمون سنایا گیا تھا اب خدا تعا لیٰ نے اس کے مقابلہ پر ایک فرحت بخش مضمون بھیج دیا ہے خدا تعا لیٰ کا فضل ہے کہ ہر ہفتہ ایک نہ ایک با ت ایسی نکل آتی ہے جس سے طبیعت کو ایک تر وتا ز گی مل جا تی ہے
اس مضمون کا خلا صہ یہ تھا کہ اسلام میں عورتوں کو وہی حقوق دئے گئے ہیں کو کہ مردوں کو دئے گئے ہیں حتیٰ کہ اسلامی عورتوں میں پاکیزہ اور مقدس عورتیں بھی ہو تی ہیں اور ولیہ بھی ہو تی ہیں اور ان سے خارق عادت امور سرزدہوتے ہیں اور جو لوگ اسلام پر اس بارہ میں اعتراض کر تے ہیں ۔وہ غلطی پر ہیں ۔اس پر حضرت اقدس نے عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ :۔
عورتوں کی اصلاح کا طریق
مر د اگر پا رسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہو سکتی ہے ۔ہاں اگر مرد خودصالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چا ہیئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اظر ہو تا ہو تا ہے عورت تو درکناراور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی ما نتا ہے ۔
اگر مرد کو ئی کجی یا خا می اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے اگر وہ ثبوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لا یا ہے تو میں کیوں حرام کہوں ۔غرضکہ مرد کااثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بنا تا ہے اسی لیے لکھا ہے۔
الخبیثا ت لخبیثین والطیبات للطیبن ۔ (نور:۲۷)
اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنوورنہ ہزارٹکریں ما روکچھ نہ بنے گا ۔جو خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے ؟ نہ ایسے مو لویوں لا وعظ اثر کر تا ہے نہ خاوند کا ۔ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کر تا ہے بھلا جب خاوند روت کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے روتا ہے تو عورت ایک دودن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیا ل آوے گا اور ضرور متاثر ہو گی ۔عورت میں متا ثر ہو نے کا مادہ بہت ہو تا ہے یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیر ہ ہو تے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیر ہ جا تی ہیں ان کی درستی کے واسطے کو ئی مدرسہ بھی کفا یت نہیں کر سکتا خاوند کا عملی نمونہ کفا یت کرتا ہے۔خاوند کے مقابلہ عورت کے بھائی بہن وغیر ہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہیں ہو تا ۔
خدا نے مردعورت دونوکا ایک ہی وجود فر ما یا ہے ۔
یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں۔کہ وہ ان کا نقص پکڑیں ۔ان کو چا ہیئے کہ عورتوں کو ہر گز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کر تا ہے بلکہ عورت پکڑیں مار مار کر تھک جا وے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہو تا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے ۱؎
مر د ۲ ؎ اپنے گھر کا امام ہو تا ہے پس اگر وہی بد اثر قائم کر تا ہے تو کس قدر بد اثرپڑنے کی امید ہے مرد کو چاہیئے کہ اپنے قویٰ کو بر محل اورحلال موقعہ پر استعمال کرے مثلا ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیا دہ ہو تو جنون کا پیش خمیہ ہو تی ہ جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فر ق ہے جو آدمی شدید الغضب ہو تا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جا تا ہے بلکہ اگر کو ئی مخا لت ہو تو اس سے بھی مخلوب الغضب ہو کر گفتگونہ کرے۔
مرد کی ان تمام با تو ں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے وہ دیکھتی ہے کہ میر ے خاو ند میں فلا ں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت ۔حلم ۔صبر اور جیسے اسے پر کھنے کا موقعہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا اسی لیے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ ابدرہی اندراخلاق کی چوری کر تی رہتی ہے حتیٰ کہ آخر کا ر ایک وقت پورا اخلا ق حا صل کر لیتی ہے ۔
ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہو گئی ۔شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پر دہ بھی چھوڑفیا ۔غیر لو گوں سے بھی ملنے لگی ۔خاوند نے پھراسلام کی طرف رجوع کیا تو اس نے بیوی کو کہا تو بھی میرے ساتھ مسلمان ہو اس نے کہا کہ اب ،میرا مسلمان ہونا مشکل ہے ۔یہ عادیتں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑگئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں ۔
(البدا جلد ۲ نمبر ۱۰صفحہ ۷۳مورخہ ۲۷ مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۵ مارچ ۱۹۰۳ء؁
آریوں کے متعلق لٹریچر کی اشاعت
سیر کے دوران کتابوں کی کی اشاعت کے متعلق خلیفہ صاحب سے فرمایا کہ انکی اشاعت کرو ایسا نہ ہو کہ صندوقوں میں پڑی رہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آریہ لوگ ان کتابوں کے جواب میں ایک گالیوں کا طومار لکھیں گے کیونکہ جواب دینے کی تو ان میں طاقت نہیں ہوتی۔صرف گند ہی گند بولیں گے۔ہم نے تو نہایت نرم الفاظ میں لکھی ہیمگر یہ بہتان لگائے بغیرنہ رہیں گے شاید ایک اَور کتاب پھر اس کے جواب میں لکھنی پڑے۔دیانندکو اسلام کی خبر نہیں تھی مگر چونکہ اس نے کتابیں ناگری زبان میں لکھیں اس لیے لوگوں کو اس کی ندہ زبانی کی خبت نہیں ہے لیکھرام نے اردو میں لکھیں اس کی خبر سب کو ہوئی۔
میرا اصول ہے کہ جو شخص حکمت اور معرفت کی باتیں لکھنا چاہیے وہ جوش سے کام نہ لیوے و رنہ اثر نہ ہوگا ۔ہاں بعضامر حقہ بر محل عبارت میں لکھنے پڑتے ہیں مگر الحقُ مُرُ معاملہ ہو کر اس میں مجبور ہو جاتے ہیں میرے خیال میں سناتن دھرم اونسیم دعوت وغیرہ لاہور ،بمبئی ،کشمیر وغیرہ شہروں میں آریوں کے پاس ضرور روانہ کرنی چاہیئں اگر شائع نہ ہو ں تو پھر وہی مثال ہے ۔
زبہر نہادن چہ سنگ وچہ زر
امامت مسجد اور ختم وغیرہ
ایک سوال پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو ناپاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلّاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شوربا اور روٹی زیادہ ملے۔
ولا تشتروابا یا تی ثمنا قلیلا (البقرہ : ۴۲)
یہ کفر ہے ۔جو طریق آج کل پنجا ب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے ملا ں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کرکے جماعت کراتے ہیں ایسا مام شرعا نا جا ئزہے ۔صحا ؓبہ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طر ح اجرت پر امامت کرائی پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کو رٹ تک مقدمہ چلتا ہے ۔یہانتک کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نماز جنازہ کی ۶یا ۷ تکبیریں کہیں ۔لوگوں نے پوچھا تو جواب دیاکہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یادرہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادرہے جب مجھے یہ بات بھول جا تی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہو تی ہے ۔
اسی طرح ایک ملا یہاں آکر رہا ۔ہمارے میرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جومحلہ دیا ہے ۔اس کے آدمیوں کے قدچھوٹے ہیں اس لیے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملیگا اس سے چادر بھی نہ بنے گی ۔
اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہوجاتا ہے ۔
مولُودخوانی
ایک ۱ ؎ شخص نے مولودخوانی پر سوال کیا ۔فرمایا :۔
آنحضرت ﷺ کا تذکر ہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیا ء اور اولیا ء کی یا د سے رحمت نازل ہو تی ہے اور خودخدانے بھی انبیاء کے تذکر ہ کی تر غیب دی ہے ۲؎لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جا ویں جن سے تو حید میں خلل واقع ہو تو وہ جا ئز نہیں ۔خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان کے ساتھ رکھو۔ آج کل مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہو تے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں ۔اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے ۔ آنحضرت ﷺکی بعثت ،پیدائش اور وفات کا ذکر ہوتوموجب ثواب ہے ۲؎ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یاکتا ب بنا لیویں ۔
بعض ملا ں اس میں غلوکر کے کہتے ہیں کہ مولودخوانی حرام ہے ۳؎ اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کر وگے ؟ کیونکہ جس کا ذکر زیا دہ ہو اس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہو تی ہے ۔
مولود کے وٍقت کھڑا ہو نا جائز نہیں ۔ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہو تاہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح آگئی ۱؎ ہے بلکہ مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بد معاش لوگ ہو تے ہیں وہا ں آپکی روح کیسے آسکتی ہے اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے ؟
ولا تقف ما لیس لک بہ علم (بنی اسرائیل :۳۷)
دونوں طرف کی رعایت رکھنی چاہیئے ۔جب تک وہابی آنحضرت ﷺ کی عظمت نہیں سمجھتا وہ بھی خدا سے دور ہے ۔انہوں نے بھی دین کو خراب کر دیا ہے ۔جب کسی بنی یا ولی کا ذکر آجا وے تو چلا اٹھتے ہیں کہ دوسرے فرقے نے شرک اختیار کیا حتیٰ کہ قبروں کو سجدہ کیا اور اس طرح اپنا ایمان ضائع کیا ۔ہم نہیں کہتے کہ انبیا ء کی پرستش کرو بلکہ سوچو اور سمجھو ۔خدا تعا لیٰ بارش بھیجتا ہے ہم تواس پر قادر نہیں ہو تے مگر با رش کے بعد کیسی سرسبزی اور اشادا بی نظر آتی ہے ۔اسی طرح انبیاء کا وجود بھی با رش ہے ۲؎
پھر دیکھو کہ کوڑی اور موتی دونو دریا ہی سے نکلتے ہیں پتھر اور ہیرہ بھی ایک پہاڑ سے نکلتا ہے مگر سب کی قیمت الگ الگ ہو تی ہے اسی طرح خدا نے مختلف وجود بنائے ہیں ۔انبیاء کا وجود اعلیٰ ردجہ کا ہو تا ہے اور خدا کی محبت سے بھرا ہوا ۔اس کو اپنے جیسا سمجھ لینا اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا ۔ بلکہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جو ایک ایسا مقام عطا ہو گا جس میں صرف میں ہی ہو ں گا ۔ایک صحا بی روپڑا ۔کہ حضور مجھے جو آپ سے محبت ہے سچی محبت نہیں رکھتا ۔ ۳ ؎ میں نے جہاں تک دیکھا ہے ۔وہابیوں میں تیزی اور چالا کی ہو تی ہے ۔خاکساری اور انکساری تو ان کے نصیب نہیں ہو رتی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں ۔وہ بھی الہام کے منکر یہ بھی منکر ۔جب تک انسا ن برا ہ راست یقین حاصل نہ کرے قصص کے رنگ میں ہرگز خدا تعا لیٰ تک نہیں پہنچ سکتا جو شخص خدا تعا لیٰ پر پرا ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ اس پر کچھ تو خدا کا رنگ آجا وے ۔
دوسر ے گروہ میں سوائے قبرپر ستی اور پیرپرستی کے کچھ روح با قی نہیں ہے ۔قرآن کو چھوڑدیا ہے ۔خدا مے امت وسطا کہا تھا ۔وسط سے مراد ہے ۔میانہ رو۔اور وہ گروہ نے چھوڑدیا ۔پھر خدا فر ما تا ہے
ان کنتم تحبون اللہ فا تبعونی (ال عمران : ۳۲)
کیا ۱؎ آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قر آن پڑھا تھا ؟
اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہو تا تو ہم ہزار پر پڑھتے ہا ں آنحضرت ﷺ نے خوش الحا نی ۲ ؎ سے قر آن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے ۔جب یہ آیت آئی
وجئنا بک علی ھولا ئشھیدا (النسا ء :۴۲)
آپ روئے اور فر ما یا بس کر میں آگے نہیں سن سکتا ۔آپ کو اپنے گواہ گذرنے پر خیال گذرا ہو گا ۔ہمیں خودخواہش رہتی ہے کہ کو ئی خوش الحان حافظ ہو تا قرآن سنیں ۔
آنحضرت ﷺ نے ہر ایک کا م کا نمونہ دکھلا دیا ہے ہ ہمیں کرنا چاہیئے ۔سچے مو من کے واسطے کا فی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کا م آنحضرت ﷺ نے کیا ہے ک نہیں ۔اگر نہیں کیا تو کر نے کا حکم دیا ہے یا نہیں ؟حضر ت ابر اہیم آپ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولودنہ کروایا ؟
اشعار اور نظم پڑھنا
نظم تو ہماری اس مجلس میں بھی سنائی جا تی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ ایک شخص خوش الحان کی تعریف سنکر اس سے چندایک اشعارسنے پھر فرما یا کہ رحمک اللہ یہ لفظ آپ جسے کہتے تھے وہ جلد شہید ہوجا تا چنانچہ وہ بھی میدان میں جا تے ہی شہید ہو گیا ۔ایک صحاؓبی نے آنحضرت ﷺ کے بعد مسجد میں شعر پڑھے۔حضر ت عمرؓ نے روکا کہ مسجدمیں مت پڑھو ۔وہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ تو کو ن ہے کہ مجھے روکتا ہے میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرت ﷺ کے سامنے اشعار پڑھے تھے اور آپ نے مجھے منع نہ کیا ۔حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے۔
شعر کہنا
ایک شخص کا اعتراض پیش ہو ا کہ مرزا صاحب شعرکہتے ہیں ۔فر ما یا :۔
آنحضرت ﷺ نے بھی خود شعر پڑھے ہیں ۔پڑھنا اور کہنا ایک ہی با ت ہے ۔پھر آنحضرت ﷺ کے صحابی شاعر تھے ۔حضر ت عائشہ ؓ ۔اما حسن ؓاور اما م حسین ؓ کے قصائد مشہور ہیں ۔حسان بن ثابت ؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفا ت پر قصیدہ لکھا ۔
سید عبد القادر صاحب نے بھی قصائد لکھے ہیں ۔کسی صحابیؓ کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑا یا بہت شعر نہ کہا ہو مگر آنحضرت ﷺ نے کسی کو منع نہ فرما یا ۔قر آن کی بہت سی آیا ت شعروں سے ملتی ہیں ۔
ایک شخص نے عرض کی کہ سورہ شعراء میں اخیر پر شاعروں کی ندمت کی ہے فر ما یا کہ :۔
وہ مقام پڑھو ۔وہا ں خدا نے فسق وفجور کر نیوالے شاعروں کی مذمت کی ہے اور مو من شاعرکا وہا ں خود استشنا ء کر دیا ہے ۔پھر سا ری زبورنظم ہے ،یر میا ہ ،سلیمان اور موسیٰ کی نظمیں تو رات میں ہیں اس سے ثا بت ہوا کہ نظم گنا ہ نہیں ہا ںفسق وفجو کی نظم نہ ہو ۔ہمیں خود الہام ہو تے ہیں بعض ان میں سے مقفیٰ اور بعض شعروں میں ہو تے ہیں ۔
(مجلس قبل ازعشاء )
کتے اور بندر سے مراد
کتے سے مراد ایک طماع آدمی جو کہ تھوڑی سی بات پر راضی اور تھوڑی سی با ت پر نا راض ہو جا تے ہیں ۔اور بندر سے مراد ایک مسخ شدہ آدمی ہے ۔
مفسرین سے یہ با ت ثابت نہیں کہ مسخ شدہ یہود پر لشپم پیدا ہو گئی تھی اور ان کی دم بھی نکل آئی تھی بلکہ ان کے عادات مثل بندروں کئے ہو گئے تھے ۔اس وقت بھی امت مثل یہو د کے ہو گئی ہے ۔اس سے مراد یہی ہے کہ ان کی خصلت ان میں آگئی ہے کہ ما مور کا انکار کرتے ہیں ۔
کسرصلیب
کسرصلیب پر فر ما یا کہ :۔
اب ایک ہوا چل پڑی ہے جیسے ہما رے دلوں میں ڈالا ہے کہ مسیح مر گیا ویسے ہی اب ان (اہل یورپ وامریکہ ) کے دلوں میں ڈالا ہے ۔اخبار اور رسا لے نکلتے ہیں اور مسیح کی امید لگ رہی ہے سب پکا ررہے ہیں کہ یہی زما نہ ہے ۔
تعبیر رویا
دانت کی داڑھ نکل کر اگر کا نچ کی نظر آوے تو خطر نا ک ہو ا کر تی ہے ۔دانت اگر ٹو ٹ کر ہا تھ میں رہے تو عمدہ ہے ۔
خواتین کی اصلا ح کا طریق
اس کے بعد مفتی محمد صادق صاحب پھر سول اخبا ر کا بقیہ مضمون سنا تے رہے جس میں اسلامی عورتوں کا ذکر تھا اس پر حضر ت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
کو ئی زما نہ ایسا نہیں جس میں اسلا می عورتیں صالحات میں نہ ہو ں گو تھوڑی ہو ں مگر ہوں گی ضرور جس نے عورت کو صالحہ بنا نا ہو وہ خود صالح بنے ۔ہما ری جما عت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گا ری کیلئے جس نے عورتوں کو پر ہیز گا ریسکھا ویں ورنہ وہ گہنگا رہوں گے اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلا ں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی ۔جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حا لت میں اولا د بھی پلیدپیدا ہو تی ہے ۔اولا د کا طیب ہو نا تو طیبا ت کا سلسلہ چا ہتا ہے ۔اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہو تی ہے ۔اس لیے چا ہیئے کہ سب تو بہ کریں۔ اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔عورت خاوند کی جا سوس ہو تی ہے۔ وہ اپنی بد یا ں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا ۔نیز عورتیں چھپی ہو ئی دا نا ہو تی ہیں ۔یہ نہ خیا ل کر نا چا ہیئے کہ وہ احمق ہیں۔ وہ اند رہی اندر تمہا رے سب اثر وں کو حا صل کر تی ہیں ۔جب خاوند سیدھے رستہ پر ہو گا تو وہ اس سے بھی ڈریگی اور خدا سے بھی ۔ایسا نمونہ دکھا نا چا ہیئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جا وے کہ میر ے خاوند جیسا اور کو ئی نیک بھی دنیا میں نہیں ہے ۔اور وہ یہ اعتقا دکرے کہ یہ با ریک سے با ریک نیکی کی رعایت کر نے والا ہے ۔جب عورت کا یہ اعتقا دہو جا ویگا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے با ہر رہے ۔سب انبیا ء اولیا ء کی عورتیں نیک تھیں اس لیے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے ۔جب مرد بد کا ر اور فا سق ہو تے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہو تی ہیں ۔ایک چورکی بیو ی کو یہ خیا ل کب ہو سکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں ۔خاوند تو چوری کر نے جا تا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے ؟
الرجال توامون علی النساء (نساء :۳۶)
اسی لیے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متا ثر ہو تی ہیں جس حد تک خاوند صلا حیت اور تقویٰ بڑھا وے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی ۔ویسے ہی اگر وہ بد معاش ہو گا تو بد معاشی سے وہ حصہ لیں گی ۔
(البد رجلد ۲ نمبر ۱۰ صفحہ ۷۳۔۷۴۔۷۵ مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۶مارچ ۱۹۰۳ء؁
خواب اور اسکی تعبیر
سیرمیںبعض احبا ب نے اپنے اپنے رویا سنائے آپ نے فر ما یا کہ خواب بھی ایک اجمال ہو تا ہے اور اسکی تعبیر صر ف قیاسی ہو تی ہے ۔
ایک رویا اور ایک الہام
رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنی جما عت میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا پھر آنکھ کھل گئی سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں ۔قیاسی طور پر جو با ت اقرب ہو وے لگا ئی جاسکتی ہے کہ اس اثنا ء میں غنود گی غا لب ہو ئی اور الہام ہو ا
استقامت میں فرق آگیا ‘‘
ایک صاحب نے کہا کہ وہ کو ن شخص ہے حضرت نے فر ما یا کہ
معلوم تو ہے مگر جب تک خدا کا اذن نہ ہو میں بتلا یا نہیںکر تا میرا کا م دعا کر نا ہے ۔
سُود کی حرمت
ایک نے سوال کیا کہ ضرور ت پر سوری روپیہ لے کر تجا رت وغیرہ کر نے کا کیا حکم ہے ۔فر ما یا :۔
حرام ہے ۔ہا ں اگر کسی دوست اور تعا رف کی جگہ سے روپیہ لیا جا وے اور کو ئی وعداہ اس کو زیا دہ دینے کا نہ ہو نہ اس کے دل زیادہ لینے کا خیا ل ہو ۔مگر اگر مقروض اصل سے کچھ زیا دہ دیدے تو وہ سود نہیں ہو تا بلکہ یہ تو
ھل جذائالاحسان الا لاحسان (الرحمن :۶۱) ہے ۔
اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہواور سوائے سود کے کا م نہ چل سکے تو پھر ؟ اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
خدا تعا لیٰ نے اس کی حرمت مو منوں کے واسطے مقررکی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایما ن پر قائم ہو اللہ تعا لیٰ اس کا متو لی اور متکفل ہو تا ہے ۔اسلام میں کروٹ ہا ایسے آدمی گذرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پورے ہو تے رہے کہ نہیں ؟ ۱؎ خدا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ نہ لو نہ دوجو ایسا کر تا ہے وہ گویا خدا کے سا تھ لڑائی کی تیا ری کر تا ہے ایما ن ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے ایما ن بڑی با بر کت شئے ہے الم تعلم ان اللہ علی کل شیی ئقدیر ۔(البقرہ : ۱۰۷) اگر اسے خیا ل ہو کہ پھر کیا کرے ؟ تو کیا خدا کا حکم بھی بیکا رہے ؟ اس کی قدرت بہت بڑی ہے سود تو کو ئی شئے ہی نہیں ہے ۔اگر اللہ تعا لیٰ کا حکم ہو تا کہ زمین کا پا نی نہ پیا کروتو وہ ہمیشہ با رش کا پا نی آسما ن سے دیا کرتا اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نا فر ما نی بھی نہ ہو جب تک ایما ن میں میل کچیل ہو تا تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے ۔کو ئی گنا ہ چوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے ورنہ انسا نتو ہر ایک گنا ہ پر یہ عذرپیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑ یں تو گذارہ نہیں چیتا ۔ دکا نداروں عطا روؓ کو دیکھا جا وے کہ پر انا مال سا لہا سا ل تک بیچتے ہیں ۔دھوکا دیتے ہیں ۔ملازم پیشہ لوگ خوری کر تے ہیں اور سب یہ عذرکرتے ہیں ۳ ؎ کہ گذارہ نہیں چلتا۔ان سب کو اگر اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتا ب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گذارہ نہیں چلتا ۔حالانکہ مو من کے لیے خدا خود سہولت کر دیتا ہے ۔یہ تما م راستبازوں کا محبرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے
لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے جیسے بھروسہ اُن کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے خدا پر ایمان یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہیے کہ اَورعجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی ایسے مخفی رکھا جاوے۔میں نے کئی دفعہ بماریوں میں آزمایہ ہے کہ پیشاب باربار آرہا ہے دست بھی لگے ہیں۔آخر خدا سے دُعا کی ۔صبح کو الہام ہوا۔دُعا ء کَ مستجاب اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی اور کمزوری کی جگہ طاقت آگئی ۔یہ خدا کی طاقت ہے خدا ایسا عجیب ہے کہ ان نسخوں سے بھی زیادہ قابلِ ودر ہے جو کیمیا وغیرہ کے ہوتے ہیں مجھے بھی ایک دفعہ خیال آیا کہ یہ تو چھپا نے کے قابل ہے پھر سوچا کہ یہ تو بخل ہے ایسی مفید شئے کا دنیا پر اظہار کرنا چاہیے کہ مخلوق الہٰی کو فائدہ حاصل ہو ۔یہی فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے خدا میں ہے۔انکا خدا بولتا نہیں۔خدا معلوم یہ بھی کیساایمان ہے ۔اسلام کا خدا جیسا پہلے تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔نہ طاقت کم ہوئی نہ بوڑھا ہوا۔نہ کچھ اور نقص اس میں واقع ہوا۔ایسے خدا پر جس کا ایمان ہو وہ اگر آگ میں بھی پڑا ہو تو اُسے حوصلہ ہوتا ہے ۔ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا ہی تھا ۔ایسے ہی ہم بھی آگ میں ڈالے گئے۔ ۱ ؎ خون کا مقدمہ بنایا گیا ۔اگر اس میں ۵ یا دس سال کی قید ہو جاتی تو سب سلسلہ تباہ ہو جاتا ۔سب قوموں نے متفق ہو کر یہ آگ سلگائی تھی ۔کیا کم آگ تھی؟اس وقت سوائے خدا کے کون تھا ؟اور وہی الہام ہوئے جو کہ ابراہیم ؑ کو ہوئے تھے آخر میں الہام ہوا اِبراء اور تسلی دی کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے ۔
پراویڈنٹ فنڈ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ۔ان کی تنخواہ میں سے ایک اَنہ فی روپیہ کا ٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہیاور اس کے ساتھ کچھ زائد بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟فرمایا کہ
شروع میں سُود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاویگا ۔ ۲ ؎ لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے ۔پیغمبر خدا کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اُسے کچھ نہ کچھ زیادہ (نہ)دیدیا ہو ۔یہ خیال رہنا چاہیے کہ اپنی خواہش نہ ہو ۔خواہش کے بر خلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سُود میں داخل نہیں ہے ۔
سُود اور سُودر سُود
ایک صاحب نے عر ض کیا کہ سیداحمدصاحب نے لکھا ہے
اضعا نا مضعفتت (ال عمران :۱۳۱)
کی ممانعت ہے فر ما یا کہ :۔
یہ با ت غلط ہے کہ سُود اور سُودر سُود کی ممانعت کی گئی ہے اور سودجا ئزرکھا ہے شریعت کا ہر گز یہ منشاء نہیں ہے یہ فقر ہ اسی قسم کا ہے جیسے کہا جا تا ہے کہ گنا ہ درگنا ہ مت کرتے جا و اس سے یہ مطلب نہیں ہو تا کہ گنا ہ ضرور کر و۔
اس قسم کا روپیہ جو کہ گو رنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حا لت میں سود ہو گا جبکہ لینے والا اس خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے ورنہ گو رنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے ۔
رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جا یئداد
ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تا ئب ہو تو اس کے پا س جواول جا یئداد رشوت وغیرہ سے بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے ۔فر ما یا :۔
شریعت کا حکم ہے کہ توبہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسے پہنچایا جا وے ۔ ۱ ؎ رشوت اورہدیہ میں تمیز چا ہیئے ۔رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا یا لیا جا وے ورنہ اگر کسی نے ہما را ایک کا م محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہو ئی تو اس کو جو دیا جاوے گا ۔وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے ۔
انشورنس یا بیمہ
انشورنس ۲؎ اور بمیہ پر سوال کیا گیا ۔فر ما یا کہ
سود اور قما ربا زی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے قماربا زی میں ذمہ داری نہیں ہو تی ۔دنیا کے کا روبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے
دوسرے ان تمام سوالوں میں اس کا امر کا خیال بھی رکھنا چاہئیے کہ قر آن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں ۔مثلا اب کو ئی دعوت کھا نے جا وے اور اسی خیال میں لگ جا وے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر میں آیا ہو گا ۔پگر اس طرح تو آخر کا ردعوتوں کا کھا نا ہی بند ہو جا وے گا ۔خدا کا نا م ستار بھی ہے ورنہ دنیامیں عام طور پر راستباز کم ہو تے ہیں ۔مستورالحال بہت ہو تے ہیں ۔یہ بھی قرآن میں لکھا ہے
ولا تجسسوا (سورت الحجرات :۱۳)
یعنی تجس مت کیا کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں پڑوگے ۔
مجلس قبل ازعشاء
پنڈت نند کشورسناتن دھرمی سے گفتگو
پنڈت نند کشور صاحب جو کہ سناتن دھرم مذہب کے ایک عالم فاضل متجر لیکچرار ہیں حضرت اقدس کی ملا قات کے واسطے تشریف لا ئے ۔تے ہی حضرت صاحب سے سلا م علیکم اور مصافحہ کیا ۔ حضرت صاحب نے نسیم دعوت اورسناتن دھرم وغیرہ کی نسبت ان کی رائے دریا فت کی ۔ پنڈت صاحب نے کہا کہ ان کتب میں آپ نے ویسے ہی لکھا ہے جیسے انبیاء کا دستورہے خدا کے برگزیدہ بندوں سے گندے لفظ نکل ہی نہیں سکتے ۔آریہ لو گوں کی مثال انہوں نے یہ سی کہ جیسے کھاری چشمہ سے میٹھا پا نی نہیں نکل سکتا ۔اسی طرح وہ لوگ لکھ ہی کیس سکتے ہیں ۔
حضرت اقدس نے آریہ سماج کی نسبت فر ما یا کہ :۔
آریہ سماج
یہ لوگ با لکل حقیقت ایمان سے بے نصیب ہیں ۔ایمان تو عقلمندوں کی آزما ئش کے لیے ہے کہ کچھ عقل سے کا م لیوے اور کچھ ایمان سے ۔معجزات میں یہ عادت اللہ ہرگز نہیں ہے کہ ایسے کا م دکھلا ئے جا ویں جو کہ خدا کی عادت کے بر خلا ف دنیا میں ہو ں ۔مثلا سوال کر تے ہیں کہ سویا پچاس سال کے مردے آکر شہادت دیویں گو کہ یہ تو ہو سکتا ہے مگر سوال ہے کہ جو اس کے بعد قبول کر یگا اسے کیا فا ئد ہ ہوگا ؟ جب سب حقیقت کھل گئی اور سودوسوآدمی کی شہادت بھی مل ھئی تو اب کس کی عقل ما ری ہے کہ انکا ر کر ے نہ ہندونہ چمار کسی کو گنجا ئش ہی انکار کی نہیں رہتی ۔ہما رے ہاں لکھا ہے کہ اس قسم کا ایما ن فا ئدہ نہیںدیتا ۔اگر دن چڑھا ہو ا ار کو ئی کہے کہ میں دن پر ایما ن لا یا۔یا چا ند پورا چودہویں کا ہے اور کوئی اس پر ایمان لا وے تو اسے کیا فا ئدہ ہو گا ؟ اور کس تعریف کا مستحق ہے ؟ ہا ں اگر اول شب کے چا ند پر جس کا نا م ہلا ل ہت کو ئی اسے دیکھ کر بتلا وے تو اس کی نظر کی تعریف کی جاوے گی اور جس کی نظر کم وپیش ہے وہ کھل جاویگی تو نشانوں می یہی اصول خدا نے رکھا ہے کہ ایک پہلو میں ایما ن سے فا ئدہ اٹھا ویں اور ایک پہلومیں عقل سے ورنہ ایمان ایمان نہیں رہتا ۔ایک مخفی امر کو عقل سے سوچکرقرائن ملا کر ما ن لینے کا نا م ایما ن ہے ۔ان لو گوں کی عقل موٹی ہے ۔ایسے نشان طلب کر تے ہیں جو کہ عادت اللہ کے خلاف ہیں ہم یہ پیش کر تے ہیں کہ جو سچامذہب ہو تا ہے اس میں امتیا ز ہو تا ہے جس قدر تا ئیدات اور خوارق خدا تعا لیٰ نے اسلا م کی تا ئیدمیں رکھے ہیں ۔وہ کسی دوسر ے مذہب کے لیے ہرگز نہیں ہیں ۔مگر یہ ان امورمیں مقابلہ چا ہتے ہیں جو کہ عادت اللہ کے خلاف ہیں ۔ دوسر ے خدا غلا م نہیں ہے کہ کسی تا بع ہو بلکہ وہخدا کے تا بع ہیں ۔
فیصلہ کا آسان طریق
ہم نے ان سے یہ چا ہا ہے کہ اس طرح سے فیصلہ کر لو کہ ہزاروں اعتراض جو تم لو گ کرتے ہو ان میں سے دواعتراض چن لو اگر وہ سچے نکل آویں تو با قی تمہارے سب سچے اور اگر وہ جھوٹے نکل آویں تو با قی سب جھوٹے ۔مگر ان لو گوں کو موت کا خوف نہیں ۔اگر عقل ہو تو لا زم ہے کہ وہ اسلا م کے سوائے کو ئی سچا پاک مذہب دکھلا ویں ۔اور طلا ق کی نسبت اعتراض ہے ہم کہتے ہیں کہ اچھا آج تک جس قدر طلا ق اسلام میں ہو ئی ہیں ان کی فہرست ہم سے لواور جس قدر نیوگ تم میں ہو اس کی فہرست ہمیں دو۔
مدارات اور مداہنہ میں فرق
فر ما یا کہ
مدارات اسے کہتے ہیں کہ نرمی سے گفتگو کی جاوے تا کہ دوسرے کے ذہن نشین ہو اور حق کا اس طرح اظہار کاکرنا کہ ایک کلمہ بھی با قی نہ رہے اور سب ادا ہو جاوے اور مداہنہ اسے کہتے ہیں کہ ڈرکر حق کو چھپا لینا ۔کھا لینا اکثر دیکھا جا تا ہے کہ لو گ نر می سے گفتگو کر کے پھر گر می پر آجا تے ہیںب ۔یہ منا سب نہیں ہے حق کو پورا پورا ادا کر نے کے واسطے ایک ہنر چا ہئیے ۔وہ شخص بہت بہا در ہے جو کہ ایسی خوبی ستے حق کو بیا ن کر ے کہ بڑے غصہ والے آدمی بھی سن لیویں ۔خدا ایسوں پر راضی ہو تا ہے ہا ں یہ ضرور یہے کہ حق گو سے لو گ را ضی نہ ہوں اگر چہ وہ نر می بھی کر ے مگر تا ہم درمیا ن میں ایسے بھی ہو تے ہیں جو اچھا کہنے لگتے ہیں ۔
(البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ صفحہ ۷۵،۷۶ مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء؁
قبل ازعشاء
معجزہ شق القمر کی شہادت ہندوستا ن میں
پنڈت نند کشور صاحب سے معجزا ت پر گفتگو ہو ئی پنڈت صاحب معجزہ شق القمر کی نسبت کہا کہ بھو ج سوانح ایک کتا ب سنسکر ت میں ہے مجھ سے پنڈتو ں نے بیا ن کیا ہے کہ اس میں شق القمر کی شہادت راجہ بھو ج سے ہے کہ وہ اپنے محل پر تھا یکا یک اس نے چا ند کو ٹکڑے ہو تے ہو ئے دیکھا ۔اس نے پنڈتو ں کو بلا کر پو چھا کہ یہ با ت ہے کہ چا ند اس طرح پھٹا ۔راجہ نے خیا ل کیا کہ کو ئی عظیم اچا ن حا دثہ ہو گا ۔پنڈتو ں نے جو ابدیا کہ کو ئی خطرہ نہیں ہے پچھم کے دیس میں ایک مہا تما پیدا ہو اہے ۔ وہ بہت یو گی ہے اس نے اپنے یو گ بھا ش سے چا ند کو ایسا کر دیا ہے تب راجہ نے اسے تحفہ تحائف ارسال کئے ۔
تفسیر قر آن کا طریق
قر آن کی تفسیر کے متعلق فر ما یا کہ
خدا کے کلام کے صحیح معنی تب سمجھ میں آتے ہیں کہ اس کے تما م رشتہ کی سمجھ ہو جیسے قر آن شریف کی نسبت ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض کی تفسیر کر تا ہے ۔اس کے سوا جو اور کلا م ہو گا وہ تو اپنا کلام ہو گا دیکھاگیاہے کہ بعض وقت ایک آیت کے معنے کر نے کے وقت دوسوآیتیں شا مل ہو تیہیں ۔ایجا دی معنے کر نے والوں کا منہ اس سے بند ہو جا تا ہے ۔
(البدر جلددوم نمبر ۱۰ صفحہ ۷۷، مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۸ ؍مارچ ۱۹۰۳ء
( مجلس قبل ازعشاء )
بعد مغرب گرمی محسوس کر کے حضرت اقدس نے اپنے احبا ب سے مشورہ کیا کہ اب موسم بدلا ہو ا ہے اس لیے اگر منا سب ہو تو اوپر چل بیٹھیں ،چنا نچہ احبا ب نے اس سے اتفا ق کیا اور اسی وقت تما م احبا ب اور حضر ت اقدس با لا ئی منزل میں تشریف لے گئے ۔
شہ نشین پر بیٹھ کر ابو سعید صاحب سے فر ما یا کہ
اگر آپ چلے گئے ہو تے تو اوپر کا جلسہ کیسے دیکھتے اور یہ کہا ں نصیب ہونا تھا ۔
اسی اثنا ء میں نواب صا حب تشریف لا ئے ۔حضر ت نے فر ما یا :۔ مست کے بعد آج پھر نواب صاحب کا چہرہ نظر آیا ہے ۔آگے تو ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں جا بیٹھا کر تے اور اندھیرے میں چہرہ بھی نظر نہ آتا تھا ۔
فر اغت
بیٹھے بیٹھے آپ نے فر ما یا کہ :۔
جیسے ایک مرض ہو تی ہے کہ اس میں جب تک مکیا ں ما رتے رہیں تو آرام رہتا ہے ۔اسی طرح فراغت میر ے واسطے مرض ہے ایک دن بھی فا رغ رہو ں تو بے چین ہو جا تا ہوں اس لیے ایک کتا ب شروع کر دی ہے جس کا نا م حقیقت دعا رکگا ہے ایک رسالہ کی طرز پر لکھا ہے ۔
دعا
دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطا ن سے جنگ ہو اتو اس وقت سوائے دعا کے اور کو ئی حربہ کا م نہ آیا ۔آخر شیطا ن پر آدم نے فتح بذریعہ دعا پا ئی
ربنا ظلمنا الفسنا وان لم تغفر لنا وتر حمنا لنکر نن من الخاسرین ۔ (سورت الا عراف :۲۴)
اور آخر میں بھی دجا ل کے ما رنے کے واسطے دعا ہی رکھی ہے ۔گو یا اول بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے حا لت موجود بھی یہی چاہتی ہے تما م اسلامی طا قیتں کمزور ہیں ۔اور ان موجود اسلحہ سے وہ کیا کا م کرسکتی ہیں ؟ اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں ۔آسما نی حربہ کی ضرورت ہے ۔
(البدر جلد۲نمبر ۱۰ صفحہ ۷۷، مو رخہ ۲۷ ؍مارچ ۱۹۰۳ء؁)
۱۹ مارچ ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل از عشاء
حضور نے شہ نشین پر جلوہ گر ہو کر فرمایا کہ ـ
آج طبیعت نہایت علیل تھی کہ اٹھنے کی طاقت نہیں ہوئی ۔اسی لیے ظہر و عصر کے اوقات میں نہ آسکا چند ایک دریدہ دہن آریوں کے بیبا کا نہ اعتراض پر فرمایا کہ
یہ گندہ ز بانی سے باز نہیں آتے ہم بھی ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ ؎
گرنبا شدبدست راہ بردن شرط عشق است در طلب مُردن
جب انسان کے دل میں میل ہوتا ہے تو ایک فرشتے کو بھی میلا سمجھ لیتا ہے ۔
ایک رئویا
فرمایا کہ آج میں نے ایک خواب دیکھا جسے آنکھ کے آگے ایک نظارہ گذر جاتا ہے ۔دیکھتا ہوں کہ دو سنڈھوں کے سر جسم سے الگ کٹے ہوئے ہاتھوں میں ہیں ۔ایک ایک ہاتھ میں اور دوسرا دوسرے ہاتھ میں ۔
اسلام کی حالت کا علاج دُعا ہیَ
جس حا لت میں اب اسلام ہے اس کا علاج اب سوائے دعا کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔لو گ جہا د جہاد کہتے ہیں مگر اس وقت تو جہاد حرام ہے اس لیے خدا نے مجھے دعاوںمیں جو ش دیا ہے ۔جیسے سمندر میں اہل جو ش ہو تا ہے چونکہ توحید کو لیے دعا کا جو ش دل میں ڈالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الہیٰ بھی یہی ہے جیسا کہ
ادعونی استجب لکم (المومن :۶۱)
اس کا وعدہ ہے ۔ (البدر جلد۲ نمبر۱۱ صفحہ ۸۱، مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۲۰ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء
بیعت کا مدعا سچیّ تو بہ ہے
بعد نما ز جمعہ چند آدمیوں نے بیعت کی اور بعد بیعت حضرت اقدس نے ان کو خطاب کرکے فر ما یا :۔
اصل مدعابیعت کا یہی ہے کہ توبہ کرو ۔استغفارکرو ۔نما زوں کو دوست کر کے پڑھو۔نا جائز کا موں سے بچو ۔میں جما عت کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں مگر جما عت کو بھی چا ہئیے کہ وہ بھی اپنے آپ کو پا ک کرے ۔
یا درکھو غفلت کا گنا ہ پشیمانی کے گنا ہ سے بڑھ کر ہو تا ہے ۔یہ گناہ زہریلا اور قاتل ہو تا ہے ۔توبہ کر نے والا تو ایسا ہی ہو تا ہے کہ اگر گو یا اس نے گنا ہ کیا ہی نہیں ۔جس کو معلوم ہی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں وہ بہت خطرنا ک حالت میں ہے پس ضرورت ہے کہ غفلت کو چھوڑدواور اپنے گناہوں سے تو بہ کرواور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔جو شخص تو بہ کر کے اپنی حا لت کو دوست کر لیگا وہ دوسروں کے مقابلہ میں بچا یا جا ئے گا ۔پس دعا اسی کوفا ئدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلا ح کرتا ہے اور خدا تعا لیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے ۔پغمیبرکسی کے لیے اگر شفا عت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفا عت کی گئی ہے اپنی اصلا ح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفا عت اس کو فا ئدہ نہیں پہنچا سکتی ۔۱ ؎
جب تک خود خدا تعا لیٰ کی رحمت کے مقام پر کھڑا ہو تو دعا بھی اس کو فائدہ پہنچا تی ہے۔نر ااسبا ب پر بھروسہ نہ کرلوکہ بیعت کر لی ہے اللہ تعا لیٰ لفظی بیعتوں کر پسند نہیں کر تا ۔بلکہ وہ چا ہتا ہے کہ جیسے بیعت کے وقت توبہ کر تے ہو اس توبہ پر قائم رہو اور ہر روز نئی روجہ پیدا کرو جو اس کے استحکام کاموجب ہو۔ اللہ تعالیٰ پناہ ڈھونڈھنے والوں کوپناہ دیتا ہے جو لوگ خدا کی طرف آتے ہیں وہ ان کو ضائع نہیں کرتا۔
اس بات کو خوب سمجھ لو کہ نب پورا خوف دامنگیر ہو اور جان کندن کی سی حالت ہوگئی ۔اس وقت توبہ ، توبہ نہیں ۔جب بلا نازل ہوگئی پھر اس کا رد کرنا اللہ تعالٰ کے ہی ہاتھ میں ہے ۔تم بلا کے نزول سے پہلے فکرِ کرو ۔جو بلا کے نزول سے پہلے ڈرتا ہے عاقبت بین اورباریک بین ہوتا ہے اور بلا کے آجانے کے وقت تو کافر بھی ڈرتے ہیں ۔میں نے سُنا ہے بعض گائوں میں جہاں طاعون کی شدت ہوئی ہندوئوں نے مسلمانوں کو بلا کر اپنے گروں میں اذانیں دلوائی ہیں وہی اذان جس پہلے اُن کو پرہیز تھا ۔ ۲؎ جومومن غرض کے لیے خدا سے نہیں ڈرتا خدا اس سے خوف کو دور دیتا ہے مگر جس کے دروازے پربلا نازل ہو جائوے تو وہ خواہ نخواہاس سے ڈریگا۔بہت دُعائیں کرتے رہو تاکہ ان بلائوں سے نضات ہو اور خاتمہ بالخیر ہو ۔عملی نمونہ کے سوا بیہودہ قیل قال فائدہ نہیں دیتی اور جیسے ضروری ہے کہ ڈر کے سامانوں سے پہلے ڈرنا چاہیے ۔یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کے ڈر کے سامان قریب ہوتو ڈر جائو اور جب وہ دور چلے جائویں تو بیباک ہو جائو بلکہ تمہاری زندگی ہر حالت میں ا للہ تعالیٰ کے خوف سے بھری ہوئی ہو خواہ مصیبت کے سامان ہو نہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ مقتدرہے ۳ ؎ وہ جب چا ہتا ہے مصیبت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور جب چا ہتا ہے کشا ئش کرتا ہے جو بھی اس پر بھروسہ کرتا ہے وہ بچایا جاتا ہے ۔ڈرنے والا اور نہ ڈرنے والا کبھی برا برا نہیں ہوسکتے ۔اللہ تعالیٰ ان دونوں میں ایک فرق رکھ دیتا ہے ۔ پس ہما ری جما عت کو چا ہئیے کہ وہ سچی توبہ کریں اور گنا ہ سے بچیں ۔جو بیعت کرکے پھر گناہ سے نہیں بچتا وہ گو یا جھو ٹا اقرار کر تا ہے ۔ ۱؎ اور یہ میرا ہا تھ نہیں خدا کا ہا تھ ہے جس پر وہ ایسا جھوٹ بولتا ہے اور پھر خدا کے ہا تھ پر جھوٹ بول کر کہا ں جا وے گا ؟
کبر مقتا عند اللہ ان تقولواما لا تفعلون ۔(الصف :۴)
مقت خدا کے غضب کو کہتے ہیں یعنی بڑا غضب ان پر ہو تا ہے جو اقرار کر تے ہیں اور پھر کر تے نہیں ایسے آدمی پر خدا تعا لیٰ کا غضب نا زل ہو تا ہے اس لیے دعائیں کر تے رہو ۔کو ئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے ۔
(الحکم جلد نمبر ۱۱ صفحہ ۷۔۸ مورخہ ۲۴ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۲۱مارچ ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیرَ
کسی خاص شخص کی ہدایت کیلئے دعا
کسی خاص شخص کی ہدایت پر زوردینے کے با رے میں فر مایا کہ :۔
ایک فردواحد پر ہدایت کے لیے زور دینا ٹھیک نہیں ہو تا اور نہ اس طرح کبھی انبیاء کو کا میا بی ہو ئی ہے ۔عام دعا چا ہئیے پھر جو لا ئق ہو تا ہے وہ اس سے خودابخود متا ثر ہو تا ہے ۔
حقیقت توبہ
توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گنا ہ سے کلی طور پر بیزارہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور سچے طور سے یہ عہد ہو کہ موت تک پھر گنا ہ نہ کروں گا ۔ایسی توبہ پر خدا کا وعدہ ہے کہ میں بخش دوں گا ۔اگر چہ یہ توبہ دوسرے دن ہی ٹوٹ جا وے مگر با ت یہ ہے کہ کرنے والے کا اس وقت عزم مصمم ہو اور اس کے دل میں ٹوٹی نہ ہو ۔
ایک توبہ انسا ن کی طرف سے ہو تی ہے اور ایک توبہ خدا کی طرف سے ۔خدا کیتوبہ کے معنے رجوع کے ہیں کیو نکہ اسکا نا م تواب ہے ۔انسا ن توبہ کر تا ہے تو گنا ہ سے نیکی کی طرف آتا ہے اور جب خدا توبہ کرتا ہے تووہ رحمت سے اسکی طرف آتا ہے اور اس انسا ن کو لغزش سے سنبھال لیتا ہے جب اس قسم کی خفا کی توبہ ہو تو پھر لغزش نہی ہو تی ۔حدیث میں ہے کہ انسا ن توبہ کرتا ہے پھر اس سے ٹوٹ جاتی ہے اور قضا ئوقدرغا لب آتی ہے پھر وہ روتاہے گڑاتا ہے پھر توبہ کرتا ہے مگر پھر ٹوٹ جوتی ہے اور وہ با ر با ر تضرع کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے پھر آخر کا ر جب انہتا ء تک اس کی تضرع اور ابہتا ل پہنچ جا تے ہیں ۔ تو پھر خدا توبہ کرتاہے یعنی اس کی طرف رجو ع کرتاہے اور کہتا ہے اعمل ما شیت انی غفر ت لک ۔اس کے یہ معنے ہو تے ہیں کہ اب اس کی فطرت ایسی بدل دی گئی ہے کہ گناہ ہو سکے گاجیسے کسی بدکا رکا آلہ تنا سل کا ٹ دیا جاوے تو پھر وہ کیا بد کا ری کرسکے گا یا آنکھیں نکال دی جا ئیں تو وہ کیا بدنظری کرے گا ۔اسی طرح خدا سرشت بدل دیتا ہے اور با لکل پا کیزہ فطرت بنا دیتا ہے بدرمیں جب صحابہ اکرؓم نے جا ن لٹائی تو ان کی اس ہمت اور اخلاص کو دیکھ کر خدا نے ان کو بخش دیا ۔ان کے دلوں کو صاف کردیا کہ پھر گنا ہ ہو ہی نہ سکے ۔یہ بھی ایک درجہ ہے جب فطرت بدل جا تی ہے تو وہ خدا کی رضا کے خلا ف کچھ کر ہی نہیں سکتا انسا ن سے گنا ہ نہ ہو ں اور وہ روتوبہ نہ کرے تو خدا ان کاکوہلا ک کرکے ایک ایسی قوم پیدا کرے جو گنا ہ کرے اور پھر خدا ان کو بخشے اگر یہ نہ ہو تو پھر خدا کی صفت غفوریت کیسے کا م کرے گی
گنا ہ توبہ کیسا تھ ملکر تر یا ق بنتا ہے
گناہ ایک مہلک زہر مثل الفا ردسڑکیناوغیرہ کے ہیں مگر توبہ کے ساتھ مل کر یہ تریاق کا حکم رکھتے ہیں انسا ن کے اندر رعونت پیدا ہو جاتی ہے پھر گنا ہ سے کسر نفس پیدا ہو جا تی ہے جیسے زہر کو زہر ما رتی ہے ایسا ہی رعونت وغیرہ کی زہر کو گنا ہ ما رتا ہے ۔حضرت آدم کے ساتھ جو ذلت آئی اس کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ اس کے انر تکبر پیدا ہو تا ہے کہ میںَ وہ ہو ں جیسے خدا نے اپنے ہاتھ سے بنا یا اور ملا ئکہ نے سجدہکیا مگر اس خطا سے وہ شرمسا رہو ئے اور اس تکبر کی نوبت ہی نہ آئی ۔پھر اس شرمساری سے سارے گنا ہ معاف ہوئے اسی طرح بعض سادات آج کل فخر کرتے ہیں مگر نسبی دعویٰ کیا شیَ ہے ؟اس سے رعونت پیدا ہوتی ہے ۔ہر ایک تکبر زہر قاتل ہو تا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ما رنا چا ہئیے ۔
آدم کی جنت
سوال ہو اکہ آدم کی جنت کہا ں تھی فر ما یا :۔
ہما را مذہب یہی ہے کہ زمین میں ہی تھی فر ما تا ہے
منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم
آدم کی بودوبا ش آسما ن پر یہ با ت بالکل غلط ہے ۔
شجر ممنوعہ
شجرکی نسبت سوال ہواکہ وہ کو نسا درخت تھا جسکی ممانعت کی گیء تھی ۔فر ما یا کہ :۔
مفسر وں نے کئی با تیں لکھی ہیں مگر معلوم ہو تا ہے کہ انگورہو گا ۔شراب اس سے پیدا ہو تی ہے اور شراب کی نسبت لکھا ہے رجس من عمل الشیطان ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت کا انگورایسا ہی ہوکہ بغیر سڑانے گلا نے کے اس کے تا زہ میں نشہ ہو تا ہے جیسے تاڑی کہ ذراسی دیر کے بعد اس میں نشہ پیدا ہو جا تا ہے ۔
تمباکو
تمبا کو کی نسبت فر ما یا کہ :۔
یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسا ن کو فسق وفجور کی طرف رغیب ہو گا مگرتاہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پر ہیز کرے ۔منہ میں اس سے بدبوآتی ہے اور یہ من منحوس صورت ہے کہ انسا ن دھواں اندر دا خل کرے اور پھر با ہر نکالے اگر آنحضر ت ﷺ کے وقت یہ ہو تا تو آپ اجا زت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے ۔ا یک لغواور بیودہ حرکت ہے ہا ں مسکرات میں اسے شامل نہیں کرسکتے ۔اگر علا ج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یو نہی ما ل کو بیجا صرف کر نا ہے عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شئے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا ہے ۔انگریز بھی چا ہتے ہیں کہ اسے دور کر دیں ۔
(البدر جلد۲ نمبر۱۱ صفحہ ۸۲، مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
دربا ر شام
نومبایعین کو نصیحت
چند نوواردشخصوں نے بیعت کی ۔بعد از بیعت فر ما یا :۔
دیکھو بیعت تو تمہا ری ہو چکی تمہیں چا ہئیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو خدا کا قہر سخت ہو تا ہے اگر چہ دنیا کا عذاب بھی سخت اور نا قابل برداشت ہو تا ہے مگر تا ہم جس طرح ہو تا ہے ۔اچھے برے دن گذرجا تے ہیں مگر آخرت کا عذاب تو نا پیدا کنا رہے اس لیے منا سب ہے کہ اس کے واسطے کا فی سا ما ن کیا جا وے ۔
ہمیں ہنا پڑتا ہے کہ جو شخص آتا ہے اور بیعت کرتاہے ہم پر فر ض ہو تا ہے کہ اسے کرنے اور نہ کرنے کے کا موں سے آگا ہ کریں ۔جیسا بے خبر آیا تھا ویسا ہی بے خبر واپس نہ جا وے۔ ایسا ہو نے سے معصیت کا خوف ہے کہ اسے کیوں نہ بتا یا گیا ؟ سوتم سوچ لو کہ مقدم امر دین ہی کا ہے دنیا کے دن تو کسی نہ کسی طرح گذرہی جا تے ہیں ۔
شب تنورگذشت وشب سمورگذشت
غربا ئاور مسا کین بھی جن کو کھا نے کو ایک وقت ملتا ہے اور دوسر ے وقت نہیں ملتا اور آرام کے مکا ن بھی نہیں ہو تے ان کی بھی گذرہی جا تی ہے اور امر اء اور پلا وزردے کھا نے والے اور عمدہ مکا نو ں اور بلا خانوں میں رہنے والے ان کی بھی اپنے دن پورے کرہی رہے ہیں کسی کا دکھ دردسے اور کسی کا عیش میںگذر ہ ہو تا ہے مگر عاقبت کا دکھ جھیلنا بہت مشکل ہے اور وہ عذاب اور اس کے دکھ درد نا قابل بر داشت ہوں گے لٰہذادانا وہی ہے کہ جو اس ہمیشہ رہنے والے جہان کی فکر میں لگ جا وے ۔
حقیقتِ نماز
سوتم نمازوں کو سنوارواور خدا تعا لیٰ کے احکام کو اس ک فرمودہ کے بموجب کرو ۔اس کی نواہء سے بچے رہو اس کے ذکر اور یا د میں لگے رہو دعا کا سلسلہ ہروقت جا ری رکگواپنی نما ز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقعہ ہے دعا کرو اور غفلت کی نما ز کو تر ک کردو رسمی نما ز کچھ ثمرات مترتب نہیں لا تی اور نہ وہ قبولیت کے لا ئق ہے ۔نما ز وہی ہے کہ کھڑے ہو نے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع اور حضورقلب سے ادا کی جا وے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ وزاری سے اللہ تعا لیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جا وے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو ۔اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم ازکم یہ توبہ ہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے ۔اس طرح کما ل ادب اور محنت اور خوف سے بھری ہو ئی نما ز ادا کرو۔
بے وقت موتوں کا زما نہ
دیکھویہ زما نہ بے وقت موتوں کا زما نہ آگیا ہے۔بھلا پہلے کبھی تم نے اپنے با پ دادا سے بھی سنا ہے کہ اس طرح اچا نک موت کا سلسلہ کبھی جا ری ہوا ۔رات کو اچھا بھلا کا م کا ج کرتا اور چلتا پھر تا آدمی سوتا ہے اور صبح کو ایسی نیندمیں سویا ہواہوتا ہے کہ جس سے جا گنا ہی نہیں ۔اب جس گھر میں یہ موت آئی گھر کا گھر اور گاوں کے گاوں اس نے خالی کر دئیے ابھی انجام کی خبر نہیں ۔کیا کیا دن آنے ہیں ۔ایک نا دان اپنی نا دانی کی وجہ سے جب طاعون چنددن کے لیے رک جاتی ہے اور خدا تعا لیٰ کسی مصلحت سے اسے بند کر تا ہے وہ کہتا ہے بس اب گئی اب نہیں آئے گی ۔اومیاں !ایسا ہمیشہ ہی ہوا کرتا ہے کہ بیما ریا ں آتی ہیں چا ردن رہ کر چلی جو تی ہیں مگر خدا کی با ریک تد ابیر سے وہ نا واقف ہیں ۔وہ نہیں جا نتے کہ وہ مہلت دیتا ہے کہ بھلا ابھی ان میں کچھ صلا حیت اوت تقویٰ اور خوف بھی پیدا ہواہے یانہیں۔
اس طاعون کا پچھلاتجربہ بتا تا ہے کہ ایک ایک دورہ سترسترسال کا ہواکرتا ہے اس سے تو جنگل کے جا نوروں نے بھی پنا ہ مانگی ہے جب انسا نوں کو ختم کر چکی ہے تو جنگل کے حیوانوں اور درندوں کو بھی ختم کردیتی ہے ایسے وقتوں میں خدا تعا لیٰ بچا لیتا ہے ان لو گوں کو جو ان مصائب اور عذابوں کے نا زل ہو نے سے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرتے اور دوسروں سے عبر ت پکڑتے ہیں ۔خدا تعا لیٰ ان کی حفا ظت خود کرتا ہے ۔عذابوں اور شدائدکے وقتوں میں جو آرام اور عیش کے وقت میں اس سے ڈرتے اور پنا ہ ما نگتے ہیں مگر جب عذاب کسی پر نا زل ہو جا وے تب تو بہ بھی قبول نہیں ہو تی ۔
اپنے آپکو درست کرلو
پس اب موقع ہے کہ تم خدا تعا لیٰ کے سامنے اپنے آپ کودرست کرلو اور اس کے فرائض کی بجاآوری میںکمی نہ کرو ۔خلق اللہ سے کبھی بھی خیابت ۔ظلم ۔بدخلقی ۔تر شروئی ایذائوہی سے پیش نہ آو ۔کسی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ ان چیزوں کے بدلے بھی خدا تعا لیٰ مواخذہ کریگا ۔جس طرح خدا تعا لیٰ کے احکا م کی نا فرما نی ۔ اس کی عظمت ۔تو حید اور جلال کے خلاف کرنے اور اس سے شرک کر نا گنا ہ ہیں اسی طرھ اس کی خلق سے ظلم کرنا ۔ ان کی حق تلفیاں نہ کرو ۔زبا ن یا ہاتھ سے دکھ یا کسی قسم کی گا لی گلوچ دینا بھی گنا ہ ہیں پس تم دونوطرح کے گنا ہوں سے پا ک بنو اور نیکی کو بدی سے خلط نہ کرو۔
تمہارا دین اسلام ہے
تمہارا دین اسلام ہے َ اسلام کے معنے ہیں خدا کے آگے گردن رکھ دینا ۔جس طرح ایک بکراذبح کر نے کی خاطر منہ کے بل لٹا یا جا تا ہے ۔اسی طرح تم بھی حدا کے احکا م کی بجا آوری میں بے چون وچراگردن رکھ دو ۔جب تک کا مل طور سے تم اپنے ارودوں سے خا لی اور نفسانی ہواوہوس سے پا ک نہ ہو جا وگے تب تک تمہارا اسلام اسلام نہیں ہے بہت ہیں کہ ہماری ان با تو ں کو قصہ کہا نی جا نتے ہوں گے اور ٹھٹھے اور ہنسی سے ان کا ذکر کرتے ہوں گے مگر یادرکھوکہ یہ اب آخری دن ہیں ۔ خدا تعا لیٰ فیصلہ کر نا چا ہتا ہے لوگ بے حیا ئی ۔حیلہ با زی اور نفس پر ستی میں حد سے زیا دہ گذرے جا تے ہیں ۔خدا تعا لیٰ کی عظمت وجلا ل اور تو حید کا ان کے دلوںمیں ذرا بھی خیا ل نہیں گویا نا ستک مت ہو گئے ہیں ۔کو ئی کا م بھی ان کا خدا کے لیے نہیں ہے ۔
ایک ما مور کی بعثت
پس ایسے وقت میں اس نے اپنے ایک خاص بندہ کو بھیجا ہے تا اس کے ذریعہ سیدنیا میں ہدایت کا نورپھیلا وے اوت گمشدہ ایما ن اور توحید کو ازسر نودنیا میں قائم کرے ۔مگرجب دنیا نے اس کی پروا نہ کی اور الٹا دکھ دیا اور اس کی تکذیب کیلئے کمر بستہ ہو گئے تو خدا تعا لیٰ نے ان کو قہر کی آگ سے ہلا کر نا شروع کیا ۔کئی طرح کے عذابوں سے اس نے دنیا کو جگا یا ہے کہیں قحط ہو ئے اور کہیں زلزلے آئے ۔آ تش فشانیاں ہو ئیں ۔ہراردہزار لوگ تبا ہ ہو ئے ۔انہیں میں سے ایک طا عون بھی ہے ۔یہ دورنہ ہو گی اور نہ جا ویگی جب تک یہ دنیا کو سیدھا نہ کرلے ۔لوگ تسلی پا جا تے ہیں کہ بس اب گئی اب نہیں آویگی مگروہ دھوکا کھا تے ہیں ان نا دانوں کاتو کا م ہی خدا سے جنگ کرنا ہو گیا ہے مگر وہ کہا نتک ؟وہ دنیا کو بتا نا چا ہتا ہے کہ میں ضروموجود ہوں اور ان کی بیبا کیوں اور شرارتوں کو دور کر نا چا ہتا ہوں مگر آہستہ آہستہ ۔اس کے تما م کا م بتدریج ہوا کر تے ہیں ۔جب وہ دیکھتا ہے کہ دنیا طرح طرح کے ظلم اور فسادوں سے بھرگئی اور خدا کا نا م دنیا سے اٹھ گیا ۔اس کی توحید اور اس کی کتا باور اس کے رسول کی ہتک کی گئی تو وہ ایسے وقت میں اپنے خا ص رحم سے اپنی رحمت کا درواز کھولتا ہے اور اپنی خلقت کو ایک ایسے شخص کے سپردر کرتا ہے جو اس کوخدا کے عذابسے بچا نے کے واسطے کو شش کرتا اور ان کا بڑا خیرخواہ ہو تا ہے مگر جب دنیا اسکی پر وا نہیں کرتی اور بجا ئے اس کے کہ اس سے محبت کریں اس کو بتا یا جا تا دکھ دیا جا تا ہے تو خدا تعا لیٰ بھی اپنے غضب سے دنیا میں اپنا عذاب نا زل کرتا ہے جو نا فر مانوں کو آگ کی طرح بھسم کرتا ہے اور خدا تعا لیٰ کی سلطنت کا رعب قائم کرتا اور صادق کی نصر ت اور اس کے ہمراہیوں کو بطورنمونہ اس سے بچاتا ہے ۔
تو بہ کرو
پس اب یہ وقت ہے توبہ کرو ۔اگر عذاب آگیا تو پھر تو بہ کا دروازہ بھی بندہو گیا تو بہ میں بہت کچھ ہے ۔دیکھو جب کو ئی با دشا ہ کسی امر کے متعلق سمجھا کہ تم اس سے رک جا و تمہارابھلا ہو گا تو اگر وہ شخص رک جا وے تو بہتر ورنہ پھر اس کا عذاب کیسا سخت ہو تا ہے اسی طرح پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں سے خدا تعا لیٰ لو گو ں کو سمجگو یتا ں دیتا ہے کہ با زآجا و موقر ہے ورنہ پچھتا وگے مگر جب وہ نہیں سمجھتے اور اس کی نا فر ما نی سے نہیں رکتے تو پھر اس کا عذاب ایسا ہوتا ہے ۔
ولا یخاف عقبھا (الشمس :۱۶)
صرف بیعت کا فی نہیں
تم لو گوں نے میرے ہا تھ پر بیعت کی ہے اسی پر بھروسہ نہ کرلینا صرف اتنی ہی با ت کا فی نہیں ۔زبا نی اقرارسے کچھ نہیں بنتا ۔ جب عملی طور سے اس اقرار کیتصدیق نہ کرکے دکھلائی جا وے ۔یو ں زبا نی تو بہت سے خوشامد لوگ بھی اقرار کر لیاکرتے ہیں مگر صادق وہی ہے جو عملی رنگ سے اس اقرار کا ثبوت دیتا ہے ۔خدا تعا لیٰ کی نظر انسا ن کے دل پر پڑتی ہے پس اب سے اقرار سچا کرلواور دل کو اس اقرار میں زبا ن کے ساتھ شریک کرلوکہ جب تک قبر میں جا ویں ہر قسم کے گنا ہ سے شرک وغیرہ سے بچیں گے ۔
غرض اللہ اور حق العبا د میں کو ئی کمی یا سستی نہیں کریں گے ۔اسی طرح سے خدا تعا لیٰ تم کو ہرطرح کے عذابوں سے بچا ویگا اور تمہاری نصرت ہرمیدا ن میں کر یگا ۔ظلم کو ترک کرو ۔خیا نت ۔حق تلفی اپنا شیوہ نہ بنا و اور سب سے بڑا گنا ہ غفلت ہے اس سے اپنے آپ کو بچا و ۔
(الحکم جلد نمبر ۱۲ صفحہ ۹۔۱۰مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۲۲ مارچ ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
اسلا م
مذہب کے مقابلے پر گفتگوفر ما تے ہوئے آپ نے فر ما یا کہ :۔
اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنے اقبا ل کے سا تھ تما م مذاہب کو اپنے پیروں میں لے لیا ہوا ہے۔ اسلا م ایسے ملک سے شروع ہواجہاں لوگ درندوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور طرح طرح کی بداعمالیوں میں مبتلا تھے ۔ان کو حیوانیت سے انسا نیت میں اسلامی ہی لا یا ۔ہر طرف اس کی مخا لفت ہو ئی لو گوں نے دشمنی میں کو ئی دقیقہ فر وگذاشت نہ کیا ۔پھر بھی وہ تما م کا م پورے ہو کر رہے جو بنی کریم ﷺ نے فر ما ئے تھے اور کو ئی فردبشر بھی اس کا با ل نہ بگاڑسکا ۔حتیٰ کہ نداآگئی ۔
(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکمنعمتی ورضیت لکم الا سلا م دنیا (المائدہ: ۴)
(البدر جلد۲ نمبر۱۱ صفحہ ۸۲، مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
ہندووں سے گفتگوکا طریق
جیسے کہ بعض لو گو ں کا دستو رہے کہ جب ہندومسلمانوں میں کو ئی گفتگو ہو تو گا وخوری وغیرہ با توں پر بحث ہو ا کرتی ہے اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا ۔کہ با ت یہ ہے کہ اصل اشیا ء میں حلت ہے اب دنیا میں کروڑ ہا اشیا ء ہیں کو ئی کچھ کھا تا ہے اور کو ئی کچھ ۔اس لیے ایسی با توں میں پڑنا مناسب نہیں ہو ا کرتا ۔چا ہئیے کہ ایسے مباحثات میں ہمیشہ اسلام کی خوبیاں اور صداقت بیا ن کی جا وے اور ظاہر کیاجاوے کہکن کن نیک اعما ل کی تعلیم اسلا م نے دی ہے کن کن مہلکا ت سے بچا یا ہے ۔گا وخوری کے مسائل وغیرہ بیان کرنے سے کیا فا ئدہ ؟ جو اسلام کو پسندکر یگا ۔وہ گا وخوری کو بھی پسند کریگا جس با ت کا فساد اس کے نفع سے بڑھکر ہو اس کو بیان کر نے کی ضرورت نہیں ۔ (البدر جلد۲ نمبر۱۱ صفحہ ۸۲، مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۲۳ ما رچ ۱۹۰۳ء؁
ْْْْ ْ دربا رِ شا م
ختم اور فا تحہ خوانی
ایک بزرگ نے عر ض کی کہ حضور میںَ نے اپنی ملا زمت سے پہلے یہ منت ما نی تھی کہ جب میں ملا زم ہو جا ویں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حسا ب سے نکال کر اس کا کھا نا پکواکر حضرت پیران پیرکا ختم دلا وں گا ۔ اس کے متعلق حضو ر کیا فر ما تے ہیں ؟فر ما یا کہ :۔
خیر ات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جا ئز ہے اور جیسے چا ہے انسا ن دے مگر اس فا تحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فا ئدہ ؟ اور یہ کیوں کیا جا تا ہے ؟ میرے خیا ل میں یہ جو ہما رے ملک میں رسم جا ری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھاکرتے ہیں یہ طریق تق شرک ہے ااور اس کا ثبو ت آنحضرت ﷺ کے فعل سے نہیں ۔غرنا ء ومساکین کو بے شک کھا نا کھلاو۔
نصیحت بعد ازبیعت
چند احبا ب نے بیعت کی تھی اس پر ان کو چندکلمات بطورنصیحت فر مائے:۔
پانچوں نما زیں عمدہ طرح سے پڑھا کرو ۔روزہ صدق سے رکھو اور اگر صاحب تو فیق ہو ۔تو زکوۃ ۔حج وغیرہ اعمال میں بھی کمر بستہ رہو۔ اور ہر قسم کے گنا ہ سے اور شرک اور بدعت سے بیزار رہو۔اصل میں گنا ہ کی شنا خت کے اصول صرف دوہی ہیں
اوّل
حق اللہ کی بجا آوری میں کمی یا کوتا ہی ۔دوم۔ حق العباد کا خیا ل نہ کر نا ۔
اصلاصول عبادت بھی یہی ہیں کہ ان دونوں کی محا فظت کما حقہ کی جا وے اور گنا ہ بھی انہیں میں کوتا ہی کرنے کا نا م ہے اپنے عہد پر قائم رہواور جوالفا ظ اس وقت تم نے میرے ہا تھ پر بطور اقرار زبا ن سے نکالے ہیں ۔ان پر مرتے دم تک قائم رہو ۔انسا ن بعض اوقات دھوکہ کھا تا ہے وہ جا نتا ہے کہ میں َ نے اپنے لیے توبہ کا درخت بولیا ہے اب اس کے پھل کی امید رکھتا ہے یا ایما ن میں َ نے حاصل کر لیا ہے ۔اس کے نتا ئج مترتب ہو نے کا منتظر ہو تا ہے مگر اصل میں وہ خدا کے نزدیک نہ تا ئب اور نہ سچا مومن ۔کچھ بھی نہیں ہو تا کیونکہ جو چیز اللہ تعا لے ٰ کی پسند یدگی اور منظوری کی حد تک نہ پہنچی ہو ئی ہو وہ چیزاس کی نظر میں ردی اور حقیر ہو تی ہے ۔اس کی کو ئی قدر وقمیت خداتعالیٰ کے نزدیک نہیں ہو تی ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسا ن جب کسی چیز کے خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جب تک کو ئی چیز اس کی پسندیدگی میں نہ آوے تب تک اس کی نظر میں ایک ردی محض اور نے قمیت ہو تی ہے ۔تو جب انسان کا یہ حال ہے ۔ تواقدس اور پا ک اور بے لوث ہستی ہے ۔وہ ایسی ردی چیز کو اپنی جناب میں کب منظور کرنے لگا ؟ ؔؔؔؔؔؔ
دیکھویہ دن ابتلا ء کے دن ہیں وہا ئیں ہی قحط ہے غر ض اس وقت خدا تعالیٰ کا غضب زمین پر نا زل ہو رہا ہے ۔ایسے وقت میں اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور صاف دل سے اپنی کو ئی پناہ بنالو۔
یہ بیعت اور تو بہ اس وقت فائدہ دیتی ہے جب انسا ن صدق دل اور خلاص نیت سے اس پرقائم اور کار بندبھی ہو جا وے ۔خدا تعالیٰ خشک لفاظی سے جو حلق کے نیچے نہیں جا تی ہرگز خوش نہیں ہو تا ۔ایسے بنوکہ تمہارا صدق اور وفا اور سوزوگدازآسما ن پر پہنچ جا وے ۔خداتعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے ۔ جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے وہ دلوں پر نظر ڈالتا ہے اور جھا نکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل وقا ل پر جس کا دل ہر قسم کے گنداور نا پا کی سے معرااور مبراپا تا ہے اس میں آاتر تا ہے اور گھر بنا تا ہے مگر جس دل میں کو ئی کسی قسم کا بھی رخنہ یا نا پا کی ہے اس کو *** بنا تا ہے ۔
دیکھو جس طرح تمہا رے عام جسمانی حوائج کے پورا کرنے کے واسطے ایک منا سب اور کا فی مقدار کی ضرورت ہو تی ہے اسی طرح تمہاری روحانی حائج کا حال ہے ۔کیا تم ایک قطرہ پا نی زبا ن پر رکھ کر پیا س بجھا سکتے ہو ؟
کیا تم ایک ریزہ کھانے کا منہ میں ڈال کر بھوک سے نجا ت حاصل کرسکتے ہو ؟ہر گزنہیں۔پس اسی طرح تمہاری روحانی حالت معمولی سی توبہ یا کبھی کبھی ٹوٹی پھوٹی نما ز یا روزہ سے سنورنہیں سکتی ۔روحانی حالت کے سنوار نے اور اس با غ کے پھل کھا نے کیلئے بھی تم کو چا ہئیے کہ اس با غ کو وقت پر خدا کی جناب میں نمازیں اداکرکے اپنی آنکھوں کاپانی پہنچا و اور اعمال صالحہ کے پا نی نہرسے اس با غ کوسیراب کروتا وہ ہرابھراہواور پھلے پھولے اور اس قابل ہو سکے کہ تم اس سے پھل کھاو ۔
ایما ن اور اعما ل صالحہ
یا درکھوایمان بغیر اعما ل صالحہ کے ادگوراایمان ہے ۔کیا وجہ ہے کہ اگر ایما ن کا مل ہو تو اعمال صالحہ سرزدنہ ہوں؟ اپنے ایما ن اور اعتقادکو کا مل کرو ورنہ کسی کا م کا نہ ہو گا ۔کوگ اپنے ایما ن کو پورا ایما ن تو بنا تے نہیں پھر شکا یت کرتے ہیں کہ ہمیں انعامات نہیں ملتے جن کا وعدہ تھا ۔بیشک خداتعا لیٰ نے وعدہ فر ما یا ہوا ہے کہ
ومب یتق اللہ یجعل لہ مخرجاویرزقہمن حیث لایحتسب (الطلاق :۳،۴)
یعنی جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے ۔اس کوخدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہو تاکہ کہا ں سے اور کیونکہ آتا ہے ۔خدا تعا لیٰ اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا اور بڑا رحیم وکریم ہے ۔جو خدا تعا لیٰ کا بنتا ہے و ہ اسے ہر ذلت سے نجا ت دیتا ۔اور خود اس کا حافظ ونا صر بن جا تا ہے ۔مگر وہ جو ایک طرف دعویٰ اتقاکرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہو تے ہیں کہ ہمیں وہ برکا ت نہیںملے ان دونومیں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا ؟ خدا تعا لیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے
اِن اللہ لایخلف المیعاد (العمران :۱۰)
خدا تعا لیٰ اپنے وعدوں کے خلا ف نہیں کرتا ۔ہم اس مد عی کو جھوٹا کہیں گے ۔اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حدتک نہیں ہوتی کہ خداتعا لیٰ کی نظر میں قابل وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہو تے لوگوں کے متقی اور ریا کار انسا ن ہوتے ہیں سوان پر بجا ئے رحمت اور بر کت کے *** کی ما ر ہو تی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں ۔خدا تعا لیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا ۔وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے ۔
متقین کیلئے رزق
رزق بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں یہ بھی تو ایک رزق ہے کہ بعض لوگ صبح سے شا م تک ٹوکری ڈھوتے ہیں اور برے حا ل سے شام کو دوتین آنے ان کے ہا تھ میں آتے ہیںیہ بھی تو رزق ہے مگر *** رزق ہے ۱؎
رزق من حیث لا یحتسب ۔
حضر ت داودزبور میںَ فر ماتے ہیں کہ میںَ بچہ تھا جوان ہوا ۔جوانی سے اب بڑھا پا آیا مگر میں َ نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیک ما نگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو دربد ردھکے کھاتے اور ٹکڑے مانگتے دیکھا یہ با لکل سچ اور راست ہے کہ خدا تعا لیٰ اپنے بندوں کوضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسر ے کے آگے ہا تھ پسا رنے سے محفوظ رکھتا بھلا اتنے جو انبیا ء ہوئے ہیں اولیاء گذرے ہیں کیا کو ئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک ما نگا کرتے تھے ؟ ان کی اولا د پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ دربدرخا ک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں ؟ ہر گزنہیں میرا تو اعتقا د ہے۔ کہ آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہا تھ رکھتا ۔اور ان کی خود حفا ظت فرما تا ہے ۔
قرآن شریف میں اللہ تعا لیٰ نے ایک ذکر کیا ہے کہ ایک دیواریتیم لڑکوں کی تھی ۔وہ گرنے والی تھی اس کے نیچے خزانہ تھا ۔لڑکے ابھی نا با لغ تھے ۔اس دیوار کے گر نے سے اندیشہ تھا کہ خزانہ ننگا ہوکر لوگوں کے ہاتھ آجا وے گا۔ وہ لڑکے بیچارے خالی ہا تھ رہ جاویں گے تواللہ تعا لیٰ نے دونبیوں ۱؎ کواس خدمت کے واسطے مقر رفر ما یا وہ گئے اوردیوار کو دوست کردیا کہ جب و ہ بڑے ہو ں تو پھر کسی طرح ان کے ہا تھ وہ خزانہ آجا وے ۔پس اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہی فر مایا کہ
وکان ابو ھما صالحا (الکھف:۸۳)
یعنی ان لڑکوں کا با پ نیک مرد تھا ۔جسکے واسطے ہم نے ان کے خزانہ کی حفا ظت کی ۔اللہ تعا لیٰ کے ایسا فر ما نے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ لڑکے کچھ اچھے نہ تھے اور نہ اچھے ہو نے والے تھے ۔ورنہ یہ فر ما تا کہ یہ اچھے لڑکے ہیں صالح ہیں اور صالح ہو نے والے ہیں ۔نہیں بلکہ انکے با پ کا ہی حوالہ دیا کہ ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ایساکیا گیا ہے ۔دیکھویہی تو شفاعت ہے۔
حقیقی متقی بنو
وہ لوگ جو بڑے بڑے ادعا کرتے ہیں کہ ہم یوں نیکی کرتے ہیں اور متقی ہیں مگر انکے یہ دعوے قرآن شریف کے مطابق نہیں ہو تے اور نہ اس کسوٹی پر صادق ثابت ہو تے ہیں کیونکہ وہ فرما تا ہے
وھویتولی الصالحین (الا عراف :۱۹۷) اولیا ء ہ لا المتقون (الانفال :۳۵)
تو اس وقت افسوس سے ہمیں ان لوگوں کی ہی حالت پر رحم آتا ہے کہ و اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں اصل سبب اس کا یہ ہے کہ ان کا صدق وفااور اخلاص خدا کے نزدیک اس ردجہ کا نہیں ہو تا۔ بلکہ وہ دوسروں کے شرک سے قابل نفرت ہو گیا ہوتاہے ۔ایما ن کم ہو تا ہے اور لا فیں زیادہ ہو تی ہیں خداتعالیٰ با ربا ر فر ما تا ہے
ولن تجد لسنت اللہ تبدیلا (الاحزاب :۶۳) ۱؎
بھلا یہ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کو وعدہ خلاف یا جھوٹا کہیں اور اس کی نسبت الزام کا خیال بھی نہ کریں ۔اصل میں ایسے کوگوں کا ایما ن نا کارہ ہو تا ہے جولعنت کے موردہو تے ہیں نہ رحمت کے ۔وہ اصل میں خداتعالیٰ کو دھوکا دینا چا ہتے ہیں ۔ظاہر کچھ ہو تا ہے اور با طن کچھ ۔بھلا خلق نے تو دھوکا کھا بھی لیا مگر وہ جس کی نظراندرون دراندرون پہنچتی ہے وہ کسی کے دھوکا میں آسکتاہے۔
انبیا ء کے نقش قدم پر چلو
انسا ن کو چا ہئیے کہ ساری کمندوں کو جلا دے اور صرف محبت الہیٰ ہی کی کمندکو باقی رہنے دے ۔خدا نے بہت سے نمونے پیش کئے ہیں آدم وابراہیم وموسیٰ اور حضرت محمد مصطفی علیمالصلٰوۃالسلام تک کل انبیا ء اسی نمونہ کی خاطر ہی تو اس نے بھیجے ہیں تا لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں ۔جس طرح وہ خدا تک پہنچے اسی طرح اور بھی کو شش کریں سچ ہے کہ جو خدا کاہوجاتا ہے خدا اس کاہوجاتا ہے۔
یادرکھو ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جما عت کو بدنا م کرو ۔شیخ سعدی صاحب فر ما تے ہیں :۔
بد نا م کنندہ نکونا مے چند
بلکہ ایسے بنوکہ تاتم پرخدا تعا لیٰ کی برکات اور اس کی رحمت کے آثارنازل ہوں ۔وہ عمروں کو بڑھابھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دُنیا ہی کے لذائذاور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فا ئدہ بخش ہو سکتی ہے ؟ اس میںتو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں ۔وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھا نے کھا نے اور نیندبھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیر ہ رکھنے یا عمدہ با غات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے ۔وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔ اس نے تو اپنا مقصد ومطلوب اور معبود صرف خواہشات نفسانی اور لذائذ حیونی ہی کو بنا یا ہوا ہے ۔مگر خدا تعالیٰ نے انسا ن کے سلسلہ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی
عبا دت رکھی ہے
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ّ(الذاریات :۵۷)
پس حصر کردیا ہے ۔کہ صرف صرف عبا دت الہی ٰمقصد ہونا چا ہئیے اور صرف اسی کے لیے یہ سارا کارخا نہ بنا یا گیا ہے برخلا ف اس کے اور ہی اور ارادے اور ہی اور خواہشات ہیں ۔
بھلا سوچوتو سہی کہ ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے با غ کی حفا ظت کر۔اس کی آب پا شی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول بیل بوٹے لگا ۔کہ وہ ہرابھرا ہوجاوے ۔شاداب اور سرسبز ہو جاوے مگر بجا ئے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہو ئے تھے ان کو کا ٹ کرضائع کردے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور نا جا ئزدست اندازی سے با غ کو ویران کردے تو بتا وکہ ما لک جب آوے گا تو اس سے کیسا سلوک کریگا؟
انسا ن کی پیدائش کا مقصد
خدا نے تو اسے بھیجا تھا کہ عبا دت کرے اور حق اللہ اور حق العبا د کو بجا لا وے مگر یہ آتے ہی بیویوں میں مشغول ،بچوں میں محواور ا پنے لذائذ کا بندہ بن گیا اور اس اصل مقصد کو بالکل بھول ہی گیا بتا و اس کا خدا کے سا منے کیا جواب ہو گا ؟ دنیا کے یہ سا ما ن اور یہ بیوی بچے اور کھا نے پہنے تو اللہ تعا لیٰ نے صرف بطور بھاڑہ کے بنائے تھے جس طرح ایک یکہ با ن چند کو س تک ٹٹو سے کا م لیکر سمجھتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے اسے کچھ نہا ری اور پا نی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ ما لش کرتا ہے تا اس کی تھکا ن کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درما ندہ ہو کر کہیں آدھ میںہی نہ رہ جا ئے اس سہارے کے لیے اسے نہاری دیتا ہے سویہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھا نے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں تاکہ وہ تھک کراور درماندہ ہوکر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قویٰ تحلیل ہو نے کی تلافی ما فات ہو تی جاوے ۔پس یہ چیزیں اس حدتک جا ئزہیں کہ انسا ن کو اس کی عباد ت اور حق اللہ اور حق العبا د کے پورا کرنے میں مدددیں ۔ورنہ اس حدسے آگے نکل کر وہ حیوانوں کی طرح صرف پیٹ کا بندہ اور شکم کا عا بدبنا کر مشرک بناتی ہیں اور وہ اسلام کے خلا ف ہیں ۔سچ کہا کسی نے ؎
خوردن برائے زیستن وذکر کردن است ‘:ــ تومعتقدکہ زیستن ازبہر خوردن است
مگر اب کڑوڑ وں مسلمان ہیں کہ انہوں نے عمدہ عمدہ کھانے کھا نا ۔عمدہ عمدہ مکا نا ت بنا نا۔ اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر ہو نا ہی اسلام سمجھ رکھا ہے مومن شخص کا کا م ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطا بق کا م کرے ۔اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے
قل ما یعبوابکم ربی لولادعائکم (الفرقان :۷۸)
خدا کو تمہا ری پرواہی کیا ہے اگرتم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ ما نگو ،یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت
وما خلفت الجن والا نس الا لیعبدون (الذاریٰت :۵۷)
کی شرح ہے ۔ جب خدا تعا لیٰ کا ارادہ انسا نی خلقت سے صرف عبا دت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جا ئز نہیں ۔حقوق نفس بھی اس لیے جائز ہیں کہ تاوہ درماندہو کر رہ ہی نہ جائے ۔تم بھی ان چیزوں کواسی واسطے کا م میں لاو ۔ان سے کا م اس واسطے لوکہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں نہ اس لیے کہ وہی تمہارا مقصوداصلی ہوں۔
قرآن شریف تو موت واردکرنا چاہتا ہے کھانا پینا صرف جسم کے سہارے کے واسطے ہو ں انسانی بدن ہر وقت چونکہ معرض تحلیل میں ہے اس لیے اللہ تعا لیٰ نے جا ئز رکھا کہ اس کے قویٰ کی بحالی اور قیام کے لیے یہ چیزیں استعمال کی جاویں ۔
آنحضرت ﷺ قرآن شریف کے شارح ہیں آپ ایک موقعہ پربڑے گھبرائے ہوئے تھے حضر ت عائشہؓ کو کہا کہ اے عائشہؓ ہمیںآرام پہنچا و۔ ۱ ؎ ا ور اسی واسطے ا للہ تعا لیٰ نے آدم کے ساتھ حواکو بھی بنادیا تا وہ اس کے واسطے ضرورت کے وقت سہارے کا موجب ہو۔
غرض یہ باتیں ہیں جو ان پرعمل کرنا اور ان کو خوب یادررکھنا ضروری ہے اور سب پر پوری طرح قائم ہو نا چاہئیے ۔دیکھاایک طبیب جب نسخہ لکھ کردیتا ہے تواس کی پوری تعمیل کرنی چاہئیے ورنہ فائدہ سے ہاتھ دھونے چاہئیں ۔ایک شخص اگر بجا ئے اس نسخہ کے تحریر کردہ امورکے اس کا غذہی کو دھودھوکرپئے تو اسے فائدہ کی امید ہو گی ؟ ہرگز نہیں ۔پس اسی طرح تم بھی ہماری ہر ایک با ت پر قائم رہو ۔جھوٹی اور خشک محبت کا م نہیں آتی بلکہ تعلیم پرپوری طرح سے عمل کرنا ہی کا رآمد ہو گا ۔خدا تعالیٰ اپنے و عدہ کاسچاہے وہ بڑا رحیم وکریم اور ما ں باپ سے بھی زیادہ مہربا ن ہے مگر وہ دغاباز کو بھی خوب جا نتا ہے ۔
قبو لیت آسمان سے ہی نا زل ہو تی ہے َ
تذکرۃالاولیاء میں ہے کہ ایک شخص چاہتا تھا کہ وہ لوگوں کی نظر میں بڑاقابل اعتماد بنے اورلوگ اسے نمازی اور روزہ دار اور بڑاپاکباز کہیں اور اسی نیت سے وہ نما ز لوگوں کے سامنے پڑھتا اور نیکی کے کا م کرتا تھا وہ جس گلی میں جاتا اور جدھراس جا گذرہوتا تھا ۔لوگ اسے کہتے تھے کہ یہ دیکھویہ شخص بڑا ریا کار ہے اور اپنے آپ کو لوگوں میں نیک مشہور کرنا چا ہتا ہے ۔پھر آخر کا راس کے دل میں ایک دن خیال آیا کہ میں کیوں اپنی عاقیت کو بربا د کرتا ہوں خدا جا نے کس دن مرجا وں گا کیوں اس *** کو اپنے لیے تیا ر کررہا ہوں ۲؎ ا س نے صاف دل ہوکر پورے صدق وصفااور سچے دل سے توبہ کی اور اس وقت سے نیت کرلی کہ میں َ سارے نیک اعمال لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کیا کروں گا اور کبھی کسی کے سامنے نہ کروں گا ۔چنانچہ اس نے ایسا کرنا شروع کردیا اور یہ پاک تبدیلی اسکے دل میں بھرگئی ۔نہ صرف زبان تک ہی محدودرہی ۔پھر اس کے بعد لکھا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بظاہر ایسا بنا لیا کہ تا رک صوم وصلوت ہے اور گندہ اور خراب آدمی ہے مگر اندرونی طور پر پویشدہ اور نیک اعمال بجا لا تا تھا ۔پھر وہ جدھر جا تا اور جدھر اس کا گزرہوتا تھا لوگ اور لڑکے اسے کہتے تھے کہ دیکھویہ شخص بڑانیک اور پارسا ہے ۔یہ خدا کا پیارا اور اسکا برگزیدہ ہے ۔
غرض اس سے یہ ہے کہ قبولیت اصل میں آسمان سے نا زل ہو تی ہے اولیاء اور نیک لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو پویشدہ رکھا کرتے ہیں وہ اپنے صدق وصفا کو دوسروں پر ظاہر کر نا عیب جا نتے ہیں ۔ہا ں بعض ضروری ا مور کو جن کی اجا زت شریعت نے دی ہے یا دوسر وں کو تعلیم کے لیے اظہار بھی کیا کرتے ہیں ۔
ریا ء
نیکی جو صرف دکھانے کی غرض سے کی جاتی ہے وہ ایک *** ہوتی ہے ۔خدا تعا لیٰ کے وجودکے ساتھ دوسروں کاوجود با لکل ہیچ جا نناچا ہئیے دوسروں کے وجود کو ایک مردہ کیڑا کی طرح خیال کرنا چاہئیے کیونکہ وہ کچھ کسی کا بگا ڑنہیں سکتے اور نہ سنوار سکتے ہیں ۔نیکی کو نیک لوگ اگر ہزارپردوں کے اندر بھی کریں تو خدا تعالیٰ نے قسم کھا ئی ہوئی ہے کہ اسے ظاہر کردیگا اور اسی طرح بدی کا حال ہے بلکہ لکھا ہے کہ اگر کوئی عابد زاہذخداتعالیٰ کی عبادت میں مشغو ل ہو اور اس صدق اور جوش کا جواس کے دل میں ہے انتہا کے نقطہ تک اظہار کر رہا ہو اور اتفاقاََ کنڈی لگا نا بھول گیا ہو تو کوئی اجنبی باہر سے آکراس کا دروازہ کھو ل دے تواس کی حا لت بالکل وہی ہو تی ہے جو ایک زانی کی عین زنا کے وقت پکڑاجانے سے کیونکہ اصل غرض تو دونوںکی ایک ہی ہے یعنی اخفا ئے راز اگرچہ رنگ الگ الگ ہیں ایک نیکی کو اور دوسرابدی کو پویشد ہ رکھنا چاہتا ہے غرض خدا کے بندوں کی حالت تو اس نقطہ تک پہنچی ہو ئی ہوتی ہے ۔نیک بھی چاہیتے ہیں کہ ہماری نیکی پوشید ہ رہے اور بد بھی اپنی بدی کو پوشیدہ رکھنے کی دعا کرتا ہے مگر اس امرمیں دونونیک وبد کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو قانون بنا رکھا ہے کہ
واللہ مخرج ماکنتم تکتمون ۔(البقرہ :۷۳)
خدا تعا لیٰ کی رضا میں فانی لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو کوئی درجہ اور امامت دی جاوے وہ ان درجات کی نسبت گوشہ نشینی اور تنہاعبادت کے مزے لینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں مگران کوخداتعالیٰ کشاں کشاں خلق کی بہتری کے لیے ظاہر کرتا اور معبوث فر ما تا ہے ۔ہما رے نبی کریم ﷺ بھی تو غارمیں ہی رہا کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی کو پتہ بھی ہو آخر خداتعالیٰ نے ان کو باہر نکا لا اور دنیا کی ہدایت کا بار ان کے سپردکیا ۔
آنحضرت ﷺ کے پاس ہزاروں شاعر آتے اور آپ کی تعریف میں شعر کہتے تھے مگر *** ہے وہ دل جو خیال کرتا ہے کہ آنحضر ت ﷺ ان کی تعریفوں سے پھولتے تھے وہ ان کو مردہ کیڑے کی طر ح خیال کرتے تھے مدح وہی ہوتی ہے جوخدا آسمان سے کرے ۔یہ لوگ محبت ذاتی میں غرق ہوتے ہیں ان کو دنیا کی مدح و ثنا کی پروانہیں ہو تی۔
تو یہ مقام ایسا ہو تا ہے کہ خداتعالیٰ آسمان اور عرش سے ان کی تعریف اور مدح کرتا ہے ۔
توفیق سب اللہ تعالیٰ کو ہی ہے َ
سنو ہما ری یہ با تیں اس واسطے نہیں کہ ہم کسی کے ایما ن کو کچھ بڑھا سکتے ہیں یا کسی کے دل میں کچھ ڈال سکتے ہیں نہیں ہم کسی کے ایما ن کو ایک جو بھر بھی زیا دہ نہیں کرسکتے ۔ ۱؎ ہم صرف اس واسطے کہتے ہیں کہ اتنے جمع ہو شاید ہے کہ کسی دل کو کوئی با ت پکڑلے اور اس کی اصلا ح ہو جاوے ۔توفیق سب اللہ تعالیٰ کو ہی ہے َ خداتعالیٰ قادر ہے کہ کسی کے دل میں ایما ن کی حقیقی جڑلگا دے اور پھر اسے اس کے ثمرات کھلا وے یا کسی کو اس کی بدی کی وجہ سے قہر کی آگ سے ہلا ک کرے پس دعا ہی کرنی چاہئیے تا اس کی توفیق شامل انسا ن ہو ۔
(الحکم جلد نمبر ۱۲ صفحہ ۴تا ۷ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۲۴؍مارچ ۱۹۰۳؁ء
سیر میں آریہ مذہب کی نسبت فر ما یا کہ مذہب کی جڑخدا شناسی ہے اور اس سے کمتر روجہ یہ کہ باہمی تعلق پاکیزگی کے ہوں سویہ دونوباتیں گری ہوئی ہیں (البدر جلد۲ نمبر۱۲ صفحہ۸۴، مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
دربار شام
اسبا ب پربھروسہ نہ کریں
طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ:۔
اصل میں لوگ اس کے حقیقی علا ج کی طرف سے تو بالکل غافل ہیں اور اور طرف ہا تھ پاوں مارتے پھرتے ہیں مگر جب تک وہ اس کے اصل علاج کی طرف رجوع نہ کریں گے تب تک نجا ت کہا ؟ کو ئی طبیبوں یا ڈاکٹروں کی طرف بھاگتا ہے اور کوئی ٹیکہ کے واسطے با زوپھیلا تا ہے کو ئی نئے تجربہ اور نئی ایجا د کے درپے ہے ۔ ہماری شریعت نے آگرچہ اسباب سے منع نہیں کیا بلکہ
فیہ شفاء للناس
سے معلوم ہوتا ہے کہ دوائوں میں خدا تعالیٰ نے خواص شفاء مرض بھی رکھے ہوئے ہیں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ دوائوں میں تاثیر ات ہوتی ہیں اور امراض کے معالجات ہوا کرتے ہیں مگر ان اسباب پر بھروسہ کر لینا اور یہ گمان کرلیناکہ انہیں کے ذریعہ سے نجات اور کامیابی ہو جائوے گی یہ سخت شرک اور کفر ہے۔بھروسہ اسباب پر ہرگزنہ چاہیے بلکہ یوں چاہیے کہ اسباب کو مہیا کرکے پھر بھروسہ خداتعالیٰ پر کرنا چاہیے اور اگر وہ چاہے تو اِن اسباب کو مفید بنادے اور اسی سے پھر بھی دُعا کرنی چاہیے کیونکہ اس پر نتائج مرتب کرنا تواُسی کا کام ہے اور یہی توکل ہے ۔
نماز کی اہمیت اور حقیقت
ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے ۔فرمایا ؛
نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺکے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف کر دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں ۔مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز تو ہے ہی کیا ؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں ۔نماز کیا ہے؟یہی کہ اپنے عجزو نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا ۔کبھی اس کی عظمت اوراسکے احکام کی بجاآوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں ِگرجانا اس سے اپنی حا جات کا مانگنا ،یہی نماز ہے ۔ ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا ،پس جس د ین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے ۔انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہ مانگتا ے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگارہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے ۔اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں۔ اور تیری ر ضاپر کار بند ہو کر تجھے راضی کرلیں ۔خدا تعالیٰ کی محبت اسی کا خوف ،اسی کی یادمیں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے ۔پھر جو شخص نما ز ہی سے فراغت حا صل کر نی چا ہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا ؟وہی کھا نا پینا اور حیوانوں کی طرح سورہنا ۔یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفا ر ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے چنا نچہ قرآن شریف میں ہے
اذکر ونی اذکر کم واشکر االی ولا تکفر ون (سورت البقر :۱۵۳)
یعنی اے میرے بندوتم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصرف رہا کرو میں َ بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہا را خیا ل رکھوں اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدرکیا کرو اور کفر نہ کیا کرو ۔اس آیت سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ذکر الہیٰ کے ترک اور اس سے غفلت کا نا م کفر ہے پس جو دم ٖغافل وہ دم کا فر والی با ت صاف ہے یہ پا نچ وقت تو خدا تعا لیٰ نے بطور کے مقر ر فر ما ئے ہیں ۔ورنہ خدا کی یاد میں تو ہروقت دل کو لگا رہنا چاہئیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہو نا چاہئیے ۔اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہروقت اسی کی یا د میں غرق ہو نا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسا ن اس سے انسان کہلا نے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خدا تعا لیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کا حق رکھ سکتا ہے۔
نما ز خدا تعا لیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیَ
اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسا ن نے کسی خاص منزل پرپہنچا ہے تواس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی لمبی وہ منزل ہو گی اتنا ہی زیادہ تیزی کو شش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہو گا ۔ سوخدا تعا لیٰ تک پہنچا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دوری بھی لمبی ۔پس جو شخص خدا تعا لیٰ سے ملنا چا ہتا ہے اور اس کے دربا ر میںپہنچے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نما ز ایک گا ڑی ہے جس پر سوار ہوکر وہ جلدتر پہنچ سکتا ہے جس نے نما ز ترک کردی وہ کیا پہنچے گا ۔
اصل میں مسلمانوں نے جب سے نما ز کو ترک کیا یا ہے اسے دل کی تسکین آرام اورمحبت سے اس کی حقیقت سے غا فل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے۔ وہ زما نہ جس میں نما زیں سنوارکرپڑھی جا تی تھیں غورسے دیکھ لوکہ اسلام کے واسطے کیسا تھا ۔ایک دفعہ تواسلام نے تما م دنیا کو زیرپا کردیا تھا جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں ۔درددل سے پڑھی ہو ئی نمازہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کا نکال لیتی ہے ۔ہما را با رہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جا تی ہے ابھی نما ز میں ہی ہو تے ہیں کہ خدانے اس امر کو حل اور آسان کردیا ہواہوتا ہے ۔
نما ز میں کیا ہو تا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے ۔التجا کے ہا تھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی غرض کو اچھی طرح سنتا ہے پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے کو جواب دیتا ہے نمازی کا یہی حال ہے خدا کے آگے سر بسجودرہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے ۔پر آخر سچی اور حقیقی نما ز کا یہ نتیجہ ہو تا ہے کہ ایک وقت جلد آجا تا ہے کہ خدا تعا لیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دیکر تسلی دیتا ہے ۔بھلا یہ بجنر حقیقی نما ز کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں ۔اور پھر جن کا خدا ہی ا یسا نہیں وہ بھی کئے گذرے ہیں ان کا کیا دین اور کیا ایما ن ہے ۔وہ کس امید پراپنے اوقات ضائع کرتے ہیں ۔
اسلام کے عروج وزوال کے حقیقی اسباب
ہمارے زمانہ میں جو سوال پیش ہو ا کہ کیا وجوہا ت ہیں جن سے اسلا م کو زوال آیا اور پھر وہ کیا ذریعے ہیں جن سے اس کی ترقی کی راہ نکل سکتی ہے اس کے مختلف قسم کو لوگوں نے اپنے اپنے خیا ل کے مطا بق جو اب دئے ہیں مگر سچا جو ا ب یہی ہے کہ قرآن کو تر ک کرنے سے تنزل آیا اور اسی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے سے ہی اسی حا لت سنور جا وے گی ۔موجود ہ زما نہ میں جو ان کو اپنے خونی مہدی اور مسیح کی آمد کی امید اور شوق ہے کہ وہ آتے ہی ان کو سلطنت لے دیگا اور کفا رتبا ہ ہو ں گے ۔یہ ان کے خا م خیال اور وسوسے ہیں ۔ہما را اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا ء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زما نہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے ۔ہرایک امر کے لیے کچھ آثا رہو تے ہیں اور اس سے پہلے تمہید یں ہو تی ہیں ہو نہا ربروا کے چکنے چکنے پا ت بھلا اگر ان کے خیا ل کے موافق یہ زما نہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آ کے ان کو سلطنت دلا نی تھی تو چاہئیے تھا کہ ظاہر ی طا قت ان میں جمع ہو نے لگتی ۔ہتھیا ر ان کے پا س زیا دہ رہتے ۔فتوحا ت کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جا تا ۔مگر یہا ں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے ہتھیا ر ان کے ایجا دنہیں ۔ملک ودولت ہے تو اور روں کے ہا تھ ہے ۔ہمت ومردانگی ہے تواورروں میں ۔یہ ہیھیا روں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج ۔دن بدن ذلت اور ادباران کے گرد ہے جہاں دیکھو ۔جس میدان میں سنوانہیں کوشکست ہے ۔بھلا کیا یہی آثا ر ہو اکرتے ہیںاقبال کے ؟ ہرگز نہیں یہ بھولے ہو ئے ہیں زمینی تلواراور ہتھیاروں سے ہرگز کا میاب نہیں ہو سکتے ۔ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بیدینی اور لا مذہبی کا رنگ ایسا آیاہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں ۔پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے ؟ ہرگزنہیں ۔انکی ترقی کہ وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قر آن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں ان کو اب اگر مدد آ و ے گی تو آسما نی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان فتح ہے نہ قوت بازو سے یہ اس لیے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انہتا بھی اسی طرح ہو ۔آدم اول کو فتح دعاہی سے ہو ئی تھی
ربنا ظلمنا الفسنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ (الاعراف :۲۴)
اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زما نہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی ۔ ۱؎ ( الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ صفحہ ۷۔۸ مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۲۵ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
ہما را سب سے بڑا کا م کسر صلیب ہے
حضرت اقدس نے جو حجر ہ دعائیہ بنا یا ہے اس کی نسبت فر ما یا کہ :۔
ہما را سب سے بڑا کا م کسر صلیب ہے ۔اگر یہ کا م ہو جاوے تو ہزاروں شہبات اور اعترا ضات کا جواب خودبخود ہی ہو جا تا ہے اور اسی کے ادھوررہنے سے سنیکڑوں ا عترا ضات ہم پروار ہو سکتے ہیں ۔دیکھاگیا ہے کہ چالیس یا پچاس کتا بیں لکھی ہیں مگران سے ابھی وہ کا م نہیں نکلا جس کے لیے ہم آئے ہیں اصل میں ان لوگوں نے جس طرح قدم جمائے اور اپنا دام فریب پھیلا یا ہے وہ ایسا نہیں کہ کسی انسا نی طاقت سے درہم برہم ہو سکے ۔دانا آدمی جا نتا ہے کہ اس قوم کا تختہ کس طرح پلٹا جا سکتا ہے ۔یہ کا م بجز خدائی ہا تھ کے انجام پذیر ہو تا نظر نہیں آتا اسی واسطے ہم نے ان ہتھیا روں یعنی قلم کو چھوڑکردعا کے واسطے یہ مکا ن (حجرہ) بنویا ہے کیونکہ دعا کا میدان خدا نے بڑا وسیع رکھا ہے اور اس کی قبولیت کا بھی اس نے وعدہ فر ما یا ہے ۔
اللہ تعا لیٰ کا یہ فر ما نا کہ
من کل حدب ینسلون ۔(الانبیاء :۹۷)
اس امر کے اظہار کے واسطے کا فی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیرپا کریں گے ورنہ اس کے سوااور کیا معنے ہیں ؟کیا یہ قومیں ریواروں اور ٹیلوں کو دتی پھا ندتی پھریں گی ؟ نہیں اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریا ستوں اور سلطنتو ں کو زیرپا کرلیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔
فتح دعا کے ذریعہ ہو گی
واقعات جس امر کی تفسیر کریں وہی تفسیر ٹھیک ہوا کرتی ہے اس آیت کے معنے خدا تعالیٰ نے واقعات سے بتا دئے ہیں انکے مقابلہ میں اگر کسی قسم کی سیفی قوت کی ضر ورت ہو تی تو اب جیسے بظاہر اسلامی دنیا کی امیدوں کے آخری دن ہیں چاہئیے تھا کہ اہل اسلام کی سیفی طاقت بڑ ھی ہو ئی ہو تی اور اسلامی سلتنطیںتمام دنیا پر غلبہ پاتیںاور کوئی ان کے مقابل پر ٹھہر نہ سکتا ۔مگراب تو معاملہ اس کے برخلا ف نظر آتا ہے ۔خدا تعا لیٰ کی طرف سے بطور تمہید یا عنوان کے یہ زما نہ ہے کہ ان کی فتح اور ان کا غلبہ دنیوی ہتھیاروں سے نہیں ہو سکے گا ۔ بلکہ ان کے واسطے آسما نی طا قت کا م کری گی جس کا ذریعہ دعا ہے ۔غرضکہ ہم نے اس لیے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے ساٹھ یا پینسٹھ سا ل عمر سے گذرچکے ہیں ۔موت کا وقت مقرر نہیں ۔خدا جا نے کسوقت آجا وے اور کا م ہما را ابھی بہت باقی پڑا ہے ادھر قلم کی طا قت کمزورثابت ہوئی ہے رہی سیف اس کے واسطے خدا تعا لیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے لہٰذاہم نے آسما ن کیطرف ہا تھ اٹھا ئے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنا یا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پربذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا ۔
ہم نے دیکھا کہ اب ان مسلما نوں کی حالت تو خود موردعذاب اور شامتِ اعما ل سے قہر الہیٰ کے نزول کی محرک بنی ہو ئی ہے اور خدا کی نصرت اور اس کے فضل وکرم کی جا ذب مطلق نہیں رہی ۔جب تک یہ خود نہ سنوریں تب تک خوشحا لی کا منہ نہیں دیکھ سکتے ۔اعلاء کلمتہ اللہ کا ان کو فکر نہیں ہے خدا کے دین کے واسطے ذرا بھی سرگرمی نہیں۔اس لیے خدا کے آگے دست دعا پھیلانے کا قصد کرلیا ہے کہ وہ اس قوم کی اصلا ح کرے اور شیطان کو ہلا ک کرے تا کہ خدا کا سچا نور دنیا پردوبارہ چمک جاوے اور راستی کی عظمت پھیلے ۔
بنی اسرائیل کی کتا بوں سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ جب وہ قوم فسق وفجور میں تبا ہ ہو جاتی اور اس کی توحیدوجلال کو با لکل بھول جاتی تھی تو ان کے انبیا ء اسی طرح جنگلوں اور الگ مکانوں میں دست بدعا ہوتے تھے اور خدا کی رحمت کے تخت کو جنبشں دیا کرتے تھے ۔
دنیا کو علم نہیں ہے کہ آجکل عیسائی کیا کررہے ہیں مسلمانوں کی کس قدرذریت کو انہوں نے بربا د کیا ہے کسقدرخاندان انکے ہا تھوں نالاں ہیں گویا دنیا کا تختہ بالکل پلٹ گیا ہے اب خدا کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس کی توحیداور جلال کی ہتک ہواور اس کے رسول کی زیا دہ بے عزتی کی جا وے ۔اس کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اپنے نورکو اب روشن کرے اور سچائی اور حق کا غلبہ ہو سواس نے مجھے بھیجااور اب میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ میں َ ایک حجرہ بیت الدعا صرف دعا کے واسطے مقررکروں اور بذریعہ دعا کے اس فساد پرغالب آؤںتا کہ اول آخر سے مطابق ہو جا وے اور جس طرح سے پہلے آدم کو دعا ہی کے ذریعہ سے شیطان پر فتح نصیب ہو ئی تھی اب آخری آدم کے مقابل پر آخری شیطان پر بھی بذریعہ دعا کے فتح ہو۔
(البدر جلد۲ نمبر۱۱ صفحہ۸۴، ۸۵ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۲۶ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیر
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
رفع یدَین
رفع یدَین کے متعلق فر ما یا کہ :۔
اس میںچنداں حرج نہیں معلوم ہو تا ،خواہ کوئی کرے یا نہ کرے احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوطرح پرہے اور وہا بیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نیتجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک تو رفع یدَین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے ۔معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی وقت رفع یدَین کیا اور بعدازاں ترک کردیا
وتر
فر ما یا کہ :۔
اکیلا ایک وتر کہیں سے ثابت نہیں ہو تا ۔وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چا ہئیں ۔خواہ تینوں اکٹھے ہی پڑھ لیں خواہ دورکعت پڑھ کرسلام پھیر لیں پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے ۔
قبض ولسبط
با بونبی بخش صاحب احمدی کلرک لا ہو ر نے عرض کی کہ بعض وقت تودل میں خودبخود ایک ایسی تحریک پیداہو تی ہے کہ طبیعت عبادت کی طرف راغب ہو تی ہے اور قلب میں ایک عجیب فرحت اور سرورمحسوس ہو تا ہے اور بعض وقت یہ حالت ہو تی ہے کہ نفس پر جبر اور بوجھ ڈالنے سے بھی حلا وت پیدا نہیں ہو تی اور عبادت ایک بارگراں معلوم ہو تی ہے حضرت اقدس نے فرما یا کہ :۔
اسے قبض اور لسبط کہتے ہیں قبض اس حالت کا نام ہے جب کہ ایک غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جا تا ہے اور خدا کی طرف محبت کم ہو تی ہے اور طرح طرح کے فکر اور رنج اور غم اور اسبا ب دنیوی میں مشغول ہو جا تا ہے اور بسط اس کا نا م ہے کہ انسا ن دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور موت کو ہر وقت یاد رکھے ۔جب تک اس کو اپنی موت بخوبی یا دنہیں ہو تی وہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا ۔موت تو ہروقت قریب آتی جا تی ہے کو ئی آدمی ایسا نہیں جس کے قریبی رشتی دار فوت نہیں ہو چکے اور آجکل تو وبا سے گھر کے گھر صاف ہو تے جا تے ہیں اور موت کے لیے طبیعت پر زور دیکر سوچنے کی حاجت ہی نہیں رہی ۔
یہ حالتیں قبض اورلسبط کی اس شخص کو پیدا ہو تی ہیں جس کو موت یاد نہیں ہو تی ۔کیو نہ تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ انسا ن قبض کی حالت میں ہو تا ہے اور ایک نا گہانی حادثہ پیش آجا نے سے وہ حالت قبض معاََ دور ہو جا تی ہے جیسے کو ئی زلزلہ آجا وے یا موت کا حادثہ ہو جا وے تو ساتھ ہی اس کا انشراح ہو جا تا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ قبض اصل میں ایک عارضی شئے ہے۔ جو کہ موت کو بہت یاد کرنے اور اللہ تعا لیٰ کے سا تھ سچا پیوست ہو جا نے سے دور ہو جا تی ہے اور پھر لسبط کی حالت دائمی ہو جا تی ہے عارفوں کو قبض کی حا لت بہت کم ہو تی ہے نا دان انسا ن سمجھتا ہے کہ دنیا بہت دیر رہنے کی جگہ ہے میں َ پھر نیکی کرلوں گا ۔اس واسطے غلطی کرتا ہے اور عا رف سمجھتا ہے کہ آج کا دن جو ہے یہ غنیمت ہے خدا معلوم کل زندگی ہے کہ نہیں ۔
ایک رویا
مَیںاس مکا ن کی طر ف سے مسجد کی طرف چلا جا رہا ہو ں ۔مَیں نے ایک شخص کو آتے ہو ئے دیکھا جو کہ ایک سکھ کی طرح معلوم ہو تا تھا جس طرح سے اکا لئے اور کو کہ سکھ ہو تے ہیں اس کے ہا تھ میں ایک تیز خوفنا ک بڑا اور چوڑا چھراتھا اور اس چھرے کا دستہ چھوٹا سا تھا وہ چھرا بڑاہی تیز معلوم ہو تا ہے اور ایسا معلوم ہو تا تھا گویا وہ لو گوں کو قتل کرتا پھرتا تھا ۔جہاں اس نے چھرا رکھا اور گردن اڑگئی ۔کچھ اس طرح معلوم ہو تا تھاجس طرح میں َ نے لیکھرام کے وقت میں ایک آدمی خواب میں دیکھا تھا اس کی صورت بڑی ڈراونی تھی اور بڑاہی دہشتنا ک آدمی معلوم ہو تا تھا ۔مجھے بھی اس سے خوف معلوم ہوا ۔اور میں َ نے اس کی طرف جا نا نہ چا ہا لیکن میرے پاوں بہت بوجھل ہو گئے اور مَیں بڑا ہی زورلگاکر ادھر سے نکلا ،لیکن اس نے میری مزاحمت نہ کی اور اگر چہ مجھ کواس سے خوف معلوم ہو الیکن اس نے مجھ کو کو ئی تکلیف نہ دی اور پھر وہ خبر نہیں کہ کس طرف کو نکل گیا ۔
ایک اور رویا
ایک حنا ئی رنگ کا لکھا ہو ادوورقہ کا غذ کچھ تھوڑے فا صلہ پر گرپڑاہے مَیں نے ایک ہند وکو کہا کہ اس اس کو پکڑو ۔جب وہ پکڑنے لگا تو وہ کچھ دور آگے جا پڑا ۔پھر وہ ہندو اٹھا نے لگا تو وہ وہاں سے اڑکر اور آگے جاپڑالیکن وہ دور ورقہ اس طرح کچھ ترتیب سے کھل کر اڑتا رہا ہے کہ اس طرح معلوم ہو تا ہے کہ گویا وہ کو ئی جا ندار چیز ہے جب وہ کچھ فاصلہ تک چلا گیا تووہ ہند و وہاں جاکر پھر اس کو پکڑنے لگا تب وہ دوورقہ اڑکرمیرے پا س آگیا تو اس وقت میری زبا ن سے یہ کلمہ نکلا جس کا تھا اس کے پا س آگیا ۔پھر میَںنے اس کو مخا طب ہو کر کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جو روح القد س کے بلا ئے بولتے ہیں ہم وہ قوم ہیں جن کے حق میں خدا نے فر ما یا ہے ۔
لننخنا فیھم من صدقنا
اسلا می خدا ما ت کسی دوسرے سے خدا تعا لیٰ لینا ہی نہیں چاہتا ۔شاید دوسرا اس میں کچھ غلطی بھی کرے ۔واللہ اعلم ۔
جو شخص اسلا م کے عقائد کا منا فی ہے وہ اسلا م کی تائید کیا کرے گا ۔
سناتن دھرم میں اس طرح کے بھی آدمی ہو تے ہیں کہ وہ کسی فرقہ کے مکذب نہیں ہو تے اور معمولی چیزوں کے آگے بھی ہا تھ جوڑتے پھرتے ہیں ۔
خدا نہیں چاہتا کہ جو سلسلہ اس نے اپنے ہا تھ سے لگا یا ہے اس کا کو ئی شریک ہو یہا ں سے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ ہما را کا غذ ہما رے پاس آگیا ۔ (البدر جلددونمبر۱۱ صفحہ۸۵ مو رخہ ۳ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
آیا ت مبین
میرے نزدیک ا ٓیا ت مبین وہ ہو تی ہیں مخا لف جن کے مقابلہ سے عاجز ہو جا وے خواہ وہ کچھ ہی ہو جس کا مخالف مقابلہ نہ کرسکے وہ اعجا ز ٹھہر جا ئے گا جب کہ اس کی تحد ی کی گئی ہو ۔
یا د رکھنا چاہئیے کہ اقراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے نبی کبھی جرات کرکے یہ نہیں کہیگا کہ تم جو نشان مجھ سے مانگو میںَ وہی دکھا نے کو تیا ر ہو ں ۔اس کے منہ سے جو نکلے گا یہی نکلے گا
انما الایا ت عند اللہ ۔(الانعام :۱۱۰)
اور یہی اس کی صداقت کا نشان ہو تا ہے کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھیہیں ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہو تی اس لیے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں اور نہ ذات با ری کی عزت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہو تا ہے ہما را خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہی کردے۔یہ سوء ادب ہے ۔ایسا خدا خدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ہاں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امیداور حوصلہ دلا یا کہ
ادعونی استجب لکم (المومن :۶۱)
یہ نہیں کہا کہ تم جو مانگوگے وہی دیا جا یئگا ۔آنحضر ت ﷺ سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے گئے تو آپ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا ۔
قل سجان دبی ھل کنت الا بشرارسولا۔(بنی اسرائیل :۹۴)
خدا کے رسو ل کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آداب الہیٰ کو مدنظر رکھتے ہیں یہ با تیں منحصر ہیں ۔معرفت پر ۔جس قدر معرفت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل پر مستولی ہو تی ہے اور سب سے بڑھ کر معرفت انبیا ء علیم اسلا م ہی کی ہو تی ہے ۔اس لیے ان کی ہر با ت اور ہرادا میں بشریت کا رنگ جدا نظر آتا ہے اور تا ئیدات الہیہٰ الگ نظرآتی ہیں ۔
ہما را ایما ن ہے کہ خدا تعا لیٰ نشان دکھا تا ہے ،جب چاہتا ہے وہ دنیا کو قیامت بنانا نہیں چاہتا ۔اگر وہ ایسا کھلا ہوا ہوکہ جیسے سورج تو پھر ایما ن کیا رہا ؟ اور اس کا ثواب کیا؟ ایسی صورت میں کون بدبخت ہو گا جو انکار کریگا ؟ نشا ن بین ہو تے ہیں مگر ان کو با ریک بین دیکھ سکتے ہیں اور کو ئی نہیں اور یہ وقت نظر اور معرفت سعادت کہ وجہ سے عطا ہو تی ہے اور تقویٰ سے ملتی ہے شکی اور فاسق اس کو نہیں دیکھ سکتا ۔ایما ن اس وقت تک ایما ن ہیجب تک اس میں کوئی پہلووں اخفا ء کا بھی ہو لیکن جب بالکل پردہ بر انداز ہو تو وہ ایمان نہیں رہتا اگر مٹھی بند ہو اور کوئی بتاد ے کہ اس میں یہ ہے تو اس کی فراست قابل تعریف ہو سکتی ہے لیکن جب مٹھی کھول کر دکھا دی اورپھر کسی نے کہا کہ میں َ بتا دیتا ہو ں تو کیا ہو ا ؟ یا پہلی رات کا چاند اگر کوئی دیکھ کربتا ئے تو البتہ اسے تیز نظر کہیں گے ۔لیکن جب چودھویں کا چاند ہو گیا اس وقت کوئی کہے کہ میں َ نے چا ند دیکھ لیا وہ چڑھا ہو ا ہے تو لو گ اس کو پا گل کہیں گے ۔
معجزہ
غر ض معجز ات وہی ہو تے ہیں جس کی نظیر لا نے پر دوسر ے عاجز ہوں ۔انسا ن کا یہ کا م نہیں کہ وہ ان کی حدبندی کرے کہ ایسا ہو نا چاہئیے یا ویسا ہو نا چاہئیے ۔اس میں ضرورہے کہ بعض پہلو اخفا کے ہو ں ۔کیونکہ نشانا ت کے ظاہر کرنے سے اللہ تعا لیٰ کی غرض یہ ہو تی ہے کہ ایما ن بڑھے اور اس میں ایک عرفا نی رنگ پیدا ہو جس میں ذوق ملا ہو ا ،لیکن جب ایسی کھلی بات ہو گی تو اس میں ایما نی رنگ ہی نہیںآسکتا چہ جا ئیکہ عرفانی اور ذوقی رنگ ہو ۔پس اقراحی نشا نا ت سے اس لیے منع کیا جا تا ہے اور روکا جا تا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوئادبی کی پیدا ہو جا تی ہے جو ایمان کی جڑکا ٹ ڈالتی ہے ۔ ( الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ صفحہ ۳مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
نشا نا ت کس سے صادرہو تے ہیں
اس سوال کا جواب حضرت حجتہ اللہ علیہ ا سلام نے ایک با ر اپنی ایک مختصر سی تقر یر میں دیا ہے ۔فر ما یا :۔
نشا نا ت کس سے صادرہو تے ہیں ؟ جس کے اعمال بجا ئے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جا ئیں مثلاََ ایک شخص خدا تعا لیٰ کے ساتھ وفا داری کرتا ہے وہ ایسی وفاداری کرے کہ اس کی وفا خارق عادت ہو جاوے ۔اس کی محبت اس کی عبا دت خارق عادت ہو ۔ہر شخص ایثا رکرسکتا ہے اور کرتا بھی ہے لیکن اس کا ایثار خارق عادت ہو غرض اس کے خلاف ،عبادت اور سب تعلقات جو خدا تعالیٰ کے ساتھ رکھتا ہے اپنے اندر ایک خارق عادت نمونہ پیدا کریں تو چونکہ خارق عادت کا جواب خار ق عادت ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہا تھ پر نشا نا ت ظاہر کرنے لگتا ہے پس جو چاہتا ہے کہ اس سے نشانات کا صدور ہو تو اس کو چاہئیے کہ اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کہ ان میںخا رق عادت نتا ئج کے جذب کی قوت پیدا ہو نے لگے ۔انبیا علیہم ا سلام میں یہی ایک نرالی با ت ہو تی ہے اور ان کا تعلق اندرونی اللہ تعا لیٰ کے ساتھ ایسا شدید ہو تا ہے کہ کسی دوسرے کا ہرگز نہیں ہو تا ۔ان کی عبودیت ایسا رشتہ دکھا تی ہے کہ کسی اور کی عبودیت نہیں دکھا سکتی ۔پس اس کے مقابلہ میں ربوبیت اپنی تجلی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور رنگ کا کرتی ہے عبودیت کی مثال عورت کی سی ہو تی ہے کہ جیسے وہ حیا شرم کے ساتھ رہتی ہے اور مرد بیا ہنے جا تا ہے تو وہ اعلانیہ جا تا ہے اسی طرح پر عبوریت پردا اخفا میں ہوتی ہے لیکن الُو ہیّت جب اپنی تجلی کرتی ہے تو پھر وہ ایک بین امر ہو جاتا ہے اور ان تعلقات کا جو ایک سچے مومن اور عبداور اس کے رب میں ہو تے ہیں خارق عادت نشا نا ت کے ذریعہ ظہور ہو تا ہے انبیا ء علیہم ا سلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسول اللہ ﷺ کے تعلقا ت اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کل انبیاء علیہم ا سلام سے بڑھے ہو ئے تھے اس لیے آپ کے معجزات بھی سب سے بڑھے ہوئے ہیں ۔
( الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲ صفحہ۴مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء)
۲۸ ؍مارچ ۱۹۰۳؁ء
انسا ن اور بہائم میں فرق
بچپن کی عمر کا ذکر ہو ا فر ما یا کہ :۔
انسا ن کی فطرت میںیہ با ت ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے ۔بچوں میں عادت ہو تی ہے کہ جھوٹ بولتے ہیں ۔آپس میں گا لی گلوچ ہو تے ہیں ۔ذرا ذراسی با توں پرلڑتے جھگڑتے ہیں جوں جوں عمر میں وہ ترقی کرتے جا تے ہیں عقل اور فہم میں بھی ترقی ہو تی جا تی ہے ۔رفتہ رفتہ انسا ن تزکئیہ نفس کی طرف آتا ہے ۔
انسا ن کی بچپن کی حالت اس با ت پر دلا لت کرتی ہے کہ گا ئے بیل وغیرہ جا نوروں ہی کی طرح انسا ن بھی پیدا ہوتا ہے ۔صرف انسا ن کی فطرت میں ایک نیک با ت یہ ہو تی ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کرنیکی کو اختیار کرتا ہے اور یہ صفت انسا ن میں ہی ہو تی ہے ۔کیو نکہ بہایم میں تعلیم کا مادہ نہیں ہو تا ۔سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ایک قصہ ِ نظم میں لکھا ہے کہ ایک گد ھے کو ایک بیوقوف تعلیم دیتا تھا اور اس پر شب وروز محنت کرتا ۔ایک حکیم نے اسے کہ اے بیوقوف تویہ کیا کرتا ہے ؟ اور کیوں اپنا وقت اور مغز بے فائدہ گنواتا ہے ؟ یعنی گدھا تو انسا ن نہ ہو گا تو بھی کہیں گدھا نہ بن جا وے ۔
درحقیقت انسا ن میں کو ئی ایسی الگ شئے نہیں ہے جو کہ اور جانوروں میں نہ ہو ۔عموماََ سب صفا ت درجہ وار تما م مخلوق میں پائے جا تے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انسا ن اپنے اخلا ق میں ترقی کرتا ہے اور حیوان نہیں کرتا ۔
اخلا ق کی حقیقت
دیکھوازنڈکاتیل اور کھانڈکیسے غلیظ ہو تے ہیں ،لیکن جب خوف صاف کیا جاوے تو مصفیٰ ہو خوشمناہو جا تے ہیں ۔یہی حال اخلا ق اور صفات کا ہے ۔اصل میں صفا ت کل نیک ہو تے ہیں جب ان کو بے موقعہ اور نا جائز طور پر استعمال کیا جا وے تو وہ برے ہو جا تے ہیں اور ان کو گندہ کردیا جا تا ہے لیکن ان ہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کرمحل اور موقعہ پر استعمال کیا جا وے تو ثواب کا موجب ہو جاتے ہیں ۔قرآن مجید میں ایک جگہ فر ما یا ہے
منشرحاسداذا حسد (الفلق :۶)
اور دوسری جگہ
السابقون الاولون
اب سبقت لے جا نا بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اورکوئی آگے بڑھ جاوے یہ صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جا تی ہے اگربچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنیوالے کی استعداد بڑھ جا تی ہے سابقوم گویا حاسد ہی ہو تے لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفیٰ ہو کرسابق ہو جا تا ہے اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جا ویں گے۔
اسی طرح سے غضب اگر موقعہ اورمحل پر استعمال کیا جا وے تووہ ایک صفت محمودہ ہے وہ انسا ن ہی کیا ہے جیسے مستورات کی عصمت کی محافظت کے لیے بھی غضب نہ پیدا ہوتا ہو ۔حضرت عمر ؓ میں غضب اور غصہ بہت تھا ۔مسلما ن ہو نے کے بعد کسی نے آپ سے پوچھا کہ اب وہ غضب اور غصہ کہا ں گیا ؟فر مایا کہ غضب تو اسی طرح میرے میں ہے لیکن آگے بے محل اور موقعہ اور ظلم کے رنگ میں تھا اور اب محل اور موقعہ پر استعمال ہو تا ہے اب انصاف کے رنگ میں ہے ۔
صفات بدلتے نہیں ہیں ہا ں ان میں اعتدال آجا تا ہے ا۔سی طرح گلہ کرنا نا جائزہے ۔لیکن استاد یا ما ں با پ اگر گلہ کریں تو وہ قابل مذمت نہیں کیو نکہ مرشد ،استا د یا با پ اگر گلہ کرتے ہیں تو وہ اس کی ترقی کے لیے گلہ کرتے ہیں اور اس کے عیوب کو اس لیے بیا ن کرتے ہیں تاکہ عبرت ہو اور اس کے اعمال میں اصلاح ہو ایسے ہی چوری بھی ایک بری صفت ہے لیکن اگر اپنے دوستوں کی چیز بلا اجا زت استعمال کر لی جا وے تو معیوب نہیں (بشرطیکہ دوست ہوں )۔
کما ل دوستی کا ایک واقعہ
دوشخصوں میں باہمی دوستی کما ل درجہ کی تھی اور ایکدوسرے کا محسن تھا ۔اتفاقاََ ایک شخص سفر پر گیا دوسرا اس کیبعد اس کے گھر میں آیا اور اس کی کنیزسے دریا فت کیا کہ میرا دوست کہا ں ہے ؟ اس نے کہا کہ سفر کو گیا ہے پھر اس نے پوچھا کہ اس کے روپیہ والے صندوق کی چابی تیرے پاس ہے ؟ کنیز نے کہاکہ میرے پا س ہے اس نے کنیز سے وہ صندوق منگواکرچا بی لی اور خود کھول کر کچھ روپیہ اس میں سے لے گیا جب صاحب خانہ سفرسے واپس آیا تو کنیز نے کہا کہ آپ کا دوست گھر میں آیا تھا ۔ یہ سن کر صاحب خانہ کا رنگ زرد ہو گیا اور اس نے پو چھا کہ کیا کہتا تھا ؟کنیز نے کہاکہ اس نے مجھ سے صندوق اور چابی منگواکرخود آپ کا روپیہ والا صندوق کھولا اور اس میں سے روپیہ نکال کرلے گیا ۔پھر تو وہ صاحب خانہ اس کنیز پر اس قدر خوش ہواکہ بہت ہی پھولا اور صرف اس صلہ میں کہ اس نے اس کے دوست کا کہا ما ن لیا اس کو نا راض نہیں کیا ۔اس کنیز کو اس نے آزاد کر دیا اور کہا کہ اس نیک کا م کے اجر میں جو کہ تجھ سے ہوا ہے میں َ آج ہی تجھ کوآزادکرتا ہوں ۔
غرض جس قدر یہ جرائم ہیں جن کی نواہی کی شریعت میں تا کید ہے مثلاگلہ نہ کر و ،چوری نہ کرو وغیرہ وغیرہ یہ سب صفا ت بداستعمال کی وجہ سے خرا ب ہو گئے ۔ورنہ حقیقتاََ ان کا موقعہ اور محل پر استعما ل درست اور انسا ن کی فطرت کے مطا بق ہے ۔عفوایک موقعہ پرتوقابل استعمال ہوتا ہے اور بعض موقعہ پرقابل ترک ۔کیو نکہ اگر کسی مجرم کو با ر با ر عفوہی کردیا جا وے تو وہ اور زیا دہ بیباک ہو کر جرم کریگا ۔ایسے موقعہ پر اس سے انتقام لینا ہی عفوہو تا ہے ۔
انجیل کی غیرمتوازن تعلیم
انجیل کی تعلیم میں جو کہ بعض جگہ زیا دہ نرمی کی ہدایت ہے اس کا بھی یہی مقصود ہو گا کیونکہ وہ تو صرف یہود کے لیے ہے جوکہ سخت سرکش اور ظالم طبع لو گ تھے۔اس مسلہ کو آج کل لوگوں نے خواب سمجھ لیا ہے برہمولوگوں نے بھی اس پر اعتراض کئے ہیں میںَ نے ایک برہموکی کتا ب میں دیکھا ۔وہ لکھتا ہے کہ تما م عمر مارہی کھاتے جا نا اور ہمیشہ طمانچے کھا نا بلکہ ایک گال زخمی کراکردوسر ی گال بھی پھیر دینایہ کہا ں کا انصاف ہے ؟ دومؔ انسا ن اس پر عمل کب کرسکتا ہے اور نہ کسی سے آج تک اس طرح کے عفوپرعمل ہوسکا ،انجیل کی اس تعلیم کے متبع عیسائی لوگ کبھی بھی اس مسلہ پر عمل نہ کر سکے آج کسی عیسائی کو ایک بات کہو جو کہ اس کی مرضی کے بر خلاف ہو پھر دیکھو وہ کتنی سناتاہے اورعدالت کی طرف دوڈتا کہ نہیں بعض نا دان عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اس تعلیم سے یہ مقصود ہے کہ مار طمانچہ کھا کرعرضی ڈال دواورعدالت سے چارہ جوئی کرو ۔لیکن اتنانہیں سوچتے ۔کہ اگرکسی نے ایک عیسائی کو طمانچہ مارا کراس کے دانت نکال دئیے پھر اس نے حسب حکم شریعت دوسری گال آگے کی اور اس نے ادھر کے بھی دانت نکال دئیے کیونکہ دشمن کا طمانچہ کوئی پیاراکا طمانچہ تو نہ ہوگا وہ توتمام قوت سے طمانچہ مارے گا اور جب دونوطرف کے دانت نکل گئے تو پھر عدالت میں جا نے سے وہ دانت کیا واپس لگ جاویں گے؟ اگر مجرم کوسزا بھی ہو گی تواس کو کیا ملے گا ؟ جوساری عمر کے لیے ایک نعمت سے محروم ہوکرعمدہ کھانے پینے بولنے کی لذات سے جا تا رہا۔
ایسے ہی اگر ایک بدکا ر کسی عیسائی کی عورت پر نا جا ئزحملہ کرنا چاہے تووہ عیسائی اس وقت تواس کا مزاحم نہ ہو مگر بعد میں عدالت کے ذریعہ چارہ جوئی کرے اور گواہ اور ثبوت دیتا پھرے عجیب تعلیم ہے
پھرذکر ہوا کہ بلا دیورپ اور امریکہ اور جرمن وغیرہ میں آج کل ایک عجیب تحریک پیداہوتی چلی جاتی ہے ۔لوگ خودبخود ہی ان خیالا ت فا سدہ سے دست کش ہو تے جا تے ہیں اور ان کی تجویز ہے کہ تثلیث اور کفا رہ کے لیے بے دلیل خیالات کو مہذب دُنیا سے اُڑا کر با دلیل اور آزادی پسند خیالا ت نوجوانوں کے آگے پیش کئے جا ویں ۔فر ما یاکہ :۔
توحید کے قیام کے آثار
اب خدا چا ہتا ہے کہ اس کی توحید دنیا میں قائم ہواور اسی کا تصرف تما م دنیا پراور لوگوں کے دلوں پر رہے اور کوئی کا م نہیں ہو سکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ نہ چاہے ۔اس زما نہ میں ان تما م پرانی جہالت کے زما نہ کی غلطیوں کا اس طرح خودبخود ظاہر ہو جا نا یہ بھی ایک مسیح موعود کے زمانہ کی نشا نی ہے تا کہ زما نہ کی حالت بھی ایسی ہو کہ وہ مسیح موعود کی تائیدکرے جب خدا تعالیٰ کسی با ت کو چا ہتا ہے کہ وہ ہوجا وے تو وہ تمام زما نہ کو اس کی طرف پھیر دیتا ہے پھر ہر طرف سے اس کی تائید ہی تائیدظاہر ہوتی ہے کیا زمین کیا آسما ن گویا سب ہی اس کی خدمت میں لگ جا تے ہیں اگر زمین کسی اور طرف رجوع کرے اور آسما ن کسی اور طرف تو پھر حالت ٹھیک نہیں رہتی ۔اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ ہما ری تائیدکرے اور چاہتا ہے کہ ہر قسم کے شرک ،کفر اور بطان کو ذلیل کرے ۔تو حید کی سچائی کو دنیا میں قائم کرے ۔اسی لیے اس نے تما م زما نہ میں ایک عجیب تحریک پیدا کردی ہے اور ہر ایک،طرف سے ہما ری ہی تا ئیدنظر آتی ہے مثلاََ ایک ذراسی آگ تما م جہان کے جلا نے کے لیے کا فی ہے ۔اسی طرح زما نہ میں یہ آگ لگ گئی ہے اور اب تو یہ ہوا چل رہی ہے کہ ان دلوں میں پھونک دیا گیا ہے کہ وہ ان تما م پرانے اور بے معنے بلکہ غیر معقول خیالا ت سے خود بخود بیزار ہو کر حقیقت اور راستی کے جویاں ہو جاویں ۔جیسے کہ اب جرمن کے بادشاہ کے مذہب میں سخت انقلا ب ہوا ہے ۔یہی ایک کا فی مثا ل ہے ۔جب سلا طین کے دل میں اللہ کریم نے ایسے ایسے خیالا ت ڈال دئیے ہیں تو رعیت کا بہت ساحصہ ایسا بھی ہو تا ہے جو کہ با دشاہ کے مذہب کے ہو تے ہیں اور اپنے با دشاہ کے اشاروں پر چلتے ہیں۔
اللہ تعا لیٰ کی شان ہے کہ ایک زما نہ میں تو حضرت مسیح کی حد سے زیادہ اور مبالغہ سے بڑھ کرتعریف کی گئی تھی اور اب اس کا رددرودیوار سے خود بخود عیاں ہو تا جا تا ہے ۔
(مجلس قبل ازعشاء)
حضرت ابوطالب کی نجات
بعض لوگ جو کہ غیر مذاہب میں برائے نا م ہو تے ہیں مگر خلوص دل سے وہ اسلام کے مداح ہو تے ہیں انکے ذکر پر فر ما یا کہ :۔
حضرت ابوطالب کی بھی ایسی ہی حالت تھی ۔خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ ایک خبیث اور شر یر کو ایک ادب اور لحاظ کرنے والے کے برا براکردیوے ۔اگر اس نے بظاہر تو مذہب قبول نہیں کیا مگر بزرگ سالی کی رعونت اس میں نہ تھی ۔احادیث میں بھی اس قدر تحقیقات کہیں نہیں ہو ئی ہے ممکن ہے کہ اس نے کبھی کلمہ پڑھ دیا ہو ۔بجز اعتقاد کے محبت نہیں ہوا کرتی ۔اول عظمت دل میں بیٹھتی ہے پھر محبت ہو تی ہے ۔
ایک ذکر پر فر ما یا کہ :۔
سادہ خوراک
ایک سا ل سے زیا دہ عرصہ گذرا ہے ۔کہ میں َ نے گو شت کا منہ نہیں دیکھا اکثر مسی روٹی (بیسنی )یا اچا راور دال کے ساتھ کھا لیتا ہوں آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے
فر ما یا کہ :۔
نسخ
ایک سالک کی عمر میں نسخ ہوتا رہتا ہے ۔انبیاء کی زندگی میں بھی نسخ ہو تا اسی لیے اول حالت آخر حالت کے ساتھ مطابق نہیں ہواکرتی جسما نی حالتوں میں بھی نسخ دیکھا جا تا ہے ۔
(البدر جلد۲نمبر۱۲ صفحہ۸۹ ۔۹۰مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۲۹؍مارچ۱۹۰۳ء؁
مجلس قبل ازعشاء
فر ما یا:۔
عصمتِ انبیاء
صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے ۔اس واسطے نبی کی شان سے بعیدہے کہ اسے بھی صلیب دی جا وے ۔اس لیے توریت میں لکھا تھا کہ جوکا ٹھ پر لٹکا یا جاوے وہ ملعون ہے آتشک وغیرہ جوخبیث امراض خبیث لوگوں کو ہو تے ہیں اس سے بھی انبیاء محفوظ رہتے ہیں ۔نفس قتل انبیاء کیلئے معیوب نہی ہے مگر کسی کا قتل ہو نا ثا بت نہیں ہے جس آلہ سے خبیث قتل ہو ۔اس آلہ سے نبی قتل نہیں ہو تا ۔
خوش خطی
خوش خطی َ پر فر ما یا کہ
حسن تنا سب اعضاء کا نا م ہے جبتک یہ نہ ہوملا حت نہیں ہو تی ۔اللہ تعالیٰ نے اسی لیے اپنی صفت
فسولک نعدلک (الانفطار:۸)
فر ما ئی ہے عدلک کے معنے تنا سب کے ہیں کہ نسبتی اعتدال ہرجگہ ملحو ظ رہے۔
( البدرؔ جلد۲نمبر۱۲ صفحہ۹۰ ۔۹۰مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۳۰؍ مارچ۱۹۰۳؁ء
بعد ادائے نما ز مغرب ایک صاحب نے کسی شخص ٖغیر حاضر کی طرف سے مسلہ دریا فت کیا کہ اس نے غصہ میں اپنی عورت کو طلاق دی ہے اور لکھ بھی دی ہے مگر ایک ہفتہ کے قریب گذرنے پروہ رجوع کرنا چاہتا ہے اس میں کیا ارشاد ہے ؟
حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
جب تک وہ شخص خودحاضر ہو کر بیا ن نہ کر ے ہم نہیں فقویٰ دے سکتے ۔
(البدر جلد۲نمبر۱۲ صفحہ ۹۱مو رخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
صدقات اور دعا
لوگ اس نعمت سے بے خبر ہیں کہ صدقات ،دعا اور خیر ات سے ردبلا ہوتا ہے اگر یہ با ت نہ ہو تی تو انسا ن زندہ ہی مرجا تا ۔مصائب اور مشکلا ت کے وقت کوئی اُمید اس کے لیے تسلی بخش نہ ہو تی مگر نہیں اسی نے
لا یخلف المیعاد (ال عمران:۱۰)
فر مایا ہے
لا یخلف الو عید
نہیں فر ما یا ۔اللہ تعالیٰ کے وعید معلق ہو تے ہیں جو دعا اور صدقات سے بدل جا تے ہیں اس کی بے انتہا نظیر یں موجود ہیں ۔اگرایسا نہ ہوتا توانسا ن کی فطرت میں مصیبت اور بلا کے وقت دعا اور صداقات کی طرف رجوع کرنے کا جوش ہی نہ ہوتا۔
جسقدرراستباز اور نبی دنیا میں آئے ہیں خواہوہ کسی ملک اور قوم میں آئے ہو مگر یہ با ت اس سب کی تعلیم میںیکسا ں ملتی ہے کہ انہوں نے صدقات اور خیرات کی تعلیم دی ۔اگر خدا تعالیٰ تقدیرکے محواور اثبات پر قادرنہیں تو پھر یہ ساری تعلیم فضول ٹھہر جا تی ہے اور پھر ماننا پڑیگا کہ دعا کچھ نہیں اور ایسا کہنا ایک عظیم الشان صداقت کا خون کرنا ہے ۔اسلام کی صداقت اور حقیقت دعاہی کے نکتہ کے نیچے منفی ہے کیونکہ اگر دعا نہیں تو نما ز بے فا ئدہ زکوۃ بے سوداور اسی طرح سب اعمال معاذاللہ لغو ٹھہرتے ہیں ۔
ہما را بھروسہ خدا پر ہیَ
ہما رے مخالف ہر طرف سے کو شش کرتے ہیں کہ ہما رے نا بود کرنے میں کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ۔ہرقسم کی تدبیر یں اور منصوبے کرتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعا لیٰ پہلے ہی ہم کو تسلی دے چکا ہے
مکرواومکراللہ واللہ خیرالماکرین۔
خدا کے ساتھ لڑکر کبھی کو ئی کا میاب نہیں ہو سکتا ان کا بھروسہ اپنی تدابیر اور َحیلَ پر ہے اور ہما را خدا پر
استقامت وصبر
کو ئی مشکل مشکل اور کوئی مصیبت مصیبت رہ سکتی ہی نہیں اگر کوئی شخص استقامت او رصبر اپنا شیوہ کرلے اور خدا تعالیٰ پرتوکل اور بھروسہ کرے ۔
خدا داری چہ غم داری
نشا نا ت کا ظہور
نشا نا ت جو ظاہر ہو تے ہیں یہ اسی طرح ظاہر ہو تے ہیں جیسے ایک بچہ پیدا ہو تا ہے ۔ایک رات تک تو ما ں خیا ل کرتی ہے کہ میں َ مرجا ونگی اور وہ دردزدہ کی تکلیف سے قریب المرگ ہو جا تی ہے ۔اسی طرح پرنبیوں کے نشا ن بھی مصیبت کے وقت ظاہر ہو تے ہیں ۔نشا ن کی جڑدعا ہی ہے یہ اسم اعظم ہے اور دنیا کاتختہ پلٹ سکتی ہے دعا مومن کا ہتھیا ر ہے اور ضرو ہے اور ضرو ہے کہ پہلے ابتہا ل اور اضطراب کی حالت پیدا ہو ۔
( الحکم جلد ۷ نمبر۱۳ صفحہ ۱۳ مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۲ ؍ اپریل ۱۹۰۳؁ء
دربا ر شامِ
ا یک الہام کے معنی
فر ما یا :۔
اللہ تعالیٰ کا ہما رے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہے ۔ہما را یہ الہا م کہ
انت منی بمنذلہ تو حید ی وتفریدی
ایک نئی طرزکا الہا م ہے۔ ہم نے اب سے پہلے کسی الہامی عبا رت میں اس قسم کے الفا ظ نہیں دیکھے اس کے معنے جو ہما رے خیا ل میں آتے ہیں یہ ہیں۔ کہ ایسا شخص بمنزلہ تو حید ہی ہو تا ہے ۔جو ایسے وقت میں مامور ہو کہ جب دنیا میں تو حید الہیٰ کی نہا ت ہتک کی گئی ہو۔ اور اسے نہا یت ہی حقارت کی نگا ہ سے دیکھا جا تا ہو ۔ ۱؎ ایسے وقت میں آنے والا توحید مجسم ۲؎ ہو تا ہے ،ہرشخص اپنا ایک مقصد اور غایت مقرر کرتا ہے مگر اس شخص کا مقصودو مطلوب اللہ تعالیٰ کی توحید ہی ہو تی ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی تو حید ہی ہو تی ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی توحید کو اپنے طبعی جذبا ت اور مقا صد سے بھی مقدم کرلیتا ہے ۔اپنی ساری ضرورتوں کو پیچھے ڈال دیتا ہے ۔
اسی طرح پرہر ایک شخص کا اپنے مقاصد کا ایک بت ہو تا ہے اور وہ اس تک پہنچنا چا ہتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیا ر میںہوتا ہے کہ اس تک پہنچادے یا اس کی عمر کا پہلے ہی خاتمہ کردے ۔وہ اپنے ما ل یا عزت وآبروبا ل بچوں یا دوسری حوائج کے لیے تڑپتا ہے اوربخیود ہو تا ہے اور بسا اقات لو گ انہیں مشکلا ت میں پڑکر خود کشی بھی کرلیتے ہیں مگر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ما مور ہو آتا ہے اس کا یہی جو ش خدا تعالیٰ کی توحید کیلئے ہو جا تا ہے اوراپنی نفسا نی خواہشوں کی بجا ئے خداتعالیٰ کی تو حید کے لیے مضطرب اور بخیود ہو تا ہے ۔ ۳؎ میںَ سمجھتا ہو ں کہ یسے وقت میں یہ ا لفا ظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں کہ
انت منی بمنذلت توحیدی وتفریدی۔
کیو نکہ اللہ تعا لیٰ کو اپنی تو حید بہت ہی پیاری ہے یہ تو حید تھی جس واسطے اللہ تعالیٰ نے کبھی وبا کبھی قحط اور کبھی اپنے پیارے انبیاء علیم السا م کے ہا تھ کی تلوار سے اس کے قیا م کے واسطے ہزاروں مشرک جا نوں کو تبا ہ کر دیا ۔مکہ اور مدینہ منورہ کے حا لا ت بھی صرف اسی کی خا طر پیچیدہ ہو ئے تھے ۔موسیٰ علیہ السلا م کا معاملہ بھی اسی تو حید کے لیے تھا۔ ۴ ؎
عقیدہ کی اہمیت
عقیدہ ہی سے اعما ل میں قوت آتی ہے جیسا قوی اور کا مل عقیدہ ہو ویسے ہی اس کے مطا بق اعما ل صادر ہو ں کے ۔اگر عقیدہ ہی زنگ آلو دہ اور کمزوراور مردہ ہو گا تو پھر اعما ل کی کیا توقع ہوسکتی ہے ۔
اگرچہ ظاہر اعما ل نما ز روزہ میں تو مسلما ن با ہم مشترک ہیں ۔اور اکثر بجا لا تے ہیں۔ مگر پھر ان کے نتا ئج میں برکا ت کے اختلا ف کا با عث جو ہے تو صرف یہی عقیدہ ہے جن کے عقائد عمدہ اور کامل ہو تے ہیں ان کے لیے نتا ئج عمدہ اور برکا ت کثرت سے نا زل ہو تے ہیں ۔مگر کمزور ایما ن والے اپنے اعما ل کی قوت پر تو نگا ہ نہیں کرتے برکا ت کے نہ ملنے کی شکا یت کرتے ہیں ۔
عداوت کا فا ئدہ
فر ما یا :۔
محبت اور عقیدت کی توحید تو ایک جدا امر ہے مگر عدوات کی توجہ بھی بے فا ئدہ نہیں ہو تی بلکہ مفیدہو تی ہے ۔دیکھوآنحضرت ﷺ کے مکہ کے زما نہ میں آپ کے مقابل میں محبت اور عقیدت کی تو جہ تو نہایت ہی کم بلکہ کچھ بھی نہ تھی مگرد عوت کی توجہ کا مل طور سے تھی ۔اور آخر یہی دعوت کی تو جہ آپ کی عام لو گوں اور عرب کے کنا روں تک شہرت پہنچا نے کا با عث ہو گی ۔ورنہ آپ کے پا س اس وقت اور َ کیا ذریعہ تھا جو اپنی دعوت کو اس طرح شائع کرتے ۔آپ کے واسطے اس وقت تبلیغ کا پہنچانا نہا یت مشکل تھا مگر خدا تعالیٰ نے یہ کا م کیا کہ دشمنوں ہی کے ہا تھوں سے ایسا کرادیا ۔ ۱ ؎ اب موجودہ زما نے میںہما رے دشمن بھی ایسا ہی کرتے ہیں اگرچہ اس وقت کی فوری حا لت ایسی ہو تی ہے ۔کہ ہما ری جما عت کو ان لو گوں کی کارروائیوں سے رنج اور صدمہ ہو تاہے مگر ان کی کارروائیوں کا انجا م ہما رے مفید مطلب اور بخیر ہو تا ہے ۔اصل میں ان لو گوں کی گا لیا ں تو ایسی ہیں جیسے عورتیں شا دی کے موقعہ پر لڑکے والوں کو دیتے ہیں ۔ان سے اس وقت کون ناراض ہو تا ہے ؟ یہی مآل ان مخا لفوں کی گا لیوں کا ہے۔یہ گا لیاں ہما رے مفید مطلب ہیں۔یہ ہما ری تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں اور سعید اور شریف ان کی گا لیوں ہی سے اندازہ کرلیتے ہیں کہ حق کس کے پا س ہے ۔اسی طرح پر ہما ری جما عت ان میں سے ہی نکل کرآئی ہے اور دن بدن نکلتی آتی ہے۔
طا عون ۱ ؎ کے ذکر پر فر ما یا کہ :۔
آجکل تو لوگ فر عون کی خصلت رکھتے ہیں کہ چا روں طرف سے خوف آیا تو ایما ن لے آئے اور ما ن لیا ۔جب خوف جا تا رہا تو پھر مخالفت شروع کردی ۔ (الحکم جلد ۷نمبر۱۳ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۳؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
اقرار بیعت کے اثرات
نما ز جمعہ کے بعد گرونواح کے لو گوں اور چند ایک دیگر احبا ب نے بیعت کی ۔بعد بیعت حضرت احمد مرسل مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام نے ذیل کی تقریر کھڑے ہو کر فر ما ئی۔
اس وقت تم لو گوں نے ا للہ تعا لیٰ کے سا منے بیعت کا اقرارکیا ہے اور تما م گنا ہوں سے تو بہ کی ہے اور خدا تعا لیٰ سے اقرار کیا ہے کہ کسی قسم کا گنا ہ نہ کریں گے ۔اس اقرار کی دوتاثیر یں ہو تی ہیں ۔اقراربیعت یا تو رحمت ہے یا با عث عذاب ۔یا تو اس کے ذریعہ انسا ن خدا تعا لیٰ کے بڑے فضل کا وارث ہو جا تا ہے کہ اگر اس پر قائم رہے تو اس سے خدا تعا لیٰ راضی ہو جا ئے گا اور وعدہ کے موافق رحمت نازل کرے گا اور یا اس کے ذریعہ سخت مجرم بنے گا کیو نکہ اگر اقرار کو تو ڑے گا توگو یا اس نے خدا تعالیٰ کی توہین کی ۔جس طرح سے ایک انسا ن سے اقرار کیا جا تا ہے اور اسے بجا نہ لا یا جا وے تو توڑنے والا مجرم ہو تا ہے ایسے ہی خدا تعالیٰ کے سا منے گنا ہ نہ کرنے کا اقرار کرکے پھر توڑنا خدا تعالیٰ کے روبروسخت مجرم بنا دیتا ہے ۔آج کے اقرار اور بیعت سے یا تو رحمت کی ترقی کی بنیا د پڑگئی اور یا عذاب کی ترقی کی ۔
اگر تم نے تما م با توں میں خدا تعالیٰ کی رضا مندی کو مقدم رکھا اور مدت درازکی تما م عادتوں کو بدل دیا تو یادرکھو کہ بڑے ثواب کے مستحق ہو عا دت کو چھوڑنا آسا ن با ت نہیں دیکھتے ہو کہ ایک افیونی یا جھوٹ بولنے والے کو جو عادت پڑگئی ہو ئی ہو تی ہے اس کا بدلنا کسقدر مشکل ہو تا ہے ۔اس لیے جو اپنی عادت کو خدا تعالیٰ کے واسطے چھوڑتا ہے تو وہ بڑی با ت کرتا ہے یہ نہ سمجھو کہ عادت چھوٹی ہویا بڑی ایک عرصہ تک انسا ن جب گنا ہ کرتا ہے تو اس کے قویٰ کو ایک عادت اس کے کرنے کی ہوجا تی ہے ۔تو کیا تمہا رے نزدیک اسے چھوڑدینا کو ئی چھوٹی با ت ہے ؟ جب تک کہ انسا ن کے اندرہمت استقلا ل نہ ہو تب تک یہ دور نہیں ہو سکتی ۔ما سوااسکے ان عادتوں کے بدلنے میں ایک اور مشکل ہے کہ عادتوں کا پا بندآدمی عیالداری کے حقوق کی بجا آوری میں سست ہوا کرتا ہے مثلاََ ایک افیونی ہے تووہ نشہ میں مبتلا ہو کر عیالداری کے لیے کیا کچھ کریگا ؟ اوراسی طرح بعض عادتیں اس قسم کی ہو تی ہیں کہ کنبہ اور اہل وعیال کے آدمی اس کے حامی ہو تے ہیں اور اس کا چھوڑنا اور بھی دشوار تر ہو تا ہے ۔مثلاََ ایک شخص بذریعہ رشوت روپیہ حا صل کرتا ہے عورتوں کو اکثر علم نہیں ہو تا وہ تواس کو اچھا جا نیں گی کہ میرا خاوند خوب روپیہ کما تا ہے وہ کب کوشش کریگی کہ خاوند سے یہ عادت چھوڑاوے تو ان عادتوں کوچھوڑانے والا بخبر اللہ تعالیٰ کی ذات کے کو ئی نہیں ہو تا ۔باقی سب اس کے حا می ہو تے ہیں بلکہ ایک شخص جونما ز روزہ کو وقت پر ادا کرتا ہے اسے یہ لوگ سست کہتے ہیں کہ کا م میں حرج کرتا ہے اور جونما ز روزہ سے غافل رہ کر زمینداری کے کا موں میں مصروف رہے اسے ہوشیار کہتے ہیں اس لیے میں َکہتا ہوں کہ توبہ کرنی بہت مشکل کا م ہے۔ ان ایا م میں توبہت سے مقابلے آکر پڑے ہیں ۔ایک طرف عادتوں کوچھوڑنا دوسری طرف طاعون ایک بلا کی طرح سرپرہے ۔اس سے بچنا، اب دیکھوکونسی مشکل کو تم قبو ل کر سکتے ہو ۔رزق سے ڈرکر انسا ن کو کسی عادت کا پابندنہ ہو نا چاہئیے ۔اگر اس کا خدا تعالیٰ پر ایما ن ہے تو خدا تعالیٰ رزاق ہے ۔اس کا وعدہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ دار میں َ ہو ں
من یتقاللہ یجعل لہمخرجاویرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق:۳،۴)
یعنی با ریک سے با ریک گنا ہ جو ہے اسے خدا تعالیٰ سے ڈرکرجوچھوڑے گا خدا تعالیٰ ہر ایک مشکل سے اسے نجا ت دیگا ۔یہ اسلئیے کہا ہے کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم تو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی مشکلا ت آپڑتی ہیں کہ پھر کر نا پڑجا تا ہے خداتعالیٰ وعدہ فر ما تا ہے کہ وہ اسے ہرمشکل سے بچا لیگا ۔پھر آگے ہے
یرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق:۳،۴)
یعنی ایسی راہ سے اسے روزی دیگا کہ اس کے گما ن میں بھی وہ نہ ہو گی ۔ایسے ہی دوسرے مقام پر ہے ۔
وھو یتولی الصالحین (اعراف:۱۹۷)
جیسے ماں اپنی اولا د کی والی ہو تی ہے ویسے ہی وہ نیکوں کا والی ہو تا ہے پھرفر ما تا ہے
ونی السمائرزقکم وماتوعدون
یعنی جوکچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے اور تمہارا رزقآسما ن پرہے ۔
جب انسا ن خدا پرسے بھروسہ چھوڑتا ہے تودہریت کی رگ اس میں پیدا ہو جاتی ہے ۔خدا تعالیٰ پربھروسہ اور ایما ن اس کا ہو تا ہے جواسے ہربا ت پرقادر جانتاہے ۔
اب ایسا زما نہ ہے کہ جو توبہ کرنا چاہتے ہیں ۔خدا تعالیٰ ان با توں کیلئے اپنے ہا تھوں سے ان کی مددکررہا ہے اس کی ذات رحمت سے بھری ہو ئی ہے طاعون کے حملے بہت خوفناک ہو تے ہیں مگر اصل میں یہ رحمت ہے سختی نہیں ہے ۔ہزاروں لوگ ہوںگے جوکہ عبا دت سے غافل ہو نگے ۔اگر اتنی حشپم نمائی خدا تعالیٰ نہ کرے توپھرتولوگ بالکل ہی منکرہو جا ویں یہ تواس کا فضل ہے کہ سوئے ہووںکو ایک تازیا نہ سے جگا رہا ہے ورنہ اسے کیاپڑی ہے کہ کسی کوعذاب دیوے جیسا کہ وہ فر ما تا ہے
ما یفعل اللہ بعذابکمان شکرتموامنتم(النساء:۱۴۸)
کہ اگر تم میری راہ اختیار کٔروتو تم کو کیوں عذاب ہو۔
اس کی رحمت بہت وسیع ہے جیسے بچہ جب پڑھتا نہیںہے تو اسے مارپڑتی ہے اس کا سریہی ہے کہ اس کی آنیدہ زندگی خرا ب نہ ہو اور وہ سدھرجاوے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ یہ عذاب اس لیے دیتا ہے کہ لوگ سدھرجاویں اور یہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے ۔
سچی توبہ کرو۔بھلا دیکھوتوسہی اگربا زار سے کو ئی دوامثل شربت بنفشہ کے تم لاؤاور اصل دواتم کو نہ ملے بلکہ سڑاہواپرانا شیراتم کو دیا جا وے تو کیا وہ بنفشہ کے شربت کا کا م دیگا ؟ہرگزنہیں اسی طرح سڑے ہو ئے الفا ظ جو زبا ن تک ہو ں اور دل قبول نہ کرے وہ خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچتے ۔بیعت کرانے والے کو ثواب ہو جا تا ہے مگر کرنیوالے کوکچھ حاصل نہیں ہو تا؟
بیعت
بیعت کے معنے ہیں بیچ دینا ۔جیسے ایک چیزبیچ دی جا تی ہے تواس سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔خریدار کا اختیار ہو تا ہے جو چاہے سوکرے ۔تم لوگ جب اپنا بیل دوسرے کے پا س بیچ دیتے ہو توکیا اسے کہہ سکتے ہو کہ اسے اس طرح استعما ل کرنا ؟ہرگزنہیں ۔اس کا اختیا ر ہے جس طرح چاہے استعما ل کرے۔اسی طرح جس سے تم بیعت کرتے ہو ۔اگر اس کے احکا م پرٹھیک ٹھیک نہ چلوتوپھرکوئی فا ئدہ نہیں اٹھاسکتے ۔ہرایک دوایاغذاجب تک بقدرشربت نہ پی جا وے فا ئدہ نہیں ہواکرتا ۔اسی طرح اگر بیعت پورے معنوں میں نہ ہو تووہ بیعت نہ ہو گی ۔خدا تعالیٰ کسی کے دھوکہ میں نہیں آسکتا ۔اس کے ہا ں نمبراور درجے مقررہیں ۔اس نمبر اور درجہ تک توبہ ہو گی تو وہ قبول کرے گا جہانتک طاقت ہے وہاں تک کوشش کرو پورے صالح بنو۔ عورتوں کونصیحت کرو ۔نما زروزہ کی تا کیدکرو ۔سوائے آٹھ سات دن کے جوعورتوں کے ہو تے ہیں اور جس میں نما ز معاف ہے تما م نما زیں پوری پڑھیں اور روزے معاف نہیں ہیں ان کوپھراداکریں ۔انہی کمیوں کی وجہ سے کہا کہ عورتوں کا دین نا قص ہے ۔ اپنے ہمسایہ اور محلہ والوں کوبھی نیکی کی تاکیدکرو ۔غافل نہ ہو ۔اگر علم نہ ہو تو واقف سے پوچھوکہ خداتعالیٰ کیا چاہتا ہے ۔
مسلما نوں کی دینی حالت
اس وقت مسلما نوں نے اپنے دین کو بدل دیا ہے جوخداتعالیٰ چاہتا ہے اسے بدل کراَور کااورَبنا دیا ہے ۔اس وقت ایک شوربرپا ہے ۔اگر کہا جا وے کہ آنحضر ت ﷺ فوت ہوئے ہیں اور عیسیٰ زندہ ہے توسب خوش ہو تے ہیں ۔مگر جب کہا جاوے کہ آنحضرت ﷺ زندہ اور خاتم النبین اور آپ کے بعدکوئی غیربنی نہیں آنے والا توسب نا راض ہو جاتے ہیں ۔
مسیح کو آنحضرت پرفضیلت نہ دو
ہما رے بنیﷺ کو جیسے خدا تعالیٰ نے سب سے آخرپیداکیا ویسے ہی آخری درجے کے سب کما ل آپ کو دئیے کہ کو ئی بھی خوبی کسی دوسرے بنی میںایسی نہیں جوکہ آپ کو نہ دی گئی ہو ؎
آنچہ خو با ں ہمہ دارند تو تنہا داری
کیا تم یہ قبول کرتے ہو کہ ایک کے ہا ں بہت سے مہما ن ہو ں تو ان میں سے ایک کو وہ مکلف کھا نا پلا ووغیرہ دیوے اور دوسرے کو معمولی کھا نا شوربہ یا روٹی وغیرہ تو با قی مہما ن کہیں گے کہ کا ش ہم اس گھرمیں مہما ن نہ ہو تے ۔اسی طرح ایک لا کھ چوبیس ہزارپیغمبر جو گذرے ہیں انہوں نے کیا گنا ہ کیا کہ جو فضیلت اور رتبہ عیسیٰ علیہ السلام کو دیا جا تا ہے ان میں سے ایک کو بھی وہ نہ ملا ۔ان سب کو فوت مانتے ہو اور ایک عیسیٰ کو زندہ اور و ہ بھی آسما ن پر۔
قرآن فر ما تا ہے
رب زدنی علماََ(طہ:۱۱۵)
اور حضرت تو اس دعا کو برابرمانگتے رہے ۔آنحضرت ﷺ کی عمر۶۳ برس کی ہو ئی ۔دوسرے تما م پیغمبروں کو گھٹانا اور مسیح کو سب سے بڑھ کر فضیلت دینا ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کو نسی فضیلت مسیح کو دوسروں پرہے ؟انہوں نے نہ ساری دنیا کی اصلا ح کا دعویٰ کیا ۔نہ کوئی دکھ آنحضرت ﷺ کی طرح ان کو پہنچا نہ مقابلہ کی نوبت آئی ۔نہ کو ئی شکست اٹھانی پڑی ۔چندآدمی صرف ایما ن لا ئے وہ بھی پکڑے گئے ۔اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کو دیکھو ۔آپ کا دعویٰ کل جہان کے لیے اور سخت سے سخت دکھ اور تکالیف آپ کو پہنچے ۔ جنگیں بھی آپ نے کیں ۔ایک لا کھ سے زیا دہ صحابہ آپ کی زندگی میں موجود تھے پھر ان با توں کے ہو تے ہوئے جو شخص آنحضرت ﷺ کی شا ن میں کو ئی ایسا کلمہ زبا ن پرلا ئے گا ۔جس سے آپ کی ہتک ہو وہ حرا می نہیں تواور کیا ہے ؟ ان کم بختوں سے کو ئی پوچھے کہ پھر تم محمد رسول اللہ کیوں کہتے ہو عیسیٰ رسول اللہ کہو۔
اب تم کو چاہئیے کہ جہا نتک ہو سکے آنحضرت ﷺ کو عزت دو۔ اگر تم یہ کہوکہ آنحضرت ﷺ آسما ن پرزندہ ہیں تو ہم آج مانتے ہیں مگر جس سے تم کو فیض اور فائدہ کچھ بھی حاصل نہ ہو ا ۔ اس کو جھوٹی فضیلت دینے سے تم کو کیا حاصل ؟
تمام فیضوںکا سر چشمہ قران ہے نہ انجیل نہ تورات۔جو قرآن کو چھوڑکر ان کی طر ف جُھکتا ہے وہ مُر تد ہے اور کافر ۔مگرجو قرآن کی طرف جُھکتاہے وہ مسلمان ہے ۔کیا ان کو شرم نہیںآتی کہ آنحضرت ﷺکو جب حفاظت پیش آئی تو خداتعالیٰ نے آپ کو غار میں جگہ دی اور عیؑسیٰ کو جب وہ موقعہ پیش آیا تو آسمان پر جابیٹھایا ۔پھر آنحضرتﷺ کا عمر ۶۳ برس کی کہتے ہیںاور عیؑسیٰ کو اب تک زندہ مانتے ہیں۔ ان تمام باتوںکا آخری نیتجہ یہ ہے کہ عیسائیوںکا دین غالب ہے ۔ آج مسلمان کم ہیںاور عسائی زیادہ ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہی دلائل بیان کر کے پادریوںنے مسلمانوں کو عیسائی بنایا ہے۔
خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ عیٰسیؑ مر گیا
فلما و فیتینی
کی آیت موجودہے ۔ اگر تمہارا مذہب قرآن ہے تو اس پر ایمان کیوںنہیں لاتے ؟آنحضرت ﷺ کے واسطے خداتعالیٰ نے ہرگز نہ چاہا باہر سے لوگ آویں۔سورہ نور میںبھی وعدہ ہے کہ تمام خلیفے اور امام تیری اُمّت میںسے آویں گے سو خدا تعالیٰ نے وہ پو را کیااور اسی طرح سے اب ہمیںمامور کیا ۔ جیسے چودہ سو برس کے بعدموسؑیٰ کی امّت میںسے مسؑیح آیا تھا ۔ویسے ہی چودہ سَو برس گذرنے کے بعد ہمیں بھیجا وہ مسیح بھی صاحب شریعت نہ تھے تورات پر ان کا عمل تھا ایسے ہی ہم ہیں تا کہ مماثلت پوری ہو اور کو ئی کمی نہ رہ جاوے ۔ جیسی محبت خدا تعالیٰ ہم سے کر تا ہے ویسی کسی اور سے نہیں کرتا ۔اگر یہ خیا ل ہو کہ عیسیٰ کو خدا تعالیٰ آسما ن پر لے گیا ۔اس کو آج تک زندہ رکھا اور اس کو پھر لا وے گا تو ساری محبت خدا کی عیسیٰ کے ساتھ چاہئیے جو ان تما م با توں کو غور سے دیکھے گا تو سمجھے گا کہ جو آپ کی شا ن ہے وہ اور کسی نبی کی نہیں ہے جب تک تم آنحضرت ﷺ کو ہر خوبی میں افضل نہ جا نوگے مسلما ن نہ ہو گے بلکہ کرانی (یعنی عیسائی۔مرتب ) ہو گے یہ تو عقیدہ چاہئیے اور نما زوں میں دعا کرو کہ اے خدا طاعون سے ہمیں بچا جولو گ ہنسی کرتے ہیں اور کہتے ہیں بڑے آدمی کیو ں نہیں مرتے نا دان ہیں ۔خدا تعالیٰ کا کام ہے آہستہ آہستہ پکڑنا ۔اس لیے غافل نہ بنو۔تہجدوںمیںدعاکرو ۔ پانچوںوقت کی نمازوںمیںدُعاکرو ۔ جب تمہارا گھر دعا سے بھر جاوے گا تو پھر ہرگزوَبانہ آوے گی اوراگر کوئی روک رکھو گے تو دعا کا م نہ دیگی۔ خداتعالیٰ کے سا تھ معاملہ صاف رکھو گے تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ تم کو ضرور محفو ظ ر کھے گا۔ ۱ ؎
دربارِ شام
حضرت عیٰسیؑ کی محّبت میں غلو اور آنحضرت ﷺ کی تو ہین
بر ہا ہمیں یہ تعجب آتا ہے کہ کیو ں یہ لوگ حضرت عیسٰیؑ سے بیجا محّبت کر تے ہیں انہوںنے ان کا کیا دیکھا تھا جو ان پر ایسے شیداہیں کہ اُن کو خدا ہی بنا دیا ہے ۔ ایسے اُن کی محّبت
میں اندھے ہوئے ہیںکہ آنحضرتﷺ جن کا کلمہ پڑھتے ہیں انکی توہیں اپنی زبان سے کرتے ہیں۔ توہین کیا ہوتی ہے یہی کہ ایک شخص جس میںاعلیٰ درجہ کے اوصاف ہوں اس کو نظرانداز کرکے ایک ایسے شخص کو اس سے بڑھ چڑھ کر متّصفَ باَ و صاف کیا جا وے جس میںوہ اوصاف نہیںہیں ۔ تعزیرات میں توہین کی مثال کے نیچے یہ مثال لکھی ہے کہ زید اور بکر نے (جو درحقیقت چور تھے )چوری کی ہے مگر عمرو (جو ایک شریف آدمی ہے اور درحقٰقت اس کی کوئی سازش اس چوری میںنہیں ) نے چوری نہیں کی ۔ اور نہ ہی اس کا اس میں کچھ تعّلق ہے تو قانونـاً ایسا کہنے والا شخص عمرو کی توہین کرتا ہے اور وہ مجرم قرار دیا جاوے گا اور مستحقِ سزا کا ہو گا ۔
ٖغر ض تو ہین کے کئی پہلو ہو تے ہیں ۔حضرت عیسیٰ کی اتنی تعریف کی جا تی ہے کہ گو یا ان پر جب مصیبت آئی تو خدا تعالیٰ کو زمین پران کے بچاوکی کو ئی راہ نظر نہ آئی اور ان کو آسما ن پر اور پھر دوسرے آسما ن پر جا چھپا یا ۔با لمقابل آنحضر ت ﷺ پر جب سخت مصائب اور شدائد آے تو اللہ تعالیٰ نے معوذبا للہ نقول مولویوں کے آپکو با لکل بے مدد اور کس مپرس چھوڑدیا اور آپ کو ایک غار میں جو آسما ن کے مقابل میں جس طرح وہ بلند یہ اسفل میںواقع تھی ،پنا ہ دی ۔غار کی تعریف بھی کیا کہ بچھووں ،سانپوں اور ہرقسم کے موذی حشرات الا رض کا گھر تھا ۔بھلا اب سوچویہ توہین نہیں تو کیا ہے ؟
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سرورکا ئنا ت فخر الا ولین والآ ین اسرف الخلق تو امید وارہیں کہ ہم لمبی عمرپا ویں مگر ان کو تو صرف تر لسٹھ برس کی عمر دی جا تی ہے اور ان کے مقابل میں حضر ت عیسیٰ گویا اب تک زندہ ہیں اور دوہزاربرس ان کی عمر ہو چکی ہے اور ان کی حا لت میں کو ئی تغیرّواقع نہیں ہو ا ۔آپ رہتے تو دنیا کی اصلا ح کرتے جیسا کہ پہلا تجربہ بتا چکا ہے۔ کہ ضرورہزاروں کی اصلا ح کرتے اگر اور عمر پا تے ۔مگر بالقابل حضرت عیسیٰ اتنی عمر میں نہ کو ئی نیکی کرتے ہیں نہ نما ز ہے ۔نہ روزہ نہ زکا ت اور نہ کسی کی اصلا ح ہے ۔ان سے نہ کسی کو نفع ہے اور نہ کسی سے کسی قسم کے ضررکودور کرسکتے ہیں ۔نیز پرانا تجربہ بھی اس امر کا کا نی شاہد تھا ۔کہ صرف با رہ آدمی مدت کی کو شش سے تیا رکئے ۔آخر وہ بھی یو ں الگ ہو ئے ۔کہ کسی نے *** کی اور کسی نے تیس روپے کے عوض دشمن کے ہا تھ میں دے دیا ۔
پھر مرنے کے بعد جب آنحضرت ﷺکی روح آسما ن پر گئی۔ تو پھر وہ حریف موجود تھے۔ کہ وہ تو آسما ن میں مع جسم عنصری تشریف رکھتے ہیں اور جنا بؐ کا جسم ہزاروں من مٹی کے نیچے پڑا ہے اور پھر اسی پرختم نہیں ۔آخرکا ر آپ کی امت میں وہ پھر آویں گے اور چا لیس سا ل تک ان پر حکومت کریں گے اور ان سے بیعت لیں گے ۔بھلا غور تو کرو کہ یہ توہین نہیں تو اَور کیا ہے ۔
پھر ایک با ت اورَہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے ساتھ قرآن شریف میں یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں َ تیری اُمتّ میںسے تیری امت کی اصلا ح کے واسطے خلیفے بھیجتارہو ں گا ۔مگر آخر اس وعدہ کا ذرابھی پا س نہ کیا اور ایک قوم میں سے جس کے متعلق اس نے وعدہ کر لیا ہو ا تھا کہ اس قوم پر میرا غضب نازل ہو چکا ہے میں َ ان پر کبھی کو ئی روحانی اور جسماٰ نی فضل ونعمت ہرگزنا زل نہ کروں گا مگر آخر آنحضرت ﷺ سے بھی وعدہ خلا فی فرما کراسے بھیجا اور اپنے قانون کو بھی توڑا ۔کیا یہ کو ئی گو ار اکرسکتا ہے کہ خدا پروعدہ خلافی عائد ہو ۔ہرگز نہیں
ان اللہ لایخلف المیعاد۔(آل عمران :۱۰)
ہما ری تو بہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ اس عیسٰی کو اتا ر کرکرنیگے کیا؟ آخر ان کے قویٰ تو وہی ہو ں گے جو پہلے تھے ۔پہلے کیا کیا تھا جو اَب کریں گے ۔ایک ذلیل سی معدودے چند ایک قوم تھی ان کی اصلا ح بھی نہ ہو ئی ۔
لکھا ہے ایک دفعہ ان میں سے پانسوآدمی مرتد ہو گئے تھے ۔یہ لوگ اگر حضرت موسیٰؑ کے دوبا ر ہ آنے کی اُمید رکھتے تو کچھ موزون بھی تھا کیو نکہ وہ صاحب عظمت اور جبروت تو تھے ان میں شجا عت بھی تھی ۔اب یہ عیسیٰ کے پیچھے پڑے ہو ئے ہیں ۔
پھر مشکل یہ ہے کہ عادت کا جا نا محا ل ہے ان کو مارکھا نے اور بزدل کی عادت ہو گئی تھی وہ اگر دجا ل سے جنگ کریں گے تو کس طرح؟ادھر ان مسلما نوں کی بھی یہ عادت ہو گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ہی آویں گے لکیر کے فقیر ہیں ۔با پ دا دااور مولوی جو اس با ت کی تعلیم دیتے ہو ئے گذرگئے ۔وہ خواہ قرآن شریف کے مخالف ہی ہو وہ اسی ہندووں کی گنگا کی طرح اس اعتقاد کو تر ک نہ کریں گے خواہ کو ئی ذلیل ہو یا نہ ہو۔
ان لو گوں کو تو اپنے گھر کا بھی حال معلوم نہیں کہ ان کیاس اعتقاد نے اسلا م کو کیسا ضعف پہنچایا ہے عیسائی جب کسی کو مرتد کرنے پر کرتے ہیں تویہی حجت پکڑتے ہیں کہ تمہا ری نبی مردہ اور ہمارا زندہ آسما ن پر موجود ہے ۔اب بتا و کہ ان دونومیں سے کو ن اچھا اور خدا تعالیٰ کا پیا را ہے اور وہ مسلمانوں کی کتا بوں سے ہی نکال کر کھادیتے ہیں ۔اب قریباََ ہرایک فرقہ میں سے الگ الگ ملاِ جلا کر۲۹ لا کھ کے قریب آدمی مرتد ہو چکے ہیں کیا سّید کیا پٹھان کیا قریش اور کیا مغل ۔ہرقوم اس وبا میں ہلا ک ہو ئی ہے ۔ایسے ایسے لوگ جو فخر اسلا م کہنے کے ستحق بن جا نے کے قابل تھے وہ اب بیدین ہو کرآنحضرت ﷺ گا لیا ں دیتے ہیں اور پھر اسی پرابھی تما م نہیں بلکہ وہ جا ن سے مال سے عزت وجاہ سے عورتوں سے لڑکیوں سے اس امر کے لیے کو شاں ہیں کہ کسی طرح دنیا سے اسلام کا نشا ن مٹادیں ۔بھلا اگر یہی وہ فتا ن لوگ نہیں تواور َ کون ہو گا ؟ اس قوم کا فتنہ تومسلمانوں کے بناوٹی دجاّ ل کے فتنہ سے بھی کہیں بڑھ گیا ۔بھلا یہ بتاویں توسہی اس قوم کی جس کا فتنہ دجال سے بھی زیا دہ ہے خبر کہا ں دی گئی ہے ۔قرآن شریف نے تواسی واسطے دجال کا نا م نہیں لیا بلکہ ولاالضالین کہا جس سے مراد یہی قوم نصاریٰ ہے ولاالدجال کیوںنہ کہا۔اصل امر یہی ہے کہ وہ ایک قوم ہے جس سے تما م انبیا ء اپنی اپنی امتّ کو ڈراتے آئے ہیں ۔ان لو گو ں کے خیالا ت کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہُر سے خالی ہے ۔ مگر ہم قرآن شریف کو ان احادیث کی خاطر چھوڑ نہیں سکتے ۔ قرآن شریف بہر حال مقدم ہے ۔بھلا قرآن کو تو آنحضرتﷺ نے خود جمع کیا ۔ لکھوایا اور پھر نمازوں میںبار بار پڑھ کر سُنایا ۔کیا اگر احادیث بھی ویسی ہی ضروری ہیں تو اُن میں سے بھی کسی کو اسی طرح جمع کیا اور بار بار سُنایا اور دَور کیا ؟ہرگز نہیںجب نہیں کیا تو کیا آنحضرت ﷺنے اپنے فرضِ منصبی میں کوتاہی کی ؟ہرگز نہیں ۔ بلکہ صحیح امر یہی ہے کہ قرآن شریف ہی آپ لائے تھے اور اسی کے جمع کرنے کاآپ کو حکم تھا سو آپ نے کر دیا ۔ اب احادیث میںسے وہ قابلِ عمل اور اعتقاد ہے ۔ جس پر قرآن شریف کی مہر ہو کہ وہ اس کے خلاف نہیں۔
پھر اسی پر بس نہیں۔قرآن شریف کہتاہے کہ عیٰسیؑ مر گئے اور پھر دوبارا قیامت تک وہ اس دینا میںنہیںآئیںگے بلکہ آنے والا اُس کا مثیل اس کی خُو بُو لے کر آوے گا ۔ جیسا کہ ایت قرآن شریف فَلَمَّاتَوَفَّتَنِی میںصاف بیان ہے ۔
تو ہینِ عیٰسیؑ کے اعتراض کا جواب
پھر کہتے ہیں کہ سید نا لمسیح کی تو ہین کرتے ہیں ۔بھلا سوچو تو کہ ہم اگر اپنے پیغمبر سے ان چھوٹے اعتراضات جو نا فہمی اور کور چشمی سے کر کے مسیح کو آسما ن پر زندہ بٹھاکر آنحضر ت ﷺ پر کئے جا تے ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے مسیح کی اصلی حقیقت کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں ؟ ہم اگر کہتے ہیں کہ وہ زندہ نہیں بلکہ مرگئے جیسے دوسرے انبیا ء بھی مرگئے تو ان لوگوں کے نزدیک تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہوئی ۔ہم خدا تعالیٰ کے بلا ئے بولتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو فرشتے آسما ن پر کہتے ہیں ۔افتراء کر نا تو ہمیں آتا نہیں اور نہ ہی افتراء خدا کو پیارا ہے ۔اب اللہ تعالیٰ جا نتا ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کی کسر شا ن اور ہتک کی گئی ۔ضرور ہے کہ اس کا بدلہ لیا جا وے اور آنحضرت ﷺ کے نوراور جلا ل کو دوبا رہ ازسرنوتازہ وشا داب کرکے دکھا یا جا وے اور یہ مسیح کے بت کے ٹوٹنے اور اس کی مو ت کے ثابت ہو نے میں ہے پس ہم خدا تعالیٰ کے منشا ء اور ارادے کے مطابق کرتے ہیں اب ان کی لڑائی ہم سے نہیں خدا تعالیٰ سے ہے ۔
ان لو گو ں نے حضر ت مسیحؑ کو خا صہ خدا بنا یا ہو ا ہے اور موحدّ کہلا تے ہیں ان کا اعتقادہے کہ وہ زندہ ہے قائم علی السما ء ہے۔خالق۔رازق ۔غیب دان ۔محی ۔ممیت ہے ۔بھلااب بتلا ؤ کہ اگر یہ صفا ت خدا کی نہیں تو کس کی ہیں ؟ بشر یتّ تو ان صفا ت کی حا مل ہو سکتی نہیں ۔پھر خدائی میں فرق ہی کیا رہا؟یہ تو عیسائیوں کو مدددے رہے ہیں ۔پورے نہیں نیم عیسائی تو ضرور ہیں اگر ہم ان کے عقائد ردیہّ کی تردیدنہ کریں تو کیا کریں ؟پھر ہمیں ما ننا پڑیگا کہ نعودبا للہ اسلا م ۔آنحضرت ﷺ ۔خدا تعالیٰ کی طرف سے پا ک نبی اور قرآن شریف خدا کا کلا م برحق نہیں ۔حضرت مسیحؑ زندہ نہیں بلکہ مرکر کشمیر سرنیگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں ۔یہی سچا عقیدہ ہے
طلا ق اور حلا لہ
ایک صاحب نے سوال ۱؎ کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلا ق لکھدیتے ہیںان کی وہ طلا ق
جا ئزہو تی ہے یا نہیں ؟
اس کا جو اب میں فرما یا کہ :۔
قرآن شریف کے فر مو دہ کی رُو سے تین طلاق دی ہوگئی ہوںاور ان میںسے ہر ایک کے درمیان اتناہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف میں بتایا گیا ہے تو ان تینوںکی عدّت گذرنے کے بعداس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہا ں اگر کوئی شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھراتفاقًا وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائزہے کہ اس بیوی سے نکاح کرے لیکن اگر دوسرا خاوند خاوندِاوّل کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے ۔
لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میںدی گئی ہو ں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت گذرنے کے بعد بھی سواس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائزطلاق تھی دراصل قرآن شریف میںغور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پُرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑکر الگ الگ ہو جاویں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑی بڑی شرائط لگائی ہیں وقفہ کے بعدتین طلاق کا دینااور ان کا ایک ہی جگہ رہناوغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دورہو کرآپس میں صُلح ہو جاوے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازہ جوش کے وقت میںحکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں تو دانا حکام اس وقت ان کو کہدیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا ۔اصل غر ض ان کی صرف یہی ہو تی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور انکے جو ش فروہو نگے تو پھر انکی مخالفت با قی نہ رہیگی ۔اسی واسطے وہ اس وقت انکی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلا ف جا نتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرداور عورت کے الگ ہو نے کے واسطے کا فی موقعہ رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلا ئی کے سوچنے کا موقعہ مل سکتا ہے ۔خداتعالیٰ فر ما تا ہے ۔
الطاق مرتا ن (القبرۃ:۲۳۰)
یعنی دودفعہ کی طلا ق ہو نے کے بعدیا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جا وے ۔یا احسا ن سے جداکردیا جا وے۔ اگر اتنے لمبے عرصہ میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلا ح پذیرہو ں ۔
وتر کیسے پڑھے جا ئیں
ایک صاحب نے سوال کیا کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں۔
اکیلا بھی جا ئزہے یا نہیں ؟فر ما یا :۔
اکیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا ۔وترتین ہیں ۔خواہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو ۔خواہ تینوں ایک ہی سلا م سے آخر میں التحیا ت بیٹھ کرپڑھ لو۔ ایک وترتوٹھیک نہیں ۔
مخا لفوں کو سلام کہنا
ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضو ر مخا لفوں سے جو ہمیں اور حضو ر کو گا لی گلوچ نکا لتے ہیں اور سخت ُسست کہتے ہیں السلام علیکم جا ئزہے یا نہیں ۔فر ما یا :۔
مومن بڑا غیر ت مند ہو تا ہے کیا غیر ت اس امر کا تقاضا کر تی ہے کہ وہ توگا لیا ں دیں اور تم ان سے السلام علیکم کرو؟ ہا ں البتہ خرید وفروخت جا ئزہے ۔اس میں حرج نہیں ۔کیو نکہ قیمت دینی اور ما ل لینا کسی کا اسمیں احسا ن نہیں ۔
من کل حدب ینسلون کی تفسیر
ہمیں کئی با ر اس آیت کی طرف تو جہ ہو ئی ہے اور اس میں سوچتے ہیں کہ
من کل حدب ینسلون(الانبیاء :۹۷)
اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ ساری سلطنتیں ،ریاستیں اورحکومتیں اس سب کو اپنے زیرکرلینگے اور کسی کو ان کے مقابلہ کی تا ب نہ ہو گی ۔
دوسر ے معنے یہ ہیں کہ حدب کے معنے بلندی ۔نسل کے معنے دوڑنا ۔یعنی ہربلندی پرسے دوڑجاویں گے کل عمومیت کے معنے رکھتا ہے یعنی ہر قسم کی بلندی کو کود جا ویں گے ۔بلندی پر چڑھنا قوت اور جرأ ت کو چا ہتا ہے ۔نہا یت بڑی بھا ری اور آخری بلندی مذہب کی بلندی ہو تی ہے ۔ساری زنجیروں کوانسان توڑسکتاہے مگر رسم اور مذہب کی ایک ایسی زنجیر ہو تی ہے کہ اس کو کوئی ہمت والاہی توڑسکتا ہے۔
سوہمیں اس ربط سے ایک یہ بھی بشارت معلوم ہو تی ہے کہ وہ آخر کا راس مذہب اور رسم کی بلندی کو اپنی آزادی اور جرأت سے پھلانگ جاویں گے اور آخر کا راسلام میں داخل ہو تے جاوینگے اور یہی ضالّ کے لفظ سے بھی ٹپکتا ہے اور اس امر کی بنیادی انیٹ قیصرجرمن نے چنددن ہو ئے ا پنا عقیدہ عیسویت کے متعلق ظاہر کر کے رکھدی ہے ۔
دجاّ ل کیــ کا نا ،، ہو نے سے مراد
یہ جوحدیث شریف میں آیا ہے کہ دجاّ ل کا نا ہو گا۔ ایک آنکھ با لکل نہ ہو گی اور دوسر ی میں ُگل ہو گا یہ ایک نہا یت باریک استعارہ ہے ۔یعنی اس کی ایک آنکھ (قرآ ن کی آنکھ) تو با لکل نہ ہو گی ۔اس طرف سے تو وہ با لکل اندھا اور کا لمیت ہو گا اور دوسری توریت والی سووہ بھی کا فی ہو گی اس میںبھی ُگل ہو گا یعنی اسکی تعلیم پر بھی پورے طور سے کا ر بند نہ ہو نگے ۔
چنا نچہ واقعہ نے کیسا صاف بتا دیا ہے کہ یہ اسی طرح ہے اورآنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کیسی صاف طور سے پوری ہوئی ہے۔
عیسویت کے ابطال کے واسطے تو ایک دانا آدمی کے لیے یہی کا فی ہے کہ اسن کے اس عقیدہ پر نظر کرے کہ خدا مرگیا ہے بھلا کو ئی سوچے کہ خدا بھی مراکرتا ہے ۔اگر یہ کہیں کہ خدا کی روح نہیں ۔بلکہ جسم مرا تھا تو ان کا کفا ر ہ با طل ہو جا تا ہے ۔
(الحکم جلد ۷نمبر ۱۳ صفحہ ۱۳ ۔۱۴ مورخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۴؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
(بوقت سیر)
طلا ق
ایک شخص کے سوال پر فر ما یا کہ :۔
طلا ق ایک وقت میں کا مل نہیں ہو سکتی ۔طلاق میں تین طہرہو نے ضروری ہیں ۔فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائزرکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدّت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کرسکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے ۔
قرآن کریم کی روسے جب تین طلاق دیدی جاویں تو پہلاخاوند اس عورت سے نکا ح نہیں کرسکتا جبتک کہ وہ کسی اور کے نکا ح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلاعمدًاسے طلاق دیدے ۔اگر وہ عمدًا اسی لیے طلاق دیگا کہ اپنے پہلے خاوند سے و ہ پھر نکاح کرلیوے تویہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کانا م حلالہ ہے جوکہ حرام ہے ۔فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدّت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّلاسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی۔
قرآن شریف سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کو طلاق بہت ناگوارہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خا نہ بربادی ہو جا تی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقررکی ہے کہ اس عرصہ میںدونواپنا نیک وبدسمجھ کراگر صلح چاہیں توکرلیں۔
نماز جنازہ
فر مایا :۔
اگر متوفیٰ بالجہر مکفر اور مکذب نہ ہو تواس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں ۔کیونکہ علّام الغیوب خدا کی ذات ہے ۔فر مایا۔جو لوگ ہمارے مکفّر ہیں اور ہم کو صریحاً گالیاں دیتے ہیں ۔اُن سے السلام علیکم مت لو اور نہ اُن سے مل کرکھانا کھائو۔ہاں خرید وفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں ۔جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ میں نہ اُدھر کا ہوں اور نہ اُدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے اور جو ہمارا مصّدِق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہو تے ہیں ۔اُن کا یہ اصول ہو تا ہے کہ
بامسلماں اللہ اللہ بابر ہمن رام رام
ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہو تا ۔بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہو گا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دکھے گا۔
من کل حدب ینسلون
فر ما یا کہ:۔
میںَ نے ا س آیت پربڑی غور کی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ ہر ایک بلندی سے دوڑیں گے ۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ دوصورتیں ہیں اوّل یہ کہ ہرایک سلطنت پر غالب آجا ویں گے ۔دوم یہ کہ بلندی ک دوسری کی طرف انسان قوت اور جرأت کے بغیر دوڑا ور چڑھ نہیں سکتا اور مذہب پر غالب آجا نا بھی ایک بلند ی ہی ہے معلوم ہو تا ہے کہ ان پر وہ زما نہ بھی آجاے گا کہ مذہب کے اوپر سے بھی گذر جا ویں گے یعنی اپنے اس تثلیثی مذہب سے بھی عبور کر جا ویں گے اور اس کو پاؤں کے نیچے مسل دیویں گے اور اسی سے ہمیں ان کے اسلام میں داخل ہو جا نے کی بو آتی ہے ۔پہلی با ت تو پوری ہو چکی ہے اب انشائاللہ دوسری بات پوری ہو گی اور یہ با تیں خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ ہو ا کرتی ہیں ۔جب خدا تعالیٰ کی مشیت ہو تو ملائکہ نا زل ہو تے ہیں اور دلوں کو حسب استعداد صاف کرتے ہیں ۔تب یہ کا م ہو اکرتے ہیں۔
آنحضرت ؐ کا خلق عظیم
فر ما یا کہ :۔
آنحضرت ﷺ کے اخلا ق کا نمونہ ،ایک صوفی لکھتا ہے کہ آپ کے پاس ایک نصرانی ملاقات کو آیا ۔آپ نے اس کو اپنا مہمان کیا ۔ رات کو کھا نا اوربستر دیا مگر وہ کمبخت بہت کھا ھیا ۔رات کو بد ہضمی ہو ئی تو لحاف میں اس کا دست نکل گیا ۔اس لیے شرمندہ ہو کر صبح کو چوری چوری چل دیا ۔جب وہ دور نکل گیا تو آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا کہ مہما ن چلا گیا ہے بستر دیکھا تو پا خانہ سے بھراہو ا ۔آپ نے اسے ہا تھ سے دھونا شروع کیا ۔صحابہؓ نے ہرچنداصرار کیا کہ ہم دھوئیں مگر آپ نے فر ما یا کہ وہ میرامہما ن تھا مجھے دھونے دو ۔ ادھرراستے میں نصرانی کو دیا کہ وہ اپنے سونے کی صلیب بستر پر بھو ل آیا ہے ۔اسے لینے کے اسطے وہ واپس آیا ۔دیکھا تو آپ وہی نجاست بھرالحاف اپنے ہاتھ سے دھورہے ہیں ۔اس نظارہ کو دیکھ کر صلیبی ایما ن پراس نے *** کی اور مسلمان ہو گیا۔
در بار شام
رقّت کی لذت
طاعون کے متعلق باتیں ہو تی رہیں ۔ایک عرب صاحب نووارد تھے ۔انہوں نے قرآن شریف سنایا اس کی لذت اور رقّت کے متعلق باتیں ہو تی رہیں ۔حضرت اقدس نے فر مایا کہ دنیا میں ہزاروں لذتیں ہیں مگر رقّت جیسی کوئی بھی لذت نہیں ۔یہی ہے جس سے نماز اور عبادت کا مزاآتا ہے اور پھر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا (الحکم جلد ۷نمبر ۱۳ صفحہ۱۴ مورخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳؁ء) ۱؎
۵ اپریل۱۹۰۳؁ء
کثرتِ عوارض کی وجہ
ان مختلف امراض اور عوارض کے ذکر پر جو انسا ن کو لاحق ہو تے ہیں فر ما یا کہ :۔
اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ چند ایک بیمار یاں ہی انسان کو لاحق کر دیتا مگر دیکھتے ہیں کہ بہت سے امراض ہیں جن میں وہ مبتلاہو تا ہے اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہو تی ہے تا کہ ہم ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارض اور امراض میں گھر اہو ا پا کر اللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے شباتی کا ہردم یقین رہے مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھوُل جاوے اور خدا سے بے پروانہ ہو جاوے ۔
مرابمرگِ عدجائے شادمانی نسیت
بعض مخالفین کے طاعون سے ہلا ک ہو نے کی خبر آئی ۔اس پر فر ما یا کہ :۔
دشمن کی موت سے خوش نہیں ہو نا چاہئیے ۔بلکہ عبرت حاصل کرنی چاہئیے ۔ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حسا ب ہے سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلا ح اور جانچ پڑتال کر نی چاہئیے ۔دوسروں کی مو ت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہو نی چاہئیے نہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اورَ بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوجائو میںَ نے ایک جگہ تورات میںدیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ اس میں فر ما تا ہے کہ ایک وقت ہو تا ہے کہ جب میںَ ایک قوم کو اپنی قوم بنا ئی چاہتا ہوں تو اس کے د شمنوں کو ہلا ک کرکے اُسے خوش کر تا ہوں ۔مگر اُسی قوم کی بے اعتنائیوں سے ایک وقت پھر ایسا آجاتا ہے کہ اسکو تبا ہ کر کے دشمنوں کو خوش کرتا ہوں۔
فر ما یا :۔
کا میاب ہونیوالے
اعمال دوقسم کے ہو تے ہیں بعض لو گ ایسے ہو تے ہیں کہ وہ دوسروں کی نظر میں نیک اور نمازی وغیرہ ہو تے ہیں مگر ان کا اندربدیوں اور گنا ہو ں سے بھرا ہو اہو تا ہے دوسرے وہ لوگ ہو تے ہیں جن کا ظاہر وباطن یکساں ہو تا ہے وہ عنداللہ تقویٰ پرقدم مارنے والے ہو تے ہیں ۔مگر ان دونومیں سے کا میا ب ہو نے والے وہی ہو تے ہیں جو عند اللہ متقی اور خدا کی نظر میں نیک ہو تے ہیں اور ان پر خدا تعالیٰ راضی ہو تا ہے صرف لاف کا م نہیں آسکتی۔
اس وقت دو قوموں کا آپس میں مقابلہ ہے ۔ایک توہما رے مخالف ہیں اور دوسر ی ہما ری جما عت ۔اب خدا تعالیٰ دونوں کے دلوں کو دیکھتا اور ان کے اعما ل سے آگا ہ ہے وہی جا نتا ہے کہ ہما ری جما عت اس کی نگاہ میں کیسی ہے اور دشمن کیسے؟ اور وہ ان سے کہا ں تک ناراض ہے پس ہرایک کو چاہئیے کہ اپنا حسا ب خودٹھیک کرلے چاہئیے ۔کہ دوسروں کا ذکر کر تے وقت تقویٰ سے بھرے ہو ئے دل کے ساتھ اپنے اعمال کا خیال ہو کہ کہا ںتک ہم خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کر نیوالے ہیں یا صرف لا فیں ہی لا فیں ہیں ۔ابھی طاعون موقوف نہیں ہو گئی خدا جا نے کب تک اس کا دورہ ہے اور اس نے کیا کچھ دکھا نا ہے ۔ سات سال سے تو ہم برابردیکھتے ہیں کہ یوماََفیوماََبڑھتی ہی جا تی ہے اورپیچھے قدم نہیں ہٹاتی ۔ہرسال پہلے کی نسبت سناُ جا تا ہے کہ ترقی پر ہے ۔
نا زک زما نہ
زما نہ ایسا آیا ہو اہے کہ لوگ اپنے نفس کی اصلا ح کی طرف متوجہ ہو ں ۔ہزارہا انعامات اور خدا تعالیٰ کے فضل کے نشا نا ت ہیں اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے سے تو نفس کو شرم نہ آئی کہ خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرے ۔مگر شاید اس قہری نشا ن کو دیکھ کر اپنی اصلا ح کی طرف متوجہ ہو ں ۔ افسوس انعامات اور احسانا ت الہیہٰ سے توشرمندہ نہ ہوئے اب اس عذاب ہی سے ڈرکرسنور جا ویں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ مسلما ن کہلا کر،مسلما نوں کی اولادہو کر اسلام اور رسول اللہ ﷺ کو اس طرح گالیاں دیتے ہیں جیسے چوڑھے چمارکسی کو نکالا کرتے ہیں ۔اللہ اور رسول سے ان کو بجزگالیوں کے اورَ کو ئی تعلق ہی نہیں ۔بٹے گندہ دہن اور پر لے درجہ کے عیاش ۔بدمعاش ۔بھنگی۔چرسی ۔قمارباز وغیرہ بن گئے ہیں۔
اب ایسے لوگوں کی زجراورتوبیخ کے واسطے خدا تعالیٰ جوش میں نہ آوے تو کیا کرے؟ خداغیوّر بھی ہے وہ شاید العقاب بھی ہے ۔ایسے لوگوں کی اصلاح بھلابجز عذاب اور قہرالہیٰ کے نا زل ہو نے کے ممکن ہے ؟ ہرگزنہیں ۔چونکہ بعض طبائع عذاب ہی سے اصلاح پذیرہو تی ہیں ۔اس لیے ہرایک شخص کو چاہئیے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے۔اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے
اذجاء اجلھم لایستاخرون ساعت ولا یستقدمون۔ (الاعراف:۳۵)
جب عذاب الہیٰ نا زل ہو جا تا ہے توپھر وہ اپنا کا م کر کے ہی جا تا ہے اور اس آیت سے یہ بھی استنباط ہو تا ہے کہ قبل ازنزول عذاب توبہ استغفارسے وہ عذاب ٹل بھی جا تا ہے
استغفار کی حقیقت
گنا ہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہو ا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے استغفارکیا ہے ؟یہی کہ جو گناہ صادرہو چکے ہیں ان کے بدثمرات سے خدا تعالیٰ مفوظ رکھے اور جوابھی صادرنہیں ہوئے اور جوبالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندروہ جل بھنُ کرراکھ ہو جاویں۔
یہ وقت بڑے خوف کا ہے اس لیے توبہ و استغفار میں مصروف رہواور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو۔ہر مذہب وملّت کے لوگ اور اہل کتا ب مانتے ہیں کہ صدقات وخیرات سے عذاب ٹل جا تا ہے مگر قبل ازنزول عذاب مگر جب نا زل اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفا ظت کرے۔
(البدر جلد ۲نمبر ۱۴ صفحہ ۱۰۶ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۶؍اپریل ۱۹۰۳ء؁
مجلس قبل از عشاء
حقیقتِ دُعا
فرمایا کہ:۔
ہمارے دوستوں کو بعض وقت دُعا کے متعلق ابتلا ء پیش آجاتے ہیں اسلیے مناسب معلوم ہوا کہ اُن کو دُعا کی حقیقت سے اطلاع دی جا وئے اور اسی لیے میَں نے حقیقت الدعا کے نام سے ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے مگر چونکہ طیبعت علیل رہی ہے اس لیے ختم نہیں کر سکا ۔
رسول اللہﷺ کا تمام مدار دُعا پر ہی تھا اور ہر ایک شکل میں آپ دُعا ہی کر تے تھے۔ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپ کے گیارہ لڑکے فوت ہوگئے ہیںتو کیا آپ نے اُن کے حق میںدُعا نہ کی ہو گی ؟آگ کل ایک غلط فہمی لوگوں کے دلو ں میں پڑھ گئی ہے اور یہ اس جہالت کے زمانے کی نشانی ہے کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیںکہ فلاں بزرگ فلاں ولی کے پھونک مارنے سے صاحبِ کمال ہو گیا اور فلاںکے ہاتھ سے ُمردے زندہ ہوئے ۔
بیعت اور توبہ
چند احباب نے بیعت کی ۔ ان کو حضرت اقدس نے نصیحت فرمائی ۔بیعت میں انسان زبان کے ساتھ گناہ سے توبہ کا اقرار کرتا ہے مگر اس طرحسے اس کا اقرار جائزنہیں ہو تا جب تک وہ دل سے اقرار نہ کرے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ جب سچے سل سے توبہ کی جاتی ہے تو وہ اُسے قبول کرلیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے
اجیب دعوۃالداع اذادعاب
یعنی میں تو توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں ۔خداتعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے کہ جو سچے دل سے توبہ کر نے والا کر تا ہے ۔اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظورہو ناایک مشکل امر تھا ۔سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اُس نے توبہ کرنیوالوںکے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے ۔جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گُناہوں سے بچُوں گا اور دین کو دنیا پر مقّدم رکھوں گا تو اس کہ یہ معنی ہیںکہ اگر چہ مجھے اپنے بھائیوں ،قریبی رشتہ داروں اور سب دوستوں سے قطع تعلّق ہی کرنا پڑے مگر مَیں خدا تعالیٰ کو سب سے مقّدم رکھونگا اور اسی کیلئے اپنے تعلقات چھوڑتا ہوں ۔ایسے لوگوں پر خداتعالیٰ کا فضل ہو تا ہے کیونکہ انہی کی توبہ دلی توبہ ہو تی ہے ۔
پھر جو لوگ دل سے دُعا کرتے ہیں ۔خداتعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے جیسے خداتعالیٰ آسمان زمین اور سب اشیاء کا خالق ہے ویسے ہی وہ توبہ کا بھی خالق ہے اور اگر اس نے توبہ کو قبول کرنا نہ ہو تا تو وہ اُسے پیداہی نہ کرتا ۔گناہ سے توبہ کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ۔سچی توبہ کرنیوالا خداتعالیٰ سے بڑیبڑے انعاما پاتا ہے ۔یہ اولیا ،قطب ،غوث کے مراتب اسی واسطے لوگوں کو ملے ہیں کہ وہ توبہ کرنے والے تھے اور خداتعالیٰ سے ان کا پاک تعلق تھا اس واسطے ہرگز نہیں ہے کہ وہ منطق ،فلسفہ اور دیگر علوم طبعیہ وغیر ہ میں ماہر تھے ۔جو لوگ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ان بندوں میں داخل ہو جاتے ہیں جن پر خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے۔
اس شرط سے دین کو کبھی قبول نہ کرنا چاہیئے کہ مَیں مالدار ہو جائوں گا ۔مجھے فلاں عہدہ ملِ جاوے گا ۔یاد رکھو کہ شرطی ایمان لانے والے سے خدا تعالیٰ بیزار ہے ۔بعض وقت مصلحت الہی یہی ہو تی ہے کہ دنیا میں انسان کی کوئی مراد حاصل نہیں ہو تی ۔طرح طرح کے آفات ،بلائیں ،بیماریاں اور نامرادیاں لاحق حال ہو تی ہیں مگر اُن سے گھبرانا نہ چاہیئے ۔موت ہر ایک کے واسطے کھڑی ہے اگر بادشاہ ہو جاوے گا تو کیا موت سے بچ جاویگا ؟غریبی میں بھی مرنا ہے ۔بادشاہی میں بھی مرنا ہے اس لیے سچی توبہ کرنے والے کو اپنے ارادوں میں دنیا کی خواہش نہ ملانی چاہیئے۔
خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہر گزنہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے ۔وہ اُسے خائب وخاسر کرے اور ذلّت کی مو ت دیوے جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہو تا ۔جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا تعالیٰ سے سچاّ تعلق تھا اور پھر وہ نا مراد رہا۔خدا تعالیٰ بندے سے یہ چا ہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اورخالص ہو کر اس کی طرف جھُک جا وے جو اس طرح جھُکتا ہے اسے کو ئی تکلیف نہیں ہو تی اور ہر ایک شخص مشکل سے خودبخود اس کے واسطے ر اہ نکلِ آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فر ما تا ہے
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجاویر زقہ من حیث لایحتسب(الطلاق :۳،۴)
اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہنہیں بلکہ عزت ۔علم۔وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کوضرورت ہے اس میں داخل ہیں۔خدا تعالیٰ سے جو ذرّہ بھربھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائعنہیں ہو تا ۔
من یعمل متقال ذرّہ خیرایرہ(الزلزال:۸)
ہما رے ملک ہندوستان میں نظام ا لدین صاحب اور قطب ا لدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جا تی ہے وہ اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ سے اُن کا سچاّ تعلقّ تھا اور اگر یہ نہ ہو تا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوںمیں ہل چلاتے ۔معمولی کا م کرتے ۔مگر خدا تعالیٰ کے سچّے تعّلق کی وجہ سے لو گ ا ُن کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں ۔
خداتعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جا تا ہے ۔دشمن چاہتے ہیں کہ ان کا نسیت ونا بودکریں مگر وہ روزبروزترقی پا تے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جا تے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے
کتب اللہ لا غلبن اناورسلی (المجادلہ:۲۲)
یعنی خدا تعالیٰ نے لکھدیا ہے کہ میںَ اورمیرے ُرسول ضرورغالب رہیں گے اوّل اوّل جب انسا ن خدا تعالیٰ سے تعلق شروع کر تا ہے تو وہ سب کی نظروں میں حقیر اورذلیل ہو تا ہے مگر جوں جوں وہ تعلقات الہیٰ میں ترقی کر تا ہے توںتوں اس کی شہرت زیا دہ ہو تی ہے حتیٰ کہ وہ ایک بڑابزرگ بن جا تا ہے جیسے خدا تعالیٰ بڑا ہے اسی طرح جو کوئی اس کی طرف زیا دہ قدم بڑھا تا ہے وہ بھی بڑا ہو جا تا ہے حتیٰ کہ آخرکا ر خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہو جا تا ہے ۔
اس توبہ کو کھیل نہ خیا ل کرو اور یہ نہ کرو کہ اسے یہیں چھوڑجائو بلکہ اسے ایک اما نت اللہ تعالیٰ کی خیال کرو۔تو بہ کرنے والاخدا تعالیٰ کی اس کشتی میں سوارہو تا ہے جو کہ اس طوفا ن کے وقت اس کے حکم سے بنائی گئی ہے اس نے مجھے فر ما تا ہے
واضعالفلک
اور پھریہ بھی فر ما یا ہے
انالذین یبایعونکانمایبایعوناللہ ۔یداللہ فوق ایدیھم۔
جس طرح با دشاہ اپنی رعایامیں اپنے نائب کو بھیجتاہے اور پھر جو اس کا مطیع ہو تا ہے اسے بادشاہ کا مطیع سمجھا جا تا ہے ایساہی اللہ تعالیٰ بھی اپنے نائب دنیا میں بھیجتا ہے آجکل توبہ ایک بیج ہے جس کے ثمرات تمہارے تک ہی نہ ٹھہریں گے بلکہ اولا د تک بھی پہنچیں گے ۔سچے دل سے توبہ کرنے کے گھر رحمت سے بھرجا تے ہیں ۔
دنیوی لوگ اسبا ب پربھروسی کرتے ہیں مگراللہ تعالیٰ اس با ت کے لیے مجبورنہی ہے کہ اسبا ب کا محتا ج ہو۔کبھی چا ہتا ہے تو اپنے پپاروں کے لیے بلااسبا ب بھی کا م کردیتا ہے اور کبھی اسبا ب پیدا کرکے کر تا ہے اور کسی وقت ایسا بھی ہو تا ہے کہ بنے بنائے اسبا ب کو بگاڑدیتا ہے ۔
غرض اپنے اعما ل کو صاف کرواور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکرکرواورغفلت نہ کرو ۔جس طرح بھاگنے والاشکارجب ذراسُست ہو جا وے تو شکاری کے وقابومیں آجا تاہے ۔اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کر نے والاشیطان کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔ تو بہ کو ہمیشہ زندہ رکھواور کبھی مردہ نہ ہو نے دو۔ کیو نکہ جس عضو سے کا م لیا جا تا ہے وہی کا م دے سکتا ہے اور جس کو بیکا رچھوڑدیا جا وے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے نا کا رہ ہو جا تا ہے ۔اسی
طرح تو بہ کو بھی متحرک رکھوتاکہ وہ بیکا رنہ ہو جا وے ۔اگر تم نے سچی تو بہ نہیں کی تو بہ کی بیج کی طرح ہے جو پتھرپربویا جا تا ہے اور اگر وہ سچی تو بہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لا تا ہے ۔آج کل اس تو بہ میں بڑی بڑی مشکلا ت ہیں ۔اب یہاںسے جا کر تم کو بہت کچھ سنناپڑیگا اور لا گ کیا کیا با تیں بنائیں گے کہ تم نے ایک مجذوم ۔کا فر ۔دجا ل وغیرہ کی بیعت کی ۔ ایسا کہنے والوں کے سامنے جو ش ہر گزمت دکھا نا ۔ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے ما مور کئے گئے ہیں ۔اس لیے چاہئیے کہ تم ان کے لیے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے اور جیسے کہ تم کو امیدہے کہ وہ تمہا ری با توں کو ہرگز قبول نہ کریں گے تم بھی ان سے منہ پھیر لو۔ہما رے غالب آنے کے ہتھیار استغفار ۔تو بہ ۔دنیی علوم کی واقفیت ۔خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدنظررکھنا اور پا نچو ں وقت کی نما ز وںکو ادا کر نا ہیں ۔نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے جب نما ز پڑھوتو اس میں دعا کرو اورغفلت نہ کرو۔اور ہرایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہیٰ کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو۔
(البدر جلد ۲نمبر ۱۴ صفحہ ۱۰۶ ۔۱۰۷مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۷؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
(صبح کی سیر)
صحابہؓ کی فضیلت
فر ما یا :۔
لاتلھیھم تجارت و لابیع عن ذکراللہ(نور:۳۸)
یہ ایک ہی آیت صحابہؓ کے حق میں کا فی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگر یز بھی اس کے معترف ہیں کہ ان کی کہیں نظیرملنا مشکل ہے ۔با دیہ نشیں لو گ اور اپنی بہادری اور جاأ ت تعجب آتا ہے ۔
طا عون کا علا ج
طا عون کا علا ج کے متعلق ذکر آنے پر فر ما یا :۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ طاعون کو کوئی قطعی علاج ہو ۔اس کے زدرکیوقت اور اس بیماری میں مبتلاشدیدکو اگر کو ئی دوائی فا ئدہ کرے تب تو ما ن لیں ۔جب زہریلے موادنہایت تیزی سے پیداہو رہے ہوں۔اس وقت کسی دوائی کا عمل دکھلائوسہی ۔اس کا نسخہ تو محض اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
نسیم توحید
اس خدا تعالیٰ کی طرف سے امیدہے کہ وہ دن قریب ہیں کہ ہما را غلبہ ہو جا وے کیونکہ آثارسے معلوم ہو تا ہے کہ رفتہ رفتہ لو گ توحید کی طرف رجوع کرتے جاتے ہیں عیسائیوںنے مسیح کی خدائی پراب اتنا زوردینا چھوڑدیا ہے ۔ہنودمیں آریہ تو حید طرف مائل ہو رہے ہیں پس یہ ایک ہو اچل پڑی ہے جب ان سب لو گوں نے اپنے اصول چھوڑدہئے ہیں تو ان کی تو خود کشی ہو رہی ہے ۔
جیسے چھ مہینے کے بعد کھیتی کی حالت کچھ اورَ ہی ہو جا تی ہے اسی طرح ان لوگوں کے عقائدمیںبینّ فرق نظر آتا جا تا ہے ۔
ایک اکیلے آدمی کا کام ہرگز نہیں کہ کسرِ صلیب کرسکے مگر ہا ں جب خدا تعالیٰ کا ارادہ ساتھ ہو تو پھرملا ئک اس کی امدادمیں کا م کرتے ہیں ۔
نزوِل مامور
جب مامور مامور ہو کرآتا ہے تو بے شمار فرشتے اس کے ساتھ نا زل ہو تے ہیں اور دلوںمیں اسی طرح نیک اور پا ک خیالات کو پیداکرتے ہیں جیسے اس سے پہلے شیاطین بُرے خیا لا ت پیدا کیاکرتے ہیں۔جیسے اس سے پہلے شیا طین بُرے خیالات پیدا کیا کر تے ہیں اور یہ سب مامور کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اسی کے آنے سے یہ تحریکیں پیداہوتی ہیں ۔ اسی طرح فرمایا ۔
اِنًّااَنذَلٗنٰہُ فِی لَیٗلَۃِ الٗقَدٗرِ ۔ وَمَا اَد’رٰیکَ مَالَیلَتہُ القد ر ۔ (القدر:۲‘۳ )
خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہوتا ہے کہ مامور کے زمانہ میںملائک نازل ہو ں ۔ کیا یہ کام بغیر امداد الیٰ کہیں ہو سکتاہے ؟کیا یہ سمجھ میں آسکتاہے کہ ایک شخص خود بخود اُٹھے اور کسرِصلیب کر ڈالے نہیں ۔ہاں اگر خدااُٹھاوے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔
یہ کسرِ صلیب اعزازاً اور اکراماًمسیح موعود کی طرف منسوب کی جاتی ہے ورنہ کرتا تو سب کچھ خداہے یہ باتیںعین وقت پر واقع یوئی ہیں قرآن سے بہ تصریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ وہی ہے جس کا نام خداتعالیٰ نے رکھا ہے ستہ ایام۔ چھٹے دن کے آخری حصّہ میںآدم کا پیدا ہونا ضروری تھا براہین میںاسی طرف اشارہ ہے
اردت ان استخلف فخلقت ادم ۔
پھر فر مایا ان یوماعندربک کالف سنتہ مما تعدون (الحج :۴۸ )
آج سے پہلے جو ہزاربرس کذرا ہے وہ با عتباربداخلاقیوںاور بداعمالیوں کے تا ریکی کا زما نہ تھا کیو نکہ وہ فیق وبا قی ایک ہزار ہی رہ جا تا ہے ورنہ اس کے بغیر احادیث کی مطابقت ہو ہی نہیں سکتی اور اس طرح پر پہلی کتا بوں سے بھی مطا بوت ہو جا تی ہیں اور وہ با ت بھی پو ری ہو تی ہے کہ ہزار سال تک شیطان کھُلارہے گا یہ با ت بھی کیسی پو ری ہو تی ہے اور انگریز بھی اسی واسطے شور مچاتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جس میں ہ،ا رے مسیح کو دوبا رہ آنا چاہئیے ۔یہ مسئلہ ایسا مطابق آیا ہے کہ کو ئی مذہب اس سے انکار کرہی نہیں سکتا ۔یہ ایک علمی نشا ن ہے جس سے گریز نہیں ہو سکتا۔
رویاء کا اختتام
ایک بھائی کے خواب بیان کرنے پر فر ما یا:۔
یہ خواب ایک عجیب با ت پر ختم ہو ا ہے ۔شیطان انسا ن کو طرح طرح کے تمشلات سے دھوکہ دینا چا ہتا ہے مگر معلوم ہو اہے کہ تمہارا نتیجہ بہت اچھا ہے کیو نکہ اس رئویا کا اختتام اچھی جگہ پرواقع ہو اہے ۔ایسا اکثر ہو اکر تا ہے چنانچہ ایک ولی اللہ کا تذکرہ لکھا ہیَ کہ جب ان کا انتقال ہو اتواُن کا آخری کلمہ یہ لگا کہ یہ کیا کعاملہ ہے ایک دن خواب میں اُن سے ملاقات ہو گئی ۔دریافت کیا کہ یہ آخری لفظ کیا تھا اور آپ نے کیاں کہا تھا ؟آپ نے جواب دیا کہ شیطان چونکہ موت کے وقت ہرایک انسا ن پر حملہ کرتا ہے کہ اس کا نورِ
ایما ن اخیروقت پرچھین لے ۔اس لیے حسب معمول وہ میرے پا س بھی آیااور مجھے مرتدکرنا چاہا اور میںَنے جب اس کا کوئی وار چلنے نہیں دیا تو مجھے کہنے لگا کہ تو میرے ہا تھ سے بچ نکلا ۔اس لیے میںَنے کہا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں یعنی جب تک میںَ مرنہ جائوں مجھے تجھ سے اطمینان حاصل نہیں۔
ایک رئویاء
پھرفرمایا:۔
آج رات مجھے خواب آیا ہے نہ معلوم اس کا اصل مہفوم کیا ہے میںَنے اس کے لفظوں سے اجہتادی معنے نکالے ہیں ۔جیسا کہ میںَ کسی راستہ پر چلاجا تا ہوں ۔گھرکے لوگ بھی ساتھ ہیں اور مبارک احمد کو میںَ نے گود میں لیا ہو اہے بعض جگہ نشیب وفرازبھی آجا تا ہے جیسے کہ دیوار کے برابرچڑھناپڑتا ہے مگر آسانی سے اُتر چڑھ جا تا ہوں اور مبارک اسی طرح میری گود میں ہے ۔ارادہ ہیکہ ایک مسجدمیں جا نا ہے ۔جا تے جاتے ایک گھر میں داخل ہو ئے ہیں ۔گویا وہ گھر مسجد موعود ہے جس کی طرف ہم جا رہے ہیں اندرجا کردیکھا ہے کہ ایک عورت بعمر۱۸سال سفیدرنگوہاں بیٹھی ہے ۔اس کے کپڑے بھورے رنگ کے ہیں مگر بہت صاف ہیں ۔جب اندرگئیہیںتوگھروالوں نے کہاہے کہ یہ احسن کی ہمشیرہ ہے اور یہیںخواب ختم ہو گئی۔
(الحکم جلد۷نمبر۱۵ صفحہ۶مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
استفساراوراُن کے جواب ۱؎
اہل بیت سے مراد
سوال:۔ ا
نمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیر(اخراب:۳۴)
کس کی شان میںہے۔
جواب:۔اگرقرآن شریف کودیکھاجاوے توجہاںیہ آیت ہے وہاںآنحضرت ﷺ کی بیویوںہی کا ذکر ہے ۔سارے مفسراس پرمقفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُمہات المومنین کی صفت اس جگہ بیانفر ما تا ہے دوسری جگہ فرما یاہے ۔ا
الطیبت للطیبین(نو۔۲۷)
یہ آیت چاہتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے گھروالے طیبات ہوں ۔وہاں اس میں صرف بیبیاںہی شامل نہیں بلکہ آپ کے گھرکی رہنے والی ساری عورتیںشامل ہیں اور اس لیے اس میںبنت بھی داخل ہو سکتی ہے بلکہ اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہاداخل ہوئیںتو حسنینؓ بھی داخل ہو ئے ۔پس اس سے زیا دہ یہ آیت وسیع نہیں ہو سکتی جتنی وسیع ہو سکتی تھی۔ہم نے کردی ۔کیونکہ قرآن شریفازواج کو مخاطب کرتا ہے اور بعض احادیث نے حضرت فاطمہ اور حسنینؓکو مطہرّین میں داخل کیا ہے پس ہم نے شیعہنے ازواج مطہرات کو سب دشتم سے دیا کیا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ ایسا کریںگے اس لیے ازوقت اُن کی برأت کردی۔
بعض مخالفین کا طاعون سے بچنا
سوال :۔ بعض مخالف کہ ہم پر کیوںطاعون نہیں آتی؟
جواب:۔ فر ما یا کہ :۔
ایک تنگ دروازہ سے جب لاکھ آدمی گذرنے والاہے تو کیا وہ سب کے سب ایک ہی دفعہ گذرجائینگے؟یا کسی آدمی نے لاکھ آدمی کی دعوت کی ہے تو کیا سب کو ایک دم کھا نا کھلادیگا؟ نہیں بلکہ نو بت بہ نوبت۔
طاعون کا دورہ بہت لمبا ہے ابھی سے کیوں گھبراتے ہیں ۔دوچارموٹے مخالفوں کی ہی وجہ سے توانواروبرکا ت اور خوارق کا نزول ہو تا ہے اور ہو گا ۔ابھی کو ہذایتبھی ہو گی اور خدا تعالیٰ کا قانون اسی طرح پرچلاآتا ہے ۔
کیف تحی الموتی کی تفسیر
سوال :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا رب ارنی کیف تحی الموتی (البقرہ:۲۶۱)اس سے کیاغرض ہے ؟
جواب:۔ اُس میں اللہ تعالیٰ کا مطلب جس کوسّرِالہیٰ سمجھنا چاہئیے یہ ہے کہ ہرایک چیزمیریآوازسنتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوںکے زندہ ہو نے پر کو ئی شک پیدانہیں ہو ا ۔کیونکہ ہم تو ہرروزدیکھتے ہیں کہ متعفن پا نی اور اغذیہ میں سے جا نور پیداہو جاتے ہیں ۔پیٹ میں بچہ پیداہو جا تا ہے کیا وہ پہلے مردہ نہیںہو تا ؟پس واقعات سے انکار کر نے والا تو بڑا احمق ہو تا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اصل ّسرسے واقف ہو نا چاہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے فر ما یا کہ ہرایک چیزمیری آوازسنتی ہے جیسے پرندے تمہاری آواز سنکردوڑے چلے آتے ہیں اسی طرح ہر ایک چیزمیری آواز سنتی اورمیرے پاس دوڑی چلی آتی ہے ۔یہانتک کہ ادویہ اوراغذیہ جو انسا ن کے پیٹ میں جا تی ہیںاور ہرذرّہ ذرّہ میری آوازسنتا ہے پس یہاں اللہ تعالیٰ ایمان اورمعرفت کا یقین دلانا چاہتاہے ۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ مخلوق کو خالق سے ایک باریک کشش ہو تی ہے جیسے کسی کا شعرہے ؎
ہمہراروئیدرخدا دیدم : وآںخدابرہمہ ترایدم
خدا تعالیٰ نے جو ملائک کی تعریف کی ہے وہ ہر ایک ذرّہ ذرّہ پرصادق آسکتی ہے جیسے فر ما یا
ا ن من شییء الایسبح بحمدہ(اسرائیل :۴۵)
ویسے ملائکہ کی نسبت فر ما یا
یفعلون مایومرون (الخل:۵۱)
ــاس کی تشریح نسیم دعوت میں خوب کردی ہے۔ہر ایک زرہ ملا ئکہمیں داخل ہے کہ اگر ان اعلیٰ کی سمجھ نہیں آتی تو پہلے ان چھو ٹے چھوٹے ملائک پر نظر ڈال کر دیکھو ملائکہ کا انکار انسان کو ددہریہ بنا دیتا ہے
غر ض اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کو یہ دیکھانا مقصود ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تابع ہے اگر اس سے انکار کیا جاوے تو پھرتو خدا تعالیٰ کا وجود بھی ثابت نہیں ہو سکتا اخیر میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز اور حکیم بیان کی ہے یعنی اس کا غلبہ قہری ایسا ہے کہ ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر رہی ہے بلکہ جب خداتعالیٰ کا قرب انسان حاصل کر تا ہے تو اس انسان کی طرف بھی ایک کشش پیدا ہو جا تی ہے۔جسکا ثبوت سو رۃالعادیات میں ہے عز یز ،حکیم سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اس کا غلبہ حکمت سے بھر ا ہو ا ہے نا حق کا دکھ نہیں ہے۔
(الحکم جلد۷نمبر۱۵ صفحہ۹مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۹؍اپریل۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیرَ)
حق وباطل
فر ما یا:۔
حق اپنے زوراورقوت اور اس کے ساتھ باطل بھی ضرورچلتا ہے لیکن باطل اپنی قوت اور طاقت سے نہیں چلتا بلکہ ہے کیونکہ حق چاہتا ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ باطل بھی چلے تا کہ تمیز ۔کا ذبوں اور منکروں کے وجود سے بہت سی تحریکیں ہو جا تی ہیں ۔مگر آنحضرت ﷺ کی بعثت کے دن ہی سارامکہّ آمنّا وصدقفاکہہ کرساتھ ہو لیتا تو پھر قرآن شیریف کا نزول اسی دن بندہو جا تا اور وہ اتنی بڑی کتا ب نہ ہو تی قدرزورسے با طل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدرحق کی قوت اور طاقت تیز ہو تی ہے ۔زمینداروں میں بھی یہ با ت مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہا ڑ تپتاپے اسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہو تی ہے یہ ایک قدرتی نظارہ ہے حق کی جس قدرزور سے مخالفت ہو اسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھا تا ہے ۔
ہم نے خودآزما کردیکھاہے جہاں جہاں پماری نسبت زیادہ شوروغل ہو ا ہے وہاں ایک جما عت تیا ر ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سنکرخاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوتی ۔فتح کیلئے اوّل لڑائی کا ہو نا ضروری ہے اگر لڑائی نہ ہو تو فتح کا وجود کہاں سے آئے ؟پس اسی طرح اگر حق کی مخا لفت نہ ہو تو اس کی صداقت طرح کھُلے؟
مرکزمیں نمازوںکا قصر
نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ ؟ فر ما یا :۔
جو شخص تین دن کے واسطے یہا ں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ دوتین چار کوس کا ہی سفر کیوں نی ہو اس میں قصر جائزہے۔یہ ہماری سیرَ سفر نہیں ہے ۔ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھیپوری ہی نماز پڑھنی چاہئیے ۔حکام کادورہ سفر نہیں ہو سکتا ۔وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے با غ کی سیرَ کرتا ہے ۔خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کو ئی وجودنہیں ۔اگر دوروں کی وجہ سے انسا ن قصر کر نے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہما رے پا س نہیں ہے حکا م کہاں مسافر کہلاتے ہیں ۔سعدیؒ نے بھی کہاہے ؎
منعم بکوہودشت وبیاباں غریب نیست
ہرجاکہ رفت خمیہ ز د و خو ابگاہ سا خت
نکاح پرباجااورآتش بازی
نکاح پرباجا بجانے اورآتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا فر ما یا کہ :۔
ہما رے دین کی بنایُسر پر ہے عسرپرنہیں اور پھر
انماالاعمال با لنیات
ضروری چیزہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺ کے زما نہ میں نہ تھا۔اعلان نکاح جس میں فسق وفجورنہ ہو ۔جائزہے بلکہ بعض صواتوں میں حروی شئے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدما ت تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پراثر پڑتا ہے ۔اس لیے اعلان کر نا ضروری ہے مگر ا س میںکو ئی ایسا امرنہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو ۔رنڑی کا تما شا یاآتش با زی فسق وفجوراور اسراف ہے یہ جائزنہیں ۔
با جے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے کھرسے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد ؟فر ما یا :۔ایسے سوالات اورجزودَر جزونکالنابے فا ئدہ ہے ۔اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان وشوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جا بجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں ۔اسلامی جنگوں میں بھی توباجابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہو تا ہے ۔
نیک نیتی میں برکت ہے
ایک زرگرکی طرف سے سوال ہو اکہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملادیتے تھے ۔اب ملاوٹ چھوڑدی ہے اور مزدوری زیا دہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دینگے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو۔ایسا کا م ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں ؟فر ما یا :۔
کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کر نا چاہئیے اور لوگوں کو کہہ دیا کروکہ اب ہم نے تو بہ کرلی ہے جو ایسے کہتے ہیں کہ کھوٹ ملادو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں ۔پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو ۔بر کت دینے والا خدا ہے اور جب آسمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور بر کت دیتا ہے۔
مُردے اور اسقاط
پھر سوال ہوا کہ ملّا ں لوگ مُردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا :۔اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے ۔مُلّائوں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں ۔یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا
ایک مختار کار عدالت نے سوال کیا کہ بعض مقد مات میں اگرچہ وہ سچا اور صداقت پر ہی مبنی ہو مصنوعی گواہ بنانا کیسا ہے ؟فر مایا :۔
اوّل تو اس مقدمہ کے پیرو کا ر بنو جو بالکل سچاہو ۔یہ تفتیش کولیا کرو کہ مقدمہ سچا ہے کہ جھوٹا۔ پھر سچ آپ ہی فروغ حاصل کر یگا۔دوم گواہوں سے آپ کا کچھ واسطہ ہی نہیں ہو نا چاہیئے۔ یہ موکل کا کام ہے کہ وہ گواہ پیش کرے۔ یہ بہت ہی بُری بات ہے کہ خود تعلیم دی جاوے کہ چند گواہ تلاش کرلائو اور ان کو یہ بات سکھا دو ۔تم خود کچھ بھی نہ کہو۔موکل خود شہادت پیش کرے خواہ وہ کیسی ہی ہو ۔
ہر صحیح بات کا ا ظہار ضروری نہیں
پھر سوال ہوا کہ بعض باتیںواقعہ میں صحیح ہوتی ہیں مگر مصلحتِ وقت اور قانون ان کے اظہار کا مانع ہو تا ہے تو کیا ہم
لاتکتموا الشھادۃ
کے موافق ظاہر کودیا کریں ؟فر مایا :۔
یہ بات اس وقت ہو تی ہے جب آدمی آزاد بالطبع ہو ۔دوسری جگہ یہ بھی تو فرمایا ۔
لاتلقو بایدیکم الی التھلکۃ (البقر:۱۹۶)
قانون کی پابندی ضروری شے ہے ۔جب قانون روکتا ہے تا رکنا چاہیئے جب کہ بعض جگہ اخفائِ ایمان بھی کرنا پڑتا ہے توجہاں قانون بھی مانع ہو وہاں کیوں اظہار کیا جاوے ؟جس راز کے اظہار سے خانہ بربادی اور تباہی آتی ہے وہ اظہار کرنا منع ہے۔
نتائج نیت پر مرتب ہو تے ہیں
مکرر آتش بازی کے متعلق فرمایا کہ
اس میں جزو گندھک کا بھی ہو تا ہے اور گندھک وبائی ہوا صاف کرتی ہے۔چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میں مثلاًانار بہت جلد ہو اکو صاف کرتا ہے اور اگر کوئی شخص صحیح نیت اصلاحِ ہوا کے واسطے ایسی آتش بازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلاوے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں۔مگر بہ شرط ۔اصلاح نیّت کے ساتھ ہو ۔کیونکہ تمام نتائج نیّت پر مرتب ہو تے ہیں ۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابی ؓنے گھر بنوایا اور آپؐکو مجبور کیا کہ آپ ؐ اس میں قدم ڈالیں ۔آپؐ نے اس مکان کو دیکھا۔اس کے ایک طرف کھڑکی تھی ۔آپؐ نے دریافت کیا کہ یہ کس لیے بنائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ٹھنڈی ہو ا کے آنے کے واسطے۔آپؐ نے فرمایا اگر تواذان سننے کے واسطے اس کی نیّت رکھتا تو ہوا تو آہی جاتی اور تیری نیّت کا ثواب بھی تجھے مِل جاتا ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۱۵ صفحہ ۱۰ مورخہ ۲۴اپریل ۱۹۰۳؁ء)
توحید اور اسباب پرستی
توحید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے
اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد ارسول اللہ
کہہ لیا۔بلکہ توحید کہ یہ معنی ہیں کہ عظمتِ الٰہی بخوبی دل میں بیٹھ جاوے اور اس کے آگے کسی دوسری شئے کی عظمت دل میں جگہ نہ پکڑے۔ ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون کا مرجع اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو سمجھا جاوے اور ہر ایک امر میں اسی پر بھروسہ کیا جاوے کسی غیر اللہ پر کسی قسم کی نظر اور توکل ہرگز نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میںاور صفات میں کسی قسم کا شرک جائز نہ رکھا جاوے۔
اس وقت مخلوق پرستی کے شرک کی حقیقت تو کُھل گئی ہے اور لوگ اس سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں اس لئے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی کوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفّر ہو رہے ہیں ۔چنانچہ روز مرہ کے اخباروںرسالوں اور اشتہاروں سے جو یہاں پڑھے جاتے ہیں اس بات کی تصدیق ہو تی ہے۔
الغرض مخلوق پرستی کو اب کوئی نہیں مانتا ۔ہاں اسباب پرستی کا شرک اس قسم کا شرک ہے کہ اس کو بہت سے لوگ نہیں سمجھتے ۔مثلاًکسان کہتا ہے کہ میَں جب تک کھتی نہ کرونگا اور وہ پھل نہ لاوے گی تب تک گذارہ نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح ہر ایک پیشہ والے کو اپنے پیشہ پر بھروسہ ہے اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ہم یہ نہ کریں تو پھر زندگی محال ہے ۔اس کا نام اسباب پرستی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ خداتعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں ہے پیشہ وغیرہ تو درکنار پانی ،ہوا، غذاوغیرہ جب اشیاء پر مدارِزندگی ہے یہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک خداتعالیٰ کا اذن نہ ہو ۔اسی لئے جب انسان پانی پئے تو اسے خیال کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا کیا اور پانی نفع نہیں پہنچاسکتا جب تک خداتعالیٰ کا ارادہ نہ ہو ۔خداتعالیٰ کے ارادے سے پانی نفع دیتا ہے اور جب خداتعالیٰ چاہتا ہے تو وہی پانی ضرر دیتا ہے۔
ایک شخص نے ایک دفعہ روزہ رکھا جب افطار کیا تو پا نی پیتے ہی لہیٹ گیا اس کے لیء پا نی ہی نے زہر کا کام کیا ۔
جو کام ہے خواہ معاشرہ کا خواہ کو ئی اور جب تک اس میں آسمان سے برکت نہ پڑے تب تک مبا رک نہیں ہو تا ۔غرضکہ اللہ تعالیٰ کے تصرفا ت پر کامل یقین چا ہیئے جس کا یہ ایمان نہیں ہے اس میں دہریت کی ایک رگ ہے پہلے ایک امر آسمان پر ہو رہتا ہے تب زمین پر ہو تا ہے ۔
لا ف وگزاف کا نا م تو حید نہیں مو لویوں کی طرف دیکھو کہ دوسروں کو وعظ کر تے اور آپ کچھ عمل نہیں کر تے اسی لیے اب ان کا کسی قسم کا اعتبا ر نہیں رہا ہے ایک مو لوی کا ذکر ہے کہ وہ وعظ کر رہا تھا سا معین میں اس کی بیوی بھی مو جو د تھی صدقہ ،خیرات اور مغفرت کا وعظ اس نے کیا اس سے متا ثر ہو کر ایک عورت نے پا ؤں سے ایک پا زیب اتا ر کر و اعظ صاحب کو دیدی جس پر واعظ صاحب نے کہا تو چا ہتی ہے کہ تیرا دوسرا پاؤ ں دوزخ جلے ؟یہ سنکر اس نے دوسری بھی دیدی جب گھر میں آئے تو بیوی نے بھی اس وعظ پر عملدرآمد چا ہا کہ محتاج کو کچھ دے مو لوی صاحب نے فر ما یا کہ یہ با تیں سنا نے کی ہو تی ہیں کر نے کی نہیں ہو تیں اور کہا کہ اگر ایسا کا م ہم نہ کر یں تو گذارہ نہیں ہو تا انہیں کے متعلق یہ ضرب المثل ہے ؎
واعظاں کیں جلوہ بر محراب ومنبر مے کنذ ؛ چو ں نجلوتمے روندآں کا ردیگر مے کنذ
تعبیر رؤیا
بڑ۔ یع نی بو ہڑ کے درخت سے مراد نصاری ٰ کا دین ہے کہ جس کی عظمت اور سر کشی تو بہت ہے مگر پھل ندارد۔ (البدر جلد۲نمبر۱۴صفحہ۱۰۷۔۱۰۸مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۱۰؍ اپر یل ۱۹۰۳؁ء
بعد نماز جمعہ چند اشخاص نے بیعت کی جس پر حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر فر ما ئی :۔
بیعت ِتو بہ
اس وقت جو تم بیعت کر تے ہو بیعت تو بہ ہے اللہ تعالیٰ وعدہ فر ما تا ہے کہ جو کو ئی تو بہ کر یگا اس کے گناہ بخش دو نگا گنا ہ کے معنے ہیں کہ انسان دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نا فر ما نی کر ے اور ان احکام کے بر خلاف کر ے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور ان با توں کو کر ے جن کے کر نے سے منع فر ما یا ہے گنا ہ ایسی چیز ہے کہ جس کا نیتجہ اس دنیا میں بھی بد ملتا ہے اور آخرت میں بھی ۔
جب انسان تو بہ کر تا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گنا ہوں کو فر اموش کر دیتا ہے اور تا ئب کو بیگنا ہ سمجھتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ تا ئب اپنی تو بہ پر قائم رہے بہت لو گ ایسے ہیں کہ تو بہ بھول جا تے ہیں مثلاًحج کر نیوالے حج کر نیوالے کر کے آتے ہیں اور واپس آکر چند دنوں کے بعد پھر سا بقہ بد یوں میں گرفتا ر ہو جا تے ہیں تو ان کے اس حج سے کیا فا ئدہ ؟خدا تعا لیٰ گنا ہوں سے ہمیشہ بیزار ہے اس لیے انسان کو گنا ہ سے ہمیشہ بچنا چا ہیئے جو شخص اس با ت پر قادر رہے ۔کہ گنا ہ چھوڑ دے اور پھر نہ چھوڑے تو خدا تعالیٰ ایسے شخص کو ضرور پکڑے گا اگر تم چا ہتے ہو کہ اس تو بہ کے درخت سے پھل کھا ؤ اور تمہارے گھر وبا ؤں سے بچے رہیں تو چا ہیئے کہ سچی تو بہ کرو۔
خدا تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بد لا کرتا جیسے قرآن شریف میں ہے ۔
ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا(فا طر :۴۴)
اور جو انسان ذراسی بھی نیکی کر تا ہے تو خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اسی طرح جو ذرہ بھر بد ی کر تا ہے اس پر بھی خدا تعالیٰ مواخذ ہ کر تا ہے پس جب یہ حالت ہے تو گنا ہ سے بہت بچنا چا ہیئے ۔
گنا ہ کی پروا ہ نہ کر نی
بعض لوگ گنا ہ کر تے ہیں ۔اور پھر اس کی پرواہ نہیں کر تے گو یا گنا ہ کو ایک شیریں شر بت کی مثال خیا ل کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے کو ئی نقصان نہ ہو گا یا دریکھیں کہ جیسے خدا تعالیٰ بڑا غفور اور رحیم ہے ویسے ہی وہ بڑا بے نیاز بھی ہے جب وہ غضب میں آتا ہے تو کسی کی پورا نہیں کر تا وہ فر ما تا ہے
ولا یخاف عقبھا(الشمس :۱۶)
یعنی کسی کی اولاد کی بھی اسے پروا نہیں ہو تی کہ اگر فلاں شخص ہلا ک ہو گا تو اس کے یتیم بچے کیا کر یں گے آجکل دیکھو یہی حا لت ہو رہی ہے آخر کاس رایسے بچے پاردیوں کے ہاتھ پڑ جا تے ہیںاس لیے گنا ہ کر کے کبھی بے پروا مت رہو اور ہمیشہ تو بہ کرو۔
نماز اور دعا کا حق
یہ مت خیا ل کرو کہ جو نماز کا حق تھا ہم نے ادا کر لیایا دعا کا جو غق تھا وہ ہم نے پورا کیا ہر گز نہیں دعا اور نماز کے حق کا ادا کر نا چھوٹی با ت نہیں یہ تو ایک موت اپنے اوپروارد کر نی ہے نمازاس با ت کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کر تاہو تو یہ محسوس کر ے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیاہوں بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر الزام لگا تے ہیں اور اپنے آپ کو بَری خیال کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہو تی یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہو تا ہے نماز اور دعا میں جب تک انسا غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیںہوا کر تی ۔ اگر انسان ایک کھا نا کھا ئے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہو ئی ہے تو میٹھا س سے وہ زہر معلوم تو نہ ہو گا مگر پیشتر اس کے میٹھا س اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کر کے کام تمام کر دیگا یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہو ئی دعا ئیں قبول نہیں ہو تیں کیو نکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جا تی ہے یہ بات با لکل نا ممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا با لکل مطیع ہواور پھر اس کی دعا قبول نہ ہوں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کا مل طور پرادا کرے جیسے ایک انسان اگر دور بین سے دور کی شئے نزدیک دیکھنا چا ہے تو جب تک وہ دور بین کے آلہ کو ٹھیک تر تیب پر نہ رکھے فا ئدہ نہیں اٹھا سکتا یہی حال نماز اور دعا کا ہے اسی طرح ہر ایک کام کی شرط ہے جب وہ کا مل طور پر ادا ہو تو اس سے فا ئدہ ہوا کرتا ہے اگر کسی کو پیاس لگی ہواور پا نی اس کے پاس بہت سا موجود ہے مگر وپ پئے نہ تو فا ئدہ نہیں اٹھا سکتا یا اگر اس میں سے ایک دو قطر ہ پئے تو کیا ہو گا؟ پوری مقدار پینے سے ہی فا ئدہ ہو گا غرضکہ ہر ایک کام کے واسطے خدا تعالیٰ نے ایک حد مقر ر کی ہے جب وہ اس حد پر پہنچتا ہے تو یہ با برکت ہو تا ہے اور جو کام اس حد تک نہ پہنچیں تو وہ اچھے نہیں کہلا تے اور نہ ان میں برکت ہو تی ہے ۔
عاجزی
عاجز ی اختیار کر نی چا ہیئے عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے ۔
ما خلقت الجن والالس الا لیعبدون۔(الذاریات :۵۷)
تکبر وغیرہ سب بناوٹی چیریں ہیں اگر وہ اس بناوٹ کو اتا ر دے تو پھراس کی فطرت میں عاجز ی ہی نظر آویگی اگر تم لوگ چا ہتے ہو کہ خیریت سے رہواور تمہارے گھروں میںامن رہے تو مناسب ہے کہ دعا ئیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پر کرو جس گھر میں ہمیشہ دعا ہو تی ہے خدا تعالیٰ اسے بر باد نہیں کیا کرتا لیکن جو سستی میں زندگی بسر کرتا ہے اسے آخر فرشتے بیدار کرتے ہیں اگر تم ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یادرکھو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بہت پکا ہے وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کر یگا جیسا کہ فاسق فا جر سے کرتا ہے خدا تعالیٰ کو کو ئی ضرورت نہیں کہ تم کو عذاب دیوے بشرطیکہ تم ایمان لاؤاور شکر کرو انسان کو عاب ہمیشہ گنا ہ کے با عث ہو تا ہے خدا تعالیٰ فر ما تا ہے
ان لا یغیرما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم۔(الدعد:۱۲)
اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بد لتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے جب تک انسان اپنے آپ کو صاف نہ کرے تب تک خدا تعالیی عذاب کو دور نہیں کرتا ہے ۔
یہ دنیا ود بخود نہیں ہے اس کے لیے ایک خالق ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اسی کی مرضی سے ہو رہا ہے بغیر اس کی رضا کے ایک ذرہ حرکت نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ سے تر ساں رہے گا وہ خود محسوس کر یگا کہ اس میں ایک فرقان کی طرح نہیں بلکہ ان کے لیے وہ باعث بر کت ہو تی ہیں۔
دغا باز آدمی کی نماز قبول نہیں ہو تی وہ اس کی منہ پر ماری جا تی ہے کیو نکہ وہ دراصل نماز نہیں پڑ ھتا بلکہ خدا تعالیٰ کو دشوت دینا چا ہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو اس سے نفرت ہو تی ہے کیو نکہ وہ رشوت کو خود پسند نہیں کرتا۔
نماز کو ئی ایسی ویسی شئے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شئے ہے جس میں
اھدنا الصراطالمستقیم الخ (الفاتحہ:۶)
جیسی دعا کی جا تی ہے اس دعا میں بتلا یا گیا ہے کہ جو لوگ بر ے کا م کرتے ہیں ان پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب آتا ہے۔الغرض اللہ تعالیٰ کوخوش کر نا چا ہیئے جو کام ہو تا ہے اسد کے ارادہ سے ہو تا ہے۔ چنا نچہ طا عون بھی اسی کے حکم سے آئی ہے یہ دنیا سے رخصت نہ ہو گی جب تک ایک تغیر عظیم پیدا نہ کر لے جواس سے نہیں ڈرتا وہ بڑا بدبخت ہے اور اس کے استیصال کے لیے ایک ہی راہ ہے وہ یہ کہ اپنے آپ کو پاک کرو کیو نکہ اگر پاک ہو کر مر بھی جاوے گا تو وہ بہشت کو پہنچے گا مر نا تو سب نے ہے مومن نے بھی اور کافر نے بھی مگر مو من اور کا فر کی موت میں خدا تعالیٰ فر ق کر دیتا ہے ۔
دیکھو ان باتوں کو منتر جنتر نہ سمجھو اور یہ خیا ل نہ کرو کہ یو نہی فا ئدہ ہو جاوے گا جیسے کہ بھوکے کے سامنے روٹیوں کا انبا ر فا ئدہ نہیں دیتا جب تک کہ وہ نہ کھا وے اسی طرح آج کے اقرار کے مطا بق جب تک کو ئی اپنے آپ کو گنا ہ سے نہ بچا وے گا اسے بر کت نہ ہو گی یا درکھو کہ مَیں اس بات پر شاہد ہوں کہ میں نے تم کو سمجھا دیا ہے ۔
ان تم کو چا ہیئے کہ برائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کروتا کہ بچے رہو جو شخص بہت دعا کرتا ہے اس کے واسطے آسمان سے تو فیق نازل کی جا تی ہے گنا ہ سے بچے اور دعا کا نیتجہ یہ ہو تا ہے کہ گنا ہ سے بچنے کے لیے کو ئی نہ کو ئی راہ اسے نل جا تی ہے جیسا کہ خدا تعالیی فر ما تا ہے
یجعل لہ مخرجا
یعنی جو امور اسے کشا ں کشاں گنا ہ کی طرف لے جا تے ہیں اللہ تعالیٰ ان امور سے بچنے کی تو فیق اسے عطا فر ما تا ہے قرآن کو بہت پڑھنا چا ہیئے اور پڑ ھنے کی تو فیق خدا تعالیٰ اسے طلب کر نی چا ہیئے کیو نکہ محنت کے سوانسان کو کچھ نہیں ملتا کشا ن کو دیکھو کہ جب وہ زمین میں ہل چلا تا ہے اور قسم قسم کی محنے اٹھا تا ہے تب پھل حاصل کر تا ہے مگر محنے کے لیے زمین کا اچھا ہو نا شرط ہے اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو سامان بھی عمدہ ہو سب کچھ کر بھی سکے تب جا کر فا ئدہ پاوے گا
لیس الا نسان الا ما سعی (النجم:۴۰)
دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط با ندھنا چا ہیئے جب یہ ہو گا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گا اور جب دل ڈرتا رہتا ہے تو خدا تعالی کو اپنے بندے پر خود رحم آجا تا ہے اور پھر تمام بلاؤں سے اسے بچا تا ہے ۔
گناہ سے بچو ۔نماز ادا کرو ۔دین کو دنیا پر مقدم رکھو ۔خدا تعالیٰ کا سچا غلام وہی ہو تا ہے جو دین کا دنیا پر مقدم رکھتا ہے۔
لقاء الہی کا واسطہ قرآن اور آنحضرتؐ ہیں
ہر ایک شخص کو خودبخو د خدا تعا لیٰ سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے اس کے واسطے واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ ہیں ۔اس واسطے جو آپ ؐ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی با مراد نہ ہوگا۔انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اُسے قبول کرے اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجائو ۔قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔
قل یعبادی الذین اسر فوا علی انفسھم (الزم :۵۴)
اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوقِ رسول کریم ﷺ کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپؐ پر درود پڑھو ۔اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو ۔سب حکموں پر کار بند رہو جیسے کہ حکم ہے
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتعبیونی یحببکم اللہ (آل عمران:۳۲)
یعنی اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت ﷺ کے پورے فرمان بردار بن جائو اور رسول کریم ﷺ کی راہ میں فنا ہوجائو تب خدا تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔
جب لوگ بدعتوں پر عمل کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں دُنیا سے چھٹکارا نہیں ملتا یا کہتے ہیں کہ ناک کٹ جاتی ہے ۔ایسے وقت میں گویا انسان خداتعالیٰ کے اس فرمان کو چھوڑتا ہے جو رسول کریم ﷺ کی اطاعت کا ہے اور خیال کرتا ہے کہ خداتعالیٰ سے محبت کرنابے فائدہ ہے ۔
(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ صفحہ۱۰۸۔۱۰۹ مورخہ ۲۴اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۱۱ ،اپریل ۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیر )
دلیل کی صداقت
فرمایا:۔
جب ہمیں یہ الہام ہوا تھا
وا صنع الفلک با عیننا ووحینا
اس وقت تو ایک شخص بھی ہمارا مرید نہ تھا ۔اگر یہ سلسلہ من عندِغیراللہ ہوتا تو آج تک الٰہی بخش کی طرح بیکار ہی پڑا رہتا ۔کیا یہ ثبوت کافی نہیں؟
الٰہی بخش تو میرے الہامات کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔ایسا کیوں کرتا ہے کہ الہام ہمارے سالہا سال سے شائع ہوچکے ہیں اُن کی اب نقل کرتا ہے ۔اصل میں جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح حق اپنے انوار سے شناخت کیا جاتا ہے۔
اسی طرح
یا مسیح الخلق عدوانا
اس وقت سے چھپا ہوا اور شائع شدہ ہے جبکہ طاعون کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا اور اب آج طاعون کی وجہ سے لوگ آتے اور زبانِ حال سے کہتے ہیں
یا مسیح الخلق عدوانا
اور کثر اپنے خطوں میں لکھتے ہیں ۔اب یاتو یہ ثابت کروکہ یہ الہام ہمارا من گھڑت ہے اور ہم نے اپنی کوشش سے چند لوگوں کو اس کے مکمل کرنے کے واسطے ملا لیا ہے یا یہ قبول کرو کہ یہ جو دودواور چارچار سو آدمی یکدم بیعت کرتے ہیں یہ خداتعالیٰ کی تائید ہے۔
جس زور کے ساتھ طاعون کی وجہ سے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں اس طرح کسی کو یقین چھوڑ وہم بھی نہ تھا کیونکہ یہ الہام اس وقت کا ہے جب ا ن لوگوں کا نام ونشان بھی نہ تھا ۔اس لیے ان تمام ناموں کو محفوظ رکھا جاوے اور اگر ان لوگوں کا الگرجسٹر نہ ہو تو رجسٹر بیعت ہی میں سُرخی کیساتھ ان ک درج کیا جاوے ۔
کنچنی کی مسجد میںنماز
ایک شخص کے سوال پر فرمایا:۔
کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں۔
طریقِ ادب سے بعید سوالات
پھر ایک شخص نے پوچھا کہ قیامت کے دن بھی ہماری جماعت اسی طرح آپ کے پیچھے ہوگی ؟فرمایا
یہ تفصیلیں نہیں ہوسکتی ۔ایسے سوال طریقِ ادب سے بعید ہیں ۔یہ بات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ و۔
حق کی چارہ جوئی
سوال ہوا کہ مخالف ہم کو مسجد میں نمازپڑھنے نہیں دیتے حالانکہ مسجد میں ہمارا حق ہے ۔ہم اس سے بذریعہ عدالت فیصلہ کرلیں؟
فرمایا:۔
ہاں اگر کوئی حق ہے تو بذریعہ عدالت چارہ جوئی کرو ۔فساد کرنا منع ہے ۔کوئی دنگہ فساد نہ کرو۔
مخالف کے گھر کی چیز کھانا
سوال ہوا کہ کیا مخالفوں کے گھر کی چیز کھا لیویں؟ فرمایا:۔
نصاریٰ کی پاک چیزیں بھی کھا لی جاتی ہیں ۔ہندوئوں کی مٹھائی وغیرہ بھی ہم کھا لیتے ہیں پھر ان کی چیز کھا لینا کیا منع ہے ۔
مخالف سے حسنِ معاشرت
ہاں مَیں نماز سے منع کرتا ہوں کہ ان کے پیچھے نہ پڑھو ۔ اس کے سوائے دنیاوی معملات میں بے شک شریک ہو ۔احسان کرو،مروت کرو اور ان کو قرض دو اور اُن سے قرض لو اگر ضرورت پڑے تو صبر سے کام لو ۔شائد کہ اس سے سمجھ بھی جاویں۔
نماز کی اہمیت
ایک شخص نے عرض کی کہ میرے لیے دُعا کریں کہ نماز کی توفیق اور استقامت ملے ۔فرمایا:۔
حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آجاتا ہے ۔اس طرف سے فرق آیا تو معاً اُس طرف سے بھی فرق آجاتا ہے ۔
سر پر ہاتھ رکھنا
پھر اسی شخص نے عرض کی کہ میرے سر پر ہاتھ رکھیں آپ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور اس طرح اخلاقِ فاضلہ کا ثبوت دیا۔ (الحکم جلد۷ نمبر ۱۵ صفحہ۱۰۔۱۱ مورخہ ۲۴اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۱۱، اپریل ۱۹۰۳ء؁
(دربارِشام)
تکمیلِ ایمان کا ذریعہ
اصل میں ایمان کے کمال تام کا ذریعہ الہاما تِ صحیحہ اور پیشگوئی ہوتے ہیں ایمان کبھی قصوں کہانیوں سے ترقی نہیں پکڑتے۔عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انسان جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے۔جس راہ ورسم کا پابند اپنے آباء واجدادکو پاتا ہے اکثر اسی کا پابند ہوا کرتا ہے۔اگر ایک بت پرست کے گھر میں پیدا ہوا ہو تو بت پرستی ہی اس کا شیوہ ہوگا۔اور اگر ایک عیسائی کے ہاں اس نے تربیت پائی ہے تو وہی خُوبُو اس میںپائی جاوے گی۔مگر اس کے مسائل اور اس کے بنیادی عقائد کا بہت سا حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی عقل وفہم میںکچھ بھی نہیں آیا ہوتا۔صرف لکیر کا فقیر ہوتا ہے بچپن اور اِوائل عمر میں تو کیا کوئی ان مذاہب کی حقیقت سے آگاہ ہوگا۔عیسوعیت کے حامی تو اگر ان سے کوئی پوری تعلیم کا پورا ھوان عاقل بالگ بھی ان کی تثلیث کے راز کو پوچھے تو کہدیتے ہیں کہ راز ہے جو ایشیائی دماغ کی بناوٹ کے لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے اور یہی حال بُت پرست کا ہے۔
اسلام کی حقانیت
ہاں البتہ اسلام ایک دنیا میں ایسا مذہب ہے کہ جس کے عقائد ایسے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ سکتا ہے اور وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔اسلام کے مسائل ایسے ہیں کہ کسی خاص دماغ یا عقل کے واسطے خاص نہیں بلکہ وہ تمام دنیا کے واسطے یکساں ہیں اور ہر ایک کی سمجھ میں آسکتے ہیں۔مگر وہ زندہ ایمان کہ جس سے انسان خدا تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور وہ نور جس سے انسان کی آنکھ کھل کر اس کو ایقان تام حاصل ہو جاوے وہ صرف الہام ہی پر منحصر ہے۔الہام سے انسان کو ایک نور ملتا ہے جس سے وہ تاریکی سے مبّرا ہوجاتا ہے اور ایک قسم کا اطمینان اورتسلی اسے ملتی ہے اس کا نفس اس دن سے خدا تعالیٰ میں آرام پانے لگتا ہے اور ہر گناہ فسق وفجور سے اس کا دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے اس دل امید اور بیم سے بھر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت کی وجہ سے وہ ہر وقت ترساں و لرزاں رہتا ہے اور زندگی کو ناپائیدار جانتا اور سفلی لذّات کی ہوس اور خواہش کو ترک کرکے خدا تعالیٰ کی رضا کر حصول میں لگ جاتا ہے اور درحقیقت وہ اسی وقت گناہ کی آلودگی سے علیحدہ ہوتا ہے۔
جب تک تازہ نور انسان کو آسمان پر سے نہ ملے اور خدا تعالیٰ کا مشاہدہ نہ ہو جاوے تب تک پورا ایمان نہیں ہوتا۔جب تک ایمان کمال درجہ تک نہ پہنچا ہو تب تک گناہ کی قید سے رہائی ناممکن ہے۔بجز الہام کے ایمان کی تصویر لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔اس کی ماہیت سے لوگ بے بہرہ اور خالی محض ہوتے ہیں تعجب ہے کہ یورپ تو آجکل بہت سی ٹھوکریں کھا کر ان امور کو تسلیم کرتا جاتا ہے مگر ہمارے مولوی انکار وکفر میں غرق ہیں اگر الہام ہونے کا نام بھی لیا جاوے تو کفر ما فتویٰ تیار ہے۔وحی کے نزول کا دعویٰ کرنے والا تو اکفر اور ضالّ اور دجّال ہے۔افسوس آتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کے کلام سے کیسے دور جاپڑے ہیں اور ان سے فہم قرآن چھین لیا گیا ہے۔بھلا اگر خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس شرف سے محروم ہی رکھنا تھا تو یہ دعا ہی کیوں سکھائی
اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین انعمت علیھم۔ (الفاتحہ:۶،۷)
اس دعا سے تو صاف نکلتا ہے کہ یا الہیٰ ہمیں پہلے منعم علیہم لوگوں کی راہ پر چلا اورجو ان کو انعامات ملے ہمیں بھی وہ انعامات عطا فرما۔
انعمت علیھم
کون تھے؟خدا تعالیٰ نے خود ہی فرمادیا ہے کہ نبی۔صدیق۔شہید۔صالح لوگ تھے اوران کا برابر انعام یہی الہام اور وحی کا نزول تھا۔بھلا اگر خدا تعالیٰ نے اس دعا کا سچا نتیجہ جو ہے اس سے محروم ہی رکھنا تھا تو پھر کیوں ایسی دعا سکھائی؟ہمیں تعجب آتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا۔یہی تو ایک چیز تھی۔جو نہایت نازک اور روح کی غذا تھی۔جو انسان اس کے حصول کا پیاسا نہیں۔ممکن نہیں کہ اس کے اندرپاک تبدیلی آسکے اور جب تک انسان اس طرح خدا تعالیٰ کا چہرہ نہ دیکھے اور اس کی سریلی آواز سے بہرہ ور نہ ہو۔تب تک ممکن نہیں کہ گناہ کے زہر سے بچ سکے۔خیر خود تو محروم اور بے نصیب تھے ہی مگر دوسروں کو جو اس قسم کے خیال رکھیں کہ خدا تعالیٰ کسی سے ہمکلام ہو سکتا ہے کافر جانتے ہیں۔وہ تو دوسروں کو کافر کہتے ہیں۔مگر ہمیں خود ان کے ایمان کا خطرہ ہے کہ ان کا ایمان ہی کیا ہے جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کے واسطے ہاتھ ہی کس طرح اُٹھا سکتے ہیں۔
خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے ذرائع
دو ہی چیزین ہیں کہ جو خدا تک انسان کو پہنچا سکتی ہیں۔دیدار۔جس کی موسیٰ نے بھی درخواست کی تھی اور وہ بھی الہام ہی کی وجہ سے تھی۔کیونکہ جب انسان اس کی طرف ترقی پاتا ہے تو اَور اَور مدارج کی بھی اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرنا چاہتا ہے۔
دوسری چیز خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی گفتار ہے اور یہ فضل خدا تعالیٰ کا تو ایسا ہوا کہ عورتوں تک بھی گفتار سے مشرف ہوتی ہیں۔حضرت موسیٰ کی ماں کو بھی ہمکلامی کا شرف حاصل تھا۔حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو بھی یہ نعمت ملی ہوئی تھی۔خضر کو بھی الہام ہوت تھا تو کیا اسلام ہی ایسا گیا گذرا تھا؟اور خدا تعالیٰ کی نظر میں گِرا ہوا تھا؟کہ اسے بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی پیچھے پھینک دیا۔ان وہابیوں کا تو یہ اعتواد ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد صحابہ ؓ میں سے کسی کواور نہ بعد میں ائمہ میں سے کسی کو اَور نہ ہی بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے ولیوں مثلاًحضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ وغیرہ ان میں سے کسی کو بھی الہام نہیں ہوا۔یہ سارے کے سارے ہی خشک مُلاّں تھے ان میں سے کسی کو بھی خدا تعالیٰ کے مکالمے مخاطبے کا شرف نہ ملا ہوا تھا۔انکے ہاتھ میں بھی صرف قصّے کہانیاں ہی تھیں۔
ولکن رسول اللہ و خاتم النبین (الا حزاب:۴۱)
کے معنے ہی ان کے نزدیک یہی ہیں کہ الہام کا دروازہ آپ کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اور آپ کے بعد آپ کے بعد آپ کی اُمّت سے یہ برکت کہ کسی کو مکالمات اور مخاطبات ہوں بالکل اُٹھ گئی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صدی اس امر کی منتظر ہوتی ہے کہ اس اُمّت میں سے چند افراد یا کوئی ایک فرد ضرور خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں گے جو اسلام پر سے گردو غبار کو دُور کرکے پھر اسلام کے روشن چہرے کو چمکا کر دکھایا کریں ان لوگوں سے اگر پوچھا جاوے کہ تمہاریپاس سچائی کی دلیل ہی کونسی ہے؟کوئی معجزات یا خارق عادت تمہارے پاس نہیں تو دوسروں کا حوالہ دیدینگے ۔خود خالی اور محروم ہیں۔صحابہؓ آنحضرت ﷺ کے پاس وہ کر اور آپ کی صحبت کی برکت سے آنحضرت کے ہی رنگ میں رنگین ہوگئے تھے اور ان کے ایمانوں کا تزکیہ اور ترتیب ہوتی گئی اور آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ کمالِ تمام تک پہنچ کر آنحضرت ﷺ کے رنگ میں رنگین ہوگئے مگر ان لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے واسطے اگر اُن سے پوچھا جاوے تو کیا ہے؟تیرہ سوبرس کا حوالہ دیں گے کہ اس وقت یہ معجزات اور خارق عادت ظاہر ہوا کرتے تھے پیشگوئیاں بھی تھیں مگر اَب کچھ بھی نہیں۔
خیرِ اُمم
مَیں نہیں سمجھتا کہ اگر خدا تعالیٰ نے اُسے شرّالامم بنانا تھا تو اُس کانام قرآن شریف میں خیر اُمّت لر لے کیوں پکارا؟کیونکہ اس کی موجودہ حالت بقول مولویوں کے بدترین معلوم ہوتی ہے ۔اندرونی و بیرونی حملوں سے پاش پاش ہوا جاتا ۔دجّال نے آکر ہر طرف سے گھیر لیا ہے تو پھر ایسے مصیبت کت وقت میں اگر خبر گیری بھی کی تو ایک اَور دجّال بھیج دیا جو دین کا حامی ہونے کی بجائے بیخ کُن ہے اور ان کے لوگ ہزاروں مجاہدے اور ریاضت زہد و تعبد کریں مگر خدا سے مکالامہ کا شرف کبھی نہیں نصیب ہوتا ہے اور ایسے گئے گذرے ہیں کہ دوسری امتوں کی عورتوں سے بھی درماندہ اور پس پا افتادہ ہیں ۔ان میں تو ایک موسوی شریعت کے خادم ہزاروں نبی آئے اور ایک ایک زمانہ میں چار چار سو نبی بھی ہوتے رہے مگر اس اُمّت میں آنحضرت ﷺ کی شریعت کا خادم بھی ایک صاحب الہام نہ آیا ۔گویا کہ سارے کا سارا باغ ہی بے ثمر رہ گیا ۔پہلے لوگوں کے باغ تو مثمر ہوئے مگر ان کے اعتقاد کے بموجب نعوذ باللہ آپؐ کا باغ بے برگ و بار ہوا۔اگر ان لوگوں کا یہی دین اور ایمان ہے تو خُدادنیا پر رحم کرے ۔اور لوگوں کو ایسے ایمان سے نجات دیوے ۔
ایمان
ایمان کی نشانی ہی کیا ہے اور اس کے معنے کیا ہیں یہی کہ مان لینااور پھر اس پر یقین آجانا ۔جب انسان ایک بات کو سچے دل سے مان لیتا ہے تو اس کا اس پر یقین ہوجاتا ہے اور اسی کے مطابق اس سے اعمال بھی سرزد ہوتے ہیں ۔مثلاً ایک شخص جانتا ہے کہ سنکھیا ایک زہر ہوتا ہے اور اس کے کھانے سے انسان مَر جاتا ہے یا ایک سانپ جان کا دشمن ہوتا ہے جس کو کاٹتا ہے اس کی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔تو اس ایمان کے بعد تو نہ وہ سنکھیا کھاتا اور نہ ہی سانپ کے سوراخ میں اُنگلی ڈالتا ۔
آجکل طاعون کے متعلق لوگوں کو ایمان ہے کہ اس کی لاگ سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے ۔اسی واسطے جس مکان میں طاعون ہو اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں غرض جس چیز پر ایمان کامل ہوتا ہے اس کے مطابق اس سے عمل بھی صادر ہوا کرتے ہیں ۔مگر کیا وجہ ہے کہ خدا کے موجود ہونے کا ایمان ہو اور جزا سزا کے دن کا ایمان ہو اور حساب کتاب یاد ہوتو پھر گناہ باقی رہ جاویں۔یہ مسئلہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔کیا خدا کا ایمان سانپ کے خوف سے بھی گیا گذرا ہے؟مومن ہونے کا دعویٰ ہے اور پھر بایں چوری ،جھوٹ ، زنا ،بد نظری ،شراب خوری ،فسق و فجور میں فرق نہیں نفاق اور ریا کاری کی تصدیق نہیں۔زبانی ایمان کا دعویٰ ہے ورنہ عملی طور پر ایمان اور دین کچھ بھی چیز نہیں۔
ہم صاف مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان کو جس چیز کے مفید ہونے کا ایمان ہے اسے ہر گز ہر گز ضائع نہیں کرتا کوئی امیراور کوئی غریب ہم نے نہیں دیکھا جو اپنے گھر سے اپنی جائیداد یا دولت کو جو اس کے پاس ہے باہر نکال پھنیکتا ہو بلکہ ہم نے تو کسی کو ایک پیسہ بھی پھنیکتے نہین دیکھا ۔پیسہ تو کجا ایک سوئی بھی کمائی ہوئی ٹوٹ جاے تو اُسے رنج ہو تا ہے کہ میری کار آمد چیز تھی ۔مگر ایمان باللہ کی قدر ان لوگوں کی نظر میں اُس سوئی کے برابر بھی نہیں اور نہ اس کا فائدہ ایک سوئی کے برابر لوگ جانتے ہیں ۔پس جب ایمان ایسا ہو تا ہے کہ ایک سوئی کے برابر بھی اس کی قدر ان میں نہیں ہو تی ۔تو اسی کے مطابق اُن کو انسان سے نفع بھی نہیں پہنچتا اور نہ ان کو وہ کمال حاصل ہو تا ہے کہ خدا ان پر الہامات کے دروازے کھول دے۔
(الحکم جلد۷ نمبر۱۴ صفحہ۵۔۶مورخہ۱۷پریل ۱۹۰۳؁ء)
۱۲اپر یل ۱۹۰۳؁ء
(صبح کی سیر)
بیماری کی افادیت
بیماریوں کے ذکر پر فر مایا کہ :۔
بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے ۔اصل یہ ہے کہ
خلق الا نسان ضعیفا(نساء :۲۹)
انسان چند روز کے لیے زندہ ہے ۔ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جو حّی وقیوم ہے ۔جب وقتِ موعود آجاتا ہے تو ہر ایک چیز السلام علیکم کہتی اور سارے قویٰ رخصت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے۔
طاعون کا علاج
طاعون کے ذکر پر فر مایا کہ :۔
آسمانی علاج ابھی تک لوگوں نے غیر مفید سمجھا ہو ا ہے ۔سچی توبہ اور تقویٰ کی طرف پورا رجوع نہیں کیا مگر یاد رکھیں کی خد ارجوع کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ۔
رکوع وسجود میں قرآنی دُعا کرنا
مولوی عند القادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیا کہ رکوع وسجود میں قرآنی آیت یادُعاکا پڑ ھنا کیسا ہے ؟فر مایا سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے ماسواس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دُعا پڑھی ہو ۔
رہن
رہن کے متعلق سوال ہو ا۔ آپ نے فر مایا کہ :۔
موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکا م زمینداروں سے معاملہ وصال کر لیا کر تے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جا تا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مچالبہ وصال کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکامِ وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اس طر ح یہ رہن بھی جائز رہا کیو نکہ کبھی فصل ہو تی اور کبھی نہیں ہو تی تو دونو صورتوں میں مر تہن نفع ونقصان کا ذمہ دار ہے ۔پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے ۔آجکل گور نمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہو تا ہے ۔ایسی صورت عدل میں رہن نیشک جائز ہے ۔
جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قنضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مر تہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا ۔
پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فر مایا :۔
زیور ہو کچھ ہو جب انتقا ع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں ۔اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھا تا ہے تو اس کی زکوٰۃبھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوٰۃ بھی فر ض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے ۔پس اگر زیور استعمال کر نا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔
(الحکم جلد۷ نمبر۱۵ صفحہ۱۱مورخہ۲۴اپریل ۱۹۰۳؁ء)
۱۲اپر یل ۱۹۰۳؁ء
(دربار شام)
خواب قضائِ معلّق ہوتے ہیں
ایک خواب کی تعبیر میںفرمایاکہ :۔
خواب ہر ایک انسان کو عمر بھر میں کبھی مبشر اور کبھی وحشتناک ضرور آتے ہیں ۔مگر وہی قضا مبرم اور فیصلہ کن نہیں ہوا کرتی ۔خدا تعالیٰ کی معرگت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ قضا کبھی ٹل بھی جایا کرتی ہے خواب کے حالات خواہ مبشر ہوں یا منذر۔دونوں صورتوں میں قضاء معلق کے رنگ میں ہوا کرتے ہیں ۔اُن کے نتائج کے بَر لانے یاروکنے کے واسطے ضروری ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے حضور دُعا کرے کہ اگر یہ امر میرے واسطے مفید اور تیری رضا کے بموجب ہے تو تُو اُسے جیسا مجھے خواب میں مبشت دکھایا ہے ایسا ہی بشارت آمیز صورت میں پوار کر ۔ورنہ منذ رہے تو اس کی خوفناک صورت سے اپنے آپ کو حفاظت میں رکھنے کے لیے بھی استغفار اور توبہ کرتا رہے۔
قضائِ معلّق دُعا سے ٹل سکتی ہَے
اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ قضا ٹل جایا کرتی ہے اس لیے انسان پوری تضّرع خشوع و خصوع اور حضورِ قلب سے اور سچی عاجزی ،فروتنی اور دردِ دل سے اُس سے دُعا کرے ۔خواب میں دیکھے ہوئے حالات کے متعلق خواہ وہ کسی رنگ میں ہوں ۔دونوں صورتوں میں دُعا کی ضرورت ہے ۔
ہمیں باربار خیال آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بھی کوئی ایک وحشت ناک ہی معاملہ ہوا ہوگا کہ انہوں نے سا ری رات دُعا میں صرف کی اور نہایت درجہ کے درد انگیز اور بلبلانے والے الفاظ سے خدا تعالیٰ کے حضور دُعا کرتے رہے ۔ممکن ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر معلق کو مبرم ہی خیال کر بیٹھے ہوں اور اسی وجہ سے ان کا یہ سارا اضطراب اور گھبراہٹ بڑھ گئی ہو اور اس کا گذاز اور رقت اُن میں اپنا آخری دم جان کر ہی پیدا ہوئی ہو ۔کیونکہ اکثر ایک تقدیر جو معلق ہوا کرتی ہے ایسی باریک رنگ میں ہوتی ہے کہ اس کو سرسری نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مبرم ہے ۔چناچہ شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ بھی اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھتے ہیں کہ میری دُعا سے اکثر وہ قضا جو قضا ئے مبرم کے رنگ میں ہوتی ہے ٹل جاتی ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں مگر ان کے اس امر کا جواب ایک اَور بزرگ نے دیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تقدیرِ معلق ایسے طور پر واقع ہوتی ہے کہ اس کا پہچاننا کہ آیا معلق ہے یا مبرم محال ہوجاتا ہے ۔اُسے سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ مبر م ہے مگر درحقیت ہوتی وہ تقدیر معلق ہے اور وہ ایسی ہی تقدیریں ہوں گی جو شیخ عبدالقادر صاحب ؒ کی دُعا سے ٹل گئی ہو کیونکہ تقدیرِ معلق ٹل جایا کرتی ہے ۔غرض اہل اللہ نے اس امر کو خوب واضح طور سے لکھا ہے کہ قضا معلق ٹل جایا کرتی ہے ۔
حضر ت عیسیٰ پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑی بھاری صعوبت اور مشکل کا وقت تھا کیونکہ ان کی اپنی ہی کتاب کے الفاظ بھی ایسے ہی ہیں کہ آخر میں فرمایا
سمع لتقو لہ
یعنی تقدیر تو بڑی سخت تھی اور بڑی مصیبت کا وقت تھا مگر اس کے تقویٰ کی وجہ سے آخر کا اس کی دعا ضائع نہ گئی بلکہ سُنی گئی ۔یہ عیسائی بد نصیب اس امر کی طرف تو خیال نہیں کرتے کہ اوّل تو خد ااور اسکا مرنا یہ دونوں فقرے آپس میں کسیے متضاد پڑے معلوم ہوتے ہیں جب ایک کان میں یہ آواز ہی پڑتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے کہ ایں یہ کیا لفظ ہیں؟اور پھر ماسوا اس کے ایک ایسے شخص کو خدا بنائے بیٹھے ہیں کہ جس نے نجیال اس کے ساری رات یعنی چار پہر کا وقت لغو اور بہیودہ کا م ہیں جو اس کے آقا اور مولیٰ کی منشا ء اور رضا کے خلاف تھا خواہ نخواہ ضائع کای اور پھر ساری رات رویا اورایسے درد اور گداز کے الفاظ میں دعا کی کہ لوہا بھی موم ہو مگر ایک بھی نہ سُنی گئی ۔واہ اچھا خدا تھا۔
پھر کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی رُوح انسانی تھی نہ رُوح الوہیت ۔ہم پوچھتے ہیں کہ بھلا ان کی رُوح اگر انسانی تھی تو ا سوقت اُن کی الوہیت رُوح کہاں تھی ؟کیا وہ آرام کرتی تھی اور خوابِ غفلت میں غرقِ نوم تھی ۔خود بیچارے نے بڑے درد اور رقت کے ساتھ چِلّا چِلّا کر دُعا کی ۔حواریوں سے دعا کرائی مگر سب بے فائدہ تھی ۔وہاں ایک بھی نہ سنی گئی ۔آخر کار خدا صاحب یہودیوں کے ہاتھ سے ملکِ عدم کو پہنچے ۔کیسے قابلِ شرم اور افسوس ہیںایسے خیالات ۔ہمارے آنحضرت ﷺ پر بھی ایسا ہی ایک وقت مصیبت اور صعوبت کا آیا تھا ۔اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء پر ایک ایسا مشکل اور نہایت درجہ کی مصیبت کا ایک وقت ضرور آتا ہے ۔آنحضرت ﷺ پر اُحد کا معاملہ کوئی تھوڑا معاملہ تھا؟ آخر کار وہاں شیطان بھی بول اُٹھا تھ اکہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ مار گئے اور ہوسکتا ہے کہ بعض صحابہ ؓنے بھی اس افراتفری میں ایسا خیال کیا ہو اور بعض صحابہؓ تو تتّربتر بھی ہوگئے تھے ۔آپ ایک گھڑے میں گِر پڑے تھے ۔
وانمنکم الا وار دھا کان علی ربک حتما مقضیا(مر یم :۷۲)
سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ ضرور انبیا ء اور صلحاء کو بھی دنیا میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ نہایت درجہ کی مصیبت کا وقت اور سخت جا نکا ہ مشکل ہو تی ہے اور اہل حق بھی ایک دفعہ اس صعو بت میں وارد ہو تے ہیں مگر خدا تعالیٰ جلد تران کی خبر گیر ی کر تا اور ان کو اس سے نکال لیتا ہے اور چو نکہ وہ ایک تقویر معلق ہو تی ہے اس واسطے ان کی دعا ؤں ابہتال سے ٹل جا یا کر تی ہیں ۔
شیخ رحمت اللہ صاحب کی دعا
شیخ رحمت اللہ صاحب کی دکا ن کو آگ لگنے کا اند یشہ ہوا۔ تو انہوں نے ننگے سراور ننگے پا ؤں سجدے میں گر کر دعاکی تو معا ً دعا کر تے کر تے خدا تعالیٰ نے ہوا کا رخ بد ل درا اور امن امن کی آواز اگئی اور ہر طرح اطمینان ہو گیا ۔
ملا ئکہ کی حقیقت
اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
ہوا ۔پا نی وغیرہ بھی ایک طرح کے ملائلہ ہی ہیں ہاں بڑے بڑے ملا ئکہ وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نا م لیا مگر اس کے سوا با قی اشیا ء مفید بھی ملا ئلہ ہی ہیں چنا نچہ اللہ تعالیٰ کے کلا م سے اس کی تصدیق ہو تی ہے جہاں فر ما تا ہے کہ
وان من شی ء الا یسبح بحمدہ(نبی اسرا ئیل:۴۵)
یعنی کل اشیاء خدا تعالیٰ کی تسبیح کر تی ہیں تسبیح کے معنے یہی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ ان کو حکم کر تا ہے اور جس طرح اس کا منشا ہو تا ہے اسی طرح کر تے ہیں اور ہر ایک امر اس کے ارادے اور منشا سے واقع ہو تا ہے اتفاقی طور سے دنیا میں کو ئی چیز نہیں اگر خدا تعالیٰ کا ذرہ ذرہ پر تصرف تام اور اقتدار نہ ہو تو وہ خدا ہی کیا ہوا اور دعاکی قبولیت کی اس سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ اور حقیقت یہی ہے کہ وہ ہو اکو جد ھر چا ہے اور جب چا ہے چلا سکتا ہے اور جب ارادہ کر ے بند کر سکتا ہے اسی کے ہاتھ میں پا نی اور پا نیوں کے سمند ر ہیں جب چا ہے جوش زن کر دے اور جب چا ہے سا کن کر دے وہ ذرہ ذرہ پر قادر اور مقتد ر خدا ہے اس کی تصرف سے کو ئی چیز با ہر نہیں وہ جنہوں نے دعا سے انکا ر ہی کر دیا ہے ان کو بھی یہی مشکلات پیش آئے ہیں کہ انہوں نے خدا کو ہر ذرہ پر قادر مطلق نہ جا نا اور اکثر واقعات کو اتفا قی ما نا اتفا ق کچھ بھی نہیں بلکہ جو ہو ا ہے اور اگر پتہ بھی درخت سے گر تا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے اور حکمت سے گر تا ہے اور یہ سب ملا ئکہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے اشارے سے کام کرتے ہیں اور ان کی خد مت میں لگا ئے جا تے ہیں جو کدا تعالیٰ کے سچے فر ما بنر دار اور اسی کی رضا کے کواہاں ہو تے ہیں جو خدا کا بن جا تا ہے اسے خدا تعالیٰ سب کچھ عطا کر تا ہے ؎
جے توں میر ا ہو رہیں سب جگ تیر ا ہو
من کان للہ کان اللہ لہ
پھر ایسے مر تبے کے بعد انسان کو وہ رعیت ملتی ہے کہ با غی نہیں ہو تی دنیوی با دشاہوں کی رعیت تو با غی ہو جا تی ہے مگر ملا ئکہ کی رعیت ایک رعیت ہے کہ وہ با غی نہیں ہو تی ۔
۱۳؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
(دربارِشام )
ایک رؤیا
حضرت اقدس نے مند رجہ ذیل خواب سنا یا کو گذشتہ شب کو آیا تھا فر ما یا کہ
مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح ایک دریا ہے جو سانپ کی طرح بل پیچ کھا تا تو مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بد ل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ۔
فر ما یا کہ :۔
طا عون کا روز
اب تو وہ زما نہ طاعون نے دکھا نا شروع کر دیا ہے جس طرح مد نیہ منورہ میں یہودی قتل ہو ئے تھے تو ایک بڑا شخص زند ہ رکھا گیا تھا اس بے پو چھا فلاں شخص کا کیا حال ہوا فلاں کا کیا حال ہوا غرض جس کے متعلق اس نے ردیافت کیا اسی کے متعلق جواب ملا کہ وہ سب قتل کئے گئے تو پھر اس نے کہا کہ لوگوں کے مارے جانے کے بعد مَیں نے زندہ رہ کیا بنا نا ہے مجھے بھی زند گی کی ضرورت نہیں سوآج کل طا عون وہ حال دکھارہی ہے ۔
اکثر دیکھاجا تا ہے کہ انسان لمبی عمر کی بھی خواہشمند ہو تے ہیں مگر جب دوست اور تعلق دار ہی نہ رہے تواس عمر کا ہو نا بھی ایک وبا ل ہو جا تا ہے ایسی حالت دیکھ کر انسان ایسی لمبی عمر کی بھی آرزو نہیں کر سکتا ۔
کیو نکہ انسان دوستوں اور رشتہ داروں کے بغیر رہ سکتا ہی نہیں ۔
انسان اور پر ندہ
ایک جا نور آج کل کے مو سم میں شام کے بعد مسجد مبا رک کے نشہ نشین احباب پر حملہ کیا کرتا ہے اس کے متعلق فر ما یا کہ :۔
کو ئی ایسی تد بیر کی جا وے کہ ایک دفعہ اس جگہ پکڑا جا وے پھر ہم اسے چھوڑہی دینگے مگر ایک دفعہ پکڑا جا نے سے اتنا تو ضرور ہو گا کہ پھر وہ کبھی آئندہ اس جگہ اس طرح حملہ کر نے کا ارادہ نہ کر یگا ۔
ہر جا نور کا یہ قاعدہ ہے کہ اس کے اندر ایک خاصیت ہے کہ جس جگہ سے اسے ایک دفعہ ٹھو کر لگتی ہے اور مصیبت میں مبتلا ہو تا ہے اس جگہ کا پھر وہ کبھی قصد نہیں کرتا مگر صرف انسان ہی ایک ہے جو با وجود اشرف المخلوقات ہو نے کے ان پر ندوں وغیرہ سے بھی گرا ہوا ہے کہ جہاں سے اسے مصائب پہنچتے ہیں اور ضرر اور نقصان اٹھا تا ہے اس کی طرف بھا گنے کا حریص ہو تا ہے ہو شیا ر نہیں ہو تا اور نہ ہی اس نا فر ما نی کو ترک کر تا ہے بلکہ جذبا ت نفس کا میطع ہو کر پھر اسی کام کو کر نے لگتا ہے جس سے ایکبار ٹھو کر کھا چکا ہو ۔
۱۴؍ اپریل ۱۹۰۳؁ء
(صبح کی سیر)
صادق کیسا تھ ایک کشش نازل ہو تی ہیَ
فر ما یا :۔
صادق کی لبعثت کیسا تھ ہی آسمان سے اس واسطے ایک کشش نازل ہوا کر تی ہے جو دلوں کو ان کی استعدادوں کے مطا بق کشش کر تی اور ایک قوم بنا دیتی ہے اس سے تمام سیعد روحیں صادق کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں دیکھو ایک شخص کو دوست بنا کر اس کو اپنے منشا ء کے موافق بنا نا ہزار مشکل رکھتا ہے اور اگر ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی کسی کوصادق وفادار دوست بنا نے کی کوشش کی جاوے تو بھی معرض خطر میں ہی پڑتا ہے اور پھر آخر کار اس خیال کے بر عکس نتیجہ نکلتا ہے مگر ادھر ان لا کھوں ہیں کہ غلا موں کی طرح سچے فر ما نبردار ۔صدق ووفا کے پتلے خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں ۱؎ اور پھر عجب بات یہ ہے کہ اس امر کی اطلا ع آج سے با ئیس برس پیشتر جب اس کی ایک بھی مثال قائم نہ ہو ئی تھی دی گئی چنا نچہ الہام ہے کہ
والقیت علیک محبۃ منی
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش کا نزول ہے سعید تو دوستی کے رنگ میں چلے آتے ہیں مگر شقی بھی اس حصہ سے محروم نہیں ان میں مخالفت کا جوش شعلے مار رہا ہے جب کہیں ہمارا نام بھی ان کے سامنے آجا تا ہے تو سانپ کی طرح بل ہیچ کھا تے اور بیخود ہو کر مجنونوں کی طرح گا ل گلوچ تک آجا تے ہیں ور نہ بھلا دنیا میںہزاروں فقیر ۔لنگوٹی پوش ۔بھنگی ۔چرسی۔کنجر ۔بد معاش ۔بدعتی وغیرہ پھر تے ہیں مگر ان کے لیے کسی کو جوش نہیں آتا اور کسی کے کان پر جوں نہیں چلتی وہ چا ہے بد مذھبیاں اور بے دینیاں کر یں پھر بھی ان سے مست ہی رو رہے ہیں اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ و چو نکہ روحانیت سے خالی ہیں اس واسطے کسی کو کشش نہیں ۔ ۱؎
آنحضرت ﷺ کے زما نہ بعثت میں ہزاروں ہزار لوگ اپنے کاروبا ر چھوڑ کر بھی آپ کی مخالفت کے لیے کمر بستہ ہو ئے اپنے مالوں کا جا نوں کا نقصان منظورکیا اور آنحضرت ﷺ کی مخالفت کے لیے دن رات تد بیر وں منصوبوں میں کوشا ں ہو ئے مگر دوسری طرف مسیلمہ تھا ادھر کسی کو تو جہ نہ تھی اس کی مخالفت کے واسطے کسی کے کان بھی کھڑے نہ ہو ئے۔ آنحضرتﷺکے واسطے جس طرح گھر گھر میں پُھوٹ اور جدائی ہوتی تھی مسیلمہ کے واسطے ہر گز نہ ہوئی۔غرض صادق کے واسطے ہی ایک کشش ہوتی ہے جو دلوں کے ولولو ں کو اُبھارتی اور جوش میں لاتی ہے سعیدوں کے ولولے سعادت اور اشقیاء کے شقاوت کے رنگ میں پھل لاتے ہیں۔شقی چونکہ اسی فطرت کے ہوتے ہیں۔اس واسطے ان کے واسطے کشش بھی اُلٹے رنگ میں ثمرات لاتی ہے۔
(دربارِ شام )
تشبّہ بالکفار
ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوئوں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں؟اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
تشبیہ بالکفار تو کسی رنگ میں بھی جائز نہیں۔اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکہ سا لگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگالے۔یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندو رکھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں ۱؎ مسلمانوں کو اپنی ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہئیے ہمارے آنحضرت ﷺ تہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سرا ویل بھی خرید ناآپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہیے پہنے۔علاوہ ازیں ٹوپی۔کُرتہ۔چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی۔جو چاہیے پہنے کوئی حرج نہیں۔ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہئیے کہ ان میں سے ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو۔۱؎جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ مَیں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم اور عادات کی؟اب اُسے ڈر چاہئیے تو خدا کا۔اتباع چاہئیے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی۔کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چائیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں۔اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے۔۲؎
ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھائیں۔سیالکوٹ سے ایک دوبا رانگریزی جوتا آیا۔ہمیں اس کا پہننا ہی مشکل تھا کبھی ادھر کا ادھر اور کبھی بائیں کا دائیں۔آخر تنگ آکر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے مگر اس طرح بھی کام نہ چلا۔آخر مَیں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں۔
دوراستوں میں سے کس کو اختیار کرے
اسی صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص جاتا ہو اور ایک جگہ پر دوراہ جمع ہو جائیں۔ایک دائیں اور دوسرا بائیں کو۔تو کس راہ کی طرف جاوے؟فرمایا کہ:۔
اس سے اگر تمہاری مراد بھی جسمانی راہ ہے تو پھر اس راہ جاوے جس میں اس کی صحت نیت اور کوئی فساد نہیں اور اگر جانتا ہے کہ ادھر بدبو اور عفو نت ہے یا کنجروں اور فاسقوں۔خدا اور رسول کے دشمنوںکے گھرہیں تو اس راہ کو چھوڑ دے۔غرض صحتِ نیت کا خیال کرلے اور فساد کی راہ سے کلی پرہیز کرے۔۳؎
بے ایمانی کیسے پیدا ہوتی ہَے
ایک اَور سوال کیا کہ بے ایمانی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ فرمایا کہ:۔
بی ایمانی خدا کی معرفت نہ ہونے اور ایمان کے کامل درجہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ادھورا ایمان اس کی وجہ ہوتی ہے۔
ختمِ نبوت سے مُراد
اویک اَور صاحب نے سوال کیا کہ حضور جب سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدؐی میں مماثلت ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس سلسلہ کے خادم تو نبی کہلائے مگر ادھر اس طرح کوئی بھی نبی نہ کہلایا؟فرمایا کہ:۔
مشاہبت میں ضروری نہیں کہ مشبّہ اور مشبَّہ بہٖ بالکل آپس میں ایک دوسرے کے عین ہوں اور ان کا ذراہ بھی آپس میں خلاف نہ ہو۔اب ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو شیر ہے۔تو اب اس میں کیا بھلا ضروری ہے کہ اس شخص کے جسم پر لمبے لمبے بال بھی ہوں۔چار پائوں بھی ہوں اور وہ جنگلوں میں شکار بھی کرتا پھرے ؟بلکہ جس طرح من وجہ تشابہ ہوتا ہے ویسا ہی من وجہ مخالف بھی ہونا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے
کنتم خیر امۃ
تو ہمیں ہی فرمایا ہے۔جو اعلیٰ درجہ کے خیر اور برکات تھے وہ اسی امت میں جمع ہوئے ہیں آنحضرتﷺ کا زمانہ ایسے وقت تک پہنچ گیا ہوا تھا کہ دماغی اور عقلی قوے پہلے کی نسبت بہت کچھ ترقی کر گئے تھے۔اس زمانہ میں تو ایک گونہ جہالت تھی۔اب کوئی کہے کہ اس طرح بھی تشابہ نہ ہوا تو یہ اس کا کہنا درست نہ ہوگا۔نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے گی ہی نہیں اور نہ اس کو شرفِ مکالمات اور مخاطبات ہوگا۔بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مُہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی۔اس امت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰؑ کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرت ﷺ جیسے عالی جناب،اولوالعزم صاحب شریعت کامل آنے والے تھے۔اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھاگیا۔مگر آنحضرتﷺ کے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرت ﷺ کی اجازت کے بند ہوچکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا۔
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین (الاحزاب:۴۱)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپکی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور رُوحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہوگا۔نہ الگ طور سے۔وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مُہر ہوگی۔ورنہ اگر نبوت کادروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے انقطاعِ فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نجوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمّت کو جو کہا کہ
کنتم خیر ا متہ
یہ چھوٹ تھا نعوذ باللہ ۔اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیرالامتہ کی بجائے شرالامم ہویء یہ اُمّت ۔جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اورمخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا ۔تو یہ تو
کا لانعام بل ھم اضل
ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیئے نہ کہ یہ خیر الامم ۔اور پھر سورۃ فاتحہ کی دُعا بھی لغو ہوجاتی ہے ۔اس میں جو لکھا ہے کہ
اھدنا الصراط مستقیم صراط الذین انعمت علیھم
تو سمجھنا چاہیئے کہ ان پہلوں کے پلائو زردے مانگنے کی دُعا سکھائی ہے اور انکی جسمانی لذّات اور انعامات کے وارث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہر گز نہیں ۔اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ بھی کیا گیا ہے ۔جس سے اسلا م کا علو ثابت ہو وے ۔اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسی کچھ بھی نہ تھی اور آپ حضرت موسیٰ ؑ سے مرتبے میں گِرے ہوئے تھے کہ ان کے بعد تو ان کی اُمّت میںسے سینکڑوں بنی آئے مگر آپ کی اُمّت سے خدا تعالیٰ کو نفرت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ مکالمہ بھی نہ کیا کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے آخر اس سے کلام تو کیاہی جاتا ہے۔
نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ میں سے ہوکر اور آپ کی مہر سے اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے ۔ہزاروں اس اُمّت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص اُن میں موجود ہوتے رہے ہیں ۔سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گذرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے ۔چناچہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب کو ہی دیکھ لو ۔ورنہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل :۷۳)
اگر خدا تعالیٰ نے خود ہی اس اُمّت کو اعمٰی بنایا تھا تو عجب ہے خود ہی اعمٰی کے واسطے زجر اور توبیخ ہے کہ آخر ت میں بھی اعمٰی ہوگی ۔اس اُمّت بیچاری کے کیا اختیار ۔اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک شخص کسی کو کہے کہ اگر تو اس مکان سے گر جاوے گا تو تجھے قید کر دیا جاوے گا مگر پھر خود ہی دھکا دیدے۔
گویا نبوت کا سلسلہ بند کر کے فرمایا کہ تجھے مکالمات اورمخاطبات سے بے بہرہ کیا گیا اور تو بہائم کی طرح زندگی بسر کرنے کے واسطے بنائی گئی اور دوسری طرف کہتا ہے کہ
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل :۷۳)
اب بتائو کہ اس تناقض کا کیا جواب ہے ؟ ایک طرف تو کہا خیراُمّت اور دوسری جگہ کہہ دیا کہ تو اعمٰی ہے آخرت میں بھی اعمٰی ہوگی ۔نعوذ باللہ ۔کیسے غلط عقیدے بنائے گئے ہیں۔
اور اگر کوئی باہر سے اس کی اصلاح کے واسطے آگیاتو بھی مشکل۔اس اُمّت کے نبی کی ہتک شان اورقوم کی بھی ناک کٹی ہوئی ہے کہ اس میں گویا کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اصلاح کرنے کے قابل ہوسکے اور کسی کو یہ شرف مکالمہ عطا نہیں کیا جاسکتا اور اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرتﷺ پر اعتراض آتا ہے کہ ایسے بڑے نبی ہو کر ان کی اُمّت ایسی کمزور اور گئی گذری ہے ۔ایسا نہیں ۔بلکہ بات یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی اُمّت میں نبوت ہے اور نبی ہیں مگر لفظ نبی کا بوجہ عظمت نبوت استعمال نہیں کیا جاتا لیکن برکات اور فیوض موجود ہیں۔
خدا کو پانے کی راہ
ایک شخص نے سوال کیا کہ وہ کیا راہ ہے جس سے انسا ن خدا کو پاسکے ؟
فرمایا:۔
جو لوگ برکت پاتے ہیں ان کی زبان بند اور عمل ان کے وسیع اور صالح ہوتے ہیں ۔پنجابی میں کہاوت ہے کہ کہنا ایک جانور ہوتا ہے اس کی بدبُو سخت ہوتی ہے اور کرنا خوشبو دار درخت ہوتا ہے ۔سو ایسا ہی چاہیئے کہ انسان کہنے کی نسبت کرکے بہت کچھ دکھائے ۔صرف زبان کام نہیں آتی ۔بہت سے ہوتے ہیں جو باتیں بہت بناتے ہیں اور کرنے میں بہت سست اور کمزور ہوتے ہیں۔صرف باتیں جن کے ساتھ روح نہ ہو وہ نجاست ہوتی ہیں ۔بات وہی برکت والی ہوتی ہے جس کے ساتھ آسمانی نور ہو اورعمل کے پانی سے سرسبز کی گئی ہو ۔اس کے واسطے انسان خود بخود ہی نہیں کر سکتا ۔چاہیئے کہ ہر وقت دُعا سے کام کرتا رہے اور در گذر سے اور سوز سے اس کے آستانہ پر گرا رہے اور اس سے توفیق مانگے ورنہ یاد رکھے کہ اندھا مریگا۔
دیکھو جب ایک شحص کو کوڑھ کا ایک داغ پیدا ہوجاوے تو اس کے واسطے فکر مند ہو تا ہے اور دوسری باتیں اُسے بھول جاتی ہیں ۔اسی طرح جس کو رُحانی کو ڑھ کا پتہ لگ جاوے ۔اُسے بھی ساری باتیں بھو ل جاتی ہیں اور وہ سچے علاج کی طرف دوڑتا ہے مگر افسو کہ اس سے آگاہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ انسان کے واسطے یہ مشکل ہے کہ وہ سچی توبہ کرے ایک طرف سے توڑ کر دوسری طرف جوڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے ۔ہاں مگر جسے خدا تعالیٰ توفیق دے ۔ہاں ادب سے حیا سے ،شرم سے اُس سے دُعا اور التجا کرنی چاہیئے کہ وہ توفیق عطا کرے اور جو ایسا کرتے ہیں وہ پابھی لیتے ہیں اور اُن کی سُنی بھی جاتی ہے
صرف باتونی آدمی مفید نہیں ہوتا ۔کپڑا جتنا سفید ہوتا ہے اور پہلے سے اس پر کوئی رنگ نہیں دیا جاتا اتنا ہی عمدہ رنگ اس پر آتا ہے ۔پس تم اس طرح اپنے آپ کو پاک کر و تاتم پر خدائی رنگ عمدہ چڑھے ۔اہلِ بیت جو ایک پاک گروہ اور بڑا عظیم الشان گھرانا تھا ۔اس کے پاک کرنے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ۔
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرحس اھل البیت و یطھیرا (الاحزاب :۳۴)
یعنی مَیں ہی ناپاکی اور نجاست کو دُور کروں گا اور خود ہی ان کو پاک کیا تو بھلا اور کون ہے جو خود بخود پاک صاف ہونے کی توفیق رکھتا ہو۔پس لازمی ہے کہ اس سے دعا کرتے رہو اور اسی کے آستانہ پر گرے رہو ساری توفیقیں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔
(البدر جلد ۷نمبر۱۴ صفحہ ۷ تا ۹ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۱۵ اپریل ۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیر )
محمدؐ ی سلسلہ میں موسوی سلسلہ کی طرح نبی کیوں نہیں آئے؟
فرمایا:۔
رات کے سوال کا یہ حصّہ کہ جب مماثلت ہے موسوی اورمحمدی سلسلوں میں ۔تو محمدی سلسلے میں موسوی سلسلے کی طرح نبی کیوں نہیں آئے؟ یہ حصّہ ایسا ہے جس سے ایک انسان کو دھوکا لگ سکتا ہے ۔لہذا ہم اس کے متعلق زیادہ تشریح کر دیتے ہیں ۔اوّل تو وہی بات کہ مماثلت کے لیے ضروری نہیں کہ دوسرے کا وہ عین ہو ۔مشُبّہ و مُشَبّہ بِہٖ میں ضرور فرق ہوتا ہے ۔ایک خوبصورت انسان کو چاند سے مشابہت دے دیتے ہیں ۔مگر چاہیئے کہ ایسے انسان کا ناک نہ ہو ۔کان نہ ہوں ۔صرف ایک گول سفید چمکیلا سا ٹکڑا ہو۔اصل بات یہ ہے کہ مشابہت کے واسطے بعض حصّہ میں مشابہت ضرور ہوتی ہے۔ ۱ ؎
دیکھیئے حضرت موسیٰ سے آنحضرت ﷺ کو مشابہت ہے اور اس میں صرف اعلیٰ جزو یہی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک قوم کو جو فرعون کے ماتحت غلامی میں مبتلا تھی اور اُن کے حالات گندے ہوگئے تھے وہ خدا کو بھول گئے تھے اور ان کے خیالات اور ہمتیں پست ہوگئی تھیں ۔موسیٰ ؑنے اس قوم کو فرعون سے نجات دلائی اور ان کو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے قابل بنادیا ۔اسی طرح آنحضرتﷺ نے بھی ایک قوم کو بتوں کی غلامی اور راہ ورسم کی قید سے نجات دلائی اور اپنے دشمن کو فرعون کی طرح ہلاک و برباد کیا۔ یہ مشابہت تھی ۲ ؎
ا گر غور سے دیکھا جاوے تو ہمارے نبی کریم ﷺ کو آپ کے بعد کسی دوسرے کے نبی نہ کہلانے سے شوکت ہے اور حضرت موسیٰ ؑ کے بعد اور لوگوں کے بھی نبی کہلانے سے اُن کی کسرِ شان ۔کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ بھی ایک نبی تھے اور ان کے بعد ہزاروں اور بھی نبی آئے تو اُن کی نبوت کی خصوصیت اور عظمت کوئی نہیںثابت ہوتی ۔برعکس اس کے آنحضرتﷺ کی ایک عظمت اور آپ کی نبوت کے لفظ کا پاس اور ادب کیا گیا ہے ۔کہ آپ کے بعد کسی دوسرے کو اس نام سے کسی طرح بھی شریک نہ کیا گیا ۔
اگرچہ آنحضرت ﷺ کی اُمّت میں بھی ہزاروں بزرگ نبوت کے نور سے منور تھے اورہزاروںکو نبوت کا حصّہ عطا ہوتا رہا ہے اب بھی ہوتا مگر چونکہ آنحضرتﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا تھا ۔اس لیے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ دوسرے کو بھی یہ نام دے کر آپ کی کسرِ شان کی جاوے ۔آنحضرت ﷺ کی اُمت میں سے ہزار ہا انسانوں کو نبوت کا درجہ ملا اور نبوت کے اثار اور برکات ان کے اندر موجزن تھے مگر نبی کا نام ۔صرف شانِ نبوت آنحضرت ﷺ اور سدِبابِ نبوت کی خاطر اُن کو اس نام سے ظاہر اً ملقب نہ کیا گیا ۔ ۱ ؎ مگر دوسری طرف چونکہ آنحضرت ﷺ کے فیوض اور رُحانی برکات کا دروازہ بند بھی نہ کیا گیا تھا اور نبوت کے انوار جا ری بھی تھے جیسا کہ
ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین
سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺکی مُہر اور اذن سے اور آپ کے نُور سے نُورِنبوت جاری بھی ہے اور یہ سلسلہ بند بھی نہیں ہوا ۱ ؎ یہ بھی ضروری تھا کہ اسے ظاہراً بھی شائع کیا جاوے تاکیہ موسوی سلسلہ کے نبیوں کے ساتھ آپ کی اُمّت کے لوگ بھی مماثلت کے پورا کرنے میں صاف طور سے نبی اللہ کالفظ فرمادیا اور اس طرح سے دونوں امور کا لحاظ نہایت حکمت اور کمال لطافت سے رکھ لیا گیا۔ادھر یہ کہ آنحضرت ﷺ کی کسرِ شان بھی نہ ہو اور اُدھر موسوی سلسلہ سے مماثلت بھی پوری ہوجاوے۔تیرہ سو برس تک نبوت کے لفظ کا اطلاق تو آپ کی نبوت کی عظمت کے پاس سے نہ کیا اور اس کے بعد اب مدت دراز کے گذرنے سے لوگوں کے چونکہ اعتقاد اس امرپرپختہ ہوگئے تھے کہ آنحضرت ﷺ ہی خاتم الانبیا ء ہیں اور اب اگر کسی دوسرے کا نام نبی رکھا جاوے تو اس سے آنحضرت ﷺ کی شان میں کوئی فرق بھی نہیں آتا اس واسطے اب نبوت کا لفظ مسیح کے لیے ظاہراً بھی بول دیا ۔یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے آپ نے پہلے فرمایا تھا کہ قبروں کی زیارت نہ کیا کرو اور پھر فرمایا کہ اچھا اب کر لیا کرو ۔پہلے منع کرنا بھی حکمت رکھتا تھا کہ لوگوں کے خیالات ابھی تازہ بتازہ بت پرستی سے ہٹے تھے تا وہ پھر اسی عادت کی طرف عود نہ کریں ۔پھر جب دیکھا کہ اب اُن کے ایمانِ کمال کو پہنچ گئے ہیں اور کسی قسم کے شرک اور بدعت کو ان کے ایمان میں راہ نہیں تو اجازت دیدی۔ بالکل اسی طرح یہ امر ہے ۔پہلے تیرہ سو برس اس عظمت کے واسطے نبوت کا لفظ نہ بولااگر چہ صفتی رنگ میں صفتِ نبوت اور انوارِ نبوت موجود تھے اور حق تھا کہ اُن لوگوں کو نبی کہا جاوے مگر خاتم الانبیا ء کی نبوت کی عظمت کے پاس کی وجہ سے وہ نام نہ دیا گیا ۔مگر اب وہ خوف نہ رہا تو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے نبی اللہ کا لفظ فرمایا۔ آپ کے جانشینوں اور آپ کی اُمّت کے خادموں پر صاف صاف نبی اللہ بولنے کے واسطے دو اُمور مدِّ نظر رکھنے ضروری تھے ۔اوّل عظمت آنحضرت ﷺ اور دوم عظمتِ اسلام ۔سو آنحضرت ﷺ کی عظمت کے پاس کی وجہ سے ان لوگوں پر ۱۳۰۰ برس تک نبی کا لفظ نہ بولا گیا تاکہ آپ کی نبوت کا حق ادا ہو جاوے اور پھر چونکہ اسلام کی عظمت چاہتی تھی کہ اس میں بھی بعض ایسے افراد ہوں جن پر آنحضرت ﷺ کے بعد لفظ نبی اللہ بولا جاوے اور تا پہلے سلسلہ سے اس کی مماثلت پوری ہو ۔آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے آپ کی زبان سے نبی اللہ کا لفظ نکلوادیا ۔اور اس طرح پر نہایت حکمت اور بلاغت سے دو متضاد باتوں کو پورا کیا اور موسوی سلسلہ کی مماثلت بھی قائم رکھی اور عظمت اور نبوت آنحضرتﷺ بھی قا ئم رکھی ۱ ؎
عو رت نبیّہ نہیں ہوسکتی
سوال:۔ کیا کوئی عورت نبیّہ ہوسکتی ہے ؟فرمایا:۔
نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
الرجال قوا مون علی النساء (النساء :۳۵) اور و للرجال علیھن درجۃ (البقرہ ۲۲۹)
عورتیں اصل میں مردوں کی ہی ذیل ہوا کرتی ہیں ۔جب صاحبِ درجہ اور صاحبِ مرتبہ کے واسطے ایک دروازہ بند کردیا گیا تو یہ بیچاری ناقصات العقل کس حساب میں ہیں ؟
(الحکم جلد ۷ نمبر ۱۴ صفحہ ۹۔۱۰ مورخہ ۱۷ـ اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۱۶ اپریل ۱۹۰۳ء؁
ایک نیا نکتہ
بعد نماز مغرب حضرت اقدس ؑ نے اس تقریر کا اعادہ فرمایا جو کہ مورخہ ۱۵ اپریل کی سَیر میں درج ہوچکی ہے اسکی تکمیل میں ایک نئی بات یہ فرمائی کہ:۔
اس وقت میں اُمّتِ موسوی کی طرح جو ماامور اور مجدد ین آئے ان کا نام نبی نہ رکھا گیا تو اس میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرت ﷺ کی شان ختمِ نبوت میں فرق نہ آوے (جس کا مفصل ذکر قبل ازیں گذر چکا ہے)اور اگر کوئی نبی آتا تو پھر مماثلت میں فرق آتا ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے آدم ،ابراہیم ،نوح اور موسیٰ وغیرہ میرے نام رکھے حتیٰ کی آخر کار
جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء
کہا ۔گویا اس سے سب اعتراض رفع ہوگئے اورآپ کی اُمّت میںایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسیٰ کے تمام خلفاء کا جامع تھا ۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ صفحہ ۹۹ مورخہ ۱۷ اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۱۷ اپریل ۱۹۰۳ء؁
(دربارِ شام)
انجیل کی تعلیم ناقابلِ عمل ہیَ
کالجوں اور مدرسوں ۱ ؎ میں انجیل پڑھانے کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ:۔
ہمیں تو تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ انجیل کو پیش کس خیال سے کرتے ہیں۔اس کی تعلیم تو انسانی فطرت کے ہی خلاف پڑی ہوئی ہے۔اور تَو اور ایک درخت ۲ ؎ کی طرح مثال خیال کرو اور اس کی مختلف شاخوں کو انسان کے مختلف قویٰ ۔انسان اس بات پر مجبور ہے کہ مختلف اوقات پر مختلف قویٰ سے کام لیوے کیونکہ اس کی فطرت میں اس کی پیدائش کے وقت سے ایسا ہی رکھا گیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک انسا ن کو ایک وقت ایک اور بر محل غضب ہوتو اس کی جگہ حلم کرکرے اور ہمیشہ ایک قوت سے کام لے دوسرے قویٰ کے ظہور کا موقعہ ہی نہ آوے ۔اگر ایسا ہی خداتعالیٰ نے کرنا تھا تو اتنے مختلف قویٰ کیوں انسان کو دیئے؟ صرف ایک عضو اور حلم ہی دیتا ۔باقی قویٰ سے جب کام لینا ہی گُناہ تھا تو وہ کیوں عطا کئے ؟نہیں ایسا نہیں۔بلکہ اسنان کی انسانیت اور اخلاق فاضلہ ہی اسی میں ہیں کہ محل اور موقعہ کے مطابق اپنے قویٰ کا اظہا ر کرے ۔ورنہ اس میں اور حیوانوں میں مابہ الامتیاز کیا ہوا؟
ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اُن سے ایک دو مرتبہ عفو اور در گذر کیا جاوے اور نیک سلوک کیا جاوے تو اطاعت میں ترقی کرتے اور اپنے فرائض کو پوری طرح سے ادا کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض شرارت میں اَور بھی زیادہ ترقی کرتے اور احکام کی پرواہ نہ کرکے ان کو توڑدینے کی طرف دوڑتے ہیں ۔اب اگر ایک خدمت گار کو جو نہایت شریف الطبع آدمی ہے اور اتفاقاً اس سے ایک غلطی ہوگئی ہے اُسے اُٹھ کر مارنے اور پیٹنے لگ جائیں توکیا وہ کام دے سکے گا ؟نہیںبلکہ اس سے تو عفو اور درگذر کرنا ہی اس کے واسطے مفید اور اس کی اصلاح کا موجب ہے مگر ایک شریر کو جس کا بارہا تجربہ ہوگیا ہے کہ وہ عفو سے نہیں سمجھتا بلکہ اَور بھی شرارت میں قدم آگے رکھتا ہے تو اس کو ضرور سزا دینی پڑے گی اور اسکے واسطے مناسب یہی ہے کہ اُسے سزا دی جاوے ۔
مگر قرآن شریف اس کے مقابلے میں کیا تعلیم دیتا ہے۔فرماتا ہے
جزو سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ (الشوریٰ :۴۱)
یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی معاف کردے اور اس عفو میں اصلاح مدِّ نظر ہو بگاڑ نہ ہو تو ایسے شخص کو اجر ملے گا ۔دیکھو قرآن شریف نے انجیل کی طرح ایک پہلو پر زور نہیں دیا بلکہ محل اور موقعہ کے موافق عفو یا سزا کی کاروائی کرنے کاحکم دیا ہے ۔ عفو غیر محل نہ ہو ۔ایسا عفو نہ ہوکہ اس کی وجہ سے کسی مجرم کو زیادہ جرأت ہو اور دلیری بڑھ جاوے اور وہ اَور بھی گناہ اور شرارت میں ترقی کرتے ۔غرض دونوں پہلوئوں کو مدِّ نظر رکھا ہے۔اگر عفو سے اس کی عادتِ بد جاتی رہے تو عفو کی تعلیم ہے اَور اگر اصلاح سزا میں ہوتو سزا ۱ ؎ دینی چاہیئے اَور پھر اگر قرآن شریف کی اور باقی تعلیموں کو بھی زمانہ کے ساتھ مطابق کرنا چاہیں تو اور کوئی تعلیم اس کا مقابلہ نہ کرسکے گی ۔


مسیح موعودؑ کے دعاوی کا انحصار نشانات پر ہوگا
فرمایا:۔
قرآن شریف نے جو فرمایا
اخرجنا لھم وابۃ من الارض تکلمھم ان الناس کانو با یا تنا لا یو قنون (النمل:۸۳)
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ مسیح موعود ؑ جس کے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دارومدار نشانات پر ہوگا اور خدا تعالیٰ نے اسے بھی بہت سے نشانات عطا فرمارکھے ہوں گے کیونکہ یہ جو فرمایا کہ
ان الناس کانو با یتنا لا یوقنون
یعنی اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے نشانات کچھ بھی پرواہ نہ کی اور ان کو نہ مانا اس واسطے ان کویہ سزا ملی۔ان نشانات سے مراد صرف مسیح موعود کے نشانات ہیں ورنہ یہ امر تو ٹھیک نہیں کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا عمرو کو ملے جو اس سے تیرہ سوسال بعد آیا ہے ۔آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اگر لوگوں نے نشانات دیکھے اور ان سے انکار کیا تو اس انکار کی سزا تو ان کو اسی وقت مِل گئی اور وہ تباہ اور برباد ہوگئے اگر آیت سے وہی نشانات مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کے ہاتھ سے ظاہر ہوئے تھے تو کون کون سے نشانات ظاہر ہوئے تو ہزاروں میں سے شاید کوئی ہی ایسا نکلے جس کو اس طرح پر آپ کے نشانات کا علم ہو ورنہ عام طور سے اب مسلمانوں کو خبر تک بھی نہیں کہ نشانات کیا تھے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی تائید میں ان کو ظاہر فرمایا مگر کیا اس لاعلمی سے کوئی کہہ سکتا کہ وہ لوگ سارے کے سارے ان نشانات سے منکر ہیں ۔اور ان کو وہ نہیں مانتے ۔حالانکہ وہ مومن بھی ہیں ۔اگر ان کو علم ہو تو وہ مانے بیٹھے ہیں اُن کو کوئی انکار نہیں ۔ان لوگوں کے متعلق تو ہم آنحضرت ﷺ کو آپ کی نبوت کی تفاصیل سمیت مان لیا ہوا ہے وہ انکار کیسے کر سکتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر وہ نشانات اب حجت نہیں کیونکہ انہوں نے وہ دیکھے ہی نہیں تو انکار کی وجہ سے ہلاک کیسے ہوسکتے ہیں ؟
پس معلوم ہوا کہ ان نشانات سے مراد مسیح موعودؑ ہی کے نشانات ہیں جن کا انکار کرنے کی وجہ سے عذاب کی تنبیہ ہے اور خدا تعالیٰ کا غضب ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مسیح موعود کے نشانات سے انکار کیا ہے اور یہ خدا ئی فیصلہ ہے جس کو رد نہیں کیا جاسکتا یہ نصِّ صریح ہے اس بات پر کہ طاعون مسیح موعود ؑ کے انکار کی وجہ سے آئی ہے ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۵ صفحہ ۳مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۱۸ اپریل ۱۹۰۳ء؁
(بوقتِ سیر)
حضور کا دعویٰ
نووارد مہمانوں میں سے ایک نے سوال کیا کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ فرمایا:۔
ہمارا دعویٰ مسیح موعودؑ کا ہے جس کے کل عیسائی اور مسلمان منتظر ہیں اور وہ مَیں ہوں پھر پوچھا کہ اس کے دلائل کیا ہیں ؟فرمایا :۔
اب وقت تھوڑا ہے ۔سوال تو انسان چند منٹوں میں کر لیتا ہے مگر بعض اوقات جواب کے لیے چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں ۔جب تک ہر ایک پہلو سے نہ سمجھا جاوے تو بات سمجھ نہیں آیا کرتی اس لیے آپ کتابیں دیکھیں یا پھر کافی وقت ہوتو بیان کر دیئے جاویں گے۔
خاتم النبیین کی تشریح
دوسرے صاحب نے سوال کیا کہ خاتم النبیین کی شرح کیا ہے ؟
اس کے جواب میں حضرت اقدس نے اپنا وہی مذہب بیان کیا جو ۱۵ اپریل کی ڈائری میں آچکا ہے ۔نیز فرمایا:۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران:۳۲)
جو جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے کلام بغیر نہیں رہ سکتا ۔اسی طرح خدا تعالیٰ جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے بلا مکالمہ نہیں رہتا ۔آنحضرت ﷺکی اتباع سے جب انسان کو خدا پیار کرنے لگتا ہے تو اس سے کلام بھی کرتا ہے ۔غیب کی خبریں اس پر ظاہر کرتا ہے ۔اسی کانام نبوت ہے۔
مجلس قبل از عشاء
معرفت کی راہ
فرمایا:۔
خدا تعالیٰ کی معرفت کی راہ بہت باریک اور تنگ ہے ۔اس لیے اس کا مشاہدہ انسان پر مشکل ہے ۔ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔اور اسی لیے انسان اس پر مائل ہوجاتا ہے مگر تاہم ایک حصّہ امراض کا انسان کو ایسا لگا ہوا ہے کہ طبیب ہاتھ ملتے ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ پیش نہیں جاتی ۔
کیا دینداری اختیار کرنے سے مصیبت آتی ہَے ؟
بعض دنیا دار اعتراض کرتے ہیں کہ دینداری اختیار کی تو مصیبت آئی ۔مگر وہ بہت جھوٹے ہوتے ہیں ۔دیندارپر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے ثواب اور معرفت کا موجب ہوتی ہے اور دنیا دا رپر جو مصیبت آتی ہے وہ اس کی *** کا موجب بن جاتی ہے ۔آنحضرت ﷺ پر مصیبت پڑی مگر کیا ہی پیاری مصیبت تھی کہ جیسے جیسے وہ بڑھتی جاتی ویسے ہی زور سے قرآن نازل ہوتا جاتا ۔وہ دَور گو جلدی ختم ہوگیا یعنی صرف حضرت معاویہ تک ہی رہا ۔مگر نہ وہ رہے نہ یہ ۔ہاں سعید گروہ کے آثار قیامت تک رہے اور شقی کا نام بھی ندارد ۔کاش کہ ابو جہل کبھی زندہ ہوکر آتا تو دیکھتا کہ جس کو وہ حقیر اور ذلیل خیال کرتا تھا خدا تعالیٰ نے اس کی کیا شان بنائی ہے ۔مشرق اور مغرب تک کہاں کہاں بلاد اسلامیہ پھیلے ۔
آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جو صحابہ ؓ فوت ہوئے انہوں نے تو وہ ترقیات نہ دیکھیں مگر جنہوں نے حضرت عمر ؓ کا زمانہ پایا انہوں نے دیکھ لیں ۔اگر ابوجہل وغیرہ کو معلوم ہوتا کہ عروج ہوگا تو مثل غلاموں کے آنحضرتﷺ کے ساتھ ہوجاتے ۔ (البدر جلد ۲ نمبر۱۵ صفحہ۱۱۴مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء؁)
۲۰ اپریل ۱۹۰۳ء؁
(صبح کی سیر)
حُبابِ ہستی
فرمایا:۔
مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ باوجود اس ودر بے بنیاد ہستی کے انسان دنیا میں بنیادیں قائم کرتا ہے صرف ایک دم کی آمدو شد ہے اَور کچھ بھی نہیں ۔پھر یہ سلسلہ خداتعالیٰ نے کیسا رکھا ہے کہ جو شخص یہاں سے رخصت ہوجاوے اس کو اجازت نہیں کہ واپس آکر وہاں کی خبر ہی بتلا جاوے ۔اس سے حکماء اور فلاسفر اور دانایانِ زمان سب عاجز ہیں ہاں اسی قدر پتہ ملتا ہے جو خدا کی کلام نے بتایاہے۔
آدمی جو مرتا ہے اکثر اپنے بڑے بڑے تعلقات اور عزیز اور پیارے رشتہ دار چھوڑ جاتا ہے مگر معاً انتقال کے بعد ان سے کچھ تعلق نہیں رہتا ۔آجکل یورپ کو ہر ایک بات کی تلاش ہے ۔چناچہ امریکہ میں ایک شخص سے معاہدہ ہوا (جو واجب القتل تھا)کہ جب اس کاسر کاٹا جاوے تواس کو بہت بلند آواز سے پکارا جاوے تو مَیں آنکھ سے اشارہ کریگا ۔چناچہ جب سر کاٹا گیا تو بڑے زور سے آوازیں دی گئیں مگر کچھ حرکت نہ ہوئی ۔سچ ہے
آنرا کہ خبر شد خبرش باز نیامد
جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہی سچ ہے ہاں موت اور نیند کو آپس میں مشابہت ہے ۔
احیا ء موتیٰ
احیا موتیٰ کے بارے میں سوال ہونے پر فرمایا کہ :۔
اس میں ہمارا عقیدہ نہیں کہ اعجازی طور پر بھی احیاء موتیٰ نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ ہے کہ وہ شخص دوبارہ دنیا کی طرف رجوع نہیں کرتا ۔مبارک احمد کی حیات اعجازی ہے ۔اس میں کوئی بحث نہیں کہ جس شخص کی باقاعدہ طور پر فرشتہ جان قبض کر لے اور زمین میں بھی دفن کیا جاوے وہ پھر کبھی زندہ نہیں ہوتا ۔شیخ سعدی نے خوب کہا ہے ۔ ؎
واہ کہ گر مردہ باز گر دیدے درمیاں قبلہ و پیوند
ردّ میراث سخت تر بُودے وارثا ںراز مرگ خویشادند
خدا تعالیٰ نے بھی فرمایا
فیمسک التی قضی علیھا الموت (الزم :۴۳)
حقیقتِ کشف
کشف کیا ہے اسی بیداری کے ساتھ کسی اور عالم کا تذاخل ہو جاتا ہے ۔اس میں حواس کے معطل ہو نے کی ضرورت نہیں ۔دُنیا کی بیداری بھی ہو تی ہے اورا یک عالمِ غیبو بیّت بھی ہو تا ہے یعنی حالت بیداری ہو تی ہے اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے ہیں ۔
قتلِ انبیاء
قتلِ انبیاء پر سوال ہونے پر فر مایا :۔
تورت میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاوے گا ۔اس کا یہ فیصلہ یہ ہے اگر قرآن کی نصِ صریح سے پایا جاوے یا حدیث کے تواتر سے ثابت ہو کہ نبی قتل ہوتے رہے ہیں تو پھر ہم کو اس سے انکار نہیں کر نا پڑے گا ۔بہرل حال یہ کچھ ایسی بات نہیں کہ نبی کی شان میں خلل انداز ہو کیونکہ قتل بھی شہادت ہو تی ہے مگر ہاں ناکام قتل ہو جانا انبیاء کی علامات میں سے نہیں ۔
یہ مصالح پر موقوف ہے کہ ایک شخص کے قتل سے فتنہ بر پا ہو تا ہے تو مصلحتِ الہیٰ نہیں چاہتی کہ اس کو قتل کراکر فتنہ بر پا کیا جاوے ۔ جس کے قتل سے ایسا اندیشہ نہ ہو اس میں حرج نہیں
حد یث قر آن سے باہر نہیں
پھر فرمایا کہ:۔
جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے وہی کچھ حدیث میں ہے۔ہاں بعض ۱؎ باتوں کا استنباط ایسا اعلیٰ حدیثوں نے کیا ہے کہ دوسرے گو اس کو سمجھ نہیں سکتے ورنہ حدیث قرآن سے باہر نہیں۔
خدا تعالیٰ نے قرآن کانام رکھا ہے مُفَصَّلاً۔ اس پر ایمان ہونا چاہیئے بعض تفاسیر سوائے انبیاء کے اَور کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔پھر اس طرح حدیث میں قرآن سے زائد کچھ نہیں۔
(الحکم جلد ۷نمبر ۱۵ صفحہ ۱۲ مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۰۷ء؁)
متقی ہر وقت تیا ر رہتا ہے
ہر رات حاملہ عورت کی طرح ہو تی ہے جیسے وہاں معلوم نہیں کہ کیا پیدا ہو نہیں معلوم صبح کو کیا نتیجہ پیدا ہو ۔اس لیے متقی اپنے اوقات کو ضائع نہیں کر تا بلکہ وہ ہر وقت ریار رہتا ہے یہ جان کر کہ معلوم نہیں کس وقت آواز پڑ جا وے ۔
نبوتِ مسیح موعود
نبوت کا لفظ ہمارے الہا ما ت میں دوشرطیں رکھتا ہے اول یہ کہ اس کے ساتھ شریعت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ ابو سطہ آنحضرتﷺ ۔
ملا ئکہ کا وجود
جو لوگ ملا ئک سے انکا ر کر تے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ان کو اتنا معلو م نہیں کہ دراصل جس قدر اشیا ء دنیا میں مو جو د ہیں ذرہ ذرہ پر ملا ئکہ کا اطلا ق ہو تا ہیے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ بغیراس کے اذن کے کو ئی چیز اپنا اثر نہیں کر سکتی یہا نتک کہ پا نی کا ایک قطر ہ بھی اندر نہیں جا سکتا اور نہ وہ مو ثر ہو سکتا ہے
وان من شیء الا یسبح بحمدہ (نبی اسرائیل:۴۵)
کے یہی معنے ہیں اور
رب کل شیئی خا دمک
کے بھی یہی معنے ہیں یہی اسلام اور ایمان ہے اس کے سوا بد بودار چیز ہے ۔
موت
موت کا مضمون بہت ہی مو ثر مضمون ہے اگر یہ انسان کے اندر چلا جا وے تو انسان بد یوں سے بچنے کی بہت کو شش کر ے ۔ابراہیم اَدہم اور شاہ شجاع جیسے بادشاہوں پر اسی مضمون نے اثر کیا تھا جو سلطنتیں چھوڑ کر فقیر ہو گئے ۔
خلق اور امر
جو چیز غلل اور اسباب سے پیدا ہو تی ہے وہ خلق ہے اور جو محض کن سے ہو وہ امر ہے چنا نچہ فر ما یا
انما امر ہ اذاراد شیئا ان یقول لہ کن فیلون(لیسؔ:۸۳)
عالم ِ امر میں کبھی تو قف نہیں ہو تا خلق سلسلہ علل ومعلول کا محتاج ہے جیسے انسان کا بچہ پیدا ہو نے کے لیے نطفہ کا محتاج ہو پھر دوسرے مراتب اور طباتب کے قواعد کے نیچے ہو تا ہے مگر امر میں یہ نہیں ہو تا ہے ۔
(الحکم جلد ۷نمبر ۱۵ صفحہ ۱۲ مورخہ۷ ا؍اپریل ۱۹۰۳ء؁)
۲۱؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
(بوقت ِسیرَ)
وحی والہام کشف
فر ما یا کہ :۔
جب سماع ۱؎ کے ذریعہ سے کو ئی خبر دی جا تی ہے تواس وحی کہتے ہیں اور جب رویت کے ذرہعی سے کچھ بتلا یا جاوے تواسے کشف کہتے ہیں اسی طرح مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا امر ظا ہر ہو تا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت ِشا مہ سے ہو تا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسفؑ کی نسبت حضرت یعقوبؑ کو خوشبو آئی تھی ۔
انی لا جد ریح یوسف لولا ان تفند ون(یوسف:۹۵)
اور کبھی ایک امر ایسا ہو تا ہے کہ جسم اسے محسوس کر تا ہے گو یا کہ حواس ِخمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی با تیں اظہار کرتا ہے ۱؎
دہر یت
ہندوستان اور یورپ کی دہر یت میں فرق ہے ۔یورپ کے دہریہ اس خدا کے منکر ہیں جو مصنوعی ہے اور عیسائی وہاں اس کو دہریہ کہتے ہیں جوکہ مسیح کو خدا نہ مانے اور اب فسق و فجور نے بھی اثر ڈالا ہے ۔لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ سب اثر کفّار پرستی کا ہے ۔تو اب وہ کیسے مانیں۔
قضاء عمری
ایک صاحب نے سوال کیاکہ یہ قضاء عمری کیا شئے ہے جو کہ لوگ (عید الاضحی )کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں فرمایاکہ:۔
میرے نزدیک یہ سب فضول باتیں ہیں ۔ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت میں نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں ۔اس کی شکایت حضرت علی ؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ مَیں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا
ارایت الذی ینھی عبدا اذا صلی (العلق :۱۰ ،۱۱)
یعنی تونے دیکھا اس شخص کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔نماز جورہ جائے اس کا تدارک نہیں ہو سکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے۔
اور جو شخص عمداًسال بھر اس لیے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضاء عمری والے دن ادا کرلونگا تو وہ گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کرونگا تو اس کے لیے حرج نہیں۔۱؎ہم تو اس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں۔
نماز کے بعد دُعا
سوال ہوا کہ نماز کے بعد دُعا کرنا سنت اسلام میں ہے یا نہیں؟فرمایا ہم انکار نہیں کرتے۔آنحضرت ﷺ نے دعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اتارتے ہیں۔پھر دعائوں میں اس کے بعد اس قدر خشوع خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دومیل تک نکل جاوے۔بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے۔خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دعا مانگتے ہیں۔اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں۔انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعائوں کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے۔
سُنّت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق
جب اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے تو سنتِ صحیحہ کیسے معلوم ہو؟اس کے جواب میں فرمایا کہ:۔
قرآن شریف،احادیث اور ایک قوم کے تقویٰ طہارت اور سنت کو جب ملایا جاوے تو پھر پتہ لگ جاتا ہے کہ اصل سنت کیا ہے۔
نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری ہیَ
مولانا محمد احسن صاحب نے فرمایا کہ
ولا تقربو االصلوٰۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون (النساء :۴۴)
سے ثابت ہے کہ انسان کو اپنے قول کا علم ضروری ہے۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
جن لوگوں کو ساری عمر میں
تعلموا
نصیب نہ ہو ان کی نماز ہی کیا ہے۔
مزکیّ کی ضرورت
ایک عورت کا ذکرکرتے ہیں کہ نماز پڑھا کرتی تھی۔ایک دن اس نے پوچھا کہ درود میں
صل علیٰ محمد
آتا ہے اس کے کیا معنے ہیں۔خاوند نے کہا۔محمد ﷺہمارے رسول تھے اس پر اس نے تعجب کیا اور کہا کہ ہائے ہائے مَیں ساری عمر بیگانہ مرد کا نام لیتی رہی(یہ حالت آج کل اسلام اور مسلمانوں کی ہے اور پھر اس پر کہا جاتا ہے کہ ایک مزکیّ انسان کی ضرورت نہیں ہے)
قرآن کا صرف ترجمہ کافی ہے کہ نہیں
فرمایا۔ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کو صرف ترجمہ پڑھا جاوے۔اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میںنہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ وہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں۔
ایک شخص نے کہا کہ حضور حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی سمجھا گیا ہے فرمایا کہ:۔
اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر ان کی خطا ہے۔
صدقہ اور ہدیہ میں فرق
صدقہ میں ردبلا ہوتی ہے اور یہ صدق سے نکلا ہے کیونکہ اس کے عملدرآمد میں انسان کو صدق وصفا دکھلاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہدیہ ہدایت سے نکلا ہے کہ آپس میں محبت بڑھے۔
بعد وفات میّت کو کیا شئے پہنچتی ہیَ
فرمایا کہ :۔دعا کا اثر ثابت ہے ایک روایت ہیں ہے کہ اگر میّت کی طرف سے حج کیا جاوے تو قبول ہوتا ہے اور روزہ کا بھی ذکر ہے۔
ایک شخص نے عرض کی کہ حضور یہ جو ہے
لیس للانسان الا ماسعی (النجم:۴۰)
فرمایا کہ:۔اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ بھائی کے حق میں دعا نہ قبول ہو تو پھر سورہ فاتحہ میں
اھد نا کی بجائے اھدنی ہوتا۔
مجلس قبل از عشاء
ایک شخص کی موت کا ذکر ہوا۔اس باعث بیان ہوا کہ فلاں مرض اور اسباب تھے۔فرمایا کہ:۔
جب انسان یہیں آکر ٹھہر جاوے کہ فلاں باعث موت کا ہے اور آگے نہ چلے تو ایسی باتیں معرفت کی روک ہیں اوراس سے نظر اسباب تک ہی رہتی ہے۔
لولا الا کرام لھلک المقام
فر ما یا :۔
جب طا عون کی آگ بھڑک رہی ہے تو اب کو ئی سو چے کہ ایک مفتر ی کہہ سکتا ہے
لولا الا کرام لھلک المقام
کیا ممکن نہ تھا کہ وہ خوف ہی مر جا وے اور طا عون کا شکا ر ہو اس وقت قادیان مثلِ مکہ ہے کہ اس کے اردگر دلوگ ہلا ک ہو رہے ہیں اور یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے با لکل امن ہے مکہ کی نسبت بھی ہے
یتخطف النا س من حولھم(العنکبوت :۶۸)
کہ لوگ اس کے گرد ونواح سے اچک لیے جا ویں گے
لولا الا کرام
سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیی اس سر زمین سے راضی نہیں ہے اور مجھے یہ بھی الہام ہوا ہے
ماکان اللہ لیعذ بھم وانت فیھم۔
قنوت
آج کل چو نکہ وبا کا زور ہے اس لیے نمازوں میں قنوت پڑ ھنا چا ہیئے ۔
(البدر جلد۲ نمبر۱۵صفحہ ۱۱۴۔۱۱۵مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء؁)
۲۲؍ اپریل ۱۹۰۳؁ء
(بوقت ِسیر)
گو شت خوری
آریوں کے مسئلہ گو شت خوری پر ذکر چلا فر ما یا کہ :۔
انسانی زند گی کے واسطے دوسری اشیا ء کی ہلا کت لا زمی پڑ ی ہو ئی ہے ۔مثلاً دیکھو ریشم جب ہی حاصل ہو تا ہے جب رشیم کے کیڑے مر یں پھر شہد کی مکھی کب چا ہتی ہے کہ اس کا شہد لیا جا وے اکثر جو نکیں خون پی کر مر جا تی ہیں پھر ہوا میں کیڑے ہیں سانس سے مر تے ہیں جب یکجا ئی نظر سے خدا ئی کے کل دائرے کو دیکھا جا وے تو پھر سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں سلسلہ آکل اور ما کول کا برابر جا ری ہے اور اس کے بغیر دنیا رہ ہی نہیں سکتی کہ بعض کی جان لی جا وے ورنہ اس طرح تو پھر کدودانہ وغیرہ کیڑے جو پیٹ میں پیدا ہو تے ہیں ان کو بھی نہ ما رنا چا ہیئے ۔
ایک شخص نے کہا کہ حضور آریہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جوانسان کی طاقت سے با ہر امر ہے۔
اس میں اس پر الزام نہیں ۔فر ما یا کہ :۔
طا قت سے با ہر تو وہ کہا جا وے گا جس کا تعلق انسانی زند گی سے نہ ہو اور جو اس کے اندر ہے وہ سب طاقت میں ہو گا خدا تعالیٰ کا ہی یہ منشا ء ہے کہ انا نی حفاظت کے واسطے بہت جا نوں کو لیا جا وے پھر فطرت انسانی میں بعض قویٰ ایسے ہیں کہ اگر گوشت نہ کھا یا جا وے۔ توان کا نشوونما ہو ہی نہیں سکتا شجاعت پیدا ہی نہیں ہو تی اس لیے سکھ وغیرہ اقوام جو گوشت خورہیں وہ نسبتاً شجاعت بہت زیادہ رکھتے ہیں ۔
اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ بنگالی گو شت خور ہیں مگر وہ ایسے بہادر نہیں ہو تے ۔فر ما یا :۔
ایسی حالتوں میں قوموں کی مجموعی حالت کو دیکھا کر تے ہیں کہ کس قدر اقوام گو شت خور ہیں اور کسقدر نہیں پھر مقابلتہ دیکھا جا وے کہ کو نسی اقوام شجاعت میں بڑ ھ کر ہیں ۔
مجلس قبل از عشاء
احمدیوں کی اقسام
فر ما یا ۔ ہمارے مر یدوں کے بھی کئی قسم کے طبقے ہیں ایک تو طا عونی ہیں جوطاعون سے ڈر کر اس سے بچنے کی نیت سے اب آرہے ہیں ۱؎ دوسرے قمری اور شمسی ہیں جو کہ قمر اور شمس کا گرہن دیکھ کر داخل بیعت ہو ئے ۔
کچھ خوابی ہیں کہ بذریعہ خواب کے ان کی راہنما ئی گئی ۲؎
بعض عقلی ہیں انہوں نے عقل سے کام لے کر بیعت کی ۔بعض نقلی ہیں کہ حدیث آثار وغیرہ دیگر امور کو پورے ہو تے دیکھ کر ایمان لا ئے اور ابھی شا ئدااَور بھی چند قسمیں ہوں۔
ہمارا نقارہ
اعداء کا وجود ہمارا نقارہ ہے یہ انہیں کی مہر با نی ہے کہ تنیلیغ کر تے رہتے ہیں مثنوی میں ایک ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک چور ایک مکان کو نقب لگا رہا تھا ایک شخص نے اوپر سے دیکھ کر کہا کہ کیا کرتا ہے چور نے کہا کہ نقارہ بجارہاہوں اس شخص نے کہا آواز تو نہیں آتی چور نے جواب دیا کہ اس نقارہ کی آواز صبح کو سنا ئی دیوے گی اور ہر ایک سنے گا ایسے ہی یہ لوگ شور مچا تے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو لوگوں کو خبر ہو تہ رہتی ہے۔
فلسفہ جدیدہ کا فائدہ
فلسفہ جدیدہ نے اگرچہ نصانا ت بھی پہنچائے ہیں مگر ایک صورت میں یہ مفید بھی ہواہیکہ بہت سی غیر معقول باتوں سے دلوں میں نفرت دلادی ہے مثلاًیہ فرقہ شیعہ کہ جن کی اصلاح کی کبھی امید نہ تھی مگر اس فلسفہ سے متاثر ہو کر وہ بھی راہ راست پر آتے جاتے ہیں۔
صلحاء واتقیاء سے محبت میںغلو نہ کیا جائے
ایک شخص کے سوال پر کہ کیا اولیاء اللہ سے محبت رکھی جاوے کہ نہ فرمایا:۔
ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ صلحاء ،اتقیاء اور ابرار سے محبت رکھی جاوے مگر حد سے گذر جانا حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ پر ان کو مقدم رکھنا یہ مناسب نہیں ہے جیسے کہ گذشتہ ایام میں بعض شیعہ کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی اس میں لکھا تھا کہ صرف امام حسین ؑکی شفاعت سے تمام انبیاء نے نجات پائی۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کی کسر شان ہے۔اس سے تو ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ نے غلطی کی کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن نازل کیا اور حسین ؑپر نہ کیا۔ ۲؎ (البدر جلد۷صفحہ۱۱۵مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء؁)
ازدیادِ ایمان
ایمان کی نعت یہی ہے کہ خدائی مصرتوں کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔جب وہ خدا تعالیٰ کی نصرتوں کو دیکھتا ہے تب اس کا ایمان بڑھتا ہے اور معرفت اور بصیرت کی آنکھ کھلنے لگتی ہے۔جب تک خدا تعالیٰ کی نصرتوں کی چمک نظر نہیں آتی۔اس وقت یہ حالت تذبذب میں رہتا ہے لیکن جب ان کی چمکار نظر آ جاتی ہے اس وقت سینہ کی غلاظتیںدور ہو جاتی ہیں اور اندر ایک صفائی اور نور نظر آتا ہے۔وہ حالت ہوتی ہے جب اس کے لیے کہا جاتا ہے
اتقو افرا سۃالمومن فانہ ینظر بنور اللہ۔
عابد کامل سے عبادت کا ساقط ہو جانا
اہل اللہ کہتے ہیں کہ انسان جب عابد کامل ہوجا تا ہے اس وقت اس کی ساری عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔پھر خود ہی اس جملہ کی شرح کرتے ہیں کہ اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز روزہ معاف ہو جا تا ہے نہین بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ تکالیف ساقط ہو جاتی ہیں یعنی عبادات کو وہ ایسے طور پر ادا کرتا ہے جیسے دونو وقت روٹی کھا تا ہے وہ تکالیف مدرک الحلاوت اور محسوس ا للذات ہو جاتی ہیں۔پس ایس حالت پیدا کرو کہ تمہاری تکالیف ساقط ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور نہیں سے بچنا فطرتی ہو جاوے۔جب انسان اس مقام پر پہنتا ہے تو گویا ملائکہ میں داخل ہو جا تا ہے جو
یفعلون ما یو مرون
کے مصداق ہیں۔
ثوابِ عبادت ضائع ہونے کا مطلب
سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف اور عابد ہو جا تا ہے تو اسکی عنادت کا ثواب ضائع ہو جا تا ہے۔پھر خود ہی اس کی تشریح کرتے ہیں کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ہر نیکی کا اجر نقد پا لیتے ہیں یعنی جب نفسِ امارہ بدل کر مطمئنہ ہو جاتا ہے تو وہ تو جنت میں پہنچ گیا۔جو کچھ پانا تھا پالیا۔اس لحاظ سے ثواب نہیں رہتا۔مگر بات اصل یہ ہے کہ ترقیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
عربی میں الہامات کی کثرت کی وجہ
آنحضرت ﷺ کی اِتباع کے سوا اگر ہم کسی اور راستہ پر چلتے تو ہماری کثرتِ الہام کسی دوسری زبان میں ہوتی۔مگرجب کہ اسی خدا ،اسی کی کتاب اور اسی نبی کے اتباع پر ہم چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہم کیوں عربی زبان میں مثل لانے کی تحّدی نہ کریں؟
حقیقی جنت
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہو ں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جا تا ہوں۔اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے۔خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور میرا ایمان تو یہ ہے کہ جنت ہو یا نہ ہو۔خدا تعالیٰ پر پورا یقین ہونا ہی جنت ہے ۔(الحکم جلد۷نمبر۱۶صفحہ ۵مورخہ۳۰؍اپریل۱۹۰۳ء؁)
۲۳ اپریل ۱۹۰۳ء ؁
دربارِ شام
مسیح کا مقامِ رُوح منہ
ایپی فینی میں کسی ہندو نے ایک مضمون شائع کردیا ہے کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح ؑکی نسبت روح اللہ کا لفظ آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب سے افضل ہیںاس پر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا کہ:۔
اللہ تعالیٰ کا مسیح ؑکو روح منہ فرمانے سے اصلی مطلب یہ ہے کہ تا ان تمام اعتراضات کا جواب دیا جاوے جو ان کی ولادت کے متعلق کئے جاتے ہیں۔یاد رکھو ولادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ولادت تو وہ ہوتی ہے کہ اس میں روح الیٰ کا جلوہ ہوتا ہے اور ایک وہ ہوتی ہے کہ اس میں شیطانی حصہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ
وشار کھم فی الاموال والاولا د(بنی اسرائیل:۶۵)
یہ شیطان کو خطاب ہے غرض خدا تعالیٰ نے روح منہ فرما کر یہودیوں کے اس اعتراض کو رد کیا ہے جو وہ نعوذباللہ حضرت مسیؑح کی ولادت کو ناجائز ٹھہرا تے تھے روح منہ کہہ کر صاف کردیا کہ ان کی ولادت پاک ہے۔
یہودی تو ایسے بیباک اور دلیر تھے کہ ان کے منہ پر بھی ان کی ولادت پر حملہ کرتے تھے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ وہ مس شیطان سے پاک ہیں۔اس میں بھی اس کی تصدیق ہے ورنہ تمام انبیاء اور صلحاء مس شیطان سے پاک ہوتے ہیں۔حضرت مسیؑح کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ان کی صراحت اس واسطے کی ہے کہ ان پر ایسے ایسے اعتراض ہوئے اور کسی نبی پر چونکہ اعتراض نہیں ہوئے اسلیئے ان کے لیے صراحت کی ضرورت بھی نہ پڑی دوسرے نبیوں یا آنحضرت ﷺکے متعلق ایسے الفاظ ہوتے تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہے کیونکہ اگر ایک مسلم و مقبول نیک آدمی کی نسبت کہا جاوے کہ وہ تو زانی نہیں یہ اس کی ایک رنگ میں ہتک ہے
آنحضرت ﷺکوتو خود اہل مکہ تسلیم کر چکے ہوئے تھے کہ مس شیطان سے پاک ہیں تب ہی تو آپ کا نا م انہوں نے امین اکھا ہوا تھا اور آپ نے ان پر تحّدی کی کہ
فقد لبثت فیکم عمرا(یونس:۱۷)
پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ کی نسبت بھی کہا جاتا۔یہ الفاظ حضرت مسیؑح کی عزت کو بڑھانے والے نہیں ہیں۔انکی برات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک کلنک کا بھی پتہ دے دیتے ہیں کہ ان پر الزام تھا۔
یاد رکھو کہ کلمہ اور روح کا لفظ عام ہے۔حضرت مسیؑح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں ہے۔
یومن باللہ وکلماتہ (الاعراف:۱۵۹)
اب اللہ تعالیٰ کے کلمات تو لا انتہا ہیں اور ایسا ہی صحابہ کی تعریف میں آیا ہے
اید ھم بروح منہ (امجادلۃ:۲۳)
پھرمسیؑح کی کیا خصوصیت رہی؟حضرت مسیؑح کی ماں کی نسبت جو صدیقہ کا لفظ آیا ہے یہ بھی دراصل رفع الزام ہی کے لیے آیا ہے یہودی جو معاذ اللہ ان کو فاسقہ فاجرہ ٹھہراتے تھے۔قرآن شریف نے صدیقہ کہہ کر ان کے الزاموں کو دور کیا ہے کہ وہ صدیقہ تھیں۔اس سے کوئی خصوصیت اور فخر ثابت نہیں ہوتا اور نہ عیسائی کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ان کو تو یہ امور پیش بھی نہیں کرنے چاہیئں ۔
(الحکم جلد۷نمبر۱۶صفحہ ۵مورخہ۳۰؍اپریل۱۹۰۳ء؁)
۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
ایک اعتراض کا جواب
کسی نے اعتراض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں کوئی احمدی طاعون سے فوت ہوتا ہے ؟فرمایا کہ :۔
یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ انجام کو نہیں دیکھتے۔آنحضرت ﷺ کے وقت جب ایک طرف کافر مرتے ہوں گے اور ایک طرف صحابہؓ بھی۔تو لوگ اعتراض تو کرتے ہوں گیکہ مرتے تو وہ بھی ہیں پھر فرق کیا؟اس لیے ہمیشہ انجام کو دیکھنا چاہئیے۔ایک وہ وقت تھا کہ آنحضرت ﷺ اکیلے تھے اور کوئی ساتھ نہ تھا ہر ایک مقابلہ کے لیے تیار ہوتا۔اب ہم ان کوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر طاعون سے ہمارے مرید مرتے جاتے ہیں تو پھر ہماری ترقی کیوں ہوتی جاتی ہے؟اور ان کی جمعت کیوں گھٹتی جاتی ہے؟
یہ اعتراض تو پھر سب پیغمبروں پر ہوگا اور ہم نے تو اسی لیے کشتی نوح میں لکھ دیا تھا کہ اگر عافیت کا پہلو نسبتاً ہماری طرف ہو تو ہم سچے اور موت تو سب کو آنی ہے۔اس سے کس کو انکار ہے۔طاعون کو جو ایک طرف شہادت اور ایک طرف عذاب کہا جاتا ہے۔اس کے یہی معنے ہیں کہ اسکے ذریعے سے جس فریق کے لیے برکات ظاہر ہورہے ہیں ان کے لیے تو شہادت اور رحمت ہے اور جن کے لیے برکات ظاہر نہ ہوں اور کمی ہوتی جاوے ان کے لیے عذاب ہے۔ہم کو اس سے دو فائدے ہیں اور ان کو دو نقصان ہیں اور پھر ہم بیس سال سے براہین میں یہ پیشگوئی عذاب کی شائع کرچکے ہیں۔خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ان کافروں کو جس طرح چاہے عذاب دیوے۔پھر جب ان لوگوں پر وہ عذاب ایک جنگ کے رنگ میں نازل ہوا تو کفار کے ساتھ صحابہؓ کیوں اس میں حصہ لیتے رہے؟یہ امر اس لیے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک پہلو اخفاء اور ایمان بالغیب کا بھی رہے۔
ہندوئوں کا بانگ دلوانا
آج کل طاعون کی کثرت کے وقت اکثر سکھوں اور ہندوئوں کے گائون میں یہ علاج کیا جاتا ہے کہ اذان نماز بڑے زور اور کثرت سے ہر ایک گھر میں دلائی جاتی ہے اس کی نسبت ایک شخص نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ فعل کیسا ہے؟فرمایا کہ:۔
اذان سراسر اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے ہمیں تو حضرت علیٰؓ کا جواب یاد آتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ مَیں اس
ارایت الذی ینھی عبدا اذا صلی (العلق :۱۰ ،۱۱)
کا مصداق ہونا نہیں چاہتا۔ہمارے نزدیک بانگ میں بڑی شوکت ہے اور اس کے دلوانے میں حرج نہیں (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے) (البدر جلد۲نمبر ۱۵صفحہ۱۱۶مورخہ یکم مئی۱۹۰۳ء؁)
۲۵؍ اپریل ۱۹۰۳ء؁
دربار شام
الہام
یا ارض ابلعی ما ء ک ویا سما ء اقلعی ۱؎
مولوی محمد حسین کے ذکر پر فرمایا ۲؎ کہ:۔
اصل میں اگر کوئی صاف دل اور بے تعصب ہو کر ہمارے دلائل سنے تو اس کو معلوم ہوجاوے کہ درحقیقت ہم حق پر ہیں۔ہمارا ان کا اختلاف ہی کیا ہے۔
وفات مسیح علیہ السلام
مسیحؑ کی حیات ممات کا بڑا مسئلہ ہے اور یہ ایسا صاف ہے کہ اس میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں پڑتی۔شروع سے یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور وفاتِ مسیحؑ اکثر اکا بران ملت کا مذہب ہے۔صحابہؓ کا یہی مذہب تھا۔
احیاء موتیٰ
رہا حضرت عیسیٰ کا احیاء موتیٰ۔اس میں روحانی احیاء نوتیٰ کے تو ہم بھی قائل ہیں۔اور ہم مانتے ہیں کہ روحانی طور پر مُردے زندہ ہوا کرتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ ایک شخص مر گیا اور پھر زندہ ہوگیا۔تو یہ قرآن شریف یا احادیث سے ثابت نہیںہے اور ایسا ماننے سے پھرقرآن شریف اور احادیث نبوی گویا ساری شریعت اسلام ہی کو ناقص ماننا پڑے گا کیونکہ رد الموتیٰ کے متعلق مسائل نہ قرآن شریف میں ہیں نہ حدیث نے کہیں ان کی صراحت کی ہے۔اور نہ فقہ میں کوئی بات اس کے متعلق ہے۔غرض کسی نے بھی اس کی تشریح نہیںکی۔اس طرح پر یہ مسئلہ بھی صاف ہے۔ ۱؎
خلق طیر
پھر ان کا جانور بنانا ہے سواس میں بھی ہم اس بات کے قائل ۲ ؎ ہیں کہ روحانی طور سے معجزہ کے طور پر درخت بھی ناچنے لگ جاوے تو ممکن ہے مگر یہ انہوں نے چڑیاں بنا دیں اور انڈے بچے دے دئیے اس کے ہم قائل نہیں ہیں اور نہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے۔ہم کیا کریں ہم اس طور پر ان باتوں کو مان ہی نہیں سکتے جس طرح پر ہمارے مخالف کہتے ہیں۔کیونکہ قرآن شریف صریح اس کے خلاف ہے اور وہ ہماری تائید میں کھڑا ہے اور دوسری طرف بار بار کثرت کے ساتھ ہمیں الہام الہیٰ کہتا ہے۔
قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مومنون۔قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مسلمون۔
اب ان الہامات کے بعد ہم اَور کس کی بات سنیں؟ اور وہ کون ہے جس کی آواز خدا تعالیٰ کی ان آوازوں کے بعد ہمارے دل کو لے سکے ؟مولوی محمد حسین صاحب نے تو خود لکھدیا ہے کہ اہل کشف اور ولی الہام کی رو سے احادیث کی صحت کر لیتے ہیں۔بعض احادیث ائمہ اہلِ حدیث کے نزدیک موضوع ہوتی ہیں اور اہل کشف بذریعہ کشف ان کو صحیح قرار دیتے ہیں۔اور وہ حق پر ہوتے ہیں۔ان وہ خود ہی بتائیں کہ ہم کیا کریں۔کیا یم خدا تعالیٰ کے الہام کو مانیں یا کسی دوسرے کے قیل وقال کو؟
براہین احمدیہ موجود ہے اور وہ دشمنوں دوستوں سب کے ہاتھ میں ہے اس میں اس وقت سے ۲۵ سال پہلے کی وہ پیشگوئیاں اور وعدے بھرے ہوئے ہیں جن کا اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا۔اور وہ اب بڑے زور شور سے اپنے سچے معنوں میں پوری ہو رہی ہیں کیا کوئی آدمی ایسی نظیر بتا سکتا ہے کہ کسی کاذب کو ایسے سامان ملے ہوں کہ پہلے اتنا عرصہ دراز اس نے پیشگوئیاں کی ہوں اور وہ پھر اسی طرح پوری ہوئی ہوں اور وہ کامیاب ہو گیا ہو۔ ۱؎ (الحکم جلد۷نمبر ۱۶صفحہ۸مورخہ ۳۰ ؍اپریل۱۹۰۳ء؁)
۲۶؍اپریل ۱۹۰۳ء؁
بوقت سیر
خدا تعالیٰ اور انبیاء کا علم مساوی نہیں ہوتا
فرمایا کہ:۔خدا کے علم کے ساتھ بشر کا علم مساوی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انبیاء سے اجتہاد میں غلطی واقع ہوتی رہی ہیں اور پھر جب خدا تعالیٰ نے اس پر اطلاع دی تو ان کو علم ہوا۔یہودیون کو مسیحؑ کے وقت یہی مغالطہ ہوا۔انہوں نے کہا کہاںدائود کی بادشاہت قائم ہوئی ۔
اور یہی دعویٰ آخر کار رخنہ کا موجب ہوا۔اگر پیغمبر پر ہر ایک تفصیل کھول دی جاتی تو پھر ہر ایک پیغمبر کو یہ علم ہوتا کہ میرے بعد فلاں پیغمبر آوے گا اور موسیٰ علیہ السلام کو علم ہوتا کہ میرے بعد آنحضرت ﷺ ہونگے حالانکہ ان کا یہی خیال ہوگا کہ آپ بنی اسرائیل سے ہوں گے۔اسی طرح آئندہ کے امور بعض وقت ایک نبی پر منکشف کئے جاتے ہیں مگر تفصیلی علم نہیں دیا جاتا۔پھر جب ان کا وہ وقت آتا ہے تو خود بخود حقیقت کھل جاتی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جو حکم ہو کر آئے تھے تو کیا آپ نے یہود کی کل باتیں تسلیم کرلی تھیں؟
مجلس قبل از عشاء
دینی غیرت
ایک مقام کے چند ایک احباب آریوں کے ایک ایسے جلسے میں گئے تھے جہاں آنحضرت ﷺ اور آپ کی پاک تعلیم پر نا جائز اور فحش سے بھر ے ہو ئے نا معقول حملے ہو رہے تھے اس پر حضرتاقدس نے نا راضگی کا اظہا کیا اور فر ما یا :۔
یہ لوگ ایسی محفلوں میں کیوں جا تے ہیں ؟اور جب ایسے ذکر اذ کا ر شروع ہوں تو کیوں نہیں اٹھ کر چکے آتے ؟
ہماری رائے میں ہمارے احباب کو یہ طریق اختیار کر نا چاہیئے کہ اپنی ہفتہ وار کمیٹی میں ایسی با توں کی تردید کیا کریں اور بذریعہ اشتہار ان تمام لوگوں کو مدعو کیا کریں جو کہ اعتراض کر تے ہیں یہ طریق نہایت امن اور عمد ہ تبلیغ حق کا ہے اور غیرت دینی کے بہت اقرب ہے ۔
نبوت کا اقرار اور انکار
اعتراض ۔ایک شخص کی طرف سے یہ سوال پیش ہواکہ مرزا صاحب اپنی تصنیفات میں کہیں نبوت کی نفی کرتے ہیں اور کہیں جواز۔
جواب۔ فر ما یا ۔ یہ اس کی غلطی ہے ہم اگر نبی کا لفظ اپنے متعلق استمعال کر تے ہیں تو ہم ہمیشہ وہ مفہوم لیتے ہیں جو کہ ختم ِنبوت کا مخل نہیں ہے اور جب اس کی نفی کرتے ہیں تووہ معنے مراد ہو تے ہیں جو ختم ِنبوت کے مخل ہیں ۔
نیوگ اور طلاق میں سے کو نساامر کا نشنس کے خلاف ہے
طلاق پر آریوں کے اعتراض سنکر فر ما یا کہ :۔
اگر طلاق ایسا امر ہو تا جوکہ نشنس کے خلاف ہے تو پھر دیگر اقوام بھی اسے بجانہ لا تیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کو ئی بھی ایسی قوم نہین ہے جو ضرورت کے وقت عورت کو طلاق نہ دتی ہو لیکن اگر نیوگ بھی ایسا ہی ہے تو آریوں کو چا ہیئے کہ اپنی قوم کے مغر ز اور برگزید ہ کئی سوممیر انتخاب کر یں کہ جن کی اولاد نہ ہو اور پھر وہ اپنی عورتوں سے نیوگ کراویںاور شائع کریں کہ فلاں فلاں صاحب اپنی عورت سے نیوگ کرواتے ہیں جب تک وہ یہ نمو نہ دکھلا ویں تب تک بحث فضول ہے اور جب وہ ایسا کر یں تو پھر ہم ان کو کچھ افسوس نہ ہو گا ہمارا اعتراض اس وقت تک ہے جب تک وہ عملی طور پر قوم میں نہیں دکھلا تے اسی طرح اگر وہ بالمقابل چا ہیں توہم اہل ِاسلام کے رؤساء اور مغرز لوگوں کی ایسی فہرست تیار کردیویں گے جنہوںنے معقول وجوہات پر اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے ۔
وجود طلاق
احمدی جماعت میں سے ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خد مت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے مرد کے بیان سے یہ بات پا ئی گئی کہ اگر اسے کو ئی سزاہی کیوں نہ دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکا یت کی تھی ان کا منشا ء تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہو تا ہے اس پر دوسرے کا مل اطلاع نہیں ہو تی بعض وقت ایسا بھی ہو تا ہے کہ کو ئی فحش عیب عورتوں میں نہیں ہو تا مگرتا ہم مزاجوں کی نا موافقت ہو تی ہے جو کہ با ہمی معاشرہ میں مخل ہو تی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے ۔
بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چو نکہ اس کی طرف سے کراہت ہو تی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہو نا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لیے ہم اہمیںدخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا ۔مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے ۔
(البدؔر جلد۲ نمبر۱۵صفحہ ۱۱۶۔۱۱۷یکم مئی ۱۹۰۳؁ء)
۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
بوقت ِسیر
ضروۃحَکم
جب مدت درازگذر جا تی ہے اور غلطیاں پڑجا تی ہیں تو خدا ایک حََکم مقر ر کر تا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے آنحضرت ﷺ حضرت مسیحؑ کے سات سو برس بعدآئے اسوقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودہویں صدی بھی ضرورت نہ پڑتی اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بذریعہ الہام قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں کا مسلم ہے تو پھر حکم کو کیوں اختیار نہیں ہے ؟ایک حدیث کیا اگر وہ ایک لاکھ حدیث بھی پیش کر یں توان کی پیش کب چل سکتی ہے ؟
العزۃللہ
مولوی محمدی حسین صاحب بٹالوی کے ذکر پر فر ما یا کہ:۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ہم ہی نے اونچا کیا تھا اور ہم ہی اسے نیچا گرادیں گے مگر ہم پو چھتے ہیں کہ انہوں نے چڑ ھا نے کے لیے کیا کو شش کی تھی ہم پر تو سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کاذرہ بھر بھی احسان نہیں ہاں اب گرانے کے لیے انہوں نے بہت کو شش کی اور جتنی اس نے کی اور کسی نے مطلق نہیں کی مگر خدا تعالیٰ کے آگے کس کی پیش چلتی ہے ۔
اس کے بعد مو لوی صاحب کی شہادت قتل کے مقدمہ ہیں اور وہاں کر سی وغیرہ ما نگنے کا ذکر ہو تا رہا اس پر حضرت نے فر ما یا کہ :۔
قلوب میں عظمت ڈالنا خدا کا کام ہے َ
علماء دین کے واسطے ظاہر ی بلندی چا ہنی عیب میں داخل ہے قلوب میں عظمت ڈالنی انسانی ہاتھ کا کام نہیں ہے یہ ایک کشش ہو تی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہو تی ہے ہم کیا کر رہے ہیں جو ہزارہا آدمی کھنچے چلے آتے ہیں یہ سب خدا تعالیٰ کی کشش ہے ان لوگوں کی علمیت اور حکمت دانا ئی ان کے کچھ کام نہ آئی مثنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص دولت مند تھا مگر بیچا رے کی عقل کم تھی وہ کہیں جا نے لگا تواس نے گدھے پر بورے میں ایک طرف جواہرڈالے اوروزن کو برابر کر نے کے واسطے ایک طرف اتنی ہی ریت ڈال دی آگے چلتے چلتے اسے ایک شخص دانشمند ملا مگر کپڑے پھٹے ہو ئے ،بھوک کا مارا ہوا سر پرپگڑی نہیں اس نے اس کو مشورہ دیا کہ تو نے ان جوارات کو نصف کیوں نہ دونو طرف ڈالا اب نا حق جانور کو تکلیف ہے دے رہا ہے اس نے جواب دیا کہ مَیں تیری عقل نہیں برتتا تیری عقل کے ساتھ نحوست ہے بلکہ میں تجھ بد بخت کا مشورہ بھی قبول نہیں کرتا ۔
فر وتنی
انسا ن کو چا ہیئے جب کہیں جاوے توسب سے نیچی جگہ اپنے لیے تجویز کرے اگر وہ کسی اَور جگہ کے لائق ہو گا تو میز بان خود اسے بلا کر جگہ دیگا اور اس کی عزت کر یگا۔
عوام الناس کی کم فہمی
جن لوگوں کے دل میں کجی ہووہ متشا بہات کی طرف جاتے ہیں جن لوگوں نے حضرت موسیٰؑ اورعیسیٰؑ اورآنحضرتﷺ کو قبول نہ کیا انہوں نے آیات ِمبینہ سے فا ئدہ نہیں اٹھا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک حبشی عورت سے نکا ح کیا تو لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اگر یہ منجانب اللہ ہوتا تو حبشن سے نکا ح نہ کرتا اس ذرہ سی بات پران کے تمام معجزات کو نظر انداز کر دیا ۔
مجلس قبل ازعشاء
معبِرکی رائے کااثر تعبیر پر نہیں پڑتا
ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خواب بیان کیا جاتا ہے تو یہ بات مشہور ہے کہ سب سے اول جو تعبیر معبِر کر ے وہی ہوا کرتی ہے۔ اور اسی بنا ء پر یہ کہا جاتا ہے۔ کہ کس وناکس کے سامنے خواب بیان نہ کرنا چا ہیئے فر ما یا :۔
جو خواب مبشر ہے اس کا نتیجہ انذار نہیں ہو سکتا اور جو منذر ہے وہ مبشر نہیں ہو سکتا اس لیے یہ بات غلط ہے کہ اگر مبشر کی تعبیر کو ئی معبِر منذر کی کرے تووہ منذر ہو جاوے گا اور منذر مبشر ہو جاوے گا ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کو ئی منذر خواب آوے توصدقہ وخیرات اور دعا سے وہ بلا ٹل جاتی ہے ۔
تفاؤل
کسی کے نام سے بطور تداؤل کے فال لینے پر سوال ہوا فر ما یا :۔
یہ اکثر جگہ صحیح نکلتا ہے آنحضرت ﷺ نے بھی تفاؤل سے کام لیا ہے ایک دفعہ مَیں گورداسپور مقدمہ پر جارہاتھا اور ایک شخص کو سزا ملنی تھی میرے دل میں خیال تھا کہ ادے سزا ہو گی یا نہیں ؟اتنے میں ایک لڑکا ایک بکری کے گلے میں رسی ڈال رہا تھا اس نے رسی کا حلقہ بنا کر بکری کے گلے میں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھنس گئی وہ پھنس گئی مَیں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لا کہ اسے سزا ضرور ہو گئی چنا نچہ ایسا ہی ہوا ۔
اسی طرح ایک دفعہ سیر کو جارہے تھے اور دل میں پگٹ کا خیال تھا کہ بڑا عظیم الشان مقابلہ ہے دیکھے کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص غیر از جماعت نے راستہ میں کہا السلام علیکم مَیں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہماری فتح ہو گئی ۔
طاعون کے متعلق ایک تازہ الہام
قلنا یا ارض ابلعی مائک ویا سمائاقلعی۔
اس الہام کے متعلق جہانتک میری رائے ہے وہ یہ ہے یہ عام شہروں اور دیہات کے متعلق نہیں اور نہ اس سے دوام منع ثابت ہو تا ہے غالباًیہی ہے کہ بعض دیہات اور شہروں میں جن کی نسبت خدا تعالیٰ کاارادہ ہے چند مہینوں تک طاعون بند رہے گی اور پھر جہاں خدا وندقدیر چا ہے پھر پھوٹ پڑے اور یہ بکلی بند نہیں ہو گی جبتک وہ ارادہ بکمال وتمام پورا نہ ہو جاوے جوآسمان پر قرار پایا ہے اور ضرور ہے کہ زمین اپنے مواد نکالتی رہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ اپنے کمال کو نہ پہنچے۔
مرزا غلام احمد
ایک الہام
جو مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۳؁ء کو شام کو بیان فر مایا :۔
رب انی مظلوم فانتصر
(البدر ؔجلد۲نمبر۱۵صفحہ ۱۱۷مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء؁)
۲۸؍اپر یل ۱۹۰۳؁ء
بوقت ظہر
مہندی اور وسمہ
مہندی اور وسمہ کی نسبت ذکر ہوا ۔حضور نے فر ما یا کہ:۔
اکثر اکا براس طرف گئے ہیں کہ وسمہ نہ لگا نا چا ہیئے یا مہندی لگا ئی جاوے یا وسمہ اور مہندی ملا کر۔
(البدر ؔجلد۲نمبر۱۶صفحہ ۱۲۱مورخہ ۸؍مئی۱۹۰۳ء؁)
۲۹؍اپریل ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
نا پائید ر زند گی
ایک شخص کی نئی ایجاد کا ذکر ہوا کہ اس کی ایجاد بہت مقبول ہو ئی ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ لکھو کھا روپیہ اب کما ویگا ۔فر ما یا کہ:۔دنیا چندروزہ ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت آوے گی اور ان کی نظر یہاں تک ہی محدو درہتی ہے لیکن اگر زند گی نہ ہو ئی تو کیا فائدہ ؟ لوگوں کا دستور ہے کہ ہر ایک پہلو پر نظر نہیں ڈالتے ۔
(البدر ؔجلد۲نمبر۱۶صفحہ ۱۲۱مورخہ ۸؍مئی۱۹۰۳ء؁)
۳۰؍اپر یل ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیر
ایک الہام
فر ما یا کہ :۔
مجھے الہام ہوا مگر اس کا آخری حصہ یاد ہے دوسرے الفاظ یاد نہیں رہے جو الفاظ یاد ہیں وہ یہ ہیں
فیہ خیر وبر کۃ
اس کا ترجمہ بھی بتلا یا گیا ’’ اس میں تمام دنیا کی بھلا ئی ہے ‘‘
حج نہ کر نے پر اعتراض کا جواب
مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ مراز صاحب حج کیو ں نہیں کرتے ۔فر ما یا :۔
کیا وہ یہ چا ہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے یہ یادرکھنا چا ہییے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کی نہیں ہو تی وہ خدا تعا لیٰ کی ہدا ہت اور رہمنا ئی سے ایک امر کو بجا لا تے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہرایک حکم کی تقدیم، وتا خیر الہیٰ ارادہ سے کرتے ہیں اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گو یا اس خدا کے حکم کی مخالفت کر نیوالے ٹھہرنیگے اور
من استطاع الیہ سبیلا(اٰل عمران :۹۸)
کے بارے میں کتا ب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے۔ کہ اگر نماز کے فوت ہو نے کا اندیشہ ہو تو ۔حج سا قط ہے حالا نکہ اب جو لوگ جا تے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہو تی ہیں مامورین کا اول فرض تبلیغ ہو تا ہے آنحضرت ﷺ ۱۳ سال مکہ میں رہے آپؐ نے کتنی دفعہ حج کیء تھے ؟ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا ۔
حضرت عیسؑی کی بے باپ پیدائش
سوال :۔ کیا قرآن میں کو ئی صریح آیت ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ مسیحؑ بلاباپ کے پیدا ا ہو ئے تھے ؟فر ما یا کہ:۔
جواب :۔ یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کوایک جاجمع کر نا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش خارق طریق سے ہے ۱؎ ویسے ہی مسیحعلیہ السلام کی بھی ہے پھر یحییٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کا حال کر کے مسیحؑ کی پیدا ئش کا حال بیان کیا ہے تر تیب قرآنی بھی بتلا ئی ہے کہ ادنی حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف تر قی کی ہے یعنی جسقدر معجزنما ئی کی قوت یحییٰ کی پیدا ئش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدا ئش میں ہے اگر اس میں کو ئی معجزانہ بات نہ تھی تو یحییٰ کی پیدا ئش کا ذکر کر کے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیڑدیا؟ اس سے کیا فائدہ تھا؟ اسی لیے کیا تا ویل کی گنجائش نہ رہے ان دونو بیانوں کو ایک جاذکر کر نا اعجازی امر کو ثابت کرتا ہے اگر یہ نہیں ہے تو گو یا قرآن تنزل پر آتا ہے جو کہ اس کی شان کے برخلاف ہے ۔
پھر اس کے علاوہ یہ بھی فر ما یا کہ
ان مثل عیسی عند اللہ کمثل ادم(الٰ عمران :۶۰)
اگر مسیحؑ بن باپ کے نہ تھا تو آدم سے مماثلت کیا ہو ئی ؟اور وہ کیا اعتراض مسیحؑ پر تھا جس کا یہ جواب دیا گیا؟
توار یخی بات یہ بھی ہے کہ یہود ٓپ کی پیدا ئش کو اسی لیے نا جائز قرار دتیے تھے کہ آپ کا باپ کو ئی نہ تھا اس پر خدا نے یہود کو جواب دیا کہ آدم بھی تو بلا باپ پیدا ہو ا تھا بلا ماں بھی بہ اعتبار واقعات کے جواعتراض ہوا کرتے ہیں ان سے جواب کو دیکھنا چا ہیئے اور اگر کو ئی اسے خلاف قانون قدرت قرار دیتا ہے تواول قانون قدرت کی حد بست دکھلا وے ۔ (البدر ؔجلد۲نمبر۱۶صفحہ ۱۲۱مورخہ ۸؍مئی۱۹۰۳ء؁)
یکم مئی۱۹۰۳ء؁
دربار شام
ایک رئو یا
فرمایا کہ:۔ایک رئو یا تھی تو وحشت ناک مگر اللہ نے ٹال ہی دیا۔دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ بیل کو میدان میں ذبح کریںگے۔ مگر عملی کاروائی نہ ہوئی۔ ذبح نہ ہو کہ جاگ آگئی۔
آنحضرت ﷺکی قبر میں مسیح موعودؑ کے دفن ہونے کا سرّ
رسول اللہ ﷺنے جو یہ فرمایا ہے کہ مسیح موعودؑ کی قبر میں ہو گی۔اس پر ہم نے سوچا کہ یہ کیا سر ہے تو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہر ایک قسم کی دُورکو دُور کرتا ہے اور اس سے اپنے اور مسیح موعود کے وجود میں ایک اتحاد کا ہونا ثابت کیا ہے اور ظاہر کردیا ہے کہ کوئی شخص باہر سے آنے والا نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کاآنا گویا آنحضرت ﷺ ہی کا آنا ہے جو بروزی رنگ رکھتا ہے۔اگر کوئی اور شخص آتا ہے تو اس دُوئی لازم آتیاور غیرت نبوی کے تقاضے کے خلاف ہوتا۔
بروز میں دُوئی نہیں ہوتی
اگر کو ئی غیرشخص آجاوے توغیرت ہو تی ہے لیکن جب وہ خود ہی آوے تو پھر غیرت کیسی ؟اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک شخص آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے اور پاس اس کی بیوی بھی موجودہ ہو تو کیا اس کی بیوی آئینہ والی تصویر کو دیکھ کر پردہ کر لگی اور اسکو یہ خیا ل ہو گا کہ کو ئی نا محرم شخص آگیا ہے اس لیے پردہ کر نا چاہیئے اور یا خاوند کو غیرت محسوس ہو گی کہ کو ئی اجنبی شخص گھر میں آگیا ہے اور میری بیوی سدامنے ہے نہیں بلکہ آئینہ میں انہیں خاوند بیوی کی شکلوں کا بروز ہو تا ہے اور کو ئی اس بروز کو غیر نہیں جا نتا اور نہ ان میں کسی قسم کی دوئی ہو تی ہے۔
یہی حالت مسیح موعود کی آمد کی ہے وہ کو ئی غیر نہیں اور نہ آنحضرتﷺ سے جدا ہے اور کسی وجہ سے آنحضرتﷺ کو اس کے آنے سے کو ئی غیرت دا منگیر نہیں ہو ئی بلکہ اس کو اپنے سا تھ ملا یا ہے اور یہی سرِہے آپ کے اس ارشاد میں کہ وہ میری قبر میں دفن کیا جاوے گا یہ امر غایت اتحاد کی طرف رہبر ی کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی اس قدر تعریف کر کے بھی جو قرآن شریف کی گئی ہے اور آپ کو خاتم الا نبیا ء ٹھہرا کر بھی کبھی اور آپ کے بعد نبوت کے تخت پر بٹھا دیتا تو آپ کی کسی قدر کسرِشان ہو تی اور اس سے نعوذباللہ یہ ثابت ہو تا کہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی ہی کمزور ہے کہ آپ سے ایک شخص بھی ایسا تیار نہ ہو سکا جو آپ کی امت کی اصلاح کر سکتا اس سے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی کسرِشان ہو تی بلکہ یہ امر جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے منا فی غیرت بھی ہو تا ہر شخص میں دنیا کے ادنیٰادنیٰ معاملات کے لیے غیرت ہو تی ہے تو کیا انبیا ء علیہم السلام میں جدا ئی تعلقات میں بھی غیرت نہیں؟ معاذاللہ اس قسم کے کلمات کفر کے کلمات ہیں آحضرت ﷺ نے فر ما یا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ ہو تے تو وہ بھی میری ہی اطاعت کر تے اس سے کیا مراد تھی؟ یہی کہ آپ کی نبوت کے زمانہ میں اَور کو ئی دوسرا نہیں آسکتا تھا ایسا ہی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آپ نے تورات کا ایک ورق دیکھا تو آنحضرت ﷺ کا چہرہ شرخ ہو گیا اس کی وجہ کیا تھی ؟یہی غیرت تھی جس سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے عمر ؓ کیا تو رسول اللہ ﷺ کے چہرہ کو نہیں دیکھتا یہ سنکر حضرت عمر ؓ نے وہ کا غذ اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور اس طرح پر غیرت ِنبوی کاادب کیا بھلا جب ایک چھوٹی سی بات کے لیے آپ کا چہرہ غیرت سے سرخ ہو گیا تھا تو کیا اگر وہی مسیحؑ جو نبی اسرائیل کا آخری رسول تھا اگر آپ کی امت کی اصلاح اور آپ کی ختم ِنبوت کی مہر کو توڑ نے کے واسطے آجاویگا تو آپ کو غیرت نہ آئے گی؟ ۱؎ اور کیا خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی اس قدر ہتک کر نی چا ہتا ہے ؟افسوس ہے یہ لوگ مسلمان کہلا کر اور آپ کا کلمہ پڑھ کر بھی آنحضرت ﷺ کی تو ہین کرتے ہیں اور آپ کو خاتم النبیین مان کر پھر آپ کی مہر کو توڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر بھی الزام لگا تے ہیں کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اس قدر تعریفوں کے بعد قرآن شریف میں آپ کی کی گئی ہیں آپ سے یہ سلوک کر ے معاذاللہ ۔
ایک غلو کا جواب
شیعہ لوگوں کے ذکر پر فر ما یا :۔
ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رحم آتا ہے اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایسی ہی شان اور عظمت تھی جو یہ بیان کرتے ہیںاورکل نبیوں کی نجات ان ہی کی شفا عت سے ہو ئی ہے تو پھر تعجب ہے کہ قرآن شریف میں آی کا نام ایک مر تبہ بھی اللہ تعالیٰ نے نہ لیا ۔زیدؓ جو ایک معمولی صحابی تھے ان کا نام تو قرآن شریف نے لے لیا مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کا جو ایسے جلیل القدر منحبی اور کل انبیا ء علیہم السلام کے شفیع تھے ان کا نام بھی قرآن شر یف نے نہ لیا کیا قرآن شریف کو بھی ان سے کچھ عداوت تھی ؟
اگر کو ئی یہ کہے کہ قرآن شریف میں تحریف ہو گئی ہے ۱؎ اور آپ کا نام بھی محرگف مبدل ہو گیا ہو گا تو یہ الزام بھی انہی کی گردن پر ہے کیو نکہ جن کی طرف یہ تحریف منسوب کی جا تی ہے ان کی وفات کے بعد جناب علی رضی اللہ عنہ تو زندہ تھے اور وہ اپنے وقت کے مقتد رخلیفہ تھے شیر خدا تھے جب ان کو یہ معلوم تھا کہ اس قرآن میں تحریف کی گئی ہے تو کیوں انہوں نے اس کو درست نہ کیا؟ ان کو چاہیئے تھا کہ اصل قرآن شریف کی اشاعت کرتے اوراس کو درست کر دیتے ،لیکن جبکہ انہوں نے بھی یہی قرآن رکھا اور اپنا صحیح اور درست قرآن شائع نہ کیا تو یہ الزام بھی ان کے اپنے ہی سررہا ان کا حق تھا اور ان پر فرض تھا کہ جب اصل قرآن شریف گم کر دیا گیا تھا تواس وقت تو بھلا وہ خوف کے مارے کچھ نہ کر سکتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد توان کو موقعہ تھا کہ لوگوں میں اس امر کا اعلان کر دیتے کہ اصل قرآن شریف یہ ہے اور جو تمہارے پاس ہے وہ محرف مبدل ہو گیا ہے مگر جب انہوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر یہ الزام ان ہر رہا ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۷ صفحہ ۱۳ مورخہ ۱۰ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
ھوشعنا
براہین میں یہ ایک الہام حضرت اقدس کا درج ہے یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں ’’نجات دے ‘‘ فر ما یا کہ :۔
یامسیح الخلق عدوانا
کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے
مامور کی اطاعت کا معیار
فر ما یا:۔
ایک مامور کی اطاعت اس طرح ہو نی چا ہییے کہ اگر ایک حکم کسی کو دیاجاوے تو خواہ اس کو مقابلہ پر دشمن کیسا ہی لا لچ اور طمع کیو ں نہ دیوے یا کسی ہی عجز ۔انکساری اور خوشا مد درآمد کیو ں نہ کرے مگر اس حکم پر ان با توں میں سے کسی کو بھی تر جیح نہ دینی چا ہیئے اور کبھی اس کی طرف التفات نہ کر نی چا ہیئے سیرت اور خصلت اس قسم کیچا ہیئے کہ جس سے دوسرے آدمی پر اثر پڑے اور وہ سمجھے کہ ان لوگوں میں واقعی طور پر اطاعت کی روح ہے صحابہ کرامؓ کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہ ملے گا کہ اگر کسی کو ایک دفعہ اشارہ بھی کیا گیا ہے تو پھر خواہ باسشا ہ وقت نے ہی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا یا مگر اس نے سوائے اس اشارہ کے اور کسی کی کچھ ما نی ہو ۔
اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہو تی ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چا ہیئے اور خدا تعالیٰ سے تو فیق طلب کر نی چا ہیئے کہ ہم سے کو ئی ایسی حر کت نہ ہو ۔
(البدرجلد ۲ نمبر ۱۷ صفحہ ،۱۲۳۱۲۲ مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۲ مئی ۱۹۰۳؁ء
بوقتِ سیر
مہر
مہر کے متعلق ایک شخص نے پو چھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہو نی چا ہیئے ؟فر ما یا کہ
تر اضی طرفین سے جو ہو اس پر کو ئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کو ئی اس کی حد مقر ر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لو گوں کے مر وجہ مہر سے ہوا کر تی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہو تی ہے اور محض نمونہ کے لیے لا کھ لا کھ رو پے کا مہر ہو تا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جا تا کرتاہے کہ مردقابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہو تی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی ۔
میر امذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنا زعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقر ر شدہ ہے تب تک مقررہ مہر نہ دلا یا جاوے اور اسکی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیو نکہ بد نیتی کی ابتاع نہ شریعت کر تی ہے اور نہ قانون
مولوی محمد حسین بٹالوی کے ریویوکا ذکر چلا جو کہ براہین پر لکھا ہے اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ
ہمیں اس کی حالت پر تعجب ہے کہ جس وقت ایک درخت کا ابھی تخم ہی زمین میں ڈالا گیا ہے اور کسی طرح کا نشوونما نہ پتہ نکلا ہے نہ پھل لگا ہے نہ کو ئی پھول تو اس معدومی کی حالت میں تو اس کی تعریف کی جا تی ہے کہ اس کی نظیر ۱۳ سا ل میں کہیں نہیں ملتی اور اب جب وہ درخت پگلا اور پھو لا اور نشوونما پائی تواس کے وجود سے انکار کیا جا تا ہے ابتدا میں ہمارے دعویٰ کی مثال رات کی تھی اس وقت تو شپر کی طرح اسے قبول اور پسند کیا اور اب جب دن چڑھا اور سورج کی طرح وہ چمکا تو آنکھ بند کر لی۔
جن ایام میں شناخت کے آثار نہ تھے اور اس وقت یہ امر مستور تھاتوریویو لکھے اور را ئے طاہر کی اب یہ وقت آیا تھا کہ وہ اپنے ریویو پر فخر کرتا کہ دیکھو جو با تیں مَیں نے اول کہی تھیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں اور میری اس فراست کے شواہد پیدا ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ اب وہ اپنی فراست کے خود ہی دشمن ہو گئے ہم نے کو نسی با ت نئی کی ہے جس حکم کے وہ لوگ منتظر ہیں بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے آکر ہر ایک رطب ویا بس کو قبول کر لینا ہے اور وہ وحی کی پیروی کر ے گا یاکہ ان مختلف مو لو یوں کی ؟ اس نے آکر انہی کی ساری با تیں قبول کر لنیی ہیں تو پھر اس کا وجود بہیودہ ہے ۔(البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ صفحہ ۱۲۳ مورخہ ۸ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
دربارِشام
دعا کے جواب میں ایک الہام
فر ما یا :۔
آج ہم نے عام طور پر بہت سے بیماروں کے لیے دعا کی تھی جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا’’آثار صحت‘‘ یہ نہیں معلوم کہ کس شخص کے متعلق ہے دعا عام تھی ۔
ہدایت مجاہدہ اور تقویٰ پر منحصر ہے
فرمایا کہ
جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی کے لیے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون
والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا
یعنی جو لوگ ہم میںسے ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں)کے موافق کود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل کو ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک وبدعت سے ملوث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ ہی کیا ہے جس پر نتائج ِ حسنہ مترتب نہ ہوں ۔جب تک انسان پاک دل اورصدق و خلوص سے تمام ناجائز رستوں اور اُمیدوں کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرکے خدا تعالیٰ ہی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا ۔اس وقت تک وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اورتائید اُسے ملے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دروازے پر گر تا اور اسی سے دُعا کرتا ہے تو اس کی یہ حالت جاذبِ نصرت اور رحمت ہوتی ہے ۔خدا تعالیٰ آسمان سے انسان کے دل کے کونوں میں جھانکتا ہے اور اگر کسی کونے میں بھی کسی قسم کی ضلمت یا شرک و بد عت کا کوئی حصّہ ہوتا ہے تو اُسکی دُعائوں اور عبادتوں کو اُس کے مُنہ پر اُلٹا مارتا ہے اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایہ میں لے کر اُس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے ۔
اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحب اغراض ہوتے ہیں ۔اگر اغراض پورے ہوگئے تو خیر ورنہ کدھر کا ایمان ۔ ۱ ؎ لیکن اگر اس کے مقابلہ میں صحابہ ؓ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو اُن میں ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا ۔انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔ہماری بیعت تو بیعت توبہ ہی ہے لیکن ان لوگوں کی بیعت تو سر کٹانے کی بیعت تھی ۔ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع ،عزت وآبرو اور جان و مال سے دست کش ہوجاتے تھے گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اس طر ح پر اُن کی کُل امید یں دنیا سے منقطع ہوجاتی تھیں ۔ہر قسم کی عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہوجاتے تھے ۔کس کو یہ خیال تھ اکہ ہم بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہوں گے ۔یہ باتیں اُن کے وہم وگما ںمیں بھی نہ تھی بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہوجاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دُکھ اور مصیبت کو لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے یہاں تک کہ جان تک دینے کو آمادہ رہتے تھے ،ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے ۔لیکن یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا۔اور اُن کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیاتھا ہزار چند کر دیا۔
صحابہؓ کی مثالی زندگی
دیکھے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال ومتاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دیدیا اور آپ کمبل پہن لیاتھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کی کیا دیا تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنا دیا اور اسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے زندہ کیا اور مر تدعرب کو پھر فتح کر کے دکھا یا اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا غرض ان لوگوں کا صدق ووفا اور اخلاص ومروت ہر مسلمان کے لیے قابل اسوہ ہے صحابہؓ کی زند گی ایک ایسی زند گی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پا ئی جا تی اور آپ ؐکے صحابہؓ کے مقابلہ میں حضرت مسیحؑ کے حواری تو بہت ہی گری ہو ئی حالت میں نظر آتے ہیں ان میں وہ جو ش ،صدق ووفا جو ایک مرتد مو اپنے مر شد کے لیے ہو نا چا ہیئے پا یا ہی نہیں جا تا بلکہ مصیبت کے وقت سب کے سب بھا گ گنے اور جو پاس رہ گیا اس نے *** بھیجنی شر وع کر دی ۔
اصل با ت یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی خواہشوں اور اغراض سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں آتا ہے وہ کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنا نقصا ن کر تا ہے لیکن جب وہ تمام نفسانی خواہشات اور اعراض سے الگ ہو جا وے اور خالی ہا تھ اور صافی قالب لے کر خدا تعالیٰ کے حضور جا وے تو خدا اس کو دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کر تا ہے مگر شرط یہی ہے کہ انسان مر نے کو تیا ر ہو جا وے اور اس کی راہ میں ذلت اور موت کو خیر باد کہنے والا بن جا وے ۔
اہل صدق ووفا کے لیے قبولیت وعظمت
دیکھو دنیا ایک فا نی چیز ہے مگر اس کی لذت بھی اسی کو ملتی ہے جواس کو خدا کے واسطے چھوڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرب ہو تا ہے خدا تعالیٰ دنیا میں اس کے لیے قبولیت پھیلا دیتا ہے یہ وہی قبولیت ہے جس کے لئے دنیا دار ہزاروں کو ششیں کر تے ہیں کہ کسی طرح کو ئی خطاب مل جا وے یا کسی عزت کی جگہ یا دربا ر میں کر سی ملے اور کر سی نشینوں میں نا م لکھا جا وے غرض تمام دنیوی عزتیں اسی کو د ی جا تی ہے اور ہر دل میں اسی کی عظمت اور قبولیت ڈال دی جا تی ہے جو خداتعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑنے اور کھو نے پر آما دہ ہو جا تے ہیں نہ صرف آما دہ بلکہ چھوڑدیتے ہیں غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھو نے والوں کو سب کچھ دیا جا تا ہے ۱؎ اور وہ نہیں مرتے ہیں جب تک وہ اس سے کئی چند نہ پا لیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا ہے خدا تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیں رکھتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ان با توں کو ما ننے والے اور ان کی حقیقت پر اطلاع پا نے والے بہت ہی کم لوگ ہیں پزاروں اہل صدق ووفا گذرے ہیں مگر کسی نے نہ دیکھا ہوگا اور نہ کسی نے سنا ہو گا کہ وہ ذلیل وخوار ہو ئے ہوں دنیوی امور میں اگر وہ نہایت درجہ کی ترقی کر تے تو زیا دہ سے زیا دہ تین چا ر آنے کی مزدوری کر لیتے اور کس مپرس اور گمنا م لو گوں میں سے ہو تے مگر جب انہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگا یا تو خدا تعالیٰ نے اس کو ایسا کیا کہ تمام دنیا میں نا م آور بن گئے اور ان کی عز ت وعظمت دلوں میں بٹھا ئی گئی اور اب ان کے نا م ستاروں کی طرح چمکتے ہیں دنیوی عظمت اور عزت بھی بذریعہ دین ہی حاصل ہو تی ہے پس مبا رک وہی ہے جو دین کو مقدم کر ے ۲؎ دیکھو ایک جو نک کی نسبت بیل کو اور ایک بیل کی نسبت انسان کو اور انسانوں میں سے خواص کو اللہ تعالیٰ نے لذت اور حظوظ دئیے ہو ئے ہیں اور خواص کو خاص قویٰ لذتوں کے ملتے ہیں اسی طرح جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب ہو کر خواص بنتے ہیں تو انکدنیوی لذائذوغیرہ بھی اعلیٰ درجہ کے عطا ہو تے ہیں ۱؎ ایک پنجا بی شعر ہے جو با لکل کلا م الہیٰ کے موافق اسی کا گو یا
تر جمہ ہے کہ ؎
جے تو ں میر ا ہورہیںسب جگ تیرا ہو
پس خدا تعالیٰ کے خاص بند ے بننے کی کو شش کر نی چا ہیئے ۲؎
(الحکم جلد ۷نمبر ۱۷ صفحہ ۱۳۔۱۴ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۳؍ مئی ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیر
خواب کی اقسام
ایک نورارد صاحب نے سوال ۳؎ کیا کہ خواب کیا شئے ہے ؟میرے خیال میں تو صرف خیالا ت انسانی ہیں حقیقت میں کچھ نہیں فر ما یا کہ :۔
خواب کی تین قسمیں ہیں :۔ نفسانی ۔شیطانی ۔رحمانی
نفسانی جس میں انسان کے اپنے نفس کے خیالا ت ہی متمثل ہو کر آتے ہیں جیسے بلی کو چھیچھڑو ں کے خواب ۔
شیطا نی وہ جس میں شیطا نی اور شہوانی جذبا ت ہی نظر آویں۔
رحما نی وہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دی جا تی ہیں اور بشارتیں دی جا تی ہیں۔
سوال ۴ ؎
کیا کسی بد کار آدمی کو بھی نیک خواب آتا ہے ؟
جواب فرمایا کہ ایک بدکار آدمی کو بھی نیک خواب آجاتی ہے کیونکہ فطرتاً کوئی بد نہیں ہوتا خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات:۵۷)
تو جب عبادت کے واسطے سب کو پیدا کیا ہے ۔سب کی فطرت میں نیکی بھی رکھی ہے ۔اور خواب نبوت کا حصّہ بھی ہے اگر یہ نمونہ ہر ایک کو نہ دیا جات تو پھر نبوت کے مفہوم کو سمجھنا تکلیف مالا یطاق ہوجاتا ۔اگر کسی کو علمِ غیب بتلایا جاتا وہ ہر گز نہ سمجھ سکتا ۔بادشاہِ مصر جو کہ کافر تھا اُسے سچی خواب آئی مگر آج کل سچی خواب کا انکا ر داراصل خدا تعالیٰ کا انکار ہے اور اصل میں خدا ہے اورضرور ہے ۔اسی کی طرف سے بشارتیں ہوتی ہیں اور نیک خوابیں آتیں ہیں اور وہ پوری بھی ہوتی ہیں جس قدر انسان صدق اور راستی میں ترقی کرتا ہے ویسے ہی نیک اور مبشر رئویا بھی آتے ہیں۔
حُسنِ عقیدت کیسے حاصل ہو
سوال :۔مَیں ایک مسلمان ہوں اور مسلمانوں کی اولاد ہوں عام طور پر دنیا کو دیکھ کر حسن عقیدت کسی پر پیدا نہیں ہوتی۔یہاں کے لوگوں کا طرز زند گی دیکھ کر چا ہتا ں کہ حسن عقیدت ہو مگر پھر نہیں ہو تی اسکی کیا وجہ اور کیا علاج ہے؟
جواب :۔ فر ما یا کہ :۔
انسان ہمیشہ تجارت سے نیتجہ نکا لتا ہے اور عقل انسانی بھی بذریعہ تجارت کے تر قی رہتی ہے مثلاً انسا ن جا نتا ہے کہ انب کے درخت کا پھل میٹھا ہو تا ہے اور بعض درخت کے پھل کڑوے ہو تے ہیں تو اس تجربہ کثیر سے اسے ایک فہم حاصل ہو جا ویگا کہ انب کے پھل ضرور شیریں ہو تے ہیں اسی طرح چو نکہ تجربہ آج کل یہی ہو تا ہے کہ دنیا میں فسق وفجور اور مکر وفریب کا سلسلہ بڑھا ہوا ہے اس لیے اس کا خیال بند ھ جا تا ہے کہ ہر ایکفریبی اور مکاری ہی ہے سابقہ تجارب اسے تعلیم دیتے ہیں کہ ایسا ہی ہو نا چا ہیئے اسی وجہ سے حسن عقیدت کی جگہ بد عقیدگی پیدا ہو تی ہے اور اسی لیے لوگ انبیا ء پر بھی سوء ظن رکھتے آئے ہیں ۔مو سیؑ کی وفات کی دوہزار بر س گذر چکے تھے تو آنحضرتﷺمعبوث ہو ئے اور اس زما نے میں بہت سے جھو ٹے معجزات دکھا نے والے اور دعوے کر نے والے پیدا ہو ئے تھے لوگوں کو ان کا تجربی تھا اور ادی حالت میں یک لخت ایک صادق بھی آگیا ۔آخر ان کو اس صادق کو بھی وہی کہنا پڑا جوان جھو ٹے مد عیوں کے حق میں کہتے تھے یعنی
ان ھذا لشی یداد(صؔ:۷)
کہ یہ تو دکا نداری ہے غرضکہ انسان تجارت کے ذریعہ سے بھول رہے ہیں خدا تعالیٰ کے بندوں کی معرفت کا ہو نا یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے وہی معرفت دے تو پتہ لگتا ہے دعا بہت کرے دعا کے سوا چا رہ نہیں ہاں یہ امرضروری ہے کہ استغفار نہ کرے کہ نیک اور بد کو ایک جیسا جان لیوے اور کہے کہ جیسے برے درخت ہو تے ہیں ویسے ہی اچھے بھی ہو تے ہیں۔ یہ ایک قاعدہ اپنی طرف سے ہر گز بنا نا چا ہیئے بلکہ نفس کو یہ سمجھا نا چا ہیئے کہ اچھے بھی ضرورہیں جب شیطا ن کا گروہ اس قدر دنیا میں مو جود ہے کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا گروہ با لکل ہی دنیا میں مو جود نہ ہوخدا تعالیٰ سے دعا کر تا رہے کہ آنگھیںملیں۔
آج کل واقعہ میں علماء کی یہی حالت ہے ؎
واعظاں کیں جلوہ بر محراب ومنبر میکننذ ـ؛ چوں نجلوت مے روندآں کار دیگر میکنذ
حافظ نے بھی اسی مضمون کا ایک شعر لکھا ہے ؎
تو جہ فر ما یاںچراخود تو بہ کمتر میکنذ
اور غور سے دیکھا جا وے تو سچے بغیر جھوٹ کی کچھ روشنی ہی نہیں ہو تی اگر آج سچا سوناچا ندی نہ ہو تو چھوٹے سو نے سے کو ئی فا ئدہ نہ اٹھا سکے
انبیاء و مامورین کی عظمت و صداقت
جس قدر انبیاء ہوئے ہیں سب اکراہ سے آگے ہوئے ہیں ۔گروہوں اور مجلسوں سے ان کی طبیعت متنفر ہوتی ہے ۔انبیا ء میں انقطاع ور اخلاص کا مادہ بہت ہوتا ہے ۔ان کی بڑی آرزو ہوتی ہے کہ لوگ اُنکی طرف رجوع نہ کریں مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے فطرت ایسی جدی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے کام کریں ۔اس لیے اُن کی عظمت جس قدر دنیا میں پھیلتی ہے وہ مکاندسے ہر گز نہیں پھیلتی بلکہ خود خُدا پھیلاتا ہے ۔اُنکے مقابل کے کُل مکاند پاش پاش ہو جاتے ہیں ۔ان کے کام میں اعجاز اور پیشگوئیاں بے نظیر ہوتی ہیں اگر معجزات نہ ہوتے تو طبائع پر بہت مشکلات پڑتے کیسی ہی طبیعت کثیف ہو مگر ان کو دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں
ایک مخالف کا میرے پاس خط آیا کہ مَیں آپ کا مخالف ہوں مگر آج کل مجھے یہ حیرانی ضرور ہے کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو اس قدر کامیابی اور ترقی کیوں ہے ۔دنیا میں وہ انسان اندھا ہے جو مختصر تجارب سے نتیجہ نکالتا ہے ۔سچا نتیجہ اس وقت نکلتا ہے جب تمام شواہد کو یکجائی نظر سے دیکھا جاوے ۔اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنیوالے ماموروں کو ایسی بات نہ ملے تو پھر ان کی سچائی کا ثبوت کیا ہے ۔شاہی سند پاس ضرو ر ہونی چاہیئے آفتاب نکلا ہوا ہو اور کوئی اُسے رات کہے تو کب تک کہہ سکتا ہے ۔
خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آتا ہے وہ دلائل ،شواہد،اثار،اخبا،زمینی نشان ،آسمانی نشان،سماوی تائیدات، قبولیت وغیرہ لیکر آتا ہے ۔اس کی اخلاقی حالت اور تعلق خدا سب اس کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے لیے ایک میدان دلائل سے بھر اہوا ہوتا ہے ۔ایک نیک دل اگر یقین کے لیے کافی ثبوت چاہے تو اُسے فکر کرنے سے مل جاویں گے۔
اگر عتراض ہوکہ کل دینا کے لوگ کیوں نہیں ایمان لا تے تو جواب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی فطرت میں روشنی کم اور بدظنی کا مادہ زیادہ ہو تا ہے موسیٰ علیہ السلام پراعتراض ہو ئے ۔نشان دیکھ دیکھ پھر ان کو جھٹلا تے رہے آنحضرت ﷺ کو فر یبی کہا ایسے لوگوں کی فطرت بد ہوا کرتی ہے اسی لیے کہا ہے ؎
اے بسا ابلیس آدم رؤے ہست ؛ پس بہر دسرت نہ باید داد دست
یہ بھی نہ ہو کہ سب کو فریبی جان لے نہ بدظنی کو اتنا وسیع کر ے کہ راستبازوں کے فیوض سے محروم رہے نہ اس قدر حسنِ ظن کہ ایک مکار اور فریبی کو بھی خدا رسیدہ جان لے سچے دل سے دعا کرتا ہے انبیاء وغیرہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے ہو تے ہیں جب تک خدا نہ دکھا وے کو ئی ان کو دیکھ نہیں سکتا ابو جہل مکہ میں ہی رہتا تھا آنحضرتﷺ کا نشوونما دیکھتا رہا آپ کی ساری زند گی دیکھی مگر پھر بھی ایمان نہ لا یا ۔
کہتے ہیں کہ سلطان محمود ایک راجہ کو گر فتا ر کر کے اپنے ساتھ لے گیا وہ راجہ کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر آخر کار اپنے مذہب اور اسلام کا مقابلہ کر کے مسلمان ہو گیا الگ خیمہ میں وہ رہا کرتا تھا ایک دن وہ بیٹھا ہوا رورہا تھا کہ خیمہ کے پاس سے محمود گذرا اس نے رونے کی آواز سنی اندر آیا ۔پو چھا کہ اگر وطن یاد آیا ہے تو وہیں کا راجہ بنا کر بھیج دیتا ہوں اس نے کہا ابن مجھے دنیا کی ہوس کو ئی نہیں اس وقت مجھے یہ خیال آیا ہے کہ قیامت کے دن اگر یہ سوال ہوا کہ تو کیسا مسلمان ہے کہ جب تک محمود نے چڑھا ئی نہ کی اور وہ گر فتار کر کے تجھ کو نہ لا یا تو مسلمان نہ ہوا کیا اچھا ہوتا کہ مجھے اسوقت ابتدا میں سمجھ آجا تی کہ اسلام سچا مذہب ہے ۔
مخالفت کا جنازہ
ایک صاحب نے پو چھا ۱؎ کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اور اکثرمخالف مکذب مرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ ؟فر ما یا کہ :۔
یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جا تا ہے مگر اب یہاں ایک تو طاعون ذدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے دوسرے وہ مخالف ہے ۔خواہ نخواہ تد اخل جائز نہیں ہے ۔ خدا فر ماتاہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑدو اور اگر وہ چا ہے گا توان کو خود دوست بناوے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلا یا ہے مداہنہ سے ہر گز فائدہ نہ ہو گا اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤگے۔
مجلس قبل ازعشاء
توبہ کادروازہ بند ہو نا
طاعون پر ذکر ہوابعض مقامات بالکل تباہ ہوگئے ہیں مگر پھر بھی وہاںکے لوگوں کی فسق فجور کی وہی حالت ہے کو ئی پاک تدیلی نظر نہیں آتی فر مایا کہ:۔
سمجھ الٹی ہے توبہ کادروازہ بند ہو نے کے ایک یہ معنے بھی ہیں۔
لَارَآدَّلِفَضْلِہٖ
یہ ایک حضرت اقدس علیہ السلام کا پرانا الہام ہے جو مسجد کے اوپر کے حصہ میںلکھا ہوا تھا اور عمارت کے تغیر وتبدل کے وقت وہ نوشتہ قائم نہ رہ سکا۔فر ما یا کہ:۔
اسے پھر لکھوایا جاوے اور نہیں معلوم کہ اس کے معنے کس قدر وسیع ہیں۔ ۱؎
(البدرؔ جلد ۲نمبر ۱۷ صفحہ ۱۹۲۔۱۳۰ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۴مئی ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیر
اکرامِ ضیف
مہمانوں کے انتظام مہمان نوازی کی نسبت ذکر ہوا فر ما یا :۔
میر اہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کا تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لیے ہمیشہ تا کید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہو تا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھا نا کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے تر قی کی اور پرہیز ی کھا نا کھا نا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کا فی نہ ہو تی تھی اس لیے بمجبوری علیحدگی ہو ئی ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے بعض لوگ بیمار ہو تے ہیں ان کے واسطے الگ کھا نے کا انتظام ہو سکتا ہے ۔ ۲؎
دربارشام
رسوم وعادات
فر ما یا کہ:۔ ۳؎
عادات اور رسوم کا قلع قمع کر نا نہویت مشکل ہو تا ہے اور یہی ایک حجاب ہزاروں انوار سے محروم بھی رکھتا ہے ورنہ ہمارا معاملہ تو نہایت ہی صاف اور کھلا کھلا ہے کیسے ہی دلائل اور براہین سے ایک امر کو مدلل کر کے کیوں نہ بیان کیا جاوے عادت ورسم کا پا بندضرور اس کے ماننے میں پس وپیش کر یگا اور جب تک وہ اس حجاب کو چھا ڑ کر باہر نہ نکلے اسے حق لینا نصیب ہی نہیں ہو تا ۔
آنحضرتﷺ کی صداقت کیسی اجلیٰ اور اصفیٰ تھی مگر ان کے دعویٰ کے وقت بھی عیسائی راہبوں اور یہودی مولویوں نے جو عادت اور رسم کے پا بند تھے ہزاروں عذر تراشے اور آپ کو صادق کہنے کی بجائے کاذب کا خطاب دیا گو یا رسم اور عادت کی لمت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالاہواتھا کہ وہ نور کو ظلمت کہتے تھے ورنہ آپ کے معجزات ،بینات اور فیوض اس قدر کامل اور اعلیٰ تھے کہ کسی کوان سے انکار ممکن نہ تھا ۱؎
تسلی پانے کے تین طریق
اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک قسم کے دالا ئل بینات ہمارے واسطے جمع کر دئیے ہیں انسان کے تسلی پانے کے تین ہی طریق ہوا کرتے ہیں ۔
(۱) اول نقلی دلائل۔سورۃقرآن شریف کے نصوص سے ثابت ہیں کیو نکہ جو شخص قرآن شریف کو کلام الہیٰ مانتا ہے ہے اسے تو اس بن چارہ نہیں بلکہ اس کاایمان ہی کلام ِالہیٰ کے بغیر ناقص ہے۔ ۲؎
نقلی دلائل کا دوسا حصہ احادیث ہیں سوان میں سے وہ احادیث قابل پذیرائی ہیں جوقرآن شریف کے معارض نہ ہوں کیو نکہ جو حد یث قرآن شریف کے مخالف ومعارض ہووہ وہ ردی ہے اور قبول کر نے کے لا ئق نہیں مثلاً قرآن شریف بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہو ئے ہیں تو وہ بالکل ردی ہے اور ماننے کے لائق نہیں یا ایسی ہی اگر اور کو ئی مخالفت صریح قرآن شریف کی کو ئی حدیث کر ے تو وہ بھی اس ذیل میں داخل ہے ۔
احادیث میں احتمال صدق اور کذب دونو طرح کا ہے کیونکہ احادیث تو قرآن شریف کی طرح اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جمع نہیں کیں اور نہ ہی ان کا قرآن شریف کی طرح کو ئی نام رکھا ہے بلکہ آپ سے قریباً اڑھائی سو برس جمع ہو ئی ہے غرض ان کے صدق کذب کا معار قرآن شریف ہے پس جواحادیث قرآن شریف کے معارض نہیں وہ ماننے کے لا ئق ہیں یہ جو۷۳ فر قے بن گئے ہیں یہ بھی توان احادیث کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جب لوگوں کی توجہ قرآن شریف سے ہٹ گئی اور احادیث کو قرآن شریف پر قاضی جانا تو یہاں تک تو بت پہنچی ۔
(۲) دوسرا ذریعہ عقل ہے جس سے انسان حق کو پہچان سکتا ہے چنانچہ قرآن شریف مین مجرمین کے الفاظ درج ہیں کہ
لوکنا نسمح اونعقل ماکنا فی اصحب السعیر(الملک :۱۱)
سواگر ان لوگوں سے سوال کیا جاوے کہ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کو ئی شخص زندہ بحسبم عنصری آسمان پر چلا جاوے اور دوہزار برس تک وہیں بیٹھا رہے اور کسی قسم کی ضروریات اور عوارض اسے نہ لگیں کیا کو ئی عقل ہے جواس خصوصیت کو مان سکے؟بھلا ان لوگبوں سے پوچھا جاوے کہ اس خصوصیت کی جو تم نے حضرت عیسیٰؑ میں مانی ہے کیا وجہ ہے یہ تو ایک قسم کا باریک شرک ہے اللہ تعالیٰ فرما تا ہے ۔
فسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (الانبیاء ـ۸۰)
اللہ تعالیٰ انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ ہر ایک امر میں نظائر ضروری ہیں جس چیز میں نظیر نہیں وہ چیز خطر ناک ہے آجکل جس طرح کا ہمارا جھگڑا ہے اسی قسم کا ایک جھگڑا پہلے بھی اہل کتاب میں گذرچکا ہے اور وہ الیاس کا معاملہ تھا ان کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مسیحؑ آسمان سے نہیں نازل ہوگا جب تک ایلیا آسمان سے دوبارہ نہ آلے اسی بنا ء پر جب حضرت مسیحؑ آئے اور انہوں نے یہود کو ایمان کی دعوت دی تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ ہمارے ہاں مسیحؑ کی علامت یہ ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے دوبارہ نازل ہو گا مگر حضرت متسیحؑ نے اس کی ایلیا مان لو وہ آسمان سے دربارہ نہیں آویگا جس نے آنا تھا وہ آچکا چا ہو تومانو چاہو تو نہ مانو غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایک مصیبت پڑ چکی تھی اور ان کا فیصلہ ہمارے اس مقدمہ کے لیے ایک دلیل ہو سکتا ہے اگر حضرت عیسیٰؑ یہود کے مقابل میں حق پڑ تھے تو ہمارا معاملہ بھی صاف ہے ورنہ پہلے حضرت عیسیٰؑ کی نبوت کا انکار کریں بعد مین ہمارا معاملہ آئے گا۔
اگر واقعی طور پر ان یہودیوں کی طرح یہ یہودی بھی حق پر ہیں تو پھر اول تو حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت نہیں توان کا آسمان سے آنا کجا؟ پس یاتو یہ مسلمان اس باتے کو مان لیں کہ آسمان پر کو ئی شخص زندہ نہیں جا یا کرتا اورنہ ہی وہ دربارہ واپس آیا کرتا ہے اور وہ اسی قاعدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات پائے ہو ئے مان لیں اور یا حضرت عیسیٰؑ کی نبوت سے انکار کر یں اور اس طرح پر ان کی آمد کے متعلق تمام امیدوں سے ہاتھو دھولیں غرض ان کی منفرد اور خا ص قسم کی زندگی ایک خطرناک قسم کا شرک ہے غرض دوسری قسم کے دلائل عقلی تھے سوان کی رو سے بھی یہ قوم ملزم ہے ۔ ۱ ؎
(۳) تیسرا ذریعہ ایک صادق کی شناخت کااس کے ذاتی نشانات اور خارق عادت پیشگوئیاں ہو تی ہیں اور منہاج نبوت پر رکھی جا تی ہے سواس قسم کے دلائل بھی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بہت جمع کر دئیے ہیں کیا زمینی ،کیا آسمانی ،کیا مکانی ،کیا زمانی ،ہر قسم کے نشانات اس نے خود ہمارے لیے ظاہر فر مائے ہیں آنحضرت ﷺ کی اکثر پیشگوئیوں کا ظہور بھی ہو چکا ہے آسمان نے ہمارے لیے گو اہی دی زمین ہمارے واسطے شہادت لا ئی اور ہزاروں خارق عادت ظہور میں آچکے ہیں زمانہ سووہ زبانِحال سے چلا رہا ہے کہ ضرور کو ئی آنا چا ہیئے قوم کے ۷۳ فرقے ہو چکے ہیں یہ خودایک حکم کو چاہتے ہیں ان تمام فرقوں میں ایسے ایسے اختلاف پڑے ہیں کہ ایک دوسرے کو تکفیر کے فتوے لگا ئے جا تے ہیں اور ارتداد کا جرم ان میں سے ہر ایک کی گردن پر سوارہے خفی وہابیوں کو اور وہابی خفیوں کی جہنمی بتا تے ہیں شیعہ ان سب کو راہ راست سے بٹکھے ہو ئے کہتے ہیں خارجی ہیںسووہ شیعہ کی جان کے دشمن ہیں غرض ہر ایک فرقہ دوسروں کے خون کا پیاسا ہے اب ان میں اختلاف کو دور کرنے کے واسطے جو حکم آوے گا کیا وہ ان کی مساوی باتوں کو مان لے گا؟اگر ایسا کر یگا تو دوسرا ناراض ہو جاوے گا یہاں ہرایک فرقہ یہی چاہتا ہے کہ میری اگر ساری باتیں وہ نہ مانے گا تو وہ خدا کی طرف سے نہ ہو گا غرض ہرایک نے اس کے صدق کا معیار اپنے تمام عقائد کو مان لینا مقرر کیا ہو ہے مگر کیا وہ ایسا ہی کر یگا ؟ہر گز نہیں بلکہ وہ ہر ایک راستی کا حامی اور ناراستی کا دشمن ہو گا اگر ایسا نہیں تووہ حکم ہی کس کام کا ہوا ؟اور ایسے کی ضرورت ہی کیا ہے اس کے وجود سے عدم بہتر ہے ۔
اصل مشکل یہ ہے کہ ان بیچا رے لوگوں کی عادت ہی ہو گئی ہے اور بچپن سے کان میں ہی یہی پڑتا آیا ہے کہ وہ اس طرح آسمان سے ایک مینار پر اترے گا پھر سیڑھی مانگیگا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ نیچے اتر ے گا پس آتے ہی نہ بھلی نہ بری کفار کو تہ تیغ کر کے انکے اموال واہلاک سب مسلمانوں کے حوالے کر یگا وغیروغیرہ۔
ان باتوں کو جو مدتوں سے سادہ لوح پر کندہ ہو گئی ہیں دور کریں تو کس طرح ؟وہ بیچارے معذور ہیں یہ مشکلات ہیں اور ان کادور ہونا بجز خدا تعالیٰ کی مشیت کے ہر گز ممکن نہیں۔
(قرآن نے)
توفیتنی
فر مایا اور بخاری نے اپنا مذہب اور اس آیت کے معنے بیان کر دئیے کہ
متوفیک۔ممیتک
تو پھر اس کے بعد خواہ نخواہ ان کو زندہ آسمان پر بٹھا نا ان لوگوں کی کیسی غلطی ہے وہ بیچارہ توخودہ بھی دہائی دیتا ہے کہ یہ لوگ میرے مرنے کے بعد بگڑ ے ہیں بھلا اب ہمیں کو ئی بتاوے کہ یہ لوگ ابھی بگڑے ہو ئے ہیں یا نہی ں اگر یہ بگڑے ہیں تو مسیح وفات پا چکے ہیں ورنہ ان کے تثلیث کفار ے اور دوسرے اعتقادات پر ایمان لاؤ اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کرو یہ جواللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ مین فرمایا ہے کہ
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین
اس میں ہم نے غور کیا تومعلوم ہو تا ہے کہ آنے والے شخص میں دوقسم کی صفات کی ضرورت ہے اول تو عیسوی صفات اور دوم محمود ی صفات کی کیو نکہ
مغضوب علیھم
سے مراد یہود اور
الضالین
سے مراد نصاریٰ ہیں جب یہود نے شرارت کی تھی تو حضرت عیسیٰؑ ان کے واسطے آئے تھے جب نصاریٰ کی شرارت زیادہ بڑھ گئی تو آنحضرت ﷺ تشئف آور ہو ئے تھے اور یہاں خدا تعالیٰ نے دونو کا فتنہ جمع کیا اندرونی یہود بیرونی نصاریٰ جن کے لیے آنے والا بھی آنحضرتﷺ کا کامل بروزاور حضرت عیسیٰؑ کا پورا نقشہ ہو نا چاہیئے تھا۔
حکم کا مقام
حکم کے سا منے کسی کی پیش ہی کیا جا تی ہے اور اس سے ان کی بحث ہی کیا ۔
یہ زمینی وہ ّسمانی ۔یہ نا قابل ِمحض ،وہ ہر وقت خدا سے تعلیم پاتا یہ لوگ ہمیں رطب ویا بس احادیث اور اقوام کا انبار پیش کر کے ہرانا چا ہتے ہیں مگر یہ کیا کریں ہمیں تو تیس سال ہو ئے کہ خود خدا ہر وقت تازہ الہامات سے خبر دیتا ہے کہ یہ امر حق ہے جو تو لایا ہے تیرے مخالف نا حق پر ہیں ہم اب کیا کریں ان لوگوں کی مانیں یا آسمان سے خدا کی مانیں۔
سوچنے والے کے لیے کافی ہے کہ صدی کا سر بھی گذرگیا ہے اور تیرھویں صدی تو اسلام کے واسطے سخت منحوس صدی تھی ہزاروں مرتد ہو گئے یہود خصلت نبے اور جو ظاہر میں مرتد نہیں اگر باریک نظر سے دیکھا جاوے تووہ بھی مرتد ہیں ان کے رگ وریشے میں دجال نے اپنا تسلط کیا ہوا ہے پو شاک تک ان کی بدل گئی ہے تو دل ہی نہ بدلے ہوں گے صرف بعض خوف سے یا بعض اور وجوہات سے اظہار نہیں کرتے ورنہ ہیں وہ بھی مرتد اپنے دین کی خبر نہ ہو ئی دوسروں کے زیراثر ہو ئے تواب ارتداد میں کَسرہی کو نسی رہ گئی اگر اب بھی ان کا مہدی اور مسیح نہیں آیا تو کب آئے گا ؟جب اسلام کا نام ہی دنیا سے اٹھ جا ویگا اور یہ بیڑاہی غرق ہو جاویگا۔
افسوس کہ قوم آنکھیں بند کئے پڑی ہے اور اسے اپنی حالت کی بھی خبر نہیں۔
(البدرؔ جلد ۲نمبر ۱۷ صفحہ ۱۳۱ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۵، مئی ۱۹۰۳ء؁
(بوقتِ سیر )
قبولِ حق کے لئے دعا کرتے رہنا چاہیئے
۶؍مئی ۱۹۰۳؁ء ۱؎
بوقت سیرَ
پیشگوئیوں میں ہمیشہ استعارات ہو تے ہیں
نووارد صاحب نے در یافت کیا کہ گھنگھریالے بالوں سے کیا مراد ہے ؟
فر ما یا کہ:
احادیث ایک ظنّی شئے ہے یہ ہر گز ثابت نہیں ہے کہ جو آنحضرتﷺ کے منہ سے نکلا ہو وہ ضبط ہوا ہو معلوم نہیں کہ اصل لفظ کیا ہو پیشگو ئیوں میں ہمیشہ استعارات ہو تے ہیں اور پھر یہ بھی یادرکھنا چا ہیئے کہ جب خبروں میں کو ئی ایسی خبر موجودہ ہو جو ثابت شدہ واقعہ کے برخلاف ہو تواسے بہرحال رد کر نا پڑیگا ۔
اس وقت جو فتنہ موجود ہے تم اس کی نظیر کسی زمانہ سابقہ میں دکھا ؤ کہ کبھی ہوا ہے ؟پھر سب سے بڑا فتنہ تو یہ ہے اور ادھر دجال کا فتنہ سب سے بڑا رکھا گیا ہے اور دجال کے معنے بھی *** سے معلوم ہو گئے تواب شک کی کو نسی جگہ باقی رہ گئی ہے ؟
پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر استعارات صرف دجال کے معاملہ میں ہو تے اور کسی جگہ نہ ہو تے تو پھر بھی کسی کو کلام ہو تا کہ کیوں تاویل کر تے ہو مگر دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ خود قرآنشریف اور نیز احادیث بھی استعارات سے بھرے پڑے ہیں اور نہ ہی اس امر کی ضرورت ہے کہ ہر ایک استعا رہ کی حقیقت کھو لی جاوے کیا آج تک دنیا کے سب امور کسی نے جان لیے ہیں جواس امر پر زور دیا جاتا ہے کہ ایک ایک لفظ کی حقیقت بتلاؤ ۔
دستور ہے کہ موٹے موٹے امور کو انسان سمجھ کر باقی کواس پر قیاس کر لیتا ہے ۔
توفی
تو فی کا لفظ صرف انسانوں پر ہی آتا ہے دیگر حیوا نات پر استعمال نہیں ہوا س کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دہریہ طبع لوگ بھی تھے جو کہ خشر ونشر کے قائل نہ تھے ان کا اعتقاد تھا کہ کو ئی شئے انسان کی باقی نہیں رہتی اس لفظ کو استعمال کر کے اللہ تعالیی نے بتلا دیا کہ روح کو ہم اپنی طرف قبض کر لیتے ہیں اور باقی رہتی ہے قرآن شریف اور حدیث میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا وہاں معنی قبض روح کے ہیں اس کے سوا اور کوئی معنے نہیں ہوتے۔ ۲؎
تحصیل حاصل؟
سوال جب ایک شخص نے ایک بات تحصیل کی ہے تو دوبارہ اسی کے تحصیل کر نے سے کیا حاصل ہے؟
جواب ۔ہم اس اصول کو لا نسلم کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے قرآن میں لکھا ہے ۔
الست بربکم قالو ابلی ۔(الاعراف :۱۷۳)
یعنی جب روحوں سے خدا تعالیٰ نے سوال کیا کہ کیا مَیں تمہارا رب نہیں ہوں تو وہ بولیں کہ ہاں تواب سوال ہو سکتا ہے کہ روحوں کو علم تو تھا تو پھر انبیا ء کو خدا تعالیی نے کیوں بھیجا گو یا تحصیل حاصل کروائی یہ اصل میں غلط ہتے ایک تحصیل پھیکی ہو تی ہے ایک گا ڑھی ہو تی ہے دونو میں فق ہو تا ہے وہ علم جو کہ نبیوں سے ملتا ہے اس کی تین اقسام ہیں۔
علم الیقین ۔عینؔ الیقین ۔حق الیقین
اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص دور سے دھواں دیکھے تو اسے علم ہو گا کہ وہاں آگ ہے کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں آگ ہو تی ہے وہاں دھواں بھی ہوتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں ۔یہ بھی ایک قسم کا علم ہے جس کا نام علم الیقین ہے مگر اور نز دیک جا کر وہ اس آگ کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اُسے عین الیقین کہتے ہیں ۔پھر اگر اپنا ہاتھ اس آگ پر کر اس کی حرارت وغیرہ کو بھی دیکھ لیوے ۔تو اُسے کوئی شبہ اس کے بارے میں نہ رہے گا اورا س طرح سے جو علم اُسے حا صل ہو گا اس کا نام حق الیقین ہے اب کیا ہم اسے تحصیل حا صل کہہ سکتے ہیں ۔ہر گز نہیں ۔ ۱ ؎ (البدر ؔ جلد۲نمبر۱۸ صفحہ۱۳۷ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
در بار شام
نزولِ وحی کا طریق
فر مایا کہ
وحی کا قاعدہ ہے کہ ا جمالی رنگ میں نازل ہو ا کرتی ہے اور اس کیساتھ ایک تفہیم ہو تی ہے مثلاًجب آنحضرت ﷺ کو نماز پڑھنے کا حکم ہو اتو ساتھ کشفی رنگ میں نماز کا طریق اس کی رکعات کی تعداد ،اوقات نماز وغیرہ بتادیا گیا تھا ۔علی ہذ االقیاس ۔
جو اصطلاح اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے اس کی تفصیل اور تشریح کشفی رنگ میں ساتھ ہو تی ہے جن لوگوں کو وہ اس وحی کے منشاء سے آگا ہ کرتا ہے اور اسکو دوسرے کے دلوں میں داخل کرتا ہے جب سے دُنیا ہے وحی کا یہی طرز چلا آیا ہے اور کل انبیاء علیہم السلام کی وحی اسی رنگ کی تھی ۔وحی کشفی تصویروں یا تفہیم کے سوا کبھی نہیں ہوتی اور نہ وہ اجمال بجز اس کے کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے ۲؎
مُدّ میں پیشگوئی کے مطابق تباہی
مُدّ سے خبر آئی ہے کہ اس جگہ آبادی کچھ اُوپر دوسو آدمی کی ہے اور ابتک ایک سوتین آدمی مر چکے ہیں اور چار پانچ روز مر تے ہیں ۔اس پر حضرت اقدس نے حکم دیا کہ
اخباروں میں مُدّ کے متعلق پیشگوئی مندرجہ قصیدہ اعجاز احمدی کو شائع کر کے دکھا ئیں اور مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو آگا ہ کریں کہ وہی الفاظ جن پر وہ مقدمہ بنوانا چاہتا تھا اللہ تعالیٰ اب پورے کر رہا ہے ۔اب وہ لوگ سو چیں کہ وہ حق تھا یا نہیں ۔ (الحکم ؔ جلد۷نمبر۱۸ صفحہ۲ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۷ مئی ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل از عشاء
عورتوں کے حقوق
فر مایا کہ :۔
عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی ۔مختصر الفاظ میں فرما دی ہے ۔
وکھن مثل الذی علیھن(البقرہ: ۲۲۹)
کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں ،بعض لوگوں کا حال سناُ جاتاہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طر ح جانتے ہیں اور ذلیل تر ین خد مات ان سے لیتے ہیں گالیا ں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق بر تتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔
چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہو تا ہے۔انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں ۔اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صکح ہو رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ہے
خیر کم لاھلہ
تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے ۔
۸ مئی ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل از عشاء
محمد حسین بٹالوی اور قرآن کریم کی بے ادبی
بہ ظاہرتُک بندی تومسیلمہ نے بھی کر لی تھی اس میں قرآن شریف کی خصو صیت کیا ہے یہ ایک کلمہ ہے جو کہ محمد حسین بٹالوی اوّل المکفّرین کی قلم سے قرآن کریم کی شان میں نکلا ہے ۔اس پر حضرت اقدس نے فر مایاکہ :۔
اس سے بڑھ کر کیا بے ادبی ہو گی کہ قرآن شر یف کی آیا ت کو جوکہ ہر ایک پہلو اور ہر ایک رنگ کیا بلحاظ ظاہر اور بلحاظ باطن کے معجزہ ہے۔ تُک بندی کہا جاتا ہے ۔جیسے قرآن شریف کا باطن معجزہ ہے ویسے ہی اس کے ظاہر الفاظ اور تر تیب بھی معجزہ ہے ۔اگر ہم اس کے ظاہر کو معجزہ نہ مانیں تو پھر باطن کے معجزہ ہو نے کی دلیل کیا ہو گی ؟ایک انسان کا اگر ظاہر بھی گندہ ناپاک اور خبیث ہو گا تو اس کی رُوحانی حالت کیسے اچھی ہو سکتی ہے ؟عوام الناس اور موٹی نظر والوں کے واسطے تو ظاہری خوبی ہی معجزہ ہو سکتی ہے اور چونکہ قرآن ہر ایک قسم کے طبقہ کے لوگوں کے واسطے ہے اس لیے ہر ایک رنگ میں معجزہ ہے ۔مامور من اللہ کی عداوت کا نتیجہ کفر تک پہنچا دیتا ہے ۔ (البدرؔ جلد ۲نمبر۱۸ صفحہ۱۳۷۔۱۳۸ مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
(الحکمؔ جلد ۷نمبر۱۸ صفحہ۲ مورخہ ۷؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۹ مئی ۱۹۰۳؁ء
بوقت سیر
وباکے علاقے سے نکلنا
عام لوگوں کا خیال ہے کہ وبا سے بھا گنا نہ چا ہیئے یہ لوگ غلطی کر تے ہیں آنحضرت ﷺ نے فر ما یا ہے کہ اگر وبا کی ابتداہوا ہو تو بھاگ جانا چا ہیئے اور اگر کثرت سے ہو تو پھر نہیں بھا گنا چا ہیئے جس جگہ وبا ابھی شروع نہیں ہو ئی تب تلک اس حصہ والے اس کے اثر سے محفوظ ہو تے ہیں اور ان کا اختیار ہو تا ہے کہ اس سے الگ ہو جاویں اور توبہ اور استغفار سے کام لیویں۔
جماعت ِاحمدیہ اور طاعون
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ نشان بھی ہو تے ہیںاور ان میں التباس بھی ہو تا ہے ّآنحضرتﷺ سے معجزہ مانگا گیا تو کہا کہ خدا قادر ہے خواہ آسمان سے نشان دکھلاوے یا بعض کو بعض سے جنگ کرا کر نشان دکھا وے ۔ ۱؎ چنانچہ جنگوں میں صحابہؓ بھی شہید ہو ئے بعض کمزور ایمان والوں نے اعتراض کیا کہ اگر یہ عذاب ہے تو ہم میں سے کیوں مرتے ہیں اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا
ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ وتلک لایام نداولھابین الناس(ال عمران:۱۴۱)
پس اگر ہماری جماعت ،یں سے کو ئی بھی نہ مرے اور کل قو میں مرتی رہیں تو کل دنیا ایک ہی دفعہ راہ راست پر آجاوے اوربجز اسلام کے اور کو ئی مذہب دنیا پر نہ رہے حتیٰ کہ گو رنمنٹوں کو بھی مسلمان ہو نا پڑے۔ ۱؎ اور یہی سِر تھا کہ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ بھی فوت ہو ئے تھے ہاں سلا متی کا حصہ نسبتاً ہماری طرف زیادہ رہے گا براہین احمدیہ میں بھی لکھا ہے ۔
ان الذین امنو اولم یلبسو ایمانھم بظلم۔( الا نعام :۸۳)
اب خدا جانے کہ کون ظلم سے خالی ہے کسل اور غفلت بھی ظلم ہے مگر تا ہم دعا کر نا ضروری ہے اس جماعت کا قطعاً محفوظ رہنا یہ الفاظ کہیں ہم نے نہیں لکھے اور نہ یہ سنت اللہ ہے اگر ایسا ہو تو اکراہ فی الدین ہو جاتا ہے جب سے انبیاء پیدا ہو ئے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوا احمقوں کوان بھیدوں کی خبر نہیں خدا تعالیٰ کا وعدہ نسبتاً حفاظت کا ہے نہ کہ کلیتہً ۲؎ پھر بھی یہ دیکھ لینا چا ہیئے کہ اگر ہماری جماعت کا ایک مرتا ہے تو اس کے بد لے سَو آجاتے ہیں انجام ہمیشہ کے واسطے ہی ہو تا ہے اگر خدا تعالیٰ ایسا کھلا کھلا فرق کر دیوے تو میں نہیں جا نتا کہ مذہبی اختلاف ایک ذرہ بھر بھی رہ جاوے حالا نکہ اس اختلاف کا قیامت تک ہو نا ضروری ہے ۔
بعض لوگ ہماری جماعت میں سے بھی غلطی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہ مر یگا یہ ان کو مغالطہ لگا ہے ایسا ہر گز ہو نہیں سکتا اگر چہ ایک حد تک خدا تعالیٰ نے وعدے کئے ہو ئے ہیں مگر ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جماعت سے مطلقاً کو ئی بھی نشانہ طاعون نہ ہو یہ بات ہماری جماعت کو خوب یادرکھنی چا ہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہر گز نہیں ہے کہ تم میں سے کو ئی بھی نہ مر یگا ہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ماما ینفع الناس فیمکث فی الا رض (الد عد:۱۸)
پس جو شخص اپنے وجود کو نا فع الناس بناویں گے ان کی عمر یں خدا تعالیٰ زیادہ کر یگا خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجاآوری پورے طور پر بجالانی چا ہیئے ۔
نوحؑ اور مسیح موعود کے حالات کا فرق
اعتراض ہوا نوحؑ کی کشتی پر چڑھنے والے سب کے سب طوفان سے محفوظ رہے تھے تو کیا وجہ ہے کہ جو لوگ یہاں بیعت میں ہیں وہ محفوظ نہ رہیں۔
جواب۔ فرمایا کہ ’’ ہمارا سلسلہ آنحضرتﷺ کے قدم برقدم ہے نوحؑ کے وقت ایمان کا دروازہ بند ہو چکا تھا اور اس وقت کو ئی التباس ایمان کا نہ تھا مگر اب ہے نوحؑ کے وقت یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اب قوم تو ضرور ہلاک ہو نے والی ہے خواہ ایمان لاوے خواہ نہ لاوے مگر آنحضرت ﷺ کے وقت مہلت دی گئی کہ جو تو بہ کریگا وہ بچ جاویگا چنا نچہ آنحضرتﷺ نے عین قتل کے وقت فرمایا کہ اگر کو ئی ایمان لاوے تو تلواروک لی جاوے مگر نوحؑ کی قوم کے واسطے تھا کہ صرف کشتی والے بچا ئے جاویں گے باقی سب تباہ اور ہلاک ہون گے وہ صورت خاص اور الگ تھی اور اعتراض تو کود نوحؑ پر بھی تھا کہ اس نے کہا تھا کہ میرے اہل بچے رہیں گے مگر پھر بھی مخالفوں کوو یہ کہنے کی گنجائش رہی کہ نوحؑ اپنے نیٹے کو نہ بچا سکا معلوم ہوتا ہے کہ نوحؑ کو بھی شبہ پیدا ہوا تھا تب ہی تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زجر ہوا پھر دیکھو جاوجود نبی ہو نے کے ان کو دھوکا لگا اور یہ معاملہ اسی طرح سے ہوا کہ مخالفین تو در کنا ر خود نوحؑ کو ہی شکوک پیدا ہو گئے خدا تعالیٰ اپنے رعب اور خوف کو دور نہیں کرنا چا ہتا اگر آج وہ کھلا وعدہ دے دے کہ جماعت میں سے کوئی نہ مریگا تو پھر اس کا خوف دلوں میں نہ رہے جہاں خاص گھر کا اس نے وعدہ کیا ہے کہ
انی احافظ کل من فی الدار
وہاں بھی ایک فقرہ ساتھ رکھ دیا ہے کہ
الا الذین علو اباستکبار۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا رجوع کب ہو گا؟
فرما یا :۔
دیکھو بچہ جب پیٹ میں ہو تا ہے تو اگر چہ زند ہ ہو تا ہے مگر ہم خوشی پر ہنس نہیں سکتا اور تکلیف پر رد نہیں سکتا بلاؤ تو بو لتا نہیں مگر جب با ہر آتا ہے تو اس کو حواس مل جاتے ہیں ہنستا بھی ہے روتا بھی ہے بلانے سے بو لتا ہے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اول زند گی جو کہ پیٹ میں تھی وہ اصلی اور حقیقی زند گی نہ تھی حواس اس میں نہ تھے جب خدا تعالیٰ ایک بات ڈالتا ہے تو حواس آجاتے ہیں یہی مولوی محمد حسین صاحب کا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کو ئی بات دل مین ڈالی جاوے گی تو اسی وقت تبدیلی ہو جاوے گی ۔
جو بلائے جاتے ہیں وہ آتے ہین اور جو بلائے نہیں جاتے وہ کفر مین ترقی کرتے ہیں اگر قرآن شریف نہ آتا تو ابو جہل اعلیٰ درجہ کے لوگوں میں شمار ہو تا اسی طرح صدہا آدمیوں کو ہم صلحاسمجھتے ہین مگر جب ان کے سامنے حق پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کیا تو ہعلوم ہوا کہ کدا کے نزدیک ان میں صلاحیت نہ تھی کسی کے باطن کا کسیکو کیا علم؟ مگر حق پیش کرنے پر حقیقت کھل جاتی ہے کہ کدا کی آواز سننے والے کون ہیں اور اس سے انکار کر نیوالے کون ؟
ایک غیر معمولی مجلس
کل سے اکسڑ ااسسٹنٹ کمشنر صاحب گورداسپور سے دورہ پر اور تحصیلدار صاحب بٹالہ سے مینا ر کی تعمیر کے ملا خط کے واسطے تشریف لا ئے ہو ئے تھے حضرت اقدس علیہ السلام جب سیر سے واپس تشریف لا ئے تو کو ئی آد ھ گھنٹہ کے بعد ہر دو عہد یدار صاحبان نے حضرتاقدس سے ملا قات کی طاعون پر ذکر اذکار ہو تے رہے اور مینار کے متعلق بھی تحصیلدار صاحب نے چند امور استفسار کئے اس موقعہ پر جو حضر ت اقدس نے ارشاد فرمایا اسے ہم یکجائی طور ہر درج کر دیتے ہیں۔
(ایڈیٹر)
طاعون
طاعون کے تجربہ کے سوال پر فرمایا کہ
اس کے تجربہ کا موقعہ ابھی بہت ہے حکماء نے لکھا ہے کہ اس کا دورہ ستر ستر برس تک ہوا کرتا ہے بڑے بڑے حکماء نے پچاس ساٹھ برس تک اس کے دور ہ کا مشاہد لکھا ہے لیکن خدا جانے کہ بعد مین اس کے کیا تجارب ہوں یہ کہنا کہ تجربہ ہوا ہے کھلی ہوا میں کے کیڑے سے زیادہ ہو تے ہیں ٹھیک نظر نہیںآتا کیو نکہ علاقہ بمبئی میں اس نے سب سے پہلے زیادہ حصہ شہر بمبئی کا ہی پسند کیا تھا شاید یہ بات بعد میں بدل جا ئے ہم اس رائے کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب طاعون کی رفتار بھی اسے قبو ل کر ے جیسے حکام کے دورے ہو تے ہیں اسی طرح اس کے بھی دورے ہو تے ہیں کسی جگہ پر عود کرتی ہے اور کسی جگہ نہیں لیکن اس پر بھی زور نہیں دیا جاسکتا شاید ایک ہی جگہ بار بات آجاوے پہلا تجربہ یہ ہے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ اپنی عمر پوری کر کے خود بخود ہی چھوڑ جاتی ہے ۔
طاعون کا باعث
سوال ہوا کہ طاعون کا اصل باعث کیا ہے ؟فرمایا کہ:۔
مَیںاس مجلس میں اس ذکر اس لیے پسند نہیں کرتا کہ مذہبی رنگ کے مسائل کو لوگ کم سمجھتے ہیں حقیقت میں جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں وہ جا نتے ہین کہ یہ اس کی نافرمانی کا نتیجہ ہے قاعدہ کی بات ہے جب انسان اپنی عقل پر بہت بھروسہ کرتا ہے تو ہر شیئی کا انکارکر دیتا ہے حتیٰ کہ خدا تعالیٰ سے بھی منکر ہو جاتا ہے مَیں دیکھتا ہوں کہ آج کے جنٹلمین دنیی بات کرنے والے کو بیوقوف کہہ دیتے ہیں لیکن یقین ہے کہ اب زمانہ خود بخود مئود ب ہو جائے گا نرے ارضی اسباب ہی اس طاعون کے موجد نہیں ہیں آخر اس کے کیڑے کسی پیدا کرنے والے کی وجی سے ہی پیدا ہو ئے ہیں اور وہ زمانہ قریب ہے کہ لوگوں کو اس کی ہستی کا پتہ لگ جاویگا ابھی تک لوگوں کو عبرت کامل نہیں ہو ئی ہے طاعون کی گذشتہ چال سے پتہ چلتا ہے کہ اول عوام پر پھر خواص پر پھر ملوک پر حملہ کرتی ہے اور اس کے اصل اسباب کا معمہ تو خدا خود ہی کھو لے گا مَیں نے اس کی خبرآج سے بائیس سال پیشتر دی ہے پھر سات سال کے بعد دی پھر اس وسقت دی جب ایک دوضلوں میں یہ تھی قرآن میں انجیل میں،دانیال نبی کی کتاب میں اس کاذکر ہے غرض ازوقت ہم اس کی نسبت کھل کر بات نہیں کرتے کیو نکہ اس پرہنسی کی جاوے گی جب خدا تعالیٰ اس کا پورا دورہ خود ختم کرے گا تو اس وقت آپ ہی لوگوں کو پتہ لگ جاوے گا ۔
اطباء نے لکھا ہے کہ جب موسم جاڑے یا گرمی کی طرف حرکت کرتا ہے تواس وقت یہ زیادہ ہو تی ہے مگر ابھی موسم اتنی شدت گر می کا نہیں ہے لیکن اگر مئی کے گذرنے پر یہی حال رہا تو شاید یہ قاعدہ بھی ٹوٹ جاوے مگر اصل بات کا علم تو خدا تعالیٰ ہی کوہے ۔
اکثر جگہ چو ہے کثرت سے مرتے ہیں تو وہاں طاعون کا اندیشہ ہو تا ہے مگر ہمارے گھر میں دو بلیاں ہیں اور وہ کو ئی چو ہا نہیں چھوڑ تیں شاید یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک علاج ہو۔
طاعون کا حقیقی علاج
سوال ہواپھر اس کا علاج کیا ہے ؟فرمایا :۔
ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ بجز تقویٰ طہارت اور رجوع الیٰ اللہ کے اور کو ئی چارہ نہیں گو لوگ اسے دیوانہ پن سمجھتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ دنیا خود بخود نہیں ہے ایک خا لق اور مدبر کے ماتحت یہ چل رہی ہے جب وہ دیکھتا ہے۔ کہ زمین پر پاب اور گناہ بہت بڑھ گیا ہے تو وہ تنبہیہ نازل کرتا ہے۔ اور جب رجوع الیٰ اللہ ہو تو پھر اسے اٹھا لیتا ہے لیکن دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بہت بیباک ہیں اور ان کو ابھی تک کچھ پروا نہیں ہے ۔
مینارہ المسیح کی غرض
سوال ہوا کہ مینار کیوں بنایا جاتا ہے ؟فر مایا کہ :۔
اس مینار کی تعمیر میں ایک یہ بھی بر کت ہے کہ اس پر چڑھ کر خدا تعالیٰ کا نام لیا جاوے گا اور جہاں خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے وہاں بر کت ہو تی ہے چنانچہ اسی لیے سکھوں نے بھی اذانیں دلوائی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے گھروں میں بلا کر قر آن پڑھوایا ہے پھر اس کے اوُپر ایک لالٹین بھی نصب کی جاوے گی ۔جس کی روشنی دُور دُور تک نظر آویگی۔
سُنا گیا ہے کہ روشنی سے بھی طاعونی مواد کا دفعیہ ہو تا ہے اور ایک گھنٹہ بھی اس پر لگایا جاوے گا ۔اس کی بلندی کی نسبت ہم کہ نہیں سکتے ۔ابھی سر مایہ نہیں ہے سر مایہ پر دیکھا جاویگا کہ کس قدر بلند ہو گا یہ خیا ل بالکل غلط ہے کہ لوگ اس پر چڑھ کر چارپائیاں بچھا ویں گے کیونکہ ایک تو وہ مخروطی شکل کا ہو گا اور گھنٹہ کی وجہ سے اس کو بند رکھا جاویگا کہ لوگ چڑھ کر اُسے خراب نہ کر دیویں ۔
مجھے حیرت ہے کہ یہاں کے ہندوؤں کے سا تھ ہم نے آج تک برادرانہ برتاؤ رکھا ہے اور یہ لوگ ہمارے مینار کی تعمیر پر اس قدر جوش و خروش ظاہر کر رہے ہیں ۔اس مسجد کو ہمارے مرزا صاحب (والد صاحب)نے سات سو روپے کو خریدا تھا اور اس مینار کی تعمیر میں صرف اس مسجدہی کے لیے مفید بات نہیں بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہے یہ خیال کہ اس سے بے پر دگی ہو گی یہ بھی غلط ہے ۔اب ہمارے سامنے ڈپٹی شنکرداس صاحب کاگھر ہے اوراس قدر اونچاہے کہ آدمی اُوپر چڑھے تو ہمارے گھر میں اسکی نظر برابر پڑتی ہے تو کیااب ہم کہیں کہ اُسے گرادیا جاوے ؟بلکہ ہم کو چاہیئے کہ اپنا پر دہ خود کر لیویں ۔
ان لوگوں کو چاہیئے تھا کہ مذہبی امور میں ہم سے دلبستگی ظاہر کوتے اور اس امر میں ہماری امداد کرتے اگر یہ لوگ اپنا معبد بلند کرنا چاہیں تو کیا ہم اُسے روک سکتے ہیں ؟
یہ خیا ل کہ مسجد یہاں ہو اور مینار کہیں باہر ہو ایک قسم کی ہنسی ہے اور اس وقت قبولیت کے قابل ہے کہ اوّل مسجد باہر نکال دی جاوے پھر مینار بھی باہر ہو جاوے گا ۔یہ قبر ہمارے مرزا صاحب کی ہے انہوں نے نزول ۱ ؎ سے زمین خرید کر اس مسجد کو تعمیر کرایا تھا اور اپنی موت سے ۲۲ دن پہلے اپنی قبر کا نشا ن بتلایا کہ اس جگہ ہو ۔مجھے ان لوگوں پر بار بار افسوس آ تا ہے کہ ہمارے دل میں تو ان کی ہمدردی ہے ۔بیماریوں میں ہم انکا علاج کرتے ہیں ۔ہر ایک ان کی مصیبت میں شریک ہو تے ہیں ۔ان سے پوچھا جاوے کہ کبھی ان کے مذہبی معاملات میں میَں نے اُن سے نقیض کی ہے ؟دنیاوی معاملات تو الگ ہو تے ہیں لیکن مذہبی معاملات میں شرافت کا بر تاؤ ہو اکرتا ہے ۔ان کو لازم تاھ کہ ایسی باتیں نہ کرتے جو آپس کی شکر رنجی کا موجب ہو تیں اس مینار کی بنیاد پر گیارہ سو روپیہ خرچ آیا ہے ۔تین برس سے اس کا ابتدائی کا م شروع ہے چنانچہ ’’الحکم‘‘میں اس کا علان موجود ہے اگر ہماراچار ہزار روپے کا نقصان ہو پھر ان کو یہ روپیہ مل جاوے تو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خیر ہمسائیوں کو فائدہ پہنچا ۔لیکن ابھی تو مینار خیالی پلاؤ ہے جوں جوں روپیہ آویگا بنتا رہے گا جب وہ مکمل ہو جاوے تو پھر کوئی اعتراض کی بات ہو تو اعتراض ہو سکتا ہے ۔
میں ایسا فعل کیوں کرنے لگاجس سے اَوروں کو بھی نقصان ہو اور مجھے بھی ۔ہماری پردہ داری سب سے اعلیٰ ہے اگر کوئی مینار پر چڑھے گا جیسے اَوروں کے گھر میں نظر پڑسکتی ہے ویسی ہی ہمارے گھر میں بھی پڑ سکتی ہے تو کیا ہم گوارا کریں گے کہ یہ بات ہو ؟بہر حال جب یہ بن جاویگا تو لوگ سمجھ لیویں گے کہ اُ ن کو اس سے کس قدر فائدہ ہے ۔ (البدرجلد ۲ نمبر ۱۸ صفحہ۱۳۸، ۱۳۹ مورخہ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
گوشت خوری
چونکہ انسان جلالی جمالی دونو رنگ رکھتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ گوشت بھی کھائے اور دال بھی کھائے ۔ ۱۹۰۰/ ۱۰/ ۲۲ ۱؎
بلا تاریخ
اچھوتا نکتہ
عبادت اور احکام ِالہیٰ کی دو شاخیںہیں ۔تعظیم لامراللہ اور ہمدردی مخلوق ۔مَیں سوچتا تھا کہ قرآن شریف میں تو کثرت کے ساتھ اور بڑی وضاحت سے ان مراتب کو بیان کیا گیا ہے سورۃ فاتحہ میں ان دونوں شقوں کو کس طرتح بیان کیا گیا ہے مَیں سوچتا ہی تھا کہ فی الفور میرے دل میں یہ بات آئی کہ
الحمدللہ رب العالمین۔ الر حمن الرحیم ۔ملک یوم الدین
سے ہی یہ ثابت ہو تا ہے یعنی ساری صفتیں اور تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں جو رب العا لمین ہے یعنی ہر عالم میں نطفہ میں اور مضغہ وغیرہ میں سارے عالموں کا رب ہے ۔پھر رحمن ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے اب اس کے بعد
ایا ک نعبد
جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربو بیت ۔ رحمانیت ۔رحمییت ۔مالک یوم الدین کی صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چا ہیئے کیو نکہ کمال عابد انسان کا یہی ہے
تخلقوا با خلاق اللہ
میں رنگین ہو جاوے پس اس صورت میں یہ دونو امر بڑی وضاحت اور صفائی سے بیان ہو ئے ۔
بلا رتایخ
معجزات کے تین اقسام
فرمایا :۔
معجزات تین اقسام کے ہو تے ہیں :۔
(۱) دعائیہ (۲) ارہاصیہ (۳) قوتِ قدسیہ
ارہاصیہ میں دعا کو دخل نہیں ہو تا قوتِقدسیہ کے معجزات ایسے ہو تے ہیں جیسے رسول اللہ ﷺ نے پا نی انگیلاں رکھدیں اور لوگ پا نی پیتے رہے یا ایک تلخ کو ئیں میں اپنا لب گرِادیا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا ۔مسیحؑ کے معجزات میں بھی یہ رنگ پایا جاتا ہے خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
مسیح کے معجزات کے متعلق جو ہم نے عمل الترب کا ذکر کیا ہے اس سے مردا یہ ہے کہ جو قو تیں اللہ تعالیٰ نے خلقی طور پر انسان کی فطرت میں ودلیعت کی ہیں وہ توجہ سے سرسبز ہو تی ہیں رہی یہ بات کہ مسیح کے معجزات کو مکر وہ کہا ہے یہ ایسی بات ہے کہ بعض اوقات ایک امر جائز ہوتا ہے اور دوسرے وقت نہیں ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۱۹ صفحہ۳ مورخہ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
بلاتاریخ ۱؎
تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعتِ ہدایت
جب ہم اس تر تیب کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے دو مقصد ہی بیان فرمائے ہیں تکمیل ہدا یت اور تکمیل اشاعت ہدایت اور اول الذکر تکمیل چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہو گی ۔
الیوم اکملت لکم ( المائدہ:۴)
اسی دن نازل ہو ئی اور دوسری تکمیل کے لیے بالا تفاق مانا گیا ہے۔ کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہو گی چنا نچہ سب مفسروں نے بالا تفاق تسیلم کیا ہے جبکہ پہلی تکمیل چھٹتے دن ہو ئی تو دوسری تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہو گی اور قرآن شریف میں ایک دن ایک ہزار برس کا ہو تا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں ہو گا ۔
بلاتاریخ ۲؎
بہتر ین دعا
بہتر ین دعا وہ ہو تی ہے جو معامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی ۔
اس لیے
انعمت علیھم
کی دعا میں آدم ؑ سے لیکر آنحضرتﷺ تک کے کل منعم علہیم لوگوں کے انعامات کے حصو ل کی دعا ہے اور
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین
میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے چو نکہ کہ مغضوب سے مردا یہود اور ضالین سے مراد نصاری بالا تفاق ہیں تواس دعا کی کا منشا صاف ہے کہ یہود نے جیسے بیجا عداوت کی تھی مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہانتک کہ وہ یہودیوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔
بلاتاریخ
روح القدس کے فرزند
ایدنا ہ بروح القدس(البقرہ :۲۵۴)
میں مسیحؑ کی کو ئی حصوصیت نہیں ہے روح القدس کے فر زند تمام وہ سعا دتمند اور راستباز ہیں جن کی نسبت
انعبادی لیس لک علیھم سلطان (الحجر:۴۳)
وارد ہے قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہو تی ہے اول وہ روح القدس کے فرزند ہیں دوسرے وہ شیطان کے فرزند ہیں پس اس میں مسیح ؑ کی کو ئی حصوصیت نہیں ۔
بلاریخ
دوزخ دائمی نہیں
ہمارا ایمان ہے کہ دوزخ میں ایک عرصہ تک آدمی رہیگا پھر نکل آئے گا ۔گو یا جب کی اصلاح نبوت سے نہیں ہو سکی ان کی اصلاح دوزخ کر یگا حدیث میں آیا ہے۔
یا تی علیٰ جھنم زمان لیس فیئھا احد
یعنی دوزخ پر ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ اسمیں کو ئی متنفس نہیں ہو گا اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹا ئے گی ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ صفحہ۳۱ مورخہ۳۱؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
بلاتاریخ
استفسار اور انکے جواب ۲؎
سوال :۔ کبھی نماز میں لذت آتی ہے اور کبھی وہ لذت جاتی رہتی ہے اس کا کیا علاج ہے ؟
جوب :۔ہمت نہیں ہارنی چاہیئے بلکہ اس مذت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کوحا صل کر نے کی سعی کر نی چاہیئے جیسے چور آوے اور وہ مال اُڑا کر لے جاوے تو اس کا افسوس ہو تا ہے اور پھر انسان کوشش کر تا ہے کہ آئیدہ اس خطرے سے محفوظ رہے ۔اس لیے معمول سے زیادہ ہو شیا ری اور مستعدی سے کام لیتا ہے ۔اسی طر ح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور اُنس کو لے گیا ہے تو اس سے کس قدر ہوشیا رہنے کی ضرورت ہے ؟اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جاوے ؟انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا اُنس و ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر بے غم نہ ہو نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہو نا ایک سارق کی چوری اور روُحانی بیماری ہے جیسے ایک مریض کے مُنہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے ۔اسی طرح پر جس کا روُحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کر نی لازم ہے ۔
یاد رکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے جب کوئی گناہ اس سے سر زد ہو تا ہے تو وہ چشمہ لذت مکرر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی ۔مثلاًجب گالی دیتا ہے یا ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر بد مزاج ہو کر بد زبانی کر تا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے ۔اخلاقی قویٰ کو لذت میںبہت بڑا دخل ہے ۔جب انسانی قویٰ میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا ۔پس جب کبھی ایسی حلت ہو کہ اُنس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیئے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے توبہ، استغفار ،تضرع ۔بے ذوقی سے ترک نمازنہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے ۔جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑنہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیتا جاتا ہے یہانتک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آجاتا ہے ۔پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنے چاہیئے اور تھکنا مناسب نہیں آخر اسی بے ذوقی میں ذوق پیدا ہو جاویگا۔
دیکھو پانی کیلئے کسقدر زمین کھودنا پڑتا ہے جو لوگ تھک جاتے ہیں وہ کحروم رہ جاتے ہیں جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں ۔اس لیے اس ذوق کو حاصل کر نے کے لیے استغفار ،کثرت نماز ودُعا،مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے ۔
بہترین وظیفہ
سوال :۔ بہترین وظیفہ کیا ہے ؟
جواب:۔نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہیٰ ہے استغفار ہے اور درود شریف ،تمام وظائف اور اَوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم وہم دور ہو تے ہیں اور مشکلات حل ہو تی ہیں
آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اسی لیے فر مایا ہے
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
اطمینان وسکینتِ قلب کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں ۔لوگوں نے قسمِ قسمِ کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت ﷺ کی شعیعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے۔مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میَں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میَں دیکھتا ہو ں اور حٰرت سے دیکھتاہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں ان وظائف اور اَورادمیں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں ۔بعض لوگ دیکتے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اَوراد میں ایسے منہمک ہو تے ہیں کہ نمازوں کو بھی لحاظ نہیں رکھتے ۔میَں نے مولوی صاحب سے سُنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے ۔نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیئے اور سمجھ سمجھ کر پڑ ھو اور مسنون دُعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی ۔نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے ۔اس لیے فر مایا ہے
اقم الصلوہ لذکری (طہ:۱۵)
قبرستان میں جانا
سوال:۔ قبرستان میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب :۔نذر ونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جاکر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جاکر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے ۔قبروں کے پختہ بنانے کی ممانعت ہے البتہ اگر میّت کو محفوظ رکھنے کی نیت سے یو تو ہر ج نہیں ہے یعنی ایسی جگہ جہاں سیلاب وغیرہ کا اندیشہ ہو اور اس میں بھی تکلفات جائز نہیں ہیں ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ صفحہ ۹ مورخہ ا۳مئی ۱۹۰۳؁ء)
۱۰ مئی ۱۹۰۳؁ء
صبح کی سیر
مامور کا زمانہ ایک قیامت ہو تا ہے
فر فر یق فی الجنۃ و فریق فی السعیر (شوری :۸)
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جیسے ایک طرف بغض و حسد کر نیوالے ہمارے دشمن موجود ہیں ۔ویسے ہی ان کے بالمقابل وہ لوگ بھی ہیں جو کہ اسی تحریک سے راہ راست کی طرف آجاتے ہیں۔مامور کا زمانہ بھی ایک قیامت ہے۔جیسے لوگ جزا کے دن دو فر یقوں میں تقسیم ہو جاویں گے یعنی
فر یق فی الجنۃ و فریق فی السعیر (شوری :۸)
ایسے ہی مامور کی بعثت کے وقت بھی دو فریق ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فر مانا
و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االی یوم القیامۃ(اٰل عمران:۵۶)
جیسے تقریباً سات سو برس پہلے آنحضرت ﷺ کے کہا گیا اور مسیح علیہ السلام کے وقت پورا ہو اویسا ہی آپ کے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں ہمارے زمانہ میں پورا ہو رہا ہے ۔
ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا
فر مایا کہ :۔ ۱ ؎ اہل عرب اس قسم کے استثناء کرتے ہیں ۔صف و نحو میں بھی اگر دیکھا جاوے تو ایسے استثناء بکثرت ہو کرتے ہیں اور ایسی نظیریں موجود ہیں جیسے کہا جاوے کہ میرے پاس ساری قوم آئی مگر گدھا اس سے یہ سمجھنا کہ ساری قوم جنس حمار میں سے تھی غلط ہے ۔
کان من الجن
کے بھی یہی معنے ہوئے کہ وہ فقط ابلیس ہی قوم جن میں سے تھا ملائکہ میں سے نہیں تھا ملائک ایک الگ پاک جنس ہے اور شیطان الگ ۔ملائکہ اور ابلیس کا راز ایسا مخفی در مخفی ہے کہ بجز امنا وصدقنا کے انسان کو چارہ نہیں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اقتدار اور تو فیق نہیں دی مگروسوسہ اندازی میں وہ محرک ہے یجسے ملائکہ پاک تحریکات کے محرک ہیں ویسے ہی شیطان ناپاک جذبات کا محرک ہے ۔ملائکہ کی منشاء ہے کہ انسان پاکیزہ ہو ،مطہر ہو اور اسکے اخلاق عمدہ ہوں اور اس کے بالمقابل شیطان چاہتا ہے کہ انسان گندہ اور ناپاک ہو
اصل بات یہ ہے کہ قانون الہیٰ ملائکہ وابلیس کی تحریکات کا دوش بدوش چلتا ہے لکین آخر کا ر ارادہ الہیٰ غالب آجاتا ہے گویا پس پردہ ایک جنگ ہے جو خو بخود جاری رہ کر آخر قادر ومقتدر حق کا غلبہ ہو جاتا ہے اور باطل کی شکست ۔
مجہول الکہنہ اشیاء
چار چیزیں ہیں جن کی کہنہ وراز کو معلوم کرنا انسان کی طاقت سے بالا تر ہے ۔اوّل اللہ جلشانہ،دوم روح،سوم ملائکہ ،چہارم ابلیس جو شخص ان چاروں میں سے خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل ہے اور اس کی صفاتِ الوہیت پع ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ ہر سہ ازشیاء رُوح،ملائکہ ا،بلیس پر ایمان لائے مثلاً رُوح جیسے انسان کے اندر داخل ہوتی معلوم نہیں ہو تی ویسے ہی اس میں سے خارج ہو تی بھی معلوم نہیں ۲؎ ہو تی۔انسان کو ہر حال میں رضاء الہیٰ پر چلنا چاہیئے اور کار خانہ الہیٰ میں دخل در معقولات نہیں دینا چاہیئے ۔تقوی اور طہارت ،اطاعت ووفا میں تر قی کر نی چاہیئے اور یہ سب باتیں تب ممکن ہیں جب انسان کامل ایمان اور یقین سے ثابت قدم رہے اور صدق واخلاص اپنے مولا کریم سے دکھلائے اور وہ باتیں جو علم الہیٰ میں مخفی ہیں اس کی کُنہ کے معلوم کرنے میں بیسود کوشش نہ کرے ۳؎ مثلاًہلیلہ قبض کو دور کر تی ہے اورسم ا لفار ہلاک کرتا ہے اب کیا ضرورت پڑی ہے کہ بے فائدہ اس دھت میں بھاگا پھرے کہ کونسی شے ہے جو یہ اثر کر تی ہے ۔طبیب کا کام ہے کہ اُن کے خواص کو معلوم کرے۔
اور یہ سوال کہ کیوں یہ خواص پیدا ہو گئے حوالہ بخدا کرے جو شخص ہر ایک چیز کے خواص وماہیت دریافت کے نے کے پیچھے لگ جاتا ہے وہ نادانی سے کارخانہ رنی اور اس کے منشاء سے بالکل ناواقف ونابلد ہے ۔
ملائکہ اور شیطان
اگر کوئی کہے کہ ملائکہ اور شیطان دکھلاؤ تو کہنا چاہیئے کہ تمہارے اندر یہ خواص کہ بیٹھے بٹھائے آناً فاناًبدی کی طرف متوجہ ہو جا نا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ذات سے بھی منکر ہو جانا اور کبھی نیکی میں ترقی کرنا اور انتہا درجہ کی انکساری و فروتنی وعجز ونیاز میں گِر جانا یہ اندرونی کششیں جو تمہارے اندر موجود ہیں ان سب کے محرک جو قویٰ ہیں وہ ان دوالفاظ ملک وشیطان کے وجود میں مجسم ہیں ۔
سعادت اسی میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لایا جاوے اور اس کو حاضر و ناظر یقین کیا جاوے اور اس کی عین موجودگی کا تصور دل میں رکھ کر ہر ایک بدی وناراستی سے پر ہیز کیا جاوے ۔یہی بڑی دانش وحکمت ہے اور یہی معرفت ِالہیٰ کا سیراب کر نے والا شیریں سوتہ ہے جس سے اور جس کے لیے اہل اللہ ایک ریگستان کے پیاسے کی طرح آگے بڑھ کر خوش مزگی سے پیتے ہیں اور یہی وہ آبِ کوثر ہے جو مولائے کریم رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے اپنے اولیاء اصفیا کو ہلاتا ہے ۔
مومن چونکہ خداتعالیٰ کی معرفت کا محتاج ہے اور ہر کوئی اس کی طرف نظر اُٹھائے دیکھ رہا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی یہ دروازہ پورے طور پر کھولا ہو ہے جوں جوں انسان اس راہ میں کوشش کر یگا توں توں درِ رحمت اس پر کھلتا جاوے گا ۔دنیا میں بے انت ایسی چیزیںہیںجن کی ہمیں خبر بھی نہیںپر ایسی چیزوں کی دریافت کیلئے ہونا کون سی عقلمندی ہے کونسی چیز ہے جس کی تحقیق انسان نے پورے طور پر کر لی ہے ۔ جوچیز اللہ جلشانہ نے انسان کے لیے چنداں مفید نہیں سمجھی ۔وہ پورے طور پر انسان پر منکشف بھی نہیں ہوتیپس جو ہر ایک چیز کو دریافت کرنا چاہتا ہے وہ خدا بننا چاہتا ہے ۔جس راہ پر انسان پہنچ نہیں سکتا چاہیئے کہاُسے چھوڑ دے ۔انسان کو جو کچھ کہ دیا گیا ہے اس پر قانع رہے ،اگر یہ توقع رکھے کہ آسمان کے درخت کا پھل آوے تو میَں کھاؤں حلانکہ اس کا ہاتھ وہاں پہنچ بھی نہیں سکتا تو وہ مجنوں ہے ہاں جب اللہ تعالیٰ اس کی فطرت میں یہ قویٰ پیدا کر دے کہ آسمان تک پہنچ سکے توکچھ مضائقہ نہیں کہ وہ آسمان ہی کے پھل کھاوے
گناہ سے کیسے بچ سکتے ہیں
گناہ سے انسان کیسے بچ سکتا ہے اس کا علاج یہ تو بالکل نہیں کہ عیسائیوں کی طرح ایک کے سر میں درد ہو تو دوسرا اپنے سر میں پتھر مار لے اور پہلے کا درد سر دور ہو جاوے دراصل انسان کو حدِاعتدال سے گزر جانا ہی گناہ کا موجب ہو تا ہے اور رفتہ رفتہ وہ بات پھر عادت میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ سوال کہ یہ عادت کیونکہ دور ہو سکتی ہے ؟اکثر لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ عادت دور نہیں ہو سکتی اور عیسائیوں کا تو پختہ یقین وایمان ہے کہ عادت یا فطرت ثانی ہر گز دور نہیں ہو سکتی اور نہ بدل سکتی ہے ۔مسیح کے کفارہ کو مان کر بھی یہ تو نہیں ہو سکتا کہ انسان گناہ سے بابطع نفرت کرنے لگ جائے۔ نہیں البتہ اس کفارہ کے طفیل اُخروی عذاب سے نجات پاجائے گا۔یہی اعتقاد ہے جو رکھنے سے انسان خلیع الرسن ہو کر بد کاریوں اور ناسزا وار اُمور میں دل کھول کر ترقی کرتا ہے ۔
قابلِ توجہ
ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہیئے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیر ہ ہوجب گردن پر سوار ہو گیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے ۔طر ح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رَچ جاتے ہیں کہ اُن سے نجات مشکل ہو جاتی ہے ۔
فروتنی اور عاجزی
انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے ۔کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پاسکتا ۔کبیر نے سچ کہا ہے ۔
بھلا ہو اہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام ؛ جے ہو تے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان
یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہو ئے ۔اگر عالی خاندان میں پیدا ہو تے تو خدا یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہو ئے ۔اگر عالی خاندان میں پیدا ہو تے تو خدا نہ ملتا ۔جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات با فندہ ۱ ؎ پر نظر کر کے شکر کرتا ۔
پس انسان کو چا ہیئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ مَیں کیسا ہیچ ہوں میری کیا ہستی ہے ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا ۔بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں طیکہ آنکھیں رکھتا ہو۔ تمام کا نئات سے اپنے آپ کوضرور با لضرور قابل وہیچ جان لیگا انسان جب تک ایک غریب وبیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ ہو تے جوآپ اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا بر تنے چا ہیں اور ہر ایک طرح کے غرور عونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچا وے وہ ہر گز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ۲؎
دعا
جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں اللہ جلشانہ نے جودروازہ اپنی مخلوق کی بھلا ئی کے لیے کھو لا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بیجا کا موںاور نا کارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو ماننے کے بھی گناہ سے پر ہیز نہیں کرتا؟ دوحقیقت اس میں دہر یت کی ایک رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو تا ورنہ اگر وہ جا نتا کہ کو ئی خدا ہے جو حساب کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ کیسے بدی کر سکتا ہے اس لیے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کو ئی چور چوری نہیں کرتا اورآنحالیکہ وہ مومن ہے اور کو ئی زانی زنا نہیں کرتا دوآنحا لیکہ وہ مومن ہے بدکرداریوں سے نجات اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ یہ بصیرت اور معرفت پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کا غضب ایک ہلات کر نے والی بجلی کی طرح گرتا اور بھسم کر نے والی آگ کی طرح تباہ کرت دیتا ہے تب عظمت الہیٰ دل پر ایسی مستولہ ہو جاتی ہے کہ سب افعال بداندار ہی اندر گداز ہو جاتے ہیں ۔
نجات
پس نجات معرفت میں ہی ہے معرفت ہی سی محبت بڑھتی ہے اس لیے سب سے اول معرفت کا ہو نا ضروری ہے محبت کے زیادہ کر نے والی دو چیز یں ہیں حسن اور احسان جس سخص کو اللہ جلشانہ کا حسن اور احسان معلوم نہیں وہ کیا محبت کر یگا ؟چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ولا ید خلون الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط (الاعراف :۴۱)
داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نی گذر جائے مفسرین اس کا مطلب ظاہر ی طور پر لیتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طبگار کو کدا تعالیی کی راہ میں نفس کے شتر بے مہار کو مجاہدات سے ایسا دبلا کر دینا چا ہیئے کہ وہ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائیے جب تک نفس دینوی لذائذ وشہوانی خطوظ سے مو ٹا ہوا ہوا ہئے تب تک یہ شریعت کی پاک راہ سے گذرا کر بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا دنیوی لذائذ پر موت واردکرو اور خوف وخشیت الہیٰ سے دبلے ہو جاؤ تب تم گذرسکو گے اور یہی گذرنا تمہیں جنت میں پہنچا کر نجات اخروی کا موجب ہو گا ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ صفحہ ۱۳۔۱۴ مورخہ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
مجلس قبل ازعشاء
پابندی رسوم کا اثر ایمان پر
فرمایا:۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحجبکم اللہ (ال عمران :۳۲)
اللہ تعالیٰ کے خوش کر نے کا ایک یہی طریق ہے آنحضرت ﷺ کی سچی فرما نبرداری کی جاوے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طر ح طرح کی رسوماتے میں گرفتار ہیں کو ئی مر جاتا ہے توقسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالا نکہ چا ہیئے کہ مردہ کے حق میں دعا کی کریں رسومات کی بجاآوری میں آنحضرتﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گو یا آنحضرتﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا اگر کا فی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔
فرمایا کہ:۔
انسان کی وہ غلطی تو معاف ہو سکتی ہے کہ جو نادانی سے کرتا ہے مثلاً آنحضرتﷺ کے زمانہ کے بعدفبج اعوج کے زمانہ میں طرح طرح کی غلطیاں پھیل گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسیح فوت نہیں ہو ئے اور اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر موجود ہیں ۔
(اس مقام پر حضرت اقدس نے مسیح کی وفاتکے دلائل مختصراً جامع طور پر بیان فرمائے ) اور پھر ان کے بعد ایک تقریر اس مضمون پر فرمائی کہ ہماری جماعت سے کیوں بعض لوگ طاعون سے مرجاتے ہیں اور فرمایا کہ:۔
ہمیشہ انجام پر نظر چا ہیئے آخر کار مومن ہی کا میاب ہو تا ہے اور پھر ایک التباس بھی ہو تا ہے کہ جس پر ہر ایک کو ایمان لا ناچا ہیئے اگر التباس نہ ہو تو پھر ایمان ایما ن نہیں ہو سکتا بعض کام تو اس لیے کئے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہو جاوے اور بعض اس لیے ظہور میں آتے ہیں کہ انسان تدبر کریں اگر التباس نہ ہو تو تدبر کر نے والوں کو ثواب کیسے حاصل ہو تا اور ایمان کے کیامعنے ہو تے ۔
اگر موت صرف دشمنوں کے واسطے ہی ہو تو پھر کون بیوقوف ہے جو کہ ظاہری موت کو دیکھ کر مسلمان نہ ہو جاوے یوں تو لوگ بیشک خدا تعالیٰ کے سوا اور وں کی عبادت کرتے ہیں مثلاً بعض مندو قبروں کی بھی پوجا کرتے ہیں تو جب ایسے لوگ دیکھ لیویں کہ عافیت تو صرف خدا کے ایک ماننے والوں کے پاس ہے تو ان کو ایمان سے کو نسی شئے روک سکتی ہے ؟ (البدرؔجلد ۲ نمبر ۱۹ صفحہ ۱۴۵مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۱۴؍مئی ۱۹۰۳؁ء
وقت ِظہر
نجات کے واسطے اعمال کی ضرورت ہے َ
ایک ذکر پر فرمایا کہ:۔
صدق اور عاجز ی کام آتی ہے مگر یہ کدی کا اختیار نہیں ہے کہ کسی کو ہاتھ ڈال کر سیدھا کر دیو ے ہر ایک انسان کی نجات کے واسطے اس کے اپنے اعمال کا ہو نا ضروری ہے بوستاں میں ایک حکا یت لکھی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک اہل اللہ کو کہا کہ میرے لیے دعا کرو کہ مَیں اچھا ہو جاؤں اس نے جواب دیا کہ میرے ایک کی دعا کیا کام کرے گی جبکہ ہزاروں بے گناہ قیدی تیرے لیے بددعا کرتے ہیں اس نے سنکر تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔
مجلس قبل ازعشاء
فرمایا کہ:۔
اس وقت صدہا فرقے ہیں اگر ایک الہیٰ فرقہ بھی ہو گیا تو کیا حرج ہے؟ خدا معلوم کیوں ان لوگوعں نے شور مچا رکھا ہے ہمارا خدا بائیس برس سے زیادہ عرصہ سے ہماری امداد کر رہا ہے اور ان لوگوں کی پیش نہ گئی بد دعا کرتے کر تے انکے ناک بھی کھس گئے اور ہمیں تجربہ ہے کہ ہمارا وہی خدا ہے جس کی کلام ہم پر نازل ہو تی ہے اب اس کے مقابل پر ان کے ظنیات کس کام کے ہیں ؟ جس حکم کے وہ منتظر ہیں آخر اس نے بھی آکر ایک ہی فرقہ بنا نا ہے ان کی باتوں کا اکثر حصہ آکر وہ رد کر یگا تو ہی ایک فرقہ بنا سکے گا پھر کیوں تقویٰ اجازت نہیں دیتا کہ ان کی باتیں رد کی جاویں؟
تکاب اللہ ہمارے ساتھ ہے حدیث بھی پکی سے پکی ہمارے ساتھ ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت مسیحؑ کو مردوں میںمعراج کی رات دیکھ کر آئے ادھر خدا کی قولی شہادت ادھر آنحضرتﷺ کی فعلی شہادت کہ مسیحؑ فوت ہو گئے ۔
قاعد ہ کی بات ہے کہ محبت اور ایمان کے لیے اسباب ہو تے ہیں مسیحؑ کی زندگی پر نظر کرو تو معلوم ہو گا کہ ساری عمر دھکے کھا تے رہے صلیب پر چڑھنا بھی مشتبہ رہا ادھر ایک لمبا سلسلہ عمراور سوانح آنحضرتﷺکا دیکھو کہ کیسی نصرت الہیٰ شامل رپہی ہر ایک میدان میںآپ کو فتح ہو ئی کو ئی گھڑی یاس کی آپ پر گذری ہی نہیں یہانتک کہ
اذاجا نصراللہ والفتح
کا وقت آگیا ان تمام نصرتوں میںکو ئی حصہ بھی حضرت مسیح کی نظر نہیں آتا اس لیے صاف ثابت ہے کہ محبت آنحضرتﷺ کی خدا سے زیادہ ہو نہ کہ مسیح کی کیو نکہ آنحضرتﷺ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بکژت ہیں اور اس لیے صرف آنحضرت ﷺ کی یہ شان ہو سکتی ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہوں جو شچخص نظارہ قدرت زیادہ دیکھتا ہے وہی زیادہ فریفتہ ہوا کرتا ہے ۔
اور اب اگر مسیحؑ آویں بھی تواس میں ااسلام کی اور خود مسیحؑ کی بے عزتی ہے اسلام کی بے عزتی اس طرح کہ کینا پڑیگا کہ خاتم النبیین کے بعد ایک اور پیغمبر اسرائیلی آیا اور مسیحؑ کی بے عزتی اس طرح کہ ان کو آکر انجیل چھوڑنی پڑے گی۔ (البدرؔجلد ۲ نمبر ۱۹ صفحہ ۱۴۶مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۱۸مئی ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
قرآن کی ایک پیشگوئی کا پورا ہو نا
وان من قریۃ الا نحن مھلکوھا قبل یوم القیامۃ اومعد بوھا عذابا شدیدا(بنی اسرائیل:۱۵۹)
کو ئی ایسا گااؤں نہیں مگر روز قیامت سے پہلے پہلے ہم اس کو ہلاک کر کے رہیں یا اس سخت عذاب دیویں گے قرآن یہ ایک پیشگوئی ہے فرمایا کہ:۔
یہ اب پنجاب پر بالکل صادق آرہی ہے بعض گاؤں تواس سے بالکل تباہ ہو گئے ہیں اور بعض جگہ بطور عذاب کے طاعون جا کر ان کو چھوڑ دیتی ہے ۔
قوم کی حالت
امر یکہ اور یورپ کے بلاو میں حضرت مسیحؑ کی نسبت جوایک انقلاب عظیم خیالات میں ہورہا ہے اور جس کا ذکر ہم ’’البدر‘‘ کے ایک آرٹیکل بغوان کسر صلیب کا دروازی کھل گیا ہے ’’میں کر چکے ہیں‘‘ اس پر ذکر کرتے ہو ئے فرمایا:۔
لو کنا نسمع اونعقل ماکنا نی اصحن السعیر (الملک:۱۱)
سے معلوم ہو تا ہے کہ سماع اور عقل انسان ایمان کے واسطے جلد تیار کر دیتی ہے ہماری قوم نہ سماع ہے نہ عقل ہے دل میں یہی ٹھانی ہو ئی ہے کہ تردید کریں پیشگوئیوں کو جھوٹا ثابت کریں نص اور اخبار کی تکذیب کریں کشوف وغیرہ جو اولیائے کرام کے ہماری تائید میں ہیں ان سب کو جھوٹا کہدیں غرضیکہ یہ سماع کا حال ہے ۔
اب عقل کا سن لوکہ نظائر پیش نہیں کرسکتے کہ کو ئی اس امر کا ثبوت دیں کہ سوائے مسیح کے اور بھی کچھ آدمی زندہ آسمان پر گئے ایک بات کو دیکھ کر دوسری کو پیدا کرنااس کا نام عقل ہے سواس کو انہوں نے ہاتھ سے دیدیا ہے دونو طریق (سماع اور عقل ) قنول ِحق کے تھے سووہ دونو کھو بیٹھے مگر یہ لوگ (اہل امر یکہ ویورپ) غور کرتے ہیں اگر چہ سب نہیں کرتے مگر ایسے پائے تو جاتے ہیں جو کرتے جس حال میں کہ وہ مانتے ہیں کہ مسیحؑ کے دوبارہ آنے کا زمانہ یہی ہے اور اس کی موت کے بھی قائل ہیں تودیکھ لو کہ لوگ کسقدر قریب ہیں اس قوم کا اقبال اب بڑھ رہا ہے اور مسلمانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دن بدن گرتے جاتے ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ مسیحؑ اور مہدی ؑ آتے ہی تلوار اٹھا لیوے گا اورخون کی ندیاں بہادے گا کمبخت دیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے پاس نہ تو فنون ِحرب ہیں نہ ان کے پاس ایجاد کی طاقت ہء نہ استعمال کی استعداد ہے جنگی طاقت نہ بحری ہے نہ بری تو یہ زمانہ ان کے منشاء کے موافق کیسے ہو سکتا ہے؟ ورنہ خدا کا یہ ارادہ ہے کہ جنگ ہو کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں کو یہ سمجھ دے دیوے کیو نکہ فہم ۔دماغ اور قبال کے ایام انہیںکے اچھے ہیں اصل علم وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے پاس ہے زمانہ وہی ہے جس کا وعدہ تھا مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ نکمے ،فاسق ،فاجراور کاہل بھی ہیں تو پھر بجز اس کے اورکیا کہہ سکتے ہیں کہ خدا اسی گروہ میں سے ایسے پیدا کردے کہ وہ خود ہی سمجھ جاویں خدا تعالیٰ کو آپ اور بندوق کی کیا حاجت ہے اس نے بندوں میں ہداایت پھیلانی ہے یاانکو قتل کر نا ہے؟ زمانہ کی موجود ہ حالت خود دلالت کرتی ہے کہ یہ زمانہ علمی رنگ کا ہے اگر کسی کو مارمار کر سمجھا ؤ بھی تووہ بات دل میں نہیں بیٹھتے لیکن اگر دلائل سے سمجھا یا جاوے تو وہ دل پر تصرف کر کے اس میںدھس جاتی ہے اور انسان کو سمجھ آجا تی ہے آنحضرتﷺ کے زمانہ کی حالت اور تھی اس وقت لوہے سے اور طرح کام لیا گیا تھا اب ہم لوہے سے ہی کام لے رہے ہیں مگر اور طرح سے کہ لوہے کے قلموں سے رات دن لکھ رہے ہیں۔
میری رائے یہی ہے کہ تلوار کی اب کو ئی ضرورت نہیں عیسائی بھی جہالت میں ڈوبے ہیں اور مسلمان بھی حکمت الہیٰ چاہتی ہے کہ رفق ِاور محبت سے سمجھا یا جاوے مثلاً ایک ہندو ہے اگر دس بیس مسلمان ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے پڑجاویں تووہ ڈر کے مارے
لاالہ الا اللہ
تو کہہ دیگا لیکن اس کا کہنا بودا ہو گا بالکل مفید نہیں ہو سکتا اور رفق اور محبت سے سمجھا یا جاوے تووہ دل میں جم جاویگا حتیٰ کہ اگر اس کو زندہ آگ میں بھی پھونک دوتو بھی وہ اس کے کہنے سے باز نہ آوے گا۔
اسلمنا(الحجرات:۱۵)
ہمیشہ لاٹھی سے ہو تا ہے اور
امنا
اس وقت ہو تا ہے جب خدا تعالیٰ دل میں ڈال دے ایمان کے لوازم اور ہوتے ہیں اور اسلام کے اور اسی لیے خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسے لواز، پیدا کئے کہ جن سے ایمان حاصل ہو مسلمان تو اپنی موجود حالت کے لحاظ سے خود اس قابل ہیں کہ انہی سے جہاد کیا جاوے اب تو وہ زمانہ ہے کہ بچوں کی طرح دین کی باتیں لوگوں کو سمجھا ئی جاویں۔ (البدرؔجلد ۲ نمبر ۱۹ صفحہ۱۴۷مورخہ ۲۹ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۱۹؍مئی ۱۹۰۳؁ء
بعد نماز فجر
ایک رؤیا اور الہام
حضرت اقدس نے فر مایا کہ :۔
۱۲ بجے کے قریب میَں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ یہ فتح ہو گئی ۔بار بار اسے تکرار کرتا ہے گویا بہت سی فتوحات کی طرف اشارہ ہے۔اس کے بعد طبیعت وحی کی طرف منتقل ہو ئی اور الہام ہو ا۔مجمُوعہ فتوحات۔
مجلس قبل از عشاء
اپنی صداقت پر گفتگو فر ماتے رہے اور اس امر پر ذکر فر مایا کہ :۔
خداتعالیٰ جھوٹے سے اتنا عر صہ دراز یارانہ نہیں لگایا کرتا اگر ہم مفتری ہو تے تو آج تک تباہ اور ہلاک ہو جاتے
بّینات ومتشابہات
پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصّے ہو اکرتے ہیں اور آدمؑ سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی آرہی ہیں کہ ایک حصّہ متشابہات کا ہوا کرتا ہے اور ایک حصّہ بّینات کا ۔اب حدیبیہ کے واقعات کو دیکھا جاوے ۔آنحضرت ﷺ کی شان تو سب سے بڑھ کر ہے مگر علم کے لحاظ سے میَں کہتا ہوں کہ آپ کا سفر کرنا دلالت کرتا تھا کہ آپ کی رائے اسی طرف تھی کہ فتح ہو گی نبی کی اجتہادی غلطی جائے عار نہیں ہوا کرتی ۔اصل صورت جو معاملہ کی ہوتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے اور انسان اور خدا میں یہی توفرق ہے ۔ (البدرؔجلد ۲ نمبر ۱۹ صفحہ۱۴۷مورخہ ۲۹ ؍مئی ۱۹۰۳؁ء)
۲۵ مئی ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
تزکیہ نفس
ایک استفسار کے جواب میں کہ آج کل کے پیراور گدی نشین وظائف وغیرہ اور مختلف قسم کے اَوراد بتاتے ہیں ۔آپ کا کیا ارشاد ہے ؟فر مایا کہ :۔
مومن جو بات سچے یقین سے کہے وہ ضرور مؤثر ہو تی ہے ۱؎ کیونکہ مومن کا مطہر قلب اسرار الہیٰ کا جزنیہ ہے جو کچھ اس پاک لوح انسانی پرت منقش ہو تا ہے وہ آئینہ خدا نما ہے۔مگر انسان جب ضعفِ بشریت سے سہوو گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر ذرہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا تو دل پر سیاہ زنگ ہیٹھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ قلب انسانی کہ خشیتِ الہیٰ سے گداز اور شفاف تھا ۔سخت اور سیاہ ہو جاتا ہے ۔ ۲؎ مگر جونہی انسان اپنی مرض، قلب کو معلوم کر کے اس کی اصلاح کے در پے ہو تا ہے اور شب وروز نماز میں دُعائیں ،استغفار وزاری وقلق جاری رکھتا ہے اور اسکی دُعائیں انتہاکو پہنچتی ہیں تو تجلیاتِ الہیٰ اپنے فضل کے پانی سے اس ناپاکی کو دھوڈالتی ہیں اور انسان بشرطیکہ ثابت قدم رہے ایک قلب لیکر نئی زندگی کا جامہ پہن لیتا ہے گویا کہ اس کا تولّد ثانی ہو تا ہے
دو زبر دست لشکر ہیں جن کے درمیان انسان چلتا ہے ایک لشکر رحمٰن کا دوسرا شیطان کا ۔اگر یہ لشکر رحمن کی طرف جھک جاوے اور اس سے مدد طلب کرے تو اسے بحکمِ الہیٰ مدد دی جاتی ہے اور اگر شیطان کی طرف رجوع کیا تو گناہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ۱؎ پس انسان کو چاہیئے کہ گناہ کی زہریلی ہو اسے بچنے کیلئے رحمن کی حفاظت میں ہو جاوے ۔وہ چیز جو انسان اور رحمن میں دُوری اور تفرقہ ڈالتی ہے وہ فقط گہان ہی ہے جو اس سے بچ گیا اس نے خدا تعالیٰ کی گود میںپناہ لی ۔دراصل گناہ سے بچنے کے لیے دوہی طریق ہیں ۔اوّل یہ کہ انسان خود کوشش کرے ۔ ۲؎ دوسرے اللہ تعالیٰ سے جو مالک و قادر ہے استقامت طلب کرے یہانتک کہ اُسے پاک زندگی میسر آجاوے اور یہی تز کیہ نفس کہلاتا ہے ۔ ۳؎
اَورادو وَظائف
اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات و اکرامات ہوتے ہیں وہ محض اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہی ہوتے ہیں ۔پیروں، فقیروں،صوفیوں گدی نشینوں کے خود تراشیدہ اَور اد و ظائف ،طریق رسومات سب فضول بدعات ہیں جو ہر گز ہر گز ماننے کے قابل نہیں ۔اگر یہ لوگ کل معاملات دینوی و دینی کو ان خود ساختہ بد عات سے بھی درست کر سکتے ہیں تو یہ ذرا ذرا سی بات پر کیوں تکرار کرتے لڑتے جھگڑتے ۔حتٰی کہ سرکاری عدالتوں میں جائز و ناجائز حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں ۔یہ سب باتیں داراصل وقت کا ضائع کرنا اور خدا د استعدادوں کا تباہ کرنا ہے ۔
انسان اس لیے نہیں بنایا گیا کہ لمبی تسبیح لے کر صبح شام تمام لوازمات و حقوق کو تلف کرکے بے تو جہگی سے سبحان اللہ سبحان اللہ میں لگا رہے ۔اپنے اوقاتِ گرامی بھی تباہ کرے اور خود اپنے قویٰ کو بھی تباہ کرے اور اَوروں کے تباہ کرنے کے لیے شب وروز کوشاں رہے ۔اللہ تعالیٰ ایسی مصیبت سے بچاوے ۔
الغرض یہ سب باتیں سُنتِ نبوی کو چھوڑنے سے پیدا ہوئیں ۔یہ حالت ایسی ہے جیسے پھوڑا کہ اندر سے تو پیپ سے بھرا ہوا ہے اور باہر سے شیشے کی طرح چمکتا ہے ۔زبان سے تو وِرد و وظائف کرتے ہیں اور اندرونے بد کاری و گناہ سے سیاہ ہوئے ہوئے ہیں ۔انسان کو چاہیئے کہ سب کچھ خدا تعالیٰ سے طلب کرے ۔جب وہ کسی کو کچھ دے دیتا ہے تو اس کی بلند شان کے خلاف ہے کہ واپس لے ۔تزکیہ وہی ہے جو انبیا ء علیہ الصلوٰۃو السلام کے ذریعہ دنیا میں سکھایا گیا ۔پیدا کیا گیا ۔یہ لوگ اس سے بہت دور ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مَیں سارے دن میں چار دفعہ دم لیتا ہوں بعض فقط ایک یا دو دفعہ سے لوگ ان کو ولی سمجھ بیٹھتے ہیں اور ایسی واہیات دم کشی کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں حالانکہ فخر کے قابل یہ بات ہے کہ انسان مرضیاتِ الٰہی پر چل کر اپنے پیغمبر نبی کریم ﷺ سے صلح و آشتی پیدا کرے جس سے کہ وہ انبیا ء کا وارث کہلائے اور صلحا ء وابدال میں داخل ہو ۔اسی تو حید کو پکڑے اور اس پر ثابت قدم رہے اللہ تعالیٰ اپنا غلبہ و عظمت اس کے دل پر بٹھا دیگا ۔
وظیفوں کے ہم قائل نہیں ۔یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہندو سنیاسی کرتے ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں ۔البتہ دُعا کرنی چاہیئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو ۔ سچے اضطرا ب اور سچّی تڑپ سے جناب الٰہی میں گداز ہو ا ہو ایسا کہ وہ قادر الحّی القیوم دیکھ رہا ہے ۔جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کریگا جس طرح انسان آگ یا ہلاک کرنے والی اشیاء سے ڈرتا ہے ویسے ہی اس کو گناہ کی سرزنش سے ڈرنا چاہیئے ۔گناہگار زندگی انسان کے لیے دُنیا میں مجسم دوزخ ہے جس پر غضبِ الٰہی کی سموم چلتی اور اس کو ہلاک کر دیتی ہے ۔جس طرح آگ سے انسان ڈرتا ہے اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہیئے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے ہمارا مذہب یہی ہے کہ نماز میں رو رو کر دُعائیں مانگو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے فضل کی نسیم چلائے دیکھو شیعہ لوگ کیسے راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں حسین حسین کرتے مگر احکامِ الٰہی کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔حالانکہ حسین کو بھی بلکہ تمام رسُولوں کو استغفار کی ایسی سخت ضرورت تھی جیسے ہم کو ۔چناچہ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کا فعل اس پر شاہد ہے ۔کون ہے جو آپ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۲ صفحہ ۸ مورخہ۱۷ جون ۱۹۰۳ء؁ )
۲۸ مئی ۱۹۰۳ء؁
دربار شام
مولوی ۱ ؎ محمد علی صاحب ایم ۔اے نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ایک میگزین سہ ماہی رسالہ نکلنا شروع ہوا ہے ۔اس میں پادری صاحب نے لکھا ہے کہ مسلمان عیسائیت اس لیے قبول نہیں کرتے کہ اُن کہ دل سخت اور گناہ آلودہ ہیں ۔فرمایاکہ:۔
عیسائیت اور اسلام
جب انسان تعصب اور فاسقانہ زندگی سے اندھا ہوجاتا ہے تو اُسے حق اور باطل میں فرق نظر نہیں آتا ۔ہر ایک حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھتا ہے اور نیکی کے ترک کرنے میں ذرا دریغ نہیں کرتا ۔شراب جو اُمّ الخبائث ہے ۔عیسائیوں میں حلال سمجھی جاتی ہے ۔ ۱ ؎ مگر ہماری شریعت میں اس کو قطاً منع کیا گیا ہے اور اس کو
رجس من عمل الشیطان (المائدہ :۹۱)
کہا گیا ہے ۔کیا کوئی پادری ہے جو یہ دکھا وے کہ انجیل میں حرمت شراب کی لکھی ہے بلکہ شراب ایسی متبرک خیال کی گئی ہے کہ پہلا معجزہ مسیح ؑ کا شراب ہی تھا تو پھر دلیری کیوں نہ ہو ۔جو بڑا پرہیز گار اُن میں ہوگا وہ کم از کم ایک بوتل برانڈی کی ضرور استعمال کرتا ہو گا ۔چناچہ کثرتِ شراب نے ولایت میں آئے دن نئے نئے جرائم کو ایجاد کیا ہے اور پادری کے اس قول پر کہ اہلِ اسلام گناہ میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔سخت تعجب آتا ہے کہ کس حوصلہ اور دلیری سے یہ بات کہہ دی ۔بھلا اگر زمانہ دراز کی بات ہوتی تو مملن تھا کہ اُن کے ایسے بہتان سے عیسائیوں کی نیک چلنی کا نسبتاً گمان ہوتا ۔مگر جب دونوقوتیں ہمارے سامنے اپنے اعمال کے دفتر کھولے بیٹھی ہیں تو پھر کسی کی شیخی اور تعّلی سے کیا فائدہ؟روشن ضمیر پبلک خود روز روشن میں دیکھ سکتی ہے ۔ ولایت کے جیل خانوں میں ہندوستان کے جیل خانوں کی نسبت جرائم پیشہ لوگوں کی کس فیصدی سے زیادتی ہے ؟جن اصولوں کو عیسائی قوم مانتی ہے وہ اصول خود جرائم مثل زنا،قمار بازی کے محرک ہیں۔ان کی اصلاح سے تو اب گناہ گناہ نہ رہنے چاہئیں ۔گویا گناہ سے وہ ایسے ہی بے پرواہ ہوگئے جیسے شاکت مت والے ۲ ؎
حضرت اقدس نے پھر اپنی تقریر کو شروع کیا اور فرمایا :
یورپ اور اسلامی ممالک کا موازنہ
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک شریف آدمی جب خلافِ واقعہ بات سُنتا ہے تو پھر اس پر اصرار کرتا ہے تو دل میں سخت رنجیدہ ہوتا ہے ۔ہمار سوال تو یہ ہے کہ پادری صاحب سے پوچھا جاوے گناہ سے تمہاری کیا مراد ہے ؟آیا زنا،چوری فریب ،قتل ،قمار بازی ،شراب نوشی تمہارے نزدیک گناہ میں داخل ہیں یا نہیں ۔اگر ہیں تو کیا یورپ کی حالت اسلامی ممالک کی حالت سے بہتر ہے یا ابتر یامساوی ۔صغائر کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔مثلاً ایک شخص بد نظری میں مبتلا ہے ۔ممکن ہے عورت کو خبر ہی نہ ہو جس پر بد نظری کرتا ہے ۔لیکن ایک شخص جو زنا کرتا ،چوری کرتا ،شراب پیتا ہے اس کی خبر ایک دُنیا کو ہوگی ۔ان جرائم کا اس قدر زور ہے کہ چھپائے سے چھپ سکتا ہی نہیں ۔قمار بازی میں اتلافِ حقوق ہوتا ہے ۔شراب نوشی ساتھ دوسرے گنا ہ مثلاً زنا،قتل وغیرہ لازم پڑے ہوئے ہیں جہاں تک ہمیں مجرموں کے حالات سے شہادت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ شراب سے زنا ترقی کرتا ہے ۔چناچہ شراب نوشی میں اس وقت یورپ اوّلدرجہ پر ہے اور زنامیں بھی اوّل نمبر پر ہے۔اب دیکھئے کہ پردہ کی رسم ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ جیسا کتاب اللہ نے بتایا ہے اور تجارب نے اس کی تصدیق کی ہے سچا تزکیہ نفس جو مجاہدات سے پیدا ہوتا ہے وہ پردہ سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔
مومنوں کے تین طبقے ہیں :۔؎
ایک وہ جو ٹھوکر کھانے کے لائق ہوتے ہیں۔
دسرے وہ جو میانہ رو ۔کسی ٹھوکر سے بچتے اور ڈرتے رہتے ہیں۔
تیسرے وہ جو ہر ایک ٹھوکر سے ایسے بچ کر نکل جاتے ہیں جیسے سانپ اپنی کینچلی سے وہ ہر ایک خیر کے لئے دوڑتے اور ہر ایک شّر سے بھاگتے ہیں ۔
جن لوگوں نے اپنے تزکیہ کا خیال نہیں کیا وہ بالضرور بے پردگی سے ٹھوکر کھا سکتے ہیں ۔عورتوں کو اُن سے پردہ کرنا چاہیئے ۔مثل مشہور ہے ؎
خر بستہ بہ گرچہ دزد آشنا است
قسم اوّل ظالم لنفسہ : دوم مقتصد : سوم سابق بالخیرات
ان مختلف مدارج و مراتب کے اشخاص کیسے یکساں سلوک کے لائق ہیں؟کیا عیسائی بتا سکتے ہیں کہ ان میں سب پاکباز ہیں ۔شرابی نہیں ،زانی نہیں ۔اگر پردہ ہوتا تو ان جرائم کی نوبت ہی کیوں آتی ہزار ہا ولد حرام کیوں پیدا ہوتے ۔تجربہ بتا رہا ہے کہ اوّل قسم کے لوگ بکثرت ہیں ۔ ۱ ؎ اس لیے ان سے حتی الوسع پردہ کرنے کے لیے شریعت نے مجبور کیا کہ پردہ کی رسم ہو ۔شرابی آدمی کو طعن و تشنیع کا فکر ہے نہ ڈنڈے کا خوف ۔اس لیے عیسائیوں کا اسلام پذیر ہونا محالات سے ہے ۔(الحکم جلد ۷نمبر ۲۲ صفحہ ۱۷ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ ء؁)
۲۹ ؍مئی ۱۹۰۳ ء؁
دربارِ شام
آج حضرت اقدس نے بہت سے احباب کی بیعت کے بعد تقریر فرمائی ۔فرمایاکہ :۔
نومبایعین کو نصائح
اب تم لو گ جو بیعت میں داخل ہو ئے ہو تو سمجھ لینا چا ہیئے کہ تم نے عہد کیا ہے ہم دین کو دنیا پر مقدم کر یں گے سو یاد رکھنا چا ہیئے کہ یہ عہد تمہا را اللہ کے ساتھ ہے جہاں تک ممکن ہو اس عہد پرمضبوط رہنا چا ہیئے نمازوروزہ ،حج وزکوٰۃ امور شرعی کا پا بند ر ہنا چا ہییے۔ اور ہر ایک برائی اور شادبئہ گنا ہ سے اجتنا ب کر نا چا ہیئے ہم۔ا رئی جما عت کو ایک پا ک نمو نہ بنکر د کھا نا چا ہیئے ز با نی لا ف وگزاف سے کچھ نہیں بنتا جب تک انسان کچھ کر کے نہ دکھا ئے تم دیکھتے ہو کہ طا عون سے کس قدر لو گ ہلا ک ہو رہے ہیں گھر وں کے گھر بر با د ہو رہے ہیں اور ابھی تک معلو م نہیں یہ تبا ہی کب تک جا ری رہے طا عون لو گوں کی ابدا عما لی کے سبب غضب الہیٰ کی صورت میں بھیجی جا تی ہے یہ بھی ایک طرح کی رسول ہے۔ جو اس کا م کو کر رہی ہے ہزاروں ہیں جو اپنے سا منے ہلا ک شد ہ لو گوں کے پشتے پر پشتے دیکھتے ہیں ۔خا ندان کے خا ندان تبا ہ ہو گئے ہزاروں لا کھو ں بچے بے بدر ،لا کھوں خا ندان بے ٹھکا نہ ہو گئے جہاںیہ بڑی ہے بے نا م نشا ن اس جگہ کو کر دیا بعض گھروں میں کیا محلوں اور گا ؤں میں کو ئی آبا د ہو بے والا نہیں رہا۔ انسا نوں سے گذر کر حیوانوں کو تبا ہ کیا ۔گو یا یہ با ت کہ انسان کے گنا ہ سے تما م ز مین *** ہو گئی ۔اب گو یا اہل زمین کیا چر نداور کیا پر ند انسا ن کی بد کا ری کے بد لے پکڑے جا رہے ہے ۔لو گوں میں با وجو د اس کے کہ سخت سے سخت عذاب میں مبتلا ہیں ۔مگر ویسے ہی رعونت و کبر سے مخمور پھر تے ہیں مو ت کا خو ف دل سے اٹھ گیا ہے اللہ تعالیٰ کی عزت کا پا س دل میں نہیں ر ہا عوا م تو عوام خواص کا یہ حا ل ہے کہ دنیا پر ستی میں سخت جکڑے ہو ئے ہیں خدا کا نا م فقط ز با ن پر ہی ہے۔ اندر با لکل اللہ تعالیٰ کی محبت وخشیت سے خا لی ہے ۔ ۱؎
و فا ت ِمسیحؑ
مسیح کی وفا ت کا کیا معا ملہ تھا اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ
فلما تو فیتنی(الما ئدہ :۱۱۸)
بخا ری میں
متوفیک
معنے صاف رسول اللہﷺ کی زبا نی
ممیتک
آیا حدیث کے فرمو دہ کے مطا بق چودہویں صدی کے سر پر مجدد آیا مگر انہوں نے قبو ل نہ کیا ہزاروں طر ح کے حیلے د نیا نے کئے طرح طرح کی شرارتیں منصوبے تجویر کئے مگر اللہ تعالیٰ کا جیسا کہ وعدہ تھا اپنے زرو آور حملوں سے سچا ئی ظا ہر کر تا رہا۔
عیسا ئی لو گ ز ہر نا ک کیڑے کی طرح اسلا م کے درخت کی جڑ کو کا ٹ رہے ہیں ۲؎ مگر علما ء کو ذرا بھی خیا ل نہیں بلکہ اپنے خیا لا ت سے کہہ مسیحؑ ز ند ہ آسما ن پر ہے اور دو با رہ قیا مت سے پہلے آئے گا مدد دے رہے ہیں ان کی لگا تا ر کو شش یہی ہے کہ اسلا م کا نا م تک مٹ جا ئے اور یہ اپنے فا سد عقید ہ سے ان کی مدددے رہے ہیں دیکھ لو کہ پا دریوں نے شہر بہ شہر گا ؤں بہ گا ؤں مکرو تز و یر کا جا ل پھیلا یا ہوا ہے عورتوں اور بچوں تک کمر بستہ ہیں کہ کسی طرح ایک عا جز ہ کے بیٹے کو خدا بنا کر منواویں کئی کروڑ کتا بیں رد اسلا م میں بنا کر مفت تقسیم کر دیں اس پر بھی مسلما نوں کو غیرت نہ آئی وہ خدا جو کہتا ہے ۔
انا لہ لحا فظون (الحجر :۱۰)
کیا وہ غلط کہتا ہے؟ کیا اسلا م کی وہ ابھی حا لت نہیں ہو ئی جو کسی مصلح ومجدد کی ضرورت پیدا کر ے طرح طرح کے زمینی اور آسما نی نشا ن پو رے ہو چکے مگر وہ ابتک منکر ہیں آج تک ۲۹ لا کھ مسلما ن با قی ہیں وہ بھی عیسا ئیت کے قر یب قریب ہی ہیں اگر سو سال تک ایسی ہی حا لت رہتی تو اسلا م کا نا م نشا ن زمین سے مٹ ِ جا تا لیکن خدا تعا لیٰ کا شکر اور احسا ن ہے کہ اس نے عین ضرورت کے وقت مجھے مسیح مو عو د کر کے بھیجا۔
یہ با ت ۱ ؎ کو ئی بنا وٹی نہیں صدر ہا نشا ن خر ق عادت کے طور پر آسما ن وز مین پر میری تصدیق کے لیے ظا ہر ہو ئے اور ہو رہے ہیں ۲ ؎ چنا نچہ طا عون بھی ایک نشا ن ہے جس کی با بت کل انبیا ء خبر دیتے رہے
چنا نچہ قر آن شریف میں لکھا ہے
ان من قر یۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبو ھا (بنی اسرا ئیل :۵۹)
کو ئی بستی اور کو ئی گا ؤں ایسا نہ ہو گا کہ جسے ہم قیا مت سے پہلے خطرنا ک عذاب میں مبتلا نہ کر ینگے یا ہلا ک نہ کر دیں گے ۔
احمدیوں کا طا عون سے مر نا
بعض نا دان اعتراض کر تے ہیں کہ تمہا رے آدمی کیوں مر تے ہیںان نا دان کو اتنا معلوم نہیں کہ آنحضرتﷺ کے وقت میں بھی جب لو گ عذاب کا معجزہ ما نگتے تھے تو ان کا تلوار کا معجزہ ملا اور یہ بھی ایک قسم کا عذاب تھا۔
چنا نچہ ۱؎ کئی صحا بہؓ بھی تلوار سے شہید ہو ئے مگر کیا ابو بکرؓ وعمرؓ جیسے بھی ہلا ک ہو ئے ؟ اللہ تعالیٰ نے جس جس انسان کے دما غ یا ہا تھ سے کو ئی اپنا کا م لینا تھا وہ تو بچ ہی رہے اور با لمقابل جتنے رئیس ِکفا ر تھے ان سب کا ٹھکا نا جہنم ہوا اور ان کے صغیر وکبیر سب کے سب ہلا ک ہو گئے ۔
اگر ایک شخص کا ایک پیسہ چو ری ہو گیا ہے اور دوسرے کا تما م گھر با ر لو ٹا گیا ہے تو کیا وہ آدمی جس کا تما م گھر لو ٹا گیا پیسہ والے کو کہہ سکتا ہے کہ تم اور مَیں برا بر ہیں ؟بھلا سو چو تو سہی اگر ستر بر س تک ہما را کو ئی آدمی ہلاس ک نہ ہو تو ایسا کو ئی آدمی ہے جو ہما رے سلسلہ میں داخل ہو نے سے ر کا ر ہے ؟
مگر اللہ تعالیٰ کو یہ امر منظور نہیں ہے اور نہ کبھی ایسا ہو ایما ن کی حا لت ہی کا پو شیدہ ہو نا ضروری ہے جب تک ہما ری جما عت تقویٰ اختیا ر نہ کر ے نجا ت نہیں پا سکتی خدا تعالیٰ اپنی حفا ظت میں نہ لے گا یہی سبب ہے کہ بعض ان صحا بہ میں سے جن جن سے بڑے بڑے کا م لینے تھے وہ سب سخت ست سخت خطروں میں بھی بچا ئے گئے دوسوں کو خدا تعالیٰ نے جلد اٹھا کر بہشت میں داخل کیا جا ہل کو حقیقت معلو م نہیں ہو تی جو با ت منہ میں آئی کہہ دی ہر ایک نبی کے سا تھ ایسا ہو تا رہا ہے جہاں کفا ر مر تے تھے وہاں اصحا ب میں سے بھی کو ئی نہ کو ئی مر جا تا تھا اگر خدا تعالیٰ کھلا کھلا نشا ن مثلاً سوٹے کا سا نپ کر دے ۲ ؎ تو نیک وبد میں فرق کیا رہیگا ؟ تما م یو رپ وامر یکہ اسلا م میں داخل ہو جا ویں گے مگر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ امتیا ز رکھا ہے صحا بہ کرامؓ کو خدا تعالیٰ نے تو حید پھیلا نے کے لیے پیدا کیا ہے اور انہوں نے تو حید پھیلا ئی اب بھی خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تو حید پھیلے جو آوے گا ۔وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہ رہے گا مگر چا ہیئے ۔کہ اپنے وجود کو مفید بنا وے ۱؎اللہ تعالیٰ خود انکی حفا ظت کر یگا ز با ن سے خدا خدا کہنا مگر عمل سے خدا تعالیٰ سے بیگا نگی ایک طرح کا دہریہ پن ہے ۔ ۲ ؎
گھروں کو ذکر اللہ سے معمور کرو ۔صدقہ و خیرات دو ۔گناہوں سے بچو تااللہ تعالیٰ رحم کرے جو لوگ بیعت کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر شکل بھی نہیں دکھلاتے اُن کے لیے دُعا کیا ہو جب وہ ہمیں یاد تک بھی نہیں رہتے ۔بار بار ملو اور تعلق محبت بڑھائو ۔جو بار بار آتا ہے اس کی ذرا سی تکلیف سے دُعا کا خیال آجاتا مگر جو لوگ دُنیا کے معاملات میں مستغرق رہتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں گویا انہوں نے بیعت ہی نہیں کی ۔ ۳ ؎ یاد رکھو اور عمل کرو جو جس سے پیار نہیں کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے ۔ ۴؎
(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۲ صفحہ ۱۷،۱۸ موخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ ء؁ )
۳۰ مئی ۱۹۰۳ء؁
مجلس قبل از عشاء
ایک صاحب کے مقدمہ کی تاریخ عنقریب تھی ۔وہ دُعا کروانے کے واسطے آئے تو حضرت اقدس نے فرمایاکہ :۔
چار پانچ دن یہاں رہو اور ہر روز ملاقات کرو کہ دُعا کی تحریک ہو ۔یہ خیال نہ کرو کہ پیچھے نقصان ہوگا ۔سب کچھ خدا کرتا ہے اسباب پر نظر نہ رکھو ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ رعایت اسباب ہی چھوڑ دو ۔بلکہ یہ کہ یہ نہ خیال کرو کہ فلاں بات ہوتو ہی یہ ہوگا ۔جیسے کہ روٹی کھانی پانی پینا منع نہیں ہے ۔مگر اس پر بھروسہ کرنا کہ اس سے زندگی ہے یہ منع ہے ۔کی آدمی روٹی کھاتے ہیں ۔ادھر سُول(درد)ہو ا اور جان گئی ۔پانی پیا اور ہیضہ سے مر گئے ان پر بھروسہ کرنا یہ شرک ہے اسباب وہی بہم پہنچاتا ہے ۔
ریاست کپور تھلہ سے خبر آئی کہ بعض لوگوں نے ایک مشورہ کر کے اس امر کا منصوبہ بنانا چاہا ہے کہ وہاں کی احمدی جماعت کے بعض ممبروں کو ایذا دیویں ۔اس پر فرمایا:۔
وجا عل الذین اتبعو ک فوق الذین کفرو الی یوم القیامۃ (اٰل عمران :۵۶)
یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ فتنہ و فساد ہو ۔دُعا کی جاوے گی ۔ایک شخص نے عرض کی کہ سارے گائوں میں مَیں ایک اکیلا آپ کا مرید ہوں ۔فرمایاخدا تعالیٰ پر بھروسہ کرو ۔خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا اکیلا نہیں ہو تا ۔ (البدر جلد ۲نمبر ۲۱ صفحہ ۱۶۱ مورخہ ۱۲ جو ن ۱۹۰۳ء؁)
یکم ۔۲۔۳؍جون ۱۹۰۳؁ء
مقدمہ ہمیشہ سیدھا کر نا چاہیئے
ان تاریخوں میں کو ئی اور بات قابل ِنوٹ نہیں ہے ایک بار مقدمات کے ذکر پر فرمایا کہ:۔
مقدمہ ہمیشہ سیدھا کر نا چا ہیئے جب معلوم ہو کہ ازروئے قانون بھی صاف طور پر ہمارا حق ثابت ہے اور ازروئے شریعت بھی تو ابتدا کر نی چا ہیئے ورنہ پیچ در پیچ بات ہو تو کبھی مقدمہ کی طرف نہ جانا چا ہیئے۔
(البدؔر۲جلد ۲ نمبر ۲۱ صفحہ ۱۶۲ مورخہ ۱۲ ؍اجون ۱۹۰۳؁ء)
۴؍جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
ایک رؤیا
فرمایا ۔ دوتین بجے رات کو مَیں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ پر مع چند ایک دوستوں کے گیا ہوں وہ دوست وہی ہیں جورات دن پاس رہتے ہیں ایک دن میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے اس کاسیاہ رنگ،لمباقد،اور کپڑے چرکیں ہیں آگے جاتے ہو ئے تین قبریں نظر آئی ہی ایک قبر کو دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے اور دوسری قبر یں سامنے نظر آئیں مَیں ان کی طرف چلا اس قبر سے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب قبر (جیسے مَیں نے والد صاحب کی قبر سمجھا تھا ) زند ہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ ،پتلابدن،فربہ چہرہ ہے مَیں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا اتنے میں اس نے آگے ہاتھ بڑھا یا کہ مصافحہ کرے مَیں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تواس نے کہا نظام الدین پھر ہم وہاں سے چلے آئے آتے ہو ئے مَیں نے اسے پیغام دیا کہ پیغمبر خد ا ﷺ اور والد صاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا راستہ مَیں نے اس مخالف سے پو چھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشان معجزہ دیکھا کیا اب بھی نہ مانوگے؟تواس نے جواب دیا کہ اب تو حد ہو گئی اب بھی نہ مانوں تو کب مانوں مردہ زندہ ہو گیا اس کے بعد الہام ہوا ۔
سلیم حامد مستبشرا
کچھ حصہ الہام کا یاد نہیں رہا۔
والد کا زندہ ہو نا یا کسی اور مردہ کا زندہ ہو نا کسی مردہ امر کا زندہ ہو نا ہے مَیں نے اس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے ۔
شرطی طلاق
فرمایا کہ:۔
اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے جیسے کو ئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھا لے تو طلاق ہو جاتی ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۲۱ صفحہ ۱۶۲ مورخہ ۱۲ ؍جون ۱۹۰۳؁ء)
۵؍جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا
ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کر نا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہو تا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے اس طریق کو اختیار نہ کیا۔ حالا نکہ اگر آپ چا ہتے تو کر سکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفار کی ۔
انعامات کی اُمّ
پھر فرمایا کہ :۔
ہر ایک شئے کی ایک ام ہو تی ہے مَیں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں ان کی ام کیا ہے ؟خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ ان کی ام
ادعونی استجب لکم :)۶۱)
ہے کو ئی انسان بدی سے بچ نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو پس
ادعونی استجب لکم
فرما یہ جتلا دیا کہ عاصم وہی اسی کی طرف تم رجوع کرو۔
استغفار کی حقیقت
گناہ جو انسان سے صادر ہو تا ہے اگر انسان یقین سے تو بہ کرے ۱؎
تو خدا بخش دیتا ہے پیغمبر ِخدا جو ستر بار استغفار کرتے تھے حالا نکہ ایک دفعہ کے استغفار سے گذشتہ گناہ معاف ہو سکتے تھے پس اس سے ثابت ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ آئند ہ ہر ایک غفلت اور گناہ ۱؎ کو دبا ئے رکھے اسکا صد وربالکل نہ ہو۔
فلا تزکواالفسکم(النجم:۳۳)
سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے کہ معصوم اور محفوظ ہو نا تمہارا کام نہیں خدا کا ہر ایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے۔ (البدرجلد۲نمبر۲۲صفحہ۱۶۹مورخہ۹خہ۱ جون۱۹۰۳؁ء)
۶؍ جون ۱۹۰۳ء؁
طبابت کا پیشہ
ڈاکٹری کے امتحان کا ذکر تھا اس پر فرمایا:۔
پاس کے خیال میں مستغرق ہوکر اپنی صحت کو خراب کرلینا ایک مکروہ خیال ہے ۔اوّل زمانہ کے لوگ اس لیے علم حاصل کرتے تھے کہ توکل اور رضائے الٰہی حاصل ہو ۔اور طبابت تو ایسا فن ہے کہ اس میں پاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب ایک طبیب شہرت پاجاتاہے تو خواہ فیل ہو مگر لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
تحصیلِ دین کے بعد طبابت کا پیشہ بہت عمدہ ہے ۔ (البدر جلد۲ نمبر۲۲ صفحہ ۱۶۹ مورخہ ۱۹ ؍جون ۱۰۹۳ء؁ )
۷؍جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
ایمان لا نے کے مختلف طریق
ایک شخص نے حضرت اقدس کی بیعت کی نسبت کچھ بشارات خدا تعالیٰ سے پا ئی تھیں وہ حضرت کی خد مت میں تحریر کرکے روانہ کی تھیں حضرت اقدس نے ان کو سنکر فرمایا کہ :۔
جو لوگ فطری امور کی استعدا دنہیں رکھتے اللہ تعالیٰ ان کو بذریعہ رؤیا کے سمجھا جاتا ہے آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے بھی یہ بات تھی۔ کہ لوگ رؤیا دیکھتے اور بعض وہ تھے ۔جو کہ آپ کے جودوسخا کو دیکھکر ایمان لا ئے اور پھر آپ نے سب کو ایک ہی راہ سے گذرا نا ۔یہ ایک مشکل کام ہے کہ ہر ایک کی عرایت بھی مدنظر رہے اور پھر ایک ہی راہ سے سب کو گذرارا جاوے ۔ ۲؎
آپ پر ایمان لا نے کے مختلف طریق تھے بعض اخلاص دیکھ کر ایمان لا ئے تھے ۱؎ غرضکہ آ دم سے لیکر آنحضرت ﷺ تک جسقدر طریق جمع ہو سکتے تھے وہ سب آپ میں جمع تھے یہ بھی ایک مجموعہ جمع کر نے کے قابل ہے کہ اسلا میں داخضل ہو نے کے طریق کیا کیا تھے ۔
آنحضرت ﷺ کے آثار میں سے ایک تو جہ کا بھی حصہ ہے کہ جو لوگ قسی القلب تھے وہ بھی کھچے چلے آتے تھے ایک دفعہ ایک بادشاہ ثمامہ کو باندہ گیا آپ اس کے حالات ہر روز دریافت کرتے چنا نچہ چند روز کے بعد حکم دیا کہ اسے چھوڑ دیا جاوے پھر اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ پہلے دنیا کے تمام ناموں سے تیرا نام مجھے بہت برا معلوم ہوتا تھا اور آج وہی نام سب سے پیارا ہے اور اس شہر سے مجھے بیت بہت نفرت ہو تی تھی لیکن اب اس شہر کو محبت اور پیار کی جگہ دیکھتا ہوں تو یہ آنحضرتﷺ کی تو جہ ہی تھی جس سے باظنی چرک ومیل دور ہو تی تھی اس کو بنظر ِاستخفاف نہ دیکھنا چا ہیئے تو جہ میں بھی ایک قوت قدسیہ اور تا ثیر ہو تی ہے ۔ ۲؎
صحابہؓ کا اخلاص اور اس کا اجر
صحابہ کرامؓ کے حالات کو دیکھ کر تعجب ہو تا ہے کہ انہوں نے نہ گر می دیکھی نہ سردی اپنی زند گی کو تباہ کر دیا نہ عزت کی پروا کی نہ جان کی بکری کی طرح ذبح ہو تے رہے اس طرح کی نظیر پیش کر نی آسان نہیں ہے اس جماعت کے اخلاص کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہے کہ جان دیکر اخلاص ثابت کیا ان کے نفس بالکل دنیا سے خالی ہو گئے تھے جیسے کو ئی ڈیوڑھی پر کھڑا سفر کے لیے تیار ہو تا ہے ویسے ہی وہ لوگ دنیا کو چھوٹ کر آخرت کے واسطے تیار تھے ۔ ۳؎
لوگوں کے کاموں میں بہت حصہ دنیا کا ہو تا ہے اور اس فکر میں ہو تے ہیں کہ کہ یہ کرو وہ کرو اور وہ وقت موجل آپہنچتا ہے خدا ایسا نہیں کہ کسی کو ضائع کرے ۱؎ یہ اعتراض کہ ہمارے املاک تباہ ہو جاویں گے غلط ہے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ابو بکرؓ وغیرہ کے املاک ہی کیا تھے ؟ ایک ایک دو دو سویا کچھ زیادہ روپیہ کسی کے پاس ہوگا مگر اس ۲ ؎ کا اجر اُن کو یہ ملا کہ خدا تعالیٰ نے بادشاہ کر دیا اور قیصرو کسریٰ کے وارث ہوگئے ۔مگر خدا تعالیٰ کی غیرت یہ نہیں چا ہتی کہ کچھ خدا کا ہوا اور کچھ شیطان کا اور توحید کی حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر ازخدا کا کچھ بھی حصہ نہ ہو تو حید کا اختیار کرنا تو ایک مرنا ہے لیکن اصل میں یہ مرنا ہی زند ہ ہو نا ہے ۔
مومن جب تو بہ کرتا ہے اور نفس کو پاک صاف کرتا ہے تو خوف ہوتا ہے کہ مَیں تو جہنم میں جا رہا ہوں کیو نکہ تکالیف کا سامنا ہو تا ہے مگر خدا تعالیی اسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے یہ موت مختلف طریق سے مومنوں پر وارد ہو تی ہے کسی کو لڑائی سے کسی کو کسی طرح سے ۳؎ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے جنگ نہ کی تو آپ کو لڑکے کی قربانی کر نی پڑی۔
یہ بات قابل افسوس ہے کہ خدا پر امید رکھے اور ایک اور بھی حصہ دار ہو قرآن میں بھی لکھا ہے کہ حصہ سے خدا راضی نہیں ہو تا بلکہ فرماتا ہے کہ حصہ داری سے جو حصہ انہوں نے خدا کا کیا ہوتا ہے وہ بھی خدا انہی کا کر دیتا ہے کیو نکہ غیرت احدیت حصہ داری کو پسند نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ انبیاء باوجود غریب ۔یتیم اور بکیس اور بلا اسباب ہو نے کے اور پھر جب قانون دنیا کے لیے ہنر ہو نے کے آگے سے آگے قدم بڑھا تے ہیں اور یہ سب سے پہلا ثبوت خدا تعالیٰ کی خدا ئی کا ہے ۴؎ اسی لیے ان کے مخالف حیران ہو جاتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ جو شخص بڑا جاہل اور ان کے تقدس سے بیخبر ہو تا ہے وہ بھی کم ازکم ان کی دانائی کا قائل ہو تا ہے جیسے عیسا ئی لوگ آنحضرتﷺ کی پیشگوئیاں پوری ہو تی دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ بہت دانا آدمی تھا۔
تو بہ ہی طاعون کا علاج ہے
طاعون کے علاج کی نسبت فرمایا کہ :۔
بخزاس کے تو بہ ہوا اور سب تجاویز جواس کے علاج کے لیے سوچی جاویں۔ خدا کے ساتھ مقابلہ ہے کو ئی تجوویز نا کافی ہے جب تک خدا سے صلح نہ ہو ۔ (البدرؔجلد ۲ نمبر ۲۲ صفحہ ۱۷۰ مورخہ ۱۹ ؍جون۱۹۰۳؁ء)
۱۱جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
حقیقت اور معرفت
فرمایا کہ:۔
درحقیقت خدا تعالیٰ نے تنگی کسی بات میں نہیں رکھی جو ئندہ یابندہ ہوتا ہے ۱؎
فرمایا کہ:۔
دوشخص برابر نہیں ہو سکتے ایک وہ جو حقیقت پر پہنچتا ہے اور ایک وہ جو معرفت تک ۲؎ جیسے رویت اور سماع برابر نہیں ہو سکتے ویسے ہی یہ بھی برابر نہیں ہے جو عارف ہے اور نمونہ قورت دیکھ چکا ہے اور ایک دوسرا جس کے پاس کو ئی نظیر نہیں کہ جسے پیش کر سکے صرف ظنی امور پاس ہیں وہ کیسے برابر ہوں۔
خدا کی صفات کا علم ہو نا ضروری ہے َ
ایک ہندو کا ذکر ہوا کہ وہ کہتا ہے کہ سب مذہب نجات یا فتہ ہیں اور آپ مسیح بھی سچے ہیں وہ اپنے خیال کی تا ئید میں یہ شعر پیش کرتا ہے ۔
؎ ذات پات نہ پوچھ کو ؛ جو ہر بھجے سوہر کا ہو
فرمایا :۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کر ے وہی اس کا ہو سکتا ہے مگر اس بات کا تو پتہ ہو نا چاہیئے کہ آیا خدا کو پوج رہا ہے یا شیطان کو؟ کیا وہ کسی اور کا پجاری ہو کر خدا کا ہو سکتا ہے ؟اس لیے اول خدا کی صفات کا علم ہو نا ضروری ہے ۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۳ صفحہ ۱۵ مورخہ ۱۹ ؍جون ۱۹۰۳؁ء)
۱۲؍جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
موسیٰؑ کا خضرؑ کے قتل پر اعتراض کر نا کیوں درست نہ تھا؟
سوال:۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ تورات میں حکم تھا کہ کو ئی نفس بلا کسی نفس کے بدلہ قتل نہ کیا جائے تو پھر خضر علیہ السلام نے کیوں اس جان کو قتل کیا اور موسیٰ علیہ السلام نے جواس پر سوال کیا تو اسے کیوں خلاف ادب جانا گیا؟ موسیٰؑ علیہ اسلام نے تورات کی رو سے سوال کیا تھا ۔ ۱؎
جواب :۔ فرمایا :۔
من قتل نفسا بغیر نفس( المائدہ:۳۳)
کے ساتھ آگے
اوفسا دفی الارض ( المائدہ :۳۳)
بھی لکھا ہے فساد کا لفظ وسیع ہے جوشی کسی زمانہ میں فساد کا مو جب ہو سکتی ہے وہ آیندہ زمانہ میں قتل ِنفس کا موجب بھی ہو سکتی ہے حشرات الا رض کو ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں روز مارے جاتے ہیں اس لیء کہ وہ کسی کی ایذکا موجب نہ ہوں چنا نچہ لکھا ہے کہ
قتل الموذی تجل الا یذاء
تو ہر ایک موذی شئے کا قتل اس کے ایذا دینے سے قبل جا ئز ہوتا ہے حالا نکہ اس موذی نے ابھی کو ئی قتل وغیرہ کیا نہیں ہو تا ۲؎ شریعت اور الہامی اور کشفی امور الگ الگ ہیں اس لیے ان کو شریعت کے ظاہری الفاظ کے تابع نہ کر نا چا ہیئے ۔
وحیٰ الہی کا معاملہ ہی اور ہوتا ہے اس کی ایک دو نظیر یں نہیں بلکہ ہزار رہا نظائر ہیں بعض وقت ایک ملہم کو الہام کی رو سے احکام بتلا ئے جاتے ہیں۔ کہ شر یعت کی روسے ان کی بجاآوری دوست نہیں ہو تی مگر جسے بتلا ئے جاتے ہیں اسے ان کا بجالا نا فرض ہو تا ہے اور عدم بجاآوری میں اسے موت نظر آتی ہے اور سخت گناہ ہوتا ہے حالا نکہ شریعت اُسے گناہ قرار ہی نہیں دیتی یہ تمام با تیں
من لدنا علما
کے تحت میں ہو تی ہیں ایک جاہل تو ان کو شریعت کے مخالف قرار دیگا اور اعتراض کر یگا مگر وہ اس کی بیوقوفی ہو گی وہ بھی اصل میں ایک شریعت ہی ہے ۔ ۳؎ جب سے دنیا چلی آئی ہے یہ دو نوباتیں ساتھ ساتھ چلی آتے ہیں یعنی ایک تو ظاہر شریعت جو ۱؎ کہ دنیا کے امور کے واسطے ہو تی ہے اور ایک وہ امور جو کہ ازرو ئے کشف والہام کے ایک مامور پر نازل ہو تے ہیں ۔ اور اُسے حکم ہوتا ہے کہ یہ کرو بظاہر گو وہ شریعت کے مخالف ہو مگر اصل میں بالکل مخالف نہیں ہوتا۔مثلاً دیکھ لو کہ ازروئے شریعت تو دیدہ دانستہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنامنع ہے۔
ولا تلقو ابایدیکم الیٰ التھلکۃ(البقرہ:۱۹۶)
مگر ایک شخص کو حکم کہ تو دریا میں جا اور چیر کر نکل جا۔تو کیا وہ اس کی نافرمانی کرے گا؟بھلا بتلائو تو سہی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عمل کہ بیٹے کو ذبح کرنے لگ گئے کونسا شریعت کے مطابق تھا؟ کیا یہ کہیں شریعت میں لکھا ہے کہ خواب آوے تو سچ مچ بیٹے کو اُٹھ کر ذبح کرنے لگ جاوے؟مگر وہ ایسا عمل تھا کہ ان کے قلب نے اسے قبول کرکے تعمیل کی۔پھر دیکھو۔موسیٰؑ کی ماں تو نبی بھی نہ تھی مگر اُس نے خواب کی رو سے موسیٰ کو دریا میں ڈال دیا۔شریعت کب اجازت دیتی ہے کہ اس طرح ایک بچہ کو پانی میں پھینک دیا جاوے۔بعض امور شریعت سے وراء الوریٰ ہوتے ہیں اور وہ اہل حق سمجھتے ہیں جوکہ خاص نسبت خدا تعالیٰ سے رکھتے ہیں اور وہی ان کو بجالاتے ہیں۔ورنہ اس طرح تو خدا تعالیٰ پر اعتراض ہوتا ہے کہ وہ لغوامور کا حکم کرتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے۔اس کا سر وہی جانتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ایسے امور میں جلد بازی سے کام نہ لینا چاہئیے۔خدا تعالیٰ نے یہ قصے اس لیے درج کئے ہیں کہ انسان ادب سیکھے۔ایک مرید کا ادب اپنے مرشد کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس پر اعتراض نہ کیا جاوے اور اسکے افعال واعمال میں اعتراض کرنے میں مستعمل نہ ہو۔جو علم خدا نے اسے (مرشدکو)دیا ہوتا ہے۔اس کی اسے خبر ہی نہیں ہوتی ورنہ اس طرح کی مخالفت کرنے سے کہیں سلب ایمان کی نوبت نہ آجاوے۔
شر یعت کا ایک رنگ ظاہر پر ہے اور ایک محبت الہیٰہ پر ہے جن سے خدا تعالیٰ کے خاص تعلق ہوتے ہیں ان پر کشف ہو تے ہیں ایسے امور اُن سے صادر ہو تے ہیں کہ لوگوں کو اعتراض کا موقعہ ملتا ہے ۔موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ حبشن کیوں کی ؟آخر اس حرکت سے خدا کا غضب ان پر شروع ہو ا اور جذام کے آثار نمودار ہوئے دوسرے گناہوں میں تو عذاب دیر سے آتا ہے مگر ان میں فوراً شروع ہو جاتا ہے
سائل نے عرض کیاکہ موسیٰ علیہ السلام نے پھر کیوںجرأت کی حالانکہ وہ نبی تھے؟
فر مایا کہ :۔
اسی لیے تو یہ قصّہ لکھا ہے کہ وہ نبی تھا اور تم تو اُمتی ہو تم کو اور بھی ڈر کر قدم رکھنا چاہیئے ۔یہ اس طر ح کے امور ہو تے ہیں کہ ظاہری شریعت کو منسوخ کر دیتے ہیں ۔۱؎مولانا روم نے ایسی ہی ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک طبیب نے ایک کنیز کو ایسے طریق سے ہلاک کر دیا کہ پتہ نہ لگا ۔مسہل وغیرہ ایسی ادویہ دیتا رہا کہ وہ کمزور ہو ہو کر مر گئی ۔تو پھر اس پر لکھا ہے کہ اس پر قتل کا جرم نہ ہو گا ۲ ؎ کیونکہ وہ تومامور تھا اس لیے اپنے نفس سے اسے قتل نہیں کیا بلکہ امر سے کیا ۔
اسی طرح ملک الموت جو خدا جانے کسقدر جانیں روز ہلاک کرتا ہے کیا اس پر مقدمہ ہو سکتا ہے ؟وہ تو مامور ہے اسی طرح ابدال بھی ملائکہ کے رنگ میں ہو تے ہیں ۔خدا ان سے کئی خدمات لیتا ہے ۔پیمانہ شریعت سے ہر ایک امر کو ناپنا غلطی ہو تی ہے ۔ ۳؎ (البدر جلد ۶ نمبر ۲۲ صفحہ ۱۷۰۔۱۷۱ مورخہ۱۹ ؍جون۱۹۰۳؁ء)
۱۴ جُون ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
اللہ تعالیٰ سے سچارشتہ
فرمایا:۔
آنحضرت ﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک بر تن قلعی کراکر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الہیٰ کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے زنگ سے نالکل صاف تھے گویا
قد افلح من زکھا (الشمس:۱۰)
کے سچے مصداق تھے ۔ ۱؎
مجھے خوب معلوم ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت میں سے کثرت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہماری دنیا کو کسی طرح سے کوئی جنبش آئی تو ہم کدھر جائیں گے مگر تعجب تو یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے ہاتھ پر اقرار کر تے ہیں دنیا پر دین کو مقدم سمجھیں گے اور دوسری طرف دنیا وما فیہا میں ایسے پھنسے ہو ئے ہیں کہ دنیا کی خاطر ہر ایک دینی نقصان بر داشت کر نا گوارا کرتے ہیں ۔ذرا سا کوئی کنبہ میں کوئی بیمار ہو جاوے یا بیل بکری ہی مر جاوے تو جھٹ بول اُٹھتے ہیں کہ ہیں یہ کیا ہو ا؟ ہم تو مرزا صاحب کے مُر ید تھے ہمارے ساتھ کیوں یہ حادثہ واقع ہوا۔ ۲؎ حالانکہ یہ خیال ان کا خام ہے وہ اس سچے رستہ سے جو اللہ تعالیٰ سے باندھنا چاہیئے ناواقف ہے بر کا تِ الہیٰ انسان پر اس وقت نازل ہو تے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ سے مضبوط رشتہ باندھا جاوے ۔جیسے رشتہ داروں کو آپس میں رشتہ کا پاس ہو تا ہے ویسے ہی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کے رشتہ کا جو اس پاک ذات کے ساتھ ہے سخت پاس ہو تا ہے ۔وہ مولا کریم اس کے لیے غیرت کھا تا ہے اور اگر کوئی دکھ یا مصیبت اس کو پہنچتی ہے تو وہ بندہ اپنے لیے راحت جانتا ہے ۔ ۳؎
الغرض کوئی دکھ اس رشتہ کو توڑتا نہیں اور نہ کوئی سُکھ اس کو دوبالا کرتا ہے ۔ایک سچا تعلق وحقیقی عشق عبد ومعبود میں قائم ہو جاتا ہے اگر ہماری جماعت میں چالیس آدمی بھی ایسی مضبوط رشتہ کے جو رنج وراحت ،عسر ویسر میں خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم کریں ،ہو ں تو ہم جان لیں کہ ہم جس مطلب کے لیے آئے تھے وہ پورا ہو چکا اور جو کچھ کونا تھا وہ کر لیا ۔
کیسی سوچنے کی بات ہے کہ صحابہ کرامؓ کے تعلقات بھی تو آخر دنیا سے تھے ہی جائیدایں تھیں ،مال تھا زر تھا ۔مگر اُن کی زندگی پرکس قدر انقلاب آیا کہ سب کے سب ایک ہی دفعہ دستبردار ہو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ
ان صلاتی و نسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین (الانعام :۱۶۳)
ہمارا سب کچھ اللہ ہی کیلئے ہے۔اگر اس قسم کے لوگ ہم میں ہو جا ویں تو کونسی آسمانی بر کت اس سے بزرگ تر ہے ؟
بیعت کرنا صرف زبانی اقرار ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے آپ کو فروخت کر دینا ہے خواہ ذلت ہو نقصان ہو کچھ ہی کیوں نہ ہو کسی کی پر وانہ کی جاوے ۔مگر دیکھو اب کس قدر ایسے لوگ ہیں جو اپنے اقرار کو پورا کر تے ہیں ۔بلکہ خدا تعالیٰ کو آزمانہ چاہتے ہیں بس یہی سمجھ رکھا ہے کہ اب ہمیں ،مطلقاً کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو نی چاہیئے اور ایک پُر امن زندگی بسرہو حالانکہ انبیاء اور قطبوں پر مصائب آئے اور وہ ثابت قدم رہے مگر یہ ہیں کہ ہر ایک تکلیف سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں ۔بیعت کیا ہوئی گویا خدا تعالیٰ کو رشوت دینی ہوئی ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
احسب الناس ان یترکو ان یقولو امنا وھم لایفتنون(العنکبوت:۳)
یعنی کیا یہ لوگ گمان کر تے ہیں کہ یہ فقط کلمہ پڑ ھ لینے پر ہی چھوڑ دئیے جاویں گے اور ان کو ابتلاؤں میں نہیں ڈالا جاوے گا ۔پھر یہ لوگ بلاؤں سے کیسے بچ سکتے ہیں ہر ایک شخص کو جو ہمارے ہاتھ پر بیعت کر تا ہے جان لینا چاہیئے کہ جب تک آخرت کے سرمائے ک فکر نہ کیا جاوے کچھ نہ بنے گا اور یہ ٹھیکہ کرنا کہ ملک الموت میرے پاس نہ پھٹکے ،میرے کنبہ کا نقصان نہ ہو ،میر ے مال کا بال بیکا نہ ہو ،ٹھیک نہیں ہے ۔خود شرط وفا دکھلاوے اور ثابت قدمی وصدق سے مستقل رہے ۔اللہ تعالیٰ مخفی راہوں سے اس کی رعایت کرے گا اور ہر ایک قدم پر ان کا مددگار بن جاوے گا ۔
انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیرہ احکام کی ظاہری بجا آوری پر ہی ناز نہیں کر نا چاہیئے کہ نماز پڑھنی تھی پڑھ لی ۔روزے رکھنے تھے رکھ کیے ،زکوۃ دینی تھی دے دی ۔وغیرہ نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے
مُتَمّمِ و مُکمِّل
ہو تے ہیں اور یہی تر قیات کا موجب ہو تا ہے ۔مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات وصدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے ۱ ؎ بجا لاوے اور ہر ایک کا رخیرکرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش و ریا کو اس میں دخل نہ ہو ۔یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے ۔الغرض ہر ایک فعل اُس کا اور ہر ایک حرکت سُکون اس کا اللہ ہی کا ہو تا ہے ۔اس وقت جو اس سے دشمنی کرتاہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فر ماتا ہے کہ میں کسی بات میں اس قدر تردد نہیں کرتا جس قدر اس کی موت میں ۔
قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرق رکھ ۱؎ دیا جاتا ہے ۔غلام کو چاہیئے کہ ہر وقت رضا الہیٰ کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سِر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے ۔کون ہے جو عبودیت سے انکار کرکے خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے ؟
تعلقات الہیٰ ہمیشہ پاک بندوں سے ہو اکرتے ہیں جیسا کہ فر مایا ہے ۔
ابراھیم الذی و فی(النجم :۳۸)
لوگوں پر جو احسان کرے ہر گز نہ جتلاوے ۔جو ابراہیم کے صفات رکھتا ہے ابراہیم بن سکتا ہے ۔ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوااور کو معبود وکار ساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان :۱۴)
لا یغفر ان یشرک بہ (النساء:۴۹)
یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک شر ک ہے کہ اسباب کی پر ستش کی جاوے اور معبودات ۲ ؎ دنیا پر زور دیا جاوے اسی کا نام شرک ہے
اور معاصی کی مثاک تو حُقہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑدینے سے کوئی دقت ومشکل کی بات نظر نہیں آتی مگر شرک کی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہع جاتی ہے جس کا چھوڑنا محال ہے۔بعض کا یہ خیال بھی ہوگا کہ انقطاع الیٰ اللہ کر کے تباہ ہر جاویں ؟مگر یہ سراسر شیطانی وسوسہ ہے ۔اللہ کی راہ میں بر باد ہو نا آباد ہو نا ہے ۔اس کی راہ میں مارا جانا زندہ ہو نا ہے ۔کیا دنیا میں ایسی کم مثالیں اور نظیریں ہیں کہ جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے گئے ہلاک کئے گئے ۔ انکے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ذرہ ذرہ زمین میں ملتا ہے ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ہی دیکھ لو کہ سب سے زیادہ اللہ کی راہ میںبر باد کیا اور سب سے زیادہ دیا گیا ۔چنانچہ تاریخ اسلام میں پہلا خلیفہ حضرت ابو بکر ہی ہوا ۔ ۳؎ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۴ صفحہ۱۰،۱۱ مورخہ ۳۰ جون ۱۹۰۳؁ء)
۱۵ جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل از عشاء
بیویوں سے حُسنِ معاشرت
بار ہا دیکھا گیا ہے اور تجر بہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کر نا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ملال کا موجب ہو تا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی ۔
سُنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فر مایا تھا کہ :۔
جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے ۔
ایساہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اوّل بڑی چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر کیا جاوے ۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہو ا اور فر مایا کہ :۔
مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میَں اسے بر داشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے
چنانچہ دوسرے دن پھر حضورعلیہ السلام نے یہ فیصلہ صادر فر مایا کہ :۔وہ صاحب اپنی نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اوّل کا دستِ نگر کر کے نہ رکھا جاوے
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال پہلے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصولِ اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اوّل کو جو صد مہ ہوا ۔اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو اینوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی ۔اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فر مائی ۔چنانچہ اس خاوندنے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے ۔گر می کا موسم اور اشتیاق زیارت اور کلام کے سننے میں احباب کے مِل مِل کر بیٹھنے پر حضرت اقدس نے فر مایا کہ :۔
خدا تعالیٰ مکان کو وسیع کر دیوے تو یہ شکایت رفع ہو ۔ہر ایک شخص تقاضائے محبت سے آگے آتا ہے اور جگہ ہو تی نہیں ۔
عبودیت کا سِرّاور استغفار
چند ایک احباب نے بیعت کی ۔اس پر حضرت اقدس نے اُن کو نصیحت فر مائی کہ :۔
خداتعالیٰ کا منشاء ہے کہ انسان تو بہ نصوح کرے اور دُعا کرے کہ اس سے گناہ سر زد نہ ہو ۔نہ آخرت میں رسواہو نہ دنیا میں ۔
جب تک انسان سمجھ کر بات نہ کرے اور تذلّل اس میں نہ ہو تو خدا تک وہ بات نہیں پہنچتی ۔صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن گزر جاویں اور خدا کی راہ مٰں رونانہ آوے تو دل سخت ہو جاتا ہے تو سختئی قلب کا کفارہ یہی ہے کہ انسان رووے ۔اس کے لیے محر کات ہو تے ہیں انسان نظر ڈال کر دیکھے کہ اس نے کیا بنایا ہے اور اس کی عمر کا کیا حال ہے ۔دیگر گذشتگان پر نظر ڈالے پھر انسان کا دل لرزاں وتر ساں ہو تا ہے
جو شخص دعویٰ سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھو ٹا ہے جہاں شیر ینی ہو تی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں اسی طر ح نفس کے تقاضے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہو سکتی ہے ؟خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہو تو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی نہ ولی اور نہ اُن کے لیے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہم سے گناہ سر زد نہیں ہو تا بلکہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے ہیں اور نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ اُن پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہر گز معصوم اور محفوظ نہیں ہو سکتا
اللھم باعد بینی و بین خطا یای
اور دوسری دُعائیں بھی استغفارکے اسی مطلب کو بتلاتی ہیں ۔عبودیت کا سِرّ یہی ہے کہ انسان خد اکی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے جاوے جو خد اکی پناہ نہیں چاہتا وہ مغرو ر اور متکبر ہے ۔
(البدرجلد۶نمبر۲۳صفحہ۱۷۸مورخہ۲۶جون۱۹۰۳؁ء)
۱۸؍جون ۱۹۰۳؁ء
بوقت ظہر
ہمارے مخدوم مولانا عبدالکریم صاحب جو کہ قریباً پانچ سال سے حضرتاقدس کے مبارک قدموں میں جاگزیں ہیں ان کو ایک شادی کی تقریب میں شمولیت کے واسطے (ساتھ لے جانے کے واسطے ) ایک دو احباب سیالکوٹ سے تشریف لا ئے تھے مگر خدا تعالیٰ نے جو عشق اور محبت مولوی صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ عطاکیا ہے وہ ایک پل کے واسطے بھی ان مبارک قدموں سے جدائی کی اجازت نہیں دیتا بکہ اس کا اثر یہ ہے کہ جب کو ئی احمدی بھا ئی قادیان آکر پھر رخصت طلب کرتے ہیں تو مولوی صاحب کی ان کو یہی نصیحت ہو تی ہے کہ اس مقام کو اتنی جلدی نی چھوڑ و دیکھو تمہارے اوقات دنیوی کا روبار میں کس قدر گذرتے ہیں اگر اس کا ایک عشرِ عشیر بھی تم دین کے واسطے یہاں گذارو تو تم کو پتہ لگے اور آنکھ کھلے کہ یہاں کیا ہے جو ہمیں ایک پل کے واسطے علحیدہ نہیں ہو تے دیتا غرضیکہ کہ مولوی صاحب موصوف نے سیالکوٹ جانے سے انکار کیا اور وہی بات اس وقت حضرت اقدس کے سامنے پیش ہو ئی حضرتاقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ:۔
قادیان دارالامان
اس مقام کو خدا تعالیٰ نے امن والا بنایا ہے اور متواتر کشوف والہامات سے ظاہر ہوا ہے کہ جو اس کے اندر داخل ہوتا ہے وہ امن میں ہوتا ہے ۔
تواب ان ایام میں جبکہ ہر طرف ہلاکت کی ہوا چل رہی ہے اور گو کہ طاعون کا زور ان کم ہے مگر سیالکوٹ ابھی تک مطلق اس سے خالی نہیں ہے اس لیے اس جگہ کو چھوڑ کر وہاں جانا خلافِ مصلحت ہے ۔
آخر کار یہ تجویر قرار پائی کہ جن صاحب کی شادی ہے وہ اور لڑکی کی طرف سے اس کا ولی ایک شخص وکیل ہو کر یہاں قادیان میں آجاویں اور یہاں نکاح ہو حضرت صاحب کی دعا بھی ہو گئی اور خودمولوی عبدالکریم صاحب کیا بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام بھی اس تقریب ِنکاح میں شامل ہو جاوینگے ۔
جس لڑکے کے رشتہ کی یہ تقریب تھی اس کا رشتہ اول ایک ایسی جگہ ہوا تھا جو کہ حضرت اقدس کی بیعت میں نہیں تھے اور جب یہ رشتہ قائم ہوا تھا تواس وقت لڑکا بھی شامل ِبیعت نہ تھا جب لڑکے نے بیعت کی تولڑکی والوں نے اس لیے لڑکی دینے سے انکار کر دیا کہ لڑکا کا مرزائی ہے ۔
اس ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
اول اول یہ لوگ ایک دوسرے کا فر کہتے تھے سنی وہابیوں کی اور وہابی سنی کی تکفیر کرتا تھا مگر اب اس وقت سب نے موافقت کر لی ہے اور سارا کفر اکٹھا کر کے گو یا ہم پر ڈال دیا ہے ۔
(البدرجلد ۲ نمبر ۲۳ صفحہ ۱۷۹ مورخہ ۲۶؍ اجون ۱۹۰۳؁ء)
۱۹؍جون ۱۹۰۳؁ء
ریل کی پیشگوئی قرآن شریف میں
جمعہ کی نماز سے پیشتر تھوڑی دیر حضرت اقدس علیہ السلام نے مجلس فرمائی۔ریل وغیرہ کی ایجاد سے جو فوائد بنی نوع انسان کو پہنچے ہیں ان کاذکر ہوتا رہا۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ:۔انسانی صنعتوں کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے۔ریل کے واسطے قرآن شریف میں دو اشارے ہیں۔
اوّل۔
اذا النفوس زوجت (التکویر :۸)
دوم ۔
اذا العشا ر عطلت (التکویر :۵)
عشار حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں۔حمل کا ذکر اس لیے کیا تا کہ معلوم ہو جاوے کہ قیامت کا ذکر نہیں ہے۔صرف قرنیہ کے واسطے یہ لفظ لکھا ہے ورنہ ضرورت نہ تھی۔اگر پیشگوئی کا صدق اس دنیا میں نہ کھلے تو پھر اس کافائدہ کیا ہو سکتا ہے اور ایمان کو کیا ترقی ہو؟بیوقوف لوگ ہر ایک پیشگوئی کو صرف قیامت پر لگاتے ہیں اور جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ دنیا کی نسبت کوئی پیشگوئی قرآن شریف میں نہیں ہے۔
(البدرؔ جلد ۲نمبر۲۴ صفحہ۱۸۵مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳؁ء)
۲۵؍جون ۱۹۰۳ء؁
ربوبیتِ تامہّ
رات کے بعد از نماز عشاء چند مستورات نے بیعت کی۔حضرت اقدس نے ان کو ایک جامع وعظ فرمایا۔جس کا جسقدر قلمبند ہوا وہ ہدیہ ناظرین ہے ۔
’’اس سے مطلب یہ ہے کہ قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی پرورش ضرور ہوتی ہے۔دیکھو بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کس طرح خدا تعالیٰ اس کے ناک۔کان وغیرہ غرض اس کے سب اعضاء بنتا ہے اور اس کے دو ملازم مقرر کرتا ہے کہ وہ اس کی خدمت کریں۔والدین بھی جو مہربانی کرتے ہیں اور پرورش کرتے ہیں وہ سب پرورشیں بھی خدا تعالیٰ کی پرورشیں ہوتی ہیں۔
بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اَوروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اگر فلاں نہ ہوتا تو مَیں ہلاک ہوجاتا۔میرے ساتھ فلاں نے احسان کیا۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل اعو ذبرب الفلق (الفلق:۲)
میں اس خدا تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جس کیتمام پرورشیں ہیں
رب
یعنی پرورش کنذہ وہی ہے اس کے سوا کسی کا رحم اور کسی کی پرورش نہیں ہو تی حتیٰ کہ جو ماں باپ بچے پر رحمت کرتے ہیں دراصل وہ بھی اسی خدا کی پرورشیں ہیں اور بادشاہ رو رعایا سے انصاف کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے وہ سب بھی اصل میں خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے ۔
ان تمام باتوں سے اللہ تعالٰی یہ سکھلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برابر کو ئی نہیں سب کی پرورشیں ہو تی ہے ۔ بعض لوگ بادشاہوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نہ ہوتا تو مَیں تباہ ہو جاتا اور میرا فلاں کام بادشاہ نے کر دیا وغیرہ وغیرہ یادرکھو ایسا کہنے والے کافر ہوتے ہیں انسان کو چاہییئے کہ کافر نہ بننے مومن ننے اور مومن نہیں ہو تا جب تک کہ دل سے ایمان نہ رکھے کہ سب پرورشیں اور رحمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں انسان کو اس کا دوست ذرہ بھی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کا رحم نہ ہو اسی طرح بچے اور تمام رشتہ داروں کا حال ہے اللہ تعالیٰ کا رحم ہو نا ضروری ہے خدا تعالیٰ فر ما تا ہے کہ دراصل مَیں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں جب خدا تعالیٰ کی پرورش نہ ہو تو کو ئی پرورش نہیں کر سکتا دیکھو جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے طاعون کے مرض کی طرف غور کرو سب ڈاکڑ زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ ہوا اصل یہ ہے کہ سب بھلا ئیوں اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے ۔
پھر فرما تا ہے
الحمدللہ رب العالمین(الفاتحہـ:۲)
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور تمام پرورشیں تمام جہان پر اسی کی ہیں ۔
الرحمنٰ
وہی ہے جس کی رحمتیں نے بدلہ ہیں مثلاً انان کا کیا عذرتھا اگر اللہ تعالیٰ اسے کتا بنا دیتا ہے تو کیا یی کہہ سکتا تھا کہ اے اللہ تعالیٰ میرا فلاں عمل نیک تھا اس کا بدلہ تو نے نہیں دیا ۔
الر حیم
اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کے بدلہ نیک نتیجہ دیتا ہے جیسا کہ نماز پڑھنے والا روزہ رکھنے والا صدقہ دینے والا دنیا میں بھی رحم پاویگا اور آخرت میں بھی چنا نچہ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے ۔
ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین(التوبہ:۱۲۰)
اور دوسری جگہ فرماتا ہے
من یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ۔ومن یعمل مثقال ذرۃشرایرہ(الذلذال:۸،۹)
یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جوکوئی ذرہ سی بھی بھلائی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے ۔
ایک یہودی نے کسی شخص کو کہا کہ میں تجھے جادوسکھلا دوں گا شرط یہ ہے کہ تو کوئی بھلا ئی نہ کرے جب دنوں کی تعدا د پوری ہو گئی اور جادو نہ سیکھ سکاتو یہودی نے کہا کہ تو نے ان دنوں میں ضرور کو ئی بھلا ئی کی ہے ۔جس کی وجہ سے تو نے جادو نہیں سکھا اس نے کہا کہ مَیں نے کو ئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے راستہ میں سے کانٹا اٹھا یا اس نے کہا بس یہی تو ہے۔ جس کی وجہ سے تو جادو نہ سیکھ سکا۔ تب وہ بولا خدا تعالیٰ کی بڑی مہر بانیاں ہیں کہ اس نے ذرہ سی نیکی کے بدلہ بڑے بھاری گناہ سے بچالیا۔
اور ہمیں اس خدا تعالیٰ کی ہی پر شش کر نی چا ہیئے جو کہ ذرہ سے کام کا بھی اجر دیتا ہے خدا وہ ہے کہ انسان اگر کسی کو پانی کا گونٹ بھی دیتا ہے تو وہ اس کا بدلہ دیتا ہے دیکھو ایک عورت جنگل میں جارہی تھی رستہ میں اس نے ایک پیاسے کتے کو دیکھا اس نے اپنے بالوں سے رسہ بنا کر کنوئیں سے پانی کھینچ کراس کتے کو پلا یا جس پر رسول کریم ﷺ نے فرما یا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کو قبول کر لیا ہے وہ اس کے تمام گناہ بخش دیگا اگر چہ وہ تمام عمر فاسقہ رہی ہے ۔
ایک اور قصہ بیان کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تین آدمی پہاڑ پر پھنس گئے تھے وہ اس طرح کہ انہوں نے پہاڑ کی غار میں ٹھکا نا لیا تھا جبکہ ایک پتھر سامنے سے آگراور راستہ بند کر لیا تب ان تینوں نے کہا کہ اب تو نیک کام ہی بچا ئیں گے چنانچہ ایک نے کہا کہ ایک دفعہ مَیں نے مزدور لگا ئے تھے مزدوری کے وقت ان میں سے ایک کہیں چلا گیا مَیں نے ڈھونڈا آخر نہ ملا تو مین نے اس کی مزدوری سے کو ئی بکر ی خرید ی اور اس طرح چند سال تک ایک نبڑا گلہ ہو گیا پھر وہ آیا اس نے کہا کہ مَیں نے ایک دفعہ آپ کی مزدوری کی تھی اگر آپ دیں تو عین مہربانی ہو گی مَیں نے اس کا تمام مال اس کے سپرد کر دیا اے اللہ اگر تجھے میرا یہ نیک عمل پسند ہے تو میری مشکل آسان کر اتنے میں تھوڑا پتھر اونچا ہو گیا ۔
پھر دوسرے نے اپنا قصہ بیان کیا ۱ ؎ اور پھر بو لا کہ اے اللہ اگر میری یہ نیکی تجھے پسند ہے تو میری مشکل آسان کر پتھر ذرا اور اونچا ہو گیا ۔
پھرتیسرے نے کہا کہ میری ماں بوڑھی تھی ایک رات کو اس نے پانی طلب کیا مَیں نے جب پانی لا یا
تو وہ سو چکی تھی میں نے اس کو نہ اٹھا یا کہ کہیں اس کو تکلیف نہ ہواور وہ پانی لیے تمام رات کھڑا رہا صبح اٹھی تو اسے دیدیا اے اللہ اگر تجھے میری یہ نیکی پسند ہے تو مشکل کو دور کر پھر اس قدر پتھر اونچا ہو گیا کہ وہ سب نکل گئے اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو نیکی کا بدلہ دیا۔ (البدرجلد ۲ نمبر ۲۳ صفحہ ۱۷۸ مورخہ ۲۶؍جون۱۹۰۳؁ء)
۲۶؍جون ۱۹۰۳؁ء
دربارِشام
ایماان کیسا تھ عمل ضروری ہیَ
فر مایا:۔ ۲؎
اسلام کادعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت توبہ کر نا کوئی آسان کام نہیں ۔کیو نکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں ۔منہ سے دعویٰ کر نا اور عمل سے اس کاثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا ناہے اور اسی آیت کا مصداق ہوجانا ہے ۔
یا یھاالذین امنو الم تقو لون مالا تفعلون ۔کبر مقتا عنداللہ ان تقولو مالا تفعلون ۔((الصّف:۳،۴)
یعنی اے ایمان والو تم وہ با ت کیوں کہتے ہو جو تم نہیںکرتے ہو۔یہ امر کہ تم وہ باتیں کہو جن پر تم عمل نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے غضب کا موجب ہے۔
پس وہ انسان جس کا اسلام کا دعویٰ ہے یا جو میرے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اگر ووہ اپنے آپ کو اس دعویٰ کے موافق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آجا تا ہے اس سے بچنا لازم ہے۔
امرِشرعی اور امرِکونی
فر مایا:۔ ۱؎
اور امر کی دوقسمیں ہوتی ہیں:۔
ایک امر شرعی ہوتا ہے جس کے برخلاف انسان کرسکتا ہے ۔دوسرے اوامر کونی ہوتے ہیں جس کا خلاف ہونی نہیں سکتا ۔جیسا کہ فر مایا
یا نار کونی بر داوسلا ماعلی ابراھیم (الانبیاء:۷۰)
اس میں کوئی خلا ف نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ آگ اس حکم کے خلاف ہر گز نہ کر سکتی تھی۔ ۲؎
انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے ربگ میں دئیے ہیں جیسے
اقیمواالصلوت(البقرہ :۴۴)
نماز کو قائم رکھو۔فر مایا
واستعینو ابا لصبروالصلوت(البقرہ :۴۴)
ان پر جب ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کونی رنگ اختیار کرلیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا۔ ۳؎
(الحکم جلد۷ نمبر۲۵صفحہ۱۵مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۲۸؍جون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
کیا آدم کے وقت دوسرے انسان تھے موجود تھے
ایک صاحب نے سوال کیا کہ آ دم علیہ اسلام جو خلیفہ بن کر آئے تو اس وقت کونسی قوم موجود تھی جس کے وہ خلیفہ تھے ؟اور اگر قوم موجود تھی تو حوا ان کی زوجہ کی نئی پیدائش کی ضرورت نہ تھی ۔اسی موجود قوم میں سے وہ نکاح کر سکتے تھے ۔اس پر حضرت اقدس علیہ اسلام نے فر مایا :۔
حدیث شریف میں ہے کہ بہت سے پیچ درپیچ جو امور غیر مفید ہوں ان کو انسان تر ک کردے ۔ ۱ ؎
انی جاعل فی الارض خیلفت(البقر ہ:۳۱)
سے استنباط ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے سے اس وقت کوئی قوم موجو د ہواور دوسری جگی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فر ماتا ہے
والجان خیلفہ من قبل من نار السمدم(الحجر:۲۸)
ایک قوم جان بھی آدم سے پہلے موجود تھی ۔بخاری کی ایک حدیث ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے اور یہی حق ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کو ہمیشہ سے خالق نہ مانیں تو اس کی ذات پر(نعوذباللہ) حرف آتا ہے اور ماننا پڑیگا کہ آدم ؑ سے پیشتر خدا تعالیٰ معطل تھا ،لیکن چونکہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کی صفات کو قدیمی بیان کرتا ہے اسی لیے اس حدیث کامضمون راست ہے ۔قرآن کریم میں جو کوئی ترکیب ہے وہ ان صفا ت کے استمرار پردلات کرتی ہیں، ۲؎ لیکن اگر آدمؑ سے ابتداخلق ہوتی اور اس سے پیشتر نہ ہوتی تو پھر یہ نحوی ترکیب قرآن میں نہ ہوتی۔ ۳ ؎
باقی رہی لڑکیوں کی بات کہ ان کے موجود ہوتے حّوا کی پیدایش کی کیا ضرورت تھی ؟ تو اس طرح سمجھنا چاہئیے کہ ممکن ہے کہ جس مقام پر آ دم علیہ اسلام کی پیدائش ہوئی وہاں کے لوگ کسی عذابِ الہیٰ سے ایسے تباہ ہوگئے ہوں کہ آدمی نہ بچا ہو۔ ۴ ؎ دنیا میں یہ سلسلہ جاری ہے کہ کوئی مقام بالکل تباہ ہو جاتا ہے ۔کوئی غیر آبادآباد ہو جاتا ہے کوئی برباد شدہ ازسربوآباد ہو جاتا ہے ۔چنانچہ لو کہ ابھی تک یورپ والے ٹکریں ماررہے ہیں کہ شاید قطب شما لی میں کوئی آبادی ہو اور تلاش کر کرکے معلوم کر رہے ہیں کہ کَون سے قطعاتِ زمین اعّل آباد تھے اور پھر تباہ ہو گئے ۔پس ایسی صورت میں ان مشکلات میں پڑنے کی ضرورت ہے؟ ایمان لانا چاہئیے کہ خداتعالیٰ ربّ۔رحمنٰ۔رحیم۔ مالک یوم الدین ہے اور ہمیشہ سے ہی ہے ۔جاندار ایک تو تکوّن سے پیدا ہوتے ہیں اور ایک تکوین سے۔ممکن ہے کہ آدم کی پیدائش کے وقت اَور مخلوقات ہواور اس کی جنس سے نہ ہو یا اگر ہو بھی تو اس میں کیا ہرج ہے کہ قدرت نمائی کے لیے خدا تعالیٰ نے حّوا کو بھی اُن کی پسلی سے پیدا کردیا۔
جب انسان بیعت کرتا ہے تو سب امرونہی اسے ماننے چاہئیں اور خداتعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان چاہئیے ۔خدا تعالیٰ ہر طرح پر قادر ہے ۔ممکن ہے کہ ایک قوم موجود ہو۔اور اس کے ہوتے ہوئے وہ اَور قوم پیدا کردیوے یا ایک قوم کو ہلاک کرکے اَور پیدا کردے ۔موسیٰؑ کے قصہّ میں بھی ایک جگہ ایسا واقعہ بیان ہوا ہے آدم ؑ کے وقت بھی خدا سابقہ قوموں کو ہلاک کر چکا تھا ۔پھر جب آدمؑ کو پیدا کیا تواَور قوم بھی پیدا کردی۔
خلیفہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ایک قوم ضرورپہلے سے موجود ہو ۔ ایساہو سکتا ہے کہ ایک اَورقوم کو پیدا کرکے پہلی قوم کا خلیفہ اُسے قرار دیا جاوے اورآدم اس کے مورثِ اعلیٰ ہوں کیونکہ خداتعالیٰ کی ذات ازلی ابدی ہے اس پر تغیرّنہیں آتا ۔ مگر انسان ازلی ابدی نہیں ہے اس پر تغیر آتا ہے میرے الہام میںبھی مجھے آدم کہا گیا ہے ۔
جب روحانیت پر موت آجاتی ہے یعنی اصل انسانیت فوت ہو جاتی ہے تواللہ تعالیٰ بطور آدم کے ایک اَور کو پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے ہمیشہ سے آدم پیدا ہوتے رہتے ہیں اگرقدم سے یہ سلسلہ ایسا نہ ہو تو پھر ماننا پڑیگا کہ پانچ یا چھ ہزار برس سے خداہے قدم سے نہیں ہے یا یہ کہ اوّل وہ معطّل تھا ۔
یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ بعض قرون کو ہلاک کرتا ہے ۔دیکھو نوحؑ کے وقت ایک زمانہ کو ہلاک کر دیا ۔اس لیے ممکن ہے ممکن کیا بلکہ یقین ہے کہ نوحؑ کی طرح اس وقت سابقہ قوموں کو ہلاک کر دیا اور پھر ایک نئی پیدائش کی ۔اگر یہ ہلاکت کا سلسلہ نہ ہو تو پھر زمین پر اس قدرآبادی ہو کہ رہنا محال ہو جاوے ۔یہ قبریں ہی ہیں جنہوں نے یہ پردہ پوشی کی ہے۔ ۱؎ (البدر جلد۲ نمبر۲۴صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷مورخہ ۳؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
۳۰؍ جُون ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
بیعت کے بنیادی لوازم
چند ایک نووارداحباب نے بیعت کی ۔ان میں سے چند ایک نے عرض کی کہ حضرت جی ۔ہم قرآن پڑھے ہو ئے نہیں ہیں فر مایا کہ :۔
موٹے موٹے گناہوں کو تو جانتے ہو اُن سے بچو۔ چوری نہ کرو۔زنانہ کرو۔ ظلم نہ کرو۔کسی کا مال یا زمین نہ دباؤ۔چھوٹ مت بولو۔شرک مت کرو۔
حدیث شریف سے ثابت ہے کہ
اھل الجنہ بلت۔
کہ جنت میں جانے والے سادے ہوتے ہیں ۔جو بیعت پڑھے ہوئے ہیں اور عمل نہیں کرتے ان کی سخت مذّمت کی گئی ہے اور ان پر خدا نے بیعت بھی کی تھی ۔غریب لو گ پا نصد برس پیشتر بہشت میں داخل ہونگے ۔غریبی خوش قسمتی ہے ۔خدا کوپہچانو کہ جس کی طرف تم نے جانا ہے اور شرک سے پرہیز کرو۔اسباب پر بھروسہ کرنے سے بچو کہ یہ بھی ایک شرک ہے ۔جو آدمی چالاکی سے گناہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا تو آخر خدا کا قہر ایک دن اُسے ہلاک کرتا ہے
لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ
کے معنے یہی ہیں کہ خدا کے سوا اَور کسی کی پوُجا نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔
اپنی عورتوں کو نصیحتیں کرو ۔رشوتیں نہ لونہ دو۔تکبر ۔گھمنڈ۔غرور ان سب باتوں سے بچو۔خدا کے غریب اور عاجز بندے بن جاؤ۔
صبر اور عفو
ایک نے سوال کیا کہ اگر کوئی دشمن نقصان دیوے تو پھر بدلہ لیویں کہ نہ؟
فر مایا کہ :۔
صبر کرو کہ یہ وقت صبر کا ہے ۔جو صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ اُسے بڑھا تا ہے ۔انتقام کی مثال شراب کی طرح ہے کہ جب تھوڑی تھوڑی پینے لگتا ہے تو بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ پھر وہ اُسے چھوٹ نہیں سکتا اورحد سے بڑھتا ہے اس طرح انتقام لیتے لیتے انسان ظلم کی حد تک پہنچ جا تا ہے ۔
ایسی مجلس سے اُٹھ جا نا چاہئیے جہاں بُرا کہا جاتا ہو۔
سوال ہوا کہ اگرآپ کو کوئی بُرا کہے تو ہم کیسے صبر کرسکتے ہیں ؟فر مایا کہ :۔
جوش کے وقت اپنے آپ کو سبنھالنا چاہئیے ۔دُکھ تو ہوتا ہے مگر انسان ثواب پا تا ہے ۔اگر کوئی ہمیں بُرا کہتا ہو تو وہاں سے اُٹھ گئے یا الگ ہو گئے ۔نہ سُنا کہ جس سے جوش آوے اور فساد ہووے ۔
فساد سے بچنا چاہئیے
سوال ہوا مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دتیے اور اس مسجدمیں ہمارا حصّہ ہے فر مایا کہ:۔
سفید زمین پر ایک حد کرلی وہی مسجد ہو جاتی ہے مگر فساد اچھا نہیں ۔اگر تم دشمن سے بدلہ نہ لو اور اُسے خدا کے حسالہ کردو تو وہ خود نپٹ لیوے گا ۔دیکھو ایک بچہ کے دشمن کا مقابلہ ماںباپ کیا کرتے ہیں ۔اسی طرح جو خدا تعالیٰ کے دروازہ پر گر تا ہے تو خدا خوداس کی رعایت کرتا ہے اور اسے ضرر دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے ۔
(البدر جلد۲ نمبر۲۴صفحہ ۱۸۷مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
یکم جولائی ۱۹۰۳ء؁
دربار شام
ایک فقہی مسئلہ
ایک لڑکی کے دوبھائی تھے اور ایک والدہ ۔ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لیے راضی تھے ۔مگر ایک بھائی مخالف تھا ۔وہ اَور جگہ رشتہ پسندکرتا تھا اور لڑکی بھی بالغ تھی ۔اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس کا نکاح کہاں کیا جاوے ۔حضرت اقدس علیہ اسلام نے دریافت کیا کہ لڑکی کس بھا ئی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے ؟جواب دیا گیا کہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے ۔فر مایا کہ :۔
پھر وہاں ہی اس کارشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں۔
آنحضرت ؐ کا ابولہب کے لڑکوں سے رشتہ کرنا
پھر نکاحوں پر ذکر چل پڑا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی لڑکیوں کے رشتہ ابولہب سے ۱؎ کردئیے تھے حالانکہ وہ مشرک تھا مگر اس وقت تک نکاح کے متعلق وحی کانزول نہ ہوا تھا ۔چونکہ پغمیبر خداﷺ پر توحید غالب تھی اس لیے دخل نہ دتیے تھے اور قومیت کے لحاظ سے بعض امور کو سرانجام دیتے اس لیے ابولہب کو لڑکی دے دی تھی۔
رسُول کو علمِ غیب نہیں ہوتا
رسول عالم الغیب ہوتا ہے کہ نہیں ؟اس پر فر مایا کہ:۔اگر آنحضرت ﷺغیب ہوتاتوآپ زینب کا نکاح زید سے نہ کرتے کیونکہ بعد کو جُدائی نہ ہوتی اور اسی طرح ابولہب سے بھی رشتہ نہ کرتے ۔
مسیح موعودعلیہ اسلام کا مقامِ ماموریت
میں ایک مرد ہوں کہ خدا تعالیٰ میر ے ساتھ گفتگو کرتا ہے اور اپنے خاص خزانہ سے مجھے تعلیم دیتا ہے اور اپنے ادب سے میری تادیب فر ماتا ہے ۔وہ اپنی مجھ پر وحی بھیجتا ہے مَیں اس کی وحی کی پیروی کرتا ہوں ۔ایسی صورت میں مجھے کونسی ضرورت ہے کہ مَیں اس کی راہ کو ترک کرکے دوسری متفرق راہیں اختیار کروں ؟جو کچھ آج تک مَیں نے کہاہے اسی کے امر سے کہا ہے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ملایا ۔اور نہ اپنے خدا پر مَیں نے افتاء باندھا ہے ۔منقری کا انجام ہلاکت ہے پس اس کاروبار پر تعجب کرنے کا کونسا مقام ہے اس قادر مطلق کدا کے کاروبار پر تعجب نہ کرو کیونکہ اس نے تو زمین وآسمان کو پیدا کیا ۔وہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا کیا۔
میرے پاس خدا تعالیٰ کی بہت سی شہادتیں ہیں ۔اس نے میرے لیے بہت سے نشان دکھلائے ہیں اورر اس کی وحی کردہ غیبی خبر وں میں جواس نے مجھے دیں ایسے ایسے راز ہیں کہ انسان کی عقل کو اُن تک رسائی نہیں ہے پس اس لیے چاہئیے کہ طاعون کے بارے میں ہمارے ساتھ جھگڑا نہ کریں اور اس شخص کی طرح نہ ہو ویں جس کے دل کو خدا نے غافل کردیا اور اس نے اپنے اسباب کو اپنا خدا قرار دے لیا۔کیا ان کو اس بات کی خبر نہیں ہے کہ ہر ایک سبب کا انتہا آخر کا ر ہمارے خدا تک ہی ہے اور رتھوڑی دورچل کر اسباب کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور صرف امر خالص کا مرتبہ رہ جا تا ہے کہ جسے کسی طرح ہم سبب کی طرف منسوب نہیں کرسکتے اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہ جاتی ہے اور اسباب کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جاتا ہے ۔اسباب کا سلسلہ تو صرف چند قدموں تک ساتھ دیتا ہے اس کے بعد خدا تعا کی غیر مدرک اور غیر مرئی خالص قدرت ہوتی ہے یہ ایک ایسا پوشید ہ خزانہ ہے کہ جس کی حد اور انتہا ہی نہیں ہے اور ایسا دریا ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اور ایک ایسا دشت ہے کہ جوطے ہونے میں نہیں آتا ۔یہ کہنا کہ قدرت خالص اللہ تعالیٰ کی بے کار ہو جاتی ہے اورصرف اسباب رہ جاتے ہیں بڑت بے انصافی ہے کیا تم کو اس بات علم نہیں ہے کہ خدا نے آدم ؑ اور عیسیٰؑ کو کیسے پیدا کیا تھا ؟اور موسیٰؑ کے لیے کس طرح دریا کو شگا ف کیا کہ جس سے موسیٰ علیہ اسلام تو دریا سے سلامت گذرگئے اور فرعون غرق ہو گیا ؟اب تم ہی جواب دو کہ وہ کونسی کشتی تھی جس پر بیٹھ کر موسٰیؑ دریا سے گذرے۔
خدا تعالیٰ نے اس قصّہ کو قرآن کریم میںبے فائدہ نہیںذکرکیا ہے بلکہ اس بڑے بڑے معارف اور حقائق ہیں تا کہ تم کو اس بات کا علم ہو کہ اس پاک ذات اللہ تعالیٰ کی قدرت اسباب میں مقیَّد نہیں ہے اور تمہارے ایمان ترقی کریں۔ آنکھیں کھلیں اور شکوک وشبہات رفع ہوں اور تم کو یہ شناخت حاصل ہو کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے کہ اس پر کسی قسم کا کوئی درواز مسدود نہیں ہے ۔اس کی قدرتوں کی کو ئی انتہا نہیں ہے جو شخص اس کی وسعتِ قدرت سے منکر ہو کر اسباب کے احاطہ میں اسے مقیّد کرتا ہے تو سمجھو کہ صدق کے مقام سے وہ گرپڑا پس اگر کوئی شخص حکمِ خدا وندی سے اسباب کو ترک کرتا ہے تو تم اسے بُرا مت کہو اورخدا تعالیٰ کے قانون کو ایک تنگ وتاریک دائرہ میں محدودمت کرو ۔ (الحکم جلد۷ نمبر۲۵صفحہ۱مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
نیز (البدرؔجلد ۲ نمبر ۲۵ صفحہ ۹۳ ۱۔۱۹۴ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۳ء ؁ )
۴؍جولائی
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مجلس قبل ازعشاء
تعویذاوردَم
ایک شخص نے مسئلہ اور ستفسار کیا کہ تعویذ کا بازووغیرہ مقامات پر بابدھا اور دم وغیرہ کر نا جائز ہے یا نہیں ؟ اس پر مسیح موعود علیہ اسلام الصلٰوت واسلام جناب مولٰناحکیم نورالدین صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ :۔
احادیث میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نہیں؟
حکیم صاحب نے عرض کیکہ لکھا ہے کہ خاکدبن ولیدجب جنگوں میں جاتے تو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک جو کہ آپ کی پگڑی میں بندھے ہو تے آگے کی طرف لٹکا لیتے ۔پھر آنحضرت ﷺ نے صرف ۱ ؎ ایک دفعہ صبح کے وقت ساراسرمنڈوایا تھا توآپ نے نصف سرکے بال ایک خاص شخص کودے دیئے اور نصف سرکے بال باقی اصحاب میں بامٹ دیئے ۔آنحضرت ﷺ کے جُبہ مبارک کو دھودھوکر مریضوں کو بھی پلاتے تھے ۲؎ اور مریض اس سے شفایاب ہوتے تھے ۔ایک عورت نے ایک دفعہ آپ کا پسینہ بھی جمع کیا یہ تمام اذکا ر سنکر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
پھر اس سے نیتجہ یہ نکلا کہ بہر حال اس میں کچھ بات ضرو ہے جو خالی ازفائدہ نہیں ہے اور تعویذوغیرہ کی اصل بھی اس سے نکلتی ہے بال لٹکا ئے تو کیا اور تعویذباندھا تو کیا میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں میں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔آخر کچھ تو ہے تبھی وہ برکت ڈھونڈیں گے مگر ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے ۔
عظیم الشان انسانوں کے صغائر پر نظر کرنے کاذکر ہوا ۔فر مایا کہ:۔
صدق ووفا میں جوعظیم الشا انسان ہوتے ہیں ان کے صغائر کا ذکر کرنے سے سلبِ ایمان ہو جا تا ہے خدا توان صغائر کر عفوکر دیتا ہے اور ان کے کارناموں کی عظمت اس قدر ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں صغائر کا ذکر کرتے ہی شرم آتی ہے اسی لیے وہ رفتہ رفتہ ایسے معدوم ہو جاتے ہیں کہ پھر ان کا نا م ونشان ہی نہیں رہتا ۔ (البدر جلد۲ نمبر۲۶صفحہ۲۰۱مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۵؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
مجلس قبل ازعشاء
تبلیغ کا طریق
فر مایا کہ:۔
کتابوں کو شائع کرنا چاہئیے تا کہ تبلیغ ہو۔دیکھا جاتا ہے کہ دہلی کے پربہت کم لوگوں کو ہمارے دعادی کی خبر ہے ۔اس کا انتظام یوں ہونا چاہئیے کہ ایک لمباسفر کیاجاوے اور اس میںیہ تمام کتب جو کہ بہت ساذخیرہ پڑا ہوا ہے تقسیم کی جاویں تاکہ تبلیغ ہواللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے سامان دئیے ہیں ان سے فائدہ نہ اٹھانا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہو تا ہے ہمارے لیے ریل بنائی گئی ہے جس سے مہینوں کا سفر دنوں میں ہوتا ہے ۔
چندوں کی اہمیت
اورقوم کو چاہئیے کہ ہر طرح اس سلسلہ کی کدامت بجالاوے مالی طرح پر بھی خدمت کی بجاآوری میں کوتا ہی نہیں چاہئیے دیکھودنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا دسول کریم ﷺ ،حضرت موسٰیؑ اورحضرت عیسٰیؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیوین تو بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا توااسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ۔۱ ؎
اس وقت اس سلسلہ کو بہت سی امداد کی ضرورت ہے انسان اگر بازار جاتا ہے تو بچے کی کھیلنے والی





چیزوں پر ہی کئی کئی پیسے خرچ کر دیتا ہے تو پھر یہاں اگر ایک ایک پیسہ دے دیوے تو کیاحرج ہے؟ خوارک کے لیے خرچ ہوتا ہے ،لباس کے لیے خرچ ہوتا ہے اَور ضرورتوں پرخرچ ہوتا ہے تو کیا دین کے لیے ہی مال خرچ کرنا گراں گذرتا ہے ؟دیکھا گیا ہے کہ ان چنددنوں میں صد ہا آدمیوں نے بیعت کی ہے مگر افسوس ہے کہ کسی نے ان کو کہا بھی نہیں کہ یہاں چندوں کی ضرورت ہے خدمت کرنی بہت مفید ہوتی ہے جس قدر کوئی خدمت کرتا ہے اسی قدر وہ راسخ الا یمان ہوجاتا ہے اور جو کبھی خدمت نہیں کرتے ہمیں تو ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے۔
چاہئیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفّس عہد کرے کہ مَیں اتنا چند ہ دیا کروں گا کیونکہ جوشخص اللہ تعالے ٰکے لیے عہدکرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے اس دفعہ تبلیغ کے لیے جو بڑابھاری سفر کیا جاوے تو اس میں ایک رجسڑبھی ہمراہ رکھا جاوے جہاں کوئی بیعت کرنا چاہئیے اس کا نام اور چندہ کا عہد درج رجسڑ کیا جاوے اور ہر ایک آدمی کو چاہئیے کہ وہ عہد کرے کہ مدسہ میں اس قدر چندہ دیوے گا اورلنگر خانہ میں اس قدر۔
بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئیے۔کہ اگر تم سّچا تعلق رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ سے پکاّعہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں ۔اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کرسکتے تو پھر جماعت میں شامل ہو نے کا کیا فائدہ ؟نہایت درجہ کا بخیل اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لیے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے اگر کوئی چار روٹی کھا تا ہے تو اسے چاہئیے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے اس سلسلہ کے لیے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لیے اسی طرح سے نکا لا کرے۔
چندے کی ابتدااس سلسلہ سے ہی نہیں ہے۔بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میںبھی چندے جمع کئے گئے تھے۔ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اچارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔پغمبرخدا ﷺنے فرمایا کہ حسبِ مقدورکچھ دینا چاہیے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے۔ابو بکرؓنے سارا مال لا کر سامنے رکھدیا۔اور حضرت عمرؓ نے نصف مال۔آپ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ کوئی جانتا ہی نہیں کہ مدد دینی بھی ضروری ہے۔حلانکہ اپنی گذران عمدہ رکھتے ہیں ان کے بر خلاف ہندوئوںوغیرہ کو دیکھو کہ کئی کئی لاکھ چندہ جمع کرکے کارخانہ چلاتے ہیں اور بڑی بڑی مذہبی عمارات بناتے اور دیگر موقعوں پر صرف کرتے ہیں حلانکہ یہاں تو بہت ہلکے چندے ہیں۔پس اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتا تو اسے خارج کرنا چاہیے وہ منافق ہے اور اس کا دل سیاہ ہے۔ہم ہر گز نہیں کہتے کہ ماہواری روپے ہی ضرور دو ہم تو یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کرکے دو جس میں کبھی فرق نہ آوے۔صحابہ اکرام ؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا۔
لن تنالواالبر حتیٰ تنفقوا مما تحبون (ال عمران:۹۳)
اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکیداور اشارہ ہے۔
یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہیئے۔اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔کوئی کسی ادنیٰ درجہ کے نواب کی خیانت کرکے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا تو احکم الحاکمین کی خیانت کرکے کس طرح اسے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے۔ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا۔جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں۔اور ہیاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور خلوص کا کام ہے۔
پس ضرور ہے کہ ہزار در ہزار آدمی جو بعیت کرتے ہیں ان کو کہا جاوے کہ اپنے نفس پر کچھ مقرر کریں اور اس میں پھر غفلت نہ ہو۔ (البدر جلد۲ نمبر۲۶صفحہ ۲۰۱،۲۰۲مورخہ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۶؍جولائی۱۹۰۳ء؁
مجلس قبل از عشاء
طاعون کا عذاب
طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ:۔
اس بات کو سوچنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قتل کے عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا حلانکہ صحابہ بھی قتل ہوئے تھے لیکن وہی قتل کفار کے لیے عذاب کا حکم رکھتا تھا اور مسلمانوں کے لیے شہادت کا۔عذاب کا معیار یہی ہے کہ انسان دیکھے کہ کونسا فریق زیادہ تباہ ہورہا ہے آیا موافق یا مخالف۔پس جو زیادہ تباہ ہوتا ہو ان کے لیے عذاب ہے۔اسی طریق سے آج کل مقابلہ کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کے عذاب کے طور پر بھیجا ہے۔اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا ہماری جماعت کے لوگ زیادہ مرتے ہیں یا مخالف؟پھر خود ہی معلوم ہو جائے گا کہاس عذاب نے کن کو نیست ونابود کردیا۔
اگر ہماری جماعت کے کچھ لوگ فوت ہو جاتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ صحابہ بھی جنگوں میں قتل ہوتے ہی تھے ہاں البتہ ایسے جن سے شماتت اعداء ہوسکے بچائے جاویں گے جب بدر اور احد کی لڑائیاں ہوتی تھیں تو کوئی سمجھتا تھا کہ امر فاروق کیا ہے؟کبھی ان کو فتح ہوتی کبھی صحابہؓ کو۔تاہم بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنکو خداتعالیٰ اعجازی طور پر مرنے سے بچالیتا ہے۔دیکھو ابوبکرؓ وعمرؓ کو لؑائیوں میں بچالیا۔اس کا نام اعجاز ہوتا ہے ورنہ موت تو ہر ایک کے لیے ہے۔
موعود کون ہیَ
فرمایاکہ:۔موعود وہ ہے جس کا ذکر منکم میں ہے جیسے کہ فر ماتا ہے۔
وعداللہ الذین امنو امنکم وعملواا لصلحت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(النور:۵۶)
ورنہ اس طرح خواہ صدہا مسیح آویں اور کسی امت کے ہوں وہ موعود نہ ہو ویں گے کیو نکہ وہ منکم سے باہر ہوں گتے ۔حالا نکہ خدا تعالیٰ کاوعدہ منکم کا ہے پھر باہر سے آنے والاکیسے موعود ہو سکتا ہے ؟
(البدرؔ جلد۲ نمبر۲۶صفحہ ۲۰۲مورخہ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۸؍ جولائی ۱۹۰۳؁ء
دربارشام
غیر مومن کی ماتم پرسی
مرزا امام الدین جو اپنے آپ کو ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں مشہور کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوت واسلام کے سخت ترین دشمنوں سے تھا ،۶ ؍جولائی کو فوت ہو گیا ۔چنانچہ اس کے جنازہ پر رسمی طور پر ہمارے مغرزو مکرم دوست سیّد محمد علی شاہ صاحب بھی چلے گئے اور جنازہ پڑھ لینے کے پیچھے آپ کو اپنے اس عمل پر تاسّف ہوا اور آپ نیذیل کا توبہ نامہ شائع کیا جو ہم ناظرین الحکم کی دلچسپی کے لیے درج کرتے ہیں کہ :۔
مَیںبذریعہ تو بہ نامہ ہذاس امر کو شائع کرتا ہوں کہ مَیں نے سخت غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ مَیں نے غلطی سے مراز امام الدین کا جو ۶؍جولائی کو فوت ہو ا ہے اور جس نے اپنی کتا بوں میں ارتداد کیا ہے جنازہ پڑھا ۔پس میں بذریعہ اشتہار ہذایہ تو بہ نامہ شائع کرتا ہوں اور ظاہر کرتا ہوں کہ مَیں امام الدین اور ان لوگوں سے بیزار ہوں جو اس کے جنازہ میں شامل ہوئے اور بالآ خر مَیں دعائے جنازہ واپس لیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں ۔
خاکسار محمدعلی شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر (حضور علیہ الصلوت واسلام نے) فر مایا کہ:۔
کو ئی شخص کسی بات پر نازنہ کرے ۔فطرت انسان سے الگ نہیں ہوا کرتی جس فطرت پر انسان اوّل قدم مارتا ہے پھر وہ اس سے الگ نہیں ہوتا یہ بڑے کوف کا مقام ہے حُسنِ خاتمہ کے لیے ہر ایک کو دعا کرنی چاہئیے ۔
عمر کا اعتبار نہیں ہر شئے پر اپنے دین کو مقدم رکھو زمانہ ایسا آگیا ہے کہ مہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمر کا لگا یا جا تا ہے تھا مگر اب تو یہ بھی مشکل ہے دانشمند کو چاہئیے کہ ضرور موت کا انتظام کرے مَیں اتنی دیرسے اپنی برادری سے الگ ہوں میرا کسی نے بگاڑ دیا خدا تعالیٰ کے مقابل پر کسی کو معبود نہیں بنانا چاہئیے۔ ۱ ؎
ایک غیر مومن کی بیمار پُرسی اور ماتم پُرسی تو حُسن اخلاق کا نتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائرِ اسلام کو بجا لا ناگناہ ہے مومن کا حق کافر ۲؎ کودینا نہیں چاہئیے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہئیے ۔
خدا تعالیٰ کی ذات گو مخفی ہے مگر اس کے انوار ظاہر ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مخفی نہیں۔
سب نبیوں سے زیادہ کا میاب نبی آنحضرت ﷺ تھے
کامیابی اور خوشی کی موت تمام نبیوں سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کی ہے۔موسیٰ بھی کامیاب ہوئے لیکن موت نے اُن کو بھی سفر میں آگھیرا۔دل میں تمنا ہوگئی کہ اس سر زمین میں پہنچوں مگر وہ پوری نہ ہوئی۔مسیؑح کی موت پر خیال کیا جاوے تو اس میں غائت درجہ کی ناکامی ہے۔کل بارہ درباری تھے کسی کو بہشت کی کنجیاں ملنے کا وعدہ تھا وہ نہ ملیں ۔ایک نے تیس روپے نقد لے کر گرفتار کروادیا۔دُوسرے نے *** بھیجی۔ ۱؎ اگر یہ مان بھی لیں ۲؎ کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر چڑھ گئے تو بھی روتے ہی گئے ہوں گے خوشی اور کامیابی کی موت تو نصیب نہ ہوئی،لیکن آنحجرت ﷺ کا دنیا میں آنا اور پھر وہاں سے رخصت ہونا قطعی دلیل آپ کی نبوت پر ہے۔آئے اُس وقت جبکہ زمانہ
ظھر الفسادفی البر والحر(الروم:۴۲)
کا مصداق تھا اور ضرورت ایک نبی کی تھی۔ضرورت پر آنا بھی ایک دلیل ہے اور آپ اس وقت دنیاسے رخصت ہوئے جب
اذاجاء نصراللہ (النصر:۴)
کا آوازہ دیا گیا۔اس میںاللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کسقدر عظیم الشان کامیانی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ داخل ہورہے ہیں۔
فسبح بحمد ربک (النصر:۴)
یعنی وہ رب جس نے اس قدر کامیابی دکھلائی اس کی تسبح وتحمید کر اور اور انبیاء پر جو انعامات پوشیدہ رہے وہ آنحضرت ﷺ پر کھول دیئے گئے اور رحمت کے تمام امور اجلیٰ کر دیئے اور کوئی بھی مخفی نہ رکھا ۔اس حمد کا ثبوت اس آخری وقت پر آکر دیا۔احمد ۳؎ کے معنے بھی (ہیں)حمد کرنے والا۔
دنیا میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں آیا جو اتنی بڑی کامیانی اپنے ساتھ رکھتا ہو۔لذت و سرور کی موت اگر ہوئی ہے تو فقط آنحضرت ﷺ کو ہی ہوئی ہے اور دوسرے کسی نبی کو بھی میسر نہیں ہوئی۔یہ خدا کا فضل ہے اس لیے آپ کی عصمت کا یہ ایک بڑا ثبوت ملتا ہے۔جیسے طبیب اُسے کہتے ہیں جو علاج کرکے مریض کا اچھا کرکے دکھلا دیوے ویسے ہی
لا الہٰ الا اللہ
سے ہر ایک روحانی مرض کا علاج کرکے آپ نے دکھلایا۔اور ایسی لیے دوسری تمام نبوتیں آنحضرت ﷺ کا سایہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
الیوم یئِس الذین کفروا(المائدہ:۴)
آجکافر نااُمید ہوگئے گویا آپ کو کامیابی کے اس اعلٰی نقطہ تک پہنچا دیا کہ کافر نامراد ہوگئے ۔ کیا انجیل میں اس کے مقابل کوئی آیت ہے ہرگزنہیں ۔ مسیح علیہ السلام کو تو فقط ایک یہودی کی اصلاح سپرد تھی اور یہ کوئی مشکل کام نہ تھا مگر ضعف ۱؎ کی بات ہے کہ کوئی بات بھی پوری نہ ہوئی ۔ اوّل اس کو بادشاہت کا وعدہ دیا کہ وہ آسمانی بادشاہت ہے ۔ ایلیا کی بات پیش کی تو وہ ایسی کہ خود یحییٰ نے ایلیا ہونے سے انکار کیا ۔
آنحضرتﷺ اور مسیح علیہ اسلام کا مقابلہ
پھر دیکھئے کی ؑ کی گرفتاری کے لیے آدمی آگئے ۔ دو گھنٹہ کے اندر ہی اندر آپ کو گرفتار کر لیا اور گرفتا ر کرنے والوں کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے اور آنحضرت ﷺ کی گرفتاری کے لیے کسریٰ کے سپاہی آئے تو آنحضرت ﷺ نے اس کے سامنے اسلام پیش کیا اور پھر دوسرے دن صبح کو آپ اُن کو جواب دیتے ہیں کہ آج تمارا خداوند مارا گیا اور میرے خدانے اس کے لیے ۲؎ شیروَیہ کو اس پر مسلّط کر دیا ۔
اب دونو نبیوں کا مقابلہ کرلو ۔ جیسے آنحضرت ﷺ کی دُعا سے کسریٰ ہلاک ہوگیا ۔ اس طرح لازم تھا کہ مسیح کی گرفتاری کے وقت کم از کم موٹے موٹے چھ سات آدمی مارے جاتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے خدا کا ارادہ تھا کی آنحضرت ﷺ کا رُعب جمایا جاوے گا ۔ایک آدمی کے دو خدمت گارہوں کہ ایک تو رات دن خدمت کرتاہے اور تنخواہ بھی لیتا ہے مگر گالی گلوچ بھی کھاتا ہے اور اَور مکروہات بھی دیکھتا ہے ۔ ایک اَور ہے کہ بظاہر کام تو نہیں کرتا لیکن قرب اس کا بہت ہے ۔ ہر وقت آقا رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تو اِس سے اُس کے اور آقا کے اندرونی تعلقات کا پتہ لگتا ہے کہ کس قدر بڑھے ہوئے ہیں یہی حال مسیح ؑ کا ہے ان کی زندگی کیسی تلخی سے گزری ہے ۔ گالی وغیرہ آپ کھا تے رہے اورنصرت وفتح آنحضرت ﷺ کے شامل حال ہونا صداقت کی بڑی بھاری دلیل ہے ۔۱؎
مسیح کی قوم یہود تو آپ کے بھائی ہی تھے ۔ مسیح ؑ بھی تورات کو مانتے تھے مگر پھر بھی ذرا سی بات پر اسقدر مخالفت ہوئی کہ انہوں نے سولی پر چڑھایا اور ادھر آنحضرت ﷺ کا جہان دشمن اور پھر کامیابی پر کامیابی ملی حتیٰ کہ آپ کے خلفاء کو بھی کامیابی ہوئی ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ صفحہ ۱۰ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۹؍جولائی ۱۹۰۳ء؁
دربار شام
قبرِمسیح علیہ السلام
بعض عیسائی اخباروں نے مسیح ؑکی قبر واقعہ کشمیر کے متعلق ظاہر کیا ہے کہ یہ قبر مسیؑح کی نہیں بلکہ ان کے کسی حواری کی ہے۔اس تذکرہ پر آپ نے فرمایا کہ:۔اب تو ان لوگوں نے خود اقرارکر لیا ہے کہ اس قبر کے ساتھ مسیحؑ کا تعلق ضرور ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اُنکے کسی حواری کی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی ہے۔ان اس قبر کے متعلق یہ تاریخی صحیح شہادت ہے کہ وہ شخص جو اس میں مدفون ہے وہ شہزادہ نبی تھا اور قریباً انیس سو برس سے مدفون ہے۔عیسائی کہتے ہیں کہ یہ شخص مسیحؑ کا حواری تھا اب ان پر ہی سوال ہوتا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ مسیحؑ کا کوئی حواری شہزادہ نبی کے نام سے بھی مشہور تھا۔اور وہ اس طرف آیا تھا اور یہ یقینا ثابت نہیں ہو سکتا۔پس اس صورت میں بجز اس کے ماننے کیکہ یہ مسیح علیہ السلام کی ہی قبر ہے اور کوئی چارہ نہیں۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۶ صفحہ ۹، ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء؁)
۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء؁
مجلس قبل از عشاء
نشانات کی ضرورت
نشانات کی ضرورت پر فرمایا کہ:۔اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ورنہ دیکھا جاتا ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔نماز روزہ وغیرہ سب لحاظ داری ہے۔حقیقی نیکی کو لوگ جانتے نہیں کہ کیا شئے ہے۔خدا کے خوف سے کسی شئے کو ترک کرنا یا لینا بالکل جاتا رہا ہے۔غرضیکہ اس وقت بڑی بحث آ پڑی ہے۔اگر خدا تعالیٰ مدد نہ کرے اور نشانات نہ دکھلائے تو پھر دہریہ کو فتح حاصل ہوتی ہے اور اس وقت صرف اس کی ہستی کا ثبوت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کی غیرت کے ثبوت کی بھی ضرورت ہے۔بعض لوگ تو گاڈ کہہ رہے ہیں بعض اس کے لیے ایک بیٹا تجویز کررہے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے وقت بھی ایسی ضرورت آپڑی تھی۔اس لیے آنحضرتﷺ نے جنگ کے وقت کہا کہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کردیگا تو پھر تیری پرستش کرنے والا دنیا میں کوئی نہ رہے گا۔یہی حال اس وقت ہے۔پس اگر مہدی اور مسیحؑ کا یہ زمانہ نہیں تو اور کس وقت کا انتظار ہے۔آنے والے نے تو صدی کے سر پر آنا تھا۔اب بیس سال سے بھی زیادہ گذر گئے۔زمانہ کی موجودہ حالت سے پتہ لگتا ہے کہ اب آخری فیصلہ خدا تعالیٰ کا ہے۔ (البدر جلد۲ نمبر۲۶صفحہ ۲۰۳،۲۰۴مورخہ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
۱۱؍جولائی ۱۹۰۳ء؁
دربار شام
تمباکو
؎عیب مے جملہ بگفتی ہنر ش نیز بگو
تمباکو کے مضرات پر ایک مختصر مضمون پڑھا گیا۔ ۱؎ جس میں کل امراض کو تمباکو کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا اور تمباکو کی مذمت میں بہت مبالغہ کیا گیا تھا۔اس کو منکر حضرت حجتہ اللہ نے فرمایا کہ:۔
اللہ تعالیٰ کے کلام اور مخلوق کے کلام میں کس قدر فرق ہوتاہے ۲؎ شراب کے مضار اگر بیان کئے ہیں تو اس کا نفع بھی بتادیا ہے۔اور پھر اسکو روکنے کے لیے یہ فیصلہ کردیا کہ اس کے ضرر نفع سے بڑھ کر ہے۔دراصل کوئی چیز ایسی نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نفع نہ ہو مگر مخلوق کے کلام کی یہی حالت ہوتی ہے۔اب دیکھ لو۔ اس نے اس کے مضرات ہی مضرات بتائے ہیں۔کسی ایک نفع کا بھی ذکر نہیں کیا۔ ۳؎
تمباکو کے بارے میں اگرچہ شریعت نے کچھ نہیں بتایا لیکن ہم اس کو مکروہ جانتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر یہ آنحضرتﷺ کے وقت میں ہوتا تو آپ نہ اپنے لیے اور نہ اپنے صحابہ کے لیے کبھی اس کو تجویز کرتے بلکہ منع کرتے۔
غریب کو بد قسمت نہیں سمجھنا چاہیئے
فرمایاکہ:۔
غر باء نے دین کا بہت بڑا حصہّ لیا ہے بہت ساری باتیں ایسی ہو تی ہے جن سے امراء محروم رہ جاتے ہیں وہ پہلے تو فسق وفجوراور ظلم میں مبتلا ہو تے ہیں اور اسکے مقابلہ صلاحیت تقویٰ اور نیاز مندی غرباء کے حصہ میں ہو تی ہے پس غرباء کے گروہ کو بدقسمت خیال نہیں کر نا چاہئیے بلکہ سعادت اور خدا تعالیٰ کے فضل کا بہت بڑا حصّہ اس کو ملتا ہے۔ ۱؎
یادر کھو حقوق کی دوقسمیں ہیں ایک حق اللہ دوسرے حق العباد۔
حق اللہ میں بھی امراء کو وقت پیش آتی ہے۔۲؎ اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا ۳؎ معلوم ہوتا ہے ان کو اپنے پاس بٹھانہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیو نکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہو تی ہیں ۔اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصّہ نہیں لے سکتے ۔غریب آدمی کے تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے وہ پاؤں دبا سکتا ہے پانی لا سکتا ہے کپڑے دھوسکتا ہے یہا ںتک کہ اس کو اگر نجاست پھینکنے کا مو قعہ ملے تو اس میں بھی اسے دریغ نہیں ہو تا لیکن امراء کا موں میں ننگ وعاد سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اوّل جنّت میں جائینگے ۔
(الحکم ؔجلد۷نمبر۲۶صفحہ ۱۲مورخہ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
۱۲؍ جو لائی ۰۳ ۱۹؁ء
بعد نماز ِعصر
خواتیں کو نصائح
جو کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۱۲؍ جو لائی ۰۳ ۱۹؁ء کو اندرون خانہ بوقت بین العصر والمغرب فر مایا تھا اور دروازہ سے باہر دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہو کر قلمبند کیا گیا ۔چو نکہ اکثر بچگا ن بھی عورتوں کے ہمراہ تھے جو اکثر شورکر کے سلسلہ تسامع کا توڑ دیتے تھے اس لیے جہاں تک بشریت کی استعد اد نے موقعہ دیا ۔اس کو بلفظہ نوٹ کیا گیا ہے ۔ (ایڈٹیر)
اگر چہ آنحضرت ﷺ کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا ہے مگر تا ہم آپ کی نیویاں سب کا م کر لیا کرتی تھیں جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کیعبادت بھی کرتی تھیں ۔چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسّہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اُونگھ نہ آئے عورتوں کے لیے ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ڑکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجالا نا ہے خدا کا شکر کر نا اورخدا کی تعریف کرنی یہ بھی عبادت ہے دوسرا ٹکڑا عبادت کا نماز کو ادا کرنا ہے ۔
کو ئی شخص نواب تھا صبح کو نماز کے لیے نہیں اُٹھتا تھا ایک مولوی نے اسے وعظ سنایا اس پر نواب نے اپنے خادم کو کہا کہ مجھ کو صبح کو اُٹھا دینا خادم نے دو تین مرتبہ اس کو جگا یا جب ایک مرتبہ جگایا تو اس نے دوسری طرف کروٹ بدل لی جب دوبارہ اس طرف ہو کر جگا یا پھر اَور طرف ہو گیا جب تیسری مرتبہ جگا یا تو اس نے اُٹھ کر اس کو خوب مارا اور کہا کہ کم بخت جب ایک مرتبہ نہیں اُٹھا تو تجھے معلوم نہ ہوا کہ ابھی نہ اُٹھوں گا پھر کیوں جگایا ؟اور اتنا مارا کہ وہ بچار بہیوش ہو گیا ۔آپ ہی نے تو مولوی سے وعظ سنکر اس کو کہا تھا کہ مجھ کو اُٹھا دینا پھر جب اس نے جگا یا تو اس بچارے کی شامت آئی اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے پاس بہت ساحصہ جا گیر کا ہوتا ہے وہ ایسے غافل ہو جا تے ہیں کہ حْ اللہ کا ان کا خیال نہیں آتا امراء میں بہت سا حصہ تکبر کا ہو تا ہے جس کی وجہ سے عبادت نہیں کر سکتے ۔اور نہ دوسرا حصّہ خلقت کی خدمت کاان سے ادا ہو تا ہے خلقت کی خدمت کا یہ حال ہے کہ اگر کو ئی غریب آدمی سالم کرتا ہے تو بھی برا ناتے ہیں ایسا ہی عورتوں کا حال ہے کو ئی چھوٹی عورت آوے تو چاہئیے کہ بڑی کو سلام کرے یہ دوٹکڑے شریعت کے ہیں حق اللہ اور حق لعباد آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گذارا۔ اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگا ئے کہ جگہ نہ رہی ۔حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔جب آپ فوت ہو گئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ فوت ہو گیا اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی ؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوالے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہو اکہ فوت ہو گیا یعنی زندگی میں ممکن نہ تھاکہ کسی حالت میں بھی حلوانہ پہنچے ۔دیکھو کس قدر خدمت تھی ایسا ہی سب کو چاہئیے کہ خدمت ِخلق کرے۔
ایک بادشاہ اپنا گذارہ قرآن شریف لکھ کر کیا کرتا تھا ۔
اگر کسی کو کسی سے کراہت ہووے اگر چہ کپڑے سے ہو یا کسی اور چیز سے تو چاہیئے کہ وہ اس سے الگ ہو جاوے مگر روبرو ذکر نہ کرے کہ یہ دلشکنی ہے اور دل کا شکستہ کرنا گناہ ہے اگر کھانا کھانے کو کسی کے ساتھ جی نہیں کرتا تو کسی اور بہانہ سے الگ ہو جاوے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لیس علیکم جناح ان تا کلوا جمیعا او اشتا تا(النور:۶۲)
مگر اظہار نہ کرے۔یہ اچھا نہیں اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔اسی لییپیغمبروں کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کوہنسی نہ کریں اور نہ یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آو گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پو چھے گا۔اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔پس چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کرکیا کرو۔ اگر کوئی چوڑھا اچھا کام کرے گا تو وہ بخشا جاوے گا اور اگر سیدّ ہو کر کوئی برا کام کریگا تو وہ دوذخ میں ڈالا جاوے گا۔حضرت ابراہیمؑنے اپنے باپ کے واسطے دعا کی وہ منظور نہ ہوئی۔حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کو کہیں گے کہ اے اللہ تعالیٰ میں اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ نہیں سکتا۔مگر اس کو پھر بھی رسہ ڈال کر دوذخ کی طرف گھسیٹ کر ذلت کے ساتھ لے جاویں گے (یہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہے کہ پیغمبرکی سفارش بھی کار گر نہ ہوگی )کیونکہ اس نے تکبر کیا تھا۔پیغمبروں نے غریبی کو اختیار کیا۔جو شخص غریبی کو اختیار کریگا وہ سب سے اچھا رہے گا۔ہمارے پیغمبر ﷺ نے غریبی کو اختیار کیا۔کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی ﷺ کے پاس آیا۔حضرت نے اس کی بہت تواضع کی وخاطر داری کی۔وہ بہت بھوکا تھا۔حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا۔رات کو اپنی رضائی عنایر فرمائی۔جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا اور رضائی میں ہی کردیا۔جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا۔جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کوگیا ہے۔اس میں دست کیا ہوا ہے۔حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ میں صاف کروں۔لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ہم جو حاضر ہیں ہم صاف کردیں گے۔حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا اس لیے میرا ہی کام ہے اور اُٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے۔وہ عیسائی جبکہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں۔اس لیے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں۔اس کو ندامت آئی اور کہا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا۔اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔پھر وہ مسلمان ہوگیا۔
کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ جب لڑکوں کی طرف راستہ میں دیکھا کرتے تھے تو اتنی شفقت کیا کرتے تھے کہ وہ لڑکے سمجھا کرتے کہ یہ ہمارا باپ ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فر ماتا ہے کہ جو عورتیں کسی اَور قسم کی ہوںان کودوسری عورتیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور نہ مرد ایسا کریں کیو نکہ یہ دل دُکھا نے والی بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے مواخذہ کرے گا یہ بہت بر ی خصلت ہے یہ ٹھٹھا کر نا اللہ تعالیٰ کو بہت بُرا معلوم ہو تا ہے ۔ لیکن اگر کو ئی ایسی بات ہو جس سے دل نہ دُکھے وہ بات جائز رکھی ہے جہاں تک ہو سکے ان باتوں سے پر ہیز کرے اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ عمل والے کو مَیں کس طرح جز ادوں گا ۔
ناما من طغی ۔واثر الحیوت الدنیا۔ فان الجحیم ھی الماوی (النا زعات :۳۸تا ۴۰)
جو شخص میرے حکموں کو نہیں مانے گا مَیں اس کوبہت بُری طرح سے جہنّم میں ڈالوں گا اور ایسا ہو گا کہ آخر جہنّم تمہاری جگہ ہو گی ۔
واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی ۔فان الجنت ھی الماوی (النازعات :۴۱،۴۲)
اور جوشخص میری عدالت کے تخت کے سامنے کھڑاہونے سے ڈرے گا اور خیال رکھے گا تو خدا تعالیٰ فر مایا ہے کہ مَیں اس کا ٹھکا نا جنت میں کروں گا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ
عبس وتولیٰ۔ان جائہ الاعمی ۔ومایدربک لعلہ یذکی اویذکرفتنفعہ الذکری ُ(عبس ۲تا ۵۶)
اس سورت کے نازل ہو نے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کے پاس چند قریش کے بڑے بڑے آدمی بیٹھے تھے آپ ان کو نصیحت کر رہے تھے کہ ایک اندھا آگیا ۔اس نے کہا کہ مجھ کو دین کے مسائل بتلا دو۔حضرت نے فر مایا کہ صبر کرو اس پر خدا تعالیٰ نے بہت غصہ کیا آخر آپ اس کے گھر گئے اور اسے بُلا کر لائے اور چادربچھا دی اور کہا کہ تو بیڑھ اس اندھے نے کہا کہ مَیں آپ کی چادر پر کیسے بیٹھوں ؟آپ نے وہ چادر کیوں بچھا ئی تھی ؟اس واسطے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں ۔تکبر اورشرارت بُری بات ہے ایک ذراسی بات سے ستّر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں لکھا ہے کہ ایک شخص عابد تھا وہ پہاڑ پر رہا کرتا تھا اور مدّت سے وہاں بارش نہ ہو ئی تھی ایک روزبارش ہو ئی تو پتھروں پراور روڑیوں پر بھی ہو ئی تو اس کے دل میں اعتراض پیدا ہو اکہ ضرورت تو بارش کی کھیتوں اور باغات کے واسطے ہے یہ کیا بات ہے کہ پتھروں پرہوئی ۔یہی بارش کھیتوںپر ہوتی تو کیا اچھا ہو تا اس پر خدا تعالیٰ نے اسس کا سارا ولی پُنا چھین لیا آخر وہ بہت ساغمگین ہوا اور کسی اَور بزرگ سے استمداد کی توآخر اس کوپیغام آیا کہ تو نے اعتراض کیوں کیا تھا تیری اس خطاپر عتاب ہوا ہے اس نے کسی سے کہا کہ ایسا کر کہ میری ٹانگ میں رسّہ ڈال کر پتھروں پر گھسیٹتا پھر اس نے کہا کہ ایسا کیوں کروں ؟اس عابد نے کہا کہ جس طرح مَیں کہتا ہوں اسی طرح کرو۔ آخر اس نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اس کی دونوٹانگیں پتھروں پر گھسیٹنے سے چھل گئیں ۔تب خدا نے فرمایا کہ بس کر اب معاف کردیا اب دیکھو کہ لوگ کتنے اعتراض کرتے ہیں ذرا زیادہ بارش ہو جاوے تو کہتے ہیں کہ ہم کو ڈبونے لگ گیا ہے اور ذرا توقّف بارش میں ہو توکہتے ہیں کہ اب ہم کو مارنے لگا ہے یہ اعتراض کیسے بُرے ہو تے ہیں دیکھو تقویٰ کیسے گم ہو گیا ہے اگر ایک دو آنے رستے میں مل جاویںتو جلدی سے اُٹھالیتا ہے اور پھر اس کو کسی سے نہیں کہتا حالا نکہ تقویٰ کا کام یہ تھا کہ اس کو سب کو سناتا اور جس کے ہو تے اسکے حوالہ کرتا ۔ پھر کہتے ہیں کہ بارش نہیں ہو تی بارش کیسے ؟ اللہ تعالیٰ بہت سے گناہ تو معاف ہی کر دیتا ہے اگر زیادہ بارش ہو تو دہائی دیتے ہیں اگر دھوپ زیادہ ہو تو بھی دہائی دیتے ہیں ان سب حالتوں میں انسان تقویٰ سے خالی ہو تا ہے پس چاہئیے کہ صبر کرے اگر صبر نہ کرے تو پھر کافر ہو کر تو روٹی کھانی حرام ہے انسان کو چاہئیے کہ کبھی خدا تعالیٰ پر اعتراض نہ کرے ۔
دیکھو ہمارے پیغمبرِ خدا کے ہاں۱۲ لڑکیاں ہو ئیں آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لٹکا کیوں نہ ہوا اور جب کو ئی غم ہوتا تو انا للہ ہی کہتے رہے اب اگر کسی کا لڑکا مرجاوے تو برس برس تک روتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کشائش دیوے تو تعریف کرتے ہیں مگر ذراسختی آجاوے تو فوراً پھر جاتے ہیں ایک شخص کی یہاں بیوی فوت ہو گئی وہ فوراً دہریہّ ہوگیا ۔انسان کو چاہئیے کہ علاقہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا رکھے کہ کبھی سختی آوے تو توڑنا نہ پڑے گو یا کبھی نہیں آئی ۔حضرت ایوب ؑ کتنے صابر تھے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان سے کہا کہ دیکھ میرا بندہ کتنا صابر ہے اس نے کہا کہ کیوں نہ ہو بکریاں بہت ہیں آرام سے کھاتا پیتا ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں نے تجھ کو اس کی بکریوں پر مسلّط کیا اس نے سب کو فنا کردیا اورحضرت ایوبؑ کے خادم نے خبر پہنچائی کہ تمہاری بکریاں سب مرگئیں آپ نے فرمایا کہ تو یوں کیوں کہتا ہے کہ میری بکریاں مَرگئیں وہ توخدا تعالیٰ کی تھیں اس نے اپنی امانت واپس لے لی۔پھر شیطان سے خدا تعالیٰ نے فرمایاکہ دیکھ میرا بندہ ایوبؑ کیسا صابر ہے اس نے کہا کہ ہاں اس کو یہ خیال ہے کہ اُونٹ بہت سے ہیں بکریاں فناہو گئیں تو کیا ہو گیا ان سے سب طرح کے کام چل سکتے ہیں خدا تعالیٰ نے فر مایا کہ مَیں نے تجھ کو اونٹوں پر بھی مسلّط کیا پھر سب اونٹ فنا ہو گئے اور اسی طرح خادم نے خبردی تو حضرت ایوبؑ نے وہی کہا کہ میرے نہیں تھے یہ تو خدا تعالیٰ نے دیئے تھے اس نے واپس لے لیے پھر کیا افسوس ہے پھر شیطان سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھا میرا بندہ کیسا صابر ہے ۔اس نے کہاکہ اس کے دل میں تقویت ہے کہ گائیاں بہتیری ہیں ان سے سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے آخر ان پر بھی اسی طرح شیطان کو مسلّط کیا گیا وہ بھی فنا ہو گئیں ۔ اور حضرت ایوبؑ نے صبر کیا پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا تو شیطان نے جواب دیا کہ اس کے پاس فرزند بہتیرے ہیں دل میں جانتا ہے کہ کیا ہوا یہ جیتے ہیں تو بہت سامال اکٹھا ہو جاوے گا خدا تعالیٰ نے اس کے فرزند وںکو بھی وفات دے دی پھر شیطان نے کہا کہ خدا یا اس کی تندستی بہت ہے اس کو کی بدولت سب کچھ مل سکتا ہیآخر یہ ہوا کہ نہایت بیمار ہو گئے اور تندرستی بھی جائی رہی مگر صبر کیا اور پھر خدا تعالیٰ نے شیطان سے کہا کہ میرا بندہ کیسا صابر ہے شیطان چُپ ساہو گیا مگر ان کی بیوی جو ہمیشہ کھا نا پکایا کرتی تھی شیطان اس کو راستے میں ملا اور ایک بڈھی کی شکل میںاس سے کہا کہ تیرا خاوند ایسا ہے ایسا ہے تو اس کی کیوں خدمت کرتی ہے اس نے یہ بات حضرت ایوبؑ سے کہی انہوں نے کہا کہ وہ تو شیطان تھا تو نے اس کی بات کیوں میرے پاس کہی مَیں اچھا ہو کر تجُھ کو سَو بید ماروں گا پھر خدا تعالیٰ کی رحمت ہو ئی تو ایوب علیہ السلام کے پاس فرشتہ آیا اور اپنے پاؤں مار کر ایک چشمہ نکالا اس میں نہانے کے واسطے کہا حضرت ایوبؑ اس میں نہا کر اچھے ہو گئے اور پھر بیوی کی طرف متوجہ ہو ئے تو چونکہ آپ نے قسم کھائی تھی اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ بیوی تمہاری بے قصور ہے صرف ایک جھاڑو بجائے َسوبیدکے بدن سے چھو دوتا کہ قسم جھوٹی نہ ہووے ۔
اب دیکھو کہ کتنا صابر ہو نا ان کا ثابت ہوا ان کا قصہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں باوجود کی صدہا سال گذرگئے تھے نقل کیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
ولنبلا نکم بشیی ء من الخوف الکوع ونقص من الاموال والا نفس والثمرات۔۔۔۔۔۔(البقرت :۱۵۶)
کبھی ہم تم کو نہایت فقروفاقہ سے آزمائیں گے اور کبھی تمہارے بچے مرجاویں گے تو جو لوگ مومن ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہی مال تھا ہم بھی تو اسی کے ہیں پس خدا تعالیٰ فر ماتا ہے کہ انہی لوگوں نے صبر کرتے ہیں میرے مطلب کو سمجھاہے ان پر میری رحمتیں ہیں جن کا کوئی حدوحساب نہیں تو دیکھوکہ یہ باتیں ہیں ان پر عمل کرنا چاہئیے غریب آدمی کے ساتھ تکبّر کے ساتھ پیش نہیں آنا چاہئیے ۔
(البدرؔجلد۲نمبر۲۷صفحہ ۲۱۰۔۲۱۱مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ء؁) نیز
(الحکم ؔجلد۷نمبر۲۶صفحہ ۱۵۔۱۶مورخہ۱۷؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
مجلس قبل ازعشاء
ارتدادعن الاسلام کا ذکر
عبد الغفور نامی ایک شخص کے آریہ مذہب اختیار کرنے پر فر مایا کہ:۔
اس طرح کے ارتدادا سلام کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا ۔یکجائی نظر سے دیکھنا چاہئیے کہ آیا اسلام ترقی کررہا ہے یا تنزّل ۔آنحضرت ﷺ کے وقت جو بعض لوگ مرتد ہو جا تے تھے تو کیا ان سب سے اسلام کو نقصان پہنچتا تھا ؟ہر گز نہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ پہلوانجا مکارا سلام کو ہی مفید پڑتا ہے اور اس طرح سے اہل اسلام کے ساتھ اختلاط کی ایک راہ کُھلتی ہے اور جب خدا تعالیٰ نے ایک جماعت اسلام میں داخل کرنی ہو تی ہے تو ایسا ہوا کرتا ہے کہ اہل اسلام میں سے کچھ ادھر چلے جاویں خدا تعالیٰ کے کام بڑے وقیق اور اسرارسے بھرے ہو ئے ہو تے ہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے۔
(البدرؔجلد۲نمبر۲۷صفحہ۰۹ ۲مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
۱۳؍؍جولائی۱۹۰۳ء؁
بعد نماز ِعصر
حضرت اقدس کا عورتوںکو وعظ
ومن اللہ یجعل لہ مخر جاویرزقہ من حیث لا یحتسب(الطلاق :۳،۴)
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہوگا رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں اگر وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا تعا لیٰ خود ان کو رزق پہنچاوے اسی طرح اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے
وھو یتولی الصالحین (الا عراف :۱۹۷)
جس طرح پر ماں بچے کی متولّی ہو تی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں صالحین کا متکفل ہو تا ہوں۔اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے انسان بعض گناہ عمداًبھی کرتا ہے اوربعض گناہ اس سے ویسے بھی سرزد ہو تے ہیں جتنے انسان کے عضوہیں ہر ایک عضو اپنے اپنے گناہ کرتا ہے انسان کا اختیار نہیں کہ بچے اللہ تعالیٰ اگر اپنے فضل سے بچاوے تو بچ سکتا ہے پس اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لیے یہ آیت ہے ۔
ایاک نعبد عایا ک نستعین (الفاتہ:۵)
جو لوگ ربّ کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کو ئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مدد گا ر ہو جاتا ہے کو ئی شخص عابد کرتا تھا کہ یا اللہ تعالیٰ مجھ کو گماہوں سے آزادی دے اس نے بہت عدا کرنے کے بعد سوچا کہ سب سے زیادہ عاجزی کیو نکر ہو۔معلوم میں کتّے سے زیادہ عاجز کو ئی نہیں تو اس نے اس کی آواز سے رونا شروع کیا کسی اَور شخص نے سمجھا کہ مسجدمیں کُتاّآگیا ہے ایسا نہ ہ و کہ کوئی میرا برتن پلید کردیوے تو اس نے آکر دیکھا تو عابد ہی تھا کُتّا کہیں نہ دیکھا۔آخر اس نے پو چھا کہ یہاں کُتّا رورہاتھا ۔اس نے کہا کہ مَیں ہی کُتّا ہوں پھر پوچھا کہ تم ایسے کیوں رورہے تھے ؟کہا کہ خدا تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اس عاسطے مَیں نے سوچا کہ اس طرح میری عاجزی منظور ہو جاوے گی۔
حضرت ابرہیم ؑ نے اپنے لڑکے کے واسطے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے اسی طرح انسان کو چاہئیے کہ دعا کرے بہت سے شخص ایسے ہو تے ہیں کہ کسی گناہ سے نہیں بچتے ،لیکن اگر ان کو کوئی شخص بے ایمان یا کچھ اَور کہہ دیوے تو بڑے جوش میں آتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو کو ئی گناہ نہیں کرتے پھر ہم کو یہ کیوں کہتا ہے اس طرح انسان کو معلوم نہیں کہ کیا کیا گناہ اس سے سرزد ہو تے ہیں پس اس کو کیا خبر ہے کہ کیا کچھ لکھا ہوا ہہے پس انسان کو چاہئیے کہ اپنے عیبوں کو شمار کرے اور دعا کرے پھر اللہ تعالیٰ بچاوے تو بچ سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرومَیں مانوں گا۔
ادعونی استجب لکم(المومن:۶۱)
دعا اور صحبت صالحین
دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئیے۔دوسرا طریق یہ ہے ۔
کونوا مع الصادقینَ۔
راست بازوں کی صحبت میں رہو تا کہ انکی صحبت میں رہ کر کے تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہارا قادر ہے بینا ہے ۔سُننے والا ہے ۔دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صدہانعمتیںدیتا ہے جو لوگ ہرروز نئے گناہ کرتے ہیں وہ گناہ کو حلوے کی طرح شیریں خیال کرتے ہیں ان کو خبر نہیں کہ یہ زہر ہے کیو نکہ کو ئی شخص سنکھیا جان کر نہیں کھا سکتا کو ئی شخص بجلی کے نیچے نہیں کھڑا ہوتا اور کوئی شخص سانپ کے سوارخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور کوئی شخص کھا نا شکی نہیں کھا سکتا اگرچہ اس کو کوئی دعچار روپے بھی دے پھر بووجود اس بات کے جو گناہ کرتا ہے کیا اس کو خبر نہیں ہے پھر کیوں کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا دل مضریقین بنہیں کرتا اس واسطے ضرور ہے کہ آدمی پہلے یقین حاصل کرے جب تک یقین نہیں غور نہیں ہویگا اور کچھ نہ پائے گا بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پیغمبروں کا زمانہ بھی دیکھ کر ان کو ایمان نہ آیا اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے غور نہیں کی ۔دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وماکنا معد بین حتی نبعث رسولا (نبی اسرائیل:۱۶)
ہم عذاب نہیں کیا کرتے جب تک کو ئی رسول نہ بھیج دیویں اور
واذااردنا ان نھلک قریت امرنا مترفیھا ففسقوافیھا فحق علیھا القول فد مرنھا تدمیراً(نبی اسرائیل :۱۷)
پہلے امراء کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے واایسے افعال کرتے ہیں کہ آخراُن کی پاداش میں ہلاک ہو جاتے ہیں غرضیکہ ان باتوں کودیا رکھو اور اولاد کی تربیت کرو۔ زمانہ کرو۔ کسی شخص کا خون نہ کرو۔اللہ تعالیٰ نے ساری عبادتیں ایسی رکھی ہیں جو بہت عمدہ زندگی تک پہنچاتی ہیں عہد کرو اور عہد کو پورا کرو اگر تکبر کروگی تو تم کو خدا ذلیل کریگا ۔یہ ساری باتیں بُری ہیں ۔ (البدرؔجلد۲نمبر۲۸صفحہ ۲۱۷۔۲۱۸مورخہ۳۱؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
شام کے وقت بوجہ دوران سرحضرت اقدس (علیہ السلام ) نے نمازِمغرب کے نوافل بیٹھ کرادا کئے۔؎
بعد ازاں آندھی اور بارش کے آثار نمودار ہوئے اور تجویز ہو ئی کہ نماز عشاء جمع کرلی جاوے چونکہ حضور علیہ الصلوٰت والسلام کی طبیعت ناساز تھی اس لیے تشریف لے گئے مگر تاہم باجماعت نماز کا اس قدر آپ کو خیال تھا کہ تاکید فر مائی کہ تکبیرزور سے کہی جاوے کہ مَیں اندرسُن لوں اور باجماعت نماز ادا ہو جاوے۔
(البدرؔجلد۲نمبر۲۷صفحہ ۲۱۰مورخہ۲۴؍جولائی۱۹۰۳ء؁)
۱۴؍ ؍جولائی۱۹۰۳ء؁
خدا تعالیٰ سچّادوست ہیَ
فر مایا کہ:۔
دعویٰ مومن اور مسلم ہونے کا آسان ہے مگرجو سچے طور پر خدا تعالیٰ کا ساتھ دیوے تو خدا تعالیٰ اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ہر ایک دل کواس قسم کی سچائی کی توفیق نہیں ملاکرتی یہ صرف کسی کسی کا دل ہوتا ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ درست بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔بعض زن مزاج کہ وفا نہیں کرتے اور بعض ایسے ہو تے ہیں کہ حق دوستی کو وفاداری کے ساتھ پورا ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وفا داد دوست ہے اسی لیے تو وہ فرماتا ہے ۔
ومن یتوکل علی اللہ (الطلاق:۴)
کہ جو خدا کی طرف پورے طور پر آگیا اور اعداء وغیرہ کسی کی پروانہ کی
فھوحسبہ
تو پھر خدا تعالیٰ اس کے ساتھ پوری وفا کرتا ہے ۔
ایک پیشگوئی
غقریب ایسا ہوگا کہ شریر لوگ جو رعب داب رکھتے ہیں وہ کم ہو تے جاوینگے گذشتہ چند ایام میں سخخت گرمی تھی اور آج بفضل خدا بارش ہو جانے کی وجہ سے ٹھنڈ ہو گئی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رپہی تھی بارش کے ہو جانے سے درخت دھوئے دھائے نظر آرہے تھے آسمان ،بادل اور ہر ایک درودیوار نے بارش کی وجہ سے ایک خاص رنگ وروپ حاصل کیا تھا اس پر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور مجسم شکر انسان نے فرمایا کہ:۔
خدا کے تصّر فات بھی کیسے ہیں ابھی کل کیا تھا اورآج کیا ہے ۔
ایک مومن اوردنیا دار کی موت میں فرق
جس کا دل مردہ ہو وہ کوشی کا مدار صرف دنیا کو دیکھتا ہے مگر مومن کو خدا تعالیٰ سے بڑھ کر اَور کوئی شئے پیاری نہیں ہو تی ۔جس نے یہ پہچانا کہ ایمان کیا ہے اور خدا کیا ہے وہ دنیا سے کبھی آگے نکلتے ہی نہیں ہیں۔جب تک دنیا ان کے ساتھ ہے تب تک تو سب سے خوشی سے بولتے ہیں بیوی سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیںمگر جس دن دنیا گئی تو سب سے ناراض ہیں منہ سوجا ہوا ہے ہر ایک سے لڑائی ہے گلہ ہے شکو ہ ہے حتیٰ کہ خدا تعالیٰ بھی ناراض ہیںتو پھر خدا تعالیٰ ان سب سے کیسے راضی رہے وہ بھی پھر ناراض ہو جاتا ہے۔
مگر بڑی بشارت مومن کو ہے ۔
یا یتھا الفس المطمئنت اعی الی ربک راضیت مرضیت (الفجر :۲۸،۲۹)
اے نفس جو کہ خدا تعالیٰ سے آرام یافتہ ہے تو اپنے ربّ کی طرف راضی خوشی واپس آ۔اس خوشی میں ایک کافر ہر گز شریک نہیں ہے ۔راضیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی مرادات کو ئی نہیں رکھتا کیو نکہ اگر وہ دنیا سے خلافِ مرادات جاوے تو پھر راضی تو نہ گیا اس لیے اس کی تمام مراد خدا ہی ہو تا ہے اس کے مصداق صرف آنحضرت ﷺ ہی ہیں کہ آپ کو یہ بشارت ملی ۔
اذجا ئنصراللہ والفتح(النصر:۲)
اور الیوم الملت لکم دینکم (المائدت:۴)
بلکہ مومن کی خلاف مرضی تو اس کی نزع (جان کنی ) بھی نہیں ہو اکرتی ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہدعا کیا کرتا تھا کہ مَیں طوس میں مروں ،لیکن ایک دفعہ وہ ایک اَور مقام پر تھا کہ سخت بیمار ہوااور کوئی امیدزیست کی نہ ہورہی تواس نے وصیت کی کہاگر مَیں مر جاؤں تو مجھے یہودیوںکے قبرستان میں دفن کرنا اسی وقت سے وہ روبصحت ہو ناشروع ہو گیا حتیٰ کہ بالکل تندرست ہو گیا لوگوں نے اس کی وصیت کی وجہ پوچھی تو کہا کہ مومن کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعا قبول ہو ۔
اعونی استجب لکم(المومن :۶۱)
خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے میری دعا تھی کہ طوس میں مروں جب دیکھا کہ موت تو یہاں آتی ہے تو اپنے مومن ہو نے پر،جھے شک ہوا اس لیے مَیں نے یہ وصیت کی کہ اہل اسلام کو دھوکا نہ دوں غرضیکہ
راضیت مرضیت
صرف مومنوں کے لیے ہے دنیا میں بڑے بڑے مالداروں کی موت سخت نامرادی سے ہوتی ہے دنیا دار کی موت کے وقت ایک خواہش پیدا ہو تی ہے اور اسی وقت اسے نزع ہو تی ہے یہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اسوقت بھی اسے عذاب دیوے اور اس کی حسرت کے اسباب پیداہو جاتے ہیں تاکہ انبیاء کی موت کو کہ
راضیت مرضیت
کی مصداق ہوتی ہے اس میں اور دنیا دار کی موت میں ایک میّن فرق ہو ۔دنیا دار کتنی ہی کو شش کرے گا مگر اس کی موت کے وقت حسرت کے اسباب دور ہو کر اس کی جان نکلتی ہے ۔راضی کا لفظ بہت عمدہ ہے اور ایک مومن کی مرادیں اصل میں دین کے لیے ہواکرتی ہیں خدا تعالیٰ کی کامیابی اور اس کے دین کی کامیابی اس کااصل مدّعا ہوا کرتا ہے ۔آنحضرت ﷺ کی ذات بہت ہی اعلیٰ ہے کہ جن کو اس قسم کی موت نصیب ہوئی ۔ (البدرؔ جلد۲ نمبر۲۸ صفحہ ۲۱۸ مورخہ ۳۱؍جولائی۱۹۰۳؁ء)
۱۶؍جولائی۱۹۰۳؁ء
بعد نمازِعصر
نظر نظر کا فرق
سلطان محمود سے ایک بزرگ نے کہا کہ جو کوئی مجھ کو ایک دفعہ دیکھ لیوے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے محمود نے کہا کہ یہ کلام تمہارا پیغمبرِخدا ﷺ سے بڑھ کرہے ۔ان کو کفار ابولہب ،ابوجہل اغیرہ نے دیکھا تھا ان پر دوزخ کی آگ کیوں حرام نہ ہوئی اس بزرگ نے کہا کہ اے باسشاہ کیا آپ کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
ینظرون الیک وھم لا یبصرون (الاعراف :۱۹۹)
اگر دیکھا اور جھوٹا کاذب سمجھا تو کہاں دیکھا ؟
حضرت ابوبکر ؓ نے ،فاطمہ ؓ ۱؎ نے ،حضرت عمرؓ نے اور دیگر اصحابؓ نے آپ کو دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا انہوں نے آپ کو قبول کرلیا ۔دیکھنے والا اگر محبت اور اعتقاد کی نظر سر دیکھتا ہے تو ضرور اثر ہو جا تا ہے اور جوعداوت اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے ایمان حاصل نہیں ہواکرتا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اگر کوئی میرے پیچھے نماز ایک مرتبہ پڑھ لیوے تو وہ بخشا جاتا ہے۔اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ
کونوا مع الصادقین
کے مصداق ہو کر نماز کو آپ کے پیچھے ادا کرتے ہیں تو وہ بخشے جاتے ہیں۔
اصل میں لوگ نماز میں دنیا کے رونے روتے رہتے ہیں اور جو اصل مقصود نماز کا قرب الیٰ اللہ اور ایمان کا سلامت لے جانا ہے اس کیفکر ہی نہیں حالانکہ ایمان سلامت لی جانا بہت بڑا معاملہ ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان اس واسطیروتا ہے کہ باایمان اللہ تعالیٰ دنیا سے لیجاوے تو خدا تعالیٰ اس کے اوپر دوذخ کی آگ حرام کرتا ہے اور بہیشت اُن کو ملیگا جو اللہ تعالٰ کے حضور میں حصول ایمان کیلئے روتے ہیں۔مگر یہ لوگ جب روتے ہیں تو دنیا کے لیے روتے ہیں۔پس اللہ تعا لیٰ ان کو بھلا دیگا۔
اَور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فاذ کرونی اذکرکم(البقرۃ:۱۵۳)
تم مجھ کو یاد رکھو میں تم کو یاد رکھونگا یعنی آرام اَور خوشحالیٰ کے وقت مجھ کو یاد رکھو اور میرا قرب حاصل کرو تاکہ مصیبت میں مَیں تم کو یاد رکھوں۔یہ ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ مسیبت کا شریک کوئی نہیں ہوسکتا۔اگر انسان اپنے ایمان کو صاف کرکے اور دروازہ بند کرکے رووے بشرطیکہ پہلے ایمان صاف ہو تو وہ ہر گزبے نصیب اور نا مراد نہ ہوگا۔حضرت دائود ؑفرماتے ہیں کہ میں بڈھا ہوگیا ہو مگر میںَنے کبھی نہیں دیکھا کہ جو شخص صالح ہو اور با ایمان ہو پھر اس کو دشواری پیش ہو اور اس کی اولاد بے رزق ہو۔
پھر دوسری جگہ فرماتا ہے
واذا قال موسیٰ لفتہ لا ابرح حتٰ (الکھف:۶۱)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفع حضرت موسیٰؑ وعظ فرما رہے تھے کسنے پوچھا کہ آپ سے کوئی اور بھی علم میں زیادہ ہے تو انہوں نے کہاکہ مجھے معلوم نہیں۔اللہ تعلیٰ کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی (یعنی یوں کہتے کہ خدا کے بندے بہت سے ہیں جو ایک سے ایک علم میں زیادہ ہیں)اور حکم ہوا کہ تم فلاں طرف چلے جائو جہاں تمہاری مچھلی زندہ ہو جاوے گی وہاں تم کو ایک علم والا شخص ملے گا۔پس جب وہ ادھر گئے تو ایک جگہ مچھلی بھول گئے۔جب دوبارہ تلاش کرنے آئے تو معلوم ہوا کہ مچھلی وہاں نہیں ہے ۔وہاں ٹھہرگئے تو ایک ہمارے بندے سے ملاقات ہوئی۔اس کو موسیٰ نے کہا کہ مجھے اجازت ہے کہ آپ کے ساتھ علم اور معرفت سیکھوں؟اس بزرگ نے کہا کہ اجازت دیتا ہوں مگر آپ بد گمانی سے بچ نہیں سکیں گے کیونکہ جس بات کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور سمجھ نہیں دی جاتی تو اس پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ جب دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک موقعہ پر بے محل کام کرتا ہے تو اکثر بد ظنی ہوجاتی ہے۔پس موسیٰ نے کہا کہ میں کوئی بد ظنی نہین کرو گا اور آپ کا ساتھ دوں گا۔اس نے کہا کہ اگر تو میرے ساتھ چلیگا تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کرنا۔پس جب چلے تو ایک کشتی پر جا کر سوار ہوئے۔(یہاں پر حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت موسیٰ کا وہ تمام قصہ ذکر کیا جو کہ سورہ کہف میں مذکور ہے۔پھر اس دیوار کے خزانہ کی نسبت فرمایا کہ)اس کو اس واسطے درست کردیا کہ وہ و یتیم بچوں کے کام آوے۔اس واسطے یہ کام کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ ن بچوں نے کوئی نیک کام نہ کیا تھا مگر ان کے باپ کے نیک بخت اور صالح ہونے کے باعث خدا تعالیٰ نے ان بچوں کی خبر گیری کی۔
دیکھو کہاں یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے واسطے اس کی اولاد کا اس قدر خیال رکھا اور کہاں یہ کہ انسان غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور تباہ ہوتا چلا جاتا ہے۔خدا تعالیٰ پرواہ نہیں کرتا۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے ہر حال میں تعلق رکھتے ہیں۔تو خدا تعالیٰ ان کو غایع ہونے سے بچا لیتا ہے۔دیکھو ایک انسان کے دن بر گشتہ ہیں۔کام اس کے خراب ہیں مگر خدا تعالیٰ رحم نہیں کرتا۔تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ قابل رحم ہی نہیں ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان پر بڑا رحم ہے۔ہزاروں گناہ بخشتا ہے۔جب انسان بہت تولق خدا تعالیٰ کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور سب طرح سے اسی کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اعمل ماشئت فانی غفرت لک
یعنی جو تیری مرضی ہو کئے جا میں نے تجھے سب کچھ بخش دیا۔پیغمبر خدا ﷺفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا
اعملوا ماشئتم (حٰمٰ السجدہ:۴۱)
یعنی جو چاہو سو کئے جائو۔پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا مہر بان اور رحیم ہے۔اور بہت رحم سے معاملہ کرتا ہے۔
فرمایا کہ وہ خدا جو کہ عرصہ سے مخفی چلاآتاتھا اب نقاب اُٹھا کر چہرہ دکھا رہا ہے۔کیا آج تک کسی نے ایسا بولتا خدا دیکھا تھا جیسے کہ اب رات دن بول رہا ہے۔
موجودہ زمانہ کے گدی نشین جو کہ دینی ضرورتوں سے غافل ہیں۔ان کے ذکر پر فرمایا کہ:۔
اگر پیغمبر خدا ﷺ یونہی ایک فقیر کی طرح گدی پر بیٹھے رہتے۔تو صریح کامیابی جو کہ آپ نے دنیا میں دیکھ لی۔کیسے نظر آتی۔طاعون ۱؎ کا ظاہر ہونا بھی خدا تعالیٰ کی رحمت ہے۔
رحمتہ للعالمین
ما ار سلنک الا رحمۃللعالمین(الانبیاء:۱۰۸)
اس وقت آنحضرتﷺپر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خلق سے ہدایت کو پیش کرتے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپؐ نے اخلاق۔صبر۔نرمی اور نیز مار،ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی۔مال دینے میں۔نرمی برتنے میں۔عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ نے کوئی فرق نہیں رکھا۔اصالح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک وقت بچہ کو مارسے ڈراتی ہے وہ بھی آپ نے برت لیا تو مار بھی ایک خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو آدمی اور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا تعالیٰ ان کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں۔
خدا تعالیٰ نے چار صفات جو مقرر کی ہیں جو کہ سورہ فاتحہ کے شروع میں ہیں۔رسولاللہﷺ نے ان چارون سے کام لے کر تبلیغ کی ہے۔مثلاًپہلے
رب العلمین
یعنی عام ربوبیت ہے تو آیت
ماارسلنک الا رحمۃ للعلمین(النبیاء:۱۰۸)
اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔پھر ایک جلوہ رحمانیت کا بھی ہے کہ آپ کے فیضان کا بدل نہیں ہے۔ایسی ہی دوسری صفات۔ (البدرؔجلد۲نمبر۲۸،۲۹صفحہ۱۸ ۲،۲۲۵،۲۲۶مورخہ۳۱؍جولائی و۷؍اگست۱۹۰۳ء؁)
۲۱؍جولائی ۱۹۰۳ء؁
ایک استفسار اور اس کا جواب
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرس وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیز ۷۰ روپے کا دیتے ہیں اور لیتے ۸۱روپے کا ہیں۔کیا یہ جائز ہے؟فرمایا:۔جن معاملات میںبیع وشریٰ میں مقدمات نہ ہوں۔فساد نہ ہوں۔تراضی فریقین ہو اور سر کار نے بھی جرم نہ رکھاہو۔عرف میں جائز ہو۔وہ جائز ہے۔
ہدایت کے مختلف ذرائع
مامور جب دنیا میں اصلاح اور اشاعت ہدایت کے لیے آتے ہیں تو وہ ہر طرح سے سمجھاتے ہیں۔آخری علاج اور راہ سختی بھی ہے۔دنیا میں بھی یہی طریق جاری ہے کہ ابتداًء واولاً برمی کے ساتھ اسمجھایا جا تا ہے۔پھر اس کی خوبیاں اور مفاد بتا کر شوق دلایا جاتا ہے۔آخر جب کسی طرح نہیں مانتے تو سختی ہوتی ہے۔جیسے ماں ایک وقت بچہ کو مار سے ڈراتی ہے۔آنحضرتﷺ نے جس قدر طریق عقل تبلیغ اور ہدایت کی تجویز کرسکتی ہے۔اختیار کئے۔یعنی اول ہر قسم کی نرمی سے،رفق،صبر اور اخلاق سے،عقلی دلائل اور معجزات سے کام لیا اور آخر الامر جب ان لوگوں کی شرارتیں اور سختیاں حدسے گذر گئیں تو اللہ تعالیٰ نے پھر اسی رنگ میں ان پرحجت پوری کی اور سختی سے کام لیا ۔یہی حال اب ہو رہا ہے۔خدا تعالیٰ نے دلائل سے سمجھایا۔نشانات دکھائے اور آخر اب طاعون کے ذریعہ متوجہ کررہا ہے اور ایک جماعت کو اس طرف لا رہا ہے۔
فرمایا:۔
سورۃ فاتحہ میں جواللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت ﷺان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے۔مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے۔آنحضرتﷺ اس کے بھی مظہر ہوئے۔جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
ماارسلنک الا رحمۃ للعلمین(النبیاء:۱۰۸)
جیسے رب العالمین عام ربوبیت کو چاہت تھا۔اسی طرح آنحضرتﷺ کے فیوض وبرکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لیے قرار پائی۔
پھر دوسری صفت رحمٰن کی ہے۔ آنحضرت ﷺ اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہر ے کیو نکہ آپ کے فیوض وبرکت کا کوئی بدل اور اجر نہیں ۔
مااسئلکم علیہ من اجر(الفرقان :۵۸)
پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہؓ نے جو مخیتں اسلام کے لیے کیں اوران خدمات میں جو تکالیف اٹھائیں وہ ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا اجردیا گیا اور خود رسول اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف میں رحیم کالفظ بولا ہی گیا ہے پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں اس کی کامل تجلّی فتح مکّہ کے دن ہوئی ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جو اُمّ الصفات ہیں اَور کسی نبی میں نہیں ہوا۔
(الحکمؔ جلد۷ نمبر۲۹ صفحہ ۱۹۔۲۰ مورخہ ۱۰؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۲۳؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
ایک رؤیا
فر مایا کہ :۔رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہا تھ میں ایک انب ہے جسے مَیں نے تھوڑا ساچُو سا تو معلوم ہوا کہ وہ تین پھل ہیں جب کسی نے پوچھا کہ کیا پھل ہیں تو کہا کہ ایک آم ہے ایک طوبا ۱ ؎ اور ایک اَور پھل ہے ۔
اسلام سے ارتداد کی وجہ
اسلام سے ارتداد کی وجہ پر ذکر کرتے ہو ئے فر مایا کہ :۔
جب ایک قوم کا غلبہ اور اقبال ہوتا ہے تو خود غرض آدمی اغراض کے واسطے اس کے ساتھ ہو جاتا ہے
(البدرؔ جلد۲ نمبر۲۹ صفحہ ۲۲۶ مورخہ ۷؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۲۴؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
دربارِشام
قبروں پر چڑھاوے
ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بکرا وغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہو تے ہیں کیا ان کو گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں ؟فر مایا :۔
شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں اصل بات یہ ہے کہ
اھل بہ لغیر اللہ (البقرت :۱۷۴)
سے یہ مراد ہے کہ جوان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں لیکن جو جانور بیع وشریٰ میں آجاتے ہیں اس کی حلّت ہی سمجھی جاتی ہے زیادہ تفشیش کی کیا ضرورت ہو تی ہے ۔ ۱؎ دیکھو حلوائی وغیر ہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی نبی ہو ئی چیزیں آخر کھاتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ شیرنییاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں۔اور جب کھانڈتیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے ملتے ہیں چوڑھے چمار گڑوغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جوٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشدّد ہو تو سب حرام ہو جاویں اسلام نے مالا یطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے ۔
اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اَور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے فرمایا :۔
اللہ تعالیٰ
ا تسئلوعن اشیاء (المائدت:۱۰۲)
بھی فرمایا ہے بہت کھودنا اچھا نہیں۔
متقیوں کو اللہ تعالیٰ ابتلاؤں سے بچاتا ہے َ
اللہ تعالیٰ نے وعدہ فر مایا ہے کہ وہ متقی کو ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا ۔ ۲؎
الخبثت للخبیثن اور والطیبت للطیبین(النور :۲۷)
اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ متقیوں کو اللہ تعالیٰ خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لو گوںکے لیے ہیں اگر انسان تقویٰ اختیار کرے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرے جو اللہ تعا لیٰ کی نگاہ میں پاکیزگی ہے ۔تو وہ ایسے ابتلاؤں سے بچا لیا جاویگا۔ ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکر ی کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی ۔اور جب کھانا کھا گیا تو عمداً سئور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے دوستوں کے آگے ۔جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو ۔تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذرہعی کشف اصل حال کھول دیا انہوں نے کہا ٹھہرو تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ ر اپنے آگے کی رکا بیاں ان کے آگے اور ان کی آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے کہ
الخبیثت للخبیثین ۔الایت۔
غرض جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بُری اور مکر وہ باتوں سے اس کو بچالیتا ہے ۔
الامارحم ربی (یوسف:۵۴)
کے یہی معنے ہیں۔ (الحکمؔ جلد۷نمبر۲۹ صفحہ ۲۰ مورخہ ۱۰؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۲۵؍جولائی۱۹۰۳؁ء
دربارِشام
ایک الہام
فر مایا :۔
کل مجھے الہام ہوا تھا
الفتنتہ والصد قات
فر مایا کہ :۔
اب الہام بھی اسے کیا کہیں ۔ایسی صاف اور واضح وحی ہو تی ہے کہ کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش بالکل نہیں رہتی ۔شاذونادر ہی کو ئی ایسی وحی ہو تو ورنہ ہر وحی میں پیشگوئی ضرور ہو تی ہے ۔
تقویت ِایمان کی ضرورت
تقویت ِایمان کی بڑی ضرورت ہے بغیر ایمان کے اعمال مژلِ مُردہ کے ہوتے ہیں ۔ایمان ہو تو انسان کو وہ معرفت حاصل ہو تی ہے ۔جس سے وہ آسمان کی طرف مصعد ہوتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نہ برکات حاصل ہو تے ہیں نہ خوشی حاصل ہو تی ہے ۔خدا تعالیٰ کو دیکھنے کے بعد جب کو ئی عمل کیا جاوے تو جو اس عمل کی شان ہو گی تو کیا ویسی کسی دوسرے کی ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔جس قدر امراض عمل کی کمزوری اور تقویٰ کی کمزوری کے دیکھے جاتے ہیں ان سب کی اصل جڑ معر فت کی کمزوری ہے۔ ۱؎ ایک کیڑے کی بھی معرفت ہو تی ہے تو انسان اس سے ڈرتا ہے پھر اگر خدا کی معرفت ہو تو اس سے کیوں نہ ڈرے ؟غر ضکہ معرفت کی بڑی ضرورت ہے ۔
میں دیکھتا ہوں کہ اگر چہ ہماری جماعت تو بڑھ رہی ہے لیکن ابھی پوست ہی بڑھتا ہے اگر مغز بڑھے تو بات ہے ۔
بار بار خیال آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی کیا ہی قوت قدسیہ ہے کہ آپ پر ایمان لا کر صحابہ کرام ؓ نے ایک دفعہ ہی دنیا کا فیصلہ کر دیا ۔جان سے بڑھ کر کیا شئے ہو تی ہے اپنے خون سے دین پر مہر یں لگا دیں اب لوگ بیعت کرتے ہیں تو دیکھا جاتا ہے کہ ساتھ ہی مخفی اغراض دنیا کے بھی لاتے ہیں کہ فلاں کام دنیا کا ہو جاوے ۔یہ ہو جاوے ۔یہ سچ ہے کہ جو مومن ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ ہر ایک مشکل اس کی آسان کر دیتا ہے مگر سب سے اول معرفت ضروری ہے پھر خدا تعالیٰ خود اس کی ہر ایک ضرورت کا کفیل ہو گا۔
(البدر۲ؔ جلدنمبر۲۹ صفحہ ۲۶۲ مورخہ ۷؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۲۶؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
مسیح مُوعود کے زمانہ میں درازیٔ عمر کا راز
احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہو جائیں گی ۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور کوئی شخص نہیں مرے گا ۔بلکہ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ جو لوگ مالی ،جانی نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے ۔اور خدمت دین میں لگے ہو ئے ہوں گے ۔اُن کی عمریں درازکردی جائیں گی ۔اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض(الرعد:۱۸)
یہ امر قانون ِقدرت کے موافق ہے کہ عمریں درازکر دی جائیں گے ۔اس زمانہ کو جو دراز کیا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے اور اس میں کوئی خاص مصلحت ہے ۔
(اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ مسلمانوں میں سب سے پہلا مجددعمربن عبد العزیز کو تسلیم کیا ہے وہ کل دو برس تک زندہ رہے ہیں۔)
ازاں بعد حضرت حجتہ اللہ نے پھر اپنے سلسلہ کلام میں فرمایا :۔
محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے آج تک ہم کو محفوظ رکھا ہے اور جماعت کو ترقی دے رہاہے اور اس کے ازدیادِ ایمان اور معرفت کے لیے حجج وبراہین ظاہر کررہا ہے یہانتک کہ کوئی پہلو تاریکی میں نہیں رہنے دیا۔
سلسلئہ احمدیہّ
ہمارے سلسلہ کے لیے منہاجِ نبوت ایک زبردست آئینہ ہے ۔جاہل اس پر اپنی کم سمجھی سے اعرتاض کرے تو منہاج نبوت اس کے منّہ ہر طمانچہ مارتا ہے جو بات ہو نہار ہوتی ہے اس کے نشانات اور ّثار خود بخود نظر آنے لگتے ہیں جو کام اللہ تعالیٰ نے ہمارے سُپر دکیا ہے اس کی تکمیل کی ہوائیں چل رہی ہیں اور دو طرح سے وہ ہو رہا ہے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم کو تو فیق دے رہا ہے کہ ہماری طرف سے دن رات کو شش جاری ہے اور اشاعت اور تبلیغ کی راہیں کھلتی جاتی ہیں تائیدات الہٰیہ شامل حال ہوتی جاتی ہیں ۔دوسری طرف ۱؎ خود ہمارے مخالفوں کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں ۔اور اُن میں ہی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے مذہب کو چھوڑتے جاتے ہیں اور اس کی برائیاں بیان کررہے ہیں گویا وہ اپنے مذہب وملّت کی عمارت کو
یخربون بیوتھم با ید یھم(الحشر:۳)
کا مصداق ہو کر خود ہی مسمار کررہے ہیں۔
فر مایا :۔
اللہ تعالیٰ جب تک اپنا چہرہ نہ دکھلالے ہر گز نہیں چھوڑے گا کیو نکہ یقین کی ترقی کا سچّا ذریعہ یہی ہے
دوزخ کے سات دروازے
فر مایا :۔
چند روز سے جو مستورات میں وعظ کا سلسلہ جاری ہے ایک روز یہ ذکر آگیا کہ دوذخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔اس کا کیا سر ہے رو یک دفعہ ہی میرے دل میں ڈالا گیا۔کہ اصول جرائم بھی سات ہی ہوتے ہیں اور نیکیوں کے اُصول بھی سات ۔بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا دروازہ ہے۔
دوزخ کے سات دروازوں کے جو اُصول جرائم سات ہیں ان میں سے ایک بد ظنی ہے۔بدظنی کے ذریعہ بھی انسان ہلاک ہوتا ہے اور تمام باطل پرست بدظنی سے گمراہ ہوئے ہیں۔
دوسرا اصول تکبر ہے۔تکبر کرنے والا اہل حق سے الگ رہتا ہے اور اسے سعادتمندوں کی طرح اقرار کی توفیق نہیں ملتی۔
تیسرا اصول جہالت ہے یہ بھی ہلاک کرتی ہے۔
چوتھا اصول اتباع ہویٰ ہے۔
پانچواں اصول کورانہ تقلید ہے۔
غرض اسی ۱؎ طرح پر جرائم کے سات اصول ہیں یہ سب کے سب قرآن شریف سے مستنبط ہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے۔جو گناہ کوئی بتائے وہ ان کے نیچے آجاتا ہے۔کورانہ تقلید اور اتباع ہویٰ کے ذیل میں بہت سے گناہ آتے ہیں۔
جنت کی نعماء
اسی طرح ایک دن میں نے بیان کیا کہ دوزخیوں کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ اُن کو
زقوم
کھانے کو ملے گا اور بہشتوں کو اس کے بالمقا بل دودھ اور شہد کی نہریں اور قسم قسم کے پھل بیان کئے گئے ہیں۔اس کا کیا سِر ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بالمقا بل بیان ہوئی ہیں۔بہشت کی نعمتوں کا ذکر ایک جگہ کرکے یہ بھی فرمایا ہے۔
کلما رزقوا منھا من ثمرۃرزقا قالوا ھٰذاالذی روزقنا من قبل واتو بہ متشابھا (البقرہ:۲۶)
تو اس میں
روزقنا من قبل
سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کے آم۔خربوزے اور دوسرے پھل اور دنیا کا دودھ اور شہد اُن کو یاد آجائے گا نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہمومن جو اخلاص اور محبت کیسات خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس ذوق شوق سے جو لذت اُن کو محسوس ہوتی ہے وہ بہشت کی نعمتوں اور لذتوں کے حاصل ہونے پو وہ لذت اُن کو یاد آجائے گی کہ اس قسم کی لذت بخش نعمتیں ہمارے رب سے پہلے بھی ملتی رہی ہیں۔چونکہ بہشتی زندگی اسی عالم سے شروع ہوتی ہے اس لیے ان نعمتوں کا ملنا بھی یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔چونکہ بہشت کی نعمتوں کے بارہ میں آیا ہے کہ نہ اُن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔تو ان دینوی پھلوں سے اُن کا رشتہ کیا ہوا ؟
ایمان اور اعمال کی مثال قرآن شریف میں درختوں سے دی گئی ہے۔ایمان کو درخت بتایا ہے اور اعمال اس کی آبپاشی کے لیے بطور نہروں کے ہیں۔جب تک اعمال سے ایمان کے پودہ کی آبپاشی نہ ہو اس وقر تک وہ شریں پھل حاصل نہیں ہوتے۔بہشتی زندگی والا انسان خدا تعالیٰ کی یاد سے ہر وقت لذت پاتا ہے اور جو بد بخت دوزخی زندگی والا ہے تو وہ ہر وقت اس دنیا میں زقوم ہی کھا رہا ہے اس کی زندگی تلخ ہوتی ہے ۔ ۱؎
معیشۃ ضنکا(طٰہٰ:۱۲۵)
بھی اسی کا نام ہے جو قیامت کے دن زقوم کی صورت پر مشتمل ہوجائے گی۔غرض دونو صورتوں میں باہم رشتے قائم ہیں۔ ( الحکم جلد۷نمبر۳۰ صفحہ ۱۰ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ء) ؁
۲۹؍جولائی ۱۹۰۳ء؁
بوقت نماز ظہر
نجات
برادر م ڈاکٹرمرزایعقوب بیگ صاحب پروفیسر میڈیکل کالج لاہور نے آج لاہور کو جانا تھا۔انہوں نے لاہور کے آریہ سماج کے اس اشتہار کا ذکر کیا جو انہوں نے مسئلہ نجات پر مباحثہ کے لیے شایع کیا ہے،اس پر حضرت حجۃ اللہ نے مختصراً نجات کے متعلق یہ تقریر بیان فرمائی۔اس کا ماحصل یہ ہے۔(ایڈیٹر)
فرمایا:۔
نجات کے متعلق جو عقیدہ قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نجات نہ تو صوم سے نہ صلوٰۃ سے نہ زکوٰۃ سے اور صدقات سے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے جس کو دُعا حاصل کرتی ہے۔اسی لیے
اھدناالصر ط المستقم(الفاتۃ:۶)
کی دعا سب سے اوّل تعلیم فر مائی ہے کیو نکہ جب یہ دعا قبول ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے جس سے اعمال صالحہ کی تو فیق ملتی ہے کیو نکہ جب انسان کی دعا جو سچّے دل اور خلوص نیّت سے ہو قبول ہو تی ہے تو پھر نیکی اور اس کے شرائط ساتھ خود ہی مرتب ہو جاتے ہیں ۔
اگر نجات کو محض اعمال پر منحصر کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعا کو محض بے حقیقت سمجھا جاوے جیسا کہ آریہ سماج کا عقیدہ ہے تو یہ ایک باریک شرک ہے ۔کیو نکہ اس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہو گا کہ انسان خو دبخود نجات پاسکتا ہے اور اعمال اس کے سوا اپنے اختیار میں ہیں جن کو وہ کود بخود بجا لاتا ہے تو اس صورت میں نجات کی کید انسان کے اپنے ہاتھ میں ہو ئی اور خدا تعالیٰ سے نجات کا کچھ تعلّق اور واسطہ نہ ہوا گو یا وہ خود کوئی چیز نہ ہو ا۔اور اس کا عدم وجود ابرابر ٹھہر ا(معاذاللہ) مگر نہیں ۔ہمارا یہ مذہب نہیں ہے ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ نجات اس کے فضل سے ملتی ہے اور اسی کا فضل ہے جو اعمال صالحہ کی تو فیق دی جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا فضل دعا سے حاصل ہوتا ہے لیکن وہ دعا جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے وہ بھی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی ۔انسان کا ذاتی اختیار نہیں کہ وہ دعا کے تمام لوازمات اور شرئط محویت،تو کل ،تبتّل ۔سوزوگداز وغیرہ کو خود بخود مہیّا کرے جب اس قسم کی دعا کی تو فیق کسی کو ملتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہو کر ان تمام شرائط اور لوازم کو حاصل کرتی ہے جو اعمال صالحہ کی رُوح ہیں ہمارا نجات کے متعلق یہی مذہب ہے۔
چو نکہ نجات کو ئی مصنوعی اور بناوٹی بات نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دینا اس کے لیے کافی ہو کہ نجات ہو گئی اس لیے اسلام نے نجارت کا یہ معیار رکھا ہے کہ اس کے آثار اور علامات اسی دنیا ۱؎ میں شروع ہو جائیں اور بہشتی زندگی حاصل ہو ،لیکن یہ صرف اسلام ہی کو حاصل ہے باقی دوسرے مذاہب نے جو کچھ نجات کے متعلق بیان کیا ہے وہ یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مبطل ہے بلکہ فطرت ِانسانی کے خلاف اور عقلی طور پر بھی ایک بہیودہ امر ثابت ہو تا ہے وہ نجات ایسی ہے کہ جس کا کوئی اثر اور نمود اس دنیا میں ظاہر نہیں ہو تا ۔
اس کی مثال اس پھوڑے کی سی ہے جو باہر سے چمکتاہے اور اس کے اندر پیپ ہے۔نجات یافتہ انسان کی حالت ایسی ہونی چاہئیے کہ اس کی تبدیلی نمایاں طور پر نظر آوے اور دوسرے تسلیم کرلیں کہ واقعی اس نے نجات پالی ہے اور خدا نے اس کو قبول کر لیا ہے لیکن کیا کو ئی عیسائی جو کون مسیحؑ کو نجات کا اکیلا ذریعہ سمجھتا ہے کہہ سکتا ہے کہ اس نے نجات پالی ہے اور نجات لے آثار وعلامات اس میں پائے جاتے ہیں ۔مسیحؑ کے صلیب ملنے تک تو شائد ان کی حالت کسی قدر اچھی ہو مگر بعد میں تو ہر دوسرا دن پہلے سے بدترہوتا گیایہانتک کہ اب تو فسق وفجورکے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا کیا یہ نجات کے آثار ہیں؟
آریوں کو بھی فضل سے کوئی تعلّق نہیں وہ تو دوست خود ودہانِ خود کے مصداق ہیں اَور ان کے پر میشر نے ابھی کچھ بھی نہیں کیا کسی کو نجات کامل ہی نہیں سکتی ۔اور وہ تمام نجات کے کیڑے علاوہ ان کیڑوں مکوڑوں کے جو مودہ ہیں سب انسان ہیں جن کا نجات حاصل نہیں ہو ئی تو بتاؤ کہ وہ اَور کسی کو کیا نجات دیگا جب اس قدر کثیر اور بے شمار تعداد بھی باقی ہے ۔
آریوں کی دعا بھی تر میم کے قابل ہے کیو نکہ ان کی مکتی سے مراد جاودانی مکتی نہیں ہو تی بلکہ ایک محدووَقت تک انسان جو نوں سے نجات پاتا ہے اور چونکہ روحیں محدو دہیں اور نئی روح پر میشر پیدا نہیں کرسکتا مجبوراً ان نجات یافتہ کو نکال دیتا ہے پس جب ان کے پر میشر نے جاودانی مکتی ہی نہیں دینی تو دعا بھی تر میم کرکے یوں مانگنی چاہئیے کہ اسے پر میشر تو جو دائمی مکتی د ینے کے قابل نہیں ہے تو ایک خاص وقت تک مجھے نجات دے اور پھر دھکا دیکر اسی دارلمِحَن دنیا میں بھیجد ے اور فطرت بھی بدل ڈال کہ اس میں جاودانی نجات کا تقاضاہی نہ رہے۔
مجھے تعجّب ہے کہ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ انسانی فطرت کا تقاضا جاودانی نجات کا ہے نہ عارضی کا اور عاری نجات والا جس کو یقین ہو کہ پھر انہیں تلخیوں میں بھیجا جاویگا کب خوشی حاصل کر سکتا ہے ایسے پر میشر پر باخوشیتن چہ کردی کہ بماکنی نظیری ؛ حقاکہ واجب آید زتو احتراز کردن
(الحکم جلد۷نمبر۳۰ صفحہ ۱۰۔۱۱ مورخہ ۷؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۳۰؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
صداقت کا ایک معیار
فر مایا :۔
جب آنحضرت ﷺ پیدا ہو ئے تو کس کو معلوم تھا کہ آپ کے ہاتھ سے اسلام سمندر کی طرح دنیا میں پھیل جاوے گا اور جب آپ نے دعویٰ کیا تو وہی تین چار آدمی آپ کے ہمراہ تھے جو کہ مسلمان ہو ئے تھے اور ابوجہل وغیرہ آپ کو کیسے ذلیل اور حقیر خیال کرتے تھے لیکن اب اگر وہ زندہ ہوں تو ان کو پتہ لگے کہ جیسے وہ حقیر ذلیل خیال کرتے تھے خدا نے اس کی کیا
عزت کی ہے ۔
اعداء کی ذلّت اور اپنی کا میابی پر فر مایا کہ:۔
اس کے متعلق ھال میں پیشگوئی جو ہو ئی ہے اگرہچہ وہ ایک رنگ مہں پوری ہو گئی ہے تاہم اسے پوری ہوئی کہنا ہماری غلطی ہے ۔خدا جانے خداکا کیا مناء ہے اصل حدّایسی پیشگوئیوںکی
وجاعل الذین اتبعوک نوق الذین کفرواالیٰ یوم القیام متہ(ال عمران :۵۶)
ہے جو کہ بہت اسباب کو چاہتا ہے ۔
دنیا میں حق پسند بہت تھوڑے ہیں اور قبال پسند بہت زیادہ ۔اس لیے اللہ تعالیٰ بہت سے صاحبِ اقبال کو اپنے برگزیدوں کے ساتھ کردیا کرتا ہے تاکہ عوام الناس ان کے ذریعہ سے ہدایت پاویں کیو نکہ عوام الناس میں حق پسندی اور عمیق عقل کم ہوتی ہے اس لیے وہ بڑے بڑے آدمیوں کو دیکھ کر ان کے ذریعہ ڈاخل ہو تے اور ہدایت پاتے ہیں۔ (البدرجلد۲نمبر۳۰ صفحہ۲۳۳ مورخہ ۱۴؍اگست۱۹۰۳؁ء)
نیز (الحکم جلد۷نمبر۳۱ صفحہ ۱ مورخہ ۲۴؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۳۱ ؍جولائی ۱۹۰۳؁ء
اَسماء الہیہٰ کی تجلّیات
بعض زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے اسم ضال کی تجلّی ہو تی ہے اور بعض زمانہ میں اسم ہادی کی تجلّی ۔نیک اور خدا ترس لوگ جس اسم کی تجلّی ہو تی ہے ۔اس کے نیچے آتے ہیں اور اپنے رنگ میں اس سے استفادہ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صوفی ابن الوقت ہوتا ہے اسم ضال کی تجلی کا زمانہ گذر چکا اور اب اسم ہادی کی تجلی کا وقت آیا ہے اسی واسطے خودبخود طبیعتوں میں اس کفر اور شرک سے ایک بیزاری پیدا ہو رہی ہے جو عیسائی مذہب نے پھیلایا تھا ہر طرف سے خبر یں آرہی ہیں کہ دنیا میں ایک شور مچ گیا ہے اور وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں پھیلے اور وہ شناخت کیا جاوے ۔اس کی طرف اشارہ کرکے براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے
کنت کنزامخفیا ناجیتان اعرف۔
اور پھر ایک جگہ فر مایا ہے ۔
اردت ان استخلف فخلقت ادم۔
جن لوگوں کو کچھ بھی تعلق نہیں ہے وہ بھی مانتے ہیں کہ یہ زمانہ انقلابات کا زمانہ ہے ہر قسم کے انقلابات ہو رہے ہیں اوریہ سب انقلاب ایک آنے والے زمانہ کی خبر دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کا مل طور پر ظاہر ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس قوم میں فسق وفجور پیدا ہو جاتا ہے فاسق چو نکہ زمانہ مزاج ہو تے ہیں اور فسق کی بنیاد ریت پر ہو تی ہے اس لیے وہ جلد تباہ ہو تے ہیں ذرا سامقابلہ ہواور سختی پڑے تو برداشت کی طاقت نہیں رکھتے ۔
براہین میں نزو ل ِمسیح کا عقیدہ درج کرنے کی حقیقت
ایک شخص نے سوال کیا کہ براہین احمدیہ میںمسیحؑ کے دوبارہ آنے کا اقرار درج ہے خدا تعالیٰ نے پہلے ہی کیوں ظاہر نہ کردیا ؟فر مایا :۔
جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو بتایا ہم نے ظاہر کردیا اور یہی ہماری سچائی کی دلیل ہے اگر منصوبہ بازی ہو تی تو ایسا کیوں لکھتے ؟ مگر ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ اس براہین میں میرا نام عیسٰی بھی رکھا گیا ہے اس کی بنیاد براہین سے پڑی ہو ئی ہے اور علاوہ بریں سنت اللہ اسی طرح پرہے۔آنحضرت ﷺ نے چالیس سال سے پہلے کیوں نبو ت کا دعویٰ نہ کر دیا ؟اسی طرح حضرتعیسیٰ علیہ ا لسلام مامور ہو نے سے پہلے یو سف نجار کے ساتھ بڑھئی کا کام ہی کرتے رہے ۔غرض جب تک حکم نہیں ہوتا اعلان نہیں کرتے ۔دیکھو جب تک شراب کی حرمت کا حکم نہیں ہوا تھا اس کی حرمت بیان نہیں کی گئی ۔ ۱؎ اسی طرح ہواکرتا ہے جب خدا تعالیٰ نے ہم پر کھول دیا ہم نے دعویٰ کردیا ۔بغیر اس کی اطلاع اور اذنکے کس طرح ہو سکتا تھا؟
پس یادرکھو کہ ہر ایک نبی کو جب تک وحی نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیو نکہ ہر ایک چیز کی اصل حقیقت تو وحی الہیٰ سے ہی کُلتی ہے یہی وجہ تھی جو آنحضرت ﷺ کو ارشاد ہوا
ماکنت تدری ما الکتاب ولا الا یمان
انسان کیا بھروسہ اور امید رکھ سکتا ہے ۔بقول شخصے ؎
یعنی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی آپ پر ہوئی تو پھر
وامرتان اکون من المومین(یونس:۱۰۵)
آپ کو کہنا پڑا اسی طرح آپ کے زمانہ وحی سی پیشتر مکّہ میں بُت پرستی اور شرک ،فسق وفجور ہوتا تھا لیکن کیا کو ئی بتا سکتا ہے کہ وحی الہیٰ کے آنے سے پہلے بھی آپ نے بتوں کے خلاف وعظ کیا اور تبلیغ کی تھی لیکن جب
فاصدع بما تومر (الحجر:۹۵)
کا حکم ہو اتو پھر ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کی اور ہزاروں مشکلات اور مصائب کی بھی پروا نہیں کی بات یہی ہے کہ جب کسی امر کے متعلق وحی الہیٰ آجاتی ہے تو پھر مامور اس کے پہنچانے میں کسی کی پروا نہیں کرتے اور اس کا چپانا اسی طرح شرک سمجھتے ہیں ۔ جس طرح وحی الہٰی سے اطلاع پانے کے بغیر کسی امر کی اشاعت شرک سمجھتے ہیں اگر وہ اس بات کو جس کی اطلاع وحی الہٰی کے ذریعہ سے نہیں ملی بیان کرتا ہے تو گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے وہ سوجھتا ہے جو خدا تعالیٰ کو بھی نہیں سوجھتا اور اس گستاخی سے وہ مشرک ہو جاتا ہے اگر آنحضرت ﷺ وہ تمام باتیں جو قرآن شریف میں درج ہیں قرآن شریف کے نزول سے پہلے ہی بیان کر دیتے تو پھر قرآن شریف کی کیا ضرورت رہ جاتی ۔غرض جو کچھ ہم پر خدا تعالیٰ نے کھولا اور جب کھولا ہم نے بیان کردیا۔۲؎
(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ صفحہ ۱۔۲ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳؁ء)
یکم اگست ۱۹۰۳؁ء
گناہ پر مواخذکی وجہ
ایکدوست کے تحریر ی سوال پر کپ اللہ تعالیٰ شرک کو کیوں معاف نہیں کرتا اور گناہ پر مئواخذہ کی کیا وجہ ہے ؟فر مایا :۔
گناہوںکے موخذاہ کے متعلق یہ دیکھنا چاہئیے کہ کیا سنت اللہ میں یہ داخل ہے یا نہیں ؟وہ ہمیشہ سے مواخذاہ کرتا آیا ہے ۔ ۱ ؎ گناہ خواہ ازقسم صغائر ہوں یا کبائراس کا مواخذہ ضرور ہو تا ہے اور انسان خوداپنی فطرت میں غور کرے کہ کیا وہ اپنے ماتحتوں اور متعلقین سے کو ئی مواخذہ کرتا ہے یا نہیں جب ان سے گناہ سرزد ہو تے ہیں اور وہ کوئی خطاکرتے ہیں یہ فطرتی نقش اس بات پر ایک حجّت اور گواہ ہے اور یہ بات کہ شرک کو نہیں بخشتا اگر ایک گناہ پر یہ سوال ہو تو پھر بہت بڑی وسعت دیکر اس سوال کو یوں کہنا پڑیگا کہ وہ ہر قسم کے گناہ کیوں معاف نہیں دیتا سزا دیتا ہی کیوں ہے؟ یہ غلطی ہے پہلی امتوںپر گناہوں کے باعث عذاب آئے اور اب بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح گناہوں کا مواخذاہ کرتا ہے ۔
ہاں ہمارامذہب ہر گز نہیں ہے کہ گناہ گاروں کو ایسی سزابَدی ملے گی کہ اس سے پھر کبھی نجات ہی نہ ہو گی بلکہ ہمارا مذہب ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم گنہگاروں کو بچالے گا اور اسی لیے قرآن شریف میں جہاں عذاب کا ذکر کیا ہے وہاں
فعال لما یرید (ھود:۱۰۸)
فر ماتا ہے ۔
گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک بندوں کے اور ایک خدا کے ۔جیسے چوری ہے یہ عبدکا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی چوری شرک ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو چُرا کر دوسرے کو دیتا چونکہ یہ ایک بڑی زبردست ہستی کی چوری ہے اس لیے اس کی سزا بھی بہت ہی بڑی ملتی ہے ۔
جو لوگ اس قسم کے سوال کرتے ہیں وہ اللہ تعالے ٰ کو اپنے قانون اور مرضی کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں کہ جس گناہ کو یہ چاہیں اسے بخش دے اور جس کو نہ چاہیں اسے نہ بخشے اس طرح پر کیسے ہو سکتا ہے؟ یہاں دنیا میں اس کا نمونہ نہیں تو آخرت میں کیسے ؟کوئی وائسر ائے کو لکھ دے کہ فلاں مجرم کو سزا نہ دی جائے ۔اور تعزیرات ہند کو موقوف کر دیا جا ئے تو کیا ایسی دوخواست منظور ہو سکتی ہے ؟کبھی نہیں ۔اس طرح پر تو اباحت کی بنیاد رکھی جاتی ہے کہ جو چاہو سو کرو۔ ۱؎؎
ایمان بارسل کی ضرورت
پھر اسی خط میں ایک دوسراسوال یہ بھی تھا کہ کیوں رسول اللہ ﷺ کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی ؟اس پر فر مایا کہ:۔
رسول وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات ہو تے ہیں پس جو شخص اس کا انکار کرتا ہے وہ بہت خطرناک جرم کا مرتکن ہوتا ہے کیو نکہ وہ شریعت کے سارے سلسلہ کو باطل کرنا چاہتا ہے اور حلّت وحرمت کی قید اٹھا کر اباحت کا مسئلہ پھیلانا چاہتا ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ کا انکار کیسے نجات کا مانع نہ ہو ؟ وہ نبی ﷺ جو لا انہتا برکات اور فیوض لے کر آیا ہے اس کا انکار ہو اور پھر نجات کی امید اس کا انکار کرنا ساری بدکاریوں اور بدمعاشیوں کو جائز سمجھنا ہے کیو نکہ وہ ان کو حرام ٹھہرا تا ہے ۔۲؎
(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ صفحہ۲ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳؁ء)
۲؍اگست ۱۹۰۳؁ء
در بارِشام
درازی عمرکا اصل گُر
ہمارے مرم مخدوم ڈاکڑ سیّد عبدالسّتار شاہ صاحب نے اپنی رخصت کے ختم ہو نے پر عرض کی کہ مَیں صبح جاؤں گا ۔فر مایا کہ:۔
خط وکتابت کا سلسلہ قائم رکھنا چاہئیے ۔
ڈاکڑصاحب نے عرض کی کہ حضور میرا ارادہ بھی ہے کہ اگر زندگی باقی رہی تو انشاء اللہ بقیہ حصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد مستقل طور پر یہاں ہی رہوگا ۔فر مایا :۔
یہ سچّی بات ہے کہ اگر انسان تو بتہ النصوح کرکے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف کردے اور لوگوں کو نفع پہنچاوے تو عمر بڑھتی ہے اعلاء کلمتہ الااسلام کرتا رہے اور اس بات کی آرزورکھے کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید پھیلے ۔اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مولوی ہو یا بہت بڑے علم کی ضرورت ہے بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرتا رہے یہ ایک اصل ہے جو انسان کو نافع الناس بناتی ہے اور نافع اکلناس ہو نا درازی عمر کا اصل گُر ہے۔فر مایا :۔
تیس سال کے قریب گذرے کہ مَیں ایک بارسخت بیمار ہوا۔۲؎ اور اس وقت مجھے الہام ہوا
اماماینفع الناس فیمکث فی الارض۔
اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے خِلق خدا کو کیا کیا فوائد پہنچنے والے ہیں لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان فوائد اور منافع سے کیا مراد تھی۔
غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے۔
جب اللہ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے ،لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لا پروا اور لا ابالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا ۔
انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لیے نفع رساں نہ ہو تویہ ایک بیکار اور نکمی ہستی ہو جاتی ہے بھیڑ۔بکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے لیکن یہ جب اشرف المخلوقات ہو کر اپنی نوع انسان کے کام نہیں آتا تو پھر بدترین مخلوق ہو جاتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے
لقد خلقنا الا نسانفی احسن تقویم۔ ثم رددنہ اسفل سافلین (التّین:۵،۶)
میں۱؎ گرایا جاتا ہے پس یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان میں یہ نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو نفع پہنچاوے تو وہ جانوروں سے بھی گیا گذرا ہے اور بدترین مخلوق ہے۔
کامیابی کی موت بھی درازیٔ عمر ہے
اس جگہ ایک اَور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوتی عمر میں بھی اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں۲؎ اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اَور اصل ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے دراصل ایسا نہیں ہوتا ۔یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازیٔ عمر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشاء اور درازیٔ عمر کی غائت تو کامیابی اور بامراد ہونا ہے ۔پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاوئے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مرتے وقت نہایت اطمنان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو تو وہ گویا پوری عمر حاصل کرکے مرا ہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پالیاہے۔اس کو چھوٹی عمر میں مرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے۔
صحابہ میںبعغ ایسے تھے جنہوں نے بیس بائیس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اُٹھے تھے اس لیے انہوں نے زندگی کا اصل منشاء حاصل کر لیا تھا۔
نیت حسنہ کی اہمیت
اگر انسان نیکی نہ کرسکے تو کم از کم نیکی کی نیت تو رکھے کیونکہ ثمرات عموماًنیتوں کے موافق ملتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیوی حکام بھی اپنے قوانین میں نیت پر بڑا مدار رکھتے ہیں اور نیت کو دیکھتے ہیں۔اسی طرح پر دینی امور میں بھی نیت پر ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔پس اگر انسان نیکی کرنے کا مصمم ارادہ رکھے اور نیکی نہ کرسکے تب بھی اس کا اجر مل جاویگا اور جو شخص نیکی کی نیت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توفیق بھی دے دیتا ہے اور توفیق کا ملنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے دیکھا گیا ہے اور تجرنہ سے دیکھا گیا ہے کہ انسان سعی سے کچھ نہیںکرسکتا۔نہ وہ صلحاء ،سعداء وشہداء میںداخل ہوسکتا ہے اور نہ اور برکات اور فیوض کو پا سکتا ہے۔غرض ؎
نہ بزور نہ بزاری نہ بزرمے آید
بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گوہر مقصود ملتا ہے اور حصول فضل کا اقرب طریق دعا ہے۔
دعا کے لوازمات
اور دعا کامل کے موازمات یہ ہیں کہ اس میں رقت ہو۔اضطراب اور گدازش ہو۔جو دعا عاجزی،اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور پھر اس کو علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے،خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوق ہو لیکن یہ سیر نہ ہو۔تکلف اور تصنع سے کرتا رہے۔اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔
بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہوجاتا ہے وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا۔مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی ہی میں برکت ہے کیونکہ آخڑ گرہر مْصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آجا تا ہے کہ جب اس کا دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے ۱؎ اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقت جو دعا کے موازمات ہیں پیدا ہوجاتے ہیں۔جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے سبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں دعا کرتا ہے کہ الہیٰ دل تیرے ہی قبضہ و تصرف میں ہے تو اس کو صاف کردے اور عین قبض کی حالت میں اللی تعالیٰ سے بسط چاہے تو اس قبض سے بسط نکل آئے گی اور رقت پیدا ہوجائے گی۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے۔وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر پانی کی طرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔
مسیح علیہ السلام کی مضطر بانہ دعا
میں نے خیال کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا واقعہ بھی عجیب ہے۔اور وہ حالت دعا کا ایک صحیح نقشہ ہے۔اصل بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی بد قضاء وقدر مقدر تھی اور وہ قبل از وقت ان کو دکھائی گئی تھی اور انہوں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ اس سے رہائی محال ہے اور پہلے نبیوں نے بھی ایسا ہی سمجھا تھا اور آثار بھی ایسے ہی نظر آتے تھے ۔اس واسطے انہوں نے بڑی بیکلی اور اضطراب کے ساتھ دعا کی ۔انجیل میں اس کا نقشہ خوب کھنچ کر دکھایا ہے۔پس ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی قضاء وقدر کو جو موت کے رنگ میں غشی کے ساتھ بدل اور اس کے تقویٰ کے باعث سنی گئی اور خدا نے تقدیر ٹال دی اور موت غشی سے بدل گئی۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر عیسائیوں کے کہنے کے موافق مان لیا جاوے کی مسیحؑ صلیب پر مرگیا تو اس موت کو *** ماننا پڑے گا جس کا کوئی جواب عیسائیوں کے پاس نہیں بلکہ عیسائیوں پر ایک اور مصیبت بھی آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پھر ان کو ماننا پڑیگا کہ مسیحؑ کی یہ دعا بھی جو اس نے باغ میں ساری رات رو رو کر کی تھی قبول نہیں ہوئی اور ان میں چوروں میں جو ان کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے کیا فرق ہوا؟انہوں نے بھی تو صلیب پر مرنے سے بچنے کے لیے دعا کی تھی اور انہوں نے بھی کی ۔نہ ان کی قبول ہوئی نہ ان کی ۔مگر ہمارا یہ مذہب نہیں ہے۔جیسے ہمارے نزدیک مسیحؑ کی موت *** موت نہ تھی جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے ویسے ہی یہ بھی ہمارا اعتقاد ہے کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ صلیب پر سے زندہ اُتر آئے۔
ایک نکتہ
اصل بات یہ ہے کہ ایک باریک سر ہوتا ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا۔انبیاء علیہم السلام پر اس قسم کے ابتلا اور قضاء وقدر آیا کرتے ہیں۔جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی آیا اور دوسرے نبیوں پر بھی کسی نہ کسی رنگ میں آتے ہیں اور ایک تجلی ہوتی ہے جس کو دوسرے لوگ موت سمجھتے ہیں مگر یہ موت دراصل ایک زندگی کا دروازہ ہوتی ہے۔
باب الموت
صوفی کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص کو جو خدا تعالیٰ سے ملنا چاہے ضروری ہے کہ وہ باب الموت سے گذرے۔مثنوی میں اس مقام کے بیان کرنے میں ایک قصہ نقل کیا ہے۔(یہاں حضرت نے وہ قصہ بیان کیا۱؎)پس یہ سچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو یہ جکڑا ہوا ہے اس سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں۔
مقام اعملو ما شئتم
اسی موت کی طرف اشارہ کرکے قرآن شریف میں فرمایا ہے
واعبد ربک حتی یاتیک الیقین (الحجر:۱۰۰)
اس جگہ یقین سے مراد موت بھی یعنی انسان کی اپنی ہواوہوس پو ری فنا طاری ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت رہ جاوے اور وہ یہاں تک ترقی کرے کہ کوئی جنبش اور حرکت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نہ ہو۲؎
سید عند القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے تو سب عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔۳؎ اور پھر خود ہی سوال کرتے ہیں کی کیا انسان اباحتی ہوجاتا ہے اور سب کچھ اس کے لیے جائز ہو جاتا ہے؟
پھر آپ ہی جواب دیا ہے کہ یہ بات نہیں کہ وہ اباحتی ہو جاتا ہے بلکہ بات اصل یہ ہے کہ عبادت کے اثقال اس سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر تکلیف اور تصّنع سے کوئی عبادت وہ نہیں کرتا بلکہ عبادت ایک شریں اور لذید غذا کی طرح ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نافر مانی اور مخالف اس سے ہو سکتی ہی نہیں اور خدا تعالیٰ کا ذکر اس کے لیے لذّت بش اور آرام دہ ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں کہا جاتا ہے ۔
اعملواماشیتم (حم السجدت:۴۱)
اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ نواہی کی اجازت ہو جاتی ہے نہیں بلکہ وہ خود ہی نہیں کرسکتا اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کو ئی خصیّ ہو کر اس کو کہا جاوے کہ تو مرضی ہے کر تووہ کیا کرسکتا ہے ؟اس سے فسق وفجور مراد لینا کمال درجہ کہ بتے حیائی اور حماقت ہے یہ تو اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جہاں کشف ِحقائق ہوتا ہے صوفی کہتے ہیں اسی کے کمال پر الہام ہوتا ہے اس کی رضااللہ تعالیٰ کی رضا ہو جاتی ہے اس وقت اسے یہ حکم ملتا ہے ۔
پس اثقال ِعبادت اس سے دور ہو کر عبادت اس کے لیے غذاشریں کا کا م دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ
ھذاالذی رزقنا من قبل (البقرت:۲۶ )
فر مایا گیا ہے ۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ سابقہ )
میں مبتلا رہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موت کے بعد یعنی جبکہ انسان نفسِ امّادہ سے جنگ کر کے اس پر غالب آجا تا ہے اور فتح پا لیتا ہے تو پھر عبادت اور نیک اعمال کا بجالا نا اس کے لیے ایک طبعی امر ہو تا ہے جیسے انسان بلا تکلّف میٹھی میٹھی مزہ دار چیزیں کھا تا رہتا ہے اور اسے لذت آتی رہتی ہے ایسے ہی بلا تکلف نیک اعمال اس سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اور اس کی تمام لذت اور خوشی خدا تعالیٰ کی عبادت میں ہو تی ہے اور جب تک وہ نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے تبھی تک اسے ثواب بھی ملتا ہے لیکن جب اس نے موت حاصل کرلی اور نفس پر فتح پالی تو پھر تو جنت میں داخل ہو گیا اب ثواب کا ہے کا؟ یہی وہ جنت ہے جو انسان کو دنیا میں حاصل ہوتی ہے اور قرآن شریف میں دو جنتوں کا بیان ہے جیسے کہ لکھا ہے ۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن:۴۷)
یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنتیں ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں دنیا والی جنت وہ ہے جو کہ اس درجہ کے بعد انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس مقام پر پہنچکر انسان کی اپنی کوئی مثیت نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ کی مثیت اس کی اپنی مثیت ہوتی ہے اور جیسے ایک انسان کو خصی کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے تو رتا کاری وغیرہ حرکات کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا ویسے ہی یہ شخص خصی کردیا جاتا ہے اور اس سے کوئی بدی نہیں ہو سکتی ۔‘‘ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۰ صفحہ ۲۳۵ مورخہ ۱۴ ؍اگست ۱۹۰۳؁ء)
گناہ سے نجات کیسے ہو؟
فر ما یا :۔
گناہ سے نجات محض خدا تعالیٰ کے فضل اور تصرف سے ملتی ہے جب وہ تصرف کرتا ہے اور دل میں وعظ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر ایک نئی قوت انسان کو ملتی ہے جو اس کے دل کو گناہ سے نصرت دلا تی ہے اور نیکوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے ۔
ایمان کیلئے ابتلا ضروری شئے ہیَ
ایک شخص نے اپنی تکالیف اور ابتلاؤں کا ذکر کیا ۔
فرمایا :۔
جب اللہ تعالیٰ کسی آسمانی سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو ابتلا اس کی جزو ہو تے ہیں جواس سلسلہ میں داخل ہو تا ہے ضروری ہو تا ہے کہ اس پر کو ئی نہ کو ئی ابتلا آوے تا کہ اللہ تعالیٰ سچے اور مستقل مزاجوں میں امیتاز کر دے اور صبر کر نے والوں کے مدارج میں تر قی ہو ابتلا کا آنا بہت ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
احسب الناس ان یتر کوان یقولو امنا وھم لا یفتنون(العنکبوت:۳)
کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دئیے جاویں کہ ہم ایمان لا ئے اور ان پر کو ئی ابرتلا نہ آوے ایسا کبھی نہیں ہو تا خدا تعالیٰ کو منظور ہو تا ہے کہ وہ غداروں اور کچوں کو الگ کر دے پس ایمان کے بعد ضروری ہے کہ انسان دکھ اٹھا وے بغیر اس کے ایمان کا کچھ مزا ہی نہیں ملتا آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے کیا کیا دکھ اٹھا ئے آخر ان کے صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب عالیہ عطا کئے انسان جلد بازی کرتا ہے اور ابتلاآتاہے تواس کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ نہ دنیا ہی رہتی ہے ۱؎ اور نہ دین ہی رہتا ہے مگر جو صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو تا ہے اور ان پر انعام واکرام کرتا ہے اس لیے کسی ابتلا پر گھبرا نا نہیں چا ہیئے ابتلا مومن کو اللہ تعالیٰ کے اور بھی قریب کر دیتا ہے اور اس کی وفاداری کو مستحکم بنا تاہے لیکن کچے اور غدارکو الگ کر دیتا ہے ۔
پہنچیں تو وہ الگ ہو گیا فرمایا:۔
تم شکر کر و کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس ابتلا سے بچا لیا ایک وہ زمانہ تھا کہ تلواروں سے ڈرایا جاتا تھا اور وہ لوگ اس کے مقابلہ پر کیا کرتے تھے خدا ئے تعالیٰ سے دعا ئیں مانگتے اور کہتے
ربنا افرغ علینا صبر اوثبتاقد امناوانصر نا علی القوم الکفرین(البقرۃ:۲۵۱)
مگر آج کل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تلوار سے نہیں ڈرا یا جاتا ۔اصل یہ ہے کہ جن کو اللہ تعا لیٰ اس سلسلہ میں رہنے کے لا ئق نہیں پا تا ان کو الگ کر دیتا ہے وہ ایمان کے بعد مرتد اس لیے ہو تے ہیں کہ قیامت کو جب وہ اپنے رفیق کو جنت میں دیکھیں تو ان کی حسرت اور بھی بڑھے اسوقت وہ کہینگے کا ش ہم اپنے رفیق کے ساتھ ہو تے ۔
اپنی ہی کمزوری ہے جو ذرا ذرا سی بات پر یہ زندگی گھبراجاتے ہیں ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنا رزق سمجھ لیں اور اس پر ایمان رکھیں تو ایک جرات اور دلیری پیدا ہو جاتی ہے پس ساری باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ صبر اور استقلال سے کام لینا چا ہیئے اور خدا تعالیٰ سے ثابت قوم کی دعا مانگتے رہو۔
کسی کا مر تد ہو جا نا کچھ میرے سلسلہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ منہاج نبوت کے ساتھ یہ بات لا زمی ہے نبیوں کے سلسلے میں یہ نظیر یں ملتی ہیں ہم کو کو ئی افسوس نہیں البتہ ایسے لو گوں پر رحم آتا ہے کیو نکہ ان کو دو چند عذاب ہو گا اس لیے کہ وہ ایمان لا کر مرتد ہو ئے اور پھر بہشت کے پاس پہنچ کر واپس ہو ئے یہ حسرت کا عذاب ہو گا ۔
مشکلات سے مت ڈرو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت اور بے عزتی اٹھا نے کے لیے تیار ہو تا خدا تعالیٰ تمہارے مصائب کو دور کر ے اور تمہاری آبرو کا خود محافظ ہو ۔
مومن وہی ہو تا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا دار ہو تا ہے جب ایمان لے آیا پھر کسی کی دھمکی کی کیا پروا ہے تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور یہ اقرار کر چکے ہو جب انسان خدا تعالیٰ کے لیے وطن ،احباب اور ساری آسایشوں کو چھوڑ تا ہے وہ اس کے لییء سب کچھ مہیا کرتا ہے اب چا ہیئے کہ صادقوں کی طرح ثابت قدم رہے کیو نکہ خدا تعالیٰ صادق کا ساتھ دیتا ہے اور اس کو بڑے بؑڑے درجے عطا کرتا ہے خدا ئے تعالیٰ اس وقت صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے جو صادق نہیں وہ آج نہیںکل چلا جا ئے گا اور اس سلسلہ سے الگ ہو کر رہے گا مگر صادق کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں ہو گا ۔ ۱ ؎ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ صفحہ ۲تا ۴ مورخہ ۲۴ ؍اگست ۱۹۰۳؁ء)
۳؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربارِ شام
دعا کے اثر اور قبولیت کو تو جہ کیسا تھ تعلق ہیَ
امر یکہ سے جناب مفتی محمدصادق صاحب کے ذریعہ ایک ڈاکڑکی بیوی نے اپنے کسی عارضہ کے لیے دعا کی درخواست کی تھی آپ نے فرما یا کہ:۔
اس کو جواب میں لکھا جاوے کہ اس میں شک نہیں کہ دعااؤں کی قبولیت پر ہمارا ایمان ہے اور اللہ تعالیی نے ان کے قبول کر نے کا وعدہ بھی فرما یا ہے مگر دعاؤں کے اثر اور قبولیت کو تو جہ کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے اور پھر حقوق کے لحاظ سے دعا کے لیے جو ش پیدا ہو تا ہے اور خدا تعالیٰ کا حق سب پر غالب ہے اس وقت دنیا میں شرک پھیلا ہوا ہے اور ایک عاجز انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس لیے فطرتی طور پر ہماری تو جہ اس طرف غالب ہو رہی ہے کہ دنیا کو اس شرک سے نجات ملے اور اللہ تعالیی کی عظمت قائم ہو اس کے سوا دوسری طرف ہم تو جہ کر ہی نہیں سکتے اور یہ بات ہمارے مقاصد اور کام سے دور ہے کہ اس کو چھوڑ کر دوسری طرف تو جہ کر یں بلکہ اس میں ایک قسم کی معصیت کا خطرہ ہو تا ہے ۔
ہاں یہ میرا ایمان ہے کہ بیماروں یا مصیبت زدوں کے لیے توجہ کی جاوے تو اس کا اثر ضرور ہو تا ہے بلکہ ایک وقت یہ امر بطور نشان کے بھی مخالفوں کے سامنے پیش کیا گیا اور کو ئی مقابلہ میں نہ آیا اس وقت میری ساری تو جہ اسی ایک امر کی طرف ہو رہی ہے کہ یہ مخلوق پر ستی دور ہو اور صلیب ٹوٹ جاوے اس لیے ہر کام کی طرف اس وقت میں تو جہ نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے اسی طرف متوجہ کر دیا ہے کہ یہ شرک جو پھیلا ہوا ہے اور حضرت عیسیٰؑ کو خدا بنا یا گیا ہے اس کو نیست ونا بود کر دیا جاوے یہ جو ش سمند ر کی طرح میرے دل میں ہے اسی لیے ڈوئی کو لکھا ہے کہ وہ مقابلہ کے لیے نکلے پس تم صبر کرو جب تک کہ ایک دعا کا فیصلہ ہو جاوے اس کے بعد ایسی امور کی طرف بھی اللہ تعالیٰ چا ہے تو تو جہ ہو سکتی ہے لیکن دعا کر انے والے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر ے اور اللہ تعالیٰ سے صلح کر ے اپنے گناہوں سے تو جہ کر ے پس جہا نتک ممکن ہو تم اپنے آپ کو درست کرو اور یہ یقیناً سمجھ لو کہ انسان کا ستا ر کبھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
مسیحؑ کی زندگی کے حالا ت پڑھو تو صاف معلوم ہو گا کہ وہ خدا نہیں ہے اس کو اپنی زندگی میں کسقدر کو فتیں اور کلفتیں اٹھانی پڑیں اور دعا کی عدم قبولیت کا کیسا برا نمونہ اس کی زند گی میں دکھا یا گیاہے حصوصاً با غ والی دعا جو ایسے اضطراب کی دعا ہے وہ بھی قبول نہ ہو ئی اور وہ پیا لہ ٹل نہ سکا پس ایسی حالت میں مقدم یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو درست کرو اور انسان کی پرستش چھوڑ کر حقیقی خدا کی پر ستش کرو۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۷ صفحہ ۲ مورخہ ۱۰ ؍اکتوبر۱۹۰۳؁ء)
بلاتاریخ
آسمانی نزول سے مراد
مسیح کے آسمانی نزول سے یہ مراد ہے کہ اس کے ساتھ آسمانی اسباب ہوں گے اور اس کا تعلق سماوی علوم سے ہو گا اور ایسا ہی فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے سے مراد ہے۔ یہ ایک اعلیٰ درجہ کا لطیفہ تھا ۔جس کو کم فہم لو گوں نے ایک چھوٹی اور موٹی سی بات بنا لیا ہے جو صحیح نہیں۔
فرمایا:۔ دشمن کی دشمنی بھی ایک دقعت رکھتی ہے ۔ہزاروں شہد ے فقیر پھر تے ہیں۔ مگر کو ئی ان کو نہیں پو چھتا اور نہ ان کا مقابلہ کرتا ہے مگر ہمارے مقابلہ میں ہر قسم کے حیلے کئے جاتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے کو شش کی جا تی ہے کہ ہم کو نقصان پہنچا یا جاوے اور وہ اس مقابلہ کے لیے ہزاروں روپیہ بھی خرچ کر چکے ہیں ان کی مخالفت بھی ان نشانا ت کا جو ظاہر ہورہے ہین ایک روک بن جا تی ہے ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۷ صفحہ ۲ مورخہ ۱۰ ؍اکتوبر۱۹۰۳؁ء)
۶؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربارِشام
جنون کے اسباب
فرمایا کہ :۔
دوقوتیں انسان کو منجر بہ جنون کر دیتی ہے ایک بدظنی اور ایک غضب جبکہ فر اط تک پہنچ جاویں ایک شخص کا حال سنا کہ وہ نماز پڑھا کرتا تھا کہ اول ابتدا جنون اس طرح سے شروع ہو ئی کہ اسے نماز کی نیت کر نے میں شبہ پیدا ہو نے لگا اور جب پیچھے اس امام کے کہا کرے تو امام کی طرف انگلی اٹھا دیا کرے پھر اس کی تسلی اس سے نہ ہو ئی تو امام کے جسم کو ہاتھ لگا کر کہا کرے کہ ’’ پیچھے اس امام کے ‘‘ پھر اور ترقی ہو ئی تو ایک دن امام کو دھکا دیکر کہا کہ ’’ پیچھے اس امام کے ‘‘
پس لازم ہے کہ انسان بد ظنی اور غضب سے بہت بچے سوائے راستبازوں کے باقی جسقدر لوگ دنیا میں ہو تے ہیں ہر ایک کچھ نہ کچھ حصہ جنون کا ضرور رکھتا ہے جس قدر قویٰ ان کے ہو تے ہیں ان میں ضرور افراط تفریط ہو تی ہے اور اس سے جنون ہو تا ہے ۔
غضب اور جنون میں فرق یہ ہے کہ اگر سرسری دورہ ہو تو اسے غضب کہتے ہیں اور اگر وہ مستقل استحکام پکڑ جاوے تواس کا نام جنون ہے ۔
جنت میں چا ندی کا ذکر کیوں ہیَ
چا ندی پر ذکر ہوا فرمایا کہ:۔
چا ندی کے بیچ میں ایک جو ہر محبت ہے اس لیے یہ زیادہ مرغوب ہو تی ہے اکثر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جنت کی نعماء میں چا ندی کے برتنوں کا ذکر ہے حالا نکہ اس سے بیش قمیت سانا ہے وہ لوگ اس راز کو جو کہ خدا تعالیٰ نے چا ندی میں رکھا ہے نہیں سمجھے جنت میں چو نکہ غل اور کینہ اور بعض وغیرہ نہیں ہو گا اور آپس میں محبت ہو گی اور چو نکہ چا ندی میں جو ہر محبت ہے اس ل کے لیے اس نسبت با طنی سے جنت میں اس کو پسند کیا گیا ہے اس میں جو ہر محبت کا ثبوت یہ ہے کہ اگر طرفین میں لڑائی ہو تو چا ندی دے دینے سئے صلح ہو جاتی ہے اور کدورت دور ہو تی ہے۔ کسی کی نظر عنایت حاصل کر نی ہو تو چا ندی پیش کی جا تی ہے ۔علوم یا تو قیاس سے معلوم ہو تے ہیں۔ اور یا تجربہ سے چا ندی کے اس اثر کا پتہ تجربہ سے لگتا ہے۔ خواب میں اگر ایک کسی مسلمان کو چا ندی دے تو اس کی تعبیر یہ ہو تی ہے کہ اسے اسلام سے محبت ہے اور وہ مسلمان ہو جاوے گا ۔
کثرت شراب خوری کا نتیجہ
اکثر دفعہ جب تک ایک شئے کی کثرت نہ ہو تو اس کے خواص کا پتہ نہیں لگتا شراب کی کثرت جو اس وقت یورپ وغیرہ میں ہے اگر یہ نہ ہو تی تو اس بدنتائج کیسے ظاہر ہو تے جس سے اس وقت دنیا پنا ہ پکڑنا چا ہتی ہے اور اس کی کثرت سے اسلام اور پیغمبرِاسلام کی خوبی کھلتی ہے جنہوں نے ایسی شئے کو منع اور حرام فرمایا ۔
اگر مسیح کی مقصود بالذات زمین ہی تھی کہ آخر عمر میں انہوںنے زمین پر ہی آنا تھا تو پھر اتنا عرصہ آسمان پر رہنے سے کیا فائدہ؟ یہی وقت زمین پر بسر کرتے کہ لوگوں کو ان کی ذات اور تعلیم سے فائدہ ہو تا اور قوم گمراہی سے بچی رہتی ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۱ صفحہ۴۱ ۲ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۸ اگست ۱۹۰۳؁ء
اعلائے کلمۃ الاسلام
اہل اسلام کی موجود حالت پر فر مایاکہ :۔
جب تک ان لوگوں میں اعلائے کلمۃ اللہ کا خیا ل تھا اور اس کو انہوں نے اپنا مقصود بنایا ہو اتھا جب تک ان کی نظریں خدا پر تھیں خدا تعالیٰ بھی اُن کی نصرت کرتا تھا ،مگر بعد ازاں جب اعراض بدل گئے تو خدا نے بھی چھوڑ دیا اورا ب ان کی نظر انسانوں پر ہے سلطنتوں کی بھی یہی حالت ہے ۔کہ اعلائے کلمۃ الاسلام کا کسی کو خیال نہیں ہے خود روم میں ردِّ نصاریٰ میں ایک چھوٹا سارسالہ بھی نہیں لکھا جا سکتا ۔یہ خٰال بالکل غلط ہے کہ سلطان محافظ حرمین ہے بلکہ حر مین خود محافظ سلطان ہیں ۔ فرمایا کہ :۔انسان کے اندر جو نور اور شعاع اعلائے کلمۃ الاسلام کا ہوتا ہے وہ انسان کو اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۱ صفحہ۴۲ ۲ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۹ اگست۱۹۰۳؁ء
دربار شام
حقوق العباد
بیمار پُرسی اور کسی میّت کی تجہیز وتکفین کی نسبت ذکر ہو ۔حضور علیہ الصلوۃ ولسلام نے فر مایا کہ :۔
ہماری جماعت کو اسبات کا بہت خیال چاہیئے کہ اگر ایک شخص فوت ہو جاوے تو حتی الوسع سب جماعت کو اس کے جنازہ میں شامل ہو چاہیئے اور ہمسایہ کی ہمدردی کرنی چاہیئے یہ تمام باتیں حقوق العباد میں داخل ہیں ۔میَں دیکھتا ہو کہ جس تعلیم اور درجہ تک خداتعالیٰ پہنچانا چاہتا ہے اس میں ابھی بہت کمزوری ہے صرف دعوہی دعوی نہ ہونا چاہیئے کہ ہم ایمان دار ہیں بلکہ اس ایمان کو طلب کرنا چاہیئے جسے خدا چاہتا ہے بھائیوں کے حقوق کو ہمسایوں کے حقوق کو شناخت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے زبان سے کہہ لینا کہ ہم جانتے ہیں بیشک آسان ہے مگر سچی ہمدردی اور اخوت کو برت کر دکھلانا مشکل ہے اصل بات یہ ہے کہ تمام حرکات اعمال افعال کے لیے ایمان مثل ایک انجن کے ہے ۔جب ایمان ہو تا ہے تو سب حقوق خود بخود نظر آتے جاتے ہیں اور بڑے بڑت اعمال اور ہمدردی خودہی انسان کرنے لگتا ہے ۔ایمان کا تخم آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے لیکن یہ ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۱ صفحہ۴۲ ۲ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۰ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
گنڈے اور تعویذ کی تاثیرات
شام کے وقت ایک صاحب نے گنڈے اور تعویذت کی تاثیرات کی نسبت استفسار کیاحضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
ان کا اثرہو نا تو ایک دعویٰ بلا دلیل ہے ۔اس قسم کے علاج تصورات کی مدّ میں آجاتے ہیں کیونکہ تصورات کو انسان پر اثر اندازی میں بڑا اثر ہے ۔اس سے ایک کو ہنسا دیتے ہیں ایک کو رُلادیتے ہیں اور کئی چیزیں جوکہ واقعی طور پر موجود نہ ہوں دوسرں کو دکھلادیتے ہٰں اور نعض امراض کا علاج ہو تا ہے ۔اکثر اوقات تعویذوں سے بھی فائدہ نہیں ہوتاتو آخر تعویذ دینے والے کو کہنا پڑتا ہے کہ اب میری پیش نہیں چلتی
اُمّتِ مر حُومہ
یہ اُمّتِ مر حُومہاس واسطے بھی کہلاتی ہے کہ ان ٹھوکروں سے بچ جاوے جو اس سے پہلی اُمتوں کو پیش آئی ہیں ۔۱؎ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۱ صفحہ۴۲ ۲ مورخہ ۱ ۲؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۱ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
جاب الیگز ینڈر ڈوئی
مسٹر ڈوئی الیاس جس کو حضرت اقدس نے مقابلہ پر بُلایا ہے اب کثرت سے اس کا چر چا امریکہ اور انگلستان کی اخباروں میں اس مقابلہ پر ہو رہا ہے اور ہندوستان سے باہر کل عیسائی دنیا نے اس مقابلہ کو مذاہب کی سچائی کا حقیقی معیار قرار دیا ہے حتّیٰ کہ دہریہ منش انسان جوکہ ان ممالک میں رہتے ہیں ان کے ایمان کے لیے بھی اس مقابلہ دعا نے ایک راہ کھول دی ہے اور جس عدل اور انصاف پر یہ مقابلہحضرت اقدس نے مبنی رکھا ہے اس کی شہادت خود ہورپ اور امریکہ نے ان الفاظ میں دی ہے کہ اس مقابلہ میں مرزا صاحب نے کوئی پہلو رعایت کا اپنے لیے نہیں رکھا کہ جس سے ڈوئی کا انکار کرنے کی گنجائش ہو ۔آج کل وہی اخباریں پڑھی جاتی ہیں ان اخباروں کو سُنکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام نے فر مایا کہ :۔
یہ ہمارا مقابلہ صرف مسٹر ڈوئی ہی سے نہیں ہے بلکہ تمام عیسائیوں کے مقبلہ پر ہے اور یہ بھی ایک طریق ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کسرِ صلیب کر یگا ۔حدثیوں میں آیا ہے کہ آنے والے مسیح کے خادم فر شتے ہو گے ان الفاظ سے اس کی کمزوری نکلتی ہے اور یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اس کے پاس زمینی ہتھیار نہ ہوں گے بلکہ جو کام زمینی ہتھیاروں سے ہوتا ہے وہ دُعا کے ذریعہ سے آسمان کے فرشتے خود کرتے رہیں گے ۔مشکوٰۃ میںیہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عیسائیوں کے ساتھ کوئی شخص مقابلہ نہ کر سکے گا مگر ہاں مسیح موعود دُعاؤں سے مقابلہ کریگا سواب وہ مقابلہ آپڑا ہو اہے جس سے اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ہو سکتا ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۴۹ ۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۴ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
قادیان میں ایک عیسائی کی آمد
ایک عیسائی گل محمد نامی جوکہ غالباً دوچار سال سے مذہب عیسوی میں داخل ہیں اور بنوں کے باشندے ہیں اور آج کل لاہور کے ڈیوینٹی کالج میں قیام پذیر ہیں مذہبی تحقیقات کی غرض سے ۱۴ اگست ۱۹۰۳؁ء کو قادیان آکر اُسی دن بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت اقدس نے پہلے ان سے معمولی حالات سکونت وغیرہ کے متعلق دریافت کئے جس کے بعد عیسائی صاحب نے اپنے مقصد کا اظہار کیا ۔حضرت نے فر مایا کہ آپ کتنی مدّت یہاں ٹھہریں گے؟اس کا جواب گل محمد صاحب نے یہ دیا کہ مٰں تو کل ہی چلا ھاؤں گا جس پر حضرت اقدس اور سب سامعین کو نہایت حیرانی ہوئی ۔حضور علیہ الصلوۃ السلام نے بڑے زور کے ساتھ اصرار سے کہا کہ
آپ یہاں دو تین ہفتہ یک ٹھہریں ۔یہ مذہبی معاملہ ہے جس کا نتیجہ کفر یا ایمون ہے اس میں ایسی جلد بازی مناسب نہیں اور نہٰں تو آپ کم از کم ایک ہفتہ ہی ٹھہریں اور مذہبی امور دریافت کریں ہم حتی الوسع آپ کو سمجھاتے رہیں گے ۔
حضرت نے یہاں تک بھی فر مایا کہ :۔
ہم ہر طرح سے آپ کے مکان ،خوراک وغیرہ کا بندوبست کرتے ہیں بلکہ یہاں رہنے میں آپ کا کچھ مالی نقصان ہے تو وہ بھی ہم دینے کو تیا ر ہٰں اور اگر آپ کی کچھ ملازمت اور تنخوہ ہے تو اس عرصہ کے لیے وہ بھی دے دیں گے ۔
مگر گل محمد نے کوئی بات منظور نہ کی اور یہی کہا کہ کل میَں ضرور چلا جاؤں گا ۔اسی وقت آپ میرے ساتھ سوال جواب لر لیں حضرت نیاس امر کو نامنظور کیا اور بہت سمجھا یا کہ
یہ مذہبی معاملہ ہے ہم اس میں ایسی جلد بازی ہر گز نہیں کر سکتے اور نہ ہم اس امر کی پر واہ رکھتے ہیں کہ آپ باہر جا کر لوگوں کو کیا کچھ کہیں گے یا سُنائیں گے اگر آپ کو حق کی طلب ہے تو آپ چند روز ہمارے پاس ٹھہر جائیں بلکہ یہ بھی فر مایا کہ:۔
اگر آپ کا ہر ج ہے تو ہم دو چار روپیہ روز تک بھی دینے کو تیار ہیں
مگر گل محمد صاحب نے کوئی بات نہ مانی اور کہا کہ اچھا میَں پھر آؤں گا مگر صرف چار دن کے لیے حضرت نے فر مایا کہ :۔
کم از کم دس دن ضروری ہیں
مگر گل محمد صاحب نے کہا کہ میَں چار دن سے زائد بالکل نہیں ٹھہر سکتا تو بالآخر حضرت نے چار دن ہی منظور فر ما لیے اور گل محمد صاحب کی دوخواست پر اسی وقت ایک عہد نامہ تحریر ہو اجو ذیل میں درج کیا جاتا ہے :۔
نقل عہد نامہ منجانب گل محمد عیسائی
گل محمد صاحب کی تحریک کے مطابق جو اجازت ان کو یہاں قادیان آنے کے لیے شیخ عبدالرحمن صاحب نے تحریر کی تھی کہ وہ اپنے مشکلات مذہبی کے حل کرنے کے لیے قادیان حضرت اقدس کے پاس آسکتے ہیں اس کے مطابق وہ یہاں آکر ۱۴ اگست ۰۳ ؁ء کو بعد نماز مغرب حضرت صاحب کے پاس آئے مگر چونکہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے کل ہی واپس جانا ہے اور زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے اور حضرت صاحب بھی گورداسپور جانے کے سبب سے ان کوزیادہ وقت نہیں دے سکتے اس لیے یہ قرار پایا کہ گل محمد صاحب ابتدائی ہفتہ اکتوبر ۰۳؁ء میں چار دن کے لیے یہاں آئیں اور اپنا ایک سوال تحریری پیش کریں جس کا جوابحضرت مرزا صاحب تحریری دیں گے اور ا جواب کے بعد اگر گل محمد صاحب کی تشفی نہ ہو تو اسی سوال کے متعلق کچھ اور دریافت کرسکتے ہیں جس کا جواب حضرت صاحب دیں گے اور یہی سلسلہ چار دن تک رہے گا ۔اس سوال جواب کے شرائط یہ ہیں کہ ہر روز پانچ گھنٹہ اس پر خرچ ہوں گے یعنی ہر ایک فریق کے لیے اڑھائی گھنٹے اور جس کو ایک دن میں اڑھائی گھنٹے سے کم وقت ملنے کا موقعہ ملے وہ اتنا ہی وقت دوسرے دن لے سکیگا لیکن چوتھے دن کی شام کو بہر حال یہ امر ختم ہو گا سوائے اس کے کہ ان چار دنوں کے اندر کوئی فر یق کسی وجہ سے جو معمولی حوئج اور ضروریات کے علاوہ ہو پورا وقت نہ دے سکے تو اسکے لیے ضروری ہو گا کہ اس وقت کو چار دن کے بعد پورا کرے اور اگر چار دن کے اندر ہی مثلاً پہلے پہ دن حضرت صاحب فر ماویں کہ جو ہم نے کہنا تھا کہہ چکے اور ان زیادہ اور کچھ نہیں کہنا توگل محمد صاحب کو اختیار ہو گا کہ اسی وقت چلے جاویں ۔ گل محمد صاحب کی طرف سے صرف ایک ہی سوال پیش ہو گا خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو اور فر یقین کو اختیار نہ ہو گا کہ ایک دوسرے وقت میں کسی کی بات کو قطع کریں ۔
(دستخط حضرت میرزا غلام احمد صاحب) دوسرے کاغذ پر ہوئے ( گل محمد )
۱۵ اگست ۱۹۰۳ ؁ء
دربار شام
***ِ خدا سے مراد
فر مایا :۔
خدا کی نزدیک *** وہ نہیں ہوتی جو کہ عام لوگوں کے نزدیک ہو تی ہے بلکہ خدا کی *** سے مراد دنیا اور آخرت کی *** ہے (یعنی ہر)دو کی ذلّت ہے
قر آن کس طر ح سے مصدِّق انجیل ہے ؟
فرما یا کہ:۔
قرآن شریف انجیل کی تصدیق قول سے نہیں کر تا بلکہ فعل سے کرتا ہے کیو نکہ جو حصہ انجیل کی تعلیم کا قرآن کے اندر شامل ہے اس پر قرآن نے عملدرآمد کرو کے دکھلا دیا ہے اور اسی لیے ہم اسی حصہ انجیل کی تصدیق کرسکتے ہیں جس کی قرآن کریم نے تصدیق کی ہے ہمیں کیا معلوم کہ باقی کا رطب ویابس کہاں سے آیا ہاں اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر آیت
ولیحکم اھل الا نجیل (المائداۃ:۴۸)
میںجو لفظ انجیل عام ہے اس سے کیا مردا ہے وہاں یہ بیان نہیں ہے کہ انجیل کا وہ حصہ جس کا مصدق قرآن ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں
الانجیل
سے مراد اصل انجیل اور تورایت ہے جو قرآن کریم میں درج ہو چکیں اگر یہ نہ مانا جاوے تو پھر بتلا دیا جاوے کہ اصلی انجیل کو نسی ہے کیو نکہ آجکل کی مروجہ انا جیل تو اصل ہو نہیں ہو سکتیں ان کی اصلیت کس کو معلوم ہے اور یہ بھی خود عیسائی ما نتے ہیں کہ اس کا فلاں حصہ الحاقی ہے۔
پھر ایک اور بات دیکھنے والی ہے کہ انجیل میں سے عیسیٰٰؑ کی موت اور بعد کے حالات اور توریت میں موسیٰؑکی موت کا حال درج ہے تو کیا اب ان کتابوں کا نزول نبیوں کی وفات کے بعد تک ہو تا رہا؟ اس سے ثابت ہے کہ موجودہ کتب اصل کتب نہیں ہیں اور نہ اب ان کا میسر آنا ممکن ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۲۵۰ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۶؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
سوال :۔ اگر ایسی خبر کو ئی مشہور ہو کہ مزارجی فوت ہو گئے ہیں تو کیا اس الہام کی بنا ء پر جو کہ حضور کو ۸۰ سال کے قریب عمر کے لیے ہوا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہیں یہ خبر با لکل جھو ٹی ہے؟
ہاں تم کہہ سکتے ہو کیو نکہ یہ الہام تو کتابوں اور اشتہاروں میں درج ہو چکاہے۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۵۰ ۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۷؍اگست ۱۹۰۳؁ء
سفرگوردا اسپور
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کر نا
آج طہر اورعصر کی نماز یں جمع کر کے حضرت اقدس گورداسپور کے لیے روانہ ہو ئے آپ کے ہمراہ صاحبزادہ میاں بشیر الد ین محمد د بھی تھے سٹیشن ۱؎ کے قریب جو سرائے تھی اس میں حضور علیہ السلام نے نزول فر مایا ۔ مغرب وعشاء کی نمازیں یہاں جمع کر کے پڑھی گئیں ۔
ولکم فیھا ماتشھی انفشکم ۱ ؎
حضور علیہ السلام نماز اور فرما رہے تھے اور آپ کی طبیعت نا سا زتھی کہ نمازکے اندر طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہو ئی کہ انگور ملیں تو وہ کھا ئے جا ئیں مگر چو نکہ نزدیک ودور ان کا ملنا محال تھا اس لیے ہو سکتا تھا کہ اس اثنا میں ایک صاحب جناب حکیم محمد حسین صاحب ساکن بلب گڈھ ضلع دہلی جو کہ حضرت اقفس کے مخلص خدا م سے ہیں قادیان سے واپس ہو کر حضرت اقدس کی خد مت میںحاضر ہو ئے اور انہوں نے ایک ٹوکر ی انگوروں اور دوسرے ثمرات مثل انار وغیرہ کے حضرت کی خدمت میں پیش کی اور بیان کیا کہ مجھے علم نہ تھا کہ حضورت بٹا لہ تشریف لا ئے ہیں مَیں قادیان چلا گیا وہاں معلوم ہو تو اسی وقت مَیں واپس ہوا اور یہ پھل حضور کے لیے ہیں۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۲۵۰۔۵۱ ۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳؁ء)
۱۸؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
ایک رؤیا ء
فجر کو اٹھ کر حضرت اقدس نے نماز جماعت ادا کی چو نکہ سفر کی تکان تھی۔۔۔۔
اس لیے آپ نے تھوڑی دیر آرام فر مایا اور پھر اٹھ کر فرش پر جلو ہ افروز ہو ئے اور یہ رؤیا بیان کی ۔
ایک خوان میرے آگے پیش ہوا ہے اس میں فا لودہ معلوم ہو تا ہے اور کچھ فیر نی بھی رکا بیوں میں ہے مَیں نے کہا کہ چمچہ لا ؤ تو کسی نے کہا کہ ہر ایک کھا نا عمدہ نہیں ہو تا سوائے فر نی اور فا لودہ کے۔
اس کے بعد آپ نے خدا کا کلام جو کہ آپ پر (نازل) ہوا سنا یا (پھر ) فرمایا کہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے تسلی
ہر ایک بات میں خدا تعالیی کا سلسلہ تسکین کا چلا آتا ہے جس سے ان لوگوں کا رد ہو تا ہے جو ان مقدموں پر اعتراض کر تے ہیں (یعنی ۲؎ اگر یہ مقدمات خدا تعالیٰ کی رضا مندی کا موجب اور دین کی تا ئید کا باعث نہ ہو تے تو پھر خدا تعالیٰ ان کے متعلق بشارت کیوں دیتا)
فرمایا کہ:۔ بعض کو تازہ اندیش ہی اعتراض کرتے ہیں ورنہ ہم اگر مقدمہ باز ہو تے تو جس وقت ڈگلس صاحب نے کہا تھا کہ تم مقدمہ کرو تو ہم اس وقت کر دیتے اور ایک تھیلا بھرا ہوا ہمارے پاس ہے جس میں گندی سے گندی گا لیاں دی گئی ہیں اگر ہم چا ہتے تو ان پر مقدمہ کرتے لیکن ہم نے محض اللہ صبر کیا ہوا ہے ۔فرمایا:۔
خدا کا کلام صیغہ واحد اور جمع میں
خدا تعالیٰ جب تو حید کے رنگ میں بولے تو وہ بہت ہی پیارا اور محبت کی بات ہو تی ہے اور واحدکا صیغہ محبت کے مقام پر بولا جاتا ہے جمع کا صیغہ جلا لی رنگ میں آتا ہے جہاں کسی کو سزا دینی ہو تی ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۵۱ ۲ مورخہ ۲۸؍اگست۱۹۰۳؁ء)
بلاتاریخ ۱؎
کتاب کیسا تھ استا د کی ضرورت
بعض احباب آمدہ از لا ہور نے عبداللہ چکڑالوی صاحب کے خیالا ت اور عتقادات کا ذکر کیا۔
اس پر حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حکم اور عدل نے فرمایا کہ :۔
ہر ایک شئے کے لیے استا د کی ضروت ہے ور نہ تم دیکھ لو جس قدر تصانیف ہر ایک فن اور علم کے متعلق موجود ہیں کیا مصنفین نے اپنی طرف سے کو ئی بخل رکھا ہے ہر ایک بات کی بڑی تفصیل کی ہے اگر بخل کا ظن ہو سکتا ہے تو ایک پر ہو گا دو پر ہو گا نہ لا کھو ں پر مگر تا ہم دیکھا گیا ہے کہ علم کا خاصلہ ہی یہی ہے کہ بلا استاد کے نہیں آتا اور نبی بھی ایک استاد ہو تا ہے جو کہ خدا کی کلام کو سمجھا کر اس پر عمل کر نے کا طریق بتلا تا ہے دیکھو مَیںالہام بیان کرتا ہوں تو ساتھ ہی تغیم بیان کر دیتا ہوں اور یہ عادت نہ انسانوں میں دیکھی جاتی ہے نہ خدا میں کہ ایک علمی بات بیان کر کے پھر اسے عملدرآمد میں لا نے کے واسطے نہ سمجھا وے ۔جو استا د کا محتاج نہیں ہے۔ وہ ضرور ٹھو کر کھا ئے گا جیسے طبیب بلا استاد کے طبا بت کر ے تو دھو کا کھا وے گا ایسے ہی جو شخص بلا تو سل آنحضرت ﷺ کے اگر خود بخود قرآن سمجھتا ہے تو ضرور دھو کا کھا وے گا۔
مفتری کا انجام
فرمایا:،
مفتری تھک جاتا ہے اور اس کا پول خود لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے اور یا اسے ذلت دامنگیر ہو تی ہے کیو نکہ روز بروز کیسے افتراء کر سکتا ہے افتراء جیسی کچی شئے کو ئی نہیں ہو تی حتیٰ کہ شیشہ بھی اتنا کچا نہیں ہو تاس جس قدر افتراء ہو تا ہے اور چو نکہ مفتری کے بیان میں قوت ِجاذبہ نہیں ہو تی ۔اس لیے اس کی بد بو بہت جلد پھیل جا تی ہے ۔
قتل ِانبیاء کا مسئلہ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ توریت میں جھوٹے نبی کی یہ علا مت لکھی ہے کہ وپ قتل کیا جاوے اور ادھر ایسی عبادتیں بھی ہیں کہ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ بعض نبی قتل ہو ئے تو پھر وہ علا مت کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟فرمایا :۔
راستباز کی یہی نشانی ہے کہ جس مطلب کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا جب تک وہ پورا نہ ہو لے یا کم ازکم اس کے پورا ہو نے کی ایسی بنیا د نہ ڈال دے کہ اسے تنزل نہ ہو تب تک وہ نہ مرے مگر ایک لذاب سے یہ بات کام پورا کر چکے تو پھر خود مر جاوے یا کسی کے ہاتھ سے مارا جاوے تو کیا موت تو بہرحال آنی ہی ہے کسی صورت میں آگئی اس میں کیا حرج ہے اور کا میابی کی موت پر کسی بھی تعجب نہیں ہوا کرتا اور نہ دشمن کو خوشی ہو تی ہے قرآن شریف کے صریح الفاظ سے یہ بات معلوم نہیں ہو تی کہ خدا تعالیٰ نے قتل نبی حرام کیاہو بلکہ آنحضرتﷺ کی نسبت لکھا ہے
افا ئن مات او قتل (ال عمران :۱۴۵)
جس سے قتل ِابنیا ء کا جواز معلوم ہو تا ہے اس پر کو ئی رنج نہیں کرتا بلکہ خوشی کر تے ہیں اور جو خدا کے اہل ہو تے ہیں ان کا قتل تو ان کے لیے زندگی ہے کہ اپنے قائمقام ہزاروں چھوٹ جاتے ہیں ۔
آنحضرتﷺ کی آمد اس وقت ہو ئی کہ زمانہ
ظھر الفساد فی البر وا لجبر(الزوم :۴۲)
کا مصداق تھا اور گئے اس وقت جبکہ
اذجا ء نصراللہ والفتح(النصر :۲)
کی سند آپ کو مل گئی پس اگر آپؐ کو کا میابی نہ ہو تی لیکن آپ کسی کے ہاتھ سے قتل بھی نہ ہو ئے تو اس سے کیا فائدہ تھا؟ اور یہ کو نسا مقام فخر کا ہے ہاں جب ایک شخص سلطنت قائم کرتا ہے اور اپنے قائمقام مظفر ومنصور چھوڑتا ہے تو کیا پھر دشمن کی خوشی کا موجب ہو سکتا ہے ؟ بڑی سے بڑی ذلت یہ ہے کہ نا کا می اور نا مرادی کی موت آوے پس اگر آنحضرتﷺ اس کا میابی کی حالت میں قتل کئے جاتے تو اس سے آپ کی شان میں کیاحرف آسکتا تھا ؟ یہ بھی لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو زہر دی گئی تھی آپ کی موت میں اس زہر کا بھی دخل تھا مگر ہم کہتے ہیں کہ جب آپ کی موت ایسی حالت میں ہو ئی کہ کا فر اس بات سے نا امید ہو گئے کہ ان کا دین پھر عود کر یگا تو ایسی حالت میں اگر آپ زہر یا قتل سے مرتے تو کو نسی قابل ِاعتراض بات تھی؟ دین تو تباہ نہیں ہو سکتا تھا غرضیکہ توریت میں جس قتل کا ذکر ہے تو اس سے نا مرادی اور نا مامی کی موت مردا ہے حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قریبی رشتہ دار تھے یحییٰ ؑ کے قتل ہو جانے سے دین پر کو ئی تبا ہی آسکتی تھی اگر یحییٰؑ قتل ہو ئے تو پھر عیسیٰؑ ان کی جگہ گھڑے ہو گئے لیکن یہ بھی یادر کھنا چا ہیئے۔ کہ یحییٰؑ کو ئی صاحب شریعت نہ تھے ہو سکتا ہے کہ یہ وعدہ تو ریت کا صاحب شریعت کے لیے ہو۔ انگریزوں اور سکھوں کی لڑائیاںہو تی رہیں سکھ لوگ ان میں اکثر انگریزوں کوقتل کر تے رہے لیکن اب جس حالت میں کہ انگریز فاتح اور بادشاہ ہیں تو کیا سکھ یہ فخرکر سکتے ہیں کہ ہم نے اس قدر انگریزوں کو قتل کیا یہ کو ئی جگہ فخر کی نہیں ہے کیو نکہ آخر میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا زند ہ وہ ہو تا ہے جس کا سکہ چلے آنحضرتﷺ کے بعد اب کروڑ ہا مسلمان موجو د ہیں اور ابو جہل کے بعد اس کا تا بع کو ئی نہیں بلکہ اس کی اوکاد ہو نے کاس کو ئی نام نہیں لیتا تو کیا اب ابو جہل کی طرف سے کو ئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کو فلاں جگہ شکست دی تھی یا کو ئی بیوقوف اگر یہ کہے کہ ہوا کیا آنحضرتﷺ بھی مر گئے اور ابو جہل بھی تو یہ اس کی غلطی ہے مقابلہ تو کا میا بی سے ہو تا ہے ابو جہل کا نام ندارد اور آنحضرتﷺ کا تو تخت موجود ہے انبیاء کو خدا ذلیل نہیں کرتا انبیاء کی قوتِ ایمانی یہ ہے کہ خدفا کی راہ میں جان دے دینا وہ اپنی سعادت جا نیں اگر کو ئی موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر نظر ڈال کر اس سے یہ نتیجہ نکا لے کہ وہ ڈرتے تھے تو یہ بالکل فضول امر ہے اور امر ڈر سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ ان کو جان کی فکر تھی بلکہ ان کو یہ خیال تھا کہ منصب ِرسالت کی بجاآوری میں کہیں اس کا اثر برا نہ پڑے۔
میرے نزدیک مومن وہی ہے کہ اگر اس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جان نہ دی ہو تو وہ روحانی طور پر ضرور جان دے کر شہید ہو چکا ہو پس اگر موسیٰؑ کو جان کا ہی خوف تھا تواس سے (اگر یہ افواہ سچ ہے کہ شہزادہ پیر مولوی عبداللطیف خاں صاحب سنگسار کر کے مارے گئے ہیں ) عبداللطیف صاحب ہی اچھے رہے جنہوں نے ایمان نہ دیا اور جان دیدی پس ہمارا تو یہی خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس یہ خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ مَیں نا مراد مارا جاؤں اور فرض ِرسالت ادا نہ ہو۔
اگر کسی بات میں شر ہو تو یہ عادت اللہ نہیں کہ وہ مجھے اطلاع نہ دے۔
مہمان نوازی
آپ نے منتظمان باورچی خانہ کو تا کید کی کہ
آج کل موسم بھی خراب ہے اور جس قدر لوگ آئے ہو ئے ہیں یہ سب مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کر نا چاہیئے اس لیے کھا نے وغیرہ کا انتظام عومدہ ہو اگر کو ئی دودھ ما نگے دودھ دو چا ئیما نگ چا ئے دو کو ئی بیمار ہو تو اس کے موافق الگ کھا نا اسے پکادو۔
۲۰؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
بوقت شام
مامور کی دشمنی
فرمایا کہ:۔ دشمنی دشمنوں کی یہ بھی ایک قبولیت ہو تی ہے اور منجانب اللہ نصیب ہو تی ہے اکثر لوگوں کا خیال ہو تا ہے کہ رسول عالم الغیب ہو تے ہین چنا نچہ بعض تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت یہ خیا ل رکھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ عالم الغیب ہو نے کا ہے اس پر آپ نے فرمایا کہ:۔
یہ ان لوگوں کی غلطی ہے عالم الغیب ہو نا اور شئے ہے اور مویدمن اللہ ہو نا اور شئے ہے۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۵۸ ۲ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۲۱؍اگست ۱۹۰۳؁ء
وحی منقطع ہو گئی ہے َیا برابر جا ری ہیَ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ انقطاعِ وحی کی نسبت جو حکم آچکا ہے تو پھر اب وحی کیوں ہو ئی اور آجتک سوائے جناب کے اور کسی نے کیوں صاحب وحی ہو نے کا دعویٰ نہ کیا ؟
حضرت اقدس :۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آجتک کسی نے دعویٰ نہ کیا ؟
حضرت اقدس :۔ آپ کی معلومات تو چند ایک کتابیں حدیث کی یا اور دوسری ہو نگی اس سے کیا پتہ لگتا ہے اگر اس میں الف لام کی رعایت نہ کی جاوے تو پھر اس سے بہت سے فساد لا زم آویں گے اور انسان ضلالت میں پڑے گا یہ امرضروری ہے کہ وحی شریعت اور وحی غیر شر یعت میں فرق کیا جاوے بلکہ اس امتیاز میں تو جانوروں کو جو وحی ہو تی ہے اسکو بھی مد نظر رکھا جاوے بھلاپ بتلاویں کہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے
وادحی ربک الی النحل (النحل :۶۹)
تو اب آپ کے نزدیک شہد کی مکھی کی وحی ختم ہو چکی ہے یا جاری ہے ؟
سائل :۔ جاری ہے ۔
حضرت اقدس :۔ جن مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہو ئی تو انسانوں پتر جو وحی ہو تی ہے وہ کیسے منقطع ہو سکتی ہے ہاں یہ فرق ہے کہ ال کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کا الگ کیا جاوے ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہو تے رہے ہیں اور ہو تے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہو ۔حضرت مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں ۔ اور اگر اس سے یہ مانا جاوے کہ ہر ایک قسم کی وحی منقطع ہو گئی ہے تو یہ لا زم آتا ہے کہ امور شہودہ اور محسوسہ سے انکار کیا جاوے اب جیسے کہ ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ خدا کی وحی نازل ہو تی ہے پس اگر ایسے شہود اور احسا س کے بعد کو ئی حدیث اس کے مخالف ہو تو کہا جا ویگا کہ اس میں غلو ہے خود غزنوی والوں نے ایک کتاب حال میں لکھی ہے جس میں عبداللہ غزنوی کے الہامات درج کئے ہیں ۔
پھر جس حال میں یہ سلسلہ مو سوی سلسلہ کے قدم بقدم ہے اور موسوی سلسلہ میں برابت جاری رہی تھی حتیٰ کہ عورتوں کو وحی ہو تی رہی تو کیا وجہ کہ محمدی سلسلہ میں وہ بند ہوکیا اس امت کے ا خیار ان عورتوں سے بھی گئے گذ رے ہو ئے ؟
علاوہ اس کے اگر وحی نہ ہو تو پھر
اھدنا الصراط المستقم صراط الذین انعمت علیھم (الفاتحۃ:۶۔۷)
کے کیا معنے ہوں گے کیا یہاں انعام سے مراد گو شت پلاؤ وغیرہ ہے یا خلعتِ نبوت اور مکا لمہ الہیٰ وغیرہ جو کہ انبیاء کو عطا ہو تا رہا غرضیکہ معرفت تما م انبیاء کو سوائے وحی کے حاصل نہیں ہو سکتی جس غرض کے لیے انسان اسلام قبول کرتا ہے اس کا مغر یہی ہے کہ اسکے اتباع سے وحی ملے اور پھر اگر وحی منقطع ہو ئی مانی بھی جاوے تو آنحضرت ﷺ کی وحی منقطع ہو ئی نہ اس کے فلاں اور آثار بھی منقطع ہو ئے ۔
مسئلہ بروز
سائل :، بروز کسے کہتے ہیں؟
حضرت اقدس :۔ جیسے شیشہ میں انسان کی شکل نظر آتی ہے حالا نکہ وہ شکل بذات ِخود الگ قائم ہو تی ہے اس کا نام بروز ہے اس کا سر سورۃ فاتہ میںہی ہے جیسے کہ لکھا ہے
اھدنا الصراط المستقم صراط الذین انعمت علیھم ولا الضالین ْ(الفاتحۃ:۶۔)
تمام مفسروں نے مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہین اور پھر یہ آیت
تم جعلنا کم خلئف فی الا رض من بعد ھم لنظر کیف تعلمون (یو نس :۱۵)
اور آیت
ویستخلفکم فی الا زض فینظرکیف تعلمون(الا عراف :۱۳۰)
یہ آیتیں بھی اس کی طرف اشارہ کر تی ہیں ایک دن میں سے اہل اسلام کی نسبت ہے اور ایک یہود کی نسبت پس مقابلہ سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعا لیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر طرح کا انعام کروں گا اور پھر دیکھو نگا کہ کس طرح شکر کر تے ہو ۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اہل یہود کو کو نسی بڑی مصیبت تھی تو وہ دو بڑی مصیبتیں ہیں ایک یہ کہ عیسی ٰ علیہ السلام کا انکا ر کیا گیا اور ایک یہ کہ محمد ﷺ کا انکار کیا گیا پس مماثلت کے لحاظ سے مسلمانوں کے لیے بھی وہی دو انکار لکھے تھے مگر وہاں شمار میں الگ الگ دو وجود تھے اور یہاں نام الگ الگ ہیں مگر وہ وجود جس میں ان دونوں کا بروز ہو ایک ہی ہے ایک بروز عیسوی اور ایک محمدی ۔اور صرف نام کے لحاظ سے اہل اسلام یہود کے بروز اس طرح سے قرار پا ئے کہ انہوں نے مسیح اور محمدﷺ کا انکار کر دیا اور وہ مماثلت پوری ہو گئی اور آیا ت سے ثابت ہو تا ہے کہ اس امت میں بروزی طور پر وہی کر توت یہودیوں والی پوری ہو نی تھی اور یہ اس طرف اشارہ کرتی تھیں کہ آنے والا دورنگ لے کر آویگا ۔اسی لیے مہدی اور مسیح کے زمانی کی علامت ایک ہی ہیں اوران دونو کا فعل بھی ایک ہی ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۳ صفحہ۲۵۸،۲۸۹ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۲۲؍اگست ۱۹۰۳؁ء
اشاعت ِفحش سے بچیں
عام طور پر ایک مرض لوگوں میں دیکھی جاتی ہے کہ اگر کو ئی شخص کسی مرد یا عورت کی نسبت یہ بیان کر ے کہ وہ بد کار ہے یا اس کا دوسرے سے تعلق بد کاری کا ہے تو چو نکہ نفس ایسے معلومات کی وسعت سے لذت پاتا ہے اس لیے اس راوی کے بیان پر بلا تحقیق یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ با لکل سچا ہے اور اسے شہرت دینے میں سعی کی جا تی ہے اور اس طرح سے نیک مراد اور نیک عورتوں کی نسبت نا پاک خیال لوگوں کے دلوں میں متمکن ہو جاتے ہیں اور جن کی شہرت ہو تی ہے ان کے دلوں پر اس سے کیا صد مہ گذرتا ہے اس کو ہر ایک محسوس نہیں کر سکتا اسی لیے خدا تعالیٰ نے ایسی شہرت دینے والوں کے لیے اسی۸۰ درے سزا مقرر فر مائی ہے ۔
اس مضمون کے متعلق حضرت اقدس نے فرما یا کہ
خدا تعالیٰ نے اپنی پا ک کلام میں شہرت د ینے والوں کے لیے بشرطیکہ وہ اسے ثابت نہ کر سکیں اسی۸۰ درے سزا رکھی ہے اس لیے کہ جو شہرت دیتا ہے اسے اس مقدمہ میں مدعی گردانا گیا ہے اور اسی سے چار گواہ طلب کئے گئے ہیں کہ اگر وہ سچا ہے تو اپنے علاوہ چا ر گواہ رویت کے لاوے یہ غلطی ہے کہ ایسے شخص کو بھی گواہوں میں شمار کیا جاوے ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۲ صفحہ۲۵۹ مورخہ ۴؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۲۴؍ اگست ۱۹۰۳؁ء
ایک رؤیا
حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رؤیا بوقت عصر سنا یا ۔ فرمایا کہ :۔
مَیں نے دیکھا کہ ایک بلی ہے اور گو یا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے وہ اس پر حملہ کر تی ہے ۔بار بار ہٹا نے سے باز نہیں آتی تو آخر مَیں نے اس کا ناک کا ٹ دیا ہے اور خون بہہ رہا ہے پھر بھی با ز نہ آئی تو مَیں نے اسے گردن سے پکڑکے اس کا منہ زمین سے رگڑنا شروع کیا بار بار رگڑ تا تھاس لیکن پھر بھی سر اٹھا تی جا تی تھی تو آخر مَیں نے کہا کہ آؤ اسے پھا نسی دیدیں ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۴ صفحہ۶۵ ۲ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۳۱اگست ۱۹۰۳؁ء
مسلمانوں کے ادبار کا باعث
اہل اسلام کے ادبار اور ان کے تنزل کا ذکر ہوا فرمایا کہ:۔ اس کا باعث خود ان کی شامت ِاعمال ہے کیو نکہ زمین پر کچھ نہیںہو تا جبکہ اول آسمان پر نہ ہو ئے اکثر لوگ حکام کی سختی اور ظلم کی شکایت کیا کرتے ہیں لیکن اگر یہ لوگ خود ظالم نہ ہوں تو خدا تعالیی ان پر کبھی ظالم حاکم مسلط نہ کرے زمانہ کی حالت کا اندازہ اسی سے کر لو کہ ہم ہزاروں روپے دینے کو تیا ر ہیں کہ کو ئی جماعت آکر یہاں رہے ہم ان کی مہمان نوازی کر یں اور حتیٰ الوسع ہر ایک قسدم کا آرام دیں اور وہ شر افت سے اپنے شکو ک وشبہات پیش کر یں اور قرآن اور احادیث ِصحیحہ سے ہماری با تیں سنیں اور پھر سمجھیں اور غور کریں کہ جو کچھ عقیدہ اسلام کے متعلق انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے اس کے کسقدر فساد اور ہتک اسلام کی اورآنحضرت ﷺ کی لازم آتی ہے اور عیسائئیوں کو کس قدر مدرملتی ہے مگر ان لوگوں کو پروا نہیں ہے گھر بیٹھے ہی دو دوپیسہ کی کتا بیں بنا کر جو کچھ جھوٹ اور افتراء چا ہتے ہیں لکھدیتے ہیں( جب مذہب کے بارے میں اس قدر بے پروا ہیء ہے تو کیوں ان پرادبار نہ آوے)
اللہ تعالیٰ پر ایمان لا نے کی حقیقت
ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شرئف میں جو یہ لکھا ہے کہ خواہ کو ئی یہودی ہو خواہ صابی ہو خواہ نصرانی ہو تو جو کو ئی اللہ پر اور یوم پر ایمان لا دے تو اسے حزن نہ ہو گا تو اس صورت میں اکثر ہند ولوگ بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ وہ نجات پاویں کیو نکہ وہ رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اگر چہ عمل نہیں کر تے اور ان کی تغظیم کر تے ہیں ۔فر ما یا :۔
اللہ پر ایمان لا نے کے معنے آپ کیا سمجھے ہو ئے ہیں کیا اد کے یہ معنے ہیں کہ عیسیٰؑ پر ایمان لا وے وہ بھی اللہ پر ایمان لا نے والا ہے ؟اللہ پر ایمان لا نے کے یہ معنے ہیں کہ اسے ان تمام صفات سے مو صوف مانا جاوے جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے مثلاً رب۔رحمنٰ۔ رحیم ۔ تمام محامد والا ۔رسولوں کو بھیجنے والا ۔آنحضرتﷺ کو بھیجنے والا اب آپ ہی بتلا ویں کہ قرآن شریف میں لفظ اللہ کے یہ معنے ہیں کہ نہیں ؟پھر جو شخص آنحضرت ﷺ کو نہیں ما نتا قرآن کو نہیں ما نتا تو اس نے کیا اس اللہ کو ماناجیسے قرآن نے پیش کیا ہے جیسے گلاب کے پھول سے خوشبو دور کردی جاوے تو پھر وہ گلاب کا پھول پھول نہیں رہتا اور اسے پھینک دیتے ہیں پس اسی طرح اللہ کا ماننے والا وہی ہو گا جو اسے ان صفات کے سا تھ ما نے جو قرآن نے بیان کئے ہیں ۔
سائل:۔ لیکن بعض ہندو آنحضرتﷺ کی رسالت کا قرار کر تے ہیں اگر چہ برائے نا م ہند و ہیں اور عمل بھی ہندوؤں والے تو یہاں چو نکہ لفظ ایمان کا ہے کہ جو ایمان لا دے تو پھر وہ مستحق ہیں کہ نہیں کہ ان پر خوف اور حزن نہ ہو ۔
فرمایا کہ :۔
اقرار اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جبکہ انسان اس پر عمل کر ے اگر انسان نماز روزہ وغیرہ کا اقرار تو کیا کرتا ہے مگر فعل ایک دن بھی بجانہیں لاتا تواس کا نام اقرار نہ ہو گا اگر لوگ کے ساتھ ایک شخص کئی اقرار کر ے کہ مَیں یہ کروںب گا وہ کروں گا لیکن عملی طور پر ایہک بھی پورا نہ کرے تو کیا تم اس کے اقرار کو کہو گے ؟
عذاب کی حقیقت
سائل:۔ چو نکہ اس کا اقرار زبان سے تو ہے اس لیے عذاب میں تو ضرور رعایت چا ہییے۔
ہمارا مذہب یہ ہے کہ دنیا میں جو عذاب ملتے ہیں وہ ہمیشہ شوخیوں اور شرارتوں سے ملتے ہیں انبیاء اور مامورین کے جس قدر منکر گذرے ہیں ان پر عذاب اسی وقت نازل ہو ا جبکہ ان کی شرارت اور شوخی حد سے تجاوز کر گئی اگر وہ لوگ حد سے تجاوز نہ کرتے تو اصل گھر عذاب کا آخرت ہے ور نہ اس طرح سے دیکھ لو کہ ہزاروں کافر ہیں جو کہ اپنا کاروبار کر تے ہیں اور پھر کفر پر ہی مرتے ہیں مگر دنیا میں کو ئی عذاب ان کو نہیں ملتا اس کی وجہ یہی ہے کہ مامورین اللہ کے مقابلہ پر آکر شوخی اور شرارت میں حد سے نہیں بڑھتے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آخرت میں بھی ان کو عذاب ہو گا دنیاوی عذاب کے لیے ضروری ہے کہ انسان تکذیب ِمرسل ،استہزاء اور ٹھٹھے میں اور ایذاء میں حد سے بڑھے اور خدا کی نظر میں ان کا فساد ،فسق اور ظلم اور آزار نہایت درجہ پر پہنچ گیا ہو ۔
اگر ایک کافر مسکین صورت رہے گا اور اس کا خوف دامنگیر ہو گا تو گو وہ اپنی ضلالت کی وجہ سے جہنم کے لا ئق ہے مگر عذاب نیوی اس پر نازل نہ ہو گا ۔
اگر کفار مکہ چپ چا پ اور اخلاق سے آنحضرتﷺ سے پیش آتے تو یہ عذاب ان کو جو ملا ہر گز نہ ملتا ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ففسقو افیھا فحق علیھا القول فدمر نھا تد میر اً(بنی اسرا ئیل:۱۷)
کہ جب کسی بستی کے ہلاک کر نے کا ارادہ الہیٰ ہو تا ہے تو اس وقت ضرور وہاں کے لوگ بد کا یوں میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں ۔
پھر ایک اور جگہ ہے
وما کنا مھلکی القری الا واھلھا ظالمون(المصص:۶۰)
جس سے ثابت ہے کہ کو ئی بستی نہیں ہلا ک ہو تی مگر اس حالت میں کہ جب اس کے اہل ظلم پر کمر بستہ ہوں فسق کے معنے حد سے تجاوز کر نے کے ہیں۔
اب دیکھو ہزاروں ہندو ہیں مگر ما نتے نہیں انکار کر تے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ سب کو چھوڑ کر لیکھرام کے پیٹ میں چھری چلی ؟اس کی وجہ اس کی زبان تھی کہ جب اس نے اسے بیبا د کا نہ کھو لا اور آنحضرتﷺ کو سب وشتم کر نے میں حد سے بڑھ گیا اور ایک مد مقابل بن کر خود نشان طلب کیا تو وہی اس کی زبان چھری بن کر اس کی جان کی دشمن ہو گئی غرضیکہ اصل گھر عذاب کا آخرت ہے اور دنیا میں عذاب شوخی ،شرارت میں حد سے تجارز کر نے سے آتا ہے ہندواؤں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ پر پیشر اور رعت کا بیر ( دشمنی ) ہے عت کے معنے حد درجہ تک ایک بات کو پہنچا دینا (عت کا لفظ عربی ہے جیسے قرآن شریف میں عتو ہے )۔
تفاوت وطبقات ِعذاب
مَیں اس بات کا قائل نہیں ہو ں کہ عذاب یکساں سب کو ہو کفر سب ایک جیسے نہیں ہو تے تو عذاب کیسے ایک جیسا سب کو ہو بعض کا فر ایسے ہیں کہ ایسے پہاڑوں میں رہتے ہیں کہ وہاں اب تک رسالت کی خبر نہیں اسلام کی خبر نہیں تو ان کا کفرابو جہل والا کفر تو نہ ہو گا جس حال میں ایک نہایت درجے کا شریر اور مکذب باوجود علم کے پھر انکار کرتا رہے۔ تو اسکے عذاب اور دوسرے کے عذاب میں جو اس قدر شرارت نہیں کر تے ضرور فرق ہو نا چا ہیئے ،لیکن ان طبقات عذاب کی کہ یہ کسقدر ہیں اور کس طرح سے ان کی تقسیم ہے اس کی ہمیں خبر نہیں اس کا علم خدا کو ہے ہاں چو نکہ خدا کی طرف ظلم منسوب نہیں ہو سکتا اس لیے طبقات کا ہو نا ضروری ہے ۔
ہمارا مذہب
احادیث کی نسبت ذکر ہوا اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنا مذہب بتلا یا کو کہ اکثر شا ئع ہو چکا ہے کہ
سب سے مقدم قرآن ہے اس کے بعد سنت اس کے بعد حدیث۔
اور حدیث کی نسبت فر ما یا کہ:۔
ضعیف سے ضعیف حد یث بھی بشر طیکہ وہ قرآن کے معارض نہ ہواس پر عمل کر نا چا ہیئے کیو نکہ جس حال میں وہ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کی جا تی ہے تو یہ ادب اور محبت کا تقاضا ہو نا چا ہیئے کہ اس پر عملدراآمد ہو اور ہمارا یہ مدعا ہر گز نہیں کہ ائمہ دین کی ان کو ششوں کو جو محض دین کے لیے انہوں نے کیں ضائع کر دیویں ہم صرف یہ چا ہتے ہیں کہ جس حال میں کو ئی بات ان کی یا کو ئی حدیث ہی باوجود تا ویلات کے بھی قرآن شریف سے مطا بقت نہ کھا وے تو پھر قرآن کو مقدم رکھ کر اسے ترک کر دیا جاوے کیو نکہ جب ضدین جمع ہو نگی تو ایک کو تو ضرور ترک کر نا پڑے گا اس صورت میں تم قرآن کو ترک مت کرو اور اس کے غیر کو ترک کردو ۔مثلاً ایک مسئلہ وفات ِمسیح کا ہی ہے جس حال میں قرآن شریف سے وفات ثابت ہے تو اب ہم اس دوسری حدیث کو جو اس کے مخالف ہو یا کسی کے قول کو کیوں ما نیں ؟ آیت
فلما تو فیتنی کنت انت الرقیب علیھم(المائدۃ:۱۱۸)
میں دو باتیں خدا تعالیٰ نے بیان کی ہیں ایک تو مسیحؑ کی وفات دوسرے اس کے دنیا میں آنے کی نفی کی ہے کیو نکہ اور وہ قیامت سے پیشتر دنیا میں دوبارہ آچکا ہے تو اس کا
کنت انت الرقیب علیھم
کہنا غلط ہے اس صورت میں یا تو مسیحؑ جھوٹے ہوں گے یا نعوذباللہ جھوٹ کا الزام خدا تعالیٰ پر آوے گا تو ایسی صورت میں ہم قرآن کو مقدم رکھیں گے جس نے وفات کو بڑے بین طور پر ثابت کر دیا ہے ۔
عورتوں کیلئے جمعہ کا استثناء
ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا۔
حضرتاقدس نے فرما یا کہ:۔ اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاویاور جو امر سنت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اسکی تفسیر کیا کر سکتے ہیں آنحضرتﷺ نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کیلئے ہی رہا۔
احتیاطی نماز
اہل اسلام میں سے بعض ایسے بھو لے بھا لے بھی ہیںکہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں تو پھر اس کے بعد اس احتیار سے کہ شاید جمعہ ادا نی ہوا ہو ۔ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہوا ہے اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرما یا کہ
یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کو ئی نماز بھی نہیں ہو تی کیو نکہ نیت میں اس امر کا یقین ہو نا ضروری ہے کہ مَیں فلاں نماز ادا کر تا ہوں اور جب نیت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہو ئی ؟ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۴ صفحہ۶۵ ۲۔۲۶۶ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
یکم ستمبر ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
ایک رؤیا
فرمایا کہ:۔
آج خواب میں ایک فقرہ منہ سے یہ نکلا
فیئر مین fair man
خدا شنا سی کا واحد ذریعہ
فرما یا :۔
خدا کی شناخت کے واسطے سوائے خدا کے کلام کے اور کو ئی ذریعہ نہیں ہے ملا خط مخلوقات سے انسان کو یہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی اس سے صرف ضرورت ثابت ہو تی ہے پس ایک شئی کی نسبت ضوروت کا ثابت ہو نا اور امر ہے اور واقعی طور پر اس کا موجود ہو نا اور امر ہے یہی وجہ ہے کہ حکما ء متقدمین سے جو لوگ محض قیاسی دلائل کے پا بند رہے ہیں اور ان کی نظر صرف مخلوقات پر رہی انہوں نے اس میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور کامل یقین ان کوجو ہے کے مرتبہ تک پہنچا تا ہے نصیب نہ ہوا یہ صرف خدا کا کلام ہے جو یقین کے اعلیٰ مراتب تک پہنشا تا ہے خدا کا کلام تو ایک طور سے خدا کا دیدا ر ہے اور یہ شعر اس پر خوب صادق آتا ہے ؎
نہ تنہا عشق از دیدار خیز د ؛ بسا کیں دو لت از گفتار خیز د
خدا تعالیٰ قادر ہے کہ جس شئے میں چا ہے طاقت بھردیوے پس اپنے دیدار والی طاقت اس نے اپنی گفتار میں بھردی ہے انبیاء نے اسی گفتار پر ہی تو اپنی جا نیں دیدی ہیںکیا کو ئی مجازی عاشق اس طرح کر سکتا ہے؟ اس گفتار کی وجہ سے کو ئی نبی اس میدان میں قدم رکھ کر پھر پیچھے نہیں ہٹا اور نہ کو ئی کبھی بے وفا ہوا ہے جنگ ِاحد ۱؎ کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی اس وقت جلالی تجلی تھی اور سوائے آنحضرتﷺ کے اور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی اس لیے آپ وہاں ہی کھڑے رہے اور با قی صحاب کا قدم اکھڑ گیا آنحضرتﷺ کی زندگی میں جسے اس صدق وصفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپ کو خدا سے تھا ایسا ہیء ان الہیٰ تا ئیدات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جو آپ کے شاملِ حال ہیں مثلاً آپ کی بعثت اور رخصت کا وقت ہی دیکھ لو۔
مسیح کا آسمان پر جا نا
بار بار خیال آتا ہے کہ اگر مسیحؑ آسمان پر گئے تو کیوں گے؟ یہ ایک بڑا تعجب خیز امر ہے کیو نکہ جب زمین پر ان کی کارروائی دیکھی جا تی ہے تو بیسا ختہ ان کا آسمان پر جانا اس شعر کا مصداق نظر آتا ہے ؎
تو کارِزمیں رانکو ساختی ؛ کہ باآسماں نیز پر داختی
گو یا یہ شعر با لکل اس واقعہ کے لیے شاعر کے منہ سے نکلا ہے کو ئی پو چھے کہ انہوں نے آسمان پر جا کر آج تک کیا بنا یا اگر زمین پر رپتے ہیں تو لوگوں کو ہدا یت ہی کر تے مگر اب دو ہزاربرس تک جو ان کو آسمان پر بٹھاتے ہیں تو ان کی کاروائی کیا دکھلا سکتے ہیں جو بات ہم کہتے ہیں اور جس کی تا ئید میں قرآن اور حدیث بھی ہمارے سا تھ ہے وہ ان کی شانِ نبوت کے ساتھ خوب چسپاں ہو تی ہے ۔کہ جب ان لوگوں نے حضرت مسیحؑ کو نہ ما نا تو آپ دوسرے نبیوں کی طرح دوسرے ملک میں ہجرت کرکے چلے گئے۔
اور پھر ایسے فرضی اوصاف ان کے لیے وضع کر تے ہیں جن سے آنحضرتﷺ کی ہتک اور ہجو ہو کیو نکہ آنحضرتﷺ سے کفار نے سوال کیا کہآپ آسمان پر چڑھ کر بتلا ویں تو آپ نے یہ معجزہ ان کو نہ دکھلا یا اور
سبحان ربی (بنی اسرائیل:۹۴)
کا جواب دیا گیا اور یہاں بلا درخواست کسی کا فر کے خود خدا تعالیی مسیحؑ کو آسمان پر لے تو گا یا خدا تعالیی نے خود آنحضرتﷺ کو کفار کی نظروں میں ہیٹا کرنا چا ہا کیا وہ خدا اور تھا اور یہ اورتھا؟
اگر چہ لوگ ہمیں ایسی باتوں سے کافر دجال وغیرہ کہتے ہیں مگر یہ ہمارا فخر ہے کیو نکہ قرآن کی تا ئید اور آنحضرت ﷺ کی عظمت قائم کر نے کے لیے یہ خطابات ہمیں ملتے ِہیں ؎
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ منحمر م ؛ گر کفر ایں بود بخدا سحت کافر م
مسئلہ تقدیر
آریہ لوگ اعرتاض کر تے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے
ختم اللہ علی قلو بھم(البقرۃ:۸)
کہ خدا نے دلوں پر مہر کر دی ہے تو اس میں انسان کا کیا قصور ؟یہ ان لوگوں کی کو تا ہ اند یشی ہے کہ کلام کے ما قبل اور ما بعد پر نظر نہیں ڈالتے ورنہ قرآن شرئف نے صاف طور پر بتلا یا ہے کہ مہر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے لگتی ہے یہ دراصل انسانی افعال کا نتیجہ ہے کیو نکہ ایک فعل انسان کی طرف سے صادر ہو تا ہے تو سنت اللہ یہی ہے کہ ایک فعل خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی صادر ہو جیسے ایک شخص جب اپنے مکا ن کے ادروازے بند کر دے تو یہ اس کا فعل یہ صادر ہو گا کہ اس مکان میں اندھیرا کر دے کیو نکہ روشنی اندر آنے کے جوذریعے تھے وہ اس نے خود اپنے لیے بند کر دیئے ۔اس طرح اس مہر کے اسباب کا ذکر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں دوسری جگہ کیاہے جہاں لکھا ہے
فلما زاغواازاغ اللہ قلو بھم ( الصف:۶)
کہ جب انہوں نے کجی اختیار کی تو خدا نے ان کو کج کر دیا ۔ اسی کا نا م مہر ہے لکین ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مہر کو دور نہ کر سکے چنا نچہ اس نے اگر مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جب سے یہ مہر اٹھ جا تی ہے جیسے کہ یہ فر مایا ہے
فانہ کان للووابین غفورا (بنی اسرائیل)
لیکن کیا آریوں کا پر پیشر ایسا ہے کہ تناسخ کی رو سے جو مہر وہ ایک انسان پر لگا تا ہے پھر اسے اٹھا سکے؟ گنا ہ کا یہ نتیجہ ضرور ہو تا ہے کہ وہ دوسرے گنا ہ کی انسان کو جرأ ت دلا تا ہے اور اس سے قساوت قلبی پیدا ہو تی ہے حتیٰ کہ گنا ہ انسان کو مر غوب ہو جا تا ہے لیکن ہمارے خدا نے تو پھر بھی تو بہ کے دروازے کھو لے ہیں اگر کوئی شخص نا دم ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر تے تو وہ بھی رجوع کرتا ہے مگر آریوں کے لیے یہ کہاں نصیب ؟ان کا یہ پیشر جو مہر لگا تا ہے اسے اکھا ڑ نے پر تو وہ خود بھی قادر نہیں پس اس میں مسئلہ تقدیر کا اعتراض آریوں پر ہے نہ کہ اہل اسلام پر ۔
تو بہ ایک موت ہیَ
ہاںتوبہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان زبان سے تو بہ تو بہ کہہ لیو ے بلکہ ایک شخص تا ئب وقت کہا جاتا ہے کہ گذشتہ حالت پر سچے دل سے نادم ہو کر آئندہ کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ پھر یہ کام نہ کرے گا اور اپنے اندر تبدیلی کرتا ہے اور جن شہوات عادت وغیرہ کا وہ عادی ہو تا ہے ان کو چھوڑتا ہے اور تمام یاردوست گلی کو چے اسے تر ک کر نے پڑتے ہیں کہ جن کا معا صی کی حالت میں اس سے تعلق تھا گو یا تو بہ ایک موت ہے جو وہ اپنے اوپر وارد کرتا ہے جب ایسی حالت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ گناہ کے ارتکاب میں ایک حصہ قضا وقدر کا ہے کہ بعض اندرونی اعضاء اور قویٰ کی ساخت اس قسم کی ہو تی ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہو پس اس لیے ضروری تھا کہ ارتکابِمعاصی میں جسقدر حصہ قضاوقدر کا ہے اس میں خدا تعالیٰ رعایت دے اور اس بندے کی تو بہ قبول کر ے اور اسی کیے اس کا نام تواب ہے ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۴ صفحہ۶۶ ۲،۲۶۷ مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۳؍ستمبر ۱۹۰۳؁ء
ایک رؤیا اور الہام
فرما یا :۔
اسہال آنے سے میری طبیعت میں کچھ کمزوری پیدا پو گئی ایک تھوڑی غنودگی مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دونوں طرف دو آدمی پستولیں لیے کھڑے ہیں اس اثناء میں مجھے الہام ہوا ۔
فی حفاظۃ اللہ
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۵ صفحہ۲۸۰ مورخہ ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
بلا تاریخ ۱؎
اسم ِاعظمِ
ایک دن بوقت ظہر فرمایا کہ
ہیضہ کے لیے ہم تو نہ کو ئی دوا بتلا تے ہیں نہ نسخہ صرف یہ بتلا تے ہیں کہ راتوں کو اٹھ کر دعا کر یں اور اسم ِاعظمِ
رب کل شئی خادمک رب فا حفظنی وابصرنی وارحمنی
کی تکرار نماز کے رکوع سجود وغیرہ میں اور دوسرے وقتوں میں کریں یہ کدا نے اسم ِاعظمِ بتلا یا ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۵ صفحہ ۲۸۰ مورخہ ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۹ستمبر ۱۹۰۳؁ء
وبائی امراض کا الہامی علاج
فر ما ٰیا :۔
مجھے الہام ہوا ۔
سلام علیکم طبتم
پھرچو نکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا اس کا علاج خدا تعالیی نے یہ بتلا یا کہ اسکے ان ناموں کا ورد کیا جاوے
یا حفیظ۔ یا عزیز ۔ یا رفیق
رفیق خدا تعالیٰ کا نیانام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسماء باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا ۱؎
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۵ صفحہ۲۸۰ مورخہ۱۱۸؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۱۴؍ستمبر ۱۹۰۳؁ء
ضرورت کیلئے تصویر کا جواز
ایک احمدی صاحب نے سوال کیا کہ گاؤں کے لوگ اس لیے تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے تصویر کھنچوائی ہے اسکا ہم کیا جواب دیویں ؟
فرمایا کہ:۔
انسان جب دنیاوی ضرورتوں کے لیے ہر وقت پیسہ روپیہ وغیرہ میں رکھتا ہے جن پر تصویر وغیرہ بنی ہو ئی ہو تی ہے تو پھر دینی ضرورت کے لیے تصویر کا استعمال کیوں روانہیں ہو سکتا ان لوگوں کی مثال
لم تقولون مالا تفعلون (الصف:۳)
کی ہے کہ خود تو ایک فعل کرتے ہیں اور دوسروں کو اسے معیوب بتلا تے ہیں اگر ان لوگوں کے نزدیک تصویر حرام ہیتو ان کو چا ہیئے کہ کل مال وزر باہر نکال کر پھینک دیںپھر ہم پر اعتراض کر یں اور یہ ملاں لوگ جو بڑھ بڑ ھکر با تیں کرتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ایک پیسہ کو تو وہ ہاتھ سے چھوڑ نہیں سکتے۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۶ صفحہ۲۸۱ مورخہ۲۵؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۱۷؍ستمبر ۱۹۰۳؁ء
جذب اور کشش سچے مذہب کی علامت ہیں
بعض احباب کی طرف سے یہ دوخواست ہو ئی کہ آریوں کی طرف متوجہ ہو نا چا ہیئے کہ یہ بہت بڑے جا تے ہیں ۔فرمایا کہ:۔
انہوں نے کیا ترقی کر نی ہے وہ مذہب تر قی کرتا ہے جس میں کچھ روحانیت ہو تی ہے نہ ان میں رو حانیت ہے اور نہ کشش مقناطیسی ہے جس سے ایک قوم ترقی کر سکتی ہے وہ ایک خاص کشش ہو تی ہے جو کہ انبیاے علیہم السلام کو دی جا تی ہے اور تمام پا کیزہ دلوں کو وہ محسوس ہو تی ہے اور جو اس سے متاثر ہو تے ہیں وہ ایک فوق اور العادت زند گی کا نمونہ دکھلا تے ہیں اور ہیروں کے ٹکڑوں کی طرح اس کشش کی چمک نظر آتی ہے اور جس کو وہ کشش عطا ہو تی ہے وہ الہیٰ طاقتوں کا سر چشمہ ہو تا ہیاور خدا تعالیٰ کی نادر اور منفی قدرتیں جو عام طور ظاہر نہیں ہو تیں ،ایسے شخص کے ذریعہ ظاہر ہو تی ہیں اور اسی کشش سے انکو کامیابی ہو تی ہے دنیا میں جسقدر انبیاء آئے ہیں کیا وہ دنیا کے سارے مکر وفریب اور فلسفے سے پورے واقف ہو کر آتے ہیں جس سے وہ مخلوق پر غالب ہو تے ہیں ؟ہر گز نہیں بلکہ ان میں ایک کشش ہو تی ہے جس سے لوگ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور جب دعا کی جا تی ہے وہ کشش کے ذریعہ سے زہر لیے مادہ پر جو لوگوں کے اندر ہو تا ہے اثر کرتی ہے اور اس روحانی مریض کی تسلیاور تسکین بخشتی ہے یہ ایک ایسی بات ہے جو کہ بیان میں ہی نہیں آسکتی اور اصل مغز شریعت کا یہی ہے کہ وہ کشش طبیعت میں پیدا ہو جاوے سچا تقویٰ اور استقامت بغیر اس صاحبِ کشش کی مو جودگی کے پیدا نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے سواقوم نبتی ہے یہی کشش ہے جو کہ دلوں میں قبولیت ڈالتی ہے اس کے بغیر ایک غلام اور نو کر بھی اپنے آقا کی خاطر خواہ فر ماں برداری نہیں کر سکتا اور اسی کے نہ ہو نے کی وجہ سے نو کر اور غلام جن پر بڑے انعام وکرام کئے گئے ہوں آخرکار نمک حرام نکلِ آتے ہیں بادشاہوں کی ایک تعداد کثیر ایسے غلاموں کے ہاتھوں سے ذبح ہو تی رہی ،لیکن کیاکو ئی ایسی نظیر انبیاء میں دکھلا سکتا ہے کہ کو ئی نبی اپنے کسی غلام یا مرید سے قتل ہوا ہے آنحضرتﷺ کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہو نے سے صحابہؓ نے اس قدر صدق دکھا یا اور انہوں نے نہ صرف بت پرستی اور مخلوق پرستی ہی سے منہ موڑا بلکہ درحقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اوروہ خدا کو دیکھنے لگ گئے وہ نہایت سر گر می سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گو یا ہرت ایک ان میں سے ابرتاہیم تھا انہوں نے کا ملِ اخلاص دین کی راہ میں ذبح ہو نا قبول کیا بلکہ بعض صحابہؓ نے جو یک لخت شہادت نہ پا ئی تو ان کو کیال گذرا کہ شاید ہمارے صدق میں کچھ کسر ہے جیسے کہ اس آیت میں اشارہ ہے
منھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر (الا حذاب:۲۴)
یعنی بعض تو شہید ہو چکے تھے اور بعض منتظر تھے کہ کب شہادت نصیب ہو اب دیکھنا اچا ہیئے کہ کیا ان لوگوں کو دوسروں کی طرح حوائج نہ تھے اور اودلا کی محبت اور دوسرے تعلقات نہ تھے؟ مگر اس کشش نے ان کو ایسا مستانہ بنا دیا تھا کہ دین کو ہر ایک شئے پر مقوم کیا ہوا تھا۔
الا یکونو امومنین(الشعر آء :۴)
کی تفسیر میں ایک نے لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کو خیال پیدا ہو گا کہ مجھ میں شاید وہ کا مل کشش نہیں ہے ور نہ ابو جہل راہ راست پر آجا تا پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ آپ میں کشش تو کا ملِ تھی لیکن بعض قطر تیں ہی ایسی ہو جاتی ہیں کہ وہ اس قابل نہیں رتہں کہ نور کو قبول کریں اس لیے ایسے ایسے لوگوں کا محروم رہنا ہی اچھا ہو تا ہے ۔
دنیا اور ما فیہا پر دین کو لینا بغیر کشش الہیٰ کے پیدا نہیں ہو سکتا لوگوں میں یہ کشش نہیں ہو تی وہ ذرا سے بتلا سے تبدیل مذہب کر لیتے ہیں اور حکومت کے دبااؤ سے فوراً ہاں میں ہاں ملا نے لگ جا تے ہیں مسلمہ کذاب کے ساتھ ایک لا کھ تک ہو گئے تھے مگر طو نکہ اس میں کشش نہ تھی اس لیے آخر کار سب کے سب فنا ہو گئے ۔غرضیکہ کسی منجانب اللہ ہو نے کی دلیل یہی ہے کہ اس کو شش دی جا وے اور یہی بڑا معجزاہ ہے جوکہ لکھو کھا انسانوں کو اس کا گرویدہ اور جاں نثا بنا دتی ہے کسی ایک کو اپنا گرویدہ کر نا محال ہو تا ہے کو ئی کر کے دیکھے تو حال معلوم ہو سنیکڑوں روپے خرچ ہو جا تے ہیں مگر آخر کار دلشکنی ہی ہو تی ہے چہ جا ئکہ ایک عالم کو اپنا گرویدہ کر لیا جاوے یہ بغیر اس کشش کے حاصل نہیں ہو تا جو خدا سے عطا ہو بادشاہوں کے رعب اور دھمکیاں اور ایک دنیا بھر کا اس کے مقابلہ پر آجا تا ہے یہ سب اس کشش کے گروید وں کو تذبذب میں نہیں پڑنے دیتیں۔
ابھی تک ان آریوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ سچا تقویی کیا شئے ہے یہ اس وقت پتہ لگتا ہے کہ جب اول وہ اپنی بیماری کو سمجھیں جب تک ایک انسان اپنے آپ کو بیار نہیں خیال کرتا تو وہ علاج کیا کروا ے گا تز کیئہ نفس ایک ایسی شئے ہے کہ خود بخود نہیں ہو سکتا اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔
فلا تز کو اانفسکم ھوا علم بمن اتقیٰ(النجم :۳۳)
کہ تم یہ خیال مہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے ذریعہ سے خود بخوف مزکی بن جا وینگے ۔
یہ با ت غلط ہے وہ خوب جا نتا ہے کہ کون متقی ہے جہالت ایک ایسی زہر ہے کہ جیسے انسان چنگا بھلا پھرتا ہوا فوراً ہیضہ وغیرہ سے ہلاک ہو جاتا ہے اور اس سے پیشتر گمان بھی نہیں ہو تا کہ میں مر جاؤں گا ایسے ہی جہالت ہلا ک کر ستی ہے اس کا علاج بلا انبیاء علیہم السلام کے نہیں ہو سکتا ان کی صبحت میں رہنے سے انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہو تی ہے کہ جس سے اسے اپنے مرض کا پتہ لگتا ہے ورنہ خشک لفاظی اور چرب زبانی سے انسان کو یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی صرف یہ کہنا کہ ہم نے زنا نہیں کیا چوری نہیں کی اس سے تزکیئہ نفس نہیں پا یا جاتا اور نہ اس کا نام سچی پا کیز گی ہے یہ ایک ایسی شئے ہے کہ اس پر عمل کر نا تو درکنا ر سمجھنا ہی مشکل ہے جسے خدا تعالیٰ چا ہتا ہے عطا کرتا ہے یہ تو ایک قسم کی موت ہے جو انسان کو اپنے نفس پروا ر د کر نی پڑتی ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۶ صفحہ۲۸۲ مورخہ۲۵؍ستمبر۱۹۰۳؁ء)
۲۳؍ ستمبر ۱۹۰۳؁ء
(بو قت صبح بمقام گوداسپور)
ایک رؤیا
مَیںنے ایک قلم لکھنے کے واسطے اٹھا ئی ہے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی ایک زبان ٹو ٹی ہو ئی ہے تو مَیں نے کہا کہ محمد افضل نے جو پَر(نب) بھیجے ہیں ان میں سے ایک لگا دو وہ پَر تلاش کئے جارہے ہیں کہ اس اثنا ء میں میری انکھ کھل گئی ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۷ صفحہ۲۹۰ مورخہ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
کثرت ِاولاد سے جماعت کو بڑھا ئیں
مفتی فضل الرحمنٰ صاحب قادیانی نے ذیل کے ملفوظات حضرت امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام مجھے پہنچا ئے ہیں۔
۲۳؍ ستمبر ۱۹۰۳؁ء کو اعلیٰ الصاح جب مفتی صاحب موصوف نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ہاں فرزند ارجمند کی ولا دت کی خبرت حضرت اما م الزمان علیہ السلام کوگوردا سپور جا کر پہنچا ئی تو آپ نے فرمایا:۔
مجھے بہت خوشی ہو ئی ہے کیو نکہ اس سیے پیشتر مولوی صاحب کو اولاد کا بہت صد مہ پہنچا ہوا ہے میرا جی چا ہتا ہے کہ اس کاس نام عبد القیوم رکھا جائے ۔
پھر فرمایا کہ:۔
میر تو یہ جی چا ہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور کثرت ِاولاد سے جماعت کو بڑھا ویں مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیویوں کے ساتھدوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اسے تکلیف نہ ہو دوسری بیوی پہلی بیوی کو اسی لیے نا گورا معلوم ہو تی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غورت و ناراض ہو تی ہیں مگر مَیں تو یہی تعلیم دوں گا ہاں یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور وپرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ تو جہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا جاوے ورنہ یہ نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو عیسا ئیوں کو بھی اس امر کی ضرورت پیش آئی ہے اور بعض دفعہ پہلی بیوی کو زہر دیکر دوسری کی تلاش سے اس کا ثبوت دیا ہے یہ تقویٰ کی عجب راہ ہے مگر بشرطیکہ انصاف ہو اور پہلی نگہداشت میں کمی نہ ہو ۔ (البدؔرجلد ۳ نمبر ۷ صفحہ۱۱ مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴؁ء)
۲۴ ستمبر ۱۹۰۳؁ء
روحانیت اور پاکیز گی کی ضرورت
آپ نے ایک ذکرپر فرمایا کہ:۔
کو ئی دنیا کا کاروبار چھوڑ کر ہمارے پاس بیٹھے تو ایک دریا پیشگوئیوں کا بہتا ہوا دیکھے جیسے کہ کل قلم والی پیشگو ئی پوری ہو ئی ہے ۔
روحانیت اور پا کیز گی کے بغیر کو ئی مذہب چل نہیں سکتا قرآن شریف نے بتلا یا ہے کہ آنحضرتﷺ کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی ۔
یا کلون کما تا کل الا نعا م (محمد:۱۳)
پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے
یبیلتون لربھم سجد اوقیاما (الفقادن:۶۵)
جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں کرتا انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہو تو وہ مذہب ہو تو وہ مذہب چل سکتا ہے اس کے بغیر کو ئی مذہب تر قی کر سکتا اور اگر کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۷ صفحہ۲۹۰ مورخہ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۲۹ستمبر ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
بیعت کی غرض
بیعت لینے کے بعد حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے مبدرجہ ذیل تقریر فرما ئی :۔
ہر ایک شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو سمجھ لینا چا ہیئے کہ اس کی بیعت کی کیا غرض ہے ؟
کیا وہ دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے یا اللہ تعا لیٰ کی رضا کے لیے بہت سے ایسے بد قسمت انسان ہوتے ہیںکہ ان کی بیعت کی غایت اور مقصود صرف دنیا ہو تی ہے ۔ورنہ بیعت سے ان کے اندر کو ئی تبدیلی پیدا نہیں ہو تی اور وہ حقیقی یقین اور معر فت کانور جو حقیقی بیعت کے نتا ئج اور ثمرات ہیں ان میں پیدا نہیں ہو تاان کے اعمال میں کو ئی خوبی اور صفائی نہیںآ تی نیکوں میں ترقی نہیں کرتے گناہوں سابچتے نہیں ایسے لوگوں کو جو دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود ٹھہرا تے ہیں یادرکھنا چا ہیئے کہ
دنیا روزے چند آخر کار با خداوند
یہ چند روزہ تو ہر حال میں گذرجاوے گی خواہ تنگی میں گذریے خواہ فراخی میں ۔مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے پس اگر اس مقام میں وہ اسی حاسلت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفأئی کرالی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیبت سے تو بہ کر کے ہر ایک ناہ سے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہ کر کے پکا را ہے بچتا رہا تو خدا تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کر ے گا اور وہ اس مقام پر ہو گا ۔کہ خدا اس سے راضی ہو گا۔ اور وہ اپنے رب سے راضی ہو گا۔ اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لا پرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا نجام خطرناک ہے اس لیے بیعت کر تے وقت یہ فیصلہ کرلینا چا ہیئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا دنیا کی خاطر تو بے فائدہ لیکن اگر دین کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائدہ اور منا فع کی پوری امید کی جا تی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہو تے ہیں ایسی بیعت سے انسان کو دو بڑے فا ئدے حاصل ہو تے ہیں ایک تو یہ کہ وہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے اور حقیقی تو بہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اوراس سے پا کیز گی اور طہارت کی تو فیق ہے جیساے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے
ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین (البقرۃ:۲۲۳)
یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کر نے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہو نیوالے ہیں تو بہ حقیقت میں ایک ایسی شئے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کیسا تھ ہی انسان کے اندر ایک پا کیز گی کا بیج بو یا جا تا ہے جو اس کو نیکوں کا وارث بنا دیتا ہے یہی باعث ہے ۔جو آنحضرتﷺ نے بھی فرما یا ہے کہ گناہوں سے تو بہ کر نے والا ایسا ہو تا ہے کہ گو یا اس نے کو ئی گناہ نہیں کیا یعنی تو بہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بیجا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پا ئی جا تی تھی ا للہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیی کے ساتھ ایک عہد صلح با ندھا جانا ہے اور نیا حساب شروع ہو تا ہے پس اگر اس نے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی ہے تو اسے چا ہیئے کہ اب اپنے گناہوں کا نیا حساب نہ ڈالے اور پھر اپنے آپ کو گنا ہ کی ناپاکی سے آلودہ نہ کر ے بلکہ ہمیشہ استغفار اور دعاؤں کے ساتھ اپنی طہارت اور صفائی کی طرف متوجہ رہے اور خدا تعالیٰ کو راضی اور خوش کر نے کی فکر میںلگا رہے اور اپنی اس زند گی کے حا لا ت پر نا دم اور شر مساررہے جو تو بہ کے زمانہ سے پہلے گذری ہے ۔
انسا ن کی عمر کے کئی حصے ہو تے ہیں اور ہر ایک حصہ میں کئی قسم کے گناہ ہو تے ہیں مثلاً ایک حصہ جوانی کا ہو تا ہے جس میں اس کرحسبِ حال جذبات کسل وغفلت ہو تی ہے پھر دوسری عمر کا ایک حصہ ہو تا ہے میں دغا ۔فریب ۔ریا کاری اور مختلف قسم کے گناہ ہو تے ہیں غرض عمر کا ہر ایک حصہ اپنی طرز کے گناہ رکھتا ہے ۔
پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے تو بہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ تو بہ کر نے والے کے گناہ بخش دیتا ہے اور تو بہ کے ذریعہ انسان پھر اپنے رب سے صلح کر سکتا ہے۔ دیکھو انسان پر جب کو ئی جرم ثابت ہو جا ئے تو وہ قابل ِسزا ٹھہرا جا تا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
من یات ربہ مجر ما فان لہ جھنم (طہٰ :۷۵)
یعنی جو اپنے رب کے حضور مجر م ہو کر آتا ہے اس کی سزا جہنم ہے وہاں وہ نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے یہ ایک جرم کی سزا ہے اور جو ہزاروں لا کھو ں جرموں کا مر تکب ہو اس کا کیا حال ہو گا لیکن اگر کو ئی شخص عدالت میں پیش ہو اوربعد ثبوت اس پر فردقرارداد جرم بھی لگ جاوے اوراس کے بعد عدالت اس کو چھوڑ دے تو کس قدر احسان عظیم اس حاکم کا ہو گا۔ اب غور کرو کہ یہ تو بہ وہی بریت ہے جو فرد قرار داد جرم کے بعد حاصل ہو تی ہے تو بہ کر نے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔
اس لیے انسا ن کو چا ہییے کہ وہ اپنے گر بیان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ کس قدر گناہوں میں وہ مبتلا تھا اور ان کی سزا کس قدر اس کو ملنے والی تھی ۔جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معاف کر دی۔ پس تم نے جو اب تو بہ کی ہے چا ہیئے کہ تم اس تو بہ کی حقیقت سے واقف ہو کر ان تمام گناہوں سے بچو جن میں تم مبتلا تھے اور جن سے بچنے کا تم نے اقرار کیا ہے ہر ایک گناہ خواہ وہ زبان کا ہو یا آنکھ یا کان کا غرض ہر اعضاء کے جدا جدا گناہ ہیں ان سے بچتے رہو کیو نکہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلا ک کر دیتی ہے گناہ کی زہر وقتاًفوقتاً جمع ہو تی رہتی ہے اور آخر اس مقدار اور حد تک پہنچ جاتی ہے جہاں انسان ہلاک ہو جاتا ہے پس بیعت کا پہلا فایدہ تو یہ ہے کہ یہ گناہ کے زہر کے لیے تر یاق ہے ۔اس کے اثر سے محفوظ رکھتی ہے اور گناہوں پر ایک خطِ نسخ پھیر دیتی ہے ۔
دعسرا فائدہ اس توبہ سے یہ ہے کہ اس توبہ میں ایک قوت واستحکام ہو تا ہے جو مامور من اللہ کے ہاتھ پر سچے دل سے کی جاتی ہے ۔انسان جب خود توبہ کرتا ہے تو وہ اکثر ٹوٹ جاتی ہے بار بار توبہ کرتا اور بار بار توڑتا ہے مگر مامور من اللہ کے ہاتھ پر جو توبہ کی جاتی ہے جب وہ سچے دل سے کریگا تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہو گی وہ خدا خود اسے قوت دیگا اور آسمان سے ایک طاقت ایسی دی جاوے گی جس سے وہ اس پر قائم رہ سکے گا اپنی توبہ اور مامور کے ہاتھ پر توبہ کرنے میں یہی فر ق ہے کہ پہلی کمزور ہو تی ہے دوسری مستحکم ۔کیونکہ اسکے ساتھ مامور کی اپنی توجہ ،کشش اور دُعائیں ہو تی ہیں جو توبہ کرنے والے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں اور آسمانی قوت اُسے پہنچاتی ہیں جس سے ایک پاک تبدیلی اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بویا جاتا ہے جو آخر ایک بار دار رخت بن جاتا ہے پس اگر صبر اور استقامت رکھوگے تو تھوڑے دنوں کے بعد دیکھو گے کہ تم پہلی حالت سے بہت آگے گزر گئے ہو ۔
غر ض اس بیت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خداتعالیٰ کے وعدے کے موافق مغفرت کا مستحق ہو تا ہے دوسرے مامور کے سامنے تو بہ کر نے سے طاقت ملتی ہے اور قنسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے ۔یاد رکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہو نے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ۔کیونکہ دنیا تو گزر نے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گزر جائے گی ۔
شبِ تنور گذر شت وشبِ سمور گذشت
دنیا اور اسکے اعراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو ۔ان کو دین کے ساتھ ہر گز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہو نے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے ۔دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہو تی ہے تم دیکھتے ہو کہ ہر آن اور ہر دم دنیا میںہزاروں موتیں ہو تی ہیں ۔مختلف قسم کی وبائیں اور امراض دنیا کا خاتمہ کر رہی ہٰں کبھی ہیضہ تباہ کرتا ہے ۔اب طاعون ہلاک کر رہی ہے ۔کسی کو کیا معلوم ہے کہ کو ن کب تک زندہ رہے گا ۔جب موت کا پتہ نہیں کہ کس وقت آجائے گی۔پھر کیسی غلطی اور بہودگی ہے کہ اس سے غافل رہے اس لیے ضروری ہے کہ آخرت کی فکر کرو جو آخرت کی فکر کرے گا اللہ تعا لیٰ دنیا میں اس پر رحم کریگا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کا مل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے غیر میں فرق رکھد تیا ہے اس لیے پہلے مومن بنو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویی پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہر گز نہ ملا ؤ نمازوں کی پا بندہ کرو اور تو بہ واستغفار میں مصروف رہو نوع ِانسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو راستبازی اور پا کیزگی میںتگر قی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دیگا عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پا بندی کر یں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے رو کو پا کبا زی اور راستبازی ان کو سکھا ؤ ہماری طرف سے صرف سمجھنا شرط ہے اس ہر عملدرآمد کر نا تمہارا کام ہے ۔
پا نچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو اپنی زبان میں بھی دعا کر نی منع نہیں ہے نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہوا ور حضورِ قلب نہیں ہو تا ہے جب تک عا جزی نہ ہو تو عاجزی جب پیدا ہو تی ہے ۔جو یہ سمجھ آجا ئے کہ کیا پڑھتا ہے اس لیے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کر نے کے لیے جو ش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ نماز کو اپنی زبان میں پڑھو نہیں میرا یہ مطلب ہے کہ منون ادعیہ اور اذ کار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو ورنہ نماز کے ان الفاظ میں ِخدا نے ایک برکت رکھی ہو ئی ہے نماز دعا ہی کا نام ہے ااس لیے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچا وے اور خاتمہ با لخیر ہو ۱؎ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی دعا کرو نیک انسان بنو ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو ۔
(الحکم جلد ۷ نمبر ۳۸ صفحہ۲ بابت ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۳؁ء
ہمیشہ موت کو یادرکھو
ابو سعید صاحب احمدی نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی کہ مَیں دو تین یوم کے بعد واپس رنگون جا نیوالا ہوں ۔
حضور سے دو خواست ہے کہ میرے حق میں دعا فر ما ئیں ۔آپ نے فرمایا کہ:۔
انشاء اللہ تعالیٰ دعا کروں گا دنیا ایسے ہی تفرقہ کی جگہ ہے ہمیشہ موت کو یادرکھو چند روز زندگی ہے اس پر نازاں نہ ہو نا چا ہیئے جو راستی پر ہو اور خداتعالیٰ پر بھروسہ کر نے والا ہو تو خدا اس کے ساتھ ہو تا ہے ۲؎
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۸ صفحہ۲۹۸ مورخہ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء) ۴؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء
(بوقت ظہر )
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہر کی نماز ادا کر کے تشریف لے جا رہے تھے کہ سیٹھ احمددین صاحب آمدہ از جہلم نے غرض کی کہ گذشتہ ایام میں ایک شخص بیعت کر کے گیا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میری علمی معلو مات بہت کم ہیں اور مجھے آپ کے عادی کے دلائل اب تک معلوم نہیں ہو ئے اس لیے میرے لیے دعا فرما ئی جاوے اس پر آپ نے سیٹگ صاحب کو مختصراً دلا ئل اپنے دعاوی پر سنا ئے کہ اس شخص کو سمجھا دئیے جا ئیں اور نیز یہ بھی فرمایا کہ :۔
خدا ئی مستحق اگر ہو سکتے تھے تو ہمارے پیغمبر محمدﷺ ہو سکتے تھے ۔کیو نکہ آپ کا نہ کو ئی بھا ئی تھا ۔نہ نہن حا لا نکہ عیسیٰؑ کے اور بھی اور بہن تھے ان کمبخت عیسا ئیوں کو اتنا خیال نہیں آتا کہ عیسیٰؑ کے پا نچ بھا ئی اور دو بہین تھیں جو کہ مریم کے پیٹ سے پیدا ہو ئی تھیں پس کیا وجہ ہے کہ مریم کو خدا ؤں کی ماں اور مسیح کے بھا ئیوں کو خدا نہ کہا جاوے ۔
مر کز میں آکر پختگی حا صل کر یں
ہمیں بہت افسوس ہے کہ بعض لو گ کچے آ تے ہیں اور کچے ہی چلے جا تے ہیں حالا نکہ یہ ان کا فرض ہے کہ یہاں آکر چندروز رہیں اور اپنے شبہات پیش کر کے پختگی حاصل کر یں پھر ان سے دوسرے مخالف اور عیسا ئی ایسے بھا گیں گے جیسے لا حول سے شیطان بھا گتا ہے تعجب ہے کہ لوگ کس طرح شیطا ن کے بہکا نے میں آتے ہیں مگر یہ سب ایمان کی کمزوری کا باعث ہو تا ہے بھلا مومن کیا اور شیطان کا بہکا نا کیامعلوم ہو تا ہے جو بہکتا ہے وہ خود شیطا ن ہے ور نہ سوچ کر دیکھا جاوے کہ اب ہمارے مخالفوں کے ہاتھوں میں کیا رہ گیا ہے ۔ یہ لوگ چا ہتے ہیں کہ کچھ رطب ویا بس ان کے ساتھ میں ہے وہ ایک ایک حرف پورا ہو حا لا نکہ نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہو گا یہودیوں کی احادیث اس قدر تھیں کہ وہ نہ حضرت عیسیٰ پر حرف بحرف پوری ہو ئیں اور نہ آنحضرتﷺ پر اور اسی لیے بہتوں نے ٹھوکر کھا ئی مگر بعض یہودی جو مسلمان ہو گئے تو اس کی یہ وجہ تھی کہ جس قدر حصہ ان احادیث کا پورا ہو گیا انہوں نے اس کو سچا مان لیااور جو نہ پورا ہوا اس کو رطب یا بس جا ن کر چھوڑدیا یا ان کے اور معنے کر لئے اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر ان کو اسلام نصیب نہ ہوتا اور پگر اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے انوار وبرکات بھی دیکھے ہر ایک قوم کے پاس کچھ سچی کچھ جوٹی کچھ صحیح اور کچھ غلط روایات ہو تی ہیں اگر انسان اسی بات پر اڑ جائے کہ سب کی سب پوری ہوں تواس طرح سے کو ئی شخص مان نہیں سکتا حکم کے یہی معنے ہیں ان میں سے سچی اور جھوٹی کو الگ کر کے دکھا دیوے۔
ہر ایک جو بیعت کرتاہے اسے واجب ہے کہ ہمارے دعویٰ کو خوب سمجھ لیوے ورنہ اسے گناہ ہو گا ۔
دربارشام ۱؎
موت سے بڑ ھکر کو ن صح ہو سکتا ہے َ؟
موت اور اس کی تلخیوں کا ذکر چل پڑا اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :۔
انسان ۲؎ ان موتوں سے عبرت نہیں پڑتا حالا نکہ اس سے بڑھ کر اور کو ن نا صح ہو سکتا ہے جسقدر انسان مختلف بلاو اور ممالک میں مرتے ہیں اگر یہ سب جمع ہو کر ایک دروازہ سے نکلیں تو کیسا عبرت کا نظارہ ہو ۔
پھر مختلف امراض اس قسم کے ہیں کہ ان میں انسان کی پیش نہیں جا تی ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اس نے بیان کیا کہ میرے پیٹ میں رسولی پیدا ہوئی ہے ۔اور وہ دن بدن بڑھ کر پا خانہ کے راستہ کو بند کر تی جاتی ہے جس ڈاکڑ کے پاس مَیں گیا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ اگریہ مرض ہمیں ہو تی تو ہم بندوق مار کر خود کشی کر لیتے آخر وہ بیچا رہ اسی مرض سے مرگیا ۔
بعض لوگ ایسے مسلول ہو تے ہیں کہ ایک ایک پیا لہ پیپ کا اندر سے نکلتا ہے ایک دفعہ ایک مریض آیا ۔ اس کی یہی حالت تھی صرف اس کا پو ست ہی رہ گیا تھا اور وہ سمجھدار بھی تھا مگر تا ہم وہ یہی خیال کرتا تھا کہ مَیں زندہ ر ہو ں گا ۔
انسان کی سخت دلی اصل میں امیدوں پر ہو تی ہے۔ لیکن انبیاء کی یہ حالت نہیں ہو تی ۔جسقدر انبیا ء ہو ئے ہیں سب کی یہ حالت رہی ہے کہ اگر شام ہو ئی ہے تو صبح کو ان کی امید نہیں کہ ہم زندہ رہیں گے ۔اور اگر صبح ہو ئی ہے تو شام کی امید نہیں کہ ہم زندہ رہیں گے جب تک انسان کا یہ خیال نہ ہو کہ مَیں ایک مر نے والا ہوں تب تک وہ غیر اللہ سے دل لگا نا چھوڑ نہیں سکتا اور آخر اس قسم کے انکار میں جان دیتا ہے مر نے کے وقت کا کسی کو کیا علم ہو تا ہے موت تو نا گہانی آجا تی ہء اگر کو ئی غورکر ے تو اسے معلوم ہو کہ یہ دنیا اور ادس کے ،مال و متاع اور خط فا نی اور جھوٹے ہیں آخر کار وہ یہاں سے تہیدست جاوے گا اور اصل مطلوب جس سے وہ کوش رہ سکتا ہے وہ خدا سے دل لگا نا ہے اور گناہ کی دلیری سیزاد رہنا کہنے کو یہ آسان ہے اور ہر انسان سے کہہ سکتا ہے کہ میرا دل خدا سے لگا ہوا ہے مگر اس کا کر نا مشکل ہے ایک دوکاندار کو دیکھو کہ وہ وزن تو کم تو لتا ہے مگر زبان سے صو فیا نہ کا فیاں ایسی گا تا جا وے گا کہ دوسرے کو معلوم ہو کہ یہ بڑا خدا رسیدہ ہے ایسی حالت میں لفظ اور با تیں تو نان سے نکلتی ہیں مگر دل اس کی تلذیب کرتا ہے سجا وہ نشینوں کو ایسے قصے یاد ہو تے ہیں کہ دوسرا انسان سنکر کر دیدہ ہو جاتا ہے حالا نکہ خود ان کا عمل درآمدان پر مطلق نہیں ہو تا مگر تا ہم ایسے انسان بھی ہو تے ہیں کہ وہ بات کو سمجھ لیتے ہیں اور اس دنیا اور ما فیہا کا چھوڑ نا ان پر آسان ہو تا ہے جیسے کہ ابراہیم ادھم وغیرہ بادشاہ ہو ئے ہیں کہ انہوں نے سلطنت کو تر ک کر دیا جب خوفِ الہیٰ ان کی قلب پر غالب ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب دنیا اور یہ خوف ایک جمع نہیں ہو سکتے اس لیے دنیا کو چھوڑ دیا ۔
جب ایک شخص ایک نا پا ئدا ر لذت میں مصرف ہو تو جب اسے چھوڑ یگا اسی قدر اسے رنج ہو گا دنیا سے دل لگا نے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور آئندہ نیکی کی منا سبت اس سے نہیں رہتی مسلمانوں میں اگر چہ فاسق فاجر بادشاہ بھی گذرے ہیں مگر ایسے بھی بہت ہیں کہ انہوں نے پا کبازی اور راستی اختیار کی ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۸ صفحہ۲۹۸۔۲۹۹ مورخہ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۵؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
دربار ِشام
ایک عیسا ئی سے گفتگو
وہ تمام اخبارات جو کہ در نصاریٰ کے بارے میں یورپ اور امر یکہ سے آئے تھے پڑھے جا نے کے بعد میاں گل محمد ۱؎ صاحب حضرت اقدسؑ نے فرما یا کہ:۔
ہم نے تو آپ کو بذریعہ تا راور خط کے منع کر دیا تھا کہ آپ نہ آویں علا لتِطبع اور ایک ضروری کام میں مصروفیت کی وجہ سے فرصت نہیں ۔اب آپ آگئے ہیں تو مجھے آپ کے آنے کی خوشی ہے اور مَیں چا ہتا ہوں کہ کو ئی تحقیق کے واسطے میر ے پاس آوے زمانہ دن بدن راستی اختیار کر تا رہتا ہے عیسا ئی مذہب کی تردید اور کسر صلیب کیلئے جو کچھ مجھے خدا نے عطا کیا ہے اس کعو بتلا کو مَیں ہر وقت تیا ر ہوں لیکن دوسرے مو قعہ پر جب آپ آوینگے تو جیسے آپ کا حق ہو گا سوال کریں ویسا ہی میرا حق ہو گا کہ ایک سوال کروں اور وہ سوال صرف مسیح کی الو ہیت تثلیث اور چا ل چلن کی نسبت ہو گا لیکن جیسے مَیں نے اس سوال کو مشخص کر دیا ہے ۔ویسے ہی آپ کو لا زم ہے کہ آپ بھی اپنے سوال کومشخص کر دیو یں کہ تیاری کا موقعہ مل جا وے ۔
گل محمد صاحب :۔ ہاں آپ بھی ایک سوال کر یں جیسے مجھے تلا شِ حق کی ضرورت ہے ویسے ہی آپ پر ضروری ہے کہ آپ اظہار ِحق کر یں ۔
حضرت اقدس:۔ یہ آپ سچ کہتے ہیں مگر میرے اظہار ِحق کی شہادت تو یو رپ اور امر یکہ دے رہا ہے ابھی آپ کے سامنے اخبارات پڑھے گئے ہیں۔
گل محمد صاحب :۔ لیکن ایک بات ضروری ہے کہ اگر مَیں دوسرے موقعہ پر آوں اور آپ کو پھر فرصت نہ ہو تو چو نکہ مَیں ایک غریب آدمی ہوں اس لیے آمد ورفت کا خرچہ آپ پرہو گا۔
حضرت اقدس:۔ اگر غیریب ہو تو آمدورفت کا کرایہ ہم دیدیا کریں گے اگر ہم اس طرح بو جہ نہ ہو نے فر صت کے سو دفعہ واپس کریں گے تو سودفعہ کرایہ دیں گے ۔
میاں گل صاحب نے کرایہ اس دفعہ کا طلب کیا اور اسی وقت ان کی غربت کا خیال کر کے ان کی دوخواست پر تین روپے ان کو دے دیئے گئے ان با توں پر بعض احباب میں چر چا ہوا تو میاں گل محمد صاحب نے حضرت اقدس کو مخاطب ہو کر کہا ۔
حضر ات اقدس:۔ یہ یادرکھئے ۔ہمارے کا م محض لِلّٰلہ ہیں یہاں تمسخر اور مذاق نہیں ہے ہم تو ہر ایک بار اپنے اوپر ڈالتے ہیں اگر تمسخر ہو تا تو یہ زیر ماری کیوں اختیار کر تے اور تین روپیہ آپ کو دے دیتے بلکہ تلاشَ حق کے لیے تو کو ئی لنڈن سے بھی چل کر آوے تو ہم اس کا کرایہ دینے کو تیا ر ہیں ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۹ صفحہ ۲۰۵ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۶؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
آج کے دن میاں گل محمد صاحب نے پھر ایک حجت کھڑی کی ۔اور حضرت اقدس کی تحریر لینے کی کو شش کی تا کہ لا ہور میں وہ پیش کر سکیں چو نکہ حضرت اقدس کتا ب تذکرۃ الشہادتیں کی تصنیف میں مصروف تھے اور آپ کو با لکل فرصت نہ تھی آپ نے مفتی محمد صادق صاحب کو جنہوں نے میاں گل محمد صاحب سے ملا قات اور گفتگو میں کا فی انڑسٹ لیا تھا فر ما یا کہ وہ جواب دیویں مگر میاں گل محمد صاحب کس کی ما نتے تھے آخر ان کے بڑے اصرار سے حضرت اقدس نے پھر ان کو ایک تحریر دی جس کی نقل ہم ذیل میں کر تے ہیں ۔ (ایڈ یٹر)
نقل رقعہ منجانب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
بشرط خیر وعافیت اور نہ پیش آنے کسی مجبوری کے میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر ۲۰ اکتوبر ۱۹۰۳؁ء کے بعد میاں گُل محمد صاحب اس بات کی مجھے اطلاع دیں کہ وہ قادیان میں آنے کے لیے تیار ہیں تو میں اُن کوبُلا لوں گا تا جو سوال کر نا ہووہ کریں ۔سوال صرف ایک ہو گا اورفریقین کے لیے جواب اور جواب الجواب دینے کے لیے چار دن کی مہلت ہو گی اور انہی چار دنوں کے اندر میرا بھی حق ہو گا کہ یسُوع مسیح اور اس کی خدائی کی نسبت یا انجیل اور تورات کے تناقص کی نسبت جو عیسائیوں کے موجودہ عقیدہ سے پید ہوتا ہے ،کوئی سوال کروں ۔ایسا ہی ان کا حق ہو گا کہ وہ جواب دیں ۔پھر میرا حق ہو گا کہ جواب الجواب دوں ۔ اور یہ ضروری امر ہو گا کہ میاں گُل محمد صاحب قادیان سے جانے سے پہلے مجھے اطلاع دیں کہ وہ اسلام یا قرآن پر کیا اعتراض کرنا چاہتے ہیں تا ہم بھی دیکھیں کہ واقعی وہ اعتراض ایسا ہے کہ یسوع مسیح کی انجیل یا اس کے چال چلن یا اس کے نشانوں پروارد نہیں ہو تا ۔گو مجھے بہت افسوس ہے کہ ایسے لوگوں کو مخاطب کروں کہ ا ب بھی اور اس زمانہ میں اُس شخص کو جس کے انسانی ضعف اُس کی اصل حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں ۔خدا کرکے مانتے ہیں مگر ہمارافر ض ہے کہ ذلیل سے ذلیل مذہب والوں کو بھی ان کے چیلنج کے وقت رد نہ کریں اس لیے ہم رد نہیں کرتے ۔بالآخر یہ جڑوری ہے کہ وہ صحیح اور پورا پتہ لکھ کر مجھے دیں تا میرے جواب کے پہنچنے میں کوئی دقّت پیش نہ آوے یعنی لاہور میں کہاں اور کس محلہ میں رہتے ہیں اور پورا پتہ کیا ہے مکّرر یہ کہ آپ کے اطمینان کے لیے جیسا کہ رات کو آپ نے تقاضا کیا تھا میَں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے لکھنے پر قادیان میں آویں اور میری کسی مجبوری سے بغیر مباحثہ کے واپس جاویں تو میَں دو طرفہ آپ کو لاہور کا کرایہ دوں گا اور جو رات کو آپ مبلغ تین روپے دئیے گئے ہیں ۔اس میں آپ ہر گز خیال نہ کریں کہ کسی حر بہ کی رُوح سے آپ کا یہ حق تھا کیونکہ جس حالت میں ہم نے اپنی گرہ سے خرچ اُٹھا کر آپ کو روکنے کے لیے لاہور میں تار بھیج دیا تھا اور تین خط بھی بھیجے پھر اس صورت میں آپ کا یہ نقصان آپ کے ذمہ تھا مگر میَں نے محض مذہبی مروت کے طور پر آپ کو تین روپے دئیے ورنہ کچھ آپ کا حق نہ تھا ۔ایسا ہی اس وقت تک کہ آپ کی نیّت میں کوئی صر یح تعصب مشاہدہ نہ کروں ایساہی ہر ایک دفعہ بغیر آپ کے کسی حق کے کرایہ دے سکتا ہوں محض ایک نادار خیال کر کے نہ کسی اور وجہ سے۔
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد
۶ اکتوبر ۱۹۰۳؁ء
یہ رقعہ لے کر بھی میاں گُل محمد کو قرار نہ آیا اور جبکہ ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو کہنے لگے جو الفاظ میں ایزاد کرانا چاہتا ہوں وہ کر دو مگر خدا کے مسیح نے اسے مناسب نہ جانا اور آخر میاں گُل محمد صاحب رخصت ہوئے ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۹ صفحہ ۲۰۵،۳۰۶ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۱۴؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
دنیا کی تلخیاں
حضرت اقدس نے شام کے وقت ایک مختصر تقریر دنیا کی تلخیوں پر فرما ئی جس کا خلا صہ یہ ہے ۔
تعجب ہے کہ انسان اس (دنیا) میں راحت اور آرام طلب کرتا ہے حالا نکہ اس میں بڑی بڑی تلخیاں ہیں خویش واقاب کو ترک کر نا دوستوں کا جدا ہو نا ۔ہر ایک محبوب سے کنا رہ کشی کر نا البتہ آرام کی صورت یہی ہے کہ خدسا تعالیٰ کے ساتھ دل کگا یا جا وے جیسے کہا ہے
جز بخوت گا ہِ حق آرام نیست
انسان ایک لحظ میں خوشی کرتا ہے تو دوسرے لخظ میں اسے رنج ہو تا ہے لیکن اگر رجن نہ ہو تو پھر خوشی کا مزا نہیں آتا جیسے کہ پا نی کا مزا اسی وقت آتا ہے جبکہ پیاس کا دور محسوس ہواس لیے درد مقدم ہے۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۹ صفحہ۲۰۶ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۱۵؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
دربار شام
شام کے وقت ایک صاحب نے ایک بیگم صاحبہ کا پیغام آکر دیا کہ وہ کہتی ہیں کہ اگر میرا فلاں فلاں کام ہو جاوے تو میرا سب جان ومال آپ پر قر بان ہے۔حضرت اقدس نے فرما یا کہ:۔
خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہ کر نی چا ہیئے اور نہ خدا تعالیٰ رشوت چا ہتا ہے ہم بھی دعا کر یں گے اور ان کو بھی چا ہیئے کہ عجز وانکسار سے اس کی با رگا ہ میں دعا کریں۔
قر آن شریف وحدیث کا مقام
حضرت اقدس نے قرآن شریف اور حدیث کے ذکر پر فرما یا کہ:۔
اگر صرف احادیث پر انحصار کیا جاوے اور قرآن شریف سے اس کی صحت نہ کی جاوے تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے ایک انسان کے سر کو کاٹ دیا جاوے اور صرف بال ہاتھ میں رکھ لیے جاویں اور کہا جاوے کہ یہی انسان ہے حالا نکہ با ل کی زینت اور خوبی اسی وقت ہے جبکہ انسان کے ساتھ ہوں ایسے ہی حدیث اسی وقت کو ئی شئے اور قابل ِاعتماد ہو سکتی ہے جبکہ قرآن شریف اس کے ساتھ ہو احایث کے اوپر نہ ہو تو خدا کی مہر ہے نہ رسول ﷺ کی اور قرآن شریف کی نسبت کدا تعالیٰ فر ما تا ہے ۔
انا نحن نذلنا الذکر وانا لہ لحا فظون(الحجر:۱۰)
اسی لیے ہمارا یہ مذہب ہیکہ قرآن شریف سے معارض نہ ہو نے کی حالت میں ضعیف سے ضعیت حدیث پر بھی عمل کیا جاوے ۔لیکن اگر کو ئی قصہ جو کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور حدیث میں اس کے خلاف پا یا جا وے مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ اسحاقؑ ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے اور حدیث میں لکھا ہے ہو کہ وہ نہیں تھے تو ایسی صورت میں حدیث پر کیسے اعتماد ہو سکتا ہے مسیح موعود کی نسبت ان کا یہ خیال کہ وہ اسرائیلی مسیح ہو گا با لکل غلط ہے قرآن شریف میںصاف لکھا ہے کہ وہ تم میں سے ہو گا جیسا ہورۃ نور میں ہے
وعداللہ الذین امنو امنکم (النور: ۵۶)
پھر بخاری میں بھی منکم ہی ہے پھر مسلم میں بھی
منکم
ہی صاف لکھا ہے ان کمبختوں کو اس قدر خیال نہیں آتا کہ اگر اسی مسیح نے پھر آنا تو منکم کی بجا ئے
من بنی اسرا ئیل
لکھا ہو تا اب قرآن شریف اور احادیث تو پکار پکار کر منکم کہہ رہے ہیں مگر ان لوگوں کا دعویی
من بنی اسرائیل
کا ہے سوچ کر دیکھو کہ قرآن کو چھوڑ یں یا ان کو ۔ (البدؔرجلد ۲ نمبر ۳۹ صفحہ۲۰۶ مورخہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
۱۸؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
دعا اور صبر ورضا کے مقامات
اس سے بڑ ھ کر انسان کے لیے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے کو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان سے مساوات بنا لیتا ہے ۔کبھی ان کو ما نتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے ایک طرف فر ماتا ہے
ادعونی استجب لکم(المومن:۶۱)
دوسری طرف فرماتا ہے
ولنبلو نکم بشئی من الخوف(البقرۃ:۱۵۶)
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہر ایک مقام دعا کا نہیں ہو تا
نبلو نکم
کے مو قعہ پر
انا للہ وانا الیہ راجعقن(البقرۃ:۱۵۷)
کہنا پڑ ئے گا یہ مقام صبر اور رضا کے ہو تے ہیں لوگ ایسے موقعہ پر دھو کا کھا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کیوں قبول نہیں ہو تی ان کا خیال ہے کہ کدا ہماری مٹھی میں ہے جب چا ہیں گے منو الیں گے بھلا اما م حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعا نہ ما نگی ہو گی اور آنحضرتﷺ کے اس قدر بچے فوت ہو ئے تو کیا آپ نے دعا نہ کی ہو گی بات یہ ہے کہ مقام صبر اور رضا کے ہو تے ہیں ۔
۱۹؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
تو بہ کی حقیقت
آریہ لوگ جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پر میشر صرف تو بہ کرنے سے گناہ بخشتا ہے اور ان بد اعمالیوں کے نتائج نہیں ملتے جو اس نے کئے اس لیے یہ انصاف سے بعید ہے ۔اس پر حضرت اقدس نے فر مایا کہ :۔ان لوگوں کو توبہ کی حقیقت کا علم نہیں ۔توبہ اس بات کا نام نہیں کہ صرف منہ سے توبہ کا لفظ کہہ دی جاوے بلکہ حقیقی توبہ یہ ہیکہ نفس کی توبہ کی جاوے ۔جو شخس توبہ کرتا ہے وہ اپنے نفس پر انقلاب ڈالتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ مر جاتا ہے ۔خدا کے لیے جو تغیر عظیم انسان دکھ اُٹھا کر کرتا ہے تو وہ اس کی گذشتہ بد اعمالیوں کا کفارہ ہو تا ہے ۔جس قدر ناجائز ذرائع معاش کے اس نے اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو وہ تر ک کرتا ہے ۔عزیزوں دوستوں اور یاروں سے جدا ہو تا ہے ۔برادری اور قوم کو اسے خدا کے واسطے ترک کرنا پڑتا ہے جب اس کا صدق کمال تک پہنچ جاتا ہے تو وہی ذات پاک تقاضا کرتی ہے کہ اس قدر قر بانیاں جو اس نے کی ہیں وہ اس کے اعمال کے کفارہ کے لیے کافی ہوں ۔
اہل اسلام میں اب صرف الفاظ پرستی رہ گئی ہے اور وہ انقلاب جسے خدا چاہتا ہے وہ بھول گئے ہی اس لیے انہوں نے توبہ کو بھی الفاظ تک محدود کر دیا ہے لیکن قرآن شریف کا منشاء یہ ہے کہ نفس کی قربانی پیش کی جاوے
من قضٰی نحبہ (الاحذاب:۲۴)
دلالت کرتا ہے کہ وہ توبہ یہ ہے جو انہوں نے کی اور
من ینتظر
بتلاتا ہے کہ یہ وہ توبہ ہے جو انہوں نے کرکے دکھلانی ہے اور وہ منتظر ہیں ۔
جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بکّلی آجاتا ہے اور نفس کی طرف کو بکلّی چھوڑ دیتا یے تو خداتعالیٰ اس کا دوست ہو جاتا ہے تو کیا وہ پھر دوست کو دوزخ میں ڈال دیگا؟
نحن اولیاء اللہ
سے ظاہر ہے کہ احباء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے۔
۲۰؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
ایک رؤیا
شام کے وقت حضرت اقدس نے ذیل کی رؤیا بیان فر ما ئی کہ:۔
ایک بڑا تخت مر بع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پرمَیں بیٹھا ہوا ہوں ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ کرشن کہاں ہیں ؟ جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ یہ ہے پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذرکے طور دینے لگے اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا
ہے کر شن جی رَوِدِّر گو پال
(یہ ایک عرصہ دراز کی رؤیا ہے )
۲۱؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
اما مت نہ کرانے کی وجہ
اما مت نماز کی نسبت ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور کس لیے نماز نہیں پڑھا تے ؟ فرما یا کہ:۔
حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ صفحہ۳۲۲ مورخہ۲۹؍اکتوبر و۸ ؍نو مبر۱۹۰۳؁ء)
۲۲؍ اکتو بر۱۹۰۳؁ء
ایک آسڑیلوی نو مسلم کے استفسارات کے جوابات
ایک یورپین صاحب ۔۔۔۔ بہمراہی میاں معراج الدین عمر وحکیم نور محمد صاحب احمدی ۔۔۔۔۔۔ عصر کے وقت قادیان پہنچ گیے جہاں قادیانی احمدی احباب نے بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا ۔نماز مغرب میں وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوئے ۔۔۔۔ بعد ادائیگی نماز میاں معراج الدین عمرنے ان کو حضرت اقدس سے انٹر وڈیوس کیا اور ان کے مزید حالات سے یوں اطلاع دی کہ
یہ ایک صاحب ہیں جو کہ اسٹریلیا سے آئے ہیں ۷ سال سے مشرف با سلام ہیں اخبارات میں بھی آپ کا چر چا رہا ہے آسٹریلیا سے یہ لنڈن گئے اور وہاں سفیرِروم سے انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کر نا چاہتا ہوں ۔سفیرِ روم نے ان کو کہا کہ تم قاہر ہ (داراسلطنت)مصر میں جاو مگر تا ہم مشورہ کے طور پر لارڈ سٹینلے نے ان کو مشورہ دیا کہ تمہارا یہ مدعا بمبئی میں حاصل ہو گا یہ وہاں پھر تے ہوئے کلکتہ آئے ۔راستہ میں ایک رُؤیا دیکھی ۔اور اس جگہ سے لاہور وآئے۔جہاں کہ انہوں نے حضور کا تذکرہ سُنا ۔اب زیارت کے لیے یہاں حاضر ہوئے۔اب ہم ذیل میں وہ گفتگو درج کرتے ہیں جو کہ نومسلم صاحب اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان ہوئی۔مشرف باسلام ہو کر ان کا نام محمد عبد الحق رکھا گیا تھا ۔
ذیل کی گفتگو جوکہ محمد عبد الحق اور حضرت اقدس کے مابین ہوئی ۔اس کے ترجمان خواجہ کمال الدین صاحب بی۔اے پلیڈر تھے۔
محمد عبد الحق صاحب:۔میں جہاں کہیں بھی پھر تا رہا ہوں میر ا واسطہ ایسے مسلمانوں سے رہا ہے جو یا تو خودانگر یزی جانتے تھے اوربا لمشافہ مجھ سے گفتگو کرتے تھے اور یا نذریعہ تر جمان کے ہم اپنے مطالب کا اظہار کرتے تھے میَں نے ایک حد تک لوگوں کے خٰالات سے فائدہ اُٹھایا اور بیرونی دنیا میں جو اہلِ اسلام ہیں انکے کیا حا لات اور خیالات ہیں ۔اس کے تعارف کی آرزو رہی ۔رُوحانی طور سے جو میل جول ایک کو دوسرے سے ہو سکتا ہے اس کے لیے زباندانی کی ضرورت نہیں ہے اوراس رُوحانی تعلق سے انسان ایکدوسرے سے جلد مستفید ہو سکتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام:۔ہمورے مذہبِ اسلام کے طریق کے موافق روحنی طریق صرف دعا اور توجہ ہے لیکن اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے وقت چاہیئے کیونکہ جب تک ایک دوسرے کے تعلقات گاڑھے نہ ہوں اور دلی محبت کا رشتہ قائم نہ ہو جائے تب تک اس کا اثر محسوس نہیں ہوتا ۔ہدایت کا طریق یہی دعا اور توجہ ہے ۔ظاہری قیل وقال اور لفظوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
محمد عبد الحق صاحب:۔میری فطرت اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ رُوحانی اتحاد کو پسند کرتی ہے میَں اسی کا پیاسا ہوں اور چاہتا ہو ں کہ اس سے بھر جاؤں ۔جس وقت سے میَں قادیان میں داخل ہوا ہوں ۔میَں دیکھتا ہوں کہ میرا دل تسلی پاگیا ہے اور اب تک جس جس سے میری ملاقات ہوئی ہے مجھے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس سے میرا دیرینہ تعارف ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام:۔ خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ ہر ایک رُوح ایک قالب کو چاہتی ہے جب وہ قالب تیار ہوتا ہے تو اس میں نفخِ رُوح خو دبخود ہو جاتا ہے ۔آپ کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ جو حقیقت خدا تعالیٰ نے مجھے پر کھولی ہے اُس سے آہستہ آہستہ آگاہی پالیویں۔عام اہلِ اسلام میں جس قدر عقائد اشاعت پائے ہو ئے ہیں اُن میں بہت سی غلطیاں ہیں اور یہ غلطیاں ان میں عیسائیوں کے میل جول سے آئی ہیں ،لیکن اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کا پاک اور منور چہرہ دنیا کو دکھلاوے رُوحانی ترقی کے لیے عقیدہ کی صفائی ضروری ہے ۔جس قدر عقیدہ صاف ہو گا اسی قدر ترقی ہو گی ۔
دُعا اور توجہ کی ضرورت اس امر میں اس لیے ہوتی ہے کہ بعض لوھ غفلت کی وجہ سے محجوب ہوتے ہیں اور بعض کو تعصب کی وجہ سے حجاب حائل ہوتا ہے اور بعض اس لیے حجاب میں رہتے ہیں کہ اہلِ حق سے اُن کو ارادت نہیں ہوتی مگر جب تک خدا دستگیری نہ کرے یہ حجاب دُور نہیں ہوتے۔پس اس لیے توجہ اور دعا کی ضرورت ہو تی ہے کہ یہ حجاب دُور ہوں ۔جب سے یہ سلسلہ نبوت کا قائم ہے تب سے یہ اسی طرح چلا آتا ہے کہ ظاہری قیل وقال اس میں کچھ نہیں بناتی ہمیشہ توجہ اور دُعا سے لوگ مستفید ہوتے ہیں
دیکھو ایک زمانہ وہ تھا کہ آنحجرت ﷺ تن تنہا تھے مگر لوگ حقیقی تقویٰ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حالانکہ اب اس وقت لاکھوں مولوی اور واعظ موجود ہیں ۔لیکن چونکہ دیانت نہیں ،وہ رُوحانیت نہیں اس لیے وہ اثر اندازی بھی اُن کے اندر نہیں ہے ۔انسان کے اندر جو زہریلا مواد ہو تا ہے وہ ظاہری قیل وقال سے دوُر نہیں ہوتا ۔اس لے لیے صحبتِصالحین اور ان کی توجہ کی جرورت ہوتی ہے اس لیے فیضیافتہ ہونے کے لیے اُن کے ہمرنگ ہو نا اور جو عقائدِ صحیحہ خدا نے اُن کو سمجھائے ہیں ان کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے جب آپ کو اس بات کا علم ہو جاوے گا کہ فُلاں فُلاں عقائد ہیں جس میں عام اہلِ اسلام کا اور ہمارا اختلاف ہے تو پھر آپ کی طاقت (اثر اندازی)بڑھ جاوے گی اور آپ اس رُوحانیت سے مستفید ہوں گے جس کی تلاش میں آپ ہیں ۔
محمد عبد الحق صاحب:۔مجھے ہمیشہ اس امر کی تلاش رہی ہے کہ رُوحانی اتحاد اور اُنس کسی سے حاصل ہو اور اسی لیے میَں جہاں کہیں پھرتا رہا ہو ں ہمیشہ قدرتی نظاروں سے بطور تفاؤل سبق حاصل کرتا رہا وہوں ۔اسی طرح آج میَں دیکھتا ہوں کہ میرا آنا اور نئے چاند کا پیدا ہونا (آج شعبان کا چاند نظر آیا تھا)ایک ساتھ ہے ۔چاند کے ابتدائی دن چونکہ ترقی اور حصولِ کمال کے ہوتے ہیں جیسے جیسے یہ ترقی کریگا اور کمال کو پہنچے گا ویسے ہی میَں بھی ترقی اور کمال کو پہنچوں گا(بشر طیکہ قادیان میں مستقل قیام رہا)میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ میَں آج ہی ایسے موقعہ پر یہاں وارد ہوں گا جبکہ نئے چاند کا ظہور ہوگا ۔کلکتہ میں جو خط بعض لوگوں نے مجھے دئیے اگر مَیں ان پر عملدر آمد کرتا تو کہیں کا کہیں ہو تا مگر یہاں آکر مجھے معلوم ہو اکہ جن لوگوں کی تلاش میں مَیں ہوں وہ لوگ یہی ہیں زنگون میں مَیں نے کے حالا ت سنے اور چند ایک تصانیف بھی دیکھی تھیں مگر مجھے آپ کا پتہ معلوم نہ ہوا اور نہ یہ امید تھی کہ اس قدر جلد مَیں یہاں پہنچ جا ؤں گا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام :۔ان با توں سے فراست تو گواہی دیتی ہے کہ آپ ہماری شرائط کے موافق ہو نگے اور خدا چا ہیے تو اثر بھی قبول کر سکیں گے لیکن یادرکھو کہ سنت اللہ یوں ہے کہ دو باتیں اگر ہوں تو انسان حصول ِفیض میںکا میاب ہو تا ہے ایک یہ کہ وقت خرچ کر کے صبت میں رہے اور اس کے کلام کا سنتا رہے اور انثائے تقریر یا تحریر میں اگر کو ئی شبہ یا دغد غہ پیدا ہو تو اسے مخفی نہ رکھے بلکہ انشرح ِصدسے اسی وقت ظاہر کر ے تا کہ اسی آن میں تدارک کیا جا وے اور وہ کا نٹا جو دل میں چبھا ہے نکا لا جا وے تا کہ وہ اس کے ساتھ روحانی تو جہ سے استفادہ حاصل کر سکے ۔
ایک با ت یہ کہ صبرسے صبحت میں رہے اور ہر ایک بات تو جہ سے سنے اور شبہ کو مخفی نہ رکھے کیو نکہ مہلک اثر رکھتا ہے جو کہ اندر ہی اندر سرایت کر کے ہلا ک کر دیتا ہے کثر آدمی اس سے ہلا ک ہو جاوتے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب آسمان سے ایک نیا انتظام ہو تا ہے تو کو ئی نہ کو ئی ما مورآتا ہے اور چو نکہ اس کا فعل یہی ہو تا ہے کہ ہر ایک فرقہ کی غلطی نکا لے اس لیے سب لوگ اس کے دشمن ہو جا تے ہیں اور ہر طرح سے اذیت اور تکلیف دینے کی کو شش کر تے ہیں تو جب کو ئی اس کے سلسلہ میں داخل ہو تا ہے تو اسے بھی یہ تمام دکھ برداشت کر نے پڑتے ہیں دشمنوں کے خطرنا ک حملے اس پر بھی ہو تے ہیں ہر ایک دوست اور انا بیگا نہ دشمن ہو جا تا ہے اور جس جس پر اسے امید ہو تی ہے وہ تمام خاک میں ملتی ہے نا امیدی اور ما یو سی کی سخت دشوار گذارراہ میں داخل ہو نا پڑ تا ہے جس قدر امید یں عزت اور آبرو اور جا ہ اور منرلت کے حصول کی لو گوں سے اس نے با ند ھی ہو تی ہے ان سب پر پا نی پھر جا تا ہے۔ جیسا کہ دنیا کی یہ قدیمی سنت چلی آئی ہے۔ ان تمام نا امید یوں اور ما یو سیوں کے لیے تیا ر رہنا اور ان کا بر داشت کر نا ضروری ہے انسا ن اگر شیر دل ہو کر ان کا مقابلہ کر ے تو ٹھہر سکتا ہے ورنہ دیکھاگیا ہے کہ لوگ شوق سے اس میدا ن میں داخل ہو تے ہیں مگر جب یہ تمام بو جھ ان پر پڑتے ہیں تو آخر کا ر دنیا کی طرف جھک کا تے ہیں ان کا قلب اس نقصان کو جو دنیا اور اس کے اہل سے پہنچتا ہے برداشت نہیں کر سکتا اس لیے ان کا انجا م ان کے دل سے بھی بدتر ہو تا ہے ۔تو یہ امر ضروری ہے کہ دنیا کا لعن طعن برداشت کر کے اور ہر طرح سے نا امید یوں کے لییء تیا ر ہو ۔کر اگر داخل سلسلہ ہو تو حق کو جلد پا وے گا اور جو کچھ اسے ابتدا میں چھوڑ نا پڑ یگا وہ سب آخر کا ر اللہ تعالیٰ اسے دید ے گا ایک تخم جس کے لیے مقدر ہے کہ وہ پھل لا وے اور بڑا درخت بنے ضرو ہے کہ اول چند دن مٹی کے نیچے دبا رہے تب وہ درخت بن سکے گا اس لیے صبر ضروری ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو گرا دے پھر قدرت الہیٰ اسے اٹھا وے جس سے اس کا نشوونما ہو مسڑوب پہلی دفعہ اسی طرح ہماری طرف جھکے مگر پیچھے وہ قائم نہ رہ سکے اب وہ تما م با توں کا اعتراف کر تے ہیں ۔
محمد عبدالحق صاحب :۔ بذریعہ وکتا بت مسڑویب سے میری ملاقات ہے اور مَیں ان کو اس وقت سے جا نتاہوں جبکہ وہ ہندوستان میں آئے اور ان کے حا لا ت سے خوب واقف ہوں اور جو شرائط اپنے سلسلہ میں داخل ہو نے کے آپ نے بیان کئے ہیں مَیں ایہی کو اسلام کی شرائط خیال کر تا ہوں جو مسلمان ہو گا اس کے لیے ان تمام با توں کا نشا نہ ہونا ضروری ہے آپ کے سا تھ ملنے سے جو نقصانا ت مجھ کو ہو سکتے ہیں اکثر مسلمان لو گوں نے اول ہی سے مجھے ان کی اطلا ع دی ہے اور با وجود اس اطلا ع اور علم کے میں یہاں آیا ہوں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام :۔ہمارے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایک سادہ زند گی بسر کر تے ہین کہ وہ تمام تکلفا ت جو کہ آج کل یو رپ نے لوامِ زند گی بنا رکھے ہیں ان سے ہماری مجلس پاکل ہے رسم وعادت کے ہم پا بند نہیں ہے اس حد تک ہر ایک عادت کی رعا یت رکھتے ہیں کہ جس کے تر ک سے کسی تکلیف یا معصیت کا اند شیہ ہو با قی کھا نے پینے اور نشست وبر خاست میں ہم سادہ زند گی کو پسند کر تے ہیں ۔
محمد عبد الحق صاحب :۔ جب سے مَیں اسلام میں داخل ہوا ہوں اور رو حا نیت سے حصہ لیا ہے مَیں سادگی سے محبت کر تا ہوں اسی لیے اگر یہاں رہوں تو مجھے تکلیف نہ ہو گی دنیا میں مَیں نے جسقدر سفر کیا ہے اس سے مجھے تجربہ ہو ا ہے ند گی والا اور گو شہ نشین انسان بہت آرام سے زند گی بسر کر تا ہے ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ صفحہ۳۲۴۔ ۳۲۵مورخہ۲۹؍اکتوبر و۸ ؍نو مبر۱۹۰۳؁ء)
۲۳؍ اکتو بر ۱۹۰۳؁ء
محمد عبدالحق صاحب کی طرف سے میاں معراج الدین صاحب عمر نے بیان کیا کہ آج یہ صاحب حضرت حکیم نورالدین صاحب سے قرآن کریم کے کچھ معانی سنتے رہے ہیں۔اور ان کو سنکر ان کی یہ رائے قرار پا ئی ہے کہ اس قسم کے تر جمہ کی بڑی ضرورت ہے اکثر لوگوں نے دوسرے تر جموں سے دھو کا کھا یا ہے اور ان کی کواہش ہے کہ حضور کی طرف سے ایک تر جمہ شا ئع ہو ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام :۔ میرا جو بھی یہ ارادہ ہے کہ ایک تر جمہ قرآن شریف کا ہمارے سلسلہ کی طرف سے نکلے ۔
محمد عبد الحق صاحب:۔ اس کی ضرورت یو رپین لو گوں میں مجھ سے ز یا دہ کو ئی اور محسوس نہیں کر سکتا سب آدمی میر ی طرح متلا شی حق اور حق کو بہت جد وجہد سے در یا فت کرت نے کے بعد ان غلط تر جموں کے ذریعہ سے ضلا لت کی طرف جانا پڑتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام:۔صرف قر آن کا تر جمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے سا تھ تفسیر نہ ہو مثلاً
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین(الفا تحۃ:۷)
کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آسکتا ہے کہ ادس سے مراد یہو د نصاریٰ ہیں جب تک کہ کھو ل کر بتلا یا جا وے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلا ئی گئی اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہو دیوں نے حضرت مسیح کا انکا ر کر کے خدا کا غضب کما یا ایسے ہی آخر زما نہ میں اس امت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا غضب کما نا تھا اسی لیے اول ہی ان کو بطور پیشگو ئی کے اطلا ع دی گئی کہ سعید روحین اس وقت غضب سے بچ سکیں۔
محمد عبد الحق صاحب:۔ ما قتلوہ وما صلبوہ و لکن شبہ لھم (النسا ء :۱۵۸)
کی نسبت بیان کیا کہ
عوام اہل ِاسلام اور بعض تقاسیر میں اس کی نسبت لکھا ہوا ہو تا ہے کہ ایک اور آدمی مسیح کی شکل کا بن گیا اسے پھا نسی دی گئی اور مسیح آسمان پر چلا گیا ۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام :۔ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے عام محاورہ زبان میں اگر یہ کہا جا وے کہ فلاں مصلوب ہوا یا پھا نسی دیا گیا تو اس کے معنے یہی ہو تے ہیں کہ صلیب پر اس کی جا ن نکل گئی۔ اگر کو ئی مجرم پھا نسی پر لٹکا یاجا وے مگر اس کی زبان نہ نکلے اور زند ہ اتا لیا جاوے تو کیا اس کی نسبت پھا نسی دیا گیا یا مصلوب کا لفظ بو لا جا وے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ اس کی نسبت یہ الفاظ بو لنے ہی جرم ہو نگے مصلوب اسے کہتے ہیں۔
کہ جس کی جان صلیب پر نکل جاوے اور جس کی جان نہ نکلے اسے مصلوب نہیں کہتے کوخواہ وہ صلیب پر چڑھا کر اتا ر لیا گیا ہو یہودی زند ہ موجود ہیں ان سے دریا فت کر لو کہ آیا مصلوب کے یہ معنے ہیں جو ہم کر تے ہیں یا وہ جو ہمارے مخالف کر تے ہین پھر محاورہ زبا ن کو بھی دیکھنا چا ہیئے۔
ماصلبوہ
کیسا تھ ہی
ما قتلوہ
رکھ دیا کہ بات سمجھ میں آجا وے کہ صلیب سے مراد جان لینی تھی جو کہ نہیں لی گئی اور صلیبی قتل وقوع میں نہیں آیا ۔
شبہ لھم(النساء:۱۵۸)
کے معنے ہیں مشبہ با لمصلوب ہو گیا اس میں لو گوں کا یہ قول کہ کو ئی اور آدمی مسیح کی شکل بن گیا تھا با لکل با لکل ہے عقل بھی اسے قبول نہیں کر تی اور نہ کو ئی روایت اس کے با رے میں صحیح مو جود ہے بھلا سو چکر دیکھو کہ اگر کو ئی اورمی آدمی مسیح کی شکل بن گیا تھا تو وہ دو حال سے خالی نہ ہو گا تو مسیح کا دوست ہو گا یا اس کا دشمن اگر دوست ہو گا تو یہ اعتراض ہے کہ جس *** سے خدا نے مسیحؑ کو بچا نا چا ہاوہ اد کے دوست کو کیوں دی؟ اس سے خدا ظا لم ٹھہرتا ہے اور اگر وہ دشمن تھا تو اسے کیا ضرورت تھی ۔کہ وہ مسیح کی جگہ پھا نسی ملتا اس نے دوہائی دی ہو گئی اور چلا یا ہو گا کہ میرے بیوی بچوں سے پو چھومیرا فلاں نا م ہے اور مَیں مسیح نہیں ہو ں۔پھر اکثر موجود آدمیوں کی تعداد میں سے بھی ایک آدمی کم ہو گیا ہو گا جس سے معا ًپتہ لگ سکتا تھا کہ یہ سخص مسیح نہیں غرضیکہ ہر طرح سے یہ خیال با کل ہے اور
شبہ لھم (النساء)
سے مراد
مشبہ با لمصلوب
ہے ۔
محمد عبدالحق صاحب:۔ یہ خیال یو رپ میں ایک انقلاب ِعظیم پیدا کر ے گا کیو نکہ وہاں لوگوں کو دھو کا دیا گیا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھا یا گیا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام :۔ عام لوگ جو بیان کر تے ہیں یہ منشا قرآنِ کریم کا ہر گز نہیں ہے اور اس سے لوگوں کودھو کا لگا ہے۔
محمد عبدالحق صاحب:۔ اسلام کے عقاید ہم تک عیسا ئیوں کے ذریعہ پہنچے ہیں اور اسلام کا صل چہرہ دیکھنے کے واسطے مَیں با ہر نکلا ہوں ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام:۔ یہ خدا کا بڑا فضل ہے اور خوش قسمتی آپ کی ہے کہ آپ ادھر آنکلے یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو با لکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کر ے خدا نے مجھے اسی لیے مامور کیا ہے اور مَیں اس کے الہام اوروحی سے قرآن شریف کو سمجھتا ہوں قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پرکو ئی اعتراض نہیں آسکتا اور معقولا ت سے ایسی پر ہے کہ ایک فلا سفر کو بھی اعتراض کا مو قعہ نہیں ملتا مگر ان مسلمانوں نے قرآن کر یم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنی طرف سے ایسی ایسی با تیں بنا کر قرآن شریف کی طرف منسوب کر تے ہیں جس سے قد م قدم پر اعتراض وار د ہو تا ہے اور ایسے دعاوی اپنی طرف سے کر تے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے اور وہ سراسر اس کے خلاف ہیں مثلاً اب یہی واقعہ صلیب کا دیکھو کہ اس میں کسقدر افتراء سے کام لیا گیا ہے اور قرآن کر یم کی مخالفت کی گئی ہے اور یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی بر خلاف ہے ۔
اس کے بعد حضرت اقدس نے لفظ
تو فی
کی نسبت سمجھا یا کہ اس میں اہل اسلام نے کیا ٹھو کر کھا ئی ہے اور بتلا یا کہ ۔
صرف مسیح کے واقعہ میں اس کے معنے اٹھا لینے کے کر تے ہیں حالا نکہ اسی قرآن میں اور جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے اور *** اور دوسری کتب عربیہ سب جگہ اس کا تر جمہ موت کر تے ہیں ۔
محمد عبدالحق صاحب:۔ یہ ضروری کام ہے جو کہ آپ نے اختیا ر کیا ہے اور اس کی ضرورت نہ صرف اہل اسلام کو ہے بلکہ عیسا ئیوں کو بھی بہت ہے مجھے قادیان میں آنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ سلسلہ بہت ہی مفید ہے اور ابتدا سے میری یہ خواہش ہے کہ اس قدر عظیم الشان کا م کے واسطے جیسے کہ یہ ہے خدا تعالیٰ مجھے بھی ایک ہتھیار بنا دے اور اس میں سے مجھے بھی حصہ ملے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام:۔ ہم ہمیشہ دعا کر تے ہیں اور ہماری ہمیشہ سے یہ آرزو ہے کہ یو رپین لو گوں میں سے کو ئی ایسا نکلے جو اس سلسلہ کے لیے زند گی کا حصہ وقف کر ے لیکن ایسی شخص کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ہو سکتا ہے اور وہ تمام قوت اور شو کت سے بھر ے ہو ئے دلا ئل سمجھ لیو ے جن سے یہ مرحلہ طے ہو سکتا ہے ۔تب وہ دوسرے ممالک میں جا کر اس کد مت کو ادا کر سکتا ہے اس خد مت کے بر داشت کر نے کے لیے ایک پاک اور قوی روح کی ضرورتے ہے جس میں یہ ہو گی وہ اعلیٰ درجہ کا مفید انسا ن ہو گا اور خدا کے نزدیک آسمان پر ایک عظیم الشا ن انسان قرار دیا جا وے گا ۔
محمد عبدالحق صاحب:۔ مَیں کل یہاں سے رخصت ہوں گا اور ایک ضروری خد مت کو سرانجام دینے کے لیے جو کہ بنی نوع انسان کی خد مت پرت مبنی ہے آخر دسمبرتک ہندوستان کے مختلف مقامات پر دور ہ کروں گا وہ آسڑ یلیا میں ہندوستا نی تا جروں کی بندش کوآزاد کرا نے کی تجویز ہے اس دورہ کے بعد پگر مَیں دیکھو نگا کہ میں کو نسی راہ اختیار کروں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام:۔ قرآن شریف کی تفسیر تو اپنے وقت پر ہو گی لیکن اگر خدا آپ کے دل میں ڈالے اور آپ یہاں آکر رہیں تو قرآن شریف کے اس حصہ کی تفسیر سردست کر دی جاوے جس پر ہر ایک غیر مذہب نے کم فہمی سے اعتراض کئے ہیں یا اہل اسلام نے ان کے سمجھنے میں غلطی کھا ئی ہے اول اس کی فہرست تیار کر لی جاویگی اور وہ بہت بڑی نہ ہو گی کیو نکہ ایک ہی اعتراض کو ہر ایک فرقہ نے بار بار تکرا ر سے بیان کیا ہے اس لیے وقتاً فوقتاً اگر اس کی حقیقت آپ کے ذہن نشین کر دی جا وے تو اس حصہ کی تفسیر ہو جاوے اور اس کے ذریعہ سے یورپ میںہرایک اعتراض کا جواب دیا جا سکے اور اس طرح سے جو ھو کا اہل یورپ کا لگا ہے وہ نکل جا وے گا ۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ صفحہ۳۲۲۔ ۳۲۳مورخہ۲۹؍اکتوبر و۸ ؍نو مبر۱۹۰۳؁ء)
(۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۳؁ء)
ظہر کے وقت حضرت اقدس علیہ اسلام نے یہ تقریر فر مائی :۔
تر کِ دنیا کی اہمیت
جو شخص دنیا کو ردّ نہیں کر سکتا وہ ہمارے سلسلہ کی طرف نہیں آ سکتا ۔دیکھو حضرت ابو بکرؓ نے سب سے اوّل دنیا کو ردّ کیا اور آپ کی آخری پوشاک یہی تھی کہ کمبل پہن کر آپ آحاضر ہو ئے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے اوّل تخت پر جگہ دی وجہ اس کی یہی تھی کہ آپ نے سب سے اوّل فقر اختیار کیا تھا خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے کہ کسی کا قرضہ اپنے ذمہ نہیں رکھتی ۔اوائل میں نقصان ضرور ہو تے ہیں دوستوں یاروں کے تعلقات قطع کرنے پڑتے ہیں لیکن ان سب کا بدلہ آخر کار دیتاہے ۔ایک چوڑھے اور چمار کی خاطر جب ایک کام کیا جاوے اور تکلیف برداشت کی جاوے تو وہ اپنے ذمہ نہیں رکھتا تو پھر خدا کس لیے اپنے ذمہ رکھے وہ آخر کار سب کچھ دید یتا ہے ۔
بار ہا ہم نے سمجھایا ہے کہ جس شخص کو اور اور اغراض سوائے دین کے ہیں وہ ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر پار اُترنا مشکل ہے اس لیے جو ہمارے پاس آویگا وہ مر کر آوے گا لیکن خدا اس کی قدر کریگا اور وہ نہ مرے گا جب تک کہ دنیا میں کامیابی نہ دیکھ لے جو کچھ برباد کرکے آویگا خدا اسے سب کچھ پھر دیگا۔لیکن ایک دنیا دار قدم نہیں اُٹھا سکتا ۔اصل بات یہ ہے کہ انسان خود ہی غداری کرتا ہے کہ نام تو خدا کی طرف آنے کا کرتا ہے اور اس کی نظر اہل دنیا کی طرف ہوتی ہے۔
جو قدر اس سلسلہ میں داخل ہونے کیاس وقت ہے وہ بعد ازاں نہ ہوگی۔مہاجرینوغیرہ کی نسبت قرآن شریف میں کیسے کیسے الفاظ آئے ہیں جیسے رضی اللہ عنہم۔لیکن جو لوگ فتح کے بعد داخل ہوئے کیا اُن کو بھی یہ کہا گیا؟ہر گز نہیں۔ان کا نام ناس رکھا گیا۔اور لوگوں سے نڑھ کر کوئی خطاب ان نہ ملا۔خدا کے نزدیک عزتوں اور خطابوں کے یہی وقت ہوتے ہیں کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہونے سے برادری،رشتہ داری وغیرہ سب دشمن جان ہو جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ شرک کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کچھ حصہ غیر کا بلکہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اگر تم کچھ مجھ کو دینا چاہتے ہو اور کچھ بتوں کو تو سب کا سب بتوں کودیدو۔
اس وقت کا تخم بویا ہوا ہرگز ضائع نہیں ہوگا۔کیا آج کے تجربہ نے ان لوگوں کو بتلا نہیں دیا کہ یہ پودا ضائع ہونے والا نہیں۔قرآن شریف،احادیثِ صحیحہ اور نشاناتِ آسمانی سب ہماری تائید میں ہیں اور بین طور پر سب کچھ ثابت ہو گیا ہے۔اب جو اس سے فائدہ نہ اُٹھاوے وہ مورِوغضب الہیٰ ہے۔خدا غفور اور کریم،حنان اور منان ہے
مگر یہ انسان کی شوخی اور بد بختی ہے کہ اس کے مائدہ کو وہ رد کرتا ہے اور غضب کا مستحق ہو جاتا ہے اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا۔انسان کو خدا کا خوف اور ڈر رکھنا چاہیے اور بری اور رسوم سے ڈر کر خدا کی راہ کو ترک نہ کرنا چاہیے۔جب انسان کا مممدد گار اور معاون خداہو جاتا ہے تو پھر اُسے کوئی کمی نہیں۔خداداری چہ غم داری۔اس قدر انبیاء جو آئے ہیں کیا خدا نے ان سے کسی قسم کی دگا کی ہے جو اب کسی سے کیگا۔آنحضرت ﷺکے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ہر وقت جان کا خطرہ تھا۔ہر ایک طرف سے دھمکی ملتی تھی مگر کیا لوگوں نے اور قوم اور برادری نے آپ کو تباہ کردیا؟ہرگز نہیں۔بلکہ وہ خود تباہ ہوئے اور ج کوئی ایک بھی نہیں جواپنے آپ کو ابو جہل کی اولاد بتلاتا ہو مگر آنحضرت ؐ کے نام لیوائوں اور آپ کی اولاد سے دنیا بھری پڑی ہے۔
(البدؔرجلد ۲ نمبر ۴۱۔۴۲ صفحہ ۳۲۳ مورخہ ۲۹ ؍اکتوبرو ۸؍نومبر ۱۹۰۳؁ء)
۳۰؍اکتوبر۱۹۰۳ء؁
طاعون کا نشان
مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد حضرت اقدس حسب دستور شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے اور طاعون کا ذکر ہوا۔اس پر آپ نے فرمایاکہ:۔
خدا تعالیٰ نے اگر چہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا سے محفوظ رکھے گا۔مگر اس میں بھی شرط لگی ہوئی ہے کہ
لمیلبسوا ایما نھم بظلم(الانعام:۸۳)
کہ جو لوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملادیں گے وہ امن میں رہیں گے پھر دار کی نسبت وعدہ دیا تو اس میں بھی شرط رکھدی
الاالذین علواعن استکبار
اس میں
علوا
کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ جس قسم کی اطاعت انکساری کے ساتھ چاہئیے وہ بجا نہ لاوے ۔جب تک انسان حُسن ِنیتی جس کو حقیقی سجدہ کہتے ہیں بجا نہ لاوے تب تک وہ دار میں نہیں ہے اور مومن ہو نے کا دعویٰ بے فائدہ ہے ۔
لم یلبسو ایما نھم بظلم
میں شرک سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہندؤوں کی طرح پتھروں کے بُتوں یا اَور مخلوقات کو سجدہ کیا بلکہ جو شخص ماسوی اللہ کی طرف مائل ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے حتٰی کہ دل میں جو منصوبے اور چارلا کیاں رکھتا ہے ان پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ بھی شرک ہے ۔
حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ بتلاؤ اللہ تعالیٰ سے معاملہ کیسے ہوا تو انہوں نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال کیا کہ عمل لایا ہے۔مَیں نے کہا اَور عمل تو کو ئی نہیں ہے صرف یہ ہے کہ مَیں نے ع،مر بھر شرک نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ کیا تو نے یوم اللبن کے دن بھی شرک نہ کیا تھا کہ دُودھ پی کر کہا کہ اس سے پیٹ میں درد ہوئی ہے گو یا دودھ کو خدا سمجھ لیا تھا اور خدا پر سے جو حقیقی فاعل ہے نظر اُٹھ گئی تھی۔
نفسانی جذبات ہزاروں قسم کے ہیں جو کہ انسان کو لگے ہو ئے ہیں ان کو دیکھا جاوے تو سرسے لیکر پاؤں تک ظلم ہی ظلم ہے سرتکبّراور گنمڈ کی جگہ ہے آنکھ بُرے خیالات کا مقام ہے غضب کی نظر سے بھی انسان اسی سے دوسرے کو دیکھتا ہے کان بیجاباتیں سنتے ہیں زبان بُری باتیں بولتی ہے گردن اکڑتی ہے صدورمیں کِن کِن بُری باتوں کی خواہش ہوتی ہے نیچے کا طبقہ بھی کچھ کم نہیں ہے فسق وفجور میں جہان اسی کے باعث مبتلا ہے پاؤں بھی بیجا مقامات پر چل کر جاتے ہیں غرض یہ ایک لشکر اور جماعت ہے جسے سنبھال کر رکھنا انسان کا کام ہے اور یہ بڑی بات ہے ۔
ایک طرف تو خدا نے کشتی کا حوالہ دیا ہے کہ جو اس میں چڑھے گا وہ نجات پاوے گا اور ایک طرف حکم دیا ہے
ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا(ھود:۳۸) ملے
یہاں بھی ظلم کی نسبت ہی فر مایا کہ جو لوگ ظالم ہیں تو ان کو نسبت بات ہی نہ کر ۔خوف الہیٰ اور تقویٰ برکت والی شئے ہے انسان میں اگر عقل نہ ہو مگریہ باتیں ہوں تو خدا اسے اپنے پاس سے برکت دیتا ہے اور عقل بھی دے دیتا ہے جیسا کہ فر ماتا ہے
ئجعل لہ مخرجا(الطلاق:۳)
اس کے یہی معنے ہیں کہ جس شئے کی ضرورت اسے ہو گی اس کے لیے وہ خود رَاہ پیدا کردیگا بشرطیکہ انسان متقی ہو ،لیکن اگر تقویٰ نہ ہو گا تو خواہ فلا سفر ہی ہو وہ آخر کار تباہ ہو گا دیکھو کہ اسی ہندو ستان پنجاب میں کسقدر عالم تھے مگر ان کے دلوں میں اور زبانوں میں تقویٰ نہ رہا۔محمد حسین کی حالت دیکھو کہ کیسی گندی اور فحش باتیں اپنے رسالہ اشاعتہ میں لکھتا رہا اگر تقویٰ ہوتا تو وہ کب ایسی باتیں لکھ سکتا تھا۔
اس کے بعد چند احباب نے بیعت کی اور بعد بیعت ضرت اقدس نے ایک طویل تقریر فر مائی جو کہ ذیل میں درج ہے :۔
حقیقتِ بیعت اور اس سے فیض پانے کی راہ
یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تیئں بیچ دنیا ہے اس کی برکات ہے کہ گو یا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا ،لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک زمانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجزاختیار کر نی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہو نا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہو تا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا ۔صوفیوں نے بعض جگہ لکھا ہے کہ اگر مرید کو اپنے مرشد کے بعض مقامات پر نظاہر غلطی نر آوے تو اسے چاہئیے کہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اظہار کر یگا تو حبطِ عمل ہو جاوے گا (کیو نکہ اصل میں وہ غلطی نہیں ہوتی صرف اس کے فہم کا اپنا قصور ہاتا ہے )اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا کہ آپ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں اس طرح سے بیٹھتے تھے سرپر کوئی پرندہ ہو تا ہے اور اس کی وجہ سے انسان سر اوپر نہیں اُٹھا سکتا یہ تمام ان کا ادب تھا کہ حتیٰ الوسعی خود کبھی کو ئی سوال نہ کرتے ۔ہاں اگر باہر سے کوئی نیا آدمی آکر کچھ پو چھتا تو اس ذریعہ سے جو کچھ آنحضرت ﷺ کی زبان سے نکلتا وہ سن لیتے صحابہ بڑے متادّب تھے اس لیے کہا ہے کہ
اطریقتہ کلھا ادب۔
جو شخص ادب کی حدود سے باہر نکِل جاتا ہے تو پھر شیطان اس پر دخل پاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی نوبت ارتداد کی آجاتی ہے اس ادب کومدِنظر رکھنے کے بعد انسان کو لازم ہے کہ وہ فارغ نشین نہ ہو ۔ہمیشہ تو بہ استغفار کرتا رہے اور جو مقامات اسے حاصل ہوتے جاویں ان پر یہی خیال کرے کہ مَیں ابھی قابل اصلاح ہوں اور یہ سمجھ کر کہ بس میرا تزکیئہ نفس ہو گیا وہاں ہی نہ اڑبیٹھے ۔
منافق کون ہیَ
یاد رکھو منافق وہی نہیں ہے جو ایفا ئے عہد نہیں کرتا یا زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر دل میں اس کے کُفر ہے بلکہ وہ بھی منافق ہے جس کی فطرت میں دورنگی ہے اگر چہ وہ اس کے اختیار میں نہ ہو ۔صحابہ کرامؓ کو اس دورنگی کا بہت خطرہ رہتا تھا ایک دفعہ حضرت ابوہریرہؓ رو رہے تھے تو حضر ت ابوبکرؓ نے پو چھا کہ کیوں روتے ہو ؟ کہا کہ اس لیے روتا ہوں کہ مجھ میں نفاق کے آثار معلوم ہو تے ہیں ۔جب مَیں پیغمبر ﷺ کے پاس ہوتا ہوں تو اس وقت دل نرم اور اس کی حالت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر جب ان سے جُدا ہوتا ہوں تو وہ حالت نہیں رہتی ۔ابوبکرؓ نے فر مایا کہ یہ حالت تو میری بھی ہے پھر دونو آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اور کل ماجرا بیان کیا ۔آپ نے فر مایا کہ تم منافق نہیں ہو ۔انسان کے دل میں قبض اور بسط ہوا کرتی ہے جو حالت تمہاری میرے پاس ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔
تو اب دیکھو کہ صحابہ کرامؓ اس نفاق اور دورنگی سے کس قدر ڈرتے تھے جب انسان جُرا ت اوردلیری سے زبان کھولتا ہے تو وہ بھی منافق ہوتا ہے ۔دین کی ہتک ہوتی سنے اور وہاں کی مجلس نہ چھوڑے یا انکو جواب نہ دے تب بھی منافق ہوتا ہے۔اگر مومن کی سی غیرت اور استقامت نہ ہو تب بھی منافق ہوتا ہے جب تک انسان ہر حال میں خدا کو یاد نہ کرے تب نفاق سے خالی نہ ہوگا اور یہ حالت تم کو بذریعہدعا حاصل ہو گی۔ہمیشہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس سے بچاوے۔جو انسان داخل سلسلہ ہو کر پھر بھی دورنگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس سلسلہ سے دور رہتا ہے۔اس لیے خدا تعالیٰ نے منافقوں کی جگہ اسفل سافلین رکھی ہے کیونکہ ان میں دورنھی ہوتی ہے اور کافروں مین یکرنگی ہوتی ہے۔
گریہ وزاری کی اہمیت
صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چا لیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہوگیا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فلیضحکو قلیلا و لیبکوا کثیرا(التوبۃ:۸۲)
کہ ہنسو تھوڑااور روئو بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں۔اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے۔اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہو وہی روتا ہے۔انسان کو چاہیئے کہ دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز ونیاز سے خدا تعالیٰ کیاآستا نہ پر گر پڑے تا کہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے ۔جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں۔اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے ۔ بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے۔اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کسقدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے۔
ایمان کی حقیقت
جب لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔کیا ہم نماز نہیں پڑھتے۔کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔ان لوگوں کو حقیقت ایمان کا علم نہیں ہے۔اگر علم ہوتا تو وہ ایسی باتیں نہ کرتے۔اسلام کا مغز کیا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں۔حالانکہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت قدیم سے چلی آئے ہے کہ جب مغز اسلام چلا جاتا ہے تو اس کو از سر نو قائم کرنے کے واسطے ایک کو مامور کرکے بھیج دیتا ہے تا کہ کھائے ہوئیاور مرے ہوئے پھر زندہ کئے جاویں مگر ان لوگوں کی غفلت اس قدر ہے کہ دلوں کی مردگی محسوس نہیں کرتے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
بلی من اسلم وجہہ للٰہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحذنون (البقرہ:۱۱۳)
یعنی مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جا وے گویا اس کے قویٰ خدا تعالیٰ کے لیے مر جاتے ہیں ھویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلایا کہ ارادہ الہیٰ کی بجاآوری میں اپنے نفس کو ذرہ بھی دخل نہ دیا اور ایک ذراہ سا اشارہ سے بیٹے کو ذبح کرنا شروع کردیا مگر یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے نے خبر ہیں۔جو کام ہیں ان میں ملونی ہوتی ہے۔اگر کوئی ان میں سے رسالہ جاری کرتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کماوے بال بچے کا گذارہ ہو ابھی حال میں ایک شخص کا خط آیا ہے لکھتا ہے کہ میں نے عبد الغفور کے مرتد ہونے پر اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے امداد فرماویں۔ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیںہے کہ اسلام کیا شئے ہے۔خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نفخ روح اس میں نہیں لیکن رسالہ لکھنے کو تیار ہے۔ایسے شخص کو چاہیئے تھا کہ اوّل تزکیہ نفس کیلئے خود یہاں آتا اور پوچھتا اور اوّل خود اپنے اسلام کی خبر لیتا،لیکن عقل،ذہانت اور سمجھ ہوتی تو یہ کرتا۔مقصود تو اپنی معاش ہے اور رسالہ کو ایک بہانہ بنایا ہے۔ہر ایک جگہ یہی بدبو آتی ہے کہ جو کام ہے خدا کے لیے نہیں بیوی بچوں کے لیے ہے۔جو خدا کا ہوجا تا ہے تو خدا اس کا ہو جاتا ہے اور اس تائید یں اور نصرت کا ہاتھ اس کے کا موں سے معلوم ہو جاتا ہے اور آخر کار انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک غیب کا ہاتھ ہے جو اسے ہر میدان میں کامیاب کررہا ہے۔انسان اگر اس کی طرف چل کر آوے تو وہ دوڑکر آتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف تھوڑا سا رجوع کرے تو وہ بیت رجوع ہوتا ہے۔وہ بخیل نہیں ہے۔سخت دل نہیںہے۔جو کوئی اس کا طالب ہے تو اس کا اوّل طالب وہ خود ہوتا ہے۔لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے اگر ایک مکان کے دروازے بند کردیوے تو کیا روشنی اس کے اندر جاوے گی؟ہرگز نہیں۔یہی حال انسان کے قلب کا ہے۔اگر اس کا قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے موافق نہ ہوگا اور نفسانی جذبات کے تلے وہ دبا ہوا ہوگا تو گویا دل کے دروازے خود بند کرتا ہے کہ خدا کا نور اور روشنی اس میں داخل نہ ہو،لیکن اگر وہ دروازوں کو کھولے گا تو معاًنور اس کے اندر داخل ہوگا۔
ابدال،قطب اور غوث وغیرہ جس قدر مراتب ہیں یہ کوئی نماز اور روزوی سے ہاتھ نہیں آتے ۔ اگر ان سے یہ مل جاتے تو پھر یہ عبادات تو سب انسان بجا لاتے ہیں ۔ سب کے سب ہی کیوں نہ ابدال اور قطب بن گئے ۔ جب تک انسان صدق و صفاکے ساتھ خدتعالیٰ کا بندہ نہ ہوگا ۔ تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے ۔ جب ابراہیم کینسبت خداتعالیٰ نے شہادت دی
وابراھیم الذی وفی (النجم:۳۸)
کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت ِ الہٰی سے بھر نا ‘ خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظلّ ِاصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہو نا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو۔یہ سب باتیں دُعا سے حاصل ہوتی ہیں ۔ نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دُعا کرے ‘ لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں ۔ جیسے دیکھاجاتا ہے کہ بعض لوک پچاس سال نماز پڑھتے ہیں ‘ لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ نماز وہ شئے ہے کہ جس سے پانچ دن میں رُوحانیت حاصل ہو جاتی ہے ۔بعض نمازیوں پر اللہ تعالیی نے *** بھیجی ہے جیسے فر ماتا ہے
فویل للمصلین (الماعون:۵)
ویل کے معنے *** کے بھی ہو تے ہیں پس چاہئیے کہ ادادئیگی نمازمیں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہیتو اسے چاہئیے کہ ایک موت اختیار کرے ۔نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے بہت سے ریا کاریوں اور بیہود باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے پوچھا جاوے تو لوگ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر گذراہ نہیں ہوسکتا ۔ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرام خوری کے گذرا ہوسکتا۔جب ہر ایک حرام گذارہ کے لیے اہنوں نے حلال کر لیا تو پوچھو کہ خدا کیا رہا؟ اور تم نے خدا کے واسطے کیا کیا ؟ان سب باتوں کو چھوڑنا موت ہے جو بیعت کرکے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے تو جو پر ہیز وہ بتلاتا ہے اگر اسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے ،لیکن اگر وہ کریگا تو یوماً تر قی کرے گا یہی اصول یہاں بھی ہے ۔
جنّت کی حقیقت
کو ئی سوائے خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتی اور جسے اس دنیا میں فضل ہو گا اسے ہی آکرت میں بھی ہوگا جیسے کہ خدا تعالیٰ فر ماتا ہے
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرت اعمی(بنی اسرائیل :۱۷۳)
اسی لیے یہ ضروری ،کہ ان حواس کے حصول کی کو شش اسی جہان میں کرنی چاہئیے کہ جس سے انسان کو بہشتی زندگی حاصل ہو تی ہے اور وہ حواس بلا تقویٰ کے نہیں مل سکتے ۔ان آنکھوں سے انسان خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ،لیکن تقویٰ کی آنکھوں سے انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے۔اگر وہ تقویٰ اختیار کریگا تووہ محسوس کریگا کہ خدا مجھے نظر آرہاہے اور ایک دن آویگا کہ خود کہہ اُٹھے گا کہ مَیں نے خدا کو دیکھ لیا اسی بہشتی زندگی کی تفصیل جو کہ متقی کو اسی دنیا میں حاصل ہو تی ہے قرآن شریف میں ایک اورجگہ بھی پائی جاتی ہے جیسے لکھا ہے
کلما رزقوامنھا من ثمرت رزقا قالو اھذاالذی رزقنا من قبل (البقرت:۲۶)
جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے ان پھلوں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی ان کو مل چکے تھے پائیں گے تو کہہ دیویں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو کہ ہمیں اوّل ہی دئیے گئے تھے کیو نکہ وہ ان پھلوں کو ان پہلے پھلوں سے مشابہ پاویں گے اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں مثل دودھ ۔شہد ۔گھی اور انار اور انگور وغیرہ انہوں نے کھائی ہیں وہی ان کو وہاں جنّت میں ملیں گے اور وہاں ان چیزوں کے مہیّا کر نے کے لیے بہت سے باغات ۔درخت مالی اور بیل وغیرہ اور گائے بھینسوں کے ریوڑ ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہوں گے جب سے شہد اُتا ر کر اہل جنت کو دیا جا وے گا یہ سب غلط خیال ہیں اگر جنت کی یہی نعمت ہے جو ان کو دنیا میں ملتی رہی اور آخرت میں بھی ملے گی تو مومنوں اور کافروں میں کیا فر ق ؟ ان سب چیزوں کے حاصل کر نے میں تو کافر اور مشرک بھی شریک ہیں ۔پھر اس میںبہشت کی خصوصیت کیا ہے ؟لیکن قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بہشت کی نعمتیں ایسی چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ۔نہ کسی کا ن نے سنیں اور نہ دلوں میں گذریں اور ہم دنیا کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سب آنکھوں نے دیکھیں ،کانوں نے سنیں اور دل میں گذریـ ہیں ۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اگر چہ ان جنتی نعمتوں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر وہ اصل میں اَور ہیں ورنہ
رزقنا من قبل (البقرۃ:۲۶)
کے کیا معنے ہو ں گے اس کے وہی معنے ہیں جو کہ
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرت اعمی(بنی اسرائیل :۱۷۳)
کے ہیں ۔دوسرے مقام پر قرآن شریف فر ماتا ہے ۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمان:۴۷)
جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت اور جلال کے مرتبہ سے ہرا ساںہے اس لے لیے دو بہشت ہیں ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت ۔جو شخص سچّے اور خالص دل سے نقشِ ہستی کو اس کی راہ میں مٹا کر اس کے متلاشی ہو تے ہیں اور عبادت کرتے ہیں تو اس میں ان ان کو ایک قسم کی لذت شروع ہو جاتی ہے اور ان کو وہ روحانی غذائیں ملتی ہیں جو روح کو روشن کرتی اور خدا تعالیٰ کی معر فت کو بڑھاتی ہیں ایک جگہ پر شیخ عبدالقادر حمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو اس کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے ۔اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کی نماز اب بارگاہ ِالہیٰ میں قبول نہیں ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ چونکہ اب اسے لذت شروع ہو گئی ہے تو جو اجراس کا عنداللہ تھا وہ اب اسے دنیا میں ملنا شروع ہو گیا ہے جیسے ایک شخص اگر دودھ میں برف اور خوشبو وغیرہ ڈال کر پیتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اسے ثواب ہو گا کیو نکہ لذت تو اس نے اس کی یہیں حاصل کر لی خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور کسی عمل کی قبولیت اور شئے ہے اور ثواب اَور شئے ہے ہر ایک لفظ اپنے اپنے مقام کے لیے چسپاں ہوتا ہے اسی لحاظ سے شیخ عبدالقادر صاحب نے فر مایا کہ عارف کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے جو اہل حال ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پورے بہشت میں ہوتا ہے اور جب انسان کو خدا تعالیٰ سے پورا تعلق ہو جاتا ہے تواغلال اور اثقال جس قدر بوجھ اس کی گردن میں ہوتے ہیں وہ سب اٹھائے جاتے ہیں وہ لذت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی عبادت میں حاصل ہو تی ہے وہ اَور ہے اور کو اکل وشرب اور جماع وغیرہ میں حاصل ہوتی ہے وہ اَور ہے لکھا ہے کہ اگر ایک عارف درواز بند کرکے اپنے مولا سے راز ونیاز کر رہا ہو تو اُسے اپنی عبادت اور اس راز ونیاز کے اظہار کی بڑی غیرت ہو تی ہے اور ہو ہر گز اس کا افشاپسند نہیں کرتا اگر اس وقت کوئی دروازہ کھول کر اندر چلا جاوے تو وہ ایسا ہی نادم اور پشیمان ہوتا ہے جیسے زانی زنا کرتا پکڑا جاتا ہے جب اس لذت کی حد کو انسان پہنچ جاتا ہے تواس کا اَور ہوتا ہے اور ادی حالت کو یاد کر کے وہ جنت میں کہگا کہ
رزقنا من قبل (البقرۃ:۲۶)
بہشتی زندگی کی بنیاد یہی دنیا ہے بعد مرنے کے جب انسان بہشت میں داخل ہوگا تو یہی کیفیت اور لذت اسے یاد آویگی ۔تو اسی بات کا طالب ہر ایک کو ہونا چاہئیے ۔
نیکی کیا ہیَ؟
گناہوں کا چھوڑنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے یہ ایک ذلیل کام ہے اگر کوئی کہے کہ مَیں چوری نہیں کرتا ۔زنا نہیں کرتا ۔خون نہیں کرتا اور فسق وفجور نہیں کرتا تو کو ئی خوبی کی بات نہیں اور نہ خدا پر یہ احسان ہے کیونکہ اگر وہ ان باتوں کا مرتکب نہیں ہوتا تو ان کے بدنتائج سے بھی وہی بچا ہوا ہے۔کسی کو اس سے کیا ؟اگر چوری کرتا گرفتار ہوتا سزا پاتا اس قسم کی نیکی کو نیکی نہیں کہا کرتے۔
ایک شخص کا ذکر ہے کہ ایککے ہاں مہمان گیا بیچارے مزبان نے بہت تواضع کی تو مہمان آگے سے کہنے لگا کہ حضرت آپ کا کوئی احسان مجھ پر نہیں ہے احسان تو میرا آپ پر ہے کہ آپ اتنی دفعہ باہر آتے جاتے ہیں اور کھانا وغیرہ تیار کروانے اور لانے میں دیر لگتی ہے۔میں پیچھے بااختیار ہوتا ہوں چاہوں تو گھر کو آگ لگا دوں یا آپ کا اور نقصان کر چھوڑوں تو اس میں آپ کا کس قدر نقصان ہو سکتا ہے۔تو یہ میرا اختیار ہے کہ میں کچھ نہیں کرتا۔ایسا خیال ایک بد آدمی کا ہوتا ہے کہ وہ بدی سے بچ کر خدا تعالیٰ پر احسان کرتا ہے اس لیے ہمارے نزدیک ان تمام بدیوں سے بچنا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ان اللہ یا مر بالعدل والا حسان وایتای ذی القربی(النحل:۹۱)
خدا تعالیٰ کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یا دکرکے اس کی فرماںبرداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اسے پہچانواوراس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پرایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا۔اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو۔نہ بہشت کی طمع نہ دوزخ کا خوف ہو۔بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ایسی محبت جب خدا تعالیٰ سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔اور مخلوق خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کو حقیقی رشتہ دار ہو۔یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تو اس بچے کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی تو وہ کبھی یہ بات نہ سنناگوارانہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی۔حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہو نے تک میں نے مر جانا ہے مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہیں کرے گی۔اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشارہ
ایتای ذی القربی(النحل:۹۱)
میں کیا گیا ہے ا س قسم کی محبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیئے۔نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر۔جیسے آیت
لا نرید منکم جزاء ولا شکورا(الدھر:۱۰)
اسے ظاہر ہے غرضکہ یہ باتیں ہیں جن کو یاد رکھنا چاہیئے۔
( البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ صفحہ ۳۳۳تا۳۳۵ مورخہ ۱۶؍ نومبر ۱۹۰۳ء؁)
یکم نومبر۱۹۰۳ء؁
تہجد کا نماز کا طریق
عبد الغریز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعا مِل اہل ِاسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیاکرتے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلا م کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلا م کی خد مت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نورالدین صاحب یہ امر تحقیق کے لیے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمانعلیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا۔
میر ایہ مذہب ہر گز نہیں کہ آنحضرت ﷺ اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس ۔مَیں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کو ئی اَور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کرسکے تو وہ اُٹھ کر استغفار ،درودشریف اور الحمدشریف ہی پڑھ لیا کرے ۔آنحضرت ﷺ ہمیشہ نوافل ادا کرتے ۔آپ کثرت سے گیارہ۱۱؎ رکعت پڑھتے آٹھ نفل اور تین وتر آپ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سوجاتے اور پھر اُٹھتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اور سوجاتے ۔غرض سوکر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گذررہی ہے۔ ( البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ صفحہ ۳۳۵ مورخہ ۱۶؍ نومبر ۱۹۰۳ء؁)
۴؍نومبر۱۹۰۳ء؁
بوقتِ ظہر
تقریر حضرت اقدس علیہ السلام
حضرت اقدس امام صادق علیہ الصلوٰۃو السلام بوقت ظہر حسبِ معمول اندر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے اور مسند کو زیب نشست بخش کر مولوی برہان الدین صاحب جہلمی سے مخاطب ہو کر فر مایا ۱ ؎کہ:۔
آپ کے چہرہ پر آثار پژ مردگی پر پشانی وحیرانی کیسے نظر آرہے ہیں؟
عرض کی کہ حضور وجہ تو صرف یہی ہے کہ اب دوسرا کنارہ یعنی جہانِثانی نظر آرہاہے کیو نکہ بوجہ پیرانہ سالی کے اب عالمِآخرت کا ہی خیال رہتا ہے گنتی ہی کے دن اب باقی سمجھنے چاہئیں مزید آں عارضہ ضعف اَور بھی اس کے سریع الوقوع ہونے پر شاہد ہے اور جعف کا یہ باعث ہے کہ ابتداء میں کچھ مراقبہ واثبات کا کسی قدر شغل رکھا ہے جس سے یہ ضعف لاحق ِحال ہو گیا ہے ۔
یہ سُنکر حضرت اقدس نے ایک معانی یز اور پُر معارف لب ولہجہ کیسا تھ فر مایا کہ :۔
بقیہ ایّام زندگی قادیان میں گذرایں
جب یہ حالت ہے تب تو ضرور ہی ان تمام راعضی تحیرات کو یکسورکھ کر صرف ایک ہی آستانہ بار گاہ ِایزدی پر ن ظر رکھنی چاہئیے کیو نکہ ہر ایک سعادت کیِش ومتلاشی حق رُوح کا یہی مامن اور یہی ملجاومادیٰ ہے اور چونکہ یہ مسئلمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے مقّرب کے پاس رہنا گو یا ایک طرح سے خود خدا تعالیٰ کے پاس رہنا ہوتا ہے اس واسطے اب آپ کو باقی ایام زندگی اس جگہ قادیان میں گذارنے چاہئیں اور یہاں آکر ڈیرا لگا دینا چاہئیے اور اس شعر پر کار بند ہو ناچاہئیے ۔
چوکا ر عمر ناپیدا است بارے ایں اولیٰ
کہ روز واقعہ پیش نگار خود باشد
یہاں تو مقولہ’’دَرگیر ومحکم گیر‘‘ پر عمل کرنا ضروری ولازمی ہے ہر ایک کے لیے مناسب وواجب ہے کہ حسبِاستطاعت اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرکے پوری سعی کرے تاکہ ٹھیک وقت پر سفر منزل ِمحبوب حقیقی کے لیے تیاری کر سکے بغیر جوش محب کے اس راہ پر قدم مارنا بڑا مشکل ہے اور ساتھ ہی اس پر استقلال واستقامت ضروری ہے جب یہ امر حاصل ہو جاوے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوکرم سے جذب القلوب کا عمل بتدریج خود بخود شروع ہو جاویگا جس سے صادقین کی معیت کی توفیق ملے گی اور اس صیقل تعشقِ الہیٰ سے زنگا ر آئینہ دلِمحوہو کر تزکئیہ نفس وتطہیرِقلب نصیب ہو گا ۔مگر تلاش ِحق کا بیج بونا مقدم ہے جس سے صدق وصفا کا پر ثمر نخل پیدا ہوتا ہے اور محبت ذات زبّانی کی آب پاشی سے نشوونماپاتا ہے ۔
بمنزلِ جاناں رسد ہماں مروے
کہ ہمہ دم درتلاش ِاودواںباشد
آپ اپنی پہلی حالت کو یاد کریں جبکہ آغازسال ۱۸۸۶ء؁ میں صرف
حسبۃ للہ
کا جوش آپکو کشاں کشاں یہاں لایا تھا اور آپ پا پیادہ افتاں وخیزاں اس قدر ور فاصلہ سے پہلے قادیان پہنچے تھے اور جب کہ ہم کو اس جگہ نہ پایا تو اسی بیتابی وبء قراری کے جوش میں تگاپو کرکے پیدل ہی ہمارے پاس پو شیار پور جاپہنچے تھے اور جب وہاں سے واپس ہو نے لگے تو اس وقت ہم سے جُدا ہو نا آپ کو بڑا شاق گذرتا تھا اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ آپ کو آگے ہی قدم مارنا چاہئیے نہ یہ کہ الٹا تساہل وتکاسل میں پڑیں ۔اب تو زمانہ بزبانِ حال کہہ رہا ہے اور نشا نات وعلامات سماوی بآواز دُہل پُکاررہے ہیں کہ
چنیں زمانہ چنیں دور ایں چنیں برکات تو بے نصیب روی وہ چہ ایںشفاباشد
فلک قریب زمیں شدزبارش برکات کجاست طالبِحو تایقین فزاباشد
بجزاسیریٔ عشق ِرہائی نیست بدردِاُوہمہ امراض را دواباشد
غرض کہ پوری مستعدی و ہمت سے استقلال دکھلاویں۔یہ آثار پژمردگی ہمیں بر محل معلوم نہیں ہوتے۔یہاں کا رہنا تو ایک قسم کا آستانہ ایزدی پر رہنا ہے۔اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیاتِجاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابدالآباد تک موت ہرگز نہیں آسکتی۔اچھی طرح کمر بستہ ہوکر پورے استقلال سے اس صراط مستقیم کے راہ رو بنیں اور ہر قسم کی دنیاوی روکاوٹوں اور خواہشوں کی ذرہ پروانہ کرکے اللہ تعالیٰ کے صادق مامور کی پوری معیت کریں تا کہ حکم
کونوا مع الصدقین
کی فرمانبرداری کا سنہری تمغہ آپ کو حاصل ہو۔
یاد رکھیں کہ راستی وصداقت کے فرزند ہمیشہ جاہ وجلال کے تاج زریں کے وارث ہو اکرتے ہیں۔راستبازی کے حاسد دشمنوں کا جو انجام ہوا کرتا ہے وہ بھی پوشیدہ نہیں ؎
بسوزدآنکہ نہ سوزد بصدق در رہ یار
بمیرد آنکہ گریزندہ از فنا باشد
معلوم نہیں آپ کو جہلم سے کیوں اُنس ہے حالانکہ اس کی میم نسبتی کو حذف کرنے کے بعد تو جہلم ہی جہلم رہ جاتا ہے۔بھلا فہم وذکاء کو جہلم سے کیا نسبت؟
مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور واقعی یہ تو سچ ہے کہ جہلم بمعنی جہلم من ہی ہے آخری میم نسبتی ہے۔فرمایا کہ:۔
جب یہ حال ہے تو ایسے جہل کو ترک کرنا چاہیئے۔وہاں کی رہائش کو یہاں کی رہائش پر کسی طرح بھی ترجیح نہیں ہو سکتی۔پھر ایسی حالت میں مامور من اللہ کی صحبت نہایت ضروری بلکہ مغتنمات سے ہے خوش قسمت وہ جنکو یہ نعمت ِغیر متر قبہ نصیب ہو۔جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا یا کم از کم ایسی تمنا دل میں نہیں رکتا اس کی حالت کی نسبت مجھے بڑا اندیشہ ہے کہ مبادا وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ اپنے گھروں،وطنوں اور املاک کو چھوڑ کر میری ہمسائیگی کے لیے قادیان میں بود وباش کرنا اصحاب الصفہ کا مصداق بنبا ہے۔
اور یہ تو ایک ابتدائی مرحلوں میں سے ہے ورنہ مردانِ خداکو تو اگر اس سے بھی صد ہا درجہ بڑھکر دشواریوں و مصیبتوں کا سامنا ہو۔تاہم وہ انکیکچھ پروا نہیں کرتے بلکہ وفود جذبہ عشقِ محبوب حقیقی سے آگے ہی قدم مارتے ہیں اور اپناتمام دھن ،من،تن اسی راہ میں صرف کردینے کو عین اپنی سعادت و خوش قسمتی سمجھتے ہیں اوریہی ان کا مقصود بالذات ہوتا ہے کہ دنیوی علائق کے جالوں کو توڑ کر اور ا س کے پھندوں سے مخلصی پاکر اس جیع محامد کی جامع ذات ستودہ صفار کے آستانہ سراپا برکت خیز پر پہنچنے کا شرف حاصل کریں ؎
نتابد ازرہِ جانانِ خود سر اِخلاص اگرچہ سیل مصیبت بزور ہا باشد
براہِ یارِ عزیز از بلا نہ پر ہیزد اگرچہ در رہِ آں یار اژدہا باشد
بدولتِ دو جہاں سُر خرو نمے آرند بعشِ یار دل زارِ شان دوتا باشد
مَیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ حقیقت اصولِ استوامت یہی ہے۔کلام مجید میں ہے
الذین قالوا ربنا اللی ثم استقموا(حٰمٰ السجدۃ:۳۱)
یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آجاتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہی راستہ پر نہیں آتے بلکہ اسی صراط مستقیم پر استقامت بھی دکھلاتے ہیں۔نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ تطیہر وتنویرِ قلوب کی منزلیں طے کرلیتے ہیں اور بعد انشراحِ صدر کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص نعمتوں سے متمتع فرماتاہے۔محبت وذوقِ الہیٰ ان کی غذاہوجاتی ہے۔مکالمہ الہیٰ،وحی،الہام وکشف وغیرہ انعاماتِ الہیٰ سے مشرف و بہر مند کئے جاتے ہیں۔درگاہِ رب العزت سے طمانیت وسکینت اپر اُترتی ہے۔حُزن ومایوسی اُن کے نزدیک تک نہیں پھٹکتی۔ہر وقت جذبہ محبت و ولولہ عشق الہیٰ میں سر شارر ہتے ہیں گویا
لاخوف علیھم ولا یحذنون (البقرہ:۱۱۳)
کے پورے مصداق ہو جاتے ہیں۔ما در ماقال ؎
کلید ایں ہمہ دولت محبت است ووفا
خوشا کسیکہ چینں دولتش عطا باشد
غرض استقامت بڑی چیز ہے۔ استقامت ہی کی بدولت تمامگروہ انبیاء ہمیشہ مظفر ومنصورو بامراد ہوتا چلا آیاہے۔ذات تقدس مآ ب باری تعالیٰ کے ساتھ ایک خالص ذاتی تعلق وگہرا پیووند قائم کر نا چاہئیے جب یہ تعلّق پورا قائم ہو جاوے پھر ہر ایک قسم کے خوف وخطر سے محفوظ ومطمین ہو جاتا ہے اور انشراح صدر کے بعد تمام بو جھ ہلکے ہو جاتے ہیں ایسا کیو ں ہو تا ہے ؟صرف اس لیے کہ ان کو’’ہر کہ در ایزدی یا فت بازبردرِدیگر نتانیت‘‘ پر حق الیقین ہو جاتا ہے اور اس کی پر ثمر تا ثیرات اُن کے لوحِقلب پر منقش ہو جاتی ہیں اور انکے رگ وریشہ میں سرایت کرگئی ہو تی ہیں اور بوجہ استیلائے محبت وتعشقِالہیی وشہودو عظمت وجلال ذات کبریائی ان کے قلب ِسیلم کا یہی درد ہو جاتا ہے ؎
نہ ازچینم حکا یت کن نہ از روم ؛ کہ دارم ولستانے اندریںبوم
چوںروئے خوب اوآید بیاوم ؛ فراموشم شود موجود ومعروم
آپ اپنے سارے ضسم وجان روح ورواں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہو جاویں ۔پھر خدا تعالیٰ خود بخود تم سب کا حافظ وناصر معین وکار ساز ہو جاوے گا چاہئیے کہ انسان کے تمام قویٰ آنکھ ۔کان ۔ دل ۔دماغ ۔دست وپا جملہ متمسک باللہ ہو جاویں ان میں کسی قسم کا اختلاف نہ رہے اسی میں تمام کا میابیاں ونصرتیں ہیں یہی اصل مراقبہ ہے اسی سے حرارت قلبی وروحانیت پیدا ہو تی ہے اور اسی کی بدولت ایمان ِکا مل نصیب ہو تا ہے ۔
سب سے اوّل تو انسان کو اپنا مرض معلوم کرنا چاہئیے جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو علاج کیا ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اطمینان نہ پانا یہی خطرناک مرض ہے یہ وہ حالت ہے جبکہ انسان نفسِامّارہ کے زیرِحکم چل رہا ہو تا ہے اس وقت صرف محرکات بدی یعنی شیطان ہی کی اس پر حکومت ہو تی ہے اور انہیں اللہ تعالی سے دُور افتادہ ہلاک ہو نے والی ناپاک روحوں کا اس پر اثر ہو تا ہے ۔
اس سے ذرا اُوپر انسان تر قی کرتا ہے تو اس وقت اس کا اپنے نفس کے ساتھ ایک جہاد شروع ہو جاتا ہے اس کی ایسی حالت کا نام لّوامہ ہے اس وقت اگر چہ محرکات بدی سے اس کو پوری مخلصی نہیں ہو تی مگر محرکات ِنیکی یعنی ملائکہ کی پاک تحریکات کی تاثیریں بھی اس پر مو ثر ہو نے لگ جاتی ہیں ان نیک تحریکات کی قوت وطاقت سے نفس ِامّارہ سے اس کی ایک قسم کی کشتی ڈٹ جاتی ہے اور ان کی مدد سے تحریکاتِ بدی پرغلبہ پاتے پاتے زینہ تر قی پر چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر فضل ِایزدی شامل حال ہو تو بتدریج تر قی کرتا جاتا ہے آخر کار اس نفس لّوامہ کی کشتی جیت لینے پر تمام تحریکات ِبدی کو مغلوب کر لیتا ہے اور اس مرحلہ سے اُوپر چڑھنے پر وہ ناپاک روحوں کی بری تحریکات کے نتائج بد سے بالکل محفوظ ہو کر امن الہیٰ میں آجاتا ہے اس حالتِکا میابی وظفر مندی وفائزالمرامی کا نام مطمئنہّ ہے اس وقت وہ ذات باری تعالیٰ سے آرام یافتہ ہوتا ہے اور اسی ممنزل پر پہنچ کر سالک کا سلوک ختم ہو جاتا ہے تمام تکلّفات اٹھ جاتے ہیں اور بلحاظ مدارج روحانیت کے یہی جدوجہد کی انتہااور اس کامقصود ذاتی ہوتا ہے اس گوہر مقصود کے حصول پر وہ پورا کامیاب وفائزالمرام ہو جاتا ہے ہماری بعثت کی علّتِ غائی بھی تو یہی ہے کہ رتسئہ منزل جاناں کے بھولے بھٹکوں ،دل کے اندھوں جذام،ضلالت کے مبتلاؤں ۔ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے کو رباطنوں کو صراط مستقیم پر چلا کر وصال ِذات ذوالجلال کا شیریں جام پلا یا جاوے اور عرفان ِالہیٰ کے اس نقطہ انہتائی تک ان کا پہنچایا جاوے تا کہ ان کو حیاتِابدی دراحت دائمی نصیب ہو اور جوارِرحمتِ ایزدی میں جگہ لے کر مست وسرشار ہیں ۔
ہماری معیت اور رفاقت کی پاک تا ثیرات کے ثمراتِ حسنہ بالکل صاف ہیں ہاں ان کے ادراکیلئے فہم رسا چاہئیے ان کے حصول کے لیے رشدوصفاچاہئیے ساتھ ہی استقمت کے لیے اتقاچاہئیے ورنہ ہماری جانب سے تو چار دانگ کے عالم کے کانوں ،میں عرصہ سے کھول کھول کر منادی ہو رہی ہے ؎
بیآمدم کہ رہ صدق رادر خشانم ؛ بدلستا ںبرم آنراکہ پارساباشد
کسیکہ ساہی بال ہماش سودنداد ؛ بیایدش کہ دوروز ے بظل ما باشد
گلے کہ روئے راگہے نخواہددید ؛ بباغ ماست اگر قسمتت رساباشد
ہم نے تو اس مائدہ الہیٰ کو ہر کس وناکس کے آگے رکھنے میں کو ئی دقیقہ باقی نہیں چھوٹ مگر آگے ان کی اپنی قسمت ۔
وما علینا الا البدغ۔
مسیح موعودؑ کی مخالفت
اس سے تھوڑا زمانہ پہلے بڑے بڑے علماء لکھ گئے تھے کہ مہدی موعود مسیح مسعود کی آمد کا زمانہ بالکل قریب ہے بلکہ بعض نے اس کی تا ئید میں اپنے اپنے مکا شفا ت بھی لکھے تھے جب اس نعمت کا وقت آیا تو تمام یہودی سیرتوں نے اسے قبول کر نے سے اعتراض کر دیا ہے اور صرف انکا ر پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ تکذیب پر ایسے تلے ہو ئے ہیں کہ جس کا کوئی حّدحساب نہیں ۔مخالفت کا کوئی پہلوچھوڑنہیں رکھا ۔ ہر دّجالیت ویہودیت کو عمل میں لایا جا رہاہے ہر وقت فساد وشرارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے کو نسا ایذاوتکلیف دہی کا راہ ہے جس پر وہ نہیں چلے ہماری تخریب واستیصال کے لیے کو نسا میدان تدبیر ہے جو ان کی اسپان مخالفت کی دوڑ دھوپ سے بچ رہا ہے ۔استہزاء وتضحیک کا کونسا پہلو باقی چھوڑاگیا ہے ۔
یا حسر ۃ علی العیاد ما یا تیھم من رسول الا کا نو ابہ یستھذون (یس:۳۱)
مگر ان کی یہ فتنہ پر دازیاں وگر بہ مکاریاں کچھ بھی عند اللہ وقعت نہیں رکھتیں چہ جائیکہ ان کو کبھی کا میابی کا منہ دیکھنا بھی نصیب ہو ؎
چرا غیکہ ایزدبرفروزد
ہر آنکس تف زندریشش بسوزو
سچ پو چھو تو ان کی یہ مخالفتیں ہماری مزرعہ کا میابی کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہیں کیو نکہ اگر مخالفو ں سے میدن صاف ہو جاوے تو اس میدان کے مردانِ کار زار کے جواہر کس طرح ظاہر ہو ں اور انعاماتِ الہیٰ کی غنیمت سے اُن کو کس طرح حصہ نصیب ہو اور اگر اعداء کی مخالفت کا بحرِموّاج پایاب ہو جاوے تو اس کے غوّاصوں کی کیا قدر ہو اور وہ بحرِ معانی کے بے بہا گوہر کو کس طرح حاصل کر سکیں ۔مادرّ ما قیل ؎
گر نبو دے در مقابل روئے مکروہ وسیاہ کس چہ دانستے جمال شاہد گلفام را
گر نیفتادے بخصمے کاردر جنگ ونبرد کے شود جوہر عیاں شمشیر خوں آشام را
اس مخالفت کا کوئی ایسا ہی سِّر معلوم ہو تا ہے والاً ان کی مخالفت کے ارادے عنداللہ کیا قدر رکھتے ہیں ۔اس ذات قادرِ مطلق کا تو صاف حکم ہے
ان حزب اللہ ھمالغالبون (المائدۃـ:۵۷)
اور اس جنگ و جدال کا آخری انجام بھی بتا دیا ہے کہ
والعاقبۃ للمتقین( الاعراف :۱۲۹)
مگر افسوس کہ با اینہمہ کو تا ہ اندیش نہیں سمجھتے حالانکہ اس نصرت ِالہیٰ وتائیدایزدی کا انہیں مشاہدہ وتجربہ بھی ہو تا رہتا ہے اور ان کی مذلّت وخسان ونا مرادی کا انجام بھی کوئی پوشیدہ نہیں ہے کیوں نہ ہو ؎
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر علم کو اک عالم دکھاتی ہے
وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ راہ کو اُڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف ہو جلاتی ہے غرض رُکتے نہیں ہر گز خداکے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جا تی ہے
قطع نظر ان یبوست مجسم مولویوں اور خشک ملا نوں کے موجودہ زمانہ کے فقراء کا گروہ بھی کم نہیں ہے ان میں ریا کاری وذاتی اغراض کی ایک زہر ہو تی ہے جوآخر کا ر ان کو ہلاک کر ڈالتی ہے ان کا زہر ایک قول وفعل وعمل ان کی نفسانی اغراض کے تا بع ہو تا ہے اور اس میں کوئی نہ کو ئی نہاں درنہاں ذاتی غرض مر کو ز خاطر ہو تی ہے ۔مثلاً خواہش مسنرات وطلب ِدنیا وجاہ طلبی وغیرہ وغیرہ تا کہ لوگ ان کی طرف رجوع کر یں اور ان کی دنیوی عزت ومال ومتاع میں ترقی ہو کجس سے اپنے نفسِ اماّرہ کو خوش رکھیں۔یہ ایسا سّمِ قاتل ہے کہ اس کا انجام ہلاکت ہے بعض ان میں سے زمین کھود کر چلہ کرتے ہیں نہ یہ حکم ِالہیٰ ہیاور نہ سنتِ نبوی۔ ریاکا ری ومکّاری کا خودتر اشیدہ ایک خاصہ ڈھنگ ہے تا کہ لو گوں کو دام ِتزویر میں لا یا جاوے اور یہی ان کی دلی غرض ہو تی ہے ان کے ایسے عملوںکی مثال میدانی شراب جیسی ہے کہ وہ ددور سے تو خوش نما مصفیٰ پانی دکھائی دیتا ہے مگر نزدیک جانے پر اس کی اصل حقیقت کھل جاتی ہے کہ وہ تو صرف آنکھوں کا دھوکا ہی دھو کا تھا اس وقت تشنگانِآبِزلال کو بجزحست وپشیمانی کے اَور کچھ حاصل نہیں ہو تا ایسے ریا کا روں کو جنم سے حصہ ملتا ہے کیو نکہ حق تعالیٰ سے وہ بالکل بیگا نے اور کو چہ یا ر حقیقی سے بالکل نا آشنا ہو تے ہیں وہ معرفت الہیٰ میں دل کے مردہ اور تن بگور ہو تے ہیں شاید ایسوں ہی کے لیے یہ خطاب ہے؎
کا ملاں حّی اند در زیر زمیں
تو بگوری با حیات ایں چینں
ان کی موت کی حالت عوام کا لا نعام سے بد تر ہو تی ہے کیو نکہ عوام تو سید ھے پن سے جیسا انکو سمجھ میں آتا ہے ایسا ہی عمل کر لیتے ہیں ان کی طبیعت میں کو ئی تکلّف نہیں ہو تا بالکل سادگی سے دین العجائز پر چلتے ہیں مگر مو جو دہ فقراء کا گروہ تو عمداً اغراض نفسانی کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان تمام ریا کاری کے کا موں کو ایک مزوِرانہ طلسمات کے رنگ میں ظاہر کر رہا ہے انہیں عاقبت کی کچھ پروا نہیں؎
مناز باکلئہ سبزوخرقہ پشمین
کہ زیرِولق فریب ہا باشد
سو ہماری جماعت کو چاہئیے کہ ایسے تصنّعات سے اپنے آپ کو بچاویں اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہو ئے راہ اور سنت وی پر محکم قد م رکھ کر چلیں تا منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے ان کو کوئی روک حائل نہ ہو اور یہ چند روزہ زندگی رایئگا ں نہ جاوے جو آخرت میں سخت مذامت ،ذلت وحسرت کا باعث ہو وے اللہ توالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دیوے کہ وہ محض اِبتغاء لمرضاتِ اللہ کی غرض سے راہ مستقیم پر چل کر منزل ِمقصود پر پہنچ جاویں اور تخلیق ِانسانی کے اصل مدعا کو پورا کریں۔آمین ثم آمین (۴؍نو مبر۱۹۰۳ء؁)
(نوٹ:۔ بَاِستشاء ایک شعر کے جو سر عنوان درج ہے باقی اشعار مندرجہ مضمون ہذاحضرت اقدس جناب امام صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اثنا ئے تقریر میں نہیں فر ئے تھے مگر چو نکہ بجز ایک شعر؎
بمنزلِ جاناں رسد ہماں مروے
کہ ہمہ دم در تلاشِ اودواں باشد
کے جو بوقت تحریر مضمون ہذاکے لیے بے ساختہ روانی طبع سے احقرکے منہ سے نکل گیا ہے باقی ماتدہ اکثراشعار نے خود حضرت اقدس ہی کی زبان گو ہر فشان سے جنم لیا ہو ا ہے اور ان مواقع پر چسپاں بھی تھے اس واسطے مناسب مواقع پر لکھ دئیے گئے ہیں بذاتِ خود بھی یہ حقائق معارف کا ایک خزینہ ہیں وثوق کا مل ہے کہ ان کا ان مواقعات مناسبہ پر چسپاں ہو نا بفضلہٰ تعالیٰ بہت سے سعید فطرت روستی پسند طبائع کو تکشیف حقائق وتلخیص وقائقو میں مدددیگا ۔جس سے انکو احقاقِ حق وابطالِ باطل کی توفیق ملے گی اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔آمین ثم آمین ۔والسلام ۔۵؍نومبر ۱۹۰۳ء؁۔
امام صادق علیہ الصلوٰۃ واسلام کا کمترین خادم
احقرالعباد الہ داد احمدی کلارک ضلع شاہ پور حال وار د قادیان )
(البدؔر جلد ۷نمبر۴۵ صفحہ ۳۵۲ تا ۳۵۴ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء؁ )
نیز (الحکم جلد ۷نمبر۴۴۔۴۵ صفحہ۷۔۸ مورخہ ۳۰؍نومبر و۱۰؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁ )
۵؍نومبر ۱۹۰۳ء؁
اولیاء اصفیاء پر مصائب کی وجہ
فر مایا کہ :۔
آج کل ہندستان سے ایک عورت ائی ہوئی ہے (ان کے خاوند بھی آئے ہوئے تھے)وہ اثر سوال کرتی رہتی ہیں اور میں اُن کو سمجھایا کرتا ہوں۔ایک دن سوال کیا کہ اولیاء اور پیغمبروں پر بڑی بڑی مصیبت آتی ہے اور وہ ہمیشہ نشانہ بنے رہتے ہیں۔تومیں نے جواب دیا کہیہ بات غلط ہے اور قرآن شریف کے بھی بالکل بر خلاف ہے۔خداتعالیٰ کے اولیاء اور نبیوں پر ہمیشہ اس کے انعامات ہوتے ہیں وہ ان کا ہر مقام میں محافظ وناصر ہوتا ہے پھر ان پر مصیبت کے کیا معنے؟عملی طور پر دیکھ لو کہ حضرت موسیٰ کو کیا کامیابی حاصل ہوئی۔ان کا دشمن غرقاب کیا گیا اور موسیٰ کو اس پر فتح حاصل ہوئی۔پھر دائود کو دیکھ لو۔عیسیٰ کو دیکھ لو کہ اُن کے دشمن ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے رہے اور یہ سب کامیاب ہوتے رہے۔ہمارے پیغمبر آنحضرتﷺ کو جو عروج ضاصل ہو کیا اس کی نظیر مل سکتی ہے؟ہر گز نہیں۔ہرگز ہرگز یہ لوگ فقرا ورذلت کے مصداق نہیں ہوتے۔
الدنیا سجن للمومن
میں اگر سجن کے معنی نسبتی کریں کہ اہل اللہ کو جو کچھ جنت میں ملے گا اس کے مقابلہ میں یہ دنیا سجن ہے تو ٹھیک ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اولیاء کو کبھی عذاب نہیں کرتے بلکہ اس دلیل سے یہود ونصاریٰ کے دعویٰ کی تردید کرتا ہے ان دونوں نے دعویٰ کیا تھا کہ
نحن ابنئو االلہ و احبا ئوہ
کہ ہم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہیں تواس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ
قل فلم یعد بکم بذنو بکم (المائدۃ:۱۹)
کہ اگر تم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہو تو پھر تمہاری شامتِ اعمال پر تم کو دکھ اور تکا لیف کیوں دیتا ہے؟پس اس سے ثابت ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان کو دنیا مین دکھ نہیں ہوتا اور وہ ہر ایک قسم کے عذاب سے محفوظ ہوتے ہیں
(اللھم اجعلنا منھم)
پس اگر اس کے پیاروں کو عذاب ہوتا رہے تو پھر کافروں میں اور ان میں کیا فرق ہوا؟انبیاء پر اگر کوئی واقعہ مصیبت کے رنگ میں آتا ہے تو اس خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ ان کے اخلاق کو وہ دنیا پر ظاہر کرے کہ جو تمہاری طرف سے آتے ہیں اور ہمارے ہو جاتے ہیں۔وہ کن اخلاق فاضلہ کے صاحب ہوتے ہیں۔امام حسین پر بھی ایسا واقعہ گذرا۔آنحضرت ﷺ پر بھی ایسے واقعات گذرے مگر صبر اور استقلال اور خدا تعالیٰ کی رضا کو کس طرح مقدم رکھ کر بتلایا۔
انسان کے اخلاق ہمیشہ دو رنگ میں ظاہر ہوسکتے ہیں یا ابتلاء کی حالت میں اور یا انعام کی حالت میں۔اگر ایک ہی پہلوہو اوردوسرا نہ ہو تو پھر اخلاق کا پتہ نہیں مل سکتا۔چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق مکمل کرنے تھے۔اس لیے کچھ حصہ آپ کی زندگی کا مکّی ہے اور کچھ مدنی۔ مکہ کے دشمنوں کی بڑی بڑی ایذا رسانی پر صبر کا نمونہ دکھایا اور باوجود ان لوگوں کے کمال سختی سے پیش آنے کے پھر بھی آپ ان سے حلم اور بردباری سے پیش آتے رہے اور جو پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے اس کی تبلیغ میں کوتا ہی نہ کی۔پھر مدینہ میں جب آپ کو عروج حاصل پو اور وہی دشمن گرفتار ہو کر پیش ہوئے تو ان مین سے اکثروں کو عفو کردیا۔باوجود قورِ انتقام پانے کے پھر انتقام نہ لیا۔
مولوی عبد اللطیف صاحب کا نمونہ صبر و استقلال
اب حال میں مو لوی عبداللطیف صاحب شہد مرحوم کا نمونہ دیکھ لو کہ کس ِصبر اور استقلال سے انہوں نجان دی ہے ایک شخص کو بار بار جان جا نے کا خوف دلا یا جا تا ہیاور اس سے بچنے کی امید دلا ئی جاتی ہے کہ اگر تو اپنے اعتقاد سے بظاہر تو بہ کردے تو تیری جان نہ لی جاوے گی مگر انہوں نے موت کو قبول کیا اور حق سے روگردانی پسند نہ کی ۔اب دیکھو اور سوچو کہ اسے کی کیا تسلّی اور اطمینان خدا توالیٰ کی طرف سے ملتا ہو گا کہ وہ اس طرح پر دنیا ومافیہّاپر ویدہ دانستہ لا ت مارتا ہے اور موت کو اختیار کرتا ہے اگر وہ ذرا بھی تو بہ کرتے تو خدا جا نے امیرنے کیا کچھ اس کی عزت کرنی تھی مگر انہوں نے خدا کے لیے تماعزتوں کو خاک میں لایا اور جان دینی قبول کی ۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آخر دم تک اور سنگساری کے آخری لمحہ تک ان کو مہلت تو بہ کی دی جاتی ہے اور وہ خوف جا نتے تھے کہ میرے بیوی بچے ہیں لا کھ ہار روپے کی جائداد ہے دوست یار بھی ہیں ان تمام نظاروں کو پیش چشم رکھ کر اس آخری موت کی گھڑی میں بھی جان کی پروا نہ کی ۔آخر ایک سروراور لذت کی ہواان کے دل پر چلتی تھی جس کے سامنے یہ تمام فراق کے نظا رے ہیچ تھے اگر ان کو جبراًقتل کر دیا جا تا اور جان کے بچانے کا موقعہ نہ دیا جاتا تو اور بات تھی مجوراًتو ایک عورت کو بھی انسان قتل کر سکتا ہے مگر ان کو بار بار موقعہ دیا گیا باوجود اس مہلت ملنے کے پھر موت اختیار کر نی بڑے ایمان کو چاہیتی ہے اولیا ء اللہ کی ایک خصلت ہو تی ہے کہ وہ موت کو پسند کرتے ہیں سوانہوں نے ظاہر کی ۔
ہمارے کا م کا انسان
ہمارے کا م کا وہ انسان ہو سکتا ہے جبکہ ایک مدّت اور نہیں تو کم ازکم ایک سال ہماری مجلس میں رہے اور تمام ضروری امور کو سمجھ لیوے اور ہم اطمینان پا جاویں کہ تہذیب نفس اسے حاصل ہو گئی ہے تب وہ بطور سفیر وغیرہ کے یورپ وغیرہ ممالک میں جاسکتا ہے مگر تہذیب ِنفس مشکل مرحلہ ہے پہاروں کی چوٹیوں پر چٹھنا آسان ،گر یہ مشکل ۔دینی تعلیم کے لیے بہت علوم کی ضرورت نہیں ہوتی ۔طہارت ِقلب اَور شئے ہے خدا ایک نور جب دل میں پیدا کردیتا ہے تو اس سے علوم خود حاصل ہو تے جاتے ہیں۔
(البدؔر جلد ۲نمبر۴۵ صفحہ ۳۵۴ تا ۳۵۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء؁ )
۱۰؍ نومبر ۱۹۰۳ء؁
بوقت ِظہر
اپنے آپکوہر آن خدا تعالیٰ کا محتاج سمجھو
شیخ فضل الہیٰ صاحب سوداگر ئیس صدر بازار راولپنڈی اور جناب محمد رمضان صاحب ٹھیکیدار جہلم اور چند دیگر اصحاب نے بیعت کی ۔بعد بیعت حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر فر مائی ۔
مذہب یہی ہے کہ انسان خوب غور کرے اور یکھے اور عقل سے سوچے کہ وہ ہر آن میں خدا کا محتاج ہے اسکی طرف عجزسے انسان کی جان پر ،مال پر ، آبرو پر بڑے بڑے مصائب اور حملے ہو تے ہیں ،لیکن سوائے خدا کے اور کوئی نجات دینے والا نہیں ہوتا اور ان مو قعوں پر ہر ایک قسم کا فلسفہ خو دبخود شکست کھا جاتا ہے جن لوگوں نے ایسے اصولوں پر قائم ہو نا چاہا ہے کہ جن میں وہ خدا کی حاجت کو تسلیم نہیں کرتے ۔حتیٰ کہ’’انشاء اللہ ‘‘ بھی زبان سے نکالنا ان کے نزدیک معیوب ہے مگر پھر بھی جب موت کا وقت آتا ہے تو ان کو اپنے خیالات کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے بات یہ ہے کہ ہر آن میں اور اپنے ہر ایک ذرہ کے قیام کے لیے انسان کو خدا کی حاجت اور ضرورت ہے اور اگر وہ انانیت سے نکل کر غور سے دیکھے تو تجربہ سے اسے خود پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کسقدر غلطی پر تھا اپنے آپ کو ہر آن میں خدا کا محتاج جاننا اور اس کے آستانہ پر سر رکھنا یہی اسلام ہے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر اسلام کے طریق کو اختیار نہیں کرتا اور اس پر قدم نہیں مارتا تو پھر اس کا اسلام ہی کیا ہے ؟اسلام نام ہے ۔ خدا کے آگے گردن جھکا دینے کا۔ذرا سوچکر دیکھو کہ اگر انسان کو ایک سوئی نہ ملے تو اس کا کسقدر حرج ہوتا ہے تو پھر کیا خدا وجود ایس اہو سکتا ہے کہ اس کی ضرورت انسان کا نہ ہو اور اس کے وجود کے بغیر وہ زندہ رہ سکے۔جب تک انسان کو صحت،مال،اقتدار حاصلہوتا ہے تب تک تو اس کایہ مذہب ہوتا ہے کہ اسباب پر توکل اور بھروسہ کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا محتاج جانے،لیکن جب مصائب اور مشکلات آکر پڑتے ہیں تو اس وقت یہ مذہب خود بخود بدلنا پڑتا ہے۔اسی لیے جو لوگ مصائب اور شدائد کا نشانہ رہتے ہیں اُن کا مذہب ہی اور ہوتا ہے۔وہ دیکھتے ہیںکہ ایک ایسے وجود کی ضرورت ہے جو طاقت والا ہو اور ہمیں پناہ دے سکے۔ایک صاحب محمد رمضان ہوتے تھے وہ خدا کے قائل نہ تھے مگر جب مرض الموت نے آکر اُن کو پلڑا تو آخر اپنا مذہب بدلہ اور اس وقت کہتے تھے کہ اگر ایک دفعہ مجھے تندرستی حاصل ہو جاوے تو میں پھر کبھی خدا کے وجود سے منکر نہ ہوں گا۔اس لیے انسان کو لازم ہے کہ ہمیشہ غفلت سے پر ہیز کرے اور اس ذات پر رکھے جس کے بغیر ایک ذرہ کا قیام بھی مشکل ہے۔
لا الہ الا اللہ
کے یہی معنے ہیں کہ انسان اس کی طرف بار بار رجوع کرے اور اسکے مقابلہ پر کسی اور وجود شئے کو مقتدر نہ جانے جو شخص ایک بکری رکھتا ہے تو اس سے اسی وقت مستفید ہوتا ہے دودھ حاصل کرتا ہے لیکن جس نے خدا کا نام لے کر اس کی ضرورت کو بالکل محسوس نہ کیا اور نظرِ استخفاف سے اُسے دیکھا اور ایک فرضی بت کی طرح اس کے وجود کو سمجھا تو خدا کو اس شخص کی کیا پروا ہے۔
انسان پر جو انقلابات آتے ہیں وہ اس ہستی کی ضرورت کو خود ثابت کرتے ہیں۔اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل تغیر زندگی میں کرنا چاہیئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو کہ وہ ہر مصیبت میں کام آتا ہے۔پھر اس کے احکام کو نظرِ خفت سے ہر گز نہ دیکھا جاوے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جاوے اور عملاًاس تعظیم کا ثبوت دیا جاوے مثلاً نماز کا حکم ہے۔جب ایک شخص اسے بجالا تا ہے اور نماز ادا کرتا ہے تو بعض لوگ اس سے تمسخر کرتے ہیں اور آج کل بہت لوگ نا م کے مسلمان ہیں جو کہ ارکانِ نماز کی بجاآوری کو ایک بیہودہ حرکت کہتے ہیں لیکن ایک مومن کو ہرگز لازم نہین کہ ان باتوں اور ہنسی اور استہزاء سے وہ اس کی ادائیگی کو ترک کرے۔ لوگوں کے ایسے خیالات اور خدا کے احکام کو نظرِاستخفاف سے دیکنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ عذاب کو چاہتا ہے۔ان لوگوں کی زندگی مردوں کی سی ہے۔انبیاء کے سلسلہ پر کہ جس کے ذریعہ سے ایمان حاصل ہوتا ہے اس اُن کو ایمان نہٰن ہے۔مگر ہم سچی اور حقیقی روئیت سے گواہی دیتے ہیں کہ خدا بر حق ہے اور سلسلہ انبیاء کا برحق ہے۔مرنے پر ان لوگوں کو پتہ لگے گا کہ جنت اور دوذخ سب کچھ جس سے آج یہ منکر ہیں،بر حق ہے۔
رعایت اسباب
جب سے آزادی کے خیالات اور تعلیم نے دلوں اور دماغوں میں جگہ لی ہے اُس وقت سے بہت بگاڑپھیلاہے۔خیالات ایسے پراگندہ ہوئے ہیں کہ شریعت کو خود تر میم کر لیا ہے۔دنیا کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے۔شریعت نے ایک حد تک رعایتِ اسباب کی اجازت دی ہے۔مثلاً ایک قطعہ کا ہو اور اُسے کاشت نہ کیا جاوے تو اس کی نسبت سوال ہو گا کہ کیوں کاشت نہ کیا؟مگر بہ ہمہ وجود اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار۔رعایتِاسباب اس حد تک کرنی چاہیئے کہ شرک لازم نہ آوے۔ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایتِ اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔دل یا یار اور دست باکار والی بات ہونی چاہیئے،لیکن حال میں دیکھا جاتا ہے کہ زبانوں پر تو سب کچھ ہے توکل بھی ہے۔توحید بھی ہے مگر دل مین مقصود بالذات صرف دنیا کو بنا رکھاہے۔رات دن اسی خیال میں ہیں کہ مال بہت سا مل جاوے۔عزت دنیا میں حاصل ہو۔یہ لوگ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم زہر کھا رہے ہیں جس نے ہلا ک کر دینا ہے۔
ہماری شریعت اور ہمارا دین دنیا میں کوشش کرنے سے نہیں روکتے صرف اتنی بات ہے کہ دین کو مقدم رکھ کراگر کوشش کرے تو تلاش اسباب جرم نہیں ہاں ایسے طور پر جسے خدا نے حرام ٹھہرا یا ہے نہ ہو۔جیسے کہ رشوت اور ظلم وغیرہ سے روپیہ کمایا جاتا ہے۔اگر خدا کی راہ میں صرف کرنے،اولاد پر خرچ کرنے اور صدقات وغیرہ کے لیے تلاش اسباب کی جائے تو ہرج نہیں کیونکہ مال بھی تو ذریعہ قرب الہیٰ ہوتا ہے مگر خدا کو بالکل چھوڑدینا اور بالکل اسباب کا ہو رہنا یہ ایک جذام ہے اور جب تک کہ قبض روح نہ ہوجاوے اس کی خبر نہیں ہوتی۔خدا سے ڈرنا اور تقویٰ اختیار کرنا یہ بڑی نعمت ہے جسے حاصل کرنا چاہیئے اور متکبر گردن کش نہ ہو نا چاہیئے۔
حقیقی اخلاق
اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملا قات وحیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوس اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ان اللہ یا مر بالعدل والا احسان وایتای ذی القربی(النحل:۹۱)
تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لیے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے جو لوگ اس سے دور ہیں عمیق نظر سے اُن کو دیکھو گے تو اُن میں ضرور گند نظر آئے گا۔زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔نماز،صدق و صفا میں ترقی کرو۔ (البدؔر جلد ۲نمبر۴۶ صفحہ ۳۶۲ ۔۳۳۶ مورخہ ۸؍ دسمبر ۱۹۰۳ء؁ )
بلا تاریخ
ایمان کی حقیقت
ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک اور شہبات سے ہنور لڑائی ہے۔پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی باوجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کرلیتا ہے وہ حضرتِ احدیث میںصادق اور راستبار شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتا ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے۔اس لیے ایک مرد متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سنکر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چا ہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے دلائل سے سمجھ آجاتا ہے۔اسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ میں نہیں آتا اس میں سنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تنا قض کو درمیان سے اُٹھا کر صفائی اور اخلاص کیستھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اسی کی حالت پر رحم کرکے اور کسی کے ایمان پر راضی ہوکر اور اسکی دعائوں کو سنکر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچاتا ہے،لیکن معتصب آدمی جو عناد سے پُر ہوتا ہے ایسا نہیں کرتا اور نہ وہ اُن اُمور کو جو حق کے پہچانے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں تحقیر اور توہین کی نظر سے دیکھتا ہے اور ٹھٹھے اور ہنسی میں ان کو اُڑادیتا ہے اور وہ امور جو ہنوز اس پر مشتبہ ہیں ان کو اعتراض کرنے کی دستاویز بناتا ہے اور ظالم طبع لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔
آیاتِ بینات،محمات اور آیات متشابہات
چنانچہ ظاہر ہے کہ ہر ایک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں ان کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں۔ایک بینات اور محکمات جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں اور ایک متشابہات جو محتا جِ تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پردے میں مححبوب تھیں۔پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو ان پیشگوئیوں کے محتاج تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں۔ایک فریق سیدوںکا جنہوں نے بینات کو دیکھ کر ایمان لانے میں تا خیر نہ کیاور کو حصہ متشابہات کا تھا اس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا۔آئندہ کے منتظر رہے ۱؎ اور اس طرح پر حق کو پالیا اور ٹھوکر نہ کھائی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا۔پہلی کتابوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دوطور کی پیشگوئیاں تھیں ایک یہ کہ وہ مسکینوں اور عاجزوںکے پیرایہ میں ظاہر ہوگا۔اور غیر سلطنت کے زمانہ میں آئے گا اور دائود کی نسل سے ہوگا اور حلم اور نرمی سے کام لے گا اور نشان دکھلائے گا اور دوسری قسم کی یہ پیشگوئیاں تھیں کہ وہ بادشاہ ہوگا اور بادشاہ ہوں کی طرح لڑے گا اور یہودیوں کو غیر سلطنت کی ماتحتی سے چھڑا دیگا اور اس سے پہلے ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور جب تک ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ نہیں آئے گا۔پھر جب حضرت عیسیٰؑ نے ظہور فرمایا تو یہود دو فریق ہوگئے۔ایک فریق جو بہت ہی کم اور قلیل التعداد تھا۔اس نے حضرت مسیحؑ کو دائود کی نسل سے پا کر اور پھر ان کی مسکینی اور عاجزی اور استبازی دیکھکراور پھر آسمانی نشانوں کو ملا حظہ کرکے اور نیز زمانہ موجودہ کو دیکھ کر کہ ایک نبی مصلح کو چاہتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے قرار داد وقتوں کا مقابلہ کر کے یقین کر لیا کہ وہی نبی ہے جس کا اسرائیل کی قوم کو وعدہ دیا گیا تھا ۔ سو وہ حضرت مسیح پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہو کر طرح طرح کے دُکھ اُ ٹھا ئے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اپنا صدق ظاہر کیا لیکن جو بد بختوںکا گروہ تھا اُس نے کھلی کھلی علامتوں اور نشانوں کی طرف ذرہ التفات نہ کیا ۔یہانتک کہ زمانہ کی حالت پربھی ایک نظر نہ ڈا لی اورشریرانہ حجتّبازی کے ارادے سے دوسرے حصّہ کو جو متشابہات کا حصّہ تھااپنے ہاتھ میں لے لیا اور نہایت گستا خی سے اس مقدس کو گالیاں دینی شروع کیں اور اس کا نام ملحد اور بے دین اور کا فر رکھا اور یہ کہا کہ یہ شخص پاک نوشتوں کے اُلٹے معنے کو تا ہے اور اس نے نا حق ایلیاہ نبی کے دوبا ہ آنے کی تا ویل کی ہے اور نصِّ صریح کو اس کے ظاہر سے پھیرا ہے اور ہمارے علماء کو مکار اور ریا کا ر کہتا ہت اور کتبِمقدسہ کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور نہایت شرارت سے اس بات پر زور دیا کہ نبیوں کی پیشگوئیوں کا ایک حرف بھی صادق نہیں آتا وہ نہ بادشاہ ہو کر آیا اور نہ غیر قوموں سے لڑا اور نہ ہم کو اُن کے ہاتھ سے چھوڑایا اور نہ اس سے پہلے ایلیاء بنی نازل ہو ا پھر وہ مسیح موعود کیونکر ہو گیا ۔
غرض ان بد قسمت شریروں نے سچایء کے انوار اور علامات پر نظر ڈالنا نہ چاہا ۔اور جو حصّہ متشابہات کاپیشگوئیوں میں تھا اس کو ظاہر پر حمل کر کے بار بار پیش کیا ۔یہی ابتلا ء ہمارے نبی ﷺ کے وقت میں اکژ یہودیوں کو پیش آیا ۔انہوں نے بھی اپنے اسلاف کی عادت کے موافق نبیوں کی پیشگوئیوں کے اس حصّہ سے فائدہ اُٹھانا نہ چاہا جو بیّنات کا حصّہ تھا اور متشابہات جو استعارات تھے اپنی آنکھ کے سامنے رکھ کر یا تحریف شدہ پیشگوئیوں پر زور دے کر اس نبی کریم ﷺ کی دولتِاطاعت سے جو سیّدالکونین ہے محروم رہ گئے اور اکژ عیسائیوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔انجیل کی کھلی کھلی پیشگوئیاںہمارے نبی کریم ﷺ کے حق میں تھیں ۔اُن کو تو ہا تھ تک نہ لگا یا اور جو سنّت اللہ کے موافق پیشگوئیوں کا دوسرا حصّہ یعنی استعارات اور مجازات تھے اُن پر گر پڑے اس لئے حقیقت کی طرف راہ نہ پا سکے ،لیکن ان میں سے وہ لوگ جو حقکے طالب تھے اور جو پیشگوئیوں کی تحریر میں طرزوعادتِ الہیٰ ہے اس سے واقف تھے انہوں نے انجیل کی ان پیشگوئیوں سے جو آنے والے بزرگ نبی کے بارے میں تھیں فائدہ اُٹھایا اور مشرف با اسلام ہوئے اور جس چرح یہود میں سے اس گروہ نے جو حضرت عیسیؑ پر ایمان لائے تھے پیشگوئیوں کے بیّنات سے دلیل پکڑی تھی اور متشابہات کو چھوڑ دیا تھا ایسا ہی ان بزرگ عیسائیوں نے بھی کیا اور ہزار ہا نیک بخت انسان ان میں سے اسلام میں داخل ہو ئے ۔غرض ان دونوں قوموں یہود ونصاریٰ میں سیجس گروہ نے متشابہات پر جم کر انکار پر زور دیا اور بینات پیشگوئیوں سے جو ظہور میں آیئں فائد ہ نہ اٹھا یا ان دونوں گروہ کا قرآن شریف میںجا بجا ذکر ہے اور یہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ تاان کی بد بختی کے ملاحظہ سے مسمانوں کو سبق حاصل ہو اور اس بات سے متنبہ رہیں کہ یہود ونصاریٰ کی مانند بیّنات کو چھوڑ کر متشابہات میں پڑکر ہلاک نہ ہو جائیں اور ایسی پیشگوئیوں کے بارے میں جو مامور من اللہ کے لئے پہلے سے بیان کی جاتی ہیں اُمید نہ رکھیں کہ وہ اپنے تمام پہلوئوں کی رُو سے ظاہری طور پر ہی پوری ہوں گی بلکہ اس بات کے ماننے کے لئے تیار رہیں کہ قدیم سنّت اللہ کے موافق بعض حصّے ایسی پیشگوئیوں کے استعارات اور مجازات کے رنگ میں بھی ہو تے ہیں اور اسی رنگ میں وہ پوری بھی ہو جاتی ہیں مگر غافل اور سطی خیال کے انسان ہنوز انتظار میں لگے رہتے ہیں کہ گویا ابھی وہ باتیں پوری نہیں ہوئیں بلکہ آئندہ ہو گی ۔جیسا کہ یہودی ابھی تک اس بات کو روتے ہیں کہ ایلیاء نبی دوبارہ دُنیا میں آئے گا اور پھران کا مسیح موعود بڑے بادشاہ کی طرح ظاہر ہو گا اور یہودیوں کو امارت اور حکومت بخشے گا حالانکہ یہ سب باتیں پوری ہو چکیں اور اس پر انیس سو برس کے قریب عرصہ گزر گیا اور آنے والا آبھی گیا اور اس دُنیا سے اُٹھا یا بھی گیا ۔
(البدر جلد۶نمبر۴۷ صفحہ۳۷۲ مورخہ ۱۶دسمبر۱۹۰۳ء؁)
محکم اور متشابہ پیشگو ئیاں
یہ بات نہایت کا ر آمد اور یاد رکھنے کے لا ئق تھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ہو کر آتے ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی یا محدّث اور مجدّ د۔ ان کی نسبت جو پہلی کتا بوں میں یا رسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہو تے ہیں ایک وہ علامات جو ظاہر ی طور وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہو تی ہیں پس جن کے دلوں میں زیغ اور کجی ہو تی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بّینات اور محکمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔یہود اور عیسائیوں کو یہ پیش آچکے ہیںپس مسلمانوں کے اولو لابصار کو چاہئیے کہ ان سے عبرت پکٹیں اور صرف متشابہات پر نظر رکھ کر تکذیب میں جلدی نہ کریں اور جوباتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کھل جائیں ان سے اپنی ہدایت کے لیے فائدہ اٹھائیں یہ تو ظاہر ہے کہ شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا۔ پس پیشگوئیوں کا وہ دوسرا حصہ جو ظاہری طور پر ابھی پورا نہیں ہو اوہ ایک امر شکی ہے کیو نکہ ممکن ہے کہ ایلیاء کے دوبارہ آنے کی طرح وہ حصہ استعارہ یا مجاز کے رنگ میں پورا ہو گیا ہو مگر انتظار کرنے والا اس غلطی میں پڑا ہو کہ وہ ظاہری طور پر کسی دن پورا ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض احادیث کے الفاظ محفوظ رہے ہوں کیو نکہ احادیث کے الفاظ وحی متلوکی طرح نہیں اور اکثر احادیث احاد کا مجموعہ ہیں اعتقادی امر تو الگ بات ہے جو چاہو ا عتقادر کھو مگر واقعی اور حقیقی فیصلہ یہی ہے کہ احاد میں عندالعقل امکان تغیرِالفاظ ہے چنانچہ ایک ہی حدیث جو مختلف طریقوں اور مختلف راویوں سے پہنچتی ہے اکثر ان کے الفاظ اور تربیت میں بہت سافرق ہو تا ہے حالا نکہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی منہ سے نکلِی ہے پس صاف سمجھ آتا ہے کہ چو نکہ اکثر راویوں کے الفاظ اور طرزِبیان جُدا جُدا ہو تے ہیں اس لیے اختلاف پڑ جاتا ہے اور نیز پیشگوئیوں کے متشابہات کے حصہ میں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہو نا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاًظاہر ہوں یا کسی اَور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی ﷺکی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرتﷺ فوت ہو چکے تھے اور آنجناب نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چو نکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیو نکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلّی طور گو یا آنجناب ﷺ کا وجود ہی تھا اس لیے عالمِوحہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا ﷺ کا ہاتھ قرار دیا گیا ۔خلاصہ کلام یہ کہ دھوکا کھانے والے اسی مقام پر دھوکا کھاتے ہیں وہ اپنی بد قسمتی سے پیشگوئی کے ہر حصہ کی نسبت یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ظاہری طور پر ضرور پورا ہو گا اور پھر جب وقت آتا ہے اور کوئی مامور من اللہ آتا ہے تو جو علامتیں اس کے صدق کے صدق کی نسبت ظاہر ہو جائیں ان کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور جو علامتیں ظاہری صورت میں پوری نہ ہوں یا ابھی ان کا وقت نہ آیا ہو ان کو بار بار پیش کرتے ہیں ہلاک شدہ اُمتیں جنہوں نے سچے نبیوں کو نہیں مانا ان کی ہلاکت کا اصل موجب یہی تھا اپنے زعم میں تو وہ لوگ اپنے تیئںبڑے ہو شیار جانتے رہے ہیں مگر ان کے اس طریق نے قبول ِحق سے ان کو بے نصیب رکھا۔
یہ عجیب ہے کہ پیشگوئیوں کی نافہمی کے بارے میں جو کچھ پہلے زمانہ میں یہود اور نصاریٰ سے وقوع میں آیا اور انہوں نے سچوں کو قبول نہ کیا ایسا ہی میری قوم مسلمانوں نے ہی میری قوم مسلمانوں نے میرے ساتھ معاملہ کیا یہ تو ضروری تھا کہ قدیم سنت اللہ کے موافق وہ پیشگوئیاں جو مسیح موعودکے بارے میں کی گئیں وہ بھی دوحصوں پر مشتمل ہو تیں ایک حصہ بّینات کا جو اپنی ظاہری صورت پرواقع ہو نے والا تھا اور ایک حصہ متشابہات کا جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں تھا لیکن افسوس کہ اس قوم نے بھی پہلے خطا کارلوگوں کے قدم پر قدم مارا اور متشابہات پراڑ کر ان بّینات کو رد کر دیا جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئی تھیں حالانکہ شرط تقویٰ یہ تھی کہ پہلی قوموں کے ابتلاؤں کو یاد کرتے ۔متشابہات پر زور نہ مارتے اور بّینات سے یعنی ان باتوں اور ان علا متوں سے جو روز روشن کی طرح کھل گئی تھیں فائدہ اُٹھاتے مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ جب جناب رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں پیش کی جاتی ہیں جن کے اکثر حصے نہایت صفائی سے پورے ہو چکے ہیں تو نہایت لاپروا ہی سے ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور پیشگوئیوں کا کیوں ظاہری طور پر پورا نہیں ہوا اور بایں ہمہ جب پہلے مکذبوں کا ذکر آوے جنہوں نے بعینہ ان لوگوں کی طرح واقع شدہ علامتوں پر نظر نہ کی اور متشابہات کا حصہ جو پیشگوئیوں میں بھی تھا اور استعارات ان کے زمانہ میں ہوتے تو ایسا نہ کرتے حالانکہ اب یہ لوگ ایسا ہی کررہے ہیں جیسا کہ ان پہلے مکذبوں نے کیا جن ثابت شدہ علامتوں اور نشانوں سے قبول کرنے کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے ان کو قبول نہیں کرتے اور جو استعارات اور مجازات اور متشابہات ہیں ان کو ہاتھ میں لیے پھر تے ہیں اور عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں پوری نہیں ہو ئیں حالا نکہ سنت اللہ کی تعلیم کے طریق کے موافق ضرور تھا وہ باتیں اس طرح پوری نہ ہو تیں جس طرح ان کا خیال ہے یعنی ظاہری اور جسمانی صورت پر بیشک ایک حصہ ظاہری طور پر اور ایک حصہ مخفی طور پر پورا ہو گیا ،لیکن اس زمانہ کے معتصب لوگوں کے دلوں نے نہیں چاہا کہ قبول کریں وہ تو ہر ایک ثبوت کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کو انسان کی مکاری خیال کرتے ہیں ۔جب خدائے قدوس کے پاک الہاموں کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان کا افتراء ہے مگر اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ کیا کبھی خدا پر افتراء کرنے واے کو منقریات کے پھیلانے کے لیے وہ مہلت ملی جو سچے ملہموں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی کیا خدا تعالیٰ نے نہیں کہا کہ الہام کا افتراء کے طور پر دعوی ٰ کرنے والے ہلاک جائیں گے اور خدا پر جھوٹ بو لنے والے پکڑے جائیں گے یہ تو توریت میں بھی کہ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا اور انجیل میں بھی ہے کہ جھوٹا جلد فنا ہو گا اور اس کی جماعت متفرق ہو جائے گی ۔ کیا کو ئی ایک نظیر بھی ہے کہ جگوٹے مُلہمَ نے جو خدا پر افتراء کر نیوالا تھا ایام ِافتراء میں وہ عمر پائی جواس عاجز کو ایام ِدعوتِالہام میں ملی ؟بھلا اگر کوئی نظیرہے تو پیش تو کرو مَیں نہایت پر زور دعویٗ سے کہتا ہوں کہ دنیا کی ابتداسے آج تک ایک نظیر بھی نہیں ملے گی۔
پس کیا کوئی ایسا ہے کہ اس محکم اور قطعی دلیل سے فائدہ اٹھاوے اور خدا تعالیٰ سے ڈرے؟ مَیں نہیں کہتا کہ بت پر ست عمر نہیں پاتے یا وہریہ یا اناالحق کہنے والے جلد پکڑے جاتے ہیں کیو نکہ ان غلطیوں اور اضلالتوں کی سزا دینے کے لیے دوسرا عالم ہے لیکن مَیں کہتا ہوں کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر الہام کا افتراء کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ الیام مجھ کو ہو ا حا لا نکہ جانتا ہے کہ وہ الہام اس کو نہیں ہوا وہ جلد پکڑا جاتا ہے اور اس کی عمر کے دن بہت تھوڑے ہو تے ہیں قرآن اور انجیل اور تورات نے یہی گو اہی دی ہے عقل بھی ہیہ گواہی دیتی ہے اور اس کے مخالفت کوئی منکر کسی تاریخ کے حوالہ سے ایک نظیر بھی پیش نہیں کر سکتا اور نہیں دکھلا سکتا کہ کوئی جھوٹا الہام کا دعویٰ کر نے والا پچیس برس تک یا اٹھارہ برس تک جھوٹے الہام دنیا میں پھیلاتا رہا اور جھوٹے طور پر خدا کا مقرب اور خدا کا مامور اور خدا کا فرستادہ اپنا نام رکھا اور اس کی تا ئید میں سالہا ئے دراز تک اپنی طرف سے الہامات اش کر مشہور کرتا اور پھر وہ باوجودان مجرمانہ حرکات کے پکڑانہ گیا کیا ا مید کی جاتی ہے کہ کوئی ہمارا اس سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ہر گز نہیں ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ ان سوالات کے جواب دینے سے عاجز ہیں مگر پھر بھی انکار سے باز نہیں آتے ۔بلکہ بہت سے دلائل سے ان پر حجّت واردہو گئی مگر وہ خواب ِغفلت میں سورہے ہیں۔
(البدؔر جلد ۶ نمبر ۴۸ صفحات ۳۸۲ ،۳۸۳مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁)
۹؍دسمبر۱۹۰۳؁ء
ابراہیم علیہ السلام کو معجزانہ طور پر آگ سے بچایا جانا
جماعت میں سے ایک ہمارے مکرم دوست نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے متعلق دریافت کیا کہ آریہ اس پر اعتراض کرتے ہیں اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فر مایا کہ۔
ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں اور اسی لیے خدا تعالیٰ نے ہمیں معبوث کیا ہے کہ قرآن کر یم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اَور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کر نا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا۔
بعد اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات اور اپنے بندوں کو عجیب طرح ہل کت سے نجات دینے کی مثالیں دیتے رہے اور اسی ضمن میں فر مایا :۔
مسیح موعود علیہ السلام کی معجزانہ حفاظت
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں سیالکوٹ میں تھا۔ایک مکان میں میں اور چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے بجلی پڑی اور ہمارا سارا مکان دُھوئیں سے بھر گیا اور اس دروازہ کی چوکھٹ جس کے متصل ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ایسی چیری گئی جیسے آرے سے چیری جاتی ہے۔مگر اس کی جان کو کچھ بھی صدمہ نہ پہنچا،لیکن اسی دن بجلی تیجا سنگھ کے شوالہ پر بھی پڑی اور ایک لمبا راستہ اس کے اندا کو چکر کھا کر جاتا تھا جہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ تمام چکر بجلی نے بھی کھائے اور جا کر اس پر پڑی اور ایسا جلایا کہ بالکل ایک کوئلے کی شکل ایسے کر دیا پھر یہ خدا کا تصرف نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک شخص کو بچالیا اور ایک کو مار دیا۔خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ
واللہ یعصمک من الناس
کا ہے۔
آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہیَ
پس اسے کوئی مخالف آزمائے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا،لیکن اس کے یہ معنے نہیںہیں کہ ہم خود آگ میں کود تے پھریں۔یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ولا تلقوا با یدیکم الی التھلکۃ(البقرہ:۱۹۶)
پس ہم خود آگ میں دبدہ دانستہ نہیں پڑتے۔بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم یرگز نہ جلیں گے۔اس لیے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی ہم مانتے ہیں بلکہ اس لیے خدا نے اوّل ہی سے الہام کردیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرائو آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہیَ۔
بجز اس طریق کے خدا خود ہی تجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل ہو
لا تد رکہ الا بصار وھویدرک الا بصار(الانعام:۱۰۴)
سے بھی یہی سمجھ آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے۔ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے اسے شناخت کرلیں ان دنوں میں گھر میں کس قدر تکلیف رہی۔گھر بھر بیماری میں تھا لیکن اس نے اوّل ہی تسلی دے دی تھی کہ
خوش باش عاقبت نکو خواہد بود
آریوں کی خدمتِ اسلام
آریوں کی زبان درازیاں ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔انکے مذہب کی حالت تو
افاقۃ الموت
ہی معلوم ہوتی ہے۔طبیبوں نے مانا ہے کہ ایسا ہوا کرتا ہے کہ جب ایک شخص مرنے کے قریب ہوتا ہے تو بعض اوقات اُٹھ کر بیٹھ جایا کتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تندرست ہے مگر معاً موت آدباتی ہے۔سو ان کا شور وشر بھی ایسا ہی ہے۔جس مذہب میں روحانیت اور خدا سے صافی تعلق نہیں ہوتا وہ بہت جلد تباہ ہوجاتا ہے۔ آریوں کی شوخی اور اس جوش وخروش سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی زبان درازیوں اور شاخیوں کا بہت جلد خاتمہ ہوگا۔جب موسم بہار ہوتا ہے تو بہت سے کیڑے پیدا ہوتے ہیںپھر جب ان کو پر لگتے ہیں تو ہو بہت جلد ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی طرح اب خدا کے فضل سے اسلام کے لیے موسم بہار ہے ضرور ہے کہ ایسے کیڑے پیدا ہوں۔اب اُن کو پَر لگ گئے ہیں پس یہ بھی تھوڑی مدت کے مہمان ہیں۔اور اگر ذرااور غور سے دیکھا جاوے اور اُن کے سبّ وشتم کو الگ کردیا جاوے گا تو ایک طرح سے انہوں نے خدمت اسلام کی ہے۔کیونکہ زمانہ فیج اعوج تھا اور مولویوں وغیرہ سے کب یہ بات ہونی تھی کہ اس قدرہندوئوں سے بت پرستی وغیرہ ترک کرواتے۔ان لوغوں نے جو ہزاروں دیویوں اور بتوں کو ترک کیا ہے یہ خدمت اسلام ہی ہے۔ذرا روحانیت ان میں آئی تو فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔پہلے زمانوں میں جب ہندو مسلمان ہوتے تھے وہ در حقیقت انتشارِروحانیت کا زمانہ تھا۔اس لیے گمراہ رہے۔ا ب جب روحانیت ان میں پیدا ہوئی اور حق کو انہوں نے شناخت لرلیا تو بڑی شرح صدر اور زور سے اسلام میں داخل ہوں گے۔یاد رکھو ایسے لوگوں سے ہرگز ڈرنا نہ چاہیئے۔ڈرنا ایسے شخص سے چاہیئے کہ جس میں روحانیت ہو اس لیے کہ اس کا حملہ خدا کا حملہ ہوتا ہے
یکسر الصلیب کے معنے
یکسر الصلیب کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مسیح آکر اپنے ہاتھ سے صلیبوں کو توڑتا پھرے گا بلکہ کسر صلیب میں یہ بات داخل ہے اور ہر ایک اسے بے تکلف سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں کسر صلیب کے سامان خود مہیا ہوجاویں گے۔اس کام کو ایک انسان (مسیح)کی طرف منسوب کرنا میرے نزدیک شرک ہے۔مطلب یہ ہے کہمسیح موعود ایسے زمانے کا آدمی ہوگا جس مین یہ سامان موجود ہوں گے اور وہ اس وقت موجود ہیں۔در حقیقت صلیب کا کا سر مسیح موعود نہ ہوگا بلکہ خود خدا ہوگا۔اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ کوئی عیسائی دنیا میں نہ رہے گاسلام ہی اسلام ہوگا جبکہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اُن کا وجود قیامت تک رہے گا۔مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کا مذہب ہلاک ہوگا اور عیسائیت نے جو عظمت دلوں پر حاصل کی ہے وہ نہ رہے گی۔
(البدؔر جلد ۲ نمبر ۴۷ صفحہ ۳۷۳ ،۳۷۴مورخہ ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁)
۱۱؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁
خلقِ طیور اور احیائِ موتیٰ کی حقیقت
شام کے بعد حضرتمولوی نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ دھرمپال (نو آریہ)نے خلقِ طیورپر اور احیائِ موتیٰ پر بھی اعتراض کیا ہے۔اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:
اصل میں خلقِ طیور اور احیائِ موتیٰ پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اس سے ایسے پرندے مراد ہیں جن کا ذبح کرکے گوشت بھی کھایا جاسکے اور نہ احیائَِ موتیٰ سے یہ مطلب ہے کہ حقیقی مردہ کا احیاء کیا گیا بلکہ مراد یہ ہے کہ خلق ِطیور اس قسم کا تھا کہ حد اعجاز تک پہنچا ہوا تھا اور احیائِ موتیٰ کے یہ معنے ہیں کہ اوّل روحانی زندگی عطاکی جاوے اور دوسرے یہ کہ بذریعہ دعا ایسے انسان کو شفا دی جاوے کہ وہ گیا مردوں میں شمار ہوچکا ہو جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مَر کر جیا ہے۔لیکن ان باتوں کو لکھنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ اُن سے صاف طور پر پوچھا جاوے کہ آیا تم لوگ صورتِ اعجاز کے قائل ہو یا نہیں؟پس اگر وہ منکر ہیں تو اُن کو چاہیئے کہ اشتہار دے دیں اور بہت صاف لفظوں میں دیں پھر شاید اللہ تعالیٰ کوئی اور کرشمہ قدرت دکھاوے۔اگرچہ ایک دفعہ وہ ان کو قائل بھی کر چکا ہے۔ہم ان کی یہ باتیں فرداًفرداً نہیں سنتے کہ عصائے موسیٰؑ کیا تھا اور خلقِ طیور کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
معجزہ نمائی کا دعویٰ
خدا کا فضل ہمارے شاملِ حال ہے اور وہ ہر وقت ہماری تائید کے لیے تیار ہے وہ صورتِ اعجاز کا انکار شائع کردیں۔پھر خدا تعالیٰ کی دیکھ لیویں۔قرآن کریم میں میں جس قدر معجزات آگئے ہیں۔ہم اُن کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں خواہ قبولیتِ دعا کے متعلق ہوں خوا ہ اور رنگ کے معجزہ کے۔معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہے کہ اس کو معجزہ دکھایا جاوے اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔
(البدؔر جلد ۲ نمبر ۴۷ صفحہ۳۷۴مورخہ ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁)
۱۲؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁
الہام
انی حمی الرحمٰن
(میں خدا کی باڑ ہوں)فرمایا:۔یہ خطاب میری طرف ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعداء طرح طرح کے منصوبے کرتے ہوویں گے ایک شعر بھی اس مضمون کا ہے۔
اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از با غباں تبرس کہ من شاخ مثمرم
بعث بعد الموت
حضرت مولٰنانورالدین صاحب نے خدمت والا میں عرض کی کہ عُزیر کے قصّہ کی بابت ایک دفعہ حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ وہ واقعہ بعث بعد الموت میں انہوں نے دیکھا اس پر آپ نے فرمایاکہ:۔
مرنے کے بعد ایک بعث ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ خدا سے بہت ڈرتا تھا لیکن خدا کی قدرتوں کا اُسے علم نہ تھا۔تو اس نے وصیت کی کہ جب میں مر جائوں تو مجھے جلا دینا اور میری خاک کو دریا میں ڈال دینا (تا کہ میرے اجزاء ایسے منتشر ہو جاویں کہ پھر جمع نہ ہوسکیں)جب وہ مرگیا تو اس کے ورثاء نے ایسا ہی کیا،لیکن خدا نے اسے عالمِ برزخ میں پھر زندہ کیا اور پوچھا کہ کیا تو اس بات کو نہ جانتا تھا کہ ہم تیرے اجزاء کو ہر ایک مقام سے جمع کر سکتے ہیں اور تجھے ہماری قدرتوں کا علم نہ تھا۔اس نے بیان کیا کہ شونکہ مجھے اپنے گناہوں کی سزا کا خوف تھا۔اس لیے میں نے یہ تجویز کی تھی۔آخر اس خوف کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔تو یہ بھی ایک قسم کا بعث ہے کہ جو قبل قیامت ہوتی ہے۔اس خیال پر میں نے کہا ہوگا۔مرنے کے بعد ایک ایسی حالت میں بھی انسان پڑتا ہے کہ اسے اپنے وجود کی خبر نہیں ہوتی۔یہ ایک نوم کی قسم ہوتی ہے مولوی عبد اللطیف صاحب نے جو شہادت سے اوّل یہ کہا تھا کہ چھ دن کے بعد زندہ ہو جائوں گا۔اس کے معنے بھی یہ ہو سکتے ہیں کہ چھ دن کے بعد میری بعث ہوگی۔یہ ہمارا ایمان ہے۔
خارقِ عادت امور کا مشاہدہ
فرمایا کہ
اسی طرح ہم ایک خوارقِ عادت امر پو ایمان لاتے ہیں اور اس امر کی ضرورت نہیں کہ اُس کی تفصیل بھی معلوم ہو۔بوض وقت ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی کلام کرنے والا معلوم نہیں ہوتا۔اس وقت حیرانی ہوتی ہے۔تو اس وقت کیا کیا جاوے؟آخر ایمان لانا پڑتا ہے اور عجیب بات ہے کہ ایسے اُمور میں آکر انسان کو عرفان سے پھر ایمان کی طرف عود کرنا پڑتا ہے۔
حال میں ایک اخبار میں دیکھا گیا کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے ایک ایسی ہانڈی کا پکا ہو اسلن کھایا ہے جو کہ میری پیدائش سے تیس برس پیشتر کی پکی ہوئی تھی۔جب انسان ہواوغیرہ سے محفوظ رکھ کر ایک شئے کو اس قدر عرصہ دراز سے محفوظ رکھ سکتا ہے تو اگر خدا رکھے تو کیا بعید ہے۔
اگر یہ لوگ خوارقِ عادت کی جزئیات پر اعتراض کرتے ہیں تو ہمارے پیغمبر ﷺ کے شاید ۳۰۰ معجزات ہوں گے۔ہم ان کے ایسے لاکھوں خوارقِ عادت پیش کرکے اعتراض کرسکتے ہیں ان کا کیا جواب دیں گے؟ہم تو ان باتوں کو ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کے تصرف دیکھتے ہیں۔یہ کہاں تک اعتراض کرینگے خدا شناسی کا مزا یہی ہے کہ ہر ایک قسم کی قدرت کا جلوہ نظر آوے۔
آریوں کی حالت
آریوں کے خدا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کسی کے ہاتھ میں ہڈی ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں ہے اور جب یہ نہ ہو ا تو پھر اس سے نہ خوف ہوانہ طمع نہ محبت نہ عبادت۔ان کے لیے یہ جواب کافی ہے کہ ایک اندھے آدمی کے نزدیک ہر ایک رئویت قابلِ اعتراض ہوتی ہے ویسے ہی وہ بھی ان باتوں کے محسوس کرنے سے معذور ہیں کیونکہ ہر ایک شئے کی حس الگ الگ ہے۔جیسے آنکھ کی حس ہے۔تو اس سے کان کوئی فائدہ نہیں پا سکتا اور ناک کی حس کو آنکھ شناخت نہیں کر سکتی ایسے ہی ایک انسان جو کہ اعلیٰ قسم کے قویٰ لے کرآیا ہے اور اسے امور مدراء العقل کو محسوس کتنے کی قوت دی گئے ہے تو جو وہ دیکھتا ہے اگر دوسرے نہ دیکھیں تو سوائے اعتراض کے اور کیا کر سکتے ہیں؟آریوں کی مشابہت اس شخص سے ہو سکتی ہے جس کی ایک آنکھ یا کان نہ ہو اور وہ دوسرے کی آنکھ کان دیکھ کر اعتراض کرے۔وہ لوگ ان باتوں سے محروم ہیں اس لیے اعتراض کرتے ہیں۔ (البدؔر جلد ۶ نمبر ۴۸ صفحہ ۳۷۳ ،۳۸۳مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁)
۲۰؍ دسمبر ۱۹۰۳ء؁
بوقتِ ظہر
خدمتِ دین میںآنے والی موت
حکیم آل محمد صاحب تشریف لائے اور حضرت اقدس علیہ السلام سے نیاز حاصل کیا اور عرض کی کہ امروہہ میں میرا یہی کام رہا ہے کہ اس سلسلہ الہیٰ کی تبلیغ کروں اور ایسی خدمت میں میری جان نِکل جاوے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
اس سے بڑھ کر اور کیا دینی خدمت ہوگی مرنا تو ہر ایک نے ہی ہے اور اس جان نے ایک دن اس قالب کو چھوڑ نا ضرور ہے مگر کیا عمدہ وہ موت ہے جو خدمتِ دین میں آوے۔
بعد نماز مغرب
بے صبری سے ابتلاء پیش آتا ہیَ
ایک نوجوان نے آکر حضرت اقدس سے ملاقات کی اور عرض کی کہ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو
حضرت اقدس نے فرمایاکہ کہو
تب انہوں نے اپنی ایک رئویا سنائی جو کہ عرصہ اڑھائی سال کا ہوا دیکھی تھی۔اس میں ان کو بتلایا گیا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ آگے ہوئے ہیں اور وہ مرزا قادیان والا ہے۔پھر اس کی تائید میں انہوں نے اور چند خوابیں دیکھی تھیں وہ بھی سنائیں۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ ایک دوسرے کی تائید میں ہیں۔
اس اثناء میں جوشیلا نوجوان بول اُٹھا کہ جب تک میرا دل تسلی نہ پکڑے گا۔نہ مانوں گا اور بیعت نہ کروں گا۔چونکہ ان کلمات سے خدا تعالیٰ کے انعامات واکرام کی قدر نا شناسی متر شح ہوتی تھی۔اس پر خدا کے برگزیدہ نیفرمایا:۔
خدا کی قدیم سے عادت ہے کہ صابروں کے سب کام وہ آپ کرتا ہے اور بے صبری سے ابتالا پیش آتا ہے۔ہماری شریعت میں طلبِ اسباب حرام نہیں ہے ان پر بھروسہ اور توکل ضرور حرام ہے اس لیے کوشش کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیئے۔خدا تعالیٰ قرآن شریف میں قسم کھاتا ہے
فالمد برات امر ا (النز عت:۶)
ماسوااس کے خدا پر توکل اور دعا کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے۔
سعید آدمی جلد باز نہیں ہوتا اور نہ وہ خدا تعالیٰ سے جلد بازی کرتا ہے خدا کا قانونِ قدرت ہے کہ ہر ایک امر بتدریج ہوتا ہے۔آج تخم ریزی کرو تووہ آہستہ آہستہ ایک دانہ سے ایک درخت بن جاوے گا۔آج اگر رحم میں نطفہ پڑے تو وہ آخر نو ماہ میں جاکر بچہ بنے گا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب بدلہ دیاجا ئے گا۔سنت اللہ کی ابتاع انسان کو کرنی چاہیئے۔جب تک خدا خود رُشد اور ہدایت نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
مومنوں کے طبقات
انبیاء کی صحبت میں کس کس قدر لوگ رہتے تھے مگر سب ایک وقت ایمان نہیں لائے۔کوئی کسی وقت اور کوئی کسی وقت۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص تھا اس نے آپ کا مبارک زمانہ دیکھا مگر ایمان نہ لایا۔پھر حضرت ابو بکر صدیق رضیاللہ عنہ کا زمانہ دیکھا پھر بھی ایمان نہ لایا۔اس سے وجہ پوطھی گئی تو بتلایا کہ کچھ میرے شیبات باقی تھے اور کچھ آژار پورے ہونے والے تھے طانکہ اب وہ پورے ہوئے ہیں اس لیے اب میں ایمان لایا ہوں۔
لیکن یہ اس کی غلطی تھی۔خدا نے مومنوں کے مختلف طبقات پیدا کئے ہیں لیکن ان میں سے وہ لوگ بہت تعریف کے قابل ہیں جو کسی راستباز کو چہرہ دیکھ کر شناخت لر لیتے ہیں۔
ایمان لانے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک تو وہ جو چہرہ دیکھ کر ایمان لاتے ہیں دوسرے وہ جو نشان دیکھ کر مانتے ہیں۔تیسرا ایک ارذل گروہ کہ جب ہر طرح سے غلبہ حاصل ہوجاتا ہے اور کوئی وجہ ایمان بالغیب کی باقی نہیں رہتی تو اس وقت ایمان لاتے ہیں جیسے فرعون کہ جب غرق ہونے لگا تو اس وقت اقرار کیا۔
عمر کا اعتبار نہیں ہے غافل رہ کر اس بات کی انتظار کرنا کہ خدا خود خبر دیوے یہ نادانی ہے اب تو خود وقت ہی ایسا ہے کہ انسان خود سمجھ سکتا ہے۔دیکھنا چاہیئے کہ اسلام کی کیا حالت ہے۔ظاہری اور باطنی طور پر صلیبی مذہب غالب ہوگیاہے تو کیا اب ان وعدوں کی رُو سے جو کہ قرآن میں ہیں یہ وقت نہ تھا کہ خدا اپنے دین کی مدد کرتا۔اس کے علاوہ مدعی اور اس کے دعویٰ کے دلائل کو دیکھے اور غور کرے۔جو پیاسا ہے وہ دور رہ کر کنوئیں سے یہ کہے کہ پانی میرے منہ میں خود بخود آجاوے یہ نادانی ہے اور ایسا شخص خدا کی بے ادبی کرتا ہے۔
متقی کی تعریف
تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میں گناہ میں پڑتا ہوں تو دعا اور تدبیر سے کام لیوے ورنہ نادان ہوگا۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
من یتق اللہ یجعل لہ مخر جا و یرزقہ من حیث لا یحتسب(الطاق:۳۔۴)
کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہر ایک مشکل اور تنگی سے نجات کی راہ اس کے لیے پیدا کردیتاہے۔متقی درحقیقت وہ ہے کہ جہانتک اس کی قدر ت اور طاقت ہے وہ تد بیر اور تجویز سے کام لیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کے شروع میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
الم ۔ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین الذین یو من بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون۔(البقرۃ:۳۔۴)
ایمان بالغیب کے یہ معنے ہیں کہ وہ خدا سے اٹ نہیں باندھتے بلکہ جو بات پردہ غیب میں ہوا س کو قرائن مرجّحہ کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں کہ صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں ۔یہ بڑی غلطی ہے کہ انسان یہ خیال رکھے کہ آفتاب کی طرح ہر ایک امر اس پر منکشف ہو جاوے ۔اگر ایسا ہو تا پھر بتلائو کہ اس کے ثواب حاصل کرنے کا کونسا موقعہ ملا ؟کیا اگر ہم آفتاب کو دیکھ کر کہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے تو ہم کو ثواب ملتا ہے ؟ہرگز نہیں ۔کیوں؟صرف اس لئے کہ اس میں غیب کا پہلو کوئی بھی نہیں،لیکن جب ملائکہ ،خدا اور قیامت وغیرہ پر ایمان لاتے ہیں تو ژواب ملتا ہے ۔اس کی یہی وجہ ہے کہ ان پر ایمان لانے میں ایک پہلو غیب کا پڑا ہو اہے ۔ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ اخفا بھی ہو اور طالبِحق چند قرائنِ صدق کے لحاظ سے ان باتوں کو مان لے ۔
اور مما رزقنا ھم ینفقون (البقرۃ:۴)
کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ہم نے ان کو عقل ،فکر ،فہم ،فراست اور رزقاور مال وغیرہ عطا ہے اس میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کے لئے صرف کر تے ہیں یعنی فعل کے ساتھ بھی کچھ کرتے ہیں ۔پس جو شخص دُعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ایاک نعبد وایاک نستعین (الفاتحہ:۵)
یاد رکھو کہ جو شخص پورے فہم اور عقل اور زور سے تلاش نہیں کرتا وہ خدا کے نزدیک ڈھونڈنے والا نہیں قرار پاتا اور اس طرح سے امتحان کرنے والا ہمیشہ محروم رہتا ہے ،لیکن اگر وہ کوششوں کیساتھ دُعا بھی کرتا ہے اور پھر اسے کوئی لعزش بھی ہوتی ہے تو خدا اسے بچاتا ہے اور جو آسانی تن کے ساتھ دروازہ پر آتا ہے اور امتحان لیتا ہے تو خداکو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔ابو جہل وغیرہ کو آنحضرت ﷺ کی صحبت تو نصیب ہوئی اور وہ کئی دفعہ آپ کے پاس آیا بھی لیکن ونکہ آزمائش کے لئے آتا رہا اس لئے گر گیا اور اسے ایمان نصیب نہ ہوا ۔
بیعت ہم پر احسان نہیں
اگر کو ئی شخص بیعت کر کے یہ خیا ل کرتا ہے کہ ہم پر احسان کرتا ہے تو یاد رکھے کہ ہم پر کوئی احسان نہیں بلکہ یہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس نے اُسے نصیب کیا ۔سب لوگ ایک ہلاکت کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے ۔دین کا نام ونشان نہ تھا اور تباہ ہو رہے تھے ۔خدا نے ان کی دستگیری کی (کہ یہ سلسلہ قائم کیا) اب جو اس مائدہ سے محروم رہتا ہے وہ بے نصیب ہے لیکن جو اس کی طرف آوے ۔اسے چاہیئے کہ اپنی پوری کوشش کے بعد دُعا سے کام کیوے ۔جو شخص اس خیال سے آتا ہے کہ آزمائش کرے کہ فلاں سچاہے کہ جھوٹا وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے۔آدم ؑ سے لیکر اس وقت تک کوئی ایسی نظیر نہ پیش کر سکو گے کہ فلاں شخص فلاں نبی کے پاس آزمائش کے لئے آیااور پھر اسے ایمان نصیب ہواہو ۔پس چاہیئے کہ خدا کہ آگے رووے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر گریہ وزاری کرے کہ خدااُسے حق دکھاوے۔
دلیلِ صداقت
وقت خود ایک نشان ہے اور وہ بتلارہا ہے کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے ۔اب وقت آزمائش اور امتحان کا نہیں ہے ۔اگر کوئی نہیں مانتا تو بتلائے کہ ہمارا کیا بگاڑتا ہے ۔مکہ میں اگر صد ہا آدمی انکار کر کے تباہ ہوے تو بتلائو کہ آنحضرت ﷺکا کیا بگاڑ لیا۔ایک مرتد ہو تا تو خدا سو لے آتا کیا یہ غور کی بات نہیں کہ اگر ہمارا کار خانہ خدائی نہ ہو تا تو یہ آج تک کب کا تبا ہو جاتا ۔ایک وہ وقت تھا کہ میں اکیلا پھر تا تھا اور اب وہ وقت ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ آدمی میرے ساتھ ہیں ۔آج سے ۲۲۔۲۳ برس پیشتر اس نے بتلایا جوکہ براہین میں درج ہے کہ میں تجھے کامیاب کروں گااور لاکھوں آدمیوں کو تیرے ساتھ کروں گا ۔اس کتاب کو لے کر دیکھو اور پڑھو اور پھر سوچو کہ کیا یہ انسان کا فعل ہے کہ اس قدر دراز زمانہ پیشتر ایک خبر کو درج کرے اور پھر اس قدر مخالفت ہو اور وہ بات پوری ہو کر رہے پس جوشخص خدا کے اس فعل پر ایمان نہیں لاتا وہ بد بخت مرے گا۔
نشان نمائی کا مطالبہ کرنیوالے
نشان دیکھنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو لیکھرامی کہ شوخی اور شرارت کرتے ہیںاور خدا کی باتوں پر ہنسی اور تمسخر اُن کا کام ہوتا ہے ایسے جہنم واصل ہوتے ہیں جیسے کہ لیکھرام ہوا۔
اور ایک وہ کہ سنت نبوی کے موافق نشان چاہتے ہیں کہ دنیا کی حیثیت بھی بنی رہے اور نشان بھی ظاہر ہو یہ نہیں کہ قیامت کا نمونہ اُن کے لیے ظاہر ہو اور خدا تعالیٰ تمام کائنات کو زیر وزبر کردے (اس صورت میں جب وہ خود مر ہی جائے گا تو نشان کان دیکھے گا)ایمان کی حد یہی ہے کہ عقل بھی خرچ ہو اور انسان فہم وفراست سے کام لے کر قرآئنِ مُرحجّہ کو دیکھے ۔نہ یہ چاہے کہ سب کچھ انکشاف ہو جاوے۔تو پھر اسے ثواب کس بات کا؟وہ تو ایمان ہی نہیں ہے جس میں پردہ نہیں ہے اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ نشان کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان نفع نہ دیگا۔انسان من وجہ دیکھے کہ زمانہ کی ضرورت کیا تقاضا کرتی ہے۔وہ ایک مصکح کو چاہتی ہے کہ نہیں۔پھر ان وعدوں پر نظر ڈا لے جو نصرت اور تائید کے خدا نے ہم سے قبل از وقت کئے اوروہ سب پورے ہوئے۔غرضیکہ ان سب باتوں پر جب یکجائی نظر کرکے پھر بھی کوئی نہیں مانتا تو وہ کبھی نہ مانے گا۔ایسے ضدّی لوگوں لوگوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا کہ حرا مکارلوگ معجزہ طلب کرتے ہیں مگر اُن کو کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا۔پس ایسی باتوں سے ڈرنا چاہیئے۔آبائی تقلید اور رسم اور عقائد کی پابندی کا ڈر نہ ہونا چاہیئے یہ کوئی شئے نہیں ہیں۔نہاُن سے انسان کو تسلی ملتی ہے۔وہ نور جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ حقیقی تسلی دیتا ہے۔ (البدؔر جلد ۲ نمبر ۴۸ صفحہ ۳۸۳ ،۳۸۴مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁)
۲۱؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁
تقریر کی اہمیت
بعد نماز عید الفطر ظہر کے وقت جب حضرت اقدس مسجد میں تشریف لائے تو بعض اھباب نے ذکر کیا کہ گورداسپور میں ایک شخص ایسے ہیں جن کو بڑا اشتیاق حضور کی زبان مبارک سے دعویٰ سننے کا ہے۔اس پر آپ نے فرمایاکہ:۔
اھر کوئی تقریب نکل آئی تو انشاء اللہ وہاں ایک مجمع کرکے بیان کر دیئے جاویں گے اصل ذریعہ تبلیغ کا تقریرہی ہے اور انبیاء اس کے وارث ہیں۔ اب انگریزوں نے اسی کی تقلید کی ہے۔بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں انکا طریق تعلیم یہی ہے کہ تقریروں کے ذریعہ سے تعلم دی جاتی ہے۔آنحضرت ﷺ بؑض وقت اس قدر لمبی تقریر فرماتے تھے کہ صبح سے لیکر شام تک ختم نہ ہوتی تھی۔درمیان میں نماز یں آجاتیں تو آپ ان کو ادا کرکے پھر تقریر شروع کردیتے تھے۔
مامورین سے غریب لوگ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں
اپنے مخالفین اور طبقہ امراء وروُوئساء کے متعلق فرمایاکہ
میرا خیال ہے کہ اکژاُن میں سے بد نصیب ہی مریں گے۔آنحضرت ﷺ کے وقت میں کسقدر بادشاہ تھے جو اس وقت آپ کے معاصرین سے تھے لیکن اُن کو قبولیت کی توفیق عطا نہیں ہوئی۔پھر خدا نے اُن کے بعد غریبوں کو بادشاہ کیا جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے۔ہمارے متبعین پر بھی ایک زمانہ ایسا آویگا کہ عروج ہی عروج ہوگا،لیکن یہ ہمیں خبر نہیں کہ ہمارے دور میں ہویا ہمارے بعد ہو۔خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔سو یہ بات ابھی پوری ہونے والی ہے۔یہ لوگ اگر اس وقت سمجھ بھی لیویں تو بھی جو اِن کی خود ترشیدہ مصلحتیں ہیں وہ قبو لیت کی اجازت نہیں دیتیں۔یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ اوّل گروہ غرباء کو اپنے لیے منتخب کیا کرتا ہے اور پھر انہیں کو کامیابی اور عروج حاصل ہوا کرتا ہے۔کوئی نبی نہیں گذرا کہ وہ (ظاہری حیثیت سے بھی) دنیا میں ناکامیاب رہا ہو۔ہمیں اس امر سے ہر گز تعجب نہیں کہ ہمارے متبعین امیر نہ ہوں گے۔امیر تو یہ ضرور ہوں گے لیکن افسوس اس بات سے آتا ہے کہ اگر یہ دولت مند ہوگئے تو پھر انہی لوگوں کے ہمرنگ ہوکر دین سے غافل نہ ہوجاویں اور دنیا کو مقدم کرلیں۔جب تک کمزوری اور غریبی ہوتی ہے تب تک تقویٰ بھی انسان کے اندر ہوتا ہے۔صحابہؓ کی بھی اوّل یہی حالت تھی۔پھر جب کڑوڑہا مسلمان ہوھئے اور تموّل وغیرہ اُن میں آگیا توخبیث بھی آکر شامل ہوگئے۔ہم بھی خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیںکہ ہماری جماعت کی تعداد غرباء میں ترقی کررہی ہے۔
بعد نماز مغرب
مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی
بعد ادائیگی نماز مغرب حضرت اقدس نے جلسہ فرمایا:۔
تھوڑی دیر کے بعد جناب نواب محمد علی خانصاحب کے صاحبزادہ زریں لباس سے ملبس حضور کی خدمت میں نیاز مندانہ طریق پر حاضر ہوئے۔آپ نے اُنکو اپنے پاس جگہ دی ۔ان کو اس ہیئت میں دیکھ کر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نے بڑی سادگی سے جناب نواب صاحب سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رسم ادا ہوئی ہء؟نواب صاحب نے جواب دیا کہ آمین ہے۔اس اثناء میں ایک سروپا کا تھال آیا اور وہ حضور علیہ السلام کے روبرو دھرا ھیا۔چند لمحہ کے بعد پھر آپ نے دریافت فرمایااب آگے کیا ہونا ہے۔عرض کی گئی کہ اسے دستِ مبارک لگادیا جاوے اور دعا فرمائی جاوے۔چنانچہ حضور نے ایسا ہی کیا اور پھر فوراً تشریف لے گئے۔ (البدؔر جلد ۳ نمبر ۲ صفحہ ۲مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
۲۳؍دسمبر۱۹۰۳ء؁
اسوئہ عبد اللطیف کا اتباع
فرمایا کہ:۔عبد اللطیف صاحب ایک اسوئہ چھوڑ ھئے ہیں جس کی اتّباع جماعت کو چاہیئے۔
صحبت کی اہمیت
ایک انگریز کا ذکر تھا جو کہ اپنی عقیدت حضرت اقدس کے ساتھ ظاہر کرتا تھا اور کہتا تھاکہ میرا ارادہ ہے کہ میں کشمیر میں ایک بڑا ہوٹل بنائوں اور وہاں ہر ملک و دیار کے لوگ جو سیر وسیاحت کے لیے آتے ہیں ان کو تبلیغ کروں۔
حضرت اقدس نے فرمایاکہ :۔
ہمیں اس سے دنیاداری کی بو آتی ہے۔اگر اسے سچا اخلاص خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اس کی غرض تحصیلِ دین کی ہے تو اول یہا ں آکر رہے۔
سنت اللہ کے آگے عقل کی بھی کچھ پیش نہیں چلتی۔عقل تو یہی چاہتی تھی۔کہ فی الفور ان باتوں کو مان لیا جاوے جو ہم نے پیش کی ہیں مگر سنت اللہ نہ چاہتی تھی۔کسی فرقہ میں شامل ہونے کے لیے سچا جوش اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ اوآل کامل وجوہات دل میں جانشین ہوں۔اس کے بعد پھر وہ شخص ہر ایک بات کو قبول کرلیتا ہے۔صحابہ اکرامؓ آنحضرتﷺ کی صحبت میں رہے اور بڑے بڑے نقصان برداشت کئے۔اُن کو اس بات کا علم تھا کہ صحبت سے جو بات حاصل ہوتی ہے وہ اَور طرح ہر گز حاصل نہ ہو گی۔حسُن ِظن بھی اگرچہ عمدہ شئے ہے ۔مگر افراط تک اسے پہنچانا غلطی ہے ہمارے حصہ کا جو یور پین ہو گا ہم خود اسے پہچان لیں گے کہ یہ ہے ۔
عجائباتِ قدرت دکھلانے کے لیے حروری ہے کہ مخالفت بھی ہواور روکنے والے بھی ہوں کیو نکہ بغیر اس کے خدا تعالیٰ کی قدرت کے ہاتھ کا پتہ کیسے لگ سکتا ہے (البدؔر جلد ۳ نمبر ۲ صفحہ ۲مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء؁
ایک معجزہ
یہ ایک معجزہ ہے بڑی خوبی کا معجزہ ہے بشرطیکہ انصاف سے اس پر نظر کی جاوے کہ آج سے ۲۳ یا ۲۴ برس پیشتر کی کتاب براہین احمد یہ تصنیف شدہ ہے اور اس کی جلد یں اسی وقت کی ہر ایک مذہب اور ملّت کے پاس موجو د ہیں یورپ بھی بھیجی گئی ،امریک میں بھی بھیجی گئی لنڈن میںاس کی کا پی مو جودہے اس میں بڑیوحاحت سے یہ کھا ہوا موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ فوج در فوج تمہارے ساتھہو ں گے حالا نکہ جب یہ کلمات کھلے اور شائع کئے گئے تھے اس وقت فرِدواحد بھی میرے ساتھ نہ تھا۔اس وقت خدا تعالیٰ نے ایک دعا سکھلائی جو کہ بطور گواہ اس میں لکھی ہو ئی ہے ۔
رب لا تذرنی ندداوانت خیرالوارثین (الا نبیاء :۹۰)
خدا تعالیی کا اس سے یہ ظاہر کر نا مقصود تھا کہ تو اکیلا ہے اور پھر تا کید کی کہ تو مخلوق کی ملاقات سے تھکنا مت اور چین بجیںنہ ہو نا تو اب غور کرنے کی جاہے کہ کیا یہ کسی انسان کا اقرار ہو سکتا ہے اور پھر ایک زبان میں نہیں بلکہ چار زبانوں میں یہ الہام فوج در فوج لوگوں کے ساتھ ہو نے کا ہے یعنی انگریزی ،ارردو، فارسی ،عربی ۔بڑے بڑے گواہ اگرچہ ہمارے مخالف ہیں موجود ہیں محمدحسین بھی زندہ ہے یہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں کیا وہ بتلاسکتے ہیں کہ اس وقت کون کون ہمارے ساتھ بلکہ وہ ایک گم زمانہ تھا کوئی مجھے نہ جانتا تھا اب دیکھو کہ وہ بات کیسی پوری ہو ئی ہے حالا نکہ ہر فر قہ اور ملت کے لوگوں نے ناخنوں تک مخالفت میں زور لگایا اور ہماری ترقی اور کا میابی کو روکنا چاہا لیکن ان کی کو ئی پیش نہ گئی اوراس مخالفت کا ذکر بھی اسی کتاب براہین میں موجود ہے اب بتلاویں کہ کیا یہ معجزہ ہے کہ نہیں؟ہم ان سے نظیر طلب کرتے ہیںکہ آدمؑ سے لے کر اس وقت تک وہ کسی ایسے مفتری کی خبردیویں کہ اس نے افتراء اعلی اللہ کیا ہوا اور اس پر مصرّرہ کر ۲۴یا ۲۵ سال کا زمانہ پایا ہو ۔یہ ایک بڑانشان اور معجزہ ہے اسے عقلمندوں اور اہل الرائے کو دکھلاؤ اور انکے سامنے پیش کرو کہ وہ اس کی نظیر پیش کریںکہ اس طرح کی پیشگوئی ہواور باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پوری ہو جاوے ایک طالب ِحق کے لیے یہ معجزہ کا فی ہے ۔
(البدؔر جلد ۳ نمبر ۲ صفحہ ۴،۳مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
۲۵؍دسمبر۱۹۰۳
اِکرام ِضیف
شام کے وقت بہت سے احباب بیرونجات سے آئے ہوئے تھے آپ نے میاں نجم الدیں صاحب مہتمم لنگر خانہ کو بلوا کر تاکید اً فر مایا کہ ۔
دیکھو بہت سے مہمان آئے ہو ئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا اکرام جان کر تواضع کرو۔سردی کا موسم ہے چائے پلاؤاور تکلیف کسی کو نہ ہو ۔تم پر میرا حُسن ِظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔
دینی علوم کی تحصیل کیلئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہیَ
جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے روشنی نہ ہو تب تک انسان کو یقین نہیں ملتا ۔اس کی باتوں میںتناقض ہو گا دینی اور دنیاوی علوم میں یہ فرق ہے کہ دنیاوی علوم کی تحصیل اور انکی باریکیوں پر واقف ہو نے کے لیے تقویٰ طہارت کی ضرورت نہیں ہے ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق جاجر ہو ،ظالم ہو، وہ ان کو حاصل کرسکتا ہے چوڑھے چماربھی ڈگریاں پا لیتے ہیں ،لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک ان کو حاصل کر سکے ان کی تحصیل کے لیے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
لا یمسہ الا المطھرون (الواقعہ:۸۰)
پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کر نے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قدر لطیف وقائق اور حقائق اس پر گھلیں گے۔
تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کرسکتا ہے جو با لکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے جو وہ چاہے وہ کرے اپنی مرضی نہ کرے بناوٹ سے کوئی حاصل کر نا چاہے تو ہر گر نہ ہو گا اس لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تا کید فر مائی ہے۔
اعونی استجب لکم
میں تودعا کی تا کید فر مائی ہے اور
والذین جا ھدوانینا لنھدینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰)
میں کوشش کی جب تک تقویٰ نہ ہو گا اولیا ء وقت پردہ اٹھاتی ہے جب اندرونی غبار دور ہو جاتا ہے مگر افسوس ہے کہ جس قدر محنت اور دعا دنیوی امور کے لیے ہو تی ہے خدا تعالیٰ کے لیے اس قدر بالکل نہیں ہوتی اگر ہو تی ہے تو عام رسمی رواجی الفاظ میں کہ صرف زبان پر ہی و ہ مضمون ہو تا ہے نہ کہ دل میں اپنے نفس کے لیے توبڑے سوز اور گدازش سے دعائیں کرتے ہیں کہ قرض سے خلاصی ہو یا فلاں مقدمہ میں فتح ہو یا مرض سے نجات ملے دین کے لیے ہر گز وہ سوزش وگدازش نہیں ہوتی ۔دعا صرف لفظوں کا نام نہیں کہ موٹے اور عمدہ عمدہ لفظ بول لیے بلکہ یہ اصل میں ایک موت ہے ۔
ادعونی استجب لکم (المومن:۶۱)
کے یہی معنے ہیں کہ انسان سوزوگدازش میں اپنی حالت موت پہنچاوے مگر جاہل لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف اکثر دھوکا کھاتے ہیں جب کو ئی خوش قسمت انسان ہو تو وہ سمجتا ہے کہ دنیا اور اس کے فکار کیا شئے ہے اصل بات تو دین ہے اگر وہ ٹھیک ہو اتو سب ٹھیک ہے؎
شب تنور گذشت وشب سمور گذشب
یہ زندگی خواہ تنگی سے گذرے خواہ فراخی سے وہ آخرت کی فکر کرتا ہے ۔
کو ئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بناوے جب خدا تعالیٰ کے دروازہ پر تذلل اور عجزسے اس کی روح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کر ے گا اور وہ حقیقی بنے گا اور اس وقت وہ اس قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت ﷺ کے دین کو سمجھ کسے اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کرکے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سنا کر بجالا تا ہے کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہو تی ۔
لیلہ القدر کے معنے اور اس میں عمل کی قدر
اس سے پیشیتر بھی مَیں نے لکھا ہے کہ ہملیلہ القدر کے دونو معنوں کو مانتے ہیں ایک وہ جو عرف عام میں ہیں کہ بعض راتیں ایسی ہو تی ہیں کہ خدا تعالیٰ ان میںدعائیں قبول کرتا ہے اور ایک اس سے مراد تاریکی کے زمانہ کی ہے جس میں عام ظلمت پھیل جاتی ہے حقیقی دین کا نام ونشان نہیں رہتا اس میں جو شخص خدا تعالیٰ کے سچے متلاشی ہو تے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ بڑے قابل قدر ہوتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جی جیسے ایک بادشاہ ہو اور اس کا ایک بڑا لشکر ہو ۔دشمن کے مقابلہ کے وقت سب لشکر بھاگ جاوے اور صرف ایک یا دو آدمی رہ جاویں اور انہیں کے ذرلعی سے اسے فتح حاصل ہو تو اب دیکھ لو کہ ان ایک یادو کی بادشاہ کی کا انکار کر رہا ہے ایسے وقت میں جو خدا تعالیٰ کا حقیقی پر ستار ہو گا وہ بڑا قابل ِقدر ہو گا ۔
آنحضرت ﷺ کا زمانہ لیلہ القدر کا زمانہ تھا اس وقت کی تاریکی اور ظلمت کی بھی کو ئی انتہانہ تھی ایک طرف یہود گمراہ ۔ایک طرف عیسائی گمراہ ۔ادھر ہندستان میں دیوتا پرستی ۔آتش وغیرہ ۔گو یا سب دنیا میں بگاڑ پھیلا ہو تھا اس وقت بھی جبکہ ظلمت انتہا تک پہنچ گئی تھی تو اس نے تقاضا کیا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہو۔
سو وہ نور جو نازل ہواآنحضرت ﷺ کی ذات بابرکت تھی۔قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔جیسے کہ جب چاند کی ۲۹؍تاریخ ہو جاتی ہے اور رات بالکل اندھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے اُس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے لیلۃالقدر کے نام سے موسوم کیاہے جیسے کہ فرماتاہے۔
انا انزلنہ فی لیلۃ القدر(القدر:۲)
اسی طرح جب نور اپنے کمال کو پہنچتا ہے توپھروہ گھٹنا شروع ہوتا ہے جیسے کہ چاند کو دیکھتے ہو اور اسی طرح سے یہ قیامت تک رہے گا کہ ایک وقت نور کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ظلمت کا۔
خدا شناسی کی ضرورت
یہ چند روزہ ہے اور ایسا مقام ہے کہ آخر فناہے۔اندرہی اندر اس فنا کا سامان لگاہوا ہے وہ اپنا کام کر رہا ہے مگر خبر نہیں ہوتی اس لیے خدا شناسی کی طرف قدم جلد اآٹھاناچاہیئے۔خدا تعالیٰ کا مزا اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق ووفا سے قدم نہیں اُٹھاتا اس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی۔اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا سے لگا ہی رہتا ہے۔اگر خدا تعالیٰ کی چرف ذراسی حرکت کروگے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا،لیکن اوّل تمہاری ططرف سے حرکت کا ہونا ضڑوری ہے۔یہ خام خٰالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی روقع رکھی جاوے یہ سنت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے۔پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃً ظاہر ہوتا ہے۔اگر ایک شخص اپنے مکان کے کل دروازے بند کردے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا۔خدا تعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا ہو جاوے گا لیکن انسان کو اس کوطہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہیئے۔
بعض کوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں ۔نماز بھی پڑھی روزے بھی رکھے۔صدقہ خیرات بھی دیا مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا۔تو ایسے لوگ شقی ازلی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لیے کئے ہوتے ہیں۔اگر خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے۔اسی وجہ سے اکثر لوگ شکوک وشہبات میں رہتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی پتہ نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں۔ایک پارچہ سلاِ ہوا ہوتا انسان جان لیتا ہے کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے۔ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے۔اگر جنگل میں بھی انسان کامل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کا بنانے والا ضرور ہے۔پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنارکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائباتِ قدرت ہیں ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں۔ایک طرف نشانات ہیں وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ عظیم لشان قدرتوں والا خدا موجود ہے وہ پہلے اپنے برگشیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرماتا ہے اور یہی بھاری شئے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام پیشگائی ہے۔ایک کاغذ لا کبوتر بنا کر دکھلاوے تو اس کی نظیر دوسرے بھی کرکے دکھادیتے ہیں اور اُسے اعجاز میں شمار نہیں کیا جاتا ۔مگر پیشگوئی کا میدان وسیع ہے۔اس کی نظیر پیدا کرنا انسان کاکام نہیں۔ہزار ہزار برس پیشتر اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنے ارادہ سے اطلاع دیتا ہے اور پھر وہ بات اپنے وقت پر پوری ہوکر رہتی ہے۔مثلاً براہین کی ہی پیشگوئی کو دیکھو کہ جسقدر مخالفت ہورہی ہے۔مقدمات ہوئے۔ گورمنٹ تک نوبت پہنچی۔یہ سب اوّل سے اس میں درج ہیں اور پھر کامیابی،فتح اور نصرت کی بھی خبر اوّل سے ہی دیدی۔کوئی سوچ کر بتلادے کہ اس میں کیا فریب اور شعبدہ ہے۔۲۳۔۲۴سال پیشتر کی چھپی ہوئی یہ کتاب ہے۔کوئی بتلا سکتا ہے کہ ہمارے پاس اس وقت کون کون ہوتا تھا۔اگر اہل الرائے کے نزدیک یہ ایک انسانی فعل ہے اور خدا تعالیٰ کا نہیں ہے تو وہ اس کی نظیر پیش کریں لیکن وہ ایسا کرسکتے۔جبکہ یہ حال ہے تو پھر اُسے کیوں خدا تعالیٰ کا کلام نہ کیا جاوے۔
جس قدر لوگ ہماری صُحبت میں رہنے والے ہیں ان میں کوئی اُٹھ کر بتلادے کہ کیا ایسا فروبشر بھی ہے کہ اس نے کوئی نشان نہ دیکھا ہو۔ہمارے پر سلطنت ایسے لوگوں کی ہے جو سچے اور کامل خدا سے بالکل بے خبر ہیںدنیاوی امور میں اس قدر مصروفیت ہے کہ دین سے بالکل غافل رہے اور وہی فلسفہ کا زور۔اس لیے دہریت اُن میں آگئی۔اب ہمارا بڑا کام یہ ہے کہ نئے سرے سے بنیاد ڈالیں اور ان کو دکھا دیویں کہ خُدا ہے۔
ہر ایک ہمارے پاس کسی نہ کسی ضرورت کے لیے آتا ہے مگر اصل میں بڑی ضرورت خداشناسی کی ہے۔اسی کے نہ ہون سے گناہ ہوتا ہے۔کُتا ایک ذلیل سے لیل جانور ہے مگر اس سے خوف زدہ ہو کر وہ راہ چھوت دیتا ہے اسی طرح جس راہ میں اسے علم ہو کہ سانپ یا بھیڑ یا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے۔جب وہ ادنیٰ تریں جانوروں سے ڈرتا ہے تو کیا خدا کے وجود کا اسے اتنا بھی خوف نہیں کہ اس سے ڈر کر گناہ سے باز رہے۔زہر اس کے سامنے ہوتو اسے نہیں کھائے گا لیکن گناہ کو دیدہ دانستہ کرلیگا۔اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں ہے۔
حالانکہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس نے ایک جہنم یہاں بھی تیار کررکھا ہے کہ جب کوئی بد کاری کرتا ہے تو اس کی سزا بھی ساتھ ہی پاتا ہے۔جس کسی کی جہنمی زندگی ہے وہ خوب محسوس کر لیگا۔سشی بات یہ ہے کہ جوئم پیشہ کو وہ کبھی نہیں چھوڑتا جو شخص دلیری اور چالاکی سے گناہ کرتا ہے اس کا انجام بد ہوتا ہے۔یہ تو جسمانی طور پر گناہ کہ سزا ہے لیکن روحانی طور پر بھی جو شخص خدا تعالیٰ کو نہیں پہچا نتا وہ جہنم ہی ہے۔بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ حیوانوں کی طرح کھاپی لیا اور عورتوں کے پاس ہوآیا۔اگر اسی کا نام زندگی ہے تو بتلائو کہ حیوانوں میں اور اس میں کیا فرق ہے اور حیوانوں سے زائد قویٰ عقل وفکر وغیرہ کے خدا تعالیٰ نے اُسے کیوں دیئے۔جو لوگ ان قویٰ سے کام نہیں لیتے ان کو خدا تعالیٰ
اصل از انعام
قرار دیتا ہ۔یہ اس لیے کہ اس نے قویٰ کو معطل کردیا۔بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ انسان کو حقیقی طور پر معلوم ہو جاوے کہ خُدا ہے۔
جس قدر جرائم۔معاصی اور غفلت وغیرہ ہوتی ہے ان سب کی جڑ خدا شناسی میں نقص ہے۔اسی نقص کی وجہ سے گناہ میں دلیری ہوتی ہے۔بدی کی طرف رجوع ہوتا ہے۔اور آخر کار بد چلنی کی وجہ سے آتشک کی نوبت آتی ہے پھر اس سے جذام ہوتا ہے جس سے نوبت موت تک پہنچتی ہے۔حالانکہ اگر بد کارآدمی بدکاری میںلذت حاصل نہ کرے تو خدا تعالیٰ اسے لذت اور طریق سے دے دیگا یا اس کے جائز وسائل بہم پہنچادے گا۔مثلاً اگر چور چوری کرنا ترک کردے تو خدا تعالیٰ اسے مقدر رزق ایسے طریق سے دیدے گا کہ جلال ہو اور حرامکار حرامکاری نہ کرے تو خدا تعالیٰ نے اس پر حلال عورتوں کا دروازہ بند نہیںکردیا۔اسی لیے بد نظری اور بد کاری سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواج کی بھی نصیحت کی ہے کہ تقویٰ کے لحاظ سے اگر وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا چاہیں تو کرلیں مگر خداتعالیٰ کی معیت کے مرتکب نہ ہوں۔پھر گناہ کرکے جو شخص ایمان کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ (البدؔر جلد ۳ نمبر ۲ صفحہ۳۔۴مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
۲۶؍دسمبر۱۹۰۳ء؁
صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کا درجہ
صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی نسبت حضرت اقدس نے فرمایاکہ:۔
وہ ایک اسوئہ حسنہ چھوڑگئے ہیں اور اگر غورسے دیکھا جاوے تواُن کا وقعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعہ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے کیو نکہ وہ تو مقیدنہ تھے نہ ان کو زنجیریں ڈالی گئی تھیں صرف ایک قسم کا جنگ تھا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بھی فوج تھی اگر ان کے آدمی مارے گئے تو آخر انکے آدمیوں نے بھی تو یزید کے آدمیوں کو مارا اور نہ جان بچانے کا کوئی مو قعہ ان کو ملا مگر یہاں عبداللطیف صاحب مقید تھے زنجیریں ان کے ہاتھ پاؤں میں پڑی ہو ئی تھیں مقابلہ کر نے کی ان کو قوت نہ تھی اور بار بار جان بچانے کا موقعہ دیا جا تا تھا یہ اس قسم کی شہادت واقع ہو ئی ہے کہ اس کی نظیر تیرہ۱۳ سو سال میں ملنی محال ہے عام معمولی زندگی کا چھو ڑنا محال ہوا کرتا ہے حالا نکہ ان کی زندگیب ایک تنعم کی زندگی تھی مال ۔دولت ۔جاہ وثروت سب کچھ مو جود تھا اور اگر وہ امیر کا کہنا مان لیتے تو ان کی عزت اَور بڑھ جاتی مگر انہوں نے ان سب پر لات مار کراور دیدہ دانستہ بال بچوں کو کچل کر موت کو قبول کیا ۔انہوں نے بڑا تعجب انگیز نمونہ دکھلا یا ہے اور اس قسم کے ایمان کو حاصل کر نے کی کو شش ہر ایک کو کرنی چاہئیے جماعت کو چاہئیے کہ اس کتاب (تذکرۃ الشہادتیں) کو بار بار بڑھیں اور فکر کریں اور دعا کریں کہ ایسا ہی ایمان حاصل ہو ۔
مو منوں کے دوگروہ ہو تے ہیں ایک تو جان کو فدا کر نے والے اور دوسرے جو ابھی منتظر ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں میں سے وہ چودہ۱۴ اچھے ہیں جو کہ قید میں ہیں۔ ۱ ؎ ابھی بہت ساحصہ ایسا ہے جو کہ صرف دنیا کو چاہتا ہے حالا نکہ جانتے ہیں کہ مَر جانا ہے اور موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے مگر بھی بھی دنیا کا خیال بہت ہے اس سر زمیں (پنجاب ) میں بزدلی بہت ہے بہت کم ایسے آدمی ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اکثر خیال بیوی بچوں کا رہتا ہے دو دوآنہ پر جھوٹی گو اہی دیتے ہیں مگر اس کے مقابلہ پر سر زمین کا بل میں وفا کا مادہ زیادہ معلوم ہو تا ہے اسی لیے وہ لوگ قرب الہیٰ کے زیادہ مستحق ہیں(بشتر طیکہ) ما مورمن اللہ کی آواز کو گوش ِدل سے سنیں خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کی ہے جیسا کہ فر ما یا ہے ۔
ابراہیم الذی وفی (النجم :۳۸)
کہ اس نے جو عہد کیا اسے پورا کر کے دیکھا یا لو گوں کا دستور ہے کہ حالت تنعّم میں وہ خدا تعالیٰ سے بر گشتہ رہتے ہیں اور جب مصیبت اور تکلیف پڑتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں مانگتے ہیں اور ذرا سے ابتلا ء سے خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیتے ہیں خدا تعالیٰ کو اس شرط پر ماننے کے لیے تیار ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے برخلاف کچھ نہ کرے حالانکہ دوستی کا اصول یہ ہے کہ کبھی اپنی اس سے منوائے اور کبھی اس کی آپ مانے اور یہی طریق خدا تعالیٰ نے بھی بتلایا ہے کہ
ادعونی استجب لکم(المومن:۶۱)
کہ تم ما نگو تو مَیں تمہیں دوں گا یعنی تمہاری بات مانوں گا اور دوسری جگہ اپنی منوا تا ہے اور فر ماتا ہے
ولنبلو نکم بشی من الخوف (البقرۃ:۱۵۶)
مگر یہاں آج کل لوگ خداتعالیٰ کو مثل غلام کے اپنی مرضی کے تابع کر نا چاہتے ہیں ۔حالانکہ غوث ،قطب ،ابدال اور اولیاء وغیرہ جس قدر لوگ ہو ئے ہیں ان کو یہ سب مراتب اسی لیے ملے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھتے چلے آئے چو نکہ افغانستان کے لوگوں میں یہ مادہ وفا کا زیادہ پایا جاتا ہے اس لیے کیا تعجب ہے کہ وہ لوگ ان لوگوں (اہل پنجاب) سے آگے بڑھ جاویں اور گوئے سبقت لے جاویں اور یہ پیچھے رہ جاویں کیو نکہ وہ لوگ اپپمے عہد کے اس قدر پا بند ہیں کہ جان تک کی پروا نہیں کرتے نہ مال کی نہ بیوی کی نہ بچے کی جس کا نمونہ ابھی مولوی اللطیف صاحب نے دکھادیا ہے ۔
(البدؔر جلد ۳ نمبر ۲ صفحہ ۵مورخہ ۸ ؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
سلسئلہ احمدیہ کے قیام کی غرض
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۳؁ء کو بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں حضرت موعود علیہ السلام نے ایک پر تا ثیر تقریر کرتے ہوئے فر مایا:۔
مَیں نے اس واسطے چند کلمات کے بیان کرنے کی ضرورت سمجھی ہے کہ چونکہ موت کا اعتبار نہیں ہے اور کوئی شخص اپنی نسبت یقنیی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی کس قدر ہے اور کتنے دن باقی ہیں اس لیے مجھے یہ اندیشہ بار بار پیدا ہو تا ہے کہ اگر ہماری جماعت میں سے کوئی ناواقف ہو تو وہ واقف ہو جائے کہ اس سلسلہ کے قائم کر نے سے اللہ تعالیٰ کی کیا غرض ہے؟اور ہماری جناعت کو کیا کر نا چاہئیے اور یہ بھی غلطی ہے کہ کوئی اتنا ہیں اتناہی سمجھ لے کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہو نا ہی نجات ہے اس لیے ضرورت پڑی ہے کہ مَیں اصل غرض بتاؤں کہ خدا تعالیٰ کیا چاہتا ہے ۔
سب لوگ یادر کھو کہ رسمی طور پر بیعت میں داخل ہو نا یا مجھ کو امام سمجھ لینا اتنی ہی بات کے واسطے ہر گز کا فی نہیں ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے وہ زبانی باتوں کو نہیں دیکھتا ۔
نجات کے واسطے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فر مایاہے وہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو وحد ہ‘ لا شرک سمجھے اور آنحضرت ﷺ کو سچا نبی یقین کرے اور قرآن شریف کو کتا ب اللہ سمجھے کہ وہ ایسی کتا ب ہے کہ قیامت تک اب اَور کو ئی یا شر یعت نہ آئے گی یعنی قر آن شریف کے بعد کسی کتا ب یا شریعت کی ضرورت نہیںہے۔ دیکھو خوب یاد ر کھو کہ آنحضرت ﷺ خاتم الا نبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی ﷺ کے بعد کو ئی نئی شریعت اور نئی کتا ب نہ آئے گی نئے احکام نہ آئیں گے یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے جو الفاظ میری کتابوں؎۱ میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں بلکہ منشا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات ِالہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پر نبی؎ کا لفظ بولا جاتا ہے اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے یہ معنے نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یاوہ آنحضرتﷺ کی شریعت کو نعوذباللہ منسو خ کرتا ہے نلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت ﷺ ہی کی سچی اور کامل ابتاع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں ۔ہاں یہ ضروری ہے کہ جب زمانہ میں گناہ کثرت سے ہوتے ہیں اور اہل ِدنیا ایمان کی حقیقت نہیں سمجھتے اور ان کے پاس پوست یا ہڈی رہ جاتی ہے اور مغزاور لب نہیں رہتا ایمانی قوت کمزور ہو تی ہے اور شیطانی تسلط اور غلبہ بڑھ جاتا ہے ایمانی ذوق اور حلاوت نہیں رہتی یسے وقتوں میں عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک کامل بندہ کو جو خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت میں فناشدہ اور محوہو تا ہے اپنے مکالمہ کا شرف بخش کر بھیجتا ہے اور اب وقت اس نے مجھے مامور کرکے بھیجا ہے کیو نکہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں الہیٰ محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے ۱؎ اگر چہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے لوگ
لا لہ الا اللہ
کے بھی قائل ہیں پیغمبر ﷺ کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی اور دوسری طرف ان اعمال صالحہ کے مخاجف کا م کر نا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال اعمال ِصالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیو نکہ ان میں اخلاص اور رو۳حانیت کا شمہ بھی نہیں ہے رونہ کیا وجہ ہے کہ ان اعمال ِصالحہ کے برکا ت اور انوار ساتھ نہیں ہیں خوب یادرکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہو گا اور یہ اعمال کا م نہ آئیں گے اعمال صالحہ اسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو صلاح کہ ضد فساد ہے صالح وہ ہے جو فساد سے مبرا منزہ ہو جن کی نمازوں میں فساد ہے اور نفسانی اغراض چھپے ہو ئے ہیں ان کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے واسطے ہر گز نہیں ہیں اور وہ زمین سے ایک بالشت بھی پروا نہیں جاتی ہیں کیو نکہ ان میں اخلاص کی روح نہیں اور وہ روحانیت سے خالی ہیں ۔
بہت سے اسے لوگ ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ کی ضرورت کیا ہے کیا ہم نمازروزہ نہیں کرتے ہیں وہ اس طرح پر دھوکا دیتے ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ جو ناواقف ہو تے ہیں ایسی باتوں کو سنکر دھوکا کھا جاویں اور ان کے ساتھ مل کر یہ کہد یں کہ جس حالت میں ہم نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں اور وِردوظائف کرتے ہیں پھر کیوں یہ پھوٹ ڈالدی ۔یاد رکھو کہ ایسی باتیں کم سمجھی اور معرفت کے نہ ہو نے کا نیتجہ ہے میرا اپنا کام نہیں ہے ہو تے یہاں تک نوبت پنچ گئی ہے کہ ایمانی وقت بالکل ہی معدوم ہی ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلہ کے ذریعہ سے اس نے چاہا ہے ایسی صورت ان لوگوں کا اعتراض بیجااور بیہودہ ہے پس یادرکھو کہ ایسا وسوسہ ہر گز کسی کے دل میں نہیں آنا چاہئیے اور اگر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے تو یہ وسوسہ آہی نہیں سکتا غور سے کام نہ لینے کے سبب ہی سے وسوسہ آتا ہے جو ظاہری حالت پر نظر کر کے د یتے ہیں کہ اَور بھی مسلمان ہیں اس قسم کے وسوسوں سے انسان جلد ہلاک ہو جاتا ہے ۔ مَیں نء بعض خطوط اس قسم کے لوگوں کے دیکھے ہیں جو بظاہر ہمارے سلسلہ میں ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے جب یہ کہا گیا کہ دوسرے مسلمان بھی بظاہر نماز پڑھتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں ،روزے رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور نیک معلوم ہوتے ہیں پھر اس نئے سلسلہ کی کیا حاجت ہے؟ یہ لوگ باوجود یکہ ہماری بیعت میں داخل ہیں ایسے وسوسے اور اعتراض سنکر لکھتے ہیں کہ ہم کو اس کاجواب نہیں آیاایسے خطوط پڑھ کر مجھے ایسے لوگوں پر افسوس اور رحم آتا ہے کہ انہوں نے ہماری اصل غرض اور منشاء کو نہیں سمجھا وہ صرف دیکھتے ہیں کہ رسمی طور پر یہ لوگ ہماری طرح شعائرِاسلام بجالاتے ہیں اور فرائض الہیٰ ادا کرتے ہیں حالانکہ حقیقت کی روح امن میں نہیں ہو تی اس لیے یہ باتیں اور ساوس سحر کی طرح کام کرتے ہیں وہ ایسے وقت نہیں سوچتے کہ ہم حقیقی ایمان پیدا کر نا چا ہتے ہیں جو انسان کو گناہ کی موت سے بچا لیتا ہے اور ان رسوم وعادات کے پیرولوگوں میں وہ بات نہیں ان کی نظر ظاہر پر ہے حقیقت پر نگاہ نہیں ان کے ہاتھ میں چھلکا ہے جس میں مغزنہیں۔
مامور کے وقت کس چیز کی ضرورت ہو تی ہیَ
یادرکھو اور سمجھو کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں کیا یہودتورات کو چھوڑبیٹھے تھے اور اس پر ان کا عمل نہ تھا ؟ ہر گز نہیں یہودی تو اب تک بھی تورات کو ما نتے اور اس پر عمل کرتے ہیں انکی قربانیاں اور رسوم آج بھی اسی طرح ہو تی ہیں جیسے اس وقت کرتے تھے وہ برابر آج تک بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ان کے بڑے بڑے عالم اور احبار بھی اس وقت موجود تھے اس وقت پھر آنحضرت ﷺ اور کتاب اللہ کی کیا ضرورت پڑی تھی؟دوسری طرف عیسائی قوم تھی ان میں بھی ایک فر قہ
لا لہ الا اللہ
کا مانتا تھا پھر کیا وجہ تھی جو آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ معبوث فر مایا اور کتاب اللہ کو بھیجا ؟یہ ایک سوال ہے جس پر ہمارے مخالفوں اور ایسا اعتراض کر نے والوں کو غور کر ناچاہئیے اگر چہ یہ ایک باریک مسلہ ہے لیکن جو لوگ غور اور فکر کرتے ہیں ان کے لیے باریک نہیں ہے ۔
یادرکھو اللہ تعالیٰ روح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے وہ ظاہری اعمال پر نگا ہ نہیں کرتا وہ انکی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان کے اعمال کی تہہ میں خود غرض اور نفسانیت ہے یا اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص مگر انسان بعض ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھوکا کھاجاتا ہے جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یاوہ تہجدو اشراق پڑھتا ہے بظاہر ابرا۔واخیار کے کام کرتا ہے تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو تو پوست ۱؎ پسند نہیں ۔
یہ پوست اور قشرہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو بے وفاآدمی کُتے کی طرح ہے جو مردار دنیا پر گرے ہوئے ہو تے ہیں وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہیں ،لیکن افعال ذمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیدہ بد چلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں جونمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں ان نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائد ہ ؟ ۲ ؎
حقیقی نماز
نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلقو ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کرلے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مر نے کے لئے تیار ہو جائے جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہو تی اور سچے اخلاص اور وفاداری کا نمانہ نہیں دکھلاتا اس وقت تک اس کی نماز یں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں ۔
بہت سی مخلوق ایسی ہے کہ لوگ ان کو مومن اور راست باز سمجھتے ہیں مگر آسمان پر ان کا نام کافر ہے۔ ۱ ؎
اس واسطے حقیقی مومن اور راستباز وہی ہے جس کا نام آسمان پر مومن ہے ۔دنیا کی نظرمیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ کہلاتا ہو ۔حقیقت میں یہ بہت ہی مشکل گھاٹی ہے کہ انسان سچا ایمان لاوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ کا مل اخلاص ا وروفاداری کا نمونہ دکھلاوے جب انسان سچا ایمان لاتا ہے تو اس کے بہت سے نشانات ہو جاتے ہیں ۔قرآن شریف نے سچے مومنوں کی جو علامات بیان کی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں ۔ان علامات میں سے ایک بڑی علامت جو حقیقی ایمان کی ہے وہ یہی ہے کہ جب انسان دُنیاکو پائوں کے نیچے کچل کر اس سے اس طرح الگ ہو جا تا ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی سے باہر آجاتا ہے اس طرح پر جب انسان نفسانیت کی کینچلی سے باہ آجاتا ہے تو وہ مومن ہو تا ہے اور ایمان کامل کے اثار اس میں پائے جاتے ہیں ۔چنانچہ فرمایا ہے:
ان اللہ مع الذین اتقو اوالذین ھم محسنون (النحل:۱۲۹)
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہو تا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں یعنی محسنین ہو تے ہیں۔
حقیقی نیکی
تقویٰ کے معنے ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔مگر یاد رکھونیکیاتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لیے کہ میں نے کسی کا مال نہیں لیا۔نقب زنی نہیں کی۔چاری نہیں کرتا۔بد نظری اور زنا نہیں کرتا۔ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہوبلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوعِ انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔اسی لیے یہاں فرمایا ہے
ان اللہ مع الذین اتقو او الذین ھم محسنون
معنی اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو بدی سے پر ہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں۔
یہ خوب یاد رکھو کہ نرِا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اُس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جہنہوں نے کبھی زمانہ نہیں کیا خون نہیں کیا چوری نہیں کی ،ڈاکی نہیں مارا اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق ووفا کا نمونہ انہوں نے نہیں دکھایا یا نوعِا انسان کی کو ئی خدمت نہیں کی ۔اور اس طرح پر کو ئی نیکی نہیں کی ۔پس جاہل ہو گا وہ شخص جو اس باتوں کو پیش کر کے اسے نکیو کاروں میں داخل کرے کیو نکہ یہ تو بد چلنیاں ہیں صرف اتنے خیال سے اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا ۱؎
بد چلنی کر نے والے چوری یا خیانت کر نے والے ،رشوت لینے والے کے لیے عادت اللہ میں ہے کہ اسے یہاں سزا دی جاتی ہے وہ نہیں مرتا جب تک سزا نہیں پالیتا ۔یادرکھو کہ صرف اتنی ہی بات کا نام نیکی نہیں ہے ۔
تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جاوے تا کہ اس میں اعلیٰ درجہ کا لطیف کھا نا ڈالا جائے اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کر کے رکھدیا جائے لیکن اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھر سکتا ہے ؟ہر گز نہیں ۔کیا وہ خالی برتن طعام سے سیر کروے گا؟ ہر گز نہیں اسی طرح پر تقویٰ کو سمجو ۔تقویٰ کیا ہے نفسِامّارہ کے برتن کو صاف کرنا ۔ ۲؎
نفس کی تین حالتیں
نفس کو تین قسم پر منقسم کیا ہے نفسِ امّارہ ۔نفس ِلّوامہ اور نفسِ مطمئنہّ ۔ایک نفس ِزکیہ بھی ہو تا ہے مگر وہ بچپن کی حالیت ہے۔ جب گناہ ہو تا ہی نہیں اس لیے اس نفس کو چھوڑ کربلوغ کے بعد تین نفسوں ہی کی بحث کی ہے ۔نفسِ امّارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہو تا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیرہو جاتا ہے جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح تیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لیے مستعد ہو تا ہے اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جووہ کہے یہ کرتا ہے وہ کہے خون کر ۔توبہ کرتا ہے زناکہے چوری کہے ٖغرض جو کچھ بھی لہے سب کیلئے تیار ہوتا ہے کو ئی بدی کو ئی برا کام ہو تو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے یہ نفس امارہ کی حالت ہے اور یہ وہ شخص ہے جو نفس امّارہ کا تابع ہے ۔
اس کے بعد نفس لوامہ ہے یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہو تے رہتے ہیں مگر وہ نفس کو علامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اور کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے گناہ سے نجات مل جائے جو لوگ نفس لوامہ کے ماتحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہو تے ہیں یعنی شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آکر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آجاتے اور اس کو دبالیتے ہیں۔یہ لوگ نفسِ امّارہ والوں سے ترقی کرجاتے ہیں۔نفسِ ام
أارہ والے انسان اور دوسرے بہائم میں کوئی فرق نہیں ہوتا جیسے کُتّا،بلی جب کوئی برتن ننگا دیکھتے ہیں تو فوراً جا پڑتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ وہ چیز ان کا حق ہے یا نہیں۔اسی طرح پر نفسِ امّارہ کے غلام انسان کو جب کسی بدی کا موقعہ ملتا ہے تو فوراً اسے کر بیٹھتا ہے اور تیار رہتا ہے اگر راستہ میں دوچار روپے پڑے ہوں تو فی الفور اُن کے اُٹھانے کو تیار ہوجائے گا اور نہیں سوچے گا کہ اس کو اُن کے لیے لینے کا حق ہے یا نہیں مگر لوّامہ والے کی یہ حالت نہیں۔وہ حالت جنگ میں جس میں کھبی نفس غا لب کھبی وہ،ابھی کامل فتح نہیں ہوئی۔مگر تیسری حالت جو نفسِ مطمئنّہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لیے اس کانام نفسِ مطمئنّہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ ۱؎ اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور وہ یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے۔نفسِ مطمئنّہ کی انتہائی حد خدا تعالیٰ پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو۔
یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصل جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے جس قدر انسان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے،لیکن جب ایمان قویٰ ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والاگناہ پر قادر نہیں ہوسکتا۔کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔دیکھو اگر کسی آنکھیں نکال دی جائیں تو وہ آنکھوں سے بد نظری کیونکر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کریگا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دئیے جائیں۔شیوانی قویٰ کاٹ دیئے جائیں۔پھر وہ گناہ جو ان سے متعلق ہیں کیسے کرسکتا ہے ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ اُسے اندھا کردیتا ہے اور اسکی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی۔وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا۔کیونکہ آنکھوں کی نظر سلب ہو جاتی ہے۔وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا۔اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور ابدرونی اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں۔اس کی ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میّت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اُٹھا سکتا۔یہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اُسے دیا جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیئے۔اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے اور اطمینانِ کامل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے۔پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سّچا یمان حاصل کریں۔
اصلاحِ نفس کا سچّا ذریعہ ۔صُحبتِ صَا دقین
یاد رکھو۔اصلاحِ نفس کے لیے نری تجویزوں اور تربیروں سے کچھ نہیں ہو تا ہے جو شخص نری تدیبروں پر رہتا ہے وہ نامراد اور ناکام رہتا ہے کیو نکہ وہ اپنی تد بیروں اور تجویزوں ہی کو خدا سمجھتا ہے اس واسطے وہ فضل اور فیض جو گناہ کی طاقتوں پر موت وارد کرتا ہے اور بدیوں سے بچنے اور ان کا مقابلہ کر نے کی قوت بخشتا ہے وہ انہیں نہیں ملتا کیو نکہ وہ خدا تعالیٰ سے آتا جو تربیروں کا غلام نہیں تھا انسانی تد بیروں اور تجویزوں کی ناکامی کی مثال خود خدا تعالیٰ نے دکھائی ہے یہودیوں کو تو ریت کے لیے کہا کہ اس میں تحریف وتبدیل نہ کر نا اور بڑی بڑی تا کیدیں اس کی حفاظت کی ان کو کی گئیں لیکن کم بخت یہودیوں نے تحریف کر دی اس کے بالمقابل مسلمانوں کو کہا۔
انا نحن نذلنا الذکر وانا لہ لحافون(الحجر:۱۰)
یعنی ہم نے اس قرآن مجید کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کر نے والے ہیں پھر دیکھ لو کہ اس کیسی حفاظت فر مائی ایک لفظ اور نقطہ تک پس وپیش نہ ہوا اور کو ئی ایسا نہ کر سکا کہ اس میں تحریف تبدیل کر تا صاف ظاہر ہے کہ جو کام خدا کے ہا تھ سے ہو تا ہے وہ بڑا ہی برکت ہو تا ہے اور جو انسان کے اپنے ہاتھ سے ہو وہ با برکت بنہیں ہو سکتا اس سے صاف پا یا جا تا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور اسی کے ہاتھ سے نہ ہو تو کچھ نہیں ہو تا پس محض اپنی سعی اور کو شش طہارت ِنفس پیدا جاوے یہ خیال باطل ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ پھر انسان کو شش نہ کرے اور مجاہدہ کرے نہیں بلکہ کو شش اورمجاہدہ ضروری ہے اور سعی کر نا فرض ہے خدا تعالیٰ کا فضل سچی محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا اس واسطے ان تمام ترابیر اور مساعی کو چھوڑنا نہیں چاہئیے جو اصلاح نفس کے لیے ضروری ہیں مگر یہ تجاویزاور ترابیر اپنے نفس اور خیال سے پیدا کی ہو ئی نہیں ہو نہ چاہئیں بلکہ ان تدابیر کو اختیار کر نا چاہئیے جن کو خدا اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے اور جو ہمارے نبی ﷺ نے کر کے دیکھائی ہیں آپ کے قدم پر قدم مارواور پھر دعاؤں سے کام لو۔ تم نا پاکی کے کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہو مگر خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر صرف تدبیروں سے صاف چشمہ تک نہیں پہنچ سکتے جو طہارت کا موجب بنے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور اپنی تدبیروں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ احتیاطیں کرتے کرتے خود مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھنس جاتے ہیں۔اس واسطے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ان کے ساتھ نہیں ہوتا اور ان کی دستگیری نہیں کی جاتی۔خدا تعالیٰ کو چھوڑ کراپنی تجویز اور خیال سے اگر کوئی اصلاحِ نفس کرنے کا مدعی یو وہ چھوٹا ہے ۔
اصلاح نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے۔
کو نو امع الصادقین(التوبۃ:۱۱۹)
یعنی جو لوگ قالی ۔فعلی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں ان کے ساتھ رہو اس سے پہلے فر ما
یاایھاالذین امنو اتقوااللہ (التوبۃ:۱۱۹)
یعنی ایمان والو۔رقویٰ اللہ اختیار کرو اس سے یہ مراد ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوعٹدے اور صادقوں کی صبحت میں رہے صبحت کا بہت بڑا اثر ہو تا ہے جو اندر ہی اندر ہو تا چلا جاتا ہے اگر کو ئی شخص ہر روز کنجر یوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کیا مَیں زناکرتا ہو؟ اس سے کہنا چاہئیے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ بایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے ھا کیو نکہ صبحت میں تا ثیر ہو تی ہے اسی طرح پر جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کہتا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دنآئے گا کہ وہ ضرور پئے گا۔
پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئیے کہ صبحت میں بہت بڑی تاثیر ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاحِ نفس کے لیے
کو نو امع الصادقین
کا حکم دیا ہے جو شخص نیک صبحت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہو لیکن وہ صبحت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجا ئے گا ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ ہمارے مخالفت اسی صبحت کے ہ ہو نے کی وجہ سے محروم رہ گئے اگر وہ ہمارے پاس آ کر رہتے ہماری باتیں سنتے تو ایک وقت آجاتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی غلطیوں ہر متنبہ کر دیتا اور وہ حق کو پالیتے اب چو نکہ اس صبحت سے محروم ہیں اور انہوں نے ہماری باتیں سننے کا موقعہ کھو دیا ہے اس لیے کبھی کہتے ہیں کہ نعوذباللہیہ دہریئے ہیں شراب پیتے ہیں زائی ہیں اور کبھی یہ اتہام لگا تے ہیں کہ نعوذباللہ پیغمبرِخداﷺ کی تو ہین کر تے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں ایسا کیو ں کہتے ہیں ؟صبحت اور یہ قہر الہیٰ ہے کہ صبحت نہ ہو ۔
لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقعہ ملا۔اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کی باتیں سنیں تو ان میں صدہا مسلمان ہو گئے جب تک انہوں نے آپ ﷺکی باتیں نہ سنی تھیں ان میں اور آنحضرت ﷺ کے در میان ایک دیوار حائل تھی جو آپ حسن وجمال پر ان کو اطلاع نہ پا نے دیتی تھی اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذاللہ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض وبرکات سے بے نصیب تھے جو آپ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دور تھے لیکن جب وہ حجاب اٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہمیں داخل ہو گئے اسی طرح پر بہتوں کی بدنصیبی کا ا بھی یہی باعث ہے جب ان سے پو چھا جاوے کہ تم ان کے دعویٰ اور دلائل کو کہاںتک سمجھا توبجز چند بہا نوں اور افتراؤں کے کچھ نہیں کہتے جو بعض مفتری سنادیتے ہیں اور وہ ان کو سچ مان لیتے ہیں اور خود کوشش نہیں کر تے کہ یہاں آکرخود تحقیق کریں اور ہماری صبحت میں آکر دیکھیں اس سے ان کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں اور وہ حق کو نہیں پاسکتے لیکن اگر وہ تقویٰ سے کام لیتے تو کوئی گناہ نہ تھا کہ وہ کر ہم سے ملتے جلتے رہتے اور ہماری باتیں سنتے رہتے حالانکہ عیسائیوں اور ہندوؤں سے بھی ملتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں پھر کو نسا امر مانع تھا جو ہمارے پاس آنے سے انہوں نے پر ہیز کیا۔
غرض یہ بڑی ہی بدنصیبی ہے اور انسان اس کے سبب محروم ہو جاتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ حلم دیا تھا
کو نو امع الصادقین(التوبۃ:۱۱۹)
اس میں بڑانکتہ معرفت یہی ہے کہ چونکہ صبحت کا اثر ضرور ہو تا ہے اس لیے ایک راستباز کی صبحت میں رہ کر انسان راستبازی سیکھتا ہے اور اس کے پاس انفاس کا انرد ہی اندر اثر ہو نے لگتا ہے جو اس کو خدا تعالیٰ پر ایک سچا یقین اور بصیرت عطا کرتا ہے اس صبحت میں صدق دل سے رہ کر وہ خداتعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھتا ہے جو ایمان کو بڑھانے کے ذریعے ہیں ۔
(الحکم جلد ۸ نمبر۱صفحہ۲تا۴مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۴ء؁)
جب انسان ایک راستبازاور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو استبازوں کی صبحت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صبحت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے اسی لیے احادیث اور قرآن شریف میں صبحت ِبد سے پر ہیز کر نے کی تا کید اوت تہد ید پائی جاتی ہے اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اہانت ہو تی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤورنہ نہ جو اہانت سنکر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہو گا۔
صادقوں اور استبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لیے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان
کو نو امع الصادقین
پاپ ارشاد پر عمل کرے حدیث شریف میں آیاہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکرکررہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ نہیں وہ بھی میں ہی سے ہے کیو نکہ
انھم قوم لا یشقی جلیسھم۔
اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ صادقوں کی صبحت سے کس قدر فائدہ ہیں سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صبحت سے دور رہے۔
مقام ِنفس مطمئنّہ
غرض نفس مطمئنّہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ طمینان یافتہ لوگوں کی صبحت میں اطمینان پاتے ہیں امارہ والے میں نفس امارہ کی تا ثیریں ہو تی ہیں اور لوامہ میں لوامہ کی تاثیریں ہو تی ہیں اور جوشخص نفس مطمنہ والے کی صبحت میںبیٹھتا ہے۔اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہو نے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے ۔ مطمئنّہ والے کو پہلی نعمت یہ دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے آرام پاتا ہے جیسے فرمایا
یا ایھاالنفس المطمئنۃ ار جعی الی ربک راضیۃمرضیۃ(الفجر:۲۸،۲۹)
یعنی اے خدا تعالیٰ میں آرام یافتہ نفس اپنے رب کی طرف آجا وہ تجھ راضی اورتو اس سے راضی ۔اس میں ایک باریک نکتہ معرفت ہے جو یہ کہا کہ خدا تجھ سے راضی تو خدا سے راضی ۔بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس مرحلہ پرنہیں پہنچتا اور لوّامہ کی حالت میں ہو تا ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ سے ایک قسم کی لڑائی رہتی ہے یعنی کبھی کبھی وہ نفس کی تحریک سے نا فر مانی بھی کر بیٹھتا ہے لیکن جب مطمئنّہ کی حالت پر پہنچتا ہے تو اس جنگ کا خاتمہ ہو جا تا ہے اور اللہ تعالیٰ سے صلح ہو ج تی ہے اس وقت وہ خدا سے راضی ہو تا ہے اور خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لڑائی بھڑائی بالکل جاتی رہتی ہے۔
یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر شخص خدا تعالیٰ سے لڑائی رکھتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دُعایئں کرتا ہے اور بہت ساری امانی اور امیدیں رکھتا ہے لیکن اس کی وہ دُعایئں نہیں سنی جا تی ہیں یا خلاف اُمید کو ئی بات ظاہر ہو تی ہے تو دل کے اندر خدا تعالیٰ سے ایک لڑائی شروع کر دیتاہے۔خدا تعالیٰ پر بد ظنی اور اُ س سے ناراضگی کا اظہار کر دیتا ہے لیکن صالحین اور عباد الرحمن کی کبھی اللہ تعالیٰ سے جنگ نہیں ہو تی کیو نکہ رضا با لقضا کے مقام پر ہو تے ہیں ۔اور سچ تو یہ ہے کحقیقی ایمان اس وقت تک ہیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان اس درجہ کو حاصل نہ کر ے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی اس کی مرضی ہو جائے دل میں کوئی تنگی اور کدورت محسوس نہ ہو بلکہ شرح صدر کے ساتھ اس کی ہر تقدر اور قضا کے ماننے کو تیار ہو ۔اس آیت میں راضیۃمرضیۃ کا لفظ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔یہ رضا کا اعلیٰ مقام ہے جہاں کو ئی ابتلاء باقی نہیں رہتا ۔دوسرے جسقدر مقامات ہیں وہاں ابتلاء کا اندیشہ رہتا ہے ،لیکن جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی ہو جاتی ہے اور جب تک خدا سے محبتِ ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرے کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جا تی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے ۔اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کر نا چاہیئے جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفسِ امارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتا ر رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفسِ امارہ کے نیچے ہیں اُن کا قول ہے ’’ایہہ جہاں مٹھا اگلہ کن ڈٹھا‘‘ یہ لوگ بڑی خطر ناک حالت میں ہو تے ہیں اور لوّامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں ۔اُن کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ اُن کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہو تی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی وہ مغلوب ہو تے ہیں تا ہم یہ لوگ محلِ مدح میں ہو تے ہیں کیونکہ اُن سے نیکیاں بھی سرزد ہو تی ہیں اور خوفِ خدا بھی ان کے دل میں ہو تا ہے لیکن نفسِ مطمئنہ والے بالکل فتحمند ہو تے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں وہ اس دارالامان میں ہو تے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا ۔لوّامہ والا جیسا کہ میں نے کہا دارالامان کی ڈیوڑھی میں ہو تا ہے اور کبھی کبھی دشمن بھی اپنا وار کر جاتا ہے اور لاٹھی مارجاتا ہے اس لئے مطمئنہ والے کو کہا ہے
فادخلی فی عبادی واد خلی جنتی(الفجر:۳۰)
یہ آواز اس وقت آتی ہے جب وہ اپنے تقویٰ کو انتہائی مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے ۔تقویٰ کے دو درجے ہیں ۔بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سر گرم ہو نا ۔یہ دوسرا مرتبہ محسنین کا ہے ۔اس درجہ کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا ۔
جب انسان بدی سے پر ہیزکرتا ہے اور نیکیوں کے لیے اس کا دل تڑپتا ہے اور و ہ خدا تعالیٰ سے دُعائیں کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے دارالامان پہنچا دیتا ہے ۔ فادخلی فی عبادی کی آواز اسے آجا تی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے ساتھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جو
صراط الذین انعمت علیھم
کے مصداق ہیں اور رُوحانی وراثت سے جب کو حصّہ ملتا ہے میری بہشت میں داخل ہو جا ۔
یہ آیت جیسا کہ ظاہر میں سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اُسے آواز آتی ہے آخرت پر ہی موقوفں بلکہ اسی دُنیا میں اسی زندگی میں یہ آواز آتی ہے ۔اہلِ سلوک کے مراتب رکھے ہوئے ہیں اُن کے سلوک کا انتہائی نقطہ یہی مقام ہے جہاں اُن کا سلوک ختم ہو جا تا ہے اور وہ مقام یہی نفسِ مطمئنہ کا مقام ہے ۔اہلِ سلوک کی مشکلات کو اللہ تعالیٰ اُٹھا دیتاہے اور ان کو صالحین میں داخل کر تا ہے جیسے فرمایا
والذین امنو وعملو الصا لحت لند خلنھم فی الصالحین (العنکبوت:۱۰)
یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ہم اُن کو ضرور ضرور صالحین میں داخل کر دتیے ہیں ۔
اس پر بعض اعتراض کر تے ہیں کہ اعمال صالحہ کرنے والے صالحین ہو تے ہیں پھر اُن کو صالحین میں داخل کرنے سے کیا مراد ہے ؟
اصل بات یہ ہے کہ اس میں ایک لطف نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ صلاحیت کی دو قسم ہو تی ہے ایک تو یہ کہ انسان تکالیف شاقہ اُٹھا کر نیکیوں کا بوجھ اُٹھا تا پے ۔نیکیاں کرتا ہے لیکن ان کے کرنے میں استکلیف اور بوجھ معلوم ہو تا ہے اور اندر نفس کے کشاکش موجود ہو تی ہے اور جب وہ نفس کی مخالفت کرتا ہے تو سخت تکلیف محساس ہو تی ہے لیکن جب وہ اعمالِ صالحہ کرتا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے جیس کہ اس آیت کا منشاء ہے اس وقت وہ تکالیف شاقہ اور محنتیں جو خود نیکیوں کے لیے برداشت کرتا ہے اُٹھ جاتی ہیں اور طبعی طور پر وہ صاحیت کا مادہ پیدا ہو جا تا ہے ۱؎ اور وہ تکالیف تکالیف نہیں رہتی ہیں اور نیکیوں کو ایک ذوق اور لذت سے کرتا ہے اور ان دونوں میں یہی فرق ہو تا ہے کہ پہلا نیکی کرتا ہے مگر تکلیف اور تکلف سے اور دوسرا ذوق اور لذت سے ۔وہ نیکی اس کی غذاہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۲؎ اور وہ تکلف اور تکلیف جو پہلے ہو تی تھی اب ذوق وشوق اور لذت سے بدل جاتی ہے یہ وہ مقام ہو تا ہے صاکحین کا جن کے لیے فرمایا :۔
لند خلنھم فی الصالحین (العنکبوت:۱۰)
اس مقام پر پہنچ کر کوئی فتنہ اور فساد مومن کے اندر نہیں رہتا ۔نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات پر فتح پا کر مطمئن ہو کر دارالامان میں داخل ہو جا تاہے۔
ابتلاء اور امتحان ایمان کی شرط ہے
اور اس سے آگے فر مایا
ومن الناس من یوقل امنا باللہ فاذا او ذی فی اللہ جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ ۔(العنکبوت:۱۱)
بہت سے لوگ ایسے ہو تے ہیں جو زبانی تو ایمان کے دعوے کرتے ہیں اور مومن ہو نے کی لاف وگزاف مارتے رہتے ہیں لیکن جب معرضِ امتحان وابتلاء میں آتے ہیں تو اُن کی حقیقت کھل جاتی ہے ۔اس فتنہ وابتلاء کے وقت اُن کا ایمان اللہ تعالیٰ پر ویسا نہیں رہتا بلکہ کایت کرنے لگتے ہیں اسے عذابِ الہیٰ قرار دیتے ہیں ۔حقیقت میں وہ لوگ بڑے ہی محروم ہیں ۔جن کو صالحین کا مقام حاصل نہیں ہو تا ۔کیونکہ یہی تو وہ مقام ہے جہاں انسان ایمانی مراج کے ثمرات کو مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی ذات پر اُن کا اثر پاتا ہے اور نئی زندگی اسے ملتی ہے لیکن یہ زندگی ایک موت چاہتی ہے اور یہ انعام و برکات امتحان وابتلاء کے ساتھ وابستہ ہو تے ہیں۔یہ یاد رکھو کہ عظیم الشان نعمت ابتلاء سے آتی ہے اور ابتلاء مومن کے لیے شرط ہے جیسے
احسب الناس ان یترکو ان یقولا امنا وھم لا یفتنون (العنکبوت:۳)
یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ اتنا ہی کہہ دینے پرچھوڑدیئے جاویں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں ۔ایمان کے امتحان کے لیے مومن کو ایک خطرناک آگ میں پڑنا پڑتا ہے مگر اس کا ایمان اس آگ سے اس کو صحیح سلامت نکال لاتا ہے اور وہ اس آگ پر گلزار ہو جاتی ہے ۔مومن ہو کر ابتلاء سے کبھی بے فکر نہیں ہو نا چاہیئے اور ابتلاء پر زیادہ ثباتِ قدم دکھانے کی ضرورت ہو تی ہے اور حقیقت میں جو سچا مومن ہے ابتلاء میں اس کے ایمان کی حلاوت اور لذت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے عجائبات پر اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ پہلے سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ پر توجہ کرتا اور دُعائوں سے فتحیاب اجابت چاہتا ہے
یہ افسوس کی بات ہے کہ انسان خواہش تو اعلیٰ مدارج اور مراب کی کرے اور اُن کی تکالیف سے بچنا چاہے جو اُن کے حصول کے لیے ضروری ہیں ۔
یقیناًہا رکھو کہ ابتلاء اور امتحان ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر ایمان ،ایمانِ کامل ہو تا ہی نہیں اور کوئی عظیم الشان نعمت بغیر ابتلاء ملتی ہی نہیں ہے۔دنیا میں بھی عام قاعدہ یہی ہے کہ دنیاوی آسائشوں اور نعمتوں کے حاصل کر نے کے لیے قسم قسم کی مشکلات اور رئج وتعب اُٹھانے پڑتے ہیں ۔طرح طرح کے امتحانوں میں سے ہو کر گذرناپڑتا ہے تب کہیں جا کر کا میابی کی شکل نظر آتی ہے اور پھر بھی وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے پھر خدا تعالیٰ جیسی نعمت عظمیٰ جس کوئی نظیر ہی نہیں یہ بدُوں امتحان کیسے میسر آسکے۔
پس جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو پاوے اسے چاہئیے کہ وہ ہر ایک ابتلاء کے لیے تیار ہو جاوے جب اللہ تعالیٰ کو ئی سلسلہ قائم کرتا ہے جیسا کہ اس وقت اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے تو جو لوگ اس میں اولاد اخل ہو تے ہیں ان کو قسم قسم کی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں ہر طرف سے گا لیاں اور دھمکیاں سننی پٹتی ہیں۔کو ئی کچھ کہتا ہے کو ئی کچھ یہا نتک کہ ان کو کہا جا تا ہے کہ ہم تم کو یہاں سے نکال دیں گے یا اگرملاوم ہے تو اس کے موقوف کارنے کے منصوبے ہو تے ہیں جس طرح ممکن ہو تا ہے تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو جان لینے سے دریغ نہیں کیا جاتا ایسے وقت میں جو لوگ ان دھمکیوں کی پروا کرتے ہیں اور امتحان کے ڈرسے کمزوری ظاہر کرتے ہیں یاد رکھو خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے ایمان کی ایک پیسہ بھی قیمت نہیںہے کیو نکہ وہ ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ سے نہیں انسان سے ڈرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کیعظمت وجبروت کی پروا نہیںکرتا وہ بالکل ایمان نہیں لا یا کیو نکہ دھمکی کو اس کے مقابلہ میں وقعت دیتا اور ایمان چھوڑنے کو تیار ہو جاتاہے۔ ۱؎ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صالحین میں داخل ہو نے سے محروم ہو جاتا ہے یہ خلاصہ اور مہفوم ہے اس آیت کا
دمن الناس من یقول امنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنۃالناس کعذاب اللہ (العنکبوت:۱۱)
جماعت کو استقلال اور ہمت کی تلقین
ہماری جماعت کو یادرکھنا چاہئیے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہر مصیبت ومشکل کے اٹھانے کے لیے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی تم نے اس وقت خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ تم دکھ دئیے جاؤ تم کو ستایا جاتا ہے گالیاں سننی پڑتی ہیں قوم اور برادری سے خارج کر نے کی دھمکیاں ملتی ہے جو جو تکالیف مخالفوں کے خیال میں آسکتی ہیں اس کے دینے کا وہ موقعہ ہاتھ سے نہیں دیتے لیکن اگر تم ان تکالیف اور مشکلات اور ان موذیوں کوخدا نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ کو خدا ماناہے تو ان تکالیف کو برداشت کر نے پرآمادہ رہو اور ہر ابتلاء اور امتحان میں پورے اترنے کے لیے کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی تو فیق اور مدد چاہو تو مَیں تمہیں یقیناً کہتا ہوںکہ تم صالحین میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ جیسی عظیم الشان نعمت کو پاؤگے اور ان تمام مشکلات پر فتح پاکر دار لامان میں داخل ہو جاؤگے۔
صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت
صاحبزادہ عبداللطیف شہیدکی شہادت کا واقعہ تمہارے لیے اسوئہ حسنہ ہے تذکرۃ الشہادتین کوبار بار پڑھو اور دیکھو کہ اس نے اپنے ایمان کا کیسا تھ نمونہ دیکھا یا ہے اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پر کو ئی اثر نہیں ڈال سکا ۔دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا اس نے جان دینی گورا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یا مر گیا مگر یقیناً سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا اگر چہ اس کو بہت عرصہ صبحت میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن اس تھوڑی مدت میں جو وہ یہاں رہا اس نے عظیم الشان فائدہ اٹھایا اس کو قسم قسم کے لالچ دئیے گئے کہ اس کا مرتبہ ومنصب بدستور قائم رہے گا مگر اس نے اس عزت افزائی اور دنیوی مفاد کی کچھ بھی پروا نہیں کی ان کو ہیچ سمجھا یہا نتک کہ جان جیسی عزیز شئے کو جو انسان کو ہو تی ہے اس نے مقدم نہیں کیا بلکہ دین کو مقدم کیا جس کا اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھو ں گا مَیں بار بار کہتاہوں کہ اس پاک نمونہ پر غور کیو نکہ اس کی شہادت یہی نہیں کہ اعلیٰ ایمان کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے جو اَور بھی ایمان کی مضبوتی کا موجب ہو تا ہے کیو نکہ براہین احمدیہ میں ۲۳ برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی موجود تھی وہاں صاف لکھا ہے ۔
شاتان تذبحان وکل من علیھافان
کیا اس وقت کو ئی منصوبہ ہو سکتا تھا کہ ۲۳ یا ۲۴ سال بعد عبدالرحمن اور عبداللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھر وہ وہاں جا کر شہید ہوںگے وہ دل *** ہے جو ایسا خیال کرے یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے اور اپنے وقت پر آکر یہ نشان پورا ہو گیا۔ ۱ ؎
اس سے پہلے عبدالرحمن جو مولوی عبداللطیف شہید کا شاگر د تھا سابق امیر نے قتل کرایا محض اس وجہ سے کہ وہ اس سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلاتا تھا اور اب امیر نے مولوی عبداللطیف کو شہید کرادیا یہ عظیم الشان نشان جماعت کے لیے ہے اس پیشگوئی کے معنے اب مخالفوں سے پو چھو کہ کیا یہ پیشگوئی صریح الفاظ میں نہیں ہے ؟اور اب پوری نہیں ہو گئی ہے؟ کیو نکہ انگریزوں کے ملک میں تو کوئی کسی کو بے گناہ ذبح نہیں کرتا ہے اس لیے یہاں تو اس کا وقوع ہو تا تھا اور علا بریں ہماری تعلیم ایسی تعلیم نہیں تھی کہ کوئیاس کو پکڑسکے بلکہ یہ تعلیم توامن کے پھیلانے والی ہے پھر یہ پیشگوئی کیسے پوری ہو تی ؟ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس نشان کو پوراکرنے کے لیے کابل کی سرزمین کو مقدر کیا ہوا تھا اور آخر ۲۴ سال کے بعد یہ پیشگوئی ٹھیک اسی طرح پوری ہوئی جس طرح پہلے فر مایا گیا تھا اس سے آگے اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔
عسی ان تکر ھواشیئاوھوخیر لکم(البقرۃ:۲۱۷)
یہ ایک قسم کی تسلی ہے یعنی جب ایسا مواملہ ہو تو غم نہیں کرنا چاہئیے کیو نکہ بہت سی باتیں ایسی ہو تی ہیں جن کو تم پسند کرتے ہو اور وہ اچھی نہیں ہوتی اور بہت سی ایسی ہو تی ہیں جن کو ناپسند کرتے ہو اور وہ درحقیقت تمہارے لیے مفید ہو تی ہیں یہ خدا تعالیٰ کا ارشاد بالکل سچ ۲ ؎ ہے اورمَیں یقیناً جانتا ہوںکہ اب وقت آنے والا ہے کہ اس کی شہادت کی حکمت نکلنے والی ہے اور مَیں نے سنا ہے کہ اس وقت چودہ آدمی قید کئے گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عبداللطیف کو ناحق شہید کرایا گیا ہے اور یہ ظلم ہواہے وہ حق پر تھا اس پرامیر نے ان آدمیوں کو قید کردیا ہے اور ان کے وارثوں کو کہا ہے کہ وہ ان کو سمجھائیں کہ ایسے خیالات سے بازآجائیں مگر وہ موت کو پسند کرتے ہیں اور اس یقینی بات کو وہ چھوڑ نا نہیں چاہتے اگر عبداللطیف شہید نہ ہوا ہوتا تو یہ اثر کس طرح پیدا ہو تا اور یہ رعب کس طرح پرپڑتا ۔
یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے کسی بڑی چیز کا ارادہ کیا ہے اور اس کی بنیاد عبداللطیف کی شہادت سے بڑی ہے اگر مولوی عبداللطیف زندہ رہتے تودس بیس تک زندہ رہتے آخرموت آ جاتی اورموت آنی ہے اس سے اگر مولوی بچ نہیں سکتا مگر یہ موَت مَوت نہیں یہ زندگی ہے اور اس سے مفید نتیجے پیدا ہونیوالے ہیں اور یہ مبارک بات دشمن بھی اگر خبیث نہ ہو تو براہین احمدیہ کی پیشگوئی کو پڑھ کر اور اس طرح پر پوری ہو نے کو دیکھ کراس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اگر مفتری ہے اور رات کو جھوٹاالہام بناکر سنادیتا ہے تو یہ اثراستقامت کیوں ہوا اور ۲۳ یا۲۴ سال کے بعد ایک بات جو بطور پیشگوئی شائع کی تھی کیوں پوری ہو جاتی ہے؟۱؎
اس قدر عرصہ تک دراز تک تو انسان کوعاپنی زندگی کی بھی امید نہیں ہو سکتی اور پھر اس کے ماننے والوں میں اسقدر استقامت اور قوت ہے کہ بیوی بچوں تک کی پروا نہیں کرتا ،مال اور جان کا خیال تک بھی نہیں کرتا ۔ایمان جیسی دولت پر سب کچھ قربان کر نے کو تیار ہو جاتا ہے ایک اہل بصیرت اس کے نتیجہ نکالنے میں غلطی نہیں کرے گا کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کے منشاہی کے تحت ہے ایک سلسلہ جو خود اس نے قائم کیا ہے اور آپ جس نے ایک نشان دیا ہے اس نے وہ قوت اورا ستقامت اس شہید کو عطاکی تاکہ اس کی شہادت اس سلسلہ کی سچائی پر زبردست دلیل اور گواہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے اب یہ نشان ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے ہدایت اور ترقی ایمان کا مو جب ہو گا اور خدا تعالیٰ چاہے تو اس کے آثار ابھی سے نظر آنے ے ہیں ۔
الا ستقامۃ فوق الکرامۃ
مشہور بات ہے کیا عبداللطیف کے اس استقلال اور استقامت سے بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کو ہو گا جو اس واقعہ پرغور کریں گے چو نکہ یہ موت بہت سی زندگیوں کا موجب ہو نے والی ہے اس لیے یہ ایسی موت ہے کہ ہزاروں زندگیاں اس پر قربان ہیں۔
پھر اس پیشگوئی میں
کل من علیھا فان
جو فرمایا ہے یہ دشمنوں کیلئے ہے کہ تمہیں بھی کبھی مرنا ہی ہے موت تو کسی کو نہیں چھوڑے گی۔پھر عبد اللطیف کی موت پر جو موت نہیں بلکہ زندگی ہے تم کیوں خوش ہوتے ہو۔آخر تمہیں بھی مرنا ہے۔عبد اللطیف کی موت تو بہتوں کی زندگی کا باعث ہوگی مگر تمہاری جان اکارت جائے ھی اور کسی ٹھکانے نہ لگے گی۔
مولوی عبداللطیف کی شہادت اور استقامت کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ ۲۳۔۲۴برس سے ایک پیشگوئی باہین میں موجود تھی جو پوری ہوگئی اور یہ جماعت کے ایمان کو ترقی دینے کا موجب ہوگی۔اسکے سوا اب یہ خون اُٹھنے لگا ہے اور اسکا اثر پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے جو ایک جماعت کو پیدا کردے گا۔
(الحکم ؔؔجلد ۸ نمبر۳ صفحہ ۱،۲ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۴؁ء)
یہ خون کبھی خالی نہیں جائے گا۔اللہ تعالیٰ اس کے مصالح اور حکمتوں کو خوب جانتا ہے لیکن جہانتک پیشگوئی کے الفاظ پر غور کرتا ہوں۔اس میں
عسیٰ ان تکر ھوا شیئاً وھو خیر لکم۔
ایک ہی بڑی تسلی اور اطمینان کی بات ہے کہ جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس خون کے بہت بڑے نتائج پیدا ہونیوالے ہیں۔مَیں جانتا ہوں اور اس پر افسوس بھی کرتا ہوں کہ جس قسم کا نمونہ صدق ووفا کا عبد اللطیف نے دکھلایا ہے۔اس قسم کے ایمان کے لیے میرا کانشنس فتویٰ نہیں دیتا کہ ایسے لوگ میری جماعت مین بہت ہیں۔اس لیے مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اسی قسم کا اخلاص عطا کرے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو عزیز نہ سمجھیں۔
بزدلی کو دُور کرو
مَیں ابھی جماعت میں بزدلی دیکھتا ہوں اور جب تک یہ بزدلی دُور نہ ہو۔اور عبد اللطیف کا سایہ ایمان پیدا نہ ہو۔یقیناً یاد رکھو کہ وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ
یخا دعون اللہ (البقرہ:۱۰)
میں داخل ہے۔مومنوں میں وہ اس وقت داخل ہوں گے جب وہ اپنی نسبت یہ یقین کرلیں گے کہ ہم مُردے ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب چشمنوں کے مقابلہ پر جاتے تھے وہ ایسے معلوم ہوتے تھے کہ گویا گھوڑوں پر مُردے سوار ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اب ہم کو موت ہی اس میدان سے الگ کرے گی۔
اللہ تعالیٰ لاف وگزاف کو پسند نہیں کرتا وہ دل کی اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ اس ایمان کا کیا رنگ ہے۔جب ایمان قویٰ ہو تو استقامت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی جان ومال کو ہر گز اس ایمان کے مقابلہ میں عزیز نہیں رکھ سکتا اور استقامت ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا،لیکن جب استقامت ہو تی ہے تو پھر انعامات الہیہٰ کا دروازہ کُھلتا ہے دعائیں بھی قبول ہو تی ہیں مکالمات الہیہٰ کا شرف بھی دیا جاتا ہے یہانتک کہ استقامت والے سے خوارق کا صدور ہو نے لگتا ہے ظاہری حالت اگر اپنی جگہ کوئی چیز ہو تی اور اس کی قدروقیمت ہو تی تو ظاہرداری میں تو سب کے سب شریک ہیں عام مسلمان نمازوں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک شرف اور بزرگی اندرونہ سے ہے آنحضرت ﷺ نے اسی لیے فر مایاہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور بزرگی ظاہری نمازاور اعمال سے نہیں ہے بلکہ اس کی فضیلت اور بزرگی اس چیز سے ہے جو اس کے دل میں ہے حقیقت میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شرف اورعلوول ہی کی بات سے مخصوص ہے مثلاًایک شخص کے دوخدمتگارہوں اور ان میں سے ایک خدمت گار تو ایسا ہو جو ہر وقت حاضررہے اور بڑی جانفشانی سے ہر ایک خدمت کے کر نے کو حاضر اور تیار ہے اور دوسرا ایسا ہے کہ کبھی کبھی آجاتا ہے ان دونوں میں سے بڑافرق ہے جو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے آقا بھی خوب جانتا ہے کہ یہ بھی ایک مزدور ہے جو دن پورے ہو جانے پر تنخواہ لینے والا ہے اور اسی کے لیے کام آتا ہے اب صاف ظاہر ہے کہ اس کے نزدیک قدروقیمت اور محبت اسی سے ہو گی جو محنت اور جانفشانی سے کام کرتا ہے نہ کہ اس مزدور سے۔
اخلاص اور وفاداری
پس یاد رکھو کہ وہ چیز جا انسان کی قدر قیمت کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑھاتی ہے وہ اس کا اخلاص اور وفاداری ہے جو وہ خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے ورنہ مجاہدات خشک سے کیا ہو تا ہے ؟آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے ایسے لوگ بھی مجاہدات کرتے تھے جو چھت سے رسہ باندھ کر آپ کو ساری رات جاگنے کے لیے لٹکارکھتے تھے لیکن کیا وہ ان مجاہدات سے آنحضرت ﷺ سے زیادہ ہو گئے تھے ؟ہر گز نہیں۔
نامرد ،نزدل ،بیوفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدر وقیمت نہیں ہے ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بناء پر ملا؟قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے ۔
ابرھیم الذیوفی(النجم:۳۸)
ابرہیم وہ جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کا فروںکو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے لیے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کر نے پر آمادہ ہو گئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب ودانہ جنگل میں چھوڑآ۔ انہوں نے فی الفوراس کو قبول کر لیا ہر ایک ابتلا کو انہوں نے اس طرح پرقبول کر لیا کہ گویا عاشق اللہ تھا ۔در میان میں کوئی نفسانی غرض نہ تھی اسی طرح پر آنحضرتﷺ کو ابتلاء پیش آئے خویش واقارب نے مل کر ہر قسم کی ترغیب دی کہ اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیںتو ہم دینے کو تیار ہیں اور اگر آپ بادشاہ ت چاہتے ہیں تو اپنا بادشاہ بنا لینے کو تیارہیں اگر بیویوں کی ضرورت ہے تو خوبصورت بیویاں دینے کو موجود ہیں ۱؎ مگر آپ کا جواب یہی تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے شرک کے دور کرنے کے واسطے مامور کیا ہے جو مصیبت اور تکلیف تم دینی چاہتے ہووے لومَیں اس سے رک نہیں سکتا کیو نکہ یہ کام جب خدا تعالیٰ نے میرے سپردکیا ہے پھر دنیا کی کوئی ترغیب اور خوف مجھ کو اس سے ہٹا نہیں سکتا آپ جب طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے گئے توان خبیثوں نیآپ کے پتھر مارے جس سے آپ دوڑتے دوڑتے گر جاتے تھے لیکن ایسی مصیبتوں اور تکلیفوں نے آپ کو اپنے کام سے نہیں روکا۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ صادقوں کے لیے کیسی مشلات اور مصائب کا سامنا ہو تا ہے اور کیسی مشکل گھڑیاں ان پر آتی ہیں مگر باوجود مشکلات کے ان کی قدرشناسی کا بھی ایک دن مقررہوتا ہے اس وقت ان کا صدق روزِروشن کی طرح کھل جاتا ہے اور ایک دنیا ان کی طرف روڑتی ہے ۔
عبداللطیف کے لیے وہ دن اس کی سنگساری کا دن تھا کیسا مشکل تھا وہ ایک میدان میں سنگساری کے لیے لایا گیا اور ایک خلقت اس تماشا کو دیکھ رہی تھی مگر وہ دن اپنی جگہ کس قدر قدروقیمت رکھتا ہے ۔اگر اس کی باقی ساری زندگی ایک طرف ہواور وہ دن ایک طرف ،تو وہ دن قدروقیمت میں بڑھ جاتا ہے زندگی کے یہ دن بہرحال گذرہی جاتے ہیں اور اکثر بہائم کی زندگی کی طرح گذرتے ہیں لیکن مبارک وہی دن ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت اور وفا میں گذرے فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس لطیف اور عمدہ غذائیں کھانے کے لیے اور خوبصورت بیویاں اور عمدہ عمدہ سواریاں سوار ہو نے کورکھتا ہے بہت سے نوکر چاکر ہر وقت خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں مگر ان سب باتوں کا انجام کیا ہے؟ کیا یہ لذتیں اور آرام ہمیشہ کے لیے ہیں؟ ہر گز نہیںان کا انجام آخر فنا ہے مردانہ زندگی یہی ہے کہ اس زندگی پر فرشتے بھی تعجب کریں وہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اس کی استقامت سے اخلاص اور وفاداری تعجب خیز ہو ۔خدا تعالیٰ نامرد کو نہیں چاہتا ۔اگر زمین وآسمان بھی ظاہری اعمال سے بھر دیں لیکن ان اعمال میں وفانہ ہو تو ان کی کچھ بھی قیمت نہیں ۔کتاب اللہ سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ جب تک انسان صادق اور وفادار نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی نماز یں بھی جہنم ہی کولے جانے والی ہوتی ہے جب تک پورا وفا دار اور مخلص نہ ہو ریا کاری کی جڑاندر سے نہیں جاتی ہے لیکن جب پوار وفادار ہوجاتا ہے اس وقت اخلاص اور صدق آتا ہے اور وہ زہریلا مادہ نفاق اور بزدلی کا جوپہلے پایا جاتا ہے دور ہو جاتا ہے ۔
صدق اور خد مت کا آخری موقعہ
اب وقت تنگ ہے مَیں بار بار یہی نصیحت کر تا ہوں کہ کوئی جوان یہ بھروسہ نہ کرے کہ اٹھارہ انیس سال کی عمر ہے اور ابھی بہت وقت باقی ہے تندرست اپنی تندرستیاور صحت پر نازنہ کرے اسی طرح اَور کوئی شخص جو عمدہ حالت رکھتا ہے وہ اپنی وجاہت پر بھروسہ نہ کرے زمانہ انقلاب میں ہے یہ ؤخری زمانہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ صادق اور کاذب کو آزمانا چاہتا ہے اس وقت صدق ووفا کے دکھانے کا وقت ہے اور آخری موقعہ دیا گیا ہے یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا یہ وہ وقت ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے اس لیے صدق اور خدمت کا یہ آخری موقع ہے جو نوعِ انسان کو دیاگیا ہے اب اس کے بعد کوئی موقع نہ ہو گا بڑا ہی بد قسمت وہ ہے جو اس موقع کو کھودے ۔
نرازبان سے بیعت کا اقرار کر نا کچھ چیز نہیں ہے بلکہ کو شش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں ماگنو کہ وہ تمہیں صادق بناوے اس میں کوشش کرو اور اس راہ پر چلو جو مَیں نے پیش کی ہے عبداللطیف کے نمونہ کو ہمیشہ نظر رکھو کہ اس سے کس طرح پر صادقوں اور وفاداروں کی علامتیں ظاہر ہو ئی ہیں یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لیے پیش کیا ہے۔
ہمیشہ ملتے رہو۔یہ دنیا چند دن روزہ ہے۔ایک دن آنا ہے کہ نہ ہم ہوں گے نہ تماور نہ کو ئی اوَریہ سب جنگل ویرانہ ہو گا۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد مدینہ کی کیا حالت ہو گئی ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے پس اس تبدیلی کو مد نظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یادرکھو آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی اور اسی نمونہ کو دیکھیں گی اگرتم پورے طور پر اپنے آپ کو اس تعلیم کا عامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کروگے ۔
انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے وہ نمونہ سے بہت سبق لیتا ہے ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو یا ایکزانی کہے کہ زنانہ کرو ،ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو توان کی نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے بلکہ وہ توکہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے وہ جو خود کرتا ہے اور دوسرے کو اس سے منع کرتا ہے جو لوگ خود ایکبدی میں مبتلا ہو کراس کا عظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خودعمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑجاتے ہیں ایسے واعظوںسے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے ۔
ایک مولوی کا ذکر کہ اس نے مسجد کا بہانہ کر کے ایک لاکھ روپیہ جمع کیا ایک جگہ وہ وعظ کر رہاتھا اس کے وعظ سے متاثر ہو کر ایک عورت نے اپنی پازیب اتار کراس کو چندہ میں دے دی مولوی صاحب نے کہا کہ اے نیک عورت کیا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسراپاؤں جہنم میں جائے اس نے فی الفوردوسری پازیب بھی اتارکراسے دے دی مولوی صاحب کی بیوی بھی اس وعظ میں موجود تھی اس کااس پر بھی بڑا اثرہوااور جب مولوی صاحب گھر میں آئے تو دیکھا کہ ان کی عورت روتی ہے اور اس نے اپنا سارا زیور مولوی صاحب کو دے دیا کہ اسے بھی مسجد میں لگا دو۔مولوی صاحب نے کہا کہ تو کیوں ایسا روتی ہے یہ تو صرف چندہ کی تجویز تھی اَور کچھ نہ تھا۔
غرض ایسے نمونوں سے دنیا کو بہت بڑانقصان پہنچا ہے ہماری جماعت کو ایسی باتوں سے پرہیز کر نا چاہئیے تم ایسے نہ بنو چاہئیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو ہرایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق۔عادات۔ استقامت۔پابندی احکام الہیٰ کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھو کرکھاتا ہے پس ان باتوں کو یادرکھو۔
(تم کلامہ المبارک)
( الحکم جلد ۸ نمبر۴ صفحہ ۱،۲ مورخہ ۱ ۳جنوری ۱۹۰۴؁ء)
۲۸؍دسمبر۱۹۰۳؁ء
دلائل الخیرات اور دیگر وظائف کی نسبت امام الوقت کی رائے
ایک صاحب ۱؎ آمدہ ازمروہہ نے دریافت کیا کہ دلائل الخیرات جو ایک کتاب وظیفوں کی ہے اگر اسے پڑھا جاوے تو کچھ حرج تو نہیں ؟کیو نکہ اس میں آنحضرت ﷺ پر درودشریف ہی ہے اور اس میں آنحضرتﷺ ہی کی تعریف جابجا ہے ۔فر مایا کہ:۔
انسان کو چاہئیے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا تعالیٰ سے وہی چاہئیے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تواس سے پناہ مانگے اور ان بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہو ئی بلا مددوحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہو گی رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے ۔بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تد بّرمیں لگا و ے۔ دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی با ر بار پڑھے جہاں جہاں دُعا ہو تی ہے وہاں مونم کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الہی میرے بھی شاملِحال ہو ۔قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔پھر آگے چل کراور قسم کا چُنتا ہے ۔پس چاہیئے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اُٹھاوے۔اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی ؟خدا تعالیٰ کے سوا کس کی طاقت ہے کہ فلاں راہ سے اگر سورئہ یٰس پڑھو گے تو برکت ہو گی ورنہ نہیں ۔
قرآن شریف سے اعراض کی صورتیں
قرآن شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں
ایک صوری اور ایک معنوی
صوری یہ کہ کبھی کلام الہیٰ کا پڑھا ہی نہ جاوے جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں اور معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اس کی برکات وانوارو رحمت الہیٰ پر ایمان نہیں ہوتا ۔پس دونواعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو اس سے پر ہیز کرنا چاہیئے۔
امام جعفرؑ کا قول ہے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ میں اس قدر کلام الہیٰ پڑھتا ہوں کہ ساتھ ہی الہام شروع ہو جاتا ہے مگر بات معقول معلوم ہو تی ہے ۔کیونکہ ایک جنس کی شئی دوسری شئی کو اپنی طرف کشش کرتی ہے ۔اب اس زمانہ میں لوگوں نے صد ہا حاشئے چڑھا ئے ہو ئے ہیں ۔شیعوں نے الگ سنیوں نے الگ ۔ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں وہ پڑھ کیا کرو تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اسلام میں کفر،بد عت،الحاد،زندقہ وغیرہ ۔اسی طرح سے آئے ہیں کہ ایک شخصِ واحد کے کلام کو اس قدر عظمت دی گئی ۔جس قدر کہ کلام الہیٰ کو سی جانی چاہیئے تھی ۔صحابہ اکرامؓاسی لیے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے ۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ فیصلہ کرنے لگے تو ایک بڑھی عورت نے اُٹھ کر کہا ۔حدیث میں یہ لکھا ہے ۔تو آپ ؓ نے فرمایا کہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتا ب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا ۔اگر ایسی ایسی باتوں کو جن کے ساتھ وحی کی کوئی مدد نہیں ۔وہی عظمت دی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کی حیات کی نسبت جو اقوال ہیں اُن کو بھی صحیح مان لیا جاوے حالانکہ وہ قرآن شریف کے بالکل مخالف ہیں ۔
(البدرؔجلد ۳ نمبر۴ صفحہ ۶مورخہ ۲۴جنوری ۱۹۰۴؁ء)
(الحکمؔجلد ۸ نمبر۴ صفحہ ۲مورخہ ۳۱جنوری ۱۹۰۴؁ء)
۸ جنوری ۱۹۰۴؁ء
(بعد نماز جمعہ ۱؎ )
گناہ سے بچنے کا طریق
فر مایا :۔
گلستان میں شیخ سعدی رحمتہاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
گناہ اور غفلت سے پرہیز کے لیے اس قدر تدبیر کی ضرورت ہے جو حق ہے تدبیر کا ۔اس قدر دُعا کرے جو حق ہے دُعا کا ۔جب تک یہ دونوں اس درجہ پر نہ ہو ں اس وقت تک انسان تقویٰ کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور پورا متقی نہیں بنتا ۔اگر صرف دُعا کرتا ہے اور خود کوئی تد بیر نہیں کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا امتحان کرتا ہے ۔یہ سخت گناہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کا امتحان نہیں کرنا چاہیئے ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک زمینداراپنی زمین میں ترددتو نہیں کرتا اور بدُوں کا شت کے دُعا کرتا ہے کہ اس میں غلہ پیدا ہو جائے ۔وہ حقِ تدبیر کو چھوڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کا امتحان کر تا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔اور اسی طرح پر جو صرف تدبیر کرتا ہے اور اسی پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے دُعا نہیں مانگتا وہ ملحد ہے ۔
تدبیر اور دُعا کا اتحاد اسلام ہے
جیسے پہلا آدمی جو صرف دُعا کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا وہ خطاکار ہے۔اسی طرح پر یہ دوسرا جو تدبیر ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ ملحد ہے مگر تدبیر اور دُعا دونوباہم ملا دینا اسلام ہے۔اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لیے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دُعا کرے جو دُعا کا حق ہے ۔اسی
واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونو باتوں کو مدِنظر رکھ کر فرمایا ہے۔
ایاک نعبد وایاک نستعین (الفاتحہ:۵)
اسی تدبیر کوبتاتا ہے اور مقدم اس کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایتِ اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دُعا کے پہلو کو چھوڑنہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدنظر رکھے ۔مومن جب ایاک نعبد کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاًاس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہو ں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اس کا فضل اورکرم نہ ہو ۔اس لیے وہ معاً کہتا ہے ایاک نستعین مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں ۔یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا۔اسلام ہی نے اس کوسمجھاہے ۔عیسائی مذہب کا تو ایسا حال ہے کہ اس نے ایک عاجز انسان کے خون پر بھروسہ کرلیا اور انسان کو خدا بنا رکھا ہے ۔ان میں دۃعا کے لیے وہ جوش اور اضطراب ہی کب پیداہو سکتا ہے جو دُعا کے ضروری اجزاء ہیں وہ تو انشاء اللہ کہنا بھی گناہ سمجھتے ہیں لیکن مومن کی روح ایک لحظہ کے لیے بھی گوارانہیں کرتی کہ وہ کوئی بات کرے اور انشاء اللہ ساتھ نہ کہے۔پس اسلام کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ اس میں داخل ہو نے والا اس اصل کو مضبوط پکڑلے۔تدبیر بھی کرے اور مشکلات کے لیے دُعا بھی کرے اور کروائے ۔اگر ان دونوپلڑوں میں سے کوئی ایک ہلکا ہے تو کام نہیں چلتا ہے اسلیے ہر ایک مومن کے واسطے ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے مگر اس زمانہ میں میَں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دُعا سے غفلت کی جاتی ہے بلکہ اسباب پراتی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیردنیاہی کو خدا بنا لیا گیا ہے اور دُعا پر ہنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شئے قرار دیا جاتا ہے یہ سارا اثر یورپ کی تقلید سے ہوا ہے یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دور کرے چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی لیے قائمکیا ہے ۔تا دنیاکو خداتعالیٰ کی معرفت ہو اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
آداب الدعاء
بعض لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو بظاہر دعا بھی کرتے ہیں مگر ان کے فیوض اور ثمرات سے بے بہرہ رہتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آداب الدعاء سے ناواقف ہوتے ہیںاور دعا کے اثر اور نتیجہ کے لیے بہت جلدی کرتے ہیں اور آخر تھک کر وہ جاتے ہیں حالانکہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے۔پس کچھ تو پہلے ہی زمانہ کے اثر اور رنگ سے اسباب پرستی ہو گئی ہے اور دعا سے غفلت عام ہو گئی ۔خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رہا۔نیکیوں کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور کچھ نہ واقفی اور جہالت نے تباہی کر رکھی ہے کہ حق کو چھوڑکر صراط مستقیم کو چھوڑکر اور اور طریقے اور راہ ایجاد کرلیے ہیں ۔جس کی وجہ سے لوگ بہکتے پھر رہے ہیں اور کامیاب نہیں ہو تے۔
سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دُعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو ۔اس کو موجود،سمیع،بصیر،خبیر،علیم،متصرف،قادر سمجھے اوراس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دُعائوں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے مگر کیا کروں کس کو سنائوں اب اسلام میں مشکلات ہی اور آپڑی ہیں کہ جو محبت خداتعالیٰ سے کرنی چاہیئے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا رُتبہ انسانوں اور مُردوں کو دیتے ہیں ۔حجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی ۔ مگر اب جس قبر کو دیکھو وہ حا جت روا ٹھہرائی گئی ہے ۔میَں اس حالت کو دیکھتا ہوں تو دل میں درد اُٹھتا ہے مگر کیا کہیں کس کو جاکر سنائیں ۔
دیکھو قبر پر ایک شخص بیس برس بھی بیٹھا ہو پکار تا رہے تو اس قبر سے کوئی آواز نہیں آئی گی مگر مسلمان ہیں کہ قبروں پر جاتے ہیں اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں ۔میں کہتا ہوں وہ قبر خواہ کسی کی بھی ہواس سے کوئی مراد بَر نہیں آسکتی ۔حاجت روا اور مشکل کُشا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی اس صفت کا موصوف نہیں ۔قبر سے کسی آواز کی اُمید مت رکھو۔بر خلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اور میرا اپنا تجربہ ہے کہ وہ دس دفعہ ہی آواز سنتا اور دس ہی دفعہ جواب دیتاہیلیکن یہ شرط ہے کہ پکارے اس طرح پر جو پکارنے کا حق ہے ۔
ہم سب ابرار،اخیارِاُمت کی عزت کرتے ہیں اور اُن سے محبت رکھتے ہیں لیکن ان کی محبت اور عزت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم اُن کو خدا بنا لیں اور وہ صفات جو خداتعالیٰ میں ہیں ان میں یقین کر لیں ۔
میں بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ ہماری آواز نہیں سنتے اور اس کا جواب نہیں دیتے ۔دیکھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک گھنٹہ میں ۷۲ آدمی آپ کے شہید ہو گئے ۔ اس وقت آپ سخت نرغہ میں تھے اب طبعاً ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جبکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اپنے لیے خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جاوے لیکن وہ دُعا اس وقت منشاء الہیٰ کے خلاف تھی اور قضاء وقدر اس کے مخالف تھے اس لیے وہ ایسی جگہ شہید ہو گئے ۔اگر ان کے قبضہ واختیار میں کوئی بات ہو تی تو انہوں نے کو نسا دقیقہ اپنے بچائو کے لیے اُٹھا رکھا تھا مگر کچھ بھی کار گر نہ ہو ا۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ قضاء وقدر کا سارا معاملہ اور تصرِف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدر ذخیرہ قدرت کا رکھتا ہے اور حیّ وقیوم ہے اس کو چھوڑ کر جو مُردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پر جاکر اُن سے مُرادیں مانگتا ہے اس سے بڑھ کر بے نصیب کون ہو سکتا ہے ؟
انسان کے سینہ میں دو دل نہیں ہو سکتے ۔ایک ہی دل ہے وہ دو جگہ محبت نہیں کرسکتا اس لیے اگر کوئی زندوں کو چھوڑ کر مُردوں کے پاس جاتا ہے وہ حفظِ مراتب نہیں کرتا ۔اور یہ مشہور بات ہے ۔
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی
خدا تعالیٰ کو خدا تعالیٰ کی جگہ پر رکھو اور انسان کو انسان کا مرتبہ دو ۔اس سے مت بڑھائو مگر میں افسوس سے ظاہرکرتا ہوں کہ حفظِ مراتب نہیں کیا جاتا۔زندہ اور مُردہ کی تفریق ہی نہیں رہی بلکہ انسان عاجز اور خدائے قادر میں کوئی فرق اس زمانہ میں نہیں کیا جاتا ۔جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے ۔صدیوں سے خداتعالیٰ کا قدر نہیں پہچانا گیا اور خداتعالیٰ کی عظمت وجبروت عاجز بندوں اور بے قدر چیزوں کو دی گئی ۔
مجھے تعجب آتا ہے ان کوگوں پر جو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن باوجود مسلمان کہلانے کے خداتعالیٰ کو چھوڑتے اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں جیساکہ میں دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کو جو ایک عاجز انسان تھا اور اگر قرآن شریف نہ آیا ہو تا اور آنحضرت ﷺ معبوث نہ ہوئے ہوتے تو اس کی رسالت بھی ثابت نہ ہوتی بلکہ انجیل سے تو وہ اعلیٰ اخلاق کا آدمی بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن عیسائیوں کے اثر سے متاثر ہو کر مسلمان بھی اُن کو خدائی درجہ دینے میں پیچھے نہیں رہے کیونکہ جیسا کہ وہ صاف مانتے ہیں کہ وہ اب تک حیّ وقیوم ہے اور زمانہ کا اسا پر کوئی اثر نہیں ہوا ،آسمان پر موجود ہے ۔مُردوں کو زندہ کیا کرتا تھا ۔جانوروں کو پیدا کیا کرتا تھا ۔غیب جاننے والا تھا ۔پھر اس کے خدا بنانے میں اور کیا باقی رہا۔
افسوس مسلمانوں کی عقل ماری گئی جو ایک خدا کے ماننے والے تھے وہ اب ایک مُردہ کو خدا سمجھتے ہیں ۔اور اُن خدائوں کا تو شمار نہیں جو مُردہ پرستوں اور مزار پرستوں نے بنائے ہوئے ہیں ۔ایسی حالت اور صورت مٰن خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا ہے کہ اُن مصنوعی خدائوں کی خدائی کو خاک مٰں ملایا جاوے ۔زندوں اور مُردوں میں ایک امتیاز قائم کرکے دُنیا کو حقیقی خدا کے سامنے سجدہ کرایا جاوے ۔اسی غرض کے لیے اس نے مجھے بھیجا ہے ۔اور اپنے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے۔یاد رکھو انبیاء علیہم السلام کو جو شرف اور رُتبہ مِلا وہ صرف اسی بات سے مِلا ہے کہ انہوں نے حقیقی خدا کو پہچانا اور اس می قدر کی ۔اسی ایک ذات کے حضور انہوں نے ساری خواہشوں اور آرزوئوں کو قربان کیا ۔کسی مُردہ اور مزار پر بیٹھ کو انہوں نے مُرادیں نہیں مانگی ہیں ۔
دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کتنے بڑے عظیم الشان بنی تھے اور خداتعالیٰ کے حضور ان کا کتنا بڑادرجہ اور رُتبہ تھا اب اگر آنحضرت ﷺ بجائے خداتعالیٰ کے حضور گرنے کے ابراہیم کی پوجا کرتے تا کیا ہو تا ؟کیا آپ کو وہ اعلیٰ ردجہ کے مراتب مل سکتے جو اب ملے ہیں ؟کبھی نہیں ۔پھر جبکہ ابراہیم علیہ السلام آپ کے بزرگ بھی تھے اور آپ نے اُن کی قبر پر جا کر یا بیٹھ اُن سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کسی اور قبر پر جا کر آپ نے اپنی کوئی حجت پیش کی تو یہ کس قدر بیوقوفی اور بے دینی ہے کہ آج مسلمان قبروں پر جاکر اُن سے مُرادیں مانگتے ہیں ۔اُن کی پوجا کرتے ہیں ۔اگر قبروں سے کچھ مل سکتا تو اس کے لیے سب سے پہلے آنحضرت ﷺ قبروں سے مانگتے ۔مگر نہیں مُردہ زندہ میں جس قدر فرق ہے وہ بالکل ظاہر ہے ۔بجُز خدا تعالیٰ کے اور کوئی مخلوق اور ہستی نہیں ہ جس کی طرف انسان توجہ کرے اور اس سے کچھ مانگے ۔اسول اللہﷺ ایک ذات کے عاشقِزار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا ۔آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ
عشق محمد علی ربہ
یعنی محمد اپنے رب پر عاشق ہو گیا ۔ﷺ
حقیقت میں انبیاء علیہ السلام کوجو شرف مِلا اور جو نعمت حاصل ہوئی وہ اسی وجہ سے اور اگر کوئی پاسکتا ہے تو اسی ایک راہ سے پاسکتا ہے ۔رُسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑا ۔اور قوم اور برادری کی کچھ پروانہ کی ۔خدا تعالیٰ نے بھی وہ وفا کی کہ ساری دُنیا جانتی ہے ۔جس مکہ سے آپ نکلے گئے تھے اسی مکہ میں ایک شہنشاہ کی شان اور حیثیت سے داخل ہوئے ۔قوم اور برادری نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ایذا رسانی کا باقی نہیں چھوڑا،لیکن جب خدا تعالیٰ ساتھ تھا وہ کچھ بھی بگاڑ نہ سکے ۔میں یقیناً جانتا ہوں اور نبیوں اور رسولوں کی زندگی اس پر گواہ ہے کہ وہ چونکہ اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں اس لیے وہ نہیں مرتے جب تک کہ اُن کی مرادیں پُوری نہ ہو جائیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو لیں
آنحضرت ﷺ کی دُعائوں کی قبولیّت
آنحضرت ﷺ کی دُعائیں دنیا کے لیے نہ تھیں بلکہ آپ کی دُعائیں یہ تھیں کہ بت پرستی دُور ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور یہ انقلاب ِعظیم میَں دیکھ لوں کہ جہاں ہزاروں بُت پوجے جاتے ہیں وہاں ایک خدا کی پرستش ہو ۔ پھر تم خود ہی سوچو اور مکہ کے اس انقلاب کو دیکھو کہ جہاں بت پرستی کا اس قدر چرچا تھا کہ ہر ایک گھر میں بُت رکھا ہو تھا ۔آپ کی زندگی ہی میں سارا مکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتاں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا۔ اور ان کی مذمت کی۔ یہ حیرت انگیز کامیابی یہ عظیم الشان انقلاب کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتا ۔جو ہمارے پیغمبر ﷺ نے کرکے دکھا یا ۔ یہ کامیابی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا ۔
ایک وقت وہ تھا کہ آپ مکّہ کی گلیوں میں تنہا پھرا کرتے تھے اور کوئی آپ کی بات نہ سنتا تھا ۔پھر ایک وقت وہ تھا جب آپ کے انقطاع کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد دلایا
اذا جاء نصراللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا۔(النصر:۲،۳)
آپ نے اپنی آنکھو ں سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہو تے ہیں ۔جب یہ آیت اُتری تو آپ نے فرمایا کہ اس سے وفات کی بُو آتی ہے کیونکہ وہ کام جو میَں چاہتا تھا وہ ہو گیا اور اصل قاعدہ یہی ہے کہ انبیاء علیہ السلام اسی وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک وہ کام جس کے لیے وہ بھجیے جاتے ہیں نہ ہو لے ۔جب وہ کام ہو چکتا ہے تو اُن کی رحلت کا زمانہ آجا تا ہے جیسے بندوبست والوں کا کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس ضلع سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح پر جب آیت شریفہ
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدہ:۴)
نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جس پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اس آیت کو سن کر رونے لگے ۔صحابہؓ میںسے ایک نے کہا کہ اے بڈھے ـ!تجھے کس چیز نے رُلا یا ۔آج تو مومنوں کے لیے بڑی خوشی کا دن ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نہیں جانتا اس آیت سے آنحضرت ﷺ کی وفات کی بُو آتی ہے ۱؎
دنیا میں اسی طرح پر قاعدہ ہے کہ جب مثلاً محکمہ نبدوبست ایک جگہ کام کرتا ہے اور وہ کام ختم ہو جا تا ہے تو وہ عملہ وہاں نہیں رہتا ہے۔اسی طرح انبیاء ورُسُل علیہم السلام دنیا میں آتے ہیں ۔اُن کے آنے کی ایک غرض ہو تی ہے اور جب وہ پوری ہو جاتی ہے پھر وہ رخصت ہو جاتے ہیں ،لیکن آنحضرت ﷺ کو جب دیکھتا ہوں تو آپ سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت اور قابلِ فخر ثابت نہیں ہو تا ۔کیونکہ جو کامیابی آپ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہیں ملی۔
آپ ایسے زمانہ میںآئے کہ دنیاکی حا لت مسخ ہو چکی تھی اور وہ مجذوم کی طرح بگڑی ہوئی تھی اور آپ اس وقت رخصت ہوئے جب آپ نے لاکھوں انسانوں کو ایک خدا کے حضور جھکا دیا اور توحٰد پر قایم کردیا۔آپ کی قوتِقدسی کی تاثیر کا مقابلہ کسی نبی کی قوتِ قدسی نہیں کرسکتی ۔حضرت عیسی علیہ السلام ایسی حالت میں منقطع ہوئے کہ وہ حواری جو بڑی محنت سے تیار کئے تھے جن کو دن رات ان کی صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا تھا وہ بھی پورے طور پر مخلص اور وفادار ثابت نہ ہوئے اور خود حضرت مسیحؑ کو اُن کے اخلاص پر شک ہی رہا یہانتک کہ وہ آخری وقت جو مصیبت اور مشکلات کا وقت تھا وہ حواری ان کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک نے گرفتار کرا دی اور دوسرے نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ *** کی ۔اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی بھی راستہ ہی میں فوت ہو گئے اور وہ ارضِ مقدس کی کامیابی نہ دیکھ سکے اور ان کے بعد ان کا خلیفہ اور جانشین اس کا فاتح ہوا مگر آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی قابلِ فخر کامیابی کا نمونہ ہے اور وہ کامیابی ایسی عظیم الشان ہے جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی۔آپ جس بات کو چاہتے تھے جب تک اس کو پورا نہ کر لیا آپ رخصت نہیں ہوئے ۔ آپ کی رُوحانیت کا تعلق سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا چاہتے تھے ۔چنانچہ کون اس سے ناواقف ہے کہ اس سر زمین میں جو بتوں سے بھری ہوئی تھی ۔ہمیشہ کے لیے بُت پرستی دُور ہو کر ایک خدا کی پرستش قائم ہو گئی ۔آپ کی نبوت کے سارے ہی پہلو اس قدر روشن ہیں کہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا ۔
آپ ایک خطرناک تاریکی کے وقت دنیا میں آئے ۔اور اس وقت گئے جب اس تاریکی سے دنیا کو روشن کردیا ۔آنحضرت ﷺ کی نبوت اور آپ کی قدسی قوت کے کمالات کا یہ بھی ایک اثر اور نمانہ ہے کہ وہ کمالات ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں اور کبھی وہ قصّہ یا کہانی کا رنگ اختیار نہیں کر سکتے ۔
اسلام کی بر کات اور خوارق ہر زمانہ میں جاری ہیں
اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ خوارق اور اعجازاب نہیں ہیں پیچھے رہ گئے ہیں مگر یہ اُن کی بد قسمتی اور محرومی ہے ۔وہ خود چونکہ ان کمالات و برکات سے جو حقیقی اسلام ہے اور آنحضرت ﷺکی سچی اور لامل اطاعت سے حاصل ہو تی ہیں محروم ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثیریں اور برکات پہلے ہو اکرتی تھیں اب نہیں ۔ایسے بہیودہ اعتقاد سر یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی عظمت و شان پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کو بد نام کرتے ہیں ۔خدا تعالیٰ نے اس وقت جبکہ مسلمانوں میں یہ زہر پھیل گئی تھی اور خود مسلمانوں کے گھروں میں رسُول اللہ ﷺ کی ہتک کر نے والے پیدا ہو گئے تھے مجھے بھیجا ہے تاکہ میَں دکھائوں کہ اسلام کے برکات اور خوارق ہر زمانہ میں تازہ بہ تازہ نظر آتے ہیں۔
اور لاکھوں امسان گواہ ہیں کہ انہوں نیان برکات کو مشاہدہ کیا ہے اور صد ہا ایسے ہیں جنہوں نے خودان برکات اور فیوض سے حصّہ پایا ہیاور یہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا ایسا بیّن اور روشن ثبوت ہے کہ اس معیا رپر آج کسی نبی کا متبع وہ علامات اور آثار نہیں دکھا سکتا جو میَں دکھا سکتا ہوں۔
آنحضرت ؐکے صحابہؓ کا مقام
جس طرح پر یہ قاعدہ کہ وہی طبیب حاذق اور دانا سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مریض اچھے کرے اسی طرح انبیاء علیہ السلام سے وہی ا فضل ہو گا جو رُوحانی انقلاب سب سے بڑھ کر کرنے والا ہو اور جس کی تاثیرات کا سلسہ ابدی ہو
اب اس محک پر رسُوک اللہ ﷺ کی کامیابی اور مسیح کی کامیابی کو دیکھو۔ایک موقعہ مسیح پر مشکلات کا آتا ہے وہ قوم اور جماعت جو اس نے تیار کی تھی وہ اپنا کیا نمونہ دکھتی ہے ۔انجیل سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ وہ بورہ خاص شاگرد جو حواری کہلاتے تھے اس کو چھوڑ بیٹھے اور جو اُن میں بھی نخاص تھے ایک تیس روپے کے لا لچ سے اس کو گرفتا کرانے والا ٹھہرا۔اور دوسرا جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں وہ سامنے *** بھیجتا تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو لے کر نکلتے ہیں مگر وہ اس قوم کو کجروکہتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بات بات پر اعتراض کرنے والے اور انکار کرنے والی قوم تھی یہاں تک کہ کہدیا
اذ ھب انت و ربک فقا تلا انا ھھنا قعدون (المائدۃ:۹)
مگر اس کے بالمقابل آنحضرت ﷺ کی جماعت کو دیکھو کہ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنا خون بہا دیا اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت میں ایسے گم ہوگئے کہ وہ اس کے لیے ہر ایک تکلیف اور مصیبت اُٹھانے کوہر وقت تیار تھے۔انہوں نے یہانتک ترقی کی کہ
رضی اللہ عنھم ورضواعنہ۔(البینۃ:۹)
کا سرٹیفکیٹ ان کو دیا گیا۔
پس صحابہؓ کی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی ﷺ سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور وہ آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا ان کی نسبت آیا ہے
منھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر(الا حزاب:۲۴)
یعنی بعض اپنا حق ادا کر چکے اور بعض منتظر ہیں کہ ہم بھی اس راہ میں مارے جاویں۔اس سے آنحضرت ﷺ کی سیرت کی قدر وعظمت معلوم ہوتی ہے۔مگر یہاں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت ﷺ کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں۔اب کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتا ہے۔تو وہ گویا آنحضرت ﷺ کی نبوت کو ضایع کرنا چاہتا ہے بس وہی آنحضرت ﷺ کی سچی قدر کر سکتا ہے جوصحابہ کرامؓ کی قدر کرتا ہے جو صحابہ کرامؓ کی قدر نہیں کرتا۔وہ ہرگز ہرگز آنحضرت ﷺ کی قدرنہیں کرتا وہ اس دعویٰ میں جھوٹا ہے۔اگر کہے کہ مَیں آنحضرت ﷺ سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت ﷺ سے محبت ہو اور پھر صحابہؓ سے دشمنی ۔
جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوبُراسمجھتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے ہیں وہ فی الحقیقت رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی نبوت کے روشن دلائل کو توڑتے ہیں۔جب ایک ٹا نگ ٹوٹ جاوے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔اگر آپ اپنے سارے زمانہ رسالت میں دو چار آدمی معاذ اللہ ایسے تیار نہیں کر سکے جو اعلیٰ درجہ کے باخدا انسان ہوں اور جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی رُوضانی تبدیلی کرلی ہو تو پھر آپ کی قوتِ قدسی کا کیا ثبوت رہ جاوے گا۔پھر اگر دوسرے لوگوں کے اعتراضوں کو دیکھا جاوے جو وہ کرتے ہیں تو پھر معاذ اللہ ایک بھی راستباز آپ کی تعلیم سے ثابت نہیں ہوتا۔ بیاضیہ(خوارج)حضرت علیؓ کو معاذ اللہ مُرتد کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا پر ابو جہل کی لڑکی سے نکاح کرلیا حالانکہ ان کو رُسول اللہ ﷺنے منع بھی فرمایا تھا۔اس اعتراض کا جواب شیعہ کیا دے سکتے ہیں۔اسی طرح پر بیاضیہ کے اعتراض ایسے ہیں کہ اُن کو سُنکر بدن پر لرزہ پڑتا ہے۔
ادھر شیعہ ہیں کہ وہ شیخین کی ذات پاک پر شوخی کے ساتھ اعتراض جمع کرتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں فریق خدا ترسی اور رُوحانیت سے کام لیتے تو ایسا نہ کرتے۔وہ دیکھتے کہ آنحضرت ﷺ ایک جسم کی طرح ہیں اورصحابہ کرامؓ آُ کے اعضاء ہیں۔جب اعضاء کاٹ دیئے جاویں تو پھر باقی کیا وہ گیا۔جسم ناقص رہ جاتا ہے اور خوبصورتی بھی باقی نہیں رہتی۔
ان باتوں کو سُن سُن کر بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ وہ اپنی اس قسم کی کارروائیوں سے بھی دشمنوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیتے ہیں اور اُن کی زبانیں کُھلتی ہیں بلکہ وہ اپنے ہاتھ سے اسلام کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔اور نہیں سمجھتے کہ اس قسم کی اندرونی کمزوریوں اور خرابیوں نے یہ ضرورت پیدا کی کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کی تائد اور نصرت کے لیے ایک سلسلہ قائم کر دیتا جو اِم غلط فہمیوں کو دلوں سے دُور کر دیتا۔یہی غرض ہے میرے آنے کی۔جو سعید الفطرت ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھ کو اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ بات بڑی ہی قابلِ غور ہے کہ یہ لوگ جو مسلمان کہلا کر صحابہ کی زات پر حملہ کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک پر حملہ کرتے ہیں اور قرآن شریف کی عزّت پر حملہ کرتے ہیں غیر قوموں خصوصاً عیسائیوں کے بالمقابل ہمارا یہی زبردست دعویٰ ہے کہ آپ کی پاک تعلیم اور صحبت نے ایسی اعلیٰ درجہ کی رُوحانیت پیدا کی اور بالمقابل مسیحؑ کے بارہ حواری بھی دوست نہ رہ سکے،لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ بجُز ایک یا دو کے آنحضرت ﷺ کی پاک صحبت میں کسی کی بھی اصلاح نہیں ہوئی تو پھر ہم کو مُنہ دکھانے کی بھی جگہ نہیں رہتی۔اس صورت میں ہم اُن کے سامنے کیا پیش کر سکتے ہیں؟قرآن شریف کی اس سے کیا عزت رہی۔ایک طرف تو ہم یہ مانتے اور پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم خاتم الکتب ہے اور آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء۔اورنبوت ختم ہو چکی۔دوسری طرف اس کی تاثیر ات کو یہانتک ظاہر کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے سوا کوئی درست نہ ہوسکا اور جب اس پر اعتراضوں کو جمع کیا جاوے جو مخالف کرتے ہیں تو پھر نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک بھی درست نہیں ہوا بلکہ سارے مُرتد ہوگئے۔
اس عقیدہ کی شناخت کو خوب غور سے سوچو کہ اس کا اثر اسلام پر کیاپڑتا ہے۔آنحضرتﷺ کے تویہ یُوں مخالف ہوئے اور قرآنِ شریف کے بر خلاف اس طرح پر ہیں کہ کہتے ہیں کہ اصل قرآنِشریف نہیں رہا۔جو اَب موجود ہے وہ محّرف مبّدل ہو گیا ہے اور اصل قرآن مہدی کسی غار میں لے کر چھپا ہوا ہے اب تک نہیں نکلتا۔دُنیا گمراہ ہو رہی ہے اور اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔مخالف ہنسی کرتے ہیں اور خطرناک توہین کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں بقول اُن کے قرآنِ شریف بھی نہیں ہے اور مہدی ہے کہ وہ غار سے ہی نہیں نکلتا۔کوئی سمجھدار آدمی خدا تعالیٰ سے ڈر کر ہمیں بتائے کہ کیا یہ بھی دین ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو اعلیٰ درجہ کی رُوحانی قوت اور تاثیر کے ساتھ بھیجا تھا جس کا اثر ہر زمانہ میں پایا جاتا ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعیننے جو خدمت اسلام کی کی ہے اور جس طرح پر انہوں نے اپنے خون سے اس باغ کی آبپاشی کی ہے اس کی نظیر دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملے گی اُن کی خدمات اسلام کے لیے نہایت ہی قابلِ قدر اور اعلیٰ درجہ کی ہیں۔اور جب خدا تعالیٰ کے دین میںسستی واقع ہونے لگتی ہے اور کمی فہم یا مُرورِزمانہ کی قوجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہو کر یہ پاک دین بگڑ نے لگتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مامور کرکے بھیجتا ہے جو اُس کے بُلائے بولتا ہے اور رُوح القدس کی تائید اُس کے ساتھ ہوتی ہے وہ ان غلط فہمیوں اور خرابیوں کو دُور کرتا ہے جو علمی طور پر دین میں پیدا ہوجاتی ہیں اور اپنے عملی نمونہ اور قدسی قوت کے ساتھ ایک نیا ایمان دُنیا کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر بخشتا ہے۔ ۱؎
لیکن جب انسان خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اور شعائر اللہ کی پرواہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے اور اُس شخص اور ایسی قوم کو تباہ کر دیتا ہے چنانچہ چغتائی سلطنت نے جب دین سے غافل ہو کر بہائم کی سی سیرت اختیار کرلی تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟وہ سلطنت جو صدیوں سے چلی آتی تھی اس کا کچھ بھی باقی نہ رہا اور ایک شاعر پر اس کا خاتمہ ہوگیا۔
پس انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیئے۔کھلی اور چھپی ہوئی بد کاریاں آخر انسان پر وہ گھڑی لے آتی ہیں جس کا اُسے آسایش کے ایام میں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔اس لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہر وقت دل پر رہے اور اس کی عظمت وجبروت سے ڈرتا رہے اور اعمالِ صالحہ کی کوشش کرتا رہے اور پھر دُعا کے ساتھ اس کی توفیق مانگے۔اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے۔اس قدر تقریر اعلیٰ حضرت نے فرمائی تھی کہ مشیر اعلیٰ صاحب نے بڑے تکلف سے ذیل کا سوال آپ سے پوچھا۔
سوال:۔ آپ کی طرف سے نبی یا رسول ہونے کے کلمات شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ مَیں عیسیٰؑ سے افضل ہوںاور اَور بھی تحقیر کے کلمات بعض اوقات ہوتے ہیں جن پر لوگ اعتراض کرتے ہیں۔
حضرت اقدس:۔ ہماری طرف سے کچھ نہیں ہوتا۔مَیں ان باتوں کا خواہشمند نہیں تھا کہ کوئی میری تعریف کرے اور میں گوشہ نشینی کو ہمیشہ پسند کرتا رہا،لیکن مَیں کیا کروں،جب خداتعالیٰ نے مجھے باہر نکالا۔یہ کلمات میری طرف سے نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ جب مجھے ان کلمات سے مخاطب کرتا ہے اور میں بالمواجہ اس کا کلام سنتا ہوں پھر میں کہاں جائوں؟لوگوں کے اعتراضوں کی کوئی حقیقت اور اثر نہیں سمجھتا لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑنا اور اس کے کلام سے سرگردانی کرنا اس کو بہت ہی بُرا سمجھتا ہوں اور مَیں اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔اگر ساری دُنیا میری مخالف ہوجائے اور ایک متنفس بھی میرے ساتھ نہ ہو بلکہ کُل کائنات میری سشمن ہو پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کے کلام سے انکار نہیں کرسکتا۔دنیا اور اس کی ساری شان وشوت اس جلیل کلام اور خطاب کے سامنے ہیچ اور مدار ہیں۔مین ان کی کبھی پرواہ نہیں کرتا۔پس کوئی اعتراض کرے یا کچھ کہے مَیں خدا تعالیٰ کے کلام کو اور خدا کو چھوڑ کر کہاں جائوں۔
اور یہ بالکل غلط ہے کہ مَیں انبیاء ورسل یا صلحائِ اُمّت کی تحقیر کرتا ہوں۔جیسے میں ابرارواخیار کا درجہ سمجھ سکتا ہوں اور اُن کے مقام وقرب کا جتنا علم مجھے ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب ایک ہی گروہ سے ہیں اور
الجنس مع الجنس
کے موافق دوسرے اس درجہ کے سمجھنے سے عاری ہیں۔
حضرت عیسیٰؑ اور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کا علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہیجوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ اُن کے رُتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا ویں مگر وہ اُن کے اصل اتناع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔
مشیرِ اعلیٰ:۔ عیسائی خواہ خدا بناویں لیکن مسلمان تو نبی سمجھتے ہیں۔اس صورت میں ایک نبی کی تحقیر ہوتی ہے۔
حضرت اقدس:۔ ہم بھی حضرت عیسیٰؑ کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی یقین کرتے ہیں اور سچے نبی کی تحقیر کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں۔اسی طرح پر حضرت امام حسینؓ کی بھی جائز عزّت کرتے ہیں لیکن جب عیسائیوں سے مباحثہ کیا جاوے وہ راضی نہیں ہوتے۔جب عیسیٰؑ کو اللہ یا ابن اللہ نہ کہا جاوے۔اس لیے جو کچھ ان کی کتاب پیش کرتی ہے۔وہ دکھانا پڑتا ہے تاکہ ایک کفرِعظیم کو شکست ہو۔
مشیرِ اعلیٰ:۔ان کے مقابلہ میں اگر ان کی تردید کی جاوے۔یہ تو اچھی بات ہے مگر ایک اُصول صحیح کو تو ان کی خاطر نہ طھوڑنا چاہیئے۔
حضرت اقدس:۔اصولِ صحیح وہ ہوسکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ قائم کرے۔ہم اُن اُصولوں پر چلتے ہیں جن پر ہم کو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے۔اگر کوئی اس وقت ان باتوں کو استہزاء کی نظر سے دیکھتا ہے اور یقین نہیں لاتا تو مرنے کے بعد اس کی حقیقت کُھل جائیگی اور خود دیکھ لیگا کہ حق پر کون ہے۔
میرے اس دعویٰ پر کہ مَیں امام حسینؓ سے افضل ہوں شور مچایا جاتا ہے لیکن اگر پوچھا جاوے کہ آنیوالا مسیح حسینؑ سے افضل ہے یا نہیں ؟تو اس کا کیا جواب ہے۔
مشیرِ اعلیٰ:۔ پھر آپ کے نزدیک کیا ہے؟
حضرت اقدس:۔خداتعالیٰ نے تو مجھے یہی بتایا ہے کہ مَیں افضل ہوں اور آنحضرت ﷺ چونکہ موسیٰ علیہ السلام سے افضل ہیں۔اسی طرح آنے والا محمدی مسیح موسوی مسیح سے افضل ہے۔اس وقت آپ انکار کریں تو کریں لیکن مرنے کے بعد تو سب کچھ ظاہر ہو جائے گا اور پتہ لگ جائے گا کہ کون افضل اور حق پر ہے۔مَیں اگراپنی طرف سے شیخی جتلاتا ہوں تو مجھ سے بٹھ کر کوئی جھوٹا نہیں لیکن اگر کائی میرے صدق کے نشانات دیکھ کر بھی جھٹلاتا ہے تو پھر اُس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے۔وہ میری تکذیب نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اوراس کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔
آپ جو کچھ کہتے ہیں بطور مقّلدِ کے کہتے ہیں۔ذاتی بصیرت آپ کو نہیں ہے لیکن مَیں جو کچھ کہتا ہوں بطورِ محقق کے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے بصیرت پاکر کہتا ہوں۔مَیں خدا تعالیٰ کے مکالمات سُنتا ہوں۔ہر روز اس کے مخاطبات ہوتے ہیں۔پھر میں ایک نابینا مقّلدِ کی پیروی کس طرح کروں۔ہاں اگر کوئی امام حسینؑ کو مجھ سے افضل یقین کرتا ہے اور اس کا کوئی الگ خدا ہے تو پھر مَیں دیکھ لوں گا کہ وہ میرے مقابل اس افضلیت کے کون سے نشان اپنی ذات سے دکھاسکتا ہے۔اگر کوئی نشان نہیں دکھا سکتا اور مَیں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں دکھا سکتا تو پھر میرے لیے جو تحقیق کی راہ کُھلی ہے اس کا انکار نا مناسب ہے۔
یہ نری کہنے کہ باتیں ہیں۔میری زندگی کا کون ذمہ دار ہوسکتا ہ مَیں براہ راست خدا تعالیٰ سے منتا ہوں۔خواہ مجھ دوزخ میں ڈال دیا جائے یا ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے مَیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتا۔میں کھبی اس امرِ حق کو نہیں چھوڑ سکتا۔مَیں نے ان نشانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پہچانا ہے جن نشانوں کے ساتھ آدم۔نوح۔موسیٰ۔ابراہیم علیہم السلام اور آنحضرت ﷺ نے پہچانا تھا ۔میں اس دامن کوکیسے چھوڑ سکتا ہوں۔اس دروازہ کو چھوڑ کر اَور کسی جگہ مَیں کیونکر جا سکتا ہوں۔
بوہین اھمدیہ جو بیس برد پہلے کی چھپی ہوئی کتا موجود ہے وہ شیعوں کے پاس بھی ہے گورنمنٹ کے پاس بھی لاپی ہے اس کو کھول کر پڑھو کہ کس قدر نشان اس میں دیئے گئے تھے اور وہ اس وقت دیئے گئے تھے کہ جب کسی کے وہم وگمان میں بھی وہ باتیں نہ آسکتی تھیں کہ ایسا ہو جائے گا مثلاً اُس میں لکھا ہے کہ آج تو اکیلا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ فوج درفوج لوگ تیرے ساتھ ہوں گے۔دنیا دار مقابلہ کریں گے مگر وہ اس مقابلہ میں ناکام رہیں گے اور مَیں تجھے کامیاب کروں گا۔اب کوئی مخالف اس کا جواب دے کہ کیا اس چرح نہیں ہوا۔
جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو سارے ملک میں کوئی آدمی نہیں تھا جو مجھے جانتاہو۔قادیان سے باہر کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔لیکن اب دیکھ لو کہ کس قدر رجوع دنیا کا ہو رہا ہے اور اس ملک سے نکل کر امریکہ،اسٹریلیا اور یورپ تک اس سلسلہ کی شہرت ہوگئی ہے کیا لوگوں کو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنے کے واسطے کوشش نہیں کی گئی ہیں۔کفر کے فتوے دئیے گئے۔قتل کے مقدمے بنائے گئے۔جس طرح پر جس کسی کا بس چلا اس نے لوگوں کا باز رکنا چاہا۔لیکن جس قدر مخالفت کی گئی اسی قدر زور کے ساتھ اس سلسلہ کی اشاعت ہوئی اور آفاق میں اس کا نام پہنچ گیا۔اسی کے موافق جو خدا تعالیٰ نے پہلے فرمایا تھا۔اب ہمیں کوئی جواب دے کہ کیا یہ انسانی کلام ہوسکتا ہے کہ چابیس برس پیشتر ایسی پیشگوئی کرے اور پھر وہ حرفاً حرفاً پوری ہوجاوے اور وہ پیشگوئی ایسی حالت میں کی جاوے کہ اس وقت کوئی آدمی جننے والا بھی موجود نہ ہو۔اگر یہ انسانی کلام ہے تو پھر ایسا دعویٰ کرنے والے کو چاہیئے کہ اس کی نظیر پیش کرے۔
پھر اسی براہین میں درج ہے۔
یا تون من کل فج عمیق ویاتیک من کل فج عمیق۔
اگر اس نشان کو دیکھا جاوے تو اپنی جگہ یہ کوئی دس لاکھ نشان ہوگا۔ہر آدمی نیا آنے والا مہمان اس نشان کو پُورا کرتا ہے اورمختلف دیار وامصارسے خطوط آرہے ہیں۔تحائف آرہے ہیں جس کے واسط ڈاکخانہ اور محکمہ ریل کی کتابیں بھی گواہ ہیں۔پھر کیا یہ معمولی نظر سے دیکھی جانے کے قابل باتیں ہیں۔ایسے ایسے صدہا نہیں ہزاروں نشان ہیں۔اب نشانوں کے ہوتے ہوئے مَیں خدا تعالیٰ کا انکار کروں اور اس کی باتوں کو چھوڑدوں۔یہ کھبی نہیں ہوسکتا خواہ میری جان بھی چلی جاوے۔
پھر ان نشانات کو الگ رکھو مَیں تو اپنے اللہ تعالیٰ پر یقین رکتا ہوں اور اس کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی چالیس دن میرے پاس رہے تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی نشان دیکھ لے گا۔ہماری جماعت اس بات کی گواہ ہے اور ان میں شاید ایک بھی ایسا آدمی نہ نکلے جس نے کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو پھر آپ ہی بتائیں کہ خدا کی راہ کو چھوڑ کر مَیں کس کی بات سُن سکوں۔اس کے مقابل میں جلتی ہوئی آگ میں کود پڑنا میرے لیے آسان ہے مگر اس کو چھوڑنا مشکل۔
دیکھو وہ لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں ان کی رُوحیں ان برکات کومحسوس کرتی ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے اُن کو ملی ہیں مگر وہ لوگ جو امام حسینؓ کی پُوجا کرتے ہیں۔اور اُن کے چال چلن کو اختیار نہیں کرتے اور اُن کا اتباع نہیں کرتے وہ یاد رکھیں کہ قیامت کو امام حسینؓ سے الگ بٹھائے جائیں گے۔اور اُن سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
نواب صاحب:۔(شیعہ ہیں)ہم تو حجرت امام حسینؓ کو سجدہ نہیں کرتے البتہ نواسہ رسول سمجھ کر مانتے ہیں۔
حضرت اقدس:۔حضرت امام حسینؓ کے نواسی رسول(ﷺ) یا شہید ہونے مَیں تو کوئی کلام نہیں ہے اور اسی حد تک ان کو مننا کسی خرابی کا باعث نہیں ہوا۔بلکہ ان کی شان میں بہت بڑا غلو کیا گیا ہے۔میرے ایک اُستاد بھی شیعہ تھے جو آپکے ہاں بھی جایا کرتے تھے۔مجھے بہت سا موقعہ ملا کہ مَیں اس غلو کا اندازہ کرون جو وہ امام حسینؓ کی نسبت کرتے ہیں۔وہ اتنا ہی ہرگز نہیں مانتے کہ وہ صرف رسول اللہﷺ کے نواسے تھے یا شہید ہوئے بلکہ وہ حاجت روا اور مشکل کُشا مانتے ہیں۔لیکن آپ یا د رکھیں کہ جب تک وہ طریق اختیار نہ کیا جوے جو آنحضرتﷺ کا تھا اور جس پر حضرت علیؓ اور حضرت امام حسینؓ نے قدم مارا تھا۔کچھ بھی نہیں ملِ سکتا۔یہ تعزئیے بنانا اور نوحہ خوانی کرنا کوئی نجات کاذریعہ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق قائم کرنے کا طریقہ نہیں ہوسکتا۔خوا کوئی ساری عمر ٹکریں مارتارہے۔سچی پیروی الگ چیز ہے اور محض مبالغہ ایک الگ امر ہے۔جب تک انسان انبیاء علیہم السلام اور صلحاء کے رنگ میں رنگین نہیں ہوجاتا اُن کے ساتھ محبت اور ارادت کا دعویٰ محض ایک خیالی امر ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
؎ از عمل ثابت کن آں نورے کہ درایمان تُست
دِل چور دادی یوسفے را راہ کنعاں راگزیں
انبیاء ورسل علیہم السلام کے آنے کی غرض
انبیاء علیہم السلام کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ اُن کے نمونہ کو اختیار کریں اور اسی رنگ میں رنگین ہو کر اُن کے ساتھ سچی محبت کا اقتضایہی ہوتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور اگر یہ بات نہیں تو سارے دعوے ہیچ ہیں۔انبیاء علیہم السلام کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گورنمنٹ مختلف قسم کی صنعتیں وغیرہ بھیجتی ہے اور لوگو ں کو دکھاتی ہے۔اس سے اس کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ لوگ ان صنعتوں کو لے کراُن کی پُوجا کریں بلکہ وہ تو یہ چاہتی ہے کہ یہاں کے لوگ بھی ان نمونوں کو دیکھ کر اُن کی تقلید کریں اور ایسے نمونے خود تیار کریں ۔جو تیار کرتے ہیںوہ فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن جو توجہ نہیں کرتے اُنکو کوئی فائدہ ان نمونوں سے نہیںہو سکتا۔اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی جو لوگ سچی اطاعت کرتے ہیں۔اور اُنکے قول وفعل کو اپنے لیے ایک نمونہ قرار دے کر اسی کے موافق اپنا چال چلن اور عملدرآمد کرلیتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور ان پر بھی اسی رنگ کے برکات اور فیوض کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس قسم کے برکات انبیاء علیہم السلام کو دیئے جاتے ہیں اور جو ان کی اتباع نہیں کرتے وہ نامراد رہتے ہیں۔یہ نمونہ جب سے انبیاء علیہم السلام آتے رہے ہیں برابر چلا آیا ہے۔اور ہر زمانہ میں اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہوا ہے۔یہ ایک ایسی صداقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا بجُز اس آدمی کے جس کو خدا پر بھی ایمان اور یقین نہ ہو۔ ۱؎
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیںایک وہ جو خدا تعالیٰ کے مامور وں اور راستبازوں کی سچی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں۔اس طبقہ اور قسم کے لوگ تو بہت ہی کم ہوتے ہیں۔دوسری قسم انسانوں کی وہ ہے جو دُنیا کی خواہشوں پر گرے ہوئے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بکلّی دور اور مہجور ہوتے ہیں۔ان کی ساری اغراض ومقاصد کا منشیٰ اورانجام دنیا پر ختم ہوجاتا ہے وہ کبھی خیال بھی نہیں کرتے کہ ان کو اس فانی دنیا سے ایک دن قطع تعلق کرنا ہوگا اور مَر کر یہ سب کچھ یہاںچھوڑجانا ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے معاملہ ہوگا۔وہ دنیا اور اس کے دھندوں میں کچھ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔یہ بہت ہی بد قسمت گروہ ہوتا ہے اور اکثر حصّہ اسی میں مبتلا ہے۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ انبیاء ورسل اور ائمہ کے آنے سے کیا غرض ہوتی ہے وہ دنیا میں اس لیے نہیں آتے کہ ان کو اپنی پُوجا کرنی ہوتی ہے۔وہ تو ایک خدا کی عبادت قائم کرنا چاہیتے ہیں اور اسی مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس واسطے کہ لوگ ان کے کامل نمونہ پر عمل کریں اور اُن جیسے بننے کی کوشش کریں اور ایسی اتباع کریں کی گویا وہی ہو جائیں مگر افسوس ہے کہ بعض لوگ اُن کے آنے کے اصل مقصد کوچھوڑدیتے ہیں اور ان کو خدا سمجھ لیتے ہیں۔اس سے وہ اَ ئمہ اور رسل خوش نہیں ہوسکتے کہ لوگ ان کی اسقدر عزت کرتے ہیں۔کبھی نہیں۔وہ اس کو کوئی خوشی کا باعث قرار نہیں دیتے۔ان کی اصل خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ لوگ ان کی اتباع کریں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں کہ سچے خدا کی عبادت کرو اور توحید پر قائم ہوجائو،اس پر قائم ہوں۔چنانچہ آنحضرت ﷺ کو ببھی حکم ہوا۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔(ال عمران:۳۲)
یعنی اے رسول۔انکو کہدو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔اس اتباع کا یہ نتیجہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے پیار کر ے گا ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کا طریق یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سچی اتباع کی جاوے پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اَور جو خدا تعالیٰ کے راستبازاور صادق بندے ہو تے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کو شش نہیں کرتا لیکن ان کو سجدہ کر نے اور حاجت روا ماننے کو تیار ہو جاتا ہے وہ کبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اس سے بیزار ہو گا ایسا ہی جو لوگ حضرت علیؓ یا حضرت امام حسین ؓ کے درجہ کو بہت بڑھاتے ہیں گو یا ان کی پرستش کرتے ہیں وہ امام حسین کے متنعین میں نہیں ہیں اور اس سے امام حسین ؓ خوش ہو سکتے ہیں انبیاء علیہم السلام ہمیشہ پیروی کے لیے نمونہ ہو کرآتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ بدُوں پیروی کچھ بھی نہیں۔
مَیں ایک دم میں کیا سناؤں و خیالات سالہاسال کے دل میں بیٹھے ہو ئے ہو تے ہیں وہ دفعتہً دور نہیں ہو سکتے ۔ہاں اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو وہ قادر ہے کہ فی الفور تبدیلی کردے خدا تعالیٰ کی تو فیق سے پرانے غلط خیالات کو چھوڑنا بہت ہی سہل ہو جاتا ہے ۔
دلائلِ صداقت
مَیں سچ کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ جھوٹا نہیں ہے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور اس کی تائید میرے اگر مَیں اس کی طرف سے مامور نہ ہوا ہوتا تو وہ مجھے ہلاک کر دیتا اور میری ہلاکت ہی میرے کذب کی دلیل ٹھہر جاتی لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ میری تھوڑی مخالفت نہیں ہو ئی ہر طرف سے ہر مذہب والے نے میری مخالفت میں حصہ لیا اور بہت بڑا حصہ لیا ہر قسم کی مشکلا ت اور روکیں میری راہ میں ڈالی جاتی ہیں اور ڈالی گئی ہیں خدا تعالیٰ نے مجھے ان مشکلات سے صاف نکالا ہے اور ان روکوں کو دور کر کے وہ ایک جہان کو میری طرف لا رہا ہے اسی ودوہ کے موافق جو براہین احمدیہ میں کیا گیا تھا اس پر بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ دیکھیں ر ان مشکلات کے ہو تے ہو ئے بھی مَیں کا میاب ہو گیا تو میری سچائی میں میا شبہ باقی رو سکتا ہے ۔
یہ بھی یادرکھیں کہ یہ مشکلات اور روکیں صر ف میری ہی راہ میں نہیں ڈالی گئیں بلکہ شروع سے سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جب کو ئی راستبازاور خدا تعالیٰ کا مامور ومرسل دنیا میں آتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اس کی ہنسی کی جاتی ہے اسے قسم قسم کے دیکھ دیئے جاتے ہیں مگر آخر وہ غالب آتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام روکوں کو خود اٹھا دیتا ہے آنحضرت ﷺ کو بھی قسم کے مشکلات پیش آئے ابنؔجریز نے ایک نہایت ہی درو ناک واقعہ لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ابوجہل اور چند اَور لوگ بھڑکے اور مخالفت کے واسطے اٹھے انہوں نء تجویز کی کہ اگر ابو طالب کے پاس جا کر شکایت کریں۔چنانچہ ابو طالب کے پاس یہ لوگ گئے کہ تیرا بھیتجا ہمارے بتوں اور معبودوں کو برا کہتا ہے اس کو روکنا چاہئیے چو نکہ بڑی جماعت یہ شکایت لے کر گئی تھی اس لیے ابوطالب نے آنحضرتﷺ کو بلا یا تا کہ ان کے سامنے آپ سے دریافت کریں جہاں یہ لوگ بیٹھے ہو ئے تھے وہ ایک چھوٹا دالان تھا اور ابو طالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ باقی تھی جب آنحضرتﷺ تشریف لا ئے تو آپ نے ارادہ فر مایا کہ چچا کے پاس بیٹھ جائیں مگر ابو جہل نے یہ دیکھ کر کہ آپ یہاں آکر بیٹھیں گے شرارت کی اور اپنی جگہ سے کود کر وہاں جا بیٹھا تا کہ نہ رہے اور سب نے ملِ کر ایسی شرارت کی کہ آپ کے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ رکھی آخر آپ دروازہ ہی میں بیٹھ گئے۔
اس درد ناک واقعہ سے ان کی کیسی شرارت اور کم ظرفی ثابت ہو تی ہے غرض جب آپ بیٹھ گئے تو ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھیتجے تو جانتا ہے کہ مَیں تجھ کو کس واسطے بلا یا ہے یہ مکہ کے رئیس کہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے آنحضرتﷺ نے فر مایا اے چچا مَیں تو ان کو ایک بات کہتاہوں کہ اگر تم یہ ایک بات مان لوتو عرب اور عجم سب تمہارا ہو جائے گا۔انہوں نے کہاکہ وہ کو نسی ایک بات ہے؟ تب آپ نے فر مایا
لاالہ الااللہ
جب انہوں نے یہ کلمہ سنا تو سب کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھے اور مکان سے نکل گئے اور پھر آپ کی راہ میں بڑی روکیں اور مشکلات ڈالی گئیں۔
تو یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے خدا تعالیٰ کے راستبازوں اور ماموروں کے مقابلہ میں ہر قسم کی کو شش ان کو کمزور کر نے کے لیے کی جاتی ہیں لیکن خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ ساری کوشش خاک میں ملِ جاتی ہیں ۔ایسے موقعہ بعض شریف الطبع اور سعید لوگ بھی ہو تے ہیں کہہ دیتے ہیں ۔
ان یک کاذبا نعلیہ کذ بہ وان یک صادقایصبکم بعض الذی یعدکم (المومن:۲۹)
صادق کا صدق خود اس کے لیے زبردست ثبوت اور دلیل ہوتا ہے۔اور کاذب کا کذب ہی اس کو ہلاک کردیتا ہے ۔پس ان لوگوں کومیری مخالفت سے پہلے کم از کم اتنا ہی سوچ لینا چاہیئے تھا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں یہ ایک راہ راستباز کی چناخت کی رکھی ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر اآن کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔
اس کے سوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ دیا ہے
وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ(اٰل عمران:۵۶)
کہ مَیں تیری جماعت اور تیرے گروہ کو منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا اور اُن میں ترقی اور عروج دوں گا۔
مَیں اس بات کا کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔مَیں بخوبی جانتا ہوں کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ ملوک،ملکدار تاجر اور ہر قسم کے معزز لوگ یہی ہوں گے۔لوگوں کے نزدیک یہ انہونی بات ہے مگر مَیں یقیناً جانتاہوں کہ یہی ہوگا وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے بلکہ مجھے وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے ہیں جو گھوڑوں پر سوار تھے۔
یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے اب اس وقت کوئی اس کو باور نہیں کرسکتا ۔لیکن مَیں جانتا ہوں کہ ایسا ہوگا۔جب آنحضرت ﷺ نے کہا تھا کہ دین ودنیا ان میں ہی آجائیں گے اس وقت کسی کو خیال ہوسکتا تھا کیونکہ اتنے آدمی صرف آپ کے ساتھ تھے جو ایک چھوٹے حجرہ میں آجاتے تھے اور لوگ ایسی باتوں کو سنکر اور گھکر استہزاء کرتے تھے کہ گھر سے نکلنے کا موقعہ نہیں ملتا اور یہ دعوے ہیں۔آخر سب کو معلوم ہوگیا کہ جو فرمایا تھا وہ سچ تھا۔
مامور اپنی ابتدائی حالت میں ہلال کی طرح ہو تا ہے ۔ ہر ایک شخص اس کو نہیں دیکھ سکتا لیکن جو تیز نظر ہو تے ہیں وہ دیکھ لیتے ہیں اسی طرح پر سعیدالفطرت مومن مامور کو اس کی ابتدائی حالت میں جبکہ وہ ابھی مخفی رہتا ہے شناخت کر لیتے ہیں ۔آنحضرت ﷺ نے اپنے ماننے والوں کا نام سابقین رکھا ہیلیکن جب بہت سے مسلمان فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا نام صرف ناس رکھا گیا جیسے فرمایا
اذاجا نصراللہ ولفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا (النصر :۲،۳)
حقیقت یہی ہے کہ جب حق کھل جاتا ہے پھر انکار کی گنجائش نہیں رہتی جیسے جب دن چڑھا ہو تو پھر بُجز شّپر کے کون انکار کرے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن پر حق کھل جاتا ہے مگر دنیا کے تعلقات اور مجبوریوں کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں اور اس حق سے محروم رہتے ہیں ۔پس ہمیشہ خد اتعالیٰ سے دُعا مانگنی چاہیئے کہ وہ ان ظلموں سے بچاتا رہے اور قبول ِحق کے لیے کو ئی روک اس کے واسطے نہ ہو
نواب صاحب:۔آپ میرے لیے ایمان کی دعا کریں ۔دنیا سے تو ایک دن مَر ہی جانا ہے ۔
حضرت اقدس :۔اچھا میَں تو دعا کروں گا مگر آپ کو بھی ان آداب اور شرائط کا لحاظ رکھناچاہیئے جو دُعا کے واسطے ضروری ہیں ۔میرے دعا کرنے سے کیا ہو گا جب آپ توجہ نہ کریں ۔بیمار کو چاہیئے کہ طبیب کی ہدایتوں اور پرہیز پر بھی تو عمل کرے ۔پس دعا کروانے کے واسطے ضروری ہے کہ آدمی اپنی اصلاح ی کرے۔
مشیر اعلیٰ:۔کیا جناب کو یہ اطلاع دی گئی ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہو گی۔
حضرت اقدس :۔ہاں عمر کے متعلق مجھے الہاماً یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اسی کے قریب ہو گی۔اور حال میں ایک رئویا کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہو کہ ۱۵سال اور بڑھانے کے واسطے دعا کی ہے
(اس پر حضرت اقدس نے رئویا سنایا جو الحکم میں درج ہو چکا ہے ۔ایڈیٹر)
مشیر اعلیٰ:۔ جناب کی عمر کیا ہو گی؟
حضرت اقدس :۔۶۵یا ۶۶ سال
جب ایک عقیدہ پُرانا ہو جاتا ہے اور دیر سے انسان اس پرر ہتا ہے تو پھر اسے اس کو چھوڑنے میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں وہ اس کے خلاف نہیں سن سکتا بلکہ خلاف سننے پر وہ خون تک کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ پُرانی عادت طبیعت کے رنگ میں ہو جاتی ہے ۔اس لیے میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک جمے ہوئے خیال کو یہ لوگ چھوڑنا پسند نہیں کرتے ۔
مشیر اعلیٰ:۔اصل میں یہ کام جو آپ کر رہے ہیں ،ہے بھی عظیم الشان۔
حضرت اقدس :۔یہ میرا کام نہیں ہے یہ تو خلافتِ الہیٰ ہے ۔جو میری مخالفت کرتا ہے وہ میری نہیں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے اس وقت مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی حالت بہت خراب ہو چکی ہے ۔خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے ۔کہ اس فسق وفجور کی آگ سے ایک جماعت کو بچائے اور مخلص اور متقی گروہ میں شامل کرے۔
یہ انقلابِ عظیم الشان جو مسلمانوں کی اس حالت میں ہو نے والا ہے اگر یہ انقلاب ہو اتو سمجھ لو کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ جھوٹاٹھہرے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی روک نہیں سکتا ۔
مسیح موعود جو نام رکھا ہے اور یکسر الصلیب اس کا کام مقرر فرمایا ہے۔یہ اس لیے ہے کہ عیسائیت کا زمانہ ہو گا اور عیسائیت نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہو گا ۔چنانچہ اب دہکھ لو کہ تیس لاکھ کے قریب آدمی مُرتد ہو چکے ہیں ۔اور پھر ان مرتدین میں شیخ،سید،مغل،پٹھان ہر قوم ہر طنقہ کے لوگ ہیں ۔عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی ہیں بچے بھی ہیں ۔کوئی شہر نہیں جہاں ان کی چھائونی نہ ہو اور انہوں نے اپنا سکہ نہ جمایا ہو ۔یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے کہ حقیقی خدا کو چھوڑکر ایک بناوٹی اور مصنوعی خدابنایا جاوے اور اس کی پرستشہو ۔پھر یہی نہیں خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور افضل الرسل پیغمبر ﷺ کو گالیا ں دی گئیں آپ کی شانِپاک میں ہر قسم کی گستاخیاں اور ہر زہ گوئیاں روارکھی گئیں جن کو سنکر بدن پر لرزہ پڑجاتا ہے اور کوئی نیک انسان اُن کو سُن ہی نہیں سکتا ۔جب ہم ان باتوںکو برداشت نہیں کرسکتے تو خداتعالیٰ کی غیرت کب روارکھ سکتی ہے کہ یہ گالیان اسی طرح پر دی جائیں اوراسلام کی دستگیری اور نصرت نہ ہو حالانکہ اس نے آپ وعدہ فرمایا تھا
انا نحن نذ لنا الذکرو انا لہ لحافظون(الحجر:۱۰)
یہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ زمانہ کی یہ حالت ہو اور اللہ تعالیٰ باوجود اس وعدہ کے پھر خاموش رہے
بے باک اور شوخ عیسائی قرآن شریف کی یہانتک بے ادبی کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ استنجے کرتے ہیں اور اسول اللہ ﷺ پر قام قسم کے افتراء باندھتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور وہ لوگ ان میں زیادہ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں میں جنم لیا اور مسلمانوں کے گھروں میں پرورش پائی اور پھر مُرتد ہو کر اسلام کی پاک تعلیم پر ٹھٹھا کرنا اپنا شیوہ بنا لیا ہے ۔یہ حالت بیرونی طور پر اسلام کی ہو رہی ہے اور ہر طرف سے اس پر تیر اندازی ہو رہی ہے تا کیا یہ وقت خداتعالیٰ کی غیرت کو جو وہ اپنے پاک رسول ﷺ کے لیے رکھتا ہے جوش میں لانے والا نہ تھا ۔اس کی غیرت نے جوش مارا اور مجھے مامور کیا ۔اس وعدہ کے موافق جو اس نے
انا نحن نذ لنا الذکرو انا لہ لحافظون(الحجر:۱۰)
میں کیا تھا ۱؎
حضرت اقدس علیہ السلام نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ عصر کی اذان ہو گئی اور نواب صاحب اور مشیر اعلیٰ صاحب خاموش ہو گئے۔ حضرت نے فر مایا کہ :۔اذان میں باتیں کر نا منع نہیں ہیں آپ اگر کچھ اور بات پو چھنا چاہیتے ہیں تو پوچھ لیں کیونکہ بعض باتیں انسان کے دل میں ہو تی ہیں اور وہ کسی وجہ سے ان کو نہیں پوچھتا اور پھر رفتہ رفتہ وہ برا نتیجہ پیدا کرتی ہیں ۔جو شکوک پیدا ہوں ان کو فوراً باہر نکالنا چاہیے ۔یہ بُری غذاکی طرح ہو تی ہیں ۔اگر نکالی نہ جائیں تو سوء ہضمی ہو جا تی ہے
جب یہ فر ما چکے تو سلسلہ حسب ذیل طریق پر شروع ہوا۔
مشیر اعلیٰ :۔ میرے نز دیک اہم امور یہی تھے جو ان الفاظ کے متعلق میں نے پوچھے ہیں ۔
نواب صاحب:۔حضرت کے اشتہار میں بھی یہی ہے اور زبانی بھی وہی ارشاد فرمایا ہے۔
حضرت اقدس :۔دراصل انسان کو بعض اوقات بڑے ہی مشکلات پیدا ہو تے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال نہ ہو تو وہ ان مشکلات میں پڑ کر ہدایت اور حقیقت کی راہ سے دورجا پڑتا ہے
یہودیوں کو بھی اسی قسم کے مشکلات پیش آئے ۔اُنہوں نے تورات میں بھی پڑھا تھا کہ خاتم الانبیاء ان ہی میں ہو گا ۔وہ ان ظاہر الفاظ پر جمے ہو ئے تھے ۔جب آنحضرت ﷺ پید اہوئے تو ان کو آپکے قبول کرنے میں بھی دقت اور مشکل پیش آئی کہ خاتم الانبیاء تو ہم میں ہی سے ہو اگ مگر ان کو یہی جواب ملا کہ تم نے جو کچھ سمجھاہے وہ غلط سمجھا ہے ۔آنے والا خاتم الانبیاء بنی اسمعیل میں سے ہو نے والا تھا اور وہ بھی تمہارے بھائی ہیں ۔اس سوال پر مت جھگڑو بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنوت کے ثبوت دیکھو اس میں ہیں یا نہیں جبکہ انبیاء علیہ السلام کے خواص اور نشانات اس کت ساتھہیں تو پھر تمہیں ماننے میں کوئی عذر نہیں ہو نا چاہیئے۔اسی طرح پر انہوں نے ملا کی نبی کی کتاب میں پڑھا ہو اتھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے آنے سے پہلے ایلیاء آسمان سے اترے گا لیکن جب حضرت مسیح ؑنے اپنادعویٰ پیش کیا تو اس وقت یہود اسی ابتلاء میں پھنسے۔انہوں نے مسیح ؑ سے یہی سوال پیش کیا کہ ایلیاء کا آسمان سے آنا ضروری ہے ۔وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ سچ مچ ہی ایلیاء آئے گا اور ایک طرح پر وہ یہ معنی سمجھنے میں حق پر تھے کیو نکہ اس سے پہلے ایسا کوئی واقعہ اورنظیر اُن میں موجود نہ تھی ۔لیکن حضرت مسیح ؑ نے یہی کہا کہ آنے والا ایلیاء یوحنا بن زکریا کے رنگ میں آگیا ہے ۔وہ اس بات کو بھلا کب مانسکتے تھے ۔ایک یہودی نے اسی مضمون پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہم مسیحؑ پر کس طرح ایمان لائیں بلکہ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اگر ہم سے مواخذہ ہو گا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر آگے رکھ دیں گے۔
مامور من اللہ کی شناخت کے معیار
غرض ظاہر الفاظ پر آنے والے سخت دھوکا کھا جاتے ہیں ۔پیشگوئیوں میں استعارات اور مجازات سے ضرور کام لیا جاتاہے ۔جو شخص ان کو ظاہر الفاظ پر ہی حمل کر بیٹھتا ہے اسے عموماً ٹھوکر لگ جاتی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ایسے موقعہ پر یہ دیکھنا ضروری ہو تا ہے کہ آیا جو شخص خداتعالیٰ کی طرف سے آنے کا مدعی ہے وہ ان معیاروں کی رُوسے سّچا ٹھہرتا ہے یا نہیں جو راستبازوں کے لیے مقرر ہیں ۔پس اگر وہ ان معیاروں کی رُو سے صادق ثابت ہو تو سعادت مند اور متقی کا یہ فرض ہے کہ اس پر ایمان لاوے ۔سو یاد رکھنا چاہیئے کہ انبیاء کی شناخت کے لیے تین بڑے معیار ہوتے ہیں :۔
اوّل یہ کہ نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ بھی اس کی مئوید ہیں یا نہیں ۔
دوم اس کی تائید میں سماوی نشانات صادر ہو تے ہیں یا نہیں ۔
سوم نصوصِ عقلیہ اس کے ساتھ ہیں یا نہیں یا آیا وقت اور زمانہ کسی ایسے مدعی کی ضرورت بھی بتاتا ہے یانہیں ۔
ان تینوں معیاروں کو ملا کر جب کسی مامور اور راستباز کی نسبت غور کیا جائے گا تو حقیقت کھل جاتی ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ میَں خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اب میرے دعویٰ کو پرکھ کر دیکھ لو کہ آیا یہ ان تین معیاروں کی روسء سّچا ثابت ہو تا ہے یا نہیں ۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا یہ وقت کسی مدعی کی ضرورت کا داعی ہے یا نہیں ؟پس ضرورت تو ایسی صاف ہے کہ اس پر زیادہ کہنے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔اسلام پر اس صدی میں وہ وہ حملے کئے گئے ہیں جن کے سننے اور بیان کرنے سے ایک مسلمان کے دل پر لرزہ پڑتا ہے۔
سب سے بڑا فتنہ اس زمانہ میں نصاریٰ کا فتنہ ہے جنہوں نے اسلام کے استیصال کے واسطے کوئی دقیقہ فرو گذاشت ہی نہیں کیا اُن کی کتابوں اور رسالوں اور اخباروں اور اشتہاروں کو جو اسلام کے خلاف ہیں اگر جمع کیا جائوے تو ایک بڑا پہاڑ بن جاتا ہے اور پھر تیس لاکھ کے قریب مُرتد ہو چکے ہیں۔اس کے ساتھ آریوں،برہموئوں اور دوسرے آزاد خیال لوگوں کو ملالیا جائے تو پھر دشمنانِ اسلام کے حملوں کا وزن اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔اب ایسی صورت میں کہ اسلام کو پائوں کے نیچے کچلا جارہا ہے۔کیا ضروت نہ تھی کہ خدا تعالیٰ اپنے سچے دین کی حماعت کرتا۔اور اپنے وعدہ کے موافق اس کی حفاظت فرماتا اور اگر عام حالت کو دیکھا جائے تو وہ ایسی خراب ہے کہ اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے۔فسق وفجور کا وہ حال ہے کہ علانیہ بازاری عورتیں بدکاری کرتی ہیں۔معاملات کی حالت بگڑی ہوئی ہے۔تقویٰ اور طہارت اُٹھ گیا ہے۔وہ لوگ جو اسلام کے حامی اور محافظِ شرعِ متین کہلاتے تھے۔اُن کی خانہ جنگی اور اپنی عملی حالت کی کمزوری نے اَور بھی ستم برپاکر رکھا ہے عوام جب ان کی حالت بد دیکھتے ہیں تو وہ حدود اللہ کے توڑنے میں دلیری سے کام لیتے ہیں۔غرض اندرونی اور بیرونی حالت بہت ہی خطرناک ہو رہی ہے۔
پھر دیکھنا ہے کہ آیا قرآنِ شریف اوراحادیثِ صحیحہ میں کسی آنے والے کا وعدہ دیا گیا ہے سو قرآنِ شریف نے بڑی وضاحت کے ساتھ دو سلسلوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ سلسلہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہو اور حضرت مسیح علیہ السلام پر آکر ختم ہوا اور دوسرا سلسلہ جو اسی سلسلہ کے مقابل پر واقع ہوا ہے وہ آنحضرت ﷺ کا سلسلہ ہے چنانچہ تورات میں بھی آپ کو مثیلِ موسیٰ کہا گیا اور قرآن شریف میں بھی آپ کو مثیلِ موسیٰ ٹھہرا یا گیا جیسے فرمایاہے۔
انا ارسلنا الیکم رسولا شاھد اعلیکم کما ارسلنا الی فرعون رسو لا ۔(المذمل:۱۶)
پھر جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ حضرت مسیح علیہ السلام پرآکر ختم ہو گیا۔اسی سلسلہ کی مماثلت کے لیے ضروری تھا کہ اسی وقت اور اسی زمانہ پر جب حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰؑ کے بعد آئے تھے مسیح محمدی بھی آتا اور یہ بالکل ظاہر اور صاف بات ہے کہ مسیح موسو ی چو دہویں صدی میں آیا تھا۔اس لیے ضروری تھا کہ مسیح محمدی بھی چو دہویں صدی میں آتا۔اگر کوئی اور نشان اور شہادت نہ بھی ہوئی تب بھی اس سلسلہ کی تکمیل چاہتی تھی کہ اس وقت مسیح محمدی آوے مگر یہاں تو صدہا اور نشان اور دلائل ہیں۔پھر آنے والے کو اسی اُمّت میں سے ٹھہرایا گیا ہے جیسے
وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لسستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم۔(النور:۵۶)
میں فرمایاگیا ہے اور اسی طرح پر احادیث میں بھی آنے والا اسی اُمّت سے ٹھہرایا گیا ہے جبکہ
واما مکم منکم ۔
اب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ بو ضاحت شہادت دیتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود اسی اُمّت میں سے ہوگا اور ضرورت بجائے خود داعی ہے کیونکہ اسلام پر سخت حملے ہو رہے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جہانتک ان مخالفوں کا بس چلے اسلام کو نابود کردیں۔
پھر دیکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ اسکے آنے کا وقت کونسا ہے۔سلسلہ موسوی کے ساتھ مماثلتِ تامّہ کا تقا ضاصاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود جو اسی اُمّت میں سے ہوگا۔چودہویں صدی میں آنا چاہیئے۔اس کے علاوہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آنے کا وقت ہے جبکہ صلیب پرستی کا غلبہ ہوگا کیونکہ کسرِ صلیب اس کا کام ٹھہرایا گیا ہے۔ان سب کے علاوہ ایک انقلاب عظیم کی خبر قرآن شریف سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا۔وہ انقلاب کیا ہے؟سواری بھی بدل جاوے گی۔اونٹوں اور اونٹیوں کی سواریاں بیکار ہو جائیں گی۔اب دیکھو کہ ریلوے کی ایجاد نے پیشگوئی کو کس طرح پُورا کیا ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ جحاز ریلوے جو بن رہی ہے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ اور مکّہ کے درمیان بھی ریل ہی دوڑتی نظر آئے گی اور پھر اخبارات اور رسالہ جات کی اشاعت کے اسباب کا پیدا ہوجانا جیسے پریس ہے ڈاک خانہ ہے اور تاروں کے ذریعہ سے کل دُنیا ایک شہر کے حکم میں ہوگئی ہے۔دریا چیرے گئے ہیں نہریں نکالی جا رہی ہیں۔طبقات الارض کے عالموں نے زمین کے طبقات کو کھود ڈالا ہے غرض وہ تمام ایجادات اور علوم وفنون کی ترقیاں جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامتوں میں سے قرار دی گئی تھیں وہ پُوری ہو رہی ہیں اور ہو چکی ہیں۔اس کے بعد انکار اور شُبہ کی کونسی گنجائش باقی رہتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کا آنا اور مامور ہونا افسوسناک یہ امر ہوتا اگر کوئی مامور ہو کر نہ آیا ہوتا۔ان علامات اور نشانات کو چھوڑ کر ایک اَور بات بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اولیاء اللہ اور اکابرِامت جو پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے قبل از وقت میرے آنے کی خبر دی ہے۔بعض نے میرا نا لے کر پیشگوئی کی ہے اور بعض نے اَور الفاظ میں بھی کی ہے۔ان میں سے شاہ نعمت اللہ ولی نے شہادت دی ہے کہ اور میرا نام لے کر بتایا ہے۔اسی طرح پر ایک اہل اللہ بزرگ گلاب شاہ مجذوب تھے جنہوں نے ایک شخص کریم بخش ساکن جمالپور ضلع لودھیانہ سے میرا نام لے کر پیشگوئی کی ہے اور اس نے کہا کہ وہ قادیان میں ہے کریم بخش کو قادیان کا شبہ پڑا کہ شاید لودھیانہ کے قریب کی قادیان میں ہوں۔مگر آخر اس نے بتایا کہ یہ قادیان نہیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ لودگیانہ میں آئے گا اور مولوی اس کی مخلفت کریں گے۔چنانچہ اس کا یہ سارا بیان چھپ چکا ہے اور کل گائوں کریم بخش کی راستبازی اور نیکو کاری کی شہادت دیتاتھا اور جس وقت وہ بیان کرتا تھا تو رو پڑتا تھا۔اس گلاب شاہ سے یہ بھی کہا کہ عیسیٰؑ تو آسمان سے آئیگا اس نے جواب دیا کہ جو آسمان پر چلا جاتا ہے وہ پھر واپس نہیں آیا کرتا۔
اس پیشگوئی کے موافق کریم بخش میری جماعت میں داخل ہوا۔بہت سے لوگوں نے اس کو روکا اور منع بھی کیامگر اس نے کہا کہ مَیں کیا کروں یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے مَیں اس شہادت کو کیونکر چھپائوں۔غرض اس طرح پر بہت سے اکابر ِامّت گذرے ہیں جنہوں نے میرے لیے پیشگوئی کی اور پتہ بتایا۔بعض نے تاریخِ پیدائش بھی بتائی جو چراغ دین ۱۲۶۸ہے
اوراس کے علاوہ وہ نشان جورسول اللہ ﷺ نے بتائے تھے وہ بھی پورے ہوگئے۔منجلہ انکے ایک کسوف وخسوف کا نشان تھا۔جب تک کہ یہ کسوف وخسوف کا نشان نہیں ہوا تھا یہ مولوی جو اَب میری مخالفت کی وجہ سے رسولﷺ کی بھی تکذیب کررہے ہیں اس کی سچائی کے قائل تھے اور یہ نشان بتاتے تھے کہ مسیح ومہدی کا یہ نشان ہوگا کہ رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو گرہین ہوگا۔لیکن جب یہ نشان میرے دعویٰ کی صداقت کی شہادت کے لیے پُورا ہو گیا تو پھر جس منہ سے اقرار کیا کرتے تھے اسی منہ سے انکار کرنے والے ٹھہرے۔کسی نے تو سرے سے اس حدیث ہی کا انکار کردیا اور کسی نے اپنی کم سمجھی اور نادانی سے یہ کہدیا کہ چاند کی پہلی تاریخ کو گرہین ہونا چاہیئے حالانکہ پہلی رات کا چاند تو خود گرہین ہی ہوتا ہے اور علاوہ بریں حدیث میں تو قمر کا لفظ ہے جو پہلی رات کے چاند پر بولا ہی نہیں جاتا۔
غرض اس طرح پر جس قدر نشان تھے وہ پورے ہوگئے مگر یہ لوگ ہیں کہ محض میری مخالفت کی وجہ سے خدا تعالیٰ اور اس کے سشے اور پاک رسول آنحضرت ﷺ کا بھی انکار کررہے ہیں اور آپ کی تکذیب کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ان نشانوں اور علامات کے بعد پھر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کہ کیا مدعی کے اپنے ہاتھ پر کوئی نشان اس کی تصدیق کے لیے ظاہر ہوا ہے یا نہیں؟اس کے لیے مَیں کہتا ہوں کہ اس قدر نشان اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے ہیں کہ ان کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر میری جماعت کو خدا تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھا جائے تو مَیں امید نہیں کرتا کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نکلے جو یہ کہے کہ مَیں نے کوئی نشان نہیں دیکھا اور پھر یہ کہ نشانوں کی بارش برس رہی ہے۔اولیاء اللہ کی اسی لیے حرمت اور تکریم کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق رکھتے ہیں۔اس تعلق کا ایک زندہ اور سچا نمونہ پیچ کرتے ہیں یعنی خوارق کا صدور اُن سے ہوتا رہتا ہے اور نشانات ہی سے وہ واجب العزت ہوتے ہیں۔پھر اس صورت میں مجھے حق ہے کہ وہ لوگ جو میری اس بات سے کہ مَیں امام حسین سے افضل ہوں گھبراتے ہیں بجائے اس کے کہ مجھ پر اعتراض کریں صاف طور پر میرے مقابلہ میں آئیں۔مَیں ان سے پوچھوں گا کہ جس قسم کے نشانات مَیں اپنی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے پیش کرتا ہوں۔اس قسم کے نشانات تم بھی پیش کرو اور پھر اسی قدر تعداد میں دکھائو۔مَیں مرثیہ نہیں سنوں گا بلکہ نشانات کا مطالبہ کونگا۔جس کو حوصلہ ہے اور جو امام حسین کو سجدے کرتے ہیں وہ ان کے خوارق اور نشانات کی فہرست پیش کریں اور دکھائیں کہ کس قدر لوگ ان واقعات کے گواہ ہیں۔اس مقابلہ میں یقیناًیہ ماننا پڑے گا کہ واقعات میں قافیہ تنگ ہے۔مبالغہ سے ایک بات کو پیش کردینا اور ہے اور حقیقی طور سے واقعات کی بنا پر اسے ثابت کر دکھانا مشکل ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جو خداتعالیٰ کا سچا پرستار ہے اسے کسی دوسرے سے کیا واسطہ؟ضرورت اس امر کی ہے کہ ثابت کیا جاوے کہ آیا وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا مد عی ہے اپنے ساتھ دلائل اور نشانات بھی دکھا تا ہے یا نہیں ۔جب ثابت ہو جاوے کہ وہ واقعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی ارادت کو منتقل کرے ۔
غرض یہ تین ذریعے ہیں جن سے ہم کسی مامور من اللہ کو شناخت کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں ۔میرا سلسلہ منہاج ِنبوت پر قائم ہوا ہے ۔اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کو آزامانہ چاہے وہ غلطی کھاتا ہے اور اس کو راہ راست مل نہیں سکتالیکن منہاجِ نبوت پرمیرے دلائل وبراہین اور آیات اللہ کا زبردست لشکر ہے اگر کوئی اس پر بھی نہ مانے تو میَںمجبور نہیں کرسکتا ۔یہ کاروبار اور سلسلہ میرا قائم کردہ تو ہے نہیں ۔خداتعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے اور وہی اس کی اشاعت کر رہا ہے ۔انسانی تجاویز اور منصوبے چل نہیں سکتے آخر تھک کر رہ جاتے ہیں۔وہ شخص بڑا ہی ظالم اور خبیث ہے جو خود ایک بات گھڑ لیتا ہے اور پھر لوگوں کو کہتا ہے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے ۔ایسے لوگ دنیا میں کبھی بامراد اور کامیاب نہیں ہو سکتے ۔خدا تعالی ایسے مفتری اور ظالم کو مہلت نہیں دیتا ۔لیکن ایک شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر ایک وحی پیش کرتا ہے اور خداتعالیٰ اسے سچا کرتا ہے اور اس کی تائید ونصرت کررہا ہے تو پھر اس سے انکار کرنا اچھا نہیں ۔پس انسان کو چاہیئے کہ شپّر کی طرح نہ ہو ۔عجب روشنی اس وقت پھیل رہی ہے ۔اس سے منہ موڑنا خوب نہیں ہر شخص جو ارتراض اور نکتہ چییناںرکھتا ہے اس کو چاہیئے کہ اس دروازہ پر بیٹھ کر اپنے شکوک کو رفع کرے لیکن جو یہاں تو بیٹھتا نہیں اور دریافت نہیں کرتا اور گھر جا کر نکتہ چییناں کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتا ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا ۔
دیکھو افتراء کی بھی ایک حد ہو تی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب اور خاسر رہتا ہے ۔
قد خاب من افتری (طہ:۶۲)
اور آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ اگر تو افتراء کرے توتیری رگِ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایساہی فرمایا
من اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا(الانعام:۲۲)
ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرات کیونکر کر سکتا ہے ۔ظاہری گورنمنٹ میں ایک شخص اگرفر ضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزادی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ ہی کی مقتدر حکومت میں یہ اندھیرا ہے ؟کہ کوئی محض جھوٹادعویٰ مامورمن اللہ ہونے کا کرے اور پکڑانہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے ۔ اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے ۔خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیاجاتاہے ۔ پھر کون نہیں جانتا کہ یہ سلسہ ۲۵ سال سے قائم ہے اور لاکھوں آدمی اس میں داخل ہو رہے ہیں یہ باتیں معمولی نہیں بلکہ غور کرنے کے قابل ہیں ۔محض ذاتی خیالات بطور دلیل مانے نہیں جاسکتے ۔ایک ہندو جو گنگا میں غوطہ مار کر نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ میں پاک ہو گیا ۔بلا دلیل اس کو کون مانے گا ؟بلکہ اس سے دلیل مانگے گا ۔پس میَں نہیں کہتا کہ بلا دلیل میرا دعویٰ مان لو ۔نہیں منہاجِ نبوت کے لیے جو میعار ہے اس پر میرے دعوی ٰ کو دیکھو ۔میَں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میَں خدا تعالیٰ سے وحی پاتا ہوں اور منہاجِ نبوت کے تینوں معیار میرے ساتھ ہیں اور میرے انکار کے لیے کوئی دلیل نہیں ۔
۱۳ جنوری۱۹۰۴؁ء
صبح کے وقت منشی اروڑاصاحب نقشہ نویس ریاست کپورتھلہ نے حضرت اقدس سے نیاز حاصل کیا تو آپ نے فرمایا :۔
میَں نے آواز تو رات کو ہی شناخت کرلی تھی مگر طبیعت کو تکلیف تھی اس لیے بُلا نہ سکا۔منشی صاھب موصوف نے جناب خانصاحب کمحمد خاں صاحب افسر بگی خانہ سرکار کپور تھلہ کی وفات کا واقعہ سنایا، جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
نیکی کرنے والے کی اولاد کو بھی اسکی نیلی کا حصّہ ملتا ہے۔یہ دنیا فنا کا مقام ہے اگر ایک مر جاتا ہے تو پھر دوسرے نے کونسا ذمہ لیاہے کہ وہ نہ مریں گے۔دُنیا کی وضع ایسی ہی ہے کہ آخر قضا وقدر کو ماننا پڑتا ہے ۔دنیا ایک سرائے ہے اگر اس میں آتے ہی جاویں اور نہ نکلیں تو کیسے گزارہ ہو۔
انبیاء کے وجود سے زیادہ عزیز کو ئی وجود قدر کے لائق نہیں لیکن آخر ان کو بھی جانا پڑا۔موت کے وقت انسان کو دہشت وہ تی ہے مگر مجبوراًجب وقت قریب آتا ہے تو اسے قضا و قدر پر راضی ہو نا پڑتا ہے اور نیک لوگوں کے دلوں سے تعلقات دنیاوی خود اللہ تعالیٰ توڑدیتا ہے کہ ان کو تکلیف نہ ہو ۔
(البدر جلد ۳نمبر۴صفحہ۶مورخہ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴؁ء )
۳۰جنوری۱۹۰۴؁ء
بعد نماز مغرب
خداتعالیٰ پر سچّے ایمان کی ضرورت
طاعون کا ذکر ہو تا رہا کہ اب فروری کا مہینہ آگیا ہے اس کا زور ہو گا چنانچہ مختلف مقامات سے اس کی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں ۔فرمایا کہ:۔ضروری بات خدا شناسی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور جز اسزا پر ایمان ہو ۔ اسی کی کمی سے دنیا میں فسق وفجور ہو راہا ہے لوگوں کی توجہ دُنیا کی طرف اور گناہوں کی طرف بہت ہے دن رات یہی فکر ہے کہ کسی طرح دُنیا میں دولت ،وجاہت عزت ملے۔جس قدر کوزز ہے خواہ کسی پیرایہ میں ہی ہو مگر وہ دُنیا کے لیے ہے خدا تعالیٰ کے لیے ہر گز نہیں ۔دین کا اصل لُب اور خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو مگر ان مولوی وعظ کرتے ہیں تو ان کے وعظ کی علّت غائی یہ ہو تی ہے کہ اسے چار پیسے مل جاویں جیسے ایک چور باریک در باریک حیلے چوری کے لیے کرتا ہے ویسے ہی یہ لوگ کرتے ہیں ایسی حالت میں بجُز اس کے کہ عذابِالہیٰ نازل ہو اور کیا ہو سکتا ہے۔ایک اعتراض ہم پر یہ ہو تا ہے کہ اپنی تعریف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مُطہَّرو بر گزیدہ قرار دیتے نہیں ۔اب لوگو ں سے کوئی پوچھے کہ خداتعالیٰ جو امر ہمیں فرماتا ہے کا ہم اس کی نافرمانی کریں ۔اگر ان باتوں کا اظہار نہ کریں تو معصیت میں داخل ہو۔قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی نسبت کیا کیا الفاظ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمائے ہیں ۔ان لوگوں کے خیال کے مطابق تو وہ بھی خود ستائی ہو گی۔خود ستائی کرنے والا حق سے دور ہوتا ہے مگر جب خداتعالیٰ فرمائے تو کیا کیا جائے ۔یہ اعتراض ان نادانوں کا صرف مجھ پر ہی نہیں ہے بلکہ آدم سے لے کر جس قدر نبی ،رسول ،از کیا اور مامور گزرے ہیں ۔سب پر ہے ۔ذرا غور کر نے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خداتعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لیے اجتباء اوراصطفاء ہو اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصو صیت چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے بر گزیدہ کر ے۔
خدا تعالیٰ کی نظر خطا جانے والی نہیں ہوتی ۔پس جب وہ کسی کو منتخب کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوتا۔قرآن شریف میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اللہ اعلم حیث یجعل رسا لتہ (سورۃ الانعام:۱۲۵)
اس سوال کا آخر ماحصل یہ ہے کہ وہ ہمیں مفتری کہیں گے مگر پھر ان پر سوال ہوتا ہے کہ عجب خدا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز سے برابر افتراکا موقعہ دئیے چلا جاتا ہے اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ وقوع میں آتا ہے۔اگر مفتریوں کیساتھ خدا تعالیٰ کے یہ سلوک ہیں اور اس طرح سے ان کی تائید اور نصرت کی جاتی ہے جیسے کہ ہماری تو پھر کل انبیاء کو بھی انہیں مفتری قرار دینا پڑے گا۔وہی علامات اور براہین جو کہ آنحضرت ﷺ کے وقت آپ کی صداقت کے نشان اور دلیل تھے وہی اب بھی موجود ہیں جسے خدا تعالیٰ منتخب کرے اگر وہ اس کی تعریف نہ کرے تو کیا گند کہے؟اس سے خدا پر حرف آتا ہے کہ اس کا انتخاب گندا ٹھہرتا ہے۔
اگر دنیا کے مجازی حکامِ اعلیٰ کو بھی دیکھو تو وہ بھی حتی الوسع کمشنری۔لفٹینٹی۔ڈپٹی کمشنری وغیرہ کے عہدوں کے لیے انہیں کو انتخاب کرتے ہیں جو کہ ان کی نظر میں لائق ہوتے ہیں۔اگر وہ حکام اعلیٰ کی نظر میں لائق اور ذمہ داریوں کی بجاآوری کے ناقابل ہوں تو انتخاب نہیں کئے جاتے۔پس اسی طرح مامورین وغیرہ خدا تعالیٰ کی نظر میں نالائق اور نکّمے اور اشقیاء ہوں تو پھر لوگوں کو مزّکی بنانے کی خدمت ان سے کیسے لی جاوے۔
یہ ایک نکتہ ہے کہ ان کا جو اعتراض ہوتا ہے وہ صرف میری ذات پرنہیں ہوتا۔بلکہ عام ہوتا ہے کہ آدم سے لے کر جس قدر نبی اس وقت تک گذرے ہیں۔سب اس میں شامل ہوتے ہیں۔بھلا وہ ایک اعتراض تو کرکے دکھلاویں جو سابقہ انبیاء میں سے کسی پر نی ہوا ہو۔اصل بات یہ ہے کہ ایمان کے لوازم تمام اس وقت ردّی ہوگئے تھے۔دل حلاوت ایمان سے خالی ہیں۔دنیا کی زیب وزینت کے خیال نے دلوں پر تصرف کر لیا ہے ایک گہرے بحرِ ظلمات میں لوگ پڑے ہوئے ہیں۔اس وقت بڑی ضرورت اور احتیاج اس امر کی ہے کہ وہ تقویٰ جس کے لیے آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور کتاب اللہ نازل ہوئی،حاصل ہو۔ایک مردہ ایمان لوگوں کے پاس ہے۔اس لیے اس ایمان کی کوئی نشانی بھی ہاتھ میں نہیں ہے اور اسی باعث سے یہ وبال ان لوگوں پر ہے۔پھر کہتے ہیں کہ کیا ہم نماز ادا نہیں کرتے،روزہ نہیں رکھتے۔کلمہ نہیں پڑھتے۔ان کم بختوں کو اتنی خبر نہیں کہ جب آ نحضرتﷺ مبعوث ہوئے تھے تو یہود بھی تو عبادتیں کرتے تھے پھر وہ کیوں مغضوب ہوئے؟
ان کی نہایت بد قسمتی اور شقاوت ہے کہ بھلا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے۔کب کہا جاتا ہے کہ فلاں متقی ہے،فلاں مومن ہے۔صرف چھلکے اور پوست پر نازاں ہیں اور مغز کو ہاتھ سے کھودیا ہے جو کہ دین کی اصل روح ہے۔اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ روح دوبارہ پیدا کرے۔اگر ان لوگوں میں تقویٰ اور معرفت ہو تو یہ اعتراض کرکے خود ہی نادم ہوں۔
سوادِاعظم کی حقیقت
ایک اعتراض کرتے ہیں کہ سوادِاعظم حیاتِ مسیح کا قائل ہے۔اگر سوادِاعظم کے یہ معنے ہیںکہ ایک گروہ کثیر ایک طرف ہو تو اس کی بات سچی ہوتی ہے تو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت یہودوعیسائی وقم کا بھی سوادِاعظم تھا۔وہ اہل کتاب ہی تھے۔بڑے بڑے عالم۔فاضل۔عابد ان میں موجود تھے۔ان کے معیار سے تو آنحضرت ﷺ کے حق میں ان کی شہادت معتبر مان لینی چاہیئے۔
اصل سوادِاعظم وہ لوگ ہیں جو حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اورعلیٰ وجہ البصیرت خدا تعالیٰ پر ان کا ایمان ہے اور ان کی شہادت معتبر ہوتی ہے۔بھلا سوچ کر دیکھو کہ جس راہ میں بچھُّو۔سانپ اور درندے وغیرہ ہوں۔کیا دس ہزار اندھے اس کی نسبت کہیں کہ یہ راہ اختیار کرو توکوئی ان کی بات مانے گا؟اور جو ان کے پیچھے چلیں گے وہ سب مریں گے۔رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ مَیں علیٰ وجہ البصیرت بلاتا ہوں اگر چہ آپ ایک فردواحد تھے لیکن آپ کے مقابل ہزارہا منکرین کی بات قابلِ اعتبار نہ تھی جو آپ کی مخالفت کرتے تھے۔
ان اس وقت ایک سوادِاعظم نہیں ہے بلکہ کئی سوادِاعظم ہیں۔افیونیوں،بھنگیوں،چرسیوں،شرابیوں وغیرہ کا بھی ایک سوادِاعظم ہے۔مخلوق پرستوں کا بھی ایک سوادِاعظم ہے توکیاان لوگوں کے اقوال کو سند پکڑا جاوے خداتعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
قلیل من عبادی ا لشکور(سورۃسبا:۱۴)
کہ شاکر اور سمجھدار بندے ہمیشہ کم ہوتے ہیں جو کہ حقیقی طور پر قرآن مجید پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو اپنی محبت اور تقویٰ عطا کیا ہے وہ خواہ قلیل ہوں مگر اصل میںوہی سوادِاعظم ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو امۃ کہا ہے۔حالانکہ وہ ایک فرد واحد تھے مگر سوادِاعظم کے حکم میں تھے۔
یہ کھبی نہیں ہوسکتا شرارتوں،منصوبوں اور حیلہ بازیوں میں رہتے ہیں۔ان کا عمل ایک بالشت بھی آسمان پر جا سکے اور وہ ان نیک بندوں کے برابر ہوں،جن کی عظمت خدا تعالیٰ کی نظر میں ہے۔عند اللطیف کی ہی ایک نظیر دیکھ لو کہ بار بار موقعہ ملا کہ جان بچاوے مگر اس نے یہی کہا کہ مَیں نے حق کو پالیا اس کے آگے جان کیا شئے ہے۔سوچ کر دیکھو کہ کیا جھوٹ کے واسطے دیدہ دانستہ کوئی جان جیسی عزیز شئے دے سکتا ہے۔
اکثیر یت کی بد نصیبی
ایک بد نصیبی ان لوگوں کی یہ ہے کہ آکر صحبت حاصل نہیں کرتے اور دُور دُوررہتے ہیں۔ان کے اسلام کی مثال ایک تصویر کی مثال ہے کہ اس میں نہ ہڈی نہ گوشت،پوست،نہ خُون،نہ روح۔پھر اسے انسان کہا جاتا ہے۔اپنی کثرت پر ناز کرتے ہیں۔کتاب اللہ کی عزت نہیں کرتے حالانکہ اس کثرت پرآنحضرت ﷺ نے *** کی ہے۔آپ نے دو گروہوں کا ذکر کیا ہے ایک اپنا اور ایک مسیح موعود کا۔اور درمیانی زمانہ کا جس میں ان کی تعداد کروڑوں تک پہنچی اور کثرت ہوئی فیج اعوج کہا ہے پھر اصل میں یہ کہ کثرت بھی نہیں ہے خود ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے۔ہر ایک کا الگ الگ مذہب ہے۔ایک دوسرے کی تکفیر کررہا ہے۔جب یہ حال ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہ آوے گا؟خود انہی میں سے ہیں جو مانتے چلے آئے ہیں کہ مسیح اسی اُمّت میں سے ہوگا حدیثوں میں
امامکم منکم
موجود ہے۔سورہ نور میںمنکم ہے۔
معراج میں آپ نے اسرائیلی مسیح کا حلیہ ا ور دیکھا ار آنے والے اپنے مسیح کا اور حُلیہ بتلایا ۔پھر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس بت پر اجماع ہو چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پیشتر سب انبیا ء فوت ہو چکے ہیں ۔ان تمام ثبوتوں کے بعد اور ان کو کیا چاہیئے۔
(الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ۱،۲مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )و
(البدر جلد ۳نمبر۶صفحہ ۸؍فروری ۱۹۰۴؁ء ونمبر۷صفحہ۲مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۳۱ جنوری ۱۹۰۴؁ء
صبح کی سیر
عذاب ِالہٰی کی ضرورت
ان من قر یۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیا مۃ او معذبو ھا عذابا شدید (سورہ بنی اسرائیل:۵۹)
یہ اسی زمانہ کے لیے ہے کیو نکہ اس میں ہلاکت اور عذاب مختلف پیرایوں میں ہے کہیں طوفان ہے کہیں زلزلوں سے کہیں آگ کے لگنے سے ۔اگر چہ اس سے پیشتر بھی یہ باتیں دُنیا میں ہو تی رہی ہیں مگر آج کل ان کی کثرت خارِق عادت کے طور پر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک نشان ہے اس آیت میں طاعون کا نام نہیں ہے ۔صرف ہلاکت کا ذکر ہے خواہ کسی قسم کی ہو ۔
یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ جس قوت اور پوری توجہ سے لوگوں نے دنیا اور اس کے ناجائز وسائل کو مقدم رکھا ہو ہے اور عظمتِ الہیٰ کو دلوں سے اُٹھا دیا ہے ۔اب صرف وعظوں کا کام نہیں ہے کہ اس کا علاج کر سکیں ۔عذابِ الہیٰ کی ضرورت ہے
بابو شاہدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور عذاب سے بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے کہتے ہیں کہ ہمیشہ بیماریاں وغیرہ ہو ہی کرتی ہیں ۔فر مایا :۔
قرآنِشریف میں طوفانِ نوح کا ذکر ہے ۔بجلی کا ذکرہے اور یہ سب حادثات دُنیا میں ہمیشہ ہو تے رہتے ہیں۔کیا اُن کے نزدیک یہ عذابِ الہیٰ نہ تھے ؟جن کا ذکر خدا تعالیٰ نے کیا ہے اور ان سب کا ہمیشہ دنیا میں وجود رہتا ہے مگر جب کثرت ہو اور ہولناک صورت سے ظاہر ہوں اور دنیا میں تہلکہ پڑ جاوے تب یہ نشان ہیں ۔وحی بھی اسی طرح ہمیشہ سے ہے ۔ہمیشہ لوگوں کو سچے خواب آتے ہیں تو پھر انبیاء کی خصوصیت کیا ہوئی ۔خصوصیت ہمیشہ کثرت اور درجہ کمال سے ہو تی ہے ۔اب اس وقت جو ہلاکت مختلف طور سے ہو رہی ہے اس کی نظیر یہ دکھلاویں۔
گذشتہ دنوں عالیجناب احسان علی خانصاحب برادر نواب محمد علی خا نصاحب مالیر کوٹلہ سے تشریف لائے تھے ۔انہوں نے حضرت اقدس سے نیاز بھی حاصل کیا تھا اور آپ نے ایک جامع تقریر بھی اس وقت فر مائی تھی جس سے ان کے اکثر شبہات وشکوک کا قلع قمع ہو تھا ۔انہیں کا ذکر ہو تا رہا کسی کی طرف سے یہ اعتراض بھی پیدا ہوا کہ ان کے ایک مصاحب نے یہ کہا ہے کہ ابھی مہدی و مسیح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ۔
اس پر آپ نے فر مایا کہ :
عام طور پر دہریت دلوں میں گھر کر گئی ہے ۔لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے ہیں ۔صلیبی فتنہ بڑھ رہا ہے ۔اگر اب بھی ضرورت نہیں ۔تو کیا یہ چاہیئے ہیں کہ اسلام کا نام ونشاننہ رہے اس کی تو وہی مثال ہے کہ ایک میّت موجود ہو اس میں روُح کا نام ونشان نہ ہو اور صرف اس کی آنکھ ،کان ،ناک وغیرہ اعضاء دیکھ کرکہا جائے کہ یہ میّت نہیں ہے ۔اگر نہیں ہیتو اور چار دن رکھ کر دیکھ لو۔جب سڑے گا اور بد بو پھیلے گی تو خود پتہ لگ جائے گا کہ روُح کا نام ونشان نہیں صرف پوست ہی پوست ہے ۔ابھی کہتے ہیں کہ ضرورت نہیں
اہلِ تشیع کو جو محبت حضرت امام حسین سے ہے اور آپ کے واقعہ شہادت کو سُنکر جس طرح ان کے جگر پارہ پارہ ہو تے ہیں اس میں سے تکلّف اور تصنع کو دور کرکیباقی ان لوگوں کے حق میں جو دلی خلوص سے امام صاحب سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی شان میںہو ایک غلو کو معیوب قرار دیتے ہیں ۔فر مایا کی اس سے ہم منع نہیں کرتے کہ کوئی کسی بزرگ کی محبت یا جدائی میں آنسوئوں سے رولے۔فر مایا کہ
ہدایت کے تین طریق ہیں ۔بعض لوگ تو کلمات طیبات سُنکر ہدایت پاتے ہیں ۔ بعض تہدید کے محتاج ہو تے ہیں بعض کو آسمانی نشان اور تائید نظر آجاتی ہے کیونکہ
شنیدہ کَے بَود مانند دیدہ
اب اس وقت جو خداتعالیٰ دکھلا رہا ہے وہ چشم دید ہے دوسرے نقول ہیں ۔
(الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ۱،۲مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )
یکم فر وری ۱۹۰۴؁ء
(صبح کی سیر)
اِتمامِ حُجّتکی ضرورت
فرمایا کہ
قویٰ خواہ کتنے ہی قوی ہوں اور عمر کس قدر ہی اوائل میں کیوں نہ ہو مگر تا ہم عمر کا اعتبار نہیں ہے ۔نہیں معلوم کہ کس وقت موت آجاوے ۔اس لیے میرا ارادہ ہے کہ اگرچہ اپنے فرض کا ایک حصّہ بذریعہ تحریروں کے ہم نے پورا کر دیا ہے مگر تا ہم ایک بڑا ضروری حصّہ باقی ہے کہ عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خداتعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں ایک بڑا حصّہ ایسے لوگوں کا ہو تا ہے جو تعصّب اور تکبر وغیرہ سے خالی ہو تے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں ۔جو کچھ یہ مولوی کہہ دیتے ہیں ۔اُسے امنا وصدقنا کہہ کر مان لیتے ہیں ۔ہماری طرف کی باتوں اور دعووں اور دلیلوں سے محض نا آشنا ہو تے ہیں ۔اس لیے ارادہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں جا کر بذریعہ تقریر کے لوگوں پر اِتمامِ حُجّت کی جاوے اور ان کو بتلایا جاوے کہ ہمارے مامور ہو نے کی غعض کیا ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں ۔
دراصل یہ ایک لمبی تقریر تھی جس کا خلاصہ میَں نے درج کردیا ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام بہت دور نکل گئے تھے اور میَں پیچھے پہنچا ۔حافظ روشن علی صاحب برادرڈاکٹر رحمت علی صاحب مر حوم کی زبانی یہ خلاصہ سُنکر درج کیا گیاہے جس کی تصدیق دیگر احباب نے بھی کی ۔اس اِتمامِ حُجّت کے نعد بعد پنجاب کے بڑے بڑے شہر یا توخدا تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہو ں گے اور بصورتِ انکار سخت غضب کے۔
خدا تعالیٰ کی بے نیازی پر ایمان
فرمایا کہ
عمر کی نسبت اگر چہ مجھے الہام بھی ہوا ہے اور خوابیں بھی آئی ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنی عمر کا کوئی اعتبار نہیں ہو تا کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے ۔ پھر جیسے لوگوں پر تعجب آتا ہے کہ ان کو عمر کا کوئی وعدہ بھی نہیں ملا ہو ا مگر پھر بھی وہ ایسے عمل کرتے ہیں جیسے کہ مطلق موت آنی ہی نہیں ۔سعادت یہ ہے کہ موت کو قریب جانے تو سب کام خود بخود درست ہو جاویں گے۔
آنحضرت ﷺ نے قیامت کے بہت سے آثار بتلائے مگر تاہم اگر ذرا سخت اندھی چلتی یا بارش ہو تی تو آپ گھبرا جاتے اور خیال کرتے کہ کیا قیامت تو نہیں آئی ۔اس وقت آپ کی نظر خداتعالیٰ کی بے نیازی پر ہو تی ۔جنگِ بدر میں فتح کا وعدہ تھا مگر تا ہم رو رو کر دُعائیں کرتے ۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ فتح کا وعدہ تو ہے مگر شاید کوئی شرط اس میں پنہاں ہو جس کا مجھے علم نہیں تو پھر فتح نہ ہو ۔موسیٰ علیہ السلام کیساتھ کیا کیا وعدے تھے مگرآخر قوم کی قوم جنگلوں میں مَر کھپ گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ الہیٰ وعدے جن شرائط کے ساتھ مشروط تھے ان کے بر عکس قوم نے کاروائی کی۔
جماعت کی شامت ِاعمال کا اثر مامور پر پڑتاہے ۔جنگِ اُحد میں ایک طائفہ نے آنحضرت ﷺ کا کہا نہ مانا تو آپ کو کس قدر تکلیف ہوئی۔زخم آپ کو لگے ۔دانت شہید ہو ا۔خَود اس قدر سر میں دھنس گئی کہ صحابہؓ زور لگا کر اسے نکالتے نہ نکلتی ۔اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کے آگے کسی کی کیا پیش چل سکتی ہے
(البدر جلد ۳نمبر۷صفحہ ۲،۳مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴؁ء )
(الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ۲،۳مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۲ تا ۴ فر وری ۱۹۰۴؁ء
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃو السلام کی طبیعت علیل رہی اور بایں وجہ سیر بھی ملتوی رہی بردِاطراف چکر وٖیرہ کے دماغی امراض جو آپ کو مصلحتِالہیٰ سے لاحق ہیں ۔اُن کے دورے رہے۔ مختلفاوقات میں آپ شریک نماز باجماعت ہوتے رہے اور جو اذکار ان اوقات میں ضبط ہوئے وہ ہدیہ ناظرین ہیں ۔
رحمت علی مر حوم
مر حوم رحمت علی کے ذکر پر آپ نے فر مایا کہ :۔
یہ اس کی پاکیزہ فطرت کی نشانی ہے کہ افریقہ میں غائبانہ طور پر ہمیں قبول کیا اور اس چھوٹی سی عمر میں ترقی اخلاص میں بھی کی ۔
اس سال میں اور بھی ہمارے مخلص دوست فوت ہوئے ہیں
شہد کے خواص
شہد کے تذکرہے پر آپ نے فرمایا کہ :
دوسری تمام شیرنییوں کو تا اطباء نے عفونت پید کرنے والی لکھا ہے مگر یہ اُن میں سے نہیں ہے ۔آم وغیرہ اور دیگر پھل اس میں رکھ کر تجربے کئے گئے ہیں کہ وہ بالکل خراب نہیں ہو تے سالہاسال ویسے ہی پڑے رہتے ہیں
فر مایا کہ :
ایک دفعہ میں نے انڈے پر تجر بہ کیا تو تعجب ہو اکہ اس کی زردی تو ویسی ہی رہی مگر سفیدی انجماد پاکر مثل پتھر کے سخت ہو گئی جیسے پتھر نہیں ٹوٹتا ویسے ہی وہ بھی نہیں ٹوٹتی تھی ۔
خدا تعالیٰ نے اسے شفا ء للناس کہا ہے ۔واقعہ میں عجب اور مفید شئے ہے تو کہا گیا ہے ۔یہی تعریف قرآنِ شریف کی فر مائی ہے ۔ریاضت کش اور مجاہدہ کرنے والے اکثر اسے استعمال کرتے ہیں معلوم ہو تا ہے کہ ہڈیوں وغیرہ کو محفوظ رکھتا ہے ۔
اس میں ال جو ناس کے اوپر لگایا گیا ہے ۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ جو اس کے اپنے (یعنی خداتعالیٰ کے )ناس(بندے)ہیں اور اس کے قرب کے لیے مجاہدے اور ریا ضتیں کرتے ہیں ان کے لیے شفا ہے کیونکہ خداتعالیٰ تو خواص کو پسند کرتا ہے عوام سے اسے کیا کام ؟
مرنے والوں کے اَمثال
فر مایا :۔
کوئی عمدہ آدمی فوت ہو تو صدمہ ضرور ہو تا ہے لیکن دُنیا ایسی جگہ ہے کہ اس میں پھر ویسے اَمثال پیدا ہو جاتے ہیں نیکوں کے بھی ۔بدوں کے بھی ۔اسی لیے بعض نے دُنیا کو دوَری لکھا ہے کہ جن صفات کے لوگ اس کے ایک دور میں گذرجاتے ہیں ۔پھر اسی قسم کے لوگ وہی سیرتیں اور صورتیں لے کر دوسرے دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔
مخدوم حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور یہیں سے ٹھوکر کھا کر لوگ تنا سخ کت قائل ہو گئے ہیں
(البدر جلد ۳نمبر۷صفحہ۳مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴؁ء )
(الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ۳مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۵۔۶ فروری ۱۹۰۴؁ء
۵ تاریخ کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ ولسلام سیر کو تشریف لے گئے لیکن میں اس سیر میں ایک مغالطہ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکا۔(ڈائری نویس)
۶ تاریخ کو عصر کے وقت آپ نے مجلس فر مائی ۔مختلف تذکرے ہوتے رہے ۔سر سید کا ذآگیا فر مایا:
مداہنت
دوسری قوم کے رعب میں آ کر اور ان کی ہا ں میں ہاں ،لاتے ہوئے آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ آپ آخر ایام میں تثلیث کے ماننے والوں کو بھی نجات یافتہ قراردے گئے مداہنہ کی انتہا یہی ہوا کرتی ہے کہ آ خر اسی قوم کا انسان کو بنناپڑتا ہے ۔قرآن شریف میں اسی لیے ہے
لن تر ضی عنک الیھو د ولا النصاری حتی تتبع ملتھم (سورۃ البقرۃ :۱۲۱)
دوسرے کو راضی کرنے کے لیے انسان کو اس کے مذہب کو بھی اچھا کہنا پڑتا ہے اسی لیے مداہنہ سے مومن کو پر ہیز کرنا چاہیئے۔
فر مایا کہ :۔
مخالفین کا رویہ
مجھے بھی یہ الہام ہو ا ہے جیسے کہ براہین میں درج ہے اور میَں دیکھتا ہوں کہ اس وقت ان لوگوں (یعنی مخالفوں )میں سے شاذ ونادر ہی ہو گا جو ہم سے راضی ہو اور ہمارے ساتھ اخلاق سے پیش آنا چاہتا ہو ۔ہا ں اگر شخصی طورپر کسی کی ذات میں اخلاق سرشت ہو اہو تو وہ شاید ہم سے اخلاق سے پیش آوے ورنہ قومی طور پر ہم سے ہر گز اخلاق سے پیش آنا نہیں چاہتے۔
اجتہاد میں غلطی ہو جانا نبوت کے خلاف نہیں
کسی صاحب نے لودھیانہ سے حضرت صاحب کو مخالفین کا یہ اعتراض لکھا کہ
شاتا ن تذبحان
کا الہام جو اب شہزادہ عبد الطیف صاحب شہید کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ قبل ازیںکسی تصنیف میں مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد پر چسپاں ہو چکا ہے ۔ اس پر آپ نے فر مایا کہ
اگر ہم سے اجتہاد میں غلطی ہو جاوے توحرج کیا ہے؟اجتہاد اور شئے ہے اور تفہیم الہیٰ اور شئے۔اگر ہم نے ایک معنی اپنی رائے اور فکر سے کر دئییتو آخر اپنے وقت پر خداتعالیٰ نے اصل اور حقیقی معنے بتلادیئے۔اس الہام میں یہ الفاظ بھی لکھے ہیں
عسی ان تحبو اشیئا و ھو شر لکم
اب دیکھنا چاہیئے کہ کیا احمد بیگ جیسے منکرین کی زندگی ہماری محبوبات سے تھی یا مکروہات سے؟ اگر ہماری کوئی غلطی ہو تو اس میں تنقیح طلب امر یہ ہے کہ آیا ایسی غلطیاں انبیاء سے ہو تی رہیں کہ نہیں جیسے کہ خواب میں ابو جہل نے آنحضرت ﷺ کو انگور کا خوشہ دیا تو آپ نے اس کے معنے سمجھے کہ ابو جہل کسی وقت مسلمان ہو جاوے گا لیکن وہ تو مسلمان نہ ہو ا ۔آخر عکرمہ اس کا بیٹا جب مسلمان ہوا تو خوان کے معنے پورے طور پر سمجھ میں آئے۔
سلسلہ کی صداقت
ایک مفتری کی زندگی حباب کی طرح ہو تی ہے لیکن ہمارے سلسلہ میں سچائی کی خوشبو ہے کہ نہ واعظ ہیں (نہ کانفرنسیں جو مختلف مقامات پر ہوتی ہیں) نہ لیکچرار ہیں ۔لیکن ہماری صداقت خود بخود لوگوںکے دلوں میں پڑتی جاتی ہے ۔ان لوگوں نے بہتیرا واویلا کیا اور روکتے رہے اور اب بھی کرتے اور روکتے ہیں لیکن پھر بھی ہنارا کچھ نگاڑ نہ سکے۔
اب باریک نظر سے غور سے دیکھو تو ہمارا سلسلہ دن بہ دن ترقی کر رہا ہے اور یہی نشانی ہے اس بات کی کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔اگر یہ نہ ہوتا تو ہمارے مخالف آج تک کب کے کامیاب ہو جاتے۔ہم یہاں چپ چاپ بیٹھے ہیں کسی تدبیر اور ایسیطاقت سے کام نہیں لیتے کہ اثر انداز ہو ۔نہ دورے لگا رہے نہ کچھ ۔مگر تا ہم ایک حرکت شروع ہے ۔روز جو ڈاک آتی ہے شاذونادر ہی کوئی دن ایساہو تو ہو ورنہ ہر روز بلاناغہ بیعت کے خطوط آتے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ اس میں کوئی نہ کوئی بیعت کے لیے تیاری نہ کرتا ہو ۔
تین قسم کے لوگ
فرمایا کہ
اس وقت تین قسم کے لوگ ہیں :۔
ایک وہ جو بغض وحسد میں جلے ہوئے ہیں اور ضد اور تعصب سے مخالفت پر آمادہ ہیں ۔ان کی تعداد تو بہت ہی کم ہے ۔
دوسرے وہ جو اس طرف رجوع کرتے ہیں ان کی تعداد تو ترقی پر ہے۔
تیسرے وہ جو خاموش ہیں نہ اِدگر ہیں نہ اُدھر ۔ان کی تعداد کثیر ہے وہ ملّانوں کے زیر اثر نہیں ہیں اور نہ ان کے ساتھ مل کر سبّ وشتم کرتے ہیں ۔اس لیے وہ ہماری مدّمیں ہیں ۔
فرقہ معاندین کی افادیت
یہ فرقہ جومعاندین کا ہے اگر نہ ہوتا تو چپ رہنے والے اصل میں کوئی شئے نہیں ہیں انہیں کی وجہ سے تحریک ہو تی ہے وہ شور ڈال ڈال کر ان لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں ۔ان کی باتوں میں چونکہ آسمانی تائید نہیں ہو تی اس لیے اس لیے تناقص ہوتا ہے ۔خداتعالیٰ کچھ فرماتا ہے اور یہ کچھ کہتے ہیں ۔قال کچھ ہے اور حال کچھ ہے ۔آخر شور شہ ابا سُنکر بعض کو تحریک ہوتی ہے کہ دیکھیں تو سہی ہے کیا ۔پھر جب وہ تحقیق کرتے ہیں تو حق ہماری طرف ہوتا ہے آخر اُن کو ماننا پڑتا ہے معاندین ہم پر کیا کیا اکزام لگاتے ہیں ۔کہیں کہتے ہیں کہ یہ پیغمبروں کو گالیاں دیتے ہیں ۔کہیں کہتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ادا نہیں کرتے۔آخر کار تنقید پسند طبائع ان باتوں سے فائدہ اُٹھا کر ہماری طرف رجوع کرتے ہیں ۔اس جماعتِ معاندین کے ہونے سے ہمارا برسوں کا کام دنوں میں ہورہا ہے ۔لوگ آگے ہی منتظر ہیں وقت خود شہادت دیرہا ہے اور اُن کی آنکھیں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ آنے والا آوے ۔جب یہ معاندین ایک مفتری کے رنگ میں ہمیں پیش کرتے ہیں تو تحقیق کرتے کرتے خود حق پالیتے ہیں ۔ (البدر جلد ۳نمبر۷صفحہ۳،۴مورخہ۱۶؍فروری۱۹۰۴؁ء )
نیز (الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ۳مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۷ فروری ۱۹۰۴؁ء
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے۔حضرت اقدس نے باہر تشریف لاتے ہی ڈاکٹر صاحب سے اپنی ناسازئی طبیعت کا ذکر فرمایا۔ ۱؎ اور اسی سلسلہ میں فرمایا:۔
عوارض میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت
انسان کا اصل طبیب اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو بنایاہے۔مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری کمزوری کا سّرِ یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقّدر کیا ہوا تھا کہ اس وقت جہاد کے خیالات کو دُور کیا جاوے اور ہم کو اس سے الگ رکھنا تھا۔اس لیے اس نے عوارض اور کمزوری کے ساتھ بھیجا اور یہ بھی کہ اپنی کسی کاروائی پر گھمنڈ نہ ہو بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کے فضل کے خواستگار ہیں۔
نزول کے لفظ میںبھی یہی سّرِ ہے گویا آسمان سے اُترا ہے یعنی سب کام خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں۔اس میں انسانی دخل نہیں ہے اور جب انسانی ارادوں اور منصوبوں سے الگ ہوئے تو وہ سب امور خارقِ عادت ٹھہرے۔
عام طور پر بھی کہا کرتے ہیںکہ خدا اُتر کر لڑا ہے مگر تعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفوں نے سب باتوں کو جسمانی بنالیا ہے۔ادھر یہ مان لیا ہے کہ دوزرد چادریں پہنے ہوئے اُترے گا۔ ۱؎ معلوم نہیں ان بھگوے کپڑوں کے پہننے سے اس کی کیا غرض ہوگی۔یہ چادریں شاید حضرت ادریس نے سی کردی ہوں گی۔پھر تعجب ہے کہ وہ کبھی مَیلی نہ ہوں گی اور نہ وہ کبھی اُن کو اُتاریں گے اور نہ وپھٹیںگی۔یہ کیسی عجیب باتیں ہیں جن کو سنکر ہنسی آتی ہے ادھر یہ لباس تجویز کیا اور خدمت یہ تجویز کی کہ وہ جنگلوں میں خنزیر مارتا پھرے ۔ ۱؎
پردہ میں افراط وتفریط سے بچنے کی تلقین
حضرت اُم المومنین کی طبعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی۔آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں۔انہوں نے کہا کہ نہیں۔اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ
دراصل مَیں تو اس لحاظ سے کہ معصیت ۳؎ نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کو ئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور مَیں کسی ملا مت کر نے والے کی پردہ نہیں کرتا ۔ حدیث میں بھی ّیا ہے کہ بہاد کی ہوا کھاؤ گھر کی چادر یواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں علاوہ اس کے آنحضرت ﷺ حضرتعائشہؓ کو لیجا یا کرتے تھے جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہو تی تھیں۔
پردہ کے متعلق بڑی اتفرای ہو ئی ہے یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیشری بھی اسی طرح چاہتے ہیں حالا نکہ اس بے پردگی یورپ میں فسق وفجور کادریا بہادیا ہے اور اس بالقابل بعض مسلمان فراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلی ہی نہیں حالا نکہ ریل پر سفر کر نے کی ضرورت پیش آجاتی ہے غرض ہم دونو قسم کے لو گوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں۔
۸؍فروری ۱۹۰۴؁ء
حسب معمول حضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوۃ والسلام سَیر کے لیے تشریف لا ئی ۔سلسلہ کلام مقدمات کے متعلق شروع ہوا۔ اور چندمنٹ کے بعد سلسلہ کا رخ بدل گیا جس کو ہم اپنے الفاظ اور طرزپر مرتب کر کے لکھتے ہیں۔
آخری فتح دعا سے ہو گی
مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ زمانہ ۱؎ اس قسم کا آگیا ہے کہ انصاف اور دیانت سے کام نہیں لیا جاستا اور بہت ہی تھوڑے لوگ ہیں جن کے واسطے دلائل مفید ہو سکتے ہیں ورنہ دلائل کی پروا ہی نہیں کی جاتی اور قلم کا م نہیںدیتا ہم ایک کتاب یا رسالہ لکھتے ہیں مخالفت اس کے جواب میں لکھنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ۲؎ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ دعا سے آخری فتح ہو گی اور انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز رہا ہے کہ جب دلا ئل اور حجج کا م نہیں دیتے تو ان کا آخری حربہ دعا ہو تی ہے جیسا کہ فر مایا
واستفتحواوخاب کل جبارعنید۔(سورۃ ابراہیم:۱۶)
یعنی جب ایسا وقت آجاتا ہے کہ انبیا ء ورسل کی بات لوگ نہیں مانتے تو پھر دعا کی طرف تو جہ کرتے ہیں اور اس کا نیتجہ یہ ہو تا ہے کہ ان کے مخالفت متکبر وسرکش آخر نا مراد اور نا کام ہو جاتے ہیں ۔
ایسا ہی مسیح موعود کے متعلق جو یہ آیا ہے
ونفخفی الصوروجمعنا ھم جمعا(سواۃالکھف:۱۰۰)
اس سے بھی مسیح موعود کی دعاؤںکی طرف اشارہ پا یا جا تا ہے نزول ازآسمان کے یہی معنے ہیں کہ جب کوئی امرآسمان سے پیدا ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیںکرسکتا اور اسے ردّ نہیں کر سکتا آخری زمانہ میں شیطان کی ذریّت بہت جمع ہو جا ئے گی کیو نکہ وہ شیطان کا آخری جنگ ہے مگر مسیح موعود کی دعائیں اس کو ہلاک کر دیں گی ۔
نُوح کے زمانہ سے مناسبت
اسی طرح نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا جب حضرت نوح تبلیغ کرتے کرتے تھک گئے تو آخر انہوں نے دعا کی تو نیتجہ یہ ہوا کہ ایک طوفان آیا جس نے شریروں کو ہلاک کر دیا اور اس طرح پر فیصلہ ہو گیا آخر ان کی کشتی ایک پہاڑ پر جاٹھہری جس کو اب اراراٹ کہتے ہیں اراراٹ کی اصل یہ ہے اَرَارات یعنی میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں ۱ ؎ انہوں نے ایک پہاڑ کا سرا دیکھ کر کہا تھا اور اب اسی نام سے یہ مشہور ہو گیا اور بگڑکراراراٹ بن گیا یہ زمانہ بھی نوح علیہ السلام کے زمانہ سے مشاہبہ ہے خدا تعالیٰ نے میرا نام بھی نوح رکھا ہے اور وہی الہام جو کشتی کا نوحؑ کو ہوا تھا یہاں بھی ہوا ہے اسی طرح پر اب خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا چاہا ہے اور حقیقت میں اگر ایسا نہ ہوتا تو ساری دنیا دہریہ ہو جاتی اقبال اور کثرت نے دنیا کو اندھا کردیاہے۔
عیسائی مذہب کا خاتمہ
الناس علی دین ملو کھم
جو کہا گیا ہے بالکل سچ ہے انسان جب سلطنت اور حکومت کو دیکھتا ہے تو اس کے خوش کرنے کے لیے اور اس سے فائدہ اُٹھا نے کے واسطے وہی رنگ اختیار کرنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت عیسائیوں کی کثرت،ان کی قومی ثروت اور اقبال نے لوگوں کو خیرہ کردیا ہے اور ان وجوہات سے بہت سے لوگوں کو ادھر توجہ ہوگئی ہے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس مذہب کا خاتمہ ہو جاوے اور اس کے لیے دُعا کی بہت ضرورت ہے۔عیسائی خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ انکے مذہب کو ہلاک کردے گا۔
پادریوں کی نظر میں ہماری جماعت
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پادری جس قدر ہماری جماعت کو برا سمجھتے ہیں اور اس سے دشمنی کرتے ہیں وہ دوسرے مسلمانوں کو اس قدر برا نہیں سمجھتے جہاں کہیں ہمارا ذکر ہوگا گالیاں دیتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ان کی فطرت خود تسلیم کرتی ہے کہ یہ سلسلہ ان کو ہلاک کر دینے والا ہے جیسے بلّی کا منہ جب چوہا دیکھتا ہے حالانکہ اس نے پہلے کبھی اس پر حملہ نہ بھی کیا ہو فوراً ہی سمجھ جاتا ہے کہ یہ میری دشمن ہے۔بکری نے کبھی شیر کو دیکھا بھی نہ ہو،لیکن جونہی اسے نظر آجاوے وہ گھبرا کر کھانا پینا چھوڑ دیگی اسی طرح پر عیسائی ہمارے سلسلہ کے کسی آدمی کو دیکھ کر ہی اس سے بیزار ہو جاتے ہیںوہ جانتے۱؎ ہیں کہ ان سے کوئی امید ان کو نہیں ہے۔ان کی فطرت ہی ان کہ بتادیتی ہے۔
فطرؔ کے معنے پھاڑنے کے ہیںاورفطرت سے مراد ہے کہ انسان خاص طور پر پھاڑا گیا ہے۔جب آسمان سے قوت آتی ہے تو نیک قوتیں پھٹنی شروع کردیتی ہیں۔براہیناحمدیہ میں جو یہ الہام ہے بڑا ہی پرزور اور مبشر ہے۔
وما کان اللہ لیتر کک حتی یمیز الخبث من الطیب۔
یعنی خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑدے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھا وے۔یہ الہام بڑا ہی مبشر ہے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عظیم الشان فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔
کسر صلیب کیلئے دعا کی اہمیت
اگرچہ یہ سچی بات ہے کہ جب سے عیسائیوں کا قدم آیا ہے مسلمانوں نے اپنی طرف سے کمی نہیں کی اور کسی نہ کسی حد تک ان کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور کتابیں اور رسالے لکھتے رہے ہیں لیکن باوجود اس کے بھی ان کی جماعت بڑھتی ہی گئی یہانتک کہ اب شاید تیس لاکھ کے قریب مرتد ہو چکے ہیں اس لیے مَیں یقیناسمجھتا ہوں کہ کسر صلیب جانکاہ دعائوں پر موقوف ہے۔دعا میں ایسی قوت ہے کہ جیسے آسمان صاف ہو اور لوگ تضرّع وابتہال کے ساتھ دعا کریں تو آسمان پر بدلیاں سی نمودار ہوجاتی ہیں اوربارش ہونے لگتی ہے۔اسی طرح پر مَیں خوب جانتا ہوں کہ دعا اس باطل کو ہلاک کردے گی اور لوگوں کو تو کوئی غرض نہیں ہے ۱؎کہ وہ دین کے لیے دعا کریں مگر میرے نزدیک بڑا چارہ دعا ہی ہے اور یہ بڑا خطرناک جنگ ہے جس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے ؎
لنعم ما قیل ۔
اندریں وقت مصیبت چارہ ہائے بیکساں
جز دعائے با مد ا د و گر یہ ا سحا ر نیست
پھر ان دعائوں کے لیے گوشہ نشینی کی بڑی ضرورت ہے۔کئی دفعہ یہ بھی خیال آیا ہے کہ باغ میں کوئی الگ مکان دعائوں کے واسطے بنالیں۔
غرض یہ تو مَیں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ محض قلم سے کچھ نہیں بنتا۔ ۲؎ اغراضِ نفسانی نے انسان کو دبایا ہوا ہے بہت سے لوگ نوکری کی غرض سے عیسائی ہورہے ہیں اور بعض اور نفسانی غرض کی وجہ سے اور بعض لوگ گورنمنٹ کے تعلقات کی وجہ سے۔
آسائش کی حقیقی راہ
اس طریق پر سچی راحت اور آسائش نہیں مل سکتی۔مومن کو حقیقی راحت اور آسائش کے لیے رُوبخدا ہونا چاہیئے۔جو مومن آسائش کی زندگی چاہتے ہیں۔وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور کسی پر بھروسہ نہ کریں یقینا یاد رکھیں کی خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں پر بھروسہ کرنے والے کو سچا خیر خواہ نہ پائیں گے۔
مسیح اوّل اور مسیح آخر کی دعا
مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح نے جب دیکھا کہ صلیب کا وقعہ ٹلنے والا نہیں تو اُن کو اس امر کا بہت ہی خیال ہوا کہ یہ موت *** موت ہو گی پس اس موت سے بچنے کے لیے انہوں نے بہت دُعاکی ۔ دلِ بریاں اور چشمِ گریاں سے انہوں نے دُعا کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آخر وہ دُعا قبول ہوگئی چنانچہ لکھا ہے فسمع لتقوہ ہم کہتے ہیں کہ جیسے پہلے مسیح کی دُعاسُنی گئی ہماری بھی سُنی جاوے گی مگر ہماری دُعا اور مسیح کی دُعا میں فرق ہے۔اس کی دُعا اپنی موت سے بچنے کے لیے تھی اور ہماری دُعا دنیا کو موت سے بچانے کے لیے ۔ہماری غرض اس دُعا سے اعلائے کلمۃالاسلام ہے ۔احادیث میں بھی آیا ہے کہ آخر مسیح ہی کی دُعا سے فیصلہ ہوگا۔۱؎
دُعا کیساتھ دلائل کی اہمیّت
اگر چہ فیصلہ دُعائوں سے ہی ہونیوالا ہے۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جاوے۔نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہیئے اور قلم کو روکنا نہیں چاہیئے نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اسی لیے اولی الایدی والابصار کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں ۔پس چاہیئے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہو تا ہے ۔۲؎جہانتک بیان اور لسان سے کام لے سکو کام لیے جائو اور جو جو باتیں تائید دین کے لیے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جائو وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی۔
میری غرض اور نیت بھی یہی ہے کہ جب وہ وقت آوے تو اپنے وقت کا ایک حصّہ اس کام کے لیے بھی رکھا جاوے ۔اصل بات یہ ہے کہ جب تبّتلِتام اور انقطاعِ کلی سے دُعا کرے تو ایسے ایسے خارقِعادت اور سماوی امور کلتے ہیں اور سوجھتے ہیںکہ وہ دُنیا پر حجّت ہو جاتے ہیں ۔اس لیے اس دُعا کے وقت جو کچھ خداتعالیٰ ان کے استیصال کے وقت دل میں ڈالے وہ سب پیش کیا جاوے۔
درازی عمر کا نسخہ
فر مایا کہ:۔
کھانسی جب شدت سے ہو تی ہے تو بعض وقت دم رُکنے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جان کندن کی سی حالت ہے۔چنانچہ اس شدت کھانسی میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غناء ذاتی کا خیال گذرا اور میَں سمجھتا تھا کہ اب گویا موت کا وقت قریب ہے۔اس وقت الہام ہوا۔
اذاجا ء نصر اللہ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا(سورۃالنصر:۲،۳)
اس کے یہ معنے سمجھائے گئے کہ ایساخیال اس وقت غلط ہے بلکہ اس وقت جب اذاجا ء نصر اللہ والفتح کا نظارہ دیکھ لو ۔اس وقت تو کوچ ضروری ہو جاتا ہے ۔سب کے لیے یہی اصول ہے کہ جب وہ کام جس کے لیے اس کو بھیجا جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ رُخصت ہو تا ہے
ہر کسے رابہر کارے ساختند
تو سچ ہے مگر سب آدمیاپنے اپنے کام اور غرض سے جس کے لیے وہ آئے ہیں واقف نہیں ہوتے ۔بعض کا اتنا ہی کام ہو تا ہے کہ چوپایوں کی طرح کھا پی لینا وہ سمجھتے ہیں کہ اتنا گوشت کھانا ہے۔اس قدر کپڑا پہننا ہے وغیرہ اور کسی بات کی ان کو پرواہ اور فکر نہیں ہوتی۔ایسے آدمی جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر یک دفعہ ہی اُنکا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔لیکن جو لوگ خدمتِ دین میں مصروف ہوں اُن کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے ۔اس وقت تک جب تک وہ اس کام اور خدمت کو پورا نہ کر لیں ۔
انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے تو اُس کو چاہیئے کہ جہانتک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے ۔یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا نہیں چلتا جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یا رکھے کہ اہنے نفس کو دھوکا دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا۔
پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کیساتھ اعلاء کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمتِ دین میں لگ جاوے اور آج کل یہ نسخہ بہت ہی کار گر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے ۔اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے یونہی چلی جاتی ہے ۔
ایک صحابی کا ذکر ہے کہ اس کے ایک تیر لگا اور اس سے خون جاری ہو گیا ۔اس نے دُعا کی کہ اے اللہ عمر کی تو مجھے کوئی غرض نہین ہے ۔البتہ میَں یہود کا انتقام دیکھنا چاہتا تھا جنہوں نے اس قدر اذیتیں اور تکلیفیں دی ہیں ۔لکھا ہے کہ اسی وقت اس کا خون بند ہو گیا جب تک کہ وہ یہود ہلاک نہ ہوئے اور جب وہ ہلاک ہو گئے تو خون جاری ہو گیا اور اس کا انتقال ہوگیا ۔ ۱؎
حقیقت میں سب امراض اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔کوئی مرض اس کے حُکم کے بغیر پیش دستی نہیں کر سکتا ۔اس لیے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرے۔یہی اقبال کی راہ ہے مگر افسوس ہے جب راہوں سے اقبال آتا ہے ان کو انسان بد ظنی کی نظر سے دیکھتا ہے اور نحوست کی راہوں کو پسند کرتا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ آخر گرِجاتا ہے ۔ ۱؎ (الحکم جلد ۸نمبر۶صفحہ ۵،۶مورخہ۱۷؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۹ فروری ۱۹۰۴؁ء
(قبل از عشاء )
صاحبزادہ عبد اللطیفؓ کا نمونہ
عشاء سے پیشتر آپ نے مجلس فرمائی اور فر مایا
کمال کے ساتھ عیوب جمع نہیں ہوسکتے ۔اس زمانہ میںایک عبد اللطیفؓ کا ہی نمونہ دیکھ لو کہ جس حالت میں اس نے جان جیسی شئے سے دریغ نہ کیا تو اب جان کے بعد اس پر کیا نکتہ چینی کر سکتے ہیں ۔خواہ کوئی ہزار پر دہ ڈالے مگر ان کی استقامت پر شک نہیں ہو سکتا ۔بیوی بچوں ،مال وجاہ کی پر واہ نہ کرنا اور یہاں سے جاکر اُن میں سے کسی سے نہ ملنا ایسی استقامت ہے کہ سن کر لرزہ آتا ہے ۔دنیا میں بھی اگر ایک نوکر خدمت کرے اور حقِ وفا کا ادا کرے تو جو محبت اس سے ہو گی وہ دوسرے سے کیا ہو سکتی ہے جو صرف اس بات پر ناز کر تا ہے کہ میَں نے کوئی اچک پنا نہیں کیا حالانکہ اگر کرتا تو سزا پاتا ۔اتنی بات سے حقوق قائم نہیں ہو سکتے ۔حقوق تو صرف صد ق و وفا سے قائم ہو سکتے ہیں جیسے
ابراھیم الذی وفی (سورۃ النجم۳۸)
(البدر جلد ۳نمبر۸صفحہ ۲مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۱۱ فروری ۱۹۰۴؁ء
بوقتِ شام
حضرت سیّد احمد سرہندی علیہ الرحمۃ کا تذکرہ
فرمایا:
سیّد احمد سرہندی کاایک خط ہے جس میں انہوں نے بتلایا ہے کہ اس قدر احمد مجھ سے پیشتر گزر چکے ہیں اور ایک آخری احمد ہے
پھر آپ نے اس کی ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور خود اس کے زمانہ سے پیشتر ہونے پر افسوس کیا ہے اور لکھا ہے
یا اسفا علی لقائہ
پھر فرمایا کہ
ان کا ایک قول میرے نزدیک درست نہیں ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ کرا مات اس وقت صادر ہو تی ہیں جب کہ سالک الیٰ اللہ کا صعود تو اچھا ہو مگر نزول اچھا نہ ہو اور اگر نزول بھی اچھا ہو تو پھر کرامات صادر نہیں ہوتیں ۔گویا کرامات کے ڈدور کا وہ ادنیٰ درجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے جس قدر انبیاء آئے ہیں اُن سے بارش کی طرح کرامات صادر ہو تی رہی ہیں ۔اُن کے اس قول سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اپنی پردہ پوشی کرتے ہیں اور خود ان کو اس کوچہ میں دخل نہیں تھا ۔
فتوح الغیب کو اگر دیکھاجاوے تو سیدھے سادے رنگ میں سلوک اور توحید کی راہ بتلاتی ہے ۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ قائل ہیں کہ جو شخص ایک خاص تعلق اور پیوند خداتعالیٰ سے کرتا ہے اس سے ضرور مکالمہ الہیٰ ہو تا ہے ۔یہ کتاب ایک اور رنگ میں ان کے اپنے سوانح معلوم ہو تے ہیں جیسے جیسے خدا تعالیٰ کا فضل ان پر ہو تا رہا اور وہ ترقی مراتب کرتے رہے ویسے ویسے بیان کرتے رہے ۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کا نیک بچپن
صاحبزادہ میاں بشیر احمدصاحب اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے مسجد میں آگئے اور اپنے اباجب (مسیح موعود علیہ السلام )کے پاس ہو بیٹھے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آجانے پر آپ دبی آواز سے کھِل کھلا کر ہنس پڑے تھے اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
مسجد میں ہنسنا نہیں چاہیئے
جب دیکھا کہ ہنسی ضبط نہیں ہوتی تو اپنے باپ کی نصیحت پر یوں عمل کیا کہ صاحبزادہ صاحب اسی وقت اُٹھ کر چلے گئے۔
(البدر جلد ۳نمبر۸صفحہ ۲مورخہ۲۴؍فروری۱۹۰۴؁ء )
۱۵ فروری ۱۹۰۴؁ء
کوئی آٹھ بجے رات کا وقت تھا کہ بمقام گورداسپور حضرت اقدس کے کمرہ میں چند احباب بیٹھے ہوئے تھے ۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃو السلام کا رُوئے سخن جناب ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب احمدی ابچارج پلیگڈڈیوٹی گورداسپور کی طرف تھا کہ تقویٰ کے مضمون پر حضرت اقدس نے ایک تقریر فرمائی ۔وہ تقریر اس وقت لکھی تو نہیں گئی مگر جو کچھ نوٹ اور یاداشت زبانی یاد رہ سکے ان کو عمل درآمد کیلئے درج اخبار کیا جاتا ہے۔
توکّل
انسان کو چاہیئے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی ۔خدا تعالیٰ پر بھروسہ کہ یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تد بیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تد بیر پوری کرکے پھر انجام کو خداتعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام توکل ہے ۔اگر وہ تد بیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا (جس کے اندر کچھ نہ ہو )ہو گا ۔اور اگر نری تدبیر کرکے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خداتعالیٰ پر توکل نہیں ہے تو وہ تد بیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ ہو )ہو گی ۔ایک شخص اونٹ پر سوار تھا ۔آنحضرت ﷺ کو اس نے دیکھا ۔تعظیم کے لیے نیچے اُترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تد بیر نہ کرے چنانچہ اُس نے اونٹ کا گُھٹنا نہ باندھا ،جب رسول اللہ ﷺ سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے واپس آ کر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی کہ میَں نے توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا آپ نے فرمایا کہ تُونے غلطی کی ۔پہلے اونٹ کا گُھٹنا باندھتا اور پھر توکل کرتا ۔تو ٹھیک ہو تا ۔
تد بیر
تدبیر سے مراد وہ ناجائز وسائل نہیں ہیں جو کہ آج کل لوگ استعمال کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کے موافق ہر ایک سبب اورذریعہ کی تلاش کا نام تدبیرہے۔ایسے ہی انسان کو اپنے نفس کے تزکیہ کے لیے تدبیر سے کام لینا چاہیئے اور شیطان جو اس کے پیچھے ہلاک کرنے کو لگا ہے اس کو دور کرنے کے واسطے تدابیر بھی سوچنی چا ہیئں بلکہ صوفیاء نے لکھا ہے کہ کسی سے فریب کرنا اگرچہ ناجائز ہے،لیکن شیطان کے ساتھ یہ جائز ہے۔غرضیکہ متقی بننے کے لیے دعا بھی کرو اورتدابیر بھی کرو۔ دعا سے خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے لیکن اگر انسان نے تدابیرسے کچھ تیاری نہ کی ہوئی ہو تو وہ فضل کس کام آوے گا۔اس کی مثال ایسی ہے کہ کسان اپنی زمین کی کلبہ رانی تو نہ کرے نہ اسے صاف کرے نہ سہاگہ وغیرہ پھیرے صرف دعا کرتا رہے کہ بارش ہو جاوے اور اناج تیار ملے تو اس کی دعا کس کام آوے گی؟دعا اس وقت فائدہ دے گی جب وہ کلبہ رانی کرکے زمین کو تیار رکھیگا۔
عُجُب اور رِیا
عُجُب اور رِیا بہت مہلک چیزیں ہیں ان سے انسان کو بچنا چاہیئے انسان ایک عمل کرکے لوگوں کی مدح کا خواہاں ہوتا ہے۔بظاہر وہ عمل عبادت وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو مگر نفس کے اندر ایک خواہش پہناں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں لوگ مجھے اچھا کہیں اس کانام ریا ہے اور عُجُب یہ کہ انسان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اچھا جانے کہ نفس خوش ہو ان سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہیئںکہ اعمال کا اجر ان سے باطل ہو جاتا ہے۔
اس مقام پر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب نے عرض کی کہ حضور شیطان سے فریب کی کوئی مثال بیان فرمائی جاوے۔چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ نے اسی ذکر میں مثال یوں بیان فرمائی کہ
ایک مولوی ایک جگہ وعظ کررہے تھے انہوں نے ایک دینی خدمت کے واسطے کئی ہزار روپیہ چندہ جمع کرنا تھا۔ان کے وعظ اور ضرورت دینی کو دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور دو ہزار روپیہ کی ایک تھیلی لا کرمولوی صاحب کے سامنے رکھدی۔مولوی صاحب نے اسی وقت مجلس میں اس کے سامنے اس کی تعریف کی کہ دیکھو یہ بڑا نیک بخت انسان ہے اس نے ابھی اپنا گھر جنت میں بنا لیا اور یہ ایسا ہے ویسا ہے۔جب اس نے اپنی تعریف سنی تو اسی وقت گھر گیا اور جھٹ واپس آکر بآواز بلند اس نے کہا کہ مولوی صاحب اس روپے کے دینے میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔اصل میں یہ مال میری والدہ کا ہے اور مَیں اس کی بے اجازت لے آیا تھا،لیکن اب وہ مطالبہ کرتی ہے۔مولوی صاحب نے کہا اچھا لے جائو۔چنانچہ وہ شخص اسی وقت روپیہ اُٹھا کر لے گیا۔یا تو لوگ اس کی تعریف کرتے تھے اور یا اسی وقت اس کی مذمت شروع کردی کہ بڑا بیوقوف ہے۔روپیہ لانے سے اوّل کیوں نہ ماں سے دریافت کیا۔کسی نے کہا جھوٹا ہے۔روپیہ دے کر افسوس ہوا تو اب یہ بہانہ بنالیا وغیرہ اوغیرہ جب مولوی صاحب وعظ کرکے چلے تو رات کو دو بجے وہ شخص وہ روپیہ لے کر ان مولوی صاحب کے گھر گیا اور جگا کر ان کو کہا کہ اس وقت تم نے میری تعریف کرکے سارا اجر میرا باطل کرنا چاہا۔اس لیے مَیں نے شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے یہ تدبیر کی تھی۔اب یہ روپیہ تم لو مگر تم سے قسمیہ عہد لیتا ہوں کہ عمر بھر میرا نام کسی کے آگے نہ لینا کہ فلاں نے یہ روپیہ دیا۔اب مولوی حیران ہوا اور کہا کہ لوگ تو ہمیشہ *** کرتے رہیں گے اور تم کہتے ہو کہ میرا نام نہ لینا۔اس نے کہا مجھے یہ لعنتیں منظور ہیں مگر اس سے بچنا چاہتا ہوں۔
تو یہ رِیا اور عُجُب بڑی بیماریاں ہیں۔ان سے بچنا اور بچنے کے لیے تدابیر بھی کرنی چاہئیں اور دعا بھی کرنی چاہیئے۔
شیطان سے فریب کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو وہ اپنے دوسرے حصّے مکانات کے بچانے کے لیے ایک مکان کو خودبخود گراتا ہے۔
تدابیر انسان کو ظاہری گناہ سے بچاتی ہیں لیکن ایک کشمکش انر قلب میں باقی وہ جاتی ہے اور دل ان مکروہات کی طرف ڈانواں ڈول رہتا ہے ان سے نجات پانے کے لیے دعا کام آتی ہے کہ خدا تعالیٰ قلب پر ایک سکینت نازل فرماتا ہے۔
تقویٰ
ہر ایک کا میابی کی جڑ تقویٰ اورسچا ایمان ہے اس کے نہ ہو نے سے گنا ہ صادر ہو تے ہیں ُمقدَّ جو انسان کا ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے پھر نہیں معلوم کہ خلاف ِتقویٰ امور کی ضرورت کیوں در پیش آتی ہیں ایک چور چوری کر کے اپنا مقد ر حاصل کر نا چا ہتا ہے اگر وہ چوری نہ کر تا تو بھی حلال ذریعہ سے وہ اسے مل کر رہتا اسی طرح ایک زانی زنا کر کے عورتوں کی لذات حاصل کرتا ہے اگر وہ زنا نہ کرے تو جس قدر عورتوں کی لذات اس کیلئے مقدر ہیں وہ کسی نہ کسی حلال ذرائع سے اسے مل کر رہتیں ،لیکن سارا فساد ایمان کا نہ ہو نا ہے اگر تقویٰ پر قدم ماریں اور ایمان پر قائم رہیں تو کبھی کسی کو تکلیف نہ ہو اور خدا تعالیٰ سب کی حاجب روا کرتا ہے ۔ (البدر جلد ۳نمبر۲صفحہ ۷مورخہ یکم ؍مارچ۱۹۰۴؁ء )
۲۰؍فروری۱۹۰۴؁ء
(دربارِشام )
الخبیثت للخبیثین ۱؎
انسان اگر اپنے نفس کی پاکیز گی اور طہارت کی فکر کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر گناہوں سے بچتا رہے تو تو اللہ تعالیٰ یہی نہیں کہ اس کو پاک کر دے گا بلکہ وہ اس کا متُکفل اور مُتولیّ بھی ہو جاوے گا۱؎ اور اسے خبیثات سے بچائے گا ۔
الخبیثت للخبیثین ۲ ؎ (سورۃ النور:۲۷)
کے یہی معنے ہیں اندرونی معصیت ،ریا کاری، عُجب ،تکبر ،خوشامد ،خود پسندی ،بدظنی اور بدکاری وغیرہ وغیرہ خباثتوں سے بچنا چاہئیے اگر اپنے آپ کو ان خباثتوں سے بچاتا ہے تواللہ تعالیٰ اسکو پاک ومطہرکر دے گا ۔
تقویٰ اور اسکے حصول کا طریق
مگر ضروری امریہ ہے کہ پہلے یہ سمجھ لے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور کیو نکر حاصل ہو تا ہے تقویٰ تو بہ ہے کہ باریک درباریک پلیدگی سے بچے اور اس کے حصول کا یہ طریق ہے کہ انسان ایسی کامل تدبیر کرے کہ گناہ کے کناہ تک نہ پہنچے اور پھر نری تدبیرہی کو کافی نہ سمجھے بلکہ ایسی دعا کرے جواس کا حق ہے کہ گدرز ہو جاوے بیٹھ کر، سجدہ میں ،رکوع میں ،قیام میں اور تہجدّ میں ،غرض ہر حالت اور ہر وقت اسی فکر ودعا میں لگا رہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ اور معصیب کی خباثت سے نجات بخشے اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے کہ انسان گناہ اور معصیب سے محفوظ اور معصوم ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں راست باز اور صادق ٹھہر جاوے ۔
تد بیر اور دعا کا کامل اتحاد
لیکن یہ نعمت نہ تو نری تد بیر سے حاصل ہو تی ہے اور نہ نری دعا سے بلکہ یہ دعا اور تدبیر دونو کے کامل اتحاد سے حاصل ہو سکتی ہے جو شخص نری دعا ہی کرتا ہے اور تد بیر نہیں کرتا وہ شخص گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے ایسا ہی جو نری تد بیر کرتا ہے اور دعا نہیںکرتا وہ بھی شوخی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے استغنا ظاہر کرکے اپنی تجویز اور تدبیر اور زورِبازو سے نیکی حاصل کر نا چاہتا ہے لیکن مو من اور سچے مسلمان کا یہ شیوہ نہیں وہ تد بیر اور دعا دونوسے کا م لیتا ہے پوری تد بیر کرتا ہے اور پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ کر دعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں دی گئی ہے چنانچہ فر مایا ہے ۔
ایاک نعبد وایاک نستعین ۱؎ (الفاتحۃ:۵)
جو شخص اپنے قویٰ سے کام نہیں لیتا وہ نہ صرف اپنے قویٰ کو ضائع کرتا اور ان کی بے حرمتی کرتاہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے مثلاایک شخص ہے جو کنجروں کے ہاں جاتا ہے اور اسی بدصحبت میں اپنا دن رات بسر کرتا ہے اور پھر دعا کرتا ہے کہ اے اللہ مجھے گناہ سے بچا ایسا شوخ انسان خدا تعالیٰ سے مسخری کرتا ہے اور اپنی جان پر ظلم اس سے اس کو کچھ فائدہ نہ ہو گا اور آخر یہ خیال کرکے کہ میری دعا سنی نہیں گئی وہ خدا سے بھی منکر ہو جاتا ہے ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تد بیر سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن تد بیر پر کلی بھروسہ کر نا سخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تد بیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تد بیر نہ ہو تو پھر کچھ فائدہ نہیں جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑکی کو بندکیا جاوے پھر نفس کی کشاکش کے لیے دعا کرتا رہے ۲ ؎ ۔ اسی کے واسطے کہا ہے ۔
والذین جاھدوافینا لنھد ینھم سلبلنا (العنکبوت:۷۰)
اس میں کس قدر ہدایت تدابیرکو عمل میں لا نے کے واسطے کی گئی ہے تد ابیر میں بھی خدا کو نہ ۱؎ چھوڑے دوسری طرف فر ماتاہے
ادعونی استجب لکم(المومن:۶۱)
پس اگر انسان پورے تقویٰ کا طالب ہے تو تد بیر کرے اور دعا کرے دونو کو جو بجالانے کا حق ہے بجالائے تو ا یسی حالت میں خدا اس پر رحم کرے گا لیکن اگر ایک کرے گا اور دوسری کو چھوڑیگا تو محروم رہے گا ۔
تقویٰ کے ثمرات
انسان ایسے طریق سے تقویٰ پر قائم ہوتا ہے اور تقویٰ اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے جو اس سے خالی ہے وہ فاسق ہے۔ تقویٰ سے زینتِ اعمال پیداہوتی ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے۔چنانچہ فرما یا ہے
ان اولیائو ہ الا المتقون(الانفال:۳۵) ۲؎
تقویٰ حقیقت میں ایک موت ہیَ۔
کامل طور پر جب تقویٰ کا کوئی مرحلہ باقی نہ رہے تو پھر یہ اولیاء اللہ میں داخل ہوجاتا ہے اور تقویٰ حقیقت میںاپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوئوں سے مخالفت کرے گا تو نفس مرجاوے گا۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ
موتو اقبل ان تمو توا۔
نفس ۳؎ تَوْ سَن گھوڑے کی طرح ہوتا ہے اور جو لذت تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہیںاس سے بالکل ناآشنا ہوتا ہے۔جب اس پر موت آجاوے گی تو چونکہ خلا محال ہے اس لیے دوسری لذات جو تبتّل اور انقطاع میں ہوتی ہیںشروع ہو جائیں گی۔یہی وہ بات ہے جس کی ہماری ساری جماعت کو ہر وقت مشق کرنی چاہئیے۔۲؎ جیسے جب تختیوں پر بار بار لکھتے ہیں تو آخرخوش نویس ہو جاتے ہیں۔
والذین جاھد و افینا (العنکبوت:۷۰)
میں یہی مجاہدہ سے مراد یہی مشق ہے کہ ایک طرف دعا کرتا رہے دوسری طرف کامل تدبیر کرے۔آخر اللہ تعالیٰ کا فضل آجاتا ہے اور نفس کا جوش وخروش دب جاتا اور ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور ایسی حالت ہوجاتی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیاجاوے۔بہت سے انسان ہیںجو نفسِ امارہ ہی میں مبتلا ہیں۔
اپنے بھا ئیوں کی پردہ پوشی کرو
مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہوجاتی ہیں اور معمولی نزاع سے پھرایک دوسرے کی عزّت پر حمل کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔یہ بہت ہی نا مناسب حرکت ہے۔یہ نہیں ہونا چاہئیے بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے۔
بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے ۔۱؎ ان باتوں سے پرہیز کر نا لازم ہے ۔خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے ۔پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پر دہ پوشی سے کام نہیں لیتا ۔چاہیئے کہ اپنے بھا ئی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت وآبرو پر حملہ نہ کرے۔
ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کر تا تھا ایک ملّا نے کہا کہ یہ آیت ۲ ؎ غلط لکھی ہے بادشاہ نے اُس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا ۔جب وہ چلا گیا تو اُس دائر ہ کا کاٹ دی جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا مگر میَں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس سے اس کی دلجوئی ہو جاوے ۔۳؎
یہ بڑی رعونت کی جڑ ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دیدیا جاوے۔ ۴؎ا یسے امور سر نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پر ہیز کرنا چاہیئے ۔غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرنی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فر شتوں میں داخل ہو تا ہے کیونکہ اس میں کوئی سر کشی باقی نہیں رہ جاتی ۔تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خداتعالیٰ کی بر کتیں آتی ہیں ۔متقی دنیا کی بلائوں سے بچایا جاتا ہے ۔خدا اُن کا پر دہ پوش ہو جاتا ہے جب تک یہ طیق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں ۔ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ۔۵ ؎فائدہ ہو بھی تو کس طرح جب کہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا ۔اگر وہی جوش ،رعونت، تکبر ،عُجب ،ریا کاری، سریع الغضب ہو نا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے ؟۱؎ سعید اگر ایک ہو اور وہ سارے گائوں میں ایک ہی ہوتو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔نیک انسان کو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رُعب ہو تا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے ۔۲؎ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصّہ دیتا ہے اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔
پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں ۳؎ میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے ۔آنحضرت ﷺ جمیع اخلاق کے متمِم ہیں اور اس وقت خداتعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے ۔اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے ۔پس دوسروں پر عیب نہ لگائو کیو نکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے۔
بہت سے آدمیوں کی عادت ہو تی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں ۔ان باتو ں سے پر ہیز کرو ۔بنی نوح انسان کو فائدہ پہنچائو اور اپنے بھائیوں ۴؎سے ہمدردی ۔ہمسایوں سے نیک سلوک کرو ۔اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے ۔
(الحکم جلد ۸نمبر۸صفحہ ۷،۸مورخہ ۱۰ مارچ۱۹۰۴؁ء )
۲۱ فر وری ۱۹۰۴؁ء
(بوقت ظہر)
ابتلاء اور دشواریاں
مقدمات کے تذکرہ پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:۔انبیاء ورسل کے سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں ہمیشہ مکروہات آجایا کرتے ہیں طرح طرح کی ناکامیاں پیش آتی ہیں۔
زلز لو از لزالا شدیدا(الاحزاب:۱۲)
سے معلوم ہوتاہے کہ حددرجہ کی ناکامی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن یہ شکست اور ہزیمت نہیں ہوا کرتی۔ابتلاء میں مامور کا صبر واستقلال اور جماعت کی استقامت اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ خود فرماتا ہے
کتب اللہ لا غلبن انا ورسلی (المجادلۃ:۲۲)
لفظ کتب سنت اللہ پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضروری ہی غلبہ دیا کرتا ہے۔درمیانی دشواریاں کچھ شئے نہیں ہوتیں اگرچہ وہ
ضاقت علیھم الارض(التوبۃ:۱۱۸)
کا ہی مصداق کیوں نہ ہو۔
(البدر جلد ۳نمبر۹صفحہ۴مورخہ۲۴؍یکم مارچ۱۹۰۴؁ء )
(دربارِ شام)
وبائوں اور بلائوں کے آنے کا سبب
موسمی بلائوںاور وبائوں کے تذکرہ پر فرمایا:۔
’’ جب دنیا میں فسق وفجور پھیل جاتا ہے تو یہ ونائیں دنیا میں آتی ہیں۔لوگ اللہ تعالیٰ سے لاپروہ ہوجاتے ہیںتواللہ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا۔مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی شوخیوں اور شرارتوں میں کوئی فرق نہیں آیا ،وجودیکہ طاعون ایک کھاجانے والی آگ کی طرح بھڑک رہی ہے لیکن مکروفریب اور بدکاری کے بازارگرم ہیں بلکہ ان میں زیادتی ہی نظر آتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کیا مرضی ہے۔اللہ تعالیٰ تھکتا نہیں۔پہلے زمانہ میں بھی جب لوگ گناہ سے باز نہیں آئے تو زمین کے تختے پلٹ دئیے گئے ہیں اور شہروٰ کے نام ونشان مٹادئیے گئے ہیں۔
جب طاعون پہلے پہل پھیلا ہے تو لوگ سمجھتے تھے کہ یونہی ایک اتفاقی بیماری ہے جلد نابود ہو جائیگی لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ ابھی اس کا نام ونشان بھی نہ تھا مجھے اطلاع دی تھی کہ یہ وبا آنے والی ہے ویسے ہی ابھی یہ خوفناک عذاب بمبئی ہی میں پھیلا ہوا تھا جو مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ یہ وبا سارے پنجاب میں پھیل جائے گی۔اس پر ناعاقبت اندیش لوگوں نے ہنسی اور ٹھٹھے اُڑائے۔مگر اب دیکھ لو کوئی جگہ ایسی نہیں جو اس سے خالی ہو اگر کوئی جگہ ایسی ہے بھی تو اس کے اردگرد آگ لگی ہوئی ہے اس کے محفوظ رہنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہو چکا۔
حقیقت میں یہ بٹے ہی اندیشہ اور فکر کی بات ہے جبکہ کوئی علاج بھی اس کا کارگر نہیں ہوا اور زمینی تدابیر میں ناکامی ہوئی ہے تو پھر کس قدر ضروری ہے کہ لوگ سوچیں کہ یہ بلا کیوں آئی ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے جب تک لوگ سچی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ نہیں کرتے اور ان شوخیوں اور شرارتوں سے باز نہیں آتے جو خدا کی باتوں سے کی جاتی ہیںیہ عذاب پیچھا چھوڑتا نظر نہیں آتا،لیکن جب انسان توبہ اور استغفار کرتا ہے اور اپنے اندر ایک پاک تبدیلی کا نمونہ دکھاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ بھی رجوع برحمت کرتا ہے مگر مَیں دئکھتا ہوں کہ ابھی تک کائی تبدیلی نہیں ہوئی اسی طرح فسق وفجور کا بازار گرم ہے اور قسم قسم کے گنا ہ اس زمین پر ہورہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی عذب الہیٰ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔پہلی کتابوں میں بھی اس وبا کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ قیامت عام مری پڑے گی سو اب وہ دن قریب آگئے ہیں اور مری پڑرہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب زمانہ کا آخر ہے۔
اس بات کو مکر ریا رکھو کہ جب نخل و حسد اور فسق وفجور کی زہریلی ہوا پھیل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہوجاتی ہے اور جس طرح پر اللہ تعالیٰ سے ہراساں وترساں ہونا چاہئیے وہ نہیں رہتا۔یہ ایسی ہی ہوتی ہے۔جیسے بعض اوقات ہیضہ کی زہریلی ہوا پھیلتی ہے اور تباہ کرتی ہے اس وقت بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جو بچ رہتے ہیں ان کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ صحت درست نہیں رہتی۔ہاضمہ کا فتور یا اور اسی قسم کی خرابیاں ہو کرپیدا ہو جاتی ہیں۔اسی طرح پر جب گناہ کی وبا پھیلتی ہے تو بعض تو اس میں بالکل ہلاک ہو جاتے ہیں اور جو بچ رہتے ہیں ان کی بھی روحانی صحت میں فرق آجاتا ہے۔سو یہی حال اب ہورہا ہے۔اکثر ہیں جو کھلے طور پر بے حیائیوں اور بدکاریوں میں مبتلا ہیں اور وہ تقویٰ اور خدا ترسی سے ہزاروں کوس دور جاپڑے ہیں اور جو رسمی طور پر دیندار کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب وسنت سے الگ ہو رہے ہیں۔اپنے خیال اور رائے سے جو جہی میں آتا ہے کر گذرتے ہیں۔اور حقیقت اور مغز کو چھوڑ کر پوست اور ہڈیوں کو لیے بیٹھے ہیں۔اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق ایک عذاب بھیجا ہے کیونکہ وہ ایسی حالت میں قیامت سے پہلے اس دنیا کو قیامت بنا دیتا ہے اور ایسی خوفناک صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں کہ زندگی قیامت کا نمونہ ہوجاتی ہے اور اب یہ وہی دن ہیں کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ سچائی سے بجائے محبت کے بغض کیا جاتا ہے اور عملی حالتیں خراب ہوچکی ہیں۔غلط اعتقادت پر ایسا زور دیا گیا ہے کہ حدّ اعتدال سے بہت تجاوز ہوگیا ہے اور اس حالت پر پہنچ گیا ہے جسکو اعتداء کہتے ہیں۔
اسلام پر عیسائیت کی یلغار
ساری قوموں کو دیکھو کہ تیرہ سو برس سے بالکل خاموش اور چپ چاپ تھے اگرچہ اسلام کے ساتھ ان کی لڑائیاں بھی ہوتی رہیں مگر وہ شوخیاں اور شرارتیں جواب اسلام کے استیصال اور نا بود کرنے کے واسطیکی جاتی ہیں نہیں کی جاتی تھیں اور وہ مذہبی زہر نہ تھا جو آج ہے۔پچاس برس پہلے اگر ان کتابوں کو تلاش کریں جو اسلام کے خلاف لکھی گئی تھیں تو شاید ایک ۱؎ ایک بھی نہ ملے،لیکن اب اس قدر کتابیں۔اخبارات اور رسالے۔اشتہارات نکلتے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جاوے تو ایک پہاڑ بن جاوے۔بعض پرچے عیسائیوں کے کئی کئی لاکھ طبع ہوتے ہیں۔۲؎ جن میں ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے۔ایسا مجدّد،مصلح اور پاک رسولﷺ جو ایسے وقت آیا جبکہ دنیا نجاست سے بھری ہوئی تھی اس وقت آپ نے دنیا کو ایک پاک صاف کیا اور اس مردہ عالم کو زندہ کیا۔اس کی پاک شان میں وفحش گالیاں دی جاتی ہیں جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر میں سے کسی کو بھی نہیں دی گئیں۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ ان کم بختوں نے آنحضرت ﷺ ہی کو نشانہ بنایا ہے ایک عاجز ابن آدم کو خدا بنایا جاتا ہے اور بد عملی اور بے حیائی اور جرات سے کیا جاتا ہے۔ام الخبائث (شراب)پانی کی طرح پی جاتی ہے ۳؎ مگر اس پر بھی آنحضرت ﷺ جیسے پاک ومچہر انسان کی پاک ذات پر حملے کرنے کے لیے زبان کشائی کرتے ہیں ۔ان کے ملکوں میں جاکر اگر کوئی عفت اور پارسائی کا نمونہ دیکھنا شاہے تو اسے معلوم ہوگا کہ کفار کے کیا کیا برکات ان پر نازل ہوئے ہیں۔
جو ۴؎ بڑے مہذب کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمہ تن دنیا ہی کی طرف جھکے ہوئے اور ایسے سرنگوں دنیا کے سامنے ہوئے ہیں کہ انہوں نے دنیا ہی کو خدا سمجھ لیا ہے۔ان کے نذدیک اشاء اللہ کہنا بھی ہنسی کی بات ہے توجہ الی اللہ اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا خطرناک غلطی اور حماقت ہے اور ان کے اثر سے ہزاروں لاکھوں انسان تباہ ہورہے ہیں اور باوجود یکہ یہ حالت ان لوگوں کی ہو چکی ہے لیکن اسلام کے استیصال کے لیے وہ لاکھوں کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہارہے ہیں مگر یاد رکھو کہ اسلام ان کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتا۔اس کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے۔
علماء اسلام کی حالت
اب اسلام کی اندرونی حالت دیکھو۔فیض کا چشمہ علماء ۱؎تھے مگر انکی حالت ایسی قابلِ رحم ہوگئی کہ اس کے بیان کرنے سے بھی شرم آجاتی ہے۔جس غلطی پر کوئی اڑ گیا ہے یا جو کچھ اس کے منہ سے نکل گیا ہے۔ممکن نہیں کہ وہ اسے چھوڑ دے۔اس غلطی کو جس نے ظاہر کیا۔جھٹ پٹ اسے کافراور دجّال کا خطاب مل گیا۔حالانکہ ۲؎ صادق اور راستباز کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جہاں اسے کسی اپنی غلطی کا پتہ ملا وہ اسے وہیں چھوڑ دیتا ہے اسے ضداور اصرار اپنی غلطی پر نہیں ہوتا۔مختلف فرقہ بندیاں باہمی تحقیر،قرآن اور اسلام سے بے خبری صاف طور پر ان کی حالت کو بتارہی ہے۔جو باتیں صرف دنیا تک ہیں ان کی سزا اوراثر بھی دنیا ہی تک محدودہے مگر جو امور عاقبت کے متعلق ہیں ان میں اگر سستی اور بے پروائی کی جاوے تو اس کا نتیجہ جہنم ہوتا ہے۔
مَیں بعض وقت ان لوگوں کی حالت دیکھ کر سخت حیران ہوجاتا ہوں اور خیال گذرتا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ پریقین نہیں ۳؎ ورنہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ آیات ونشانات دیکھتے ہیں ۔ہم دلائل پیش کرتے ہیں مگر ان پر کچھ بھی اثر نہیں ہو تا مو من کے سامنے اگر اللہ تعالیٰ کا کلام پیش کیا جاوے وہ فوراً ڈر جاتا ہے اور جرأت سے اس کی تکذیب پر لب کشائی کرتا مگر ان کی عجب حالت ہے کہ ہم اپنی تائید میں اول تو یہ پیش کرتے ہیں کہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور پھر اپنی تا ئید ِدعویٰ میں ہم آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ دونوں سے انکار کرتے ہیں اور پھر جب آنحضرتﷺ کی شہادت پیش کرتے ہیں اس سے ہی تر ساں ہو جاتے ہیں مگر اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہو تا خدا تعالیٰ کے نشان دیکھتے ہیں تکذیب کرتے ہیں عقلی دلا ئل کا اثر نہیں غرض جو طریق ایک راستباز کی شناخت کے ہو سکتے ہیں وہ سب پیش کئے جاتے ہیں لیکن ایک بھی نہیں مانتے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ لکھا ہے ۱ ؎ کہ وہ ایک مرتبہ بھاگتے جاتے تھے کسی نے پو چھا کہ کیوں بھاگتے جاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ جاہلوں سے بھاگتا ہوں ۔اس نے کہا ان پروہ اسمِ ۲؎ اعظم کیوں نہیں پھونکتے انہوں نے کہا کہ وہ اسم اعظم بھی ان پر اثر نہیں ہو تا ۔
حقیقت میں جہالت بھی ایک خطر ناک موت ہے مگر یہاں سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسا جہل ہے قرآن پڑھتے ہیں تفسیر یں کرتے ہیں حدیث کی سند رکھتے ہیں مگر جب ہم پیش کرتے ہیں تو انکار کر جاتے ہیں یہ نہ خود مانتے ہیں اور نہ اَوروں کو ماننے دیتے ہیں ۔
یہ ا یسا زمانہ آگیا ہے کہ انسان کی ہستی کی غرض وغایت کو بالکل بھلا دیا گیا ہے خود خدا تعا لیٰ انسانی خِلقت کی غرض تو یہ بتا تا ہے ۔
وما خلقت الجن والا نس الا لیعبدون ۔(لذریات :۵۷)
مگر آج عبودیت سے نکل کر نا دان انسان خود خدا بننا چاہتا ہے اور وہ صدق ووفا ،راستی اور تقویٰ جس کو خدا چاہتا ہے مفقود ہے بازار میں کھڑے ہو کر اگر نظر کی جاوے تو صدہا آدمی اِدھر سے آتے اور ادھر چلے جاتے ہیں لیکن ان کی غرض اور مقصد محض دنیا ہے ۔
خدا تعالیٰ کی خاطر امورِدنیا کی بجاآوری
خدا تعالیٰ اس سے تومنع نہیں کرتا کہ انسان دنیا میں کام نہ کرے۳؎۔ مگر بات یہ ہے کہ دنیاکیلئے نہ کرے بلکہ دین کے لیے کرے تو وہ موجب برکات ہو جاتا ہے مثلاً خدا تعالیٰ خود فر ماتا ہے کہ بیو یوں سے نیک سلاک کرو۔
عاشرومن بالمعروف (النساء:۲۰)
لیکن اگر انسان محض اپنی ذاتی اور نفسانی اغراض کی بنا پر وہ سلوک کرتا ہے تو فضول ہے اور وہی سلوک اگر اس حکمِ الہی کے واسطے ہے تومو جب برکات ۔مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ جوکچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لیے کرتے ہیں محبت دنیا ان سے کراتی ہے خدا کے واسطے نہیں کرتے اگراولاد کی خواہش کرے تواس نیت سے کرے
واجعلناللمتقین اماماً(الفرقان:۷۵)
پر نظر کر کے کرے کہ کو ئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلا ئکلمتہ الا سلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دیدے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یااَور ملک ہے وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اسکو نہ لے جائے مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تو مرگیا تو تیرے لیے دوست دشمن اپنے بیگا نے سب برابرا ہیں مَیں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جواس جائداد کی وارث ہو ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کو ئی شریک لے جاوے اولاد ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے برخلاف اس کے مومن اگر مکان بناتا ہے تو اس میں بھی اس کی نیت دین ہی کی ہو تی ہے لباس ،خوراک ،اس کا پھر نا غرض ہر کام دین ہی کے واسطے ہو تا ہے وہ خوراک کھا تا ہے مگر مو ٹا ہو نے کے واسطے نہیں بلکہ اس طرح ے یکہ بان کچھ دور جا کر اپنے ٹٹو کو نہاری اور خوراک دیتے ہیں تا کہ وہ اگلی منزل چلنے کے واسطے تیار ہو جائے اور دم نہ نکل جائے مومن کی غرض بھی خوراک سے یہی ہو تی ہے کیو نکہ نفس کا بھی تو ایک حق ہوتا ہے اور اہل وعیال کا بھی اور پھر خدا تعالیٰ کا حق الگ ہے اگر نفس کے حق کی رعایت نہ ہو تو پھر وہ مَرجائے گا اور یہ جو ابدہ ہے ۔
پس یادر کھو کہ مومن کی غرض ہر آسائش ،ہر قول وفعل ،حرکت وسکون سے گو بظاہر نکتہ چینی ہی کا موقعہ ہو مگر دراصل عبادت ہو تی ہے بہت سے کام ایسے ہو تے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر خدا کے نزدیک عبادت ہو تی ہے ۱ ؎ لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی *** کا طوق ہو جاتی ہے ۔
مو منوں کو
کلواواشربوا(الطور:۲۰)
کا حکم دیا اور جو خدا کے لیے نماز نہیں پڑھتے ان کو
ویل للمصلین(الماعون:۵)
فر مایا
کلوا
ایک امر ہے جب مومن اس کو سمجھ کر بجالاوے تو اس کا ثواب ہو گا ۔اسی طرح
عاشر وھن بالمعروف(النساء:۲۰)
امر کی بجاآوری سے ثواب ہو تا ہے لیکن اگر ریا کاری سے نماز بھی ادا کرے تو پھر اس کے لیے ویل ۲؎ ہے ۔
احیاء دین کا سلسلہ
اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے ۔تمام اخلاقِ ذمیمہ بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص جس کا ذکر
مخلصین لہ الدین۔(البینۃ:۶)
میں ہوا ہے آسمان پر اُٹھ گیا ہے۔ ۱؎
خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق ،وفاداری،اخلاص،محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہوگئے ہیں۔اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے وہ خدا جو ہمیشہ
یحی الارض بعد موتھا (الحدید:۱۸)
کرتا رہاہے اس نے ارادہ کیا ہے اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئی ہیں۔ایک طرف مامور کو بھیج دیا ہے جو نرم الفاظ میں دعوت کرے اور لوگوں کو ہدایت کرے۔دوسری طرف علوم وفنون کی ترقی ہے اور عقل آتی جاتی ہے اب وہ وحشیانہ حالت سکِھوںکے زمانہ کی سی نہیں رہی اور لوگ سمجھنے لگے ہیں۔ایک طرف اتمامِ حجت کے لیے آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے۔چنانچہ جب کتاب نزول لمسیح چھپ کر شائع ہوگی۔اس وقت سب کو پتہ لگ جائے گا کیونکہ اس میں ڈیڑھ سَو کے قریب ایسے نشانات لکھے ہیں جن کے ہزاروں لاکھوں گواہ موجود ہیں۔
اورپھر قہری نشانات کا سلسلہ بھی رکھا گیا ہے جن میں سے طاعون کا بھی ایک نشان ہے اور اب جو اس شدّت سے پھیل رہی ہے کہ کبھی گذشتہ نسلوں نے نہ دیکھی ہوگی اور بہت سے لوگ ہیں جو ان نشانات اور آیات سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں کوئی دن نہیں جاتا کہ لوگ بذریعہ خطوط یا خود حاضر ہوکر داخل بیعت نہیں ہوتے اگرچہ دنیا میں فسق وفجور اور شوخی و آزادی اور خودروی بہت بڑھ گئی ہے تاہم یہ لوگ جو ہمارے سلسلہ میں آتے ہیں یہ بھی اسی جماعت میں سے نکل نکل کر ّتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید بھی انہی میں ملے ہوئے ہیں۔خدا تعالیٰ ان لوگوں کو نکال لے گا اور ان کو سمجھ دے گا اور کچھ طاعون کا نشانہ ہو جائیں گے اسی طرح پر دنیا کا انجام ہوگا اور اتمامِ حجت ہوگی۔ ۲؎
(الحکم جلد ۸نمبر۸صفحہ۸،۹مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
اس مقام پر جناب محمد ابرہیم خاں صاحب ابن حاجی موسیٰ خاں برادرزادہ خان بہادر مراد خاں مرحوم نے کراچی (علاقہ سندھ)کا ذکر کیا کہ وہاں کے لوگ بہت غافل ہیں اور ان کو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہے۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
مطلق جاہل سے انسان گھبرا جاتا ہے۔بہرحال کچھ تو پڑھے لکھے وہاں ہیں اور انگریزی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اگرچہ انگریزوں کی تعلیم کا مضراثر کتنا ہی کیوں نہ ہو مگر تاہم یہ گائدہ ضرور ہے کہ فہم میں وسعت اور باتوں کے سمجھنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور ہمیںایسے ہی آدمیوں کی ضرورت ہے۔رفتہ رفتہ پیدا ہو ہی جاویں گے۔وحشی لوگ جن کو کھانے پینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ان سے انسان کیا کلام کر سکت ہے۔اس تعلیمیا فتہ گروہ پر اگر چہ دنیا کا حجاب ہے مگر تاہم سعد فطرت لوگ سمجھ سمجھ کر ہماری جماعت میں آرہے ہیں۔اب ہماری جماعت کا ایک حصّہ انہی میں سے ہے۔ہم خود تو کسی کو یہاں بیٹھے ہوئے بلا نہیں رہے آخر خود ہی سمجھ کر آرہے ہیں۔
غرضکہ فہم اور عقل والے پر بڑی امید ہوتی ہے۔نرے ڈنگر(بیل)سے انسان نے کیا بات کرنی ہے۔لوگوں کو کچھ ملانوں نے خراب کیا ہے کچھ جاہل فقیروں نے اور بعض لوگ لنگوٹی پوشوں کے معتقد ہوتے ہیں۔کچھ ہی کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ کے کام ُرکانہیں کرتے۔اگر ایک شخص زمین پر باغ بناتا ہے تو اوآل دیکھ لیتا ہے کہ باغ کے قابل زمین ہے کہ نہیں۔اگر اسے بنجر پاتا ہے تو صاف کرتا اور پھوڑتا اور ڈھیلوں کو یوڑتا ہے تب باغ بناتا ہے۔پس وہ مالک الملک جو کہ اب یہ باغ تیار کرنے لگا ہے آخر اس نے دیکھ لیا ہوگا کہ کچھ سعید چبائع بھی ہیںاسی تعلیم کی برکت سے کئی لوگ ہماری کتب کو دیکھ کر ہدایت پاگئے ہیں حالانکہ ابتدا میں سخت مخالف تھے۔
خدا کے وعدے برحق ہیں
ایک عقلمند بیشک گھبراہٹ میں پڑتا ہے کہ صلیبی فتنے اور کارروائیاں حددرجہ تک تر قی کر چکے ہیں ان کی کتابیں دور دورتک پھیل گئی ہیں مجموعی حالت میں ان کی جان توڑکو ششون کو دیکھا جاتا ہے تو ناامیدی ہو جاتی ہے کہ الہیٰ ان کا استیصال کیسے ہو گا اور صفحئہ زمین پر توحید کیسے پھیلے گی؟ کل اسباب اسلام کے ضعف کے موجود ہیں اور صلیب کا زور ہے مگر ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اس کا ارادہ ہو کر رہتا ہے ۔
الم لعلم ان اللہ علی کل شئی ء قدر (البقرۃ:۱۰۷)
صرف ایک ہی بات ہے جو بھروسہ دلا تی ہے اگر چہ کیسی ہی مشکلات آپڑیں اور عقل فتو ے دیوے کہ اب اسلام دوبارہ قائم نہیں ہو سکتا لیکن مَیں اس بات کو نہیں مانتا جب خدا تعالیٰ ارادہ کرتا ہے تو کرکے رہتا ہے اس قسم کی رائیں ہمیشہ ہو تی رہتی ہیں اور غلط بھی ثابت ہو رہی ہیں آنحضرت ﷺ جس زمانہ میں معبوث ہو ئے کیا ان کی نسبت اہل الرائے کی یہ رائے تھی ؟ کو ن تھا یہ یقین کرتا کہ ایک غریب جس کے پاس نہ قوت نہ شوکت نہ فوج نہ مال ہے اور ہر طرف مخالفت ہے وہ کا میاب ہو کر رہے گا اور جو وعدے فتح اور نصرت اور اقبالمندی کے وہ دیتا ہے پورے ہو کر رہیں گے مگر باوجود اس نا امیدی کے پھر کیسی امید بند ھ گئی اور تمام وعدے پورے ہوگئے۔
الیوم اکملت لکم دینکم(المائدہ :۴)
کی گواہی مل گئی اور پھر
اذاجاء نصراللہ والفتح(النصر:۲)
کی سورۃ نازل ہو ئی ایسے ہی ممکن ہے کہ کوئی ہماری جماعت کا یہ خیال کر بیٹھے کہ اس صلیبی جال کا ٹوٹنا محال ہے مگر مَیں سنا تا ہوں کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے ابھی اس کے پاس بہت سی راہیں ہو ں گی جن سے فتنہ مٹے گا اور ان کا ہمیں علم نہیں ہمارا اس بات پر ایمان چاہیئے کہ اس کے وعدے برحق ہیں اگر تما م اسباب اس کے منافی نظر آویں پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے اگر ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ نہ ہو تو پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے وعدہ اس کا کمزور ہو سکتا ہے جس کی قدرت اور اختیار کمزور ہو ہمارے خدا میں کو ئی کمزوری نہیں ہے وہ بڑا قادر ہے اور اس کی حرکت جاری ہے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ اسی ایمان کو ہا تھ میں رکھے ۔
بعض جماعت پر ابتلا بھی آتے ہیں اور تفرقہ پڑ جاتا ہے جیسے آنحضرتﷺ کے صحابہ مکہ سے مدینی اور حبشہ کی طرف منتشر ہو گئے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کو پھر ایک جاجمع کر دیا ۔ابتلا اس کی سنت ہے اور ایسے زلزلے آتے ہیں کہ
متی نصر اللہ (البقر:۲۱۵)
کہنا پڑتا ہے اور بعض کا خیال اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے وہ وعدے غلط ہوں مگر انجام کار خدا کی بات سچی نکلتی ہے ۔
حقانیت ِاحمدیت
یہ سلسلہ اپنے وقت پر آسمان سے قائم ہوا ہے اگر اَور سب دلا ئل نظر انداز کر دیا جا وے تو صرف وقت ہی بڑی دلیل ہے صدی سے بیس سال بھی گذرگئے خدا کا وعدہ قرآنِشریف اور احادیث میں ہے کہ وہ مسیح صلیبی فتنہ کے وقت پیدا ہو گا اب ان فتنوں کا زور دیکھ لو ۔رپورٹوں سے معلوم ہو تا ہے کہ تیس لا کھ مرتد موجود ہے حالا نکہ اس سے بیشتر اہل اسلام میں ایک مرتد ہو تا تو قیامت آجاتی کیا اس وقت بھی خدا خبر نی لے ؟ پھر عملی حالت کو دیکھ لو کہ کس قدر ردیّ ہے نام کو تو مسلمان ہیںمگر کر تو ت یہ ہے کہ بھنگ چرس وغیرہ نچوں میں مبتلا ہیں کیا اب بھی وقت نہیں ہے ؟ عیسائی لوگ بھی منتظر ہیں اور یہی وقت بتلاتے ہیں اہل کشف نے بھی یہی لکھا ہے قرآن وعلامات بھی اسی کو بتلارہے ہیں مگر اگر اس وقت خدا خبر نہ لیتا تو دنیا میں یا ضلالت ہو تی یا عیسویت جو قرآن پر اور اللہ پر ایمان لاتاہے اسے ماننا پڑتا ہے لیکن جو یہود کی طرح وقت کو ٹالنے والے ہیں وہ محروم رہتے ہیں ۔
سوادِاعظم کی حقیقت
پھر ایک دلیل سواداعظم کی پیش کرتے ہیں کہ وہ برخلاف ہے ۔نادان اتنا نہیں ہے جانتے کہ صلح تو اسی وقت آتا ہے جب لوگ بگڑ جاویں ابن بگڑے ہوؤں کا اتفاق اور شہادت کیا حکم رکھتی ہے؟ پیغمبر خدا ﷺ فر ماتے ہیں کہ مَیں مسیح کو معراج میں مرودں میں دیکھ آیا ہوں اور پھر قرآن ِشریف سے وفات ثابت ہے پس آنحضرتﷺ کا فعل اور خدا تعالیٰ کا قول دونوں سے وفات ثابت ہے یحییٰ تو مرچکے ہیں ان کے ساتھ ہی آنحضرتﷺ نے حضرت عیسیٰ کو دیکھا ہے پس اینی دیر تک جو مردہ کے پاس بیٹھا رہا وہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے علاوہ ازیں خدا تعالیٰ فر ماتا ہے کہ بلا نظیر کے کوئی بات قبول نہ کرو آنحضرتﷺ کی رسالت کے لیے اس نے نظائر پیش کئے مسیح کی حیات کے لیے بھی کو ئی نظیر ہو نی چاہیئے تھی۔
یہ زمانہ اسلام کیبہار کا ہے۔اگر ہم چُپ بھی کریں تو خدا تعالیٰ باز نہ آوے گا اور اصل میں ہم کیا کرتے ہیں وہ تو سب کچھ خدا ہی کررہا ہے ۔ہم تو صرف اسی لیے بولتے اور لکھتے ہیں کہ ثواب ہو اب اس کے فضل کا دروازہ کھل گیا ہے اور خدا نے جو ارادہ کر لیا ہے وہ ہو کر رہے گا۔دیکھو نہ ہمارے واعظ ہیں نہ لیکچرار ہیں نہ انجمنین ہیں مگر جماعت ترقی کر رہی ہے۔ہزاروں نے صرف خواب کے ذریعہ سے بعیت کی۔کوئی ان کو بتلانے اور سمجھانے والا نہ تھا۔آخر خدا نے دستگیری کی۔کیا ہماری طاقت تھی کہ ہم کچھ کر لیتے؟یہ اس کا ہاتھ ہے جو کر رہا ہے۔صدق ایسی شئے ہے کہ انسان کے دل کے اندر جب گھر کر جاوے تو اس کا نکلنا مشکل ہے۔جو لوگ ہمارے عقاید کو بعد تحقیق قبول کر لیتے ہیں تو جان سے زیادہ ان کو عزیز جانتے ہیں ایک نمونہ مولوی عبد اللطیف ہیں کہ ہزاروں مرید رکھتے ھے۔ریاست ان کی تھی۔دولت بھی بے شمار تھی۔شاہی دستار بند تھے۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر موت قبول کی۔کیا یہ قوت اور برکت جھوٹ میں ہوسکتی ہے؟کیا بجز سچائی کے اور بھی کسی میں یہ طاقت ہے؟یہاں(پنجاب میں بھی)نہت سے لوگ ہیں کہ صرف ایمان کے لیے تکلیف دیئے جاتے ہیں۔قوم،برادری اور گائوں والے ان کو طرح طرح کی اذّیت صرف اس لیے دیتے ہیں کہ انہوں نے سچ کو قبول کیا ہے پس اگر خدا تعالیٰ دلوں میں نہیں ڈالتا تو وہ ان مصائب کو کیونکر برداشت کرتے ہیں یہانتک کہ حقیقی باپ اور بھائی بھی ان لوگوں سے الگ ہو جاتے ہیںبعض ایسے ہیں کہ دو آنے روز محنت کرکے کماتے ہیں اور اس میں سے دو پیسے ہمیں چندہ دیتے ہیں۔تہجد پڑھتے ہیں نمازوں کے پابند ہیں۔خدا تعالیٰ کے آگے تضرع اور ابتہال کرتے ہیں۔اب سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان کو نورِایمان عطا کرے اور دلوں میں صدق ڈالے یہ سب کچھ کب حاصل ہو سکتا ہے۔دیکھنے اور سمجھنے کے لیے تو ایک نشان کتا براہین ہی بس ہے جیسے کہتے ہیں کہ ؎
حرفے بس است اگر درخانہ کس است
سمجھ دار آدمی کے لیے ایک ہی بات کافی ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ نے عمر کاوعدہ دیا۔بتلائو کوئی کہہ سکتا ہے کہ مَیں اتنے برس ضرور زندہ رہوں گا۔پھر جتنے وعدے براہین میں تھے ان میں سے اکثر پورے ہوگئے ہیں اور کچھ ابھی باقی ہیں۔اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس قدر نصرت کب شامل حال ہو سکتی ؟اور وہ وعدے اگر خدا کی طرف سے نہ تھے تو کیسے پورے ہوکر رہتے؟
پس وقت کو،زمانہ کو،ضلالت کو اندرونی اور بیرونی حالت کو دیکھو تو خود پتہ لگ جاتا ہے۔مخالفوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ راستی کا مقابلہ جان توڑ کر ہوا کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کا دیکھو کس قدر مقابلہ ہوا لیکن کیا مسلیمہ کی بھی مخالفت ہوئی۔ (البدر جلد ۳نمبر۱۰صفحہ۳،۴مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۲۲؍ ۱۹۰۴ء؁
(بوقت شام)
مامورین کی زندگی میں ابتلاء
مقدمات کی نسبت آپ نے فرمایا کہ یہ ایک منجانب اللہ ابتلا تھا جو کہ پیش آگیا۔سنت اللہ اسی طرح سے ہے کہ مامورین کی زندگی یونہی اس طرح آسائش سے نہیں گذرتی کہ وہ دنیا میں بیکار رہیں۔پھر آپ نے مولویوں کی حالت پر فرمایا کہ
ان لوگوں کے اعمال اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر خطبے پڑھنے سے ہمیں تعجب آتا ہے کہ آخر ان کے اعمال کا نتیجہ کیا ہے؟معلوم ہوتا ہے کہ اعمال پر بھی زنگ ہوتا ہے۔جس سے انسان کے صحیح عقئد بھی نظر نہیں آسکتے۔
وفاتِ مسیح علیہ السلام
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ کتان اللہ جس کا ایک ایک لفظ یقینی ہے وہ وفاتِ مسیح کو بیان کرتی ہے۔احادیث کا اجماع بھی یہی ہے اگر کوئی زندہ ہوتا تو صحابہ ؓ کو اس سے بڑھ کر اور کیا رنج ہوتا کہ صاحبِ شریعت سرورِ انبیاء آنحضرت ﷺ تو زمین میں مدفون ہوں اور ایک نبی جو کہ صاحب شریعت نہیں اور موسوی شریعت کا تابع وہ آسمان پر زندہ موجود ہو اور اس امّت کے اختلاف مٹانے اورفیصلہ کرنے کے لیے وہی آسمان سے آوے۔اب پوچھو کہ خاتم النبیاء کون ہوا؟حجرت مسیح یا آنحضرت ﷺ؟مگر پھر بھی یہ لوگ جو باز نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ شامتِ اعمال ہے۔تقویٰ تو نہیں رہا تھا۔عقلِ سلیم بھی ان میں نہیں رہی دنیوی عقل کے لیے تقویٰ کی ضرورت نہیں ہے مگر دین کے لیے ضرورت ہے۔اس لیے یہ لوگ دین کی باتوں کو بھی نہیں سمجھتے۔خدا تعالیٰ اسی کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے۔
لا یمسہ الا المطھرون(الواقعۃ:۸۰)
یعنی اندر گھسنا تو درکنار مس کرنا بھی مشکل ہے۔جب تک انسان مطہر یعنی متقی نہ ہولے۔
احادیث میں منکم ہے،قرآن میں منکم ہے۔پھر بغیر نظیر کے کوئی بات نہیں مانی جاتی۔عیسائیوں نے جب مسیح کے بن باپ ہونے سے اس کی خدائی کا استدلال کیا تو خدا تعالیٰ نے نظیر بتلا کر ان کی بات کو رد کر دیا۔فرمایا
ان مثل عیسی عند اللہ کمثل ادم (ال عمران:۶۰)
کہ اگر بن باپ ہونے سے انسان خدا ہوسکتا ہے تو آدم ؑ کی توماں بھی نہ تھی اسے خدا کیوں نہیں مان لیتے۔پس جب نصاریٰ کی اس بات کو خدا نے ردّ کردیا تو اگر مسیح بھی واقعی آسمان پر زندہ ہوتا اور عیسائی اسے خدائی کی دلیل گردانتے تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ردّکرتا اور چند ایک نظائر پیش کرتا کہ فلاں فلاں اور نبی زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ہر ایک پہلو سے ان لوگوں پو اتمامحجت ہو چکا ہے۔اب یہ لوگ مصداق
صم بکم عمی
کے ہیں۔بھلا دیکھو تو جس حال میں کی مَیں زندہ موجود ہوں کیا ان کا حق نہ تھا کہ مجھ سے آکر سوال کرتے پوچھتے اور اپنے شکوک وشہبات پیش کرتے۔مَیں نے بار ہا لکھا کہ ان کے اخرجاتِ سفر دینے کومَیں تیار ہوں یہاں آویں مکان بھی دونگا حتیٰ الوسعی مہمان نوازی بھی کروں گا لیکن یہ لوگ اِدھر رخ نہیں کرتے۔ہمیں کہتے ہیں کہ قرآن سے باہر ہیں حالانکہ قرآن ہی نے تو ہمیں اس کوچہ میں کھینچا ہے صرف فرق اتنا ہے کہ ہمیں قرآن کے معنے وحی نے بتلائے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے دیدہ دانستہ کیسے اپنی آنکھوں کو پھوڑ لیں۔
خدا تعالیٰ کا یہ فرض تھا کہ اگر عیسائی لوگ مسیح کو خدائی کے لیے خصوصیت پیدا کریں تو وہ اس کا ردّکرتا جیسے آدم کی مثال بیان کی۔کیا خدا کو اس خصوصیت کا علم نہ تھا کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے پھر اس کا اس نے کیوں ردّ نہ کیا؟اس طرح سے قرآن پر حرف آتا ہے اگر مسیح آسمان پر زندہ ہوتا اور عیسائی لوگ اس سے خدائی کی دلیل پکڑتے تو خدا تعالیٰ ضرور بیان کرتا کہ فلاں فلاں انبیاء بھی آسمان پر موجود ہیں اس سے کوئی خدا نہیں بن سکتا جبکہ چالیس کروڑ انسان اسے آگے ہی خدا مان کر گمراہ ہو رہے ہیں تو تم نے ان کے ساتھ مل کر اور وہاں میں ہاں ملا کر اس کی خدائی پر مہر لگا دی۔اس کا باعث صرف ان لوگوں کی بدعملی ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اورکھانے کے اور۔اور ایک ایک روپیہ لے کر فتوے بدل دیتے ہیں۔اندرونی راستبازی بالکل نیست ونابود ہوگئی اور اب حدیث شریف کے موافق بالکل یہودی ہوگئے ہیں۔یہ امید تو ہے نہیں کہ یہ لوگ ان سچائیوں کو مانیں ہاں ان کی ذریت مانے تو مانے۔
اس کے بعد آپ نے مقدمات کا تذکرہ کیا کہ
ان کی ابتدا کیونکر ہوئی۔کس طرح اول دین نے مولوی عبد لاکریم صاحب کو بذریعہ خطوط اطلاع دی کہ مہر علی شاہ نے فیضی متوفی کی کتاب سے سر قہ کیا ہے۔اس کی اطلاع پر کتاب نزول المسیح لکھی گئی۔پھر اس نے اپنے خطوط کے بر خلاف ایک مضمون سراج الاخبار میں لکھ کر سب وشتم کیا اور ان کو اپنی طرف منسوب کرنے سے انکار ی ہوا۔اس طرح سے ہمارا چلتا کام بند ہوگیا۔تنگ آکر حکیم صاحب نے دعویٰ کیا۔پھر کرم دین نے جہلم میں ہم پر ایک مقدمہ کیا وہ بڑا خطرناک مقدمہ تھا۔اس کے متعلق میں نے اول ہی خواب دیکھے تھے جو کہ شائع کردی تھی۔اس میں ہمیں کامیابی ہوئی۔پھرکرم دین نے خودہم پر استغاثہ دائر کیا۔وہ مقدمات ابھی چل رہے ہیں۔منصب حاکم کو تو خود خبر نہیں ہوتی کہ انجام کار مقدمہ کی کیا صورت ہوگی۔ہماری تائید تو ہمیشہ خدا تعالیٰ سے ہوتی ہے ورنہ جمہوری چور پر تو حکام کا میلان ہماری طرف کم ہی ہوتا ہے اور سوائے پر وردگار کے اور کس کی ذات ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔زمین پر کیسے ہی آثار نظر آویں مگر بار بار حکم آسمان سے آتا ہے کہ
تری نصرا من عند اللہ
وہ آخر ہو کر رہے گا ؎
بنگر کہ خون ناحق پروانہ شمع را
چنداں اماں نداد کہ شب راسحر کند
(البدر جلد ۳نمبر۱۰صفحہ۵مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۲۳؍فر وری۱۹۰۴؁ء
(بوقت شب)
ہر ایک معجزہ ابتلاء سے وابستہ ہے
مقدمہ کی موجود صورت پر حضور مسیح موعود علیہ السلام نے فر مایا کہ
یہ ایک ابتلاء ہے کو ئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلانہ آئے ہوں مسیح علیہ السلام کو قید کیا گیا اور کیا کیا اذیت دی گئی موسیٰعلیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔آنحضرتﷺ کا محاصرہ کیا گیا مگر بات یہ ہے کہ عاقبت ببجیر ہو تی ہے اگر خدا کی سنت یہ ہو تی کہ مامورین کی زندگی ایک تنعّم اور آرام کی یو اور اس کی جماعت پلااؤزرد ے وغیرہ کھا تی رہے تو پھر تو اَور دنیا داروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا ؟ پلاؤ زرد ے کھا کر
حمد اللہ وشکر اللہ
کہنا آسان ہے اور ہر ایک بے تکلف کہہ سکتا ہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی وہ اسی دل سے کہے۔
مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں ہلاکت کا خوف ہوتا ہے طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں
کذبوا
کے یہی معنے ہیں دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے کیو نکہ جو کچے ہو تے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہو تا ہے جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہو جاتے ہیں ۔میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب ابتلاء نہ ہو تو کو ئی نشان ظاہر نہیں ہوتا خدا کا اپنے بندوںبڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فر ماتا ہے
وبشر الصابرین الذین اذاصابتھم مصیبۃقالو اانا للہ وانا الیہ راجعون(البقرۃ:۱۵۶،۱۵۷)
یعنی ہر ایک مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہو تا ہے خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جواستقامت اختیار کرتے ہیں خوشیکے امام اگر چہ دیکھنے کو لذیذہو تے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اوراس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاًکسریٰ اگر آنحضرتﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات ماراگیا کیسے ظاہر ہوتا اور ااگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو
انا فتحنالک فتحامبینا(الفتح:۲)
کی آواز کیکیسے سنائی دیتی ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کو ئی تعلق نہیں ہے کا میابی پر کا میابی ہوتو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیںہے حالا نکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے اس لیے ضرور ہے کہ درد ناک حالیتں پیدا ہوں۔
نومبایعین کیلئے نصیحت
اسکے بعد عالی جناب محمدابراہیم خان صاحب ابن موسیٰ صاحب برادرزادہ مراد خان صاحب مرحوم آمد ہ ازکراچی اور خان صاحب گلزار خان اور دیگر چند ایک احباب نے بیعت کی بعد بیعت حضور علیہ ا لصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر فر مائی :۔
ضروری نصیحت یہ ہے کہ ملاقات کا زمانہ بہت تھوڑا ہے خدا معلوم بعد جدائی کے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہو یا نہ ہو یہ دنیا ایسی جگہ ہے کہ دم کا بھروسہ نہیں ہے اگر رات ہے تو کل دن کی زندگی کا علم نہیں ہے اگر دن ہے تو رات کی زندگی کی خبر نہیں اس لیے سمجھنا چاہیئے کہ اس سلسلہ کے دوحصے ہیں ۔
ایک حصہ تو عقائد کا ہے مختصر اً یادرکھو کہ جو بدعات ان میں حال کے لوگوں یا درمیانی لوگوں نے ملا دئیے ہیں ان سے پرہیز کیا جاوے یہ تصرف اسی قسم کا ہے کہ کچھ تو بدعات تک رہا ہے اور کچھ اس سے بڑھ کر شرک ہو گیا ہے جیسے عیسیٰؑ کو ایک خاص خصوصیت کل نبی نوع انسان وانبیائورسل سے دی جاتی ہے اور ہمارے نبی ﷺ کو اس سے ظاہر رکھا جاتا ہے جس سے آپ کی بڑی توہین لازم آتی ہے حالا نکہ خاتم الا نبیاء میں اور جب عائشہ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اخلاق کیا ہیں تو اس نے کیا قرآن شریف آپ کا خلق ہے جیسے عیسا ئی لوگ مسیح کی تعظیم اور آنحضرتﷺ کی تو ہین کرتے ہیں ویسے ہی آج کل کے مسلمان بھی کرتے ہیں فرق یہ ہے کہ مسیح کو خدا بناتے ہیں اور یہ خدا کے برا برا سے اقرار دیتے ہیں جیسے ایک میت پڑی ہو ئی ہو تو ایک شخص تو اے مردہ کہے گا دوسرا مردہ نہ کہے بلکہ مردہ والے صفات سب اس میں بتلاوے ۔
مسیح کے بارے میں اس قدر غلوکیاگیا کہ گو یا عیسائیوں کے ساتھ ہاتھ ملا دیا ہے وہ توحید جو آنحضرت ﷺلا ئے اس کا نام تک ان میں نہیں رہا صلیبی مذہب کس زور سے پکیل رہا ہے جس کا ذکر مَیں نے ابھی چند دن ہو ئے کیا تھا پس جب یہ حال ہے تو عقائد کی درستی بہت ضروری شئے ہے سچا،صحیح اور خدا کی مرضی کے موافق یہی مسئلہ ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور اگر وہ زندہ ہیں تو قرآن شریف باطل ٹھہرتا ہے آنحضرتﷺ کی شہادت جو بہت عزت کے قابل ہے یہ ہے کہ آپ اسے اموات میں یحییٰؑ کے پاس دیکھ آئے اگر ان کی روح قبض نہیں ہو ئی تھی تو دوسرے عالم میں کیسے چلے گئے قیام توحید کے لیے یہ مسئلہ بہت ضروری ہے کہ مسیح فوت ہو گئے اور جو اسے پورے یقین سے نہیں مانتا خطرہ ہے کہ وہ کہیں عیسائیت سے حصہ نہ لے لے یا ایک دن عیسائی ہی نہ ہو جائے انسان اسی طرح مرتد ہواکرتا ہے کہ ایک ایک جزو چھوڑتا ہوا آخر کار کل چھوڑ دیتا ہے دوسرے عقائد میں بہت اختلاف نہیں ہے صرف یہی عظیم الشان بات ہے جوخدا نے بتلائی ہے کہ مسیحؑ فوت ہو گیا ہے ۔
جو لوگ اس بارہ میں ہماری مخالفت کرتے ہی ان کے ہاتھ میں بجز اقوال کے اور کچھ نہیں ہے اگر وہ کہیں کہ قرآن کے مخالف احادیث میں نزول کا لفظ موجود ہے تو جواب ہے کہ اول تو وہاں
من السماء
نہیں لکھا کہ وہ ضرورآسمان سے ہی آوے گا دوسرے احادیث تو ۔
منکم
سے بھی بھری پڑی ہیں نزول اصل میںا کرام اور اجلال کا لفظ ہے خود آنحضرتﷺ نے اسے اپنے لیے استعمال فر مایا ہے حتیٰ کہ احادیث میں تو دجال کے لیے بھی نزول کا لفظ آیا ہے پھر کیا یہ سب آسمان سے آئے اور آویں گے ۔قرآن شریف سے یہی ثابت نہیں ہوتا مسیح دربارہ نہ آوے گا بلکہ یہ بھی کہ وہ مر گیا جیسا کہ آیت
فلماتوفیتنی(المائدۃ:۱۱۸)
بتلارہی ہے ۔
دوسرا حصہ یہ ہے کہ انسان صرف عقائد سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ اس کے ساتھ اعمال صالحہ کا ہو نا بھی ضروری ہے خدا نے اس با ت پر ہی کفایت نہیں کی کہ انسان کے لیے صرف
لا الہ الا اللہ
منہ سے کہہ دینا ہی کافی ہوورنہ قرآن شریف اس قدر ضخیم کتاب نہ ہو تی ایک فقرہ ہی ہوتا عقائد کی مثال ایک باغ کی ہے جس کے بہت عمدہ پھل اور پھول ہوں اور اعمال ِصالحہ وہ مصفیٰ پانی ہے جس کے ذریعہ سے اس باغ کا قیام اور نشوونما ہو تا ہے ایک باغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا کیوں نہ ہو لیکن اس کی آبپاشی اگر عمدہ نہ ہو تو آخر خراب ہو جاوے گا اسی طرح اگر عقیدہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن عمل صالح اگر اس کے ساتھ نہ ہو گا تو شیطان آکر تباہ کر دیگا ۔
تلاش کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی تک کل اہل اسلام کا یہی مذہب رہا ہے کہ کل نبی فوت ہو گئے ہیں چنانچہ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی مذہب تھا جب آنحضرت ﷺ نے وفات پائی تو صحابہؓ کا اجماع ہوا
حضرت عمرؓ وفات کے منکر تھے اور وہ آپ کو زندہ ہی مانتے تھے آخر ابو بکر ؓ نے آکر
مامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران :۱۴۵)
کی آیت سنائی تو حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ کو آپ کی موت کا یقین آیا اور اگر صحابہ کرامؓ کا یہ عقیدہ ہو تا کہ کوئی نبی زندہ ہے توسب اٹھ کر ابو بکر ؓ کی خبر لیتے کہ ہمارا عقیدہ مسیح کی نسبت ہے کہ وہ زندہ ہے تو کیسے کہتا ہے کہ سب نبی فوت ہو گئے ؟اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ زندہ نہ ہوں اگر بعض مرتے اور بعض زندہ ہو تے تو کسی قسم کا افسوس نہ ہو تا مگرغر یب سے لے کرامیرتک سب مرتے ہیں پھر مسیح کو کیسے زندہ مانا جاوے تیسری صدی کے بعود حیات مسیح کا اعتقاد مسلمانوں میں شامل ہوا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ نئے نئے عیسائی مسلمان ہو کر ان میں ملتے گئے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک نئی قوم کسی مذہب میں داخل ہوتو اپنے مذہب کی رسوم اور بدعات جو وہ ہمراہ لاتی ہے اس کا کچھ حصہ نئے مذہب میں مل جاتا ہے ایسے ہی عیسائی جب مسلمان ہو ئے تو یہ خیال ہمراہ لائے اور رفتہ رفتہ مسلمانوں میں پختہ ہو گیا ہاں جن لوگوں نے ہمارا زمانہ نہیں پایا نپ اس مسئلہ پر انہوں نے بحث کی وہ
تلک امۃ قدخلت(البقرۃ:۱۳۵)
کے مصداق ہو ئے لیکن اب جو ہمارے مقابلہ پر آئے اور اتمام حجت ان پر ہوا وہ قاتل اعتراض ٹھہر گئے ہیں اگر ان لوگوں کے اعمال صالحہ ہو تے تو یہ عقیدہ ان میں رواج نہ پاتا جب وہ چھوٹ گئے تو ایسے ایسے عقائد شامل ہو گئے ۔
اعمال ِصالحہ کثرت سے بجالائیں
پس جو شخص ایمان کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہ اعمال صالحہ میں ترقی کرے یہ روحانی امورہیں اور اعمال کا اثر وقائد پر پڑتا ہے جن لوگوں نیبدکاری وغیرہ اختیا ر کی ہے ان کو دیکھو تو آخر معلوم ہو گا ان کا خدا پر ایمان نہیں ہے حدیث شریف میں اسی لیے ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اس کے یہی معنے ہیں کہ اس کی بداعمالی نے اس کے سچے اور صحیح عقیدہ پر اثر ڈال کراسے ضائع کردیا ہے ہماری جماعت کو چا ہیئے کہ اعمال کثرت سے بجالاوے اگراس کی بھی یہی حالت رہی جیسے اوروں کی تو پھر امتیاز کیا ہوا؟ اور خدا تعالیٰ کو ان کی رعایت اور حفاظت کی کیا ضرورت ؟خدا تعالیٰ اسی وقت رعایت کرے گا ،جب تقویٰ ،طہارت اور سچی اطاعت سے اسے خوش کروگے یاردکھو کہ اس کا کسی سے کچھ رشتہ نہیں ہے محض لاف اور وہ گوئی سے کوئی بات نہیں بناکرتی ۔
سچی اطاعت ایک موت ہے ۔ جو نہیں بجالاتا وہ خدا تعالیٰ سے شطرنج بازی کرتا ہے کہ مطلب کے وقت تو خدا سے خوش ہوتا ہے اور جب مطلب نہ ہو تو ناراض ہو گیا مومن کا یہ دستور نہین چاہیئے بھلا غور تو کرو کہ اگر خدا تعالیٰ ہر ایک میدان میں کامیابی دیتا رہے اور کوئی ناکامی کی صورت کبھی پیش نہ آے تو کیا سب جہاں موحد نہیں ہو سکتا ؟ اور خصوصیت کیا رہے گی اسی لیے جو مصیبت میں وفا اور صدق رکھے گا خدا تعالیٰ اسی سے خوش ہوگا ۔
نماز کو سنوار کرادا کریں
نماز ایسے اداد نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لیے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوزوگداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو نماز مشکلات کی کنجی ہے ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوااپنی مادی زبان میں بھی بہت دعاکیا کرو تا اس سے سوزوگداز کی تحریک ہو اور جب تک سوزو گدازنہ ہوا سے ترک مت کرو کیو نکہ اس سے تزکئیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے چاہئیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو اگر جسمانی طور ہرکھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا اگر جھکوتودل بھی ویسے ہی جھکے اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہو گی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے معر فت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سم الفار،سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہان کے نزدیک نہیں جاتا ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہپھٹکوگے اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھا ؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کرادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہو سکتی بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مضوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے مضوعات سے تو انسان کوایک صائع کے وجود کی ضرورت ثابت ہو تی ہے کہ ایک فاعل ہو ناچا ہیئے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ہے ۔ بھی۔’’ہو نا چاہیئے‘‘ اَور شئے ہے اور ’’ہے‘‘ اور شئے ہے اس ’’ہے‘‘ کا علم سوائے دعا کے نہیں حاصل ہوتا عقل سے کام لینے والے ’’ہے‘‘کے علم کو نہیں پاسکتے اسی لیے ہے کہ خدارابخدا تواں شناخت
لاتدرکۃالا بصلار
کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جوذریعے (اس)نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لیے
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم(الفاتحۃ:۶)
جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے ۔
اپنے بھائی کی غلطی دیکھ کراس کیلئے دعا کرو
صلاح تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہیئے مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی یہ لوگ آپس میں ذراسی بات سے چڑجاتے ہیں عام مجلس میں کیسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لیے دعا کرو خدا سے بچاکیوے یہ نہیں کہ منادی کرو جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتاہے کہ یہ براکام ہے اس سے باز آجاپس جیسے رفق حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں کرو جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیو نکہ اس میں تکبر کی ایک جڑہے اگر خدا راضی نہ ہو تو گو یا یہ برباد ہو گیا پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تواسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎
اس یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہیئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے چو نکہ خود تو وہ پابندان امور کانہیں ہو تا اس لیے آخر کار
لم تقولون مالا تفعلون(لصف:۳)
کا مصداق ہو جاتا ہے ۔
تقویٰ حاصل کرنے کا طریق
اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیت کرنی بہت مشکل ہے لیکن بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بعض اور کبرملا ہوا کرتا ہے اگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہو تے تو خدا تعالیٰ ان کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا بڑا سعید وہ ہے جواول اپنے عیوب کو دیکھے ان کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا رہے یادرکھو کہ کو ئی پاک نہیں ہو سکتا جبتک خدا اسے پاک نہ کرے جب تک اتنی دعا نہ کرے کہ مر جاوے تب تک سچی تقوے ٰ حاصل نہیں ہو تی اس کے لیے دعا سے فضل طلب کر نا چاہیئے اب سوال ہو سکتا ہے کہ اسے کیسے طلب کرنا چاہیئے تواس کے لیے تدبیر سے کام لینا ضروری ہے جیسے ایک کھڑکی سے اگر بدبو آتی ہے تواس کا علاج یہ ہے کہ یااس کھڑکی کو بند کرے یا بد نودار شئے کو اٹھا کر دور پھینک دے پس کو ئی اگر تقویٰ چاہتا ہے اور اس کے لیے تد بیر سے کام نہیں لیتا تووہ بھی گستاخ ہے کہ خدا کے عطا کردہ قویٰ کو بیکار چھوڑتا ہے ہرایک عطاء الہیٰ کو اپنے محل پر صرف کرنا اس کا نام تد بیر ہے جو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے ہاں جو نری تد بیر پر بھروسہ کرتا ہے وہ بھی مشرک ہے اور اسی بلامیں مبتلا ہو جاتا ہے جس میں یورپ ہے تدبیر اور دعا نونو کا پورا حق ادا کر نا چاہیئے تد بیر کرکے سوچے اور غور کرے کہ مَیں کیا شئے ہوں فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے ہزار تد بیر کرو ہرگز کام نہ آوے گی جب تک آنسونہ نہیں سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا ایک دن اور رات جس کی دعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا ہرروز دیکھنا چاہیئے کہ جو حق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں نماز کی ظاہری صورت پر اکتفاکرنا نادانی ہے اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالا نکہنماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں چاہیئے کہ اپنی نماز کو دعا سے مثل کھا نے اورسروپانی کے لذیذ اور مزیدار کرلو ایسا نہ ہو کہ اس پر ویل ہو۔
فضائل نماز
نمازخدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا من سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو ۔وفااور صدق کا خیال رکھو اگر ساراگھر غارت ہوتا ہو تو ہو نے دو مگر نمازکو تر ک مت کرو وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کوق منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع سے ہمارا فلاں فلں نقصیان ہوا ہے نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے ندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیر ینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا یہ دین کو درست کرتی ہے اخلاق کو درست کرتی ہے دنیا کو درست کرتی ہے نماز کا مزا دنیا کے ہرایک مزے پر غالب ہے لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہین اور پھر ان کا نیتجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جواسے ملتا ہے قرآن شریف میں دوجنتوں کاذکر ہے ہرایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔
نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھدی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے جیسے لٹکے اور لڑکی کی جب شادی ہو تی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہییے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو جو تعلق عبودیت کا بوبیت سے ہے وہ بہت گہرااور انوار سے پرہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے اگر دوچار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تواس چاشنی کا حصہ ممل گیا ،لیکن جسے دوچار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے
من کا ن فی ھذہ اعمی فھوفی الا خرۃ اعمی (بنی اسرائیل:۷۳ )
آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں ان باتوں کو فرض جان کرہم نے بتلادیا ہے ۔
اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک محدودنہ رکھو
متکبر دو سرے کا حقیقی ہمدرد نہیں ہو سکتا ۔اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک ہی محدودنہ رکھو بلکہ ہر ایک کے ساتھ کرو ۔اگر ایک ہندو سے ہمدردی نہ کرو گے تو اسلام کے سچے وصایا اُسے کیسے پہنچائو گے؟خدا سب کا ربّ ہے ۔ہاں مسلمانوں کی خصوصیت سے ہمدردی کرو اور پھر متقی اور صالحین کی اس سے زیادہ خصوصیت سے ،مال اور دُنیا سے دل نہ لگائو ۔اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تجارت وغیرہ چھوڑ دو بلکہ بایار اوردست با کار رکھو۔خدا کاروبا سے نہیں روکتا ہے بلکہ دنیا کو دین پر مقدم رکھنے سے روکتا ہے ۔اس لیے تم دین کو مقدم رکھو۔ (البدر جلد ۳نمبر۱۰صفحہ۵تا ۸مورخہ ۸؍ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۲۷؍فروری ۱۹۰۴؁ء
(دربارِشام )
آج اعلیٰحضرت حجتہ اللہ علی الارض علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مسجد کے بالائی حصہ پر نماز مغرب اداکی اور بعد ادائے نماز مغرب شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے چند مہمانوں نے اجازت روانگی حاصل کی بعض احباب خصوصاً سید تفضل حسین صاحب اٹاوی (جو گیارہ سال کے بعد آئے تھے )کو خطاب کر کے فر مایا کہ :
آمدن بارادت رفتن باجازت ۔آپ تو سمجھتے ہیں ہی ہیں کہ کب تک آپ کو ٹھہرنا چاہئیے ۔۱؎
اسی ضمن میں طاعون کی شدت کا ذکر ہو گیا اس پر آپ نے سلسلہ کلام یوں فر مایا :۔
اللہ تعالیٰ کیساتھ معاملہ صاف کرو
حقیقت میں سچے مسلمان بننے کااب وقت آیا ہے ۱؎ یقین بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ پر جس قسم کا یقین انسان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہے پس ضروری امریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صاف کروتا وہ بھی تم پر رحم کرے کیو نکہ سچ یہی ہے ۔
من کام اللہ کان اللہ لہ۔
طاعون سے وفات
احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ بعض صحابہؓ بھی طاعون سے فوت ۲؎ ہوئے لیکن ان کے لیے وہ شہادت تھی مومن کے واسطے یہ شہادت ہء ہے پہلی امتوں پر
رجذامن السماء(البقرۃ:۶۰)
تھی صحابہؓ کس قدر اعلیٰ درجہ رکھتے تھے لیکن ان میں سے بھی اس کا نشانہ ہو گئے اس سے ان کے مومن میں کو ئی شبہ نہیں ابوعبیدہ بن الجراح جیسے صحابی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑے ہی عزیزتھے طاعون ہی سے شہید ہو ئے تھے طاعون سے مرنا عام مومنوں کے لیے تو کوئی حرج نہیں البتہ جہاں انتظام الہیٰ میں فرق آتا ہے وہاں خدا تعالیٰ ایسا معاملہ نہیں کرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا کو ئی مامور ومرسل طاعون کا شکار نہیں ہو سکتا اور نہ کسی اور خبیث مرض سے ہلا ک ہو تا ہے کیو نکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے انتظام میں بڑانقص اور خلل پیدا ہوتا ہے پس انبیاء ورسل اور خدا کے مامور ان مراض سے بچائے جاتے ہیں اور یہی نشان ہوتا ہے ۔
صحابہؓ کی خصوصیت پر ضمنی تذکرہ
حضرت حکیم الامت نے غرض کی کہ حضور یہ ایک بڑی عجیب بات ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ سے ایک بھی بہرہ نہ تھا ۱؎۔
اس پرامام الملۃ نے فر مایا کہ
چونکہ اس وقت خدا تعالیی کا کلام نازل ہورہاتھا اور اس امرکی ضرورت تھی کہ صحابہؓ اسے سنیں اور روایت کرکے دوسروں تک پہنچائیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے صحابہؓ کواس بہرہ پن سے محفوظ رکھا ایسے وقت اگر آنکھ نہ ہو تو کام ہو سکتا ہے لیکن کان کے بغیر کام نہیں چل سکتا ان حقائق ومعارف کو جو خدا تعالیٰ کا مرسل کے کر آتا ہے سننے کی بہت بڑی ضرورت ہو تی ہے ۔
پہلے کلام کی طرف رجوع
غرض یہ مقام ڈرنے کا ہے کیو نکہ طاعون بڑی شدت کے ساتھ پھیل رہی ہے اور جو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ صاف نہیں کرتا وہ بڑے خطرہ کی حالت میں ہے نفاق کام نہیں دیگا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فر مایا ہے
الذین امنواولم یلبسوایمانھم بظم(الا نعام:۸۳)
موجودہ حالت امن پر بے خطرہ ہو جاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ امن میں زندگی گذراتا ہوں مگر یہ غلطی ہے کیو نکہ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ سابقہ زندگی میں کیا ہوا ہے اور کیا کیا بے اعتدالیاں اور کمزوریاں ہو چکی ہیں اسی واسطے مومن کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کبھی بے خوف نہ ہو اور ہر وقت توبہ اور استغفار کرتا رہے کیو نکہ استغفار سے انسان بدیوں کے برے نتائج سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بچ رہتا ہے یہ سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار ۱ ؎ سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے ۔
ان اللہ یحبالتوابین ویحب المتطھرین۔(البقرۃ:۲۲۳)
سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ مین ہو تا ہے پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آنئدہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کرلے اس طرح پر خدا کے اولیا ء میں داخل ہو جائیگا اور پھر اس پر کوئی خوف وجزن نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا ہے
ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولا یحذنون(یونس:۶۳)
اولیاء اللہ
خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ نے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں اس لیے استغناء ایک شرط کے ساتھ ہے ۔
ولم یکن لہولی من الذل(بنی اسرائیل:۱۱۲)
یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھڑکر کسی کو دلی نہیں بناتا۲؎ بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنے مقرب بنالیتا ہے اس کو کسی کی کو ئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے ہزاروں ہزار فوائد اور امور ہو تے ہیںجو اس کے لیے مفیدثابت ہو تے ہیں اللہ تعالیٰ اسکی دعائیں قبول کرتا ہے اور نہ صرف اسکی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل وعیال اس کے احباب کے لیے بھی برکات رطاکرتا ہے اور صرف یہانتک ہی نہیں بلکہ ان مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہو تے ہیں اور ان زمنیوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور ان کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں ۔
اصل یہ ہے کہ دل
ولی اللہ
بننا ہی مشکل ہے بلکہ اس مقام کا سمجھنا ہی دشوار ہو تا ہے کہ یہ کس حالت میں کہا جاوے گا کہ وہ خدا کا ولی ہے انسان اسنسان کے ساتھ ظاہری داری میں خوشامد کر سکتا ہے اور اس کو خوش کر سکتا ہے خواہ دل میں ان باتوں کا کچھ بھی اثر نہ ہو ایک شخص کو خیر خواہ کہہ سکتے ہیں مگر حقیقت میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خیرخواہ ہے یا کیا لیکن اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ اس کی اطاعت ومحبت کس رنگ سے ہے ۔
پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ فریب اور دغانہیں ہو سکتا کو ئی اس کو دھوکا نہیں دے سکتا ۱؎ جب تک سچے اخلاص اور پوری وفا داری کے ساتھ یک رنگ ہوکر ہو کر خدا تعالیٰ کا نہ بن جاوے کچھ فائدہ نہیں۔
یادرکھو اللہ تعالیٰ کا اجتبااور اصطفا فطرتی جو ہرسے ہوتا ہے ممکن ہے گذشتہ زندگی میں وئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو لیکن جباللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمند نہیں کرتا نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگذر کرتا اور عفوفر ماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بدقسمتی اور شامت ہے ۔
صفائی قلب
برکات اور فیوضِ الہیٰ کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے۔جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں۔چاہئیے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو۔جب یہ حالت ہو تو پھر الہیٰ نظر کیساتھ تجلیات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔اس کے لیے ایسا وفا دار اور صادق ہونا چاہئیے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے نمونہ دکھایا۔جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہیتو وہ بابرکت آدمی ہوجاتا ہے۔پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلت نہیں آٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ اس پر خداتعالیٰ کے فضل واحسان کے دروازے کھولے جاتے ہیںاور مستجاب الدعوات ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو *** زندگی۲؎سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ جو خداتعالیٰ سے سچّا اور کامل تعلق رکھتا ہوتو خدا تعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کردیتا ہے اسے نامراد نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ کی صفتِ قادرو کریم کا اقتضاء
اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں بڑی قابل غور ہیں اور ان صفات پر ایمان لانے سے بھی امید وسیع ہوتی اور مومن کا یقین زیادہ ہوتا ہے۔وہ صفات اس کے قادرو کریم ہونے کی ہیں۔جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں۔کوئی فیض نہیں ملتا ہے دیکھو اگر کوئی شخص کریم تو ہو اور اس کے پاس ہو تو ہزاروں روپیہ دے دینے میں بھی اسے تامل اور دریغ نہ ہو لیکن اس کے گھر میں کچھ بھی نہ ہو تو اس کی صفتِ کریمی کاکیا فائدہ؟یا اس کے پاس روپیہ تو بہت ہو مگر کریم نہ ہو پھر اس سے کیا حاصل؟مگر خدا تعالیٰ میں یہ دونوں باتیں ہیں وہ قادر ہے اور کریم بھی ہے اور دونوں صفتوں میں بھی وہ وحدہ لا شریک ہے۔
پس جب ایسی قادر اور کریم ذات کے ساتھ کوئی کامل تعلق پیدا کرے تو اس سے بڑھ کر خوش قسمت کون ہوگا؟بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے وہ شخص جو اس کا فیصلہ کرے۔سرمد نے کیا اچھا کہا ہے ؎
سرمد گلہ اختصارمی باید کرد
یک کار ازیں دوکارمی باید کرد
یاتن برضائے یارمی باید کرد
یا قطع نظر زیارمی باید کرد
حقیقت میں اس نے سچ کہا ہے۔ہمارا اگرطبیب کی پوری اطاعت نہیں کرتا تو اس سے کیا فائدہ؟ایک عارضہ نہیں تو دوسرا اس کو لگ جائے گا اور وہ اس طرح پر تباہ اور ہلاک ہوگا۔دنیا میں اس قدر آفتوں سے انسان گھرا ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو اور اس کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو تو پھر سخت خطرہ کی حالت ہے۔پنجابی میں بھی ایک مصرعہ مشہور ہے ؎
جے تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو
یہ من کان للہ کان اللہ لہ
ہی کا ترجمہ ہے
جب انسان خدا تعالیٰ کا ہوجاتا ہے تو پھر کچھ شک نہیں۔ساری دنیا اس کی ہو جاتی ہے مگر اس وقت بڑے بڑے مشکلات آکر پڑتے ہیں لوگ ہمارے سلسلہ کی مخالفت کے لیے کیا کیا کوشش نہیں کرتے۔ا س کی عدم ضرورت کے واسطے کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ہم نماز اور کلمہ نہیں پڑھتے؟جو لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں وہ آخر بے نصیب رہ جاتے ہیں۔
برکاتِ نماز کا حصول
اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہرایک کو نہیں مل سکتے نماز بھی وہی پڑھتا ہے۔جس کو خدا تعالیٰ نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے۔اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے۔جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھوائے۔جب تک نماز اور کلمہ پٹھنے میں آسمانی چشمہ سے گونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ؟وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہواور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیاز مندی اور خشوع کا نمونہ ہو اس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کرلیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا ۔
ابدال
جب یہ تبدیلی اس کی حالت میں پیدا ہو تی ہے اس وقت اس کا نام ابدال ہو تا ہے احادیث میں جوابدال آیا ہے اس سے یہی مراد لی گئی ہے کہ کامل انقطاع اور تبتّل کے ساتھ جب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اپنی حالت میں تبدیلی کرے جیسے قیامت میں بہشیوں میں تندیلیاں ہو ں گئی کہ وہ چاند یا ستاروں کی مانند ہوں گے اسی طرح پر اس دنیا میں بھی ان کے اندر ہونی ضروری ہے تا کہ وہ اس تبدیلی پر شہادت ہو اسی لیے فر مایا ہے
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن:۴۷)
چو نکہ اس دنیا میں بھی ایک بہشت ہے جو مومن کو دیا جا تا ہے اس کے موافق ایک تبدیلی بھی یہاں ہوتی ہے اس کو ایک خاص قسم کارعب دیا جاتا ہے جو الہیٰ تجلیات کے پر توسے ملتا ہے نفس امارہ کے جذبات سے اس کو روک دیا جاتا ہے اور نفس مطمئنہ کی سکنیت اور اطمینان اس کو ملتا ہے اس کی دعائیں قبول ہو تی ہیں یہانتک کہ جیسے ابراہیم علیہ السلام کو کہا گیا
یا نارکو نی برداوسلاماعلی ابراھیم(الانبیاء:۷۰)
اسی طرح پر اس کے لیے کہا جاتا ہے
یا نارکو نی برداوسلاما(الانبیاء:۷۰)
اس آواز پر اس کے سارے جوشوں کو ٹھنڈ ا کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ میں ایک راحت اور اطمینان پا لیتا ہے اور ایک تبدیلی اس میں پیدا ہو جاتی ہے جب تک یہ تبدیلی نہ ہو نماز ،روزہ کلمہ ،زکوۃوغیرہ ارکان محض رسمی اور نمائشی طور پر ہیں ۔ان میں کو ئی روح اور قوت نہیں ہے اور ایسا انسان خطرہ کی حالت سے نکل کرامن میں آجاتا ہے۔
یادرکھو جب انسان کا وجود خدا کی محبت میںگم ہو جائے اس وقت وہ جان لے کہ خدا سچی محبت رکھتا ہے کیو نکہ دل رابدل رہیست مشہور ہے ۔
اہل وعیال کا تہیہ
بہت سے لوگ جو اہل وعیال کا تہیہ کرتے ہیں اور ان کے سارے ہم وغم اسی پر آکر ختم ہو جاتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے بعد ان کے مال واسباب اور جائیدادکی مالک اور جانشین ہو اگر انسان اسی حد تک محدود ہے اور وہ خدا کے لیے کچھ بھی نہیں کرتا تو یہ جہنمی زندگی ہے اس کو اس سے کیا فائدہ ؟جب یہ مرگیا تو پھر کیا دیکھنے آئے گا کہ اس کی جائیداد کا کو ن مالک ہوا ہے اور اس سے اس کو کیا آرام پہنچے گا اس کا تو قصہ پاک ہو چکا اور یہ کبھی پھر دنیا میں نہیں آئیگا اس لیے ایسے ہم وغم سے کیا حاصل جو دنیا میں جہنمی زندگی کا نمونہ ہے اور آخرت میں بھی عذاب والا
مردوں کا واپس آنا
قرآن شریف پر غور کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ مرودں کے واپس نہ آنے کے دو وعدے ہیں ایک جہنمیوں کے لیے جیسے فرمایا
وحرا م علی قریۃاھلکنھا انھم لا یرجعون(الا نبیاء:۹۶)
عذاب پر بھی آتا ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ خراب زندگی کے لوگ پھر واپس نہیں آئیں گے اور ایسا ہی بہشتیوں کے لیے بھی آیا ہے ۔
لا یبغون عنھا حولا(الکھف:۱۰۹)
مسیح کا عدم رجوع
دو ہی قسم کے لوگ ہو تے ہیں اور دونو کا عدم رجوع ثابت ہے پر معلوم نہیں کہ مسیح کو کس طرح پر واپس لا تے ہیں اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کا پھر آنا فضول ہے اور جو شخص قرآنِکریم کی اس شہادت اور پھر پیغمبر ﷺ کی شہادت کو منظور نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہے آنحضرتﷺ ان کو مردوں میں یحییٰ کے پاس دیکھ آئے ہیں اس پر بھی کو انکار کرتا ہے وہ خبیث ہے ۔
اولاد اور دوسرے متعلقین کی مناسب خبر گیری
غرض جبکہ یہ ثابت ہے کہ پھر اس دنیا میں واپس آنا نہیں ہے اور یہاںسے سب قصہ تمام کرکے جائیں گے اور پھر دنیا سے کوئی باقی نہ رہے گا تو املاک واسباب کا خیال کرنا کہ اس کا وارث کو ئی ہو یہ شرکا ء کے قبضہ میں نہ چلے فضول اور دیوانگی ہے ایسے خیالا ت کے ساتھ دین جمع نہیں کرسکتا ہاں یہمنع نہیں بلکہ جائز ہے کہ اس لحاظ سے اولاداور دوسرے متعلقین کی خبرگیری کرے کہ وہ اس کے زیردست ہیں تو پھر یہ بھی ثواب اور عبادت ہی ہو گئی اور خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہو گا جیسے فر مایا ہے
ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناو یتیما واسیرا(الدھر:۹)
اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیو نکہ وہ بوڑھے اور ضعف ہو کر بے دست وپا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پا لنے کے قابل نہیں رہتے اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہو تی ہے اور اس طرح اولاد جو کمزورہو تی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تر تیب اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گو یا یتیم ہی ہے پس ان کی خبرگیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے توق ثواب ہو گا ۔
اور بیوی اسیر کی طرح ہے اگر یہ
عاشروھن بالمعروف (النساء:۲۰)
پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کو ئی خبر لینے والا نہیں ہے ۔
غرض ان سب کی غوروپرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور ان کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ
واجعلنا لکمتقین اماما(الفرقان:۷۵)
کا لحاظ ہو کہ اولاد دین کی خادم ہو۱؎ لیکن کتنے ہیں کو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں ۲؎ کہ اولاد دین کی پہلوان ہو بہت ہی تھوڑے ہوں گے ۔جو ایسا کرتے ہوں اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لیے یہ کوشش کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنا نے کے واسطے اور کو ئی غرض ہو تی ہی نہیں صرف یہ خواہش ہو تی ہے کہ کو ئی شریک یا غیر ان کی جا ئدا د کا مالک نہ بن جاوے مگر یادرکھو کہ اس طرح پر دین بالکل بر باد ہو جاتا ہے ۔
اولادکی خواہش
غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو۔اسی طرح بیوی کرے تا کہ اس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو اور وہ دین کی سچی خد مت گز ار ہو اور نیز جذبات نفس سیظ رہے اس کے سوا جس قدر خیالات ہیں وہ خراب ہیں رحم اور تقویٰ مدنظر ہو تو بعض باتیں جائز ہو جاتی ہیں ۱ ؎ اس صورت میںاگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے لیکن اگر صرف نانشین بنانے کا خیال ہے اور اس نیت سے سب ہم وغم کھتا ہے تو پھر گناہ ہے اس قسم قصور اور کسر یں ہو تی ہیں جن سے تاریکی میں ایمان رہتا ہے لیکن جب ہر حرکت وسکون خدا ہی کے لیے ہو جاوے یو ایمان روشن ہو جاتا ہے اور یہی غرض ہر مسلمان مومن کی ہو نی چاہیئے کہ ہر کام میں اس کے خدا ہی مدنظر ہو کھا نے پینے عمارت بنا نے دوست دشمن کے معاملات غرض ہر کام میں خدا تعالیٰ ملحفوظ ہو توسب کاروبار عبادت ہو جاتا ہے لیکن جب مقصود منفرق ہوں پھر وہ شرک کہلاتا ہے مگر مومن دیکھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف نظر ہے یا اور قصد ہے اگر اور طرف ہے تو سمجھے کہ دور ہو گیا ہے صید نزدیک است ودوراند اختہ بات مختصر ہو تی ہے مگراپنی بد قسمتی سے لمبی بنا کر محروم ہو جاتا ہے ۔
خدا تعالیٰ کی طرف تبتل ۱ ؎کرنا اور اس کو مقصود بنا نا اہل وعیال کی خد مت اسی لحاظ سے کرنا کہ وہ امانت ہے اس طرح پر دین محفوظ رہتا ہے کیو نکہ اس میں خدا کی رضا مقصود ہو تی ہے لیکن جب دنیا کے رنگ میں ہو اور غرض وارث بنا نا ہو تو اس طرح پر خدا کے غضب کے نیچے آجاتا ہے ۔
سچا مسلم
اولاد تو نیکوکاروں اور ماموروں کی بھی ہو تی ہے ابراہیم علیہ الصلوُۃوالسلام کی اولاد بھی دیکھو کس قدر کثرت سے ہو ئی کہ کو ئی گن نہیں سکتامگر کو ئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا خیال اور طرف تھا؟ بلکہ ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع تھا اصل اسلام اسی کا نام ہے جو ابراہیم کو بھی کہا کہ
اسلم ۲؎
جب ایسے رنگ میں جاوے تو وہ شیطان اور جذبات نفس سے الگ ہو جاتا ہے یہانتک کہ وہ خدا کی راہ میں جان تک کے دنے میں بھی دریغ نہ کرے اگر جاںنثاری سے دریغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچا مسلم نہیں ہے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ بیداطاعت ہو اور پوری عبودیت کا نمونہ دکھاے یہانتک کہ آخری امانت جان بھی دیدے اگر بخل کرتا ہے تو پھر سچامومن اور مسلم کیسے ٹھہر سکتا ہے ؟لیکن ا وہ جانبازی کرنے والا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو بڑا ہی پیارا اور محبوب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے صحابہؓ نے ہی کیا انہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کی ۱؎ اور اپنے خون بہادئیے شہید بھی وہی ہو تا ہے جوجان دینے کا قصد کرتا ہے اگریہ نہیں تو پھر کچھ نہیں ۔
یہ چند کلمے ناگہانی آفات سے بچنے اور سچا مسلم بنے کے لیے ہیں اور اگر انسان ان پر عمل کرے تو طاعون سے بچانے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہیں ۔
بلاؤں کے نزول کے وقت دعاؤں میں لگے رہیں
یادرکھو قہرالہیٰ کو کو ئی روک نہیں سکتا وہ سخت چیز ہے خبیث قوموں پر جب نازل ہوا ہے تو وہ تباہ ہو گئی ہیں اس قہر سے ہمیشہ کا مل ایمان بچاسکتا ہے ناقص ایمان بچا نہیں سکتا بلکہ کامل ایمان ہو تو دعائیں بھی قبول ہو تی ہیں اور
ادعونی استجب لکم(المومن:ـ۶۱)
خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو تا کیو نکہ
ان اللہ لایخلف المیعاد(آل عمران :۱۰)
اس کا فر مان ہے پس ایسے وقت میں کہ آفت نازل ہو رہی ہے ایک تو یہ چاہیئے کہ ادعائیں رہیں۔۲؎ دوسرے صغائرکبائرسے جہاں تک ممکن ہو بچتے رہیں تدبیروں اور دعاؤں میں لگے رہیں گناہ کا زہر بڑا خطرناک ہے اس کا مزااسی دنیا میں چکھنا پڑتا ہے ۔گناہ دو طرح پر ہوتے ہیں۔ ایک گناہ غفلت سے ہو تے ہیں جو شاب میں ہو جاتے ہیں ۳؎ دوسرے بیداری کے وقت مین ہو تے ہیں جب انسان پختہ عمر کا ہو جاتا ہے ایسے وقت میں جب گناہوں سیراضی نہیں ہو گا اور ہر قوت استغفار کرتا رہے گا تواللہ تعالیٰ اس پر سکینت نازل کرے گا اور گناہوں سے بچائے گا ۔گناہوں سے پاک ہو نے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فضل درکار ہے جب اللہ تعالیٰ اس کے رجوع اور تو بہ کوق دیکھتا ہے تو اس کے دل میں غیب سے ایک بات پڑجاتی ہے اور وہ گناہ سے نفرت کر نے لگتا ہے اور اس حالت کے پیدا ہو نے کے لیے حقیقی مجاہدہ کی ضرورت ہے ۔
والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلنا(العنکبوت:۷۰)
جو ماگنتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے اسی لیے مَیں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کو ئی چیز نہیں دنیا میں دیکھو کہ بعض خرگداایسے ہو تے ہیں کہ وہ ہر روز شورڈالتے رہتے ہیں ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے جب یہ اڑکر دعا کرتا ہے تو پالیتا ہے کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں۔
قبولیتِ دعاکا راز
یہ قاعدہ یادرکھو کہ جب دعا سے باز نہیں آتا اور اس میں لگا رہتا ہے تو آخر دعا قبول ہو تی ہے مگر یہ بھی یادرہے کہ باقی ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں اصل دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کر نے واسطے کرنی چاہیں باقی دعائیں خود بخود قبول ہو جائیں گی کیو نکہ گناہ کے دور ہو نے سے برکات آتی ہیں یوں دعاقبول نہیں ہو تی جو نرتی دنیا ہی کے واسطے ہو۔ ۱؎ اس لیے پہلے خدا تعالیٰ کو راضی کر نے کے واسطے دعائیں کرے اور وہ سب سے بڑھکر دعا
اھدنا الصراط المستیم ۲؎ (الفاتحۃ:۶)
ہے جب یہ دعا کرتا رہے گا وہ
منعم علیہم
کی جماعت میں داخل ہو گا جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دریا میں غرق کر دیا ہے ان لوگوں کے زمرہ میں جو منقطعین ہیں داخل ہو کر یہ وہ انعامات الہیٰ حاصل کرے گا جیسے عادت اللہ ان سے جاری ہے یہ کبھی کسی نے نہین سنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک راستباز متقی کو رزق کی مارد یبلکہ وہ تو سات پشت تک بھی رحم کرتا ہے قرآن شریف میں خضروموسیٰ کاقصہ درج ہے کہ انہون نے ایک خزانہ نکالا اس کی بات یا کہ
ابو ھما صالحا(الکھف:۸۳)
اس آیت میں ان کے والدین کا ذکر تو ہے لیکن یہ ذکر نہیں کہ وہ لڑکے خود کیسے تھے باپ کے طفیل سے اس خزانہ کو محفوظ رکھا تھا اور اس لیے ان پر رحم کیا گیا لڑکوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ستاری سے کام لیا ۔
تو ریت اور ساری آسمانی کتابوں میں پا یا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ متقی کو ضائع نہیں کرتا اس لیے پہلے ایسی دعائیں کر نی چاہئیں جن سے نفس امارہ ،نفس مطمئنہ ہو جاوے ۔اور اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے ۔پس
اھدنا الصراط المستیم(الفاتحۃ:۶)
کی دعائیں مانگو کیو نکہ اس کے قبول ہو نے پر جو یہ خود مانگتا ہے خدا تعالیٰ خود دیتا ہے ۔
سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب انسان سچی تو بہ کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے ۔یہ دیتا ہے آخر کہتے ہیں کہ بیوی دیتا ہے معلوم ہو تا ہے کہ یہ سب وامقات وہ اپنے بیان کرتے ہیں اور یہ ہے بالکل سچ کہ خدا تعالیٰ خود متعہدہو جاتا ہے اس کے موافق میرا بھی ایک الہام ہے۔
ہر چہ بابدنو عروسے راہماں ساماں کنم
غرض۱؎ جب متولیّ اور متکفل خدا ہو تو پھر کیا ہی مزاآتا ہے ۔
(الحکم جلد۸نمبر۸ صفحہ ۵تا۷مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
استفسارات اور انکے جوابات
سوال اوّل:۔یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:۔ ہر گز نہیں یہ توحید کے برخلاف ہے ۔
سوال ۲:۔ جبکہ غائب اور حاضر دونو کو خطاب کر لیتے ہیں پھر اس میں کیا حرج ہے ؟
جواب:۔ دیکھو بٹالہ میں لوگ زندہ موجود ہیں اگر ان کو یہاں سے آواز دو تو کیا وہ کوئی جواب دیتا ہے پھر بغداد میںسید عبدالقادر جیلانی کی قبر پر جا کر آواز دوتو کوئی جواب نہیں آئے گا خدا تعالیٰ تو جواب دیتا ہے جیسا کہ فر مایا
ادعونی استجب لکم(المومن:۶۱)
مگر قبروں والوں میں سے کون جواب دیتا ہے پھر کیوں ایسا فعل کرے جو توحید کے برخلاف ہے ۔
سوال۳:۔جب کہ یہ لوگ زندہ ہیں پھران کو مردہ تو نہیں کہہ سکتے۔
جواب :۔زندگی ایک الگ امر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہماری آواز بھی سن لین یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے نزدیک زندہ ہیں مگر ہم نہیں مان سکتے کہ ان کو سماع کی قوت بھی ہے حاضر ناظر ہو ناایک الگ صفت ہے جو خدا ہی کو حاصل ہے دیکھو ہم بھی زندہ ہیں مگر لا ہورہا امرتسر کی آوازیں نہیں سن سکتے خدا تعالیٰ کے شہید اور اولیاء اللہ بیشک خدا کے نزدیک زندہ ہو تے ہیں مگر ان کو حاضر ناظر نہیں کہہ سکتے ۔
دعاؤں کا سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے اس کو یقین کر نا یہی اسلام ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے پھر کس قدر قابل یہ امر ہے کہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی تو کہتے ہیں یا محمدﷺ،یا ابابکر ،یا عمر نہیں کہتے البتی یا علی کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بلاوجہ کی جاوے۔ جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان
صم بکم
ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے توحید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا؟تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کا حصّہ دار بناتے ہیں خود ان کو بھی یہ مقام توحید ہی کے ماننے سے ملا تھا۔اھر وہ بھی ایسے ’’یا‘‘کہنے والے ہوتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدا ئے تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی تب یہ رتبہ ان کو ملا یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں۔
(البدر جلد۸نمبر۸ صفحہ ۱۲مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۲۸؍فروری ۱۹۰۴ء؁
(بوقت ظہر)
تدبیر اور توکل
تدبیر اور توکل پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر کرتے ہوئے فر مایا کہ
فی السماء رزقکم وما توعدون (الذریات:۲۳)
سے ایک نادان دھوکا کھاتا ہے اور تدابیر کے سلسلہ کو باطل کرتا ہے حلانکہ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فنتشروانی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعۃ:۱۱)
کہ تم زمین میں منتشر ہو جائو اور خدا کے فضل کی تلاش کرو۔یہ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے کہ ایک طرف تدابیر کی رعایت ہو اور دوسری طرف توکل بھی پورا ہو۔اور اس کے اندر شیطان کو وساوس کا بڑا موقعہ ملتا ہے(بعض لوگ ٹھوکر کھا کر اسباب پرست ہوجاتے ہیں اور بعض خداتعالیٰ کے عطا کردہ قویٰ کو بیکار محض خیال کرنے لگ جاتے ہیں)آنحضرت ﷺ جب جنگ کو جاتے تو تیاری کرتے۔گھوڑے،ہتھیار بھی ساتھ لیتے بلکہ آپ بعض اوقات دو دو زرہ پہن کر جاتے۔تلوار بھی کمر سے لٹکاتے حالانکہ ادھر خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا
واللہ یعصمک من الناس(المائدہ:۶۸)
بلکہ ایک دفعہ صحابہ کرام رجی اللہ عنہم نے تجویز فر مایا کہ اگر شکست ہو تو آپ کو جلد مدینہ پہنچا دیا جا وے اصل بات یہ ہے کہ قوی الا یمان کی نظر استنغاء ِالہیٰ پرہو تی ہے اور اسے خوف ہوتاہے کہ خدا کے وعدوں میں کو ئی ایسی منفی شرط نہ ہو جس کا اسے علم نہ ہو جو لوگ تد ابیرکے سلسلہ کو بالکل بالکل ٹھہراتے ہیں ان میں سے ایک زہر ملامادہ ہو تا ہے ان کا خیال یہ ہو تا ہے کہ اگر بلا آوے تو دیدہ دانستہ اس کے آگے جاپڑیں اور جس قدر پیشہ والے اور اہل حرفت ہیں وہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاویں۔
بعض فقہی مسائل
ایک شخص نے چند مسائل دریافت کئے وہ اوران کے جواب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دئیے ان کو ہم ذیل مین درج کرتے ہیں ۔(ایڈیٹرالبدر)
سوال:۔ سیت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کاثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟
جواب:۔ قل خوانی کی کو ئی اصل شریعت میں نہیں ہے صدقہ ،دعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ملا نوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے سواگر اسے ہی مردہ تصور کر لیا جاوے (اور واقعی ملاں لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہو تے ہیں )تو ہم مان لیں گے)
ہمیں تعجب ہے کہ اگر یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتتے ہیں دین تو ہم کو نبی کریم ﷺ سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں صحابہ کرامؓ بھی فوت ہو ئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے صرہاسال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہو ئی ہے ۔
ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے کہ قرآن شریف کو چکر دیتیہیں یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے انسان خدا اے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہو سکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو ۔
سوال:۔ایک عورت تنگ کرتی ہے کہ سودی روپیہ لے کر زیور بنا دو اس کا خاوند غریب ہے ۔
جواب:۔ وہ عورت بڑی نالائق ہے جو خاوند کو زیور کیلئے تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سودلے کربنادے۔
پیغمبر خدا ﷺ کو ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا اور آپ کی ازواج نے آپ سے بعض دنیوی خواہشات کی تلمیل کا اظہار کیا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کو یہ فیقر انی زندگی منظور نہیں ہے تو توُان کو کہدے کہ آاؤ تم کو الگ کہ دوں انہوں نے فقیر انہ زندگی اخیتار کی آخر نیتجہ یہ ہوا کہ وہی بادشاہ ہو گئیں وہ صرف خدا کی آزمائش تھی ۔
سوال:۔ ایک عورت اپنا مہرنہیں بخشتی ۔
جواب:۔ یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چا ہیئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر نا چاہیئے پنجاب اور ہندوستان میں شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں۔یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے ۔
سوال:۔ اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے ؟
جواب:۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا(البقرۃ؛۲۸۷)
اس کا خیال مہر میں ضرور ہو نا چاہیئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیئے اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کر یگا اور مچھروں کی چربی تو کو ئی مہر ہی نہیں یہ
لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا
میںداخل ہے ۔
سوال :۔میت کے لیے فاتحہ خاونی کے لیے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں ؟
جواب:۔ یہ دوست نہیں ہے بدعت ہے آنحضرت ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صفت بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے۔
(البدر جلد۳نمبر۱۱ صفحہ ۵۔۶مورخہ ۱۶ ؍مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۶؍ مارچ ۱۹۰۴؁ء
دربارشام
نصیحت بعد البیعت
کی شام کو اعلیحٰضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے دست مبارک پر چندا حباب نے بیعت کی جس پر حضور علیہ الصلوۃوالسلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی : (ایڈیٹر)
بیعت کو نبھائیں
تم لوگوں نے اس وقت جو بیعت کی ہے اس کا زبان سے کہہ دینا اور اقرار کر لینا تو بہت ہی آسان ہے مگر اس اقرار ِبیعت کا نبھا نا اور اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے کیو نکہ نفس اور شیطان انسان کو دین سے لا پروا بنانے کی کو شش کرتے ہیں اور یہ دنیا اور اس کے فوائد کو آسان اور قریب دکھا تے ہیں لیکن قیامت کے معاملہ کو دور دکھا تے ہیں جس سے انسان خدا تعالیٰ سخت دل ہو جا تا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتربن جاتا ہے اس لیے یہ بہت ہی ضروری امر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو جہاں تک کوشش ہو سکے ساری ہمت اور توجہ سے اس اقرار کو نبھانا چاہئیے اور گناہوں سے بچنے کے لیے کوشش کرتے رہو۔
گناہوں کی حقیقت
گناہ کیا چیزہے اللہ تعالیٰ کے خلاف مرضی کر نا اور ان ہداتیوں کو جو اس نے اپنے پیغمبروں خصوصاً آنحضرتﷺ کی معرفت دی ہیں توڑنا اور دلیری سے ان ہدایتوں کی مخالفت کر نا یہ گناہ ہے جبکہ ایک بندہ کو خدا تعالیٰ کی ہداتیوں کا علم دیا جاوے اور اس کو سمجھا دیااجاوے پھر اگروہ ان ہواتیوں کو توڑتا اور شوخی اور شرارت سے گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہت ناراض ہو تا ہے اور اس ناراضگی کا یہی نیتجہ نہیںہوتا کہ وہ مرنے کے بعد دوزخ میں پڑے گا بلکہ اسی دنیا میں بھی اس کو طرح عذاب آتے اور ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔
دنیا وی حکام کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ایک قانون مشتہر کر دیتے ہیں اور پھر اگر کو ئی ان کے احکام کو توڑتااور خلاف ورزی کرتا ہے تو پکڑاجاتا اورسزا پاتاہے لیکن دنیوی حکام کے عذاب سے اور ان کے قوانین واحکام کی خلاف ورزی کی سزا سے آدمی کسی دوسری عملداری میں بھاگ جانے سے بچ بھی سکتا ہے اور اس طرح پیچھا چھڑا سکتا ہے مثلاً اگر انگریزی عملداری میں کو ئی خلاف ورزی کی ہے تو وہ فرانس یا کابل کی عملداری میں بھاگ جانے سے بچ سکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے احکام وہدایات کی خلاف ورزی کر کے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے ؟کیو نکہ یہ زمین وآسمان جو نظر آتا ہے یہ تو اسی کا ہے اور کو ئی اور زمین وآسمان کسی اور کا کہیں نہیں ہے جہاں تم کو پناہ مل جاوے اس واسطے یہ بہت ضروری امرہے کہ انسان ہمیشہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی ہداتیوں کے توڑنے یا گناہ کر نے پر دلیرنہ ہو کیو نکہ گناہ بہت بری شئے ہے اور جب انسان خدا تعالیی سے نہیں ڈرتا اور گناہ پر دلیری کرتا ہے تو پھر عادت اللہ اس طرتح پر جاری ہے کہ اس جرأت ودلیری پر خدا تعالیٰ کا غضب آتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
دوقسم کے دکھ
دنیا میں دو قسم کے دکھ ہو تے ہیں بعض دکھ اس قسم کے ہو تے ہیں کہ ان میں تسلی دی جاتی ہے اور صبر کی توفیق ملتی فر شتے سکینت کیساتھ اترتے ہیں اس قسم کے دکھ نبیوں اور راست بازوں کو بھی ملتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلائآتے ہیں جیسا کہ اس نے
ولنبلونکم بشئی من الوف(البقرۃ:۱۵۶)
میں فرمایا ہے ان کے دکھوں کا انجام راحت ہو تا ہے اور درمیان میں بھی تکلیف نہیں ہو تی کیو نکہ خدا کی طرف سے صبر اور سکنیت ان کو سی جاتی ہے مگر دوسری قسم دکھ کی وہ ہے جس میں یہی نہیں کہ دکھ ہو تا ہے بلکہ اس میں صبر وثبات کھو یا جاتا ہے اس میں نہ انسان مرتا ہے نہ جیتا ہے اور سخت مصیبت اور بلا میں ہو تا ہے یہ شامت ِاعمال کا نتیجہ ہو تا ہے جس کی طرف اس آیت میں ارشادہ ہے ۔
مااصابکم من مصیبۃفیبما کسبت ایدیکم(الشوریٰ:۳۱)
اور اس قسم کے دکھوں سے بچنے کا یہی طریق اور علاج ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کیو نکہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور اس زندگی میں شیطان اس کی تاک میں لگا رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کو خدا سے دور پھینگ دے اور نفس اس کو دھکا دیتا رہتا ہے کہ ابھی بہت عرصہ تک زندہ رہنا ہے لیکن یہ بڑی بھاری غلطی ہے اگر انسان اس دھوکے میں آکر خدا تعالیٰ سے دور جاپڑے اور نیکوں سے دستکش ہو جاوے موت ہر وقتقریب ہے اور یہی زندگی دارالعمل ہے مرنے کے ساتھ ہی عمل کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور جس وقت یہ زندگی کے دم پورے ہو ئے پھر کو ئی قدرت اور توفیق کسی عمل کی نہیں ملتی خواہ تم کتنی ہی کو شش کرو مگر خدا تعالیٰ کو راضی کرنے واسطے کو ئی عمل نہیںکر سکوگے اور ان گناہوں کی تلافی کا وقت جاتا رہے گا اور اس بدعملی کا نتیجہ آخر بھگتنا پڑے گا۔
خوش قسمت کو ن ہے؟
خوش قسمت وہ شخص نہیں ہے کس کو دنیا کی دولت ملے اور وہ اس دولت کے ذریعہ ہزاروں آفتوں اور مصیبتوں کا موردین جائے بلکہ خوش قسمت وہ ہے جس کو ایمان کی دولت ملے اور وہ زندگی کی ناراضگی اور غضب سے ڈرتا رہے ۱؎ اور ہمیشہ اپنے آپ کو نفس اور شیطان کے حملوں سے بچاتا رہے کیو نکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو وہ اس طرح پر حاصل کرے گا مگر یاد رکھوکہ یہ بات یو نہی حاصل نہیں ہو سکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ تم نمازوں میں دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو جاوے اور وہ تمہیں توفیق اور قوت عطافرمائے کہ تم گناہ آلودہ زندگی سے نجات پاؤ۔ کیو نکہ گناہوں سے بچنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی تو فیق شامل حال نہ ہو اور اس کا فضل عطا نہ ہو اور یہ تو فیق اور فضل دعا سے ملتا ہے اس واسطے نمازوں میں دعا کرتے رہو کہ اے اللہ ہم کو ان تمام کا موں سے جو گناہ کہلاتے ہیں اور جو تیری مرضی اور ہدایت کے خلاف ہیں بچا اور ہر قسم کے دکھ اور مصیبت اور بلا سے جو ان گناہوں کا نتیجہ ہے اور سچے ایمان پر قائم رکھ(آمین) کیو نکہ انسان جس چیز کی تلاش کرتا ہے وہ اس کو ملتی ہے اور جس اسے لا پروائی کرتا ہے اس سے محروم رہتا ہے جو ئندہ یا بندہ مثل مشہور ہے مگر جو گنا ہ کی فکر نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے وہ پاک نہیں ہو سکتے گناہوں سے وہی پاک ہو تے ہیں جن کو فکر لگی رہتی ہے ۔
اخلاقی گناہ
بہت سے آدمی اس دنیا میں ایسے ہیں کہ ان کی زندگی ایک اندھے آدمی کی سی ہے کیو نکہ وہ اس بات ہر کو ئی اطلاع ہی نہیں رکھتے کہ وہ گناہ کرتے ہیں یا گناہ کسے کہتے ہیں عوام تو عوام بہت سے عالموں فاضلوں کو بھی پتہ نہیں کہ کہ وہ گناہ کررہے ہیں حالا نکہ وہ بعض گناہوں میں مبتلا ہو تے ہیں اور کرتے رہتے ہیں گناہوں کا علم جب تک نہ ہو اور پھر انسان ان سے بچنے کی نہ کرے تو اس زندگی سے کو ئی فائدہ نہ اس کو ہو تا ہے اور نہ دوسروں کو۔خواہ سوبرس کی عمر بھی کیوں نہ ہو جاوے لیکن جب انسان گناہ پر اطلاع پالے اور ان سے بچے تو وہ زندگی مفید زندگی ہو تی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے جبتک انسان مجاہدہ نہ کرے اور اپنے حالات اور اخلاق کو ٹٹولتا نہ رہے کیو نکہ بہت سے گناہ اخلاقی ہو تے ہیں جیسے غصہ ،غضب،کینہ ،جوش ،رہا۔تکبر،حسد وغیرہ یہ سبب داخلاقیاں ہیں جو انسان کو جہنم تک پہنچا دیتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ جس کانامتکبر ہے شیطان نے کیا تھا یہ بھی ایک بدخلقی ہی تھی جیسے لکھا ہے ۔
ادنی واستکبرا (سالبقرۃ:۳۵)
اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہووہ مردودِخلائق ٹھہرا۔ اور ہمشیہ کے لیے *** ہوا مگر یادرکھو کہ یہ تکبر صرف شیطان ہی میں نہیں ہے بلکہ بہت ہیں جواپنے غریب بھائیوں پر تکبر کرتے ہیں اور اس طرح پر بہت سی نیکوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہ تکبر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے کبھی علم کے سبب سے کبھی حسن کے سبب سے اور کبھی نسب کے سبب سے ،غرض مختلف صورتوں سے تکببر کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی محرومی ہے اور اسی طرح پر بہت سے برے خلق ہو تے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہو تا اس لیے کہ وہ کبھی ان پر غور نہیں کرتا اور نہ فکر کرتا ہے انہیں بداخلاقیوں میں سے ایک غصہ بھی ہے۱؎ جب انسان اس بداخلاقی میں مبتلا ہو تا ہے تو وہ دیکھے کہ ادس کی نوبت کہاں پہنچ جاتی ہے وہ ایک دیوانہ کی طرح ہو تا ہے اس وقت جواس کے منہ میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے اور گالی وغیرہ کی کو ئی پروا نہیں کرتا اب دیکھو کہ اسی ایک بداخلاقی کے نتائج کیسے خطرناک ہو جاتے ہیں پھر ایسا ہی ایک حساہے کہ انسان کسی کی حالت یا مال ودولت کو دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے پاس نہ رہے اس سے بجز اس کہ وہ اپنی اخلاقی قوتوں کا خون کرتا ہے کو ئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا پھر ایک بداخلاقی بخل کی ہے باوجویکہ خدا تعالیٰ نے اسکو مقدرت دی ہے مگر یہ انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہمسایہ خواہ ننگا ہو بھوگا ہو مگر اس کو اس پر رحم نہیں آتا مسلمانوں کے حقوق کی پروا نہیں کرتا وہ بجز اس کے کہ دنیا میں مال ودولت جمع کرتا رہے اور کوئی کام دوسروں کی ہمدردی اور آرام کے لیے نہیں رکھتا حالا نکہ اگر وہ چاہتا اور کوشش کرتا تواپنے قویٰ اور دولت سے دوسروں کو فا ئدہ پہنچا سکتا تھا مگر وہ اس بات کی فکر نہیں کرتا ۔
غر ضیکہ طرح طرح کے گناہ ہیں جن سے بچنا ضروری ہے یہ تو موٹے جو انسان کو جہنم تک پہنچا دیتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ جس کانامتکبر ہے شیطان نے کیا تھا یہ بھی ایک بدخلقی ہی تھی جیسے لکھا ہے ۔
ادنی واستکبرا (سالبقرۃ:۳۵)
اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہووہ مردودِخلائق ٹھہرا۔ اور ہمشیہ کے لیے *** ہوا مگر یادرکھو کہ یہ تکبر صرف شیطان ہی میں نہیں ہے بلکہ بہت ہیں جواپنے غریب بھائیوں پر تکبر کرتے ہیں اور اس طرح پر بہت سی نیکوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہ تکبر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے کبھی علم کے سبب سے کبھی حسن کے سبب سے اور کبھی نسب کے سبب سے ،غرض مختلف صورتوں سے تکببر کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی محرومی ہے اور اسی طرح پر بہت سے برے خلق ہو تے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہو تا اس لیے کہ وہ کبھی ان پر غور نہیں کرتا اور نہ فکر کرتا ہے انہیں بداخلاقیوں میں سے ایک غصہ بھی ہے۱؎ جب انسان اس بداخلاقی میں مبتلا ہو تا ہے تو وہ دیکھے کہ ادس کی نوبت کہاں پہنچ جاتی ہے وہ ایک دیوانہ کی طرح ہو تا ہے اس وقت جواس کے منہ میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے اور گالی وغیرہ کی کو ئی پروا نہیں کرتا اب دیکھو کہ اسی ایک بداخلاقی کے نتائج کیسے خطرناک ہو جاتے ہیں پھر ایسا ہی ایک حساہے کہ انسان کسی کی حالت یا مال ودولت کو دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے پاس نہ رہے اس سے بجز اس کہ وہ اپنی اخلاقی قوتوں کا خون کرتا ہے کو ئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا پھر ایک بداخلاقی بخل کی ہے باوجویکہ خدا تعالیٰ نے اسکو مقدرت دی ہے مگر یہ انسانوں پر رحم نہیں کرتا ہمسایہ خواہ ننگا ہو بھوگا ہو مگر اس کو اس پر رحم نہیں آتا مسلمانوں کے حقوق کی پروا نہیں کرتا وہ بجز اس کے کہ دنیا میں مال ودولت جمع کرتا رہے اور کوئی کام دوسروں کی ہمدردی اور آرام کے لیے نہیں رکھتا حالا نکہ اگر وہ چاہتا اور کوشش کرتا تواپنے قویٰ اور دولت سے دوسروں کو فا ئدہ پہنچا سکتا تھا مگر وہ اس بات کی فکر نہیں کرتا ۔
غر ضیکہ طرح طرح کے گناہ ہیں جن سے بچنا ضروری ہے یہ تو موٹے موٹے گناہ ہیں جن کو گناہ ہی نہیں سمجھتا پھر زنا ،چوری ،خون وغیرہ بھی بڑے بڑے گماہ ہیں اور ہرقسم کے گناہوں سے بچنا چاہیئے۔
گناہوں سے بچنا
گناہوں سے بچنا یہ تو ادنیٰ سی بات ہے اس لیے انسان کو چاہیئے کہ گناہوں سے بچ کر نیکی کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرے جب وہ گناہوں سے بچے گا اور خدا کی عبادت کرے گا تواس کا دل برکت سے بھر جائے گا اور یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے دیکھو اگر کسی کپڑے کو پاخانہ لگا ہوا تو اس کو صرف دھوڈ النا ہی کو ئی خوبی نہیں نہیں بلکہ اسے چاہیئے کہ پہلے اسے خوب صابن سے ہی دھوکر صاف کرے اور میل
کر اسے سفید کرے اور پھر اس کو خوشبو لگا کر معطر کرے تا کہ جو کو ئی اسے دیکھے خوش ہو اسی طرح پر انسان کے دل کا حال ہے وہ گناہوں کی گندگی سے نا پاک ہو رہا ہے اور گھنا ؤ نا اور متعفن ہو جاتا ہے پس پہلے تو چاہیئے کہ گناہ کے چرک کو تو بہ واستغفار سے دھوڈالے اور خدا تعالیٰ سے تو فیق مانگے کہ گناہوں سے بچتا رہے پھر اس کی بھائے ذکر الہیٰ کرتا رہے اور اس سے اس کو بھرڈالے اس طرح پر سلوک کا کمال ہو جاتا ہے اور بغیر اس کے وہی مثال ہے کہ کپڑے سے صاف گندگی کو دھوڈالا ہے لیکن جب تک یہ حالت نہ ہو کہ دل کو ہر قسم کے اخلاق رویہ رذیلہ سے صاف کر کے خدا کی یاد کا عطر لگا وے اور اندر سے خوشبو آوے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا شکوہ نہیں کرنا چاہیئے لیکن جب اپنی حالت اس قسم کی بنا تا ہے تو پھر شکوہ کا کو ئی محل اور مقام ہی نہیں رہتا ۔
آج کل وبا کے دن ہیں اس لیے لا پروا نہیں ہو نا چاہیئے سچی تبدیلی کر نی چاہیئے بہت سے آدمی اعتراض کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے بیعت کی تھی وہ مر گیا مگر یہ اعتراض فضول ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ صحابہؓ بھی جنگوں میںشریک ہو کر شہید ہو جاتے تھے حالا نکہ وہی جنگ مخالفوں کے لیے بطور عذاب تھی لیکن اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ بیعت کے بعد اعمال کی کو ئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بیعت کے بعد حجت پوری ہو جاتی ہے پھر اگر اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کرتا تو سخت جوابدہ ہے پس ضرورت اس بات کی ہے کہ سچے مسلمان بنو تا کہ اللہ تعالیٰ کی نگا ہ میں تمہاری کو ئی قدروقیمت ہو جو چیز کار آمد ہو تی ہے اسی کی قدر کی جاتی ہے دیکھو اگر تمہارے پاس ایک دودھ دینے والی بکری ہو جس سے تمہارے بیوی بچے پرورش پاتے ہیں تو تم بھی اسکو ذبح کر نے کے لیے تیار نہیں ہو جاتے لیکن اگر وہ کچھ دودھ نہ دے بلکہ نری چارہ دانہ کی چٹی ہو تو تم فوراً اس کوذبح کر لو گے اسی طرح پر جو آدمی اللہ تعالیٰ کا سچا فر ما بنردار ،نیک کام کر نے والا اور دوسروں کو نفع پہنچا نے والا نہ ہو اس وقت تک خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ وہ اس بکری کی طرح ذبح کے لا ئق ہو تا ہے جو دودھ نہیں دیتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم اپنے آپ کو مفید ثابت کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے بندوں کو نفع پہنچاؤ۔
اعمالِ صا لحہ کی ضرورت
انسان سمجھتا ہے کہ برازبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کا فی ہے یا نرا
استغفر اللہ
کہہ دینا ہی کافی ہے مگر یادرکھو زبانی لا ف وگزاف کا فی نہیں ہے۔ خواہ انسان زبان سے ہزار مر تبہ
استغفر اللہ
کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہو گا کیو نکہ خدا نے انسان کو انسان بنا یا ہے طوطا نہیں بنا یا یہ طوطے کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں انسان کا کام تو بہ ہے کہ جو منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے لیکن اگر طوطے کی طرح بولتا جاتا ہے تو یادرکھو نری زبان سے کو ئی برکت نہیں ہے جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں وہ نریباتیں سمجھی جائیں گی جن میں کو ئی خوبی اور برکت نہیں کیو نکہ وہ انرا قول ہے جو قرآن ِشریف اور استغفار ہی کیو ں نہ پڑھتا ہو خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے اس لیے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمال ِصالحہ کرو جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا لیکن کو ئی ان سے پو چھے کہ اس سے کیا فائد ہ ہوا؟ نِری زبان سے تم نے کا م لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑدیا حالا نکہ اللہ تعالے ٰنے تمام اعضاء اس لیے بنا ئے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر *** کرتا ہے کیو نکہ ان کی تلاوت نراقول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہو تا ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بنا تا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیو نکہ پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشا نہیں وہ تو عمل چاہتا ہے اگر کو ئی ہرروز تعزیرات ہند کی تلاوت تو کرتا رہے مگر ان قوانین کی پابندی نہ کرے بلکہ جرائم کو کرتا رہے اور رشوت وغیرہ لیتا رہے توایسا شخص جس وقت پکڑا جاوے گا تو کیا اس کا یہ عذقابل سماعت ہو گا کہ مَیں ہر روز تعزیرات کو پڑھا کرتا ہوں؟یا اس کو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے اس لیے ایک سال کی بجائے چار سال کی سزا ہو نی چاہیئے۔
غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی پس چاہیئے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے اگر وہ ایسا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا اللہ تعالیٰ کے وعدوں میںتخلف نہیں ہوتا اس نے جو وعدہ فر مایا ہے کہ
اما ما ینفع الناس فیمکت فی الارض(الرعد:۱۸)
یہ بالکل سچ ہے عام طور پر بھی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہواس کو کو ئی ضائع نہیں کرتا یہا نتک کہ کو ئی گھوڑا بیل یا گائے بکری اگر مفید ہواور اس سے فائدہ پہنچتا ہو کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے ،لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اوراور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخر ی علاج ہی ذبح ہے اور سمجھ لیتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو دو چار روپیہ کو کھال ہی بک جائے گی اور گو شت بھی کام آجائے گا اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کو ئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہو تا تو پھر اللہ تعالیٰاس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے غرض یہ اچھی طرح یادرکھو کہ نری لاف وگزاف اور زبانی قیل وقال کو ئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن ِشریف بھیج کر صحابہؓ سے خد مت لی کیا انہوں نے صرف اسی قدر کا فی سمجھا تھا کہقرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کر نا ضروری سمجھا تھا انہوں نے تو یہاں تک اطاعت و وفا داری دکھا ئی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جسقدر قدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے۔
فضل اور فیضان حاصل کر نے کا طریق
خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھا ؤ ورنہ نکمی شئے کی طرح تم پھینک دئیے جاوگے کو ئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھا ل سنبھال کر رکھتے ہو لیکن اگر گھرمیں کو ئی چو ہا مرا ہوا دکھا ئی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دوگے ۔اسی طرح پر خدا تعا لیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمشیہ عزیزر کھتا ہے ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک بر کت رکھ دیتا ہے وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن کاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرؤ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ ان میں اور ان کے غیروں کے درمیان فر قان رکھد یتا ہے یہی راز انسان کے برکت پا نے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا ر ہے ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہو تا ہے کیو نکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے وہ غیریبوں سے سلوک کرتا ہے ہمسایوں پر رحم کرتا ہے شرارت نہیں کرتا جھوٹے مقدمات نہیں بنا تا جھوٹی گو اہیاں نہیں دیتا بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہو تا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے ۔
اخلاقی کمزوریوں کو دور کریں
خدا کا ولی بننا آسان نہیں بہت مشکل ہے کیو نکہاس کے لیے بد یوں کا چھوڑنا بعض اوقات بہت ہی مشکل ہو جا تا ہے ایک خونی خون کر نا چھوڑ سکتا ہے چور چوری کر نا چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک بد اخلاق کوغصہ چگوڑنا مشکل ہو جاتا ہے یا تکبر والے کو تکبر چھوڑنا مشکل ہو جا تا ہے کیو نکہ اس میں دوسروں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے پھر خود اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے اپنے آپ کو چھوٹا بنا وے گا خدا تعالیٰ اس کو خود بڑا بنا وے گا یہ یقیناً یادرکھو کہ کو ئی بڑانہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ آپ کو چھوٹا نہ بنا ئے یہ ایک ذریعہ ہے جس سے انسان کے دل پر ایک نور نازل ہو تا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جا تا ہے جس قدر اولیا ء اللہ دنیا میں گذرے ہیں اور آج لا کھوں انسان جن کی قدر منزلت کرتے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک چیونٹی سے بھی کمتر سمجھا جس پر خدا تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال ہوا اور ان کو وہ مدارج عطا کئے جس کے وہ مستحق تھے تکبر،بخل ،غرور وغیرہ بداخلا قیاں بھی اپنے اندر شرک کا ایک حصہ رکھتی ہیں اس لیے ان بداخلا قیوں کا مر تکب خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتا بلکہ وہ محروم ہو جا تا ہے بر خلاف اس کے غربت وانکسار کر نے والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مورد بنتا ہے ۔
تکبر کی قسمیں
تکبر کئی قسم کا ہو تا ہے کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اس کے یہی معنے ہو تے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے کبھی زبان کے کئی چشمے ہیں اور مومن کو چاہیئے کہ ان تمام چشموں سے بچتا رہے اور اس کا کو ئی عضو ایسا نہ ہو جس سے تکبر کی بو آوے اور وہ تکبر ظاہر کر نے والا ہو ۱؎
صوفی کہتے ہیں کہ انسان کے اندر اخلاق رذیلہ کے بہت سے جن ہیں اور جب یہ نکلتے لگتے ہیں تو نکلتے رہتے ہیں مگر سب سے آخری جن تکبر کا ہو تا ہے جو اس میں رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور انسان کے سچے مجاہدہ اور دعااؤں سے نکلتا ہے ۔
بہت سے آدمی اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیں لیکن ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کا تکبر ہو تا ہے اس لیے تکبر کی باریک در باریک قسموں سے بچنا چاہیئے بعض وقت یہ تکبر دولت سے پیداہو تا ہے دولتمند متکبر دوسروں کو کنگال سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کون ہے جو میرا مقابلہ کر ے بعض اوقات اور ذات کا تکبر ہو تا ہے ۔ سمجھتا ہے کہ میری ذات بڑی ہے جو یہ چھوٹی ذات کا ہے ایک عورت سید انی تھی اسے پیاس لگی وہ دوسرے کے گھر میں جا کر کہنے لگی کہ امتی تو پانی تو پلا مگر پیالہ کو دھو لینا کیو نکہ تم امتی ہو اور مَیں سیدانی اور آلِ رسول ہوں۔
بعض وقت تکبر علم سے بھی پیدا ہو تا ہے ایک شخص غلط بو لتا ہے تو جھوٹ اس کا غیب پکڑتا ہے اور شور مچا تا ہے کہ اس کو تو ایک غلط بھی صحیح بو لنا نہیں آتاغرض مختلف قسمیں تکبر کی ہو تی ہیں اور یہ سب کی سب انسان کو نیکوں سے محروم کر دیتی ہیں اور لو گوں کو نفع پہنچا نے سے روک دیتی ہیں ان سب سے بچنا چا ہیئے ۔
کا مل تبدیلی کی ضرورت
مگر ان سب سے بچنا ایک موت کو چاہتا ہے جب تک انسان اس موت کو قبول نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی برکت اس پر نازل نہیں ہو سکتی اور نہ خدا تعالیٰ اس کا متکفل ہو سکتا ہے اور اگر انسان پورے درجہ کی صفائی نہیں کرتا اور کا مل تبدیلی نہیں کرتا تو اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ اس دیوار میں سوئی کے برابرا شگا ف کر دیں خواہ ایسے سواخ دس ہزار بھی کیوں نہ ہوں لیکن ان سوراخوں کے ذریعہ سے وہ روشنی اندر نہیں آجا ئے گی جو کل مکا ن کو خوب روشن اور منور کر دے۔ لیکن جب ایک اچھا روشندان اس میں کھو لا جا ئے تو اس سے کا فی روشنی اندر آئے گی اور سارے مکا ن کو متور کر دے گی ۔اسی طرح پر جب تک تم سچے دل سے مسلمان ہو کر پوری تبدیلی نہیں کر تے اور دل کا دروازہ اللہ تعالیٰ کی طرف کا مل طور پر نہیں کھو لو گے اس وقت تک خدا تعالیٰ کا وہ نور جو اند ر داخل ہوکر ایک سکنیت اور اطمینان بخشتا ہے اور جو بدیوں اور برائیوں کا امتیارزعطا کرتا ہے نازل نہیں ہو تا اور سچے مسلمان بننے کا مو قعہ نہیں ملتا ہے اور جب تک سچا مسلمان نہیں ہو تا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے اندر وعدوں سے جو سچے مومنوں اور متقیوں سے اس نے کئے ہیں کو ئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور چو نکہ ان وعدوں سے اسے حصہ نہیں ملتا اور وہ خود محروم رہتا ہے اس لیے شکا یت کر بیٹھتا ہے کہ سچے مسلمانوں سے کیا وعدے ہو ئے ہیں میری دعا قبول نہیں ہو تی لیکن وہ کمبخت نہیں سوچتا کہ مَیںسچا مسلمان تو ہوا ہی نہیں پھر ان وعدوں کا ایفا ء کس طرح چا ہوں اس کی مثال اس بیماری کی سی ہے جس نے ابھی پوری صحت تو حاصل نہیں کی اور نہ تندرستوں کی طرح اس کے قویٰ میں طاقت آئی ہے مگر وہ کہتا ہے کہ مجھے تندرستوں کی طرح بھوک نہیں لگتی اور مَیں چل پھر نہیں سکتا تو اسے یہی کہا جا ئے گا ابھی تو پورا تندرست نہیں ہوا جب تک تندرست نہ جاوے اسے اللہ تعالیٰ کے لواز مات تجھے کیو نکر حاصل ہو جاویں پس اسی طرح پر جب تک کہ ایک شخص سچا مسلمان نہ بن جاوے اسے اللہ تعالیٰ کی کو ئی شکایت نہیں کر نی چاہیئے لیکن مَیں یقیناً جا نتا ہوں کہ جب ایک شخص سچا مسلمان بن جا تا ہے تو اور وہ اللہ تعالیٰ پر پورا ایمان لا تا ہے اور اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے ما تحت کر لیتا ہے وہ یقیناً یقیناً ان وعدوں کو پورا پا تا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص اور مو من بندوں سے کئے ہیں وہ اپنی جان پر ان وعدوں کو پوراہوتا ہوا پا تا ہے اصل یہ ہے کہ سچا مسلمان بننا ہی تو مشکل ہے سچا مسلمان بننا اور اونٹ کا سوئی کے نا کے سے نکلنا ایک ہی بات ہے جب تک یہ نفس اونٹ کی طرح مو ٹا ہے یہ اس میں سے نکل نہیں سکتا ،لیکن جب دعا اور تصرع کے ساتھ نفس کو مار لیتا ہے اور وہ جسم جو عارضی طور پر چٹھا ہوا ہو تا ہے دور ہوجا تا ہے تو یہ لطیف ہو کر اس میں سے نکل ِجا تا ہے اس کے لیے ضرورت ہے دعاکی پس ہر وقت دعا کرتا رہے کیو نکہ دعا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے دعا کے ساتھ مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے لوگوں کو دعا کی قدر وقیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہو جاتے ہیں اور ہمت ہار کر چھوٹ بیٹھتے ہیں حالا نہ دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے جب انسان پوری ہمت سے لگا رہتا ہے تو پھر ایک بدخلقی کیا ہزاروں بد خلقیوں کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے اور اسے کامل مو من بنا دیتا ہے لیکن اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہشرط ہے جو دعا ہی سے پیدا ہو تا ہے ۔
یادرکھو نری بیعت سے کچھ نہیں ہو تا اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہو تا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اس وقت تک یہ بیعت بیعت نہیں نری رسم ہے اس لیے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشا ء کو پورا کر نے کی کو شش کرو۔ یعنی تقویٰ اختیار کرو قرآنِ شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر عمل کرو کیو نکر سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہو تا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کر نے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جا وے اور اس کے نواہی سے بچتے رہو اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہو تا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہو تا ہے سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فر ق ہو تا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بنا تا ہے کرتا کچھ نہیں اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھا تا ہے با تیں نہیں بنا تا پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بند ہ میرے لیے عبادت کر رہا ہے۔ اور میرے لیے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے ۔تو اس وقت اپنے فر شتے اس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فر قان رکھد یتا ہے ۔
گناہ دور کر نے کا طریق
اصل غرض انسان کی پیدا ئش کی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے اور ان باتوں سے جو گناہ کہلا تے ہیں بچتا رہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ گناہوں اور بدیوں سے بچے لیکن ان کے دور کر نے کا کیا طریق ہے؟ یادرکھو کہ ہر گنا ہ اور بدی نری اپنی کو شش سے دور نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعا لیٰ کا فضل اس کے شام حال نہ ہو پس اسکے واسطے ضرورت ہیکہ گناہوں کے ترک کر نے کے لیے اس قدر تد بیر کر ے جو تد بیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کر ے جو دعا کا حق ہے تد بیر کے لیے چاہیئے کہ گناہوں کو یادرکھے کہ فلاں فلاں بات گناہ کی ہے اس سے بچنے کی کو شش کرو ۔ رات دن ان بد یوں کو دور کر نے کی فکر میں لگے رہو اور ان اسباب پر غور کرو جو ان بد یوں کا باعث ہو تے ہیں اگر ان بدیوں کا مو جب بد صحبت ہے تو اس صحبت کو چھوڑ دو اور اگر خلق بد اس کا باعث ہے تو اس خلق کو چھوڑ دو ہر ایک چیز کا کو ئی نہ کو ئی سبب ہو تا ہے اور اسے چھوڑ نہیں سکتا جب تک کہ اس سبب کو نہ چھوڑ ے ہاں یہ بھی سچ ہے کہ بعض وقت انسان ان اسباب اور وجود کو چھوڑنا چا ہتا ہے لیکن وہ عاجز ہو جا تا ہے اور اسے چھوڑنا چاہتا ہے مگر اس کے چھوڑنے میں قادر نہیں ہو سکتا ایسی صورت میں دعا سے کا م لینا چا ہیئے اور خدا تعالیٰ سے تو فیق ما نگے تا وہ اسے اس گناہ کی زند گی سے رہائی دے ۔
یادرکھو گناہ کی زند گی سے موت اچھی ہے کیو نکہ گناہ کی زندگی مجرما نہ زند گی ہے اگر اس پر موت واردنہ ہو تو یہ سلسلہ لمبا ہو جا تا ہے لیکن جب موت آجا تی ہے تو کم ازکم گناہ کا سلسلہ لمبا تو نہیں ہو تا اس سے یہ مردا نہیں کہ انسا ن خود کسی کر لیوے بلکہ انسان کو چاہیئے کہ اس زندگی کو اس قدر قیح خیال کر کے اس سے نکلنے کے لیے کو شش کرے اور دعا سے کام لے کیو نکہ جب وہ حق تد بیر کا ادا کرتا ہے اور پھر سچی دعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل آتا ہے کیو نکہ دعا بھی کو ئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے جب اس موت کو انسان قبول کر لیتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کو مجرما نہ زند گی سے جو موت کا مو جب ہے بچا لیتا ہے اور اسکو ایک پاک زند گی عطا کرتا ہے ۔
دعا کیا ہیَ اور کس طرح کر نی چا ہیئے
بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں سویادرکھنا چاہیئے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہا تھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ سے کہہ دیا اس دعا سے کو ئی فائدہ نہیں ہو تا کیو نکہ یہ دعا نری ایک منتر کی طرح ہو تی ہے نہ اس میں دل شریک ہو تا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کو ئی ایمان ہو تا ہے ۔
یادرکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہو تی ہے اس طرح پر دعا کے لیے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہو نا ضروری ہے اس لیے دعاکے واسطے پورا پورا اضطرات اور گداز ش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی پس چاہیئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زارہ وابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے ۔
یہ بھی یادرکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کر نے کی دعا کر ے ساری دعاؤں کا اصل اور جزویہی دعا ہے کیو نکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری جو اس کی حاجات ضرور یہ کے متعلق ہو تی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں وہ خود بخود قبول ہوع تی چلی جاتی ہیں بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرا یا جاوے یعنی اول اول جو حجاب انسان کے دل پر ہو تے ہیں ان کا دور ہو نا ضروری ہے جب وہ دور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دور کر نے کے واسطے اس قدرمحنت اور مشقت کر نی نہیں پڑے گی کیو نکہ خدفا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو کر ہزاروں خرابیاں خود بخود دور ہو نے لگتی ہیں اور جب اندر پا کیز گی اور طہارت پیدا ہو تی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جا تا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اس کا متکفل اور متو لی ہو تا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو ما نگے اللہ تعالیٰ خود اس کو پورا کر دیتا ہے یہ ایک باریک سر ہے جواس وقت کھلتا ہے جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے اس سے پہلے اسکی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہو تا ہے لیکن یہ ایک عظیم الشان مجاہدہ کا کام ہے کیو نکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے جو شخص دعا سے لا پرواہی کرتا ہے اور اس سے دور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دور ہو جاتا ہے جلد ی اور شتا ب کاری یہاں کام نہیں دیتی خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جو چاہے عطا کر ے اور جب چاہے عنایت فر ما ئے سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ کافی الفور عطا نہ کئے جانے پر شکایت کرے اور بد ظنی کرے بلکہ استقلا لاور صبر سے ما نگتا چلا جاوے دنیا بھی دیکھو کہ جو فقیر اڑ کر ما نگتے ہیں خواہ اس کو کتنی سی جھڑ کیاں اور جتنا چا ہو گھُر کو مگر وہ ما نگتے چلے جاتے ہیں اور اپنے مقام سے نہیں ہٹتے یہانتک کہ کچھ نہ کچھ لے ہی مرتے ہیں اور بخیل سے بخیل آدمی بھی ان کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جا تا ہے اسی طرح پر انسان جب اللہ تعالیٰ کے حضور گٹگڑاتا ہے اور بار بار ما نگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کریم رحیم ہے وہ کیو ں نی دے ؟دیتا ہے اور ضرور دیتا ہے مگر ما نگنے والا بھی ہو ۔
انسان اپنی شتاب کاری اور جلد بازی کی وجہ سے محروم ہو جا تا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بالکل سچا ہے
ادعونی استجب لکم
تم اس ما نگو اور پھر ما نگو اور پھر ما نگو جو ما نگتے ہیں ان کو دیا جا تا ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ دعا ہو نری بک بک نہ ہو اور زبان کی لاف زنی اور چرب زبانی نہ ہو ایسے لوگ جنہوں نے دعا کے لیے استقامت اور استقلا ل سے کام نہیں لیا اور آداب دعا کو ملخوظ نہیں رکھا جب ان کچھ ہاتھ نہ آیا تو آخر وہ دعا ا ور اس کے اثر سے منکر ہو گئے اور پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ سے بھی منکر ہو بیٹھے کہ اگر خدا ہو تا تو ہماری دعا کو کیوں نہ سنتا ان احمقوںکو اتنا معلوم نہیں کہ خدا تو ہے مگر تمہاری دعائیں بھی دعائیں ہو تیں پنجابی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جو دعا کے مضمون کو خوب ادا کرتی ہے اور وہ یہ ہے
جو منگے سومررہے مرے سومنگن جا
یعنی جو مانگنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ ایک موت اپنے اوپر وارد کریور مانگنے کا حق اسی کا ہے جو اول اس موت کو حاصل کر لے حقیقت میں اسی موت کے نیچے دعا کی حقیقت ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہو تا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھا تے ہیں یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدا ئی کا جلوہ دیکھنا ہواسے چاہیئے کہ دعا کرے ۱؎
ان ۲؎آنگھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنگھوں سے نظر آتا ہے کیو نکہ اگر دعا کے قبول کر نے والے کا پتہ نہ لگے تو جیسے لکڑی کو گھن لگ کر وہ نکمی ہو جا تی ہے ویسے ہی انسان پکار پکار کر تھک کر آخر دہر یہ ہو جاتا ہے ایسی دعا چاہیئے کہ اس کے ذریعہ ثابت ہو جاوے کہ اس کی ہستی بر حق ہے جب اس کو یہ پتہ لگ جاوے گا تو اس وقت وہ اصل میں صاف ہو گا یہ بات اگر چہ بہت مشکل نظر آتی ہے لیکن اصل میں مشکل بھی نہیں ہے بشر طیکہ تد بیر اور دعا دونوں سے کام لیو ے جیسے
ایا ک نعبد وایا ک نستعین (الفاتحۃ:۵)
کے معنوں میں (ابھی تھوڑے دن ہو ئے ) بتلا یا گیا ہے نماز پوری پڑھو صدقہ اور خیرات دو تو پوری نیت سے دو کہ خدا راضی ہو جاوے اور تو فیق طلب کر تے ر ہو کہ ریا کاری عجب وغیرہ زہر لیے اثر جس سے ثواب اور اجر باطل ہو تا ہے دور ہو جاویں اور دل اخلاص سے بھر جاوے خدا پر بد ظنی نہ کرو وہ تمہارے لیے ان کا موں کو آسان کر سکتا ہے وہ رحیم کریم ہے با کریماں کارہا دشوارنیست ۔اگر پیچھے لگے رہو گے تو اسے رحم آہی جا ئے گا ۔
خدا یا بی سے محروم رہنے کے اسباب
بہت لو گ ہیں کہ سیدھی نیت سے طلب نہیں کر تے تھوڑا طلب کر کے تھک جا تے ہیں۔ دیکھو اگر ایک زمین میں چالیس ہاتھ کھو دنے سے پانی نکلتا ہے تو تین چا ر ہا تھ کھو د کر جو شکا یت کر ے کہ پا نی نہیں نکلا اسے تم کیا کہو گے ؟اس قسم کے بد قسمت انسا ن ہو تے ہیں کہ وہ دو چا ر دن دعا کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ کیو ں نہ لگا اور اس طرح ایک دنیا گمراہ ہو گئی ہے وظیفے اور مجاہدے کر تے رہے مگر جس حد تک کھو دنے سے پا نی نکلنا تھا اس حد تک نہ کھو دایعنی نہ پہنچے تو خدا کی ذات سے منکر ہو گئے اور آخر کا ر خلقت کا رجوع اپنی طرف دیکھ کر ٹھگ بن گئے اس کا باعث یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف جس رفتار سے چلنا چا ہیئے تھا اس رفتار سے نہ چلے اور اس کے عطا کردہ دوسرے قویٰ اور اعضاء سے کام نہ لیا اور طوطے کی طرح وظیفوں پر زور لگاتے رہے آخر کار *** ہو گئے ۔
؎ گرنبا شدبدوست راہ بردن ؛ شرط عشق است در طلب مردن
اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کی راہ چلا جاوے یہا نتک کہ مر جاوے
واعبد ربک حتی یا یتک الیقین
کے یہی معنے ہیں وہ موت جب آتی ہے تو ساتھ ہی یقین بھی آجا تا ہے موت اور یقین ایک ہی بات ہے ۔غرضکہ اس کمزوری اور کسل نے لوگوں کو خدا یا بی سے محروم کر دیا ہے کہ پورا حق تلاش کا ادا نہ کیا ۔راستہ چھلکا مل گیا اسی پر راضی ہو گئے اور دو کانداربن گئے۔
راستبازوں کے لباس
اطاعت ،عبادت، خد مت میں اگر صبر سے کام لو تو خدا کبھی ضائع نہ کرے گا اسلام میں ہزاروں ہو ئے ہیں کہ لوگوں نے صرف ان کے نور سے ان کو شنا خت کیا ہے ان کو مکاروں کی طرح بھگوے کپڑے یا لمبے چو غے اور خاص خاص متیمز کر نے والے لباس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ خدا کے راستبازوں نے ایسی وردیاں پہنی ہیں پیغمبر خدا ﷺ کا کو ئی خاص ایسا لنا س نہ تھا جس سے آپ لوگوں میں متمیز ہو سکتے بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے ابوبکر ؓ کو پیغمبر جان کر ان سے مصافحہ کیا اور تعظیم وتکریم کر نے لگا آخر ابو بکر ں اٹھ کر پیغمبر ِخدا ﷺ کو پنکھا جھلنے لگ گئے اور اپنے قول سے نہیں بلکہ فعل سے بتلا دیا کہ آنحضرت ﷺ یہ ہیں مَیں تو خادم ہوں جب انسان خدا کی بندگی کرتا ہے تو اسے رنگدار کپڑے پہننے ،ایک خاص وضع بنا نے اور مالا وغیرہ لٹکا کر چلنے کی کیا ضرورت ہے ایسے لوگ دنیا کے کتے ہو تے ہیں خدا کے طالبوں کو اتنی ہو ش کہاں کہ وہ خاص اہتمام پوشاک اور وردی کا کریں۔ وہ تو خلقت کی نظروں سے پوشیدہ رہنا چاہتے ہیں۔ بعض بعض کو خدا تعالیٰ اپنی مصلحت سے با ہر کھینچ لاتا ہے کہ اپنی الوہیت کا ثواب دیوے آنحضرت ﷺ کو ہر گز خواہش نہ تھی کہ لوگ آپ کو پیغمبر کہیں اور آپ کی اطاعت کریں اور اسی لیے ایک غار میں جو قبر سے زیادہ تنگ تھی جا کر آپ عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کا ہر گز ارادہ نہ تھا کہ اس سے باہر آویں آخر خدا نے اپنی مصلحت سے آپ کو خود باہر نکا لا اور آپ کے ذریعے ے دنیا پر اپنے نور کو ظاہر کیا ۔
انبیاء۔تلا مندالرحمٰن
انبیائتلا مندالرحمٰن ہو تے ہیںان کا کو ئی مر شد وغیرہ نہیں ہو تا وہ دنیا سے بالکل فانی ہو تے ہیں وہ ہر گز اپنا اظہار نہیں چا ہتے مگر خدا انکو زبردستی با ہر لا تا ہے انسان کیا وہ فر شتوں سے بھی اخفا ء چا ہتے ہیں اور ان کی مفرت ہی اس قسم کی بنی ہو ئی ہو تی ہے وہ خدا کے نزدیک زندہ ہو تے ہیں لیکن جن کو دنیا کا خیال ہو تا ہے اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو اچھا جا نیں وہ خدا کے نزدیک مردار ہو تے ہیں اور ہزاروں قسم کی تصفعا ت سے ان کو کام لینا پڑتا ہے وہ شیطان ہو تے ہیں ان سے دور رہنا چا ہیئے وہ لوگ جن کو دیکھکر خدا یاد آتا ہے وہ اَور ہیں نہ کہ یہ ۔
پس یادرکھو کہ زبان سے خدا کبھی راضی نہیں ہو تا بغیر ایک موت کے کو ئی اس کے نزدیک زندہ نہیں ہو تا جس قدر اہل اللہ ہو تے ہیں سب ایک موت قبول کرتے ہیں اور جب خدا ان کو قبول کرتا ہے تو زمین پر بھی ان کی قبو لیت ہو تی ہے پہلے خداتعالیٰ خاص فر شتوں کو اطلاع دیتا ہے کہ فلاں بندے سے مَیں محبت کرتا ہوں اور وہ سب اس سے محبت کر نے لگ جا تے ہیں حتی کہ اس کی محبت زمین کے پا ک دلوںمیں ڈالی جا تی ہے اور وہ اسے قبول کر تے ہیں جب تک ان لوگوں میں سے کو ئی نہیں بنتا تب تک وہ پتیل اور تا نبا ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کی قدر کی جا وے۔
سچوں کی مخالفت
یادرکھو خدا کے بندوں کا انجام کبھی بد نہیں کرتا اس وعدہ
کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی(المجادلۃ:۲۲)
بالکل سچا ہے اور یہ اسی وقت پورا ہو تا ہے جب لوگ اس کے رسولوں کی مخالفت کریں فریبی مکاروں کی دنیا مخالفت نہیں کیا کرتی کیو نکہ دنیا دنیا سے مل کا تی ہے لیکن جسے خدا بر گز یدہ کر ے اس کی مخالفت ہو نی ضروری ہے سچے کے ساتھ ایک بڑے طو فان کے بعد لو گ ملا کرتے ہیں اور عقلمندلوگ جان جا تے ہیں کہ اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو تا تو اتنی مخالفت پر کیسے کا میاب ہو تا یہ سب امور مخالفت وغیرہ خدا کی طرف سے ہو تے ہیں اور اس میں وہ اپنے بندے کا صبر دیکھتا ہے اور دکھلا تا ہے کہ دیکھو جس کو مَیں انتخاب کرتا ہوں وہ کیسے بہادر ہیں کیو نکہ جھو ٹے کے لیے پانچ چھ دشمن ہی کا فی ہو تے ہیں لیکن ان کے مقابلہ پر ایک دنیا دشمن ہو تی ہے اور پھر یہ غالب آتے ہیں ایک جھو ٹا تحصیلدار اگر ایک گاؤں میں چلا جاوے اور ایک ادنیٰ سا آدمی بھی یہ کہہ ے کہ مجھے اس کی تحصیلداری میں شک ہے تو آخر کار وہ اسی دن وہاں سے کھسک جاوے گا کہ میرا پول کھل گیا کیو نکہ وہ فوق الکرامت نمونہ دیکھا تا ہے اور اسے دیک دیکھ کر لوگ تنگ آجا تے ہیں اور آخر کار بول اٹھتے ہیں کہ یہ سچوں کی استقامت ہے سچائی پر اگر پزار گردوغبار ڈالا جاوے پھر بھی وہ باہر نکل کر اپنا جلوہ دکھا ئے گی ۔
نصائح
فتنہ کی بات نہ کرو شر نہ کرو گا لی پر صبر کرو کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کر ے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ شیریں بیا نی کا عمدہ نمو نہ دکھلا ؤ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کرکے یہ سضص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا مقدمات میں سچی گواہی دو اس سلسلہ میں داخل ہو نے والے کو چا ہیئے کہ پوریدل ،پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پا بندہو جاوے دنیا ختم ہو نے پر آئی ہو ئی ہے۔
اس کے بعد آپ نے کسوف خسوف اور طاعون کا ذکر کیا کہ
ایک آسمانی نشان ہے اور ایک زمینی
پھر تاکید فر ما ئی کہ
خدا سے معاملہ صاف رکھو
(البدر جلد ۳نمبر ۱۱ صفحہ ۸،۹ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴؁ء)
ملفوظات
حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام جو کہ آپ نے مارچ کے آخر نصف میں فر ما ئے
(ایدیٹربدر)
صبر اور تقویٰ کے نتائج اگر دیکھنے ہوں تو سورہ یوسف کو غور سے مطا لعہ کرو جسے بھائیوں نے غلام بنا کر فروخت کیا تھا آخر کار خدا نے اسے تخت پر بٹھا دیا ۔
گناہ کی طاعون اور اس کاعلاج
اس وقت جبکہ بدی کمال انشار پر ہے اور اس کی ہوا ہی چلی ہو ئی ہے اس سے الگ ہو نا بھی ایک مرد کا کام ہے ہر ایک میں یہ طاقت نہیں کہ جو امنرادی سے اس سے الگ ہو جاوے جب انسان ہر کس و نا کس کو فسق وفجور میں مبتلا دیکھتا ہے تواد کا اثر اس کے قلب پرپڑتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ سب دنیا جو ایسا کرتی ہے تو یہ کو ئی بری بات نہیں اس لیے بدی کی طرف میلان ہو جاتا ہے اس پر خدا کا بڑافضل ہے جس کی یہ آنکھ کھلے اور وہ بدی کو بدی جان کر الگ ہو ۔
اس وقت جیسے طاعون پھیلی ہے اور سوائے خدا کے خاص فضل کے نجات نہیں اسی طرح گنا ہ کی طاعون ہے اور اس سے بچنے کے لیے بھی خدا فضل کی ضرورت ہے جیسے جسمانی حالت اور قویٰ میں دیکھا جا تا ہے کسی کی کو ئی قوت کمزور ہو تی ہے اور کسی کی کو ئی ۔یہی حال گناہوں کا ہے کہ بعض انسان خاص گناہوں کے تر ک پرتو قادر ہو تے ہیں اور دوسرے گنا ہوں کے تر ک میں کمزور پس گنا ہ کے چھوڑ نے میں جو اپنے آپ کو کمزور پاوے اس کو نشا نہ بنا کر دعا کر ے تو اسے فضلِ خدا سے قوت عطا ہو گی۔
سنتِ الہیٰ یہی ہے کہ ابتداکا فر وں کی ہو تی چلی آئی ہے اور انجام کا رمتقی فر یق کا میاب ہو تا رہا ہے
صحابہ کرامؓ کی مر اتب شنا سی
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مراتب پر گفتگو کر تے ہو ئے فر ما یا کہ
آنحضرت ﷺ کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے اصحابِ ثلاثہ سے ہی بنا ہے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جوکچھ کیا ہے وہ اگر چہ کچھ کم نہیں مگر ان کی کارروائیوں سے کسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خفت نہیں ہو سکتی کیو نکہ کا میا بی کی پٹڑ ی تو صدیق اکبرؓ نے ہی جمائی تھی اور عظیم الشان فتنہ کو انہوں نے ہی فر د کیا تھا ایسے وقت میں جن مشکلا ت کا سامنا حضرت ابو بکر ؓ کو پڑا وہ حضرت عمر ؓ کو ہر گز نہیں پڑا پس صدیق ؓ نے رستہ صاف کر دیا تو پھر اس پر عمرؓ نے فتوحات کا دروازہ کھو لا ۔
آخر عمر میں ایمان سلا مت لے جا نے کے لیے نہ علم کی ضرورت ہے اور نہ کسی اَور شئے کی استغفار بہت کر نی چا ہیئے اورنماز میں اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں دعا میں مصروف رہنا چا ہیئے ۔
اسلام اس بات کا نا م ہے کہ قرآن شریف کی اِ تباع سے خدا کو راضی کیا جاوے ۔
(البدر جلد ۳نمبر ۱۵ صفحہ ۳مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۲۹؍مارچ ۱۹۰۴؁ء
با ہر سے آنیوالوں کا حق
چند ایک احباب بیرون جات سے آئے ہو ئے تھے اور حضرت اقدس کے قریب بیٹھنے کے لیے ایکدوسرے پر گر ے پڑے تھے حضرتاقدس نے قادیا نی احباب کی طرف مخاطب ہو کر فر ما یا کہ
ان لو گوں کو جگہ دو ننے آدمیوں کی تو خدا تعالیٰ نے اول ہی سے سفارش کر رکھی ہے جیسے براہین میں یہ الہام موجود ہے کہ کثرت سے لوگ تیرے پاس آویں گے توان سے تنگدل نہ ہو نا۔
استقامت
بعد ازاں چند احباب نے بیعت کی جس پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذیل کی تقریر ایک ایسے شخص کے سوال پر فر ما ئی جس نے حضور سے استقامت کے لیے دعا کی در خواست کی تھی فر ما یا کہ
استقامت خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہم نے دعا کی ہے اور کر یں گے لیکن تم بھی خدا تعالیٰ سے استقامت کی تو فیق طلب کرو استقامت کے یہ معنے ہیں کہ جو عہد انسان نے کیا ہے اسے پورے پر نبھا وے یادرکھو کہ عہد کر نا آسان ہے مگر اس کا نبا ہنا مشکل ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ باغ میں تخم ڈالنا آسان مگر اس کے نشوونما کے لیے ہر ایک ضروری بات کو ملحوظ رکھنا اور آبپاشی کے اوقات پر اس کی خبر گیری کر نی مشکل ہے ایمان بھی ایک پورا ہے جسے اخلاص کی زمین میں بو یا جا تا ہے اور نیک اعمال سے اس کی آبپاشی کی جا تی ہے اگر اس کی ہر وقت اور موسم کے لحاظ سے پوری خبر گیری نہ کی جاوے توآخر کار تباہ اور برباد ہو جاتا ہے دیکھو باغ میں کیسے ہی عمدہ پودے تم لگاؤ لیکن اگر لگا کر بھول جا ؤ اور اسے وقت پر پا نی نہ دو یا اس کے گرد باڑ نہ لگا ؤ تو آخر کار نیتجہ یہی ہو گا یا تو وہ خشک ہو جاویں گے یا ان کو چورلے جاویں گے ایمان کا پودا اپنے نشوونما کے لیے اعمال صالحہ کو چاہتا ہے اور قرآن شریف نے جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے وہاں اعمال صالحہ کی شرط لگا دی ہے کیو نکہ جب ایمان میں فساد ہو تا ہے تو وہ ہر گز عند اللہ قبولیت کے قابل نہیں ہو تا جیسے غذا جب با سی ہو یا سڑ جاوے تو اسے کو ئی پسند نہیں کرتا اسی طرح ریا ،عجب ،تکبر ایسی باتیں ہیں کہ اعمال کو قبولیت کے قابل نہیں رہنے دتیں کیو نکہ اگر اعمال نیک سرزد ہو ئے ہیں تو وہ بند ے کی اپنی طرف سے نہیں بلکہ خاص خدا کی فضل سے ہو ئے ہیں پھر اس میں کیا تعلق کہ وہ دوسروں کو خوش کر نے کے لیے ان کو ذریعہ ٹھہرا تا ہے یا اپنے نفس میں خود ہی ان سے کبر کرتا ہے جس کا نام عجب ہے
خلق الا نسان ضعیفا(النساء:۲۹)
یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور اس میں بذاتِخود کو ئی قوت اور طاقت نہیں ہے جب تک خدا تعالیٰ خود عطا نہ فر ما ئے اگر آنگھیں ہیں اور تم ان سے دیکھتے ہو یا کان ہیں اور تم ان سے سنتے ہو یا زبان ہے اور تم اس سے بو لتے ہو تو یہ سب خدا کا فضل ہے کہ یہ سب قویٰ اپنا اپنا کام کر رہے ہیں وگرنہ اکثر لوگ مادرزاد اندھے یا بہرے یا گو نگے پیدا ہو تے ہیں بعض بعد پیدا ئش کے دوسرے حوادثات سے ان نعمتوں سے محروم ہو جا تے ہیں مگر تمہاری آنگھیں بھی نہیں دیکھ سکتیں جب تک روشنی نہ ہو اور کان نہیں سن سکتے جب تک ہوا نہ ہوا پس اس سے سمجھنا چا ہیئے کہ جو کچھ دیا گیا ہے جب تک آسمانی تا ئید اس کے ساتھ نہ ہو تنب تک تم محض بیکار ہو ایک بات کو تم کتنے ہی صدق دل سے قبول کرو مگر جب تک فضل الہیٰ شامل حالِ نہیں تم اس پر قائم نہیں رہ سکتے
احمدیت
بیعت تو بہ اور بیعت تسلیم جو تم نے آج کی ہے اور اس میں جو اقرار کیا ہے اسے سچے دل سے بہت مضبوط پکڑواور پختہ عہد کرو کہ مرتے دم تک تم اس پر قائم رہو گے سمجھ لو کہ آج ہم نفس کی خودررویوں سے با ہر آگئے ہیں۔ اور جو جوہدایت ہو گی اس پر عمل کرتے رہیں گے۔ ہم کو ئی نئی ہدا یت یا نیا دین یا نیا عمل نہیں لا ئے ہدا یت بھی وہی ہے دین بھی وہی ہے عمل بھی وہی ہے جو آنحضرتﷺ دے گئے ہیں کو ئی نیا کلمہ تم کو تلقین نہیں کیا جا تا اور نہ کو ئی نیا خاتم النبیین نیا یا جا تا ہے ہاں اس پر سوال ہو تا ہے کہ جب نئی بات کو ئی نہیں تو پھر فر ق کیا ہوا اور ایک جماعت کیوں تیار ہو رہی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ خدا ارادہ کیا تھا کہ وہ ایک مسیح موعود بنا کر بھیجے گا اور وہ اس وقت آوے گا جب کہ دنیا سخت تا ریکی میں ہو گی ہر طرف سے کفر کے حملے ہوں گے اسلام کو ہر ایک پہلو سے نقصان پہنچا نے کی کو شش ہو گی تواس کے آنے کے دو فائدے ہوں گے ۔
ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اسلام بد عات سے پورا حصہ لے چکا ہے ہر ایک بدعت تیسری صدی ہجری سے شروع ہو کر چودھویں صدی تک کمال کو پہنچ گئی اور پوری دجالی صورت پیدا ہو گئی ہے حدیثیں بلند آواز سے اس زمانہ کی نسبت خبر دے رہی ہیں جیسے ایک حمل کی مدت نوماہ ہو تی ہے اس منا سبت سے تیسری صدی کے بعد جب نوصد سال گذرگئے تو خدا نے ایک مامور کو معبو ث کیا کہ ان بدعات اور مفاسد کو دور کرے کیو نکہ لوگ آنحضرت ﷺ کے فر مودہ کے مطابق
لیسوامنی ولست منھم
کے مصداق ہو گئے تھے اور اسلام کاصرف نا م ہی نام ان کی زبانوں پر رہ گیا تھا جیسے ایک باغ کے عمدہ عمدہ بو ٹوں کو دوسرے خراب بوٹے اور گھاس وغیرہ پیدا ہو کر وبا لیتے ہیں ایسے ہی ردی گھاس اور بوٹے اسلام کے باغ میں ہوگئے تھے اور اس کا حقیقی نشوونما اورآب وتاب با لکل جا تی رہی تھی مکار درویش گد ی نشین اور فقیر وغیرہ اس ردی گھاس کی طرح ہیں جو کہ برائے نام تو مسلمان ہیں لیکن اصل میں دشمن ِاسلام ہیں خودانکا قول تھا کہ مسیح اور مہدی چودہویں صدی کے سر پر ہو گا وہ پورا ہو گیا پھر طاعون بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہو گیا نئی سواری جیسے ریل کہتے ہیں یہ بھی نشانی تھی۔ جو کہ چلتی دیکھتے ہو سورج اور چاند کا گرہن بھہ ماہ رمضان میں ہو گیاایک بڑی بد عت جس کی مثال جانوروں میں سے ہاتھی کی مثال ہے یہ پڑگئی تھی کہ نصاریٰ کا زور ہو گیا اور اسلام پر حملے شروع ہوئے۔۳۰ لاکھ سے زیادہ مسلمان مُرتد ہو چکے ۔کیا یہ ممکن تھا کہ اسلام کے قادرمطلق خدا کو چھوڑکر ایک عاجز انسان اور پھر میّت کو خدا مانا جاوے۔ کیا کسی کی عقل وفکر میں یہ بات آسکتی تھی مگر تا ہم لوگ اس دھوکہ میں آگئے ۔اس کا باعث عیسائیوں کی شرارت ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی ایک بڑا حصّہ اس کا اس طرح سے لیا ہو ہے کہ مسیح کو تو آسمان پر زندہ مانااور آنحضرت ﷺ کو زیر زمین دفن شدہ تسلیم کیا اوراس طرح سے ایک پہلو اور بات میں یہ خود عیسائیوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کا ایک دست وبازو نبے ہوئے ہیں اوّل تو قرآن شریف کے بر خلاف ایک بات کرتے ہیں اور پھر وہ بات جس سے عیسائیوں کو تقویت ہو۔قرآن شریف پیش کرتے ہیں کہ اس میں اس لا آسمان پر اُٹھایا جانا لکھا ہے حالانکہ قرآن شریف تو بڑے زور سے اس کی وفات ثابت کرتا ہے
فلما توفیتنی کنت انت الر قیب علیھم (المائدہ:۱۱۸)
اور
قد خلت من قبلہ الرسل (اٰل عمران: ۱۴۵)
اور
الم نجعل الاضکفاتا(المرسلات:۲۶)
وغیرہ بہت سی آیات ہیں جن سے وفات ثا بت ہو تی ہے پھر کمبخت نادان ایک اور بات کہتے ہیں کہ صرف مسیح اور اس کی ماں مَسِّ شیطان سے پاک ہیں ۔یہ اصل میں آنحضرت ﷺکو گالی دینا ہے کہ ایک نبی اسرائیل کی عورت مریم تو مَسِ شیطان سے پاک ہو اور نعوذبا للہ آنحضرتﷺ اس سے پاک نہ ہوں اگر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم کے زمانہ میں ہو تے اور یہ بات کہتے تو پھر دیکھتے کہ اس بے ادبی کی کیا سزا پا تے
مسیح اور مریم کو مَس ِشیطان سے پاک قرار دینے کی وجہ
اصل بات یہ ہے کہ حضرتمسیح اور ان کی ماں مریم پر یہود کا اعتراض تھا مسیح کو وہ لوگ نا جائز ولا دت کا الزام لگا تے اور مریم کو زانیہ کہتے تھے قرآنِ شریف کا کام ہے کہ انبیاء پر سے اعتراضات کو رفع کرے اس لیے اس نے مریم کے حق میں زانیہ کی بجا ئے صدیقہ کا لفظ رکھا اور مسیح کومس ِشیطان سے پاک کہا اگر ایک محلہ میں صرف ایک عورت کا تبر یہ کیا جاوے اور اس کی نسبت کہا جاوے کہ وہ بد کار نہیں ہے تو اس سے یہ الزام لا زم نہیں آت کہ باقی کی سب ضرور بد کا ر ہیں صرف یہ معنے ہوع تے ہیں ۔ کہ اس پر الزام ہے وہ غلط ہے یا اگر ایک آدمی کو کہا جاوے کہ وہ بھلا مانس ہے تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہو تے کہ با قی کے سب لوگ بھلے مانس نہیں بلکہ بد کار ہیں اسی طرح یہ ایک مقدمہ تھا کہ مسیح اور اس کی ماں پر الزام لگا ئے گئے تھے خدا نے شہادت دی کہ وہ الزاموں سے بَری اور پاک ہیں کیا عدالت اگر ایک ملزم کو قتل کے مقدمہ میں بَری کر دے تو اس سے یہ الزام آوئے گا کہ باقی سب لوگ اس شہر کے ضرور قاتل اور خونخوار ہیں غرضیکہ اس قسم کی بدعات اور فساد پھیلے ہو ئے تھے جن کے دور کر نے کے لیے خدا نے ہمیں مبعو ث کیا ہے ۔
دوسری با ت یہ ہے کہ تقویٰ ،طہارت ،خدا کی طرف رجوع ،خدا کی محبت اور ہر بد کاری کے وقت اس کے خوف اور عظمت کو مد نظر رکھ کر کنا ہ کش ہو نا یہ باتیں اٹھ گئی تھیں اور اسلام صرف برائے نا م رہ گیا تھا اب خدا نے چا ہا کہ سچی پا کیز گی حاصل ہو ۔
عقائد کا اثر اعمال پر
اسلام کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جاوے اور اس کے احسانوں کے بدلے میں اس کی پوری اطاعت کی جا وے رونہ خدا تعا لیٰ جیسے محسن ومر بی سے جو روگرددانی کرتا ہے وہ شیطان ہے ۔
دوسرا حصہ یہ ہے کہ مخلوق شناخت کرے اور کماحقہ ،اس کو بجا لا وے جن قوموں نے مو ٹے موٹے گناہ جیسے زنا ،چوری ،غیبت ،جھوٹ وغیرہ اختیار کئے آخر وہ ہلاک ہو گئیں اور بعض قومیں صرف ایک ایک گناہ کے ارتکاب سے ہلا ک ہو تی رہیں مگر چو نکہ یہ امت مر حومہ ہے اس لیے خدا تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا رونہ کو ئی معصیت ایسی نہیں ہے جو یہ نہیں کرتے با لکل ہندوؤں کی طرح ہو گئے ہیں ہر ایک نے الگ معبود بنا لیے ہیں عیسی کو مثل ِخدا کے حی وقیوم ما نا جا تا ہے پر ندوں کااسے خالق ما نا جا تا ہے با ت یہ ہے کہ عقیدے اچھے ہو تے ہیں ۔تو انسان سے اعمال بھی اچھے صادر ہو تے ہیں ۔دیکھو ہندوؤں نے ۳۳ کروڑ دیوتا بنا ئے تو آخر نیوگ وغیرہ جیسے مسائل کو بھی ما ننے لگ گئے اور ذرہ ذرہ کو خدا مان لیا اس نیوگ اور حرا مکا ری کی کثر ت کا با عث یہی اعتقاد کا نقص ہے جو انسان سچا اور بے نقص عقیدہ اختیار کرتا ہے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنا تا تو اس سے اعمال خود بخود ہی اچھے ڈادر ہو تے ہیں اور یہی باعث ہے کہ جب مسلما نوں نے سچے عقا ید چھوڑ دئیے تو آخر دجال وغیرہ کو خدا ما ننے لگ گئے کیو نکہ دجا ل میں تمام صفات خدا ئی کے تسلیم کر تے ہیں پس جب اس میں تمام صفات خدا ئی کے ما ننے ہو تو اسے خدا کہے اس کا اس میں کیا قصو ہوا؟ خود ہی تو تم خدا ئی کا چارج دجال کو دیتے ہو پروردگا ر چا ہتا ہے کہ جیسے عقائد درست ہوں ویسے ہی اعمال صالحہ بھی درست ہوں اور ان میں کسی قسم کا فساد نہ رہے اس لیے صراط مستقیم پر ہو نا ضروری ہے خدا نے با ر بار مجھے کہا ہے کہ
الخیر کلہ فی القران
اس کی تعلیم ہے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور قرآن نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے ۔
جماعت اور امام کی ضرورت
اَور ایک ضروری با ت یہ ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرو تر قی انسان خود نہیں کر سکتا تھا جب تک ایک جماعت اور ایک کا م امام نہ ہو اگر انسان میں یہ قوت ہو تی کہ وہ خود بخود ترقی کر سکتا تو پھر انبیاء کی ضرورت نہ تھی تقویٰ کے لیے ایک ایسے انسان کے پیدا ہو نے کی ضرورت ہے جو صاحبِ کشش ہو اور بذریعہ دعا کے وہ نفسوں کو پاک کر ے دیکھو اس قدر حکماء گذرے ہیں کیا کسی نے صالحین کی جماعت بھی بنا ئی ہر گزنہیں ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صاحب ِکشش نہ تھے لیکن آنحضرتﷺ نے بنا دی با ت یہ ہے کہ جسے خدا تعالیٰ بھیجتا ہے اس کے اندر ایک ترقی مادہ رکھاہوا ہو تا ہے پس جو شخص محبت اور اطاعت میں اس کے ساتھ ترقی کرتا ہے تواس کے ترقی مادہ کی وجہ سے اس کے گناہ کی زہر دور ہو تی ہے اور فیض کے تر شحات اس پر بھی گرنے لگتے ہیں اس کی نماز معمولی نماز نہیں ہو تی یادرکھو کہ اگر موجودہ ٹکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے تو ہر گز فا ئدہ نہ ہو گا نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے نماز کا حق ادا کر نے والا یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گرِپڑی ہے اگر طبیعت میں قبض اور بد مزگی ہو تو اس کے لیے بھی دعا ہی کر نی چا ہیئے کہ الہیٰ تو ہی اسے دور کر اور لذت اور نور نازل فر ما جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تبا ہ نہ ہو گا حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں یہ نماز ہو تی تو وہ قوم کبھی تبا ہ نہ ہو تی حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے روزہ بھی مشروط ہے زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پا نچ دفعہ ادا کر نے کا ہے اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ بر کا ت بھی نہ ہو ں گی جو اس سے حاصل ہو تی ہے اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا اگر بھوک یا پیاس لگی ہو تو ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سیری نہیں بخش سکتا پوری خوراک ہو گی تو تسکین ہو گی اسی طرح نا کارہ تقویٰ ہر گز کام نہ آئے گا خدا تعالیٰ انہیں سے محبت کرتا ہے جواس سے محبت کر تے ہیں
لن تنالوالبر حتی تنفقو مما تحبون(الِ عمران :۹۳)
کے یہ معنے ہیں کہ سب سے عزیز شئے جان ہے اگر مو قعہ ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دیدی جاوے نماز میں اپنے اوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ بھی بِرکو پہنچتا ہے ۔
(البدر جلد ۳نمبر ۱۱ صفحہ ۸،۹ مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۴؁ء)
۱۹ اپریل ۱۹۰۴؁ء
دُعا کی توفیق بھی خدا سے ملتی ہے
باوجود اس کے کہ انسان اپنے نفس کے اندر اختیار اور قدرت کا ایک نادہ پاتا ہے مگر پھر بھی وہ الہیٰ قدرت کے تصرفات سے باہر نہیں ہے اور اسے ہروقت اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام قوتوں اور قدرتوں کا سر چشمہ جو اللہ کریم کی ذات ہے وہ اس سے قوت طلب کرے اس طلب کر نے میں بھی اسے خدا تعا لیٰ کے فضل کی خاص ضرورت ہے بعض اوقات ایسے ہو تے ہیں کہ انسان ایک ضرورت کو محسوس کرتا ہے جانتا ہے کہ اس کے لیے دعا کر نی چا ہیئے ،لیکن باوجود اس علم اور قدرت وہ دعا نہیں کرتا اور اس کے لیے انشراح ِصدر حاصل نہیں ہو تا بعض لوگ اس باریک سرِاور تصرفات الہیٰ کو مد نظر نہ رکھ کر دعا پر اعتراض کرتے ہیں ان کے ایسے اعتراضات پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فر ما یا کہ
اگر دعا اپنے اختیار میں ہو تی تو انسان جو چا ہتا کر لیتا اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوست یا رشتہ دارکے حق ضرور فلاں بات ہو ہی جاوے گی بعض وقت باوجود سخت ضرورت محسوس کر نے کے دعا نہیں ہو تی اور دل سخت ہو جا تا ہے چو نکہ اس کے سر سے لوگ واقف نہیں ہو تے اس لیے گمراہ ہو جاتے ہیں اس پر ایک شبہ یہ پیداہو تا ہے کہ پھر جف القلم والی بات (یعنی مسئلہ تقدیر جس رنگ میں سمجھا گیا ہے ) ٹھیک ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے علم میں سب ضرور ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ پر قادر نہیں ہے کہ فلاں کام ضروری ہی کردیوے ۔ اگر ان لوگوں کا یہی اعتقاد ہے کہ جو کچھ ہو نا تھا وہ سب ہو چکا اور ہماری محنت اور کوشش بیسودہے تودردِسر کے وقت علاج کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں ۔پیاس کے لیے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہیں ؟بات یہ ہے کہ انسان کے تردو ۱؎ پر بھی کچھ نہ کچھ نیتجہ ظاہر ہو تا ہے ۔
دعا عمدہ شئے ہے اگر توفیق ہو تو ذریعہ مغفرت کا ہو جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ مہربان ہو جاتا ہے ۔دعا کیے نہ کرنے سے اول زنگ دل پرچڑھتا ہے پھر قسادت پیدا ہوتی ہے پھر خدا سے اجنبیت ۔پھر عداوت ۔پھرنتیجہ سلب ِایمان ہوتاہے ۔
جس مہدی کو لوگ مانتے ہے وہ شکّی ہے اور اس کی نسبت احادیث میں بہت تعارض ہے لیکن ہمارا دعویٰ اُس مہدی کا ہے جس کی نسبت کوئی شک نہیں ۔
خدا بڑا رحیم کریم ہے اگر لوگ رات دن تضّرع کریں۔خیرات اور صدقات دیں تو شاید وہ رحم کرکے اس عذاب سے ان کو نجات دے ۔ اگر جماعت متفق ہوکر تضّرع کی طرف متوجہ ہو تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے ۔ ہمارا آخری حصّہ عمر کا ہے اور ہمیشہ تجربہ ہوا ہے کہ خداتعالیٰ ہی غالب ہوتا ہے
واللّٰدغالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون(یوسف:۲۲)
یوسف علیہ السلام کا قصّہ ہی دیکھو کہ سب بھائی مصیبت زدہ ہوکر اُسی کے سامنے پیش ہوتے ہیں لیکن اُسے شناخت نہیں کر سکتے ۔اگر یہ ہمارا مقدمہ ایک انسانی کاروبار ہوتا تو سب سے اوّل بیزارہونے والا اس سے میَںہوتا مگر جبکہ اس کے قدم قدم پر خدا کا الیام ہوتاہے اسی کی ایک سے ایک امر ہے ۔
فرمایا:۔
رابعہ بصری کو اسی دن غم ہوتا تھا ۔ جس دن خدا کی راہ میںانہیں کوئی غم نہ ہوتا مومن کسی نہ کسی ابتلاء میں ضرور رہتا ہے ؎
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ ـ ۔’۔ نہ سہی وصل توحسرت ہی سہی
زندگی بڑھانے کے لیے ایسے کام کرنے چاہئیں جو خدا کی راہ میں ہوں۔ وہ احمق ہیں جو دُنیا کو معشوق ومحبوب بنالیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ آخر اُسے کیا کام آنا ہے ۔
(البدر جلد ۳نمبر ۱۸۔۱۹ صفحہ ۸؍۱۶ مئی ۱۹۰۴ء؁)
۱۹؍اپریل کی شام
زندگی کی اصل غرض
ـِِ’’زندگی کے فیشن سے بہت دوُر جا پڑے ہیں ‘‘۔
یہ الہام آج اعلیٰحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا تھا ۔اس پر فر مایا کہ ۔
زندگی کی اصل غرض اور مقصود تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے مگر اس وقت مَیں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر لوگ اس غرض اور مقصود کو فر اموش کر چکے ہیںاور کھانے پینے اور حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے سوااَور کو ئی مقصود نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا کو پھر اس کی زندگی کی غرض سے آگا ہ کرے اور یہ ففاء ِقہری اس کو رجوع کرائے گی۔
خوف ِخدا
اس لیے ہر شخص کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کو خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کاخوف اس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی اچھا ہے کیو نکہ اس خوف کی وجہ سے اس کو ایک بصیرت ملتی ہے جس کے ذریعہ وہ گناہوں سے بچتا ہے بہت سے لوگ تو ایسے ہو تے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعام اور کرام پر غور کر کے شرمندہ ہو جاتے ہیں اور کی نافر مانی اور خلاف ورزی سے بچتے ہیں ،لیکن ایک قسم لوگوں کی ایسی بھی ہے جو اس کے قہر سے ڈر تے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پرکھ سے اچھا نکلے۔بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو
اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم ستّار کی تجلی ہے ۔لیکن قیامت کے دن جب پردہ دری کی تجلی ہو گی اس وقت تمام حقیقت کُھل جائے گی ۔اس تجلی کے وقت بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج بڑے متقی اور پرہیز گار نظر آتے ہیں قیامت کے دن وہ بڑے فاسق فاجر نظر آئیں گے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عملِ صالح ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہوسکتا ۔اصل میں عمالِ صالحہ وپہ ہیں جس میں کسی نوع کاکوئی فساد نہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے ۔جیسے غذا طیب اس وقت ہو تی ہے کہ وہ کچی نہ ہو نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنیٰ درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزوِ بدن ہو جانے والی ہو ۔اسی طرح پر ضروری ہے کہ عملِ صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اورپھر آنحضرت ﷺ کی سنت کے موافق ہو اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو نہ عُجب ہو نہ ریا ہو نہ وہ اپنی تجویز سے ہو جب ایسا عمل ہو تو وہ عملِ صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریتِ احمر ہے ۔
شیطان سے بچنا
شیطان انسان کو گمراہ کر نے کے لیے اور اس کے اعمال کو فاسد بنا نے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے یہانتک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کر نا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی قسن کا فساد ڈالنے کی تدبیر یںکرتا ہے۔ نماز پڑ ھتا ہے تو اس میں بھی رِیاوغیرہ کو ئی شعبہ فساد کاملا ناچاہتا ہے۔ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کر نا چاہتا ہے پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیںہو نا چاہیئے کیو نکہ اس کے حملے فاستوں فاجروں پر تو کھلے کھلیہو تے ہیں وہ تو اس کو گو یا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی رنگ موقعہ پاکر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے جولوگ خدا کے فضل کے نیچے ہو تے ہیں اور شیطان کی باریک درباریک شرارتوں سے آگا ہ ہو تے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جوابھی خام اور کمزور ہو تے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں ریا اور عجب وغیرہ سے بچنے کے واسطے ایک ملامتی فرقہ ہے جواپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور سیّئسات کو ظاہر کرتا رہتا ہے وہ اس طرح پرسمجھتے ہیں کہ ہم شیطان کے حملوں سے بچ جاتے ہیں مگر میرے نزدیک وہ بھی کا مل نہیں ہیں۔ان کے دل میں بھی غیر ہے اگر غیر نہ ہو تا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے ۔انسان معرفت اور سلوک میں اس وقت کامل ہو تا ہے جب کسی نوع اور رنگ کا غیر ان کے دل میں نہ رہے اور یہ فرقہ انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے یہ ایسا کامل گروہ ہو تا ہے کہ اس کے دل میں غیر کا وجود بالکل معدوم ہوتا ہے ۔
محبت ذاتی کا مقام
اصل بات یہ ہے کہ غیر کے وجود کا لعدم سمجھنا یہ بھی اختیار ی نہیں ہے کیو نکہ یہ حالت عشقیہ ہے جواز خود پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی جڑمحبت ذاتی ہے جب محبت ذاتی کے مقام پر انسان پہنچتا ہے تو پھر یہ عشقیہ حالت پیدا ہو کر غیر کے وجود کو جلا دیتی ہے اور پھر کسی کے مدح وذم یاعذاب وثواب کی بھی پروا نہیں ہوتی۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کبھی کبھی اپنی مدح بھی سن لیا کرتے تھے لیکن اس سے یہ سمجھ لینا کہ آپ کو اس مدح کی پروا ہو تی تھی سخت غلطی ہے آپ کوان باتوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا تھا اور کوئی اثر اس کا آپ پر نہیں ہو سکتا تھا ایک محل ِمدح ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کو ہلاک کر دیتا ہے لیکن آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ تعلق اور رشتہ تھا کہ کسی دوسرے کی سمجھ میں بھی نہیں آسکتا تھا پس آپ کسی انسان کی مدح سے کیا خوش ہو سکتے تھے ایساہی ذم کاحال ہے آپ تو اللہ تعالیٰ کی محبت ِذاتی میں ففاہو چکے تھے خارجی احساس باقی ہی نہیں رہا تھا اس لیے سارے مقام ختم چکے تھے ۔
اصل بات یہ ہے کہ یہی وہ مقام ہے جومقامِ امن کہلاتا ہے زاہد خشک کی مدح کرنے والا اس کو ہلاک کر سکتا ہے کیونکہ وہ اس مدح سے خوش ہو کر اپنے وجود کو بھی شئے سمجھنے لگتا ہے اور اپنے اعمام پر ایک ناز کر نے لگتا ہے مگر یادرکھو کہ یہ مراتب بھی وہبی ہیں کو شش سے نہیں ملتے اورانسان کامل اسی کقام پر ہو تا ہے صوفی کہتے ہیں کہ جب تک محبت ِذاتی نہ ہو جاوے ایسی محبت کہ بہشت اور دوزخ پر بھی نظر نہ ہواس وقت تک کامل نہیں ہوتا اس سے پہلے اس کا خدا بہشت اور دوزخ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے لیے
اعلوا ماشئتم (حم السجدۃ:۴۱)
کا حکم ہوتا ہے کیو نکہ ان کی رضا خدا کی رضا ہوتی ہے جبتک یہ حال نہ ہو اندیشہ ہوتا ہے کہ نیکی ضائع نہ ہو جاوے ۔
ذاتی محبت والے سے اگر اس کی غرض پوچھی جاوے کہ تو کیوں خدا کی عبادت کرتا ہے تووہ کچھ بھی بتا نہیں سکتا کیو نکہ اسے کوئی ذاتی غرض محسوس ہی نہیں ہو تی بلکہ اگر اس کے لیے دوزخ کی وعید بھی ہو تواگر عبادت کرے گا تودوزخ ملے گا تب بھی وہ رک نہیں سکتا کیو نکہ اس کے رگ وریشہ میں اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت اور محبت ہو تی ہے وہ بے اختیار ہو کر اس کی طرف کھنچا شچلا جاتا ہے اسے نہیں معلوم کہ کیوں کھنچا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نہ وہ ثواب وعذاب کی پروا کرتا ہے اور نہ دوزخ وذم کا اثر اس پر ہوتا ہے انبیاء ورسل اسی مقام پر ہو تے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مخالف اور خطرناک مصائب اور مشکلات ان کو اپنے کام سے ہٹا نہیں سکتے مَیں
انعمت علیھم
اس مقام کو سمجھتا ہوں ۔یہ ایسا دارالامان ہے شیطان اس جگہ نہیں آسکتا ایک زاہد بعض وقت مغضوب کے زمرہ میں آسکتا ہے لیکن جو
انعمت علیھم
کے مقام پر پہنچ گیا وہ محفوظ ہو گیا اس کی وجہ ہے کہ محبت ِاذتی کی آگ غیر کے وجود کو مطلقاً جلا دیتی ہے اور اس امن میں داخل کر دیتی ہے استجابت دعا بھی اسی مقام پر ہو تا ہے یہ ایسا ارفع اور اعلیٰ مقام ہے کہ اس کی تصریح بھی نہیں ہو سکتی یہ ایک کیفیت ہے جو دوسرے کو اچھی طرح سمجھا بھی نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کے گلہ ِکر نے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے چو نکہ وہ ان تعلقات سے محض نا آشنا ہوتا ہے جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہو تے ہیں اس لیے کسی ایسے امر کو جو ہماری سمجھ اور دانش سے بالا تر اور بالا تر ہے ،اپنی عقل کے پیمانہ سے نا پنا صریح حماقت ہے مثلاً آدم علیہ السلام کا گلہ کر نے لگے کہ انہوں نے درخت ِممنوع کا پھل کھایا یا
عبس وتولیٰ
کو لے بیٹھے ایس حرکت آداب الرسل کے خلاف ہے اور کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے چو نکہ خدا تعالیٰ ان کا محبوب ہوتا ہے بعض اوقات وہ کسی بات پر گو یا روٹھ جاتا ہے وہ باتیں عام قانون جرائم وذنوب سے الگ ہو تی ہے ۔۳۰ سال کے قریب کا عرصہ ہوتا ہے کہ ایک مقرب فرشتہ کو مَیں نے دیکھا جس نے مجھے ایک توب کی چھڑی ماری پھر مَیں نے اس کو دیکھا کہ کرسی پر بیٹھ کر رونے لگا یہ ایک نسبت بتا ئی ہے کہ جیسے بعض اوقات والدہ بچہ کو مارتی ہے پھر رقت سے خود ہی رونے لگتی ہے یہ ایک لطیف استعارہ جو مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے ۔
نبی اور خدا کا تعلق
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان تعلقات کوجو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں کس طرح ظاہر کیا جاوے یہ تعلقات ایسے شدید اور گہرے ہو تے ہیں کہ بجز کامل الایمان ہو نے اور اس کو چہ سے آشنا ہو نے کے ان کی سمجھ آہی نہیں سکتے اس لیے صوفیوں نے لکھا ہے کہ ان کے افعال اور اعمال عام قانون جرائم وذنوب سے الگ تعلقات کا ہے ذنب محمدی کی حقیقت کو کو ئی کیا سمجھ سکتا ہے عام طور پر عاشق ومعشوق کے تعلقات کو کو ئی نہیں سمجھ سکتا اور یہ تعلقات تو اس سے بھی لطیف تر ہیں۔
آنحضرتﷺ کا استغفار
احمق حقیقت سے ناآشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جسقدر یہ لفظ پیا را ہے اور آنحضرتﷺ کی اندرونی پا کیزگی پر دلیل ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاشقِ رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کررہے ہیں جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرتے ہیں اور اظہار شکر سے قاصر پاکر تدارک کرتے ہیں ۔یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجذوم القلب لو گوں کو سمجھائیں ان پروارد ہو تو وہ سمجھیں جب ایسی حالت ہو تی ہے احسانات ِالہیہٰ کی کثرت آکر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر استغفار کے ذریعہ اپنے قصور شکر کا تدارک کرتی ہے یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قویٰ جن سے کو ئی کمزوری یا غفلت صادر ہو سکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں نہیں وہ ان قویٰ پر تو فتح حاصل کئے ہو ئے ہو تے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کر کیاستغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کر سکتے یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ نا آشنا ہیں اس کی مثال ایسی ہی جیسے حیوانات گدھے وغیرہ انسانیت کی حقیقت سے بے خبر اور ناواقف ہیں اسی طرح پر انبیاء ورسل کے تعلقات اور ان کے مقام کی حقیقت سے دوسرے لوگ کیا اطلاع رکھ سکتے ہیں یہ بڑے ہی لطیف ہو تے ہیں اور جس جس پر قدر محبت ذاتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر یہ اور بھی لطیف ہو تے جاتے ہیں دیکھو حضرت یوسفؑ نے صرف یہی کیا تھا کہ تم بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر نا صرف اتنی بات یہ ایک عرصہ تک زندان میں رہنا پڑا حالا نکہ عام نظرمیں یہ ایک معمولی سی بات ہو سکتی ہے مگر نہیں یہ ان تعلقات ِمحبت کے منافی تھی ۔غرض یہ ایک لطیف سرِہے جس پر ہر ایک مطلع نہیں ہو سکتا ۔یہی مقام ہے جس کی طلب ہر ایک کو کرنی چاہیئے ۔
برکریماں کا رہا دشوار نسبیت
(الحکم جلد ۸نمبر ۱۴،۱۵ صفحہ ۱،۲ مورخہ ۳۰؍اپریل ،۱۰ مئی ۱۹۰۴ء؁)
۲۱؍ اپریل ۱۹۰۴؁ء
انت منی بمنز لۃ عرشی
یہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تازہ وحی ہے عرش کے متعلق ۲۱؍ اپریل کی شام کو فر ما یا کہ :۔
عرش
عرش اللہ تعالیٰ کی جلالی وجمالی صفات کا مظہر اتم ہے عرش کے مخلوق یا غیرمخلوق کے متعلق مَیں کچھ نہیں سکتا ۔اس کی تفصیل حوالہ بخدا کر نے چاہیئے جنہوں نے مخلوق کہا ہے انہوں نے بھی غلطی کھا ئی ہے کیو نکہ پھر اس سے وہ محدود لازم آتا ہے اور جو غیر مخلوق کہتے ہیں وہ تو حید کے خلاف کہتے ہیں کیو نکہ
الذی خلق کل شئی
اگر یہ غیرمخلوق ہو تو پھر اس سے باہر رہ جاتا ہے مو من موحداس کو تسلیم نہیں کر سکتا ۔ ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے ۔اللّٰد تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔یہ ایک استعارہ ہے جیسے
افطرواصوم یاخطی وا صیب
فرمایا ہے ۔ اللّٰدتعالیٰ استعارات کے ذریعہ کلام کرتاہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کو حوالہ بخداکرتے ہیں ۔ پس ہمارا مذہب عرش کے متعلق یہی ہے کہ اس کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث میں دخل نہ دو ۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کی جلال وجمالی تجلیات کا مظہر ہے ۔
امن است درمکانِ محبّت سرائے ما
اس الہام کو سناتے وقت فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ
محبت بھی ایک نار ہوتی ہے اور طاعون بھی ایک نار ہے ۔اس لیے دو نار ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی ہیں اسی لیے معبّرین نے بھی لکھا ہے کہ جو شخص دیکھے کہ اس کے دل سے شعلئہ نار بھڑکتا ہے وہ عاشق ہو جائیگا ۔ عشق کو بھی نارکہتے ہیں ۔
پس اگراللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی اور عشق پیدا ہو جاوے اور اس کے ساتھ وفاداری ،اخلاص ہو تو اللّٰد تعالیٰ اس کو محفوظ کرلے گا ۔۱؎
وبائوں کا عذاب
جب دینا میں فسق و فجور پھیل جاتا ہے اور اللّٰد تعالیٰ سے لوگ دوُر جا پڑتے ہیں اور اس سے لاپروا ہو جاتے ہیں تو اللّٰد تعالیٰ بھی ا ن کی پروا نہیں کرتا ہے ایسی صورت میں پھر اس قسم کی وبائیں بطورعذاب نازل ہوتی ہیں ان بلائوں اور وبائوںکے بھیجنے سے اللّٰدتعالیٰ کی غرضیہ ہوتی ہے کہ ُدیناپر اللّٰدتعالیٰ کی توحید اور عظمت ظاہر ہو اور فسق وفجور سے لوگ نفرت کرکے نیکی اور را ستبازی کی طرف توجہ کریں اور خداتعالیٰ کے مامور کی طرف جو اس وقت دُنیا میں موجود ہوتا ہے توجہ کریں ۔اس زمانہ میں بھی فسق و فجور کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا ہے ۔ را ستبازی ، تقوے ٰ ،عفت اور خداترسی اور خدا شناسی بالکل اُٹھ گئی تھی ۔دین کی باتوں پر ہنسی کی جاتی تھی۔پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی زبان پر کیا تھا کہ مسیح موعود کے وقت دنیا میں میں مری بھیجوں گا اس طاعون کو اصلاحِ خلق کے لیے مسلط کیا ہے۔طاعون کو برا کہنا بھی گناہ ہے یہ تو خدا تعالیٰ کا ایک مامور ہے ۔ جیسا کہ مَیں نے ہاتھی والی رؤیا میں دیکھا تھا،لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ باوجود اسکے کہ بعض دیہاتبالکل برباد ہو گئے ہیں اور ہر جگہ یہ آفت برپا ہے تو بھی ان شوخیوں ،شرارتوں اور بیباکیوں میں فرق نہیں آیا جو اس سے پہلے بھی تھیں مکروفریب ،ریاکاری بدستور پھیلی ہو ئی ہے ۔ (الحکم جلد ۸نمبر ۱۶ صفحہ ۱ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۴ء؁)
۲۳؍اپریل ۱۹۰۴؁ء
ایک شخص نے حفاظتِ طاعون کے لیے دعا کی دوخواست کی ۔فر مایا کہ:۔
اول اپنے اعمال دوست کرو۔پھر دعا کا اثر ہو گا ۔
مکر اللہ
مکر اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی باریک در باریک ترابیر اور تجاویز آخرکار خدا کی تجاویز غالب آجاویں اور انسان کو ناکامی ہو اگر کو ئی کتاب اللہ سے اس فلاسفی کو نہیں مانتا تو دنیا میں بھی اس کی نظیر موجود ہے اوراس کے ا سرار پائے جاتے ہیں چور کیسی باریک در باریک تدابیر کے نیچے اپنا کام اور اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن گو رنمنٹ نے تجوویز باریک در باریک اس کی گر فتاری کی رکھی ہیں آخر وہ غالب آجاتی ہیں تو خدا کیوں غالب نہ آوے ۔
رعایت اسباب ضرروی ہیَ
اگر چہ سوائے اذن الہیٰ کے کچھ نہیں ہو تا مگر تا ہم احتیاط کر نی ضروری ہے کیو نکہ اس کے لیے بھی حکم ہی ہے احادیث میں جو متعدی امراض کے ایک دوسرے سے الگ جانے کی نفی ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امور مشہودہ اور محسوسہ کا انکار کیا جاوے اس سے کو ئی یہ نہ دھوکا کھا وے کہ ہمارا اعتقاد
قال اللہ وقال الرسول
کے برخلاف ہے ہر گز نہیں بلکہ ہم تو قرآن شریف کی اسباب کر نی قدیم سنت انبیاء کی ہے جیسے کہ آنحضرت ﷺ جنگ میں جا تے تو خود زرہ وغیرہ پہنتے خندق کھو دتے ،بیماری میں دوائیں استعمال کرتے ۔اگر کو ئی ترک ِاسباب کرتا ہے تو وہ خدا کا امتحان کرتا ہے جو کہ منع ہے۔ سخت دل ہر ایک فاسق سے بدتر ہوتا ہے اور وہ خدا سے اَبعدَہوتا ہے جو ٹیڑھی راہ اختیار کرتا ہے وہ بلاتلخی دیکھنے کے مرتا نہیں۔
(البدرجلد ۳نمبر ۱۸،۱۹ صفحہ ۳ مورخہ ؍۸۔۱۶ مئی ۱۹۰۴ء؁)
۲۵؍اپریل ۱۹۰۴؁ء
(بوقت شام)
خوارق ِعادت امور
شام کے وقت اس امر کا ذکر ہو رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کہاں تک اپنے بندہ کی نصرت اور حفاظت کرتا ہے اس پر حضور نے اپنا ایک واقعہ سنایا ۔ فرمایا کہ۔
مَیں ایک دفعہ زخیرِقولنج کے عارضہ میں مبتلا ہو گیا نوبت یہا نتک پہنچی کہ زندگی سے بالکل مایوسی ہو گئی اور کگر کے سب لوگ اپنی طرف سے مجھے مردہ تصور کر بیٹھے حتیٰ کہ سورہ یس بھی سنا دی گئی اور رونے کے لیے اردگر د چٹائیاں بچھا دیں لیکن مجھے رداصل ہو ش تھی اور مَیں سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا لیکن چو نکہ سخت تپش اور جلن تھی اس لیے بول نہ سکتا تھا مَیں نے خیال کیا کہ اگر میں زندہ بھی رہا تو اس قسم کی صعوبت اور موت کی تلخی پھر بھی دیکھنی پڑے گی کہ اسی اثنا میں مجھے الہام ہوا ۔
ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوابشفا ء من من مثلہ
اور تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا مَیں تسبیح پڑھ پڑھ کر شکم پر اور درد کی جگہ ہاتھ پھر تا تھا ایک سکینت حاصل ہو تی جا تی تھی اور درد والم وغیرہ رفع ہو تا جا تا تھا یہاں تک کہ اس سے بالکل آرام ہو گیا ۔
فر ما یا :۔
خوارقِ عادات کا علم اَور ہے اور یہ امور بہت ہی دقیق در دقیق ہیں معمولی زندگی اور اسباب پر ستی کی زندگی دہریت کی رگ سے اصل میں ملی ہو ئی ہو تی ہے حقیقی اور اصل زندگی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان حاصل ہو جاے ایمان قوی اسی وقت ہو تا ہے جب خصوصیت کے ساتھ خوارقِ عادت اور کثرت سے ہوں ۔
ہماری خواہش یہ ہے کہ الہیٰ تجلیات ظاہر ہوں جیسے کہ موسیٰ نے
اَرنی
کہا تھا رونہ ہمیں تو بہشت کی ضرورت ہے اور نہ کسی اَور شئے کی ۔
(البدرجلد ۳نمبر ۱۸،۱۹ صفحہ ۳،۴ مورخہ۸؍۱۶ مئی ۱۹۰۴ء؁)
۲۸ ؍اپریل ۱۹۰۳ء؁
مومن کی نظر اعمال صالحہ پر ہو نی چاہیئے۔
ایک نوجوان نے اپنے کچھ رؤیا اور الہامات سنا نے شروع کئے جب وہ سنا چکا تو آپ نے فر مایا ۔
مَیں تمہیں نصیحت کے طورپر کہتا ہوںاسے خوب یاد رکھو کہ ان خوابوں اور الہامات ہی پر نہ رہو بلکہ اعمال صالحہ میں لگے رہو بہت سے الہامات اور خواب سنیر وپھل کی طرح ہو تے ہیں جو کچھ دنوں کے بعد گر جاتے ہیں اور پھر کچھ باقی نہیں رہتا ہے ۔اصل غرض اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور بے ریا تعلق ۔اخلاص اوروفاداری ہے جو نرے خوابوں سے پوری نہیں ہو سکتی مگر اللہ سے کبھی بے خوف نہیں ہو نا چاہیئے جہاں تک ہو سکے صدق واخلاص وترک ِریا وترکِ منہیات میں ترقی کر نی چاہیئے اور مطالعہ کرتے رہو کہ ان باتوں پر کس حدتک قائم ہو اگر یہ باتیں نہیں ہیں تو پھر خوابیں اور الہامات بھی کچھ فائدہ نہیں دیں گے بلکہ صوفیوں نے لکھاہے کہ اوائل سلوک میں جو رؤیا یا وحی ہو اس پر تو جہ نہیں کر نی چاہیئے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے انسان کی اپنی خوابی اس میں تو کو ئی نہیں کیو نکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہیء جووہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھا وے یا کو ئی الہام کرے اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم عیہ السلام کو بہت وحہ ہواکرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں گیا گیا کجہ اس کو یہ الہام ہوایہ وحی ہو ئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا کہ
ابراہیم الذی وفی ۔
وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھا یا ۔یا یہ کہ
یا براہیم قد صدقت الرویا انا کذالک نجزی المحسنین(الصافات:۱۰۶)
یہ با ت ہے جوانسان کو حاصل کر نی چاہیئے اگر یہ پیدا نہ ہو تو پھر رؤیا والہام سے کیا فائدہ ؟مومن کی نظر ہمیشہ اعمال صالحہ پر ہو تی ہے اگر اعمال صالحہ پر نظر نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ مکر اللہ کے نیچے آجائے گا ہم کو تو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لیے ضرورت ہے اخلاص کی ،صدق ووفاکی،نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمت وکوشش محدود ہو جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض وبرکات کے دروازے کھول دیتا ہے اور رؤیا اور وحی کو القاء شیطانی سے پاک کردیتا ہے اور اضغاث احلام سے بچالیتا ہے پس اس بات کو کبھی بھو لنا نہیں چاہیئے کہ راؤیا اور الہام پر مدار سلاحیت نہیں رکھنا چاہیئے بہت سے آدمی دیکھے کئے ہیں کہ ان کو رؤیا اور لہام ہو تے رہے لیکن انجام اچھا نہیں ہوا جواعمال صالحہ کی صلاحیت پر موقوف ہے اس تنگ دروازہ سے جو صدق ووفا کا دروازہ ہے گذرنا آسان نہیں ہم کبھی ان باتوں سے فخر نہیں کرسکتے کہ رؤیا یا الہام ہو نے لگے اور ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہو رہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا وہ تو فر ماتا ہے
لیس للا نسان الا ماسعی(النجم :۴۰)
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ مجاہدہ کرے اور وہ کام کرکے دکھلا وے جو کسی نے نہ کیا ہو اگر اللہ تعالیٰ صبح سے شام تک مکالمہ کرے تو یہ فخر کی بات نہیں ہو گی کیو نکہ یہ تو اس کی عطا ہو گی دھیان یہ ہو گا کہ خود ہم نے اس کے لیے کیا کیا۔
بلعم کتنا بڑا آدمی تھا مستجاب الدعوات تھا اس کو بھی الہام ہوتا تھا لیکن انجام کیسا خراب ہوااللہ تعالیٰ اسے کتے کی مثال دیتا ہے اس لیے انجام کے نیک ہو نے کے لیے مجاہدہ اور دعا کر نی چاہیئے اور ہر وقت لرزاں ترساں رہنا چاہیئے ۔
مومن کو اعتقاد صحیح رکھنا اور اعمال صالحہ کر نے چاہئیں اور اس کی ہمت اور سعی اللہ تعالیٰ کی رضا اور وفا داری میں صرف ہو نی چاہیئے۔
مومن کی صحیح رؤیا کی تعبیر یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق ہو اس کے اَوَامر نواہی اور وصیایا میں پورا اتر ے اور ہر مصیبت وابتلا ء میں صادق مخلص ثابت ہو یادر کھو کہ ابتلا بھی دوقسم کے ہو تے ہیں ایک ابتلاء شریعت کے اوامروانواہی کا ہو تا ہے دوسرا ابتلا ء قضاوقدر کا ہو تا ہے جیسا کہ فر ما یس
ولنبلونکم بشیی ء من الخوف (البقرۃ:۱۵۶)
پس اصل مرد میدان اور کا مل وہ ہو تا ہے جو ان دو نو قسم کے ابتلا ؤں میں پورا اتر ے بعض اس قسم کے ہو تے ہیں کہ ارامر ونواہی کی رعایت کرتے ہیں لیکن جب کو ئی ابتلا مصیبت قضاوقدر کا پیش آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرتے ہیں ایسا ہی بعض فقیر دیکھے گئے ہیں کہ ہمیں نفس کشی کی اس قدر مشق ہے کہ سارے دن میں صرف ایک مرتبہ سانس لیتے ہیں وہ ابتلاء کے وقت بہت ہی بودے اور کمزور ثابت ہو تے ہیں قوی وہی ہے جواعتقاد صحیح رکھتاہو ۔اعمال صالحہ کر نے والا ہواور مصائب وشدائد میں پورا اتر نے والا ہو اور یہی جوانمردی ہے جب تک عبودیت میں پورا اور کامل نہیں راؤیا ئیا الہامات پر اس کا فخر بے جاہے کیو نکہ اس میں اپنی کو ئی خوبی نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس امر میں کا میابی کے لیے ایک زمانہ دراز چاہیئے جلدی ی کبھی نہیں چاہیئے جیسے کو ئی شخص درخت لگا تا ہے تو پہلے اس کی یہ حالت ہو تی ہے کہ ایک بکر ی بھی منہ مارکر اسے کھا سکتی ہے پھر اگر یہ اس سے بچے تو مختلف قسم کی آندھیاں اس پر چلتی ہیں اور اس کو اکھاڑنے کی کو شش کر تی ہیں ،لیکن اگر وہ ان سے بچ رہے تو پھر کہیں جا کر اسے پھول لگتے ہیں اور پھر وہ پھول بھی ہوا سے گر تے ہیں اور کچھ بچتے ہیں آخر الا مر پھل لگتا ہے اور اس پر بھی بہت سی آفتیں آتی ہیں کچھ یو نہی گرِجاتے ہیں اور کچھ آندھیوں میں تباہ ہو تے ہیں ۱ ؎ جو پکتے ہیں اور کھا نے کے کام آتے ہیں ۔
اسی طرح پر ایمانی درخت کا حال ہے اس سے پھل کھا نے کے لیے بھی بہت سی صعوبتوںاور مشکلات میں ثابت قدم رہنا ضروری ہے صوفی بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ جب تک موت نہ آوے زندگی حاصل نہیں ہو تی ۔قرآن ِشریف نے صحابہؓ کی تعر یف کر تے ہو ئے فر مایا ہے
منھم من تضی نحبہ ومنھم من ینتظر(الا خزاب:۲۴)
یعنی بعض صحابہؓ میں سے ایسے ہیں جو اپنی جان دے چکے ہیں اور بعض ابھی منتظر ہیں جب تک اس مقام پر انسان نہیں پہنچتا بامراد نہیں ہو سکتا ۔
دوقسم کے آدمی دراصل جان سلا مت لے جاتے ہیں ایک وہ جودین العجائز رکھتے ہیں یعنی جیسے ایک بڑھیا عورت ایمان لا تی ہے کہ اللہ ایک محمدؐ برحق ہے وہ اسرارِ شریعت کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت نہیں سمجھتی ہے
اور ایک وہ لوگ ہو تے ہیں نجو سلوک کی راہ اختیار کرتے ہیں بڑے بڑے خونخوار دشت وبیابان ان کی راہ میں آتے ہیں مگر وہ ہزاروں مو تیں برداشت کر کے پہنچ جاتا ہے ۔ اس کی جوانمردی اور ہمت قابل تعریف ہے لیکن ایک اَور گروہ ہو تا ہے جو نہ تو دین العجائز اختیار کرتا ہے اور نہ اس راہ کو اختیار کر کے انجام تک پہنچا تا ہے بلکہ اس دشت خونخوار میں پڑ کر راستہ ہی میں ہلاک ہو گیا ایسے لوگ وہی ہو تے ہیں جو مکر اللہ کے نیچے آجا تے ہیں غرض اس راہ کا طے کر نا بہت ہی مشکل ہے اس کے لیے چاہیئے کہ دعا میں مشغول ہو اور قرآن شریف کو پڑھ کر دیکھتے رہو کہ آیا اس کے حکموں پر چلتے ہو یا نہیں جس حکم پر نہیں چلتے اس پر چلنے کے لیے مجاہدہ کرو اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تو فیق دے ۔
غرض اعمال صالحہ بڑی چیز ہے قرآن شریف کو دیکھ لو جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے اسے اعمال صالحہ سے وابستہ کیا ہے اس میں متوجہ ہو کر خدا تعالی راضی ہو جاوے جب تک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں ۔
(البدرجلد ۳نمبر ۱۸،۱۹ صفحہ ۱۰مورخہ۸؍۱۶ مئی ۱۹۰۴ء؁)
نیز (الحکم جلد ۸نمبر ۱۴،۱۵ صفحہ ۲ مورخہ ۳۰؍ اپریل ویکم مئی ۱۹۰۴ء؁ ونمبر ۱۶ صفحہ۱۶ صفحہ امورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۴ء)
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۴ء
(بوقت شام)
الطریقۃ کلھا ادب
ایک شخص نو مسلم چکڑ الوی کے خیالا ت کا متبع آیا ہوا تھا اس نے نشان دیکھنا چاہا حضر ت حجتہ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے سوال کو طریق ادب وطالب کے خلاف پا کر حکم دیا تھا کہ تم واپس چلے جاؤ اس پر اس نے ایک معافی نا مہ پیش کیا جس پر حضرت حجتہ اللہ نے فر ما یا ؛۔
یہ بات محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے کہ کو ئی بات کسی کو سمجھا دے لیکن اسے سمجھ دیتا ہے جوادب کے طریو پر سچا طالب ہو کر تلاش کرتا ہے ۔
الطریقۃ کلھا ادب
خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شضص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلا ش کر تے ہیں وہ ان پر ہدایت ومعرفت کی راہیں کھو ل د یتا ہے جیسا کہ اس نے خود فر ما یا ہے
والذین جا ھدوافینا لنھدینھم سلبلنا
یعنی جو لوگ ہم میں کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا ء پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر لیکن اگر کو ئی استہزاء اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے وہ برنصیب محروم ہو جا تا ہے پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگر تم سچے دل سے کو شش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ عفور رحیم ہے لیکن اگر کو ئی اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں کرتا وہ نے نیاز ہے ۔
صبر واستقلال کی ضرورتدنیا فنا کا مقام ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان اس فانی مقام پر دلدادہ نہ ہو بلکہ آخرت کی فکر کرے جوابدی ہے اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاوے اور اس کی مرضی کو مقدم کر کے اس پر چلے اگر اللہ تعالیٰ مرضی کومقدم نہیں کرتا اور اس پر نہیںچلتا تو پھر اللہ تعالیٰ اسکی کو ئی پروا نہیں کرتا جیسے ہزاروں لا کھو ں کیڑے مر جا تے ہیں یہ بھی مر جاتا ہے اور اس کو کا ئی خیال نہیں ہو تا ،لیکن جو شضص اللہ تعالیٰ کے حضور عاجز ی کرتا ہے اور دعاؤں سے کام لیتا ہے اور تھکتا نہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اس پر اپنی راہ کے دروازے کھول دیتا ہے یہی اصول یہاں بھی ہے کیو نکہ مجھے اس خدا منے مامور کر کے بھیجا ہے پس اگر کو ئی یہاں آتا ہے اس لیے کہ وہ شعبدہ بازی دیکھے اور پھو نک مار کرولی بنا دیا ہے جاوے تو ہم صاف کہتے ہیں کہ ہم پھو نک مار کر ولی نہیں بنا تے جو شضص جلد بازی سے کام لیتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے خدا اس کی پروا نہیں کرتا تو مجھے اس کی کیا پروا اتنا ہی سمجھ لینا چاہیئے کہ خدا عفورورحیم ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ما ننا چاہیئے کہ وہ غنی بھی ہے اگر ساری دنیا اتقی قلب لے آوے تو اس کی الوہیت کی شان ایک ذرہ بھر بھی بڑھ نہ گئی اور اگر تقی نہ ہو تو اس اسے کچھ کم نہ ہو گا اس لیے طالب ِصادق کا پہلا کام یہ ہونا چاہیئے کہ وہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غنی بے نیاز ہے اسکو حاجت اس امر کی نہیں اسکی طرف رجوع کروں بلکہ مجھے حاجت اور ضرورت ہے کہ اسکی طرف رجوع کرو ں اور اسکے آستا نہ الو ہیت پر گروں جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا کو میری حاجت نہیںمجھے خدا کی حاجت ہے تو اس میں ایک طلب صادق کا جوش پیدا ہو تا ہے اور وہ خدا کی طرف رجوع کر نے لگتا ہے پس اگر کو ئی میرے پاس آتا ہے تواسے بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ میرا کام تو صرف پہنچا دنیا ہے منوا دنیا میرا کام نہیں اگر کو ئی اپنی بھلائی اور بہتر ی چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مَیں نے ایک دن مرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے تواس کا فرض ہو نا چاہیئے کہ صبر اور صدق کے ساتھ اس راہ کو تلاش کرے اور گھبرا ئے اور تھکے نہیں لیکن جب کو ئی حد سے زیادہ شرارت کرتا ہے اور اللہ تعا لیٰ کی باتوں پر ہنسی کرتا اور انہیں ٹھٹھے میں اڑانا چاہتا ہے تواس کا علاج اس نے اور رکھا ہوا ہے اب بھی یہی ہو رہا ہے اور ہو نے والا ہے اور کیڑوں کی طرح لوگ مررہے ہیں اور مریں گے۔
دیکھو دس روپیہ کا مقدر بھی ہو تو انسان اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے مشورہ لیتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے پھر وکیل تلاش کرتا ہے وکیل بھی اعلیٰ درجہ کا پھر حکام رس لوگوں کی تلاش کرتا ہے اور ان کی خوشامد کرتا اور جائز و نا جائز وسائل کے استعمال سے بھی نہیں چو کتا جب ایک تھوڑی سی متاع کے لیے وہ اس قدر جدوجہد اور کوشش کرتا ہے پھر اسے شرم کر نی چاہیئے کہ دین کے لیے اس کا دسوان حصہ بھی سعی نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ اسرار دن اس پر کھل جاویں اور وہ دم زدن میں ولی بن جاوے چند منٹ کے لیے ایک شخص ہماری مجلس میں آکر بیٹھتا ہے اور با ہر نکل کر فتویٰ دیتا ہے کہ مَیں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے یہ سب کچھ دکا نداری ہے ہم ایسے فتووں اور ایسی راؤں کی کیا پروا کریں گے کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور الہام کے مقابلہ میں جو روشن نشانوں اور دلا ئل کے ساتھ ہو رہا ہے ایسی بے سروپاراؤں اور فتووں کی کیا دقعت ہو سکتی ہے مگر ایسی رائے دینے والے کو مرنے کے بعد پتہ لگ جاوے گا کہ ان کے فتووں کی کیا حقیقت ہے اس وقت سارے پردے اور حجاب اٹھ جاویں گے اور حقیقت کھل جاوے گی مَیں دنیا کی حالت پر سخت تعجب اور افسوس کرتاہوں کہ اگر کسی کو کہہ دیا جاوے کہ تجھے جزام کا اندیشہ ہے تو وہ طبیت تلاش کرتا ہے اور نسخے پر نسخہ استعمال کرتا چلا جاتا ہے لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی بیماری کے لیے تو یہ جدوجہد کی جاتی ہے پر اس کے مقابلہ پر دین کے لیے کو ئی فکر اور کو شش نہیں کی جاتی جو ئندہ یا بندہ ایک عام مثل سے مگر اس کے لیے یہ بھی تو ضروری ہے کہ جو سچی تلاش اور طلب کا حق ہے وہ ادا کرے یہ تو نہیںکہ ایک شخص آتا ہے اور پو چھتا ہے کہ مجھے کو ئی نشان دکھادو مَیں شام کو واپس جانا چاہتا ہوں ایسی جلدبازی اور اقتراح خدا کو پسند نہیں ہے دیکھو زمنیدار کس قدر محنت کرتا ہے راتوں کو اٹھ اٹھ کر سخت ست سخت زمین میں ہل چلا تا ہے پھر تخمر یز ی کرتا ہے آبپا شی کرتا ہے اور حفاظت کرتا ہے تب جا کر کہیں پھل اٹھا تا ہے یہ کوشش اور محنت دنیا کے لیے تو ہے جو آج ہے کل نہ ہو گی مگر دین کے لیے کچھ بھی نہیں چو نکہ نفس میں خباثت ہو تی ہے اور تلاش ِحق مطلوب نہیں ہو تی اس لیے جلد فیصلہ کر لیتا ہے کہ مَیں نے سمجھ لیا ہے یہ بے انصافی اور ظلم نہیں تو کیا ہے ؟مگر یہ سچ ہے
وما ظلمو نا ولکن کانو انفسھم یظلمون (البقرۃ:۵۸)
ایک شخص جو کنواں کھودنے لگا ہے وہ اگر دوچار ہاتھ کھود کر شکایت کرے کہ پانی نہیں نکلا تو کیا اس کو احمق نہ کہا جاویگا اور ملا مت نہ ہو گی کہ ابھی تو اس حدتک پہنچا تو ہے ہی نہیں جہاں پا نی نکلتا ہے ابھی سے شکا یت کرتا ہے یہ تو تیرا اپنا ہی قصور اور نا دانی ہے ہر ایک امر کے لیے ایک قانون قدرت اور وقت ہے خواہ وہ امر دینی ہو یا دنیوی پھر دینوی امور میں تو ان قوانین قدرت کو نگا ہ رکھنا ہے لیکن دینی امور میں آکر عقل ماری جاتی ہے اورجلدی کر کے ایک دم میں سب کچھ چاہتا ہے یہ جلد باز اور شتا بکا رلوگ جب خدا تعالیٰ کے مامور وں کے پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی اس شتابکا ری سے کام لیتے ہیں اورچا ہتے ہیں کہ وہ ایک پھونک کار کر ان کو آسمان پر چڑھا وے ایسے نشان مانگتے ہیں کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اگر کو ئی شخص چاند یا سورج پر ایمان لا وے تو تباؤ اس کو اس ایمان سے کیا فائدہ اور ثواب ہو گا ۔ ایمان تو یہ ہوتا ہے کہ من وجہ ٍمحجوب ہو اور من وجہ منکشف ۔گر ایمان کی حد سے بڑھ کر ہو تا تو پھر ثواب ہی نہ ملتا ۔ثواب کا وعدہ اسی صورت میں ہے کہ عقلمندآدمی عقل صحیح سے کام لے کر قرائن قویہ پا کر سمجھ لیتا ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر اس طریق کو چھوڑتا ہے تو وہ پھر کسی ثواب کا مستحق نہیں ہو سکتا کیو مکہ اگر ایسا ہی حجاب اٹھ جاوے کہ آفتاب کی طرح ایک شئے روشن ہو جاوے تو کون احمق ہو گا جو کہے کہ اب آفتاب نہیں اور دن چڑھا ہوا نہی ہے اگر ایسا انکشاف ہو تو پھر کافر اور مومن میں کیا فرق ہوا؟ مو من تو کہتے ہی اس کو ہیں جو من وجہ محجوب پر ایمان لے آتا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اسی بات پر صدیق کہلائے ۔
پس قانون ِقدرت یہی ہے جو شخص جلد بازی کرتا ہے اور صبر اور استقلال کے ساتھ کو شش نہیں کرتا اور حسن ِظن سے کام نہیں لیتا وہ ہمارا کیا بگاڑے گا اپنی ہی شقاوت کا نشانہ ہو گا اس کی ایسی ہی مثال ہے پاس رہ کر علاج کر نا پڑے گا مگر وہ کہے کہ نہیں دو مہینے تک تو مَیں رہ نہیں سکتا تم ابھی کو ئی قطرہ ایسا دو کہ یہ ساری مرض جاتی رہے ایسا جلد باز مریض کیا خاک فائدہ اٹھا ئے گا وہ تو اپنا ہی نقصان کرے گا اس کے لیے قانون قدرت تو بدل نہیں جائے گا
ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً (الفتح :۲۴)
پس یہ بڑی بدبختی ہے کہ دنیا کے کا موں میں عقل سے کام لیتا ہے لیکن دین کے کاموں میں عقل کوبیکار اور معطل کر دیتا ہے یہ خطرناک مرض ہے اس کاعلاج یہی ہے کہ کثرت سے استغفار کرتا رہے نیک صبحت میں رہے اور دعاؤں میں لگا رہے اگر یہ نہیں کرتا تووہ ہلاک ہو جاوے گا اللہ تعالیٰ اس کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا لیکن جو صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ خدا کی طرف قدم اٹھا تا ہے اور اس راہ میں تھکتا اور گھبرا تا نہیں دعاؤں میں لگا رہتا ہے امیدہے کہ وہ ایک دن گوہر مقصود کو پالے ۔
(الحکم جلد ۸نمبر ۱۸ صفحہ ۲۔۳مورخہ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء؁)
اپریل کے آخری ایام
مامور اور نشان نمائی
(سنت اللہ سے ناواقف ہو نا بھی ایک موت ہے کیو نکہ اس جہالت کی وجہ سے بعض اوقات انسان خدا تعالیٰ کے مامور وں برگزیدوں کے سامنے ایسی جزأت اور شوخی کر بیٹھتا ہے جو اسے قبول ِحق سے محروم کردیتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری نہ کرے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور بعض
اوقات ایسے لوگ بھی آجاوتے ہے چنانچہ اواخر اپریل میں ایک نومسلم یہاں آیا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور بڑی دلیری سے نشان بینی کی درخواست کی جس پر حضرت اقدس نے
فر ما یا :۔
ہر ایک مامور کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ ڈالا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتا کیو نکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تا ہے اور یہی بالکل سچ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کو دنیا میں مامور کر کے بھیجتا ہے تواس کی تائید میں خارق عادت نشان بھی ظاہر کرتا ہے چنانچہ اس جگہ بھی اس نے میری تائید کے لیے بہت سے نشان ظاہر کئے ہیں جن کو لاکھوں انسانوں نے دیکھا ہے اور وہ اس پر گواہ ہیں ۔تاہم میں اپنے خدا پرکامل یقین رکھتاہوں کہ اس نے انہیں نشانوں پرحصر نہیں کیا اور آئینداس سلسلہ کو بند نہیں کیا وقتاً فوقتاًوہ اپنے ارادہ سے جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے ۔ایک طالبِ حق کے لیے وہ نشان تھوڑے نہیں ہیں مگر اس پر بھی اگردل شہادت نہ دے کہ ایک شخص واقعی طالبِ حق ہے اور صدقِ نیت سے وہ نشان کا خواہشمند ہے تو ہم اس کے لیے توجہ کر سکتے ہیں اور اللّٰد تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ کوئی امر ظاہر کردے لیکن اگر یہ بات نہ ہو اور خداتعالیٰ کے پہلے نشانوں کی بے قدری کی جاوے اور انہیں ناکافی سمجھا جاوے تو توجہ کے لیے جوش پیدا نہیں ہوتا اور ظہورِ نشان کے لیے ضروری ہے کہ اس میں توجہ کی جاوے اور اقبال الی اللّٰد کے لیے جوش ڈالا جاوے اور یہ تحریک اس وقت ہوتی ہے جب ایک صادق اور مخلص طلبگار ہو ۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ نشان عقلمندوں کے لیے ہوتے ہیں ان لوگوں کے و اسطے نشان نہیں ہوتے جو عقل سے کوئی حصّہ نہیں رکھتے ہیں ۔ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے کو ئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہدایت محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اگر اللہ تعالیٰ کی تو فیق شامل حال نہ ہو اور وہ فضل نہ کرے تو خواہ کوئی ہزاروں ہزار نشان دیکھے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور کچھ نہیں کر سکتا پس جب تک یہ معلوم نہ ہو کر نشانات گذشتہ سے اس نے کیا فائدہ اٹھا یا ہے ہم آ ئندہ کے لیے کیا امید رکھیں ۔
نشانات کا ظاہر ہو نا یہ ہمارے اختیار میں تو نہیں ہے اور نشانات کو ئی شعبدہ باز کی چابکد ستی کا نتیجہ تو نہیں ہو تے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مرضی پر مو قوف ہے وہ جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا۔
اس وقت جوسوال نشان نمائی کا کیا جاتا ہے اس کے متعلق میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہی ڈالا ہے کہ یہ اقتراح اسی قسم کا ہے جیسا ابو جہل اور اس کے امثال کیا کرتے تھے انہوں نے کیا فائدہ اٹھا یا ؟کیا کو ئی کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت کے ہاتھ پر نشان صادر نہیں ہو ئے تھے ۔اگر کوئی ایسا اعتقاد کرے تو وہ کافر ہے ۔آپ کے ہاتھ پر لاانتہا ء نشان ظاہر ہوئے مگر اجہل وغیرہ نے ان سے کچھ فا ئدہ نہ اُٹھایا ۔اسی طرح پر یہاں نشان ظاہر ہو رہے ہیں جو طالبِ حق کے لیے ہر طر ح کافی ہیں ۔لیکن اگر کوئی فائدہ نہ اُٹھا نا چاہے اور ان کو ردّی میں ڈالا جائے اور آئندہ خواہش کرے اس سے کیا امید ہو سکتی ہے ؟وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کی بے حرمتی کرتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے ۔
طریقِ ادب
طریقِ ادب تو یہ ہے کہ پہلے کتابوں کو دیکھا جاتا اور دیانتداری اور خدا ترسی سے ان میں غور کیا جاتا ۔وہ نشانات جو ان میں درج کئے گئے ہیں ان پر فکر کی جاتیاور میَں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص سلیم دل لے کر میری کتابوں کو پڑھے گا اور ان نشانوں پر غور کرے گا ۔تو اس کا دل بول اُٹھے گا کہ یہ انسانی طاقت سے باہر ہے کہ ایسے جلیل القدر نشان دکھا سکے لیکن ان کتابوں کو دیکھا نہیں جاتا اور تقویٰ سے کا م نہیں لیا جاتا ۔پھر شوخی سے کہا جاتا ہے کہ نشان دکھا ئو ۔اگر یہ ضروری ہو تا کہ ہر شخص کے لیے ایک جدا نشان ہو اور پھر ایک لمبا اور لا انتہا سلسلہ شروع ہو جاوے۔ہر شخص آکر کہے کہ پہلا نشان میرے لیے کافی نہیں ہے مجھے کوئی اور نشان دکھایا جاوے جو اس قسم کی جرات کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے اور معلوم ہو تا ہے کہ اس کیلئے ہدایت بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے صریح بُو آتی ہے کہ خدا کے پہلے نشانوں کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔
نشانوں کی ایک حد ہو تی ہے اور ان کی شناخت کے لیے ایک قوت شامہ دی جاتی ہے جو وہ وقوت نہیں رکھتا ہے جس سے اس کو پہچانے اس کے سامنے خواہ کتنے ہی نشان ظاہر ہو ں وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔اسلام کی سچائی پر یوں تو ہر زمانہ میں لاکھوں تازہ بہ تازہ نشان ہو تے ہیں مگر کیا یہ نشان بجائے خود کم ہے کہ جس توحید کو آنحضرت ﷺ لائے ہیں اور جس شرک وبدعت کو آپ نے دُور کیا ہے دنیا میں کبھی کسی مذہب نے نہیں کیا ۔ایک عقلمند کے لیے تو یہ نشان ایسا عظیم الشان ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن ایک غبی اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔
مفتری مہلت نہیں پاسکتا
ایک ولی اللہ ذات کے قصاب تھے ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میَں تب مانتا ہوں اگر آپ کوئی نشان دکھائیں ۔انہوں نے اس کو کیا عمدہ جواب دیا ہے کہ باوجودیکہ تیرا خیال ہے کہ ہم ایسے ہیں اور پھر باوصف ایسے گنہگار ہونے کے تُو دیکھتا ہے کہ ہم ابتک غرق نہیں ہو گئے ۔اسی طرح پر ہم بھی کہتے ہیں کہ کیا یہ نشان ہمارا کم ہے کہ ہم کو مفتری کہاجاتا ہے لیکن پچیس سال سے بھی زیادہ سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے اور دن بہ دن اس کو ترقی ہو رہی ہے اور ہم غرق نہیں ہو گئے ۔دانشمند اگر خدا ترس دل لے کر سوچے تو اس کے لیے یہ بھی کوئی چھوٹا سا نشان نہیں ہے
جو یہ کہ دیتے ہیں کہ بہت سے مفتری بچ گئے ہیں یہ محض افتراء ہے ۔اللہ تعالیٰ کے کلام میں خلاف نہیں ہو سکتا ۔کبھی کوئی مفتری مہلت نہیں پا سکتا ورنہ پھر خداتعالیٰ کے راستبازوں اور مفتریوں میں فرق کرنا مشکل ہو جائیگا۔خدا تعالیٰ کے سلطنت میں اندھیر نہیں ہے ۔اس دنیا کی سلطنت میں اگر کوئی شخص مصنوعی چپڑاسی بھی بن جاوے تو فی الفور پکڑا جاتا ہے اور اسے عبرتناک سزا دی جاتی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت میں ایسا اندھیر ہو کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کا مامور ہو نے کا مدعی ہو اور جھوٹے الہام خود ہی بنا کر خلق اللہ کو گمراہ کرے اور اللہ تعالیٰ اسکی پروانہ کرے بلکہ اس کی تائید میں نشان بھی ظاہر کردے اور اس کی پیشگوئیوں کو بھی پورا کر کے دکھا وے ۔کیایہ حیرت انگیزاور تعجب کی جگہ نہیں ہو سکتا ۔خدا تعالیٰ کبھی کسی مفتری کو مہلت نہیں دیتا ۔پس اصول پر ہمارا اب تک قائم رہنا اور اس سلسلہ کو نشونما پانا اور دن بدن تر قی کرنا بھی چھوٹی سی بات نہیں ہے ۔اگر کوئی خدا تر سی سے اس پر غور کرے تو اس کے لیے کم نشان نہیں ہے مگر جس شخص کو ہزاروں دوسرے نشان فائدہ نہیں پہنچا سکے اور اُن سے اُس نے کوئی سبق نہیں سیکھا آئندہ اس سے کیااُمید ہو سکتی ہے ؟
عیسائیت کا مستقبل
فر مایا ۔کہ عیسائی مذہب کے ساتھ ہما را مقابلہ ہے ۔عیسائی مذہب اپنی جگہ آدم زاد کی خدائی منوانی چاہتا ہے اور ہمارے نزدیک وہ اصل اور حقیقی خدا سے دُور پڑے ہوئے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ان عقائد کی (جو حقیقی خدا پرستی سے دور پھینک کر مُردہ پر ستی کی طرف لیجاتے ہیں )کافی تردید ہو اور دُنیا آگاہ ہوجاوے کہ وہ جو انسان کو خدا بناتا ہے خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا اور بظاہر اسباب عیسائی مذہب کی اشاعت اور ترقی کے جو اسباب ہیں وہ انسان پرست انسان کو کبھی یقین نہیں دلاتے کہ اس مذہب کا استیصال ہو جا ویگا لیکن ہم اپنے خدا پر یقین رکھتے ہیں کہ اس نے ہم کو اس کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے اور یہ میرے ہاتھ پر مقّدر ہے کہ میَں دنیا کو اس عقیدہ سے رہائی دوں ۔پس ہمارا فیصلہ کرنے والا یہی امر ہو گا ۔یہ باتیں لوگوں کی نظر میں عجیب ہیں مگر میَں یقین رکھتا ہو ں کہ میرا خدا قادر ہے۔
میں اصل میں دیکھتا ہو ں اور محسوس کرتا ہوں کہ مامور کے آنے کا کیا مدعا ہے اور میَں اس امر کو بھی خوب جانتا ہو ں کہ اس کا دعویٰ بناوٹ اور تکلف سے نہیں ہو تا ۔وہ جو کچھ کہتا ہے دنیا اپنی جگہ پر سمجھتی ہے کہ شائد یہ اپنی شہرت کے لیے کرتا اور کہتا ہے مگر میَں جانتا ہوں کہ وہ دنیا کی تعریف اور شہرت سے بالکل مستغنی ہو تا ہے وہ مجبور کیا جاتا ہے کہ باہر دنیا میں نکلے ورنہ اگر یہ سوزش اور گرازش جو اسے مامور کرکے خلق اللہ کی بہتری اوربہبود کی لگا دی جاتی ہے اُسے نہ لگائی جاتی ۔تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تنہائی میں اپنی زندگی بسر کرے اور کوئی اس کو نہ جانے ،لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی ایسے انسان کو منتخب کرتا ہے جو اس کے منشاء کے موافق کام کر سکتا ہے تو وہ اسے حجرہ سے باہر لاتا ہے اور پھر اس کو عظیم الشان استقلال اور ثباتِ قدم عنایت کرتا ہے ۔دنیا اور اس کی مخالفتوں کی اُسے کوئی پروا نہیں ہو تی ۔وہ ہر قسم کی تکالیف اور مصائب میں بھی قدم آگے بڑھاتا اور اپنے مقصد کو ہاتھ سے نہیں دیتا ۔میَں اپنے دل کو دیکھتا ہوں کہ با لطبع وہ شہرت اور بوہر آنے سے متنفر تھا ۔لیکن میں کیا کروں خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور باہر نکال دیا۔اب خواہ کوئی کچھ بھی کہے میں اس کی پروا نہیں کرسکتا اور میَں کسی کی تعریف یا مذمت کی پروا کروں تو اس کے یہی معنے ہیں کہ میَں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی پہلو میں رکھتا ہوں ۔
میَں دیکھتا ہو ں کی جس کام کے لیے اس نے مقرر کیا ہے اس کے حسبِ حال جوش اور سوزش بھی میرے سینہ میں پیدا کر دی ہے میَں بیان نہیں کر سکتا کہ اس ظلم صریح کو دیکھ کر جو ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے کیرے دل میں کس قدر درد اور جوش پیدا ہو تا ہے ۔ہزاروں ہزار انسان ہیں جو اپنے اہل وعیال اور دوسری حاجتوں کے لیے دعائیں کرتے اور تڑپتے ہیں مگر میَں سچ کہتا ہوں کہ میر ے لیے اگر کوئی غم ہے تو یہی ہے کہ نوعِ انسان کو اس ظلمِ صریح سے بچائوں کہ وہ ایک عا جز انسان کو خدا بنانے میں مبتلا ہو رہی ہے اور اس سچے اور حقیقی خدا کے سا منے ان کو پہنچا ئوں جو قادر اور مقتدر خدا ہے۔
میری فطرت میں کسی اور امر کے لیے مَیلان ہی نہیں رکھا گیا اور نہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اور کسی چیز کی حا جت میرے لیے رہنے دی ہے اس لیے میری بڑی دُعا اور آرزو یہی ہے کہ میَں اس باطل کا استیصال دیکھ لوں جو خدا تعالیٰ کی مسند پر ایک عاجز انسان کو بٹھایا جاتا ہے اور حق ظاہر ہو جاوے ۔میں اس جوش اور درد کو جو مجھے اس حق کے اظہار کے لیے دیا گیا ہے بیان کرنے کے واسطے الفاظ نہیں پاتا۔اگر یہ بھی مان لیا جاوے کہ کوئی اور مسیح بھی آسمان سے اُترنے والا ہے تو بھی میَں اپنے دل پر نظر کر کے کہ سکتا ہوں کہ جو گزازش اور جوش مجھے اس مذہب کے لیے دیا گیا ہے کبھی کسی کو نہیں دیا گیا۔
مجھے بشارت دی گئی ہے کہ یہ عظیم الشان بوجھ جو میرے دل پر ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہلکا کر دے گا اور ایک حیّ وقیوم خدا کی پرستش ہو نے لگے گی ۔ وہ خدا جو ہماری ہزاروں دعائیں قبول کرتا ہے کبھی ہو سکتا ہے کہ وہ دُعائیں جو اس کے جلال اور آنحضرت ﷺ کی بز رگی کے اظہار کے لیے ہم کر تے ہیں قبول نہ کرے ؟ نہیں وہ قبول کرتا ہے اور کر یگا ۔ہاں یہ سچ ہے کہ جس قدر عظیم الشان مر حلہ اور مقصد ہو اس قدر وہ دیر سے حا صل ہو تا ہے ۔ چونکہ یہ عظیم الشان کام ہے اس لیے اس کے حسبِ منشاء ہو نے میں ایک وقت اور مہلت مطلوب ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت قریب آرہاہے ا ور اس کی خوشبو دار ہوا ئیں آرہی ہیں اور مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ان دُعاؤں کو جو میَں ایک عر صہ دراز سے کر رہا ہوں قبول کر لیا ہے ۔
جس قدر دل بیساختہ ان ہموم وغموم میں مبتلا ہوں ۔اسی قدر اضطراب پیدا ہو تو یاد رکھنا چاہیئے کہ قبولیت کی تیاری آسمان پر ہو تی ہے کیو نکہ جب تک قبولیت کی تیاری آسمان پر نہ ہو وہ خشو ع خضوع اور درد و جوش جو حقیقی اضطراب کو پیدا کر تا ہے پیدا نہیں کر ہو سکتا ۔لیکن اس وقت جو میَں اس اضطراب اور کرب و قلق کو دل میں پاتا ہو ں مجھے کامل یقین ہو تا ہے کہ مصنوعی خدا کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے ۔
اس وقت ان باتوں پر ایمان لانا بہت مشکل معلوم ہو تا ہے اورکوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیونکر پیدا ہو سکتا ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ لوگ ان باتوں کو دیکھ لیں گے ۔میَں اپنے قادر خدا پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ جس بات کے لیے اُس نے میرے دل میں یہ جوش اور اضطراب ڈالا ہے وہ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور زیادہ دیر تک دنیا کو تا ریکی میں نہیں رہنے دے گا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں لاتے یا نہیں لائے ہیں ۔ان کے نزدیک بے شک انہونی باتیں ہیں مگر جو شخص اس کی عجیب در عجیب قدرتوں اور طاقتوں کے تماشے دیکھ چکا ہو اور جس کی اپنی ذات پر ہزار ہا نشان صادر ہو چکے ہوں ۔ہاں جسنے اس کی آوازیں سنی ہوں وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ یہ مشکل ہے یایہ انہونی ہے۔کبھی نہیں ۔وہ پکار کر انکار کرنے والے کو کہتا ہے
الم تعالم ان اللہ علی کل شی ء قد یر (البقرۃ :۱۰۷)
جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل ہے کہ مصنوعی خدا پر موت آوے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا نہیں ۔وہ
ماقدرو اللہ حق قدرہ(لا نعام :۹۲)
کے پورے مصداق ہیں ۔ دنیا میں اگر کوئی ابتلا پیدا ہو تا ہے تو اس کے مصالح اور اسباب کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔اس وقت دنیا بہت تا ریکی میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کو مُردہ پرستی نے ہلاک کر ڈالا ہے ،لیکن اب خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ دنیا کو اس ہلاکت سے نجات دے اور اس تا ریکی سے اس کو روشنی میں لاوے یہ کام بہتوں کے نظر میں عجیب ہے مگر جو یقین رکھتے ہیں کہ خدا قادر ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ۔وہ خدا جس نے ایک کُن کیکہنے سے سب کچھ کر دیا کیا وہ قادر نہیں کہ اپنے قدیم ارادہ کے موافق ایسے اسباب پیدا کرے جو
لا الہ الا اللہ
کو دنیا تسلیم کر لے
سلسلہ کی مخالفت اور نشان نمائی کے مطالبات
مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب اور افسوس آتا ہے جو عالم کہلاتے ہیں ۔مولوی اور صوفی بنتے ہیں ۔وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی کیا حالت ہو رہی ہے ۔ہر طرف سے اس پر حملے ہو رہے ہیں اور اسلام ایک سخت ضعف اور کمزوری کی حالت میں ہے اس وقت چاہیئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالی کے وعدوں کو مد نظر رکھ کر اس وقت وہ خود منتظر ہو تے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت اسلام کی حمایت اور نصرت کے لیے کیا سامان کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نصرت کا استقبال کر تے مگر افسوس ہے کہ وہ عیسائیوں کے حملوں کو دیکھتے ہیں جو وہ اسلام پر کرتے ہیں ۔مسلمانوں کی عام حالت کو دیکھتے ہیں لیکن آسمان سے کسی مدد کے نزول کے لیے ان کے دل نہیں پگھلتے ۔وہ انتظار کی بجائے خداتعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ پر ہنسی کرتے اور ٹھٹھے مارتے ہیں اور اس کو تباہ کر نے کے مبصوبے سوچتے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ ان منصوبوں سے خداتعالیٰ کا کوئی مقابلہ کر سکتا ہے؟خدا تعالیٰ نے خود جس کام کا ارادہ فر مایا ہے وہ تو ہو کر رہے گا ۔ان کی اس منصوبہ بازی اور خطر ناک مخالفت کو دیکھکر مجھے بھی ان پر رحم آتا ہے کہ ان کی حالت ایسی نازک ہو گئی ہے کہ یہ اپنی بماری اور کمزوری کو بھی محسوس نہیں کر سکتے ورنہ بات کیا تھی؟خدا تعالیٰ نے ہر طرح کے سامان ان کے سمجھنے اور سوچنے کے لیے مہیا کر دئیے تھے ۔وقت پُکار پُکار کر مصلح کی ضرورت بتاتا ہے اور پھر جس قدر نشان اور آیات صحائف انبیاء اور قرآن شریف اور احادیث کی رو سے اس وقت کے لیے مقرر تھے وہ ظاہر ہو چکے ۔نصوصِ قرآنیہ اور حد ثییہ بر ابر تائید کر تے ہیں ،عقل شہادت دیتی ہے اور آسمانی نشان بجائے خود مؤیّد ہیں مگر یہ عجیب لوگ ہیں کہ نشان دیکھتے ہیں اور منہ پھیر کر کہہ دیتے ہیں کہ کوئی نشان دکھاؤ ۔میَں ایسے لوگوں کو کیا کہوں بُجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کے فعل کو حقارت اور تعجب کی نظر سے دیکھتے ہو جو نشان پہلے اُس نے ظاہر کئے ہیں کیا تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہیں ۔کیا وہ نشان انسانی طاقت کے اندر ہیں اور کوئی اُن کا مقابلہ کر سکتا ہے کیا منہاجِ نبوت پر وہ نشان ایک شخص کی تسلی کے لیے کا فی نہیں ہیں ۔ جو نئے نشان مانگے جاتے ہیں خدا سے ڈرو اور اس سے مقابلہ نہ کرو ۔یہ تو ظلم صریح ہے کہ اسکی آیات کی ایسی بیقدری کرو کہ ان کو تسلیم ہی نہ کرو ۔پہلے یہ فیصلہ کرو کہ آیا خدا تعالیٰ نے کوئی نشن دکھا یا ہے یا نہیں اگر دیکھا یا یے اسی طرح پر جو وہ انبیاء کے وقتوں میں دکھاتا آیا ہے تو سعادت مند بن کر اُسے قبول کرو اور اس نعمت کی قدر کرو ۔اگر کوئی نشان نہیں دکھایا گیا ہے تو مانگو بیشک مانگو میَں یقین رکھتا ہوں کہ قادر خدا نشان دکھائے گا ۔لیکن میَں جانتا ہو ں کہ اس نے ہزاروں نشان ظاہر کئے مگر ان لوگوں نے ان کو استہزاء کی نظر سے دیکھا اور کافرِنعمت ہو کر ٹال دیا اور پھر کہتے ہیں کہ اور دکھاؤ یہ اقتراح مناسب نہیں ہے۔خدا تعالیٰ کامل طور پر اتمامِ حجت کرتا ہے اور اب طاعون کے ذریعہ کر رہاہے کیونکہ جن لوگوں نے رحمت کے نشانوں سے فوئدہ نہیں اُٹھایا موہ اب غضب کے نشانوں کو دیکھ لیں۔
میَں بڑی صفائی سے کہہ رہا ہوں کہ تم نے جو اسلام کو قبول کیا ہے کونسا معجزہ اس کا دیکھا تھا ۔جس قدر معجزات اسلام کے تم بیان کرو گے وہ سماعی ہو ں گے تمہارے چشمدید نہیں لیکن یہاں تو وہ باتیں موجود ہیں جن کے دیکھنے والے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں انسان ہیں ۔جو ابھی زندہ موجود ہیں ۔دو گواہوںسے ایک شخص پھانسی پا سکتا ہے ،لیکن تعجب کی بات ہے کہ یہاں لاکھوں انسان موجود ہیں جو ان نشانوں کے گواہ ہیں اور انکی شہادت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر ظلم اور حق کا خون کیا ہو گا ۔اگر خدا تر سی اور حق پسندی غر ض ہے اور جس مطلب کے لیے ہندو مذہب کو چھوڑ ۱؎کراسلام قبول کیاہے توایسے اقتراحوں سے کیا حا صل؟یہ سعادتمندی کی راہ نہیں ۔یہ تو ہلاکت کی راہ ہے کیونکہ جو اس قدر نشانات کے ہوتے ہوئے بھی پھر کہتا ہے کہ مجھے نشان دکھاؤ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ کا فر ہی مر ے گا۔
ہماری موت کے بعد اگر کوئی کہتا تو البتہ اُسے معذور سمجھ لیتے کہ اس کے سامنے جو نشانات ہیں وہ منقولی ہیں اور ان پر صدیا ں گزر گئی ہیں مگر اس وقت تو ہم زندہ مو جود ہیں ۔اور ان نشانات کو دیکھنے والے بھی زند ہ موجود ہیں ۔پھر کہا جاتا ہے کہ نشان دکھاؤ ۔ایسی ہی حالت ہو گی جب حضرت مسیح کو کہنا پڑا ہو گا کہ اس زمانہ کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ۔ حقیقی میں انسان جب دیکھتا ہو انہیں دیکھتا اور سنتا ہو ا نہیں سُنتا تو اس کی حالت بہت خطر نا ک ہو تی ہے ۔میَں نہیں سمجھ سکتا کہ جب تم اس وقت اس قدرآیات اللہ کے ہو تے ہوئے بھی انکار کرتے ہو اور جدید نشان کے طلبگا ر ہو تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے معجزات کے ماننے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے ؟اسے ذرا بیان تو کر نا چاہیئے یا اگر ان کو صرف حسنِ ظنّ کے طور پر سُن کر مان لیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس وقت ان تازہ آیات کا انکار کیا جاتا ہے ؟اور ان میں شک کیا جاتا ہے ۔کیوں ان کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ہاں بے شک یہ دیکھ لو کہ آیا وہ بشری طاقتوں کے اندر ہیں یا ان سے بڑ ھ کر ہیں اور منہاجِ نبوت پر ہیں یا نہیں ۔۱؎
رؤیت کا انکار کر نا کتنا بڑا ظلم ہے ۔ہزاروں ہزار نشان خدا تعاکیٰ نے اپنے بندہ کی تصدیق کے لیے ظاہر لئے اور ان کے دیکھنے والے موجود ہیں ۔گر افسوس کی بات ہے کہ اُن کو ردّکر دیا جا تا ہے اور جدید نشانوں کی خواہش کی جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ اور نشانات دکھلاوے لیکن سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ایسے اقتراح کرنے واکے اور اپنے ایمان کو مشروط کرنے والے ٹھو کر کھا جاتے ہیں پچھلے نشانوں کو توک کر کے آئندہ کے لیے سوال کرنا آیات اللہ کی بیحر متی اور خدا تعالیٰ کے حضور سُوء ادبی ہے ۔اللہ تعالیٰ تو فر ماتا ہے کہ
لئن شکر تم لا زید نکم (ابرا ھیم:۸)
اگر تم میر ی نعمت کاشکر کر وگے تو میَںاُسے بڑھاؤں گا اور پھر فر مایا
ولئن کفر تمان عذابی لشدید (ابرا ھیم:۸)
اور اگر انکار اور کفر کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔اب بتا ؤ کہ ان آیاتِ الہیٰ کی تکذیب اور ان کو چھوڑ کر جدید کی طلب اور اقتراح یہ عذابِ الہیٰ کو مانگنا ہے یا کیا ؟
سلسلہ کی تائید میں عظیم نشانات کا ظہور
دیکھو مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم خداتعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو کہ یہ محرومی کے نشان ہیں اور خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا ابھی کل کی بات ہے کہ لیکھر ام خدا تعالیٰ کے عظیم الشا ن نشان کے موافق مارا گیا کروڑوں آدمی اس پیشگو ئی کے گواہ ہیں خود لیکھر ام نے اسے شہرت دی مذہب کے لیے بطور معیار قائم کیا تھا آخر وہ خود اسلام کی سچائی اور میری سچائی پر اپنے خون سے شہادت دینے والا ٹھہرا اس نشان کو جھٹلا نا اور اس کی پروا نہ کرنا یہ کسقدر بے انصافی اورظلم ہے پھر ایسے کھلے کھلے نشان کا انکار کر نا تو خود لیکھرام بننا ہے اور کیا
مجھے بہت ہی افسوس ہو تا ہے کہ جس حال میں خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ اس نے ہر قوم کے متعلق نشانا ت دکھا ئے جلالی اور مجالی ہر قسم کے نشان دئیے گئے پھر ان کو ردی کی طرح پھینک دینایہ تو بڑی ہی بد بختی اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بننا ہے جو آیا ت اللہ کی پروا نہیں کرتا وہ یادرکھے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر ہو تے ہیں وہ ایسے ہو تے ہیں کہ ایک عقلمند خدا ترس ان کو شناخت کر لیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن جو فراست نہیں رکھتا اور خدا کے خوف کو مدنظر رکھ کر اس پر غور نہیں کرتا وہ محروم رہ جا تا ہے کیو نکہ وہ یہ چا ہتا ہے کہ دنیا دنیا ہی نہ رہے اور ایمان کی وہ کیفیت جو ایمان کے اندر موجود ہے نہ رہے ایسا خدا تعالیٰ کبھی نہیں کرتا اگر ایسا ہو تا یہودیوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ حضرت مسیح کا انکار کرتے موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیوںہوتا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کو اس قدر تکالیف کیو برداشت کر نی پڑتیں خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہی نہیں کہ وہ ایسے نشان ظاہر کرے جو ایمان بالغیب ہی اٹھ جاوے ایک جاہل وحشی سنت اللہ سے ناواقف تو اس چیز کو معجزہ اور نشان کہتا ہے جو ایمان بالغیب کی مدسے نکل جاوے مگر خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں کرتا ہماری جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے کمی نہیں کی کو ئی شخص کسی کے سامنے کبھی شرمند ہ نہیں ہو سکتا جس قدر لوگ اس سلسلہ میں داخل ہیں ان میں سے ایک بھی جو کہہ سکے کہ مَیں نے کو ئی نشان نہیں دیکھا ۔
براہین احمدیہ کو پڑھو اور اس پر غور کرو اس زما نہ کی ساری خبریں اس میں موجود ہیں ۔ دوستوں کے متعلق بھی ہیں اور دشمنوں کے متعلق بھی اب کیا یہ انسانی طاقت کے اند ر ہے کہ تیس برس پہلے جب اس ایک سلسلہ کا نام ونشان بھی نہیں اور خوداپنی زندگی کا بھی پتہ نہیں ہو سکتا کہ میَں اس قدر عرصہ تک رہو ںگا یا نہیں ایسی عظیم الشان خبر یں دے اور پھر وہ پوری ہو جاویں نہ ایک نہ دو بلکہ ساری کی ساری براہین احمد یہ احمدی لوگوں کے گھروں میں بھی ہے عیسائیوں اورآریوں اور گورنمنٹ تک کے پاس موجود ہے اور اگر خدا کا خوف اور سچ کی تلاش ہے۔ تو مَیں کہتا ہوں کہ براہین کے نشانات پر ہی فیصلہ کرلو دیکھو اس وقت جب کو ئی مجھے نہیں جا نتا تھا اور کو ئی یہاں آتا بھی نہیں تھا ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا اس جماعت کی جو یہاں موجود ہے خبر دی اگر یہ پیشگوئی خیالی اور فرضی تھی تو پھر آج یہاں اتنی جماعت کیوں ہے ؟ اور جس شخص کو قادیان سے باہر ایک بھی نہیں جانتا تھا اور جس کے متعلق براہین میں کہا گیا تھا
فحان ان تعان وتعرف بین الناس۔
آج کیا وجہ ہے کہ وہ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب ،شام مصر سے نکل کر پورپ اور امر یکہ تک دنیا اس کو شناخت کرتی ہے اگر یہ خدا کا کلام نہیں تھا اور خدا کے منشاء کے خلاف ایک مفتری کا منصوبہ تھا تو خدا نے اس کی مدد کیوں کی ؟کیوں اس کے لیے ایسے سامان اور اسباب پیدا کر دئیے ؟کیا یہ سب مَیں نے خود بنالیے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اسی طرح پر کسی مفتری کی تائید کیا کرتا ہے تو پھر راستبازوں کی سچائی کا معیار کیا ہے تم خود ہی اس کا جواب دو ۔سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کہ مَیں اپنے وقت میں کر لیتا اور جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس نشان کو میرے دعویٰ کے وقت پورا کر دیا اگر مَیں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا ؟اس کا سوچکر جوان دینا چاہیئے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے آنحضرت ﷺ کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لا کھو ں تک ہے تم کس کس کا انکار کرتے جاؤگے؟
اسی براہین مین یہ بھی لکھا ہے
یا تون من کل فج عمیقٓ
اب تم خود آئے ہو تم نے ایک نشان پورا کیا ہے اس کا بھی انکار کرو اگر اس نشان کو جو تم اپنے آنے سے پورا کیا ہے مٹا سکتے ہو تو مٹا ؤ ۔مَیں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو آیا ت اللہ کی تکذیب اچھی نہیں ہو تی اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کتا ہے میرے دل میں جو کچھ تھا مَیں نے کہہ دیا ہے اب ماننا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مَیں صادق ہوں اور اسی کی طرف سے آیا ہوں۔ ۱؎
 
Top