• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1 تا 5

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلداوّل)
حضرت حجۃ اللہ امام ربانی میرزا غلام احمد قادیانی (مغفور) مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات بنام میر عباس علی شاہ لودہانوی
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم نے مرتب کر کے اپنے کارخانہ انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں چھاپ کر شائع کیا
۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۰۸ء
(حقوق محفوظ ہیں)
تعداد جلد ۱۰۰۰ قیمت فی جلد ۸؍
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۱
مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا۔جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے۔ حاجت تاکید نہیں چونکہ یہ کام خالصاً خدا کیلئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو۔ بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایۂ جمع کرنے کیلئے یہ ایک تجویز ہے۔ مگر جن کا اصول محض خریداری ہے۔ اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہو اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتابکاری سے پیش آویں۔ اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کیلئے حسب حکمت کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھتی ہے۔ پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے۔ طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الاردات لوگوں سے مدد لیں۔ اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔ وہ جو قادر مطلق ہے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔ کونسی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔
(۲۸؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء؍ ۱۵؍ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۲
مشفقی مکرمی حضرت میر عباس علی شاہ صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد ہذا دوقطعہ ہنڈوی… پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ امور خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشادمنشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے۔ مناسب ہے۔ جو آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میںاس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی۔ اور آپ کو خدا جزاخیر بخشے۔ یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں۔ آریا سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیںاور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہٖ انسان کا اختراع سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے۔ لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں۔ وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے۔ یہ ایک اور فرقہ ہے جو کلکتہ اور ہندوستان کے اکثر مقامات میں پھیلا ہوا ہے اور لاہور میں بھی موجود ہے۔ یہ لوگ کتب الہامیہ کا انکار کرتے ہیں اور اگرچہ ہندو ہیں مگر وید کو نہیں مانتے۔ نہ اُس کی تعلیم کو عمدہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ آریہ سماج والوں کی نسبت بہت ذی علم اور دانا ہوتے ہیں۔ اور کئی اصول اُن کے اسلام سے ملتے ہیں۔ مثلاً یہ تناسخ کے قائل نہیں۔ بُت پرستی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ خدا کو صاحب اولاد اور متولد ہونے سے پاک سمجھتے ہیں۔ مگر کتب الہامیہ کے مُنکر ہیں اور الہام صرف ایسی باتوں کا نام رکھتے ہیں جن کو انسان خود عقل یا فکر کے ذریعہ سے پیدا کرے۔ یا معمولی طور پر اُس کے دل میں گزر جائیں اور انبیاء کی متابعت کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف عقل کو کامل قرار دیتے ہیں۔ الہام ربانی سے انکار کرنا اُن کا ایک مشہور اصول ہے جیسا رسالہ برادر ہند میں جو پنڈت شیونارائن کی طرف سے شائع ہوتا تھا۔ چھپتا رہا ہے چونکہ ہندوستان میں اُن کی جماعت بہت پھیل گئی ہے اور اُن کے وساوس کے ضرر کا نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بہت اثر پہنچتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے۔ اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا ہمارا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے۔ جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں۔ بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں۔ مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے۔ چونکہ انسان کا خاصہ ہے جو معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خاں بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہے۔ پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا۔ لاہور کے برہموسماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے۔ مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں۔ عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا۔ جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو۔ اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ سو وہ دونوں وہ دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کرتے رہیں۔ تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے۔ ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی منابعت کرے اور متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے۔ تو بھر تحت الثری میں گر جاتا ہے۔ اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے۔
(۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
مکتوب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ… بابت خریداری دو جلد کتاب پہنچا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خیرا وھویسمع ویرا۔ میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپ کی قبولیت کا بہت امیدوار ہوں۔ خصوص ایک عجیب کشف سے مجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نام الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی۔ جو باشندہ لودہیانہ ہے۔ اس عالم کشف میں اُس تمام پتہ و نشان، سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا۔ سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء۔ یہ اُس کی ارادت ایسی قومی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ نزلزل ہے نہ نقصان۔ کئی پادریوں اور ہندؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں اور وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں۔
مکتوب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
بعد ہذا خداوند کریم آپ بہت جزا خیر دیوے۔ آپ سرگرمی سے تائید دین کیلئے مصروف ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ قاضی باجی خان صاحب نے محض بطور امداد دس روپیہ بھیجے ہیں۔ خداوند اُن کو اجر بخشے۔ اس پُرآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کیلئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پُرانی ہو کر اُس پر گردوغبار بیٹھ جاتا ہے۔ اب اسی طرح اکثر دلوں پر جب دنیا کا گردہ بیٹھاہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اُٹھاوے۔ خدا اس ظلمت کو دور کرے۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر یک عسر کے بعد یسر اور ہر یک جذر کے بعد مد اور ہر ایک رات کے بعد دن بھی ہے۔ اس لئے تفضلات الٰہیہ آخر فرو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں۔ سو خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے اُنہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اُٹھائے ہیں۔ ویسا ہی اُن کو مرہم عطا فرماوے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز اُن لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیّت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی۔ غنیمت نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں۔ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثر کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں۔ اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں۔ سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں۔ اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں۔
(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللہ سرحمایۃٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آنمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے۔ یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے۔ سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے۔ اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں۔ آپ سکینت اور تسلی بخشے۔ زمانہ نہائت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حال صداقت و نجابت آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظر کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر وَرْحَمْہُ اللّٰہ وَاِیَّاکُمْ وھُوَ مَوْلٰنٰا نِعْمُ المُوْلٰی وَیغْمُ النَصِیر۔
۱۷؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ


مکتوب نمبر ۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرم اخویم میر علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آپ کا خط جو آپ نے لودہیانہ سے لکھا تھا، پہنچ گیا۔ جس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی۔ بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اُسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔ خداوند کریم اس رابطہ کو زیادہ کرے۔ آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھاکہ ایک برہمو صاحب ملے جن کا یہ بیان تھا کہ گویا اس عاجز نے اُن کی اصلیت کو سمجھا نہیں۔ یہ بیان سراسر بناوٹ ہے۔ برہمو سماج والوں کے عقائد کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ الہام اور وحی سے مُنکر ہیں اور خدا کے پیغمبروں کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں اور خدا کی کتابوں کو اختراع انسان کا خیال کرتے ہیں۔ وہ الہام اور وحی کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور اپنی اصطلاح میں الہام اور وحی اُن خیالات کا نام رکھتے ہیں کہ جو عادتی طور پر انسان کے دل میں گزرا کرتے ہیں۔ جیسے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر رحم آنا یا کوئی بُرا کام کر کے پچھتانا کہ ایسا کیوں کیا۔ یہ اُن کے نزدیک الہام ہے۔ مگر وہ الہام اور وحی جو خداوند کریم کے فرشتے کسی انسان سے کلام کریں اور حضرت احدیّت کسی سے مخاطبت کریں۔ اس پاک الہام سے وہ قطعاً منکر ہیں اور اپنے رسائل اور تصانیف میں ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب وقت آ پہنچا ہے کہ خدا اُن کو اور اُن کے دوسرے بھائیوں کو ذلیل اور رُسوا کرے۔ مجھ یاد ہے کہ پنڈت شیونارائن٭ نے جو برہموسماج کا ایک منتخب معلم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سیوم کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کر دیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریا ہے ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاکخانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آ کر اُس کی تصدیق کر لو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہو جائے گا۔ مَیں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہئے کہ اس جگہ خود اپنے بھائیوںکی شہادت سے حق الامر تم پر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارے میں دَم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سیوم میں چھپ چکا ہے سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُّ الرُّعْبِ اب دیکھئے۔ اس سے زیادہ اور کیا صفائی ہوگی کہ خداوندکریم مخالفین کو نہ صرف شنیدہ پر رکھنا چاہتا ہے بلکہ دیدہ کے مرتبہ پر پہنچانا چاہتا ہے۔ کل صوابی ضلع پشاور سے اس جگہ کے آریہ سماج کے نام صوابی آریہ سماج نے ایک خط بھیجا ہے کہ حصہ سیوم براہین احمدیہ میں تمہاری شہادتیں درج ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ سو اگرچہ یہ ہندو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں مگر ممکن نہیں کہ سچ کو چھپا سکیں۔ اس لئے فکر میں ہوئے ہیںکہ اپنے بھائیوں کو کیا لکھیں۔ اگر شرارت سے جھوٹ لکھیں گے تو اس میں روسیاہی ہے اور آخر پردہ فاش ہوگا اور سچ لکھنے میں مصلحت اپنے مذہب کی نہیں دیکھتے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کیونکر پیچھا چھڑاتے ہیں۔ شاید جواب سے خاموش رہیں۔ یہ اسرار جو خداوند کریم اس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر اُس کی عادت نہیں تھی جو ان کے اظہار کی اجازت دے بلکہ اسرار ربانی کے ظاہر کرنے میں اندیشہ سلب ولایت ہے لیکن اس زمانہ میں ان باتوں کا ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ گو دوسرے لوگ اپنی نافہمی سے اس اظہار کو ریاکاری میں داخل کریں یا کچھ اور سمجھیں مگر یہ عاجز اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیںگے اور خداوند کریم نے اس عاجز کو عام فقرا کے برخلاف طریقہ بخشا ہے جس میں ظاہر کرنا بعض اسرار ربّانی کا عین فرض ہے۔ والسلام علیکم وعلٰی اخوانکم عن المؤمنین۔
(۳؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ)


مکتوب نمبر۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقع صحیحہ ہوگا۔ مگر اس بات کے لئے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حدفعل میں آوے۔ بہت سی محنتیں درکار ہیں۔ خواب کے واقعات اُس پانی سے مشابہ ہیں جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کے رنگ میں واقعہ ہے۔ جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جان کنی اور محنت چاہئے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکُلّی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفا نکل آوے۔ ہمت مردان مدد خدا۔ صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے۔ والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا
گونید سنگ لعل شود در مقام صبر
آری شود ولیک بخون جگر شود
گرچہ و صالش نہ بکوشش وہند
ہر قدر ایدل کہ توانی بکوش
آپ کی ملاقات کے لئے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں۔ بیوقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا۔ اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں۔ اُس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بیوقت بیت اللہ کی زیادت کی اور بجز ایک کوٹھ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا۔ دل سخت ہو گیا۔ علیٰ ھذا القیاس ملاقات جسمانی میں بھی ایک قسم کی ابتلاء پیش آ جاتے ہیں۔ الاّ ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آیا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے۔ آپ نے پہلے یہ سوال کیا کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے۔ خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا۔ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اُس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبہ رطوبت مزاجی کہ جو دماغ پر طاری ہوتی ہے۔ حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں۔ پس جب خواب کو تعطل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیازاور تیفظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالتِ خواب میں بباعث تعطل حواس نہیں کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاحی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اُس فعل میں بھی فتور آ جاتا ہے۔ پھربعلت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں خواب میں ہوں یا بیداری میں۔ لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے ارباب طلب اور اصحاب سلوک کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و ام و حضور و استیلاء شوق و غلبہ محبت ایک حالت غیبت حواس اُس پر وارد ہو جاتی ہے۔ جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے۔ اُس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بیدار ہے۔ خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اُس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔ یعنی جس مکان میں ہے اُس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کُل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ صرف کسی قدر بجذیہ غیبی، غیبت حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنے رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے۔ یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے۔ دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناء اتم اعنی غایت المعراج و نہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں۔ اوّل سمجھنا چاہئے کہ فناء اتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارت اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فناء اتم مراد اُس حالت سے ہے کہ طالبِ حق خلق ارادت اور نفس سے بکلی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت اپنی میں بکلی کھویا جاوے۔ یہاں تک کہ اُسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اُسی کے ساتھ سنتا ہو۔ اور اُسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو۔ پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال اور عین وصال ایک بیچون اور بیچگون نور ہے کہ جس کو اہل وصول شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب طالبِ کمال وصول کا خدا کے لئے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لئے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ دا کے لئے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقاء کو مستلزم ہے۔ پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اُس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے۔ پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے۔ غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے۔ صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے۔ سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم لکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے۔ کبھی شہود تام بیخبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا ہے اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے۔ اُس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے۔ فلما تجلی ربہ للجیل جعلہ وکاد خرموسیٰ صعقا۔ لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے وما زاغ البصرو ماطغی۔ یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی۔ پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے وجوہ یومئذٍ فاضرہ الی ربھا ناظرۃ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
(۱۸؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند کریم آپ کو خوش و خورم رکھے۔ آپ دقائق متصوفین میں سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے۔ محض حضرت ارحم الراحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجالس صالحین میں فروغ دیا ہے۔ ورنہ منہ آنم کہ من دانم۔ کاروبار قادر مطلق سے سخت حیرانی ہے کہ نہ عابد، نہ عالم، نہ زاہد کیونکر اخوان مومنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے۔ اس کی عنایات کی کیا ہی بلند شان ہے۔ اور اُس کے کام کیسے عجیب ہیں۔
پسندید گانے بجائے رسند
زما کہترا نش چہ آمد پسند
میں آپ کے سوال کا جواب لکھتا ہوں۔ آپ نے حالت فنا فی الفناء کے یہ تعریف لکھ کر کہ وہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں شعول سے بھی بے شعوری ہوتی ہے۔ یہ سوال پیش کیا ہے کہ اس مرتبہ فناء میں کہ جو چہارم مرتبہ منجملہ مراتب فنا ہے اور حالت سکریت میں کیا فرق ہے اور سکریت سے مراد آپ نے خواب غرقی لی ہے۔ یعنی ایسا سونا جس میں کچھ خبر نہ رہے۔ سو جو کچھ خدا نے میرے دل میں اس کا جواب ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ سکریت اور فنا فی الفنا میں موجب اور علت کا فرق یعنی سکریت کی حالت میں موجب اور علت ایک ظلمت ہے۔ جو سکریت کے پیدا ہونے کا باعث ہے۔ وجہ یہ کہ سکریت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ رطوبت مزاجی دماغ پر سخت غلبہ کر لیتی ہے یہاں تک کہ دماغی قوتوں کو ایسا دبا لیتی ہے کہ انسان بے ہوش ہو کر سو جاتا ہے اور کچھ ہوش نہیں رہتی۔ پس وہ چیز جس سے سکریت وجود پکڑتی ہے۔ ایک ظلمت ہے جو اپنی اصل حقیقت میں مغائر اور منافی حواس انسانی کے ہے۔ جس کا غلبہ ایک ظلماتی حالت نفس پر طاری کر دیتا ہے اور آلات احساس کو اس قدر تعطل اور بیکاری میں ڈالتا ہے کہ اُن کو عجائبات روحانی کا ماجرا کچھ یاد بھی نہیں رہتا لیکن فنا فی الفنا کی حالت کا موجب اور علت یعنی سبب ایک نور ہے۔ یعنی تجلیات صفات الٰہیہ جو بعض اوقات بعض نفوس خاصہ میں یکلخت ایک ربودگی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث سے شعور سے بے شعوری پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک نہایت لطیف اور تیز عطر بکثرت ایک مکان میں رکھا ہوا ہو تو ضعیف الدماغ آدمی کی بعض اوقات قوت شامہ کثرت خوشبو سے مغلوب ہو کر ایسی بے حس ہو جاتی ہے کہ کچھ شعور اُس خوشبو کا باقی نہیں رہتا۔ غرض سکریت کی حالت پیدا ہونے کے مؤثر اور موجب ایک ظلمت ہے اور فنا فی الفناء کی حالت کے پیدا ہونے کے لئے مؤثر اور موجب ایک نور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چشم بینا کیلئے دو طور کے مانع رؤیت ہوتے ہیں۔ یعنی دو سبب سے ایک سوجاکھے انسان کی آنکھ دیکھنے سے رہ جاتی ہے۔ ایک تو سخت اندھیرا جس کی وجہ سے نور بینائی محجوب ہو جاتا ہے اور دیکھنے سے رک جاتا ہے اور کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ یہ حالت تو سکریت کی حالت سے مشابہ ہے۔ دوسر ی مانع بصارت سخت روشنی ہے کہ جو بوجہ اپنی شدت اور تیزی شاع کے آنکھوں کو رؤیت کے فعل سے روکتی ہے اور دیکھنے سے بند کر دیتی ہے جیسے یہ صورت اس حالت میں پیش آتی ہے کہ جب عضو بصارت کو ٹھیک ٹھیک سورج کے مقابلہ پر رکھا جائے یعنی جب آنکھوں کو آفتاب کے سامنے کیا جائے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب آنکھ آفتاب کے محاذات میں ٹکٹکی باندھے یعنی آفتاب کی آنکھ اور انسان کی آنکھ آمنے سامنے ہو جائیں تو اُس صورت میں بھی انسان کی آنکھ فعل بصارت سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور روشنی کی شوکت اور ہیبت اُس کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی تمام قوت بینائی اندر کی طرف بھاگتی ہے۔ پس یہ حالت فنا فی الفناء کی حالت سے مشابہ ہے اور اس فقدان رؤیت میں جو دونوں طور ظلمت اور نور کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے۔ سکریت اور فنا فی الفناء کا فرق سمجھنے کیلئے بڑا نمونہ ہے۔ مگر بایں ہمہ باطنی کیفیت جس کا موجب تجلیات الٰہیہ اور جذبات غیبیہ ہوتے ہیں۔ بیچون اور بیچگون ہی۔ جس میں اجتماع ضدین بھی ممکن ہے۔ باوجود بے شعوری کے شعور بھی ہو سکتا ہے اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں۔ وہ عالم اس عالم سے بکلی امتیاز رکھتا ہے۔ ولاتضربوا للّٰہ الامثال۔ اسی جہت سے پہلے بھی لکھا گیا تھا۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسیٰ صعقا۔ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا۔ جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الٰہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں۔ وہ اُس کا موجب اور باعث تھیں۔ جن کی اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اُس کا تدارک نہ کرتیں تو اُسی حالت میں گداز ہو کر نابود ہو جاتا۔ مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے۔ انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ مازاغ البصرو ماطغی۔ انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں۔ مگر اعلیٰ مقام اُس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور سکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے۔ ھذانا اللّٰہ ایانا وایاکم صراط المستقیم الذی انعم علی النبین والصدیقین والشھداء والصلحین واخردعونا ان الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ والسلام علیکم وعلی اخوانکم المومنین۔
(۲۵؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)


مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ باعث اطمینان ہوا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت درست اور بجا لکھا ہے جو کچھ بطور رسم اور عادت کیا جاوے۔ وہ کچھ چیز نہیں ہے اور نہ اُس سے کچھ مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔ سچا طریق اختیار کرنے سے گو طالب صادق آگ میں ڈالاجاوے۔ مگر جب اپنے مطلب کو پائے گا، سچائی سے پائے گا۔راست باز آدمی نہ کچھ عزت سے کام رکھتا ہے، نہ ننگ سے، نہ خلقت سے، نہ اُن کے لعن سے نہ اُن کے طعن سے، نہ اُن کی مدح سے، نہ اُن کی ذم سے۔جب سچی طلب دامنگیر ہو جاتی ہے تواُس کی یہی علامت ہے کہ غیر کا بیم اور امید بکلی دل سے اُٹھ جاتاہے اور توحید کی کامل نشانی یہ ہے کہ محب صادق کی نظر میں غیر کا وجود اور نمود کچھ باقی نہ رہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ آپ اتباع طریقہ مسنونہ میں یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکُلی پاک ہو جائے اور دلی محبت کے پاک فوارہ سے جوش مارے۔ مثلاًدرود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطی کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کیلئے برکات الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا ذکر آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے۔ وہ سب کچھ اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا تو درود شریف جیسا کہ میں نے ربانی بھی سمجھایا تھا۔ اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابناوے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو ثواب ہوگا یا درجہ ملے گا بلکہ خاص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنی دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔ پس جب اس طور پر درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو۔ اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میںتاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے۔ علی ہذا القیاس۔ نماز جس کے لئے خداوند کریم نے صدہا مرتبہ قرآن شریف میںتاکید فرمائی ہے اور اپنے تقرب کے لئے فرمایا ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْ بِالصّبْرِ وَالصّٰلٰوۃُ۔ یہ بھی رسم اور عادت کے پیرایہ میں کچھ چیز نہیں ہے۔ اس میں بھی ایسی صورت پیدا ہونی چاہئے کہ مُصلّی اپنی صلوٰۃ کی حالت میں ایک سچا دعا کنندہ ہو۔ سو نماز میں بالخصوص دعائے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ میں دلی آہوں سے، دلی تضرعات سے، دلی خضوع سے، دلی جوش سے حضرت احدیّت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ … اور عاجز اور لاچار سمجھ کر حضرت احدیّت کو قادر مطلق اور رحیم کریم یقین کر کے رابطۂ محبت اور قرب کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ اُس جناب میں خشک ہونٹوں کی دعا قابل پزیرائی نہیں۔ فیضان سماوی کے لئے سخت بیقراری اور جوش و گریہ و زاری شرط ہے۔ اور استعداد قریبہ پیدا کرنے کیلئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلی خالی اور پاک کر لینا چاہئے۔ کسی کا حسد اور تفاؤل دل میں نہ رہے۔ بیداری بھی پاک باطنی کے ساتھ ہو اور خواب بھی۔ بے مغز باتیں سب فضول ہیں اور جو عمل روح کی روشنی سے نہیں وہ تاریکی اور ظلمت ہے۔ خذوالتوحید والتفرید والتمجید وموتوا فبل ان تموتوا۔ آج حسب تحریر آپ کی ہر سہ حصہ روانہ کئے گئے۔
مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ کا خط ثالث بھی پہنچا۔ آپ کی دلی توجہات پر بہت ہی شکر گزار ہوں۔ خدا آپ کو آپ کے دلی مطالب تک پہنچاوے۔ آمین۔ یارب العٰلمین۔ غرباء سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے۔ جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردۂ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا۔ جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو انجام دے۔ تجویز چندہ کو موقوف رکھیں۔ اب بالفعل لودہیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندؤں کی طرف سے سوالات آئے ہیں اور ایک ہندو صوابی ضلع پشاور … میں کچھ ردّ لکھ رہا ہے۔ پنڈت شیونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا۔ سو اب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آ رہے ہیں۔ غفلت کرنا اچھا نہیں۔ ابھی دل ٹھہرنے نہیں دیتا کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں۔ اِلاماشاء اللہ ربی۔ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے۔ آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے۔ خدا اس تعلق کو مستحکم کرے۔ انسان ایسا عاجز اور بیچارہ ہے کہ اُس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجز حضرت احدیّت کے ممکن نہیں۔ ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیّت کی نظر میں درست نہیں تو اُس پر یہ الہام ہوا قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ سو الحمدللہ! آپ جوہر صافی رکھتے ہیں۔ غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں۔ اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔ مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اُس کو دور کرے۔ مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اُس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں۔ اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب ہوں تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رقیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے۔ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیُعَ مَعِیَ صَبَرَا وَکَیْفَ تَصْبِرَ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خَیْرا۔ لیکن خداوند کریم سے نہایت قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس غربت اور تنہائی کے زمانہ کو دور کر دے گا۔ آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں گے۔ وَالْاَمْرُ بِیَدِاللّٰہِ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمْ۔ والسلام علیکم اخوانکم من المومنین
مکتوب نمبر۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ہرسہ حصہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں۔ چند ہندو اور بعض پادری عناد قدیم کی وجہ سے ردّ کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر آپ تسلی رکھیں اور مسلمانوں کو بھی تسلی دیں کہ یہ حرکت اُن کی خالی از حکمت نہیں۔ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اُن کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوندکریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دے گا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رسوائی کا موجب ہوگا۔ آسمانی سامان شیطانی حرکات سے رُک نہیں سکتے بلکہ اور بھی زیادہ چمکتے ہیں اور مخالفین کے اُٹھنے کی یہی حکمت سمجھتا ہوں کہ تا آسمانی باتیں زیادہ چمکیں اور جو کچھ خدا نے ابتدا سے مقدر کر رکھتا ہے وہ ظہور میں آ جائے۔ آپ مومنین کو جو آپ سے متنفر ہیں سمجھا دیں کہ آپ کچھ عرصہ توقف کریں۔ زیادہ تر دیر اسی سے ہے کہ تا خیالات معاندانہ مخالفین کے چھپ کر شائع ہو جاویں۔ سو آپ براہ مہربانی کبھی کبھی حالات خیریت آیات سے یاد و شاد فرماتے رہیں۔
والسلام
مکتوب نمبر۱۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی و مکرمی میرعباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روپیہ کا منی آرڈر پہنچ گیا۔ خداوند کریم آپ کی سعی کا اجر بخشے جو کچھ فساد زمانہ کا حال لکھا ہے سب واقعی امر ہے۔ اس عاجز کی دانست میں اُمت محمدیہ پر ایسا فاسد زمانہ کوئی نہیں آیا۔ تمام زمانوں سے زیادہ تر ظلماتی وہ زمانہ تھا جس کی تنویر کے لئے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت پڑی۔ وہ ایسا ظلماتی زمانہ تھا جس کی نظیر دنیا میں کوئی نہیں گزری اور اس زمانہ کی حالت موجودہ ایک بڑے نبی کے مبعوث ہونے کو چاہتی تھی جس کا ثانی کوئی نہیں گزرا اور جس پر تمام کمالات نبوت ختم ہوگئے اور جس کی بعثت کے زمانہ نے اُن تمام تاریکیوں کو دور کر دیا اور وحدانیت کو زمین پر پھیلا دیا اور جو کچھ کفر اور شرک میں باقی رہا وہ ذلّت اور مغلوبیت کی حالت کے ساتھ باقی رہا۔ لیکن چونکہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ ہیں۔ نبوت کے زمانہ سے بہت دور جا پڑا ہے۔اس لئے دو طور کر خرابی یعنی اندرونی اور بیرونی اس پر محیط ہو رہی ہے۔ اندرونی یہ کہ بہت سے لوگوں نے مختلف فرقہ بنائے ہیں جو حقیقت میں خدا اور رسول کے دشمن ہیں۔ بہتوں پر اباحت اور الحاد کا غلبہ ہے کہ خدا کے وجود کو اور اُس مدبر عالم کی ہستی کو کوئی مستقل شَے نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ہی وجود کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں اور اسی خیال کے غلبہ سے احکام الٰہی کی تعمیل سے بکلّی فارغ ہیں اور شریعت حقانی کو بتر استحفاف دیکھتے ہیں اور صوم اور صلوٰۃ پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ایک دوسرا فرقہ ہے جو بہت، دوزخ، ملائک، شیطان وغیرہ سب کے منکر ہیں اور وحی الٰہیہ سے انکاری ہیں باایں ہمہ مسلمان کہلاتے ہیں۔غرض اندرونی فساد بھی نہایت درجہ تک پہنچ گئے ہیں اور بیرونی فسادوں کا یہ حال ہے کہ چاروں طرف سے دشمن اپنے اپنے تیر چھوڑ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بالکل اسلام کو نیست و نابود کر دیں۔ حقیقت میں یہ ایسا پُر آشوب زمانہ ہے کہ اسلامی زمانوں میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے لوگ صرف غفلت اور کم توجہی سے اسلام کے مخالف تھے۔ مگر اب دو فرقہ اسلام سے مخالف ہیں۔ ایک تو وہی غافل اور کم توجہ لوگ۔ دوسرے وہ لوگ پیدا ہوگئے کہ جو شرارت اور خبث سے، عقل کی بداستعمالی سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علوم کے لئے روشنی کا دعویٰ کرتے ہیں اور متبعین شریعت اسلام کو کہتے ہیں کہ یہ پُرانے … کے آدمی ہیں اور یہ سادہ لوح اور ہم دانا ہیں۔ پس ایسے دنوں میں خداوند کریم کا یہ نہایت فضل ہے کہ اپنے عاجز بندہ کو اس طرف توجہ دی ہے اور دن رات اُس کی مدد کر رہا ہے تا باطل پرستوں کو ذلیل اور رسوا کرے چونکہ ہر حملہ کی مدافعت کے لئے اس سے زبردست حملہ چاہئے اور قوی تاریکی کے اُٹھانے کیلئے قوی روشنی چاہئے۔ اس لئے یہ امید کی جاتی ہے اور آسمانی بشارات بھی ملتے ہیں کہ خداوند کریم اپنے زبردست ہاتھ سے اپنے عاجز بندہ کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو روشن کر دے گا۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ حصہ چہارم کچھ تھوڑے توقف کے بعد شروع کیا جاوے گا۔ چونکہ یہ تمام کام قوت الٰہی کر رہی ہے اور اُسی کی مصلحت سے اس میں توقف ہے۔ اس لئے مومنین مخلصین نہایت مطمئن رہیں کہ جیسے خداوند کریم کے کامل اور قوی کام ہیں اسی طرح وہ وقتاً فوقتاً کتاب کی حصص کو نکالے گا۔ وھواحسن الخالقین والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المومنین۔
(۲۲؍ جنوری ۸۳ء۔ ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے عنایت نامجات کو پڑھ کر نہایت خوشی ہوئی۔خداوند تعالیٰ حقیقی استقامت سے حظِ وافر آپ کو بخشے۔ میں آپ کی ذات میں بہت ہی نیک طنیتی اور سلامت روشنی پاتا ہوں اور میں خداوند کریم کی نعمتوں میں سے اس نعمت کا بھی شکرگزار ہوں کہ آپ جیسے خالص دوست سے رابطہ پیدا ہوا ہے۔ خداوندکریم اس رابطہ کو اُس مرتبہ پر پہنچا دے جس مرتبہ پر وہ راضی ہے۔ نماز تہجد اور اوراد معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنّٰھُمْ سُبُلَنَا۔ درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَوَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ ابْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلے ہیں۔ اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرَدْ ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور غبّت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام مسنون برسد۔
(۲۶؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم مکتوب چہارم بھی پہنچا۔ جزاکم اللہ علی سعیکم و اعظم اجرکم علی بذل جہدکم۔ آج اگر ٹکٹ میسر آئے تو یقین ہے کہ ہرسہ حصہ بنام ہرسہ خریداران کے نام روانہ کئے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ آپ اور ادواشغال معمولہ بدستور کئے جائیں کہ کثرت ذکر مدار فلاح و نجات ہے۔ درود شریف خط سابق میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہر باب میں حضور اور توجہ اور خضوع اور خشوع اور اخلاص شرط ہے۔ من جاء بالا خلاص جعل من الخواص۔ اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں۔ غرض اصلی اشاعت دین ہے۔ نہ خرید و فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام پہنچا دیں۔
مکتوب نمبر۱۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہرسہ بخدمت چوہدری گامے خان و جیوے خان صاحب روانہ کئے جائیں گے۔ اب حصہ چہارم کے طبع کرانے میں کچھ تھوڑی توقف باقی ہے اور موجب توقف یہی ہے کہ جو تین جگہ سے بعض سوالات لکھے ہوئے آئے ہیں۔ اُن سب کا جواب لکھا جائے۔ یہ عاجز صعیف الدماغ آدمی ہے۔ بہت محنت نہیں ہوتی آہستہ آہستہ کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی خواب انشاء اللہ تعالیٰ نہایت مطابق واقعہ اور درست معلوم ہوتی ہے اور تعبیر صحیح ہے۔ جن لوگوں کو تاویل رؤیا کا علم نہیں اُن کو ان تعبیرات میں کچھ تکلف معلوم ہوگا۔ مگر صاحب تجربہ خوب جانتے ہیں کہ رؤیا کے بارے میں اکثر عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ حقیقت کو ایسے ایسے پردوں اور تمثیلات میں بیان فرماتا ہے۔ مسلم نے انس سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب دیکھی کہ عقبہ بن رافع کے گھر کہ جو ایک صحابی تھا آپ تشریف رکھتے ہیں۔ اُسی جگہ ایک شخص ایک طبق رطب ابن طاب کا لایا اور صحابہ کو دیا اور رطب ابن طاب ایک خرما قسم کا ہے کہ جن کو ابن طاب نام ایک شخص نے پہلے پہل کہیں سے لا کر اپنے باغ میں لگایا تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ تعبیر کی کہ دنیا و آخرت میں صحابہ کی عاقبت بخیرو عافیت ہے اور حلاوت ایمان سے وہ خوشحال اور متمتع ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کے لفظ سے عاقبت نکالا اور رافع خدا کا نام ہے۔ اُس سے رفعت کی بشارت سمجھ لی اور خرما کی حلاوت سے حلاوت ایمانی لی اور ابن طاب میں طاب کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشحال ہوا۔ پس اس سے خوشحال ہونے کی بشارت سمجھ لی۔ غرض تعبیر رؤیا میں ایسی تاویلات واقعی اور صحیح ہیں اور آپ کی خواب بہت ہی عمدہ بشارت ہے۔ محافظ دفتر کے لفظ سے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہو رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مثلیں ہوتی ہیں بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔ پس یہ رؤیا بھی دلالت کر رہی ہے کہ عنایت الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اُس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر یک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اوراد معمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں۔ صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں۔ تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے واذکر واللّٰہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ مکرمی مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اس عاجز کا سلام مسنون پہنچا دیں۔خداوندکریم کا ہر یک شخص سے الگ الگ معاملہ ہوتا ہے اور ہر ایک بندہ سے جس طور کا معاملہ ہوتا ہے اسی طور سے اُس کی فطرت بھی واقع ہوتی ہے۔ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تقویض الی اللہ غالب ہے اور معاملہ حضرت احدیّت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے سخت منع کیا جاتا ہے۔ یہ مخاطبت حضرت احدیّتسے بارہا ہو چکی ہے لاققف مالیس لک بہ علم ولاتقل لشیئٍ انی فاعل ذالک غدا۔ سوچونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوندکریم کی طرف کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلیف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرا۔ مولوی صاحب اخوت دینی کے بڑھانے میں کوشش کریں اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودہ کی پرورش میں مشغول رہیں۔ تو یہی طریق انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ہوگا۔ خلقتم من نفس واحدۃ جزاء البدن مستفیض لما استفاض البدن کلہ وکونوامع الصادقین ھم قوم لایشقی اجلیسم والسلام۔ بخدمت خواجہ علی صاحب سلام علیک۔ ابھی مولوی صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بیوقت ہے۔ یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قدر فراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آ گئی تو غالباً امید کی جاتی ہے کہ آپ بھی حاضر ہوگا والامر کلہ فی یداللّٰہ وما اعلم ما ارید فی الغیب
مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ خداوندکریم کا کیسا شکر کیا چاہئے کہ اُس نے اپنے تفضلات قدیم سے آپ جیسے ولی دوست بہم پہنچائے۔ اگرچہ آپ کا اخلاص کامل اس درجہ پر ہے کہ اس عاجز کا دل بلااختیار آپ کی دعا کیلئے کھینچا چلا جاتا ہے پر جس ذات قدیم نے آپ کو یہ اخلاص بخشا ہے اُس نے خود آپ کو چُن لیا ہے۔ تب ہی یہ اخلاص بخشا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء بخدمت مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے نہایت بہتر ہے۔ دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔ الدعاء فخ العبادۃ۔ یہ عاجز اپنی زندگی کامقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے۔ مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔ سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اُس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کیلئے جوش نہیںاور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ اُسی کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیّت سے اُس کی رستگاری حاصل کرے۔ سو خدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے۔ غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے۔ اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے۔ یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو تا وہ کام کر دکھاؤے۔ سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا۔ یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیّت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں۔ تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتا اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو جان کنی سے کیا اجر ملے گا۔ کیونکہ اُس کے جوشوں کی بِنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے۔ اُس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلک باخعٌ نفصکِ ان الا یکونوا مومنین۔ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے۔ اسی میں تیری جان جاتی رہے گی۔ سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ پس حقیقی پیری مریدی کا یہی اصول ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی اصول ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں۔ جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتی ہیں۔ تو اُن کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اُس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوندکریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اُس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے۔ مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے۔ سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ فالحمدللّٰہ علیٰ الاء ظاہرھا و باطنھا۔ مولوی صاحب اگر رسالہ بھیج دیں تو بہتر ہے شاہدین صاحب رئیس لودہیانہ کی طرف اُنہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی ۔ جب آپ نے لکھا تھا مگر اُنہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپر بھی لکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں۔ چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی۔ آپ کوشش میں توکل رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اُس کو کچھ کہنا نامناسب نہیں۔
(۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء مطابق رجب ۱۳۰۰ھ)

مکتوب نمبر۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب زاد اللہ فی برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ سبحان اللہ کیا جوش ہے کہ خداوندکریم نے آپ کے دل میں ڈال دیا اور ایسا ہی آپ کے دوست مولوی عبدالقادر صاحب کے دل میں۔ خداوند کریم بندوں کے فعل اور اُن کی نیات کو خوب جانتا ہے جو شخص اُس کے لئے کوئی درد اُٹھاتا ہے۔ اُس کا عمل کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ اُس کی نظر عنایت اگرچہ دیر سے ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ کام کر دکھاتی ہے جس کی عاجز بندہ کو کچھ امید نہیں ہوتی۔ خداوند کریم آپ کو اس دلی جوش میں مدد کرے اور اپنی عنایت خاص سے ثابت قدمی بخشے اور ابتلا سے محفوظ رکھے اور آپ بھی ثابت قدمی کیلئے دعا کرتے رہیں کیونکہ بڑے کاموں میں ابتلا بھی بڑے بڑے پیش آتے ہیں اور انسان ضعیف البنیان کی کیا طاقت ہے کہ خود بخود بغیر عنایت و حمایت حضرت احدیّت کے کسی ابتلا کا مقابلہ کر سکے۔ پس ثبت اقدام اُسی سے مانگنا چاہئے اور اُسی کے حول اور قوت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہم سب لوگ بغیر اُس کے لطف اور احسان کے کچھ بھی نہیں۔
آپ نے لکھا تھا کہ بعض لوگ یاوہ گوئی کرتے ہیں۔ سو آپ جانتے ہیں کہ ہر یک امر خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ کسی کی فضول گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں۔ اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر یک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں۔ خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں۔ سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں۔ وہ ایذا کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں۔ ہنوز اُن میں سے کچھ بھی نہیں۔ کئی مکروحات درپیش ہیں جس میں خدا کی حفاظت درکار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اُس کا فعل قابل اعتراض نہیں جو کچھ کرتا ہے بہت اچھا کرتا ہے۔ کسی کی کیا طاقت ہے کہ کچھ بول سکتے۔ جب تک اُس بولنے میں اُس کی کچھ حکمت نہ ہو اور کم سے کم یہی حکمت ہے۔ جن مردوں نے سچائی کی راہ پر قدم مارا ہے۔ اُن کے لئے یہ ابتلا پیش آیا ہے اور اس ابتلا پر ثابت قدم رہنے سے وہ اجر پاتے ہیں۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون۔ آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا۔ کذب علیکم الخبیث کذب علیکم الخنریر عنایت اللّٰہ حافظک انی معک اسمع واری۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فبراء اللّٰہ مما قالوا وکان عنداللّٰہ وجیھا۔ ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی اس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ جب ہر یک موذی اور معاند اور دروغ گو اور بہتان طراز کے شر سے خود خداوندکریم بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر کس سے بجز اُس کے خوف کریں۔ چند روز ہوئے کہ خداوندکریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا۔ کچھ حصہ اُس میں سے پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔ مگر یہ الہام مفصل ہوا اور اُس سے خداوند کریم کی جو کچھ عنایت اس عاجز اور اس عاجز کے دوستوں پر ہے وہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ وقالو انی لک ھذا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب یجتبی من یشاء من عبادہ۔ وتلک الایام ندا ولھا بین الناس۔ اور یہ آیت کہ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی۔ اس سے یقینا معلوم ہوا کہ خداوندکریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور اُن کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں بلکہ صرف انکار سے مراد ہے۔ غرض یہ وہ سچا طریقہ ہے جس میں ٹھیک ٹھیک حضرت نبی کریم کے قدم پر قدم ہے۔ اللھم صلی علیہ وآلہ وسلم۔ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کے ایک جز ہو جاتا ہے۔ پس جو فیضان شخص مدعو پر ہوتا ہے۔ وہی فیضان اُس پر ہوتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی طول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔ دوسرے اوراد بھی بدستور محفوظ رکھیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں ہے ہر وقت سرگرمی کی توفیق خداوندکریم سے مانگنی چاہئے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچا دیں۔
(۱۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۶ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا سعی اور کوشش کے لئے جالندھر میں تشریف لے جانا خط آمدہ آں مخدوم سے معلوا ہوا۔ خداوند تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرماوے۔ جس آیت کو ایک مرتبہ بنظر کشفی دیکھا گیا تھا۔ اصلحھا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس شجرہ طیبہ کے آثار ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں یریدون ان یفرقوا بین اللّٰہ ورسلہ۔ لیکن خداوند قادر مطلق کے کام عقل اور قیاس سے باہر ہیں۔ وہ ہمیشہ عاجزوں اور ضعیفوں اور کمزوروں کو متکبروں اور مغروروں پر غالب کرتا رہا ہے اور آخر کار اُنہیں کی فتح ہوتی رہی ہے جو خدا کے لئے متکبروں کے ہاتھ سے ستائے گئے اور اگر خدا چاہتا تو ستائے نہ جاتے لیکن یہ اس لئے ضروری ہوا کہ تا خداوند کریم اپنے الطاف خفیہ کو بصورت جلال اُن پر متجلی کرے اور نفس کے پوشیدہ عیبوں سے اُن کو خلاصی بخشے اور اُن پر اُس کا تنہا ہونا، بیکس ہونا، غریب ہونا، ذلیل ہونا، بے اقتدار ہونا ثابت کر کے عبودیت حقیقی کی اعلیٰ مرابت تک پہنچاوے۔ کسی بشر کی طاقت نہیں کہ جو اپنے منہ کی واہیات باتوں سے خدا تعالیٰ کے ارادہ کو نافذ ہونے سے روک رکھے۔ اگر اُس کی حکمت کا تقاضا نہ ہوتا تو مزاحمین اور مخالفین کا وجود نابود ہو جاتا۔ پر ان لوگوں کے وجود میں گروہ ثانی کے لئے بڑے بڑے مصالحہ ہیں اور بعض کمالات اُن کے اس پر موقوف ہیں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں۔ درود شریف پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں۔ وہی کیفیت آپ لکھ دیں۔ کسی تعداد کی شرط نہیں۔ اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیواۃ قلب پیدا ہو جائے اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بیدل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آ سکتا۔ سو جس قدر میسر آوے اُس کو کبریت احمد سمجھے اور اُس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے۔ پہلے اس سے آپ کی طرف ایک خط لکھا گیا تھا سو جیسا کچھ اُس میں لکھا گیا تھا آپ مبلغ… روپیہ بھیج دیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون۔
(۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۲۵؍ رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آں مخدوم کے دو عنایت نامہ دوسرے بھی پہنچ گئے۔ الحمدللہ کہ کام طبع کا شروع ہے۔ یہ سب اُسی کریم کی عنایات اور تفضلات ہیں کہ اس نابکار اور عاجز کے کاموں کا آپ متولی ہو رہا ہے۔ ع
اگر ہر موے من گردو ربانے
از و رانم بہرک داستانے
پنڈت دیانند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ اُن لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ ایک خط بھیجا اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا۔ جس کا خلاصہ صرف اس قدر تھا مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ پر کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دین محمدی ہے اور اسی جہت سے مَیں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رو سے کتاب کو تالیف کیا ہے اور اُس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیم حقانی محض قرآنی تعلیم ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کر گردن پر ہے کہ جن قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے اُن کو توڑ کر دکھلاویں یا اُن کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں۔ اس خط کا جواب نہیں آیا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اسی حصہ چہارم میں اُن کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے۔
(۱۵؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ ربہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم کے دو عنایت نامہ پے در پے پہنچے۔ باعث مسرت اور خوشی ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا کے لئے اور آپ کی معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے۔ خداوند کریم نہایت مہربان ہے۔ اُس کے تفضلات سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ آپ نے لکھا تھا کہ ایک عالم نے فیروز پور میں اعتراض کیا ہے کہ رسول مقبول نے سیر ہو کر بھی کھایا ہے۔ لیکن اس بزرگ عالم نے اس عاجز کی تقریر کامنشاء نہیں سمجھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہونے کے معنی سمجھے ہیں۔ طیبین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اُس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو اُن لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ اُن کا کھانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اُس سیری کو اُن لوگوں کی طرف نسبت دی جائے جن کا اصل مقصد احتظاظ اور تمتع ہے اور جن کی نگاہیں نفسانی شہوات کے استیفا تک محدود ہیں تو اُس سیری کو ہم ہرگز سیری نہیں کہہ سکتے۔ سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے اور پاک لوگ اُسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ حرقت جوع دور ہو جائے اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جائے۔ غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھاوے جو اُس کی پشت کو قائم رکھے اور حقوق واجبہ ادا کر سکے۔ پس جو سید المومنین ہے۔ اُس کی سیری کا قیاس عام لوگوں کی سیری پر قیاس مع الفارق ہے۔ اسی طرح بہت لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظیم کو نہیں سمجھا اور الفاظ کے مورد استعمال کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے تئیں غلطی میں ڈال لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت یہ فرمانا کہ میں سیر ہو گیا ہوں ہرگز اُس قول کا مترادف نہیں کہ جو دنیا کے منہ سے نکلتا ہے جنہوں نے اصل مقصد اپنی زندگی کا کھانا ہی سمجھا ہوا ہوتا ہے۔ غرض پاکوں کا کام اور کلام پاکوں کے مراتبہ عالیہ کے موافق سمجھنا چاہئے۔ اور اُن کے امور کادوسروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ وہ درحقیقت اس عالم سے باہر ہوتے ہیں۔ گو بصورت اسی عالم کے اندر ہوں اور بہرام خان صاحب کی کوشش سے طبیعت بہت خوش ہوئی۔ خدا اُن کو اجر بخشے۔ کتاب سات سو جلد چھپی ہے لیکن اب میں نے تجویز کی ہے کہ ہزار جلد چھپے تو بہتر۔ منشی فضل رسول کا خط مَیں نے پڑھا۔ منشی صاحب کے پاس جس نے یہ بیان کیا ہے کہ وید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اُس نے بہت دھوکہ کھایا ہے۔ وید میں تو خدا کا بھی اُس کی شان کے لائق ذکر نہیںچہ جائیکہ اُس کے رسول کا بھی ذکر ہو۔ جن باتوں سے وید بھرا ہوا ہے وہ آتش پرستی اور شمس پرستی اور اِندر پرستی وغیرہ ہے اور مدار المہام تمام دنیا کا انہیں چیزوں کو وید نے سمجھا ہے اور انہیں کی پرستش کے لئے وید نے ترغیب کی ہے اور کی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے اور وید کاایک حصہ ترجمہ شدہ اس عاجز کے پاس موجود بھی ہے اور پنڈت دیانند کے وید بھاس میں سے بھی سنتا رہا ہوں اور جو کچھ اُردو میں وید بھاش لکھا گیا وہ بھی دیکھتا رہا ہوں۔ اس صورت میں وید کوئی ایسی عجیب چیز نہیں ہے جس کی حقیقت پوشیدہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اظہر من الشمس ہے۔ ویدوں کے پُر ظلمت بیان کی محتاج نہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ویدوں میں کسی قسم کی پیشین گوئی نہیں اور نہ کسی معجزہ کا ذکر ہے۔ جہاں تک دریافت ہوتا ہے وید کی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی پُرانے زمانہ کے شاعروں کے شعر ہیں کہ جو مخلوق چیزوں کی تعریف میں بنائے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ سو اس میں سے صرف ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود علی خ ان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونہ گڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اُس کا ایفا نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے نااُمید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ
اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے۔ اس کو ایک دفعہ اپنے وسیع خلق سے محروم نہ کریں۔
(۲۱؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آن مخدوم پہنچا۔ جس قدر نیچریوں کا جوش و خروش ہے اُس کو دیکھ کر اور نیز دوسرے مخالفین و معاندین کی معاندانہ کوششوں کو ملاحظہ کر کے جو کچھ مومنوں کے دلوں پر صدمہ پہنچتا ہے بِلاشُبہ وہ بیان سے باہر ہے۔ ہماری قوتیں کیا چیز ہیں؟ اور ہماری طاقتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟ اور ہم کیا ہیں؟ کہ کچھ دَم مار سکیں۔ خداوند کریم خود اس طوفان کو فرو کرے اور اس کے فضل و کرم پر ہی امیدیں ہیں۔ کچھ معلوم نہ ہوا کہ سردار بکرما سنگھ نے کیا اعتراض پیش کئے۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع فرماویں۔ بدقسمت لوگوں کو تعصب اور حب دنیا نے حق کے قبول سے روک رکھا ہے ورنہ عقائد حقہ اسلام کے اس قدر روشن اور بدیہی الصدق ہیں کہ کسی منصف اور طالب حق کو اُن میں کلام نہیں۔ سبحان اللہ کیا ہی مبارک دین ہے کہ اس کے سچے تابعین کی طرف رحمت الٰہی یوں دوڑتی ہے کہ جیسے پانی اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور مخالفین کا وجود بھی عبث نہیں۔ یہ اس لئے دنیا میں زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا مومنین کو ستاویں اور طرح طرح کے اُن کو دکھ دیں اور اپنے قول فعل سے درپے آزار رہیں اور اس طرح پر مومنوں کی ترقی اور مراتب کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ٹھہر جائیں۔ فالحمدللّٰہ علی الطافھا التجلیۃ والخفیۃ آپ کو کُلی اختیار ہے کہ جو کچھ قیمت کتاب میں جمع ہو اُس کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہیں۔ خداوند کریم نے آپ کی سعی میں برکت ڈالی ہے اور آپ وہ کام کر رہے ہیں کہ جس میں ہر یک کو آپ کی طرح توفیق نہیں دی گئی۔
خداوندکریم آپ کو دنیا و دین میں اس کا اجر بخش کر اس عاجز کو دکھاوے اور وہ تو بغایت درجہ کریم و رحیم ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اخلاص سے، صدق سے، استقامت سے، خالصاً اُس کے لئے کوئی محنت اختیار کرے اور وہ اُس کی محنت کو ضائع کرے اور اُس کا کچھ اجر نہ دے۔ اس جناب میں راستبازوں کی محنتیں ہرگز ضائع نہیں ہوتیں اور مخلصانہ کوشش ہرگز برباد نہیں جاتی۔ جب ایک انسان تمام تر اخلاص سے خالصاً للہ سعی بجا لاوے اور ایک مدت تک اُس کی سعی اور کوشش اور محنت اور مشقت کا سلسلہ جاری رہے اور ثابت قدمی اور استقامت اور وفا اور حسن ظن میں کچھ فرق نہ آوے بلکہ اپنے سینہ میں انشراح اور اپنی طبیعت میں انبساط پاوے اور اپنے کاموں سے خداوندکریم پر کچھ احسان نہ سمجھے تو جاننا چاہئے کہ اُس کے اجر کا وقت نزدیک ہے۔ وَاللّٰہُ لَاْ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحَسْنِیْنِ۔ مبارک وہ لوگ جو خدمت سے سیر نہ ہوں اور جلدی نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ مولیٰ کریم کیسا خادم نواز ہے۔ عیالداری کے ترددات آپ کو ہوں گے۔ مگر اُن ترددات سے خداوند کریم بے خبر نہیں۔ جن فکر کی باتوں کو ایک عاجز بندہ رات کو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا سوچا کرتا ہے یا دن کو اپنے گھر میں جا کر بعض وقت یہ تنگیاں اس پر آ پڑتی ہیں ان سب تنگیوں اور تکلیفوں کو خداوندکریم اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کچھ دنوں تک اپنے بند ہ کو ابتلا میں رکھتا ہے۔ پھر یک مرتبہ نظر عنایت سے دیکھتا ہے اور اُس پر وہ دروازے کھولے جاتے ہیں جن کی اُس کو کچھ خبر نہیں تھی وھویتولی الصالحین۔ کیا جس کا خدا حي، قیوم، قادر، مہربان موجود ہے وہ کچھ غم کر سکتا ہے۔ غم اور ایمان کامل ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔
والسلام
۲۵؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی فضل رسول صاحب کے خط کی نقل معہ کارڈ پہنچ گئے اور میں نے اُس دل آزار تقریر کو تمام و کمال پڑھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جب میں نے منشی صاحب کے اس فقرہ کو پڑھا کہ اس میں تو بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں بھی نہیں ہے تو یہ یاد کر کے کہ منشی صاحب نے وید کو توحید میں بے مثال و مانند قرار دے کر قرآن شریف کی عظمت کا ایک ذرّہ پاس نہیں کیا اور دلیری سے کہہ دیا کہ جو وید میں توحید ہے وہ کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ اس فقرہ کے پڑھنے سے عجیب حالت ہوئی کہ گویا زمین و آسمان آنکھوں کے آگے سیاہ نظر آتا تھا۔ اللھم اصلح امت محمد۔ پھر بعد اس کے منشی صاحب اس عاجز ذلیل، غریب تنہا سے پوچھتے ہیں کہ وید پڑھے ہیں یا نہیں اور اگر وید کو نہیں پڑھا تو اب تحقیق سے کسی وید دان سے دریافت کرنا چاہئے تو اس بات کا جواب منشی صاحب کو کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا معرض بیان میں لاویں۔ جس حالت میں پہلے خط میں لکھا گیا تھا کہ جو کچھ یہ بیان کیا گیا ہے بِلا تحقیق نہیں تو اگر منشی صاحب ایک ذرّہ اس عاجز سے حسن ظن رکھتے تو بلا فائدہ تقریر کو طول نہ دیتے۔ لیکن اس پُر آشوب زمانہ میں ہم غریبوں پر کسی کا حسن ظن کہاں۔ جب خداوندکریم دلوں کو اس طرف پھیرے گا تب نیک دل لوگ اس طرف پھریں گے۔ اس وقت رگوید جو چاروں ویدوں میں پہلا وید ہے اور سب سے زیادہ متبرک اور معتبر اور مستند الیہ سمجھا گیا ہے میرے سامنے رکھا ہوا ہے جس کے ساتھ پروفیسر ولسن صاحب کی ایک مختصر شرح بھی ہے۔ اس میں صاحب موصوف نے بعد بہت سی تحقیق کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آپ نشدین جو وید کے ساتھ شامل ہیں۔ وید میں سے نہیں ہیں بلکہ وید کے تصنیف کے بہت مدت کے بعد تالیف پائے ہیں اور یہ رائے محقق پنڈتوں کی ہے کہ آپ نشدین وید میں سے نہیں ہیں۔ یہ برہمن پشتک ہیں جو انسانوں نے یعنی برہمنوں نے اور اور وقتوں میں اپنے خیال سے لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ پنڈت دیانند نے بھی اپنے وید بھاش میں جو ان دنوں میں چھپ رہا ہے اور ایک پرچہ اُس کا قادیان میں بھی ایک آریہ کے نام آتا ہے یہی رائے لکھی ہے اور پنڈت دیانند علانیہ لکھتا ہے کہ آپ نشدین ہر گز وید میں داخل نہیں اور نہ وید کی جز ہے۔ وہ تو لوگوں نے پیچھے سے باتیں بنائی ہیں۔ چونکہ پنڈت دیانند اب تک مقام شاہ پور ضلع ارل میں زندہ موجود ہے اور آج پنڈتوں میں وہ دعویدار ہے کہ میرا ثانی اور کوئی پنڈت نہیں۔ اُسی سے منشی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ آپ نشدین جن کا بطور مختصر ترجمہ دارالشکوہ نے کیا یہ حقیقت میں وید ہی ہیں۔ یہ کیا چیز ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دارالشکوہ کے وقت میں وید ایک مدفون اور مخفی چیز کی طرح تھا اور مسلمانوںکو اُس کی حقیقت کی خبر نہیں تھی۔ سو جب دارالشکوہ نے ہندو پنڈتوں سے کچھ وید کا ترجمہ چاہا تو انہوں نے اندیشہ کیا کہ اگر ہم مسلمانوں پر اصل وید کی حقیقت ظاہر کریں گے تو ہمارا پردہ اوڑ جائے گا بہتر ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح اُس کو بھی دام میں لاویں اور جہاں تک ہو سکے اس کے مزاج میں بھی کچھ الحاد ڈالیں تو اُنہوں نے اُس کو ناواقف سمجھ کر بعض اُپ نشدوں کا ترجمہ کروایا اور اب کھل گیا کہ وہ ترجمہ بھی صحیح نہیں۔بہرحال دارالشکوہ نے کمال غلطی کھائی کہ اُپ نشدون کو وید سمجھ بیٹھا اور اُس کے بہت سے خیالات پریشان تھے جن کی منشی صاحب کو خبر نہیں۔ چغتائی سلطنت پر پہلے آفت یہی نازل ہوئی تھی کہ اکبر اور اُس کے بعض بدنصیب نسل نے کلام الٰہی کو جیسا کہ چاہے قدر نہیں کی تھی اور ہندؤں کے شرک آمیز اور غلط گیان کی تلاش میں پڑ گئے۔
اب ہم اس بات کو چھوڑ کر پروفیسر مذکور کی وید کی نسبت رائے لکھتے ہیں۔ وہ اپنی تمہیدی تقریر میں جو وید کی تفسیر کے پہلے لکھی ہے تحریر کرتے ہیں کہ
حقیقت میں وید کے کسی فقرہ سے جو ہم کے اب تک دیکھے ہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وید کے مصنّف پیدا کنندہ عالم کے معتقد تھے اور ہندؤں کے پرستش کے دیوتاؤں کی جو وید میں لکھے ہیں۔ جیسے آگ، پانی، چاند، سورج اُن کی تعریفوں کی عبارت ایسی ہے جس میں صریح مخلوق کی صفتیں پائی جاتی ہیں اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ لفظ آدم کہ جو پہلے زمانہ کے مذہب ہنوذ کی نشانی ہے اُس کا وید میں بالکل ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان تینوں دیوتاؤں کے نام کا خلاصہ ہے۔ یعنی برہما کے اخیر کا الف لیا گیا اور وشن کی واؤ ڈالی گئی اور مہادیو کا میم لیا گیا۔ ان تینوں کے جوڑ سے آدم بن گیا اور تمام پنڈتوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اوم کا لفظ ترہمورتی مذہب کا ایجاد ہے۔ مگر ترہمورتی مذہب یعنی جس میں تین مورتوں کی پرستش کا ذکر ہے وید میں نہیں ہے کیونکہ یوں تو وید میں بیسیوں دیوتاؤں کی پرستش کا ذکر ہے لیکن برہما، وشن، مہادیو کا کہیں نشان نہیں۔ ہاں وشن کی پرستش کے لئے ایک شُرتی آئی ہے مگر وہاں وشن کے معنی سورج ہیں۔ سورج وید کے دیوتاؤں میں سے ایک اوسط درجہ کا دیوتا ہے جس کا مرتبہ اگنی دیوتا سے کچھ نیچا اور بعض دوسرے دیوتاؤںسے کچھ اونچا ہے۔ اب دیکھئے منشی صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ ہندؤں میں باوجود حق کے لئے اوم کا لفظ جو اسم ذات ہی قرار دیا گیا ہے کیاافسوس کا مقام ہے کہ منشی صاحب نے ایک ناواقف آدمی کی تحریر فضول پر اعتماد کلی کر کے اوم کے لفظ کو اسم ذات مقرر کر دیا۔ حالانکہ ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ اوم کا لفظ ان متاخر مشرکین ہنوذ کا ایجاد ہے جنہوں نے برہما، وشن، مہادیو کی صورتوں کے پرستش اختیار کی تھی اور اب کرتے ہیں۔ان کی دانشمند پنڈتوں میں سے کوئی بھی اس بات سے ناواقف نہیں کہ اوم کا لفظ اسی ترہمورتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختراع کیا گیا ہے۔ خدا سے اور خدا کی ذات سے اس کو کچھ علاقہ نہیں۔ بھلا اگر منشی صاحب کے نزدیک یہ اسم ذات ہی ہے تو پھر کئی پنڈت جیسے دیانند، کھڑک سنگھ، پنڈت شاستری صاحب وغیرہ جو اب تک جیتے جاگتے موجود ہیں۔ اُن کی شہادت اپنے بیان پر پیش کریں۔ واضح رہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے مخلوق پرست ہیں۔ ایک تو وہ جو صرف وید کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور یہ فرقہ بہت کم پایا جاتا ہے اور دوسرے وہ گروہ جنہوں نے ترہمورتی کا مذہب ہزاروں برس کے بعد وید کے نکالا ہے۔ وہ برہما، وشن، مہادیو کو مانتے ہیں اور ادم کے لفظ کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان دیوتاؤں کے ناموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہرحال ہماری بحث صرف وید سے متعلق ہے اور ہر چند ہم جانتے ہیں کہ اُپ نشدوں میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ہم نے اوّل سے آخر تک اُپ نشدین غور سے پڑھے ہیں اور اُن کے ذلیل اور غلط خیالات پر بفضل خداوند ہادی مطلق اطلاع پائی ہے لیکن ہم کو ان کتابوں کی تفتیش سے کچھ بھی غرض نہیں۔ جس حالت میں خود ہندوؤں کے محققین اُن اُپ نشدوں کو برہمن پشتک جانتے ہیں تو پھر ہم کوکیا ضرور ہے کہ ان میں کچھ زیادہ طول کلام کریں۔ رہا وید سو ان میں جس قدر مخلوق پرستی ہے اُس کو تمام جاننے والے جانتے ہیں۔ پہلا وید اگنی کی ہی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ ۳۷ منتر تو اُس کی تعریف میں لکھے گئے ہیں اور پینتالیس منتر اندر کے مہابرنن میں ہیں۔ ایسا ہی ہوا اور پانی اور چاند اور سورج وغیرہ کی تعریف میں کئی منتر وید میں مندرج ہیں اور اگر منشی صاحب بطور نمونہ چاہیں تو ہم رگوید سنگتہا اشٹک اوّل پہلا ادہیائے اشلوک ایک میں سے چند شرتیاں لکھ دیتے ہیں تا منشی صاحب اپنے اُس کلمہ کو پھر یاد کریں کہ جو اُنہوں نے قرآن شریف کی عظمتوں اور بزرگیوں اور ہمارے ربّ کریم کے پاک اور کامل کلام کی شوکتوں اور شانوں کو یکبارگی نظر انداز کرکے جلد تر منہ سے نکال دیا اور کہا کہ وید میں بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں نہیں ہے اور میں قبل از بیان یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ سخت ابتلا منشی صاحب کو ایسی عادت کی وجہ سے پیش آ گیا ہے کہ جو اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں کہ میں مذہبی جھگڑوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ گویا منشی صاحب اس کام کو بنظر تحقیر دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ سارا قرآن شریف مذہبی جھگڑوں کے ہی ذکر میں ہے اور جو لوگ خدا کے بڑے پیارے ٹھہرے اُنہوں نے اُنہیں جھگڑوں میں جانیں دی تھیں۔ جب تک طالب حق ان جھگڑوں میں نہ پڑے دل کا صاف ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ علم عقاید اور علم فقہ اور علم تفسیر اور علم حدیث مذہبی جھگڑے ہیں جو شخص مذہبی جھگڑوں میں سے نفرت کر کے علم قرآن حاصل نہیں کرتا اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا وہ بڑی خطرناک حالت میں ہے اور اُس کی سوخاتمہ کا سخت اندیشہ ہے۔ اب وہ شرتیاں جن کاو عدہ کیا گیا تھا یہ ہیں۔
(۱) میں اگنی دیوتا کے جو ہوم کا بڑا گروکارکن اور دیوتاؤں کو نظریں پہنچانے والا بڑا ثروت والا ہے مہا کرتا ہوں۔
اب اس جگہ اگنی کو ایک ایسا دیوتا مقرر کیا کہ جو بطور وکیل کے دوسرے دیوتاؤں کو نذریں پہنچاتا ہے۔
(۲) ایسا ہو کہ اگنی جس کا مہا زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں۔ دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔
اس میں بھی آگ کو وکیل ٹھہرا کر اُس سے یہ چاہا ہے کہ وہ دیوتاؤں کو بھی ہندوؤں پر مہربان کرے۔
(۳) اے اگنی دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اُن کو تین جگہ بٹھا آراستہ کر۔
اب دیکھئے! ان شرتیوں میں کچھ خدا تعالیٰ کا بھی پتہ لگتا ہے اور پھر اُن کے بعد اِندر کی بھی مہا لکھی ہے اور ایک شرتی میں اِندر کو کوشیکا کا بیٹا ٹھہرایا ہے اور کوشیکا گزشتہ زمانہ میں ایک رشی تھا۔ شارح اس کے یہ معنی لکھتا ہے کہ کوشیکا رشی کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ تب اُس نے اِندر دیوتا کی اشنٹ شروع کی اور بہت تپ جپ کیا اور چونکہ کوشیکا کے گھر میں بیٹا ہونا مقدر نہیں تھا مگر اِندر کو اُس پر رحم آیا۔ تب اِندر آپ ہی اُس کی عورت کے رحم میں جا پڑا اور تولد پا کر اُس کا بیٹا بن گیا۔ تب سے اِندر کا کوشیکا کا بیٹا نام رکھا گیا۔ اب مناسب ہے کہ منشی صاحب عبدالمعبود صاحب سے جو اُن کے زعم میں وید کے … ہیں۔ ان شرتیوں کے معنی پوچھیںکہ کیونکر ایک خدا کئی دیوتاؤں پر منقسم ہو گیا اور آگ و ہوا، پانی، سورج، چاند کا جسم پکڑا اور کیونکر وہ کوشیکا کے گھر میں پیدا ہوا۔ کیا یہ ایسا امر ہے جو چھپ سکتا ہے۔ پنڈت دیانند نے ناخنوں تک زور لگایا کہ وید میں توحید ثابت کرے۔ مگر آخر ناکام رہا۔ شاید ۱۸۷۶ء کا ذکر ہے کہ پنڈت دیانند نے کچھ اجزا وید بھاش کے تیار کر کے گورنمنٹ میں مع اپنے عریضہ کے بھیجے اور یہ درخواست کی کہ اُس کا یہ بھاش جس میں جا بجا سودائیوں کی طرح دیوتاپرستی کی دو راز کار تاویلیں لکھی ہیں اور خواہ نخواہ وید کو معلم التوحید قرار دینا چاہا ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جائے۔ گورنمنٹ نے بعض نامی گرامی پنڈتوں سے کیفیت طلب کی کہ آیا وید میں مخلوق پرستی ہے یا نہیں تو اُن سب نے بالاتفاق یہ کیفیت لکھی کہ وید میں دیوتا پرستی کی تعلیم ضرور ہے اور دیانند جو کچھ تاویلیں کرتا ہے یہ صحیح نہیں ہیں۔ اُن دنوں میں یہ تذکرہ اخبار وکیل شہر امرتسر میں بھی چھپ گیا تھا اور پھر اس عاجز نے بھی پنڈت دیانند کو لکھا کہ وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم میں اگر کچھ عذر ہے تو کسی جگہ یہ ثابت کر کے دکھلاویں کہ وید میں آگ اور پانی اور سورج اور چاند وغیرہ مخلوق چیزوں کی پرستش سے کسی جگہ ممانعت بھی لکھی ہے اور کسی جگہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ اے بندگان خدا جو کچھ رگووید وغیرہ میں مخلوق چیزوںکی پرستش کا حکم پایا جاتا ہے اور اُن سے مرادیں مانگی گئی ہیں اور پانی اور آگ اور سورج اور چاند وغیرہ سے خدا ہی مراد ہے تم نے دھوکہ نہ کھانا اورخدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ویدوں میں جو مخلوق پرستی کی تعلیم ہے اُس پر کچھ اعتبار نہ کرنا۔ لیکن پنڈت صاحب نے ہرگز ثابت نہ کیا اور کیونکر ثابت کر سکتے۔ ویدوں میں تو اس قدر مخلوق پرستی کھلی کھلی بیان ہے کہ کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی۔ ابتدا میں برہمو سماج والوں نے ویدوں کے پڑھنے میں بڑی کوشش کی اور اُن کے بعض نامی گرامی آدمیوں نے بڑی محنت سے ویدوں کو پڑھا۔ سو آخر کار انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ وید مخلوق پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ابھی پنڈت شیونرائن نے تنقیح سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم بکثرت ہے اور نیز کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ گورنر بمبئی نے ہندؤوں کی تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ گورنر اپنی قوم میں فضیلت علمی سے نہایت مشہور ہے اور آنریبل کے لقب سے ملقب ہے۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۹ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اکثر مقامات میں بید میں خداکا ذکر بھی ہے۔ لیکن بید کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو انسان سے برتر پیدا کیا ہے۔ سُو اُن دیوتاؤں کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ دیوتا جن کی پرستش کا وید میں حکم ہے۔ پانی اور آگ اور خاک اور ستاری وغیرہ ہیں۔
اب دیکھئے! کہ اس آنریبل نے بھی ہماری رائے سے اتفاق کیا۔ پھر پنڈت سردہا رام پھلوری نے ایک رسالہ بنایا ہے اس میں تو علاوہ مخلوق پرستی کے مورتی پوجا یعنی بت پرستی کا ثبوت بھی دیا ہے لیکن برہمو سماج والوں نے ان دلائل کو قبول نہیں کیا اُن کا بیان ہے کہ ویدوں میں دیوتا پرستی تو ضرور ہے اور بِلاشُبہ آگ و پانی وغیرہ چیزوں کی پرستش کے لئے اس میں صریح حکم ہے اور اُن چیزوں کی حمدو ثنا ہے لیکن مورتی پوجا کا صریح طور پر اس میں حُکم نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ بابو نوین چند رائے نے جو اَب لاہور میں موجود ہیں اور ویدوں کو سنسکرت میں پڑھا ہوا ہے اپنی کتاب اکشاستک میں اُس کو بہ تفصیل لکھا ہے اُن کی یہ اپنی عبارت ہے کہ برتمالو جن کا بدہان بیدوں میں نہیں پایا جاتا۔ مخلوق پرستی کی تعلیم بھی اور کسی جگہ نہیں۔ اس کا یہ باعث ہے کہ وید ایک شخص کی تالیف نہیں ہے۔ وید متفرق لوگوں کے خیالات ہیں۔ پس جن پر مخلوق پرستی غالب ہے اُنہوں نے اپنے کلام میں مخلوق پرستی کی تعلیم کے اور جو لوگ کچھ توحید پسند کرتے تھے اُنہوں نے توحید میں گفتگو کی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں پروفیسر ولسن صاحب کی یہ رائے ہے کہ جہاں تک ہم نے ویدوں کو دیکھا ہے ان تمام مواضع میں مخلوق پرستی بھری ہوئی ہے اور خالق الکائنات کا نام و نشان۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ جن ویدوں کا یہ حال ہے کہ باتفاق تمام محققین کے مخلوق پرستی کی تعلیم کرتے ہیں۔ اُن کی تعریف کرتے وقت خدا سے ڈرنا چاہئے اور جو منشی صاحب لکھتے ہیں کہ ویدوں میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت ہے ان باتوں کو منشی صاحب پوشیدہ رکھیں تو بہتر ہے تا مخالف خواہ نخواہ ہنسی نہ کریں۔ ان دنوں میں وید کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی جگہ دستیاب نہ ہو۔ جا بجا کتب فروشوں کی دوکان میں پائے جاتے ہیں۔ صدہا آدمی وید خوان ہیں۔ یہاں تک کہ اس عاجز کے گاؤں کے قریب ایک دہقان چاروں وید پڑھ کر آ گیا ہے اور وید اُس کے پاس مجوود ہیں۔ کئی دفعہ اُس کا مجھ سے مباحثہ بھی ہوا ہے۔ رگوید اس عاجز کے پاس بھی موجود ہے اور پنڈت دیانند اور بعض اور پنڈتوں کے کچھ کچھ اجزا وید بھاش کے بھی موجود ہیں اور انگریزوں نے بھی بڑی محنت سے ویدوں کو ترجمہ کیا ہے۔ منشی صاحب کا خیال مجھ کو اس قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ جو ابوالفضل نے آئین اکبری میں ایک قصہ لکھا کہ
اکبر بادشاہ کے وقت دکھن کی طرف سے ایک پنڈت آیا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ ویدوں میں کلمہ شریف لکھا ہوا ہے۔ بادشاہ نے بڑے بڑے پنڈت اکٹھے کئے، تاویلیں دیکھیں کہ اگر فی الحقیقت کلمہ طیبہ وید میں لکھا ہوا ہے تو ہندوؤں کی ہدایت کے لئے یہ بڑی حجت ہوگی۔ جب پنڈت جمع ہوئے اور اُن کو وہ متوقع دکھایا گیا تو اُس کے کچھ اور ہی معنی نکلے۔ جس کو کلمہ طیبہ سے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بڑی ہنسی ہوئی اور وہ پنڈت جو ایسا دعویٰ کرتا تھا بڑا شرمندہ ہوا۔ آپ کی تاکید کی وجہ سے یہ لکھا گیا۔ نواب محمد علی خان صاحب کو کسی اور موقعہ پر اس عاجز کی طرف سے تعزیت کریں۔ دنیا مصیبت خانہ ہے۔ خداوند کریم اس مصیبت عظمیٰ کا اُن کو اجر بخشے اور صبر جمیل عطا فرماوے۔
(۱۱؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۶؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)

مکتوب نمبر۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی صاحب کے خیالات اگرچہ بہت ہی حیرت انگیز ہیں پر اُس پُر فتنہ زمانہ میں جائے تعجب نہیں۔ خداوندکریم رحم کرے۔ منشی صاحب جو ہندؤوں کی کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ اکثر ان کتابوں میں سے اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں اور منوکادہرم شاستر تو سرکاری طور پر ترجمہ ہو کر وکلا کی امتحانی کتابوں میں داخل ہے اور گیتا اُردو میں ترجمہ کی ہوئی جا بجا موجود ہے اور ایک ہندو نے اُس کو نظم میں بھی کر دیا ہے اور شام وید اور تھرین وید بھی کچھ پوشیدہ کتابیں نہیں ہیں۔ آج کل آریہ سماج والوں کی ستاویز بھی یہی کتابیںہیں اور یہ شام اور اتھرین اور رگ اور یجر دیانند کے پاس موجود ہیں اور اس کے وید بھاش ماہ بماہ چھپتے ہیں۔ ایک طرف انگریزوں نے بھی ویدوں کو انگریزی میں ترجمہ کر دیا ہے برہمو سماج والے بھی ویدوں کی حقیقت پر بکلی ماہر ہیں۔ کچھ حصہ وید کا اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تمام لوگ اتفاق کر کے ایک پیشگوئی جو وید میں صریح وارد ہوچکی تھی چھپاتے۔ ہرگز ممکن نہیں۔ وید کے محققوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وید میں کسی قسم کی پیشگوئی نہیں یہاں تک کہ پنڈت دیانند کا مقولہ ہے کہ وید میں رام چندر و کرشن وغیرہ کے پیدا ہونے کی بابت بھی کوئی تذکر نہیں اور یہ بات اور بھی عجیب ہے کہ پہلے منشی صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و بعثت کی خبر ویدوں میں لکھی ہے۔ پھر اب یہ دعویٰ ہے کہ وہ خبر پورانوں اور پوتھیوں میں بھی لکھی ہے یہ اچھا ہوا کہ منشی صاحب کو بحث مباحثہ کا شوق نہیں ورنہ پنڈتوں اور انگریزوں اور برہمو سماج والوں کے روبرو بڑی ندامتیں اُٹھاتے۔ اب آپ اس تذکرہ کو طول نہ دیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں اور جو کچھ منشی صاحب نے کلمات الحاد آمیر لکھے ہیں اور اُن کی تائید میں شعروں کا حوالہ دیا ہے۔ اُن کے جواب میں بجز اس کے کیا لکھا جائے کہ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّتِ مَحَمَدَّ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان الذین عند اللّٰہ الاسلام ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرۃ من الخسرین
سچا رہنما قرآن شریف ہے اور اُس کی پیروی اسی جہان میں نجات کے انوار دکھلاتی ہے اور سعادت عظمی تک پہنچاتی ہے مَن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا۔ جومعارف حصہ کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قال میں بہت پھنسا نہ رہے۔ اُس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے ایک ہی راہ ہے۔ یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے اور تعلیم قرآنی کو اپنا مُرشد اور رہبر بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہندؤوں اور عیسائیوں میں کئی لوگ ریاضت اور جوگ میں محنت کرتے ہیںکہ جس سے اُن کا جسم خشک ہو جاتا ہے اور برسوں جنگلوں میںکاٹتے ہیںاور ریاضاتِ شدیدہ بجا لاتے ہیں۔ لذات سے بکلّی کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ انوارِ خاصہ اُن نصیب نہیں ہوتے کہجو مسلمانوں کو باوجود قلت ریاضت اور ترک رہبانیت کے نصیب ہوتے ہیں۔
پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف کرتا ہے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی توبہ نصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشاء کے بموجب مشغولی اختیار کرے تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا یہ خصوصیت دین اسلام کی بلا استعمال نہیں۔ صدہا پاک باطنوں نے اسی راہ سے فیض پایا ہے۔ جو لوگ سچے دل سے یہ راہ اختیار کرتے ہیں خدا اُن کو ہرگز ضائع نہیںکرتا اور اُن میں وہ انوار پیدا کر دیتا ہے جس سے ایک عالم حیران رہ جاتا ہے۔ بجز اس کے سب حجاب ہیں جو اُن لوگوں کو پیش آئے جن کا سلوک کمال تک نہیں پہنچا تھا۔ کاش! اگر وہ زندہ ہوتے تو انکی حقیقت ان کے تابعین پر کھل جاتی۔ کئی ایسے مُردے ہیں جن کی بیہودہ تعریفیں کی گئی ہیں لیکن کاملوں کا نشان یہی ہے کہ وہ اپنے نبی معصوم کی پوری پوری متابعت اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم میں صریح فرق ہے اور کوئی ایسا طالب نہیں جس پر یہ فرق ظاہر نہ ہو سکے۔ پھر مشکل تو یہ ہے کہ بعض لوگ طالب ہی نہیں ہیں۔ دُنیا کے لئے کچھ محنت نہیںکرتے۔ ایک پیسہ کا برتن بھی دیکھ بھال اور ٹھوک بجا کر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی ٹوٹا ہوا نکلے لیکن دین کا کام صرف زبان کے حوالہ کر رکھا ہے اور فعل کے سچے امتحان سے اس کو نہیں آزماتے اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے اور دلی اخلاص سے طالب بن کر جستجو نہیں کرتے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔ وسلام علیکم وعلی کل من اتبع الھدی۔
(یکم اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کی حالت میں پہنچا۔ خداوند کریم کے تفضلات اور احسانات کا کہاں تک شکر کروں اور کیونکر اُس کی نعمتوں کا حق بجا لاؤں کہ اس پر ظلمتِ زمانہ میں مجھ جیسے غریب، تنہا، نالائق، بے ہُنر کے لئے آپ جیسے مخلص دوست اُس نے میسر کئے۔ سو اُسی سے میں یہ بھی دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو اپنے الطاف جلیہ اور خفیہ سے متمتع کرے اور اپنے توجہات خاصہ سے دستگیری فرماوے اور اپنی طرف انقطاع کامل اور تبتل تام بخشے۔ آمین ثم آمین۔ اور یہ تبتل تام جس کی آپ تشریح دریافت بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مقام اعلیٰ ہے جو بغیر فنائے اَتم کے کامل طور پر حاصل نہیںہوتا بلکہ فی الحقیقت اسی کا نام فنائے اَتم ہے جو تبتل تام حاصل ہو جائے اور تبتل تام تب حاصل ہوتا ہے کہ جب ہر یک حجاب کا خرق ہو کر رابطہ انسان کا محبت ذاتی تک پہنچ جائے۔ حجاب دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو بدیہی طور پر معلوم ہوتے ہیں اور کچھ نظر اور فکر کی حاجت نہیں۔ جیسے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف توجہ کرنا۔ مخلوق سے مرادیں اور حاجات مانگنا اور مخلوق کا اپنا تکیہ گاہ اور پناہ سمجھنا۔ اپنے ننگ اور ناموس اور عزت اور نام کی حفاظت میں مبتلا رہنا اور بجز ایک متصرف حقیقی کے کسی سے خوف یا کسی پر کچھ امید رکھنا اور زید عمرو کے وجود کو وجود سمجھنا کسی کو کارخانہ الوہیت کا شریک سمجھ کر حق الوہیت میں شریک ٹھہرا دینا۔ عبادات یا اعتقادات میں کسی کو خدا تعالیٰ کی طرح خیال کرنا۔ حضرت باری کے امر اور نہی کو توڑ کر اپنے نفس کی خواہشوں کا تابع ہونا اور نفس امّارہ کی پیروی کرنا اور بندی اور فرمانبرداری کی حد پر نہ ٹھہرنا۔ یہ تو وہ سب حجب ہیں جو بدیہی ہیں جو عام طور پر ہر یک کو سمجھ آ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ فطرت صحیحہ میں کچھ خلل نہ ہو۔ دوسری قسم کے حجاب وہ ہیں جو نظری ہیں۔ جن کے سمجھنے کے لئے کامل درجہ پر عقل سلیم اور فہم مستقیم چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسماء اور صفات الٰہیہ تک رابطہ محدود رہے اور ذات بحت سے حقیقی طور پر تعلق حاصل نہ ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت بغرض حصول اُس کے انعام و اکرام کے کرتا رہے وہ ہنوز اسماء و صفات الٰہیہ پر نظر رکھتا ہے اور محبت ذاتی کے شربت عذب سے ابھی کچھ اُسے نصیب نہیں اور اس کا رابطہ معرض خطر میں ہے کیونکہ اسماء و صفات الٰہیہ ہمیشہ ایک ہی رنگ میں تجلی نہیں فرماتیں اور کبھی جلال کبھی جمال اور کبھی قد اور کبھی لطف ہوتا ہے۔ غرض ان دونوں قسموں کے حجابوں سے جو شخص باہر آ جائے اور اپنے مولیٰ حقیقی سے ذاتی طور پر محبت پیدا ہو جس کو کوئی چیز روک نہ سکے اور منجملہ ظاہری اور باطنی اور افاقی اور انفسی حجابوں کے کوئی حجاب باقی نہ رہے تو یہ وہ مرتبہ ہے جس کو تبتل تام کہناچاہئے۔ اس مرتبہ کا خاصہ ہے کہ انعام اور ایلام محبوب کا ایک ہی رنگ میں دکھائے دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ایلام سے اور بھی زیادہ محبت بڑھتی ہے اور پہلی حالت سے آگے قدم بڑھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب محبت ذاتی کی موجیں جوش میںآتی ہیںتو اسماء اور صفات پر نظر نہیں رہتی اور انسان کا سارا آرام محبوب حقیقی کی یاد میں ہو جاتا ہے اور وجہ اللہ کا تعلق ذات باری کی بیچون اور بیچگون ہوتا ہے اور محب صادق کسی کو اس بات کی وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں وہ اس محبوب سے محبت رکھتا ہے اور کیوں اس کے لئے بدل و جان فدا ہو رہا ہے اور اس محبت اور اطاعت اور جاں فشانی سے اُس کے غرض کیا ہے کیونکہ وہ ایک جذبہ الٰہی ہے جو بطور موہیت خاصہ محب صادق پر پڑتا ہے ۔ کوئی مصنوعی بات نہیں جس کی وجہ بیان ہو سکے۔ یہی انقطاع حقیقی اور تبتل تام کی حالت ہے اور یہی وہ موت روحانی ہے جس کی اہل اللہ کے نزدیک فناء سے تعبیر کی جاتی ہے کیونکہ اس مرتبہ پر نفس امّارہ کا بکلّی تزکیہ ہو جاتا ہے اور بباعث محبت ذاتی کے اپنے مولیٰ کریم کی ہر یک تقدیر سے موافقت تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس دوست کے ہاتھ سے پہنچتا ہے پیار ا معلومہوتا ہے اور اس کا قہر اور لطف سب لطف ہی دکھائی دیتا ہے اور حقیقت میں وہ سب لطف ہی ہوتا ہے۔ ہر محب صادق نہ قہر سے غرض رکھتا ہے نہ لطف سے۔
غریق ورطۂ بحر محبت
نہ بر مہرش نظر باشد نہ برکیں
چناں رویش خوش افتد ارسر عشق
کہ قرباں میکند بردے دل و دین
شب و روزش بدیں سرکار باشد
دل و جانش شودآں یار شیریں
بسوز دہر چہ غیر یار باشد
ہمیں ایں عشق را رسم است و آئین
اور اس عاجز کا یہ مصرع کہ
قربان میکند بروے دل و دین
یہ معنی رکھتا ہے کہ قبل از جذبہ عشق جو کچھ انسان کے دل میں رسوم اور عادات بھری ہوئی ہوتی ہیں اور کچھ جو جہل مرکب کی باتیں اوپر تعصب خیالات اس کے سینہ میں جمع ہوئے ہیں۔ اصل میں وہی اس کا دین ہوتا ہے جس کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا اور جب جذبۂ عشق اس پر غالب آتا ہے تو وہ خیالات کو جو تپ دِق کی طرح رگ و ریشہ سے ملے ہوئے ہوتے ہیں بآسانی چھوٹ جاتے ہیں اور بعد اس کے عشق الٰہی ایک پاک دین تعلیم کرتا ہے کہ جو عادت اور رسم کی آلودگی سے منزہ ہے اور تعصبات کے لوث سے پاک ہے۔ بس نافع اور مبارک دین یہی ہوتا ہے جو عشق کے بعد آتا ہے اور جو عشق کے اوّل خیالات ہیں۔ وہ بہت ہی زہروں سے بھری ہوئے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اسی لائق ہیں کہ عشق پر فدا کئے جائیں اور اُن کے عوض میں وہ پاک خیال کہ جو عشق کے صافی چشمہ سے نکلے ہیں اور جو ہر یک تعصب اور رسم اور عادت سے منزہ ہیں حاصل کئے جائیں اور خیالات ایسی سختی سے نفس پر قابض ہوتے ہیں کہ بغیر جذبۂ عشق کے ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اُٹھ سکیں۔ مدار کار جذبہ عشق پر ہے جو قلب پر مستولی ہوتا ہے اور جب وہ مستولی ہوتا ہے تو نفس اپنی اندرونی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے اور نفس کے چھپے ہوئے جو عیب تھے اُس سے دور ہوتے ہیں کہ جب عشق الٰہی کے بھڑکتے ہوئے آگ دل پر وارد ہوتی ہے۔ نقد اعمال صالحہ جن پر کشود کار موقوف ہے تب ہی صادر ہوتے ہیں کہ جب اُن کو حرکت دینے والا عشق ہوتا ہے کوئی اور غرض فاسد نہیں ہوتی اور مجرد اعمال صوری اور عبادات رسمی سے کوئی عقدہ نہیں کھلتا بلکہ جب تک سالک رسم اور عادت کی بدبودار مزبلہ سے باہر نہیں آتا مورد غضب الٰہی رہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے منہ پھیر رہا ہے اور اُس کے غیر کی طرف متوجہ ہے۔ وجہ یہ کہ رسم اور عادت بھی ماسوا اللہ ہے اور ہر یک ماسوا اللہ خدا سے دور ڈالتا ہے اور سلامتی قلب میں خلل انداز ہے۔ سو سالک کے لئے جو بات سب سے پہلے لازم ہے وہ یہی ہے کہ رسم اور عادت سے باہر ہو اور پھر خلوص نیت سے مااتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھو پر عمل کرے تا شفا پاوے اور ایمان حقیقی سے حصہ حاصل کرے مگر افسوس کہ بہت سے علماء ظاہری اسی سے تباہ ہو رہے ہیں کہ رسوم اور عادات کے رنگ میں ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں اور اس حقیقت اور حق بینی سے انسان کا دل منور ہوتا ہے اور جس دولت اور سعادت سے باطنی افلاس دور ہوتا ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کیا بدقسمتی ہے۔ ہائے! ہائے!
خلق و عالم جملہ در شور و شراند
عشق بازاں در مقام دیگر اند
گرد لازیں کوچہ بیرون نگذریم
ہم سگان کوچہ از ما بہتراند
خداایسا نہیں کہ دھوکا کھا سکے۔ اس کی دلوں پر نظر ہے اور حقیقتوں پر نگاہ ہے۔ وہ رسموں اور عادتوں سے ہرگز خوش نہیں ہوتا اور جب تک بندہ مقام اخلاص کا حاصل نہ کرے۔ یعنی مرنے سے پہلے ہی نہ مرے اور افاقی اور انفسی شرکوں سے بکلّی باہر نہ آوے تب تک الطاف اللہ اس کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوتیں۔ تب ہی کمال ایمان میسر آتا ہے کہ جب وہ موت کو جس کو ابھی میں نے اخلاق سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت اسلام بھی تبھی اپنا چہرہ مصفا دکھاتی ہے کہ جب یہ موت حاصل ہو جائے۔ حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اور ہر یک کو جو طالب ہے اس اخلاص سے بہرہ مند کرے۔ زمانہ سخت زہرناک ہوائیں چلا رہا ہے جس سے تمام کاروبار منقلب ہوا جاتا ہے۔ ہر یک بات مالک حقیقی کے اختیار میں ہے۔ ہم عاجز بندوں کا کام عبودیت ہے۔ فتح اور شکست سے مطلب نہیں۔ عبدویت سے مطلب ہے۔ اس راہ میں جنہوں نے بہت سی خدمتیں کیں پھر بھی وہ سیر نہ ہوئے پھر ہمیں کیونکر آرام ہو جنہوں نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔ سو ہمارا سب غم اور حزن خدا کے سامنے ہے۔ ابھی وہ حال ہے کہ جو صرف بیرونی حملوں پر کفایت نہیں بلکہ بعض ناشناس بھائی اندرونی حملے بھی کر رہے ہیں لیکن ہم عاجز بندوں کی کیا حقیقت اور بضاعت ہے۔ وہی ایک ہے جس نے اپنے عاجز اور ناتوان بندہ کو ایک خدمت کے لئے مامور کیا ہے۔ اب دیکھئے کہ کب تک اس ربّ العرش تک اس عاجز کی آہیں پہنچتی ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ بعض احباب علماء کی طرف سے یہ فتویٰ لائے ہیں کہ اتباع قال اللہ وقال الرسول اور ترجیح اُس کی دوسرے لوگوں پر کفر ہے مگر یہ بندہ عاجز کہتا ہے کہ زہے سعادت کہ کسی کو یہ کفر حاصل ہو۔
گر ایں کفرم بدست آید برو قربان کنم صد دین
خداوندا بمیرانم بریں کفرو بریں آئین
حضرت افضل الرسل خیر الرسل فخر الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اور اس کے پاک اور کامل حدیث اور خدا کا سچا نور اور بلاریب کلام ترک کر کے پھر اور کونسی پناہ ہے جس کی طرف رُخ کریں اور اُس سے زیادہ کون سا چہرہ پیارا ہے جو ہماری دلبری کرے۔
گر مہر خویش برکنم از روئے دلبرم
آن مہر برکہ افگنم آن دل کُجا برم
من آں نیم کہ چشم بہ بندم زردے دوست
دربینم ایں کہ تیر بیاید برابرم
آپ کسی کی بات کی طرف متوجہ نہ ہوں اور عاشق صادق کی طرح قول اور فعل سے، مدح سے، ثنا سے، متابعت سے فنا فی الرسول ہو جائیں کہ سب برکات اس میں ہیں۔ اکثر لوگوں پر عادت اور رسم غالب ہو رہی ہے اور بڑی بڑی زنجریں پانوں میں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی اس طرح آ نہیں سکتا۔ مگر جس کو خدا کھینچ کر لاوے۔ سو صبر سے استقامت سے اُن کے جوروجفا کا تحمل کرنا چاہئے دنیا اُنہیں سے دوستی رکھتی ہے جو دنیا سے مشابہ ہوتے ہیں مگر جو خدا کے بندہ ہیں گو وہ کیسے ہی تنہا اور غریب ہوں تب بھی خدا اُن کے ساتھ ہے اِنَّ اللّٰہَ لَاْیَھْدِیْ مِنْ ھُوْ مُسْرِفُ کَذَّابُ۔ آپ کے سب دوستوں کو سلام مسنون پہنچے۔
(۱۹؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ شوال ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا سے غافل نہیں مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے اور آپ میں آثار سعادت اور رُشد کے ظاہر ہیں کہ آپ کی حقیقت بینی پر نظر ہے اور صدق اور وفا اور حسن ظن کا خلق موجود ہے۔ پس یہ وہ چیزیں ہیں جس کو مولیٰ کریم کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں۔ اس کے لئے استقامت کا عطا ہونا ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ بغایت درجہ کریم و رحیم ہے۔ وہ جس دل میں ایک ذرّہ بھی اخلاص اور صدق پاتا ہے اُس کو ضائع نہیں کرتا۔ آپ بعض اپنے دوستوں کے تغیر حالت سے دل شکستہ نہ ہوں۔ مولوی صاحب کی وہ حالت ہے کہ نہ اُنہوں نے ارادت کے وقت اس عاجز کو شناخت کیا اور نہ فتح ارادت کے وقت پہچانا۔ سو اُن کی نہ ارادت قابل اعتبار تھی نہ اب فتح ارادت معتبر ہے۔ ارادت اور فتح ارادت وہی معتبر ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو اور اگر علی وجہ البصیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مسجد کا زینہ تیار ہو گیا ہے۔ عجب فضل الٰہی ہے کہ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی ہے تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے فِیْہِ بَرَکات للناس۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالِکَ ہرسہ حصہ کی کتابیں اگرچہ اس وقت زبانی یاد نہیں مگر شاید قریب دو سَو کے کتاب باقی ہوگی۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ صفحہ۳۱ فتوح الغیب کی شرح یہ ہے کہ سالک کا چار حالتوں پر گذر ہوتا ہے اور حالت چہارم سب سے اعلیٰ ہے اور وہی ترقیات قُرب کا انتہائی درجہ ہے جس پر سلسلہ کمالات ولایت کا ختم ہو جاتا ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلی حالت وہ حالت ہے کہ جب انسان ناسوتی آلائشوں میں مبتلا ہوتا ہے اور شتر بے مہار کی طرح جو چاہتا ہے کھاتا ہے اور جو چاہتا ہے پیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے چلتا ہے۔ سو وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ ناگاہ حضرت خداوندکریم اُس پر نظر کرتا ہے اور باطنی اور ظاہری طور پر توبہ کا سامان اس کے لئے میسر کر دیتا ہے۔ باطنی طور پر یہ کہ ایک جذبہ قویہ خداوندکریم کی طرف سے اس کے شامل حال ہو جاتا ہے اور وہی جذبہ درحقیقت واعظ باطنی ہے اور اُسی سے فسق و فجور کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور انسان اپنے نفس میں قوت پاتا ہے کہ تا نفس امّارہ کی پیروی سے دستکش ہو جائے اور اگرچہ پہلے اس سے ایک اور کمزور جیسا واعظ بھی انسان کے نفس میں موجود ہے جو کو لمۃ الملک سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بھی نیکی کیلئے سمجھاتا رہتا ہے اور نیک کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ اچھا کام کیا ہے اور بَد کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ بَد کام کیا ہے۔ یہاں تک کہ چور چوری کرنے کے بعد اور زانی زنا کرنے کے بعد اور خونی خون کرنے کے بعد کبھی کبھی باوجود اُن سخت پردوں کے اُس لمۃ الملک کی آواز سن لیتا ہے۔ یعنی اُس کا دل فی الفور اُسے کہتا ہے کہ یہ تو نے اچھا کام نہیں کیا۔ بُرا کیا ہے لیکن چونکہ یہ ضعیف واعظ ہے اس لئے اُس کا وعظ اکثر بے فائدہ جاتا ہے اور اگرچہ اس کے ساتھ کوئی واعظ ظاہری بھی مل جائے یعنی کوئی صالح انسان نصیحت بھی کرے تب بھی کچھ کار براری کی امید نہیں کیونکہ نفس سخت اژدھا ہے کمزوروں سے وہ قابو میں نہیں آتا اور اگر کچھ مغلوب بھی ہو جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ عارضی اور بے بنیاد توبہ توبہ کرتا ہے اور حقیقی سعادت کی تبھی نسیم چلتی ہے کہ جب جذبہ الٰہی شامل حال ہو۔ سو کامل واعظ جو باطنی طور پر بھیجا جاتا ہے جذبہ ہے اور ظاہری طور پر توبہ کا یہ سامان میسر ہو جاتا ہے کہ کسی صالح کی صحبت میسر آ جاتی ہے اور فسق و فجور کی مہلک زہر سے اطلاع ہو جاتی ہے۔ سو یہ دونوں مل کر چکی کے دو پاٹ کی طرح نفس امّارہ کو پیس ڈالتے ہیں اور باجبرواکراہ معاصی اور فسق فجور سے جدا کرتے ہیں۔ سو یہ دوسری حالت ہے کہ جو ترقیات قرب کے راہ میں سالک کو پیش آتی ہیں اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام جبروتی حالت ہے کیونکہ وہ جبر اور اِکراہ کے ساتھ نفسانی خواہشوں سے باہر آتا ہے اور جذبہ باطنی اپنے طور پر اور واعظ ظاہری اپنے طور پر اُس پر جبر کرتا ہے اور مالوفات نفسانیہ سے سختی اور درشتی کے طور پر الگ کر دیتے ہیں۔ پھر جب اُس پر صفایت الٰہیاس کو قائم کر دیتی ہے تو اس کے لئے خدا کے حکموں پر چلنا اور اس کی نہی سے پرہیز کرنا آسان کیا جاتا ہے اور شوق اور ذوق اور اُنس سے اُس کو حصہ دیا جاتا ہے۔ پس وہ اس جنت سے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بلاتکلف اس سے صادر ہوتی ہے اور جو حالتِ دوم میں بوجھ اور ثقل تھا وہ دور ہو جاتا ہے اس لئے وہ ملائک سے تشبہ پیدا کر لیتا ہے اور یہ حالت ملکوتی حالت ہے اور اس حالت میں سامل کا اکل و شرب اور ہر یک مابہ مابہ الاحتظاظ امر سے وابستہ ہوتا ہے۔ یعنی ہوا و ہوس کے اتباع سے بکلّی رستگار ہو جاتا ہے اور وہی بجا لاتا ہے جس کے بجا لانے کے لئے شرعا یا الہاماً مامور ہو اور پھر بعد اس کے حالت چہارم ہے جس کو لاہوتی حالت سے تعبیر کرنا چاہئے اور جب سالک اس حالت تک پہنچ جاتا ہے تو صرف یہی بات نہیں کہ اپنے ہوا ہوس سے خلاصی پاتا ہے بلکہ بکلّی اپنے ہوا و ہوس سے اور نیز اپنے ارادہ سے محو ہو جاتا ہے۔ تب انسان خدا کے ہاتھ میں ایساہوتا ہے جیسا مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور الوہیت اس فانی پر اپنے تجلیات تامہ ڈالتی ہے اور ارادت ربّانی علی وجہ البصیرت اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ خدا کی طرف سے صاحب علم صحیح ہوتا ہے اور ہر یک ابتلا اور آزمائش سے باہر آ جاتا ہے اور یہ مرتبہ ملائک سے برتر ہے۔ ملائک کو یہ حالت چہارم جو غلبہ مشق سے پیداہوتی ہے عطا نہیں ہوتی یہ خاص انسان کے حصہ میں آئی ہے۔ وَذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ اور جیسی بصیرت کاملہ ایسی حالت سے مخصوص ہے۔ ایساہی صلاحیت کاملہ بھی اسی حالت سے وابستہ ہے کیونکہ پہلی حالت میں نقصان علمی و عملی سے خالی نہیں ہیں بلکہ نقصان علمی و عملی ان کے لازم حال پڑا ہوا ہے کیونکہ خدا میں اور اُن میں اپنا وجود حائل ہے۔ بس وہی وجود ایک حجاب بن کر علم اور اخلاص کے ناقص رہنے کاموجب ہے لیکن حالت چہارم میں وجود بشری بکلّی اُٹھ جاتا ہے اور کوئی حجاب درمیان میں نہیں رہتا اور اس حالت میں عارف کااَکل و شرب اور ہر یک مابہ الاحتطاظ اور اُس کے شعور اور ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک پودے کی طرح بے حس و حرکت ہے اور مالک جب مناسب مناسب دیکھتا ہے تو اُس کی آبپاشی کرتا ہے۔ اُس کو اس طرف خیال بھی نہیں آتا کہ کیا کاؤں گا اور کیا پیوں گا اور جیسے ایک بے ہوش کو خواہ کوئی لات مار جائے۔ خواہ پیار دے جائے۔ یکساں ہوتا ہے ایسا ہی جامِ عشق سے مست وہ ہوش ہے اور اپنے نفس کے انتظاموں سے فارغ ہے۔ سو جیسے مادر مہربان اپنے نادان بچے کو وقت پر آپ دودھ پلاتی ہے اور اس کی بالشت نابالشت کی آپ خبر رکھتی ہے ایسا ہی خداوندکریم اس ضعیف اور عاجز بشر کا کہ جو اس کی محبت کے سخت جذبہ سے یکبارگی اپنے وجود سے اور اُس کے نفع و نقصان کے فکر سے کھویا گیا ہے آپ متولی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے دوستوں کا آپ دوست اور اُس کے دشمنوں کا آپ دشمن بن جاتا ہے اور جو کچھ اُس کو اپنے دوستوں اور دشمنوں سے معاملہ کرنا چاہئے تھا وہ اُس کی جگہ آپ کرتا ہے۔ غرض اُس کے سب کاموں کو آپ سنبھالتا ہے اور اُس کی سب شکست ریخت کی آپ مرمت کرتا ہے اور وہ درمیان نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کا خواستگار ہوتا ہے اور یہ جو صفحہ۲۳۰ کے سر پر عبارت ہے۔ فیسا کل بالامر یعنی تیسری حالت کا سالک امر حق کے ساتھ کھاتا ہے اور پھر صفحہ۲۳۱ میں حالت چہارم کے مقرب کی نسبت بھی لکھا ہے۔ فیقال لہ تلبس بانعم والفضل یعنی اس کو بھی کھانے پینے کے لئے امر ہوتا ہے تو ان دونوں امروں میں فرق یہ ہے کہ حالت سیوم میں تو سالک کے نفس میں ارادہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا یہ مشرب ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں حظ کے اُٹھانے کے لئے مجھ کو اجازت فرما دے تو میں اس کو اُٹھاؤں گا اور گو وہ اتباع نفس سے پاک کیا جاتا ہے لیکن متابعت امر کے پیرایہ میں وہ حظ حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ بقایا نفس کے ابھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر حالت چہارم میں مقرب کامل کی طرف سے بالکل ارادہ نہیں ہوتا۔ خود خدا تعالیٰ بطور تلطف و احسان کے کسی مابہ الاحتظاظ کو اُس کے لئے میسر کر یتا ہے اور جیسے مادر مہربان اپنے بچے کو جگا کر دودھ پینے کیلئے ہدایت کرتی ہے ویسا ہی وہ اس کوجگا کر کسی حظ کے اُٹھانے کے لئے تحریک کرتا ہے۔ سو وہ تحریک سراسر اُسی کی شفقت سے اور فضل اور عنایت سے ہوتی ہے۔
(۳۰؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۶؍ شوال ۱۳۲۶ھ)
مکتوب نمبر۲۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذامحبت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ موجب شکر و سپاس ہوا۔ خداوند کریم مقدرات مکروہہ سے آپ کو امن میں رکھے اور آپ کی سعیوں اور کوششوں میں کہ جو آپ خالصاً للہ کر رہے ہیں بہت سی برکتیں بخشے اور بہت سے اجر اُس پر مترتب کرے۔ آمین۔ صفحہ۲۴ فتوح الغیب کی نسبت جو آنمخدوم نے دریافت فرمایا ہے یہ مقام بَین المعنی ہے۔ کوئی عمیق حقیقت نہیں جو کچھ شارح نے لکھا ہے وہ صحیح اور درست ہے۔ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اس مقام میں یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ سالک میں حقیقت فنا کی تب محقق ہوتی ہے اور تب ہی وہ اس لائق ہوتا ہے کہ مورد معارف الٰہیہ ہو۔ جب تین طور کا انقطاع حاصل ہو جائے۔
اوّل انقطاع خلق اللہ ہے اور وہ اس طرح پر حاصل ہوتا ہے کہ حکم الٰہی کو جو قضا و قدر ہے۔ تمام مخلوقات پر نافذ سمجھے اور ہر یک بندہ کو پنجہ تقدیر کے نیچے مقہور اور مغلوب یقین کرے لیکن اس جگہ یہ عاجز صرف اس قدر کہنا چاہتا ہے کہ ایسا یقین کہ فی الحقیقت تمام مخلوقات کو کالعدم خیال کرے اور ہر یک حکم خدا کے ہاتھ میں دیکھے اور ہر یک نفع اور ضرر اُسی کی طرف سے سمجھے صرف اپنی ہی تکلیف اور نفع سے حاصل نہیں ہوسکتا اور اگر تکلیف سے اس قدر خیال قائم بھی ہو تو وہ بے بقا ہے اور ادنیٰ ابتلا سے لغزش پیش آ جاتی ہے بلکہ یہ مقام عالی شان اس بصیرت کاملہ سے حاصل ہوتا ہے کہ جو خاص خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب عنایات الٰہیہ کسی کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے لمبے قضیہ کو آپ ہی کوتاہ کر دیتے ہیں اور وہ بوجھ جو اس سے اُٹھائے نہیں جاتے دست غیبی ان کو آپ اُٹھا لیتا ہے۔
پس اسی طرح سے جب بذریعہ علوم لدنیہ و کشوف صادق و الہامات صحیحہ و تائیدات صریحہ انسان پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ تمام نفع و ضرر خدا کے اختیار میں ہے اور مخلوق کچھ چیز ہی نہیں تو ایک نہایت کامل یقین سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ نفع یا نقصان اور عزت یا ذلت ہے سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور مخلوق کو مردہ کی طرح دیکھتا ہے لیکن اس جگہ اعتراض یہ ہے کہ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر قدس سرہ نے علوم و معارف الٰہیہ کے حاصل ہونے کا ذریعہ فنا عن الخق وغیرہ اقسام فنا کو ٹھہرایا ہے۔ پس جب کہ فنا کا حاصل ہونا ان علوم کے حاصل ہونے پر موقوف ہے تو اس سے دور لازم آتا ہے۔ سو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و تائیدات خاصہ الٰہیہ وتوجہات جلیلہ صمدیہ غیر فانی کو ذاتی طور پر حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔ لیکن بتوسط صحبت شیخ فانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگرچہ براہ راست نہیں لیکن سالک اپنے شیخ کامل میں ان تمام تائیدات سماوہ کو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ پس یہی مشاہدہ اس کے یقین کی کمالیت کا موجب ہو جاتا ہے۔ اگر جلدی نہیں تو ایک زمانۂ دراز کی صحبت سے ضرور شکوک و شبہات کے تاریکی دل پر سے اُٹھ جاتی ہے۔ اسی جہت سے فانیوں کی معیت کے لئے قرآن شریف میں سخت تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ اے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقُوْنَ ھُمْ اَلْفَانُوْنَ لَاْغَیْرِھِمْ اور جو شخص نہ فانی ہے اور نہ فانیوں سے اُس کا کچھ تعلق اور محبت ہے۔ وہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کے سوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے اور اس کے ایمان کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ الا ان یتدارکہ اللّٰہ برحمۃ۔ دوسری شرط مورد معارف الٰہیہ ہونے کیلئے یہ ہے کہ ہوائے نفس سے انقطاع ہو جائے۔ یعنی سالک پر لازم ہے کہ اپنے تمام حرکت و سکون و قول و فعل میں اوامر اور نواہی میں اللہ کی متابعت اختیار کرے اور کسی حالت میں قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلَسے باہر نہ جائے اور کچھ دوسرے لوگ اپنے نفس کی متابعت سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے رسول کی متابع سے بجالاوے اور اپنے اعمال اور اقوال میں کوئی ایسی جگہ خالی نہ چھوڑے جس میں نفس کو کچھ دخل دینے کی گنجائش ہو۔ پس جب کہ کامل طور پر اتباع سنت میسر آ جائے گا اور ایک ذرّہ ہوائے نفس کی پیروی نہیں رہے گی بلکہ ظاہر و باطن متابعت رسول کریم سے منور ہو جائے گا تو یہ وہ حالت ہے جس کا نام فنا بامر اللہ ہے۔ مگر ہائے افسوس کہ اس پر ظلمت زمانہ میں بجائے اس کے کبریت احمر کا قدر کریں۔ اکثروں کو اس طریق سے بغض ہے اور اتباع سنت سے ایک چِڑ ہے۔ حالانکہ دوسری قسم فنا کی بجز اس کے ہرز میسر نہیں ہو سکتی۔ اللھم اصلح امۃ محمد اللھم ارحم امۃ محمد اللھم انزل علینابرکات محمد و صل علی محمد و بارک وسلم۔
تیسری شرط مورد معارفِ الٰہیہ ہونے کے لئے یہ ہے کہ رضا بقضاء ہو اور ایسا انشراح صدر میسر آ جائے کہ جو کچھ ارادت ِ الٰہیہ سالک پر نافذ ہوں۔ عاشق صادق کی طرح ان سے متلذذ ہو اور انقباض پیدا نہ ہو بلکہ یہاں تک موافقت تامہ پیدا ہو جائے کہ اُس محبوب حقیقی کی مراد اپنی ہی مراد معلوم ہو اور اس کی خواہش اپنی خواہش دکھلائی دے۔ اس جگہ بھی وہی سوال لزوم دور کا لازم آتا ہے جو پہلی قسم میں لازم آیا تھا اور جو اَب بھی وہی ہے جو پہلے دیا گیا ہے۔انسان کا کام بجز صحبت صادقین کے سراسر خام ہے اور بجز طریق فنا یا صحبت فانیوں کے ایمان کا سلامت لے جانا نہایت مشکل ہے۔ پس سعید وہی ہے کہ جو سب سے پہلے ایمان کی سلامتی کا فکر کرے اور ناحق کے ظاہری جھگڑوں اور بے فائدہ خرخشوں سے دست کش ہو کر اس جماعت کی رفاقت اختیار کرے۔ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا درد عطاکیا ہے اور یقینا سمجھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو عمدہ نعمت دنیا کیلئے لائے وہ یہی درد اور محبت الٰہی ہے جس کو خدا اور رسول کی محبت دی گئی۔ اس نے اپنی اصل مراد کو پا لیاہے اور بِلاشبہ وہ سعید ہے اور نارجہنم کو اس سے مس کرنا حرام ہے لیکن جس کو وہ محبت عطا نہ ہوئی اور اُس نے اپنے خدا اور اپنی نبی کا قدر شناخت نہیں کیا۔ اُس کا زبانی طور پر مسلمان کہلانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ نماز وروزہ بھی بجز ذاتی محبت کے اپنی اصل حقیقت سے خالی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔یاتی علی امتی زمانہ یصلون و یصومون ویجمعون فی المساجد ولیس ففیھم مسلم۔ یعنی ایک زمانہ وہ آئے گا کہ لوگ نمازیں بھی پڑہیں گے اور روزے بھی رکھیں گے اور مسجدوں میں اکٹھے ہوں گے پر اُن میں سے ایک بھی مسلم نہ ہوگا۔ یعنی مومن حقیقی نہ ہوگا۔ اپنی دنیا اور اپنی رسوم میں گرفتار ہوں گے اور دین بھی رسم کے طور پر بجا لائیں گے۔ سو اَب ایسے وقت کا اندیشہ ہے خداوند کریم رحم کرے۔ بخدمت مولوی صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچادیں اگر ملاقات میسر ہو۔
(تاریخ ۶؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۳؍ ذیعقد ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ حدیث نبوی یعرفھم غیری کے معنی جو اس عاجز کے دل میں ڈالے گئے ہیں یہ ہیں کہ غیر کے لفظ سے نفی ماسوا اللہ مراد نہیں بلکہ نفی نااہل و ناآشنا مراد ہے۔ مگر جو لوگ مومن حقیقی ہیں وہ بباعث استعداد فنا اور زوال حجب کے کبریائی دامن کے اندر ہیں اور غیر نہیں ہیں خود خدا تعالیٰ نے بعض صالح اہل کتاب کے حق میں اپنی کتاب مجید میں یہ فرمایا ہے یفرفونہ کما یعرفون ابناء ھم یعنی وہ لوگ پیغمبر آخر الزمان کو جو امام الانبیاء اور سید الاولیا ہے اس طرح پر شناخت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو شناخت کر رہے ہیں اور اسی طرح روحانی روشنی کی برکت سے اولیا اولیا کو شناخت کر لیتے ہیں۔ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس کے وجود کو یمن میں شناخت کر لیا اور بارہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یمن کی طرف سے رحمان کی خوشبو آ رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہریک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا۔ ہاں جو لوگ بیگانہ ہیں وہ یگانہ حضرت احدیّت کو شناخت نہیں کر سکتے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ینظرون الیک وھم لا یبصرون یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں پر تو اُنہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکارابیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے۔ جیسے ایک عیسائی نے جب کہ مبالہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حسین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھم عیسائیوں کے سامنے آئے دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو۔ مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا۔ سو خدا جانے کہ اس وقت نور نبوت وہ ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کافر، بدباطن، سیہ دل کو بھی نظر آ گیا اور عام طور پر باستثناء خواص اہل اللہ و اکابر اولیا کی حقیقت ولایت کو جو قرب الٰہی کا نام ہے بجز حضرت احدیّت کے کسی کو اس پر اطلاع نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس حقیقت کے انوار و آثار جیسے استقامت صبر، رضا، جودوسخا، صدق، وفا، شجاعت حیا اور نیز خوارق و دیگر علامات قبولیت لوگوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ سب آثار ولایت ہیں اور حقیقت ولایت ایک مخفی امر ہے۔ جس پر غیر اللہ کو ہرگز اطلاع نہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب اور جو آپ نے دریافت کیا ہے کہ خوارق و کرامات ریاضات شاقہ کا نتیجہ ہے یا کیا حال ہے اس میں تحقیق یہ ہے کہ بِلاشُبہ ریاضات شاقہ کو کشوف وغیرہ خوارق میں دخل عظیم ہے بلکہ اس میں کسی خاص مذہب بلکہ توحید کی بھی شرط نہیں اور اسی جہت سے فلاسفہ یونان اور اس ملکِ ہند کے جوگی اپنے تپوں جپوں کے ذریعہ سے صفائی نفس حاصل کرتے رہے ہیں اور اُن کا قلب اپنے معبودات باطلہ پر جاری ہوتا رہا ہے اور مکاشفات بھی اُن سے ظہور میں آتے رہے ہیں۔ چنانچہ کسی تاریخ دان اور صاحب تجبرہ پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اب بے خبر کو بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب کشوف و خوارق باطل پرستوں اور استدارج دانوں سے بھی ہو سکتے ہیں تو پھر اُن میں اور اہل حق لوگوں میں کیا فرق باقی رہا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت احدیّت کے برگزیدہ بندے تین علامات خاصہ سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ علامتیں ایسی ہیں کہ گویا باطل پرست لوگ اپنی کجروی کی محنتوں سے گداز بھی ہو جائیں تب بھی وہ علامات ان میں متحقق نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ اوّل ان میں ایک یہ ہے کہ اہل حق کو صرف کشفی صفائی نہیں اخلاقی صفائی بھی عطا ہوتی ہے اور وہ اخلاق فاضلہ میں اس قدر پایہ عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جیسے خدا کو اپنے اخلاق پیارے ہیں۔ ویسا ہی وہ ربّانی اخلاق اُن کو پیارے ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرشت میں ربوبیت کے تجلیات گھر کر جاتے ہیں اور بشریت کی آلودگیاں اور تنگیاں اُٹھ جاتی ہیں۔ پس اُن سے نیک اور پاک خلق ایسے عجیب اور خارق العادت و طور پر صادر ہوتے ہیں کہ بشریٰ طاقتوں سے بجز خاص تائید الٰہی کے اُن کا صادر ہونا ممکن نہیں۔ انسان بشریت کے تعلقات اور نفس امّارہ کی زنجیروں میں اور ننگ و ناموس کی قیدوں میں اور خانہ داری کے جانگداز فکروں میں اور شداید اور آلام کے حملوں میں اور وساوس اور اوہام کی نیش زنیوں میں سخت عاجز ہو رہا ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ میں اپنی ہی قوت سے ان بھاڑی بوجھوں سے نکل سکتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے۔ پس اہل اللہ میں یہ بزرگی ہے کہ وہ توفیق یافتہ ہوتے ہیں اور دست غیبی اپنی خاص حمائت اور قوت سے اُن کواِن تمام بوجھوں کے نیچے سے باہر نکال لیتا ہے سو اُن سے ایسا توکّل اور ایسا صبر اور ایسا سخا اور ایسا ایثار اور ایسا صدق اور ایسا رضا بقضاء صادر ہوتا ہے کہ دوسروں سے ہرگز ممکن نہیں کیونکہ درپردہ الٰہی ستاری ان کی مددگار ہوتی ہے اور وہ لغزشوں سے بچائے جاتے ہیں اور جس کی محبت میں وہ دنیا کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیوی عزتوں اور ناموں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ وہی محبوب حقیقی اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اہل حق مکالمات ومخاطبات حضرت احدیّت پاتے ہیں جو تائیدات خاصہ کی بشارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور نیز اُن میں وہ مراتب عالیہ اُن پر ظاہر کئے جاتے ہیں کہ جو اُن کو حضرت احدیّت میں حاصل ہوئے ہیں اور یہ نعمت غیروں کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس جگہ بتوجہ یاد رکھنا چاہئے کہ الہامات و مکالمات الٰہیہ کو جو ایسی پیشگوئی پر مشتمل ہوں جن میں شخص ملہم کی تائیدات عظیمہ کا وعدہ ہے۔ وہ اہل اللہ کی شناخت کے لئے نہایت روشن علامت ہیں اور کوئی خارق عادت ان سے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ سے کلام کرنا اور پھر اُس کے کلام کا ایسی پیشگوئیوں پر مشتمل ہونا کہ جو تائیدات عظیمہ کے مواعید ہیں اور پھر اُن مواعید کا اپنے وقتوں پر پورا ہونا معیت اللہ کا ایک روشن نشان ہے۔ تیسری علامت یہ ہے کہ خواص اولیاء یاضات شاقہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے۔ ایک قسم ولائت کی ہے جو وہ ثبوت سے بہت مشابہ ہے۔ اس قسم کے لوگ جب دنیا میں آتے ہیں تو ہوش پکڑتے ہی عنایات الٰہیہ اُن کی متولی ہو جاتی ہے۔ اُن کو سالکوں کی پُر تکلف حالت سے کچھ مناسبت نہیں ہوتی۔ اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کب فنا آئی اور کب بقا حاصل ہوئی کیونکہ دست غیبی نے اُن کو فطرت میں ہی درست کر لیا ہوتا ہے اور بیفہ بشریت میں داخل بھی نہیں ہوتے۔ تعلقات شیدہ عشق الٰہی کے ان کی فطرت سے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتدائی فطرت سے کسی ریاضت کے محتاج نہیں ہوتے وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائِ اور ایسے لوگوں سے بغیر حاجت ریاضات شاقہ کے خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ شان نبوت اُن پر غالب ہے۔
سو اگر اکابر نقشبندیہ نے ظہور خوارق کے لئے ریاضات شاقہ کو شرط ٹھہرایا ہے تو ایسے مکمل لوگوں کو مستثنیٰ رکھ لیا ہوگا اور ایسے لوگ نہایت قلیل الوجود اور نادر الظہور ہیں۔ کبھی کبھی شدت حاجت کے وقت خلق اللہ کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں اور اُن کا آنا لوگوں کیلئے ایک رحیمت عظیم ہوتا ہے اور اُمت مرحومہ محمدیہ پر حضرت احدیّت کی یہ رحمت ہے۔ کبھی کبھی آخر صدی پر اصلاح اور تجدید دین کیلئے اس شان کے لوگ مبعوث ہوتے ہیں اور دنیا اُن کے وجود سے نفع اُٹھاتی ہے اور دین زندہ ہوتا ہے اور یہ بات کہ ظہور خوارق ولایت شرط ہے یا نہیں۔ اکثر صوفیا کا اتفاق اسی پر ہے کہ شرط نہیں۔ پر اس عاجز کے نزدیک ولایت تامہ کاملہ کے لئے ظہور خوارق شرط ہے۔ ولایت کی حقیقت قرب اور معرفت الٰہی ہے سو جو شخص صرف منقولی یا معقولی طور پر خدا پر ایمان لاتا ہے اور وہ کشوف عالیہ اور زوالِ حجب اس کو نصیب نہیں ہوا۔ جس سے ایمان اُس کا تقلید سے تحقیق کے ساتھ مبدل ہو جاتا تو کیونکر کہا جائے کہ اُس کو ولایت تامہ نصیب ہوگئی ہے۔ بعض بزرگوں نے جیسے حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ یقین کے لئے معجزات نبویہ کافی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کافی نہیں کیونکہ وہ معجزات اب اس شخص کے حق میں کہ جو صدہا سال بعد میں پیدا ہوا ہے منقولات کا حکم رکھتے ہیں اور دید اور شنید میں جس قدر فرق ہے۔ ظاہر ہے علماء محدثین سے زیادہ اور کون معجزات سے واقف ہوگا۔ مگر وہ معجزات کہ جن کی رویت سے ہزار ہا صحابہ یقین کامل تک پہنچ گئے تھے۔ اب ان کے ذریعہ سے علماء ظاہر کو اس قدر اثر بھی نصیب نہیں ہوا کہ اور نہیں تو اُن معجزات کی ہیبت سے اخراج نفسانیت ہی ہو۔ مگر یہ بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ سماوی نشانوں کو ازدیادِ ایمان میں دخل عظیم ہے اور خود ولایت تامہ کی حقیقت جب کہ قرب تام ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قرب اور مشاہدہ عجائبات لازم و ملزوم ہے جو شخص ہمارے مکان پر آتا ہے اُسے ضرور ہے کہ مکان کی وضع اور اس کی کیفیت کمیت سے اطلاع پیدا کرے۔ لیکن اگر بعد از وصول بھی ایسا ہے جو قبل از وصول تھا تو گویا اُس نے مکان کو دیکھا ہی نہیں۔ انبیاء کے یقین کو بھی خدا نے نشانوں سے ہی بڑھایا ہے اور قرآن شریف میں رب ارنی کیف تحی الموتی حضرت ابراہیم کا سوال موجود ہے۔ پھر کیونکر کہاجائے کہ ولایت بغیر خوارق کے حاصل ہو سکتی ہے۔بِلاشُبہ جس قدر مشاہدہ خوارق کا زیادہ ہے۔ اُسی قدر قوت یقین زیادہ ہے۔ اسی قدر قوبت زیادہ ہے۔ اُسی قدر علم زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو مسجد اقصیٰ اور آسمان کا سیرا کرایا تا اُس کو اپنی آیات خاصہ سے مطلع کریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس ولی کو منصب ارشاد اور ہدایت کا عطا نہیں کیا گیا۔ اُس کے خوارق اور لوگوں پر ظاہر ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ اُس کو لوگوں سے کچھ واسطہ اور تعلق نہیں ہے لیکن خود اُس پر تو ظاہر ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حقیقت ولایت تک اس کا قدم پہنچنا اسی سے وابستہ ہے۔
مسجد کے بارہ میں جو فقرہ خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ مادہ تاریخ موجود ہے یہ فقرہ ہے مبارک و مبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ خداوند تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے جس کے ایک فقرہ سے آپ کو پہلے اطلاع دے چکا ہوں مگر بعد اس کے ایک دوسرا فقرہ بھی الہام ہوا اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں۔ فیہ برکات للنا و من دخلہ کان امنا۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آ گیا۔ علماء ظاہر شاید اس پر اعتراض کریں کہ یہ تو بیت اللہ خانہ کعبہ کی شان میں وارد ہے۔ مگر وہ لوگ برکات و سعیہ حضرت احدیّت سے بے خبر ہیں اور معذور ہیں اور نیز ایک الہام یعنی مکالمہ حضرت احدیّت اس ذلیل ناچیز عاجز سے واقع ہوا۔ بباعث رابطہ اتحاد آپ کو لکھتا ہوں اور چونکہ یہ عاجز اعلان کا اِذن بھی پاتا ہے اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔ خداوندتعالیٰ کی الوہیت کی موجیں ہیں کہ اس ناکارہ بندہ کو کہ جو فی الواقعہ بے ہنر اور تہی دست ہے۔ ایسے مکالمات سے یاد کرتا ہے روحی فداء سبیلہ مایشان من جلیلہ اور وہ الہام یہ ہے بشریٰ لک یا احمدی انت مرادی و معی غرمت کرامتک بیدی۔
بشارت باد ترایا احمد من۔ تو مراد منی و بامنی۔ نشاندم درخت بزرگی ترابدست خود۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب و منشی بہرام خان صاحب وغیرہ احباب آں صاحب سلام مسنون پہنچے۔ (تاریخ ۱۳؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۰؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ)



مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذاآنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو سوالات کئے ہیں ان کی حقوقت خداوندکریم ہی کو معلوم ہے۔ اس حقر کے خیال میں جو گزرتا ہے وہ یہ ہے (۱) صوفی باعتبار اس حالت کے سالک کا نام ہے کہ جب وہ اپنے زور اور تمام توجہ اور تمام عقل اور تمام اطاعت اور تمام مشغولی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قدم اُٹھاتا ہے اور اپنی جانفشانیوں اور محنتوں اور صدقوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس حالت میں تمام کاروبار اُس کا وابستہ اوقات ہوتا ہے۔ اگر اپنے وقتوں کو ہریک لہو و لعب سے بچا کر یاد الٰہی سے معمور کرتا ہے تو اگر خدا نے چاہا ہے تو کسی منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر حفظ اوقات میں خلل ہوتا ہے تو اس کا سارا کام درہم برہم ہو جاتا ہے جیسے اگر مسافر چلتا بھی رہے تو جائے مقصود تک پہنچتا ہے۔ پر اگر چلنا چھوڑ دے بلکہ جنگل میں آرام کرنے کی نیت سے سو جائے تو قطع نظر عدم وصول سے جان کا بھی خطرہ ہے۔ سو جیسے مسافر ابن السبیل ہے۔ سبیل کوقطع نہ کرے تو کیسے ٹھکانہ تک پہنچے۔ ایسا ہی صوفی ابن الوقت ہے۔ اپنے وقت کو خدا کی راہ میں لگاوے تو مقصود کو پاوے۔ پس جب کہ حفظ وقت صوفی کے لازم حال ہی پڑا ہے تو اپنے کام کو فردا یا پس فردا پر ڈالنا اس کے حق میں مہلک ہے اور نیز صوفی کیلئے یہ بھی لازم ہے کہ اسی جہان میں اپنی نجات کے آثار نمایاں کا طالب ہو اور اپنے کام کے دن میں بھی اپنی اُجرت کا خواستگار ہو۔ فردا یعنی قیامت پر صوفی اپنا حساب نہیں ڈالتا اور نسیہ اور ادھار کا روا وار نہیں ہوتا بلکہ دست بدست مزدوری مانگتا ہے۔ اور اس آیت شریفہ پر اُس کا عمل ہوتا ہے۔ من کان فی ھذہٖ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ پس صوفی ان علماء ظاہری کی طرح نہیں ہوتا کہ جو صرف ظاہری اعمال بطور عادت اور رسم کے بجا لا کر اور تزکیہ نفس اور تنویر قلب سے بکلّی محروم رہ کر پھر بہشت کی امیدیں باندھ رہے ہیں بلکہ صوفی اسی جہان میں اپنے بہشت کو دیکھنا چاہتا ہے اور صرف وعدوں پر قناعت نہیں کرتا۔ سو صوفی عمل کی رو سے بھی ابن الوقت ہے جو حفظ اوقات ہی سے اس کے سارے کام نکلتے ہیں اور حاضر الویت نعمتوں کو پاتا ہے لیکن چونکہ ہنوز اپنی ہی قوتوں اور طاقتوں اور اخلاصوں اور صوقوں اور محنتوں اور مجاہدات پر اُس کا مدار ہے اور مسافر کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھنا اس کا کام ہے۔ اس لئے وہ صاحب حال ہے صاحب مقام نہیں کیونکہ حال وہ ہے جو تغیر پذیر ہو اور مقام وہ ہے جس کو ثبات اور قرار ہو۔ سو صوفی ابھی مسافر کی طرح ہے۔ ایک جگہ چھوڑتا ہے دوسری جگہ جاتا ہے۔ دوسری چھوڑتا ہے تیسری جگہ جاتا ہے لیکن صافی وہ ہے جس کو بعد حصول فنا اَتم کے عنایات الٰہیہ نے اپنی گود میں لے لیا ہے۔ اب اس کو ان محنتوں اور مشقتوں سے کچھ غرض نہیں کہ جو صوفی کو پیش آتی ہیں کیونکہ وہ کاسات وصال سے بہرہ یاب ہو گیا ہے اور دست غیبی نے اُن کو ہر ایک بشریت کے لوث سے مصفٰی اورمطہر کر دیا ہے اور جو اعمال دوسروں کے لئے بوجھ ہیں وہ اس کے حق میں سرور اور لذت ہوگئے ہیں۔ اور وہ تکلفات حفظ اوقات اور دوام مراقبہ و مشغولی سے برتر و اعلیٰ ہے بلکہ رجال لاتلیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ میں داخل ہے اور اس کا سونا اور اس کا کھانا اور اُس کا ہنسنا اور کھیلنا اور دنیا کے کاموں کو بجا لانا سب عبادت ہے کیونکہ وہ منقطع اور مفرد ہے اور عنایت الٰہیہ نے اُس کو اُس کے نفس کے پنجہ سے چھین لیا ہے اور اس کی سرشت کو بدلا دیا ہے۔ اب اُس کا غیر پر قیاس کرنا اور غیر کا اُس پر قیاس کرنا ناجائز ہے۔ صوفی بھی اُس کو نہیں پہنچان سکتا کیونکہ وہ بہت ہی دور نکل گیا ہے اور وہ صاحب مقام ہے اور خدا نے اُس کو اپنی ذات سے تعلق شدید بخشا ہے اور وہ ہر ایک وقت اور حال سے فارغ ہے کیونکہ بجائے اُس کے عنایت الٰہیہ کام کر رہے ہیں اور وہ مست اور مدہوش کی طرح پڑا ہے اور تمام آلام اُس کے حق میں بصورت انعام ہوگئے ہیں۔ صوفی میں اجر کی خواہش ہے۔ اُس میں اجر کی خواہش نہیں۔ صوفی معمور الاوقات ہے اور وہ فانی الذات ہے۔ پھر معموری کیا اور وقت کیا۔ صیقل زدم آہ قدر کہ آئینہ نماند۔ اس تحقیق میں دوسرے سوال کا جواب بھی آ گیا۔
(۳) موسیٰ اور فرعون سے روح اور نفس امّارہ کا جنگ و جدال مراد ہے جو نور روح ہے جس کو نور قلب بھی کہتے ہیں۔ وہ ہر وقت قالوبیٰ کا نعرہ مار رہا ہے اور بارگاہ خدا میں اپنی لذت اور سرور چاہتا ہے اور موسیٰ کی طرح شر کا دشمن ہے اور نفس امّارہ سرور کا خواہاں ہے اور شہوات کا طالب ہے ان دونوں میں موسیٰ اور فرعون کی طرح جنگ ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اسی وقت تک رہتا ہے جب انسان اپنی ہستی کو مقصود ٹھہرا کر فنا فی اللہ کی حالت سے گرا ہوا ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنی ہستی سے بالکل کھویا جاتا ہے تو وہ پہلی بیرنگی جو عالم ہستی میں اُس کو حاصل تھی پھر حاصل ہو جاتی ہے اور کوئی شائبہ وجود کا باقی نہیں رہتا۔ اس مرتبہ پر نفس امّارہ اور نور قلب کا جنگ ختم ہو جاتا ہے اور شہوات نفسانی حظوظ کا حکم پیدا کر لیتی ہیں اور فانی کا کھانا پینا، ازدواج متعددہ کرنا وغیرہ امور جائے اعتراض نہیں ٹھہرتا اور نہ کچھ اُس کو ضرر کرتا ہے کیونکہ وہ فانی ہے اور اب یہ کام خدا کے ہیں جو اُس پر جاری ہوتے ہیں۔ سو اِس مقام پر آ کر موسیٰ اور فرعون کی صلح ہو جاتی ہے۔
(۴) حرص و ہوا سے اوّل چیز جو انسان کو روکتی ہے جذبہ الٰہی ہے۔ وہی جذبہ انسان کو صالحین کی صحبت کی طرف کھینچتا ہے۔ وہی اُس کو کسی صالح کا مرید کراتا ہے۔ صحیح حدیث میں وار دہے کہ انسان گناہ کرتا ہے۔ پھر حضرت خداوندی میں روتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اُس کو بخش دیتا ہے اور اپنے فرشتوں کے روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے۔ پھر چند روز پا کر اُس بندہ عاجز سے گناہ ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جناب الٰہی میں روتا اور چلاتا ہے اور ہر بار خدا تعالیٰ اُس کو بخشتا جاتا ہے اور فرشتوں کر روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے آخر اُس کو کہتا ہے اعمل ماشئت فانی غفرت لک۔ یعنی اب جو تیری مرضی ہے کہ مَیں نے تجھ کو بخش دیا ہے سو اُسی روز سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر ہوا و ہوس اس پر غالب نہیں ہو سکتے غرض جیسے جسمانی پیدائش کی ابتدا خدا ہی کی طرف سے ہے۔ روحانی پیدائش کی ابتدا بھی خدا کی ہی طرف سے ہے۔ یھدی من یشاء و یضل من یشاء۔ جس کو وہ بُلاتا ہے وہ دوسرے کی بھی سن لیتا ہے مگر جس کو وہ نہیں بُلاتا وہ کسی کی نہیں سنتا۔ جیسا کہ خود اُس نے فرمایا ہے۔ من یھدی اللّٰہ فھوا المھتدی ومن یضلل لن تجدالہ ولیاً مرشداً (سورہ کہف الجزو:۱۵) یعنی ہدایت وہ پاتا ہے جس کو خدا گمراہ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کو مرشد ہدایت نہیں دے سکتا چند انگریزی فقرات جو الہام ہوئے تھے وہ مطبع میں بھیجے گئے ہیں۔ اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں۔ ایک ہندو لڑکا قادیان کا لاہور پڑھتا ہے اُس نے دیکھے تھے۔


مکتوب نمبر۲۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعض کتب میں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ حدیث نبوی کر کے بیان کیا گیا ہے۔ احیاء العلوم میں اس قسم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں محدثین کو اپنے قواعد مقررہ کے رو سے کلام ہے۔ مگر اس قول میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جو قال اللّٰہ و قال الرسول سے منافی ہو۔ وقال اللّٰہ تعالٰی۔ وفی النفسکم افلاتبصرون (الجزو:۲۷) حضرت ربّ العالمین نے تمام عالم کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ تا وہ شناخت کیا جاوے۔ نفس انسانی ایک نسخہ جامع جمیع اسرار عالم ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس کو کماحقہٗ علم نفس حاصل ہو۔ اُس کو وہ معرفت حاصل ہوگی کہ جو جمیع عالم کی حقیقت دریافت کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے پس یہ طریق نہایت قریب اور آسان ہے کہ انسان اپنے نفس کی شناخت کے لئے کوشش کریں۔ اُسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام میں اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔ والشمس والضحا ھا والقمر اذا تلاھا والنھارا جلاھا والیل اذا یغشہاھا والسماء مابناھا والارض وما طحاھا و نفس وما سواھا قد افلح من زکھا وقدخاب من دسھا۔ سو خدا نے شمس اور قمراور دن اور رات اور آسمان اور زمین کی خو بیان فرما کر پھر بعد اس کے ونفس وما سواھا فرمایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ نفس انسانی میں وہ سب استعدادات موجود ہیں کہ جو متفرق طور پر عالم کے جمیع اجزا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر خواہی کہ دربینی تمامی وضع عالم رائیکے درنفس خودینگر ہمہ و شعش تماشا کُن۔ پھر بعد اُس کے فرمایا قدافلح من زکھا یعنی وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کا کیا نجات پا گیا۔ سو نجات سے حصول معرفت تامہ مراد ہے کیونکہ تمام عذاب اور ہریک قسم کے عقوبات جہل اور ضلالت پر ہی مرتب ہونگے۔ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الامرہ اعمی (الجزو:۱۵) اور تزکیہ نفس دو قسم پر ہے تزکیہ من حیث العلم اور وہ یہ ہے کہ نفس کو حضرت باری عزو جل اور دارآخرت کی نسبت علم یقینی قطعی حاصل ہو اور شکوک اور شبہات اور عقائد غلط اور فاسد سے نجات پا جائے۔ تزکیہ من حیث العمل وہ یہ ہے کہ جیسے فی الحقیقت حضرت باری غراسمہٗ اس بات کامستحق ہے کہ اُسی سے محبت ذاتی ہو اور جیسے فی الحقیقت اُس کے وجود کے مقابل اور سب وجود ہیچ اور کالعدم ہیں۔ ایسے ہی سالک کے لئے حالت حاصل ہو جائے اور جب انسان کو حالت فنا حاصل ہوگئی تو وہ تمام اسرار قدرت اور دقائق حکمت جو زمین اور آسمان میں مخفی ہیںاُس کے نفس پر باذن اللہ تعالیٰ کھلنے شروع ہو جائیں گے اور کشفی طور پر اُن کی کیفیت اُس پر ظاہر ہوتی جائے گی کیونکہ اسرار جمیع عالم بعینہٖ اسرار نفس ہیں۔ پس جب نفس ببرکت فناء اَتم اپنے حجاب سے خلاصی پائے گا تو جو کچھ خدا نے اُس میں انوار مہیا رکھیں ہیں اُن سب کو ظاہر کرے گا۔ سو یہ معرفت تامہ ہے جو انسان کو بقا کے درجہ پر حاصل ہوتی ہے لیکن یہ معرفت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ تمام انسانی کوششیں فنا کے درجہ تک ختم ہو جاتی ہیں اور پھر آگے موہیت الٰہی ہے اور جس پر موہیت کی نسیم چلتی ہے اسی پر وہ سب انوار ظاہر کئے جاتے ہیں جو اس کی روح میں مودع ہیں۔ انسان کی روح میں ایک بڑا سلیقہ یہ ہے کہ وہ اس قدر خدا کے سہارے کی محتاج ہے کہ اُس کے بغیر جی ہی نہیں سکتی۔ الوہیت اُس پر ایک ایسے طور سے محیط ہو رہی ہے کہ جو نہ تقریراً نہ تحریراً نہ صراحۃً نہ کنایۃً نہ تو ضیحاً نہ تمثیلاً بیان میں آ سکتی ہے بلکہ سالک جب بقا کا مرتبہ موہیت حضرت الٰہی سے پاتا ہے تو وہ کیفیت کہ جو بیچون اور بیچگون ہیں۔ اُس پر متجلی ہوتی ہے اور باوجود تحقق تجلی کے پھر بھی اُس کو بیان نہیں کر سکتا۔ من عرف کل لسانہٖ۔ آہ راکہ خبر شد خبرش باز نیامد۔ غرض الٰہی تجلی کا نام معرفت تامہ ہے اور من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا مقصود حقیقی بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ آنمخدوم نے جو سوالات لکھنے کا طریق نکالا ہے بہت اچھا ہے۔ مگر چاہئے کہ تکلف درمیان نہ ہو یعنی خواہ نخواہ سوال نہ تراشا جاوے بلکہ جب خدا کی طرف سے کوئی موقعہ پیش آوے تب سوال کیا جاوے۔ سلف صالح کا مکتوبات اکابر کے لکھنے میں بھی طریق رہا ہے اور جس کی معرفت کو خدا تعالیٰ ترقی دینا چاہتا ہے اس کی زندگی میں خود ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسے موقعہ نکلتے آتے ہیں جن سے اُس کو سوال کرنے کا استحقاق پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن شریف جو جامع تمام معارف اور حقائق ہے عبث طور پر نہیں ہوا بلکہ جب حاجت پیش آئی نازل ہوا ہے اور ہر ایک آیت محکم اس کی ایک ضروری شان نزول رکھتی ہے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب و دیگر صاحبان سلام برسد۔
(بتاریخ ۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا جن امور میں خلق کی بھلائی ہے۔ اُن کا دریافت کرنا مضائقہ نہیں۔ صرف مجھے خوف تھا کہ تکلف نہ ہو کہ وہ اس راہ میں مذموم ہے اور مولوی گل حسن صاحب کا سوال کریم مطلق کی جناب میں کچھ سؤادب کی رائحہ رکھتا ہے۔ اس لئے اُس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ بندہ وفادار کو رشد یا عدم رشد سے کیا مطلب ہے۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمۃ اللہ نے کیا اچھا کیا ہے۔
من ایستادہ ام اینک بخدمت مشغول
مرا ازیں چہ کہ خدمت قبول یا نہ قبول
گر بنا شد بددست رہ بردن
شرط عشق است در طلب مردن
اس راہ کے لائق وہ شخص ہوتا ہے کہ وصال اور بقا سے کچھ مطلب نہ رکھے اور اُن تمام واقعات اور مکاشفات سے کچھ سروکار نہ ہو کہ جو سالکوں پر کھلتے ہیں۔ کرامات اور خوارق عادات کا خواہاں نہ ہو اور مقامات واصلین کا جو یاں نہ ہو اور باایں ہمہ سعی اور مجاہدہ میں ہمت نہ ہارے اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے فی الواقعہ ایک ذلیل بندہ اپنے تئیں خیال کرتا ہے اور اپنی زندگی کا اصل مقصد اسی راہ میں جان دینا ٹھہراوے گو کچھ راہ پاوے یا نہ پاوے راستبازوں کا یہی راستہ ہے۔ ان کو اس سے کیا کام کہ حضرت احدیّت سے اس بات کا پہلے تصفیہ کرالیں کہ ہم کو آخر راہ ملے گا یا محض محروم رکھنا ہے۔ صادقوں کو ملنے نہ ملنے سے کچھ کام نہیں۔ اگر بالفرض پردہ غیب سے ہزار *** سنیں تو وہ اُس سے دل برداشتہ نہیں۔ محبوب کی *** بھی محبوب ہے۔ کل یوم ھو فی شان۔ مسجد میں ابھی کام سفیدی کا شروع نہیں ہوا۔ خدا تعالیٰ چاہے گا تو انجام کو پہنچ جائے گا۔ آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات رکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پہچان اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے لارادلفضلہ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اُس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اُس کو کون ذلیل کرے۔
(۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۷؍ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط پہنچا۔ جس قدر آنمخدوم نے کوشش اور سعی اُٹھائی ہے اور اپنے نفس پر مشقت اور تحمل مکروہات روا رکھا ہے یہ سب خداوند کریم کی ہی عنایت ہے تا آپ کو اُس کے عوض میں وہ اجر عطا فرماوے جس کا عطا ہونا اُنہیں کوششوں پر موقوف تھا۔ جس کریم رحیم نے اس عاجز نالائق کو اپنے غیر متناہی احسانوں سے بغیر عوض کسی عمل اور محنت کے ممنون و پرورش فرمایا ہے۔ وہ محنت کرنے والوں کی محنت کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ خدا کی راہ میں انسان ایک ذرّہ بات منہ سے نہیں نکالتا اور ایک قدم زمین پر نہیں رکھتا جس کا اس کو ثواب نہیں دیا جاتا لیکن میں اس جگہ یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو اپنے جوش دلی کے باعث جو ایسے لوگوں کے پاس بھی جاتے ہیں جو ظنون فاسدہ اپنے دل پر رکھتے ہیں اور غرور اور استکبار نفس سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں چاہئے اس کام کی خداوند کریم نے اپنے ہاتھ سے بِنا ڈالی ہے اور ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہو رہا ہے کہ شوکت اور شان دین کی ظاہر کرے اور اس بارہ میں اس کی طرف سے کھلی کھلی بشارتیں عطا ہو چکی ہیں سو جس بات کو خدا انجام دینے والا ہے اُس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ دنیا مردار ہے اور جس قدر کوئی اُس سے نزدیک ہے اسی قدر ناپاکی میں گرفتار ہے اور بدباطن اور بدبودار ہے اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ دنیا دار کے سامنے تذلل اختیار نہ کرے اور اُس کی شان باطل کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ انسان دنیا دار کے سامنے نرمی اور تواضع اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ حضرت خداوند عزوجل کے نزدیک مشرک ٹھہرتا ہے۔ سمجھناچاہئے کہ بجز حضرت قادر و توانا کے کوئی کام کسی کے اختیار میں نہیں اور تمام آسمان و زمین اور تمام دل اُس کے قبضہ میں ہیں اور قدرتِ الٰہیہ سخت درجہ پر متصرف ہے اور اگر وہ کسی کام میں توقف کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اُس کے کرنے سے عاجز ہے بلکہ اس توقف میں اُس کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مخلوق سب ہیچ اور لاشَے اور مُردہ ہیں نہ اُن سے کچھ نقصان متصور ہے اور نہ نفع۔ دنیا داروں سے مطلب براری کے لئے نرمی کرنا دنیا داروں کا کام ہے اور یہ کام خالق السموات والارض کا ہے مجھ کو یا آپ کو لازم نہیں کہ ایک بدنصیب دنیا دار سے ایسی لجاجت کریں کہ جس سے اپنے مولیٰ کی کسر شان لازم آوے جو لوگ ذات کبریا کا دامن پکڑتے ہیں وہ منکروں کے دروازہ پر ہرگز نہیں جاتے اور لجاجت سے بات نہیں کرتے۔ سو آپ اس طریق کو ترک کر دیں اگر کسی دنیا دار مالدار کو کچھ کہنا ہو تو کلمہ مختصر کہیں اور آزادی سے کہیں اور صرف ایک بار پر کفایت رکھیں اور یار محمد کو روپے بھیجنے سے منع کر دیں اور مناسب ہے کہ آپ یہ سلسلہ غریب مسلمانوں میں جاری رکھیں۔ دوسرے لوگوں کا خیال چھوڑ دیں۔ اس میں ذرّہ تردّد نہ کیا کریں۔ تعجب ہے کہ آپ جیسے آدمی متردّد ہو جائیں۔ اگر ایک کافر بے دین جو دولتمند ہو کسی کو وعدہ دے جو میں تیری مشکلات پر تیری مدد کروں گا تو وہ اُس کے وعدے سے تسلی پکڑ جاتا ہے۔ پر خداوند تعالیٰ کا وعدہ جو اصدق الصادقین ہے کیونکر موجب تسلی نہ ہو۔
لکھا ہے کہ اوّل حال میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کیلئے ہمراہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی واللّٰہ یعصمک من الناس۔ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی حاجت نہیں۔ سو اسی طرح سمجھیں کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں‘‘۔ پھر جب وہ قادر رحمن رحیم ساتھ ہے اور اُس کی طرف سے مواعید ہیں تو کیا غم ہے دنیا دار کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت تا ان کے سامنے لجاجت کی جائے اور اگر خدا چاہتا تو اُن کو ایسا سخت دل نہ کرتا۔ پر اُس نے بھی چاہا تا اُس کے نشان ظاہر ہو۔
(تاریخ ۲۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط عنایت نامہ پہنچ کر باعث مسرت خاطر ہوا۔ آپ نے بہت کچھ کوشش کی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرے گا سو گو آپ نے کیسی ہی تکلیف اُٹھائی ہوں پھر جب کہ مولیٰ کریم کی راہ میں ہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اُس کریم مطلق نے اس تکلیف کشی کے لائق سمجھا۔ اس عاجز کو خداوند کریم نے ایک خبر دی تھی جس کو حصہ ثالث میں چھاپ دیا تھا یعنی یہ کہ بنصرک رجالٌ نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مدد وہ مردان دین کریں گے جن کے دل میں ہم آسمان سے آپ ڈالیں گے۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ اس عاجز کے انصار میں سے بنایا اور اس ناچیز کو آپ کے وجود سے فخر ہے اور اپنے خداوندکریم کی طرف سے آپ کو ایک رحمت مجسم خیال کرتا ہے اگر لوگ روگردان ہیں اور متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اس سے ذرا متکفر نہ ہوں۔ خدا تعالیٰ ہر یک دل پر متصرف ہے اور اُس کا قوی ہاتھ ذرّہ ذرّہ پر قابض ہو رہا ہے اگر وہ چاہتا تو دلوں میں ارادت پیدا کر دیتا۔ مخلوق کیا چیز ہے اور اُس کی ہستی کیا حقیقت ہے لیکن اُس نے یہ نہیں چاہا بلکہ توقف اور آہستگی سے کام کرنا چاہا ہے۔ سب کچھ وہی کرتا ہے وہ دوسرا کون ہے جو اُس کا حارج ہو رہا ہے۔ بارہا اس عاجز کو حضرت احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجۂ قدرت احدیّت سے مقہور اور مغلوب ہے اور تصرفات الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کر رہے ہیں۔ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔ ان تمسمسک بضرٍ فلا کاشف لہٗ الاَّ ھووان یردک بخیرٍ فلا رادلفضلہ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شی قدیر ان وعد اللّٰہ لات۔ سو خدا تعالیٰ اپنے کلمات مقدسہ سے اس قدر اس عاجز کو تقویت دیتا ہے کہ پھر اُس کے غیر سے نہ کچھ خوف باقی رہتا ہے اور نہ اس کو امید گاہ بنایا جاتا ہے۔ جب یہ عاجز اپنے معروضات میں لطف اور لذیذ کلمات میں جواب پاتا ہے اور بسا اوقات ہر سوال کے بعد جواب سنتا ہے اور کلمات احدیّت میں بہت سے تلطفات پاتا ہے تو تمام ہموم و غموم بکلّی دل سے دور ہو جاتے ہیں اور جیسے کوئی نہایت تیز شراب سے مست اور دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوتا ہے ایسی ہی حالت سرور کی طاری ہوتی ہے۔ جس میں دوسرے ہموم و غموم تو کیا چیز ہیں موت بھی کچھ حقیقت نظر نہیں آتی خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھول دیا ہے کہ زید و عمر کچھ چیز نہیں۔ ہر ایک کام اُس کے اختیار میں ہے۔ پھر جب کہ ایسا ہے تو دوسروں کی شکایت عبث ہے۔ اس عاجز پر جو کچھ تفضلات و احسانات حضرت خداوندکریم ہیں وہ حدوشمار سے خارج ہیں کیونکہ یہ اذّل عباد اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی چیز نہیں اور بغیر اُس کے کہ تکلف سے کوئی کسر نفسی کی جائے فی الحقیقت سخت درجہ کاناکارہ اور ہیچ ہے۔ نہ زاہدوں میں سے ہے نہ عابدوں میں سے، نہ پارساؤں میں سے نہ مولویوں میں سے سخت حیران ہے کہ کس چیز پر نظر عنایت ہے۔ یفعل اللّٰہ مایشاء
(۲۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز چند روز سے ملاحظہ کام طبع کتاب کیلئے امرتسر چلا گیا تھا آج واپس آ کر آنمخدوم کا خط ملا۔ یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الٰہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا۔ ناچار وہ ارادہ ملتوی کیا گیا۔ سو اِس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روک واقع ہوگئی۔ اُس کے کام حکمت سے خالی نہیں۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی حالت سے دل خوش ہے۔ طلب عرفان بھی ایک عرفان ہے۔ حضرت خداوندکریم کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ سو اگر خداوندکریم نے چاہا تو یہ عاجز بھی دعا کرے گا غنیمت ہے کہ بفضلہ مولوی صاحب صاحبِ علم ہیں۔ طالب نادان شیطان کا بازی گاہ ہوتا ہے لیکن اس فقیر کی راہ میں مولویت بھی ایک حجاب عظیم ہے۔ انسان خاک ہے اور جب تک اپنی اصل کی طرف عود کر کے خاک ہی نہ ہو جائے تب تک مولیٰ کریم کی اس پر نظر نہیں پڑتی۔ سو اِس خاکساری اور نیستی کو اُسی قادر مطلق سے طلب کرنا چاہئے۔ اھدنا الصراط المستقیم میں جو مانگا گیا ہے وہ بھی خاکسار اور نیستی ہے۔ انسان کے نفس میں بہت سی رعونتیں اور نخوتیں اور عجب اور ریا اور خود بینی اور بزرگی چھی ہوئی ہے۔ جب تک خدا ہی اُس کو دور نہ کرے دور نہیں ہوتی۔ پس یہ بلا ہے جو نیستی اور خاکساری کے منافی ہے۔ سو تضرع اور زاری سے جناب الٰہی میں التجا چاہئے تا جس نے یہ بلا پیدا کی ہے وہی اُس کو دور کرے اور ظاہری جھگڑوں میں بہت ہی نرم ہو جانا چاہئے۔ قلت اعتراض سالکیں شعار میں سے ہے انسان جب تک پاک نفس نہ ہو جائے اُس کے جھگڑے نفسانیت سے خالی نہیں۔ قال اللّٰہ عزو جل یاایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یفرکم من ضل اذا ھتدیتھم
(۸؍محرم ۱۳۰۱ء مطابق ۹؍ نومبر ۱۸۸۳ء)
مکتوب نمبر۳۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا مکتوب محبت اسلوب پہنچ کر باعث مسرت ہوا۔ خداوندکریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلا کو چاہتا ہے۔ سو اِس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے۔
گربمجنوں صبحتے خواہی بہ بینی زود تر
خار ہائے دشت و تنہائی و طعن عالمے
عرفت ربی بربی صحیح المضمون ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث آ چکی ہیں۔ خداوندکریم نے پہلے ہی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے اِیَّاک نَعْبُدُ وَاِیَّکَ نَسْتَعِیْنَ اس جگہ عبادت سے مراد پُرسش اور معرفت دونوں ہیں اور دونوں میں بندہ کا عجز ظاہر کیا گیاہے۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی حضرت خداوندکریم نے فرمایا ہے۔ اللّٰہ نورالسموات والارض لایدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار جب تک خدا کی معرفت کا خدا ہی وسیلہ نہ ہو تب تک وہ معرفت شرک کے رگ و ریشہ سے خالی نہیں اور نہ کامل ہے بلکہ بجز تجلیات خاصہ حضرت احدیّت کے معرفت خالصہ کاملہ کا حاصل ہونا ممکن ہی نہیں۔ خدا کے شناخت کرنے کے لئے خدا ہی کا نور چاہئے۔ پس حقیقت میں وہی عارف اور وہی معروف ہے اور نیز یہ بھی جاننا چاہئے کہ تجلیت ربوبیت یکساں نہیں۔ ہر یک شخص کے لئے تجلی ربی الگ الگ ہے اور جس قدر ربانی تجلی ہے اسی قدر معرفت ہے۔ کوئی ظرف وسیع اور کوئی منقبض اور کوئی نہایت صافی اور کوئی اُس سے کم ہے۔ پس تجلی بہ حسب حیثیت ظروف ہے۔ ایک کی معرفت دوسرے کی نسبت حکم عدم معرفت کا پیدا کر سکتی ہے اور معارف غیر متناہی ہیں کوئی کنارہ نہیں۔ اُس ناپید اکنار دریا سے ہر یک شخص بقدر اپنے ظرف کے حصہ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے انزل من السماء ماء فضالت ادویتہ بقدر ھا یعنی خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اُتارا سو ہر یک نالی حسب قدر اپنے بہہ نکلی جس قدر پیاس ہے اسی قدر پانی ملتا ہے اور آپ نے دعا کے بارے میں جو دریافت فرمایا ہے کہ جو اوّل سے ہی مقدر ہے دعا کیوں کی جاتی ہے۔ سو اس میں تحقیق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر یک مقدر میں قانون قدیم یہی ہے کہ اگرچہ اس نے ہر امر کے بارے میں جو انسان کے مقسوم میں ہے اُس کا حاصل ہونا مقدر کر دیا ہے۔ لیکن اُس کے حاصل کرنے کے طریق بھی ساتھ ہی رکھے ہیں اور یہ قانون الٰہی تمام اشیاء میں جاری اور ساری ہے جو شخص مثلاً پیاس بجھانا چاہتا ہے اس کو لازم پڑا ہوا ہے کہ پانی پیوے اور جو شخص روشنی کو ڈھونڈھتا ہے اُس کو مناسب حال یہ ہے کہ آفتاب کے سامنے آوے اور اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھا نہ رہے۔ اسی طرح دعا اور صدقات و خیرات و دیگر تمام اعمال صالح کو شرط حصول مرادات ٹھہرا رکھا ہے اور جیسے ایبتدا سے کسی چیز کا حصول مقدر ہوتا ہے ساتھ ہی اُس کے یہ بھی مقدر ہوتا ہے کہ وہ دعا یا صدقہ وغیرہ بجا لاوے گا تو وہ چیز اُس کو حاصل ہوگی۔ پس جس شخص کا مطلب روز ازل میں دعا پر موقوف کر رکھا ہے سو اگر تقدیر مبرم اُس کے حق میں یہ ہے کہ اُس کا مطلب حاصل ہو جائے گا تو ساتھ ہی اُس کے حق میں یہ بھی تقدیر مبرم ہے کہ وہ دعا بھی ضرور کرے گا اور ممکن نہیں کہ وہ دعا سے رک جائے۔ تقدیر ضرور ہی پوری ہو رہے گی اور بہرحال اُس کو دعا کرنی پڑے گی اور دعا میں ضرور نہیں کہ صرف زبان سے ہی کرے بلکہ دعا دل کی اُس عاجزانہ التجا کانام ہے کہ جب دل نہایت بے قرار اور مضطرب ہو کر رہ بخدا ہو جاتا ہے اور جس بلا کو آپ دور نہیں کر سکتا۔ اُس کا دور ہونا طاقت الوہیت سے چاہتا ہے۔ پس حقیقت میں دعا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے کہ جو اُس کی سرشت میں مخمر ہے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی اپنی گرسنگی کی حالت میں گریہ و زاری سے اپنا ایسا انداز بنا لیتا ہے کہ جس کو عین دعا کی حالت کہنا چاہئے غرض بذریعہ دعا کے خدا سے مدد ڈھونڈنا کوئی بناوٹ کی بات نہیں بلکہ یہ فطرتی امر ہے اور قوانین معینہ مقررہ میں سے ہے۔ جو شخص دعا کی توفیق دیا جاتا ہے اُس کے حق میں قبولیت اور استجابت بھی مقدر ہوتی ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ اُسی صورت میں استجابت ہو کیونکہ ممکنہے کہ انسان کسی مطلوب کے مانگنے میں غلطی کرے جیسے بچہ کبھی سانپ کو پکڑنا چاہتا ہے اور والدہ مہربان جانتی ہے کہ سانپ کے پکڑنے میں اُس کی ہلاکت ہے۔ پس وہ بجائے سانپ کے کوئی خوبصورت کھلونا اُس کو دے دیتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دعا کا مانگنا مقدرات ازلیہ کے نقیض نہیں ہے بلکہ خود مقدرات ازلیہ میں سے ہے اور اسی جہت سے انسان بالطبع نزول حوادث کے وقت دعا کی طرف جھک جاتا ہے اور عارفین کا ذاتی تجربہ ہے کہ جو مانگتا ہے اُس کو ملتا ہے۔ ہر یک زمانہ میں خدا کی مقبولین کی دعا کے ذریعہ سے عجیب طوروں پر مشکل کشائیاں کیں ہیں اور اپنے فضلوں کو منکشف کیا ہے۔ بعض لوگ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اور اُس کی اصلیت یہ ہے کہ حکیم مطلق نے مقدر کیا ہوتا ہے کہ بہت سے اہل حاجات اُن کی دعاؤں سے اپنے مطلب کو پہنچ گئے۔ سو وہی اہل حاجات اُس شخص مستجاب الدعوات کو آ ملتے ہیں اور امر مقدر پورا ہو جاتا ہے۔ سو مستجاب الدعوات کی طرف جھکنا ایک نیک فال ہے۔ کیونکہ غالباً جو شخص مستجاب الدعوات کی طرف آیا ہے اور اس کی طرف میل کرنا اُس کو توفیق دیا گیا ہے وہ اُنہیں لوگوں میں سے ہوگا کہ جن کے حق میں قلم ازلی نے کامیاب ہونا اس کی دعا سے لکھا ہے۔ مگر یہ بات نہیں کہ جو مستجاب الدعوات مانگتا ہے وہ بعینہٖ پورا ہو جاوے۔ اُس کی وجہ پہلے لکھ چکا ہوں۔ پانچ کتابیں راونہ کی گئی ہیں۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون پہنچے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگرخدا نے چاہا تو لودہیانہ میں مولوی صاحب کی ملاقت ہوگی۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔ والسلام
۲۲؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذیقعدہ ۱۳۰۰ھ)

مکتوب نمبر۳۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کے وقت میں پہنچا۔ خداوندکریم آنمخدوم کو مکروہات زمانہ سے اپنے ظل رحمت میں رکھے۔ جس قدر آپ اس عاجز سے محبت رکھتے ہیں وہی محبت اور تعلق اس عاجز کو آپ سے ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقام تعلقات محبت میں انسان یہی چاہتا ہے کہ دیر تک اس دارفانی میں اتفاق ملاقات رہے لیکن اس مسافر خانہ کی بنیاد نہایت ہی خام اور متزلزل ہے۔اب تک اس عاجز پر جو مکشوف ہوا ہے اُن میں سے کوئی ایسا کشف نہیں جس میں طول عمر مفہوم ہوتا ہے بلکہ اکثر الہام ذومعنین ہوتے ہیں جن کے ایک معنی کی رو سے تو قرب وفات سمجھا جاتا ہے اور دوسری معنی اتمام نعمت ہیں۔ اس بات کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے معنی مراد ہیں۔ یہ الہام انی متوفیک ورافعک الی اس قدر ہوا ہے جس کاخدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے اس کی بھی دو ہی معنی ہیں۔ رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے قل لضیفک انی متوفیک قل لا خیک انی متوفیک۔ یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا اس کے معنی بھی دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اِتمام نعمت کروں گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں وفات دوں گا۔ معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم و بیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت۔ اُن کی عسر یسر کی نسبت اُن کے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے اور میرا اصول یہ ہے کہ انسانوںکو بالکل اپنے مولیٰ کی مرضی کے موافق رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ اختیار کرے وہ بہتر ہے کیونہ تمام خیر اُسی بات میں ہے جو وہ اختیار کرے۔ دل میں ارادہ تو ہے کہ ایک دو روز کے لئے آپ کے شہر میں آؤں مگر بجز مرضی باری تعالیٰ کیونکر پوراہو۔ مولوی عبدالقادر صاحب موتکو بہت یاد رکھیں اور دلی اخلاص کے حصول میں کوشش کریں اور یہ عاجز بھی کوشش کرے گا۔ والسلام
۲۰؍ نومبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ محرم ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا چونکہ اس ہفتہ میںبعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں مگر قابل اطمینان نہیں اور بعض منجانب اللہ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات شاید عبرانی ہیں۔ ان سب کی تحقیق تنقیح ضرور ہے تا بعد تنقیح جیسا کہ مناسب ہو آخیر جزو میں کہ اب تک چھپی نہیں درج کئے جائیں۔ آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے اطلاع بخشیں اور وہ کلمات یہ ہیں۔
پریشن، عمر ہراطوس، با پلاطوس یعنی پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمر عربی لفظ ہے اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔ پھر دو لفظ اور ہیں۔ ھوشعنا نعسا معلوم نہیں کس زبان کے ہیں اور انگریزی یہ ہیں۔
اوّل عربی فقرہ ہے یا داؤد عامل بالناس رنقا و احساناً۔ ’’یو مسٹ ڈڈ وَہاٹ آئی ٹولڈ یو‘‘۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اُس کا الہامی نہیں۔ بلکہ اُس ہندو لڑکے نے بتلایا ہے۔ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہو جاتا ہے اُس کو غور سے دیکھ لینا چاہئے اور وہ الہام یہ ہیں۔
’’دَو آل من شُڈ بی انگری بٹ گاڈ اِز وِد یو‘‘۔’’ ہی شل ہلپ یو‘‘۔ ’’واڑڈس آف گاؤ ناٹ کین ایکسچینج‘‘۔ ترجمہ اگر تمام آدمی ناراض ہونگے لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہیں۔
’’آئی شل ہلپ یو‘‘۔ مگر بعد اس کے یہ ہے۔ ’’یوہیو ٹو گو امرتسر‘‘۔ پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں اور وہ یہ ہے۔ ’’ہی ہل ٹس اِن دی ضلع پشاور‘‘۔ یہ فقرات ہیں ان کو تنقیح سے لکھیں اور براہ مہربانی جلد تر جواب بھیج دیں تا اگر ممکن ہو تو اخیر جزو میں بعض فقرات بموضع مناسب درج ہو سکیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچے۔
(۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء بمطابق ۱۱؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ موجب ممنونی ہوا آج میراارادہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے آنمخدوم کی ملاقات کے لئے لودہیانہ کا قصد کرو لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہو رہا ہے اگر اُس کا جلدی سے تدارک نہ کیا جائے تو کاپیاں کہ جو ایک عرصہ کی لکھی ہوئی ہیں خراب ہو جائیں گی۔ بات یہ ہے کہ کاپیوں کی چھ سات جزیں مطبع ریاض ہند سے بباعث کم استطاعتی مطبع کے مطبع چشمہ نور میں دی گئی تھیں اور مہتمم چشمہ نور نے وعدہ کیا تھا کہ اِن کاپیوں کو جلد تر چھاپ دیں گے اور قبل اس کے جو پُرانی اور خراب ہوں چھپ جائیں گی۔ سو خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ وہ کاپیاں اب تک نہیں چھپیں اور خراب ہوگئیں ہیں کیونکہ اُن کے لکھے جانے پر عرصہ دراز گزر گیا ہے ناچار اس بندوبست کے لئے کچھ دن امرتسر ٹھہرنا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک بعض احباب بطور مہمان قادیان میں آئیں گے اور اُن کے لئے خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے سو یہ عاجز بنا چاری امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور معلوم نہیں کہ کیاپیش آوے۔ اگر زندگی اور فرصت اور توفیق ایزدی یاور ہوئی اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کے لئے امرتسر میں فراغت پا کر آنمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا۔ مگر وعدہ نہیں اور کچھ خبر نہیں کہ کیاہوگا اور خداوند کے فضل و کرم ربوبیت سے اس عاجز کو فرصت مل گئی تو اس بات کو آنمخدوم اس بات کو پہلے سے یادرکھیں کہ صرف ایک رات رہنے کی گنجائش ہوگی کیونکہ بشرط زندگی و خیریت کہ جو حضرت خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک قادیان واپس آجانا ہے۔ اُن سے وعدہ ہو چکا ہے۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ اور ایک دن کے لئے آنا بھی ہنوز ایک خیال ہے واللّٰہ اعلم بخفیقتہ المال۔ اگر خداوندکریم نے فرصت دی اور زندگی اور امن عطا کیا اور امرتسر کے مخمصہ سے صفائی اور راحت حاصل ہوئی اور تاریخ مقررہ پر واپس آنے کی گنجائش بھی ہوئی تو یہ عاجز آنے سے کچھ فرق نہیں کرے گا مگر آپ ریل پر ہرگز تشریف نہ لاویں کہ یہ تکلف ہے۔ یہ احقر عباد سخت ناکارہ اور بے ہنر ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے لئے کچھ تکلف کیا جائے۔ مولیٰ کریم کی ستاریوں اور پردہ پوشیوں نے کچھ کا کچھ ظاہر کر رکھا ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم (۱۹؍ دسمبر ۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ مجھ کو آپ کا اخلاص بہت شرمندہ کر رہا ہے۔ خداوندکرم آپ کو بہت ہی اجر بخشے اور ہی عاجز تفضلات الٰہیہ پر بہت بھروسہ رکھتا ہے اور یقینا سمجھتا ہے کہ اُس کی رحمتیں اس اخلاص اور سعی کے صلہ میں آثار نمایاں دکھلائیں گی۔ یہ عالم فانی تو کچھ چیز نہیں اور اس کی آرزو کرنے والے سخت غلطی پر ہیں۔ مومن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں کہ اس کا مولیٰ کریم اُس پر راضی ہو۔ آپ کے نفس میں قبولیت دعا کی شرائط پیدا ہیں اور اس عاجز نے دوسروں میں اس قسم کی استقامت کم پائی ہے۔ نیک ظن بننا آسان ہے مگر اُس کا نبھانا بہت مشکل۔ سو خدا نے استقامت اور حسن ظن کی سالیت آپ کے نفس میں رکھی ہے۔ یہ بڑی خوبی ہے کہ جس سے انسان اپنی مراد کو پہنچتا ہے اور نہایت بدنصیب وہ انسان ہے جس کاانجام آغاز کا جوش نہیں رکھتا اور بدظنی اُس کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے اور سعید وہ انسان ہے جس پر نیک ظن غالب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ٹھوکر کھانے سے بچتے ہیں اور اُس کا فطرتی نور اُن کو شیطانی تاریکی سے بچا لیتا ہے اور تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں اور الحمدللہ کہ میں آپ کو اُن تھوڑوں کے اوّل درجہ میں دیکھتا ہوں۔ بخدمت تمام احباب سلام مسنون پہنچے۔ (یکم جنوری ۱۸۸۴ء مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ اب یہ عاجز یوم شنبہ امرسترجانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہیں سے آپ کی خدمت میں خط لکھے گا۔ آپ نے جو خواب دیکھی۔ انشاء اللہ القدیر بہت بہتر ہے۔ انسان کو بغیر راست گوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اُس کی راست گوئی کو اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اِس جیسے شخص پر اُس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں احقر اور ارزل عباد ہے۔ زہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے۔ سو اُس کے تفضلات تحیر انگیز ہیں۔ خدا تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں سے طرزِ واحد پر نہیں اور توجہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیّت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں۔ اگرچہ طرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زُہد اور تقویٰ ہے مگر ماسوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کے خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ بنیاد ڈالتا ہے۔ کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور مشہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع
تمام شب گزرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھتے ہیں … اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اُس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ ہے
طریق زہد و تعید ندانم اے زاہد
خدائے من قدمم را… براہِ داؤد
سو سچ ہے کہ یہ ناچیز زہد اور تعبد سے خالی ہے اور بجز عجز و نیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے جو لوگ تلاش کرتے ہیں وہ اکثر زاہدین اورعابدین کو تلاش کرتے ہیں اور یہ بات اس جگہ نہیں۔ آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بے وقت تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی دعا کے لئے یہ الہام ہوا۔ بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دعا قبول میکنم۔ ۳؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو یہ الہام ہوا۔ ۶؍ تاریخ کو آپ کا روپیہ آ گیا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالک۔ (۷؍ جنوری ۱۸۸۴ء ۔ ۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
بعد سلام مسنون آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز اگرچہ بہت چاہتا ہے کہ آنمخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کی جائے مگر کچھ خداوندکریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں۔ نہیں معلوم کہ حضرت احدیّت کی کیا مرضی ہے۔ عاجز بندہ بغیر اُس کی مشیت کے قدم اُٹھا نہیں سکتا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو۔ مَیں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں۔ مَیں اُن کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی اُنہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا معلوم ہوا کہ اُن سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے تو تقدیرات معلقہ کو مبدّل بھی کر دیتا ہے لیکن اندیشہ گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کو جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے۔ صدق الارادت وہ شخص ہے کہ جو رابطہ توڑنے کیلئے جلد تر تیار نہ ہو جائے اور اگر ایسا شخص جس پر ارادت کبھی کسی فسق اور معصیت میں مبتلا نظر آوے یا کسی اور قسم کا ظلم اور تعدی اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا دیکھے یا کچھ اسباب اور اشیاء منہیات کے اُس کے مکان پر موجود پاوے تو جلد تر اپنے جامہ سے باہر نہ آوے اور اپنی دیرینہ خدمت اور ارادت کو ایک ساعت میں برباد نہ کرے بلکہ یقینا دل میں سمجھے کہ یہ ایک ابتلاہے کہ جو میرے لئے پیش آیا اور اپنی ارادت اور عقیدت میں ایک ذرّہ فتور پیدا نہ کرے اور کوئی اعتراض پیش نہ کرے اور خدا سے چاہے کہ اس کو اُس ابتلا سے نجات بخشے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کسی نہ کسی وقت اُس کے لئے ٹھوکر درپیش ہے۔ جن پر خدا کی نظر لطف ہے اُن کو خدا نے ایک مشرب پر نہیں رکھا۔ بعض کو کوئی مشرب بخشا اور بعض کو کوئی اور اُن لوگوں میں ایسے بھی مشرب ہیں کہ جو ظاہری علماء کی سمجھ سے بہت دور ہیں۔ حضرت موسیٰ جیسے اولوالعزم مرسل خضر کے کاموں کو دیکھ کر سراسیمہ اور حیران ہوئے اور ہر چند وعدہ بھی کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا پر جوش شریعت سے اعتراض کر بیٹھے اور وہ اپنے حال میں معذور تھے اور خضر اپنے حال میں معذور تھا۔ غرض اس مشرب کے لوگوں کی خدمت میں ارادت کے ساتھ آنا آسان ہے مگر ارادت کو سلامت لے جانا مشکل ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک زائر کا ابتلا منظور ہے تا وہ اُن پر اُن کی چھپی ہوئی بیماریاں ظاہر کرے۔ سو نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اُس ابتلا کے وقت تباہ ہو جائے۔ کاش! اگر وہ دور کا دور ہی رہتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا۔ ابوجہل کچھ سب سے زیادہ شریر نہ تھا۔ پر رسالتہ کے زمانہ نے اُس کا پردہ فاش کیا۔ اگر کسی بعد کی صدی میں کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید وہ خبث اُس کی چھپی رہتی۔ سو خبث امتحان ہی سے ظاہر ہوتی ہیں۔ بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اورعابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشاء اگر خدانے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرماوے ہر یک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ (۱۸؍جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط آج امرتسر میں مجھ کو ملا۔ پانچ جلدیں حصہ اوّل و دوئم و سوئم روانہ ہو چکی ہیں۔ ایک خط دہلی کے علماء کی طرف اس اس خاکسار کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے۔ نہایت رفق اور ملائمیت سے رہنا چاہئے۔ آج حضرت خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا۔ یا عبدالرافع انی رافعک الی۔ انی معزک لامانع لما اعطی۔ شاید پرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔ یایحی خذالکتاب بقوۃ۔ خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولٰی۔ یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے۔
(۱۵؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد ہذا آپ نے جو قول وحدت وجود کی نسبت استفسار فرمایا ہے اُس میں یہ بہتر تھا کہ اوّل آپ اُن وساوس اور اوہام کو لکھتے جن کو قائلین اس قول سقیم کے بطور دلیل آپ کے روبرو پیش کرتے ہیں کیونکہ اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین عربی وغیرہ کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھرے ہوئے ہیں اور خود عقل خداداد کی رُو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعویٰ کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اُٹھ نہیں سکتیں۔ اوّل بڑی بھاری دلیل مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر یک کے لئے کہ جو حق پر قدم مارنا چاہتا ہے۔ قرآن شریف ہے کیونکہ قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ مافی السموات والارض ہے۔ وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالم میں اور نہ دوسرے عالم میں مرتفع ہوگی۔ اس جگہ بھی بندگی بیچارگی ہے اور وہاں بھی بندگی بیچارگی ہے۔ بلکہ اُس پاک کلام میں نہایت تصریح سے بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کی روح کے لئے عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اُس کی پیدائش کی عبودیت ہی علت غائی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون یعنی میں نے جن اور انس کو پرستش دائمی کے لئے پیدا کیا اور پھر انسان کامل کی روح کو اُس کے آخری وقت پر مخاطب کر کے فرمایا یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃً مرضیۃ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی۔ یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آ جا۔ ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادت کاملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پا لیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور فادخلی فی عبادی کے خطاب سے پکارا جاتا ہے۔ سو اب دیکھئے اس آیت سے کسی قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہوتا ہے۔ اگر عبودیت انسان کے لئے ایک عارضی جامعہ ہوتا اور اصل حقیقت اس کی الوہیت ہوتی تو چاہئے تھا کہ بعد طے کرنے تمام مراتب سلوک کے الوہیت کے نام سے پکارا جاتا۔ لیکن فادخلی فی عبادی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ عبودیت اُس جہان میں بھی دائمی ہے۔ جو ابدالاباد رہے گی اور یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انسان گو کیسے ہی کمالات حاصل کرے مگر وہ کسی حالت میں عبودیت سے باہر ہو ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جس کیفیت سے کوئی شَے کسی حالت میں باہر نہ ہو سکے وہ کیفیت اُس کی حقیقت اور ماہیت ہوتی ہے۔ پس چونکہ از روئے بیان واضح قرآن شریف کے انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر اور نہ اس جہان اور نہ اُس جہان میں الگ ہو سکے۔ جو مہتر اور بہتر انبیا تھے۔ انہوں نے عبدہ و رسولہ ہونا اپنا فخر سمجھا تو اس سے ثابت ہے کہ انسان کی اصل حقیقت و ماہیت عبودیت ہی ہے الوہیت نہیں اور اگر کوئی الوہیت کا مدعی ہے تو بمقابلہ اس محکم اور بین آیت کے جو فادخلی فی عبادیہے۔ کوئی دوسری آیت ایسی پیش کرے کہ جس کا مفہوم فادخلی فی ذاتی ہو اور خود قرآن شریف اور جا بجا اپنے نزول کی حلت غائی بھی یہی ٹھہراتا ہے کہ تا عبودیت پر لوگوں کو قائم کرے اور خدا نے اپنی کتاب عزیز میں اُن لوگوں پر *** کی ہے جنہوں نے مسیح اور بعض دوسرے نبیوں کو خدا سمجھا تھا۔ پس کیونکر وہ لوگ رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں جنہوں نے تمام جہان کو یہاں تک کہ ناپاک اور پلید روحوں کو بھی کہ جو شرارت اور فسق اور فجور سے بھری ہیں خدا سمجھ لیا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے توحید تین مرتبہ پر منقسم ہے۔ ایک ادنیٰ اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ ادنیٰ مرتبہ توحید کا کہ جس کے بغیر ایمان متحقق ہو ہی نہیں سکتا۔ نفی شرک رکھا ہے یعنی اس شرک سے بیزار ہونا کہ جو مشرکین محض ظلم اور زیادتی کی راہ سے مخلوق چیزوں کو خدا کے کاموں میں شریک سمجھتے ہیں یعنی کسی قوم نے سورج اور چاند یا آگ اور پانی کو دیو تے قرار دے لیا ہے اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں اور کسی قوم نے بعض انسانوں کو خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے اور خداوندکریم کی طرح اُن کو قادر مطلق اور قاضی الحاجات خیال کر رکھا ہے۔ سو یہ شرک صریح اور ظلم بدیہی ہے کہ جو ہر یک عاقل کو یہ ہدایت نظر آتا ہے لیکن دوسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی ہے جس کو چھوڑنے پر توحید کی دوسری قسم موقوف ہے وہ اس کی نسبت کچھ باریک ہے کہ عوام کالانعام اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ یعنی اسباب کو کارخانہ قدرت حضرت احدیّت میں شریک سمجھنا اور فاعل اور مؤثر حقیقی خدا ہی کو نجاننا۔ مثلاً ایک دوکاندار مسلمان جب عین ہجوم خریداروں کے وقت میں بانگ نماز جمعہ سنتا ہے تو دل میں خیال کرتا ہے کہ اگر میں اس وقت جمعہ کی نماز کے لئے اپنی دکان بند کر کے گیا تو مرا بڑا ہی ہرج ہوگا۔ جمعہ کی نماز میں خطبہ سننے اور نماز پڑھنے اور پھر شاید وعظ سننے میں ضرور دیر لگے گی اور اس عرصہ میں سب خریدار چلے جائیں گے اور جو آمدنی اب یہاں ٹھہرے رہنے سے متصور ہے اُس سے محروم رہوں گا۔ سو یہ شرک فی الاسباب ہے کیونکہ اگر وہ دوکاندار جانتا کہ مرا ایک رازق قادر و متصرف مطلق ہے جس کے ہاتھ میں تمام قبض و بسط رزق ہے اور اُس کی اطاعت کرنے میں کوئی نقصان عائد حال نہیں ہو سکتا اور اُس کے ارادہ کے برخلاف کوئی تدبیر و حیلہ رزق کو فراخ نہیں کر سکتا تو وہ اس شرک میں ہرگز مبتلا نہ ہوتا اور یہ قسم دوئم شرک کی چونکہ باریک ہے اس وجہ سے ایک عالم اس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اکثر لوگ اسباب پرستی پر اس قدر جھک رہے ہیں کہ گویا وہ اپنے اسباب کو اپنا خدا سمجھ رہے ہیں اور یہ شرک دِق کی بیماری کی طرح ہے کہ جو اکثر نظروں سے مخفی اور محتجب رہتا ہے اور تیسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی گئی ہے جس کے چھوڑنے پر تیسری قسم توحید کی موقوف ہے وہ نہایت ہی باریک ہے کہ بجز خاص بالغ نظروں کے کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور بغیر افراد کامل کے کوئی اس سے خلاصی نہیں پاتا اور وہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ کے یادداشت دل پر غالب رہنا اور اُن کی محبت اور اُن کی محبت یا عداوت میں اپنی اوقات ضائع کرنا اور اُن کی ناچیز ہستی کو کچھ چیز سمجھنا اور اس شرک کا چھوڑنا جس پر توحید کامل موقوف ہے۔ تب محقق ہوتا ہے کہ جب محب صادق پر اس قدر محبت اور محبت الٰہی کا استیلاء ہو جائے کہ اُس کی نظر شہود میں ہر یک موجود ماسوا اللہ موجود ہونے کے معدوم دکھائی دے۔ یہاں تک کہ اپنا وجود بھی فراموش ہو جائے اور محبوب حقیقی کا نور ایسا کامل طور پر چمکے سو اُس کے آگے کسی چیز کی ہستی اور حقیقت باقی نہ رہے اور اس توحید کا کمال اس بات پر موقوف ہے کہ ماسوا اللہ واقعی طور پر موجود تو ہو مگر سالک کی نظر عاشقانہ میں کہ جو محبت الٰہیہ سے کامل طور پر بھڑک گئی ہے وہ وجود غیر کا کالعدم دکھائی دے اور غلبہ محبت احدیتّ کی وجہ سے اس کے ماسوا کو منفی اور معدوم خیال کرے کیونکہ اگر وجود ماسوا کافی الحقیقت منفی اور معدوم ہی ہو تو پھر اس توحید درجہ سوئم کی تمام خوبی برباد ہو جائے گی وجہ یہ کہ ساری خوبی اس توحید درجہ سوئم میں یہ ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت اور عظمت اس قدر دل پر استیلاء کرے کہ بوجہ غلبہ اس شہود تام کے دوسری چیزیں معدوم دکھائی دیں۔ اب اگر دوسری چیزیں فی الحقیقت معدوم ہی ہیں تو پھر اس استیلاء محبت اور غلبہ شہود عظمت کی تاثیر کیا ہوئی اور کون کمال اس توحید میں ثابت ہوا کیونکہ جو چیز فی الواقعہ معدوم ہے اس کو معدوم ہی خیال کرنا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو استیلاء محبت پر موقوف ہو بلکہ محبت اور شہود عظمت تامہ کی کمالیت اسی حالت میں ثابت ہوگی کہ جب عاشق دلدادہ محض استیلاء عشق کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے اپنے معدوم کے ماسوا کو معدوم سمجھے اور اپنے معشوق کے غیر کو کالعدم خیال کرے گو عقل شرع اُس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ چیزیں حقیقت میں معدوم نہیں ہیں۔ جیسے ظاہر ہے کہ جب دن چڑھتا ہے اور لوگوں کی آنکھوں پر نور آفتاب کا استیلاء کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ستارے اس وقت معدوم نہیں مگر پھر بھی بوجہ استیلاء اُس نور کے کہ ستاروں کو دیکھ نہیں سکتے۔ ایسا ہی استیلاء محبت اورعظمت اللہ کا محب صادق کی نظر میں ایسا ظاہر کرتا ہے کہ گویا تمام عالم بجز اس کے محبوب کے معدوم ہے اور اگرچہ عشق حقیقی میں یہ تمام انوار کامل اور اَتم طور پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی عشق مجازی کا مبتلا بھی اس غایت درجہ عشق پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنے معشوق کے غیر کو یہاں تک کہ خود اپنے نفس کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ مجنون جس کا نام قیس ہے اپنے عشق کی آخری حالت میں ایسا دیوانہ ہو گیا کہ یہ کہنے لگا کہ میں آپ ہی لیلیٰ ہوں۔ سو یہ بات تو نہیں کہ فی الحقیقت وہ لیلیٰ ہی ہو گیا تھا بلکہ اس کا یہ باعث تھا کہ چونکہ وہ مدت تک تصور لیلیٰ میں غرض رہا۔ اس لئے آہستہ آہستہ اس میں خود فراموشی کا اثر ہونے لگا۔ ہوتے ہوتے اس کا استغراق بہت ہی کمال کو پہنچ گیا اور محویت کی اس حد تک جا پہنچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنون عشق سے انا الیلیٰ کا دعویٰ کرنے لگا اور یہ خیال دل میں بندہ گیا کہ فی الحقیقت میں ہی لیلیٰ ہوں۔ غرض غیر کو معدوم سمجھنا لوازم کمال عشق میں سے ہے اور اگر غیر فی الحقیقت معدوم ہی ہے تو پھر وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جس کو استیلاء محبت اور جنون عشق سے کچھ بھی تعلق ہو اور غلبہ عشق کی حالت میں محویّت کے آثار پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو انسان مشکل سے سمجھ سکے۔ شیخ مصلح الدین شیرازی نے خوب کہا ہے۔
نہ از چینم حکایت کن نہ از روم
کہ دارم دلستانے اندریں بوم
چو روئے خوب او آید ببادم
فراموشتم شود موجود و معدوم
اور پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
باتو مشغول و باتو ہم اہم
دانہ تو بخشایش تو میخواہم
تا مرا از تو آگہی دادند
بوجودت گرانہ خود اگاہم
اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف میں کمال توحید کا یہی درجہ بیان کیا گیا ہے کہ محب صادق بوجہ استیلاء محبت اور شہود عظمت محبوب حقیقی کی غیر کے وجود کو کالعدم خیال کرے نہ کہ فی الواقعہ غیر معدوم ہی ہو کیونکہ معدوم کو معدوم خیال کرنا ترقیات عشق اور محبت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ سوعاشق صادق کے لئے توحید ضروری اور لابدی ہے کہ جو اُس کے کمال عشق کی علامت ہے۔ یہی توحید ہے کہ جو اُس کا شہود بجز ایک کے نہ ہو نہ یہ کہ عقلی طور پر بھی فی الواقعہ ہی موجود سمجھتا ہو کیونکہ وہ اپنے عقل میں ہو کر ایسی باتیں ہرگز منہ پر نہیں لاتا اور حق الیقین کے مرتبہ کے لحاظ سے جب دیکھتا ہے تو حقائق اشیاء سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ اشیاء فی الواقعہ موجود ہیں ایسا ہی اُن کی موجودیت کا اقرار رکھتا ہے اور چونکہ یہ توحید شہودی فنا کے لئے لازمی اور ضروری ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے پاک کلام میں بسط سے فرمایا ہے اور نادان جب اُن بعض آیات کو دیکھتا ہے تو اس دھوکہ میں پڑ جاتا ہے کہ گویا وہ آیات توحید وجودی کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کونہیں سمجھتا کہ خداوند کے کلام میں تناقص نہیں ہو سکتا۔ جس حالت میں اُس نے صدہا آیات بینّات اور نصوص صریحہ میں اپنے وجود اور مخلوق کے وجود میں امتیاز کلی طور پر ظاہر کر دیا ہے اور اپنے مصنوعات کو موجود واقعی قرار دے کر اپنی صانعیت اُس سے ثابت کی ہے اور اپنے غیر کو شقی اور سعید کی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور بعض کے لئے خلود جنت اور بعض کے لئے خلود جہنم قرار دیا ہے اور اپنے تمام نبیوں اور مرسلوں اور صدیقوں کو بندہ کے لفظ سے یاد کیا ہے اور آخرت میں اُن کی عبودیت دائمی غیر منقطع کا ذکر فرمایا ہے تو پھر ایسے صاف صاف اور کھلے کھلے بیان کے مقابلہ پر کہ جو بالکل عقلی طریق سے بھی مطابق ہے بعض آیات کی کسی اور طرح پر معنی کرنا صرف اُن لوگوں کا کام ہے کہ جو راہ راست کے طالب نہیں۔ بلکہ آرام پسند اور آزاد طبع ہو کر صرف الحاد اور زندقہ میں اپنی عمر بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر انسان صرف عقل کی رُو سے بھی نظر کرے تو وہ فی الفور معلوم کرے گا کہ مشت خاک کو حضرت پاک سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ انسان دنیا میں آ کر بہت سے مکروہات اپنی مرضی کے برخلاف دیکھتا ہے اور بہت سے مطالب باوجود دعا اور تضرع کے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ پس اگر انسان فی الحقیقت خدا ہی ہے تو کیوں صرف کن فیکون کے اشارہ سے اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتا اور کیوں صفات الوہیت اس میں محقق نہیں ہوتیں کیا کوئی حقیقت اپنے لوازم ذاتی سے معرا ہو سکتی ہے۔ پس اگر انسان کی حقیقت الوہیت ہے تو کیوں آثار الوہیت اس سے ظاہر نہیں ہوتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام چالیس بر تک روتے رہے مگر اپنے فرزند عزیز کا کچھ پتہ نہ ملا۔ مگر اسی وقت کہ جب خدا نے چاہا۔ پس جب کہ صفات الوہیت نبیوں میں ظاہر نہیں ہوئے تو اور کون ہے جس میں ظاہر ہوں گے اور جب کہ اب تک کوئی ایسا مرد پیدا نہیں ہوا کہ جس نے میدان میں آ کر تمام مخالفوں اور موافقوں کے سامنے الوہیت کی طاقتیں دکھلائی ہوں تو پھر آئندہ کیونکر امید رکھیں۔ ماسوا اس کے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ انسان سے کیسے کیسے بُرے اور ناپاک کام صادر ہوتے ہیں۔ پس کیا عقل کسی عاقل کی تجویز کر سکتی ہے کہ یہ سب ناپاکیاں خدا کی روح کر سکتی ہے۔ پھر علاوہ اس کے مخلوق کے وجود سے انکار کرنا دوسرے لفظوں میں اس بات کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق نہیں کیونکہ اگر اس کو قادر مطلق مان لیا ہے تو پھر اُس کی قدرت تامہ کا اسی بات پر ثبوت موقوف ہے کہ جو چاہے پیدا کرے نہ کہ ہندؤوں کے اوتاروں کی طرح ہر جگہ بُرے بھلے کام کرنے کے لئے آپ ہی جنم لیتا رہے۔ سو خدا کی ذات سے سلب قدرت کرنا اور اُس کو طرح طرح کے گناہوں اور پاپوں اور بے ایمانیوں کا مورد ٹھہرانا اور انواع اقسام کی جہالتوں کو اُس پر روا رکھنا اسی توحید وجودی کا نتیجہ ہے جس کو وجودی لوگ نہیں سمجھتے۔ عقلمند انسان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایسا دعویٰ ہرگزنہیں کرتا جس دعویٰ کا ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہوتا۔ پس اگر یہ لوگ عاقل ہوتے تو ایسا دعویٰ کرنے سے متہاشی ہوتے۔ زیادہ تر خرابی ان میں یہ ہے کہ اُن کی زبان اُن کے فعل اور عمل پر غالب ہو رہی ہے۔ ذرا خیال کرتے اور انسانی ترقیات کو حال کے ذریعہ سے دیکھتے۔ نہ صرف قال کے ذریعہ سے تو یہ تمام اوہام اُن کے خود بخود اُٹھ جاتے مثلاً ایک عاقل سیاح کے پاس یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی سیاح فلاں جزیرہ میں پہنچتا ہے تو بجائے دو آنکھ کے اُس کی چار آنکھیں ہو جاتی ہیں اور منہ سے سنتا ہے اور کانوں کے ساتھ دیکھ سکتا ہے تو ایسی خلاف قیاس خبر پر صرف اسی حالت میں عقلمند یقین کرے گا کہ جب بیان کنندہ اس خبر کا خود اس جزیرہ میں ہو کر آیا ہو اور یہ چار آنکھیں اور ایسا منہ اور ایسے کام اس نے دکھلائے ہوں یا کوئی اور انسان پیش کر دیا ہو جس میں یہ صفتیں موجود ہوں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہرگز وہ عاقل اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا اور غایت کار اُس احمق کو یہ جواب دے گا کہ بھائی میں بھی تو اُسی جزیرہ کی طرف چلا جاتا ہوں۔ سو اگر ایسی ہی اس جزیرہ میں خاصیت ہے تو میری بھی وہاں جا کر چار آنکھیں ہو جائیںگی اور میں بھی منہ سے سنوں گا اور کانوں سے دیکھوں گا۔ تب خود میں تیرے اس بیان کو قبول کر لوں گا۔ اب میں بلا ثبوت کیوں کر قبول کر سکتا ہوں۔ سو سمجھنا چاہئے کہ جو انسان اپنے نفس کو دھوکہ نہیں دیتا اور اپنے خیال کو گمراہی میں ڈالنا نہیں چاہتا وہ باتیں چھوڑ دیتا ہے اور کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سرگرمی سے منزل مقصود کی طرف قدم رکھتا ہے۔ پھر اُس راہ کے تمام عجائبات بالضرورت اُس کو دیکھنے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے حق الامر اُس پر کھل جاتا ہے مگر جو کوئی صرف باتوں میں مقید رہتا ہے اور محض سنے سنائے قصوں پر کہ جو عقل اور شرع سے بکلی منافی ہیں جم جاتا ہے وہ اپنے نفس کو آپ ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ حقیقت میں ایسے لوگ خدا تعالیٰ سے بالکل بے غرض ہیں اور وسیع مشربی کے پردہ میں اپنے نفس امّارہ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اگر اُن کی سرشت میں کچھ بو صدق کی ہے تو پہلے انسان بن کر ہی دکھلا دیں۔ پیچھے سے الوہیت کا دعویٰ کریں کیونکہ انسان بننے کے ہی ایسے لوازم ہیں جن کی ابھی تک بو اُن میں نہیں آئی نہ اُس کے حصول کی کچھ پرواہ رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُمّتِ محمدیہ کی آپ اصلاح کرے۔ عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ عاجز بباعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اسی قدر کافی ہے مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں۔ ولا تبغنی الایات والنذر عن قوم لایومنون اور یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا اور اب میں توکلاً علی اللّٰہ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ والسلام
(۱۳؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا ۔ آنمخدوم کچھ تفکر اور تردّد نہ کریں اور یقینا سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں۔ بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے۔ اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے۔ کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوتے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اُس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا۔
(تاریخ ۲۶؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ بذریعہ محمد شریف صاحب مجھ کو ملا۔ سو آپ کو میں اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے حصہ سوئم و چہارم بخدمت علماء دہلی بھیج دیئے ہیں۔ آپ نے جو لکھا ہے کہ چوتھے حصہ کے صفحہ ۴۹۶ پر مخالف اعتراض کرتے ہیں آپ نے مفصل نہیں لکھا کہ کیا اعتراض کرتے ہیں۔ صرف آپ نے یہ لکھا ہے کہ یامریم اسکن میں نحوی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ اسکن کی جگہ اسکنی چاہئے تھا۔ سو آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ جس شخص نے ایسا اعتراض کیا ہے اس نے خود غلطی کھائی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ نحو اور صرف سے آپ ہی بے خبر ہے کیونکہ عبارات کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ مریم سے مریم اُم عیسیٰ مراد نہیں ہے اور نہ آدم سے آدم ابولبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر یک جگہ یہی عاجز مراد ہے اب جب کہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے یعنی یامریم اسکن کہا جائے نہ یہ کہ یا مریم اسکنی۔ ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اسکنی آتا لیکن اس جگہ تو صریح مریم مذکر کا نام رکھا گیا ہے اس لئے برعایت مذکر مذکر کا صیغہ آیا اور یہی قاعدہ ہے کہ جو نحویوں اور صرفیوں میں مسلم ہے اور کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں۔ زوج مراد نہیں ہے اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاع پاتا ہے اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتحیابی اور سرور اور آرام پر بولا جاتا ہے اور یہ عاجز اس الہام میں کوئی جائے گرفت نہیں دیکھتا۔
(۲۱؍فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز یہ دعا کرتا ہے کہ خواوندکریم اپنے فضل و کرم سے آنمخدوم کی عمر میں برکت بخشے۔ زیادہ تر اس بات میں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح مولیٰ کریم راضی ہو جائے۔ ہر یک سعادت اس کی رضا سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں جو کچھ انسان رسوم کے طور پر کرتا ہے وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ مگر جو کچھ خالصاً مرضات اللہ کے حاصل کرنے کے لئے صدق قدم سے کیا جاتا ہے وہ عمل صالح ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے خداوندکریم عمل صالح سے راضی ہو جاتاہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ اُس برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اُس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا وہ اُن برکات سے محروم رہ جات ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ باوجود اس کے کہ کچھ کچھ عمل صالح بجا لاتے ہیں مگر برکات ان اعمال کے ان میں نمایاں نہیں ہوتے کیونکہ جب تک کوئی میوہ خام ہے وہ پختہ اور رسیدہ میوہ کی لذت نہیں بخش سکتا۔ سب برکتیں کمال میں ہیں اور عمل ناتمام میں کوئی برکت نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص العمل انسان کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جات ہے اور اُن لوگوں میں جا ملتا ہے کہ خسرۃ الدنیا والاخرۃ ہیں۔ سو حقیقی طور پر عمل صالح اس عمل کو کہا جاتا ہے کہ جو ہر یک قسم کے فساد سے محفوظ رہ کر اپنے کمال کو پہنچ جائے اور اپنے کمال تک کسی عمل صالح کا پہنچنا اس بات پر موقوف ہے کہ عامل کی ایسی نیت صالح ہو کہ جس میں بجز حق ربوبیت بجا لانے کی کوئی اور غرض مخفی نہ ہو یعنی صرف اُس کے دل میں یہ ہو کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور گو اطاعت بجا لانے پر ثواب مترتب یا عذاب مترتب ہو اور گو اُس کا نتیجہ آرام اور راحت ہو یا نکبت اور عقوبت ہو لیکن بہرحال وہ اپنے مالک کی اطاعت میں رہے گا کیونکہ وہ بندہ ہے۔ پس جو شخص اس اصول پر خدا کی عبادت کرتا ہے وہ اس راہ کی آفات سے امن میں ہے اور امید ہے کہ اس پر فضل ہو لیکن اسے لازم ہے کہ کسی امید پر بنیاد نہ رکھے اور اطاعت اور عبودیت کو ایک حق ربوبیت کا سمجھے کہ جو بہرحال ادا کرنا ہے اور سرگرمی سے خدمت میں لگا رہے اور اپنی کارگزاری اور خدمت کو کچھ چیز نہ سمجھے اور مولیٰ کریم پر احسان خیال نہ کرے دنیا مزرعہ آخرت ہے اور فارغ باشی کچھ چیز نہیں۔ وہی لوگ مبارک ہیں کہ جو دن رات اپنے زور سے اپنے تمام اخلاص سے، اپنے تمام رجوع سے رضائے مولیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (۲۸؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ نے جو اپنے عنایت نامہ مرقومہ ۲۹؍ فروری ۱۸۸۴ء میں ایک سوال تحریر فرمایا تھا۔ آج تک میں نے بباعث علالت طبع اُس کی طرف توجہ نہیں کی اور اب بھی بباعث ضعف دماغ و درد سر طبیعت حاضر نہیں ہے لیکن جو آنمخدوم کا وہ خط دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوال صرف ایک نزاع لفظی ہے کیونکہ جس مرتبہ توحید کو آنمخدوم ابتدائی مرتبہ تصور فرماتے ہیں وہ مرتبہ اس عاجز کے نزدیک ان معنوں کر کے انتہائی مرتبہ توحید کا ہے کہ وہ سیر اولیاء کا منتہا اور آخری حد ہے۔ جس سے فنائے اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے۔ اگرچہ درگاہ احدیّت بے نہایت ہے لیکن جس کمال توحید کو انسان اپنے مجاہدہ سے، اپنی کوشش سے اپنے تزکیہ نفس سے، اپنے سیر و سلوک سے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہیں تک ہے پھر بعد اس کے مخفی تفضلات الٰہیہ اور مواہب لدنیہ ہیں جن تک کوششوں کو راہ نہیں۔ ساری کوششیں اور محنتیں صرف اس حد تک ہیں کہ انسان اپنے نفس اور تمام خلق کو ہیچ اور لاشَے سمجھ کر اور اپنے ہوا اور ارادہ سے باہر ہو کر بکلی خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائے اور اپنی ناچیز ہستی، شہود ہستی حقیقی حضرت باری تعالیٰ کے نابود اور معدوم دکھائی دے اور جیسا فی الواقعہ انسان محبت وجود حضرت قادر مطلق کے ہیچ اور ناچیز ہے ایسی ہی حالت پیدا ہو جائے گویا اب بھی وہ نیست ہی ہے۔ جیسا پہلے نیست تھا۔ سو یہ مرتبہ عبودیت کی آخری حد ہے اور یہی اس توحید کا انتہائی مقام ہے کہ جو سعی اور کوشش اور سیرو سلوک سے حاصل کرنا چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ بعد اس کے مرتبہ سیر فی اللہ ہے لیکن اس مرتبہ کے حصول کے لئے کوشش کو دخل نہیں بلکہ یہ محض بطریق فضل اور موہیت کے حاصل ہوتا ہے اور کوششیں صرف اُسی مرتبہ فنا تک ختم ہو جاتی ہیں کہ جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک شخص کئی منزلیں طَے کر کے بادشاہ کے ملنے کیلئے آیا ہے اور جس قدر ا راہ میں مانع تھے سب سے خلاصی پاکر بادشاہ کے خیمہ تک پہنچ گیا ہے اب خیمہ کے اندر جانا اُس کا کام نہیں ہے بلکہ وہ اپنا کام سب کر چکا ہے اور خیمہ میں داخل کرنا اور بارگاہ میں دخل دینا یہ خاص بادشاہ کا کام ہے کہ جو ایک خاص اجازت بادشاہی پر موقوف ہے۔ ناچیز بندہ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ جو اپنی بشری طاقتوں کے ذریعہ سے اور اپنے اختیار سے خود بخود بلا اجازت بارگاہ میں داخل ہو جائے اور اب بباعث ضعف زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ آپ نے جو کئی شعروں کے معنی دریافت فرمائے ہیں وہ کسی اور وقت اگر خدا نے چاہا تحریرکروں گا اور امرتسر سے واپس آ گیا ہوں اور واپس آ کر میر مردان علی صاحب کا خط ملا سو اُن کی نسبت اور آنمخدوم کے لخت جگر کی نسبت دعاء خیر کر کے حوالہ بخدا کرتا ہوں جب طبیعت رو بصحت ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ بشرط یاد آنمخدوم کے سوال معنی اشعار کے معنوں کی بابت لکھا جائے گا۔
(۱۱؍ مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مع مبلغ … روپیہ پہنچا۔ یہ عاجز آپ کا بغایت درجہ شکر گزار ہے اور اپنے مولیٰ کریم جل شانہ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ کو جزائے عظیم بخشے۔ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلا میں پڑا ہوں اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلہ شانہٗ کے تصرف میں ہوں۔ جہاں مجھ کوبیٹھائے گا، بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا اور یہ الہام ہوا۔ یدعون لک ابدال الشام و عباد اللّٰہِ من العرب یعنی تیرے لئے ابدال شامل کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ مناسب سمجھا تھا آپ کو اطلاع دوں۔
(۶؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا اخلاص اور جوش محبت اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ خداوندکریم سے چاہتا ہوں کہ آپ کا نشست خاطر بہ جمعیت مبدل ہو۔ آمین
(۱۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۳؍ رجب ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی ام میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آنمخدوم کی روح کو اس عاجز کی روح سے بشدت مناسبت ہے اسی وجہ سے تعلقات روحانی کا غلبہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی حالت کاملہ ابتلاء کے خطرات سے امن میں ہے۔ یہ عاجز بوجہ قلت فرصت تحریر جواب سے قاصر رہا اور مستعد تحریر تھا کہ اسی میں خط پہنچ گیا۔ دہلی کی طرف جانے کے لئے ابھی کچھ معلوم نہیں۔ ہندوستان میں اکثر اطراف بیماری بہت پھیل رہی ہے اگر کسی وقت بطریق عجلت سفر اُس طرف کا پیش آیا۔ تب تو مجبوری ہے ورنہ بہر طرح خواہ ایک ساعت کے لئے ہو۔ انشا ء اللہ ملاقات آنمخدوم کی ہوگی۔ آگے ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پردہ غیب میں جو کچھ مخفی ہے کسی کو اس پر اطلاع نہیں۔ آنمخدوم اپنی اصلی صحت پر آگئے ہوں تو اطلاع بخشیں۔ (۴؍ جون ۱۸۸۵ء مطابق دہم رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از خاکسار غلاماحمد باخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط آنمخدوم پہنچا۔ یہ عاجز بباعث درد سر و درد پہلو اس قدر بیمار رہا کہ بعض اوقات یہ عارضہ مقدمہ موت جو ہریک بشر کیلئے ضروری ہے معلوم ہوتا تھا۔ اب افاقہ ہے مگر کچھ درد باقی ہے۔ اسی وجہ سے تحریر جواب سے معذور رہا۔ آپ کا خط جو استفسار اختلافات نماز میں ہے وہ بھی اس عاجز کے پاس رکھا ہے مگر کیا کِیا جائے صحت پر موقوف ہے۔ بمبئی والے سوداگر کی بدمعاملگی ایک ابتلاء ہے اس میں صبر بہتر ہے۔ مقدمہ سازی و مقدمہ بازی دنیا داروں کا کام ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بصیرت بخشی ہے وہ سب امور خدا تعالیٰ کی طرف سے دیکھتا ہے۔ سو اس میں حضرت خداوند کریم کی کچھ حکمت ہے۔ آپ صبر کریں اور خدا تعالیٰ پر توکّل رکھیں اور جو کچھ حالت عسر و تنگدستی درپیش ہے۔ یہ بھی ابتلا ہے۔ ایسے وقتوں میں مردان خدا اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دعا اور استغفار اور تضرع سے استقامت و مشکل کشائی چاہتے ہیں اور حضرت ارحم الراحمین غراسمہٗ و قادر کریم و رحیم ہے۔ جب بندہ عاجز اپنے کرب اور قلق کے وقت میں ہر یک طرف سے قطع امید کر کے اُس کے دروازہ پر گرتا ہے اور پورے پورے رجوع سے دعا کرتا ہے اور دعا کرنے سے تھکتا نہیں۔ سو خدا تعالیٰ اُس پر رحم فرماتا ہے اور اس کی مخلصی بخشتا ہے۔ تب اُس کو دو لذتیںملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے کرب و قلق سے نجات پاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دعا کے قبول ہونے میں جو ایک لذت ہے۔ اس سے بھی وہ متمتع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جب بندہ یقین کامل اپنے دردوں اور تکلیفوں کے وقت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو ضرور وہ اُس کی سنتا ہے۔ اس عاجز کو اس بات سے افسوس ہے کہ آپ کے چند خطوط جو علوم دین کے استفسار میں تھے۔ اُس کا جواب مجھ سے نہیں لکھا گیا اور اب ضعف دماغ و درد سر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ کھایا جاتا ہے۔ اُس کی تبخیر ہو کر درد شروع ہو جاتا ہے۔ اس بات کی ابھی تسلی نہیں کہ عمر کا کیا حال ہے۔ بعض عوارض لاحقہ میں اندیشہ موت کا پیدا ہو جاتا ہے۔ کام کتاب کا ہنوز شروع نہیں کیا گیا۔ اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ کتاب پوری ہو جائے گی۔
(۲۴؍جون۱۸۸۵ء مطابق ۱۰ رمضان ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا۔ آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا۔ جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردّد لاحق ہوا۔ اگرچہ میں بھی بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت سی تشویش پیدا ہوگئی۔ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرماوے۔ اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴؍اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرماوے۔ آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب توکلاً علی اللّٰہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا۔ آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرماویں۔
(۸؍ اکتوبر ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خطوط کے چھپنے کے لئے اس عاجز نے ایک خاص معتبر لاہور میں بھیجا ہوا ہے۔ اگرچہ ارادہ تھا کہ دو ہزار خط چھاپا جائے مگر دو ہزار نوٹس کے بھیجنے میں پانچ سَو روپیہ خرچ آتا ہے کیونکہ ہر ایک خط رجسٹری ہو کر بصرف چار آنا جائے گا۔ اس لئے بعض دوستوں کے مشورہ سے قریب مصلحت معلوم ہوا کہ بالفعل صرف پانچ سَو خط چھپوایا جائے۔ جس میں کچھ انگریزی اور کچھ اُردو ہوں گے۔ ان خطوط کے چھپوانے اور روانہ کرنے میں بھی ایک سَو پچاس یا کچھ زیادہ روپیہ خرچ آ جائے گا۔ مگر یہ کام اتمام حجت کے لئے کیا گیا ہے تا ہر یک ضلع میں بڑے بڑے پادریوں اور پنڈتوں کی طرف اور بعض راجوں اور رئیسوں کی طرف بھی اور بعض علماء اور گدی نشینوں کی طرف بھی روانہ کئے جائیں اور پھر جب اُن سب کی اطلاع یابی ہوکر آجائے تو اُن سبکے نام بغرض اظہار اِتمام حجت حصہ پنجم میں درج کئے جائیں۔ سو اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اُس کے ارادہ میں ہوا تو یہ کام انجام پذیر ہو جائے گا ورنہ ہرچہ مرضی مولیٰ ہمان اولیٰ۔ مکتوب حضرت یحیٰ منیری کا مضمون جو آپ نے لکھا ہے بہت ہی عمدہ ہے اور منصف کے لئے کافی۔ والسلام
(دوم مارچ ۱۸۸۵ء ۔ ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجزعایذبااللہ الصمد غلام احمدبخدمت اخویم مخدوم و مکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ جس قدر آنمخدوم نے اشاعت دین اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے رنج اُٹھایا ہے خدا تعالیٰ اُس کے عوض میں آپ پر اس طور سے راضی ہو کہ جیسا اپنے سچے خادموں اور مقبولوں پر راضی ہوا کرتا ہے۔ آمین ثم آمین۔ فی الحقیقت مسلمانوں کی عجیب نازک حالت ہو رہی ہے جس عظمت اور بزرگی کو خدا اور رسول میں ماننا تھا۔ وہ اور اور چیزوں کو دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے اور اپنے سچے دین کی حمایت میں وہ تائید دکھلاوے جن سے ان کور باطنوں کی آنکھوں کھلیں۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حقیقت اور کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاتھوں میں توفیق ایزدی کچھ ہے تو صرف تضرعات ہیں اگر ربّ العرش تک پہنچ جائیں لیکن دل پُر درد کا یہ حال ہے کہ نہ بہشت کے نعماء کے لئے طبیعت کو جوش ہے اور نہ دوزخ کے آلام کی فرک ہے بلکہ دل اور جان اسی تمنا میں غرق ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان بدعات کے داغوں کو اسلام کی خوبصورت شکل سے دور کرے اور اپنی خاص حمایت اور نصرت سے عظمت اور بزرگی اپنے کلام کی لوگوں پر ظاہر فرما دے۔ آمین!
مرزا جان جانان صاحب کے خط کا ردّ کچھ مشکل نہیں۔ مرزا صاحب مرحوم ہندوؤں کے اصولوں سے بکلّی ناواقف معلوم ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی فرصت کے وقت ان کی نسبت کچھ تحریر کیا جائے گا۔ اس عاجز کا یہ حال ہے کہ بعض گذشتہ اور تازہ الہامات سے قرب اجل کے آثار پائے جاتے ہیں گو صفائی سے نہیں بلکہ مشتبہ اور ذومعنیں الہام ہیں تا ہم فکر سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی تمام ہمت کو اس طرح مصروف کیا ہے۔ حصہ پنجم کی عبارت کو جلد مرتب اور بامحاورہ کر کے اور جو کچھ اس میں زائد داخل کرنا ہے وہ داخل کر کے توکلاً عَلٰی اللّٰہ چھپوانا شروع کر دوں کہ اس ناپائیدار اور ہیچ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ بھی دعا کریں اور اخومی منشی احمد جان صاحب کو بھی لکھیں کیونکہ بعض تقدیرات بعض دعاؤں سے ٹل جاتی ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ عاجز بدل و جان حضرت خداوندکریم سے آپ کے لئے دعا مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کو خوش رکھے۔ جس قدر انسان عالی ہمت اور صابر ہوتا ہے۔ اُسی قدر تکالیف سے آزمایا جاتا ہے۔ بیگانہ جس میں زہر کا تخم ہے۔ اس لائق ہرگز نہیں ہونا کہ خدا تعالیٰ اُس کو ایسے ابتلا میں ڈالے جس میں صادقوں کو ڈالتا ہے۔ سو مبارک وہی ہیں جن کوخدا درجات عطا کرنے کیلئے دنیا کی تلخیوں کا کچھ مزہ چکھاتا ہے۔ دنیا کی حالت یکساں نہیں رہتی جس طرح دن گزر جاتا ہے۔ آخر رات بھی اسی طرح گزر جاتی ہے۔ سو جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے وہ مصیبت کی رات کو ایسی کاٹتا ہے جیسے کوئی سونے کی حالت میں رات کو کاٹتا ہے اگر پروردگار ایمان کو بچائے رکھے تو مصیبت کچھ چیز نہیں لیکن اگر مصیبت کچھ بھی ہو اور مدد ایمانی منقطع ہو جائے تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ یہ عاجز تو حضرت خداوندکریم سے امید بھی رکھتا ہے کہ آپ کے ہموم و غموم بفضلہ تعالیٰ دور ہوں اور اجر حاصل اور غم زائل ہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ چند اشتہارات ارسال خدمت میں۔ والسلام
(۹؍جون ۱۸۸۵ء۔ ۲۴ ؍ شعبان ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا ان دنوںمیں ایک شخص اندر من نام جو ایک سخت مخالف اسلام ہے اور کئی کتابیں ردّ اسلام میں اُس نے لکھی ہیں۔ مراد آباد سے اوّل نابھہ میں آیا اور راجہ صاحب نابھہ کی تحریک سے میرے مقابلہ کیلئے لاہور میں آیا اور لاہور میں آ کر اس عاجز کے نام خط لکھا کہ اگر چوبیس سَو روپیہ نقد میرے لئے سرکار میں جمع کرا دو تو میں ایک سال تک قادیان میں ٹھہروں گا سو یہ خط اُس کا بعض دوستوں کی خدمت میں لاہور میں بھیجا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دولتمند مسلمان نے ایک سال تک ادا ہو جانے کی شرط سے چوبیس سَو روپیہ نقد اس عاجز کے کارپردازوں کو بطور قرضہ کے دے دیا اور قریب دو سَو مسلمان کے جن میں بعض رئیس بھی تھے جمع ہو گئے اور وہ روپیہ مع ایک خط کے جس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اندرمن کے مکان پر جہاں وہ فروکش تھا لے گیا مگر اندرمن غالباً اس انتظام کی خبر پا کر فرید کوٹ کی طرف بھاگ گیا۔ آخر وہ خط بطور اشتہار کے چھپوایا گیا اور شہر میں تقسیم کیا گیا اور دو رجسٹری شدہ خط راجہ صاحب نابھہ اور راجہ صاحب فرید کوٹ کے پاس بھیجے گئے اور بعض آریہ سماجوں میں بھی وہ خطوط بھیجے گئے۔ شاید اگر یہ کسی راجہ کے کہنے کہانے سے اندر من نے اس طرف رُخ کیا تو پھر اطلاع دی جائے گی۔ بالفعل اللہ تعالیٰ نے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رکھا۔ فالحمدللہ علی ذالک
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اس کی ایک کاپی مشفقی اِندر من صاحب۔ آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ایک خط وید کی حقیقت میں معہ چند اشعار مولوی عبدالمجید صاحب بذریعہ پمفلٹ آپ کی خدمت میں ارسال ہیں۔ ویدوں کی نسبت ہندوؤں کی طرف سے کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ اُن کی تعلیم شرک اور مخلوق پرستی سے خالی ہے بلکہ سب ہندو جو تقریباً چودہ یا پندرہ کروڑ پنجاب اور ہندوستان میں رہتے ہیں۔ بڑے پیار سے اُن دیوتاؤں کو مانتے ہیں جو وید میں لکھے گئے ہیں اور جس ہندو سے اُس کی بُت پرستی یا آتش پرستی یا دوسری ہزاروں دیوتاؤں کی پوجا کی نسبت سوال کیا جائے کہ کسی کتاب کے حکم سے یہ کام اختیار کیا گیا ہے تو وہ جھٹ یہی جواب دیتا ہے کہ یہ سب طریق پرستش کا وید میں درج ہے اور اس کی ہدایت کی موافق ہم اُن چیزوںکی پرستش کر رہے ہیں اور درحقیقت یہ جواب اُس کا سچ ہے کیونکہ جس قدر ہندوؤں کی آتش پرستی و آب پرستی و آفتاب پرستی وغیرہ پرستشیں جاری ہیں۔ اُن سب پرستشوں کا حکم وید ہی میں مندرج ہے اور نہ ایک اور نہ دو جگہ بلکہ صدہا جگہ اُن چیزوں کی پوجا کے لئے تاکید ہے اور وید کا کوئی ایسا صفحہ نہیں جو مخلوق پرستی کی تعلیم سے خالی ہو۔ جیسا کہ یہ بات اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو وید کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی جگہ سے اُس کو پڑھتے۔ غرض کہ وید کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہے کہ وہ خلق اللہ کو توحید پر قائم کرے بلکہ اوّل سے آخر تک وید میں یہی تاکید پائی جاتی ہے کہ آگ اور ہوا اور سورج اور چاند اور ستاروں اور پانی وغیرہ کی پرستش کرنی چاہئے اور ان ہی چیزوں سے اپنی مرادیں مانگنی چاہئے۔ یہی باعث ہے کہ جو کچھ آج تک وید کی تعلیم کاہندؤوں کے دلوں پر اثر پڑا ہے۔ وہ یہی مخلوق پرستی ہے کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ کسی حصہ پنجاب یا ہندوستان میں ایسے ہندو بھی پائے جاتے ہیں جو مخلوق پرستی سے بیزار اور اپنے تمام عقاید اور عبادات میں موحد ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ جہاں جاؤ اور جس ملک میں دیکھو جا بجا ہندو لوگ سخت درجہ کے شرک اور مخلوق پرستی میں گرفتار ہیں یہاں تک کہ انسان سے لے کر حیوانات اور نباتات تک ان نادانوں نے اپنے معبود ٹھہرائے ہیں۔ نہ پانی چھوڑا، نہ آگ، نہ ہوا، نہ پتھر بلکہ دنیا میں جو چیز از قسم اجرام علوی میں یا اجسام سفلی میں نظر آتی ہے وہ سب کے سب ہندوؤں کے معبود اور دیوتے ہیں اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں اس قدر مخلوق پرستی میں ہندوؤں کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ تمام قصور وید اور اُس کے شائع کرنے والوں کا ہے۔ غرض وید جس جنس سے بھرا ہوا ہے وہ سب شرک ہے اور جو کچھ وید نے دنیا کو فائدہ پہنچایا وہ مشرکانہ تعلیم ہے جس میں آج تک سب ہندو مبتلا اور گرفتار ہیں اور کوئی ہندو اس مشرکانہ حالت میں اپنی غلطی اور قصور کا اقرار نہیں کرتا بلکہ سارے کے سارے یہی کہتے ہیں کہ یہ تحفہ ہمارے وید مقدس سے ہم کو ملا ہے اور اُس نے اس راہ پر ہم کو چلایا ہے اور جب ہم بذات خود وید کو کھول کر دیکھتے ہیں تو ہندوؤں کو اُن کے اس بیان میں راست گو پاتے ہیں اور ہندوؤں کی مشرکانہ حالت جو ہزاروں برس سے چلی آتی ہے وہ اُن کی خود تراشیدہ معلوم نہیں ہوتی بلکہ وید کی پیروی کے نتائج ہیں جو بطور داغ ملامت یا کلنک کے ٹیکے کے وید کی اندرونی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تھوڑے دنوں سے پنڈت دیانند سورستی نے (جو اَب اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں) اس خیال سے کہ اَب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ مشرکانہ تعلیم ہر یک سلیم القلب کو بُری معلوم ہوتی ہے۔ اس بے بنیاد خیال کے ثابت کرنے کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح داغ مخلوق پرستی کی تعلیم کا وید کی پیشانی سے دھویا جائے اور بر خلاف اپنی تمام قوم کے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ اگرچہ وید میں بظاہر مشرکانہ تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ مگر درپردہ اُس کی اندر کی تہہ میں توحید چھپی ہوئی ہے لیکن وہ اس اپنے مطلب کے پورا کرنے کیلئے کامیاب نہ ہو سکے۔ ہندوستان و پنجاب کے تمام محقق پنڈتوں نے آپ کے خیالی وید بھاش کو ردّ اور نامنظور کیا اور اُس پر یہ ریویو لکھے کہ پنڈت صاحب کا یہ وید بھاش اصل میں ویدوں کی تفسیر نہیں ہے بلکہ اُس کو ایک نیا وید سمجھنا چاہئے جس کو پنڈت صاحب اپنے من گھڑت سے بنا رہے ہیں۔ ہندوؤں کے وید سے اُس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ اُس سے سراسر مخالف اور منافی ہے اور جب پنڈت صاحب نے دیکھا کہ ہندوستان اور پنجاب کے پنڈتوںمیں ہماری دال نہیں گلتی اور کوئی ہمارے دھوکہ میں نہیں آتا تو پھر انہوں نے ایک اور تدبیر سوچی کہ وہ مصنوعی وید بھاش یونیورسٹی میں درسی کتاب بنانے کے لئے سرکار انگریزی میں پیش کیا جائے تو پنڈت صاحب نے ایسا ہی کیا اور صاحب لفٹنٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک درخواست معہ چند جز اپنے وید بھاش کے بدیں التماس مرسل کئے کہ یہ وید بھاش میرا یونیورسٹی لڑکوں کو پڑھایا جائے کیونکہ میں نے بڑی ہمت اور بہادری کر کے وید میں توحید ثابت کر دکھائی ہے اور وہ لاکھوں پنڈت جھوٹے ہیں جو وید کو توحید سے خالی سمجھتے ہیں۔ اس پر صاحب لفٹنٹ بہادر کو درخواست کے سننے سے بہت تعجب ہوا کہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ وید جو اپنی مشرکانہ تعلیم میں سارے جہان میں اعتراضوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ضرب المثل ہے وہ شرک اور دیوتا پرستی سے خالی ہو۔ سو اُنہوں نے وہ درخواست یونیورسٹی کے چیدہ اور منتخب پنڈتوں کے پاس بھیج دی کہ وہ پنڈت دیانند کے وید بھاش کو دیکھ کر اپنی اپنی رائے لکھیں۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ سب کے سب پنڈتوں نے بالاتفاق یہ رائے لکھی کہ یہ وید بھاش دیانند کا سرا سر غلط اور پوچ اور لغو ہے وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم اور جابجا دیوتاؤں کی پوجا کے لئے ترغیب اور تحریک ایسا امر نہیں ہے کہ اُس کو چھپا سکیں یا پوشیدہ رکھ سکیں۔ سو دیانند کا وید بھاش ویدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں اُس کو ایک نیا وید کہیں جس کے پنڈت صاحب بھی مصنف ہیں تو یہ کہنا بجا اور درست ہے اس رائے کے پہنچنے سے صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر نے پنڈت دیانند کی درخواست کو نامنظور کر کے اُن کو اطلاع دے دی کہ یہ وید بھاش تمہارا عام رائے پنڈتوں سے برخلاف ہے۔ اس لئے قابل منظوری نہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اگر وید میں ایک ذرّہ بھی توحید کی بُو پائی جاتی تو کیونکر تمام ہندوستان کے پنڈت اُس سے انکاری یا غافل رہتے اور اگر بفرض محال یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وید میں بطور معما یا چیستان اور پھیلی کے ایک چھپی ہوئی توحید ہے جس پر صرف پنڈت دیانند کو اطلاع ہوئی اور دوسری تمام دنیا اس سے بے خبر رہی تو پھر یہ سوال عاید ہو گا کہ ایسی پیچیدہ اور سربمہر توحید سے دنیا کو کیا فائدہ ہوا اور بجز اس کے کہ لاکھوں بندگانِ خدا وید کے اُلٹے معنی سمجھ کر دیوتا پرستی میںمبتلا ہوئے اور کیا نتیجہ ایسے پیچیدہ بیان سے نکلا۔ کیا ہندوؤں کے پرمیشر کو بات کرنے کا سلیقہ بھی یاد نہیں کہ بجائے اس کے جو توحید کو کہ جو اُس کا اصل مطلب تھا واضح تقریر سے بیان کرتا ایسے بے سروپا اور غیر فصیح لفظوں میں بیان کیا کہ جس سے لوگ کچھ کا کچھ سمجھنے لگے اور ہزاروں دیوتاؤں کی ہندوؤں میں پوجا شروع ہوگئی اور مخلوق پرستی اُس حد تک پہنچ گئی جس کی نظر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہ تو ہم نے بطور مثال لکھا ہے اور ایک فرضی طور پر بیان کیا ہے ورنہ اگر کوئی ذرا آنکھ کھول کر ایک صفحہ وید کا بھی پڑھے تو بہ یقین تمام اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ وید کی عبارت کا اصلی مقصد اور مطلب یہی ہے کہ دیوتاؤں کی پوجا کرائی جاوے۔ مگر پنڈت دیانند نے اس بدیہی بات کو چھپانے کے لئے کوشش کرنا چاہا۔ آخر ناکام رہے اور بجائے اس کے کہ وید میں توحید ثابت کرتے اور اس عیب سے مبرا ہونا اُس کا بہ پایا ثبوت پہنچاتے کئی ایک اور عیب بھی جو وید میں پائے جاتے ہیں اُنہوں نے ظاہر کر دکھائے اور یک نہ شُد دو شُد کا معاملہ ہو گیا۔ جس کو ہم اپنی کتاب براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں انشاء اللہ بہ تفصیل بیان کریں گے۔ اب صرف اجمالی طور پر لکھا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے وید نعمت توحید سے بالکل بے نصیب اور تہی دست اور محروم ہیں۔ اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ وہ کتابیں جو وید سے موسوم کی گئی ہیں۔ ایک شخص کی تالیف نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں نے مختلف وقتوں میں اُن کو تالیف کیا ہے اور مؤلفین کے نام اب تک منتروں کے سر پر جدا جدا لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں اور وہ منتر بطور شعر کے ہیں جو دیوتاؤں کی تعریف میں خوش اعتقاد لوگوں نے بنائے تھے ان کتابوں کے پڑھنے سے ہرگز یہ پایا نہیں جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو کسی ایک یا چند پیغمبروں پر نازل کیا تھا بلکہ منجانب اللہ ہونے کا ذکر بھی نہیں۔ جابجا منتروں کے سر پر یہی لکھاہوا نظر آتا ہے کہ یہ منتر فلاںشخص نے تالیف کیا ہے اور یہ فلاں شخص نے اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال کے مصنفوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وید ایسی کتاب نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہو کہ میں آسمانی کتا ہوں اور فلاں فلاں پیغمبر پر اُتری تھی بلکہ ایک مجموعہ اشعار ہے جس کو کئی ایک شاعروں نے اوقات مختلفہ میں جوڑا ہے۔ ماسوائے اس کے وید میں یہ بات بھی نہیں کہ جیسے ربّانی کتاب ربّانی قدرتوں اور صفتوں کا ایک آئینہ ہونی چاہئے اور خدا تعالیٰ کے وجود اور اُس کی قدرت تامہ اور اُس کی غیبت بینی اور اُس کی خالقیت اور عزاقیت وغیرہ صفات کو صرف عقلی طورپر ثابت نہ کرے بلکہ آسمانی نشان کے طور پر طالبِ حق کو مشاہدہ کروائے کہ خدا فی الحقیقت موجود اور اُس میں یہ صفات موجود ہیں کیونکہ درحقیقت ربّانی کتابوں کے نازل ہونے سے عمدہ فائدہ یہی ہے کہ خدا اور اُس کی صفات کو نہ صرف عقلی اور قیاسی طور پر شناخت کیا جائے بلکہ آسمانی کتاب خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفات کو ایسا ثابت کر کے دکھلاوے کہ اُس کے پیروان تمام امور میں گویا رویت کے گواہ ہو جائیں اور اس طرح پر وہ اپنے ایمان کو اس کمال کے درجہ تک پہنچا دیں جس پر مجرد عقل کی پیروی سے انسان پہنچ نہیں سکتا۔ مثلاً خدا تعالیٰ میں جو صفت غیب دانی ہے اگرچہ عقلی طور پر انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے لیکن ربّانی کتاب میں شہودی طور پر اس بات کا ثبوت دینا از بس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ حقیقت میں غیب دان ہے اور وہ ثبوت اس طرح پر میسر آ سکتا ہے کہ ربّانی کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ درج ہوں جو لوگوں کے سامنے پوری ہو چکی ہوں۔ علیٰ ہذا القیاس خدا تعالیٰ کا قادر ہونا اور اپنے نبیوں اور مرسلوں کا حامی اور ناصر اور مؤید ہونا اگرچہ عقلی طورپر بھی ضروری اور محمود سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام مشہودی طور پر اپنی قدرت کاملہ اور حمایت اور نصرت خاصہ کا ایسا عمدہ اور کامل نمونہ دکھلاوے جس کو لوگ دیکھ کر اپنے ایمان اور اعتقاد پر قوی ہو جائیں۔
اسی طرح خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بھی اسی طورپر خداتعالیٰ کے کلام میں ثابت ہو جانی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات اور صفات کے پہچاننے کے لئے ایک نہایت صاف اور شفاف آئینہ ہے جو ہم عاجز اور بے خبر بندوں کو اس غرض سے عنایت ہوتا ہے تا کہ ہماری معرفت صرف عقلی اور قیاسی خیالات تک محدود نہ رہے۔ بلکہ ہم اُن تمام پاک صداقتوں کو بچشم خود دیکھ بھی لیں کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے صرف اسی قدر ہم کو بذریعہ اپنی کتاب کے معفرت اور بصیرت عنایت کری جس قدر بذریعہ عقل بھی ہم کو حاصل ہو سکتی ہے تو پھر ربّانی تعلیم اور عقلی تفہیم میں کیا فرق رہا اور اس بات میں خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے والوںکو برہمو سماج والوں پر (جو صرف عقلی اٹکلوں پر چلتے ہیں) کونسی ترجیح ہوئی۔ سو اِس تحقیق سے یہ ہدایت عقل ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں یہی عمدہ خوبی ہے کہ جن صداقتوں کو ہماری عقل ناقص صرف قیاسی طور پر پیش کرتی ہے اُن صداقتوں کو خدا کا کلام ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر دکھلا بھی دیتا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ عقل یہ تجویز کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے۔ سو خدا تعالیٰ کا کلام صدہا پیشگوئیوں سے جو صحیح طور پر پوری ہوگئیں ہم پر اس صداقت کو یقینی اور قطـعی طور پر کھول دیتا ہے لیکن وید اس مرتبہ اعلیٰ سے جو خدا کی ذات اور صفات کا آئینہ ہو سکے۔ ہزاروں کوس دور اور مہجور ہے بلکہ مجرد عقلی طور سے بھی خدا اور اُس کی صفات کا ثبوت دینے سے ویدعاجز ہے کیونکہ وید کا پہلا اصول یہ ہے کہ عالم بجمیع اجزائیہ انادی یعنی قدیم اور غیر مخلوق اور پرمیشر کی طرح واجب الوجود ہے اور پرمیشر نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی اُس کو طاقت و لیاقت ہے بلکہ اُس کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ بعض چیزوں کو بعض سے جوڑتا ہے مثلاً جسم کا قالب بنا کر روح کو اس میں داخل کر دیتا ہے یا کبھی قالب سے روح کو نکال دیتا ہے۔ سو یہی تالیف اور تفریق پرمیشر سے ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی اگر پرمیشر کچھ کام کر سکتا ہے تو بس یہی ہے کہ بعض اجزائے عالم کو بعض سے جوڑتا ہے اور کبھی بعض سے بعض کو الگ کر دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں صرف اتنی ہی خرابی نہیں کہ پرمیشر کو قادر مطلق ہونا چاہئے۔ عاجز اور ناتواں سمجھا گیا ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہونے میں کل اجزاء عالم کے اس کے شریک اور حصہ دار اور بھائی بند ٹھہرائے گئے ہیں اور ہر یک موجود اپنے اپنے نفس کا آپ مالک قرار دیا گیا ہے گویا پٹی داری گانوں کی طرح قدامت اور وجوب و جود کی جنس پر سب ارواح اور پُر خیر کا برابر اور یکساں دخل اور قبضہ چلا آیا ہے بلکہ ایک بڑی بھاری خرابی وید کے اصول سے یہ بھی پیش آئی کہ عقلی طور پر پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل باقی نہ رہی کیونکہ جس حالت میں تمام عالم بجمیع اجزائیہ خود بخود قدیم سے موجود ہے اور پرمیشر کا کام صرف تالیف اور تفریق ہے تو پھر اس سے وجود پرمیشر کا کیونکر ثابت ہو سکے۔ بھلا تم آپ ہی غور سے دیکھو اور انصاف کرو کہ دنیا کی تمام چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود کی پیدائش میں پرمیشر کی محتاج نہیں تو پھر اُس پر کیا دلیل ہے کہ اپنی تفریق یا اتصال میں پرمیشر کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے کہ ماسوا اللہ کے وجود سے صانع عالم کے وجود پر اسی وجہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ماسوا اللہ کا وجود خود بخود ہونا بہ بداہت عقل محال ہے اور جس حالت میں یہ تسلیم کیا جائے اور قبول کیا جائے کہ ماسوا اللہ بھی خود بخود ہو سکتا ہے تو عقل کو خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین کرنے کیلئے کون سی راہ باقی رہے گی۔ کیا ایسے ایسے ناپاک اعتقادوں سے دہریہ مذہب والوں کو مدد نہیں پہنچے گی۔ غرض یہ وید کی ایک ایسی فاش غلطی ہے کہ اس کے تابعین کو اُس کے جواب میں کوئی بات نہیں آتی اور وہ لوگ کسی طور سے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل بیان نہیں کر سکتے اور کیوں کر بیان کر سکیں جب آپ ہی پرمیشر کی طرح قدیم اور واجب الوجود ٹھہرے تو پرمیشر سے اُن کو کیا تعلق اور غرض رہا اور اُس کے وجود کی کونسی ضرورت اور حاجت رہی۔
اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف تو وید خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے ثابت کرنے کے لئے آئینہ ہونے کی لیاقت نہیں رکھتا یعنی طالبان حق کو شہودی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین نہیں دلا سکتا بلکہ طرح طرح کی بدگمانیوں میں ڈالتا ہے اور پھر دوسری طرف اُس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ عقلی طور پر بھی وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دینے سے بے نصیب اور بے بہرہ ہے تو اب منصف سوچ سکتا ہے کہ معرفت الٰہی کے دونوں طریقوں عقلی اور شہودی سے ہندوؤں کا وید کس قدر دور اور مہجور ہے اور جس قدر ہم نے اب تک بیان کیا کچھ یہی ایک اصول وید کا ایسا نہیں ہے کہ جو عقل کے برخلاف ہو بلکہ وید کے سارے اصول جو بنیاد دھرم کی سمجھے جاتے ہیں ایسے ہی ہیں۔ہاں وید کی رو سے پہلی ہدایت تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کا خالق نہیں۔ مگر اس کے سوا وید کی دوسری ہدایتیں بھی ایسی ہی ہیں۔ جن کے پڑھنے سے عاقل کو ضرور یہ شک پڑے گا کہ شاید وید کا زمانہ کوئی ایسا زمانہ تھا جس میںہنوز ایک دو اصول وید کے اور بھی لکھتے ہیں تا جو جو لوگ وید کی اندرونی حقیقت سے بے خبر ہیں اُن کو اس عجیب کتاب کے حالات کسی قدر معلوم ہو جائیں۔ سو منجملہ اُن کے ایک یہہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک ذرا رحم اور عفو نہیں اور کسی گناہ گار کے گناہ کو اُس کے توبہ و استغفار سے ہرگز نہیں بخشتا اور جب تک ایک گناہ کی سزا میں چوراسی لاکھ جون میں ڈال کر شخص مجرم کو دنیا کی عمر سے ہزار ہا درجہ زیادہ عذاب نہ پہنچاوے اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا اور گو انسان اپنے گناہ سے باز آ کر پرمیشر کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جائے تب بھی جب تک پرمیشر اُس کو لاکھوں جونوں میں ڈالنے سے سزا نہ دے۔ تب تک ہرگز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اب دیکھنا چاہئے کہ اس اصول میں صرف اتنی ہی قباحت نہیں کہ پرمیشر کو ایک ایسا شخص ماننا پڑتا ہے کہ جو نہایت درجہ کا سنگدل اور بے رحم ہے کہ جوجھکنے والوں کی طرف ہرگز نہیں جھکتا اور محبت کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا اور ایک ادنیٰ خطا یا قصور سے ایسا چِڑ جاتاہے کہ پھر کوئی بھی طریق اُس کے راضی ہونے کا نہیں بلکہ ایک بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ اس اصول کے رُو سے نجات پانے کا راستہ بکُلی مسدود ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں محنت اور مجاہدہ کرنا اور اس کی اطاعت اور عبادت میں دل لگانا سرا سر لغو اور بے فائدہ ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں پرمیشر ایسا کینہ ور اور پُر غضب ہے کہ کسی خطا کے سرزد ہونے سے بجز لاکھوں برسوں تک جونوں میںڈالنے کے ہرگز کسی بندہ پر رحم نہیں کر سکتا تو پھر اس حالت میں وہ نومید بندہ کہ گویا ایک گناہ کر کے جیتے جی ہی مر گیا ہے کیونکر اس کی زندگی میں دل لگائے گا اور کس امید پر عبادت اور زُہد اور رجوع الی اللہ اختیار کرے گا اور پھر زیادہ تر مشکل بات (جس کو عاجز بندہ اپنے ضعف اور کمزور حالت پر نظر کرنے سے بخوبی جانتا ہے) یہ ہے کہ بعد چوراسی لاکھ جون بھگتنے کے پھر بھی ایسی پاک اور مصفا حالت کہ جس میں ایک ذرا حظ یا غفلت سرزد نہ ہو اس کو نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے قصور اور حظ سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو بشر کے لئے لازم غیر منفک کی طرح ہے ، غفلت ہے جو انسانی شرشت کا پہلا گناہ اور سب گناہوں کی جڑ ہے مگر دنیا میں کوئی ایسا آدمی کہاں اور کدھر ہے جو ایک طرفۃ العین کے لئے بھی اپنے مولیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہ سکتا اور ایک لحظہ کے لئے قبض کی حالت اُس پر طاری نہیں ہوتی۔ ماسوا اس کے جہاں تک ہم انسانوں کی عام حالتوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے سلسلہ زندگی کو اوّل سے آخر تکر دیکھتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ کوئی انسان خاص کر اپنے بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں کس قدر خاص یا ذلت یا لغزش یا غفلت یا لہوو لعب سے خالی نہیں رہ سکتا اور نہ جب کہ نعماء الٰہی اس پر وارد ہوئے ہیں اُن کا پورا پورا شکر کر سکتاہے اور یہ ایسی صاف اور واشگاف صداقت ہے جو خود ہمارے کوائف زندگی اور واقعات عمری اس پر شہادت دے رہے ہیں اور موجودات کا ہر یک ذرّہ اور قدرت کا ہر یک قانون اس کی تصدیق کر رہا ہے اور ہماری روحیں پکار پکار کر ہمیں بھی کہتی ہیں کہ ہم بوجہ مخلوق اور ضعیف اور کمزور اور ممنون منت ہونے کے ایسی فتح عظیم اپنے خالق اور محسن حقیقی اور مربی بے علت پر ہرگز حاصل نہیں کر سکتے کہ جو اُس کو یہ کہہ سکیں کہ جو کچھ تیرے حقوق ہمارے گردن پر تھے وہ سب ہم نے جیسا کہ چاہئے ادا کر دیئے ہیں اور اب ہم تیرے حساب سے فارغ اور تیرے مطالبہ سے امن میں ہیں اور جب ہم لوگ ایسی فارغ خطی حاصل نہیں کر سکتے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ اگر خداوندکریم ہمارے گناہوں پر ہمیشہ ہم کو سزا دیتا رہے اور درگذر اور عفو کسی حالت پر نہ کرے تو پھر ہرگز ممکن نہیں کہ ہم کسی زمانہ میں نجات کا منہ دیکھ سکیں کیونکہ جب گناہ غیر محدود ٹھہرے تو پھر سزا بھی درصورت لازمی اور ضروری ہونے کے غیر محدود اور دائمی چاہئے۔ سو یہ اصول نہایت منحوس اور نامبارک ہے اور اگر یہی بات سچ ہے تو انسان غایت درجہ کا بدبخت اور بے نصیب ہوگا جس کے لئے سخت دل پرمیشر کا ہمیشہ ارادہ ہے کہ جب تک وہ بکلّی گناہوں کے صادر ہونے سے (کہ جو انسان کی سرشت سے لازم ہوئے ہیں) محفوظ نہ رہے تب تک مختلف جونوں کا تختہ مشق رہے گا اب دیکھنا چاہئے کہ اس کے مقابل پر یہ اصول قرآن شریف کا کیسا بابرکت اور پیارا اور تسلی بخش اور انسانی فطرت کے لئے ضروری اور مناسب حال ہے کہ گناہ کا تدارک توبہ اور استغفار سے ہو سکتا ہے اور بدیوں کی تلافی نیکیوں سے ممکن ہے۔ یہ ایسا ضروری اور لابدی اصول ہے کہ انسان کی مغفرت اور نجات یابی بجز اس کے ممکن ہی نہیں۔ خیال کرنا چاہئے کہ اکثر تمام انسانوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی عمروں میں کسی قدر غفلت اور لہو و لعب یا نالائق باتوں اور بدچلنیوں میں رہ کر پھر کسی نیک صحبت کی برکت سے یا کسی واعظ اور ناصح کے سمجھانے سے یا اپنے ہی انصاف دلی کے جوش سے اس بات کے مشتاق ہو جایا کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور بُرے کاموں اور خراب راہوں کو چھوڑ دیں۔
اب سوچنا چاہئے کہ اگر ایسے طالب حق کے لئے جناب الٰہی میں باریابی کا کوئی سبیل نہیں اور تو یہ منظور ہی اور استغفار قبول ہی نہیں تو پھر وہ بیچارہ اپنی آخری بہبودی کیلئے اگر کچھ کوشش بھی کرے تو کیا کرے اور کیونکر کرے اور کدھر جائے۔ ممکن ہے کہ وہ ایسے پرمیشر سے سخت نومید اور شکستہ دل ہو کر اور اُس کی رحمت سے بکلّی ہاتھ دھو کر پھر اپنے گناہوں کی طرف رجعت … کرے اور خوب دل کھول کر ہر قسم کے گناہ اور بدمعاشی سے تمتع اور حظ اُٹھاوے۔ غرض یہ ایسا اصول ہے کہ نہ بندہ اُس سے اپنی نجات تک پہنچ سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس سے قائم رہتی ہے کیا یہ بات اللہ تعالیٰ کی عادت کریمانہ کے موافق ہے کہ وہ انسان کی کامیابی میں اس قدر مشکلات ڈالے اور اس کی نجات کو معلق یا محال کر کے اس کے گناہ کو ہمیشہ یاد رکھے۔ مگر اس کے رجوع محبت اور توبہ اور استغفار کا ایک ذرا قدر نہ کرے اور چوراسی لاکھ جون میں سے ایک جون کی تخفیف کرنے سے بھی دریغ کرتا رہے کیا ایسے پر کوئی امید ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
پھر تیسرا اصول وید کا جو عقل کے برخلاف ہے یہ ہے کہ نجات ابدی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ لوگ کچھ مدت محدود تک نجات پا کر پھر مکی خانہ سے ناکردہ گناہ باہر نکالے جاتے ہیں اور پرمیشر ہرگز قادر نہیں کہ اُن کو ہمیشہ کے لئے نجات دے سکے۔ اب جو لوگ عشق الٰہی کی ایک چنگاری بھی اپنے اندر رھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسی بے مروّتی اُس محبوب حقیقی سے ہرگز نہیں ہو سکتی کہ عزت دے کر پھر بے عزت کرے اور ایک چیز بخش کر پھر اُس کو چھین لے اور ایک دفعہ اپنا پیارا اور مقرب بنا کر پھر ناکردہ گناہ کیڑوں مکوڑوں اور کتوں بلوں کی جونوں میں ڈالتا رہے۔ جس شخص کو محبت الٰہی کے جام سے ایک گھونٹ بھی میسر ہے اُس نی عارف اللہ روح جو اس جواد مطلق پر بڑی بڑی امیدیں رکھتی ہے اور سب کچھ کھوہ کر اُسی کی ہو رہی ہے ہرگز اس کو یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ اس کا پیارا اور محبوب جانی آخر اُس سے ایسا معاملہ کرے گا کہ اس کی سب امیدیں خاک میں ملا کر اور اُس کی خوشحالی دائمی کی خواہش جو اُس کے دل میں ڈالی گئی ہے نظر انداز کر کے اُس مصروع کی طرح جو بار بار دورہ صرع سے دُکھ اُٹھاتا ہے مختلف جونوں کے عذاب سے معذب کرتا رہے گا۔ اُس کے صدق اور وفا پر اُس کو کچھ بھی خیال نہیں آئے گا اور اس کی خالص محبتوں پر اُس کو کچھ بھی نظر نہیں ہوگی۔ افسوس کہ ہندو لوگ ایسا اعتقاد رکھنے سے خود اپنے اوتاروں اور رشیوں کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں کہ اوّل ان کو بڑے مقبول الٰہی بلکہ خدا کا اوتار سمجھ کر پھر اُن کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اُن بیچاروں کو بھی نجات ابدی نہیں اور وہ کیڑے مکوڑے اور کتے بلے بننے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتے جن لوگوں کو ان مقدس ویدوں کی خبر نہیں وہ تعجب کریں گے کہ یہ کیسے اصول ہیں جو ویدوں کی طرف نسبت دیئے گئے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہ بدگمانی سے یہ خیال کریں کہ یہ ویدوں پر تہمت ہے۔ سو واضح ہو کہ ہم نے ان اصولوںکو کمال تحقیق اور تدقیق سے لکھا ہے اور اس وقت وید ہمارے سامنے پڑا ہے اور اُس کے بھاش ہمارے پاس موجود ہیں اگر کسی کو شک ہو تو ہر طرح ہم سے تسلی کر سکتا ہے اور خود ویدوں کے ماننے والے اس سے بے خبر اور انکاری نہیں ہیں اور اگر کوئی ہم تک نہ پہنچ سکے اور نہ پنڈتوں سے دریافت کر سکے تو ہم اس کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ رِگ وید کو جو دہلی سوسائٹی میں بکمال تصحیح و تحقیق چھپا ہے ذرا نظر غور اور تدبر سے مطالعہ کرے اور پھر یہ بھی مناسب ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیاارتھ پرکاش اور وید بھاش کا بھی درشن کر لے تا اُسے معلوم ہو کہ وید کیا شَے ہے اور اُس کی تعلیم کیسی ہے۔
بعض جاہل ہندو اور مسلمان اپنشدوں کو جو براہم پشتک ہیں اور صدہا سال ویدوں کے بعد لکھے گئے ہیں وید ہی سمجھتے ہیں جیسے داراشکوہ نے بعض اپنشدوں کا ترجمہ بھی کسی پنڈت سے لکھوا کر ایک رسالہ تالیف کیا ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ لوگ صریح غلطی پر ہیں۔ ویدوں اور اپنشدوں کے مضامین میں کچھ تعلق بھی نہیں بلکہ وہ خیالات جو اُپنشدوں میں درج ہیں صرف برہمنوں کے دلوں کی تراش خراش ہیں اور ان خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان وغیرہ مخلوق پرمیشر کے وجود کا ایک ٹکڑہ ہے اور اسی سے نکلتا ہے اور اُسی میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ صورت دخول اور خروج کی ہمیشہ بنی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیالات برہمنوں نے ایک مدت کے بعد بدھ مذہب والوں سے لئے ہیں اور یہ اس زمانہ کے خیالات ہیں کہ جب برہمن لوگ وید کی تعلیم سے بیزار ہو چکے تھے اور ان کا منشاء تھا کہ بجائے تعلیم وید کے ان خیالات کو جو اُپنشدوں میں درج ہیں شائع کیا جائے مگر باوجود اس کے پھر بھی برہمن وید کے دیوتاؤں سے الگ نہیں ہوئے اور اُن کی پرستش سے کنارہ نہیں کیا بلکہ صدہا طرح کی اور اور مشرکانہ باتیں حاشیہ کے طور پر چڑہا دیں اور کئی طرح کے جھوٹے قصے اور کتھا کہانیاں برمہا اور بشن اور مہادیو اور اِندر وغیرہ کے بارہ میں لکھ ڈالیں اور کئی پُستک اپنی طرف سے تالیف کر کے یہ مشہور کرنا چاہا کہ یہ بھی وید اٹک یعنی وید کی خبریں ہیں۔ چنانچہ انہیں میں سے وہ اُپنشدین بھی ہیں جن کا بعض ناواقف مسلمانوں نے ترجمہ بھی کیا تھا اور اپنی اوپری واقفیت سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہی وید ہیں۔ مگر اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کوئی امر مشتبہ نہیں رہ سکتا۔ وہی وید کہ برہمنوں کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے اب کتب فروشوں کی دوکانوں پرچھپے ہوئے رکھے ہیں۔ اس مقام پر ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ مرزا جان جاناں صاحب نے کہ جو نقشبندی فقیروں سے ایک نامی اور مشہور بزرگوں میں خواہ نخواہ دخل درمعقولات کر کے ویدوں کے بارہ میں ایک مکتوب کسی اپنے مرید کے نام لکھا ہے اور اس میں ویدوں کی تعریف کی ہے کہ وہ شرک اور مخلوق پرستی سے پاک ہیں اور توحید کی تعلیم ان میں بھری ہوئی ہے۔ اب جب ہم ایک طرف ویدوں کی مشرکانہ تعلیم اور ملحدانہ عقائد کو بخشم سر دیکھتے ہیں اور پندرہ کروڑ ہندو کو اُس میںمبتلا پاتے ہیں اور دوسری طرف مرزا صاحب کا یہ مکتوب پڑھتے ہیں جس کو انہوں نے نہایت سادہ دلی اور لاعلمی سے لکھاہے تو ہم بجز اس کے کہ حضرت مرزا صاحب کے حق میں دعا مغفرت کریں اور خدا تعالیٰ سے اُن کی خطا کی معافی چاہیں اور کسی طرح سے اُن کے کلام پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ مرزا صاحب نے نہایت بے جا اور نامناسب کام کیا کہ بے خبر محض ہونے کی حالت میں وید دانی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اُن کے لئے یہی بہت فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے فقیرانہ اشغال اور اذکار میں مشغول رہتے اور جس کوچہ میں ایک ذرّہ بھی اُن کی رسائی نہیں تھی اس کی نامعلوم خبریں لوگوں کو نہ بتلاتے۔ پھر مرزا صاحب اپنے مکتوبات میں یہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا وید چار دفتر ہیں جو احکام امرونہی و اخبار ماضیۂ مستقلبلہ پر مشتمل ہے اور یہ وید بذریعہ ایک فرشتہ کے جس کا نام برہما تھا بحوالہ ایجاد عام ہندوؤں کو پہنچا ہے اُسی وید میں سے اُن کے پُران اور شاستر نکالے گئے ہیں اس وید میں بلحاظ عمر طولانی عالم کی چار طور کی مختلف ہدایت رکھی گئی ہیں جن میں سے بعض ہدایتیں ست جگ کے مناسب حال اور بعض ہدایتیں کل جگ کے مناسب حال ہیں اور ہندو اگرچہ مختلف فرقے ہیں مگر وہ سب کے سب توحید باری پر اتفاق رکھتے ہیں اور عالم کو مخلوق سمجھتے ہیں اور روز حشر کے قائل ہیں اور معارف اور مکاشفات میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور اُن کی بُت پرستی حقیقت میں بُت پرستی نہیں ہے بلکہ وہ بعض ملائکہ کو جو بامرالٰہی عالم کون و فساد میں تصرف رکھتے ہیں یا بعض کاملین کی ارواح کو جن کا تصرف بعد گذر جانے کے اس نشہ دنیا سے باقی ہے یا بعض زندوں کو جو اُن کے زعم میں خضر کی طرح ہمیشہ زندہ رہتے ہیں قبلہ توجہ کر لیتے ہیں۔ یعنی صوفیہ اسلامیہ کی طرح اُن کی خیالی صورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسے صوفیہ اسلامیہ اپنے پیر کی صورت کا تصور کرتے ہیں اور اُس سے فیض اُٹھاتے ہیں مگر صرف اتنا فرق ہے کہ اسلامی صوقی طاہر میں کوئی تصویر شیخ کی اپنے آگے نہیں رکھتے اور یہ لوگ رکھ لیتے ہیں۔ سو اُن کی یہ صورت عبادت کفّار عرب کی بُت پرتسی سے مشابہ نہیں ہے کیونکہ کفّار عرب اپنے بتوں کو متصرف و مؤثر بالذات مانتے تھے اور اُن کو خدائے زمین سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو خدائے آسمان سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہندو لوگ جو اُن تصویروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ سجدہ بھی سجدہ عبادت نہیں بلکہ سجدہ تحیت ہے۔ اُن کی شرح میں باپ اور پیر اور اُستاد کے لئے بجائے سلام کے بھی سجدہ مرسوم اور معمول ہے۔ انتی۔
اب مرزا صاحب نے اپنے اس بیان میں جس قدر غلطیاں کی ہیں اور دھوکے کھائے ہیں اور خلاف واقعہ لکھا ہے ہم کس کس کی اطلاح کریں۔ مرزا صاحب نے صرف کسی نادان ہندو کی زبان سن کر بغیر اپنی ذاتی تحقیق کے یہ خس و خاشاک غلطیوں کا اس حظ میں بھر دیا ہے نہ معلوم کہ اُنہوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ ہندوؤں کے یہی خیالات اور عقاید ہیں یا جو اُن کے محققوں نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھے ہیں۔ کیونکہ اوّل مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وید کے چار دفتر ہیں۔ سو مرزا صاحب کی پہلی غلطی یہی ہے کہ وید کو ایک کتاب قرار دے کر اُس کے چار دفتر خیال کرتے ہیں بلکہ حق بات جس کا ثبوت امر بدیہی کی طرح حال کے زمانہ میں کھل گیا ہے کہ وید کی مجموعہ چار کتابیں ہیں جو چار مختلف زمانوں میں کئی لوگوں نے اُن کو بنایا ہے۔ چنانچہ چوتھا وید جو اتھرون سے موسوم ہے اُس کی نسبت اکثر پنڈتوں کی یہی رائے ہے کہ وہ پیچھے سے ویدوں کے ساتھ ملایا گیا ہے اور کسی برہمن نے اُس کو لکھا ہے اور اُس کے سوائے جو تین وید ہیں وہ الگ الگ کتابیں ہیں جن کو الگ الگ رشیوں نے جمع کیا ہے اور ہندوؤں کے محققوں کے نزدیک برہما کچھ چیز نہیں ہے بلکہ وید اگنی اور وایو اور سورج پر اُترے ہیں اور محقق ہندو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اَٹھارہ پُران اور شاستر وغیرہ اور اُپنشدین ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں وہ وید کے مضمون سے بہت سی مخالفت رکھتے ہیں اور بہت سے زواید اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جو وید میں نہیں ہیں۔ مثلاً یہی خیال چاروں وید برہما کے چاروں مُکھ سے نکلے ہیں۔ اس کا کوئی اصل صحیح وید میں نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہی یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خالق ہے وید کی رُو سے بڑا گناہ اور پاپ کی بات ہے بلکہ وید کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ دنیا خود بخود قدیم سے ایسی ہی چلی آتی ہے۔ جیسا پرمیشر چلا آتا ہے اور پرمیشر کے وجود سے دنیا کے وجود کو کسی قسم کا فیض نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ اگر پرمیشر کا مرنا بھی فرض کر لیا جائے تو دنیا کا اس میں کچھ بھی حرج نہیں اور ایسا ہی ہندوؤں کے محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ حشر اجساد کچھ چیز نہھیں اور وید پر عمل کرنے سے ہرگز کسی کا گناہ عفو نہیں ہو سکتا اور نہ توبہ و استغفار کچھ کام آتی ہے بلکہ ایک گناہ کے عیوض میں ہر ایک شخص کو چوراسی جون سزا میں بھگتنی پڑے گی اُن کا یہ بھی قول ہے کہ وید اخبار راضیہ اور مستقبل سے بالکل خالی ہے اور کوئی امر خوارق عادت جو نبیوں سے ظہور میں آتا ہے اس میں درج نہیں اور مکاشفات کا تو ذکر تک نہیں اور اُن کے نزدیک مکاشفات اور خوارق اور پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ از قبیل محالات ہیں جن کا وجود ہرگز ممکن نہیں اور جن لوگوں پر وید نازل ہوا وہ لوگ بکلی ان باتوں سے محروم تھے اور وید کی رُو سے ان باتوں کا ظہور میں آنا قطعی طور پر ناجائز اور غیر ممکن ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ہندوؤں کے محقق تو اپنے وید کو اخبار ماضیہ اور مستقبلہ سے بکلی عاری اور مکاشفات سے بکلی بے نصیب اور خداتعالیٰ کی خالقیت اور حشر اجساد سے بکلی انکاری قرار دیتے ہیں اور مرزا صاحب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کے ویدوںکی نسبت اُن سب چیزوں کو مانتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ بقول شخص کہ مدعی سست اور گواہ چشت کیا نالائق غلو مرزا صاحب کے بیان میں پایا جاتا ہے جس پر اگر آج کل کے محقق اطلاع پاویں تو مرزا صاحب کو ایک غایت درجہ کا سادہ لوح قرار دیں اور اُن کی باتوں پر قہقہہ مار کر ہنسیں۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب اپنے اسی مکتوب میںہندوؤں بُت پرستی سے بھی بری قرار دینا چاہتے ہیں یہ کس قدر بے خبری اور لاعلمی مرزا صاحب کی ہے کہ ہندوستان میں پرورش پا کر پھر ہندوؤں کے عقائد سے کس قدر بے خبر اور غافل ہیں۔ اُنہیں معلوم نہیں کہ ہندو لوگ تو عرب کے بُت پرستوں سے اپنے شرک میں کئی درجہ بڑھ کر ہیں کیونکہ عرب کے بُت پرست اگرچہ اپنی مرادیں بتوں سے مانگتے تھے مگراُن کا یہ قول ہر گز نہ تھا کہ دنیا کے خالق و مالک وہ وہی دیوتا ہیں جن کی تصویریں اور مورتیں پتھر یا دہانت وغیرہ سے متشکل کر کے پوجے جاتے ہیں لیکن ہندوؤں کا اصول جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ پرمیشر دنیا کا خالق نہیں ہے بلکہ اُن کے دیوتا دنیا کے خالق ہیں اور اُنہیں سے مرادیں مانگنی چاہئے اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ہندو لوگ اپنے بتوں سے مرادیں مانگنے میں بڑے سرگرم ہیں۔ مرزا صاحب نے شاید کسی تہہ خانہ میں پرورش پائی ہوگی کہ اُن کو اپنی مدت العمر تک یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ ہندو لوگ اپنے پُرانے بُت خانوں کے درشن کے لئے کس جوش و خروش میں جایا کرتے ہیں یہاں تک کہ جگناتھ وغیرہ بُت خانوں کے بڑے بڑے بتوں کے راضی اور خوش کرنے کیلئے بعض بعض ہندو اپنی زبانیں بھی کاٹ کر چڑہا دیتے ہیں اور گنگا مائی کے درشن کرنے والے جو ہر سال ہزار ہا جاتے ہیں اور پکار پکار کر مرادیں مانگتے ہیں۔ یہ بات بھی مرزا صاحب سے چھپی رہی اور اسی طرح وہ صدہا کتابیں ہندوؤں کی جنہوں نے خود اپنی بُت پرستی کا اقرار کیا ہے اور اپنے دیوتاؤں اور بتوں وغیرہ سے مرادیں مانگنے کے طریق لکھے ہیں اگر اُن میں سے کوئی کتاب مرزا صاحب کی نظر میں سے گزر جاتی تو میں خیال کرتا ہوں کہ مرزا صاحب موصوف بہت ہی شرمندہ ہوتے۔ مگر بالآخر مجھکو یہ بھی خیال آتا ہے کہ غالباً یہ مکتوب کسی اور شخص نے لکھ کر مرزا صاحب کی طرف نسبت کر دیا ہے کیونکہ یہ بات عام طور پر چلی آتی ہے کہ اکثر اہل غرض اپنی تحریروں کو بعض اکابر کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں تا اُن کی مقبولیت کی وجہ سے وہ تحریریں بِلا عذر قبول کی جائیں۔ بہرحال اب ہم اس حظ کو دعا پر ختم کرتے ہیں اور مرزا صاحب کے معتقدین کو برادرانہ نصیحت دیتے ہیں کہ وہ ایسے خیالات دور از صداقت و دیانت مرزا صاحب کی طرف منسوب نہ کریں۔
ربنا اغفرلنا ذنوبنا ولا اخواننا الذین سبقونا بالایمان وصل علی نبیک وحییک محمدٍ وآلہٖ وسلم وتوفنا فی امتواتبعنا فی امۃٍ واٰتنا ما وعدت لا امۃٍ بنا أتنا امنا فاکتبنافی عبادک المومنین ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فمن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ لمن الخاسرین۔ خاکسار
غلام احمد ۔ از قادیان ضلع گورداسپور
(بتاریخ ہشتم ماہ رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۲؍ جون ۱۸۸۵ء)
خاتمہ از مرتب
یہ مجموعہ مکتوبات احمدیہ کی پہلی جلد ہے اور یہاں ختم کی جاتی ہے لیکن میں اس کو ناتمام سمجھوں گا اگر میر عباس علی شاہ صاحب کے بعد کے واقعات اور حالات کا یہاں ذکر نہ کروں۔ میر عباس علی شاہ صاحب لودہانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کی تالیف براہین احمدیہ کے زمانہ میں ایک مخلص مددگار تھے۔ مسیح موعود کے دعویٰ کے وقت اُنہیں ابتلاء آیا اور اسی ابتلاء میں اُن کا خاتمہ ہوا۔ اُنہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بذریعہ اشتہار بھی کیا اور حضرت حجۃ اللہ نے نہایت رُفق و ملائمیت سے اُن کو جواب بھی دیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ارادہ کر لیا تھا اُن کا خاتمہ انکار پر ہوا اس معاملہ میں مَیں زیادہ کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا ہاں ناظرین کو اسی مجموعہ مکتوبات کے مکتوب نمبر۳۴ اور ۴۰ پر خصوصیت سے توجہ کرنے سے صلاح دیتا ہوں۔ وہ ان مکتوبات کو پڑھیں گے تو اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت حجۃ اللہ نے پہلے سے پیشگوئی کی تھی۔ بہرحال میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اس کے بعد کی تحریریں عباس علی شاہ صاحب کے متعلق درج کر دیتا ہوں اور اس کے بعد اور کوئی تحریر ملی یا مکتوبات ملے جو میر عباس علی ہی کے نام ہیں وہ بطور تتمہ اس جلد کے چھاپ دیئے جاویں گے (بہرحال وہ تحریریں یہ ہیں)
’’(۹) حبی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی۔ یہ میرے وہ اوّل دوست ہیں جن کے دل میں خداتعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جو سب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اختیار کی سنت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے۔ وہی یہی بزرگ ہیں میں اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا کہ بڑے سچے جوشوں کے ساتھ اُنہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہر ایک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے منہ سے ہر ایک قسم کی باتیں سنیں۔ میر صاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں اور اُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھا۔ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکلانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے اوائل ایام میں وہ بیش برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت و درویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خوان بھی ہیں لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں۔ مگر بایں ہمہ سادہ بہت ہیں۔ اسی وجہ سے بعض موسوسین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن اُن کی قوت ایمانی جلد اُن کو دفع کر دیتی ہے‘‘۔
اس کے بعد مخالفت کے اظہار پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا:۔
میر عباس علی صاحب لدہانوی
چوں بشنوی سخنِ اہل دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نہٖ دلبرا خطا اینجا است
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر مَیں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے۔ افسوس کہ وہ بعض مسوسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہو گئے۔ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اُن کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اصلحا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں۔ بِلا شُبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے پھر کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں۔ افراد نوع انسان مختلف طورکی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان، کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان۔ پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے۔ بِلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق اُن کو فطرتاً حاصل ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سرا سر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ موجب نجات اُخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے… اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔ علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کاہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی۔ زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں بھی وہ یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا۔ سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ سے خبر دے دی۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے۔ کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میری صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجزکے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کے وقت نہ صرف آپ اُنہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر اُنہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے۔ اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن دو سَو کے قریب اب بھی اُن کے ایسے خطوط موجود ہوں گے جن میں اُنہوں نے انتہائے درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر اُن کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز من جانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بنا پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اُن جہان میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسا ہی لوگوں میں بکثرت اُنہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کی بتلائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگرخدا تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں توکیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا۔ بہت سے الہامات صرف موجودہ الہامات جو حالات کے آئینہ ہوتے ہیں۔ عواقب امور سے اُن کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب ک انسان زندہ ہے اُس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جل شانہٗ کے قبضہ میں ہے۔ میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے۔ غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے۔ مآل پر ضروری طور پر اُس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے۔ بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے۔ انسان کا دل خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ سو میر صاحب کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترکِ ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق و توہین پیدا ہو گیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔ مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ میرے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فرد ماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ لکریم دعا کروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ اُن کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میری عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں۔ انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسبِ ضرورت ظاہر کیا جائے گا۔ یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہبیت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج اس کی کیا حالت ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے۔ اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو۔ استقامت میں کوئی فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا اور اگر خدا تعالیٰ کاہاتھ اُن کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی۔ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض رعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی ہوگئی تھی۔ آخر حضرت مسیح علیہ السلام سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کاتھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دَم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ آسمان کی گنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں۔ لیکن آخرمیاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر *** بھیجتا ہوں۔ میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔ میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور اصلہا ثابت کی ضمیر ثابت بھی اُس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی۔ لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا۔ میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں۔ حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لاغوینھم اجمعین۔ اور اس قدر غلوہے کہ شیخ نجدی کا استثنا بھی اُن کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ تاصالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا۔ جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اورکاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے۔ بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اُس کی جگہ بیس لائے گا۔ اور اس آیت پر غور کریں۔ فسوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکفرین۔
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میری عباس علی صاحب نے ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ سو اُن الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اُس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے۔
اوّل: یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اُس وسوسہ کے دور کرنے کیلئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں۔
دوم: یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا مَیں ایک نیچری آدمی ہوں۔ معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیا علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقاید اسلام سے منہ پھیرنے والا۔ سو ان اوہام کے دور کرنے کے لئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاداور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اُٹھائیں گے۔
سوم: یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا اُن کو رسول نمائی کی طاقت ہے۔ چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا۔ مَیں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کرا کر اس بارہ میں فیلہ کرادونگا۔ میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقفِ حال سخت متعجب ہو رہا ہے کہ اگر میر صاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے۔ تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم اُن کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذاب اور مکار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے۔ کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثری میں گرنے والا ہو۔ زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعویٰ کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے۔ اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ اُنہوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں اُن کے اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہوں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابلِ اعتبار نہیں ٹھہر سکیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے۔ حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی سے مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو۔ ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے اور شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اُس کے عرض کے تجلی دکھلا دیتا ہے۔ پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے۔ پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقّہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بع ایسے خوارق اور علامات خاصہ ہوں جن کی وجہ سے اُس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلا دیں یا بعض قضاء قدر کی نزول کی باتوں سے پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلاویں جو پہلے قلمبند اور شائع نہیں ہو چکے تو بِلاشُبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی۔ ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بیشک کافر اور دجال ہے۔ اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اُس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنا لی ہے۔ سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھاویں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچاویں کہ درحقیقت اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے اور اگر اُنہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اُس سیدھے طور سے مقابلہ کرلیں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے۔ ہمیں بالفعل اُن کی رسول بینی ہی میں کلام ہے۔ چہ جائیکہ اُن کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے۔ پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب۔ اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا۔ پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلادیں۔ قادیان میں آ جائیں مسجد موجود ہے۔ اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے۔ اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے۔ عقلمند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی۔ مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام او رمجدد کہتارہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے۔ میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا اُن پر رحم کرے۔ پیشگوئیوں کے … رہیں جو ظاہر ہوں گی۔ ازالہ اوہام کے صفحہ۸۵۵ کو دیکھیں۔ ازالہ اوہام کے صفہ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور … کریں۔ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے۔
ویسئلونک احق ھو قل ای ورلبی انہ لحق و ما انتم بمعجزین۔ زوجنا اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ کھالا مبدل اکلماتی وان یرایۃٍ بعرضواو ہم نے خود اُس سے تیرا عقد نکاح باندھ یا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کرمنہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور یقولوا سحر مستمر کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے‘‘۔
عرض حال
جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے محض فضل سے اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور میرے ہاتھ میں قلم اور سلسلہ کی قلمی خدمت کیلئے ایک جوش دیا ہے اسی وقت سے مجھے یہ دھن اور آرزو رہی ہے کہ میں اپنے سید و مولیٰ امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان تحریروں اور نوشتوں کو جمع کر کے شائع کروں جو ایسے وقت اور حال کی ہیں جب دنیا میں ایک گمنام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور میری غرض ایسی تحریروں کے جمع کرنے سے یہ تھی اور ہے کہ اس طرح پر آپ کی سوانح کے لئے ایک مواد جمع ہو جاوے چنانچہ اس جوش اور شوق کا نتیجہ تھا کہ میں نے ۱۸۹۹ء میں ’’پرانی تحریریں‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں ۱۸۸۷ء کے وہ مضامین تھے جو آپ نے برادر ہند، آفتاب پنجاب وغیرہ اخبارات میں شائع فرمائے تھے اس کے بعد میں اس سلسلہ میں ایک مبسوط مجوعہ آپ کے مکتوبات کا شائع کرتا ہوں اور یہ پہلی جلد ہے مکتوبات کی ترتیب میں مجھے بہت عرصہ تک غور کرنا پڑا کبھی بلحاظ سنین کے ترتیب کرتا اور کبھی بلحاظ مضامین۔ آخر بڑے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ رسم وار ہو جاوے تو اچھا ہے اورجہاں تک مکتوبات ایک شخص کے نام بہت ہی کم ہونگی وہاں ایک جلد متفرق مکتوبات کی مرتب کی جاوے بہرحال اس سلسلہ میں سب سے پہلی جلد میر عباس علی شاہ کے نام شائع کرتا ہوں ان مکتوبات میں حضرت حجۃ اللہ نے عجیب و غریب مسائل تصوف کی فلاسفی اور اسرار ناظرین پائیں گے اور معرفت حقیقی کا ایک مصفا چشمہ انہیں ملے گا اور … پیشگوئیاں انہیں نظر آئیں گی میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ اپنے محبوب … اس کے محبوب دوستوں تک پہنچانے کا فخر حاصل کروں اس کے بعد دوسری جگہ …… خلیفۃ المسیح کے نام کی مکتوبات کی ہوگی خدا ہی کے فضل سے امید ہے کہ وہ … ہے مکتوبات حضرت حکیم الامۃ کے نام کی میرے پاس موجود ہیں… حبیب سمجھ کر اس کی قدر کریں گے۔ واللّٰہ الحمد
احقر الناس یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم قادیان


حاشیہ جلد 1

٭ اب یہ شخص منکر خدا ہے۔ (مرتب)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ھوالذی ارسل رسولہ … ودین الحق لیظھر علی دین کلہ
حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ السلام کی پُرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر۳
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلددوم)
حضرت حجۃ اللہ علی الارض امام ربانی میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات جو آپ نے وقتاً فوقتاً ہندو، آریہ، براہمو مذہب کے لیڈروں کے نام لکھے ہیں
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم و مرتب تفسیر القرآن وغیرہ نے مرتب کیا اور محمد وزیر خان احمدی نے چھپوا کر معرفت بدر ایجنسی قادیان شائع کیا
اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں حافظ مظفرالدین صاحب مینیجر کے اہتمام سے چھپا
تعداد جلد ۱۰۰۰ قیمت فی جلد ۸؍
نظم
بکو شید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا
بہار و رونق اندر روضہ ملت شود پیدا
اگر یاراں کنوں بر غربت اسلام رحم آرید
باصحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا
نفاق و اختلاف ناشناساں از میاں خیزد
کمال اتفاق دخلت و الفت شود پیدا
بجنبید از پے کوشش کہ ازور گاہ ربّانی
زبہر ناصران دیں حق نصرت شود پیدا
اگر امروز فکر غربت دیں درشما جو شد
شمار اینز واللہ رتبت و غرت شود پیدا
اگر دست عطا اور نصرت اسلام بکشائید
ہم از بہر شما ناگہ ید قدرت شود پیدا
زبذل مال در راہش کے مفلس نمے گردد
خدا خود میشود ناصر اگر ہمت شود پیدا
دور و زعمر خود درکار دیں کو شیداے یاران
کہ آخر ساعت رحلت بصد حسرت شود پیدا
در انصار بنی بنگر کہ چوں شکار تادانی
کہ از تائید دیں سرچشمہ دولت شود پیدا
بجو از جان و دل تا خدمتے از دست توآید
بقائے جاوداں یابی گر ایں شربت شود پیدا
بمفت ایں اجر نصرت راد ہندت اے اخی ورنہ
قضاء آسمانست ایں بہرحالت شود پیدا
ہمی بینم کہ داوار قدیر و پاک مے خواہد
کہ باز آں قوت اسلام و آہ شوکت شود پیدا
کریما صد کرم کن برکسے ناصر دیں است
بلائے اوبگرداں گر گہے آفت شود پیدا
چناں خوش داراد را اے خدائے قادر مطلق
کہ درہر کاروبار حال او جنت شود پیدا
دریغ و درد قوم من ندائے من نمے شنود
زہر درمیدہم پندش مگر عبرت شود پیدا
مرا با درنمی آید کہ چشم خویش بکشایند
مگر وقتیکہ خوف و عفت و خشیت شود پیدا
مرا دجال و کذاب و بتراز کافراں فہمند
نمیدانم چرا از نور حق نفرت شود پیدا
عجب دار ید اے نا آشنایاں غافلاں از دیں
کہ از حق چشمہ حیواں دریں ظلمت شود پیدا
چرا انسان تعجب ہا کند در فکر ایں معنی
کہ خواب آلود گانرا رافع غفلت شود پیدا
فراموشت شد اے قومم احادیث نبی اللہ
کہ نزد ہر صدی یک مصلح اُمت شود پیدا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد دوم
آریوں، ہندوؤں، برہموؤں کے نام خطوط
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بجانب پنڈت دیانند سرستی (بانی آریہ سماج)
من انچہ شرط بلاع است باتو میگویم
تو خواہ از سخنم پند گیرو خواہ ملال
واضح ہو کہ اندنوں میں اس عاجز نے حق کی تائید کے لئے اور دین اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی غرض سے ایک نہایت بڑی کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ ہے۔ چنانچہ اُس میں سے تین حصے چھپ کر مشتہر ہو چکے ہیں اور حصہ چہارم عنقریت چھپنے والا ہے۔ حصہ سوم میںاس بات کا کافی ثبوت موجود ہے کہ سچا دین جس کے قبول کرنے پر نجات موقوف ہے دین اسلام ہے کیونکہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں۔
ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں۔ دوسری یہ کہ جو دنی اختیارکرنے کی علت غائی ہے یعنی نجات اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں کیونکہ جو کتاب دعویٰ کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے۔ پس انہیں دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الٰہی ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن شریف ہر ایک جزو کمال خدا کیلئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بیچون و بیچگون ہے اور ہرایک شبہ و مانند سے منزہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سے مبرا ہے۔ وہ مبداء ہے عام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہر ایک کمزوری اور ناقدرتی اور نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں۔ نہیں مشابہ اس سے کوئی چیز اور نہیں جائز کسی سے اس کا اتحاد اور حلول۔ مگر افسوس آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی ظلمت میں خوش ہو رہے ہیں۔ اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اُردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ ایک سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اس کی نسبت آپ کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدأ نہیں اور تمام ارواح یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعدادیں اور ایسا ہی تمام اجسام صغائر یعنی پر کرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہُنر گُن جو ان میں سے ہیں وہ خود بخود ہیں اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں کہ جو خدا کے بُرگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوندکریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور صداقت صرف قرآن شریف میں ہے اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب آپ کو مفت بلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ اس کوغور سے پڑھیں اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے حقول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند ۔آخر کار باخداوند۔ میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہو رہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اُٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں۔ سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتاہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں۔ آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں اُمید کہ اگر حق جوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اُردو عبارت نہ پڑھ سکیں تا ہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خداوند قادر ہے۔ صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں ہے۔
(۲۰؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
خط جو مختلف مذاہب کے لیڈروں کے نام بھیجا گیا
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت قادر مطلق جلشانہٗ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بیخبر ہیں صراطِ مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں) دکھاوے اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے جس کے ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے………………… لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی دو سَو چالیس کاپی چھپوائی گئی ہیں، معہ اشتہار انگریزی جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہیں) شائع کیا جاوے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرت مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامت سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاویں یہ ان حضرات نیچریہ یا مولوی صاحبان کو کہا جاتا ہے جو اسلام کو مانتی ہیں اور پھر وجود خوارق اور کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں۔ یہ تجویز اپنی فکر اور اجتہاد سے نہیں قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب وال جواب و مغارب ہو جاویں گے بناء علیہ پر یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں (اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدر ہیں) ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کی کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حبۃ اللہ اس خط کے مضمون کی طرف سے توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گی اگر اپنی اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہوگی اور اس کارروائی کے (کہ آپ کو خط رجسٹری شدہ ملا اور پھر آپ نے اُس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب براہین احمدیہ میں پوری تفصیل سے بحث کی جاوے گی اور اصل مدعا خط جس کی ابلاغ کیلئے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے اس دین کی حقانیت اور قرآن شریف کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں کی (خوارق و پیشگوئیوں) شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ) کے صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کو بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط و نیت سے (جو طالب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اِسی جگہ قادیان میں مشرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جاویں گے۔ اس شرط و نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کرے گی۔ اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں۔ اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال تک رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سَو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو حرجانہ یا جرمانہ دیا جاوے گا۔ اس دو سَو روپیہ ماہوارہ کو آپ اپنی شایان شان نہ سمجھیں یا تو اپنی حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے۔ طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی نہیں۔ اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق) میں توقف نہ فرماویں آپ اپنی شرط اظہار اسلام (تصدیق خوارق) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کومتعدد انگریزی اُردو اخباروں میں شائع کیا جاوے گا ہم سے اپنی شرط دو سَو روپیہ ماہور حرجانہ یا جو آپ پسند کریں اور ہم اُس کی ادائی کی طاقت بھی رکھیں۔عدالت میں رجسٹری کرائیں بالآخر یہ عاجز حضرت خداوندکریم جلشانہ کا شکریہ ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر اُن کی اشاعت کیلئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی۔ اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی فقط
راقم خاکسار غلام احمدی قادیانی
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
خط بنا اِندر من مراد آبادی
اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا آخر یہ خط شائع کیا گیا۔
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کامنشی صاحبکے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے۔ وہ یہ ہے۔
مشفقی اِندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰ ؍ مئی ۱۸۸۵ء)
اکبر آباد آریہ سماج کے ایک ممبر رام چرن نامی کے نام
(ایک سوال کا جواب جو بذریعہ اخبار عام مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۵ء میں دیا گیا۔ ایڈیٹر)
آج ایک سوال از طرف رام چرن نامی جو آریہ سماج اکبر آباد کے ممبروں میں سے ہے میری نظر سے گزرا سو اگر چہ لغو اور بے حقیقت سوالات کی طرف متوجہ ہونا ناحق اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے لیکن ایک دوست کے الحاح اور اصرار سے لکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا گیا اُس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں۔ ایسا سوال اُن لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معارف میں نظر نہیں کی یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز نکتہ چینیوں کی اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی۔ اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بکلی بیگانہ اور معارف ربانی سے سراسر اجنبی ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کو بہانے اور ورغلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خداوند کریم جلشانہٗ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کی مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اُس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر ہر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتی ہیں۔ دوسری داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا ہے کہ اُس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سو خدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عنایت کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے تا انسان اُس کی رغبت دہی سے احتراز کر کے اُس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی خیر و داعی شر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں۔ بہت صاف اور روشن ہے کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اُس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اُٹھتے ہیں اور کبھی اُس کی حالت ایسی پُرظلمت اور مکدر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بدخیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونو داعی ہیں جن کو ملائک اور شیاطین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حکمائے فلسفہ نے انہیں دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسری طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی اُس کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے۔
دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود یہ پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلاسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر دو وجود قرار دیتے ہیں اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں خواہ وہ محرک خارجی طور پر کوئی وجود رکھتے ہوں یا قوتوں کے نام سے اُن کو موسوم کیا جاوے یہ ایسا اجماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پراتفاق رکھتے ہیں اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بہ کمال کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور کیونکر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں سو یہ ایک ایسی روشنی اور کھلی کھلی صداقت ہے جو ذوالعقول اس سے منکر نہیں ہو سکتی ہاں جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے اپنے نفس کے حالات کی طرف توجہ نہیں کی ان کے دلوں میں اگر ایسے ایسے پوچ وساوس اُٹھیں تو کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بباعث نہایت درجہ کی غفلت اور کور باطنی کے قانون قدرت الٰہی سے بکلی بے خبر اور انسانی خواص اور کیفیات سے سراسر ناواقف ہیں اور اُن کے اس جہل مرکب کا بھی یہی علاج ہے کہ وہ ہمارے اس بیان کو غور سے پڑھیں تا کہ اُن کو کچھ ندامت حاصل ہو کہ کس قدر تعصب نے اُن کو مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود انسان کہلانے کے جو انسانیت کی عقل ہے اس سے بالکل خالی اور تہی دست ہیں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی صداقتوں سے انکار کر رہے ہیں جن کو ایک دس برس کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے پھر بھی سائل اپنے سوال کے اخیر میں یہ شُبہ پیش کرتا ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تسلی دی تھی کہ شیطان تجھ کو بہکا نہیں سکے گا لیکن اُسی قرآن میں لکھا ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا یہ وسوسہ قلبی بھی سراسر قلت فہم اور کور باطنی کی وجہ سے سائل کے دل میں پیدا ہوا کیونکہ قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شیطان آدم کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا قصد نہیں گرے گا یا آدم اس کے بہکانے میں کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں قرآن شریف میں ایسی آیتیں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے بہکانے سے ایسے وبال میں نہیں پڑتے جس سے اِن کا انجام بدہو بلکہ حضرت خداوندکریم جلشانہٗ جلد تر اُن کا تدارک فرماتا ہے اور اپنے ظل حفاظت میں لے لیتا ہے سو ایسا ہی آدم کے حق میں اُس نے کہا کہ آدم صفی اللہ خلیفۃ اللہ ہے اس کاانجام ہرگز بد نہیں ہوگا اور خدا کے محبوب بندوں میں رہے گا۔ چنانچہ یہ امر ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے آخر میں بھی آدم کوایسا ہی چن لیا جیسا کہ پہلے برگزیدہ تھا۔ غرض یہ اعتراض معترض بھی سراسر تعصب اور جہالت پر مبنی ہے نہ عقلمندی اور انصاف پر۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ فقط
دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتاب
الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے۔ غرض یہ ایک منجاب اللہ اعلام لذیر ہے کہ جس کو نفس فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔
دلیل لمی نمبر اوّل الہام کی ضرورت
کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگاریں چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا یا جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا جنہوں نے صرف قانون قدرت میں غور اور فکر کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہو۔
اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازردے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا اِستقرا غیر صحیح ہے تو آپ بفرض بطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہود خطا سے بالکل معصوم ہوتا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے۔ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکہ آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کی سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء)
مکرمی جناب مرزا صاحب! عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے الہام کی تعریف اور اس کی ضرورت کے بارے میں جو کچھ لکھاہے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کر سکتا ہوں میرے اتفاق نہ کرنے کی جو جو وجوہات ہیں اُنہیں ذیل میں رقم کرتا ہوں۔
اوّل: آپ کی اس دلیل میں (جس کو آپ لمی قرار دیتے ہیں) علاوہ اس خیال کے کہ وہ الہام کے لئے جس کو آپ معلول تصور کرتے ہیں علت ہوسکتی ہے یا نہیں ایک صریحاً غلطی ایسی پائی جاتی ہے کہ وہ واقعات کے خلاف ہے۔ مثلاً آپ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں اور یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرے کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صد ہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے‘‘۔ اس سے کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ انسان نے اپنی تحقیقات میں ہزاروں برس سے آج تک جو کچھ مغز زنی کی ہے اور اس میں ہاتھ پیر مارے ہیں اُس میں بجز باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتوں کے کوئی صحیح خیال اور کوئی راست اور حق امر باقی نہیں چھوڑا گیا ہے؟ یا اب جو محقق نیچر کی تحقیقات میں مصروف ہیں وہ صرف ’’نادانی کے ذخیرہ کو زیادہ کرتے ہیں اور حق امر پر پہنچنے سے قطعی مجبور ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب نفی میں نہ دیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ سینکڑوں علوم اور اُن کے متعلق ہزاروں باتوں کی راست اور صحیح معلومات سے دنیا کی ہر ایک قوم کم و بیش مستفید ہو رہی ہے صریحاً انکار کرتے ہیں۔ مگر میں یقین کرتا ہوں کہ شاید آپ کا یہ مطلب نہ ہوگا اور اس بیان سے غالباً آپ کی یہ مراد ہوگی کہ انسان سے اپنی تحقیقات اور معلومات میں سہو اور خطا کا ہونا ممکن ہے۔ مگر یہ نہیں کہ نیچر نے انسان کو فی ذاتہٖ ایسا بنایا ہے کہ جس سے وہ کوئی معلومات صحت کے ساتھ حاصل ہی نہیں کر سکتا؟ کیونکہ ایسے اشخاص آپ نے خود یکھے اور سنے ہونگے اور نیز تاریخ میں ایسے لوگوں کا ذکر پڑھا ہوگا کہ جو اپنی ’’تمام نظر اور فکر میں‘‘ اگرچہ آپ کے نزدیک سہو اور خطا سے معصوم نہ ہوں مگر بہت سی باتوں میں اُن کی معلومات قطعی راست اور درست ثابت ہوئی ہے اور صدہا امور کی تحقیقات جو پچھلے اور حال کے زمانہ میں وقوع میں آئی ہے اس میں غلطی کا نکلنا قطعی غیر ممکن ہے اور اس بیان کی تصدیق آپ علوم طبعی ریاضی اور اخلاقی وغیرہ کے متعلق صدہا معلومات میں بخوبی کر سکتے ہیں۔ کُل معلومات جو انسان آج تک حاصل کر چکا ہے اور نیز آئندہ حاصل کرے گا اس کے حصول کا کُل سامان ہر فرد بشر میں نیچر نے مہیا کر دیا ہے۔ اس اس سامان کو انسان فرداً فرداً اور نیز بہ ہئیت مجموعی جس قدر اپنی محنت اور جانفشانی سے روز بروز زیادہ سے زیادہ نفیس اور طاقتور بنانے کے ساتھ ترقی کی صورت میں لاتا جاتا ہے اور جس قدر اس کے مناسب استعمال کی تمیز پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ نیچرکی تحقیقات میں زیادہ سے زیادہ تر صحت کے ساتھ اپنی معلومات کے حصول میں کامیاب ہوتا جاتا ہے۔
اس مختصر بیان سے میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس بات کے تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گے کہ انسان سے اپنی تحقیقات میں اگرچہ غلطی کرنا ناممکنات سے ہے مگر یہ نہیں کہ ہر ایک معلومات میں اس کے غلطی موجود ہے بلکہ بہت کچھ معلومات اس کی صحیح ہیں اور ظاہر ہے کہ جن معلومات میں اس کی غلطی موجود نہیں ہے وہ جس قاعدہ یا طریق کے برتاؤ کے ساتھ ظہور میں آئی ہے وہ بھی غلطی سے مبرا تھا کیونکہ غلط قاعدہ کے عملدرآمد سے کبھی کوئی صحیح نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے پس جو معلومات اس کی صحیح ہے اس میں اسے حقیقت کے حصول کے لئے جو سامان نیچر نے اُسے عطا کیا تھا اس کا صحیح اور مناسب استعمال ظہور میں آیا مگر جہاں اس نے اپنی معلومات میں غلطی کھائی ہے وہاں اس کی مناسب نگہداشت نہیں ہوئی گویا ایک شخص جس کے پاس دور بین موجود ہے اور اُس کی نلی بھی وہ کھولنا جانتا ہے مگر ٹھیک فوکس نہ پیدا کرنے کے باعث جس طرح مقابل کی شَے کو یا تو دیکھنے سے محروم رہتا ہے یا بشرط دیکھنے کے صاف اور اصل حالت میں نہیں دیکھ سکتا ہے۔ ایک شخص اسی طرح اپنی تحقیقات میں حسبِ مذکورہ بالا نیچری سامان کی دوربین کھولتے وقت مناسب درجہ کے فوکس میں قائم کرنے سے رہ جاتا ہے تو وہ یا تو حقیقت کی تصویر کے دیکھنے سے اسی محروم ہو جاتا ہے یا وہ تصویر جیسی ہے ویسی نہیں دیکھ٭ سکتا مگر جو شخص برخلاف اس شخص کے صحیح فوکس کے پیدا کرنے کے قابل ہوتا ہے وہ پہلے شخص کی غلطی کو دریافت کر لیتا ہے اور حق الامر کو پہنچ جاتا ہے۔
اب اس بیان سے (کہ جو نہایت سیدھا اور صاف ہے) یہ بخوبی ثابت ہے کہ اوّل تو انسان بعض صورتوں میں اپنے نیچری سامان کے مناسب استعمال کے ساتھ پہلے ہی حق امر کو دریافت کر
٭ دنیا میں جیسے ہاتھ پیر اور صحت بدنی رکھتے ہوئے بھی ہزاروں اور لاکھوں اشخاص بلامشقت سستی اور کاہلی کے ساتھ ہی شکم پوری کرنے کو مستعد رہتے ہیں ویسے ہی معلومات کے متعلق بھی لاکھوں اور کروڑوں اشخاص باوجود تحقیقات کیلئے نیچری سامان سے مشرف ہونے کے پھر اپنے دماغ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں اور جن باتوں کی اصلیت کو اپنے تھوڑے سے فکر سے بھی معلوم کر سکتے ہیں ان کے لئے بھی خود تکلیف اُٹھانا نہیں چاہتے ہیں اور محض اندھوں کی طرح ایک ہی تقلید کے ساتھ مطلب براری کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج تک ایک کی غلطی لاکھوں کروڑوں روحوں پر مؤثر دیکھی جاتی ہے۔
لیتا ہے۔ دوم بشرط مناسب استعمال میں نہ لانے یا نہ لا سکنے کی اگر غلطی کھاتاہے تو کوئی دوسرا جسے اس کے ٹھیک استعمال کا موقع مل جاتا ہے وہ اس غلطی کو رفع کر دیتا ہے چنانچہ انسانی معلومات کی کل تاریخ اس قسم کے دلچسپ سلسلہ سے پُر ہے اور اس سلسلہ میں جو ہزاروں برس کاتجربہ ظاہر کرتا ہے کسی محقق کے لئے اس نتیجہ پر پہنچنا بہت دشوار نہیں رہتا ہے کہ انسان فی ذاتہٖ تمام ضروری اعضاء جسمانی اور قواعد دماغی و اختلافی سے مشرف ہو کر اس دنیا میں (جو اس کے تمام نیچر کے حسب حال اور باہمی ربط و علاقہ کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے) آپ اپنا راستہ ڈھونڈھے اور خو داپنی جسمانی روحانی بھلائی اور بہتری کے وسائل کا علم حاصل کرے اور فائدہ اُٹھائے۔
پس اس قانون قدرت کو پس انداز کر کے یا حکیم حقیقی کی دانائی کے خلاف اگر ہم ایک فرضی دلیل قائم کریں کہ چونکہ انسان کو اپنے چاروں طرف دیکھنا ضروریات سے ہے اور دیکھنے کیلئے جو دو آنکھیں اس کے چہرے پر قائم کی گئی ہیں وہ جس وقت سامنے کی اشیاء کے دیکھنے میں مصروف ہوتی ہیں اُس وقت پیچھے سے اپس کے اگر اُس کی ہلاکت کا سامان کیا گیا ہوتو وہ بشرط آگے کی دو ہی آنکھوں کے ہونے کے ضرور ہے کہ پیچھے کے حال کے دیکھنے سے محروم رہے۔ پس ممکن نہ تھا کہ خدا جو رحیم اور کریم اور حکیم ہے وہ اسے سر کے پیچھے کی طرف بھی دو آنکھیں ایسی عطا نہ کرتا کہ جس سے وہ مذکورہ بالا خطرہ سے نجات پانے کی تدبیر کر سکتا۔ پس جب کہ سر کے پیچھے کی طرف دو آنکھیں ہونے کی ضرورت ہے لہٰذا لازم ہوا کہ خدا اپنے بندوں کی مزید حفاظت کی غرض سے ایسی آنکھیں عطا کرے یا اسی قسم کی ایک اور دلیل ہم یہ قائم کریں کہ چونکہ انسان کی عقل خطا کرتی ہے اور اسے یہ علم بھی آج تک حاصل نہیں ہے کہ بمبئی سے جس جہاز پر وہ ولایت کو روانہ ہوتا ہے اس کی روانگی کی تاریخ سے ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ بعد جو خطرناک طوفان سمندر میں آنے والا ہے اور جس میں اس کا جہاز غرق ہونے کو ہے اسے پہلے سے جان سکے۔ پس جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے اپنے تئیں طوفان کے مہلک اور خوفناک اثر سے محفوظ کر سکتا ہے اور وہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے نج کے پیغام کے فوراً اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر اپنی جان کو ہلاکت کے طوفان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پس مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ ہم کو طوفان کے آنے کی اس قدر عرصہ سے پہلے خبر دیتا رہے کہ جس سے ہمیں اپنے اور اپنے جہاز کے بچانے کا موقع مل سکے۔
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت کے سمجھنے کا کافی ملکہ رکھتے ہیں اور منطق کے اصول کا بخوبی علم رکھتے ہیں وہ ہماری ان دونوں دلیلوں کو قطعی لنگڑی اور بے بنیاد خیال کریں گے کیوں؟ اس لئے کہ اوّل دونوں دلیلوں میں ’’ضرورت‘‘ کا جو کچھ قیاس قائم کیا گیا ہے جسے ہم نے اپنے نتیجہ کی علت قرار دیا ہے وہ محض ہمارا ایک وہمی اور فرضی قیاس ہے قوانین نیچر سے اُس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ ہم اُلٹا قوانین نیچر کو پس انداز کر کے خدا کی خود دانائی پر حاشیہ چڑھاتے ہیں۔ دوم چونکہ ہماری علت فرضی ہوتی ہے پس اس سے جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرض ہوتا ہے اور واقعات نیچر خود اُس کی تردید کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسی پہلی مثال کے متعلق ہمارا نتیجہ واقعات کے خلاف ہے اور درحقیقت انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں اور زائد قائم نہیں کی گئیں میں دوسری مثال میں بھی ویسے ہی باوجود اس کے کہ سینکڑوں جہاز آج تک سمندر میں غرق ہو چکے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں جانیں اُن کے ساتھ ضائع ہو چکی ہیں مگر آج تک خدا نے کسی جہاز والے کے پاس کوئی نج کا پیغام اس قسم کا نہیں بھیجا جس کا دوسری مثال میں ذکر ہوا ہے پس دونوں صورتوں میں ہماری ’’ضرورت‘‘ کا قیاس خدا کی دانائی یا قوانین قدرت کے موافق نہ تھا اس لئے اس کا نتیجہ بھی خدا کی حکمت کے خلاف ہونے کے باعث نیچر کے واقعات سے تصدیق نہ پا سکا اور محض فرضی ثابت ہوا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے الہام کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ بجسنہ ہماری دونوں دلیوں کے متشابہ ہے۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی٭ سے بچ سکتے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو اور خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کسی طرح آفات شک و شبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ متقضائے حکمت اور رحمت بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے
٭ کل حالتوں میں انسان اپنے علم اور واقفیت‘‘ میں غلطی نہیں کرتا۔ ایڈیٹر برادر ہند
میں خدا کی طرف سے الہام پاویں‘‘۔
پس جس صورت میں آپ کی اس دلیل میں بھی ’’ضرورت‘‘ کا قیاس مثل ہماری دونوں دلیلوں کے ہے اور قوانین نیچر اس کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ایسا قیاس بجز فرضی اور وہمی ہونے کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہم خود تو بات بات میں ایسے سینکڑوں ضرورتیں قائم کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خدا کی حکمت بھی ہماری فرضی ضرورتوں کو تسلیم کرتی ہے۔ یا نہیں؟ محققوں کے نزدیک وہی ’’ضرورت‘‘ ’’ضرورت‘‘ ہو سکتی ہے جس کو نیچر یا خدا کی حکمت نے قائم کیا ہو جیسے ہماری بھوک کے دفعیہ کیلئے غذا اور سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہماری فرضی نہیں بلکہ نیچری ہے اور اسی لئے اُس کا ذخیرہ بھی انسان کی زندگی کے لئے اُس نے فراہم کر دیا ہے۔ مگر جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلم نہیں ہے اور اُسے خود ہم اپنے وہم سے قائم کرتے ہیں وہ ایک طرف جس طور پر محض فرضی ہوتی ہے دوسری طرف اُسی طور پر اُسے علت ٹھہرا کر جو نتیجہ قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہونے کے باعث واقعات کے ساتھ مطابق نہیں ہوتا ہے اور یہ صورت ہم نے اپنے مثالوں میں بخوبی ظاہر کر دی ہے۔
دوم اس بات کی نسبت کہ آپ نے الہام کی تعریف میں جوکچھ عبارت رقم کی ہے اُس کا آپ کی دلیل سے کہاں تک ربط ہے۔ اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جس حالت میں آپ نے اپنے الہام کی کل بنیاد ’’ضرورت‘‘ پر قائم کی ہے درحقیقت وہ ضرورت جب کہ خود بے بنیاد ہے یعنی نیچر کے نزدیک وہ ضرورت قابل تسلیم نہیں ہے تو پھر اگر یہ بھی مانا جاوے کہ جو عمارت آپ نے کسی اپنی بنیاد پر کھڑی کی ہے وہ اچھے مصالحہ کے ساتھ بھی تعمیر کی ہے تا ہم وہ بے بنیاد ہونے کے باعث بجزوہم کے اور کہیں نہیں ٹھہر سکتی اور جیسے اس کی بنیاد فرضی ہے ویسے ہی وہ بھی آخر کار فرضی رہتی ہے۔
الہام کے اس غلط عقیدہ کے باعث دنیا میں لوگوں کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اور جس قدر خرابیاں برپا ہوئی ہیں اور انسانی ترقی کو جس قدر روک پہنچی ہے اس کے ذکر کرنے کو اگرچہ میرا دل چاہتا ہے مگر چونکہ امر متناقصہ سے اُس کا اس وقت کچھ علاقہ نہیں ہے اس لئے اس کابیان یہاں پر ملتوی رکھتا ہوں۔
لاہور۔ ۳؍ جون ۱۸۷۹ء
آپ کا نیاز مند
شیونرائن۔ اگنی ہوتری
مکرمی جناب پنڈت صاحب
آپ کا عنایت نامہ عین انتظار کے وقت پہنچا۔ کمال افسوس سے لکھتا ہوں جو آپ کوتکلیف بھی ہوئی اور مجھ کوجواب بھی صحیح صحیح نہ ملا۔ میرے سوال کا تو یہ ماحصل تھا کہ جب کہ ہماری نجات (کہ جس کے وسائل کا تلاش کرنا آپ کے نزدیک بھی ضروری ہے) عقائد حقہ اور اخلاق صحیحہ اورعمال حسنہ کے دریافت کرنے پر موقوف ہے کہ جن میں وہ امور باطلہ کی ہرگز آمیزش نہ ہو تو اس صورت میں ہم بجز اس کے کہ ہمارے علوم دینیہ اور معارف شرعیہ ایسے طریق محفوظ سے لئے گئے ہوں جو دخل مفاسد اور منکرات سے بکلی معصوم ہو اور کسی طریق سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس کے جواب میں اگر آپ وضع استقامت پر چلتے اور داب مناظرہ کو مرعی رکھتے تو از روئے حصر عقلی کے جواب آپ کا (اور حالت انکار) صرف تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں محصور ہوتا ہے۔
اوّل یہ کہ آپ سرے سے نجات کا ہی انکار کرتے اور اس کے وسائل کو مفقود الوجود اور ممتنع الحصول ٹھہراتے اور اس کی ضرورت کو چار آنکھوں کی ضرورت کی طرح صرف ایک طبع خام سمجھتے۔
دوم یہ کہ نجات کے قائم ہوتے لیکن اُس کے حصول کے لئے عقائد اور اعمال کا ہر ایک کذب اور فساد سے پاک ہونا ضروری جانتے ہیں بلکہ محض باطل یاامور مخلوطہ حق اور باطل کو بھی موجب نجات کا قرار دیتے۔
سوم یہ کہ حصول نجات کو صرف حق محض سے ہی (جو امتزاج باطل سے بکلی منزہ ہو) مشروط رکھتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ طریقہ مجوزہ عقل کا حق محض ہی ہے اور اس صورت میں لازم تھا کہ بغرض اثبات اپنے اس دعویٰ کے ہمارے قیاس استقرائی کو (جو حجت کی اقسام ثلثہ میں سے تیسری قسم ہے جس کو مضمون سابق میں پیش کر چکے ہیں) کوئی نظیر معصوم عن الخطاء ہونے کسی عاقل کے پیش کر کے اور اس کے علوم نظریہ عقلیہ میں سے کوئی تصنیف دکھلا کر توڑ دیتے پھر اگر حقیقت میں ہمارا قیاس استقرائی ٹوٹ جاتا اور ہم اُس تصنیف کی کوئی غلطی نکالنے سے عاجز رہ جاتے تو آپ کی ہم پر خاصی ڈگری ہو جاتی مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہ کیا ہزاروں مصنفوں کا ذکر تو کیا مگر نام ایک کابھی نہ لیا اور نہ اس کی کسی عقلی نظیری تصنیف کا کچھ حوالہ دیا۔ اب اس تکلیف دہی سے میری غرض یہ ہے کہ اگر الہام کی حقیقت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث کے شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کوتوڑیں اور جیسا میں عرض کر چکا ہوں اس حیلہ انگیزی کے لئے آپ کے پاس صرف تین ہی طریق ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے میں آپ قانونًا مجاز ہیں اور یہ بات خاطر مبارک پر واضح رہے کہ ہم کو اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے۔ تعصب اور نفسانیت جو سفہا کا طریقہ ہے کہ ہرگز مرکوز خاطر نہیں میں دلی محبت سے دوستانہ یہ بحث آپ سے کرتا ہوں اور دوستانہ راست طبعی کے جواب کا منتظر ہوں۔
راقم آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۵؍جون ۱۸۷۹ء





مکرمی جناب مرزا صاحب
آپ کا عنایت نامہ مرقومہ پانچویں ماہ حال مجھے ملا۔ نہایت افسوس ہے کہ میں نے آپ کے الہام کے بارے میں جو کچھ بطور جواب لکھا تھا اس سے آپ تشفی حاصل نہ کر سکے۔ میرا افسوس اور بھی زیادہ بڑھتا جاتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے جواب کے عدم تسلیم کی نسبت کوئی صاف اور معقول وجہ بھی تحریر نہیں فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کے پڑھنے اور سمجھنے میں غور اور فکر کر دخل نہیں دیا۔
پھر آپ کے اس عنایت نامہ میں ایک اور لطف یہ موجود ہے کہ آپ ایک جگہ پر قائم رہتے معلوم نہیں ہوتے۔ پہلے آپ نے الہام کی ضرورت اس دلیل کے ساتھ قائم کی کہ چونکہ انسان کی عقل حقیقت کے معلوم کرنے میں عاجز ہے اور وہ اپنی تحقیقات میں خطا کرتی ہے پس ضرور ہے کہ انسان خدا کی طرف سے الہام پاوے۔ میں نے جب آپ کی اس ضرورت کو فرض ثابت کر دیا اور دکھلا دیا کہ خدا کی حکمت اس ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو آپ نے پہلے مقام کو چھوڑ کر اب دوسری طرف کا راستہ لیا اور بجائے ہماری تحریر کے تسلیم کرنے یا بشرط اعتراض کسی معقول حجت کے پیش کرنے کے اب اُس سلسلہ کو نجات کے مسئلہ کو لے بیٹھے اور اب اس نئے قضیہ کے ساتھ ایک نئی بحث کے اصولوں کو قائم کرنے لگے۔ پھر اس پر ایک طرفہ یہ کہ آپ اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ
’’اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو اب از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا بھی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کو توڑدیں‘‘۔
گویا یک نہ شُد دو شُد آپ نے ضرورت الہام پر جو حجت قائم کی تھی وہ تو جناب من میں ایک دفعہ توڑ چکا اور اُس فرضی ضرورت پر جو عمارت الہام کی آپ نے قائم کی تھی اسے بے بنیاد ٹھہرا چکا مگر افسوس ہے ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث اُس کی تصویر ہنوز آپ کی نظروں میں سمائی ہوئی ہے اور وہ عادت باوجود اس کے کہ آپ کو ’’اس بحث میں صرف اظہار حق منظور ہے‘‘ مگر پھر آپ کو حقیتق کے پاس پہنچنے میں سَد راہ ہے۔ تحقیق حق اُس وقت تک اپنا قدم نہیں جما سکتی ہے جب تک کہ ایک خیال جو عادت میں داخل ہو گیا ہے اُس کو ایک دوسر ی عادت کے ساتھ جدا کرنے کی مشق حاصل نہ کی جائے کسی عیسائی کا ایک چھوٹا سا لڑکا بھی گنگا کے پانی کو صرف دریا کا پانی سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ گنگا سے نجات وغیرہ کا خیال اس سے متعلق نہیں کرتا۔ مگرایک پُرانے خیال کے معتقد بڈھے ہندو کے نزدیک اس پانی میںایک غوطہ مارنے سے انسان کے کُل گناہ دفع ہو جاتے ہیں۔
ایک عیسائی کے نزدیک خدا کی تثلیث برحق ہے مگر ایک مسلمان یا براہمو کے نزدیک وہ بالکل لغو ہے۔ اگر کسی ایسے ہندو یا عیسائی سے بحث کر کے اس کے خیال کی لغویت کو ظاہر بھی کر دو( کہ جس کا ظاہر کرنا کچھ مشکل بات نہیں) مگر وہ اس کی لغویت کو تسلیم نہیں کرتا ہے حتی کہ جب جواب سے عاجز آتا ہے تو یہ کہہ کر کہ ’’گو میں ٹھیک جواب نہیں دے سکتا ہوں مگر میں اُس کا قائل ہوں اور دل سے اُسے ٹھیک جانتا ہوں‘‘۔ یہ دل کی گواہی اس کی وہی عادت ہے کہ جوحکماء کے نزدیک طبیعت ثانی کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ پس جس الہام کے آپ قائل ہیں اُس کی بھی وہی کیفیت ہے۔ آپ کے نزدیک ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث وہ خیال ایسا پختہ اور صحیح ہو گیا ہے کہ آپ اس کے مخالف ہماری مضبوط سے مضبوط دلیل بھی قابل اطمینان نہیں پاتے ہیں اور جب ایک طرف سے اپنی دلیل کو کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری طر ف بدل کر چل دیتے ہیں۔ اس طور پر فیصلہ ہونا محال ہے۔ آج تک کسی سے ہوا بھی نہیںاور نہ آئندہ ہونے کی اُمید ہے۔ آپ مجھ سے اُن مصنفوں کے نام طلب کرتے ہیں جن کی تصنیف یا تحقیقات میں غلطی نہیں ہے حالانکہ جن علوم کا میں نے ذکر کیاتھا اُس کے جاننے والوں کے نزدیک اِن کی تصنیف کی کیفیت پوشیدہ نہیں ہے کیا آپ نے علم ریاضی کی تصنیفات خود ملاحظہ نہیں کی ہیں؟ کیا علم طبیعات کی کتب آپ کی نظر سے نہیں گزری ہیں؟ بیشک جدید تصنیفات جو انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ نہیں ہوئیں شاید اُن کی کیفیت آپ سے پوشیدہ ہو مگر بعض یونانیوں کی تصنیف مثل اقلیدس کے علم ہندسہ وغیرہ سے غالباً آپ واقفیت رکھتے ہونگے اور ظاہر ہے کہ علم ہندسہ کے راست اور صحیح ہونے میں آج تک دنیا میں کسی عالم کو خواہ (وہ الہام کا مقر ہو یا منکر خدا پرست ہو یا دہریہ) کلام نہیں ہے۔ اگر آپ کی رائے میں وہ درست نہ ہو تو آپ براہ مہربانی مجھ کو اس کی غلطیوں سے مطلع فرمائیں۔
پھر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے مضمون کے جواب دینے میں داب مناظرہ کو مرعی نہیں رکھا۔ اس کے جواب میں میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت میری اور آپ کی کل تحریریں رسالہ برادر ہند میں مشتہر ہو جاویں گی اُس وقت انصاف پسند ناظرین خود ہی تصیفہ کر لیں گے۔ آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے یا غیر صحیح۔
اگر آپ لکھیں تو اگلے مہینہ کے رسالہ سی اس بحث کو مشتہر کرنا شروع کر دوں۔
لاہور ۱۲؍ جون ۱۸۷۹ء
آپ کا نیاز مند
شیونارائن۔ اگنی ہو تری








مکرمی جناب پنڈت صاحب
آپ کا مہربانی نامہ عین اُس وقت میں پہنچا کہ جب میںبعض ضروری مقدمات کے لئے امرتسر کی طرف جانے کو تھا چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آ جاؤں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہونگے۔ مگر میری صلاح یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندراج پاویں مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل گرامی صاحب تالیف و تصنیف کا براہم سماج کے فضلاء میں سے منتخب کر کے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو اور ایک انگریز کہ جس کی قوم کی زیرکی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کروں گا اور میں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشب چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں اُن کے ساتھ ایک انگریز دیجئے۔ مگر مصنفوں کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ صرف اتناہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بحال رکھنا ہوگا۔ دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں اور اُن پر دونوں منصفوں کی مفصل رائے درج ہو اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ دقت ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرتسر سے واپس آ کر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیج دوں تو آپ بھی اُس پر کچھ مختصر تحریر کر کے تینوں تحریریں یکدفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروںکے اخیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر اپنا اپنا موجہ رائے تحریر فرمائیں اور پھر دو جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں بھیجی جائیں آئندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں اور جلد اطلاع بخشیں اور میں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط لکھ ڈالا ہے کمی بیشی الفاظ سے معاف فرمائیں۔ راقم
آپ کا نیاز مند
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ جون ۱۸۷۹ء
نوٹ: ابھی تک مجھے پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کے متعلق اسی قدر خطوط ملے ہیں۔ اس آخری خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی مفصل خط لکھا ہے اگر اس کتاب کے طبع ہوجانے تک مجھے وہ خط بھی میسر آ گیا تو انشاء اللہ العزیز اسی کتاب میں درج ہو جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔ خاکسار۔ یعقوب علی تراب۔ احمدی







پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کشتہ اعجاز مسیحائی کے نام
پنڈت لیکھرام صاحب آریہ مسافر کا نام مشہور ہے یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی قضا و قدر کے متعلق نشان مانگا تھا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کو اطلاع دی اور ایک پیشگوئی اس کے متعلق شائع کی گئی کہ سال کے اندر وہ ایک خارق عادت عذاب سے ہلاک ہوگا۔ عذاب کی نوعیت بھی اشتہار مذکور میں ظاہر کی گئی تھی جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے۔
الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ براّن محمد
فرمودہ الٰہی موافق ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اس پیشگوئی کی تفصیل اور تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں درج ہے یہاں مجھے اس کی مزید تصریح کی ضرورت نہیں۔ صرف اس مقصد کے لئے یہ نوٹ لکھ دیا ہے کہ تا کہ پڑھنے والوں کو ایک سرسری علم پنڈت لیکھرام صاحب کشتہ اعجاز مسیحائی کے متعلق ہو جاوے وہ اشتہار جو حضرت مسیح موعود نے مختلف لیڈران مذاہب کے نام بغرض مقابلہ روحانی دیا تھا جس کے لئے پنڈت اندرمن مراد آبادی نے آمادگی ظاہر کی تھی اور بالآخر جب روپیہ اس کے پاس بھیجا گیا تو وہ لاہور سے بھاگ گئے اسی اشتہار کے سلسلہ میں پنڈت لیکھرام صاحب نے بھی نشان بینی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور خط و کتابت شروع کی چنانچہ اس سلسلہ میں جو خطوط مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام صاحب کو لکھے وہ انشاء اللہ العزیز ذیل میں درج ہونگے۔ یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ ان خطوط کے اندراج میں کسی خاص ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ بلکہ صرف جمع کر دینا زیر نظر ہے۔
(یعقوب علی عفی اللہ عنہ)


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از عاید باللہ الصمد مرزا غلام احمد بطرف پنڈت صاحب۔ بعد ماوجب۔ آپ کا خط ملا آپ لکھتے ہیں کہ خط مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہوری مطالعہ سے گزرا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک یہ خط آپ نے مطالعہ نہیں کیا کیونکہ تحریر آپ کی شرائط مندرجہ خط مذکورہ بالا سے بکلی برعکس ہے۔ اوّل اس عاجز نے اپنے خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ٹھہرائے ہیں کہ جو اپنی قوم میں معزز علماء اور مشہور اور مقتدا ہیں جن کاہدایت پاناایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتدا و پیشوائے قوم ہیں تو بہت خوب ، میں زیادہ تر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا صرف اتنا کریں کہ پانچ آریہ سماج میں یعنی آریہ سماج قادیان، آریہ سماج لاہور، آریہ سماج پشاور، آریہ سماج امرتسر، آریہ سماج لودہیانہ میں جس قدر ممبر ہیں سب کی طرف سے ایک اقرار نامہ حلفاً اس مضمون کا پیش کریں کہ جو پنڈت لیکھرام صاحب ہم سب لوگوں کے مقتدا اور پیشوا ہیں۔ اگر اس مقابلہ میں مغلوب ہو جائیں گے اور کوئی نشان آسمانی دیکھ لیں تو ہم سب لوگ بلاتوقف شرف اسلام سے مشرف ہو جائیں گے۔ پس اگر آپ مقتصدائے قوم ہیں تو ایسا اقرار نامہ پیش کرنا آپ پر مشکل نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ آپ کا نام سنتے ہی اقرار نامہ پر دستخط کر دیں گے کیونکہ آپ پیشوائے قوم ہو ہوئے۔ لیکن اگر آپ اپنا مقتدائے قوم ہونا ثابت نہ کر سکیں اور آپ اقرار نامہ مرتب کر کے دو ہفتہ تک میرے پاس نہ بھیج دیںتو آپ ایک شخص عوام الناس سے سمجھے جائیں گے جو قابل خطاب نہیں۔ یہبات آپ پر واضح رہے کہ اس معاملہ میں خط مطبوعہ میں شرط بھی درج ہے کہ مقتدائے قوم ہو (دیکھ سرط دہم خط مطبوعہ) اب مقتدا ہونا بجز مقتدیوں کے اقرار کے کیونکر ثابت ہو اور یہ بات کہ ہم نے اپنے خط مطبوعہ میں یہ شرائط لازمی کیوں رکھی کہ شخص ممتحن متقدائے قوم ہو عوام الناس نہ ہو اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس میں سے کسی کو مغلوب اور قائل کرنا دوسروں پر مؤثر نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے شخص کے تجربہ کو خواص لوگ سادہ لوحی اور عدم بصیرتی پر حمل کرتی ہیں اور بجائے اس کے کہ کوئی گروہ اس کا اتباع کر کے راہ راست پر آوے حق کی ہدایت یابی کو کسی غرض نفسانی پر مبنی سمجھ لیتے ہیں ماسوا اُس کے ان خطوط مطبوعہ کے بھیجنے سے میری غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک قوم پرحجت پوری ہوکر حصہ پنجم میں اس اتمام حجت کا حال درج کیا جاوے لیکن ایک عامی آدمی قائل اور مسلمان ہو جانے سے قوم پر کیونکر حجت پوری ہو جائے گی۔ عامی کا عدم وجود قوم کے نزدیک برابر ہے کیا اس جگہ کے بعض آریہ سماج کے ممبروں کی شہادت سے جنہوں نے بچشم خود بعض نشانوں کو دیکھا ہے آپ لوگ مسلمان ہو سکتے ہیں تو پھر کیونکر امید رکھیں کہ آپ کی شہادت قوم پر مؤثر ہوگی۔ حالانکہ آپ قادیان کے بعض آریوں سے جنہوں نے بعض نشانوں کو مشاہدہ کیا ہے حیثیت اور عزت اور لیاقت میں زیادہ نہیں ہیں۔ بہرحال ہم کو اس خط مطبوعہ پر عمل کرنا لازم ہے جس کو آپ بنظر سرسری دیکھ چکے ہیں۔ اگر قوم کے مقتدا مخاطب ہونے کے لئے مخصوص نہ ہوں تو یہ سلسلہ قیامت تک ختم نہ ہوگا۔ مناسب ہے کہ آپ بہت جلد اس کا جواب لکھیں کیونکہ اگر آپ مقتدا قوم کے قرار پا گئے تو دوسرے مراتب اس کے بعد طے ہونگے اور وج مبلغ دو سَو روپیہ ماہواری کے حساب سے دو ہزار چار سَو روپیہ سال بصورت مغلوبیت دینا تجویز کیا ہے یہ بھی اسی لحاظ سے یعنی مقتدائے قوم کی وجہ سے قرار پایا ہے۔ پھر خواہ وہ مقتدا تمام روپیہ آپ رکھے یا قوم جو اقرار نامہ پر دستخط کرے گی اپنے اپنے حصہ ٹھہرا لیں۔ اب خلاصہ کلام آپ یہ یاد رکھیں کہ ہم نے تین ماہ تک حصہ پنجم کا چھپنا ملتوی کر کے ہر ایک قوم کے سرکردہ کو خطوط مطبوعہ رجسٹری بھیجے ہیں کیونکہ قوم کے سرکردہ کل قوم کا حکم رکھتے ہیں عوام الناس سے ہم کو کچھ سروکار نہیں اور نہ اس طور سے بحث کا سلسلہ کبھی ختم ہو سکتا ہے۔ جو شخص ہمارے مقابل پر آناچاہے ( آپ ہوں یا کوئی اور ہوں) اوّل اُس کو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ وہ درحقیقت مقتدائے قوم ہے اور اس کی قوم کے لوگ اس بات پر مستعد ہیں کہ اس کے قائل اور اقرار ہو جانے سے بلا حجت و حیلہ دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ سو مناسب ہے کہ آپ سعی و کوشش کر کے پانچویں آریہ سماج کے جس قدر ممبر ہوں اُن سے حلفاً اقرار نامہ لے لیں اور نام بنام دستخط کرائیں اور اس اقرار نامہ پر دس یا بیس ثقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کے بھی دستخط ہوں تا کہ وہ اقرار نامہ معہ آپ کے اقرار نامہ اور ہمارے اقرار کے چند اخباروں میں چھپوایا جاوے لیکن جب تک آپ اس طور سے اپنا سرکردہ ہونا ثابت نہ کریں تب تک آپ عوام الناس میں سے محسوب ہونگے۔ ہمارے خط کو غور سے دیکھو اور اس کے منشاء کے موافق قدم رکھو ان خطوط سے اصل مطلب تو ہمارا یہی تھا کہ قوموں کے سرکردہوں کو قائل یا لاجواب کر کے کل قوموںپر (ہندو ہوں یا عیسائی) اتمام حجت کیا جاوے۔ پس جو لوگ سرکردہ ہی نہیں ان کے لاجواب یا قائل کرنے سے ہمارا مطلب کیونکر پورا ہوگا اور حصہ پنجم کے چھپنے کی نوبت کب آئے گی اور اگر خدا توفیق دیوے تو اپنے آریہ بھائیوں کی شہادت کو ہی کافی سمجھو۔ کیونکہ وہ بھی تمہارے بھائی ہیں۔ والدعاء
(مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق یکم رجب ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بسم اللّہ الرحمٰن الرحیم
مشفق پنڈت لکھیرام صاحب۔ بعد ماوجب آپ کا خط مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مجھ کو ملا آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدق دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دُور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں جو میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا رکھے۔ پھر آپ نے اسی اپنے خط میں تمسخر اور ہنسی کی راہ سے دین اسلام کی نسبت توہین اور ہتک کے کلمات تحریر کئے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کے ہجو ملیح کے طرح مکروہ اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے اگرچہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کس قدر طالب حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے سخت اور بدبودار باتوں پر صبر کرکے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں کیونکہ یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید آپ نے میرے پہلے خط کو غور سے نہیں پڑھا اور اشتعال طبع مانع تفکر و تدبر ہو گیا سو اب میں پھر اپنے اُسی جواب کو دوہرا کر تحریر کرتا ہوں صاحب من میں نے جو پہلے خط میں لکھا تھا اس کا خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جو اَب میں گزارش کرتا ہوں یعنی ان دنوں میں اتمام حجت کی غرض سے میںنے یہ مناسب سمجھا کہ سات سَو خط چھپوا کر اُن مخالفین مذہب کی طرف روانہ کروں جو اپنی اپنی قوم کے سرکردہ اور میر مجلس ہیں اور یہ قرار پایا کہ چونکہ ہر ایک قوم میں اوسط اور ادنیٰ درجہ کے آدمی ہزار ہا بلکہ لکھوکھا ہوا کرتے ہیں اس لئے یہی مناسب ہے کہ یہ خطوط مطبوعہ ان چیدہ چیدہ اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی طرف روانہ کئے جائیں کہ جو خواص اور قلیل الوجود آدمی ہیں۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی سوچا گیا کہ ایسے لوگ اگر قادیان میں ایک برس تک ٹھہرنے کے لئے بلائے جائیں تو ان کی دنیوی عزت اور آمدنی کے لحاظ سے دو سَو روپیہ ماہواری ان کے لئے شرط مقرر کرنا مناسب ہوگا کیونکہ یہ خیال کیا گیا کہ وہ لوگ جس قدر اپنے اپنے مکانات میں بذریعہ نوکری یا تجارت وغیرہ وجوہ معاش حاصل کرتے ہیں وہ غالباً اس اندازہ کے قریب قریب ہوگا۔ غرض جو دو سَو روپیہ کی رقم مقرر کی گئی وہ محض بنظر اندازہ وجود معاش اُن اعلیٰ درجہ کے سرگروہوں کے مقرر ہوئی تا وہ لوگ یہ عذر پیش نہ کریں کہ قادیان میں ٹھہرنے سے ہمارا دو سَو روپیہ ماہواری کا ہرج متصور ہے اور اسی غرض سے خطوط مطبوعہ میں یہ بھی اندراج پایا کہ اگر دو سَو روپیہ ماہوار سے کچھ زیادہ دیا جائے گا اب آپ جو تحریر فرماتے ہیں کہ وہ دو سَو روپیہ کہ جو اعلیٰ درجہ کے لوگوں کیلئے بہ لحاظ حیثیت دنیوی اُن کے خطوط مطبوعہ میں اندراج پایا ہے اُسی قدر روپیہ ملنے کی شرط ہے۔ میں قادیان میں آتا ہوں سو آپ خود انصاف فرما لیویں کہ آپ کیونکر اس قدر روپیہ پانے کی شرط کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کسی جگہ دو سَو روپیہ ماہواری پاتے ہیں تو پھر اس صورت میں مجھے کسی طور سے عذر نہیںہے۔ آپ مجھ پر ثابت کر دیں کہ میں اسی حیثیت کا آدمی ہوں اگر ایسا ثابت نہ کر سکیں تو پھر آپ کے لئے یہ منظور کرتا ہوں کہ جس قدر آپ نوکری کی حالت میں تنخواہ پاتے رہے ہیں وہی تنخواہ حسبِ شرائط متذکرہ خطوط مطبوعہ آپ کو دوں گا لیکن آپ خود انصاف کر لیوں کہ جو تنخواہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے اُن کی ماہواری آمدنی کے لحاظ سے اور اُن کے ہرجہ کثیرہ کے خیال سے خطوط مطبوعہ میں لکھی گئی ہے وہ کیونکر اُن لوگوں کو دی جاوے جو اس درجہ کے آدمی نہیں ہیں اور اگر ہر ایک ادنیٰ اعلیٰ کے لئے دو سَو روپیہ ماہواری دینا تجویز کروں تو اس قدر روپیہ کہاں سے لاؤوں۔ آپ تحکم کی راہ سے کام نہ کریں اور جو میں نے خطوط کے چھاپنے کے وقت انتظام کیا ہے اُس کو خوب سوچ لیں اور میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ آپ دو تین روز کے لئے قادیان میں آجائیں اور بالمواجہہ گفتگو کر کے اس بات کا تصفیہ کریں مجھے یہ بھی منظور ہے کہ دو تین شریف اور معزز آریہ جیسے منشی جیونداس لاہور میں ہیں وہ مجھ سے ملاقات کر کے جو اس بارہ میں تصفیہ کریں وہی قرار پاجائے۔ میں ناحق کی ضد کرنا نہیں چاہتا نہ کوئی حیلہ بہانہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ غور سے میرے خط کو پڑھیں اور یہ جو آپ نے اپنے خط کے اخیر پر لکھ دیاہے کہ قادیان کے آریہ لوگوں سے آپ کی کراماتی مایہ کی قلعی کھل چکی ہے یہ الفاظ بھی منصفین کے سامنے پیش کرنے کے لائق ہیں جس حالت میں قادیان کے بعض آریہ جو میرے پاس آمدو رفت رکھتے ہیں اب تک زندہ موجود ہیں اور اس عاجز کے نشانوں اور خوارق کے قائل اور مقر ہیں تو پھر نہ معلوم کہ آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ وہ لوگ منکر ہیں اگر آپ راستی کے طالب تھے تو مناسب تھا کہ آپ قادیان میں آ کر میرے روبرو اور میرے مواجہ میں اُن لوگوں سے دریافت کرتے تا جو امر حق ہے آپ پر واضح ہو جاتا۔ مگر یہ بات کس قدر دیانت اور انصاف سے بعید ہے کہ آپ دور بیٹھے قادیان کے آریوں پر ایسی تہمت لگارہے ہیں ذرا آپ سوچیں کہ جس حالت میں میں نے اُنہیں آریوں کا نام حصہ سوم و چہارم میں لکھ کر اُن کا شاہد خوارق ہونا حصص مذکورہ میں درج کر کے لاکھوں آدمیوں میں اس واقعہ کی اشاعت کی ہے تو پھر اگر یہ باتیں دروغ بے فروغ ہوں تو کیونکر وہ لوگ اب تک خاموش رہتے بلکہ ضرور تھا کہ اس صریح کے جھوٹ کے ردّ کرنے کے لئے کئی اخباروں میں اصل کیفیت چھپواتے اور مجھ کو ایک دنیا میں رسوا اور شرمندہ کرتے۔ سو منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ باوجود شدت مخالفت اور عناد کے اسی وجہ سے خاموش اور لاجواب رہے کہ جو جو میں نے شہادتیں اُن کی نسبت لکھیں وہ حق محض تھا اور آپ پر لازم ہے کہ آپ اس ظن فاسد سے مخلصی حاصل کرنے کے لئے قادیان آ کر اس بات کی تصدیق کر جائیں ۔
تا سیہ رد شود کہ دروغن باشد
جواب سے جلد تر مطلع کریں۔ والدعاء
(راقم مرزا غلام احمد از قادیان۔ ۱۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء)
٭٭٭
مشفقی پنڈت لیکھرام صاحب بعد ماوجب۔ اگرچہ اس خاکسار نے آپ کو اُن خطوط کے جواب میں جن میں آپ نے قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی درخواست کی تھی یہ لکھا تھا کہ چوبیس سَو روپیہ لینے کی شرط پر آپ کا ایسی درخواست کرنا آپ کی عزت اور حیثیت عرفی کے برخلاف ہے لیکن چونکہ آپ اب تک اسی بات پر اصرار کئے جاتے ہیں کہ میں آریہ سماج کے گروہ میں ایک بڑا عزت دار آدمی ہوں اور بزرگوار اور عالی مرتبت ہونے کی وجہ سے تمام آریہ سماجوں میں مشہور و معروف ہوں بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ نے اپنے اسی دعویٰ کو بعض اخباروں میں چھپوا کر جا بجا مجھے بدنام کرنا چاہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ جس حالت میں میں ایسا عزت دار آدمی ہوں اور پھر طالب حق تو پھر کیوں مجھے آسمانی نشان کے دکھلانے اور اسلام کی حقیت مشاہدہ کرانے سے محروم رکھا جاتا ہے اور کیوں چوبیس سَو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں ایک سال تک ٹھہرا کر آسمانی نشانوں کے آزمانے کیلئے اجازت نہیں دی جاتی۔ سو آپ پر واضح ہو کہ ہم نے آج تک آپ کی درخواست منظور کرنے میں توقف کیا تو اس کی یہی وجہ تھی کہ ہم اپنے خط مطبوع میں یہ شرـط درج کر چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ عوام الناس سے نہیں ہے بلکہ ہر قوم کے چیدہ اور منتخب اور صاحب عزت لوگوں سے ہے اور ہر چند ہم نے کوشش کی مگر ہم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ اُن معزز اور ذی مرتبت لوگوں میں سے ہیں جو بوجہ حیثیت عرفی اپنی کے دو سَو روپیہ ماہواری خرچہ پانے کے مستحق ہیں مگر چونکہ آپ کا اصرار اپنے اس دعویٰ پر غایت درجہ تک پہنچا گیا ہے کہ فی الحقیقت میں ایسا ہی عزت دار ہوں اور پشاور سے بمبئی تک جس قدر آریہ سماج ہیں وہ سب مجھ کو معزز اور قوم میں سے ایک بزرگ اور سرگردہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے آپ کی طرف لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ سچ مچ ایسے ہی عزت دار ہیں تو ہم آپ کی درخواست منظور کرلیتے ہیں اور جہاں چاہو چوبیس سَو روپیہ جمع کرانے کو تیار و مستعد ہیں لیکن جیسا کہ آپ شرائط مندرجہ خطوط مطبوعہ سے تجاوز کر کے اپنی پوری پوری تسلی کرنے کے لئے مجھ سے چوبیس سَو روپیہ نقد کسی دوکان یا بنک سرکار میں جمع کرانا چاہتے ہیں تو اس صورت میں مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی آپ کے اس اقرار کو … دیکھنے کسی آسمان نشان کے بلاتوقف قادیان میں ہی مسلمان ہو جاؤں گا۔ آپ ہی کے اعتبار پر چھوڑدوں بلکہ جیسے آپ روپیہ روصول کرنے کے باب میں اپنی پوری پوری تسلی کریں گے ایسا ہی میں بھی آپ کے مسلمان ہونے کے لئے کوئی ایسی تدبیر کر لوں جس سے مجھے بھی پورا یقین اور کامل تسلی ہو جائے کہ آپ بھی درحالت انکار اسلام اپنی عہد شکنی کے ضرر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ سو عدات کی بات جس میں میں اور آپ برابر ہیں یہ ہے کہ ایک طرف خاکسار چوبیس سَو روپیہ حسب نشاندہی آپ کے کسی جگہ جمع کرا دے اور ایک طرف آپ بھی اسی قدر روپیہ حسب نشاہدہی اس عاجز کے بوجہہ تاوان انکار اسلام کسی مہاجن کی دوکان پر رکھوا دیں تا جس کو خدا تعالیٰ فتح بخشے اُس کیلئے یہ روپیہ فتح کی یادگار رہے۔ یہ تجویز کسی فریق پر ظلم نہیں بلکہ فریقین کیلئے موجب تسلی اور سراسر انصاف ہے کیونکہ جیسے آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ آپ بصورت مغلوب ہونے اس عاجز کے چوبیس سَو روپیہ جبراً وصول نہیں کر سکتے۔
علی ہذا لقیاس مجھے بھی یہ فکر ہے کہ میں بھی بعد مغلوب ہونے آپ کے آپ کو جبراً مسلمان نہیں کر سکتا۔ سو یہ انتظام حقیقت میں نہایت عمدہ اور مستحن ہے کہ ایک طرف آپ وصول روپیہ کے لئے اپنی تسلی کر لیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندوبست کر لوں کہ درحالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں اور اگر آپ اسلام کے قبول کرنے میں صادق النیت ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جائیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سروکار نہیں ہوگا بلکہ یہ روپیہ تو صرف اُس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جائے گا کہ جب آپ عہد شکنی کر کے اسلام کے قبول کرنے سے گریز یا روپوشی اختیار کریں گے سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہوگا اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہوگا نہ اور کسی حالت میں۔ رہا یہ امر کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں سے لائیں گے تو اس کا فیصلہ تو آپ ہی کے اقرار سے ہو گیا جب کہ آپ نے اقرار کر لیا کہ میں بڑا عزت دار آدمی اور قوم میں مشہور و معروف ہوں کیونکہ جس حالت میں آپ اتنے بڑے عزت دار ہیں تو اوّل یہ روپیہ آپ کے آگے کچھ چیز نہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ آپ کے دولت خانہ میں جمع ہوگا اور اگر کسی اتفاق سے آپ پر افلاس طاری ہے تو قوم کے لوگ ایسے معزز اور سرگردہ سے امداد وغیرہ کے بارے میں کب دریغ کریں گے بلکہ وہ تو سنتے ہی ہزار ہا روپیہ آپ کے قدموں پر رکھ دیں گے اور صرف آپ کی ایک زبان کے اشارہ سے روپیوں کا ڈھیر جمع ہو جائے گا۔ خدانخواسہ ایسا کیوں ہونے لگا کہ آریہ سماج کے دولتمند اور ذی مقتدرت لوگ آپ کو چند روز کے لئے بطور امانت روپیہ دینے سے انکار کریں اور آپ کی دیانتداری اور امانت گزاری میں اُن کو کلام ہو کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ ادنیٰ آدمی جیسے چوہڑے چمار یا سانسی اپنی قوم میں کچھ ذرا سا اعتبار رکھتے ہیں وہ بھی اپنی برادری میں اس قدر مسلم العزت ہوتے ہیں کہ قوم کے ذی مقدرت لوگ کسی مشکل کے وقت صدہا روپیہ سے بطور قرضہ وغیرہ اُن کی مدد کرتے ہیں اور آپ تو بقول آپ کے بڑے ذی عزت آدمی ہیں جن کی عزت سارے آریہ سماجوں میں تسلیم و قبول کی گئی ہے۔ ماسوا اس کے جو روپیہ صرف کچھ مدت کے لئے امانت کے طور پر آپ کے ہاتھ میں دیں گے یہ نہیں کہ وہ روپیہ آپ کی ملک کر دیں گے۔ قصہ کوتاہ کہ آج ہم یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجتے ہیں اور اگر بیس دن تک آپ نے ہمارا جواب نہ بھیجا اور قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہرنے کیلئے بات نہ ٹھہرائی اور ان شرائط کو جو عین انصاف اور حق پرستی پر مبنی ہیں قبول نہ کیا تو پھر بعد گزرنے بیس روز کے یہ حال کنارہ کشی آپ کا چند اخباروں میں شائع کرا کر لوگوں پر ثابت کیا جاوے گا کہ آپ کا ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنے کے لئے مجھ سے دریافت کرنا سراسر لاف و گذاف پر مبنی تھا نہ آپ کی نیت صاف و درست تھی نہ آپ کی ایسی حیثیت و عزت تھی جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا۔
اب ہم اس خط کو ختم کرتے ہیں اور مدت مقررہ تک ہر روز آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔
والسلام علی من اتبع الہدیٰ
از قادیان ضلع گورداسپور
مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۸۸۵ء
خاکسار
مرزا غلام احمد






لالہ بھیم سین صاحب کے نام
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم مکتب ایک لالہ بھیم سین صاحب تھے اور زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت اقدس کی ان کے ساتھ بڑی راہ و رسم تھی۔ لالہ بھیم سین صاحب کی بابت اس خط کے شائع کرتے وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی محبت تھی اور خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ جن ایام میں گورداسپور میں مقدمات کا سلسلہ شروع تھا تو لالہ بھیم سین صاحب نے اپنے بیٹے کی خدمات بھی پیش کی تھیں جو بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آ چکے تھے۔ حضرت مسیح موعود نے شکریہ کے ساتھ ان کی خدمات کو کسی دوسرے وقت پر عندالضرورت ملتوی کر دیا تھا۔ غرض حضرت صاحب کو لالہ بھیم سین صاحب سے محبت اور لالہ بھیم سین کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے اخلاص تھا۔
۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے لالہ بھیم سین کو ایک خط لکھا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ میں لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند سے خط و کتابت کر کے حضرت اقدس کی بعض اور تحریریں بھی جو میسر آ سکیں حاصل کرنی چاہتا ہوں مگر سردست یہ ایک خط یہاں درج کر دیا جاتا ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔
(خاکسار یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
آپ نے اپنے خط میں کچھ مذہبی رنگ میں بھی نصائح تحریر فرمائی تھیں مجھ کو اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو اس عظیم الشان پہلو سے بھی دلچسپی ہے۔ درحقیقت چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہم سب لوگ اصلی گھر کی طرف واپس کئے جائیںگے۔ اس لئے ہر ایک کا فرض ہونا چاہئے کہ دین اور مذہب کے عقائد کے معاملہ میں پورے غور سے سوچے پھر جس طریق کو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق پاوے اُسی کے اختیار کرنے میں کسی ذلت اور بدنامی سے نہ ڈرے اور نہ اہل و عیال اور خوشیوں اور فرزندوں کی پروا رکھے۔ ہمیشہ صادقوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ سچائی کے اختیار کرنے میں اُنہوں نے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ خواہ عقائد ہوںیا اعمال دو حال سے خالی نہیں یا سچے ہوتے ہیں یاجھوٹے۔ پھر جھوٹے کو اختیار کرنا دھرم نہیں ہے مثلاً وید کی طرف یہ ہدایت منسوب کی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت کے چند سال تک بیٹا نہ ہو بیٹیاں ہی ہوں تو اس کا خاوند اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا سکتاہے اور ایسا سلسلہ اُس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک ایک بیگانہ مرد کے نطفہ سے گیارہ فرزند نریہ پیدا ہو جائیں اور شاکت مت میں جو وید کی طرف ہی اپنے تئیں منسوب کرتے ہیں یہ ہدایت ہے کہ اُن کے خاص مذہبی میلوں میں ماں اور بہن سے بھی جماع درست ہے اور ایک شخص دوسرے کی عورت سے زنا کر سکتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ہزار ہا ایسے مذہب ہیں کہ اگر ان کا انکار کیا جاوے تو آپ انگشت بدنداں رہیں گے پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان صلح کاری اختیار کرکے اُن لوگوں کی ہاں سے ہاں ملاوے ایسا ہی عقائد کا حال ہے بعض لوگ دریاؤں کی پوجا کرتے ہیں، بعض لوگ آگ کی، بعض سورج کی، بعض چاند کی، بعض درختوں کی، بعض سانپوں اور بلیوں اور بعض انسانوں کو درحقیقت خدا سمجھتے ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ان سب کو راستباز سمجھا جاوے۔
جو لوگ دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اُن کا فرض ہوتا ہے کہ سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور جھوٹ کی بیخ کنی کریں۔ وہ سچائی کے دوست اور جھوٹ کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی راستباز کو چند ڈاکو یا چور یہ ترغیب دیں کہ بذریعہ ڈاکو یا کیسہ بُری یا نقب زنی کے کوئی مال حاصل کرنا چاہئے تو کیا جائز ہوگا کہ وہ راستباز اُن کیساتھ ہو کر ایسے جرائم کا ارتکاب کرے۔ پس مذہب کسی چیز کا نام ہے اسی بات کا نام تو مذہب ہے کہ جو عقائد یا اعمال بُرے اور گندے اور ناپاک ہوں اُن سے پرہیز کیا جاوے اور ایسی کتابیں جو ناپاک عقائد یا اعمال سکھلاتی ہیں اُن کو اپنا پیشوا اور رہبر نہ بنایا جاوے۔ میں اس بات کو کسی طرح سمجھ نہیں سکتا کہ ہر ایک مذہب سے صلح رکھی جاوے اور اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جاوے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جاوے تو دنیا میں کوئی بدی بدی نہیں رہے گی اور ہر قسم کے بدعقائد اور بداعمال نیکیوں میں داخل ہو جائیں گے حالانکہ جو شخص ایک نظر دنیا کے مذاہب پر ڈالے تو اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا شناسی ہی کے بارے میں کئی عقائد ہیں بعض ناستک مست یعنی دہریہ ہیں وہ خدا کے قائل نہیں ہیں اور بعض انسانوں یا حیوانوں یا اجرام سماوی یا عناصر کو خدا بناتے ہیں۔ خاص آریہ سماجی جو اپنے تئیں ویدوں کے وارث ٹھہراتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک ذرّہ بھی پیدا نہ کیا اور نہ ارواح پیدا کئے بلکہ یہ تمام چیزیں اور ان کی تمام قوتیں خود بخود ہیں۔ پرمیشور کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں مگر مجھے ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک راستباز کے لئے ممکن نہیں کہ ان تمام متناقص امور کو مان لے اور اُن پر ایمان لے آوے۔ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور توحید اور قدرت کاملہ پر داغ لگایا ہے یا بدکاری کو جائز رکھا ہے میں اس جگہ اُن کی نسبت اور اپن کی کتاب کی نسبت کچھ نہیں کہتا صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ انسان کے لئے ممکن نہیں کہ ناپاک کو بھی ایسا ہی تسلیم کرے جیسا کہ پاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے کہ پاک ہونے سے خدا ملتا ہے۔ لیکن ایسے طریقوں سے جو ناپاک عقائد اور ناپاک اعمال پر مشتمل ہیں کیونکر خدا مل سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بہشتی زندگی تک پہنچاتا ہے لیکن جو شخص راجہ رام چندر یا راجہ کرشن یا حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا ہے یا خدائے قیوم کو ایسا عاجز اور ناقص خیال کرتا ہے کہ ایک ذرّہ یا ایک روح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں وہ کیونکر اس پاک ذوالجلال کی حقیقی محبت سے حصہ لے سکتا ہے۔ حقیقی اور سچے خدا کو اُس کی پاک اور کامل صفات کے ساتھ جاننا اور اُس کی پاک راہوں کے مطابق چلنا ہی حقیقی نجات ہے اور اُس حقیقی نجات کے مخالف جو طریق ہیں وہ سب گمراہی کے طریق ہیں پھر کیونکر ان طریقوں میں پھنسے رہنے سے انسان حقیقی نجات پا سکتا ہے۔
دنیا میں اکثر یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہر ایک شخص اُن خیالات پر بہت بھروسہ رکھتا ہے جن خیالات میں اُن نے پرورش پائی ہے یا جن کو سننے کا اُس کو بہت موقعہ ملا ہے چنانچہ ایک عیسائی بے تکلف کہہ دیتا ہے کہ عیسیٰ ہی خدا ہے اور ایک ہندو اس بات کے بیان کرنے سے کچھ شرم نہیں کرتا کہ رام چندر کرشن درحقیقت خدا ہیں یا دریائے گنگ اپنے پرستاروں کو مرادیں دیتا ہے یا اُن کا ایک ایسا خدا ہے جس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا صرف موجودہ اجسام یا اراوح کو جو کسی اتفاق سے خودبخود قدیم سے چلے آتے ہیں جوڑنا اس کا کام ہے لیکن یہ تمام بھروسے بے اصل ہیں ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ زندہ خدا کو خوش کرنا نجات کے طالب کا اصول ہونا چاہئے۔دنیا رسوم و عادات کی قید میں ہے ہر ایک شخص جو کسی مذہب میں پیدا ہوتا ہے اکثر بہرحال اُسی کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ طریق صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ بات ہے کہ جس مذہب کی رو سے زندہ خدا کا پتہ مل سکے اور بڑے بڑے نشانوں اور معزات سے ثابت ہو کہ وہی خدا ہے اس مذہب کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اگر درحقیقت خدا موجود ہے اور اُس کی ذات کی قسم کہ درحقیقت وہ موجود ہے تو یہ اس کا کام ہے کہ وہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرے اورانسان جو محض اپنی اٹکلوں سے خیال کرتا ہے کہ اس جہان کا ایک خدا ہے اور وہ اٹکلیں سچی تسلی دینے کیلئے کافی نہیں اور جیسا کہ ایک محجوب اُن روپوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُس کے صندوق میں بند ہیں اور اُس زمین پر جو اُس کے قبضہ میں ہے اور اُن باغات پر جو ہمیشہ صدہا روپیہ کی آمدنی نکالتے ہیں اور اُن لائق بیٹوں پر جو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز ہیں اور ماہ بماہ اپنے باپ کو ہزار ہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں وہ محجوب ایسا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہرگز نہیں کر سکتا اس کا کیا سبب ہے یہی سبب ہے کہ اُس پر حقیقی ایمان نہیں۔ ایسا ہی ایک غافل جیسا کہ طاعون سے ڈرتا ہے اور اُس گاؤں میں داخل نہیں ہوتا جو طاعون سے ہلاک ہو رہا ہے اور جیسا کہ وہ سانپ سے ڈرتا ہے اور اُس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں سانپ ہو یا سانپ ہونے کا گمان ہو اور جیسا کہ وہ شیر سے ڈرتا ہے اور اُس بن میں داخل نہیں ہوتا جس میں شیر ہو۔ ایسا ہی وہ خدا سے نہیں ڈرتا اور دلیری سے گناہ کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ اگرچہ وہ زبان سے کہتا ہے مگر دراصل خدا تعالیٰ سے غافل اور بہت دور ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ بلکہ جب تک خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ ہوں اُس وقت تک انسان سمجھ بھی نہیں سکتا کہ خدا بھی ہے۔ گو تمام دنیا اپنی زبان سے کہتی ہے کہ ہم خداپر ایمان لائے مگر اُن کے اعمال گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لائے۔ سچا ایمان تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے مثلاً جب انسان باربار کے تجربہ سے معلوم کر لیتا ہے کہ سم الفار ایک زہر ہے جو نہایت قلیل مقدار اُس کی قاتل ہے تو وہ سم الفار کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ تب اُس وقت کہہ سکتے ہیں کہ وہ سم الفار کے قاتل ہونے پر ایمان لایا۔ سو جو شخص کسی پہلو سے گناہ میں گرفتار ہے وہ ہنوز خدا پر ایمان ہرگز نہیں لایا اور نہ اس کو شناخت کیا۔
دنیا بہت سی فضولیوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ ایک جھوٹی منطق پر راضی ہو رہے ہیں۔ مذہب وہی ہے جو خدا تعالیٰ کو دکھلاتا ہے اور خدا سے ایسا قریب کر دیتا ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھتا ہے اور جب انسان یقین سے بھر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ سے اس کا خاص تعلق ہو جاتا ہے۔ وہ گناہ سے اور ہر ایک ناپاکی سے خلاصی پاتا ہے اور اس کا سہارا صرف خدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص نشانوں سے اور اپنی خاص تجلی سے اور اپنے خاص کلام سے اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں موجود ہوں تب اس روز سے وہ جانتا ہے کہ خدا ہے اور اسی روز سے وہ پاک کیا جاتا ہے اور اندرونی آلائشیں دور کی جاتی ہیں۔ یہی معرفت ہے جو بہشت کی کنجی ہے مگر یہ بغیر اسلام کے اور کسی کو بھی میسر نہیں آتی۔ یہی خدا تعالیٰ کا ابتداء سے وعدہ ہے جو وہ اُنہی پر ظاہر ہوتا ہے جو اُس کے پاک کلام کی پیروی کرتے ہیں۔ تجربہ سے زیادہ کوئی گواہی نہیں۔ پس جب کہ تجربہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اپنے تئیں بجز اسلام کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور کسی سے ہمکلام نہیں ہوتا اور کسی کی اپنے زبردست معجزات سے مدد نہیں کرتا تو ہم کیونکر مان لیں کہ دوسرے مذہب میں ایسا ہو سکتاہے۔
ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآن شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور کئی ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اور ناپاک تعلیم ہے اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔ پس بہت سہل طریق یہ ہے کہ تم وید والے خدا سے میری نسبت کوئی پیشگوئی کرو اور میں قرآن شریف والے خدا سے وحی پا کر پیشگوئی کروں گا۔ پس اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ کی بیماری سے مر جائے گا اور میرے خدانے یہ ظاہر کیا کہ چھ برس تک لیکھرام بذریعہ قتل نابود ہو جائے گا کیونکہ وہ خدا کے پاک نبی کی بے ادبی میں حد سے گزر گیا اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس کے مرنے کے تھوڑی مدت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی۔ تمام پیشگوئی میں نے اپنی کتابوں میں بار بار شائع کر دی اور یہ بھی شائع کر دیا کہ وید درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اَب آریہ سماج والوں کو چاہئے کہ لیکھرام کی نسبت اپنے پرمیشور سے بہت دعا کریں تا وہ اُس کو بچا لے کیونکہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کا پرمیشور اِن کو بچا نہیں سکے گا اور ایسا ہی لیکھرام نے بھی میری نسبت اپنی کتاب میں شائع کر دیا کہ یہ شخص تین برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہو جائے گا۔ آخر لیکھرام اپنے قتل ہونے پر گواہی دے گیا کہ وید خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
اسی طرح نہ ایک نشان بلکہ ہزار ہا نشان ظاہر ہوئے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہیں جن سے روز روشن کی طرح کھل گیا کہ دین اسلام ہی دنیا میں سچا مذہب ہے اور سب انسانوںکے اختراع ہیں اور یا کسی وقت سچے تھے اور بعد میں وہ کتابیں بگڑ گئیں۔ اے عزیز ہم آپ کی باتوں کو کہ جو کوئی روشن دلیل ساتھ نہیں رکھتیں کیونکر مان لیں آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف دعویٰ ہے جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں دنیا میں ایک ادنیٰ مقدمہ بھی جب کسی عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ثبوت کے سوائے کسی حاکم کے نزدیک قابل سماعت نہیں ہوتا اور ایسا مدعی ڈگری حاصل نہیں کر سکتا تو پھر نہ معلوم آپ ان خیالات پر کیونکر بھروسہ رکھتے ہیں جو بے ثبوت ہیں اور کیونکر ہم ان سب باتوں کو سچی مان سکتے ہیں کہ عیسیٰ خدا ہے اور رام چندر خدا ہے اور کرشن خدا ہے اور یا کہ خدا ایسا عاجز ہے کہ ایک ذرّہ بھی اُس نے پیدا نہیں کیا۔ وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے جو ثبوت کا روشن چراغ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ جو زبردست نشان اور معجزات اسلام میں ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب میں بھی ہوتے ہیں تو ہم آپ کی اس بات کو بشوق سنیں گے بشرطیکہ آپ اس بات کا ثبوت دیں مگر یاد رکھیں کہ یہ آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا زندہ شخص بھی دکھلا سکیں کہ وہ برکات اور آسمانی نشان جو مجھے ملے ہیں ان میں وہ مقابلہ کر کے دکھلاوے اب میں آپ کے بعض خیالات کی غلطی کو رفع کرتا ہوں۔
قول آں عزیز: خدا نے کافر اور مومن کو اس دنیا میں یکساں حصہ بخشا ہے۔
اقوال چونکہ خدا نے ہر ایک کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے سب کو ایسی قوتیں بخشی ہیں کہ اگر وہ ان قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو منزل مقصود تک پہنچ جائیں مگر تجربہ سے ثابت ہے کہ بجز اس کے کوئی اسلام پر قدم مارے ہر ایک شخص ان قوتوں کو بے اعتدالی سے استعمال میں لاتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا۔
قول آں عزیز: بہت مشکل ہے کہ تمام لوگ ایک ہی مذہب پر چلیں۔
اقول سچے طالب کے لئے ہر ایک مشکل سہل کی جاتی ہے۔
قول آں عزیز: اگرچہ ریل پر چلنے والے بہت آرام پاتے ہیں لیکن اگر کوئی پیادہ پا سفر اختیار کرے تو ریل والے اس کو کافر نہیں کہتے۔
اقول یہ قول دینی معاملہ پر چسپاں نہیں ہے اور قیاس مع الفارق ہے۔ خدا کے ملنے کی ایک خاص راہ ہے یعنی معجزات اور نشانوں سے یقین حاصل ہونا۔ اسی پر تزکیہ نفس موقوف ہے اور یقین کے اسباب بجز اسلام کے کسی مذہب میں نہیں۔
قول آں عزیز: خدا بے انت ہے۔ سو ہم بے انت کو اُسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب پابندی شرع سے باہر ہو جائیں۔
اقول شرع عربی لفظ ہے جس کے معنی ہی راہ۔ یعنی خدا کے پانے کی راہ۔ پس آپ کے کلام کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب ہم خدا کے پانے کی راہ چھوڑ دیں تب ہمیں ملے گا۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ یہ کیسا مقولہ ہے۔
قول آں عزیز: ذات پات نہ پوچھے کو ۔ہر کو بھجے سو ہرکا ہو۔
اقول یہ سچ بات ہے اس سے اسلام بحث نہیں کرتا کہ کس قوم اور کس ذات کا آدمی ہے جو شخص راہِ راست طلب کرے گا خواہ وہ کسی قوم کا ہو خدا سے ملے گا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواہ کسی مذہب کا پابند ہو خدا کو مل سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک پاک مذہب اختیار نہیں کرے گا تب تک خدا ہرگز نہیں پائے گا۔ مذہب اور چیز ہے اور قوم اور چیز۔
قول آں عزیز: یہی وجہ ہے کہ پیروان وید نے کسی شخص کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں رکھی۔
اقول جس شخص کے نزدیک وید کے مؤلف کی پیروی نجات کے لئے محصور نہیں وہ وید کا مکذب ہے۔ آپ خود بتلائیں کہ اگر مثلاً ایک شخص وید کے اصولوں اور تعلیموں کو نہیں مانتا نہ نیوگ کو مانتا ہے نہ اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اولاد کی خواہش کے لئے اپنی زندگی میں اپنی جورو کو ہمبستر کرا دے اور یا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ پرمیشور نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا اور تمام روحیں اپنے اپنے وجود کی آپ ہی خدا ہے اور یا وہ اگنی،ٔ دایو، سورج وغیرہ کی پرستش کو نہیں مانتا غرض وہ بہرطرح وید کو ردی کی طرح خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جس پرمیشور کو وید نے پیش کیا ہے اُس کو پرمیشور ہی نہیں جانتا تو کیاایسے آدمی کے لئے نجات ہے یا نہیں۔ اگر نجات ہے تو آپ وید سے ایسی شرتی پیش کریں جو ان معنوں پر مشتمل ہو اور اگر نجات نہیں تو پھر آپ کا یہ قول صحیح نہ ہوا کیونکہ ہم لوگ بھی تو صرف اس قدر کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن شریف کی تعلیموں کو نہیں مانتا اُس کو ہرگز نجات نہیں اور اس جہان میں وہ اندھے کی طرح بسر کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرت من الخسرین۔ یعنی قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہرگز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔ یہ کہنا کہ کسی شخص کی پیروی وید کی رو سے درست نہیں یہ غلط ہے جب اُس کی کتاب کی پیروی کی تو خود اُس کی پیروی ہوگئی۔ اگر ہندوصاحبان وید کی پیروی نہیں کرتے تو پھر وید کو پیش کیوں کرتے ہیں۔
قول آں عزیز: ہر ملت اور ہر مذہب میں صاحب کمال گزرے ہیں۔
اقول: زمانہ موجودہ میں بطور ثبوت کے کسی صاحب کمال کو پیش کرنا چاہئے۔کیا آپ کے نزدیک پنڈت لیکھرام صاحب کمال تھا یا نہیں جس کو آج تک آریہ سماجی لوگ روتے ہیں۔
میںنے آں محب کی دلجوئی کے لئے باوجود کم فرصتی کے یہ چند سطریں لکھی ہیں امید کہ اس پر غور فرمائیں گے۔
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۴؍ جون ۱۹۰۳ء





پنڈت کھڑک سنگھ کے نام
پنڈت کھڑک سنگھ ایک آریہ تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آج سے ۳۴ برس پیشتر قادیان میںگفتگو کرنے آیا اور بعض مذہبی مسائل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو بھی کی اور لاجواب ہو گیا۔ پھر جب وہ قادیان سے گیا تو آریہ مذہب سے بیزار ہو چکا تھا چنانچہ بالآخر وہ آریہ تو نہ رہا اور عیسائی ہو گیا اور آریہ مذہب کی تردید کا جو طریق حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے سیکھا تھا اسی طریق پر عیسائی ہو کر آریوں کے خلاف کئی رسالے رکھ ڈالے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السام نے اس پر اتمام حجت کی غرض سے قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کے ثبوت میں مندرجہ ذیل سوال لکھ کر بھیجا تھا۔ مگر آخری وقت تک پنڈت کھڑک سنگھ اس کا جواب نہ دے سکا اور اس سوال کو ہی ہضم کر گیا۔ یہ مضمون تقریباًآج سے ۳۴برس پیشتر کا لکھا ہوا ہے۔ (یعقوب علی عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کی بڑی بھاری نشانی یہ ہے کہ اُس کی ہدایت سب ہدایتوں سے کامل تر ہے اور اس دنیا کی حالت موجودہ میں جو خرابیاں پڑی ہوئی ہیں قرآن مجید سب کی اصلاح کرنے والا ہے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ قرآن مجید اور کتابوں کی طرح مثل کتھا کی نہیں ہے بلکہ مدلل طور پر ایک ہر ایک امر پر دلیل قائم کرتا ہے۔ اس دوسری نشانی پر… بنام کھڑک سنگھ وغیرہ ہم نے پانچ سَو روپیہ کا اشتہار بھی دیا تا کوئی پنڈت وید میں یہ صفت ثابت کر کے دکھلا دے کہ وید نے کن دلائل سے اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے۔ مگر آج تک کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ دم بھی مار سکے۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ وید میں نہ انجیل میں نہ توریت میں ہرگز طاقت نہیں کہ کسی فرقہ مخالف کا رد مثلاً دہریہ کا ردّ یا طبیعہ کا رد یا ملحدوں کا رد یا منکر الہام کا رد یا منکر نبوت کا رد یا بت پرست کا رد یا منکر نجات کا رد یا منکر عذاب کا رد یا منکر واحدانیت باری کا رد یا کسی اور منکر کا رد لائل قطعیہ سے کر کے دکھا دے۔ یہ سب کتابیں تو مثل مردہ کے پڑی ہیں کہ جس میں جان نہ ہو۔ کھڑک سنگھ جو لڑکوں کو بہکاتا ہے کہ وید میں سب کچھ لکھا ہے جو وہ سچا ہے تو ہم اُس کو پانچ سَو روپیہ دینا کرتے ہیں ہم سے ٹوبنو لکھا لے کسی فرقہ کی رد میں جو وید میں درج ہوں دو تین جز بمقابلہ فرقان مجید لکھ کر دکھا دے۔ یا خدا کی خالقیت سے عاجز ہونے پر یا نجات ابدی دینے سے عاجز ہونے پر بمقابلہ ہمارے دلائل کی وید سے دلائل نکال کر لکھے اور پانچ سَو روپیہ فی الفور ہم سے لے لے اور وہ جو کہتا ہے کہ فرقان مجید توریت و انجیل سے نکالا گیا ہے تو اُس کو چاہئے کہ اگر وید سے کام نہیں بنتا تو توریت و انجیل سے مدد لے اور اگر توریت یا انجیل وہ دلائل جو فرقان مجید پیش کرتا ہے پیش کر دیں گے تو ہم تب بھی کھڑک سنگھ کو پانچ سَو روپیہ نقد دیں گے ایک تو … تعداد پانچ سَو روپیہ بھی لکھ کر ہم بھیج دیتے ہیں لیکن اگر اس کے جواب میں خاموش رہے اور کچھ غیرت اور شرم اُس کو نہ آوے تو معلوم کرنا چاہئے کہ بڑا بے حیا اور بے شرم ہے کہ ایسی پاک اور مقدس کتاب کی ہتک کرتا ہے کہ جس کی ثانی حکمت اور فلسفہ میں اور کوئی کتاب نہیں تین ماہ سے بنام اُس کے بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ ہمارا مضمون چھپ رہا ہے اُس نے آج تک کون سے دلائل وید کے پیش کرے۔ شرم چہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید اور پہلی نشانی جو ہم نے عنوان اس مضمون میں لکھی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ فرقان مجید اپنے احکام میں سب کتابوں سے کامل تر ہے اور ہماری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے اور جس قدر فرقان مجید میں احکام ہدایت حسب حالت موجودہ دنیا کے مندرج ہیں کسی اور کتاب میں ہرگز نہیں۔ اگر کھڑک سنگھ وید، توریت، انجیل میں یہ سب احکام نکال دیں تو اس پر بھی ہم پانچ سَو روپیہ دینے کی شرط کرتے ہیں اگر کچھ شرم ہوگی تو ضرور بمقابلہ اُس کے وید سے بحوالہ پتہ و نشان لکھے گا ورنہ خود یہ لڑکے جن کو یہ بہکا رہا ہے سمجھ جائیں گے یہ جھوٹا ہے۔ کون منصف اس عذر کو سن سکتا ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ تمہارا وید محض ناقص ہے۔ تم یہ احکام وید سے نکال دو اگر ناقص نہیں تم یہ جواب دیتے ہو۔ ہمیں فرصت نہیں۔ وید یہاں موجود نہیں۔ بھلا یہ کیاجواب ہے۔ اس جواب سے تو تم جھوٹے ٹھہرتے ہو۔ جس حالت میں ہم پانچ سَو روپیہ نقد دینا کرتے ہیں ٹوبنو لکھ دیتے ہیں رجسٹری کرا دیتے ہیں تو پھر تمہارا وید بھی اگر کچھ چیز ہے تو کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے دن بیس دن کی مہلت لے لو دیانند کو اپنا مددگار بنا لو ہم کو وہ احکام نکال دو جو ہم نیچے فرقان مجید سے نکال کر لکھیں گے یا یہ اقرار کرو کہ یہ احکام ہمارے نزدیک ناجائز ہیں تب پھر اُن کے ناجائز ہونے کا نمبر وار وید سے حوالہ ضرور دو۔ غرض تم ہمارے ہاتھ سے کہاں بھاگ سکتے ہو اور یہ جو تم محض شرارت سے بارادہ توہین حضرت خاتم الانبیاء کی نسبت بدزبانی کرتے ہو یہ محض تمہاری بداصلی ہے اپنے پرچہ میں بھی تم نے ایسی ایسی اہانت سب پیغمبروں کی نسبت لکھی ہے ہم کو خدا نے یہ شرف بخشا ہے کہ ہم سب پیغمبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے ہم کو فرمایا ہے نجات سب مخلوقات کی اسلام میں سمجھتے ہیں تم کو اگر حضرت خاتم الانبیاء پر کچھ اعتراض ہے تو زبان تہذیب سے وہ اعتراض جو سب سے بھاری ہو تحریر کر کے پیش کرو ہم تمسک لکھ دیتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض تمہارا صحیح ہوا تو ہزار روپیہ ہم تم کو دے دیں گے اور تم ایک تو نموں لکھ دو کہ اگر وہ اعتراض جھوٹا نکلا تو سَو روپیہ بطور حرجانہ تم ہم کو دو گے اور اب اگرہماری یہ تحریر سن کر چپ ہو جاؤ اور اس شرط پر بحث شروع نہ کرو تو ہر ایک منصف سمجھ جائے گا کہ وہ سب توہین تم نے بے ایمانی سے کی ہے۔ اکثر لوگوں کا اکثر قاعدہ ہے کہ آفتاب پر تھوکتے ہو اور بجھا ہوا چراغ لے بیٹھے ہو دنیا کو بڑی چیز سمجھ رکھا ہے کہ موت سے ڈرتے نہیں۔ ورنہ ایسے آفتاب کی توہین کرنا جو نور دنیا کا ہے نری بے ایمانی ہے۔ جھوٹے آدمی کی یہ نشانی ہے کہ جاہلوں کے روبرو تو بہت لاف و گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت تو دے کر جاؤ حیران ہو جاتے ہیں… اب ہم نیچے وہ احکام فرقان مجید لکھتے ہیں کہ جن میں ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں یہ تمام احکام ضروریہ ہر گز موجود نہیں اس لئے وید ناقص تعلیم ہے اور تم کہتے ہو کہ ہیں اور ہم کہتے ہیں ہرگز نہیں اور لغت اُس شخص پر کہ جھوٹا ہے۔
اوّل خدا کی نسبت جو احکام فرقان مجید کے ہیں۔ خلاصہ آیات کا نیچے لکھتا ہوں۔
(۱) تم خدا کو اپنے جسموں اور روحوں کا ربّ سمجھو۔ جس نے تمہارے جسموں کو بنایا اور جس نے تمہاری روحوں کو بنایا۔ وہی تم سب کا خالق ہے اُس میں کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔
(۲) آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور جتنی نعمتیں زمین آسمان میں نظر آتی ہیں یہ کسی عمل کنندہ کے عمل کی پاداش نہیں۔ محض خدا کی رحمت ہے کسی کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا کہ میری نیکیوں کی عوض میں خدا نے سورج بنایا یا زمین بچھائی یا پانی پیدا کیا۔
(۳) تو سورج کی پرستش نہ کر تو چاند کی پرستش نہ کر تو آگ کی پرستش مت کر تو پتھر کی پرستش مت کر تو مشتری ستارہ کی مت پوجا کر تو کسی آدم زاد یا کسی اور جسمانی چیز کو خدا مت سمجھ کہ یہ سب چیزیں تیری ہی نفع کے واسطے ہم نے پیدا کی ہیں۔
(۴) بجز خدا کے کسی چیز کی بطور حقیقی تعریف مت کر کہ سب تعریفیں اُسی کی طرف راجع ہیں بجز اس کے کسی کو اُس کا وسلیہ مت سمجھ کہ وہ تجھ سے تیری رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔
(۵) تو اس کو ایک سمجھ کہ جس کا کوئی ثانی نہیں تو اس کو قادر سمجھ جو کسی فعل قابل تعریف سے عاجز نہیں تو اُس کو رحیم اور فیاض سمجھ کہ جس کی رحم اور فیض پر کسی عالم کے عمل کو سبقت نہیں۔ دوئم حالت موجودہ دنیا کی مطابق گناہوں کے نسبت۔
(۱) تو سچ بول اور سچی گواہی دے اگرچہ اپنے حقیقی بھائی پر ہو یا باپ پر ہو یا ماں پر یا کسی اور پیارے پر ہو اور حقانی طرف سے الگ مت ہو۔
(۲) تو خون مت کر کیونکہ جس نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا وہ ایسا ہے کہ جس نے سارے جہان کو قتل کر دیا۔
(۳) تو اولاد کشی اور دختر کشی مت کر تو اپنے نفس کو آپ قتل مت کر تو کسی کافر و ظالم کا مددگار مت ہو تو زنا مت کر۔
(۴) تو کوئی ایسا فعل مت کر جو دوسرے کا ناحق باعث آزار ہو۔
(۵) تو قمار بازی نہ کر تو شراب مت پی تو سود مت لے اور جو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے وہی دوسرے کے لئے کر۔
(۶) تو نامحرم پر ہرگز آنکھ مت ڈال نہ شہوت سے نہ خالی نظر سے کہ یہ تیرے لئے ٹھوکر کھانے کی جگہ ہے۔
(۷) تم اپنی عورتوں کو میلوں اور محفلوں میں مت بھیجو اور اُن کو ایسے کاموں سے بچاؤ کہ جہاں وہ ننگی نظر آویں۔ تم اپنی عورتوں کو زیور چھنکاتی ہوئی خوش اور پسند لباس کوچوں اور بازاروں اور میلوں کی سیر سے منع کرو اور اُن کو نامحرموں کی نظر بازی سے بچاتے رہو۔
تم اپنی عورتوںکو تعلیم دو اور دین اور عقل اور خدا ترسی میں اُن کو پختہ کرو اور اپنے لڑکوں کو علم پڑھاؤ۔
(۸) تو جب حاکم ہو کر کوئی مقدمہ کرے تو عدالت سے کر اور رشوت مت لے اور جب تو گواہ ہو کر پیش ہو تو سچی سچی گواہی دے دے اور جب تیرے نام حاکم کی طرف سے بغرض ادا کسی گواہی کے حکم طلبی کا صادر ہو تو خبردار حاضر ہونے سے انکار مت کیجیو اور عدولی حکمی مت کریو۔
(۹) تو خیانت مت کر تو کم وزنی مت کر اور پورا پورا تول تو جنس ناقص کو عمدہ کی جگہ مت بیچ تو جعلی دستاویز مت بنا اور اپنی تحریر میں جعلسازی نہ کر تو کسی پر تہمت مت لگا اور کسی کو الزام مت دے کہ جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں۔
(۱۰) تو چغلی نہ کر تو گلہ نہ کر تو نمامی مت کر اور جو تیرے دل میں نہیں وہ زبان پر مت لا۔
(۱۱) تیرے پر تیرے ماں باپ کا حق ہے جنہوں نے تجھے پرورش کیا۔ بھائی کا حق ، محسن کا حق ہے، سچے دوست کا حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے، ہم وطنوں کا حق ہے، تمام دنیا کا حق ہے۔ سب سے رتبہ برتبہ ہمدردی سے پیش آ۔
(۱۲) شرکاء کے ساتھ بدمعاملگی مت کر، یتیموں اور ناقابلوں کے مال کو خوردبرد مت کر۔
(۱۳) اسقاط حمل مت کر، تمام قسموں زنا سے پرہیز کر کسی عورت کی عزت میں خلل ڈالنے کیلئے اُس پر کوئی بہتان مت لگا۔
(۱۴) روبخدا ہو اور روبدنیا نہ ہو کہ دنیا ایک گذر جانے والی چیز ہے اور وہ جہاں ابدی جہان ہے بغیر ثبوت کامل کے کسی پر نالائق تہمت مت لگا کہ دلوں اور کانوں اور آنکھوں سے قیامت کے دن مواخذہ ہوگا۔
(۱۵) کسی سے جبراً کوئی چیز مت چھین اور فرض کو عین وقت پر ادا کر اور اگر تیرا قرضدار نادار ہے تو اُس کو قرض بخش دے اور اگر اتنی طاقت نہیں تو قسطوں سے وصول کر لیکن تب بھی اُس کی وسعت وقت دیکھ لے۔
(۱۶) کسی کے مال میں لاپروائی سے نقصان مت پہنچا اور نیک کاموں میں مدد دے۔
(۱۷) اپنے ہمسفر کی خدمت کر اور اپنے مہمان سے تواضع سے پیش آ۔ سوال کرنے والے کو خالی مت پھیر اور ہر ایک جاندار بھوکے پیاسے پر رحم کر۔
(۱۸) لوگوں کے راز جوئی مت کر اور کسی کے گھر میں بغیر اُس کی اجازت کے اندر مت جا اور کسی شخص کو دھوکہ دینے کی نیت سے کوئی کام مت کر دغا اور فریب اور نفاق سے دور رہ اور ہر ایک شخص سے صفا دلی سے معاملہ کر اور یتیموں اور ہمسایوں اور غریبوں خواہ رشتہ دار ہوں خواہ غیر رشتہ دار ہوں خواہ غیر تعلق والے ہوں اور ساتھ والے مسافروں اور راہ گیروں اور غلاموں پر مہربانی کرو۔ (خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ)
٭٭٭
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کے نام
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں سے آسمانی نشان دکھلانے کے متعلق جو خط و کتابت بتوسل حضرت مولوی نور الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ہوئی تھی اُس کے متعلق کسی انٹروڈکٹری نوٹ کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس خط سے پہلے جس کا یہاں درج کرنا مقصود ہے ایک تمہیدی نوٹ لکھ دیا ہے میں اسے ہی درج کر دیتا ہوں۔
(یعقوب علی)
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت میرے مخلص دوست اور للہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷؍ جنوری ۱۸۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے٭ اوروہ یہ ہے ۔ خاکسار بابکار نورالدین بحضور خدام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمہ الرحمن السلام علیکم
٭ حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرے لکھتا ہوں۔ غور سے پڑھنا چاہئے نہ معلوم کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدرو صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے تیار ہوں اگر آپ کے مشن کوانسان خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار (مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں ک ام آوے‘‘۔ تمام کلامہ جزاد اللہ
حضرت مولوی جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ اُن کی روح بول رہی ہے۔ درحقیقت ہم اُس وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اُس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ الا دوا لا مانات الیح اھلھا
سر کہ نہ در پائے عزیزش رود
بار گراں است کشیدن بدوش
منہ
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد بہ کمال ادب عرض پرداز ہے۔ غریب نواز، پریروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہاہے۔ سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے۔ سرخی سے اس پر قلم پھیر دو۔ میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی۔ مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا۔ یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو۔
اب ناظرین پر واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کوتخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر ان کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اُس کی نظیر نہ پیدا کر سکیں۔ اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اُس پہلی قید کو اُٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں۔ کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں تو اخبارات ۱؎ مندرجہ حاشیہ میں حلفاً یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اس وقت حلفاً یہ اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائی دمیں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اُس کا کوئی نمونہ اُنہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا۔ اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم و قدوس بازی اور کھیل کی طرح
۱؎ پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور۔ اور نور افساں لودیانہ۱۲
کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار و ہدایت یابی کی غرض سے اُس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی۔ طالب حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں۔ اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں۔
ہماں بہ کہ جاں در رہ او فشانم
جہاں را چہ نقاں اگر من نہ مانم
والسلام علی من اتبع الھدی
٭٭٭
بنام پنڈت لیکھرام آریہ مسافر
اصل خط نہیں ملا صرف اس خط کے اقتباس لیکھرام کی تکذیب سے لئے ہیں۔ اس لئے ان کو ہی مفصل درج کر دیا جاتا ہے بہرحال اس اقتباس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا لکھا ہوگا۔ (ایڈیٹر)
پہلے اشتہار میں … (۲۴۰۰) دینے کا وعدہ ضرور ہوا ہے مگر پیشگی جمع کر دینے کی شرط نہیں کی تھی چونکہ آپ نے میرے وعدہ کو معتبر نہ سمجھا اور یہ زائد شرط لگائی کہ زرِ معہودہ کسی بنک سرکاری میں جمع کر دیا جائے اس صورت میں میرے لئے بر خلاف اس اشتہار کے استحقاق پیدا ہو گیا کہ چوبیس سَو روپیہ بالمقابل پیشگی امانت رکھاؤں۔
اخیر پر آپ اس قسم کے نشانوں کو قبول کرتے ہیں کہ ستاروں، آفتاب و ماہتاب کے تغیر و تبدل وغیرہ پر مشتمل ہوں۔
پنڈت صاحب! ہمارا یہ کام ہرگز نہیں کہ ہم جس طور سے کوئی شخص زمین و آسمان میں انقلاب پیدا کرنا چاہے اس طور سے انقلاب کر کے دکھا دیں۔ ہم صرف بندہ مامور ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور پر کا نشان ظاہر کرے گا۔ ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ نشان اس شے کا نام ہے کہ انسانی طاقت سے بالاتر ہو ہمارا دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ صرف ایسا نشان دکھائے گا جس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں۔
لفظ نشان کو اپنی اصطلاح میں معجزہ قرار دے کر یہ تعریف لکھتے ہو کہ اس کے مقابلہ سے انسانی طاقتیں عاجز ہوں تو واقعی یہ معنی معجزہ کے درست ہیں کہ مشاہدیں فوراً عاجز ہو کر مشاہدہ کرانے والے پر ایمان لاویں اور دور تک مؤثر ہووے۔ غرضیکہ اظہر من الشمس ہونا چاہئے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان
(۳۱؍ جولائی ۱۸۸۵ء)
٭٭٭
مینیجر گروکل گوجرانوالہ کے نام
فروری ۱۹۰۷ء کو گوجرانوالہ گروکل کے مینیجر کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں متواتر خطوط وہاں کی مذہبی کانفرنس میں شمولیت کیلئے آئے یہ کانفرنس آریوں کی طرف سے قرار پائی تھی۔ اس کانفرنس میں مختلف مذہب کے لیڈروں کو مدعو کیا گیا تھا اور ہر ایک کے لئے نصف گھنٹہ مقرر کیا تھا کہ وہ تقریر کریں نصف گھنٹہ میں مذہب جیسی چیز کا فیصلہ آریوں کے نزدیک آسان ہو تو یہ امر دیگر ہے لیکن جو شخص مذہب کی حقیقت اور صداقت کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہو اس کے لئے یہ ہنسی کی بات ہے۔بہرحال وہاں کے مینیجر صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں متواتر خطوط لکھے اور وقت کی توسیع کے لئے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ آپ جلسہ مذاہب میں ضرور تشریف لاویں سب کے واسطے نصف گھنٹہ مقرر کیا ہے اور ایک عالم کے واسطے یہ وقت کافی ہے اس خط کا جواب حضرت اقدس نے مفتی صاحب (برادرم محمد صادق) کو زبانی فرما دیا کہ یہ لکھ دو۔ چنانچہ مفتی صاحب نے وہ خط لکھ دیا۔ چونکہ یہ حضرت اقدس ہی کی طرف سے ہے اور حضرت ہی کے کلمات ہیں اس لئے اس کو درج کیا جاتا ہے۔ (ایڈیٹر)
٭٭٭
جناب مینیجر صاحب گروکل گوجرانوالہ تسلیم
آپ کا دوسرا خط حضرت کی خدمت میں پہنچا جس میں آپ نے ظاہر کیا ہے کہ آپ نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور کہ ایک عالم کے واسطے بہ سبب اس کے علم کے اتنا وقت کافی ہے۔ بجواب گزارش ہے کہ حضرت فرماتے ہیں:
کہ اہم مذہبی امور پر گفتگو کرنے کے واسطے اتنا تھوڑا وقت کسی صورت میں کافی نہیں ہو سکتا۔ اس واسطے ہم ایسی مجلس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ کم از کم تین گھنٹہ وقت ہمارے مضمون کے واسطے رکھتے تو ممکن تھا کہ ہم خود جاتے یا اپنا کوئی فاضل دوست اپنا مضمون دے کر بھیج دیتے ہم کسی طرح سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ایسے مضامین عالیہ میں صرف آدھ گھنٹے کی تقریر کافی ہے ہم رسوم کے پابند نہیں بلکہ ہم پابند احقاق حق ہیں۔ باقی آپ کا یہ فرمانا کہ بڑے عالم کے واسطے نصف گھنٹہ ہی کافی ہے مجھے تعجب ہے کہ یہ بات آپ کیونکر درست قرار دیتے ہیں جب کہ آپ کے وید مقدس لکھنے والوں نے اپنی باتوں کو ختم نہ کیا جب تک کہ وہ ایک گدھے کے بوجھ کے برابر ہوگئے تو پھر آپ ہم سے یہ امید کیونکر رکھتے ہیں۔ ایک نکتہ معرفت کاقبل از تکمیل گلا گھونٹا درحقیقت سچائی کا خون کرنا ہے جس کو کوئی راستباز پسند نہ کرے گا۔ اگر علم و فضل کا معیار حد درجہ کے اختصار اور تھوڑے وقت میں ہوتا تو چاہئے کہ وید صرف چند سطروں میں ختم ہو جاتا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس تھوڑے وقت نے مجھے اس اشتراک سے محروم رکھا کیا خدا تعالیٰ کی ذات صفات کی نسبت کچھ بیان کرنا اور پھر روح اور مادہ میں جو کچھ فلاسفی مخفی ہے اس کو کھولنا آدھ گھنٹہ کا کام ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ لفظ ہی سوء ادب میں داخل ہے۔
جن لوگوں کو محض شراکت کا فخر حاصل کرنا مقصود ہے وہ جو چاہیں کریں مگر ایک محقق ناتمام تقریر پر خوش نہیں ہو سکتا۔ سچائی کو ناتمام چھوڑنا ایسا ہے جیسا کہ بچہ اپنے پورے دنوں سے پہلے پیٹ سے ساقط ہو جائے۔ آئندہ آپ کا جو اختیار ہے۔
خادم مسیح موعود علیہ السلام
محمد صادق عفی اللہ عنہ
(۱۷؍ فروری ۱۹۰۷ء)
٭٭٭
سوامی دیانند سرستی کے نام اعلان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مضمون ابطال تناسخ پر بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ لکھ کر رسالہ ہندو باندھو لاہور میں چھپوایا تھا۔ سوامی دیانند صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کی دعوت دی اور تین آریوں کی معرفت پیام بھی بھیجا۔ حضرت مسیح موعود نے پسند نہ کیا کہ یہ کارروائی مخفی رہے۔ اس لئے سوامی جی کی دعوت مباحثہ کا جواب بذریعہ ایک چھپے ہوئے اعلان کے جو بمنزلہ کھلی چٹھی تھا دے دیا۔ اس کو میں یہاں درج کرتا ہوں اور اس لحاظ سے کہ ناظرین پورا لطف اُٹھا سکیں اس سے پہلے وہ مضمون درج کر دیا جاتا ہے تا کہ جہاں ایک طرف ریکارڈ مکمل ہو جاوے وہاں ناظرین کو اصل کیفیت کے سمجھنے میں سہولت ہو اس اعلان کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے ایک خاص جوش بخشا گیا تھا اور آپ کسی ایسے موقعہ کو ہاتھ سے نہیں دیتے تھے یہ اعلان ۱۸۷۸ء کا ہے گویا آج سے قریباً ۳۵ سال پہلے کی بات ہے جب کہ نہ کوئی دعویٰ تھا نہ جماعت تھی ہاں خدا تعالیٰ کی تائید آپ کے ساتھ تھی اور وہ ابتدائی وقت تھا جب کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر نازل ہو رہا تھا۔ بہرحال وہ مضمون اعلان حسبِ ذیل ہے۔ (ایڈیٹر)

ابطال تناسخ ومقابلہ وید و فرقان
اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانچ سَو روپیہ جو پہلے بھی بہ مباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا۔
ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے۔ چنانچہ حسب خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ وید و قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا۔ برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہوگا ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائے اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تا کہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثبات تناسخ میں وید کی شرتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں رگوید سے پیش کیں کہ جن میں اُن کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو ردّ نہ کر سکے حالانکہ اُن پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلانے اور اس دعویٰ کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ وید سرچشمہ تمام علوم فنون کا ہے ثابت کرتے لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخود رہ گئے او رعاجز لاچار ہو کر اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے۔ گانوں میں جا کر پھر ایک مضمون بھیجا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق باقی ہے اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار چاہتے ہیں سو بہت خوب ہم پہلے ہی تیار ہیں۔ مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسہ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں وہ تمام مضمون دلائل و براہین قرآن مجید سے لکھا گیا ہے اور جا بجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے۔ پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو۔ پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریا درپن میں طبع کراویں۔ پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں مقرر کئے جاویں سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شیونرائن صاحب جو برہمو سماج میں اہل علم اور صاحب نظر دقیق ہیں۔ فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حَکَم بننے کے لئے بہت اولیٰ اور انسب ہیں اس طور سے بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں اوّل یہ کہ بحث تناسخ کی یہ تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی دوم اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہو جائے گا اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہل انصاف کی نظر میں ظاہر ہوگا وہی فرق قول فیصل متصور ہوگا۔ سوم یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلی اطلاع ہو جائے گی۔ چہارم یہ فائدہ کہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محول بہ کتاب ہو کر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کے تن تنہا محنت اُٹھائیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہوگا کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرح متوجہ نہیں ہونگے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ وید سے پیش کریں گے یا در صورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی اور نیز دعویٰ وید کا کہ گویا ہو تمام علوم فنون پر متضمن ہے محض بیدلیل اور باطل ٹھہرے گا اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک اشتہار تعدادی پانچ سَو روپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہٖ متعلق ہے۔ اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبروار جواب دلائل مندرجہ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اُس استعداد علمی کو روبروئے فضلاء نامدار ملت مسیحی و برہمو سماج کے دکھلاویں اور جو جو کمالات اُن کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں منصہ ظہور میں لاویں اور نہ عوام کالانعام کے سامنے دم زنی کرنا صرف لاف گزاف ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اب میں ذیل میں مضمون موعودہ لکھتا ہوں۔
مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ فلسفہ وید و قرآن جس کے طلب جواب میں صاحبان فضلاء آریہ سماج یعنی پنڈت کھڑک سنگھ صاحب، سوامی پنڈت دیانند صاحب، جناب باوا نرائن سنگھ صاحب، جناب منشی کنہیا لال صاحب، جناب منشی بختاورسنگھ صاحب۔ ایڈیٹر آریہ درپن، جناب بابو ساروا پرشاد صاحب، جناب منشی شرم پت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان، جناب منشی اندر من صاحب مخاطب ہیں بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ۔
آریا صاحبان کا پہلا اصول جو مدار تناسخ ہے یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور سب ارواح مثل پرمیشور کے قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی پرمیشور ہیں میں کہتا ہوں کہ یہ اصول غلط ہے اور اس پر تناسخ کی ٹپڑی جمانا بنیاد فاسد پر فاسد ہے۔ قرآن مجید کہ جس پر تمام تحقیق اسلام کی مبنی ہے اور جس کے دلائل کو پیش کرنا بغرض مطالعہ دلائل وید اور مقابلہ باہمی فلسفہ مندرجہ وید اور قرآن ہم وعدہ کر چکے ہیں ضرورت خالقیت باری تعالیٰ کو دلائل قطعیہ سے ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ وہ دلائل بہ تفصیل ذیل ہیں۔
دلیل اوّل جو برہان لمی ہے یعنی علت سے معلول کی طرف دلیل گئی ہے دیکھو سورہ رعد الجزو۱۳۔ اللّٰہ خالق کل شئی وھو الواحد القہار یعنی خدا ہر ایک چیز کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اور واحد بھی ایسا کہ قہار ہے یعنی سب چیزوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور ان پر غالب ہے یہ دلیل بذریعہ شکل اوّل کے جو بدیہی الانتاج ہے اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ صغریٰ اس کا یہ ہے جو خداواحد اور قہار ہے اور کبریٰ یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجودات ماسوائے اپنے کا، خالق ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے اثبات قضیہ اولیٰ یعنی صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدا تعالیٰ کا اصول مسئلہ فریق ثانی بلکہ دنیا کا اصول ہے اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبریٰ کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہو سکتا۔ واحد اس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ واحدانیت کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلی پاک ہو اور جب خدا تعالیٰ خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرک لازم آیا۔ اوّل یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہوکر مثل اس کے قدیم الوجود ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے۔ جو مستفاض عن الغیر نہیں پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے اور شرک بالغیر ذات باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے۔ پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اِس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کر لینا اور اُن پر قابض اور متصرف ہو جانا سو غیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کر سکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں اس لئے کہ اپنی تحقیق وجود میں دوسرے کسی علت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنی خود آئندہ کہتے ہیں۔ پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے تو اُن کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود کے ماتحت نہیں ہو سکتا۔ اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے۔ لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے یہ ہے کہ سب ارواح خدا تعالیٰ کے ماتحت ہیں کوئی اُس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا۔
دلیل دوم جو اِنّی ہے یعنی معلول سے علت کی طرف دلیل لی گئی ہے دیکھو سورۃ الفرقان جزو۱۸ لم یکن لہ شریک فی الملک و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔ بلکہ اُسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے اس کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محدود ضرور ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاضر اور محددہے۔ اب اثبات قضیہ اولیٰ کا یعنی محدود القدرہونے اشیاء کا اس طرح پر ہے کہ جمیع اجسام اور ارواح میں جو جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اُن خواص سے زیادہ خواص اُن میں پائے جاتے ہیں مثلاً انسان کی دو آنکھیں ہیں اور عندالعقل ممکن تھا کہ اُس کی چار آنکھیں ہوتیں دو منہ کی طرف اور دو پیچھے کی طرف تا کہ جیسا آگے کی چیزوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتا اور کچھ شک نہیں کہ چار آنکھ کا ہونا بہ نسبت دو آنکھ کے کمال میں زیادہ اور فائدہ میں دو چند ہے اور انسان کے پَر نہیں اور ممکن تھا کہ مثل اور پرندوں کے اُس کے پَر بھی ہوتے اور علی ہذا القیاس نفس ناطقہ انسانی بھی ایک خاص درجہ میں محدود ہے جیسا کہ وہ بغیر تعلیم کسی معلم کے خود بخود مجہولات کو دریافت نہیں کر سکتا۔ قاسر خارجی سے کہ جیسے جنون یا مخموری ہے سالم الحال نہیں رہ سکتا بلکہ فی الفور اس کی قوتوں اور طاقتوں میںتنزل واقع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بذاتہ ادراک جزئیات نہیں کرسکتا کہ اس کو شیخ محقق بوعلی سینا نے نمط سابع اشارات میں بتصریح لکھا ہے حالانکہ عندالعقل ممکن تھا کہ ان سب آفات اور عیوب سے بچا ہوا ہوتا۔ پس جن جن مراتب اور فضائل کو انسان اور اُس کی روح کے لئے عقل تجویز کر سکتی ہے وہ کس بات سے ان مراتب سے محروم ہے۔ آیا تجویز کسی اور مجوز سے یا خود اپنی رضامندی سے اگر کہو کہ اپنی رضا مندی سے تو یہ صریح خلاف ہے۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے حق میں نقص روا نہیں رکھتا اور اگر کہو کہ تجویز کسی اور مجوز سے تو مبارک ہو کہ وجود خالق ارواح اور اجسام کا ثابت ہو گیا اور یہی مدعا تھا۔
دلیل سوم قیاس الخلف ہے اور قیاس الخلف اُس قیاس کانام ہے جس میں اثبات مطلوب کا بذریعہ ابطال نقیض اُس کے کیا جاتا ہے اور اس قیاس کا علم منطق میں خلف اس جہت سے کہتے ہیں کہ خلف لغت میں بمعنی باطل کے ہیں اور اسی طرح اس قیاس میں اگر مطلوب کو کہ جس کی حقیقت کا دعویٰ ہے سچا نہ مان لیا جاوے تو نتیجہ ایسا نکلے گا جو باطل کو مستلزم ہوگا اور قیاس مذکورہ یہ ہے دیکھو سورہ الطور الجزو ۲۷۔ ام خلقوا من غیر شی ام ھم الخلقون۔ ام خلقوا السموات والارض لایقنون۔ ام عندھم خزائن ربک ام ھم المصیطرون۔ یعنی کیا یہ لوگ جو خالقیت خدا تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یوں ہی پیدا ہوگئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کر لیا یا خود علت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے اُنہوں نے ان سے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں اور کسی کے قبضہ قدرت میں مقہور نہیں ہیں یہ گمان ہو کہ جب کہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ اُن کا خالق کیسے ہو۔ اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہر پنج شقوں قدامت ارواح کہ اس طرز مدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اُس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اوّل یعنی ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خود بخود پیدا ہو جانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک مؤثر مرجح کو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عد م پر ترجیح دی لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرجح موجود نہیں اور بغیر وجود مرجح کے خود بخود ترجیح پیدا ہو جانا محال ہے۔
اور شق دوم یعنی اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علت موجبہ اُس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے۔
اور شق سوم یعنی ہر ایک شے کا مثل ذات باری کے علت العلل اور صانع عالم ہونا تعدد خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا بالاتفاق محال ہے اور نیر اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ے۔ اور شق چہارم یعنی محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیر متناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفس انسانی باعتبار تعین تشخیص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیر متناہی سما نہیں سکتا۔ اس سے تحدید غیر محدود کی لازم آتی ہے۔
اور شق پنجم یعنی خود مختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت ہونا ممتنع الوجود ہے کیونکہ نفس انسان کا بضرورت استکمال ذات اپنی کے ایک مکمل کا محتاج ہے اور محتاج کا خود مختار ہونا محال ہے۔ اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے۔پس جب کہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہرصورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ تمام اشیاء موجودہ محدودہ کاایک خالق ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے اور شکل اس قیاس کی جو ترتیب مقدمات صغریٰ کبریٰ سے باقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہِ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑ سکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے۔ پس اگر یہ قضیہ حیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالات خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالات خمسہ کے ایک امر محال ہے۔ پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امر محال ہے۔ اور یہی مطلوب تھا۔
دلیل چہارم قرآن مجید میں بذریعہ مادۂ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے۔ جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اصغر اور اوسط اور اکبر مقترن ہوتی ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بباعت استیفاتام کے مفید یقین کامل کے ہے پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالیٰ میں گواہی دے رہا ہے دیکھو سورہ الحشر جزو ۲۸۔ ھواللّٰہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی۔ وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے۔ وہ مصور ہے یعنی صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں۔ یعنی جمیع صفات کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اُس کی ذات میں جمع ہیں لہٰذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلیٰ کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت شکل اوّل کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشنا ایک کمال ہے اور سب کمالات ذات کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کاکمال بھی ذات باری کو حاصل ہے۔ ثبوت مفہوم صغری کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنی یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آ کر معاون و مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے۔ کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جا بجا خرچ ہوگیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعاً عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اُس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے۔
سوائے اس کے علم الہٰیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہوچکا ہے کہ مستجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقیق الوہیت کے لئے شرط ہے یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گذر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو پس بلاشبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدرت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنیٰ کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے۔ پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الٰہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرناعالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑ ہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا۔ پس صغری اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا اور ثبوت کبری کا یعنی اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا بہ مجبوری ہے۔ اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا اور نیز جب کہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی اور اگر کہو کہ مجبوری سے تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا کہ جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپناہی ضعف اور ناتوانی ہے کوئی خارجی قاسر نہیں بہرحال وہ مجبور ٹھہرا تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا۔ پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالیٰ داغ مجبوری سے کہ بطلان الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کاملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا۔
دلیل پنجم فرقان مجید میں خالقیت باری تعالیٰ پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں عین نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنی ایک شرطیہ اور دوسرے وضیعہ سے۔ چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر متصمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ الزم جزو ۲۳۔ یخلقکم فی بطون امھتکم خلقاً من بعد خلق فی ظلمات ثلاث ذالکم اللّٰہ ربکم یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کاملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک … اور قسم کی بناتا ہے یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے یہاں تک کہ قالب بیجان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اُس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ جاری رکھنے میں اس کو کچھ دقت اور حرج واقعہ ہوتا ہے۔ ذالکم اللّٰہ ربکم وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو برپا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا ربّ ہے۔ یعنی اسی قدرت تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ربّ الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیت تامہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے اِدھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہر وقت کامیاب نہ ہو سکتا بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آ جاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ جس شخص کا فعل ربوبیت تامہ سے نہ ہو یعنی از خود پیدا کنندہ نہ ہو اس کو قدرت تامہ مخفی حاصل نہیں ہو سکتی لیکن خدا کو قدرت تامہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلاتخالف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرت تامہ کی کامل نشانی ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کو ربوبیت تامہ حاصل ہے اور درحقیقت وہ ربّ الاشیاء ہے نہ صرف دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہو جاتا کیونکہ جس کا فعل اختیار تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا۔
اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہو اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے۔
ثبوت صغریٰ کا یعنی اس بات کا جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر کہ عقل اس بات کی ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقعہ نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اُس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہر تعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے اور ایسا اختیار نام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کا اس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت اور ہر تعداد تک اُن چیزوں کا میسر ہو جانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عندالعقل ممکن التخلف ہے اور عدم تخلف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہرگز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہو اسی واسطے کوئی مخلوق اہل حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ کل اہل صنائع کا دستور ہے کہ جب کوئی بار بار اُن کی دوکان پر جا کر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنا دو تو آخر اُس کے تقاضے سے تنگ آ کر اکثر بول اُٹھتے ہیں کہ میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کر دوں فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنا دوں گا۔ غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تمام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے۔ یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو۔ یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے جان نہ پڑ سکے۔ پس بالضرورت صغری ثابت ہوا۔
اور کبریٰ شکل کا یعنی یہ کہ مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے۔ خود ثبوت صغریٰ سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ میں قدرت ضروریہ تامہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض الفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدا تعالیٰ کو میسر نہ ہو سکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں ضروری نہیں۔ حالانکہ تعلق پکڑنا روح کا جنین کے جسم سے بر وقت تیاری جسم اس کے لازم ملزوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ فعل خداتعالیٰ کا بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرت تامہ کی خدا تعالیٰ کے لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول متقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق ہیں۔ پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رحموں میں تیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا حالانکہ جنینوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ بداہت عقل باطل ہے پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل۔ پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا۔
دلیل ششم قرآن مجید میں بماوہ قیاس مرکب قائم کی گئی اور قیاس مرکب کی یہ تعریف ہے کہ ایسے مقدمات سے مؤلف ہو کر اُن سے ایسا نتیجہ نکلے کہ اگرچہ وہ نتیجہ خود بذاتہٖ مطلب کو ثابت نہ کرتا ہو لیکن مطلب بذریعہ اس کے اس طور سے ثابت ہو کہ اُسی نتیجہ کو کسی اور مقدمہ کے ساتھ ملا کر ایک دوسرا قیاس بنایا جائے۔ پھر خواہ نتیجہ مطلوب اسی قیاس دوم کے ذریعہ سے نکل آوے یا اور کسی قدر اسی طور سے قیاسات بنا کر مطلوب حاصل ہو دونوں صورتوں میں اس قیاس کو قیاس مرکب کہتے ہیں اور آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ بقر الجزو۳۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم لاتاخذہ سنۃ ولانوم لہ مافی السموات وما فی الارض۔ یعنی خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقا ہر چیز کا اسی کے بقا اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہر دم تھامے ہوئے ہے نہ اس پر اونگ طاری ہوتی ہے نہ نیند اُسے پکڑتی ہے۔ یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس جب کہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے پس ثابت ہے کہ ہر ایک مخلوقات آسمانوں کا اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے باقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے (جز اوّل قیاس مرکب کی) (صغریٰ) خدا کو بلا شرکتہ الغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبری) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے (نتیجہ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (جز ثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اوّل کا صغریٰ قیاس کا بنایا گیا ہے (صغری) (خداوند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے۔ (کبریٰ) اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے) (نتیجہ)(خدا تمام چیزوں کا خالق ہے) صغریٰ جزو اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشرکتہ الغیرے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے باقرار فریق ثانی ثابت ہے۔ پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبریٰ جز اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی، ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہو یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا۔ دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہو سکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کاذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے۔ حالانکہ ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے۔ پس ماننا پڑا کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں ہے یعنی حیات اور بقا دوسروں کی اس کی حیات اور بقا پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہوگا بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی۔ نہ بطور علت حقیقۃ حافظ الاشیاء کے کیونکہ مؤثر بالقسر اسے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متاثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زید نے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اُسی وقت پتھر چلاتے ہی مر گیا تو بیشک اسی پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی۔ پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدا تعالیٰ کومحض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر پرمیشور کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرات کا کچھ بھی حرج نہ ہو کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب کے کہ جس کو اُنہوں نے سیتارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیاناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے۔ وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقا اور حیات میں بالکل پرمیشور سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پرمیشور کو مخلوقات سے نسبت ہے۔ یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پرمیشر گری کا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے۔ لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پرمیشور کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقا اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح سے بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پر پرمیشور کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہو سکے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پرمیشور کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے۔ کاش اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نجاروں سا نہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پرمیشور کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ لیکن شاید وید میں بھی لکھا ہوگا ورنہ میں کیونکر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومت پروردگار جو اجلیٰ بدیہیاتت ہے کچھ شک نہیں ہے اور اگر پنڈت صاحب پرمیشور کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی بدیا ہے اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے۔ دیکھو فرقان مجید میں صفت قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکرر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا ہے۔ سورۃ النور اللّٰہ نور السموات والارض یعنی خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے۔ پس اس ہماری تحقیق سے جز اوّل قیاس مرکب کی ثابتہوئی اور صغریٰ جز ثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اوّل قیاس کا نتیجہ ہے اور جز اوّل قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہوچکی ہے پس نتیجہ بھی ثابت ہو گیا اور کبریٰ جزو ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اُسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور اُن کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو… اور شرط کے یہ معنی ہیں کہ اگر اُس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے۔ جیسے کہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو پس یہ قول کہ اگر خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو بعینہٖ اس قول کے مساوی ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود نہ ہوتا تو کسی چیز کا وجود نہ ہوتا۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ وجود خالق کا وجود مخلوق کے لئے علت ہو۔ پس ثابت ہو گیا کہ خدا خالق ہے اور یہی مطلب تھا۔ الراقم
مرزا غلام احمد۔رئیس قادیان
سوامی دیانند صاحب کے نام کھلا خط بصورت اعلان
سوامی دیانند صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کا بے انت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا کا ثابت کیا ہے معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر ارواح حقیقت میں بے انت نہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی خانہ سے باہر نکالے جاتے ہیں اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہئے چنانچہ اس بارے میں سوامی صاحب کا خط بھی آیا۔ اس خط میں بحث کا شوق ظاہرکرتے ہیں اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالمواجہ ہم کو بسرو چشم منظور ہے۔ کاش سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام اور ثالث بالخیر اور انعقاد جلسہ کی تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے مشتہر کر دیں لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران برہم سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہونگے قرار پاوے گا۔ اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہوگا کیونکہ ہم معترض ہیں۔ پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط جو چاہیں گے جواب دیں گے۔ پھر ان کاجواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہوگا اور بحث ختم ہو جائے گی۔ ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی بحث اور اعتراضوں کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے۔ اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو پس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں اور مکت پایوں کی واپسی میں جو مفاسد ہیں مضمون مشتملہ متعلقہ اِس اعلان میں درج ہیں۔ ناظرین پڑھیں اور انصاف فرمائیں۔
مرزا غلام احمد رئیس قادیان
(۱۰؍ جون ۱۸۷۸ء)
باوا صاحب کی شرائط مطلوبہ پرچہ سفیر ہند ۲۳؍ فروری کا ایفاء اور نیز چند امور واجب العرض بتفصیل ذیل
(۱) اوّل ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل میں جو حسب درخواست ہماری معزز دوست باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے لفظ فرمانہ کا جو بجائے لفظ انعام کے ثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے ورنہ ظاہر رہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ زر موعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں تا اس کا نام جرمانہ رکھا جائے بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے بطیب نفس و رضائے خاطر بلااکراہ غیرے کسی مجیب مصیبت کو بپاداش اُس کے جواب باصواب کے دینا مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم درحقیقت بصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں جرمانہ نہیں ہے اور نہ از روئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدق نیت کچھ رائے دینا داخل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہو سکے غرض اس موقعہ پر ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مہمل اور بے محل ہے لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدم الذکر میں بزمرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ بجائے لفظ انعام کے لفظ جرمانہ کا لکھا جاوے تب ہم جواب دیں گے سو خیر میں وہی لکھ دیتا ہوں کاش باوا صاحب کسی طرح جواب اُس سوال اشتہاری کا دیں۔ ہر چند میں جانتا ہوں جو باوا صاحب اس جرح قانونی میں بھی غلطی پر ہیں اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے۔
(۲) شرط دوئم باوا صاحب کی اس طرح پوری کر دی گئی ہے جو ایک خط بقلم خود تحریر کر کے باقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک باوا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اوّل تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو باضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانوناً تاثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے بلکہ وہ بلحاظ تعدد نقول کے گویا صد ہا تمسک ہیں علاوہ ازاں چٹھیات خانگی بھی جو کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں ایک قومی دستاویز ہیں اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں۔ سو چٹھی خاص بھی بھیجی گئی ماسوائے اس کے جب کہ اس معاملہ میں اشتہارات زبانی ثالثوں کے بھی موجود ہوگی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی۔ لیکن چونکہ مجھ کو اتمام حجت مطلوب ہے اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کریں گے تو فوراً اقرار نامہ مطلوبہ اُن کا معرفت مطبع سفیر ہند کے یا جیسا مناسب ہو خدمت میں اُن کی بھیجا جاوے گا۔ لیکن باوا صاحب پر لازم ہوگا کہ درصورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام کی واپس کریں۔
(۳) شرط سوم میںباوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں سو واضح ہو اگر باوا صاحب کا اس فکر سے دل دھڑکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہو تو کس جائداد سے وصول ہوگا تو اس میں یہ عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں تو صاحب موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں صرف اس قدر نشاندہی کافی ہے کہ درصورت تردد کے ایک معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیج دیں اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قصبہ مذکور میں قیمتی چھ سات ہزار روپیہ کے موجود اور واقعہ ہیں اُن کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلی کر لیں اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ پر روپیہ کا نہیں ہو سکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہوگا کہ جب کل آرائے تحریری ثالثان اہل انصاف کے جن کے اسماء مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا سفیرہند میں بشرائط مشروطہ پرچہ ہذا کے طبع ہو کر شائع ہو جائیں گی۔
(۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کو منصفان تنقید جواب قرار دیا ہے مولوی سید احمد خان صاحب، منشی کنہیا لال صاحب، منشی اندر من صاحب مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں بلکہ میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان میں مولوی سید احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں درج کر دیا۔ اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ اُن کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں سوامی پنڈت دیانند سرستی، حکیم محمد شریف صاحب امرتسری، مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب لاہوری لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے قرار پانے چاہئیں۔ سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابو رلارام صاحب جو علما وہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں۔ اور آپ کو بھی اس میں کچھ کلام نہ ہو بہتر اور انسب ہیں۔ ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہوگی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب آپ کو قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروں گا اور تصفیہ اس طرح پر ہوگا کہ بعد طبع ہونے کے جواب آپ کے اُن سب صاحبوں کو جو حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ دار ہوگا کہ اپنے منفصین مجوزہ کو آپ اطلاع دے۔ تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر۱ کو دیکھیں گے اور بعد اُس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذا کو جس میں آپ کے جواب الجواب کا جو ۱۸؍ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا ازالہ ہے بغور ملاحظہ فرمائیں گے۔ پھر آپ کا جواب بتدبر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے ردّ ہوگئے یا نہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونو امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہوگا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اُس نے کوئی رائے ظاہر نہیں کیا۔ غرض کوئی رائے شہادت میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدلل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آرا سے سفیر ہند میں درج ہونگے۔ نہ کسی اور پرچہ میں بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے باستثناء بابورلارام صاحب کے کہ اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو اپنا رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا اختیار ہوگا اور جب کہ یہ سب آرائے بقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تو اُس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہوگا اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہوا تو باوا صاحب کوڈگری ملے گی ورنہ آنحضرت مغلوب رہیں گے۔
اشتہار مبلغ پانچ سَو روپیہ
میں راقم اُس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ ۹؍ فروری اور بعد اُس کے سفیر ہند میں بدفعات درج کر چکا ہے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو اُن سے متفق الرائے ہوں ہماری اُن وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز اُن دلائل کے تردید جو بتصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبیں ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقہ یقیننیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پرمیشور کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچ سَو نقد اُس کو بطور جرمانہ کے دوں گا اور درصورت نہ ادا ہونے روپیہ کے مجیب مثبت کو اختیار ہوگا کہ امداد عدالت سے وصول کرے تنقید جواب کی اُس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہماری کے مطبوع ہوگا۔
المشتہر
مرزا غلام احمد رئیس قادیان
جواب الجواب
باوا نرائن سنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرتسر مطبوعہ پرچہ آفتاب ۱۸؍ فروری
اوّل باوا صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خداروحوں کا خالق ہے اوران کو پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے جواب الجواب میں قبل شروع کرنے مطلب کے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ از روئے قاعدہ فن مناظرہ کے آپ کا ہرگز یہ منصب نہیں ہو سکتا کہ آپ روحوں کے مخلوق ہونے کا ہم سے ثبوت مانگیں بلکہ یہ حق ہم کو پہنچتا ہے کہ ہم آپ سے روحوں کے بِلا پیدائش ہونے کی سند طلب کریں کیونکہ آپ اسی پرچہ مذکور العنوان میں خود اپنی زبان مبارک سے اقرار کر چکے ہیں کہ پرمیشور قادر ہے اور تمام سلسلہ عالم کا وہی منتظم ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ ثبوت دینا اس امر جدید کا آپ کے ذمہ ہے کہ پرمیشور اوّل قادر ہو کر پھر غیر قادر کس طرح بن گیا ہمارے ذمہ ہرگز نہیں کہ ہم ثبوت کرتے پھریں کہ پرمیشور جو قدیم سے قادر ہے وہ اب بھی قادر ہے۔ سو حضرت یہ آپ کو چاہئے تھا کہ ہم کو اس بات کا ثبوت کامل دیتے کہ پرمیشور باوصف قادر ہونے کے پھر روحوں کے پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہے گا ہم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ پرمیشور (جو قادر تسلیم ہو چکا ہے) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں پس اس وقت تک تم ہم میں اور آپ میں کچھ تنازعہ نہ تھا۔ پھر تنازعہ تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا کرنے سے اس قادر پرمیشور کو عاجز سمجھا۔ اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بار ثبوت کس کے ذمہ ہے؟ اور اگر ہم بطریق تنزل یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اگرچہ دعویٰ آپ نے کیا مگر ثبوت اس کا ہمارے ذمہ ہے پس آپ کو مژدہ ہو کہ ہم نے سفیر ہند ۲۱؍ فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل دے دیا ہے۔ جب آپ بنظر انصاف پرچہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کی تسلی کامل ہو جائے گی اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہئے جو موجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیروں پر قابض ہو کر خدائی کرے۔
اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گزرتا ہے کہ پرمیشور جو اپنی نظیر نہیں پیدا کر سکتا شاید اُسی طرح ارواح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہ ہوگا۔ پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکور ۹؍ فروری میں پختہ دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اُس کی صفات قدیم کا زوال لازم آوے جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا۔ اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا کیونکہ اگر ایسا کرے تو اُس کی صفات قدیمہ جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے زائل ہو جائیں گی۔ پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفات ازلیہ کے ہرگز نہیں کرتا۔ باقی سب افعال پر قادر ہے۔ پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے۔ ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیدا کرنے نظیر اپنی کے خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہو جاتا۔
پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد کے محتاج باسباب سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پرمیشور روحوں کو پیدا کر لیتا ہے تو اس وہم کے دفع میں پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ پرمیشور کی قدرت کاملہ میں ہرگز یہ بہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آ جایا کرے۔ دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا نمونہ موجود ہیں کہ قدرت مدرکہ انسان کی ان کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر عقل میں نہ آنا اور چیز ہے اور اس کا محال ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے؟ بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو۔ اوّل خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی حقیقت میں اپنی بات کو آپ ردّ کرنا ہے کیونکہ اگر وہ فی حد ذاتہِ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا آپ کی پستکوں میں قادر اور سرب شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسل اسباب کے کارخانہ قدرت اس کی کا بندر ہے۔ اور نراہ اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے۔ شاید آپ کے ہاں لکھا ہوگا مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے ہمارا تو وہ قادر خدا ہے کہ جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا اور جو چاہے گا سو ہوگا۔
پھر باوا صاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا نہیں بنا سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہئے کہ خدا روح نہیں پیدا کر سکتا۔ اس فہم اور ایسے سوال سے اگر میں تعجب نہ کروں تو کیا کروں صاحب من تو میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا اب میں بار بار یہاں تک لکھوں میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بین فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اُٹھتا کہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش پر قیاس کرنا خیال فاسد ہے کیونکہ دوسرا خدا بنانے میں وہ صفت ازلی پرمیشور کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہو جائے گی۔ لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ ناپید کرنے میں ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت قدرت کی جو پرمیشور میں بالاتفاق تسلیم ہو چکی ہے زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایہ ثبوت نہیں پہنچے گی اس لئے کہ جب پرمیشور نے خود ایجاد اپنے سے بلاتوسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پرادھین یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا اور یہ بہ بداہت عقل باطل ہے۔ غرض پرمیشور کا خالق ارواح ہونا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کارخانہ خدائی کا بگڑ جاتا ہے لیکن دوسرا خدا پیدا کرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے پھر کس طرح پرمیشور ایسے امر کی طرف متوجہ ہو کہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق اور بے انت مانے جائیں کل ارواح صفت انادی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی اور علاوہ اس کے پرمیشور بھی اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بلا اسباب ہے محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پرمیشور کو صرف روحوں پر جمعداری ہی جمعداری ہے اور ان کا خالق اور واجب الوجود نہیں۔
پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں جس کو ہم پہلے اس سے ۹ اور ۱۶؍ فروری سفیر ہند میں ۱۴ دلائل پختہ سے ردّ کر چکے ہیں لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں۔ پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ردّ کر کے دکھلاتے۔ اور بے انت ہونے کی وجوہات پیش کرتے آپ کو سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تے بے انت کس طرح ہوگئے کیا بے انت کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی اگر پرمیشوربھی اسی طرح کا بے انت ہے تو کارخانہ خدائی کا معرض خطر میں ہے۔ افسوس کہ آپ نے ہمارے اُن پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل لکھتے پر کہاں سے لکھتے اور تعجب تو یہ ہے کہ اسی جواب میں آپ کا یہ اقرار بھی درج ہے کہ ضرور سب ارواح ابتدا سر شٹی میں زمین پرجنم لیتے ہیں اور مدت سوا چار ارب سلسلہ دنیا کابنا رہتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اب اے میرے پیارو اور دوستو اپنے دل میں آپ ہی سوچو۔ اپنے قول میں خود ہی غور کرو کہ جو پیدائش ایک مقرری وقت سے شروع ہوئی اور ایک محدود مقام میں اُن سب نے جنم لیا اور ایک محدود مدت تک اُن کے توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو ایسی پیدائش کس طرح بے انت ہوسکتی ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ بموجب اصول موضوعہ فلسفہ کے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو چند محدود چیزوں میں ایک محدود عرصہ تک کچھ زیادتی ہوتی رہی تو بعد زیادتی کے بھی وہ چیزیں محدود رہیں گی اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر متعدد جانور ایک متعدد عرصہ تک بچہ دیتے رہیں تو اُن کی اولاد بموجب اصول مذکور کے ایک مقدار متعدد سے زیادہ نہ ہوگی اور خود ازروئے حساب کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر پیدائش سوا چار ارب میں ہوتی ہے اگر بجائے اُس مدت کے ساڑھے آٹھ ارب فرض کریں تو شک نہیں کہ اس صورت مؤخر الذکر میں پہلی صورت سے پیدائش دوچند ہوگی۔ حالانکہ یہ بات اجلی بدیہات ہے کہ بے انت کبھی قابل تضغیف نہیں ہو سکتا اگر ارواح بے انت ثابت ہوتے تو ایسی مدت معدود میں کیوں محصور ہو جاتے کہ جن کے اضعاف کو عقل تجویز کر سکتی ہے اور نہ کوئی دانا محدود زمانی اور مکانی کو بے انت کہے گا۔ باوا صاحب برائے مہربانی ہم کو بتلا دیں کہ اگر سوا چار ارب کی پیدائش کا نام بے انت ہے تو ساڑھے آٹھ ارب کی پیدائش کا نام کیا رکھنا چاہئے۔ غرض یہ قول صریح باطل ہے کہ ارواح موجودہ محدود زمانی اور امکان ہو کر پھر بھی بے انت ہیں کیونکہ مدت معین کا توالد و تناسل تعداد معینہ سے کبھی زیادہ نہیں اور اگر یہ قول ہے کہ سب ارواح بدفعہ واحد زمین پر جنم لیتے ہیں سو بطلان اس کا ظاہر ہے کیونکہ زمین محدود ہے اور ارواح بقول آپ کے غیر محدود پھر غیر محدود کس طرح محدود میں سما سکے۔
اور اگر یہ کہو کہ بعض حیوانات باوصف مکتی نہ پانے کے نئی دنیا میں نہیں آتے سو یہ آپ کے اصول کے برخلاف ہے کیونکہ جب کہ پیشتر عرض کیا گیا ہے آپ کا یہ اصول ہے کہ ہر نئی دنیا میں تمام وہ ارواح جو سرشٹی گزشتہ میں مکتی پانے سے رہ گئے تھے اپنے کرموں کا پھل بھوگنے کے واسطے جنم لیتے ہیں کوئی جیو جنم لینے سے باہر نہیں رہ جاتا۔اب قطع نظر ان دلائل سے اگر اسی ایک دلیل پر جو محدود فی الزماں ووالمکان ہونے کے ہے غور کیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کو ارواح کے متعدد ماننے سے کوئی گریز گاہ نہیں اور بجز تسلیم کے کچھ بن نہیںپڑتا بالخصوص اگر اُن سب دلائل کو جو سوال نمبر۱ میں درج ہوچکے ہیں ان دلائل کے ساتھ جو اس تبصرہ میں اندراج پائیں ملا کر پڑھا جائے تو کون منصف ہے جو اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ ایسے روشن ثبوت سے انکار کرنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے۔ پھر افسوس کہ باوا صاحب اب تک یہی تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ارواح بے انت ہیں اور مکتی پانے سے کبھی ختم نہیں ہونگے۔ اور حقیقت حال جو تھا سو معلوم ہوا کہ کُل ارواح پانچ ارب کے اندر اندر ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور نیز ہر پرلے کے وقت پر اُن سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر بے انت ہوتے تو اُن دونوں حالتوں مقدم الذکر میں کیوں ختم ہونا اُن کا رکن اصول آریہ سماج کا ٹھہرتا۔ عجب حیرانی کا مقام ہے کہ باوا صاحب خود اپنے ہی اصول سے انحراف کر رہے ہیں۔ اتنا خیال نہیں فرماتے کہ جو اشیاء ایک حالت میں قابل اختتام ہیں وہ دوسری حالت میں بھی یہی قابلیت رکھتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مظروف اپنے ظرف سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا پس جب کہ کُل ارواح ظروف مکانی اور زمانی میں داخل ہو کر اندازہ اپنا ہر نئی دنیا میں معلوم کرا جاتے ہیں اور پیمانہ زمان مکان سے ہمیشہ ماپے جاتے ہیں تو پھر تعجب کہ باوا صاحب کو ہنوز ارواح کے محدود ہونے میں کیوں شک باقی ہے۔ میں باوا صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے بقول آپ کے یہ سب ارواح جو آپ کے تصور میں بے انت ہیں سب کے سب دنیا کی طرف حرکت کرتے ہیں اگر اسی طرح اپنے بھائیوں مکتی یافتوں کی طرف حرکت کریں تو اس میں استبعاد عقلی ہے اور کونسی حجب منطقی اس حرکت سے ان کو روکتی ہے اور کسی برہان لمی یا اِنّیسے لازم آتا ہے کہ دنیا کی طرف انتقال اُن سب کا ہر سرشٹی کے دورہ میں جائز بلکہ واجب ہے۔ لیکن کوچ اُن سب کا مکتی یافتوں کے کوچہ کی طرف ممتنع اور محال ہے۔ مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عالم دنیا کی طرف کونسی پختہ سڑک ہے کہ سب ارواح اس پر بآسانی آتے جاتے ہیں ایک بھی باہر نہیں رہ جاتی۔ اور اُن مکتی یافتوں کے راستہ میں کونسا پتھر پڑا ہوا ہے کہ اس طرف اُن سب کا جانا ہی محال ہے کیا وہ خدا جو سب ارواح کو موت اور جنم دے سکتا ہے سب کو مکتی نہیں دے سکتا۔ جب ایک طور پر سب ارواح کی حالت متغیر ہو سکتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ دوسرے طور سے وہ حالت قابل تغیر نہیں اور نیز کیا یہ بات ممکن نہیں جو خدا اُس سب ارواح کا یہ نام رکھ دے کہ مکتی یاب ہیں۔ جیسا اب تک یہ نام رکھا ہوا ہے کہ مکتی یاب نہیں کیونکہ جن چیزوں کی طرف نسبت سلبی جائز ہو سکتی ہے بیشک اُن چیزوں کی طرف نسبت ایجابی بھی جائز ہے اور نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ قضیہ کہ سب ارواح موجودہ نجات پا سکتے ہیں اس حیثیت سے زیر بحث نہیں کہ محمول اس قضیہ کا جو نجات عام ہے مثل کسی جزئی حقیقی کے قابل تنقیع ہے بلکہ اس جگہ مجوث عنہ امر کلی ہے یعنی ہم کلی طور پر بحث کرتے ہیں کہ ارواح موجودہ نے جو ابھی مکتی نہیں پائی آیا بموجب اصول آریہ سماج کے اس امر کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں کہ کسی طور کا عارضہ عام خواہ مکتی ہو یا کچھ اور ہو اُن سب پر طاری ہو جائے سو آریہ صاحبوں کے ہم ممنون بمنت ہیں جو اُنہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ یہ عارضہ عام بعض صورتوں میں سب ارواح پر واقع ہے جیسے موت اور جنم کی حالت سب ارواح پر عارض ہو جاتی ہے۔ اب باوا صاحب خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں دو مادوں میں اس عارضہ عام کے خود ہی قائل ہوگئے تو پھر اس تیسرے مادے میں جو سب کا مکتی پانا ہے انکار کرنا کیا وجہ ہے۔
پھر باوا صاحب یہ فرماتے ہیں کہ علاوہ زمین کے سورج اور چاند اور سب ستاروں میں بھی بکثرت جانور آباد ہیں اور اس سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ثابت ہو گیا کہ بس بے انت ہیں۔ پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ اوّل تو یہ خیال بعض حکماء کا ہے جس کو یورپ کے حکیموں نے اخذ کیا ہے اور ہماری گفتگو آریہ سماج کے اصول پر ہے۔ سوا اس کے اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آریہ سماج کا بھی یہی اصول ہے تو پھر بھی کیا فائدہ کہ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے تو صرف اتنا نکلتا ہے کہ مخلوقات خدا تعالیٰ کی بکثرت ہے۔ ارواح کے بے انت ہونے سے اس دلیل کو کیا علاقہ ہے پر شاید باوا صاحب کے ذہن میں مثل محاورہ عام لوگوں کے یہ سمایا ہوا ہوگا کہ بے انت اُسی چیز کو کہتے ہیں جو بکثرت ہو۔ باوا صاحب کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں یہ سب اجسام ارضی اور اجرام سماوی بموجب تحقیق فن ہئیت اور علم جغرافیہ کے معدود اور محدود ہیں تو پھر جو چیزیں ان میں داخل ہیں کس طرح غیر محدود ہو سکتی ہیں اور جس صورت میں تمام اجرام و اجسام زمین و آسمان کے خدانے گنے ہوئے ہیں تو پھر جو کچھ ان میں آباد ہے وہ اس کی گنتی سے کب باہر رہ سکتا ہے۔ سو ایسے دلائل سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ کام تو تب بنے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ارواح موجودہ تمام حدود و قیود ظروف مکانی اور فضائے عالم سے بالاتر ہیں کیونکہ خدا بھی انہیںمعنوں پر بے انت کہلاتا ہے اگر ارواح بے انت ہیں تو وہی علامات ارواح میں ثابت کرنی چاہئیں۔ اس لئے کہ بے انت ایک لفظ ہے کہ جس میں بقول آپ کے ارواح اور باری تعالیٰ مشارکت رکھتے ہیں اور اس کا حدتام بھی ایک ہے۔ یہ باتنہیں کہ جب لفظۃ بے انت کا خدا کی طرف نسبت کیا جائے تو اس کے معنی اور ہیں اور جب ارواح کی طرف منسوب کریں تو اور معنی۔
پھر بعد اس کے باوا صاحب فرماتے ہیں کہ کسی نے آج تک روحوں کی تعداد نہیں کی۔ اس لئے لاتعداد ہیں۔ اس پر ایک قاعدہ حساب کا بھی جو مانحن فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لاتعداد کی کمی نہیں ہو سکتی۔ پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ ہم تخمینی اندازہ ارواح کا بموجب اصول آپ کے بیان کر چکے ہیں اور اُن کا ظروف مکانی اور زمانی میں محدود ہونا بھی بموجب انہی کے اصول کے ذکر ہوچکا ہے اور آپ اب تک وہ حساب ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں جو غیر معلوم اور نامفہوم چیزوں سے متعلق ہے۔ اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خزانچی کو اپنی جمع تحویل شدہ کا کل میزان روپیہ آنہ پائی کا معلوم ہوتا ہے اسی طرح اگر انسان کل کُل تعداد ارواح کا معلوم ہو تو تب قابل کمی ہونگے ورنہ نہیں۔ سو یہ بھی آپ کی غلطی ہے کیونکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ جس چیز کا اندازہ تخمینی کسی پیمانہ کے ذزیعہ سے ہوچکا تو پھر ضرور عقل یہی تجویز کرے گی کہ جب اُس اندازہ معلومہ سے نکالا جاوے تو بقدر تعداد خارج شدہ کے اصلی اندازہ میں کمی ہو جائے گی۔ بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب مکتی شدہ سے ایک فوج کثیر مکتی شدہ ارواح میں داخل ہو جائے تو نہ وہ کچھ کم ہوں اور نہ یہ کچھ زیادہ ہوں۔ حالانکہ وہ دونوں محدود ہیں اور ظروف مکانی اور زمانی میں محصور اور جو یہ باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہئے تب قاعدہ جمع تفریق کا اُن پر صادق آوے گا۔ یہ قول باوا صاحب کابھی قابل ملاحظہ ناظرین ہے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا نے کی اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور اُس کو ارواح موجودہ کے تمام افراد معلوم ہیں اور فرد فرد اس کے زیر نظر ہے اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک روح نکل کر مکتی یابوں میں ہو جاوے گی تو پرمیشور کو معلوم ہے کہ یہ فرد اس جماعت میں سے کم ہو گیا اور اُس جماعت میں سے بباعث داخل ہونے اس کے ایک فرد کی زیادتی ہوئی یہ کیا بات ہے کہ اس داخل خارج سے وہی پہلی صورت بنی رہی۔ نہ مکتی یاب کچھ زیادہ ہوں اور نہ وہ ارواح کہ جن سے کچھ روح نکل گئی بقدر نکلنے کے کم ہو جائیں او رنیز ہم کو بھی کوئی برہان منطقی مانع اس بات کے نہیں کہ ہم اس امر متیقن متحقق طور پر رائے نہ لگا سکیں کہ جن چیزوں کا اندازہ بذریعہ ظرف مکانی اور زمانی کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے وہ دخول و خروج سے قابل زیادت اور کمی ہیں مثلاً ایک ذخیرہ کسی قدر غلہ کا کسی کوٹھے میں بھرا ہوا ہے اور لوگ اس سے نکال کر لے جاتے ہیں سو گو ہم کو اُس ذخیرہ کا وزن معلوم نہیں لیکن ہم بہ نظر محدود ہونے اس کے رائے دے سکتے ہیں کہ جیسا نکالا جائے گا کم ہوتا جائے گا۔
اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا کا علم غیر محدود ہے اور روح بھی غیر محدود ہیں اس واسطے خدا کو روحوں کی تعددا معلوم نہیں یہ آپ کی تقریر بے موقع ہے۔ جناب من یہ کون کہتا ہے کہ جو خدا کا علم غیر محدود نہیں۔ کلام و نزاع تو اس میں ہے کہ معلومات خارجیہ اس کے جو تعینات وجود یہ سے مقید ہیں اور زمانہ واحد میں پائے جاتے ہیں اور ظروف زمانی و مکانی میں محصور اور محدود ہیں آیا تعداد اُن اشیاء موجودہ محدودہ معینہ کا اس کو معلوم ہے یا نہیں آپ اُس اشیاء موجودہ محدودہ کو غیر موجود اور غیر محدود ثابت کریں تو بت کام بنتا ہے۔ ورنہ علم الٰہی کہ موجود اور غیر موجود دونوں پر محیط ہے اس کے غیر متناہی ہونے سے کوئی چیز جو تعینات خارجیہ میں مفید ہو غیر متناہی نہیں بن سکتی اور آپ نے خدا کے علم کو خوب غیر محدود بنایا کہ جس سے روحوں کا احاطہ بھی نہ ہو سکا اور شمار بھی نہ معلوم ہوا باوصف یہ کہ سب موجود تھے کوئی معدوم نہ تھا۔ کیا خوب بات ہے کہ آسمان اور زمین نے تو روحوں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر بزبان حال اُن کی تعداد بتلائی پھر خدا کو کچھ بھی تعداد معلوم نہ ہوئی یہ عجیب خدا ہے اور اس کا علم عجیب تر۔ بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خدا کو جو ارواح موجودہ کا علم ہے یہ اُس کے علوم غیر متناہیہ کا جز ہے یا کل ہے۔ اگر کل ہے اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کوسِوا روحوں کے اور کسی چیز کی خبر نہ ہو اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی عالم نہ ہو اور اگر جز ہے تو محدود ہو گیا۔ کیونکہ جز کل سے ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے۔ پس اسے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ارواح محدود ہیں اور خود یہی حق الامر تھا۔ جس شخص کو خدا نے معرفت کی روشنی بخشی ہو وہ خوب جانتا ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم کے دریا زمین سے علم ارواح موجودہ کا اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتا کہ جیسے سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس میں کچھ ترقی باقی رہ جاتی ہے۔
پھر باوا صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہ اعتراض کرنا بیجا ہے کہ بے انت اور انادی ہونا خدا کی صفت ہے اور اگر روح بھی بے انت اور انادی ہوں تو خدا کے برابر ہو جائیں گے کیونکہ کسی جزوی مشارکت سے مساوات لازم نہیں آتی۔ جیسے آدمی بھی آنکھ سے نہیں دیکھتا ہے اور حیوان بھی۔ پر دونوں مساوی نہیں ہو سکتے‘‘۔
یہ دلیل باوا صاحب کی تغلیط اور نسقیط ہے۔ ورنہ کون عاقل اس بات کو نہیں جانتا کہ جو صفات ذات الٰہی میں پائی جاتی ہیں وہ سب اس ذات بے مثل کے خصائص میں کوئی چیز ان میں شریک سہیم ذات باری کے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر ہو سکتی ہے تو پھر سب صفات اس کی میں شراکت غیر کی جائز ہوگی اور جب سب صفات میں شراکت جائز ہوئی تو ایک اور خدا پیدا ہو گیا بھلا اس بات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ جو خدا کی صفات قدیمہ میں سے جو انادی اور بے انت ہونے کی صفت ہے وہ تو اس کے غیر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن دوسری صفات اس کی اس سے مخصوص ہیں ذرا آپ خیال کر کے سوچیں کہ کیا خدا کی تمام صفات یکساں ہیں یا متقارب ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اگر ایک صفت میں صفات مخصوصہ اس کی سے اشتراک بالغیر جائز نہ ہوگا اور اگر نہیں تو سب نہیں اور یہ جو آپ نے نظیر دی جو حیوانات مثل انسان کے آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن اس رویت سے انسان نہیں ہو سکتانہ اس کے مساوی یہ نظیر آپ کی بے محل ہے۔ اگر آپ ذرا بھی غور کرتے تو ایسی نظیر کبھی نہ دیتے۔ حضرت سلامت یہ کون کہتا ہے کہ ممکنات کو عوارض خارجیہ میں باہم مشارکت اور مجانست نہیں۔ امر متنازعہ فیہ تو یہ ہے کہ خصائص الٰہیہ میں کسی غیر اللہ کو بھی اشتراک ہے۔ یا صفات اُس کے اس کی ذات سے مخصوص ہیں۔ آپ مدعی اس امر متنازعہ کے ہیں اور نظیر ممکنات کی پیش کرتے ہیں جو خارج از بحث ہے آپ امر متنازعہ کی کوئی نظیر دیں تب حجت تمام ہو ورنہ ممکنات کے تشارک تجابس سے یہ حجت تمام نہیں ہوتی نہ ذات باری کے خصائص کو ممکنات کے عوارض پر قیاس کرنا طریق دانشوری ہے۔ علاوہ اس کے جو ممکنات میں بھی خصائص ہیں وہ بھی اُن کے ذوات سے مخصوص ہیں جیسا کہ انسان کی حدتام یہ ہے جو حیوان ناطق ہے اور ناطق ہونا انسان کے خصائص ذاتی میں سے اور اس کا فصل اور ممیز عن الغیر ہے یہ فصل اس کا نہیں کہ ضرور بینا بھی ہو اور آنکھ سے بھی دیکھتا ہو کیونکہ اگر انسان اندھا بھی ہو جائے تب بھی انسان ہے۔بلکہ انسان کے خصائص ذاتیہ سے وہ امر ہے جو بعد مفارقت روح کے بدن سے اس کے نفس میں بنا رہتا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے جو ممکنات میں اس وجہ سے جو وہ سب ترکیب عنصری میں متحد ہیں بعض حالات خارج از حقیقت تامہ ہیں ایک دوسرے کی مشارکت بھی ہوتے ہیں جیسے انسان اور گھوڑا اور درخت کہ جوہر اور صاحب العباد ثلاثہ اور قوت نامیہ ہونے میں یہ تینوں شریک ہیں اور حساس اور متحرک بالارادہ ہونے میں انسان اور گھوڑا مشارکت رکھتے ہیں لیکن ماہیت تامہ ہر ایک کی جدا جدا ہے۔ غرض یہ صفت عارضی ممکنات کی حقیقت تامہ پر زائد ہے جس میں کبھی کبھی تشارک اور کبھی تغائر ان کا ہو جاتا ہے اور باوصف مختلف الحقائق اور متغائر الماہیت ہونے کے کبھی کبھی بعض مشارکات میں ایک جنس کے تحت میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ کسی ایک حقیقت کے لئے ایک اجناس ہوتے ہیں اور یہ بھی کچھ سمجھا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے یہ اس واسطے ہوتا ہے کہ ترکیب مادی ان کی اصل حقیقت اُن کے پر زائد ہے اور سب کی ترکیب مادی کا ایک ہی استقس یعنی اصل ہے۔ اب آپ پر ظاہر ہوگا کہ یہ تشارک ممکنات کا خصائص ذاتیہ میں تشارک نہیں بلکہ عوارض خارجیہ میں اشتراک ہے باطنی آنکھ انسان کی جس کو بصیرت قلبی (این لائن منٹ) کہتے ہیں دوسرے حیوانات میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔
اخیر میں باوا صاحب اپنے خاتمہ جواب میں یہ بات کہہ کر خاموش ہوگئے ہیں کہ سب دلائل معترض کے توہمات ہیں۔ قابل تردید نہیں اس کملہ سے زیرک اور ظریف آدمیوں نے فی الفور معلوم کر لیا ہوگا کہ باوا صاحب کو یہ لفظ کیوں کہنا پڑا۔ بات یہ ہوئی اوّل اوّل تو ہمارے معزز دوست جناب باوا صاحب جواب دینے کی طرف دوڑے اور جہاں تک ہو سکا ہاتھ پاؤں مارے اور کودے اُچھلے لیکن جب اخیر کچھ پیش نہ گئی اور عقدہ لاینحل معلوم ہوا تو آخر ہانپ کر بیٹھ گئے اور یہ کہہ دیا کہ کیا تردید کرنا ہے یہ تو توہمات ہیں۔ لیکن ہر عاقل جانتا ہے کہ جن دلائل کی مقدمات یقینیہ پر بنیاد ہے وہ کیوں توہمات ہوگئے۔ اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ بلا ضرورت نہیں لکھیں گے۔
راقم
مرزا غلام احمد۔ رئیس قادیان



بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
عرض حال
الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد الامین و خاتم النبیین واعلیٰ آلہٖ اصحابہ الطیبین وعلی خلفائہِ راشدین۔
اما بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میںقوت بخشی اور اسے سلسلہ کی قلمی خدمت کے لئے جوش عطا فرمایا تب ہی سے اس کو یہ آرزو رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات اور مکتوبات کو جمع کروں محض فضل ربانی ہی نے اس کی دستگیری کی اور اس کو اس خدمت کے ایک حد تک قابل کر دیا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں بہت بڑا کام ہوچکا ہے اور پُرانی تحریروں کے جمع کرنے میںبھی اس حد تک کامیابی ہوئی کہ آج میں اس سلسلہ میں یہ تیسرا مجموعہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ والحمدللّٰہ علی ذالک
مکتوبات کے سلسلہ میں اس وجہ سے پہلی جلد کی اشاعت کے وقت خیال کیا گیا تھا کہ دوسری جلد حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہا العالی کے مکتوبات کی ہوگی مگر بعد میں میری رائے ترتیب کے متعلق یوں ہوئی کہ پہلے ان جلدوں کو شائع کرنا چاہئے جو مختلف مذاہب کے ہادیوں اور لیڈروں کے نام کے مکتوبات ہیں۔ چنانچہ اس جلد میں ان مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے جو ہندو، آریہ اور براہمو لوگوں کے نام ہیں۔ تیسری جلد میں وہ مکتوبات انشاء اللہ ہونگے جو عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام آپ نے لکھے ہیں۔ غالباً اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۸ء میں پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور قریباً چار سال بعد دوسری جلد شائع ہوتی ہے اس توقف اور تعویق کا موجب ظاہری وہ مالی مشکلات تھیں جو کارخانہ الحکم کو بوجہ خسارہ مشین پیش آئیں لیکن اب چونکہ میرے مکرم بھائی منشی محمد وزیر خاں صاحب اورسیئر نے جو سلسلہ کے ایک مخلص اور جوشیلے ممبر ہیں اور میرے ساتھ اُنہیں دیرینہ محبت ہے اس سلسلہتالیفات مکتوبات میں مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو باقی جلدیں جلد شائع ہوسکیں گی۔ والامربیہ اللّٰہ
احباب اگر اس سلسلہ تالیفات کی خریداری میں میری حوصلہ افزائی کریں تو خدا کے فضل سے وہ وقت قریب آ سکتاہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق سے اُس عظیم الشان کام کو شروع کر دوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح عمری کا کام ہے۔ یہ سوانح عمری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری ہی نہ ہوگی بلکہ یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک تاریخ ہوگی۔
یہ معمولی محنت کا کام نہیں اس کے لئے ایک خاص سٹاف کی ضرورت ہوگی اور ہزاروں ہزار صفحات کی ورق گردان اور واقعات کا جمع کرنا اور تالیف و ترتیب کا کام ہوگا۔ میں اپنے مخلص احباب کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھے اس کا اہل سمجھتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر گزار ہوں میں اس امر کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح کا میٹریل میں نے قریباً جمع کر لیا ہے اس کی ترتیب اور طبع ہی کا کام اب باقی ہے اور یہ اس وقت شروع ہو سکے گا جب اللہ تعالیٰ ایسے مخلص قلوب کو تحریک کرے گا جو اس راہ میں اپنا مال نثار کر سکیں ساری توفیقیں اللہ کو ہی ہیں۔ یہ کتاب صرف ایک ہزار چھاپی گئی ہے جس قدر جلد احباب اس کی اشاعت میں حصہ لیں گے اسی قدر جلد وہ مجھے دوسری جلد کی اشاعت کا موقع دیں گے۔
والسلام
احقر یعقوب علی تراب احمد
ایڈیٹر الحکم قادیان
(دفتر الحکم قادیان دارالامان ۲۴؍ دسمبر ۱۹۱۲ء)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلدسوم)


مرتبہ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ

ملنے کا پتہ
عبدالعظیم مالک احمدیہ بک ڈپو قادیان دارالامان
ہدیہ ایک روپیہ پچیس نئے پیسے
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد سوم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
پادریوں کے نام خطوط
چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
مکتوب نمبر۱
پادری سوفٹ صاحب کے نام
یہ ایک پُرانہ خط ہے جو پادری سوفٹ صاحب کے نام لکھا گیا تھا۔ یہ پادری صاحب گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ انہیں عام پادریوں کی نسبت عیسوی تہیالوجی کا بڑا دعویٰ تھا۔ افسوس اس خط کے نقل کرنے والے نے بھی تاریخ و سنہ کے لکھنے سے جو سخت ضروری بات تھی تامل کیا۔ بہرحال یہ ۱۸۸۴ء سے کم عرصہ کا یہ خط نہیں۔ اس سے بڑا بھاری فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت امام الزمان اپنے دعاوی کے صادقانہ لہجے میں برابر مستقیم اور غیر مبتدل چلے آتے ہیں اور یہ افتراء اختلاق کے ردّ کی بڑی بھاری دلیل ہے۔ والحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔ (ایڈیٹر)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بعد ماوجب۔ آپ کا عنایت نامہ جس پر کوئی تاریخ درج نہیں بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا آپ نے پہلے تو بے تعلق اپنے خط میں یہ قصہ چھیڑ دیا ہے کہ حقیقت میں خدائے قادر مطلق خالق و مالک ارض و سما مسیح ہے اور وہی نجات دہندہ ہے لیکن میں سوچ میں ہوں کہ آپ صاحبوں کی طبیعت کیونکر گوارا کر لیتی ہے کہ ایک آدم زاد خاکی نہاد عاجز بندہ کی نسبت آپ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہی ہمارا پیدا کنندہ اور ربّ العلمین ہے یہ خیال آپ کا حضرت مسیح کی نسبت ایسا ہی ہے جیسے ہندو لوگ راجہ رامچند کی نسبت رکھتے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو لوگ کشلیا کے بیٹھے کو اپنا پرمیشر بنا رہے ہیں اور آپ حضرت مریم صدیقہ کے صاحبزادہ کو۔ نہ ہندؤوں نے کبھی ثابت کر دکھایا کہ زمین و آسمان میں کوئی ٹکڑا کسی مخلوق کا رامچندر یا کرشن نے پیدا کیا ہے اور نہ آج تک آپ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت کچھ ایسا ثبوت دیا۔ افسوس کہ جو قومیں عقل اور ادراک اور فہم و قیاس کے آپ صاحبوں کی فطرت کو عطا کی گئی تھیں آپ لوگوں نے ایک ذرا ان کا قدر نہیں کیا اور علوم طبعی اور فلسفی کو پڑھ پڑھا کر ڈبودیا اور عقلی علوم کی روشنی آپ لوگوں کے دلوں پر ایک ذرا نہ پڑی سادی اور ناسمجھی کے زمانہ میں جو کچھ گھڑا گیا انہیں باتوں کو آپ لوگوں نے اب تک اپنا دستور العمل بنا رکھا۔ کاش اس زمانہ میں دو چار دن کیلئے حضرت مسیح اور راجہ رامچندر اور کرشن وبدھ وغیرہ کہ جن کو مخلوق پرستوں نے خدا بنایا ہوا ہے پھر دنیا میں اپنا درش کرا جاتے۔ تا خود ان لوگوں کا انصاف دلی ان ان کو ملزم کرتا کہ کیا ان آدمزادوں کو خدا خدا کر کے پکارنا چاہئے اور تعجب تو یہ ہے کہ باوجود ان تمام رسوائیوں کے جو آپ لوگوں کے عقاید میں پائی جاتی ہیں پھر آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد اور غیر متغیر جلال چھوڑ کر ایک عورت کے پیٹ میں حلول اور ناپاک راہ سے تولد پایا اور دکھ اور تکلیف اُٹھاتا رہا اور مصلوب ہو کر مر گیا اور پھر یہ کہ وہ تین بھی ہے اور ایک بھی اور انسان کامل بھی ہے اور خدائے کامل بھی۔ وہ ایسے عقائد کو کیونکہ عقل کے مطابق کر سکتے ہیں اور ایسی نئی فلسفی کونسی ہے۔ جس کے ذزیعے سے یہ لغویات معقول ٹھہر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آپ لوگ معقول طور پر اپنے خوش عقیدہ کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر لاچار ہو کر نقل کی طرف بھاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہم نے پہلی کتابوں میں یعنی بائبل میں دیکھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ان کو مانتے ہیں لیکن یہ جواب بھی سراسر پوچ اور بے معنی ہے کیونکہ ان کتابوں میں ہرگز یہ بات درج نہیں ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے یا خود ربّ العلمین ہیں اور دوسرے لوگ خدا کے بندے ہیں بلکہ بائبل پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا کر کے کسی کو پکارنا یہ ان کتابوں کا عام محاورہ ہے۔ بلکہ بعض جگہ خدا کی بیٹیاں بھی لکھی ہیں اور ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ تم سب خدا ہو۔ تو پھر اس حالت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت رہی ماسوا اس کے ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ منقولات اور اخبار میں صدق اور کذب اور تغیر اور تبدل کا احتمال ہے۔ خصوصاً جو جو صدمات عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کو پہنچے ہیں اور جن جن خیانتوں اور تحریفوں کاانہوں نے آپ اقرار کر لیاہے ان وجوہ سے یہ احتمال زیادہ تر قوی ہو جاتا ہے اور یہ بھی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر یک تحریر بغیر ثبوت باضابطہ کے قابل اعتبار ٹھہر سکتی ہے تو پھر آپ لوگ ان قصوں کو کیوں معتبر نہیں سمجھتے کہ جو ہندؤوں کے پستکوں میں رام چندر اور کرشن اور برہما اور بشن وغیرہ کے معجزات کی نسبت اور ان کے بُرے بُرے کاموں کے بارہ میں اب تک لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جیسے مہادیو کے لٹوں سے گنگا کا نکلنا اور مہادیو کا پہاڑ کو اُٹھالینا اور ایسا ہی ارجن کے بھائی راجہ پلیہم کے مقابل پر مہادیو کا کشتی کیلئے آنا جس کی پرانوں میںیہ کتھا لکھی ہے کہ مہادیو جی ملہنسی کا روپ دھار کر راجہ پلیہم کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ پلیہم نے چاہا کہ ان سے لڑے۔ مہادیو جی بھاگ نکلے۔ بیہم نے ان کا پیچھا کیا تب وہ زمین میں گھس گئی۔ بیہم نے دیکھ کربڑی زور سے ان کی پونچھ پکڑ لی اور کہا کہ اب میں نہ جانے دوں گا۔ سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بیہم کے ہاتھ میں رہ گیا اور منہ نیپال کے پہاڑ میں جا نکلا۔ اسی وجہ سے منہ کی پوجا نیپال میں ہوتی ہے اور پونچھ اور پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ میں۔
اب دیکھئے کہ جو کچھ عقیدہ آپ نے بنا رکھا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی روح حضرت مریم کے رحم میں گھس گئی اور گھسنے کے بعد اُس نے ایک نیا روپ دھار لیا جس سے وہ کامل خدا بھی بنے رہے اور کامل انسان بھی ہوگئے۔ کیا یہ قصہ بیہم اور مہادیو کے قصہ سے کچھ کم ہے۔
پھر آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہوگئی ہے۔ مگر میں آپ لوگوں میں نجات کی کوئی علامت نہیں دیکھتا اور اگر میں غلطی پر ہوں تو آپ مجھ کو بتلا دیں کہ وہ کون سے انوار اور برکات اور قبولیت الٰہی کے نشان آپ لوگوں میں پائے جاتے ہیں جس نے دوسرے لوگ محروم رہے ہوئے ہیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ہوں کہ ایمانداروں اور بے ایمانوں اور ناجیوں اور غیر ناجیوں میں ضرور مابہ الامتیاز ہونا چاہئے۔ مگر پادری صاحب آپ ناراض نہ ہوںوہ علامات جو ایمانداروں میںہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں جن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی دو تین جگہ انجیل میں لکھا ہے۔ وہ آپ لوگوں میں مجھ کو نظر نہیں آتے۔ بلکہ وہ نشان سچے مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں میں ہمیشہ پائے گئے ہیں اور انہیں نشانوں کے ظاہر کرنے کیلئے اس عاجز نے آپ صاحبان کی خدمت میں رجسٹری کرا کر خط لکھے اور بیس ہزار اشتہار تقسیم کیا اور کوئی دقیہ ابلاغ اور اتمام حجت کا باقی نہ رکھا تا خدا کرے کہ آپ لوگوں کو حق کے دیکھنے کیلئے شوق پیدا ہو اور جو مقبول اور مردود میں فرق ہونا چاہئے۔ وہ آپ بچشم خود دیکھ لیں اور اچھے درختوں کے اچھے پھل اور اچھے پھول بذات خود ملاحظہ کر لیں۔ مگر افسوس کہ میری اس قدر سعی اور کوشش سے آپ لوگوں میں سے کوئی صاحب میدان میں نہیں آئے۔ اب آپ نے یہ خط لکھا ہے مگر دیکھئے کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے خط میںتین شرطیں لکھی ہیں۔ پہلے آپ یہ لکھتے ہیں کہ چھ سَو روپیہ یعنی تین ماہ کے تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں پہنچائی جاوے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام اس عاجز کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آوے تو فوراً آپ گوجرانوالہ میں واپس آ جاویں گے اور جو روپیہ آپ کو مل چکا ہو اس کو واپس لینے کا استحقاق اس عاجز کو نہیں رہے گا۔ یہ پہلی شرط ہے جو آپ نے تحریر فرمائی ہے لیکن گزارش خدمت کیا جاتا ہے کہ روپیہ کسی حالت میں قبل از انفصال اس امر کے جس کے لئے بحالت مغلوب ہونے کے روپیہ دینے کا اقرار ہے آپ کو نہیں مل سکتا۔ ہاں البتہ یہ روپیہ آپ کی تسلی اور اطمینان قلبی کیلئے کسی بنک سرکاری میں جمع ہو سکتا ہے یا کسی مہاجن کے پاس رکھا جا سکتا ہے۔ غرض جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت ہم آپ کی تسلی کرا سکتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے اور یہ بات سچ اور قریب انصاف بھی ہے کہ جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پا جاوے تب تک روپیہ کسی ثالث کے ہاتھ میں رہنا چاہئے۔ امید ہے کہ آپ جو طالب حق ہیں اس بات کو سمجھ جائیںگے اور اس کے برخلاف اصرار نہیں کریں گے اور جو اسی شرط کے دوسرے حصہ میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر مکان وغیرہ کے بارے میں کسی نوع کی ہم کو دقت پہنچی تو ہم فوراً گوجرانوالہ میں آویں گے اور جو روپیہ جمع کرایا گیا ہے ہمارا ہو جائے گا۔ یہ شرط آپ کی بھی ایسی وسیع التاویل ہے کہ ایک بہانہ جُو آدمی کو اس سے بہت گنجائش مل سکتی ہے کیونکہ مکان بلکہ ہر یک چیز میں نکتہ چینی کرنا بہت آسان ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ کا آب وہوا ہم کو مخالف ہے، ہم بیمار ہوگئے، مکان میں بہت گرمی ہے، فلاں چیز ہم کو وقت پر نہیں ملتی، فلاں فلاں ضروری چیزوں سے مکان خالی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ایسی ایسی نکتہ چینیوں کا کہاں تک تدارک کیا جائے گا۔ سو اس بات کا انتظام اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دو دن کیلئے خود قادیان میں آ کر مکان کو دیکھ بھال لیں اور اپنے ضروریات کا بالمواجہہ تذکرہ اور تصفیہ کر لیں تا جہاں تک مجھ سے بن پڑے آپ کو خواہشوں کے پورا کرنے کیلئے کوشش کروں اور پھر بعد میں نکتہ چینی کی گنجائش نہ رہے ماسوا اس کے یہ عاجز تو اس بات کا ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی کو اپنے مکان میں فروکش کر کے جو کچھ نفس امّارہ اُس کا اسباب عیش و تنعم مانگتا جاوے وہ سب اس کے لئے مہیا کرتا جاؤں گا بلکہ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی اور جس طرح ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتی الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہئے اسی طرح ان کی بھی کی جائے گی۔ اپنی طاقت اور استطاعت کے موافق برتاؤ اور اپنے نفس سے زیادہ اَکل و شرب میں ان کی رعایت رکھتی جاوے گی۔ ہاں اگر کوئی اس قسم کی تکلیف ہو جس کو اس گاؤں میں ہم لوگ اُٹھاتے ہیں اور اس کا دفع اور ازالہ ہماری طاقت اور استطاعت سے باہر ہے۔ اس میں ہمارے مہمان ہماری حالت کے شریک رہیں گے اور اس بات کو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ہر یک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں ہم نے دو سَو روپیہ ماہواری دینا قبول کیا اور اس کے ادا کے لئے ہر طرح تسلی بھی کر دی تو ہم نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا یا جو کسی کا پورا پورا ہرجہ دینے کیلئے ہمارے سر پر تھا۔ رہا تجویز مکان و دیگر لوازم مہمانداری سو یہ زواید ہیں جن کو ہم نے محض حسن اخلاق کیطور پر اپنے ذمہ آپ لے لیا ہے۔ ورنہ ہر یک باانصاف آدمی جانتا ہے کہ جس شخص کو پورا پورا ہرجہ اس کی حیثیت کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر دیا جائے تو پھر اور کوئی مطالبہ اس کا بیجا ہے۔ اس کو تو خود مناسب ہے کہ اگر زیادہ تر آرام پسند اور آسائش دوست ہے تو اپنی آسائش کے لئے آپ بندوبست کرے۔ جیسا اس حالت میں بندوبست کرتا کہ جب وہ دو سَو روپیہ نقد کسی اور جگہ سے بطور نوکری پاتا۔ غرض جس قدر علاوہ ادائے ہرجہ کے ہم سے کسی کی خدمت ہو جاوے اس میں تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے کہ ہم نے علاوہ اصل شرط کے بطور مہمانوں کے اس کو رکھا نہ کہ الٹی نکتہ چینی کی جائے کیونکہ یہ تو تہذیب اور اخلاق اور انصاف سے بہت بعید ہے اور اس مقام میں مجھ کو ایک سخت تعجب یہ ہے کہ اگر ایسے شرائط جو آپ نے پیش کئے کوئی اور شخص کسی فرقہ مخالف کا پیش کرتا تو کچھ بعید نہ تھا۔ مگر آپ لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم اور تابع کہلاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا دم مارتے ہیں۔ سو یہ کیسی بھول کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح کی سیرت کو چھوڑے جاتے ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح ایک مسکین اور درویش طبع آدمی تھے جنہوں نے اپنی تمام زندگی میں کوئی اپنا گھر نہ بنایا اور کسی نوع کا اسباب عیش و عشرت اپنے لئے مہیا نہ کیا تو پھر آپ فرماویں کہ آپ کو ان کی پیروی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جب تک آپ کی زندگی مسیح کی زندگی کا نمونہ نہ بنیں تب تک آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح کے سچے پیرو ہیں۔ سو اب آپ غور کر لیں کہ یہ کس قدر نازیبا بات ہے کہ جو آپ پہلے ہی اپنے عیش و عشرت کے لئے مجھ سے شرطیں کر رہے ہیں آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز مسیح کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے کسی باغ میں امیرانہ کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا جس کی طرف دنیا پرستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں۔ ہاں اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق مہمانوں کیلئے خالصًا لِلّٰہ مکاناب بنا رکھے ہیں اور جہاں تک بس چل سکتا ہے ان کی خدمت کے لئے آمادہ حاضر ہوں سو اگر ایسے مکانات میں گزارہ کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ اوّل آ کر اُن کو دیکھ لیں۔ لیکن اگر آپ تنعم پسند لوگوں کی طرح مجھ سے یہ درخواست کریں کہ میرے لءآ ایک ایسا شیش محل چاہئے جو ہر ایک طرح کے فرش فروش سے آراستہ ہو۔ جا بجا تصویریں لگی ہوئی اور مکان سجا ہوا اور بوتلوں میں مست اور متوالا کرنے والی چیز بھری ہوئی رکھی اور اِردگرد مکان کے ایک خوشنما باغ اور چاروں طرف اس کے نہریں جاری ہوں اور دس بیش خدمتگار غلاموں کی طرح حاضر ہوں تو ایسا مکان پیش کرنے سے مجبور اور معذور ہوں بلکہ ایک سادہ مکان جو ان تکلیفات سے خالی لیکن معمولی طور پر گزارہ کرنے کا مکان ہو موجود اور حاضر ہے اور مکرر کہتا ہوں کہ آپ کو پُرتکلف مکانات اور دوسرے لوازم سے گریز کرنا چاہئے تا آپ میں مسیح کی زندگی کے علامات ظاہر ہو جائیں اور میں ہرگز خیال نہیں کرتا کہ یہ مکان آپ کو کچھ تکلیف دہ ہوگا۔ بلکہ مجھے کامل تسلی ہے کہ ایک شکرگزار آدمی ایسے مکان میں رہ کر کوئی کلمہ شکوہ شکایت کا منہ پر نہیں لائے گا کیونکہ مکان وسیع موجود ہے اور گزارہ کرنے کے لئے سب کچھ مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ بعدملاحظہ مکان چند معمولی اور جایز باتوں میں جو ہماری طاقت میں ہوں فرمائش کریں تو وہ بھی بفضلہ تعالیٰ میسر آ سکتے ہیں۔ مگر بہرحال پہلے آپ کا تشریف لانا ازبس ضروری ہے۔ پھر آپ دوسری شرط میں یہ لکھتے ہیں کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہیں۔ جن سے ہمارے دل قائل ہو جائیں۔ اس میں اوّل عاجز کی اس بات کو یاد رکھیں کہ ہم لوگ معجزہ کا لفظ صرف اُسی محل میں بولا کرتے ہیں جب کوئی خارق عادت کسی بنی اور رسول کی طرف منسوب ہو لیکن یہ عاجز نہ نبی۱؎ نہ رسول ہے صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے اور اسی رسول مقبول کی برکت و متابعت سے یہ انوار برکات ظاہر ہو رہے ہیں۔ سو اس جگہ کرامت کا لفظ موزوں ہے نہ معجزہ کا اور ایسا ہی ہم لوگوں کے بول و چال میں آتا ہے اور جو اقلیدس کی طرح ثبوت مانگتے ہیں۔ اس میں یہ عرض ہے کہ جس قدر بفضلہ تعالیٰ روشن نشان آپ کو دکھلائے جائیں گے بمقابلہ اُن کے ثبوت اقلیدس کا جو اکثر دوائرہ موہومہ پر مبنی ہے ناکارہ اور ہیچ ہے۔ اقلیدس کے ثبوتوں میں کئی محل گرفت کی جگہ ہیں اور ان ثبوتوں کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوی کہے کہ اگر اوّل آپ بلادلیل کسی ایک چارپایہ کی نسبت یہ مان لیجئے کہ یہ چارپایہ نجاست کھا لیتا ہے اور میں میں کرتا ہے اور بدن پر اس کے اون ہے تو ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہ بھیڈ کا بچہ ہے۔ ایسا ہی اقلیدس کے بیانات میں اکثر جگہ تناقص ہے۔ جیسے اوّل وہ آپ ہی لکھتا ہے۔ نقطہ وہ شئے ہے جس کی کوئی جز نہ ہو یعنی بالکل قابل انقسام نہ ہو۔ پھر وہ دوسری جگہ آپ ہی تجویز کرتا ہے کہ ہر یک خط کے دو ٹکڑے ایسے ہو سکتے ہیں کہ وہ دونوں اپنے اپنے مقدار میں برابر ہوں۔ اب فرض کرو کہ ایک خط مستقیم ایسا ہے جو نو لفظوں سے مرکب ہے اور بموجب دعویٰ اقلیدس کے ہم چاہتے ہیں جو اس کے دو مساوی ٹکڑے کریں تو اس صورت میں یا تو یہ امر خلاف قرار داد پیش آئے گا کہ ایک نقطہ کے دو ٹکڑے ہو جائیں اور یا یہ دعویٰ اقلیدس کا کہ ہر یک خط مستقیم دو ٹکڑے مساوی ہو سکتا ہے غلط ٹھہرے گا۔ غرض
۱؎ یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس روز نبوت کو نہیں کھولا آپ نی بھی دعویٰ نہ کیا۔ (ایڈیٹر)
اقلیدس بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں۔ مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو اُن عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں۔
’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘‘
اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی ہررہے گا بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا لیکن درصورت مل جانے ایسی گواہیوں کے جو ان خوارق اور پیشگوئیوں کو انسان طاقت سے بالا تر قرار دیتی ہوں تو آپ مغلوب اور میں بفضلہ تعالیٰ غالب ہوں گا اور اسی وقت آپ پر لازم ہوگا کہ اسی جگہ قادیان میں بشرف اسلام مشرف ہو جائیں۔ پھر آپ اپنے خط کے اخیر پر یہ لکھتے ہیں کہ اگر شرائط مذکورہ بالا کو قبول نہیں فرماؤ گے تو آپ کا حال اور یہ شرائط چند اخبار ہند میں شائع کئے جائیں گے۔ سو مشفق من جو کچھ حق حق تھا آپ کی خدمت میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ عاجز آپ کے حالات شائع کرنے کرانے سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ بلکہ خدا جانے آپ کب اور کس وقت اپنی طرف سے اخباروں میں یہ مضمون درج کرائیں گے مگر یہ خاکسار تو آج ہی کی تاریخ میں ایک نقل اس خط کی بعض اخباروں میں درج کرنے کیلئے روانہ کرتا ہے اور آپ کو یہ خوشخبری پہلے سے سنا دیتا ہے تا آپ کی تکلیف کشی کی حاجت نہ رہے اور من بعد جو کچھ آپ کی طرف سے ظہور میں آئے گا وہ بھی بیس روز تک انتظار کر کے چند اخباروں میں چھپوا دیا جاوے گا اور اگر آپ کچھ غیرت کو کام میں لاکر قادیان میں آگئے تو پھر آپ دیکھیں کہ خداوند کریم کس کے ساتھ ہے اور کس کی حمایت اور نصرت کرتا ہے اور پھر اس وقت آپ پر یہ بھی کھل جائے گا کہ کیا سچا اور حقیقی خدا جو خالق اور مالک ارض و سما ہے وہ وہ حقیقت میں ابن مریم ہے یا وہ خدا ازلی و ابدی غیر متغیر و قدوس جس پر ہم لوگ ایمان لائے ہیں سو میںاُسی خدائے کامل اور صادق کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تشریف لاویں ضرور آئیں اگر وہ قسم آپ کے دل پر مؤثر نہیں تو پھر تمام الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں تا حق اور باطل میں جو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے اور جو صادقوں اور کاذبوں میں مابہ الامتیاز ہے وہ آپ پر روشن ہو جائے۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ
بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت
کہ باکہ باختہ عشق در شب دلجور
من ایستادہ ام اینک توہم بباشتاب
کہ تا سیاہ شود روئے کاذب مغروب
خاکسار
آپ کا خیرخواہ
مرزا غلام احمد
قادیان ضلع گورداسپور







مکتوب نمبر۲
پادری جوالا سنگھ کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی پادری جوالا سنگھ صاحب
بعد ما وجب چند روز ہوئے کہ آپ کا ایک طول طویل خط پہنچا مگر میں اپنے ضروری کاموں کے باعث جواب نہ لکھ سکا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے کس قدر جلدی اپنے پہلے خط کے مضمون کے مخالف یہ خط لکھ دیا۔ آپ کا خط موجود ہے جس میں آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ جو نشان چاہویں میں دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے۔ اسی بنا پر میں نے جواب لکھا تھاکہ مجھے ضرور نہیں کہ میں اپنی طرف سے درخواست کروں کہ ایسا نشان دکھلاؤ بلکہ واجب ہے کہ ان نشانوں کے موافق دکھلاؤ جو خود آپ کے خداوند نے آپ کی ایمان داری کی نشانیاں قرار دی ہیں اور اگر ایسا نشان دکھلا نہ سکو تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننے پڑے گی یا تو یہ کہ آپ ایمان دار نہیں اور یا یہ کہ جس نے ایسی نشانیاں قرار دی ہیں وہ کذاب اور دروغ گو ہے جو جھوٹے وعدوں کی بنا پر اپنے مذہب کو چلانا چاہتا ہے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے میرے اس سوال کا کیا جواب دیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ نے اپنے خط میں ایسا ہی لکھا ہے کہ میں جو نشان چاہو دکھلا سکتا ہوں اور خداوند مسیح میری آواز سنتا ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے تو اب آپ کو اس خداوند مسیح کی نسبت اتنی جلدی کیوں شک پڑ گیا اور آپ کا اپنے دوسرے خط میں یہ جواب لکھنا کہ پہلے آپ نشان دکھلاؤ۔ پھر اس قسم کا نشان میں دکھلاؤں گا۔ یہ صریح وعدہ شکنی ہے۔ دعویٰ کر کے پھر اس دعویٰ سے منہ پھیر لینا کیا یہ حق کے طالبوں کی نشانی ہے۔ جو شخص کسی نشان دکھلانے کیلئے توفیق دیا گیا ہے وہ پہلے بھی دکھا سکتا ہے اور بعد بھی۔ اچھا ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ نشان دیکھنے کے بعد ہی نشان دکھلا دیں لیکن آپ صاف طور پر اپنا اقرار تحریری لکھ بھیجیں کہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد یا تو میں اس کے مقابل یہ نشان دکھلاؤں گا اور یا بلاتوقف مسلمان ہو جاؤں گا اور اگر ایسا نہ کروں تو خدا تعالیٰ کی *** میرے پر ہو۔ پھر اس تحریر کے بعد ہم آپ کی پہلی تحریر کا آپ سے مؤاخذہ کریں گے اور یہ آپ کا کہا کہ ہم کسی کوٹھڑی میں بیٹھ جائیں اور اس میں نشان دکھلاویں گے یہ قرآن کریم کی تعلیم نہیں اور انجیل میں بھی پائی نہیں جاتی۔ شاید کوٹھڑیوں کا پُرانہ خیال ہندؤوں کی تعلیم سے آپ کے دل میں باقی رہا ہو۔ ہم لوگ اپنے ربّ کریم کی تعلیم سے قدم باہر نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ میدانوں میں آؤ اور میدانوںمیں اپنے دشمنوں کو ملزم کرو۔ سو ہم اپنے روشن چراغ کو کسی کوٹھڑی کے اندر چھپا نہیں سکتے بلکہ میدان کی اس اونچی جگہ پر رکھیں گے جس سے دور دور تک روشنی جائے ۔ اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ ان خطوط کی دوسرے کو خبر نہ ہو میں نہیں سمجھتا کہ یہ قول کس تعلیم کی بنا پر ہے۔ ہم کسی کام میں مخلوق سے نہیں ڈرتے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ درحقیقت ابن مریم خدا ہے تو سب سے پہلے ہم اس پر ایمان لاویں اور کسی بے غیرتی اور مرنے سے نہ ڈریں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ عاجز انسان ہے اور ہم میں سے ایک کی بھی آواز نہیں سن سکتا اور پھر اگر آپ طألب حق ہیں تو اس بحث کو کیوں چھپاتے ہیں کیا یہ اندیشہ ہے کہ اگر پادریوں کو خبر ہوگئی تو آپ نوکری سے برخاست کئے جائیں گے یا کوئی وظیفہ بند کیا جائے گا۔ چھپ چھپ کر بحث کرنا ایمان داروں کا کام نہیں۔ اور پھر آپ کا یہ فرمانا کہ قرآن مسیح کے معجزات کا مصدق ہے کس قدر آپ کی بے خبری ثابت کرتا ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ مسیح تو ایک عاجز بندہ تھا کبھی اُس نے خدائی کا دعویٰ نہ کیا اور اگر خدائی کا دعویٰ کرتا تو میں اُسے جہنم میں ڈالتا اور پھر قرآن کہتا ہے کہ مسیح کو جو کچھ بزرگی ملی وہ بوجہ تابعداری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملی کیونکہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی خبر دی گئی اور مسیح آنجناب پر ایمان لایا اور بوجہ اس ایمان کے مسیح نے نجات پائی۔ پس قرآن کے رو سے مسیح کے منجی پاک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر قرآن مجید نے ایسے مسیح کی تصدیق کہاں کی جو اپنے تئیں خدا ٹھہراتا ہے بلکہ اس مسیح کی تصدیق کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایک عاجز بندہ کہلوایا۔ یہ سچ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم سے جو خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا ہے بعض معجزات بھی صادر ہوئے ہیں مگر کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مسیح کی وہی تعلیم تھی جس پر آپ لوگ اصرار کر رہے ہیں اور کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ جس ایمان کی طرف مسیح نے آپ کو بلایا تھا وہ ایمان آپ کو حاصل ہے۔
اے عزیز! ہر گز نہیں ہوگا۔ ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ جب تک مسیح کے قول کے موافق آپ میں ایمانداروںکی نشانیاں پائی نہ جائیں اور اگر آپ قرآن کریم کی اس تصدیق سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں کہ اس نے مسیح کو صاحب معجزہ قرار دیا ہے اور اس کی تصدیق سے مسلمانوں پر اپنی حجت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اوّل لازم ہے کہ مسیح کی شرط کے موافق اپنے تئیں ایمان دار ثابت کریں مسیح تو ایک طور پر آپ لوگوں کو بے ایمان کہہ چکا۔ گویا کہ چکا کہ ان لوگوں سے دور رہو۔ یہ مجھ میں سے نہیں ہیں تو اس صورت میں آپ کو مسیح سے تعلق کیا اور مسیح کو آپ سے کیا اور آپ کو مسلمانوں سے بحث کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ جب تک کہ انجیل کے رو سے اپنے تئیں سچا مسیحی ثابت نہ کریں۔ مجھے یاد ہے تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ پادری ڈاکٹر وائٹ برنحیٹ صاحب جو مشن بٹالہ میں متعین ہیں ملاقات کیلئے معہ ایک دیسی عیسائی کے میرے مکان پر آئے تو میں نے کہا کہ پادری صاحب سچ کہیں کہ اس وقت کے عیسائی انجیل کے علامات کے رو سے سچے عیسائی کہلا سکتے ہیں تو پادری صاحب کے منہ سے صاف یہی نکل گیا کہ نہیں! پادری صاحب بٹالہ میں زندہ موجود ہیں دریافت کر لیں کہ آیا یہ میرا بیان صحیح ہے یا نہیں؟ پھر اگر قرآن نے مسیح کی تصدیق کی تو آپ لوگوں کو اس تصدیق سے کیا فائدہ جب تک انجیل کے علامات کے رو سے اپنے تئیں ایمان دار ثابت نہ کریں اور یاد رکھیں کہ یہ ہرگز ممکن نہیں تمام باتیں آپ کی دروغ اور لاف ہے۔ انسان کا پرستار آسمان سے مدد نہیں پا سکتا۔ جواب سے جلدی مسرور فرماویں اور بعض الفاظ اگر تلخ ہوں تو معاف فرماویں کیونکہ راست گوئی کو تلخی لازم پڑی ہوئی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
۳۱؍ جون ۱۸۹۳ء
مکتوب نمبر۳
پادری فتح مسیح کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے۔ اما بعد واضح ہو کہ چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سیّد و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا کی تہمت لگائی اور سوائے اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے۔ لہٰذا جواب شائع کیا گیا۔ امید کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح علیہ السلام کی شان مقدس کا بہرحال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض میں ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے کیونکہ اس نادان نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا ہے اور اب ہم اس کے خط کا جواب ذیل میں لکھتے ہیں۔ وھوہذا
مشفقی پادری صاحب۔ بعد ماوجب اس وقت مجھے بہت کم فرصت مگر میں نے جب آپ کا وہ خط دیکھا جو آپ نے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کے نام بھیجا تھا۔ مناسب سمجھا کہ اپنے اس رسالہ کی جو زیر تالیف ہے خود ہی آپ کو بشارت دوں تا آپ کو زیادہ تکلیف اُٹھانے کی ضرورت نہ رہے۔ یاد رکھیں یہ رسالہ ایسا ہوگا کہ آپ بہت ہی خوش ہو جائیںگے۔ آپ کی اُن مہربانیوں کی وجہ سے جو اَب کے دفعہ آپ کے خط میں بہت ہی پائی جاتی ہیں میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اس رسالہ کی وجہ اشاعت صرف آپ ہی کی درخواست قرار دی جاوے کیونکہ جس مضمون کے لکھنے کیلئے اب ہم تیار ہیں اگر آپ کا یہ خط نہ آیا ہوتا جس میں جناب مقدس نبوی اور حضرت عائشہ صدیقہ اور سودہ کی نسبت آپ نے بدزبانی کی ہے تو شاید وہ مضمون دیر کے بعد نکلتا۔ یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوئی کہ آپ ہی محرک ہوگئے۔ امید ہے کہ دوسرے پادری صاحبان آپ پر بہت ہی خوش ہونگے اور کچھ تعجب نہیں کہ ہمارا رسالہ نکلنے کے بعد آپ کی کچھ ترقی بھی ہو جاوے۔ پادری صاحب ہمیں آپ کی حالت پر رونا آتا ہے کہ آپ زبان عربی سے تو بے نصیب تھے ہی مگر وہ علوم جو دینیات سے کچھ تعلق رکھتے ہیں جیسے طبعی اور طبابت ان سے بھی آپ بے بہرہ ہی ثابت ہوئے۔ آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اوّل تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواتر سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا۔ مگر احمق کا کوئی علاج نہیں۔ ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھاویں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہو سکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشمدید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے۔ مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اوّل درجہ کے احمق بھی ہیں۔ آپ کو اب تک اتنی خبر بھی نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق انکی رسم اور سوسائٹی کی عام وضح کی بنا پر تیار ہوتے ہیں۔ اُن میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گزار ہیں اور اس کے خیرخواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تا ہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے۔ گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے۔ اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے۔ انگلستان میں لڑکیوں کی بلوغ کا زمانہ ۱۸ برس قرار دیا گیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ اُن میں امکان غلطی نہیں تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کاتھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو اُن کا ذکر کرنا یا توحمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں۔ اگر گورنمنٹ کے اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور ۹ برس کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ صرف گورنمنٹ کے قانون کاذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا۔ ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی ۔ پادری صاحب یہی تو دجل ہے کہ الہامی کتب کے مسائل میں آپ نے گورنمنٹ کے قانون کو پیش کر دیا۔ اگر آپ کے نزدیک گورنمنٹ کے قانون کی تمام باتیں خطا سے خالی ہیں اور الہامی کتابوں کی طرح بلکہ ان سے افضل ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوںکہ جن نبیوں نے خلاف قانون انگریزی کئی لاکھ شیر خوار بچے قتل کئے اگر وہ اس وقت ہوتے تو گورنمنٹ اُن سے کیا معاملہ کرتی۔ اگر وہ لوگ گورنمنٹ کے سامنے چالان ہو کر آتے جنہوں نے بیگانی کھیتیوں کے خوشے توڑ کر کھا لئے تھے تو گورنمنٹ ان کو اور ان کے اجازت دینے والے کو کیا کیا سزا دیتی۔ پھر میں پوچھتا ہوں کہ وہ شخص جو انجیر کا پھل کھانے دوڑا تھا اور انجیل سے ثابت ہے کہ وہ انجیر کا درخت اس کی ملکیت نہ تھا بلکہ غیر کی مِلک تھا اگر وہ شخص گورنمنٹ کے سامنے یہ حرکت کرتا تو گورنمنٹ اس کو کیا سزا دیتی انجیل سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے سور جو بیگانہ مال تھے اور جن کی تعداد بقول پادری کلارک دو ہزار تھی مسیح نے تلف کئے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ تعزیرات کی رو سے اس کی سزا کیا ہے۔ بالفعل اسی قدر لکھنا کافی ہے جواب ضرورت لکھیں تا اور بہت سے سوال کئے جائیں۔
پادری صاحب آپ کا یہ خیال کہ نو برس کی لڑکی سے جماع کرنا زنا کے حکم میں ہے، سراسر غلط ہے۔ آپ کی ایمانداری یہ تھی کہ آپ انجیل سے اس کو ثابت کرتے۔ انجیل نے آپ کو دھکے دیئے اور وہاں ہاتھ نہ پڑا تو گورنمنٹ کے پیروں میں آ پڑے یا درکھیں کہ یہ گالیاں محض شیطانی تعصب سے ہیں جناب مقدس نبوی کی نسبت فسق و فجور کی تہمت لگانا یہ افتراء شیطانوں کا کام ہے۔ ان دو مقدس نبیوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض بدذات اور خبیث لوگوں نے سخت افترا کئے ہیں۔ چنانچہ ان پلیدوں نے لعنۃ اللّٰہ علیھم پہلے نبی کو زانی قرار دیا جیسا کہ آپ نے اور دوسرے کو ولد زنا کہا جیسا کہ پلید طبع یہودیوں نے۔ آپ کو چاہئے کہ ایسے اعتراضوں سے پرہیز کریں۔
اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کیلئے مستعد ہوگئے تھے، سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا۔ پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو نشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے۔ اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میرا حشر ہو چنانچہ نیل الاوطار کے صفحہ ۱۴۰ میں یہ حدیث ہے۔
قال السودۃ بنت زمعۃ حین سنت وخافت ان یفار قھار رسول اللّٰہ یا رسول اللّٰہ وھبت یومی لعائشہ فقبل ذلک منھا ورواہ ایضاً سعد و سعید ابن منصور والترمذی وعبدالرزاق قال الحافظہ فی الفتح فتو اردت ھٰذہ الروایات علی انھا خشیت الطلاق
یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شاید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اُس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی آپ نے اس کی یہ درخواست قبول فرمائی ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبدالرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا۔ اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارداہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کر کے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں۔ اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آواری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کارروائی کرے تو عندالعقل کچھ جائے اعتراض نہیں۔
پادری صاحب! آپ کا یہ سوال کہ اگر آج ایسا شخص جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہوتے تو گورنمنٹ اس سے کیا کرتی؟
آپ کو واضح ہو کہ اگر وہ سید الکونین اس گورنمنٹ کے زمانہ میں ہوتے تو یہ سعادت مند گورنمنٹ اُن کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتی جیسا کہ قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اُٹھ کھڑاہوا تھا۔ آپ کی یہ نالائقی اور ناسعادتی ہے کہ اس گورنمنٹ پر ایسی بدظنی رکھتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے مقدسوں کی دشمن ہے یہ گورنمنٹ اس زمانہ میں ادنیٰ ادنیٰ امیر مسلمانوں کی عزت کرتی ہے۔ دیکھو نصراللہ خان جو اُس جناب کے غلاموں جیسا بھی درجہ نہیں رکھتا۔ ہماری قیصر ہند دام اقبالہا نے کیسی اُس کی عزت کی ہے۔ پھر وہ عالی جناب مقدس ذات جو اس دنیا میں بھی وہ مرتبہ رکھتا تھا کہ بادشاہ اس کے قدموں پر گرتے تھے۔ اگر وہ اس وقت میں ہوتا تو بے شک یہ گورنمنٹ اس کی جناب سے خادمانہ اور متواضعانہ طور پر پیش آتی۔ الٰہی گورنمنٹ کے آگے انسانی گورنمنٹوں کو بجز عجز و نیاز کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ قیصر روم جو آنجناب کے وقت میں عیسائی بادشاہ اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھا وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہوسکتی کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا۔ سوجو قیصر روم نے کہا یقینا یہ سعادت مند گورنمنٹ بھی وہی بات کہتی بلکہ اس سے بڑھ کر کہتی۔ اگر حضرت مسیح کی نسبت اس وقت کے کسی چھوٹے سے جاگیر دار نے بھی یہ کلمہ کہا ہو جو قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا جو آج تک نہایت صحیح تاریخ اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہوا موجود ہے تو ہم آپ کو ابھی ہزار روپیہ نقد بطور انعام دیں گے۔ اگر آپ ثابت کر سکیں اور اگر اس کا ثبوت نہ دے سکیں تو اس ذلیل زندگی سے آپ کے لئے مرنا بہتر ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قیصر روم اس گورنمنٹ عالیہ کا ہمرتبہ تھا بلکہ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس کی طاقت کے برابر اور کوئی طاقت دنیا میں موجود نہ تھی۔ ہماری گورنمنٹ تو اس درجہ تک نہیں پہنچی پھر جب کہ قیصر باوجود اس شہنشاہی کے آہ کھینچ کر یہ بات کہتا ہے کہ اگر میں اس عالی جناب کی خدمت میں پہنچ سکتا تو آنجناب مقدس کے پاؤں دھویا کرتا تو کیا یہ گورنمنٹ اُس سے کم حصہ لیتی؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ضرور یہ گورنمنٹ اس آسمانی بادشاہ سے منکر نہیں جس کی طاقتوں کے آگے انسان ایک مرے ہوئے کیڑے کی برابر نہیں اور ہم نے ایک معتبر ذریعے سے سنا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند ادام اللہ اقبالہا درحقیقت اسلام سے محبت رکھتی ہے اور اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم ہے۔ چنانچہ ایک ذی علم مسلمان سے وہ اُردو بھی پڑھتی ہے۔ اُن کی ایسی تعریفوں کو سن کر میں نے اسلام کی طرف ایک خاص دعوت سے حضرت ملکہ معظمہ کو مخاطب کیا تھا۔ پس یہ نہایت غلطی ہے کہ آپ لوگ اس مراتب شناس گورنمنٹ کو بھی ایک سفلہ اور کمینہ پادری کی طرح خیال کرتے ہیں جن کو خدا ملک اور دولت دیتا ہے اُن کوزیر کی اور عقل بھی دیتا ہے۔ ہاں اگر یہ سوال پیش ہو کہ اگر کوئی ایسا شخص اس گورنمنٹ کے ملک میں یہ غوغا مچاتا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں تو گورنمنٹ اس کا تدارک کیا کرتی؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مہربان گورنمنٹ اُس کو کسی ڈاکٹر کے سپرد کرتی تا اس کے دماغ کی اصلاح ہو اس بڑے گھر میں محفوظ رکھتی جس میں بمقام لاہور اس قسم کے بہت لوگ جمع ہیں۔
جب ہم حضرت مسیح اور جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوں نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر اُن کے ربانی رعب یا الٰہی تائید نے اثر دکھایا یا تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی۔ جناب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جب بادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ کھینچ کر کہا کہ میں تو عیسائیوں کے پنجے میں مبتلا ہوں۔ کاش اگر مجھے اس جگہ سے نکلنے کی گنجائش ہوتی تو میں اپنا فخر سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں مگر ایک خبیث اور پلید دل بادشاہ کسریٰ ایران کے فرمانروا نے غصہ میں آ کر آپ کے پکڑنے کیلئے سپاہی بھیج دیئے وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کاحکم ہے۔ آپ نے اس بیہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا تم اسلام قبول کرو۔ اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربّانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے۔ آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے تو ہم جواب ہی لے جائیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند کہتے ہو وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا۔ میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیردیہ کو اس پر مسلط کر دیا۔ سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے۔ یہ بڑا معجزہ تھا۔ اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے کیونکہ اُسی رات درحقیقت خسروپرویز یعنی کسریٰ مارا گیا تھا اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے چنانچہ ڈیلونپورٹ صاحب نے بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھا ہے لیکن اس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں وہ اوراق شاید اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرودیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پلاطوس کی طرف چالان کیا اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی اورکسی بادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا فخر ہوگا اگر میں اس کی خدمت رہوں اور اس کے پاؤں دھویا کروں بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالے کر دیا کہ یہی خدائی تھی عجیب مقابلہ ہے۔ دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجے میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برانگیختہ ہونا اور خود آخر *** الٰہی میں گرفتار ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلت کے ساتھ قتل کیا جانا اور ایک دوسرا انسان ہے جسے قطع نظر اپنے اصلی دعوؤں کے خلو کرنے والوں نے آسمان پر چڑھا رھا ہے۔ سچ مچ گرفتار ہو جاناچالان کیا جانا اور عجیب ہئیت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا جانا۔ افسوس یہ عقل کی ترقی کا زمانہ اور ایسے بیہودہ عقائد۔ شرم! شرم! شرم!!!
اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمنا کی کہ اگر میںجناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنیٰ خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا۔ اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعدہ کتاب اللہ صحیح بخاری کی عبارت رکھتا ہوں۔ ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور وہ یہ ہے:۔
وقد کنت اعلمانہ خارج ولم اکن اظن انہ منکم فلوا انی اعلم انی اخلص الیہ لتجشمت لقایۃ ولو کنت عندہ لغسلت عن قدمہٖ (صفحہ۴)
یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے مگر مجھ کر یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہے (اے اہل عرب) پیدا ہوگا۔ پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو اور اگر میں اس کی خدمت میں ہوتا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا۔ اب اگر کچھ غیرت اور شرم ہے تو مسیح کیلئے یہ تعظیم کسی بادشاہ کی طرف سے جو اس کے زمانہ میں تھا پیش کرو اور نقد ہزار روپیہ ہم سے لو اور کچھ ضرورت نہیں کہ انجیل ہی سے بلکہ پیش کرو ۔ اگرچہ کوئی نجاست میں پڑا ہوا ورق ہی پیش کر دو اور اگر کوئی بادشاہ یا امیر نہیں تو کوئی چھوٹا سا نواب ہی پیش کر دو۔اور یاد رکھو کہ ہرگز ہرگز پیش نہ کر سکو گے۔ پس یہ عذاب بھی جہنم کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہ آپ ہی بات کو اُٹھا کر پھر آپ ہی ملزم ہوگئے۔ شاباش! شاباش! شاباش!!!
مسیح کا چال چلن کیا تھا۔ ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد، نہ عابد، نہ حق کا پرستار، متکبر، خودبین، خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ مگر اس سے پہلے اور بھی کئی خدائی کا دعویٰ کرنے والے گزر چکے ہیں۔ ایک مصر میں ہی موجود تھا۔ دعوؤں کو الگ کر کے کوئی اخلاقی حالت جو فی الحقیقت ثابت ہو ذرا پیش تو کرو تا حقیقت معلوم ہو کسی کی محض باتیں اس کے اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ آپ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مرتد جو خود خونی اور اپنے کام سے سزا کے لائق ٹھہر چکے تھے بے رحمی سے قتل کئے گئے مگر آپ کو یاد نہ رہا کہ اسرائیلی نبیوں نے تو شیرخوار بچے بھی قتل کئے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں تک نوبت پہنچی یا ان کی نبوت سے منکر ہو یا وہ خدا کا حکم نہیں تھا یا موسیٰ کے وقت خدا اور تھا اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کوئی اور خدا تھا۔
اے ظالم پادری! کچھ شرم کر آخر مرنا ہے مسیح بیچارا تمہاری جگہ جوابدہ نہیں ہو سکتا۔ اپنے کاموں سے تمہیں پکڑے جاؤ گے اس سے کوئی پُرسش نہ ہوگی۔ اے نادان! تو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں تجھے نظر نہیں آتا۔تیری آنکھیں کیا ہوئیں جو تو اپنی آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتا۔
زینب کے ننکاح کا قصہ جوآپ نے زنا کے الزام سے ناحق پیش کردیا۔ بجز اس کے کیا کہیں۔
بد گھر از خطا خطا نکند
اے نالائق! متبنٰی کی مطلقہ سے نکاح کرنا زنا نہیں۔ صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی عیسائی اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی بلکہ وہ بدستور اسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے واقع ہو سکتی۔ اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے۔ مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے۔ اب تم پر فرض ہے کہ اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے یا یہ کہ اپنے مسیح کو ناقص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائبل کے رو سے متبنّٰی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے اور اگر کچھ ثبوت نہ دے سکو تو بجز اس کے اور کیا کہیں لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ مسیح بھی تم پر *** کرتا ہے۔ کیونکہ مسیح نے انجیل میں کسی جگہ نہیں کہا کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں امرہمشکل ہیں اگر صرف منہ کے کہنے سے ماں نہیں بن سکتی تو پھر بیٹا بھی نہیں بن سکتا اور نہ باپ بن سکتا ہے۔ اب اگر کچھ حیا ہو تو مسیح کی گواہی قبول کر لو یا اس کا کچھ جواب دو اور یاد رکھو کہ ہرگز نہیں دے سکو گے۔ اگرچہ فکر کرتے کرتے مر ۱؎ہی جاؤ۔ کیونکہ تم کاذب ہو اور
۱؎ اس کا جواب نہ ہو سکا اور فتح مسیح مر گیا (ایڈیٹر)
مسیح تم سے بیزار ہے اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اورصرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔ آپ عربی علم سے محض بے نصیب اور سخت جاہل ہیں ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تا جھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو۔ ندامت کی سزا ہی سہی اگرچہ ایسے لوگ شرمندہ بھی نہیں ہوا کرتے۔
مال مسروقہ کو آپ کے مسیح کے رو برو بزرگ حواریوں کاکھانا یعنی بیگانے کھیتوں کی بالیاں توڑنا کیایہ درست تھا؟ اگر کسی جنگ میں کفّارکے بلوے اور خطرناک حالت کے وقت نماز عصر تنگ وقت پر پڑھی گئی تو اس میں صرف یہ بات تھی کہ دو عبادتوں کے جمع ہونے کے وقت اس عبادت کو مقدم سمجھا گیا۔ جس میں کفّار کے خطرناک حملہ کی روک اور اپنے حقوق نفس اور قوم اور ملک کی جائز اور بجا محافظت تھی اور یہ تمام کارروائی اس شخص کی تھی جو شریعت لایا اور یہ بالکل قرآن کریم کے منشاء کے مطابق تھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا ینطق عن الھٰویٰ اِنْ ھُوَ الاَّوَحْیٌ یُوْحٰی (یعنی نبی کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے۔ نبی کا زمانہ نزول شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے۔ ورنہ جو جو کارروائیاں مسیح نے توریت کے برخلاف کی ہیں یہاں تک کہ سبت کی بھی پرواہ نہ رکھی اور کھانے پر ہاتھ نہ دھوئے وہ سب مسیح کو مجرم ٹھہراتے ہیں۔ ذرا توریت سے ان سب کا ثبوت تو دو مسیح پطرس کو شیطان کہہ چکا تھا۔ پھر اپنی بات کیوں بھول گیا اور شیطان کو حواریوں میں کیوں داخل رکھا۔
اور پھر آپ کا اعتراض ہے کہ بہت سی عورتوں اور لونڈیوں کو رکھنا یہ فسق و فجور ہے۔ اے نادان! حضرت داؤد علیہ السلام نبی کی بیبیاں تجھ کو یاد نہیں جس کی تعریف کتاب مقدس میں ہے کیا وہ اخیر عمر تک حرام کاری کرتا رہا۔ کیا اسی حرامکاری کی یہ پاک ذرّیت ہے جس پر تمہیں بھروسہ ہے جس خدا نے اوریا کی بیوی کے بارہ میں داؤد پر عتاب کیا کیا؟ وہ داؤد کے اس جرم سے غافل رہا؟ جو مرتے دم تک اس سے سرزد ہوتا رہا بلکہ خدا نے اس کی چھاتی گرم کرنے کو ایک اور لڑکی بھی اُسے دی اور آپ کے خدا کی شہادت موجود ہے کہ داؤد اورا کے قصہ کے سوا اپنے کاموں میں راستباز ہے کیا کوئی عقلمند قبول کر سکتا ہے کہ اگر کثرت ازدواج خدا کی نظر میں بُری تھی تو خدا اسرائیلی نبیوں کو جو کثرت ازدواج میں سب سے بڑھ کر نمونہ ہیں ایک مرتبہ بھی اس فعل پر سرزنش نہ کرتا پس یہ سخت بے ایمانی ہے کہ جو بات خدا کے پہلے نبیوں میں موجود ہے اور خدا نے اُسے قابل اعتراض نہیں ٹھہرایا۔ اب شرارت اور خباثت سے جناب مقدس نبوی کی نسبت قابل اعتراض ٹھہرائی جاوے۔ افسوس یہ لوگ ایسے بے شرم ہیں کہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک سے اوپر بیوی کرنا زنا کاری ہے تو حضرت مسیح جو داؤد کی اولاد کہلاتے ہیں ان کی پاک ولادت کی نسبت سخت شُبہ پیدا ہوگا اور کون ثابت کر سکے گا کہ ان کی بڑی نانی حضرت داؤد کی پہلی ہی بیوی تھی۔
پھر آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلعم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں۔ اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں یہ اعتراض کیسا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے … نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی۔
اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حسن معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا۔ مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی۔ مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے۔ اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں کتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں دیویثوں اور سیاہ رویئوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودہ طلاق پاس کرانا یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدس مطہر، مزکی، نبی اُمّی صلعم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص نالائق کتاب پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟
اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو۔
ہاں! مسیح کی دادیوں اور نانیوں کی نسبت جو اعتراض ہے اس کا جواب بھی کبھی آپ نے سوچا ہوگا؟ ہم تو سوچ کر تھک گئے اب تک کوئی عمدہ جواب خیال میں نہیں آیا۔ کیا ہی خوب خدا ہے جس کی دادایاں اور نانیاں اس کمال کی ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ ہم بقول آپ کے مرد میدان بن کر ہی رسالہ لکھیں گے! اور آپ کو دکھائیں گے کہ وساوس کی بیخ کنی اسے کہتے ہیں۔ اس جاہل گمراہ کا شکست دینا کونسی بڑی بات ہے جو انسان کو خدا بناتا ہے۔ مگر آپ براہ مہربانی ان چند باتوں کا جو میں نے دریافت کی ہیں ضرور جواب لکھیں اور ان الفاظ سے ناراض نہ ہوں جو لکھے گئے ہیں کیونکہ الفاظ محل پر چسپاں ہیں اور آپ کی شان کے شایان ہیں جس حالت میں آپ نے باوجود بے علمی اور جہالت کے آنحضرت صلعم پر جو سیّد المطہرین ہیں زنا کی تہمت لگائی جو اس پلید اور جھوٹ افتراء کا یہی جواب تھا جو آپ کو دیا گیا ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ بھلے مانس بن جاویں اور گالیاں نہ دیا کریں مگر آپ لوگ نہیں مانتے۔ آپ ناحق اہل اسلام کا دل دکھاتے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ ہمارے نزدیک وہ نادان ہر ایک زنا کار سے بدتر ہے جو انسان کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے۔ اگر آپ لوگ مسیح کے خیر خواہ ہوتے تو ہم سے جناب مقدس نبوی کے ذکر میں بادب پیش آتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ تم اپنے باپ کو گالی مت دو۔ لوگوں نے عرض کی کہ کوئی باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! جب تو کسی کے باپ کو بھی گالی دے گا تو وہ ضرور تیرے باپ کو بھی گالی دے گا۔ تب وہ گالی اس نے نہیں دی بلکہ تو نے دی ہے۔ اسی طرح آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے بودے جھوٹے خدا کی بھی اچھی طرح بھگت سنواری جائے ۔ اب ہم یہ خط بطور نوٹس کے آپ کو بھیجتے ہیں کہ اگر پھر ایسے ناپاک لفظ آپ نے استعمال کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ناپاک تہمت لگائی تو ہم بھی آپ کے فرضی اورجعلی خدا کی وہ خبر لیں گے جس سے اس کی تمام خدائی ذلّت کی نجاست میں گرے گی۔
اے نالائق! کیا تو اپنے خط میں سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زنا کی تہمت لگاتا ہے اور فاسق فاجر قرار دیتا ہے اور ہمارا دل دکھاتا ہے ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر آئندہ کیلئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو یقینا جو کچھ تم جناب مقدس نبوی کی نسبت بُرا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس سے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا۔
٭٭٭
اشتہار نہیں تو نور افشاں میں چھپوا دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے کوئی قلمی تحریر آپ کی طرف نہیں بھیجی بلکہ ہزار روپیہ کا اشتہار چھپوا کر بھیجا ہے۔ تو اس صورت میں طریق مقابلہ یہی ہے کہ جیسا کہ میں نے ایک دعویٰ کو چھاپ کر پبلک کے سامنے رکھ دیا ہے اور ہر ایک کو نظر اور غور کرنے کا موقعہ دیا ہے۔ آپ بھی ویساہی کریں اور وہ عمدہ کتابیں جو آپ کی دانست میں اعتماد کے لائق ہیں اور اہل الرائے نے ان پر کوئی جرح نہیں کیا اور نہ ان مفتریات میں سے ٹھہرایا ہے۔ ان کا وہ مقام شائع کر دیں آپ کی اس سے بڑی نیک نامی ہوگی کیونکہ جب کہ میں اس وسوسہ کے استیصال کیلئے جواب الجواب چھپوا دوں گا اور پبلک کی نظر میں وہ نکما ثابت ہوگا تو گویا پبلک آپ کو ہزار روپیہ پانے کی ڈگری دے دے گی۔ اس صورت میں ہر ایک کی نظر میں آپ ہزار روپیہ پانے کے مستحق ٹھہر جاویں گے اور مجھ کو دینا پڑے گا اورنیز اس صورت میں یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کی اس معرکہ کی فتح کے بعد کچھ ترقی بھی ضرور ہوگی کیونکہ جب کہ آپ یسوع صاحب کی عزت ثابت کریں گے تو ضرور لوگ آپ کی عزت کریں گے۔ میری نظر میں تو سوائے حوالات میں رہنے اور چوتڑوں پر کوڑے کھانے کے انجیل سے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اگر اسی کا نام عزت ہے تو بے شک اُس وقت کے مخالف مذہب والیان ملک نے یسوع کی بڑی عزت کی۔ خیر اوّل اس خط کو جو میری طرف بھیجا ہے چھپوا دیں اور جلد چھپوا دیں اور ایک کاپی میرے نام بھیج دیں پھر آپ دیکھ لیں گے کہ میں کیسی ان اسناد کی وقعت اور یسوع صاحب کی عزت ثابت کرتا ہوں اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ نور القرآن میں مجھ کو گالیاں دیں ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ گالیاں دینا اور توہین کرنا اور افتراء کرنا وہ سب اس زمانہ کے پادری صاحبوں کے حصہ میں آ گیا ہے۔ کون سی گالی ہے جو آپ لوگوں نے ہمارے سیّدو مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی۔ کونسی توہین ہے جو اس جناب کی آپ لوگوں نے نہیں کی۔ نہ ایک نہ دو بلکہ ہزاروں کتابیں آپ لوگوں کے ہاتھ سے ایسی نکلی ہیں جو گالیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر وہی الفاظ آپ صاحبوں کے باپ یا ماں یا یسوع کی نسبت استعمال کئے جائیں تو کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں؟ ہمارے دلوں کو آپ لوگوں نے ایسا دکھایا جس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ مردہ پرستی کی شامت ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں سے راستبازی کا نور بالکل جاتا رہا۔ ہر ایک سوال شرارت کے ساتھ ملا کر بیان کیا جاتا ہے ہر ایک اعتراض میں افتراء کی ملونی سے رنگ دیا جاتا ہے۔ ہر ایک بات ٹھٹھے اور ہنسی سے مخلوط ہوتی ہے کیا یہ نیک انسانوں کا کام ہے۔ پھر جس حالت میں آپ اُس عالی جناب کی عزت نہیں کرتے جس کو زمین و آسمان کے خالق نے عزت دے رکھی ہے اور جس کے آستانہ پر پچانوے کروڑ آدمی سر جھکاتے ہیں (نئی تحقیقات سے مسلمانوں کی تعداد ۹۵ کروڑ تمام روئے زمین پر ثابت ہوئی ہے) پھر آپ ہم سے کس عزت کو چاہتے ہیں۔ ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ تہذیب سے پیش آویں تا ہم بھی تہدیب سے پیش آویں مگر آپ لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جن اعتراضات کو آپ تہذیب اور نرمی سے پیش کر سکتے ہیں ان کو آپ توہین اور تحقیر سے پیش کرتے ہیں مثلاً زینب کے قصہ میں جو متبنٰی کی بیوی کو نکاح میں لانا آپ لوگوں کی نظر میں محل اعتراض ہے اور اسی اعتراض کو دل دکھانے کیلئے توہین اور تحقیر کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں طلب حق اور زبان پر تہذیب ہو تو اس طور سے اعتراض پیش کریں کہ ہماری توریت اور انجیل کی رو سے متبنٰی کی بیوی سے نکاح کرنا حرام ہے اور توریت انجیل کے رو سے جس مرد کو بیٹا کہا جاوے یا عورت کو بیٹی کہا جائے تو اس مرد کی بیوی حرام ہو جاتی ہے اور اس عورت کو نکاح میں لانا حرام ہو جاتا ہے یا اگر نکاح میں ہوتو اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور نیز فلاں فلاں عقلی دلیل سے ثابت ہے کہ متبنٰی اصل بیٹے کی مانند ہو جاتا ہے مگر اسلام نے متبنٰی کی بیوی سے بعد طلاق نکاح جائز رکھا ہے تو ایسے اعتراض سے کوئی مسلمان ناراض نہ ہو یا مثلاً کثرت ازدواج پر آپ اعتراض کریں اور نرمی سے توریت اور انجیل کی آیات ثبوت میں لکھیں کہ صریح ان کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا حرام ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ زنا کرتا ہے اور معقول طور سے بھی دوسری بیوی کی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوئی تو اس اعتراض پر کون ناراض ہو سکتاہے۔ اگر خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ اخلاق نصیب کرے تو ہم بچوں کی طرح آپ لوگوں کو شفقت اور رحمت سے تعلیم دے سکتے ہیں اور محبت اور خلق سے ہر ایک بات میں آپ کی تسلی کر سکتے ہیں مگر آپ تو درندوں کی طرح ہم پر گرتے ہیں۔ پھر آخر ہم نے جوش غصہ سے بلکہ تادیب کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہاں اگر آپ حقیقی خلق برتنے اور درندگی کے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو ہم بھی محبت اور خلق اور عزت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ورنہ آپ کی مرضی۔ یقینا ایک وہ زمانہ تھا جو بقول آپ کے یسوع مصلوب ہوا اور اب وہ گھڑی بہت نزدیک ہے جو تثلیت مصلوب ہو جاوے گی اور توریت کے مفہوم کے موافق لکڑی پر لٹکائی جاوے گی۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ
(از قادیان ضلع گورداسپور۔یکم فروری ۱۸۹۶ء)
نور القرآن کا جواب جلد شائع کر دیں انہیں اعتراض کیلئے رجسٹری شدہ خط بھیجتا ہوں۔ (غلام احمد)
ایک عیسائی کے چند سوالوں کا جواب
انجمن حمایت اسلام لاہور کے ذریعہ ایک عیسائی نے کچھ سوال اسلام پر کئے تھے انجمن نے ان سوالات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی کے پاس بھیج دیا اور آقا و غلام نے ان سوالات کے جواب لکھ کر انجمن کو بھیج دیئے تھے۔ چونکہ وہ ایک عیسائی کے خط کا جواب بذریعہ ایک کھلے خط کے تھا اس لئے انہیں درج کر دیا جاتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق (ایڈیٹر)
سوال: اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا عرض ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نوکروڑ گنا بڑاہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے؟
جواب: پوشیدہ نہ رہے کہ ان دونوں آیتوں سے معترض کا مدعا جو استدلال پر نفی معجزات ہے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ایسے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں کہ جو ایک صادق و کامل نبی سے ہونی چاہئیں۔ چنانچہ تصریح اس کی نیچے کے بیانات سے بخوبی ہو جائے گی۔
پہلی آیت جس کا ترجمہ معترض نے اپنے دعویٰ کی تائید کیلئے عبارات متعلقہ سے کاٹ کر پیش کر دیا ہے مع اس ساتھ کی دوسری آیتوں کے جن سے مطلب کہتا ہے یہ ہے۔
قالوا لولا انزل علیہ ایت من ربّہٖ قل انما اِلاَّیت عند اللّٰہِ و انما انا نذیر مبینo اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتٰب یتلی علیھم ان فی ذٰلِک لرحمۃ و ذکری لقوم یومنونo ویستعجلونک بالعذاب ولولا اجل مسمی لجاء ھم لعذاب ولیاتینھم بغتۃً وَّھُمْ لایشعرونo
یعنی کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں وہ تو خدا تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانیوالا ہوں یعنی میرا کام فقط ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں کیلئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں۔ یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمّی) وہ کتاب (جو جامع کمالات ہے) نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے جس سے درحقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفّار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کفّار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تا وہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچ جاوے۔ صرف دیکھنے کی چیزنہ رہے کیونکہ مجرد رویّت کے نشانوں میں ان کو دھوکے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال سو اس وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جاوے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے کیا اس مدعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں۔ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنے پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنی فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے٭ اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے مدت ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ
٭ یہ تمام خارق عادت خاصیتیں قرآن شریف کی جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے انمفصلہ ذیل سورتوں میں بہ تفصیل ذیل کہتے ہیں۔ سورۃ البقر، سورۃ اٰل عمران، سورۃ النساء، سورۃ المائدہ، سورۃ الانعام) سورۃ الاعراف، سورۃ الانفال، سورۃ التوبہ، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ رعد، سورۃ ابراہیم، سورۃ الحجر، سورۃ واقعہ، سورۃ النمل، سورۃ الحج، سورۃ النبیہ، سورۃ المجادلہ چنانچہ بطور نمونہ چند آیات ی ہیں قال عزو جل۔
یھدی بہ اللہ من التبع رضوانہ سبل السلام ویحزجھم من الظلمت الی النور شفائٌ لما فی الصدور انزل من السماء ماء فاحیابہ الارض بعد موتہا انزل من السماء مائً فسالت اودیۃ بقدرھا۔ انزل من السماء مائً افتصبح الارض مخضریۃ تقشعرمنہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الٰی ذکر اللّٰہ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدیھم بروح منہ۔ قل نزلہ روح القدس من ربک لیثبت الذین امنوا وھدًی وبشر للمسلمین۔ انا نحن نزلنا لحفظون۔فیھا کتب قیئمہ قل لئن اجتمعت الامن والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعضٍ ظھیرًاo یعنی قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ نور کی طرف نکالے جاتے ہیں وہ ہر ایک اندرونی بیماری کو اچھا کرتا ہے۔ خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے ہر ایک وادی میں بقدر اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے۔ ایسا پانی اُتارا جس سے گلی سڑی ہوئی
ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے۔ آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور المحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جزامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دور ہوتی ہے اور وصل الٰہی میسر آتا ہے اور اس کے علامات پیدا ہوتے ہیں۔ سو تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نسان مانگتے ہو۔ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے۔ رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی۔ اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب نازل ہوگئی ہوتیں اور عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔ اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے یہ آیتیں تو بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا۔ سو اوّل انہیں کہا گیا کہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا پس کیوں ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا۔ پس اللہ جل شانہ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی۔ پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے۔ محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے۔ جو متکلّم کے
(بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) ہوئی زمین سرسبز ہوگئی۔ اس سے خدا کے خوف سے بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں۔ پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلءآ نرم ہو جاتے ہیں یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے۔ روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو۔ ہم نے قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے والے ہیں یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی اصلی حالت پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا ان پر سایہ ہوگا۔ پھر فرمایا کہ قرآن میں تمام معارف و حقائق و صداقتیں ہیں جو حقانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اور اس کی مثل بنانے پر کوئی انسان و جن قادر نہیں اگرچہ اس کام کیلئے باہم ممدومعاون ہو جائیں۔ منہ۱۲
ارادہ میں متعین ہوتی ہے۔ خواہ وہ ارادۃً تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً۔ مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کا لا ہے۔ جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے درست نہیں۔ مکہ کے مغلوب بت پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آطجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گو بیجا پیرائیوں میں ہی سہی مگر نشانوں کا اقرار کر لیا کرتے تھے۔ جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطحہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگا۔ اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا۔ مشرف باسلام کیوں ہو جاتے اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کوتہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساحر رکھتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وان یروا ایۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پکا جادو ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے وعجبوا ان جاء ھُمْ منذرمنھم وقال الکفرون ھذا ساحرٌ کذاب یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجاگیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذّاب ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کیلئے سچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور ان کا معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمرائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُترتی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی۔
اب٭ قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے زیادہ کھیتی ہے یا ایسا لا نافیہ عربوں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا۔ ان کے دل تو اسلام کی حقیقت سے بھرے ہوئے تھے۔ تبھی تو سب کے سب بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے اور اس لا نافیہ
٭ واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور اب سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفّار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے۔
(۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے افتراح سے کفّار مکہ نے طلب کئے تھے۔
(۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے۔
(۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بُکلّی اُٹھ جائے جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بُکلّی برخلاف ہے۔ سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں بھی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو عذاب نازل ہوگا۔ ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بُکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی نہ تھا نہ اور کچھ۔ کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لاویں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک کتاب نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر۔ یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے۔ شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جاویں اور جس قدر ابتداء دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا۔ اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل۔ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جس کا ذکر جا بجا قرآن شریف میں آیا ہے۔ پس سوچنے والے کے لئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہئیت پر صاف صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیبت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے
سے بڑھ کر اور کونسا لانافیہ ہوگا۔
پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے اس میں بھی سیاق و سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس اعتراض را ردّ کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہے بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے چنانچہ وہ آیت سعہ اس کے دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے۔
وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلاَّ نَحْنُ مُھْلِلُوْھَا قَبْلَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ او مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًاo وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُرْسِلَ بِا لْاٰیٰتِ اِلاَّ اَنْ کَذَّبَبِھَا الْاَوَّلُوْنَo وَایَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃ فَظَلمُوْابِھَا وَمَا نُرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاo فرماتا ہے عزوجل کہ یوں قیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ابھی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے۔ مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کے (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس سے نہیں بھیجتے جو پہلے اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا۔ جس پر انہوں نے ظلم کیا۔ یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں تھے۔ پانی تالاب کے لئے کوئی چراگاہ رہتی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی اور قہری نشانوں کے نازل کرنے
(بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے یوں تو اللہ جلشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زیۃ رکھ دیوے۔ جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور وہ چار ہزار کیا دو کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے۔ یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا۔ ایمان کام نہیں آتا اِسی طرح ان انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ خفا بھی باقی ہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے۔
سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں۔ یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں۔ پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی تخویف و ہراساں نہ ہوئے۔
اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔
(۱) نشان تخویف تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں۔
(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔ تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدا تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے۔ مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن کے ان نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ الاء و نعماء الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیہ و خفیہ حضرت باری عزاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ محبت وعشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفت کاملہ اور محبت ذاتیہ کی اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہیٰ المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لھم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ لاتبدیل لکمت اللہ ذٰلک ھو الفوز العظیم۔ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے پاتے رہیں گے۔ جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے)۔
اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آیت وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًاسے ظاہر ہو رہا ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف ہی کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی۔ تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے۔ پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوح بالا میں جو لفظ آیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الٰہی داخل ہیں۔ تخویف کے قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے۔
اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کے دو قسموں میں سے صرف تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا مرتنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مامنعنا الخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہیں۔ بجز ان خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا۔
سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بتمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنی لینا کہ تمام انواع و اقسان کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اس کی تکذیب کر چکی ہیں یہ معنی سراسر باطل ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے۔ اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی۔ حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تخت قدرت باری تعالیٰ ہیں جن کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں ان کی طرف جھک جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری تعالیٰ غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی۔ وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی۔ بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے۔ ان کا دوبارہ بھیجنا عیب سمجھا گیا جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں۔
پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت وما منعنا ان ترسل بالایت الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الایت کے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں یا کل کے معنی دے گا یا خاص کے۔ اگر کل کے معنی دے گا تو یہ معنی کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب امم گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنی لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر ضروری ہیں بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف کے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی صحیح اور قرین قیاس ہیں کہ خدا تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ الایات کے الف لام پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کے ایک قسم خاص کی نفی کیلئے آیا ہے جس کا دوسرے اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جلشانہ بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی آیتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں۔ سو جو نشان پہلے ردّ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید۔ پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرورنازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یا وہی نشان حضرت نوع علیہ السلام اور قوم لوط علیہ السلام اور عاد علیہ السلام اور ثمود علیہ السلام کے ظاہر کئے جائیں۔ چنانچہ ان آیات کی تفصیل دوسری آیات میں زیادہ تر کئی گی ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے۔
وان یروا کل اٰیۃ لا یؤمنوا بھا حتی اذا جاؤک یجادو لونک واذا جاء تھم اٰیۃ قالوا لن نؤمن حتی نؤتی مثل ما اوتی رسلہ اللّٰہ اللّہٗ اعل حیث یجعل رسالتہٗ قل انی علی بینۃ من ربی وکذبتم بہ ماعندی ماتستعجلون بہ ان الحکم الا اللّٰہ یقص الحق وھو خیر الفاصلینo قد جاء کم بصائر منربکم فمن ابصر فلنفسہ و من عمی فعلیھا وما انا علیکم بحفیظo ویستعجلونک بالعذابo قل ھوالقادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقھما ومن تحت ارجلکم اویلبسکم شیعا یذیق بعضکم باس بعضo قل الحمدللّٰہ سبریکم ایایتہ فتعرفونھا قل لکم میعاد یوم لا تستاخرون ساعۃ ولا تستقدمون ویسئلونک احق ھو قل ای دربی انہ الحق وما انتم بمعجزینo سندیھم ایاتنا فی الافاق رفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق خلق الانسان من عجل ساریکم ایتی فلا تستعجلونo یعنی یہ تمام لوگ نشانوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے۔ پھر جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے لڑتے ہیں اور جب کوئی نشان پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مانیں گے۔ جب تک ہمیں خود ہی وہ باتیں حاصل نہ ہوں جو رسولوںکو ملتی ہیں کہ میں کامل ثبوت لے کر اپنے ربّ کی طرف سے آیا ہوں اور تم اس ثبوت کو دیکھتے ہو اور پھر تکذیب کر رہے ہو جس چیز کو تم جلدی سے مانگتے ہو (یعنی عذاب) وہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ حکم اخیر صادر کرنا تو خدا ہی کا منصب ہے وہی حق کو کھول دے گا اور وہی خیر الفاصلین ہے جو ایک دن میرا اور تمہارا فیصلہ کر دے گا خدا نے میری رسالت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں۔ سو جو ان کو شناخت کرے اس نے اپنے نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے میں تم پر نگہبان نہیں اور تجھ سے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں کہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کرایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزا چکھا دے اور کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں۔ وہ تمہیں ایسے نشان دکھلائے گا جنہیں تم شناخت کر لو گے اور کہ تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے٭ نہ اس سے تم تاخیر کر سکو گے نہ تقدیم اور تجھ سے
٭ یوم سے مراد اس جگہ برس ہے۔ چنانچہ بائبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا۔ جو پہلی لڑائی تھی۔
پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات کہ ہاں مجھے قسم ہے اپنے ربّ کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدا تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے ہم عنقریب ان کواپنے نشان دکھلائیں گے۔ ان کے ملک کے اردگرد میں اور خود اُن میں بھی یہاں تک کہ اُن کپر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے۔ انسان کی فطرت میں جلدی ہے میں عنقریب تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ سو تم مجھ سے تو جلدی مت کرو۔
اب دیکھو کہ ان آیات میں نشان مطلوبہ کے دکھلانے کے بارے میں کیسے صاف اور پختہ وعدے دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کھلے کھلے نشانات دکھلائے جائیں گے کہ تم ان کو شناخت کر لو گے اور اگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم نے مانا کہ عذاب کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میںپورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے۔ بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت کمالم یومنوا بہ اوّل مرۃ الجزو نمبر۷ سورۃ انعام۔ بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے۔ دیکھو آیت وان یروا ایۃً یعرضوا ویقولو سحر مستمرہ (الجزو نمبر۲۷ سورۃ القمر) بعض جگہ جو نشان کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔
وشھدوا ان الرسول حق وجاء ھم البینٰت یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب حدیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں۔ پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت کے انکاروں کو بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیش گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے جو اس زمانہ میں ہیں مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں۔
(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشمدید کہنا چاہئے وجہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا اور یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلم الثبوۃ ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کہ مکہ میں دعوت حق کی سے خود صدہا تکالیف اور دوروں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفار مکہ ہنسی اور ٹھٹھہ کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم کوایک قدر قلیل جماعت جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زنانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی منہ دکھلا رہی تھی سو ایسے زمانہ میں کفّار کو اُن سے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزایاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا اور اسلام جو اَبْ ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرہ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا اور تمام کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدا تعالیٰ دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے بکلی امن کے ساتھ بدل جائے گی اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی نصرت اور فتح کا سایہ ڈالے گا اور دور دور تک اس کی فتوحات پھیل جائے گی اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جاوے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہوگا۔
اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی اسلام کے لئے کیسی تنگی اور ناکامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کسی قدر حالت موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی۔ پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے۔ ایک منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشمدیدہ معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔
پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں عقاید میں چلن میں گفتار میں رفتار میں کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور دشمنی اور چمک بخش دی تھی۔ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو حولناک حالت سے چھڑایا۔ بیمار پایا اور اُسے اچھا کیا۔اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی اور خدا تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھیں ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان لوگوں کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے بہ یقین کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے۔
پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروںکے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و نکات لطائف ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں۔ اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سَو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجود یہ کہ قرآن شریف کی ندا دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے کہ بڑے زور سے ھل من معارض کا نقارہ بجایا جاتا ہے۔ مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی۔ پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس کے ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے۔ مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو۔ مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا متشکک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے درہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں۔ بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے۔ بائبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق و حکمت کی باتیںہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے وید وغیرہ ہیں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں۔ جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو چونتیس برس کے عرصہ میں نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے کئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میںنے کی بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے چلے آئے ہیں۔
پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کے روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلے آتے ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچ ہیں اور مکالمات الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسرے مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے۔ یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور محقق الوجود ہے مسلمانوں میں سے اب بھی ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلشانہٗ اپنی تائیدات خاصہ سے موید فرما کر الہامات صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفات یبہ سے سرفراز فرماتا ہے۔
اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوک اور پیاس انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانہ کیلئے مشہود محسوس کا حکم رکھتے ہیں۔ پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں صرف قصی ہیں۔ خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے۔ بالخصوص حضرت مسیح کے معجزات و انجیلوں میں لکھے ہیں باجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو ان میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بُکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے۔ یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں۔ تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی۔ اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت خاص میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفوردور ہو جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود انجیل مذکور ہے۔ پھر ماسوائے اس کے زنانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ بلکہ صلب امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ مشاق پائے جاتے ہیں جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذب خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے۔ سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مرد صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے۔ مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق گزرے ہیں۔ ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ مردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے٭ اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کمزو رتھے وہ ہاتھ لگا کر یا کپڑے کو چھو کر شفا بخشتے تھے۔ اس مشق میں عامل کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قرت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضاء کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بُکلّی … ہو جاتا ہے۔ اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ
٭ تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار کے مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دور از قیاس ہے۔
ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی۔ حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے۔ انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی۔ مگر کامل نہیں تھی۔ اس وقت کے لوگ بہت سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا۔ مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے علو اعتقاد سے تنزل کرتے گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنایامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں۔ بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور نہیں۔ چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلب امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوت منورہ اس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیح کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے (کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہری شغل سلب امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہؓ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسے توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل پر کچھ قابل تعریف ہو سکے بلکہ حواریوں کے قدم قدم میں بزدلی سست اعتقادی تنگدلی و دنیا طلبی بیوفائی ثابت ہوتی تھی۔ مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدق وفا ظہور میں آیا جس کی تغیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے سو یہ اس روحانی تربیت کا جو کامل طور پر ہوئی تھی اثر تھا جس نے اس کو بُکلّی مبدل کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا۔ اسی طرح سے بہت سے دانشمند انگریزوں نے حال میں ایسی کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں اُنہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ اگر ہم نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حالت رجوع الی اللہ و توکل استقامت ذاتی و تعلیم کامل و مطہر و القائے تاثیر و اصلاح خلق کثیر از مفسدین و تائیدات ظاہری و باطنی قادر مطلق کو ان معجزات سے الگ کر کے بھی دیکھیں جو بمد منقول ان کی نسبت بیان کی جاتی ہیں۔ تب یہی ہمارا انصاف اس اقرار کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ تمام امور جو ان سے ظہور میں آئے۔ یہ بھی بلاشبہ فوق العادت اور بشریٰ طاقتوں سے بالاتر ہیں اور نبوت صحیحہ صادقہ کے شناخت کرنے کیلئے قوی اور کافی نشان ہیں کوئی انسان جب تک اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نہ ہو کبھی ان سب باتوں میں کامل اور کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی غیبی تائیدیں اُس کے شامل ہوتی ہیں۔
سوال: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کبھی کوئی معجزہ نہ ملا۔ جیسا کہ سورۃ عنکبوت میں درج ہے (ترجمہ عربی کام اور کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں یعنی کوئی بھی کیونکہ لا مافیہ اس آیت میں جو کہ جنسی ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے اس کے ربّ سے اور سورہ بنی اسرائیل میں بھی اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا حقیقت میں اگر کوئی معجزہ ملتا تو وہ نبوت اور قرآن پر متشکی نہ ہوتے؟
فاما الجواب: جن خیالات کو عیسائی صاحب نے اپنی عبارت میں بصورت اعتراض پیش کیا ہے وہ درحقیقت اعتراض نہیں ہیں بلکہ وہ تین غلط فہمیاں ہیں جو لوجہ قلت تدبر اُن کے دل میں پیدا ہوگئی ہیں۔ ذیل میں ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں۔
پہلی غلط فہمی کی نسبت جواب یہ ہے کہ نبی برحق کی یہ نشانی ہرگز نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے دناتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔ قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت دجوب ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب غراسمہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات کے جو ہالکۃ الذات اور باطلہ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرۃ باری غراسمہ جائز نہیں اور جیسا ذات کے رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کے رو سے بھی ممتنع ہے۔ پس ممکنات کیلئے نظر اعلیٰ ذاتہم عالم الغیب ہونا ممقات میں سے ہے۔ خواہ نبی ہوں یا ولی ہوں ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے جس کو ہم تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقات مقررہ اور مقدرہ میں رشح فیض غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اُسی آزمائے جاتے ہیں اور شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آئندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اسرار نہیں بتلائے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اقتدار سے بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں۔
وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں۔ اس خیر محض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ مگر بغیر اعلام الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا وہ اگرچہ خدا تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے سمجھائے سمجھتے ہیں بتلائے جانتے ہیں۔ دکھلائے دیکھتے ہیں بولائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے جب طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھاتی ہے تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدا تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تمام نبیوں کے حالات زندگی (لایف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا۔ باب ۱۳۔ آیت ۳۲۔ مرقس
اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ مرقس
غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہر مقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ
یعنی مسیح اپنی گرفتاری کی خبر پا کر گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا صا ہے اور وہ تھوڑا آگے جا کر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا اے باپ سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے یعنی تو قادر مطلق ہے اور میں ضعیف ہوں اور عاجز بندہ ہوں تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر جان دی۔ جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا‘‘
اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی۔ ایک مسکین مخلوق کی خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا۔ اس امید سے کہ شاید قبول ہو جاوے۔ اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا رد کی جائے گی ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری رات برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے۔
سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے۔ مجھے معلوم نہیں پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی پیشگوئی کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرار مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے۔ دیکھو باب ۲۰۔ آیت ۲۸۔ متی‘‘۔
لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودہ اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا۔ اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا۔ اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خبر سناتے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بدعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا۔ اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے۔
ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف پوچھنے لگے کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے۔ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی اور ایک مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) ظاہر نہ ہولے۔ لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے کو عنقریب ہے۔ سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیل سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں۔ دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے حضرت یعقوب ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے۔ حضرت دانیال اس مدت تک کہ خدائے نے بخت النصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟
پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب بنوۃ میں کچھ فتور لازم آتا ہے ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدا تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے ہیں تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کماً و کیقاً ہزار حدیث سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کے رو سے جو بڑی تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تر ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں۔ بھائیو! آؤ اوّل آزماؤ پھر قبول کرو۔ مگر اُن آواروں کو کوئی نہیں سنتا۔ حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے انہوں نے آنکھوں اور کانوں کا بُکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پائیں۔
دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے۔ یہ نرا دعویٰ ہے معترض نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جاتی اور جواب شافی دیا جائے۔ اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کے وجوہات پیش کرنے چاہئیں تھے۔ بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشی حق کا کام نہیں ہے۔
تیسری غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاست کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا۔ اب عیسائی صاحب مجازی سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے میں کیونکر چھپ گیا۔ یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ بّرہ تو وہ ہو سکتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو اور چاریوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟
اے صاحب آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں سورج دلدل میں چھتا ہوا نظر آیا سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظر آتا تھا۔ جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا۔ مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا۔
ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے۔ فقط ایک شخص کی دور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا۔ سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے لفظوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکّلم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے۔ اے وہ لوگ جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کے استعمال کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے روز مرہ عوام الناس نے اپنے روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہے فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوام الناس کی طرف ہے پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے۔ حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوام الناس کے مذاق پر بات کرنا اس کا فرض منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو لہٰذا یہ مسلم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں۔ جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو کیا کوئی کلام الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود ہر روزہ بول و چال میں صدہا مجازات و استعارات بولے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطہ سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی جوجو پھر دن چڑھا ہے نیز پھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا لی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیںہو تا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزار ہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے۔ ایک پہر میں فقط بقدر نیز کے اتنی مسافت طے کری ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہوگا بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا۔ نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی مخالف بھی پسند نہیں کرتا۔ انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصب ہیں۔ بھلا یہ کیا حق روی ہے؟ کہ اگر کلام الٰہی میں مجاز بااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے … اعتراض بنایا جاوے اس صورت میں کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی۔ جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور غروب ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظام شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے۔ ہمیں معلوم نہیں۔
عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا۔ مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے۔ مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے۔ اب ہیئت کاعلم ہی نہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گر پڑیں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جا پڑیں اور بتی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب زندہ اور سلامت رہ جائیں حالانکہ ایک ستارہ کا گرنا بھی مکان الارض کی تباہی کیلئے کافی ہے پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب ستارے زمین پر گر کر زمین والوں کو صفحہ ہستی سے بے نشان و نابود کر دیں گے تو مسیح کا قول کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتا دیکھو گے کیونکر درست ہوگا جب لوگ ہزاروں ستاروں کے نیچے دبے ہوئے مرے پڑے ہوں گے تو مسیح کا اُترنا کون دیکھے گا اور زمین جو ستاروں کی کشش سے ثابت و برقرار ہے کیونکر اپنی حالت صحیحہ پر قائم اور ثابت رہے گی اور مسیح برگزیدوں کو دور دور سے (جیسا کہ انجیل میں ہے) بلائے گا اوکن کو سرزنش اور تنبیہ کرے گا کیونکہ ستاروں کاگرنا تو ببداہت مستلزم عام فنا اور عام موت بلکہ تختۂ زمین کے انقلاب کا موجب ہوگا اب دیکھئے کہ یہ سب بیانات علم ہیئت کے برخلاف ہیں یا نہیں؟ ایسا ہی ایک اور اعتراض علم ہیئت کے رو سے انجیل پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل متی میں دیکھو وہ ستارہ جو انہوں نے (یعنی مجوسیوں نے) یورپ میں دیکھاتھا ان کے آگے چل رہا اور اس جگہ کے اوپر جہاں وہ لڑکا تھا جا کر ٹھہرا۔ (باب ۲۔ آیت ۹ متی)
اب عیسائی صاحبان براہ مہربانی بتلا دیں کہ علم ہیئت کے رو سے اس عجیب ستارہ کا نام کیاہے جو مجوسیوں کے ہم قدم اور ان کے ساتھ ساتھ چلا تھا اور یہ کس قسم کی حرکت اور کن قواعد کے رو سے مسلم الثبوت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انجیل متی ایسے ستارہ کے بارے میں ہیئت والوں سے کیونکر پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ بعض صاحب تنگ آ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول نہیں متی کا قول ہے۔ متی کے قول کے ہم الہامی نہیں جانتے یہ خواب خواب ہے جس سے انجیل کے الہامی ہونے کی بخوبی قلعی کھل گئی اور میں بطور تنزل کہتا ہوں کہ گو یہ مسیح کا قول نہیں متی یا کسی اور کا قول ہے مگر مسیح کا قول بھی تو (جس کو الہامی مانا گیا ہے اور جس پر ابھی ہمارے طرف سے اعتراض ہوچکا ہے) اُسی کا ہم رنگ اور ہم شکل ہے ذرا اُسی کو اصولی ہیئت سے مطابق کر کے دکھلائیے اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ قول الہامی نہیں بلکہ انسان کی طرف سے انجیل میں ملایا گیا ہے تو پھر آپ لوگ ان انجیلوں کو جو آپ کے ہاتھ میں ہیں تمام بیانات کے اعتبار سے الہامی کیوں کہتے ہو؟ صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز ان چند باتوں کے جو حضرت مسیح کے منہ سے نکلی ہیں۔ باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے جو غلطیوں سے مبرا متصور نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے۔ یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھوڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدا کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھی ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد و نقیض ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کے دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا۔ چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور نشانوں کے بارے میں اس سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی۔
پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب صلیب پر سے زندہ ہو کر اُتر آوے تو ہم سب کے سب اس پر ایمان لائیں گے مگر وہ اُتر بھی نہ سکا پس ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انجیلوں میں الہامی فقرات ہیں وہ مسیح کو صاحب معجزات ہونے کے بارے میں کچھ خیال کر سکیں تو حقیقت میں وہ فقرہ ذوالوجوہ ہے جس جس کے اور اور معنی بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو ظاہر پر بھی محمول کیا جائے یا خواہ نخواہ کھینچ تان کر ان معجزات کا ہی مصداق ٹھہرایا جاوے جن کا انجیل نویسوں نے اپنی طرف سے ذکر کیا ہے اورکوئی فقرہ خاص حضرت مسیح کی زبان سے نکلا ہوا ایسا نہیں کو جو وقوع اور ثبوت معجزات پر صاف طور پر دلالت کرتا ہو بلکہ مسیح کے خاص اور پُرزور کلمات کی اسی امر پر دلالت پائی جاتی ہے کہ اُن سے ایک بھی معجزہ ظہور میں نہیں آیا (قرآن شریف میں صرف اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں اور ہوں گے اور پھر قرآنی تصدیق ذوالوجوہ ہے جو انجیل نویسوں کے بیان کی ہرگز مصداق نہیں) تعجب ہے کہ عیسائی لوگ کیوں ان باتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتے جو مسیح کا خاص بیان اور الہامی کہلاتی ہیں اور خاص مسیح کے منہ سے نکلی ہیں اور ایسی باتوں پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور کیوں ان کے قدر سے زیادہ ان پر زور دیا جاتا ہے جو عیسائیوں کے اپنے اقرار کے موافق الہامی نہیں ہیں بلکہ تاریخی طور پر انجیلوں میں داخل ہیں اور الہام کے سلسلہ سے بُکلّی خارج ہیں اور الہامی عبارات سے ان کا تناقض پایا جاتا ہے پس جب الہامی اور غیر الہامی عبارات میں تناقض ہو تو اس کے دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا تدبیر ہے کہ جو عبارتیں الہامی نہیں ہے وہ ناقابل اعتبار سمجھی جائیں اور صرف انجیل نویسوں کے مبالغات یقین نہ کئے جائیں۔ چنانچہ جا بجا ان کا مبالغہ کرنا ظاہر بھی ہے جیسا کہ یوحنا کی انجیل کی آخری آیت جس پر وہ مقدس انجیل ختم کی گئی ہے یہ ہے پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جائیں دنیا میں سما نہیں سکتیں۔ دیکھو کس قدر مبالغہ ہے زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی۔ ایسے مبالغے کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے۔
ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا۔ سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اس سرے سے ملک کے اس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رچ گیا۔ بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ ہو اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضح کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں۔ سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح تیار کیا گیا۔ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھسی جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متاثر ہونے والی روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا۔ مکاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپے نقد لے کر دس بیس لاکھ روپیہ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ سچا اور پاک ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت آخر شرارتوں میں مکروں میں دنیا پرستوں میں نفس امارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا۔ بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع میں آئیں قرآن شریف کے ایک ذرہ شہادت انجیلوں کے ایک تودہ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے؟ اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا۔ لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے۔ اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی۔ مگر الحمدللہ کہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیر شہادتیں۔
بہ نزدیک دانائے بیدار دل
جوئے سیم بہتر ز صد تودہ گل
افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں لکھ کر بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں۔ پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہی جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس عادت سے کیوں باہر رکھا جاوے حالانکہ اس ساہوکار کی طرح اس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت سے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفان شکوک پیدا ہو گیا اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ عیسائی مذہب کو نقص سے خالی سمجھتا ہو اور اسلام کے قبول کرنے کے لئے مستعد نہ ہو اور گو عیسائیوں نے قرآن شریف کے ترجمے محرف اور بدنما کر کے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں شائع کئے ہیں مگر ان کے اندر جو نور چھپا ہوا ہے وہ پاکیزہ دلوں پر اپنا کام کر رہا ہے غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت میں بُری گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے جہاں تک کہ بعضوں نے رائے ظاہر کی کہ مسیح یا عیسیٰ نام خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور ۱۲ حواریوں سے بارہ برج مراد ہیں اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی۔ لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی فائدہ نہیں وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے لیکن سچے مسلمان جو اُن راستبازوں کے قائم مقام اور وارث ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں وہ اس خدا کو پہنچانتے اور اس کی رحمت کے نشانوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے مخالفوں کے سامنے آفتاب کی طرح جو ظلمت کے مقابل ہو مابہ الامتیاز رکھتے ہیں۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس دعویٰ کو بلا دلیل نہیں سمجھناچاہئے سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک آسمان پر فرق ہے اور ایک زمین پر۔ زمین کے فرق سے مراد وہ فرق ہے جو انسان کی عقل اور انسان کا کانشنس اور قانون قدرت اس عالم کا اس کی تشریح کرتا ہے۔ سو عیسائی مذہب اور اسلام کو جب اس محک کی رو سے جانچا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہب ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلف نہیں اور جس کے احکام میں کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جا بجا آپ فرمایا ہے۔ قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کا یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کی گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے۔ پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تخیر کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا انواع و اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا۔ کبھی مخلصی نہیں ہوگی اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدا بے عیب و بے نقص وغیرہ متغیر کے لئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ غیر کے صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشور کی طرح معطل الصافت ہو۔ اب خود ہی سوچو کہ کیا ایسا عاجز اور درماندہ خدا ہو سکتا ہے کہ جو بغیر خودکشی کے اپنی مخلوقات کو کبھی اور کسی زمانہ میں کوئی نفع پہنچا نہیں سکتا کیا ہی حالت ضعف اور ناتوانی کی خدائے قادر مطلق کے لائق ہے پھر عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھے تو کچھ بھی نہیں ان کے خدا کی جان گئی۔ مگر شیطان کے وجود اور اس کے کارخانے کا ایک بال بھی بینگا نہ ہوا۔ وہی شیطان اور وہی اس کے چیلے جو پہلے تھے اب بھی ہیں۔ چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، دروغ گوئی، شراب خواری، قماربازی، دنیا پرستی، بے ایمانی، کفر شرک، دہریہ پن اور دوسرے صدہا طرح کے جرائم جو قبل از مصلوبیت مسیح تھے اب بھی اُسی زور و شور میں ہیں بلکہ کچھ چڑھ، بڑھ کر مشلاً دیکھئے کہ اس زمانہ میں کہ جب ابھی مسیحیوں کا خدا زندہ تھا عیسائیوں کی حالت اچھی تھی جبھی کہ اس خدا پر موت آئی جس کو کفّارہ کہا جاتا ہے۔ تبھی سے عجیب طور پر شیطان اس قوم پر سوار ہو گیا اور گناہ اور نافرمانی اور نفس پرستی کے ہزار ہا دروازے کھل گئے۔ چنانچہ عیسائی لوگ خود اس بات کے قائل ہیں اور پادری فنڈر صاحب مصنف میزان الحق فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کی کثرت نگاہ اور اُن کی اندرونی بدچلنی اور فسق و فجور کے پھیلنے کی وجہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغرض سزا دہی اور تنبیہ عیسائیوں کے بھیجے گئے تھے۔ پس ان تقریروں سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر گناہ اور معصیت کا طوفان مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد ہی عیسائیوں میں اُٹھا ہے اس سے ثابت ہے کہ مسیح کا مرنا اس غرض سے نہیں تھا کہ گنناہ کی … اس کی موت سے کچھ روبکمی ہو جائے گی۔ مثلاً اس کے مرنے سے پہلے اگر لوگ بہت شراب پیتے تھے یا اگر بکثرت زنا کرتے تھے یا اگر پکے دیندار تھے تو مسیح کے مرنے کے بعد یہ ہر یک قسم کے گناہ دور ہو جائیں گے کیونکہ یہ بات مستغنی عن الثبوت ہے کہ جس قدر اب شراب خوری و دنیا پرستی و زنا کاری خاص کر یورپ کے ملکوں میں ترقی پر ہے کوئی دانا ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ مسیح کی موت سے پہلے ہی طوفان فسق و فجور کا برپا ہو رہا تھا بلکہ اس کا ہزارم حصہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور انجیلوں پر غور کر کے بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ مسیح کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑا جائے اور مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت بھی رو رو کر یہی دعا کی کہ ایلی ایلی کما سبقتنی کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اَوْر دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریقہ پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے۔ مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا بڑے بڑے عیب اوّل سے دور کر کے دکھاتا۔ مگر اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنے پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالم ہلاک ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمند طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرض برکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی ایسا اعلیٰ اور بدیحی النفع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے۔ یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خود کشی کا مرتکب ہو اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی۔ ایسی حرکت تو دیوانی کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا بلکہ یہ موت موتِ احترام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کئی اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے قوم کے لئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات خلق اللہ کو طرح طرح کا فائدہ پہنچ رہا ہے اگر خودکشی کا ارادہ کرے تو وہ خدا تعالیٰ کا سخت گنہگار ہے اور اس کا گناہ دوسرے ایسے مجرموں کی نسبت بہت زیادہ ہے پس ہر ایک ایسے کامل کے لئے لازم ہے کہ اپنے لئے جناب باری تعالیٰ سے درازی عمر مانگے تا وہ خلق اللہ کے لئے ان سارے کاموں کو بخوبی انجام دے سکے۔ جن کے لئے اس کے دل میں جوش ڈالا گیا ہے ہاں شریر آدمی کا مرنا اس کے لئے بہتر ہے تا شرارتوں کا ذخیرہ زیادہ نہ ہوتا جائے اور خلق اللہ اس کے ہر روز کے فتنہ سے تباہ نہ ہو جائے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام پیغمبروں میں سے قوم کے بچاؤ کے لئے اور الٰہی جلال کے اظہار کی غرض سے معقول طریقوں کے ساتھ اور ضروری حالتوں کے وقت میں کس پیغمبر نے زیادہ تر معرض ہلاکت میں ڈالا اور قوم اپنے تئیں فدا کرنا چاہا آیا مسیح یا کسی اور نبی یا ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کا جواب جس جوش اور روشن دلائل اور آیات بینات اور تاریخی ثبوت سے میرے سینہ میں بھرا ہوا ہے میں افسوس کے ساتھ اس جگہ اس کا لکھنا چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ بہت طویل ہے یہ تھوڑا سا مضمون اس کی برداشت نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ القدیر اگر عمر نے وفا کی تو آئندہ ایک رسالہ مستقلہ اس بارہ میں لکھوں گا لیکن بطور مختصر اس جگہ بشارت دیتا ہوں کہ وہ فرد کامل جو قوم پر اور تمام بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والا ہے وہ ہمارے نبی کریم ہیں یعنی سیّدنا و مولانا وحیدنا و فرید نا احمد مجتبیٰ محمد مصطفی الرسول النبی الامی العربی القریشی صلی اللہ علیہ وسلم۔
حاشیہ: تازہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پونڈ کا ہر سال سلطنت برطانیہ میں شراب نوشی میں خرچ ہوتا ہے (اور ایک نامہ نگار ایم اے کی تحریر ہے) کہ شراب کی بدولت لنڈن میں صدہا خودکشی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور خاص لنڈن میں شاید منجملہ تیس لاکھ آبادی کے دس ہزار آدمی مے نوش نہ ہوں گے ورنہ سب مرد عورت خوشی اور آزادی سے شراب پیتے اور پلاتے ہیں۔ اہل لنڈن کا کوئی ایسا جلسہ اور سوسائٹی اور محفل نہیں ہے کہ جس میں سب سے پہلے برانڈی اور سری اور لال شراب کا انتظام نہ کیا جاتا ہو ہر ایک جلسہ کا جزو اعظم شراب کو قرار دیا جاتا ہے اور طرفہ براں یہ کہ لنڈن کے بڑے بڑے کشیش اور پادری صاحبان بھی باوجود دیندار کہلانے کے مئے نوشی میں اوّل درجہ ہوتے ہیں۔ جتنے جلسوں میں مجھ کو بطفیل مسٹر نکلیٹ صاحب شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب میں ضرور دو چار نوجوانوں پادری اور ریورنڈ بھی شامل ہوتے دیکھے۔ لنڈن میں شراب نوشی کو کسی بڑی مد میں شامل نہیں سمجھا گیا اور یہاں تک شراب نوشی کی علانیہ گرم بازاری ہے کہ میں نے بچشم خود ہنگام سیر لنڈن اکثر انگریزوں کو بازار میں پھرتے دیکھا کہ متوالے ہو رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے۔ علی ہذا القیاس لنڈن میں عورتیں دیکھی جاتی تھیں کہ ہاتھ میں بوتل پکڑی لڑکھڑاتی چلی جاتی ہیں۔ بیسیوں لوگ شراب سے مدہوش اور متوالے اچھے بھلے مانس مہذب بازاروں کی نالیوں میں گرے ہوئے دیکھے۔ شراب نوشی کی طفیل اور برکت سے لنڈن میں اس قدر خود کشی کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء رہبر ہند لاہور)
اسی طرح ایک صاحب نے لنڈن کی عام زناکاری اور فریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا کا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیں ان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتا ہے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کو اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئے جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدا تعالیٰ کے اقرار اور جزاوسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی۔ یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی۔ نامحرم لوگوں کا نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ یورپ کی نئی تہذیب میں ایک مستحن امر قرار دیا گیا ہے کہ کوئی دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ انگلستان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے کہ جس کا عین جوانی کے دنوں میں کسی نامحرم جوان نے بوسہ نہ لیا ہو۔ دنیا پرستی اس قدر ہے کہ آروپ الگزنڈر صاحب اپنی ایک چٹھی میں (جو میرے نام بھیجی ہے) لکھتے کہ تمام مہذب اور تعلیم یافتہ جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کی نگاہ آخرت کی طرف لگی ہوئی ہو بلکہ تمام لوگ سر سے پیر تک دنیا پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اب ان تمام بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے قربان ہونے کی وہ تاثیریں جو پادری لوگ ہندوستان میں آ کر سادہ لوحوں کو سناتے ہیں سراسر پادری صاحبوں کا افتراء ہے اور دراصل حقیقت یہی ہے کہ کفّارہ کے مسئلہ کو قبول کر کے جس طرح عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ وہی ہے کہ شراب خوری بکثرت پھیل گئی۔
اس جگہ میں نے سچے اور جھوٹے مذہب کی تفریق کیلئے وہ فرق جو زمین پر موجود ہے یعنی جو باتیں عقل اور کانشنس کے ذریعہ سے فیصلہ ہو سکتی ہیں کسی قدر لکھ دیا ہے لیکن جو فرق آسمان کے ذریعہ سے کھلتا ہے وہ بھی ضروری ہے کہ بجز اس کے حق اور باطل میں امتیاز بین نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایک خاص تعلقات ہو جاتے ہیں اور وہ کامل پیرو اپنے نبی متبوع کا مظہر اور اس کے حالات روحانیہ اور برکات باطنیہ کا ایک نمونہ ہو جاتا ہے اور جس طرح بیٹے کے وجود درمیانی کی وجہ سے پوتا بھی بیٹا ہی کہلاتا ہے اسی طرح جو شخص زیر سایہ متابعت نبی پرورش یافتہ ہے اس کے ساتھ بھی وہی لطف اور احسان ہوتا ہے جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے اور جیسے نبی کو نشان دکھائے جاتے ہیں ایسا ہی اس کی خاص طور پر معرفت بڑھانے کیلئے اس کو بھی نشان ملتے ہیں۔ سو ایسے لوگ اس دین کی سچائی کے لئے جس کی تائید کے لئے وہ ظہور فرماتے ہیں زندہ نشان ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ آسمان سے ان کی تائید کرتا ہے اور بکثرت ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور قبولیت کی اطلاع بخشتا ہے ان پر مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں نہ اس لئے کہ اُنہیں ہلاک کریں بلکہ اس لئے کہ تا آخر ان کی خاص تائید سے قدرت کے نشان ظاہر کئے جائیں وہ بے عزتی کے بعد بھی عزت پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں تا خدا تعالیٰ کے خاص کام ان میں ظاہر ہوں۔
اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے ایک بطور ابتلا اور ایک بطور اصطفاء بطور ابتلا تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرمانوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔ مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے۔ لیکن جو بطور اصطفا دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدے بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف کے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں کیونکہ خداتعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظر
بقیہ حاشیہ: خدا تعالیٰ کی عبادت سچی ایسے کرنا اور کلی روبحق ہونا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے۔ یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی خوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے کہ اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیاں سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح یورپ میں بھی ہوتے رہتے ہیں انسداد کلی تو نہیں۔
میں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں۔ سو ابتلا اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلا کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارق عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشانیاں نمایاں ہوتی ہیں۔
(۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالمات الٰہیہ اس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے۔
(۴) چوتھی یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں۔ بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے ہرگز اُسے نظر نہ آتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدا تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑے بڑے ہموم و غموم و امراض و اسقام و بلیات لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدا تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کا زہر کھا لیتے ہیں یا کنوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤید الٰہی ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مورد عنایات الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متولی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی مستی اور روحانی لذت یابی اور متغم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔
تُعِرْفُ وُجُوْھِھِمْ نَصْرَاۃً النِعَّیْمِ اَلَا اِنَّ اَوْلِیآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo لَھُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحیوٰۃ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمo اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمٰلئِکَۃُ اِلاَّتَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیَآئُ کُمْ فِی الْحیرۃَ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَھُمُ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَo وَاِذَ اسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاَنِّی قَرِیْبٌ اُجِیْبُ الدَّعْوَۃَ الدَّاعِ اِذْا دَعَانِ فَلْیَسْتَجْیِبُوْلِیْ وَالْمومُنْوبیِ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo ۱؎
ترجمہ: خبردار ہو یعنی یقینا سمجھے کہ جو لوگ اللہ جلشانہٗ کے دوست ہیں یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ وہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی۔ کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں۔ دوسری یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ) بشارتیں ملتی رہتی ہیں اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کاان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے۔ یعنی مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانون قدرت اللہ جلشانہ کا ہے) کہ جو لوگ ارباب متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں آندھیاں چلیں تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں یعنی الہام اور رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی رہتی ہیںکہ دنیا و آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولی اور متکفل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا۔ یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت
۱؎ یاد رہے یہ قرآن مجید کی مختلف مقامات کی آیتیں ہیں۔ (ایڈیٹر)
میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا۔
اب جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو رپر نشان بیان کر چکا ہوں۔ یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ نفس چاہے اس کو ملے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی۔ ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا۔ لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہائے سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی۔ مگر مقدس دلوں میں ان کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاکیزہ خواہشیں پیدا ہوں گی تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا انسان نفس کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی اور آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کامل کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کے ضروری ہیں۔
اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص ندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارے میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہیں تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جبھی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اسی سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ اپنی ایسی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعائیں سن لیا کروں۔ یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا ایک نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صانع کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آ جائے گا اور جو کچھ تود کہا جائے گا وہ میں بھی دکھلاؤں گا تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوستدار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں۔ وھذا اخر کلا منا والحمدللّٰہ اولاد اخر و ظاہرا و باطنا ھومولینا نعم المولی ونعم الوکیل۔





بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بشپ صاحب لاہور سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست
میں نے سنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلا دیں میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے ان کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا۔ میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں ہے مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مرید مع بزرگان دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی۔ ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا بھی زنا ہے مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بیشک اس صورت میں ہمبستر ہو جائے جب کہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے۔ ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پسو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے اور ایک کے مذہب میں سُؤر کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں سفید و سیاہ سُؤربہت عمدہ غذا ہیں۔ اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلی اتفاق نہیں ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھکر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہرا دے غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہر گز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اورعرفانی اور افاضۂ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل ہیں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جاوے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں کیونکہ جب ہم کلام کلی کے طور پر تمام طریق فضیلت کو مدنظر رکھ کر ایک نبی کے وجودہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہوگا کہ اُسی تقریب پر ہم اُس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی اور شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہوگی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جاویں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پرہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہوگا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گے جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں۔ بلکہ ہر ایک مذاق انسان کے لئے اس مقابلہ اور موازنہ کے وقت رور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے۔ پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوںاور یہودیوں کے عقیدہ کے رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گناہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کادعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہمبستر کا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رامچندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشور ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کی چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچانا کچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے مذہب کے نزدیک سود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ہم فرض بھی کر لیں تو تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تا ہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا، خون نہیں کرتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ میں نے کئی دفعہ یہ موقعہ پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیرخوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی میں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا۔ تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اور فضائل کو پیش کرنے والا بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا۔ ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوںکے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میںتمہارے سر یا گردن یا ناک پر استرہ مار دیتا مگر میں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا؟ تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھہر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے۔ غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے کہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اُسے روکتا تھا۔ مثلاً اگر کوئی شیریر نقب لگائے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اُسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھوٹنے کے وقت پکڑ گیا تو پھر گورنمنٹ پوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی۔ غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر ہم تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔ لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کیلئے ہمیں بھی وجوہ پیش کرنے چاہئیں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی، چوری نہیں کی، کسی بیگانہ عورت پر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا حاشاوکلا یہ کمینہ باتیں ہرگز کمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے۔مثلاً اگر یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہلا کرلے گئے تھے۔ اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے پس خدا کے نبیوں کی تعریف اسی حد تک ختم کر دینا بلاشبہ ان کی ایک سخت مذمت ہے اور ابھی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیں بچایا ان کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے۔ اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہا جاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں یادھاڑا ماریں یا خون کریں یا شیر خوار بچوں کا گلا گھونٹیں یا بیچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں۔ پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنے محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوائے اس کے ترک شر کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجوہ ہیں ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقعہ پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کربھاگ جائے۔ اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرأت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ایسا ہی زناکاری بھی قوت مردمی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں۔ تلوار چلانے کیلئے بھی بازو چاہئے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی بعض ایک چڑیا کو بھی نہیں مار سکتے اور ڈاکہ مارنا بھی ہر ایک بزدل کا کام نہیں اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا ھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیں توڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑا کہ دن کا وقت تھا پچاس محافظ باغ میںموجود تھے۔ اگر توڑتا تو پکڑا جاتا مار کھاتا بے عزت ہوتا۔ اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے۔ ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دوچار آنہ کے طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بدی کا مرتکب نہیں ہوا یہ بلاشبہ ہجو ہے یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کیا۔ جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں ہمیں نہیں چاہئے کہ محض ترک شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگر کچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہوگا کہ ایسا انسان بدمعاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتا ہے کہ آگے سے خاموش گزر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھیڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گزر جاتا ہے۔ ہزاروں بچے ایسی حالت میں مر جاتے ہیں اور کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہئے یعنی یہ کہ کیاکیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اس کے اندر موجود ہیں۔ سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہئے۔ مثلاً سخاوت، فتوت مواسات، حقیقی حلم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے۔ حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتظام شرط ہے۔ حقیقی شجاعت جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے حقیقی عدل جس کے لئے قدرت ظلم شرط ہے۔ حقیقی رحم جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ درجہ کی زیرکی اور اعلیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں۔ پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہئے نہ صرف ترک شر میں جس کا بشپ صاحب معصومیت نام رکھتے ہیں کیونکہ نبیوں کی نسبت یہ خیال کرنا بھی گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پرا کر اپنے تئیں بچایا یا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح کا یہ فرمانا کہ ’’مجھے نیک مت کہو‘‘ یہ ایک ایسی وصیت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہئے تھا۔
اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شائق ہیں تواس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے اس طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالات ایرانی واخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقرر پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہوگی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے۔
راقم خاکسار
مرزا غلام احمد (مسیح موعود)
از قادیان
۲۵؍ مئی ۱۹۰۰ء


خط
یہ خط حضرت مسیح موعود نے لکھا تھا اور ایک مجلس کی طرف سے بھیجا گیا تھا آخر میں جو اسماء کی فہرست ہے وہ میں نے چھوڑ دی ہے۔ (ایڈیٹر)
جناب فضیلت مآب مکرم رائٹ ریورنڈ جارج لیفرائے
ڈی ڈی بشپ صاحب لاہور
بعد آداب نیاز مندانہ بکمال ادب خدمت عالی میں یہ گزارش ہے کہ چونکہ یہ مختصر زندگی دنیا کی بہت جلد اپنے دورہ کو پورا کر رہی ہے اور عنقریب وہ زمانہ آتا ہے کہ ہمارے وجود کا نام و نشان بھی …ہوگا۔ اس لئے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ غم دامنگیر ہے کہ کسی طرح راست روی اور سچی خوشحالی کے ساتھ یہ سفر انجام پذیر ہو اور اس مذہب پر خاتمہ ہو جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے اور اگر ہم حق پر نہیں ہیںتو ہمارے دل اس سچائی کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جو روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کی جائے اور اگر کوئی بزرگ میدان بن کر عیسائی مذہب کی حقانیت ہم پر ثابت کرے تو اس احسان سے بڑھ کر ہمارے نزدیک کوئی احسان نہیں ہوگا۔ اس تحقیق کے لئے ہمارا دل درد مند ہے اور ہم دلی شوق سے چاہتے ہیں کہ اسلام اور عیسائی مذہب کا ایک مقابلہ ہو کر ہم اس رسول صادق کے آستانہ پر اپنا سر رکھیں جو پاکیزگی اور خوبی اور الٰہی طاقت اور اخلاقی کمالات میں تمام نوع انسان سے سبقت لے جانے والا ثابت ہو جائے اور اس دن سے جو آپ نے بمقام لاہور اس مضمون پر تقریر کی کہ نبی معصوم اور زندہ رسول کون ہے۔ ہمارے دل بول اُٹھے کہ اس ملک میں آپ ہی ایک ہیں جو عیسائی مذہب میں جلیل القدر فاضل ہیں۔ تب سے ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اس کام کے لئے عیسائی صاحبوں میں سے بہتر اور کوئی نہیں ملے گا کیونکہ آپ کے معلومات بہت وسیع معلوم ہوتے ہیں اور آپ عربی اور فارسی اور اُردو میں عمدہ دخل رکھتے ہیں آپ کے اخلاق بھی بہت پسندیدہ اور بزرگانہ ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے اہل علم کی طرف سے جو ہم نے نظر کی تو ہماری رائے میں اس کام کے لئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے برابر اور کوئی نہیں جو مسیح موعود ہونے کا نہ صرف دعویٰ کرتے ہیں بلکہ بہت سے قطعی دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کے دنیا میں آنے کا انجیل اور قرآن میں وعدہ ہے جس کو دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً تیس ہزار لوگوںنے تسلیم کر لیا ہے۔ غرض اس وقت پنجاب اور ہندوستان کے تمام فاضل اور اہل علم عیسائیوں میں سے آپ کا وجود از بس غنیمت ہے اور مسلمانوں میں سے مرزا صاحب موصوف ہیں جو خدا کے انتخاب کردہ اور ممسوح ہیں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسا عمدہ موقع ہمیں پیش آ گیا ہے کہ ایک طرف تو آپ موجود ہیں اور دوسری طرف وہ جو خدا کا مسیح کہلاتا ہے۔
اسی بنا پر ہم لوگوں کی طرف سے جن کے نام نیچے لکھے ہیں یہ درخواست ہے کہ چند مختلف فیہ مسائل میں آپ اور جناب مسیح موعود موصوف باہم مباحثہ کریں اور حضرت مسیح موعود اس بات کو قبول فرماتے ہیں کہ پانچ مسائل میں باہم تحریری بحث ہو جائے۔ اور وہ یہ ہے:۔
(۱) ان دونوں نبیوں یعنی حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سی کسی نبی کی نسبت اس کی کتاب کی رو سے نیز دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ وہ کامل طور پر معصوم ہے۔
(۲) دونوں بزرگوار نبیوں علیہم السلام میں سے کون سا وہ نبی ہے جس کو اس کی کتاب وغیرہ دلائل کے رو سے زندہ رسول کہہ سکتے ہیں جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے۔
(۳) ان دونوں بزرگوار علیہما السلام سے کونسا وہ نبی ہے جس کو اس کی آسمانی کتاب وغیرہ دلائل کے رو سے شفیع کہہ سکتے ہیں۔
(۴) ان دونوں مذہبوں عیسائیت اور اسلام میں سے کونسا وہ مذہب ہے جس کو ہم زندہ مذہب کہہ سکتے ہیں۔
(۵) ان دونوں تعلیموں انجیلی تعلیم اور قرآنی تعلیم میں سے کونسی وہ تعلیم ہے جس کو ہم اعلیٰ اور تعلیم کہہ سکتے ہیں اور تعلیم میں توحید اور تثلیث کی بحث بھی داخل ہے۔
یہ پانچ سوال ہیں جن میں بحث ہوگی۔ اس بحث کے لئے شرائط مندرجہ ذیل کی پابندی ضروری ہوگی۔
۱۔ شرط اوّل یہ کہ ہر ایک امر کی بحث کے متعلق جو مندرجہ بالا پانچ نمبروں میں لکھے گئے ہیں۔ ایک ایک دن خرچ ہوگا یعنی یہ کہ کل بحث پانچ دن میں ختم ہوگی۔
۲۔ شرط دوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنے اپنے بیان کے لئے پورے تین تین گھنٹے موقع دیا جائے گا اور اس طرح پر ہر ایک دن کا جلسہ چھ بجے صبح سے ۱۲ بجے تک پورا ہو جائے گا۔
۳۔ شرط سوم یہ ہے کہ ہر ایک فریق محض اپنے نبی یا کتاب کی نسبت ثبوت دے گا۔ دوسرے فریق کے نبی یا کتاب کی نسبت حملہ کرنے کا مجاز نہیں ہوگا کیونکہ ایسا حملہ محض فضول اور بسا اوقات دلشکنی کا موجب ہوتا ہے اور مقابلہ کرنے کے وقت پبلک کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کا ثبوت قوی اور کس کا ثبوت ضعیف اور کمزور ہے۔ ہاں ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ جس جس موقع پر حملہ کا احتمال ہے ان احتمالی سوالات کا اپنے بیان میں آپ جواب دے دے۔
۴۔ بحث تحریری ہوگی۔ مگر تحریر کا یہ طریق ہوگا کہ ہر ایک فریق کے ساتھ ایک کاتب ہوگا وہ بولتا جائے گا اور کاتب لکھتا جائے گا اور ہر ایک کے پاس ایک ایسا شخص بھی ہوگا کہ مضمون ختم ہونے کے بعد حاضرین کو سنا دیا کرے گا اور سنانے کے بعد ایک نقل اس کی بعد دستخط فریق مخالف کو دی جائے گی۔
۵۔ یہ بحث بمقام لاہور ہوگی اور آپ کے اختیار میں رہے گا کہ جہاں چاہیں اس بحث کے لئے مجلس منعقد فرما لیں اور جیسا چاہیں مناسب انتظام کر لیں۔
۶۔ جب اس بحث کے دن ختم ہو جائیں گے تو دونوں فریق میں سے ایک فریق یا دونوں اس مضمون کو بصورت رسالہ چھاپ کر شائع کر دیں اور کسی کو اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی طرف سے بعد میں کچھ ملاوے۔
یہ شرائط ہیں جو ہم نے حضرت مرزا صاحب مسیح موعود سے منظور کرا لئے ہیں اور چونکہ یہ شرائط بہت صاف اور سراسر انصاف پر مبنی ہیں لہٰذا امید ہے کہ جناب بھی ان کو منظور فرما کر مطلع فرمائیں گے کہ ایسی بحث کیلئے کب اور کس مہینے میں آپ تیار ہیں۔ ہم درخواست کنندوں کی طرف سے نہایت التجا اور ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ جناب ضرور اس طریق بحث کو منظور فرمائیں اور ہم حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی عزت کا واسطہ جناب کی خدمت میں ڈال کر یہ عاجزانہ سوال کرتے ہیں اور جناب اس پیارے مقبول نبی کے نام پر ہماری یہ درخواست منظور فرما کر بذریعہ اشتہار مطبوعہ منظوری سے مطلع فرمائیں۔ اس درخواست میں کوئی فوق الطاقت یا بیہودہ امر نہیں اور طریق بحث سراسر مہذبانہ اور سراپا نیک نیتی اور طلب حق پر مبنی ہے اور باایں ہمہ جب کہ جناب جیسے ایک بزرگ صاحب مرتبہ کو حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کی قسم دی گئی ہے تو اس لئے ہم سائلوں کو بکلّی یقین ہے کہ جناب اس عاجزانہ درخواست کو گو کیسی ہی کم فرصتی ہو بہرحال بغیر کسی تنسیخ ترمیم کے حضرت کے نام کی عزت کے لئے ضرور منظور فرمائیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایسی منصفانہ درخواست ہم لوگوں سے حضرت مسیح کی عزت کا واسطہ درمیان لا کر کی جائے تو ہم سخت گناہ اور سؤ ادب سمجھیں گے کہ اس درخواست کو منظور نہ کریں تو پھر آپ کو تو حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت کا بہت دعویٰ ہے جس کے امتحان کا ہم غریبوں کو یہ پہلا موقع ہے۔ زیادہ کیا تکلیف دیں۔ صرف جواب کے منتظر ہیں اور جواب بنام مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی وکیل بمقام قادیان ضلع گورداسپور آنا چاہئے کیونکہ وہی اس مجلس کے سیکرٹری ہیں اور درخواست کرنے والوں کے نام یہ ہیں۔ (نام چھوڑ دیئے گئے ہیں)۔





نقل خط جو حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے مسیحان جنڈیالہ کی طرف ۳؍ مئی ۱۸۹۳ء کو رجسٹری کر کے بھیجا گیا!
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بخدمت مسیحان جنڈیالہ بعد ہاوجب۔ آج میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب۱؎ کو بھیجی تھی اوّل سے آخر تک پڑھی جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے اتفاق رائے ہے بلکہ درحقیقت میں اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر بحث کر کے اظہار حق نہ کریں تو اپنے
۱؎ وہ خط جو ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب نے محمد بخش پاندھا کو لکھا۔
بخدمت شریف میاں محمد بخش و جملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ۔
جناب من۔ بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحوں اور اہل اسلام کے درمیان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال وجواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحوں نے بھی دین محمدی کے حق میں کئی ایک تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے لہٰذا راقم رقیمہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء و دیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحوں کی طرف بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہو رہے ہیں خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحبِ ہمت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خواہ یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور
نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوندکریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کیلئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقع پر خاموش رہوں۔ اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ملا ہے اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر ان کی صحبت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں۔ مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اَوْر امور اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصہ سمجھے گا۔ اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہ مار کر ہنستے ہیں۔ پس جب کہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان؟ اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ عیسائی۔ جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو ان کے انبیاء
بقیہ حاشیہ: جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے بزرگ کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے اور خداوند صراط مستقیم سب کو حاصل کرے۔ ہم کسی ضد اور فساد یا مخالفت کے رو سے اس جلسہ کے درپے نہیں ہیں۔ مگر فقط اس بنا سے کہ جو باتیں راست برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں۔ دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبان اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدان گوفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد و لاحاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں۔ از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تا کہ اگر آپ ہماری دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا معقول انتظام کیا جائے۔ فقط۔ زیادہ سلام
(الراقم مسیحان جنڈیالہ مارٹن کلارک امرتسر (دستخط انگریزی میں ہیں)
لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہ تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف و گزاف کے زیادہ نہیں اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو مہلم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ۔ الحمدللہ والمنتہ کہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں تھا اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لئے نور نہیں آیا اگر وہ نہ آتا اور نہ اس نے بتلایا ہوتا تو مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ اس کا مذہب مر گیا اور اس کا نور بے نشان ہو گیا اور کوئی وارث نہ رہا جو اس کو کچھ نور دیا گیا ہو۔ اب دنیا میں زندہ مذہب اسلام ہے اور اس عاجز نے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذمہ وار ہیں اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔
بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مدنظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں۔ ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کے لئے پادری عمادالدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر اُن کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ شائع کر کے ایک پرچہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جاوے اور اس کے بھیجنے کے بعد یہ عاجز بھی اپنے مقابلہ کا اشتہار دے دے گا اور ایک پرچہ صاحب مقابلہ کی طرف بھیج دے گا مگر واضح رہے کہ یوں تو ایک مدت دراز سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھگڑا چلا آتا ہے اور تب سے مباحثات ہوئے اور فریقین کی طرف سے بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور درحقیقت علمائے اسلام نے بہ تمام تر صفائی سے ثابت کر دیا کہ جو کچھ قرآن کریم پر اعتراض کئے گئے ہیں وہ دوسرے رنگ میں توریت پر اعتراض ہیں اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نکتہ چینی ہوئی وہ دوسرے پیرایہ میں تمام انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے۔ جس سے حضرت مسیح بھی باہر نہیں بلکہ ایسی نکتہ چینوں کی بنا پر خدا تعالیٰ بھی مورد اعتراض ٹھہرتا ہے۔ سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہوگی اور دیکھا جائے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعویٰ کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائے جاتے ہیں کہ نہیں اور مناسب ہوگا کہ مقام بحث لاہور یا امرتسر ہو اور فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور






ڈاکٹر مارٹن کلارک کے نام
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مشفق مہربان پادری صاحب
بعد ما وجب یہ وقت کیا مبارک ہے کہ میں آپ کی اس مقدس جنگ کیلئے تیار ہو کر جس کا آپ نے اپنے خط۱؎ میں ذکر فرمایاہے۔ اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کیلئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرماویں گے۔ جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام مجھ کو ملا اور میں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے تو میری روح اسی وقت بول اُٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور سچائی کو ظاہر کرے گا۔ وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنانہیں چاہتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زور دار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا اور اپنی طرح کھینچ لائے گا لیکن اس کے نکلنے کیلئے کوئی تقریب چاہئے تھی سو آپ صاحبوں کا مسلمانوںکو مقابلہ کیلئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے مجھے امید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ ہمیں تو جنڈیالہ کے مسلمانوں سے کام ہے نہ کسی اَوْر سے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بعید ہوگا کہ آپ عوام سے اُلجھتے پھریں اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوںکے مقابلہ کیلئے دس برس کا پیاسا ہے اور کئی ہزار خط اُردو و انگریزی اسی پیاس کے جوش سے آپ جیسے معزز پادری صاحبان کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اور پھر جب کچھ جواب نہ آیا تو آخر ناامید ہو کر بیٹھ گیا۔ چنانچہ بطور نمونہ اُن خطوں میں سے کچھ روانہ بھی کرتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی اس توجہ کا اوّل مستحق میں ہی ہوں اور سوائے اس کے اگر میں کاذب ہوں تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں میں پورے دس سال سے میدان میں کھڑا ہوں جنڈیالہ میں میری ذات میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصور کیا جاوے اس لئے بادب مُکلّف ہوں کہ اگر یہ مرا مطلوب ہے کہ روز کے قصے طے ہو جائیں اور جس مذہب کے ساتھ خدا ہے اور جو لوگ سچے خدا پر ایمان لائے ہیں ان کی کچھ امتیازی انوار ظاہر ہوں تو اس عاجز سے مقابلہ کیا جائے آپ لوگوں کا یہ ایک بڑا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام درحقیقت خدا تھے اور وہی خالق ارض و سما تھے اور ہمارا یہ بیان ہے کہ وہ سچے نبی ضرور تھے۔ رسول تھے۔ خدا تعالیٰ کے پیارے تھے مگر خدا نہیں تھے سو انہیں امور کے حقیقی فیصلہ کیلئے یہ مقابلہ ہوگا مجھ کو خدا تعالیٰ نے براہ راست اطلاع دی ہے کہ جس تعلیم کو قرآن لایا ہے وہی سچائی کی راہ سے اس پاک توحید کو ہر یک نبی نے اپنی اُمت تک پہنچایا ہے مگر رفتہ رفتہ لوگ بگڑ گئے اور خدا خداتعالیٰ کی جگہ انسانوں کو دے دی۔ غرض یہی امر ہے جس پر بحث ہوگی اور میںیقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی غیرت اپنا کام دکھلائے گی اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس مقابلہ سے ایک دنیا کیلئے مفید اور اثر انداز نتیجے نکلیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ اب کل دنیا یا ایک بڑا بھاری حصہ اُس کا ایک ہی مذہب قبول کرلے جو سچا اور زندہ مذہب ہو اور جس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی مہربانی کا بادل ہو چاہئے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے اپنے نفس میں ثابت کریں ہاں اگر یہ چاہیں کہ معقولی طور پر بھی ان دونوں عقیدوں کا بعد اس کے تصفیہ ہو جائے تو یہ بھی بہتر ہے مگر اس سے پہلے روحانی اور آسمانی آزمائش ضرور چاہئے۔
والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار
غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور
۲۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء


رجسٹرڈ خط جو ۲۵؍ اپریل کو پادری صاحب کے ۲۴؍ اپریل کے خط کے جواب میں بھیجا گیا
مشفق مہربان پادری صاحب سلامت۔ بعد ماوجب میں نے آپ کی چٹھی ۱؎کو اوّل سے آخر تک سنا۔ میں اُن تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہو چکے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ بات تصفیہ پا جانی چاہئے کہ اس مباحثہ اور مقابلہ سے علت غائی کیا ہے کیا یہ انہیں معمولی مباحثات کی طرح ایک مباحثہ ہوگا جو سالہائے دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں پنجاب اور ہندوستان میں ہو رہے ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان تو اپنے خیال میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے عیسائیوں کو ہر ایک بات میں شکست دی ہے اور عیسائی اپنے گھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ مسلمان لاجواب ہوگئے ہیں اگر اسی قدر ہے تو یہ بالکل بے فائدہ اور تحصیل حاصل ہے اور بجز اس بات کے اس کا آخری نتیجہ کچھ نظر نہیں آتا کہ چند روز بحث مباحثہ کا شور و غوغا ہو کر پھر ہر یک فضول گو کو اپنی ہی طرف کا غلبہ ثابت کرنے کیلئے باتیں بنانے کا موقعہ ملتا رہے مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ حق کھل جائے اور ایک دنیا کو سچائی نظر آ جائے۔ اگر فی الحقیقت حضرت مسیح علیہ السلام خدا ہی ہیں اور وہی ربّ العالمین اور خالق السموات والارض ہے تو بیشک ہم لوگ کافر کیا اَکفر ہیں اور بیشک اس صورت میں دین اسلام حق پر نہیں ہے لیکن اگر حضرت مسیح علیہ السلام صرف ایک بندہ خدا تعالیٰ کا نبی اور مخلوقیت کی تمام کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر یہ عیسائی صاحبوں کا ظلم عظیم اور کفر کبیر ہے کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس حالت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں اِس سے بڑھ کر
۱؎ خلاصہ چٹھی: امرتسر ۲۴؍ اپریل ۱۹۹۳ء ۔ بخدمت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان۔ جناب من مولوی عبدالکریم صاحب معہ معزز سفارت یہاں پہنچے اور مجھے آپ کا دستی خط دیا۔ جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کیلئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضروریہ کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ جناب کو بھی وہ انتظام اور شرائط منظور ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اپنی فرصت میں اطلاع بخشیں کہ آپ ان شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
آپ کا تابعدار۔ ایچ مارٹن کلارک۔ ایم۔ ڈی۔ سی۔ ایم۔ راڈنبرا ۔ ایم۔ آر۔ اے۔ ایس۔ سی
اور کوئی عمدہ دلیل نہیں کہ اُس نے نابود شدہ توحید کو پھر قائم کیا اور جو اصلاح ایک سچی کتاب کو کرنی چاہئے تھی وہ کر دکھائی اور ایسے وقت میں آیا جس وقت میں اس کے آنے کی ضرورت تھی یوں تو یہ مسئلہ بہت ہی صاف تھا کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیسی ہونی چاہئے مگر چونکہ اب عیسائی صاحبوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا اور معقولی اور منقولی بحثوں نے اس ملک ہندوستان میں کچھ ایسا ان کو فائدہ نہیں بخشا اس لئے ضرور ہوا کہ اب طرز بحث بدل لی جائے سو میری دانست میں اس کے انسب طریق اور کوئی نہیں کہ ایک روحانی مقابلہ مباہلہ کے طور پر کیا جائے اور یہ کہ اوّل اسی طرح ہر چھ دن تک مباحثہ ہو جس مباحثہ کو میرے دوست قبول کر چکے ہیں اور پھر ساتویں دن مباہلہ ہو اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسیٰ مسیح ناصری جس پر میں ایمان لاتا ہوں وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا … ہے خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے
بقیہ شرائط انتظام مباحثہ قرار یافتہ مابین عیسائیاں و مسلمانان
(۱) یہ مباحثہ امرتسر میں ہوگا (۲) ہر ایک جانب میں صرف پچاس اشخاص ہونگے۔ پچاس ٹکٹ مرزا غلام احمد صاحب عیسائیوں کو دیں گے اور پچاس ٹکٹ ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب مرزا صاحب کو مسلمانوں کیلئے دیں گے۔ عیسائیوں کے ٹکٹ مسلمان جمع کریں گے اور مسلمانوں کے عیسائی۔ (۳) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسلمانوں کی طرف سے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب عیسائیوں کی طرف سے مقابلہ میں آئیں گے۔ (۴) سوائے ان صاحبوں کے اور صاحب کو بولنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہاں یہ صاحب تین شخصوں کو بطور معاون منتخب کر سکتے ہیں مگر ان کو بولنے کا اختیار نہ ہوگا (۵)مخالف جانب صحیح صحیح نوٹ بغرض اشاعت لیتے رہیں گے (۶) کوئی صاحب کسی جانب سے ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ بول سکیں گے (۷) انتظامی معاملات میں صدر انجمن کا فیصلہ ناطق مانا جائے گا (۸) دو صدر انجمن ہوں گے یعنی ایک ایک ہر طرف سے جو اس وقت مقرر کئے جائیں گے (۹) جائے مباحثہ کا تقرر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کے اختیار میں ہوگا (۱۰) وقت مباحثہ ۶ بجے صح سے ۱۱ بجے صبح تک ہوگا (۱۱) کل وقت مباحثہ دو زمانوں پر تقسیم ہوگا۔ (۱۲) ۶ دن یعنی روز پیر مئی ۲۲ سے ۲۷ مئی تک ہوگا اس وقت میں مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنا یہ دعویٰ پیش کریں کہ ہر ایک مذہب کی صداقت زندہ نشان سے ثابت کرنی چاہئے جیسے کہ انہوں نے اپنی چٹھی ۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء موسومہ ڈاکٹر کلارک صاحب میں ظاہر کیا ہے (۱۳) پھر دوسرا سوال اُٹھایا جائے گا پہلے مسئلہ الوصیت مسیح پر اور مرزا صاحب کو اختیار ہوگا کہ کوئی اور سوال جو چاہیں پیش کریں مگر ۶ دن کے اندر اندر (۱۴) دوسرا زمانہ بھی ۶ دن ہوگا یعنی مئی ۲۹ سے جون ۳ تک (اگر اس قدر ضرورت ہوئی) اس زمانہ میں مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کو اختیار ہوگا کہ اپنے سوالات بہ تفصیل ذیل پیش کریں۔
اور ایسا ہی یہ عاجز دعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا میں جانتا ہوں کہ درحقیقت عیسی مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے خدا ہرگز نہیں اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرا پیار اور برگزیدہ رسول ہے اور اگر میں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رسوائی ظاہرہو جائے اور اسے خدا میری رسوائی کیلئے یہ بات کافی ہوگی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں اور واجب ہوگا کہ فریقین کے دستخط سے یہ تحریر چند اخبارات میں شائع ہو جائے کہ جو شخص ایک سال کے اندر مورد غضب الٰہی ثابت ہو جائے اور یا یہ کہ ایک فریق کی تائید میں کچھ ایسے نشان آسمانی ظاہر ہوں کہ دوسرے فریق کی تائید میں ظاہر و ثابت نہ ہو سکیں تو ایسی صورت میں فریق مغلوب یا فریق غالب کا مذہب اختیار کرے اور یا اپنی کل جائیداد کا نصف حصہ اس مذہب کی تائید کیلئے فریق غالب کو دے دے جس کی سچائی ثابت ہو۔
(خاکسار مررا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور)
بقیہ حاشیہ: (الف) رحم بلا مبادلہ (ب) جبر اور قدر (ج) ایمان بالجبر (د) قرآن کے خدائی کلام ہونے کا … (س) اس بات کا ثبوت کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) رسول اللہ ہیں وہ اور سوال بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ۶ دن سے زیادہ نہ ہو جائے۔
(۱۵) ٹکٹ ۱۰ مئی تک جاری ہو جانے چاہئیں وہ ٹکٹ مفصلہ ذیل نمونہ ہوں گے۔ (۱۶) عیسائیوں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے یہ قواعد واجب الاطاعت اور یہ صحیح تحریر فرمائی گئی۔
بطور شہادت میں (جن کے دستخط نیچے درج ہیں) مسٹر عبداللہ آتھم خان صاحب کی طرف سے دستخط کرتا ہوں اور مذکورہ بالا شرائط میں سے کسی شرط کا توڑنا فریق توڑنے والے کی طرف سے ایک اقرار گریز خیال کیا جائے گا۔ (۱۷)تقریروں پر صاحباں صدر اور تقرر کنندگان اپنے اپنے دستخط اُن کی صحت کی ثبوت میں ثبت کریں گے۔
دستخط ہنری کلارک ایم۔ ڈی وغیرہ امرتسر۔۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء
مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خاں صاحب امرتسری اور مباحثہ مابین ڈپٹی عبداللہ آتھم خان صاحب امرتسری اور
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ عیسائیوں کیلئے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ٹکٹ داخلہ فریق مسلمان کیلئے
داخل کرہ … کو نمبر (دستخط مرزا صاحب داخل کرو… کو نمبر (دستخط ڈاکٹر کلارک صاحب)
(امرتسر ۲۴… ۱۸۹۳ء)
مسٹر عبداللہ آتھم کے خط کا جواب
آج اس اشتہار کے لکھنے سے ابھی میں فارغ ہوا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کا خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا یہ خط اس خط کا جواب ہے جو میں نے مباحثہ مذکورہ بالا کے متعلق صاحب موصوف اور نیز ڈاکٹر کلارک صاحب کی طرف لکھا تھا سو اب اس کا بھی جواب ذیل میں بطور قولہ اور اقوال کے لکھتا ہوں۔
قولہ: ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیمات قدیم کے لئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے اس لئے ہم معجزہ کیلئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر رکھتے ہیں۔
اقول: صاحب من میں نے معجزہ کا لفظ اپنے خط میں استعمال نہیں کیا بیشک معجزہ دکھلانا نبی اور مرسل من اللہ کا کام ہے نہ ہر یک انسان کا لیکن اس بات کو تو آپ مانتے اور جانتے ہیں کہ ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ایمانداری کے پہلوں کا ذکر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے انجیل شریف میں بھی ہے مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے اس لئے طول کلام کی ضرورت نہیں مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ایمانداری کے پھل دکھلانے کی بھی آپ کو استطاعت نہیں۔
قولہ: بہرکیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے۔
اقول: بیشک یہ آپ کا مقولہ انصاف پر مبنی ہے اور کسی کے منہ سے یہ کامل طور پر نکل نہیں سکتا جب تک اس کو انصاف کا خیال نہ ہو لیکن اس جگہ یہ آپ کا فقرہ کہ جس قدر اصلاح اپنی غلطی کی ہم آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اُس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے تشریح طلب ہے یہ عاجز تو محض اس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے وبس اب کیا آپ اس بات پر تیار اور مستعد ہیں کہ نشان دیکھنے کے بعد اس مذہب کو قبول کر لیں گے آپ کا فقرہ مذکورہ بلا مجھے امید دلاتا ہے کہ آپ اس سے انکار کریں گے پس اگر آپ مستعد ہیں تو چند سطریںتین اخباروں یعنی نور افشان اور منشور محمدی اور کسی آریہ کے اخبار میں چھپوا دیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناصر جان کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس مباحثہ کے بعد جس کی تاریخ ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء قرار پائی ہے مرزا غلام احمد کی خدا تعالیٰ مدد کرے اور کوئی ایسا نشان اس کی تائید میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماوے کہ جو اس نے قبل ازوقت بتلا دیا ہو اور جیسا کہ اُس نے بتلایا ہو وہ پورا بھی ہو جاوے تو ہم اس نشان کے دیکھنے کے بعدبلاتوقف مسلمان ہو جائیں گے اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس نشان کو بغیر کسی قسم کے بیہودہ نکتہ چینی کے قبول کر لیں گے اور کسی حالت میں وہ نشان نامعتبر اور قابل اعتراض نہیں سمجھا جائے گا بغیر اس صورت کے کہ ایسا ہی نشان اسی برس کے اندر ہم بھی دکھلا دیں مثلاًاگر نشان کے طور پر یہ پیشگوئی ہو کہ فلاں وقت کسی خاص فرد پیر یا ایک گروہ پر فلاں حادثہ وارد ہوگا اور وہ پیشگوئی اس میعاد میں پوری ہو جائے تو بغیر اس کے کہ اس کی نظیر اپنی طرف سے پیش کریں بہرحال قبول کرنے پڑے گی اور اگر ہم نشان دیکھنے کے بعد دین اسلام اختیار نہ کریں اور نہ اس کے مقابل پر اسی برس کے اندر اس کی مانند کوئی خارق عادت نشان دکھلا سکیں تو عہد شکنی کے تاوان میں نصف جائداد اپنی امداد اسلام کیلئے اس کے حوالہ کریں گے اور اگر ہم اس دوسری شق پر بھی عمل نہ کریں اور عہد کو توڑ دیں اور اس عہد شکنی کے بعد کوئی قہری نشان ہماری نسبت مرزا غلام احمد شائع کرنا چاہئے تو ہماری طرف سے مجاز ہوگا کہ عام طور پر اخباروں کے ذریعہ سے یا اپنے رسائل مطبوعہ میں اس کو شائع کرے فقط یہ تحریر آپ کی طرف سے بقید نام مذہب و ولدیت و سکونت ہو اور فریقین کے پچاس پچاس معزز اور معتبر گواہوں کی شہادت اُس پرثبت ہو تب متن اخباروں میں اس کو آپ شائع کرا دیں جب کہ آپ کا منشاء اظہار حق ہے اور یہ معیار آپ کے اور ہمارے مذہب کے موافق ہے تو اب برائے خدا اِس کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں اب بہرحال وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا تعالیٰ سچے مذہب کے انوار اور برکات ظاہر کرے اور دنیا کو ایک ہی مذہب پر کر دیوے سو اگر آپ دل کے قوی کر کے سب سے پہلے اس راہ میں قدم ماریں اور پھر اپنے عہد کو بھی صدق اور جوانمردی کے ساتھ پورا کریں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہریںگے اور آپ کی راستبازی کا یہ ہمیشہ کیلئے ایک نشان رہے گا۔
اور اگر آپ یہ فرماویں کہ ہم تو یہ سب باتیں کر گزریں گے اور کسی نشان کے بعد دین اسلام قبول کر لیں گے یا دوسری شرائط متذکرہ بالا بجا لائیں گے اور یہ عہد پہلے ہی سے تین اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر تم ہی جھوٹے نکلے اور کوئی نشان دکھا نہ سکے تو تمہیں کیا سزاہوگی تو میں اس کے جواب میں حسب منشاء توریت سزائے موت اپنے لئے قبول کرتا ہوں اور اگر یہ خلاف قانون ہو تو کل جائداد اپنی آپ کو دوں گا جس طرح چاہیں پہلے مجھ سے تسلی کر لیں۔
قولہ: لیکن یہ جناب کو یاد رہے کہ معجزہ ہم اسی کو جانیں گے جو ساتھ تحدی مدعی معجزہ کے بہ ظہور آوے اور کہ مصدق کسی امر ممکن کا ہو۔
اقول: اس سے مجھے اتفاق ہے اور تحدی اسی بات کا نام ہے کہ مثلاً ایک شخص منجاب اللہ ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے دعویٰ کی تصدیق کیلئے کوئی ایسی پیشگوئی کرے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہو اور پیشگوئی سچی نکلے تو وہ حسب منشاء توریت استثنا ۱۸۔۱۸۹ سچا ٹھہرے گا ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا نشان کسی امر ممکن کا مصدق ہونا چاہئے ورنہ یہ تو جائز نہیں کہ کوئی انسان مثلاً یہ کہے کہ میں خدا ہوں اور اپنے خدائی کے ثبوت میں کوئی پیشگوئی کرے اور وہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو پھر وہ خدا مانا جاوے۔
لیکن میں اس جگہ آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب اس عاجز نے ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین نے جس کو آپ خوب جانتے ہیں چشمہ نور امرتسر میں میرے مقابل پر اشتہار چھپوا کر مجھ سے نشان طلب کیا تھا تب بطور نشان نمائی ایک پیشگوئی کی گئی تھی جو نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوگئی تھی جس کا مفصل ذکر اس اخبار میں اور نیز میری کتاب آئینہ کمالات کے صفحہ ۲۷۹،۲۸۰ میں موجود ہے اور وہ پیشگوئی ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو اپنی میعاد کے اندر پوری ہوگئی سو اب بطور آزمائش آپ کے انصاف کے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ نشان ہے یا نہیں اور اگر نشان نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور اگر نشان ہے اور آپ نے اس کو دیکھ بھی لیا اور نہ صرف نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء میں بلکہ میرے اشتہار مجریہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں بقیہ میعاد یہ شائع بھی ہو چکا ہے تو آپ کا اس وقت فرض عین ہے یا نہیں کہ اس نشان سے بھی فائدہ اُٹھاویں اور اپنی غلطی کی اصلاح کریں اور براہ مہربانی مجھ کو اطلاع دیں کہ کیا اصلاح کی اور کس قدر عیسائی اصول سے آپ دستبردار ہوگئے کیونکہ یہ نشان تو کچھ پرانا نہیں ابھی کل کی بات ہے کہ نور افشاں اور میرے اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا تھا اور آپ کے یہ تمام شرائط کے موافق ہے میرے نزدیک آپ کے انصاف کا یہ ایک معیار ہے اگر آپ نے اس نشان کو مان لیا اور حسب اقرار اپنے اپنی غلطی کی بھی اصلاح کی تو مجھے پختہ یقین ہوگا کہ اب آئندہ بھی آپ اپنی بڑی اصلاح کیلئے مستعد ہیں اس نشان کا اس قدر تو آپ پر اثر ضرور ہونا چاہئے کہ کم سے کم آپ یہ اقرار اپنا شائع کر دیں کہ اگرچہ ابھی قطعی طور پر نہیں مگر ظن غالب کے طور پر دین اسلام ہی مجھے سچا معلوم ہوتا ہے کیونکہ تحدی کے طور پر اُس کی تائید کے بارہ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری ہوگئی آپ جانتے ہیں کہ امام الدین دین اسلام سے منکر اور ایک دہریہ آدمی ہے اور اس نے اشتہار کے ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور اس عاجز کے ملہم ہونے کے بارے میں ایک نشان طلب کیا تھا جس کو خداتعالیٰ نے نزدیک کی راہ سے اُسی کے عزیزوں پر ڈال کر اس پر اتمام حجت کی۔ آپ اِس نشان کے رؤیا قبول کے بارے میں ضرور جواب دیں ورنہ ہمارا یہ ایک پہلا قرضہ ہے جو آپ کے ذمے رہے گا۔
قولہ: مباہلات بھی از قسم معجزات ہی ہیں مگر ہم بروئے تعلیم انجیل کسی کے لئے *** نہیں مانگ سکتے جناب صاحب اختیار ہیں جو چاہیں مانگیں اور انتظار جواب ایک سال تک کریں۔
اقول: صاحب من مباہلہ میں دوسرے پر *** ڈالنا ضروری نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ مثلاً ایک عیسائی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہیں اور قرآن خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اگر میں اس بیان میں کاذب ہوں تو خدا تعالیٰ میرے پر *** کرے سو یہ صورت مباہلہ انجیل کے مخالف نہیں بلکہ عین موافق ہے آپ غور سے انجیل کو پڑھیں۔
ماسوائے اس کے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر آپ نشان نمائی کے مقابلہ سے عاجز ہیں تو پھر یکطرفہ اس عاجز کی طرف سے سہی مجھ کو بسروچشم منظور ہے آپ اقرار نامہ حسب نمونہ مرقومہ بالا شائع کریں اور جس وقت آپ فرماویں میں بلاتوقف امرتسر حاضر ہو جاؤں گا یہ تو مجھ کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کی جگہ دی گئی اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک سچے اور کامل اور مقدس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا اس لئے میں یقینا جانتا ہوں کہ حضرت عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیات ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے اسلام میں یہ ایک زبردست خاصیت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آثار قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ میسر آ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے میں زور سے اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے۔
اب آپ کے خط کا ضروری جواب ہو چکا اور یہ اشتہار ایک رسالہ کی صورت پر مرتب کر کے آپ کی خدمت میں اور نیز ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی خدمت میں بذریعہ رجسٹری روانہ کرتا ہوں اب میری طرف سے حجت پوری ہوچکی آئندہ آپ کو اختیار ہے۔
راقم خاکسار
میرزا غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور





قبل اس کے کہ اس خط کا ترجمہ درج کیا جاوے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امریکہ کے اس مفتری الیاس کو بطور چیلنج لکھا تھا یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ناظرین کو مختصر طور پر اس شخص سے تعارف کرا دی جاوے پس یاد رہے کہ جان الگزینڈر ڈوئی سکاٹ لینڈ کا اصل باشندہ تھااور امریکہ میں پہلے پہل ۱۸۸۸ء میں پہنچا۔ سان فرانسسکو میں اُترا اس سے پہلے کچھ مدت وہ ٹسمانیہ کے جیل خانہ میں بھی رہ چکا تھا۔ ۱۸۹۲ء میں اس نے وعظ کرنا شروع کیا اور اس کے ایک الگ فرقہ کی بنیاد رکھنی شروع کی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ مَیں لوگوں کو بیماریوں سے شفا دے سکتا ہوں اور اسی دعویٰ کی وجہ سے کئی زود اعتقاد اور توہم پرست لوگ اس کے ساتھ شامل ہوگئے ان لوگوں کے روپے سے وہ ایک امیر آدمی بن گیا اور ۱۹۰۰ء میں موجودہ شہر سہیون کی زمین خریدی جس کے ٹکڑے پھر اپنے ہی مریدوں کے ہاتھ ایک بڑے گراں نرخ پر بیچے اور یہ ظاہر کیا کہ عنقریب مسیح موعود اسی شہر میں نازل ہوگا۔ ۲؍ جون ۱۹۰۱ء کو اس نے یہ دعویٰ اپنا شائع کیا کہ میں الیاس ہوں جو مسیح کی آمد کیلئے لوگوں کو تیار کرنے آیا ہوں۔ اس دعویٰ سے اس کے روپے اور مریدوں میں اور بھی ترقی ہوئی روپے کی کثرت یہاں تک ہوئی کہ سال کے شروع میں وہ دس لاکھ ڈالر یعنی تیس لاکھ روپے سے بھی زیادہ روپیہ اپنے مریدوں سے نئے سال کے تحفے کے طور پر مانگا کرتا تھا اور جب سفر کرتا تو اعلیٰ درجے کے عیش و عشرت کے سامان اس کے ساتھ ہوتے۔ ۱۹۰۴ء میں اس نے یہ پیشگوئی شائع کی کہ اگر مسلمان صلیبی مذہب کو قبول نہ کریں گے تو وہ سب کے سب ہلاک کر دیئے جائیں گے اور بھی وہ ہر طرح سے اسلام کی ہتک اور توہین نہایت بیباکی سے کرتا۔ جب اس نے اسلام پر ایسے ایسے حملے کئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ مسیح موعود کے دل میں غیرت کا جوش ڈالا اور آپ نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں اسے انگریزی میں ایک چٹھی لکھی جو اسی رسالہ ریویو آف ریلینجز کے ستمبر ۱۹۰۴ء کے پرچہ میں شائع ہوچکی ہے جس میں حضرت مسیح موعود نے اُسے مباہلہ کے لئے دعوت کی۔ خلاصہ اس ساری چٹھی کا یہ تھا کہ دونوں فریق دعا کریں کہ جو شخص ہم سے جھوٹا ہے خدا تعالیٰ اُسے سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ یہ ڈوئی کی اس پیشگوئی کا جواب تھا جو اس نے تمام اہل اسلام کی ہلاکت کیلئے کی تھی یہ چٹھی بڑی کثرت سے امریکہ کے اخباروں میں شائع ہوئی اور انگلستان کے بعض نے بھی شائع کیا۔ یہاں تک کثرت سے اس کی اشاعت ہوئی کہ ہمارے پاس بھی ایسی بہت سی اخباریں پہنچ گئیں جن میں اس مباہلہ کاذکر تھا۔
یہاں چونکہ مفصل واقعات لکھنا مقصود نہیں اس لئے اسی قدر پر اکتفا کیا جتا ہے یہ شخص پیشگوئی کے موافق مر گیا۔ (ایڈیٹر)
اصل خط کا ترجمہ
ہر ایک کو جو حق کا طالب ہے معلوم ہو کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جب زمین پر بدعقیدگی اور بداعمالی پھیل جاتی ہے اور لوگ اس سچے خدا کو چھوڑ دیتے ہیں جو آدم پر ظاہر ہوا اور پھر شیث پر اور پھر نوح پر اور ایسا ہی ابراہیم پر اور اسماعیل اور پر اسحاق پر اور یعقوب پر اور یوسف پر اور موسیٰ پر اور آخر میں جناب سیّد الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر تو ایسے زمانہ میں جب کہ شرک ناپاکی اور بدکاری اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی سے زمین ناپاک ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کسی بندہ کو مامور کر کے اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونک کر دنیا کی اصلاح کیلئے بھیج دیتا ہے اور اس کو اپنی عقل میں سے عقل بخشتا ہے اور اپنی طاقت میں سے طاقت اور اپنے علم میں سے علم عطا کرتا ہے اورخدا کی طرف سے ہونے کا اس میں یہ نشان ہوتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اگر معارف حقائق کی رو سے کوئی شخص اس کے مقابل پر آوے تو وہی حقائق اور معارف میں غالب آتا ہے اور اگر اعجازی نشانوں کو مقابلہ ہو تو غلبہ اُسی کو ہوتا ہے اور اگر کوئی اس طور سے اس کے ساتھ بالمقابل یا بطور خود مباہلہ کرے کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹاہے وہ پہلے مر جائے تو ضرور اس کا دشمن پہلے مرتا ہے۔ اب اس زمانہ میں جب خدا نے دیکھا کہ زمین بگڑ گئی اور کروڑ ہا مخلوقات نے شرک کی راہ اختیار کر لی اور چالیس کروڑ سے بھی زیادہ لوگ دنیا میںپیدا ہوگئے کہ ایک عاجز انسان مریم کے بیٹے کو خدا بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی شراب خواری اور بیقدری اور دنیا پرستی اور غافلانہ زندگی انتہا کو پہنچ گئی تو خداتعالیٰ نے مجھے اس کام کیلئے مامور کیا کہ تا میں ان خرابیوں کی اصلاح کروں سو اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے اور بدعقیدگی اور بداعمالی سے توبہ کر چکا ہے اور ڈیڑھ سَو سے زیادہ نشان ظاہر ہوچکا ہے جس کے اس مُلک میں کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور میں بھیجا گیا ہوں تا کہ زمین پر دوبارہ توحید کو قائم کروں اور انسان پرستی یا سنگ پرستی سے لوگوں کو نجات دے کر خدائے واحد لاشرک کی طرف ان کو رجوع دلاؤں اور اندرونی پاکیزگی اور راستبازی کی طرف ان کو توجہ دوں چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ایک تحریک پیدا ہو گئی ہے اور ہزار ہالوگ میرے ہاتھ پر توبہ کرتے جاتے ہیں اور آسمان سے ہوا بھی ایسی چل رہی ہے کہ اب توحید کے موافق طبیعتیں ہوتی جاتی ہیں اور صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ انسان پرستی کو دنیا سے معدوم کر دے اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے صد ہا اسبات پیدا کئے گئے ہیں۔ افسوس کہ مخلوق پرست لوگ جن سے مراد میری اس جگہ وہ عیسائی ہیں جو مریم کے صاحبزادہ کو خدا جانتے ہیں ابھی اپنے مشرکانہ مذہب کی اس ترقی پر خوش نہیں ہوئے جو اَب تک ہوگئی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام دنیا حقیقی خدا کو چھوڑ کر اس ضعیف اور عاجز انسان کو خدا کر کے مانے جس کو ذلیل یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر کھینچا تھا اس خواہش کا بجز اس کے اور کوئی سبب نہیں کہ مخلوق پرستی کی عادت نہایت بدعادت ہے جس میں گرفتار ہو کر پھر انسان دیکھتا ہوا اندھا ہو جاتاہے مگر پادریوں کی اس قدر دلیری بہت ہی قابل تعجب ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ زمین پر ایک ایسا شخص رہے کہ وہ اس اصلی خدا کو ماننے والا ہو جو ابن مریم اور اس کی ماں کے پیدا ہونے سے بھی پہلے ہی موجود تھا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کل دنیا اور کل نوع انسان جو آسمان کے نیچے ہے ابن مریم کو ہی خدا سمجھ لے اور اسی کو اپنا معبود اور خالق اور خداوند اور منجی مان لے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ارادوں کے مقابل پر خدائے ذوالجلال… بہت صبر کیا ہے اس کی عزت عاجز بندہ کو دے دی گئی ہے اس کے جلال کو خاک میں ملایا گیا مگر اُس نے اَب تک صبر کیا کیونکہ جیسا کہ وہ غیور ہے ویسا ہی وہ صابر بھی ہے ان ظالم مخلوق پرستوں نے تمام خدائی صفات یسوع ابن مریم کو دیئے۔ اب ان کی نظر میں جو کچھ ہے یسوع ہے اس کے سوا کوئی نہیں اب سچے خدا کی مثال یہ ہے کہ ایک امیر نے اپنے عزیزوں کیلئے ایک نہایت عمدہ گھر بنایا اور اس کے ایک حصہ میں ایک بستان سرائے تیار کیا جس میں طرح طرح کے پھول اور پھل اور سایہ دار درخت تھے اور اس گھر کے ایک حصہ میں اپنے ان عزیزوں کو رکھا اور ایک حصہ میں اپنا مال و حشمت اور قیمتی اسباب مقفل کیا اور ایک حصہ بطور سرائے کے مسافروں کیلئے چھوڑا لیکن جب مالک چند روز کیلئے سیر کو گیا تو ایک شوخ دیدہ اجنبی نے اس کے اس گھر پر جو بطور سرائے کے تھا دخل اور تصرف کر لیااور تمام گھر بجز چند حجروں کے جس میں اس مالک کے عزیز تھے یا جن میں اس مالک کا قیمتی اسباب مقفل تھا خود بخود استعمال میں لانے لگا اور اس سرائے کو اپنا گھر بنا لیا اور پھر پر کفایت نہ کی بلکہ اس گھر سے اس مالک کے عزیزوں کو نکال دیا اور مقفل مکانوں کے قفل توڑ دیئے اور تمام اسباب پر اپنا قبضہ کر لیا اب مالک جو صرف اس گھر کا مالک نہیں ہے بلکہ اس مُلک کا بادشاہ بھی ہے جب اس شہرمیں آئے گا اور اس ظلم اور شوخی کو دیکھے گا تو کیا کرے گا۔ اس کا یہی حواب ہے کہ جو کچھ مقتضا اس کی سلطنت اور غیرت اور جبروت کا ہے سب کچھ عمل میں لائے گا اور اس گھر کو اس ظالم سے خالی کرا کر پھر اپنے مظلوم عزیزوں کو اس میں داخل کرے گا اور وہ تمام مال جو غصب کیا گیا ان کو دے گا اور وہ مسافر خانہ بھی انہیں عطا کردے گا تا آئندہ ان کے مرضی کے برخلاف کوئی اس میں زیادہ ٹھہر نہ سکے اسی طرح اب وہ زمانہ گیا کہ تمام مذہبی جھگڑوں کا فیصلہ کر دیوے۔ انسانوں میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں بہت سے جنگ ہوئے لیکن ان کے جنگوں یا جہادوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا آخر ان کی تلواریں ٹوٹ کر رہ گئیں اس سے انسانوں کو یہ سبق ملا کہ مذہبی جھگڑوں کا تلوار سے فیصلہ نہیں کر سکتی لیکن ہم جانتے ہیں کہ اب آسمانی فیصلہ نزدیک ہے کیونکہ خدائے غیور کی زمین پر نہایت تحقیر ہو رہی ہے ہر ایک عیسائی مشنری یہ جوش اپنے دل میں رکھتا ہے کہ وہ خدا جس کی نسبت توریت میں اب تک صحیح تعلیم موجود ہے اس کو بالکل معطل کر کے ایک ابن مریم کو اس کا تخت دیا جائے اور دنیا میں ایک بھی اس خدا کانام لیوا نہ ہو اور ہر ایک قوم کے منہ سے اور ہر ایک ملک سے یہی آواز نکلے کہ یسوع مسیح خدا اور ربّ العالمین اور خداوندوں کا خداوند ہے اور یہ صرف آرزو نہیں بلکہ یسوع کو خدا بنانے کیلئے جس قدر روپیہ صرف کیا گیا ہے جس قدر کتابیں لکھی گئیں جس قدر ہر ایک تدبیر کی گئی دنیا کی ابتدا سے آج تک اس کی نظیر موجود نہیں اور افسوس کہ ایک مدت سے مسلمانوں کی یہ عادت ہے کہ معقول اور سیدھے طور پر اس مذہب کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ اگر خاص مجمعوں میں کبھی یہ ذکر آتا ہے تو بڑا ذریعہ اپنی ترقی کا جہاد کو ٹھہراتے ہیں اور ایسے زمانہ کے منتظر ہیں کہ گویا اس وقت ان کا کوئی مہدی اور مسیح تلوار سے تمام قوموں کو نابود کر دے گا گویا وہ اعتراض جو نادانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر کیا تھا اس کا جواب بھی آخر کار تلوار ہی ہوگا۔ میری دانست میں یہی سبب مسلمانوں کے تنزل کا ہے کہ انسانی رحم کی قوت ان کے دلوں سے بہت گھٹ گئی ہے میں ہر ایک مسلمان کو ایسا نہیں سمجھتا لیکن میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کروڑہا انسان ابھی ان میں ایسے موجود ہیں کہ بنی نوع کے خون کے پیاسے ہیں مجھے تعجب ہے کہ کیا وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو کوئی قتل کر دے اور ان کے یتیم بچے اور ان کی بیوہ عورتیں بیکسی کی حالت میں رہ جائیں پھر وہ دوسروں کی نسبت ایسا کرنا کیوں روا رکھتے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ مرض مسلمانوں کے لاحق حال نہ ہوتی تو وہ تمام یورپ کے دلوں کو فتح کر لیتے ہر ایک پاک کانشنس گواہی دے سکتا ہے کہ عیسائی مذہب کچھ بھی چیز نہیں انسان کو خدا بنا دینا کسی عقلمند کا کام نہیں یسوع مسیح میں اور انسانوں کی نسبت ایک ذرّہ خصوصیت نہیں بلکہ بعض انسان اس سے بہت بڑھ کر گزرے ہیں اور اب بھی یہ عاجز اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ تا خدائے قادر لوگوں کو دکھلاوے اور اس کا فضل اس عاجز پر اس مسیح سے بڑھ کر ہے اور پھر یہ غلطیاں کہ گویا یسوع مسیح اب تک زندہ ہے اور گویا وہ آسمان پر ہے اور گویا وہ سچ مُچ مردے زندہ کیا کرتا تھا اور اس کے مرنے پر یروشلم کے تمام مردے جو آدم کے وقت سے لے کر مسیح کے وقت تک مر چکے تھے زندہ ہو کر شہر میں آ گئے تھے۔ یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں جیسا کہ ہندوؤں کے پورانوں میں ہیں اور سچ صرف اس قدر ہے کہ اس نے بھی بعض معجزات دکھلائے جیسا کہ نبی دکھلاتے تھے اور جیسا کہ اب خدا تعالیٰ اب اس عاجز کے ہاتھ سے دکھلا رہا ہے مگر سچ کے کام تھوڑے تھے اور جھوٹ ان میں بہت ملایا گیا۔ کس قدر قابل شرم جھوٹ ہے کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گیا مگر اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وہ صلیب پر مرا نہیں واقعات صاف گواہی دیتے ہیں کہ مرنے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی تین گھنٹہ کے اندر صلیب پر سے اُتارا گیا شدت درد سے بیہوش ہو گیا خدا کو منظور تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے۔ اس سلئے اس وقت بباعث کسوف خسوف سخت اندھیرا ہو گیا یہودی ڈر کر اس کو چھوڑ گئے اور یوسف نام ایک پوشیدہ مرید کے وہ حوالہ کیا گیا اور وہ تین روز ایک کوٹھ میں جو قبر کے نام سے مشہور کیا گیا رکھ کر آخر افاقہ ہونے پر ملک سے نکل گیا اور نہایت مضبوط دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ پھر وہ سیر کرتا ہوا کشمیر میں آیا باقی حصہ عمر کا کشمیر میں بسر کیا۔ سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے افسوس خواہ نخواہ افترا کے طور پر آسمان پر چڑھایا گیا اور آخر قبر کشمیر میں ثابت ہوئی اس بات کے ایک دو گواہ نہیں بلکہ بیس ہزار سے زیادہ گواہ ہیں۔
اس قبر کے بارے میں ہم نے بڑی تحقیق سے ایک کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع کی جائے گی مجھے اس قوم کے مشنریوں پر بڑا ہی افسوس آتا ہے جنہوں نے فلسفہ طبعی ہیئت سب پڑھ کر ڈبو دیا ہے اور خواہ نخواہ ایک عاجز انسان کو پیش کرتے ہیں کہ اس کو خدا مان لو۔ نانچہ حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں مگر یہ کیسا خدا ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچا نہ سکا ایک دعا باز شاگرد نے اس کو پکڑوا دیا اس کا کچھ بندوبست نہ کر سکا انجیر کے درخت کی طرف دوڑا گیا اور یہ خبر نہ ہوئی کہ اس پر پھل نہیں اور جب قیامت کے بارے میں اس سے پوچھا گیا کہ کب آئے گی تو بے خبری ظاہر کی اور لنعت جس کے یہ معنی ہیں کہ دل ناپاک ہو جائے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا سے اس کی رحمت سے دور جاپڑے وہ اس پر پڑی اور پھر وہ آسمان کی طرف اس لئے چڑھا کہ باپ اس سے بہت دور تھا کروڑ ہا کوس سے بھی زیادہ دور تھا اور یہ دوری کسی طرح دور نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ مع جسم آسمان پر نہ چڑھتا۔ دیکھو کس قدر کلام کا تناقض ہے ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں اور ایک طرف کروڑ ہا کوس کا سفر کر کے اس کے ملنے کو جاتا ہے جب کہ باپ اور بیٹا ایک تھے تو اس قدر مشقت سفر کی کیوں اُٹھائی جہاں ہوتا وہیں باپ بھی تھا دونو ایک جو ہوئے اور پھر وہ کس کے دہنے ہاتھ بیٹھا۔
اب ہم ڈوئی کو مخاطب کرتے ہیں جو یسوع مسیح کو خدا بناتا اور اپنے تئیں اس کا رسول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ توریت استثنا ۱۸ باب آیت پندرہ کی پیشگوئی میرے حق میں ہے اور میں ہی ایلیا اور میں ہی عہد نامہ کا رسول ہیں، نہیں جانتا کہ یہ مصنوعی خدا اس کا موسیٰ کے کبھی خواب خیال میں بھی نہیں تھا۔ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی بار بار کہا کہ … کسی مجسم چیز انسان یا حیوان کو خدا قرار نہ دینا آسمان پر سے نہ زمین سے۔ خدا نے تم سے باتیں کیں مگر تم نے اس کی کوئی صورت نہیں دیکھی تمہارا خدا صورت اور مجسم سے پاک ہے مگر اب ڈوئی موسیٰ کے خدا سے برگشتہ ہو کر وہ خدا پیش کرتا ہے جس کے چار بھائی اور ایک ماں ہے اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تما مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز ان لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں۔ ہم ڈوئی کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اس کو تمام مسلمانوں کے مارنے کی کیا ضرورت ہے غریب مریم کے عاجز بیٹے کو خدا کیونکر مان لیں بالخصوص اس زمانہ میں جب کہ ڈوئی کے خدا کی قبر بھی اس مُلک میں موجود ہے اور ان میں وہ مسیح موعود بھی موجود ہے جو چھٹے ہزار کے اخیر اور ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوا جس کے ساتھ بہت سے نشان ظہور میں آئے اور ڈوئی کا یہ الہام کہ تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور وہی لوگ باقی رہیں گے جو یسوع مسیح کو خدا مانیںگے اور ساتھ ہی ڈوئی کو بھی خدا کا رسول مان لیں گے اس الہام کے رو سے تو باقی عیسائیوں کو بھی خبر نہیں کیونکہ گو وہ مریم کے صاحبزادہ کو خدا مانتے ہیں مگر یہ جھوٹا رسول جو ڈوئی ہے اب تک انہوں نے تسلیم نہیں کیا اور ڈوئی نے صاف طور پر یہ الہام شائع کر دیا ہے کہ صرف یسوع مسیح کو خدا ماننا کافی نہیں جب تک ڈوئی کو بھی ساتھ ہی نہ مان لیں اور چاہئے کہ صاف اقرار کرے کہ ڈوئی ایلیا اور ڈوئی کا عہد نامہ رسول اور ڈوئی کے حق میں ہی وہ پیشگوئی ہے جو توریت استثنا باب ۱۸ آیت پندرہ میں ہے تب بچیں گے ورنہ ہلاک ہو جائیں گے۔ غرض ڈوئی بار بار لکھتا ہے کہ عنقریب یہ سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے بجز اس گروہ کے جو یسوع کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت اس صورت میں یورپ اور امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تاہلاک نہ ہو جائیں اور جب کہ انہوں نے ایک نامعقول امر کو مان لیا ہے یعنی یسوع مسیح کی خدائی کو چلو یہ دوسرا نامعقول امر بھی مان لو کہ اس خدا کا ڈوئی رسول ہے۔
رہے مسلمان سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑہا مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کاخدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہوں اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے چاہئے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا کہ انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں کیلئے حق کی شناخت کیلئے ایک راہ نکل آئے گی میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے اس کی سبقت دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یاد رہے کہ میں اس مُلک میں معمولی انسان نہیں ہوں میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیداہو گیا اور وہ میں ہی ہوں صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہوچکے ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے ڈوئی بیہودہ باتیں اپنے ثبوت میں لکھتا ہے کہ میں ہے نے ہزار ہا بیمار توجہ سے اچھے کئے ہیں ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ کیوں پھر اپنی لڑکی کو اچھا نہ کر سکا جو بچہ ہی … کر مر گئی اور ڈاکٹر اس کی بیماری پر بلایا گیا مگر وہ گزر گئی یا درہے کہ اس مُلک کے صدہا عام لوگ اس قسم کے عمل کرتے ہیں اور سلب امراض میں بہتوں کو مشق ہو جاتی ہے اور کوئی ان کی بزرگی کا قائل نہیں ہوتا پھر امریکہ کے سادہ لوحوں پر نہایت تعجب ہے کہ وہ کس خیال میں پھنس گئے کیا ان کے لئے مسیح کو ناحق خدا بنانے کا بوجھ کافی نہ تھا کہ یہ دوسرا بوجھ بھی انہوں نے اپنے گلے ڈال لیا گر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا کیا حاجت ہے کہ تمام مُلکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا اور یا پنے لاف و گزاف کے مطابق دعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اُٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندہ کے پھاڑنے سے ہو اور ہم اس جواب کیلئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو۔ آمین
یاد رہے کہ صادق اور کاذب میں فیصلہ کرنے کیلئے ایسے امور ہرگز … نہیں ٹھہر سکتے جو دنیا کی قوموں میں مشترک ہیں کیونکہ کم و بیش ہر ایک قوم میں وہ پائے جاتے ہیں انہیںامور میں سے طریق سلب امراض بھی ہے یہ طریق نامعلوم وقت سے ہر ایک قوم میں رائج ہے ہندو بھی ایسے کرتب کیا کرتے ہیں اور یہودیوں میں بھی یہ طریق چلے آتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بہت سے لوگ سلب امراض کے مدعی ہیں اور بیج بات یہ ہے کہ اس طریق کو حق اور باطل کے فیصلہ کرنے کیلئے کوئی دخل نہیں کیونکہ اہل حق اور اہل باطل دونوں اس میں دخل پیدا کر سکتے ہیں چنانچہ انجیلوں سے بھی ثابت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ اس طریق توجہ سے بعض امراض کو اچھا کرتے تھے تو ان کی زندگی میں ہی ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ ان کے مرید اور حواری نہ تھے مگر اسی طرح امراض کو اچھا کر لیتے تھے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کر لیتے تھے اور اس وقت ایک تالاب بھی ایسا تھا جس میں غوطہ لگا کر اکثر امراض اچھی ہو جاتی تھیں تو یہ مشق توجہ اور سلب امراض کی جو عام طور پر قوموں کے اندر پائی جاتی ہے یہ سچے مذہب کیلئے کامل شہادت نہیں ٹھہر سکتی ہاں اس صورت میں کامل شہادت ٹھہر سکتی ہے کہ وہ فریق جو اپنے اپنے مذہب کی سچائی کے مدعی ہیں وہ چند بیمار مثلاً بیس بیمار قرعہ اندازی سے باہم تقسیم کر لیں اور پھر ان دونوں میں سے جس کے بیمار فریق مقابل سے بہت زیادہ اچھے ہو جائیں اس کو حق پر سمجھا جائے گا چنانچہ گزشتہ دنوں میں ایسا ہی میں نے اس ملک میں اشتہار دیا تھا مگر کسی نے اس کا مقابلہ نہ کیا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ڈوئی یا اور کوئی ڈوئی کا ہم جنس اس مقابلہ کیلئے میرے مقابل آئے تو میرا خدا اس کو سخت ذلیل کرے گا کیونکہ وہ جھوٹا ہے اور اس کا خدا بھی محض باطل کا پتلا ہے لیکن افسوس کہ اس قدر دوری میں یہ مقابلہ میسر نہیں آ سکتا مگر خوشی کی بات ہے کہ ڈوئی نے خود یہ طریق فیصلہ پیش کیا ہے کہ مسلمان جھوٹے ہیں اور ہلاک ہو جائیں گے اس طریق فیصلہ میں ہم اس قدر ترمیم کرتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں اس طرح پر تو ڈوئی کے ہاتھ میںمکار لوگوں کی طرح یہ عذر باقی رہ جائے گا کہ مسلمان ہلاک نہ ہوںگے مگر پچاس یا ساٹھ یا سَو برس کے بعد اتنے میں ڈوئی خود مر جائے گا تو کوئی اس کی قبر پر جا کر اس کو ملزم کرے گا کہ تیری پیشگوئی جھوٹی نکلی پس اگر ڈوئی کی سیدھی نیت ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سبق درحقیقت مریم کے صاحبزادہ ہی نے اس کو دیا ہے جو اس کے نزدیک خدا ہے تو یہ ٹھگوں والا طریق اس کو اختیار نہیں کرنا چاہئے کہ اس سے کوئی فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ طریق یہ ہے کہ وہ اپنے مصنوعی خدا سے اجازت لے کر میرے ساتھ اس معاملہ میں مقابلہ کرے میں ایک آدمی ہوں جو پیرانہ سالی تک پہنچ چکا ہوں میری عمر غالباً چھیاسٹھ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے اور ذیابیطس اور اسہال کی بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں اور دوران سر اور کمی دوران خون کی بیماری بدن کے اوپر کے حصہ میں ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری زندگی میری صحت سے نہیں بلکہ میرے خدا کے حکم سے ہے پس اگر ڈوئی کا مصنوعی خدا کچھ طاقت رکھتا ہے تو ضرور میرے مقابل اس کو اجازت دے گا اگر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے عوض میں صرف میرے ہلاک کرنے سے ہی کام ہو جائے تو ڈوئی کے ہاتھ میں ایک بڑا نشان آ جائے گا پھر لاکھوں انسان مریم کے بیٹے کو خدا مان لیں گے اور نیز ڈوئی کی رسالت کو بھی اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلہ میں رکھی جائے اور دوسرے پلہ میں میری نفرت رکھی جائے تو میری نفرت اور بیزاری عیسائیوں کے بناوٹی خدا کی نسبت تمام مسلمانوں کی نفرت سے وزن میں زیادہ نکلے گی۔
میں سب پرندوں سے زیادہ کبوتر کا کھانا پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ عیسائیوں کا خدا ہے معلوم نہیں ڈوئی کی اس میں کیا رائے ہے کیا وہ بھی اس کی نرم نرم ہڈیا دانتوں کے نیچے چباتے ہیں یا خدائی کی مشابہت کی وجہ سے اس پر کچھ رحم کرتے اور اس کی حرمت کے قائل ہیں اس ملک کے ہندوؤں نے جب سے گائے کو پرمیشر کا اوتار مانا ہے تب سے وہ گائے کو ہرگز نہیں کھاتے ہیں پس وہ ان عیسائیوں سے اچھے رہے جنہوں نے اس کبوتر کی کچھ عظمت نہ کی جس کی شبیہہ میں ان کا وہ خدا ظاہر ہو جس نے مسیح کو آسمان سے آواز دی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے پس اس رشتہ کے لحاظ سے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کبوتر مسیح کا باپ ہوا گویا خداک ا باپ ٹھہرا مگرتب بھی عیسائیوں نے اس کے کھانے سے پرہیز نہیں کیا حالانکہ وہ اس لائق تھا کہ اس کو خداوند خدا کہا جائے۔ خدا نے جب کہ توریت میںیہ کہا کہ آدم کو میں نے اپنی صورت میں پیدا کیا تبھی سے انسان کا گوشت انسانوں پر حرام کیا گیا پھر کیا وجہ اور کیا سبب کہ کبوتر جو عیسائیوں کے خدا کا باپ ہے جس نے مسیح کو بیٹے کا خطاب دیا وہ کھایا جاتا ہے اور نہ صرف کھایا جاتا بلکہ اس کے گوشت کی تعریف بھی کی جاتی ہے جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا صفحہ۸۵ جلد ۱۹ میں لکھاہے کہ کبوتر کا گوشت تمام پرندوں سے زیادہ لذیز ہوتا ہے جن لوگوں کو کبوتر کی قسم فروٹ پجن کھانے کا اتفاق خوش قسمتی سے ہوا ہے انہوں نے یہ شہادت دی ہے کہ اور یہود کی شریعت کے مطابق جس کو بکرا ذبح کرنے کی توفیق نہ ہو وہ کبوتر ذبج کرے (لوقا ۲۴: ۲) اور مریم نے بھی وہ کبوتر ذبح کئے تھے کیونکہ وہ غریب تھی۔ (لوقا۲۴:۲) اب دیکھو ایک طرف تو کبوتر کو خدا بنایا اور ایک طرف کبوتر پر ہمیشہ چھری پھیر دی جاتی ہے۔ مسیح تو صرف ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر تمام عیسائیوں کا شفیع بن گیا مگر بیچارہ کبوتر کو اس شفاعت سے کچھ حصہ نہ ملا جس کی بوٹی بوٹی ہمیشہ دانتوں کے نیچے پیسی جاتی ہے چنانچہ ہم نے بھی کل ایک سفید کبوتر کھایا تھا لہٰذا روح القدس کی تائید سے یہ تحریک پیدا ہوئی اور انسائیکلوپیڈیا میں جو پانسو قسم کبوتر کی لکھی ہے یہ بھی میری رائے میں ناقص ہے کیونکہ اس میں اس کبوتر شامل نہیں کیا گیا جس کی شبیہہ میں عیسائیوں کاخدا ظاہر ہوا تھا اس لئے اس بیان کی یوں صحیح کرنی چاہئے کہ کبوتر کی اقسام ۵۰۱ ہیں اور اس کی تصریح کر دینی چاہئے کہ یہ ایک نئی قسم وہ داخل کی گئی ہے جس میں خدا مسیح پر نازل ہوا تھا۔
میں ایسے شخص کا سخت دشمن ہوں کہ جو کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پھر خیال کرے کہ میں خدا ہوں گو میں مسیح ابن مریم کو اس تہمت سے پاک قرار دیتا ہوں کہ اُس نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا تا ہم میں دعویٰ کرنے والے کو تمام گنہگاروں سے بدتر سمجھتا ہوں میں جانتا ہوں اور مجھے دکھایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم اس تہمت سے بری اور راستباز ہے اور اس نے کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی لیکن ہر ایک دفعہ اپنی عاجزی اور عبودیت ظاہر کی ایک دفعہ میں نے اور اس نے عالم کشف میں جو گویا بیداری کا عالم تھا ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا اور اس نے اپنی فروتنی اور محبت سے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میں نے بھی محسوس کیا کہ وہ میرا بھائی ہے تب سے میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں سو جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے موافق میرا یہی عقیدہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے گو مجھے حکمت اور مصلحت الٰہی نے اس کی نسبت زیادہ کام سپرد کیا ہے اور اس کی نسبت زیادہ فضل و کرم کے وعدے دئے ہیں مگر پھربھی میں اور وہ روحانیت کے رو سے ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں اسی بنا پر میرا آنا اسی کا آنا ہے جو مجھ سے انکار کرتا ہے وہ اس سے بھی انکار کرتا ہے اس نے مجھے دیکھا اور خوش ہوا پس وہ جو مجھے دیکھتا اور ناخوش ہوتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے نہ مجھ میں سے اور نہ مسیح ابن مریم میں سے۔ اور مسیح ابن مریم مجھ میں سے ہے اور میں خدا سے ہوں مبارک وہ جو مجھے پہچانتا ہے اور بدقسمت وہ جس کی آنکھوں سے میں پوشیدہ ہوں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد قادیانی

ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط
ڈوئی نے اس خط کا جب کچھ جواب نہ دیا تو حضرت مسیح موعود نے ایک اَور خط عام اعلان کے طور پر شائع کیا۔ جو یہ ہے ( ایڈیٹر)
زمین جب گناہ اور شرک سے آلودہ ہو جاتی ہے اور اس حقیقت سے بے خبر ہو جاتی ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل غرض ہے تب خدائی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایک کامل الفطرت انسان کو اپنی ذات سے پاک تعلق بخش کر اور اپنے مکالمہ سے اُس کو مشرف کر کے اور اپنی محبت میں اُس کو انتہا تک پہنچا کر اُس کے ذریعہ سے دوبارہ زمین کو پاک و صاف کرے۔ انسان خدا تو نہیں ہو سکتا مگر بڑے بڑے تعلقات اس سے پیدا کر لیتا ہے جب وہ بالکل خدا کیلئے ہو جاتا ہے اور اپنے تئیں صاف کرتا ایک مصفّہ آئینہ کی طرح بن جاتا ہے تب اس آئینہ میں عکسی طور پر خدا کاچہرہ نمودار ہوتا ہے اُس صورت میں وہ بشریٰ اور خدائی صفات میں ایک مشترک چیز بن جاتا ہے اور کبھی اس سے صفات الٰہیہ صادر ہوتی ہیں کیونکہ اس کے آئینہ وجود میں خدا کا چہرہ منعکس ہے اور کبھی اُس سے بشریٰ صفات صادر ہوتی ہیں کیونکہ وہ بشر ہے اور ایسے انسانوں کو دیکھنے والے کبھی دھوکا کھا کر اور صرف ایک پہلو کا کرشمہ دیکھ کر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا میں مخلوق پرستی اسی وجہ سے آتی ہے اور صدہا انسان اسی دھوکا سے خدا بنائے گئے ہیں مگرہمارے اس زمانہ میں جس قدر عیسائیوں کا وہ فرقہ جو حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے اس دھوکا میں مبتلا ہے اس قدر کوئی اور قوم مبتلا نہیں مسیح سے صدہا برس پہلے جو لوگ خدا بنائے گئے تھے جیسے راجہ رامچندر، راجہ کرشن، گوتم بدھ ہمارے اس زمانہ میں ان کے پیرو متنبہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ان کی غلطیاں تھیں مگر افسوس حضرت مسیح کے پیرو اب تک اس زمانہ میں بھی خواہ نخواہ خدائی کا خطاب ان کو دے رہے ہیں اگر اس خیال کا بطلان ایسا بدیہی تھا کہ کسی دلیل کی ضرورت نہ تھی مگر افسوس کہ عیسائی ابھی تک اُس زمانہ کی ہوا سے بھی دور بیٹھے ہیں بلکہ بعض لوگوں نے جب دیکھا کہ ایسے لغو خیالات کا زمانہ ہی دن بدن مخالف ہوتا جاتا ہے تو انہوں نے اپنی معمولی طریقوں سے مایوس ہو کر یہ ایک نیا طریق اختیار کیا کہ کوئی ان میں سے الیاس بن گیا اور کسی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں اور میں ہی خدا ہوں۔ اس مجمل فقرہ سے مراد میری یہ ہے کہ لنڈن میں تو مسٹر پگٹ نے خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کیا اور امریکہ میں مسٹر ڈوئی الیاس بن بیٹھے اور پیشگوئی کر دی کہ مسیح ابن مریم پچیس برس تک دنیا میں آجائے گا۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ڈوئی نے تو بزدلی دکھلائی اور الیاس بننے میں بھی اپنی پردہ دری سے ڈرتا رہا اور مسیح نہ بنا بلکہ مسیح کا خادم بنا اور پگٹ نے بڑی ہمت دکھلائی کہ خود مسیح بن گیا نہ صرف مسیح بلکہ خداہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ اب لنڈن والوں کو کسی بیماری، آفت، مصیبت کا کیا اندیشہ ہے جن کے شہر میں خدا اُترا ہوا ہے مگر میں نے سنا ہے کہ لنڈن میں کچھ یہودی بھی رہتے ہیں اس لئے بے شک یہ اندیشہ ہے کہ ان کو طبعاً یہ خیال پیدا ہو کہ یہ تو وہی مسیح ہے جو صلیب سے بوجہ غشی کے غلطی کے ساتھ زندہ اُتارا گیا اور پھر موقع پا کر مشرقی بلاد کی طرف بھاگ گیا۔ آخر اب ایسے طور سے اس کو صلیب دیں کہ کام تمام ہو جائے اور پھر کسی طرف بھاگ نہ سکے اور ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ مبادا عیسائیوں کو بھی خیال آ جاوے کہ پہلا کفّارہ پُرانا اور بودہ ہو چکا ہے اور شراب خوری اور فسق و فجور کی کثرت سے ثابت بھی کر دیا ہے کہ اس کفّارہ کی تاثیر جاتی رہی ہے اس لئے اب ایک نئے خون کی ضرورت ہے۔ سو میں ہمدردی سے کہتا ہوں کہ مسٹر پگٹ کو ان ہر دو فرقوں سے چوکس رہنا چاہئے القصہ ان دنوں میں جب کہ زمین میں ایسے ایسے جھوٹے اور ناپاک دعویٰ کئے گئے ہیں اس لئے خدا نے جو زمین پر بدی اور ناپاکی کا پھیلنا پسند نہیں کرتا مجھے اپنا مسیح کر کے بھیجا تا وہ زمین کی تاریکی کو اپنی توحید سے روشن کرے اور شرک کی نجاست سے دنیا کو مخلصی بخشے۔ پس میں وہی مسیح موعود ہوں جو ایسے وقت میں آنے والا تھا اور میں صرف اپنے منہ سے نہیں کہتا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ وہ خدا جس نے زمین و آسمان بنایا میری گواہی دیتا ہے اس نے اس گواہی کے پورا کرنے کے لئے صدہا نشان میرے لئے ظاہر کئے اور کر رہا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کا فضل اُس مسیح سے مجھ پر زیادہ ہے جو مجھ سے پہلے گزر چکا ہے میرے آئینہ میں اس کا چہرہ اس سے زیادہ وسیع طور پر منعکس ہوا ہے جو اُس کے آئینہ میںہوا تھا اگر میں صرف اپنے منہ سے کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر وہ میرے لئے گواہی دیتا ہے تو کوئی مجھے جھوٹا قرار نہیں دے سکتا میرے لئے اس کی ہزار ہا گواہیاں ہیں جن کو میں شمار نہیں کر سکتا۔ مگر منجملہ ان کے ایک یہ بھی گواہی ہے کہ یہ دلیر دروغگو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لنڈن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست ونابود ہو جائے گا۔ دوسری یہ گواہی ہے کہ مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتًا یا اشارۃً میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کوچھوڑ دے گا۔ یہ دو نشان ہیں جو یورپ اور امریکہ کے لئے خاص کئے گئے ہیں کاش وہ ان پر غور کریں اور ان سے فائدہ اُٹھائیں۔
یاد رہے کہ اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طرح سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کر چکا ہوں اس تجویر کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا۔ میں عمر میں ۷۰ برس کے قریب ہوں اور وہ جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ طریق اس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعویٰ اس کا الیاس بننے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگرچہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلہ سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے صیہوں پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اس کو پکڑ لے گی۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتا ہے کہ
اے قادر اور کامل خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر کہ پگٹ اور ڈوئی کاجھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے کیونکہ اس زمانہ میں تیرے عاجز بندے اپنے جیسے انسانوں کی پرستش میں گرفتار ہو کر تجھ سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ سو اے ہمارے پیارے خدا ان کواس مخلوق پرستی کے اثر سے رہائی بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر جو اس زمانہ کے لئے تیرے تمام نبیوں نے کئے ہیں۔ ان کانٹوں میں سے زخمی لوگوں کو باہر نکال اور حقیقی نجات کے سرچشمہ سے ان کو سیراب کر کیونکہ سب نجات تیری معرفت اور تیری محبت میں ہے کسی انسان کے خون میں نجات نہیں۔ اے رحیم و کریم خدا ان کی مخلوق پرستی پر بہت زمانہ گزر گیا ہے اب اُن پر تو رحم کر اور ان کی آنکھیں کھول دے۔ اے قادر اور رحیم خدا سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اب تو ان بندوں کو اس اسیری سے رہائی بخش اور صلیب اور خون مسیح کے خیالات سے ان کو بچا لے۔ اے قادر کریم خدا ان کے لئے میری دعا سن اور آسمان سے ان کے دلوں پر ایک نور نازل کر تا وہ تجھے دیکھ لیں ۔ کون خیال کر سکتا ہے کہ وہ تجھے دیکھیں گے کس کے ضمیر میں ہے کہ وہ مخلوق پرستی کو چھوڑ دیں گے اور تیری آواز سنیں گے۔ پر اے خدا تو سب کچھ کر سکتا ہے تو نوح کے دنوں کی طرح ان کو ہلاک مت کر کہ آخر وہ تیرے بندے ہیں بلکہ اُن پر رحم کر اور ان کے دلوں کو سچائی کے قبول کرنے کے کھول دے۔ہر ایک قفل کی تیرے ہاتھ میںکنجی ہے جب کہ تو نے مجھے اس کام کے لئے بھیجا ہے سو میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میںنامرادی سے مروں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ تو نے اپنی وحی سے مجھے وعدے دیئے ہیں ان وعدوں کو تو ضرور پورا کرے گا کیونکہ تو ہمارا خدا صادق خداہے۔ اے میرے رحیم خدا اس دنیا میں میرا بہشت کیا ہے۔ بس یہی کہ تیرے بندے مخلوق پرستی سے نجات پاجائیں سو میرا بہشت مجھے عطا کر اور ان لوگوں کے مردوں اور ان لوگوں کی عورتوں اور ان کے بچوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دے کہ وہ خدا جس کی طرف توریت اور دوسری پاک کتابوں نے بلایا ہے اس سے وہ بے خبر ہیں۔ اے قادر کریم میری سن لے کہ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں۔ اٰمین ثم اٰمین


مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 4


حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر۴
اَلْمَکْتُوْبُ نِصْفُ الْمُلاَقَاتِ
مکتوبات احمدیہ
(۴)
(جلدچہارم)
حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض امام ربانی و مرسل یزدانی
حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات جو آپ نے اپنے ہاتھ سے مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام تحریر فرمائے
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم ورسالہ احمدی خاتون و مرتب تفسیر القرآن و ترجمۃ القرآن و ایڈیٹر حیاۃ النبی (سیرت مسیح موعود) وغیرہ نے جمع کر کے ترتیب دیا۔
اور انوار احمدیہ پریس مدینۃ المسیح قادیان دارالامان میں چھپا
بار دوم جلد۸۰۰ قیمت فی جلد علاوہ محصول ڈاک صرف آٹھ آنے (۸؍)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
عرض حال
الحمد اللّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد الامین خاتم النبیین والہ واصحابہ الطبیبن و علی خلفائہ الراشدین المھدین اما بعدخاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمۂ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کیلئے اسے ایک جوش عطا فرمایا۔ تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات۔ مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے کبھی نکلی ہوں اور وہ کسی منتشر حالت میں ہوں یا یہ اندیشہ ہو کہ وہ نایاب نہ ہو جائیں۔ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے یہ موقع دیا کہ وہ الحکم کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کرسکا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت بڑا کام ہوا۔ پُرانی تحریروں کو جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے پُرانی تحریروں کے سلسلہ ہی میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا۔ خدا کا شکرہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ تک شائع کرنے کی توفیق پائی پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی گئی تھی اُس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کے نام کے مکتوبات درج کروں۔ لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفین اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کوپہلے چھاپ دوں اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں۔ چنانچہ آریوں، ہندوؤں، برہموں کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں۔ پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلصین کی جلد ہے۔ اس کے متعدد حصے ہونگے۔ چنانچہ جس کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے اور حصہ دوم میں حضرت چوہدری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آئندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کاکام ہے۔ احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں اس میں کامیاب ہو جاؤں کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود۔ اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل و آخر حمد ہے۔
سلسلہ عالیہ کا ادنیٰ خدمت گزار
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم
تراب منزل قادیان دارالامان
الحکم آفس ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۹ء
حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ تعالیٰ کے ملفوظات
حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے اُن مشاہیر صحابہ میں سے ہیں جونہ صرف السابقون الاوّلون من المہاجرین کے گروہ میں داخل ہیں بلکہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سلسلہ ہمیشہ ان کے وجود پر اس لحاظ سے فخر کرے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عرفانی نشانوں میں سے ایک ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ ان کی لوح مزار لکھی جس میں فرمایا
کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم
اسی مخدوم ملت کے ملفوظات کو سلسلہ وار چھوٹے چھوٹے رسالوں میں شائع کرنے کا میں نے قصد کیا ہے تا اس نیاز مندی اور محبت کے تعلقات کا اظہار کروں جو مولانا ممدوح سے مجھے ان کی کمال شفقت اور توجہ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں مولانا ممدوح کے خطبات، مکتوبات، ان کی تقریریں اور لیکچر ہوں گے اور ان کی اشاعت کے بعد انشاء اللہ العزیز حیات صوفی یعنی مولانا ممدوح کی سوانح عمری ہوگی۔ لیکچروں کے سلسلہ میں یہ پہلا لیکچر ہے یہ رسالے صرف اسی قدر طبع ہونگے جو نکل سکیں۔ کاغذ اور سامان طباعت کی گرانی مجھے اس وقت تک ۴۰۰ سے زیادہ چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر چالیس احباب اس سلسلہ کے دس دس رسالوںکے مستقل خریدار ہو جائیں تو میں اس تعداد کو دو چند کر دوں گا۔ یہ فرض شناس قوم کے اہل دل احباب اور مخدوم الملۃ کے مخلص دوستوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس سلسلہ کی سرپرستی کریں۔ اس سلسلہ کا پہلا نمبر لیکچر ’’گناہ‘‘ چھپ کر تیار ہو گیا اور اس لیکچر گناہ کے بعد مخدوم الملۃ کا رسالہ القول الفصیح شائع ہو گا۔ قیمت فی رسالہ ۴؍ ہوگی۔ تمام درخواستیں اس پتہ پر ہوں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
کُلیاتِ حَامد
حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی تصنیفات نظم و نثر کا مجموعہ کامل
مارچ ۱۹۱۸ء کے اوائل میں حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے کلیاتِ حامد کی ترتیب و اشاعت کا کام میرے سپرد فرمایا اور اس کے کل اخراجات طبع اپنے ذمے لئے اور فرمایا کہ اخراجات میں دوں گا اور اس کی آمدنی اعانت الحکم میں صرف ہوگی۔ چنانچہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۸ء کے الحکم میں کلیات حامد کا اعلان کیا گیا اور میں نے حضرت شاہ صاحب کے تمام مضامین اور رسائل کو جمع کرنا شروع کیا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ شاہ صاحب کی زندگی میں یہ کام ختم نہ ہو۔ چنانچہ شاہ صاحب ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو تین بجے صبح کے رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور کلیات کا کام ناتمام رہ گیا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اس کو حضرت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی یادگار کے طور پر شائع کروں۔ کلیاتِ حامد میں حضرت شاہ صاحب کی تمام تصانیف اور تمام مضامین نظم و نثر جمع کئے جائیں گے اور اس کے اوّل شاہ صاحب قبلہ کی مختصر لائف مع فوٹو ہوگی۔
حضرت شاہ صاحب سلسلہ احمدیہ کے درخشندہ گوہر اور ممتاز رکن تھے ان کا نام میری کسی معرفی کا محتاج نہیں۔ جماعت کے تمام افراد میں شاہ صاحب اپنی اعلیٰ درجہ کی متقیانہ اور نمونہ کی زندگی کے باعث نمایاں تھے میں ان کے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مخدوم بزرگ کی یادگار قائم رکھنے میں مدد دیں سالانہ جلسہ تک کلیات حامد کی ایک جلد شائع کرنا چاہتا ہوں یہ دو جلدوں میںہوگی پہلا حصہ نثر کا اور دوسرا نظم کا ہوگا۔ مکمل کلیات حامد کی قیمت ۸؍ ہوگی۔ اگر ایک سَو احباب صرف چار چار جلدیں خرید لیں اور پیشگی قیمت بھیج دیں تو اس کام میں سہولت اور آسانی پیداہو سکتی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا پورا کرنے کی توفیق دے گا۔ سالانہ جلسے تک انشاء اللہ یہ مجموعہ شائع ہو سکے گا۔وباللہ التوفیق۔تمام درخواستیں ذیل کے پتہ پر آنی چاہئیں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد چہارم۴
مکتوبات احمدیہ جلد چہارم میں ان مکتوبات کے اندراج کا ارادہ کیا گیا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف اوقات میں مخالف الرائے علماء اور صوفیاء کو لکھے تھے لیکن ان تمام مخالفین میں سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام اس قدر خطوط ہیں کہ مناسب معلوم ہوا صرف مولوی محمد حسین کے نام کے خطوط کی ایک جداگانہ جلد تربیت دی جاوے۔ میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ ان خطوط پر مناسب موقعہ حواشی لکھتا چونکہ پہلی جلدوں میں یہ التزام نہیں کیاگیا۔ اس موقعہ پر بھی میں نے اصل خطوط ہی کو شائع کر دینا مناسب سمجھا ہے جن جملوں یا الفاظ کو میں نے جلی کر دیا ہے وہ پڑھنے والوں کی خاص توجہ چاہتے ہیں۔
علاوہ بریں بعض جگہ میں نے مناسب سمجھا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کے اُن خطوط کو حاشیہ میں درج کر دوں جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گرامی نامہ لکھا ہے۔ ہاں اتنا میں شروع میں عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خطوط میں ناظرین دیکھیں گے کہ کس انکساری، فروتنی اور خدا ترسی سے کام لیا گیا ہے اور برخلاف اس کے مولوی محمد حسین کے خطوط میں تیزی اور جوش تدریجاً بڑھتا گیا ہے۔ (ایڈیٹر)



جواب نمبر۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مخدومی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ عاجز کی طبیعت علیل ہے۔ اخویم منشی عبدالحق صاحب کو تاکید فرماویں کہ جہاں تک جلد ممکن ہو معمولی گولیاں ارسال فرمائیں۔ توجہ سے کہہ دیں۔ افسوس کہ میری علالت طبع کے وقت آپ عیادت کیلئے بھی نہیں آئے اور آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ’’ہاں‘‘ کافی سمجھتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
(غلام احمد ۵؍ فروری ۱۸۹۱ء)
جواب نمبر۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اگرچہ خداوند کریم خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز اُس کی طرف سے مامور ہے اور ایسے امور میں جہاں عوام کے فتنے کا اندیشہ ہے۔ جب تک کامل اور قطعی اور یقینی طور پر اس عاجز پر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ ہرگز زبان پر نہیں لاتا لیکن اس میں کچھ حکمت خداوند کریم کی ہوگی کہ اس نزول مسیح کے مسئلے میں جس کو اصل اور لب اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور ایک مسلمان پر اُس کی اصل حقیقت کھولی گئی ہے۔ جس پر بوجہ اخوت حسن ظن بھی کرنا چاہئے۔ آنمکرم کو مخالفانہ تحریر کے لئے جوش دیا گیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کی اِس میں نیت بخیر ہوگی۔ اور اگرچہ مجھے آپ کے استعجال کی نسبت شکایت ہو اور اس کو روبرو یا غائبانہ بیان بھی کروں۔ مگر آپ کی نیت کی نسبت مجھے حسن ظن ہے اور آپ کو زمانہ حال کے اکثر علماء بلکہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو بعض للّہی جدوجہد کے کاموں کے لحاظ سے مولوی نذیر حسین صاحب سے بھی بہتر سمجھتا ہوں اور اگرچہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تا ہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے۔ اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا مجھے فتح اور شکست سے بھی کچھ تعلق نہیں بلکہ عبودیت و اطاعت سے غرض ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی۔ لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں۔ مجھے اِس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔ کیونکہ یہ مخالفت رائے بھی حق کے لئے ہوگی۔ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔ ان معی ربّ سیھدین۔ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا۔ میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے۔ حضرت موسیٰ کی جو آپ نے مثل لکھی ہے اشارۃ النص پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ موسیٰ نے کیا۔ اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارف روحانیہ اور عجائبات مخفیہ کے کھلنے کے شائق ہیں۔ حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے اگر آپ بٹالے میں آ جائیں تو اگرچہ میں بیمار ہوں اور دوران سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں۔ بقول رنگین
وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگین
اس میں کیا تیری شان جاتی ہے
ازالۃ الاوہام ابھی چھپ کر نہیں آیا۔ فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں۔
(الراقم غلام احمد از قادیان)
جواب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محبت نامہ پہنچا چونکہ آنمکرم عزم پختہ کر چکے ہیں تو پھر میں کیا عرض کر سکتا ہوں۔ اس عاجز کی طبیعت بیمار ہے۔ دوران سر اور ضعف بہت ہے۔ ایسی طاقت نہیں کہ کثرت سے بات کروں جس حالت میں آنمکرم کسی طور سے اپنے ارادہ سے باز نہیں رہ سکتے اور ایسا ہی یہ عاجز اس بصیرت اور علم سے اپنے تئیں نابینا نہیں کر سکتا جوحضرت احدیت جل شانہٗ نے بخشا ہے۔ اس صورت میں گفتگو عبث ہے۔ رسالہ ابھی کسی قدر باقی ہے ناقص کو میں بھیج نہیں سکتا۔ اس جگہ آنے کیلئے آنمکرم کو یہ عاجز تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ مگر ۲۶؍ فروری ۱۸۹۱ء کو یہ عاجز انشاء اللہ القدیر لودیانہ کے ارادہ سے بٹالہ میں پہنچے گا۔ وہاں صرف آپ کی ملاقات کرنے کا شوق ہے گفتگو کی ضرورت نہیں اور یہ عاجز للہ آپ کے ان الفاظ کے استعمال سے جو مخالفانہ تحریر کی حالت میں کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یا اپنے بھائی کی تذلیل اور بدگمانی تک نوبت پہنچاتے ہیں معاف کرتاہے۔ واللّٰہ علی ماقلت شہید
چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا گیا ہے مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمدحسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کر کے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سرخی میری نسبت ’’تحمیذ‘‘ رکھی ہے۔معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کرکہا ہے کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ ھذا مارایت واللّٰہ اعلم بتاویلہ
چونکہ حتی الوسع خواب کی تصدیق کیلئے کوشش مسنون ہے اس لئے میں آنمکرم کو منع کرتا ہوں کہ آپ اس ارادہ سے دست کش رہیں۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں اور اگر صادق نہیں تو پھر ۱؎کی تہدید پیش آنے والی ہے۔ لاتقف ما لیس
۱؎ المومن: ۲۹
لک بہٖ علم ولا تدخل نفسک فیما لا تعلم حقیقۃ یا اخی وافوض امری الی اللّٰہ یوتک اجر صبرک یا اخی وانا انظر الی السماء وارجوتائید اللّٰہ واعلم من اللّٰہ مالاتعلمون۔
والسلام علی من اتبع الھدی
حضرت اخویم حبی فی سبیل اللہ مولوی حکیم نورالدین اور آنمکرم کی تحریرات میں یہ عاجز دخل دینا نہیں چاہتا۔ (خاکسار غلام احمد)
جواب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ بخدمت محبی اخویم مکرم ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا چونکہ یہ عاجز اپنی دانست میں ناتمام مضمون ازالۃ الاوہام کا آنمکرم کو دکھلانا مناسب نہیں سمجھتا اس لئے اجازت نہیں دے سکتا۔ مگر اس عاجز کی رائے میں صرف بیس پچیس روز تک رسالہ ازالۃ الاوہام چھپ جائے گا کچھ بہت دیر نہیں ہے۔ پھر انشاء اللہ القدیر سب سے پہلے یہ عاجز آنمکرم کی خدمت میں بھیج دے گا۔ آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت ان رسالوں میں کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ بلا کم و بیش یہ وہی دعویٰ ہے جس کا براہین احمدیہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے۔ جس کی آنمکرم نے اپنے رسالہ اشاعت السنۃ میں امکانی طور پر تصدیق کر چکے ہیں۔ پھر متعجب ہوں کہ اب پھر دوسری مرتبہ آنمکرم کو دیکھنے کی حاجت ہی کیا ہے کیا وہی کافی نہیں۔ جو پہلے آنمکرم اشاعۃ السنۃ نمبر۶ جلد۷ میں تحریر فرما چکے ہیں جبکہ اوّل سے آخر تک وہی دعویٰ وہی مضمون وہی بات ہے تو پھر آپ جیسے محقق کی نگاہ میں نہ معلوم ہو۔ کس قدر تعجب ہے۔
یہ عاجز رسالہ ازالۃ الاوہام میں آنمکرم کے ریویو کی بعض عبارتیں درج بھی کر چکا ہے اس عاجر نے جو ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو خواب دیکھی تھی اُس کی سرخی ’’کمینہ‘‘ تھا۔ جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
پھر بھی میں آنمکرم کو للہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس سماوی امر میں آپ کا دخل دینا مناسب نہیں۔ مثیل مسیح کا دعویٰ کوئی امر عند الشرع مستبعد نہیں۔
اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اس عاجز کی دانست میں اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے مقابل آپ کی تحریر میں کسی قدر سختی تھی۔ خدا تعالیٰ انکسار اور تذلل کو پسند کرتا ہے اور علماء کے اخلاق اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے اعلیٰ درجے کے چاہئیں۔ جس دین کی حمایت اور ہمدردی کے لئے دن رات کوششیں ہو رہی ہیں وہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ اللہ اور رسول کی منشاء کے موافق ہمارے جمیع احوال و افعال و حرکات سکنات ہو جائیں۔
میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور فروتنی اور انکسار اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے ایسا کوئی شعبہ خلق کا اس کو پسند نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے ۱؎ پر عمل کیا مگر چونکہ وہ ایک شخض کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رفق چاہئے رفق۔ اور اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز اور ہمارا علم کیا چیز۔ اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی۔ ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسے ہم درحقیقت خاکسار ہیں۔ خاک ہی بنے رہیں۔ جب کہ ہمارا مولیٰ ہم سے تکبر اور نخوت پسند نہیں کرتا تو کیوں کریں۔ ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے جس سے ہم مورد عتاب ہو جائیں۔
آپ کی تحریر اگر اس طرح پر ہوتی کہ جس قدر خداوند تعالیٰ نے میرے پر کھولا ہے۔ اگر آپ مہربانی فرما کر ملیں یا میں ملوں۔ تو بیان کرونگا تو کیا اچھا ہوتا۔
یہ قاعدہ ہے کہ جس حالت اندرونی سے انسان کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں وہی رنگ الفاظ میں بھی آ جاتا ہے۔
میں نے اس فیصلہ میں مولوی نورالدین صاحب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور محض للہ آنمکرم کی خدمت میں عرض کی گئی ہے۔ اس عاجز کو پختہ طور پر معلوم نہیں کہ کس تاریخ اس جگہ سے یہ عاجز روانہ ہو۔ بعض موانع پیش آگئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ شاید ایک ہفتہ کے اندر اندر وانہ ہو جاؤں اس صورت میں بالفعل ملاقات مشکل معلوم ہوتی ہے لہٰذا اطلاعاً آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ اس عاجز کیلئے بٹالہ میں تشریف نہ لاویں کیونکہ کوئی پختہ معلوم نہیں جس وقت خدا تعالیٰ چاہے گا ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
( خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۳؍فروری ۱۸۹۱ء)
جواب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی اخویم مولوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج لدہیانہ میں آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا بظاہر مجھے گفتگو میں کچھ فائدہ معلوم نہیں دیتا۔ مجھے خداتعالیٰ نے ایک علم بخشا ہے جس کومیں چھوڑ نہیں سکتا۔ ایسا ہی آپ بھی اپنی رائے کو چھوڑنے والے نہیں مجھے ایک ایسا سبیل بخشا گیا ہے جو معرض بحث میں نہیں آ سکتا۔ ولیس الخیر کالمعانیۃ ۱؎
ہاں اس نیت سے میں مجلس علما میں حاضر ہو سکتا ہوں کہ شاید خداتعالیٰ حاضرین میں سے کسی کے دل کو اس سچائی کی طرف کھینچے جو اس نے اس عاجز پر ظاہر کی ہے سو اگر شرائط مندرجہ ذیل آپ قبول فرماویں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں۔
(۱) اس مجمع میں حاضر ہونے والے صرف چند ایسے مولوی صاحب نہ ہوں جو مدعی کا حکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے بجز اُس صورت کے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے کہ میں ان کے خیالات و اجتہادات کا اتباع کروں اور میری طرف سے بار بار ان کو یہی جواب ہے کہ۲؎ اگر یہ مجمع کسی قدر عام مجمع ہوگا اور ہر ایک مذاق اور طبیعت کے آدمی اس میں ہوں گے تو شاید کوئی دل حق کی طرف توجہ کرے اور مجھے اس کا ثواب ملے سو میں چاہتا ہوں کہ یہ مجلس صرف چند مولوی صاحبوں میں محدود نہ ہو۔
(۲)دوسری شرط یہ ہے کہ یہ بحث جو محض اظہار اللحق ہوگی تحریری ہو کیونکہ بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ صرف زبانی باتیں کرنا آخر منجر بفتنہ ہوتی ہیں اور بجز حاضرین کے دوسروں کو ان کی نسبت رائے لگانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا اور کیسی ہی عمدہ اور محققانہ باتیں ہوں جلدی بھول جاتی ہیں اور جن لوگوں کو غلو یا دروغ بیانی کی عادت ہے خواہ وہ کسی گروہ کے ہیں ان کوجھوٹ بولنے کیلئے بہت سی گنجائش نکل آتی ہے کوئی شخص محنت اُٹھا کر اور ہر ایک قسم کے اخراجات سفر کا متحمل ہو کر اور بہت سی مغز خواری کرنے کے بعد کب روا رکھ سکتا ہے کہ غیر منتظم فریق کی وجہ سے تمام محنت اس کی ضائع جائے اور طالب حق کو اس کی تقریر سے فائدہ نہ پہنچ سکے سو تحریری بحث کا ہونا ایک شرط ہے۔
(۳) اس مجمع بحث میں وہ الہامی گروہ بھی ضرور شامل چاہئے۔ جنہوں نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس عاجز کو جہنمی ٹھہرایا ہے اور ایسا کافر جو ہدایت پذیر نہیں ہو سکتا اور مباہلہ کی درخواست کی ہے۔ الہام کی رو سے کافر اور ملحد ٹھہرانے والے تو میاں مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے ہیں۔ اور جہنمی ٹھہرانے والے میاں عبدالحق غزنوی ہیں۔ جن کے الہامات کے مصدق و پیرو میاں مولوی عبدالجبار ہیں۔ سو ان تینوں کا جلسہ بحث میں حاضر ہونا ضروری ہے تا کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی قضیہ طے ہو جائے اور اگر مولوی صاحب باہم مسلمانوں کے مباہلہ کو صورت پیش آمدہ میں ناجائز قرار نہ دیں تو مباہلہ بھی اسی مجلس میں ہو جائے کیونکہ یہ عاجز اکثر بیمار رہتا ہے۔ بار بار سفر کی طاقت نہیں۔
(۴) یہ کہ تحریری بحث کیلئے تمام مخالف الرائے مولوی صاحبوں کی طرف سے آپ منتخب ہوں۔ کیونکہ یہ عاجز نہیں چاہتا کہ خواہ نخواہ لعن طعن ہو اور تو تو میں میں متفرق لوگوں کا سُنے۔ ایک مہذب اور شائستہ آدمی تحریری طور پر سوالات پیش کرے۔ کہ اس عاجز کے اس دعویٰ میں جس کے الہام الٰہی پر بنا ہے۔ کیا خرابیاں ہیں اور کیا وجہ ہے کہ اس کو قبول نہ کیا جاوے۔ سو اس عاجز کی دانست میں اس کام کیلئے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں۔
(۵) یہ آپ کا اختیار ہے کہ جس تاریخ میں آپ گنجائش سمجھے مجھے اور اخویم مولوی نورالدین صاحب کو اطلاع دیں۔ چونکہ یہ عاجز بیمار ہے اور مرض صدر و دَوار سے لاچار اور ضعیف بہت ہے۔ اس لئے اخویم مولوی نورالدین صاحب کا شامل آنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس عاجز کی طبیعت زیادہ علیل ہو جائے جیسا کہ اکثر دورہ مرض کا ہوتا رہتا ہے اور زیادہ بات کرنے سے سخت دورہ مرض کا ہوتا ہے اس صورت میں مولوی صاحب موصوف حسب منشاء اس عاجز کے مناسب وقت کارروائی کر سکتے ہیں۔
(۶)اگر آپ ہندوستان کی طرف سفر کرنا چاہتے ہیں تو لدھیانہ راہ میں ہے کیا بہتر نہیں کہ لدہیانہ میں ہی یہ مجلس قرار پائے یہ عاجز بیمار ہے حاضری سے عذر کچھ نہیں مگر ایسی صورت میں مجھے بیماری کی حالت میں شدائد سفر اُٹھانے سے امن رہے گا۔ ورنہ جس جگہ غزنوی صاحبان اور مولوی عبدالرحمن (اس عاجز کو ملحد اور کافر قرار دینے والے) یہ جلسہ منعقد ہونا مناسب سمجھیں تو اسی جگہ یہ عاجز حاضر ہو سکتا ہے۔ والسلام
مکرر یہ کہ ۲۳؍ مارچ ۹۱ء تاریخ جلسہ مقرر ہوگئی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ بمقام امرتسر یہ جلسہ ہو۔ اشتہارات عام طور پر اپنے واقف کاروں میں یہ عاجز شائع کر دے گا ایسا ہی آپ کو بھی اختیار ہے آپ بواپسی ڈاک جواب سے مطلع فرماویں کہ جواب کا انتظار ہے۔
خاکسار۔ غلام احمد از لدہیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شہزادہ غلام حیدر ۸؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نمبر ۶
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اس عاجز کے لئے بڑی مشکل کی بات یہ ہے کہ طبیعت اکثر دفعہ ناگہانی طور پر ایسی علیل ہو جاتی ہے کہ موت سامنے نظر آتی ہے اور کچھ کچھ علالت تو دن رات شامل حال ہے اگر زیادہ گفتگو کروں تو دورہ مرض شروع ہو جاتا ہے اگر زیادہ فکر کروں تو وہی دورہ شامل حال ہے چونکہ آپ کا آخری خط آیا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بشمولیت مولوی عبدالجبار صاحب لکھا گیا ہے اس لئے جواب اس طرز سے لکھا گیا تھا یہ عاجز غلبہ مرض سے بالکل نکما ہو رہا ہے یہ طاقت کہاں ہے کہ مباحث تقریری یا تحریری شروع کروں محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تینوں رسالے لکھے گئے اور وہ بھی اس طرح سے کہ اکثر دوسرا شخص اس عاجز کی تقریر کو لکھتا گیا اور نہایت کم اتفاق ہوا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا ہو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ عبارت کو عمدگی سے درست کر دیا جاوے۔ آپ کے معلومات حدیث میں بہت وسیع ہیں یہ عاجز ایک اُمی اور جاہل آدمی ہے نہ عبادت ہے، نہ ریاضت، نہ علم، نہ لیاقت، غرض کچھ بھی چیز نہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امر تھا اور قطعی اور یقینی تھا اس عاجز نے پہنچا دیا ماننا نہ ماننا اپنی اپنی رائے اور سمجھ پر موقوف ہے درحقیقت میرے لئے یہ کافی تھا کہ میں صرف الہام الٰہی کو ظاہر کرتا لیکن میں نے اپنے رسالوں میں قال اللہ اور قال الرسول کا بیان اس لئے کچھ مختصر سا کر دیا ہے کہ شاید لوگ اس سے نفع اُٹھاویں مجھے اس سے کچھ بھی انکار نہیں کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو اس کی روحانی حالت کے لحاظ سے درحقیقت مسیح بنا کر دمشق کی مشرقی طرف اسی طور سے اُتار دے جیسے مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا اُترتے ہیں کچھ تعجب نہیں کہ اس زمانے میں دجال بھی ہو حضرت مہدی بھی ہوں اور پھر اسلام میں سیفی طاقت پیدا ہو جائے اور تمام لوگ مسلمان ہو جاویں مگر جو خداتعالیٰ نے اس عاجز پر کھولا ہے صرف اتنا ہے کہ یہ عاجز روحانی طور پر مثیل مسیح ہے اور روحانی طور پر موعود بھی ہے اور نیز یہ کہ کوئی مسیح آسمان سے خاکی وجود کے ساتھ اُترنے والا نہیں۔ ظلّی اور مثالی طور پر مسیح کے آنے سے مجھے انکار نہیں بلکہ ایک کیا ایک ہزار مسیح بھی کہا جائے تو میرے نزدیک ممکن ہے میرے نزدیک احادیث صحیحہ بھی حقیقی طور پر مسیح کے اُترنے کے بارے میں وہ زور نہیں دیتیں جو آج کل کے علماء خیال کر رہے ہیں مسیح کا اُترنا سچ مگر ظلی اور مثالی طور پر۔
مولوی عبدالرحمن صاحب اپنے الہامات کے حوالہ سے اس عاجز کو ضال و مضل قرار دے چکے ہیں اور ایسا کافر کہ جس کو کبھی ہدایت نہیں ہوگی اور میاں عبدالحق غزنوی بھی اپنے الہام کے حوالہ سے اس عاجز کو جہنمی قرار دے چکے ہیں اور مولوی عبدالجبار صاحب فرماتے ہیں کہ جو کچھ میاں عبدالحق صاحب کے الہام ہیں میں اُن پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ صحیح اور درست ہیں اب آپ کے کہنے سے وہ کیا سمجھیں گے اور آپ انہیں کیا سمجھائیں گے یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جس طرح چاہے گا اس کی راہ پیدا کر دے گا اگر آپ کی ملاقات ہو تو میں خوشی سے چاہتا ہوں مگر آپ کے آنے کا کرایہ میرے ذمے رہے میں آپ کو مالی تکلیف دینی نہیں چاہتا یہ بہتر ہے کہ آپ اس جگہ آ جائیں بہرحال ملاقات کی خوشی تو اس بیماری کی حالت میں ہوگی۔ ازالۃ الاوہام عنقریب تیار ہوتا ہے بھیج دوں گا ابھی کچھ باقی ہے۔ والسلام
(غلام احمد)
نمبر۷
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا اور اس کے پڑھنے سے مجھ کو بہت ہی افسوس ہوا کہ آپ مکالات الٰہیہ کے امر کو لہو ولعب میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس عاجز نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۸ و ۴۹۹ میں اس ظاہری عقیدے کی پابندی سے جو مسلمانوں میں مشہور ہے یہ عبارت لکھی ہے کہ یہ آیت حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوندکریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو شریک رکھا ہے فقط ان عبارتوں کو اس کے لئے دستاویز ٹھہرانا کہ براہین میں اوّل یہ اقرار ہے اور پھر اس کے مخالف یہ دعویٰ اور ایسا خیال سراسرغلط اور دور از حقیقت ہے۔
اے میرے عزیز دوست اس عاجز کے اس دعویٰ کی جو فتح اسلام میں شائع کیا گیا ہے اپنے علم اور عقل پر بنا نہیں تا ان دونوں بیانات میں بوجہ اتحاد بناء صورت میں تناقض پیدا ہو بلکہ براہین کی مذکورہ بالا عبارتیں تو صرف اس ظاہری عقیدے کے رو سے ہیں جو سرسری طور پر عام طور پر اس زمانہ کے مسلمان مانتے ہیں اور اس دعویٰ کی بنا الہام الٰہی اور وحی ربّانی پر ہے پھر تناقض کے کیا معنے ہیں۔ میں خود یہ مانتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی امر پر بذریعہ اپنے خاص الہام کے مجھے آگاہ نہ کرے میں خود بخود آگاہ نہیں ہو سکتا اور یہ امر میرے لئے کچھ خاص نہیں اس کی نظیریں انبیاء کی سوانح میں بہت ہیں ملہم لوگ بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے لاعلم لی الا ما علّمنی ربی بلکہ خدا تعالیٰ کا سمجھانا بھی جب تک صاف طور پر نہ ہو انسان ضعیف البیان اس میں بھی دھوکا کھا سکتا ہے۔
فذھب وھلی۱؎ کی حدیث آپ کو یاد ہی ہوگی۔
اب خدا تعالیٰ نے فتح اسلام کی تالیف کے وقت مجھے سمجھا یا تب میں سمجھا اِس سے پہلے کوئی اس بارے میں الہام نہیں ہوا کہ درحقیقت وہی مسیح آسمان سے اُتر آئے گا اگر ہے تو آپ کو پیش کرنا چاہئے ہاں یہ عاجز روحانی طور پر مثیل موعود ہونے کا براہین میں دعویٰ کر چکا ہے جیسا کہ اسی
۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدید نمبر۳۴۲۵
صفحہ۴۹۸ میں موعود ہونے کی نسبت یہ اشارہ ہے صدق اللّٰہ و رسولہ چونکہ آپ نے اپنے ریویو میں اس دعویٰ کا ردّ نہیں کیا اس لئے اپنے اس معرض بیان میں سکونت اختیار کر کے۔ اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر مان لیا۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارہ کچھ بھی ذکر نہیں کیا صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر دیا تھا آپ کو اس جگہ اسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی بعض اعمال میں جب وحی نازل نہیں ہوتی تھی انبیاء بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتداد کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے۔ مجھے نہایت تعجب ہے کہ آپ یہی طریق انصاف پسندی کا قرار دیتے ہیں کیا اس عاجز نے کسی جگہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا ہر ایک نطق وحی اور الہام میں داخل ہے اگر آپ طریق فیصلہ سے اسی کو ٹھہراتے ہیں تو بسم اللہ میرے رسالہ کا جواب لکھنا شروع کیجئے۔ آخر حق کو فتح ہوگی۔ میں نے آپ کو ایک صلاح دی تھی کہ عام جلسہ علماء کا بمقام امرتسر منعقد ہو اور ہم دونوں حجۃ للہ و اظہارً اللحق اس جلسہ میں تحریری طور پر اپنی اپنی وجوہات بیان کریں اور پھر وہی وجوہات حاضرین کو پڑھ کر سنا دیں اور وہی آپ کے رسالہ میں چھپ جائیں دور نزدیک کے لوگ خود دیکھ لیں گے جس حالت میں آپ اس کام کے لئے ایسے سرگرم ہیں کہ کسی طرح رُکنے میں نہیں آتے اور جب تک اشاعۃ السنۃ میں عام طور پر اپنے مخالفانہ خیال کو شائع نہ کر دیں صبر نہیں کر سکتے تو کیا اِس تحریری مباحثہ میں کسی فریق کی کسر شان ہے۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس جلسہ میں خاک کی طرح متواضع ہو کر حاضر ہو جاؤں گااور اگر کوئی اسی سخت دشنامی بھی کرے جو انتہا تک پہنچ گئے ہو تو میں اس پر بھی صبر کروں گا اور سراسر تہذیب اور نرمی سے تحریر کروں گا خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے جو اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے۔
اگر آپ مجھے اب بھی اجازت دیں تو میں اشتہارات سے اس جلسہ کیلئے عام طور پر خبر کر دوں اب میری دانست میں خفیہ طور پر آپ کا مجھ سے ذکر کرنا مناسب نہیں جب آپ بہرحال اشاعت پر مستعد ہیں تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں۔ وماقول الاللّٰہ والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
محلہ اقبال گنج ۱۴؍مارچ ۹۱ء
نمبر ۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
از عایذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدہ
بخدمت اخویم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ یا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے۔ پہنچا۔ اے عزیر شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتحمند کون ہونے والا ہے اور شکست کھانے والاکون ہے جو آسمان پر قرار پا گیا ہے وہی زمین پر ہوگا گو دیرسے ہی سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر یہ گمان کر لیا حبی فی اللہ مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے۔ آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے۔ اصل بات تو اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبدالرحمن اس جگہ آئے ہوئے ہیں ہم نے ان کو دو تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تا کہ ان کے روبُرو ہم بعض مشبہات اپنے آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھ کہ ہم اس مجلس میں مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے چونکہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور میں پہنچے اور منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر اُترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا۔ تب مولوی عبدالرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا۔ یہ سلسلہ تو دو برس تک بھی ختم نہیں ہوگا۔ آپ خود ہمارے سوالات کا جواب دیجئے۔ ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کر دی۔ یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراح صدر آواز سے کہا کہ اے حاضرین میری تومِن کل الوجود تسلی ہوگئی اور میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبدالحق صاحب و منشی امیر دین صاحب اور مرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر اُن سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہہ دل سے قائل ہوگئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرانے کیلئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بکلّی تسلی ہوگئی آپ بلاجرح تشریف لے جائیے سو انہوں نے ہی بلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا آپ کا تو درمیان قدم ہی نہ تھا پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے آپ خود انصاف فرماویں جب کہ ان سب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بلانا نہیں چاہتے ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو تھے جنہوں نے مولوی صاحب کو لدہیانہ سے بُلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے کیا آپ نہیں سمجھ سکتے اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسروچشم حاضر ہے مگر تقریری بحثوں میں صدہا طرح کا فتنہ ہوتا ہے صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں ہو کہ مساوی طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآوازبلند سناویں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سنا دوں ان دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارہ میں نہ کرے جو کچھ ہو تحریر میں ہو اور پرچے صرف دو ہوں اوّل آپ کی طرف سے ایک چورقہ پرچہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعویٰ کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ردّ لکھیں اور پھر دوسرا پرچہ چورقہ اس تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں اللہ جلشانہٗ کے فضل و توفیق سے ردّ الرد لکھوں اور انہوں دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور میں آ سکتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کیلئے انتظام کرا دوں گا یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے۔ اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز تصور ہوگی۔
راقم خاکسار
غلام احمد از لدھیانہ
محلہ اقبال گنج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء
مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کیلئے آپ پسند کر لیں اس قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جائے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور آنمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچے صرف دو ہوں گے اوّل آپ کی طرف سے ان دونوں بیانات کا ردّ ہوگا جو میں نے لکھا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں پھر اس ردّکے ردّ الردّ کیلئے میری طرف سے تحریر ہوگی۔ غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگاکہ جو کچھ ان دعاوی کے بطلان کیلئےآپ کے پاس ذخیرۂ نصوص قرآنیہ و حدیثہ موجود ہے وہ آپ پیش کریں پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہئے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جس کے انصاف پر بنا اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ آخری تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز کوئی تحریر یا کوئی خط میری طرف نہ لکھیں اگر پوری اور کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اس حالت میں جواب تحریر فرماویں ورنہ نہیں۔
آج بھوپال سے ایک کارڈ مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۹۱ء اخویم مولوی محمد احسن صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمانہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہوگیا آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں کی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے آپ بلارویت مرزا پر ایمان لے آئے آپ ذرا ایک دفعہ آ کر اس کو دیکھ تو لیں تَسْمَعُ بِالبعید سے خَیْرٌ مِنْ أنْ امراہ اشاعت السنۃ میں اب ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے فقط حضرت مولوی صاحب من آنم کہ من دانم۔ آپ جہاں تک ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے میں کہتا ہوں اور میری شان کیا بے شک آپ جو چاہیں لکھیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں۔ ربی یسمیع ویری
والسلام علی من اتبع الھدی۔
خاکسار
غلام احمد
آج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کے انتظار رہیں گے اگر ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہی خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار میں شائع کر دیا جاوے گا۔ فقط
مرزا غلام احمد
بقلم خود
۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء
۹
از عاجز عائذ باللہ الصمد مرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ۔
بخدمت اخویم مکرم مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ باعث تعجب ہوا آپ نہ تو اظہارِحق کی غرض سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور نہ اس جوش بے اصل سے باز رہ سکتے ہیں۔ عزیز من رحمکم اللہ یہ عاجز آپ کو کوئی الزام دینا نہیں چاہتا مگر آپ ہی کا قول و فعل آپ کو الزام دے رہا ہے آپ کا آدھی رات کو تار پہنچا کہ ابھی آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے کس قدر آپ کی تار پود سے مخالف ہے جو آپ اب پھیلا رہے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے بحث کرنے کیلئے بذریعہ تار بلایا پھر آپ گریز کر گئے اور اب آپ کاخط مشت بعد از جنگ کا نمونہ ہے فضول باتوں کو پیش کر کے اور بھی تعجب میں ڈالتا ہے چنانچہ ذیل میں آپ کے اقوال کا جواب دیتا ہوں۔
قولہ: دو باتیں جن سے آپ کو ڈھیل دیتاہوں لکھتا ہوں۔
اقول: حضرت یہ تو آپ حیلہ حوالہ سے اپنے تئیں ڈھیل دے رہے ہیں میں نے کب کہا تھا کہ مجھے ڈھیل دیں آپ کی آدھی رات کو تار آئی میں تیار ہو گیا آپ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کیلئے خرچ دے کر بلاتوقف اپنا آدمی روانہ کیا۔ بحث منظور کر لی سب انتظام مجلس اپنے ذمہ لے لیا مگر آپ ہماری تیاری کا نام سنتے ہی کنارہ کش ہوگئے اب سوچیں کہ کیا میں نے بحث کو ڈھیل میں ڈال دیا یا آپ نے اگر میں آپ ہی لاہور میں پہنچتا تو کس قدر تکلیف ہوتی آپ کی اس حرکت نے نہ صرف آپ کو شرمندہ کیا بلکہ آپ کی تمام عقلمند پارٹی کو خجالت کا حصہ دیا اس کنارہ کشی کا آپ پر بڑا بار ہے کہ جو بودے عذروں سے دُور نہیں ہو سکتا آپ نے ناگوار طریقہ سے مقابل پر آنے کی دھمکی تو دی مگر آخر آپ ہی نہ ٹھہر سکے کیا اس دعویٰ کے ساتھ جو آپ کو بھی گریز ہے آپ کی علمی وجاہت پر دھبہ نہیں لگاتے۔
قولہ: اگر آپ عین مباحثہ کے جلسہ میں اصول کی تمہید و تسلیم سے ڈریں تو میں اُن اصول کو آپ کے پاس وہاں بھیج دیتا ہوں تا آپ کو آپ کے سمجھنے کیلئے کافی مہلت مل جائے۔ ناگہانی ابتلا سے بچ جائیں اور وہ حال نہ ہو جو آپ کے حواری کا ہوا۔
اقول: حضرت آپ کو خود مناسب ہے کہ آپ ان اصولوں سے ڈریں کوئی عقلمند ان بیہودہ باتوں سے ڈر نہیں سکتا اور میں تو آپ کے ان اصولوں کو محض لغو سمجھتا ہوں اور ایسے لغویات کی طرف سے مجھے یہ آیت روکتی ہے جو اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔ ۱؎ اور نیز یہ حدیث نبوی کہ من حسن الاسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۲؎
یہ بات ظاہر ہے کہ جو بات ضرورت سے خارج ہے وہ لغو ہے اب دیکھنا چاہئے کہ اس بحث کے لئے شرعی طور پر آپ کو کس بات کی ضرورت ہے سو ادنیٰ تامل سے ظاہر ہوگا کہ آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعویٰ کرا دیں سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعویٰ نہیں۔ آپ پر مخفی ہو اور وہ دعویٰ یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت فوت ہوگئے۔ پس سو اس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعۃ السنۃ میں امکانی طو رپر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کراتا اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ جلشانہٗ میری مدد کرے گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا۔
رہا ابن مریم کا فوت ہونا سو فوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے جو پیدا ہوا وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڈھا ہو کر مرے گا جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتے ہیں۳؎ پس جب کہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہونے کے دلائل لکھوں اور ان کا فوت ہونا تو میں بیان ہی کر چکا۔ تو اب اگر میں آپ سے پہلے لکھوں تو فرمائیے کیا لکھوں یہ تو آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کیلئے پہلے آپ قلم اُٹھائیں اور آیات اور احادیث سے ثابت کر دکھائیں کہ سارا جہان تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم ؐبھی وفات پاگئے مگر مسیح اب تک وفات پانے سے باقی رہا ہوا ہے۔ کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ داب مناظرہ کیا ہے۔
اب یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی دوسری سب بحثیں مسیح کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کے فرع ہیں۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیر قوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو۔
اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب کب آپ کے بلائے لاہور میں گئے تھے جنہوں نے بلایا انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے اپنی پوری تسلی کرالی اور آپ کے ان لغو اصولوں سے بیزاری ظاہر کی تو پھر اگر مولوی صاحب آپ سے اعراض نہ کرتے تو اور کیا کرتے اعراض کا نام آپ نے فرار رکھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے دست بدست آپ کو دکھا دیا کہ فرار کس سے ظہور میں آیا۔ یہ مولوی صاحب کی راستبازی کی کرامت ہے جس نے آپ پر یہ مصرعہ سچا کر دیا۔ ع
مرا خواندی و خود بدام آمدی
قولہ: اگر آپ میری اس شرط کو قبول نہ کریں اور مباحثہ سے پہلے ازالہ اوہام بھیج نہ سکیں تو میں
۱؎ المؤمنون: ۴ ۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث نمبر۳۹۷۶
۳؎ النحل: ۷۱
اس شرط کی تسلیم سے آپ کو بری کرتا ہوں بشرطیکہ پہلی تحریرات آپ کی ہوں اور بعد میں میری۔
اقول: حضرت آپ ازالہ اوہام کے اکثر اوراق دیکھ چکے اب مجھے کس شرـط سے بری کرتے ہو اور میں ابھی ثابت کر چکا ہوں کہ پہلے تحریر کرنا آپ کا ذمہ ہے۔ اب دیکھئے یہ آپ کا آخری ہتھیار بھی خطا گیا۔ عنقریب یہ آپ کا خط بھی بذریعہ اخبارات پبلک کے سامنے پیش کیا جاوے گا تا لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی تحریرات کہاں تک راستی اور حق پسندی اور حق طلبی ہے۔
بالآخر ایک مثال بھی سنیئے زید ایک مفقود الخبر ہے۔ جس کے گم ہونے پر مثلاً دو سَو برس گذر گیا۔ خالد اور ولید کا اس کی حیات اور موت کی نسبت تنازع ہے اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی کہ درحقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اُس خبر کا منکر ہے اب آپ کی کیا رائے ہے بار ثبوت کس کے ذمہ ہے کیا خالد کو موافق اپنے دعویٰ کے زید کا مر جانا ثابت کرنا چاہئے یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے کیا فتویٰ ہے۔
راقم خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ اقبال گنج
۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مثال سے یہ غرض ہے کہ جس پر بار ثبوت ہے اس کی طرف سے ثبوت دینے کیلئے پہلے تحریر چاہئے۔
۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
محبی اخویم مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ جس کا جواب لکھا جائے اس عاجز کے دعویٰ کی بناء الہام پر تھی مگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہے اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہو جاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے توبہ کرتا لیکن خدا جانے آپ کو کیا فکر تھی جو آپ نے اس راہ راست کو منظور نہ کیا۔ خیر اب ازالہ اوہام کے ردّ لکھنا شروع کیجئے لوگ خود دیکھ لیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
اس کارڈ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی سلسلہ میں خط و کتابت کو گونہ بند کر دیا تھا۔ اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب اصل مطلب کی طرف آتے نہ تھے آپ نے اتمام حجت کے لئے اشتہار ۳؍ مئی ۱۸۹۱ء میں علماء لودہانہ کو خطاب کیا اور اس میں مولوی محمد حسن صاحب کو بھی مخاطب فرمایا مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسن صاحب کو آڑ بنا کر پھر خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا ہر چند وہ خطوط مولوی محمد حسن صاحب کے ہاتھ کے تھے لیکن دراصل ان کی تہہ میں مولوی محمدحسین صاحب کا ہاتھ اور قلم تھا اس لئے جو خطوط اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھے انہیں بھی درج سلسلہ کر دیتا ہوں۔ (مرتب)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی و مکرمی مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز بسر و چشم تحریری گفتگو کے لئے موجود ہے۔ اصول پیش کرنے کو بھی میں مانتا ہوں چند سوال آپ کی طرف سے چند سوال میری طرف سے ہوں اور امر مبحوث عنہ وفات یا حیات مسیح ہوگا۔ کیونکہ اس عاجز کا دعویٰ اسی بناء پر ہے جب بناء ٹوٹ جاوے گی تو یہ دعویٰ خود ٹوٹ جاوے گا اصل امر وہی ہے۔
اس وقت بارہ بجے تک مجھے بباعث بعض نج کے کاموں کے بالکل فرصت نہیں بہتر ہے کہ آنمکرم عید کے بعد یعنی شنبہ کے دن کو بحث کے لئے مقرر کریں تا فرصت اور فراغت سے ہر ایک شخص حاضر ہو سکے۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ مئی ۱۸۹۱ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصلی امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یاحیات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے کیونکہ الہام یہ ہے کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔ سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ اب ظاہر ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام کا اس سے باطل ہوگا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دعویٰ کی شرطِ صحت مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے اور بحکم اذافات الشرط فات المشروط مسیح کی زندگی کے ثبوت سے دوسرا دعویٰ میرا خود ہی ٹوٹ جائے گا۔ ماسوا اس کے میرے دعویٰ مثیل مسیح میں کسی پر جبر واکراہ تو نہیں کہ خواہ مخواہ اس کو قبول کرو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ جس پر مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہو جائے پھر وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر میری صحبت میں رہ کر میرے دعویٰ کی آزمائش کرے اب ظاہر ہے کہ پھر وفات و حیات پر قرعہ پڑا۔ بہرحال یہی امر حقیقی اور طبعی طور پر مبحوث عنہ اور متنازعہ فیہ ٹھہرتا ہے۔ ماسوا اس کے آپ کی غرض دوسری بحث سے جو آپ کے دل میں ہے وہ اس بحث میں بھی بخوبی حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا زندہ ہونا کلام الٰہی سے ثابت کر دیں گے تو میں اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القا سمجھ لوں گا اور توبہ کروں گا۔ اب حضرت اس سے زیادہ کیا کہوں خدا تعالیٰ آپ کے دل کو آپ سمجھاوے۔ مکرر یہ کہ اوّل قرآن کریم کی رو سے دیکھا جائے گا کہ کس کس آیت کو آپ حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اگر بغیر کسی جرع قدح کے وہ ثبوت آپ کا مسلم ٹھہرے گا تو بھلا پھر کس کی مجال ہے کہ اس سے انکار کر جائے لیکن اگر قرآن شریف سے آپ ثابت کریں گے تو پھر آپ کو اختیار ہوگا کہ بعد تحریری اقرار اس بات کے کہ قرآنی ثبوت پیش کرنے سے ہم عاجز ہیں اور احادیث صحیحہ غیر متعارضہ کو اس ثبوت کیلئے آپ پیش کریں اور جب آپ ایسا ثبوت دے چکیں گے تو منصفین ترازو سے انصاف لے کر خود جانچ لیں گے کہ کس طرف پلہ ثبوت بھاری ہے۔
والسلام علی من التبع الھدی
راقم میرزا غلام احمد
۹؍ مئی ۱۸۹۱ء
٭…٭…٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس عاجز کی گزارش یہ ہے کہ اب فتنہ مخالفت ہر جگہ بڑھتا جاتا ہے اور مولوی محمدحسین صاحب جس جگہ پہنچتے ہیں یہی وعظ شروع کی ہے کہ یہ شخص ملحد اور دین سے خارج اور کذاب اور دجال ہے میں نے اوّل نرمی سے یہ عرض کیا تھا کہ میرا مسیح ہونے کا دعویٰ مبنی بر الہام ہے اور جو امور محض الہام پر مبنی ہوں وہ زیر بحث نہیں آ سکتے بلکہ خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کی سچائی آپ ظاہر کرتا ہے ہاں مسیح کی وفات یا حیات کا مسئلہ گو میرے الہام کا اصل الاصول ہے مگر بباعث ایک شرعی امر ہونے کے زیر بحث آ سکتا ہے اور اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے۔ تو میرا دعویٰ مؤخر الذکر خود ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ عرض میری منظور نہیں کی گئی اور اصل حقیقت کو محرف کر کے منشی سعد اللہ صاحب نے جو چاہا چھپوا دیا اور لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور میرے پر یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ وہ لیلۃ القدر سے منکر ہیں اور اس کے خلاف اجماع معنی کرتے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملائکہ کے وجود سے منکر ہیں اور اور ملائکہ کو صرف قوتیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سارے الزام محض بہتان ہیں یہ عاجز اسی طرح ان سب باتوں پر ایمان رکھتا ہے۔ جو قال اللہ و قال الرسول سے ثابت ہیں اور سلف صالحین کا گروہ ان کو مانتا ہے سو اس وقت مجھے خیال ہے کہ میرا ہر حال میں خدا ناصر ہے۔ مجھے ہر طرح سے اتمام حجت کرنا چاہئے لہٰذا مکلف ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب کی یہ درخواست بھی منظور کی کہ مسیح موعود میں بحث کی جائے مگر بحث تحریری ہوگی اور تحریر میںکسی دوسرے کا ہرگز دخل نہیں ہوگا کیونکہ اب میں ایک مہجور کی طرح آدمی ہوں میرے ہاتھوں کی طرح کسی دوسرے کے ہاتھ یہ کام نہیں کریں گے۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے ہاتھ سے لکھیں اور میں اپنے ہاتھ سے لکھوں گا درمیانی شرائط کا تصفیہ بحث سے ایک دن پہلے ہو جائے لیکن دس روز پہلے مجھے خبر ملنی چاہئے تا لوگ جو شکوک و شبہات میں غرق ہوگئے ہیں ان کو بذریعہ خطوط و اشتہارات میں بلا لوں اور تا اس بحث سے ایک عام نفع مترتب ہو اور ہر روز کا جھگڑا طے ہو جائے۔ آپ پر یہ فرض ہے کہ آپ براہ مہربانی آج محمد حسین صاحب کو اطلاع دے دیں اور بحث سے دس دن پہلے مجھے بھی مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۷؍ مئی ۱۸۹۱ء
٭…٭…٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا شرائط مندرجہ ذیل ہونی چاہئیں۔
(۱) جلسہ بحث آپ کے مکان پر ہو اور امن قائم رکھنے کیلئے تمام انتظامات آپ کے ذمہ ہوگا۔ یہ بات قریب یقین کے ہے کہ چھ سات ہزار آدمی تک اس جلسہ میں جمع ہو جاویں گے ایسا مکان تجویز کرنا آپ کے ہی ذمہ ہوگا۔ میرے نزدیک یہ بات نہایت ضروری ہوگی کہ کوئی یورپین افسر اس جلسے میں ضرور تشریف رکھتے ہوں کیونکہ اس طرف چندآدمی اور دوسری طرف صد ہا آدمی ہونگے اور اکثر بدزبان اور مکفر ہونگے بغیر حاضری کسی یورپین کے ہرگز انتظام نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کے نزدیک یورپین افسر کی ضرورت نہیں تو اوّل مجھے اپنے دستخطی تحریر سے مطلع فرما دیجئے کہ میں کامل انتظام گروہ مفسد خیال لوگوں کاکر لونگا اور ان کا منہ بند رہے گا اور کسی یورپین افسر کی کچھ ضرورت نہیں ہوگی۔ اس صورت میں مَیں یہ شرط بھی چھوڑ دونگا پھر اس تحریر کے بعد ہر ایک نتیجہ کے آپ ہی ذمہ وار ہونگے۔
(۲) بحث تحریری ہر ایک فریق اپنے ہاتھ سے لکھے اور جو لکھنے سے عاجز ہو وہ اوّل یہ عذر ظاہر کر کے کہ میں لکھنے سے عاجز ہوں دوسرے سے لکھا دیوے کیونکہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اوّل درجے پر سند کے لائق ہوتا اور دوسروں کی تحریریں اگرچہ تصدیق کی جائیں مگر پھر بھی اس درجے پر نہیں پہنچتیں کیونکہ ان میں تحریف کاتب کا عذر ہو سکتا ہے۔
(۳) پرچے پانچ ہونے چاہئیں جو صاحب اوّل لکھے ایک پرچہ زائد ان کا حق ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کو اختیار ہو گا چاہیں وہ پہلا پرچہ لکھنا منظور کر لیں یا اس عاجز کا لکھنا منظور رکھیں۔ جس طرح پسند کریں مجھے منظور ہے۔
(۴) ہر ایک پرچہ فریقین کی ایک ایک نقل بعد دستخط صاحب راقم فریق ثانی کو اسی وقت بلاتوقف دی جاوے اور پھر جلسہ عام میں وہ پرچہ بآواز بلند سنا دیا جاوے۔
(۵) اس بحث میں تقریرا ًیا تحریراً کسی تیسرے آدمی کا ہرگز دخل نہ ہو۔ نہ تصریحاً نہ اشارتاً نہ کنایۃً اور جلسہ بحث میں کسی کتاب سے مدد نہ لی جائے بلکہ جو کچھ فریقین کو زبانی یاد ہے وہی لکھا جاوے تا تکلف اور تصنع کو اس میں دخل نہ ہو لیکن اگر کوئی فریق یہ ظاہر کرے کہ میں بغیر کتابوں کے کچھ لکھ نہیں سکتا تو پہلے یہ تحریری اقرار اپنی عجز بیانی کا دے کر پھر اس کتاب سے مدد لینے کا اختیار ہوگا۔
(۶) اگر کوئی فریق بعض امور تمہیدی قبل از اصل بحث پیش کرنا چاہے تو فریق ثانی کو بھی اختیار ہوگا کہ ایسے ہی امور تمہیدی وہ بھی پیش کرے مگر دونوں کی طرف سے یہ تمہیدی امور ایک ایک پرچہ تحریری طور پر پیش ہونگے ایسے پرچہ کی نسبت فریقین کو اختیار ہوگا۔
خط بخدمت شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابو سعید بٹالوی۔ ۔ ۱؎ اما بعد میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ احدالفریقین کا کافر ہونا ہے اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتدا نہیں کر سکا لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک منذر الہام مجھ کو ہوا اور چند مسلمانوں بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خوابیں سنائیں جن کی وجہ سے میں آپ کے خطرناک انجام سے بہت ڈر گیا تب بوجہ آپ کے ان حقوق کیجو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں اور نیز بوجہ آپ کی ہم وطنی اور قرب و جوار کے میرا رحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا اور میں اللہ جلشانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آ جائیں جو ہمیشہ صادقوں کے مکذبوں کو پیش آتے رہے ہیں اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گرداب تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کے لئے کیا کروں آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کے لئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں کیا تعجب کہ اسی تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کر دیوے اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے سو عزیز من آپ خدا تعالیٰ کی رحمت
۱؎ النمل: ۶۰
سے نومید نہ ہوں وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن دی لیکن اللہ جلشانہٗ کی توفیق سے میں سچ کیلئے اپنی جان اور عزت سے دست بردار ہو گیا اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کے لئے میں نے بڑے بڑے نقصان اُٹھائے اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذر گئی ہے مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا ابتدائے سے متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا۔
اور اگر آپ کو یہ خیال گذرے کہ یہ دعویٰ کتاب اللہ اور سنت کے برخلاف ہے تو اس کے جواب میں بادب عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال محض کم فہمی کی وجہ سے آپ کے دل میں ہے اگر آپ مولویانہ جنگ و جدال کو ترک کر کے چند روز طالب حق بن کر میرے پاس رہیں تو امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی غلطیاں نکال دے گا اور مطمئن کر دے گا اور اگر آپ کو اس بات کی بھی برداشت نہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پھر آخری علاج فیصلہ آسمانی ہے۔ مجھے اجمالی طور پر آپ کی نسبت کچھ معلوم ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو چند روز توجہ کر کے اور تفصیل پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع پا کر چند اخباروں میں شائع کر دوں۔
اس کے شائع کرنے کیلئے آپ کی خاص تحریر سے مجھ کو اجازت ہونی چاہئے میں اس خط کو محض آپ پر رحم کر کے لکھتا ہوں اور بہ ثبت شہادت چند کس آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور آخر دعا پر ختم کرتا ہوں۔ ۱؎ آمین
الراقم خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپورہ
۱؎ الاعراف: ۹۰ ۳۱؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
گواہان حاشیہ
(۱) خدا بخش اتالیق نواب صاحب (۲) عبدالکریم سیالکوٹی (۳) قاضی ضیاء الدین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ (۴) مولوی نورالدین (۵) محمد احسن امروہی (۶) شادی خان ملازم سرراجہ امر سنگھ صاحب بہادر (۷) ظفر احمد کپور تھلی (۸) عبداللہ سنوری (۹) عبدالعزیز دہلوی (۱۰)علی گوہر جالندھری (۱۱) فضل الدین حکیم بھیروی (۱۲) حافظ محمدصاحب پشاوری (۱۳) حکیم محمد اشرف علی ہاشمی خطیب بٹالہ (۱۴) عبدالرحمن برادر زادہ مولوی نور الدین (۱۵) محمد اکبر ساکن بٹالہ (۱۶) قطب الدین ساکن بدوملی
اس عاجز کے خط مندرجہ بالا کے جواب میں جو شیخ بٹالوی صاحب کا خط آیا وہ ذیل میں مع جواب الجواب درج کیا جاتا ہے لیکن چونکہ وہ جواب الجواب اس طرف سے بٹالوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا گیا ہے اس میں ان کی تمام ہذیانات و بہتانات کا جواب نہیں ہے جو ان کے خط میں درج ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا خط پڑھنے والے ان افتراؤں سے بے خبر ہوں جو اس خط میں دھوکہ دینے کی غرض سے درج ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس خط کی تحریر سے پہلے شیخ صاحب کے بعض افتراؤں اور لافوں اور بہتانوں کا جواب دیں سو بطور قولہ و اقول ذیل میں جواب درج کیا جاتا ہے۔
قولہ: میں قرآن اور پہلی کتابوں اور دین اسلام اور پہلے نبیوں کو اور نبی آخر الزمان اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا ہوں اور مانتا ہوں اور اس کا لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں۔
اقول: شیخ صاحب اگر آپ قرآن کو سچا جانتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی صادق مانتے تو مجھ کو کافر نہ ٹھہراتے کیا قرآن کریم اور حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ماننے کے یہی معنی ہیں کہ جو شخص اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہے اور کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور اسلام میں نجات محدود سمجھتا اور بدل و جان اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں فدا ہے اس کو آپ کافر بلکہ اکفر ٹھہراتے ہیں اور دائمی جہنم اس کے لئے تجویز کرتے ہیں اُس پر *** بھیجتے ہیں اس کو دجال کہتے ہیں اور اس کو قتل کرنا اور اسکے مال کو بطور سرقہ لینا سب جائز قرار دیتے ہیں رہے وہ کلمات اس عاجز کے جن کو آپ کلمات کفر ٹھہراتے ہیں اُن کا جواب اس رسالہ میں موجود ہے ہر ایک منصف خود پڑھ لے گا اور آپ کی دیانت اور آپ کا فہم قرآن اور فہم حدیث اُس سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہے علیحدہ لکھنے کی حاجت نہیں۔
قولہ: عقائد باطلہ مخالفہ دیں اسلام و ادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا ہے کہ گویا وہ آپ کی شرست کا ایک جزو ہے۔
اقول: شیخ صاحب جو شخص متقی اور حلال زادہ ہو اوّل تو وہ جرأت کر کے اپنے بھائی پر بے تحقیق کامل کسی فسق اور کفر کا الزام نہیں لگاتا اور اگر لگاوے تو پھر ایسا کامل ثبوت پیش کرتا ہے کہ گویا دیکھنے والوں کے لئے دن چڑھا دیتا ہے پس اگر آپ ان دونوں صفتوں مذکورہ بالا سے متصف ہیں تو آپ کو اُس خداوند قادر ذوالجلال کی قسم ہے جس کی قسم دینے پر حضرت بنی صلی اللہ علیہ وسلم بھی توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ آپ حسب خیال اپنے یہ دونوں قسم کا خبث اس عاجز میں ثابت کر کے دکھلاویں یعنی اوّل یہ کہ میں مخالف دیں اسلام اور کافر ہوں اور دوسرے یہ کہ میرا شیوہ جھوٹ بولنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی اور آپ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول میں سچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی شرست میں جھوٹ ہے اور ایسا ہی اللہ جلشانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱؎ یعنی یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے اُن کی خوابیں سچی نکلتی ہیں اور آپ ابھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں بہت خوب آؤ قرآن کریم کے رو سے بھی آزما لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے یہ دونوں آزمائشیں یوں ہو سکتی ہیں کہ بٹالہ یا لاہور یا امرتسر میں ایک مجلس مقرر کر کے فریقین کے
۱؎ یونس: ۶۸
شواہد رؤیا ان میں حاضر ہو جائیں اور پھر جو شخص ہم دونوں میں سے یقینی اور قطعی ثبوتوں کے ذریعہ سے اپنی خوابوں میں اصدق ثابت ہو اس کے مخالف کا نام کذاب اور دجال اور کافر اور اکفر اور ملعون یا جو نام تجویز ہوں اُسی وقت اس کو یہ تمغہ پہنایا جائے اور اگر آپ گزشتہ کے ثبوت سے عاجز ہوں تو میں قبول کرتا ہوں بلکہ چھ ماہ تک آپ کو رخصت دیتا ہوں کہ آپ چند اخباروں میں اپنی ایسی خوابیں درج کرادیں جو امور غیبیہ پر مشتمل ہوں اور میں نہ صرف اسی پر کفایت کروں گا کہ گذشتہ کا آپ کو ثبوت دوں بلکہ آپ کے مقابل پر بھی انشاء اللہ القدیر اپنی خوابیں درج کراؤں گا اور جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں یہی میرا دعویٰ ہے کہ میں بدل و جان اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس پیاری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں اب اس نشانی سے آزمایا جائے گا کہ اپنے دعویٰ میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے اگر میں اُس علامت کے رو سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قرار دی ہے مغلوب رہا تو پھر آپ سچے رہیں گے اور میں بقول آپ کے کافر، دجال، بے ایمان، شیطان اور کذاب اور مفتری ٹھہروں گا اور اس صورت میں آپ کے وہ تمام ظنون فاسدہ درست اور برحق ہوں گے کہ گویا میں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فریب کیا اور لوگوں کا روپیہ کھایا اور دعا کی قبولیت کے وعدہ پر لوگوں کا مال خورد برد کیا اور حرام خوری میں زندگی بسر کی اگر خدا تعالیٰ کی اس عنایت نے جو مومنوں اور صادقوں اور راستبازوں کے شامل حال ہوتی ہے مجھ کو سچا کر دیاتو پھر آپ فرماویں کہ یہ نام اس وقت آپ کی مولویانہ شان کے سزاوار ٹھہریں گے یا اس وقت بھی کوئی کنارہ کشی کا راہ آپ کے لئے باقی رہے گا آپ نے مجھ کو بہت دکھ دیا اور ستایا میں صبر کرتا گیا مگر آپ نے ذرہ اس ذات قدیر کا خوف نہ کیا جو آپ کی تہہ سے واقف ہے اس نے مجھے بطور پیشگوئی آپ کے حق میں اور پھر آپ کے ہم خیال لوگوں کے حق میں خبر دی کہ اِنی مہین من اراداھانتک یعنی میں اس کو خوار کروں گا جو تیرے خوار کرنے کی فکر میں ہے۔
سو یقینا سمجھو کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جو خدا تعالیٰ ان تمام بہتانات میں آپ کا دروغگو ہونا ثابت کر دے گا اور جو بہتان تراش اور مفتری لوگوں کو ذلتیں اور ندامتیں پیش آتی ہیں اُن تمام ذلتوں کی مار آپ پر ڈالے گا آپ کاد عویٰ ہے کہ میں قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ اس قول میں سچے ہیں تو آزمائش کے لئے میدان میں آویں تا خدا تعالیٰ ہمارا اور تمہارا خود فیصلہ کرے اور جو کاذب اور دجال ہے روسیاہ ہو جائے اور میرے دل سے اس وقت حق کی تائید کے لئے ایک بات نکلتی ہے اور میں اس کو روک نہیں سکتا کیونکہ وہ میرے نفس سے نہیں بلکہ القا ء ربی ہے جو بڑے زور سے جوش مار رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کہ آپ نے مجھے کافر ٹھہرایا اور جھوٹ بولنا میری سرشت کا خاصہ قرار دیا تو اب آپ کو اللہ جلشانہٗ کی قسم ہے کہ حسبِ طریق مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آجاؤ تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو سے کون کاذب اور دجال اور کافر ثابت ہوتا ہے اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص متخلف رہا اور باوجود اشد غلو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دُم دبا کر بھاگ گیا تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا۔
(۱) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۲) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۳) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۴) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۵) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۶) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۷) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۸) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۹) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
(۱۰) لــــعـــــــــــــــنـــــــــــت
تلک عشرۃ کاملۃ
یہ وہ فیصلہ ہے جو خدا تعالیٰ آپ کر دے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ مومن بہرحال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے۔ ۱؎ یعنی ایسا
۱؎ النساء: ۱۴۲
ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومن پر راہ پاوے اور نیز فرماتا ہے۔ ۱؎ یعنی اے مومنو اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنی نور الہام اور نور اجابتِ دعا اور نور کراماتِ اصطفا
اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس (سے) کرامات صادر ہو سکتی ہیں غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریم ۲؎ اور حدیث نبوی اصد قکم حدیثا۳؎ کے صادق ثابت ہوتا ہے معہذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادق ہو جاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں تب اُس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی شرست میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے اس قسم کے نمونے بھی عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تا ہم تین نمونے اِس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر اُن کے برابر بھی کبھی آپ کو آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ جلشانہٗ کی قسم ہے کہ آپ اُن کو معہ ثبوت اُن کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آ کر آپ نے صدق نہیں توڑا ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شر کا ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کر دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ اُن شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہو چکی تھی اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے بازیافت کے لئے آٹھ ہزار کے
۱؎ الانفال: ۳۰ یونس: ۶۸ ۳؎ مسلم کتاب الرؤیا باب فی کون الرؤیا من اللّٰہ وانھا جزء من النبوۃ حدیث نمبر۵۹۰۵
قریب خرچ و خسارہ اُٹھایا تھا وہ شر کا ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے سو اُن مقدمات کے اثنا میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اُجیب کل دعائک الافی شرکائک یعنی میں تیری ہر یک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں سومیں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد و عزیزوں کو جمع کیا جو اُن میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکا کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزار ہا روپیہ کا نقصان اُٹھانے کیلئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جو اَبْ دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار ان کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اُٹھایا۔
ازاں جملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا تھا چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کیلئے تائید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا۔ جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانچ سَو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا اور قبل اس کے جو مجھ سے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔ رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کیلئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آ سکتی ہے۔ غرض میں اس جرم میں صدر گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلا سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دے کر کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت سے فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی۔ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔
تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے تب میں نے بلاتوقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگرمیں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کوسنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا۔ انجام کار وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اُتارنے کیلئے ہاتھ مارا میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیااور کہا کہ خیر ہے خیر ہے۔
ازانجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا۔ جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق پڑتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اُٹھانا پڑتا تھا تب فریق مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا۔ جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے۔ آپ کیا اظہار دیں گے میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جاؤں۔ سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغائً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔ یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں پچھلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس۔ آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپور میں موجود ہوگی اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کرچکا ہوں جو اب شاید لدہیانہ میں بدل گیا ہے غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گزرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔
اب اے حضرت شیخ صاحب اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان و آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو للّٰہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے۔ ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر ملاّ اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اور آپ کے مجدد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے۔جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے۔
آپ کی ان بیہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہو کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو آپ ان افتراؤں سے باز آ جائیں آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے۔ ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوتے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ ہی جانا پڑتا تھا۔ مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے ایک شیطنت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے کیا ہر یک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور جھوٹ ہی کہتا ہے۔
اے کج طبع شیخ خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے یا اپنے حقوق کے طلب کے لئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے ہرگز نہیں بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دینوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ نجاست خوار انسان ہر یک انسان کو نجاست خوار ہی سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے۔ سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روا دار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہریک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہئے مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کر لیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا۔
اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کے حق رسی کے لئے عدالتوں میں جانا پڑتا تھا مگر والد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے ہوتے تھے۔ کہ بعض اسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلااجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھیں یا بعض دیہات کے نمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے اور وہ سب مقدمات بوجہ اس احسن انتظام کے کہ محاسب دیہات یعنی پٹواری کی شہادت اکثر ان میں کافی ہوتی تھی۔ پیچیدہ نہیں ہوتی تھی اور دروغگوئی کو ان سے کچھ تعلق نہیں تھا کیونکہ تحریرات سرکاری پر فیصلہ ہوتا تھا اور چونکہ اس زمانہ میں زمین کی بیقدری تھی۔ اس لئے ہمیشہ زمینداری میں خسارہ اُٹھانا پڑتا اور بسا اوقات کم مقدمات کاکاشتکاروں کے مقابل پر خود نقصان اُٹھا کر رعایت کرنی پڑتی تھی اور عقلمند لوگ جانتے ہیں کہ ایک دیانتدار زمیندار اپنے کاشتکاروں سے ایسے برتاؤ رکھ سکتا ہے جو بحیثیت پورے متقی اور کامل پرہیز گار کے ہو اور زمینداری اور نیکوکاری میں کوئی حقیقی مخالفت اور ضد باایں ہمہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد کبھی میں نے بجز اس خط کے مقدمہ کے جس کا ذکر کرچکا ہوں کوئی مقدمہ کیا ہو اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گذر گیا آزادی سے مقدمات کیا کرتا اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ان مقدمات کا مہاجنوں کے مقدمات پر قیاس کرنا کور باطن آدمیوں کا کام ہے۔ میں اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ کئی پشت سے میرے خاندان میں زمینداری چلی آتی ہے اور اب بھی ہے اور زمیندار کو ضرورتاً کبھی مقدمہ کی حاجت پڑتی ہے مگر یہ امر ایک منصف مزاج کی نظر میں جرح کا محل نہیں ٹھہر سکتا۔ حدیثوں کو پڑھو کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والا اور اس زمانہ میں آنے والا کہ جب قریش سے بادشاہی جاتی رہے گی اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تفرقہ اور پریشانی میں پڑی ہوئی ہوگی۔ زمیندار ہوگا اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ میں ہوں احادیث نبویہ میں صاف لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک موید دین و ملت پیدا ہوگا اور اس کی یہ علامت ہوگی کہ وہ حارث ہوگا یعنی زمیندار ہوگا۔
اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس کو قبول کر لیوے اور اس کی مدد کرے۔ اب سوچو کہ زمیندار ہونا تو میرے صدق کی ایک علامت ہے نہ جائے جرح اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبول کرنے کے لئے حکم ہے نہ ردّ کرنے کیلئے چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نمائد ہنرش در نظر ۔ ہاں مقدمہ بازی آپ کے والد صاحب کی جائے جرح ہو تو کچھ تعجب نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں اکثر سود خوروں کی مختار کاری میں ان کی عمر بسر ہوئی اور جس طرح بن پڑا انہوں نے بعض لوگوں کے مقدمے محنتانہ پر لئے گو وہ قانونی طور پر مختار نہ وکیل بلکہ فیل شدہ بھی نہیں تھے مگر پیٹ بھرنے کیلئے سب کچھ کیا لیکن یہ عاجز تو بجز اپنی زمینداری کے مقدمات کے جن میں اکثر آپ کے والد صاحب جیسے بلکہ عزت اور لیاقت میں ان سے بڑھ کر مختار بھی کئے ہوئے تھے دوسروں کے مقدمات سے بھی کچھ غرض نہیں رکھتا تھا اور مجھ کو یاد ہے بلکہ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے بھی مقام بٹالہ میں حضرت مرزا صاحب مرحوم کی خدمت میں اپنی تمنا ظاہر کی تھی کہ مجھ کو بعض مقدمات کیلئے نوکر رکھا جاوے تا بطور مختار عدالتوں میں جاؤں مگر چونکہ زمینداری مقدمات کی پیروی کی ان میں لیاقت نہیں تھی اس لئے عذر کر دیا گیا تھا۔
قولہ: آپ نے الہامی بیٹا تولد ہونے کی پیشگوئی کی یعنی جھوٹ بولا۔
اقول: آپ اپنے سفلہ پنے سے باز نہیں آتے خدا جانے آپ کس خمیر کے ہیں۔ اس پیشگوئی میں کونسی دروغ کی بات نکلی اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ پیشگوئی کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اور مر گیا تو کیا آپ یہ ثبوت دے سکتے ہیں کہ کسی الہام میں یہ مضمون درج تھا کہ وہ موعود لڑکا وہی ہے اگر دے سکتے ہیں تو وہ الہام پیش کریں یاد رہے کہ ایسا کوئی الہام نہیں۔ ہاں اگر میں نے اجتہادی طور پر کہا ہو کہ شاید یہ لڑکا وہی موعود لڑکا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ الہام غلط نکلا آپ کومعلوم نہیں کہ کبھی ملہم اپنے الہام میں اجتہاد بھی کرتا ہے اور کبھی وہ اجتہاد خطا بھی جاتا ہے مگر اس سے الہام کی وقعت اور عظمت میں فرق نہیں آتاصد ہا مرتبہ ہر یک کو اتفاق پیش آتا ہے۔ کہ ایک خواب تو سچی ہوتی ہے مگر تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے یہ ہدایت اور یہ معرفت کا دقیقہ تو خاص قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے لیکن ان کے لئے جو آنکھیں رکھتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ آج تو آپ نے مجھ پر اعتراض کیا کبھی ایسا نہ ہو کہ کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کر دیں اور کہیں کہ آنجناب نے جس وحی کی تصدیق کیلئے یعنی طواف کی غرض سے دو سَو کوس کا سفر اختیار کیا تھا وہ طواف اس سال نہ ہو سکا اور اجتہادی غلطی ثابت ہوئی افسوس کہ فرط تعصب سے فذہب وہلی ۱؎ کی حدیث بھی آپ کو بھول گئی مجھے تو آپ کے انجام کا فکر لگا ہوا ہے دیکھیں کہ کہاں تک نوبت پہنچتی ہے۔
۱؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث نمبر۳۴۲۵ و بخاری کتاب التعبیر باب اذارای بقراً تخر حدیث نمبر۶۶۲۹
اور لڑکے کی پیشگوئی تو حق ہے ضرورپوری ہوگی اور آپ جیسے منکروں کو خدا تعالیٰ رسوا کرے
گا۔ اے دشمن حق جب کہ تمام پیشگوئیوں کے مجوعی الفاظ یہ ہیںکہ بعض لڑکے فوت بھی ہونگے اور ایک لڑکا خداتعالیٰ سے ہدایت میں کمال پائے گا تو پھر آپ کا اعتراض اس بات پر کھلی کھلی دلیل ہے کہ آپ کا باطن مسخ شدہ ہے ۔ یہ تو یہودیوں کے علماء کا آپ نے نقشہ اُتار دیا اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
قولہ: اس سے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے میں دلیر ہو وہ خدا پر جھوٹ بولنے سے کیونکر رک سکتا ہے۔
اقول: ان باتوں سے ثابت ہے کہ آپ کی فطرت ان الزمات سے خالی نہیں جن کو آپ کے والد صاحب جن کے بعض خطوط آپ کی فطرت اور آپ کے اوصاف حمیدہ کے متعلق میرے پاس بھی غالباً کسی بستہ میں پڑے ہوئے ہونگے بزبان خودمشہور کر گئے ہیں۔ اے نیک بخت اوّل ثابت تو کیا ہوتا کہ فلاں فلاں شخص کے روبرو اس عاجز نے کبھی جھوٹ بولا تھا اپنے التزام صدق کے جو ہیں نے نظریں پیش کی ہیں ان کے مقابل پر بھلا کوئی نظیر پیش کرو تا آپ کا منہ اس لائق ٹھہرے کہ آپ اس شخص کی نکتہ چینی کر سکو جو سخت امتحان کے وقت صادق نکلا اور صدق کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ میں حیران ہوں کہ کونسا جن آپ کے سر پر سوار ہے جو آپ کی پردہ دری کرا رہا ہے۔
آخر میں یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ یہ آپ کا سراسر افتراء ہے کہ الہام کلب یموت علی کلب کو اپنے اوپر وارد کر رہے ہیں۔ میں نے ہرگز کسی کے پاس یہ نہیں کہا کہ اس کامصداق آپ ہیں اور جو بعض درشت کلمات کی آپ شکایت کرتے ہیں یہ بھی بیجا ہے آپ کی سخت بدزبانیوں کے جواب میں آپ کے کافر ٹھہرانے کے بعد آپ کے دجال اور شیطان اور کذاب کہنے کے بعد اگر ہم نے آپ کی موجودہ حالت کے مناسب آپ کو کچھ حق حق کہہ دیا………تو کیا بُرا کیا آخر ۱؎ کا بھی تو ایک وقت ہے۔
آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کے فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لے کر خوردبرد کر گیا ہے یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے آپ کو کیونکر معلوم ہو گیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں اگر براہین طبع ہو کر شائع ہوگئی تو اس دن
۱؎ التوبہ: ۷۳
شرم کا تقاضا نہیںہوگا۔ کہ آپ غرق ہو جائیں ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیںہو سکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہر ایک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سار وپیہ واپس بھی کر دیا۔ قرآن کریم جس کی خلق اللہ کو بہت ضرورت تھی اور لوح محفوظ میں قدیم سے جمع تھا۔ تئیس سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بدظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے۔ کہ ۱؎
قولہ: جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس دن سے آپ کی کوئی تحریر کوئی تقریر کوئی تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں۔
اقول: اے شیخ نامہ سیاہ اس دروغ بے فروغ کے جواب میں کیا کہوں اور کیا لکھوں خدا تعالیٰ تجھ کو آپ ہی جواب دیوے کہ اب تو حد سے بڑھ گیا۔ اے بدقسمت انسان تو ان بہتانوں کے ساتھ کب تک جئے گا کب تک تو اس لڑائی میں جو خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے موت سے بچتا رہے گا اگر مجھ کو تو نے یا کسی نے اپنی نابینائی سے دروغگو سمجھا تو یہ کچھ نئی بات نہیں آپ کے ہم خصلت ابوجہل اور ابولہب بھی خدا تعالیٰ کے نبی صادق کو کذاب جانتے تھے انسان جب فرط تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے تو صادق کی ہر ایک بات اس کو کذب ہی معلوم ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ صادق کا انجام بخیر کرتا ہے اور کاذب کے نقش ہستی کو مٹا دیتا ہے۔ ۲؎
قولہ: کہ (آپ نے) بحث سے گریز کر کے انواع اتہام اور اکاذیب کا اشتہار دیا۔
اقول: یہ سب آپ کے دروغ بے فروغ ہیں جو بباعث تقاضاء فطرت بے اختیار آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں ورنہ جو لوگ میری اور آپ کی تحریروں کو غور سے دیکھتے ہیں وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا اتہام اور کذب اور گریز اس عاجز کا خاصہ ہے یا خود آپ ہی کاچالاکی کی باتیں اگر آپ نہ کریں تو اور کون کرے ایک تو قانون گو شیخ ہوئے ۔ دوسرے چار حرف پڑھنے کا دماغ میں کیڑا مگر خوب یاد رکھو وہ دن آتا ہے کہ خود خداوند تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں کون کاذب اور مفتری اور خدا کی نظر میں ذلیل اور رسوا ہے اور کس کی خداوند کریم آسمانی تائیدات سے عزت ظاہر کرتا ہے۔ ذرہ صبر کرو اور انجام کو دیکھو۔
۱؎ الفرقان: ۳۳ ۲؎ النحل: ۱۲۹
قولہ: آپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر بھی ہوتا تو جس وقت میں نے آپ کے دعویٰ مسیحائی سے اپنا خلاف ظاہر کیا تھا آپ فوراً مجھے اپنی جگہ بلاتے یا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے۔
اقول: اے حضرت آپ کو آنے سے کس نے منع کیا تھا یا میری ڈیوڑھی دربان تھے جنہوں نے اندر آنے سے روک دیا پہلے اس سے آپ پوچھ پوچھ کر آیا کرتے تھے آپ کے تو والد صاحب بھی بیماری کی حالت میں بھی بٹالہ سے افتان خیزان میرے پاس آجاتے تھے۔ پھر آپ کو نئی روک کونسی پیش آ گئی تھی اور جب کہ آپ اپنے ذاتی بخل اور ذاتی حسد اور شیخ نجدی کے خصائل اور کبر اور نخوت کو کسی حالت میں چھوڑانے والے نہیں تھے تو میں آپ کو مکان پر بلا کر کیا ہمدردی اور رحمت کرتا۔ ہاں میں نے آپ کے مکان پر بھی جانا خلاف مصلحت سمجھا کیونکہ میں نے آپ کی مزاج میں کبر اور نخوت کا مادہ معلوم کر لیا تھا اور میرے نزدیک یہ قرین مصلحت تھا کہ آپ کو ایک مسہل دیا جائے اور جہاں تک ہو سکے وہ مادہ آپ کے اندر سے باستیفا نکال دیا جائے سو اب تک تو کچھ تحفیف معلوم نہیں ہوتی۔ خدا جانے کس غضب کا مادہ آپ کے پیٹ میں بھرا ہوا ہے اور اللہ جلشانہٗ جانتا ہے کہ میں نے آپ کی بدزبانی پر بہت صبر کیا۔ بہت ستایا گیا اور آپ کو روکے گیا اور اب بھی آپ کی بدگوئی اور تکفیر پر بہرحال صبر کر سکتا ہوں لیکن بعض اوقات محض اس نیت سے پیرایہ درشتی آپ کی بدگوئی کے مقابلہ میں اختیار کرتا ہوں کہ تا وہ مادہ خبث کا جو مولویت کے باطل تصور سے آپ کے دل میں جما ہوا ہے اور جن کی طرح آپ کو چمٹا ہوا ہے وہ بکلی نکل جائے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اعلیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں کہ آپ صرف استخوان فروش ہیں اور علم اور درایت اور تفقہ سے سخت بے بہرہ اور ایک غبی اور پلید آدمی ہیں جن کو حقائق اور معارف کے کوچہ کی طرف ذرہ بھی گذر نہیں اور ساتھ اس کے یہ بلا لگی ہوئی ہے کہ ناحق کے تکبر اور نخوت نے آپ کو ہلاک ہی کر دیا ہے جب تک آپ کو اپنی اس جہالت پر اطلاع نہ ہو اور دماغ سے غرور کا کیڑا نہ نکلے تب تک آپ نہ کوئی دنیا کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں نہ دین کی۔ آپ کا بڑا دوست وہ ہوگا جو اس کوشش میں لگا رہے جو آپ کی جہالتیں اور نخوتیں آپ پر ثابت کرے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کو کس بات پر ناز ہے۔
شرمناک فطرت کے ساتھ اور اس موٹی سمجھ اور سطحی خیال پر یہ تکبر اور یہ ناز نعوذ باللّٰہ من ھذہ الجھالۃ والحمق و ترک الحیاء والسخا فتدہ الضد اللّٰہ
اور آپ کا یہ خیال کہ میں نے اب فساد کیلئے خط بھیجا ہے تا کہ بٹالہ کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑے۔ عزیز من یہ آپ کے فطرتی توہمات ہیں۔ میں نے پھوٹ کیلئے نہیں بلکہ آپ کی حالت زار پر رحم کر کے خط بھیجا تھا تا آپ تحت الثریٰ میں نہ گر جائیں اور قبل از موت حق کو سمجھ لیں۔ مسلمانوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈالنا تو آپ ہی کا شیوہ ہے یہی تو آپ کا مذہب اور طریق ہے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایک مسلمان کو کافر اور بے ایمان اور دجال قرار دیا اور علماء کو دھوکے دے کر تکفیر کے فتویٰ لکھوائے اور اپنے استاد نذیر حسین پر موت کے دنوں کے قریب یہ احسان کیا کہ اس کے مونہہ سے کلمہ تکفیر کہلوایا اور اس کی پیرانہ سالی کے تقویٰ پر خاک ڈالی۔ آفرین بادہمت مردانہ تو۔ نذیر حسین تو ارزل عمر میں مبتلا اور بچوں کی طرح ہوش و حواس سے فارغ تھا یہ آپ ہی نے شاگردی کاحق ادا کیا کہ اس کے اخیر وقت اور لب بام ہونے کی حالت میں ایسی مکروہ سیاسی اس کی مونہہ پر مل دی کہ اب غالباً وہ گور میں ہی سیاسی کو لے جائے گا۔ خدائے تعالیٰ کی درگاہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے اس کو وہی نتائج بھگتنے پڑیں گے جن کا ناحق کے مکفرین کیلئے اس رسول کریم نے وعدہ دے رکھا ہے۔ جو ایسا عدل دوست تھا جس نے ایک چور کی سفارش کے وقت سخت ناراض ہو کر فرمایا تھا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔
قولہ: اس صورت میں قادیان پہنچ سکتا ہوں کہ مسلمانوں پر آپ کا جھوٹ اور فریب کھولوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
اقول: اب آپ کسی حیلہ و بہانہ سے گریز نہیں کر سکتے اب تو دس لعنتیں آپ کی خدمت میں نذر کر دی ہیں اور اللہ جلشانہٗ کی قسم بھی دی ہے کہ آپ آسمانی طریق سے میرے ساتھ صدق اور کذب کا فیصلہ کر لیں۔ اگر آپ مجھ کو جھوٹا سمجھنے میں سچے ہیں تو میری اس بات کو سنتے ہی مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے ورنہ ان تمام لعنتوں کو ہضم کر جائیں گے اور کچے اور بیہودہ عذرات سے ٹال دیں گے اور میں آپ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا ایک ہی ہے جو آپ کو در حالت نہ باز آنے کے ہلاک کرے گا اور اپنے دین کو آپ کے اس فتنہ سے نجات دے گا اور آپ کے قادیان آنے کی کچھ ضرورت نہیں۔ اگر آپ اللہ اور رسول کے نشان کے موافق آزمائش کیلئے مستعد ہوں تو میں خود بٹالہ اور امرتسر اور لاہور میں آ سکتا ہوں تا سیاہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد۔
جواب الجواب شیخ بٹالوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۔۱؎ اما بعد آپ کا رجسٹری شدہ خط مؤرخہ ۴؍ جنوری ۱۸۹۳ء کو مجھ کو ملا۔ اگرچہ آپ کا یہ خط جو کذب اور تہمت اور بیجا افتراؤں کا مجموعہ ہے اس لائق نہیں تھا کہ میں اس کا جواب آپ کو لکھتا فقط اعراض کافی تھا لیکن چونکہ آپ نے اپنے خط کے صفحہ دو اور تین میں اس عاجز کی تین پیشگوئیوں کا ذکر کر کے بالآخر اس تیسری پیشگوئی پر حصر کر دیا ہے جو نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ء اور نیز میرے اشتہار مشتہرہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں درج ہے اور آپ نے اقرار کیا ہے کہ اگر اس الہام کا سچا ہونا ثابت ہو جاوے تو آپ کو ملہم مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کے عقائد و تعلیمات کو مخالف حق اور آپ کو بد اخلاق اور گمراہ سمجھنے میں غلطی کی تھی اس لئے اس عاجز نے پھر آپ کی حالت پر رحم کر کے آپ کو اس الہامی پیشگوئی کے ثبوت کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھا۔ وہ پیشگوئی جیسا کہ آپ خود اپنے خط میں بیان کر چکے ہیں۔ یہی تھی کہ اگر مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اپنی بیٹی اس عاجز کو نہ دیوے اور کسی سے نکاح کر دیوے تو روز نکاح سے تین برس کے اندر فوت ہو جائے گا۔ اس پیشگوئی کی یہ بنیاد نہیں تھی کہ خواہ مخواہ مرزا احمد بیگ کی درخواست سے گئی تھی بلکہ یہ بنیاد تھی کہ یہ فریق مخالف جن میں سے مرزا احمد بیگ بھی ایک تھا۔ اس عاجز کے قریبی رشتہ دار مگر دین کے سخت مخالف تھے ایک ان میں سے عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اللہ جلشانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتا تھا اور اپنا مذہب دہریہ رکھتا تھا اور نشان کے طلب کے لئے ایک اشتہار بھی جاری کر چکا تھا اور یہ سب کو مکار خیال کرتے تھے اور نشان مانگتے تھے اور صوم و صلوٰۃ اور عقاید اسلام پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان پر اپنی حجت پوری کرے۔ سو اس نے نشان دکھلانے میں وہ پہلو اختیار کیا جس کا ان تمام بیدیں قرابتیوں پر اثر پڑتا تھا۔ خدا ترس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ موت اور حیات انسان کے اختیار میں
۱؎ النمل: ۶۰
نہیں اور ایسی پیشگوئی جس میں ایک شخص کی موت کو اس کی بیٹی کے نکاح کے ساتھ جو غیر سے ہو وابستہ کر دیا گیا اور موت کی حد مقرر کر دی گئی۔ انسان کا کام نہیں ہے چونکہ یہ الہامی پیشگوئی صاف بیان کر رہی تھی کہ مرزا احمد بیگ کی موت اور حیات اس کی لڑکی کے نکاح سے وابستہ ہے اس لئے پانچ برس تک یعنی جب تک اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ نہیں کیا گیا مرزا احمد بیگ زندہ رہا اور ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں احمد بیگ نے اس لڑکی کا ایک جگہ نکاح کر دیا اور بموجب پیشگوئی کے تین برس کے اندر یعنی نکاح کے چوتھے مہینہ میں جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء تھی فوت ہو گیا اور اسی اشتہار میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگرچہ روز نکاح سے موت کی تاریخ تین برس تک بتلائی گئی ہے مگر دوسرے کشف سے معلوم ہوا کہ کچھ بہت عرصہ نہیں گذرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نکاح اور موت میں صرف چار مہینہ بلکہ اس سے کم فاصلہ رہا یعنی جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء میں نکاح ہوا اور ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو مرزا احمد بیگ اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا اب ذرا خدا سے ڈر کر کہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا نہیں اور اگر آپ کے دل کو یہ دھوکہ ہو کہ کیونکر یقین ہو کہ یہ الہامی پیشگوئی ہے کیوں جائز تھیں کہ دوسرے وسائل نجوم و رمل و جعفر سے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ منجموں کی اس طور کی پیشگوئی نہیں ہوا کرتی جس میں اپنے ذاتی فائدہ کے لحاظ سے اس طور کی شرطیں ہوں کہ اگر فلاں شخص ہمیں بیٹی دے گا تو زندہ رہے گا ورنہ نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ بہت جلد مر جائے گا اگر دنیا میں کسی منجم یا رمال کی اس قسم کی پیشگوئی ظہور میں آئی ہے تو اس کے ثبوت کے ساتھ پیش کریں علاوہ اس کے اس پیشگوئی کے ساتھ اشتہار میں ایک دعویٰ پیش کیا گیا ہے یعنی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور میری صداقت کا نشان یہ پیشگوئی ہے۔ اب اگرچہ آپ کچھ بھی اللہ جلشانہٗ کا خوف رکھتے ہیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی پیشگوئی جو منجانب اللہ ہونے کیلئے بطور ثبوت پیش کی گئی ہے اسی حالت میں سچی ہو سکتی تھی کہ جب درحقیقت یہ عاجز منجانب اللہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کو جو ایک جھوٹے دعویٰ کے لئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی ہرگز سچی نہیں کر سکتا وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھوکا لگتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلشانہٗ خود مدعی صادق کیلئے یہ علامت قرار دے کر فرماتا ہے ۱؎
۱؎ مومن: ۲۹
اور فرمایا ۔۱؎ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں۔ پس اس پیشگوئی کے الہامی ہونے کے لئے ایک مسلمان کے لئے یہ دلیل کافی ہے جو منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کے ساتھ یہ پیشگوئی بیان کی گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کو سچی کر کے دکھلا دیا اور اگر آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل مفتری ہو اور سراسر دروغگوئی سے کہے کہ میں خلیفۃ اللہ اور مامور من اللہ اور مجدد وقت اور مسیح موعود ہوں اور میرے صدق کا نشان یہ ہے کہ اگر فلاں شخص مجھے اپنی بیٹی نہیں دے گا اور کسی دوسرے سے نکاح کر دے گا تو نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ اس سے بہت قریب فوت ہو جائے گا۔ اور پھر ایسا ہی واقعہ ہو جائے تو برائے خدا اس کی نظیر پیش کرو ورنہ یاد رکھو کہ مرنے کے بعد اس انکار اور تکذیب اور تکفیر سے پوچھے جاؤ گے خداتعالیٰ صاف فرماتا ہے ۲؎سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعویٰ میں کاذب ہو اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی۔ شیخ صاحب اب وقت ہے سمجھ جاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شیخی پیش نہیں جائے گی اور اگر کوئی نجومی یا رمال یا جفری اس عاجز کی طرح دعویٰ کر کے کوئی پیشگوئی دکھلا سکتا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو اور چند اخباروں میں درج کرا دو اور یاد رکھو کہ ہر گز پیش نہیں کر سکو گے اور نجومی ہلاک ہوگا خدا تعالیٰ تو اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ اگر وہ ایک قول بھی اپنی طرف سے بتاتا تو اس کی رگ جان قطع کی جاتی پھر یہ کیونکر ہو کہ بجائے رگ جان قطع کی جانے کے اللہ جلشانہٗ اس عاجز کو جو آپ کی نظر میں کافر مفتری دجال کذاب ہے دشمنوں کے مقابل پر یہ عزت دی کہ تائید دعویٰ میں پیشگوئی پوری کرے کبھی دنیا میں یہ ہوا ہے کہ کاذب کی خدا تعالیٰ نے ایسی مدد کی ہو کہ وہ گیارہ برس سے خدا تعالیٰ پر یہ افترا کر رہا ہو کہ اس کی وحی ولایت اور وحی محدثیت میرے پر نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی رگ جان نہ کاٹے بلکہ اس کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے آپ جیسے دشمنوں کو منفعل اور نادم اور لاجواب کر دے اور آپ کی کوشش کا یہ نتیجہ ہو کہ آپ کے تکفیر سے پہلے تو کل ۷۵ آدمی سالانہ جلسہ میں شریک ہوں اور بعد آپ کی تکفیر اورجانکاہی کے روکنے کے تین سَو ستائیس احباب اور مخلص جلسہ اشاعت حق پر دوڑے آویں۔ اب اس سے کیا لکھوں میں اس خط کو انشاء اللہ چھاپ کر شائع کر دوں گا اور مجھے اس
۱؎ الجن: ۲۷، ۲۸ ۲؎ المؤمن: ۲۹
بات کی ضرورت نہیں کہ اس الہامی پیشگوئی کی آزمائش کے لئے بٹالہ میں کوئی مجلس مقرر کرو مناسب ہے کہ آپ بھی اپنے اشاعۃ السنہ میں میرے اس خط کو شائع کر دیں اور یہ بات بھی ساتھ لکھ دیں کہ اب آپ کو قبول کرنے میں کیا عذر ہے جو منصف لوگ دیکھ لیں گے کہ وہ عذر صحیح یا غلط ہے۔
مکرر یہ کہ اللہ جلشانہٗ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں نہ مفتری ہوں نہ دجال نہ کذاب اس زمانہ میں کذاب اور دجال اور مفتری پہلے اس سے کچھ نہیں تھے تا خدا تعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجال کو قائم کر کے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا ہے۔ مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں میںان کا کیا کروں۔ میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا ہمارے ہادی و رہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش ۔اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں۔ یہ سچ ہے اگر میں اس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے۔ میں نے جو ایک پیشگوئی جس پر آپ نے میرے صادق اور کاذب ہونے کا حصر کر دیا آپ کی خدمت میں پیش کی ہے یہی میرے صدق اور کذب کی شناخت کے لئے کافی شہادت ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کذاب اور مفتری کی مدد کرے۔ لیکن ساتھ اس کے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے متعلق دوپیشگوئی اور ہیں۔ جن میں اشتہار ۱۰؍ جولائی۱۸۸۸ء میں شائع کر چکا ہوں جن کا مضمون یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کو بیوہ کر کے میری طرف ردّ کرے گا۔ اب انصاف سے دیکھیں کہ نہ کوئی انسان اپنی حیات پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی نسبت دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا یا فلاں وقت تک مر جائے گا مگر میری اس پیشگوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں اوّل نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا ششم پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔ اب آپ ایماناً کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرہ اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیشگوئی پر جو لڑکی کے باپ کے متعلق ہے جو ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو پوری ہوگئی آپ کا دل نہیں ٹھہرتا تو آپ اشاعۃ السنہ میں ایک اشتہار حسب اپنے اقرار کے دے دیں کہ اگر یہ دوسری پیشگوئیاں بھی پوری ہوگئیں تو اپنے ظنون باطلہ سے توبہ کروں گا اور دعویٰ میں سچا سمجھ لوں گا اور اس کے خدا تعالیٰ سے ڈر کر یہ بھی اقرار کریں کہ ایک تو ان میں سے پوری ہوگئی اور اگر اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے کا آپ کے دل میں زیادہ اثر نہ ہو تو اس قدر تو ضرور چاہئے کہ جب تک آخر ظاہر نہ ہو کف لسان اختیار کریں جب ایک پیشگوئی پوری ہوگئی تو اس کی کچھ تو ہیبت آپ کے دل پر چاہئے آپ تو میری ہلاکت کے منتظر اور میری رسوائی کے دنوں کے انتظار میں ہیں اور خدا تعالیٰ میرے دعویٰ کی سچائی پر نشان ظاہر کرتا ہے اگر آپ اب بھی نہ مانیں تو میرا آپ پر زور ہی کیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ انسان اپنے اوائل ایام انکار میں بباعث کسی اشتباہ کے معذور ٹھہر سکتا ہے لیکن نشان دیکھنے پر ہرگز معذور نہیں ٹھہر سکتا۔ کیا یہ پیشگوئی جو پوری ہوگئی۔ کوئی ایسا اتفاقی امر ہے جس کی خدا تعالیٰ کو کچھ بھی خبر نہیں کیا بغیر اس کے علم اور ارادہ کے ایک دجال کی تائید میں خود بخود یہ پیشگوئی وقوع میں آ گئی کیا یہ سچ نہیں کہ مدعی کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی توریت کی اگر آپ میںانصاف کا کچھ حصہ ہے اور تقویٰ کا کچھ ذرّہ ہے تو اب زبان کو بند کر لیں خدا تعالیٰ کا غضب آپ کے غضب سے بہت بڑا ہے۔ ۱؎ والسلام علی من اتبع الھدی وما استکبرو ما ابی
عاجز
غلام احمد عفی اللہ عنہ

۱؎ النساء: ۱۴۸
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
عرض حال
الحمدللّٰہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین۔ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ محمد الامین وخاتم النبین وآلہ واصحابہ الطیبین وعلی خلفائہ الراشدین المھدین۔
امابعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نہایت خوشی اور مسرت قلبی سے اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کو اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی اور اپنے فضل ہی سے اسے اس کے ہاتھ میں قلم اور دل و دماغ میں قوت بخشی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قلمی خدمت کے لئے اسے ایک جوش عطاء فرمایا تب ہی سے اسے یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات۔ مکتوبات اور ہر ایسی تحریروں کو جمع کروں جو حضور کے قلم سے نکلتی ہوں اور کسی منتشر حالت میں ہوں یا اندیشہ ہو کہ نایاب نہ ہو جائیں۔ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ موقع دیا کہ وہ الحکم کے ذریعہ آپ کے ملفوظات اور الہامات اور مکتوبات وغیرہ کو ایک حد تک جمع کر سکا۔ الحکم کے ذریعہ اس سلسلہ میں فضل ربی سے بہت کام ہوا۔ پرانی تحریروں کے جمع کرنے میں بھی ایک حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ پرانی تحریروں کے سلسلہ میں مکتوبات کا سلسلہ شامل کر دیا گیا تھا۔ خد اکا شکر ہے کہ مکتوبات کے سلسلہ میں پانچویں جلد کا پہلا حصہ شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ اس پانچویں جلد کے کئی حصے ہوں گے کیونکہ اس جلد میں وہ مکتوبات آئیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مخلص خدام کو لکھے تھے۔ پہلی جلد مکتوبات کی جب شائع کی کئی تھی۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ دوسری جلد میں حضرت مولانا نورالدین صاحب کے نام مکتوبات درج کروں لیکن بعد میں میرا خیال ہوا کہ مخالفین اسلام کے نام کے مکتوبات کی جلدوں کو پہلے چھاپ دوں اور مخلص خدام کے مکتوبات کا سلسلہ بعد میں رکھوں۔ چنانچہ آریوں۔ ہندئوئوں۔ برہموئوں کے نام کے مکتوبات دوسری جلد میں اور عیسائی مذہب کے لیڈروں کے نام کے مکتوبات تیسری جلد میں شائع ہوں چکے ہیں۔ چوتھی جلد میں سلسلہ عالیہ کے تلخ تریں دشمن مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام کے مکتوبات ہیں۔ یہ مکتوبات جمع ہو چکے ہیں اور جلد تر شائع ہوں جائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔ پانچویں جلد حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مخلصین کی جلد ہے اس کے متعدد حصے ہوں گے۔ چنانچہ یہ پہلا حصہ ہے۔ حصہ دوم میں حضرت چودھری رستم علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میں یہ بھی کوشش کر رہا ہوں کہ آیندہ جو مکتوبات طبع ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اپنے ہی خط کے عکس میں شائع ہوں مگر یہ بہت محنت اور کوشش اور صرف کا کام ہے احباب نے میری حوصلہ افزائی کی اور اس کام میں میری مالی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں میں اس میں کامیاب ہو جائوں کیونکہ اصل مکتوبات میرے پاس موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی کی اوّل اور آخر حمد ہے۔ سلسلہ احمدیہ کا ادنی خدمت گزار۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر۔ تراب منزل قادیان دارالامان
الحکم آفس ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۸ء





حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ
کے ملفوظات
حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے ان مشاہیر صحابہ سے ہیں جو نہ صرف السابقون الاولون من المھاجرین کے گروہ میں داخل ہیں بلکہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سلسلہ ہمیشہ ان کے وجود پر اس لحاظ سے فخر کرے گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے عرفانی نشانوں میں سے ایک ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر نازل ہوئی ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے آپ ان کی نوح مزار لکھی جس میں فرمایا
کے تواں کردن شمار خوبی عبدالکریم
اسی مخدوم الملۃ کے ملفوظات کو سلسلہ وار چھوٹے چھوٹے رسالوں میں شائع کرنے کا میں نے تہیہ کیا ہے تا اس نیاز مندی اور محبت کے تعلقات کا اظہار کروں جو مولانا ممدوح سے مجھے ان کی کمال شفقت اور توجہ کی وجہ سے پید اہوئے تھے اس سلسلہ میں مولانا ممدوح کے خطبات۔ مکتوبات۔ ان کی تقریریں اور لیکچر ہوں گے اور ان کی اشاعت کے بعد انشاء اللہ العزیز حیات صافی یعنی مولانا ممدوح کی سوانخ عمری ہو گی۔ لیکچروں کے سلسلہ میں یہ پہلا لیکچر ہے۔ یہ رسالے صرف اسی قدر طبع ہوں گے جو نکل سکیں۔ کاغذ اور سامان طباعت کی گرافی مجھے اس وقت تک ۴۰۰ سے زیادہ چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر چالیس احباب اس سلسلہ کے دس دس رسالوں کے مستقل خریدار بن جائیں تو میں اس تعداد کو دو چند کر دوں گا۔ یہ فرض شناسی قو م کے اہل دل احباب اور مخدوم الملۃ کے مخلص دوستوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس سلسلہ کی سر پرستی کریں۔ اس سلسلہ میں پہلا نمبر لیکچر گناہ چھپ کر شائع ہو گیا ہے۔ اس لیکچر گناہ کے بعد مخدوم الملۃ کا رسالہ القول الفصیح شائع ہو گا۔ قیمت فی رسالہ ۴؍ ہو گی۔
تمام درخواستیں اس پتہ پر ہوں۔
خاکسار
یعقوب علی تراب احمدی۔ ایڈیٹر الحکم و رسالہ احمدی خاتون قادیان
کلیات حامد
یعنی
حضرت میر حامد صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی تصنیفاتنظم و نثر کا مجموعہ کامل
مارچ ۱۹۱۸ء کے اوائل میں حضرت حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے کلیات حامد کی ترتیب و اشاعت کا کام میرے سپرد فرمایا اور اس کے کل اخراجات طبع اپنے ذمے لئے اور فرمایا کہ اخراجات میں دوں گا اور اس کی آمدنی اعانت الحکم میں خرچ ہو گی۔ چنانچہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۸ء کے الحکم میں کلیات حامد کا اعلان کیا گیا اور میں نے حضرت شاہ صاحب کے تمام مضامین اور رسائل کو جمع کرنا شروع کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ شاہ صاحب کی زندگی میں یہ تمام کام ختم نہ ہو چنانچہ شاہ صاحب ۱۵؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو تین بجے صبح کے رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور کلیات کا کام نا تمام رہ گیا۔ اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو حضرت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی یاد گار کے طور پر شائع کروں۔ کلیات حامد میں حضرت شاہ صاحب کی تمام تصانیف اور تمام مضامین نظم و نثر جمع کئے جائیں گے اور اس کے اوّل شاہ صاحب قبلہ کی مختصر لائف مع فوٹو ہو گی۔
حضرت شاہ صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک درخشندہ گوہر اور ممتاز رکن تھے۔ ان کا نام میری کسی معرفی کا محتاج نہیں۔ جماعت کے تمام افراد میں شاہ صاحب اپنی اعلی درجہ کی متقیانہ اور نمونہ کی زندگی باعث نمایاں تھے میں ان کے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مخدوم بزرگ کی یاد گار کے قائم رکھنے میں مدد دیں۔ سالانہ جلسہ تک کلیات حامد کی ایک جلد شائع کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دو جلدوں میں ہو گی۔ پہلا حصہ نثر کا اور دوسرا نظم کا ہو گا۔ مکمل کلیات حامد کی قیمت ۸؍ ہو گی۔ اگر ایک سو احباب صرف چار چار جلدیں خرید لیں اور پیشگی قیمت بھیج دیں تو اس کام میں سہولت اور آسانی پید اہو سکتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گااسے پورا کرنے کی توفیق دے گا۔ سالانہ جلسہ تک انشاء اللہ یہ مجموعہ شائع ہو سکے گا۔ وباللہ التوفیق۔
تمام درخواستیں ذیل کے پتہ پر آنی چاہئیں۔
شیخ یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر اخبار الحکم و رسالہ احمدی خاتون۔ قادیان دارالامان









بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکتوب نمبر ۱
مکرمی اخویم حاجی سیٹھ اللہ رکھاعبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔
کل کی تاریخ میں مبلغ سو روپیہ مجھ کو پہنچے۔ جزاکم اللہ خیرا کوئی خط ساتھ نہیں آیا۔ اس لئے بدستخط خود رسید سے اطلاع دیتا ہوں امید کہ ہمیشہ خیر خیریت سے مطلع اور مسرور الوقت فرماتے رہیں۔ باقی ہر طرح سے خیریت ہے۔ مخالفون کا اس طرف بہت غلبہ ہے ایام ابتلا معلوم ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو ثابت قدم رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۹۴ء
مکتوب نمبر ۲
مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آنمکرم کی طرف ایک دفعہ سو روپیہ اور ایک دفعہ تار کے ذریعہ ڈیڑھ سو روپیہ مجھ کو کل پہنچا اور اللہ جل شانہ بعوض انددینی خدمات کے دنیا اور آخرت میں آپ کو اجر بخشے اور آپ کے ساتھ مجھ کویہ روپیہ بہت ہے اور آپ کے ساتھ مجھ کو یہ روپیہ بہت ہے اس قدر کہ وقت پر کام دیا۔ ایسا اتفاق ہوا کہ عبداللہ آتھم عیسائی اور اس کا باقی گروہ جن کی نسبت پیشگوئی ہوئی تھی کہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں ا س کو ہر طرح کا عذاب اور ذلت پہنچے گی ان کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی مگر بعض شریر قبول نہیں کرتے۔ عبداللہ آتھم کی نسبت یہ الہام تھا کہ اگر وہ پندرہ مہینے تک حق کی طرف رجوع نہ کرے تو مر جائے گا چنانچہ وہ پندرہ ماہ تک مارے خوف جان بلب رہا اور شہر بہ شہر سے ڈرتا پھرا اور اس کے دماغ میں بھی خلل آ گیا اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس نے پوشیدہ طور پر حق کی طرف رجوع کیا لہذا اس شرط کے موافق موت سے بچے گا۔ گو ہاویہ کامزہ دیکھ لیا۔ اس لئے میں نے عیسائیوں پر حجت ثابت کرنے کے لئے پانچ ہزارا شتہار چھپوایا ہے اور اسی بارے میں ایک رسالہ انواراسلام چھایا اس پر آپ ہی کا روپیہ آمدہ خرچ ہوا یہ اشتہار اور رسائل عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہوں گے ان کاخلاصہ مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی کو پورا کیا اور عیسائیوں کے بحث کرنے والے گروہ کو طرح طرح عذاب اور دکھوں میں مبتلااور عبداللہ آتھم نے پوشیدہ طور پر حقانیت اسلام کو قبول کر لیا اور اگر عبداللہ آتھم انکار کریں کہ میں نے قبول نہیں کیا تو وہ ہم سے بلاتوقف ہزار روپیہ لے اور قسم کہا جائے اور اگر وہ قسم کھا کر ایک سال تک گیا تو روپیہ اس کاہوا اور نیز ہم اقرار کردیں گے کہ ہمارا الہام غلط ہے۔ اس غرض سے یہ پانچ ہزار اشتہار چھپوایا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھ پر اچھی طرح کھول دیا ہے کہ اس کی رہائی محض اسلام کی طرف جھکنے سے ہوئی ہے لیکن اگر وہ آپ کو ہزار روپیہ طلب کرے تو پہلے سے اس کافکر ہو رہنا ضروری ہے سو اگرچہ میں آپ کے متواتر خدمات کی وجہ سے کوئی تکلیف آپ کو دینا نہیں چاہتا۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ ایسے کاموں میں اگر دوستوں کو نہ کہا جائے تو اور کس کو کہا جائے میں خواہش رکھتا ہوں کہ چند دوست مل کر یہ ہزار روپیہ مجھ کو بطور قرضہ کے دے دیں۔ مگر ابھی میرے پاس بھیجا نہ جائے اگر اس عیسائی نے مقابلہ کے لئے دم مارا اور روپیہ طلب کیا تو اس وقت بذریعہ تار بھیج دیں یہ روپیہ محض میرے ذمہ ہو گا اور خدا کے متواتر الہامات سے آفتاب کی طرح میرے پر روشن ہے کہ ہم فتح پائیں گے۔ لیکن ایک معاملہ کی بات کو طے کرنے کے لئے لکھتا ہوں کہ … کے طور پر جو بالکل محال ہے کافر بیدین فتح یاب ہوا تو یہ قرضہ تامل ادا کروں گا۔ ورنہ وہ ہزار روپیہ جو بطور امانت اس کے پاس ہو گا۔ واپس کر دیا جائے گا۔ مجھ کو اس کاکمال ترود ہے خداتعالیٰ بہم مجھ کو پہنچا دے اور امر کہتا … …ہر طرح پر بہم پہنچا دے گا۔ وہ قادر مطلق ہے مگر اس وقت بھیجا جائے کہ جب طلب کروں اور دیکھوں کہ اب ……ابھی اشتہار چھپ رہے ہیں۔ بلکہ جس وقت اشتہار رجسٹری کرا کر اس کے پاس پہنچایاجائے گا اور وہ روپیہ …… اس وقت درکار ہے۔ اوّل تو مجھے امید نہیں کہ وہ طلب کرے کیونکہ وہ جھوٹا ہے اوردرحقیقت جیسا کہ الہام کامنشاء ہے اس نے اسلام کی طرف رجوع کیاچاہے اور اگر طلب کرے تو خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ذلیل ہوکر مرے گا اور ہزار روپیہ ضامسنون کے پاس باضابطہ نمسک لے کر رکھوایا جائے گا۔ امید کہ جواب سے مطلع فرمادے گے۔ باقی خیریت ہے والسلام اور واضح کہ عبداللہ آتھم کے باقی گروہ جو فریق مباحثہ تھے ہر ایک طرح کا عذاب پہنچ گیا بلکہ موتیں بھی وار ہوئیں جس کی نقل اشتہار میں درج ہے۔
فقط
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۹۴ء
مکتوب نمبر ۳
مشفق مکرمی ہمارے بہادر پہلوان حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تار پہنچاحال یہ ہے کہ درد دغ گو حق پوش عیسائی نے قسم کھانے سے انکار کیا اس وقت دوسرا اشہتار لکھا جا رہا ہے جس میں بجائے ایک ہزار دو ہزار روپیہ انعام رکھ دیا گیا ہے امید نہیں اور ہر گز امید نہیں کہ اب بھی کھا وے لیکن یہ تمام ثواب آپ کے حصہ میں ہے آپ اب بجائے ایک ہزار کے دو ہزار کی تیاری رکھیں میں چاہتا ہو ں کہ پانچ ہزار تک یکے بعد دیگرے اشتہار دئیے جائیں اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ یہ پانچ ہزار روپیہ ثواب آپ کو ہر گز امید نہیں کہ وہ پلید گروہ عیسائیوں کا مقابلہ پر آوے کیونکہ جھوٹے ہیں مگر خدا جانے اس تقریب سے کیا کیا ثواب آپ کو ملے گا ایسی صورت ہو کہ جب ہم آپ سے بذریعہ تا دو ہزار روپیہ طلب کریں تو بلا توقف پہنچ جائے اور اگر دو ہزار پر بھی یہ پلید گروہ خاموش رہے تو میں تین ہزار روپیہ کا اشتہار دوں گا تو بروقت طلب تین ہزار روپیہ پہنچنا چاہئے مگر ہمیں ہر گز امید نہیں کہ وہ نصرانی قسم کھا وے کیونکہ جھوٹا ہے ان کی روسیاہی اور ان لوگوں کی روسیا ہی مطلوب ہے جو مسلمان کہلا کر ان کے رفیق بن بیٹھے ہیں شاید ایک ہفتہ تک دو ہزار روپیہ کا اشتہار آپ کے پاس پہنچ جائے گا اور غالباً یہ اشتہار دس ہزار تک چھپے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
(اس خط پر تاریخ نہیں مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے۔ ایڈیٹر)
مکتوب نمبر ۴
مکرمی مخلص و محب یک رنگ حاجی سیٹھ اللہ رکھا عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آنمکرم کے ایک سو روپیہ مرسلہ بذریعہ تارکل کی ڈاک میں مجھ کو ملا خداتعالیٰ ان خدمات کا بدلہ جو آپ للہ کررہے ہیں۔ دین ودنیا میں آپ کو عطافرمائے او رہر قسم کی بلا و آفت سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ آپ کا روپیہ جن دینی کاموں اور اغراض میں ہمیں کام آرہا ہے۔ اس سے اطمینان دل کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ جلشانہ نے ثواب کبرا پہنچانے کا آپ کے لئے ارادہ فرمایا ہے دنیا کی حقیقت خدا تعالیٰ کے نزدیک اس قدر ہیچ ہے کہ پرپشہ کی برابر بھی نہیں اس لئے فاسق اور فاجر اور بڑے بڑے کافر بھی اس میں شریک ہیں بلکہ زیادہ دنیا میں عروج انہیں کا نظر آتا ہے پس نیک بخت مسلمان کے لئے جو سچا مسلمان ہے فکر آخرت مقدم ہے دنیا میں ہم درختوں کے پتے کھا کر بھی گزارہ کر سکتے ہیں فاقوں سے بھی بسر کرسکتے ہیں۔ لیکن آخرت کے ذلت اور آخری محتاجگی ایک ابدی موت ہے سومیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہ دنیا کی آفات سے محفوظ رکھ کر عاقبت کے مراتب نصیب کرے اور اپنی محبت عطا فرمائے۔ آمین۔ مجھے آپ سے دلی محبت ہے او رآپ کے لئے غائبانہ دعا کرتا رہتا ہوں اور آپ کے بھائی صالح محمد اور عالی محمد دونوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہ دنیا کی بلائوں سے بچاوے اور دین کی لغزشوں سے محفوظ رکھے آپ کا پہلا روپیہ بھی پہنچ گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۹۴ء
مکتوب نمبر ۵
محب یک رنگ مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اللہ رکھا۔ سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں بذریعہ تار مبلغ پانچ سو روپیہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا۔ خداتعالیٰ آپ کے ان للہی خدمات کا دونوں جہان میں وہ اجر بخشے جواپنے مخلص اور وفادار بندوں کا بخشتا ہے۔ آمین ثم آمین۔ یہ بات فی الوقعہ سچ ہے کہ مجھ کو آپ کے روپیہ سے اس قدر دینی کام میں مدد پہنچ رہی ہے کہ اس کی نظیر میرے پاس بہت کم ہے میں اللہ تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ان خدمات کا وہ بہ رحمت باداش بخشے کہ تمام حاجات درارین پر محیط ہو اور اپنی محبت میں ترقیات عطا فرمائے محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس پر آشوب زمانہ میں جو دل سخت ہو رہے ہیں آگے سے آگے بڑھانا کچھ تھوڑی بات نہیں ہے۔ انشاء اللہ القدیر آپ ایک بڑے ثواب کا حصہ پانے والے ہیں کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا ہے کہ ایک جگہ میں بیٹھا ہوں یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہو گیا ہے میں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا۔ آخر میری رائے ٹھہر ی کہ خداتعالیٰ کے فرشتہ نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے پھر ساتھ الہام ہوا کہ انی مرسل الیکم ہدیتہ۔ کہ میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی بھی تعمیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب اس فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ پہنچائیں گے اور اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ دیا۔ چنانچہ کل اس کی تصدیق ہو گئی الحمدللہ یہ قبولیت کی نشانی ہے کہ مولی کریم نے خواب اور الہام سے تصدیق فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور فضل سے مکروہات سے بچاوے اور آپ کے ساتھ ہو۔ میں عنقریب ایک کتاب منن الرحمن نام شائع کرنے والا ہوں شاید کل اس کے کاغذ کے لئے لاہور میں آدمی بھیج دوں۔ اس میں یہ بیان ہے کہ خداتعالیٰ نے ہم پر کیا کیا فضل کئے اور قرآن کریم کی بعض آیتوں کی تفصیل ہو گی غالباً عربی زبان میں معہ ترجمہ ہو گی باقی سب خیریت ہے۔ والسلام از طرف محبی اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب السلام علیکم معلوم کریں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۷؍ مارچ ۹۵ء
مکتوب نمبر ۶
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل بذریعہ تار مبلغ یک صدروپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گئے جزاکم اللہ خیرا الجزاء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ یہ ایک الطاف رحمانیہ ہے اور قبولیت خدمت کی نشانی ہے کہ آپ کی خدمت مالی سے اکثر پیش از وقت مجھ کو خبر دی جاتی ہے اس لئے ایسا ہی اتفاق ہوا اور دوسرے دن کے لئے بہت ہی کم ایسا معاملہ وقوع میں آیا ہے۔ واللہ اعلم یہ عاجز ان دنوں بیمار رہا ہے اور اب بھی اکثر درد سر دوران سر کی بیماری میں لاحق ہے مگر الحمد للہ کہ ہزاروں خطرناک بیماریوں سے امن ہے۔ میری متواتر علالت طبع کے باعث سے رسائل اربعہ کے طبع میں توقف ہوا اب میں خیال کرتا ہوں کہ شاید یہ کام آخر نومبر ۹۶ء تک کامل ہو جائے آیندہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے بخدمت محبی اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب بعد سلام علیکم میری دانست میں سفر جاپان مناسب نہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ جون ۹۶ء
مکتوب نمبر ۷
مخدومی مخلصی محبی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
تین روز ہوئے کہ آپ کا ملہی عطیہ یعنی سو روپیہ بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیر اء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی جس قدر آپ اس محبت کے جوش سے جوبندگان خداکو خداتعالیٰ کی راہ میں ہوتے ہیں خدمت مالی کر رہے ہیں اس کی عوض میں ہماری بھی دعا ہے کہ خد اکریم ور حیم آپ کو دنیا و آخرت میں لازوالی رحمتوں سے مالا مال کرے اور ہر ایک امتحان اور ابتلاء سے بچاوے آمین ثم آمین۔ اس وقت انہیں رسائل کی تالیف میں مشغول ہوں۔ جن کاآنمکرم سے تذکرہ ہوا تھا چونکہ بعض امور میں یہودیوں کی شہادتیں درکار تھیں اس لئے میرے وقت کا بہت حرج ہوا۔ اب صرف ادن امور مستفرہ سے ایک امر باقی ہے جس کی نسبت محبی منشی زین الدین محمد ابراہیم نے وعدہ کیا ہے کہ جلد میں اس کا جواب بھیج دوں گا اس کے بعد میری کاروائی جلد جلد انشاء اللہ خاتمہ کو پہنچے گی خدا تعالیٰ ان پادریوں کی گروہ کوتباہ کرے انہوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے آمین امید کہ ہمیشہ اپنے حالات سے خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۹؍ اگست ۹۶ء
مکتوب نمبر ۸
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا اور حال خیروعافیت معلوم ہوا خداتعالیٰ آپ کو ان مخلصانہ خدمات کا ثواب دار دین میں بخشے اور نیز آپ کے اموال میں برکت عطا کرے۔
مکتوب نمبر ۹
مخدومی مکرمی محبی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آن محب مجھ کو پہنچا۔ اس کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹہ پہلے خدائے عزوجل نے اس کی اطلاع دی سو آپ کی اس خدمت کے لئے یہ اجر کافی ہے کہ خداتعالیٰ آپ سے راضی ہے ا س کی رضا کے بعد اگر تمام جہاں ریزہ ریزہ ہو جائے تو کچھ پرواہ نہیں یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے۔ فالحمدللہ الحمدللہ اس وقت میں تین رسالے اتمام حجت کے لئے تالیف کر رہا ہوں اور جو دوسرے رسالہ عیسائی مذہب پر لکھ رہا ہوں۔ ان میں یہ ایک توقف ہے کہ چند یہودیوں اور ……کی کتابیں میرے پاس انگریزی میں پہنچی ہیں میں جانتا ہوں کہ ان کا ترجمہ کراکر کچھ ان کے مقاصد جو کار آمد ہوں ان رسائل میں درج کروں اور یہ رسالہ جو اب چھپ رہا ہے۔ غالباً وہ تین ہفتہ تک آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اکتوبر ۹۶ء
مکتوب نمبر ۱۰
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں بباعث علالت طبع تین روز جواب لکھنے سے قاصر رہا۔ آپ کی تشریف آوری کے ارادہ سے نہایت خوشی پہنچی اللہ تعالیٰ جزا اور فضل اور عافیت سے پہنچائے۔ امید ہے کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے اس طرف کا قصد فرما دیں بجز استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قل یا اہیا الکافرون پڑھیں۔ یعنی الحمد تمام پڑھنے کے بعد ملالیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قل ہو اللہ احد ملا لیں اور پھر التحیات میں آخیر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل او ر خیر ہے اور قدرت ہے اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو صواقب امور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں سو یا الٰہی اگر تیرے انجام امر میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے میری دنیا کے لئے میرے دین کے لئے اور انجام امر کے لئے اور اس میں کوئی شر نہیں سو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ سفر میر امیری دنیا یا میری دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین۔ یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے تین دن کرتے ہیں یہ حکمت ہے کہ بار بار کرنے سے اخلاص میسر آجائے آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپراہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جائے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا افتمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ استخارہ کے بعد متولی اور متکفل ہو جاتا ہے او راس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک کہ اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے اللہ تعالیٰ آپ کا ہر جگہ حافظ ہو لیکن ہماری طرف سے شرط یہ ہے کہ ایام سابق کی طرح آپ صرف دس پندرہ دن نہ رہیں چالیس دن کسی طرح کم نہ رہیں ہر ایک جدائی کے بعد معلوم نہیں کہ پھر ملنا ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ دنیا سخت بے ثبات اور ناپائیدار ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا اس میں کیا عمدہ سخن ہے۔ بلبلے زار زارمی نالید۔ بر فراق بہار و وقت خزاں۔گفتمش صبر کن کہ باز اید۔ آن زمان شگوفہ و ریحان۔ گفت ترسم بقاوفا نکذ۔ ورنہ ہر سال گل و ہدبستان۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۴؍ نومبر ۹۶ء
مکتوب نمبر ۱۱
مخدومی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
کل تار کے ذریعہ سے مبلغ سو روپیہ مجھ کو آپ کی طرف سے پہنچ گیا۔ اللہ جلشانہ آنمکرم کو ان للہی خدمات کا دونوںجہاں میں اجر بخشے اور آپ کو محبت میں اپنی ترقیات عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہو میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اپنی کسی کتاب میں محض بھائیوں کے دعا کے لئے آنمکرم کے دینی خدمات کا کچھ حال لکھوں۔ کیونکہ اس میں دوسروں کو نمونہ ہاتھ آیا ہے اور محبان اسلام غائبانہ دعا سے یاد کرتے ہیں اور آیندہ آنے والی نسلیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور نیز چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ چند دوستوں کا بھی ذکر کروں۔ کیونکہ اللہ جلشانہ قرآن شریف میں ترغیب دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جیسا کہ تم بعض اپنے نیک اعمال کو پوشیدہ کرتے ہو ایسا ہی بعض اوقات ان لوگوں پر ظاہر کردیتا ہے کہ اگر آیندہ کسی رسالہ میں جلد یا دیر سے ایسا لکھوں تو آپ اس سے موافقت ظاہر کریں۔ ہمارے کام محض اللہ جلشانہ کے لئے ہیں اور کسی کی نسبت وہ حالات اور واقعات جو لکھے جائیں ماشا وکلاء اس کی ہرگز نہیں اور نہ اس کے خوش کرنے کے لئے کی سخت معصیت ہے۔ بلکہ نمونہ دکھلانے کے لئے صحت نیت سے محض للہ ہو گا وانما الاعمال بالنیات اور عنقریب بعض کاغذ دستخط کے لئے آنمکرم کی خدمت میں پہنچے جائیں گے امید کہ آنمکرم بہت کوشش کر کے اور ان کی تعمیل کر دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۲
محبی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا خط ملا۔ آپ کی بہو کی علالت طبع کا حال معلوم کر کے نہایت تردد ہو ا۔ اسی وقت دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ آپ پر رحم فرماوے اور صدمات سے محفوظ رکھے میں انشاء اللہ القدیر بہت دعا کروں گا۔ دنیا جائے ابتلاء اور جائے امتحان ہے یہ مرض درحقیقت بہت خطرناک اور نازک ہے اور ریہ زیادہ آفت کا تحمل نہیں رکھتا اور گل جاتا ہے اور ریہ کی آفت کے ساتھ جو لازمی تب ہو وہ دق کہلاتی ہے اللہ جلشانہ اس بلا سے بچاوے اور اس آفت سے محفوظ رکھے۔ کہتے ہیں کہ مچھلی کاتیل اس کے مفید ہوتا ہے اور بکری کے پایہ کی یخنی بھی مفیدہے۔ بر عایت ظاہر اسباب کسی حاذق ڈاکٹر سے علاج کرانا چاہئے اور یہ عاجز دعا کرتا رہے گا۔ اللہ جلشانہ شفا بخشے آمین ثم آمین۔
مکتوب نمبر ۱۳
مخدومی مکرمی حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ آنمکرم مجھ کو ملا۔ جزاکم اللہ خیرا الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔الحمد للہ والمنت۔آپ میں صحابہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاص اور صدق کا رنگ پایا جاتاہے۔ خداتعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اور تمام مکروہات سے آپ کو محفوظ رکھے۔ آمین۔ اس ملک میں اگرچہ غربا اور مسکین کی کثرت سے ہماری جماعت میں داخل ہو رہے ہیں مگر ابھی تک متعصب مولوی اسی سے اپنے بخل پر قائم ہیں اور ہر طرح سے منہ کھول کر لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنا چاہتے ہیں مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہو ا ہے۔ انی فی الافواج آتیک بغتہ ترجمہ یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ ترے پاس آنے والا ہوں۔ یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کی طرف معلوم ہوتا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ بجز آسمانی نشانوں کے دنیا حق کی طرف جھکتی نظر نہیں آتی تعصب بہت بڑھ گیا ہے بخدمت عزیزی سیٹھ صالح محمد صاحب اور محبی مشفقی مرزا خدا بخش صاحب اگر وہاں ہوں السلام علیکم
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍جنوری ۹۸ء
مکتوب نمبر ۱۴
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم بخیرو عافیت پہنچا معلوم ہوا۔الحمداللہ علی ذالک امید کہ حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں اس جگہ بفضل ربی خیریت ہے اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب و مولوی سلطان محمود صاحب و دیگر احباب السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍فروری ۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۵
مخدومی مکرمی اخویم سرا پا محبت و اخلاص حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت ۲۴؍ مارچ ۹۷ء میں مبلغ سوروپیہ بذریعہ تار مرسلہ آن مخدوم مجھ کو ملا خداتعالیٰ آپ کو اسی للہی ہمدردی اور خدمت کے اپنے پاس سے اپنے لطف و احسان سے جزا بخشے اور اس داارلفتن میں تمام مکروہات سے بچاوے آمین ثم آمین۔ امید ہے لیکہرام کے متعلق دونوں قسم کے دو ورقہ اور ورقہ اشتہار پہنچ گئے ہوں گے اور دو رسالہ لکھے جا رہے ہیں۔ جس وقت تیار ہوں گے انشاء اللہ خدمت میں بھیج دی جائے گے۔ تمام احباب میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ مارچ ۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۶
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں ایک نہایت عمدہ ریشمی تھان اطلس مرسلہ آنمکرم بذریعہ پارسل مجھ کو ملا۔ خد ا تعالیٰ متواتر اور متوالی خدمات کادونوں جہان میں آپ کو ثواب بخشے اور آپ پر راضی ہو اور اس بے ثبات دنیا کی مکروہات سے امن میں رکھے آمین ثم آمین۔ یہ عاجز بفضلہ تعالیٰ بخیروعافیت ہے اور تمام احباب اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب بخیرو عافیت ہیں اس جگہ کے احباب میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۱؍ رمضان المبارک ۱۳۱۲ء
مکتوب نمبر ۱۷
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ مکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ خیر االجزاء احسن الیکم فی الدنیا والعقبی اس جگہ ہندئوئوں کے ہر روزہ مقابلہ سے نہایت کم فرصتی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کوئی نشان دکھانے والا ہے امید ہے کہ آنمکرم اپنے خیر و عافیت اور تمام عزیزوں کی خیروعافیت سے مطمئن فرماتے ہیں۔ بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد السلام علیکم۔ جو آپ نے کپڑے اور کڑے لڑکی کے لئے بھیجے تھے وہ سب پہنچ گئے ہیں۔ باقی سب خیریت ہے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۱۸
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
آنمکرم کاخط پہنچا میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ آپ خداوند کریم پر بہت توکل اور بھروسہ کریں آپ سچے دل سے ہمارے اس سلسلہ کے خادم ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا ہم نے دینی مصلحت اور شکر الہی کے طورپر ایک کتاب تحفہ قیصر نام بطور ہدیہ قیصرہ ہندکی خدمت میں بھیجنے کے لئے تجویز کی تھی۔ آج خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس ارادہ میں کہ کامیاب نہ ہو ایک الہام میں ہماری جماعت کے ایک ابتلاء کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مگر انجام سب خیروعافیت ہے۔ خداتعالیٰ نہایت توجہ سے اس سلسلہ کی مدد کرنا چاہتا ہے یہ الہام کہ انی مع الا افواج ایتک بضہصاف دلالت کر رہا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی اور نشان ظہور میں آنے والا ہے باقی سب خیریت ہے۔ بخدمت محبی سیٹھ صالح محمد صاحب السلام علیکم اور اگر محبی مرزا خدا بخش صاحب ہوں تو ان کی خیریت میں بھی السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۹؍ جون ۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر ۱۹
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
مجھے بذریعہ اس خبر کے پہنچنے سے کہ آنمکرم کے گھر کے لوگوں نے یک دفعہ …………… کہ تحریر سے باہر ہے۔ اللہ جلشانہ ایک صبر بخشے علاقہ مفارفت کے خانہ داری امور کی ابتری ایک مصیبت ہے مگر چونکہ اللہ جلشانہ کا یہ فعل ہے اس لئے استقال کے ساتھ صبر کرنا ہی چاہئے اور شریعت اسلام میں اور احادیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی تاکید پائی جاتی ہے کہ دوسری شادی کریں۔میرے نزدیک یہ بہت مناسب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور میں چند روز سے بعارضہ درر پہلو اور تپ اور کھانسی بیمار ہوں اور آپ کی نہایت محبت اس خط کے لکھنے کا موجب ہوئی ورنہ میں اپنے ہاتھ سے بباعث ضعف کے خط نہیں لکھ سکتا۔ اس وقت مبلغ یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۰
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل محبت نامہ آنمکرم مجھ کو ملا یہ عاجز کئی دن تک درد گردہ اور کھانسی شدیدمیں مبتلا رہا۔ اب بفضلہ تعالیٰ تخفیف ہے۔ انشاء اللہ آرام کلی ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آپ کے قادیان آنے کے ارادہ سے بہت خوشی ہوئی اللہ جلشانہ آپ کے درخت کارخانہ مقصد کو کامیابی کے ساتھ پورا کرے پھر آپ ستمبر ۹۷ء کے آخری ہفتہ میں اس طرف کا قصد کریں۔ کیونکہ اوائل ستمبر میں گرمی بہت ہوتی ہے اور یہ مہینہ عمدہ حالت پر نہیں ہوتا۔ اسی مہینہ میں اس ملک میں موسمی اور وبائی بیماریاں ہوتی ہیں مگر اس کے ختم ہونے پر سردی شروع ہو جاتی ہے اور اکتوبر کا مہینہ گویا سردی کاپیغام رسان ہوتا ہے۔ اس لئے اس ملک کی طرف جو سفر کیا جائے وہ ستمبر کے آخر یا اکتوبر کی پہلی تاریخ بہت مناسب ہے تا گھبراہٹ اور گرمی کے دن نکل جائیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اور آپ کے صدق اور اخلاص اور محبت کا آپ کو اجر بخشے باقی خیریت ہے بخدمت جمیع اعزہ جو حاضر الوقت ہوں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مورخہ ۷؍ جولائی ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۱
مخدومی مکرمی سیٹھ اخویم حاجی عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا سبحان اللہ کس قدر ملہی ہمدردی آپ کے دل وجان میں ڈال دی گئی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ایسی تمام خدمات کا جن کو وہ دیکھ رہا ہے وہ اجر بخشے جو اس کی رحمت اور کرامت کے مناسب ہے آمین۔ بباعث رمضان ابھی کوئی کتاب چھپی نہیں انشاء اللہ بعد رمضان کام طبع بعض رسائل شروع ہو گا۔ اس وقت میں جوقریب غروب ہے طبیعت نہایت کمزور ہو جاتی ہے زیادہ نہیں لکھ سکتا تمام احباب کی خدمت میں السلام علیکم۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ جولائی ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۲
محبی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ یک صد مرسلہ آنمکرم مجھ کو عین ضرورت کے وقت میں ملا۔ اللہ اللہ حصہ ثواب آخرت کے لئے بہت بڑا مقدر ہے۔ کبھی کسی نے منجانب اللہ کی اس اخلاص سے خدمت نہیں کی جس کو خدا تعالیٰ نے ضائع کیا ہو یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے اور رحمت اور اس کے لطف و احسان کا ایک مقدمہ ہے کہ دلی صدق اور صفا اور اخلاص سے آپ میں مشغول رہیں واللہ لا یضیع اجر المحسنیس۔ بخدمت جمیع احباب السلام علیکم۔ چونکہ اس جگہ وہ مسجدجس میں پانچ وقت نماز پڑھی جاتی ہے بہت تنگ ہے اور کثرت نمازیوں کی ہوتی ہے اس لئے نہایت ضروت کی وجہ سے کے باعث یہ تجویز کی گئی ہے کہ اپنے احباب کے چندہ سے یہ مسجد توسیع کی جائے شاید اشتہارآج چھپ گئے ہوں گے آنمکرم کی خدمت میں بھی پہنچیں گے۔ مدراس میں جس قدر دوست اور مخلص ہوں اگر وہ اس مسجد کی توسیع کے لئے کچھ مدد فرمائیں تو بہت ثواب ہو گا۔ یہ ایک خاص فضیلت کی مسجد ہے جس کا براہین احمدیہ میں ذکر ہے تو کلاًعلی اللہ پرسوں تک عمارت شروع کرا دی جاوے گی بالفعل قرضہ کے طور پر انیٹوں وغیرہ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ پھر جیسا جیسا چندہ آوے گا قرضہ والوں کو دیا جائے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳۱؍ جولائی ۹۷ہء
مکتوب نمبر ۲۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز اب تک آنکھوں کے آشوب سے بیمار رہا اس لئے واقعہ وفات فرزند مرحوم اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب پر عزا پرستی کر سکا اور آپ کی طرف کوئی خط لکھ سکا۔ اب کچھ کچھ آرام ہے۔ مگر ابھی تک آنکھ کمزور ہے۔ ہمیں وفات فرزند دلبند سیٹھ صالح محمد صاحب کا سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ ان کو صبر عطا فرمائے چندہ مسجد دو سو روپیہ تضصیل ذیل پہنچا۔ آپ کی طرف سے پچاس روپیہ اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب … اخویم حاجی مہدی بغدادی صاحب … اخویم دال جی لال جی صاحب … اخویم اسحاق اسمعیل صاحب سیٹھ … اخویم سیٹھ عبدالرحیم احمد صاحب … او ردوسری مد میں آپ کی طرف سے سوروپیہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ تمام احباب کو ان کی خدمات کا اجر بخشے آمین ثم آمین۔ امید کہ حالات خیرت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے اور قبل روانگی مجھے اطلاع بخشیں کہ فلاں تاریخ تک اس طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک غم۔ نجات بخشے اور کامیابی عطا فرمائے اور بلائوں سے محفوظ رکھے بفضلہ وکرم آمین ثم آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۱؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں ایک سو روپیہ بذریعہ تار مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرا احسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور مکروہات دنیا و آخرت سے بچاوے اور اپنی محبت سے بہرہ و افرہ بخشے آمین ثم آمین۔ اس جگہ چند کتابیں بڑی سرگرمی سے چھپ رہی ہیں امید کہ دو تین ہفتہ تک بعض کتابیں چھپ جائیں گی تب آنمکرم کی خدمت میں بھی مرسل ہو ں گی باقی بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے تمام احباب اور دوستوں کی السلام علیکم۔
خاکسار
مرز اغلام احمد از قادیان
۲۱؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں آپ کا عنایت نامہ ملا۔ نہایت تشویش ہوئی اللہ تعالیٰ رحم کرے۔ کل میں ایک مقدمہ کی گواہی پر جو کسی شریر نے ناحق لکھا دی ہے اور ثمن جاری کرا دیا ہے ملتان جائوں گا شاید کہ ۳۰؍ اکتوبر ۹۷ء تک واپس آئوں۔ میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ چالیس روز تک قبلہ وحید سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ ابھی سے میں نے دعا شروع کر دی ہے انشاء اللہ سفر سے واپس آکر برابر چالیس روز تک دعا کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حالت پر رحم فرمائے۔ آپ حمایت سلسلہ میں ایسے سرگرم ہیں کہ دل وجان سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے آپ تسلی رکھیں کہ بہت ہی توجہ سے آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۸؍ اکتوبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت پہنچا میں نہایت توجہ سے آپ کے لئے مصروف دعا ہوں اور ہمارا خداوند کریم بے حد شمار غفور رحیم ہے اس پر اس کے فضل پر بھروسہ رکھنا چاہئے میں اس دعا کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جب تک اس کے آثار ظاہر ہوں اس کے کاموں سے کیوں ڈرنا چاہئے جو معدوم کر کے پھر موجود کر سکتا ہے آپ تمام شجاعت او ربہادری سے اور امولو الغرمی سے خدا تعالیٰ کے فضل کے امیدوار رہیں۔ جو لوگ صبر سے اس کے فضل کے منتظر رہتے ہیں وہی لوگ اس دنیا میں اول درجہ کے خوش قسمت ہیں۔ آپ کی ملاقات کے لئے بہت اشتیاق ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ بے صبری اور گھبراہٹ سے آپ آویں اور مجھ کو ہر وقت اپنے حال ہر متوجہ سمجھیں خداتعالیٰ آپ کے خوشی کے ایام جلد لاوے آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز دعا میں بد ستور مشغول اور انشاء اللہ القدیر اسی طرح مشغول رہے گا۔ جب تک آثار خیرو برکت ظاہر نہ ہوں دیر آید درست آید میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفار اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کرلیا کریں اور اب سے مجھے یہ بھی خیال آیا ہے کہ آپ اگر اس تردد کے وقت میں قادیان میں تشریف لائیں تو غالباً دعا کی قبولیت کے لئے یہ تکلیف کشی اور بھی زیادہ موثر ہو گی سو اگر موافع اور حرج پیش نہ ہو تو بعد استخارہ مسنون ان دنوں میں جو سفر کے بہت مناسب حال میں تشریف لاویں۔ لیکن اگر راہ میں بوجہ بیماری طاعون کے تکلیف قرنطینہ در پیش ہوا اور کچھ تکلیف دہ روکیں ہوں جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے تو اس امر کو خوب دریافت کر لیں۔ غرض تشریف لانے کے یہی دن ہیں۔ شاید آپ کا یہ کام ہی جناب الٰہی میں قابل رحم تصور ہو مگر میں بار بار آپ کو وصیتاً یہی کہتا ہوں کہ یہ تکالیف خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ چیز نہیں ہیں صرف ثواب اور اجر دینے کے لئے خداتعالیٰ امتحان میں ڈالتا ہے اس لئے آپ بہت استقلال اور مردانہ شجاعت اور بہادری سے بڑ ے قوی صبر سے ساتھ روز کشایش کے منتظر رہیں کہ جب وہ وقت آئے گاتو ایک دم میں فضل الٰہی شامل ہو جائے گا آپ کے لئے اس خلوص اور توجہ کے ساتھ دعا کر رہا ہوں کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج کئی دن کے بعد آنمکرم کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ میں اول بمقام ایک گواہی کے لئے گیا تھا۔ پھر وہاں سے آکر دومرتبہ سخت بیمار ہوگیا ایک دفعہ شدت بیماری سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آخری د م ہے ان حالات میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا رہا۔ اب میں نے پختہ ارادہ کیا ہے کہ ہے کہ اگر خدا تعالی چاہے جیسا کہ میں نے وعدہ کیا ہے آپ کے لئے بہت دعا کروں جب تک اس دعا کا وقت پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ قبولیت سے بشارت بخشے سو آپ مطمئن رہیں وہ خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ نہایت رحیم اور کریم ہے اور آخرت اپنے ضعف بندوں پر رحم فرماتا ہے ابتلائوں کا آنا ضروری ہے مومن کو چاہئے کہ ایک بہادر کی طرح ان کو قبول کرے خداتعالیٰ مومن کو تباہ نہیں کرتا چاہتا بلکہ ابتلائوں کو اس کے لئے نازل کرتاہے کہ اس کے گناہ بخشے اور اس کامرتبہ زیادہ کرے میں آپ کے لئے بہت جدوجہد سے دعا کروں گا اور خداتعالیٰ پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری دعا کو ضائع نہ کرے گا اور یہ خط رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں اور میں امید رکھتا ہون کہ ہفتہ عشرہ میں آپ ضرور میری طرف خط مفصل لکھ دیا کریں۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۱۶؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۲۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا دوسرا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اضطراب پر دل نہایت درد مند ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ ایسا کرے کہ مجھے جلد تر خوشخبری کا خط پہنچے میں سرگرمی سے دعا میں مشغول ہوں اور میری وہ مثال ہے کہ جیسے کوئی نہایت احتیاط سے کسی نشانہ پر تیر مارہا ہے کہ امید ہے کہ جلد یا کچھ دیر سے تیر بہدف ہو۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں آپ سے زیادہ اس غم میں آپ کا شریک ہوں آپ خدائے کریم و رحیم پر پورا پور ابھروسہ رکھیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن خدا تعالیٰ ہماری دعا سن لے گا۔ انہ لا ئیس من روح اللہ الاالقوم الکا فرون۔ امید کہ حالات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں اور میری نصیحت یہی ہے کہ آپ نہ گھبرائیں اور نہ مضطر ہوں اور رحیم وکریم پر پورا یقین رکھیں کہ ذات عجیب در عجیب قدرتیں رکھتی ہے جن کو صبر کرنے والے دیکھ لیتے ہیں اور بے صبر شامت بے صبری سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان کا ان ایمان بھی معرض خطر میں ہی ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ آپ کے ساتھ ہو آمین ثم آمین۔ بہتر خیال ہے کہ ان دنوں میں آپ استغفار اور ردرود شریف کا التزام بہت رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ نومبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۰
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز نہایت جوش سے آپ کے لئے دعا کر رہا ہے اور امیدوار ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد یا دیر سے دعا قبول فرماوے۔ خدا تعالیٰ کی اور فضل سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کہ اسے فضل کرتے دیر نہیں لگتی اور میں برابر توجہ سے دعا کرتا ہوں اور کرو ں گا جب تک آثار ظاہر ہوں آپ کی ملاقات کو تو دل بہت چاہتا ہے مگر میں نہیں دیکھتا کہ ایسی صورت میں آپ سفر کریں کہ کوئی حرج یا حرج ہونا ممکن ہو ہاں اگر بغیر حرج کے ملاقات ہو سکتی ہے تو قصدفرماویں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اگر سفر کا قصد ہو تو روانگی سے پہلے اطلاع بھی بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ دسمبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۱
مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز نہایت جوش سے آپ کے لئے دعا کر رہا ہے اور امید وار ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد یا دیر سے دعا کو قبول فرماوے خد اتعالیٰ کی رحمت اور فضل سے ناامید نہیں ہونا چاہئے کہ اسے فضل کرتے دیر نہیں لگتی اور میں برابر توجہ سے دعا کرتا ہوں اور کروں گا۔ جب تک آثار ظاہر ہوں آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے۔ مگر میں مناسب نہیں دیکھتا کہ ایسی صورت میں آپ سفر کریں کہ کوئی حرج یا حرج ہونا ممکن ہو ہاں اگر بغیر ہرج کے ملاقات ہو سکتی ہے تو قصدر فرماویں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا نگہبان ہو اگر سفر کا قصد ہو تو روانگی پہلے سے اطلاع بھی بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ دسمبر ۹۷ء
مکتوب نمبر ۳۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم و رحمۃ وبرکاتہ‘۔
کل کی تاریخ مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم ڈاک کی معرفت مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرا۔اللہ تعالی آپ کو ہر ایک متردد سے نجات بخشے بہو کی بیماری بھی بہت تردد کی جگہ ہے اللہ جلشانہ ا ن کو شفا عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ یہ عاجز قریباً دس روز سے بیمار ہے اور کھانسی اور زکام کا اس قدر غلبہ ہے کہ طبعیت پریشان ہے اور رات کو نیند نہیں آتی گو میں اب بھی آپ کے ترودات اور بیماری بہو کے لئے دعا کرتا ہوں مگر جس وقت اللہ جلشانہ نے مجھے شفاء بخشی تب نہایت توجہ سے دعا کروں گا اس وقت صحت کی حالت ایسی خراب ہے کہ بعض وقت زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ہر طرح سے بھروسہ ہے وہ قادر اور رحیم اور کریم ہے میں نے جو دعا اور طاعون کے بارہ میں ایک رسالہ شروع کیا تھا اسی بیماری کی وجہ سے اس میں توقف ہوگیا۔ کیونکہ نہایت ضعف اور سیلان دماغ کی وجہ سے میں تحریر سے عاجز ہوں۔ امید کے حالات خیریت آیات مجھے مطلع فرماتے رہیں۔ میں اس وقت زیادہ طاقت نہیں رکھتا۔ گلا بھی پکا ہوا اور گلٹیاں سی معلوم ہوتیں ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۰؍مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ آپ کی خدمت میں ایک خط پہلے لکھ چکاہوں امید کہ پہنچ گیا ہو گا۔ میری طبیعت ابھی علیل ہے کھانسی اور زکام کا بہت زور ہے مگر آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر کسی وقت دعا میسر آجائے گی۔ جس سے پورے طور پر کامیابی ہو بوجہ ضعف و علالت ابھی میں بہت توجہ سے قاصر ہوں میں نے جو اپنی نسبت بعض خوابیں اور الہامات دیکھے ہیں۔ میں ان سے حیران ہوں دو مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا مجھے مرض طاعون ہو گئی ہے اور درم طاعون نمودار ہے اب آج بھی یہی خواب آئی ہے اسی کے قریب قریب ایک الہام بھی ہے جو کسی رنج اور بلا پر دلالت کرتا ہے اور معبرین نے طاعون اور کبھی خارش اور حکام کی طرف سے کوئی عذاب و تکالیف اور کبھی کوئی اور فتنہ رنج و مراد لیا ہے معلوم نہیں کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے او رطاعون اب ہمارے گائوں میں صرف سات کوس کے فاصلہ پر ہے اللہ تعالیٰ اپنی بلائوں کا محافظ ہو۔ میں اپنے بدن میں اس قدر ضعف محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر خط بھی مشکل سے لکھا گیا ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اس عاجز کی طبیعت ہنوز کسی قدر علیل ہے کھانسی اور زکام کا عارضہ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے شفا بخشے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ جس وقت مجھے وہ دعا آئی جو اپنی قبولیت ساتھ کہتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب غم آپ کے دور کرے گا آپ کے خیال میں یہ کام مشکل ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے آگے آسان ہے۔ آپ اطمینان رکھیں اور ہر گز بے قرار نہ ہوں میں یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ آپ کو تجربہ کے بعد کہ خدا تعالیٰ ایسا قادر ہے پھر آیندہ ایسی بے قراری کبھی محسوس نہ ہو گی میں بیمار ہوں اس لئے میں نہیں چاہتا کہ آپ کو یہ موقعہ پیش آوے مگر بہر حال دعا میں مصروف ہوں۔
والسلام
خاکسار
مرز ا غلام احمد
۲۸؍ مارچ ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میری طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہ نسبت سابق اب بہتر ہے الحمد للہ علی ذالک میں اکثر اوقات بلکہ کل نمازوں میں آپ کے رفع ہجوم غموم اور حاجت براری کے لئے دعا کرتا ہوں اور ا مید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو گرداب غموم سے بچاوے گا اور میں جانتا ہوں کہ جس قدر گھبراہٹ کو کم کیا گیا ہے وہ بھی دعائوں کااثر ہے امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع اور مسرورالوقت فرماتے رہیں باقی سب خیریت ہے بخدمت اخویم صاحبزادہ احمد عبدالرحمن صاحب اور اخویم سیٹھ صالح محمد صاحب او راخویم مولوی سلطان محمود صاحب السلام علیکم۔
راقم خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۹؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا بد دریافت خیرو عافیت شکر کیا گیا الحمدللّٰہ علی ذالک ۔ میری طبیعت ابھی تک علیل ہے ضعف دماغ اس قدر ہو گیا ہے کہ بعض اوقات غشی کا اندیشہ ہوتا ہے بباعث کثرت سیلان آب بینی دماغ خالی معلوم ہوتا ہے ساتھ اس کے کھانسی بھی ہے باوجود اس حالت کے میں دعا سے غافل نہیں میرادل اس بات کے لئے بہت بیتاب ہے کہ مجھے صحت ہو تو میں آپ کے والد صاحب کی رفع پریشانی کے لئے اس توجہ کامل سے دعا کر سکوں جو پہلے کرتا تھا باایں ہمہ جناب باری تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ میری یہ دعائیں بھی خالی نہ جائیں اس طرف طاعون نردر بہت ہے اب ضلع جہلم میں بھی جو ہم سے قریباً ایک سو پچاس میل کے فاصل پر ہے واردات شروع ہو گئی ہیں او رہوشیار پور اور جالندھر کے ضلع میں قریباً ساٹھ گائوں میں طاعون پھوٹ رہی ہے نہ معلوم اللہ جلشانہ کا کیا ارادہ ہے میں ایک رسالہ طاعون کا لکھ رہا تھا کہ اتنے میں بیماری لاحق حال ہو گئی ہے او راللہ جلشانہ سے امید کرتا ہوں کہ مجھے پوری صحت عطا فرمائے زیادہ خیریت ہے بخدمت مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب آپ کے والد صاحب کے سلام مسنون سنا گیا ہے کہ پنجاب کی راہ بند ہو جائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں یک صد روپیہ مرسلہ آنمکرم ملا۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی آمین ثم آمین۔ عجیب اتفاق ہے میں ضرروتوں کے وقت آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے یہی دلیل اس بات پر ہے کہ اللہ جلشانہ ہر گز آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ حسن من نصراللہ نصرۃ۔ میری طبیعت بہ نسبت سابق اب بہت اچھی ہے۔ غالباً کسی نماز میں بھی آپ دعا سے فراموش نہیں رہتے آپ کے لئے دلی توجہ سے اور خلو ص سے بہت دعا ہو چکی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ دعائیں ضرور اپنا اثر دکھائے گی۔ بلکہ جس قدر گھبراہٹ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کوئی صورت تخفیف کی نکالتارہا ہے۔ درحقیقت یہ دعائوں کا اثر ہے وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے امید کہ اپنے حالات سے مجھے جلد جلد خبر دیتے رہیں جب تک قبولیت دعا کے پورے طور پر آثار ظاہر ہوں باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا خیرو عافیت اورآثار خدا تعالیٰ کے فضل کا حال سن کر بہت خوشی ہوئی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ اللہ جلشانہ بہت غفور رحیم ہے میں بفضلہ تعالیٰ خیریت ہوں اس طرف طاعون کا بہت زور ہے سنا ہے ایک دو مشتبہ وارداتیں امرتسر میں بھی ہوئی ہیں چند روز ہوئے ہیں میرے بدن پر گلٹی نکلتی تھی پہلے کچھ خوفناک آثار معلوم ہوئے مگر پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اس کا زور جاتا رہا یہ ایک جدا ہاتھ میں عذود پھول گئے تھے اور یہ طاعون جوڑوں میں ہوتی ہے پس گوش یاکنج ران یا زیر بغل یا کوئی جوڑ کی جگہ جیسا کہ ہاتھ کے جوڑ یا پیروں کے تپ ساتھ ہوتا ہے۔ ہم خداتعالیٰ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ ہر ایک طرح ہمارے احباب کو اس بلا سے بچاوے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۵؍ اپریل ۹۸ء
مکتوب نمبر ۳۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل حالات شروو آپ کے خط سے معلوم ہو گئے۔ اب پھر میں اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے دعا میں توجہ بڑھا دوں گا اور کوشش کروں کہ اللہ تعالیٰ میری دعا کو قبول فرمائے۔ آپ جلد جلد اطلاع بھیجتے رہیں اور بہتر ہے کہ ہرروز مجھے اطلاع دیں زیادہ کیا لکھوں آپ کے تردد سے بہت تشویش میں طبیعت ہے خدا تعالیٰ اس تشویش کو دور فرماوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۳؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ خیریت شمامہ پہنچا بددریافت فضل الٰہی اور خیرو عافیت بدر گاہ بار یتعالیٰ شکر کیا گیا۔ میں بمع اپنے دوستوں کے اور اہل وعیال کے خیروعافیت سے ہوں۔ اس طرف طاعون چمکتی جاتی ہے اب اسی کے قریب گائوں جن میں زور و شور ہو رہا ہے قادیان میں یہ حال ہے کہ لڑکوں اور جوانوں اور بڈھوں کو بھی خفیف سانپ چڑھتا ہے۔ دوسرے دن کانوں کے نیچے یا بغل کے نیچے یا ران میں گلٹی نکل آتی ہے ایک گلٹی مجھے بھی نکلی اور پہلے بھی ایک نکلی تھی اور میرے لڑکے بشیر احمد بھی ایک دن تپ چڑھ کر پھر کانوں کے مقابل گال کی طرف گلٹی آئی۔ مولوی صاحب حکیم نورالدین صاحب کے داماد کو بغل کے نیچے گلٹی نکلی میر ناصر نواب صاحب کے لڑکے اسحاق کو کنج ران میں تپ کے بعد گلٹی نکل آئی۔ مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تپ اس قدر خفیف کہ کام والے لوگ اس میں کرتے ہیں نہ بے قراری نہ سردرد نہ کوئی گھبراہٹ … … وہی حالت جو صحت کی ہوتی ہے موجود رہتی ہے لڑکے بے تکلف ہنستے پھرتے ہیں اور گلٹی تیسرے چوتھے روز خود بخود تحلیل ہو کر کم ہو جاتی ہے۔ کسی کو ایک ذرہ خیال نہیں ہوتا کہ کب ہوئی اور کب گئی۔ بلکہ اس کو مرض ہی نہیں سمجھتے۔ تمام لوگ خوب راضی اور خوشی او راپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اردگرد سخت خوفناک موتیں ہو رہی ہیں۔ سنا ہے کہ کلکتہ میں بھی طاعون پھوٹی ہے شاید یکم مئی ۹۸ء کو چوبیس وارداتیں ہوئیں امید کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ میں نے عید کے دن طاعون کے بارے میں ایک جلسہ کیا تھا وہ اشتہار چھپ رہا ہے جب چھپ چکے گا ارسال کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو پہنچ گیا جزاکم اللہ خیرا مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے بعض اوقات میں آپ کے لئے دعا کرنے کا بہت عمدہ اتفاق ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ امید کہ حالات موجودہ سے اطلاع بخشیں اور جلد جلد خط بھجتیں رہیں یہ آپ کے ذمہ ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۸؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اللہ تعالیٰ آپ کی تکالیف دور فرماوے اگر تفکرات ہوں تو مجھے ہر روز خط لکھتے رہیں تا توجہ سرگرمی سے رہے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے کریم ہے بڑی بڑی امیدں اس کی ذات پا رہیں امید قوی ہے کہ وہ فضل کرے گا او رکوئی راہ نکالے گا میں یقینا سمجھتا ہوں او ر اس پر ایمان رکھتا ہوں جو کچھ سخت ترودات کے وقت میں خدا تعالیٰ غم کو کم کرتا ہے وہ اسی کا فضل ہے اور اس کی استجابت دعا کا اثر ہے امید رکھتا ہوں کہ آپ ہر روز کارڈ سے مجھ کو اطلاع بخشتے رہیں گے۔ والسلام۔ عزیزی سیٹھ احمد عبدالرحمن صاحب کی اہلیہ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک ابتلاء سے بچاوے آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا ہے جزاکم اللہ خیرا الجزا۔ جو کچھ آنمکرم کے حل مشکلات کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کی تفصیل او رتصریح کی کچھ ضرورت نہیں اللہ جلشانہ سے چاہتا ہوں کہ ان دعائوں کے آثار آپ کے کسی خط سے مسنون اللہ تعالیٰ ہر ایک امر پر قادر ہے۔ امید کہ حالات خیریت سے آیات مسرورالوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد ازقادیان
۲؍ جون ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ میں بفضلہ تعالیٰ آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں آپ ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں۔ کیونکہ درحقیقت خدا تعالیٰ مظہر العجائب ہے تاریکی سے روشنی نکال دیتا ہے۔ سب کچھ کر سکتا ہے ہر ایک بات پر قادر ہے سو اس کی طرف جھکتے رہیں او رمجھے ایسے حالات سے خبر دیتے رہیں۔ آپ کے صاحبزادے صاحب کو بشوق السلام۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جون
مکتوب نمبر ۴۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں اس قدر آپ کے لئے دعا میں لگا ہوا ہوں۔ جس کی تفصیل آپ کے پاس کرنا ضروری نہیں خدا وند علیم بہتر جانتا ہے میں آپ کے تار کامنتظر نہیں زیادہ مجھے اس بات کا انتظار ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت کی تار پہنچے یہ حالتیں عسرویسئر کی دنیا میں ہوتی رہتی ہیں مگر بڑی بہادری دولت یہ ہے کہ ایسے تقریبوں سے انسان کو خداتعالیٰ پر زیادہ یقین پیدا ہو جائے جب کہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں جس کو میں جانتا ہوں کہ وہ حضرت جلشانہ میں قدر رکھتی ہے تو پھر آپ کو زیادہ تر قلق او رکرب میں رہنا نہیں چاہئے دنیا کے کے محبوب لوگ جن کو خداتعالیٰ سے بلاواسطہ او رنہ بے واسطہ کچھ تعلق ہوتا ہے۔ اگر وہ غموں کے صدموں سے مر بھی جائیں تو کچھ تو عجب نہیں مگر جس یہ تقریب پیش آئے جو آپ کو میسر آئی ہے اس کو غم کرنا اس تقریر کی ناقدر شناسی ہے دنیا تماشا گاہ ہے کبھی انسان عروج میں گویا افلاک تک پہنچتا ہے اور کبھی خاک میں مگر جولوگ خد اکی طرف اور خدا کے بندوں کی طرف جھکتے ہیں وہ ضائع نہیں کئے جاتے ان اللہ لا یضع اجر المحسنین۔ میں ہر ایک رات پیام بشارت کا منتظر ہوں اور میں خدا وند کریم کو جس قدر فی الوقع رحیم کریم دیکھتا ہوں میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں بیان کروں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
یکم جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں یہ خط ا س غرض سے رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں کہ میں آپ کے ترودات اور تفکرات او رحالت اضطرا ب سے غافل نہیں ہوں ہر روز رو باسمان ہوں کہ کب خدا تعالیٰ کے فضل سے مشکل کشائی ہوتی ہے او رمیر ایقین او رمیرا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت رحیم اور کریم ہے وہ ضرور دعا سنے گا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ زیادہ فکر کرنے سے اس ثواب کو کم نہ کریں جو اس غم کی حالت میں آپ کو ملے گا میں عین دعا کے ساتھ اس خط کو روانہ کرتا ہوں او ر خدا کے فضل ……… پر نظر ہے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گیا خدا تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیربخشے کہ باوجود اس قدر انواع اقسام ترودات کے اس ہموم و غموم کے وقت میں آپ للہ خدمت میں سرگرمی سے مصروف ہیں لیکن باوجود اس علم کے کہ یہ کام اخلاص کا جوش آپ سے کراتا ہے پھر بھی خوشی سے ظاہر کرتا ہوں کہ جب تک یہ ہموم دور نہ ہوں اس وقت تک تکلیف نہ فرمائیں۔ میں ہرگز دعامیں قاصر نہیں ہوں گااور دعا کو نہیں چھوڑوں گا۔ جب تک صریح آثار نہ دیکھوں اور میں دعا میں مشغول ہوں اور خداتعالیٰ کے فضل کا ہروقت ہر لحظہ منتظر ہوں۔ والسلام۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۷؍جولائی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۴۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا عاجز آپ کے لئے نماز میں اور خارج کے دعا میں مشغول ہے جس ذوالجلال خدا کی جنا ب میں دعا کی جاتی ہے۔ وہ قدرت اور رحمت دونوں صفات اپنی ذات میں رکھتا ہے صرف ایک امر کی دیر ہے عقل مند کسی آزمائش کے بعد پھر اس میں شک نہیں کرسکتا میں بے شمار مرتبہ اس غفوو رحیم کی رحمتوں کو آزمایا اور دیکھا ہے آپ کو وہ الہام یاد ہوگا۔ قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ نہایت یقین سے آپ اس ذات پاک رب جلیل پر یقین رکھیں مجھے جس قدر اپنی دعاؤں کے قبول ہونے پر وثوق ہے یہ ایک ایسا راز ہے کہ میرے خدا کے سوا کسی کو واقعی اور پورا علم اس کا نہیں ہے فاالحمدللہ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۶؍جولائی۹۸ء
از قادیان
مکتوب نمبر ۴۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا اللہ جلشانہ آپ کے نیت خیر سے صد ہا حصہ زیادہ آپ سے معاملہ کرے آمین۔ میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ قبولیت کی بشارت سنوں مجھے اس قد خدا تعالیٰ کے لطف احسان پر امید ہے کہ ان کا اظہار مشکل ہے اور بغیر کسی فخر کے مجھے یقین ہے کہ میری دعا معمولی نہیں۔
ہرآن کا ریگہ گردواز دعائے محوجانانے۔: نہ شمشیر ے کندآن کارونے بادے نہ بارانے
عجب وارد اثر دستے کہ دست عاشقی باشد۔: بگر واند جہانے رازبہر کارگریانے
اگر جنبد لب مردے زبہر آنکہ سرگردان۔: خدا از آسمان پیدا کند ہرنوع سا مانے
زکار اوفتادہ راہر کارمی آروخدازین رہ۔: ہمین باشد دلیل آنکہ ہست از خلق پہنانے
مگر باید کہ باشد طالب او صابر و صادق۔: بیند روز نو میدی وفا دار ازدل وجانے
خاکسار
مرزا غلام احمد
از قادیان
۵؍اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا احسن الجرا کم۔ اب دعائیں جناب حضرت عزت میں آپ کے لئے کما ل کو پہنچ گئیں۔ ہر گز امید نہیں کہ خدا تعالیٰ ان دعائوں کو ضائع کرے امید کہ آپ اپنے رویا سے بھی اگر ہو تو مطلع کریں مجھ کو یاد ہے کہ جب میں نے قادیان میں آپ کو کہا تھا تو ایک مبشر رویا آپ کو ہوئی تھی اورمیں منتظر بشارت الہام کا ہوں۔ جس وقت الہامی بشارت ہوئی تو بذریعہ خط یا بذریعہ تار اطلاع دوں گا باقی سب طرح سے خیریت ہے خداتعالیٰ آپ کومعہ عزیزوں کے آفات سے محفوظ رکھے آمین۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۲؍ اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مبلغ سو روپیہ کی رسید پہلے لکھ چکا ہوں امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں اس طرح تک پہنچنا تھا کہ آپ کے عنایت نامہ پہنچ گیا اللہ تعالیٰ ہر ایک فتنہ اور بلا سے بچاوے اس جگہ طاعون کے لئے ایک دو اتیار ہوئی ہے خدانخواستہ اگر مدراس کے قریب آگیا تو وہ دو ا بھیج دوں گا اور آپ تسلی رکھیں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں مناسب ہے ہیضہ کے دنوں گھر کے تمام لوگ دو وقت دو دورتی کونین کھاویں۔ ثقیل چیزوں او رمچھلی اور گوشت کی بوٹی اور عفونت پیدا کرنی والی چیزوں سے حتی الوسع پرہیز کریں اور کھانے میں کسی قدر ترشی استعمال کریں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔ میں برابردعا میں مشغول ہوں بے قرار نہیں ہونا چاہئے دعائیں منظور ہو جاتی ہیں کسی وقت پر ان کا ظہور موقوف ہوتا ہے خدا تعالیٰ پر بہت یقین اور بھروسہ رکھنا چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۸؍ اگست ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم مجھ کو ملا جزا کم اللہ خیراالجزا۔ آپ کا عنایت نامہ بھی مجھ کو ملا۔ میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوںکہ جس قدر میں نے آپ کے حق میں دعا کی ہے اور کر رہا ہوں گو بظاہر ابھی کچھ بھی آثار نہ ہوں تب بھی پوشیدہ طور پر آپ کے لئے بہتری کی تجویز ہے بلکہ شاید آپ کی بہتری کی غرض سے بعض اور ہم پیشوں کی بہتری بھی ہو جائے اور میں ابھی تک دعا میں سست نہیں ہوا۔ شاید آپ جس وقت سوتے ہیں اس وقت میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوتا ہوں۔ آپ کی یہ نہایت خوشی قسمتی ہے کہ خداتعالیٰ نے آپ کو نہایت نیک اور پختہ اعتقاء بخشا ہے پس یہی ایک چیز ہے جس سے فتح یابی کی امید ہو سکتی ہے کیونکہ جس قدر اعتقاد ہوتا ہے اسی قدر دعا میں تحریک بھی ہوتی ہے سو ایک پاک دانائی ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں آتی جو آپ کے دل میں ڈالی گئی ہے اللہ تعالیٰ جلد تر آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے آمین۔ اور ان دنوں میں یہ دعا بھی کر رہا ہوں کہ خداتعالیٰ مدراس کو ہیضہ سے نجات بخشے اور طاعون سے محفوظ رکھے اور دونوں بلائوں سے آپ کو او رآپ کے عزیزوں سے دور رکھے امید کہ حالات خیریت آیات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ ستمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے لکھا ہے آپ کے صدق و اخلاص پر قوی نشانی ہے میں نے جو لکھا تھا اس کے لکھنے کے لئے یہ تحریک پید اہوئی تھی جو چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا۔ غثم لہ۔ دفع البلامن مالہ دفعۃً۔ اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصہ اپنے مال میں سے بطور نذر بجھوائے گا۔ میں نے ا س الہام کو اپنی کتاب میں لکھ دیا تھا۔ بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کر دیا اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسے کامیابی ہو گی یاایسی مسرت ظہور میں آئے گی۔ لیکن چونکہ میر ادل آنمکرم کی کامیابی کی طرف لگا ہوا ہے اس لئے طبیعت نے یہی چاہا کہ کسی وقت اس کے مصداق آپ ہی ہوں اور خداتعالیٰ ایسا کرے کیا اللہ جلشانہ کے نزدیک لاکھ دو لاکھ روپیہ کچھ بڑی بات ہے دعائوں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ہوتا ہے میرے نزدیک نہایت ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنے تئین دعا کے سلسلہ کے نزدیک رکھتا ہے اگر تمام جہاں اس قول کے برخلاف ہو جائے تب بھی وہ سب غلطی پر ہیں دعا سے بڑے بڑے انقلاب پید اہو جاتے ہیں وہ عازمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے۔ عجیب کرشمے دکھاتی ہے ہاں پوری طور پر اس زندہ عاکا ظہورمیں آجانا اور ہو جانا یہی خداتعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ میں آپ کے شدت اخلاص کی وجہ سے اس میں لگا ہوا ہوں کہ اعلیٰ درجہ کی زندہ دعا آپ کے حق میں ہو جائے۔ اور جس طرح شکاری ایک جگہ سے دام اٹھاتا ہے اور دوسری جگہ بچھاتا ہے تا کسی طرح شکار مارنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس طرح میں ہر طرح سے دعا میں روحانی حیلون کو استعمال میں لاتا ہوں اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ القدیر والموفق میں اسباب کو اسی قادر کے فضل وکرم اور توفیق سے دکھائوں گا کہ زندہ دعا اس کو کہتے ہیں ہمارا خدا بڑی قدرتوں والاہے اس پر ایمان لانا اور اس کے صفات کو جاننا بھی ایک سرور بخشتا ہے وہ خدا ایک مردہ اور ناامید کو ازسر نو امید دیتا ہے کو اس کے داصل ہوں ان کابڑا معجزہ یہی ہے کہ ان کی فوق العادت دعا منظور ہو جائے اور وہ کسی تباہ کشتی کو کناہ لگا سکیں او راس کا مال اور جانیں بچا سکیں۔ باقی خیریت ہے تمام عزیزوں کو سلام دعا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
دو عنایت نامے یکے بعد دیگرے پہنچے بدریافت خیروعافیت اطمینان ہوا خداتعالیٰ آپ کو جزا ئے خیر دے کہ آپ ہر ایک کام میں للہ خدمتیمن سبقت لے جاتے ہیں اللہ جلشانہ یہ تمام مخلصانہ خدمات دیکھتا ہے اور ان کے موافق اجر دے گا مجھے بیماری دورہ سے دامنگیر ہوتی ہے۔ چند روز اچھی حالت رہتی ہے او رپھر دورہ مرض ہو جاتا ہے۔ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے شفا عنایت فرمائے گا۔ ایسی حالت دعائوں کے لئے بہت مناسب حال ہے رات کو کئی مرتبہ اٹھتا ہوں اور دعا کو موقعہ خوب نکل آتا ہے او رطبیعت کی بے قراری اور شکتگی خود دعا کے مناسب حال ہوتی ہے الحمدللہ کہ آپ کے لئے دعائوں کابڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے میں خدائے ذوالفضل و الکرم سے امید رکھتا ہوں کہ یہ دعائیں خالی نہ جائیں امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ مسرور الوقت فرماتے رہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۲۰؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
پہلے خط کے روانہ کرنے کے بعد آج مبلغ سو روپیہ مرسلہ آنمکرم بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا میں آپ کی اس صدق و اخلاص سے نہایت امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ مجھے آپ کے روپیہ سے اپنے کاروبار میں اس قدر مدد ملتی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا جزاکم اللہ جزالجزء یہی عملی حالت ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر بہت ہی امید دلاتی ہے۔ چونکہ مجھے اپنے سلسلہ طبع تک میں ایسی حاجتیں پیش آتی ہیں اور مجھے اس سے زیادہ دنیا میں کوئی غم نہیںکہ جو میں بوجہ نہ میسر آنے مالی سر مایہ کے طبع کتب دینہ سے مجبور رہ جائوں۔ اس لئے میں ایک یہی حکمت عملی کے متعلق دیکھتا ہوں کہ آپ ایک نذر مقرر کر چھوڑیں کہ اگر عمدہ کامیابی امور تجارت آپ کو میسر آوے تو آپ یکمشت نذرا س کارخانہ کے لئے ارسال فرماویں کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے اس صدق اور اخلاص پر نظر کر کے وہ کامیابی آپ کے نصیب کرے کہ جو فوق العادت ہو ااور اس ذریعہ سے اس اپنے سلسلہ کو بھی کافی مدد پہنچ جاوے کیونکہ اب یہ سلسلہ مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اور شاید یہ کام طبع کتب کا آگے کو بند ہو جائے آپ کی طرف سے جو مدد آتی ہے وہ لنگر خانہ میں خرچ ہو جاتی ہے اور مجھے جس قدر آپ کے کاروبار کے لئے توجہ ہے یہ ایک دلی خواہش ہے جوخدا تعالیٰ نے مجھ میں پید ا کی ہے اور یہ یقین جانتا ہوں کہ یہ خالی نہیں جائے گا۔ کیا تعجب کہ اس نیت کے پختہ کرنے پر خدا تعالیٰ فوق العادت کے طور پر آپ سے کوئی رحمت کا معاملہ کرے میں تو جانتا ہوںآپ نہایت خوش نصیب ہیں آپ کی دنیا بھی اچھی ہے اور آخرت بھی۔ کیونکہ آپ اس طرف سے پورے اعتقاد سے جھک گئے ہیں سو اگر تمام دنیا کا کاروبار تباہی میں آجائے تب بھی میں یقین نہیں کرتا کہ آپ ضائع کئے جائیں ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج مشک و عنبر بمبئی سے پہنچے گا جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ خدا وند کریم آپ کو تمام خدمات کا احسن پاداش بخشے آمین ثم آمین۔ اس کی درگاہ سے امید ہے کہ کوئی شخص اس کے لئے نیک عمل نہیں کرتا جو اس کی جزا نہیں دیکھ لیتا اس کے فضل اور رحم کی ہر وقت امید ہے او رانجام بخیر دنیا وآخرت کے نہایت آثار نیک ہیں میری طبیعت بہ نسبت سابق کے رویا صلاح ہے الحمدللہ علی ذالک باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حالات تردود اضطراب معلوم کر کے جس قدر دل کو درد پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے مگر ساتھ ہی وہ امیدیں جو خد اتعالیٰ کے فضل پر ہیں وہ ناامیدی کو نزدیک نہیں آنے دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ دن دکھلائے کہ آپ کی قلم سے نکلی ہو ئی یہ عبادت پر ہوں کہ حسب المراد خد اتعالیٰ نے فضل کر دیا اس کے آگے کچھ بھی دور نہیں۔ ہر ایک رات اس امید کے ساتھ پلنگ پر لیٹتا ہوں کہ کوئی خوشخبری حضرت عزت جل شانہ سے آپ کی نسبت پائوں اگر ایسی خوشخبری مجھ کو ملی تو مجھ کو وہ خوشی ہو گی جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ آپ کا معہ تمام عزیزوں کے ہر اک ارضی سمادی بلاسے بچاوے او راپنے سایہ رحمت سے محفوظ رکھے ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کاعنایت نامہ معہ مبلغ ایک سو روپیہ آج مجھ کو ملا جزاکم اللہ خیرالجزاء آمین۔ جس قدر یہ عاجز آپ کو تسلی اور اطمینان کے الفاظ لکھتا ہے یہ لغو اور بہودہ نہیں ہے۔ بلکہ بوجہ آپ کے نہایت درجہ کے اخلاص کے اس درجہ پر آپ کے لئے ظہور میں آتی ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دعائیں خالی نہیں جائیں گی جو لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لائے ہیں اور اس کو قادر او ر کریم اور رحیم سمجھتے ہیں ان کے لئے دعائوں سے زیادہ کوئی امر موجب تسلی نہیں ہوسکتا میں اپنے دل سے یہ گواہی پاتا ہوں کہ جیسا کہ ایک شخص اپنے لئے جوش اخلاص اور محبت اور ہمدردی سے کسی کے لئے دعا کرسکتا ہے وہ دعا میں آپ کے لئے کرتا ہوں او رمیں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا وہ خد ا وندرحیم وکریم ذوالحیاء الکرم ہے امید ہے کااپنے حالات خیریت آیات سے مطلع او رمسرورالوقت فرماتے رہیں باقی سب خیریت ہے۔ والسلام مبلغ ایک سو روپیہ سیٹھ دال حاجی صاحب کی طرف سے بھی پہنچ گیا تھا۔ میری طرف سے دعا اور شکر ان کوپہنچا دینا۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۲؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۵۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ او رآپ کا محافظ ہو اس وقت بباعث تکلیف وہی یہ ہے کہ کل کی ڈاک میں مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ عرب صاحب بغدادی پہنچے۔ چونکہ مجھے پتہ یاد نہیں ہے اس لئے مکلف ہوں کہ میری طرف سے رسید معہ شکر ودعا پہنچا دیں اور اللہ تعالیٰ تمام دوستوں کو آفات سے بچاوے او راطلاع بخشیں کہ مدراس میں پھر تو کوئی واردات طاعون نہیں ہوئی اور سو روپیہ لال جی حاجی صاحب کا بھی پہنچ گیا تھا آپ کی خدمت میں بھی میری طرف سے دعا اور رسید روپیہ کی خبر پہنچا دیں باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ نومبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
دو عنایت نامے یکے بعد از دیگرے پہنچے۔ آپ کی تشویشات کو اللہ تعالیٰ دور فرماوے اور اس طرف یہ حال ہے کہ جیسے ایک گدا کچھ سوال کر کے اسی دروازہ پر جم کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ اندر سے اس کو کچھ دیا نہ جائے یہی حال ہمارا آپ کے لئے ہے آپ اگر بے قرار ہوں یا نہ ہوں ہماری طرف سے سلسلہ دعا کا جاری ہے اور جناب الٰہی کے آستانہ سے امید کی جاتی ہے کہ رات کو یا دن کو یہ بشارت ہم کو ملے زمین و آسمان پید ا کرنے والے کے آگے یہ آرزوئیں کیا چیز ہیں اس کے ایک نظر …… سے ہزاروں پیچیدہ کام سہل ہو جاتے ہیں اس طرف اب بظاہر طاعون سے امن ہے پھر بعد میں کوئی واردات نہیں ہوئی زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ دسمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کاانتظار ہے اور اب تک ہے نہ معلوم کیا بباعث ہوا کہ آپ تشریف نہ لائے دعا انتہا تک پہنچ گئی ہے آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا۔ قاد رہے وہ بارکاہ ٹوٹا کام بنا دے بنا بنا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے۔ امید ہے کہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیں گے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ دسمبر ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ سلمہ۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ آنمکرم اور نیز مبلغ ایک سو روپیہ مجھ کو پہنچا جزاکم اللہ احسن الجزا۔ میں آپ کے لئے دعا میں مشغول ہوں آپ کا ہر ایک خط جس میں تفرقہ خاطر اورخوف و خطر کا ذکر ہوتا ہے۔ پہلی دفعہ تو میری پر ایک دردناک اثر ہوتا ہے مگر پھر بعد اس کے جب اللہ جلشانہ کی طاقت اور قدرت اور اس کے دو الطاف کریمانہ جو میرے پر ہیں۔ بلا توقف یاد آجاتی ہے۔ تو وہ غم دور ہو کرنہایت یقینی امیدیں دل میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آپ کے لئے میرے دل میں عجب جوش تضرع اور دعا ہے۔ اگر عمیق مصالح جس کاعلم بشر کو نہیں ملتا توقف کونہ چاہتیں تو خدا تعالیٰ کے فضل وکر م سے امید تھی کہ اس قدر توقف ظہور میں نہ آتا۔ بہرحال میں آپ کی بلائوں کے دفع کے لئے ایسا کھڑا ہوں جیسا کو ئی شخص لڑائی میں کھڑا ہوتا ہے خدا داد قوت استقلال او ر ثابت قدمی اور صدق و یقین ہتھیاروں سے اور اور عقد ہمت کی پیش قدمی سے اس مبدا نمین خدا تعالیٰ سے کامیابی چاہتا ہوں وہ رحیم وکریم دعائوں کو سننے والا مہربان خدا ہے اس کے فضل سے ہر ایک رحمت کی امید ہے۔ آپ کے کے ملنے کااشتیاق ہے قرنطینہ کی تکلیفات راہ میں نہ ہوں جن کی برادشت مشکل ہوتی ہے تو آپ ہر ایک وقت آسکتے ہیں۔ مجھے دلی خواہش ہے کہ آپ تشریف لاویں۔ مگر یہ دریافت کر لینا چاہئے کہ قرنطینہ کی ایذا رسانی روکیں تو درمیان نہیں ہیں اسی وجہ سے میں نے تار نہیں دیا کہ یہ امور صرف خط کے ذریعہ مفصل طور پر پیش ہو سکتے ہیں امید کہ جس وقت تشریف لاویں تو مجھے تار دیں کہ فلاں وقت روانہ ہوئے۔ میں پہلے اس کے اطلاع دے چکا ہوں کہ میرے پر ایک فوجدار مقدمہ سرکار کی طرف سے دائر ہو گیا ہے۔ جس کا اصل محرک محمد حسین بٹالوی ہے یہ مقدمہ بظاہر سخت خطرناک ہے کیونکہ پولیس کے مقرر ملازم اس مقدمہ کے پروکار ہیں جو مقدمہ کے بنانے کی سعی کر رہے ہیں اور محمد حسین بٹالوی بھی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح جھوٹے گواہ پیش کر کے مجھے زیر مواخذہ کرا دے چونکہ ان مخالفوں کی جماعت بڑی ہے۔ لاکھوں ہیں اس لئے محمد حسین کے لئے چندے جمع ہو رہے ہیں۔ تابیر سٹرا کئی انگریز وکیل کر کے جعلی الزاموں کی میری نسبت ثابت کرا دے ہماری جماعت غریبوں کی جماعت ہے لاہور امرتسر سیالکوٹ راولپنڈی پنجاب کے شہروں میں محمد حسین بٹالوی کے لئے ایک رقم کثیر جمع ہوتی جاتی ہے غالباً دہلی میں بھی نذیر حسین کی معرفت یہ چندہ ہو گا ہم اپنا کام خدا تعالیٰ کا سونپتے ہیں میں نے اوّل خیا ل کیا تھا کہ شاید آنمکرم کی تحریک سے مدراس میں کسی قدر چندہ جمع ہو مگر پھر مجھے خیال آیا کہ ہر انسان اس ہمدردی کے لائق نہیں۔ جب تک انسان سلسلہ میں داخل ہو کر جاں نثار مرید نہ ہو۔ تب تک ایسے واقعات روح پر قوی اثر نہیں کرتے دلوں کا خد امالک ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے باوجود اس تفرقہ کے اور ایسی حالت کے جو قریب قریب تباہی کے ہے آپ کو وہ اخلاص بخشا ہے کہ جو وفادار جان نثار جو انمرد میں ہوتا ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی لکھتا ہوں کہ بوجہ اس کے آپ ہر وقت مالی امداد میں مشغول ہیں اس لئے ایسے چندہ سے آپ مستشنیٰ ہیں آپ کا بہت سا چندہ پہنچ چکا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تار مدراس سے بخروعافیت میرے پاس پہنچ گئی۔ الحمداللہ کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے راہ کی آفات سے بچا کر سلامتی کے ساتھ گھر میں پہنچا دیا اس طرح میں جناب الٰہی میں دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو معاملات تشویشات سے بھی رہائی بخش کر ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی مرضی کی راہوں پر چلاوے آمین ثم آمین۔ ا مید رکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں گے۔ بخدمت دیگران سلام مسنون۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۵؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ہر طرح پر امید اللہ جلشانہ کے فضل پر امید رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی تاجر تباہ حالت ہو گیا ہو تو ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ جد ا ہے کسی کی تباہی اور سرسبزی محض ہداتفاقات سے نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہوتی ہے میں جیسا کہ آپ کے روبرو آپ کے لئے دعا میں مشغول تھا۔ ایسا ہی آپ کے بعد بھی مشغول ہوں اور ہر طرح پر ہم اللہ جلشانہ کی ذات پر نیک امید رکھتے ہیں کہ حالات خیریت آیات سے اطلاع بخشتے رہیں اور اس جگہ تا دم تحریر ہذا خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ مئی ۹۸ء
مکتوب نمبر ۶۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دو سو روپیہ آنمکرم مجھ کومل گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ وہ معاملہ رحمت اور فضل اور کرم کرے جو آپ اس راہ میں اور اس کے بندہ کی مددمیں کررہے ہیں آمین ثم آمین۔ اس جگہ محمد حسین بٹالوی اور اس کے گروہ کی طرف سے مقدمہ میں فتح پانے کے لئے بڑی تیاری کررہے ہیں اور وکیلوں کو دینے کے لئے شہروں میں اس کے لئے چندہ جمع ہو رہا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے دوسری قوموں سے بھی اتفاق کر لیا ہے بظاہر مقدمہ ایک خطرناک صورت میں ہو گیا ہے مگر خد اتعالیٰ کے کام اور انسان کے کام الگ ہیں اب پانچ جنوری ۹۹ء قریب آگئی ہے جو تاریخ پیشی ہے میں نے آنمکرم کے بلانے میں ایک تواس وجہ سے تار نہیں بھیجا کہ غالباً راہ میں دقتیں ہیں۔ جالندھر کے ضلع میں بھی طاعون ہے دوسرے یہ بھی خیال رہا ہے کہ اس مقدمہ میں معلوم نہیں کہ قادیان رہوں یا انفصال مقدمہ تک حاضری کچہری رہنا پڑے یہ ایک آخری ابتلا ہے جومحمد حسین کی وجہ سے پیش آگیاہے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے راضی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ مخالفوں نے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیا ہے اور خد اکے کام فکر اور عقل سے باہر ہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں باوجود علالت طبع کے اور باوجود ایسی حالتوں کے کہ میں نے خیال کیا ہے کہ شاید زندگی میں چند دم باقی ہیں آپ کو دعا کرنے میں فراموش نہیں کیا بلکہ انہیں حالات میں نہایت درد دل سے دعا کی ہے اور اب تک میرے جوش میں کمی نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس خط کے پہنچنے تک کتنی دفعہ مجھ کودعا کا موقعہ ملے گا اور میں باور نہیں کرتا کہ یہ دعا میری قبول نہ ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے آپ اس گھڑی کے یقین دل سے منتظر رہیں جبکہ دعائوں کی قبولیت ظاہر ہو ایک بڑے یقین کے ساتھ انتظار کرنا بڑا اثر رکھتا ہے میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ آپ کے لئے میرے کس توجہ سے دعا کرتا ہوں یہ حالت خد ا تعالیٰ کو معلوم ہے ان دنوں میں میری طبیعت بہت بیمار ہو گئی تھی ایک دفعہ مرض کا خطرناک حملہ بھی ہوا تھا۔ مگر شکر باری تعالیٰ ہے کہ اس وقت میں بھی میں نے بہت دعا کی ہے او راب تک طبیعت بہت کمزور ہے اس لئے کتاب کی تالیف میں بھی حرج ہے۔ ایک نہایت ضروری امر کے لئے آپ کولکھتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے سنا ہے کہ مدراس میں ایک میلہ یوز آسف کا سال بسال ہوا کرتا ہے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ میلہ کرتے ہیں وہ یوز آسف کس کو کہتے ہیں اور کس مرتبہ کا انسان اس کو سمجھتے ہیں اور نیز ان کاکیا اعتقاد ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس قوم میں سے لنہا۔ او رکیا مذہب رکھتا تھا اور نیز یہ کہ کیا اس جگہ کوئی یوزآسف کا مقام موجود ہے اور کیا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی تحریریں ہیں جن سے یوز آسف کے سوانخ معلوم ہو سکیں اور ایسا ہی دوسرے حالات جہاں تک ممکن ہو دریافت کر کے جلد تر مجھ کو اس سے اطلاع بخشیں کیونکہ اس وقت کہ جواب آوے یہ کتاب معرض التوا میں رہے گی اور میں نے باوجود ضعف طبیعت کے نہایت ضروری سمجھ کر یہ خط لکھا ہے اللہ تعالیٰ خیروعافیت سے اس خط کو پہنچاوے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۱؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اب بفضلہ تعالیٰ میری طبیعت ٹھہر گئی ہے دورہ مرض سے امن ہے حقیقت میں یہ عمر جب انسان ساٹھ پینسٹھ سال کا ہوتا جاتا ہے مرنے کے لئے ایک بہانہ چاہتی ہے جیساکہ ایک بوسیدہ دیوار یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ اس قدر سخت حملوں سے وہ بچا لیتا ہے کل کی تاریخ عنبر بھی پہنچ گئی۔ میری طرف سے آپ اس مہربان دوست کی خدمت میں شکریہ ادا کر دیں جنہوں نے میری بیماری کا حال سن کر اپنی عنایت اور ہمدردی محض اللہ ظاہر کی خدا تعالیٰ ان کو اس خدمت کا اجر بخشے اور ساتھ ہی آپ کو آمین ثم آمین۔ میرے گھر میں جو ایام امید تھے۔ ۱۴؍ جون کو دل دردزہ کے وقت ہولناک حالت پید ا ہو گئی یعنی بدن تمام سرد ہو گیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے اس وقت میںنے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے بچوں کی سخت درد ناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور ان کی والدہ تمام مردہ کی طرح اور نیم جان تھے۔ کیونکہ ردی علامتیں یک دفعہ پیدا ہو گئیں تھیںاس حالت میں ان کاآخری دم کر کے اور پھر خدا کی قدرت کو بھی مظہر العجائب یقین کر کے ان کی صحت کے لئے میں نے دعا کی کے ان کی صحت کہ یک دفعہ حالت بدل گئی اور الہام تحویل الموت یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا اور بدن پھر گرم ہو گیا اور حواس قائم ہو گئے اور لڑکا پید اہوا جس کانام مبارک احمد رکھا گیا۔ اس تنگی اور گھبراہٹ کی حالت میں میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے لئے بھی ساتھ دعا کروں۔ چنانچہ کئی دفعہ دعا کی گئی زیادہ خیریت ہے۔ اس وقت میں خط لکھ چکا تھا کہ پھر سخت کمر میں درد اور تپ میرے گھر میں ہو گیا ہے سخت بیتاب ہو گئی ہیں اللہ تعالیٰ رحم فرماوے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ بذریعہ ڈاک مجھ کو پہنچ گیا۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء آمین ثم۔ آمین۔ میرے گھر میں پید ائش لڑکے وقت بہت طبیعت بگڑ گئی تھی الحمداللہ اب ہر طرح سے خیریت ہے عجب بات ہے کہ قریباً چودہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑکا پید اہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں او ریہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز شنبہ یعنی پیرہو اہے او ر جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کی اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں دن میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے اب جب کہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پید اہوا تو وہ خواب بھول گئے او رعقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کاسامان نہ ہو سکا او رہر طرف سے حرج پیش آئی۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پیر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پید اہو گا او ر اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدل ہو گیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو۔ مگر کچھ بھی پیش نہ کی گئی او رعقیقہ پیر کو ہوا یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک چار لڑکے پید اہو سکیں زندہ بھی رہیں۔ یہ خد اکے کام ہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری قوم دیکھتی ہے۔ پھر آنکھ بند کرتی ہے یعنی میں نے دو روز ہوئے کہ یا کم و پیش آپ کو خواب میں دیکھا تھا۔ مگر مجھے اس کا سر معلوم رہا اس لئے صرف بار بار دعا کی گئی۔ زیادہ خیریت ہے والسلام آنمکرم کے مشک مرسلہ بھی مجھ کو پہنچ گئی خدا تعالیٰ آپ کو ان متواتر خدمات کا بہت بہت اجربخشے اور بہت سی برکتیں آپ پر نازل کرے عنبر سفید درحقیقت بہت ہی نافع معلوم ہوا تھوڑی خوراک سے دل کو قوت دیتا ہے اور دوران خون تیز کر دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے دراصل دو دائمی بیماریاں ہیں ایک یہ دل کی بیماری اور ایک کثرت بول یہ اس لئے ہو ا کہ تا وہ حدیث پوری ہو کہ مسیح موعود دو رزد چار دن کے ناز ل ہو گا اہل تعبیر لکھتے ہیں کہ دورزد چاروں سے مراد بیماریاں ہیں یہ بشریت کے لوازم ہیں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۷؍ جون ۹۹ء
مکتوب نمبر ۶۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ ایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرم اس سو روپیہ کے بعد جو پہلے آنمکرم پہنچ چکے تھے مجھ کو پہنچا۔ اللہ جلشانہ بہت بہت جزائے خیر دنیا و آخرت میں آپ کو دے او راپنے فضل وکرم سے بلائوں سے بچاوے آمین ثم آمین۔ اب جیسا کہ تجویز فرمایا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے اللہ تعالیٰ تمام تر خیریت او ررحمت کے ساتھ آپ کو لاوے آمین ثم آمین۔ منجمین اخباروں کے ذریعہ بہت شور مچا رہے ہیں کہ۱۳؍ نومبر ۹۹ء تک دنیا کا خاتمہ ہے یعنی اگر ستارہ کی زمین کے ساتھ ٹکڑ ہو گئی لیکن مجھے اب تک کچھ معلوم نہیں ہوا خد اتعالیٰ لوگوں کوتوبہ کی توفیق دے موسم کے حالات ردی ہیں پنجاب میں بارشیں نہیں ہوئی خریف اور ربیع دونوں سے زمیداروں کی نااُمیدی ہو گئی کلکتہ میں طاعون شروع ہوگیا اخبار میں لکھا ہے کہ جناب نواب وایسئرائے بہادر نے طاعون کا ٹیکا لگوایا ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۲۵؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الحمدللہ وانمت کہ اب میرے گھر میں ہر طرف سے خیریت ہے آپ کے حالات کی طرف نظر لگی ہوئی ہے خدا تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعائوں کا نیک نتیجہ دکھاوے آمین ثم آمین دعا کا سلسلہ جناب باری میں جاری ہے اور وہ رحیم و کریم ہے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۸؍ جولائی ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ہمیشہ نماز اور حارج نماز آپ کے مہمات اور بہبودی دنیا و آخرت کے لئے دعا کرتا ہوں او رامید وار ہوں کہ قبول حضرت عزت ہو۔ کل سے میری طبیعت علیل ہو گئی ہے کل شام کے وقت مسجد میں اپنے تمام دوستوں کے روبرو جو حاضر تھے سخت درجہ کا عارضہ لاحق حال ہوا اور یک دفعہ تمام بدن مسترد اور نبض کمزور اور طبیعت میں سخت گھبراہٹ شروع ہوئی او رایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا زندگی ایک دو دم باقی ہیں بہت نازک حالت ہو کر پہر صحت کی طرف عود ہوا۔ مگر اب تک کلی اطمینان نہیں کچھ کچھ آثار عود مرض کے ہیں اللہ تعالیٰ فضل و رحم فرمائے ایسے وقتوں میں ہمیشہ مشک کام آتی ہے اس وقت مشک جو بمبئی سے آپ نے منگوا کر بھیجی تھی لیکن طبیعت کی سخت سر گردانی اور دل کے اضطراب کی وجہ سے وہ مشک کھولنے کے وقت زمین پر متقرق ہو کر گر گئی اور گرنے کے سبب سے خشک تھی او رہو اچل رہی تھی اور ضائع ہو گئی اس لئے مجھے دوبارہ آپ کو تکلیف دینی پڑی یہ مشک بہت عمدہ تھی اس دوکان سے ایک تولہ مشک لے کر جہاں تک ممکن ہو جلد ارسال فرمادیں کہ دورہ مرض کا سخت اندیشہ ہے اور خد اتعالیٰ کے فضل وکر م پر بھروسہ ہے آپ نے یہ مشک بمبئی سے منگوائی تھی باقی سب خیریت ہے اس وقت بھی طبیعت صحت پر نہیں رجسٹری کرا کر یہ خط بھیجتا ہوں میں انشاء اللہ آپ کے صاحبزادہ سیٹھ احمد صاحب کے لئے او ر ان کی دنیا و آخرت کے کامیابی کے لئے بہت دعاکروں گا میری طرف سے سلام علیکم ان کو پہنچے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
مکتوب نمبر ۷۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ اس مبارک کام کے لئے آپ کی سلسلہ …… کامیابی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی مجھے آپ کے اس کام کی خبر نہ تھی مگر میں نے آپ کے اس سفر کے لئے بہت دعا کی کہ جو جو مطالبہ اس سفر میں مدنظر ہیں خد اتعالیٰ ان کو انجام دے مجھے امید ہے کہ وہ دعا قبول ہو گئی ہوں گی۔ امید کہ عقد نکاح کے بعد ضرور مجھے مسرورالوقت فرماویں میرے نزدیک یہ کام نہ صرف مناسب ہے بلکہ خدا بہت سے برکات کا موجب کرے آمین ثم آمین۔ باقی ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آپ کی تار کے ذریعہ یک دفعہ غم کی خبر یعنی واقعہ وفات عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کا سن کر دل کو بہت غم ہوا اور صدمہ پہنچا انا للہ وانا الیہ راجعون۔دنیا کی پائیداری اور بے ثباتی کا یہ نمونہ ہے کہ ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ عزیز موصوف کی اس شادی کا اہتمام ہو اتھا او رآج وہ مرحومہ قبر میں ہے جس قدر اس ناگہانی واقعہ سے آپ اور سب عزیزوں کو صدمہ پہنچا ہو گا اس کاکو ن اندازہ کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور نعم البدل عطا کرے اور عزیزی سیٹھ احمدکی لمبی عمر کرے آمین ثم آمین اس خبر کے پہنچے پر ظہر کی نماز میں جنازہ پڑھا گیا اور نماز میں مرحومہ کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس غم اور صدمہ کی عوض میں بہت خوشی پہنچاوے آمین ثم آمین تادم تحریر خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۳؍ اگست ۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھ کو سخت افسوس ہے جس کو میں بھول نہیں سکتا کہ مجھ کو قبل اس حادثہ وفات وقت اس کامل دعا موقعہ نہیں جو اکثر کرشمہ قدرت دکھلاتی ہے میں دعا تو کرتا رہا مگر وہ اضطراب جو سینہ میں جلن پید اکرتی ہے اور دل کو بے چین کر دیتی ہے وہ ا س لئے کامل طور پر پیدا نہ ہوئی کہ آپ کے عنایت نامجات میں جو حال میں آئے تھے یہ فقرہ بھی درج ہوتا رہا کہ اب کسی قدر آرام ہے اور آخری خط آپ کو جو نہایت اضطراب سے بھرا ہوا تھا اس تار کے بعد آیا جس میں وفات کی خبر تھی اس خانہ ویرانی سے جو دوبارہ وقوع میں آگئی رنج اور درد غم تو بہت ہے نہ معلوم آپ پر کیا کیا قلق اور ریخ گزرا ہو گا لیکن خد ا وند کریم و رحیم کی اس میں کوئی ایسی حکمت ہو گی یہ بیماری طبیبوں کے نزدیک متعدی بھی ہوتی ہے اور اس گھر میں جو ایسی بیماری ہو سب کوخطرہ ہوتا ہے اور خاوند کے لئے سب سے زیادہ سو شاید ایک بھی حکمت ہو خدا وند تعالیٰ عزیزی سیٹھ احمد کی عمر دراز کرے اور اس کے عوض میں بہتر صورت عطا فرمائے یہ ضروری ہے کہ آپ اس غم کو حد سے زیادہ دل پر نہ ڈالیں کہ ہر ایک مصیبت کا اجر ہے اور مناسب ہے کہ اب کی دفعہ ایسے خاندان سے رشتہ نہ کریں جن میں یہ بیماری ہے اور نیز جو آپ نے اپنے لئے تحریک کی تھی اس تحریک میں سست نہ ہوں خد اتعالیٰ پر توکل کر کے ہر ایک کام درست ہو جاتا ہے باقی سب خیریت ہے کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے انشاء اللہ القدیر دو تین ہفتہ تک چھپ جائے گی باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرز اغلام احمد
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا میں بباعث قدیمی بیماری کے جو آج کل ستمبر کے مہینہ میں مجھے اکثر ہوتی ہے بیمار رہا اور اب تک میری بیماری صاف نہیں ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یکم اکتوبر یعنی موسم کی تبدیلی کے وقت طبیعت صاف ہو گی او رمیںنے آنمکرم کے اس مقدمہ کے لئے بھی دعا کرنا شروع کر دی ہے اور عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی بیوی کے لئے بھی دعا کرتا ہوں امید ہے کہ طبیعت درست ہونے پر بہت توجہ کروں گا میری طبیعت کچھ ایسی ضعف او رکمزور ہو رہی ہے کہ بسااوقات میں خیال کرتا ہوں کہ گویا چند دم میری عمر میں باقی ہیں مگر باایں ہمہ آپ کے لئے دعا کرنے کو کبھی نہیں بھولتامیں انشاء اللہ اگر خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے زندگی ہوئی تو آپ کے لئے دعا کروں گا اور مجھے امید یہی ہے کہ اگر مجھے دعا کرنے کے لئے وقت دیا گیا تو وہ دعا قبول ہو گی میں بباعث علالت طبع کے اس وقت زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اسی قدر پر چھوڑتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
مکتوب نمبر ۷۶
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پرسوں کی ڈاک میں کل او رایک سو روپیہ مرسلہ آنمکرمجھ کو ملا خدا تعالیٰ جزائے خیر بخشے آمین ثم آمین مجھے پھر معلوم نہیں تھا کہ وہ کار خیرا انجام پذیر ہو گیا ہے یا ابھی کوئی تاریخ مقرر ہے امید ہے ا س سے ضرور مطلع فرمائیں باقی ا س جگہ ہر طرح سے خیریت ہے کتاب تریاق القلوب ابھی چھپ رہی ہے اور رسالہ مسیح ہند میں بھی چھپ رہا ہے اور رسالہ ستارہ قیصرہ چھپ چکا ہے امید ہے کہ آنمکرم کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا ۲۷؍ اگست ۱۸۹۹ء کو مجھ کو اپنی نسبت یہ الہام ہوا۔ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھا دے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیر اتخت بچھایا گیا۔ دشمنو ںسے ملاقات کرتے وقت ملائکہ نے تیری مدد کی۔
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۷۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ نقد آنمکرم مجھ کو مل گیا۔ خدا تعالیٰ متواتر خدمات کی غرض میں آپ کو متواتر اپنے فضل اور اجر سے خوش کرے آمین ثم آمین کتاب تریاق القلوب چھپ رہی ہے ابھی میں نہیں لکھ سکتا کہ کب ختم ہو شاید اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دو ہفتہ تک ختم ہو جائے یہ آپ کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ مشکلات کے وقت میں آپ کی طرف سے مدد پہنچتی ہے ا س ملک میںسخت قحط ہو گیا ہے اور ان تک بارش نہیں ہوئی اب کی دفعہ ابتلا ……سخت اندیشہ ہے کیونکہ ہمارے سلسلہ کے اخراجات کا یہ حال ہے کہ علاوہ اور خرچوں کے دو سو روپیہ ماہوار کا آٹا ہی آتا تھا۔ اب میں خیا ل کرتا ہوں کہ پانچ سو کا آئے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلے گا اور دوسرے اخراجات بھی او رمہمان داروں کے ہوتے ہیں وہ بھی اس کے قریب قریب ہیں چنانچہ ایندھن یعنی جلانے لکڑی وغیرہ غلہ کی طرح کامیاب ہو گئی ہے او رایسی کامیاب ہے کہ شاید اب کی دفعہ ڈیڑھ سو یا دو سو روپیہ ماہوار کا خرچ ہو میں ڈرتا ہوںکہ کہ وہی وقت نہ آگیا ہو جو احادیث میں پایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ مسیح موعو داو راس کی جماعت پر قحط کا سخت اثر ہو گا سو حیرت ہے کہ کیا کیا جائے اگر دعا کے لئے وقت ملے تو کروں ابھی تک ہماری جماعت میں اہل استطاعت میں سے ایک آپ ہیں جو حتی الوسع اپنی خدمات میں تعہد رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ یا تونادار ہیں یا سچا ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ لیکن ہمارے مرنے کے بعد بہت سے لوگ پید ا ہو جائیں گے کہ کہیں گے کہ اگر وہ وقت پاتے تو تمام مال اور جان سے قربان ہو جاتے مگر وہ بھی اس بیان میں جھوٹے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی اس زمانے کو پاتے تو وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے اللہ تعالیٰ دلوں میں سچا ایمان بخشے خدا کے مامور جو آسمان سے آتے ہیں وہ اپنی جماعت کے ساتھ خریدو فروخت کا سامعاملہ رکھتے ہیں۔ لوگوں سے ان کاچند روزہ مال لیتے ہیں اور جادوانی مال کا ان کو وارث بناتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان مشکلات کے وقت میں ایک اشتہار بھی شائع کروں تا ہریک صادق کو ثواب کا موقع ملے او راس میں کھلے کھلے طور پر آپ کاذکر بھی کر دو ںکیونکہ اب سخت ضرورت کا سامنا ہے اور ہمارے سیدو مولیٰ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ضرورتوں کے وقت جب ایسا کرتے تھے تو صحابہ دل اور جان سے اس راہ میں قربان تھے جو کچھ گھروں میں ہوتا تھا تمام آگے رکھ دیتے غرض اسی طرح کا اشتہار ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ سور وپیہ مرسلہ آنمکرم پہنچا اللہ تعالیٰ آپ کو بہت بہت جزا بخشے اور آفات دینی اور دنیاوی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ کشمیر سے خلیفہ نور دین صاحب تحقیقات کر کے آگئے ہیں پانچ سو چہچن آدمی کی گواہی سے ثابت ہوا کہ وہ قبر جس کاذکر رسالہ میں کیا گیا ہے مختلف نامو ں سے مشہور ہے بعض یوز آسف بنی کی قبر کہتے ہیں اور بعض شہزادہ بنی کی قبر بعض عیسیٰ صاحب کی قبر اور اب عنقریب تین آدمی سفر خرچ کے انتظام کے بعد نصیبین کی طرف روانہ ہوں گے اور اس سے پہلے جلسہ ہو گا جس کی تاریخ ۱۲؍ نومبر ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اس جلسہ سے چند روز بعد یہ تینوں روانہ ہوں جائیں گے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر ۷۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا اس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ عنقریب تشریف لانا چاہتے ہیں اس مسرت کااندازہ نہیں ہو سکتا اس ناپائیدار دنیا میں بڑا ہی خدا تعالیٰ کافضل ہے سمجھنا چاہئے کہ جدائی کے بعد پھر ملاقات ہو تین دن رات کوشش کر رہا ہوں کہ جلد تر کتاب تریاق القلوب کو ختم کروں شائد ایک ماہ تک ختم ہو جائے اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء آپ کی خدمت میں پہنچ گیا ہو گا جس میں ضمیہ جلسۃالودع بھی ہے خدا تعالیٰ اپنا فضل شامل حال رکھے اور جلد تر خیرو عافیت سے آپ کو ملاوے نہایت خوشی بلکہ بے اندازہ خوشی ہوئی کہ آپ کے تشریف لانے کی بشارت سنی جزاکم اللہ خیراء۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۸؍ اکتوبر ۹۹ء
مکتوب نمبر ۸۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا آپ بکلی مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جو دنیا میں ایک بڑے خوش نصیب کے لئے ہو سکتی ہے۔ خدا وند عزوجل غفور رحیم ہے اس کی درگاہ سے بڑی امیدں ہیں لیکن ضرور ہے کہ درمیان میں کچھ تشویش لاحق ہو۔ جب تک خدا تعالیٰ کا وہ مقرر کردہ دن آجائے اس لئے بڑی استقال اور قوت او رمردانگی سے ایسی تشویش کامقابلہ کرنا چاہئے انسان دنیا طلبی کی حالت میں ضرور دل کا کمزور ہوتا ہے اس قدر اس کا مصائب پیش آمدہ سے صدمہ پہنچتا ہے اور اس قدر نا امیدی طاری ہوتی ہے سو ایسا نہیں کرنا چاہئے آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے مبشر الہام صادر فرمایا ہے اور خدا کاکلام غلط نہیں جاتا میرا یہ خیا ل ہے کہ دنیا میں تمام بادشاہ متفق ہو کر ایک وعدہ کریں تو میں اس وعدہ کو پھر بھی یقینی نہیں سمجھتا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ قبل ایفائے وعدہ کے وہ لوگ مر جائیں یا اس کے ایفا پر قادر نہ ہو سکیں او رمجبور ہیں مگر خدا تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے مجھے معلوم نہیں کہ کس راہ سے او رکس طور سے خد اتعالیٰ ان غموں سے آپ کو نجات دے گا او رنہ ابھی تک معلوم ہے کہ وہ وقت کب ہے لیکن کسی قدر مدت کی بات ہے کہ اس خداوند قادر کی طرف سے یہ وعدہ ہے والکریم افاوعد وفا اس کے لئے آپ جو انمروی سے اس ذوالجلال کے وعدہ کے منتظر رہیں اور کسی کی بے التقاتی پر کچھ بھی پرواہ نہ کریں جس طرح بارش نہ معلوم آتی ہے نہیں معلوم ہو گا کہ کب بادل ہو گا او رکب مینہ برسے گا۔اسی طرح خدا کافضل بھی چور کی طرح نظر آتا ہے پوری استقلال او راستقامت سے منتظر رہنا چاہئے بلکہ بہت خوش رہنا چاہئے کہ خدا کاوعدہ ہے نہ انسان کا اگرآپ دیکھیں کہ میں آگ میں پڑ گیا ہوں یا پڑتا ہوں تب بھی آپ خوش رہیں کیونکہ جس نے یہ آگ پید اکی ہے و ہ ایک دم اس کا بجھا سکتا ہے دنیا میں میں اس بات کو خوب سمجھتا ہوں کہ کیونکہ وہ ہمار اخد اہر ایک چیز پر قادر ہے ا س لئے میں آگ میں بھی ہو کر ا س کو بہشت تصور کرتا ہوں تمام دکھ اس بات سے ہوتے ہیں جب انسان نہیں جانتا کہ یہ تکلیفیں کیوں آتی ہیں او رکیونکہ دور ہو سکتی ہیں مگرجب خد اتعالیٰ کی آوازیں خبر دیتی ہیں کہ یہ تکلیفیں اس کی خبر سے ہیں اور اس کے ارادہ کے ساتھ معاًنیست و نابود ہو جاتی ہیں تو کیوں غم کیا جائے باقی سب خیریت ہے اس وقت قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے قریبا ًدو کوس کے فاصلہ پر او رقادیان اس وقت ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے اردگرد سخت طوفان ہوا اور وہ دریا میں چل رہی ہے۔ ہر یک ہفتہ شاید بیس ہزار کے قریب آدمی مر جاتا ہے خدا نے اس شکوک کو دور کر دیا کہ اس وقت عام طاعون پھیلے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۳؍ اپریل ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا یہ بھی خدا تعالیٰ کی آپ پر ایک رحمت ہے کہ آپ نے میری اس نصیحت میں غفلت نہیں کی کہ خط برابر بھیجا جائے او رمیں جس قدر خد اتعالیٰ کی عجیب او رخارق عادت فضلوں پر یقین رکھتا ہوں کاش کوئی ایسا طریق ہو کہ میں آپ ک د ل میں بھی ڈال سکتا خد اتعالیٰ کے فضل اور رحمت او رقدرت کا تجربہ اگر ہو تو وہ اس حالت میں بھی انسان کوناامید نہیں کر سکتا کہ جب انسان پابزبخیر زندان میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ا ور اس بات سے سب امیدیں ہماری ٹوٹ چکی ہیں لیکن جب تک ہم قبر میں داخل ہو جائیں یہ امید ہماری ٹوٹنے کے قابل نہیں ہے کہ ہمارا خد اوہ خد اہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے انسان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ دو چار تجربہ سے خواص اشیاء پر یقین کر لیتا ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ پانی ہمیشہ پیاس کو بجھاتا ہے اور روٹی ایک بھوکے انسان کوسیر کرتی ہے کسڑایل دست لاتا ہے سم الفاء پوری خوراک پر ہلاک کرتا ہے تو پھر خد اتعالیٰ کے فضل اور رحم پر کیوں یقین نہ کریں جس کو ہم اپنی زندگی میں صدہا مرتبہ آزما چکے ہیں سچ تو یہ ہے کہ گھبراہٹ ضعف ایمان کے باعث ہوتی ہے اگر کسی کو یہ یقین ہوکہ میرا خدا ہے جو مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا تو ممکن ہے کہ نہیں کہ وہ غمگین ہو او روہ کیونکر غمگین ہو سکے انسان تو ………سے بھی تسلی پاکر بھی غمگین نہیں ہوتا مثلاً اگر کسی کو لاکھ دو لاکھ کی ضرورت پیش آجائے او راس کے ایک پاس پیسہ نہیں او روہ فکر ادائیگی میں مر رہا ہے اور کوئی رفیق نہیں تو غم سے ہلاک ہو جائے گا جس طرح سیداحمد خان آخر ایک لاکھ روپیہ کے غم سے دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اگر ایسے مضطرب آدمی کو کوئی دوست مل جائے جو ذات کاچورا یعنی بھنگی ہے یا چمار ہے اور وہ بہت دولت مند ہو اور وہ اس کو تسلی د ے کہ غم نہ کر کچھ دیرکے بعد یہ تمام روپیہ تیرا میں ادا کردوںگا او راس کو یقین آجائے کہ اب بلاشبہ اپنے وعدہ پر یہ شخص تمام روپیہ ادا کردے گا تو قبل پہنچے روپیہ کے جس قدر اس کو کشایش ہو رہی ہے وہ اس کی نظر میں ایک معمولی ہو جائے گا اور چہرہ پر افسردگی نہیں رہے گی ایسا ہی وہ شخص جو یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا وہ بلاشبہ ضائع نہیںہو گا۔ غم تب آتا ہے جب انسان جاتا ہے ایک تو بشریت کاغم ہے اس میں تو انسان ایک حد تک معذور ہوتا ہے جیسا کہ کسی کی موت پر غم آتا ہے اس میں تو انبیاء بھی شریک ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب یوسف کی جدائی میں چالیس برس تک روتے رہے وہ بشریت کا غم تھا مگر ایک ضعف ایمان کا غم ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئی نادان یہ غم کرے کہ میر اکیا حال ہو گا کیونکہ مجھے روٹی او رکپڑا ملے گا عیال کا کیا حال ہو گا اس غم سے اگر انسان توبہ نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اپنے رازو کا منکر ہے دعا کا سلسلہ خوب سرگرمی سے جاری ہے ہر ایک ساعت خد اتعالیٰ کے فضل کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا موجودہ حالات سے آپ دلگیر نہ ہوں اور نہ کسی گھبراہٹ کو اپنے دل تک آنے دیں میں اپنی دعائوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر گز خطا نہیں جائیں گی۔اگر ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو میں اس کو ممکن مانتا ہوں مگر وہ دعائیں جو آپ کے لئے کی گئی ہیں وہ ٹلنے والی نہیں۔ ہاں میرے خدائے کریم وقدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے اندر ارادوں کو جو دعائوں کے قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے طاہر کرتا ہے تا جو بدبخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں او را س خاص طور کے فضل کا انہیں حصہ نہیں ملے گا جو خد اتعالیٰ عزوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں آپ کو کہتا ہوں کہ صبر سے انتظار کریں ایسا نہ ہو کہ آپ تھک جائیں اور وہ جو آپ کے لئے تخم بویا گیا ہے وہ سب برباد ہو جائے گا دنیا جلد تر آسمانی سلسلہ سے منہ پھیر لیتی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ ایک خد اہے جوایک خا ک کی مٹی کو سرسبز کر سکتا ہے۔ اگر خدائے عزوجل کا آپ کے حق میں کوئی نیک ارادہ نہ ہو تو مجھے آپ کے لئے اس قدر جوش نہ بخشتا یہ مت خیا ل کرو کہ بربادی درپیش ہے یابکلی ہو چکی ہے بلکہ اس خدا پر ایمان لائو جو ایک مردہ نطفہ سے انسان کو پیدا کردیتا ہے او ریہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ ہم اس خد اکی قدرتوں اور معجزوں کے نمونے دیکھ چکے ہیں جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے او رانسان میں خامی او ربیدلی صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس قادر کا کوئی نمونہ نہیں دیکھا ہے لیکن نمونہ دیکھنے کے بعد وہ قادر خدا اس شے سے زیادہ پیارا ہو جاتا ہے جس کو طلب کیا تھا۔ اس وقت یہ خدا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھ لیتا ہے او رپھر بھروسہ بھر دوسرے چیز کے ہونے نہ ہونے کا کبھی غم نہیں کرتا۔ کیونکہ اب وہ اپنے خد اکو ایک ہی خزانہ جانتا ہے جن میں تمام جوہرات ہیں اس کے موافق مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عاشق تھا جو اپنے عشق میں نہایت بیتاب تھا آخر ایک باخدا آیا او راس کومراد تک پہنچایا اور خدا کی طرف آنکھیں کھول دیں تب وہ اپنے جھوٹے معشوق سے برگشتہ ہو گیا او راس مرد خد اکا دامن پکڑ لیا او رکہا گفت معشوقم تو بودستی نہ آن۔ لیک کاراز کارخیز دور جہان سو خلاصہ تمام نصیحتوں کایہی ہے کہ آپ وہ قوت ایمانی دکھلاویں کہ اگر اس قدر انقلاب او رانصاب مصائب ہو کر سر رکھنے کی جگہ باقی نہ رہے تب بھی افسردہ نہ ہوں۔زکار بستہ منیدیش و دل شکستہ مدار۔ کہ آپ چشمہ حیوان اور دن تاریکست۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۲؍ مئی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ سب خیریت ہے دعا کا سلسلہ اس طرح جاری ہے او رخدا تعالیٰ کے فضل پر امیدیں ہیں چوانوراہ حکمت بہ بندے دورے۔ کشاید بفضل و کرم دیگرے۔ کل کا نظارہ دیکھ کر میں خوش ہوا۔ میرے مکانوں میں چار بلیاں رہتی ہیں ایک والدہ ہے اور تین اس کی بیٹیاں ہیں وہ بھی جوان او رمضبوط ہیں کل کے دوپہر کے وقت میں میں اکیلا ادھرکے دالان میں بیٹھا تھا کہ میرے دروازہ کے آگے ایک چڑیا آکر بیٹھ گئی فی الفور بڑی بلی نے حملہ کیا او را س چڑیا کا سر منہ میں پکڑ لیاپھر دوسر ی بلی آئی اس نے وہ چڑیا پہلی سے لے کر اپنے قبضے میں کر لی اور اس کاسر منہ میں لے لیا اور زمین پر ایسا رگڑا کہ میں وہ حالت مارے رحم کے دیکھ نہ سکا اور دوسری طرف میںنے منہ کرلیا ا ور پھر جو میں نے دیکھا تو تیسری بلی نے ا س چڑیا کا سر اپنے منہ میں لیا اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ غالباً سر کھایا گیا اتنے میںچوتھی بلی نے اس چڑیا کو لیا اور زمین اسے رگڑا تب میںنے یقین کیا کہ چڑیا مر چکی او رسر کھا لیا گیا اور رگڑ دن میں کئی دفعہ چڑیا زمین پر پڑی پھر ایک بلی نے چاہا کہ ا س چڑیا کے گوشت میں کچھ حصہ لے اس نے چڑیا کو کھانے کے لئے اپنی طرف کھنچا شاید اس غرض سے کم سے کم نصف پہلی بلی کے منہ میں رہے او رنصف آپ کھائے لیکن کسی سبب سے وہ چڑیا دونوں کے منہ سے نکل کر زمین پر جاپڑی او رگرتے ہی پھر َ کر کے اڑ گئی چاروں بلیاں پیچھے دوڑیں مگر پھر کیا ہو سکتا تھا وہ کسی درخت پر جا بیٹھی اور بلیاں غائب و غا مسر واپس آئیں اس واقعہ کو دیکھ کر میرے دل کو بہت جوش آیا ا س طرح خد اتعالیٰ دشمنوں کے ہاتھ سے چھوڑاتا ہے۔ تب میںنے یہ خیال کیا کہ یہ وقت بہت مقبول ہے آپ کے لئے بہت دیر تک دعا کی کہ اے خدائے قادر جس طرح تونے اس عاجز چڑیا کو چار دشمنوں سے چھوڑایا اسی طرح اپنے عاجز بندہ عبدالرحمن کی جان بھی چھوڑ آمین۔ امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ دعا بھی خالی نہیں جائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۳۰؍ جون ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا یہ سچ ہے کہ بناہو ا کام بگڑنے سے اور وسائل معاش کے گم یا معدوم ہونے کی حالت میںبے شک انسان کو صدمہ پہنچتا ہے مگر وہ جو بگاڑتا ہے او روہی بنانے پر قادر ہے پس دنیا میں شکسہ دلوں کی او رتباہ شدہ لوگوں کے خوش ہونے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس خدائے ذوالجلال کو ایمانی یقین کے ساتھ یاد کریں کہ جیسا کہ وہ ایک دم میں تخت پر سے خاک مذلت میں ڈالتا ہے ایسا ہی وہ خاک پر سے ایک لحظہ میں پھر تخت پر بیٹھاتا ہے اس جگہ یہ کہنا کفر ہے کہ کیونکہ او رکس طرح او رایسے اوہام کا جواب یہی ہے کہ جس طرح ایک قطرہ نطفہ سے انسان کو پید اکیا۔ الم القلم ان اللہ علی شئی قدیر۔ نابینائی او ربد ظنی کی وجہ سے تمام دکھ پید اہوتے ہیں ورنہ وہ ہمارا خدا عجیب قادر بادشاہ ہے جو چاہے کرے کوئی بات نہیں اس کے آگے انہونی نہیں اگر یقین کی لذت پیدا ہوجائے تو شاید انسان دنیا میں طلبی کے ارادوں کو خود ترک کردے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ اس بات کو آزما لیا جائے کہ درحقیقت خد ا موجود ہے او ردرحقیقت وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ کریم اور رحیم ہے ان لوگوںکو ضائع نہیں کرتا جو اس کے آستانہ پر گرتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۷؍جولائی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۵
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا الحمدللہ کہ آثار بہبودی ظاہر ہونے لگے سلسلہ دعا کا برابر جاری ہے۔ سیٹھ دال جی صاحب نے جو مشک بھیجی ہے۔ خدا ان کو جزائے خیر دے اصل بات یہ ہے کہ عمدہ مشک ملتی نہیں۔ کبھی کبھی ہاتھ آتی ہے سو یہ مشک بھی درمیانی درجہ کی ہے بہرحال خدا تعالیٰ اس خدمت کانیک پاداش ان کو عطا کرے آمین۔ میں آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا کہ معلوم ہوا کہ وہ مدراس میں نہیں ہیں آپ میری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ جس میں کچھ پریشانی حال اور ایک خواب درج تھی خواب گویا اس پریشانی کا جواب تھا تعجب کہ اس قدر عمدہ خوابیں آپ کو ہوتی ہیں او رپھر بھی تفکرات دامن گیر ہوتے ہیں۔ یہ خواب آپ کے لئے بڑی بشارت ہے کہ خدا تعالیٰ پھر آپ کو عزت اور مرتبست کی سواری پر بیٹھانے والا ہے او رازروئے تعبیر کے جواب مال ہے۔ جو دشمن کے دست برد سے بچایا جائے یا کوئی خزانہ جو لے جائے یا وفادار عورت او رمیرے گھر میں سے جو آپ کو جواب دیا تھا تو اس کی تعبیر وہ ہو سکتی ہے ایک یہ کہ ان کانام نصرت جہان بیگم او ریہ خدا کی نصرت کی طرف اشارہ ہے او ردوسری یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ میری دعائیں آپ کو نصرت کا کام دیں گی۔ ایساہی آپ کو میر ناصر نواب صاحب نظر آئے اس میں بھی نصرت کا لفظ ہے اور میرا بیٹا بھی آپ کو نظر آنا بشارت ہے کیونکہ دعا بجائے بیٹے کے ہوتی ہے گویا وہ دعا ادل ایک ہندہ کے پاس محبوس تھی یعنی اس کے ظہور کا وقت نہیں آیا تھا اور اب وقت قریب ہے غرض ہر ایک جو اس کی خواب بہت مبارک ہے آپ کو چاہئے کہ مرد میدان اور پہلوان بن کر اب چند روز کی ابتلائوں کو برداشت کر لیں انشاء اللہ آسمان پرسے آپ کے لئے کوئی راہ نکل آئے گی اور حلوہ پہنچ گیا ہے خد اتعالیٰ آپ کو بہت بہت جزائے خیردے کہ مدارس کارزق قادیان پہنچا دیا حلوہ بظاہر بباعث شدت گرما خراب ہو گیا او راس پر وہ زنگ جیسا شیرینی پر چڑھ گیا تھاکہ پھینکنے کے لائق معلوم ہوتی ہے بعض نے کہا اب قابل استعمال نہیں لیکن ایک خادمہ نے کہا کہ میں اس کو نئے سرے سے بنا دیتی ہوں پھر خبر نہیں کہ اس نے کیا کیا ایسی عمدہ شیرمینی بطور قرض بنا لائی کہ نہایت لذیذتھی اس وقت تمام اہل وعیال میں تقسیم کی گئی چونکہ بھیجنے والوں نے محبت اور ارادت سے بھیجی تھی اس لئے خدا نے شیرمینی کو بگڑنے اور بیکار ہونے سے محفوظ رکھا خدا دن کو جزائے خیر بخشے او رآپ کو جزائے خیر بخشے آمین۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے طاعون کا اس علاقہ میں پھر زور ہوجاتا ہے کوہ کسونی پر طاعون زور سے شروع ہوگئی بعض سرکاری خبروں سے معلوم ہوا کہ احاطہ بمبئی میں ہماری جماعت دس ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہے او ر پنجاب میں اُونچاس ہزار ہماری جماعت ہے ابھی سرکاری کاغذات ہم کو نہیں ملے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی نقل مل جائے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۸۷
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا غم و انددہ کی کثرت اور بارگران قرضہ اگرچہ ……ایسی حالت میں جبکہ انسان اپنی کمزوری او ربے سامالی او رعدم موجودگی اس بات کا مطالعہ کر رہا ہو بہت آزاداہ چیز ہے لیکن پھر اگر دوسرے پہلو میں خدا داری چہ غم داری سوچا چا ہے تو ایسے غم کو بہت مجبوریوں کے ساتھ لاحق ہوں تاہم ایک غفلت کا شعبہ ثابت ہوں گے یعنی قادر حقیقی کے عجائب در عجائب قدرتوں پر ایمان نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے۔ یہ خیال درحقیقت ایک تسلی او رسکر اور ہزار ہا امیدوں کے سلسلہ کا موجب ہے کہ ہمارا خد اقادر غذا ہے اور مجبیب الدعوات ہے ا س کے آگے کوئی بات انہونی نہیں یہ ایسی باتیں نہیں کہ محض طفل تسلی کے طور پر خوش کن باتیں ہوں بلکہ اگر دنیا میں نجات کے لئے یہ راہ کشی نہ ہوئی تو بے کسی کی زندگی سے مرنا بہتر تھا یہ سچا نسخہ کیمیاء کا ہے جو ہمار اایک خدا ہے جو تمام باتوں پر قادر ہے خد اتعالیٰ آپ کو اس قادر خد اکے دونوں قسموں کے فیضوں سے پورے طور پر متمع فرمائے آمین۔ باقی سب طرح خیریت ہے خدا آپ کا حافظ ہو زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسا ر
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳۱؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۸
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضل تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے جناب الٰہی میں آپ کے لئے سلسلہ دعا کا شروع ہے۔ دمن دق باپ الکریم افتح چند روز ہوئے کہ مدارس سے ایک شیشی خورد مشک کی آئی وہ پرچہ جہ فریسندہ کا نام تھا ڈاکخانہ سے گم ہو گیا وہ زبانی شکی طور پر کہتے ہیں کہ شاید یہ مدارس سے آئی ہے اس سے پہلے ایک عجیب واقعہ گزرا کہ ایک شخص نے مجھ کو پوچھا کہ جو انبیاء علیہ السلام بعض کھانے کی چیزوں کو برکت دیا کرتے تھے اور کھانا ختم نہیں ہوتا تھا وہ برکت کیا چیز تھی میں نے جواب دیا کہ جس چیز پر ایک مقبول آدمی دعا کرے اس کاسلسلہ لمبا کیا جاتا ہے جلدی ختم نہیں ہوتا خواہ کسی طرح لمبا کیا جائے اتفاقاً اس وقت میرے پا س ایک شیشی مشک کی تھی۔ جو ا س میں بہت تھوڑی سی مشک تھی میں نے کہا کہ دیکھو کہ ہم ا س کوبرکت دیتے ہیں تا یہ مشک آج یا کل ختم نہ ہو جائے تب میں نے اس پر دعائے برکت پھونک دی اور اسی روز تیسرے پہر یہ مشک آگئی جو کہتے ہیں غالباً مدراس سے آئی جنہوں نے یہ معاملہ دیکھا ان کے ایمان میں ترقی کاموجب ہوا مجھے آپ اطلاع دیں کہ کس تاریخ تک آپ کا ارادہ ہے کہ آپ قادیان میں تشریف لاویں اس روز پہلے اطلاع دیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۸۹
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا علالت طبع عزیزی سیٹھ احمد صاحب کی خبر سن کر تفکر ہوا اللہ تعالیٰ جلد تر شفا عطا فرمائے آمین اس جگہ بفضلہ تعالیٰ تا دم تحریر سب خیریت ہے برابر دعا کی جاتی ہے اس نواح میں طاعون تو ہے لیکن بفضلہ تعالیٰ ابھی کچھ زور نہیں اکثر بیمار اچھے بھی ہو جاتے ہیں سنا گیا ہے کہ امرتسر میں طاعون دن بدن چمکتی جاتی ہے معلوم نہیں کہ طاعون سے خدمت مفوضہ لینا کس مدت تک حضرت احدیث کاارادہ ہے۔ باقی سب خیریت امید ہے کہ آپ جلد تر وہاں روانہ ہوں گے یا شاید یہ خط وہاں نہ مل سکے قادیان واپس آکر ملے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۹۰
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ مجھ کو ملا آپ بہت مضبوط اپنے استقامت پر قائم ہیں۔ کیونکہ جو آپ کے لئے کوشش کی گئی ہے وہ ضائع نہیں جائے گی ضرور ہے اوّل یہ ابتلاء انتہاء تک پہنچ جائے عسر کے ساتھ یسر ہوتی ہے او رغم کے بعد خوشی ہوتی ایسا نہ ہو کہ آپ بشریت کے وہم سے مغلوب ہو کر سلسلہ امید کو ہاتھ سے چھوڑ دیں کہ ایسا کرنا دعا کی برکت کم کر دیتا ہے میں بڑی سرگرمی سے آپ کے لئے مشغول ہوں مگر قریباً پندرہ روز سے ریزش کی شدت سے بیمار ہو ںاور ضعف بہت ہے اس لئے میں خط لکھنے سے مجبور و معذور رہتا ہوں۔ اکثر بباعث ضعف میرے دل پر ایسے عوارض کا ہجوم ہوتا ہے کہ میں بہت کمزور ہو جاتا ہوں مگر بہر حال آپ کو نہیں بھولتا مومن کی بڑی قسمت یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لاتا ہے او راس کے فضل پر بھروسہ رکھتا ہے جو شخص خد اسے ناامید ہوتا ہے و ہ مومن نہیں ہوتا دنیا تو خود روزے چند او ربے اعتبار ہے ایک خدا ہی ہے جس سے خوشی ہے وہ قادر ہے او ربلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے آج میں نے خواب دیکھا کہ بعض آفات ……کی شکل پر میرنے مارنے کے لئے آئیں اور میں ایک کوچہ سر بستہ میں گرا ہوں اور بھینس کو میں نے مار کر ہٹا دیا او ردوسری کو بھی ہٹا دیا۔ لیکن تیسرا بھینسا ایک نہایت خبیث اور شریر اور مست معلوم ہوتا ہے اب وہ کوچہ سر بستہ میںبفاصلہ قریباً دو بالشت کے کھڑا ہے اور سخت حملہ کے لیے تیا رہے او ربھاگنے کی راہ بند کر دی اس وقت موت کاسامنا معلوم ہوتا تھا کہ کسی طرح مخلصی نہیں ہلاکت ہے تب خدا کی قدرت سے دوسری طرف اس کامنہ ہوا مگر وہیں کھڑا رہا میں غنیمت سمجھ کر اس کے حلقے میں سے نکل آیا اور وہ پیچھے دوڑا تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ کلام پڑھ اس سے نجات پائے گا او روہ یہ کلام ہے۔ ربی کل شئیٍ خادمک رب فاحفظنی والصرنی وارحمنی۔ ترجمہ۔ الے میرے رب ہر ایک چیز پر تیری خادم ہے اور تیرے حکم میں ہے مجھے ہر ایک بلاسے نگہ رکھ اور مدد دے اور رحم کر۔ میں یہ پڑھتا جاتا اور دوڑتا تھا۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ بلا دفع ہو گئی اور نیز میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ خدا کااسم عظیم ہے جو شخص صدق دل سے اس کو پڑھے گا وہ نجات پائے گا۔ اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ بھی ہر نماز میں رکوع میں سجود دیںاور بعد فاتحہ دوسری سورت کے بعد اگر دوسری سورت بھی ……فاتحہ کے ساتھ ہو ضرور پڑھیں او رنذل اور عجز سے پڑھیں او رخدا تعالیٰ کے فضل پر پوری امید رکھیں وہ قوی وقامہ خدا ہے ایک دم میں جو چاہے کر دے انسان کو اس رحیم وکریم اور قادر سے ناامید نہیں ہونا چاہئے جو شخص ناامید ہوا وہ جہنم میں گیا اگر ہماری جلد ہمارے بدن پر سے الگ کر دی جائے اور ایک آہنی تنور میں ڈالی جائے تب بھی ہم اس خدا سے ناامید نہیں ہوسکتے ہمارے لئے ابراہیم کانمونہ کافی ہے جس نے خد اکی مرضی حاصل کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دی اور آنکھیں بند کر کے اپنی دانست میں ذبح کر دیا مگر آج اسی ذبح کردہ کی اولاد کہ ہم ان کوگن نہیں سکتے خد ابے وفا نہیں انسان خود بے وفا بنتا ہے خدا غدار نہیں انسان خود عذر کرتا ہے خد ا ہرگز اپنے وفادار کو نہیں چھوڑتا مگر بد بخت انسان خود چھوڑتا ہے۔ تب دنیا اور دین دونوں اس کے لئے تباہ ہو جاتی ہے خد اآپ کواستقامت بخشے او رآپ کے دل میں صبر ڈالے وہ کیمیاء ہے جس کاسونا کبھی ختم نہیں ہوتا خدا ابتلاء کے طور پر آگ میں ڈالتا ہے مگر صابر اور وفادار کو پھر محبت سے پکڑ لیتا ہے اور دوسری حالت میں ا س کی پہلی سے اچھی ہوتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر ۹۱
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مدت ہوئی آنمکرم کا کوئی خط میرے پاس نہیں پہنچا نہایت تردد او رتفکر ہے خدا تعالیٰ آفات سے محفوظ رکھے اس طرف طاعون کا ا س قدر زرد ہے کہ نمونہ قیامت ہے گرمی کے ایام میں بھی زور چلا جاتا ہے میں آپ کے لئے برابر دعا کر رہا ہوں خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آخرکار یہ پریشانی دور کرے گا۔ مناسب ہے کہ آپ ارسال خطوط میں سستی نہ کریں اس سے تفکر پید اہوتا ہے خدا حافظ ہو چند روز سے میری طبیعت بعارضہ علیل ہے انشاء اللہ القدیر شفاء ہوجائے گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۲۰؍ مئی ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر ۹۲
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا میں کئی ہفتہ سے بیمار ہوں پوری صحت نہیں اس لئے ہاتھ سے جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ کی ملاقات کابڑا اشتیاق تھا مگر ہر ایک امر اپنے وقت پر موقوف ہے خدا تعالیٰ آپ کو تمام تفکرات سے رہائی بخشے۔ آمین دعا برابر نماز میں کی جاتی ہے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکتوب نمبر ۹۳
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا بد دریافت خیرو عافیت خوشی ہوئی الحمدللہ اس جگہ بھی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے میں ا س وقت تک معہ اپنی جماعت کے باغ میں ہوں اگرچہ اب قادیان میں طاعون نہیں ہے لیکن اس خیال سے کہ جو زلزلہ کی نسبت مجھے اطلاع دی گئی ہے اس کی نسبت میں توجہ کر رہا ہوں اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ جلد تر آنے والا ہے تو اس واقعہ کے ظہور کے بعد قادیان میں جائوں۔ اگر معلوم ہو کہ وہ واقعہ کچھ دیر بعد آنے والا ہے تو پھر قادیان چلے جائیں بہر حال دس یا پندرہ جون تک انشاء اللہ میں اسی جگہ باغ میں ہوں آپ تشریف لے آئیں انشااللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تکلیف نہ ہوگی اور آنے سے پہلے مجھے اطلاع دیں سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۹۰۵ء
مکتوب نمبر ۹۴
مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں آپ کے لئے بہت دعا کی جاتی ہے او ریقین رکھتا ہو ںکہ خدا تعالیٰ آپ کو ضائع ہونے سے بچا لے گا وہ رحیم وکریم ہے آپ کا اپنی جماعت کے ساتھ اختاط او رمصالحت یہ آپ کی رائے پر موقوف ہے اگر ایسی مصالحت میں کوئی امر معصیت او رگناہ کو درمیان نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فی الصلح خیر ورنہ اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک خد اتعالیٰ خود آسمان سے کوئی صورت بہبودی پید ا کردے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے انسان اپنی کمزوری اور بے صبری سے آنے والی رحمت سے منہ پھیر لیتا ہے ورنہ خد اتعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ وہ ضرور وقت پر اپنی تمام باتیں پوری کر دیتا ہے قادر ہے او رکریم ہے صبر سے ایک حدتک تلخی اٹھانا موجب برکات ہے۔ مگر یہ کام بڑے خوش قسمت انسان نو کا ہے جن کوخد اتعالیٰ پر بہت بھروسہ ہے جو کبھی تھکتے نہیں آخر کار خداتعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وظنو اانہم کذبو یعنی ہم نے نبیوں کو وعدہ مدد اور فتح کا دیا پھر مدت تک اس وعدہ کو التوا میں ڈال دیا یہاں کہ مومنوں نے خیال کیا کہ خد انے جھوٹ بولا اور جھوٹا وعدہ دیا او راس کے کچھ آثار بھی ظاہر نہ ہوئے مگر آخر وقت پر وہ وعدہ پور اہو ااس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر یہ خوف کامقام ہے کہ کچی طبیعت والوں پر یہ حالت بھی آجاتی ہے کہ وہ تھک کر خد اکے وعدے بدظنی سے دیکھنے لگتے ہیں اور جھوٹ خیال کرتے ہیں نہایت خوش قسمت وہ شخص ہیں جن میں تھکنے کا مادہ نہیں گویا ان پیغمبروں کی روح ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قسم دیگر گواہوں کے ساتھ یہ یقین دلایا گیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا مگر خد اکے وعدہ میں وہ شک نہ لائے او رچوبیس برس کے قریب مدت گزر گئی خد اکے وعدہ نے کچھ بھی ظہور نہ کیا یہاں تک کہ گھر کے لوگ بھی یعقوب کو دیوانہ کہنے لگے آخر خد اکاوعدہ سچا نکلا۔ غرض سب کچھ انسان کر سکتا ہے لیکن صادق مومنوں کی طرح صبر کرنا مشکل ہے خاص کر بے ایمانی ہو جو ہر طرف سے چل رہی ہے جس نے کی طرف کو بے عزت کر دیا ہے وہ اکثر دلوں پر زہریلہ اثر دکھاتی ہے آخر کمزور انسان تھک کر ان میں سے ایک ہو جاتا ہے اور خد اسے ……جدا ہو جاتا ہے لیکن مومن کے لئے عہد شکنی سے مرنا بہتر ہے مومن کا خدا کے ساتھ ایمانی عہد ہوتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا بھروسہ چھوڑ دیا تو وہ عہد قائم نہیں رہتا پس صبر جیسی کوئی چیز نہیں جس کی برکت سے بگڑے ہوئے کام درست ہو جاتے ہیں او رخد اتعالیٰ راضی ہو جاتا ہے سو خدا تعالیٰ آپ کو ایسی توفیق دے کہ ان ہدایتوں پر آپ پابند رہیں۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ قادیان آنے کا اس وقت آپ ارادہ کریں جب کہ مدراس میں کچھ اطمینان اور تسلی کی صورت نکل آئے میں آپ کے لئے دعا میںسر گرمی سے مشغول ہوں صرف اس وقت کی دیر ہے جو آسمان پر مقرر ہے بے صبری سے اس پودے کو ضائع نہ کریں خدا مہربان ہو تو آخر ہر ایک مہربان ہو جایا کرتا ہے ورنہ دنیا داروں کی مہربانی بھی ایک مکرہوتا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ جولائی ۱۹۰۵ء







ضمیمہ
آب بیتی
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات کے بعد میں اس مضمون کودرج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو سیٹھ صاحب نے حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد عالی کے ماتحت لکھا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اسے الحکم میں چھاپ دوں چنانچہ وہ الحکم میں چھپ گیا تھا۔ حضرت سیٹھ صاحب کی اس یادگار کے ساتھ اس کا اندراج بہت ضروری ہے۔
حضور اقد س امام ہمام علیہ السلام ! اس خبر ……کی ابتدائی عمر میں سے قسم قسم کے لوگوں سے ملاقات رہی ہے۔ مگر جس گروہ کے ساتھ ملاقات ہوئی ابتدا تو ایک دلی جوش سے ہوا کرتی تھی اور اس ناچیز کو بڑی محبت اس سے رہا کرتی۔ لیکن جب کبھی کسی قسم کی کوئی منافقانہ حرکت ایسے ملاقاتی سے مشاہدہ میں آتی تو میرا دل رنج و غم سے بھر جاتا اور سخت صدمہ پہنچتا میری صحبت اور ملاقات زیادہ تر او رحصوصیت کے ساتھ علماء اور صلحاء سے رہتی اور بجائے خود تقویٰ اورطہارت کوبھی فی الجملہ پسند کرتا تھا۔ چنانچہ میری ابتدائی عمر کی ایک کفیت یہ ہے کہ ایک بزرگ وہ خراسانی تھے۔ بنگلور کے قریب ایک مقام میں جس کو لا کر کسی نے سکونت رکھتے تھے اور ان کا نام دو دومیان تھا چونکہ خراسانی گھوڑوں کے سوداگر وہاں قیام کرتے تھے۔ ایک سرکاری کے گھوڑوں کی خریداری بھی وہاں ہو اکرتی تھی…… اس لئے ان کاقیام اس جگہ رہتا تھا ا ور کبھی کبھی بنگلور بھی آجایا کرتے تھے۔ ایک نوجوان خوش رد اور تقویٰ او رپرہیز گاری میں کامل تھے اور اس وقت ان کاسن بھی کوئی پچاس کے قریب ہو گا مگر قرآت بہت اچھی پڑھتے تھے او ربڑے ہی خوش الحان تھے۔ جب کبھی ان کاآنا بنگلور میں ہوتا تھا تو جامع مسجد میںآکر فرد کش ہوا کرتے تھے او راس ناچیز کے وقت کا ایک حصہ مسجد میں گزرتا تھا ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب دو دومیان صاحب نے نماز عشاء پڑھائی یہ گویا ان کی قرآت او رخوش الحافی پر مطلع ہونے کا پہلا اتفاق ہوا جوں جوں نماز پڑھتا تھا اور ساتھ ساتھ طبیعت کوان کی طرف میلان ہوتا اور پھرتو میرے وقت کا کچھ کچھ حصہ ان کی محبت میں گزرتا رہا چونکہ وہ بزرگ نہایت درجہ کے متقی پارسا اور تہجد گزار او رمنکرالمزاج تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں ایک لذت بھی محسوس ہوتی تھی باین سبب ان پر میراحسن ظن بڑھتا گیا او راکثر وہ ہمارے ہاں بھی مہمان ہوتے جب تک ان کاقیام ہوتا۔ چونکہ اس ناچیز کے والدین خدا ان کو مغفرت عطا کرے ا س بات کو نہایت عزیز رکھتے تھے تو میرے لئے یہ بات بہت آسان ہوجاتی کہ جب کوئی عالم یاکوئی اعلیٰ درجہ کے آدمی وہاں آجاتے تو ہرگز ہمارے مہمان ہوئے بغیر رخصت نہ ہوتے تھے او ریہ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ اس ناچیز کو کاروبار دنیا سے کچھ معلوم نہ تھا مسجد او رمدرسہ اور کبھی کبھی اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل تماشہ سیر کرنے میں بھی گزرتا تھا غرض جیسا کہ والدیں کی عادت ہوا کرتی تھی بڑے دنوں یعنی مشہو رتہواروں میں لڑکوں کو کچھ دے دیا کرتے ہیں جیسا کہ عیدین کو وغیرہ کو او رایسا ہی بعض دوسرے رشتہ دار بھی ایسے موقعوں پر کچھ نہ کچھ نقدی بطور عیدی دے دیا کرتے ہیں تو اس ناچیز کے پا س ایسی تقریبوں کے جمع کئے ہوئے کوئی دس بارہ روپے تھے اور اس کو بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھتا تھا یعنی کسی کو اس چیز کی خبر نہ تھی۔ میں خاص اپنے صندوق میں رکھا کرتا تھا ۔ غرض ایک وقت مولوی صاحب مذکورہ حسب عادت تشریف لائے اور میں ان کو کھانا کھلانے کے واسطے مکان پر لے گیا چونکہ وہ کوئی وقت کھانے کا نہ تھا ہم میری والدہ نے چٹ پٹ تھوڑی روٹی اور سالن تیار کرلیا اور بہت جلد مولوی صاحب کے درپیش کیا معلوم ہوتا ہے اس وقت ان کواشتہا بھی زیادہ ……کھانا کھانے کے بعد۔
دعائے خیر معمول سے زیادہ ان سے صادر ہوئی اور ان کی حالت ظاہری سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ ان کو کچھ او ربھی احتیاج ہے او رمیں نے وہ مبلغ جو اس عمرتک جمع کیا ہوا تھا تمام وکمال مولوی صاحب کے نذر کر دیا اور شاید آج تک اس کی کسی کو خبر نہیں ہے او رمجھے یہ واقعہ اب تک اچھی طرح یاد ہے۔
اس کے بعد مولوی صاحب بہت ہی محبت اور شفقت فرماتے رہے اور چونکہ صوفی منش بھی تھے کچھ کچھ ذکر اور اوراء مجھے سکھلانے لگے اور میں بھی ان کی ہدایت بموجب کرتا رہا۔ چنانچہ ان کی لکھوائی ہوئی ادعیہ میں سے ایک ابھی تک میرا دستور العمل ہے لیکن بعد اس کے بہت جلد شادی ہوئی۔ میری عمر کا شاید چودہواں سال ہو گا۔ جومیری یہ تقریب ہوئی او رمیری حالت اس وقت تک یہ تھی کہ میں اس کی غرض وغیرہ سے بالکل نا آشنا تھا۔ یعنی کچھ بھی خبر نہ تھی کہ شادی سے کیا غرض ہوتی ہے۔ غرض بعد شادی کے مجھے زیادہ انس مسجد اور اچھے لوگوںکی صحبت سے رہی۔ اگرچہ ایک حد تک دوکانداری بعد شادی کے ضروری امر ہوگیا مگر میں اس کے واسطے کچھ نہیں کرتا تھا میری بیوی اس وقت کبھی میرے پاس رہتی تھی کبھی میکے میں گزارتی تھی اکثر عادت ایسی تھی کہ ایک ہفتہ یہاں اور ایک ہفتہ وہاں ان کاگزرتا تھا۔ مگر میری یہ حالت رہتی تھی کہ جب وہ میکے میں ہوتی تھیں تو میں بڑا خوش رہتا تھا۔ چونکہ کمرہ خالی ہوتا اور میں مصلے پر ہی صبح کرتا تھا اس لئے میں اس تنہائی میں ایک خاص لطف محسوس ہوتا تھا میرے سسرا ل کو چند روز کے لئے سفر درپیش آیا اور انہوں نے میری بی بی کو ساتھ لے جانا چاہا اور میرے والدین سے اس امر کی درخواست کی او ران کو یہ بات ناپسند تھی۔ مگر میری یہ خواہش تھی کہ اگر یہ اجازت دے دیں تو مجھے ایک عرصہ تک تنہائی میسر رہے گی۔ غرض ایسا ہی ہوا اور مجھے تنہائی میسر ہو گئی اور میں اس تنہائی میں اپنے شغل میں لگا رہتا اور کچھ کچھ باطنی صفائی بھی مجھے محسوس ہوتی تھی او ر اچھے اچھے خواب بھی آتے تھے۔ دیوان حافظ وغیرہ ایسی کتابوں کے ساتھ مجھے خاص رغبت رہتی تھی اور میں وہ دن بڑی خوشی اور ذوق کے ساتھ گزارتا تھا۔ غرض جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یعنی دو تین سال میرے اسی طرح گزرے اور اس کے بعد میرے چھوٹے بھائی ذکر مرحوم کی شادی ٹھہری او رمیرے والدین اس سے محبت کیا کرتے تھے اور اس کو بہت چاہتے تھے کیونکہ جیسے وہ کمال درجہ کے شکیل تھے ویسے ہی ذکی الطبع بھی تھے پس ان کی شادی اس وقت کے رسم ورواج کے موافق بڑی دھوم دھام سے ہوئی جب اس شادی سے فراغت پا چکے تو انہوں نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا او راسی اثنا میں ہماری دوکان مدراس میں الگ ہو گئی جو اس سے پیشتر چند شرکائو نمیں چلتی تھی۔ اب سب شرکاء نے اپنی اپنی جدا جدا دوکانیں کھول کر ایک مشترکہ دوکان کو بند کر دیا اس مشترکہ دوکان میں چار شریک تھے جن کی اب وہ چار دوکانیں ہوگئیں والد مرحوم نے مجھے کواور ذکر مرحوم کو یہا ںچھوڑا اور باقی سب کو ہمراہ لے کر بیت اللہ شریف کو راہی ہو گئے اور یہاں دو بھائی ہم او ردو بھائی چچا زاد ہیں جو بڑی عمر کے تھے اور معاملہ فہم تھے مگر ہم دونوں بھائی کم سن تھے اور نو آموز۔ غرض والد صاحب کے تشریف فرما ہونے کے بعد چھوٹا بھائی زکریا مدراس کواپنی خاص دوکان پر روانہ کیا گیا۔ چونکہ وہ میرے سے زیادہ معاملہ فہم او رطبیعت کا ہر طرح سے تیز تھا اس لئے میرے بڑے بھائی نے ان کودہان روانہ کر دیا او رمیرے دوسرے چچا زاد بھائی کو الگ دوکان پر بیٹھایا او راپنے تئیں مجھے بڑی دوکان کے لئے تجویز فرمایا اور بعد اس کے خود بھی جلد کسی کام کے پیش آنے سے مدراس روانہ ہوگئے اور میں اکیلا یہاں دوکان پر رہ گیا اور اس وقت تک میں گویا ایک آزادنہ زندگی بسر کرتا تھا اور اب پابند ہوگیا اس لئے اب کچھ کچھ بوجھ معاملہ کا او ر خانہ داری کا محسوس ہونے لگا چونکہ ابتداسے ہمارے چچا زاد کا کھانا پینا الگ ہی تھا۔ معاملہ شرکت کا تھا۔ غرض ہر ایک قسم کی آزمائش ہونے لگی اور بہت جلد طبیعت آیندہ کے لئے ہوشیا ر ہو چلی تجارت پیشہ میں بھی ایک شمار ہونے لگا او رکچھ عزت اور وقار ……نظر سے ابنائے جنس میں دیکھا جانے لگا اور بصداق تکیہ برجائے بزرگان ننواں زد بگراف۔ مگر اسباب بزرگی ہمہ آمادہ کنی۔ ہر ایک موقعہ اور محل کا فہم گویا خدا سے ہی لگ گیا او رکوئی ایک برس کے بعد مدراس جانے کی نوبت پیش آگئی والد مرحوم کابعد حج شاید دوسرے یا تیسرے دن مکہ معظمہ میں انتقال ہو گیا اور بڑا سخت صدمہ اس حادثہ دل کو پہنچا جس کو یہ عاجز اب تک نہیں بھولا۔ غرض اس حادثہ جانکاہ کے بعد میرا بھائی بنگلور آ گیا اور مجھے وہاں جانا پڑا بعد پہنچنے کے بعد میرے چچا زاد بڑے بھائی جو وہاں موجود تھے صرف دو یا تین دن رہے اور بنگلور کو روانہ ہو گئے ان کی اس حرکت سے سخت حیرانی ہوگئی یعنی ایک تو میں بالکل نیا او رپھر ہر ایک طرح سے نوآموز دفتر وغیرہ لکھنے کی بالکل تمیز نہ تھی او رکسی اہل معاملہ سے شناسائی کروائی او رنہ کچھ زبان سے کہا اور نہ کیا تو یہ کیا چلنے پر آمادہ ہو گئے اور یہاں مجھے گویا قیامت کا سامنا ہوگیا ہزاروں کالین دین او رکچھ بھی نذارو مگر کیا ہو سکتا تھا۔ بجز اس کے کہ کہر درویش کبھی تو گھبرا کر رو پڑتا تھا اور کبھی دفتروں کو پاس رکھ کر ساری ساری رات غور کیا کرتا تھا اس وقت ایک مدراسی مسلمان ہمارے کام میں تھے جن کو کام و کاج کا کچھ تجربہ تھا ان سے مجھے مدد ملتی رہی غرض یہ کہ ان باتوں پرمیں بہت جلدی حاوی ہو گیا او رپھر معاملہ کے متعلق بھی شوق ہو چلا۔
یا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام میرا اس قدر طوالت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کرنے سے مدعا یہ ہے کہ یہ گویا میری ابتدائی عمر کا ایک ثلث ہے جس کو آج میں یاد کرتا ہوں تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں وہ کیا ہی مبارک حصہ زندگی کا تھا جس میں ہر قسم کی خیروخوبی جمع تھی۔ تجارت ایک محدود دلیرہ کے اندر چلتی تھی۔ اکثر اسباب بمبئی سے آیا کرتا تھا بمبئی سے بنگلور شاید اڑھائی اور تین مہینے کے اندر اسباب پہنچتا تھا تو ایک دم ہی تیس چالیس گاڑیوں میں کئی تاجروں کامال آجاتا تھا گویا ایک قافلہ کی حثیت ہوتی تھی او راس اسباب کے آنے سے جو رونق بازار کی ہوتی تھی اس کانقشہ ابھی تک میرے آنکھوں کے سامنے ہے غرض بیس سے لے کر چالیس فیصدی کے قریب پر نفع موجود چھوٹے چھوٹے بیوپاری مال خرید لیتے تھے اور چار سے چھ قسط میں روپیہ ادا کرنے کی شرط ہوتی تھی اور اس طرح پر سال میں بیس ہزار کے قریب قریب ہماری تجارت چلتی تھی اور سال میں آٹھ مہینے راستہ کھلا رہتا تھا او رچار مہینے بند یعنی رسم کے مخالف ہونے کی وجہ سے جہاز رانی موقوف رہتی تھی۔ یہ گویا معاش کا ذریعہ او راس وقت کی تجارت کی حالت تھی اب رہا دوسرا پہلو یعنی خانہ داری کا ملاخطہ فرمائے کہ ہمارے چچا نے زندگی تک رفاقت کی رہائش او رتجارت میں اس وقت شاید پچیس کے قریب آدمی ہمارے کنبے میں ہوں گے جو ایک ہی مکان میں رہتے تھے کوئی تین روپیہ کرایہ کاماہوارتھا جس میں اچھی طرح سے اوقات بسری ہوتی تھی میرے چچا شاید تین روپیہ اور میرے والد پندرہ روپیہ ماہوار خرچ کے لئے اٹھایا کرتے تھے ہر ایک چیز ارزان تھی گھی کی شاید دو سوا دو روپیہ فی من قیمت اور عمدہ سے عمدہ چاول کی قیمت پونے دو سے دو روپیہ تک فی بستہ تھی۔ علی ہذا القیاس ہر ایک خوردنی چیز کا یہ حال تھا او راس زمانہ میں جو لذید غذائوں کا استعمال ہوا کرتا تھا آج اس کانام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ ہمدردی اپنے اور بیگانے سے ایسی تھی کہ شادی در غمی دونوں پہلوئوں کااثر صاحب خانہ کے برابر دوسروں پر ہوتا تھا۔ خیراتی کاموں کی نگرانی صدق اور اخلاق او رمحبت سے ہوا کرتی تھی بدستور فقرا اور علماء میں میر چشمی نظر آتی تھی او رطالب ضرور ایک حد تک مستفیص ہوجاتے تھے۔ ادنی درجہ کاآدمی یعنی ایک دو روپیہ کامعاش رکھنے والا بھی خورم و خندق نظر آتا تھا مروت ؔ محبتؔ۔ صدقؔ۔ اخلاقؔ۔ حیاؔ۔ شرمؔ۔ حفظؔ مراتب۔ ہمدرؔدی ہر ایک قسم کے لوگوں میں پائی جاتی تھی گویاآسمان سے خیروبرکت کی بارش برس رہی تھی علی العموم جمیعت خاطر کے آثار نظر آتے تھے اور ابھی تک گویا وہ منتظر آنکھوں کے سامنے ہے اس کے بعد عمر کادوسرا ثلث ہے جس کی نسبت جی نہیں چاہتا کہ کچھ لکھوں صرف اس قدر اشارہ کافی سمجھتا ہوں کہ بتدریج اس ابتدائی حصہ کی خوبیاں جن کومیں نمونے کے طور پر لکھ رہا ہوں روبکمی ہوتی گئیں اور آخر حصہ میں وہ سب کی سب کافو رہو گئیں اور ان کی جگہ ناگفتہ بہ باتوں کامجموعہ اپنے اندر جمع ہو گیا اور صحبت اور مجلس بھی دیسی رہتی تھی۔ غرض جب تیسرے حصہ کا آغاز ہونے لگا شاید عمر بھی چالیس سے متجاوز ہو گئی توکچھ کچھ آنکھ کھلنے لگی گو کسی قدر حالات وہی دوسرے حصہ کے باقی اور قائم رہ گئے صرف اتنا فرق پیدا ہوا کہ اپنی حالت کو غور سے دیکھنے لگا اور اچھے اور بڑے میں تمیز ہونے لگی۔ والدین وغیرہ تو گویا سر پر سے اٹھ گئے تھے اب نوبت اپنے ہمنشینوں کی آئی جو کسی قدر معمر تھے وہ بھی باری باری اٹھنے لگے اور عبرت ناک حالات بھی پیش ہونے لگے کچھ تو اپنی نالائق زندگی کا غم اور تغیرات زمانہ کورنگ دل کو پکڑتا تھا مروت محبت اپنے بیگانے سے اٹھنے لگی دوست دشمن سے بدتر نظر آنے لگے۔ گھر کی بات بگڑنے لگی۔ ہم آٹھ بھائی تھے چھ حقیقی اور دو چچا زاد او رپھر سب باعیال و اطفال بلکہ بھتیجے تک صاحب خیال و اطفال۔ سب مل کرکوئی پچاس آدمی کا مجموعہ تھا مگرسب کے سب اچھی طرح گزارتے تھے کوئی کسی کا بار خاطر نہ تھا او رکسی کو کسی کے خرچ کرنا گران نہیں گزرتا تھا۔ چچازاد گویا حقیقی بھائیوں سے زیادہ عزیز تھے مگر اب اس میں بھی فرق آنے لگا اور ایک دوسرے درپے ہو گیا اتفاق کی صورت میں فرق آتا تھا گو چندے بات سنبھلی رہی او راس کی وجہ یہ تھی اس عاجز کا رعب سب گھروالوں پر تھا کسی کو کسی قسم کی سبقت کی جرات نہ ہو سکتی تھی۔ مگر چونکہ صورت اتفاق میں فرق آگیا اس لئے زندگی بے لطف سی ہو گئی او رپھر علیحدہ ہونے کی نوبت آپہنچی اور سب کے سب یکے بعد دیگرے الگ ہو گئے صرف ایک میرا بھائی زکریا میرے ساتھ رہا اور کارخانہ میں بھی ہمارے ہی سر پر پڑا کوئی دس برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ میں قسم قسم کی ابتلائوں میں پڑا اور کوئی پہلو زمانہ ایسا نہ رہا جس سے مجھ کوسابقہ نہ پڑا ہو اور ہر ایک پہلو پر تغیرات کلی کا اثر محسوس ہونے لگا اور ساتھ اس کے میری زبان پر ا س کاشکوہ اور گلہ بھی رہا یہاں تک کہ میں نے اپنے بعض دوستوں کو بعض کامو ںسے روکا جو بظاہر اس وقت ان کے لئے مفید تھے مگر درحقیقت میری نظر میں جو اس حالت سے گزر کر خوفناک اور مضر ہو گئے تھے غرض انہوںنے میری بات نہ سنی اور خرابیو ںمیں مبتلا ہو گئے اور اکثر میں اب تک ایسا ہی دیکھتا آیا ہوں یعنی جس پہلو کو کچھ مدت پہلے جیسا میںنے تصور کیا تھا آخر وقت پر وہ ویسا ہی ثابت ہوا او راس سے یہ امر میری طبیعت میں پید اہو گیا کہ ایک چھوٹی سی بات پر بھی زیادہ غور کرتا او رایک ادنی کام کو بھی سوچے کرنا میری طبیعت کے خلاف ہو گیا او رہر پہلو سے زمانہ کو نازک سمجھنے لگ گیا۔ اسی عرصہ میں کچھ خسارہ بھی اٹھایا او رکچھ لوگوں کے حالات کا تجربہ بھی ہو گیا۔ غرض یہ کہ جیسا کہ میں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ابتدائی عمر کے حصہ کو خیرو خوبی کا مجموعہ بنایا ہے اس سے وہ چند زیادہ شرو فساد کا مجموعہ اپنی عمر کے آخری حصہ کے زمانہ کو میں نے پایا او ر اگر اس کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو شاید میرے ذاتی تجارت کی ایک بڑی کتاب بن جاوے اور میں نے ہر ایک پہلو کو نہ فقط اپنے ہی تجربہ او رمشاہدہ پر چھوڑا۔ بلکہ ہر ایک پہلو کے پختہ کار لوگوں کی شہادت بھی میں نے لی اور ہمیشہ ایک خوفناک حالت زمانہ میں زندگی بسر کرتا رہا اور خاص کر تجارت کی حالت گذشتہ دس سال سے ایسی نازک ہوتی چلی آئی کہ ہمیشہ زوال عزت و ناموس عزت کا دھڑکا دل کو لگا رہتا اور شاید ۱۸۹۱ء اور ۹۲ء میں دو لاکھ روپے کا خسارہ مجھے ایک ایکسچینج میں مجھے بھگتنا پڑا۔ مگر خد اتعالیٰ نے مجھے ٹھوکر سے بچا لیا الحمداللہ علی ذالک۔
غرض اس کے بعد میں ہمیشہ تفکرافت کے دریا میں ڈوبا رہا او رزندگی گویا تلخ معلوم ہوتی تھی ایک طرف تو معاملہ کی کچھ ایسی حالت دوسری طرف کچھ اپنی سیہ کاریاں اور تیسرا یہ کہ جس پہلو کو ایک راحت کا موجب سمجھ کر اختیار کیا جاتا دونوں سے بجز نقاق اور بد ایشی کے کچھ نظر نہ آتا۔ وہ راحت جس کو حاصل کرنامقصود کرتا وہ تو رہی ایک طرف باقی رنج پہلے سے وہ چند ہو گیا۔ غرض میں یہ سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ ایسی حالت دیکھ کر میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا تھا اور کسی کسی وقت میں اپنی سیہ کاریوں کے قصور میں رو پڑتا تھا اور اپنے آپ کو بد ترین مخلوق سمجھتا تھا او رباقی میری طبیعت میں غیر کا لحاط ابتدائے عمر سے چلاآیا ہے وہ آخیر تک رہا کسی کو بھی کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچنا میں بڑا خطرناک یہ سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ سے اکثر اس امر کی توفیق طلب کرتا تھا کہ وہ مجھے کسی کے آثار کا موجب نہ بناوے غرض اسی حالت میرے بھائی حاجی ایوب فوت ہو گئے تھے۔ مگر زکریا میرے ساتھ تھے بمبئی میں ان کی عزت ہر ایک طرح سے اچھی تھی تجارتی کاروبار میں ……مالی تائید ان سے ہی ملتی تھی اب ان کابیمار ہونا دو طرح کا رنج کا باعث ہو گیا جس کے سبب سے بڑی پریشانی رہی کرتی تھی اور یہ قریب قریب وہی زمانہ ہے جس میں میں نے دو لاکھ روپے کے خسارہ کا ذکر کیا ہے غرض جب ان کی علالت زیادہ ہو گئی تو میں نے بنگلور میں ایک مکان خریدا او رتبدیل آب وہوا کے لئے ان کو یہاں لے آیا۔ ہر ہفتہ میں دو دن ان کے پا س رہتا او رباقی دن مدراس میں۔
دوسرے افکار کا بوجھ جو اس وقت میرے سر پر تھا ا س کاذکر میں کچھ نہیں کرتا۔ بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ میں کہہ دوں۔ دل من داندو من دانم وداند دل من۔
غرض ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں جمعہ کی شام کو مدراس سے چل کر ہفتہ کی صبح کو بنگلور پہنچا او ربھائی کے پا س بیٹھا ہوا تھا ایک منشی صاحب بھی اس وقت پا س بیٹھے تھے اِدھر اُدھر کی بات چیت ہورہی تھی او رموجود زمانہ کی حالت زار کا ذکر ہو رہا تھا او راسی اثنا میں میرا چھوٹا بھائی محمد صالح جو ایک روز پہلے سے بنگلور آیا ہوا تھا۔ وہاں آگیا او رایک کتاب بھی ساتھ لایا اور وہ یوں کہنے لگا کہ یہ کتاب مجھے میرے سیالکوٹ ( پنجاب) سے غلام قادر فصیح نے بھیجی ہے اور قابل پڑھنے او رسننے کے ہے یہ کہہ کر انہوں نے اس کا پڑھنا شروع کیااو روہ کتاب حضور اقدس کی پہلی کتاب دعوی مسیحت اور مہدیت کے بعد کی تھی جس کامبارک نام فتح اسلام ہے غرض ا س کتاب کے کوئی دو دو ورق پڑھنے کے بعد میرے دل پر اس قسم کا اثر ہو امیں اس کو بیان نہیں کر سکتا مگر میرے بیمار بھائی زکریا مرحوم نے اسی وقت ایک جوش کے ساتھ باآواز بلند کہہ دیا کہ خد اکی قسم یہ بے شک وہی ہیں او ر ان کا کلام اس کی پوری شہادت دے رہا ہے۔ غرض ان کے ا س کہنے پر میں او روہ منشی صاحب بھی میرے ساتھ ہم آواز ہو گئے کہ بے شک یہ کلام کوئی نرالہ دل پر اثر کررہا ہے او رپھر دیر تک اس کو سنتے رہے یہاں تک کہ اوّل سے آخرتک ا س کو پورا سن لیا او رمجھے حضور کی طرف پورا پورا یقین ہو گیا۔ مگر مسیحت کے دعوے پر کچھ تعجب سا ہو رہا او راس کے ساتھ یہ خیال بھی کہ مسیح کے لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور پھر اپنے وقت پر وہاں سے نزول فرمادیں گے او رکسی طرح کا اس میں اختلاف نہیں غرض اس وقت یہ فیصلہ کیاکہ خواہ کچھ ہی ہو مگر کتابیں تو سب منگوا کر دیکھنی چاہیئں اور اس طرف مرحوم بھائی کا بار بار یہ کہنا کہ یہ بے شک اپنے قول او رصادق ہیں او ربہت جلد لوگو ں پر یہ امر کھل جائے گا حالانکہ ان کی بہت ہی کم استعداد تھی مگر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے بڑے ہی ذکی الطبع تھے اور ان کی طبیعت ملانو ںاو رپیرزاوں سے ہمیشہ متنفر رہا کرتے تھے یہاں کہ ایسی کبھی مجھے کسی سے ملتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے کہ آپ کو ان مکاروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان کی صحبت میں کبھی خیر نہیں حضور اقدس کی کتاب کو سنتے ہی ان کا یقینا قبول کر لینا ان کی کمال فراست کی پوری دلیل تھی۔ غرض میں دوسرے دن مدراس کو روانہ ہوا اور یہاں پہنچ کر سب کتابو ںکے لئے خط لکھوائے او رجس کسی سے ملاقات ہوتی ان سے یہ تذکرہ کرتا او رپھر ساتھ ہی موجودہ وقت کی ہر قسم کی برائیوں کی طرف ان کی توجہ دلاتا او راس وقت تک میری نظر صرف مسلمان تک ہی محدود تھی۔ یعنی ہر طبقہ کے مسلمانوں کی ہی حالت پر میری نظر تھی جس کے مشاہدہ سے ہمیشہ دل کو درد پہنچتا تھا۔
جب کبھی عام مفید کام کے لئے جلسہ ہو جاتا تو پھر چند حضرات موجود ہوتے تھے ان کی صورت او رسیرت طرز گفتگواور پھر ایک دوسرے کو باہم دیکھا جاتا ا س کی بابت ذکر کروں تو شاید طویل ہوتا ہے مگر مختصر الفاظ اس کے یہ ہیں کہ پوری پوری یہودیت ثابت ہو جاتی تھی یعنی جس غرض کے لئے جلسہ کیا وہ تو نا تمام اور تمام ہو بھی کس طرح جب ایک دوسرے کی رائے کے تابع ہونے کو ایک سبکی اور ذلت کا بموجب سمجھا جاتا ہو آخری جو کچھ اس جلسہ سے نتیجہ حاصل ہوتا وہ یہی کہ دو چار صاحبوں میں ……تو ضرور ہمیشہ کے لئے نقاق پڑھا جاتا او رباقی بھی ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ الزام لگائے بغیر خالی نہ رہتے غرض جو صاحب صاحبوں اس جلسہ کے بانی ہوتے ان کو بجز خفت کے کچھ حاصل نہ ہوتا او رپھر ہمیشہ کے لئے شاید دل میں عہد کرلیں کہ آیندہ کبھی ایسی بے جا حرکت نہ کریں گے غرض یہ اس قسم کی مجلسیں تھیں جن میں ہر قسم کے اور طائفہ کے لوگ جمع ہو جاتے تھے عالم۔ مولوی خاندانی بیسپاری نوکری پیشہ زمیندار وغیرہ وغیرہ گویا سب قسم کے لوگوں کا مجموعہ ہوتا ہے او رہر ایک قسم کی طبیعتوں کا او راخلاص کا خوب پتہ مل جاتا تھا یہ تو عام مفید کاموں کے جلسہ کا حال ہوا اب خاص خاص قسم کے لوگو ںکے جلسے اور تقریبات کا حال جس کا مجھے تجربہ ہو اہے لکھنے بیٹھوں تو بہت طو ل ہوتا ہے اس لئے صرف ہماری تجارت پیشہ لوگوں ہی کا مختصر حال لکھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ سے یہ اررذو رہی کہ زیادہ نہیں صرف دومسلمانوں تاجروں کے کسی تجارت کے کام میں اتفاق اور ایک دلی سے کام کرتے دیکھوں جس سے وہ نتیجہ جو اتفاق کے لئے لازمی ہے ان کو حاصل ہو ا ہو لیکن یہ میری آرزو نا تمام ہی رہی یوں تو بہتوں کو اتفاق کرتے دیکھا مگر انجام اس کا ایک تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بدنظر آیا کہیں تو کورٹ کچہری میں خراب ہوتے دیکھا او رکہیں ہمیشہ کے لئے عداوت او رکہیں ہمیشہ کے لئے آپس میں کمٹپشین پڑ گیا او ردونوں کو خرا ب کر دیا غرض اس طرح کے بہت تجربے اور مشاہدے کے بعد میرا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جہاں کہیں کسی امر کے متعلق بھی ہو مسلمانوں کی مجلس ہوتی تو پہلے اس مجلس میں دعوے سے میں کہہ دیتا تھا کہ مجھے ایک مدت دراز سے یہ آرازو ہے کہ مسلمان اپنی مجلس میں کامیاب ہوتے ہوئے دیکھوں۔ مگر میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی او رمیری یہ عادت مدراس تک ہی محدود نہ تھی جہاں کہیں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ یعنی بمبئی۔ بنگلور۔ مدراس۔ نیلگری تو موقعہ پر ضرور یہ کہہ دیتا تھا او رپھر مخاطب بھی ہوجاتے تھے۔ غرض مسلمانوں کے حالات او رعادات پر ہمیشہ رنج ہوتا ہی رہتا تھا۔ یورپ کے نو اتحاد اور اتفاق کا کہنا ہی کیا ہے اکثر کام ان کے اتفاق اور شرکت او ریک دلی کی بدولت ترقی کے انتہائی نقطہ تک پہنچے ہوئے ہیں مگر اس صورت میں بھی مسلمانوں کے سوا دوسری قوموں میں پھر بھی کچھ نظر میں آجاتا ہے چوہڑے چمار بھی اپنی بساط کے موافق کبھی نہ کبھی کسی کام میں متفق ہو جاتے ہیں مگر مسلمانوں اس کے برخلاف کیا عام کاموں میں او رکیا خاص میں پہر وہ دینی ہو یا دینوی اور کسی ملک میںبھی یعنی عرب عجم ہندو اور سند دکھن او ر کوکن جہان تک مجھے علم ہے ایک نمونہ بھی نظر نہیں آتا غرض ہر ایک موقعہ پر مسلمان بہت ہی کم نظر آتے ہیں اور کسی جگہ اتفاق سے کوئی مسلمان سرکاری کام وکاج میں کوئی اعلیٰ مرتبہ پر آجاتا ہے تو گویا اس کے لئے یہ مثال موزوں ہو جاتی ہے کہ مورہمان بہ کہ بناشد پرش الا ماشا ء اللہ غرض یہ میرے خیال اور مشاہدے پریشان ہی نہیں بلکہ استعجاب میں بھی ڈال دیتے تھے کہ یااللہ اسلام تو تیرا ہے مگر مسلمانوں کی حالت ایسی زار در قابل عبرت کیوں ہو گئی ہے کوئی ایک پہلوان کا یعنی کیا عبادت او رکیا معاملات سیدہا او رحق پر نظر نہیں آتا او ر حالت ایسی ہو گئی ہے بجز تیرے فضل کے یعنی مردے از غیب بروں آید کارے یکندے او رکوئی رستگاری کی صورت نظر نہیں آتی غرض اسی حالت میں حضور کی کتاب فتح اسلام کو میں نے سنا او راندر کا اندر ہی باغ باغ ہو گیا کہ آخر خدا نے ایک کو کھڑا ہی کر دیا او رپھر اسی کو جس کا زمانہ رسول کے بعد وقتاً فوقتاً انتظار ہوتا رہا اور کئی جھوٹے مدعی بھی اس نام کے زمانہ قرب زمانہ رسول سے ہوتی آئی مگر اب تو گویا عین وقت پر اور وہ بھی اشد ضرور ت کے وقت ہی آواز آئی ہے۔ سو یا اللہ تو اس آواز کو سچی اور مسلمانوں کے لئے مبارک ثابت فرما آمین ۔ یہ میری اندرونی حالت تھی اور میرے محروم بھائی نے تو گویا با آواز بلند شہادت بھی دے دی اور الحمد اللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے ویسا ہی ثابت کردکھایا اور باغ اسلام میں دوبارہ گئی ہوئی بہار اور رونق آتی چلی ہے غرض اس موقع کے بعد کتابیں بھی آگئیں اور اس کے پڑھنے سے فہم کچھ کچھ بڑھتا گیا اور مدراس میں چرچا بھی ہوتا چلا۔ جو یک بیک ایک اخبار نام لکھنوسے شائع ہوتا تھا۔ اس میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ مرزا قادیانی ……اپنے دعوے مسیحیت سے دست بردار ہوگئے اس لئے اب پھر ان کی عزت وہی قائم رہ گئی جو اس دعوی کے قبل تھی یہ مضمون تھا عبارات میں کچھ فرق ہو گا مگر اس کے پڑھنے سے میرے پر جو صدمہ گزرا او ررنج ہوااس کو خد اہی جانتا ہے او رابھی تک میں اس کو بھولا نہیں غرض اس کے بعد میں نے حضور کی کتابیں ایک طرف ڈال دیں اور ایسی چالوں سے اور او داسی میرے پر چھا گئی کہ کچھ نہیں لکھ سکتا باوجود اس کے بھی ہونے سے صدہا لوگوں کو میں نے گویا یہ خوشخبری پہنچائی تھی او راب گویا اس کے خلاف اخباروں میں شائع ہو گیا ہے غرض اس مضمون کے دیکھنے کے بعد دوسرے یا تیسرے دن بمبئی سے میرے بھا ئی کا تار آیا او میں روانہ ہو گیا اور وہاں سے اپنے دوست سے افسوس ناک دل سے میں نے یہ تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنے دعوے پر قائم ہیں چنانچہ ان کے ایک خاص مرید یہاں آئے ہوئے ہیں او ران کی زبانی مجھے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے اب اس موقع پر مجھے جو خوشی ہوئی گویااس رنج سے وہ چند زیادہ تھی او روہ مرید گویا ہمارے شیخ رحمت اللہ صاحب تھے جن سے دوسرے روز میری ملاقات ہو گئی او رمفصل حالات بھی معلوم ہوئے اور کتاب آئینہ کمالات اسلام کی خبر پا کے انہیں کو میں نے جلدوی پی مدراس کے پتہ پر روانہ کرنے کے لئے فرمائش دی اور میں مدراس واپس گیا اس وقت یہ کتابیں پہنچ گئی تھیں۔ غرض پھر اسی طرح میں اس کا چرچا کرتا رہا اور سلطان محمود صاحب اور ان کے برادر زادہ اپنی جگہ پر باہم اس بارہ میں بحث کرتے تھے اور آخر وفات عیسیٰ پر دونوں کا اتفاق ہوگیا اور سلطان محمود صاحب نے مجھے خط لکھا او رحضور کی کتابوں کی خواہش ظاہرکی اس خط کے طرز تحریر سے یہ پتہ لگ گیا کہ حضور کی جانب سے ان کاحسن باطن ہے غرض میرے پاس جو کتابیں موجود تھیں وہ تو بھیج دیں او رآئینہ کمالات اسلام ایک مولوی کو دی تھی ان سے لینے کو لکھ دیا اور پھر میں ملاقات کی اور میرے سے زیادہ ان کامیلان حضور کی طرف پایا اور اس وقت تک وفات عیسی پر مجھے کامل یقین نہ ہو اتھا۔ مگر ان کے دوستوں مولویوں سے غرض ان کا حضور کی رجوع کرنا بڑی تقویت کا باعث ہو گیا اور قلیل عرصہ میں ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی ہے او رشہر میں زور شور کے ساتھ اس کی شہرت ہونے لگی یہ وقت تھا کہ ان مولویوں ا ورملانوں کی اچھی طرح سے قطعی کھلنے لگی اور ان کی اندورنی حالت کا پورا اظہا رہونے لگا جس کی وجہ سے حضور کی طرف کمال درجہ کا یقین بڑھتا گیا یہا ںتک کہ حضور کی خدمت میں خط لکھا گیا او رجس قدر لوگ اس وقت تک اس سلسلہ میں شریک ہوئے تھے ان سب کے دستخط لئے گئے بعد اس کے جو کچھ ان ملانوں کا حال دیکھا وہ احادیث کے موافق تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں پہلے سے بطور پیشگوئی بتا رکھی تھیں۔ عوام میں ایک خطرناک جوش ان کے دجل او رکذب سے پھیل گیا اور اب یہاں کے مسلمانوں کے اسلام کا حال ایک نئے رنگ میں ظاہر ہونے لگا۔ ضرورت امام پر میرا یقین بڑھتا گیا او رحضور کی زیارت کا شوق دن بدن بڑھنے لگا اور اس فکر میں ہوا کہ کوئی رفیق مل جائے تو روانہ ہو آئوں۔ وہاں کے ایک مولوی جن سے زیادہ تعلق تھا او رجو بظاہر منافقانہ طریق پر ملتے جلتے بھی تھے مگر باطن میں پورا دشمن تھا جس سے میں اب تک نا واقف تھا۔ ان کو ساتھ لانے کی صلاح ہوئی۔ وہ ترملکہڑی کی جامع میں رہتے تھے جہاں میں گاڑی میں سوا رہو کر گیا اور حاجی بادشاہ کے مکان پر موجود بھی اندورنی احاطہ مسجد ہی میں واقعہ ہے ملاقات ہو گئی او رمذکورہ بادشاہ صاحب وہاں کے ایک مشہور اور نامی تاجر ہیں ان مولوی صاحب نے ہماری مخالفت اختیار کرنے کے بعد وہا ںاپنے قدم جمانے شروع کردئیے یہ بادشاہ صاحب بھی اگرچہ مخالف تھے لیکن چونکہ قدیم سے ان کے بزرگوں کے ساتھ میرا کمال درجہ کا ارتباط تھا۔ اس لئے بظاہر ان سے وہی سلوک قائم تھا اور اب تک بھی باقی ہے غرض وہاں مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ سب سے بہتر یہی بات ہے تم میرا ساتھ دو اور میں آپ کے ہرقسم کے اخراجات کا کفیل اور ذمہ دار ہوں جوکچھ امتحان کرنا ہے وہاں جاکر کیا جائے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں روبرو جاکر جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں اس سے خلق خدا کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ آجکل جو طوفان بے تمیزی پھیل رہا ہے اس سے خلق اللہ کو نجات ہوگی اور میں آپ کو اس لئے تجویز کیا ہے کہ بظاہر آپ کے مزاج میں حق پسندی ہے اور تمہارے طالب علمی کے زمانہ سے میرا یہ حسن ظن ہے۔ پس آپ تیار ہوجائیں جمعہ کے دن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے مگر ان کو یہ کب منظور تھا۔ ان کو مخالف میں اس وقت صریح فائدہ نظر آتا تھا غرض انہوں نے انکار کردیا اور واپس چلاآیا۔ اسی خیال میں تھا مولوی حسن محروم صاحب یاد آگئے اور وہ ان دنوں مدراس آنے والے بھی تھے کیونکہ انجمن کی طرف سے سالانہ جلسہ کی دعوت ان کو ہوئی تھی اور انجمن کے دراصل بانی وہی ہی تھے۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کے بھاگپور مولوی صاحب نکل چکے تھے اور یہاں دو مہینے کے لئے جلسہ ملتوی ہوگیا اس لئے مجھے یہ موقع خوب ہاتھ آیا اور فی الفور میں نے بمبئی کی اپنی دوکان پر تار دی کہ مولوی صاحب کو ٹھہراؤ اور میں آتا ہوں یہ تار دے کہ می بنگلور گیا اور رات کو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں ارادہ کر چکا ہوں اب تو عالم الغیب اور بہتر جانتا ہے میرے لئے جو بہتر ہے وہ مہیا کر صبح کو حسب معمول ناشتہ کرکے گھر سے باہر چبوترہ پر آکر بیٹھا کہ اسی وقت ڈاک والا آگیا اور اس نے ایک چھٹی اور اس کے ساتھ ایک رسالہ الحق دیا میں نے رسالہ کو کھولا تو میری نظر سب سے پہلے اس ہیڈنگ پر پڑی جو ایک ’’بھاری بشارت ‘‘ سے موسوم تھا اور مضمون اس کا جھنڈے والے پیر صاحب کا واقعہ اور خلیفہ عبداللطیف اور عبداللہ عرب کا حضور اقدس میں حاضر ہونے کا تھا۔
غرض اس کے بعد میرا عزم مصم ہوگیا اور اسی روز شام کو مدراس اور دوسرے روز مدراس سے بمبئی روانہ ہوگیا اور مولوی حسن علی مرحوم صاحب سے ملاقات ہوئی اور چلنے کی بابت گفتگو ہوئی مولوی صاحب مرحوم نے حق مغفرت کرے جو اب میں یہ فرمایا کہ میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں۔ مگر ایک شرط سے میں نے کہا وہ شرط فرمائے انہوں نے کہا کہ اس سفر میں جب تک آپ کا اور ہمارا ساتھ ہے آپ نماز کی پابندی ملحوظ خاطر رکھیں بس یہی پہلی شرط ہے جس کو میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ دوسرے روز علی گڑھ روزانہ ہوگئے اور وہاں کے حالات پر غور کیا تو یہ ایک دوسری دلیل ضرورت امام کے لئے ہاتھ آگئی یعنی دو نمونے دیکھں ایک تو اسٹریچی ہال جس میں یورپین انداز کا نقشہ تھا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ جو یہاں داخل ہوگا وہ ضرور ایک نہ ایک دن یورپین انداز کا جنٹلمین ہوجائے گا اور دوسرا نمونہ مسجد کا دیکھا جس کی ظاہر صورت یہ تھی کہ ایک دو پھٹے پرانے بوریئے اور دو چار ٹوٹے پھوٹے لوٹے گویا زبان حال اس کا یہ مضمون ادا ہورہا ہے کہ جو میری طرف رکوع اور سجود کے لئے مائل ہوگا اس کا بساط پھٹے بورئیے اور پھوٹے ہوئے لوٹے کہ سوا آگے وہی یعنی اللہ خیر صلاً غرض یہ دونوں نظارے ایک عبرت لینے کے باعث میرے لئے ہوئی۔ پھر وہاں سے سیدھا قادیان شریف کا ارادہ ہوا ہمارے مولوی صاحب نے بہت کچھ قال قرآن میں دیکھے اور استخارہ بھی کئے غرض ہر ایک پہلو پر بھی ان کو جواب ملا کہ چلیئے چلئیے۔ غرض روانہ تو ہوگئے مگر مولوی صاحب کا شروع سے آخیر تک یہی بیان رہا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں۔ مگر ان کا یہ دعوی ان کو ظاہری وجاہت سے بہت کچھ بڑھا ہوا ہے ۔
میں اس کے جواب میں کہتا تھا کہ اب جو کچھ ہے وہاں پہنچ کر ہی ہوگا۔ جب امرتسر پہنچے تو وہاں مولوی محمد حسین صاحب کا کوئی چیلا ہم کو مل گیا او راس نے مولوی صاحب کو بہت کچھ روکا او ربابو محکم الدین صاحب کی کوٹھی تک ہمار اپیچھا نہ چھوڑا اور بلائے بد کی طرح لگا رہا اور وہاں پہنچ کر بھی مولوی صاحب تو ان کونرم جواب دیتے رہے اور وہ زیادہ گستاخ ہوتا چلا یہاں تک کہ آخر مولوی صاحب نے میرے پر حوالہ دے کر اپنی جان چھڑائی جب وہ میری طرف ہوا تو میری دو ہی جھڑکیوں سے گھبرا گیا اور پھر بیٹھ نہ سکا یعنی دفعہ ہو گیا غرض شب ہم نے گزاری او رصبح کو بٹالہ کی راہ لی اور وہا ںپہنچے تو وہاں بھی ایک صدہا ہو امگر ویسے ہی دل پر اثر ہوتا گیا یہاں تک کہ دارلامان کا نظارہ نظر آنے لگا اور جامع مسجد ایک بقعہ نور نظر آتی تھی اس سال بارش کثرت سے ہوئی تھی اس لئے پہنچنے میں دیر ہوئی۔ جب یہاں پہنچے تو میری اپنی یہ حالت تھی کہ ذوق اورمحبت سے بھر گیا تھا او رعجیب و غریب لذت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا غرض ہم قادیان پہنچے او رمولانا مولوی نورالدین صاحب کے مدراسہ اور مطب کے پاس ……ہو گئے او رہم دونوں اتر پڑے غروب آفتاب کا وقت تھا مولوی حسن علی صاحب نے نورالدین صاحب سے مجھے تعارف کرایا او رمیں ان سے مصافحہ کرکے پاس بیٹھ گیا اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ وہ نیا مکان جو تیار ہوا ہے اس میں ان مسافروں کااسباب بھیج دو۔ مولوی حسن علی صاحب اسباب کے ہمراہ اس مکان میں تشریف لے گئے او رمیں نماز عصر پڑھ کر مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت اس نئے مکان میں آکر جلوہ فرما ہوئے ہیں۔ تو میں یہاں سے اٹھا اور جلد اس مکان میں داخل ہوا اور میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی میں خلفاً گزارش کرتا ہوں کہ حضو رکا سراپا اس وقت ایک نور مجسم مجھے نظر آیا ا ور میں آنکھ بند کر کے حضور کی دستبوسی کرنے لگا او رجوش محبت کے ساتھ میری آنکھوںمیںآنسو نکل پڑے او رحضور اس کے بعد کمال مہربانی اور شفقت سے احوال پرستی فرماتے رہے او رمیرا حال یہ تھا کہ اندر ہی اندر مولو ی حسن علی صاحب کو ملامت کرتا تھا کہ انہو ںنے حضور کی ظاہری وجاہت کیا بتائی تھی اور یہاں کیا نظر آرہا ہے اور منتظر تھا کہ حضور یہا ںسے تشریف لے جائیں تو ان کی خبر پورے طور سے لوں یہ میر اخیال ہو چکا اور حضور اقدس داشرف بھی اسی وقت اندر تشریف لے گئے او رجونہی مولوی حسن علی صاحب سے مخاطب ہوا۔ انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا او رفرمایا کہ خدا کی قسم یہ مرزا نہیں جو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا یہ تو کوئی او رہی وجو د نظر آرہا ہے غرض کہ ظاہری وجاہت میں بھی حضور کی پرانی ترقی انہوں نے بیان فرمائی اور اسی وقت کہہ دیا کہ بے شک اب یہ وہی نظر آرہے ہیں جس کا ان کو دعوی ہے اور مجھے کہا کہ بے شک تم بیت کر لو۔ چونکہ میں نے اپنی بھی ان سے عرض بتائی تھی کہ فقط اس لئے آپ کو ساتھ لیتا ہوں کہ موقع پر آپ مجھے نیک او رمیرے مناسب مشورہ دیں پس اسی طرح انہوں نے مجھے فی الفور کہہ دیا اور میری اندورنی حالت یہ تھی کہ اگر ایک نہیں ہزار دفعہ یہی اس کے خلاف اگر وہ مشورہ دیتے تو میں حلقہ بگوش ہوئے بغیر اس مبارک آستانہ سے جدا نہ ہوتا۔ مگر الحمداللہ کہ فی الفور مولوی صاحب نے میری دلی آرزو کے مطابق کہہ دیا لیکن ان کا خاص ارادہ بالکل اس امر پر نہ تھا ان کے لئے سب ہمارے مدراسی بھائیو ں کی یہ رائے تھی۔ اگر مولوی صاحب کی مرضی بھی آجائے پھر بھی مصلحت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں چونکہ اس وقت کی مخالفت بڑی سخت تھی او رمولوی صاحب سے ابھی وہاں بہت کچھ ہونا باقی تھا۔ اس لئے میں خود اس وقت اس امر کے مخالف تھا مگر مولوی صاحب پہلے ہی نظارہ میں زخمی ہو گئے تھے اس لئے وہ بجائے خو دبڑی تشویش میں پڑ گئے او راستخاروں پر استخارہ کرنے لگے اور یہی فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ میں کیا کرو ںاس کے جواب میں میں لودہی کہتا تھا جو تمام احباب کی رائے تھی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے مگر وہ ان کے خلاف مرضی ہوتی تھی او رپھر استخاروں کی طرف جھک جاتے تھے او رمجھے بھی روک رکھا تھا غر ض چار شبنہ کے دن بعد نماز صبح اپنی عادت کے موافق چار اوڑھ کر سو گئے او رچند منٹوں کے بعد جیسا کہ ان کی عادت تھی اٹھے او رفرمایا کہ مجھے بھی جواب ملا ہے کہ مولوی نورا لدین صاحب کے مشورہ پر عمل کرو۔ غرض اس وقت حضرت مولانا مولوی صاحب کو تشریف آوری کے لئے پیغام بھیجا او رحضرت مولانا کے اظہار کے بعد میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ تو شاید بیعت کر چکے جواباً میں نے عرض کی کہ مولوی صاحب نے مجھے روک رکھا ہے اور اس کو سن کر مولانا نے فرمایا یا کاش تمنے معاً کر لی ہوتی تو اب تک اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی کر لیتے او رپھر مولو ی صاحب سے کہا کہ پوچھتے کیا ہو؟
درچہ باشی زود باش۔ غرض مولوی صاحب کے مشورہ کے بعد بھی صلاح ٹھہری کہ کل شب جمعہ ہے او رہم دونوں بیعت ہوں جائیں گے او رجمعہ پڑھ کر شبنہ کو روانہ ہو جائیں گے کیونکہ حضور نے وہی دن روانگی کا مقرر فرمایا تھا اس کے بعد مولوی حسن علی صاحب کا یہ حال تھا کہ بار بار فرماتے تھے کہ شب جمعہ تو کل ہے اس سے ان کومطلب یہ تھا کہ ابھی اس میں دیر ہے او ریہاں اتنی دیر کرنے کی برداشت نہیں ہے۔ غرض اسی روز شام کو یہ عاجز او رمولوی صاحب بیعت سے مشرف ہو گئے۔ الحمدللہ علی ذالک۔
اس کے بعد کوئی دو دن ہی ٹھہرنا ہوا اور حضور سے جدا ہوگئے پھرتے پھراتے کوئی ایک مہینہ بعد مدراس پہنچے اور وہاں حضرت مولوی سلطان محمود صاحب بڑا ہی اہتمام فرمایا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا میلاپور لے گئے اور پر تکلف دعوت دی اور ساتھ ہی اس ناچیز کو ایک اڈریس بھی دیا صد ہا مخالف بھی اس وقت جمع تھے۔ میں نے اس اڈریس کے جواب میں کچھ نہ کہا صرف اتنا ہی کہا کہ مولوی حسن علی صاحب تشریف لاویں گے اور مجھ سے بدرجہا افضل بھی ہیں جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور پایا اس کو وہ خوب ادا کریں گے اور جلسہ برخاست ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مخالفت کی آگ بہت تیز ہوگئی یہاں اب اسی سے نہیں مگر یہ ظاہر کرنا ضروری تھا کہ قبل از بیعت میری حالت کیا ہوئی اور ضرورت امام کس حد تک محسوس ہونے لگی اور پھر حضرت امام کی صداقت پر زمینی اور آسمانی نشان کیاکیا ظاہر ہوئے جن پر توجہ نہ کرنے سے کیا نتائج پیدا ہورہے ہیں غرض ان باتوں کو مختصر طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے سب سے اول اس امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلی محسوس ہوئی اس کو مختصر الفاظ میں لکھ دینا کافی ہے ابتدائی عمر کے زمانہ کے بعد زمانہ اوسط اور اس کے بعد لگا تار بیعت جو کچھ اپنی عملی حالت میں نے بتائی ہے اس کا ازالہ ہوتا چلا اور کوئی بیس اور پچیس برس ناگفتنی علتین اور عادتیں جو اپنے اندر تھیں اور جن کی بابت کبھی کھبی خیال کرکے میں رودیا کرتا تھا کہ اے رب ان برائیوں سے نجات کس طرح ہوگی اور مجھے یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور فی الحقیقت اگر میں ہزار کوشش کرکے بھی جان چھڑاتاتو پھر یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا کہ میری صحت وغیرہ میں کوئی فتور پیدا نہ ہوتا مگر حلفاً لکھتا ہوں کہ بعد بیعت وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے ایسے دور ہوگئیں جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور مجھے تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی اور صحت کا یہ حال ہوگیا کہ گویا ان ارتکابوں کے وقت بیمار تھا اور ان کے ترک کے بعد تندرست ہوگیا اور یہ صرف حضرت حجت اللہ امام ۔۔۔علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاس طیبات کے طفیل نصیب ہوا اور اب اپنے اندر وہ باتیں دیکھتا ہوں کہ بے اختیا ر ہوکر رب کریم و رحیم کا شکر کرتا ہوں اور ابتدائی زمانہ کو بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں۔ فالحمد اللہ علی ذالک اگر چہ میں اب تک اپنے آپ کو گنبدہ بشر سمجھتا ہوں اور اپنے اندر بہت سے عیوب محسوس کرتا ہوں مگر اس مولا کریم کی جناب میں قوی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے حبیب کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کرے گا اب دوسری بات یہ کہ ضرورت امام کس حدتک محسوس ہونے لگی سو اس بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے اگرچہ اس وجود باجود کوئی بیس برس قائم ہے وہ نہ ہوتا تو یہ دنیا غارت ہوجاتی اور میرا کامل یقین ہے کہ اس کے مبارک وجود کے طفیل جو سراسر رحمت الہی کا مظہر ہے یہ دنیا قائم ہے اور بہت کچھ برکات فیوض آئندہ اس وجود باجودسے اس کو نصیب ہونے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب وہ تمام باتیں عام طور پر ظاہر ہوجائیں گی۔ اگر چہ خاص طور پر اس کا مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ بھی کرچکے ہیں ۔ والحمد اللہ علی ذالک۔
اب تیسری بات یہ ہے کہ اس عالیمنباب امام کی صداقت پر ……اور آسمانی نشان کیا کیا ظاہر ہوئے سو اس کاجوا ب بھی ہے کہ اکثر وہ سب ظاہر ہوگئے ہیں جن کاحدیثوں میں ذکر ہوا ہے اور اکثر اکابر دین دیں اس چودہویں صدی ہی میں نے اس کے ظہور فرماتے کا زمانہ کشفاً اور الیھا ماًظاہر ہو گیا ہے اور وہ اپنی اپنی تصانیف میں اس کاذکر بھی کر چکے ہیں او ران سب باتوں کے مفصل مذکور کے لئے۔ ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھری پڑی تھیںخدا تعالیٰ دنیا کو ان کتابوں کے دیکھنے کی توفیق نصیب کرے۔ تو پھر کسی قسم کا شک بھی نہ رہے گا۔ اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کے باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ تو جواب میں یہی گزارش کافی ہے کہ صیان چہ بیان۔ آج کئی سال ہوئے جوقہر آلٰہی کے آثار دنیا میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ مگر خاص طور پر ہند کا جو حال ہوا ہے وہ تو پوچھا ہی نہیں۔ ابتدا تو طاعون سے ہوا ہے مگر بعد اس کے قہر آلٰہی کی وہ مختلف صورتیں جو وقتاً فوقتاً مفضوب پر عذاب کی صورت میں ہوتے نظر آنے لگے ہیں اور وہ تمام عذاب جن کاقرآن شریف میں ذکر ہے کسی نہ کسی صورت میں آنے لگے ہیں دیکھو وبا طاعون کا حملہ باری باری کس طرح ہوتا آیا ہے اور ہنوز روز ادل ہی کا نمونہ نظر آتا ہے پھر قحط کو دیکھئے کہ ا س نے کس طرح ملک کو تباہ کیا اور یہ عمل مطالعہ اخبارات سے بخوبی کھل سکتا ہے۔ پھر زلوں کو دیکھئے کیا انہوںنے دنیا کو کس طرح ہلا ڈالا ہے او ربعض بعض مقامات پر خطرناک خف الارض ہوا ہے اور مکہ سے لے کر وار جلنگ تک ایک خطرناک زلرلہ آیا۔
اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کا باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہوتے ہیں تو جواب میں یہ گزارش کافی ہو گی کہ عیافرا چہ بیان آج کامل تین سال ہوئے جو قہر الٰہی کے آثار کل دنیا میں آشکاد لہو ہو گئے ہیں مگر خاص کرکے ہند کا حال پوچھو ہی نہیں ابتدا تو طاعون سے ہوئی ہے مگر بعد اس کے کل ان قہر الٰہی کے نمونہ جو وقتاً فوقتاً مخالف منصوب قوموں کے لئے ہوئی جن کاذکر خود اللہ جلشانہ کی کتاب پاک میں موجود ہے ظاہر ہو گئی ہیں او رپھر یہ نہیں کہ ایک وقت دیکھو طاعون کاحملہ باری باری سے کس طرح ہوتا ہے اور پھر یہ گوہنوردو ادل سے ہے او ربعد اس کے قحط کو دیکھو پچھلے سال اس قدر شدت نہ تھی جتنی اس سال میں ہے۔ اخبا ربینوںپر مخفی نہیں۔ اس کے بعد زلرلہ آیا۔ پہلی مرتبہ تو چند ایک پر خطر ناک منظر پر تھا۔ جو خبر گزری او ربنگالہ ضلع رین کلکتہ سے لے کر دار جلنگ پر ایک وقت شدت سے ہوا و رکچھ خفیف سا نقصان بھی ہوا۔ مگر جانوں کی خیر گندی اور بعد اس کے خفیف طور پر مختلف مقاموں پر کچھ کچھ حرکتیں اس کی ہوتی آئیں۔ مگر پچھلی دفعہ جو ا س کا حادثہ ہو اجس کو ابھی چند مہینے گزرے کس قیامت کا ہوا کتنی جانیںتلف ہوئیں اور کتنے مقامات زمین کے اندر دہس گئے۔ علی ہذا القیاس سیلاب کی بابت دیکھے پہلے تو جب یہ چٹگام او راس کے اطراف میں آیا تو کچھ کم نقصان ہوا مگر بار ثانی جوپٹہ ضلع بہاگل پور اس کی نوبت پہنچی تو کیا کچھ خرابی نہ ہوئی۔ صدہا گائوں غرقاب ہو گئے اور بے حساب بندگان خدا اور چارپائے ہلاک ہو گئے جس کا صحیح اندازہ اب تک نہیں ہوا اور کوئی شہر کے اندر پانچ میل کے اندر پانی دس سے بارہ فیٹ چڑھ آیا تھا غر ض اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہو اہو گا۔ آتشرذگی کا حال تو کچھ پوچھا ہی نہیں کوئی ہفتہ شاید خالی نہیں جاتا او رجان ومال کی خرابی نہیں ہوتی اور یہ مسلسل تین سال سے میں تجربہ کر رہا ہوں۔ اب آخیر سال جو اکثر لوگوں میں یہ بھی مشہور تھا کہ قیامت آجائے گی اور ان میں بعض قوموں کا تو یہ خیال تھا کہ اس امر کو بالکل یقینی سمجھے ہوئے تھے جس سے ایک عجیب طرح کا خوف ان پر مستولی تھا جس کا میں نے خود نظارہ دیکھا ہے لیکن علی العموم یہ خوف تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو کے رہے گا۔ الا ماشا اللہ۔ غرض اس ایک بات کو بھی ذرا عمیق نظر سے دیکھو تو یہ کتنا بڑا نمونہ قہر الٰہی کا ثابت ہوتا ہے غرض آخر الا مراسی تاریخ کے قریب قریب بعض مقاموں پر ایسا ہو اکہ سخت طوفان آیا کہ مکانوں کے اڑ جانے کا خوف ہو گیا اور اکثر مکانوں کی چھت اڑ بھی گئی یہ واقعہ مدراس کے قریب ناگبشن میں ہوا جو ایک بڑا بندر ہے اور سب اخباروں میں اس کا ذکر ہوا تھا اور بعض لوگوں کی زبانی میںنے سنا جو وہاں سے آئے تھے کہ جب یہ حادثہ شروع ہوا اور شدت ہوتی چلی تو ہم کو یقین ہو گیا کہ بے شک قیامت ہی کے آثار ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ اسلام کی صور ہے کسی کو باہر نکلنے کی طاقت نہ تھی او رصدہا بلکہ ہزار ہا بڑے بڑے تناور درخت بیچ دین سے اکھڑ گئے اور پختہ مکانات او رچھتیں گر گئے او رہم کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ اس قیامت خیز حادثہ سے ضرور ہم ہلاک ہو جائیں گے اور فی الحقیقت او رکچھ تھوڑے سے وقت اگر یہ حادثہ اسی طرح قائم رہتا تو سارا نا کہیں نابود ہو جاتا مگر اللہ کافضل کہ جلد وہ دفعہ ہو گیا اور ہم نے یہ نئی زندگی پائی غرض یہ تو ان واقعات کا ذکر ہے جو اضطراری صورت رکھتے ہیں یعنی انسانی دخل کسی طرح کا ان میں نہیں اور اگر ان امور کی طرف خیال کرتے ہیں جن میں فی الجملہ انسانی دخل ہوتا ہے او رجن کو اختیاری کے نام سے موسوم کرسکتے ہیںتو ان کی حالت زیادہ وحشت خیز نظر آتی ہے بالخصوص تجارتی امور کو دیکھتے اس کے بتلانے کے آگ ہی یہ امر ظاہر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس برٹش حکومت میں ا س کی ترقی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر سچ پوچھو تو برٹش حکومت کی ترقی کایہی زبردست اصول ہے او رگو یہ زمینی استحکام بھی ہے مگر اس کی حالت اس قدر ابتر ہو گئی ہے او رہوتی جاتی ہے جس کو مفصل بتلانے کے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے مختصر کفیت یہ ہے کہ بہت سے بیچارے تو گو کہ مقابلہ سے دست برار ہو بیٹھے ہیں اور گو یہ وقت کاانتظار کر رہے ہیں ا و بہت سے ناتجربہ کاری کے باعث خواب ہو گئے اور جو کچھ حصہ کام رہا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ گویا اگر امام شبے مانم شبے دیگر نمی مانم ایسی خوفناک تجارت کی حالت ہے یہ تو میں نے ایک بتلائی جس کا بہت اثر ہے۔ لیکن ساتھ اس کے اگر زراعت اور مزار عین کو دیکھتے ہیں تو تاجروں سے بھی بدتران کو پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتیں اور سلطنتوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو سب سے زیادہ پریشان او رافکاروںکے سمندر عمیق غرق بھنور نظر آتے ہیں غرض علی العموم زمانہ کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی رہے اور کیا چھوٹا اور کیا بڑا اپنی اپنی حد پر متفکر اور پریشان ہی نظر آتا ہے گو یہ جمیعت اور طمانیت مفقود ہو گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے گویہ مروت محبت وفا یہ باتیں بھی اٹھ گئیں ہیں جب وہ نہیں تو ……کہاں غرض وہ مولیٰ کریم اپنا فضل فرماوے او راپنے بندوں کو نیک توفیق دے تا دقتوںکو پہنچانیں او رسلامتی جس راہ کو صرط مستقیم کہتے ہیں او رجس کے دکھلانے کے لئے حضرت امام آخر الزمان جن کامبارک لقب مسیح و مہدی علیہ اسلام ہے موجود ہو گئے ہیں او ربڑے درد دل سے منادی کررہے ہیں ان کی پیروی نصیب کرے۔ آمین۔
خاکسار
عبدالرحمن
۸؍رمضان المبارک ۱۹۱۸ء




حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب کی خود نوشت مختصر سی سوانخ عمری کے بعد ان کلمات کا اندراج بھی ضروری سمجھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق ایک موقعہ پر شائع فرمائے۔ ایڈیٹر
’’او روہ گروہ مخلص جو ہماری جماعت میں سے کاروبار تجارت میں مشغول ہے انہیں سے ایک حبی فی اللہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قابل تعریف ہیں او رانہوںنے بہت سے موقع ثواب کے حاصل کئے ہیں۔ وہ اس قدر پر جوش محب ہیں کہ اتنی دور رہ کر پھر نزدیک ہیں اور ہمارے سلسلہ کے لنگر خانہ کی بہت سی مدد کرتے ہیں اور ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد او ریقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذیمقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ کیونکہ تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں وہ ایک سو روپیہ ماہوای بلاناغہ بھیجتے ہیں اور آج کل کئی دفعہ پانچ سو روپیہ تک یکمشت محض اپنی محبت اور اخلاص کے ساتھ بھیجتے رہے ہیں اور جو ایک روپیہ ماہواری ہے و ہ اس کے علاوہ ہے‘‘
(اشتہار الانصار۔ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء)
ایک ضروری یاد داشت
حضرت سیٹھ صاحب صدر انجمن احمدیہ کے ٹرسٹی تھے خودحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو نامزد فرمایا تھا۔ صدر انجمن کے ان ممبروں کے ساتھ بھی (جو بعد میں خارج ہوئے اور جنہوںنے خلافت حصہ سے عذر کیا) اپنے اخلاص او رحسن ظن کی وجہ سے محبت رکھتے تھے۔ لیکن جب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر انہوں نے خلافت کے خلاف آواز اٹھائی اور سلسلہ حقہ میں تفرقہ پید اکرنا چاہا تو حضرت سیٹھ صاحب نے ان سے قطع تعلق کر لینا ضروری سمجھا۔ بذریعہ تار ا نہوں نے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بیعت کی او رآخر دم تک اسی پر قائم رہے۔ اسی محبت و وفامیں اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل او ررحم کرے۔ انہیں اپنی رضا کے مقام پر اٹھائے۔ آمین۔
سیٹھ صاحب کی ایک مختصر سی سوانخ عمری انشاء اللہ بعد میں شائع ہو سکے گی۔ وباللہ التوفیق۔
خاکسار
یعقوب علی
حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرمیں
حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کے ایک واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میںکیاہے۔ میں اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود نے صادق کی شناخت او راپنے صادق ہونے کے ثبوت میں بیان کیاہے چنانچہ فرمایا:۔
’’سو متوجہ ہو کرسننا چاہئے کہ خواص کے علوم اور کشوف او رعوام کی خوابوں او رکشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تحلبیات الہیہٰ ہوجا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھر اہوا ہے وہ علوم اور اسرار نحیبیہ سے بھر جاتے اور جس طرح سمندر اپنے پانیوں کی کثرت کی وجہ سے ناپیدا کنار ہے۔ اسی طرح وہ بھی ناپیدا کنار ہوتے ہیں او رجس طرح جائز نہیں کہ ایک گندے سڑے ہوئے چھپڑ کومحض تھوڑے سے پانی کے اجماع کی وجہ سے سمندر کے نام موسوم کر دیں۔ اس طرح وہ لوگ جو شاذونادر کے طور پر کوی َ سچی خواب دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہہ سکتا کہ وہ نعوذ باللہ ان بحار علوم ربانی سے کچھ نسبت رکھتے ہیں او رایسا خیال کرنا اسی قسم کا لغو اور بہودہ ہے کہ جیسے کوئی شخص صرف منہ او رآنکھ او رناک اور دانت دیکھ کر سور کو انسان سمجھ لے یا بندر کوبنی آدم کی طرح شمار کرے تمام مدار کثرت علوم غیب اور استجابت دعا اور باہمی محبت و وفا اور قبولیت او رمحبوبیت پر ہے ورنہ کثرت قلت کا فرق درمیان سے اٹھا کر ایک کرم شب تاب کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کے برابر ہے۔ کیونکہ روشنی اس میں بھی ہے۔ دنیا کی جتنی چیزیں ہیں وہ کسی قدر آپس میں مشاہبت ضرور رکھتی ہیں۔ بعض سفید پتھر تبب کے پہاڑوں سے ملتے ہیں اور غزنی کے حدود کی طرف سے بھی لاتے ہیں چنانچہ میںنے بھی ایسے پتھر دیکھے ہیں وہ ہیرے سے سخت مشاہبت رکھتے او راسی طرح چمکتے ہیں مجھے یاد ہے کہ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک شخص کابل کی طرف رہنے والاچند ٹکڑے پتھر کے قادیان لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکرے ہیں کیونکہ وہ پتھر بہت چمکیلے اور ابدار تھے اور ان دنو ںمیں مدارس میں ایک دوست جو نہایت درجہ اخلاص رکھتے ہیں یعی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قادیان میں میرے پاس تھے ان کو وہ پسند آگئے او ران کی قیمت میں پانچ سو روپیہ دینے کو تیار ہو گئے او رپچیس روپیہ یاکم و بیش ان کو دے بھی دئیے او رپھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ میں نے یہ سودا کیا ہے۔ آپ کی کیا ہے۔ میں اگرچہ ان ہیروں کی اصلیت او رشناخت سے نا واقف تھا۔ لیکن روحانی ہیرے جو دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اللہ جس کے نام پر کوئی جھوٹے پتھر یعنی مزور لوگ اپنی چمک دمک دکھلا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں اس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا۔ ا س لئے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور اس دوست کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا وہ تو واپس لینا مشکل ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ قبل دینے کے پانچ سو روپیہ کے کسی اچھی جوہری کو یہ پتھر دکھلا لیں۔ اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو یہ روپیہ دیں۔ چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لئے بھیجے گئے او ردریافت کیا گیا کہ ان کی قیمت کیا ہے۔ پھر شاید دو ہفتہ کے اندر ہی وہاں سے جواب آگیا کہ ان کی قیمت ہے چند پیسے۔ یعنی یہ پتھر ہیں۔ ہیرے نہیں ہیں۔ غرض جس طرح اس ظاہری دنیا میں ایک ادنیٰ کو کسی جزئی امر میں اعلیٰ سے مشاہبت ہوتی ہے۔ ایسا ہی روحانی امو رمیں ہو جاتا کرتا ہے اور روحانی جوہری ہوںیا ظاہری وہ جھوٹے پتھروں کو اس طرح پر شناخت کر لیتے ہیں کہ جو سچے جوہرات کے بہت سے صفات ہیں ان کی رُوسے ان پتھروں کو امتحان کرتے ہیں آخر جھوٹ کھل جاتا ہے او رسچ ظاہر ہو جاتا ہے۔‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر۴
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلدپنجم نمبر۲)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات بنام حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب
خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ
جنکو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمترین خادم یعقوب علی عرفانی ایڈیٹر الحکم وغیرہ نے جمع کیا
اور
ابوالخیر محمود احمد عرفانی (مجاہد مصری) نے راست گفتار پریس امرتسر میں چھوا کر شائع کیا
بار اوّل تعداد پانچصد قیمت
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
عرض حال
میں اپنی زندگی کا یہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروں کو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں یا نایاب ہو چکی ہیں اور لوگوں کو خبر بھی نہیں تلاش کروں اور جمع کر کے شائع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میںاب تک بہت کچھ شائع ہو چکا ہے اور ابھی بہت کچھ باقی ہے۔میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد (جو حضرت کے اُن مکتوبات پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے) کا دوسرا نمبر شائع کر رہا ہوں۔ یہ مکاتیب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نام ہیں اور ۱۸۸۵ء سے لے کر ۱۸۹۲ء تک کے ہیں۔ ممکن ہے آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے جمع کر دیئے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ اس نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے جو ان بیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے تا ہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مددگار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان
۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر۲
مکتوب نمبر۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ) حضرت جل جلالہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی مسیح کی طرز پر کمال مسکینی اور فروتنی اور غربت اور تذلل اور تواضع سے اصلاح خلق کیلئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو راہ راست سے بے خبر ہیں۔ صِرَاطِ مُسْتَقِیْم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے) اور اِسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں ۔ دکھاوے۔
خاکسار
غلام احمد
۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء
نوٹ: یہ پہلا خط ہے جو حضرت حکیم الامۃ کے نام مجھے ملا ہے قیاس چاہتا ہے کہ اِس سے پہلے بھی چند خطوط ہوں۔ اس خط کا بھی اصل مسودہ نہیں ملا۔ بلکہ حضرت حکیم الامۃ کی نوٹ بک سے لیا گیا تھا اور ۳۱؍ اگست ۱۹۰۷ء کے الحکم میں میں نے اِسے شائع کر دیا تھا۔ اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسیح ناصری کے قدم پر مبعوث اور مامور ہونے کا دعویٰ مارچ ۱۸۸۵ء میںکر دیاتھا لیکن آپ نے بیعت کا اعلان اُس وقت تک نہیں کیا جب تک صریح فرمان ربانی نازل نہیں ہو گیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم و مخدوم حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ حال صدمہ وفات دو لخت جگر آنمخدوم و علالت طبیعت پسر سوم سُن کر موجب حزن و اندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ جلشانہٗ آپ کو صدمہ گزشتہ کی نسبت صبر عطا فرماوے اور آپ کے قرۃ العین فرزند سوم کو جلد تر شفا بخے۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے فرزند کیلئے دعا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کریم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہو یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی کی مرضات حاصل کرنے کیلئے اگر آپ خفیہ طور پراپنے فرزند دلبند کے شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کر رکھیں تو عجب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدق دلی کو قبول فرما کر ورطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے۔ وہ اپنے مخلص بندوں پر ان کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے۔ اس کو نذروں کی کچھ جاحت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا اُسی راہ سے متحقق ہوتا ہے۔ استغفار اور تشرع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بے سود ہیں۔ اپنے مولیٰ پر قوی امید رکھو اور اس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قویٰ الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور اپنے سچے رجوع لانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا۔ رات کے آخری پہر میں اُٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لاؤ اور درمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو۔
اے میرے محسن اور اے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین
مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقرار اور اپنے مولیٰ کے انعام و اکرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں جوش دلی چاہئے اور رقت اور گریہ بھی۔ یہ دعامعمولات اس عاجز سے ہے اور درحقیقت اس عاجز کے مطابق حال ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ اگست ۱۸۸۵ء
نوٹ نمبر۱: اس مکتوب پر حضرت حکیم الامۃ کا نوٹ ہے۔ یہ لڑکا اس وقت اس مرض سے بچ گیا تھا۔ پھر دوبارہ سعال دام الصبیان میں انتقال کر دیا۔ انا بفراقہ لمخرون و ادعوا الیہ رب نورالدین۔ ۲؍اسوج ۱۹۴۳ء بکری
نوٹ نمبر۲: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا مرقوم ہے جو آپ کے معملات سے تھی اور نیز آپ نے قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا ہے۔ اس دعا کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اندرون خانہ لائف پر ایک قسم کی روشنی پڑتی ہے اور یہ ان ایام کی بات ہے کہ آپ دنیا میں شہرت یافتہ نہ تھے۔ آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا۔ کسی سے بیعت بھی نہ لیتے تھے بلکہ ایک گوشہ گزین کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ پر کس قدر یقین اور قبولیت دعا پر کس قدر بھروسہ تھا اور آپ کے اعمال کی حقیقت بھی عیاں ہے۔ نیز حضرت حکیم الامۃ کا نوٹ بتاتا ہے کہ وہ بچہ اس وقت بچ گیا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس وقت تقدیر کو ٹال دیا۔ یہ لڑکا فضل الٰہی نام حضرت حکیم الامۃ کی پہلی بیوی میں سے تھا۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر ۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا آپ کے مخلصانہ کلمات سے بے شک خوشبو بلکہ جوش راست گفتاری محسوس ہوتا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا آمین ثم آمین! آپ کی دختر صالحہ کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ قرآن شریف کا حفظ کرنا یہ آپ کی ہی برکات کا ثمرہ ہے۔ ہمارے ملک کی مستورات میں یہ فعل شاید کرامت میں تصور کیا جاوے کیا خوش نصیب والدین ہیں اور نیز وہ لوگ جو تعلق جدید پیدا کریں گے جن کو اس صاحبِ شرف سے علاقہ ہے۔
والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
٭٭٭
مکتوب نمبر ۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی و مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت ایک اشتہار دربارہ ازالہ اوہام مخالفین آپ کی خدمت میں مرسل ہے چونکہ آپ تشبہ فاروقی کے مدعی ہیں اور یہ عاجز یہی نہایت درجہ آپ پر حسن ظن رکھتا ہے اور اپنا مخلص اور دوست جانتا ہے۔ اس لئے آپ کی طرف تعلق خاطر رہتا ہے جو عنایات خداوندکریم جلشانہٗ کے اس عاجز کے شامل حال ہیں ان کے بارہ میں ہمیشہ یہی دل چاہتا ہے کہ اپنے دوستوں سے کچھ اس میں سے بیان کرتا رہوں اور بحکم و امابنعمت ربک فحدث تحدیث نعمت کا ثواب حاصل کروں۔ سو آپ سے بھی جو میرے مخلص دوست ہیں۔ ایک راز پیشگوئی کا بیان کرتا ہوں۔ شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر والباطن تم کو عطا کیا جائے گا سو اس کا نام بشیر ہوگا۔ اب تک میرا میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرۃ اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے اور جب کہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دئے گئے جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے۔ تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
نئی شادی کی تحریک اور الٰہی روک
ان دنوں میں اتفاقاً نئی شادی کیلئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی۔ مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا کہ اس کی قسمت میں ذلت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو۔ اور دوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب صورت و صاحب سیرۃ لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارساطبع سے پیدا ہو سکتا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
اب مخالفین آنکھوں کے اندھے اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں اب کی دفعہ لڑکا پیدا نہیں ہوا۔ ان کے ابطال میں ایک دوست نے اشتہارات شائع کئے ہیں۔ مگر میری دانست میں اس لڑکے کے تولد سے پہلی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری شادی ہو جاوے کیونکہ اس تیسری شادی میں اولاد ہونے کے اشارات پائے جاتے ہیں۔ غالباً اس تیسری شادی کا وقت نزدیک ہے۔ اب دیکھیں کہ کس جگہ ارادہ ازلی نے اس کا ظہور مقرر کر رکھا ہے۔ الہامات اس بارے میں کثرت سے ہوئے ہیں اور ربانی ارادہ میں کچھ جوش سا پایا جاتا ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء وھوعلی کل شئی قدیر۔ اپنی خیرو عافیت سے اطلاع بخشیں۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
از قادیان ۸؍ جون ۱۸۸۶ء
نوٹ: یہ خط نہایت اہم ہے اور بعض عظیم الشان پیشگوئیاں اس کے اندر موجود ہیں۔ سب سے اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ آپ کو چار بیٹے دے گا اور ایک ان میں عظیم الشان ہوگا۔ اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی الہام الٰہی سے نہیں بلکہ خود حضرت کا یہ خیال تھا کہ شاید وہ موعود لڑکا تیسری بیوی سے ہو جس کو واقعات نے بتایا کہ وہ دراصل اسی پہلی اہلیہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف اور عزت بخشی۔ پیدا ہونے والا تھا۔
جہاں تک واقعات نے ثابت کیا ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کا نہ تھا اس سے مراد دراصل یہ تھی کہ ایک لڑکا تو پیدا ہوگا مگر وہ فوت ہو جائے گا جیسا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب (اللھم اجعلنا فرطًا و شافعاً) سبز رنگ کا پھل آپ کو دکھایا گیا تھا۔ اس سے سبز اشتہار کی حقیقت بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے اسے سبز رنگ پر کیوں شائع کیا تھا۔ پھر ایک اور امر نہایت صفائی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فی الحقیقت خدا کی جانب سے مامور ہو کر آئے تھے اور آپ کے الہامات خدا کا کلام ہی تھے۔ آپ کو ان پر کامل یقین تھا اور یہ بھی کہ انبیاء جس طرح الہامات اور پیشگوئیوں کی تعبیر اور تعین میں قبل از وقت خطا اجتہادی کر جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے۔ آپ کو فرزند موعود کے متعلق اوائل میں یہ اجتہادی غلطی لگ رہی تھی کہ وہ شاید تیسرے نکاح سے پیدا ہوگا۔ مگر واقعات نے بتایا کہ ایسا نہیں مقدر تھا اور اس … کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ہی منسوخ کر دیا اور قضائے معلق کو بھی مبرم بنا دیا۔ پھر اس خط کی بنا پر اور واقعات کی تائید سے حضرت اُمّ المومنین کا مقام شرف ظاہر ہوتا ہے۔ غرض یہ مکتوب گونا گوں امور مہمہ پر مشتمل ہے اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر ۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز نے جو آپ کی طرف لکھا تھا وہ صرف دوستانہ طور پر بعض اسرار الہامیہ پر مطلع کرنے کی غرض سے لکھا گیا کیونکہ اس عاجز کی یہ عادت ہے کہ اپنے احباب کو ان کو قوت ایمانی بڑھانے کی غرض سے کچھ کچھ امورغیبیہ بتا دیتا ہے اور اصل حال اس عاجز کا یہ ہے کہ جب سے اس تیسرے نکاح کیلئے اشارہ غیبی ہوا ہے تب سے خود طبیعت متفکر و متردد ہے اور حکم الٰہی سے گریز کسی جگہ نہیں۔ مگر بالطبع کارہ ہے اور ہر چند اوّل اوّل یہ چاہا کہ یہ امر غیبی موقوف رہے لیکن متواتر الہامات و کشوف اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ یہ تقدیر مبرم ہے۔ بہرحال عاجز نے یہ عہد کر لیا ہے کہ کیسا ہی یہ موقعہ پیش آوے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جاؤں تب تک کنارہ کش رہوں کیونکہ تعداد ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہ لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جلشانہٗ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اُٹھانے کیلئے مامور کرتا ہے۔ تب اس میں بجائے مکروہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں۔ آپ کے نوکری چھوڑنے سے بظاہر دل کو رنج ہے مگر آپ نے کوئی مصلحت سوچ لی ہوگی۔ والسلام باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۸۶ء
نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک تیسرے نکاح کے متعلق بعض اشارات ملی تھیں۔ یعنی ان سے پایا جاتا تھا کہ ایک تیسرا نکاح ہوگا۔ چنانچہ اس کے متعلق ایک تحریک بھی ہوئی۔ وہ نکاح کی تحریک اور پیشگوئی دراصل ایک نشان تھا جو ایسے خاندان کیلئے مخصوص تھا جو آپ کے ساتھ تعلقات قرابت بھی رکھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ سے دورہی نہ تھے۔ گو نہ منکر تھے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ان پر اتمام حجت کیا۔ حضرت حکیم الامۃ کو آپ نے بشارات سے اطلاع دی۔ جہاں تک میرا علم ہے حضرت حکیم الامۃ اس امر پر آمادہ تھے کہ اپنی لڑکی حضرت کو دے دیں۔ بشرطیکہ وہ قابل نکاح ہوتی۔ حضرت اقدس نے اس خط کے ذریعہ تصریح فرمائی کہ آپ اپنے احباب کو قبل از وقت بعض الہامات سے اطلاع کیوں دیتے ہیں اور وہ ایک ہی غرض ہے کہ ان کی ایمانی قوت ترقی کرے۔ دوسرے اِس خط سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذاتی طور پر تیسرے نکاح کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ کارہ ہونا صاف لکھا ہے اور یہ بھی کہ آپ نے عہد کر لیا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ صریح حکم مجبور نہ کیا جاؤں نکاح نہیں کروں گا۔ اس سے ان لوگوں کے تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔ جو نعوذ باللہ آپ پر نفس پرستی کا اسی طرح الزام لگاتے ہیں جس طرح آریہ اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے ہیں۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ یہ بات عین منشاء اس عاجز کے مطابق ہوئی کہ آپ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔ انشاء اللہ کسی موقعہ پر ترقی بھی ہو جائے گی۔ امید ہے کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ استماع واقعہ وفات فرزند دلبندان مخدوم سے حزن و اندوہ ہوا۔ انا لِلّٰہ و انا الیہ راجعون۔ خداوندکریم بہت جلد آپ کو نعم البدل عطا کرے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے انسان کیلئے اس کے گوشہ جگر کا صدمہ بڑا بھارا زخم ہے۔ اس لئے اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے اللہ جلشانہٗ آپ کو جلد تر خوش کرے۔ آمین ثم آمین
سرمہ چشم آریہ میری بار بار کی علالت کے توقف سے چھپا اور اب پانچویں دن تک اس کی جلدیں یہاں پہنچ جاویں گی۔ تب بلاتوقف آپ کی خدمت میں ایک جلد بھیجی جائے گی چونکہ اس کے بعد رسالہ سراج منیر چھپنے والا ہے اور جو اس کے لئے روپیہ جمع تھا وہ سب اس میں خرچ ہو گیا ہے اس لئے آنمخدوم بھی اپنے گردونواح میں دلی توجہ سے کوشش کریں کہ دست بدست اس کے خریدار پیدا ہو جائیں۔ اس پر پانسوروپیہ کا کاغذ قرضہ لے کر لگایا ہے۔ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ شملہ نے یہ پانسوروپیہ قرضہ دیا۔ چار سو روپیہ اور تھا جو اسی پر خرچ ہوا یہ موقعہ نہایت محنت اور کوشش کرنے کا ہے تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو اس رسالہ سرمہ چشم کی قیمت… ہے۔ اگر آپ کی محنت سے سَو رسالہ بھی فروخت ہو جاوے تب بھی ایک حق نصرت آپ کے لئے ثابت ہو جائے۔ ومن ینصرہ اللّٰہ بنصرہ اللّٰہ جلشانہٗ آپ پر رحمت کی بارش کرے اور اپنی خاص توفیق سے ایسے کام کرائے جس سے وہ راضی ہو جاوے۔ ولاتوفیق الا باللّٰہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ ستمبر۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک نوٹ پچاس روپیہ کا آنمخدوم کی جانب سے میاں کریم بخش صاحب نے سیالکوٹ سے بھیجا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ رسالہ سراج منیر کے چھپنے میں اب کچھ زیادہ دیر نہیں معلوم ہوتی اور اس کے سرمایہ کے لئے روپیہ کی بہت ضرورت ہوگی۔ اس لئے اگر آنمخدوم بقیہ قیمت پچاس نسخہ یعنی … بھی جلد تر بھیج دیں تو سرمایہ کتاب کی طبع کیلئے عین وقت میں کام آ جاسکے۔ میں نے مبلغ پانسو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ سے قرض لیا تھا اور تین سَو روپیہ اور میرے پاس تھا وہ سب اس رسالہ پر خرچ آ گیا۔ ماسوا اس کے ایک سَو یہ رسالہ مفت ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں کو تقسیم کیا گیا۔ گرچہ ۱۲؍ع اس کی قیمت مقرر ہوئی مگر اس کے مصارف زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ قیمت کم درجہ کی رہی۔ اکثر قریب کل کے مسلمانوں کا خیال دین کی طرف سے بکلّی اُٹھ گیا ہے۔ ہمدردی، غمخواری، نیک ظنی یہ سب عمدہ صفتیں روز بروز روبکمی ہیں۔ واللّٰہ خیروابقی
آپ کی ملاقات خدا جانے کب ہوگی۔ ہر ایک بات اُس قادر مطلق کے ارادہ پر موقف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از صدر انبالہ ۴؍ نومبر ۱۸۸۶ء
نوٹ: اس مکتوب میں جس رسالہ کی قیمت کیلئے حضرت حکیم الامۃ کو یاددہانی کرائی گئی ہے وہ سرمہ چشم آریہ ہے اور اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کی سَو جلدیں اس وقت تک آپ مفت تقسیم کر چکے تھے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر ۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو دنیا و دین میں آرام دلی بخشے کہ ہر ایک نجشش و نجایش اُسی کے فضل پر موقوف ہے نظر بر فضل ایک لذت بخش امر ہے۔ ولاتئسوا من روح اللّٰہ۔ رسالہ مؤلفہ آنمخدوم جو امرتسر بھیجا گیا ہے کچھ ظاہر نہیں ہوا کہ اس کا کیا بندوبست ہوا۔ آج کل دیانت کم ہے اور لاف و گزاف زبانی ہرگز لائق اعتماد نہیں کسی کو بجز تحریری شرائط کے رسالہ نہیں دینا چاہئے تا پیچھے سے کوئی خراب نتیجہ نہ نکلے۔ یہ امور مفصلہ ذیل ضرور صاحب مطبع سے طے کر لینے چاہئیں اور اقرار نامہ لے لینا چاہئے۔
اوّل: فلاں نمونہ کے مطابق کام چھپائی صاف اور عمدہ ہوگا۔
دوم: اگر ایسا صاف نہ ہوا تو استحقاق ۴؍ فے داب میں رہے گا۔
سوم: اتنے ماہ میں کام ختم نہ ہوا تو ہرجہ دینا ہوگا۔
چہارم: کل کتابوں کے حوالے کرنے کے بعد اور اُن کی پرتال صحت کے بعد روپیہ اُجرت کا دیا جائے گا۔
پنجم: کاغذ کی عمدگی کا ذمہ خود مطبع والا ہوگا۔
دوا جس میں مروارید داخل ہیں جو کسی قدر آپ لے گئے تھے اس کے استعمال سے بفضلہ تعالیٰ مجھ کو بہت فائدہ ہوا۔ قوت باہ کو ایک عجیب فائدہ یہ دوا پہنچاتی ہے اور مقوی معدہ ہے اور کاہلی اور سستی کو دور کرتی ہے اور کئی عوارض کو نافع ہے۔ آپ ضرور اس کو استعمال کر کے مجھ کو اطلاع دیں مجھ کو تو یہ بہت ہی موافق آگئی۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
مکتوب نمبر ۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے نہایت تعجب ہے کہ دَوا معلومہ سے آنمخدوم سے کچھ فائدہ محسوس نہ ہوا شاید کہ یہ وہی قول درست ہو کہ ادویہ کو ابدان سے مناسبت ہے۔ بعض ادویہ بعض ابدان کے مناسب حال ہوتی ہیں اور بعض دیگر کے نہیں۔ مجھے یہ دوا بہت ہی فائدہ مند معلوم ہوئی ہے کہ چند امراض کاہلی و سستی و رطوبات معدہ اس سے دور ہوگئے ہیں۔ ایک مرض مجھے نہایت خوفناک تھی کہ صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوذ بکلی جاتا رہتا تھا۔ شاید قلت حرارت عزیزی اس کا موجب تھی۔ وہ عارضہ بالکل جاتا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا حرارت عزیزی کو بھی مفید ہے اور منی کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ غرض میں نے تو اس میں آثار نمایاں پائے ہیں۔ واللّٰہ اعلم و علمہ احکم۔ اگر دوا موجود ہو اور آپ دودھ اور ملائی کے ساتھ کچھ زیادہ قدر شربت کر کے استعمال کریں تو میں خواہشمند ہوں کہ آپ کے بدن میں ان فوائد کی بشارت سنوں۔ کبھی کبھی دوا کی چھپی چھپی تاثیر بھی ہوتی ہے کہ جو ہفتہ عشرہ کے بعد محسوس ہوتی ہے چونکہ دوا ختم ہو چکی ہے اور میں نے زیادہ کھا لی ہے اس لئے ارادہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو دوبارہ تیار کی جائے۔ لیکن چونکہ گھر میں ایام امید ہونے کا کچھ گمان ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ ابھی تک وہ گمان پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو راست کرے۔ اس جہت سے جلد تیار کرنے کی چنداں ضرورت میں نہیں دیکھتا۔ مگر میں شکرگزار ہوں کہ خدا تعالیٰ نے دوا کا بہانہ کر کے بعض خطرناک عوارض سے مجھ کو مخلصی عطا کی۔ فالحمدللہ علی احسانہ مجھے اس بات کے سننے سے افسوس ہوا کہ رسالہ امرتسر سے واپس منگوایا گیا۔ فیروز پور کو وہ خاص ترجیح کونسی تھی بلکہ میری دانست میں حال کے زمانہ میں دنیوی واقف کاروں سے کوئی معاملہ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ عہد شکنی میں بڑے دلیر ہوتے ہیں۔ عمدہ اور سیدھا طریق یہ ہے کہ قانونی طور پر کارروائی کی جائے۔ اللہ جلشانہٗ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جب کوئی دادستدتم کرو تو اس معاملے کے بارے میں تحریر ہونی چاہئے مطبع ایسا ہونا چاہئے جن کے پریس مین استاد ہوں اور عمدہ اور اوّل درجہ کی سیاہی استعمال کی جاتی ہو اور سب شرائط اسٹامپ کے کاغذ پر لکھے جاویں۔ جہاں تک ممکن ہو مطبع والوں کو اوّل روپیہ نہ دیا جاوے اور کاغذ اُن کی ذمہ داری سے خریدا جاوے مگر اپنا کاغذ اور کاتب بھی اپنا ہو۔ میری دانست میں امام الدین کاتب بہتر ہے۔ کاپی خود غور سے ملاحظہ کرنی چاہئے۔ امرتسر میں ایک ہندو کا مطبع بھی ہے اور وہ مالدار ہیں اور امید ہے کہ یہ شرائط وہ منظور کر لیں گے اور بغیر صفائی شرائط اور تحریری اقرار نامہ لکھانے کے کسی مطبع کو ہرگز کام نہیں دینا چاہئے کہ آج کل دیانت اور ایفاء عہد مفقود کی طرح ہو رہی ہے۔ اگر میں امرستر میں آؤں اور ایک دن کیلئے آپ بھی آجاویں تو اسی جگہ کوشش کی جاوے۔ مگر آپ نے آج کل کے مسلمانوں پر اعتماد کر کے کچا کام ہرگز نہ کرنا بلکہ ہر ایک بات میں مجھ سے مشورہ لے لیں رسالوں کی چھپائی میں تین چار سَو روپیہ کا خرچ ہے۔ نہ ایسی کفایت شعاری کرنی چاہئے کہ رسائل مثل ردّی کے چھپیں اور نہ ایسا اسراف کہ جس میں بیہودہ خرچ ہو کاپیوں کا ملاحظہ دوسروں کے سپرد ہرگز نہ کریں۔ آپ محنت اُٹھا لیں خرید کاغذ میںبھی کوئی اپنا دانا آدمی ساتھ چاہئے اور کاغذ کا حساب رکھنا چاہئے۔ آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے۔ اللہ جلشانہٗ جلد کوئی تقریب پیدا کر دے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان۔۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ھ ۱۹؍ جنوری ۱۸۸۷ء



مکتوب نمبر ۱۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کی یہی رائے ہے کہ آپ نوکری نہ چھوڑیں۔ اگر اِس سے بھی کم تنخواہ ہو جو آپ کو دیتے ہیں تب بھی اس کو قبول کریہ اور ہر ایک کے ساتھ اخلاق اور بُردباری سے معاملہ کریں۔ مومن پر یہی لازم ہے کہ بغیر مشورہ کے کوئی امر عجلت سے نہ کر بیٹھیں۔ سو میں آپ کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ آپ علیحدگی ہرگز اختیار نہ کریں مجھے اس بات سے افسوس ہوا کہ آپ نے استعفیٰ کیوں دیا حالانکہ آپ نے لکھا تھا کہ میرا اس علیحدگی میں دخل نہیں۔ اب بہرحال جہاں تک ممکن ہے۔ ایسے ارادہ کیلئے کوشش کریں کہ آپ اپنی نوکری پر قائم رہیں۔
والسلام
نعم المولیٰ ونعم الوکیل
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر ظن غالب یہی ہے کہ یہ ۱۸۸۷ء کا ہی ہے۔(عرفانی)



مکتوب نمبر۱۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
واللّٰہ معکم اینما کنتم صفحہ۹۹ سرمہ چشم آریہ میں سہو کاتب سے غلطی ہوگئی ہے یعنی ۱۳ سطر کے آخیر میں بجائے ’’کو‘‘ کے ’’سے‘‘ لکھا گیا ہے اور چودہویں سطر کے ابتداء میں بجائے ’’سے‘‘ کے ’’کو‘‘ درج ہو گیا ہے۔ اور ۱۷ سطر کے آخیر میں لفظ ’’اس کا‘‘ رہ گیا ہے یعنی بجائے اس عبارت کے کہ ضرور یہ مطلقہ سے یہ چاہئے تھا ضروریہ مطلقہ اس سے
غرض یہ تین لفظ کی غلطی کو، سے اور اس کے موجب اختلال عبارت ہے۔ جیسا کہ قرینہ سے خود سمجھا جاتا ہے اور ایسی غلطیاں اتفاقاً کہیں نہ کہیں رہ جاتی ہیں۔ بشریت ہے شاید کاپی نوید سے یا دوسرے کاتب سے ایسی غلطی وقوع میں آئی۔ لیکن یہ عاجز آنمخدوم کے کارڈ کی عبارت سے پڑھ کر اور بھی حیران ہوا ہے۔
آنمخدوم لکھتے ہیں کہ حضرت نے (یعنی اس عاجز نے) قضیہ ضروریہ مطلقہ کو دائمہ مطلقہ سے اخص لکھا ہے۔ یہ عبارت سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ قضیہ ضروریہ مطلقہ کو دائمہ مطلقہ سے اخص سمجھنا سچ اور صحیح ہے جو سہو کاتب سے بالعکس لکھا گیا۔ چنانچہ منطقین کا یہی قول ہے۔ والنسبۃ بین الدائمۃ والضروریہ ان الضروریہ اخص من مطلقا لان مفہوم الضروریہ امتناع انفکاک النسبۃ عن المووع ومفھوم الدوام شمول النسبۃ فی جمیع الازمۃ والاقات مع جواز امکان انفکاکھا
اصل کارڈ مرسل ہے اگر اس میں کچھ سہو تو اطلاع بخشیں کیونکہ مجھ کو بوجہ استغراق جانب ثانی ان علوم میں تو غل نہیں رہا۔
علاج کسل
مرض کسل اور حزن اگر عوارض اور اسباب جسمانی میں سے ہوتو آپ تدبیر او رعلاج اس کا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور اگر اسباب روحانی سے ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ جو اللہ جلشانہٗ نے فرمایا ہے۔
ان الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الاَّتخافوا ولا تحزنوا۔ وابشر و بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیاء کم فی الیحاۃ الدنیا والاخرۃ ولکھم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون نزلاً من غفور الرحیم
سو خدا تعالیٰ کو اپنا متولی اور متکفل سمجھنا اور پھر لازمی امتحانوں اور آزمائش سے متزلزل نہ ہونا اور مستقیم الاحوال رہنا بھی خوف اور حزن کا علاج ہے۔
حکم جانا چونیست زخم مدوز
جاں اگر بسوز دت گو بسوز
والسلام
خاکسار
غلام احمد
آپ کی ملاقات کا از بس شوق ہے۔ اگر وطن جانے کا اتفاق پیش آ جاوے تو ضرور مجھ کو مل کر جاویں۔
نوٹ:اس خط پر بھی کوئی تاریخ درج نہیں ہے مگر سرمہ چشم آریہ کی بعض اغلاط کی اصلاح کے متعلق ذکر بتاتا ہے کہ یہ خط سرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے بعد کا ہے اور یقینا ۱۸۸۷ء کا ہے۔ اس خط کے مطالعہ سے بعض خاص باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں کامل درجہ کی انکساری اور صاف باطنی ہے۔ دوم حضرت حکیم الامۃ کی طبیعت میں کمال درجہ کا ادب حضرت کیلئے ہے۔ انہوں نے جو کارڈ ایک علمی امر کے دریافت کے متعلق لکھا ہے اسے واپس منگوا لیا کہ مبادا وہ ادب کے خلاف نہ ہو اور معترضانہ رنگ اس میں نہ پایا جاوے۔ اور ایسی یادگار ایک قبیح یادگار ہوگی۔ سوم یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت اپنی تمام تر توجہ الی اللہ رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دُکھ اور تکلیف کو پوری لذت اور ذوق سے برداشت کرنے کی اہلیت حاصل کر چکے تھے اور اسی لئے ہر قسم کے حزن اور کسل کے مقام سے نکل کر آپ جنت میں تھے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۱۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور میں نے کئی بار توجہ سے اس کو مطالعہ کیا اور ہر ایک دفعہ مطالعہ کے بعد آپ کے لئے دعا بھی کی کہ اللہ جلشانہٗ ایسی قدرت ربوبیت سے جس سے اس نے خلق عالم کو حیران کر رکھا ہے آپ کو حزن اور خوف اور اندوہ سے مخلصی عطا فرماوے اور اپنی رحمت خاصہ سے دنیا و دین میں کامیاب کرے۔ آمین
افسوس کہ مجھے آپ کے حزن و اندوہ کی تفاصیل پر اطلاع نہیں ملی اور نہ شدت مرض سے مطلع ہوں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اگر مناس تصور فرمادیں تو کسی قدر اس عاجز کو اپنے ہموم و غموم کا ہمراز کر دیں۔ نوکری قبول کرنے میں آنمخدوم نے بہت ہی مناسب کیا اللہ تعالیٰ اسی قدر میں برکت بخشے۔
الہام
آج مجھے فجر کے وقت یوں القا ہوا۔ یعنی بطور الہام، عبدالباسط معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا۔ شاید آپ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔ میں آپ کا دلی غمخوار ہوں اور دل سے آپ سے محبت ہے۔ ولکل امر متقر والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ فروری ۱۸۸۷ء
نوٹ: نمبر۱ و ۲ کے مقام سے خط پھٹا ہوا ہے۔
حضرت حکیم الامۃ نے بار ہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے۔ مگر انہوں نے کبھی یہ تشریح نہ کی تھی کہ کس کو الہام ہوا۔ اس خط سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام آپ کا نام عبدالباسط بتایا گیا تھا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۱۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم و مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا اور کئی بار میں نے اس کو غور سے پڑھا۔ جب میں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو جن کو میں نے بذاتِ خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکے ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خداوندکریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اُس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اُسے معلوم ہو جائے کیونکہ وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے۔ غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر و کریم و رحیم ہے البتہ جس پر چاہے کہ ہر ایک چیز اپنے وقت پر وابستہ ہے۔ جس قدر ضعف دماغ کے عارضہ میں یہ عاجز مبتلا ہے مجھے یقین نہیں کہ آپ کو ایسا ہی عارضہ ہو۔ جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔ آخر میں نے صبرکیا اور دعا کرتا رہا تو اللہ جلشانہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ضعف قلب تو اب بھی مجھے اس قدر ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ سے زیادہ تر کامل معالج اور کوئی بھی نہیں۔ ہماری سعادت اسی میں ہے کہ ہم بالکل اپنے تئیں نکمے اور بے ہُنر سمجھیں اور ہر ایک طرف سے قطع امید کر کے ایک ہی آستانہ کے منتظر رہیں۔ سو اگر آپ مجھے بشرط صبر و شکیب رکھنے کی اجازت دیں تو میں اسی کامل معالج سے آپ کے علاج کی درخواست کرتا رہوں گا۔ بشرطیکہ آپ عجلت نہ کریں طلبگار باید صبوروحمول
اب مجھے کسی تدبیر ظاہری پر اعتقاد نہیں رہا۔ میں جانتا ہوں کہ تدبیر صائب بھی تب ہی سوجھتی ہے کہ جب خود قادر مطلق بندی سے رہا کرنا چاہتا ہے مگر میں اس بات سے بہت ہی خوش ہوں اس طرح کہ جس طرح کوئی نہایت راحت بخش نشے میں ہوتا ہے کہ ہم ایسا قادر کریم مولا رکھتے ہیں کہ جو قدرت بھی رکھتا ہے اور رحم بھی۔ آج میں نے چار کتابیں رجسٹری کرا کر سیالکوٹ بھیج دیں ہیں اطلاعاً لکھا گیا ہے۔والسلام ۔
خاکسار۔غلام احمد از قادیان۔۲۲؍ فروری ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجزبباعث شدت درد سر جو کئی دن سے لاحق رہی اور آج کچھ تخفیف ہے مگر ضعف بہت۔ تحریر جواب سے قاصر رہا۔
حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت ہی فضل و کرم ہے جس کا غور سے مطالعہ کرنے کے بعد آپ اس کا شکر ادا نہیں کر سکیں گے۔ رہی جزئیات فکرو تردّد سو وہ بھی کسی بڑی مصلحت کیلئے جس کی حقیقت تک انسان کو رسائی نہیں ایک وقت مقررہ تک لگائے گئے ہیں اور وقت مقررہ کے آنے سے دور بھی ہو جائیں گے الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیئٍ قدیر۔ اس احقر ناچیز کی دعا بھی انشاء اللہ منقطع نہیں ہوگی جب تک کشود کار پیدا نہ ہو۔
ولم اکن بدعائیہ شقیا اور دینی امور میں اگرچہ کچھ قبض ہو یا اعمال صالحہ سے بے رغبتی ہو تو پھر بھی مقام شکر ہے کہ اس نقصان حالت کیلئے دل جلتا ہے اور کباب ہوتا ہے یہ بھی تو ایک بڑی نیکی ہے کہ نیکی کے حصول کیلئے دل غمگین رہے ہم لوگ بکلّی اپنے اختیار میں ہیں۔ علت العلل ہمارے سر پر جو مدبر و حکیم ہے بمقتضائے مصلحت و حکمت جو چاہتا ہے ہم سے معاملہ کرتا ہے۔ فرض کیا اگر وہ ہمیں دوزخ میں ڈالے تو وہ دوزخ ہمیں بہشت سے اچھا ہے۔ ہم کیسے ہی نہ لائق ہوں مگر پھر اس کے ہیں۔
گر نہ باشد بدوست راہ بروں
شرط عشق است در طلب مردن
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دنیا جائے تردّد و حزن و مصیبت و غم ہے۔نہ ایک کیلئے بلکہ سب کے لئے ہے۔ جس کے ابتداء میں غلطی و بیچارگی اور آخر میں پیرانہ سالی و شیخوخیت (اگر عمر طبعی تک پہنچے) اور سب سے آخر موت (بانگ برآید فلاں نماند) اس میں پوری پوری راحت و خوشی کا طلب کرنا غلطی ہے۔ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ میں نے اپنے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اصل دنیا میں میرے لئے غم و مصیبت ہے اور اگر کبھی خوشی پہنچ جاوے تو یہ ایک زائد امر ہے جس کو میں اپنا حق نہیں سمجھتی۔ سو مومن کو مرد میدان بن کر اس دارفانی سے تلخیاں و ترشیاں سب اُٹھانی چاہئیں۔ ہمارا وجود انبیاء علیہم السلام اور اماموں سے کچھ انوکھا نہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ لذت و اُنس و شوق و راحت طلب الٰہی میں آپ ہی محسوس ہوتی ہے کہ جب حضرت ایوب کی طرح مصیبتوں پر صابر ہو کر یہ کہیں کہ میں ننگا آیا اور ننگا ہی جاؤں گا۔
مفلس شدیم دوست از ہرمایہ فشاندیم
دزدِ خبیث شیطاں از مفلساں چہ خواہد
ففروا الی اللّٰہ وکونوالہ من کان اللّٰہ لہ والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ میں اسے ۱۸۸۷ء کا سمجھتا ہوں۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر ۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا خدا تعالیٰ آپ کو جلد تر شفا بخشے۔ مجھ کو آپ کی بار بار علالت سے دل کو صدمہ پہنچتا ہے اور بمقتضائے بشریت قلق و کرب شامل ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ بہت جلد وہ دن لائے کہ آپ کی کلّی صحت کی میں بشارت سنوں۔ اب موسم ربیع ہے یقین ہے کہ آپ نے کسی قدر مناسب حال تنقیہ بدن کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا اور کوئی عارضہ بدنی مانع نہ ہو تو اس طرف غور کریں کہ آیا کوئی مناسب ہے یا نہیں۔ اگر مناسب ہو تو پھر توقف نہ کریں۔ کسی قدر شیر خشت وغیرہ سے تلئین طبع ہو جائے تو شاید مناسب ہو۔ کبھی کبھی دیکھا گیا ہے کہ انواع درد سر کیلئے ایارج فیقرا بہت مفید ہوتا ہے اور اس عاجز نے اپنے درد سر کیلئے کہ جو دوری طور پر تخمیناً ۳۰ سال سے شامل حال ہے استعمال کیا ہے اور مفید پایا ہے۔ایک اور متوحش خبر سنی گئی ہے کہ گیاراں سَو روپیہ کا اور نقصان آپ کا ہو گیا چنانچہ ایک خط میں جو ارسال خدمت ہے یہ حال لکھا ہے۔انا لِللّٰہ و انا الیہ راجعون
مصیبت پہنچنے والی تو ضرور پہنچ جاتی ہے مگر کسی قدر رعایت انتظام ظاہر مسنون ہے جس نے دیا اُس نے لیا۔ لیکن آئندہ بے احتیاطی کے طریقوںسے مجتنب رہنا ضروری ہے لایلدغ المومن من حجر واحد مرتین۔ پرسوں میری طرف سے آپ کے نام گھوڑے کی سفارش کیلئے ایک خط روانہ ہوا تھا۔ وہ خط میرے اقارب میں سے مرزا امام الدین میرے چچا زاد بھائی نے بالحاج مجھ سے لکھوایا تھا۔ ہر چند میں جانتا تھا کہ اس کا لکھنا غیر موزوں وغیر محل ہے مگر چونکہ مرزا امام الدین صاحب دراصل میرے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی ایمانی حالت خدا تعالیٰ درست کر دے اور خیالات فاسدہ سے چھڑا دے اس لئے اُن کی دلجوئی کی غرض سے لکھا گیا ہے لودہانہ کا معاملہ اب بالکل پختہ ہے۔ آپ کے ارادہ کا توقف ہے۔ خیریت مزاج سے جلد اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ مارچ ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ موصول ہوکر موجب خوشی ہوا میں نے آپ کے اس خط کو بھی یادداشت میں رکھ لیا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ ابواب خیر و خوبی دارین آپ پر منکشف کرے۔ یہ سچ پر موقوف ہے۔ کار شادی کیلئے استخارہ مسنونہ عمل میں لاویں پھر اگر انشراح صدر سے میل خاطر جلدی کی طرف ہو تو جلدی سے اس کارخیر کو سرانجام دیویں ورنہ بعد فراغت سفر پونچھ۔ پانچ نسخہ شحنہ حق اور ایک حصہ رگوید آج رجسٹری کرا کر معرفت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ارسال خدمت کیا گیا یہ وید بطور مستعار ارسال خدمت ہے اس سے جس قدر مطلب نکلتا ہو ایک یا دو ماہ میں نکال کر پھر بذریعہ رجسٹری واپس فرما دیں کہ مجھ کو اکثر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ اپریل ۱۸۸۷ء




مکتوب نمبر ۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچ کر باعث ممنونی ہوا مجھ کو آنمخدوم کے ہر ایک خط کے پہنچنے سے خوشی پہنچتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں خالص دوستوں کاوجود کبریت احمر سے عزیز تر ہے اور آپ کا دین کیلئے جذبہ اور ولولہ اور عالی ہمتی ایک فضل الٰہی ہے جس کو میں عظیم الشان فضل سمجھتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ جلشانہٗ آپ سے اپنے دین میں پہلے درجہ کی خدمتیں لیوے۔ حکیم فضل دین صاحب بھی بہت عمدہ آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے۔ اگر ملاقات ہو تو آپ سلام مسنون پہنچا دیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اپریل ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچ کرمضمون مندرجہ معلوم ہوا مجھ کو بندوسبت مطبع و دیگر مصارف کے بارے میں بہت کچھ فکر اور خیال تھا جو آپ کے اس مبشر خط سے سب رفع دفع ہوا۔ جزاکم اللہ خیرا الجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبٰی واذہب عنکم الحزن و رضی عنکم و رضی آمین
چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں۔ مگر ہاتھ نہیں پہنچتا اتنے میں ایک بندہ خدا آیا اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طو رپر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کیلئے دعا کی ایسا ہی برقت قلب خط کے پڑھنے سے آپ کیلئے منہ سے دلی دعا نکل گئی۔ فستجاب انشاء اللّٰہ تعالیٰ
اگر یہ ممکن ہو میری تحریر پہنچنے پر ماہ بماہ تین سو (سا) تک آپ بھیج سکیں یہاں تک کہ چودہ سَو (…) پورا ہو جائے۔ تو یہ نہایت عمدہ بات ہے۔ مگر اوّل دفعہ میں پانسو (…) روپیہ بھیجنا ضروری ہے تاضروری انتظام کیا جاوے۔ میرا ارادہ ہے کہ یہ کام ماہ رمضان میں جاری ہو جاوے۔ ایک شخص منشی رستم علی نام نے تین سَو روپیہ ڈیڑھ سال کی میعاد پر قرضہ دینا کیا ہے اور بابو الٰہی بخش صاحب بھی کچھ دینا چاہتے ہیں۔ سو جس قدر روپیہ دوسروں کی طرف سے بطور قرضہ آئے گا اُسی قدر آپ کو کم دینا ہوگا۔ مگر اصل مدار اس قرضہ کا آپ کے نام پر رہا۔ میں نے آپ کا خط بابو الٰہی بخش صاحب کے پاس لاہور میں بھیج دیا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی انشراح صر اور علو ہمت اور خلوص اور صدق سے میرے دوسرے دوست مطلع ہوں۔
کل ایک خط بابو الٰہی بخش صاحب کا کسی شخص کی سفارش کے بارہ میں آیا ہے۔ سو وہ خط ارسال خدمت ہے۔ آپ بپابندی مصلحت جیسا کہ مناسب ہو ہمدردی کام میں لاویں۔ اگر آپ کے اشارہ سے کسی مسلمان کی خیر اور بہتری متصور ہو اور خود وہ اشارۃ خیر محض ہو فتنہ سے خالی ہو۔ تو بلاشبہ موجب ثواب ہے کہ خیرالناس من ینفع الناس زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ مئی ۱۸۸۷ء
طبی مشورہ
میری لڑکی دو ماہ سے بعارضہ تپ و اسہال و ورم وغیرہ عوارض و شدت عطش مبتلا ہے۔ تین سَو کے قریب دست آ چکے ہیں اور تین مسہل بھی دئے گئے اور جونکیں لگائی گئیں چونکہ تپ محرقہ تھا۔ زبان سیاہ ہوگئی تھی اس لئے ایک نسخہ شیخ کے موافق چھ سات دفعہ کافور بھی سکنجبین اور شیرہ خنارین کے ساتھ دیا گیا اور شربت بنقشہ و نیلو فر و دیگر برودات بہت دئے گئے اب تپ تیز تو نہیں اور ورم میں بھی تخفیف ہے لیکن پھر بھی کسی قدر تپ اور پیاس باقی ہے۔ بدن بہت دبلا ہو رہا ہے میرا ارادہ ہے کہ سفوف دست گلو شربت دینار کے ہمراہ دوں مگر ست گلو عمدہ نہیں ملتی اور نہ ریوند چینی خالص ملتی ہے۔ لڑکی کی عمر ایک برس اور دو ماہ کی ہے اس عمر میں اس غضب کی حرارت پیدا ہوگئی کہ دس بوتلیں بید مشک کی اور قریب بوتل کے سکنجبین اور لعاب اسبغول اور شیرہ خنارین اور چھ سات دفعہ کافور دیا گیا۔ مگر ابھی حرارت باقی ہے۔ دو بوتل شربت بنقشہ اور نیلوفر بھی پلایا۔ ورم میں اب خفت ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عارضی تھی۔ مگر اب علامات حرارت غالب ہیں۔ اگر تازہ ست گلو اور ایک تولہ ریوند چینی دستیاب ہوسکے تو ضرور ارسال فرما دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان





مکتوب نمبر ۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے۔ میں پروردگار جلشانہٗ کا شکر ادا نہیں کر سکتا جس نے ایسے صادق اور کامل الوداد دوست میرے لئے میسر کئے۔ فالحمدللّٰہ علی احسانہ
اجرائے مطبع کا خیال
پانچ رسالہ شحنہ حق خدمت شریف میں روانہ کئے گئے ہیں کتنی مجبوریوںکے پیش آنے کی وجہ سے میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیار کر کے سراج منیر وغیرہ کتب اس میں چھپواؤں۔ سو اگر خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے سرمایہ میسر کر دیا تو جلد پریس وغیرہ کاسامان ضروری خرید کر کتابوں کا چھپوانا شروع کیا جائے۔ اس طرف اب بشدت گرمی پڑتی ہے امید ہے کشمیر میں خوب بہار ہوگی۔ کشمیر کا تحفہ کشمیر کے بعد عمدہ میوے ہیں جیسے گوشہ بگو کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں مگر وہ میوہ ذخیرہ خور نہیں ہیں امید رکھتا ہوں کہ جلد جلد حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور خوشی خورمی سے لادے اور آپ کے ساتھ رہے۔ آمین
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۱؍ مئی ۱۸۸۷ء

مکتوب نمبر ۲۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مکرمی اخویم میاں کریم بخش صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ جو محبت اور اخلاص سے بھرا ہوا تھا پہنچا۔ جس قدر آپ نے خلوص اور محبت سے خط لکھا ہے میں اس کا شکر گزار ہوں۔ خداوندکریم آپ کو اس کا اجر بخشے۔ بیشک اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نہایت قابل تعریف اخلاق سے متخلق ہیں اور مجھ کو ان کے ہر ایک خط کے دیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بفضلہ تعالیٰ ان نادر الوجود مردوں میں سے ہیں کہ جو دنیا میں بہت ہی کم ہیں۔ صفت جوانمردی اور یک رنگی اور خلوص اور وفا اور روبحق ہونے کے اور بایں ہمہ انشراح صدر اور غربت اور فروتنی اور تواضع ایسی ان میں پائی جاتی ہے کہ جس پر درحقیقت ہر ایک مومن کو رشک کرنا چاہئے۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء میں خوب جانتا ہوں اور مجھے بہت کامل تجربہ ہے کہ اللہ جلشانہٗ پر کوئی شخص اپنی صفائی میں سبقت نہیں لے جا سکتا اور وہ محنین کا ہرگز اجر ضائع نہیں کرتا ہاں یہ بات ہے کہ درمیانی زمانوںمیں ابتلا کے طور پر کشف خیر میں کچھ توقف ہوتی ہے مگر آخر رحمت الٰہی دستگیری کرتی ہے اور مومن کو چشم گریاں کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ربانی نیکی اور رحمت اور مروت اس کی نیکی سے بڑھ کر ہے۔ سو میں دلی اطمینان سے مولوی حکیم نورالدین صاحب کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ ہر ایک بات میں امید وار رحمت الٰہی رہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں کرے گا۔ وہ جس کے ہاتھ میںسب قدرتیں ہیں نہایت ہی غفورٌ الرحیم ہے وفادار بندے آخر اس سے اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ اس کا قدیم سے اپنے خالص بندوں کیلئے یہی قانون قدرت ہے کہ درمیان میں کچھ کچھ تکلیف اور خوف اور حزن اُٹھا کر انجام کار فائز المرام ہوتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ مئی ۱۸۸۷ء
نوٹ از مرتب: یہ خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے نام ہے جو ان ایام میں کریم بخش کہلاتے تھے اس لئے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام ان کے والدین نے کریم بخش ہی رکھا تھا۔ میں نے آپ کے والد ماجد چوہدری محمد سلطان صاحب کو دیکھا کہ وہ ہمیشہ کریم بخش ہی کہا کرتے تھے۔ حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات کے ضمن میں اس مکتوب کو میں نے اس لئے درج کر دیا ہے کہ یہ خط حضرت حکیم الامۃ ہی کے متعلق ہے اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم الملۃ مولانا عبدالکریم رضی اللہ عنہ کے تعلقات اور مراسلات کا سلسلہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام سے آپ کے دعویٰ اور بیعت سے پہلے کا ہے اور یہ سلسلہ دراصل براہین احمدیہ کے اعلان اور اشاعت کے بعد قائم ہوا تھا۔ پھراس خط سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ان ایام میں حضرت مولوی صاحب (حکیم الامۃ) پر کوئی ابتلا تھا جیسا کہ حضرت حکیم الامۃ کی عام عادت تھی انہوں نے خود حضرت اقدس کو اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا بلکہ خود حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے اس تعلق اور محبت کی بنا پر جو انہیں حضرت حکیم الامۃ سے تھا براہِ راست حضرت اقدس کو اطلاع دی ہے جس پر حضرت نے یہ تسلی نامہ مولوی عبدالکریم صاحب کو لکھا اور انہوں نے حضرت حکیم الامۃ کو دکھایا اور حضرت حکیم الامۃ نے اسے اپنے خطوط میں منسلک کر لیا۔ (عرفانی)





مکتوب نمبر ۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ موصول ہو کر موجب خوشی و شکر و ممنونی ہوا۔ پادری صاحب کی نکتہ چینی کے جواب میں جو کچھ آپ نے لکھا ہے نہایت ہی خوب ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیراً جزاکم اللّٰہ خیرا۔ دین اسلام منجانب اللہ ایک حکیمانہ مذہب ہے۔ جو حکمت کے قواعد پر مبنی ہے۔ اس دین میں یہ بات نہیں کہ ہمیشہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیا کریں۔ بلکہ جو مناسب وقت اس کے کرنے کی تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جادلھم بالحکمۃ یہ نہیں فرمایا جادلھم بالحلم انشاء اللّٰہ القدیر اسی قدر … کرو اس کیلئے دعا کروں گا اور مصارف مطبع کیلئے چند اور دوستوں کو بھی لکھا ہوا ہے ان کے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ مگر اس پر یکم جون کی ڈاکخانہ کی مہر ہے اور قادیان کی مہر ۳۱ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔ یہ ایک پوسٹ کارڈ ہے۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر ۲۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی و اطمینان ہوا جزاکم اللہ خیرا۔ اس عاجر نے بموجب تحریر ثانی جو مولوی کریم بخش صاحب کے خط کے لفافہ پر تھی بلاتوقف کتابیں بھیج دیں تھیں لیکن رجسٹری نہیں کرائی گئی تھی۔ اگر اب تک نہ پہنچی ہوں تو مکرر بھیج دی جائیں میں نے مطبع کے بندوبست کیلئے بہت سے فکر کے بعد یہ قرین مصلحت سمجھا کہ بعض دوستوں سے بطور قرضہ کچھ لیا جائے۔ جس میں سے کچھ پریس اور پتھروں کی قیمت پر خرچ آوے اور کسی قدر کاغذ خریدا جائے اور کچھ اُجرت وغیرہ کیلئے جمع رکھا جائے تو ایسے بااخلاق آدمیوں کے انتخاب کیلئے جب فہرست خریداران پر نظر ڈالی گئی تو ہزار آدمی میں سے صرف چھ آدمی پر نظر پڑی جن میں سے بعض قوی الاخلاق ہیں اور بعض کا حال کماحقہٗ معلوم نہیں۔ ناچار دردِ دل سے یہ دعا کرنی پڑی۔
ربّ اعطنی من لدنک انصارًا فی دینک واذہب عنی حرلی واصلح لی شافی کلہ لا الہ الا انت
امید ہے کہ قرین باجابت ہو اب میں آپ کی خدم میں مفصل ظاہر کرتا ہوں کہ میرا ارادہ تھا کہ ۱۴ آدمی منتخب کر کے سَو سَو روپیہ بطور قرضہ بوعدہ معیاد ایک سال بعد طبع سراج میزان سے لیا جاوے۔ یعنی ابتدا میعاد کی اس تاریخ سے ہو جب چھپ چکے کیونکہ طبع سراج منیر کیلئے ۱۴ سَو روپیہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ صورت انجام پذیر ہو سکے تو کسی ذی مقدرت دوست پر بوجھ نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ فہرست خریداران کے دیکھنے سے صرف چھ آدمی ایسے خیال میں آئے جو اس کام کے لئے انشراح دل سے متوجہ ہو سکتے ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ یہ کام بہرحال رمضان شریف میں شروع ہو جائے اور میں یہ روپیہ لینا صرف قرضہ کے طور پر چاہتا ہوں کہ دوستوں پر تھوڑا تھوڑا بار ہو جو سَو روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ سو اگر ایسا ہو سکے کہ بعض بااخلاص آدمی جو آپ کی نظر میں ہوں اس قرضہ کے دینے میں شریک ہو جائے تو بہت آسانی کی بات ہے ورنہ مالک خزائن السموات والارض کافی ہے جواب سے جلد مطلع فرماویں کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہوا کہ رسالہ قرآنی طاقتوں کا جلوہ جون کے ماہ میں شائع ہوگا۔ سو میں چاہتا ہوں کہ اپنے ہی مطبع میں وہ رسالہ چھپنا شروع ہو جائے مجھے اس قرضہ کے بارہ میں کوئی اضطراب نہیں میں اپنے دل میں نہایت خوشی اور اطمینان اور سرور پاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میری دعائیں کرنے سے پہلے ہی مستجاب ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر خطوط کے سلسلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ۱۸۸۷ء کا خط ہے جیسا کہ ۲؍ مئی ۱۸۸۷ء کا خط بھی اسی سلسلہ میں ہی ہے۔ (عرفانی)







مکتوب نمبر ۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سَو روپیہ پہنچ گیا چونکہ موسم برسات ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑا رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرماویں تو انشاء اللہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔ آج کی تاریخ جو ۱۸ شوال ہے اس جگہ خوب بارش ہوگئی اور اب ہو رہی ہے کل یہ حال تھا کہ گویا لوگ بوجہ شدت حرارت اور گذر جانے ایک حصہ برسات کے نومید ہوچکے تھے۔ سبحان اللہ کیا شان اُس قادر مطلق کی ہے کہ نومیدی کے بعد اُمید پیدا کر دیتا ہے۔
نکتہ معرفت
اسی وجہ سے جو عارف ہیں۔ اگرچہ مصائب و شدائد کے صدمات کی کوفتوں سے غارت بھی ہو جائیں تب بھی ان پر یاس کی دل آزار حالت طاری نہیںہوتی کیونکہ وہ پکے یقین سے سمجھتے ہیں کہ وہ مولا کریم محبت الدعوۃ ہے اور قادر مطلق اور درحقیقت انسان کو یہ سطر اُڑ گئی ہے۔ میں نے قیاس سے بعض الفاظ کو دیکھ کر لکھی ہے۔عرفانی) (اسی وقت تسلی نصیب ہوتی ہے کہ جو قوی یقین رکھتا ہے کہ وہ رحمن ہے اور قادر مطلق ہے) اور اپنے خدا کو کریم اور رحیم جانتا ہے اے خدائے برتر و بزرگ ہم سب کو قویٰ یقین بخش۔ جس سے ہم ہر دم اور ہر لحظہ سرور میں رہیں۔ آمین ثم آمین
گجرات سے دس روپے اور پہنچ گئے۔ اب معلوم ہوا کہ صاحب مرسل کا نام عطا محمد ہے اور وہ ضلع گجرات میں مختار ہیں۔ اب انشاء اللہ ساٹھ روپے کی رسید ان کی خدمت میں بھی بھیجی جاوے گی۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعہ نوٹ پانسو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔ اب آنمخدوم کی طرف سے پانسو ساٹھ روپے پہنچ گئے اس ضرورت کے وقت جس قدر آپ کی طرف سے غمخواری ظہور میں آئی ہے اس سے جس قدر مجھے آرام پہنچا ہے اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ اللہ جلشانہٗ دنیا و آخرت میں آپ کو تازہ تازہ خوشیاں پہنچاوے اور اپنی خاص رحمتوں کی بارش کرے۔
تکذیب براہین کی طرف توجہ
میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سو (…) روپیہ اس کتاب کے چھپنے کیلئے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُر افترا کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کے رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کیلئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے۔کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیاد داشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرح متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خداداد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں۔
اسلام پر مخالفوں کا حملہ اور حضرت کو اس کا احساس
آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کیلئے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ جولائی ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۲۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو جمیع مطالب پر کامیاب کرے آمین ثم آمین! کتاب لیکھرام پشاوری ارسال خدمت کی گئی ہے۔ امید کہ غایت درجہ کی توجہ سے اس کا قلع قمع فرمائیں گے تا مخالف بدطنیت کی جلد تر رسوائی ظاہر ہو۔ اس طرف بکثرت بارش ہوئی ہے اور کوئی دن خالی جاتا ہے جو بارش نہیں ہوتی۔ پانی چاروں طرف سمندر کی طرح کھڑا ہے اس لئے ابھی کاغذ نہیں منگوایا گیا۔ دس پندرہ دن تک جب یہ دن کثرت بارش کے گزر جائیں گے تب انشاء اللہ القدیر کاغذ منگوا کر کام شروع کیا جائے گا۔
ناطہ کی نسبت جو آنمخدوم نے مجھ سے استفسار کیا ہے میرا دل ہرگز فتویٰ نہیں دیتا کہ ایسے شخص کی لڑکی سے نکاح کیا جاوے۔ ہر چند میں نے اس بارہ میں توجہ کی ہے مگر میرا دل یہی فتویٰ دیتا ہے کہ اس سے کنارہ کشی ہو۔ اللہ جلشانہٗ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے وما ننسخ من آیۃ اوننسھا نات بخیرٍ منھا اومثلھا الم تعلم ان اللّٰہ علی کلی شیئی قدیر۔
برہمن لڑکا جس کا آپ نے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے اس کے لئے بھی انشاء اللہ القدیر میں دعا کروں گا اگر کچھ حصہ سعادت اس کے شامل حال ہے تو آخر وہ رجوع کرے گا اور اگر گروہ میں سے نہیں تو پھر کچھ چارہ نہیں۔
امید ہے کہ آنمخدوم لیکھرام کی طرف بہت جلد توجہ فرمائیں گے ۔ اوّل تمام اعتراضات اس کے علیحدہ پرچہ پر انتخاب کئے جاویں اور پھر مختصر و معقول و دندان شکن جواب دیا جاوے۔ اللہ جلشانہٗ آپ پر ہمیشہ سایہ لطف و رحمت و نصرت رکھے اور آپ کا مؤید و ناصر ہو۔ آمین
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
نوٹ: یہ ہندو لڑکاجس کا ذکر حضرت کے خطوط میں آتا ہے شیخ محمد عبداللہ صاحب وکیل علی گڑھ ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں وہ رہتے تھے اور کشمیر سٹیٹ کے بعد بڑے بڑے ہندو عہدہ دار اس کی مخالفت میں منصوبے کر رہے تھے کہ مولوی صاحب کے پاس سے اس لڑکے کو نکالا جاوے۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ایک موقعہ اس لڑکے کے مسلمان ہونے کے بعد اس پر ارتداد کا بھی آیا اور قریب تھا کہ وہ مرتد ہو جاوے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اسے بچایا اور اب وہ علی گڑھ کے ایک کامیاب وکیل اور تحریک علی گڑھ کے پُر جوش مؤید ہیں اور کارکنوں میں سے ہیں خصوصیت سے تعلیم نسواں کے متعلق انہوں نے نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔( عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر ۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت مدید ہوگئی کہ آنمخدوم کے حالات خیریت آیات سے بے خبر ہوں۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو بہت خوش رکھے اس طرف بشدت بارش ہوئی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معمر بیان کرتے ہیں کہ ایسی برسات ہم نے اپنی مدت عمر میں نہیں دیکھی۔ اسی وجہ سے ابھی کام طبع کتاب کا شروع نہیں ہو سکا۔ کیونکہ ایک تو کاغذ منگوانے میں بڑی دقت ہے اور دوسرے ہر روز بارش میں عمدہ چھپائی میں بہت کچھ حرج ہوگا۔ سو یقین ہے کہ بعد بیس بائیس روز کے بعد جب بارش کچھ تھمتی ہے دہلی سے کاغذ منگوایا جاوے گا۔ تب بفضلہ تعالیٰ کتاب کا چھپنا شروع ہوگا اب میں ایک کام کیلئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص نہایت درجہ مخلص ہے جس کا دل خلوص سے بھرا ہوا ہے۔ اس کا نام فتح خاں ہے۔ فتح اں بوجہ ان انقلابات کے جو مصلحت ایزدی نے ہر ایک فرد بشر کیلئے اس کے حسب حالت مقرر کئے ہیں بہت سے قرضہ کی زیر باریوں میں مبتلا ہے اور بایں ہمہ اس کا دل کچھ ایسے طور پر واقعہ ہے کہ ہم و غم دنیا کی نسبت ہم و غم دین کا اس پر بہت غالب ہے مگر میں جو اس کے اندرونی تردّدات پر واقف ہوں اس لئے مجھ اس کی حالت پر بہت رحم آتا ہے اور اس کا چھوٹا بھائی عبداللہ خان نام بھی نیک بخت اور جوان بیس بائیس سالہ مستعد آدمی ہے چونکہ فتح خاں پر دین کی ہمدردی اور غمخواری کا اس قدر غلبہ ہو رہا ہے کہ وہ دنیوی معاشات کو بہ سختی و جدوجہد طلب کرنے کے قابل نہیں لیکن بھائی اس کا اس قابل ہے سو میں چاہتا ہوں کہ آنمخدوم کی سعی اور کوشش اور سفارش سے جموں میں کسی جگہ دس بارہ روپیہ کی نوکری عبداللہ خاں کو مل جاوے۔ مجھے اس شخص کیلئے دردِ دل سے خیال ہے۔ سو آپ محض للہ ایک دو جگہ سفارش کریں۔ عبداللہ خاں بہت مضبوط آدمی ہے کسی امیر کی اردل میں کام دے سکتا ہے اور پولیس میں عمدہ خدمت دینے کے لائق ہے۔ کسی قدر فارسی بھی پڑھا ہوا ہے امید ہے کہ آنمخدوم نہایت تفتیش فرما کر جواب سے ممنون فرمائیں گے اور اپنی خیرو عافیت سے جلد تر مطلع فرما دیں۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
نوٹ: فتح خاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس خادم تھا اور قریباً چار پانچ سال تک یہاں رہا ہے۔ وہ رسولپور متصل ٹانڈہ کا رہنے والا تھا۔ قوم کا افغان تھا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں محض اخلاص و ارادت سے رہتا تھا۔ اس کا بھائی عبداللہ خاں بھی یہاں ڈیڑھ سال تک رہا تھا۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سفارش فرمائی ہے۔ اگرچہ وہ محض اخلاص سے رہتا تھا اور اس کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی۔ مگر مرزا محمد اسماعیل بیگ کو حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ اس کے کپڑے وغیرہ بنوا دو اور کچھ نقدی بھی وقتاً فوقتاً دے دیا کرتے تھے چونکہ نقدی اور حساب کتاب مرزا صاحب کے پاس رہتا تھا اس لئے ان کو ہی یہ حکم دیا جاتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خادموں کی ضروریات کا کس قدر احساس رکھا کرتے تھے اور یہ خط اور بھی اس پر روشنی والتا ہے کہ آپ نے حضرت حکیم الامۃ کو سفارش فرمائی۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر ۲۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج نصف قطعات نوٹ… مرسلہ آنمخدوم پہنچ گئے۔ امید کہ باقی قطعات بھی بذریعہ رجسٹری ارسال فرماویں میں نے السلام علیکم آنمخدوم بشیر احمد کو پہنچا دیا۔ پہلے تو مجھے یہی خیال ہو رہا تھا کیف لکم من کان فی المھدصبیا لیکن تعمیل ارشاد آنمخدوم کی گئی اُس وقت طبیعت اس کی اچھی تھی۔ بار بار تبسم کر رہا تھا۔ چنانچہ السلام علیکم کے بعد بھی یہی اتفاق ہوا کہ دو تین مرتبہ اس نے تبسم کیا اور انگشت شہادت منہ پر رکھ لی۔ اگر کشمیر میں یعنی سری نگر میں یہ خط مل جائے تو بیشک ایک مہر کھدوا کر لے آویں چاندی کی ایک سُبک جیسی انگشتری ہو جس پر یہ نام لکھا ہو کہ بشیر۔
امید ہے کہ اب ملاقات میسر آئے گی لیکن قبل از ملاقات ایک ہفتہ مجھ کو اطلاع بخشیں کہ بابو محمد صاحب کی خدمت میں بہت تاکید ہے کہ اگر آپ آویں تو مجھ کو بھی اطلاع دی جاوے۔ امید ہے کہ آنمخدوم نے کتاب لیکھرام کی طرف توجہ فرمائی ہوگی۔ اس کی بیخ کنی نہایت ضروری ہے لیکن حتی الوسع یہ مدنظر رہے کہ عام خیال کے آدمی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور واضح اور سریع الفہم خیالوں میں بیان ہو۔
میں نے آگے بھی ایک خط میں اطلاع دی تھی کہ ایک صاحب فتح خاں نامی میرے پاس رہتے ہیں اور میری خدمت میں ملازموں کی طرح مشغول ہیں۔ نیک بخت اور دیندار آدمی ہے ان کا چھوٹا بھائی عبداللہ خاں نام بیکار ہے۔ قرضداری بہت ہے وہ بھی مضبوط معمر بست سالہ اور خوب ہوشیار اور کارکن آدمی اور سپاہیانہ کاموں کیلئے بہت مناسبت رکھتا ہے مجھے فتح خاں کے حال پر بہت رحم آتا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ یہ چھوٹا بھائی اس کا عبداللہ کسی سات آٹھ روپے تنخواہ پر نوکر ہو جائے قرضہ کی بلا سے کچھ تخفیف ہو۔ اگر آنمخدوم کوشش فرماویں تو یقین ہے کہ کسی امیر معزر عہدہ دار کی اردل میں یا ایسی ہی کسی اور جگہ نوکر ہو جاوے۔ مگر تنخواہ سات آٹھ روپے سے کم نہ ہو۔ فارسی بھی پڑھا ہوا ہے۔ اچھا بدن کا مضبوط ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
مکرر یہ کہ مجھے یاد آیا ہے کہ یہ دو سَوچالیس روپے ایک حساب سے پورا تین سَو ہو گیا ہے کیونکہ پہلے علاوہ پانسو روپیہ کے ساٹھ روپے آپ کے زیادہ آگئے ہیں۔ پس ساٹھ روپیہ ملانے سے پورا تین سَو ہو گیا اور کل روپیہ جو آج تک آپ کی طرف سے آیا۔ آٹھ سَو روپیہ ہوا۔
کشمیر کا تحفہ زیرہ عمدہ اور دو تولہ زعفران اگر ملے تو ضرور آنمخدوم لے آویں۔ زیرہ کی اس جگہ نہایت ضرورت رہتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
مکتوب نمبر ۳۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میں بہت شرمسار ہوں کہ صرف ایک خیال سے آنمخدوم کی خدمت میں اپنا نیاز نامہ ارسال نہیں کر سکا اور وہ یہ ہے کہ مجھے خیال رہا کہ جب تک آنمخدوم جموں میں نہ پہنچ جاویں اور جموں سے خط نہ آ جائے تب تک کوئی پتہ و نشان پختہ نہیں ہے جس کے حوالہ سے خط پہنچ سکے اگر یہ میری غلطی تھی تو امید ہے کہ معاف فرمائیں گے بقیہ نصف قطعہ نوٹ… بھی پہنچ گئے تھے۔ اب آنمخدوم کی طرف سے کل آٹھ سَو روپیہ قرضہ مجھ کو پہنچ گیا ہے اور میں نہایت ممنون کہ آنمکرم بروش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سچے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہوں کہ آپ نے میرے تغافل ارسال خط کی وجہ سے اپنی روا رکھی۔ یہ کیونکر ہو سکے کہ آپ کے اخلاص و محبت پر میں سوء ظن کروں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس زمانہ میں یہ خلوص و محبت و صدق قدم براہِ دین کسی دوسرے میں نہیںپایا اور آپ کی عالمی ہمتی کو دیکھ کر خداوند کریم جلشانہٗ کے آگے خود منفل ہوں۔ خداوند کریم عظیم الشان رحمتوں کی بارش سے آپ کو پودۂ اعمال دنیا و آخرت کو بار ور کرے۔ جس قدر میری طبیعت آپ کی للّٰہی خدمات سے شکرگزار ہے مجھے کہاں طاقت ہے کہ میں اس کو بیان کر سکوں۔ امید تھی کہ بعد واپسی سفر کشمیر آپ کی ملاقات میسر ہو۔ نہ معلوم پھر خلاف امید کیوں ظہور میں آیا۔ میں بہت مشتاق ہوں اگر وقت نکل سکے تو ملاقات سے ضرور مسرور فرمائیں۔ میں بباعث تعلقات مطبع جن سے شاید چھ ماہ تک مخلصی ہوگی۔ اس جگہ سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ ورنہ میری خواہش تھی کہ اب کی دفعہ خود جا کر آپ سے ملاقات کروں اور اگر آپ کو جلد ترفرصت نہ ہووے اور مجھے چند روز کی کسی وقت فرصت نکل آوے تو کیا عجب ہے کہ اب بھی میں ایسا ہی کروں۔ آپ کو میںیگانہ دوست سمجھتا ہوں اور آپ کے لئے میرے دل و جان سے دعائیں نکلتی ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
مکتوب نمبر ۳۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دو روز سے میں نے شخص کیلئے توجہ کرنا شروع کیا تھا۔ مگر افسوس کہ اس عرصہ میں میرے گھر کے لوگ یکدفعہ سخت علیل ہوگئے۔ یعنی تیز تپ ہو گیا جس کی وجہ سے مجھے ان کی طرف توجہ کرنی پڑی۔ کل ارادہ ہے کہ ان کو مسہل دوں۔ بعد ان کی صحت کے پھر توجہ میں مصروف ہوں گا۔ اب مجھے محض آپ کے لئے اس طرف بشدت خیال ہے اگرچہ مجھے صحت کامل نہیں تا ہم افاقہ میں آپ نے جو فتح محمد کے ہاتھ دوا بھیجی تھی وہی کھاتا رہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم کہ اس دوا نے کچھ فائدہ پہنچایا ہے پیراں دتا کے ہاتھ کوئی دوا نہیں پہنچی اور پیراں دتا کہتا ہے کہ مجھے مولوی صاحب نے کوئی دوا نہیں دی۔ یعنی اس عاجز کیلئے آپ نے جو کچھ لکھا تھا کہ پیراں دتا کے ہاتھ دوا بھیجی ہے شاید غلطی سے لکھا گیا ہو۔ میر عباس علی شاہ صاحب قادیان میں آپ کی دوا کے منتظر ہیں۔ براہ مہربانی ضرور توجہ فرما کر دوا بھیج دیں آپ کو یہ عاجز دعا میں یاد رکھتا ہے اور مید وار اثر ہے گو کسی قدر دیر کے بعد ہو۔ انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے۔ پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں اور ربّ کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا نہیں۔ مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے۔ مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا کھینچ لیتی ہے۔ اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔ والذین جاھدوا فینا نہد مینھم سُبلنا یعنی نثبتھم علی التقوی والایامان ونھدینھم سبل المحبت والعرفان۔ و سنیسر ھم لضعل الخیرات وترک العصیان کتاب خطاب احمدیہ پیراں دتا کے ہاتھ پہنچ گئی۔ بعض ادویہ بھی۔ مگر اس عاجز کیلئے کوئی دوا نہیں پہنچی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ قیاس چاہتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا خط ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر ۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عین حالت انتظار میں عنایت نامہ پہنچا۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو صحت کامل عطا فرمائے۔ اگرچہ ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے مگر خاص طو ر پر آپ کی صحت کیلئے میں نے آج سے دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے آپ کے اخلاق فاضلہ کہ گویا اس زمانہ کی حالت موجودہ پر نظر کر کے خارق عادت ہیں نہایت اطمینان قلبی سے یقین دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور آپ کو اپنی رحمت خاصہ سے خط وافر بخشے گا۔ آپ کو خدا نے ذوی الایدی والابصار کا مرتبہ عطا کیا ہے اب لوازم اس مرتبہ کے بھی وہی دے گا۔
آپ کی ملاقات کو دل چاہتا ہے اور بعض احباب بھی آپ کی ملاقات کے بہت شائق ہیں جیسے بابو محمد صاحب کلرک دفتر انبالہ چھاؤنی اور بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ۔ سو بابو محمد صاحب سے اقرار ہو چکا ہے کہ جس وقت آپ تشریف لانا چاہیں تو دس پندرہ روز پہلے اُنہیں اطلاع دی جائے گی۔ تب وہ رخصت لے کر عین موقعہ پر آ جائیں گے اور بابو الٰہی بخش صاحب کو بھی اطلاع دے دیں گے اس لئے مکلف ہوں کہ آنمخدوم عزم بالجزم کر کے بیس روز پہلے مجھے اطلاع دیں اور کم سے کم تین روز یا چار روز تک قادیان میں رہنے کا بندوبست کر کے مفصل اطلاع بخشیں کہ کس تاریخ تک پہنچ سکتے ہیں تا اسی تاریخ کے لحاظ سے وہ لوگ بھی آ جاویں۔
مجھے یہ بات سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ تکذیب براہین کا ردّ آپ نے تیار کر لیا ہے۔ الحمدللّٰہ والمنہ اس ردّ کے شائع ہونے کیلئے عام طور پر مسلمانوں کا جوش پایا جاتا ہے۔ شاید ڈیڑھ سَو کے قریب ایسے خط آئے ہونگے جنہوں نے اس کتاب کے خریدنے کا شوق ظاہر کیا ہے میں نے ابھی کام ہر دو رسالہ کا شروع نہیں کیا اب شاید بیس بائیس روز تک شروع کیا جائے۔
عوام کو اس تاخیر سے جس قدر غصہ و بدظنی عاید حال ہوئی ہے میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ سب دور کر دے گا۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ راضی ہو تو انجام کار خلقت بصد ندامت خود راضی ہو جاتی ہے۔ اس خط کو رجسٹری کرا کر اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ آپ مکرر اپنی صحت و عافیت سے بہت جلد اطلاع بخشیں اور نیز اپنی تشریف آواری کے بارہ میں جس وقت چاہیں اطلاع دے دیں۔ مگر پندرہ یا بیس روز پہلے اطلاع ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ جنوری ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر ۳۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج رجسٹری شدہ خط کے روانہ کرنے کے بعد اخویم حکیم فضل دین صاحب کا خط جو بلف خط ہذا روانہ کیا جاتا ہے آپ کی علالت طبع کے بارے میں پہنچا۔ اس خط کو دیکھ کر نہایت تردّد ہوا اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کی عیادت کیلئے آؤں اور میں خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو من کُل الوجوہ تندرست دیکھوں۔ وھوعلی کل شی قدیر۔ سو ہفتہ کے دن یعنی ساتویں تاریخ جنوری ۱۸۸۸ء میں روانہ ہونے کا ارادہ ہے آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے سو اگر ہفتہ کے دن روانہ ہوئے تو انشاء اللہ اتوار کے دن کسی وقت پہنچ جائیں گے۔ اطلاع دہی کیلئے لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گوراسپور
۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر۳۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مجذوب و مورد احسانات الٰہیہ سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب سے یہ خاکسار آپ کی ملاقات کر کے آیا ہے تب سے مجھے آپ کے ہموم و غموم کی نسبت دزات خیال لگا ہوا ہے اور میرا دل بڑے یقین سے یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر نکاح ثانی کا دلخواہ انتظام ہو جاوے تو یہ امر موجب برکات کثیرہ ہوگا اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سے تمام کسل و حزن بھی دور ہوگا اور اللہ جلشانہٗ اپنے فضل و کرم سے اولاد صالح صاحب عمر و برکت بھی عطا کرے گا۔ لیکن اہلیہ ایسی چاہئے جس سے موافقت تامہ کا پہلے سے یقین ہو جائے۔
نہایت نیک قسمت اور سعید وہ آدمی ہے کہ جس کو اہلیہ صالحہ محبوبہ میسر آ جائے کہ اس سے تقویٰ طہارت کا استحکام ہوتا ہے اور ایک بزرگ حصہ دین اور دیانت کا مفت میں مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تقریباً تمام نبیوں اور رسولوں کو توجہ اسی بات کی طرف لگی رہی ہے کہ انہیں جمیلہ حسینہ صالحہ بیوی میسر آوے جس سے گویا انہیں ایک قسم کا عشق ہو۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ایک مشہور واقعہ ہے اور لکھا ہے کہ اسلام میں پہلے وہی محبت ظہور میں آئی۔ سو میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ جلشانہٗ آپ کو یہ نعمت عطا کرے۔ میرے نزدیک ہر نعمت اکثر نعمتوں کی اصل الاصول ہے اور چونکہ مومن اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا طالب و جویاں بلکہ عاشق و حریص ہوتا ہے اس لئے میری رائے میں مومن کیلئے یہ تلاش واجبات میں سے ہے اور میری رائے میں وہ گھر بہشت کی طرح پاک اور برکتوں کا بھرا ہوا ہے جس میں مرد اور عورت میں محبت و اخلاص و موافقت ہو۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ اس نعمت کیلئے جلد جلد فکر کرنا چاہئے اور جو آپ نے زبانی فرمایا تھا کہ اپنی برادری میں ایک جگہ زیر نظر ہے اس کی آپ اچھی طرح تحقیق و تفتیش کریں اور بچشم خود دیکھ لیں اور پھر مجھ کو اطلاع دیں اور اگر وہ صورت قابل پسند نہ نکلے تا ہم اطلاع بخشیں کہ تا جابجا اپنے دوستوں کی معرفت تلاش کی جاوے۔ دوسرے یہ امر بھی قابل انتظام ہے کہ آپ کے اخراجات ایسے حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ جن کے سبب سے ہمیشہ آپ کو تہی دست رہنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے مولوی کریم بخش صاحب کی زبانی سنا ہے کہ جو آٹھ سَو روپیہ مجھ کو آپ نے بھیجا تھا وہ بھی قرضہ لے کر ہی بھیجا تھا۔ سو امن سے لاتبسط کل ابسط کی طرف خیال رکھنا چاہئے اور اپنے نفس سے ایک مستحکم عہد کر لیں کہ تیسرا یا چوتھا حصہ تنخواہ میں سے خرچ کریں اور باقی کسی دوکان وغیرہ میں جمع کرا دیں۔ امید کہ ان امور سے آپ مجھ کو اطلاع دیں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۲؍ فروری ۱۸۸۸ء
٭٭٭
مکتوب نمبر ۳۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہر دو عنایت نامے پہنچ گئے خدا قادر ذوالجلال آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے ارادات خیر میں مدد دیوے۔ اس عاجز نے آنمخدوم کے نکاح ثانی کی تجویز کیلئے کئی جگہ خط روانہ کئے تھے ایک جگہ سے جو جواب آیا ہے وہ کسی قدر حسبِ مراد معلوم ہوتا ہے یعنی میر عباس علی شاہ صاحب کا خط جو روانہ خدمت کرتا ہوں۔ اس خط میں ایک شرط عجیب ہے کہ حنفی ہوں غیر مقلد نہ ہوں۔ چونکہ میر صاحب بھی حنفی اور میرے مخلص دوست منشی احمد جان صاحب (خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے) جن کی بابرکت لڑکی سے یہ تجویز درپیش ہے پکے حنفی تھے اور ان کے مرید جو اس علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں سب حنفی ہیں۔ اس لئے حنفیت کی قید بھی لگا دی گئی۔ یوں تو حنیفاً مسلماً میں سب مسلمان داخل ہیں لیکن اس قید کا جواب بھی معقولیت سے دیا جائے تو بہتر ہے۔
اب میں تھوڑا سا حال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوں منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن دہلی کے تھے۔ شاید ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آ کر آباد ہوئے۔ کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار، خوبصورت، خوب سیرۃ، صاف باطن، متقی، باخدا اور متوکل آدمی تھے۔ مجھے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثران کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے۔ مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے۔ اس پر بعض نالائق خلیفے ان کے منحرف بھی ہوگئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا آخیر تک نبھاہا اور اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کی۔ جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزوق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کیلئے بدل و جان مساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقدمہ کر رکھا تھا جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے۔ انا للّٰہ و انا الہ راجعون اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت و خوش تقریری و وجاہت کے جو خدا داد نہیں حاصل تھی۔ مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لئے ان میں تعصب نہیں تھا۔ میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا۔ غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر آئے ہیں۔ اب دو باتیں تدبیر طلب ہیں۔
اوّل یہ کہ انکی حنفیت کے سوال کا کیا جواب دیا جائے۔
دوسرے اگر اسی ربط پر رضا مندی فریقین کی ہو جائے تو لڑکی کے ظاہری حلیہ سے بھی کسی طور سے اطلاع ہو جانی چاہئے۔
بہتر تو بچشم خود دیکھ لینا ہوتا ہے مگر آج کل کی پردہ داری میں یہ بڑی قباحت ہے کہ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے۔ مجھ سے میر عباس علی صاحب نے اپنے سوالات مستفسرہ خط کا بہت جلد جواب طلب کیا ہے۔ اس لئے مکلّف ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو جلد تر جواب ارسال فرماویں۔ ابھی میں نے تصریح سے آپ کا نام ان پر ظاہر نہیں کیا۔ جواب آنے پر ظاہر کروں گا۔
ہندو پسر کے بارہ میں مجھے خیال ہے ابھی میں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جس روز سے میں آیا ہوں میری طبیعت درست نہیں ہے۔ علالت طبع کچھ نہ کچھ ساتھ چلی آتی ہے اور کثرت مشغولی علاوہ۔ لیکن اگر میں نے کسی وقت توجہ کی اور آپ کی رائے کے موافق یا مخالف کچھ ظاہر ہوا جس کی مجھے ہنوز کچھ خبر نہیں۔ تو بہرحال آپ پر اس کے موافق عمل کرنا واجب ہوگا۔
ایک میرے دوست سامانہ علاقہ پیٹالہ میں ہیں۔ جن کا نام مرزا محمد یوسف بیگ ہے انہوںنے کئی دفعہ ایک معجون بنا کر بھیجی ہے جس میں کچلہ مدبر داخل ہوتا ہے وہ معجون میرے تجربہ میں آیاہے کہ اعصاب کیلئے نہایت مفید ہے اور امراض رعشہ اور فالج اور تقویت دماغ اور قوت باہ کیلئے اور نیز تقویت معدہ کیلئے فائدہ مند ہے۔ مدت سے میرے استعمال میں ہے اگر آپ اس کو استعمال کرنا قرین مصلحت سمجھیں تو میں کسی قدر جو میرے پاس ہے بھیج دوں۔
چھ سَو روپے کیلئے جو آنمخدوم نے لکھا ہے اس کی ضرورت تو بہرحال درپیش ہے مگر بالفعل اپنے پاس ہی بطور امانت رکھیں اور مناسب ہے کہ وہ آپ کے مصارف سے الگ پڑا رہے تا جس وقت مجھے ضرورت پڑے بلاتوقف آپ بھیج سکیں۔ مگر ابھی نہ بھیجیں جس وقت مطالبہ کیلئے میرا خط پہنچے اس وقت ارسال فرمادیں۔
لیکھرام کی کتاب کے متعلق اگر جلد مسودہ تیار ہو جاوے تو بہتر ہے لوگ بہت منتظر ہیں اور اگر آپ کی کتاب جو دہلی میں چھپتی ہے تمام و کمال چھپ چکی ہو تو ایک جِلد اس کی بھی عنایت فرماویں۔
منشور محمدی میں جو آنمخدوم نے مضمون چھپوایا ہے وہ سب پرچے پہنچ گئے وہ مضمون نہایت ہی عمدہ ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۳؍ جنوری ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر ۳۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا۔ ابھی وہ خط میں نے کھولا تھا کہ بابو الٰہی بخش صاحب کے کارڈ کے پڑھنے سے کہ جو ساتھ ہی اسی ڈاک میں آیا تھا۔ نہایت تشویش ہوئی کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ آپ لاہور میں علاج کروانے کیلئے تشریف لے گئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کم از کم پندرہ دن تک سب ڈاکٹر مل کر معائنہ کریں تو حقیقت عرض معلوم ہو مگر آپ کے خط کے کھولنے سے کسی قدر رفع اضطراب ہوا مگر تا ہم تردّد باقی ہے کہ مرض تو بکلّی رفع ہو گئی تھی۔ صرف ضعف باقی تھا۔ پھر کس لئے ڈاکٹروں کی طرف التجا کی گئی۔ شاید بعض ضعف وغیرہ کے لحاظ سے بطور دور اندیشی مناسب سمجھا گیا ہو میری دانست میں جہاںتک ممکن ہے آپ زیادہ ہم و غم سے پرہیز کریں کہ اس سے ضعف بڑھتا ہے اور نہایت سرور بخشنے والی یہ آیت مبارکہ ہے الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیئٍ قدیر
میرے نزدیک یہ امر نہایت ضروری ہے کہ آپ نکاح ثانی کے امر کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ اس کو کسل و حزن کے دور کرنے کے لئے ضروری خیال کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے امید ہے کہ آپ کو نکاح ثانی سے اولاد صالح بخشے۔ میرا اس طرف زیادہ خیال نہیں ہے کہ کوئی اہلیہ پڑھی ہوئی ملے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مرد ہو یا عورت مگر پاکیزہ ذہن اور فطرت سے عمدہ استعداد رکھتا ہوں تو امیت اس کے لئے کوئی بڑا سدِراہ نہیں ہے جلدی صحت سے ضروریات دین و دنیا سے خبردار ہو سکتا ہے۔ ضروری یہ امر ہے کہ عقیلہ ہو اور حسن ظاہری بھی رکھتی ہو تا اس سے موافقت و محبت پیدا ہو جاوے۔ آپ اس محل زیر نظر میں اس شرط کی اچھی طرح تفتیش کرلیں اگر حسب دلخواہ نکل آوے تو الحمدللہ ورنہ دوسرے مواضع میں تمام تر جدوجہد سے تلاش کرنا شروع کیا جائے۔ بندہ کی طرف سے صرف کوشش ہے اور مطلوب کو میسر کر دینا قادر مطلق کا کام ہے بہرحال اس عالم اسباب میں جدوجہد پر نیک ثمرات مل جاتے ہیں۔ میں نے اب تک کسی دوست کی طرف سے اس تلاش کیلئے نہیں لکھا کیونکہ ابھی تک آپ کی طرف سے قطعی اور یک طرفہ رائے مجھ کو نہیں ملی اس لئے مکلّف ہوں کہ درمیانی خیالات کا جلد تصفیہ کر کے اگر جدید تلاش کی ضرورت پیش آوے تو مجھے اطلاع بخشیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا آپ اپنے مصارف کی نسبت ہوشیار ہو جائیں کہ انہیں اموال سے قوام معیشت ہے اور اپنی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ آپ نے عہد کر لیا ہے کسی حالت میں ثلث سے زیادہ خرچ نہ کریں۔
انگریزی خوانوں کی نسبت جو آپ نے لکھا ہے یہ نہایت عمدہ صلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس نیت عالیہ میں برکت ڈالے۔ نبیوں کے پاس دو ہتھیار تھے جن کے ذریعہ وہ فتح یاب ہوئے۔ ایک ظاہری طور پر قول موجہ جو ہر ایک مخالف کو ملزم و ساکت کرتا تھا۔ دوسری باطنی توجہ جو نورانی اثر دلوں پر ڈالتی تھی۔ اوائل میں جو نبیوں کے وعظوں میں کم اثر ہوا بلکہ طرح طرح کے دُکھ اُٹھانے پڑے اور طرح طرح کی نالائق تہمتیں ان کی شان میں کی گئیں تو اس کا یہ باعث ہے کہ اوّل اوّل ان کی ہمت قول موجہ کے پھیلانے اور مخالفوں کے ساکت کرنے میں مصروف رہی۔ پھر جب اس طریق پر کوئی فائدہ مترتب نہ ہوا اور دل ٹوٹ گیا تو بقول حضرت مہدی
بہ ہمت نمایند مردی رجال
عقد ہمت اور توجہ سے کام لیا گیا۔ یہ عقد ہمت اور توجہ شمشیر تیز سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ میرے رائے میں نبیوں کی تمام کامیابی کا بڑا بھارا موجب یہی توجہ باطنی تھی اور نیز یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خوایتم پر ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ العاقبۃ للمتقین سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ جس کام کو میں نے اُٹھایا ہے ابھی وہ لوگوں پر بہت مشتبہ ہے اور شاید اس بات میں کچھ مبالغہ نہ ہو کہ ہنوز ایسی حالت ہے کہ بجائے فائدہ کے آثار و علامت نقصان کے نظر آتے ہیں۔ یعنی بجائے ہدایت کے ضلالت و بدظنی سہل لگتی ہے۔ مگر میں جب ایک طرف آیات قرآنی پڑھتا ہوں کیونکہ اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کار نسیم حضرت الٰہی کا چلنا شروع ہوا اور دوسری طرف مواعید صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں پاتا ہوں تو میرا غم دور اور بالکل دور ہو جاتا ہے اور اسی بات پر تازہ ایمان آتا ہے۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی
میرا یقین ہے کہ زمانہ حال کے انجرہ رویہ و مواد فاسدہ کا استیصال صرف خشک اور ظاہری دلائل سے ممکن نہیں۔ تاریکی ہمیشہ نور سے دور ہوتی رہی ہے اور لب بھی ایمانی انوار اس تاریکی کو دور کریں گے۔ ایسے معرکہ میں وہ لوگ کام نہیں کر سکتے کہ لیکچر یا تقریر کرنے میں نہایت فصیح ہوں اور ایمانی وفاداریوں اور صدقوں کی تحریک نہ پہنچی ہو۔
ہاں اگر فضل و احسان الٰہی سے کسی انگریزی خوان میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو پھر نورٌ علی نور ہوگا اور اگر ایسے انگریزی خوان ہمیں میسرنہ آ جائیں تو پھر بھی ہم ہرگز نااُمید نہیں اور کیوں نااُمید ہوں ہمارے پاس مواعید صادقہ حضرت اصدق الصادقین کا ایک ذخیرہ ہے اور ہماری تسلی کیلئے یہ آیات قرآن کریم کافی ہیں جن کو ہم پڑھتے ہیں۔ ام حسبتم ان تدخلوا لجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء وانصراء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین امنوا … نصر اللّٰہ الا ان نصراللّٰہ قریب۔ اب ہمیں انصاف کرناچاہئے کہ ابھی تک ہم نے کیا دُکھ اُٹھایا اور کون سے زلازل ہم پر آئے کس قدر صبر کرتے زمانہ گزرا یہ تو سوء ادبی ہے کہ ہم روز اوّل سے اپنے خداوند کریم پر افسوس کریں کہ اس نے ہماری محنت کا کوئی نتیجہ نہیں دیا۔ ہمیں مستقل رہنا چاہئے بلاشبہ نتائج خیر ظہور میں آئیں گے۔ ولاتبدیل لکلمات اللّٰہ
اس لڑکے کا حال آپ نے خوب یاد دلایا۔ میں بالکل بھول گیا تھا حافظہ کا نقص و ہجوم کا راز ہر طرف۔ انشاء اللہ اب اس خیال میں لگوں گا اور اگر اس کے لئے وقت ملا تو توجہ کروں گا۔ خواہ جلدی یا کسی قدر دیر ہے کیونکہ امر اختیاری نہیں۔ وماتنزل الا بامرربک
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ فروری۱۸۸۸ء


مکتوب نمبر۳۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا بجز میر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا۔ پہلے سے میں نے بھی ایسا ہی لکھا تھا جیسا آپ نے تحریر فرمایا ہے مگر میں مکرر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ ضرور ایک امینہ و صادقہ عورت بھیج کر سب حال براہ راست دریافت کر لیں کیونکہ ساری عمر کا معاملہ ہے اس میں اگر درپردہ کوئی خرابی نکل آوے تو پھر لاعلاج امر ہے۔ میر عباس علی شاہ صاحب اگرچہ نہایت مخلص اور صادق آدمی ہیں مگر میر صاحب کی طبیعت میں نہایت سادگی ہے میرے نزدیک از بس مناسب و ضروری ہے کہ شکل و صورت وغیرہ کے بارہ میں قابل اطمینان آپ کو حال معلوم ہو جائے۔ اس میں ہرگز تساہل نہ کریں کہ یہ معاملہ نازک ہے اگر بیوی مرغوب طبع ہو تو وہ بلاشبہ اسی جہان میں ایک بہشت ہے اور تقویٰ اللہ پر کامل معین۔ اگرخدانخواستہ مکروہ الشکل نکل آوے تو وہ اسی جگہ میں ایک دوزخ ہے۔ مناسب ہے کہ ایک عاقلہ و آمینہ عورت اپنی طرف سے روانہ کریں۔ تب ساری کیفیت کھل جاوے گی۔ اس میں ہرگز سستی نہ کریں نکاح کرنے میں جو غلطی لگ جائے اس جیسی دل کو دکھ دینے والی دنیا میں اور کوئی غلطی نہیں۔ آئندہ آپ خوب سمجھتے ہیں اور ہندو لڑکے کے لئے انشاء اللہ اس امر کے فیصلہ کے بعد توجہ کروں گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مگر اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے یہ خط یا تو اواخر جنوری ۱۸۸۸ء کا ہے۔ یا اوائل فروری ۱۸۸۸ء کا ہے کیونکہ یہ خط ۱۳؍ جنوری ۱۸۸۸ء کے خط کے جواب کے بعد کا معلوم ہوتا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۳۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس خط کی تحریر سے مطلب آپ کو ایک تکلیف دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرزا امام دین صاحب جو میرے چچا زاد بھائی ہیں ایک بیش قیمت گھوڑا ان کے پاس ہے جو خوش رفتار اور راجوں رئیسوں کی سواری کے لائق ہے۔ اب وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں چونکہ ایسے گراں قیمت گھوڑوں کو عام لوگ خرید نہیں سکتے اور رئیس خود ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں لہٰذا مُکلّف ہوں کہ آپ براہ مہربانی رئیس جموں یا اس کے کسی بھائی کے پاس تذکرہ کر کے جدوجہد کریں کہ تا مناسب قیمت سے وہ گھوڑا خرید لیں۔ اگر خریدنے کا ارادہ ان کی طرف سے پختہ ہو جائے تو گھوڑا آپ کی خدمت میں بھیجا جاوے۔ ضرور کوشش بلیغ کے بعد اطلاع بخشیں۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
۳؍ مارچ ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر۳۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا بجز کچھ مناسب کلمات ساتھ لکھ کر پیر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب جن کی ہمشیرہ سے تجویز نسبت ہے۔ نہایت سعادتمند اور اہل دل آدمی ہیں۔ ان کو آپ کی ذات سے کوئی پرخاش نہیں۔ صرف آج کل کے شور و غوغا کے لحاظ سے انہوں نے تحریر کیا تھا۔ امید کہ حکیم فضل دین کے پہنچنے پر تلاتامل بات پختہ ہو جائے گی۔ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر اور اشعۃ القرآن کی تکمیل میں چند طرح کی مشکلات درپیش تھیں۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ سب طے ہوگئی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جاوے۔ صرف ترتیب ظاہری عبارت کی کسی قدر باقی ہے۔ سو یہ کام فقط دس پندرہ روز کا ہے۔ اگر صحت اور فرصت رہی تو یکم رمضان میں یہ کام طبع کا بفضلہ تعالیٰ شروع ہو جائے گا۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔ بشیر احمد خیر و عافیت سے ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر۴۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بٹالہ میں عنایت نامہ آنمخدوم مجھ کو ملا۔ اللہ جلشانہٗ آپ کو سلامت رکھے اور بخیرو عافیت واپس لاوے۔ آپ کی طرف بہت خیال رہتا ہے۔ میاں محمد عمر کے معاملہ میں بہت تردّد دامنگیر ہے۔ خدا تعالیٰ احسن تدبیر سے اس امر مکروہ کو درمیان سے اُٹھاوے۔ بشیر احمد کی طبیعت اب کسی قدر روبصحت ہے مگر میرا ارادہ یہی ہے کہ اخیر رمضان تک اسی جگہ بٹالہ میں رہوں کہ دوا وغیرہ کے ملنے کی اس جگہ آسانی ہے اور کسی قدر ڈاکٹر کا علاج بھی شروع ہے۔ معلوم نہیں کہ حکیم فضل دین صاحب کب بارادہ لودہانہ تشریف لاویں گے بہرحال اب مناسب ہے کہ بعد رمضان شریف لاویں۔ آپ براہ مہربانی جلد جلد اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں یہ عاجز بمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اُترا ہوا ہے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از بٹالہ
۲۸؍ مئی ۱۸۸۸ء
مکتوب نمبر۴۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرم اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگرچہ آنمکرم کی طبیعت میں عجزونیاز اور انکسار کامل طور پر ہے اور یہی ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آیۃ کریمہ واسابنعمت ربک فحدث نعماء الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے۔ اللہ جلشانہٗ نے آپ کو علم دین بخشا ہے۔ عقل سلیم عطا کی ہے۔ انشراح صدر جو ایک خاص نعمت ہے عطا فرمایا ہے۔ اپنی طرف توجہ دی ہے۔ یہ تمام نعمتیں شکر کے لائق ہیں۔ عنایت نامہ پہنچا معلوم نہیں کب تک آپ جموں میں تشریف لانے والے ہیں اللہ جلشانہٗ آپ کو بخیرو عافیت اپنے سایہ رحمت میں رکھے اور سفر اور حضر میں اس کا فضل اور احسان آپ کے شامل حال رہے۔ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ جون ۱۸۸۸ء




مکتوب نمبر۴۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ والمنۃ کہ کل کے خط سے بخیر و عافیت آپ کے واپس تشریف آوری کی خوشخبری معلوم ہوئی۔ بشیر احمد عرصہ تین ماہ تک برابر بیمار رہا۔ تین چار دفعہ ایسی نازک حالت تک پہنچ گیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید دو چار دم باقی ہیں۔ مگر عجیب قدرت قادر ہے کہ ان سخت خطرناک حالتوں تک پہنچا کر پھر ان سے رہائی بخشتا رہا ہے۔ اب بھی کسی قدر علالت باقی ہے۔ مگر بفضلہ تعالیٰ آثار خطرناک نہیں ہیں۔ بے شک ایسے اوقات بڑے ابتلا کے وقت ہوتے ہیں اور ایسے وقتوں کی دعا بھی عجیب قسم کی دعاہوتی ہے۔ سوالحمدللّٰہ المنۃ کہ آپ ایسے وقتوں میں یاد آ جاتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء




مکتوب نمبر۴۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک خط روانہ خدمت کر چکا ہوں اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ بشیر احمد میرا لڑکا جس کی عمر قریب برس کے ہو چلی ہے۔ نہایت ہی لاغر اندام ہو رہا ہے۔ پہلے سخت تپ محرقہ کی قسم چڑھا تھا۔ اس سے خدا تعالیٰ نے شفا بخشی پھر بعد کسی قدر خفت تپ کے یہ حالت ہوگئی کہ لڑکا اس قدر لاغر ہو گیا ہے کہ استخوان ہی استخوان رہ گیا ہے۔ سقوط قوت اس قدر ہے کہ ہاتھ پیر بیکار کی طرح معلوم ہوتے ہیں یا تو وہ جسیم اور قوی ہیکل معلوم ہوتا تھا اور یا اب ایک تنکے کی طرح ہے۔ پیاس بشدت ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ حرارت کا اندر موجود ہے۔ آپ براہِ مہربانی غور کر کے کوئی ایسی تجویر لکھ بھیجیں جس سے اگر خدا چاہے بدن میں قوت ہو اور بدن تازہ ہو۔ اس قدر لاغری اور سقوط قوت ہو گیا ہے کہ وجود میں کچھ باقی نہیں رہا۔ آواز بھی نہایت ضعیف ہو گئی ہے۔ یہ بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دانت بھی اس کے نکل رہے ہیں۔ چار دانت نکل چکے تھے کہ یہ بیماری شیر کی طرح حملہ آور ہوئی۔ اب بباعث غائت درجہ ضعف قوت اور لاغری اور خشکی بدن کے دانت نکلنے موقوف ہوگئے ہیں اور یہ حالت ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ براہِ مہربانی بہت جلد جواب سے مسرور فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ۱۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر۴۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد بکلی تندرست ہے۔ میں نے صرف اس حالت میں تشریف آوری کیلئے تکلیف دینا چاہا تھا کہ جب وہ سخت بیمار تھا لیکن اب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے کامل تندرستی بخش دی ہے سو اب کچھ تردّد نہ کریں۔ انشاء اللہ القدیر کسی اور وقت ملاقات ہو جائے گی اور حکیم فضل دین صاحب کو تاکیداً تحریر فرما دیں کہ اب وہ بلاتوقف لودہانہ جانے کے لئے تشریف لے آویں کہ اب زیادہ تاخیر کرنا اچھا نہیں۔ فضل احمد نے جو آنمخدوم کو اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے روپیہ دیا تھا اب اس جگہ اس کے رشتہ داروں کی ایسی حالت ہے کہ ناگفتہ بہ۔ ان لوگوں کا مفصل حال انشاء اللہ کسی اور موقعہ پر گزارش خدمت کروں گا۔ وہ نہ صرف مجھ سے ہی عداوت رکھتے ہیں بلکہ علانیہ اللہ اور رسول سے برگشتہ ہیں۔ اس لئے روپیہ پہنچانے کے لئے آپ کا یا میرا واسطہ بننا ہرگز مناسب نہیں۔ بلکہ کسی وقت فضل احمد ملے تو اس کا روپیہ اس کے حوالے کریں کہ وہ اپنے طور پر جس طرح چاہے پہنچاوے۔ غرض آپ اس روپیہ کو اپنی معرفت ہرگز نہ پہنچاویں۔ کسی وقت جب ملے تو وہ روپیہ اس کے حوالہ کر دیں اور عذر ظاہر کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
ازقادیان ضلع گورداسپور
۱۸؍ اگست ۱۸۸۸ء

مکتوب نمبر۴۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرم اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمکرم کا ایک خط جو بابو محمد بخش صاحب کے نام آپ نے بھیجا تھا انہوں نے بجنسہٖ وہ خط میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اس لئے آپ کی خدمت میں ظاہر کرتا ہوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کی نصرت کے لئے محبت اور ہمدردی کا آپ کو جوش بخشا ہے وہ تو ایک ایسا امر ہے جس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ الحمدللّٰہ الذی اعطانی مخلصا کمثلکم صحبا کمثلکم ناصرا فی سبیل اللّٰہ کمثلکم وھدہٖ کلہ فضل اللّٰہ
لیکن بابو محمد بخش کی نسبت جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ خبر کسی نے غلط دی ہے۔ بابو محمد بخش بھی مخلص آدمی ہے اور اس عاجز سے ارادت اور محبت رکھتا ہے اور وہ بہت عمدہ آدمی ہے۔ اس کے مال سے ہمیشہ آج تک مجھ کو مدد پہنچتی رہی ہے۔ مجھ کو آپ یہ بھی لکھیں کہ لودہیانہ کے معاملہ میں کس مصلحت سے توقف کی گئی ہے۔ میرے نزدیک بہتر تھاکہ یہ معاملہ جلد پختہ کیا جاتا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسارغلام احمد
ازقادیان
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۸ء



مکتوب نمبر۴۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد تئیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے ربّ عزو جل انتقال کر گیا۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہونگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوںگے۔ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ وانا رضوان برضائہ وصابرون علی بلائہٖ یرضی عنا ھو مولیدین فی الدنیا والاخرۃ وھم ارحم الراحمین
والسلام
خاکسار
۴ ؍نومبر ۱۸۸۸ء
نوٹ: یہ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رضا بالقضاء کا کامل اظہار ہے۔ آپ کو اس ابتلاء شدید میں اگر غم ہے تو صرف یہ کہ مخالفین اپنی مخالفت میں خدا سے دور جا پڑیں گے اور بعض موافقین کو شبہات پیدا ہونگے مگر آپ ہرحال میں خدا کی رضا کے طالب ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس فعل کو بھی کمال رحم کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے ہر بلاء پر صبر کرنے کے لئے بانشراح صدر تیار ہیں۔ اس کے بعد حضرت نے ایک مبسوط خط مولوی صاحب کو وفات بشیر پر لکھا تھا جس کا وہی مضمون تھا جو حقانی تقریر میں شائع ہوا اس لئے اس خط کو چھوڑ دیا ہے۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر۴۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا جو کچھ پرچہ تکمیل تبلیغ میں تاریخ لکھی گئی ہے وہ فقط انتظامی امر ہے تا ایسی تقریب میں اگر ممکن ہو تو بعض اخوان مومنین کا بعض سے تعارف ہو جائے۔ کوئی ضروری امر نہیں ہے آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہو تو اس رسم کے پورے کرنے کیلئے تشریف لے آویں بلکہ تقریب شادی پر جو آپ تشریف لاویں وہ نہایت عمدہ موقع ہے اور شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے۔ لایکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا۔ دوسرے خط کے جواب سے جلد مطلع فرماویں تا لدھیانہ میں اطلاع دی جاوے۔ بظاہر معلومہوتا ہے کہ شاید آپ بماہ مارچ کشمیرکی طرف روانہ ہوں۔ پس اگر یہی ضرورت ہو تو بماہ فروری کاروبار شادی بخیرو عافیت انجام پذیر ہونا چاہئے۔ منشی عبدالحق صاحب و بابو الٰہی بخش صاحب لاہور سے تشریف لائے تھے۔ منشی عبدالحق صاحب نے تقریر کی تھی کہ ردّ تکذیب کو عام پسند بنانے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ دیباچہ کتاب میں کھول کر لکھا جاوے کہ ہمارا ایمان تو خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایسا قوی اور وسیع ہے کہ جس طرح اہل سنت و الجماعت تسلیم کرتے ہیں۔ مگر بعض نادر طور کے جواب صرف مخالفین کی تنگ دلی اور قلت معرفت کے لحاظ سے ان کے مذاق کے موافق لکھے گئے ہیں تا انہیں معلوم ہو کہ قرآن شریف پر اعتراض کرنے سے کسی معقولی اور منقولی کو مجال نہیں۔ اس عاجز کی دانست میں ایسا لکھنا نہایت ضروری ہے تا کہ عوام الناس اس فتنہ سے بچ جاویں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
از قادیان
۲۰؍ فروری ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۴۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر بہت خوشی ہوئی۔ خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کی نئی بیوی میں اتحاد اور محبت زیادہ سے زیادہ کرے اور اولاد صالح بخشے۔ آمین ثم آمین
اگر پرانے گھر والوں نے کچھ نامناسب الفاظ منہ سے نکالے ہیں تو آپ صبر کریں۔ پہلی بیویاں ایسے معاملات میں بباعث ضعف فطرت بدظنی کو انتہا تک پہنچا کر اپنی زندگی اور راحت کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
واحدہ لاشریک ہونا خدا کی تعریف ہے۔ مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتی ہیں۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ سختی کیا کرتا تھا اور ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے تیرے سارے دکھ سہے مگر یہ دکھ نہیں دیکھتا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں پاؤں سو یہ آیت مجھے ملی۔ ویغفر مادون ذالک الایۃ
یہ مسئلہ بظاہر بڑانازک ہے دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے۔ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے۔ اس میںپوری تحقیق یہی ہے کہ مرد کی غیرت ایک حقیقی و کامل غیرت ہے۔ جس کا انعکاک واقعی لاعلاج ہے۔ مگر عورت کی غیرت کامل نہیں بالکل مشتبہ اور زوال پذیر ہے۔ اس میں وہ نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ رضی اللہ کو فرمایا تھا نہایت معرفت بخش نکتہ ہے کیونکہ جب حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر نکاح پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیرت مند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لئے دعا کروں گا کہ تا خدا تعالیٰ تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے۔ سو آپ بھی دعا میں مشغول رہیں۔ نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے۔ مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اوّل درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جلشانہٗ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعش پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ جلشانہٗ کے اختیار میں ہیں۔ اب اس کے نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا۔ اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کے لئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے۔ میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار و واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ، عفیفہ و جامع فضائل محمودہ ہے۔ اس کی تربیت تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں اور آپ پڑھایا کریں کہ اس کی استعدادیں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جلشانہٗ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ یہ جوڑ بہم پہنچایا۔ ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے۔ خط سے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ ۲۰؍ مارچ ۱۸۸۹ء تک رخصت ملے گی یا نہیں۔ اگر بجائے بیس کے بائیس کو آپ تشریف لاویں یعنی یوم یکشنبہ میں اس جگہ ٹھہریں تو بابو محمد صاحب بھی آپ سے ملاقات کریں گے۔ یہ عاجز ارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵؍ مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹؍ مارچ یا ۲۰؍ مارچ کو بہرحال انشاء اللہ واپس آ جاؤں گا۔ والسلام۔ صاحبزادہ افتخار احمد اور ان کے سب متعلقین بخیر و عافیت ہیں۔ کل سات روپیہ اور کچھ پارچہ میرے لئے دیئے تھے جو ان کے اصرار سے لئے گئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں۔ مگرمضمون خط سے مارچ ۱۸۸۹ء کے پہلے ہفتہ کا معلوم ہوتا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۴۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی و خرمی ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو بہت جلد لاوے اور خیر و عافیت سے پہنچادے۔ آمین ثم آمین۔ اس عاجز کے گھر کے لوگوں کی طرف سے یہ درخواست بصد آرزو ہے کہ جس وقت آپ کے گھر کے لوگ لودہیانہ سے آپ کے ساتھ آویں تو دو تین روز تک اس جگہ قادیان میں ان کے پاس ٹھہر کر جاویں۔ اس عاجز کی دانست میںکچھ مضائقہ نہیں بلکہ انشاء اللہ موجب خیرو بہتری ہے۔ صاحبزادہ افتخار احمد صاحب اور ان کے تمام اعزہ و متعلقین کے دل پر تقلید حنفی کا بڑا رعب طاری ہے اور مدت دراز کی عادت جو طبیعت ثانی کا حکم پیدا کر لیتی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تدریجاً دور ہو سکتی ہے۔ یکدفعہ تبدیلی گویا انقلاب ماہیت میں داخل ہے اس موقعہ میں تمام تر حکمت عملی حلم و رفق و درگذر و زیادت محبت و مودت و غائیانہ دعا میں ہے۔ فقل لہ قولا لینا لعلہ یتذکر اویخشی۔ میرے نزدیک یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ اوّل آپ جموں میں پہنچنے کے بعد براہِ راست لدہیانہ میں تشریف لے جائیں۔ پھر اپنے گھر کے لوگوں کو ساتھ لے کر دو تین روز کے لئے قادیان میں ٹھہر جائیں۔ میرے گھر کے لوگوں کے خیالات موحدین کے ہیں۔ اوّل تو خیالات میں خشک موحدین کی طرح حد سے زیادہ غلو تھا مگر اب میں نے کوشش کی ہے کہ اس ناجائز غلو کو کچھ گھٹا دیا جائے۔ چنانچہ میرے خیال میں وہ کسی قدر گھٹ بھی گیا ہے میرے گھر کے لوگوں نے ذکر کیا تھا کہ انہوں نے یعنی آپ کے گھر کے لوگوں نے لودہیانہ میں کسی تقریب سے یہ ذکر کیا تھا کہ اب تک مولوی صاحب کا حنفیوں کا طریق معلوم ہوتا ہے۔ مگر میں ڈرتی ہوں کہ کہیں وباہی نہ ہوں اور اب تک تو میں نے وہابیوں کی بات ان میں کوئی دیکھی نہیں۔ انہوں نے اس کے جواب میں مناسب نہ سمجھا کہ اپنی کچھ رائے ظاہر کریں…………… چونکہ عورتوں کی باتیں عورتوں کے دلوں پر بُرا اثر ڈالتی ہیں اس لئے آپ کے گھر کے لوگوں کی بشیر کی والدہ سے ملاقات منتج حسنات ہوسکتی ہے۔ واللّٰہ اعلم و علمہ احکم
والسلام
خاکسار غلام احمد
از قادیان
۶؍ جون ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب تسلی ہوا۔ چند روز سے آنمکرم کی بہت انتظار تھی اور تشویش تھی کہ کیا باعث ہوا اب معلوم نہیں کہ آپ کو کب فراغت ہوگی۔ آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے۔ خداتعالیٰ بخیروعافیت آپ کو جلد ملاوے۔ انجمن حمایت اسلام کی طرف سے تین سوال جو کسی عیسائی نے کئے تھے۔ اس عاجز کے پاس بھی آئے۔ اس غرض سے تا ان کا جواب لکھا جاوے۔ شاید جو آپ کی خدمت میں بھیجے تھے وہی سوال ہیں یا اور ہیں۔ ہر چند مجھے فرصت نہ تھی اور طبیعت بھی اچھی نہ تھی۔ مگر پھر بھی کسی قدر فرصت نکال کر دو سوال کا جواب میں نے لکھ دیا تھا اور زیادہ تر رجوع طبیعت کا اس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کہ یہ انجمن اپنی مرضی پر چلتی ہے جو اپنے پسند ہو۔ وہ کام کر لیتے ہیں۔ نہیں تو نہیں۔ پہلے اشتہار بیعت شائع کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا انہوں نے چھاپا نہیں۔ اب میرا ارادہ نہیں تھا کہ ان سوالات کا جواب لکھ کر انجمن کو بھیجوں۔ یہ نامہ نگاروں کا کام ہے کہ اپنا وقت ضائع کر کے پھر چھپنا نہ چھپنا مضمون کا دوسرے کی مرضی پر چھوڑ دیں۔ جب مضمون ردّی کی طرح پھینکا گیا تو اپنا وقت گو ایک گھنٹہ ہی ہو ضائع ہو گیا۔ لیکن میں نے محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش سے دوسوالوں کا جواب لکھ دیا۔ تیسرے کے لئے ابھی فرصت نہیں مگر مجھے امید نہیں کہ وہ چھاپیں کیونکہ خود پسندی اس انجمن کی عادت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انہیں سوالات شک وغیرہ کا جواب لکھا ہے یا وہ اور سوال تھے۔ والسلام ۔خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ جون ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بلاشبہ کلام الٰہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے عشق پیدا ہونا اور اہل اللہ کے ساتھ حب صافی کا تعلق حاصل ہونا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندوں کو ملتی ہے اور دراصل بڑی بڑی ترقیات کی یہی بنیاد ہے اور یہی ایک تخم ہے۔ جس سے ایک بڑا درخت یقین اور معرفت اور قوت ایمانی کا پیدا ہوتا ہے اور محبت ذاتیہ اللہ جلشانہٗ کا پھل اس کو لگتا ہے۔ فالحمدللّٰہ۔ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت جو راس الخیرات ہے عطا فرمائی ہے اور پھر بعد اس کے جو کسل اور قصور بجا آواری اعمال حسنہ میں ہے وہ بھی انشاء اللہ القدیر ان حسنات عظیمہ کے جذبہ سے دور ہر جائے گا۔ ان الحسنات یذہبن السیئات
آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔
جیسے آپ کے اخلاص نے بطور خارق عادت اس زمانہ کے ترقی کی ہے۔ ویسا ہی جوش حب للہ کا آپ کے لئے اور آپ کے بڑھتا گیا اور چونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس درجہ اخلاص میں آپ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک نہ ہو۔ اس لئے اکثر لوگوں کے دلوں پر جو دعویٰ تعلق رکھتے ہیں خداتعالیٰ نے فیض وارد کئے اور آپ کے دل کو کھول دیا۔ ھذا فضل اللّٰہ نعمتہ یعطی من یشاء یھدی من یشاء ویضل من یشاء۔ حامد علی سخت بیمار ہوگیا تھا خداتھا خدا تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندگی بخشی ہے۔ جس وقت آپ تشریف لاویں اگر حکیم فضل دین و مولوی عبدالکریم صاحب بھی ساتھ تشریف لے آویں تو بہت خوب ہوگا۔ آنمخدوم اپنی طرف سے ان دونوں صاحبوں کو اطلاع دیں کیونکہ گاہ گاہ ملاقات ہونا ضروری ہے۔ زندگی بے اعتبار ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔والسلام
خاکسار غلام احمد عفی عنہ
۹؍ جولائی ۱۸۸۹ء
مکتوب نمبر۵۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی احب الاخوان ابی مولوی حکیم نورالدین صاحب کان اللہ معکم۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔آنمکرم کی طرف سے دیر کر کے پرسوں تار پہنچی۔ خط کوئی نہیں پہنچا۔ یہ عاجز ایک روز سخت بیمار ہو گیا۔ مگر اللہ جلشانہٗ کے فضل و رحم سے اب مجھے صحت ہے۔ مجھے اپنی ذاتی ضرورت کیلئے ایک سَو روپیہ کی حاجت ہے۔ اگر حرج نہ ہو اور بآسانی میسر آ سکے تو ارسال فرما دیں۔ مولوی خدا بخش صاحب کے خط آتے ہیں کہ قرضہ کے طور پر ہی کچھ مل جاوے۔ معلوم نہیں آپ کی ملاقات کب تک ہو سکتی ہے ۔ اکثر لوگوں کو پراگندہ اور سرد مہر دیکھتا ہوں۔ ایک آپ ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے ذوق محبت بخشا ہے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک
میں نے پہلے آپ سے نو سَو روپیہ لیا تھا۔ اب اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ ہو جائے گا چار سَو روپیہ آپ سے پھر دوسرے وقت میں انشاء اللہ القدیر لوں گا۔ دوستوں اور مخلصوں کو تکلیف دینا میرا کام نہیں۔ بالخصوص آپ جیسے دوست مخلص یک رنگ کو۔ سو جیسا کہ مسنون ہے۔ یہ ہزار روپیہ اور جو باقی لوں بطور قرضہ کے ہے اور یقین رکھتا ہوں کہ بہت آسانی سے ادا ہو جائے گا۔ وماعنداللّٰہ باق کے رو سے آنمکرم کو ثواب حاصل ہوگا۔ دماغ اس عاجز کا بباعث سخت بیماری بہت کمزور ہو گیا ہے۔ شاید بیس روز تک قوت ہو۔ اس لئے ابھی کسی محنت کے لائق نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ نومبر ۱۸۸۹ء


مکتوب نمبر۵۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل عنایت نامہ پہنچا۔ مبلغ سَو روپیہ پہلے اس سے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ اس عاجز کا دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ایک خط کا لکھنا مشکل ہے۔ اللہ جلشانہٗ غیب سے قوت عطا فرماوے۔ مولوی محمد حسین بہت دور جا پڑے ہیں۔ جو شخص اس دنیا سے دل نہ لگاوے اور اپنی حالت پر نظر کرے اور اپنے قصوروں کا تدارک چاہے خداتعالیٰ اس کو بصیرت بخش دیتا ہے۔ ورنہ بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون کا مصداق ہو جاتا ہے۔ مولوی محمد حسین ایک مقام اور ایک رائے پر ٹھہر گئے ہیں اور وہ مقام اور رائے انہیں پسند آ گیا ہے۔ لیکن میں سچ کہتا ہوں اگر اس پر ان کی موت ہو تو انہیں اس طبقہ میں جاناپڑے گا جس میں محجوبین جایا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ صدق اور صادقین کی طلب ان میں پیدا کرے اور زنگ موجودہ سے انہیں نجات دے۔ ورنہ ان کی حالت خطرناک ہے۔ منقولی طور پر معلومات کی وسعت یا معقولی طور پر کچھ قیل و قال کا مادہ ایک ملحد میں بھی پیدا ہو سکتا ہے جائے فخر نہیں۔ اور نہ اس سے وہ قدوس خوش ہو سکتا ہے جس کی دلوں پر نظر ہے۔ سچائی اور راستبازی اور انقطاع الی اللہ میں انسان کی نجات ہے۔ ورنہ علم بھی ہو تو کیا فائدہ؟ چارپائے برد کتابے چند۔ محمد حسین کی حالت نہایت نازک ہے اور انہیں اس کی خبر نہیں۔ والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار غلام احمد
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء


مکتوب نمبر۵۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگر اخویم مکرم عبدالواحد صاحب معہ سب عزیزوں کے تشریف لاویں اگر دو تین روز پہلے اطلاع دی جاوے تو کوئی آدمی واقف بٹالہ کے سٹیشن پر بھیج دیا جائے۔ میرے گھر کے لوگ تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ ضرور صغریٰ کو ساتھ بھیج دیں۔ اس صورت میں ان کے لئے تبدیلی آب و ہوا بھی ہو جائے گی۔ انہوں نے بہت مرتبہ کہا ہے اور تاکید سے کہا ہے۔ اس لئے تکلیف دیتا ہوں۔ اگر مناسب سمجھیں تو منظور محمد کو ساتھ بھیج دیں۔ اس تقریب سے وہ بھی ساتھ آ جائے گی اور جو دوا آپ نے ان کے لئے ارسال فرمائی ہے اس کے کھانے کی ترکیب کوئی نہیں لکھی۔ مفصل اطلاع بخشیں۔ اور یہ دوا کشتہ کی قسم ہے یا کوئی اور دوا ہے۔ اور ان ایام میں اس کو کھا سکتے ہیں یا نہیں۔ قبض از حد ہے کوئی قابض یا مار دوا موافق نہیں ہوتی۔ نرم اور معقول وجہ کی دوا جو قابض نہ ہو موافق آتی ہے۔ اخویم مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا بہت خیال ہے اب کی دفعہ آپ نے ان کی نسبت کچھ نہیں لکھا۔ خدا تعالیٰ ان کو شفا بخشے۔ اگر جموں میں ہوں تو میری طرف سے السلام علیکم دعا کی جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ قبول فرماوے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ: اس خط پر تاریخ موجود نہیں۔ مگر مولوی غلام علی صاحب کی علالت کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط ۱۸۸۹ء کا ہے۔ (عرفانی)


مکتوب نمبر۵۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومیمکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میر عباس علی نہایت اخلاص مند آدمی ہیں۔ آپ براہِ مہربانی توجہ کر کے کشتہ مرجان، موتی یا جو کچھ مناسب ہو ان کی مرض نفث الدم کے لئے ضرور ارسال فرما دیں اور میں آج لکھتا ہوں کہ تا وہ تبدیل ہوا کی غرض سے ہفتہ عشرہ تک میرے پاس آ جائیں۔ میری طبیعت آپ کے بعد پھر بیمار ہوگئی۔ ابھی ریزش کا نہایت زور ہے۔ دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ آپ کے دوست ٹھاکر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کیلئے مجھے نہیںملا۔ صحت کا منتظر ہوں۔ اگر وہ اخلاص مند ہے تو اس کے اخلاص کی برکت سے وقت صفا مل جائے گا اور صحت بھی۔ میرے دماغ کے لئے اگر کچھ آپ کے خیال میں احسن تدبیر آوے تو ارقام فرماویں۔ سب کام پڑے ہوئے ہیں۔ واللّٰہ خیر حافظ اوھو ارحم الراحمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم جنوری ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۵۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت مولوی نورالدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ طبیعت اس عاجز کی بفضلہ تعالیٰ اب کسی قدر صحت پر ہے۔ گھر میں بھی طبیعت اصلاح پر آ گئی ہے۔ محمود کو بخار آتا ہے میرا ارادہ تھا کہ اسی حالت میں آپ کے دوست کے لئے چند روزبجدوجہد جیسا کہ شلط ہے توجہ کروں مگر افسوس کہ بباعث آمد قاضی غلام مرتضی کے میں مجبور ہو گیا۔ وہ برابر دس روز تک اس جگہ رہیں گے چونکہ بہت حرج اُٹھا کر آئے ہیں اور دور سے خرچ کثیر کر کے آئے ہیں اس لئے بالکل نامناسب ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ ہو۔ پھر ان کے ساتھ ہی سیّد امیر علی شاہ صاحب لاہور سے آنے والے ہیں وہ برابر پندرہ روز تک رہیں گے ان کے جانے کے بعد انشاء اللہ القدیر توجہ کامل کروں گا۔ صرف ایک اندیشہ ہے کہ لدہیانہ میں ایک شخص نے محض نادانی سے ایک خون کے مقدمہ میں میری شہادت لکھا دی ہے کہ جو کمیشن کے سامنے ادا کی جائے گی۔ شاید دو چار روز اس جگہ بھی لگ جاویں۔ آپ کے دوست نے اگر بے صبری نہ کی جیسی کہ آج کل لوگوں کی عادت ہے تو محض للہ ان کے لئے توجہ کروں گا۔ مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا میں منعم ہو کر بہت نازک مزاج ہو جاتا ہے۔ پھر ادنیٰ ادنیٰ انتظار میں نازک مزاجی دکھاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر احسان رکھنے لگتا ہے اور حسن ظن سے انتظار کرنے والے نیک حالت میں ہیں۔ وقلیل منھم
اس خط سے میری اصل غرض یہ ہے کہ میر عباس علی صاحب بیس دن سے آنمکرم کی دوا کی انتظار کر رہے ہیں۔ کل سے بخار آتا ہے۔ نہایت شکستہ خاطر ہیں۔ کل رقعہ لکھ کر مجھے دیا تھا کہ دوا تو آتی نہیں مجھے اجازت دیجئے تا میں لودہانہ چلا جاؤں۔ مگر میں نے دو چار دن کیلئے ٹھہرا لیا ہے۔ آپ براہِ مہربانی ضرور بمجرد پہنچنے اس خط کے کوئی عمدہ دوا نفث الدم کی ارسال فرماویں اور اس شخص پر میرے عذارات معقولی طور پر منکشف کر دیں۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۰ء



مکتوب نمبر۵۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کے گھر کے آدمیوںکو شفاء کلی عنایت فرمادے۔ بہت تردّد و تفکر پیدا ہوا۔ واللّٰہ علی کل شی قدیر۔ مولوی غلام علی صاحب کی نسبت بھی دل غم اور تردّد سے بھرا ہوا ہے۔ سب کے لئے دعا کرتا ہوں میں نے سنا ہے کہ انگلستان میں ایک انگریز ڈاکٹر نے سلولوں کے لئے اشتہار دیا ہے اور کوئی نسخہ جو اس مرض کیلئے مفید ہو تجربہ میں آ گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب نے پختہ ارادہ مخالفانہ تحریر کا کر لیا ہے اور اس عاجز کے ضال ہونے کی نسبت زبانی طور پر اشاعت کر رہے ہیں۔ مرزا خدا بخش صاحب جو محمد علی خان صاحب کے ساتھ آئے ہیں ذکر کرتے ہیں کہ میں نے بھی ان کی زبانی ضال کا لفظ سنا ہے۔ کل بمشورہ مرزا خدا بخش و محمد علی خان صاحب ان کی طرف خط لکھا گیا ہے کہ پہلے ملاقات کر کے اپنے شکوک پیش کرو۔ معلوم نہیں کیا جواب لکھیں۔ میں نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آپ نہ آ سکیں تو میں خود آ سکتا ہوں۔ مگر ان کے اس فقرہ سے سب کو تعجب ہے کہ میں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اُترنا ثابت کر دوں۔ غرض ان کی طبیعت عجیب جوش میں ہے اور ایک قسم کا ابتلاء ہے جو انہیں پیش آ گیا ہے۔
غزنوی صاحبوں کا جوش اس قدر ہے کہ ناگفتہ بہ ایک صاحب محی الدین نام لکہوکے میں ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے الہامات لکھے ہیں اور اذاتمنی نفی الشیطان فی امیتہٖ کا نمونہ دکھایا ہے۔ درحقیقت ان الہامیوں نے اپنی پردہ دری کی ہے اور ان کی یعنی محی الدین اور عبدالحق کے الہامات کا یہی خلاصہ ہے کہ یہ شخص ضال ہے، جہنمی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ان لوگوں نے کچھ دبی زبان میں کافر کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ایک شخص محمد علی نام شاید گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے۔ مولوی تو نہیں مگر خوش الحان واعظ ہے۔ اس نے سنا ہے کہ بٹالہ میں بڑی بدزبانی شروع کی ہے۔ مولوی محمد حسین بدزبانی نہیں کرتے مگر ضال کہے جاتے ہیں اور تعجب یہ کہ بعض لوگ کافر کہتے ہیں۔ وہ اپنے خط میں السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ بھی لکھ دیتے ہیں حالانکہ کفار کو ایسے لفظ لکھنے نہیں چاہئے۔ سنا گیا ہے کہ مولوی محمود علی شاہ صاحب جو محمد علی کی طرح واعظ ہیں۔ لودہانہ میں پانچ سال کی قید ہوگئے ہیں۔ یہ عاجز ہفتہ عشرہ تک لودہانہ میں جانے والا ہے۔
والسلام
خاکسار غلام احمد
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
نوٹ: اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دعویٰ کے ابتدا میں مخالفت کی آگ کس طرح پھیلنی شروع ہوئی ہے اور حضرت کو اتمام حجت کا کس قدر جوش اور خیال تھا کہ خود مولوی محمد حسین صاحب کے گھر جانے کو تیار تھے اور اس کے شکوک اور اعتراضات کے رفع کرنے کیلئے آمادہ۔ غزنویوں لکہوکے والوں کی مخالفت نے آپ کو کسی تعجب میں نہیں ڈالا بلکہ آپ نے اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی امر عظیم کا پیش خیمہ سمجھا ہے اور یہی یقین آپ کو تھا۔ چنانچہ اس کے بعد تائیدات سماوی اور بانی نصرت کے جو نظارے نظر آتے ہیں وہ ایک مومن کے ایمان کو بڑھانے والے ہیں اور حضرت حجۃ اللہ کی صداقت پر آسمانی اور ربانی شہادت ہیں۔ ان الہامیوں کی ناکامی اور ان کے شیطانی وساوس کو خدا تعالیٰ نے پاش پاش کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جواشاعت اسلام اور عزت حضرت خیرالانام کے لئے اپنے دل میں جانثاری کا جوش رکھتی ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشا واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۵۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس بیمار کے آئے آنمکرم کو تکلیف دینی چاہی تھی وہ بقضائے الٰہی کل ۱۲؍ ربیع الاوّل روز دوشنبہ کو گزر گئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ میری عباس علی صاحب جو ایک پُرانے مخلص ہیں۔ نہایت التجا اور تاکید سے لکھتے ہیں کہ میرا لڑکا مڈل تک پڑھا ہوا ہے۔ انگریزی میں گزارہ کے موافق تحریر کر سکتا ہے۔ حساب وغیرہ جانتا ہے۔ منشی محمد سراج الدین صاحب جو افسر ڈاکخانہ جات ریاست جموں ہیں آپ کی سفارش سے توجہ فرما کر اس کو اپنے سلسلہ میں کہیں نوکر رکھ لیں۔ اس لئے آپ کی خدمت میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ خاص اپنی طرف سے اور نیز اس عاجز کی طرف سے سفارش تحریر فرما دیں۔ اور جس وقت وہ بلاویں اس لڑکے کو روانہ کر دیا جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۵۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی خدا بخش حامل ہذا جو مجھ سے تعلق بیعت رکھتے ہیں۔ بہت نیک سرشت اور صاف باطن اور محب صادق ہیں۔ مجھے ان کی تکالیف معلوم ہوگئی ہیں وہ شاید تیس آدمیوں سے زیادہ کے قرضدار ہیں اور نہایت تلخی میں ان کا زمانہ گزرتا ہے۔ وطن میں جانا ان کا ترک ہو گیا ہے اور میں نے دریافت کیا ہے کہ یہ سب تکالیف محض دینی ہمدردی کی وجہ سے جس میں آج تک وہ مشغول ہیں ان کو پہنچ رہی ہیں اور کوئی ان کے حال کا پرساں نہیں۔ لہٰذا آنمخدوم کو محض اس وجہ سے کہ آپ ہمدرد خلائق ہیں اور للہی امور میں پورا جوش رکھتے ہیں تکلیف دیتا ہوں کہ اس بے چارہ بے سروسامان کے لئے کچھ بندوست فرمائیے۔ اگر چندہ ہو تو میں بھی اس میں شامل ہونے کو تیار ہوں بلکہ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ کی تحریک اور انتظام سے اور آپ کی پوری اور کامل توجہ سے چندہ کے لئے احسن تدبیر کی جاوے اور میں اسی خط میں اپنے تمام مخلصوں کی خدمت میں محض للہ اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب حتی الوسع اپنے اس چندہ میں شریک ہو۔ سب کے لئے ایک ایک لقمہ دینے سے ایک کی غذا نکل آئے گی اور کسی کو تکلیف نہ ہوگی۔ میں نے سنا ہے کہ فری میسن کا گروہ اپنے ہم تعلقوں کے ساتھ قرضہ وغیرہ کے امور میں بہت ہمدردی کرتا ہے۔پس کیا مسلمانوں کا یہ پاک گروہ فری میسن کے پر بدعت اور ملحد گروہ سے ہمدردی میں کم ہونا چاہئے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۰ء
نوٹ: مولوی خدا بخش صاحب جالندھری نہایت مخلص آدمی تھے۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادت ہے۔ انہوں نے ۱۸۸۹ء میں ہی بیعت کی تھی اور کبھی کوئی ابتلا ان پر نہیں آیا۔ وہ اشاعت اسلام کے لئے بڑا جوش رکھتے تھے۔ ہمارے مکرم اور مخلص بھائی سردار مہر سنگھ حال ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے ان کی ابتدائی تربیت سے اسلام مولوی صاحب ہی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی غیر مسلم کو داخل اسلام کریں اور اس کے لئے وہ کسی قسم کی محنت تکلیف اور خرچ سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے۔ اسی قسم کی دینی خدمات کی وجہ سے وہ زیر بار ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ہمدردی کا اظہار اور عملی اعانت کا ثبوت اس خط میں دیا ہے وہ ظاہر ہے۔ مولوی صاحب کا قد میانہ تھا اور رنگ سیاہ تھا۔ بہت سادہ زندگی تھی۔ عمر ۶۰ سال کے قریب تھی۔ (عرفانی)



مکتوب نمبر۶۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روپے پہنچ گئے ہیں چونکہ کتاب فتح اسلام کی قدر بڑھائی ہے اور مبطع امرتسر میں چھپ رہی ہے اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے روانہ نہیں ہو سکتی امید ہے کہ بیس روز تک چھپ کر آ جائے گی۔
دوسری ضروری طور پر یہ تکلیف دیتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کا لڑکا جو میرے عزیزوں میں سے ہے۔ جن کی نسبت وہ الہامی پیشگوئی کا قصہ آپ کو معلوم ہے۔ کچھ عرصہ سے بمرض بحت الصوت مریض ہے۔ حنجرہ پر کچھ ایسا مادہ پڑا ہے کہ آواز پورے طور پر نہیں نکلتی یعنی آوازبیٹھ گئی ہے میں نے موافق قاعدہ علاج کیا تھا اب تک کچھ فائدہ نہیں ہوا۔اس کی والدہ کو آپ پر بہت اعتماد ہے اور آپ کے دست شفا پر اسے یقین ہے۔ اس نے بصد منت و الحاح کہلا بھیجا تھا کہ مولوی صاحب کی طرف لکھو کہ وہ کوئی عمدہ دوائی تیار کر کے بھیج دیں بلکہ یہ چاہا تھا کہ اس لڑکے کو جس کا نام محمد بیگ ہے آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔ مگر میں نے مناسب سمجھا کہ بالفعل بذریعہ خط آپ کو تکلیف دی جائے۔ حلق میں سے پانی بہت آتا ہے۔ صبح کے وقت ریزش پختہ نکلتی ہے۔ کھانسی بھی ہے معلوم ہوتا ہے دماغ سے نوازل گرتے ہیں۔ آپ ضرور کوئی عمدہ نسخہ ارسال فرماویں۔ اس بیچارے کے اچھے ہو جانے سے ان کو آپ کا بہت احسان مند ہونا پڑے گا اور پہلے بھی آپ کے بہت معتقد ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے علاج سے لڑکا اچھا ہو جائے گا۔ آپ خاص طور پر مہربانی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۰ء
مکتوب نمبر۶۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر بباعث شدت علالت طبع اخویم مولوی غلام علی صاحب بہت تردّد ہوا اور خط کے پڑھنے کے بعد جناب الٰہی میں بہت دعاکی گئی اور پھر رات کو بھی دعا کی گئی اور اسی طرح میں انشاء اللہ القدیر بہت جدوجہد سے دعا کروں گا۔ آپ بھی ان کے حق میں دعا کریں اور ان کو مطمئن کریں کہ گو کیسے عوارض شدیدہ ہوں۔ خدا تعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہئے ہاں اس وقت اضطراب میں توبہ و استغفار کی بہت ضرورت ہے۔
یہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو توبہ نصوح کے طور پر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہرگز اس کے ارادہ میں نہ تھا تو یہ عمل اس کے لئے ایک کفّارہ عظم ہو جاتا ہے اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے۔ سو مولوی صاحب کو آپ بخوبی سمجھا دیں کہ دلی استغفار سے خدا تعالیٰ سے زیادہ ربط پیدا کر لیں اور مجھے جس قدر اس کے لئے تردّد اور غم ہے خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ ان پر فضل وارد کرے اور جلد تر صحت کامل بخش کر اس خوشخبری کو اس عاجز تک پہنچاوے۔ وھو علی کل شی قدیر
یہ عاجز بباعث دورہ مرض و علالت طبع کل لاہور نہیں جا سکا بالفعل میاں جان محمد کو بھیج دیا ہے کہ سلطان احمد کو اسی جگہ لے آوے۔ اس عاجز کی طبیعت سفر کے لائق نہیں۔ مرض دوران سر اور دل کے ڈوبنے کی یکدفعہ طاری حال ہو جاتی ہے۔ پھر موت نصب العین معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت تو وہ ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنون
معلوم نہیں کہ آنمکرم نے ابھی تک وہ خطوط جن کا وعدہ آپ نے فرمایا تھا روانہ کئے ہیں یا نہیں۔ رسالہ ازالہ اوہام میں یہ بحث اس قدر مبسوط ہے کہ شاید دوسرے کسی رسالہ میں نہ ہو۔ اگر آپ کی طرف سے کوئی خاص تحریر آپ کی اس وقت پہنچی تو میں مناسب سمجھتا ہوں اس کو رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دوں۔ مضمون اگر اُردو عبارت میں ہو تو بہتر ہے تا عام لوگ اس کو پڑھ لیں۔ آئندہ جیسا کہ آپ مناسب سمجھیں وہی بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جنوری ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کے متعلق جس امر پر روشنی پڑتی ہے وہ عجیب ہے۔ آپ کو حضرت حکیم الامۃ نے دمشقی حدیث الگ رکھ کر مثیل مسیح کے دعویٰ کے متعلق لکھا ہے مگر حضرت نے صاف فرمایا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن جاؤں۔ اس حصہ کو پڑھو تو کھل جاتا ہے کہ آپ بالطبع پبلک میں آنے سے کارہ ہیں اور آپ صرف خداتعالیٰ کے عشق و مابت میں سرشار ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ آپ کو باہر نکال رہا ہے اور مامور کر کے دعوت پر مجبور کرتا ہے۔ حضرت اس کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولوی صاحب گویا ابتلا سے ڈرتے ہیں گو صاف الفاظ میں اس کا اظہار نہیں مگر حضرت حجۃ اللہ ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۶۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز شاید کل یا پرسوں تک لاہور جائے پھر آپ کی خدمت میں جلد اطلاع دوں گا۔ محمد بیگ کی نسبت آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ایک خاص طور پر مہربانی سے بھری توجہ اس کی نسبت فرماویں تا کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد صحت یاب ہو جائے اور اس کو آپ تسلی دیں کہ پورے طور پر صحت یاب ہونے کے بعد اس کی نوکری کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔ غرض اس پر مہربانی کی نظر فرماویں اور ہر طرح سے اس کی نیکی کا خیال رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ جون ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مفتی محمد صادق صاحب پہنچا۔ آنمکرم کے للّہی اخلاص کو دیکھ کر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھ کو بھی ان حسنات کو توفیق بخشے بے شک آپ کی ہمت اور آپ کا عہد ایثار ایک رشک دلانے والی چیز ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو دائمی سرور اور خوشحالی عطا کرے اور بہتوں کو آپ کے نمونہ پر چلاوے۔
مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت کا مجھے کچھ حال معلوم نہیں۔ مگر بے اختیار دل ان کی علالت کی وجہ سے غمگین ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان کی اس سخت بیماری کا خاتمہ رو بصحت کرے۔ وھو علی کل شی قدیر۔ محمدبیگ کی طبیعت شاید ابھی بدستور ہے وہ لکھتا ہے کہ مولوی صاحب تو کسی طور سے مجھ سے فرق نہیں کرتے مگر لنگر خانہ میں بعض وقت بھوک کے وقت مجھ کو روٹی نہیں ملتی شاید کثرت آدمیوں کی وجہ سے دیر سے روٹی ملتی ہے چونکہ وہ لڑکا ہے ایسی عمر میں اکثر لوگوں کو کھانے پینے میں ہی خیال رہتا ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ چند روز کے قیام میں خاص طور پر اس کی خبر رکھیں اور اگر اس کا جموں میں ٹھہرنا چنداں ضروری نہ ہو تو پھر تسلی اور مدارات کے ساتھ دوا دے کر اس کو اس طرف رخصت کر دیں اس کی نوکری اس حالت میں ہو سکتی ہے کہ حالت صحت اس کام کے لائق ہو۔ آئندہ آپ جیسا مناسب سمجھیں عمل میں لاویں۔ میں نے سنا ہے کہ میرے رسالہ کے دیکھنے سے مولوی عبدالجبار بہت برافروختہ ہوئے خدا تعالیٰ ان کو حقیقت کی طرف رہبری کرے۔ زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۱؍ جنوری ۱۸۹۱ء
٭٭٭
مکتوب نمبر۶۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور اپنے دن کے لشکر کا مقدمۃ الجیش بناوے۔ حالت صحت اس عاجز کی بدستور ہے کبھی غلبہ دوران سر اس قد رہو جاتا ہے کہ مرض کی جنبش شدید کا اندیشہ ہوتا ہے اور کبھی یہ دوران کم ہوتا ہے لیکن کوئی وقت دورانِ سر سے خالی نہیں گزرتا۔ مدت ہوئی نماز تکلیف سے بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور زمین پر قدم اچھی طرح نہیں جمتا۔ قریب چھ سات ماہ یا زیادہ عرصہ گزر گیا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی اور نہ بیٹھ کر اس وضع پر پڑھی جاتے ہے جو مسنون ہے اور قرأت میں شائد قل ہو اللہ بمشکل پڑھ سکوں کیونکہ ساتھ ہی توجہ کرنے سے تحریک بخارات کی ہوتی ہے۔ دوستوں کی غائبانہ دعاء مستجاب ہوا کرتی ہے آنمکرم اس عاجز کے حق میں دعا کریں۔ شیخ شہاب الدین بہت مسکین آدمی ہے۔ اس کی ملازمت کے لئے ضرور فکر فرماویں۔ باپ بڈھا آپ کمزور۔ گھر میں کھانے کے لئے نہیں۔ اگر آپ ایما فرماویں تو میں آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ فروری ۱۸۹۱ء







مکتوب نمبر۶۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز لودہانہ کی طرف جانے کو تیار ہے ہر روز آنمکرم کے مضمون کی انتظار رہتی تھی کل مولوی محمد حسین صاحب کا خط آیا ہے اور آپ کی نسبت لکھا تھا کہ وہ ناراض ہوگئے ہیں یعنی اس عاجز کی وجہ سے۔ آج میں نے انہیں لکھا ہے کہ آپ اوّل ملاقات کریں اور رسالوں کو دیکھیں۔ ہر دو رسالے میں نے اپنی طرف سے ان کے پاس بھیج دیئے ہیں اور شاید وہ ملاقات کریں۔ نواب محمد علی خاں صاحب اب تک قادیان میں ہیں۔ آپ کا بہت ذکر خیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے مولوی صاحب کی کتاب تصدیق دیکھنے سے بہت فائدہ ہوا اور بعض ایسے عقدہ حل ہوگئے جن کی نسبت ہمیشہ مجھے دغدغہ رہتا تھا۔ وہ از بس آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ اب تو وقت تنگ ہے۔ یقین ہے کہ لودہانہ میں یہ صورت نکل آئے گی۔ یہ شخص جوان صالح ہے حالات بہت عمدہ معلوم ہوتے ہیں۔ پابند نماز اور نیک چلن ہے اور نیز معقول پسند۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ فروری ۱۸۹۱ء



مکتوب نمبر۶۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک خط حافظ محمد یوسف صاحب کا پہنچا ارسال خدمت ہے۔ اس عاجز کی رائے میں لاہور کے جلسہ میں جانے میں کچھ حرج نہیں بلکہ اس کے غیر مضر ہونے کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے لیکن یہ عاجز پیر کے دن ۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو معہ اپنے عیال کے لودہانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے۔ سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صورت سے اس قدر تکلیف اُٹھا نہیں سکتا کہ اس حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور آوے۔ طبیعت بیمار ہے لاچار ہوں۔ اس لئے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے اور اشتہارات شائع کئے جائیں اور بعض صلحا اور جملہ علماء و فقراء اس میں جمع کئے جاویں۔ یہ عاجز بھی آپ کی رفاقت میں حاضر ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ اپریل کے مہینہ میں موسم اچھا نکل آئے گا۔ سردی سے آرام ہوگا اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو بہ نسبت حال کے طبیعت بھی اس عاجز کی اچھی ہوگی۔ آنمکرم کی طرف اگر خط آیا ہو تو یہی جواب لکھ دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یہ بھی ارادہ ہے کہ اشتہارات اور خط میں میاں عبدالحق صاحب و مولوی عبدالرحمن صاحب کے ساتھ بھی فیصلہ ہو جاوے اور مباہلہ بھی ہو جاوے تا دوسری مرتبہ نہ آنا پڑے۔

مکتوب نمبر۶۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ایک اشتہار از طرف میاں عبدالحق صاحب غزنوی جو جماعت مولوی عبدالجبار صاحب میں سے ہے پہنچا جس میں وہ اپنے الہام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز جہنمی ہے۔ سیصلی نارا ذات لھب اور دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ اس گناہ سے کہ مثیل مسیح ہونے کا کیوں دعویٰ کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس اشتہار کے بہت سے پرچے انہوں نے امرتسر میں تقسیم کئے ہیں۔ امید کہ کوئی پرچہ آپ کی خدمت میں پہنچا ہوگا۔ درحقیقت یہ اشتہار مولوی عبدالجبار صاحب کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں جو شاگرد کی طرف سے مشہور کئے گئے ہیں۔ اس میں مباہلہ کی بھی وہ درخواست کرتے ہیں اور اگرچہ اس میں تحقیر اور استہزاء کے طور پر کئی لفظ بھرے ہوئے ہیں مگر میں نے ان سے قطع نظر کرکے اصلی سوال کا جواب دے دیا ہے۔
مولوی محمد حسین کا بھی خط آیا تھا کہ میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے لکھو کہ ایسا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کہ میں مسیح موعود ہوں۔ حقیقت میں یہی دعویٰ ہے اس لئے ہاں کے ساتھ جواب دیا گیا۔ مجھے آپ کے اوراق کا انتظار ہے اور رسالہ ازالہ اوہام کے ختم ہونے کے لئے بھی انتظار باقی ہے۔ آپ ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے جواب دیں۔ میری طبیعت اکثر علیل رہتی ہے۔ دوران سر بہت رہتا ہے۔ کبھی کبھی دورہ درد سر ہو جاتا ہے۔ اس لئے کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ خدا جانے ان رسالوں کا کام کیونکر ہو گیا۔ ورنہ میری حالت اس لائق نہیں۔ شہاب الدین انتظار میں بیٹھا ہے اگر اشارہ ہو تو بھیج دوں۔ آپ کا پرانا نیاز مند فتح محمد مدت سے امیدوار ہے اس کی طرف بھی توجہ فرماویں۔ محمد بیگ کے مرض کی کیا صورت ہے مولوی غلام علی صاحب کی طبیعت اب کیسی ہے۔ ایک دن بعض شریروں لوگوں نے سخت غم میں مجھے ڈال دیا کہ مولوی غلام علی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ پھر فتح محمد کے خط آنے پر تسلی ہوئی۔ والسلام
غلام احمد عفی عنہ ۹؍ فروری ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کے دو ورقہ کے انتظار ہے تا رسالہ ازالہ اوہام کا خاتمہ طبع ہو کر شائع کیا جائے۔ امرتسر کے غزنوی مولوی صاحبوں نے سنا گیا ہے کہ بہت شور کیا ہے یہ بھی خبر سنی ہے کہ مولوی عبدالرحمن لکھوکے والے مولوی محمد صاحب کے جو صاحبزادہ ہیں انہوں نے کچھ اپنے الہامات لکھ کر بجواب خط اخویم عبدالواحد صاحب جموں روانہ کئے ہیں۔ حامد علی ان الہامات کو سن آیا ہے۔ مگر وہ اس کو یاد نہیں رہے۔ ایسے لفاظ ان میں ہیں کہ ضلوا واضلوا اگر عبدالواحد صاحب نے آنمخدوم کو ان سے اطلاع دی ہو تو مطلع فرماویں۔
چند روز سے نواب محمد علی خاں صاحب رئیس کوٹلہ قادیان میں آئے ہوئے ہیں۔ جوان صالح الخیال مستقل آدمی ہے انٹرس تک تحصیل انگریزی بھی ہے۔ میرے رسالوں کو دیکھنے سے کچھ شک و شبہ نہیں کیا بلکہ قوت ایمانی میں ترقی کی۔ حالانکہ وہ دراصل شیعہ مذہب ہیں مگر شیعوں کے تمام فضول اور ناجائز اقوال سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ صحابہ کی نسبت اعتقاد نیک رکھتے ہیں شاید دو روز تک اور اسی جگہ ٹھہریں۔ مرزا خدا بخش صاحب ان کے ساتھ ہیں۔ الحمدللہ اس شخص کو خوب مستقل پایا اور دلیر طبع آدمی ہے۔
شہاب الدین کی نسبت کیا تجویز ہے؟ یہ عاجز دس روز تک لودہانہ جانے والا ہے میرے ساتھ بعض تعلق رکھنے والے رسالوں کو پڑھ کر بڑی استقامت ظاہر کر رہے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ تمام لوگ اس الہام کا مصداق ٹھہراتے ہیں جو صد ہا مرتبہ ہوچکا ہے یعنی یہ کہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ ابھی سے عقلی طور سے فوقیت ظاہر ہے کہ جب وہ مخالفوں کے روبرو تقریر کرتے ہیں تو انہیں لاجواب ہونا پڑتا ہے۔والسلام
خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۶۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
محبی مخدومی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی محمد حسین صاحب نے صاف طور پر مخالفانہ خط بھیج دیاہے جو آپ کی خدمت میں روانہ کرتاہوں۔ الحمدللّٰہ والمنت کہ ہر ایک قسم کے علماء و امرا و عقلاء میں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ اس عاجز نے آپ کا مضمون غور سے پڑھا۔ بہت عمدہ ہے انشاء اللہ القدیر وہ تمام مضمون میں اسی رسالہ میں چھاپ دوں گا۔ خداتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ہماری مدد کرے گا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ کل پرانے کاغذات میں سے اتفاقاً ایک پرچہ نکلا ہے جس کے سر پر ۵؍ مئی ۱۸۸۸ء لکھا ہوا تھا۔ اس میں یادداشت کے طور پر ایک خواب اس عاجز نے لکھی ہوئی ہے جس کا یہ مضمون تھا کہ مولوی محمد حسین نے ایک مخالفانہ مضمون چھپوایا ہے اور اس عاجز کی نسبت اس کی سرخی یہ رکھی ہے کہ ’’کمینہ‘‘ معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ میں نے وہ مضمون دیکھ کر انہیں کہا کہ میں نے آپ کو منع کیا تھا۔ آپ نے اس مضمون کو کیوں چھپوایا۔
میرے نزدیک وہ نالائق جوش دکھلائیں گے انہیں بہت کچھ اپنی علمیت پر ناز ہے مگر میں آپ کے لئے دعا کروں گا اور آپ کو اس کے ردّ کیلئے تکلیف دوں گا۔ خدا تعالیٰ بلاشبہ آپ کی مدد کرے گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ فروری ۱۸۹۱ء
نوٹ: یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مسیحت کے آغاز میں لکھا ہے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے مخالفت کا کھلا کھلا الٹی میٹم دیا اور آپ نے اس کی اطلاع حضرت حکیم الامۃ کو دی اور ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا بصیرت افروز یقین دلایا اور اپنی ایک پُرانی رؤیا کا حوالہ دیا ہے۔ اس وقت چونکہ آپ کے مکاشفات اور ملہمات چھپا کرتے تھے مگر یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے ۱۸۸۸ء میں جو مولوی محمد حسین کی ارادت اور عقیدت کا عہد تھا اور وہ براہین احمدیہ پر نہایت اعلیٰ ریویو شائع کر چکا تھا۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ یہ شخص مخالف کرے گا اور نہایت گندی مخالفت کرے گا۔ اس خواب سے آپ نے خود مولوی محمد حسین صاحب کو بھی اطلاع دی تھی۔ چنانچہ آپ کے متکوبات بنام محمد حسین جو میں نے چھاپے ہیں اس میں صفحہ…پر بھی یہ چھاپا گیا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کاایک عظیم الشان نشان ہے۔ جس میں مولوی محمد حسین کی مخالفت اور اس کی مخالفت کا نہایت ذلیل پہلو بھی دکھایا گیا تھا ایک اور امر بھی اس مکتوب کسے مکشوف ہوتا ہے کہ یہ خدا کے برگزیدہ بندے اپنی ذات اور ہستی کو درمیان میں نہیں رکھتے اور اپنی کسی طاقت اور علم پر اعتماد نہیں رکھتے بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت پر انہیں ایمان ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت حکیم الامت کو لکھا کہ مولوی محمد حسین کے ردّ کے لئے آپ کو تکلیف دوں گا مگر کبھی ایک دن اور ایک لحظہ بھی آپ پر نہ آیا کہ آپ نے ان کو تکلیف دی ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ پر وہ حقائق اور معارف کھول دیئے کہ بڑے بڑے علوم کے مدعی حیران و پریشان رہ گئے۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک خط مولوی محمد حسین صاحب کا محض آپ کی اطلاع کے لئے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ الحمدللہ مولوی صاحب کی نسبت اس عاجز کی فراست صحیح نکلی۔ یہ عاجز پختہ ارادہ رکھتا ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو یہاں سے روانہ ہو کر ۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو لودہانہ میں پہنچ جائے۔ اخویم حکیم فضل دین صاحب کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آنمکرم غالباً لاہور میں تشریف لائیں گے۔ آنمکرم اطلاع دیں کہ مولوی عبدالکریم صاحب خط کو چھپوا دیں اور کچھ آپ بھی لکھ دیں۔والسلام
خاکسار۔ غلام احمد عفی عنہ
نوٹ: اس خط پر کوئی تاریخ نہیں مگر ظاہر ہے کہ یہ اواخر فروری ۱۸۹۱ء کا مکوتب ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۷۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب مسرت و فرحت ہوا۔ اگرچہ اس عاجز کی طبیعت صحت پر نہیں اور اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاؤں لیکن اگر آنمکرم مصلحت دیکھتے ہیں تو میں لاہور میں حاضر ہو سکتا ہوں۔ میرے خیال میں کوئی عمدہ نتیجہ ایسے مجمع کا نظر نہیں آتا۔ انا علی علم من عنداللّٰہ وھم علی رای من انفسھم ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کے خیالات پیش کردہ معلوم کر کے ان کے رفع دفع کیلئے کچھ اور بھی ازالہ اوہام میں لکھا جائے مگر یہ بھی غیر ضروری معلوم ہوتا ہے یہ عاجزازالہ اوہام میں بہت کچھ لکھ چکا ہے بہرحال اگر آنمخدوم مصلحت وقت سمجھیں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں بشرطیکہ طبیعت اس دن علیل نہ ہو۔
غزنوی فتنہ اور مباہلہ کا مطالعہ
میاں عبدالحق صاحب نے جو پنجاب اور ہندوستان میں بسعی مولوی عبدالجبار صاحب شائع کئے ہیں جن میں مباہلہ کی درخواست ہے ان اشتہارات سے لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑا ہے سو میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی فیصلہ ہو جائے اور ان کے الہامات کا فیصلہ خدا تعالیٰ آپ کر دے گا۔ اس جلسہ کی بناء سید فتح علی شاہ صاحب کی طرف سے ہے اور وہ بہرحال ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۱ء کوحج کے لئے روانہ ہو جائیں گے اور گیاراں مارچ تک ہم کسی صورت میں پہنچ نہیں سکتے۔ اگر یہ فتح علی شاہ صاحب دس دن اور ٹھہر جائیں تو اکیس مارچ ۱۸۹۱ء تک یہ عاجر بآسانی امرتسر میں آ سکتا ہے۔ آئندہ جیسی مرضی ہو۔
مفتی فضل الرحمن کے متعلق الہام
آنمخدوم کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔ اگر فرصت ہو اور ملاقات اسی جگہ ہو جائے تو نہایت خوشی کا موجب ہوگا۔ فضل الرحمن کی نسبت اس عاجز کوپہلے سے ظن نیک ہے ایک دفعہ اس کی نسبت سیھدی کا الہام ہو چکا ہے۔ بعد استخارہ مسنونہ اگر اسی تجویز کو پختہ کر دیں تو میں بالطبع پسند کرتا ہوں۔ قرابت اور خویش بھی ہے جوان ہے۔
عبدالحق غزنوی اور عبدالرحمن لکھو کے معلق خدائی فیصلہ پر یقین
مولوی عبدالرحمن صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے معاملہ میں مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا۔ یہ عاجز ایک بندہ ہے۔ فیصلہ الٰہی کی انتظار کر رہا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ بڑی خوشی ہوگی اگر آنمخدوم لودہانہ میں تشریف لاویں پھر ضروری امور میں مشورہ کیا جائے گا۔
۹؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مکتوب میں جن سید فتح علی شاہ صاحب کا ذکر ہے وہ لاہور کے باشندے اور محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ خان بہادر بھی تھے۔ خاکسار عرفانی ذاتی طور پر جانتا ہے۔ اس لئے کہ جب وہ محکمہ نہر میں داخل ہوا ہے تو شاہ صاحب اس کے افسر تھے مگر مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بہت حسن ظن تھا اور محبت رکھتے تھے۔ یہ دراصل ایک مجمع احباب تھا۔ مرزا امان اللہ صاحب، منشی امیرالدین، منشی عبدالحق، بابو الٰہی بخش، حافظ محمد یوسف، منشی محمد یعقوب صاحب وغیرہم۔ یہ سب کے سب اہلحدیث تھے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں قبل از دعویٰ مسیحیت ارادت تھی۔ آپ کی خدمات دین کے بدل معترف اور ان میں مالی نصرت اور اشاعت میں حصہ لیتے تھے۔ دعویٰ مسیحیت پر بھی ان کے حسن ظن میں فرق نہیں آیا۔ لاہور میں مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی اس بااثر جماعت کے جاتے رہنے کا صدمہ تھا۔ اس لئے ان لوگوں نے چاہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے حضرت حکیم الامۃ کی گفتگو ہو جائے۔ یہ واقعات انشاء اللہ القدیر میں سوانح حضرت میں لکھوں گا۔ اس جلسہ احباب میں شمولیت کے لئے حضرت حکیم الامۃ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ان ایام میں لودہانہ مقیم تھے لکھا تھا مولوی صاحب لاہور گفتگو کر کے لودہانہ چلے گئے تھے اور ان احباب کی اجازت سے گئے تھے مگر مولوی محمد حسین نے فرار کا تار دے دیا۔ غرض یہ بہت بڑے معرکہ کا مجمع تھا۔ مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا اور یہ تحریک دراصل ۱۸۸۸ء سے ہوئی تھی اور مفتی صاحب کو لے کر حکیم فضل دین صاحب یہاں قادیان آئے تھے اور ایک اور امیدوار خادم حسین نام کو بھی لائے تھے۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے مفتی فضل الرحمن صاحب کے متعلق مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی۔ حضرت اپنی زندگی کی آخری ساعت تک مفتی صاحب سے بہت خوش رہے اور وہ آخری ایام میں آپ کے ساتھ لاہور میں موجود تھے۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء (عرفانی)
مکتوب نمبر۷۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی جلال الدین نام بعہدہ میر منشی ملازم ہیں اور مجھ سے خاص طور پر محبت اور اخلاص رکھتے ہیں اور درحقیقت ان احباب میں سے ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے للّہی محبت اس عاجز کی نسبت بٹھا دی ہے انہوں نے میرے سے بڑی امید سے یہ درخواست کی ہے کہ آپ کی سعی اور کوشش سے ان کا صاحبزادہ کہ لائق اور مستعد اور نجیب طبع ہے کسی عمدہ نوکری پر ملازم ہو جائے لہٰذا مکلّف ہوں کہ اگر آپ خاص توجہ کی گنجائش رکھتے ہوں تو وہ اس غرض کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں۔ امید کہ آپ براہ راست منشی صاحب موصوف کے پاس اس کا جواب بھیجیں گے اور پتہ یہ ہے۔ چھاؤنی ملتان رجمنٹ نمبر۱۲ منشی جلال الدین صاحب قریشی
شیخ عبدالرحمن صاحب نو مسلم لڑکا ایک ہفتہ سے میرے پاس ٹھہرا ہوا ہے اس کی طرف سے یہ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر دوچار روز تک آپ نے لودہانہ میں تشریف لانا ہو تو وہ اسی جگہ ٹھہرے ورنہ جموں میں آجاوے۔
مولوی محمد احسن صاحب کا خط بھوپال سے آیا ہوا ہے۔ معہ خط مولوی محمد حسین صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔ یہ مولوی محمداحسن مستعد آدمی معلوم ہوتے ہیں اور اخلاص ان کے ہر ایک خط سے ظاہر ہو رہا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ مارچ ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مہربانی نامہ آنمکرم پہنچ کر بمژدہ افاقہ از مرض بہت خوشی ہوئی۔ الحمدللہ علی ذالک۔ خدا تعالیٰ آپ کو پوری صحت بخشے۔ آپ ایک حقانی جماعت کے لئے مخلصانہ جوش اور ہمت اور استقامت میں ایک ایسا نمونہ ہیں جس کی دوسروں کو پیروی کرنی چاہئے۔ واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض فارجوا ان یتمتع اللہ المسلمین بطول حیاتکم مولوی محمد احسن کی جس قدر تحریریں بھوپال سے پہنچی ہیں ان میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ مدت سے اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ آنمکرم بے شک مفصل خط ان کی طرف لکھیں۔ آنمکرم کی نوکری ہمارے ہی کام آتی ہے۔ ظاہر اس کا دنیا اور باطن سراسر دین ہے۔ اگرچہ بظاہر صورت تفرقہ میں ہے۔ مگر انشاء اللہ القدیر اس میں جمیعت کا ثواب ہے اور انشاء اللہ القدیر ذریعہ بہت سے برکات اور خوشنودی مولیٰ کا ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ نے جو حکیم و علیم ہے۔ بعض مصالح کے رُو سے اس مقام میں آپ کو متعین فرمایا ہے۔ پس قیام فی ما اقام اللہ ضروری ہے۔ اس راہ سے آپ کو فیض رحمانی پہنچیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
جس وقت خدا تعالیٰ پورے طور پر آرام و صحت عطا فرماوے اگر رخصت مل سکے تو تشریف لاویں۔
محمد بیگ لڑکا جو آپ کے پاس ہے آنمکرم کو معلوم ہوگا کہ اس کا والد مرزا احمد بیگ بوجہ اپنی بے سمجھی اور حجاب کے اس عاجز سے سخت عداوت اور کینہ رکھتا ہے اور ایسا ہی اس کی والدہ۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے بوجہ اپنے بعض مصالح کے اس لڑکے کی ہمشیرہ کی نسبت وہ الہام ظاہر فرمایا تھا کہ جو بذریعہ اشتہارات شائع ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے اس لوگوں کے دلوں میں حد سے زیادہ جوش مخالفت ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ امر جس کی نسبت مجھے اس شخص کی ہمشیرہ کی نسبت اطلاع دی گئی ہے کیونکر اور کس راہ سے وقوع میں آئے گا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نرمی کارگر نہیں ہوگی۔ ویفعل اللّٰہ مایشاء۔ لیکن تا ہم کچھ مضائقہ نہیں کہ ان لوگوں کی سختی کے عوض میں نرمی اختیار کر کے ادفع بالتی ھی احسن کا ثواب حاصل کیا جائے۔ اس لڑکے محمد بیگ کے کتنے خط اس مضمون کے پہنچے کہ مولوی صاحب پولیس کے محکمہ میں مجھ کو نوکر کرا دیں۔ آپ براہ مہربانی اس کو بلا کر نرمی سے سمجھا دیں کہ تیری نسبت انہوں نے بہت کچھ سفارش لکھی ہے اور تیرے لئے جہاں تک گنجائش اور مناسب وقت کچھ فرق نہ ہوگا۔ غرض آنمکرم میری طرف سے اس کے ذہن نشین کر دیں کہ وہ تیری نسبت بہت تاکید کرتے ہیں۔ اگر محمد بیگ آپ کے ساتھ آنا چاہے تو ساتھ لے آویں۔
اخویم منشی مولوی عبدالکریم صاحب کی بہت انتظار ہے دیکھیں کب تشریف لاتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۲۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ مخالف الرائے لوگوں نے علانیہ اور بالجہر اس عاجز کی اہانت اور تحقیر اور تکفیر کی غرض سے جابجا خطوط بھیجے اور اشتہارات جاری کئے اور خلاف واقع باتیں ہر ایک مجلس میں سنائیں اور مشہور کیں۔ اس لئے اس فتنہ کے تدارک کے لئے کوئی گم اور مخفی جلسہ علماء کا ہرگز مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جیسا کہ یہ بات عوام تک پہنچائی گئی ہے اور ہر ایک قوم میں علانیہ طور پر بے جا الزاموں کے ساتھ شہرت دی گئی ہے۔ اسی طرح سے ایک کھلا کھلا جلسہ چاہئے جس میں ہر ایک گروہ کے آدمی موجود ہوں اور بمقام امرتسر ہو جہاں سے یہ فتنہ اُٹھا ہے۔ لہٰذا اس عاجز نے اس جلسہ کے لئے ۲۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء مقرر کر دی ہے۔ جلسہ امرتسر میں ہوگا اور پہلے سے عام طور پر اشتہارات جاری کر دیئے جائیں گے۔ اس جلسہ پر آپ کا آنا ضروری ہے اگر اب آپ تشریف نہ لاویں تو اتنا حرج نہیں۔ مگر ۲۳؍ مارچ ۱۸۹۱ء کو بمقام امرتسر آپ کا آنا ضروری ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
محبت نامہ جو آنمخدوم کے مرتبہ یقین اور اخلاص اور شجاعت اور للہی زندگی پر ایک محکم دلیل اور حجت قویہ تھا پہنچ کر باعث انشراح خاطر و سرور و ذوق ہوا۔ بلاشبہ اس درجہ کی قوت و استقامت و جوش و ایثار جان و مال للہ اس چشمہ صافیہ کمال ایمانی سے نکلتا ہے جس میں چمکتا ہوا یقین اس امر کا پورے زور کے ساتھ موجود ہوتا ہے کہ خدا ہے اور وہ صادقوں کے ساتھ ہے۔
اس عاجز نے ارادہ کیا تھا کہ بلاتوقف جناب الٰہی میں اس بارہ میں توجہ کروں۔ لیکن دورہ مرض اور ضعف دماغ اور ایک امر پیش آمدہ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جس وقت خدا تعالیٰ چاہے مجھے اس توجہ کے لئے توفیق بخشی جائے گی۔ اوّل حضرت احدیث جلشانہٗ سے اجازت لینے کے لئے توجہ کی جائے گی۔ پھر بعد اس کے بعد یقینہ شرائط فریقین امر خارق عادت کے لئے توجہ ہوگی۔ یہ بات مسلم اور واضح رہے کہ راستباز انسان کیلئے ایسے امور کی غرض سے کسی قدر مجاہدہ ضروری ہے۔ الکرامات ثمرۃ مجاہدات، علامت طبع بہت حرج انداز ہے۔ اگریہ مقابلہ صحت اور طاقت دماغی کے ایام میں ہوتا تو یقین تھا کہ تھوڑے دن کافی ہوتے۔ مگر اب طبیعت تحمل شداید مجاہدات نہیں رکھتی اور ادنیٰ درجہ کی محنت اور خوض اور توجہ سے جلد بگڑ جاتی ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو طلب حق ہوگی تو وہ تین باتیں بآسانی قبول کریں گے۔
(۱) اوّل یہ کہ میعاد توجہ یعنی وہ میعاد جس کے اندر کوئی امر خارق عادت ظاہر ہونے والا پیش از وقوع بتلایا جاوے۔ اس کے موافق ہو۔ جو خدا تعالیٰ ظاہر کرے۔
(۲) دوم جو امر ظاہر کیا جائے یعنی منجانب اللہ بتلایا جاوے اس کی اس معیاد کی انتظار کریں جو من جانب اللہ مقرر ہو۔ ہاں میعاد ایسی چاہئے جو معاشرت کے عام معاملات میں قبول کے لائق سمجھی گئی ہو اور عام طور پر لوگ اپنے کاموں میں ایسی میعادوں کے انتظار کے عادی ہوں اور اپنے مالی معاملات کو ان میعادوں پر چھوڑتے ہوں یا اپنے دوسرے کاروبار ان میعادوں کے لحاظ سے کرتے ہوں اس سے زیادہ نہ ہو۔
(۳) امر خارق عادت پر کوئی ناجائز اور بے سود شرطیں نہ لگائی جائیں بلکہ خارق عادت صرف اسی طور سے سمجھا جائے جو انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوں۔ مگر یہ سب اس وقت سے ہوگا کہ جب پہلے اجازت الٰہی اس بارے میں ہو جاوے۔
آپ کی ملاقات کے لئے دل بہت جوش رکھتا ہے اور آپ نے فرمایا تھاکہ ہم آنے کے لئے تیار ہیں اگر آپ تشریف لاویں تو یہ سب باتیں زبانی مفصل طور پر بیان کی جائیں گی۔ عبدالرحمن لڑکا بھی آپ کے انتظار میں مدت سے بیٹھا ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب منتظر ہیں آپ ضرور مطلع فرماویں کہ آپ کب تشریف لاویں گے۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۱؍ مارچ ۱۸۹۱ء
نوٹ: جموں میں ایک ڈاکٹر جگن ناتھ تھے انہوں نے حضرت حکیم الامۃ کے ذریعہ حضرت اقدس سے نشان دیکھنا چاہا تھا مگر پھر وہ مقابلہ کے لئے قائم نہ رہا۔ (عرفانی)
٭٭٭
مکتوب نمبر۷۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب تسلی ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب زباندرازی میں بہت ترقی کر گئے ہیں۔ اللہ جلشانہٗ ان کے فاسد ارادوں سے خلق اللہ کو بچاوے۔ یہ عاجز اس وقت بباعث شدت ضرورت خرچ اور ایک طرف تقاضا مطبع اور کاپی نویسوں کے حیران ہے۔ آخر سوچا کہ آنمکرم کو تکلیف دوں آنمکرم نے تجویز چندہ ماہواری کو اس عاجز پر ڈالا تھا اور اب تک بباعث شرم خود تجویزی کے کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اب مجھے خیال آیا کہ باوجود آنمکرم کے اخلاص اور محبت کے جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمائی ہے کوئی وجہ نہیں کہ زیادہ تامل کیا جاوے۔ اس لئے میری دانست میں بشرطیکہ آپ پر بار نہ ہو اور آسانی سے ایفا ہو سکے اور کچھ ہرج نہ ہو بیس روپیہ ماہواری آپ سے چندہ لیا جائے۔ سو میں چاہتا ہوں کہ آنمکرم سَو روپیہ کا بہرطرح بندوبست کر کے پانچ ماہ کا چندہ مجھے بھیج دیں۔ یکم اپریل ۱۸۹۱ء سے یہ چندہ آپ کے ذمہ ہوا اور جولائی کے آخیر تک اس پیشگی چندہ کا روپیہ ختم ہو جائے گا اور پھر ماہواری چندہ ارسال فرمایا کریں۔ محض شدید ضرورت کی وجہ سے مکلّف ہوں۔
ڈاکٹر جگن ناتھ کو جواب
ڈاکٹر صاحب کا خط پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب ایسے امور کے دکھلانے کیلئے مجھے مجبور کرتے ہیں جو میرا نور قلب شہادت نہیں دیتا کہ میں ان کے لئے جناب الٰہی میں دعا کروں۔ گو یہ عاجز خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محمدود جانتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر ایک قدرتی کام وابستہ بادقات ہے اور جب کسی امر کے ہو جانے کا وقت آتا ہے تو اس امر کے لئے دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور امید بڑھ جاتی ہے اور اب ایسی باتوں کی طرف جو ڈاکٹر صاحب کا منشاء ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اس بات کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ کوئی امر انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ مردہ زندہ ہو۔ اور خواہ زندہ مر جائے۔ یہی بات پہلے بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں لکھی تھی کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارق عادت ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ نخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگا دی ہیں۔ اعجازی امور اگر ایسے کھلے کھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم ایک دن میں گویا تمام دنیا سے منوا سکتے ہیں لیکن اعجاز میں ایک ایسا امر مخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد تو کوڑنا نہیں چاہتا۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے اور وہ مردے دوزخ یا بہشت سے نکل کر کل اپنا حال سناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب و ثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں ہماری گواہی مان لو کہ یہ خیالات لغو ہیں بیشک خوارق ظہور میں آتے ہونگے۔ مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے یہی وجہ ہے کہ بعض حضرت عیسیٰ سے منکر رہے کہ اور معجزہ مانگتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ان کو جواب نہ دیا کہ ابھی توکل میں نے تمہارا باپ زندہ کر کے دکھلایا تھا اور وہ گواہی دے چکا ہے کہ میں بباعث نہ ماننے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوزخ میںجاپڑا اگر یہ طریق معجز نمائی کا ہوتا تو پھر دنیا دنیا نہ رہتی اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ماننے اور ایمان لانے سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا۔ پس جب تک ڈاکٹر صاحب اصول ایمان کے مطابق درخواست نہ کریں۔ میری نظر میں ایک قسم سے وہ دفع دفت کرتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۱۲؍ اپریل ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ علالت طبع کے معلوم کرنے سے طبیعت بہت متردّد اور متفکر ہوئی اور غائت درجہ کا قلق اور اضطراب ہے امید کہ بہت جلد مفصل حالات خیرت آیات سے مطلع و مطمئن فرماویں۔ خدا تعالیٰ آنمکرم کو صحت اور عافیت کامل سے رکھ کر آپ کے ہاتھ سے سالہائے دراز تک خدمت دین لیتا رہے اور ایک عالم کو آپ سے متمتع اور مستفیض فرما دیں۔ حالات مزاج سامی سے ضرور جلد اطلاع بخشیں اور مجھے مفصل معلوم نہیں ہوا کہ کس قسم کی بیماری تھی۔ خدا تعالیٰ جلد اس سے شفا بخشے۔ اس جگہ کا حال یہ ہے کہ لوگوں کے زور دینے سے مولوی محمد حسین صاحب بحث کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور ۲۰؍ جولائی سے ہر روز تحریری بحث ہو رہی ہے۔ ابھی تمہیدی مقدمات میں بحث چلی آتی ہے۔ فریقین کی تحریریں پانچ جزو تک پہنچ چکی ہیں۔ ان کی طرف سے سوال یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت کو واجب العمل سمجھتے ہو یا نہیں اس طرح سے جو واقعی اور تحقیقی جواب ہے دیا گیا ہے لیکن اس بحث کو انہوں نے بہت طول دے دیا ہے اور اس طرف سے بھی مناسب سمجھا گیا ہے کہ جہاں تک طول دیتے جائیں اس کا شافی وکافی جواب دیا جاوے۔ خدا جانے یہ بحث کب اور کس وقت ختم ہو۔ اب مجھے زیادہ تر خیال آپ کی طبیعت کی طرف ہے اور کسی بات کے لکھنے کی طرف دل توجہ نہیں کرتا۔ امید کہ جہاں تک جلد ممکن ہو حالت مزاج سے مسرور الوقت فرماویں۔ باقی سب خیریت ہے۔ ازالہ اوہام ابھی طبع ہو کر نہیں آیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہانہ محلہ اقبال گنج
۲۲؍ جولائی ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پارسل مرسلہ آنمکرم جس میں مشک اور تھا پہنچا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
کل مولوی محمد حسین صاحب کی بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ آخر حق بات کے سننے سے مولوی محمد حسین کی قوت سبعیہ بڑے زور سے ظہور میں آئی۔ اگر یہ عاجز اپنی جماعت کے ساتھ جلد تر اس جگہ سے باہر نہ آتا تو احتمال فساد تھا۔ درحقیقت ان کو اشتعال کا سبب یہ ہوا کہ وہ اعتراضات کردہ سے ساکت اور لاجواب ہوگئے اور بحالت لاجواب ہونے کے بجز قوت غضبی سے کام لینے کے اور کیا ان کے ہاتھ میں تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب و مولوی غلام قادر صاحب نے فریقین کے پرچے لے لئے ہیں۔ آج دونو صاحب اس جگہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جلد ہم جناب کو مولوی صاحب کی خدمت میں بھیجیں گے۔ آپ کی علالت طبع کی نسبت بہت متردّد و غم تھا۔ آج آپ کے خط کے آنے سے کسی قدر طمانیت ہوئی۔ خدا تعالیٰ جلد تر آپ کو پوری صحت عطا فرماوے۔
والسلام
خاکسار۔ غلام احمد
از لودہیانہ اقبال گنج
۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر۷۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ و نظر اللہ بنظر الرحمۃ والرضوان۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مشتمل بر تلطفات محبت نامہ پہنچ کر باعث انشراح و سرور و ممنونی ہوا۔ آپ کی ملاقات کو دل بہت چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو خیر و خوشی کے ساتھ جلد ملاوے۔ تعلقات دنیا میں حاسدوں کا ہونا ایک طبعی امر ہے۔ ولکل مقبل حاسد۔ حمایت و حفاظت الٰہی آپ کے لازم حال رہے۔ بیشک ایسے تعلقات بہت خطرناک ہیں اور ان میں بجز خاص رحمت الٰہی کے انجام خیر کے ساتھ عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے۔ ہمیشہ تضرع اور استغفار حضرت ربّ کریم کی جناب میں لازم حال ہی رکھیں۔ رفق اور نرمی اور اخلاق میں تو پہلے ہی سے آنمکرم سبقت لے گئے ہیں۔ لیکن امید رکھتا ہوں کہ حاسدوں اور دشمنوں سے بھی یہی طریق جاری رہے اور حتی الوسع ریاست کے کاموں میں بہت دخل دینے سے پرہیز رہے کہ سلامت برکنار است کا مقولہ قابل توجہ ہے۔ ازالہ اوہام اب تک چھپ کر نہیں آیا۔ شاید دس پندرہ روز تک آ جاوے گا۔ اس کے نکلنے کے بعد آنمکرم کو تکلیف دوں گا کہ اس کا لب لباس نکال کر تشریحات اور ایزادات مناسب کے ساتھ آنمکرم کی طرف سے بھی کوئی رسالہ شائع ہو جاوے۔ مولوی محمد حسین صاحب سے جس قدر بحث ہوئی اس عاجز کی دانست میں وہ مصلحت سے خالی نہیں تھی اور امید رکھتا ہوں کہ فریقین کے بیانات شائع ہونے کے بعد انشاء اللہ اس کا بہت نیک اثر دلوں پر پڑے گا۔ یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ سید محمد عسکری خاں صاحب کی نسبت ابھی کچھ تذکرہ ہوا یا نہیں اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لدہیانہ اقبال گنج
۱۶؍ اگست ۱۸۹۱ء
نوٹ: جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مکتوب میں ظاہر کیا ہے اس مباحثہ لودہیانہ کی اشاعت کے بعد سلسلہ کی جو ترقی ہوئی وہ ظاہر امر ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر۸۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس جگہ تا تحریر ہذا بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے خیریت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھ کر اپنی رحمت خاص کا مورد کرے۔ رسالہ ازالہ اوہام کے اصل مضامین تو طبع ہوچکے ہیں۔ مولوی محمد حسین کے اشتہار کی نسبت جو ایک مضمون چھپنے کیلئے دیا گیا ہے وہ شاید چند روز تک چھپ کر رسالہ ازالہ اوہام کے ساتھ شائع ہو۔ لاہور کے بعض معزز ارکان نے چوداں خط علماء کی طرف لکھتے ہیں کہ تا وہ آ کر حضرت مسیح کی وفات و حیات کی نسبت مباحثہ کریں۔ دیکھیں کیا جواب آتے ہیں۔ اس عاجز کی مرضی ہے کہ رسالہ ازالہ اوہام کے نکلنے کے بعد کل متفرق فوائد اور نکات اس کے ایک جگہ جمع کریں اور پھر ان کے ساتھ ان سوالات کا جواب شامل کر کے جو مخالفین نے اپنی تالیف میں لکھے ہوں کہ رسالہ احسن ترتیب کے شائع کر دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے شائد واللّٰہ اعلم صد ہا رسالے شائع ہونگے اور چار تو شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات اُن میں نہیں جس کا جواب رسالہ ازالہ اوہام میں نہ دیا گیا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
۱۰؍ اگست ۱۸۹۱ء

مکتوب نمبر۷۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ اس جگہ کے علماء نے حد سے زیادہ شور و غوغا کیا ہے اور تمام دہلی میں ایک طوفان کی صورت پیدا کر دی ہے۔ لہٰذا مولوی نذیر حسین صاحب سے درخواست کی گئی۔ ایک جلسہ عام کر کے ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء روز اتوار کو اس عاجز سے بحث کر لیں۔ ابھی تک ان کی طرف سے جواب نہیں آیا لیکن بہرحال بحث ہوگی اور اگر بالکل گریز کر جائیں گے تو پھر اپنے طور پر لوگوں کو جمع کر کے مفصل تقریر سنائی جائے گی۔ لہٰذا مکلّف ہوں کہ آنمکرم جس طرح ممکن ہو ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء سے پہلے تشریف لاویں۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو اتوار کا دن ہوگا اور سب ملازم غیر ملازم فرصت کامل رکھتے ہونگے۔ لہٰذا یہی تاریخ بحث کے لئے مقرر کی گئی۔ آنمکرم جس طرح ممکن ہو دس روز کی رخصت حاصل کر کے تشریف لاویں۔ تین روز تو آمد ورفت میں خرچ ہو جائیں گے اور سات روز اس جگہ تشریف رکھیں اور مبلغ بیس روپیہ مرسلہ آنمکرم آج پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا الجزاء۔ اگر حکیم فضل دین صاحب اور کوئی دوسرے دوست بھی اپنی خوشی سے تشریف لا سکتے ہوں تو بہتر ہے کیونکہ اس وقت میں جس قدر ہماری جماعت موجود ہو اسی قدر خوب ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام۔ خاکسار
غلام احمد
از دہلی بازار بلی ماراں۔ کوٹ نواب لوہارو
مکرر یہ کہ اوّل تو امید ہے کہ فریق مخالف بحث کریں گے اور اگر انہوں نے عمداً گریز کی تو ہماری طرف سے ایک وسیع مکان میں بطور وعظ مفصل بیان ہوگا۔ اوّل انشاء اللہ القدیر میں بیان کروں گا۔ بعد ازاں آنمکرم بیان کریں۔ پھر ہر ایک صاحب جو چاہے بیان کرے۔
والسلام۔ خاکسار غلام احمد
مکتوب نمبر۸۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر علالت طبع آنمکرم سے بہت متردّد ہوا۔ رات کو آپ کی صحت کیلئے بہت دعا کی گئی۔ امید کہ خداوندکریم اپنے فضل و کرم سے صحت بخشے۔ اخویم مولوی عبدالکریم کی تحریر آپ کی بیماری میں زیادہ دل کو صدمہ پہنچاتی ہے۔ اگر کل آنمکرم کا دستخطی خط نہ آیا ہوتا تو معلوم نہیں مولوی عبدالکریم صاحب کی تحریرسے کس قدر قلق و اضطراب دل پر ہوتا خدا تعالیٰ بہت جلد آپ کو شفا بخشے۔ تمام غم راحت سے مبدّل ہو جائیں گے۔ اللہ جل شانہٗ جانبین میں خیرو عافیت رکھے اور آپ کی عمر میں صحت اورعافیت اور دین و دنیا کی سعادت کے ساتھ برکت سے بھری ہوئی درازی بخشے۔ آمین ثم آمین ۔ (یہ دعا قبول ہوگئی۔ عرفانی)
میاں عبدالحق اور مولوی عبدالرحمن صاحب کی تحریروں کا آپ ذرا فکر نہ کریں۔ ایک ابتلاء ہے خدا تعالیٰ آپ اُس کو اُٹھا دے گا۔ غور کا مقام ہے کہ جس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت حقہ کی تبلیغ کر رہے تھے اور کلام ربّانی نازل ہو رہا تھا اس وقت مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے کیا کیا فتنے برپا کر دیئے تھے۔ ایک طرف قرآن کریم کی یہ سورتیں نازل ہوئیں۔ الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل اور اس کے مقابلہ پر مسیلمہ نے اپنی وحی یہ سنائی۔ الم ترکیف فعل ربک بالحبلی اخرج منھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے کذاب کے کھڑے ہونے سے کیا کیا فتنے ہوئے ہونگے اور جس وقت سادہ لوح لوگ ایک طرف وحی قرآنی سنتے ہونگے اور ایک طرف مسیلمہ کی شیطانی تکیں ان کے کانوں تک پہنچتی ہونگی تو کیا کیا ابتلاء انہیں پیش آتے ہونگے۔ ایسا ہی ابن صیاد نے بہت فتنہ ڈالا تھا اور یہ تمام لوگ ہزار ہا لوگوں کی ہلاکت کا موجب ہوئے تھے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے حق کی روشنی ظاہر کر دی اور مومنین پر سکینت اور اطمینان نازل کی۔
سو اس کے حکم کا منتظر رہنا چاہئے اور صبر کے ساتھ راہ دیکھنا چاہئے۔ وھو علی کل شی قدیر۔ جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور ایک وادی کو پُر کرتی ہے اور زور سے چلنا چاہتی ہے تو یہ قانون قدرت ہے کہ اس پر ایک قسم کی جھاگ آ جاتی ہے وہ جھاگ بظاہر ایک غلبہ از فوقیت رکھتی ہے کہ پانی اس کے نیچے اور وہ اوپر ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات اس قدر بڑھتی ہے کہ پانی کے اوپر کی سطح کو ڈھانک لیتی ہے لیکن بہت جلد نابود کی جاتی ہے اور پانی جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیز ہے باقی رہ جاتی ہے۔ عبدالرحمن نومسلم لڑکا اسی جگہ پر ہے اور شاید ضعف کی حالت میں ابھی سفر کرنا آنمکرم کا مناسب نہ ہو۔ اگر ایما فرماویں تو نامبردہ کو آپ کی طرف روانہ کیا جائے۔
نوٹ: عبدالرحمن نو مسلم وہی لڑکا ہے جو آج شیخ عبدالرحمن ماسٹر بی۔ اے مصنف کتب معدودہ ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۸۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معلوم نہیں کہ اب آنمکرم کی طبیعت کیسی ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جلد تر شفا بخشے۔ اس عاجز کو آنمکرم نے قادیان کی سڑک پر لیکھرام کے اشعار دیئے تھے ۔ ان کی طرف خیال کرنا ایسا فراموش ہو گیا کہ کبھی یاد نہ آیا۔ آنمکرم نے ایک دو مرتبہ لکھا بھی مگر پھر بھی بھول گیا۔ اب انشاء اللہ القدیر بقیہ مضمون کو جلد ختم کر کے اس طرف متوجہ ہوں گا۔ بباعث علالت طبع دورہ مرض حافظہ میں بہت قصور ہو گیا ہے۔ دو تین روز سے اس قدر دورہ مرض ہوا کہ ضعف بہت ہوگیا اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ مطبع سے بار بار مطالبہ ہے کہ بقیہ مضمون بھیجنا چاہئے مگر طاقت نہیں کہ کچھ لکھ سکوں۔
فضل احمد کا خط نہایت اور غایت درجہ کی التجا سے آیا تھا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں سفارش کریں کہ کوئی نوکری میرے گزارہ کے موافق کرا دیں۔ عنہ ۲۰ میں اپنے خیال کا گزارہ نہیں کر سکتا۔ سو اگر مصلحت وقت کا حال آنمکرم کو بہتر معلوم ہوگا لیکن اگر کچھ ہرج نہ ہو اور مصلحت کے خلاف نہ ہو اور کچھ جائز اعتراض نہ ہو اور آنمکرم کچھ اس کی معاش کیلئے اس سے بہتر تجویز کر سکیں تو کر دیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کے چال چلن کا حال قابل اعتراض ہے مگر شاید آئندہ درست ہو جاوے۔ ابرار و اخیار جو متخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیں کبھی مطابق آیت کریمہ وکان ابوھما صالحاً عمل کر لیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دو لڑکوں کے لئے حضرت خضر نے تکلیف اُٹھائی۔ اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علم الٰہی میں تھے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کر دی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا۔
اور ایک خویش کی وجہ سے دو بیگانوں پر رحم کر دیا۔ امید ہے کہ اپنی روانگی سے پہلے اس عاجز کو ضرور مطلع فرماویں گے۔ اس قدر میں نے لکھا تھا کہ پھر نہایت عاجزی سے فضل احمد کا خط آیا ہے کہ خدمت میں مولوی صاحب کے میری نسبت ضرور لکھیں۔ آنمکرم اس کو بلا کر اطلاع دے دیں کہ تیری نسبت وہاں سے سفارش لکھی ہے۔ اگر مناسب سمجھیں کسی کو اس کی نسبت سفارش کر دیں کہ وہ سخت حیران ہے۔ اس کی ایک بیوی میرے ساتھ اس جگہ ہے اور ایک قادیان میں ہے۔
خاکسار
غلا م احمد عفی عنہ
لودہیانہ محلہ اقبال گنج
نوٹ: اس خط پر تاریخ نہیں مگر لدہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر۸۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ تنتیس روپیہ معرفت مولوی محمد حسین صاحب مجھ کو پہنچ گئے۔ یہ آپ کا کمال اخلاص اور غایت درجہ کی محبت ہے کہ باوجود نہ ہونے روپیہ کے وقت پر آپ نے قرض لے کر روپیہ بھیجا اور مجھے خارجاً معلوم ہوا ہے کہ پہلے بھی آپ نے ایک دو مرتبہ ایسا ہی کیا تھا۔ جزاکم اللّٰہ کماعملتم۔ آپ نے لکھا تھا کہ رفاقت اور دوستی میں مجھے نسبت فاروقی ہے مگر میرے خیال میں آپ کو نسبت صدیقی ہے کیونکہ انشراح صدر سے ایثار مال اور رفاقت فرمانے تک مستعد ہونا یہ ہمت صدیقی تھی اور میں جس نیت سے آپ کو تکلیف دیتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ محلہ اقبال گنج
نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر لودہیانہ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا ہے۔
(عرفانی)
مکتوب نمبر۸۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں آپ کو اطلاع دیتاہوں کہ سردار رویٹ خان خلف الرشید مسٹر جان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافتہ قوم انگریز دانشمند مدبر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں اور کرنول احاطہ مدراس میں بعہدہ منصفی مقرر ہیں۔ آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے۔ ایک باہمت آدمی اور پرہیز گار طبع اور محب اسلام ہیں۔ انگریزی میں حدیث اور قرآن شریف کو دیکھا ہوا ہے چونکہ رخصت کم تھی اس لئے آج واپس چلے گئے پھر ارادہ رکھتے ہیں کہ تین ماہ کی رخصت لے کر اسی جگہ رہیں اور اپنی بیوی کو ساتھ لے آویں۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر ایک ملک میں واعظ بھیجنے چاہئیںاور کہتے ہیں کہ ایک مدراس میں واعظ بھیجا جاوے اس کی تنخواہ کے لئے میں ثواب حاصل کروں گا۔ غرض زندہ دل آدمی معلوم ہوتا ہے تمام اعتقاد سن کر امنا امنا کہا۔ کوئی روک پیدا نہیں ہوئی اور کہا کہ جو لوگ مسلمان اور مولوی کہلا کر آپ کے مخالف ہیں وہ آپ کے مخالف نہیں بلکہ اسلام کے مخالف ہیں۔ اسلام کی سچائی کی خوشبو اس راہ میں آتی ہے۔ الغرض وہ محققانہ طبیعت رکھتے ہیں اور علوم جدیدہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ زیادہ تر خوشی یہ ہے کہ پابند نماز خوب ہے بڑے التزام سے نماز پڑھتا ہے۔ جاتے وقت امام مسجد حافظ کو دو روپیہ … دیئے اور اس عاجز کے ملازموں کو پوشیدہ طور پر…… چند روپیہ دینے چاہے مگر میرے اشارہ سے انہوں نے انکار کیا۔ ایک مضبوط جوان دوہرا بدن کا مشابہ بدن قاضی خواجہ علی کے اور اس سے کچھ زیادہ۔ خدا تعالیٰ اس کو استقامت بخشے۔ کرنول احاطہ مدراس میں منصف ہے۔ آنمکرم بھی اس سے خط وکتابت کریں ان کے پتہ کا ٹکٹ بھیجتا ہوں۔ مگر ٹکٹ میں بلور لکھا ہے وہاں سے بدلی ہوگئی ہوگی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ جنوری ۱۸۹۲ء
یہ وعدہ کر کے گئے ہیں کہ ازالہ اوہام کے بعض مقامات انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیج دوں گا۔ ان کو چھپوا کر شائع کر دینا اور ازالہ اوہام کی دو جلد لے گئے ہیں۔ قیمت دینے پر اصرار کرتے تھے مگر نہیں لی گئی۔
مکتوب نمبر۸۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل مفصل حال اپنی علالت طبع کا لکھ چکا ہوں۔ رات قریباً اٹھارہ دفعہ بول کی حاجت ہوئی اور تمام رات بے چینی اور بیداری میں گذری۔ چار بجے کے قریب کچھ نیند آئی۔ امید کہ توجہ فرما کر کوئی تجویز کر کے بھیج دیں گے کہ ضعف بہت ہوتا جاتا ہے۔ شاید ضعف قلب کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت سے پیشاب آتا ہے اور پیشاب سے ضعف ہو جاتا ہے۔ امید کہ خداوند کریم اپنے فضل سے شفا بخشے گا۔ اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت عارضہ ہوتا ہے تو خواوند کریم اپنی طرف سے شفا بخشتا ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ زحیر اور اسہال خونی کی سخت بیماری ہوئی۔ یہاں تک کہ بظاہر زندگی سے یاس کلّی ہوگئی اور ایک شخص جو میرے ساتھ ہی بیمار ہوا تھا وہ فوت ہو گیا۔ لیکن اس نازک حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک عجیب طور سے شفا بخشی اور یہ الہام ہوا۔
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بشفاء من مثلہ
ایسا ہی اس دوسری بیماری میں بھی جب حال قریب موت ہوا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا۔ الابرا۔ سو یقین رکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بیماری سے نجات بخشے گا۔
فضل احمد نے جموں سے بڑا شکریہ کا خط لکھا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے بڑی جدوجہد اور توجہ سے میرا معالجہ کیا اور نیز درخواست کرتا ہے کہ مولوی صاحب کٹوعہ میں میری تعیناتی کرا دیں اس کو لکھا گیا تھا کہ دوچار روز کے لئے مل جائے۔ معلوم نہیں وہ کیوں نہیں آیا اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب کی والدہ نہایت الحاح سے عرض کرتی ہیں کہ افتخار احمد کی ہمشیرہ چند روز کیلئے ہم کو مل جاویں اور نیز سیالکوٹ سے مختار بھی مل جاوے اور پھر اکٹھی چلی جاویں پس اگر خود آنمکرم کو فرصت ہو تو نہایت خوشی کی بات ہے کہ مدت کے بعد آنمکرم کی ملاقات سے فرحت حاصل ہو اور ان کا مطلب بھی پورا ہو جائے اور ہمارا بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لدھیانہ
۷؍ اپریل ۱۸۹۳ء
مکتوب نمبر۸۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ محمد عرب کا خط آیا تھا۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب استطاعت و کمی بیشی وقت جو مل سکے ان کو دے دیں اور اگر کچھ کم ہو تو ملاطفت سے استمالت طبع فرماویں اور اس عاجز کی طبیعت آج بہت علیل ہو رہی ہے ہاتھ پاؤں بھاری اور زبان بھی بھاری ہو رہی ہے۔ مرض کے غلبہ سے نہایت لاچاری ہے مجھ کو ایک مرتبہ آنمکرم نے کسی قدر مشک دیا تھا وہ نہایت خالص تھا اور مجھ کو بہت فائدہ اس سے ہوا تھا۔ اب میں نے کچھ عرصہ ہوا لاہور سے مشک منگوائی تھی اور استعمال بھی کی مگر بہت کم فائدہ ہوا۔ بازاری چیزیں مغشوش ہوتی ہیں۔ خاص کر مشک۔ یہ تو مغشوش ہونے سے خالی نہیں ہوتی چونکہ میری طبیعت گری جاتی ہے اور ایک سخت کام کی محنت سر پر ہے اس لئے تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خاص توجہ اس طرف فرماویں اور مشک کو ضرور دستیاب کریں بشرطیکہ وہ بازاری نہ ہو کیونکہ بازاری کا تو چند دفعہ تجربہ ہوچکا ہے۔ اگرچہ خشک دو ماشہ یا تین ماشہ ہو وہ بالفعل کفایت کرے گا۔ مگر عمدہ ہو اگر اصلی نافہ جو مصنوعی نہ ہومل جائے تو نہایت خوب ہے۔ مگر جلد ہو۔ کتاب چھپ رہی ہے شائد تین جز کے قریب چھپ گئی ہے۔ زیادہ خیرت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۹۲ء
مکتوب نمبر۸۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم
مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آنمکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی۔ مگر ساتھ ہی دل پر کھل گیا۔ یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلاء ہے۔ انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں۔ اللہ جلشانہ کی پیار کی قسموں میں سے یہ بھی ایک قسم پیار کی ہے کہ اپنے بندے پر کوئی ابتلاء نازل کرے۔
ایک خواب
مجھے تین چار روز ہوئے کہ ایک متوحش خواب آئی تھی جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہو گیا۔ میں نے رات کو جس قدر آنمکرم کے لئے دعا کی اور جس حالتِ پُرسوز میں دعا کی اس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے اور ابھی اس پر بفضلہ تعالیٰ بس نہیں کرتا اور چاہتا ہوں…… کہ خداوندکریم سے کوئی بات دل کو خوش کرنے والی سنوں۔ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند روز تک اطلاع دوں گا اور انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کروں گا جو کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک یگانہ رفیق کے لئے کی جاتی ہے۔ ہمیں جو ہمارے بادشاہ ہمارا حاکم ذوی الاقتدار زندہ حی و قیوم موجود ہے جس کے آستانہ پر ہم گرے ہوئے ہیں جس قدر اس کی مہربانیوں اس کے فضلوں اس کے عجیب قدرتوں اس کی عنایات خاصہ پر بھروسہ ہے اس کا بیان کرنا غیر ممکن ہے۔ دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجاب اللہ زبان پر جاری ہوئے۔ نوی علیہ (رذ) لاولی علیہ اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اس کی طرف سے تھا۔
آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل تو نہیں پر پرسوں ہوگی۔ معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کسی اشتعال کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم نیک بخت اور سچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیاہونے والا ہے۔
حالات سے مجھے بہت جلد مفصّل اطلاع بخشیں اور یہ عاجز انشاء اللہ القدیر ثمرات بینہ دعا سے اطلاع دے گا۔ بفضلہ دمنہٖ تعالیٰ۔ مجھے فصیح کی نسبت حالات سن کر نہایت افسوس ہوا۔ اپنے محسن کا دل سخت الفاظ سے شکستہ کرنا اس سے زیادہ اور کیا نااہلی ہے۔ خدا تعالیٰ ان کو نادم کرے اور ہدایت بخشے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۹۲ء
کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
(۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
(۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہیے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہیے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہیے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہیے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
عرض حال
خدا تعالیٰ کاشکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کی پانچویں جلد کا تیسرا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ یہ مکتوبات چوہدری رستم علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے ہیں۔
مجھے اس مجموعہ مکاتیب کے متعلق کچھ کہنا نہیں۔ مخدومی ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے الفضل میں جو کچھ لکھا ہے۔ میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔ البتہ مجھے مخدومی اخوند محمد افضل خاں صاحب پنشزسب انسپکٹر کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ نہایت جوش اور اخلاص سے سیرۃ مسیح موعود کی اشاعت و تحریک کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چند احباب ان کے نقش قدم پر چل کر اس کی اشاعت کی کوشش کریںاور ایک ہزار خریدار پورے ہو جائیںتو میں ہر مہینے ایک نمبر شائع کر سکوں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسو س ہے۔ ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جو ان پیش قدموں کی اصل قدر کریں۔
بہر حال اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے۔ کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ۷؍رمضان ۴۷ء


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کے نام
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
(۱) پوسٹ کارڈ
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرے گا۔ آپ برعایت اسباب ہے کہ طریقہ مسنون ہے۔ طبیب حاذق کی طرف رجوع کریں او رطبیب کے مشورہ سے مارا بجن یا جو کچھ مناسب ہو اپنی اصلاح مزاج کے لئے عمل میں لاویں اور آپ کی ہر ایک غرض کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا۔ کبھی کبھی آپ ہفتہ عشرہ کے بعد کارڈ یاد دلاتے رہیں اور صبر جو شعار مومن ہے اختیار کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۵؍ ۱۸۸۴ء
نوٹ۔ چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے براہین احمدیہ کی خریداری کے سلسلہ میں ہوا او ریہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات او رمراسلات کا سلسلہ مضبوط او روسیع ہوتا گیا۔ ۱۸۸۴ء میں چوہدری صاحب خاص شہر جالندھر میںمحرر پیشی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو لفافہ اس طرح پر لکھا کرتے تھے۔
بمقام جالندھر خاص۔ محکمہ پولیس
بخدمت مشفتی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے اس وقت آپ کا عہدہ سارجنٹ تھا۔ آیندہ جب تک چوہدری صاحب کا ایڈریس تبدیل نہ ہو گا یا لفافہ کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی ایڈریس درج نہ ہو گا۔ ہر مکتوب کے ساتھ خط یا پوسٹ کارڈ کی تصریح کی جائے گی۔
(عرفانی)
(۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ آپ کے حسن خاتمہ اور صلاحیت دین کے لئے یہ عاجز دعا کرے گاا ور سب طرح سے خیریت ہے حصہ پنجم بعد فراہمی سرمایہ چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۸؍ جون ۱۸۸۴ء
(۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا دوسرا خط بھی پہنچا۔ یہ عاجز چھ روز سے بیمار ہے اور ضعف دماغ او رجگر او ردیگر عوارض لاحقہ سے مخنی ہو رہا ہے ورنہ آپ کے عزیز کے لئے کوشش اور مجاہدہ سے خاص طور پر دعا کی جائے۔ انشاء اللہ بعد افاقہ توجہ تام سے دعا کرتے گا اور مسنون طور پر آپ بھی دعا سے غافل نہیں رہئیے گا۔ بالفضل ارادہ ہے کہ چند مہینے تک کسی پہاڑ میں جاکر یہ مہینہ گرمی کا بسر کرے آیندہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو غم اور فکر سے نجات بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷۱؍ اگست ۱۸۸۴ء
(۴) پوسٹ کارڈ
از طرف خاکسار غلام احمد۔ باخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ خد اتعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں توبہتر ہے او ربعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو تین سو مرتبہ استغفارکا ورد رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ ستمبر ۱۸۸۴ء

(۵) پوسٹ کارڈ
از عاجز غلام احمد باخویم منشی رستم علی صاحب۔
بعد سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ طبیعت اس عاجز کی کچھ عرصہ سے علیل ہے اس لئے پہلے خط کا جواب نہیں لکھا گیا۔ حسین علی خان صاحب کے لئے اس عاجز نے دعا کی ہے او رانشاء اللہ العزیز پھر بھی دعا کرے گا۔ اطلاعا ًلکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۵ء
(۶) پوسٹ کارڈ
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال وفات آپ کے قبلہ بزگوار کا معلوم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جو امر انسان کے لئے بہتر ہے وہ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان غریب غریق رحمت کرے۔ آپ کواجر بخشے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ فروری ۱۸۸۵ء
(۷) پوسٹ کارڈ
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
حسب تحریر آپ کے ایک خط انگریزی اور ایک اشتہار انگریزی بھیجا جاتا ہے۔ کسی زیرک اور منصف مزاج کو ضرور دکھاویں یہ خط انگریزی تمام پادری صاحبان ہندوستان و پنجاب کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں اور نیز پنڈتوں کے پاس بھی بھیجے گئے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں اور ہر ایک بصیغہ رجسٹری بصرف ۴؍ روانہ کیا گیا ہے اور سب کی کیفیت انشاء اللہ حصہ پنجم کتاب میں درج ہو گی او آپ کے لئے دعا کی ہے۔
والسلام
خاکسا ر
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء
(۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ دنیا مقام غفلت ہے بڑے نیک قسمت آدمی غفلت خانہ میں روبہ حق ہوتے ہیں۔ استغفار پڑھتے ہیں اور اللہ جلشانہ سے مدد چاہیں۔ یہ عاجز آپ کو دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ ترتیب اثر وقت پر موقوف ہے۔ اللہ جلشانہ آپ کو دنیا و آخرت میں توفیق خیرات بخشے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔ میر عباس علی شاہ دو روز سے اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۹)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور حصہ پنجم کتاب انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام منشی عطاء اللہ خاں صاحب السلام علیکم۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ جون ۱۸۸۵ء
(۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب۔
وفات فرزند سے آپ کو بہت غم پہنچا ہو گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر عطا کرے۔ بہت دعا کی گئی مگر تقدیر مبرم تھی۔ خدا تعالیٰ آپ کو نعم العبدل عطا کرے مومن کو ثواب آخرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے دنیا میں تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس رنج کے عوض میں راحت ولی سے متمتع کرے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۱۱)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
آپ کو عنایت نامہ پہنچا۔ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست۔ چونکہ کتاب درحقیقت قرآن شریف کی تفسیر ہے۔ سو اسی طرز سے اجازت حاصل کرنا چاہئے تاکہ طبیعت پر گراں نہ گزرے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۔۲۴؍ جولائی ۱۸۸۵ء
(۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت او راخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم مبارک علیٰ محمد علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔یہی درود شریف پڑھیں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے اور تنویر باطن او راستقامت دین کے لئے بہت موثر ہے۔ اور بعد نما زصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تصرع سے پڑھنا چاہئے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ میر صاحب نے دعا کے لئے بہت تاکید کی تھی سو کی گئی ہے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے بدست میاں امام الدین صاحب پہنچ گئے جس قدر آپ نے اور چوہدری محمد بخش صاحب نے کو شش کی ہے۔ خدا وند کریم جلشانہ آپ کو اجر عظیم بخشے اور دنیا او ر آخرت میں کامیاب کرے۔ اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی ۔ سلام علیکم۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات زمانہ سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر کرے۔ یہ عاجز آپ کے لئے او رچوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا میں مشغول ہے۔ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ والسلام۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۵ء
(۱۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کروںگا۔ اللہ تعالیٰ بھائی مسلمانوں پر فضل و رحم کرے اور ان کی خطیات کو معاف فرماوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۶) پوسٹ کارڈ
مکرمی۔ سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سب احباب کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخدا کیا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء

(۱۷) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ سلام علیک۔
پیر کے روز یہ عاجز امرتسر سے قریب دوپہر کے روانہ ہو کر لودھیانہ کی طرف جاوے گا۔ اگر اسٹیشن جالندھر پر آپ کی ملاقات ممکن ہو تو عین مراد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء
(۱۸) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کو با مراد کرے۔ آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر استقامت بخشے۔ یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد رکر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول سے مراد دارین حاصل ہو جاتے ہیں۔ سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادت نفس کر گزرے تا مخالفت خطوط نفس گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا۔ اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودہانہ بھیجا گیا ہے۔ رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر نہیں چھپ سکتے۔ اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں۔ انشاء اللہ موقع پر آپ کو اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
غلام احمد
یکم دسمبر ۱۸۸۵ء
نوٹ۔ اس مکتوب میں جس رسالہ کاذکر ہوا ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک ……ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاخطہ ہو۔ آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو۔ مگر آپ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
مکتوب نمبر ۱۸ سے لے کر ملفوف خطوط ہیں مگر نمبر ۲۱ کا رڈ ہے اس کے بعد ۲۳،۲۴ پھر لعایت ۲۸ پوسٹ کارڈ۔ (عرفانی کبیر)
(۱۹) ملفوف خط
از عاجز عائد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنائت نامہ پہنچا۔ آپ کی رویا میں کسی قدروحشت ناک خبر ہے مگر انجام بخیر ہے ۔ ایسی خوابیں بسا اوقات بے اصل نکلتی ہیں اور حدیث شریف میں کہ جو خواب وخواب دل کو خوش کرے وہ رحمن کی طرف اور جو دل کو غمگین کرے وہ شیطان کی طرف سے ہے اور دوسری خواب کے سب اجزاء اچھے ہیں۔ اب تک اس عاجز کو امید نہیں کہ جالندھر میں پہنچ سکے۔ اگر ایام تعطیل میں تشریف لاویں تو بہتر ہے ۔ مگر اول مجھ کو اطلاع دیں۔ بخدمت چوہدری میں بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍دسمبر ۱۸۸۵ء
(۲۰) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا۔ خدوند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔ حال یہ ہے کہ اس خاکسار نے حسب ایماء خدا وند کریم بقیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ‘ نے اس شہر کا نام بتادیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیئے اور وہ ہوشیار پورہے آپ پر ظاہر نہ کریں۔ کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور آپ بھی اور چوہدری محمد بخش صاحب بھی دعا کریں۔ کہ یہ کام خدا وند جلشانہ‘ جلد انجام پورا کردے۔ والسلام ۔بخدمت چوہدری صاحب سلام مسنون
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا کارڈ پہنچ گیا۔ مفصل خط آپ کی خدمت میں ارسال ہوچکا ہے۔ تعجب کہ نہیں پہنچا۔ شاید بعد میں پہنچ گیا ہو۔ اب یہ عاجز دو روز تک انشاء اللہ روانہ ہو گا۔ آپ بھی دعا کرتیں رہیں اور اگر خط پہلا پہنچا ہو تو مجھ کو اطلاع بخشیں زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۲)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار وپور تجویز ہو کر کل انشاء اللہ یہ عاجز روانہ ہو جاوے گا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔ واپسی کے وقت اگر کوئی مانع پیش نہ آیا تو جالندھر کی راہ سے آسکتے ہیں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۳)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز بروز جمعہ بخیرو عافیت ہوشیار وپور پہنچ گیا ہے اور طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فرد کش ہے آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ خد اوند کریم جل شانہ یہ سفر مبارک کرے۔ چوہدری محمد بخش صاحب بعد سلام مضمون واحد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۴)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز ہوشیار پور بخیریت پہنچ گیا ہے۔ یاد نہیں رہا پہلے بھی اس جگہ آکر آپ کو اطلاع دی یا نہیں۔ اس لئے مکرر آپ کی خدمت میں لکھا گیا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جلد تر اس کام کو انجام تک پہنچاوے اور یہ عاجز شیخ مہر علی صاحب رئیس کے مکان پر اترا ہے اور اس پتہ سے خط پہنچ سکتا ہے۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۵) خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی تک مجھ کو کوئی خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ افوض امری الی اللہ ھو نعم المولیٰ و نعم النصیر۔ شاید منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھل کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کے لئے آپ کے نام ریل میں بھیجیں سو اگر آیا تو کسی یکہ بان کے ہاتھ پہنچاویں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کچھ چیزیں منشی الٰہی بخش صاحب کو اکائونٹنٹ لاہور آپ کے نام اور چوہدری محمد بخش صاحب کے نام بلٹی کراکر جالندھری کے نام بھیجیں گے۔ آپ براہ مہربانی وہ چیزیں یکہ بان کے ساتھ یا جیسی صورت ہو ہوشیارپور میں اس عاجز کے نام بھیج دیں او راگر آپ دورہ میں ہوں تو چوہدری محمد بخش صاحب کو اطلاع دے دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اب کوئی پہلا اشتہار موجود نہیں۔ اس لئے بھیجنے سے مجبوری ہے اور یہ عاجز آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہے جس کے آثار کی بفضلہ تعالیٰ دین و دنیا میں امید ہے۔ مضمون محمد رمضان کا پنجابی اخبار میں اس عاجز نے دیکھ لیا ہے کہ ناچار فریاد خیز دا ز درد کا مصداق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا۔ آپ میر صاحب کو تاکید کردیں کہ وہ جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں۔ اور شاید اگر اصلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں مگر جلدی ہے توقف نہیں ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز عرصہ قریب ایک ہفتہ سے قادیان آگیا ہے۔ چند روز بباعث علالت طبع تحریر جواب سے قاصر رہا ہے۔ اب اہتمام رسالہ کی وجہ سے اشد کم فرصتی ہے۔ میری دانست ہے آپ کا رسالہ کے لئے روپیہ بھیجنا اس وقت مناسب ہے۔ جب رسالہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ تیاری اس کاتخمینہ معلوم نہیں ہو سکتا او ر انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہو گا اور میںآپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جلشانہ آپ کو ترودات پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرماوے آمین ثم آمین۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ رسالہ جس کااس مکتوب میںذکر ہے سرمہ چشم آریہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے وہاں لالہ مرلی دھر سے مباحثہ ہو گیا۔ اس مباحثہ کو ترتیب دے کر حضرت نے شائع کرنے کاارادہ فرمایا۔ تو چوہدری رستم علی صاحب نے اس کی طبع و اشاعت کے لئے مدد دینے کی درخواست کی تھی۔ اس مکتوب سے جہاںحضرت چوہدری صاحب کے اخلاص پر روشنی پڑتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ایک پہلو کا بھی اظہار ہے اگر آپ کو صرف روپیہ لینا مقصود ہوتا تو فوراً لکھ دیتے کہ بھیج دو مگر آپ نے یہ پسند نہیں کیا جب تک رسالہ کاتخمینہ وغیرہ نہ ہو جائے۔ ابتداً حضرت اقدس کا خیال تھا کہ یہ رسالہ چھوٹا سا ہو گا مگر بعد میں جب وہ مطبع میں گیا تو ایک ضخیم کتاب بن گیا۔ (عرفانی)
(۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچ گیا۔ میں آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان دعائوںکے اثر خواہ جلدی خواہ دیر سے ہوں۔ خواب کے اوّل اجز تو کچھ متوحش ہیں مگر آخری اجزاایسے عمدہ ہیں جن سے سب تو حش دور ہو گیا ہے۔ خواب میں پارچات کو صاف کرنا استقامت اور نجات ازہم و غم اور توبہ خالص پر دلالت کرتا ہے غرض انجام اس کابہت اچھا ہے۔ فالحمد للہ۔
رسالہ کے چھپنے میں اب یہ توقف ہے کہ مالک مطبع اجرت ……مانگتا ہے مگر لاہور سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اجرت صرف ……روپیہ ہے۔ سو امید ہے کہ دو چار روز تک بات قائم ہو کر مطبع میں اس جگہ آجائے گا یا کوئی اور مطبع لانا پڑے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ کام رسالہ کا تین چار روز تک شروع ہونے والا ہے۔ اسی باعث سے اس عاجز کواس قدر کم فرصتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ حافظ نور محمد کے فرزند کے لئے بعد پڑھنے خط کے دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ رحم فرمائے آمین۔ اس وقت بباعث ورد سرو علالت طبع طبیعت قائم نہیں۔ اس لئے اسی کفایت کی گئی۔ آپ دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
انشاء اللہ آپ کی بیماری کے لئے دعا کرنا شروع کروں گا۔ آپ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ مگر مضطرب اور بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔ بے اذن الٰہی کوی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بیماری کئی لوگوںکو ہو تی ہے اور اچھے ہو جاتے ہیں۔ اگر حکیم حاذق کی صلاح سے مارالجبن شروع کریں اورسر پر بعض مرطب چیزیں ناک میں ڈالنے والی استعمال ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ قوی فائدہ کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔آپ کے لئے کئی دفعہ کی ہے اور کی جائے گی۔ کس بات کااندیشہ ہے۔ خداوندکریم جلشانہ قادر مطلق ہے۔ ابتلاء اور غم اور ہم سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ سو ذرہ اندیشہ نہ کریں میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا۔ اگر مزاج میں یبس ہو تو تازہ دودھ بکری کاعلی الصاح ضرور پی لیاکریںاگر موافق آجائے تو بہت عمدہ ہے اور کسی نوع کافکر نہ کریں۔ اب رسالہ کاکام عنقریب شروع ہو گا۔بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ سرمہ چشم آریہ صرف ہزار کاپی چھپے گا۔ انشاء اللہ القدیر جو شخص ایک دفعہ اس کو دیکھ لے گا۔ ہر کوئی حسب نیت و مذاق دینی اس کو ضرور خریدے گا اور یہ کام بہت تھوڑا ہے۔ اب جلد ختم ہونے والا ہے او ررسالہ سرمہ چشم آریہ تو چار ماہ تک ختم ہو گا۔ اسی رسالہ میں انشاء اللہ القدیر اس کااشتہار دیاجائے گا۔ چوہدری محمد بخش صاحب کوسلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍۱۸۸۶ء

(۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
میر صاحب کی روانگی کے دوسرے دن روز کا تب آگیا ہے اور رسالہ سرمہ چشم آریہ جو صرف پندرہ یا بیس دن کا کام ہے چھپنا شروع ہوا ہے۔ کیونکہ رسالہ سراج منیر چار ماہ میں چھپے گا اور یہ صرف چند روز کا کام ہے۔ اس لئے اوّل اس سے فراغت کر لینا مناسب سمجھا گیا ہے روز کے روز کاپیاں روانہ ہوتی جاتی ہیں اور کام بفضلہ تعالیٰ ہو رہا ہے آپ کویہ عاجز دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ بہر حال فضل الٰہی کی امیدہے۔ والسلام۔ چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔ پہنچے۔
نوٹ۔ اس خط کوئی تاریخ نہیں مگر قادیان کی مہر ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء اور جالندھر کی ۱۷؍ جون ۱۸۸۶ء کی ہے۔ اس لئے ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء تاریخ روانگی ہے
(عرفانی)
(۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر اگر زندگی رہی تو رسالہ سرمہ چشم آریہ رمضان مبارک کے آخیر تک چھپ جائے گا۔صرف درمیانی حرج یہ واقع ہو گیا ہے کہ شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں چھپے ہوئے ورقے دیر کے بعد خشک ہوتے ہیں۔ بہرحال ا مید کی جاتی ہے کہ رمضان کے گزرنے کے بعد جلد تر شائع ہو گا۔ اس وقت ڈیڑھ سو جلد آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا آپ کے لئے کی جاتی ہے۔ مگر یہ دشمن نفس جنگجو ہے اس کی بدیوں کے مقابلہ پر نیکیوں کے ساتھ حملہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکیوں کی برکت سے بدیوں پر آخر انسان غالب آجاتا ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۸۶ء
(۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ استغفار کو بہت لازم پکڑنا چاہئے جب بندہ عاجزی سے اپنے مولیٰ کریم سے معافی اور مغفرت چاہتا ہے تو آخر اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کے دل کو گناہ کی طرف سے نفرت دی جاتی ہے۔ ا ستغفار کی حقیقیت یہ ہے کہ انسان رو کر اور تضرع سے اللہ جلشانہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے سو استغفار کا کم سے کم یہ اثر ہوتا ہے غضب الٰہی سے بچ جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہے مگر ترتیب اثر کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ اس زندگی میں حکمت الٰہی ہے۔ استغفار ہر گز چھوڑنا چاہئے۔ یہ بہت مبارک طریق ہے۔ رسالہ جب تیار ہو جائے گا تو اطلاع دی جائے گی۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍ جولائی ۱۸۸۶ء
(۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
پہلے اس جگہ کو امرتسر سے کتابوں کا آنا ضروری ہے تا میں ان کی غلطی وغیرہ کو دیکھ لوں گا۔ کیونکہ اکثر ترتیب میں جز ملانے کے وقت کمی و بیشی اوراق کی ہو جایا کرتی ہے۔ سو اس جگہ سے ایک سو تیس کتابیں آپ کی خدمت میں بھیجی جائیں گی۔ جز بندی ہو رہی ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ۲۵؍ ستمبر تک آپ کے پاس کتابیں پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ از طرف اخویم میر صاحب عباس علی صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ اس خط کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اس وقت صدر انبالہ میں تھے۔
(عرفانی)
(۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ صدر انبالہ میں مجھ کو ملا۔ میں اس جگہ تک اللہ جلشانہ چاہے متوقف ہوں۔ میرا پتہ یہ ہے۔ صدر انبالہ۔ حاطہ ناگ پہنی۔ محلہ گھوسیاں بنگلہ محمد لطیف رسالہ سراج منیر اب انشاء اللہ القدیر بعد رسالہ سرمہ چشم آریہ طبع ہو گا۔ مگر چونکہ اس کی فروخت کے سرمایہ سے طبع رسالہ سراج منیر کی تجویز ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر۔ اس لئے جس قدر جلد اس رسالہ کی فروخت ہو گی اسی قدر جلد تر رسالہ سراج منیر طبع ہو گا۔ آٹھ سو روپیہ جمع تھا۔ وہ سب رسالہ چشم آریہ پر خرچ ہو گیا۔ اس رسالہ میں کچھ تو بوجہ علالت طبع اس عاجز اور کچھ دیگر مواقع سے مطبع وغیرہ سے توقف ہوئی۔ اب یہ رسالہ سرمہ چشم آریہ امید قوی ہے کہ پندرہ روز تک من کل الوجوہ تیارہوکر میرے پاس پہنچ جائے گا۔ چونکہ رسالہ ضخامت میں بہت بڑا ہو گیا ہے او رخرچ بھی اس پر بہت زیادہ ہو اہے اور ابھی وہ سو روپیہ دینا ہے اس لئے قیمت اس کی ۱۲؍ مقرر کی گئی ہے جس زمانہ میں یونہی تخمینہ سے ۴؍ قیمت مقرر کی تھی اس زمانہ میں آپ نے ڈیڑھ سو رسالہ کا فروخت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا۔ پس اس حساب سے ……کا رسالہ آپ کے ذمہ فروخت کرانا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کر کے اگر آپ محض اللہ پوری پوری کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو رقم کثیر جمع کرنے میں سعی مبذول فرماویں۔ تو نہایت ثواب کی بات ہے۔ مجنملہ اس کے پانچ سو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکائنٹنٹ شملہ کا ہے جو بطور قرضہ طبع رسالہ کے لئے لیا گیا۔ اور تین سو روپیہ کاچندہ ہے۔اس میں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو۔ امید ہے کہ یہ کوشش موجب خوشنودی رحمن ہو آپ کے رفیق ہندو کو اس رسالہ کا پڑھنا مفید ہے اگر وہ غور سے پڑھے اور نجابت طبع رکھتا ہو او رسعادت ازلی مقدر ہو تو ہدایت پانے کے لئے کافی ہے۔ انشاء اللہ القدیر دعا بھی کروں گا۔ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ میر احافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ واللہ فی کل فعل حکمتہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پہنی
(۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پختہ ارادہ ہے کہ آخیر نومبر تک یہ عاجز قادیان کی طرف روانہ ہوگا۔ ابھی کوئی دن مقرر نہیں کہ کب تک یہاں سے روانہ ہونا پڑے۔ اگر موقع نکلا تو انشاء اللہ القدیر اطلاع دی جائے گی۔ اللہ جلشانہ اس اخلاص اور خدمت کا آپ کو بہت اجر بخشے۔ شیخ مہر علی شاہ نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ انہی دنوں ان کواطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ ان کی فرش نشت کوآگ لگ گئی اور ایک بڑا تہکہ برپا ہوا اور ایک پرہول شعلہ آگ کا اٹھا او رکوئی نہیں تھا۔ جو اس کوبجھاتا۔ آخر میں میںنے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیاپھر آگ نظر نہیںآئی مگر دھواں رہ گیا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس قدر اس نے آگ جلا دی۔ مگر ایسا ہی دل گزرا کہ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کوملا۔ پھر بعد میں اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے واللہ اعلم باالصواب۔ شیخ صاحب فی الحقیقت سپرد ششن ہو گئے۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون۔ میں ان کی نسبت بہت دعا کرتا ہوں اور ان کے عزیزوںکو بھی تسلی کے خط لکھے ہیں۔ اگر کوئی امر صفائی سے منکشف ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ بھی دعا کریں۔ والسلام چوہدری محمد بخش صاحب و مولوی امام الدین صاحب و عطاء اللہ خاں صاحب کو سلام مسنون۔ اگر ملاقات ہو تو پہنچا دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ صدر انبالہ
(۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو ہر طرح اختیار ہے جس جو چاہیں مفت دیں اور اگر ممکن ہو تو پانچ جلد عمدہ خوبصورت اسی نمونہ کی جو میں نے دکھلایا تھا تیار کرا کر ساتھ آویں یا بھیج دیں۔ زیادہ خیریت ہے چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۶ء
(۴۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
یہ عاجز قادیان پہنچ گیا ہے اور یہ بات اطلاعاً لکھنا مناسب ہے کہ آں مکرم اس روپے سے جوبابت قیمت کتاب جمع ہو گا۔ ……۱۵۰ نقد بخدمت بابو الٰہی بخش صاحب اکائنٹنٹ لاہور پہنچا دیں۔ وہ سرمایہ رسالہ کے لئے جمع کر لیں گے۔ پتہ یہ ہے۔ بمقام لاہور انار کلی۔ پبلک ورکس۔ بابو الٰہی بخش صاحب اکوئنٹنٹ اور باقی روپیہ براہ مہربانی اس جگہ پہنچا دیں اور سب طرح سے خیریت ہے۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
راقم خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ۔ یہ خط غالباً ۲۵؍ نومبر کے بعد کا ہے۔ عرفانی۔
(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی ومکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا یہ عاجز ۲۵؍نومبر ۱۸۸۲ء سے قادیان پہنچ گیا ہے آپ برائے مہربانی اس روپیہ سے …روپیہ بابو الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور پہنچا دیں کہ وہ رسالہ کے لئے بابو صاحب کے پاس جمع ہوگا اور باقی روپیہ اس جگہ ارسال فرمادیں اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے ۔ والسلام۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
ضلع گورداسپور
یکم دسمبر ۱۸۸۶ء
(۴۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کی نسبت میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور …بہر حال علی طور پر امید رحمت الٰہی ہے۔ اور بہت چاہا کہ صفائی سے ان کی نسبت منکشف ہو مگر کچھ مکروہات اور کچھ اثار نظر آئے۔ اگر اس کی تعبیر اسی قدر ہو کہ مکروہات اور شدائد جس قدر بھگت چکے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو۔ انجام بخیر کی بہت کچھ امید ہے۔ اور دعائیں بھی ازحدہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے ۔ آمین ثم آمین ۔ اور جوآپ نے نیت کی ہے اگر ضرورت ہوتو چار ماہ کے لئے بطور قرضہ سو یا دوسو روپیہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیت کا اجر بخشے۔ اگر کسی وقت ایسی ضرورت پیش آئے گی ۔ تو آپ کو اطلاع دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں۔ وہ بطور حق براہین ہیں۔ ابلاغ پائیں۔ اور اللہ جلشانہ‘ توفیق بخشے کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں۔ بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں۔
نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسب معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے ۔عرفانی
(۴۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا میں نے سنا ہے مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے ابھی میرے پاس پہنچا۔ سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے۔ جب میرے پاس پہنچے شاید پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مقرر یادہانی سے بھیج دوں گا۔ چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء
والسلام
(۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آزبند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے۔ سب پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جائے گا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے۔ مگر اس کی طبع کے لئے تجویز کر رہا ہوں۔ کیونکہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کو چودہ سو روپیہ لاگت ہے۔ اگر کوئی مطبع کسی قدر پیچھے یعنی تین ماہ بعد لینا منظور کرے تو باآسانی کام چل جائے۔اور اشتہار میرے پاس پہنچ جائے ہے۔ فتح محمد خاں صاحب کی غلطی سے کچھ کا کچھ لکھ دیا۔ اب آپ بھی وصولی روپیہ قیمت سرمہ چشم آریہ کابہت جلد بندوبست کریں۔ اور ……روپیہ کی مجھے اور ضرورت ہے وہ میرے پاس بھیج دیں۔ باقی روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور روانہ کر فرمادیںاور جو آپ نے دو سو روپیہ بطور قرضہ کے دینا تجویز کیا ہے وہ بھی ان کے پاس محفوظ رکھیں کہ اب روپیہ کی ضرورت بہت پڑے گی۔ قیمت رسالہ میں آج تک آپ سے …… پہنچ گئے ہیں اور ……روپیہ آنے سے پورے ……روپیہ ہو جائیںگے۔ شیخ مہر علی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ واللہ غفور الرحیم۔ سندرواس کے لئے تو ہم نے آپ کے کہنے سے بہت دعا کی تھی مگر چونکہ ہندو آخر ہندو ہے اس لئے وفاداری کے شکر گزار ہونا مشکل ہے ۔ آج کل ہندئووں کے جو مادے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس سے عقل حیران ہے ہندئووں میں وہ لوگ کم ہیں جو نیک اصل ہوں۔ ایک خطا۔ دوئم خطا۔ سوئم مادربخطا۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب السلام علیکم ۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر شیخ میر محمد صاحب کے واسطے دعا کروں گا آپ بالفصل پچیس روپیہ بذریعہ منی آرڈر اس جگہ کی ضرورتوں کے لئے ارسال فرما دیں او رباقی روپیہ کی وصولی کا جہاں تک ممکن ہو جلد بندوبست کریں تا وہ روپیہ سراج منیر کے کسی کام آوے اور قند جیساکہ آپ نے ہوشیار پور بھیجا تھا اور دو روپیہ کے شیر مال تازہ تیا رکروا کے ٹوکری میں بند کر کے بذریعہ ریل بھیج دیں او راوّل اس کی بلٹی بھیج دیں اور شیخ صاحب مہر علی صاحب کی صورت مقدمہ سے اطلاع بخشیں۔ سندر داس اس کی کامیابی سے خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو سچی ہدایت بخشے کہ قوم میں سے باہر آنے کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ واللہ یھدی الیہ من یشاء۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ دو سو روپیہ جو قرضہ لیا جائے گا۔ آپ نے اپنے طور پر تیار رکھیں کہ جب نزدیک یادیر سے اس کی ضرورت ہوئی تو بھیجنے میں توقف نہ ہووے۔
(۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کے لئے میں نے اس قدر دعا کی ہے کہ جس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ جلشانہ اس کی قدر بخشی کرے۔ کہ وہ کریم و رحیم ہے۔ رونے والوں کو ایک دم ہنسا نہیں سکتا۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مگر اسے کیوں ایسا مضطر ہوناچاہئے۔ وہ تو ابھی لڑکا ہے اور ابھی وہ بہت وسیع میدان درپیش ہے مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کس قدر روپیہ لاہور میں بھیجا ہے۔اگر کچھ بقیہ آپ کے پاس ہو تو مجھے بعض ضروریات کے لئے منگوانا ضروری ہے۔اس سے جلد اطلاع بخشیں اورنیز معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سو آپ دو سو روپیہ تک قرضہ کا انتظام کر دیں تو اس قسم کا ثواب بھی آپ کو حاصل ہو گا۔ باقی خیریت ہے۔ مقدمہ شیخ مہر علی صاحب سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
(۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی محبی۔ السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ قصیدہ متبرکہ موصول ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ اگر چند بوتل سوڈا واٹر مل سکیں تووہ بھی بھیج دینا۔ یہ قصیدہ انشاء اللہ ورج کتاب کرا دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
(۵۰) ملفوف و مختوم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
کل عنایت نامہ آپ کاپہنچا۔ مگر کوئی کارڈ نہیں پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کے واسطے جس قدراس عاجز سے ہو سکا۔ دعا کی گئی اور حوالہ بخدا وند کریم و رحیم کیا گیا ۔ اور اس جگہ سب خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر کے طبع میں صرف بعض امور کی نسبت دریافت کرنا موجب توقف ہو رہا ہے۔ جب وہ امور بھی طے ہو جاتے ہیں۔ تو پھر انشاء اللہ القدیر رسالہ کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا اور شائد امرتسر میں کسی قدر توقف کرنا ضروری ہو گا۔ اب آپ کی تشریف آواری کی ۲۶؍ دسمبر تک امید لگی ہوئی ہے اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیرییت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ پہلا خط ہے جس پر حضرت اقدس نے تین مہریں لگائی ہیں ایک الیس اللہ بکاف عبدہ۔ کی ہیں اور دوسری اذکر رحمتی کی ہے اور یہ مہریں آپ نے شروع خط میں لگائی ہیں۔(
( عرفانی)
(۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سردار کی بات بالکل فضول اور دروغ معلوم ہوتی۔ صحیفہ قدسی بہت مدت سے میرے پاس آتا ہے اور اس کا ایڈیٹر ایک دوست ہے۔ اس میں مجال نہیں کہ کوئی مخالف مضمون چھپے اور آریہ گزٹ قادیان میں آتا ہے اگر ہوتا تو ظاہر ہو جاتا۔ جو مضمون شائع ہوچکا اس کا پوشیدہ کرنا کوئی وجہ نہیں۔ کل اشاعۃ السنہ خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ ولیوپی امیل کے کاغذات جو آپ نے بھیجے ہیں وہ بے رنگ ہوکر آئے۔ کسی نے ۵؍ انپر لگا دیا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ صحیفہ قدسی کے ایڈیٹرمولوی عبدالقدوس صاحب مرحوم تھے اور فی الحقیقت حضرت اقدس سے ان کو محبت واخلاص تھا۔ مقدمہ کرم دین میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ الحکم کے خریدار تھے۔
(عرفانی)
(۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
کل ایک روز خط حاجی ولی اللہ صاحب کی طرف روانہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان کو واپسی کی طرف رغبت دی گئی ہے اور جواب طلب کیا گیا ہے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔ مضمون جو آپ لے گئے تھے ضرور چھپوا دیں۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ء
(۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ اسلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھے اس وقت پختہ معلوم نہیں کہ کب تک امرتسر جائوں۔ شاید بیس روز تک جانا ہو۔ بہرحال اس وقت انشاء اللہ خبر دے دوں گا۔ شیخ صاحب کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے بہر حال رحم اللہ جلشانہ کی امید ہے وھو الغفور الرحیم۔ آپ استغفار کو لازم پکڑیں۔ اس میں کفارہ و ثواب ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ خط پر تاریخ نہیں۔ مگر مہر ۴؍ جنوری ۱۸۸۷ء درج ہے۔
(عرفانی)
(۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
جیساکہ آپ کو دلی جوش شیخ صاحب کے حق میں ہے ایساہی مجھ کو ہے اور میں نے اس قدر دلی جوش سے دعا ان کے حق میں کی ہے۔ جس کا کچھ اندازہ نہیں رہا۔ اب ہم اس قدر دعائوں کے بعد شیخ صاحب کو اسی ذات کریم و رحیم کے سپرد کرتے ہیں جواپنے عاجز اور گنہگار بندوں کی تفصیرات بخشتا ہے اور عین موت کے قریب دیکھ لیتا ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر حالات سے اطلاع بخشتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ قادیان
۱۱؍ فروری ۱۸۸۷ء
(۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
اشتہار پہنچااور…روپیہ بھی پہنچ گئے۔ انشاء اللہ القدیر اشتہار دینے والے شرمندہ اور رسوا ہونگے۔ آج کل ہندؤوں کو اپنے قومی تعصب میں بہت کچھ اشتعال ہورہا ہے مگر دروغ کو فروغ تا کجا خودنابود ہوجائیں گے۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی تاریخ پہلے آپ نے ۲۲ مارچ ۸۷ء لکھی ہے ۔ کیا پیشی سے پہلے تاریخ منسوخ ہوگئی یا تاریخ سے پہلے مقدمہ پیش ہوگیا۔ اس سے ضرور اطلاع بخشیں۔ چودھری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء ازقادیان
(۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
پانچ روپیہ کے شیر مال پہنچ گئے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ اس پر تاریخ نہیں ہے مگر مہر ۴؍ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔
(۵۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
آج مبلغ پندرہ روپے بابت قیمت کتاب سرمہ چشم آریہ پہنچ گئے۔ رسیدًا اطلاع خدمت ہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ترود دور فرمائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ مارچ ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس خط پر سندر داس از جالندھر بھی درج ہے جو اس نے خط پہنچنے پر لکھا ہے۔
(عرفانی)
(۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے دوست کے لئے بہت دفعہ دعا کی گئی۔ اگر کچھ مادہ سعادت مخفی ہے تو کسی وقت اثر کرے گی۔ ورنہ تہیدست ازل کا کیا علاج آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو غیروں کی طرف التفات کرنے سے مستغنی کرے۔ واللّٰہ علی کل شئی قدیر۔ رسالہ سراج منیر کاسب اسباب تیار ہے صرف یہ خیال ہے کہ اوّل خریداروں کی مجرو درخواستیں دو ہزار تک پہنچ جائیں پھر چھپنا شروع ہو۔ کیونکہ یہ کام بڑا ہے جس میں دو ہزار کے قریب خرچ ہو گا۔ آپ بھی اطلاع بخشیں کہ ایسے سچے شائق آپ کو کس قدر مل سکتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کو بباعث ضروری کام رسالہ رو ایک یا وہ گو کہ ایک ہفتہ کے لئے جانا پڑا ہے۔ اس لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر فرصت ہو تو امرتسر میں آپ کی ملاقات ہو جائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں کہ کہاں اتروں گا۔ انشاء اللہ وہاں جاکر اطلاع دوں گا۔ اگرچہ میرا پتہ ہال بازار۔ مطبع ریاض ہند میں جاکر شیخ نور احمد سے جو مالک مطبع ہیں۔ بخوبی مل سکتاہے۔ مگر پھر بھی انشاء اللہ امرتسر میں جاکر آپ کو اطلاع دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔ مگر مہر ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کی ہے۔ (عرفانی)
(۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز امرتسر پہنچ گیا ہے۔ شاید پیر منگل تک اس جگہ رہوں مگر بروز اتوار صرف ایک دن کے لئے لاہور جانے کاارادہ ہے۔ اگر آپ تشریف لائیںتو میں کٹرہ مہاں سنگھ میں برمکان منشی محمد عمرداوغہ سابق اتر ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از امرتسر کٹرہ مہاں سنگھ
۳۰؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون ہیں۔
امرتسر سے قادیان آگیا ہوں۔ آپ دوام استغفار سے غافل نہ رہیں کہ دنیا نہایت خطرناک آزمائش گاہ ہے۔ شاید کتاب شحنہ حق آپ کے پاس پہنچی ہے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیںکے پہلی کتابوں کی بقیہ قیمت وصول ہوئی یا نہیں۔ اب وہ تمام قیمت جلد وصول ہوجائے تو بہتر ہے۔کہ وقت نزدیک ہے اطلاع بخشیں ۔ میر صاحب جالندھر میں ہیںیا تشریف لے گئے ہیںامرتسر میں آپ کی بہت انتظار ہوتی رہی مگر مرضی الٰہی نہ تھی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
(۶۳)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
چونکہ نئے رسالہ شحنہ حق کی اجرت وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس جگہ روپیہ وغیرہ نہیں ہے۔ اس لئے مکلف ہوں۔ کہ آپ مجھ کو بیس …روپیہ بھیج دیں اور حساب یاداشت میں لکھتے رہیں یعنی جس قدر آپ نے متفرق بھیجا ہے۔ا س کو آپ اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے جاویںاور اب وصولی روپیہ اور تصفیہ بقایا کی طرف توجہ فرماویں ۔ کہ اب روپیہ کی بہت ضرورت پڑے گی۔ بڑا بھاری کام سر پر آگیا ہے۔ آپ کی ملاقات اگر کبھی ہوتو بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔تاریخ درج نہیں ڈاک خانہ کی مہر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۸۸۷ء ہے۔ عرفانی
(۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
رسالہ ماہوار کی قیمت بہت ہلکی اور خفیف رکھنا مصلحت سمجھا گیا ہے مگر رسالہ کے نکلنے پر معلوم ہو جاوے گا۔ آپ کی ہمدردی دینی معلوم کرنے سے باربار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم جلشانہ‘آپ کو محمود الدنیاو العاقبت کرے۔ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے دوسو رسالہ سراج منیر اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ ملاقات کو دل چاہتا ہے ۔اگر آپ کو کسی وقت فرصت ملے تو اول اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
نوٹ:۔اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر حضرت اقدس نے کیا ہے اس سے مرادقرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ہے جوآپ ماہوار جاری فرمانا چاہتے تھے اس کا اعلان آپ نے شحنہ حق میں بھی فرمایاتھا ۔ مگر بعد کے واقعات اور حالات نے حضور کو اور طرف متوجہ کردیا۔ پھر ایک زمانہ میں نورالقرآن آپ نے شائع کرنا شروع فرمایا چونکہ یہ رسائل کسی تجارتی اصول پر جاری نہیں کرنے چاہے تھے اس لئے دونمبروں کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیاہے۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کے مقاصد و منشاء کی اشاعت سے سامان اخبارات و رسالہ جات کی صورت میں کردیئے جو آج کئی زبانوں میں جاری ہیں۔ عرفانی۔
(۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔دعا کی گئی ۔ مجھ کو بباعث علالت طبعیت خود کم فرصتی بھی ہے۔ اب میں آپ سے ایک ضروری امر میں مشورہ لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بوجہ چند در چندو جہوں کے دوسری جگہ کتابوں کے طبع کرانے سے میری طبعیت وق آگئی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیارکرکے کام سراج منیر و دیگر رسائل کا شروع کرادوں اگر مطبع میں کچھ خسارہ بھی ہوگا۔ تو ان خساروں کی نسبت کم ہوگا۔ جو مجھے دوسرے لوگوں کے مطبع سے اٹھانے پڑتے ہیں۔ لیکن تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کام کے شروع کرانے میں تیرہ چودہ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ جس میں خرید پریس وغیرہ بھی داخل ہے اور آپ نے اقرار کیا تھا کہ ہم تین ماہ کے عرصہ کے لئے دوسو روپیہ بطور قرض دے سکتے ہیں۔ سو اگر آپ سے یہ ہوسکے اور آپ کسی طور سے یہ بندوبست کرسکیں کہ چارسو روپیہ بطور قرضہ چھ ماہ کے لئے تجویز کرکے مجھ کو اطلاع دیں تو میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو چھ ماہ کے اندر ہی یہ قرضہ ادا کرادے لیکن چھ ماہ کے بعد بلاتوقف آپ کو دیا جائے گا اس کا جواب آپ بہت جلد بھیج دیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ ہاتھ پر خداتعالیٰ نے یہ خیر مقدر کی ہو۔ اگر میں سمجھتا کہ آپ اِدھر اُدھر سے لے کر کچھ اور زیادہ بندوبست کرسکتے ہیں تو میں آپ آٹھ سَو روپیہ کے لئے آپ کو لکھتا مگر مجھے خیال ہے کہ گو آپ اپنے نفس سے اللہ رسول کی راہ میں فدا ہیں۔ مگر آجکل دوسرے مسلمان ایسے ضعیف ہورہے ہیں کہ ان کے پاس قرضہ کا بھی نام لیا جائے تو ان کی طبع میں قبض شروع ہوجاتا ہے۔ جو اب سے جلد تر اطلاع بخشیں۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی نسبت اگر کچھ پتہ ہو تو ضرور اطلاع بخشیں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۱؍مئی ۸۷ء
نوٹ:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۷ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان میں ایک مطبع جاری ہو مگر مشیت ایزدی نے اس وقت اس کے لئے سامان پیدا نہ دیئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں قادیان میں پریس منگوایا گیا مگر وہ کام کرکے واپس چلاجاتا رہا۔ آخر بالا استقلال خدا تعالی نے یہاں مطبع کا سامان مہیا کردیا۔ خاکسار عرفانی نے مشین پریس قائم کیا جواب ضیاء الاسلام پریس میں کام کرتا ہے۔ حضرت کے ہرارادہ کی خداتعالیٰ نے تکمیل کردی۔ گو لوکان بعد حین ہوئی مگر پریس آپ کی زندگی میں ہی اور اخبارات ورسائل بھی آپ کی زندگی میں جاری ہوگئے یہ منشاء الٰہی تھا اور پورہوکررہا۔ اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھری صاحب کے خدا تعالیٰ کی رہ میں فدا ہونے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کمال اخلاص اور اس کے نتیجہ میں کامل فلاح پانے کا ثبوت ہے۔ (عرفانی)
(۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔مولوی غلام محی الدین کے لئے میں نے کئی دفعہ دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو تروّدات سے مخلصی بخشے اب مجھ کو نہایت جلد اسبات کی ہے کہ جس طرح ہوسکے اپنے کام کو شروع کروں جن پر کسی قدر امید پڑتی ہے قرضہ کے لئے لکھ دیا ہے اور سب کو لکھا گیا ہے کہ بعد طبع سراج منیر ایک برس کے وعدہ پر قرض دیں۔ آپ کے مانند چارپانچ آدمی ہیں اورچودہ سو روپیہ ……کے قرضہ کا بندوبست کرنا ہے آپ مجھ کو بہت جلد اطلاع دیں کہ آپ ٹھیک اس وعدہ پر کس قدر قرضہ کابندوبست کرسکتے ہیں تا میں روپیہ کومنگوانے کے لئے کوئی تجویز کروں اور پھر لاہور میں خرید مطبع کے لئے آدمی بھیجا جائے۔ اب یہ کام جلدی کا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جائے۔جس قدر بقیہ کتب ہو وے وہ بھی آپ وصول کر کے جلد بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ شعبان
نوٹ۔ اس خط میں جن مولوی غلام محی الدین صاحب کوذکر ہے وہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے خاکسار عرفانی کے بھی استاد تھے عرفانی نے براہین احمدیہ ۱۸۸۷ء میں انہیں صاحب کے پاس دیکھی تھی اور جمال وحسن قرآن نو ر جان ہر مسلمان ہے والی نظم کو اس میں سے نقل کیا تھا سلسلہ احمدیہ میں جیساکہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے تعلقات کی ابتداء اسی ۱۸۸۷ء سے ہوتی ہے اور چوہدری علی صاحب مرحوم ہی اسی کے موجب ہیں یہ کتاب چوہدری صاحب ہی کی تھی۔ مولوی غلام محی الدین صاحب کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداً ارادت و عقیدت تھی مگر افسوس ہے کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو سکے۔
(عرفانی)
(۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اب تک کوئی خبر نہیں آئی کہ بریت پاکر بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے۔ اگر آپ کو خبر ہو تو برائے مہربانی اطلاع بخشیں۔ قرضہ کی بابت تجربہ کار لوگوں سے دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے اس تجویز کی تجسس کی لیکن یہ کہا کہ جس حالت میں انہیں کتابوں کی فروخت سے قرضہ اتارا جائے گا۔ تو اس صورت میں کم سے کم ادائے قرضہ کی میعاد ایک سال ہونی چاہئے۔ کیونکہ سراج منیر پانچ مہینہ سے کم نہیں چھپے گا۔ اس لئے میں نے کلاً علی اللہ بعض دوستوں کو لکھا ہے او رمیرا ارادہ ہے کہ اگر قرضہ کا بندوبست حسب و لخواہ ہو جائے تو بہت جلد اس کام کو شروع کروں۔ آپ کو میں نے چھ ماہ کے وعدہ کے لئے خط لکھا تھا۔ مگر درحقیقت وعدہ ایک سال بہت خوب ہے اگر آپ متحمل ہوسکیں۔ توا س ثواب کے لئے میں عین جدوجہد کریں۔میرا ارادہ ہے کہ رمضان شریف میں یہ کام شروع ہو جائے۔ آیندہ جو ارادہ الٰہی ہو۔ مجھے اس زبانی یاد نہیں کہ آپ نے کتابوں کی قیمت میں کیا کچھ ارسال فرمایا تھا اور کیاباقی ہے بہرحال جوکچھ باقی ہے اب اس موقعہ میں جہاں تک جلدی ممکن ہو بھیجنا چاہئے اور نیز اس قرضہ کی بابت جو اس میعاد کے لئے ہو ممکن ہو جیسی مرضی ہو اطلاع دینی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو کچھ آپ نے ایک سال کے وعدہ پر سو روپیہ دینا کیا ہے۔ اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن اس بات کوبھی اپنے لئے گوارہ کر لیں کہ یہ وعدہ اس تاریخ سے ہو کہ جب سراج منیر چھپ کر تیار ہو جائے۔ کیونکہ سراج منیر کی چھپائی کا کام پانچ یا چھ ماہ تک ختم ہو گا۔ چونکہ یہ روپیہ سراج منیر ہی کی فروخت سے نکالا جائے گا اس لئے صرف چھ ماہ تک ایک خطرناک عہد ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ایک سال پر چھ ماہ اور زائد کئے جائیں۔ بقیہ فروخت کتب کا جو رپیہ ہے اگر وہ آپ بہت جلد ساتھ لاویں تو آپ کی ملاقات بھی ہو جائے بہت خوشی کی بات ہے اگر آپ آویںتو ……روپیہ کی شکر جو عمدہ ہو اور نیز ایک بوتل چٹنی کی اور دو شیر مال میرے حساب میں خرید کر ساتھ لاویں ا ور اگر جلدتر آنا ہو ممکن ہو توبقیہ روپیہ فروخت کتب کا بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں۔ لیکن جلد آنا چاہئے۔ کیونکہ مجھے اس وقت روپیہ کی بہت ضرورت ہے اور نیز میرا ارادہ ہے۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو پختہ ارادہ ہے کہ اسی ماہ رمضان میں جوبہت مبارک ہے یہ کام شروع کیا جائے۔ سو اگر آپ تشریف لائیں تو بعض امور کا مشورہ آپ سے لیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب بھی ساتھ آجائیں توبہتر ہو میر صاحب سے استصواب کر لیں۔ یہ کام بہت عظم الشان ہے۔ دوستوں کامشورہ اس میں بہتر ہے اور بعض مشورہ طلب امور بھی ہیں۔ آپ پہلے آنے کی پختہ گنجائش نکال کر پھر میر صاحب کولکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو مخنثون کا گھر آباد دیکھا جو زیوروں سے آراستہ ہیں اس سے مراد دنیا دار ہیں جو دنیا کی آرائشوں میں مشغول ہیں اور جو دیکھا کہ ایک دوست کی تلاش میں دوڑ رہے ہیں اور پرواز بھی کر رہے ہیں اور پھر ملاقات ہو گئی۔ یہ کسی کامیابی کی طرف اشارہ ہے اور دوست کے جگر سے مال مراد ہے جوانسان کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اور دشمن کے جگر کا کانٹا اس پر تباہی ڈالتا ہے۔ تلوار ہاتھ میں ہونا فتح و نصرت کی نشانی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے وہ کام جو اب درپیش ہیں۔ آپ کو دکھا دیا ہے۔ اس کام میں چند دوستوں کی قرضہ کے لئے تکلیف دی گئی ہے۔ تا دشمنوں کی بیخ کنیکی جائے۔ سو خواب بہت عمدہ ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ فرصت نکال کر ملاقات کریں۔ ایک اور تکلیف دیتا ہوں اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لئے سعی کریں۔ آج کل ماہ رمضان بباعث مہمانداری و مصارف خانگی میں روغن زرد یعنی گھی کی بہت ضرورت در پیش ہے اور اتفاق ایسا ہوا کہ گھی جو جمع تھا سب خرچ ہو گیا اور اردگرد تمام تلاش کیا گیا اچھا گھی ملتا نہیں آخر چھ سات دن کے بعد ہمارا معتبر میاں فتح خاں واپس آیا۔ اگر پانچ روپیہ کا گھی عمدہ کسی گائوں سے مل سکے تو میرے حساب میں ضرور خرید کر ضرور ساتھ لاویں اور وہ دوسری چیزیں بھی جو میں نے لکھی تھیں۔بخدمت چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۰؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعد السلام علیکم۔
اس وقت میں انبالی چھائونی کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ کیونکہ میر ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں۔ زندگی سے ناامید ہے۔ ان کی لڑکی کی اپنی والدہ سے ایسے وقت میں ملاقات ہونی چاہئے۔ سو میں آج لے کر اسی وقت روانہ ہوتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۹؍ جون ۱۸۸۷ء
(۷۱) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آم پہنچ گئے۔ اگر دوسری دفعہ ارادہ ارسال ہو تو دو امر کا لحاظ رکھیں۔ ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو۔ میںنے سندر داس کی شفا اور نیز ہدایت کے لئے دعا کی ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا۔
خاکسار
والسلام
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۸۷ء
(۷۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم۔
آج ایک ٹوکرہ آموں کاپہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ بوجہ شدت حرارت موسم آم جو ٹوکرے کے اندر دبے ہوئے تھے بگڑ گئے۔ اس لئے آموں کی کیفیت سے کچھ اطلاع نہیں ہوئی۔ اگر ٹوکرے میں درخت سے تازہ توڑ کر کسی قدر کچے رکھے جاتے تو غالباً امید تھی کہ نہ بگڑتے۔ دوسری مرتبہ یہ ضرور احتیاط رکھیں میںنے جو آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کھلائیں۔ آم توخراب ہو گئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے۔ واللہ اعلم۔ اس کی کیا تعبیر ہے۔ مولوی حکیم نورالدین صاحب کا آدھا ٹکڑا نوٹ پانچ سو رپیہ کا پہنچ گیا اور ساتھ ہی روپیہ نقد پہنچے اور آدھا ٹکڑا نوٹ کا امید کہ دس روز تک پہنچ جائے گا۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ بخدمت چوہدری صاحب کو محمد بخش السلام علیکم۔
الراقم خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
(۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آج اِکیاسی آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ یہ آم بہت عمدہ تھے۔ ان میں سے صرف ایک بگڑا۔ باقی سب عمدہ پہنچ گئے۔ دو آدمیوں کے پاس ضرور آپ دوبارہ تحریک کریں اور جلداطلاع بخشیں کہ اب وقت نزدیک ہے۔ شاید آج دوسرا قطعہ پانچ سو روپیہ کا بقایا آجائے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ جولائی ۱۸۸۷ء
عاجز عبداللہ سنوری کا سلام علیک۔
نوٹ۔ منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کارڈ پر سلام علیک لکھا ہے۔ (عرفانی)
(۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم پہنچ گئے۔ آپ نے خالصاً للہ بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ خدمت میں لگے ہو ئے ہیں اللہ جلشانہ آپ کوبہت اجر بخشے۔ پاس کا جواب آنے سے مجھ کو آپ اطلاع بخشیں۔ میاں نور احمد خود بخود دہلی چلے گئے۔ مگر پاس د و آدمیوں کے لئے ہونا چاہئے۔ نصف ٹکڑا نوٹ ابھی نہیں آیا۔ فتح خاں و حامد علی کا سلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس کارڈ پر فتح محمد و حامد علی کا سلام علیکم بھی درج ہے۔(عرفانی)

(۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج سولہویں ذیعقد ۱۳۰۴ء ھ بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ ۲۲ ذیعقد مطابق ۱۳؍ اگست روز عقیقہ ہے۔ اگر کچھ موجب تکلیف وحرج نہ ہوتو آپ تشریف لا کر ممنون احسان فرماویں۔ فقط۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
اور چوہدری محمد بخش صاحب کوبھی اطلاع کر دیں۔ سب کاسلام۔ والسلام
نوٹ۔ اس مکتوب میں بشیر اوّل واللہم جعلہ فرطاً کی پیدائش کی آپ نے بشارت دی ہے چونکہ ایک مولود کے متعلق خد اتعالیٰ کی ایک عظیم الشان بشارت برنگ پیشگوئی ہوئی تھی بشیراوّل کے پید اہونے پر حضرت اقدس کا خیال اسی طرف گیا کہ شاید یہی وہ مولود موعود ہو اس کے عقیقہ پر آپ نے بہت سے دوستوں کو دعوت دی تھی او ریہ عقیقہ خدا تعالیٰ کے نشان کے پورا ہونے پر اظہار مسرت و شکر گزاری کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ اس کے متعلق تفصیل آپ کے سوانخ حیات میں ہو گی۔ انشاء اللہ العزیز۔ (عرفانی)
(۷۶)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ۔
دو شطرنجی کلاں اگردو روز کے لئے بطور مستعار مل سکیں توضرور بندوبست کر کے ساتھ لاویں اور پھر ساتھ ہی لے جاویں او رجمعہ تک یعنی جمعہ کی شام تک ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ایک آپ کو نہایت ضروری تکلیف دیتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کے جدوجہد سے یہ کام بھی انجام پذیر ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ دو روز کے لئے ایک سائبان درکار ہے جوبڑا سائبان ہوخیمہ کی طرح جس کے اندر آرام پاسکیں۔ اگر سائبان نہ ہو تو خیمہ ہی ہو۔ ضرور کسی رئیس سے لے کر ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مکان کی تنگی ہے۔ بہت توجہ کر کے کوشش کریں۔
خاکسار
غلام احمد
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ مگر پان نہیں پہنچے۔ حتی المقدر ور آپ ایسا بندوبست کریں پان دوسرے چوتھے روز باآسانی پہنچ جایا کریں اور اب تک جہاں ممکن ہو۔ پان جلدی پہنچا دیں اور دوبارہ آپ کو تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ بڑی جدوجہد سے ڈیڑھ من خام روغن زرد عمدہ جمعہ تک پہنچا دیں اور ……۳۰ روپیہ نقد ارسال فرما دیں اور شاید قریباً یہ ……یا ……روپیہ ہوں گے آپ اس میں جہاں تک ہو سکے بڑی کوشش کریں اور عقیقہ کی ضیافت کے لئے تین بوتل عمدہ چٹنی کی اور بیس ثار آلو پختہ اور چار ثار اربی پختہ اور کسی قدر میتھی و پالک وغیرہ ترکاری اگر مل سکے ضرور ارسال فرمادیں۔ یہ بڑا بھارا اہتمام عقیقہ کا میں نے آپ کے ذمہ ڈال دیا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ تین روز کی رخصت لے کر معہ ان سب چیزوں کے جمعہ کی شام تک قادیان میں پہنچ جائیں کیونکہ ہفتہ کے دن عقیقہ ہے۔ اگر چوہدری محمدبخش صاحب کو بھی ساتھ لاویں تو بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر آپ تو بہرحال آویں اور اوّل تو چار روز کی ورنہ تین دن کی ضرور رخصت لے آویں۔ میں نے سندر داس اس کیلئے بہت دعا کی ہے اور نیز مراد علی صاحب بھی اس تقریب میں تشریف لاویں توعین خوشی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر سلسلہ بتاتا ہے کہ اگست ۱۸۸۷ء کاخط ہے مولوی مراد علی صاحب جالندھری مشہور آدمی تھے۔ (عرفانی)
(۷۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
اس وقت ایک نہایت ضروری خیمہ سائبان کی پیش آئی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا عمدہ موقعہ ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ ایک سائبان معہ قنات کسی رئیس سے بطور مستعار دو روز کے لئے لے کر جیسے سردار چیت سنگھ ہیں ضرور ساتھ لاویں۔ بہرحال جدوجہد کر کے ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری تاکید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
مگر یہ ایک سائبان فراخ معہ قنات کے جو اردگرد اس کے لگائی جائے تلاش کر کے ہمراہ لاویں۔
(۸۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سے پہلے روغن زرد کے لئے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا۔ اس جگہ کچھ بندوبست نہیں کیا گیا۔ لیکن دل میں اندیشہ ہے کہ شاید وہ خط نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ خریدار گیایا نہیں اور وقت ضرورت روغن کابہت ہی قریب آگیا ہے اور روغن کم سے کم ڈیڑھ من خام ہونا چاہئے اوراگر دو من خام ہو تو بہتر ہے۔ کیونکہ خرچ بہت ہو گا۔ چونکہ یہ کام تمام آپ کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس لئے آپ ہی کو اس کافکر واجب ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ خط نہ پہنچا ہو تو اس جگہ جلدی سے بندوبست ہونا محال وغیرہ ممکن ہے اس صورت میں لازم ہے کہ آپ دو من خام روغن امرتسر سے خرید کر کے ساتھ لاویں۔ خواہ کیسا ہی ہو آپ کا حرج ہو اس میں تساہل نہ فرماویں اور مناسب ہے کہ چوہدری محمدبخش صاحب بھی ساتھ آویں اور دوسرے جس قدر آپ کے احباب ہوں۔ ان کو بھی ساتھ لے آویں اورسب باتیںآپ کو معلوم ہیںاعادہ کی حاجت نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان گورداسپور
(۸۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میاں نور احمد نے صاف جواب بھیجا ہے کہ مجھے قادیان میں مطبع لے کر آنا منظور نہیں اور نہ میں دہلی جاتا ہوں اور نہ شرح مجوزہ سابقہ پر مجھے کتاب چھاپنا منظور ہے اس لئے بالفضل تجویز پاس کی غیر ضروری ہے لوگ ہر ایک بات میں اپنی دنیا کا پورا پورا فائدہ دیکھ لیتے ہیں بلکہ جائز فائدہ سے علاوہ چاہتے ہیں دیانت اور انسان کا ذکر کیا ایسا بد دیانت بھی کم ملتا ہے جو کسی قدر بد دیانتی ڈر کر کرتا ہے۔ اب جب تک کسی مطبع والے سے تجویز پختہ نہ ہوجائے خود بخود کاغذ خریدنا ناعبث ہے۔ میاں عبداللہ سنوری تو بیمار ہو کر چلا گیا۔ میں فتح خان کا بھائی بھی بیمار ہے اور اس جگہ بیماری بھی بکثرت ہو رہی ہے۔ ہفتہ عشرہ میں جب موسم کچھ صحت پر آتا ہے تو لاہور یا امرتسر جا کر کسی مطبع والے سے بندوبست کیاجائے گا پھر آپ کو اطلاع دی جائے گی۔
ایک ضروری بات کے لئے آپ کوخود تکلیف دیتا ہوں کہ میرے پاس ایک آدمی حافظ عبدالرحمن نام موجود ہے وہ نوجوان اور قد کاپورا اور قابل ملازمت پولیس ہے بلکہ ایک دفعہ پولیس میں نوکری بھی کر چکا ہے اور اس کاباپ بھی سارجنٹ درجہ اوّل تھا جو پنشن یاب ہو گیا ہے۔ اس کامنشاء یہ ہے جوپولیس سے کنسٹبل بھی ہو جائے تو از بس غنیمت ہے ایک سند ترک ملازمت بھی بطور صفائی اس کے پاس ہے عمر تخمیناً بائیس سال کی ہے۔اگر آپ کی کوشش سے وہ نوکری ہو سکتا ہے تو مجھے اطلاع بخشیں کہ اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں اور جلد اطلاع بخش دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے اس سے روغن ررو کے لئے لکھا گیا تھا کہ ایک من خام ارسال فرماویں۔سو اس کی انتظار ہے۔ کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ دوسری یہ تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خادم کی ضرورت ہے۔ قادیان کے لوگوں کا جال دگر گون ہے۔ ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے۔ جو طفیل وزراد کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ ا س میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دنیدار خادم جو کہ قدر جوان ہو مل جائے اور جواب سے مطلع فرمائیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا۔ آپ کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ جس بات میں فی الحقیقت بہتری ہو گی۔ وہی بات اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اختیار کرے گا۔ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میری بہتری کس بات میں ہے۔ یہ میرا سرار فقط خدا تعالیٰ کو معلوم ہیں سو قوی یقین سے اس بھروسہ رکھنا چاہئے۔ روغن زرد ایک تک نہیں پہنچا۔ اس جگہ بالکل نہیں ملتا۔ اگر آپ ایک من روغن خام تلاش کر کے بھیج دیں توا س وقت نہایت ضرورت ہے اور نیز جیسا کہ میںپہلے میں لکھ چکا ہوں کوئی خادم ضرور تلاش کریں اورپھر تحریر فرمانے پر روانہ کر دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
بباعث کثرت آمد مہمانان روغن زرد کی اشد ضرورت ہے او راس جگہ ملتا نہیں اور میاں عبداللہ سنوری نے لکھا ہے کہ میں بعد گزرنے عید آئوں گا۔ معلوم نہیں کہ وہ کب آویں گے۔ اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تین چار روز تک ہی سعی اور کوشش فرما کر روغن زرد ارسال فرمادیں۔اگر ایک من خام جلدی روانہ نہ ہوسکے تو دس پندرہ سیر ہی روانہ کر دیں کہ شاید ایک ہفتہ کے لئے کافی ہو جاوے۔ مگر پھر باقی مطلوب کو بھی متعاقب اس کے جلد روانہ کر دیں۔ نہایت تاکید ہے یہ ایک ضروری امر تھا لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۸۷ ء
(۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں او رامید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم آپ کے لئے وہی صورت مہیا کرے گا جو بہتر ہے جناب الٰہی پر پورا پورا حسن ظن اور توکل رکھیں۔ روغن زرد جو تازہ اور عمدہ ہو کسی انتظام سے جلد تر روانہ فرماویں اور ساتھ اگر ممکن ہوسکے تو پان بھی بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ روغن کے لئے آپ نے بہت تلاش کی ہوگی۔اس جگہ پان کی بھی اشد ضرورت ہے اگر کسی طرح باآسانی پہنچ سکیں تو یہ ثواب بھی آپ کو حاصل ہو جائے۔ معلوم نہیں خادمہ ملی یا نہیں۔ اس سے بھی اطلاع بخشیں اور نیز نئے انتظام یا پہلی صورت کے قائم رہنے سے مطلع فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بارادہ خود کسی طرف حرکت نہ کریں۔ مشیت الٰہی پر چھوڑ دیں۔ لیکن اگر دل میں بہت اضطراب پیدا ہو جاوے تو تب اختیار ہے کہ آپ ہی سلسلہ جنبانی کریں۔ کیونکہ اضطراب منجانب اللہ ہوتی ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ دعا میں مجھے فرق نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ انجام بہتر ہو گا۔روغن زرد و پان پہنچ گئے ہیں۔ پیسے انشاء اللہ کل بوٹے خان صاحب کے پاس بھیج دیئے جائیں گے اور خادم کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن آپ اوّل بخوبی معلوم کر لیں کہ وہ نیک چلن او رنیک بخت ہے اور محنتی ہے اور پھر تنخواہ بھی بکفایت ہو۔ اس کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ پھر انشاء اللہ طلب کی جائے اور جب خادم آوے تو اس کے ہاتھ بھی پان ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
خادمہ کے لئے جو کچھ فتح خان صاحب نے شرطیں لکھی ہیں ان کی تو کچھ ضرورت نہیں۔ صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ کے رکھنے کے لائق ہو۔ یہ بات ضرور ہے کہ تنخواہ بہت رعایت سے ہو ۔ گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں۔ جن میں کسی کو تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر یہ عورت تنخواہ دار آئی اور تنخواہ بھی ……روپے تو ان کو بھی خراب کرے گی۔ تو اس کانتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ اس ایام قحط میں صرف روٹی کپڑا ایک شریف عورت کے لئے از بس غنیمت ہے۔ جو تین روپے ماہواری بیٹھ جاتا ہے۔ سو اگر ایسی عورت مل سکے تو اس کو روانہ کر دیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔دعا کی گئی۔
۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت ہوئی روغن زرد اورپان پہنچ چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط ن نہیں پہنچا۔ آپ کی نسبت وہی تجویز میرے نزدیک بھی مناسب ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ میں آپ کے لئے اور چوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ جلشانہ جلد شفاء بخشے۔اس جگہ مینہ روز برستا ہے شاذو نادر کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے۔ سو یہی وجہ توقف خرید کاغذ ہے۔ جب کچھ تحفیف بارش ہوئے تب کاغذ کے لئے کوئی اپنا معتبر بھیجا جائے کاپی روانہ کردی گئی ہے۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسب تحریر آپ کی آپ کے دوست کے لئے بھی دعا کی گئی ۔ بشیر کے لئے خادمہ کی از بس ضرورت ہے۔ خد اتعالیٰ کرے کہ آپ کو کوئی نیک طبیعت خادمہ مل جائے۔ زیادہ تنخواہ کی تواب بالکل گنجائش نہیں ہے اگر کوئی ایسی خادمہ مل جائے کہ روٹی کپڑا پر کفایت کرے جیسا کہ اس جگہ کی عورتیں کر لیتی ہیں اور پھر شریف بھی ہو تو ایسی کی تلاش کرنی چاہئے اور چونکہ نہایت ضرورت ہے آپ جلدی اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد۷؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں عبداللہ سنوری ابھی آنے والے نہیں ہیں اگر آپ ایک مرتبہ کوشش کر کے بقیہ روغن زرد جو ایک من خام سے باقی رہ گیا ہے۔ معہ کسی قدر پان کے بہت جلد ارسال فرماویں تو میرے لئے موجب آرام ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ روغن نہیںملتا اور مہمانوں کی آمد بہت ہے اور سندر داس کو ایک ماہ یا دو تین ہفتہ کے لئے اپنے پاس طلب کر لیں۔ پھر اگر مجھے بھی آپ کے ہمراہ ملے تو اچھا ہے۔دعا اس کے لئے کرتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط پہنچا۔ سندر داس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی گی او رکئی دفعہ توجہ دلی سے دعا کی گئی۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تا ایام صحت اس کا رڑ کی منگوا لو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ملاقات کرائو کہ جس شخص کو ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اس کی نسبت دعا بہت اثر رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ اپنے ساتھ اس کو لے کر آنا اور وہاں سے ضرور طلب کر لو اور بقیہ روغن زرد معہ کسی قدر پان کے بہت جلد بھیج دیں۔ کیونکہ عبداللہ کے آنے میں ابھی دیر معلوم ہوتی ہے۔ خادمہ کی تلاش ضرور چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام ا حمد
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم
کے بعد روغن زرد کی اشد ضرورت ہے قادیان کے اردگرد س کوس تک ہی تلاش کی گئی ایک ۴؍ روغن بھی ملتا۔ کہتے ہیں کہ ہندئووں کے سرادہ ہیں۔ بنا چاری آپ کو دوبارہ تکلیف دی جاتی ہے کہ برائے مہربانی جلد تر ارسال فرماویں۔ مہمانوں کی آمدو رفت ہے۔ ہمراہ پان بھی اگر آسکیں وہ بھی ارسال فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
پان تو پہنچ گئے مگر روغن زرد اب تک پہنچا۔اس کا کیا باعث ہے۔ امید کہ جلدی روانہ فرماویں۔آج ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء تک نہیں پہنچا شاید کل تک پہنچ جائے۔تو کچھ تعجب نہیں۔ بہرحال اطلاعاً لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا براہ مہربانی جلد تر ارسال فرماویں اور ایک خادمہ محنت کش ہوشیار دانا۔ دیانت دار کی اشد ضرورت ہے اور کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے۔ چنانچہ مفصل خط بخدمت میر صاحب تحریر ہو چکا ہے۔ آپ براہ مہربانی ایک خاص توجہ اور محنت اور کوشش سے ایسی خادمہ تلاش کر کے روانہ فرماویں۔ تنخواہ جو کچھ آپ مقرر کریں گے۔ دی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ نہایت ضرورت خادمہ امینہ اور دانا اورمحنت کش کی پیش آگئی ہے اس لئے مکرر مکلف ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو خادمہ کو بہت جلد روانہ فرماویں اور روغن اب تک نہیں پہنچا ہمدست خادمہ ایک آنہ کے پان بھی روانہ فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ پان تو پہنچ گئے ہیں۔ روغن جلد ارسال فرماویں۔ کیا کیا جائے اس جگہ روغن زرد ملتا ہی نہیں۔ اس لئے تکلف دی تھی اور خادمہ کی نسبت آپ جہاں تک ممکن ہے۔ پوری پوری کوشش فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲۳؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) ……
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
ابھی تک ایک خط روانہ ہو چکا ہے۔ اب دوسرا باعث تکلیف وہی ہے کہ میری لڑکی بباعث بیماری نہایت نقیہ اور ضعیف ہورہی ہے۔کچھ کھاتی نہیں ۔ انگریزی بسکٹ جو کہ نرم اور ایک بکس میں بند ہوتے ہیں۔ جن کی قیمت فی بکس ……ہوتی ہے۔ وہ اس کو موافق ہیں۔اب براہ مہربانی ایسے بسکٹ شہر میں ……کو خرید کر ایک بکس ہمراہ خادمہ یا جس طرح پہنچ سکے جلد ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
چونکہ بلاخادمہ نہایت تکلیف ہے برائے مہربانی جس طرح ہو سکے خادمہ کو روانہ فرماویں۔ سارا پتہ سمجھا دیں۔ ۲؍ کے پان لیتی آوے مگر اس کے پہنچنے میں اب توقف نہ ہو۔ میاں عبداللہ سنوری معلوم نہیں کب آئیںگے ان کاانتظار کرنا عبث ہے۔روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ معلوم ہوتا ہے کسی جگہ رہ گیا ہے روغن محض قرضہ کے طور پر آپ سے منگوایا ہے محض اس ضرورت سے کہ اس جگہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ روغن وغیرہ کا حساب لکھ کر بھیج دیں۔ تامیں آپ کی خدمت میں قیمت روانہ کر دوں مجھے پان کی بابت بھی نہایت وقت و تکلیف رہتی ہے اگر آپ انتظام کر سکیں تو میں پان کے لئے بھی کسی قدر اکھٹی قمیت بھیج دوں۔ امرتسر آنے جانے میں دس گیارہ آنہ خرچ ہوتے ہیں اور بٹالہ میں پان نہیں ملتا۔ اب برسات گزر گئی اور کاغذ خریدنے کے لئے عبداللہ و نور احمد کو بھیجا جاوے گا۔ اب دو آدمی کے پاس کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے تو کوشش کریں ورنہ کرایہ دے کر روانہ کیا جائے گا زیادہ خیریت۔ والسلام۔ تنخواہ دو روپیہ ماہواری خادمہ کی منظور ہے۔ مگر محنت کش اور دیانتداری شرط ہے۔ کئی عورتیںاس جگہ دن رات بلا تنخواہ کام کرتی ہیںمگر چونکہ نہ محنت کش ہیں۔ نہ دیانیدار۔ اس لئے ان کوہونا نہ ہونا برابر ہے کام نہایت محنت اور جان ہی کا اور ہوشیاری کا ہے۔آپ اس خادمہ کو بخوبی سمجھا دیں تا پیچھے سے کوئی مخفی بات ظہور میں نہ آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
یہ بات مکرر لکھنے کے لائق ہے کہ خادمہ نہایت درجہ کی دیانتدار اور شریف اور نیک نیت اور نیک بخت اورمتقی چاہئے۔ کیونکہ لڑکا اس کے سپرد کیا جاوے گا اور اس جگہ تمام مخالف ہندو اور اکثر مسلمان بھی لڑکے ہو ں جائیںگے۔ جابجا یہی ذکر سنتا ہوں کہ اس جگہ کے تمام ہندو اور اکثر مسلمانوں کی شریر طبع قریب کل کے مسلمان لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور جابجا علانیہ باتیں کرتے ہیں۔ تعجب نہیں کہ زہر دینے کی تجویز میں ہوں۔ اس لئے لڑکے کی خادمہ جس قدر ن نیک بخت اور خدا ترس ہو چاہئے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے۔ والسلام
( ۱۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
……کے پان پہنچ گئے۔ مگر روغن زرد ۸ ثار خام جو آپ نے لکھا تھا وہ نہیں پہنچا۔ پہلی دفعہ بھی ۲۱ ثار خام روغن گم ہو گیا۔ اب بھی گم ہوا انا للہ الیہ راجعون۔ اب آیندہ روغن بھیجنا بالکل فضول ہے معلوم نہیں کہ یہ ۲۹ثاروغن کس نے راہ میں لے لیا۔ اب آیندہ ارسال نہ فرماویں۔ دو چار روز تک دو آدمی خریداری کاغذ کے لئے انشاء اللہ دہلی میں جائیںگے۔ اگر ممکن ہو تو بندوبست پاس کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں نور احمد کے دہلی جانے کے آثارکچھ معلوم نہیں ہوتے۔ بہرحال میں ۱۸؍ تاریخ یا ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء کو میاں فتح خاں کو امرتسر میں بھیجوں گا۔ اگر میاں نور احمد نے امرتسر جانا قبول کر لیا تو دونوں مل کر دہلی جائیںگے اور اگر قبول نہ کیا تو پھر نا چاری کی بات ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ آپ کا اس طرف آنے کا کب تک ارادہ ہے۔ اگر سندر داس آگیا ہوتو ایک دن کے لئے اس کو ساتھ لے آویں۔ضرور اطلاع بخشیں۔
(۱۰۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
مخدومی مکرمی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
انسان کے اختیار میں کچھ نہیں جو کچھ خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مصمّم ارادہ تھا۔ کہ ۱۹؍اکتبوبر ۱۸۸۷ء کو روانگی دہلی کے لئے امرتسر آدمی پہنچ جائے۔ اول میاں نو احمد کی حالت کچھ بدل گئی ہے۔ میاں عبداللہ سنوری بیمار ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ میاں فتح خان کچھ نیم علیل سا ہوگیا اور ان کا بھائی بعارضہ تپ بیمار ہوگیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی طرح جانہیں سکتا۔ اس لئے مجبوراً لکھا جاتا ہے کہ آپ لکھ دیں کہ دس روز کے بعد جانے کی تجویز کی جائے گی اور اول اطلاع کریں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۸؍اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی ۔ السلام علیکم
روغن زرد جو کہ ۸ ثار خام تھا وہ اب تک نہیں پہنچا اور دوسری مرتبہ کا شاید ۳۰ ثار تھا۔ وہ پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ کوشش کریں تو پہنچ جائے۔ بے فائدہ نہ جائے ۔ اگر ممکن ہو تو ۲ رکے پان بھی بھیج دیں۔ اب امید رکھتا ہوں۔ کہ کام جلدی شروع ہوگا۔ مفصل کفیت پیچھے سے لکھوں گا۔ عبدالرحمن کو میں کہہ دیا ہے۔ شاید ہفتہ عشرہ تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۶؍اکتوبر ۱۶۶۷ء
(۱۰۳) الف۔ ملفوف
ایک غیر معمولی خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی چودھری صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں سنایا۔ فرمایا لکھ دو وخط بھی نصف ملاقات ہوتی ہے اگر وہ خط لکھ دیا کریںاور دعا کے لئے دیادلا دیا کریںتومیں دعا کرتا رہا ہوں گا۔ بہت پرانے مخلص ہیں۔ فرمایا ان پر کچھ قرضہ کا بھی بوجھ ہے جب تک اس سے فراغت نہیں ہوتی۔ ملازمت کرتے رہیں بعد میں پنشن لیویں۔
آج پھر فرمایا کہ رات کو پھر وہی الہام پھر ہوا۔
قرب اجلک المقدر ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔ قل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا۔
فرمایا۔ ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغام رخلت دیاجاوے گا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں اس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریںگے۔ فرمایا لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سب امور کی تکمیل مامور ہی کر جائے۔ وہ بڑی بڑی امیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کر کے اٹھا ہے۔ صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے وقت نہیں آیا۔ کیونکہ دعوی تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے۔ تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے۔
اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے مگر افسوس یہ ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنتے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آیندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں۔ کیسا افسوس ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر ہماری قوم سچے خدا کو پاکر پھر دنیا کی طرف جھک رہی ہے او ردین کے لئے زندگی وقف کرنا محال ہو رہا ہے۔
فرمایا سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ لوگ پیدا ہوں۔ جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔
والسلام
خاکسار
محمد علی
۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء
یہ مکتوب اگرچہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ مکرمی مولوی محمد علی صاحب ( جوخلافت ثانیہ کے ساتھ ہی قادیان سے انکار خلافت کر کے خروج کر چکے ہیں اور لاہور جا بسے ہیں۔ عرفانی) نے حضرت اقدس کے حکم سے لکھا ہے خطوط کی سال وار ترتیب کے لحاظ سے بھی یہ خط یہاں نہیں آنا چاہئے تھا مگر ا س کے لئے میں دوسری جگہ بھی نہیں نکال سکا۔
یہ خط بہت سے ضروری اور اہم مضامین پر مشتمل ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پاک خواہشوں اور مقاصد کامظہر ہے۔ تاریخ سلسلہ میں یہ ایک مفید اور دلچسپ ورق ہے۔ مناسب موقعہ پر میں اس سے ضروری امور پر روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ آ مین۔
ایک امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس مکتوب میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم و ارشاد سے لکھا ہوا ہے خدا کے مامور ……کے جانشینوں کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مولوی صاحب کے ہاتھ سے ان پر اتمام حجت کرا دیا ہے۔ ہر ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں جانشین نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ موعود و منصوص کے ساتھ تعلق رکھ کر اور اس میں ہو کر کل جماعت ایک وجود بن جاتی ہے۔
غرض یہ خط بہت دلچسپ اور قابل غور ہے۔ حضرت چوہدری رستم علی صاحب اخلاص اور فتافی السلسلہ کا اظہار یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک خط سے ہوتا ہے مگر اس میں بھی اس کی تائید ہے چوہدری صاحب سلسلہ کی ضروریات ہی کے لئے آخری وقت جبکہ وہ ملازمت کا زمانہ ختم کر رہے تھے مقروض تھے اور حضرت نے ان کو کچھ عرصہ او رملازمت کرنے کا ارشاد فرمایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ فارغ ہوئے تو خدا کے فضل اور رحم سے ہر قسم کی زیر باری سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ا نہوںنے قادیان میں آکر سلسلہ کی عملی خدمت شروع کی اور وہ سلسلہ میں سب سے پہلے بزرگ تھے جنہوں نے پنشن لے کر سلسلہ کا کام مفت کیا حتی کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا۔
خدا تعالیٰ یہ روح دوسرے بزرگوں میں بھی پیدا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہو تاکہ سلسلہ کے مرکری اخراجات میں ایسے کارکنوں کے وجود سے بہت کمی ہو سکے جومفت کام کریں۔
(عرفانی)
(۱۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵؍ ثار خام گھی ………آپ جو محض للہ تکالیف اٹھا رہے ہیں۔ خدا وندکریم جلشانہ اس کو باعث اپنی خوشنودی کا کرے۔ جیسے لوگ آج کل اپنی بد خیالی و بدظنی میں ترقی کر رہے ہیں۔ آپ خدمت و خلوص میں ترقی کرتے جائیں۔ خدا تعالیٰ ایسے قحط الرجال کے وقت میں ان مخلصا نہ خدمتوں کا دوہرا ثواب آپ کو بخشے لودھیانہ کے خط سے معلوم ہو ا ہے کہ اخویم میر عباس علی صاحب کی طبیعت کچھ علیل ہے۔ خدا تعالیٰ جلد تر ان کو شفا بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا گھی صرف ۲۱؍ سیر پہنچا تھا۔ جیساکہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے غلطی سے ۳۰؍ ثار وزن لکھا دیا تھا۔ اطلاعاً لکھا گیا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸۸۷ء
(۱۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اس عرصہ میں کئی عورتیں بچہ کی خدمت کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مگر سب ناکارہ نکلی ہیں۔ یہ کام شب خیزی اور ہمدردی اور دانائی کا ہے۔ لڑکا چند روز سے بیمار ہے۔ ظن ہے کہ پسلی کا درد نہ ہو۔ علاج کیا جاتا ہے۔ واللہ شافی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی کمزورعورت اس خدمت شب خیزی کو اٹھا سکے۔ چند روز سے فقط مجھے تین تین پہر رات تک اور کبھی ساری رات لڑکے کے لئے جاگنا ہوتا ہے۔ ہر گز امید نہیں ہو سکتی کہ کوئی عورت ایسی محنت سے کام کر سکے۔اس سے دریافت کر لیں کہ کیا ایسا محنت کا کام کر سکتی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
۶؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادمہ پہنچ گئی۔ اب تک کسی کام میں مصروف نہیں ہوئی۔ سست اور کاہل الوجود بہت ہے۔ اس کے آنے سے تکلیف اسی طرح باقی ہے۔ جوپہلے تھی۔ لیکن آزمائش کے طور پر ایک دو ماہ کے لئے ایک دو ماہ کے لئے اس کو رکھ لیا گیا ہے کہ دور سے آئی ہے۔ اس وقت ضروری کام کے لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اب ایک مہتم مطبع بٹالہ سے باہم اقرار کاغذ اسٹامپ پر ہو کر دو رسالہ کے چھپنے کے لئے تجویز کی گئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دہلی میں یہ نسبت لاہور کاغذ ارزاں ملتا ہے۔ اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ اگر ممکن ہو بہت جلد بندوبست دو آدمی کے پاس کاغذ کاکر کے مجھ کو اطلاع بخشیں۔ تامیں میاں فتح خاں اور ایک اور آدمی کو دہلی کی طرف روانہ کروں اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بلاتوقف اپنے دونوں آدمی امرتسر میں بھیج دوں اور پتہ ان کا یہ ہو گا کہ وہ کٹڑہ مہیاں سنگھ میں مکان مولوی حکیم محمد شریف صاحب پر ٹھہرے گے۔ بہرحال آپ کا جواب بواپسی ڈاک آنا چاہئے کہ اب بعد معاہدہ تحریری زیادہ توقف نہیں ہو سکے۔ اگر دو آدمی کا پاس مل جانا ممکن ہے کہ اس سے کفایت رہے گی اور اگر ناممکن ہوتا تو ہم اطلاع بخشتیں۔ جواب بہت جلد آنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ نومبر ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ بٹالہ میں شعلہ طور نامی ایک آدمی مبطع تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔
(۱۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
بباعث علالت طبع اور موسمی بخار آنے کے بعد آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا۔ آپ کو اللہ جلشانہ جزاء خیر بخشے۔ آپ نے بہت سعی کی ہے۔ اب میرا تپ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ شکایت باقی ہے۔ میاں فتح خاں کے آتے وقت اگر کچھ بندوبست ہو سکے۔ تو کچھ رعایت ہو جائے گی۔ آیندہ جو مرضی مولا اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۹؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی یاد دہانی پر برابر سندر داس کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ مرتب اثر جل شانہ کے اختیار میں ہے۔ میاں فتح خاں کو اطلاع دی ہے۔ اب تک کچھ حال معلوم نہیں۔ شاید آپ کو کوئی خط آیا ہو اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سندرداس کی علالت کی طرف مجھے بہت خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوتندرستی بخشے۔ اگر قضاء مبرم نہیں ہے تو مخلصانہ دعا کا اثر ظہور پذیر ہو گا۔ آپ کی ملاقات کو بھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ کسی فرصت کے وقت آپ کی ملاقات بھی ہو توبہتر ہے اوراللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کو ہر ایک بات میں مقدم سمجھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
معلوم نہیں کہ میاں فتح خاں کے آنے کے لئے آپ نے کوئی بندوبست کیا یا نہیں۔ وہ آج ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء کو روانہ ہوں گے۔
والسلام
(۱۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد سخت بیمار ہے۔ کھانسی و تپ وغیرہ خطرناک عوارض ہیں۔ آپ جس طرح ہو سکے۲؍ کے پان بہت جلد بھیج دیں کہ کھانسی کے لئے ایک دو اس میں دی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا زقادیان
۱۶؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا کرتاہے کہ آپ کی ترقی اسی ضلع میں ہو۔ آیندہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں مصالح ہیں۔ میرا لڑکا شدت سے بیمار تھا۔ بلکہ بظاہر علامات بہت ردی تھیں۔ امید زندگی کی نہیں تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ میلاب بیماری کا ردبکمی ہے۔ لڑکے نے آنکھیں کھول لیں ہیں اور دودھ پیتا ہے۔ ہنوز عوارض باقی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دفع ہو جائیںگے۔ ۲؍ کے پان ضرور بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۸۸۷ء
(۱۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک ممکن ہو۔ آپ اس طرف ہو کر جائیں۔ ۲۶؍دسمبر کو آپ کی انتظار رہے گی۔ پان مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ سو یہ پہنچانے والوں کی غفلت یا خیانت ہے۔ آپ ۱؍ کے پان ضرور لیتے آویں۔ لڑکا اب اچھا ہو رہا ہے۔ کسی قدر کھانسی باقی ہے ایک نہایت ضروری کام ہے۔ جس سے دنیا و آخرت میں برکات کی امید کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بشیر احمد کے لئے ایک ایسی دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہے۔جس کو بچہ ہونے پر برس سے زیادہ نہ گزرا ہو اور خوب طاقتور عورت ہو اور بچہ مر جانے کی اس کو بیماری بھی نہ ہو اور اس کے بچہ تازہ اور فربہ ہوتے ہیں۔ دبلے و خشک نہ رہتے ہوں۔ ایسی عورت تلاش کر کے آپ بھیج دیں یاساتھ لاویں۔ تنخواہ جو مقرر ہو دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی بیوہ عورت ہو تو نہایت عمدہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان[
۲۱؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ کئی دفعہ سندر داس کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماوے۔ مناسب ہے کہ آپ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہو۔ بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ اب اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲؍ جنوری ۱۸۸۸ء
(۱۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اک خیروعافیت سے خوشی و تسلی ہوئی۔ امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ اب سردی نکلنے والی ہے اور اب آپ کے لئے موسم بہت اچھا نکل آئے گا۔ سندر داس کی طبیعت کا حال پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ صرف اتنا معلو م ہو اتھا کہ اب بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ اس کی طبیعت کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ اس وقت کاغذی اخروٹ یعنی جوز کے ایک دوا بنانے کے لئے ضرورت ہے اور بقدر باراں اثار خام اخروٹ چاہئے۔ مگر کاغذی چاہئے۔ اس کے لئے تکلیف دیتا ہوں کہ اگر کاغذی اخروٹ اس جگہ سے مل سکیں اور یہ بندوبست بھی ہو سکے کہ پٹھان کوٹ سے بلٹی کرا کر اسٹیشن بٹالہ پر پہنچ سکیں تو ضرور ارسال فرماویں۔ یہ سب بے تکلف آپ کی طرف جو لکھا جاتا ہے۔ محض للہ آپ کے اخلاص و محبت کے لحاظ سے ہے۔ جو آپ محض للہ کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے محض للہ اخلاص کو غایت درجہ پر بڑھا دیا ہے۔خدمت للہ میں کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے اور دین میں استقامت و تقوی و دنیا میںعزت و حرمت عطا کرے۔ آمین۔ مکرر یاد رہے کہ یوں ہی بلا محصول ہر گز بھیجنا نہیں چاہئے۔ بلکہ بلٹی بیرنگ کرا کر لف خط علیحدہ میرے پاس بھیج دیں اور بٹالہ کے اسٹیشن کے نام بلٹی ہو۔ تا اسی جگہ سے لیا جاوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکتوب نمبر ۱۱۲ میں چوہدری رستم علی صاحب کی ترقی کا ذکر آیا ہے۔ ان کی ترقی کا سوال در پیش تھا۔ خد اکے فضل وکرم سے وہ سارجنٹی سے ڈپٹی انسکپڑی ترقی پا کر دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تغینات ہوئے تھے۔ اس وقت ہیڈ کانسٹیبل سارجنٹ اور سب انسپکٹر کہلاتی تھی۔ بہرحال چوہدری صاحب ڈپٹی انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوکر دھرم سالہ چلے گئے۔ اس وقت حضرت اقدس لفافہ انہیں اس طرح پر لکھتے تھے۔
ضلع کانگڑہ۔ بمقام دھرم سال۔ خدمت میں مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ( جو سرشتہ دار پیشی ہیںیا لین پولیس میں)پہنچے۔
(عرفانی)
یہ یاد رہے کہ اخروٹ کاغذی ہوں۔ جن کا باآسانی مغز نکل آتا ہے۔
(۱۱۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس قحط الرجال اور قسادت قلبی کے زمانہ میں جو کہ ہر ایک فرد پر ہوائے زہر ناگ غفلت و سنگدلی کی طاری ہو رہی ہے۔ الاماشاء اللہ ایسے زمانہ میں خلوص دینی کے لئے زندہ دلی ازبس قابل شکر ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاوے اوران کو دنیا اوردین میں زیادہ سے زیادہ برکت دے۔ آمین ثم آمین۔ بلٹی جو آپ بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ میری دانست میں لفافہ میں ڈال کر اس جگہ قادیان میں بھیج دی جاوے۔ تو بلاتوقف کوئی شخص یہاں سے جا کر لے آئے گا۔ کیونکہ آخر اس جگہ سے کوئی آدمی بھیجنا ضروری ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر چاہیں محرر تھانہ کے نام بلٹی بھیج دیں۔ مگر اس صورت میں بہت دیر کے بعد اسبات ملتا ہے۔ بلکہ چوکیداروں وغیرہ کی شرارت سے اکثر نقصان ہو جاتا ہے۔ جس حالت میںبلٹی بھیجنا ہے تو قادیان میں ہی کیوں نہ بھیجی جائے اور بشیر بفضل خدا وند قدیر خیرو عافیت سے ہیں اور رسالہ سراج منیر یقین ہے کہ جلد چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندر داس کے وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہی غم تھا۔ جس کی طرف اشارہ تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے۔
ترابا کہ رو در آشنائے است
قرار کارت آخر یر جدائی ست
زفرقت بردے بازی نباشد
کہ بامیر ندہ اش کاری نباشد
مجھے کبھی ایسا موقعہ چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا۔ جیسا کہ آج ہے جاننا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے۔ والذین امنو اشد حبا للہ۔ یعنی جو مومن ہیں۔ وہ خد اسے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلشانہ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق اس کو دے گا۔ وہ تباہ ہو گا۔ تمام برکتیں جو مرادن خدا کو ملتی ہیں۔ تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ کیاوہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روز سے ملتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المجت سے ملتی ہیں۔ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ میں خواب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ تک دفعہ وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے۔ جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہئے۔ہمیشہ سے میرا دل یہ فتوی دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للہی محبت باہر ہے۔ خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست۔ کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیر گناہ ہے۔ جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلب ایمان کاخطرہ ہے۔سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا۔ عسی ان تکرھواشیئا وھو خیرلکم و عسی ان تحبوشیئا و ھو شرا ً لکم واللہ یعلم وانتم لا تعملون۔ اوران پر ایک جگہ فرماتا ہے جل شانہ وعزاسمہ ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ من ویومن باللہ ……تلیہ واللہ بکل شئی علیم۔یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو۔خد ااس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی۔وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے۔ چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں۔ یا احب من کل محبوب اغفرلی ذنوبی و اوخلنی فی عبادک المخلصین۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے۔ اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے۔ پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بار ہا لکھتے رہتے تھے۔ آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا۔ اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا۔
(عرفانی)
(۱۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا جائے۔ تا عاقبت درست ہو۔ سندر داس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیئے۔ خد اتعالیٰ کا ہر کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے۔ گو انسان اس کوسمجھے یا نہ سمجھے۔ جب ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خد اتعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور تعبیر حلت دینی کسی کو دوست نہ سمجھا جائے۔ یہی اسلام ہے۔ جس سے آج لوگ بے خبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔والذین امنو اشد حباللہ۔ یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس جس حالت میں انسان پر خد اتعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خد اتعالیٰ کا حق ہے۔ صوفیہ کو اس میں اختلاف ہے کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے۔اس کی نسبت کیا حکم ہے۔ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے۔ گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بباعث بے اختیاری مرفوج القلم ہے۔ تاہم اس کی حالت کافر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت کا حق اللہ جل شانہ کا ہے اور وہ بد دیانتی کی راہ سے خد اتعالیٰ کا حق دوسرے کا دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے۔ جس میں دین و دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ ہے۔ راستبازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے راہ میں دیں۔ تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو۔سو میں آپ کو خالصا ً للہ نصیحت دیتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دستکش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں۔ تا وہ آپ کو برکت بخشے او ر آفات سے محفوظ رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا ز قادیان
یکم مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ آپ کو اس اخلاص اور محبت کا اجر بخشے اور آپ سے راضی ہو اور راضی کرے۔ آمین ثم آمین۔ حال یہ ہے کہ یہ عاجز خود آرزو خواہاں ہے کہ ماہ رمضان آپ کے پا س بسر کرے۔ لیکن نہایت وقت در پیش ہے کہ آج کل میرے دو نو بچے ایسے ضعیف اور کمزور ہو رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک دو دفعہ بیمار ہوجاتے ہیں اور میرے گھر کے لوگ اس جگہ کچھ قرابت نہیں رکھتے اور ہمارے کنبہ والوں سے کوئی ان کا غمخوار اور انیس نہیں ہے۔ اس لئے اکیلا سفر کرنا نہایت دشوار ہے۔ میںنے تجویز کی تھی کہ ان کوانبالہ چھائونی میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ آئوں۔مگر ان کے والدین نے اس بات کو چند وجوہ کے سبب سے تاخیر میں ڈال دیا۔ اب مجھے ایک طرف یہ شوق بھی نہایت درجہ ہے کہ ایک ماہ تک ایام گرمی میں آپ کے پاس رہوں اور اسی جگہ رمضان کے دن بسر کروں اور ایک طرف یہ موافع در پیش ہیں اور معہ عیال پہاڑ کا سفر کرنا مشکل اور صرف کثیر پر موقوف ہے۔ مستورات کا پہاڑ پر بغیر ڈولی کے جانا مشکل اور ان کے ہمراہ ہی کی ضرورت جسے اپنے لئے ایک ڈولی چاہئے اور چھ سات خادم اور خادمہ کے ساتھ ساتھ پہنچ جانے کے لئے بھی کچھ بندوبست چاہیئے۔ سو اس سفر کے آمدو رفت میں صرف کرایہ کا خرچ شاید کم سے کم سو روپیہ ہو گا اور اس موقعہ ضرورت روپیہ میں اس قدر خرچ کر دینا قابل تامل ہے۔ البتہ کوشش اور خیال میں ہوں کہ اگر موانع رفع ہو جائیںتو بلاتوقف آپ کے پاس پہنچ جائوں اور میںنے موانع کے لئے رفع کرنے کے لئے حال میں بہت کوشش کی۔ مگر ابھی تک کچھ کارگر نہیں ہوئی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔
(عرفانی)
(۱۲۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے اس خط پہنچنے کے دو دن پہلے اخروٹ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔میر انہایت پکا ارادہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ کی ہمسائیگی میں بسر کروں۔ چنانچہ اپنے گھر کے لوگوں کو انبالہ چھائونی میں پہنچانے کی تجویز کردی تھی۔ لیکن بحکمت و مصلحت الٰہی چند موانع کی وجہ سے وہ تجویز ملتوی رہی۔ اگر اب بھی رمضان کے آنے تک وہ تجویز قائم ہو گئی۔ تو عین مراد ہے کہ وہ مبارک رمضان اس جگہ بسر کیا جائے۔ گھر کے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ سراج منیر کی طبع میں حکمت الٰہی سے توقف در توقف ہوتے گئے۔ اب کوشش کر رہا ہوں کہ جلد انتظام طبع ہو جائے۔ آیندہ ہر ایک بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جو آپ نے وارسلنا ہ والی امائۃ کے معنے پوچھے ہیں۔سو واضح رہے کہ رد کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے۔ ایسا ہی داو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاوہ شائع متعارف ہے۔سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلشانہ پر واجب نہیں چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل۔ پائوں کے مسح کی بابت کی تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رہ سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا۔ متعبر سمجھے گئے۔ مطبع اور مغرب الشمس کاذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی۔ تو کیا اس نے رکابی کھا کر توڑ کر کھا لیا۔ پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو پہلے اس کو اقرار کر لینا چاہئے کہ میری کتاب میں جن کوالٰہامی مانتا ہوں۔ کسی استعارہ یا مجاز کو استعمال نہیں کیا گیا اور مادامت السموات وا لارض کی شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ میں جو بہشتوں کے لئے نئی زمینیں اور آسمان بنائے جائیں گے۔ وہ بھی دائمی ہوں گے۔ یہ کہاں سے معلوم ہو اکہ ایک وقت مقررہ کے بعد وہ نہیں رہیں گے۔ ماسوا اس کے آسمان اور زمین فوق و تحت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔سو اس طور سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تک جہات فوق و تحت موجود ہیں۔ تب تک وہ بہشت میں رہیںگے اور ظاہر ہے کہ جہات ایسی چیزیں ہیںکہ قابل انعدام نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اس کے ساتھ ایک اور خط پہنچا۔ جو ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۸ء کا لکھا ہو ا تھا۔ تعجب کہ وہ ماہ تک یہ خط کہاں رہا۔ مکلف ہوں کہ ……روپیہ جو آپ بھیجنے کو کہتے ہیں۔ وہ آپ جلدی بھیج دیں کہ یہاں ضرورت ہے۔ ہر چند دل میں خواہش ہے۔ مگر ابھی اس طرف ان کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ تک پہنچانا ہے تو آثار ظاہر ہوں جائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج چائے مرسلہ آنجاب پہنچ گئی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ اشعتہ القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ دونوں رسالہ ایک ہی جگہ اکھٹے کر دئیے گئے ہیں۔ ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ رسالہ جو انگریزی میں ترجمہ کیا جائے گا اور سراج منیران دونوں رسالوں کی نسبت میری تجویز ہے۔ کہ ایک ہی جگہ کردی جائیں کیونکہ ان کے باہم تعلقات ایسے ضروری ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کردینے ہیںاثر مطلوب بہت کم ہو جاتا ہے۔ جس قدر توقفات ظہور میں آئے۔ وہ سب حکمت الٰہی اور مصلحت ربانی تھے۔ اب اسید کی جاتی ہے کہ منتظرین کی خواہش بہت جلدی پوری ہوجائے ۔ہمیشہ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ کہ گو مجھے خط لکھنے کا کم اتفاق ہو۔ مگر آپ کی طرف خیال رہتا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۶؍اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا۔ مفصل خط علیحٰدہ لکھا گیا ہے۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ بہت دعا کرتا رہوں گا اور یقین رکھتا ہوںکہ اثر ہو۔ اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے۔ اخروٹ اب تک نہیں پہنچے۔شاید دوچار دن تک پہنچ جائیں اور اگر کوئی کام سبیل پہنچانے کا ہوا ہو تو کسی قدر … بیشک بھیج دیں کہ مہمانوں کی خدمت میں کام آجائے گا۔ بشیر احمد اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند روز کی دیر کے بعد آپ کے خطوط مرسلہ معہ بٹالہ میں قادیان سے واپس منگوا کر ملے ۔ قصیدہ بہت عمدہ ہے۔ خاص کر بعض شعر بہت ہی اچھے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔ میں اس جگہ بشیر احمد کے علاج کروانے کے لئے ٹھہرا ہوا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام رمضان اس جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ قصیدہ متعاقب روانہ خدمت کردوں گا۔ بشیر احمد کو اب کسی قدر بفضلہ آرام ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۲؍ مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد سخت بیمار ہوگیا تھا۔ اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے۔ شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسرہو۔ بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان
۲۸؍شعبان
۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے۔ کسی قدر بشیر احمد کی طبیعت روبا صلاح ہے۔ انشاء اللہ القدیر صحت ہو جائے گی۔ پانچ چار روز تک قادیان جانے کا ارادہ ہے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز بٹالہ
۳؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم۔
آج ایک خط کو آپ نے رحمت علی کے ہاتھ بھیجا تھا۔ کسی حجام کے ہاتھ قادیان میں مجھ کو ملا۔ خط میں جوآپ نے چاول روانہ کرنے کاحال لکھا ہے۔ سو واضح رہے کہ آج تاریخ ۴؍ جون تک چاول نہیں بھیجے۔ نہ تھانہ میں آئے اور میں اب تک بٹالہ میں ہوں۔ شاید ۲۵؍ رمضان تک قادیان جائوں گا۔ بشیر احمد کی طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز آخیررمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے۔ غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان جائوں گا۔ چاول مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ معلوم نہیں آپ نے کس کے ہاتھ بھیجے تھے اور چونکہ اس جگہ خرچ کی ضرورت ہے۔ اگر خریدار براہین احمدیہ سے دس روپے وصول ہو گئے ہیں تو وہ بھی اسی جگہ ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۵؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۳۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ قادیان میں آکر بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا اور کئی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ منجملہ ان کے ایک تپ محرقہ کی قسم اور زحیر یعنی مڑوڑ اور اسی اثنا میں ہیضہ بھی ہو گیا۔ حالت نہایت خطرناک ہو گئی۔ اب کچھ تخفیف ہے۔ اسی وجہ سے کوئی کام طبع رسالہ وغیرہ کا نہیں ہو سکا۔ مولوی قدرت اللہ صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ بشیر احمد کی طبیعت سخت بیمار رہی ہے۔ بلکہ نہایت نازک ہو گئی تھی۔ اس لئے جواب نہیں لکھ سکا۔ اب کچھ آرام ہے۔ میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مولوی نورالدین صاحب کی کتاب کا مجھ کو کچھ پتہ نہیں اور نہ میرے پا س اب تک آئی ہے۔ جس وقت کوئی نسخہ ملے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ خدمت میں بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بشیراحمد کی طبیعت سخت بیمارہے۔ اس غلبہ بیماری میں تین چار دفعہ ایسی حالت گزر چکی ہے کہ گویا ایک دو دم باقی معلوم ہوتے تھے۔ اب بھی شدت امراض ہے۔ اس لئے دن رات اسی کی طرف مصروفیت رہتی ہے۔ امید کہ بعد افاقہ طبیعت بشیراحمدآپ کے نسخہ کے لئے توجہ کروں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد اب تک مروڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور چونکہ نہایت لاغر اور دبلا اور تکلیف میں ہے۔ اس لئے ضروری کاموں کاحرج بھی کر کے اس کی طرف مصروفیت ہے۔ چند مرتبہ اس عرصہ میں اس کی حالت بہت نازک ہو گئی اور آخری دم سمجھا جاتا تھا۔ انشاء اللہ اس کی صحت کے بعد بہت غور سے آپ کے لئے تجویز کروں گا۔آپ مطمئن رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد بقلم خود
۸؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مچھلی کا تیل وہی ہے۔جس کاآپ ذکر کرتے ہیں۔ استعمال کے لئے کچھ ضرورت نہیں۔ صرف ایک چاء کا چمچ یعنی چھوٹا چمچہ پی لیا کریں اور پھر ہضم کے لحاظ سے زیادہ کرتے جائیں۔ کدو سے مراد میری کدو کا پھل ہے۔ جس کا گھیا کدو بھی کہتے ہیں۔ اگر وہ نہ ملے تو پھر مغز کدو ہی ہمراہ بنفشہ کے پانی میں ڈال دیا جائے۔ جب پانی گرم ہو جائے اور خوب جوش آجائے۔ تب اس سے غسل کر لیں اور زیادہ گرم نہ ہو تو اور پانی ملا لیں۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ طبی تدبیر بہت مفید ہو گی اور آپ کا بدن خوب تازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ صبح کے وقت آدھ ثار خام بکری کا دودھ پی لیا کریں تو انشاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
(۱۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز ایک ہفتہ سے موسمی بخار میں علیل ہے۔ بباعث ضعف و تکلیف مرض کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ صندوقچہ خطوط سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تیل مچھلی کا اب استعمال کرنے میں کچھ حرارت معلوم ہوتی ہے تو ایک ماہ کے بعد استعمال کریں۔ انشاء اللہ ان سب ادویہ کے استعمال سے بدن بہت تازہ ہو جائے گا۔ آپ کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت منظور ہو جائے۔ اشتہارات ارسال خدمت ہیں۔ ہر ایک شہر میں جو آپ کا کوئی دیندار دوست ہو اس کو بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے اس عاجز کی طبیعت چند روز بعارضہ تپ بیمار رہی تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔ امید کہ اپنی خیروعافیت سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔ تلی کے واسطے مولوں کا اچار اور انجیر کا اچار جو سرکہ میں ڈالا جائے۔ نہایت مفید ہے۔ ان دونوں چیزوں کو جوش دے کر سرکہ میں ڈال دیں اور پھر کبھی روٹی کے ہمراہ یا یوں ہی کھا لیں کریں اور جو سکجبین صادق المحوصت یعنی جو خوب ترش ہو بہت مفید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے مستقل کوڑٹ انسپکٹر ہونے سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ مبارک کرے۔ اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے تھے۔ ان کی اب تک رسید نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ آپ اب کی دفعہ کون سے اشتہارات مانگتے ہیں۔ مفصل تحریر فرماویں۔ تا بھیجے جاویں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔انشاء اللہ القدیر اشتہار تلاش کرکے دستیاب ہونے پر روانہ کر دوں گا۔ میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ مناسب ہے کہ آپ بقدر ضرورت انگریزی پڑھ لیں۔ سب بولیاں خدا کی طرف سے ہیں۔ بولی سیکھنے میںکچھ حرج نہیں۔ صرف صحت نیت درکار ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۳۰؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سردی میں میں انڈہ بہت خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ بیس دن توقف کر کے انڈہ منگوا لیں اور تازہ ہوں تو وہ بیس روز تک اچھے ہوسکتے ہیں۔ انڈہ اگر اُبالا جائے یہاں تک کہ اندر سے زردی سفیدی دونوں سخت ہو جائیں تو کچھ زیادہ رہ سکتا ہے۔ مگر وہ پھر آپ کے کھانے کے لائق نہیں رہے گا۔ آپ کے لئے تو نیم برشت بہتر ہے۔ جو درحقیقت کچے کی طرح ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ پچاس تک انڈہ منگوا کر استعمال کریں۔ جب وہ ختم ہو جائیںاور منگوا لیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر آج سے آپ کے لئے دعا کرتا رہا ہوں گا۔ مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ یہ بات نہایت صحیح ہے کہ بندہ جب کسی قدر غافل ہو جاتا ہے اور بیسباکی سے کوئی کام کرتا ہے۔ یاکسی معصیت میں گرفتار ہوتا ہے تو رحمت کے طور پر تنبیہ الٰہی اس پر نازل ہوتی ہے۔پھر وہ جب سچے دل سے تو بہ کرلیتا ہے تو کبھی تنبیہ ساتھ ہی دور کی جاتی ہے۔ اور کبھی اس کو کامل متنسبہ کرنے کے لئے کچھ وہ تنبیہ بنی رہتی ہے۔ سو خطرات فاسدہ یا اعمال نامرضیہ سے بصدق دل توبہ کرنا اعادہ رحمت الٰہی کے لئے بہت ضروری امر ہے۔ والحمد للہ والمنت کہ خود آپ کے دل میں اس طرف رجوع ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اس رجوع کو ثابت رکھے۔ خد اتعالیٰ سے بہرحال ڈرتے رہنا اور اس کے غضب کے اشتعال سے پرہیز کرنا بڑی عقلمندی ہے۔ دنیا گزشتہ و گزاشتنی اور جذبات نفساتی بدنام کندہ چیزیں ہیں اور انسان کی تمام سعادت مندی اور ڈرنا اور آخرت کے سلامتی خوف الٰہی دقیق ہیں۔ و باریک رس ہیں۔ وہ اس پر راضی ہے۔ جو اس سے خائف و ہراساں رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جو بیباکی کا کام ہو۔ اللہ جلشانہ آپ کو سچی اطاعت کی توقیق بخشے۔ مناسب ہے کہ اگر ابتلاء کے طور پر کوئی دوسری صورت پیش بھی آجاوے تو بہت بے قرار نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ تغیر حالات پر قادر ہے اور دعا بدستور آپ کے لئے کی جائے گی۔ میری دانست میں اس موقعہ پر استعلام امور غیبیہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ اس جگہ تضرع اور استغفار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
آج میرا لڑکا بشیر احمد انیس روز بیمار رہ کر بقضائے الٰہی دنیائے فانی سے قضا کر گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط پہنچا۔ اللہ جلشانہ پر مضبوط بھروسہ رکھو۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ یہ عاجز انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے برابر دعا کرتا رہے گا۔ یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی اپنے خیالات سے مطلع فرمایا کریں۔ دعا کے لئے یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ محض تسلی خاطر کے لئے ضرورت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۳؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو آپ نے لکھا ہے۔ بات تو بظاہر بہت عمدہ ہے۔ اگر حقیقت میں آپ کے لئے یہ بہتر ہے تو اللہ جلشانہ آپ کے لئے میسر کرے۔ امید کہ آپ تعطیلوں میں ضرور تشریف لاویں گے۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ اللہ جلشانہ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ ان دنوںمیں استغفار کا بہت ورد رکھیں اور بہت بہت معافی گناہوں کی خدا وند کریم جل شانہ سے مانگیں اور اشتہار صداقت آثار ۸؍ اپریل ۸۶ء جس کی بناء پر اشتہار میں سے صرف ایک ایک اشتہار بطور سند میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ کہ کسی موقعہ پر مخالفوں کو دکھلائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے دیکھنے کی ضرورت ہو اور دوسری جگہ سے مل نہ سکیں تو بذریعہ رجسٹری بھیج سکتا ہوں۔ تاکہ ملاخطہ کے بعد واپس بھیج دیں۔ لیکن اگر مشکک کو اسی سے اطمینان ہو سکے تو پھر ضرورت نہیں۔ جیسا کہ منشاء ہو اطلاع بخشیں۔ اگر ضرورت ہو گی تو بلاتوقف رجسٹری کرا کر بھیج دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۸۹ء مکرر یہ کہ ۷؍ اگست کا اشتہار ایک کے پاس سے اتفاقاً مل گیا۔ بعد ملاخطہ واپس فرمادیں۔ یہ بشیر کی پیدائش کا اشتہار ہے۔
والسلام
(۱۴۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد کی طبیعت پر آگئی ہے اور آپ کے لئے بہت غور اور فکر کیا۔ سو اس موسم کے موافق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ایما سے میرے دل پر گزرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زردی بیضہ برشت استعمال کریں۔ یعنی خوب پانی گرم کر کے ایسا کہ ابلنا شروع ہو جائے۔ انڈے اس میں ڈال دئیے جائیں اور انڈے ڈال کر ڈیڑھ سو کی گنتی پوری کی جائے۔ جب شمار ڈیڑھ سو تک پہنچ جائے تو بلاتوقف انڈے پانی سے نکال لئے جائیں۔ ایک ہفتہ تک تین انڈے صبح اور تین شام خوراک رکھیں۔ جب معلوم ہو کہ انڈا موافق آگیا ہے تو پھر تین کی جگہ چار کر دئیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ گرم پانی کر کے اور اگر مل سکے تو اس میں تین چار ماشہ بنفشہ اور پانچ چار تولہ کدو ڈال کر گرم کریں اور اس میں غسل کریں صبح اور شام تیسرے روغن ماہی جو امرتسر اور لاہور میں مل سکتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ مگر ابھی وہ شائد گرمی کرے گا۔ سردی کے موسم میں ضرور استعمال کریں اورنیز سردی کے موسم میں آپ کے لئے کوئی ماء اللحم تجویز کر دیا جائے گا۔ حالات خیریت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
انڈے میں صرف زردی کھانی چاہئے۔ سفیدی نہیں کھانی چاہیئے۔
نوٹ۔ اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستمبر ۱۸۸۸ء کا خط ہے اور مکتوب نمبر ۱۳۹ سے پہلے چاہئے تھا۔(عرفانی)
(۱۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوںگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھیں۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس کے رحم و کرم کا کچھ انتہا نہیں۔ استغفار لازم حال رکھیں۔ شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کروں گا اور سب طرح سے بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج تاکیدی خط آپ کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ترودات دور کرے۔ آمین۔ امید کہ سبز اشتہار بعد میں نکال کر اگر ملے تو خدمت میں مرسل کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ جمادی الاوّل کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو ا۔جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہارات آج روانہ کئے گئے ہیں۔ جس شخص کی اشتہار سے تسلی نہیں ہوئی۔ آپ کے لئے کیوں مضطرب ہوں۔ تعجب ہے۔ ہر شخص اپنے مادہ کے موافق جوہر دکھلاتا ہے۔ اس شخص کو اگر کچھ بصیرت ایمانی ہوتی تو وہ بے شک میںنہ ہوتا اور جب کہ بصیرت نہیں ۔ تو اس کو چھوڑنا چاہئے۔ کتاب واپس لے لو۔ روپیہ واپس کر دو۔ باقی سب خیریت ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ تسلی رکھو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آ پ کے لئے دعا میں مشغول ہوں۔ دعا سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ میری دانست آج بباعث غلبہ زکام بہت علیل ہے۔ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں۔ اگر صحت ہو گئی تو گھر کے لوگوں کو پہنچانے کے میر ا ارادہ ہے کہ دس یا گیارہ فروری ۱۸۸۹ء تک لودھیانہ میںجائوں۔ شاید ایک ماہ تک لودھیانہ میں ٹھہرنا ہو گا۔ پھر انشاء اللہ وہاں سے خط لکھوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔خواب اس عاجز کو یاد نہیں رہا۔ ہر چند خیال کیا۔ کچھ خیال میں نہیں آتا
والسلام
خاکسار
غلام احمدازقادیان
۷؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خوشی ہوئی۔ میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸؍ اپریل ۸۹ء کو قادیان روانہ ہوںگا۔ انشاء اللہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۹ء
از عبداللہ سنوری السلام علیکم پذیر۔ حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے السلام علیکم۔
(۱۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ یہ عاجز بباعث کثرت خطوط اور کسی قدر علالت طبع کے اس قدر حیران ہے کہ حدسے زیادہ۔ انشاء اللہ القدیر بعد رمضان شریف آپ کی خدمت میں اشتہار بھیجا جائے گا۔ ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ آپ کا تھانہ بڑ سر میںبھی حسب مرا دتبدیل ہوتا موجب خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ تھانہ آپ کے لئے مبارک کرے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نا مہ پہنچا۔ تمام مضمون اوّل سے آخر تک پڑھا۔ مضمون بہت عمدہ ہے۔ کچھ ضرورت اصلاح یا کم و بیش کی نہیں۔ مگر مجھے معلوم نہیںہو اکہ قوم اوان اولاد حضرت علی کیونکر ہیں۔ آیا سید ہیں یا کسی اور بیوی سے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور اوان کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ دوسرے آپ فرماتے ہیں کہ سو کاپی چھپوائی جائے۔ مگر معلوم ہوا کہ خواہ سوچھپوائیں یا کم یا زیادہ سات سو کاپی کی اجرت لیں گے۔ یہی چھاپنے والوں کے ہاں دستور ہے۔ میری رائے میں اس مضمون کے چھپوانے میں ……۱۰ روپیہ سے کم خرچ نہیں آئیںگے۔ اگر کم ہوتو شاید آٹھ روپیہ تک ہو گا۔ جیسامنشاء ہو اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارد پہنچا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ غلام احمد نام کوئی شخص امرتسر میں مالک مطبع نہیں ہے۔ شاید کوئی نیا آگیا ہو۔ ہاں شیخ نور احمد صاحب نام ایک صاحب مالک مطبع ہیں۔ مجھے آپ مفصل لکھیں کہ غلام احمد مالک مطبع امرتسر میں کون ہے۔ کس پتہ سے اس کاخط بھیجا جائے اور یہ بھی لکھیں کہ کیا اس نے قبول کر لیا ہے کہ تین روپیہ لوں گا۔ کیا اسی میں کاغذ اور کاپی نویس کی اجرت داخل ہے۔ مجھے تو یہ بات سمجھ میںنہیں آتی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے بھی بذریعہ ایک خط کے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ میری نظر میں غلام احمد نام کوئی مطبع نہیں ہے اورنہ آپ نے کچھ پتہ لکھا کہ اس شخص کا کس کٹڑہ میں ہے۔ جب تک پتہ نہ ہو۔ مضمون ارسال نہیں ہو سکتا۔ براہ مہربانی بہت جلد پتہ بھیجیں۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری کی آج کل امید لگی ہوئی ہے۔ جس وقت تشریف لائے۔خط دے دوں گا۔ آپ ک تبدیلی اگر نزدیک ہو جائے تو بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج اس عاجز نے جناب الٰہی میں آپ کے لئے اس طور سے دعا کی ہے کہ یاالٰہی اگر جالندھر کی تبدیلی موجب بہتری ہے اور موجب خیر اورفضل کا ہو تو اپنے بندہ رستم علی کو اس جگہ پہنچا دے اور اگر اس میں مصلحت نہ ہو تو مشکلات سے نکال کر ایسی جگہ مرحمت فرما جو موجب برکت و خوشی دنیا و دین ہو کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۶؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ اس قسم کی طرح طرح کی مجبوریاں پیش آرہی ہیں۔ کہ میں آپ کے عزیز کی تقریب پر حاضر نہیں ہو سکتا اور مولوی صاحب غالباً کل یا پرسوں تک بحصول رخصت جموں سے لودھیانہ کی طرف تشریف لاویںگے اور قادیان میں آئیں گے۔ مگر میرے خیال میں ایسا ہے کہ وہ ۲۷؍ جون سے پہلے ہی تشریف لے جائیںگے۔ پس مشکل ہے کہ وہ ابھی اس تقریب پر حاضر ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت میں برکت بخشے اورکامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خد اتعالیٰ آپ کو خاص محبت عطا فرمائے۔ جب خالص محبت دل میں آجاتی ہے تو یاد الٰہی کے لئے دل قوت اور شوق پید اہو جاتا ہے۔ جب تک وہ محبت نہیں۔ کسل شامل حال ہے۔ مولوی نورالدین صاحب بصحت تام جموںمیں پہنچ گئے ہیں۔ تولیہ راہ میں مل گیا تھا۔ میرے پاس موجود پڑا ہے۔ہمیشہ حالات خیریت آلات سے مطلع فرمایا کریں۔ آپ کو محبت اور اخلاص جو اس عاجز کے ساتھ ہے۔ یقین کہ وہ کشاں کشاں آپ کو اعلیٰ مقصد تک لے آئے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ اگست ۱۸۸۹ء
(۱۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدائے عزوجل کوخواب میں دیکھنا بہرحال بہتر ہے۔ خدا تعالیٰ مبارک کرے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کبھی دعا اور استغفار میںمشغول رہیں۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ آپ ایک محب خالص ہیں اور ایسے محب کہ ایسے تھوڑے ہیں۔پھر کیوں آپ بھول سکتے ہیں۔ خد اتعالیٰ خود ایسے محبوں کو بنظر محبت دیکھتا ہے۔ آپ کا تولیہ استعمال کیا جائے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایارج فقرہ کی گولیاں رات کے پچھلے وقت یعنی پہر رات باقی رہے استعمال کرنی چاہئیں۔ ایک درم سے د ودرم تک اور معجون بعد تفقیہ کھانے چاہیئے۔ اور نسوار بھی بعد تفقیہ اور آپ کے لئے دعا بھی کی جاتی ہے۔ اگر اس میں بہتری ہو گی تو اللہ جلشانہ بہتر کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ضروری خط آپ کے نام کے متعلق چند روز سے بھیجا تھا۔ اب تک آپ نے جواب نہیں بھیجا۔ طبیعت نہایت مشوش ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ جلد جواب ارسال فرماویں اور پیراندتا میرا ملازم غریب ہونے کی حالت میں عمر بسر کرتا ہے۔ آپ براہ مہربانی اس کو ملک میں ضرور اس کے لئے کوئی زوجہ صالحہ تلاش کریں۔ آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس کا کام ہو جائے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
یکم اکتوبر ۱۸۸۹ء
جواب بہت جلد دیں تاکہ انتظار ہے۔ لڑکی باکرہ خورد عمر ہو۔
(۱۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
بخدمت اخویم محب صادق منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو لودھیانہ سے لکھتا ہوں۔ میری روانگی کے وقت آپ کو خط معہ مبلغ …۱۰ روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا۔ مگر افسوس کہ میں اس دن تشویش کی حالت میں لدھیانہ کی طرف تیار تھا۔ اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا۔ اسی طرح لدھیانہ سے خط تھا کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں او رانہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آئو وقت بہت تنگ ہے۔اس وجہ سے بندوبست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا اور افسوس رہا۔ اب شاید ایک ہفتہ تک لودھیانہ ہوں۔ شیخ غلام غوث صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں کرسٹی صاحب کو آپ کی نسبت کہلایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جن شخص کے ساتھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی تبدیلی ہوچکی ہے۔ اب پھر کوئی شخص تبدیلی کی درخواست کرے گا تو ہم ضرور رستم علی صاحب کو بلا لیں گے۔ غرض غلام غوث کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔ جس وقت میں قادیان میں آئوں۔ اس وقت آپ کسی پہنچانے والے کا بندوبست کر کے مجھ کو اطلاع دیں۔ میں حلوہ تیار کرا کر بھیج دوں گا۔ ہمیشہ حالات خیریت سے مجھ کو اطلااع دیتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس روز آپ کا خط اور …۱۰ روپیہ کا منی آرڈر پہنچا تھا۔ اسی روز رعاجز بباعث ایک عزیز کے سخت بیمار ہونے کے بعد لودھیانہ میں آگیا ہے۔ اس مجبوری سے آپ کی فرمائش کی تعمیل نہ ہو سکی نہایت ندامت ہے۔ آپ کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ خد اوند کریم نے آپ کے دل میں طہارت باطنی کے لئے خالص جوش بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جوش میںترقی بخشے۔آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز ابھی تک لودھیانہ میں ہے۔ میرے ملازم پیراں دتہ کی نسبت تو آپ کو زبانی بھی کہا تھا اور اب بھی بطور یاد دہانی لکھتا ہوں کہ اس کے نکاح کی نسبت آپ ضرور فکر کریں۔ قوم گوجر میں بہت لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ کوئی ایسی لڑکی نو عمر تلاش کریں کہ نوعمر پندرہ سولہ برس کی اور نیک چلن اور محنتی ہو۔ انشاء اللہ القدیر آپ کو ثواب ہو گا۔ ضرور تلاش کریں۔ شاید میں ۴؍ نومبر ۸۹ء تک اس جگہ پہنچ جائوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ چند اشعار جو عمدہ اور دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے تھے پہنچا۔ افسوس کہ میرے تینوں خطوں میںایک خط بھی آپ کے پاس نہیں پہنچا۔ نہایت حیرت ہے۔ جس روز قادیان میں انڈوں کے لئے آپ کا خط پہنچا تھا۔ اسی دن لودھیانہ سے خط پہنچا کہ والدہ اُم بشیر سخت بیمار ہیں۔ بمجرد دیکھنے کے چلے آئو۔ لہذا بلاتوقف روانہ ہونا پڑا۔ اس وجہ سے انتظام انڈوں یا ان کے حلوہ کا نہ ہو سکا۔ اب میں۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں۔ آیندہ جو خط آپ لکھیں۔ قادیان آنا چاہیئے۔ پیراندتا کی نسبت بہت فکر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ معرفت اخویم میر عباس علی شاہ صاحب مجھ کو ملا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا کرے۔ آپ کے اشعار آپ کے صدق طلب پر گواہ ہیں ۔ جزاکم اللہ۔ میں انشاء القدیر دہم نومبر ۸۹ء کو قادیان کی طرف جانے کے لئے ارادہ رکھتا ہوں۔ آئندہ ہرچہ مرضی مولا۔ پیراندتا میرے ملازم کے امر نکاح کو خوب یارکھیں۔ آپ کی ادنی کوشش سے اس غریب کا کام ہوجائے گااور آپ اگر ادنی توجہ کریں گے تو ضرور انشاء اللہ کوئی صورت نکل آوے گی۔ مگر چاہیئے۔ عورت جوان باکرہ بیس بائیس سال سے زیادہ نہ ہواور بیوہ نہ ہوکہ اس میں فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ دلی توجہ سے تلاش فرمایں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۹؍نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل لودہانہ سے قادیان آکر آپ کا دوسرا خط ملا۔ اشعار آبدار جو آپ نے دلی درد اورجوش سے لکھے تھے۔ پڑھ کر آپ کے لئے دعا خیر کی گئی۔ ترتب اثر وقت پر موقوف ہے کیونکہ اللہ جل شنانہ‘ نے ہر ایک بات کو اوقات سے وابستہ رکھا ہے ۔ آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور مناسب ہے کہ آپ گنجائش کے وقت میں ضرور ملاقات کریں کہ اس میں انشاء اللہ القدیر فوائد بے شمار ہیں۔ پیراں دتہ کے لئے ضرور خیال رکھیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مشفقی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ متانت ایسی ہے۔ کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی یہ امر خداداد ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے۔ دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی ۔ جس طرح آسمان پر ستارہ نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں ۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں۔ اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے۔ خد اتعالیٰ کی فرمانبرداری پر کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں۔ مومن کا دینا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے۔ وہ تبدیلی جو خدا تعالیٰ اس میں پید اکرتا ہے۔ وہ مومن کوقوت کو دیتی ہے۔ ورنہ ہر ایک شخص فانی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ ……پر شیطان غالب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔ جیسے کہ آپ کے اشعار میں لذت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے دل میں ایسی ہی سچی رقت پید اکرے۔ ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لاتا تھا۔ ایک نفس پرست آدمی تھا۔ لیکن اس کے موحدانہ اور عارفانہ تھے۔ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر سے نہایت پاکیزہ تھے۔ آنحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ امن شعرلا وکفر نفسہ۔ یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور نفس اس کاکافر ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے۔ مناسب ہے کہ یہ اشعار آپ جمع کرتے جائیں۔ کیونکہ لطیف ہیں اور لائق جمع ہیں۔ مجھے بباعث کثرت کار فراغت نہیں۔ ورنہ میں جمع کرتا جاتا۔ تین روز سے لودھیانہ سے قادیان آگیا ہوں۔ مولوی نور دین صاحب کا کچھ پتہ نہیں۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ دعا میں بہت مشغول رہیں کہ تمام امن و آرام خدا تعالیٰ کی یاد میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹ ۱۸۸ء
(۱۶۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پڑھنے سے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے کہ خدا وندکریم آپ کو خط و افر اپنی محبت کا بخشے۔ میں ان دنوں سخت بیمار ہوں۔ نہایت کمزور ہو گیا۔ اس لئے طاقت زیادہ تحریر کی نہیں۔ امید کہ بعد صحت انشاء اللہ مفصل خط لکھوں گا۔ میر صاحب کسی قدر بیمار رہے ہیں اور اب بھی پورے تندرست نہیں۔ اسی وجہ سے میر صاحب کا کوئی خط نہیں آیا ہوگا۔ آپ تلاش رکھیں۔ اگر شہد عمدہ مل سکے تو ضرور تشریف آویں۔ آپ کا ملاقات بہت شوق ہے۔ اگر رخصت ملے تو ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء
پیراندتا کی نسبت رہے۔
(۱۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ درحقیقت بباعث بیماری مجھ سے تحریر جوابات میں کوتاہی ہوئی اوراب بھی پوری تندرستی نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے زیادہ لکھنے سے سخت مجبور ہوں۔ اگر چند سطریں بھی لکھوں تو سر گھوم جاتا ہے۔ ضعف بہت ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورداسپورہ
۲۸؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بجدوجہد دعا کروں گا۔ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں اور استغفار میں بہت مشغول رہیں کہ اس میں دفع بلا ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔ مگر اس طرح پر جو کچھ آپ کے دنیا اوردین کے لئے فی الحقیقت بہتر ہے۔ وہ بات آپ کو میسر آوے۔ کیونکہ خبر نہیں کہ خیر کس کام میں ہے۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا انتظار تھا۔ خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے۔ چھ سات روز سے اخویم مولوی نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں۔ اگر آپ ان دنوں آجائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہوجائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے ۔ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ پیراندتا بغایت درجہ آپ کے وعدہ کا منتظر ہے اور کسی غریب کا کام کردینا نہایت ثواب ہے۔ آپ خاص توجہ فرما کر اس کے لئے کوشش فرمادیں۔ آپ کے لئے برابر دعا بحضرت باری عزاسمہ کی جاتی ہے۔ امید کے وقت پر ترتب اثر بھی ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۳؍جنوری ۱۸۹۰ء
(۱۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مدت مدید کے بعد آپ کا خط پہنچا۔ اس قدر خطوط کے ارسال میں توقف کرنا مناسب نہیں۔ ہمیشہ استغفار میں مشغول رہیںکہ عمر کا ذرہ اعتبار نہیںاور جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں۔ تا دعا کی جاوے اور قریباً بیس روز سے لودہانہ میں ہوں۔ شاید ۶؍ مارچ ۹۰ء تک جاؤں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہانہ
۲۴؍فروری ۱۸۹۰ء
(۱۷۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔ یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا۔ بظاہر امید زندگی منقطع تھی۔ اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے۔ نہایت درجہ کا ضعف ہے۔ طاقت تحریر نہیں۔ صرف اطلاع کی غرض سے لکھتا ہوں۔ ورنہ حالت ایسی نہیں کہ لکھ سکوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍اپریل ۱۸۹۰ء
(۱۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں بمقام لاہور بغرض کرانے کے آیا ہوں۔ علاج ڈاکٹری شروع ہے۔ لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ کامل صحت ہوجائے گی اور میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جائوں گا۔ آپ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلامـ
خاکسار
غلام احمد از لاہور
مکان مرزا سلطااحمد
نائب تحصیلدار لاہور
۳؍ مئی ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لاہور جاتے تو مرزا سلطان احمد صاحب (جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے اور جب ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب مرزا احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھاٹی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے) یہ مکتوب حضرت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں اور اس پر ازعاجز حامد علی السلام علیکم بھی تحریر ہے۔
(عرفانی)
(۱۷۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللّٰہ والمۃ کہ بیماری لاحقہ سے اب بہت کچھ آرام ہے اور جس قدر باقی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد شفا ہو جائے گی۔ ضعف بہت ہو گیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھ سے خط لکھنا دشوار ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۱؍ مئی ۱۸۹۰ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے تسلی رکھیں۔میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور توبہ و استغفار میں مشغول رہیں۔ زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک آسمان پر نہ ہو۔ خدا تعالیٰ پر قوی بھروسہ رکھیں۔ میرا ارادہ ہے کہ تبدیل ہواکے لئے ۳؍ جولائی ۱۸۹۰ء تک لودھیانہ میں جائوں۔ اگر آپ کی ملاقات ہو تو بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ محبت اور یقین سے اس پر امید رکھو۔
والسلام
۲۵؍جون ۱۸۹۰ء
(۱۸۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے جو اللہ جلشانہ نے بہتر سمجھا ہے وہی ہو گا اور امید رکھتا ہوں کہ دعا کا اثر آپ کے حق میں خیرو برکت ہو گا۔عسیٰ ان تکرھو اشیاء وھو خیر لکم۔ غالباً ۷؍ جولائی۱۸۹۰ء کو لودھیانہ کی طرف روانہ کروں گا۔ اقبال گنج کے محلہ میں میر ناصر نواب کا مکان ہے۔ وہاں سے میرا پتہ معلوم ہو گا۔ اضطراب نہ کریں تسلی رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز عرصہ زیادہ دو ہفتہ سے لودھیانہ میں ہے اور بار ہا بخلوص قلب آپ کے لئے دعا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے۔ اسی کی طرف رجوع رکھو اور بے قرار مت ہو۔ وہ کریم ورحیم ہے اورمیں لودھیانہ میں محلہ گنج میں برمکان شاہزادہ حیدر اترا ہوا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مدت کے بعد آیا۔ برابر آپ کے لئے بتوجہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تسلی رکھو اور اپنے حالات سے بلا تاخیر اطلاع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
از لودھیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شاہزادہ حیدر
یکم اگست ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ اس کے بعد چوہدری صاحب کی تبدیلی محکمہ ریلوے پولیس میں ہوگئی۔ چوہدری صاحب اس کے متعلق حضرت اقدس کو لکھتے رہتے تھے اور آپ ہر خط میں ان کو تسلی اور اطمینان دلاتے تھے۔ آخر خد اتعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور چوہدری صاحب کو حسب مراد کامیابی ہوگئی۔ حقیقت میں بھی وہ نشانات اورخوارق تھے۔ جن کو دیکھ کر سابقون الاولون کی جماعت نے ایمانی ترقی حاصل کی تھی اور کوئی چیز حضرت کی راہ میں ان کے لئے روک تھی۔ وہ سب کچھ قربان کر کے یہی آرزو کہتے تھے کہ اور موقعہ ملے۔ اس لئے کہ بشاشت ایمانی ان میں داخل ہو چکی تھی اور خد اتعالیٰ کی آیات کو کھلا کھلا انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
افسوس ہے کہ اگست سے دسمبر ۹۰ء بلکہ مارچ ۱۸۹۱ء تک کے خطوط نہیں مل سکے۔ میں تلاش میں ہوں۔ اگر مل گئے تو بطور ضمیہ شائع ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز (عرفانی)
(۱۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ براہ مہربانی جالندھر چھائونی سے انگریزی نورہ جو سوداگروں کی دوکان میں بکتا ہے لے کر ضرور ارسال فرمادیں۔ صرف ۴؍ کا کافی ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ اپریل ۱۸۹۱ء
(۱۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
دہلی بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج یہ عاجز بخیروعافیت دہلی میں پہنچ گیاہے۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں۔ کوٹھی نواب لوہارو جو بلیماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے۔ آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرماویں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریماس عاجز کی تیاری کی ابھی کوئی پختہ خبر نہیں۔ ابھی بحث کے لئے تیاری ہو رہی ہے۔ شاید مولوی حکیم نور دین صاحب اور ایک جماعت ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک میرے پاس پہنچ جاوے۔ میں جانے کے وقت آپ کو اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
نوٹ۔ یہ مباحثہ دہلی کے ایام کی خط وکتابت ہے۔ جب کہ سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کو حضرت اقدس کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔(عرفانی)
(۱۸۶) پوسٹ کارڈ
۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا ۔ تھان گبرون حامد علی کو پہنچ گیا اور آپ کا چوغہ بنات میاں حافظ معین الدین کو دیا گیا۔ جس کو دینے کے لئے آپ نے کہا تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ توجہ سے سلطان احمد سے فیصلہ کرلیں۔ تا اس کے موافق عملدر آمد ہوجاوے کیونکہ میرا قیام قادیان میں زیادہ تر التزام سے اسی غرض سے ہے کہ تا یہ انتظام ہوجاوے۔ زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ چودھری رستم علی اس وقت لاہور میں متعین تھے اور مرزا سلطان احمد صاحب سے بعض امور متعلقہ اراضیات و باغ کا تصفیہ حضرت چاہتے تھے (عرفانی)
(۱۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکذبین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہوگا۔ انشاء اللہ القدیر۔ کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہونگے۔ لہذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہ عنایت ضرور تشریف لاویں۔ آتے ہوئے ی۴ روکھے پان ضرور لیتے آویں۔زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ :۔ اس خط پر از بند محمد اسمعیل السلام علیکم بھی درج ہے۔ یہ مرزا محمد اسمعیل کی طرف سے ہے۔ اس پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مہرے سے معلوم ہوتا ہے۔ ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو ڈاک میں ڈالا گیا اور لاہور کی مہر ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے۔ یہ سب سے پہلے جلسہ کی اطلاع ہے اور اب جیسا کی حضرت اقدس نے اس جلسہ کے اعلان میں ظاہر فرمایا تھا۔ وہی جلسہ برابر انہی تاریخوں پر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ گویا اب تک ۳۷ سالانہ جلسہ ہوچکے ہیں۔ سلسلہ کی ابتدائی تاریخ اور حضرت اقدس کی اس وقت کی مصروفیت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہی سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ (عرفانی)
(۱۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں۔ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۳؍دسمبر ۱۸۹۱ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خواب نہایت عجیب ہے۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نتیجہ امتحان سے اطلاع بخشیں اور براہ مہربانی میر ناصر نواب صاحب کا اسباب پٹیالہ پہنچا دیں۔ وہ بہت تاکید کرتے ہیں۔ پتہ یہ ہے۔ دفتر نہر میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس۔
راقم خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍جنوری ۱۸۹۲ء
(۱۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز قادیان میں آگیا ہے اور ایک رسالہ دافع الشہادت تالیف کرنے کی فکر میں ہے۔ براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے۔ یعنی تاویل الاحادیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں۔ ہرگز توقف نہ فرماویں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۹؍مئی ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط میں از جانب محمد اسمعیل اور محمد سعید السلام علیکم درج ہے سید محمد سعید دہلوی حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ وہ یہاں قادیان آئے اور حضرت نے انہیں مہتمم کتب خانہ بنادیا تھا۔ پھر ان کی شامت اعمال انہیں یہاں سے لے گئی اور گمنامی میں رخصت ہوئے۔ (عرفانی)
(۱۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ عزیزی غلام مصطفی کے لئے دعا کی گئی ۔ خدا تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر پھر دعا کروں گا۔ امید کی اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں گے۔ نیاء رسالہ ابھی مطبع ہوکر نہیں آیا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ رخصت لیں۔ تو ضرور مجھ کو بھی ملیں۔ کیونکہ آپ کی ملاقات کو ایک مدت ہوگئی ہے۔ عرب صاحب کے لئے بہت خیال ہے اور نواب محمد علی خان صاحب کو اشارہ کے طور پر اور نیز تصریح سے میں نے کہا بھی تھا ۔ اس سے زیادہ اور کیا کہا جاوے۔ حیدر آباد سے کوئی خط نہیں آیا۔ معلوم نہیں وہ لوگ کس حال میں ہیں۔ آج کل ایسی ہوا چل رہی ہے کہ ایک نئے روز کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کہ دلوں پر کیا اثر ڈالے۔ جسمانی وبا بھی ہیں اور روحانی بھی ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ حامد علی السلام علیکم و سید محمد سعید السلام علیکم ،،درج ہے۔ (عرفانی)
(۱۹۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاآپ کی دلی ہمدردی اور اخلاص فی الواقعہ ایسا ہی ہے کہ کسی قسم کا فرق باقی نہیں رکھا۔ جزاکم اللہ خیرالجزء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔رسالہ آسمانی نشان کے شروع ہونے میں یہ دیر ہے کہ میاں نور احمد مہتمم مطبع کی لڑکی جوان فوت ہوگئی ہے۔ اس غم کے سبب سے چند روز اس کی توقف ہوگئی۔ اب وہ قادیان آکر اول قرار داد اجرت باہم کرکے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سکے اجازت لیں گے کہ قادیان میں میں مطبع لاویں۔بعد ازاں مطبع لے آویں گے۔ شاید اس عرصہ میں ہفتہ عشرہ اور دیر لگ جاوے ۔ اسمعیل کو سمجھا دیا گیا۔ اس کا بھائی لاہور کسی جگہ نوکر ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔دوتین روز میں وہاں سے الگ ہوکر امرتسر پہنچ جائے گا۔ آپ کی دس تاریخ جولائی تک انتظار رہے گی۔ کتابیں ابھی امرتسر سے آئی نہیں۔ امید کہ چھ سات روز تک آجائیں گی اور شاید آپ کے پہنچنے تک آجائیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چندہ …ماہوار کی حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو اطلاع دی گئی۔ خد اتعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور کتاب رسالہ نشان آسمانی قدر امرتسر میں باقی ہے۔ جس وقت کتابیں آتی ہیں روانہ کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی تبدیلی سے خوشی ہوئی۔ مبارکباد اور آپ نے جو مبلغ بیس ……روپیہ عربی رسالہ کے لئے کہا تھا۔ اس وقت عربی رسالے چھپ رہے ہیں۔ ایک کا نام تحفہ بغداد اور دوسرے کا نام کرامات الصادقین ہے۔ اگر آپ اسی وقت میں اگر گنجائش ہو مبلغ ۲۰… …روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیں۔ تو بہتر ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۷؍ اگست ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔اس وقت چوہدری رستم علی تھانہ ولٹوہا ضلع لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر تھے۔ (عرفانی)
(۱۹۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ تفکر سے آپ کو نجات بخشے۔ کتاب آئینہ کمالات اسلام ۵ جزو تک چھپ چکی ہے۔ اگر آپ دوماہ تک چندہ مولوی محمد حسین صاحب کو بلاتوقف بھوپال بھیج دیں تو موجب ثواب ہو گا۔ پتہ بھوپال دارالریاست محلہ چوبدار پورہ۔ آپ کے اس تفکر کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب اور عرب صاحب آپ کے انتظار میں قادیان میں ہیں۔
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گوراسپورہ
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے برادر زادہ کی خبر سن کر بہت رنج واندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزیزوں کو صبر عطا فرمائے اور اس مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اب تاریخ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بہت بزدیک آگئی ہے۔ آپ کا شامل ہونا ضروری ہے ماسوائے اس کے انتظام دو تین شطرنجی اور قالین کاا گر ہو سکے تو ضرور کر لیں۔ یہ تو پہلے آجانی چاہئیں۔ اگر آپ دو روز پہلے ہی تشریف لاویںتو مناسب ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورادسپورہ
۱۶؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۸) ملفوف
افسوس ہے کہ یہ خط پھٹ چکا ہے۔ اس میں سے صرف مندرجہ ذیل حصہ باقی ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ آپ کی بار بار کی تکلیفات کی …………معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی جلسہ کے لئے ضروری سامان وغیرہ لانے کے متعلق تاکیدی خط تھا اور اس میںحضرت نے عذر کیا ہے کہ آپ کو بار بار ضروریات سلسلہ کے متعلق تکلیف دی جاتی ہے۔ اس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ سیرۃ کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ بالطبع اپنے احباب کو کسی قسم کی تکلیف دینا چاہتے تھے اور اگر خدا تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ مخلوق کی روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح کا یہ ذریعہ قرار نہ دیا ہوتا تو آپ کا بالطبع اس سے نفرت تھی۔ لیکن سنت اللہ یہی ہے اور اسی منازل سکوک طے ہو سکے تھے۔ چوہدری صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بے تکلفی سے انہیں نوازتے تھے اور یہ سعادت قابل رشک ہے۔ ابتداًہر قسم کے جلسوں کی ابتدائی ضروریات کا انصرام چوہدری صاحب ہی کے حصہ میں آیا تھا اور وہ خود بھی ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ۔(عرفانی)
(۱۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر یہ عاجز بہت دعا کرے گا۔ اللہ جلشانہ پہلے سے ہر ایک دعا آپ کے لئے قبول فرما رہا ہے۔ امید کہ اب بھی قبول فرمائے گا۔ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا کسی قدر دیر سے۔ اس کے ہر ایک کام میں خیر اور خوبی ہے۔ اپنے حالات سے مجھ کو بدستور مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ تاریخ مٹ گئی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی اسی وقت آ پ کے لئے تضرع اور ابتہال سے دعا کی گئی۔ بفضلہ تعالیٰ ضائع نہ جائے اور اس کا اثر ہو گا۔ آپ صبر سے منتظر رہیں۔ ہرگز ہر گز بے صبری نہ کریں۔ اپنے کام کو پوری توجہ اور ہوشیاری سے کریں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ جنوری ۱۸۹۲ء
(۲۰۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس… روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے۔ شاید بیس روز تک تیار ہو جائے۔اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں۔ اوّل یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کیے جائیں اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے۔ دوسرے یہ کہ میاں محمدحسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اورعلم دین ناز کرتے ہیں۔ ان کا یہ کبر توڑا جائے۔ چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ کاا شتہار بھی شامل ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اس عاجز سے محض للہ دلی تعلق اور محبت ہے اور یہ عاجز آپ کے ہر ایک تردد کے ساتھ متردد اور ہر ایک غم کے ساتھ غمگین ہوتا ہے۔ پھر کیونکر آپ کی دعا کی میں غفلت ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کے مدعا کے موافق کام کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔ انشاء اللہ القدیر توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ بلکہ شروع کر دی ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ تعجب کہ کس قدر آپ کے پاس کسی نے جھوٹ بولا اور دوسرا تعجب کہ آپ کو بھی حقیقت واقعہ سے اطلاع نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جب کہ عاجز امرتسر گیا اور جاتے ہی عاجز نے ایک خط رجسٹری کرا کر عبدالحق کو مباہلہ کے لئے بھیجا۔ کہ تم اس وقت مجھ سے مباہلہ کر لو۔ لیکن اس نے بدست منشی محمد یعقوب صاحب ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ اس وقت تم عیسائیوں سے مباہلہ کرتے ہو۔ اس ووقت میں مباہلہ مناسب نہیں دیکھتا۔ جس وقت لاہور میں مولوی غلام دستگیر سے بحث ہو گی۔ اس وقت مباہلہ کروں گا۔ لیکن اس کے جواب میں لکھا گیا کہ جو شخص ہم میں سے اعراض کرے اور تاریخ مقررہ پر مقام مباہلہ میں حاضر نہ آوے۔ اس پر خد اتعالیٰ کی *** ہو۔ چنانچہ وہ اس سخت خط کو دیکھ کر بہر حال مباہلہ کے لئے تیار ہو گیا اور ایسا ہی ایک محمد حسین بٹالوی کو بھی لکھا گیا تھا۔ مگر تاریخ مقررہ پر عبدالحق مباہلہ پر آگیا اور امرتسر میں جو بیرون دروازہ رام باغ عید گاہ متصل مسجد ہے۔ اس میں مباہلہ ہوا اور کئی سو آدمی جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض انگریز پادری بھی آئے اور ہماری جماعت کے احباب شاید چالیس کے قریب تھے اور عبدالحق بھی آیا اور بہت سی بددعائیں دیں۔ لیکن محمد حسین بٹالوی چارو ناچار مباہلہ کے میدان میں آیا۔ مگر مباہلہ نہیں کیا اور سب لوگ معلوم کر گئے۔ کہ وہ گریز کر گیا۔ یہ سچی حقیقت ہے۔ جس کا شاید د س ہزار کے قریب باشندہ امرتسر گواہ ہو گا۔ اب جب تک پہلے مباہلہ کا فیصلہ نہ ہو۔ دوسرا مباہلہ کیونکر ہو۔ علاوہ اس کے اسی مباہلہ کی تاریخ میاں محی الدین لکھو کے والے اور ایسا ہی مولوی محمد جبار کو ( عبدالجبار مراد ہے۔عرفانی)کو رجسٹری کرا کر خط بھیجا گیا کہ اس تاریخ پر تم بھی آکر مباہلہ کر لو۔ اگر تاریخ مقررہ پر نہ آئے تو پھر کاذب ٹھہرو گے۔ مگر بحالیکہ ان کی رسیدیں بھی آگئیں اور کافی مہلت بھی دی گئی۔ لیکن وہ نہ آئے۔ رسیدیں موجود ہیں۔ ایسا ہی لودھیانہ میں بھی رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے اور دہلی اور پٹیالہ میں بھی۔
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ اگست ۱۸۹۳
(۲۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ اسی جگہ سے آپ کے خط کے جواب میں حتی الوسع توقف نہیں ہوتا۔ شاید کسی وجہ سے خط نہ پہنچا ہو۔ دو رسالہ عربی چھپ رہے ہیں اور ایک رسالہ نہایت عمدہ اردو میں چھپ ہے۔ شاید یہ کام ایک ماہ تک ختم ہو۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ ستمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ اس وقت چوہدری صاحب کورٹ انسپکٹر تبدیل ہو چکے تھے اور محکمہ ریلوے سے دوسری طرف منتقل ہو گئے تھے۔ اب لفافہ پر حضرت اقدس لکھتے تھے۔
بمقام منٹگمری۔ کچہری صدر۔ بخدمت مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر پولیس۔(عرفانی)
(۲۰۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ کتابیں ابھی چھپ رہی ہیں۔ جس وقت آئیں گی۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہوں گی۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ اپنے حالات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
نوٹ:۔ اس خط پر آپ نے دستخط نہیں کئے اور تاریخ بھی درج نہیں فرمائی۔ قادیان کی مہر اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ آنمکرم پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔ رسالہ حمامۃ البشری جو مکہ معظمہ میں بھیجا جائے گا اور تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ رہی ہے۔ اب کچھ چھپنا باقی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میری طبیعت چند روز سے بعارضہ تپ بیمار ہے اور درد سر اور ضعف بہت ہے۔ اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ آپ کے دریافت طلبا امور کا جواب لکھ سکتا ہوں اور کسی اور وقت پر چھوڑ سکتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۷؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں۔ اتوار کو واپس قادیان آجاؤں گا۔ آپ اپنے حالات خیریت سے بو اپسی اطلاع دیں۔ خداتعالیٰ آپ کو کلی صحت بخشے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد
از فیروز پور چھاؤنی
نوٹ:۔ اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں۔ از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم و نیز غلام احمد کاتب۔ حامد علی السلام علیکم۔‘‘(عرفانی)
(۲۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں کل ایک ماہ کے قریب سفر پر رہ کر آیاہوں۔ امید کہ اپنی طبعیت کے حالات سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۱۰) پوسٹ کارڈ
السلام علیکم ۔ اول بشیرو محمود کی والدہ ملاقات اپنے والد ماجد کے فیروز پور گئے۔ پھر سنا کہ بشیر بہت بیمار پڑگیا۔ اس لئے ہم فیروز پور گئے اور وہاں پچیس روز کے قریب رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا مندی اور اپنے بنی کریم کی اتباع میں خورم و خورسند رکھے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ یہ خط حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت حکیم الامتہ نے لکھا ہے اور حضرت کے دستخط بھی خود انہوں نے کئے ہیں۔ اس وقت گویا حضرت حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ حضرت کی ڈاک بھی لکھا کرتے تھے اور یہ پہلا خط ہے۔ جس پر مرزا کا لفظ بھی لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے جو کوٹ بنوانے کے لئے لکھا تھا۔ میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لحاف مہانوں کی نیت سے بنوادیں کہ مہمانوں کے لئے اکثر لحافوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
غلام احمد
ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ۔ مگر قادیان کی مہر ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔ دوسری بات اس خط پر یہ ہے کہ آپ نے بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم پورا نہیں لکھا بلکہ صرف بس لکھ دیا ہے۔ تیسری بات یہ خط آپ ایثار اور اکرام ضیف کے حسنات کو آپ کی سیرت میں دکھاتا ہے ۔ چودھری رستم علی صاحب آپ کے لئے ایک کوٹ تیا کرانا چاہتے ہیں مگر آپ اپنے نفس و آرام کو ترک کرکے انہیں مہمانوں کے لئے ایک لحاف بنوادینے مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی تربیت کس طرح فرماتے تھے اور منازل سلوک کس طرح طے کرا رہے تھے۔ چودھری صاحب کے اخلاص و محبت کا توکیا کہناہے ۔ (عرفانی)
(۲۱۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاامید انشاء اللہ القدیر آپ کی معافی سواری کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس تکلیف سے بھی نجات بخشے۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوںکہ جو مبلغ ۲۰… آپ نے بھیجے ہیں کیا یہ عرب صاحب کے چندہ میں ہیں یا میرے کاروبار کے لئے کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے بیس روپیہ چندہ کے لئے تجویز کئے ہیں۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے رمضان میں دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کی تو ہر مراد اللہ پوری کردیتا ہے۔ آپ کیوں مضطرب ہوتے ہیں؟ رسالہ نورالحق بڑی شان کا رسالہ ہوگیا ہے اور پانچ ہزار …روپیہ اس کے ساتھ اشتہار دیا گیا ہے اور ہزار *** بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز بباعث کثرت کار بیشک سخت معذور ہے۔ اب چند روز تک بالکل فرصت ہونے والی ہے۔ کتابیں چھپ گئیں ہیں۔ اب جز بندی باقی ہے۔ امید کہ ہفتہ عشرہ تک جز بند ی ہوکر میرے پاس پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍جون ۱۸۹۴ء
(۲۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ صاحبزادہ صاحب کتابیں روانہ کریں گے۔ بہت کم فرصتی میں چند سطریں لکھی گئی ہیں۔ باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍جولائی ۱۸۹۴ء
(۲۱۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بباعث نہ پیدا ہونے روغن کے نہایت تکلیف ہورہی ہے۔ چربی دار اور خراب روغن ملتے ہیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک من پختہ روغن بذریعہ ریل بھیج دیں۔باقی ابھی تک کوئی تازہ خبر نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍اگست ۱۸۹۴ء
یہ روغن آپ کے چندہ میں جو آئندہ دیں گے ۔ محسوب ہوجائے گا۔
(۲۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا۔ اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں۔ دعا کرتے رہیں کے اللہ تعالیٰ اپنے بند وں کا امتحان سے بچاوے۔ شخص معلوم فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے ضعیف بند وں کو ابتلا سے بچاوے۔ آمین ثم آمین۔ باقی خیریت ہے مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ہے۔ حضرت اقدس کا ایمان خداتعالیٰ کی بے نیازی اور استغنار ذاتی پر قابل رشک ہے۔ آپ کو مخلوق کے ابتلا ء کا خیال ہے(عرفانی)
(۲۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آتھم کی نسبت جو فیصلہ الٰہی ہے۔ حقیقت میں فتح اسلام ہے۔ جب اشتہار پہنچے گاتو آپ معلوم کرلیں گے کہ کیا حقیقت ہے مگر آپ کی ستقامت اور استقلالی پر نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ بہت بہت جزائے خیر بخشے۔ انشاء اللہ تجدید بیعت کا آپ ک دوہرا ثواب ہوگا اور اللہ تعالیٰ گناہ بخشے گا اور وآپ پر خاص فضل کرے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط آپ کا جو بنام صاحبزادہ سراج الحق صاحب تھاپہنچا۔ جس کے دیکھنے پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ آپ ایسی خوشی کے موقع پر کیوں اس قدر اظہار اور ملال اور حزن کررہے ہیں اور نہ یہ افسوس صرف مجھ کو ہے۔ بلکہ جس قدر ہماری جماعت کے احباب اس جگہ موجود ہیںوہ سب افسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو حقیقت حال معلوم ہوتو آپ کا ایسا غم خوشی کے ساتھ تبدیل ہوجائے۔ آپ ضرور دوچار روز رخصت ملنے پر تشریف لاویں ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نے مخدومی حضرت سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے اشتہار بہ عنوان ’’این مدہاست دراسلام چو خورشید عیاں۔ کہ بہر دور مسجانفے نے آید۔،،پر ہی لکھ دیا ہے۔ یہ اشتہار حضرت شاہ صاحب نے سعد اللہ لودہانوی کے جواب میں شائع کیا تھا (عرفانی)
(۲۲۰) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آتھم کی نسبت جو خدا تعالی نے فیصلہ کیا ۔ اس کی آپ کو کچھ بھی خبر نہیں۔ میں پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے۔ تین چار دن تک آپ کی خدمت میں پہنچے گا۔ اس وقت بجائے غم کے آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوجائے گی۔ کہ اسلام کی فتح ہوئی۔والسلام
خاکسار۔غلام احمد
۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء
میاں نور احمد صاحب کو السلام علیکم
(۱۲۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے تردد کا حال معلوم ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ اپنی طرف سے اطمینان بخشے۔ آمین۔ رسالہ انوار الاسلام تین دن تک یا چار دن تک چھپ کر آجائے گا۔ امید کہ وہ آپ کے اطمینان کا موجب ہو۔ تاہم بہترہے کہ آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر ضرور ہمارے پاس آجائیں۔ میں بباعث کثرت مہمانان پہلے اس سے خط نہیں لکھ سکا۔ بخدمت اخویم میاں نور احمد صاحب السلام علیکم ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ …۲۵ مرسلہ آں مجھ کو ملے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ امید کہ اشتہار چارہزار روپیہ پہنچ گیا ہوگا۔ میری اصلاح ہے کہ کل اشتہار دونوں پیشگوئیوں کے متعلق رسالہ انوارالاسلام کے ساتھ شامل کرکے اپنے مخلص دوستوں کے نام بھیجے جاویں اور وہ ایک جلد ان کو مجلد کرالیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
محبی اخویم میاں نور احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ آپ کا پہلا خط مجھے معلوم نہیں کب پہنچا۔ شاید سہو سے نظر انداز ہوگیا۔ اگر کوئی خاص مطلب ہے۔ تو اس سے اطلاع بخشیں تااس کا جواب لکھا جاوے۔ اس وقت وقت تنگ ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا۔ بہت خوب ہے کہ آپ انوارالا سلام معہ جملہ اشتہارات کے مجلد کرالیں۔ اگر ایساہی ایک صاحب کریں تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ امید کہ انوار الاسلام آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ہوگی۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
نوٹ:۔ اس مکتوب پر خاکسار لکھ کر آگے اپنا نام حضرت نہیں لکھ سکے۔ اورنہ تاریخ درج کی ہے۔ مگر مہر سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۴ء کو قادیان سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ تعالی آپ کے مقاصد کو پورا کرے۔ا گر طبیعت ایسی ہی علیل رہتی ہے توکچھ مضائقہ نہیں کہ آپ اپنے آرام کے لئے کوشش کریں۔ جو منافی احکام شروع نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں۔ اگر معمولی طورپر سرٹیفکیٹ مل جائے تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی مرادات میں کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔ نہایت خوشی ہوگی اگر آپ کورٹ انسپکٹری پر گورادسپور تشریف لے آویں۔ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء نزدیک آگیا ۔ امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور اس موقعع پرخد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے تشریف لاویں گے۔ اس جلسہ احباب میں آپ کا آنا نہایت ضروری ہے ابھی سے اس کابندوبست کر رکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۳؍ دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۲۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس … روپے آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں۔مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کو فرصت ملے گی۔ بہت خوشی ہو گی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کاموقع ملے۔ خد اتعالیٰ آپ کو ترددات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میںترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب معہ چند دیگر مہمانان تشریف لے آئے ہیں۔ امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آئیںگے اور آتے وقت کسی سے بطور عاریت دو قالین اور شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضروری ہے اور ۴؍ کے پان لے آویں۔ قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
ضلع گورداسپور
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت بھرا عنایت نامہ پہنچا۔میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں۔ اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء
(۲۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن کااس جگہ قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن نہ اچھا نہ برا دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا۔ آپ ہمیشہ ۲۰… ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس … روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرمادیں۔ مگر ریل کے لئے روانہ کے لئے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہئے۔ گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ تبدیلی کے متعلق چوہدری رستم علی صاحب اپنے اخلاص اور محبت کے اقتضا سے چاہتے ہیں کہ گورداسپور آجائیں اور حضرت اقدس بھی قرب کو پسند فرماتے ہیں۔ مگر لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کو مدنظر رکھ کر آپ جلد بازی کا مشورہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ ہر ایک کام کے لئے استخارہ کی ہدایت دیتے ہیں۔ اس سے آپ کا توکل علی اللہ ظاہر ہے اور آپ کبھی پسند نہ کرتے کہ کوئی کام اپنی ذاتی خواہش اور خیال سے کریں۔ بلکہ ہر امر کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اسی کے سپرد کرنا انسب قرار دیتے۔(عرفانی)
(۲۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل روغن کے لئے آدمی بھیج دیا گیاہے ۔ شاید آج یاکل آجاوے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ رات تہجد میں آپ کے لئے دعا کی تھی اور کوئی خواب بھی دیکھی تھی۔ جو یادنہیں رہی۔ خد اتعالیٰ جو کچھ کرے گا۔ بہتر کرے گا۔ انشاء اللہ پھر بھی توجہ سے دعا کروںگا۔آپ سلسلہ ظاہر کے محرک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸۹۵ء
(۲۳۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا اور روغن زرد اس سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ آپ کے جناب الٰہی میں کئی دفعہ اخلاص اور توجہ سے دعا کی گئی۔ اب انشاء اللہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ہم وغم کودور کرے۔آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۶؍ فروری ۱۸۹۵ء
(۲۳۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے کہ اگر گورداسپور کی تبدیلی آپ کے لئے بہتر ہو اور اس میں کوئی شر نہ ہو توخد اتعالیٰ میسر کرے۔ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بہتر جو آپ کے لئے بہتر ہے وہی کرے گا اور منشی امام الدین منصف کو میرے نزدیک کچھ ذرہ علم نہیں۔ سمجھ پر شیطانی پردہ ہے۔ اس کے ساتھ بحث وقت ضائع کرنا ہے۔لیکن بہر حال اگر آپ اس کی تحریریں بھیج دیں۔ تو شایدکسی موقعہ پر ان کا رد کیا جائے گا۔ مگر وہ اپنی سخت نا سمجھی سے پاک غلطیوں سے گرفتار ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں۔ چوہدری صاحب گورداسپورہ کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے اور جیسے حضرت اقدس ان کے لئے یہ دعا فرماتے تھے کہ جو ان کے لئے بہتر ہو وہ میسر آئے اور یہ بصیرت افزا یقین حضرت اقدس کا تھا کہ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔ یہ دعا چوہدری صاحب کے حق میں گورداسپور ہی کی تبدیلی کی صورت میں قبول ہوئی اور یہاں عزت و احترام سے رہے اور انہیں سلسلہ کی خدمت کا قریب سے موقع ملتا رہا۔
امام الدین منصف جس کااس مکتوب میں ذکر ہے۔ یہ شخص اپنے آپ کو فاتح الکتب المبین کہتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کو بائبل کے ساتھ ایک جلد میں رکھنا چاہئے اور بھی بعض عجیب و غریب عقائد وہ رکھتا تھا۔(عرفانی)
(۲۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۶؍ اپریل ۱۸۹۵ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
گوردسپور آنے سے بہت خوشی ہوئی۔ا مید کہ اب وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہے گی۔ اطلاع بخشیں کہ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کب تک آئیں گے۔ کیونکہ ایک اخبار جاری کرنے کے لئے منظوری حاصل کرنی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۳۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چونکہ اخراجات پریس وغیرہ اس قدر ہیں کہ جس قدر معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
(۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
(۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہئے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہئے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہئے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہئے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
عرض حال
خدا تعالیٰ کاشکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات کی پانچویں جلد کا تیسرا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں۔ یہ مکتوبات چوہدری رستم علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے ہیں۔
مجھے اس مجموعہ مکاتیب کے متعلق کچھ کہنا نہیں۔ مخدومی ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے الفضل میں جو کچھ لکھا ہے۔ میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔ البتہ مجھے مخدومی اخوند محمد افضل خاں صاحب پنشزسب انسپکٹر کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ نہایت جوش اور اخلاص سے سیرۃ مسیح موعود کی اشاعت و تحریک کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر چند احباب ان کے نقش قدم پر چل کر اس کی اشاعت کی کوشش کریںاور ایک ہزار خریدار پورے ہو جائیںتو میں ہر مہینے ایک نمبر شائع کر سکوں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسو س ہے۔ ابھی تک جماعت میں ایسے قدر دانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جو ان پیش قدموں کی اصل قدر کریں۔
بہر حال اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے۔ کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی
کنج عافیت قادیان دارالامان ۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء ۷؍رمضان ۴۷ء


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کے نام
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
(۱) پوسٹ کارڈ
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ العزیز یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرے گا۔ آپ برعایت اسباب ہے کہ طریقہ مسنون ہے۔ طبیب حاذق کی طرف رجوع کریں او رطبیب کے مشورہ سے مارا بجن یا جو کچھ مناسب ہو اپنی اصلاح مزاج کے لئے عمل میں لاویں اور آپ کی ہر ایک غرض کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا۔ کبھی کبھی آپ ہفتہ عشرہ کے بعد کارڈ یاد دلاتے رہیں اور صبر جو شعار مومن ہے اختیار کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۵؍ ۱۸۸۴ء
نوٹ۔ چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے براہین احمدیہ کی خریداری کے سلسلہ میں ہوا او ریہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات او رمراسلات کا سلسلہ مضبوط او روسیع ہوتا گیا۔ ۱۸۸۴ء میں چوہدری صاحب خاص شہر جالندھر میںمحرر پیشی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو لفافہ اس طرح پر لکھا کرتے تھے۔
بمقام جالندھر خاص۔ محکمہ پولیس
بخدمت مشفتی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے اس وقت آپ کا عہدہ سارجنٹ تھا۔ آیندہ جب تک چوہدری صاحب کا ایڈریس تبدیل نہ ہو گا یا لفافہ کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی ایڈریس درج نہ ہو گا۔ ہر مکتوب کے ساتھ خط یا پوسٹ کارڈ کی تصریح کی جائے گی۔
(عرفانی)
(۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ آپ کے حسن خاتمہ اور صلاحیت دین کے لئے یہ عاجز دعا کرے گاا ور سب طرح سے خیریت ہے حصہ پنجم بعد فراہمی سرمایہ چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۔ قادیان
۱۸؍ جون ۱۸۸۴ء
(۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام مسنون۔
آپ کا دوسرا خط بھی پہنچا۔ یہ عاجز چھ روز سے بیمار ہے اور ضعف دماغ او رجگر او ردیگر عوارض لاحقہ سے مخنی ہو رہا ہے ورنہ آپ کے عزیز کے لئے کوشش اور مجاہدہ سے خاص طور پر دعا کی جائے۔ انشاء اللہ بعد افاقہ توجہ تام سے دعا کرتے گا اور مسنون طور پر آپ بھی دعا سے غافل نہیں رہئیے گا۔ بالفضل ارادہ ہے کہ چند مہینے تک کسی پہاڑ میں جاکر یہ مہینہ گرمی کا بسر کرے آیندہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو غم اور فکر سے نجات بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷۱؍ اگست ۱۸۸۴ء
(۴) پوسٹ کارڈ
از طرف خاکسار غلام احمد۔ باخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ خد اتعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں توبہتر ہے او ربعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو تین سو مرتبہ استغفارکا ورد رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ ستمبر ۱۸۸۴ء

(۵) پوسٹ کارڈ
از عاجز غلام احمد باخویم منشی رستم علی صاحب۔
بعد سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ طبیعت اس عاجز کی کچھ عرصہ سے علیل ہے اس لئے پہلے خط کا جواب نہیں لکھا گیا۔ حسین علی خان صاحب کے لئے اس عاجز نے دعا کی ہے او رانشاء اللہ العزیز پھر بھی دعا کرے گا۔ اطلاعا ًلکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۵ء
(۶) پوسٹ کارڈ
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال وفات آپ کے قبلہ بزگوار کا معلوم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون جو امر انسان کے لئے بہتر ہے وہ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ان غریب غریق رحمت کرے۔ آپ کواجر بخشے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ فروری ۱۸۸۵ء
(۷) پوسٹ کارڈ
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
حسب تحریر آپ کے ایک خط انگریزی اور ایک اشتہار انگریزی بھیجا جاتا ہے۔ کسی زیرک اور منصف مزاج کو ضرور دکھاویں یہ خط انگریزی تمام پادری صاحبان ہندوستان و پنجاب کی خدمت میں بھیجے گئے ہیں اور نیز پنڈتوں کے پاس بھی بھیجے گئے ہیں اور بھیجے جاتے ہیں اور ہر ایک بصیغہ رجسٹری بصرف ۴؍ روانہ کیا گیا ہے اور سب کی کیفیت انشاء اللہ حصہ پنجم کتاب میں درج ہو گی او آپ کے لئے دعا کی ہے۔
والسلام
خاکسا ر
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۵ء
(۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ دنیا مقام غفلت ہے بڑے نیک قسمت آدمی غفلت خانہ میں روبہ حق ہوتے ہیں۔ استغفار پڑھتے ہیں اور اللہ جلشانہ سے مدد چاہیں۔ یہ عاجز آپ کو دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ ترتیب اثر وقت پر موقوف ہے۔ اللہ جلشانہ آپ کو دنیا و آخرت میں توفیق خیرات بخشے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔ میر عباس علی شاہ دو روز سے اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۹)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد۔بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور حصہ پنجم کتاب انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام منشی عطاء اللہ خاں صاحب السلام علیکم۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ جون ۱۸۸۵ء
(۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از عاید باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب۔
وفات فرزند سے آپ کو بہت غم پہنچا ہو گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر عطا کرے۔ بہت دعا کی گئی مگر تقدیر مبرم تھی۔ خدا تعالیٰ آپ کو نعم العبدل عطا کرے مومن کو ثواب آخرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے دنیا میں تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس رنج کے عوض میں راحت ولی سے متمتع کرے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۱۱)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ۔
آپ کو عنایت نامہ پہنچا۔ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست۔ چونکہ کتاب درحقیقت قرآن شریف کی تفسیر ہے۔ سو اسی طرز سے اجازت حاصل کرنا چاہئے تاکہ طبیعت پر گراں نہ گزرے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۔۲۴؍ جولائی ۱۸۸۵ء
(۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت او راخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم مبارک علیٰ محمد علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔یہی درود شریف پڑھیں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے اور تنویر باطن او راستقامت دین کے لئے بہت موثر ہے۔ اور بعد نما زصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تصرع سے پڑھنا چاہئے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ میر صاحب نے دعا کے لئے بہت تاکید کی تھی سو کی گئی ہے۔
والسلام ۔ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپے مرسلہ آپ کے بدست میاں امام الدین صاحب پہنچ گئے جس قدر آپ نے اور چوہدری محمد بخش صاحب نے کو شش کی ہے۔ خدا وند کریم جلشانہ آپ کو اجر عظیم بخشے اور دنیا او ر آخرت میں کامیاب کرے۔ اس جگہ تادم تحریر ہر طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۲؍ اگست ۱۸۸۵ء
(۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی ۔ سلام علیکم۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو مکروہات زمانہ سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر کرے۔ یہ عاجز آپ کے لئے او رچوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا میں مشغول ہے۔ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ والسلام۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۸۵ء
(۱۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کروںگا۔ اللہ تعالیٰ بھائی مسلمانوں پر فضل و رحم کرے اور ان کی خطیات کو معاف فرماوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۶) پوسٹ کارڈ
مکرمی۔ سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سب احباب کے لئے دعا کی گئی اور حوالہ بخدا کیا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء

(۱۷) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ سلام علیک۔
پیر کے روز یہ عاجز امرتسر سے قریب دوپہر کے روانہ ہو کر لودھیانہ کی طرف جاوے گا۔ اگر اسٹیشن جالندھر پر آپ کی ملاقات ممکن ہو تو عین مراد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء
(۱۸) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کے لئے دعا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ ان کو با مراد کرے۔ آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم پر استقامت بخشے۔ یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد رکر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول سے مراد دارین حاصل ہو جاتے ہیں۔ سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادت نفس کر گزرے تا مخالفت خطوط نفس گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا۔ اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودہانہ بھیجا گیا ہے۔ رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر نہیں چھپ سکتے۔ اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں۔ انشاء اللہ موقع پر آپ کو اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
غلام احمد
یکم دسمبر ۱۸۸۵ء
نوٹ۔ اس مکتوب میں جس رسالہ کاذکر ہوا ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک ……ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاخطہ ہو۔ آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو۔ مگر آپ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
مکتوب نمبر ۱۸ سے لے کر ملفوف خطوط ہیں مگر نمبر ۲۱ کا رڈ ہے اس کے بعد ۲۳،۲۴ پھر لعایت ۲۸ پوسٹ کارڈ۔ (عرفانی کبیر)
(۱۹) ملفوف خط
از عاجز عائد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مکرم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنائت نامہ پہنچا۔ آپ کی رویا میں کسی قدروحشت ناک خبر ہے مگر انجام بخیر ہے ۔ ایسی خوابیں بسا اوقات بے اصل نکلتی ہیں اور حدیث شریف میں کہ جو خواب وخواب دل کو خوش کرے وہ رحمن کی طرف اور جو دل کو غمگین کرے وہ شیطان کی طرف سے ہے اور دوسری خواب کے سب اجزاء اچھے ہیں۔ اب تک اس عاجز کو امید نہیں کہ جالندھر میں پہنچ سکے۔ اگر ایام تعطیل میں تشریف لاویں تو بہتر ہے ۔ مگر اول مجھ کو اطلاع دیں۔ بخدمت چوہدری میں بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍دسمبر ۱۸۸۵ء
(۲۰) ملفوف خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا۔ خدوند کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔ حال یہ ہے کہ اس خاکسار نے حسب ایماء خدا وند کریم بقیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ‘ نے اس شہر کا نام بتادیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیئے اور وہ ہوشیار پورہے آپ پر ظاہر نہ کریں۔ کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور آپ بھی اور چوہدری محمد بخش صاحب بھی دعا کریں۔ کہ یہ کام خدا وند جلشانہ‘ جلد انجام پورا کردے۔ والسلام ۔بخدمت چوہدری صاحب سلام مسنون
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الر حیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا کارڈ پہنچ گیا۔ مفصل خط آپ کی خدمت میں ارسال ہوچکا ہے۔ تعجب کہ نہیں پہنچا۔ شاید بعد میں پہنچ گیا ہو۔ اب یہ عاجز دو روز تک انشاء اللہ روانہ ہو گا۔ آپ بھی دعا کرتیں رہیں اور اگر خط پہلا پہنچا ہو تو مجھ کو اطلاع بخشیں زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۲)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اس وقت روانگی براہ راست ہوشیار وپور تجویز ہو کر کل انشاء اللہ یہ عاجز روانہ ہو جاوے گا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔ واپسی کے وقت اگر کوئی مانع پیش نہ آیا تو جالندھر کی راہ سے آسکتے ہیں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۳)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز بروز جمعہ بخیرو عافیت ہوشیار وپور پہنچ گیا ہے اور طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فرد کش ہے آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ خد اوند کریم جل شانہ یہ سفر مبارک کرے۔ چوہدری محمد بخش صاحب بعد سلام مضمون واحد ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۴)خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز ہوشیار پور بخیریت پہنچ گیا ہے۔ یاد نہیں رہا پہلے بھی اس جگہ آکر آپ کو اطلاع دی یا نہیں۔ اس لئے مکرر آپ کی خدمت میں لکھا گیا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جلد تر اس کام کو انجام تک پہنچاوے اور یہ عاجز شیخ مہر علی صاحب رئیس کے مکان پر اترا ہے اور اس پتہ سے خط پہنچ سکتا ہے۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۸؍ جنوری ۱۸۸۶ء
(۲۵) خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی تک مجھ کو کوئی خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ افوض امری الی اللہ ھو نعم المولیٰ و نعم النصیر۔ شاید منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھل کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کے لئے آپ کے نام ریل میں بھیجیں سو اگر آیا تو کسی یکہ بان کے ہاتھ پہنچاویں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کچھ چیزیں منشی الٰہی بخش صاحب کو اکائونٹنٹ لاہور آپ کے نام اور چوہدری محمد بخش صاحب کے نام بلٹی کراکر جالندھری کے نام بھیجیں گے۔ آپ براہ مہربانی وہ چیزیں یکہ بان کے ساتھ یا جیسی صورت ہو ہوشیارپور میں اس عاجز کے نام بھیج دیں او راگر آپ دورہ میں ہوں تو چوہدری محمد بخش صاحب کو اطلاع دے دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ فروری ۱۸۸۶ء
(۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ اب کوئی پہلا اشتہار موجود نہیں۔ اس لئے بھیجنے سے مجبوری ہے اور یہ عاجز آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہے جس کے آثار کی بفضلہ تعالیٰ دین و دنیا میں امید ہے۔ مضمون محمد رمضان کا پنجابی اخبار میں اس عاجز نے دیکھ لیا ہے کہ ناچار فریاد خیز دا ز درد کا مصداق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
اب یہ عاجز قادیان کی طرف جانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ منگل کو روانہ ہو گا۔ آپ میر صاحب کو تاکید کردیں کہ وہ جلدیںچہارم حصہ براہین احمدیہ اگر سفید کاغذ پر ہوں تو بہتر ورنہ حنائی کاغذ پر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں یعنی اس جگہ پہنچ جاویں۔ اور شاید اگر اصلاح ہوئی تو جالندھر کی راہ سے جاویں مگر جلدی ہے توقف نہیں ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز عرصہ قریب ایک ہفتہ سے قادیان آگیا ہے۔ چند روز بباعث علالت طبع تحریر جواب سے قاصر رہا ہے۔ اب اہتمام رسالہ کی وجہ سے اشد کم فرصتی ہے۔ میری دانست ہے آپ کا رسالہ کے لئے روپیہ بھیجنا اس وقت مناسب ہے۔ جب رسالہ تیار ہو جائے۔ کیونکہ تیاری اس کاتخمینہ معلوم نہیں ہو سکتا او ر انشاء اللہ اب عنقریب چھپنا شروع ہو گا اور میںآپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خداوند کریم جلشانہ آپ کو ترودات پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرماوے آمین ثم آمین۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ رسالہ جس کااس مکتوب میںذکر ہے سرمہ چشم آریہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوشیار پور تشریف لے گئے تھے وہاں لالہ مرلی دھر سے مباحثہ ہو گیا۔ اس مباحثہ کو ترتیب دے کر حضرت نے شائع کرنے کاارادہ فرمایا۔ تو چوہدری رستم علی صاحب نے اس کی طبع و اشاعت کے لئے مدد دینے کی درخواست کی تھی۔ اس مکتوب سے جہاںحضرت چوہدری صاحب کے اخلاص پر روشنی پڑتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ایک پہلو کا بھی اظہار ہے اگر آپ کو صرف روپیہ لینا مقصود ہوتا تو فوراً لکھ دیتے کہ بھیج دو مگر آپ نے یہ پسند نہیں کیا جب تک رسالہ کاتخمینہ وغیرہ نہ ہو جائے۔ ابتداً حضرت اقدس کا خیال تھا کہ یہ رسالہ چھوٹا سا ہو گا مگر بعد میں جب وہ مطبع میں گیا تو ایک ضخیم کتاب بن گیا۔ (عرفانی)
(۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچ گیا۔ میں آپ کے لئے اکثر دعا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان دعائوںکے اثر خواہ جلدی خواہ دیر سے ہوں۔ خواب کے اوّل اجز تو کچھ متوحش ہیں مگر آخری اجزاایسے عمدہ ہیں جن سے سب تو حش دور ہو گیا ہے۔ خواب میں پارچات کو صاف کرنا استقامت اور نجات ازہم و غم اور توبہ خالص پر دلالت کرتا ہے غرض انجام اس کابہت اچھا ہے۔ فالحمد للہ۔
رسالہ کے چھپنے میں اب یہ توقف ہے کہ مالک مطبع اجرت ……مانگتا ہے مگر لاہور سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اجرت صرف ……روپیہ ہے۔ سو امید ہے کہ دو چار روز تک بات قائم ہو کر مطبع میں اس جگہ آجائے گا یا کوئی اور مطبع لانا پڑے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ کام رسالہ کا تین چار روز تک شروع ہونے والا ہے۔ اسی باعث سے اس عاجز کواس قدر کم فرصتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ حافظ نور محمد کے فرزند کے لئے بعد پڑھنے خط کے دعا کی گئی۔ اللہ جلشانہ رحم فرمائے آمین۔ اس وقت بباعث ورد سرو علالت طبع طبیعت قائم نہیں۔ اس لئے اسی کفایت کی گئی۔ آپ دعا کرتے رہیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
انشاء اللہ آپ کی بیماری کے لئے دعا کرنا شروع کروں گا۔ آپ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ مگر مضطرب اور بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔ بے اذن الٰہی کوی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بیماری کئی لوگوںکو ہو تی ہے اور اچھے ہو جاتے ہیں۔ اگر حکیم حاذق کی صلاح سے مارالجبن شروع کریں اورسر پر بعض مرطب چیزیں ناک میں ڈالنے والی استعمال ہوں تو انشاء اللہ تعالیٰ قوی فائدہ کی امید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔آپ کے لئے کئی دفعہ کی ہے اور کی جائے گی۔ کس بات کااندیشہ ہے۔ خداوندکریم جلشانہ قادر مطلق ہے۔ ابتلاء اور غم اور ہم سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ سو ذرہ اندیشہ نہ کریں میں آپ کے لئے بہت دعا کروں گا۔ اگر مزاج میں یبس ہو تو تازہ دودھ بکری کاعلی الصاح ضرور پی لیاکریںاگر موافق آجائے تو بہت عمدہ ہے اور کسی نوع کافکر نہ کریں۔ اب رسالہ کاکام عنقریب شروع ہو گا۔بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء
(۳۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ سرمہ چشم آریہ صرف ہزار کاپی چھپے گا۔ انشاء اللہ القدیر جو شخص ایک دفعہ اس کو دیکھ لے گا۔ ہر کوئی حسب نیت و مذاق دینی اس کو ضرور خریدے گا اور یہ کام بہت تھوڑا ہے۔ اب جلد ختم ہونے والا ہے او ررسالہ سرمہ چشم آریہ تو چار ماہ تک ختم ہو گا۔ اسی رسالہ میں انشاء اللہ القدیر اس کااشتہار دیاجائے گا۔ چوہدری محمد بخش صاحب کوسلام مسنون۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍۱۸۸۶ء

(۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
میر صاحب کی روانگی کے دوسرے دن روز کا تب آگیا ہے اور رسالہ سرمہ چشم آریہ جو صرف پندرہ یا بیس دن کا کام ہے چھپنا شروع ہوا ہے۔ کیونکہ رسالہ سراج منیر چار ماہ میں چھپے گا اور یہ صرف چند روز کا کام ہے۔ اس لئے اوّل اس سے فراغت کر لینا مناسب سمجھا گیا ہے روز کے روز کاپیاں روانہ ہوتی جاتی ہیں اور کام بفضلہ تعالیٰ ہو رہا ہے آپ کویہ عاجز دعا میں فراموش نہیں کرتا۔ بہر حال فضل الٰہی کی امیدہے۔ والسلام۔ چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔ پہنچے۔
نوٹ۔ اس خط کوئی تاریخ نہیں مگر قادیان کی مہر ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء اور جالندھر کی ۱۷؍ جون ۱۸۸۶ء کی ہے۔ اس لئے ۱۵؍ جون ۱۸۸۶ء تاریخ روانگی ہے
(عرفانی)
(۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ القدیر اگر زندگی رہی تو رسالہ سرمہ چشم آریہ رمضان مبارک کے آخیر تک چھپ جائے گا۔صرف درمیانی حرج یہ واقع ہو گیا ہے کہ شدت سے بارشیں ہو رہی ہیں چھپے ہوئے ورقے دیر کے بعد خشک ہوتے ہیں۔ بہرحال ا مید کی جاتی ہے کہ رمضان کے گزرنے کے بعد جلد تر شائع ہو گا۔ اس وقت ڈیڑھ سو جلد آپ کی خدمت میں روانہ کروں گا۔ دعا آپ کے لئے کی جاتی ہے۔ مگر یہ دشمن نفس جنگجو ہے اس کی بدیوں کے مقابلہ پر نیکیوں کے ساتھ حملہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکیوں کی برکت سے بدیوں پر آخر انسان غالب آجاتا ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۸۶ء
(۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ استغفار کو بہت لازم پکڑنا چاہئے جب بندہ عاجزی سے اپنے مولیٰ کریم سے معافی اور مغفرت چاہتا ہے تو آخر اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کے دل کو گناہ کی طرف سے نفرت دی جاتی ہے۔ ا ستغفار کی حقیقیت یہ ہے کہ انسان رو کر اور تضرع سے اللہ جلشانہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے سو استغفار کا کم سے کم یہ اثر ہوتا ہے غضب الٰہی سے بچ جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہے مگر ترتیب اثر کے لئے جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ اس زندگی میں حکمت الٰہی ہے۔ استغفار ہر گز چھوڑنا چاہئے۔ یہ بہت مبارک طریق ہے۔ رسالہ جب تیار ہو جائے گا تو اطلاع دی جائے گی۔ والسلام۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳؍ جولائی ۱۸۸۶ء
(۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
پہلے اس جگہ کو امرتسر سے کتابوں کا آنا ضروری ہے تا میں ان کی غلطی وغیرہ کو دیکھ لوں گا۔ کیونکہ اکثر ترتیب میں جز ملانے کے وقت کمی و بیشی اوراق کی ہو جایا کرتی ہے۔ سو اس جگہ سے ایک سو تیس کتابیں آپ کی خدمت میں بھیجی جائیں گی۔ جز بندی ہو رہی ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ۲۵؍ ستمبر تک آپ کے پاس کتابیں پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام۔ از طرف اخویم میر صاحب عباس علی صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ اس خط کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اس وقت صدر انبالہ میں تھے۔
(عرفانی)
(۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ صدر انبالہ میں مجھ کو ملا۔ میں اس جگہ تک اللہ جلشانہ چاہے متوقف ہوں۔ میرا پتہ یہ ہے۔ صدر انبالہ۔ حاطہ ناگ پہنی۔ محلہ گھوسیاں بنگلہ محمد لطیف رسالہ سراج منیر اب انشاء اللہ القدیر بعد رسالہ سرمہ چشم آریہ طبع ہو گا۔ مگر چونکہ اس کی فروخت کے سرمایہ سے طبع رسالہ سراج منیر کی تجویز ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر۔ اس لئے جس قدر جلد اس رسالہ کی فروخت ہو گی اسی قدر جلد تر رسالہ سراج منیر طبع ہو گا۔ آٹھ سو روپیہ جمع تھا۔ وہ سب رسالہ چشم آریہ پر خرچ ہو گیا۔ اس رسالہ میں کچھ تو بوجہ علالت طبع اس عاجز اور کچھ دیگر مواقع سے مطبع وغیرہ سے توقف ہوئی۔ اب یہ رسالہ سرمہ چشم آریہ امید قوی ہے کہ پندرہ روز تک من کل الوجوہ تیارہوکر میرے پاس پہنچ جائے گا۔ چونکہ رسالہ ضخامت میں بہت بڑا ہو گیا ہے او رخرچ بھی اس پر بہت زیادہ ہو اہے اور ابھی وہ سو روپیہ دینا ہے اس لئے قیمت اس کی ۱۲؍ مقرر کی گئی ہے جس زمانہ میں یونہی تخمینہ سے ۴؍ قیمت مقرر کی تھی اس زمانہ میں آپ نے ڈیڑھ سو رسالہ کا فروخت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا۔ پس اس حساب سے ……کا رسالہ آپ کے ذمہ فروخت کرانا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کر کے اگر آپ محض اللہ پوری پوری کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو رقم کثیر جمع کرنے میں سعی مبذول فرماویں۔ تو نہایت ثواب کی بات ہے۔ مجنملہ اس کے پانچ سو روپیہ منشی عبدالحق صاحب اکائنٹنٹ شملہ کا ہے جو بطور قرضہ طبع رسالہ کے لئے لیا گیا۔ اور تین سو روپیہ کاچندہ ہے۔اس میں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ تا سراج منیر کی طبع میں توقف نہ ہو۔ امید ہے کہ یہ کوشش موجب خوشنودی رحمن ہو آپ کے رفیق ہندو کو اس رسالہ کا پڑھنا مفید ہے اگر وہ غور سے پڑھے اور نجابت طبع رکھتا ہو او رسعادت ازلی مقدر ہو تو ہدایت پانے کے لئے کافی ہے۔ انشاء اللہ القدیر دعا بھی کروں گا۔ کبھی کبھی یاد دلاتے رہیں۔ میر احافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ واللہ فی کل فعل حکمتہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پہنی
(۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پختہ ارادہ ہے کہ آخیر نومبر تک یہ عاجز قادیان کی طرف روانہ ہوگا۔ ابھی کوئی دن مقرر نہیں کہ کب تک یہاں سے روانہ ہونا پڑے۔ اگر موقع نکلا تو انشاء اللہ القدیر اطلاع دی جائے گی۔ اللہ جلشانہ اس اخلاص اور خدمت کا آپ کو بہت اجر بخشے۔ شیخ مہر علی شاہ نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ انہی دنوں ان کواطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ ان کی فرش نشت کوآگ لگ گئی اور ایک بڑا تہکہ برپا ہوا اور ایک پرہول شعلہ آگ کا اٹھا او رکوئی نہیں تھا۔ جو اس کوبجھاتا۔ آخر میں میںنے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیاپھر آگ نظر نہیںآئی مگر دھواں رہ گیا۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس قدر اس نے آگ جلا دی۔ مگر ایسا ہی دل گزرا کہ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کوملا۔ پھر بعد میں اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے واللہ اعلم باالصواب۔ شیخ صاحب فی الحقیقت سپرد ششن ہو گئے۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون۔ میں ان کی نسبت بہت دعا کرتا ہوں اور ان کے عزیزوںکو بھی تسلی کے خط لکھے ہیں۔ اگر کوئی امر صفائی سے منکشف ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ بھی دعا کریں۔ والسلام چوہدری محمد بخش صاحب و مولوی امام الدین صاحب و عطاء اللہ خاں صاحب کو سلام مسنون۔ اگر ملاقات ہو تو پہنچا دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ صدر انبالہ
(۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو ہر طرح اختیار ہے جس جو چاہیں مفت دیں اور اگر ممکن ہو تو پانچ جلد عمدہ خوبصورت اسی نمونہ کی جو میں نے دکھلایا تھا تیار کرا کر ساتھ آویں یا بھیج دیں۔ زیادہ خیریت ہے چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۶ء
(۴۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
یہ عاجز قادیان پہنچ گیا ہے اور یہ بات اطلاعاً لکھنا مناسب ہے کہ آں مکرم اس روپے سے جوبابت قیمت کتاب جمع ہو گا۔ ……۱۵۰ نقد بخدمت بابو الٰہی بخش صاحب اکائنٹنٹ لاہور پہنچا دیں۔ وہ سرمایہ رسالہ کے لئے جمع کر لیں گے۔ پتہ یہ ہے۔ بمقام لاہور انار کلی۔ پبلک ورکس۔ بابو الٰہی بخش صاحب اکوئنٹنٹ اور باقی روپیہ براہ مہربانی اس جگہ پہنچا دیں اور سب طرح سے خیریت ہے۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
راقم خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ۔ یہ خط غالباً ۲۵؍ نومبر کے بعد کا ہے۔ عرفانی۔
(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی ومکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنائت نامہ پہنچا یہ عاجز ۲۵؍نومبر ۱۸۸۲ء سے قادیان پہنچ گیا ہے آپ برائے مہربانی اس روپیہ سے …روپیہ بابو الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور پہنچا دیں کہ وہ رسالہ کے لئے بابو صاحب کے پاس جمع ہوگا اور باقی روپیہ اس جگہ ارسال فرمادیں اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں چوہدری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے ۔ والسلام۔
خاکسار
غلام احمد
از قادیان
ضلع گورداسپور
یکم دسمبر ۱۸۸۶ء
(۴۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کی نسبت میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور …بہر حال علی طور پر امید رحمت الٰہی ہے۔ اور بہت چاہا کہ صفائی سے ان کی نسبت منکشف ہو مگر کچھ مکروہات اور کچھ اثار نظر آئے۔ اگر اس کی تعبیر اسی قدر ہو کہ مکروہات اور شدائد جس قدر بھگت چکے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو۔ انجام بخیر کی بہت کچھ امید ہے۔ اور دعائیں بھی ازحدہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے ۔ آمین ثم آمین ۔ اور جوآپ نے نیت کی ہے اگر ضرورت ہوتو چار ماہ کے لئے بطور قرضہ سو یا دوسو روپیہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیت کا اجر بخشے۔ اگر کسی وقت ایسی ضرورت پیش آئے گی ۔ تو آپ کو اطلاع دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں۔ وہ بطور حق براہین ہیں۔ ابلاغ پائیں۔ اور اللہ جلشانہ‘ توفیق بخشے کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں۔ بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں۔
نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسب معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے ۔عرفانی
(۴۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا میں نے سنا ہے مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے ابھی میرے پاس پہنچا۔ سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے۔ جب میرے پاس پہنچے شاید پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مقرر یادہانی سے بھیج دوں گا۔ چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء
والسلام
(۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آزبند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے۔ سب پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جائے گا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے۔ مگر اس کی طبع کے لئے تجویز کر رہا ہوں۔ کیونکہ تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کو چودہ سو روپیہ لاگت ہے۔ اگر کوئی مطبع کسی قدر پیچھے یعنی تین ماہ بعد لینا منظور کرے تو باآسانی کام چل جائے۔اور اشتہار میرے پاس پہنچ جائے ہے۔ فتح محمد خاں صاحب کی غلطی سے کچھ کا کچھ لکھ دیا۔ اب آپ بھی وصولی روپیہ قیمت سرمہ چشم آریہ کابہت جلد بندوبست کریں۔ اور ……روپیہ کی مجھے اور ضرورت ہے وہ میرے پاس بھیج دیں۔ باقی روپیہ منشی الٰہی بخش صاحب کے نام لاہور روانہ کر فرمادیںاور جو آپ نے دو سو روپیہ بطور قرضہ کے دینا تجویز کیا ہے وہ بھی ان کے پاس محفوظ رکھیں کہ اب روپیہ کی ضرورت بہت پڑے گی۔ قیمت رسالہ میں آج تک آپ سے …… پہنچ گئے ہیں اور ……روپیہ آنے سے پورے ……روپیہ ہو جائیںگے۔ شیخ مہر علی صاحب کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ واللہ غفور الرحیم۔ سندرواس کے لئے تو ہم نے آپ کے کہنے سے بہت دعا کی تھی مگر چونکہ ہندو آخر ہندو ہے اس لئے وفاداری کے شکر گزار ہونا مشکل ہے ۔ آج کل ہندئووں کے جو مادے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس سے عقل حیران ہے ہندئووں میں وہ لوگ کم ہیں جو نیک اصل ہوں۔ ایک خطا۔ دوئم خطا۔ سوئم مادربخطا۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب السلام علیکم ۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر شیخ میر محمد صاحب کے واسطے دعا کروں گا آپ بالفصل پچیس روپیہ بذریعہ منی آرڈر اس جگہ کی ضرورتوں کے لئے ارسال فرما دیں او رباقی روپیہ کی وصولی کا جہاں تک ممکن ہو جلد بندوبست کریں تا وہ روپیہ سراج منیر کے کسی کام آوے اور قند جیساکہ آپ نے ہوشیار پور بھیجا تھا اور دو روپیہ کے شیر مال تازہ تیا رکروا کے ٹوکری میں بند کر کے بذریعہ ریل بھیج دیں او راوّل اس کی بلٹی بھیج دیں اور شیخ صاحب مہر علی صاحب کی صورت مقدمہ سے اطلاع بخشیں۔ سندر داس اس کی کامیابی سے خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو سچی ہدایت بخشے کہ قوم میں سے باہر آنے کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ واللہ یھدی الیہ من یشاء۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔ دو سو روپیہ جو قرضہ لیا جائے گا۔ آپ نے اپنے طور پر تیار رکھیں کہ جب نزدیک یادیر سے اس کی ضرورت ہوئی تو بھیجنے میں توقف نہ ہووے۔
(۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کے لئے میں نے اس قدر دعا کی ہے کہ جس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ جلشانہ اس کی قدر بخشی کرے۔ کہ وہ کریم و رحیم ہے۔ رونے والوں کو ایک دم ہنسا نہیں سکتا۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مگر اسے کیوں ایسا مضطر ہوناچاہئے۔ وہ تو ابھی لڑکا ہے اور ابھی وہ بہت وسیع میدان درپیش ہے مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے کس قدر روپیہ لاہور میں بھیجا ہے۔اگر کچھ بقیہ آپ کے پاس ہو تو مجھے بعض ضروریات کے لئے منگوانا ضروری ہے۔اس سے جلد اطلاع بخشیں اورنیز معلوم ہوتا ہے کہ قرضہ کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سو آپ دو سو روپیہ تک قرضہ کا انتظام کر دیں تو اس قسم کا ثواب بھی آپ کو حاصل ہو گا۔ باقی خیریت ہے۔ مقدمہ شیخ مہر علی صاحب سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
(۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی محبی۔ السلام عیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ قصیدہ متبرکہ موصول ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ اگر چند بوتل سوڈا واٹر مل سکیں تووہ بھی بھیج دینا۔ یہ قصیدہ انشاء اللہ ورج کتاب کرا دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودھیانہ
(۵۰) ملفوف و مختوم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
کل عنایت نامہ آپ کاپہنچا۔ مگر کوئی کارڈ نہیں پہنچا۔ شیخ مہر علی صاحب کے واسطے جس قدراس عاجز سے ہو سکا۔ دعا کی گئی اور حوالہ بخدا وند کریم و رحیم کیا گیا ۔ اور اس جگہ سب خیریت ہے۔ رسالہ سراج منیر کے طبع میں صرف بعض امور کی نسبت دریافت کرنا موجب توقف ہو رہا ہے۔ جب وہ امور بھی طے ہو جاتے ہیں۔ تو پھر انشاء اللہ القدیر رسالہ کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا اور شائد امرتسر میں کسی قدر توقف کرنا ضروری ہو گا۔ اب آپ کی تشریف آواری کی ۲۶؍ دسمبر تک امید لگی ہوئی ہے اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیرییت ہے۔ اخویم چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ یہ پہلا خط ہے جس پر حضرت اقدس نے تین مہریں لگائی ہیں ایک الیس اللہ بکاف عبدہ۔ کی ہیں اور دوسری اذکر رحمتی کی ہے اور یہ مہریں آپ نے شروع خط میں لگائی ہیں۔(
( عرفانی)
(۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
عنایت نامہ پہنچا۔ سردار کی بات بالکل فضول اور دروغ معلوم ہوتی۔ صحیفہ قدسی بہت مدت سے میرے پاس آتا ہے اور اس کا ایڈیٹر ایک دوست ہے۔ اس میں مجال نہیں کہ کوئی مخالف مضمون چھپے اور آریہ گزٹ قادیان میں آتا ہے اگر ہوتا تو ظاہر ہو جاتا۔ جو مضمون شائع ہوچکا اس کا پوشیدہ کرنا کوئی وجہ نہیں۔ کل اشاعۃ السنہ خدمت میں بھیجا گیا ہے۔ ولیوپی امیل کے کاغذات جو آپ نے بھیجے ہیں وہ بے رنگ ہوکر آئے۔ کسی نے ۵؍ انپر لگا دیا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۶ء
نوٹ۔ صحیفہ قدسی کے ایڈیٹرمولوی عبدالقدوس صاحب مرحوم تھے اور فی الحقیقت حضرت اقدس سے ان کو محبت واخلاص تھا۔ مقدمہ کرم دین میں بطور گواہ پیش ہوئے۔ الحکم کے خریدار تھے۔
(عرفانی)
(۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
کل ایک روز خط حاجی ولی اللہ صاحب کی طرف روانہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان کو واپسی کی طرف رغبت دی گئی ہے اور جواب طلب کیا گیا ہے جواب آنے پر اطلاع دوں گا۔ مضمون جو آپ لے گئے تھے ضرور چھپوا دیں۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ ربیع الثانی ۱۳۰۴ء
(۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ اسلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا مجھے اس وقت پختہ معلوم نہیں کہ کب تک امرتسر جائوں۔ شاید بیس روز تک جانا ہو۔ بہرحال اس وقت انشاء اللہ خبر دے دوں گا۔ شیخ صاحب کے لئے اس قدر دعا کی گئی ہے بہر حال رحم اللہ جلشانہ کی امید ہے وھو الغفور الرحیم۔ آپ استغفار کو لازم پکڑیں۔ اس میں کفارہ و ثواب ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ سندر داس کے لئے بھی دعا کی ہے۔ واللّٰہ یفعل مایشاء
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ خط پر تاریخ نہیں۔ مگر مہر ۴؍ جنوری ۱۸۸۷ء درج ہے۔
(عرفانی)
(۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
جیساکہ آپ کو دلی جوش شیخ صاحب کے حق میں ہے ایساہی مجھ کو ہے اور میں نے اس قدر دلی جوش سے دعا ان کے حق میں کی ہے۔ جس کا کچھ اندازہ نہیں رہا۔ اب ہم اس قدر دعائوں کے بعد شیخ صاحب کو اسی ذات کریم و رحیم کے سپرد کرتے ہیں جواپنے عاجز اور گنہگار بندوں کی تفصیرات بخشتا ہے اور عین موت کے قریب دیکھ لیتا ہے۔ واللہ علی کل شئی قدیر حالات سے اطلاع بخشتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ قادیان
۱۱؍ فروری ۱۸۸۷ء
(۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘۔
اشتہار پہنچااور…روپیہ بھی پہنچ گئے۔ انشاء اللہ القدیر اشتہار دینے والے شرمندہ اور رسوا ہونگے۔ آج کل ہندؤوں کو اپنے قومی تعصب میں بہت کچھ اشتعال ہورہا ہے مگر دروغ کو فروغ تا کجا خودنابود ہوجائیں گے۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی تاریخ پہلے آپ نے ۲۲ مارچ ۸۷ء لکھی ہے ۔ کیا پیشی سے پہلے تاریخ منسوخ ہوگئی یا تاریخ سے پہلے مقدمہ پیش ہوگیا۔ اس سے ضرور اطلاع بخشیں۔ چودھری محمد بخش صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء ازقادیان
(۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
پانچ روپیہ کے شیر مال پہنچ گئے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
نوٹ۔ اس پر تاریخ نہیں ہے مگر مہر ۴؍ مئی ۱۸۸۷ء کی ہے۔
(۵۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
آج مبلغ پندرہ روپے بابت قیمت کتاب سرمہ چشم آریہ پہنچ گئے۔ رسیدًا اطلاع خدمت ہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ترود دور فرمائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ مارچ ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس خط پر سندر داس از جالندھر بھی درج ہے جو اس نے خط پہنچنے پر لکھا ہے۔
(عرفانی)
(۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے دوست کے لئے بہت دفعہ دعا کی گئی۔ اگر کچھ مادہ سعادت مخفی ہے تو کسی وقت اثر کرے گی۔ ورنہ تہیدست ازل کا کیا علاج آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو غیروں کی طرف التفات کرنے سے مستغنی کرے۔ واللّٰہ علی کل شئی قدیر۔ رسالہ سراج منیر کاسب اسباب تیار ہے صرف یہ خیال ہے کہ اوّل خریداروں کی مجرو درخواستیں دو ہزار تک پہنچ جائیں پھر چھپنا شروع ہو۔ کیونکہ یہ کام بڑا ہے جس میں دو ہزار کے قریب خرچ ہو گا۔ آپ بھی اطلاع بخشیں کہ ایسے سچے شائق آپ کو کس قدر مل سکتے ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کو بباعث ضروری کام رسالہ رو ایک یا وہ گو کہ ایک ہفتہ کے لئے جانا پڑا ہے۔ اس لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اگر فرصت ہو تو امرتسر میں آپ کی ملاقات ہو جائے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۳؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں کہ کہاں اتروں گا۔ انشاء اللہ وہاں جاکر اطلاع دوں گا۔ اگرچہ میرا پتہ ہال بازار۔ مطبع ریاض ہند میں جاکر شیخ نور احمد سے جو مالک مطبع ہیں۔ بخوبی مل سکتاہے۔ مگر پھر بھی انشاء اللہ امرتسر میں جاکر آپ کو اطلاع دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔ مگر مہر ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۷ء کی ہے۔ (عرفانی)
(۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجز امرتسر پہنچ گیا ہے۔ شاید پیر منگل تک اس جگہ رہوں مگر بروز اتوار صرف ایک دن کے لئے لاہور جانے کاارادہ ہے۔ اگر آپ تشریف لائیںتو میں کٹرہ مہاں سنگھ میں برمکان منشی محمد عمرداوغہ سابق اتر ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از امرتسر کٹرہ مہاں سنگھ
۳۰؍ مارچ ۱۸۸۷ء
(۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون ہیں۔
امرتسر سے قادیان آگیا ہوں۔ آپ دوام استغفار سے غافل نہ رہیں کہ دنیا نہایت خطرناک آزمائش گاہ ہے۔ شاید کتاب شحنہ حق آپ کے پاس پہنچی ہے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیںکے پہلی کتابوں کی بقیہ قیمت وصول ہوئی یا نہیں۔ اب وہ تمام قیمت جلد وصول ہوجائے تو بہتر ہے۔کہ وقت نزدیک ہے اطلاع بخشیں ۔ میر صاحب جالندھر میں ہیںیا تشریف لے گئے ہیںامرتسر میں آپ کی بہت انتظار ہوتی رہی مگر مرضی الٰہی نہ تھی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
(۶۳)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
چونکہ نئے رسالہ شحنہ حق کی اجرت وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس جگہ روپیہ وغیرہ نہیں ہے۔ اس لئے مکلف ہوں۔ کہ آپ مجھ کو بیس …روپیہ بھیج دیں اور حساب یاداشت میں لکھتے رہیں یعنی جس قدر آپ نے متفرق بھیجا ہے۔ا س کو آپ اپنی یاداشت میں تحریر فرماتے جاویںاور اب وصولی روپیہ اور تصفیہ بقایا کی طرف توجہ فرماویں ۔ کہ اب روپیہ کی بہت ضرورت پڑے گی۔ بڑا بھاری کام سر پر آگیا ہے۔ آپ کی ملاقات اگر کبھی ہوتو بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔تاریخ درج نہیں ڈاک خانہ کی مہر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۸۸۷ء ہے۔ عرفانی
(۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
رسالہ ماہوار کی قیمت بہت ہلکی اور خفیف رکھنا مصلحت سمجھا گیا ہے مگر رسالہ کے نکلنے پر معلوم ہو جاوے گا۔ آپ کی ہمدردی دینی معلوم کرنے سے باربار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم جلشانہ‘آپ کو محمود الدنیاو العاقبت کرے۔ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے دوسو رسالہ سراج منیر اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ ملاقات کو دل چاہتا ہے ۔اگر آپ کو کسی وقت فرصت ملے تو اول اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۸؍اپریل ۱۸۸۷ء
نوٹ:۔اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر حضرت اقدس نے کیا ہے اس سے مرادقرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ہے جوآپ ماہوار جاری فرمانا چاہتے تھے اس کا اعلان آپ نے شحنہ حق میں بھی فرمایاتھا ۔ مگر بعد کے واقعات اور حالات نے حضور کو اور طرف متوجہ کردیا۔ پھر ایک زمانہ میں نورالقرآن آپ نے شائع کرنا شروع فرمایا چونکہ یہ رسائل کسی تجارتی اصول پر جاری نہیں کرنے چاہے تھے اس لئے دونمبروں کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیاہے۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کے مقاصد و منشاء کی اشاعت سے سامان اخبارات و رسالہ جات کی صورت میں کردیئے جو آج کئی زبانوں میں جاری ہیں۔ عرفانی۔
(۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔دعا کی گئی ۔ مجھ کو بباعث علالت طبعیت خود کم فرصتی بھی ہے۔ اب میں آپ سے ایک ضروری امر میں مشورہ لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بوجہ چند در چندو جہوں کے دوسری جگہ کتابوں کے طبع کرانے سے میری طبعیت وق آگئی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنا مطبع تیارکرکے کام سراج منیر و دیگر رسائل کا شروع کرادوں اگر مطبع میں کچھ خسارہ بھی ہوگا۔ تو ان خساروں کی نسبت کم ہوگا۔ جو مجھے دوسرے لوگوں کے مطبع سے اٹھانے پڑتے ہیں۔ لیکن تخمینہ کیا گیا ہے کہ اس کام کے شروع کرانے میں تیرہ چودہ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ جس میں خرید پریس وغیرہ بھی داخل ہے اور آپ نے اقرار کیا تھا کہ ہم تین ماہ کے عرصہ کے لئے دوسو روپیہ بطور قرض دے سکتے ہیں۔ سو اگر آپ سے یہ ہوسکے اور آپ کسی طور سے یہ بندوبست کرسکیں کہ چارسو روپیہ بطور قرضہ چھ ماہ کے لئے تجویز کرکے مجھ کو اطلاع دیں تو میں جانتا ہوں کہ اس میں آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو چھ ماہ کے اندر ہی یہ قرضہ ادا کرادے لیکن چھ ماہ کے بعد بلاتوقف آپ کو دیا جائے گا اس کا جواب آپ بہت جلد بھیج دیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ ہاتھ پر خداتعالیٰ نے یہ خیر مقدر کی ہو۔ اگر میں سمجھتا کہ آپ اِدھر اُدھر سے لے کر کچھ اور زیادہ بندوبست کرسکتے ہیں تو میں آپ آٹھ سَو روپیہ کے لئے آپ کو لکھتا مگر مجھے خیال ہے کہ گو آپ اپنے نفس سے اللہ رسول کی راہ میں فدا ہیں۔ مگر آجکل دوسرے مسلمان ایسے ضعیف ہورہے ہیں کہ ان کے پاس قرضہ کا بھی نام لیا جائے تو ان کی طبع میں قبض شروع ہوجاتا ہے۔ جو اب سے جلد تر اطلاع بخشیں۔ شیخ مہر علی صاحب کے مقدمہ کی نسبت اگر کچھ پتہ ہو تو ضرور اطلاع بخشیں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۱؍مئی ۸۷ء
نوٹ:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۷ء میں ارادہ فرمایا کہ قادیان میں ایک مطبع جاری ہو مگر مشیت ایزدی نے اس وقت اس کے لئے سامان پیدا نہ دیئے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں قادیان میں پریس منگوایا گیا مگر وہ کام کرکے واپس چلاجاتا رہا۔ آخر بالا استقلال خدا تعالی نے یہاں مطبع کا سامان مہیا کردیا۔ خاکسار عرفانی نے مشین پریس قائم کیا جواب ضیاء الاسلام پریس میں کام کرتا ہے۔ حضرت کے ہرارادہ کی خداتعالیٰ نے تکمیل کردی۔ گو لوکان بعد حین ہوئی مگر پریس آپ کی زندگی میں ہی اور اخبارات ورسائل بھی آپ کی زندگی میں جاری ہوگئے یہ منشاء الٰہی تھا اور پورہوکررہا۔ اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھری صاحب کے خدا تعالیٰ کی رہ میں فدا ہونے کا اظہار فرمایا ہے جو حضرت چودھری صاحب رضی اللہ عنہ کے کمال اخلاص اور اس کے نتیجہ میں کامل فلاح پانے کا ثبوت ہے۔ (عرفانی)
(۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الر حمن الر حیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔مولوی غلام محی الدین کے لئے میں نے کئی دفعہ دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو تروّدات سے مخلصی بخشے اب مجھ کو نہایت جلد اسبات کی ہے کہ جس طرح ہوسکے اپنے کام کو شروع کروں جن پر کسی قدر امید پڑتی ہے قرضہ کے لئے لکھ دیا ہے اور سب کو لکھا گیا ہے کہ بعد طبع سراج منیر ایک برس کے وعدہ پر قرض دیں۔ آپ کے مانند چارپانچ آدمی ہیں اورچودہ سو روپیہ ……کے قرضہ کا بندوبست کرنا ہے آپ مجھ کو بہت جلد اطلاع دیں کہ آپ ٹھیک اس وعدہ پر کس قدر قرضہ کابندوبست کرسکتے ہیں تا میں روپیہ کومنگوانے کے لئے کوئی تجویز کروں اور پھر لاہور میں خرید مطبع کے لئے آدمی بھیجا جائے۔ اب یہ کام جلدی کا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان میں یہ کام شروع ہو جائے۔جس قدر بقیہ کتب ہو وے وہ بھی آپ وصول کر کے جلد بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ شعبان
نوٹ۔ اس خط میں جن مولوی غلام محی الدین صاحب کوذکر ہے وہ مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے خاکسار عرفانی کے بھی استاد تھے عرفانی نے براہین احمدیہ ۱۸۸۷ء میں انہیں صاحب کے پاس دیکھی تھی اور جمال وحسن قرآن نو ر جان ہر مسلمان ہے والی نظم کو اس میں سے نقل کیا تھا سلسلہ احمدیہ میں جیساکہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے تعلقات کی ابتداء اسی ۱۸۸۷ء سے ہوتی ہے اور چوہدری علی صاحب مرحوم ہی اسی کے موجب ہیں یہ کتاب چوہدری صاحب ہی کی تھی۔ مولوی غلام محی الدین صاحب کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتداً ارادت و عقیدت تھی مگر افسوس ہے کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو سکے۔
(عرفانی)
(۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اب تک کوئی خبر نہیں آئی کہ بریت پاکر بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے۔ اگر آپ کو خبر ہو تو برائے مہربانی اطلاع بخشیں۔ قرضہ کی بابت تجربہ کار لوگوں سے دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے اس تجویز کی تجسس کی لیکن یہ کہا کہ جس حالت میں انہیں کتابوں کی فروخت سے قرضہ اتارا جائے گا۔ تو اس صورت میں کم سے کم ادائے قرضہ کی میعاد ایک سال ہونی چاہئے۔ کیونکہ سراج منیر پانچ مہینہ سے کم نہیں چھپے گا۔ اس لئے میں نے کلاً علی اللہ بعض دوستوں کو لکھا ہے او رمیرا ارادہ ہے کہ اگر قرضہ کا بندوبست حسب و لخواہ ہو جائے تو بہت جلد اس کام کو شروع کروں۔ آپ کو میں نے چھ ماہ کے وعدہ کے لئے خط لکھا تھا۔ مگر درحقیقت وعدہ ایک سال بہت خوب ہے اگر آپ متحمل ہوسکیں۔ توا س ثواب کے لئے میں عین جدوجہد کریں۔میرا ارادہ ہے کہ رمضان شریف میں یہ کام شروع ہو جائے۔ آیندہ جو ارادہ الٰہی ہو۔ مجھے اس زبانی یاد نہیں کہ آپ نے کتابوں کی قیمت میں کیا کچھ ارسال فرمایا تھا اور کیاباقی ہے بہرحال جوکچھ باقی ہے اب اس موقعہ میں جہاں تک جلدی ممکن ہو بھیجنا چاہئے اور نیز اس قرضہ کی بابت جو اس میعاد کے لئے ہو ممکن ہو جیسی مرضی ہو اطلاع دینی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو کچھ آپ نے ایک سال کے وعدہ پر سو روپیہ دینا کیا ہے۔ اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن اس بات کوبھی اپنے لئے گوارہ کر لیں کہ یہ وعدہ اس تاریخ سے ہو کہ جب سراج منیر چھپ کر تیار ہو جائے۔ کیونکہ سراج منیر کی چھپائی کا کام پانچ یا چھ ماہ تک ختم ہو گا۔ چونکہ یہ روپیہ سراج منیر ہی کی فروخت سے نکالا جائے گا اس لئے صرف چھ ماہ تک ایک خطرناک عہد ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ایک سال پر چھ ماہ اور زائد کئے جائیں۔ بقیہ فروخت کتب کا جو رپیہ ہے اگر وہ آپ بہت جلد ساتھ لاویں تو آپ کی ملاقات بھی ہو جائے بہت خوشی کی بات ہے اگر آپ آویںتو ……روپیہ کی شکر جو عمدہ ہو اور نیز ایک بوتل چٹنی کی اور دو شیر مال میرے حساب میں خرید کر ساتھ لاویں ا ور اگر جلدتر آنا ہو ممکن ہو توبقیہ روپیہ فروخت کتب کا بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں۔ لیکن جلد آنا چاہئے۔ کیونکہ مجھے اس وقت روپیہ کی بہت ضرورت ہے اور نیز میرا ارادہ ہے۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو پختہ ارادہ ہے کہ اسی ماہ رمضان میں جوبہت مبارک ہے یہ کام شروع کیا جائے۔ سو اگر آپ تشریف لائیں تو بعض امور کا مشورہ آپ سے لیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب بھی ساتھ آجائیں توبہتر ہو میر صاحب سے استصواب کر لیں۔ یہ کام بہت عظم الشان ہے۔ دوستوں کامشورہ اس میں بہتر ہے اور بعض مشورہ طلب امور بھی ہیں۔ آپ پہلے آنے کی پختہ گنجائش نکال کر پھر میر صاحب کولکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۹؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو مخنثون کا گھر آباد دیکھا جو زیوروں سے آراستہ ہیں اس سے مراد دنیا دار ہیں جو دنیا کی آرائشوں میں مشغول ہیں اور جو دیکھا کہ ایک دوست کی تلاش میں دوڑ رہے ہیں اور پرواز بھی کر رہے ہیں اور پھر ملاقات ہو گئی۔ یہ کسی کامیابی کی طرف اشارہ ہے اور دوست کے جگر سے مال مراد ہے جوانسان کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اور دشمن کے جگر کا کانٹا اس پر تباہی ڈالتا ہے۔ تلوار ہاتھ میں ہونا فتح و نصرت کی نشانی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے وہ کام جو اب درپیش ہیں۔ آپ کو دکھا دیا ہے۔ اس کام میں چند دوستوں کی قرضہ کے لئے تکلیف دی گئی ہے۔ تا دشمنوں کی بیخ کنیکی جائے۔ سو خواب بہت عمدہ ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ فرصت نکال کر ملاقات کریں۔ ایک اور تکلیف دیتا ہوں اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لئے سعی کریں۔ آج کل ماہ رمضان بباعث مہمانداری و مصارف خانگی میں روغن زرد یعنی گھی کی بہت ضرورت در پیش ہے اور اتفاق ایسا ہوا کہ گھی جو جمع تھا سب خرچ ہو گیا اور اردگرد تمام تلاش کیا گیا اچھا گھی ملتا نہیں آخر چھ سات دن کے بعد ہمارا معتبر میاں فتح خاں واپس آیا۔ اگر پانچ روپیہ کا گھی عمدہ کسی گائوں سے مل سکے تو میرے حساب میں ضرور خرید کر ضرور ساتھ لاویں اور وہ دوسری چیزیں بھی جو میں نے لکھی تھیں۔بخدمت چوہدری صاحب کو سلام مسنون۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۰؍ مئی ۱۸۸۷ء
(۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعد السلام علیکم۔
اس وقت میں انبالی چھائونی کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ کیونکہ میر ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں۔ زندگی سے ناامید ہے۔ ان کی لڑکی کی اپنی والدہ سے ایسے وقت میں ملاقات ہونی چاہئے۔ سو میں آج لے کر اسی وقت روانہ ہوتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۹؍ جون ۱۸۸۷ء
(۷۱) پوسٹ کارڈ
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آم پہنچ گئے۔ اگر دوسری دفعہ ارادہ ارسال ہو تو دو امر کا لحاظ رکھیں۔ ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو۔ میںنے سندر داس کی شفا اور نیز ہدایت کے لئے دعا کی ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا۔
خاکسار
والسلام
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۸۷ء
(۷۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم۔
آج ایک ٹوکرہ آموں کاپہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ بوجہ شدت حرارت موسم آم جو ٹوکرے کے اندر دبے ہوئے تھے بگڑ گئے۔ اس لئے آموں کی کیفیت سے کچھ اطلاع نہیں ہوئی۔ اگر ٹوکرے میں درخت سے تازہ توڑ کر کسی قدر کچے رکھے جاتے تو غالباً امید تھی کہ نہ بگڑتے۔ دوسری مرتبہ یہ ضرور احتیاط رکھیں میںنے جو آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کھلائیں۔ آم توخراب ہو گئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے۔ واللہ اعلم۔ اس کی کیا تعبیر ہے۔ مولوی حکیم نورالدین صاحب کا آدھا ٹکڑا نوٹ پانچ سو رپیہ کا پہنچ گیا اور ساتھ ہی روپیہ نقد پہنچے اور آدھا ٹکڑا نوٹ کا امید کہ دس روز تک پہنچ جائے گا۔ سندر داس کے لئے انشاء اللہ دعا کروں گا۔ بخدمت چوہدری صاحب کو محمد بخش السلام علیکم۔
الراقم خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۱۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
(۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم۔
آج اِکیاسی آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ یہ آم بہت عمدہ تھے۔ ان میں سے صرف ایک بگڑا۔ باقی سب عمدہ پہنچ گئے۔ دو آدمیوں کے پاس ضرور آپ دوبارہ تحریک کریں اور جلداطلاع بخشیں کہ اب وقت نزدیک ہے۔ شاید آج دوسرا قطعہ پانچ سو روپیہ کا بقایا آجائے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ جولائی ۱۸۸۷ء
عاجز عبداللہ سنوری کا سلام علیک۔
نوٹ۔ منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کارڈ پر سلام علیک لکھا ہے۔ (عرفانی)
(۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم پہنچ گئے۔ آپ نے خالصاً للہ بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ خدمت میں لگے ہو ئے ہیں اللہ جلشانہ آپ کوبہت اجر بخشے۔ پاس کا جواب آنے سے مجھ کو آپ اطلاع بخشیں۔ میاں نور احمد خود بخود دہلی چلے گئے۔ مگر پاس د و آدمیوں کے لئے ہونا چاہئے۔ نصف ٹکڑا نوٹ ابھی نہیں آیا۔ فتح خاں و حامد علی کا سلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ اس کارڈ پر فتح محمد و حامد علی کا سلام علیکم بھی درج ہے۔(عرفانی)

(۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج سولہویں ذیعقد ۱۳۰۴ء ھ بفضلہ تعالیٰ و کرمہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے۔ ۲۲ ذیعقد مطابق ۱۳؍ اگست روز عقیقہ ہے۔ اگر کچھ موجب تکلیف وحرج نہ ہوتو آپ تشریف لا کر ممنون احسان فرماویں۔ فقط۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ اگست ۱۸۸۷ء
اور چوہدری محمد بخش صاحب کوبھی اطلاع کر دیں۔ سب کاسلام۔ والسلام
نوٹ۔ اس مکتوب میں بشیر اوّل واللہم جعلہ فرطاً کی پیدائش کی آپ نے بشارت دی ہے چونکہ ایک مولود کے متعلق خد اتعالیٰ کی ایک عظیم الشان بشارت برنگ پیشگوئی ہوئی تھی بشیراوّل کے پید اہونے پر حضرت اقدس کا خیال اسی طرف گیا کہ شاید یہی وہ مولود موعود ہو اس کے عقیقہ پر آپ نے بہت سے دوستوں کو دعوت دی تھی او ریہ عقیقہ خدا تعالیٰ کے نشان کے پورا ہونے پر اظہار مسرت و شکر گزاری کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ اس کے متعلق تفصیل آپ کے سوانخ حیات میں ہو گی۔ انشاء اللہ العزیز۔ (عرفانی)
(۷۶)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ۔
دو شطرنجی کلاں اگردو روز کے لئے بطور مستعار مل سکیں توضرور بندوبست کر کے ساتھ لاویں اور پھر ساتھ ہی لے جاویں او رجمعہ تک یعنی جمعہ کی شام تک ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی۔ رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ایک آپ کو نہایت ضروری تکلیف دیتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کے جدوجہد سے یہ کام بھی انجام پذیر ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ دو روز کے لئے ایک سائبان درکار ہے جوبڑا سائبان ہوخیمہ کی طرح جس کے اندر آرام پاسکیں۔ اگر سائبان نہ ہو تو خیمہ ہی ہو۔ ضرور کسی رئیس سے لے کر ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مکان کی تنگی ہے۔ بہت توجہ کر کے کوشش کریں۔
خاکسار
غلام احمد
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۷۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ مگر پان نہیں پہنچے۔ حتی المقدر ور آپ ایسا بندوبست کریں پان دوسرے چوتھے روز باآسانی پہنچ جایا کریں اور اب تک جہاں ممکن ہو۔ پان جلدی پہنچا دیں اور دوبارہ آپ کو تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ بڑی جدوجہد سے ڈیڑھ من خام روغن زرد عمدہ جمعہ تک پہنچا دیں اور ……۳۰ روپیہ نقد ارسال فرما دیں اور شاید قریباً یہ ……یا ……روپیہ ہوں گے آپ اس میں جہاں تک ہو سکے بڑی کوشش کریں اور عقیقہ کی ضیافت کے لئے تین بوتل عمدہ چٹنی کی اور بیس ثار آلو پختہ اور چار ثار اربی پختہ اور کسی قدر میتھی و پالک وغیرہ ترکاری اگر مل سکے ضرور ارسال فرمادیں۔ یہ بڑا بھارا اہتمام عقیقہ کا میں نے آپ کے ذمہ ڈال دیا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ تین روز کی رخصت لے کر معہ ان سب چیزوں کے جمعہ کی شام تک قادیان میں پہنچ جائیں کیونکہ ہفتہ کے دن عقیقہ ہے۔ اگر چوہدری محمدبخش صاحب کو بھی ساتھ لاویں تو بہت خوشی کی بات ہے۔ مگر آپ تو بہرحال آویں اور اوّل تو چار روز کی ورنہ تین دن کی ضرور رخصت لے آویں۔ میں نے سندر داس اس کیلئے بہت دعا کی ہے اور نیز مراد علی صاحب بھی اس تقریب میں تشریف لاویں توعین خوشی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں مگر سلسلہ بتاتا ہے کہ اگست ۱۸۸۷ء کاخط ہے مولوی مراد علی صاحب جالندھری مشہور آدمی تھے۔ (عرفانی)
(۷۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد سلام مسنون۔
اس وقت ایک نہایت ضروری خیمہ سائبان کی پیش آئی ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا عمدہ موقعہ ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ ایک سائبان معہ قنات کسی رئیس سے بطور مستعار دو روز کے لئے لے کر جیسے سردار چیت سنگھ ہیں ضرور ساتھ لاویں۔ بہرحال جدوجہد کر کے ساتھ لاویں۔ نہایت ضروری تاکید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
مگر یہ ایک سائبان فراخ معہ قنات کے جو اردگرد اس کے لگائی جائے تلاش کر کے ہمراہ لاویں۔
(۸۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سے پہلے روغن زرد کے لئے آپ کی خدمت میں لکھا گیا تھا۔ اس جگہ کچھ بندوبست نہیں کیا گیا۔ لیکن دل میں اندیشہ ہے کہ شاید وہ خط نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی کہ خریدار گیایا نہیں اور وقت ضرورت روغن کابہت ہی قریب آگیا ہے اور روغن کم سے کم ڈیڑھ من خام ہونا چاہئے اوراگر دو من خام ہو تو بہتر ہے۔ کیونکہ خرچ بہت ہو گا۔ چونکہ یہ کام تمام آپ کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس لئے آپ ہی کو اس کافکر واجب ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ خط نہ پہنچا ہو تو اس جگہ جلدی سے بندوبست ہونا محال وغیرہ ممکن ہے اس صورت میں لازم ہے کہ آپ دو من خام روغن امرتسر سے خرید کر کے ساتھ لاویں۔ خواہ کیسا ہی ہو آپ کا حرج ہو اس میں تساہل نہ فرماویں اور مناسب ہے کہ چوہدری محمدبخش صاحب بھی ساتھ آویں اور دوسرے جس قدر آپ کے احباب ہوں۔ ان کو بھی ساتھ لے آویں اورسب باتیںآپ کو معلوم ہیںاعادہ کی حاجت نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان گورداسپور
(۸۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میاں نور احمد نے صاف جواب بھیجا ہے کہ مجھے قادیان میں مطبع لے کر آنا منظور نہیں اور نہ میں دہلی جاتا ہوں اور نہ شرح مجوزہ سابقہ پر مجھے کتاب چھاپنا منظور ہے اس لئے بالفضل تجویز پاس کی غیر ضروری ہے لوگ ہر ایک بات میں اپنی دنیا کا پورا پورا فائدہ دیکھ لیتے ہیں بلکہ جائز فائدہ سے علاوہ چاہتے ہیں دیانت اور انسان کا ذکر کیا ایسا بد دیانت بھی کم ملتا ہے جو کسی قدر بد دیانتی ڈر کر کرتا ہے۔ اب جب تک کسی مطبع والے سے تجویز پختہ نہ ہوجائے خود بخود کاغذ خریدنا ناعبث ہے۔ میاں عبداللہ سنوری تو بیمار ہو کر چلا گیا۔ میں فتح خان کا بھائی بھی بیمار ہے اور اس جگہ بیماری بھی بکثرت ہو رہی ہے۔ ہفتہ عشرہ میں جب موسم کچھ صحت پر آتا ہے تو لاہور یا امرتسر جا کر کسی مطبع والے سے بندوبست کیاجائے گا پھر آپ کو اطلاع دی جائے گی۔
ایک ضروری بات کے لئے آپ کوخود تکلیف دیتا ہوں کہ میرے پاس ایک آدمی حافظ عبدالرحمن نام موجود ہے وہ نوجوان اور قد کاپورا اور قابل ملازمت پولیس ہے بلکہ ایک دفعہ پولیس میں نوکری بھی کر چکا ہے اور اس کاباپ بھی سارجنٹ درجہ اوّل تھا جو پنشن یاب ہو گیا ہے۔ اس کامنشاء یہ ہے جوپولیس سے کنسٹبل بھی ہو جائے تو از بس غنیمت ہے ایک سند ترک ملازمت بھی بطور صفائی اس کے پاس ہے عمر تخمیناً بائیس سال کی ہے۔اگر آپ کی کوشش سے وہ نوکری ہو سکتا ہے تو مجھے اطلاع بخشیں کہ اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر دوں اور جلد اطلاع بخش دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے اس سے روغن ررو کے لئے لکھا گیا تھا کہ ایک من خام ارسال فرماویں۔سو اس کی انتظار ہے۔ کیونکہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ دوسری یہ تکلیف دیتا ہوں کہ ایک خادم کی ضرورت ہے۔ قادیان کے لوگوں کا جال دگر گون ہے۔ ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے۔ جو طفیل وزراد کی خدمت میں مشغول رہے۔ آپ ا س میں نہایت درجہ سعی فرماویں کہ کوئی نیک طبیعت اور دنیدار خادم جو کہ قدر جوان ہو مل جائے اور جواب سے مطلع فرمائیں۔
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا۔ آپ کے لئے بہت دعا کی گئی ہے۔ جس بات میں فی الحقیقت بہتری ہو گی۔ وہی بات اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اختیار کرے گا۔ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ میری بہتری کس بات میں ہے۔ یہ میرا سرار فقط خدا تعالیٰ کو معلوم ہیں سو قوی یقین سے اس بھروسہ رکھنا چاہئے۔ روغن زرد ایک تک نہیں پہنچا۔ اس جگہ بالکل نہیں ملتا۔ اگر آپ ایک من روغن خام تلاش کر کے بھیج دیں توا س وقت نہایت ضرورت ہے اور نیز جیسا کہ میںپہلے میں لکھ چکا ہوں کوئی خادم ضرور تلاش کریں اورپھر تحریر فرمانے پر روانہ کر دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۲؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
بباعث کثرت آمد مہمانان روغن زرد کی اشد ضرورت ہے او راس جگہ ملتا نہیں اور میاں عبداللہ سنوری نے لکھا ہے کہ میں بعد گزرنے عید آئوں گا۔ معلوم نہیں کہ وہ کب آویں گے۔ اس لئے تاکیداً لکھتا ہوں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تین چار روز تک ہی سعی اور کوشش فرما کر روغن زرد ارسال فرمادیں۔اگر ایک من خام جلدی روانہ نہ ہوسکے تو دس پندرہ سیر ہی روانہ کر دیں کہ شاید ایک ہفتہ کے لئے کافی ہو جاوے۔ مگر پھر باقی مطلوب کو بھی متعاقب اس کے جلد روانہ کر دیں۔ نہایت تاکید ہے یہ ایک ضروری امر تھا لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۴؍ اگست ۱۸۸۷ ء
(۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں او رامید رکھتا ہوں کہ خداوند کریم آپ کے لئے وہی صورت مہیا کرے گا جو بہتر ہے جناب الٰہی پر پورا پورا حسن ظن اور توکل رکھیں۔ روغن زرد جو تازہ اور عمدہ ہو کسی انتظام سے جلد تر روانہ فرماویں اور ساتھ اگر ممکن ہوسکے تو پان بھی بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۵؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ روغن کے لئے آپ نے بہت تلاش کی ہوگی۔اس جگہ پان کی بھی اشد ضرورت ہے اگر کسی طرح باآسانی پہنچ سکیں تو یہ ثواب بھی آپ کو حاصل ہو جائے۔ معلوم نہیں خادمہ ملی یا نہیں۔ اس سے بھی اطلاع بخشیں اور نیز نئے انتظام یا پہلی صورت کے قائم رہنے سے مطلع فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍ اگست ۱۸۸۷ء
(۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بارادہ خود کسی طرف حرکت نہ کریں۔ مشیت الٰہی پر چھوڑ دیں۔ لیکن اگر دل میں بہت اضطراب پیدا ہو جاوے تو تب اختیار ہے کہ آپ ہی سلسلہ جنبانی کریں۔ کیونکہ اضطراب منجانب اللہ ہوتی ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ دعا میں مجھے فرق نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ انجام بہتر ہو گا۔روغن زرد و پان پہنچ گئے ہیں۔ پیسے انشاء اللہ کل بوٹے خان صاحب کے پاس بھیج دیئے جائیں گے اور خادم کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن آپ اوّل بخوبی معلوم کر لیں کہ وہ نیک چلن او رنیک بخت ہے اور محنتی ہے اور پھر تنخواہ بھی بکفایت ہو۔ اس کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ پھر انشاء اللہ طلب کی جائے اور جب خادم آوے تو اس کے ہاتھ بھی پان ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ بعد السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ۔
خادمہ کے لئے جو کچھ فتح خان صاحب نے شرطیں لکھی ہیں ان کی تو کچھ ضرورت نہیں۔ صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ کے رکھنے کے لائق ہو۔ یہ بات ضرور ہے کہ تنخواہ بہت رعایت سے ہو ۔ گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں۔ جن میں کسی کو تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر یہ عورت تنخواہ دار آئی اور تنخواہ بھی ……روپے تو ان کو بھی خراب کرے گی۔ تو اس کانتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ اس ایام قحط میں صرف روٹی کپڑا ایک شریف عورت کے لئے از بس غنیمت ہے۔ جو تین روپے ماہواری بیٹھ جاتا ہے۔ سو اگر ایسی عورت مل سکے تو اس کو روانہ کر دیں۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔دعا کی گئی۔
۶؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت ہوئی روغن زرد اورپان پہنچ چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط ن نہیں پہنچا۔ آپ کی نسبت وہی تجویز میرے نزدیک بھی مناسب ہے جو آپ نے لکھی ہے۔ میں آپ کے لئے اور چوہدری محمد بخش صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ جلشانہ جلد شفاء بخشے۔اس جگہ مینہ روز برستا ہے شاذو نادر کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے۔ سو یہی وجہ توقف خرید کاغذ ہے۔ جب کچھ تحفیف بارش ہوئے تب کاغذ کے لئے کوئی اپنا معتبر بھیجا جائے کاپی روانہ کردی گئی ہے۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد از قادیان
۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حسب تحریر آپ کی آپ کے دوست کے لئے بھی دعا کی گئی ۔ بشیر کے لئے خادمہ کی از بس ضرورت ہے۔ خد اتعالیٰ کرے کہ آپ کو کوئی نیک طبیعت خادمہ مل جائے۔ زیادہ تنخواہ کی تواب بالکل گنجائش نہیں ہے اگر کوئی ایسی خادمہ مل جائے کہ روٹی کپڑا پر کفایت کرے جیسا کہ اس جگہ کی عورتیں کر لیتی ہیں اور پھر شریف بھی ہو تو ایسی کی تلاش کرنی چاہئے اور چونکہ نہایت ضرورت ہے آپ جلدی اطلاع بخشیں۔
والسلام۔خاکسار
غلام احمد۷؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں عبداللہ سنوری ابھی آنے والے نہیں ہیں اگر آپ ایک مرتبہ کوشش کر کے بقیہ روغن زرد جو ایک من خام سے باقی رہ گیا ہے۔ معہ کسی قدر پان کے بہت جلد ارسال فرماویں تو میرے لئے موجب آرام ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ روغن نہیںملتا اور مہمانوں کی آمد بہت ہے اور سندر داس کو ایک ماہ یا دو تین ہفتہ کے لئے اپنے پاس طلب کر لیں۔ پھر اگر مجھے بھی آپ کے ہمراہ ملے تو اچھا ہے۔دعا اس کے لئے کرتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط پہنچا۔ سندر داس صاحب کی صحت کے لئے دعا کی گی او رکئی دفعہ توجہ دلی سے دعا کی گئی۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ تا ایام صحت اس کا رڑ کی منگوا لو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ملاقات کرائو کہ جس شخص کو ایک مرتبہ دیکھ لیا ہو اس کی نسبت دعا بہت اثر رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ اپنے ساتھ اس کو لے کر آنا اور وہاں سے ضرور طلب کر لو اور بقیہ روغن زرد معہ کسی قدر پان کے بہت جلد بھیج دیں۔ کیونکہ عبداللہ کے آنے میں ابھی دیر معلوم ہوتی ہے۔ خادمہ کی تلاش ضرور چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام ا حمد
۱۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم
کے بعد روغن زرد کی اشد ضرورت ہے قادیان کے اردگرد س کوس تک ہی تلاش کی گئی ایک ۴؍ روغن بھی ملتا۔ کہتے ہیں کہ ہندئووں کے سرادہ ہیں۔ بنا چاری آپ کو دوبارہ تکلیف دی جاتی ہے کہ برائے مہربانی جلد تر ارسال فرماویں۔ مہمانوں کی آمدو رفت ہے۔ ہمراہ پان بھی اگر آسکیں وہ بھی ارسال فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۵؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۴)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
پان تو پہنچ گئے مگر روغن زرد اب تک پہنچا۔اس کا کیا باعث ہے۔ امید کہ جلدی روانہ فرماویں۔آج ۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء تک نہیں پہنچا شاید کل تک پہنچ جائے۔تو کچھ تعجب نہیں۔ بہرحال اطلاعاً لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۰؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا براہ مہربانی جلد تر ارسال فرماویں اور ایک خادمہ محنت کش ہوشیار دانا۔ دیانت دار کی اشد ضرورت ہے اور کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے۔ چنانچہ مفصل خط بخدمت میر صاحب تحریر ہو چکا ہے۔ آپ براہ مہربانی ایک خاص توجہ اور محنت اور کوشش سے ایسی خادمہ تلاش کر کے روانہ فرماویں۔ تنخواہ جو کچھ آپ مقرر کریں گے۔ دی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۱؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ نہایت ضرورت خادمہ امینہ اور دانا اورمحنت کش کی پیش آگئی ہے اس لئے مکرر مکلف ہوں کہ آپ جہاں تک ممکن ہو خادمہ کو بہت جلد روانہ فرماویں اور روغن اب تک نہیں پہنچا ہمدست خادمہ ایک آنہ کے پان بھی روانہ فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ پان تو پہنچ گئے ہیں۔ روغن جلد ارسال فرماویں۔ کیا کیا جائے اس جگہ روغن زرد ملتا ہی نہیں۔ اس لئے تکلف دی تھی اور خادمہ کی نسبت آپ جہاں تک ممکن ہے۔ پوری پوری کوشش فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲۳؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۸) ……
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم
ابھی تک ایک خط روانہ ہو چکا ہے۔ اب دوسرا باعث تکلیف وہی ہے کہ میری لڑکی بباعث بیماری نہایت نقیہ اور ضعیف ہورہی ہے۔کچھ کھاتی نہیں ۔ انگریزی بسکٹ جو کہ نرم اور ایک بکس میں بند ہوتے ہیں۔ جن کی قیمت فی بکس ……ہوتی ہے۔ وہ اس کو موافق ہیں۔اب براہ مہربانی ایسے بسکٹ شہر میں ……کو خرید کر ایک بکس ہمراہ خادمہ یا جس طرح پہنچ سکے جلد ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
(۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
چونکہ بلاخادمہ نہایت تکلیف ہے برائے مہربانی جس طرح ہو سکے خادمہ کو روانہ فرماویں۔ سارا پتہ سمجھا دیں۔ ۲؍ کے پان لیتی آوے مگر اس کے پہنچنے میں اب توقف نہ ہو۔ میاں عبداللہ سنوری معلوم نہیں کب آئیںگے ان کاانتظار کرنا عبث ہے۔روغن زرد اب تک نہیں پہنچا۔ معلوم ہوتا ہے کسی جگہ رہ گیا ہے روغن محض قرضہ کے طور پر آپ سے منگوایا ہے محض اس ضرورت سے کہ اس جگہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ روغن وغیرہ کا حساب لکھ کر بھیج دیں۔ تامیں آپ کی خدمت میں قیمت روانہ کر دوں مجھے پان کی بابت بھی نہایت وقت و تکلیف رہتی ہے اگر آپ انتظام کر سکیں تو میں پان کے لئے بھی کسی قدر اکھٹی قمیت بھیج دوں۔ امرتسر آنے جانے میں دس گیارہ آنہ خرچ ہوتے ہیں اور بٹالہ میں پان نہیں ملتا۔ اب برسات گزر گئی اور کاغذ خریدنے کے لئے عبداللہ و نور احمد کو بھیجا جاوے گا۔ اب دو آدمی کے پاس کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے تو کوشش کریں ورنہ کرایہ دے کر روانہ کیا جائے گا زیادہ خیریت۔ والسلام۔ تنخواہ دو روپیہ ماہواری خادمہ کی منظور ہے۔ مگر محنت کش اور دیانتداری شرط ہے۔ کئی عورتیںاس جگہ دن رات بلا تنخواہ کام کرتی ہیںمگر چونکہ نہ محنت کش ہیں۔ نہ دیانیدار۔ اس لئے ان کوہونا نہ ہونا برابر ہے کام نہایت محنت اور جان ہی کا اور ہوشیاری کا ہے۔آپ اس خادمہ کو بخوبی سمجھا دیں تا پیچھے سے کوئی مخفی بات ظہور میں نہ آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۷ء
یہ بات مکرر لکھنے کے لائق ہے کہ خادمہ نہایت درجہ کی دیانتدار اور شریف اور نیک نیت اور نیک بخت اورمتقی چاہئے۔ کیونکہ لڑکا اس کے سپرد کیا جاوے گا اور اس جگہ تمام مخالف ہندو اور اکثر مسلمان بھی لڑکے ہو ں جائیںگے۔ جابجا یہی ذکر سنتا ہوں کہ اس جگہ کے تمام ہندو اور اکثر مسلمانوں کی شریر طبع قریب کل کے مسلمان لڑکے کی موت چاہتے ہیں اور جابجا علانیہ باتیں کرتے ہیں۔ تعجب نہیں کہ زہر دینے کی تجویز میں ہوں۔ اس لئے لڑکے کی خادمہ جس قدر ن نیک بخت اور خدا ترس ہو چاہئے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے۔ والسلام
( ۱۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخوم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
……کے پان پہنچ گئے۔ مگر روغن زرد ۸ ثار خام جو آپ نے لکھا تھا وہ نہیں پہنچا۔ پہلی دفعہ بھی ۲۱ ثار خام روغن گم ہو گیا۔ اب بھی گم ہوا انا للہ الیہ راجعون۔ اب آیندہ روغن بھیجنا بالکل فضول ہے معلوم نہیں کہ یہ ۲۹ثاروغن کس نے راہ میں لے لیا۔ اب آیندہ ارسال نہ فرماویں۔ دو چار روز تک دو آدمی خریداری کاغذ کے لئے انشاء اللہ دہلی میں جائیںگے۔ اگر ممکن ہو تو بندوبست پاس کر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعدا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میاں نور احمد کے دہلی جانے کے آثارکچھ معلوم نہیں ہوتے۔ بہرحال میں ۱۸؍ تاریخ یا ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء کو میاں فتح خاں کو امرتسر میں بھیجوں گا۔ اگر میاں نور احمد نے امرتسر جانا قبول کر لیا تو دونوں مل کر دہلی جائیںگے اور اگر قبول نہ کیا تو پھر نا چاری کی بات ہے۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
اور یہ بھی تحریر فرماویں کہ آپ کا اس طرف آنے کا کب تک ارادہ ہے۔ اگر سندر داس آگیا ہوتو ایک دن کے لئے اس کو ساتھ لے آویں۔ضرور اطلاع بخشیں۔
(۱۰۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
مخدومی مکرمی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
انسان کے اختیار میں کچھ نہیں جو کچھ خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مصمّم ارادہ تھا۔ کہ ۱۹؍اکتبوبر ۱۸۸۷ء کو روانگی دہلی کے لئے امرتسر آدمی پہنچ جائے۔ اول میاں نو احمد کی حالت کچھ بدل گئی ہے۔ میاں عبداللہ سنوری بیمار ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ میاں فتح خان کچھ نیم علیل سا ہوگیا اور ان کا بھائی بعارضہ تپ بیمار ہوگیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی طرح جانہیں سکتا۔ اس لئے مجبوراً لکھا جاتا ہے کہ آپ لکھ دیں کہ دس روز کے بعد جانے کی تجویز کی جائے گی اور اول اطلاع کریں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۸؍اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی ۔ السلام علیکم
روغن زرد جو کہ ۸ ثار خام تھا وہ اب تک نہیں پہنچا اور دوسری مرتبہ کا شاید ۳۰ ثار تھا۔ وہ پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ کوشش کریں تو پہنچ جائے۔ بے فائدہ نہ جائے ۔ اگر ممکن ہو تو ۲ رکے پان بھی بھیج دیں۔ اب امید رکھتا ہوں۔ کہ کام جلدی شروع ہوگا۔ مفصل کفیت پیچھے سے لکھوں گا۔ عبدالرحمن کو میں کہہ دیا ہے۔ شاید ہفتہ عشرہ تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۶؍اکتوبر ۱۶۶۷ء
(۱۰۳) الف۔ ملفوف
ایک غیر معمولی خط
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی چودھری صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں سنایا۔ فرمایا لکھ دو وخط بھی نصف ملاقات ہوتی ہے اگر وہ خط لکھ دیا کریںاور دعا کے لئے دیادلا دیا کریںتومیں دعا کرتا رہا ہوں گا۔ بہت پرانے مخلص ہیں۔ فرمایا ان پر کچھ قرضہ کا بھی بوجھ ہے جب تک اس سے فراغت نہیں ہوتی۔ ملازمت کرتے رہیں بعد میں پنشن لیویں۔
آج پھر فرمایا کہ رات کو پھر وہی الہام پھر ہوا۔
قرب اجلک المقدر ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔ قل میعاد ربک ولا نبقی لک من المخزیات شیئا۔
فرمایا۔ ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغام رخلت دیاجاوے گا تو دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں اس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریںگے۔ فرمایا لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سب امور کی تکمیل مامور ہی کر جائے۔ وہ بڑی بڑی امیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کر کے اٹھا ہے۔ صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے وقت نہیں آیا۔ کیونکہ دعوی تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے۔ تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے۔
اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے مگر افسوس یہ ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنتے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آیندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں۔ کیسا افسوس ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر ہماری قوم سچے خدا کو پاکر پھر دنیا کی طرف جھک رہی ہے او ردین کے لئے زندگی وقف کرنا محال ہو رہا ہے۔
فرمایا سب سوچو کہ اس مدرسہ کو ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ یہاں سے قرآن دان واعظ لوگ پیدا ہوں۔ جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔
والسلام
خاکسار
محمد علی
۶؍ ستمبر ۱۹۰۵ء
یہ مکتوب اگرچہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ مکرمی مولوی محمد علی صاحب ( جوخلافت ثانیہ کے ساتھ ہی قادیان سے انکار خلافت کر کے خروج کر چکے ہیں اور لاہور جا بسے ہیں۔ عرفانی) نے حضرت اقدس کے حکم سے لکھا ہے خطوط کی سال وار ترتیب کے لحاظ سے بھی یہ خط یہاں نہیں آنا چاہئے تھا مگر ا س کے لئے میں دوسری جگہ بھی نہیں نکال سکا۔
یہ خط بہت سے ضروری اور اہم مضامین پر مشتمل ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پاک خواہشوں اور مقاصد کامظہر ہے۔ تاریخ سلسلہ میں یہ ایک مفید اور دلچسپ ورق ہے۔ مناسب موقعہ پر میں اس سے ضروری امور پر روشنی ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ آ مین۔
ایک امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ اس مکتوب میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم و ارشاد سے لکھا ہوا ہے خدا کے مامور ……کے جانشینوں کا ذکر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مولوی صاحب کے ہاتھ سے ان پر اتمام حجت کرا دیا ہے۔ ہر ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں جانشین نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ موعود و منصوص کے ساتھ تعلق رکھ کر اور اس میں ہو کر کل جماعت ایک وجود بن جاتی ہے۔
غرض یہ خط بہت دلچسپ اور قابل غور ہے۔ حضرت چوہدری رستم علی صاحب اخلاص اور فتافی السلسلہ کا اظہار یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ایک خط سے ہوتا ہے مگر اس میں بھی اس کی تائید ہے چوہدری صاحب سلسلہ کی ضروریات ہی کے لئے آخری وقت جبکہ وہ ملازمت کا زمانہ ختم کر رہے تھے مقروض تھے اور حضرت نے ان کو کچھ عرصہ او رملازمت کرنے کا ارشاد فرمایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ فارغ ہوئے تو خدا کے فضل اور رحم سے ہر قسم کی زیر باری سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ا نہوںنے قادیان میں آکر سلسلہ کی عملی خدمت شروع کی اور وہ سلسلہ میں سب سے پہلے بزرگ تھے جنہوں نے پنشن لے کر سلسلہ کا کام مفت کیا حتی کہ کھانا لینا بھی پسند نہ کیا۔
خدا تعالیٰ یہ روح دوسرے بزرگوں میں بھی پیدا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی ایک جماعت ہو تاکہ سلسلہ کے مرکری اخراجات میں ایسے کارکنوں کے وجود سے بہت کمی ہو سکے جومفت کام کریں۔
(عرفانی)
(۱۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵؍ ثار خام گھی ………آپ جو محض للہ تکالیف اٹھا رہے ہیں۔ خدا وندکریم جلشانہ اس کو باعث اپنی خوشنودی کا کرے۔ جیسے لوگ آج کل اپنی بد خیالی و بدظنی میں ترقی کر رہے ہیں۔ آپ خدمت و خلوص میں ترقی کرتے جائیں۔ خدا تعالیٰ ایسے قحط الرجال کے وقت میں ان مخلصا نہ خدمتوں کا دوہرا ثواب آپ کو بخشے لودھیانہ کے خط سے معلوم ہو ا ہے کہ اخویم میر عباس علی صاحب کی طبیعت کچھ علیل ہے۔ خدا تعالیٰ جلد تر ان کو شفا بخشے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اکتوبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا گھی صرف ۲۱؍ سیر پہنچا تھا۔ جیساکہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے غلطی سے ۳۰؍ ثار وزن لکھا دیا تھا۔ اطلاعاً لکھا گیا اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸۸۷ء
(۱۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اس عرصہ میں کئی عورتیں بچہ کی خدمت کے لئے رکھی گئی ہیں۔ مگر سب ناکارہ نکلی ہیں۔ یہ کام شب خیزی اور ہمدردی اور دانائی کا ہے۔ لڑکا چند روز سے بیمار ہے۔ ظن ہے کہ پسلی کا درد نہ ہو۔ علاج کیا جاتا ہے۔ واللہ شافی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی کمزورعورت اس خدمت شب خیزی کو اٹھا سکے۔ چند روز سے فقط مجھے تین تین پہر رات تک اور کبھی ساری رات لڑکے کے لئے جاگنا ہوتا ہے۔ ہر گز امید نہیں ہو سکتی کہ کوئی عورت ایسی محنت سے کام کر سکے۔اس سے دریافت کر لیں کہ کیا ایسا محنت کا کام کر سکتی ہے۔
خاکسار
غلام احمد
۶؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادمہ پہنچ گئی۔ اب تک کسی کام میں مصروف نہیں ہوئی۔ سست اور کاہل الوجود بہت ہے۔ اس کے آنے سے تکلیف اسی طرح باقی ہے۔ جوپہلے تھی۔ لیکن آزمائش کے طور پر ایک دو ماہ کے لئے ایک دو ماہ کے لئے اس کو رکھ لیا گیا ہے کہ دور سے آئی ہے۔ اس وقت ضروری کام کے لئے اطلاع دیتا ہوں کہ اب ایک مہتم مطبع بٹالہ سے باہم اقرار کاغذ اسٹامپ پر ہو کر دو رسالہ کے چھپنے کے لئے تجویز کی گئی ہے اور سنا جاتا ہے کہ دہلی میں یہ نسبت لاہور کاغذ ارزاں ملتا ہے۔ اس لئے امید رکھتا ہوں کہ آپ اگر ممکن ہو بہت جلد بندوبست دو آدمی کے پاس کاغذ کاکر کے مجھ کو اطلاع بخشیں۔ تامیں میاں فتح خاں اور ایک اور آدمی کو دہلی کی طرف روانہ کروں اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں بلاتوقف اپنے دونوں آدمی امرتسر میں بھیج دوں اور پتہ ان کا یہ ہو گا کہ وہ کٹڑہ مہیاں سنگھ میں مکان مولوی حکیم محمد شریف صاحب پر ٹھہرے گے۔ بہرحال آپ کا جواب بواپسی ڈاک آنا چاہئے کہ اب بعد معاہدہ تحریری زیادہ توقف نہیں ہو سکے۔ اگر دو آدمی کا پاس مل جانا ممکن ہے کہ اس سے کفایت رہے گی اور اگر ناممکن ہوتا تو ہم اطلاع بخشتیں۔ جواب بہت جلد آنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ نومبر ۱۸۸۷ء
نوٹ۔ بٹالہ میں شعلہ طور نامی ایک آدمی مبطع تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔
(۱۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم۔
بباعث علالت طبع اور موسمی بخار آنے کے بعد آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا۔ آپ کو اللہ جلشانہ جزاء خیر بخشے۔ آپ نے بہت سعی کی ہے۔ اب میرا تپ ٹوٹ گیا ہے۔ کچھ شکایت باقی ہے۔ میاں فتح خاں کے آتے وقت اگر کچھ بندوبست ہو سکے۔ تو کچھ رعایت ہو جائے گی۔ آیندہ جو مرضی مولا اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۹؍ نومبر ۱۸۸۷ء
(۱۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی یاد دہانی پر برابر سندر داس کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ مرتب اثر جل شانہ کے اختیار میں ہے۔ میاں فتح خاں کو اطلاع دی ہے۔ اب تک کچھ حال معلوم نہیں۔ شاید آپ کو کوئی خط آیا ہو اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سندرداس کی علالت کی طرف مجھے بہت خیال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوتندرستی بخشے۔ اگر قضاء مبرم نہیں ہے تو مخلصانہ دعا کا اثر ظہور پذیر ہو گا۔ آپ کی ملاقات کو بھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ کسی فرصت کے وقت آپ کی ملاقات بھی ہو توبہتر ہے اوراللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کو ہر ایک بات میں مقدم سمجھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
معلوم نہیں کہ میاں فتح خاں کے آنے کے لئے آپ نے کوئی بندوبست کیا یا نہیں۔ وہ آج ۱۴؍ دسمبر ۱۸۸۷ء کو روانہ ہوں گے۔
والسلام
(۱۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا لڑکا بشیر احمد سخت بیمار ہے۔ کھانسی و تپ وغیرہ خطرناک عوارض ہیں۔ آپ جس طرح ہو سکے۲؍ کے پان بہت جلد بھیج دیں کہ کھانسی کے لئے ایک دو اس میں دی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا زقادیان
۱۶؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا کرتاہے کہ آپ کی ترقی اسی ضلع میں ہو۔ آیندہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں مصالح ہیں۔ میرا لڑکا شدت سے بیمار تھا۔ بلکہ بظاہر علامات بہت ردی تھیں۔ امید زندگی کی نہیں تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ وہ میلاب بیماری کا ردبکمی ہے۔ لڑکے نے آنکھیں کھول لیں ہیں اور دودھ پیتا ہے۔ ہنوز عوارض باقی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دفع ہو جائیںگے۔ ۲؍ کے پان ضرور بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۸۸۷ء
(۱۱۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک ممکن ہو۔ آپ اس طرف ہو کر جائیں۔ ۲۶؍دسمبر کو آپ کی انتظار رہے گی۔ پان مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ سو یہ پہنچانے والوں کی غفلت یا خیانت ہے۔ آپ ۱؍ کے پان ضرور لیتے آویں۔ لڑکا اب اچھا ہو رہا ہے۔ کسی قدر کھانسی باقی ہے ایک نہایت ضروری کام ہے۔ جس سے دنیا و آخرت میں برکات کی امید کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بشیر احمد کے لئے ایک ایسی دودھ پلانے والی عورت کی ضرورت ہے۔جس کو بچہ ہونے پر برس سے زیادہ نہ گزرا ہو اور خوب طاقتور عورت ہو اور بچہ مر جانے کی اس کو بیماری بھی نہ ہو اور اس کے بچہ تازہ اور فربہ ہوتے ہیں۔ دبلے و خشک نہ رہتے ہوں۔ ایسی عورت تلاش کر کے آپ بھیج دیں یاساتھ لاویں۔ تنخواہ جو مقرر ہو دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی بیوہ عورت ہو تو نہایت عمدہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان[
۲۱؍ دسمبر ۱۸۸۷ء
(۱۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ کئی دفعہ سندر داس کے لئے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماوے۔ مناسب ہے کہ آپ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہو۔ بشیر احمد بفضلہ تعالیٰ اب اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
۲؍ جنوری ۱۸۸۸ء
(۱۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اک خیروعافیت سے خوشی و تسلی ہوئی۔ امید کہ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ اب سردی نکلنے والی ہے اور اب آپ کے لئے موسم بہت اچھا نکل آئے گا۔ سندر داس کی طبیعت کا حال پھر آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ صرف اتنا معلو م ہو اتھا کہ اب بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ اس کی طبیعت کے حال سے مفصل اطلاع بخشیں۔ اس وقت کاغذی اخروٹ یعنی جوز کے ایک دوا بنانے کے لئے ضرورت ہے اور بقدر باراں اثار خام اخروٹ چاہئے۔ مگر کاغذی چاہئے۔ اس کے لئے تکلیف دیتا ہوں کہ اگر کاغذی اخروٹ اس جگہ سے مل سکیں اور یہ بندوبست بھی ہو سکے کہ پٹھان کوٹ سے بلٹی کرا کر اسٹیشن بٹالہ پر پہنچ سکیں تو ضرور ارسال فرماویں۔ یہ سب بے تکلف آپ کی طرف جو لکھا جاتا ہے۔ محض للہ آپ کے اخلاص و محبت کے لحاظ سے ہے۔ جو آپ محض للہ کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے محض للہ اخلاص کو غایت درجہ پر بڑھا دیا ہے۔خدمت للہ میں کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے اور دین میں استقامت و تقوی و دنیا میںعزت و حرمت عطا کرے۔ آمین۔ مکرر یاد رہے کہ یوں ہی بلا محصول ہر گز بھیجنا نہیں چاہئے۔ بلکہ بلٹی بیرنگ کرا کر لف خط علیحدہ میرے پاس بھیج دیں اور بٹالہ کے اسٹیشن کے نام بلٹی ہو۔ تا اسی جگہ سے لیا جاوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکتوب نمبر ۱۱۲ میں چوہدری رستم علی صاحب کی ترقی کا ذکر آیا ہے۔ ان کی ترقی کا سوال در پیش تھا۔ خد اکے فضل وکرم سے وہ سارجنٹی سے ڈپٹی انسکپڑی ترقی پا کر دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں تغینات ہوئے تھے۔ اس وقت ہیڈ کانسٹیبل سارجنٹ اور سب انسپکٹر کہلاتی تھی۔ بہرحال چوہدری صاحب ڈپٹی انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوکر دھرم سالہ چلے گئے۔ اس وقت حضرت اقدس لفافہ انہیں اس طرح پر لکھتے تھے۔
ضلع کانگڑہ۔ بمقام دھرم سال۔ خدمت میں مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ( جو سرشتہ دار پیشی ہیںیا لین پولیس میں)پہنچے۔
(عرفانی)
یہ یاد رہے کہ اخروٹ کاغذی ہوں۔ جن کا باآسانی مغز نکل آتا ہے۔
(۱۱۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس قحط الرجال اور قسادت قلبی کے زمانہ میں جو کہ ہر ایک فرد پر ہوائے زہر ناگ غفلت و سنگدلی کی طاری ہو رہی ہے۔ الاماشاء اللہ ایسے زمانہ میں خلوص دینی کے لئے زندہ دلی ازبس قابل شکر ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاوے اوران کو دنیا اوردین میں زیادہ سے زیادہ برکت دے۔ آمین ثم آمین۔ بلٹی جو آپ بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ میری دانست میں لفافہ میں ڈال کر اس جگہ قادیان میں بھیج دی جاوے۔ تو بلاتوقف کوئی شخص یہاں سے جا کر لے آئے گا۔ کیونکہ آخر اس جگہ سے کوئی آدمی بھیجنا ضروری ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر چاہیں محرر تھانہ کے نام بلٹی بھیج دیں۔ مگر اس صورت میں بہت دیر کے بعد اسبات ملتا ہے۔ بلکہ چوکیداروں وغیرہ کی شرارت سے اکثر نقصان ہو جاتا ہے۔ جس حالت میںبلٹی بھیجنا ہے تو قادیان میں ہی کیوں نہ بھیجی جائے اور بشیر بفضل خدا وند قدیر خیرو عافیت سے ہیں اور رسالہ سراج منیر یقین ہے کہ جلد چھپنا شروع ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
۱۴؍ فروری ۱۸۸۸ء کی گزشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندر داس کے وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہی غم تھا۔ جس کی طرف اشارہ تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے۔
ترابا کہ رو در آشنائے است
قرار کارت آخر یر جدائی ست
زفرقت بردے بازی نباشد
کہ بامیر ندہ اش کاری نباشد
مجھے کبھی ایسا موقعہ چند مخلصانہ نصائح کا آپ کے لئے نہیں ملا۔ جیسا کہ آج ہے جاننا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جل شانہ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے۔ والذین امنو اشد حبا للہ۔ یعنی جو مومن ہیں۔ وہ خد اسے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلشانہ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق اس کو دے گا۔ وہ تباہ ہو گا۔ تمام برکتیں جو مرادن خدا کو ملتی ہیں۔ تمام قبولیتیں جو ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ کیاوہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روز سے ملتی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المجت سے ملتی ہیں۔ اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ہو رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ میں خواب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ تک دفعہ وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے۔ جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہیے۔ہمیشہ سے میرا دل یہ فتوی دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للہی محبت باہر ہے۔ خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست۔ کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیر گناہ ہے۔ جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلب ایمان کاخطرہ ہے۔سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا۔ عسی ان تکرھواشیئا وھو خیرلکم و عسی ان تحبوشیئا و ھو شرا ً لکم واللہ یعلم وانتم لا تعملون۔ اوران پر ایک جگہ فرماتا ہے جل شانہ وعزاسمہ ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ من ویومن باللہ ……تلیہ واللہ بکل شئی علیم۔یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو۔خد ااس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی۔وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے۔ چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں۔ یا احب من کل محبوب اغفرلی ذنوبی و اوخلنی فی عبادک المخلصین۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے۔ اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے۔ پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بار ہا لکھتے رہتے تھے۔ آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا۔ اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا۔
(عرفانی)
(۱۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کے ساتھ ربط ملاقات پیدا کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کو بدلا جائے۔ تا عاقبت درست ہو۔ سندر داس کی وفات کے زیادہ غم سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیئے۔ خد اتعالیٰ کا ہر کام انسان کی بھلائی کے لئے ہے۔ گو انسان اس کوسمجھے یا نہ سمجھے۔ جب ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد بیعت ایمان لینا شروع کیا تو اس بیعت میں یہ داخل تھا کہ اپنا حقیقی دوست خد اتعالیٰ کو ٹھہرایا جائے اور اس کے ضمن میں اس کے نبی اور درجہ بدرجہ تمام صلحاء کو اور تعبیر حلت دینی کسی کو دوست نہ سمجھا جائے۔ یہی اسلام ہے۔ جس سے آج لوگ بے خبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔والذین امنو اشد حباللہ۔ یعنی ایمانداروں کا کامل دوست خدا ہی ہوتا ہے وبس جس حالت میں انسان پر خد اتعالیٰ کے سوا اور کسی کا حق نہیں تو اس لئے خالص دوستی محض خد اتعالیٰ کا حق ہے۔ صوفیہ کو اس میں اختلاف ہے کہ جو مثلاً غیر سے اپنی محبت کو عشق تک پہنچاتا ہے۔اس کی نسبت کیا حکم ہے۔ اکثر یہی کہتے ہیں کہ اس کی حالت حکم کفر کا رکھتی ہے۔ گو احکام کفر کے اس پر صادر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بباعث بے اختیاری مرفوج القلم ہے۔ تاہم اس کی حالت کافر کی صورت میں ہے کیونکہ عشق اور محبت کا حق اللہ جل شانہ کا ہے اور وہ بد دیانتی کی راہ سے خد اتعالیٰ کا حق دوسرے کا دیتا ہے اور یہ ایک ایسی صورت ہے۔ جس میں دین و دنیا دونوں کے وبال کا خطرہ ہے۔ راستبازوں نے اپنے پیارے بیٹوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے راہ میں دیں۔ تا توحید کی حقیقت انہیں حاصل ہو۔سو میں آپ کو خالصا ً للہ نصیحت دیتا ہوں کہ آپ اس حزن و غم سے دستکش ہو جائیں اور اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں۔ تا وہ آپ کو برکت بخشے او ر آفات سے محفوظ رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدا ز قادیان
یکم مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ آپ کو اس اخلاص اور محبت کا اجر بخشے اور آپ سے راضی ہو اور راضی کرے۔ آمین ثم آمین۔ حال یہ ہے کہ یہ عاجز خود آرزو خواہاں ہے کہ ماہ رمضان آپ کے پا س بسر کرے۔ لیکن نہایت وقت در پیش ہے کہ آج کل میرے دو نو بچے ایسے ضعیف اور کمزور ہو رہے ہیں کہ ہفتہ میں ایک دو دفعہ بیمار ہوجاتے ہیں اور میرے گھر کے لوگ اس جگہ کچھ قرابت نہیں رکھتے اور ہمارے کنبہ والوں سے کوئی ان کا غمخوار اور انیس نہیں ہے۔ اس لئے اکیلا سفر کرنا نہایت دشوار ہے۔ میںنے تجویز کی تھی کہ ان کوانبالہ چھائونی میں ان کے والدین کے پاس چھوڑ آئوں۔مگر ان کے والدین نے اس بات کو چند وجوہ کے سبب سے تاخیر میں ڈال دیا۔ اب مجھے ایک طرف یہ شوق بھی نہایت درجہ ہے کہ ایک ماہ تک ایام گرمی میں آپ کے پاس رہوں اور اسی جگہ رمضان کے دن بسر کروں اور ایک طرف یہ موافع در پیش ہیں اور معہ عیال پہاڑ کا سفر کرنا مشکل اور صرف کثیر پر موقوف ہے۔ مستورات کا پہاڑ پر بغیر ڈولی کے جانا مشکل اور ان کے ہمراہ ہی کی ضرورت جسے اپنے لئے ایک ڈولی چاہئے اور چھ سات خادم اور خادمہ کے ساتھ ساتھ پہنچ جانے کے لئے بھی کچھ بندوبست چاہیئے۔ سو اس سفر کے آمدو رفت میں صرف کرایہ کا خرچ شاید کم سے کم سو روپیہ ہو گا اور اس موقعہ ضرورت روپیہ میں اس قدر خرچ کر دینا قابل تامل ہے۔ البتہ کوشش اور خیال میں ہوں کہ اگر موانع رفع ہو جائیںتو بلاتوقف آپ کے پاس پہنچ جائوں اور میںنے موانع کے لئے رفع کرنے کے لئے حال میں بہت کوشش کی۔ مگر ابھی تک کچھ کارگر نہیں ہوئی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
نوٹ۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ۔
(عرفانی)
(۱۲۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحمن۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے اس خط پہنچنے کے دو دن پہلے اخروٹ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔میر انہایت پکا ارادہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ کی ہمسائیگی میں بسر کروں۔ چنانچہ اپنے گھر کے لوگوں کو انبالہ چھائونی میں پہنچانے کی تجویز کردی تھی۔ لیکن بحکمت و مصلحت الٰہی چند موانع کی وجہ سے وہ تجویز ملتوی رہی۔ اگر اب بھی رمضان کے آنے تک وہ تجویز قائم ہو گئی۔ تو عین مراد ہے کہ وہ مبارک رمضان اس جگہ بسر کیا جائے۔ گھر کے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ سراج منیر کی طبع میں حکمت الٰہی سے توقف در توقف ہوتے گئے۔ اب کوشش کر رہا ہوں کہ جلد انتظام طبع ہو جائے۔ آیندہ ہر ایک بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جو آپ نے وارسلنا ہ والی امائۃ کے معنے پوچھے ہیں۔سو واضح رہے کہ رد کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے۔ ایسا ہی داو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاوہ شائع متعارف ہے۔سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلشانہ پر واجب نہیں چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل۔ پائوں کے مسح کی بابت کی تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رہ سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا۔ متعبر سمجھے گئے۔ مطبع اور مغرب الشمس کاذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی۔ تو کیا اس نے رکابی کھا کر توڑ کر کھا لیا۔ پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو پہلے اس کو اقرار کر لینا چاہئے کہ میری کتاب میں جن کوالٰہامی مانتا ہوں۔ کسی استعارہ یا مجاز کو استعمال نہیں کیا گیا اور مادامت السموات وا لارض کی شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ میں جو بہشتوں کے لئے نئی زمینیں اور آسمان بنائے جائیں گے۔ وہ بھی دائمی ہوں گے۔ یہ کہاں سے معلوم ہو اکہ ایک وقت مقررہ کے بعد وہ نہیں رہیں گے۔ ماسوا اس کے آسمان اور زمین فوق و تحت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔سو اس طور سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تک جہات فوق و تحت موجود ہیں۔ تب تک وہ بہشت میں رہیںگے اور ظاہر ہے کہ جہات ایسی چیزیں ہیںکہ قابل انعدام نہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور اس کے ساتھ ایک اور خط پہنچا۔ جو ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۸ء کا لکھا ہو ا تھا۔ تعجب کہ وہ ماہ تک یہ خط کہاں رہا۔ مکلف ہوں کہ ……روپیہ جو آپ بھیجنے کو کہتے ہیں۔ وہ آپ جلدی بھیج دیں کہ یہاں ضرورت ہے۔ ہر چند دل میں خواہش ہے۔ مگر ابھی اس طرف ان کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ تک پہنچانا ہے تو آثار ظاہر ہوں جائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍ اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج چائے مرسلہ آنجاب پہنچ گئی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ رسالہ اشعتہ القرآن کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ دونوں رسالہ ایک ہی جگہ اکھٹے کر دئیے گئے ہیں۔ ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
۷؍ فروری ۱۸۸۸ء
(۱۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچ کر موجب خوشی ہوا۔ رسالہ جو انگریزی میں ترجمہ کیا جائے گا اور سراج منیران دونوں رسالوں کی نسبت میری تجویز ہے۔ کہ ایک ہی جگہ کردی جائیں کیونکہ ان کے باہم تعلقات ایسے ضروری ہیں کہ ایک دوسرے سے الگ کردینے ہیںاثر مطلوب بہت کم ہو جاتا ہے۔ جس قدر توقفات ظہور میں آئے۔ وہ سب حکمت الٰہی اور مصلحت ربانی تھے۔ اب اسید کی جاتی ہے کہ منتظرین کی خواہش بہت جلدی پوری ہوجائے ۔ہمیشہ اپنی خیرو عافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ کہ گو مجھے خط لکھنے کا کم اتفاق ہو۔ مگر آپ کی طرف خیال رہتا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۶؍اپریل ۱۸۸۸ء
(۱۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا۔ مفصل خط علیحٰدہ لکھا گیا ہے۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ بہت دعا کرتا رہوں گا اور یقین رکھتا ہوںکہ اثر ہو۔ اگر براہین احمدیہ کا کوئی شائق خریدار ہے تو آپ کو اختیار ہے کہ قیمت لے کر دے دیں مگر ارسال قیمت کا محصول ان کے ذمہ رہے۔ اخروٹ اب تک نہیں پہنچے۔شاید دوچار دن تک پہنچ جائیں اور اگر کوئی کام سبیل پہنچانے کا ہوا ہو تو کسی قدر … بیشک بھیج دیں کہ مہمانوں کی خدمت میں کام آجائے گا۔ بشیر احمد اچھا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ مارچ ۱۸۸۸ء
(۱۲۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند روز کی دیر کے بعد آپ کے خطوط مرسلہ معہ بٹالہ میں قادیان سے واپس منگوا کر ملے ۔ قصیدہ بہت عمدہ ہے۔ خاص کر بعض شعر بہت ہی اچھے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔ میں اس جگہ بشیر احمد کے علاج کروانے کے لئے ٹھہرا ہوا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام رمضان اس جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ قصیدہ متعاقب روانہ خدمت کردوں گا۔ بشیر احمد کو اب کسی قدر بفضلہ آرام ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۲؍ مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد سخت بیمار ہوگیا تھا۔ اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے۔ شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسرہو۔ بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازہ پر ہے فروکش ہوں۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان
۲۸؍شعبان
۱۱؍مئی ۱۸۸۸ء
(۱۲۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز اب تک بٹالہ میں ہے۔ کسی قدر بشیر احمد کی طبیعت روبا صلاح ہے۔ انشاء اللہ القدیر صحت ہو جائے گی۔ پانچ چار روز تک قادیان جانے کا ارادہ ہے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز بٹالہ
۳؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم۔
آج ایک خط کو آپ نے رحمت علی کے ہاتھ بھیجا تھا۔ کسی حجام کے ہاتھ قادیان میں مجھ کو ملا۔ خط میں جوآپ نے چاول روانہ کرنے کاحال لکھا ہے۔ سو واضح رہے کہ آج تاریخ ۴؍ جون تک چاول نہیں بھیجے۔ نہ تھانہ میں آئے اور میں اب تک بٹالہ میں ہوں۔ شاید ۲۵؍ رمضان تک قادیان جائوں گا۔ بشیر احمد کی طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۲۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز آخیررمضان تک اس جگہ بٹالہ میں ہے۔ غالباً عید پڑھنے کے بعد قادیان جائوں گا۔ چاول مرسلہ آپ کے نہیں پہنچے۔ معلوم نہیں آپ نے کس کے ہاتھ بھیجے تھے اور چونکہ اس جگہ خرچ کی ضرورت ہے۔ اگر خریدار براہین احمدیہ سے دس روپے وصول ہو گئے ہیں تو وہ بھی اسی جگہ ارسال فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۵؍ جون ۱۸۸۸ء
(۱۳۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ قادیان میں آکر بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا اور کئی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ منجملہ ان کے ایک تپ محرقہ کی قسم اور زحیر یعنی مڑوڑ اور اسی اثنا میں ہیضہ بھی ہو گیا۔ حالت نہایت خطرناک ہو گئی۔ اب کچھ تخفیف ہے۔ اسی وجہ سے کوئی کام طبع رسالہ وغیرہ کا نہیں ہو سکا۔ مولوی قدرت اللہ صاحب کو السلام علیکم پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ بشیر احمد کی طبیعت سخت بیمار رہی ہے۔ بلکہ نہایت نازک ہو گئی تھی۔ اس لئے جواب نہیں لکھ سکا۔ اب کچھ آرام ہے۔ میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مولوی نورالدین صاحب کی کتاب کا مجھ کو کچھ پتہ نہیں اور نہ میرے پا س اب تک آئی ہے۔ جس وقت کوئی نسخہ ملے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ خدمت میں بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء
(۱۳۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ بشیراحمد کی طبیعت سخت بیمارہے۔ اس غلبہ بیماری میں تین چار دفعہ ایسی حالت گزر چکی ہے کہ گویا ایک دو دم باقی معلوم ہوتے تھے۔ اب بھی شدت امراض ہے۔ اس لئے دن رات اسی کی طرف مصروفیت رہتی ہے۔ امید کہ بعد افاقہ طبیعت بشیراحمدآپ کے نسخہ کے لئے توجہ کروں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بشیر احمد اب تک مروڑوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور چونکہ نہایت لاغر اور دبلا اور تکلیف میں ہے۔ اس لئے ضروری کاموں کاحرج بھی کر کے اس کی طرف مصروفیت ہے۔ چند مرتبہ اس عرصہ میں اس کی حالت بہت نازک ہو گئی اور آخری دم سمجھا جاتا تھا۔ انشاء اللہ اس کی صحت کے بعد بہت غور سے آپ کے لئے تجویز کروں گا۔آپ مطمئن رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد بقلم خود
۸؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مچھلی کا تیل وہی ہے۔جس کاآپ ذکر کرتے ہیں۔ استعمال کے لئے کچھ ضرورت نہیں۔ صرف ایک چاء کا چمچ یعنی چھوٹا چمچہ پی لیا کریں اور پھر ہضم کے لحاظ سے زیادہ کرتے جائیں۔ کدو سے مراد میری کدو کا پھل ہے۔ جس کا گھیا کدو بھی کہتے ہیں۔ اگر وہ نہ ملے تو پھر مغز کدو ہی ہمراہ بنفشہ کے پانی میں ڈال دیا جائے۔ جب پانی گرم ہو جائے اور خوب جوش آجائے۔ تب اس سے غسل کر لیں اور زیادہ گرم نہ ہو تو اور پانی ملا لیں۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ طبی تدبیر بہت مفید ہو گی اور آپ کا بدن خوب تازہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ صبح کے وقت آدھ ثار خام بکری کا دودھ پی لیا کریں تو انشاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
خاکسار
غلام احمد از قادیان
(۱۳۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز ایک ہفتہ سے موسمی بخار میں علیل ہے۔ بباعث ضعف و تکلیف مرض کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ صندوقچہ خطوط سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تیل مچھلی کا اب استعمال کرنے میں کچھ حرارت معلوم ہوتی ہے تو ایک ماہ کے بعد استعمال کریں۔ انشاء اللہ ان سب ادویہ کے استعمال سے بدن بہت تازہ ہو جائے گا۔ آپ کی استقامت کے لئے دعا کرتا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت منظور ہو جائے۔ اشتہارات ارسال خدمت ہیں۔ ہر ایک شہر میں جو آپ کا کوئی دیندار دوست ہو اس کو بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے اس عاجز کی طبیعت چند روز بعارضہ تپ بیمار رہی تھی۔ اب بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔ امید کہ اپنی خیروعافیت سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔ تلی کے واسطے مولوں کا اچار اور انجیر کا اچار جو سرکہ میں ڈالا جائے۔ نہایت مفید ہے۔ ان دونوں چیزوں کو جوش دے کر سرکہ میں ڈال دیں اور پھر کبھی روٹی کے ہمراہ یا یوں ہی کھا لیں کریں اور جو سکجبین صادق المحوصت یعنی جو خوب ترش ہو بہت مفید ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے مستقل کوڑٹ انسپکٹر ہونے سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ جلشانہ مبارک کرے۔ اشتہارات آپ کی خدمت میں بھیجے گئے تھے۔ ان کی اب تک رسید نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ آپ اب کی دفعہ کون سے اشتہارات مانگتے ہیں۔ مفصل تحریر فرماویں۔ تا بھیجے جاویں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۸ء
(۱۳۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔انشاء اللہ القدیر اشتہار تلاش کرکے دستیاب ہونے پر روانہ کر دوں گا۔ میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ مناسب ہے کہ آپ بقدر ضرورت انگریزی پڑھ لیں۔ سب بولیاں خدا کی طرف سے ہیں۔ بولی سیکھنے میںکچھ حرج نہیں۔ صرف صحت نیت درکار ہے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۳۰؍ اگست ۱۸۸۸ء
(۱۳۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ سردی میں میں انڈہ بہت خراب ہوتا ہے۔ اگر آپ بیس دن توقف کر کے انڈہ منگوا لیں اور تازہ ہوں تو وہ بیس روز تک اچھے ہوسکتے ہیں۔ انڈہ اگر اُبالا جائے یہاں تک کہ اندر سے زردی سفیدی دونوں سخت ہو جائیں تو کچھ زیادہ رہ سکتا ہے۔ مگر وہ پھر آپ کے کھانے کے لائق نہیں رہے گا۔ آپ کے لئے تو نیم برشت بہتر ہے۔ جو درحقیقت کچے کی طرح ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ پچاس تک انڈہ منگوا کر استعمال کریں۔ جب وہ ختم ہو جائیںاور منگوا لیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر آج سے آپ کے لئے دعا کرتا رہا ہوں گا۔ مگر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ یہ بات نہایت صحیح ہے کہ بندہ جب کسی قدر غافل ہو جاتا ہے اور بیسباکی سے کوئی کام کرتا ہے۔ یاکسی معصیت میں گرفتار ہوتا ہے تو رحمت کے طور پر تنبیہ الٰہی اس پر نازل ہوتی ہے۔پھر وہ جب سچے دل سے تو بہ کرلیتا ہے تو کبھی تنبیہ ساتھ ہی دور کی جاتی ہے۔ اور کبھی اس کو کامل متنسبہ کرنے کے لئے کچھ وہ تنبیہ بنی رہتی ہے۔ سو خطرات فاسدہ یا اعمال نامرضیہ سے بصدق دل توبہ کرنا اعادہ رحمت الٰہی کے لئے بہت ضروری امر ہے۔ والحمد للہ والمنت کہ خود آپ کے دل میں اس طرف رجوع ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اس رجوع کو ثابت رکھے۔ خد اتعالیٰ سے بہرحال ڈرتے رہنا اور اس کے غضب کے اشتعال سے پرہیز کرنا بڑی عقلمندی ہے۔ دنیا گزشتہ و گزاشتنی اور جذبات نفساتی بدنام کندہ چیزیں ہیں اور انسان کی تمام سعادت مندی اور ڈرنا اور آخرت کے سلامتی خوف الٰہی دقیق ہیں۔ و باریک رس ہیں۔ وہ اس پر راضی ہے۔ جو اس سے خائف و ہراساں رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جو بیباکی کا کام ہو۔ اللہ جلشانہ آپ کو سچی اطاعت کی توقیق بخشے۔ مناسب ہے کہ اگر ابتلاء کے طور پر کوئی دوسری صورت پیش بھی آجاوے تو بہت بے قرار نہ ہوں۔ اللہ جل شانہ تغیر حالات پر قادر ہے اور دعا بدستور آپ کے لئے کی جائے گی۔ میری دانست میں اس موقعہ پر استعلام امور غیبیہ کی کچھ ضرورت نہیں۔ اس جگہ تضرع اور استغفار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
آج میرا لڑکا بشیر احمد انیس روز بیمار رہ کر بقضائے الٰہی دنیائے فانی سے قضا کر گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط پہنچا۔ اللہ جلشانہ پر مضبوط بھروسہ رکھو۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ یہ عاجز انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے برابر دعا کرتا رہے گا۔ یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی اپنے خیالات سے مطلع فرمایا کریں۔ دعا کے لئے یاد دہانی کی ضرورت نہیں۔ محض تسلی خاطر کے لئے ضرورت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲۳؍ نومبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ جو آپ نے لکھا ہے۔ بات تو بظاہر بہت عمدہ ہے۔ اگر حقیقت میں آپ کے لئے یہ بہتر ہے تو اللہ جلشانہ آپ کے لئے میسر کرے۔ امید کہ آپ تعطیلوں میں ضرور تشریف لاویں گے۔ میں انشاء اللہ القدیر دعا کرتا ہوں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء
(۱۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ اللہ جلشانہ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ ان دنوںمیں استغفار کا بہت ورد رکھیں اور بہت بہت معافی گناہوں کی خدا وند کریم جل شانہ سے مانگیں اور اشتہار صداقت آثار ۸؍ اپریل ۸۶ء جس کی بناء پر اشتہار میں سے صرف ایک ایک اشتہار بطور سند میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ کہ کسی موقعہ پر مخالفوں کو دکھلائے جاتے ہیں۔ اگر ان کے دیکھنے کی ضرورت ہو اور دوسری جگہ سے مل نہ سکیں تو بذریعہ رجسٹری بھیج سکتا ہوں۔ تاکہ ملاخطہ کے بعد واپس بھیج دیں۔ لیکن اگر مشکک کو اسی سے اطمینان ہو سکے تو پھر ضرورت نہیں۔ جیسا کہ منشاء ہو اطلاع بخشیں۔ اگر ضرورت ہو گی تو بلاتوقف رجسٹری کرا کر بھیج دوں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۸۹ء مکرر یہ کہ ۷؍ اگست کا اشتہار ایک کے پاس سے اتفاقاً مل گیا۔ بعد ملاخطہ واپس فرمادیں۔ یہ بشیر کی پیدائش کا اشتہار ہے۔
والسلام
(۱۴۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب بفضلہ تعالیٰ بشیر احمد کی طبیعت پر آگئی ہے اور آپ کے لئے بہت غور اور فکر کیا۔ سو اس موسم کے موافق جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ایما سے میرے دل پر گزرا ہے وہ یہ ہے کہ آپ زردی بیضہ برشت استعمال کریں۔ یعنی خوب پانی گرم کر کے ایسا کہ ابلنا شروع ہو جائے۔ انڈے اس میں ڈال دئیے جائیں اور انڈے ڈال کر ڈیڑھ سو کی گنتی پوری کی جائے۔ جب شمار ڈیڑھ سو تک پہنچ جائے تو بلاتوقف انڈے پانی سے نکال لئے جائیں۔ ایک ہفتہ تک تین انڈے صبح اور تین شام خوراک رکھیں۔ جب معلوم ہو کہ انڈا موافق آگیا ہے تو پھر تین کی جگہ چار کر دئیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ گرم پانی کر کے اور اگر مل سکے تو اس میں تین چار ماشہ بنفشہ اور پانچ چار تولہ کدو ڈال کر گرم کریں اور اس میں غسل کریں صبح اور شام تیسرے روغن ماہی جو امرتسر اور لاہور میں مل سکتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ مگر ابھی وہ شائد گرمی کرے گا۔ سردی کے موسم میں ضرور استعمال کریں اورنیز سردی کے موسم میں آپ کے لئے کوئی ماء اللحم تجویز کر دیا جائے گا۔ حالات خیریت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
انڈے میں صرف زردی کھانی چاہئے۔ سفیدی نہیں کھانی چاہیئے۔
نوٹ۔ اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستمبر ۱۸۸۸ء کا خط ہے اور مکتوب نمبر ۱۳۹ سے پہلے چاہئے تھا۔(عرفانی)
(۱۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا۔ انشاء اللہ القدیر دعا کرتا رہوںگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھیں۔ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس کے رحم و کرم کا کچھ انتہا نہیں۔ استغفار لازم حال رکھیں۔ شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کروں گا اور سب طرح سے بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج تاکیدی خط آپ کے لئے مولوی حکیم نورالدین صاحب کی خدمت میں لکھا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ترودات دور کرے۔ آمین۔ امید کہ سبز اشتہار بعد میں نکال کر اگر ملے تو خدمت میں مرسل کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۵ جمادی الاوّل کو میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو ا۔جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۵؍ جنوری ۱۸۸۹ء
(۱۴۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہارات آج روانہ کئے گئے ہیں۔ جس شخص کی اشتہار سے تسلی نہیں ہوئی۔ آپ کے لئے کیوں مضطرب ہوں۔ تعجب ہے۔ ہر شخص اپنے مادہ کے موافق جوہر دکھلاتا ہے۔ اس شخص کو اگر کچھ بصیرت ایمانی ہوتی تو وہ بے شک میںنہ ہوتا اور جب کہ بصیرت نہیں ۔ تو اس کو چھوڑنا چاہیے۔ کتاب واپس لے لو۔ روپیہ واپس کر دو۔ باقی سب خیریت ہے۔ آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ تسلی رکھو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۳؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آ پ کے لئے دعا میں مشغول ہوں۔ دعا سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ۔ میری دانست آج بباعث غلبہ زکام بہت علیل ہے۔ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں۔ اگر صحت ہو گئی تو گھر کے لوگوں کو پہنچانے کے میر ا ارادہ ہے کہ دس یا گیارہ فروری ۱۸۸۹ء تک لودھیانہ میںجائوں۔ شاید ایک ماہ تک لودھیانہ میں ٹھہرنا ہو گا۔ پھر انشاء اللہ وہاں سے خط لکھوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔خواب اس عاجز کو یاد نہیں رہا۔ ہر چند خیال کیا۔ کچھ خیال میں نہیں آتا
والسلام
خاکسار
غلام احمدازقادیان
۷؍ فروری ۱۸۸۹ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خوشی ہوئی۔ میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸؍ اپریل ۸۹ء کو قادیان روانہ ہوںگا۔ انشاء اللہ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ
۱۵؍ اپریل ۱۸۸۹ء
از عبداللہ سنوری السلام علیکم پذیر۔ حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے السلام علیکم۔
(۱۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ موجب خوشی ہوئی۔ یہ عاجز بباعث کثرت خطوط اور کسی قدر علالت طبع کے اس قدر حیران ہے کہ حدسے زیادہ۔ انشاء اللہ القدیر بعد رمضان شریف آپ کی خدمت میں اشتہار بھیجا جائے گا۔ ہمیشہ خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔ آپ کا تھانہ بڑ سر میںبھی حسب مرا دتبدیل ہوتا موجب خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ تھانہ آپ کے لئے مبارک کرے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نا مہ پہنچا۔ تمام مضمون اوّل سے آخر تک پڑھا۔ مضمون بہت عمدہ ہے۔ کچھ ضرورت اصلاح یا کم و بیش کی نہیں۔ مگر مجھے معلوم نہیںہو اکہ قوم اوان اولاد حضرت علی کیونکر ہیں۔ آیا سید ہیں یا کسی اور بیوی سے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور اوان کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ دوسرے آپ فرماتے ہیں کہ سو کاپی چھپوائی جائے۔ مگر معلوم ہوا کہ خواہ سوچھپوائیں یا کم یا زیادہ سات سو کاپی کی اجرت لیں گے۔ یہی چھاپنے والوں کے ہاں دستور ہے۔ میری رائے میں اس مضمون کے چھپوانے میں ……۱۰ روپیہ سے کم خرچ نہیں آئیںگے۔ اگر کم ہوتو شاید آٹھ روپیہ تک ہو گا۔ جیسامنشاء ہو اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۶؍ مئی ۱۸۸۹ء
(۱۵۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارد پہنچا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ غلام احمد نام کوئی شخص امرتسر میں مالک مطبع نہیں ہے۔ شاید کوئی نیا آگیا ہو۔ ہاں شیخ نور احمد صاحب نام ایک صاحب مالک مطبع ہیں۔ مجھے آپ مفصل لکھیں کہ غلام احمد مالک مطبع امرتسر میں کون ہے۔ کس پتہ سے اس کاخط بھیجا جائے اور یہ بھی لکھیں کہ کیا اس نے قبول کر لیا ہے کہ تین روپیہ لوں گا۔ کیا اسی میں کاغذ اور کاپی نویس کی اجرت داخل ہے۔ مجھے تو یہ بات سمجھ میںنہیں آتی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۸؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ پہلے بھی بذریعہ ایک خط کے آپ کو اطلاع دی گئی تھی کہ میری نظر میں غلام احمد نام کوئی مطبع نہیں ہے اورنہ آپ نے کچھ پتہ لکھا کہ اس شخص کا کس کٹڑہ میں ہے۔ جب تک پتہ نہ ہو۔ مضمون ارسال نہیں ہو سکتا۔ براہ مہربانی بہت جلد پتہ بھیجیں۔ اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی تشریف آوری کی آج کل امید لگی ہوئی ہے۔ جس وقت تشریف لائے۔خط دے دوں گا۔ آپ ک تبدیلی اگر نزدیک ہو جائے تو بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج اس عاجز نے جناب الٰہی میں آپ کے لئے اس طور سے دعا کی ہے کہ یاالٰہی اگر جالندھر کی تبدیلی موجب بہتری ہے اور موجب خیر اورفضل کا ہو تو اپنے بندہ رستم علی کو اس جگہ پہنچا دے اور اگر اس میں مصلحت نہ ہو تو مشکلات سے نکال کر ایسی جگہ مرحمت فرما جو موجب برکت و خوشی دنیا و دین ہو کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۶؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میںافسوس سے لکھتا ہوں کہ اس قسم کی طرح طرح کی مجبوریاں پیش آرہی ہیں۔ کہ میں آپ کے عزیز کی تقریب پر حاضر نہیں ہو سکتا اور مولوی صاحب غالباً کل یا پرسوں تک بحصول رخصت جموں سے لودھیانہ کی طرف تشریف لاویںگے اور قادیان میں آئیں گے۔ مگر میرے خیال میں ایسا ہے کہ وہ ۲۷؍ جون سے پہلے ہی تشریف لے جائیںگے۔ پس مشکل ہے کہ وہ ابھی اس تقریب پر حاضر ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت میں برکت بخشے اورکامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جون ۱۸۸۹ء
(۱۵۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خد اتعالیٰ آپ کو خاص محبت عطا فرمائے۔ جب خالص محبت دل میں آجاتی ہے تو یاد الٰہی کے لئے دل قوت اور شوق پید اہو جاتا ہے۔ جب تک وہ محبت نہیں۔ کسل شامل حال ہے۔ مولوی نورالدین صاحب بصحت تام جموںمیں پہنچ گئے ہیں۔ تولیہ راہ میں مل گیا تھا۔ میرے پاس موجود پڑا ہے۔ہمیشہ حالات خیریت آلات سے مطلع فرمایا کریں۔ آپ کو محبت اور اخلاص جو اس عاجز کے ساتھ ہے۔ یقین کہ وہ کشاں کشاں آپ کو اعلیٰ مقصد تک لے آئے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ اگست ۱۸۸۹ء
(۱۵۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خدائے عزوجل کوخواب میں دیکھنا بہرحال بہتر ہے۔ خدا تعالیٰ مبارک کرے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کبھی دعا اور استغفار میںمشغول رہیں۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ آپ ایک محب خالص ہیں اور ایسے محب کہ ایسے تھوڑے ہیں۔پھر کیوں آپ بھول سکتے ہیں۔ خد اتعالیٰ خود ایسے محبوں کو بنظر محبت دیکھتا ہے۔ آپ کا تولیہ استعمال کیا جائے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۲؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایارج فقرہ کی گولیاں رات کے پچھلے وقت یعنی پہر رات باقی رہے استعمال کرنی چاہئیں۔ ایک درم سے د ودرم تک اور معجون بعد تفقیہ کھانے چاہیئے۔ اور نسوار بھی بعد تفقیہ اور آپ کے لئے دعا بھی کی جاتی ہے۔ اگر اس میں بہتری ہو گی تو اللہ جلشانہ بہتر کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ ستمبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ضروری خط آپ کے نام کے متعلق چند روز سے بھیجا تھا۔ اب تک آپ نے جواب نہیں بھیجا۔ طبیعت نہایت مشوش ہے۔ وقت گزرتا جاتا ہے۔ جلد جواب ارسال فرماویں اور پیراندتا میرا ملازم غریب ہونے کی حالت میں عمر بسر کرتا ہے۔ آپ براہ مہربانی اس کو ملک میں ضرور اس کے لئے کوئی زوجہ صالحہ تلاش کریں۔ آپ کی ادنیٰ کوشش سے اس کا کام ہو جائے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
یکم اکتوبر ۱۸۸۹ء
جواب بہت جلد دیں تاکہ انتظار ہے۔ لڑکی باکرہ خورد عمر ہو۔
(۱۶۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
بخدمت اخویم محب صادق منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو لودھیانہ سے لکھتا ہوں۔ میری روانگی کے وقت آپ کو خط معہ مبلغ …۱۰ روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا۔ مگر افسوس کہ میں اس دن تشویش کی حالت میں لدھیانہ کی طرف تیار تھا۔ اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا۔ اسی طرح لدھیانہ سے خط تھا کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں او رانہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آئو وقت بہت تنگ ہے۔اس وجہ سے بندوبست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا اور افسوس رہا۔ اب شاید ایک ہفتہ تک لودھیانہ ہوں۔ شیخ غلام غوث صاحب نے پیغام بھیجا تھا کہ میں کرسٹی صاحب کو آپ کی نسبت کہلایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جن شخص کے ساتھ تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی تبدیلی ہوچکی ہے۔ اب پھر کوئی شخص تبدیلی کی درخواست کرے گا تو ہم ضرور رستم علی صاحب کو بلا لیں گے۔ غرض غلام غوث کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔ جس وقت میں قادیان میں آئوں۔ اس وقت آپ کسی پہنچانے والے کا بندوبست کر کے مجھ کو اطلاع دیں۔ میں حلوہ تیار کرا کر بھیج دوں گا۔ ہمیشہ حالات خیریت سے مجھ کو اطلااع دیتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جس روز آپ کا خط اور …۱۰ روپیہ کا منی آرڈر پہنچا تھا۔ اسی روز رعاجز بباعث ایک عزیز کے سخت بیمار ہونے کے بعد لودھیانہ میں آگیا ہے۔ اس مجبوری سے آپ کی فرمائش کی تعمیل نہ ہو سکی نہایت ندامت ہے۔ آپ کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ خد اوند کریم نے آپ کے دل میں طہارت باطنی کے لئے خالص جوش بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جوش میںترقی بخشے۔آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۳۱؍ اکتوبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز ابھی تک لودھیانہ میں ہے۔ میرے ملازم پیراں دتہ کی نسبت تو آپ کو زبانی بھی کہا تھا اور اب بھی بطور یاد دہانی لکھتا ہوں کہ اس کے نکاح کی نسبت آپ ضرور فکر کریں۔ قوم گوجر میں بہت لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ کوئی ایسی لڑکی نو عمر تلاش کریں کہ نوعمر پندرہ سولہ برس کی اور نیک چلن اور محنتی ہو۔ انشاء اللہ القدیر آپ کو ثواب ہو گا۔ ضرور تلاش کریں۔ شاید میں ۴؍ نومبر ۸۹ء تک اس جگہ پہنچ جائوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ چند اشعار جو عمدہ اور دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے تھے پہنچا۔ افسوس کہ میرے تینوں خطوں میںایک خط بھی آپ کے پاس نہیں پہنچا۔ نہایت حیرت ہے۔ جس روز قادیان میں انڈوں کے لئے آپ کا خط پہنچا تھا۔ اسی دن لودھیانہ سے خط پہنچا کہ والدہ اُم بشیر سخت بیمار ہیں۔ بمجرد دیکھنے کے چلے آئو۔ لہذا بلاتوقف روانہ ہونا پڑا۔ اس وجہ سے انتظام انڈوں یا ان کے حلوہ کا نہ ہو سکا۔ اب میں۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں۔ آیندہ جو خط آپ لکھیں۔ قادیان آنا چاہیئے۔ پیراندتا کی نسبت بہت فکر رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ معرفت اخویم میر عباس علی شاہ صاحب مجھ کو ملا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا کرے۔ آپ کے اشعار آپ کے صدق طلب پر گواہ ہیں ۔ جزاکم اللہ۔ میں انشاء القدیر دہم نومبر ۸۹ء کو قادیان کی طرف جانے کے لئے ارادہ رکھتا ہوں۔ آئندہ ہرچہ مرضی مولا۔ پیراندتا میرے ملازم کے امر نکاح کو خوب یارکھیں۔ آپ کی ادنی کوشش سے اس غریب کا کام ہوجائے گااور آپ اگر ادنی توجہ کریں گے تو ضرور انشاء اللہ کوئی صورت نکل آوے گی۔ مگر چاہیئے۔ عورت جوان باکرہ بیس بائیس سال سے زیادہ نہ ہواور بیوہ نہ ہوکہ اس میں فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ دلی توجہ سے تلاش فرمایں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۹؍نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
کل لودہانہ سے قادیان آکر آپ کا دوسرا خط ملا۔ اشعار آبدار جو آپ نے دلی درد اورجوش سے لکھے تھے۔ پڑھ کر آپ کے لئے دعا خیر کی گئی۔ ترتب اثر وقت پر موقوف ہے کیونکہ اللہ جل شنانہ‘ نے ہر ایک بات کو اوقات سے وابستہ رکھا ہے ۔ آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور مناسب ہے کہ آپ گنجائش کے وقت میں ضرور ملاقات کریں کہ اس میں انشاء اللہ القدیر فوائد بے شمار ہیں۔ پیراں دتہ کے لئے ضرور خیال رکھیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مشفقی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پاکیزہ اور عمدہ دل سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ متانت ایسی ہے۔ کہ گویا ایک اہل زبان شاعر کی یہ امر خداداد ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی محبت بخشے۔ دنیا فانی اور محبت دنیا ہمہ فانی ۔ جس طرح آسمان پر ستارہ نظر آتے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں ۔ خدا تعالیٰ کے حکم سے ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکم کی پابندی سے بے ستون کھڑے ہیں گرتے نہیں۔ اسی طرح مومن بھی حکم کا پابند ہے۔ خد اتعالیٰ کی فرمانبرداری پر کھڑا رہتا ہے گرتا نہیں۔ مومن کا دینا اور نفس کو چھوڑنا ایک خارق عادت امر ہے۔ وہ تبدیلی جو خدا تعالیٰ اس میں پید اکرتا ہے۔ وہ مومن کوقوت کو دیتی ہے۔ ورنہ ہر ایک شخص فانی لذت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ ……پر شیطان غالب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بیعت الموت کر چکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔ جیسے کہ آپ کے اشعار میں لذت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے دل میں ایسی ہی سچی رقت پید اکرے۔ ایک شخص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شاعر تھا اور ایمان نہیں لاتا تھا۔ ایک نفس پرست آدمی تھا۔ لیکن اس کے موحدانہ اور عارفانہ تھے۔ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر سے نہایت پاکیزہ تھے۔ آنحضرت بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ امن شعرلا وکفر نفسہ۔ یعنی شعر اس کا ایمان لایا اور نفس اس کاکافر ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کے شعر اور آپ کے دل کو ایک ہی نور سے منور کرے۔ مناسب ہے کہ یہ اشعار آپ جمع کرتے جائیں۔ کیونکہ لطیف ہیں اور لائق جمع ہیں۔ مجھے بباعث کثرت کار فراغت نہیں۔ ورنہ میں جمع کرتا جاتا۔ تین روز سے لودھیانہ سے قادیان آگیا ہوں۔ مولوی نور دین صاحب کا کچھ پتہ نہیں۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ دعا میں بہت مشغول رہیں کہ تمام امن و آرام خدا تعالیٰ کی یاد میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ نومبر ۹ ۱۸۸ء
(۱۶۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے اشعار پڑھنے سے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے کہ خدا وندکریم آپ کو خط و افر اپنی محبت کا بخشے۔ میں ان دنوں سخت بیمار ہوں۔ نہایت کمزور ہو گیا۔ اس لئے طاقت زیادہ تحریر کی نہیں۔ امید کہ بعد صحت انشاء اللہ مفصل خط لکھوں گا۔ میر صاحب کسی قدر بیمار رہے ہیں اور اب بھی پورے تندرست نہیں۔ اسی وجہ سے میر صاحب کا کوئی خط نہیں آیا ہوگا۔ آپ تلاش رکھیں۔ اگر شہد عمدہ مل سکے تو ضرور تشریف آویں۔ آپ کا ملاقات بہت شوق ہے۔ اگر رخصت ملے تو ضرور تشریف لے آویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۲۵؍ نومبر ۱۸۸۹ء
پیراندتا کی نسبت رہے۔
(۱۷۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ درحقیقت بباعث بیماری مجھ سے تحریر جوابات میں کوتاہی ہوئی اوراب بھی پوری تندرستی نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے زیادہ لکھنے سے سخت مجبور ہوں۔ اگر چند سطریں بھی لکھوں تو سر گھوم جاتا ہے۔ ضعف بہت ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورداسپورہ
۲۸؍ نومبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا اور نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ آپ کو مکروہات سے بچاوے۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بجدوجہد دعا کروں گا۔ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں اور استغفار میں بہت مشغول رہیں کہ اس میں دفع بلا ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔ مگر اس طرح پر جو کچھ آپ کے دنیا اوردین کے لئے فی الحقیقت بہتر ہے۔ وہ بات آپ کو میسر آوے۔ کیونکہ خبر نہیں کہ خیر کس کام میں ہے۔ ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا انتظار تھا۔ خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے۔ چھ سات روز سے اخویم مولوی نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں۔ اگر آپ ان دنوں آجائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہوجائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍دسمبر ۱۸۸۹ء
(۱۷۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے ۔ اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں۔ پیراندتا بغایت درجہ آپ کے وعدہ کا منتظر ہے اور کسی غریب کا کام کردینا نہایت ثواب ہے۔ آپ خاص توجہ فرما کر اس کے لئے کوشش فرمادیں۔ آپ کے لئے برابر دعا بحضرت باری عزاسمہ کی جاتی ہے۔ امید کے وقت پر ترتب اثر بھی ہوگا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۳؍جنوری ۱۸۹۰ء
(۱۷۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالی ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
مدت مدید کے بعد آپ کا خط پہنچا۔ اس قدر خطوط کے ارسال میں توقف کرنا مناسب نہیں۔ ہمیشہ استغفار میں مشغول رہیںکہ عمر کا ذرہ اعتبار نہیںاور جلد جلد اپنے حالات خیریت سے مطلع کرتے رہیں۔ تا دعا کی جاوے اور قریباً بیس روز سے لودہانہ میں ہوں۔ شاید ۶؍ مارچ ۹۰ء تک جاؤں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از لودہانہ
۲۴؍فروری ۱۸۹۰ء
(۱۷۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔ یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا۔ بظاہر امید زندگی منقطع تھی۔ اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے۔ نہایت درجہ کا ضعف ہے۔ طاقت تحریر نہیں۔ صرف اطلاع کی غرض سے لکھتا ہوں۔ ورنہ حالت ایسی نہیں کہ لکھ سکوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۷؍اپریل ۱۸۹۰ء
(۱۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں بمقام لاہور بغرض کرانے کے آیا ہوں۔ علاج ڈاکٹری شروع ہے۔ لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ کامل صحت ہوجائے گی اور میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جائوں گا۔ آپ اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلامـ
خاکسار
غلام احمد از لاہور
مکان مرزا سلطااحمد
نائب تحصیلدار لاہور
۳؍ مئی ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوائل میں جب لاہور جاتے تو مرزا سلطان احمد صاحب (جو آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ کے مکان پر ٹھہرا کرتے تھے اور جب ڈاکٹر محمد حسین صاحب مرحوم سے علاج کرایا کرتے تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب مرزا احمد حسین مشہور ناولسٹ کے والد ماجد تھے اور بھاٹی دروازہ کے اندر رہا کرتے تھے) یہ مکتوب حضرت کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نہیں اور اس پر ازعاجز حامد علی السلام علیکم بھی تحریر ہے۔
(عرفانی)
(۱۷۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللّٰہ والمۃ کہ بیماری لاحقہ سے اب بہت کچھ آرام ہے اور جس قدر باقی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد شفا ہو جائے گی۔ ضعف بہت ہو گیا ہے۔ اس لئے اپنے ہاتھ سے خط لکھنا دشوار ہمیشہ اپنی خیروعافیت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۳۱؍ مئی ۱۸۹۰ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے دعا کی جاتی ہے تسلی رکھیں۔میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور توبہ و استغفار میں مشغول رہیں۔ زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک آسمان پر نہ ہو۔ خدا تعالیٰ پر قوی بھروسہ رکھیں۔ میرا ارادہ ہے کہ تبدیل ہواکے لئے ۳؍ جولائی ۱۸۹۰ء تک لودھیانہ میں جائوں۔ اگر آپ کی ملاقات ہو تو بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔ محبت اور یقین سے اس پر امید رکھو۔
والسلام
۲۵؍جون ۱۸۹۰ء
(۱۸۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے جو اللہ جلشانہ نے بہتر سمجھا ہے وہی ہو گا اور امید رکھتا ہوں کہ دعا کا اثر آپ کے حق میں خیرو برکت ہو گا۔عسیٰ ان تکرھو اشیاء وھو خیر لکم۔ غالباً ۷؍ جولائی۱۸۹۰ء کو لودھیانہ کی طرف روانہ کروں گا۔ اقبال گنج کے محلہ میں میر ناصر نواب کا مکان ہے۔ وہاں سے میرا پتہ معلوم ہو گا۔ اضطراب نہ کریں تسلی رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز عرصہ زیادہ دو ہفتہ سے لودھیانہ میں ہے اور بار ہا بخلوص قلب آپ کے لئے دعا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ خدا تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے۔ اسی کی طرف رجوع رکھو اور بے قرار مت ہو۔ وہ کریم ورحیم ہے اورمیں لودھیانہ میں محلہ گنج میں برمکان شاہزادہ حیدر اترا ہوا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء
(۱۸۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مدت کے بعد آیا۔ برابر آپ کے لئے بتوجہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تسلی رکھو اور اپنے حالات سے بلا تاخیر اطلاع فرماتے رہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
از لودھیانہ محلہ اقبال گنج
مکان شاہزادہ حیدر
یکم اگست ۱۸۹۰ء
نوٹ۔ اس کے بعد چوہدری صاحب کی تبدیلی محکمہ ریلوے پولیس میں ہوگئی۔ چوہدری صاحب اس کے متعلق حضرت اقدس کو لکھتے رہتے تھے اور آپ ہر خط میں ان کو تسلی اور اطمینان دلاتے تھے۔ آخر خد اتعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا اور چوہدری صاحب کو حسب مراد کامیابی ہوگئی۔ حقیقت میں بھی وہ نشانات اورخوارق تھے۔ جن کو دیکھ کر سابقون الاولون کی جماعت نے ایمانی ترقی حاصل کی تھی اور کوئی چیز حضرت کی راہ میں ان کے لئے روک تھی۔ وہ سب کچھ قربان کر کے یہی آرزو کہتے تھے کہ اور موقعہ ملے۔ اس لئے کہ بشاشت ایمانی ان میں داخل ہو چکی تھی اور خد اتعالیٰ کی آیات کو کھلا کھلا انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
افسوس ہے کہ اگست سے دسمبر ۹۰ء بلکہ مارچ ۱۸۹۱ء تک کے خطوط نہیں مل سکے۔ میں تلاش میں ہوں۔ اگر مل گئے تو بطور ضمیہ شائع ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز (عرفانی)
(۱۸۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ براہ مہربانی جالندھر چھائونی سے انگریزی نورہ جو سوداگروں کی دوکان میں بکتا ہے لے کر ضرور ارسال فرمادیں۔ صرف ۴؍ کا کافی ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۳؍ اپریل ۱۸۹۱ء
(۱۸۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
دہلی بازار بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج یہ عاجز بخیروعافیت دہلی میں پہنچ گیاہے۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اسی جگہ رہوں۔ کوٹھی نواب لوہارو جو بلیماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے۔ آپ ضرور آتی دفعہ ملیں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرماویں کہ وہ میرے بہت مخلص ہیں۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۱۸۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریماس عاجز کی تیاری کی ابھی کوئی پختہ خبر نہیں۔ ابھی بحث کے لئے تیاری ہو رہی ہے۔ شاید مولوی حکیم نور دین صاحب اور ایک جماعت ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک میرے پاس پہنچ جاوے۔ میں جانے کے وقت آپ کو اطلاع دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
نوٹ۔ یہ مباحثہ دہلی کے ایام کی خط وکتابت ہے۔ جب کہ سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کو حضرت اقدس کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔(عرفانی)
(۱۸۶) پوسٹ کارڈ
۱۸؍دسمبر ۱۸۹۱ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کارڈ پہنچا ۔ تھان گبرون حامد علی کو پہنچ گیا اور آپ کا چوغہ بنات میاں حافظ معین الدین کو دیا گیا۔ جس کو دینے کے لئے آپ نے کہا تھا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ توجہ سے سلطان احمد سے فیصلہ کرلیں۔ تا اس کے موافق عملدر آمد ہوجاوے کیونکہ میرا قیام قادیان میں زیادہ تر التزام سے اسی غرض سے ہے کہ تا یہ انتظام ہوجاوے۔ زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ چودھری رستم علی اس وقت لاہور میں متعین تھے اور مرزا سلطان احمد صاحب سے بعض امور متعلقہ اراضیات و باغ کا تصفیہ حضرت چاہتے تھے (عرفانی)
(۱۸۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی۔ اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چونکہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکذبین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہوگا۔ انشاء اللہ القدیر۔ کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہونگے۔ لہذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہ عنایت ضرور تشریف لاویں۔ آتے ہوئے ی۴ روکھے پان ضرور لیتے آویں۔زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ :۔ اس خط پر از بند محمد اسمعیل السلام علیکم بھی درج ہے۔ یہ مرزا محمد اسمعیل کی طرف سے ہے۔ اس پر کوئی تاریخ درج نہیں۔ مہرے سے معلوم ہوتا ہے۔ ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو ڈاک میں ڈالا گیا اور لاہور کی مہر ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کی ہے۔ یہ سب سے پہلے جلسہ کی اطلاع ہے اور اب جیسا کی حضرت اقدس نے اس جلسہ کے اعلان میں ظاہر فرمایا تھا۔ وہی جلسہ برابر انہی تاریخوں پر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ گویا اب تک ۳۷ سالانہ جلسہ ہوچکے ہیں۔ سلسلہ کی ابتدائی تاریخ اور حضرت اقدس کی اس وقت کی مصروفیت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہی سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ (عرفانی)
(۱۸۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں۔ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۳؍دسمبر ۱۸۹۱ء
(۱۸۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمی تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خواب نہایت عجیب ہے۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نتیجہ امتحان سے اطلاع بخشیں اور براہ مہربانی میر ناصر نواب صاحب کا اسباب پٹیالہ پہنچا دیں۔ وہ بہت تاکید کرتے ہیں۔ پتہ یہ ہے۔ دفتر نہر میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس۔
راقم خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۹؍جنوری ۱۸۹۲ء
(۱۹۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز قادیان میں آگیا ہے اور ایک رسالہ دافع الشہادت تالیف کرنے کی فکر میں ہے۔ براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے۔ یعنی تاویل الاحادیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں۔ ہرگز توقف نہ فرماویں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۹؍مئی ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط میں از جانب محمد اسمعیل اور محمد سعید السلام علیکم درج ہے سید محمد سعید دہلوی حضرت میر صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے۔ وہ یہاں قادیان آئے اور حضرت نے انہیں مہتمم کتب خانہ بنادیا تھا۔ پھر ان کی شامت اعمال انہیں یہاں سے لے گئی اور گمنامی میں رخصت ہوئے۔ (عرفانی)
(۱۹۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ عزیزی غلام مصطفی کے لئے دعا کی گئی ۔ خدا تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر پھر دعا کروں گا۔ امید کی اپنے حالات خیریت آیات سے مطلع و مسرور الوقت فرماتے رہیں گے۔ نیاء رسالہ ابھی مطبع ہوکر نہیں آیا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ رخصت لیں۔ تو ضرور مجھ کو بھی ملیں۔ کیونکہ آپ کی ملاقات کو ایک مدت ہوگئی ہے۔ عرب صاحب کے لئے بہت خیال ہے اور نواب محمد علی خان صاحب کو اشارہ کے طور پر اور نیز تصریح سے میں نے کہا بھی تھا ۔ اس سے زیادہ اور کیا کہا جاوے۔ حیدر آباد سے کوئی خط نہیں آیا۔ معلوم نہیں وہ لوگ کس حال میں ہیں۔ آج کل ایسی ہوا چل رہی ہے کہ ایک نئے روز کا خطرہ ہوتا ہے ۔ کہ دلوں پر کیا اثر ڈالے۔ جسمانی وبا بھی ہیں اور روحانی بھی ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ حامد علی السلام علیکم و سید محمد سعید السلام علیکم ،،درج ہے۔ (عرفانی)
(۱۹۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاآپ کی دلی ہمدردی اور اخلاص فی الواقعہ ایسا ہی ہے کہ کسی قسم کا فرق باقی نہیں رکھا۔ جزاکم اللہ خیرالجزء واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔رسالہ آسمانی نشان کے شروع ہونے میں یہ دیر ہے کہ میاں نور احمد مہتمم مطبع کی لڑکی جوان فوت ہوگئی ہے۔ اس غم کے سبب سے چند روز اس کی توقف ہوگئی۔ اب وہ قادیان آکر اول قرار داد اجرت باہم کرکے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر سکے اجازت لیں گے کہ قادیان میں میں مطبع لاویں۔بعد ازاں مطبع لے آویں گے۔ شاید اس عرصہ میں ہفتہ عشرہ اور دیر لگ جاوے ۔ اسمعیل کو سمجھا دیا گیا۔ اس کا بھائی لاہور کسی جگہ نوکر ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔دوتین روز میں وہاں سے الگ ہوکر امرتسر پہنچ جائے گا۔ آپ کی دس تاریخ جولائی تک انتظار رہے گی۔ کتابیں ابھی امرتسر سے آئی نہیں۔ امید کہ چھ سات روز تک آجائیں گی اور شاید آپ کے پہنچنے تک آجائیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چندہ …ماہوار کی حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو اطلاع دی گئی۔ خد اتعالیٰ آپ کو اجر بخشے اور کتاب رسالہ نشان آسمانی قدر امرتسر میں باقی ہے۔ جس وقت کتابیں آتی ہیں روانہ کروں گا۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۱۹۵) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی تبدیلی سے خوشی ہوئی۔ مبارکباد اور آپ نے جو مبلغ بیس ……روپیہ عربی رسالہ کے لئے کہا تھا۔ اس وقت عربی رسالے چھپ رہے ہیں۔ ایک کا نام تحفہ بغداد اور دوسرے کا نام کرامات الصادقین ہے۔ اگر آپ اسی وقت میں اگر گنجائش ہو مبلغ ۲۰… …روپیہ سیالکوٹ میں بھیج دیں۔ تو بہتر ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۷؍ اگست ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔اس وقت چوہدری رستم علی تھانہ ولٹوہا ضلع لاہور میں ڈپٹی انسپکٹر تھے۔ (عرفانی)
(۱۹۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ تفکر سے آپ کو نجات بخشے۔ کتاب آئینہ کمالات اسلام ۵ جزو تک چھپ چکی ہے۔ اگر آپ دوماہ تک چندہ مولوی محمد حسین صاحب کو بلاتوقف بھوپال بھیج دیں تو موجب ثواب ہو گا۔ پتہ بھوپال دارالریاست محلہ چوبدار پورہ۔ آپ کے اس تفکر کے لئے بھی دعا کی گئی ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب اور عرب صاحب آپ کے انتظار میں قادیان میں ہیں۔
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گوراسپورہ
۱۶؍ ستمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کے برادر زادہ کی خبر سن کر بہت رنج واندوہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام عزیزوں کو صبر عطا فرمائے اور اس مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اب تاریخ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بہت بزدیک آگئی ہے۔ آپ کا شامل ہونا ضروری ہے ماسوائے اس کے انتظام دو تین شطرنجی اور قالین کاا گر ہو سکے تو ضرور کر لیں۔ یہ تو پہلے آجانی چاہئیں۔ اگر آپ دو روز پہلے ہی تشریف لاویںتو مناسب ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
ضلع گورادسپورہ
۱۶؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
(۱۹۸) ملفوف
افسوس ہے کہ یہ خط پھٹ چکا ہے۔ اس میں سے صرف مندرجہ ذیل حصہ باقی ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ آپ کی بار بار کی تکلیفات کی …………معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی جلسہ کے لئے ضروری سامان وغیرہ لانے کے متعلق تاکیدی خط تھا اور اس میںحضرت نے عذر کیا ہے کہ آپ کو بار بار ضروریات سلسلہ کے متعلق تکلیف دی جاتی ہے۔ اس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ سیرۃ کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ بالطبع اپنے احباب کو کسی قسم کی تکلیف دینا چاہتے تھے اور اگر خدا تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ مخلوق کی روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح کا یہ ذریعہ قرار نہ دیا ہوتا تو آپ کا بالطبع اس سے نفرت تھی۔ لیکن سنت اللہ یہی ہے اور اسی منازل سکوک طے ہو سکے تھے۔ چوہدری صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بے تکلفی سے انہیں نوازتے تھے اور یہ سعادت قابل رشک ہے۔ ابتداًہر قسم کے جلسوں کی ابتدائی ضروریات کا انصرام چوہدری صاحب ہی کے حصہ میں آیا تھا اور وہ خود بھی ہر موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ۔(عرفانی)
(۱۹۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ مطمئن رہیں۔ آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر یہ عاجز بہت دعا کرے گا۔ اللہ جلشانہ پہلے سے ہر ایک دعا آپ کے لئے قبول فرما رہا ہے۔ امید کہ اب بھی قبول فرمائے گا۔ مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا کسی قدر دیر سے۔ اس کے ہر ایک کام میں خیر اور خوبی ہے۔ اپنے حالات سے مجھ کو بدستور مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ تاریخ مٹ گئی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۰) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی اسی وقت آ پ کے لئے تضرع اور ابتہال سے دعا کی گئی۔ بفضلہ تعالیٰ ضائع نہ جائے اور اس کا اثر ہو گا۔ آپ صبر سے منتظر رہیں۔ ہرگز ہر گز بے صبری نہ کریں۔ اپنے کام کو پوری توجہ اور ہوشیاری سے کریں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۶؍ جنوری ۱۸۹۲ء
(۲۰۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس… روپے مرسلہ آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ رسالہ عربی سیالکوٹ میں چھپ رہا ہے۔ شاید بیس روز تک تیار ہو جائے۔اس رسالہ کی تالیف کے دو مقصد ہیں۔ اوّل یہ کہ عربوں کے معلومات وسیع کیے جائیں اور اپنے حقائق و معارف کی ان کو اطلاع دی جائے۔ دوسرے یہ کہ میاں محمدحسین اور ان کے ساتھ دوسرے علماء جو اپنی عربی دانی اورعلم دین ناز کرتے ہیں۔ ان کا یہ کبر توڑا جائے۔ چنانچہ اس رسالہ کے ساتھ اسی غرض سے ہزار روپیہ کاا شتہار بھی شامل ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۶؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اس عاجز سے محض للہ دلی تعلق اور محبت ہے اور یہ عاجز آپ کے ہر ایک تردد کے ساتھ متردد اور ہر ایک غم کے ساتھ غمگین ہوتا ہے۔ پھر کیونکر آپ کی دعا کی میں غفلت ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کے مدعا کے موافق کام کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔ انشاء اللہ القدیر توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ بلکہ شروع کر دی ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جولائی ۱۸۹۲ء
(۲۰۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ تعجب کہ کس قدر آپ کے پاس کسی نے جھوٹ بولا اور دوسرا تعجب کہ آپ کو بھی حقیقت واقعہ سے اطلاع نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جب کہ عاجز امرتسر گیا اور جاتے ہی عاجز نے ایک خط رجسٹری کرا کر عبدالحق کو مباہلہ کے لئے بھیجا۔ کہ تم اس وقت مجھ سے مباہلہ کر لو۔ لیکن اس نے بدست منشی محمد یعقوب صاحب ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ اس وقت تم عیسائیوں سے مباہلہ کرتے ہو۔ اس ووقت میں مباہلہ مناسب نہیں دیکھتا۔ جس وقت لاہور میں مولوی غلام دستگیر سے بحث ہو گی۔ اس وقت مباہلہ کروں گا۔ لیکن اس کے جواب میں لکھا گیا کہ جو شخص ہم میں سے اعراض کرے اور تاریخ مقررہ پر مقام مباہلہ میں حاضر نہ آوے۔ اس پر خد اتعالیٰ کی *** ہو۔ چنانچہ وہ اس سخت خط کو دیکھ کر بہر حال مباہلہ کے لئے تیار ہو گیا اور ایسا ہی ایک محمد حسین بٹالوی کو بھی لکھا گیا تھا۔ مگر تاریخ مقررہ پر عبدالحق مباہلہ پر آگیا اور امرتسر میں جو بیرون دروازہ رام باغ عید گاہ متصل مسجد ہے۔ اس میں مباہلہ ہوا اور کئی سو آدمی جمع ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض انگریز پادری بھی آئے اور ہماری جماعت کے احباب شاید چالیس کے قریب تھے اور عبدالحق بھی آیا اور بہت سی بددعائیں دیں۔ لیکن محمد حسین بٹالوی چارو ناچار مباہلہ کے میدان میں آیا۔ مگر مباہلہ نہیں کیا اور سب لوگ معلوم کر گئے۔ کہ وہ گریز کر گیا۔ یہ سچی حقیقت ہے۔ جس کا شاید د س ہزار کے قریب باشندہ امرتسر گواہ ہو گا۔ اب جب تک پہلے مباہلہ کا فیصلہ نہ ہو۔ دوسرا مباہلہ کیونکر ہو۔ علاوہ اس کے اسی مباہلہ کی تاریخ میاں محی الدین لکھو کے والے اور ایسا ہی مولوی محمد جبار کو ( عبدالجبار مراد ہے۔عرفانی)کو رجسٹری کرا کر خط بھیجا گیا کہ اس تاریخ پر تم بھی آکر مباہلہ کر لو۔ اگر تاریخ مقررہ پر نہ آئے تو پھر کاذب ٹھہرو گے۔ مگر بحالیکہ ان کی رسیدیں بھی آگئیں اور کافی مہلت بھی دی گئی۔ لیکن وہ نہ آئے۔ رسیدیں موجود ہیں۔ ایسا ہی لودھیانہ میں بھی رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے اور دہلی اور پٹیالہ میں بھی۔
غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ اگست ۱۸۹۳
(۲۰۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ اسی جگہ سے آپ کے خط کے جواب میں حتی الوسع توقف نہیں ہوتا۔ شاید کسی وجہ سے خط نہ پہنچا ہو۔ دو رسالہ عربی چھپ رہے ہیں اور ایک رسالہ نہایت عمدہ اردو میں چھپ ہے۔ شاید یہ کام ایک ماہ تک ختم ہو۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مجھ کو مطلع فرماتے رہیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ ستمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ اس وقت چوہدری صاحب کورٹ انسپکٹر تبدیل ہو چکے تھے اور محکمہ ریلوے سے دوسری طرف منتقل ہو گئے تھے۔ اب لفافہ پر حضرت اقدس لکھتے تھے۔
بمقام منٹگمری۔ کچہری صدر۔ بخدمت مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر پولیس۔(عرفانی)
(۲۰۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ دس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ کتابیں ابھی چھپ رہی ہیں۔ جس وقت آئیں گی۔ آپ کی خدمت میں ارسال ہوں گی۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ اپنے حالات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
نوٹ:۔ اس خط پر آپ نے دستخط نہیں کئے اور تاریخ بھی درج نہیں فرمائی۔ قادیان کی مہر اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔(عرفانی)
(۲۰۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ آنمکرم پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔ رسالہ حمامۃ البشری جو مکہ معظمہ میں بھیجا جائے گا اور تفسیر سورۃ فاتحہ چھپ رہی ہے۔ اب کچھ چھپنا باقی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میری طبیعت چند روز سے بعارضہ تپ بیمار ہے اور درد سر اور ضعف بہت ہے۔ اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ آپ کے دریافت طلبا امور کا جواب لکھ سکتا ہوں اور کسی اور وقت پر چھوڑ سکتا ہوں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۱۷؍ نومبر ۱۸۹۳ء
(۲۰۸) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں۔ اتوار کو واپس قادیان آجاؤں گا۔ آپ اپنے حالات خیریت سے بو اپسی اطلاع دیں۔ خداتعالیٰ آپ کو کلی صحت بخشے۔ آمین ثم آمین۔
خاکسار
غلام احمد
از فیروز پور چھاؤنی
نوٹ:۔ اس کارڈ پر مندرجہ ذیل السلام علیکم بھی لکھے ہوئے ہیں۔ از عاجز سید محمد سعید السلام علیکم و نیز غلام احمد کاتب۔ حامد علی السلام علیکم۔‘‘(عرفانی)
(۲۰۹) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں کل ایک ماہ کے قریب سفر پر رہ کر آیاہوں۔ امید کہ اپنی طبعیت کے حالات سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۱۰) پوسٹ کارڈ
السلام علیکم ۔ اول بشیرو محمود کی والدہ ملاقات اپنے والد ماجد کے فیروز پور گئے۔ پھر سنا کہ بشیر بہت بیمار پڑگیا۔ اس لئے ہم فیروز پور گئے اور وہاں پچیس روز کے قریب رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا مندی اور اپنے بنی کریم کی اتباع میں خورم و خورسند رکھے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۶؍دسمبر ۱۸۹۳ء
نوٹ:۔ یہ خط حضرت اقدس کے ارشاد سے حضرت حکیم الامتہ نے لکھا ہے اور حضرت کے دستخط بھی خود انہوں نے کئے ہیں۔ اس وقت گویا حضرت حکیم الامتہ رضی اللہ عنہ حضرت کی ڈاک بھی لکھا کرتے تھے اور یہ پہلا خط ہے۔ جس پر مرزا کا لفظ بھی لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۱۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے جو کوٹ بنوانے کے لئے لکھا تھا۔ میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لحاف مہانوں کی نیت سے بنوادیں کہ مہمانوں کے لئے اکثر لحافوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
غلام احمد
ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ۔ مگر قادیان کی مہر ۲۲؍دسمبر ۱۸۹۳ء کی ہے۔ دوسری بات اس خط پر یہ ہے کہ آپ نے بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم پورا نہیں لکھا بلکہ صرف بس لکھ دیا ہے۔ تیسری بات یہ خط آپ ایثار اور اکرام ضیف کے حسنات کو آپ کی سیرت میں دکھاتا ہے ۔ چودھری رستم علی صاحب آپ کے لئے ایک کوٹ تیا کرانا چاہتے ہیں مگر آپ اپنے نفس و آرام کو ترک کرکے انہیں مہمانوں کے لئے ایک لحاف بنوادینے مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی تربیت کس طرح فرماتے تھے اور منازل سلوک کس طرح طے کرا رہے تھے۔ چودھری صاحب کے اخلاص و محبت کا توکیا کہناہے ۔ (عرفانی)
(۲۱۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچاامید انشاء اللہ القدیر آپ کی معافی سواری کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس تکلیف سے بھی نجات بخشے۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوںکہ جو مبلغ ۲۰… آپ نے بھیجے ہیں کیا یہ عرب صاحب کے چندہ میں ہیں یا میرے کاروبار کے لئے کیونکہ میں نے سنا تھا کہ آپ نے بیس روپیہ چندہ کے لئے تجویز کئے ہیں۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۱۰؍مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ میں انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے رمضان میں دعا کرتا رہوں گا۔ آپ کی تو ہر مراد اللہ پوری کردیتا ہے۔ آپ کیوں مضطرب ہوتے ہیں؟ رسالہ نورالحق بڑی شان کا رسالہ ہوگیا ہے اور پانچ ہزار …روپیہ اس کے ساتھ اشتہار دیا گیا ہے اور ہزار *** بھی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ مارچ ۱۸۹۴ء
(۲۱۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محبت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز بباعث کثرت کار بیشک سخت معذور ہے۔ اب چند روز تک بالکل فرصت ہونے والی ہے۔ کتابیں چھپ گئیں ہیں۔ اب جز بندی باقی ہے۔ امید کہ ہفتہ عشرہ تک جز بند ی ہوکر میرے پاس پہنچ جائیں گی۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍جون ۱۸۹۴ء
(۲۱۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ صاحبزادہ صاحب کتابیں روانہ کریں گے۔ بہت کم فرصتی میں چند سطریں لکھی گئی ہیں۔ باقی سب خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍جولائی ۱۸۹۴ء
(۲۱۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بباعث نہ پیدا ہونے روغن کے نہایت تکلیف ہورہی ہے۔ چربی دار اور خراب روغن ملتے ہیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک من پختہ روغن بذریعہ ریل بھیج دیں۔باقی ابھی تک کوئی تازہ خبر نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲؍اگست ۱۸۹۴ء
یہ روغن آپ کے چندہ میں جو آئندہ دیں گے ۔ محسوب ہوجائے گا۔
(۲۱۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ معہ کارڈ پہنچا۔ اب تو صرف چند روز پیشگوئی میں رہ گئے ہیں۔ دعا کرتے رہیں کے اللہ تعالیٰ اپنے بند وں کا امتحان سے بچاوے۔ شخص معلوم فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے ضعیف بند وں کو ابتلا سے بچاوے۔ آمین ثم آمین۔ باقی خیریت ہے مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ہے۔ حضرت اقدس کا ایمان خداتعالیٰ کی بے نیازی اور استغنار ذاتی پر قابل رشک ہے۔ آپ کو مخلوق کے ابتلا ء کا خیال ہے(عرفانی)
(۲۱۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آتھم کی نسبت جو فیصلہ الٰہی ہے۔ حقیقت میں فتح اسلام ہے۔ جب اشتہار پہنچے گاتو آپ معلوم کرلیں گے کہ کیا حقیقت ہے مگر آپ کی ستقامت اور استقلالی پر نہایت خوشی ہوئی۔ خداتعالیٰ بہت بہت جزائے خیر بخشے۔ انشاء اللہ تجدید بیعت کا آپ ک دوہرا ثواب ہوگا اور اللہ تعالیٰ گناہ بخشے گا اور وآپ پر خاص فضل کرے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۱۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط آپ کا جو بنام صاحبزادہ سراج الحق صاحب تھاپہنچا۔ جس کے دیکھنے پر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ آپ ایسی خوشی کے موقع پر کیوں اس قدر اظہار اور ملال اور حزن کررہے ہیں اور نہ یہ افسوس صرف مجھ کو ہے۔ بلکہ جس قدر ہماری جماعت کے احباب اس جگہ موجود ہیںوہ سب افسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو حقیقت حال معلوم ہوتو آپ کا ایسا غم خوشی کے ساتھ تبدیل ہوجائے۔ آپ ضرور دوچار روز رخصت ملنے پر تشریف لاویں ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نے مخدومی حضرت سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے اشتہار بہ عنوان ’’این مدہاست دراسلام چو خورشید عیاں۔ کہ بہر دور مسجانفے نے آید۔،،پر ہی لکھ دیا ہے۔ یہ اشتہار حضرت شاہ صاحب نے سعد اللہ لودہانوی کے جواب میں شائع کیا تھا (عرفانی)
(۲۲۰) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آتھم کی نسبت جو خدا تعالی نے فیصلہ کیا ۔ اس کی آپ کو کچھ بھی خبر نہیں۔ میں پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے۔ تین چار دن تک آپ کی خدمت میں پہنچے گا۔ اس وقت بجائے غم کے آپ کے دل میں خوشی پیدا ہوجائے گی۔ کہ اسلام کی فتح ہوئی۔والسلام
خاکسار۔غلام احمد
۸؍ستمبر ۱۸۹۴ء
میاں نور احمد صاحب کو السلام علیکم
(۱۲۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کے تردد کا حال معلوم ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ اپنی طرف سے اطمینان بخشے۔ آمین۔ رسالہ انوار الاسلام تین دن تک یا چار دن تک چھپ کر آجائے گا۔ امید کہ وہ آپ کے اطمینان کا موجب ہو۔ تاہم بہترہے کہ آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر ضرور ہمارے پاس آجائیں۔ میں بباعث کثرت مہمانان پہلے اس سے خط نہیں لکھ سکا۔ بخدمت اخویم میاں نور احمد صاحب السلام علیکم ۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۶؍ستمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ …۲۵ مرسلہ آں مجھ کو ملے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ امید کہ اشتہار چارہزار روپیہ پہنچ گیا ہوگا۔ میری اصلاح ہے کہ کل اشتہار دونوں پیشگوئیوں کے متعلق رسالہ انوارالاسلام کے ساتھ شامل کرکے اپنے مخلص دوستوں کے نام بھیجے جاویں اور وہ ایک جلد ان کو مجلد کرالیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
محبی اخویم میاں نور احمد صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔ آپ کا پہلا خط مجھے معلوم نہیں کب پہنچا۔ شاید سہو سے نظر انداز ہوگیا۔ اگر کوئی خاص مطلب ہے۔ تو اس سے اطلاع بخشیں تااس کا جواب لکھا جاوے۔ اس وقت وقت تنگ ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھا گیا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا۔ بہت خوب ہے کہ آپ انوارالا سلام معہ جملہ اشتہارات کے مجلد کرالیں۔ اگر ایساہی ایک صاحب کریں تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ امید کہ انوار الاسلام آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ہوگی۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
نوٹ:۔ اس مکتوب پر خاکسار لکھ کر آگے اپنا نام حضرت نہیں لکھ سکے۔ اورنہ تاریخ درج کی ہے۔ مگر مہر سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ۸؍نومبر ۱۸۹۴ء کو قادیان سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۲۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ تعالی آپ کے مقاصد کو پورا کرے۔ا گر طبیعت ایسی ہی علیل رہتی ہے توکچھ مضائقہ نہیں کہ آپ اپنے آرام کے لئے کوشش کریں۔ جو منافی احکام شروع نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں۔ اگر معمولی طورپر سرٹیفکیٹ مل جائے تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍نومبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ خدا تعالیٰ آپ کو اپنی مرادات میں کامیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔ نہایت خوشی ہوگی اگر آپ کورٹ انسپکٹری پر گورادسپور تشریف لے آویں۔ جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۳ء نزدیک آگیا ۔ امید رکھتا ہوں کہ آپ ضرور اس موقعع پرخد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے تشریف لاویں گے۔ اس جلسہ احباب میں آپ کا آنا نہایت ضروری ہے ابھی سے اس کابندوبست کر رکھیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۳؍ دسمبر ۱۸۹۳ء
(۲۲۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ بیس … روپے آنمکرم مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ چونکہ اب عنقریب تعطیلیں آنے والی ہیں۔مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کو فرصت ملے گی۔ بہت خوشی ہو گی اگر آپ کو تعطیلوں میں اس جگہ آنے کاموقع ملے۔ خد اتعالیٰ آپ کو ترددات سے نجات بخشے اور اپنی محبت میںترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب معہ چند دیگر مہمانان تشریف لے آئے ہیں۔ امید کہ آپ بھی ضرور جلد تشریف لے آئیںگے اور آتے وقت کسی سے بطور عاریت دو قالین اور شطرنجی لے آویں کہ نہایت ضروری ہے اور ۴؍ کے پان لے آویں۔ قالین اور شطرنجی والے سے کہہ دیں کہ صرف تین چار روز تک ان چیزوں کی ضرورت ہو گی اور پھر ساتھ واپس لے آویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ا ز قادیان
ضلع گورداسپور
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
(۲۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت بھرا عنایت نامہ پہنچا۔میری دانست میں بغیر متواتر نماز استخارہ کے تبدیلی کے لئے پوری کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ میں سنتا ہوں کہ گورداسپورہ میں کام بہت ہے اور طرح طرح کے پیچیدہ مقدمات ہوتے ہیں۔ اس صورت میں تعجب نہیں کہ کوئی دقت پیش آوے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک آفت سے محفوظ رکھے۔ امید کہ اپنے حالات خیریت آیات سے مسرور الوقت فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جنوری ۱۸۹۵ء
(۲۲۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ مہمانوں کی آمدورفت زیادہ ہے اور اس وقت روغن کااس جگہ قدر قحط ہے کہ بازار میں کہیں روغن نہ اچھا نہ برا دستیاب نہیں ہوا اور آج لاچار سرسوں کاتیل ہنڈیا میں ڈال دیا گیا۔ آپ ہمیشہ ۲۰… ماہوار چندہ ارسال کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس ماہ کی بابت بیس … روپیہ کا عمدہ روغن زرد خرید کر کے ارسال فرمادیں۔ مگر ریل کے لئے روانہ کے لئے بلٹی اس کی بھیج دیں تاجلدی پہنچ جاوے اور تبدیلی کے بارہ میں اوّل استخارہ کرنا چاہیے۔ گورداسپور میں اکثر حاسد اور شریر طبع لوگ ہیں۔
خاکسار
غلام احمد
۹؍ جنوری ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ تبدیلی کے متعلق چوہدری رستم علی صاحب اپنے اخلاص اور محبت کے اقتضا سے چاہتے ہیں کہ گورداسپور آجائیں اور حضرت اقدس بھی قرب کو پسند فرماتے ہیں۔ مگر لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کو مدنظر رکھ کر آپ جلد بازی کا مشورہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ ہر ایک کام کے لئے استخارہ کی ہدایت دیتے ہیں۔ اس سے آپ کا توکل علی اللہ ظاہر ہے اور آپ کبھی پسند نہ کرتے کہ کوئی کام اپنی ذاتی خواہش اور خیال سے کریں۔ بلکہ ہر امر کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اسی کے سپرد کرنا انسب قرار دیتے۔(عرفانی)
(۲۳۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل روغن کے لئے آدمی بھیج دیا گیاہے ۔ شاید آج یاکل آجاوے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ رات تہجد میں آپ کے لئے دعا کی تھی اور کوئی خواب بھی دیکھی تھی۔ جو یادنہیں رہی۔ خد اتعالیٰ جو کچھ کرے گا۔ بہتر کرے گا۔ انشاء اللہ پھر بھی توجہ سے دعا کروںگا۔آپ سلسلہ ظاہر کے محرک رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۸۹۵ء
(۲۳۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا محبت نامہ پہنچا اور روغن زرد اس سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ آپ کے جناب الٰہی میں کئی دفعہ اخلاص اور توجہ سے دعا کی گئی۔ اب انشاء اللہ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہتر جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ہم وغم کودور کرے۔آمین۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۶؍ فروری ۱۸۹۵ء
(۲۳۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے کہ اگر گورداسپور کی تبدیلی آپ کے لئے بہتر ہو اور اس میں کوئی شر نہ ہو توخد اتعالیٰ میسر کرے۔ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بہتر جو آپ کے لئے بہتر ہے وہی کرے گا اور منشی امام الدین منصف کو میرے نزدیک کچھ ذرہ علم نہیں۔ سمجھ پر شیطانی پردہ ہے۔ اس کے ساتھ بحث وقت ضائع کرنا ہے۔لیکن بہر حال اگر آپ اس کی تحریریں بھیج دیں۔ تو شایدکسی موقعہ پر ان کا رد کیا جائے گا۔ مگر وہ اپنی سخت نا سمجھی سے پاک غلطیوں سے گرفتار ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ۷؍ مارچ ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں۔ چوہدری صاحب گورداسپورہ کی تبدیلی کے لئے کوشاں تھے اور جیسے حضرت اقدس ان کے لئے یہ دعا فرماتے تھے کہ جو ان کے لئے بہتر ہو وہ میسر آئے اور یہ بصیرت افزا یقین حضرت اقدس کا تھا کہ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔ یہ دعا چوہدری صاحب کے حق میں گورداسپور ہی کی تبدیلی کی صورت میں قبول ہوئی اور یہاں عزت و احترام سے رہے اور انہیں سلسلہ کی خدمت کا قریب سے موقع ملتا رہا۔
امام الدین منصف جس کااس مکتوب میں ذکر ہے۔ یہ شخص اپنے آپ کو فاتح الکتب المبین کہتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کو بائبل کے ساتھ ایک جلد میں رکھنا چاہیے اور بھی بعض عجیب و غریب عقائد وہ رکھتا تھا۔(عرفانی)
(۲۳۳) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۶؍ اپریل ۱۸۹۵ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
گوردسپور آنے سے بہت خوشی ہوئی۔ا مید کہ اب وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہے گی۔ اطلاع بخشیں کہ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کب تک آئیں گے۔ کیونکہ ایک اخبار جاری کرنے کے لئے منظوری حاصل کرنی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۳۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
چونکہ اخراجات پریس وغیرہ اس قدر ہیں کہ جس قدر معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے بعض دوستوں کو تکلیف دینا اس کاروائی کے لئے ضروری سمجھا گیا۔آنمکرم اس کارخانہ کے لئے بیس … روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ سو اگر بندوبست ہو سکے اور فوق الطاقت تکلیف نہ ہو۔تو اڑھائی مہینہ کا چندہ ۵۰… روپیہ بھیج دیں۔ جب تک یہ ارھائی مہینہ گزر جائیں۔ یہ چندہ محسوب ہوتا رہے گا۔ اس طور سے ایسے ضروری وقت میں مدد مل جائے گی۔ورنہ پریسوں کے توقف میں خد اجانے کس وقت کتابیں نکلیں۔ کیونکہ تاخیر میں بہرحال آفات ہیں۔ رسالہ نور القرآن نمبر ۲ چھپ رہا ہے اور ست بچن اور آریہ دھرم بعض بیرونی شہادتوں کے انتظار میں معرض تعویق ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
مبلغ پچاس …روپے مرسلہ آپ کے معہ ۵ شیشی عطر کے مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ تینوں رسالے چھپ رہے ہیں۔ آپ کا ڈاک کا خط مجھ کو پہنچ گیا تھا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ نومبر ۱۸۹۵ء
(۲۳۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے اور وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ بلکہ بعض وحیوںمیں صرف نبی کے دل میں معافی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں اور تمام وحییں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی وحی کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے۔ مگر قرآن شریف معانی اور الفاظ دونوں کے رُو سے معجزہ ہے اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دونوں کے رُو سے خد ا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔ تفصیل اس کی انشاء اللہ القدیر بروقت ملاقات سمجھا دوں گا۔ نقل خط امام الدین بھیج دیں۔ وہ نیم مرتد کی طرح ہے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور افسوس ہے کہ لفافہ محفوظ نہیں۔ مگر سلسلہ مکتوبات ظاہر کرتا ہے کہ یہ نومبر ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔(عرفانی)
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
افسوس کہ مجھ کو سوائے متواتر دو خط کے اور کوئی خط نہیں پہنچا۔ چونکہ دنیا سخت ناپایدار اور اس چند روزہ زندگی پر کچھ بھی بھروسہ نہیں۔ مناسب ہے کہ آپ التزام اور توبہ اور استغفار میں مشغول رہیں اور تدبر سے تلاوت قرآن کریم کریں اور نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت بخشے۔ آمین۔
اشتہار چار ہزار… چھپ گیا ہے۔ امید کہ آپ کو پہنچ گیاہوگا۔باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
میاں نور احمد صاحب کوالسلام علیکم۔
(۲۳۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ضروری کام یہ ہے کہ جو (باوا) نانک (صاحب) نے کمالیہ ضلع ملتان میں چلہ کھینچا تھا۔ اس کے بارے میں منشی داراب صاحب سے دریافت ہو اکہ کس بزرگ کے مزار پر چلہ کھینچا تھا اور وہ مزار کمالیہ گائوں کے اندر ہے یا باہر ہے اور اس بزرگ کا نام کیا ہے اور کس سلسلہ میں وہ بزرگ داخل تھے اور کتنے برس ان کو فوت ہوئے گزر گئے۔
دوسرے یہ کہ کمالیہ میں کوئی مقام چلہ نانک کا بنا ہوا موجود ہے یا نہیں اور اس مقام کا نقشہ کیا ہے اور اس مقام کے پا س کوئی مسجد بھی ہے یا نہیں اور وہ مقام روبقبلہ ہے یا نہیں؟
تیسرے یہ کہ اگر منشی داراب صاحب کو کسی قسم کے (باوا) نانک( صاحب) کے سفر یاد ہوں۔ جو گرنتھ میں موجود ہوں۔ جو ہمارے مفید ہوں اور ان کا حوالہ یا دہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
چوتھے یہ کہ کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ (باوا)نانک( صاحب ) کسی مسلمان بزرگ کا مرید ہوا تھا۔
اور آپ کی خدمت میں ایک نوٹس بھیجا جا تا ہے۔ اس کے متعلق جہاں تک ممکن ہو دستخط کرا کر بھیج دیں اور ایسے دستخط بھی بھیج دیں اور جو گورنمنٹ کی طرف درخواست جائے گی۔ اس پر دستخط کرائے جائیں۔
پیچھے سے نقل درخواست اور نقشہ گواہوں کے لئے بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں اور لفافہ محفوظ نہیں یہ ۱۸۹۵ء کا مکتوب ہے۔ جب کہ ست بچن زیر تالیف تھا۔(عرفانی)
(۲۳۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رسالہ عربی طبع ہور ہا ہے اور جو آپ نے اس کی مدد کے لئے ارادہ فرمایا ہے۔ خد اتعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ لیکن چونکہ مطبع کے لئے اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے۔ یعنی کاغذ وغیرہ کے لئے سو بہتر ہے کہ وہ بیس …روپیہ جو آپ نے وعدہ فرمایا ہے وہ مطبع سیالکوٹ میں یعنی پنجاب پریس سیالکوٹ میں بنام منشی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع ارسال فرمادیں۔ تا اس کام میں لگ جائے۔ کتابیں تو اکثر مفت تقسیم ہوں گی۔ مگر خرچ کی اب ضرورت ہے اور روپیہ میرے پاس نہیں بھیجنا چاہئے۔ فصیح صاحب کے پاس جانا چاہئے اور اس میں لکھ دیں۔ میرے نزدیک اس قدر لمبی رخصت ابھی لینی قابل مشورہ ہے۔
نوٹ:۔ یہ مکتوب اسی قدر ہے۔ حضرت اقدس اپنا تاریخ وغیرہ کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہ کمال استغراق کا نتیجہ ہے۔(عرفانی)
(۲۴۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کامحبت نامہ پہنچا۔ امید کہ میرا کارڈ بھی پہنچا ہو گا۔ تینوں رسالے سیالکوٹ میں چھپ رہے ہیں۔ درمیان میں بباعث بیماری پریس مین کے توقف ہو گئی ہے۔ لیکن اب برابر کام ہوتا ہے۔ امید کہ انشاء اللہ القدیر جلدچھپ جائیں گے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات نے ان کی امداد کے لئے ایک سو روپیہ سیالکوٹ بھیج دیا ہے وہ بمبئی گئے ہیں۔ وہیں انشاء اللہ دوبارہ تقسیم کے بلادب عرب میں بندوبست کریں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
ضلع گورداسپور
(۲۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کوبار بار تکلیف دیتے شرم آتی ہے۔ تمام جماعت میں ایک آپ ہی ہیں جو اپنی محنت او رکوشش کی تنخواہ کا ایک ربع ہمارے سلسلہ کی امداد میں خرچ کرتے ہیں۔ آپ کو اس صدق و ثبات کا خد اتعالیٰ بدلہ دے گا۔ آمین۔
اس وقت ایک شدید ضرورت کے لئے چند دوستوں کولکھا گیا ہے اور اسی ضرورت کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اگر آپ مبلغ بیس… روپیہ بطور پیشگی اپنے چندہ میں بھیج دیں۔ تو پھر جب کل حساب چندہ پیشگی طے نہ ہولے۔ آیندہ کچھ نہ بھیجیں۔ یہ روپیہ جہاں تک ممکن ہو روانہ فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
یکم مئی ۱۸۹۶ء
آپ نے پہلے چالیس … پیشگی چندہ روانہ کیا تھا اور اب ۲۰… آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ پس جب تک یہ ساٹھ روپیہ… چندہ ایام ختم نہیں ہوں گے۔ تب تک آپ سے طلب نہ کیا جائے گا۔
والسلام
(۲۴۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مرزا احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کی نسبت جو آپ نے خبر دی تھی کہ بیس روز سے نکاح ہو گیا ہے۔ قادیان میں اس کی خبر کچھ اصلیت معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی نکاح ہو جانا کوئی شخص بیان نہیں کرتا۔ لہذا مکلف ہوں کہ اس امر کی نسبت اچھی طرح تحقیقات کر کے تحریر فرماویں کہ نکاح اب تک ہو ایا نہیں اور اگر نہیں ہو اتو کیا وجہ ہے؟ مگر بہت جلد جواب ارسال فرماویں اور نیز سلطان احمد کے معاملہ میں ارقام فرماویں کہ اس نے کیا جواب دیا ہے؟
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۱ء
(۲۴۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج آنمکرم کا کارڈ پہنچا۔ مجھے تعجب ہے کہ بیس روپیہ … کی رسید کے بارے میں میں نے ایک کارڈ اپنے ہاتھ سے لکھاتھا معلوم ہو تا ہے کہ یا تو وہ کارڈ اسی سے گم ہو گیا۔ جس کا ڈاک میں ڈالنے کے لئے دیا گیا تھا اور یا تو ڈاک میں گم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ نے دعا کا کچھ تو اثر کیا کہ اس انگریز نے آپ کے گھوڑے کے بارے میں کچھ سوال نہیں کیا او رپھر اس کے فضل پر امید رکھنی چاہئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۲؍ مئی ۱۸۹۸ء
(۲۴۴) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
انشاء اللہ میں آپ کے صبر کے لئے کئی دفعہ دعاکروں گا۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور اس لڑکے کو جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ کسی تعطیل میں آپنے ساتھ لئے آویں۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۶ء
(۲۴۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ وفات پسر مرحوم کی خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور صبر پر وہ اجر ہے۔ جس کاکوئی انتہاء نہیں۔ اس لئے آپ جہاں تک ممکن ہو۔ اس غم کو غلط کریں۔ خد ا تعالیٰ انعم البدل اجر عطا کردے گا۔ وہ ہر چیزپر قادر ہے۔ خدا تعالیٰ کے خزانوںمیں بیٹوں کی کمی نہیں۔ غم کو انتہاء تک پہنچانا اسلام کے خلاف ہے۔
میری نصیحت محض للہ ہے۔ جس میں سراسر آپ کی بھلائی ہے۔ اگر آپ کو اولاد اور لڑکوں کی خواہش ہے۔ تو آپ کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ۔ علاوہ اس کے شریعت اسلام کے رُو سے دوسری شادی بھی سنت ہے۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ آپ دوسری شادی بھی کر لیں۔ جو باکرہ ہو اور حسن ظاہری اور پوری تندرستی رکھتی ہو اور نیک خاتون ہو۔ اس سے آپ کی جان کو بہت آرام ملے گا۔ انسان کی تقویٰ تعدد ازواج کا چاہتی ہے۔ اچھی بیوی جو نیک اور موافق اورخوبصورت ہو تمام غموں کو فراموش کر دیتی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اچھی بیوی بہشت کی نعمت ہے۔ اس کی تلاش ضرور رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ خد اتعالیٰ بہت اولاد دے دے گا۔اس کے فضل پر قوی امید رکھیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۶؍ جون ۱۸۹۰ء
(۲۴۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ مولوی صاحب کوٹلہ مالیر کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ نواب صاحب نے چھ ماہ کے لئے مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ مگر شاید مولوی صاحب ایک ماہ یادو ماہ تک رہیں۔ یا کچھ زیادہ رہیں۔ حامد علی نے پختہ عزم کر لیا ہے۔ اب وہ شاید باز نہیں آئے گا۔ جب تک آخیر نہ دیکھ لے۔ دراصل دنیا طلبی ایک بلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے غم کو موت کے برابر دیکھ رہا ہوں۔ کاش یہ غم لوگوں کو ایمان کا ہو۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس پرخط کوئی تاریخ نہیں۔ مگر قادیان مہر ۳؍ جولائی ۱۸۹۶ء کی ہے۔ چوہدری صاحب ان ایام میں گورداسپور میں تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم نے اس وقت افریقہ جانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ اپنی بعض خانگی ضرورتوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ حضرت اقدس کا یہ منشا نہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ حافظ صاحب وہاں سے ناکام واپس آئے اور پھر کہیں جانے کانام نہ لیا۔(عرفانی)
(۲۴۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
صاحبزادہ ظہور احسن از شرارت ہائے برادرعم زادہ خود ظہور الحسین نابینا بیساء منظوم است۔ مناسب کہ حتی الوسع برحال اوشان نظر ہمدردی کردہ درمواسات او شان دریغ نفرمایند۔ کہ ایں ہمدردی از قبیل اعانت مظلوماں است۔ ومبلغ …روپیہ رسیدو انجام آتھم فرستادہ مے شود۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
(۲۴۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس وقت میں نے تاکیداً میاں منظور محمد صاحب کو کہہ دیا ہے کہ ایک نقل اس خط کی جو امیر کابل کی طرف لکھا گیا ہے۔ آپ کی طرف بھیج دیں۔ امیدکہ کل یا پرسوں تک وہ نقل آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ جون ۱۸۹۶ء
اور میں انشاء اللہ القدیر اب دلی توجہ سے آپ کی اولاد کے لئے دعا کروں گا تسلی رکھیں۔میں ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر خد اتعالیٰ چاہے اور کثرت مصارف نہ ہو۔ مع عیال کے دو تین ماہ تک ڈلہوزی میں چلا جائوں۔ کیا آپ کا کوئی ایسا شخص وہاں دوست ہے جو اس کی معرفت مکان کا بندوبست ہو سکے۔ معہ عیال کس سواری پر جا سکتے ہیں اور کرایہ کیاخرچ آئے گا۔ تحریر فرما ویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۴۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خط پہنچا۔ پڑھ کرچاک دیا گیا۔ ڈلہوزی جانے کی تجویز ہنوز ملتوی ہے۔ کیونکہ میرا چھوٹا لڑکا زحیر کی بیماری سے سخت بیمار ہو گیا ۔ کئی دن تو خطرناک حالت میںر ہا۔ اب ذرا سا افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہنوز قابل اعتبار نہیں۔ اس حالت میںکسی طرح یہ سفر نہیں ہوسکتا۔ اگر خدا چاہتا تو یہ عوارض اور موانع پیش نہ آتے۔ا ن میں کچھ حکمت ہو گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جون ۱۸۹۶ء
(۲۵۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ دوسرے رسالہ نور القرآن کی تیاری ہے اور سنن الرحمن چھپ رہی ہے۔ آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ہے۔ ضرور دو چارروز کی تعطیل پر ملاقات کے لئے تشریف لاویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۷؍ اگست ۱۸۹۵ء
(۱۵۱) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب عورت کی بالفضل ضرورت نہیں اور میاں غلام محی الدین کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی تھی۔ خد اتعالیٰ اس کو اس سخت مشکل سے مخلصی عنایت فرماوے۔ آمین ثم آمین اور آتھم کی نسبت اب جلد اشتہار نکلنے والا ہے۔ نکلنے کے بعد ارسال خدمت ہو گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸؍ اگست ۱۸۹۶ء
(۲۵۲) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ بابو غلام محی الدین کے لئے دعا کی گئی ۔ اگر یاد دلاتے رہیں گے تو کئی مرتبہ دعا کی جائے گی اور برص کا نسخہ مجھ کو زبانی یاد نہیں اور نہ کوئی نسخہ مجرب ہے۔ یوں تو قربادیں میں بہت سے نسخے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میرا تجربہ نہیں۔ اگر کوئی عمدہ نسخہ ملاتو انشاء اللہ لکھ کر بھیج دوں گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میری طبیعت علیل ہے اور اب بھی علیل ہے۔ اس لئے زیادہ تحریر کی طاقت نہیں رہی ۔ میں نے اس مہمان خانہ کے لئے ضرورت اشد کی وجہ سے ایک کنواں لگوانا شروع کیا تھا۔ چند دوستوں کے چندہ کے لئے تکلیف بھی دی گئی۔ مگر وہ چندہ ناکافی رہا۔ا ب کنوئیں کا کام شروع ہے۔ مگر روپیہ کی صورت ندارد چاہتا ہوں۔ اگر آپ دوماہ کا چندہ چالیس … روپیہ بھیج دیں۔ توشاید اس سے کچھ مدد مل سکے۔ ابھی کام بہت ہے۔ بلکہ عمارت بھی شروع نہیں ہوئی۔ بوجہ ضعف کے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۶ء
(۲۵۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کی خدمات متواترہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے۔ اس وقت بباعث قحط اور کثرت مہمانوں کے ضرورتیں ہیں۔ اخراجات کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔ اب آٹے کی قیمت کے لئے ضرورت ہے۔ اس لئے مکلف ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو پھر آپ مبلغ چالیس …بطور پیشگی بھیج دیں کہ بہت ضرورت در پیش ہے اور مجھ کو اطلاع دیں کہ یہ روپیہ کس معیاد تک آپ کے وعدہ چندہ کا متکفل رہے گا تااس وقت تک آیند تکلیف دینے سے خاموشی رہے۔ یہ امر ضرور تحریر فرمادیں کہ یہ روپیہ فلاں انگریزی مہینہ تک بطور پیشگی پہنچ گیا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔ امید کہ دسمبر کی تعطیلات میں آپ تشریف لاویں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۴؍ نومبر ۱۸۹۶ء
یہ خط آپ کی خدمت میں ضرورت کے وقت لکھا گیا ہے۔ ورنہ نے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا اور نیز اس حالت میں کہ اس وقت آپ کو گنجائش نہیں۔
والسلام
(۲۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اب تو آپ کی ملاقات پر مدت گزر گئی ۔باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اگر اپنے چندہ کو دو ماہ بھیج دیںیعنی … … تو اس وقت خرچ کی ضرورت پر کام آوے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹؍ دسمبر ۱۸۹۶ء
جس وقت تک آپ کا یہ روپیہ ہو گا۔ اس سے اطلاع بخشیں۔
(۲۵۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ بباعث عذر مرض کچھ مضائقہ نہیں کہ آپ روزہ رمضان نہ رکھیں۔ کسی اور وقت پر ڈال دیں۔ کتابوں کی روانگی کے لئے کہہ دیا ہے۔ میں بھی بدستور بیمار چلا جاتا ہوں۔ ہر ایک امر خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
فروری ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ یہ پہلا خط ہے جس پر آپ نے مرزا کا لفظ اپنے نام کے ساتھ تحریر فر مایا ہے۔
(خاکسار۔عرفانی)
(۲۵۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نقل حکم نوٹس اور اظہار نورالدین عیسائی پہنچ گیا۔ مگر چٹھی انگریزی ہے اور تیز روبکار فارسی جس کے رُو سے بریت ہوئی وہ کاغذات نہیں پہنچے۔ امید آتے وقت ضرورساتھ لے آویں اور ضرور آجائیں۔ اُجرت بھیجی جائے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۷؍ اگست ۱۸۹۷ء
اور جو صاحب آنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک ان کے لئے کوئی مکان مجھ کو نہیں ملا۔ بہتر ہے کہ جس وقت مکان ملے اس وقت آویں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
(۲۵۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف آہنی ڈبیا میں بھیج دی گئی ہے جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کونہیں پہنچی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اسی کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی تھی۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مر زا غلام احمد عفی عنہ
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
(۲۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ شاید ہفتہ سے زیادہ ہو گیا کہ دوا مطلوبہ آپ کی طرف سے آہنی ڈبیا میں بھیجی گئی ہے۔ جو آپ نے بھیجی تھی۔ تعجب ہے کہ اب تک آپ کو نہیں بھیجی گئی۔ جس کو آپ نے ڈبیا دی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دوا بھیجی گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۲؍ ستمبر ۱۸۹۷ء
اشتہار جب چھپے گا۔ بھیج دیا جائے گا۔
دنیا نگر میں ایک قسم کا سفید اور شفاف شہد آیا کرتا ہے۔ آپ تلاش کرا کر ایک بوتل سفید اور رتازہ شہد کی ضرور ارسال فرماویں۔
غلام احمد
(۲۶۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ کا عنایت نامہ پہنچا اور بعد پہنچنے خط کے جناب الٰہی میں آپ کے لئے دعا کی گئی اور انشاء اللہ رات کو دعا کروںگا۔ معلوم نہیں کہ سرکاری انتظام کے موافق اب آپ کتنے روز اور گورداسپور میں ٹھہریں گے۔ باقی تا دم حال بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۹؍ جنوری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ تاریخ ۱۹؍ جنوری ۱۸۹۸ء درج ہے۔ جو غالباً ۱۸۹۹ء ہے۔(عرفانی)
(۲۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ میں بہت ضروری سجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی نقل جومحمد حسین پر ہوا تھا ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے جو تاریخ پیشی مقرر ہے۔ مجھ کو پہنچ جاوے کیونکہ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر نے محمد حسین کی صفائی کرتے ہوئے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے کہ یہ بہت نیک چلن آدمی ہے۔ کوئی مقدمہ اس کی طرف یا اس پر نہیں ہوا۔ مگر اس جگہ سے آدمی آنا البتہ مشکل ہے۔ اسی جگہ سے خواہ اخویم بابو محمد صاحب کے ذریعہ سے کسی کو مقرر کر کے درخواست دلا دینا چاہیے اور پھر جہاں تک ممکن ہو۔ وہ درخواست جلد بذریعہ رجسٹری پہنچا دینی چاہئے۔ محمد بخش نے نہایت ناپاک اور جھوٹا اظہار دیا ہے اور صاف لکھوایا ہے کہ یہ ان کی تمام جماعت بدچلن ہے۔ اوّل کسی کے مارنے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ پھر پوشیدہ ناجائز کوششوں کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور میں قادیان میں اسی خیال سے دوسرے تیسرے روز ضرور جاتا ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے سب کچھ معلوم ہے اور ان کاچلن اچھا نہیں خراب اور خطرناک آدمی ہیں۔ مگر محمد حسین نیک بخت اور اچھے چلن کا آدمی ہے۔ کوئی بری بات اس کی کبھی سنی نہیں گئی۔ ایسے گندہ اظہار کی وجہ سے کل میں نے گواہوں کی طلبی اور خرچہ کے لئے چار سو روپیہ کے قریب روپیہ عدالت میں داخل کیا ہے، تین سو روپیہ میں نے دیا تھا اور ایک سو گورداسپور سے قرضہ لیا گیا اور وکیلوں کو جوکچھ ۲۷؍ جنوری کی پیشی میں دینا ہے۔ وہ ابھی باقی ہے۔ شاید پانچ سو روپیہ کے قریب دینا پڑے گا او ریقینا اس کے بعد ایک یا دو پیشیاں ہوںگی۔ تب مقدمہ فیصلہ پائے گا۔ میںنے سنا ہے کہ پوشیدہ طور پر اس مقدمہ کے لئے ایک جماعت کوشش کر رہی ہے اور چندے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ آپ اگر ملاقات ہو تو اخویم بابو محمد صاحب کو لکھ دیں کہ میں نے انتظام کیا ہے کہ اس خطرناک مقدمہ میں جو تمام جماعت پر بد اثر ڈالتا ہے جماعت کے لوگوںسے چندہ لیا جائے گا۔ سو اس چندہ میں جہاں تک گنجائش ہو۔ وہ بھی بھی شریک ہوجائیں۔ لیکن ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے اپنی للہی مدد ثواب آخرت حاصل کریں اور اخویم سید عبدالہادی صاحب کو بھی اطلاع دے دیں۔ اب کی دفعہ مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت حملہ ہے اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت پر دیندار اور مخلص دوستوں کو مالی مدد سے جلد اپنا صدق دکھانا چاہیے۔ آپ کی طرف سے ۸۰… عین وقت پر پہنچ گئے۔ وہ آپ کے چندہ میں داخل ہیں۔ اب انبالہ میں بابو محمد صاحب او رسید عبدالہادی باقی ہیں۔ اگر ملاقات ہو تو بجنیہ یہ خط ان کے پاس بھیج دیں اور تاکید کر دیں کہ ۲۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء سے پہلے ہر ایک مالی امداد پہنچنی چاہیے۔ تاکہ وکیلوں کو دینے کے لئے کام آوے۔ چند پیشیاں محض شیخ رحمت اللہ صاحب کے مال سے ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ انہوںنے تین وکیلوںکے مقرر کرنے میںایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ کردیاہے۔ جواب تک پیشیوں میں دیتے رہیں ہیں۔، خدا تعالیٰ ان کوجزائے خیر دے۔ اب کی بیشی چار ہزار… روپیہ ضمانت کے لئے لائے تھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مجھے فرصت نہیں ہوئی کہ بابو صاحب کی طرف علیحدہ خط لکھوں۔ یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔ دونوں صاحبوں کو پیغام پہنچا دیں اورخط دکھلا دیں۔
(۲۶۲) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج کی ڈاک میں غلام محی الدین صاحب نے آپ کی طرف سے مبلغ پچاس … روپیہ اور بھیجے ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء۔ ابھی وہ دس روپیہ نہیں آئے۔ اس نازک وقت میں آپ کی طرف سے مجھے وہ مدد پہنچی ہے کہ بجز دعا کے اورکچھ بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے بباعث شدت رمد اور درد چشم اور پانی جاری ہونے کی طاقت نہ تھی کہ کاغذ کی طرف نظر بھی کر سکوں۔ مگر بہر حال صورت اپنے پر جبر کر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں۔ کل کا اندیشہ ہے۔ خاص کر کچہری کے دن کا کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کا درد اور بند رہنے سے بچاوے۔ نہایت خوف ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
اس سے پہلے آج ہی ایک خط صبح روانہ کر چکا ہوں۔
(۲۶۳) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل کی ڈاک میں مبلغ ۹۹… مرسلہ آپ کے بذریعہ منی آرڈر پہنچے تھے۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء۔ آپ ہر ایک موقعہ پر اپنی مخلصانہ خدمات کا رضا مندی اللہ جلشانہ کے لئے ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر بخشے۔ آمین۔
کل میں مقدمہ پر جائوں گا۔ میری آنکھ اس وقت دکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ …درد ناک حالت میں آپ کوخط لکھا ہے۔ تا آپ کو اطلاع دے دوں۔ بباعث شدت درد آنکھ زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں ۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۶۴) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کو خبر پہنچ گئی ہو گی کہ سب کاروائی کا لعدم ہو چکی ہے اور ا ب نئے سرے نوٹس جاری ہو گا۔ تاریخ مقدمہ ۱۴؍ فروری ۱۸۹۹ء قرار پائی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ دفتر انگریزی کے کلارک پیشگوئی بابت آتھم اور پیشگوئی بابت لیکہرام اور پیشگوئی حال کا ترجمہ کر کے پیش کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیت بخیر نہیں ہے۔ محمد حسین کو غالباًبری کر دیا ہے اور اس گروہ کے لوگ یہی مشہور کرتے ہیں اور اس کی نسبت نوٹس بھیجنے کی کچھ بھی تیاری نہیں۔ وہ لوگ بہت خوش ہیں۔ اس حاکم نے ایک ٹیڑھی لکیر اخیتار کی ہے کہ قانون سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بڑی شوخی اور بد زنانی سے ظاہر کر رہا ہے اور علانیہ ہر ایک کے پاس کہتا ہے کہ میں ضمانت کرائوں گا۔سزا دلائوں گا اور ظاہراً یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ مجسٹریٹ اس کی عزت کرتا ہے اور بڑ ا کچھ اعتبار ہے۔ ہر ایک دفعہ میں دیکھتا ہوں کہ میری دانست اس کی نیت نیک ہے لیمار چنڈ بھی بگڑ ا ہوا ہے۔
جمعہ کی رات میںنے خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص کی درخواست پر میںنے دعا کر کے ایک پتھر یا لکڑی کی ایک بھینس بنا دی ہے۔ اس بھینس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ کے متعلق یہ خواب ہے کہ کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے۔ جس کاارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہو جانا۔ اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پید اہو جائیں۔ جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میںنے بھینس بنائی ہے تو اس نشان کے ظاہر ہونے سے کہ خد اتعالیٰ نے ایک لکڑی یا ایک پتھر کوایک سفید حیوان بنا دیا جو دودھ دیتا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور یک دفعہ سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں،ربی الا علی ربی الارعلی۔اور سجدہ میں گرنے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ دشمن پر فتح ہے۔ اس کی تاید میںکئی الہامات ہوئے ہیںایک یہ الہام ہے:۔
انا تجالدنا فاتطع ابعد و اسبابہ۔ یعنی ہم نے دشمن کے ساتھ تلوار سے لڑائی کی۔ پس ٹکرے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ آنیدہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اس خواب اور الہام کا مصداق کونسا امر ہے؟کیا آپ کو معلوم ہے کہ محمد بخش کے کہاں گھر ہیں؟ اور ذات کا کون ہے۔ مجھے سرسری طور پر معلوم ہو اہے کہ ذات کا … ہے اور گوجرانوالہ میں اس کے گھر ہیں اور معلوم ہو اہے کہ نظام الدین اس کے ایک شادی پر گوجرانوالہ میں گیا تھا اور تنبول دیا گیا۔ اگر اس کا کچھ پتہ آپ کو معلوم ہو ضرور مطلع فرماویں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمدعفی عنہ
۵؍ فروری ۱۸۹۹ ء قادیان
(۲۶۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
۱۶؍ فروری ۱۸۹۹ء
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کل میں پٹھان کوٹ سے واپس آگیا ۔ ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء میرے بیان کے لئے اور فیصلہ کے لئے مقرر ہوئی ہے۔ حالات بظاہر ابتر اور خراب معلوم ہوتے ہیں۔ محمد حسین اور محمد بخش کے اظہارات تعلیم سے کامل کئے گئے ہیں۔مجھ پر محمد حسین نے بغاوت سرکار انگریزی اور قتل لیکھرام کا اپنے بیان میں الزام لگایا ہے۔ محمد بخش نے لکھوایا ہے۔ ان کی حالت بہت خطرناک ہے۔ سرحدی لوگ آتے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے۔ وہی ہوتا ہے۔ دشمنوں نے افتراء میں کچھ فرق نہیں کیا میں نے آتے وقت حکیم فضل الدین صاحب کو ایک درخواست لکھ دی تھی اور مبلغ …۵۲ چار گواہوں کے طلب کرانے کے لئے دے دیئے تھے مگر نہایت خراب حالت ہے کہ کچھ امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ منجملہ ان گواہوں کے ایک رانا جلال الدین خاں ہیں۔ دوسرے شیخ ملک یار اور تیسرے منشی غلام حیدر تحصیلدار چوتھے محمد علی شاہ صاحب ساکن قادیان۔ لوگ کہتے ہیں کہ رانا جلال ا لدین خان صاحب اگر طلب ہوئے تو محمد بخش اور دوسرے لوگ کوشش کریں گے کہ اس کا اظہار اپنی مرضی سے دلادیں۔
ہرچہ مرضی مولیٰ ہماں اولیٰ
اوّل تو مجھے امید نہیں کہ طلب کئے جاویں۔ مجسڑیٹ خواہ نخواہ درپے توہین اور سخت بدظن معلوم ہوتا ہے۔ میرے وکیلوں نے یہ حالات دریافت کرکے یہی چاہا تھا کہ چیف کورٹ میں مثل کو منتقل کرادیں۔ لیکن یہ بات بھی نہیں ہوسکی۔ اگر آپ کو رانا جلال الدین خاں کی نسبت کچھ مشورہ دینا ہوتو اطلاع بخشیں۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اول تو مجسڑیٹ گواہ بلانے منظور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ پہلے بھی ایما کرچکا ہے اور کرے بھی تو غالباً بند سوال بھیجے گا۔ رانا جلال الدین خان کا مقام گوجرانوالہ لکھایا گیا ہے۔ شاید وہیں ہیں یا اور جگہ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(۲۶۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میری گواہی کے لئے رانا جلال الدین خان صاحب عدالت میں طلب کئے گئے ہیںاور ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء تاریخ پیشی مقرر ہے اور چونکہ محمد حسین نے صاف طور پر لکھوادیا ہے کہ ظن غالب ہے کہ لیکھرام کے قاتل یہی ہیں۔ اس لئے لیکھرام کی مسل بھی طلب ہوئی ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ کوئی نہیں۔ مگر تسلسل خط وکتابت سے واضح ہے کہ یہ ۱۶؍فروری ۱۸۹۹ء کے بعد کا ہے۔(عرفانی)
(۲۶۷) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو مقدمہ پیش ہوکر بغیر لینے گواہوں کے مجھے بری کیا گیا۔ استفاثہ کی طرف سے گواہی گذر چکی تھی اور فریقین کے لئے دو نوٹس لکھے گئے اور ان پر دستخط کرائے گئے۔ جن کا یہ مضمون تھا کہ نہ کسی کی موت کی پیشگوئی کریں گے اور نہ دجال کذاب کافر کہیں گے اور نہ قادیان کو چھوٹے کاف سے لکھیں گے اور نہ بٹالہ کو طاء کے ساتھ اورنہ گالیاں دیں گے اور ہدائت کی گئی کہ یہ نوٹس عدالت کی طرف سے نہیں ہے اور نہ اس کو مجسڑیٹ کا حکم سمجھنا چاہیئے۔ صرف خدا کے سامنے اپنا اپنا اقرار سمجھو۔ قانون کو اس سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ہمارا کچھ دخل نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو ان کی گندی گالیوں سے تکلیف پہنچی ہے ۔ آپ اختیار رکھتے ہیں کہ بذریعہ عدالت اپنا انصاف لیں اور مثل خارج ہوکر داخل دفتر کی گئی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۷؍فروری ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ میرا خیال ہے کہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۹ء ہے۔ جلدی سے ۷؍فروری ۱۸۹۹ء لکھا گیا ہے۔ (عرفانی)
(۲۶۸) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بلٹی آم پہنچ کر آج دونوں چیزیں آم اور بسکٹ میرے پاس پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ افسوس کہ آم کل کے کل گندے اور خراب نکلے۔ اسی خیال سے میںنے رجسٹری شدہ خط آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ تا ناحق آپ کانقصان نہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آم اس خط کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ افسوس کہ اس قدر خرچ آپ کی طرف سے ہوا۔ خیر انما الا عمال بالینات۔ کل میرے نام پر ایک پروانہ تحصیل سے آیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پتہ بتائو کہ عبدالواحد اور عبدالغفور اور عبدالجبار کہاں ہیں۔ خد اجانے اس میں کیا بھید ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
(۲۶۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آم مرسلہ آنمکرم پہنچے۔ جزاکم اللّٰہ خیرالجزاء۔ اگر ممکن ہو سکے تو اسی قدر اور آم بھیج دینا ۔ کیونکہ مہمان عزیز بہت ہیں۔ بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز آوے اور بعض محروم رہیں۔ افسوس کہ آپ کو عقیقہ پر رخصت نہ مل سکی۔ خیر دوسرے موقعہ پر بھی مسمی عبدالجبار گرفتار ہو کر گورداسپور میں آگیاہے۔ کہتے ہیں کہ پھر مقدمہ بنایا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بہتان سے بچاوے۔ مثل سے کسی قدر صفائی سے ظاہر ہے کہ پہلا اظہار عبدالجبار کا جھوٹا تھا۔ جو پادریوں کی تحریک سے لکھا گیا ہے۔ مگر پھر تفتیش ہو گی کہ کون سا اظہار جھوٹا ہے۔ شاید اب پادریوں کو پھر کسی جعلسازی کاموقعہ ملے اور پھر اس کو طمع دے کر یہ بیان لکھو ادیں کہ پہلا اظہار ہی سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔
کچھ معلوم نہیں کہ ایسا صاف مقدمہ فیصل شدہ پھر کیوں دائر کیا گیاہے۔ سزا اگر عبدالجبار کو دینا ہے توپہلا حاکم دے سکتا ہے اورسزا دینے کے لئے بہت سی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ عبدالجبار خود اقرار لکھاتا ہے۔ یعنی کپتان ڈگلس صاحب کے روبرو کا پہلا اظہار میرا جھوٹا ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء
(۲۷۰) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پہلا خط میں نے آم پہنچنے سے پہلے لکھا تھا۔ اب اس وقت جووقت عصر ہے۔ آم آئے اور کھولے گئے تو سب کے سب گندے اور سڑے ہوئے نکلے اور جو چند خوبصورت بیداغ معلوم ہوئے ان کا مزہ بھی تلخ رسوت کی طرح ہو گیا تھا۔غرض سب پھینک دینے کے لائق ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس قدر تکلیف اٹھائی اور خرچ کیااور ضائع ہوا۔ مگر پھر بھی ضائع نہیں ہوا۔ کیونکہ آپ کو بہرحال ثواب ہو گیا۔ اب یہ خط اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ خرچ سے بچے رہیں۔ اگر آپ کا دوبارہ بھیجنے کا ارادہ ہو تو سردنی کا آم جو سبز اور نیم خام اور سخت ہو کر بھیجیں۔ یہ آم ہر گز نہ بھیجیں ۔ زیادہ خریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
یکم جولائی ۱۸۹۹ء
خط اس غرض سے رجسٹری کر اکر بھیجا گیاہے کہ تسلی ہو کہ پہنچ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایسے ہی آم بھیج دیںاو رناحق اسراف ہو۔بجز اس قسم کے جس کو سردنی کہتے ہیں اور کوئی قسم روانہ نظر فرمائیں اوروہ بھی اس شرط سے کہ آم سبز اور نیم خام ہوں۔ تا کسی طرح ایسی شدت گرمی میں پہنچ سکیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ اشتہار ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء جس کے ساتھ جلسۃ الوداع کا بھی ایک پرچہ ہے۔ آپ کے پاس پہنچ گیا ہو گا۔ اب باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی نسبت جو گورداسپور میں تحریک کی گئی تھی۔ اس کو حد سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور درحقیقت اس طرح پر مولوی صاحب کا بڑ ا حرج ہوگیاہے۔ کہ آخر کار لوگ رشتہ سے کیوں انکار کریں توکتنے او رعمدہ رشتے اسی انتظار میں ان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ یہ ایسا طریق ہے کہ خواہ مخواہ ایک شخص پر ظلم ہو جا تاہے۔ جب اسی انتظار میں دوسرے لوگ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ بعض ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ تو کس قدر یہ امر باعث تکلیف ہے۔ لڑکی والے بعض اوقات دس روز بھی توقف ڈالنا نہیں چاہتے۔ بلکہ توقف سے وہ لاپروائی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ناحق نقصان ہوجاتا ہے۔ مناسب ہے کہ آپ رجسٹری کرواکر ایک مفصل خط لکھ دیںکہ وہ ایک شریف او رمہذب ہیں۔ آپ کے لئے انہوں نے دوسرے کئی رشتوں کو ہاتھ سے دیا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ا ب آپ اپنے جواب باصواب سے جلد ان کو مسرورالوقت کریں اور پھر اگر وہ کسی ملازمت کے شغل میں لگ گئے تو فرصت نہیں ہو گی یہی دن ہیں کہ جن میں وہ اپنی شادی کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کسی پہلی شادی کاذکر درمیان میں آئے تو آپ کہہ دیں کہ پہلی شادی تھی۔ وہ رشتہ طلاق کے حکم میں ہے۔ اس سے وہ کچھ تعلق نہیں چاہتے او رشاید طلاق بھی دے دی ہے۔ غرض اس کا جواب آپ دوسری طرف سے بہت جلد لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے بھیج دیں۔ میں ڈرتا ہوکہ یہ توقف ان کی اس طرف کے لئے بہت حرج کا باعث نہ ہو جائے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
(۲۷۲) ملفوف
حضرت اقدس نے یہ مکتوب چوہدری صاحب کے مرسلہ خط کی پشت پر ہی لکھ دیا ہے اور اس طرح پر وہ اصلی خط بھی محفوظ ہے۔
میںنے پسند کیا کہ پہلے اس خط کو درج کردوں۔ پھر حضرت کا اصل مکتوب جو اس کے جواب میں ہے۔(عرفانی)
(چوہدری رستم علی صاحب کا خط)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بحضور پر نور جنا بناء دینا حضرت مرزا صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ حضور کا صاد رہوا۔باعث افتخار ہوا۔ آج تک اشتہا رکوئی بھی اس عاجز کے پاس قادیان سے صادر نہیں ہوا۔ امید وار کہ براہ نوازش دو دو چار چار کاپیاں مرحمت فرمائی جائیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بابت گورداسپور سے جو جواب آیا۔ اس کی بابت سے پہلے نیاز نامہ میں عرض کر چکا ہوں۔ یعنی اس میں جواب سمجھنا چاہیے۔
اب رہا یہاں پر جو ہمارے سر دفتر صاحب خوہشمند ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں اگر ان میں سے کوئی پسند آجائے تو بابو مذکورہ بہت خوش ہو سکتا ہے۔مگر اس کی متلون مزاجی پر مجھے پورا اعتماد نہیں ہے۔ یہ لشکری لوگ ہیں۔ گو شریعت کی پابندی کا دعویٰ ہے۔ مگر وقت پر آکر ایسی ایسی شرائط پیش کرتے ہیں کہ جو مشکل ہوں مثلاً مہر کی تعداد بہت زیادہ۔ مگر اس کی لڑکیوں میں سے کوئی پسند آجائے تو پھر ایسی شرائط پہلے ہی طے کر لی جاویں۔
میری حالت بہت خراب ہے۔ گناہوں میں گرفتارہوں۔ کیاکروں کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ سوائے اس کے کہ خد اوند کریم اپنا فضل شامل حال کرے۔حضور سے الیجاء ہے کہ میرے واسطے ضرور بالضرور دعا فرمائی جائے کہ نفس امارہ کی غلامی سے رہائی پائوں۔ مجھے اپنی حالت پر بہت افسوس رہتا ہے اور ڈرتا بھی ہوں۔
آج کل خان صاحب علی گوہر خاں صاحب میرے پاس ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔ بخار آتا ہے اور دیر سے بخار آتا ہے۔ ان کی درخواست ہے کہ ان کی صحت وجسمانی و روحانی کے واسطے دعافرمائی جائے اور وہ السلام علیکم کہہ دیا جائے۔
عاجز رستم علی از انبالہ
۲۲؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء
ج
(مکتوب حضرت اقدس)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جلدی سے بہت ضروری سمجھ کر آپ کے خط کی پشت پر ہی یہ خط لکھتا ہوں کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کاگورداسپور کا معاملہ بہت حرج پہنچا چکا ہے۔ کچھ روپیہ دے کر اور یکہ کروا کر ایک عورت اور اور ایک مرد حجام کو گورداسپورہ میں بھیجا تھااور پھر انتظار میں اسقدر توقف کیا۔ آخر ان لوگوں نے اول آپ ہی کہا اور پھر آپ ہی جواب دے دیا۔ اب اپنے سر دفتر صاحب نسبت جواب تحریر فرماتے ہیں۔ اس کی نسبت اگر میں ایک کچی بات میں کوئی عورت اور مرد یہاں سے بھیجوں تو مناسب نہیں ہے۔ اول آپ براہ مہربانی جہاں تک جلد ممکن ہو لڑکیوں کی شکل اور حلیہ وغیرہ سے مجھے اطلاع دیںاو ر پھر میں کوئی خادمہ مزید تفتیش کے لئے بھیج دوں گا میں اس وقت اس لئے یہ خط اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ کہ آپ بلا توقف کوئی عورت بھیج کر شکل اور خلق اور تعلیم سے مجھ کو اطلاع دے دیں اور پھر بعد میں اگر ایسی کوئی عورت آپ کے پاس بھیجی جاسکے اور نیز اس کے پختہ ارادہ سے بھی اطلاع بخشیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
از قادیان
۲۴؍اکتوبر۱۸۹۹ء
(۲۷۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سر دفتر صاحب جن کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کچھ متلون مزاج اور تیز مزاج ہے ۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر پہلے ان سے کھلے کھلے طور پر تذکرہ کرلیں۔ کہ چھوٹی لڑکی سے ناطہ ہوگااورنیز یہ کہ شریعت کی پابندی سے نکاح ہوگا ۔ کوئی اسراف کا نام نہیں ہوگا۔ شریفانہ رسموں سے جو کپڑے زیور کی ان کے خاندان میں رسم ہو۔ اس سے وہ خود اطلاع دے دیں۔ تا وہ تیار کیا جاوے اور ان سے پختہ اقرار لے لیں کہ وہ اس پر قائم رہیں اور نیز یہ قابل گذارش ہے کہ اگر میں اس جگہ سے کوئی عورت بھیجوں تو وہ حجام عورت ہوگی اور وہ اکیلی نہیں آسکتی۔ کیونکہ جوان عورت ہوگی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند جاوے گا اور اس اجرت میں سات معہ سے آٹھ روپیہ اس کو دینے پڑیں گے اور دو آدمیوں کے آنے جانے کا دورپیہ یکہ کا کرایہ ہوگا۔ اور چھ سات روپیہ ریل کا کرایہ دوآدمیوں کی آمدو رفت کا ہوگا۔ غرض اس طرح ہمیں تقریباً بیس روپے خرچ کرنے پڑے گے ۔لیکن اگر آپ انبالہ سے کسی عورت کو میری طرف سے تین معہ چار روپیہ دے دیں تاوہ لڑکی کو دیکھ کر دیانت سے بیان کردے۔ تو خرچ کی کفایت رے گی۔ ہم تو اس قدر خرچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ گورداسپورہ کے معاملہ کی طرح سب کچھ خرچ ہو کر پھر ان کی طرف سے جواب ہوجاوے۔ آپ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ کوئی حجام عورت جو دیانت دار معلوم ہو۔ اسے کچھ دے کر بھیج دیں۔ وہ کل حلیہ بیان کردے کہ آنکھیں کیسی ہیں۔ ناک کیسا ہے۔ گردن کیسی ہے۔ یعنی لمبی ہے یا کوتہ۔ اور بدن کیساہے۔ فربہ یا لاغر منہ کتابی چہرہ ہے۔ یا گول ۔سرچھوٹا ہے یا بڑا قد لمبا ہے یا کوتہ۔ آنکھیں کپری ہیں یا سیاہ ۔رنگ گورہ ہے یا گندمی یا سیاہ ۔ منہ پر داغ چیچک ہیں یا نہیں یا صاف غرض تمام مراتب جن کے لئے یہاں کسی عورت کا بھیجنا تھا بیان کردے اور دیانت سے بیان کرے اس سے ہمیں فائدہ ہوگاکیونکہ اس کا مجھے زیادہ فکر ہے۔ میری طرف سے یہ خرچ دیا جاوے۔ میں تو اب بھی بیس روپیہ خرچ کرکے کسی عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ بھیج سکتا تھا۔ مگر اندیشہ ہوا۔ کہ کچی بات میں گورداسپور کی طرح پیش نہ آجائے۔ اگر آپ توجہ فرمائیں گے ۔ تو آپ کو انبالہ شہر سے بھی کوئی دانا اور حسن و قبح پرکھنے والی اور دیانت دار کوئی عورت میسر آجائے گی آپ کسی سے مشورہ کرکے ایسی عورت تلاش کرلیں اور یہ غلط ہے کہ اخویم مولوی محمد علی صاحب کی پہلی عورت موجود ہے ۔ مدت ہوئی کہ وہ اس پہلی کو طلاق دے چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت نہیں ۔ پوری تفتیش کے بعد آپ جلد جواب دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(۲۷۴) مکتوب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نہایت ضروری کام کے لئے آپ کو تکلیف دیتا ہوں کہ اس جگہ تین ایسے عمدہ اور مضبوط پلنگ کی ضرورت ہے۔ جس کے سیرو اور پائے اور پٹیاں درخت سال یا اور مضبوط لکڑی کے ہوں ۔ اسی غرض سے امرتسر آدمی بھیجا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے سیرو او رپٹیاں اور پائے نہ امرتسر میں ملتے ہیں اور نہ لاہور میں مل سکتے ہیں اور انبالہ میں اس قسم کے پلنگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے مکلف ہوں کہ آپ تمام تر کوشش سے ایسے تین پلنگ تیار کروا کر بھیج دیں۔ لیکن چاہیئے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ دو آدمی اور ایک بچہ بآسانی اس پر سو سکیں او رجہاں تک ہو سکے۔ پلنگ بہت بوجھل نہ ہوں۔ گھر میں امید بھی ہے اورکئی وجوہ سے یہ ضرورت پیش آئی ہے اورروپیہ کے خرچ کا کچھ صرفہ کریں۔ جس قدر روپیہ خرچ آئے گا۔ انشاء اللہ بلاتوقف بھیج دیا جائے گا۔ بہرحال پٹیاں اور سیرو اور پائے مضبوط لکڑی کے ہوں اور عمدہ طور سے بنے جائیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک پلنگ اس قدر بڑا ہو کہ پورے آدمی اور بچہ ان پر سو سکے اور جہاں تک ممکن ہو دو ہفتہ تک آپ تیار کر وا کر بذریعہ ریل بھیج دیں اور ریل کے کرایہ کو دیکھ لیں کہ زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ایک مرتبہ دہلی سے ایک پالکی منگوائی تھی اور غلطی سے خیال نہ کیا گیا۔ آخر ریل والوںنے پچاس روپیہ اس کا کرایہ لیا۔ باقی سب خیریت ہے۔ طاعون سے اس طرف شور قیامت بپا ہے۔ دن کو آدمی اچھا ہوتا ہے اور رات کو موت کی خبر آتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۲ء
(۲۷۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ چونکہ اس جگہ بنائی کا کام مشکل ہے۔ ہر طرف طاعون کی بیماری ہے۔ کوئی آدمی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگرچہ سات روپیہ تک کرایہ کی زیادتی ہو۔ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ وہیں سے تیار ہوکر آنی چاہئیں۔ لیکن اگر کرایہ زیادہ مثلاً بیس پچیس روپیہ… ہو تو پھر سامان پلنگوں کا بھیج دیا جائے۔ ایک پلنگ نواڑکا ہو او ردو عمدہ باریک سن کی سوتری کے۔ غرض اس جگہ پلنگوں کے بننے کی بڑی دقت پیش آئے گی۔ ہر طرف زراعت کاٹنے کے دن ہیں او رایک طرف طاعون سے قباحت بر پا ہے۔ لوگوں کو سروے دفن کرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی ۔ عجیب حیرانی میں گرفتار لوگ ہیں۔ جہاں تک جلد ممکن ہو جلد تر روانہ فرمادیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ مئی ۱۹۰۲ء
(۲۷۶) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ حال یہ ہے کہ اب کی دفعہ میں نے پچاس روپیہ … کا مشک منگوایا تھا۔ اتفاقاً وہ سب کا سب ردّی اور مخشوش نکلا۔ اس قدر روپیہ ضائع ہو گیا۔ اس لئے میں نے آپ کی تحریر کے موافق مبلغ …۱۲ قیمت چھ ماشہ مشک مولوی صاحب کے حوالہ کردی ہے۔ اگر یہ قیمت کم ہوگی۔ باقی دے دوں گا اور عنبر بھی مدت ہوئی کہ میں نے افریقہ سے منگوایا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً خرچ ہوگیا۔ میں نے اس قدر استعمال سے ایک ذرہ بھی اس کا فائدہ نہ دیکھا۔ وہ اس ملک میں فی تولہ ایک سو روپیہ کی قیمت سے آتا ہے اور پھر بھی اچھا نہیں ملے گا۔ ولایت میں عنبر کو محض ایک ردّی چیز سمجھتے ہیں او رصرف خوشبوئوں میں استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ اس میں کوئی مفید خوبی نہیں۔ اگر آپ نے دوا میںعنبر ڈالناہو تو بواپسی ڈاک مجھے اطلاع دیں۔تو عنبر ہی کے خرید کے لئے مبلغ پچاس روپیہ… مولوی صاحب کے حوالہ کئے جائیںگے۔ مگر جواب بواپسی ڈاک بھیج دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
مکتوبات کے متعلق مرتب کا نوٹ
جس قدر مجھے مکتوبات مل سکتے تھے۔ وہ میں نے جمع کر دیئے ہیں والحمدللہ علی ذالک۔ ایک مکتوب کو میںنے عمداً ترک کر دیا ہے اور حضرت حکیم الامۃ کے مکتوبات میں بھی اسے چھوڑا ہے اوریہ وہ مکتوب ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیراوّل کی وفات پر لکھا تھا۔ وہ خط دراصل حضرت حکیم الامۃ کے نام تھا۔ مگر اس کی نقول آپ نے متعدد احباب کے نام بھجوائی تھیں۔ میں اس مکتوب کو متفرق خطوط کی جلد میں انشاء اللہ العزیز شائع کروں گا اور اس میں ان دوستوں کے اسماء گرامی بھی لکھ دوںگا۔ (انشاء اللہ ) جن کی خدمت میں ان کی نقول بھیجی گئی تھیں۔
میں ان تمام احباب کو جنہیں حضرت چوہدری صاحب مرحوم سے تعلق رہا ہے۔ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے معین و مددگار ہوں اور اگر کسی کے پاس چوہدری صاحب کا کوئی خط یا نظم ہویا کوئی واقعہ ان کے سوانخ حیات سے متعلق انہیں کام ہوتو وہ لکھ کر مجھے ضرور بھیج دیں۔ یہ کام قلمی اور مابی تعاون کا ہے اورمیں اپنے دوستوں سے بجا توقع رکھتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں
نام نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار
میرے لئے بھی دعا کریں کہ میںاس کام کو سرانجام دے سکوں۔ وباللہ التوفیق۔
(عرفانی)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض مکتوبات میں چوہدری صاحب مرحوم و مغفور کے اشعار کا ذکر فرمایا ہے اور اسے بہت پسند کیا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ کہ ان کو جمع کرتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کو جمع کرنا آسان کام نہیں ۔ بیس برس کے قریب ان کی وفات پر گزرتا ہے۔ تاہم میں اپنی کوششوں کو زندگی بھر چھوڑ نہ دوں گا۔ محض اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش پوری ہوجائے جو آپ نے ا س وقت ظاہر فرمائی تھی۔ میں اگر کامیاب نہ ہوا۔ تب بھی اس کی نیت کے لئے یقینا ماجور ہوں گا۔
اب جبکہ مکتوبات کے اس مجوعہ کو میں ختم کر چکا ہوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا کچھ نمونہ یہاں دے دوں۔ جو میں اس وقت تک جمع کر چکا ہوں۔ آپ کے کلام کے اندراج کے لئے بہتر ین موقعہ اور مقام آپ کے سوانح حیات کا ایک باب ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ یہ توفیق کسے ملے گی۔ میں نے پسند کیا کہ اسے کسی غیر معلوم وقت تک ملتوی کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ کچھ نمونہ حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کا یہاں دے دوں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی کسی قدر تک تکمیل کر دوں۔ جو آپ نے چوہدری صاحب کو اس کے جمع رکھنے اور طبع کرا دینے کے متعلق فرمایا تھا۔
حضرت چوہدری صاحب مرحوم کے کلام میں کسی شاعرانہ تنقید کی نہ قابلیت رکھتا ہوں اور نہ اس ضرورت سمجھتا ہوں ۔ بلکہ میں تو اپنے کلام المحبوب محبوب الکلام سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان سے خد اتعالیٰ کی رضا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ہوکر محبت تھی اور ان کی ادا پسند تھی۔ ان کے کلام کی داد جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں۔ تو اس سے بڑھ کر ان کی سعادت کیا ہو گی۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے کلام کے انتخاب میں اپنے نبقطہ خیال کو مدنظر رکھتا ہوںاور یہ بطور نمونہ ہے۔
خطاب بہ اقبال
ڈاکٹر سر اقبال آج علمی مصروف ہیں۔ کسی زمانہ میں وہ سلسلہ عالیہ سے محبت و اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ جب ایف۔اے میں پڑھتے تھے۔ تو سلسلہ کے بعض معازین کا جواب بھی نظم میں آپ نے دیا تھا۔ آپ کے خاندان کے بعض ممبر اسی سلسلہ میں شامل ہونے کی عزت و سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ مخزن نمبر ۲ جلد ۳ بابت ماہ مئی ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۴۸ پر سر اقبال نے جو اس وقت اقبال تھے۔ ایک نظم بیعت کے جواب میں شائع کی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے کسی شفیق ناصح نے انہیں بیعت کی تحریک کی تھی۔ اس کا جواب انہوں نے نظم میں مخزن کے ذریعہ شائع کیا۔ سلسلہ کے گراں قدر بزرگ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے مکرم حضرت میر حامدشاہ صاحب ؓ نے بھی انہیں ایام میں اس کا جواب منظوم نہایت لطیف شائع فرمایا اور ڈاکٹر اقبال کو ان کی ایک رویا کی یاد ۔ حضرت چودھری رستم علی صاحب مغفور نے بھی اس کا یک جواب لکھا اور یہ جواب گویا حضرت اقدس کی زبان سے دیاہے اور دنیا اس سے غافل رہی۔ مگر میںآج ۲۷ برس کے بعد اس کے بعض اشعار کو پبلک کرتا ہوں کہ اسی کی امانت ہے۔(عرفانی)
خضر سے چھپ کے کہہ رہا ہوں میں
تشنہ کام مئے فنا ہوں میں
یہی ہر اک سے کہہ رہا ہوں
حق سے خضر رہ خدا ہوں میں
وہ مرے گا چھٹیگا جو مجھ سے
فانیوں کے لئے بقا ہوں میں
ہم کلامی ہے غیرت کی دلیل
خاموشی پر مٹا ہوا ہوں میں
میں تو خاموش تھا اور اب بھی ہوں
ہاں مولا سے بولتا ہوں میں
ہم کلامی جو غیرت ہے تو ہو
پیرو احمد خدا ہوں میں
کانپ اٹھتا ہوں ذکر مریم پر
وہ دل درد آشنا ہوں میں
آشنا اور درد جھوٹی بات
آتیرے درد کی دوا ہوں میں
تنکے چن چن کر باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوںمیں
تنکے تنکے ہوا آشیاں تیرا
ایک جھونکے میں آ آپناہ ہوں میں
گل پر مردہ چمن ہوں مگر
رونق خانہ صبا ہوں میں
گل شاداب باغ احمد ہوں
رونق طانہ خدا ہوںمیں
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
مارا جائے گا توجو کہنا ہے ترا
کارواں سے نکل گیا ہوں میں
تاکہ بے خوف موت سے ہوں
مجھ میں آ کارواں سرا ہوں میں
دست واعظ سے آج بن کے نماز
کس ادا سے قضاء ہوا ہوں میں
یہ اور ہے کوئی قضاء کی نماز
اس کو ہرگز نہ مانتا ہوں میں
نہ قضاء ہو کھبی کسی سے ہرروز
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مجھ سے بیزار ہے دل زاہد
اس غرض سے کھڑا ہوا ہوں میں
مومنوں نے ہے مجھ کو پہنچانا
رندکی آنکھ سے چھپا ہوں میں
پاس میرے کب آسکے اوباش
دیدہ حود کی حیا ہوں میں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر آپ نے درد دل کا اظہار کیا اور حوالہ قلم و کا غذ کردیا۔ کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ ان اشعار میں سے چند کا انتخاب ذیل میں کرتا ہوں۔ اس سے چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا لاہور کے متعلق بھی خیال ظاہر ہوجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو عشق و محبت انہیں تھی۔ اس نے زیادہ دیر تک آپ سے جدا نہ رہنے دیا اور ایک سال کے اندر ہی آقا کے قدموں میں پہنچا دیا۔(عرفانی)
اے حضرت اقدس اب کہاں ہو
آنکھوں سے میری کہاں نہاں ہو
او جہل ہو نظر سے جب کہ خورشید
تاریک نہ کس طرح جہاں ہو
گم تجھ میں ہوا وہ رہبر خلق
لاہور! تیرا بھلا کہاں ہو
بے چین ہیں دور رہنے والے
کس حال میں اہل قادیان ہو
………
یا ربّ ہے کہاں مسیح موعود
اب قادیان میں نہیں موجود
یہ مخدوم جہاں غلام احمد
مہدی دوران مسیح مشہود
کس دیس میں لے گئے ہیں یوسف
بتلاو میاں بشیرو محمود
اس مصلح گمر ہاں کو کھو کر
لاہور رکھے امید بہبود


(۲۷۷) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نماز مقتدی بغیر سورہ فاتحہ بھی ہوجاتی ہے۔ مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو توا یک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قرات امام ہو اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہوجائے گی۔ مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی۔۲۰؍دسمبر ۱۸۸۵ء۔
(۲۸۷) پوسٹ کارڈ
علما فقرا کا خواب میں کسی دوست کے گھر جانا موجب برکات ہوتا ہے اور ایسی جگہ رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے… کبھی خواب اپنی ظاہری صورت پر بھی واقع ہواجاتی ہے۔ مگر ایسا کم اتفاق ہوتا ہے۔ ۵؍جنوری ۱۸۸۶ء۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر *** بھیجنا اور مسلمانوں پر *** بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ *** ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو *** قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۲۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کو ملی اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے۔ میں اس درد کو محسوس کرتاہوں۔ جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا رکرتا ہوں کہ آیندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے۔ میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے او ر سینہ غم سے بھرا ہے۔ خیال آتا ہے کہ
دنیا کیسی بے بنیاد ہے۔
ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو ویران بیایان دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے۔ لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔ میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خداتعالیٰ تیار کررہا ہے۔ مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھاتھا۔ ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔ مجھے اندیشہ تھا آخر اس کایہ پہلو ظاہر ہوا۔ یہ تقدیر مبرم تھی۔ جو ظہور میں آئی۔ معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی۔ یہ رحم کی بیماری تھی اوربباعث کم دنوں میں پید اہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہو گا۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھاکہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اورتین چار دفعہ روز پچکاری ہوتی اور کیسڑائل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی اوراگر خون نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھاتو کم کیا جاتا اور نربسی اورہینگ وغیرہ سے تشنج اور غشی سے بچایا جاتا۔ لیکن جب کہ خدا تعالیٰ کاحکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمارہیں۔ تیسرا مہینہ ہے دست اور مروڑ ہیں۔ کمزور ہو گئے ہیں۔ بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اورحاملہ کی غشی گویاموت ہے۔دعا کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا۔ تاریں بہت دیر سے پہنچیں۔ا ب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ ہی بہت نحیف ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں۔اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں۔ ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کودل پر غالب ہونے نہ دیں۔ میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا۔ مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے۔ شاید چھٹا ساتواں مہینہ ہے۔ وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے۔ شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۶)ملفوف
یہ خط مرزا خدا بخش صاحب کے نام ہے۔ چونکہ نواب صاحب کے ہی کے خط میں دوسرے ورق پر لکھ دیا گیاہے۔ اس لئے میں نے بھی اسی سلسلہ میں اسے درج کردیا ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم مرزا خدابخشصاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میرے گھر میں والدہ محمود کو تپ او رگھبراہٹ اور بدحواسی کی سخت تکلیف ہوئی اورساتھ ہی عوارض اسقاط حمل کے ظاہر ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا چند منٹوں کے بعد خاتمہ زندگی ہے۔ا ب اس وقت کسی قدر تخفیف ہے۔ مگر چونکہ تپ نوبتی ہے۔ا س کل اندیشہ ہے اور آپ کے گھر میں سخت تپ چڑھتا ہے۔ا ندیشہ زیادہ ہے۔اگر رخصت لے کر آجائیںتو بہتر ہے۔ آج کے تپ اندیشناک ہیں۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے اور آتے وقت ایک روپیہ کے انار بیدانہ لے آویں اور کچھ نہ لاویں کہ تمام بچے بیمار ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت حفظ ماتقدم کے طور پر امراض خون کے لئے گولیاں بھیجتا ہوں۔ جن سے انشاء اللہ القدیر مادہ جذام کا استیصال ہوتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ایک گولی جو بقدر تین فلفل کے ہو۔ ہمراہ آپ زلال مہندی کھائی جائے۔ا س طرح پر کہ ایک ماشہ برگ حنا یعنی مہندی رات کو بھگویا جائے اور پانی صرف تین چار گھونٹ ہو صبح اس پانی کو صاف کر کے ہمراہ اس گولی کے پی لیں۔ شرینی نہیں ملانی چاہئے۔ پھیکا پانی ہو پانی تلخ ہوگا۔ مگر ضروری شرط ہے کہ پھیکا پیا جائے۔ یہ رعایت رکھنی چاہئے کہ ایک ماشہ سے زیادہ نہ ہو۔ جب برداشت ہو جائے تو دو ماشہ تک کرسکتے ہیں۔ ہر ایک میٹھی چیز سے حتی الوسع پرہیز رہے۔ کبھی کبھی کھالیں اور مہینہ میں ہمیشہ دس دن دوا کھا لیں کریں۔ بیس دن چھوڑ دیا کریں۔ یہ دوا انشاء اللہ نہایت عمدہ ہے ایسے امراض میں حفظ ماتقدم کے طور پر ہمیشہ دوا کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ یعنی مہینہ میں دس دن۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور یہ خط بذریعہ ڈاک نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ جیسا کہ اس خط پر ایک نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمدسے میاں کریم بخش بھیجا گیا۔ مگر دوسرے خط سے جو اس دوائی کے متعلق ہے کہ جون ۱۸۹۹ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں بباعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا۔ میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر سرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کرغشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے اوردوران خون تک دفعہ ٹھہرجاتا ہے۔جس میں اگر خداتعالیٰ کافضل نہ ہوتو موت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے۔ آج رات پھر اس کاسخت دورہ ہوا۔ا س حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے۔ رات دس خوراک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے۔ ورنہ دل جو رئیس بدن ہے۔ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔
آپ نے دوا کے بارے میں جو دریافت کیاتھا۔ ایام امید میں دوا ہرگز نہیں کھانی چاہئے اور نہ ہمیشہ کھانی چاہئے۔ کبھی ایک ہفتہ کھاکر چھوڑ دیں اور ایک دو ہفتہ چھوڑ کر پھرکھانا شروع کریں۔ مگر ایام حمل میں قطعاً ممنوع یعنی ہر گز نہیں کھانی چاہئے۔ جب تک بچہ ہوکر دو مہینہ نہ گزر جائیں۔ اگر سرعت تنفس با اختلاج قلب ہو تو تدبیر غذا کافی ہے۔ یعنی دودھ مکھن چوزہ کا پلائو استعمال کریں۔ بہت شیرینی سے پرہیز کریں۔ شیرہ بادام۔ مقشر الائچی سفید ڈال کر پیویں۔ موسم سرما میں اسکائش ایمکیش استعمال کریں۔ یعنی مچھلی کا تیل جوسفید اور جما ہوا شہد کی طرح یا دہی کی طرح ہوتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتاہے۔ دل کو مقوی ہے۔ پھیپڑہ کوبہت فائدہ کرتا ہے۔ چہرہ پر تازگی اور رونق اور سرخی آتی ہے۔ لاہور سے مل سکتا ہے۔ مگر میری دانست میں ان دنوں میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ کسی قدر حرارت کرتا ہے۔ ان دنوں سادہ مقوی غذائیں مکھن۔ گھی۔ دودھ اور مرغ پلائو استعمال کرنا کافی ہے اور کبھی کھبی شیرہ بادام استعمال کرنا وہ دوا یعنی گولیاں وہ ہمیشہ کے استعمال کے لئے نہیں ہے۔ ایک گولی خوراک کافی ہے۔ا گر مہندی کاپانی بھی پی سکیں تو یونہی کھا لیں۔ مگر یاد رہے کہ مہندی بھی ایک زہر کی قسم ہے۔اگر پانی پیا جائے تو صرف احتیاط ہے ایک ماشہ برگ مہندی بھگوئیں وزن کر کے بھگوئیں۔ ہر گز اس سے زہر نہ ہو۔ کیوں کہ زیادہ سخت تکلیف دہ ہے۔اس پانی کے ساتھ گولی کھائیں اوراگر پانی مہندی کا پیا نہ جائے تو عرق گائوزبان کے ساتھ کھائیں۔ ہمیشہ کثرت شیرینی سے پرہیز رکھنا ضروری ہے۔ زیادہ خیریت ہے اس وقت میری طبیعت بحال نہ تھی۔ لیکن بہرحال یہ خط میں نے لکھ دیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۲۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے منظور ہے کہ مرزا خد ا بخش صاحب کی روانگی ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک ملتوی رکھی جائے اور آپ کی قادیان میں تشریف آوری کے لئے میں پسند نہیں کرتا کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء کے پہلے آپ تشریف لاویں۔ کیونکہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء سے پہلے سخت گرمی اورپریشانی اور بیماریوں کے دن ہیں۔ ریل کی سواری بھی ان دنوں میں ایک عذاب کی صورت معلوم ہوتی ہے اورمعدہ ضعیف اور وبائی ہو احرکت میں ہوتی ہے۔ لیکن ۲۲؍ستمبر کے بعد موسم میں ایک صریح انقلاب ہو جاتا ہے اوررات کے وقت اندر سوسکتے ہیںاور اطمینان کے ساتھ حالت رہتی ہے۔ا س موسم میں ارادہ کو۲۲؍ستمبر پر مصمم فرماویں اوراس سے پہلے موسم کچا اور سفر کرنا خطرناک ہے یہی صلاح بہتر ہے۔ کوئی ایسی تجویز ہو آپ کے لئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
اس خط پر کوئی تاریخ تو درج نہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جولائی کے آخر یا اگست ۱۸۹۹ء کے شروع کا ہے۔ حضرت اقدس نے جو خواہش نواب صاحب کے لئے مکان کی فرمائی تھی۔ خداتعالیٰ نے وہ بھی پوری کر دی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کوجو الہام ہو اہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آگیاہے۔ جیسا کہ یہ الہام ھوالذی ارسل رسولہ یالھدی و دین الحق اورجیساکہ یہ الہام جری اللہ فی خلل لانبیاء اور جیسا کہ یہ الہام دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔
نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک قدیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔
ایسے ہی بہت سے الہام ہیں۔ جن میںاس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے۔ لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے۔ جو ایسا سمجھتا ہے۔ جو اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت مراد ہے۔ جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔ بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مرا د ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا۔ سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے۔ اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھ لینا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین او ر اس آیت کاانکار کرنا یا استحفاف کی نظر سے اس کودیکھنا درحقیقت اسلام سے علیحدہ ہونا ہے۔ جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے۔ ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ خداتعالیٰ اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اوردنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں۔ ہمیشہ شیاطین کی راہ زنی سے اپنے تیئں بچانا چاہئے اوراسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے۔ ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علت غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور نجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت *** عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیںاور نبوت یہ ہے کہ خد اسے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا۔ سو اس حد تک مفہوم کو زہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ ا س جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔ کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمار ا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یا د رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہو نے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۷؍ اگست ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنے دعوے نبوت و رسالت کی حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ آپ نے اپنے اس دعوی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ البتہ اس کا مفہوم اور منطوق بھی کبھی قرار نہیں دیا۔ جو آپ کے معاندین ومنکرین نے آپ کی طرف منسوب کیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اورکسی قدر اس وقت دے دوں گا۔ جب آپ قادیان آئیںگے یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بڑھ کر ہے۔ اس میں بڑی بڑی قابل قدر دوائیں پڑی ہیں۔ جسیے مشک۔ عنبر۔ نرلسبی۔ مروارید۔ سونے کاکشتہ۔ فولاد یا قوت احمر۔ کونین۔ فاسفورس۔ کہربا۔ مرجان۔ صندل۔ کیوڑہ۔ زعفران یہ تمام دوائیں قریب سے کے ہیں اور بہت سا فاسفورس اس میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ دوا علاج طاعون کے علاوہ مقوی دماغ۔ مقوی جگر۔ مقوی معدہ۔ مقوی باہ اور مراق کو فائدہ کرنے والی مصفی خون ہے۔ مجھ کو اس کے تیار کرنے میں اوّل تامل تھا کہ بہت سے روپیہ پر اس کاتیا ر کرنا موقوف تھا۔ لیکن چونکہ حفظ صحت کے لئے یہ دوا مفید ہے۔ اس لئے اس قدر خرچ گوارا کیا گیا۔ چالیس تولہ سے کچھ زیادہ اس میں یا قوت احمر ہے۔ا گر خریدا جاتا تو شاید کئی سو روپیہ سے آتا۔ بہرحال یہ دوا خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گئی ہے گو بہت ہی تھوڑی ہے۔ لیکن اس قدر بھی محض خدا تعالیٰ کی عنایت سے تیار ہوئی۔ خوراک اس کی اوّل استعمال میں دو رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ تاگرمی نہ کرے۔ نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذبابیطس اور انواع و اقسام کے زہر ناک امراض کے لئے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کو ایک عجیب اثر ہے۔ سرخ گولیاں میں نے نہیں بھیجی۔ کیونکہ صرف بواسیر اور جذام کے لئے ہیں اور ذیابیطیس کو بھی مفید ہے۔ا گر ضرورت ہو گی تو وہ بھی بھیج دوں گا موجود ہیں۔
مرزا خد ابخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے۔ خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں۔ جو ہروقت ہاتھ نہیں آتے۔ کیا تعجب کہ خداتعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جائے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کوخد اتعالیٰ کاملازم ٹھہرا کر اور بد ستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اورسفر کا خرچ اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا و شام کریں۔ میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہو گا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس بیس میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یا داشتیں لکھ لیں۔ کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی۔ جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پید اکرتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امر جیسا کہ مجھے یا د آتا جائے ان کی یاداشت میں لکھا دوں۔ جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرمادیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اگست ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۳۲)ملفوف
اللہ ۹؍ نومبر ۱۸۹۹ء
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پانچ سو روپیہ کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی ……۷۵ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء دو آدمی جو نصیبین میں بر فاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیںگے۔ ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ لہذا تحریر آں محب اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو روپیہ ان کی روانگی کے لئے چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے۔ وہ صاف پڑھی نہیں گئی۔ غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہو گی نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا۔ گو اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔
اس خط پر جیسا کہ حضرت کا عام معمول تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی نہیں لکھا۔ مگر وہ نشان جس کے گرد میں نے حلقہ دے دیا ہے۔ جواللہ پڑھا جاتا ہے۔ درج ہے۔ بہرحال آپ نے بسم اللہ ہی اس کو شروع کرفرمایا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر(۳۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۲۹؍ جنوری ۱۹۰۰) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
یہ دوبارہ ہی لکھا ہے۔
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مولوی محمد اکرم صاحب مجھ کو ملا اور دل سے آخر تک پڑھا گیا۔ دل کو اس سے بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و غموم جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرماوے۔ مجھ کو (جہاں تک انسان کو خیال ہو سکتا ہے) یہ خیال جوش مار رہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں۔ لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہو ں کہ باوجود یہ کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں۔ پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا۔ دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں۔ مگر ایک قسم کی دعا ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں۔ غالباً کسی وقت کسی ظہور میں آئی ہو گی اور اس کااثر یہ ہو اہو گا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا۔ لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی۔ مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی یا ددہانی کا موجب ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرماوے اور ہر طرح سے امن میں رکھے۔تب اس کے باقی ہموم وغموم کچھ چیز نہیں۔ میر ادل چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں۔ نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا اورمدرسہ کے بارے میں انشاء اللہ استخارہ کروں گا۔ا گر کچھ معلوم ہوا تو اطلاع دوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۷؍ اگست ۱۹۰۰)نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاتحفہ پارچات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے مجھ کو مل گئے ہیں اس کا شکریہ اد اکرتا ہوں۔ ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ آں محب نے بڑی محبت اور اخلاص سے ان کوتیار کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہاء اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرف فرماوے ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پا کر تشریف لاویں۔ کیونکہ اب تک ایک سوئی او رمخالطب کی صحت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا اورجو کچھ آن محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے۔اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمیتں ہیں۔ کوئی تردد کی جگہ نہیں اور علالت طبیعت کے بارے میں جو آپ نے لکھا تھا۔ خدا تعالیٰ کافضل درکار ہے۔ سب خیر ہے۔ میں بہت دعا کرتا ہوں۔ بہتر ہے کہ اکثر مچھلی کے تیل کا استعمال شروع رکھیں اورجو تریاق الٰہی میں نے بھیجا تھا۔ ان میں سے یعنی دونوں قسموں سے کھایا کریں بہت مفید ہے اور جو آپ نے اپنے گھر کی نسبت لکھا تھا کہ مجھ کوکچھ بہت خوش نہیں رکھتیں۔ اس میں میری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے گھر کے لوگوں سے بہت احسان اور خلق اور مدارت سے پیس آیا کریں اور غائبانہ دعا کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ خیر کم خیر لاہلہ۔
انشاء اللہ بہت سی خوبیاں پید اہوجائیںگی۔ دنیا ناپائیدار ہے۔ ہر ایک جگہ اپنی مروت اور جوان مردی کانمونہ دکھلانا چاہئے اورعورتیں کمزور ہیں وہ اس نمونہ کی بہت محتاج ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ مرد خلیق پرخدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ میں یہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا۔ آج خط لکھا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ایک ضروری نوٹ از خاکسار ایڈیٹر
مکتوبات کا یہ حصہ جو میں یہاں دے رہا ہوں۔ یہ مکرمی خان صاحب میاں عبدالرحمن خاں صاحب خلف الرشید حضرت نواب صاحب قبلہ کے ذریعہ مجھے میسر آیا۔ مجھے افسوس ہے کہ ان خطوط کے لفافہ نہیں رکھے گئے۔ ورنہ ہر خط (جس پر تاریخ درج نہیں تھی) تاریخ کابا آسانی پتہ لگ سکتاتھا۔ اب بھی واقعات کے تاریخی سلسلہ سے ان کی تاریخ کاپتہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر میں دارلامان قادیان سے دور ساحل بمبئی پر انہیں ترتیب دے رہاہوں۔ جہاں اس قسم کا سامان مجھے میسر نہیںہے۔ اس لئے ہر خط پر نوٹ دینے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نوٹ ان خطوط سے پہلے دے دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔ اگر کسی خط پر مزید صراحت کی ضرورت ہوئی ہے تو وہاں بھی میں نے نوٹ دے دیا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کودیکھا نہیں۔ غانبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں۔ مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں۔ آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اورلڑکی کو بھی بفضلہ تعالیٰ آرام ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر(۳۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ مضمون پڑھ کر عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیاہے۔ نہایت قلق ہوا۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں۔ پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے۔ اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اورصرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دور ہو۔ لوگ سخت ہراساں ہو رہے ہیں زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی ر ہتی ہے۔ قیامت برپا ہے۔ اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں۔ سخت حیران ہوں کہ کیا کروں۔ اگر خد اتعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قدر سفر میں کوئی حرج نہیں۔ تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں۔ مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہئے۔ اس جگہ نہ ماجیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ بٹالہ سے کرنا چاہئے۔ آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے۔ ام حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اوربچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں۔ کوئی عورت نہیں جوا ن کی حفاظت کرے اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہوتو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھال لیں اوروہ بالکل ویرانہ حالت میں ہیں۔ باقی سب طرح خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ بیس روپیہ کا آتا ہے ساتھ لے آویں۔ اس کی قیمت اس جگہ دی جائے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اورڈس انفکٹ کے لئے رسکپوراس قدر بھیج دیں۔ جو چند کمروں کے لئے کافی ہو۔
مکتوب نمبر(۳۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا الحمد اللہ والمنۃ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی۔ گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے۔ اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں۔ لیکن ڈاکٹر کو مشورہ ضروری ہے۔ کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اورصحت کس قدر ہے۔ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں۔ کیوں کہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہو سکتی ہے اور گو ڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا اور قادیان کی آب وہوا نہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے۔ آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلا توقف قادیان میں چلے آویں۔ باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو ر ہا ہے۔ کل آٹھ آدمی مرے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم کرے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ والمنۃ عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے الحمدللہ ثم الحمد للہ اب میرے نزدیک (واللہ اعلم) مناسب ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں۔ اس میں آب وہوا کی تبدیلی ہو جائے گی۔ ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں۔ بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہو سکتی ہے۔ بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے۔ تفرقہ دور ہو جائے گا اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے۔ ارد گرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی اس جگہ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط میں نے پڑھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے۔ وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی۔ یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا ہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا۔ اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمدور فت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ آناضروری تھا۔ بلکہ اس موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آنا ضروری تھا۔ بلکہ اس موقع پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارک باد کے لئے آئیں۔ مگر آپ کی طرف سے ایسادروازہ بند رہا کہ گویا سخت ناراض ہیں۔اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ ناراض ہیں۔ تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے۔ ایسے دروازے محض آمدورفت کے لئے ہوتے ہیں اورجب آمدورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے۔ جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو۔اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا۔ لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے۔ اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی۔اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اوردرحقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے کہی ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے۔ امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب سچی ہمدردی رکھتے ہیں۔ آپ بھی اس میں ترقی کریں۔ خداتعالیٰ ہرایک آفت اور بیماری سے بچاوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عنایت علی صاحب کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے۔ ورنہ باوجود اس قدر بار بارلکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا۔ اس صورت میں آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی۔ ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب کہ وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کرچکے۔ اس صورت میں اس جگہ بھیج سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردد ہوا۔ خد اتعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے۔اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے۔ اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں۔ تو روبرو دیکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اوروہ آپ کے دل کا ددر دور کرے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵؍ مارچ ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںاس کام میں بالکل دخل نہیں دیتا۔ آپ کا کلی اختیار ہے۔ اس وقت مجھے وہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے۔ انتم اعلم بدنیا کم اور سرمایہ لنگر خانہ کا یہ حال ہے کہ گھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ کچھ روپیہ نہیں دیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس کاخرچ متفرق ہوتا رہا۔ میرے پاس اس وقت شائد پانچ سوروپیہ کے قریب ہوگا۔ جو لنگر خانہ کے لئے جمع تھے۔ باقی سب خرچ ہوچکا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلاء ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپیہ بہت جمع ہوتا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ان اخراجات کا ذمہ وار ہو جو ہر ایک پہلو سے ہو رہے ہیں تو وہ اس روپیہ کو اپنے پاس رکھے تو مجھے اس رنج و بلا سے سبکدوشی ہو۔ خواہ مخواہ تفرقہ طبیعت ہر وقت لگا رہتا ہے اور موجب آزار ٹھہرتا ہے۔
مکتوب نمبر(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس کا پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے۔ مجھے اوّل سے معلوم ہے کہ نور محمد کے لڑکے کی شکل اچھی نہیں ا ور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے۔اگر سادات میں کوئی لڑکی ہو۔جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں۔ا گر یہ نہ ہو سکے تو پھر دوسری شریف قوم میں سے ہو۔ مگر سب سے اوّل اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے۔ا گر ایسا ظہور میں آگیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کوٹلہ سے پختہ ہوجائیںگے اور اکثر وہاںکے رہنے کا بھی اتفاق ہو گا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے۔ سب امر اللہ تعالیٰ کے اخیتار میں ہے۔ امیدکہ پوری طرح آں محب کوشش فرماویں۔ کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امرہے۔ خدا تعالیٰ پوری کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔
اس عاجز نے دوسو روپیہ آں محب سے طلب کیا ہے۔ انیٹوں کی قیمت اور معماروں کی اجرت میں برسات اب سر پر ہے۔اگر اس وقت تکلیف فرما کر ارسال فرماویں تواس غم سے کہ ناگہانی طور پر میرے سر پر آگیا ہے مجھے نجات ہو گی ۔ مجھے ایسی عمارات سے طبعاً کراہت اور سخت کراہت ہے۔ اگر آپ کی نیت درمیان نہ ہوتی تو میں کجا اور ایسے بیہودہ کام کجا۔ آپ کی نیت نے یہ کام شروع کرایا۔ مگر افسوس اس وقت تک یہ بیکار ہے جب تک کہ اورپر کی عمارت نہ ہو۔ عمارت کے وقت تو یہ شعر نصب العین رہتا ہے۔
عمارت در سرائے دیگر انداز۔ کہ دنیا را اساسے نیست محکم
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر(۴۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ خداتعالیٰ آپ کوان مشکلات سے نجات دے۔ علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلنت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ درحقیقت بہت کمزور ا ور نحیف ہو رہے ہیںا ور جگر بھی کمزور ہے۔ عمدہ خون بکثرت پید انہیں ہوتا ۔ تو ایسی صورت میں آپ کاشدائد سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذولفقار علی خاںجو صحیح اور تندرست ہیں۔ ان تکالیف کاتحمل نہ کریں۔اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ مضائقہ بھی نہ تھا۔ مگر یہ بے صبری اور بیجا شتاب کاری سے دور نہیں ہو سکتیں۔ صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوش مندی سے ان کا علاج کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس خطرناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتت اعدا ہوں۔ پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آگیا تھا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں۔ غرض میری یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے اور اگر ابھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہوجائیں۔ خط واپس ہے۔ اس وقت مجھے بہت سردرد ہے۔ زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ‘
مکتوب نمبر(۴۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
میں نے آپ کے تمام خطوط مرسلہ پڑھ لئے۔ میرے نزدیک اب کفالت شعاری کے اصول کی رعایت رکھنا ضروریات سے ہے۔ اس لئے اب جواب کافی ہے۔ یعنی نسبت میر عنایت علی کہ چونکہ وقت پر وہ حاضر نہیں ہوسکے اس لئے بالفعل گنجائش نہیں اور آئندہ اگر گنجائش ہوئی تو اطلاع دے سکتے ہیں اور مرزا خدا بخش صاحب کے صاحبزادے چونکہ بباعث کمی استعداد تعلیم پانے کے لائق نہیں۔ ان کو بہ توقف رخصت کرنا بہتر ہے۔ ناحق کی زیر باری کی کیا ضرورت ہے اور افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے۔ ابھی وہ قابل تعریف نہیں۔ شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں تو اور تخفیف کی صورتیں پیدا ہو جائیں اور دعا تو کی جاتی ہے۔ مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے۔ خد اتعالیٰ تکالیف سے آپ کو نجات بخشے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۰)ملفوف
(اصل خط نواب صاحب)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
التجا ہے کہ بعد ملا خطہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے۔
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی کوشش و پنج ہو تی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے۔ اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ایک قدرت اللہ خاںصاحب اور دوسرے عنایت علی صاحب۔ یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں۔ اس سے اور بھی طبیعت میں بیج وتاب ہے۔ میراجی نہیںچاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلاقصور موقوف کر دوں۔ اب وقت یہ پیش آئی ہے کہ سید عنایت علی کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں۔ مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں۔ اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے ۔ اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اورمیرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی سال کام کرسکے۔ وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانت دار ہیں۔ مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کی علیحدہ کر دوں۔ یہ میری سال گزشتہ سے منشاء تھی۔مگر صرف ا س سبب سے کہ وہ نیک ہیں۔دیانت دار ہیںا وراحمدی ہیں میں رکا تھا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جوفائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے۔ پس اب میں نہایت ہی مترددہوںکہ ان کو موقوف کردوں کہ نہیں۔ کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک وقت ہے کہ میںنے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا۔ مگر وہر جگہ ناقابل ہی ثابت ہوئے۔
مکتوب نمبر(۵۱)ملفوف (نواب صاحب کاخط)
سیدی مولانیٰ مکرمی معظمی طبیب روحانی سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بد قسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے۔ یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے۔ اب اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے۔
ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی۔ وہ میرے گھر کے لوگوں کو یہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی میں اب خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خودہی باز نہ آئیں گے۔ جب تک میں خاموش رہوں۔ تاکہ دل سے ان کو یہ محسوس ہو اور خود دل سے معافی چاہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک پرچہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ کر بھیجا ہے تاکہ حضور کی خدمت میں پیش کروں۔ پس اب عرض ہے۔ بقول برما منگر یر کرم خویش مگر از خورد ان خطا واز بزرگان عطا۔ آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرمادیں۔ (راقم محمدعلی خاں )
حضرت اقدس کا مکتوب
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا۔ وہ درحقیقت ایساہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں۔ سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلم ناصح اورشفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کر وں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے۔ اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کومعاف کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے سچی پاکیزگی اور سچی دینداری سے پورے طور پر متمنع فرمائے۔ آمین ثم آمین اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التقات عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام ا حمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
عرض حال
میں اپنی زندگی کایہ بھی ایک مقصد سمجھتا ہوںکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر قسم کی پرانی تحریروںکو جو کبھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔نایاب ہو چکی ہیں اورلوگوںکو خبر بھی نہیں ……کروںاور جمع کرتا رہوں۔ اس سلسلہ میں اب تک بہت کچھ شائع ہو چکاہے اورابھی کچھ باقی ہے۔ میںخد اکا بہت شکر کرتا ہوں کہ مکتوبات احمدیہ کے سلسلہ میں پانچویں جلد( جو حضرت کے ان مکتوبات پر مشتمل ہے۔ جو آپ نے اپنے دوستوں کو لکھے)کا چوتھا نمبر شائع کر رہا رہوں۔ یہ مکاتیب نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے نام اور ممکن ہے کہ آپ کے نام کے اور خطوط بھی ہوں۔ مگر مجھے جو مل سکے ہیں میں نے شائع کردئیے ہیں اور اگر اور مکتوبات میسر آئے تو وہ بھی نمبر کے ضمیمہ کے طور پر شائع کر سکوں گا۔ وباللہ التوفیق۔
مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ افسوس ہے ابھی تک جماعت میں ایسے قدر کی تعداد بہت کم ہے۔ جوبیش قیمت موتیوں کی اصل قدر کریں۔
بہرحال میں اپنا کام جس رفتار سے ممکن ہے کرتا رہوں گا۔ جب تک خدا تعالیٰ توفیق دے۔ تاہم دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام میں میرے مدد گار ہوں۔
والسلام
خاکسار
عرفانی کنج عافیت قادیان دارلامان
یکم فروری ۱۹۲۳ء

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے مکتوبات حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیرکوٹلہ کے نام
مکتوب نمبر( ۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
از طرف عاید باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدباخویم محمد علی خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کاخط پہنچا۔ اس عاجز نے جو بیعت کے لئے لکھا تھا۔ وہ محض آپ کے پہلے خط کے حقیقی جواب میں واجب سمجھ کر تحریر ہوا تھا۔ کیونکہ آپ کاپہلا خط اس سوال پر متضمن تھا کہ پر معصیت حالت سے کیونکر رستگاری ہو۔ سو جیسا کہ اللہ جلشانہ نے اس عاجز پر الفا کیا تحریر میں آیا اورفی الحقیقت جذبات نفانیہ سے نجات پانا کسی کے لئے بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ عاشق زار کی طرح خاکپائے محبان الٰہی ہو جائے اور بصدق ارادت ایسے شخص کے ہاتھ میں دے جس کی روح کو روشنی بخشی جاوے تا اسی کے چشمہ صافیہ سے اس فردماندہ کو زندگی کا پانی پہنچے اور اس تر وتازہ اور درخت کی ایک شاخ ہوکر اس کے موافق پھل لاوے۔ غرض آپ نے پہلے خط میں نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ سو آپ کو وہ علاج بتلایا گیا۔ جس کو سعید آدمی بصد شکریہ قبول کرے گا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ کاوقت نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی کیا کیا دیکھنا ہے اورکیا کیا ابتلا درپیش ہے اوریہ جو آپ نے لکھا ہے کہ میں شیعہ ہوں اس لئے بیعت نہیں کرسکتا ۔ سو آپ کو اگر صحبت فقراء کاملین میسر ہو تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ شیعوں کا یہ عقیدہ کہ ولایت اور امامت بارہ شخص پر محدود ہو کر آیندہ قرب الٰہی کے دروازو ںپر مہر لگ جائے تو پرپھر اس سے تمام تعلیم عبث ٹھہرتی ہے اور اسلام ایک ایسا گھر ویران اور سنسان ماننا پڑتا ہے۔ جس میں کسی نوع کی برکت کانام نشان نہیں اور اگر یہ سچ ہے کہ خد اتعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آیندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں۔ توخدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہو گا۔ گویا وہ جلتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مفروار نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر پنج وقت نماز میںیہ دعا پڑھتے ہیں
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم
کیونکہ اس دعا کے تو یہ معنی ہیںکہ اے خدائے قادر ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تونے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا۔ پس یہ آیت صاف بتلائی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیار امصار میں بھیجا ہے۔
اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے
یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔
خداتعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی۔ اس دن قیامت آجائے گی۔ خداتعالیٰ ہر ایک کو راہ راست کی ہدائت کرے۔
پرانا عقیدہ ایسا مو ثر ہوتا ہے کہ بجائے دلیل ماناجاتا ہے اور اس سے کوئی انسان بغیر فضل خداتعالیٰ نجات نہیں پاسکتا۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے۔ کہ اس کی آزمائش کروں۔
٭ کتاب براہین احمدیہ کا اب تک حصہ پنجم طبع نہیں ہوا ہے۔ امید کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جلد سامان طبع کا پیدا ہوجائے۔ صرف کتاب کے چند نسخے باقی ہیں اور بطور پیشگی دئے جاتے ہیں اور بعد تکمیل طبع باقی انہی کو ملیں گے۔ جو اول خریدار ہوچکے ہیں ۔ قیمت کتاب سوروپیہ سے پچیس روپیہ حسب مقدرت ہے۔ یعنی جس کو سو روپیہ کی توفیق ہے وہ سوروپیہ ادا کرے اور جس کو کم توفیق ہے وہ کم مگر بہرحال پچیس روپیہ سے کم نہ ہواور نادار کو مفت للہ ملتی ہے۔ آپ جس صیغہ میں چاہیں لے سکتے ہیں اور چاہیں تو مفت بھیجی جاوے۔
والسلام
احقر عباد اللہ غلام احمد
ازلودہانہ محلہ اقبال گنج
شہزادہ حیدر
۷؍اگست ۱۸۹ء
مکتوب نمبر (۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٰ الکریم۔
بخدمت اخویم عزیزی خان صاحب محمد علی خاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
عنایت نامہ متضمن بہ دخول درسلسلہ بیعت این عاجز موصول ہوا۔ دعا ثبات و استقامت درحق آں عزیز کی گئی۔
ثبلتکم علی للتقویٰ والا یمان وافتح لکم ابواب الخلوص و المجتہ والفرقان امین ثم امین۔
اشتہار شرائط بیعت بھیجا جاتا ہے۔ جہاں تک وسعت و طاقت ہو اس پر پابند ہوں اور کمزوری دور کرنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد چاہتے رہیں۔ اپنے رب کریم سے مناجات خلوت کی مداومت رکھیں اور ہمیشہ طلب قوت کرتے رہیں۔
جس دن کا آنا نہایت ضروری اور جس گھڑی کا وارد ہوجانا نہایت یقینی ہے۔ اس کو فراموش مت کرو اور ہروقت ایسے رہو کہ گویا تیار ہو کیونکہ نہیں معلوم کہ وہ دن اور گھڑی کس وقت آجائے گی۔ سو اپنے وقتوں کے محافظت کرو اور اس اس سے ڈرتے رہو۔ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے۔ جو شخص قبل از بلا ڈرتا ہے۔ اس کے امن دیا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص بلا سے پہلے دنیا کی خوشیوں میں مست ہورہا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے دکھوںمیں ڈالا جائے گا۔ جو شخص اس قادر سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کے حکموں کی عزت کرتاہے۔ پس اس کو عزت دی جائے گی۔ جو شخص نہیں ڈرتا اس کو ذلیل کیا جائے گا۔ دنیا بہت ہی تھوڑا وقت ہے۔
بے وقوف وہ شخص ہے جو اس سے دل لگا وے اور نادان ہے وہ آدمی جو اس کے لئے اپنے رب کریم کو ناراض کرے۔ سو ہو شیار ہو جائو تا غیب سے قوت پائو۔ دعا بہت کرتے رہو اورعاجزی کو اپنی خصلت بنائو۔ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زباں سے دعا کی جاتی ہے۔ کچھ بھی چیز نہیں۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰۃ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جائو اوراپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک اونیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے۔خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
اے رب العالمین ! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔
تونہایت رحیم وکریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔
آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع ہوئے تو انہوں نے تامل نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں نواب صاحب کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں۔ بلکہ مخالفین اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ مگر الہامات کے بارے میں مجھ کو نہ اقرار تھا نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہو سکا تو میں سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط وکتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودہانہ ملنے گیا تواس وقت میری تسکین خوب ہو گئی اور آپ کو باخدابزرگ پایا اور بقیہ شکوک کو پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو سکتا ہے۔ تب میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آیندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ سچے مجدو اوردنیا کے لئے رحمت ہیں۔
جیساکہ پہلے خط سے ظاہر حضرت اقدس اگست ۱۸۹۰ء میں لودھانہ ہی تھے۔ اس لئے کہ وہ خط لودہانہ سے ہی حضرت نے لکھا ہے۔ پس ۱۸۹۰ء کی آخری سہ۶ماہی میں غالباً نواب صاحب کے شکوک وغیرہ صاف ہو گئے اور آپ نے سلسلہ بیعت میں شمولیت اختیار کی۔ اگر میں صحیح تاریخ بیعت بھی معلوم کر سکا تو وہ کسی دوسری جگہ درج کردی جائے گی۔وباللہ التوفیق۔عرفانی۔
مکتوب نمبر(۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مشفقی عزیزی محبی نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا۔ الحمد للہ والمنۃ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو صحت بخشی اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے اور عمر اور راحت اورمقاصد دلی میںبرکت اور کامیابی بخشے۔ اگرچہ حسب تحریر مرزا خدابخش صاحب آپ کے مقاصد میں سخت پیچدگی ہے۔ مگر ایک دعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہو اکہ آپ میرے پاس موجود ہیں اورایک دفعہ گردن اونچی ہو گئی ا ورجیسے اقبال اورعزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ ابھارتا ہے۔ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس صورت کے ظہور کا زمانہ کیا ہے۔ مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی کا اقبال اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلشانہ کی طرف سے آپ کے لئے مقررہے۔ اگر اس زمانہ نزدیک ہو یا دور ہو سو میں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا۔ مگر آج خوش ہوں۔ کیونکہ آپ کے مال کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ کے لئے میں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے دست کرنے کے لئے میں نے ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے۔ متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے۔ مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آں محب بوجہ ضعف و نقاہت ایسے متبرک جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس حالت میں مناسب ہے کہ آں محب اگر حرج کار نہ ہو تو مرزا خدا بخش صاحب کو روانہ کر دیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء
مکتوب نمبر(۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
میرے پیارے دوست نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت عین انتظار میں مجھ کو ملا۔ جس کو میں نے تعظیم سے دیکھا اور ہمدردی اور اخلاص کے جوش سے حرف حرف پڑھا۔ میری نظر میں طلب ثبوت اور استکشاف حق کا طریقہ کوئی ناجائز اور ناگوار طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ سعیدوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ورطہ مذبذبات سے نجات پانے کے لئے حل مشکلات چاہتے ہیں۔ لہذا یہ عاجز آپ کے اس طلب ثبوت سے ناخوش نہیں ہوا۔ بلکہ نہایت خوش ہے کہ آپ میں سعادت کی وہ علامتیں دیکھتا ہوں جس سے آپ کی نسبت عرفانی ترقیات کی امید بڑھتی ہے۔
اب آپ پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میں نے مباہلہ سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا۔ا گر امر متنازعہ فیہ میں قرآن اورحدیث کی رو سے مباہلہ جائز ہو تو میں سب سے پہلے مباہلہ کے لئے کھڑا ہوں ۔ لیکن ایسی صورت میں ہرگز مباہلہ جائز نہیںجب کہ فریقین کا یہ خیال ہو کہ فلاں مسئلہ میں کسی فریق کی اجتہاد یا فہم یا سمجھ کی غلطی ہے۔ کسی کی طرف سے عمداً افتدا یہ دروغ باقی نہیں کیونکہ مجرو ایسے اختلافات ہیں۔جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔
اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔
(۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔
(۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اور صاف صاف بیان سے اپنا حق ہونا ظاہر کرے جب اس وعظ سے فراغت ہو جائے تو درخواست کنندہ مباہلہ اٹھ کر یہ کہے کہ وعظ میں نے سن لیا۔ مگر میں اب بھی یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص کاذب اور مفتری ہے اور اس یقین میں شک و شبہ کو راہ نہیں بلکہ روئیت کی طرح قطعی ہے۔ ایسا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ جو کچھ میںنے سمجھا ہے وہ ایسا شک و شبہ سے منزہ ہے کہ جیسے روئیت تب اس کے بعد مباہلہ شروع ہو۔ مباہلہ سے پہلے کسی قدر مناظرہ ضروری ہوتا ہے۔ تا حجت پوری ہو جائے۔ کبھی سنا نہیں گیاکہ کسی نبی نے ابھی تبلیغ نہیں کی اور مباہلہ پہلے ہی شروع ہو گیا۔ غرض اس عاجز کومباہلہ سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر اسی طریق سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کا پسند کیا ہے۔ مباہلہ کی بناء یقین ہوتی ہے نہ اجتہادی خطا و صواب پر جب مباہلہ سے غرض تائید دین ہے۔ تو کیونکر پہلا قدم ہی دین کے مخالف رکھا جائے۔
یہ عاجز انشاء اللہ ایک ہفتہ تک ازالۃ الااوہام کے اوراق مطبوعہ آپ کے لئے طلب کرے گا۔ مگر شرط ہے کہ ابھی تک آپ کسی پر ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس کامضمون اب تک امانت رہے۔ اگرچہ بعض مقاصد عالیہ ابھی تک طبع نہیں ہوئے اور یک جائی طور پر دیکھنا بہتر ہوتا ہے۔ تا خدانخواستہ قبل ازوقت طبیعت سیر نہ ہو جائے۔ مگر آپ کے اصرار سے آپ کے لئے طلب کروں گا۔ چونکہ میرا نوکر جس کے اہتمام اور حفاظت میں یہ کاغذات ہیں۔ اس جگہ سے تین چار روز تک امرتسر جائے گا۔ اس لئے ہفتہ یا عشرہ تک یہ کاغذات آپ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ آپ کے لئے ملاقات کرنا ضروری ہے۔ ورنہ تحریر کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً استکشاف کرنا چاہئے۔
خاکسار
غلام احمد
نوٹ:۔ اس خط پر تاریخ نہیں ہے۔ لیکن ازالہ اوہام کی طبع کا چونکہ ذکر ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ ۱۸۹۱ء کا یہ مکتوب ہے۔ نواب صاحب قبلہ نے آپ کو مباہلہ کی درخواست منظور کرنے کے متعلق تحریک کی تھی۔ جو عبدالحق غزنوی وغیرہ کی طرف سے ہوئی تھی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ مکتوب لکھا۔ ا س مکتوب سے آپ کی سیرۃ پر بھی ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور آپ کے دعا وہی پر بھی جب مباہلہ کے لئے آپ کھڑے ہونے کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ تو صاف فرماتے ہیں کہ پہلے یہ عاجز انبیاء کے طریق پر شرط نصیحت بجا لائے اپنے سلسلہ کو ہمیشہ منہاج نبوت پر پیش کیا ہے۔ دوسرے آپ استکشاف حق کے لئے کسی سوال اور جرح کو برا نہیں مانتے۔ بلکہ سایل کو شوق دلاتے ہیں کہ وہ دریافت کرے۔ اس لئے کہ اسے آپ سعیدوں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سردار محمد علی خان سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ …… ۲۸۱ روپیہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جزاکم اللہ خیراً۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت درپیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ خداووند کریم و قادر اس خدمت للہی کا آپ کو بہت اجردے گا۔ واللہ یحب المحسین۔آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا موقعہ ملا۔ یقین کہ خداتعالیٰ اس کو قبول کرے گا اور جس طرح چاہے گا اس کی برکات ظاہر کرے گا۔ میں آپ کوخبر دے چکا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بشارت کے طور پر ایک امر دیکھا ہوا ہے۔ گو میں ابھی اس کو کسی خاص مطلب یا کسی خاص وقت سے منسوب نہیں کرسکتا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ جانتا ہوں کہ وہ آپ کے لئے کسی بہتری کی بشارت ہے اور کوئی اعلیٰ درجہ کی بہتری ہے۔ جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خداوند ذوالجلال کی جناب میں کوئی کمی نہیں۔ اُس کی ذات میں بڑی بڑی عجائب قدرتیں ہیں اور وہی لوگ ان قدرتوں کو دیکھتے ہیں۔ کہ جووفاداری کے ساتھ اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عہد وفا کو نہیںتورٹا اور صدق قدم سے نہیں ہارتا اورحسن ظن کو نہیں چھوڑتا۔ اس کی مراد پوری کرنے کے لئے اگر خداتعالیٰ بڑے بڑے محالات کوممکنات کر دیوے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے بندوں کا اس کی نظر میںبڑی ہی قدر ہے۔ کہ جو کسی طرح اس کے دروازہ کو چھوڑتا نہیں چاہتے اور شتاب بازو اور بے وفانہیں ہیں۔
یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اورارادہ ہے کہ تین ہفتہ تک لاہور رہے۔ اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کی اس وقت پید اہو تو یقین کہ لاہور میں ملاقات ہو جائے گی۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء
مشفقی اخویم مرزا خدابخش صاحب کو السلام علیکم
مکتوب نمبر(۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گزر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا۔ چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کی کمی فرصت تھی۔ کیونکہ ہر روز مضمون تیار کر کے دیاجاتا ہے۔ اس لئے جواب لکھنے سے معذور رہا اور ّآپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا۔ آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے بعض امور سے آپ کو آگا ہ کرنا اور آپ کے لئے جو بہتر ہے۔ اُس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے۔ لہذا چند سطور آپ کی آگاہی کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں۔
یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعودہونے کادعویٰ بامر اللہ کیا ہے۔ تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذب ذب اور کشمش میں مبتلا پڑ گئے ہیں اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہئے۔
(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خود بخود اللہ جلشانہ نے اجازت دی ہے اور یہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پید ا ہوئی۔ مجھے معلوم ہوتا کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اوّل حال میں صرف اس لئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر بھی ان کاجوش نہ تھا۔ جو بعد ا س کے ہوا۔ لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں۔اس لئے مجھے حکم ہو اہے کہ مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کردوں۔ سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصے کے ساتھ ہی شائع ہوگی۔ اوّل دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے۔ کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر *** بھیجنا اور مسلمانوں پر *** بھیجنا جائز نہیں۔مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اسرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اورحکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو توکفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے۔ جو کافر ٹھہراتا ہے۔ اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہو ا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور انباء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کرو۔
(۲) نشان کے بارے جو آپ نے لکھا ہے کہ یہ بھی درخواست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں او راپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل وقال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تقریر کو پہچان لیتی ہے اور باطل جو تکلیف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے۔ وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جائے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کے لئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوبوں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اورنہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب نہیں کیا کوئی ثابت نہیںکرسکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیاتھا کہ یہ جھوٹوں کامنہ نہیں ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے۔
دوسرے قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ او ر کرامت طلب کرتے ہیں اور ان کے حالات خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کے ساتھ نہیں بیان کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتاہے واقسمو ا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء تھم ایۃ لیومنن بھاقل انما الا یات عنداللہ ومایشعر کم انھا اذا جائت لایومنون یعنی یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خداتعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیںگے تو کبھی ایمان نہ لائیںگے۔ پھر فرماتا ہے یوم یاتی بعض ایات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل یعنی جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہو گا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لاتا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا پھر فرماتا ہے ویقولون متی ھذا لوعذان کنتم صادقین قل لا املک لنفسی ضراً ولا نفعاً الا ماشاء اللہ کل امۃ اجل الخ۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اوریہ وعدہ کب پورا ہو گا۔ سو ان کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں۔نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا۔ مگر جو خدا چاہے۔ ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جوٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے وان کان کبرعلیک اعراضھم فان اسطعت ان تبتغی نفقافی الارض ااوسلما فی السما فتاتیھم بایۃ ولوشاء اللہ لجعھم علیٰ الھدی فلا تکونن من الجاھلین۔یعنی اگر تیرے پر اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے ۔ سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلاجا اور ان کے لئے کوئی نشان لے آ اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جونشان مانگتے ہیں ہدائت دیتا تو جاہلوں میں سے مت ہو۔ اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے۔ بلکہ قسمیں کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے۔ مگر جلشانہ‘ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخص نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں۔ جیسا کہ ابھی آیت لا یِنفع نفسا ایمانھا تحریر ہوچکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ ولقد جا ء تھم رسلھم با لبینات فما کانو الیومنوا بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔
یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔
اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے کہ جب ہم مثلاً ملایک کہ وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خداتعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہر تے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ہم ان تمام حیوانات پر ایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملایک اور دوسری سب چیزیں برابر خداتعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملایک پر وہ غائب میں ہیں اور اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہو گا یعنی اگر اس وقت کوئی شخص خداتعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اور اس کے ملایک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کرکے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہو گا۔ کیوں منظور نہ ہو گا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہو گا تا اس سے ماننے والے کاصدق ثابت ہو۔
اب پھر غور کر کے ذرا اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کرکے اس بات کاجلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنی بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سو چکر اور قراین مرحجہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ تجلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور انبیاء اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر سعید آدمی جو خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔ ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں اور جولوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ خدا ئے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اوربے قدر ہیں۔ بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جولوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کوقبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے اور کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذاب اور جھوٹا ہے۔ کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداتاً خیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ مفتری ہے۔ مکار ہے۔ دردغگو ہے۔ جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے۔ پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے۔ تب اس پر عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اورصداقت ظاہر کرنے کے لئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے۔ سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو پہلے مان چکے ہیں اور انصار حق میں داخل ہو گئے تھے۔ یاد جنہوں اپنی زبانوں اور اپنی قلموں سے اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیاتھا۔ لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ رائوں کو ظاہر کر چکے تھے۔ وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رئوس الاشہاد شائع کرچکے ۔ اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے۔ اس لئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کے لئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اورہزاروں لوگوں پر ان کی حمایت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعوے کرتے تھے کہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں۔
میں پہلے اس سے بیان کرچکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قراین صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے یومنون بالغیب یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے۔ جیساکہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اورگو بعد اس کے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے۔ لیکن صحابہ کرا م ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔
اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوںنے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا او رجب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے۔ توبیان کیاکہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاامین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتاہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھیں۔ ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر ایک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضلیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقوے کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔ اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری تعلیموں سے صاف تراور پاک تر اور سراسرا نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للہی جوش ان میں اعلیٰ درجے کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے۔ پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہو ں نے قبول کر لیا کہ وہ درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات ظاہر نہیںہوئے۔ بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری رہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں۔ تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے یہ زمانہ ابتلاکا ہوتاہے اور اس میں کوئی کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا۔پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کااپنی نظر دقیق سے ایمان لاتا لے آتا ہے اورعوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں۔ تو ان پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کے لئے نشان ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیںجو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر روز تکذیب سے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ رائوں کو وہ بدل نہیں سکتے۔ آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں۔
مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے۔ تو پھر اس کو مان لینا ایمان میں داخل نہیں مثلاً اب جو دن کاوقت ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے۔ تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہو گی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے۔ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیاسے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہو اتھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کانہیں سمجھتے تھے اورچاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے۔ تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔
ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔ لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث ہوتا اور موجوہ خرابیوں کی اصلاح کے لئے درپیش قدمی دکھلاتا سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا۔ اس لئے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودہویں صدی کا مجدو مسیح ہو گا اوراحادیث صحیحہ ……پکار پکار کرکہتی ہے کہ تیرہویںصدی کے بعد ظہور مسیح ہے۔ پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے۔ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودہویں صدی کے سر پر مسیح موعود پید انہیں ہوا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطاجاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اورملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہمکلا م ہو ۔ اس کا نام منجانب اللہ خوا ہ مثیل مسیح خوا ہ مثیل موسی ہو یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں ۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ *** ہوتا ہے نعوذ بااللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو *** قرار دیا اور مفتری اور کاذب اور باپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کوخدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب یہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خداتعالیٰ سے اپنا مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح موعود کا دامن پاک صاف کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں کہ یہی وجہ ہے کہ خود مسیح موعود نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی مفید مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہیں آئے گا پھر اگر ملیں جائوں تو اسے تم پاس بھیج دو ں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے نقصیر وار ٹھہرائے گا گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اورروح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے وہ میری چیزوں سے پائے گی (۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ لوکا ۱۴؍ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے۔ اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر آتا ہے۔
ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا۔ اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گااس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کے رو سے وہ مسیح ہو گا۔ جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اورآدم بھی اورابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے۔ فبہدی ھم اقتدہ یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شاخیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیںاور درحقیقت محمد کانام صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیںکہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تب ہی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اورصفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسب پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر آنے والاہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح سے یہ شدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہو اہے پس اس حدیث میں حضرت مسیح موعود کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا سو ایسا ہی ہو اکہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے ناتمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا یہود اورنصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں او رمسیح کی روح کو خوشی پہنچائی۔ یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا۔ فالحمداللہ۔
پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی ایسا ہی انہوں نے کیا نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہو گیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کے لئے خداتعالیٰ سے دعا کریں یا استقاء کی نمازیں پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسا یا جائے اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کے لئے کوئی مشکل پید ا نہ ہو اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پید ا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی اور ایک مرد کا نطفہ لے کر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑہا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اوّل نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کر کے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا وے جو اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنادے جو اس کو ہی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے اب سمجھنا چاہئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی اُمت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بڑا مفتری ہے پہلے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خداتعالیٰ کا کلام سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدابنتا ہے پھر جب اوّل دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش ہو جائے گی اور مخلوق کو خدابنانے کی جہالت بڑی زور سے پھیلے گی اوریہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب کہ قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہو گا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا ہے کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندورنی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اورحقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے مہدی پید اہو گا او راس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ معنی اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں صدہا ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحتق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحا اور اتفیاس امت میں موجود ہیں کہ قحبہ دنیا کی طرف پشت دے کر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان مسجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح عیسائیوں کے دل آزاد عظوں اور نفرتی کاموں اور مشترکہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خداتعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پید اکردیا اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح میں بھی اپنی امت کے لئے نہیں آسکتا تھا کیونکہ وہ تونابود ہو گئی اور اب صفحہ دنیا میں ذریت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میںچالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گوئیے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیت کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلا م کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھٹیر کے پیرایہ میں اسلام کی بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بناکر اور مکتی فوج اس کانام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کاروایئوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بند گان خداکو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہہ کے نزول کے لئے جو اس حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی۔ سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کے لئے ایک بڑی علامت ہے مگر ان کے لئے جو سمجھتے ہیں اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے۔ جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں۔ وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں۔
(۳)تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے۔ یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال تبصریح بتلایا ہے۔ جیسا کہ ’’نشان آسمانی‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہاہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے۔ بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہے گا۔ جس کی طرف خط رجسڑی کرکے نہ بھیجا ہو۔ مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا۔اب جو ہماری قوم کے مُلا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ان کی دو وغگوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو اس میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا۔ پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں او ر میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے۔ کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے۔ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ پھر خداتعالیٰ خود فیصلہ کردے گا۔ میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور رواثت میرے قبضہ میں آئی ہے۔ بحالت در وغگو نکلنے کے وہ سبب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا۔ا گر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا۔ یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اورتہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے تیار ہوں اوراشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے بارہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آتا۔ میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوںاور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا ایسا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرفر ایک طرفہ کوئی امر غارق عادت دیکھنے کو تیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کر لوںگا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے کہ کوئی مسلمان میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں۔
(۵)پانچویں علامت اس جز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی او ر الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہوں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی ہیں او رآسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رو سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہوتو کفر کے فتوی دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الٰہی مجھ کو ہو گیاہے پہلے لکھ دیں او رشائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعوی کو منظور کر لیں۔ میں ا س کام کے لئے بھی حاضرہوں اورمیرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف المۃ الکفر سے کروں انہی سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر دعب ہیں اور وہ اپنے اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہر گز مباہلہ نہیں کریں گے مگر میری طرف عنقریب کتاب وافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے۔
رہے احادالناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کافتویٰ ہے ان کے لئے مجھے حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا۔ لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیاپر پوری کردے گا اورکچھ زیادہ دیر نہ ہو گی کہ وہ اپنے نشان دکھلادے گا۔ لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے۔ وہ خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں او روہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں۔ نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جوا ن بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا۔
سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ :۔
دنیا میں ایک نذیر آیا۔ ہر دنیا نے ا س کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں۔ ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ انسان کا افرا ہوتا تو کب کا ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ خداتعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بے وقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہ اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور بیعت ہو اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہاں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رو سیاہ ہو گا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کردیا ہے کہ گویا اس نے ہزاروں نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اورمیرے غمخوار ہوئے اور ناشنا سا ہو کر آشنائوں کا ادب بجا لائے۔ خداتعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے۔ جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں ک وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے حق تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے۔ جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اوراپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بتاتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اوراطاعت میں فانی ہے اور امانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتاہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے او رخداتعالیٰ کی حکمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق اد اکرے۔ لیکن چو نکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمابراداری کر نہیں سکتا۔ اس لئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نشان کے بعد خداتعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر پھر کامل اطاعت کے بجالانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی مستولی ہوتا ہے اور اس کا نابود کر دیتاہے۔
تیسرا سوال آپ کا استخارہ کے لئے ہیں جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں۔ درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں۔ میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اورغصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص اس کا دشمن ہے۔ اس کو خواب میں کتے یاسور کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے۔ تو وہ خیال کرتا ہے کہ شائد درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سو ر ہی ہے۔ لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے۔ کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آئے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا۔ اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میرا مطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یا فتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتاکہ ہر ایک شخص کو ہر ایک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی۔ لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعاکروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو۔تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں۔ مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ۔ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔
سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کردیتی ہے اوردل پر ایک نور کااثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اوردل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہوجاتی ہے۔ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کار میں مشغول ہوں تو آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا۔ کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خداتعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے۔ اب میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا۔ ختم کرتا ہوں۔ والسلام ۔ علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
آپ کا مکرر خط پڑھ کر ایک کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعائیں شیطان کو جلاتی ہے ۔ اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتااور نزدیک ملائک کی کامل محافظت اس کے ارد گرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوّ جس نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے تمنّا کے وقت جو کھبی شاذ و نادر اجتہاد ک سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ شیطان بنی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے۔ پھر وحی متلوّ اس دخل کو اٹھادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے ۔ جو بعد میں رفع کی گئی۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ بنی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی جو وحی غیر متلّوہے۔ شیطان کا دخل بموجب قرآن کی تصریح کے ہوسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیلی کی درخواست کرے۔ ماسواس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے۔ ہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کے لئے راستبازہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو راست گوئی اور راست روی اور راست منشیٰ کا پورا پابند کرلے گا۔ تواس کی خوابیں سچی ہوں گی۔ اللہ جل شانہ‘ فرماتا ہے قَد اَفلَحَ مَن زَکَّھَا یعنی جو شخص باطل خیالات اور باطل نیات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے۔ وہ شیطان کی بند سے رہائی پاجائے گا۔ آخرت میں عقو بات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آسکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے انّ عبادی لیس لک علیھم سلطا یعنی اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے۔ ان پر تیرا تسلط نہیں ہوسکتا۔ سوجب تک انسان تمام کجیوں اورنالائق خیالات اور بہیودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہوجائے۔ جب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔
اورجب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کرسکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔ جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان شیطان اس سے دور رہے گا۔
اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیوں کر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم روحانی سمجھیں اور در اصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو توا س وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے۔ جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے۔ سچی خوابیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں۔ جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھس جاتی ہے اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کوئی ہمشکل دکھلاتا ہے۔ تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے۔ سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کر لیں جو صلاحیت اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کا کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلا دے اور آپ بھی لکھ کر دکھلا دیں۔ تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو ا س کے کئی اجزاء آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اورایسا اشتراک ہو گا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایساارادہ کرسکتے ہیں تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ عجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے۔ بعض دن ایسے گزرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے۔ جو اس کی باریک بین نظر کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے۔ میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہو گا۔ مگر آسمان پر کچھ تیاری ہورہی ہے۔ تاخداتعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے۔ کوئی دن یا رات کم گزرتی ہے۔ جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا۔ یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا۔ الحی الحق ویکشف الصدق ویخسر الخاسرون یاتی قمر الانبیاء وامرک بتائی ان ربک فعال لما یرید یعنی حق ظاہر ہو گا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذلت اوررسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہو جائے گا۔ تیرا رب جو چاہتا ہے کہ کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں۔ اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اورہر ایک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے کہ پہلے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا۔ خداتعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزت ظاہر کرنے کے لئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے۔ تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خداتعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کا کلام نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔
مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔
میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتاکہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں۔ مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے۔
میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلاتا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر او ر وقت کو کھوتے ہیںکہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیامیں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیںاور کیسے چاروں طرف کے فسادوں او رخرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے۔ میں نے ا س کتاب میں ثابت کر دیا ہے مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور دجال کا بھی۔ لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہو گا جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جائے جو اسی امت میں پید اہو اور نیز دجال سے مراد ایک گروہ لیا جائے او ردجال خود گروہ کو کہتے ہیں بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذلت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اورحدیث کو یک طرف چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں۔ مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔
میں انہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا۔ مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے۔ ملاقات نہایت ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لاویں۔ انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے بہت مفید ہو گا اور للہ سفر کیا جاتا ہے۔ وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔ اب دعا پر ختم کر تاہوں۔ ایدکم اللہ من عندہ ورحمکم فی الدنیا والاخیر۔
والسلام
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور
۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
نوٹ:۔ اس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں۔ یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے اس بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کے لئے ہیں۔ گو آپ ہی مخاطب ہیں۔
مکتوب نمبر(۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ مجھ کو آج کی ڈاک میں ملا۔ آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب او رتردد اور شک اور سو ظن سے بھر اہوا تھا ایسے ابتلاء کے موقعہ پر جو لوگ اصل حقیقت سے بے خبر تھے جس ثابت قدمی سے اکثر دوستوں نے خط بھیجے ہیں تعجب میں ہوں کہ کس قدر سوز یقین کا خداتعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا اوربعض نے ایسے موقعہ پر نئے سرے کی اس نیت سے تا ہمیں زیادہ ثواب ہو( ان سے دوبارہ بیعت کرنے والوں میں چودہری رستم علی رضی اللہ عنہ کا نام مجھے معلوم ہے۔ عرفانی) بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے اگرچہ آپ کے ان الفاظ سے بہت رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی نسبت ہرگز امید نہ تھی۔ لیکن چونکہ دلوں پر اللہ جل شانہ کا تصرف ہے اس لئے سوچا کہ کسی وقت اگر اللہ جلشانہ نے چاہا تو آپ کے لئے دعا کی ہے۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ آپ کو اتفاق ملاقات کا کم ہوتا ہے اور دوست اکثر آمد ورفت رکھتے ہیں۔ کتنے مہینوں سے ایک جماعت میر ے پا س رہتی ہے۔ جو کبھی پچاس کبھی ساٹھ اور کبھی سو سے بھی زیادہ ہوتے ہیںا ورمعارف سے اطلاع پاتے رہتے ہیں اور آپ کا خط کبھی خواب خیال کی طرح آجاتا ہے اور اکثر نہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف توجہ کر کے لکھا ہوں کہ جس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں بلکہ درحقیقت یہ فتح عظیم ہے۔ مجھے خداتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ عبداللہ آتھم نے حق کی عظمت قبول کر لی اور سچائی کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے سزائے موت سے بچ گیا ہے اور اس کی آزمائش یہ ہے کہ اب اس سے ان الفاظ میں اقرار لیا جائے تا اس کی اندورنی حالت ظاہر ہو۔ یا اس پر عذاب نازل ہو۔ میں نے اس غرض سے اشتہار دیا ہے کہ آتھم کو یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اللہ جلشانہ کی طرف یہ خبر ملی ہے کہ تو نے حق کی طرف رجوع کیا ہے اور اگر وہ اس کا قائل ہوجائے تو ہمارا مدعا حاصل ورنہ ایک ہزار روپیہ نقد بلاتوقف اس کو دیا جائے کہ وہ قسم کھاجائے کہ میں نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور اگروہ اس قسم کے بعد ایک برس کے بعد (تک عرفانی) ہلاک نہ ہو تو ہم ہرطرح سے کاذب ہیں اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو وہ کاذب ہے آپ اس کا سمجھ سکتے ہیں کہ اگر تجربہ سے اس نے مجھ کو کاذب یقین کر لیاہے اور وہ اپنے مذہب پر قائم ہے تو قسم کھانے میں اس کا کچھ حرج نہیں۔ لیکن اگر اس نے قسم نہ کھائی اور باوجود یہ کہ وہ کلمہ کے لئے ہزار روپیہ اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر وہ گریز کر گیا تو آپ کیا سمجھیں گے۔ اب وقت نزدیک ہے۔ اشتہار آئے چاہتے ہیں۔ میں ہزار روپیہ کے لئے متردد تھاکہ کس سے مانگوں۔ ایسا دیندار کون ہے جو بلاتوقف بھیج دے گا۔ آخر میں نے ایک شخص کی طر ف لکھا ہے اگر اس نے دے دیا تو بہتر ہے ورنہ یہ دنیا کی نابکار جائیداد و بیچ کر خود اس کے آگے جاکر رکھوں گا۔ تا کامل فیصلہ ہو جائے۔
اور جھوٹوںکا منہ سیاہ ہو جائے اور خداتعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اس جماعت پرایک ابتلاء آنے والا ہے۔ تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اورکون کچا ہے اور اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ میرے دل میں اپنی جماعت کا انہیں کے فائدہ کے لئے جوش مارتا ہے۔ ورنہ اگر کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو مجھے تنہائی میں لذت ہے۔ بے شک فتح ہو گی۔ اگر ہزار ابتلاء درمیان ہو تو آخر ہمیں فتح ہو گی۔ اب ابتلائوں کی نظیر آپ مانگتے ہیں ان کی نظیریں بہت ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بادشاہ ہونے کا جو وعدہ کیا اور وہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا۔ تو ستر آدمی مرتد ہو گئے۔ حدیبہ کے قصبہ میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ کئی سچے آدمی مرتد ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ اس پیشگوئی کی کفار مکہ کو خبر ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے شہر کے اندر داخل نہ ہونے دیا اور صحابہ پانچ ہزار سے کم نہیں تھے۔ یہ امر کس قد رمعرکہ کا امر تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے صادقتوں کو بچایا۔ مجھے اور میرے خاص دوستوں کو آپ کے اس خط سے اس قدر افسوس ہو ا کہ اندازہ سے زیادہ ہے۔ یہ کلمہ آپ کا کہ مجھے ہلاک کیا کس قدر اس اخلاص سے دور ہے جو آپ سے ظاہر ہوتا رہا۔
ہمارا تو مذہب ہے کہ اگر ایک مرتبہ نہیں کروڑ مرتبہ لوگ پیش گوئی نہ سمجھیں۔ یا اس رات کے طور پر ظاہر ہو تو خداتعالیٰ کے صادق بندوں کا کچھ بھی نقصان نہیں۔ آخر وہ فتح یاب ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس فتح کے بارے میں لاہور پانچ ہزار اشتہار چھپوایا ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔ جس کانام انوارالسلام ہے وہ بھی پانچ ہزار چھپے گا۔ آپ ضرور اشتہار اور رسالہ کو غور سے پڑھیں۔ اگر خداتعالیٰ چاہے تو آپ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ڈاک میں آپ کا خط اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کاخط پہنچا۔ مولوی صاحب کا اس صدق اور ثبات کا خط جس کا پڑھ کر رونا آتا تھا۔ ایسے آدمی ہیں جن کی نسبت میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اس جہاں میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور لفافہ بھی محفوظ نہیں تاہم خط کے مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔
بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
باعث تکلیف وہی یہ ہے کہ چونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپیہ آں محب کا قرض دینا ہے۔ مجھے یا د نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیاہے اور قرضہ کاایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے۔ تاحتی الوسع اس کافکر رکھ کر توفیق بار یتعالیٰ میعاد کے اندر اندر اد اہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہوسکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں۔ امید کہ جلد اس سے م مطلع فرماویں۔ تا میں اس فکر میں لگ جائوں۔ کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلائوں میں سے ایک سخت بلاہے اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے۔
دوسری بات قابل استفسار یہ ہے کہ مکرمی اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب قریباً دو ہفتہ سے قادیان تشریف لائے ہوئے ہیں اور آپ نے جب آپ کا اس عاجز کا تعلق اور حسن ظن تھا۔ بیس روپیہ ماہوار ان کو سلسلہ کی منادی اور واعظ کی غرض سے دنیا مقرر کیا گیاتھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان کودیا امید کہ اس کا ثواب بہرحال آپ کو ہوگا۔ لیکن چند ماہ سے ان کو کچھ نہیں پہنچا۔ اب اگر اس وقت مجھ کو اس بات کے ذکر کرنے سے بھی آپ کے ساتھ دل رکتا ہے۔ مگر چونکہ مولوی صاحب موصوف اس جگہ تشریف رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ جو مناسب سمجھیں میرے جواب کے خط میں اس کی نسبت تحریر کردیں۔ حقیقت میں مولوی صاحب نہایت صادق دوست اور عارف حقائق ہیں۔ وہ مدراس اور بنگلور کی طرف دورہ کر کے ہزار ہا آدمیوں کے دلوں سے تکفیر اور تکذیب کے غبار کو دور کر آئے ہیں اور ہزار ہا کو ا س جماعت میں داخل کر آئے ہیں اور نہایت مستفیم اور قوی الایمان اور پہلے سے بھی نہایت ترقی پر ہیں۔
ہماری جماعت اگرچہ غرباء اور ضعفاء کی جماعت ہے۔ لیکن العزیز یہی علماء اور محققین کی جماعت ہے اور انہی کو میں متقی اور خداترس اور عارف حقائق پاتا ہوں اورنیک روحوں اور دلوں کو دن بدن خدا تعالیٰ کھینچ کر اس طرف لاتا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹؍ دسمبر ۱۸۹۴ء
مکتوب نمبر(۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولوی صاحب کو کل ایک دورہ مرض پھر ہوا۔ بہت دیر تک رہا۔ مالش کرانے سے صورت افاقہ ہوئی۔ مگر بہت ضعف ہے۔ا للہ تعالیٰ شفا بخشے۔
اس جگہ ہماری جماعت کا ایک قافلہ تحقیق السنہ کے لئے بہت جوش سے کام رہا ہے اور یہ اسلام کی صداقت پرایک نئی دلیل ہے۔ جو تیرہ سو برس سے آج تک کسی کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اس مختصر خط میں آپ کو سمجھا نہیںسکتا کہ یہ کس پایہ کا کام ہے۔ اگر آپ کو ایک ماہ تک اس خدمت میں مرزا خدابخش صاحب کوشریک کریں اور وہ قادیان میں رہیں تو میری دانست میں بہت ثواب ہو گا۔ آیندہ جیسا کہ آپ کی مرضی ہو۔ دنیا کے کام نہ تو کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا۔ دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیامیں آئے اور کیوں جائیں گے۔ کون سمجھائے جبکہ خداتعالیٰ نے سمجھایا ہو۔ دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں۔ مگر مومن وہ ہے جودرحقیقت دین کو مقدم سمجھے اورجس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے۔ ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے۔ دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکا ہے۔ موت کاذرا اعتبار نہیں موت ہر ایک سال نئے کرشمے دکھلاتی رہتی ہے۔ دوستوں ک دوستوں سے جد اکرتی اور لڑکوں کو باپوں سے، اور باپوں کو لڑکوں سے علیحدہ کر دیتی ہے۔
مورکھ وہ انسان ہے جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا۔ خداتعالیٰ اس شخص کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ جو سچ مچ اپنی زندگی کاطریق بدل کر خد ا تعالیٰ ہی کاہو جاتا ہے۔ ورنہ اللہ جلشانہ فرماتاہے۔ قل ما یعباء بکم ربی لوکا دعاء کم
یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ا گر تم اس کی بندگی و اطاعت نہ کرو۔ سو جاگنا چاہئے اور ہوشیار ہو جانا چاہئے اور غلطی نہیں کھانا چاہئے کہ گھر سخت بے بنیاد ہے۔ میں نے اس لئے کہا کہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان دنوں میں دنیوی غم وہم یں اعتدال سے زیادہ مصروف ہیں اور دوسرا پلہ ترازو کا کچھ خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریریں آپ کے دل کیا اثر کریں یا کچھ بھی نہ کریں۔ کیونکہ بقول آپ کے وہ عتقادی امر بھی اب درمیان نہیں جو بظاہر پہلے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ہلاک ہو۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ خود خداتعالیٰ قوت بخشے اور زندہ کرے۔ کاش اگر ملاقات کی سرگرمی بھی آپ کے دل میں باقی رہتی تو کبھی کبھی ملاقات سے کچھ فائدہ ہو جاتا۔ مگر اب یہ امید بھی مشکلات میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اعتقادی محرک باقی نہیں رہا۔اگر کوئی لاہور وغیرہ کسی انگریز حاکم کا جلسہ ہو جس میں خیالی طور پر داخل ہونا آپ اپنی دنیا کے لئے مفید سمجھتے ہوں تو کوئی دنیا کاکام آپ کو شمولیت سے نہیں روکے گا۔ خداتعالیٰ قوت بخشے۔
بیچارہ نورالدین جو دنیاکو عموماً لات مار کر اس جنگل قادیان میں آبیٹھا ہے بے شک قابل نمونہ ہے۔ بہتری تحریکیں اٹھیں کہ آپ لاہور میں رہیں اور امرتسر میں رہیں۔ دنیاوی فائدہ طباعت کی رو سے بہت ہو گا۔ مگر کسی کی بات انہوں نے قبول نہیں کی۔ میں یقینا سمجھتا ہون کہ انہوں نے سچی توبہ کر کے دین پر مقدم رکھ لیا ہے۔ خد اتعالیٰ ان کو شفاء بخشے اور ہماری جماعت کو توفیق عطا کرے کہ ان کے نمونہ پر چلیں آمین۔ کیا آپ بالفعل اس قدر کام کر سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے لئے اور کاموں کو پس انداز کر کے مرزا خد ابخش صاحب کو ایک ماہ کے بھیج دیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۸؍ اپریل ۱۸۹۵ء
نوٹ:۔ آتھم کی پیشگوئی پر حضرت نواب صاحب کو بتلایا تھا اور انہیں کچھ شکوک پید ا ہوئے تھے۔ مگر وہ بھی اخلاص اور نیک نیتی پر منبی تھے۔ وہ ایک امر جوان کی سمجھ میں نہ آوے ماننا نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے حضرت اقدس کو ایسے خطوط لکھے ہیں جن سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا کوئی تعلق سلسلہ سے باقی نہ رہے گا۔ مگر خداتعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا اپنی معرفت بخشی اور ایمان میں قوت عطا فرمائی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی محبی اخویم خان صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ میں بوجہ علالت طبع کچھ لکھ نہیں سکا۔ کیونکہ دورہ مرض کا ہو گیاتھا اور اب بھی طبیعت ضعیت ہے۔ خداتعالیٰ آپ کو اپنی محبت میں ترقی بخشے اور اپنی اس جادوانی دولت کی طرف کھینچ لیوے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا کبھی کبھی اپنے حالات خیریت آیات سے ضرور اطلاع بخشا کریں کہ خط بھی کسی قدر حصہ ملاقات کا بخشتا ہے۔ مجھے آپ کی طرف سے دلی خیال ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی ترقیات بحشپم خود دیکھوں مجھے جس وقت جسمانی قوت میں اعتدال پید اہوا تو آپ کے لئے ہمیشہ توجہ کاشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل اور توفیق شامل حال کرے۔ آمین۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
۱۴؍ دسمبر ۱۸۹۵ء
روز پنجشنبہ
مکتوب نمبر(۱۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویمنواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ دو سو روپیہ کے نصف نوٹ آج کی تاریخ آگئے۔ عمارت کا یہ حال ہے کہ تخمینہ کیا گیاہے کہ نو سو رپیہ تک پہلی منزل جس پر مکان مقصود بنانے کی تجویز ہے ختم ہو گی۔ کل صحیح طورپر تخمینہ کو جانچا گیا ہے۔ اب تک …… روپیہ تک لکڑی اور انیٹ اور چونہ اور مزدوروں کے بارے میں خرچ ہوا ہے۔ معماران کی مزدوری ……سے الگ ہے۔ اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی منزل کے تیار ہونے کے بعد بالفعل عمارت کو بند کردیا جائے۔ کیونکہ کوئی صورت اس کی تکمیل کی نظر نہیں آتی۔ یہ اخراجات گویا ہرروز پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے اوّل سرمایہ ہو تو پھر چل سکتے ہیں۔ شائد اللہ جلشانہ اس کا کوئی بندوبست کر دیوے۔ بالفعل اگر ممکن ہو سکے تو آں محب بجائے پانچ سو روپیہ کے سات سو روپیہ کی امداد فرما دیں۔ دو سو روپیہ کی جو کمی ہے وہ کنویں کے چندہ میں سے پوری کر دی جائے گی اور بالفعل کنواں بنانا موقوف رکھا جائے گا۔ پس اگر سات سو روپیہ آپ کی طرف سے ہو اور دو سو روپیہ کنویں کے اس طرح پر نو سو روپیہ تک منزل انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور کیا تعجب ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی اور صاحب پیدا ہو جائیں تو وہ دوسری منزل اپنے خرچ سے بنوا لیں۔ نیچے کی منزل مردانہ رہائش کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زنانہ مکان سے ملی ہوئی ہے۔ مگر اوپر کی منزل اگر ہوجائے تو عمدہ ہے۔
مکان مردانہ بن جائے جس کی لاگت بھی اسی قدر یعنی نوسو یا ہزار روپیہ ہو گا۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کو اس وقت میں نے تکلیف دی اور ذاتی طور پر مجھ کو کسی مکان کی حاجت نہیں۔ خیال کیا گیا تھا کہ نیچے کی منزل میں ایسی عورتوں کے لئے مکان تیار ہو گا جو مہمان کے طور پر آئیں اور اوپر کی منزل مردانہ مکان ہو۔ سو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس خیال کو پورا کر دے گا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔ جب یہ مکان بن رہا تھا تو خاکسار عرفانی ان ایام میں یہاں تھا۔ گرمی کو موسم تھا۔ گول کمرے میں دوپہر کا کھانا حضرت کھایا کرتے تھے اور دستر خوان پر گڑنبہ ضرور آیا کرتا تھا۔ حضرت ان ایام میں بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ذاتی طورپر ہمیں کسی مکان کی ضرورت نہیں۔ مہانوں کو جب تکلیف ہوتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ لوگ خدا کے لئے آتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے آرام کا فکر کریں۔
خداتعالیٰ نے جیسا کہ اس خط میں آپ نے ظاہر فرمایا تھا ۔ آخر وہ تمام مکانات بنوا دئیے اور وسع مکانک کی پیشگوئی ہمیشہ پوری ہو تی رہتی ہے اور اس کی شان ہمیشہ جد اہوتی ہے۔ مبارک وہ جن کو اس کی تکمیل میں حصہ ملتا ہے۔ ابتدائی ایام میں حضرت نواب صاحب کو سابق ہونے کا اجر ملا۔ جزاہم اللہ احسن الجزا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخو یم نو اب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر مولوی صاحب کی وہ پیاری لڑکی جس کی شدت سے بیماری کی وجہ سے مولوی صاحب آنہ سکے کل نماز عصر سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس کی والدہ سخت مصیبت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو صبر بخشے۔
والسلام
خاکسار
مرزا اغلام احمد عفی اللہ عنہ
۱۷؍ اپریل ۱۸۹۷ء
نوٹ:۔یہ لڑکی حضرت حکیم الامۃ کی چھوٹی لڑکی ایک سال کی تھی اور اس کی وفات کے متعلق حضرت حکیم الامۃ کو خدا تعالیٰ نے ایک رویا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوں تو حضرت حکیم الامۃ خد اتعالیٰ کی مقادیر سے پہلے ہی مسالمت تامہ رکھتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جب قبل از وقت ان کو بتا دیا تھا تو انہیں نہ صرف ایک راحت بخش یقین اور معرفت پید اہوئی۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے اس انعام اورفضل پر انہوں نے شکریہ کا اظہار کیا تھا۔ ان ایام میں نواب صاحب نے مولوی صاحب کو بلایا تھا۔ اسی وجہ سے آپ نہیں جا سکے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افسوس کہ مولوی صاحب اس قدر تکلیف کی حالت میں ہیں کہ اگر اور کوئی سبب بھی نہ ہوتا تب بھی اس لائق نہیں تھے کہ اس شدت گرمی میں سفر کرسکتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ پیرانہ سالی کے عوارض ہیں اور مولوی صاحب کی بڑی لڑکی سخت بیمار ہے کہتے ہیں اس کو بیماری سل ہو گئی ہے۔ علامات سخت خطرناک ہیں۔ نواسی بھی ابھی بیماری سے صحت یاب نہیںہوئی۔ ان وجوہ کی وجہ سے درحقیقت وہ سخت مجبور ہیں اور جو د وآدمی نکالے گئے تھے۔ یعنی غلام محی الدین اور غلام محمد۔ وہ کسی کی نمامی کی وجہ سے نہیں نکالے گئے۔ بلکہ خود مجھ کو کئی قراین سے معلوم ہوگیا تھاکہ ان کاقادیان میں رہنا خطرناک ہے اور مجھے سرکاری مخبر نے خبر دے دی تھی اور نہایت بد اور گندے حالات بیان کئے اور وہ مستعد ہو ا کہ میں ضلع میں رپورٹ کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے یہ کام سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ
نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے اسے بھی اس وقت اس بہشت سے نکالا۔ لیکن چونکہ اس میں اخلاص اور سلسلہ کے لئے سچی محبت تھی۔ خدا نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ وہ اور اس کاسارا خاندان خد اکے فضل اوررحم سے نہایت مخلص ہے۔ خاکی شاہ جیسا کہ خود حضرت نے لکھ دیا ہے۔ یہاں سے نکل کر اپنی بد باطنی سے عملی اظہار کر دیا۔ آخر وہ خائب خاسر رہ کر مر گیا۔ اب اس کامعاملہ خداتعالیٰ سے ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۱۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نوا ب صاحب سلمہ تعالیٰ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کی شفاء کے لئے نماز میں اور خارج نماز میں دعا کرتا ہوں۔ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم پر امید ہے کہ شفاء عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک خاص طور کے دانے ہوں گے۔ جن میں تبزی نہیں ہوتی ۔ یہ خد ا تعالیٰ کا رحم ہے کہ چیچک کے موذی سم سے بچایا ہے اور چیچک ہو یاخسرہ ہو دونوں طاعون کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے نکلنے سے طاعون کا مادہ نکل جاتاہے اور اس کے بعد طاعون سے امن رہتا ہے۔ امیدہے کہ آں محب ۵؍ اگست ۱۸۹۸ء سے پہلے مرزا خد ا بخش صاحب کو ادائے شہادت کے لئے روانہ قادیان فرمائیںگے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
۲۶؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بکلی عطافرمائے۔ چونکہ ان دنوں بباعث ایام برسات موسم میں ایک ایسا تغیر ہے۔ جو تپ وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ا س لئے درحقیقت یہ سفر کے دن نہیں ہیں۔ میں اس سے خوش ہوں کہ اکتوبر کے مہینہ میں آپ تشریف لائیں۔ افسوس کہ مولوی صاحب کے لئے نکاح ثانی کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکا۔اگر کوٹلہ میں یہ بندوبست ہو سکے تو بہتر تھا۔ آپ نے سن لیا ہو گا کہ مولوی صاحب کی جوان لڑکی چند خورد سال بچے چھوڑ کر فوت ہو گئی ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
۴؍ ستمبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں محب کے چار خط یکے بعد دیگرے پہنچے۔ آپ کے لئے دعا کرنا تو میںنے ایک لازمی امر ٹھہرا رکھا ہے۔ لیکن بے قرار نہیں ہونا چاہئے کہ کیوں اس کااثر ظاہر نہیں ہوتا۔ دعائوں کے لئے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔
جب جلد کوئی مراد مل جاتی ہے تو کمی عمر کااندیشہ ہے میں اس بات کو درست رکھتا ہوں کہ مطلب کے حصول کی بشارت خدا تعالیٰ کی طرف سے سن لوں۔ لیکن وہ مطلب دیر کے بعد حاصل ہونا موجب طول عمر ہو۔ کیو نکہ طول عمر او ر عمال صالحہ بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کی نسبت جو لکھا تھا کہ بعض امور میں مجھے رنج پید ا ہوتا ہے۔ سو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے۔ میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے
خیر کم خیر کم لا ھلہیعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔ عورتوں کی طبیعت میں خداتعالیٰ نے ا س قدر کجی رکھی ہوئی ہے کہ کچھ تعجب نہیںکہ بعض وقت خدا اور رسول یا اپنے خاوند یا خاوند کے باپ یا مرشد یا ماں یا بہن کو بھی برا کہہ بیٹھیں اور ان کے نیک ارادہ کی مخالفت کریں۔ سو ایسی حالت میں بھی کبھی مناسب رعب کے ساتھ اور کبھی نرمی سے ان کو سمجھا دیں اور ان کی تعلیم میں بہت مشغول رہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کریں۔
اشتہار رشتہ کے لئے آپ کی شرط موجود نہیں۔ ایم۔ اے صاحب اگرچہ بہت صالح نیک چلن جوان خوش رو جنٹلمین ہر طرح سے لائق نیک چلن بہت سی نیک صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ نہ پٹھان ہیں نہ مغل۔ نہ سید نہ قریشی۔ بلکہ اس ملک کے زمینداروں میں سے ہیں۔ غریب خاندان میں سے ہیں۔ میری بیوی کا برادر حقیقی محمد اسمٰعیل اٹھارہ سالہ خاندانی سید ہے ایف۔ اے میں پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ کوئی آمدنی ان کے پاس نہیں اوّل شائد سلاطین اسلامیہ کی طرف پچیس ہزار کی جاگیر تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں ضبط ہو گئی اور کچھ تھوڑا ان لوگوں کو ملتا ہے۔ جس میں سے …… ماہوار میر صاحب کی والدہ کو ملتا ہے بس۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۱۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ الحمدللہ والمنۃ کہ آپ کو اس نے اپنے فضل و کرم سے شفابخشی۔ میں نے آپ کے لئے اب کی دفعہ غم اٹھایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قادیان میں جس بڑی عمر کے آدمی کو جو اسّی برس سے زیادہ کی عمر کاتھا۔ چیچک نکلی وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ہمارے ہمسایوں میں دو جوان عورتیں اس مرض سے راہی ملک بقاہوئیں۔ آپ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ بیماری اس عمر میں نہایت خطرناک تھی۔ بالخصوص ا ب کی دفعہ یہ چیچک وبائی طرح پر ہوئی ہے۔ اس لئے نہایت اضطراب اور دلی درد سے نماز پنچگانہ میں اور خارج نماز گویا ہر وقت دعا کی گئی ۔ اصل باعث عاقبت خدا کا فضل ہے جو بموجب وعدہ اللہ سے بہت سی امیدیں اس کے فضل کے لئے ہو جاتی ہیں مجھے کثرت مخلصین کی وجہ سے اکثر زمانہ غم میں ہی گزرتا ہے۔ ایک طرف فراغت پاتا ہوں۔ دوسری طرف سے پریشانی لاحق حال ہو جاتی ہے۔ خداتعالیٰ کی بہت سی عنایات کی ضرورت ہے۔ جس کو میں مشاہدہ بھی کرتا ہوں۔ اب یہ غم لگا ہوا ہے کہ چند دفعہ الہامات اور خوابوں سے طاعون کاغلبہ پنجاب میں معلوم ہو اتھا۔ جس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ لوگ توبہ توبہ کریں گے اورنیک چلن ہو جائیںگے۔ تو خد اتعالیٰ اس گھر کو بچا لے گا۔ لیکن نیک ہونے کاکام بڑا مشکل ہے اگرچہ بدچلن بدمعاش اور طرح طرح کے جرائم ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پنجاب میں وبائے طاعون یا ہیضہ یا پھوٹا تو بڑی مصیبت ہوگی بہت سے گھروں میں ماتم ہو جائیں گے۔ بہت سے گھر ویران ہو جائیںگے۔ مرزا خد ابخش صاحب پہنچ گئے۔ ان کے گھر بیماری ہے۔ تپ روز چڑھتا ہے اور جگر اور معدہ ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی دوسری لڑکی انہی دنوں سے بیمار ہے۔ جب کہ آپ نے بلایا تھا۔ اب بظاہر ان کی زندگی کی چنداں امید نہیں۔ حواس میں بھی فرق آگیا ہے اورمولوی صاحب بھی ہفتہ میں ایک مرتبہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ خطرناک بیماری ہوتی ہے میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طو ر پر ایک قبرستان بنایا جائے جس طرح مدینہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول شیخ سعدی۔ کہ ہداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے۔ جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیاہے۔ اس قبرستان کی فکر میں ہوں کہ کہاں بنایا جائے امید کہ خداتعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے گا او راس کے اردگرد ایک دیوار چاہئے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۶؍اگست ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ معہ مبلغ دو سو روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔ آمین ثم آمین۔ خط میں سو روپیہ لکھا ہو اتھا اور حامل خط نے دو سو روپیہ دیا۔ اس کا کچھ سبب معلوم نہ ہوا۔ میں عنقریب دوائی طاعون آپ کی خدمت میں مع مرہم عیسیٰ روانہ کرتاہوں اور جس طورسے یہ دوائی استعمال ہو گی آج اس کااشتہار چھاپنے کی تجویز ہے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اشتہار ہمراہ بھیج دوں گا۔ بہتر ہے کہ یہ دوا ابھی سے آپ شروع کر دیں۔ کیونکہ آیندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا۔ وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے۔ میرے نزدیک ان دنوں میں دینا کے غموم و ہموم کچھ مختصر کرنے چاہئیں۔ د ن بہت سخت ہیں جہاں تک ممکن ہوآپ اپنے بھایئوں کو بھی نصیحت کریں اور اگر باز نہ آئیں تو آپ کا فرض ادا ہو جائے گا اور جو گلٹیاں آپ کے نکلی ہیں۔ وہ ماشاء اللہ سنیک دینے اور دوسری تدبیروں سے جو مولوی صاحب تحریر فرمائیں گے اچھی ہو جائی گی۔ ان دنوں التزام نماز ضروری ہے مجھے تو یہ معلوم ہو ا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دکھ کے دن ہیں۔ اب بہرحال متبہ ہونا چاہئے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں میں نے خط کے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور امید ہے کہ خد اتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ مجھے اس بات کا خیال ہے کہ
اس شور قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے۔ حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں۔مگر سب بات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۱؍ جولائی ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۱۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبیعزیزی اخویم نواب سردار محمد علی خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خداتعالیٰ فرزند نوزاد کومبارک اور عمر دراز کرے آمین ثم آمین۔ میں نے سنا ہے کہ جب کم دنوں میں لڑکا پید اہوتا ہے تو دوسرے تیسرے روز ضرور ایک چمچہ کیسڑائل دے دیتے ہیں اور لڑکے کے بدن پر تیل ملتے رہتے ہیں۔ حافظ حقیقی خود حفاظت فرماوے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ دعا میں آپ کے لئے مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیوی مرحومہ کے لئے توجہ اور الحاح سے دعائے مغفرت کروں گا۔ اس جگہ موسمی بخار سے گھر میں اور بچوں کو بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے اور مرزا خدابخش صاحب کی بیوی بھی تپ ……اب طاعون بھی ہمارے ملک سے نزدیک آگئی ہے۔ خداتعالیٰ کارحم درکار ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
مکتوب نمبر(۲۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ خسرہ کا نکلنا ایک طرح پر جائے خوشی ہے کہ اس سے طاعون کا مادہ نکلتا ہے اور انشاء اللہ تین سال امن کے ساتھ گزرتے ہیں۔ کیونکہ طبی تحقیق سے خسرہ اور چیچک کا مادہ اور طاعون کا مادہ ایک ہی ہے۔ آپ تین تین چار چار رتی جدوار رگڑ کر کھاتے رہیںکہ اس مادہ اور طاعون کے مادہ کایہ ترق ہے۔ میں ہر وقت نماز میں اورخارج نماز کے آپ کے لئے دعاکرتا ہوں۔ خط پہنچنے پر تردد ہوا۔ اس لئے جلدی مرزا خدا بخش آپ کی خدمت میں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد شفا بخشے۔ آمین ثم آمین۔
میرے پر عدالت ضلع گورداسپور کی طرف سے تحصیل میں ایک مقدمہ انکم ٹیکس ہے۔ جس میں مولوی حکیم نورالدین صاحب اور چھ سات اور آدمی اور نیز مرزا خدا بخش صاحب میری طرف سے گواہ ہیںامید کہ تاریخ سے تین چار روز پہلے ہی مرزا صاحب کو روانہ قادیان فرماویں اور حالات سے جلد از جلد مطلع فرماتے رہیں۔ خد ا تعالیٰ حافظ ہو۔
(نوٹ:۔ اس خط پر حضرت اپنا نام بھول گئے ہیںاور تاریخ بھی درج نہیں ہوئی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ معہ دوسرے خط کے جو آپ کے گھر کے لوگوں کی طرف سے تھا۔ جس میں صحبت کی نسبت لکھا ہوا تھا پہنچا۔ بعد پڑھنے کے دعا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ ہمدست مرزا خدابخش صاحب مبلغ تین سو روپیہ کے نوٹ بھی پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ا ن کے لڑکے کا حال ابھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ گو پہلی حالت سے کچھ تخفیف ہے۔ مگر اعتبار کے لائق نہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی اللہ عنہ
مکتوب نمبر(۲۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ا گرچہ آں محبت کی ملاقات پر بہت مدت گزر گئی ہے اور دل چاہتا ہے کہ او ر دوستوں کی طرح آپ بھی تین چارماہ تک میرے پاس رہ سکیں۔ لیکن اس خانہ داری کے صدمہ سے جو آپ کو پہنچ گیا ہے۔ بڑی مشکلات پید اہو گئی ہیں۔ یہ روک کچھ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ ایک دو سال تک بھی دور ہو سکے بلکہ یہ دائمی اور اس وقت تک ہے کہ ہم دنیا سے چلے جائیں۔ غرض سخت مزاحم معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہ ایک تدبیر ہے کہ آپ کی طرف سے ایک زنانہ مکان بقدر کفالت قادیان میں تیار ہو اور پھر کبھی کبھی معہ قبائل اور سامان کے اس جگہ آجایا کریں اوردو تین ماہ تک رہا کریں لیکن یہ بھی کسی قدر خرچ کا کام ہے اور پھر ہمت کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اسباب پیدا کردے اوراپنی طرف سے ہمت اور توفیق بخشے۔ دنیا گذشتنی و گذاشتتنی ہے وقت آخر کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے دینی سلسلہ کو کامل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ دانشمند کے لئے فخر سے شام تک زندگی کی امید نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کسی سے یہ عہد نہیں کیا کہ اس مدت تک زندہ رہے گا۔ ماسوا اس کے ہمارے ملک میں طاعون نے ایسے ہی پیرجمائے ہیں کہ دن بدن خطرناک حالت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے ایک الہام میں معلوم ہوا تھا کہ اگر لوگوں کے اعمال میں اصلاح نہ ہوئی تو طاعون کسی وقت جلد پھیلے گی اور سخت پھیلے گی۔ ایک گائوں کو خدامحفوظ رکھے گا۔ وہ گائوں پریشانی سے بچایا جائے گا۔ میں اپنی طرف سے گمان کرتاہوں کہ وہ گائوں غالباً قادیان ہے اوربڑا اندیشہ ہے کہ شائد آیندہ سال کے ختم ہونے تک خطرناک صورت پر طاعون پھیل جائے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی صلاح دی تھی کہ وہ مختصر طور پر قادیان میں مکان بنا لیں۔ مگر یہی وقت ہے اور پھر شائد وقت ہاتھ سے جاتارہے۔ سو آں محب بھی ا س بات کو سوچ لیں اور عید کی تقریب پر اکثر احباب قادیان آئیں گے اور بعض دینی مشورے بھی اس دن پر موقوف رکھے گئے ہیں۔ سو اگر آں محب آنہ سکیں جیسا کہ ظاہر ی علامات ہیں تو مناسب ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مرزا خد ابخش صاحب کو بھیج دیں تا ان مشوروں میں شامل ہو جائیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ مرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں سب خیریت ہے۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مکتوب نمبر(۲۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سے میرے گھر میں بیماری کی شدت بہت ہو گئی ہے او رمرزا خدا بخش صاحب کے گھر میں بھی تپ تیز چڑھتا ہے۔ا سی طرح تمام گھر کے لوگ یہاں تک کہ گھر کے بچے بھی بیمار ہیں۔ اگر مرزاخدابخش صاحب آجائیں تو اپنے گھر کی خبر لیں۔ اس قدر بیماری ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حال کا پرساں نہیں ہو سکتا۔ حالات تشویش ناک ہیں۔ خداتعالیٰ فضل کرے امید ہے کہ آپ حسب تحریر میرے استقامت اور استواری سے کام لے کر جلد تر تجویز شادی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۲۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم (۱۸؍اپریل ۱۸۹۹) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج صدمہ عظیم کی تار مجھ کو ملی اور اس کے عوض کوئی آپ کو بھاری خوشی بخشے۔ میں اس درد کو محسوس کرتاہوں۔ جو ا س ناگہانی مصیبت سے آپ کو پہنچا ہو گا اور میں دعا رکرتا ہوں کہ آیندہ خدا تعالیٰ ہر ایک بلاسے آپ کو بچائے اورپردہ غیب سے اسباب راحت آپ کے لئے میسر کرے۔ میرا اس وقت آپ کے درد سے دل درد ناک ہے او ر سینہ غم سے بھرا ہے۔ خیال آتا ہے کہ
دنیا کیسی بے بنیاد ہے۔
ایک دم میں ایسا گھر کہ عزیزوں اور پیاروں سے بھرا ہو اہو ویران بیایان دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس رفیق کو غریق رحمت کرے اور اس کی اولاد کو عمر اور اقبال اور سعادت بخشے۔ لازم ہے کہ ہمیشہ ان کو دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔ میری یہ بڑی خواہش رہی کہ آپ ان کو قادیان میں لاتے اور اس خواہش سے مدعا یہ تھا کہ وہ بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہوکر اس گروہ میں شریک ہو جاتے کہ جو خداتعالیٰ تیار کررہا ہے۔ مگر افسوس کہ آپ کی بعض مجبوریوں سے یہ خواہش ظہور میں نہ آئی۔ اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
میں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھاتھا۔ ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔ مجھے اندیشہ تھا آخر اس کایہ پہلو ظاہر ہوا۔ یہ تقدیر مبرم تھی۔ جو ظہور میں آئی۔ معلوم ہوتا ہے علاج میں بھی غلطی ہوئی۔ یہ رحم کی بیماری تھی اوربباعث کم دنوں میں پید اہونے کے زہریلا مواد رحم میں ہو گا۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا تو علاج یہ تھاکہ ایسے وقت پچکاری کے ساتھ رحم کی راہ سے آہستہ آہستہ یہ زہر نکالا جاتا اورتین چار دفعہ روز پچکاری ہوتی اور کیسڑائل سے خفیف سی تلین طبع بھی ہوتی اور عنبر اور مشک وغیرہ سے ہر وقت دل کو قوت دی جاتی اوراگر خون نفاس بند تھا تو کسی قدر رواں کیا جاتا اور اگر بہت آتا تھاتو کم کیا جاتا اور نربسی اورہینگ وغیرہ سے تشنج اور غشی سے بچایا جاتا۔ لیکن جب کہ خدا تعالیٰ کاحکم تھا تو ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ پہلی دو تاریں ایسے وقت میں پہنچیں کہ میرے گھر کے لوگ سخت بیمار تھے اور اب بھی بیمارہیں۔ تیسرا مہینہ ہے دست اور مروڑ ہیں۔ کمزور ہو گئے ہیں۔ بعض وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ڈرتا ہوں کہ غشی پڑ گئی اورحاملہ کی غشی گویاموت ہے۔دعا کرتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ آپ کے گھر کے لوگوں کے لئے مجھے دعا کا موقعہ بھی نہ ملا۔ تاریں بہت دیر سے پہنچیں۔ا ب میں یہ خط اس نیت سے لکھتا ہوں کہ آپ ہی بہت نحیف ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ بہت غم سے آپ بیمار نہ ہو جائیں۔اب اس وقت آپ بہادر بنیں اور استقامت دکھلائیں۔ ہم سب لوگ ایک دن نوبت بہ نوبت قبر میں جانے والے ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ غم کودل پر غالب ہونے نہ دیں۔ میں تعزیت کے لئے آپ کے پاس آتا۔ مگر میری بیوی کی ایسی حالت ہے کہ بعض وقت خطرناک حالت ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب کے گھر میں بھی حمل ہے۔ شاید چھٹا ساتواں مہینہ ہے۔ وہ بھی آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ آج مرزا خدا بخش صاحب بھی لاہور سے قادیان آئے۔ شاید اس خط سے پہلے آپ کے پاس پہنچیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۶)ملفوف
یہ خط مرزا خدا بخش صاحب کے نام ہے۔ چونکہ نواب صاحب کے ہی کے خط میں دوسرے ورق پر لکھ دیا گیاہے۔ اس لئے میں نے بھی اسی سلسلہ میں اسے درج کردیا ہے۔(عرفانی)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم مرزا خدابخشصاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل میرے گھر میں والدہ محمود کو تپ او رگھبراہٹ اور بدحواسی کی سخت تکلیف ہوئی اورساتھ ہی عوارض اسقاط حمل کے ظاہر ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا چند منٹوں کے بعد خاتمہ زندگی ہے۔ا ب اس وقت کسی قدر تخفیف ہے۔ مگر چونکہ تپ نوبتی ہے۔ا س کل اندیشہ ہے اور آپ کے گھر میں سخت تپ چڑھتا ہے۔ا ندیشہ زیادہ ہے۔اگر رخصت لے کر آجائیںتو بہتر ہے۔ آج کے تپ اندیشناک ہیں۔ اطلاعاً لکھا گیا ہے اور آتے وقت ایک روپیہ کے انار بیدانہ لے آویں اور کچھ نہ لاویں کہ تمام بچے بیمار ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ نومبر ۱۸۹۸ء
مکتوب نمبر(۲۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت حفظ ماتقدم کے طور پر امراض خون کے لئے گولیاں بھیجتا ہوں۔ جن سے انشاء اللہ القدیر مادہ جذام کا استیصال ہوتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ایک گولی جو بقدر تین فلفل کے ہو۔ ہمراہ آپ زلال مہندی کھائی جائے۔ا س طرح پر کہ ایک ماشہ برگ حنا یعنی مہندی رات کو بھگویا جائے اور پانی صرف تین چار گھونٹ ہو صبح اس پانی کو صاف کر کے ہمراہ اس گولی کے پی لیں۔ شرینی نہیں ملانی چاہئے۔ پھیکا پانی ہو پانی تلخ ہوگا۔ مگر ضروری شرط ہے کہ پھیکا پیا جائے۔ یہ رعایت رکھنی چاہئے کہ ایک ماشہ سے زیادہ نہ ہو۔ جب برداشت ہو جائے تو دو ماشہ تک کرسکتے ہیں۔ ہر ایک میٹھی چیز سے حتی الوسع پرہیز رہے۔ کبھی کبھی کھالیں اور مہینہ میں ہمیشہ دس دن دوا کھا لیں کریں۔ بیس دن چھوڑ دیا کریں۔ یہ دوا انشاء اللہ نہایت عمدہ ہے ایسے امراض میں حفظ ماتقدم کے طور پر ہمیشہ دوا کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ یعنی مہینہ میں دس دن۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں اور یہ خط بذریعہ ڈاک نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ جیسا کہ اس خط پر ایک نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمدسے میاں کریم بخش بھیجا گیا۔ مگر دوسرے خط سے جو اس دوائی کے متعلق ہے کہ جون ۱۸۹۹ء کا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں بباعث علالت طبع چند روز جواب لکھنے سے معذور رہا۔ میری کچھ ایسی حالت ہے کہ ایک دفعہ ہاتھ پیر سرد ہو کر اور نبض ضعیف ہو کرغشی کے قریب قریب حالت ہو جاتی ہے اوردوران خون تک دفعہ ٹھہرجاتا ہے۔جس میں اگر خداتعالیٰ کافضل نہ ہوتو موت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں میں یہ حالت دو دفعہ ہو چکی ہے۔ آج رات پھر اس کاسخت دورہ ہوا۔ا س حالت میں صرف عنبر یا مشک فائدہ کرتا ہے۔ رات دس خوراک کے قریب مشک کھایا پھر بھی دیر تک مرض کا جوش رہا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ صرف خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر زندگی ہے۔ ورنہ دل جو رئیس بدن ہے۔ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔
آپ نے دوا کے بارے میں جو دریافت کیاتھا۔ ایام امید میں دوا ہرگز نہیں کھانی چاہئے اور نہ ہمیشہ کھانی چاہئے۔ کبھی ایک ہفتہ کھاکر چھوڑ دیں اور ایک دو ہفتہ چھوڑ کر پھرکھانا شروع کریں۔ مگر ایام حمل میں قطعاً ممنوع یعنی ہر گز نہیں کھانی چاہئے۔ جب تک بچہ ہوکر دو مہینہ نہ گزر جائیں۔ اگر سرعت تنفس با اختلاج قلب ہو تو تدبیر غذا کافی ہے۔ یعنی دودھ مکھن چوزہ کا پلائو استعمال کریں۔ بہت شیرینی سے پرہیز کریں۔ شیرہ بادام۔ مقشر الائچی سفید ڈال کر پیویں۔ موسم سرما میں اسکائش ایمکیش استعمال کریں۔ یعنی مچھلی کا تیل جوسفید اور جما ہوا شہد کی طرح یا دہی کی طرح ہوتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتاہے۔ دل کو مقوی ہے۔ پھیپڑہ کوبہت فائدہ کرتا ہے۔ چہرہ پر تازگی اور رونق اور سرخی آتی ہے۔ لاہور سے مل سکتا ہے۔ مگر میری دانست میں ان دنوں میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ کسی قدر حرارت کرتا ہے۔ ان دنوں سادہ مقوی غذائیں مکھن۔ گھی۔ دودھ اور مرغ پلائو استعمال کرنا کافی ہے اور کبھی کھبی شیرہ بادام استعمال کرنا وہ دوا یعنی گولیاں وہ ہمیشہ کے استعمال کے لئے نہیں ہے۔ ایک گولی خوراک کافی ہے۔ا گر مہندی کاپانی بھی پی سکیں تو یونہی کھا لیں۔ مگر یاد رہے کہ مہندی بھی ایک زہر کی قسم ہے۔اگر پانی پیا جائے تو صرف احتیاط ہے ایک ماشہ برگ مہندی بھگوئیں وزن کر کے بھگوئیں۔ ہر گز اس سے زہر نہ ہو۔ کیوں کہ زیادہ سخت تکلیف دہ ہے۔اس پانی کے ساتھ گولی کھائیں اوراگر پانی مہندی کا پیا نہ جائے تو عرق گائوزبان کے ساتھ کھائیں۔ ہمیشہ کثرت شیرینی سے پرہیز رکھنا ضروری ہے۔ زیادہ خیریت ہے اس وقت میری طبیعت بحال نہ تھی۔ لیکن بہرحال یہ خط میں نے لکھ دیا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ جون ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۲۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے منظور ہے کہ مرزا خد ا بخش صاحب کی روانگی ۱۰؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک ملتوی رکھی جائے اور آپ کی قادیان میں تشریف آوری کے لئے میں پسند نہیں کرتا کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء کے پہلے آپ تشریف لاویں۔ کیونکہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء سے پہلے سخت گرمی اورپریشانی اور بیماریوں کے دن ہیں۔ ریل کی سواری بھی ان دنوں میں ایک عذاب کی صورت معلوم ہوتی ہے اورمعدہ ضعیف اور وبائی ہو احرکت میں ہوتی ہے۔ لیکن ۲۲؍ستمبر کے بعد موسم میں ایک صریح انقلاب ہو جاتا ہے اوررات کے وقت اندر سوسکتے ہیںاور اطمینان کے ساتھ حالت رہتی ہے۔ا س موسم میں ارادہ کو۲۲؍ستمبر پر مصمم فرماویں اوراس سے پہلے موسم کچا اور سفر کرنا خطرناک ہے یہی صلاح بہتر ہے۔ کوئی ایسی تجویز ہو آپ کے لئے اس جگہ کوئی سامان تیار ہو جائے۔ خدا تعالیٰ ہر ایک شے پر قادر ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
اس خط پر کوئی تاریخ تو درج نہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جولائی کے آخر یا اگست ۱۸۹۹ء کے شروع کا ہے۔ حضرت اقدس نے جو خواہش نواب صاحب کے لئے مکان کی فرمائی تھی۔ خداتعالیٰ نے وہ بھی پوری کر دی۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کوجو الہام ہو اہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آگیاہے۔ جیسا کہ یہ الہام ھوالذی ارسل رسولہ یالھدی و دین الحق اورجیساکہ یہ الہام جری اللہ فی خلل لانبیاء اور جیسا کہ یہ الہام دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔
نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک قدیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔
ایسے ہی بہت سے الہام ہیں۔ جن میںاس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے۔ لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے۔ جو ایسا سمجھتا ہے۔ جو اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت مراد ہے۔ جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔ بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مرا د ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا۔ سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے۔ اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھ لینا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین او ر اس آیت کاانکار کرنا یا استحفاف کی نظر سے اس کودیکھنا درحقیقت اسلام سے علیحدہ ہونا ہے۔ جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے۔ ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ خداتعالیٰ اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اوردنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں۔ ہمیشہ شیاطین کی راہ زنی سے اپنے تیئں بچانا چاہئے اوراسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے۔ ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علت غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور نجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت *** عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیںاور نبوت یہ ہے کہ خد اسے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا۔ سو اس حد تک مفہوم کو زہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ ا س جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔ کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمار ا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یا د رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہو نے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ازقادیان
۷؍ اگست ۱۸۹۹ء
نوٹ:۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنے دعوے نبوت و رسالت کی حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ آپ نے اپنے اس دعوی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ البتہ اس کا مفہوم اور منطوق بھی کبھی قرار نہیں دیا۔ جو آپ کے معاندین ومنکرین نے آپ کی طرف منسوب کیا۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی قدر تریاق جدید کی گولیاں ہمدست مرزا خدا بخش صاحب آپ کی خدمت میں ارسال ہیں اورکسی قدر اس وقت دے دوں گا۔ جب آپ قادیان آئیںگے یہ دوا تریاق الٰہی سے فوائد میں بڑھ کر ہے۔ اس میں بڑی بڑی قابل قدر دوائیں پڑی ہیں۔ جسیے مشک۔ عنبر۔ نرلسبی۔ مروارید۔ سونے کاکشتہ۔ فولاد یا قوت احمر۔ کونین۔ فاسفورس۔ کہربا۔ مرجان۔ صندل۔ کیوڑہ۔ زعفران یہ تمام دوائیں قریب سے کے ہیں اور بہت سا فاسفورس اس میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ دوا علاج طاعون کے علاوہ مقوی دماغ۔ مقوی جگر۔ مقوی معدہ۔ مقوی باہ اور مراق کو فائدہ کرنے والی مصفی خون ہے۔ مجھ کو اس کے تیار کرنے میں اوّل تامل تھا کہ بہت سے روپیہ پر اس کاتیا ر کرنا موقوف تھا۔ لیکن چونکہ حفظ صحت کے لئے یہ دوا مفید ہے۔ اس لئے اس قدر خرچ گوارا کیا گیا۔ چالیس تولہ سے کچھ زیادہ اس میں یا قوت احمر ہے۔ا گر خریدا جاتا تو شاید کئی سو روپیہ سے آتا۔ بہرحال یہ دوا خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گئی ہے گو بہت ہی تھوڑی ہے۔ لیکن اس قدر بھی محض خدا تعالیٰ کی عنایت سے تیار ہوئی۔ خوراک اس کی اوّل استعمال میں دو رتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ تاگرمی نہ کرے۔ نہایت درجہ مقوی اعصاب ہے اور خارش اور ثبورات اور جذام اور ذبابیطس اور انواع و اقسام کے زہر ناک امراض کے لئے مفید ہے اور قوت باہ میں اس کو ایک عجیب اثر ہے۔ سرخ گولیاں میں نے نہیں بھیجی۔ کیونکہ صرف بواسیر اور جذام کے لئے ہیں اور ذیابیطیس کو بھی مفید ہے۔ا گر ضرورت ہو گی تو وہ بھی بھیج دوں گا موجود ہیں۔
مرزا خد ابخش کونصیبین میں بھیجنے کی پختہ تجویز ہے۔ خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے کئی موقعے ہوتے ہیں۔ جو ہروقت ہاتھ نہیں آتے۔ کیا تعجب کہ خداتعالیٰ آپ کی اس خدمت سے آپ پر راضی ہو جائے اور دین اور دنیا میں آپ پر برکات نازل کرے کہ آپ چند ماہ اپنے ملازم خاص کوخد اتعالیٰ کاملازم ٹھہرا کر اور بد ستور تمام بوجھ اس کی تنخواہ اورسفر کا خرچ اپنے ذمہ پر رکھ کر اس کو روانہ نصیبین وغیرہ ممالک بلا و شام کریں۔ میرے نزدیک یہ موقعہ ثواب کا آپ کے لئے وہ ہو گا کہ شائد پھر عمر بھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آوے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جانے سے پہلے دس بیس میرے پاس رہیں تا وقتاً فوقتاً ضروری یا داشتیں لکھ لیں۔ کیونکہ جس جگہ جائیں گے وہاں ڈاک نہیں پہنچ سکتی۔ جو کچھ سمجھایا جائے گا پہلے ہی سمجھایا جائے گا اور میرے لئے یہ مشکل ہے کہ سب کچھ مجھے ہی سمجھانا ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت کے آدمی اپنے دماغ سے کم پید اکرتے ہیں۔ سو ضروری ہے کہ دو تین ہفتہ میرے پاس رہیں اور میں ہر ایک مناسب امر جیسا کہ مجھے یا د آتا جائے ان کی یاداشت میں لکھا دوں۔ جس وقت آپ مناسب سمجھیں ان کو اس طرف روانہ فرمادیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۹ء تک آپ قادیان میں ضرور تشریف لاویں گے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۹؍ اگست ۱۸۹۹ء
مکتوب نمبر(۳۲)ملفوف
اللہ ۹؍ نومبر ۱۸۹۹ء
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پانچ سو روپیہ کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی ……۷۵ پہنچ گئے۔ جزاکم اللہ خیرا لجزاء دو آدمی جو نصیبین میں بر فاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیںگے۔ ان کے لئے پانچ سو روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ لہذا تحریر آں محب اطلاع دی گئی ہے کہ پانچ سو روپیہ ان کی روانگی کے لئے چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ نومبر ۱۸۹۹ء تک آں محب تشریف لائیں گے باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
نوٹ:۔اس خط میں نواب صاحب کے آنے کی جو تاریخ لکھی ہے۔ وہ صاف پڑھی نہیں گئی۔ غالباً آخر نومبر کی کوئی تاریخ ہو گی نصیبین کا مشن بعد میں بعض مشکلات کی وجہ سے بھیجا نہ جاسکا۔ گو اس مقصد کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔
اس خط پر جیسا کہ حضرت کا عام معمول تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی نہیں لکھا۔ مگر وہ نشان جس کے گرد میں نے حلقہ دے دیا ہے۔ جواللہ پڑھا جاتا ہے۔ درج ہے۔ بہرحال آپ نے بسم اللہ ہی اس کو شروع کرفرمایا ہے۔ (عرفانی)

مکتوب نمبر(۳۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۲۹؍ جنوری ۱۹۰۰) نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
یہ دوبارہ ہی لکھا ہے۔
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ہمدست مولوی محمد اکرم صاحب مجھ کو ملا اور دل سے آخر تک پڑھا گیا۔ دل کو اس سے بہت درد پہنچا کہ ایک پہلو سے تکالیف اور ہموم و غموم جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے مخلصی عطا فرماوے۔ مجھ کو (جہاں تک انسان کو خیال ہو سکتا ہے) یہ خیال جوش مار رہا ہے کہ آپ کے لئے ایسی دعا کروں جس کے آثار ظاہر ہوں۔ لیکن میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور حیران ہو ں کہ باوجود یہ کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں۔ پھر بھی ابھی تک مجھ کو ایسی دعا کا پورا موقعہ نہیں مل سکا۔ دعا تو بہت کی گئی اور کرتا ہوں۔ مگر ایک قسم کی دعا ہوتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں۔ غالباً کسی وقت کسی ظہور میں آئی ہو گی اور اس کااثر یہ ہو اہو گا کہ پوشیدہ آفات کو خدا تعالیٰ نے ٹال دیا۔ لیکن میری دانست میں ابھی تک اکمل اور اتم طور پر ظہور میں نہیں آئی۔ مرزا خدا بخش صاحب کا اس جگہ ہونا بھی یا ددہانی کا موجب ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت کوئی ایسی گھڑی آجائے گی کہ یہ مدعا کامل طور پر ظہور میں آجائے گا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور کامل طور پر قوت ایمان عطا فرماوے اور ہر طرح سے امن میں رکھے۔تب اس کے باقی ہموم وغموم کچھ چیز نہیں۔ میر ادل چاہتا ہے کہ آپ دو تین ماہ تک میرے پاس رہیں۔ نہ معلوم کہ یہ موقعہ کب ہاتھ آئے گا اورمدرسہ کے بارے میں انشاء اللہ استخارہ کروں گا۔ا گر کچھ معلوم ہوا تو اطلاع دوں گا۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۷؍ اگست ۱۹۰۰)نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاتحفہ پارچات نفیس و عمدہ جو آپ نے نہایت درجہ کی محبت اور اخلاص سے عطا فرمائے تھے مجھ کو مل گئے ہیں اس کا شکریہ اد اکرتا ہوں۔ ہر ایک پارچہ کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ آں محب نے بڑی محبت اور اخلاص سے ان کوتیار کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اپنے بے انتہاء اور نہ معلوم کرم اور فضل آپ پر کرے اور لباس التقویٰ سے کامل طور سے اولیاء اور صلحاء کے رنگ سے مشرف فرماوے ایک بڑی خواہش ہے کہ آپ فرصت پا کر تشریف لاویں۔ کیونکہ اب تک ایک سوئی او رمخالطب کی صحت کا آپ کو اتفاق نہیں ہوا اورجو کچھ آن محب نے صاحب کمشنر کی زبانی سنا تھا۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ اور خیال انگریزی سلطنت کی نسبت بخیر اور نیک ہے۔اس لئے آخر انگریزوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ تہمیتں ہیں۔ کوئی تردد کی جگہ نہیں اور علالت طبیعت کے بارے میں جو آپ نے لکھا تھا۔ خدا تعالیٰ کافضل درکار ہے۔ سب خیر ہے۔ میں بہت دعا کرتا ہوں۔ بہتر ہے کہ اکثر مچھلی کے تیل کا استعمال شروع رکھیں اورجو تریاق الٰہی میں نے بھیجا تھا۔ ان میں سے یعنی دونوں قسموں سے کھایا کریں بہت مفید ہے اور جو آپ نے اپنے گھر کی نسبت لکھا تھا کہ مجھ کوکچھ بہت خوش نہیں رکھتیں۔ اس میں میری طرف سے یہی نصیحت ہے کہ آپ اپنے گھر کے لوگوں سے بہت احسان اور خلق اور مدارت سے پیس آیا کریں اور غائبانہ دعا کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ خیر کم خیر لاہلہ۔
انشاء اللہ بہت سی خوبیاں پید اہوجائیںگی۔ دنیا ناپائیدار ہے۔ ہر ایک جگہ اپنی مروت اور جوان مردی کانمونہ دکھلانا چاہئے اورعورتیں کمزور ہیں وہ اس نمونہ کی بہت محتاج ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ مرد خلیق پرخدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ میں یہ سبب ایام صیام اور عید کے خط نہیں لکھ سکا۔ آج خط لکھا ہے۔ باقی سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
ایک ضروری نوٹ از خاکسار ایڈیٹر
مکتوبات کا یہ حصہ جو میں یہاں دے رہا ہوں۔ یہ مکرمی خان صاحب میاں عبدالرحمن خاں صاحب خلف الرشید حضرت نواب صاحب قبلہ کے ذریعہ مجھے میسر آیا۔ مجھے افسوس ہے کہ ان خطوط کے لفافہ نہیں رکھے گئے۔ ورنہ ہر خط (جس پر تاریخ درج نہیں تھی) تاریخ کابا آسانی پتہ لگ سکتاتھا۔ اب بھی واقعات کے تاریخی سلسلہ سے ان کی تاریخ کاپتہ لگانا مشکل نہیں۔ مگر میں دارلامان قادیان سے دور ساحل بمبئی پر انہیں ترتیب دے رہاہوں۔ جہاں اس قسم کا سامان مجھے میسر نہیںہے۔ اس لئے ہر خط پر نوٹ دینے کی بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک نوٹ ان خطوط سے پہلے دے دوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔ اگر کسی خط پر مزید صراحت کی ضرورت ہوئی ہے تو وہاں بھی میں نے نوٹ دے دیا ہے۔ (عرفانی)
مکتوب نمبر(۳۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روز کے قریب ہو گیا کہ آپ کودیکھا نہیں۔ غانبانہ آپ کی شفاء کے لئے دعا کرتا ہوں۔ مگر چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس آکر سنت عیادت کا ثواب بھی حاصل کروں۔ آج سرگردانی سے بھی فراغت ہوئی ہے اورلڑکی کو بھی بفضلہ تعالیٰ آرام ہے۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اگست ۱۹۰۲ء
مکتوب نمبر(۳۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ مضمون پڑھ کر عزیزی عبدالرحمن خاں کو پھر بخار ہو گیاہے۔ نہایت قلق ہوا۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ اب میں حیران ہوں کہ اس وقت جلد آنے کی نسبت کیا رائے دوں۔ پھر دعا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے۔ اس جگہ طاعون سخت تیزی پر ہے۔ ایک طرف انسان بخار میں مبتلا ہوتا ہے اورصرف چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کب تک یہ ابتلا دور ہو۔ لوگ سخت ہراساں ہو رہے ہیں زندگی کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر طرف چیخوں اور نعروں کی آواز آتی ر ہتی ہے۔ قیامت برپا ہے۔ اب میں کیا کہوں اور کیا رائے دوں۔ سخت حیران ہوں کہ کیا کروں۔ اگر خد اتعالیٰ کے فضل سے بخار اتر گیا ہے اور ڈاکٹر مشورہ دے دے کہ اس قدر سفر میں کوئی حرج نہیں۔ تو بہت احتیاط اور آرام کے لحاظ سے عبدالرحمن کو لے آویں۔ مگر بٹالہ سے ڈولی کا انتظام ضرور چاہئے۔ اس جگہ نہ ماجیور ڈولی بردار ملتا ہے نہ ڈولی کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ بٹالہ سے کرنا چاہئے۔ آپ کے گھر میں ہر طرح خیریت ہے۔ ام حبیبہ مرزا خدا بخش کی بیوی برابر آپ کے گھر میں سوتی ہے اوربچے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ وہ اکثر روتے چیختے رہتے ہیں۔ کوئی عورت نہیں جوا ن کی حفاظت کرے اس لئے یہ تجویز خیال میں آتی ہے کہ اگر ممکن ہوتو چند روز مرزا خدا بخش آکر اپنے بچوں کو سنبھال لیں اوروہ بالکل ویرانہ حالت میں ہیں۔ باقی سب طرح خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکرر یہ کہ آتے وقت ایک بڑا بکس فینائل کا جو سولہ بیس روپیہ کا آتا ہے ساتھ لے آویں۔ اس کی قیمت اس جگہ دی جائے گی اور علاوہ اس کے آپ بھی اپنے گھر کے لئے فینائل بھیج دیں اورڈس انفکٹ کے لئے رسکپوراس قدر بھیج دیں۔ جو چند کمروں کے لئے کافی ہو۔
مکتوب نمبر(۳۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا الحمد اللہ والمنۃ کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے عزیزی عبدالرحمن خان کو صحت بخشی۔ گویا نئے سرے زندگی ہوئی ہے۔ اب میرے نزدیک تو یہی بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے قادیان میں آجائیں۔ لیکن ڈاکٹر کو مشورہ ضروری ہے۔ کیونکہ مجھے دور بیٹھے معلوم نہیں کہ حالات کیا ہیں اورصحت کس قدر ہے۔ بظاہر اس سفر میں چنداں تکلیف نہیں۔ کیوں کہ بٹالہ تک تو ریل کا سفر ہے اور پھر بٹالہ سے قادیان تک ڈولی ہو سکتی ہے اور گو ڈولی میں بھی کسی قدر حرکت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آہستہ آہستہ یہ سفر کیا جائے تو بظاہر کچھ حرج معلوم نہیں ہوتا اور قادیان کی آب وہوا نہ نسبت لاہور کے عمدہ ہے۔ آپ ضرور ڈاکٹر سے مشورہ لے لیں اور پھر ان کے مشورہ کے مطابق بلا توقف قادیان میں چلے آویں۔ باقی اس جگہ زور طاعون کا بہت ہو ر ہا ہے۔ کل آٹھ آدمی مرے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم کرے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۲۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ والمنۃ عزیز عبدالرحمن خاں صاحب کی طبیعت اب روبہ صحت ہے الحمدللہ ثم الحمد للہ اب میرے نزدیک (واللہ اعلم) مناسب ہے کہ اگر ڈاکٹر مشورہ دیں تو عبدالرحمن کو قادیان میں لے آویں۔ اس میں آب وہوا کی تبدیلی ہو جائے گی۔ ریل میں تو کچھ سفر کی تکلیف نہیں۔ بٹالہ سے ڈولی کی سواری ہو سکتی ہے۔ بظاہر بات تو یہ عمدہ ہے۔ تفرقہ دور ہو جائے گا اس جگہ قادیان میں آج کل طاعون کا بہت زور ہے۔ ارد گرد کے دیہات تو قریباً ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی اس جگہ سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط میں نے پڑھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بات کے معلوم ہونے سے کہ جس قدر بوجہ ہمسائیگی ہمدردی ضروری ہے۔ وہ آپ سے ظہور میں نہیں آئی۔ یعنی والدہ محمود جو قریباً دس ماہ تک تکالیف حمل میں مبتلا ہیں اور جان کے خطرہ سے اللہ تعالیٰ نے بچایا۔ اس حالت میں اخلاق کا تقاضا یہ تھا کہ آپ سب سے زیادہ ایسے موقعہ پر آمدور فت سے ہمدردی ظاہر کرتے اور اگر وہ موقعہ ہاتھ آناضروری تھا۔ بلکہ اس موقعہ پر برادرانہ تعلق کے طور پر آنا ضروری تھا۔ بلکہ اس موقع پر کم تعلق والی عورتیں بھی مبارک باد کے لئے آئیں۔ مگر آپ کی طرف سے ایسادروازہ بند رہا کہ گویا سخت ناراض ہیں۔اس سے سمجھا گیا کہ جب کہ اس درجہ تک آپ ناراض ہیں۔ تو پھر دروازہ کا کھلا رہنا نا مناسب ہے۔ ایسے دروازے محض آمدورفت کے لئے ہوتے ہیں اورجب آمدورفت نہیں تو ایسا دروازہ ایسی ٹہنی کی طرح ہے۔ جس کو کبھی کوئی پھل نہ لگتا ہو۔اس لئے اس دروازہ کو بند کر دیا گیا۔ لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت بیمار تھے۔ اس وجہ سے آنے سے معذوری ہوئی۔اس عذر کے معلوم ہونے کے بعد میں نے وہ دروازہ کھلا دیا ہے اوردرحقیقت ایسی بیماری جس سے زندگی سے بھی بیزاری ہے کہی ایسی سخت بیماری کی حالت میں کیونکر آسکتے تھے۔ امید ہے کہ جس طرح نواب صاحب سچی ہمدردی رکھتے ہیں۔ آپ بھی اس میں ترقی کریں۔ خداتعالیٰ ہرایک آفت اور بیماری سے بچاوے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عنایت علی صاحب کو اس نوکری کی پرواہ نہیں ہے۔ ورنہ باوجود اس قدر بار بارلکھنے کے کیا باعث کہ جواب تک نہ دیا۔ اس صورت میں آپ کو اختیار ہے جس کو چاہیں مقرر کر دیں اور یہ بھی آپ کی مہربانی تھی۔ ورنہ نوکروں کے معاملہ میں بار بار کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب کہ وہ خود استعفاء بھیجتا ہے تو آپ حق ترحم ادا کرچکے۔ اس صورت میں اس جگہ بھیج سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ نے موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ انتظام کیا ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۴۵)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت تار کے نہ پہنچنے سے بہت تفکر اور تردد ہوا۔ خد اتعالیٰ خاص فضل کر کے شفاء بخشے۔اس جگہ دور بیٹھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حالت کیا ہے۔ اگر کوئی صورت ایسی ہو کہ عبدالرحمن کو ساتھ لے کر قادیان آجاویں۔ تو روبرو دیکھنے سے دعا کے لئے ایک خاص جوش پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفاء بخشے اوروہ آپ کے دل کا ددر دور کرے۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵؍ مارچ ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۶)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںاس کام میں بالکل دخل نہیں دیتا۔ آپ کا کلی اختیار ہے۔ اس وقت مجھے وہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی ہے۔ انتم اعلم بدنیا کم اور سرمایہ لنگر خانہ کا یہ حال ہے کہ گھر میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ کچھ روپیہ نہیں دیا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس کاخرچ متفرق ہوتا رہا۔ میرے پاس اس وقت شائد پانچ سوروپیہ کے قریب ہوگا۔ جو لنگر خانہ کے لئے جمع تھے۔ باقی سب خرچ ہوچکا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ابتلاء ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپیہ بہت جمع ہوتا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔ اگر کوئی ان اخراجات کا ذمہ وار ہو جو ہر ایک پہلو سے ہو رہے ہیں تو وہ اس روپیہ کو اپنے پاس رکھے تو مجھے اس رنج و بلا سے سبکدوشی ہو۔ خواہ مخواہ تفرقہ طبیعت ہر وقت لگا رہتا ہے اور موجب آزار ٹھہرتا ہے۔
مکتوب نمبر(۴۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ اس کا پڑھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے۔ مجھے اوّل سے معلوم ہے کہ نور محمد کے لڑکے کی شکل اچھی نہیں ا ور نہ ان لوگوں کی معاشرت اچھی ہے۔اگر سادات میں کوئی لڑکی ہو۔جو شکل اور عقل میں اچھی ہو تو اس سے کوئی امر بہتر نہیں۔ا گر یہ نہ ہو سکے تو پھر دوسری شریف قوم میں سے ہو۔ مگر سب سے اوّل اس کے لئے کوشش چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو جلد ہونا چاہئے۔ا گر ایسا ظہور میں آگیا تو مولوی صاحب کے تعلقات کوٹلہ سے پختہ ہوجائیںگے اور اکثر وہاںکے رہنے کا بھی اتفاق ہو گا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور چند ہفتہ میں یہ مبارک کام ظہور میں آئیں تو کیا تعجب ہے کہ یہ عاجز بھی اس کارخیر میں مولوی صاحب کے ساتھ کوٹلہ میں آوے۔ سب امر اللہ تعالیٰ کے اخیتار میں ہے۔ امیدکہ پوری طرح آں محب کوشش فرماویں۔ کیونکہ یہ کام ہونا نہایت مبارک امرہے۔ خدا تعالیٰ پوری کر دیوے۔ آمین ثم آمین۔
اس عاجز نے دوسو روپیہ آں محب سے طلب کیا ہے۔ انیٹوں کی قیمت اور معماروں کی اجرت میں برسات اب سر پر ہے۔اگر اس وقت تکلیف فرما کر ارسال فرماویں تواس غم سے کہ ناگہانی طور پر میرے سر پر آگیا ہے مجھے نجات ہو گی ۔ مجھے ایسی عمارات سے طبعاً کراہت اور سخت کراہت ہے۔ اگر آپ کی نیت درمیان نہ ہوتی تو میں کجا اور ایسے بیہودہ کام کجا۔ آپ کی نیت نے یہ کام شروع کرایا۔ مگر افسوس اس وقت تک یہ بیکار ہے جب تک کہ اورپر کی عمارت نہ ہو۔ عمارت کے وقت تو یہ شعر نصب العین رہتا ہے۔
عمارت در سرائے دیگر انداز۔ کہ دنیا را اساسے نیست محکم
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ از قادیان
۱۸۹۷ء
مکتوب نمبر(۴۸)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ خداتعالیٰ آپ کوان مشکلات سے نجات دے۔ علاوہ اور باتوں کے میں خیال کرتا ہوں کہ جس حالت میں شدت گرمی کا موسم ہے اور بباعث قلنت برسات یہ موسم اپنی طبعی حالت پر نہیں اور آپ کی طبیعت پر سلسلہ اعراض اور امراض کا چلا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ درحقیقت بہت کمزور ا ور نحیف ہو رہے ہیںا ور جگر بھی کمزور ہے۔ عمدہ خون بکثرت پید انہیں ہوتا ۔ تو ایسی صورت میں آپ کاشدائد سفر تحمل کرنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں اور کیا وجہ کہ آپ کے چھوٹے بھائی سردار ذولفقار علی خاںجو صحیح اور تندرست ہیں۔ ان تکالیف کاتحمل نہ کریں۔اگر موسم سرما ہوتا تو کچھ مضائقہ بھی نہ تھا۔ مگر یہ بے صبری اور بیجا شتاب کاری سے دور نہیں ہو سکتیں۔ صبر اور متانت اور آہستگی اور ہوش مندی سے ان کا علاج کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس خطرناک موسم میں سفر کریں اور خدانخواستہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر موجب شماتت اعدا ہوں۔ پہلے سفر میں کیسی کیسی حیرانی پیش آئی تھی اور لڑکے بیمار ہونے سے کس قدر مصائب کا سامنا پیش آگیا تھا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ کمشنر کے پاس آپ ہی جائیں اور دوسری کوئی تدبیر نہیں۔ غرض میری یہی رائے ہے کہ یہ کاروبار آپ پر ہی موقوف ہے تو اگست اور ستمبر تک التوا کیا جائے اور اگر ابھی ضروری ہے تو آپ کے بھائی یہ کام کریں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ بیمار نہ ہوجائیں۔ خط واپس ہے۔ اس وقت مجھے بہت سردرد ہے۔ زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ‘
مکتوب نمبر(۴۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
میں نے آپ کے تمام خطوط مرسلہ پڑھ لئے۔ میرے نزدیک اب کفالت شعاری کے اصول کی رعایت رکھنا ضروریات سے ہے۔ اس لئے اب جواب کافی ہے۔ یعنی نسبت میر عنایت علی کہ چونکہ وقت پر وہ حاضر نہیں ہوسکے اس لئے بالفعل گنجائش نہیں اور آئندہ اگر گنجائش ہوئی تو اطلاع دے سکتے ہیں اور مرزا خدا بخش صاحب کے صاحبزادے چونکہ بباعث کمی استعداد تعلیم پانے کے لائق نہیں۔ ان کو بہ توقف رخصت کرنا بہتر ہے۔ ناحق کی زیر باری کی کیا ضرورت ہے اور افسوس کہ جس قدر آپ نے اپنے کاروبار میں تخفیف کی ہے۔ ابھی وہ قابل تعریف نہیں۔ شاید کسی وقت پھر نظر ثانی کریں تو اور تخفیف کی صورتیں پیدا ہو جائیں اور دعا تو کی جاتی ہے۔ مگر وقت پر ظہور اثر موقوف ہوتا ہے۔ خد اتعالیٰ تکالیف سے آپ کو نجات بخشے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۰)ملفوف
(اصل خط نواب صاحب)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
التجا ہے کہ بعد ملا خطہ کل عریضہ حکم مناسب سے مطلع فرمایا جاوے۔
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھ کو جب کسی ملازم کو موقوف کرنا پڑتا ہے تو مجھ کو بڑی کوشش و پنج ہو تی ہے اور دل بہت کڑھتا ہے۔ اس وقت بھی مجھ کو دو ملازموں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ایک قدرت اللہ خاںصاحب اور دوسرے عنایت علی صاحب۔ یہ دونوں صاحب احمدی بھی ہیں۔ اس سے اور بھی طبیعت میں بیج وتاب ہے۔ میراجی نہیںچاہتا کہ کوئی لائق آدمی ہو اور اس کو بلاقصور موقوف کر دوں۔ اب وقت یہ پیش آئی ہے کہ سید عنایت علی کوئی پانچ سال سے میرے ہاں ملازم ہیں۔ مگر کام کی حالت ان کی اچھی نہیں۔ اب تک جس کام پر ان کو میں نے لگایا ہے ۔ اس کی سمجھ اب تک ان کو نہیں آئی اور انہوں نے کوئی ترقی نہیں کی اورمیرے جیسے محدود آمدنی کے لئے ایسے ملازم کی ضرورت ہے کہ جو کئی سال کام کرسکے۔ وہ اپنا مفوضہ کام پوری طرح نہیں چلا سکے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ نیک اور دیانت دار ہیں۔ مگر کام کے لحاظ سے بالکل ندارد ہیں اور اس پانچ سال کے تجربہ نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچا دیا ہے کہ میں ان کی علیحدہ کر دوں۔ یہ میری سال گزشتہ سے منشاء تھی۔مگر صرف ا س سبب سے کہ وہ نیک ہیں۔دیانت دار ہیںا وراحمدی ہیں میں رکا تھا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ جوفائدہ ان کی دیانت سے ہے اس سے زیادہ نقصان ان کی عدم واقفیت کام سے ہوتا ہے۔ پس اب میں نہایت ہی مترددہوںکہ ان کو موقوف کردوں کہ نہیں۔ کاش وہ میرا کام چلا سکتے تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک وقت ہے کہ میںنے ان سے مختلف صیغوں میں کام لیا۔ مگر وہر جگہ ناقابل ہی ثابت ہوئے۔
مکتوب نمبر(۵۱)ملفوف (نواب صاحب کاخط)
سیدی مولانیٰ مکرمی معظمی طبیب روحانی سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ جو رنج اور قلق اس واقعہ سے جو ہماری بد قسمتی اور بے سمجھی سے پیش آیا ہے۔ یعنی میرے گھر سے حضور کی علالت کے موقعہ پر حاضر نہیں ہوئے۔ اب اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں ہم کو اپنے قصور کا اعتراف ہے۔
ہم اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ اب تک جو معافی قصور کے لئے درخواست کرنے میں دیر ہوئی۔ وہ میرے گھر کے لوگوں کو یہ سبب ایسے واقعات کے کبھی پیش نہ آنے کی وجہ سے اور زیادہ حجاب واقع ہو گیا اور ان کو شرم ہر ایک سے آنے لگی میں اب خاموش رہا کہ جب تک اس جھوٹی شرم سے خودہی باز نہ آئیں گے۔ جب تک میں خاموش رہوں۔ تاکہ دل سے ان کو یہ محسوس ہو اور خود دل سے معافی چاہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک پرچہ اپنے حال کا لفافہ میں رکھ کر بھیجا ہے تاکہ حضور کی خدمت میں پیش کروں۔ پس اب عرض ہے۔ بقول برما منگر یر کرم خویش مگر از خورد ان خطا واز بزرگان عطا۔ آپ میری بیوی کا یہ قصور معاف فرمادیں۔ (راقم محمدعلی خاں )
حضرت اقدس کا مکتوب
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جو کچھ میں نے رنج ظاہر کیا تھا۔ وہ درحقیقت ایساہی تھا جیسا کہ باپوں کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ میں تربیت کے لئے مامور ہوں۔ سو میری فطرت میں داخل کیا گیا ہے کہ میں ایک معلم ناصح اورشفیق مربی کی طرح اصلاح کی غرض سے کبھی رنج بھی ظاہر کر وں اور خطا کو معاف نہ کرنا خود عیب میں داخل ہے۔ اس لئے میں پورے دل کی صفائی سے اس خطا کومعاف کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو اپنے فضل سے سچی پاکیزگی اور سچی دینداری سے پورے طور پر متمنع فرمائے۔ آمین ثم آمین اور اپنی محبت اور اپنے دین کی التقات عطا فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام ا حمد عفی عنہ
مکتوب نمبر(۵۲)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کی ڈاک میں آں محب کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی محبت اور اخلاص اور ہمدردی میں کچھ شک نہیں ۔ہاں میں ایک استاد کی طرح جو شاگردوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ آیندہ کی زیادہ قوت کے لئے اپنے مخلصوں کے حق میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہوں جن سے وہ متبنہ ہو کر اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ قوتیں ظاہر کریں اور دعا ہی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی کمزوریاں دور فرمائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کا تمام کاروبار اور اس کی نمائش اور عزتیں جناب کی طرح ہیں اور نہایت سعادت مندی اسی میں ہے کہ پورے جوش سے اور پوری صحت کے ساتھ دین کی طرف حرکت کی جائے اورمیرے نزدیک بڑے خوش نصیب وہ ہیں کہ اس وقت اور میری آنکھوں کے سامنے دکھ اٹھا کر اپنے سچے ایمان کے جوش دکھاویں۔ مجھے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا۔ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی طرح گواہی ادا کر سکوں۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ خد اکا خوف بہت بڑھا لیا جائے۔ تا اس کی رحمتیں نازل ہوں اورتا وہ گناہ بخشے۔ آپ کے دو خط آنے کے بعد ہمارے اس جگہ کے دوستوں نے اس رائے کو پسند کیا کہ جو زمانہ گھر کے حصہ مغربی کے مکانات کچے اور دیوار کچی ہے۔اس کو مسمار کر کے اس کی چھت پر مردانہ مکان تیار ہو جائے اور نیچے کامکان بدستور گھر سے شامل رہے۔ چنانچہ حکمت الٰہی سے یہ غلطی ہو گئی کہ وہ کل مکان مسمار کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ مردانہ مکان تو صرف اوپر تیار ہو سکتا ہے اور زنانہ مکان جو تمام گرایا گیا ہے۔ اگر نہایت ہی احتیاط اور کفایت سے اس کو بنایا جائے تو شاید ہے کہ آٹھ سو روپیہ تک بن سکے۔ کیو نکہ اس جگہ انیٹ اور دوہری قیمت خرچ ہوتی ہے اور مجھے یقین نہیں کہ چار سور وپیہ کی لکڑی آکر بھی کام ہوسکے۔ بہرحال یہ پہلی منزل اگر تیار ہو جائے تو بھی بیکار ہے۔ جب تک دوسری منزل اس پر نہ پڑے کیوں کہ مردانہ مکان اسی چھت پر پڑ گیا اور چونکہ ایک حصہ مکان گرنے سے گھر بے پردہ ہورہا ہے اور آج کل ہندو بھی قتل وغیرہ کے لئے بہت کچھ اشتہارات شائع کر رہے ہیں۔ اس لئے میں نے کنویں کے چندہ میں سے عمارت کو شروع کرا دیا ہے۔ تاجلد پردہ ہو جائے گا۔ا گر اس قدر پکا مکان بن جائے جو پہلے کچا تھا توشاید آیندہ کسی سال اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو اوپر کا مردانہ حصہ بن سکے۔ افسوس کہ لکڑی چھت کی محض بیکار نکلی اور ایسی بوسیدہ کہ اب جلانے کے کام میں آتی ہے۔ لہذا قریباً چار سو روپیہ کی لکڑی چھت وغیرہ کے لئے درکار ہو گی۔ خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ اگر اس نے چاہا ہے تو کسی طرح سے انجام کر دے گا۔ یقین کہ مولوی صاحب کاعلیحدہ خط آپ کو پہنچے گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ اپریل ۱۸۹۶ء
مکتوب نمبر(۵۳)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔ باقی خداتعالیٰ کے فضل سے سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۴)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج مولوی مبارک علی صاحب جن کی نسبت آپ نے برخاستگی کی تجویز کی تھی۔ حاضر ہو گئے ہیں۔ چونکہ وہ میرے استاد نادہ ہیں اور مولوی فضل احمد صاحب والد بزرگوار ان کے جو بہت نیک اور بزرگ آدمی تھے۔ ان کے میرے پر حقوق استادی ہیں۔ میری رائے ہے کہ اب کی دفعہ آپ ان کی لمبی رخصت پر اغماض فرماویں۔ کیونکہ وہ رخصت بھی چونکہ کمیٹی کی منظوری سے تھی کچھ قابل اعتراض نہیں۔ ماسوا اس کے چونکہ وہ واقعہ( میں ) ہم پر ایک حق رکھتے ہیں اور عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واعفو اوا صفحوا الا اتحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیم یعنی عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدابھی تمہاری تقصیر میں معاف کرے اورخداتو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگزر کے لائق ہے۔ اسلام میں یہ اخلاق ہرگز نہیں سکھلائے گئے۔ ایسے سخت قواعد نصرانیت کے ہیں اور ان سے خداہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ماسوا اس کے چونکہ میں ایک مدت سے آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان کے گناہ معاف کرتا ہوں جو لوگوں کے گناہ معاف کرتے ہیں اور یہی میرا تجربہ ہے۔ پس ایسانہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ ہو۔ ایک جگہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا۔ جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اس کو کسی نے خواب میںدیکھا کہ خداتعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اورفرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لئے میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے کہ آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقعہ ملے۔ اسلامی اصول انہی باتوں کا چاہتے ہیں۔ دراصل ہماری جماعت کے ہمارے عزیز دوست جو خدمت مدرسہ پر لگائے گئے ہیں وہ ان طالب علم لڑکوں سے ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ جن کی نسبت ابھی تک معلوم نہیں کہ نیک معاش ہوں گے یا بدمعاش۔
یہ سچ ہے کہ آپ تمام اختیارات رکھتے ہیں۔ مگر یہ محض بطور نصیحتاً للہ لکھا گیا ہے۔ اختیارات سے کام چلانا نازک امرہے۔ اس لئے خلفاء راشدین نے اپنے خلافت کے زمانہ میں شوریٰ کوسچے دل سے اپنے ساتھ رکھا تا اگر خطا بھی ہو تو سب پر تقسیم ہوجائے نہ صرف ایک کی گردن پر۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۵) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایسے وقت آپ کاعنایت نامہ مجھ کو ملا کہ میں دعا میں مشغول ہوں اور امیدوار رحمت ایزوی حالات کے معلوم کرنے سے میری بھی یہی رائے ہے کہ ایسی حالت میں قادیان میں لانا مناسب نہیں ۔ امید کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہ دن آئے گا کہ با آسانی سواری کے لائق ہو جائیںگے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جس وقت عزیزی عبدالرحمن ڈاکٹروں کی رائے سے ریل کی سواری کے لائق ہو جائیں۔ تو بٹالہ میں پہنچ کر ڈولی کاانتظام کیا جائے۔ کیونکہ یکہ وراستہ وغیرہ ضعف کی حالت میں ہرگز سواری کے لائق نہیں ہیں۔ میںخداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے بہت توجہ سے کرتا رہوں گا۔
دو خاص وقت ہیں (۱) وقت تہجد (۲) اشراق ماسوا اس کے پانچ وقت نماز میں انشاء اللہ دعا کروں گا اور جہاں تک ہو سکے آپ تازہ حالات سے ہرروز مجھے اطلاع دیتے رہیں کیونکہ اگرچہ اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے۔ مگر حق بات یہ ہے۔ کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طیب کو بھی تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے۔ جب کہ خداتعالیٰ کا ارادہ ہو اور انسان کے لئے بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خداتعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ایک دعا ہی ہے کہ اگر کمال تک پہنچ جائے توایک مردہ کی طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ دعا کمال کو پہنچ جائے وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہی کیمیا ہے اگر اپنے تمام شرائط کے ساتھ متحقق ہوجائے۔ خداتعالیٰ کا جن لوگوں پر فرض ہے اور جو لوگ اصطفا اوراجتباء کے درجہ تک پہنچے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت ان کو نہیں دی گئی کہ اکثر دعائیں ان کی قبول ہوجائیں۔ گو مشیت الٰہی نے یہ قانون رکھا ہے کہ بعض دعائیں مقبولوں کی بھی قبول نہیں ہوتیں لیکن جب دعا کمال کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کا پہنچ جانا محض خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے۔ یہ کبریت احمر ہے جس کا وجود قلیل ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
از قادیان
مکتوب (۵۶) نمبرملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ جو کچھ آپ نے مجھ کو لکھا ہے اس سے مجھے بکلی اتفاق ہے۔ میںنے مفتی محمد صادق صاحب کو کہہ دیا ہے کہ آپ کے منشاء کے مطابق جواب لکھ دیں اورآپ ہی کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ پڑھ کر اور پسند فرما کر روانہ کر دیں۔ ہاں ایک بات میرے نزدیک ضروری ہے گو آپ کی طبیعت اس کو قبول کرے یا نہ کرے اوروہ یہ ہے کہ ہمیشہ دو چار ماہ کے بعد کمشنر صاحب وغیرہ حکام کو آپ کا ملنا ضروری ہے۔ کیو نکہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض شکی مزاج حکام کو جو اصلی حقیقت سے بے خبر ہیں ہمارے فرقہ پر سوء ظن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی حکام کو نہیں ملتا اورمخالف ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ پس جس حالت میں آپ جاگیردار ہیں اور حکام کو معلوم ہے کہ آپ فرقہ میں شامل ہیں۔ اس لئے ترک ملاقات سے اندیشہ ہے کہ حکام کے دل میں یہ بات مرکوز نہ ہو جائے کہ یہ فرقہ اس گورنمنٹ سے بغض رکھتا ہے۔گو یہ غلطی ہو گی اورکسی وقت رفع ہو سکتی ہے۔ مگر تا تریاق ازعرق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود باقی سب طرح سے خیریت ہے۔ میں انشاء اللہ بروز جمعرات قادیان سے روانہ ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
مرزاغلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۵۷)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ خاکسار بباعث کثرت پیشاب اور دوران سر اور دوسرے عوارض کے خط لکھنے سے قاصر رہا۔ ضعف بہت ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ بجز دو وقت یعنی ظہر اور عصر کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں۔ آپ کے خط میں جس قدر ترددات کا تذکرہ تھا پڑھ کر اور بھی دعا کے لئے جوش پیدا ہوا۔ میںنے یہ التزام کر رکھا ہے کہ پنچ وقت نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اورمیںبہ یقین دل جانتا ہوں کہ یہ دعائیں بیکار نہیں جائیںگی۔ ابتلائوں سے کوئی انسان خالی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے قدر کے موافق ابتلاء ضرور آتے ہیں اور وہ زندگی بالکل طفلانہ زندگی ہے جو ابتلائوں سے خالی ہو۔ ابتلائوں سے آخر خد اتعالیٰ کا پتہ لگ جاتاہے۔ حوادث دھر کاتجربہ ہو جاتاہے اور صبر کے ذریعہ سے اجر عظیم ملتا ہے۔ اگر انسان کوخداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان ہے تو اس پر بھی ایمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ قادر خدابلائوں کے دور کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ وہ تلخ زندگی جس کے قدم قدم میں خارستان مصائب و حوادث و مشکلات ہے۔ بسا اوقات ایسی گراں گزرتی ہے کہ انسان خود کشی کا ارادہ کرتا ہے۔ یا دل میں کہتا ہے کہ اگر میں اس سے پہلے مر جاتا تو بہتر تھا۔ مگر درحقیقت وہی زندگی قدرتا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے سچا او رکامل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ ایمان ایوب نبی کی طرح چاہئے کہ جب اس کی سب اولاد مر گئی اور تمام مال جاتا رہا تو اس نے نہایت صبر اور استقلال سے کہا کہ میں ننگا آیا اور ننگا جائوں گا۔
پس اگر دیکھیں تو یہ مال اورمتاع جو انسان کو حاصل ہوتا ہے صرف خدا کی آزمائش ہے۔ اگر انسان ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑے۔ تو ضرور وہ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ خداتعالیٰ درحقیقت موجود ہے اور درحقیقت وہ ایک مقرر وقت پر دعا قبول کرتا ہے اورسیلاب ہموم وغموم سے رہائی بخشتا ہے۔ پس قوی ایمان کے ساتھ اس پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ دن آتا ہے کہ یہ تمام ہموم وغموم صرف ایک گزشتہ قصہ ہو جائے گا۔ آپ جب تک مناسب سمجھیں لاہور رہیں۔ خدا تعالیٰ جلد ان مشکلات سے رہائی بخشے۔ آمین۔
اپیل مقدمہ جرمانہ دائر کیا گیا ہے۔ مگر حکام نے مستغیث کی طرف سے یعنی کرم دین کی مدد کے لئے سرکاری وکیل مقرر کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اپیل میں ہمارے لئے بظاہر ایک مشکل کا سامنا ہے۔ کیو نکہ دشمن کو وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں وہ بہت خوش ہو گا اور اس کو بھی اپنی فتح سمجھے گا۔ ہر طرف دشمنوں کا زور ہے۔ خون کے پیاسے ہیں۔ مگر وہی ہو گا جو خواستئہ ایزوی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲؍ دسمبر ۱۹۰۶ء
مکتوب نمبر (۵۸) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات مجھے مولوی صاحب نے خبر دی کہ آپ کی طبیعت بہت بیمارتھی۔ تب میں نماز میں آپ کے لئے دعا کرتارہا۔ چند روز ایک دینی کام کے لئے اس قدر مجھے مشغولی رہی کہ تین راتیں میں جاگتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء بخشے۔ میں دعا میں مشغول ہوں او بیماری مومن کے لئے کفارہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شفا بخشے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ:۔ یہ مکتوب حضرت نواب صاحب قبلہ کے ایک خط کے جواب میں ہے جوحسب ذیل ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
مجھ کو اس دفعہ نزلہ کچھ عجیب طرح کا ہوا ہے۔ بالکل بخار کی سی کفیت رہتی ہے۔ پہلے زکام ہوا۔ اس سے ذرا افاقہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ اب آرام ہو گیا۔ مگر اسی روز کھانسی ہوگئی ۔ اب سینہ میں جس طرح چھری سے کھرچتے ہیں۔ اس طرح خراش ہو رہی ہے اورسر میں بدن میں کسل۔ کمر میں درد ہو گیا۔ چونکہ قبض بھی رہتی ہے۔ اس لئے سرمیں غبار رہتا ہے۔ کل ذرا طبیعت بحال ہوئی تھی۔ مگر آج باقی استدعائے دعا۔ (راقم محمد علی خاں)
مکتوب نمبر (۵۹) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام خط میںنے پڑھا۔ اصل حال یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ نور محمد کی بیوی نے میرے پاس بیان کیا کہ نواب صاحب میرے خاوند کو یہ تنخواہ چار روپیہ ماہوار کوٹلہ میں بھیجتے ہیں اور اس جگہ چھ روپیہ تنخواہ تھی اور روٹی بھی ساتھ تھی۔ اب ہماری تباہی کے دن ہیں اس لئے ہم کیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ روپڑی۔ میں توجانتا تھا کہ اس تنزل تبدیلی کی کوئی اسباب ہوںگے اور کوئی ان کا قصور ہو گا۔ مگر مجھے خیال آیا کہ ایک طرف تو میں نواب صاحب کے لئے پنج وقت نماز میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی پریشانی دور کرے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کی شکایت ہے کہ ہم اب اس حکم سے تباہ ہو جائیںگے تو ایسی صورت میں میری دعا کیا اثر کرے گی۔ گو یہ سچ ہے کہ خدمت گار کم حوصلہ اور احسان فراموش ہوتے ہیں۔ مگر بڑے لوگوں کے بڑے حوصلے ہوتے ہیں۔ بعض وقت خدا تعالیٰ اس بات کی پرواہ نہیںرکھتا کہ کسی غریب بادار خدمت گار نے کوئی قصور کیا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ صاحب دولت نے کیوں ایسی حرکت کی ہے کہ اس کی شکر گزاری کے برخلاف ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو ان دلی رنجش کے برے اثر سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو لکھا تھا۔ ورنہ میں جانتا ہوں کہ اکثر خدمت گار اپنے قصور پر پردہ ڈالتے ہیں اوریوں ہی واویلا کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے میں نے مہمان کے طور پر اس کی بیوی کو اپنے گھر میںرکھ لیا ۔ تاکوئی امر ایسانہ ہو کہ جو میری دعائوں کی قبولیت میں حرج ڈالے اور حدیث شریف میں آیا ہے۔ ارحمو افی الارض ترحمو افیالسماء زمین میں رحم کرو تا آسمان پر تم پر رحم ہو۔ مشکل یہ ہے کہ امراء کے قواعد انتظام قائم رکھنے کے لئے اور ہیں اور وہاں آسمان پر کچھ اور چاہتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ
مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔
مکتوب نمبر (۶۲) ملفوف
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ امۃ الحمید بیگم زاہ عمرہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھ کو ملا۔ میں نے اوّل سے آخر تک اس کوپڑھ لیا ہے۔ یاد رہے کہ میں آپ کی نسبت کسی قسم کی بات نہیں سنتا۔ ہاں مجھے یہ خیال ضرور ہوتا ہے کہ جن کو ہم عزیز سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین اور دنیا میں ان کی بھلائی ہو۔ ان کی نسبت ہمیں یہ جوش ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ان میں ایسی مذر ہے۔ جو خداتعالیٰ کے سامنے گناہ ہو یا جس میں ایمان کا خطرہ ہو اور جس قدر کسی سے میری محبت ہوتی ہے اسی قدر

.........................................................

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ اللّٰہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکتوبات احمدیہ (جلد پنجم نمبر پنجم )
(مختلف احمدی احباب و خدام کے نام )
مکتوبات احمدیہ کی پانچویں جلد کے چوتھے نمبر میںحضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خاں مدظلہہ العالی کے نام کے مکتوبات میںنے شائع کئے تھے اس پانچویں جلد میں حضرت کے دو مکتوبات میںشریک ہیںجو آپ نے اپنے مخلص خدام کے نام لکھے ۔جن احباب کے نام خطوط کا ایک مخصوص ذخیرہ تھا وہ میںنے جداگانہ ہر ایک کے نام شائع کردیا اب اس جلد کے پانچویں نمبر میںمختلف احباب کے نام خطوط کو جمع کر رہا ہوں اور جتنی جلدیں شائع ہوچکی ہیںاگر اس سلسلہ کے بعض خطوط رہ گئے ہوںگے وہ بھی اس میںشائع ہوجائیں گے وبا للہ التوفیق ۔ یہ سب تالیفات (جیسا کہ میںمتعدد مرتبہ بیان کرچکاہوں) حضرت اقدس علیہ الصلوٰتہ والسلام کے سوانح حیات اور سیرتہ مظہرہ کی کڑیاںہیں۔اس لئے میںنے تالیف کی سہولتوںکو مدنظر رکھ کر مختلف حصص شائع کئے۔مثلاً سوانح حیات میں حیات احمدکے نام سے متعد د حصص و سیرتہ و شمائل کے کئی حصے اور مکتوبات کی کئی جلد یں۔
اللہ تعالی جو عالم السردانیات ہے جانتاہے کہ میری غرض اس کی رضا ہے۔اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰتہ والسلام کے نام بلند کرنے کاآپ وعدہ دیا میںنے چاہا کہ ان اسباب و ذرائع میںمیرا بھی حصہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ا س نابکار کو موقع دیاکہ الحکم کے ذریعہ آپ کی سیرتہ و سوانح اور آپ کے ملفوظات اور الہامات اور تا ریخ سلسلہ کو محفوظ کرنے کی توفیق روزی ہوئی وہ کام میری جوانی کے آغاز سے شروع ہوااور اب جبکہ میںاپنی طبعی عمر کوپہنچ چکا یعنی ستر سال کاہوچکا اسی کے فضل اور توفیق سے چاہتا ہوںکہ اسی خدمت میںآخری وقت تک مصروف رہوں تامیری نجات کا یہی ذریعہ ہوجائے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اوراسی سے توفیق چاہتاہوں ۔ھونعم المولیٰ ونعم النصیر۔
خاکسار
یعقوب علی (عرفانی کبیر)
سکندرآباد۱۰؍جون۱۹۴۴ء







(۱)احباب لودہانہ کے نام
لودہانہ کو تاریخ سلسلہ میں بہت بڑی اہمیت ہے اورخداتعالیٰ کو اس وحی میں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازم ہوئی لودہانہ کاذکر ہے چنانچہ ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء کو جو اشتہار آپ نے مختلف اخبارات میںعلیحدہ شائع کیا اور ریاض ہندو پریس امرتسر میںطبع ہوا۔ اس میںارشاد ہوتاہے ۔
’’میں نے تیری تضرعات کوسنا اور تیری دعائوںکو قبولیت کی جگہ دی اور تیرے سفر کو (جوہوشیار پور اور لودہانہ کاسفر ہے ) تیرے لئے مبارک کردیا‘‘
اور یہی وہ مقام ہے جہاںحضرت اقدس نے با علام الٰہی سلسلہ بیعت شروع کیا چنانچہ ۴؍مارچ ۱۸۸۹ء کوجو اعلان آپ نے فرمایا کہ تاریخ ہذا سے ۲۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء تک یہ عاجز لودہانہ محلہ جدید میںمقیم ہے اس عرصہ میںاگر کوئی صاحب آنا چاہیںتو لودہانہ میں۲۰ تاریخ کے بعد آجائیں ۔یہ مکان جہاںبیعت ہوئی حضرت منشی احمد خان رضی اللہ عنہ کے مکان کا ایک حصہ تھا اور اب وہاں دارالبیعت کے نام سے سلسلہ کی ملکیت میں ایک شاندار عمارت ہے اور ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو حضرت مسیح موعود ایدہ اللہ الو دود کے دعوی و اظہار میںجلسہ ہوچکاہے۔
پھر لودہانہ کویہ بھی فضلیت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ براہین احمدیہ کے آغاز میںاسی شہر کے ایک فرد میرعباس علی صاحب کے اللہ تعالیٰ نے اشاعت براہین کے لئے کھڑا کردیا افسوس ہے کہ ان کاانجام کسی پنہانی معصیت کی وجہ سے ارتداد پر ہوا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مسیح موعود ہونے کااعلان بھی پہلی مرتبہ لودہانہ ہی سے کیا اور لودہانہ میںہی وہ عظیم الشان مباحثہ ہوا، جو مباحثہ لودہانہ کے نام سے الحق میںشائع ہو ا۔جس میںمولوی محمد حسین بٹالوی کو خطرناک شکست ہوئی ۔
اور جس میں اس کی علمی اور اخلاقی پردہ دری ہوئی۔لودہانہ میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعوی سے پیشتر لودہانہ والوں کی متواتر درخواستوں اور التجائوں پر۱۸۸۳ء میں تشریف لائے اور محلہ صوفیاں میںڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میںحسب تجویز میر عباس علی صاحب قیام فرمایا تھا۔ لودہانہ کے متعلق آپ کے بعض رؤیا اور کشوف بھی ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر پورے ہوئے ان کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں اپنے ان کا مناسب ذکر آئے گا بسلسلہ مکتوبات میں جس کے شائع کرنے کی خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق ملی۔ پہلی جلد لودہانہ ہی کے میر عباس علی صاحب کے نام کے مکتوبات ہیں۔
میر صاحب کامعمول اور اعتقاد اس وقت اس حد تک تھا کہ وہ باوضو ہوکر ان مکتوبات کو پڑھتے اور ان کی نقل کرتے تھے میر صاحب کا مختصر تذکرہ میںجلد اوّل میںکرچکا ہوں یہ جلد اوّل نہایت بیش قیمت حقایق و معارف کی دنیاہے ۔
چونکہ وہ قریباً ختم ہوچکی ہے دوسرے ایڈیشن کو اس موجود ہ تقطیع ہی نہایت احتیاط سے شائع کردیاجائے گا۔ انشاء اللہ اور اس میںمندرجہ ذیل پیشگوئیاں جو چوری ہوچکی ہیںان کی تفصیل بھی دی جائے گی۔بہر حال لودہانہ سلسلہ کی تاریخ میںبہت بڑی اہمیت اور امتیاز رکھتا ہے جیسے اولاً اسی شہر میں معاونین کی ابتدا ہوئی اسی شہر سے اوّل الکافرین کی خطرناک جماعت بھی پید ا ہوئی اور انہوں نے اس سلسلہ کے مٹانے اور فنا کردینے کے لئے اپنی تمام طاقتوں اور حیلوں کو استعمال کیا مگر وہ نامراد وناکام رہے۔ پھر اس زمانے میںیعنی حضرت امیر المومنین مصلح موعود کے عہد خلافت میںان کی ذرّیت نے بڑے فرعونی دعا وی کے ساتھ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اعلان کئے اور خدا تعالیٰ کے مقرہ کردہ خلیفہ نے اعلان کیا کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین کا نکلتے دیکھتا ہوں اور آخر وہی ہوا جواس نے با علام الٰہی کہا تھا اور شیطان کو اس جنگ میں دوبارہ شکست ہوئی۔ اللہ محمد ۔اب میںبغیر کسی مزید تمہید تشریح کے احباب لودہانہ کے نام متفرق خطوط کو جو اس وقت تک مجھے مل سکتے ہیںدرج کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کو دنیا کی ہدایت اورمیری اس خدمت کوقبول فرمائے ۔آمین
(خاکسار عرفانی کبیر)
حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کے نام
(تعارفی نوٹ )
حضرت منشی احمد جان رضی اللہ لودہانہ محلہ جدید میںایک صاحب ارشاد بزرگ تھے اور ان کے مریدوںکی بہت بڑی تعداد تھی ان کامفصل تذکرہ کتاب تعارف میںانشاء اللہ العزیز آئے گا خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے متعلق حضرت حکیم الامۃ خلیفہ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو ایک مکتوب مورخہ ۲۳ جنوری ۱۸۸۸ء میںمختصر تذکرہ لکھا ہے اور اس وقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی شادی کی تجویز حضرت منشی صاحب کی صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہ مدظلہا سے ہو رہی تھی ۔حضرت نے تحریر فرمایا کہ :۔
باب میںتھوڑا ساحال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوںمنشی صاحب مرحوم اصل میںمتوطن دہلی کے تھے ۔شاید ایام مفسد ہ ۱۸۵۷ء میں لودہانہ آکر آباد ہوئے۔ کئی دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار خوبصورت۔ خوب سیرۃ۔ صاف باطن۔متقی۔ باخدا اور متوکل آدمی تھے مجھ سے اس قدر دوستی اورمحبت کرتے تھے کہ اکثر ان کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایاکہ آپ کی اس میں کسر شان ہے۔مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیاکہ مجھے کسی شان سے غرض نہیںاور نہ مجھے مریدوںسے کچھ غرض ہے۔اس پر بعض نالائق خلیفے ا ن کے منحرف بھی ہوگئے۔مگر انہوں نے جس اخلاص و عیبت پر قدم ماراتھا۔آخیر تک نباہا اور اپنی اولاد کوبھی یہی نصیحت کی۔ جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزقِ خداداد سے مجھے بھیجتے رہے ۔اور میر ے نام کی اشاعت کے لئے یہ دل وجان ساعی رہے اور پھر حج کی تیاری کی۔ اور جیساکہ انہوںنے اپنے ذمہ مقدر کررکھا تھا۔جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے اور ایک بڑا لمبا اور دردناک خط لکھا۔ جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا۔اور حج سے آتے وقت راہ میں بیمار ہوگئے اور گھر آتے ہی فوت ہوگئے۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت وخوش تقریری و وجاہت کے جو خداداد انہیں حاصل تھی ۔مومن صادق اور صالح آدمی تھے۔جو دنیا میںکم پائے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ عالی خیال اور بھونی تھے۔اس لئے ان میںتعصب نہیںتھا۔میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حنفی تقلید پر قائم نہیںہیں اور نہ اِسے پسند کرتے ہیں۔ پھر بھی یہ خیال انہیں محبت واخلاص سے نہیںروکتا تھا۔
غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کایہ ہے اور لڑکی کابھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے ۔جواپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کرآئے ہیں۔
حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کی فراست مومنانہ نے بہت پہلے دیکھ لیاتھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود بن کر معبوث ہوں گے چنانچہ انہوں نے جو اعنان براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے شائع کیا اس میںلکھا ہے ۔
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
اگرچہ وہ اعلان بیعت سے پہلے فوت ہو گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان مبا یعین میںشریک قرار دیا اور ان کے اخلاق و عقیدت کو انعام میںداخل فرمایا ۔حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد اور مریدوںکو قبول سلسلہ کی وصیت فرمائی اور خدا کے فضل وکرم سے آپ کاسارا خاندان سلسلہ احمدیہ میں شریک اور صدق ووفا کے اعلیٰ مقام پر ہے اور حضرت موصوف کی صاحبزادی صغریٰ بیگم صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہواکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ لصلوٰۃ والسلام کی تحریک سے اس جلیل القدر انسان کے نکاح میں آئیں جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔
چہ خوش بودے اگرہرایک زامت نوردین بودے
ہمیں بودے اگر ہردل از پُر نور الیقین بودے
اور جس کے اخلاص وایثار اور قربانی کایہ ثمر اس دنیا میںہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے خلیفہ اوّل منتخب ہوئے اور حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کی نواسی کویہ شرف ہوا کہ ایک خلیفہ کی بیٹی اور ایک خلیفہ کی اہلیہ ہوں۔
میںسمجھتا ہوںکہ اس قدر تعارفی نوٹ کافی ہے تفصیل انشاء اللہ کتاب تعارف میں آئے گی جس کی پہلی جلد اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس سال شائع ہوگی۔اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتاہوں۔وباللہ التوفیق ۔




حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے نام
(۱) مخدومی مکرمی اخو یم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذاآں مخدوم کے دونوںعنایت نامہ مع اشتہار پہنچ گئے جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔ خدا وندکریم آپ صاحبوںکی کوشش میںبرکت ڈالے اور آپ کووہ اَجر بخشے جو آپ کے خیال سے باہر ہو۔ آںمخدوم نے جوکچھ اس عاجز کی اپنی نسبت لکھا ہے وہ عاجز کے دل میں ہے۔ مشت خاک کی کیا حقیقت ہے کہ کچھ دعوے کرے یازبان پر لاوے ۔لیکن اگر خداوند کریم نے چاہا اور توفیق بخشی توحضرت احدیت میںعاجزانہ دعا کروں گا۔آپ اپنے کام میںجہاں تک ممکن ہو سرگرمی سے متوجہ ہوں۔ کیونکہ ایسی محبت مستحق ہوتی ہے اور حصہ چہارم کے صفحہ ۵۱۹ میں ایک الہام یہ ہے من ربکم علیکم واحسن الٰی احیاکم یہ الہام اگرچہ بصورت ماضی ہے لیکن اس سے استقبال مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ تم پر احسان کرے گا اور تمہارے دوستوں سے نیکی کرے گا اور پھر حصہ چہارم صفحہ ۲۴۲میں الہام ہوا وبشرالذین امنو ان لھم قذم صدقٍ عند ربھم اس کے معنی ہیںکہ جو لوگ ارادت سے رجوع کرتے ہیںان کا عمل مقبول ہے اور ان کے لئے قدم صدق ہے ۔پھر صفحہ ۲۴۱ میںایک الہام ہے ۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مد د وہ کریں جن کے دلوں میںہم آپ ڈالیںگے۔
سو ان سب الہامات سے خوشنودی حضرت احدیت کی نسبت سمجھی جاتی ہے۔جن کو خدا نے اس طرف رجوع بخشا ہے اس سے زیادہ ذریعہ حصول سعادت اور کوئی نہیںکہ جومرضی مولا ہے اس کے موافق کام کیاجائے اور مولا کریم کی ایک نظر عنایت انسان کے لئے کافی ہے ۔میںیقیناً سمجھتا ہوںکہ جو اخوان مومنین اس بات کی توفیق دے گئے ہیں۔ جو انہوں نے صدق دل سے اس احقر عباد کاانصار ہونا قبول کیا ان کے لئے حضرت احدیت کے بڑے بڑے اَجر ہیں اور میں اجمالی طور پر ان کو عجیب نور سے منور دیکھتا ہوں اور میںدیکھ رہاہوں کہ وہ نہایت سعید ہیں اور دنیا کی روشنی ہیں۔
ایک الہام حصہ چہارم کے صفحہ ۵۵۶ کی آخری سطر میںدرج ہے اور وہ یہ ہے۔ وجا عل الذین ابتعوک فوق الذین کفروا الی یوم ا لقیامۃ ۔
یہ الہام اس کثرت سے باربار ہوا تھا جس کی تعداد خدا ہی کو معلوم ہے۔اس میں انواع اقسام کاوعدہ ہے ۔
غرض کریم میزبان تب کسی کو اپنی طرف بُلاتاہے کہ جب اس کے طعام کابندوبست کر لیتا ہے اور وہی لوگ اس کے خوانِ نعمت پر بُلائے جاتے ہیںجن کو اس عالم الغیب نے اپنی نظر عنایت سے چن لیاہے۔
سوجن کواس نے پسند کرلیاہے ان کووہ رد نہیںکرے گا اور ان کے خطیات کومعاف فرمائے گا۔اور ان پر راضی ہوگا ۔کیونکہ وہ کریم ورحیم اور بڑا وفادار اور نہایت ہی محسن مولی ہے۔ فسبحان للہ وبحمد ہ سبحان اللہ العظیم ۔
( ۶ ؍مارچ ۱۸۸۴ء م ۷؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
(نوٹ ) اس مکتوب میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرۃ مطہرہ اور تعلق باللہ کی ایک شان نمایاںہے اور آپ کی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے وعدہ ہیں جن کو آج ہم پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔
(۲) مخدومی مکرمی اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ للہ تعالیٰ
اسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا کارڈ آں مخدوم پہنچا۔ سوال آپ کی طرف سے یہ ہے کہ اس کارخیر میںکتنے لوگ بصدق دل ساعی ہیں۔سو واضح ہو کہ آں مخدوم کے سوا چار آدمی ہیںکہ ارادت اور حسن ظن سے ساعی ہیں۔ پٹیالہ میںمنشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ دفتر نہر ،سرہند۔ ڈیرہ غازی خان میں منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ پشاور میںمولوی غلام رسول صاحب صدر قانون گو ۔انبالہ میںمنشی محمد بخش صاحب، ان چاروںصاحبوں نے سعی میںکچھ فرق نہیں کیا۔منشی عبدالحق صاحب نے سب سے پہلے اس کارِخیر کی طرف قدم رکھا اور جانفشانی سے کام کیا اور ان کی کوشش سے لاہور اور انبالہ اور کئی شہروں میںخریداری کتاب کی ہوئی اور اب بھی وہ بدستور سرگرم ہیں۔ کچھ حاجت کہنے کہانے کی نہیں۔ منشی الٰہی بخش صاحب نے سعی اور کوشش میں کچھ دریغ نہیں کیا اور منشی محمد بخش صاحب بھی بدل وجان مصروف ہیںاور حتی الوسع اپنی خدمت ادا کرچکے ہیں۔مگر پھر سے دوبارہ منشی عبدالحق صاحب و منشی الٰہی بخش صاحب کولکھا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سعی میںکچھ فرق نہ کریںگے او رنہ کیاہے۔
اور ان کے سوا دو تین آدمی او ر بھی ہیں کہ جنہوںنے حسب مقدار جوش اپنے کچھ خدمت کی ہے۔مگر بہتر ہے کہ ان کی اسی قدر خدمت پر قناعت کی جائے تا موجب کسی ابتلاء کانہ ہو ۔
( ۱۵؍مارچ ۱۸۸۴ء ۱۶؍جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
ضروری نوٹ
مندرجہ بالا مکتوب کے متعلق مجھے نہایت درد دل کے ساتھ ایک ضروری امر کااظہار کرنا پڑتا ہے اور یہ مقام خوف ہے ۔جن بزرگوں کا اس مکتوب میںحضرت اقدس نے ذکر فرمایا ہے سوائے مولوی غلام رسول صاحب کے میں تینوںبزرگوں سے ذاتی واقفیت رکھتاہوں۔ یہ لوگ مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے ملنے والوں میںسے تھے ۔جہاں تک ظاہر کاتعلق ہے ا ن کی زندگیاں حتی الوسع شریعت کے مطابق تھیں۔ صوم وصلوٰۃکے پابند تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانے میں فدائیوں میںسے تھے اور ہرخدمت کوبجالانا اپنی سعادت اور خوشی بختی سمجھتے تھے بعض حالتوں میں طبع کتب کے سلسلے میں یا اور ایسی ہی دینی ضرورتوں کے لئے حضرت اقدس منشی الٰہی بخش یا عبدالحق سے قرض بھی لے لیاکرتے تھے۔ ا س وقت وہ اپنے اخلاص میں بے نظیر تھے۔لیکن حضرت کے دعو ے مسیحیت کی ابتداء تک ان کی یہی حالت چلی گئی۔ منشی الٰہی بخش صاحب کوا لہام ہونے کادعویٰ تھا لیکن ان کی طبیعت میں خشونت اور ضد بے حد تھی۔ رفتہ رفتہ ان میںتکبر اور رعونت پید اہونے لگی۔میں اس وقت ساری داستان نہیںلکھ سکتا اگرچہ میں پورے طور سے شاہد عینی کے طور پر اس سے واقف ہوں۔اس تکبر اور رعونت نے انہیں حق سے دُور ڈالنا شروع کردیا۔ آخری مرتبہ وہ منشی عبدالحق کوساتھ لیکر قادیان آئے اور حضرت اقدس سے ملاقات کی اور اپنے الہام وغیرہ سناتے رہے ۔
شام کے وقت بغیر کسی ارادے اور تجویز کے حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ بلعم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں باوجود اپنی نیکی کے کیوںرد کردیاگیا؟
اس پر حضرت اقدس نے ایک تقریر کی لیکن منشی الٰہی بخش نے یہ سمجھا کہ مجھ کو بلعم یا عور بنایا گیا۔ اس غصے میںبیچ وتاب کھاتاہوا آخر و ہ یہاںسے چلاگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی ایام میں ضرورت امام شائع کی لیکن وہ بھی الٰہی بخش کے زیغ کاعلاج نہ کرسکی۔بلکہ یضل بہ کثیراکاباعث ہوگئی۔آخر وہ اس سلسلے سے کٹ گیا اوراس نے مخالفت پر قمر باندھی۔مگر اس کا جو درد ناک انجام ہوا۔وہ بہت عبرتناک ہے اس کاکچھ ذکر میرے مکر م ومحترم مخلص بھائی بابو فضل دین صاحب اوور سیرنے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے لکھا ہے۔میرا مقصد اس واقعہ کے بیان کرنے سے صرف اس قدر ہے کہ انسا ن اپنی خدمات پر نہ اِتراے بلکہ مومن کاخاصہ ہے کہ جس قدر اسے نیکی کی توفیق ملتی ہے اُسی قدر وہ شرمندہ ہوتا ہے۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ ان لوگوں نے حضرت کے ابتدائی زمانے میںبڑی خدمات کیں مگر خدا جانے کہ ان کے ساتھ ان کے نفس کی کیسی بُری ملونی تھی کہ ان کاخاتمہ قابل افسوس ہوا۔منشی عبدالحق کی طبیعت الٰہی بخش سے مستغائر واقع ہوئی تھی۔مگر اسے اس کی دوستی نے تباہ کیا۔ بابو محمد صاحب آخیر وقت تک سلسلے میںرہے گو اُن کو کچھ شکوک سلسلے کے بعض اخراجات کے متعلق پیدا ہوگئے تھے۔ انہوں نے کبھی تعلق کونہ توڑ ا او ر آخیر وقت تک اسے قائم رکھا پس مقام خوف ہے۔انسان اپنی نیکی اور خدمت پر اِترائے نہیں اور ہمیشہ حسن خاتمہ کے لئے دعا کرتارہے ۔اس مقصد سے میںنے عبرت انگیز واقعہ کولکھا۔
(عرفانی )
(۳) مخدومی مکرمی اخویم منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ وجزاکم اللّٰہ خیرا لجزاء۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کاعنایت نامہ پہنچا۔ خداوند کریم کے احسانات کاشکر ادا نہیںہوسکتا جس نے اس احقرا لعباد کے لئے ایسے ولی احباب میسرکیے۔ جن کاوجود اس ناچیز کے لئے موجب عزت وفخر ہے۔ خداوند کریم آپ کوخوش وخرم رکھے اور آپ کو ان دلی توجہات کااجر بخشے ۔یہ عاجز سخت ناکارہ اور حقیر ہے اور حضرت ارحم الراحمین کاسراسر منت اور احسان ہے کہ اس نالائق پر بغیر ایک ذرہ استحقاق کے تفضلات کثیرہ کی بارش کررہاہے قصور پر تصور پاتا ہے اور احسان پر احسان کرتاہے اور ظلم پرظلم دیکھتا ہے اورانعام پر انعام کرتاہے۔فی الحقیقت وہ نہایت رحیم وکریم ہے۔ ایسی زباںکہا ںسے لائو ںجو اس کاشکر ادا کرسکوں ۔یہ عاجز ہیچ ذلیل اور بے بضالت اور سراسر مفلس ہے۔ اس نے خاک میںمجھے پایا اور اُٹھا لیا اورنالائق مخلص دیکھا اور میری پردہ پوشی کی۔ میرے ضعف پرنظر کرکے مجھ کو آپ قوت دی اور میری نادانی کو دیکھ کر مجھ کوآپ علم بخشا۔ میرے حال پروہ عنایتیں کیں جن کومیں گن نہیں سکتا اوراس کی عنایات کاایک یہ ظہور ہے کہ آپ بزرگ بھائیوں کے دلوں میں اس احقر کی محبت ڈال دی۔ سو اس کے احسانات سے تعلق ہے کہ اس حب کوترقی دے گا اور ان سب پر فضل کرے گا جن کو اس مُلک میںمنسلک کیا ہے۔
اس خط کے تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کاا لہام ہوا ۔
ہر گز نمیرو آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
(۲۸؍مارچ ۸۴ء م ۲۹؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
(نوٹ ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل پر محبت وعظمت الٰہی کابے انتہا غلبہ ہے اور اپنی فرو تنی مسکینی اور خاکساری کاکمال نمایاں ہے انہی تفضلات اور انعامات پر شکر گزاری کی روح آپ کے اندر بول رہی ہے اور جو عشق ومحبت آپ کوحضرت باری غراسمہ سے ہے اس کی صداقت اس الہام باری سے ہوتی ہے جو اس مکتوب کی تحریر کے بعدآپ کوہوا ۔
ہرگز نمیرو آں کہ ولش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر فانی اور اَبدی زندگی اور دنیا میںشہرت دوام اور امٹ ہونے کی عظیم الشان پیشگوئی کولئے ہوئے ہے۔آج ساٹھ برس بعد اس کی شہادت روئے زمین کے بسنے والے ہر ملک اور ہرقوم میںدے رہے ہیں اور دنیا کی ہر زبان میں یہ نام مبارک پہنچ چکا ہے۔اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔
ّ(۴) از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد ،با اخویم مخدوم ومکرمی منشی احمد جان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا۔اس عاجز کی غرض پہلے خط سے حج بیت اللہ کے بارے میںصرف اسی قدر تھی کہ سامان سفر میسر ہوناچاہئے اب چونکہ خداتعالیٰ نے زاد راہ میسر کردیا اور عزم مصمم ہے اور ہرطرح سامان درست ہے۔ اس لئے اب یہ دعاکرتاہوںکہ خداوند کریم آپ سے یہ عسل قبول فرمائے اور آپ کایہ قصد موجب خوشنودی حضرت عزاسمہ ہو او رآپ خیروعافیت اورسلامتی سے جائیں اور خیروعافیت او ر سلامتی سے بہ تحصیل مرضات اللہ واپس آئیں۔یا ربّ العالمین ۔اور انشاء اللہ یہ عاجز آپ کے لئے بہت دعا کرے گا اور آپ کے پچیس روپے پہنچ گئے ہیں آپ نے اس ناکارہ کی بہت مدد کی ہے اور خالصۃً للہ اپنے قول اور فعل اورخدمت سے حمایت اور نصرت کاحق بجالائے۔جزاکم اللّٰہ خیر الجزا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبی۔ یہ عاجز یقین رکھتاہے کہ آپ کا یہ عمل بھی حج سے کم نہیںہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ دل تو آپ کی اس قدر جدائی سے محزون اور مغموم رہے گا لیکن آپ جس دولت اور سعادت کو حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اس نورِ عظیم پر نظر کرنے سے انشراح خاطر ہے ۔ خداتعالیٰ آپ کاحافظ اور حامی رہے اور یہ سفر من کل الوجوہ مبارک کرے ۔آمین
ا س عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیںکہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباد اللہ کی طرف سے انہیں لفظوں جسے مسکنت وغربت کے ہاتھ بحضور اُٹھا کرگزارش کریںکہ :۔
اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جوتیر ی زمین ملک ہند میںہے ۔ اس کی یہ غرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورا ور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہوجائے۔مجھ میں اور میرے نفس میںمشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میںکرا اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں اُٹھا ۔اے ارحم الراحمین ! جس کام کی اشاعت کے لئے تونے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تونے میرے دل میںجوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک ……اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر …… جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور ……اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے …… حمایت میںرکھ کر دین اور دنیا میںان کامستقل … اور سب کو اپنے دارالرضا میںپہنچا اور اپنے … اور اس کے آل واصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام نازل کر۔ آمین یارب العلمین۔
یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پرفرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل وتغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میںاس عاجز کی طرف سے کریں ۔والسلام ۔خاکسار غلام احمد ۱۳۰۳ھ ۔
(نوٹ) یہ خط آپ نے حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کو جب کہ وہ حج بیت اللہ کے لئے جارہے تھے اور آپ نے جیسا کہ مکتوب مبارک سے ظاہر ہے بیت اللہ میںاس دعا کے لئے تاکید کی تھی چنانچہ حضرت صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ نے اپنی جماعت کے ساتھ بیت اللہ اور عرفات میں دعاکی۔
اس سال حج اکبر ہوا یعنی جمعہ کے دن حج سے فراغت پاکر بخیروعافیت جیساکہ حضرت اقدس نے تحریر فرمایاتھا۔ واپس تشریف لائے اور گیارہ بارہ روز زندہ رہ کر ۱۳۰۳ھ میںلودہانہ میں وفات ہائی۔یہ اس دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے۔حضرت اقدس نے منشی صاحب کی بخیروعافیت واپسی کے لئے دعا کی تھی۔اس دعا کی قبولیت تو ان کی مع الخیر واپسی سے ظاہر ہے اور یہی ثبوت ہے کہ دعا جواس خط میںدرج ہے۔وہ بھی قبول ہوئی اور بعد کے واقعات اور حالات نے اس کی قبولیت کا مشاہدہ کرادیا۔
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
اس خط کے بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے کچھ حصہ اُڑگیا ہے۔جہاں نقطے دے دیئے ہیں۔ مگر یہ ضائع شدہ الفاظ مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں ۔تقاضا ئے ادب مجھے مجبور کرتاہے کہ میںان الفاظ کو( جو سیاق وسباق عبارت سے باآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں) اپنی طرف سے نہ لکھوں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا آپ کی سیرت آپ کے ایمان علی اللہ اورجوش تلیغ اور قبولیت دعا پر ایمان کے مختلف شعبوںکو ظاہر کرتی ہے ۔
(عرفانی کبیر)
یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت میںایک مبسوط باب کامتن ہے ۔میںقارئین کرام سے باربار درخواست کروں گا کہ وہ اِس کو پڑھیںکہ کیا یہ اس کی تصویربن سکتی ہے ۔جس کو کاذب اور مفتری کہاجاتاہے؟ یااس ضمیر پر تنویر کامرقع ہے جو غیر فانی جوش اپنے قلب میںرکھتا ہے اور وہ اس شعور سے بول رہا ہے کہ خدا نے اسے کھڑا کیاہے اور اس کی زندگی کامقصد صرف ایک ہے کہ میرا مولی مجھ سے راضی ہوجائے اگر یہ صحیح ہے اور ضرور صحیح ہے تو اس کے بعد اس کی تکذیب سمجھ لو کیا نتیجہ پیدا کرے گی ۔یہی وہ دعاہے جن کے لئے خداتعالیٰ نے اس پر شعر الہام کہاہے ۔
دلم می بلر زد چو یاد آورم
مناجات شوریدہ اندر حرم




حضرت نواب علی محمد خان (رضی اللہ عنہ )
آف جہجر کے نام




تعارفی نوٹ
حضرت نواب علی محمدؐ خان صاحب آف جہجر (جوفتنہ عذرکے بعد لودہانہ آکر مقیم ہوچکے تھے) جہجر کے حکمران خاندان میں سے تھے ۱۸۵۷ء کے عذرکے بعد جہجر کے خاندان پر بھی الزام آیا اوراس کا نتیجہ اس خاندان کا عزل تھا۔ نواب علی محمدؐ خان صاحب لودہانہ آکر آباد ہوئے اورانہوں نے اپنی رہائش کیلئے ایک عالیشان کوٹھی معہ باغ تعمیر کی اوراس کے ساتھ ہی ایک مسجد عبادت کے لئے اور ایک سرائے تعمیر کی تاکہ وہ آ مدنی کا ذریعہ ہو۔ رقم الحروف خاکسار عرفانی کو بفضل تعالیٰ نواب محروم سے سعادت ملاقات وہم نشینی اس وقت سے حاصل ہوئی جب کہ وہ ۱۸۸۹ء میں لودہانہ کے بورڈ سکول کا ایک طالب علم تھا اور روزانہ ظہر کی نماز ان کی مسجد میں پڑھتا تھا اورنواب صاحب باقاعدہ شریک جماعت ہوتے تھے۔ سرائے میں ایک مدرسہ عربیہ بھی قائم تھا جس کی صدر مُدرسی حضرت مولوی عبدالقادر صاحب رضی اللہ عنہ کے سپردتھی اسی عہد کے بعض یاراں قدیم الحمداللہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شریک ہوگئے جیسے مولوی ابوالبقا محمد ابراہیم صاحب بقاپوری اورا ن کے برادرمحترم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ۔ حضرت نواب علی محمد خان صاحب ایک نہایت دیندار۔ خداترس مخیر اورشب زندہ داربزرگ تھے۔ عذر کے حوادث اور انقلابات ان کی طبیعت میں دنیا کی بے ثباتی اور دُینوی شان وشوکت اورمال ومتال کی حقیقت کو نمایاں کردیا تھا۔ عذر مصائب اورانقلابات نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ مسلمانوں کا بقا صرف مسلمان ہوکر رہنے میں ہے۔ اگرچہ جیسا کہ ان کے واقف کاروں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ایک پرہیزگار اور متقی انسان تھے مگر اس انقلاب کے بعد ان کی زندگی میں بھی ایک غیر معمولی انقلاب پیدا ہوا اور ان کا اکثر وقت عبادت اورذکر الٰہی اورمطالعہ کتب دینیہ میں گزرتا تھا اورحمایت اسلام کی اعانت میںاکثر جلسے ان کے ہی مکان پر ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک لمبیقد کے خوش رو انسان تھے اور ان کے چہرہ کودیکھ کر ہی ان کی متقیانہ زندگی کااثر ہوتا تھا۔ ڈاڑھی کو حناکرتے تھے لباس نہایت سادہ ہوتا تھا اور چلتے پھرتے ذکر الٰہی میںمصروف رہتے تھے چونکہ پرانی طرز کے صوفی تھے اس لئے ہر وقت تسبیح ہاتھ میںرہتی تھی۔ نہایت خوش اخلاق ملنسار، منکسرالمزاج اور خندہ پیشانی رکھتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے آپ کی اردت ۸۲۔۱۸۸۳ء میںشروع ہوئی اور یہ براہین احمدیہ کااثر تھا۔ نواب صاحب خود صاحب علم تھے اور علوم عربیہ دینیہ اور تصوف کے ماہر تھے۔ میر عباس علی صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی خطائوںکومعاف کرے ) اس وقت بڑے سرگرم معاونین میں سے تھے اور ان معاونین کی جماعت میںنواب علی محمد خان بھی پیش تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک اس پایہ کاکوئی آدمی بھی حضرت اقدس کے ارادت مندوں میںشریک نہ ہوا تھا ۔
اس لئے کہ گو اس وقت ان کی وہ خاندانی حکومت کاجاہ جلال باقی تھا مگر ابھی اس دورِ حکومت کے اثرات باقی تھے اور وہ اپنی خاندانی عظمت کے علاوہ اپنی علمی زندگی اور ہمدردی اسلام کے سچے جوش کی وجہ سے مشار الیہ تھے ۔
چونکہ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرمون کااڈا پاس ہی تھا اور وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بڑے بے دیا اور مخلص اور جان نثار اور دلیر انسان تھے اکثر نواب صاحب کے ہاںان کی نشست وبرخاست رہتی اور حضرت اقدس کے حالات اور تازہ واقعات کا تذکرہ رہتا۔ نواب صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ غایت درجہ کاعشق اور محبت تھی۔ا س لئے کہ انہوں نے خود اپنی ذات میںان نشانات دایات کامشاہدہ کیاتھا جو خد اکے مرسلوںکے سوا کسی اور کونہیںدیئے جاتے۔ حضرت اقدس ان نشانات کا اپنی تصانیف میںبھی ذکر فرمایاہے اور ان خطوط میںبھی جومیںذیل میںدرج کر رہا ہوں بعض نشانات کاثبوت ملے گا۔نواب علی محمد خان صاحب بیعت اولیٰ میں شریک تھے اور سابقین الاوّلین کی اس جماعت میںممتاز تھے۔چونکہ صوفی مشرب تھے اور حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی کے خاندان سے بھی انہیں ارادت وعقیدت تھی اس لئے صاحبزادہ صاحب جب بھی لودہانہ آتے ان کے ہاںقیام فرماتے ان کے خاندان کے بعض لوگ پیر صاحب کے سلسلے میںمرید بھی تھے۔اگرچہ اس تعارفی نوٹ کامقصد سوانح حیات کابیان نہیں تا ہم میںاس نوٹ کوبھی درج کردینا ضروری سمجھتا ہوں جو صاحبزادہ مرحوم نے مغفور نواب صاحب کے متعلق اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے تاکہ احباب کو ایسے بزرگ کے لئے جوسلسلہ کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور حضرت اقدس جن سے محبت رکھتے تھے دعا کی خاص تحریک ہو اور میں اذکرو اموتاکم بالخیر کے ارشاد کی تعمیل کاثواب حاصل کرسکوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔
نواب صاحب موصوف حکمت اور تصوف میں اور علوم شرعیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میںایسی معرفت رکھتے تھے کہ میںنے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر یہ معلومات اور دستگاہ نہیںدیکھی۔ نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے ہروقت درود شریف پڑھتے رہتے۔ باوجود اس قدروسیع معلومات اور تصوف میں ماہر ہونے کے حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اورپورا اعتقاد رکھتے تھے۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جوبات میں نے مرزاغلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی۔ وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگرکوئی شخص ہے تویہی ہے۔ اس کی تحریر میں نور اور ہدایت، اس کے کلام میں اس کے چہرہ میں نورہے۔ ایک روز میں نے نواب صاحب سے اپنا کشف بیان کیا جو آگے آوے گا۔ تواس کو سن کر نہایت خوش ہوئے اور وہ کشف لوگوں سے بیان کیا اوروہ کشف حضرت اقدس کی تصدیق میں تھا۔
حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اورنواب صاحب بھی آپ سے ملنے اکثر آیا کرتے تھے۔ نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لودہانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ بوقت انتقال نواب صاحب نے دعاء سلامتی ایمان اورنجات آخرت کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اورجوں جوں وقت آتا جاتا تھا۔ آدھ آدھ گھنٹہ اوردس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اورکہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ آخیر وقت میں لودہانہ تشریف رکھتے ہیں اورمجھے دعا کرانے کا موقع ملا۔پھر بیہوشی طاری ہوگئی لیکن جب ذرا بھی ہوش آتا توکہتے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آدمی جاوے اورعاقبت بخیر اوراچھے انجام کے لئے عرض کرے اورجب حالت نزع طاری ہوئی تویہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہو۔اِدھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لئے بہت دعائیں کرتے رہے اورہربار آدمی سے یہی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں تمہارے واسطے دعائیں کیں اورکررہا ہوں اور یہ وصیت نماز جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچاد ی اورنواب صاحب مرحوم کا انتقال ہوگیا جب نواب صاحب کا انتقال ہوا تونواب صاحب کے اقربا۔ ان کی اولاد اوران کے بھائی مولویوں کے زیراثر اورمرعوب تھے اورمولوی محمد اورمولوی عبداللہ اورمولوی عبدالعزیز یہ تینوں حضرت اقدس علیہ السلام کے مکفر اورمکفرین اوّلین میں سے تھے۔ تینوں یہود صفت بلکہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے اوراُس وقت سے مکفر اورسخت مخالف تھے کہ جب سے براہین احمدیہ شائع ہوئی تھی تمام مولوی خاموش یاموافق تھے۔ مگر یہ بدقسمت اور ایک بدبخت مولوی غلام دستگیر تصوری مخالف تکفیر کے علاوہ سُب وشتم کرنے والے تھے اوران مولویوں کی یہ عادت تھی کہ جومولوی درویش لودہانہ میں آیا اور ان سے مل لیا تو خیر اور جو نہ ملا توبس اُس کو کفر کا نشانہ بنایا۔ یہ تینوں مثلث مولوی اس آیت کے مصداق تھے کہ اِنْطَلَقُوْا الٰی ظِلٍّ ذِیْ ثلٰثِ شُعُبٍ لَا ظَلِیلَ وَلَا یُغْنُی مِنَ اللھَبَ۔چلو اُس تین رخے سایہ کی طرف جس میں ……………ہے اورنہ گرم لپٹ سے بچاؤ کی کوئی صورت ہے ……… اُس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں ایک قیامت برپا کررکھی تھی۔ ان مولویوں کو بھی خبر نواب صاحب کی وصیت نماز جنازہ پہنچ چکی تھی۔ ان مولویوں اورمعتقدوں نے نواب صاحب کے اقربا کو کہلا بھیجا کہ اگر مرزا (امام موعودعلیہ السلام) جنازہ پر آیا تو ہم اورکوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جاوے گا اور آئندہ تم میں سے جومرے گا تو نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا۔ وہ بیچارے ڈرگئے اوریہ خیال نہ کیا کہ ان یہود صفت مولویوں کی کیا مجال ہے کہ ایسا کرسکیں کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اورکیا اور کوئی بندہ خدا کا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ملے گا اورحضرت اقدس علیہ السلام کے مرید لودہانہ میں نہیں ہیں۔ ان کی کمزوری اورضعف ایمانی نے ان کو ڈبودیا ۔وہ مرحوم بھی ان سے متنفرتھا اورجب ان مولویوں کا ذکر کبھی ان کے روبرو کوئی کرتا تومرحوم کی پیشانی پر بَل پڑجاتے تھے اور وہ اُن کو بدتر سے بدتر خیال کرتا تھا۔ ان اشرالناس مولویوں کی نماز سے توبے نماز ہی جنازہ رہتا تو بہتر تھا اس لئے کہ مسیح وقت علیہ السلام خود دعائیں کرچکا اورمرحوم دعائیں کراچکااورنماز جنازہ بھی توایک دعاہی ہے۔ ایمان ایک ایسی شے بے بہا ہے کہ کوئی شے اس کو دُورنہیں کرسکتی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰہ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایمان پر اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کو بول وبراز میں پھنیک دے تواس کا کچھ نہیں بگڑتا اوراگر کوئی ایمان،بے ایمان مرے توکیسے ہی اُس کو عطر وگلاب میں رکھے تواس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ پھر حدیث شریف پڑھتے۔اَلْقَبَرْرُوْضَۃً مِنْ رِیَاضٍ الجنّۃِ اوحَضَرۃٌ مِنْ حُضَر النیرّانِ ۔
الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پرپڑھی اور دعا ومغفرت و رحمت بہت کی۔ جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے۔سبحان اللہ کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے۔
مکتوب نمبر۱؍۵
( اوپر کا نمبر سلسلہ کاہے اور نیچے کا مکتوب الیہ کے نام مکتوب کا ۔عرفانی کبیر)
مخدومی مکرمی عنایت فرمائے این عاجز نواب صاحب علی محمد خاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا س عاجزنے ماہ صفر ۱۳۰۰ء میںآپ کے حق میںبہت دعائیں کیں اور میںامید نہیں رکھتا کہ کوئی گدا حضرت کریم میںاس قد ر دعائیں کرکے بھی محروم رہے۔سو اگرچہ تعین نہیں ہو گی۔ مگر امید واثق ہے کہ خدا وند کریم آپ کے حال پر جس طرح چاہے گا کسی وقت رحم کرے گا۔ وھو ارحم الرحمین ۔
میںنے قریب صبح کے کشف کے عالم میںدیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیاگیا اس پر لکھا ہے کہ ایک ارادت مند لدھیانہ میںہے۔ پھر اس کے مکان کا مجھے پتہ بتایا گیا جو مجھے یاد نہیں اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میںلکھی ہوئی دکھائی۔اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء مجھے معلوم نہیں۔
وہ کون شخص ہے۔ مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند کریم آپ ہی میںوہ حالت پیدا کرے یاکسی اورمیں۔واللّٰہ اعلم بالصواب۔ اپنی خیروعافیت سے اطلاع بخشیں۔
والسلام
الراقم عاجز
غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مورخہ ۱۸؍جنوری ۱۸۸۳ء
نوٹ: اس نوٹ میںحضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لودہانہ کے ایک شخص کے اخلاص و ارادت کے متعلق اطلاع دی گئی ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا پتہ نشان بتا دیاتھا مگر اپنی مشیت خاصہ کے تحت اسے بھلا دیا۔ ایک وقت میںآپ اس کامصداق میر عباس علی صاحب کوبھی سمجھتے رہے اس وجہ سے وہ خدمت دین میں بظاہر کامل اخلاص وارادت کا اظہار کر رہا تھا لیکن اس کے انجا م نے ثابت کردیا کہ وہ اس کامصدق نہ تھا اورحضرت اقدس کے مکتوب سے پتہ چلتاہے کہ آپ نے نواب علی محمد خان آف جہجر کوبھی اس مصداق سمجھا اور واقعات نے اس کی تصدیق کی کہ وہ آخر وقت تک اخلاص و ارادت کا ایک پیکر بنا رہا ۔
حضرت اقدس نے جنوری ۱۸۸۲ء میںہی ایک مکتوب میر عباس علی صاحب کے نام لکھا جو مکتوبات احمدیہ کی جلد اوّل میںمکتوب نمبر ۳ کے عنوان سے طبع ہوا ہے اس میںفرمایا:
’’ خصوص ایک عجیب کشف سے جومجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یک دفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندہ لودہانہ ہے اس عالم کشف میںاس کاتمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا جو اب مجھ کو یاد نہیںرہا صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہانہ اور اس کے بعد اس کی صفت میںیہ لکھا ہو اپیش کیا گیا۔
سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء
یعنی اس کی ارادت اتنی قوی اور کامل ہے کہ جس میںکچھ نہ تزلزل ہے نہ نقصان بعض لوگ میرعباس علی صاحب کے ارتداد پر اب بھی کبھی اعتراض کردیتے ہیںکہ اس کے متعلق یہ الہام ہوا تھا، یہ غلط ہے لودہانہ کے شخص کے متعلق ہو اتھا اور اس کا نام و پتہ اللہ تعالیٰ نے بتلا کرپھر حافظ سے اسے محو کردیا اور ۱۸ ؍جنوری ۱۸۸۳ء کوجو مکتوب آپ نے نواب علی محمد خان صاحب کے نام لکھا اس میںآپ نے اپنا خیال نواب صاحب میںہی اس حالت کے پید اہوجانے کاظاہر فرمایا اور واقعات نے بتایاکہ اس کے مصداق نواب علی محمد خان رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔
اس مکتوب سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ نواب صاحب کے تعلقات حضرت اقدس سے ۱۸۸۳ء سے قائم ہوچکے تھے اوریہ زمانہ ثالیف براہین احمدیہ ہے ۔
(عرفانی کبیر)
مکتوب نمبر ۲/۶
یہ حصہ مکتوب دراصل میرعباس علی صاحب کے مکتوب کا ایک حصہ تھامگر چونکہ نواب صاحب کے متعلق تھااس لئے میںنے اسے علیحدہ نمبر دے کر یہاںدرج کردیا۔
(عرفانی کبیر)
نواب صاحب کے بارے میںجو آپ نے دریافت فرمایاہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ نواب صاحب کے لئے یہ عاجز مدت تک بہت تضرع سے دعا کرتا رہاہے۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گزار ہیںاور نہایت عمدگی اورصفائی سے خواب آئی اور یہ خواب بطور کشف تھی چنانچہ اسی صبح نواب صاحب کو اس خواب کی اطلاع دی گئی۔ پھر ایسااتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکونٹنٹ نے جواس کتاب کے معاون ہیںکسی اپنی مشکل میںدعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپے بھیجے اورجس روز خواب آئی اس دن سے دوچار دن سے پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے مشغول تھا۔ اس لئے ان کے لئے دعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تو اس دن خیال آیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے بھی توجہ سے دعاکریں۔ سو بعد نماز عصر وقت صفا پایا اور دعاکاارادہ کیاگیاتو پھر بھی دل یہی چاہاکہ اس دعا میںنواب صاحب کو بھی شامل کرلیا جائے۔ سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوںکے لئے دعاکی گئی۔ بعد اسی جگہ الہام ہوا کہ نخبی ھما من الغم ہم ان دنوںکو غم سے نجات دیں گے۔ چونکہ یہ عاجز اسی دن صبح کے وقت نواب صاحب کی خدمت میںخط روانہ کر چکا تھا اوربذریعہ رؤیا صادقہ نواب صاحب کو بہت تسلی دی گئی تھی۔ اسی لئے اسی خط پر کفایت کی گئی اور منشی الٰہی بخش کو اس الہام سے اطلاع دی گئی اور بروقت صدور اس الہام کے چند نمازی موجود تھے اور اتفاقاً دو ہندو ملاوامل اور شرمپت نامی بھی اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ عین اس وقت پر موجود تھے ان کوبھی اسی وقت اطلاع دی گئی اورکئی مہمان آئے ہوئے تھے ان کوبھی خبر دی گئی۔پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کاخط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیاہے سو چونکہ یہ دعا اسی کام کے لئے کی گئی تھی۔ پھر اطلاع دینا فضول سمجھا گیا۔ مگر خداوند کریم کابڑا شکر ہے کہ مجمع کثیر میںیہ الہام ہوا اور جیسا کہ میںنے بیان کیا ہے عین الہام کے صدور کے وقت دو ہندو موجود تھے ۔جن کو اسی وقت مفصل بتایاگیااوردوسرے نمازیوںکوبھی خبر کردی گئی اور منشی الٰہی بخش کو بھی لکھا گیا۔
نواب علی محمد خان صاحب کی ارادت اور محبت اور دلی توجہ اور اخلاص قابل تعریف ہے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو ہر غم سے خلاصی بخشے اورحسن عاقبت عطافرمائے۔ آپ نواب صاحب کوبھی اطلاع دیں کہ مالیر کوٹلہ سے نواب ابراہیم علی خان صاحب والئے مالیر کوٹلہ کے ایک سررشتہ دار کاخط آیا کہ وہ پچاس روپے بطور امداد بھیجیں گے ابھی نہیںآئے۔
مکتوب نمبر ۳/۷
مخدومی مکرمی حضرت والا شا ن نواب صاحب بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا والانامہ آنحضرت عین انتظار میںاس احقر العباد کو پہنچا۔ خدا وند کریم کے لطف و احسان کا شکر یہ ادا کیا جائے۔جس نے اس ناچیز کی دعا کوقبول فرمایا الحمدللّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔ آں مخدوم کا منی آرڈر بھی پہنچ گیا۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزا و احسن الیکم فی الدنیا والاخرۃ۔ آں مخدوم نے اپنے دلی اعتقا د سے بہت کچھ مدد فرمائی خدا تعالیٰ آپ کو خوش خرم رکھے اور آپ کی عمر و عزت اور عافیت میںبرکت اور ترقی بخشے۔ حضرت خدا وند کریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ ترقیات کی مجھ کو وہ خبر دیتارہتاہے اور برسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی کہ ابھی آںمخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھ کو حالت کشفی میں دکھایا گیا اور پھر آںمخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی اور آپ کے مافی الضمیر اور خط کے مضمون سے مطلع کیاگیا۔ جس میں بہ پیرایہ الہامی عبادت بطور حکایت آںمخدوم کی طرف تھا میرے خیال میںیہ آپ ہی کی توجہ کااثر ہے۔ چنانچہ یہ خط کامضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوئوں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا اور زاںبعد آپ کامنی آرڈر اور خط بھی آگیا۔ سو حضرت خداوند کریم کا پیش از وقوع آپ کے نام اور آپ کے منی آرڈر اور آپ کے خط اور آپ کے مضمون خط اور آپ کے مافی الضمیر سے مطلع فرمایا اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت ارحم الرحمین کی آپ کے حال پر رحمت شامل ہے۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذلک آںمخدوم کے لئے یہ عاجز دعا کرے گا اور آپ کادلی اعتقاد اور ربط بھی قائم مقام دعا کاہی ہو رہاہے اور دلی دعا اور ربط کوخاص مدعا میںبہت دخل ہے اور جس سے دلی ربط اور توجہ ہو اگر چہ اس کے حق میںکسی وقت دعا نہ کرے ۔ تب بھی اثر ہوجاتاہے مجھ کویاد ہے اور شائد عرصہ تین ماہ یا کچھ کم وبیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کرمجھ کو بھیجا کہ جو میںنے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اس کی نسبت دعاکریںکہ پاس ہو جائے اور بہت کچھ انکساری اور تذلل ظاہر کیاکہ ضروری دعا کریں مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے دعا کے غصہ آیا کہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی تمام تر نفرت اور کراہت چاک کردیا اور دل میںکہا کہ دنیوی غرض اپنے مالک کے پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا ’’پاس ہوجائے گا ‘‘ وہ عجب الہام بھی اکثر لوگوںکوبتایاگیا ۔چنانچہ وہ لڑکاپاس ہوگیا۔فالحمدللّٰہ ۔سو خداوند کریم کی عالیشان صادر ہوتی ہے تو قبول ہوجاتی ہے اور ربط محبت واعتقاد کرنا ان معاملات میںبہت کچھ دخل ہے صاحب محبت اور ارادت کے بہت سے ایسے آفاق اور مکروبات باباعث عین محبت دور کئے جاتے ہیںکہ اس کی اس کوخبر نہیںہوتی۔ نواب صاحب مالیر روئلہ کا جب تک کچھ روپیہ نہیںآتا۔ مناسب ہے کہ آں مخدوم تاکید ی طور پر ان کویاد دلائیں ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد ؐ از قادیان
۱۱ ؍مئی ۱۸۸۴ء
(نوٹ ) اس مکتوب میںجس لڑکے کاذکر آپ نے فرمایاہے وہ حضرت مرزا سلطان احمد ؐ صاحب رضی اللہ عنہ آپ کے سب سے بڑے بیٹے تھے ان ایام میںوہ نائب تحصیلدار تھے۔ اس مکتوب میںآپ نے دعا قبولیت کے لئے یہ بھی ایک گُر بنایا ہے کہ تعلقات اور ربط ایک ایسی چیز ہے جس کا قبولیت دعا سے بہت گہر اتعلق ہے نواب علی محمد خان مرحوم اس خط کو اپنی نوٹ بک میںرکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور آپ کے مقام قرب کے اظہار کے لئے ہر اس شخص کو دکھاتے تھے جن سے وہ حضرت اقدس کاذکرکرتے تھے وہ آپ کی دلائل صداقت میںاپنے اس ذاتی نشان کا ذکر فرماتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشان کا ذکر اپنی کتاب نزول المسیح کے نشان نمبر ۹۳ میںکیاہے۔ اس کو میں یہاںاس لئے درج کررہاہوں کہ تا پراپنے وامے کاا یمان بُراہے اور جس روک کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے۔ مکتوب نمبر ۲ میںاس کے متعلق صاف ذکرموجود ہے ۔
علی محمد خان صاحب نواب جہجر نے لدھیانہ میں ایک غلہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب ان کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف سے رجوع کیا پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارے میںآتا میںنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی کہ ا س مضمون کا خط نواب موصوف کی طرف آ ئے گا چنانچہ میں نے اس واقعہ کی خبر اپنے خط کے ذریعے سے نواب محمد علی خان مرحوم کو قبل از وقت دے دی اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس طرف سے تو میر اخط روانہ ہوا اور اسی دن ان کی طرف سے اسی مضمون کاخط میری طرف روانہ ہوگیا جو میںنے خواب میںدیکھا تھا جس کی روانگی کی میں نے اسی وقت ان کوخبر دے دی تھی کہ گویا ایک ہاتھ سے وہی خط میرا ان کومل گیا جس میںاس روانہ شدہ چٹھی کا مع مضمون اس کا ذکر تھا……تو نواب محمد علی خان خط کوپڑھ کرایک عالم سکتہ میںآگئے اور تعجب کیا کہ یہ راز کاخط جس کومیں نے ابھی ڈاک میں روانہ کیا کیونکہ اس کاحا ل ظاہر کیا گیا اس علمِ غیب نے امن کے ایمان کو بہت قوت دی چنانچہ انہوںنے بارہا مجھے بتلایا کہ اس خط سے خدا پر میرا ایمان بہت بڑھ گیا اُس خط کو وہ ہمیشہ اپنی کتاب جیبی میں بطور تبرک رکھا کرتے تھے ایک مرتبہ انہوںنے خلیفہ محمد حسین کو بھی جو وزیر اعظم پٹیالہ تھے بڑی تعجب سے وہ خط دکھایا اور موت سے ایک دن پہلے پھر اس خط کو مجھے دکھلایا کہ میںنے اپنی جیبی کتاب میںرکھ لیا تھا اور اس نشان کے ساتھ دوسرا نشان یہ ہے کہ جب عالمِ کشف میں ان کادوسرا خط مجھ کو ملا جس میںبہت بے قراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے اس جواب کے خط کوپڑھ کر ان کے لئے دعا کی اور مجھ کو الہام ہوا کہ کچھ عرصے کے لئے یہ روک اُٹھا دی جائے گی اور ان کو اس غم سے نجات دے دی جائے گی۔ یہ الہام ان کو اسی خط میںلکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کاموجب ہوا چنانچہ وہ الہام جلد تر پورا ہوا اور تھوڑے دنوںکے بعد ان کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی۔ اس نشان میںدو نشان ظاہر ہوئے۔ اوّل قبل ا ز وقت اطلاع دینا کہ ایسا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ دوئم قبولیت دعا سے اطلاع ہونا کہ منڈی پھر بارونق ہو جائے گی۔ ۱ ؎
۴/۸ ایک گشتی مکتوب
یہ ایک مکتوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بظاہر حضرت حکیم الامۃ مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے نام بشیراوّل کی وفات پر لکھتا تھا مگر اس مکتوب کی متعدد و نقول میاں شمس الدین ساکن قادیان (جو حضرت اقدس کے استا د اوّل میاںفضل الٰہی کے بیٹے تھے۔ ابتداً اور عموماً حضرت اقدس کے مسوّدات کو خوشخط صاف کیا کرتے تھے) نے کی تھیں اور حضر ت اقدس نے ایک نقل لودہانہ کپور تھلہ کے احباب اور بعض رحص احباب کو روانہ فرمائی تھیں۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے مکتوبات میں اسے چھوڑ دیا تھا اس لئے وہ حقانی تقریر کے مضمون کا خلاصہ تھا اور میںنے اس جلد کے آخر میں اس کاذکر بھی کیا تھا لیکن چونکہ یہ مکتوب متعدد احباب کو بھیجا گیا تھا اس لئے میںاس متفرق مکتوبات کے سلسلے میں اسے شائع کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ وہ سلسلے کے ریکارڈ میںمحفوظ ہوجائے۔ اس مکتوب میںحضرت نے بعض احباب کے اخلاص خاص کاذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ’’ یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا اور اس کی موت ان سچے مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر للہ غم ہوا۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا کہ اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر جیتا رہتا تو ہمیں کچھ رنج نہ تھا۔‘‘
یہ بزرگ جس نے اس اخلاص کا اظہار کیا وہ حضرت منشی محمد خان صاحب افسر بگہی خانہ کپور تھلہ رضی اللہ عنہ تھے نوراللہ مرقدہ۔
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت منشی محمد خان صاحب کے اس اخلاص پر رشک فرمایا کرتے تھے اور بارہا فرمایا کہ بشیر اوّل کی وفات پر جوشخص ہم سب سے آگے نکل گیا وہ محمد خان تھا رضی اللہ عنہ۔ حقیقت میںبڑا فضل اور بڑاکرم ربّ کریم کا ان پر تھا اور اس اخلاص و عقیدت کا ایک بیّن ثبوت دنیا نے دیکھ لیا کہ ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبشارت دی کہ اولاد سے نیک سلوک کیا جا ئے گا چنانچہ سب کے سب معزز خوشحال ہونے اور اپنے اپنے رنگ میںاخلاص کا بہترین نمونہ ہیں۔ اب میںاس مکتوب کو درج کر دیتا ہوں غور سے پڑھو اور مصلح موعود (جس کو خدا نے اب ظاہر کردیاہے) کے مقام اور شان کو سمجھو۔
(عرفانی کبیر)
ایک عام مکتوب
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مخدوم مکرم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمٰہ اللہ تعالیٰ۔ بعد از السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ آپ کالفظ لفظ قوۃ ایمانی پر شاہد ناطق ہے عادۃ اللہ قدیم سے جاری ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑتا اور ایسے ایمان کوقبول نہیں کرتا جو آزمائش سے پہلے انسان رکھتا ہے اگر بشیر احمد کی وفات میں ایک عظیم الشاں حکمت نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ ایسا رحیم وکریم تھا کہ اگر بشیر عظم رمیم بھی ہوتا۔ تب بھی اس کو زندہ کردیتا مگر اللہ جل شانہ نے یہی چاہا تھا اس کے وہ سب کام پورے ہوں جن کااس نے ارادہ کیاہے۔ بشیر احمد کی وفات کاحادثہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو ایک صفا باطن اور دانا انسان کی ٹھوکر کھانے کا باعث ہو سکے۔ جب بشیر پیدا ہوا تو اس کی پیدائش کے بعد صدہا خطوط پنجاب اور ہندوستان سے اس مضمون کے پہنچے کہ آیا یہ وہی لڑکا ہے جس کے ہاتھ پر لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کو ہی یہی جواب دیا گیا کہ اس بارہ میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا۔ ہاں گمان غالب ہے کہ یہی ہو کیونکہ اس کی ذاتی بزرگی الہامات میں بیان کی گئی ہے۔ایسے جوابات کی یہ بھی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پسر متوفی کے استعدادی کمالات اس عاجز پر کھول دیئے تھے اور اس بناء پر قیاسی طور پرگمان کیا گیا تھا کہ غالباً یہی مصلح موعود ہے۔ کیونکہ ذاتی استعداد اور مقدس اور مطہر ہونے کی حالت جو اس کی پیدائش کے بعد الہامات میں بیان کی گئی۔ وہ مصلح موعود کے برابربلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تھی۔مگر پیدائش کے بعد ایسا الہام نہیں ہوا کہ یہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اوراسی تصفیہ کی غرض سے سراج منیر کے چھاپنے میں توقف در توقف ہوتی گئی۔
الہامات جو اس پسر متوفی کی نسبت اس کی پیدائش کے بعد ہوئے ان سے خود مترشح ہوتا ہے کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلائے عظیم کا موجب ہو گا۔ جیسا کہ یہ الہام۔ انا ارسلنک شاھد او مبشر اونذیرا ۔ کصیب من السماء فیہ ظلمات ورعد وبرق۔۔ پس اس الہام میں صاف فرما دیا کہ وہ اَبر رحمت ہے مگر اس میں تاریکی ہے اس تاریکی سے وہی آزمائش کی تاریکی مراد ہے۔ جو لوگوںکو اس کی موت سے پیش آئی اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ یہ عاجز اجتہادی غلطی سے اس خیال میں پڑ گیا تھا کہ غالباً یہ لڑکا مصلح موعود ہو گا جس کی صفائی باطنی اور روشنی استعداد اور تطہیر اور پاکیزگی کی اس قدر تعریف کی گئی ہے مگر اجتہادی کوئی امر ایسا نہیںہے کہ نفس الہام پر کوئی دھبہ لگا سکے۔ ایسی غلطیاںاپنے مکاشفات کے سمجھنے میں نبیو ں سے بھی ہوتی رہی ہیں۔ با ایں ہمہ جب لوگ پوچھتے رہے کہ کیا یہ لڑکا مصلح موعود ہے تو ان کوبھی جواب دیاگیا کہ ہنوزیہ امر قیاسی ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو ایک ابتلائے عظیم میں ڈالے اور سچوں اور کچوں میں فرق کر کے دکھلا وے۔ اس وجہ سے یہ عاجز کہ ایک ضعیف بشیر ہے اس ارادہ کا مغلوب ہو گیا اور یوں ہوا کہ اس لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی و استعد اد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک نور اللہ اور ید اللہ اور مقدس اور بشیر اور خدا باماست اس کانا م رکھا گیا۔ سو ان الہامات نے یہ خیالات پید اکئے کہ غالباً یہ وہی مصلح موعود ہوگا۔
مگر پیچھے سے کھل گیا کہ مصلح موعود نہ تھا۔ مگر مصلح موعود کابشیر تھا اور روشن فطرتی اور کمالات استعداد میں یہ بہت بڑھا ہوا تھا اور وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں شریک ہوتے بطور فرط کے ہوگا۔ پس یہ نہیں کہ وہ بے فائدہ آیا بلکہ خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ اس کی موت عظیم الشان ابتلاء کاایک بھاری حلہ تھا۔ وہ ان کو جو اس حملہ کی برداشت کر گئے۔ عنقریب ایک تازہ زندگی بخشے گی اور اپنی حالت میں وہ ترقی کرجائیں گے۔ یہ بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوااور اس کی موت ان سچے مومنوںکاکفارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر مخص للہ غم ہوا ۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا اگر ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر زندہ رہتا تو ہمیںکچھ رنج نہ تھا۔ پس کیا ایسے لوگوں کے گناہوں کاوہ کفارہ نہ ہوگا کیا انیسوں کے لئے وہ پاک اور معصوم شفیع نہیں ٹھہرے گا اور اس کی موت نے ایسے مومنوں کی زندگی بخشی ہے غرض وہ مومنوںاور ثابت قدموں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں مخص للہ شریک ہوئے ۔ ایک ربانی مبشر تھا۔ اللہ جل شانہ کے انزال رحمت اور روحانی مومنوں کوبرکت دینے کے لئے ان طریقوں میں سے ایک عمدہ طریقہ ہے۔ گو کوئی شخص اس عاجز پر اعتقاد رکھے یا نہ رکھے اور اس ضعیف کو ہم سمجھے یا نہ سمجھے مگر بشیر کی موت سے اگر مخص للہ اس کو غم پہنچا ہے تو بلاشبہ اور اس کے لئے فرط اور شفیع ہوگا ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں جو کہ بظاہر ایک لڑکے کی بات پیشگوئی سمجھی گئی تھی۔ درحقیقت وہ ۲ لڑکوں کی بابت پیشگوئی تھی یعنی اشتہار مذکورہ کی پہلی یہ عبادت کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کانام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے وہ جس سے (یعنی گناہ سے )پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے مبارک ہے۔ جو آسمانوں سے آتا ہے۔ یہ تمام عبادت اس پسر متوقی کے حق میں ہے اور مہمان کا لفظ جو اس کے حق میں استعمال کیا گیا ہے یہ اس کی چند روزہ زندگی کی طر ف اشارہ ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جائے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجائے اور بعد کافقرہ مصلح موعود کے طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اس کی تعریف ہے۔ چنانچہ آپ کو اور اجمالاً سب کو معلوم ہے کہ بشیر کی موت سے پہلے ۱۰ ؍جولائی ۱۸۸۷ء کے اشتہار میں پیشگوئی شائع ہو چکی ہے کہ ایک اور لڑکا پید اہونے والا ہے جو اولوالعزم ہو گا اور ۸؍ اپریل ۱۸۸۷ء کے اشتہار میں وہ فقرہ الہامی کہ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے۔ یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بشیر کی موت سے پہلے آپ قادیان میں ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ تو زبانی بھی اس آنے والے لڑکے کے بارے میںالہام سنا دیا گیا۔ یعنی یہ ایک اولوالعزم پیدا ہوگا یخلق مایشاء وہ حسن اور احسان میں تیر انظیر ہوگا۔ سو الہام الٰہی نے پہلے سے ظاہر کردیا کہ ایک لڑکا ایک نہیںبلکہ دو ہیں۔ ہاں کسی مدت تک یہی اجتہادی غلطی رہی کہ لڑکا ایک ہی سمجھا گیا۔ ۲۰ ؍ فروری ۱۸۸۶ء پیشگوئی جو لڑکے کی بابت تھی۔ وہ درحقیقت دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی۔ جوغلطی سے ایک سمجھی گئی اور پھر بعد میں بشیر کی موت سے پہلے خود الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا گیااگر الہام اس غلطی کو بشیر کی موت سے پہلے رفع نہ کرتا تو ایک غبی کو شہادت پیدا ہونے کاممکن تھے۔ مگر اب کوئی گنجائش شبہہ کی نہیں۔ حضرت مسیح موعود نے اجتہادی طور بعض اپنی پیشگوئیوںکو ایسے طور سے سمجھ لیا تھاکہ اس طور سے وقوع میں نہیں آئیں اور حضرات حواریاں بھی جو عیسائیوں کے نبی کہلاتے ہیں۔ کئی دفعہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میںغلطی کرتے رہے حالانکہ ان غلطیوں سے ان کی شان میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اجتہادی غلطی جیسے علمائوں کو پیش آتی ہے۔ ایسے ہی علماء باطن کو بھی پیش آجاتی ہے اور پاک دل آدمی ان امور سے ذرہ بھی متغیر نہیں ہوتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کوایسی حالت میںکب چھوڑتا ہے اور اپنے انوار کو صرف اسی حد تک کب ختم کردیتا ہے بلکہ بعض وقت کی یہ اجتہادی غلطی خلق اللہ کے لئے موجب نفع عظیم کی ہوئی ہے اور جب فرستادہ الٰہی کی سچائی کی کرنیں چاروں طرف سے کھلنی شروع ہوتی ہیں تب سالک کے لئے یہ اجتہادی غلطی ایک دقیق معرفت کا نکتہ معلو م ہوتا ہے۔ جس شخص کو خداتعالیٰ سے کچھ غرض نہیں اور معرفت الٰہی سے کچھ واسطہ نہیں اور اس کا دین مخص ہنسی اور ٹھٹھا ہے اور اس کا مبلغ علم صرف موٹی باتوں اور سطحی خیالات تک محدود ہے۔ ایسے شخص کی نکتہ چینی اور اعتراضات کیا حقیقت رکھتے ہیں۔ وہ حباب کی طرح جلد کم ہوجاتے ہیں اور نور حقانیت اور بریان صداقت جب پورا پورا اپنا پر تور کہلاتے ہیں۔ تو ایسے ظلماتی اعتراضات کہ ایک غبی اور مردہ دل کے منہ سے نکلتے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے معدوم ہوجاتے ہیںکہ گویا وہ کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے۔ محجوب لوگ جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیںکرسکتے ایسے ہی اس کے خالص بندوں کی شناخت سے قاصر ہیںاور ایسوںکے اپنے ایمان اور اپنی معرفت کے پورا کرنے کی پرواہ بھی نہیںہوتی۔ وہ کبھی آنکھ اٹھا کرنہیں دیکھتے کہ ہم دنیا میںکیوںآئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے جس کو ہمیںحاصل کرنا چاہئے وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر مذہب کے پابند رہتے ہیں اور صرف رسمی جوش سے قوم کے حامی یا مذہب کے ریفارمر بن بیٹھے ہیں۔ وہ کبھی اس طرح خیال نہیںکرتے کہ سچا یقین حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور کبھی اپنی حالت کو نہیں ٹٹولتے کہ وہ کیسے سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور تعجب یہ ہے کہ وہ آپ تو حق کے بھوُکے اور پیاسے نہیں ہوتے۔ باایں ہمہ یہ مرض ایسی طبیعت ثانی کا حکم ان میںپیدا کر لیتی ہے کہ وہ اسی مرض کو صحت سمجھتے ہیں اور ایسا اس کی تائید میںزور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہوتو برگزیدوں کو بھی اپنی اس حالت کے طرف کھنیچ لائیں۔سو ایسوں کے اعتراضات کچھ چیز نہیں۔ ہمارے نزدیک اگر وہ مسلمان بھی کہلائیں بلکہ اگر مولوی اور عالم کے نام سے موسوم کئے جائیں تب بھی ان کاایمان ایک ایسی حقیر چیز ہے جس سے ہر ایک طالب عالی ہمت بالطبع متنضر ہو گا۔ ہم ایسے لوگوں سے جھگڑنانہیں چاہتے اور ان کا اور اپنا تصفیہ فیصلہ کے دن پر چھوڑتے ہیں او ر لکم دینکم ولی دینکہہ کر ان کو رخصت کرتے ہیں۔
یہ بالکل سچ اور سر اسر سچ ہے کہ رجوع اور سچا یقین بجز سچی معرفت کے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ بالکل غیر ممکن ہے۔ یہ کام مجرو عقلی دلایل سے ہرگز نہیں ہوسکے گا۔وہ تم اور اکمل مرتبہ معرفت جو مدار نجات ہے۔ فقط عقلی دلایل سے ہر گز نہیں ہوسکتا بلکہ فقط عقلی طور پر اپنے جسم کو ساکت کرنا ایک ناقص اور ناتمام فتح ہے ہمیشہ حقیقی فائدہ خلق اللہ کے ایمان کو اکابر کی برکات روحانیہ سے ہوتا رہا ہے او ر اگر کبھی ان کی پیشگوئی کسی کے ٹھوکر کھا نے کا موجب ہوئی تھی تو دراصل خود اسی کا قصور تھا جس نے بوجہ قلت معرفت عادۃاللہ ٹھوکر کھائی۔ یہ بات ہر ایک وسیع المعلومات شخص پر ظاہر ہے کہ اپنے مکاشفات کے متعلق اکثر نبیوں سے بھی اجتہادی غلطیاں ہوتی ہیں اور ان کے شاگروں میںسے بھی جیسا کہ حضرت ابوبکر نے بضع کے لفظ کو جو آیت سیغلبون فی بضع سنین میں داخل ہے۔ تین برس میں محدود سمجھ لیا تھا اور غلطی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قبنہ کیا اور اسرائیلی نبیوں اجتہادی ؎۱ غلطیاں تو خود ظاہر ہیں جن سے عیسائی بھی انکار نہیں کر سکتے۔ پس کیا و ظہور کسی اجتہادی غلطی کے ان پاک نبیوں کے وفادار اور روشن ضمیر پر وا نہیں یہ صلاح دے سکتے تھے کہ آپ اپنے وعظ اور پند کو صرف عقلی طریق تک محدود رکھیں اور دعوے نبوت او ر پیشگوئیوں کے بیان کرنے سے دستکش ہو جائیںکہ یہ حق کے طالبوں کے لئے فائد ہ مند چیز نہیں۔ ان بزرگوں نے ہر گز ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بقابل ان روحانی برکات کے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں سے صادر وہوتی ہیں۔ ایک آدھ اجتہادی غلطی کوئی چیز نہیں۔ میں قطعاً و یقینا کہتا ہوں او ر علے وجہ الیصرت کہتا ہوں کہ مجرو عقلی دلایل کا ذخیرہ اس شیریں او راطمینان بخش معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس سے انسان بکلی خدا تعالیٰ کے طرف منجدب ہو جاتا ہے بلکہ اس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے فقط آیات آسمانی و مکالمات ربانی ذریعہ ہیں۔ اس ذریعہ کو وہی منجون الرحمٰن ڈھونڈتا ہے جو اپنے اندر سچی آگ تلاش کی پاتا ہے اور اپنے تئیں رسمی ایمان پر اکتفاکر کے دھوکہ دنیا میں نہیں چاہتا۔ فقط رسمی ایمان پر خوش ہونا ان لوگوں کا طریق ہے جن کے دل محبت دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور جو کبھی دن کو یا رات کو اور چلنے یا پلنگ پر لیٹے ہوئے اپنے ایمان کی آزمائش نہیں کرتے کہ کس قدر اس میں قوت ہے اور زبان کی چالاکی اور شعلہ منطق نے کہاں تک ان کے دلوں کومنور کرکے سیدھی راہ پر لگادیا ہے اور کس درجہ تک جام یقین پلاکر محبت مولٰی بخش دی ہے۔ شاید بعض لوگ میری تقریر مندرجہ بالا کو پڑھ کر جو میں نے صفائی استعداد اور عالی فطرتی متوقی کی بابت لکھا ہے اس حیرت میں پڑیں گے کہ جو بچہ صغیر سنی میں مر جائے اس کے علو ا ستعداد کے کیا معنے ہیں۔ سو میں ان کی تسکین کے لئے کہتا ہوں کہ کمال استعداد ی اور پاک جوہر ی کے لئے زیادہ عمر پانا کچھ ضروری نہیں اور یہ بات عندا لعقل بد یہی ہے کہ بچوں کی استعداد میں ضرور باہم تغاوت ہوتا ہے گو بعض ان میں سے مریں یا زندہ رہیں۔ وہ اندورنی قوتیں اور طاقتیں جو انسان اس مسافر خانہ میں ساتھ لاتا ہے وہ بچوں میں کبھی برابر نہیں ہوئیں۔ ایک بچہ دیوانہ سا اور غبی معلوم ہوتا ہے اور منہ سے رال ٹپکتی ہے اور ایک ہوشیار دکھائی دیتا ہے بعض بچے جو کسی قدر عمر پاتے ہیں اور مکتب میں پڑھتے ہیں۔ نہایت ذہین اور فہیم ہوتے ہیں مگر عمر وفا نہیں کرتی اور صغیر سنی میں مر جاتے ہیں۔ پس لغاوت استعدادات میں کس کو انکار ہوسکتا ہے اور جس حالت میں صد ہا بچے فہیم ا ور ذہین اور ہوشیار مرتے نظر آتے ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ کمالات استعداد یہ کے لئے عمر طبعی تک پہنچتا ایک ضروری امر ہے سّید نا ومولانا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابراہیم اپنے لخت جگر کی نسبت بیان کرنا کہ اگر وہ جیتا رہتا تو صدیق یا نبی ہوتا۔ بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ سو اسی طرح خدائے عزوجل نے مجھ پر کھول دیاہے کہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے کمالات استعداد یہ میں اعلٰی درجے کا تھا اور اس کے استعدادی کمالات دوسرے عالم میں نشوونما پائیں گے۔
قصیر العمر ہونا اس کے جوہر کے لئے مضر نہیں بلکہ اس کا پاک آنا اور پاک جانا اور گناہ سے بکلی مقصوم رہنا اس کے شرف پر ایک بدیہی دلیل ہے اور جیسا کہ الہام نے بتلایا تھا کہ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اور وہ گناہ سے پاک ہے۔ ایسا ہی وہ مہمان کی طرح چند روز دے کر پاکی اور معصومیت کی حالت میںاٹھایا گیا اور موت کے وقت بطور فارق اور عادت اس کاچہرہ چمکا اور اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سو گیا یہی اس کی موت تھی جو معمولی موتوں سے دوُر اور نہایت پاک و صاف تھی۔
اس جگہ یہ بھی تحریر کے لائق ہے کہ اس کی موت سے اللہ جل شانہ نے پہلے اس عاجز کو پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کرچکا ہے اور اب فوت ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے اس کی موت نے اس عاجز کی قوت ایمانی کو بہت ترقی دی اور آگے قدم بڑھایا۔ اس کی موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ اس الہام ہوا۔احسب الناس ان یترکوان یقونوا امنا وھم لا یفتنون۔ قالو ا باللہ تفتو ا تذکریوسف حتی تکون حرضاً اوتکون من الھا الکین شاھت الو جوہ فتول عنہم حتی حین ان الصابرین یوفی اجر ھم بغیر حساب ۔اب خدا تعالیٰ نے ان آیات میں صاف بتلا دیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نو مید ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ تو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا مر جائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیرلے جب تک وہ وقت پہنچ جائے اور بشیر کی موت پر جو ثابت قدم رہے ان کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور کہ ۔۔۔کی نظر میں حیرت ناک۔
کوتہ میں لوگ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جس حالت میں اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی شائع کی گئی تھی کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہوں گے تو کیا یہ ضرور نہ تھا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوتی۔ فی الحقیقت بشیر کی خورو سالی اور اس کی موت نے ایک پیشگوئی کو پورا کیا جو اس کی موت سے تین سال پہلے کی گئی تھی۔ سو دانا کے لئے زیادہ معرفت کا یہ محل ہے نہ انکار و حیرت کا۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے پسر متوقی کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے۔ ان میں سے ایک بشیر اور ایک عنموائیل اور ایک خدا با ماست ورحمت حق اور ایک ید اللہ تجلال وجمال ہے او را س کی تعریف میں ایک الہام ہو ایہ جاء ک النور وھو افضل منک یعنی کمالات استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے کیونکہ اس پسر متوقی کو اس آنے والے فرزند سے تعلقات شدید تھے اور اس کے وجود کے لئے یہ بطور ارہاص تھا۔ اس لئے الہامی عبارات میں جو ۲۰؍۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج تھی۔ ان دونوں کے ذکر کو ایسا مخلوط کیا گیا کہ گویا ایک ہی ذکر ہے۔ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیر رکھا ہے چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسر انام محمود ہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولو العزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیر انظیر ہوگا۔ خلیق مایشاء یہی حال ہے جو میں نے آپ کے لئے لکھی۔ و افوض امری الی للہ واللہ بصیر بالعبادالراقم۔
خاکسار
غلام احمد ازقادیان











احباب کپور تھلہ کے نام




تعارفی نوٹ
جماعت کپور تھلہ کے وہ بزرگ (جو جماعت مذکورہ کے بانیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اپنے عشق و وفا کا عملی ثبوت دیا کہ خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں جنت میں اپنے ساتھ ہونے کاوعدہ دیا۔ گویا وہ لوگ تھے جو وعشرہ مبشرہ کے نمونہ کے تھے) ان کا تذکرہ تو سیرۃ صحابہ میں انشاء اللہ ہوگا اورکسی قدر ہر ایک بزرگ کے متعلق الحکم میں مختلف اوقات میں لکھا بھی گیا ہے یہاں صرف ان مکتوبات کا اندراج مقصود ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ان مخلصین وصادقین کو لکھے۔ میری تحقیقات میں کپور تھلہ کی جماعت کے آدم حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے اخلاص اور عملی زندگی نے دوسروں کو شیدائے مسیح موعود کردیا اور پھر یہ کہنا مشکل ہو گیا کہ کون پہلے ہے اور کون پیچھے۔ ہرایک اپنے رنگ میں بے نظیر اور واجب التقلید تھا اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم وکرم کے بادل برسائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقامات دے اور ہمیں ان کی عملی زندگی کی توفیق۔ جماعت کپور تھلہ کے مخلصین کے نام مکتوبات بہت کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ومحبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے اور خط وکتابت کی نوبت ہی نہ آتی جہاں حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے تاہم جو تبرکات ان سے حاصل ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔
(عرفانی کبیر)
(۱)حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کے نام
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب دو قالب دیک جان تھے حضرت منشی صاحب کے بزگوار حاجی ولی اللہ صاحب براہین احمدیہ کے خریدار تھے اور ان ایام میں خوش عقیدت بھی تھے ان کی کتاب براہین احمدیہ نے حضرت ظفر المظفر (حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ منشی ظفر احمد صاحب کو اسی نام سے عام گفتگو میں پکارا کرتے تھے) کو کھینچا اور پھر یہ دونوں بزرگ حضرت اقدس میں ہو کر۔
ایک ہی باپ کے توام بیٹے ہوگئے
حاجی پور ان ہی صاحب کا آباد کیا ہو ا گائوں تھا جہاں کے رئیس منشی صاحب مغفور تھے (عرفانی کبیر)
۱/۹ مشفقی مجی اخویم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ،
محبت نامہ پہنچ کر آپ کے ترودات کا حال دریافت کر کے بہت غم ہوا۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو تمام ترودات سے مخلصی عطا فرمائے۔ آپ نے بہت ثواب کا کام کیا کہ دس رسالے مفت تقسیم کئے۔ جزاکم اللہ۔ اب عنقریب انشاء اللہ رسالہ وافع الوسادس بھی شائع ہو جائے گا میں یقینا کہتا ہوں کہ آپ کی خواب نہایت عمدہ ہے منشی ظفر احمد صاحب موجو د تھے اس سے مراد انشاء اللہ ظفر ہے۔ یعنی فتح آپ کو ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۴؍ جنوری ۱۸۹۲ء
۲/۱۰ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔نحمدہ،و نصلی
محبی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ آپ کی علالت کی خبر سن کر تفکر ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ نہایت آرزو ہے کہ آپ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں تشریف لائیں۔ اگر آٹھ نو روز تک صحت کامل ہو جائیں تو آپ آسکتے ہیں امید ہے کہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں مرض کی حالت میں قصر نماز کرنہیں چاہئے البتہ اگر طاقت کھڑے ہونے کی نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔
والسلام
۱۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء
۳/۱۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ، و نصلی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آپ کاعنایت نامہ پہنچا۔ ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گائو ں سے آنا بخیر حرج کے متصور نہیں چونکہ گائوں میں مسجد ہے اگر شہر کے نزدیک بھی ہے تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتاہے۔ کسی حدیث صحیح میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں۔ بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔ خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں۔ کتاب دافع الوساوس چھپ رہی ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۳۰؍اگست ۹۲ء
۴/۱۲ مشفقی محبی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب سلٰمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، عنایت نامہ پہنچ کر بد دریافت واقعہ ہائلہ حادثۃ وفات آپ کی ہمشیرہ کے بہت غم و اندوہ ہو ا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور آپ مرحومہ کو راضیات جنت میں داخل فرمائے آمین ثم آمین۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد۱۷؍ مئی ۹۲ء
۵/۱۳ محبی شفقی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، مدت کے بعد آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ ایک رسالہ آپ کے نام روانہ ہوگیا ہے۔ دافع الوسادس بعد اس کے شائع ہوگا۔ زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ مگراکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو زیور متعمل ہو اس کی زکوہ نہیں۔ مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عاریتاً کبھی دے دیا کریں مثلا ً دو تین دن کے لئے کسی دعوت کو اگر عاریتاً پہننے کے لئے دے دیا جائے تو پھر بالاتفاق ساقط ہو جاتی ہے۔ خواب آپ کی نہایت عمدہ ہے۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۲ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ، و نصلی
۶/۱۵ محبی عزیزی اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
جوتا جو آپ نے بھیجا نہایت عمدہ تھا صرف اس قدر فرق تھا کہ وہ کچھ مردانہ قطع تھی دوسرے جیسا کہ زنانہ جوتیاں ہوا کرتی ہیں نازک …کا حصہ انچان لم ہے اور بقدر ایک جو اس پہلی جوتی کے چھوٹی ہے اور اس لئے …
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۹؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء
(نوٹ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عموما ً لودہانہ کا بنا ہوا نرم نری کا سرخ رنگ کاجوتا پہنا کرتے تھے اور منشی حبیب الرحمن مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ عموماً لودہانہ سے جوتا بنوا کر پیش کیا کرتے تھے۔ ان کے گائوں میں دیمک کی کثرت تھی اکثر کاغذات اور کتب ان کے تباہ ہوگئے۔ یہ خط بھی ایک دو جگہ سے صاف نہیں پڑھا جاتا۔ البتہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ اس مرتبہ جو جوتا آپ نے پیش کیا اس میں بعض بقایص رہ گئے۔ تاہم حضور نے اس کی اولا اس کی خوبی اور عمدگی کو بیان کیا تاکہ جس اخلاص اور محبت سے انہوں نے بنا کربھیجا تھا اس کو ٹھیس نہ لگے اور اس میں جو واقعی نقص رہ گیا تھا وہ اس وجہ سے اصل غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اس کا بھی ذکر فرمایا دیا۔
(عرفانی کبیر )
(۲) حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے نام
تعارفی نوٹ
حضرت منشی احمد صاحب رضی اللہ عنہ میری تحقیقات میں کپور تھلہ کی جماعت کے آدم ہیں عین عنفوان شباب میں انہوں نے براہین احمدیہ کو پڑھا او راس سے نور سے حصہ لیا۔ ان کا تاریخی نام انظار حسین تھا۔ وہ ضلع مظفر نگر (یو۔پی) کے اصل باشندے تھے اور ایک شریف معزز اور عالم خاندان کے فرد تھے۔ خاندان میں شرافت کے علاوہ دینداری کا ہمیشہ چرچا رہا اس لئے کہ یہ خاندان عرصہ دراز سے خاندان مغلیہ کے عہد میں مسلمان ہوچکا تھا اور اس عہد کی تاریخوں میں اس خاندان کے تذکرے آتے ہیں۔ یہ قانون گو کہلاتے تھے۔ قرآن کریم کے حفظ کرنے کابھی شوق اس خاندان میں پایا جاتا ہے چنانچہ خود منشی صاحب کے والد صاحب۔ دادا صاحب۔ پردادا صاحب۔
سب حافظ قرآن تھے مگر خدا تعالیٰ نے حضرت منشی صاحب کو قرآن کریم کے حقایق و معارف کے ایک چشمہ جاریہ پر لا کر کھڑا کر دیا اور سیراب ہو گئے اور دوسروں کو سیراب کرتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے او راہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت اور ان کے ایمان کاجزو اعظم تھا اس جگہ مجھے ان کی زندگی کے واقعات کی تفصیل مطلوب نہیں سرسری تعارف زیر نظر ہے۔ بزرگان ملت حضرت خلیفۃ اوّل رضی اللہ عنہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور دوسرے اصحاب کیا آپ کے ساتھ محبت رکھتے تھے جو دراصل خود ان کی اس محبت کا عکس تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کا ذکر ان الفاظ میںفرمایا۔
منشی ظفر احمد صاحب۔ یہ جوان صالح کم گو اور اخلاق سے بہرادقیق الفہم آدمی تھے استقامت کے آثار وانوار اس میں ظاہر ہیں وفاداری کی علامات وآثارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے اور حسن طن جو اس راہ کامرکب ہے۔ دونوں سیرتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ جزاکلہ اللہ خیر الجز ۔
(ازالہ دہام طبع اوّل صفحہ ۸۰۰) ۱۹۲۰ء بکری کے قریب قصبہ باغپت میں پید اہوئے اور ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو کپور تھلہ میں فوت ہوئے اور وہاں سے ان کاجنازہ قادیان لایا گیا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے (رضی اللہ عنہ)
(خاکسار عرفانی کبیر)
۱/۱۶ بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدو نصلے علی رسول الکریم
از عاجز عاید باللہ الصمد غلام احمد باخویم مکرم منشی ظفر احمد صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، عنایت نامہ آپ کا پہنچا حرف حرف اس کاپڑھا گیا ا ور آپ کے لئے دعا کی گئی۔
قبض اور بے ذوقی میں کیا کرنا چاہئے
قبض او ر بے مزگی اور بے ذوقی کی حالت میں مجاہدات شافہ بجا لا کر اپنے مولا کو خوش کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مجاہد ہ جس کے حصول کے لئے قرآن شریف میں ارشادو ترغیب ہے اور جو مورد کشود کاہے۔
وہ مشرط بے ذوقی و بے حضوری ہے۔
مجاہدہ حقیقی
اور اگر کوئی عمل ذوق اور بسط اور حضور اور لذت سے کیا جائے اس کو مجاہد نہیں کہہ سکتے اور اس پر کوئی ثواب مترتب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خود ایک لذت اور نعیم ہے اورتغم اور تلذو کے کاموں سے کوئی شخص اجر نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص شیریں شربت پی کر اس کے پینے کی مزدوری نہیں مانگ سکتا، سویہ ایک نکتہ نہایت باریک ہے کہ بے ذوقی اور بے مزگی، تلخی اور مشقت کے ختم ہونے سے وہیں ثواب اور اجر ختم ہوتا ہے اور عبادات عبادات نہیں رہتیں۔
نکتہ معرفت۔ بلکہ ایک روحانی غذا کا حکم پیدا کرلیتی ہیں سو حالت قبض جو بے ذوقی اور بے مزگی سے مراد ہے یہی ایک ایسی مبارک حالت ہے جس کی برکت سے سلسلہ ترقیات کا شروع رہتا ہے۔ ہاں بے مزگی کی حالت میں اعمال صالحہ کا بجا لانا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے۔ مگر ادنی خیال سے اس گرانی کو انسان اٹھا سکتا ہے جیسے ایک مزدور خوب جانتا ہے کہ اگر میں نے آج مشقت اٹھا کر مزدوری نہ کی تو پھر فاقہ ہے اور ایک یقین رکھتا ہے کہ میں نے تکالیف سے ڈر کر نوکری چھوڑ دی تو پھر گزاراہ ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح انسان سمجھ سکتا ہے کہ
فلاح آخرت بجز اعمال صالحہ کے نہیں
اعمال صالحہ۔ اور اعمال صالحہ وہ ہوں جو خلاف نفس اور مشقت سے ادا کئے جائیں اور عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل سے کام کے لئے مصحم عزم کیاجائے۔ اس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے۔ سو مصحم عزم اور عہدواثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور نماز میں اس دعا کو پڑھنے میں کہ
اھد نا الصراط المستقیم
(طریق دعا)
بہت خشوع اور خضوع سے زور لگانا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے۔ انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جانوروں سے بدتر ہے اور شرابریہ ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اور موت در پیش ہے اور جو کچھ عمر کا حصہ ضائع طور پر گزر گیا وہ ناقابل تلافی ہے اور سخت حسرت کا مقام ہے۔ دعا کرتے رہو اورتھکو مت لا تیئو امن روح اللہ
(کامیابی کے گُر)
یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتے رہے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کے لئے ایک وقت ہے۔ صابر اور منتظر رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ صبر میں کچھ فرق آجائے کیونکہ استعجال سم قاتل ہے اگر فرصت ہو تو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے۔ غور سے ترجمہ قرآن کریم کا دیکھا کرو۔
(منشی صاحب کاخواب)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ نے خواب میں دیکھا یہ بہتر ہے فاروق کی زیارت قوت و شجاعت دین حاصل ہوتی ہے۔
(فقر کا مفہوم)
میر ی دانست میں فکر کے یہ معنی ہیں کہ اعمال کی ضرورت ہے نہ نسبت کی۔ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا کام کیا۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کس کا بیٹا ہے۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کس طرح ہو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مناسبت و پیروی و محبت اور پھر کثرت درود شریف شرط ہے یہ باتیں بالعرض حاصل ہو جاتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ کے راضی ہو جانے کے بعد اور با آسانی یہ امور طے ہوجاتے ہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد قادیان۱۱؍۱۸۸۹ء
نوٹ۔: ا س مکتوب میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی ایک رویا کا ذکر بھی حضرت نے فرمایا جس میں انہوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور حضرت نے اس کی تعبیر عام بھی فرما دی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ حقیقی تعبیر ہے۔ لیکن میں اپنے ذوق پر اس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں حضرت منشی صاحب کو قبل از وقت بشارت دی تھی کہ وہ اس عصر سعادت کے فاروق فضل ِ عمر کو دیکھ لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ایک یہ بھی ہے کہ :۔
فیک مادۃ فاروقیہ
اس میں کیا شبہہ ہے کہ حضرت بجائے خود بھی فاروق ہی تھے۔ لیکن اس وحی میں یہ ہے کہ تجھ میں فاروقی مادہ ہے اور اس کا ظہور آپ کی صبلی اولاد میں سے ایک اولوالعزم مولود کے ذریعہ ہونے والا تھا ،جو زبان وحی میں فضل عمر کہلایا۔
بہر حال حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ وہ اس عہد کے فاروق کو دیکھیں گے اور یہ خواب اسی سال کا ہے جب کہ وہ مولود بشر موعود عالم وجود میں آچکا تھا
یعنی ۱۸۸۹ء۔
پس میرے ذو ق میں اس خواب کی تعبیر واقعات کے رنگ میں نمایاں ہے اور میں حضرت ظفر کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے ا س عہد مبارک کو پا لیا اور حضرت فضلِ عمر کو دیکھ لیا۔
(عرفانی کبیر )

خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب کے نام
تعارفی نوٹ
خان صاحب عبدا لمجید خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسرکٹ مجسٹریٹ کپور تھلہ حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے فرزند اکبر میں حضرت منشی محمد خاں صاحب کپورتھلہ کی جماعت کے ان مثاق میں سے تھے جواپنی عقیدت واخلاص اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ محبت و ایثار میں بہت بلند درجہ رکھتے ہیں۔ منشی محمد خان صاحب کا ذکر میں پہلے اس گشتی مکتوب میں کر آیا ہوں جوبشیر اوّل کی وفات پر حضرت نے لکھا تھا اورتفصیلی تذکرہ کتاب تعارف میں ا نشاء اللہ مزید آئے گا۔ منشی محمدخان صاحب افسر بگیخانہ کپور تھلہ تھے جب ان کی وفات ہوئی۔ اس جگہ کے لئے کپور تھلہ کے کئی شخص امیدوار تھے اور حالت یہ تھی کہ حضرت منشی محمد خاں صاحب کی علالت کی طوالت کے باعث حساب کتاب بھی نا مکمل تھا، اور مختلف قسم کے خطرات در پیش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ وحی بتا دیا تھا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا چنانچہ منشی عبد المجید خاں صاحب افسر بگیخانہ مقرر ہوئے اور بالاخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسڑکٹ مجسڑیٹ ہوئے اور اسی عہدہ سے پنشن پائی۔ خان صاحب عبدالمجید صاحب اپنے اخلاص وارادت میں اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر ہیں اور اس سلسلہ کی خدمت کے لئے ہمیشہ تیار رہنا اپنی سعادت اور خوش قسمتی یقین کرتے ہیں اللہم زدفزد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خطوط سے پہلے میں ایک مکتوب مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کا درج کرتا ہوں اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشان کا ایک شاہد ہے۔
(عرفانی کبیر )
۱/۱۷ مفتی صاحب کا خط حضرت منشیٰ روڑیخاں ؓ کے نام
مکرمی منشی صاحب۔ السلام علیکم۔ خاکسار کل ۲ بجے یہاں پہنچا حضور علیہ السلام سے غرض کیا گیا فرمایا مجھے ۲ ؍ جنوری کوایسی حالت طاری ہوئی جیسے کوئی نہایت عزیز مر جاتا ہے ساتھ ہی الہام ہوا۔
اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا
اطلاعاً عرض ہے دعا کے واسطے کہا گیا حضور کوبہت سخت رنج ہوا ہے۔ میرے بعد میرے والد صاحب کی دوتاریں آئی تھیں اس لئے آج بہیرو جاتا ہوں کل سے بارش شروع ہے ۱۳؍ تاریخ انشاء اللہ گورداس پور پہنچ جائو ں گا اور خیریت ہے عبدالمجید خاں وغیرہ سب کو
السلام علیکم
خاکسار
فضل الرحمن از قادیان
(نوٹ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام والسلام کے مکتوبات درج کئے جاتے ہیں۔ عرفانی کبیر)
۲/۱۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔نحمدو، ونصلی
محبی اخویم میاں عبدالمجید خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، چاول اور آم مرسلہ آپ کے پہنچ گئے جزاکم اللہ خیرا۔ ایک گھوڑی نہایت عہدہ نسل کی دہنی کھیپ کے علاقے کی ہے۔ عمدہ قد کی اور خوب چالاک اورساری خوبیاں اس کے اندر ہیں اور عمر کی جوان بچھڑی۔ یعنی نوجوان۔ صرف یہ بات ہے کہ ذرا ڈرتی ہے اور ہمارے بچے کمزور ہیں۔ میں خود اندیشہ کرتا ہوں کہ اس چالاک گھوڑی پر سواری ان کے مناسب نہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی پاس شدہ ہے اور اس پر ای۔آئی کاکمپنی کاداغ دیا ہوا ہے۔ صرف یہ باعث خوف و ڈر اس کے میر ایہ ارادہ ہے کہ اس کے عوض کوئی اور گھوڑی اصیل جو ڈرتی نہ ہو اور ناخن نہ لیتی ہو اور ہد لگام نہ ہوا اور چک گیر نہ ہو۔ چال بہت صاف بغیر ٹھوکر کے ہو خرید لی جائے اور میرے خیال میں آپ اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور آپ کا اختیار ہے کہ اس جگہ اور گھوڑی بدلا کر بھیج دیں یااس کو بیچ کر اور گھوڑی عمدہ خرید کر بھیج دیں اور ضرور توجہ کرکے اس کام کو انجام دیں۔ نہایت تاکید ہے اور آپ ایک ہوشیار آدمی بھیج کر گھوڑی منگوا لیں اور ہم اس جگہ بھی اس کے ہمراہ اپنا ایک آدمی کردیں گے۔
والسلام
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۶؍ اگست ۱۹۰۶ء
(نوٹ) اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اعلٰی درجے کے شاہ سوار تھے جو ہدایات آپ نے گھوڑی کی خرید کے متعلق دی ہیں ان سے اس علم کاپتہ چلتا ہے کہ گھوڑوں کی خوبی کے متعلق آپ کو تھا۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے خصوصیت سے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا۔ یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی اور حضرت امیر المومنین ایک عمدہ شاہ سوار ہیں۔
۳/۱۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ، و نصلی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط پہنچا میری یہ حالت ہے کہ میں قریباً تین روز سے بیمار ہوں کھانسی کی بہت شدت ہے دوسرے عوارض بھی ہیں اس وقت میں ایسا کمزور ہو گیا ہوں کہ دعا میں پور امجاہدہ اور کوشش نہیں کرسکتا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو شخص مذکور کے لئے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ رحم فرما دے میں اس قدر کمزور ہو گیا ہوں کہ اس قدر تحریر بھی مشکل سے کی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے اختیار میںہے کہ اگر میری صحت میں خدا نخواستہ کچھ زیادہ خلل ہوا تو حتی المقدر دعا کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
مرزا غلام احمد
۱۰؍ فروری ۱۹۰۸ء
(نوٹ) اس مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خطوط کے جواب میں کس قدر محتاط اور مستعد تھے اور آپ انسان کی فطرت کو سمجھتے تھے کہ خطوط کے جواب کے لئے وہ کسی قدر مغطرب رہتا ہے۔ دوسرے آپ نے دعا کے متعلق بھی قبول ہونے والی دعا کا راز بتایا کہ وہ ایک خاص مجاہدہ اور کوشش کو چاہتی ہے۔ سوم آپ کی طبیعت پر صداقت کس قدر غالب ہے۔ نمائش اور ریا سے آپ پاک ہیں چونکہ بوجہ علالت شدید و غا ء کے لئے وہ حالات میسر نہیں صاف اعتراف فرمایا کہ اس وقت دعا نہیں کر سکتا۔ اس مکتوب کے ہر لفظ سے آپ کا توکل علٰی للہ نمایاں ہے۔
(عرفانی کبیر )
۴/۲۰بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علٰی رسول الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ہر ایک خط کے پہنچنے پر دعا کی گئی انشاء اللہ بعد میں کئی دعائیں کی جائیں گی خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی اللہ ۴؍جون ۱۹۰۷ء
۵/ ۲۱ محبی فی اللہ عبد المجید خاں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے واسطے دعا کی جاتی ہے حساب سرکاری میں اللہ تعالیٰ سہولت عطا فرمائے۔ والسلام۔ انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا آپ کا قریباً ہر روز خط پہنچتا ہے اور دعا بھی کی جاتی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۲؍ جون ۱۹۰۷ء
(نوٹ) خط نمبر ۵ کا ابتدائی حصہ مفتی محمد صادق صاحب قبلہ کا قلمی ہے جو ان ایام میں حضور کے کاتب خطوط تھے یا آجکل کی اصطلاح میں پرائیویٹ سیکرٹری ان کی عادت میں تھا کہ جن خطوط کے جواب کے لئے خصور اس نیت اور مقصد سے پیش کردیتے کہ حضرت بھی خود کوئی جملہ یا کم از کم اپنا دستخط ہی کردیں جس کے خدام طلب گار رہتے۔ ان ایام میں حضرت منشی محمد خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے ایام علالت کا حساب ہو رہا تھا اور حضرت منشی روڑیخاں صاحب اور منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہا یہ کام کررہے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق حساب میں سہولت اور اولاد کے لئے نرم سلوک کے انوار ظاہر کردئیے مرحوم منشی صاحب ہی کا کچھ روپیہ ایصال طلب ثابت ہوا اور حکومت کپور تھلہ نے اسے ادا کردیا حضرت مرحوم اپنی دیانت امانت اور تقوی و طہارت نفس میں ایک بے نظیر آدمی تھے۔ باوجود اتنے بڑے عہدہ پر مامور ہونے کے اپنی زندگی درویشانہ گزارتے تھے جو ملتا تھا اس میں سے صرف قوت لایموت رکھ کر سلسلہ کی نذر کردیتے تھے اللہ اللہ کیا لوگ تھے۔ رضی اللہ عنہم ورضولغہ ،
(عرفانی کبیر)
۶/ ۲۲ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہر ایک خط پہنچنے پر دعا کی گئی۔ انشاء اللہ بعد میں کئی دن دعا میں کوشش کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
مرزا غلام احمد
۲؍ جنوری ۱۹۰۷ء
(نوٹ) اس خط سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک خاص عادت کا پتہ ملتا ہے اور میں اس کو ذاتی علم اور بصیرت سے بھی جانتا ہوں۔ حضرت اقدس کا معمول تھا کہ جب ڈاک آئی تو ایک اجمالی دعا کے لئے کرتے اور پھر خط کو پڑھتے وقت کھولتے وقت صاحب خط کے مقاصد کے لئے دعا کرتے اور اس کے بعد یہ بھی انتظام تھا کہ ایسے تمام ارباب کی فہرست تیار ہو کر حضور کی خدمت میں بھیجی جاتی تھی۔ خاں صاحب عبدالمجید خان صاحب کے نام اس خط میں آپ نے ہر بلا سے محفوظ رکھے جانے کی دعا کی ۔۔۔۔۔اور دوران ملازمت میں دشمنوں کی ہر مخالفت اور منصوبے سے جو ان کو نقصان پہنچانے کا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا وللہ الحمد۔
(عرفانی کبیر )
۷/۲۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی خاں صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج آپ کا خط مجھے ملا۔ جس میں آپ تاکید فرماتے ہیں کہ حضرت کے نام جو آپ کا خط ہو اس کاجواب آپ سوائے حضرت کے اور کسی کے ہاتھ نہیں چاہتے ساتھ حضرت نے آج مجھ سے دریافت فرمایا ہے کہ عبدالمجید صاحب کے خط کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا۔
میں تعجب کرتا ہوں کہ حضرت کے نام آپ کے خطوط کا جواب فوراً دیا جاتا ہے اور عموماً میں خود لکھتا ہوں بلکہ حضرت کی تحریر بھی آپ کو روانہ کرتا ہوں۔ پھر بھی آپ نے حضور کوا یسے الفاظ لکھے ہیں جن سے حضور کو یہ خیال ہوا ہے کہ گویا آپ کو خطوط کا جواب ہی نہیں دیا جاتا۔ آپ کو چاہئے تھا کہ وضاحت لکھتے کہ میرے خطوط کا جواب حضور کی طرف سے بہ دستخط محمد صادق پہنچتا ہے۔ مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
اور اب بھی حضرت کو اطلاع کر دیں اور کھول کر اب رہی یہ بات کہ ہم آپ کے خطوط کا جواب لکھا کریں یا نہ لکھا کریں۔ سو اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ مجھے آپ کا حکم مانتے بھی کبھی تامل ہوتا۔ مگر میں خود علیہ السلام کے حکم سے مجبور ہوں مجھے جب حکم ہوتا ہے کہ میں ایک خط کا جواب لکھوں تو مجھے ضرور لکھنا پڑتا ہے خواہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس کا خیال نہیں اطاعت حکم سے مطلب ہے آج حضور نے مجھے حکم دیا کہ اس کا جواب لکھو۔ میرے عرض کرنے پر پھر فرمایا کہ اچھا اب میں بھی لکھوں گا۔ مگر آپ بھی لکھو۔ فرمائیے اب میں کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہو۔
والسلام
خادم محمد صادق عفی اللہ عنہ قادیان
اس واقعہ سے محبت اور اطاعت کے گراں قدر جذبے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ ۲۰؍ مارچ ۱۸۰۷ء
۸/۲۴ جناب عالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور ! عاجز کئی ایک عرلضیہ جات خدمت بابرکت میں گزارش کر چکا ہے۔ مگر اس وقت تک کوئی جواب غلام کو نہیں ملا۔ اس صورت میں طبیعت بے قراری ہو جاتی ہے اس لئے بار بار تکلیف دی جاتی ہے۔ یہاں پلینگ بڑی سخت ہے۔ حضور ہمارے لئے دعا فرما دیں۔ باد گاہ الٰہی میں مخص حضور کے تعلق کو جتا جتا کر دعا کی جاتی ہے ورنہ ہماری روحانی حالت بہت گندی ہے۔ حضور کے جواب کامنتظر۔
عبدالمجید خاں
حضور کا خادم
۸/۲۴ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب لکھ دیں کہ خط آپ کے پہنچتے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو مع تمام عزیزوں کے طاعون سے محفوظ رکھے۔
والسلام
برادرم السلام علیکم۔
بشارت نامہ ارسال خدمت ہے۔ خدا تعالیٰ کا فضل آپ کے ساتھ ہو۔
خادم۔ محمد صادق
(نوٹ) اس کے بعد کے خطوط میں خاں صاحب کے اصل خط بھی درج کر دئیے گئے جن کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے دئیے گئے ہیں۔
(عرفانی کبیر )
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ ۱۶ ؍ مارچ ۱۹۰۸
۹/۲۵ جناب عالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عاجز اپنے چھوٹے بھائی عزیز بشیر احمد کو سہار نپور کے کالج متعلقہ باغات کی اور سیر کلاس میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ مگر بجز حضور کی اجازت حاصل کئے اور اس کے داخلہ کے قبل دعا کرائے بغیر ہر گز اس کو وہاں پر پہنچ نہیں سکتا۔ اجازت حاصل کرنے کے واسطے ایک عریضہ بذریعہ ڈاک گزارش کرچکا ہوں جس کاجواب عاجز کو موصول نہیں ہوا اور اگر حضور اجازت دیں تو وقت داخلہ تھوڑا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بذریعہ عریضہ دستی اجازت کی درخواست کی جائے اور دعا کے لئے خواستکار ہوں۔ چنانچہ حامل عریضہ ہذا کو حضور کی خدمت میں بھیجتا ہوں کہ کالج مذکور میں سہ سالہ پڑھائے ہیں اور گورنمنٹ ملازمت دینے کی ذمے دار ہے اورجو تعلیم پوری کر کے ملازمت کریں ان کو گورنمنٹ ابتدائی تنخواہ ( ؎۶۰) روپیہ کے قریب دے گی۔ کالج نیا ہے شروع میں وظیفہ بھی پڑھائی کے لئے سرکار سے قریباً کل لڑکوں کو ملتا ہے۔ اگر حضور پسند فرمائیں تو اجازت فرمادیں اور دعا فرماکر فخر بخشیں تاکہ عزیز بشیر احمد کے داخل کرانے کا جلد انتظام کیا جائے۔ ورنہ جیسا حکم ہو کیا جائے۔ حضور کے جواب باصواب کا منتظر عاجز غلام۔ بندہ عبدالمجید نائب مہتمم۔
(حضور میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھوں گا اگر حضور کسی چیز کے لئے حکم کریں جو کہ ۲۰ماہ حال کو یعنی جب قادیان حاضر ہوں ہمراہ لیتا آئوں۔ عاجز غلام احمد۔ بندہ عبدالمجید )
۱۰/۲۶ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا ڈاک میں بھی خط پہنچا تھا مجھے چونکہ دورہ کے طور پر بیماری لاحق ہو جاتی ہے اس وقت جواب لکھنے سے معذور ہو جاتا ہوں آج لکھنا چاہتا تھا کہ آج بھی بیمار رہا میرے نزدیک کچھ مضایقہ نہیں تو کلاً علی اللہ داخل کرایا جائے میں انشاء اللہ دعا کروں گا کہ خدا تعالیٰ کامیاب کرے اور بلائوں سے محفوظ رکھے محمود احمد اس جگہ نہیں ہے خط ا س جگہ رکھ لیا ہے وہ امرتسر جواب ضرور لکھ دیں کہ ہم دعا میں مشغول ہیں۔ تسلی رکھیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۱/۲۷ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از کپور تھلہ۔ ۱۴ ؍ فروری ۱۹۰۸ء
جناب عالی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور کی علالت طبع کا سن کر دل کو صدمہ ہوا خدا تعالیٰ جلد صحت کلّی عطا فرمائے۔ حضور جان ہیں اور کل جہاں جسم ہے حضور کی بیماری کی خبر سخت چینی کا موجب ہوتی ہے۔ حضور بواپسی ڈاک اپنی صحت سے اطلاع بخشیں۔ اس معاملہ میں جس کے لئے حضور نے توجہ فرمائی تھی۔ دعا اب درست معلوم ہوتا ہے یعنی صاحب بہادر نے جو استفادہ دیا تھا وہ اب واپس لینے کے قریب ہے۔ حضور کی خدمت میں بطور یاد دہانی بعد عجز التماس ہے کہ حضور دعا فرمادیں کہ سری حضور دام اقبالہ، یعنی مہاراجہ صاحب بہادر کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ صاحب بہادر کی دلجوئی کر دیں۔ اتنے میں صاحب خوش ہو جائیں گے اور کام بد ستور بنا رہے گا۔
صاحب بہادر کی میم حضور کی خدمت میں بعد عجز دعا کے لئے التماس کرتی ہے۔ خود حاضر ہونے کو تیار ہیں۔ مگر حالات موجودہ اجازت نہیں دیتے۔ بعد میں وہ اس معاملہ میں کوشش کریں گے۔
حضور کے جواب کا منتظر۔
عاجز غلام
بندہ عبدالمجید نائب مہتمم
۱۲/۲۸ برادرم مکرم خان صاحب
السلام علیکم۔ حضور جب آپ کے واسطے دعا میں مشفول ہیں تو تمام مشکلات خود ہی حل ہو جائیں گے۔ آپ کے مضطر بانہ خط پڑھ کر عاجز نے دعا کی ہے۔ مگر حضور کی دعا کے بعد کسی دعا کی ضرورت نہیں۔ مگر حصول ثواب کے واسطے اور آپ کی تکلیف کو محسوس کر کے محبت دلی سے بے اخیتار دعا ہوتی ہے۔ اپنے حال سے روزانہ اطلاع کیا کریں۔ تازہ الہام ظفر کم اللہ ظفر اً بیناً۔
خادم
محمد صادق عفی اللہ عنہ،
۱۳/۲۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی اخویم عبدالمجید خاں سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ، آپ کا خط پہنچا میں انشاء اللہ پھر دعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اسی طرح بار بار یاد دلاتے رہیں تا دعا کا سلسلہ جاری رہے باقی سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ،
۹ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء
۱۴/ ۳۰ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
آپ کا خط ملا۔ باباعث علالت طبع میں جلد تر جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ کے (پڑھا نہیں گیا) سے بہت رنج ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اور نعم البدل عطا فرمائے دنیا کی بنا انہیں عموم پر ہے اور ہر ایک مصیبت کو ثواب بھی خدا تعالیٰ کا کرم و رحم ہے آپ کے بھائی بخیریت و عافیت پہنچ گئے ہیں۔ بخدمت منشی عبدا لرحمن صاحب السلام علیکم باقی سب طرف سے خیریت ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۱۰ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء
(نوٹ) مزید مکتوبات اگر میسر آئے بطور ضمیمہ درج ہوں گے۔
(عرفانی کبیر)



متفرق احباب کے نام



حضرت مرزا سراج الحق جمالی نعمانی سرساوی (رضی اللہ عنہ،)
کے نام
(تعارفی نوٹ)
حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب سابقون الاولون میں سے ہیں اوراس میں کچھ شبہہ نہیں کہ انہوں نے سلسلہ کے لئے بہت بڑی قربانی کی تھی وہ ایک سجادہ نشین خاندان کے رکن تھے اوراپنے مریدوں کابھی ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ لیکن جب ان پر سلسلہ کی صداقت کھل گئی تو انہوں نے اس عظمت و راحت کو لات مار دی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازہ پردھونی رمالی میں انشاء اللہ العزیز صاحبزادہ صاحب کی زندگی پر بہت جلد ایک مضمون لکھنے کا عزم رکھتا ہوں۔ ایک شخص جس کی عمر کا بہت بڑا حصہ نازو نعمت میں گزرا ہو اور جو اپنے خاندان اور اپنے مریدوں میں اکرام واحترام کا مرکز ہو سلسلہ احمدیہ میں آنے کے بعد اس کی زندگی میں حیرت انگیز تعیز ہوا۔ وہ فی الحقیقت ایک درویش کی زندگی بسر کر تا تھا۔ آخری وقت تک اس نے کوشش کی کہ وہ اپنی محنت سے روٹی کمائے۔ کتابت کے ذریعہ کچھ عرصہ تک وہ اپنی قوت لایموت پیدا کرتے رہے۔ لیکن جب قویٰ نے جواب دے دیا اوراس کام کو نہ نبھاسکے توحضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خصوصیت سے ان کی ضروریات کا لحاظ رکھتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان کی زندگی کا آخری دور نہایت عسرت اور امتحان کو دور تھا۔ مگر وہ اس دور میں پورے ثابت قدم رہے اوراس امتحان میں کامیاب ہوئے۔ ان کی زندگی کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات زندگی لکھ رہے تھے۔ جو انہیں یاد تھے۔ میں ان کی زندگی میں چاہتا تھا کہ اس مسودہ کو دیکھوں۔ انہوں نے خواہش بھی کی۔ لیکن مجھے اپنے بکھیڑوں سے فرصت نہ ملی۔ وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔ مگر نہایت صبر وحوصلہ سے اس بیماری کو برداشت کرتے جب ذرا افاقہ ہوجاتا توباہر نکل آتے۔ آخر عمرمیں لوگوں سے مصافحہ کرنے سے گھبراتے تھے۔ اس لئے کہ لوگ جومحبت سے ہاتھ کودباتے تووہ اس شدت کو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ مجھے بعض احباب کے متعلق یہ حسرت رہے گی کہ میں ان کی آخری سامات میں ان کے ساتھ نہ تھا۔ غرض کاغذات میں کچھ مکتوبات مل گئے۔ جن میں صاحبزادہ صاحب کی یاد تازہ رکھنے کو ذیل میں درج کرتا ہوں۔
(عرفانی)
۱/۳۱ از عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا موجب خوشی ہوئی۔ خداوند کریم آنمکرم کو خوش و خرم رکھے۔ یہ عاجز کچھ عرصے تک بیمار رہا اور اب بھی اس قدر ضعف ہے کہ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا۔ اسی باعث سے ابھی کام حصہ پنجم شروع نہیں ہوا بعد درستی و صحت انشاء اللہ شروع کیا جائے گا۔ آپ نے جو سورۃ فاتحہ پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو۔ جب انسان کو ان باتوں پر ایمان اور اثبات قدم حاصل ہوجائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستفیض ہو گا۔ آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے اور میں بھی امید کرتا ہوں کہ خدا وند کریم جل شانہ، آپ کی جدوجہد پر ثمرات مرتب کرے گا۔ وقال اللہ تعالی والذین جاھدو فینا لھذ سینھم سلینا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز قادیان
۷ ؍ مارچ ۱۸۸۵ء
(نوٹ) یہ مکتوب شریف تقریباً پانچ سال پہلے کا ہے۔ پیر صاحب چونکہ ایک سجادہ نشین کے بیٹے تھے اور عملیات اورچلہ کشیوں کو ہی معراج سلوک و معرفت یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس زمانے میں جب کے ابھی بیعت بھی نہیں لیتے تھے سورت فاتحہ کے برکات اور فیوض کو بطورفتر حاصل کرنے کے لئے اجازت چاہی جیساکہ آج کل کے مروجہ پیروں اور سجدہ نشیوں میں یہ طریق جاری ہے۔ مگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جب انسان اس روح کو اپنے اندر پیدا نہ کر لے جوسورت فاتحہ میں رکھی گئی ہے مخص منتر جنتر کے طور پر پڑھنے سے وہ برکات حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ عجیب نکتہ معرفت ہے اوراس سے آپ کی ایمانی اور عملی قوت کا پتہ چلتا ہے کہ معرفت الہیہ کے کس بلند مقام پر آپ پہنچے ہوئے تھے۔
۲/۳۰ دوسر امکتوب
از عامذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ۔ اسلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ۔ کل ایک خط خدمت میں روانہ کر چکا ہوں۔ مگر آپ کے سوال کا جواب رہ گیا تھا سو اب لکھتا ہوں۔ علماء اس سوال کے جواب میں اختلاف میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے من کان منکم مریضاً اوعلیٰ سفرفعدۃ من ایام اخر اگر تم مریض ہو یاکسی سفر قلیل یا کثیر ہو تواسی قدر روزے اور دنوں میں رکھ لو۔ سواللہ تعالیٰ نے سفر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اورنہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے۔ بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کانا م سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے ایک منزل جو کم حرکت ہو اس کو سفر نہیں کہا جا سکتا۔ والسلام۔
عاجز غلام احمد عفی عنہ،
۲۱ ؍جون ۱۸۸۵ء
(نوٹ) سفرمیں روزہ کے متعلق بڑی عجیب و غریب بحثیں ہیں اور سفر کے تعین اور مقدار میں مختلف آرائے ہیں مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسا آسان اور عام فہم اصل تعلیم فریاد ہے جس سے ایک عام آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور حقیقت میں الدین یُسر کے یہی معنی ہیں خود سفر اور حالت بیماری میں روزہ کو خدا تعالیٰ نے یُسر کے ر نگ میں بیان کیا ہے پھر اس میں …نئے مشکلات پیدا کرتا ہے یہ حضرت کے نکتہ کا ایک بین ثبوت اور امتیاز ہے۔
(عرفانی کبیر)
۳/۳۱(یہ مکتوب ناقص ہے اورکچھ حصہ کاغذات میں مل گیا ہے عرفانی)
آپ کی تشریف آوری کا انتظار ہے خداتعالیٰ آپ کی ملاقات نصیب کرے۔ مولوی عبدالکریم ؓ صاحب اور عرب صاحب اس جگہ ہیں اور آپ کے منتظر ہیں منشی محمد اعظم صاحب کا خط بھی میں نے پڑھ لیا اوران کے حق میں دعا کی گئی۔ ان کو اطلاع دیں اور کہہ دیں کہ استغفار بہت پڑھیں اور ہر نماز کے بعد کم از کم گیارہ دفعہ لاحول پڑھا کریں۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۶؍ستمبر ۱۸۹۲ء
۴/۳۲ مکرمی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عنائت نامہ مجھ کو قادیان میں ملا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس نواح میں اشاعت حق کے لئے بڑی سرگرمی سے کام کرتے ہوں گے لیکن ترتب اثر وقت پر موقوف ہے۔ آپ نے جو انسپکٹر کے نام حنہیذ میں کتاب روانہ کروائی تھی۔ وہ شخص بڑی کراہت کے ساتھ کتاب لینے سے انکار کر گیا اورکتاب واپس آئی آئندہ آپ کو اگر کوئی شخص خریداری کتاب کا شوق ظاہر کرے تو اوّل خوب آزما لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع سچے دل سے خریدنے کے لئے مستعد ہے یا صرف لاف و اگذاف کے طور پر بات کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دلوں میں سخت کینہ پیدا ہو رہا ہے اوربجائے اخلاص کہ بعض وعداوت میں ترقی کر رہے ہیں۔
آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے۔ دیکھئے کب میسر آتی ہے۔ امید ہے کہ تا دم ملاقات اپنی خیروعافیت سے مطمئن و مسرور فرماتے رہے گے باقی خیریت۔
والسلام
الراقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور۲۶؍نومبر ۱۸۹۱ء
۵/۳۳ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
ایک بڑی بھاری بحث مولوی نذیر حسین صاحب سے پیش ہے اگر آپ اس بحث پر تین چار روز تک پہنچ سکیں تو عین خوشی اور تمنا ہے مگر آنے میں توقف نہیں چاہئے۔ آپ کے آنے سے بہت مدد ملے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ۱۱؍ اکتوبر ۱۸۹۲ئمقام دہلی بازار بلیمار ان کوٹھی نواب نوہارد۔
(نوٹ) صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے اپنے سفر نامہ میں دہلی آنے اور مباحثہ کے متعلق بعض حالات کا تذکرہ لکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کو شریک ہونے کا ہرموقعہ دیا کرتے تھے۔ صاحبزادہ کو اس موقعہ پر اس خدمت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ دہلی کے علماء نے فیصلہ کیا کہ حضرت اقدس کو اگر کسی کتاب کی ضرورت پڑی تو نہ دی جائے۔ حق پوشی کے اس مظاہرے سے انہوں نے اپنی جگہ سمجھا تھا کہ وہ
حق کا مقابلہ کرسکیں گے
لیکن خدا تعالیٰ نے غیب سے کتابوں کے میسر آنے کے سامان تو پیدا کردئیے مگر ان دشمنان حق کو باوجود اپنے ہر قسم کے سازوسامان کے آنے کی جرات نہ ہوئی اور سید نذیر حسین اوستاذا لکل کہلانے کے باوجود مقابلہ سے فرار کر گیا۔
یہ واقعات خود بہت دلچسپ ہیں اور انشاء اللہ سوانح حیات میں آجائیں گے۔
اسی سلسلہ میں سید نذیر حسین صاحب کے ایک واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ یہ ہے کہ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دوسری شادی جو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشاں نشانوں کے ماتحت دہلی میں ہوئی تو یہی نذیر حسین حضور کا نکاح پڑھنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نکاح بڑے فخر کے ساتھ پڑھا تھا۔ اس تقریب پر دستور کے موافق پانچ روپے بھی اور ایک جانماز ان کو دئیے گئے تھے۔
(عرفانی کبیر )
۶/۳۴ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ،
آں مخدوم کا عنایت نامہ جو محبت سے بھر اہوا (تھا پہنچا )جزاکم اللہ خیر الجزاء و احسن الیکم فی الدنیا و العقبی۔ یہ عاجز حضرت عزاسمہ میں شکر گزار ہے کہ ایسے مخلص دوست اسی نے میرے لئے میسر کئے۔ فاالحمد اللہ۔
ہمیشہ حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں اور اس جگہ بفضلہ تعالیٰ سب خیریت سے ہے۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۸ ؍دسمبر ۱۸۸۴ء
(نوٹ) اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب ۱۸۸۴ء میں حضرت کی خدمت میں پہنچ چکے تھے اور اخلاق وعقیدت کی منزلوں کو طے کر رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تو اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کا اثر غالب تھا اور وہ ہرامر کو فعل باری ہی نتیجہ یقین کرتے تھے۔ حضور کے مکتوبات کے پڑھنے سے یہ بھی نمایاں ہو تا ہے کہ حضور اپنے خدام اور غلاموں کو کس محبت اور ادب سے خطاب کرتے تھے۔ آپ کے اعلیٰ اخلاص کا ایک نمونہ ہے۔ خدام اور وابستگان وامن آپ کی روحانی اوالاد تھی اور آپ اکرمو اوالا وکم کے تحت ہر شخص سے نہ محبت و اکرام پیش آتے تھے۔
(عرفانی کبیر )
۷/۳۵ مکرمی مخدومی اخویم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ نیزیک دستار ہدیہ آں پہنچا حقیقت میں عمامہ نہایت عمدہ خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کاجوش اس سے مترتح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ (آمین ) اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ تک اس جگہ ٹھہرے گا۔ زیادہ نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہٗاز ہوشیار پور۹؍ مارچ ۱۸۸۶ء
(نوٹ) حضرت اقدس کا سفر ہوشیار پور ایک تاریخی سفر ہی نہیں بلکہ اس سفر کے ساتھ بہت سے نشانات دابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک حفی کے ماتحت کچھ عرصے کے لئے ضلع گورداسپور کے پہاڑی علاقہ (سو جان پور ) کی طرف جا کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پھر خدا تعالیٰ کی صاف صاف وحی نے آپ کو ہوشیار پور جانے کا ایما فرمایا اور اس شہر کا نام بتایا۔ اس سفر میں تحریر کا ایک خاص کام بھی زیر نظر تھا۔ چنانچہ حضور نے مرحوم چوہدری رستم علی خان صاحب کو لکھا تھا کہ
حسب ایما ء خدا وند کریم بضیہ کام رسالہ کے لئے اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب وروز و تنہائی ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خدا وند کریم جلشانہٗ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے اور وہ شہر ہوشیار پور ہے۔ الاخرہ یہ سفر حضرت نے قادیان سے سیدھا ہوشیار پور کو کیا گیا تھا۔
چنانچہ ۱۹ ؍ جنوری ۱۸۸۶ء کو حضور معہ حضرت حافظ حامد علی صاحب و حضرت منشی عبداللہ صاحب و میاں فتح خاں (یہ شخص بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر میں آگیا ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا) روانہ ہوئے اور بروز جمعہ ہوشیار پور پہنچ کر طویلہ شیخ مہر علی صاحب میں فروکش ہوئے تھے۔ اسی سفر میں ماسٹر مرلیدھر سے مباحثہ ہوا جو کتاب سرمہ چشم آریہ کی صورت میں شائع ہوا۔
اس سفرکے برکات عظیم الشاں ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا اور تیرے سفر کو جو ہوشیار پور اور لودہانہ کاسفر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا۔ (اشتہار ۱۰؍ فروری ۱۸۸۲ء) ان عظیم الشاں برکات میں سے ایک وہ ہے جو مصلح موعود اور پھر بشیر کے متعلق ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ مکتوبات کی اس جلد کے شائع کرتے وقت حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ خدا تعالیٰ کی وحی اور الہام سے مشرف ہو کر مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس کا اعلان دنیا میں ہو چکا ہے اسی سلسلہ میں ہوشیار پور لاہور اور دہلی میں کامیاب جلسے ہو چکے ہیں۔ خدا کا فضل اور رحم ہے کہ خاکسار۔ عرفانی کبیرتو عرصہ دراز سے اس موعود کے متعلق ایمان رکھتا تھا جیسا کہ اس کی تحریروں سے ظاہر ہے مگر اب کشف عطاء ہو گیا اور منکرین کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ تاہم ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کے طرف سے آئی ہے آنکھ کے اندھوں کے لئے بنیات اور حقایق کام نہیں آتے۔
(عرفانی کبیر)
۸/۳۶ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
مبلغ (…) پہنچ گئے۔ آپ اپنی محبت برادرانہ سے اس عاجز کی تائید میں بہت کوشش کر رہے ہیں اور خلوص و محبت کے آثار بارش کی طرح آپ کے وجود سے ظہور میں آتے جاتے ہیں۔ اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۴؍ جون ۱۸۸۶ء
(نوٹ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ شکور خدا کے عبدشکور تھے۔ اس لئے اپنے خدام کی ہر خدمت کو نہایت عزت وقدر سے دیکھا کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی کام بھی کوئی کرتا تو جزاکم اللہ احسن الجزا فرماتے اور اس کو قدر عزت کی نظر سے دیکھتے۔ اس چیز نے آپ کے صحابہ میں اخلاص کی ایک عملی روح پید اکردی تھی اور ایک صادق چاہتا تھا کہ خدمت کے لئے آگے بڑھے۔
صاحبزادہ سراج الحق صاحب اب ہمارے درمیان نہیں وہ خود ایک پیرزادہ تھے اور لوگوں سے نذرانہ لیتے اور ایسی فضاء میں ان کی تربیت اور اٹھان ہوئی تھی کہ خدمت اسلام کے لئے کچھ خرچ کرنے کا موقعہ نہ تھا۔ لیکن جب خدا تعالیٰ نے انہیں راہ حق دکھایا تو انہوں نے اپنے اخلاص کا ہر رنگ میں ثبوت دیا۔
جزاکم اللہ احسن الجزا۔
(عرفانی کبیر)
۹/۳۷ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج عنایت نامہ پہنچ کر طبیعت کو نہایت بشاشت ہوئی اور خوشی ہوئی۔ خدا وند کریم آپ کے فرزند دل بند کی عمر دراز کرے اور آپ کے لئے مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ آن مخدوم نے اوّل مجھ کو ہدیہ عمامہ خوب و عطر عمدہ بھیجا اور اب مہندی اور جوتہ کے لئے آپ نے لکھا ہے چونکہ مخص محبت اور اخلاص کی راہ سے آپ لکھتے ہیں اس لئے مجھے منظور ہے۔ یہ تاگا جوخط کے درمیان بھیجتا ہوں اس عاجز کے جوتہ کی نوک تک آتا ہے کل لمبائی جوتہ کی یہی ہے۔ افسوس کہ اشتہار موجود نہیں۔ انشاء اللہ اگر مل گئے تو روانہ کر دوں گا۔ زیادہ خیریت
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۰/۳۸ مکرمی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ قادیان میں مجھ کو ملا مجھے یقین ہے کہ آپ اس نواح میں اشاعت حق کے لئے بڑی سرگرمی سے سعی کرتے ہوں گے لیکن مترتب اثر وقت پر موقوف ہے آپ نے جو انسپکٹر کے نام جنید میں کتاب روانہ کرائی تھی بڑی کراہت کے ساتھ کتاب لینے سے انکار کر گیا اور کتاب واپس آئی آیندہ اگر آپ سے کوئی شخص خریداری کتاب کا شوق ظاہر کرے تو اوّل خوب آزما لینا چاہئے کہ آیا فی الواقع سچے دل سے خریدنے کے لئے مستعد ہے یا صرف لاف و گذاف کے طور پر بات کرتا ہے وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے دلوں میں سخت کینہ پید اہو رہا ہے اور بجائے اخلاص کے بعض وعداوت میں ترقی کررہے ہیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق ہے دیکھئے کب میسر آتی ہے امید کہ تادم ملاقات اپنی خیرو عافیت سے مطمئن و مسرور الوقت فرماتے رہیں زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور ۲۶؍ نومبر ۹۱ء
۱۱/۳۹ مکرمی اخویم صاحبزادہ صاحب سلمہٰ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بڑی بھاری بحث مولوی نذیر حسین صاحب سے پیش ہے اگر آپ اس بحث پر تین چار روز تک پہنچ سکیں تو عین خوشی سے و تمنا ہے مگر آنے میں توقف نہیں چاہئے آپ کے آنے سے بہت مدد ملے گی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ اکتوبر ۹۱ء از مقام دہلی بازار بلیماران کوٹھی نواب لوہارڈ۔
۱۲/۴۰ مخدومی مکرمی اخویم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ نزدیک دستارہدیہ آں مخدوم پہنچا حقیقت میں یہ عمامہ نہایت عمدہ و خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کا جوش اس سے مترشح ہے اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ عشرہ تک اس جگہ ٹھہرے گا زیادہ نہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہاز ہوشیار پور۹؍ مارچ ۸۶ء
۱۳/۴۱ مخدومی مکرمی اخویم سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ (…) پہنچ گئے اپنی محبت برادرانہ سے اس عاجز کی تائید میں بہت کوشش کر رہے ہیںاور خلوص او رمحبت کے آثار بارش کی طرح آپ کے وجود سے ظہور میں جاتی ہیں اللہ جلشانہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار غلام احمد ۴؍ جون
۱۴/۴۲ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت مدید ہوئی کہ حال آں محبت سے بالکل بے خبر ہوں بلکہ رسالہ سر بہ چشم جو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اس کے رسید بھی نہیں آئی میں آج تک اسی جگہ چھائونی انبالہ میں ہوں اور میرا پتہ یہ ہے کہ مقام انبالہ چھائونی صدر بازار امید ہے کہ آپ اپنی خیریت سے مطلع فرما دیں گے اور سب طرح سے خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمداز صدر بازار
۴؍ نومبر ۸۷ء
۱۵/۴۳ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کئی دن کے بعد آج عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا خدا تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اور ہر جگہ خوش وخرم رکھے فتح خاں سے اشتہار لے کر بلا توقف بھیجا جاتا لیکن فتح خاں مدت تیئس روز سے لاہور گیا ہوا ہے۔ ایک ادنی کام دو تین روز کا ہے نہایت اندیشہ کی بات ہے کہ اب تک واپس نہیں آیا لاہور امرتسر میں بیماری بکثرت پھیلی ہوئی ہے اور ہیضہ بکثرت ہے ایسا نہ ہو کہ بیمار ہو گیا ہو۔ جب فتح خاں بخیروعافیت واپس آتا ہے تو اشتہار لے کرارسال خدمت کروں گا جنید سے اب تک روپیہ تک نہیں آیا اورنہ فروسی سے آیا شاید کل پرسوں تک آجائے آں مخدوم نے جو سوجلد کتاب سراج منیر کی فروخت اپنے ذمہ ڈال لی خدا تعالیٰ آپ کو اس کا اجر بخشے اور آپ کو دنیا و آخرت میں مرادات دلی تک پہنچا دے اور ہمیشہ خیرو عافیت سے مطلع فرمایا کریں اور سب خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از قادیان ضلع گورداسپور
۱۶/۴۴ مخدومی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی ہوئی اللہ جلشانہ آپ کی دلی مراد پوری کرے آمین۔ کچھ تھوڑا عطر کیوڑہ یا جو اس سے بھی عمدہ معلوم ہو یہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے بمقام لدھیانہ محلہ صوفیاں پاس میر عباس شاہ علی ارسال فرمادیں کہ یہ عاجز دس روز تک لودہانہ میں رہنا چاہتا ہے تکلیف دینے کو دل نہیں چاہتا مگر چونکہ آپ نے دوستانہ طور پر بلا تکلف لکھا ہے اس آپ کی اخوت اورمحبت سے تحریر کیا گیا اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے اورکل یہ عاجز لودہانہ کی طرف روانہ ہو جائے گاپتہ یہی لکھا جائے محلہ صوفیان پاس میر عباس علی شاہ صاحب زیادہ خیریت ہے اورجب تک آپ جی پور میں تشریف رکھیں ضرور کبھی کبھی اپنی خیریت سے مطلع فرماتے رہیں۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍اکتوبر ۸۷ء
۱۷/۴۵از عاجز عابد باللہ الصمد غلام احمد۔ بخدمت اخویم مخدومی و مکرم مجی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
اس جگہ بفضلہ تعالیٰ ہرایک طرح سے خیریت ہے خداوند کریم آں محب مخلص کو خوش رکھے عنایت نامہ جس وقت آیا دوسرے روز یہاں سے جواب لکھ کر روانہ کیا گیا تھا مگر کل کے عنایت نامہ سے جو وارد ہو کر موجب خوشی ہوئی معلوم ہوا کہ وہ پہلا خط اس عاجز کا نہیں پہنچا یہ عاجز آپ کی توجہ کا بہت شکر گزار تھے اورآپ کے ملنے کو دل چاہتا ہے مگر موقوف بر وقت ہے آپ بلا تکلیف کاروبار متعلقہ اس طرف سے مسرور فرمایا کریں حصہ پنجم انشاء اللہ اب عنقریب چھپنے والا ہے ایک خبر تازہ خبر یہ ہے ااندر مین مراد آبادی نے جوایک بڑا مخالف اسلام ہے دعویٰ کیا تھا کہ اگر چوبیس سو روپیہ میرے لئے سرکار میں جمع کرادیا جائے تو میں ایک سال تک قادیان میں کوئی نشان دیکھنے کے لئے ٹھہرو ں گا اوراسی غرض سے اس نے اوّل نابہہ سے اورپھر لاہور میں آ کر خط لکھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکت کھا کر بھاگ گیا یعنی چوبیس روپیہ ایک مسلمان نے اُس کے ایک سال کے لئے اس عاجز کو دے دئیے کہ تا حسب منشی اندرمین سرکار میں جمع کرائی جائیں آخر وہ اس بات کا نام سنتے ہی فراری ہوا۔
فالحمد للہ علی ذالک۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۹ ؍جون ۵۸ء
۱۸/۴۶ مشفقی مکرمی محبی صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سرفراز نامہ سامی صادر ہوا عمامہ و عطر آپ کا پہنچا خدا وند کریم آپ کو اس خدمت یا اخلاص کا اجر نیک عطا فرمائے۔ اس ہندو کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ جیسا کہ اس نے خواہش ظاہر کی ہے ویسا کرنے کے واسطے جدوجہد اور دعا و توجہ کی اشد ضرورت ہے اور یہ عاجزاس وقت بسبب بیمار رہنے کے ایک عرصے تک جدوجہد سے مجبور ہے۔ میرا کوئی ایسا اشتہار نہیں ہے جو موافق خیال ہندو مذکور کے ہو یعنی یہ کہ جو کچھ وہ خواہش کرے اس کی خواہش کے مطابق کوئی خرق عادت خدا وند کریم ظاہر فرما دے بلکہ اشتہاریہی ہے کہ جیسا خداوند کو منطور ہو کوئی خرق عادت ظہور میں آئے گا جو انسانی طاقتوں سے باہر ہو۔ طلب اسلام میں بدید خرق عادت کے اسی خرق عادت کا طالب ہونا جس کو مدعی خود درخواست کرے اور کسی دوسرے امر پر تابع نہ ہو جو خدا کریم کی مرضی سے ظاہر ہو ایک قسم کی ہٹ دھری ہے اگر اس کو اسلام کی خواہش ہے اور وہ میرے اشتہار کے مضمون پر بہ تحمل آنا چاہتا ہے تو اس کی تسلی کے واسطے میں تیار ہوں اور اگر وہ دنیا طلبی کے پیرا یہ میں دین کا طالب ہونا چاہتا ہے یہ امر اگرچہ محالات سے نہیں ہے مگر تاہم مشکلات سے معلوم ہوتا ہے امید ہے کہ آپ نے بھی اشتہار شرطیہ کو دیکھا ہو گا اور اس لئے بھی آپ اس کو اس کامطلب اچھی طرح پر سمجھا دیں پھر اگر اس کو خواہش سچی ہو تو وہ اپنی تسکین کر سکتا ہے علی من اتبع الھدی۔ زیادہ زیادہ
والسلام
خاکسار
غلام احمد ازقادیان
۷؍ نومبر ۹۰ء
۱۹/۴۷ از عاجز باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ واقعہ وفات آپ کی والدہ ماجدہ سے حزن واندوہ ہوا
انا للہ وانا الیہ راجعون خدا تعالیٰ آپ کو صبر بخشے اس میں کیا شک ہے کہ آپ کے قائل ہیں اور حقیقت ولایت کو بدلی اعتقاد مانتے ہیں عجب خیال کے وہ لوگ ہیںکہ کاملین کو منکرین قرار دیں اور تکفرین مستعمل ہوں ایک مولوی صاحب نے میری تکفر کے لئے مکہ معظمہ تک تکلیف کشی کی کسی کے کافر کہنے سے کب کوئی کافر بن سکتا ہے کافر وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک کا فر ٹھہرتا ہے جو شخص مسلمان کو کافر کہے درحقیقت وہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ٹھہرتا ہے ایسے لوگوں کی باتوں سے مضطرب نہیں ہونا چاہئے میرے نزدیک مومن کی یہی نشانی ہے کہ نادان لوگ اس کو کافر کہیں فرعون نے حضرت موسی سے کہا تھا وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکا فرین۔ صرف اس مضمون کے چند کلمے شامل کر دئیے جائیں کہ بھائیو ہم مسلمان اور اولیا کے وجود کے قائل اور درحقیقت دلایت کے معترف ہیں جو شخص ہم پر یہ الزام لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے۔
علی من التبع الھدی۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۵؍ جنوری ۱۸۹۰ء
۲۰/۴۸ مخلصی محبی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب خوشی اور شکر گزاری ہوئی آپ کی استقامت اور حسن ظن اور فراست کی بہ برکت ہے کہ آپ کو ایسے پر آشوب وقت میں کوئی تزلزل پیش نہیں آیا خدا تعالیٰ آپ کو دن بدن مراتب محبت اور اخلاص میں ترقی بخشے اور آپ کے ساتھ میں آپ کی ملاقات کا بہت مشتاق ہوں اگر رمضان کے بعد ماہ شوال میں آپ کی زیارت ہو تو مجھے بہت خوشی ہو گی میں انشاء اللہ القدیر دو تین ماہ تک ابھی اس جگہ لدھیانہ میں ہوں رسالہ ازالہ اوہام طبع ہو رہا ہے درمیان میں طرح طرح کے حرجونکے باعث ہے اب تک توقف ہوا امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ القدیر بہت جلد نکل آئے زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہاز لدھیانہ اقبال گنج
۸؍ مئی ۹۱ء بروز جمعہ
۲۱/۴۹ از عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عنایت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے بطور تحفہ عمامہ وعطر ارسال فرمایا ہے اس ہدیہ دوستانہ کا آپ سے شکر گزار ہوں جزاکم اللہ خیرالجزا واحسن الیکم فی الدنیا والعقبیٰ۔ خداتعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے اورمکروہات دنیا سے بچاوے آمین ثم آمین جس ہندو کے بارے میں آپ نے لکھا ہے جنش رحمت اس کے اعتقاء اوراخلاص پر موقوف ہے اللہ جلا شانہ غنی بے نیاز ہے بحبز قد م خلوص و نیاز مندی اورکوئی حیلہ اس درگاہ میں پیش نہیں جاتا شرط کے طور پر اس کی راہ میں کچھ دنیا ایک رشوت کا طریق ہے خداتعالیٰ نے رشوت ستاں نہیں ہے ہاں اس کی جناب میں کچھ درخواست کرنے کے لئے کسی متمول حاجت مند کے لئے یہ طریق ہے کہ اپنے خلوص اورنیاز مندی کے اثبات کے لئے اُس کی راہ میں اوراُس کے کام کی امداد میں کوئی نذرحسب حیثیت پیش کرے اوراگرچہ ظاہر کرے توجو کچھ اُس کے حق میں خیر یا شر مقدر ہے یا جو کچھ اُ س کے امر کا انجام کار ہے اُمید قوی ہے کہ …ظاہر ہو جاوے لیکن یہ جد وجہد کا کام ہے شاید ہفتہ عشرہ اس طرف مشغول اور توجہ کرنی پڑے سو توجہ بھی سخت محنت پر موقوف ہے ہرایک کے لئے نہیں ہوسکتی اورناحق کی تضیع اوقات معصیت میں داخل ہے ہاں ایسے شخص سے اگر کوئی دینی امداد پہنچ جائے اور وہ کوئی ہدیہ امدادی فی سبیل اللہ داخل کر سکے تو محنت ہو سکتی ہے ورنہ نہیں سو اُس ہندو کو آپ سمجھا دیں کہ اگر وہ اپنے نفس میں طاقت پاتا ہے اورحسب حیثیت امداد دین میں خدمت بجا لا سکتا ہے تو اُس کے لئے توجہ کر سکتے ہیں اُس توجہ میں اگرچہ غالب امید استجابت دعا ہے لیکن اگر ناکامی کے لئے تقدیر مبرم ہے تو پھر مجبوری ہو گی زیادہ خیریت
والسلام
راقم خاکسار
غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور۲۵؍اکتوبر ۱۸۹۰ء
۲۲/۵۰ محبی مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدت دراز کے بعد عنایت پہنچا اب یہ عاجز قادیان میں ہے اور انشاء اللہ القدیر ابھی رہائش قادیان میں ہی ہے یہ عاجز آپ کے اخلاص اور محبت کا نہایت شکر گزار ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی امید رکھتا ہے کہ آپ سے ہر ایک ابتلاء میں اوّل درجہ استقلال اور ثابت قدمی ظہور میں آتی رہے گی۔ آپ کے نواح کے طرف اگر کسی نے یہ خبر مشہور کی ہے کہ گویا اس عاجز نے دعوی مسیح موعود سے توبہ کی ہے کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ آج ہمارے مخالفوں کا دن رات افترائوں پر گزارہ ہے۔ یہ مخالف لوگ اگر انصاف پر ہوں تو خود ان کو حضرت مسیح کے دعوی حیات سے جو قرآن کریم اور احادیث صحیح سے ہر خلاف ہے تو بہ کرنا چاہئے نہ کہ ایسے ایسے افترا کریں جس قدر آپ مخص اللہ کوشش اور مباحثہ کر رہے ہیں خدا تعالیٰ اس کاآپ کو اجر بخشے۔ آپ کی ملاقات کو بہت عرصہ گزر گیا ہے کبھی ملاقات بھی چاہئے اس وقت میں نے ایک رسالہ طبع کرانا چاہا ہے جس کانام نشان آسمانی ہے وہ رسالہ طبع ہو رہاہے شاید دو ہفتہ تک طبع ہو میرے پاس آجائے دو ہفتہ کے بعد آپ مجھ کو ضرور یاد دلائیں تا وہ رسالہ آپ کی خدمت میں بھی بھیج دوں زیادہ خیریت ہے
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۱۱؍ جون ۹۴ء
۲۳/۵۱ اخوی مکرم معظم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض خدمت ہے کہ آپ کا عنایت نامہ معہ خط مولوی رشید احمد صاحب پہنچا حال مندرجہ معلوم ہوا لوگوں کے ولولہ اور شوروغل سے ڈرنا نہ چاہئے دین وانوار کی اشاعت میں کسی قسم کا رنج اور مصیبت پیش آجائے توعین راحت ہے مولوی رشید احمد کے خط کاجواب روانہ کردیا نقل واسطے ملاخط بلف ہذا روانہ خدمت ہے یہاں مرض ہیضہ چند روز سے کچھ زیادتی پر ہے اس عاجز کی بڑی عصمت نام اسی مرضی سے برسوں فوت ہو گئی انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
راقم غلام احمد
بقلم عباس علی
۱۹؍ ستمبر ۹۱ء
(نوٹ) اس مکتوب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نام خط کاذکر ہے اور اس کے بعد نمبر ۲۴ میں وہ خط بھی سلسلہ میں درج کر دیا ہے۔ واقعات کے متعلق مزید واقفیت کی غرض سے میں یہاں صاحبزادہ سراج الحق صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان بھی درج کردینا ضروری سمجھتا ہوں اس سے مولوی رشید احمد صاحب کی مباحثہ پر آمادگی اور پھر فرار کے اسباب اور محرکات کا پتہ لگ جائے گا۔
۲۴/۵۲ مخدوم مکرم معظم مولوی رشید احمد صاحب سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عرض خدمت ہے کہ صاحبزادہ سراج الحق نے آپ کا خط امجنبسہ میرے پاس بھیج دیا حرف بحرف ملا خط کیا گیا۔ آپ جو اس عاجز کو واسطے بحث کے سہار نپور بلاتے ہیں مجھ کو کچھ عذر نہیں مگر اتنی بات خدمت میں عرض کرنی ہے کہ امن قائم کرنے کے واسطے آپ نے کیا بندوبست کیا ہے ڈپٹی کمشنر صاحب کی تحریری اجازت ہونی ضروریات سے ہے اور مجالس بحث میں سپرنڈنٹٹ یا اور کسی حاکم با اختیار کا ہونا بھی امر ضروری ہے بنا برین اس قسم کی تسلی بخش تحریر ہمارے پاس بھیج دیں تو بندہ واسطے بحث کے حاضر خدمت ہو جائے گا۔ اگرلاہور آپ تشریف لے چلیں تو تسلی بخش تحریر امن قائم کرنے کی آپ کے پاس ہم بھیج دیں پس اس تحریر کے جواب میں جیسا آپ مناسب سمجھیں اطلاع دیں۔
راقم غلام احمد
بقلم عباس علی
۲۵/۵۳ مخدومی مکرمی اخویم سلمہٰ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلے آج ہی ایک خط روانہ خدمت ہو چکا ہے اب دوبارہ اس لئے تحریر خدمت کرتا ہوں کہ جو نسخہ جات براہین احمدیہ صرف بیس عدد میرے پا س موجود ہیں اس لئے قرین مصلحت یہ ہے کہ اگر کم سے کم (…) فی نسخہ پر خریداران حید ر آبادی صاحب کو منطور ہو تو جس قدر خریداری کا پختہ اور قطعی طور پر ارادہ ہو اس سے وعدہ جلد دیں بطور دلیو پے امیل بھیجے جائیں یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اُس جگہ جمع رہیں کیونکہ مجاظ ضخامت کتاب (…) ایک ادنی قیمت ہے اور ممکن ہے کہ ان جلدوں کے روانہ کرنے کے بعد اس طرف بعض عمدہ خریدار پید اہوجا ئیں جو سو روپیہ فی نسخہ پر کتاب لینے کو تیار ہوں تب اگر اس جگہ کوئی کتاب ہی نہ ہو توکیا کیا جائے اور یہ نہایت صاف انتظام ہے کہ حیدر آباد میں جیسے جیسے کوئی خریدار کم سے کم (…) پر پیدا ہو اس کی وہا ں سے اطلاع آجائے اور فی الفور بذریعہ دلیوپے امیل وہاں کتاب بھیجی جائے تا کوئی حرج عائد نہ ہو کیونکہ حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت دراصل سو روپیہ قیمت کی کتاب ہو گی اور جو کچھ کم قیمت پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں ان کا حرج اٹھاتا رہوں گا۔ اوّل میرا خیال تھا کہ شاید صندوق میں کتابیں بہت ہوں گی اور روپیہ کی ضرورت تھی تو اس دھوکہ سے لکھا گیا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ کتابیں تو ختم ہو چکیں آپ مفضل حال دریافت کر کے اطلاع دیں اور اس وقت تک کتابیں روانہ نہیں ہو سکتیں کہ اس حرج متصور ہے جب تک پختہ بات نہ ہو تب تک نا حق کے جھگڑے کا اندیشہ ہے پہلے کئی جگہ ایسا معاملہ پیش آ چکا ہے اور چار جلدیں ایک نسخہ کی ارسال خدمت میں ان کی رسید سے مطلع فرما دیں
والسلام
خاکسار
غلام احمد
از مقام صدر انبالہ حاطہ ناکر ہپنی منضل محلہ کوہستان بنگلہ شیخ محمد لطیف۔۵؍ دسمبر۸۶ء
۲۶/۵۴ از عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ آں مخدوم پہنچا موجب خوشی ہوا خدا وند کریم آں مکرم کو خوش وخرم رکھے یہ عاجز کچھ عرصے تک بیمار رہا اب بھی اس قدر ضعف ہے کہ کوئی محنت کا کام نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے ابھی کام کا حصہ پنجم شروع نہیں بعد درستی و صحت طبیعت انشاء اللہ شروع کیا جائے گا آپ نے جو سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو جائے۔ انسان کو ان باتوں پر ایمان اور ثبات قدم حاصل ہو جائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستقبل ہو گا آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ خدا وند کریم جلشانہ آپ کی جدوجہد پر ثمرات حسنہ مرتب کر دے گا۔ وقال اللہ تعالیٰ والذین جاھد وافینالنھد منہم میلنا۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۷؍ مارچ ۱۸۸۵ء
مولوی رشید احمد گنگوہی سے مباحثہ کی تحریک اور اس کا انکار
میں نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے غرض کیا کہ یہ مولوی رہ گئے اور سب کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے۔ اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں۔ فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے ضرور آمادہ وہوں تو ضرور لکھ دو اور یہ لکھ دو کہ مرزا غلام احمد قادیانی آج کل لودھیانہ میں ہیں۔ انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو گئی وہ اب نہیں آئیں گے اور جس عیسی کے اس اُمت میں آنے کی خبر تھی۔ وہ میں ہوں۔
اور مولوی تو مباحثہ نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ آپ بہت سے مولویوں اور گروہ اہل سنت والجماعہ کے پیشوا ور مقتدا مانے گئے ہیں اور کثیر جماعت کے آپ پر نظرہے آپ مرزا صاحب سے اس بارہ میں مباحثہ کر لیں چونکہ آپ کو محدث اور صوفی ہونے کا بھی دعوی ہے اور ماسوا اس کے آپ مدعی الہام بھی ہیں۔ مدعی الہام اس واسطہ کر کے کہ مولوی شاہدین اور مولوی مشتاق احمد اور مولوی عبدالقادر صاحب نے گنگوہ مولوی رشید احمد صاحب متوقی کے پاس جا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات جو براہین احمدیہ میں درج ہیں سناتے تھے مولوی رشید احمد صاحب نے چند الہام سن کر جواب دیا تھا کہ الہام کاہونا کیا بڑی بات ہے۔ ایسے ایسے الہام تو ہمارے مریدوں کو بھی ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کے مریدوں کو اگر ایسے الہام ہوتے ہیں تو وہ الہام ہمارے سامنے پیش کرنے چاہیئں تاکہ ان الہاموں کا یا آپ کے الہاموں کا کیونکہ مریدوں کو جب الہام ہوں تو مرشد کو تو ان اعلی الہام ہوتے ہوں گے موازنہ اور مقابلہ کریں اور لو تقول علینا بعض الا قاویل کی وعید سے ڈریں مولوی صاحب نے کہنے کو کہہ دیامگر کوئی الہام اپنا یا کسی اپنے مرید کا پیش نہیں کیا کہ یہ الہام ہمارے ہیں اور یہ ہمارے مریدوں کے ہیں۔ غرض کہ اب آپ کا حق ہے کہ اس بحث میں پڑیں اور مباحثہ کریں اور کسی طرح سے پہلو ہی نہ کریں کس لئے کہ ادھر تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا زور شور سے بیان کرنا وفات کا دلیلوں یعنی لشوص صریحہ قرآنیہ اور حدیثیہ نے ثابت کرنا اور علماء اور آئمہ سلف کی شہادت پیش کرنا اور پھر مدعی مسیحیت کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا رجوع کرنا اور آپ جیسے اور آپ سے بڑھ کر علماء ؎ کے مرید ہونے سے دنیا میں ہل چل مچ جاتی ہے اور بحث اصل مسئلہ میں ہونی چاہئے یعنی عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات میں۔ بس میں نے یہ خط لکھااور حضرت اقدس علیہ السلام کو ملاخط کراکے روانہ کر دیا ؎۔
اور آپ نے اس دستخط کر دئیے او رراقم سراج الحق نعمانی و جمالی سرساوی لکھا گیا مجھے مولوی رشید احمد صاحب کو لکھنا اس واسطے ضروری ہوا تھا کہ میں او رمولوی صاحب ہمزلف ہیں او رباوجود اس رشتہ ہمز لف ہونے کے تعارف اور ملاقات بھی تھی اور قصبہ سرسادہ او ر قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں ہیں اور ان دونوں قصبوں میں پندرہ کوس کا فاصلہ ہے اور ویسے برادرانہ تعلق بھی ہیں اور سری خوشد امن اور سسرال کے لوگ ان سے بعض مرید بھی ہیں۔ بس یہ میرا خط مولوی صاحب کے پا س گنگوہ جانا تھا اور مولوی صاحب او ران کے معتقدین اور شاگردوں میں ایک شور برپا ہونا تھا اور لوگوں کو ٹال دینا تو آسان تھا۔ لیکن اس خاکسار کوکیسے ٹالتے اور کیا بات بتائے پھر اس کے کہ مباحثہ کو قبول کرتے۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مخدوم مکرم پیر سراج الحق صاحب پہلے میں اس بات کا افسوس کرتا ہوں کہ تم مرزا کے پا س کہاں پھنس گئے۔ تمہارے خاندان گھرانے میں کس چیز کی کمی تھی اور میں بحث کو مرزا سے منظور کرتا ہوں۔ لیکن تقریری اور صرف زبانی تحریری مجھ کو ہر گز منطور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہو گی او روفات و حیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہو گی۔ بلکہ بحث نزول مسیح میں ہو گی جو اصل ہے کتبہ رشید احمد گنگوہی۔
یہ خط مولوی صاحب کا حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھلایا۔ فرمایا خیر شکر ہے کہ اتنا تو تمہارے لکھنے سے اقرار کیا کہ مباحثہ کے لئے تیار ہوں گو تقریری سہی ورنہ اتنا بھی نہیں کرتے تھے۔ اب اس کے جواب میں یہ لکھ دوکہ مباحثہ میں غلط مجث کرنا درست نہیں بحث تحریری ہونی چاہئے تاکہ غائبین کو بھی سوائے حاضرین کے پورا پورا حال معلوم ہو جائے اور تحریر میں غلط بحث نہیں ہوتا او ر زبانی تقریر میں ہو جاتا ہے تقریر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس کا اثر کسی پر پڑتا ہے اور نہ پورے طور سے یا درہ سکتی ہے اور تقریر میں ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک بات کہہ کر اور زبان سے نکال کر پھر جانے اور مکر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور بعد بحث کے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور ہر ایک کے معتقید کچھ کا کچھ بنا لیتے ہیں کہ جس سے حق و باطل میں التباس ہو جاتا ہے اور تحریر میں فائدہ ہے کہ اس میں کسی کو کمی بیشی کرنے یا غلط بات مشہور کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اب جو فرماتے ہیں کہ مباحثہ اصل میں جو نزول مسیح ہے ہونا چاہئے سوا س میں التماس ہے کہ مسیح اصل کیوں کر ہے اور وفات وحیات مسیح فرع کس طرح سے ہوئی اصل مسئلہ تو وفات حیات مسیح ہے۔ اگر حیات مسیح کی ثابت ہو گئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ثابت ہو گئی تو نزول خود بخود باطل ہو گیا۔ جب ایک عہدہ خالی ہو تو دوسرا اس عہدہ پر نامور ہو۔ ہمارے دعوے کی بناء ہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے مہربانی فرماکر آپ سوچیں اور مباحثہ کے لئے تیار ہوجائیں کہ بہت لوگوں اور نیز مولویوں کی آپ کی طرف سے نظر لگ رہی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پر دستخط کر دئیے اور میں نے اپنے نام سے یہ خط مولوی صاحب کے نام گنگوہ بھیج دیا۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں یہ لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب کو اصل کو فرع اورفرع کوا صل قرار دیتے ہیں مباحثہ بجائے تقریری کے تحریری مباحثہ میںنہیں کرتا اور ہمیں کیا غرض ہے اور ہمیں کیاغرض ہے کہ ہم اس مباحثہ میں پڑیں۔ یہ خط بھی میں نے حضرت اقدس علیہٰ الصلوۃ والسلام کو سنا دیا۔ آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں افسوس کرنا چاہیے نہ مولوی صاحب کیونکہ ہم نے تو ان کے گھر یعنی عقائد میں ہاتھ مارا ہے اور ان کی جائیداد پالی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہٰ السلام کو جن پر ان کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں اوران کے آسماں سے اترنے کی آرزو رکھتے تھے مار ڈالا ہے جس کو آسمان میں بٹھائے ہوئے تھے اس کو ہم نے زمین میں دفن کردیا ہے اوران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اورمقبول ان مولویوں کے اسلام میں رخنہ ڈال دیا ہے اورلوگوں کو گھیر گھار کر اپنی طرف کر لیا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے وہی روتا ہے اور چلاتا ہے یہ مولوی حامیان دین اورمحافظ اسلام کہلا کر اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی ان کی جائیداد دبالے اورمکان اور اسباب پر قبضہ کر لے تو یہ لوگ عدالت میں جا کھڑے ہوں اورلڑنے مرنے سے بھی نہ ہٹیں اور نہ ٹلیں اور جب تک کہ عدالت فیصلہ نہ کرے اورآپ یہ بہانے بتاتے ہیں۔ کہ ہمیں کیا غرض ہے۔ گویا یوں سمجھو کہ ان کو دین اسلام اور ایمان سے کچھ غرض نہیں رہی اوراب یہ حیلہ و بہانہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے۔ اگران کے پا س کوئی دلیل نہیں اوران کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اوردر حقیقت کچھ نہیں ہے۔ ان کے باطل اعتقاد کا خرمن جل کر راکھ ہو گیا یہ اگر اس بحث میں پڑیں توا ن کی مولویت کو بٹہ لگتا ہے اوران کے علم و فضل کو سیاہ دھبہ لگتا ہے۔ ان کی پیروی پر آفت آتی ہے۔ ان کو لکھو کہ مولوی صاحب آپ تو علم لدنی اورباطنی کے بھی مدعی ہیں اگر ظاہری علم آپ کو مدد نہ دے باطنی اورلدنی علم سے ہی کام لیں یہ کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے۔
پس میں نے یہ تقریر حضرت اقدس علیہٰ السلام کی اور کچھ اور تیز الفاظ نمک مرچ لگا کے قلم بند کر کے مولوی صاحب کے پاس بھیج دی۔
اس کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے یہ لکھا میںتقریری بحث کرنے کو تیار ہوں اور مرزا صاحب تحریری بحث کرنا چاہیں تو ان کا اختیار ہے میں تحریری بحث نہیں کرتا۔ لاہور سے بھی بہت سے لوگوں کی طرف سے ایک خط مباحثہ کے لئے آیا ہے۔ مرزا چاہے تقریری بحث کرے۔ جب کسی مولوی صاحب کو مقرر کی جگہ نہ رہی اور سراج الحق سے مخلصی نہ ہوئی اور لاہور کی ایک بڑی جماعت کا خط پہنچا اور ادھر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی اس لاہور کی جماعت کی طرف سے مولوی رشید احمد کے مباحثہ کے لئے درخواست آ گئی اور اس جماعت نے یہ بھی لکھا کہ مکان مباحثہ کے لئے اور خورد و نوش کا سامان ہمارے ذمہ ہے اور میں نے بھی مولوی صاحب کو یہ لکھا کہ اگر آپ مباحثہ نہ کریں گے اور ٹال مٹال جائیں گے اور کچے پکے کاغذوں سے جان چھڑا دیں گے تو تمام اخبارات میں آپ کے اور ہمارے خط چھپ کر شائع ہو جائیں گے پڑھنے والے آپ نتیجہ نکال کر کے مطلب و مقصد اصلی حاصل کر لیں گے۔
پھر دوسرے موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو ضرور لکھو اور حجت پوری کرو او ریہ لکھو کہ اچھا ہم بطریق متنزل تقریری مباحثہ ہی منظور کرتے ہیں۔ مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر کو لکھتا جاوے اور جب ہم تقریر کریں تو ہماری جوابی تقریر کوبھی دوسرا شخص لکھتا جاوے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو تو دوسرا فریق بالمقابل یا اور کوئی دوران تقریر میں بولے پھر وہ دونوں تقریریں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ لیکن بحث مقام لاہور ہونی چاہئے۔ کیونکر لاہور دارالعلوم ہے اور ہر علم کا آدمی وہاں پر موجود ہے۔
میں نے یہی تقریر حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی مولوی صاحب کے پاس بھیج دی۔ مولوی صاحب نے لکھا کہ تقریر صرف زبانی ہو گی لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی اجازت ہو گی اورجو جس کے جی میں آئے گا حاضرین میں سے رفع اعتراض و شک کے لئے بولے گا۔ میں لاہور نہیں جاتا مرزا ہی سہارنپور آجائے اور میں بھی سہارنپور آجاؤں گا حضرت اقدس علیہٰ السلام نے فرمایا کہ کیا بودا پن ہے اور کیسی پست ہمتی ہے کہ اپنی تحریر نہ دی جائے تحریر میں بڑے بڑے فائدے ہیں کہ حاضرین و غائبین اور نزد یک دور کے آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اورفیصلہ کرسکتے ہیں زبانی تقریر محدود ہوتی ہے جو حاضرین اورسامعین تک رہ جاتی ہے حاضرین و سامعین بھی تقریر سے پورا فائدہ اور کامل فیصلہ نہیں کرسکتے مولوی صاحب کیوں تحریر دینے سے ڈرتے ہیں۔ ہم بھی تو اپنی تحریر دیتے ہیں گویا ان کا یہ منشی ہے کہ بات بیچ بیچ میں محبث ہو کر رہ جائے اگر گڑبڑ پڑ جائے اور سہارنپور میں مباحثہ ہونا مناسب نہیں ہے۔ سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے۔ لاہور آج دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اور مذہب و ملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں۔ آپ لاہور چلیں اورمیں بھی لاہور چلتا ہوں اورآپ کا خرچ آمدورفت اورقیام لاہور بحث تک اورمکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گا۔ سہارنپور پہلے اہل علم کی بستی نہیں۔ سہارنپور سوائے شور شر اور فساد کے کچھ نہیں ہے۔ یہ مضمون میںنے لکھ کر اور حضرت اقدس علیہٰ السلام کے دستخط کرا کر گنگوہ بھیج دیا۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہورنہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں اوربحث تحریری مجھے منظور نہیں نہ میں خود لکھوں اور نہ کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت بھی دے سکتا ہوں۔ حضرت اقدس نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ ان لوگوں میں کیوں قوت فیصلہ اور حق وباطل کی تمیز نہیں رہی اور ان کی سمجھ بوجھ جاتی رہی یہ حدیث پڑھاتے ہیں اور محدث کہلاتے ہیں۔ مگر فہم وفراست ہے ان کو کچھ حصہ نہیں ملا صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دیں کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجائیں گے آپ سرکاری انتظام کر لیں جس میں کوئی یورپین افسر ہو اور ہندوستانیوں پر پورا طمنان نہیں ہے بعد انتظام سرکاری ہمیں لکھ بھیجیں اورکاغذ سرکاری بھیج دیں میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا اورایک اشتہار اس مباحثہ کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا جائے گا تاکہ لاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور دلچسپی رکھنے والے سہارنپور آجائیں گے۔
ورنہ ہم لاہور میں سرکاری انتظام کر سکتے ہیں اورپورے طور سے کر سکتے ہیں۔ تقریری اور تحریری مباحثہ اس وقت رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہو گی۔ کثرت رائے پر ہم تم کاربند ہوں خواہ تحریری خواہ تقریری جو مناسب سمجھا جائے گا وہ ہوجائے گا۔ آپ مباحثہ ضرور کریں کے لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں۔
یہ تقریر میں نے مولوی صاحب کو لکھ بھیجی۔ مولوی صاحب نے کچھ جواب نہ دیا صرف اس قدر لکھا کے انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہوں۔ پھر میں نے دوتین خط بھیجے جواب ندارد۔





حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹی کے نام



(تعارفی نوٹ)
حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے …اور حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے والد بزرگ وار تھے۔ حضرت حکیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شرف تلمذ بھی حاصل تھا۔ آپ نے طب کی بعض ابتدائی کتابیں حضور سے پڑھیں تھیں حکیم صاحب مرحوم نے حضرت اقدس کو عین عنفوان شباب میں دیکھا تھااور حضور کی متقانہ زندگی کا اُن پر خاص اثر تھا۔ حضرت کی نیم شبی دعاؤں اور قرآن مجید کے ساتھ عشق ومحبت کے نظارے ان کے دل کو تسخیر کر چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت اقدس نے خدا کی طرف سے مامور اور مرسل ہونے کا دعوی کیا تو حضرت حکیم صاحب کو ایک لحظ کے لئے بھی شک و شبہہ نہیں ہوا۔ حضرت اقدس بھی حکیم صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے حکیم صاحب مرحوم تیز طبیعت واقع ہوئے تھے لیکن حضرت اقدس کے سامنے وہ بہت موذب اور محتاط ہوتے تھے۔ حضور کو حکیم صاحب کی دلجوئی اور خاطر واری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی۔ منارۃ المسیح کی تعمیر کاکام جب شروع ہوا تو حکیم صاحب مرحوم ہی کو اس کااہتمام دیا گیا اور انہوں نے اپنے صاحبزادے میر عبدالرشید صاحب کو اس کام پر مامور کیا۔ غرض حضرت اقدس کے ساتھ حکیم صاحب کا اخلاص و محبت قابل رشک تھی اور حضور بھی ان کا احترام کرتے تھے۔
حضرت حکیم صاحب کے ساتھ حضرت میر خصلیت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو تعلقات دامادی کی عزت حاصل تھی اور خود سید خصلیت علی شاہ صاحب بھی اپنے ایمانی جوش اور اخلاص و وفا کے اعلی مقام پر تھے۔ سیرۃ صحابہ کے سلسلہ میں ان بزرگوں کا انشاء اللہ تفصیلی ذکر آئے گا۔
حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب کے انتقال پر حضر ت اقدس نے حکیم صاحب مرحوم کو تعزیت کا ایک خط لکھا تھا اور یہی وہ مکتوب ہے جسے میں آج درج کر رہا ہوں اس کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ سید صاحب مرحوم کے اخلاص و محبت کی حضرت اقدس کے دل میں کیا قدر تھی اور انہوں نے سلسلہ میں داخل ہو کر کیسی پاک تبدیلی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُن کے مدارج کو بلند کرے اور ہمیں توفیق دے کہ وہی حقیقت اور روح اپنے اعمال میں پیدا کریں۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہٰ کریم
۱/۵۵ محبی مکرمی اخویم حکیم سید حسام الدین صاحب سلمہٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ا س وقت ایک دفعہ درد ناک مصیبت واقعہ وفات اخویم سید خصیلت علی شاہ صاحب مرحوم کی خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریراور تقریر سے باہر ہے طبیعت اس غم سے بے قرار ہوئی جاتی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سید خصیلت علی شاہ صاحب کو جس قدر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق ومحبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا۔ یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں۔ ہمیں کیا خبر تھی لب دوسرے سال پر ملاقات نہیں ہو گی۔ دنیا کی اسی نام پائیداری کو دیکھ کر کئی بادشاہ بھی اپنے تحتوں سے الگ ہو گئے آپ کے دل پر بھی جس قدر ہجوم غم کا ہو گا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے اس ناگہانی واقعہ کا غم درحقیقت ایک جابکاہ امر ہے۔ لیکن چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لئے ایسی بھاری مصیبت پر جس قدر صبر کیا جائے اسی قدر امید ثواب ہے لہذا امید رکھتا ہوں کہ آپ مرضی مولا پر راضی ہو کر صبر فرما دیں گے اور مردانہ ہمت او راستقامت سے متصلقین کو تسلی دے گے۔ میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ بعض خدا کے بندے جب دنیا سے انقطاع کر کے خدا تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کے نامہ اعمال میں مصیبتوں کے وقت صبر کرنا بھی ایک بڑا عمل پایا جائے گا۔ تو اسی عمل کے لئے بخشے جائیں گے۔
بخدمت محبی اخویم سید حامد شاہ صاحب السلام علیکم و مضمون واحد
خاکسار
غلام احمد از قادیان
خط کے پہنچتے ہی دعائے مغفرت بہت کی گئی اور کرتا ہوں مگر تجویز ٹھہری ہے کہ جنازہ جمعہ کے روز پڑھا جاوے۔
نوٹ۔ چنانچہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کے کارڈ سے معلوم ہوا کہ قبل از جمعہ حضور مقدس نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہت دیر تک چپ چاپ کھڑے دعائیں مانگتے رہے۔










حضرت سیّد محمد عسکری رضی اللہ عنہ کے نام





تعارفی نوٹ
حضرت سیّد محمد عسکری رضی اللہ عنہ سلسلہ کے سابقین الاولین کی جماعت میں سے ایک نہایت مخلص اور وفادار بزرگ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کے اخلاص ووفا کی وجہ سے آپ سے خاص محبت تھی سید صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے تھے مگر آپ نے اس وقت ان کی دعوت کو دینی امور میں انہماک اور مصروفیت کی وجہ سے منظور نہ فرمایا یہ ایسے زمانے ۱۸۸۷ء کا واقعہ ہے جب کہ ابھی آپ بیعت نہ لیتے تھے۔ اس مکتوب میں حضور نے اپنی زندگی کا مقصد بیان کیا ہے۔ احباب متعدد مرتبہ اس مکتوب کو پڑھیں جن سے انہیں حضرت اقدس کی سیرۃ مبارک کے مختلف پہلوؤں کا اندازہ ہو گا۔
(عرفانی کبیر)
۱/۵۶ مخدومی مکرمی اخویم سید محمد عسکری سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا موجب تسلی ہوئی۔ میں آپ کے واسطے غائبانہ بہت دعا کرتا ہوں اور آپ کے اخلاص سے خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ آپ کے تردوات دور کرے۔ اس وقت میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ اپریل یا مئی کے مہینے میں انشاء اللہ القدیر آپ کی یاد دہانی پر بشرط خیریت وعدم مواقع آپ کو اطلاع دوں گا اور شاید ان مہینوں میں کسی ایسے مقام میں میرا قیام ہو جس میں با آسانی ملاقات ہو جائے مجھے اس وقت تالیف رسالہ ـ’سراج منیر‘‘ کے لئے نہایت مصروفیت اور خلوت ہے اور میری زندگی صرف احیاء دین کے لئے ہے اور میر ااصول دنیا کی بابت یہی ہے کہ جب تک اس سے بگلی منہ نہ پھیر لیں۔ ایمان کا بچائو نہیں۔ راحت و رنج گزرانے والی چیزیں ہیں۔ اگر ہم دنیا کے چند دم مصیبت و رنج میں کاٹیں گے تو اس کے عوض جادوانی راحت پائیں گے۔ بہشت انہیں کی وراثت ہے کہ جو دنیا کے دوزخ کو اپنے لئے قبول کرتے ہیں اور لذت عیش و عشرت دنیوی کے لئے مرے نہیں جاتے۔ دنیا کیا حقیقت رکھتی ہے اور اس کے رنج وراحت کیا چیز ہیں۔ آخری خوش حالی کی خواہش ہے۔ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ تکالیف دنیوی کو بانشراح صدر اٹھا وے او راس نابکار گھر کی عزت او رذلت کچھ چیز نہ سمجھے۔ یہ دنیا بڑا دھوکہ دینے والا مقام ہے۔ جس کو آخرت پر ایمان ہے وہ کبھی اس کے غم سے غمگین نہیں ہوتا اور نہ اس کی خوشی سے خوش ہوتا ہے۔
والسلام
۷؍ فروری ۱۸۸۷ء
مقلدین اور غیر مقلدین کے متعلق ایک اہم مکتوب
۲/۵۷ مخدومی مکرمی اخویم سلمہ۔ بعد سلام مسنون مقلدین و غیر مقلدین کے بارے میں جو آپ نے خط لکھا تھا اس میں کس فریق کی زیادتی ہے۔ سو اس عاجز کی دانست میں مقلدین و غیر مقلدین کے عوام افراط وتفریط میں مبتلا ہو رہے ہیںاور اگر وہ صراط مستیقم کی طرف رجوع کریں حقیقت میں ایک ہی دین اسلام کا مغز اور لب لباب توحید ہے اسی توحید کے پھیلانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور قرآن شریف نازل ہوا۔
سو توحید صرف اس بات کا نام نہیں جو خداتعالیٰ کو زبان سے وحدہ لاشریک کہیں اور دوسری چیزوں کو خدا تعالیٰ کی طرح سمجھ کر ان سے مرادیں مانگیں اور نہ توحید اس بات کا نام ہے کہ گو بظاہر تقدیری اور تشریعی امور کا مبداء اسی کو سمجھیں۔ مگر اس کی تقدیر اور تشریع میں دوسروں کا اس قدر دخل روا رکھیں۔ گویا وہ اس کے بھائی بند ہیں۔ مگر افسوس کہ عوام مقلدین (حنفی) ان دونوں قسموں کی آفتوں میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ ان کے عقائد میں بہت کچھ شرک کی باتوں کو دخل ہے اور اولیاء کی حثیت کو انہوں نے ایسا حد سے بڑھا دیا ہے کہ ار باباً من دون اللہ تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف امور تشریعی میں آئمہ مجتہدین کی حثیت کو ایسا بڑھا دیا ہے کہ گویا وہ بھی ایک چھوٹے چھوٹے نبی بن گئے ہیں۔ حالانکہ جیسا امور قضا وقدر میں وحدت ہے۔ ایسا ہی تبلیغ کے کام میں بھی وحدث ہے۔
مقلم لوگ تب ہی راکشی پر آسکتے ہیں اور اسی حالت میںان کا ایمان درست ہو سکتا ہے جب صاف صاف یہ اقرار کردیں کہ ہم آئمہ مجتہدین کی خطاکو ہر گز تسلیم نہیں کریں گے۔ غضب کی بات ہے کہ غیر معصوم کو معصوم کی طرح مانا جاوے۔ ہاں بے شک چاروں امام قابل تغطیم اور شکر گزاری ہیں۔ ان سے دنیا کو بہت فوائد پہنچے ہیں۔ مگر ان کو پیغمبر کے درجے پر سمجھنا۔ صفات نبوی ان میں قائم کرنا۔ اگر کفر نہیں ہے تو قریب قریب اس کے ضرور ہے۔
اگرآئمہ اربعہ سے خطا ممکن نہ تھا تو باہم ان میں صدہا اختلاف کیوں پیدا ہو گئے اور اگر ان سے اپنے اجتہادات میں خطا ہوئی تو پھر ان خطائوں کو ثواب کی طرح کیوں مانا جائے۔ یہ بری عادت مقلدین میں نہایت شدت سے پائی جاتی ہے ہر ایک دیانت دار عالم پر واجب ہے کہ ایسا ہی ان پر شدت توجہ سے حملہ کرے اور خدائے جلشانہ پر بھروسہ کر کے زید وعمرو کی ملامت سے ڈرے اور وہ لوگ جو مواحدین کہلاتے ہیں۔ اکثر عوام الناس ان سے اولیاء کی حالت اور مقام کے منکر پائے جاتے ہیں۔ ان میں خشکی بھری ہوئی ہے اور جن مراتب تک انسان بفضلہ تعالیٰ ہو سکتا ہے اس سے وہ منکریں۔ بعض جاہل ان میں سے آئمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم سے ہنسی لیجا کرتے ہیں۔
سو ان حرکات بے جاسے وہ کافر نعمت ہے اور طریق فقر و توحید حقیقی و ذوق و شوق داہی محبت سے بالکل دور و مجہور پائے جاتے ہیں خدا تعالیٰ دونوں فریقوں کو براہ راست بخشے۔
۸؍ جون ۱۸۸۶ء




حضرت مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ کے نام





تعارفی نوٹ
حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے ایک زمانہ دراز تک لوگوں کی بیعت نہیں لی اورجب کبھی کوئی شخص بیعت کے لئے عرض کرتا تو آپ یہی فرماتے تھے کہ مجھے حکم نہیں یا میں مامور نہیں لیکن جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بیعت لینے کے لئے مامور فرمایا تو آپ نے ۳۳ ؍مارچ ۱۸۸۹ء م ۲۰ رجب ۱۳۰۶ء کو لودہانہ میں بیعت لی یہ بیعت حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفورکے ایک مکان پر ہوئی جواس وقت دارالبعیت کے نام سے جماعت لودہانہ کے قبضہ میں ہے اس بیعت کے بعد سب سے پہلا آدمی جس کو حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے بیعت کی اجازت دی وہ مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب ولد ابوعبداللہ احمد قوم افغان سکنہ تنگی تحصیل چار سدہ ضلع پشاور ہیں۔ افسوس ہے کہ آج ان کے تفصیلی حالات سے واقف نہیں تاہم میں اس کوشش اور فکر میں ہوں کہ ان کے حالات معلوم ہو سکیں۔ مکرمی صاحبزدہ سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مولوی ابوالخیر صاحب کو دیکھا تھا تیس پینتیس سال کے خوش رو نوجوان تھے۔ میانہ قد تھا ذی علم اورمتقی انسان تھے۔ ان کے چہرہ سے رشد اورسعادت کے آثار نمایا ں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے جوا جازت نامہ مولانا ابوالخیر عبداللہ صاحب کو لکھ کر دیا تھا وہ تاریخ بیعت سے پورے ایک ماہ چھ دن بعد لکھا یعنی ۲۹؍ اپریل ۱۸۸۹ء مطابق ۲۸ شعبان ۱۳۰۶ء اس اجازت نامہ کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ آپ کن لوگوں سے بیعت لینا چاہتے تھے اور بیعت لینے والے کے فرائض یہ یقین کرتے تھے؟ اس سے اس روح کا پتہ لگتا ہے جو آپ کے اندر اپنے خدام کے لئے تھی یعنی آپ اپنے خادموں کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے تاکہ ان میں وہ تبدیلی پیدا ہو جاوے جو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔
مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب سابقون الاولون میں سے ہیں انہوں نے ۱۹ ؍رجب ۱۳۰۶ء کو بمقام لودہانہ بیعت کی تھی اوربیعت کرنے والوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا جیسا کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم کے صفحہ ۹ سے ظاہر ہوتا ہے چونکہ پہلے آٹھ نمبر کے احباب کے نام قیاس اوردوسری روایات کی بنا پر لکھے ہیں اس لئے مولوی صاحب کی سکونت کے متعلق بھی محض قیاس سے چارسدہ یا خوست لکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تنگی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے اورسلسلہ میں پہلے آدمی تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہٰ السلام نے بیعت کی اجازت دی چنانچہ جو اجازت نامہ ان کو لکھ کر دیا گیا اسے میں نے مکتوبات ہی کے سلسلہ میں درج کر دیا۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم : نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہٰ الکریم
۱/۵۸ الحمداللہ والسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ ماٰ بعداز عاجز عابذ باللہ الصمد غلام احمد
بخدمت اخویم مولوی ابوالخیر عبداللہ پشاوری بعد از سلام علیکم روحمتہ اللہ وبرکاتہ، واضح باد۔ کہ چونکہ اکثر حق کے طالب کہ جو اس عاجز سے بیعت کرنے کا اردہ رکھتے ہیں بوجہ ناداری سفر و دور دراز یا بوجہ کم فرصتی و مزاحمت تعلقات قادیان میں بیعت کے لئے پہنچ نہیں سکتے اس لئے باتباع سنت حضرت مولانا وسیدنا محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایسے معذو رو مجبور لوگوں کی بیعت ان سعید لوگوں کے ذریعہ سے لے جاوے کہ جو اس عاجز کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں سو چونکہ آپ بھی شرف اس بیعت سے مشرف ہیں اور جہاں تک فراست حکم دیتی ہے رشد اور دیانت رکھتے ہیں۔ اس لئے دکالتاً اخذ بیعت کے لئے آپ کو یہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے آپ میری طرف سے وکیل ہو کر اپنے ہاتھ سے بند گان خدا سے جو طالب حق ہوں بیعت لیں مگر انہیں کو اس بیعت سلسلہ میں داخل کریں جو سچے دل سے اپنے معاصی سے توبہ کرنے والے اوراتباع طریقہ نبویہ کے لئے مستعد ہوں اوران کے لئے دلی تضرع سے دعا کریں اورپھر نام ان کے بقید ولدیت و سکونت و پیشہ وغیرہ اس تصریح سے اصل سکونت کہاں ہے اورکس محلہ میں اور عارضی طور پر کہاں رہتے ہیں بھیج دیں۔ تا یہ عاجز ان کے لئے دعا کرنے کا موقع پاتا رہے اورپورے تعارف سے وہ یاد رہیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
راقم احقر عباد اللہ عبداللہ الصمد
غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور پنجاب
اٹھائیس شعبان ۱۳۰۶ء مطابق ۶۹؍اپریل ۱۸۸۹ء روز دوشہنبہ
نشان مُہر الیس اللہ بکاف عبدہ
مکرمی اخویم ڈاکٹر فیض محمد خان صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں اورہر ایک صاحب جو بیعت کریں مناسب ہے کہ براہ راست بھی اپنا اطلاعی خط بھیج دیں۔









حضرت صوفی سید حافظ تصور حسین رضی اللہ عنہ کے نام





(تعارفی نوٹ)
حافظ سید تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ، بریلی کے رہنے والے تھے حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ بیعت کر کے بریلی پہنچے تو انہوں نے علم تبلیغ کو بلند کیا وہ نہایت جری اور نذیر عریاں تھے بریلی ایک خاص قسم کے علماء دین کا مرکز تھا اور اب بھی ہے ان کے جاننے سے وہاں احمدیت کا گھر گھر چرچا ہونے لگا اسی سلسلہ میں حضرت صوفی سید تصور حسین صاحب رضی اللہ عنہ کو سلسلہ کی طرف اولاً مخالفانہ رنگ میں توجہ ہوئی جو آخر انہیں سلسلہ حقہ ّ میں لے آئی حضرت سید عزیز الرحمن صاحب نے ان کے تذکرہ میں فرمایا
الغرض گھر گھر احمدیت کا چرچا تھا اس چرچے کی وجہ سے صوفی تصور حسین صاحب مرحوم و مغفور کو بھی توجہ ہوئی۔ ان کو شاعری کا شوق تھا اور اس وجہ سے تمام بڑے بڑے افرائے شہر سے ان کا تعلق تھا۔ عالم بھی تھے۔ حافظ بھی تھے قرآن خوب یاد تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود کو ایک خط دس بارہ صفحے کا لکھا اور تمام بڑے آدمیوں کو دکھایا کہ میں یہ خط مرزا صاحب کو بھیج رہا ہوں۔ سب نے اس خط کی بڑی تعریف کی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جب یہ ملا تو انہوں نے مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس خط کا جواب لکھ دو۔ مولوی صاحب نے ایک خط پر لکھا کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا تو ہماری کتابیں پڑھو یا ہمارے پا س آجائو۔ جب یہ کارڈ بریلی پہنچا تو وہ اس کارڈ کو لے کر تمام بریلی میں پھرے۔ ہر شخص کو خط دکھاتے اور کہتے کہ دیکھو یہ مرزا صاحب کی علمی لیاقت ہے۔ میرے خط کے جواب میں یہ کارڈ آیا۔ الغرض خوب مذاق اڑایا میں ان سے اسی سبب سے ناراض ہو گیا سلام علیک تک جاتی رہی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے بغیر سلام علیکم کہنے خطبہ الہامیہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے اسے لے لیا اور دیر تک پڑھتے رہے ایک بجے کے قریب جوش سے انہوں نے اللہ اکبر کہا اور حضرت کو بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا کہ میرا دل حضور کے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔ مگر میرے پاس کرایہ نہیں۔ حضور نے جواب لکھا کہ تولکل پر چلے آئو خط ملنے پر انہوںنے لکڑی کندھے پر رکھی اور چند روٹیاں پکوا کر لے آئے اور مجھے کہا کہ میں قادیان جا رہا ہوں میں حیران ہوا اور ان کوروکا کہ اس طرح نہیں جانا چاہئے انہوں نے حضرت کاکارڈ دکھلایا کہ یہ حکم ہے میں نے کہا کہ اچھی بات ہے اگر تولکل پر جانا ہے تو آج رات کو آپ روانہ کر دیں گے۔ لہذا رات کی گاڑی سے قادیان روانہ کر دیا۔
صوفی تصور حسین صاحب کی بیعت کے بعد بریلی میں اور بھی شور پڑ گیا۔ لوگ ان کے دشمن ہو گئے۔ ایک دفعہ جب کہ وہ گلی سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے ان کوپکڑ لیا اور قتل کرنے کی نیت سے ان کے سینے پر چاقو رکھ دیا۔ صوفی صاحب نے اپنے دشمن سے کہا کہ تم اپنا کام کرو میں حضرت مرزا صاحب کو کبھی جھوٹا نہیں کہوں گا۔
راہگیروں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے شور مچایا کہ ایک آدمی کو کیوں مارتے ہو اس شور پر بد معاش ان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اس طرح پر حافظ صاحب قادیان آ گئے اور پھر آکر نہ گئے تولکل حلال سے ان کو محبت تھی باوجود کہ ایک رنگ میں صوفیوں اور مشاخیوں کی زندگی بسر کی تھی مگر قادیان میں انہوں نے ہمیشہ محبت اور مشقت سے عا نہیں کیا۔ مختلف قسم کی تجارتیں کیں میں ذاتی طور پر جانتا ہو ں کہ وہ ایک قسم کی عسرت کی زندگی بسر کرتے تھے مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آتا تھا۔ آخر مقبرہ منشی آرام فرما ہوئے (رضی اللہ عنہ) یہ مختلف مکتوبات ان کے رقعہ جات کے جواب میں ہیں مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ان کے اور بھی خطوط کی نقل تھی مگر وہ خدا تعالیٰ کی مصلحت سے ضائع ہو گئے۔
(عرفانی کبیر)
۱/۵۹ محبی اخویم حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط میں نے اوّل سے آخر تک پڑھ لیا ہے۔ یہ بات بہت درست ہے کہ سعید انسان کی علامت یہی ہے کہ جب تک گوہر مقصود ہاتھ نہ آوے سست نہ ہو اور کسل کی طرف مائل نہ ہو۔ کسی نے سچ کہا ہے
گرنبا شدبد دست رہ بردن
شرط عشق است درطلب مردن
خدا تعالیٰ کی طلب بڑا مشکل کام ہے۔ گویا ایک موت ہے بلکہ درحقیقت موت ہے۔ پھر دوسری طرف عالی ہمت اور عالی فطرت اور وفا درد دل کے لئے بہت سہل بھی ہے۔ وہ وہ ہے کہ جو زمانہ دراز کے طلب کو بھی ایک ساعت سے کم سمجھتا ہے۔ بقول حافط
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آئے شور و لیک نجون جگر شود
مگر افسوس کہ دنیا میں شتات کاروں۔ بد ظنوں کم ہمتوں کا فرقہ بہت ہے اور یہی لوگ محروم ازل سے ہیں چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مارنے سے عرش معلی تک پہنچ جائیں اور اللہ فرماتا ہے احسب الناس ان یترکو اان یقوا آمنا وھم لا یفتنون۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
نوٹ۔ اس مکتوب کو مکررسہ کر پڑھو کہ اس میں سعادت کی علامت اور اس سے مقام رفیع کا بھی پتہ لگتا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔
۲/۶۰ محبی اخویم مولوی تصور حسین صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط پہنچا میں اس وقت بیمار ہوں اور بہت ضعف ہے۔ خون بہت آیا ہے ا س لئے میں زیادہ جواب نہیں لکھ سکتا میرے نزدیک آپ کی خواب بہت عمدہ ہے کیونکہ اس میں شرح صدر کا لفظ ہے جو تسلی اور اطمینان پر دلالت کرتا ہے زیادہ لکھنے سے معذور ہوں۔ خداتعالیٰ فضل شامل حال رکھے آمین۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمداز قادیان
۴؍ مارچ ۱۹۰۵ء
۳/۶۱ محبی اخویم حافظ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں باباعث درد فم معدہ و کمر و دیگر حوارض بیمار رہا اور اب بھی بیمار ہوں مسجد بھی جانے سے معذور رہا۔ انسان کے لئے ہر وقت استغفار اور توبہ اور دعا جیسی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ ہمیشہ سوزو گداز کے ساتھ مرضات اللہ کی طلب میں مشغول رہنا چاہئے اورسستی سے آرام نہ کرنا چاہئے جب تک مطلب حاصل نہ ہوجاوے یہی کامیابی کی راہ ہے ما سوا اس کے تدبرّ سے درود شریف کو پڑھنا اورہر ایک موقعہ مناسب پر دعا کرنا چاہئے اور سب سے زیادہ خطرناک جلد بازی اوربد ظنی ہے اس سے بچنا چاہئے۔ نماز میں بہت دعا کرنی چاہئے۔ بجز قرآن شریف اور ادعیہ ماثورہ کے اپنی زبان میں اور میں دعا کروں گا۔
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
(نوٹ) اس مکتوب شریف سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اپنے خدام کی عملی تربیت کس طرح فرماتے تھے۔ زمانہ حال کے پیروں او رمشایخ کی طرح غیر مسنون اور بد عتی طریقوں پر چہلہ کشیاں نہیں کراتے تھے بلکہ جو صحیح اور مجرب صراط مستقیم ہے اس پر لیجاتے تھے دعائو ں پر آپ کا بہت زور تھا اور استغفار اور درود شریف کے پڑھنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے تھے اور یہ آپ کا خود تجربہ کردہ نسخہ تھا۔
دعائوں کے سلسلے میں آپ نے بھی اس امر کی طرف بھی توجہ کیا کہ ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ یہ اس لئے اپنی زبان میں انسان اپنے اندر جذبات اور مطلوبات کو نہایت وضاحت سے بیان کر سکتا ہے اور وہ نفس مدعا کوسمجھتے ہوئے اپنے قلب میں جوش اور خشوع پید ا کرنے میں آسانی پاتا ہے جہاں تک میری تحقیقات ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس تعلیم میں پہلے شخص ہیں۔ عربوں کی زبان تو عربی تھی اس لئے ماثورہ ادعیہ کے وقت ان کے مفہوم اور منشاء سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کے قلوب خشوع و خضوع سے بھر جاتے تھے مگر دوسری اقوام جب اپنی زبان میں بھی دعائیں نہ کریں وہ کیفیت پید انہیں ہو سکتی۔ اس مکتوب سے خود حضرت اقدس کے معمولات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
(عرفانی کبیر)
۴/۶۲۔محبی اخویم سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سجدہ میں دعا یا حی یا قیوم برحمتک استغیت بہت پڑھو اصلاح نفس کے لئے جو نہایت مشکل امر ہے خدا تعالیٰ کافضل اور اس کی مددمانگتے رہو میں بھی انشاء اللہ دعا کروں گا۔ مگر ایسی ……بھی منت اللہ ہے۔موتی کتوں کے منہ میں ڈالنا مراد رکھتا ہے کہ نااہل کو تربیت کرنا نا اہل سے نیک امید رکھتا ہے۔ ہر آدمی کی بیعت سے پرہیز ضروری ہے۔
اے بسا ابلیں آدم دے دو ہست
پس بہروستے نہ باید دا دوست
عزم درست اور استقامت اور خداتعالیٰ کے سامنے صدق و صفا آخر کامیاب کر دیتا ہے مگر صبر درکار ہے۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(نوٹ) اس مکتوب میں بعض جملے پڑھے نہیں گئے پھٹ گئے ہیں تاہم اس مکتوب میں دعائوں کی قبولیت کے لئے ایک اصل فرمایا ہے کہ عزم صحیح اور استقامت کو نہ چھوڑا جائے اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر آدمی اس کا اہل نہیں ہوتا کہ انسان اس کی بیعت کرے بلکہ احق اور اولی لوگ ہیں جن کووجود خدا نما ہو۔
(عرفانی کبیر)
۵/۶۳ ۔ محبی اخویم حافظ تصور حسین صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ درست ہے کہ خداتعالیٰ کی عطاکردہ جو انسانی قوی یعنی روحانی اور جسمانی قوتیں ہیں اسی کے راہ میں خرچ کرنی چاہیئں لیکن اسرار کا پوشیدہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک نااہل کے آگے معارف بیان نہیں کرنے چاہئیں جن کا وہ متجمل نہ ہو سکے اور مذہب وحدت شہود کی حقیقت اس مرتبہ تک پہنچنی چاہئے کہ گویا وحدت وجود کااس میں جلوہ ہے اور صرف قیل وقال کچھ چیز نہیں ہے۔ عمل ضروری ہے اور اس جگہ بعض آدمی ہمارے منشاء کے مطابق اپنی حالت درست کرنے میں سرگرم ہیں اور بعض ابھی حقیقت سے دور ہیں………
(نوٹ) یہ مکتوب نامکمل ہے اور نمبر ۱ اور نمبر ۲کے فقرات محض ربط کلام کے لحاظ سے میں نے لکھے ہیں اصل مکتوب کی نقل دریدہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا اور اس کی پھر مکرر شائع کر دیا جائے گا۔
(عرفانی کبیر)
احباب سیالکوٹ کے نام
تہمیدی نوٹ
سیالکوٹ کوبھی سلسلہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عہد شباب کے آغاز میں کئی سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس زمانہ کی یاد آپ ہمیشہ رکھتے۔ چنانچہ جب ۱۹۰۴ء میں آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ نے ایک لیکچر کے دوران میں اپنی صداقت کے نشانات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
اور اگر میری نسبت نصرت الٰہی کو تلاش کرنا چاہے تو یاد رہے کہ اب تک ہزار ہا نشان ظاہر ہو چکے ہیں۔ منجملہ ان کے وہ نشان ہے۔ جو آج سے چوبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور اس وقت لکھا گیا جب کہ ایک فرد بشیر بھی مجھ سے تعلق بیعت نہیں رکھتا تھا اور نہ میرے پاس کوئی سفر کرکے آتا تھا اور وہ نشان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ یا تیک من کل فج غمیق۔ یا تون من کل فج غمیق یعنی وہ وقت آتا ہے کہ مالی تائید ہر ایک طرف سے تجھے پہنچے گی اور ہزار ہا مخلوق تیرے پاس آئے گی اور پھر فرماتا ہے۔ ولا تصعر لخلق اللہ ولا تسئم من الناس۔ یعنی اس قدر مخلوق آئے گی کہ ان کی کثرت سے حیران ہو جائے گا۔ پس چاہئے کہ تو ان سے بد اخلاقی نہ کرے اورنہ ان کی ملاقاتوں سے تھکے۔ پس اے عزیزو! اگرچہ آپ کو یہ تو خبر نہیں کہ قادیان میں میرے پا س کس قدر لوگ آئے اور کیسی وضاحت سے پیشگوئی پوری ہوئی۔ لیکن اسی شہر میں آپ نے ملا خط کیا ہو گا کہ میرے آنے پر میرے دیکھنے کے لئے ہزار ہا مخلوقات اس اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی اور صدہا مردوں اور عورتوں نے اس شہر میں بیعت کی اور میں وہی شخص ہوں جو براہین احمدیہ کے زمانے سے تحمیناً سات آٹھ سال پہلے اسی شہر میں قریباً سات آٹھ برس رہ چکا تھا اور کسی کو مجھ سے تعلق نہ تھا اورنہ کوئی میرے حال سے واقف تھا۔ پس اب یہ سوچو اور غور کروکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں اس شہرت اور رجوع خلائق کی چوبیس سال پہلے میری نسبت ایسے وقت میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جب کہ میں لوگوں کی نظر میں کسی حساب میںنہ تھا۔ اگرچہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا براہین کی تالیف کے زمانے کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا تھا تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں۔ کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی ہوں اور احدمن الناس تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت اور لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی۔ مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں مجھے اس زمین سے ایسی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے۔ کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں۔ میرے اس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین جب جن کواس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے۔ وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میںمیرا وجود تھا۔ اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانے میں ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرناکہ ایسا گمام کاآخر کار یہ عروج ہوگا کہ لاکھوں اس کے تابع اور مرید ہو جائیں گے اور فوج در فوج لوگ بیعت کریں گے اور باوجود دشمنوں کی مخالفت اور رجوع اخلائق میں فرق نہیں آئے گابلکہ ا س قدر لوگوں کی کثرت ہو گی کہ وہ قریب ہو گا کہ وہ لوگ تھکاوین کہ یہ انسان کے اختیار میں ہے اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکار کر سکتا ہے کہ چوبیس سال پہلے تنہائی اور بے کسی کے زمانے میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے کتاب براہین احمدیہ جس میں پیشگوئی ہے کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ اس ملک میں مسلمانوں عیسائیوں اور آریہ صاحبوں کے پاس بھی موجود ہے او رگورنمنٹ کے پاس بھی موجود ہے۔ اگر کوئی عظیم الشان نشان میں شک کرے تو ا س کو دنیا میں اس کی نظیر دکھلانا ہے۔ سیالکوٹ میں کئی نشانات آپ کی صداقت کے اس زمانے میں ظاہر ہوئے اور سیالکوٹ کے مولوی فضل احمد مرحوم کو اس عزت اور سعادت حاصل تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ طالب علمی میں کچھ عرصہ قادیان میں حضرت اقدس کی تعلیم پر مامور رہے اورجب آپ نے ماموریت کا دعوی کیا تو سیالکوٹ میں جن لوگوں نے دعوت کوقبول کیا انہوں نے اپنی بے نظیر وفاداری ایثار اور قربانی سے اپنا مقام بہت بلند رکھا۔ ان ایام میں جماعت سیالکوت تمام جماعتوں میں ممتاز اور سر بلند تھی ا س جماعت سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت میر حامد شاہ رضی اللہ عنہ او رحضرت خصلیت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ جیسے مخلص پید اکئے۔ حضرت میر حکیم حسام الدین صاحب رضی اللہ کے نام کاخط میں پہلے درج کر آیا ہوں اور جن احبا ب جو مل سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
حضرت مولوی شادی خان صاحب سیالکوٹی کے نام
تعارفی نوٹ
حضرت مولوی محمد شادی خان صاحب سیالکوٹ کے باشندے تھے۔ ابتدائے من شعور سے ان کو اسلام کی عملی زندگی کا شوق تھا اور وہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے خاص احباب اور مخلصین میں داخل تھے۔ جب وہ بزرگ اہل حدیث تھے مولوی محمد شادی خان صاحب پر بھی یہ رنگ غالب تھا اور جب وہ احمدی ہوئے تو یہ احمدی ہو گئے۔ ایک عرصہ تک وہ راجہ امر سنگہ آنجہانی (جمون و کثیر) کے خلاص ملازموں میں رہے ان کی دیانت امانت مسلم تھی جب حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ریاست جموں و کشمیر کی خدمت سے فارغ ہو گئے یہ بھی نوکری چھوڑ آئے اور کچھ عرصہ تک لکڑی کی تجارت کرتے رہے بالآخر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان ہجرت کر آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی والدہ صاحبہ مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت کا بہت بڑا موقع دیا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی سلسلہ کی خادم رہی اور ان کی صاحبزادیاں اپنے علم و فضل کے لحاظ ممتاز اور خدمت سلسلہ میں مصروف ہیں۔ خاکسار عرفانی کبیر کو یہ عزت اور فخر حاصل ہے کہ کچھ عرصہ تک ہجرت کے ابتدائی ایام میں مولوی محمد شادی خاں صاحب کو الحکم کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر ان کے صاحبزادہ مرحوم عبدالرحمن کو بھی موقعہ ملا۔ مولوی شادی خان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق تھا اور وہ ایک وفادرار اور جان نثار احمدی تھے۔ سلسلہ کی تحریکوں پر ایسے کام کر گزرتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے منارۃا لمسیح کے چندہ میں سب کچھ دے دیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا سو آدمیوں کا ایک خاص گروہ تجویز فرمایا تھا کہ جو جو ایک ایک سو روپیہ دے دے ان میں حضرت شادی خان بھی تھے انہوں نے گھر کا سازوسامان فروخت کر کے دوسو روپیہ دے دیا۔
ابھی وہ اعلان شائع نہیں ہو اتھا کہ ان کوعلم ہو ااور انہوں نے روپیہ بھیج دیا۔ حضرت اقدس نے اس اشتہار میں ان کی نسبت تحریر فرمایا کہ۔
دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھائی ہے۔ میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن ہیں ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے سکتے ہیں اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اسے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو اور انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ چونکہ ایام قحط میں اور دینی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیںاس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا (اشتہار خاص گروہ) یہ صرف تعارفی نوٹ ہے ان کے حالات زندگی اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کتاب تعارف میں تفصیل سے لکھنے کاعزم ر کھتا ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان خاص اور صدق و وفا کو دیکھ کر انہیں وہ شرف بخشا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مثیل قرار دیا۔
خاکسار عرفانی کبیر سے ان کو للہ محبت تھی اور میں تو ان کے مقام کو بہت عزت و احترام سے دیکھتا ہوں مگر اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خاکسارعرفانی کبیر کا احترام کرتے تھے اور ……ان کی اپنی خوبی تھی ورنہ من آنم کہ من وانم۔اب میں ان کے نام کے مکتوبات درج کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔
میں یہ بھی ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مکتوبات عزیز مکرم میاں فضل حسین مہاجز کی کوشش کا نتیجہ ہیں اس لئے معہ ان کے نوٹ کے درج کرتا ہوں۔
(عرفانی کبیر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
۱/۶۴ محبی مشفق اخویم میاں شادی خان صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔محبی اخویم حکیم فضل دین صاحب باوجود دو شادیوں کے اب تک بے اولاد ہیں اور اب کئی وجوہ سے ان دو بیویوں کاہونا برابرہے اور حکیم صاحب موصوف مدت سے چاہتے ہیں کہ اگر کسی شریف آدمی کے ساتھ جو اپنی جماعت میں سے ہو۔ یہ تعلق پیدا ہو جائے تو عین مراد ہے۔ اس عرصہ میں کئی جگہ ان کے لئے پید اہوئیں اور اب بھی ہیں۔ مگر ان کی طبیعت نے کراہت کی۔ چنانچہ ایک دن میں سے اب تک بار بار خط بھیجتا ہے کہ میں اپنی لڑکی آپ کو دیتا ہوں ، مگر وہ ا س سے کراہت کرتے ہیں۔ اب دلی توجہ سے آپ کی طرف طبیعت ان کی راغب ہو ئی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کسی قدر وہ شریف اور صالح ہیں اور متقی حافظ قرآن اور علم دین میں خوب ماہر ہیں اور واقعی مولوی ہیں۔ علماء وہ ان تمام امور کے دینوی جمعیت رکھتے ہیں۔ صاحب املاک و جائیداد ہیں ۔ امید ہے کہ آپ اپنی منشاء سے اطلاع بخشیں گے اور بعد استخارہ مسنونہ جس طرح آپ کی رائے ہو بلا تکلف اس سے مطلع فرمائیں۔ زیادہ خیریت۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ ۲۹؍ جون ۹۸ء
۲/۶۵ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ خط اس وقت آپ کی والدہ صاحبہ ؎ مجھ سے لکھو ارہی ہیں۔ ان کوا س بات کے سننے سے بہت غم اور فکر لاحق حال ہوا ہے کہ آپ کو سخت تپ آیا ہے او رانہوں نے ارادہ کیا تھا کہ ایسے وقت سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ لیکن میں نے روکا کہ موسمی تپ ہے خیر ہو جائے گی۔ چنانچہ میں رات کے پچھلے حصے میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا۔ امید ہے کہ خدا تعالی ٰ صحت بخشے گا۔ اگر تپ میں قے آوے تو ہوا سے پرہیز رکھیں اورمناسب ہے کہ چار تولہ کسٹرآئیل سے بلا توقف جلاب لے لیں اور بعد اس کے کو نین تین یا چار ررتی معہ فور بقدر پائے اور بواپسی ڈاک اپنے حالات سے اطلاع دیں۔ باقی سب طرح سے خیریت ہے اور کونین کے بعد دودھ پی لیا کریں۔ سب کو ان کی طرف سے السلام علیکم۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
بسم اللہ الر حمن الرحمن۔ نحمد ہ و نصلی
۳/۶۶ ۳؍ اگست ۹۹ء
محبی اخویم میاں محمد شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں مناسب دیکھتا ہو ں کہ دو تین روز کے لئے آپ ہمیں مل جائیں۔ چند دفعہ مجھے خبر ملی کہ آپ آنے والے ہیں لیکن پھر آپ نہیں آئے۔ آپ کی والدہ صاحبہ اور لڑکے دونوں منتظر ہیں۔ ضرور اس خط کو دیکھ کر دو تین روز کے لئے آجائیں۔ زیادہ خیریت ۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۴/۶۷ بسم اللہ الرحمن الر حیم۔ نحمدہ و نصلی
میرے نزدیک عائشہ ؎کا جانا مناسب نہیں ہے وہ اس جگہ خدمت سے ثواب حاصل کرتی ہے اور ہمیں اس کی رعائت میں کسی طرح فرق نہیں ہے۔ اس کو خود لکھ دو کہ جو کچھ اس کو کپڑا وغیرہ کی نسبت حاجت ہوا کرے۔ وہ بلا توقف کہہ دے ہم سب کچھ اس کے لئے مہیا کر دیں گے۔ مگر شر م نہ کرے اور دوسرے یہ امر ہے کہ شریعت اسلام میں اس امر کی ممانعت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ جو عور تیں بیوہ ہو جائیں ایام عدت کے بعد ان کا نکاح کرایا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی لڑکیوں کا نکاح ثانی کرایا ہے۔ اس صورت میں اگر آپ کا منشاء ہو تو اس صورت میں ہماری کوشش سے بامراد یہ مطلب ہو سکتا ہے لڑکی جوان اور نیک بخت ہے۔ اس کے لئے ایسا آدمی تلاش ہو سکتا ہے جو عبدالکریم صاحب کا قائم مقام ہو اور دنیا کی حالت بھی آسودہ اور عزت کے ساتھ رکھتا ہو میرے نزدیک یہ انتظام بھی ہے اور انشاء اللہ جیسا کہ اس جگہ بخیر و خوبی یہ امر حاصل ہو سکتا ہے اور ایسے آدمی کی تلاش ہو سکتی ہے۔ دوسری جگہ نہیں ہو سکتی۔ یہ ضروری ہے کہ اپنی تکالیف کپڑا وغیرہ کی بابت کہہ دیا کرے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۵/۶۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ مع عائشہ بمجر د دیکھتے اس خط کے آجائو۔ باقی حالات زبانی کہے جائیں گے۔ والسلام۔ مرزا غلام احمد۔۲۸؍اگست ۱۹۰۰ء
حضرت اقدس نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے جب تحریک کی تو اس وقت منشی شادی خاں صاحب نے اس گھر کا آثاثہ فروخت کر کے حضور کی خدمت میں بھیج دیا۔ جس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے یہ خط لکھا۔
۶/۶۹ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آج نصف قطعہ نوٹ یکصد روپیہ مرسلہ آپ کا مجھ کو پہنچا آپ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں بڑی بہادری دکھلائی ہے۔ اگر کوئی نواب ایک لاکھ روپیہ بھی دے تب بھی وہ ااس ثواب کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اپنی طاقت سے بہت بڑھ کر کام کیا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر بخشے اور آپ کی والدہ معظمہ کو تمام ثوابوں میں داخل کرے آمین ثم آمین۔
والسلام
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۷؍ جون ۱۹۰۰ء
اس کے بعد منشی صاحب مرحوم نے گھر کی چارپائیاں تک بھی فروخت کر دیں اور پھر مزید ۱۱۰ روپے پیش کئے جس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔
۷/۷۰ بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبی اخویم میاں شادی خاں صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے جو علاوہ پہلے چندہ مبلغ وہ سو روپیہ کے ایک سو دس اور چندہ دیا ہے۔ یہ کام آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اورآخرت میں اجر بخشے آمین اس قدر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال عزیز خرچ کرنا جو ہزار محنت اور شفقت سے جمع کیا جاتا ہے صاف دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ او رآخرت کو ہر ایک امر پر مقدم رکھتے ہیں۔ جزاکم اللہ خیر الجزا
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۸؍ جولائی ۱۹۰۰ء
۱۹۰۰ء میں منشی صاحب مرحوم نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھا جو درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الحمد اللہ الذی ھو رحمۃ للعالمین۔ امابعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قادیان میں دوکان نکالنے کے واسطے میں نے سفر اختیار کیا کہ اگر برادرم اللہ دت صاحب بطریق سابق روپیہ منافع پر دے دیںتو دوکان کی جائے مگر اتفاقاً انہوں نے چھترے خریدے ہوئے تھے پھر میں سیالکوٹ گیا۔ وہاں بعض نے ہمدردی دکھائی اور کہا ملازمت چاہو تو مل سکتی ہے۔ ورنہ دوکان کرو تو روپیہ منافع پر مل جائے گا یا شراکت کرو ہم شریک بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر میں اب شراکت سے پرہیز ہوں۔ البتہ منافع پر لے لوں گا یا ملازمت کر لوں گا میرے پاس سندات موجود ہیں اب حضور اجازت فرمائیں تو میں اپنا عیال سیالکوٹ لے جائوں او ردعا کریں کہ رب العالمین دین و عقبی نیک کرے۔ لیس کمثلہ شئی ً وھو السمیع العلیم۔ لاالہ الا ھو الرحمن الرحیم آمین اگرچہ میں عاصی پر تقصیر ہوں۔ مگر امید وار ہوں کہ اللہ کریم رحیم رب العالمین آپ کی طفیل آپ کے جلس کو دنیا و آخرت میں خوار نہیں فرمائے گا۔ مجھے حضور علیہ السلام کی جدائی کا سخت رنج رہے گا جب تک پھر نہ میں آئوں گا۔ مگر جدائی میں اپنے غریب مرید کو مخص للہ یاد فرماتے رہنا اور اپنی دعائوں میں شامل کرتے رہنا عاجزانہ عرض ہے۔
والسلام
فدوی محمد شادی خان
کمترین مریداں۔
مورخہ ۴؍ اگست ۱۹۰۶ء
منشی صاحب مرحوم کے مندرجہ بالا جواب میں حضور علیہ السلام نے انہی کے رقعہ کی پشت پر مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے۔
۸/۷۱
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ بات تو میرے نزدیک بہت مناسب ہے کہ کوئی کام کیا جائے۔ بغیر کام کے عیال والے کے اخراجات چل نہیں سکتے۔ اسی غرض سے میں نے کہا تھا کہ عطاری ہے کوئی موٹا کام جس کی ہر ایک کو حاجت ہوتی ہے شروع کیا جائے۔ سو اگر قادیان میں اس کا کوئی انتظام نہیں بنتا تو اجازت ہے سیالکوٹ میں چلے جائیں۔ شائد اللہ تعالیٰ وہاں کوئی تجویز بنا دے۔ دل کی نزدیکی چاہئے اگر بعد مکانی ہو تو کیا مضائقہ ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
حضرت مولوی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ کے نام

مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5 حاشیہ
۱؎ نواب صاحب نے اس واقعہ کواپنی نوٹ بک میںدرج کیا تھا اور محمد حسین صاحب وزیر پٹیالہ کو بھی میرے سامنے اپنی کتاب دکھائی تھی۔ وزیر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگ اور لدھیانہ کے کئی آدمی اس واقعہ کی گواہ ہیں۔
؎۱۔نبی اسرایئل کے چار سو بنی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی۔ دیکھو سلاطین اوّل باب ۲۲آیت ۱۹ ۔مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں۔الہام نے پیش از وقوع لڑکا پیدا ہونا ظاہر کیا کہ انسان کے احتیار سے باہر تھا۔سولڑکا پیداہوگیا۔اورالہام نے اس لڑکے کی ذاتی فضیلتیں توبیان کیں۔مگر کہیں نہیں بتلایاکہ وہ ضرور بڑی عمر پاوے گا۔بلکہ یہ بتلایا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہونگے دیکھو اشتہار۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء ہاں الہام نے پیش ازوفاتِ بشیر یہ بھی کھول دیا کہ ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا۔جس کا نام محمود ہے۔دیکھواشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء سواگر ابتدا ء میں دولڑکوں کوا یک لڑکا سمجھا گیا ۔توحقیقت میں یہ کچھ غلطی نہیں کیونکہ اس غلطی کو پہلے لڑکے کی موجودگی میں ہی الہام نے رفع کردیا۔
؎۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم جانتے ہو کہ حکماء کا رجوع کرنا اور ہمارے ساتھ ہونا غلط نہیں ہے۔ ایک تو حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب ہیں جو ان سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر ہی ہیں۔
اور ایسا ہی مولانا حضرت سید محمد احسن ہیں جنہوں نے رسالہ اعلام الناس چھپوا کر ہمارے دعوے کی تصدیق میں بھیجا ہے حالانکہ ان کی اور ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی اور یہ کیسا عجیب رسالہ کہ اس میں ہمارا مافی الضمیر دیا ہے اور اس میں ہمارا اور مولوی صاحب کا فوارد ہو گیا ہے اور وہ ایک اور مولوی بھی لئے تھے جو مجھے اس وقت یاد نہیں میںسید
؎ ۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خادمہ جو دادی کے نام سے مشہور تھیں۔ مرتب
؎۔ بیوہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم
؎۔ حضور کے اصل خط میں یہ الفاظ اسی طرح ہی لکھے ہوئے ہیں۔
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آفتاب جن کے درمیان کچھ تھوڑا سا فاصلہ تھا مغرب کی طرف سے چڑھے اور نصف النہار تک پہنچتے ہیں۔سو جب حضور نے اس خواب کی یہ تعبیر کی تو اس میں ’’اکابر دین جن سے فائدہ دین کا پہنچنے‘‘ کے الفاظ سے میں اس وقت یہ بات سمجھا کہ ایک آفتاب تو خود حضور میں اور دوسرے آفتاب کے لئے متبظر تھا۔ جب حضور نے ہوشیار پور سے پسر موعود کا اشتہار دیا تو اس وقت مجھ کو بہت خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ دوسرا آفتاب یہی ہے او راس کو بخوبی دیکھو گا۔ سو الحمداللہ کہ میں نے یہ دوسرا آفتاب بھی دیکھ لیا۔ جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ ثانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ ۱۲
؎۔ جس اشتہار کا اس خط میں ذکر ہے۔ یہ وہ اشتہار ہے جو سرمہ چشم آریہ۔ وشحنہ حق و آئینہ کمالات اسلام و برکات الدعا کے اخیر میں بھی لگا کر شائع کیا گیا تھااور جس کے ایک صفحہ پر اردو مضمون متعلق براہین احمدیہ ودعوے ماموریت و مجددیت ہے او ردوسرے صفحہ پر اسی اردو مضمون کا انگریزی میں ترجمہ ہے اور جس خط کا ا س میں ذکر ہے یہ وہ خط ہے جو اشتہار مذکورہ کے ساتھ حضور نے مختلف مذاہب کے لیڈروں او رپیشواؤں کے نام رجسڑڈ کرا کر بھیجا تھا او رجس میں دو ہزار چار سو روپیہ ایک سال کے لئے بغرض نشان دیکھنے کے لئے یہاں آکر رہنے والے غیر مذہب کے ممتاز لوگوں کو دینے کا ذکر ہے۔
؎۔ مصنف عصادے موے۔
؎۔یہاں پر ’’بیمار ‘‘ کالفظ اصل خط میں ہی رہ گیا ہے۔ اس لئے یہاں جگہ خالی چھوڑی گئی ہے۔ ۲۔بشیر اوّل۔
؎۔مولوی صاحب کا نکاح ثانی ۱۲۔
؎۔ مولوی عبدا للہ صاحب کا نکاح ثانی ۱۲۔
؎۔ چار ہزار روپیہ والا اشتہار جو ا تہم کے متعلق شائع فرمایا تھا ۱۲۔
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جن الفاظ کے طرف حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مجھے اپنا نام ’’عبداللہ ‘‘لکھتے ہوئے اپنی حالت پر نظر کر کے شرم آئی اور میں نے اپنے خیال میں نظر کر کے خط کے نیچے اپنا نام بجائے عبداللہ لکھنے کے ’’عبدالشیطان ‘‘لکھ دیا جن پر حضور نے ہدایت فرمائی۔ ۱۲
؎۔ مولوی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میاں غلام قادر میرے رشتہ کے بھائی تھے۔ انہیں مرض سل ہوگئی ھؤتھی اور بہت دبلے ہو گئے تھے۔ جس پر بغرض علاج از حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ میں انہیں یہاں لے آیا تھا۔ حضرت اقدس نے بھی ان کے لئے ایک نسخہ تجویز فرمایا تھا۔ مگر وہ جانبر نہ ہوئے او رواپس سنور پہنچ کر وفات پا گئے۔
؎۔سیٹھ عبدا لرحمن صاحب مدراسی۔ ۱۲
؎۔اس خط میں تین جگہ پر کچھ عبادت کٹی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس اصل خط کا اتنا حصہ جدا ہو کر کہیں ضائع ہو گیا ہوا ہے۔ ان کٹی ہوئی سطروں سے پہلی اور اور پھٹی ہوئی سطر کی کٹی ہوئی عبادت کے متعلق اندازہ سے بھی کچھ نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ دوسری سطر کے کٹے ہوئے حصہ کا مفہوم جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے بتایا۔ یہ تھا کہ ’’دراز کرے اس کانام برکت اللہ ‘‘تیسری جگہ کے اس حصہ کامفہوم مولوی صاحب نے بتایا کہ ’’اس کا عقیقہ کیا۔‘‘ اور چوتھی کا’’ ترو کے بجائے ایک ایک رکابی کے نے اور پانچویں کا ’’خوش ہوئے خدا تعالیٰ۔‘‘
؎۔مولوی عبداللہ صاحب کے ماموں زاد بھائی تھے۔۱۲۔
؎۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر رحمۃا للہ کوا پنے فضل سے صحت و عافیت بخشی۔ الحمد للہ علیٰ ذلک ۱۲۔
؎۔ان دو شعروں میں کاغذ کے بوسیدہ ہو کر پھٹ جانے کے سبب پہلے دو لفظ معلوم نہ تھے۔منشی احمد ظفر صاحب نے نقل کے وقت سیاق و سباق کے مطابق یہ الفاظ لکھ دئیے ہیں۔
؎۔ اگر لفظ سیاق میں جس کے معنے روانگی ہیں۔ شاید جائز ہو تو سیاقت ہے۔ ورنہ لیاقت۔
(ظفر احمد)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم

مکتوبات احمدیہ
(جلد ہفتم حصہ اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکتوبات بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب،
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی و محترم محمد ابراہیم خاں صاحب (سندھ)
و دیگر اصحاب
مرتبہ
ملک صلاح الدین ایم۔ اے قادیان
مُؤلف
اصحاب احمد جلد اوّل و دوم و مکتوبات احمد جلد اوّل و دوم
بار اوّل تعداد پانچصد قیمت
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
وَعَلٰی عَبْدہٗ اَلمسیح الموعود مع السَّلیم
پیش لفظ
لِلّٰہِ الحمد والمنۃ کہ حضرت مسیح موعود علیہ وعلیٰ مطاعہٖ الصلوٰۃ والسلام کے ۱۸۹۲ء سے ۱۹۰۸ء تک کے اکاون مکتوبات کی تالیف کی توفیق پا رہا ہوں کہ جن میں سے نہ صرف چونتالیس خطوط ہی بلکہ بعض میں مندرجہ وحی پہلی بار خاکسار ہی کے ذریعہ شائع ہوئی۔ اس وحی کے علاوہ جو کہ سلسلہ کے دیگر لٹریچر میں نہیں آئی تھی مطبوعہ وحی میں سے ایک حصہ کی غیر مطبوعہ تفصیل بھی ان سے حاصل ہوئی ہے چونکہ امتداد زمانہ سے مکتوبات دریدہ یا ان کی تحریر کے نقوش مدہم ہوتے جا رہے ہیں اس لئے سولہ عدد خطوط کے بلاک اور تئیس عدد خطوط کے چربے بھی شائع کرتا ہوں۔ ان میں چھ ایسے خطوط کے بلاک اور چربے بھی شامل ہیں جو قبل ازیں مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں اور ایک نواب صاحب کے نام کا خط ہونے کی وجہ سے الحکم سے نقل کیا ہے کیونکہ وہ مکتوبات احمدیہ میں اب تک شائع نہ ہوا تھا۔
حضور کے مکتوبات مسائل تصوف، مواعیظ و حکم، الہامات و کشوف، تاریخ سلسلہ اور آپ کے اسوہ حسنہ کا ایک لاثانی ذخیرہ ہے اور وحی اور تاریخ کا ایک کثیر حصہ صرف انہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے محفوظ کرنے کا سہرا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی موسس و ایڈیٹر الحکم کے سر ہے۔ آپ نے حضور کے عصر سعادت سے ہی اس طرف پوری توجہ کی اور سلسلہ کے اوّلین اخبار الحکم کے ذریعہ اِن خطوط کو نیز حضور کے ملفوظات، الہامات اور تاریخ سلسلہ کو اور بعد ازاں مکتوبات احمدیہ کی شکل میں مرتب کر کیان خطوط کو شائع کرنے کی توفیق پائی۔ ایسے مفید امور کی سرانجام دہی کی بناء پر ہی الحکم حضور کی طرف سے اپنے دو بازؤں میں سے ایک قرار پایا تھا۔ مکتوبات احمدیہ کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے خاکسار نے حضرت عرفانی صاحب سے اس سلسلہ کی ایک جلد اسی نام سے شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی آپ چونکہ بصد شوق اس کام کی تکمیل کے متمنی ہیں۔ آپ نے ازراہ کرم اجازت عنایت فرما دی ہے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرۃ۔ میری نیت صرف یہ ہے کہ انقلاب کے ہاتھوں ایک کثیر حصہ غیر مطبوعہ خطوط وغیرہ کا ضائع ہو چکا ہے جو ابھی تک بچا ہوا ہے اسے طبع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا جائے کیونکہ نہ معلوم وہ کب تک اصلی شکل میں محفوظ رہ سکے گا۔ بسا اوقات خود احباب یا ان کی اولاد کی پوری توجہ نہیں رہتی اور ایسی انمول چیزیں ہمیشہ کیلئے ضائع ہو جاتی ہیں۔ احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کو پوری سرگرمی، محنت و توجہ سے سرانجام دینے کی توفیق عطا کرے اور اس کے لئے اسباب مہیا فرمائے اور اس کام کو میرے لئے باعث برکت اور ذریعہ اجر و ذُخر بنائے۔ آمین
میں شروع سے اس خیال سے بے نیاز ہو کر تصنیف کا کام کر رہا ہوں کہ دوست خرید کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا نہیں۔ اصحاب احمد جلد دوم اور مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل قریباً نو ہزار روپیہ کے صرف کثیر سے خاکسار نے شائع کیا لیکن پانچ چھ صد روپیہ سے زیادہ قیمت کی وہ فروخت نہیں ہوئیں۔ اندریں حالات جب کہ پہلے ہی قرض خواہوں کے مطالبات جان لیوا ثابت ہو رہے ہوں کسی کتاب کا شائع کرنا تو کجا اس کی تالیف کاخیال بھی دماغ میں نہیں سمانا چاہئے۔ لیکن خاکسار نے نہ صرف یہی کتاب تیار کی ہے بلکہ صحابیات جلد اوّل، مکتوباب اصحاب احمد جلد دوم، اصحاب احمد جلد سوم اور بعض اور مفید کتب تیار کی ہیں جن کی قریب کے عرصہ میں ہی تکمیل ہو جائے گی اور جب بھی کسی صاحب وسعت کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی شائع ہو جائیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ خاکسار نے قریباً تین صد روپیہ کے اخراجات سے یہ بلاک اور چربے وغیرہ تیار کئے ہیں چونکہ بیک وقت ایک ہی جلد میں سارے خطوط شائع ہونے سے کتاب بہت ضخیم ہو جائے گی اس لئے صرف ایک حصہ ابھی شائع کیا جا رہا ہے۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حصہ دوم کے طور پر بقیہ مواد شائع کر دیا جائے گا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اخویم محترم مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل یادگیر (دکن) کے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ وہ اس تالیف کی اشاعت کا انتظام فرمائیں۔ آپ شروع سے میری ہر تالیف کے للہ اور پوری سرگرمی سے تعاونوا علی البر والتقوی والی سیرت کو اختیار کرکے پوری معاونت فرماتے رہے ہیں چنانچہ آپ کی تحریک سے اخویم محترم نے بصرف کثیر اس کتاب کو شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کو قبول فرمائے اور جس طرح انہوں نے ان مکتوبات کے خفوظ کرنے کی سعی فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ان کے دین و دنیا کی حفاظت کرے اور ان کو حسنات دارین سے متمتع فرمائے۔آمین
بلاک خاکسار نے نہایت محنت سے اور بار ہا اس کا مقابلہ کر کے اور اصلاح کرا کے تیار کرائے ہیں۔ قارئین کرام کے یہ امر مدنظر رہے کہ بلاک اور چربوں میں نقل پوری مطابق اصل نہیں ہوتی۔ چربوں میں اگر تاریخ خطوط کے مطابق نہ ہو تو خطوط کی تاریخ کو صحیح سمجھا جائے اس لئے کہ چربہ سے حروف اُڑنے کا بہت امکان ہوتا ہے۔ جو خطوط اصحاب احمد جلد دوم سے یہاں درج کئے گئے ہیں ان کی بھی دوبارہ تصحیح کی گئی ہے اس لئے اختلاف کی صورت میں مجموعہ ہذا قابلِ ترجیح ہے۔
والسلام
خاکسار
ملک صلاح الدین
دارالمسیح قادیان
بتاریخ ۱۰؍ صلع ۱۳۳۳ہش مطابق ۱۰؍ جنوری ۱۹۵۴ء





حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام
تعارفی نوٹ
ذیل کے خطوط حضرت نواب محمدعلی خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ کے نام ہیں۔ آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں آٹھویں نمبر پر کیا ہے اور تفصیل سے حالات درج کر کے آپ کے اخلاص کی تعریف کی ہی ہے۔ آپ کی بیعت ۱۹؍ نومبر ۱۸۹۰ء کی ہے۔ آپ ان خوش قسمت صحابہ کرام میں سے ہیں کہ جن کا نام ۳۱۳ صحابہ میں نہ صرف ایک بار کمالات اسلام میں آیا بلکہ دوسری بار ضمیمہ انجام آتھم میں بھی درج ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الحمید بیگم صاحبہ کو حضور نے اپنی بیٹی بنایا بالآخر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے عقد کر کے آپ کو اپنی فرزندی میں لیا۔ بعد میں آپ کے صاحبزادہ حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب بھی حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے عقد ہونے پر حضور کی فرزندی میں آ گئے اس طرح یہ خاندان حضرت عثمانؓ ذوالنورین کا مماثل ہو گیا۔ نواب صاحب کی اولاد میں سے کئی صاحبزادیاں حضور کے خاندان میںبیاہی جا کر ’’خواتین مبارکہ‘‘ میں شمار ہو چکی ہیں اور آپ کی اولاد میں سے کئی صاحبزادگان کی حضور کے خاندان میںشادیاں ہوئی ہیں۔ آپ کی ایک صاحبزادی حضور کے مبشر بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے عقد میں آئیں۔ نواب صاحب دسمبر ۱۹۰۱ء میںہجرت کر کے قادیان چلے آئے او رعرصہ دراز تک سلسلہ کی مختلف رنگ میںقابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کو حضور نے تحریر فرمایا کہ:۔
’’میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کو ان مخلصین میں سے سمجھتا ہوں جو صرف چھ سات آدمی ہیں‘‘۔
نیز یہ بھی تحریر فرمایا کہ
’’میں آپ سے ایسی محبت رکھتاہوں جیسا کہ اپنے فرزندِ عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتاہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے‘‘۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ’’حجۃ اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا۔ آپ ۱۰؍ فروری ۱۹۴۵ء کو فوت ہوئے اور اب بہشتی مقبرہ میں آرام فرماتے ہیں۔
آپکے نام حضور کے باسٹھ خطوط حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں اور ایک جلد پنجم نمبر پنجم میں شائع فرمائے تھے اس لئے یہاں ۶۴ سے نمبر شروع کیا گیا ہے۔ ۲۴؍۱ وغیرہ میں اوپر کے نمبر کتاب ہذا کے تربیتی نمبر اور نچلے نمبر مکتوب الٰہیہ کے نام تربیتی نمبر نمبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ میںحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بے حد ممنون ہوںجنہوں نے ازراہِ کرم مجھے ان مکتوبات کے بلاک اور چربے بنوانے کا موقعہ عنایت فرمایا اور بعض کی نقول دکھائیں۔ فجزاھا اللّٰہ احسن الجزاء







بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱
۶۴
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
کل عنایت نامہ پہنچ کر اس کے پڑھنے سے جس قدر دل کو صدمہ پہنچا اللہ تعالیٰ جانتاہے لیکن پھرخدا تعالیٰ کی یہ آیت یاد آئی کہ لاتیئسوُا مَنْ رَّوح اللّٰہ اِنَّہُ لایئیسُ مَنْ رَّوْح اللّٰہ اِلاَّ القوم الکفرون۔ یعنی خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو کہ نومید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔ میںجانتا ہوں کہ یہ دن تمام دنیا کے لئے ابتلاء کے ہیں۔ آسمان پر بارش کا نشان نہیں اس لئے زمینداروں کی حالت زوال کے قریب ہو رہی ہے اور ایک ایسے رئیس جن کی تمام جمیعت زمینداری آمدنی پر موقوف ہے وہ بھی سخت خطرہ میں ہیں لیکن پھر بھی یہ فقرہ بہت مضبوط ہے خداداری چہ غم داری۔ ہمت مردانہ رکھنا چاہئے۔ بڑے بڑے بادشاہ ہیں جو اسلامی بادشاہ ہوئے ہیں کبھی سخت سرگردانی میں پڑے اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسری حالت سے پہلی اچھی ہوگئی۔ میں آپ کے لئے انشاء اللہ القدیر اس قدر دعا کرنا چاہتا ہوں جب تک صریح اور صاف لفظوں میں خوشخبری پاؤں۔ آپ تسلی رکھیں اور میرے نزدیک آپ کو قادیان میں آنے سے کوئی بھی روک نہیں ہرگز مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کمشنر صاحب کو پوچھیں اور اُن سے اجازت چاہیں۔ اس میں خود شک پیدا ہوتا ہے۔ بعض حکاّم شکی مزاج ہوتے ہیں پوچھنے سے خواہ مخواہ شک میں پڑتے ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے حکام کو…۱؎ کوئی خطرناک بدظنی نہیں ہے۔ ہماری جماعت کے ملازمین کو برابر ترقیاں مل رہی ہیں۔ ان کی کارروائیوںپر حکام خوشی ظاہر کرتے ہیں۔سو یہ ایک وہم ہوگا اگر ایسا خیال کیا جائے کہ حکاّم بدظن ہیں۔ اس لئے بلا تامل تشریف لے آویں میرے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں۔ ہم سچے دل سے گورنمنٹ کے خیر خواہ ہیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار۔مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۸۹۲ء
۱؎ اس جگہ ورق مکتوب اُڑا ہوا ہے کچھ حصہ جو نظر آتا ہے اس سے یہاں لفظ ’’طرف‘‘ یا ’’طرف سے‘‘ معلوم ہوتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲
۶۵ ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۳ء
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپکے دو عنایت نامے پہنچے یہ عاجز بباعث شدت کم فرصتی و علالت طبع جواب نہیں لکھ سکا اور نیز یہ بھی انتظار رہا کہ کوئی بشارت کھلے کھلے طور پر پا لینے سے خط لکھوں چنانچہ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہو سکتا ہے توجہ کی گئی اور بہت سا حصہ وقت کا اسی کام کے لئے لگایا سو ان درمیانی امور کے بارے میں اخویم مرزا خدا بخش صاحب اطلاع دیتے رہے ہوں گے اور آخر بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا وہ یہ تھا اِنَّ اللّٰہ عَلی کُل شئی قَدیْر۔ قل قوموا لِلّٰہ فانتین یعنی اللہ جلشانہٗ ہر یک چیز پر قادر ہے کوئی بات اس کے آگے اَن ہونی نہیں انہیں کہہ دو…… جائیں اور یہ الہام ابھی ہوا ہے اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادہ الٰہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدر ہے لیکن وہ اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزام صوم و صلوٰۃ و تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں۔ بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں مجھے تو اس بات کے معلوم کرنے سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں آپ کی کامیابیوں کے لئے کچھ نیم رضا سمجھی جاتی ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہو گیاہے کہ اس قسم کے الہامات اس شخص کے حق میں ہوتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ ارادۂ خیر فرماتا ہے۔ اس عالم سفلی میں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی معزز عہدہ کا خواہاں ہو…… وقت اس کو اس طور… دے کہ تم امتحان دو ہم تمہارا کام کر دیں گے۔ سو خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کے دوسرے اقارب میں ایک صریح امتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور چونکہ آپ کی طبیعت بفضلہ تعالیٰ نیک کاموں کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اس لئے یہی امید کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مولیٰ کریم کو خوش کریں گے۔ میں نے مرزا خدا بخش صاحب کو رمضان کے دنوں تک اس لئے ٹھہرا لیا ہے کہ تا پھر بھی ان مبارک دنوں میں وقتاً فوقتاً آپ کے لئے دعائیں کی جائیں۔ مجھے ایسا الہام کسی امر کی نسبت ہو تو میں ہمیشہ سمجھتا ہوں کہ وہ ہونے والا ہے۔ اللہ جل شانہ طاقت سے زیادہ کسی پر بار نہیں ڈالتا بلکہ رحم کے طور پر تخفیف کرتا ہے اور ہنوز انسان پورے طور پر اپنے تئیں درست نہیں کرتا کہ اس کی رحمت سبقت کر جاتی ہے گویا نیک بندوںکے لئے یہ بھی ایک امتحان ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ جل شانہ بے نیاز ہے نہ کسی کی اس کو حاجت ہے اور نہ کسی کی بہتری کی اس کو ضرورت ہے اس لئے جب…… فرماتا ہے کہ کسی بندہ پر فیضان نعمت کرے تو ایسے وسائل پیدا کردیتا ہے جس کی رُو سے اس نعمت کے پانے کے لئے اس بندہ میں استحقاق پیدا ہو جائے تب وہ بندہ خدا تعالیٰ کی نظر میںجوہر قابل ٹھہر کر مورد رحم بننے کیلئے لیاقت پیدا کر لیتا ہے سو اس خیال سے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کیونکر باوجود اپنی کمزوریوں کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ بجا لاسکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کو راضی کر سکیں اورہرگزخیال نہیں کرنا چاہئے کہایسی شرط تعلیق بالمحال ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جن کیلئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے آپ توفیق دے دیتا ہے۔ مثل مشہور ہے ہمت مرداں مدد خدا سو نیک کاموں کیلئے بدل وجان جہاں تک طاقت ہے متوجہ ہوناچاہئے۔ خداتعالیٰ کو ہر ایک چیز اور ہر ایک حال اور ہر ایک شخص پر مقدم رکھ کر نماز باجماعت پڑھنی چاہئے کہ قرآن کریم میںبھی جماعت کی تاکید ہے۔ اگر نانفراد نماز پڑھنا کافی ہوتا تو اللہ جلشانہٗ یہ دعا سکھلاتا کہ اھدنا الصراط المستیم بلکہ یہ سکھاتا اھدنی الصراط المستقیم اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ کونوا مع الصادقین… مع الراکعین اور واعتصموا بحبل اللّٰہ جمعیا ان تمام آیات میں جماعت…… سو اللہ جلشانہٗ کے احکام میں کسی سے شرم نہیںکرنا چاہئے۔ تقویٰ کے یہ معنی ہیں کہ اس …… قائم ہو جائے کہ پھر اس کے مقابل پر کوئی ناموس یا ہتک یاعار یا خوفِ خلق یا کسی کے لعن و طعن کی کچھ حقیقت نہ رکھے۔ ایمان تقویٰ کے ساتھ زندہ ہوتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا کسی دوسری چیز کو یا کسی دوسرے خیال کو کچھ حقیقت سمجھتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے وہ تقویٰ کے شعار سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے۔ ہمارے لئے کامل خدا بس ہے۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ از مرتب: مجھے اس کی نقل دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جس پر مرقوم ہے کہ اصل مکتوب جس جس جگہ دریدہ ہے وہاں نقطے ڈال دئے گئے ہیں۔ اس الہام کوخاکسار ہی کو پہلی بار شائع کرنے کی توفیق ملی ہے اس سے قبل لٹریچر میں موجود نہ تھا فالحمدللّٰہ ذٰلک الہام کے بعد جو حصہ مکتوب کا دریدہ ہے وہ الہام کے ترجمہ کا ہی حصہ معلوم ہوتا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳
۶۶
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ اس وقت صرف ایک اشتہار دو ہزار روپیہ جو شائع کیاگیاہے آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور دوسرے امور میںپھر کبھی انشاء اللہ القدیر مفصل خط لکھوں گا۔ حاجی سیٹھ عبدالرحمن نے تار کے ذریعہ سے مجھ کو خبر دی کہ میں مخالف کی درخواست پر ایک ہزار روپیہ بلاتوقف دے دوں گا اور امید ہے کہ وہ دو ہزار روپیہ بھی قبول کر لیں گے۔ ورنہ یقین ہے کہ ایک ہزار روپیہ مولوی حکیم نورالدین صاحب دے دیں گے چنانچہ اس بارے میں مولوی صاحب کا خط بھی آ گیا ہے۔غرض بہرحال دو ہزار روپیہ کا ایسا بندوبست ہو گیا ہے کہ بمجردّ درخواست آتھم صاحب بلاتوقف دیاجائے گا چونکہ پیشگوئی کے دو پہلو تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے پر اپنے صریح الہام سے ظاہر کر دیا ہے کہ آتھم نے خوف کے ایام میں اسلام کی طرف رجوع کیا۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اب وہ اپنے رجوع پر قائم نہیں کیونکہ دونوں فریق کی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ عادۃ اللہ اسی طرح پر واقع ہے کہ جب کوئی خوف کے وقت میں اپنے دل میں حق کو قبول کر لے یا حق کے رُعب سے خوفناک ہو جائے تو اُس سے عذاب ٹل جاتا ہے گو وہ فرعون کی طرف خوف دور ہونے کے بعد پھر سرکشی ظاہر کرے۔ غرض خوف کے دنوں میں حق کی طرف رجوع کرنا مانع نزولِ عذاب ہے خدا تعالیٰ کئی جگہ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں قوم کا عذاب جو مقرر ہو چکا تھا ان کے خائف اور رجوع بحق ہونے کی وجہ سے ٹال دیا حالانکہ ہم جانتے تھے کہ پھر وہ امن پا کر کفر اور سرکشی کی طرف عود کریں گے۔ پھر جب کہ یہ امر ایک مسلم فریقین اور قطع نظر تسلیم فریقین کے شرط میں داخل ہے تو ایک منصف کے نزدیک اس کا تصفیہ ہونا چاہئے اور جب کہ صورت تصفیہ بجز آتھم صاحب کی قسم اور آسمانی فیصلہ کے اور کوئی نہیں تو اس طریق سے گریز کرنا حق سے گریز ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۲؍ اگست ۱۸۹۴ء
نوٹ از مرتب: دو ہزار انعام والے اشتہار کی تاریخ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء تھی بلکہ آتھم والی پیشگوئی کی میعاد ہی ۴؍ ستمبر کو ختم ہوئی تھی اس لئے یہ مکتوب ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کا ہے گو سہواً اس پر ۲۲؍ اگست کی تاریخ درج ہوئی ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴
۶۷
محبی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آں محب کا محبت نامہ پہنچا جو کچھ آپ نے اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے لکھا ہے درحقیقت مجھ کو یہی امید تھی اور میرے ظاہری الفاظ صرف اس غرض سے تھے کہ تا میں لوگوں پر یہ ثبوت پیش کروں کہ آں محب نے اپنے دلی خلوص کی وجہ سے نہایت استقامت پر ہیں۔ سو الحمدللہ کہ میں نے آپ کو ایسا ہی پایا۔ میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہاں کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھاوے اور جو ابتلا پیش آیا تھا وہ حقیقت میں بشریٰ طاقتوں کو اگر وہ سمجھنے سے قاصر ہوں معذور رکھتاہے۔ حدیبیہ کے قصہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صحابہ کو ایسا ابتلا پیش آیا کہ کادوا ان یھلکوا یعنی قریب تھا کہ اُس ابتلاء سے ہلاک ہو جائیں۔ یہی ہلاک کا لفظ جو حدیث میں آیا ہے آپ نے استعمال کیا تھا۔ گویا اس بے قراری کے وقت میں حدیث کے لفظ سے توارد ہو گیا ہے بشریٰ کمزوری ہے جو عمر فاروقؓ جیسے قوی الایمان کو بھی حدیبیہ کے ابتلا میں پیش آ گئی تھی یہاں تک کہ اُنہوں نے کہا کہ عملت لذالک اعمالا یعنی یہ کلمہ شک کا جو میرے منہ سے نکلا تو میں نے اس قصور کا تدارک صدقہ خیرات اور عبادت اور دیگر اعمال صالحہ سے کیا۔ مولوی محمد احسن صاحب ایک جامع رسالہ بنانے کی فکر میں ہیں شاید جلد شائع ہوا اور مولوی صاحب یعنی مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے ناراض نہیں آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ شاید مولوی صاحب کو بشریت سے یہ افسوس ہوا ہوگا کہ آپ اوّل درجہ کے اور خاص جماعت میں سے تھے۔ آپ کے نزدیک یہ خیال تک آنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ ہمارے غائبانہ نگاہ۱؎ میں آپ اوّل درجہ کے محبوں اور مخلصوں میں سے ہیں۔ جن کی روز بروز ترقیات کی امید ہے اور مولوی صاحب اپنے گھر کی بیماریوں کی وجہ سے بڑے ابتلا میں رہے ہیں اور ان کے گھر کے لوگ مر مر کے بچے ہیں اس لئے وہ زیادہ خط و کتابت نہیں کر سکے اور اب وہ شاید بیس روز سے سندھ کے ملک میں ہیں اور پھر غالباً بہاولپور میں جائیں گے اور اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب شاید ہفتہ عشرہ تک یہاں پر تشریف رکھتے ہیں اور اس عاجز کا نیک ظن اور دلی محبت آپ سے وہی ہے جو تھی اور امید رکھتا ہوں کہ دن بدن ترقی ہو۔ والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: آتھم کے متعلق پیشگوئی کی میعاد ۴؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ختم ہوئی۔ اس پیشگوئی پر حضرت نوابؓ صاحب کو ابتلا آیا اور حضور کی خدمت میں ۷؍ ستمبر کو ایک خط لکھا جس کا جواب حضور نے جو تحریر فرمایا۔ حضرت عرفانی صاحب کے شائع کردہ مکتوباب احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں ساتویں نمبر پر ہے جس کے جواب میں نواب صاحب نے جو کچھ لکھا پھر اس کے جواب میں حضور نے مکتوب ہذا تحریر فرمایا مکتوب نمبر۷ میں ایک ہزاری انعام والے اشتہار کے چھپ جانے کا ذکر ہے اور ابھی انوارالاسلام کی صرف تصنیف ہوئی تھی طباعت نہ ہوئی تھی اور اشتہار دو ہزاری بھی ابھی معرض وجود میں نہ آیا تھا۔ سو مکتوب زیر بحث بھی اشتہار ایک ہزاری کے شائع ہونے کی تاریخ (۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) اور اشتہار انعام دو ہزار کی تاریخ (۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) کے مابین عرصہ کا ہے۔
۱؎ یہ لفظ اصل مکتوب میں خاکسار سے پڑھا نہیں گیا اندازاً نگاہ سمجھا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵
۶۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مبلغ… ۲۵۰ مرسلہ آں محب عین وقت ضرورت مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔ باقی بفضلہ تعالیٰ سب خیریت ہے۔ ان دونوں میں جو شغل ہے اُن امور میں سے ایک یہ ہے کہ یہ عاجز یورپ اور جاپان کے لئے ایک تالیف کر رہا ہے جس میں علاوہ اسلامی تعلیم کے قرآنی تعلیم اور انجیل تعلیم کا مقابلہ کر کے دکھلایا جائے گا اور نیز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق کا مقابلہ ہوگا۔ دوسرے یہ امر ہے کہ منن الرحمن کسی قدر چھپ کر رہ گیا ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے بھی فکر کیا جاتا ہے اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سب مقاصد انجام پذیر ہو جائیں گے کہ ہر ایک قدرت اُسی کو ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۱۷؍ مارچ ۱۸۹۶ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۶
۶۹
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بقیہ دو قطعہ نوٹ سَو سَو روپیہ آج کی ڈاک میں مجھ کو پہنچ گئے۔ جزاکم اللّٰہ خیراً پہلے اس سے بذریعہ ایک خط کے آپ کی خدمت میں اطلاع دی گئی تھی کہ علاوہ حساب اس جگہ کے جو چند ہفتوں کا بابت قیمت اینٹ و اُجرت معماران واجب الادا ہے مبلغ اسی روپیہ اور بابت لکڑی کے ہمارے ذمہ نکل آئے ہیں اگر بالفعل ایک سَو روپیہ اور پہنچ جائے تو چند ہفتہ تک پھر اس کشاکش سے مخلصی رہے۔ یہ عمارت کا کام ہے ایسی ہی تکالیف ساتھ رکھتا ہے۔ میرا دل پہلے سے رکتا تھا کہ اِس کو شروع کروں مگر قضاء و قدر سے شروع ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اب اس کو انجام دیوے۔ دوسری منزل جو اصل مقصود تھی وہ بالفعل بباعث عدم سرمایہ ملتوی رہے گی آئندہ اللہ تعالیٰ جو چاہے ہوگا۔
کل۱؎ آں محب کا خدمت گار پہنچا۔ سفیر نے خود آرزو کی تھی کہ میں مالیر کوٹلہ دیکھوں۔ مجھے اس کی حقیقت پر اطلاع نہیں کہ وہ کیوں پھرتا ہے اور اس شہر بشہر کے دورہ سے اُس کی غرض کیا ہے اور میں اُس کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتا۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ قواعد ریاست سے اِدھر اُدھر نہ ہوں اور سرکاری ہدایت کے پابند رہیں۔ شاید اگر مسافروں کی طرح آ جائے تو قومیت کے لحاظ سے معمولی خاطر داری میں مضائقہ نہیں مگر جو ریاست کی طرف سے اعزاز ہوتا ہے وہ کسی صورت میں بغیر اجازت گورنمنٹ نہیں چاہئے تا خواہ نخواہ اعتراض نہ ہو اور کوئی امتحان پیش نہ آوے بلکہ قوانین کی رعایت سے معمولی اخلاق کا برتاؤ کچھ مضائقہ نہیں۔
کریماں مسافر بجاں بردر اند
کہ نام نکو شاں بعالم برند
میں اس شخص کے اصل حالات سے واقف نہیں کہ کس طبیعت اور چال چلن کا آدمی ہے۔ظاہراً ایک دنیا دار پولیٹکل مَین ہے۔ روحانیت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
والسلام
خاکسار۔غلام احمد عفی عنہ
۱۱؍ مئی ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: تاریخ یکم مئی ہے یا ۱۱؍ مئی۔ حضور بعض جگہ تاریخ کے ساتھ خط بشکل خط ڈالتے ہیں بعض جگہ نہیں اگر یہ خط سمجھا جائے تو یکم مئی ہے ورنہ ۱۱؍ مئی، ۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے مکتوب میں یہ خط حضور نے نہیں کھینچا مگر مارچ ۱۸۹۶ء کے مکتوب کی تاریخ کے ساتھ کھینچا ہے اس مکتوب سے یہ تو ظاہر ہے کہ حسین کامل سفیر ترکی کے قادیان آنے کے بعد کاہے۔ اس کی آمد کی معین تاریخ معلوم ہونے سے اس مکتوب کی تاریخ کی صحت کا علم ہو سکتا ہے۔ حضور کے ایک اشتہار سے صرف اس قدر علم ہو سکا ہے کہ اس نے قادیان سے واپسی کے بعد شیعہ اخبار ناظم الہند لاہور بابت ۱۵؍ مئی ۱۸۹۷ء میں حضور کی نسبت نامناسب باتیں شائع کی تھیں۔
۱؎ اصل مکتوب میںنیا پیرا نہیں۔ چونکہ اگلا مضمون الگ ہے اس لئے یہاں نیا پیرا شروع کر دیا گیاہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۷
۷۰
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب کے پانچ لڑکے ہو کر فوت ہوگئے ہیں اب کوئی لڑکا نہیں۔ اب دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے اس صورت میں مَیں نے خود اس بات پر زور دیاکہ مولوی صاحب تیسری شادی کر لیں چنانچہ برادری میں بھی تلاش درپیش ہے۔ مگر میاں نور محمد کہیر والے کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کی ایک ناکد خدا لڑکی ہے اور وہ بھی قریشی ہیں اور مولوی صاحب بھی قریشی ہیں اس لئے مضائقہ معلوم نہیں ہوتا کہ اگر وہ لڑکی عقل اور شکل اور دوسرے لوازم زمانہ میں اچھی ہو تو وہیں مولوی صاحب کے لئے انتظام ہو جائے۔ اپس اس غرض سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ آپ کوئی خاص عورت بھیج کر اُس لڑکی کے تمام حالات دریافت کرا دیں اور پھر مطلع فرماویں اور اگر وہ تجویز نہ ہو اور کوٹلہ میں آپ کی نظر میں کسی شریف کے گھر میں یہ تعلق پیدا ہو سکے تو یہ بھی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس صورت میں مولوی صاحب کو کوٹلہ سے ایک خاص تعلق ہو جاوے گا۔ مگر یہ کام جلدی کا ہے اس میں اب توقف مناسب نہیں۔ آپ بہت جلد اس کام میں پوری توجہ کے ساتھ کارروائی فرماویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۶؍ جون ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: مکتوب دو صفحات کا ہے۔ اس سے قبل اسی مضمون کا خط حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحب بھیروی نے حضور کے ارشاد سے تحریر کیا۔ معلوم ہوتا ہے اُنہوں نے حضور کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کیا ہوگا۔ تب حضور نے تاکید کی خاطر تفصیلاً مکتوب ہذا حکیم صاحب کے خط کی پشت پر نیز اگلے صفحہ پر تحریر فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۸
۷۱
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سردار محمد علیؓ خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
عنایت نامہ مع روبکار پہنچا۔ میرے نزدیک چونکہ آپ کے تعلقات ریاست (سے٭) ہیں۔
پس کئی مصالح کی وجہ سے ایسے موقعہ پر آپ کا وہاں ہونا ضروری ہے لہٰذا اس جگہ آنا مناسب نہیں۔ چراغوں کا مساجد اور اپنے گھروں اور کوچوں اور نشست گاہوں میں روشن کرنا اور خیرات کرنا اور جلسہ میں شامل ہو کر شکر اور دعا کرنا یہ سب امور ایک محسن گورنمنٹ کے لئے جائز ہیں۔ مگر میں چونکہ اس جگہ اپنی جماعت کی طرف سے اِس نئی جماعت کے حالات کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنے کیلئے اس موقعہ پر کوشش کرنا چاہتا ہوں اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ ایک نقل اُس جگہ کی اپنی کارروائی کی ضرور میرے پاس بھیج دیں تا اس جگہ سے جو تحریر بھیجی جائے گی موقعہ مناسب پر اُس کا تذکرہ ہو سکے گا۔ زیادہ خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۶؍ جون ۱۸۹۷ء
نوٹ از مرتب: مکتوب ہذا ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے تعلق میں ہے۔ نواب صاحب کی تحریر مالیر کوٹلہ میں اس ساٹھ سالہ جوبلی کے (جون ۱۸۹۷ء میں منائے جانے کے متعلق حضور نے اشتہار جلسہ احباب میں شائع فرما دی تھی۔


٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۹
۷۲
محبی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آں محب کی خدمت میں دو سَو روپیہ کے لئے بغرض بیباقی حساب معماران و مزدوران اور اینٹ وغیرہ کی نسبت لکھا گیا تھا۔ اب تک وہ روپیہ نہیں آیا اور روپیہ کی اشد ضرور ہے اس لئے مکلّف ہوں کہ براہ مہربانی (…) دو سو روپیہ ارسال فرمادیں تا دیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر خرچ کے بعد بھی کسی قدر حصہ نیچے کے مکان کی عمارت سے ناتمام رہ جائے گا مگر امر مجبوری ہے پھر جس وقت صورت گنجائش ہوگی کام شروع کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر ایک امر اختیار میں ہے۔
اخویم مکرمی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے لئے مجھے ابھی تک آں محب کی طرف سے کچھ تحریر نہیں آئی۔ میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب نسبت اُنہیں کی برادری میں ایک پیغام اور آیا ہے اور ایک جگہ اور ہے۔ سو آپ کو یہ بھی تکلیف دی جاتی ہے کہ اگر وہ مقام جو آپ نے سوچا ہے قابل اطمینان نہ ہو یا قابل تعریف نہ ہو یا اُس کا ہونا مشکل ہو تو آپ جلد اس سے مطلع فرما دیں تا دوسرے مقامات میں سلسلہ جنبائی کی جائے۔زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد
۲۷؍ جون ۱۸۹۷ء


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۰
۷۳
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے دو خط آں محب کی خدمت میں بہ طلب مبلغ دو سَو روپیہ بجہت ضرورت مصارف عمارت لکھتے تھے اور انتظار تھاکہ وہ روپیہ دوچار روز تک آ جائے گا لیکن … ادائے قیمت اینٹ اور مزدوری معماروں نجاروں مزدوروں کیلئے اشد ضرورت پیش آ گئی ہے۔ اس وقت چونکہ کوئی صورت روپیہ کی نہیں ہو سکتی اس لئے مکلّف ہوں کہ آہ محب کی بہت مہربانی ہوگی کہ اس خط کے دیکھنے کے ساتھ ہی مبلغ دو سَو روپیہ جہاں تک جلد ممکن ہو ارسال فرماویں تا اس تنگی اور تقاضا سے نجات ہو۔ آئندہ عمارت بند کر دی جائے گی۔
آپ کا خط متعلق جلسہ جوبلی چھپ گیا ہے۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۷؍ جولائی ۱۸۹۷ء



۱؎ اس جگہ مکتوب دریدہ ہونے کی وجہ سے ایک لفظ اُڑ گیا ہے اس کا حرف الف باقی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ ’’اب‘‘ یا’’اس وقت‘‘ ہوگا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۱
۷۴
محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
الحمدللہ جو آپ نے تجویز میموریل انگریزی کے بارے میں ارقام فرمائی تھی وہ انجام کو پہنچ گئی۔ اخویم مرزا خدا بخش صاحب لاہور میں باراں دن رہ کر ایک میموریل انگریزی میں باراں۱؎ صفحہ کا چھپوا لائے ہیں جو بفضلہ تعالیٰ نہایت مؤثر اور عمدہ معلوم ہوتا ہے اور ایک اُردو میں چھپ گیا ہے۔ اب انگریزی میموریل تقسیم ہو رہا ہے اور ارادہ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام حُکّام انگریز کو بھیجا جائے۔میری طبیعت چند روز سے بعارضہ زکام و نزلہ کھانسی بہت بیمار ہے۔ خواجہ کمال الدین صاحب اپنے کام پر چلے گئے ہیں۔ میں آپ سے یہ اجازت مانگتا ہوں کہ آپ براہ مہربانی کم سے کم ایک ماہ تک بعض متفرق کاموں کے لئے جو قادیان میں ہیں مرزا خدا بخش صاحب کو اجازت دیں تا وہ پہلے میموریل کو تقسیم کریں اور پھر بعد اس کے بقیہ کام منن الرحمن کی طرف متوجہ ہوں اگرچہ یہ کام اس قدر قلیل عرصہ میںہونا ممکن نہیں لیکن جس قدر ہو جائے غنیمت ہے۔ مگر ضروری امر ہوگا آں محب (کو٭)……… اگر مرزاصاحب کو کہیں بھیجنا منظور ہو یا کوئی اور ضروری کام نکلے تو بلاتوقف آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے۔ میری طبیعت آپ کی سعادت اور رُشد پر بہت خوش ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی تمام جماعت کے بھائیوں میں سے ایک اعلیٰ نمونہ ٹھہریں گے اس وقت میں بباعث علالت و پریشانی طبع زیادہ نہیںلکھ سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ مارچ ۱۸۹۸ء (ب)
۱؎ نقل مطابق اصل یعنی اوپر صرف ۲ کاہندسہ اصل مکتوب میںمرقوم ہے۔
٭ مکتوب میں خطوط واحدانی کا لفظ خاکسار مؤلف کی طر ف سے ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۲
۷۵
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
کچھ مضائقہ نہیں آں محب مالیر کوٹلہ سے مضمون مکمل کرنے کے بعد ارسال فرماویں اگر دہ ہفتہ تک تاخیر ہو جائے تو کیا حرج ہے اور علیحدہ پرچہ میں نے دیکھ لیا ہے نہایت عمدہ ہے بہتر ہے کہ اس کو اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا جائے کل مع الخیر علی الصباح تشریف لے جاویں اللہ تعالیٰ خیرو عافیت سے پہنچائے۔ آمین
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۴؍ جولائی ۱۸۹۸ء
نوٹ از مرتب: خاکسار کو یہ اصل مکتوب نہیں ملا۔ ایک نقل سے نقل کیا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۳
۷۶
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سردار محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آپ کی نئی شادی کے مبارک ہونے کے لئے میںنے بہت دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرماوے۔ عارضہ جذام جو اُن کے والد صاحب کو تھا یہ عارضہ درحقیقت سخت ہوتا ہے اور سخت اندیشہ کی جگہ۔ اس لئے برعایت ظاہر یہ بھی مناسب ہے کہ خون کی اصلاح کے لئے ہمیشہ توجہ رہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں ایک دوا تجویز کروں گا اس دوا کوہمیشہ استعمال کریں۔ عمر تک استعمال ہو انشاء اللہ اس سے بہت فائدہ ہوگا اور تیز چیزیں اور تیز مصالح وغیرہ اور کثرت شیرینی سے ہمیشہ پرہیز رکھیں اور آپ بھی ہمیشہ دعا کرتے رہیں۔ میں آج بیمار ہوں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔مرزا خدا بخش صاحب کا لیکا ابھی تک خطرناک حالت میں ہے۔ ظاہراً زندگی کا خاتمہ معلوم ہوتا ہے جان کندن کی سی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرماوے۔ میرے ہاتھ میں چوٹ آگئی ہے اور تپ بھی ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء
نوٹ از مرتب: اس تہنیتی مکتوب کی تاریخ ۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں سہو ہے۔ اہلیہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحب نے مرحومہ کی بہن سے شادی کی تھی۔ مرحومہ ابھی زندہ زندہ تھیں کہ ۸؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضو رنے ان سے حسن سلوک کی نواب صاحب کو تلقین فرمائی (مکتوب مندرجہ الحکم جلد۷ نمبر۳۲) اور مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں مندرجہ مکتوبات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کے بطن سے ایک بچہ کے تولد پر حضور نے ۱۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو مبارکباد کا خط تحریر فرمایا۔ (۱۹) گو ۸؍نومبر ۱۸۹۸ء کو مرحومہ کی وفات پر بھی حضور کا خط لکھنا درج ہے۔ (۲۵) لیکن یہ تاریخ درست درج نہیں ہوئی دارصل ۱۸؍نومبر ۱۸۹۸ء ہے۔ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو حضور نے نواب صاحب کو جلد تر شادی کرنے کی تاکید فرمائی۔ (مکتوب نمبر۲۴) اس لئے یہ زیر بحث تہنیتی مکتوب ۲۵؍ نومبر ۱۸۹۸ء کا ہی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۴
۷۷
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے جواب آں محب بھیجا گیا ہے جواب کا منتظر ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے مجھے آپ کے لئے خاص توجہ خدا نے پیدا کر دی ہے۔ میں دعا میں مشغول ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تمام تردّدات سے محفوظ رکھ کر کامیاب فرماوے۔ آمین۔ اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب قادیان میں تشریف رکھتے ہیں اور اپنے وطن سے بغیر بندوست مصارف عیال کے ضرورتاً امرتسر میں آگئے تھے اور پھر قادیان آئے۔ ان کی تمام عیالداری کے مصارف محض آپ کی اُس وظیفہ سے چل رہے ہیں جو آپ نے تجویز فرما رکھا ہے۔ اگرچہ ایسے امور کو لکھتے لکھتے جب آپ کی وہ مالی مشکلات یاد آ جاتی ہیں جن کے سخت حملہ نے آپ پر غلبہ کیا ہوا ہے تو گو کیسی ہی ضرورت اور ثواب کاموقعہ ہو پھر بھی قلم یکدفعہ اضطراب میں پڑ جاتی ہے لیکن بایں ہمہ جب میں دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے لئے حضرتِ احدیّت میں ایک توجہ کے ساتھ مصروف ہوں اور میں ہرگز امید نہیں رکھتا کہ یہ دعائیں خالی جائیںگی تب میں ان چھوٹے چھوٹے امور کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس قسم کے خیال قبولیتِ دعا کے لئے راہ کو صاف کرنے والے ہیں یہ تجربہ شدہ نسخہ ہے کہ مشکلات کے وقت حتی الوسع اُن درماندوں کی مدد کرنا جو مشکلات میں گرفتار ہیں دعاؤں کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے۔ مولوی سید محمد احسن صاحب گذشتہ عمر تو اپنے محنت بازو سے بسر کرتے رہے۔ اب کوئی بھی صورت معاش نہیں۔ درحقیقت عیالداری بھی ایک مصیبت ہے۔ میں ان تردّدات میں خود صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک مشکل کے وقت جب کہ مہینہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر نئے سرے ایک مہینے کیلئے دو سَو روپیہ کے آرد خشکہ اور دوسرے اخراجات کا فکر ہوتا ہے جو معمولی طور پر ۱۰۰۰ کے قریب قریب ماہوار ہوتے رہتے ہیں تو کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ کیسے آرام میں وہ لوگ ہیں جو اس فکرو غم سے آزاد ہیں اور پھر استغفار کرتا ہوںاور یقینا جانتا ہوں کہ جو کچھ مالک حقیقی نے تجویز فرمایا ہے عین صواب ہے۔ سو درحقیقت خانہ داری کے تفکرات جان کو لیتے ہیں۔ لہٰذا مکلّف ہوں کہ آپ پھر یہ ثواب حاصل کریں کہ جو کچھ وظیفہ آپ نے مولوی صاحب موصوف کا مقرر فرما رکھا ہے اس میں سے مبلغ …۲۰ ان کے نام قادیان میں بھیج دیں اور باقی اُن کے صاحبزادہ کے نام جس کا نام سید محمد اسماعیل ہے بمقام امروہہ شاہ علی سرائے روانہ فرما دیں۔ خدا تعالیٰ جزائے خیر دے گا اور میرے نام جو آں محب نے روپیہ بھیجا تھا وہ پہنچ گیا تھا۔ جزاکم اللّٰہ خیراً والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۵
۷۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آج بوقت چار بجے صبح کو میں نے ایک خواب دیکھا میں حیرت میں ہوں کہ اُس کی کیا تعبیر ہے میں نے آپ کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعیدہ امۃ الحفیظ بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں۔ یہ میرے دل میں گزرا ہے کہ دس روپیہ ہیں میں نے صرف دور سے دیکھتے ہیں تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں۔ جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں وہ نہایت تیز اور چمک دار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کر دیتی ہیں اور میں اُس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نورانی کرنیں نکلتی ہیں اورخیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں۔ اس حیرت سے آنکھ کھل گئی۔ گھڑی بگڑی ہوئی تھی ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکتا مگر غالباً چار بج گئے تھے اور پھر جلد نماز کا وقت ہو گیا۔ تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے۔ شاید اس کی یہ تعبیر ہے کہ اُن کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت درپیش ہے۔ اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا اور یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو کوئی بڑا رتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں۔ آئندہ خدا تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: حضرت نواب صاحب نے اس مکتوب کو پڑھ کر ذیل کا عریضہ لکھا اس کے جواب میں مکتوب (۲۹؍۱۶ کتاب ہذا) حضور نے تحریر فرمایا اس سے ان خطوط کی تاریخ کا اندازہ ہوتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۶
۷۹
سیدی و مولوی طبیب روحانی سلکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
رات حضور کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند تعالیٰ سے امید ہے کہ حضور کی فیض صحبت اور دعاؤں سے ہم میں خاص تبدیلی پیدا ہوگی۔ خدا کرے کہ ہم حضور کے قدموں میں نیکی اور عمدگی سے بسر کریں اور ترقیات روحانی ہم کو حاصل ہوں۔
رام محمد علی خاں
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مجھے تو رات کے خواب سے کہ ایک قسم کا کشف تھا نہایت خوشی ہوئی کہ اندازہ سے باہر ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ کل سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی دعا کے ساتھ اُن کو بھی شریک کر دوں۔ شاید خدا تعالیٰ نے یہ نمونہ اس لئے دکھایا ہے کہ میں ایک مستعد نفس کیلئے نماز میں دعا کرتا رہا ہوں۔ اصل میں دنیا اندھی ہے کسی شخص کی باطنی حالت کو معلوم نہیں کر سکتی بلکہ دنیا تو دنیا خود انسان جب تک وہ دن نہ آوے اپنی حالت سے بے خبر رہتا ہے۔ایک شہزادہ کا حال لکھا ہے کہ شراب پیتا اور سارنگی بجایا کرتا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ با خدا اس کوچہ میں سے گذرے اور قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکراللّٰہ یعنی کیا اب تک وقت نہیں آیا کہ مومنوں کے دل خدا کے لئے فروتنی کریں اور اُس سے ڈریں۔ پس جب آیت اُس شہزادہ نے سنی فی الفور سارنگی کو توڑ دیا اور خدا کے خوف سے رونا شروع کیا اور کہا کہ وقتم رسید۔ وقتم رسید اور کہتے ہیں کہ وہ آخر کار بڑے اولیاء سے ہو گیا۔ سو یہ کشف کچھ ایسی ہی خوشخبری سنا رہا ہے اس لئے کل میں نے ارادہ کیا کہ ہماری دو لڑکیاں ہیں مبارکہ اور امۃ النصیر۔ پس امۃ الحمید بیگم کو بھی اپنی لڑکی بنا لیں اور اس کے لئے نماز میں بہت دعائیں کریں تا ایک آسمانی روح خدا اُس میں پھونک دے۔ وہ لڑکیاں تو ہماری کمسن ہیں شاید ہم ان کو بڑی ہوتی دیکھیں یا عمر وفا نہ کرے۔ مگر یہ لڑکی جوان ہے ممکن ہے کہ ہم باطنی توجہ سے اس کی ترقی بچشم خود دیکھ لیں۔ پس جب کہ ہم ان کو لیکی بناتے ہیں تو پھر آپ کو چاہئے کہ……… ہماری لڑکی (کے٭) ساتھ زیادہ ہمدردی اور محبت اور وسیع اخلاق سے پیش آویں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: مکتوب ہذا و مکتوب ۷۸؍۱۵ کی تعیین تاریخ اس امر سے ہوتی ہے کہ صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ کی والادت ۲۸؍ جنوری۱۹۰۳ء اور وفات چند ماہ بعد کی ہے مکتوب سابق میں چار بجے کے بعد جلد صبح کی نماز کا وقت ہو جائے کا ذکر ہے یہ وقت اپریل مئی میں ہوتا ہے مکتوب ۷۸؍ ۱۵ کے آخر پر حضور نے تاریخ درج فرمائی ہے جو اب پوری طرح پڑھی نہیں جاتی کچھ یکم مئی ۱۹۰۳ء پڑھا جاتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۷
۸۰
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
میں نے آپ کے اس خط پڑھنے کے وقت یہ محسوس کیا ہے کہ جس قدر امراض اور اعراض لاحق ہوگئے ہیں اکثر ان کی کثرت ہموم و غموم کا نتیجہ ہے۔ عجیب دردناک آپ کا یہ خط ہے کہ جس سے دل پر لزرہ پڑتا ہے لیکن جب میں خدا تعالیٰ کے کاموں پر نظر کرتا ہوں تو اُس کی قدرتوں پر نظر کر کے دل امید سے بھر جاتاہے۔ میں آپ کے لئے دعا تو کرتا ہوں لیکن دعا کی حقیقت پر نظر کر کے جو اپنے اختیار میں نہیں ہے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک میں نے دعا نہیں کی ہے۔ سو میں نے اس خلوت کے لئے ایک مسجد البیت بنائی ہے میں امید رکھتا ہوں کہ اس مسجد البیت میں مجھے اُس خاص حالت کا موقعہ مل جائے گا کیونکہ میرا یہ مکان کھلا مکان ہے جس میں ہر طرف سے بچے عورتیں آتی رہتی ہیں
اور خلوت میسر نہیں آتی۔ سو اب میں آپ کے لئے انشاء اللہ خاص طور پر دعا کروں گا۔ آپ غموں ٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
کے سلسلہ کو حوالہ خدا کریں۔ مجھے بھی امراض دامن گیر ہیں تین اوپر کے حصہ میں اور دو نیچے کے حصہ میں۔ مگر میں امید کی قوت سے جیتا ہوں۔ اگر امید نہ ہو تو ہم ایک دم میں مر جائیں۔ سو آپ تسلی رکھیں۔ جس طرح کوئی اپنے عزیز بچوں کے لئے دعا کرتا ہے ایسا ہی آپ کے لئے کروں گا خدا تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اورغموم ہموم کے گرداب سے نجات بخشے۔ آمین کبھی کبھی چند قدم ہوا خوری بھی کر لیا کریں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب)
نوٹ از مرتب: البدر بابت ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۷۲ پر) مرقوم ہے کہ ’’بعد نماز جمعہ مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت اقدس نے تجویز فرمایا کہ چونکہ بیت الفکر میں اکثر مستورات وغیرہ اور بچے بھی آ جاتے ہیں اور دعا کا موقعہ کم ملتا ہے اس لئے ایک ایسا حجرہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جاوے جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجائش ہو اور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تا کہ اس میں کوئی اور نہ آ سکے اس طرح سے مجھے دعا کیلئے عمدہ وقت اور موقعہ مل سکے گا چنانچہ اس وقت مغربی جانب جو دریچہ ہے اس کے ساتھ حجرے کیلئے عمارت شروع ہوگئی‘‘۔
البدر بابت ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء میں (صفحہ۷۷ پر) مرقوم ہے کہ ’’۲۰ مارچ کے البدر میں جس حجرہ دعائیہ کی ہم نے خبر دی ہے اس کا نام حضرت احمد مرسل یزدانی نے مسجد البیت و بیت الدعا تجویز فرمایا ہے‘‘۔
دارالمسیح کے ایک چوبارہ کانام بیت العافیۃ ہے جو اس کے برآمدہ کی پیشانی پر مرقوم ہے۔ اس برآمدہ کی مغربی دیوار کے اندرونی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے یہ الفاظ سیاہی سے مرقوم ہیں ’’مسجد البیت ۴؍ جون ۱۹۰۷ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی‘…‘
اس وقت سن ہجری ۱۳۲۵ تھا وہی مرقوم ہوگا لیکن اب پڑھا نہیں جا سکتا۔ نیز ربیع الثانی کی تاریخ ۲۲ اور ۲۳ دونوں پڑھی جا سکتی ہیں۔ جنتری کی رو سے ۲۲ چاہئے۔ اس سوال کا کہ دونوں میں کونسی مسجد البیت اس مکتوب میں مراد ہے یہ جواب ہے کہ خاکسار مرتب کے نزدیک وہ مسجد البیت مراد ہے جسے بیت الدعا بھی کہتے ہیں۔ گو الحکم نے اپنے پرچہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء میں جہاں اس کی تکمیل کا ذکر کیا ہے اسے صرف بیت الدعا لکھا ہے۔ غالباً اس کا یہ نام مسجد البیت نام پر غالب آ کر زیادہ متعارف و شائع ہو گیا ہو۔ چنانچہ سوائے البدر کے مذکورہ بالا حوالہ کے اس کا نام مسجد البیت سلسلہ کے لٹریچر میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی ان صحابہ کرام کو اس کا علم ہے جن کو دارالمسیح میں حضور کے عصرِ سعادت میں قیام رکھنے کا موقعہ ملا نہ ہی حضور کے خاندان میں اس نام کا علم ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپریل ۱۹۵۰ء میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو اور مارچ ۱۹۵۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب دام فیضہم نے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کو خطوط لکھے ان میں بھی بیت الدعا کانام ہی آتا ہے۔
(ضمیمہ اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ۲۲ و مکتوبات اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ۵۷)
بیت الدعا بھی مسجد البیت ہے کیونکہ حضور نے اسے اسی نام سے اس مکتوب میں پکارا ہے۔ حدیث شریف میں جعلت لی الارض مسجدا آتا ہے گویا کہ ہر جگہ نماز پڑھی جا سکتی ہے خواہ بغیر جماعت کے ہو اور ایک مکفوف العین صحابیؓ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کی کہ حضور میرے گھر کے کسی حصہ میں دعا فرمائیں یا میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں سو اس کو مسجد البیت کہتے ہیں۔ بیت الدعا خلوت میںدعائیں کرنے کے لئے بنائی گئی اس لئے اسے کھلا اور وسیع نہیں بنایا گیا ورنہ اگر وہ بھی باجماعت نماز اداکرنے کیلئے استعمال میں لانی ہوتی تو کھلی بنائی جاتی۔ لیکن بیت العافیۃ والی مسجد البیت کی غرض ہی یہ تھی کہ جب حضور علالت کے باعث مسجد میں نہ جا سکیں تو وہاں مستورات اور بچوں کو ساتھ شامل کر کے با جماعت نماز ادا کر لیا کریں اس لئے اس کے واسطے کھلی نہ کہ تنگ جگہ تجویز کی گئی اور وہ کھلی جگہ یعنی برآمدہ ہے جو سارا یکساں کھلا ہے اور وہاں دعاؤں کے لئے خلوت اور یکسوئی کا کوئی موقعہ نہیں۔
سو یہ اندرونی شہادت بہت وزنی ہے حضور نے اپنے مکتوب میں مسجد البیت کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ اس میں خلوت میسر آئے گی ورنہ باقی کا مکان کھلا ہے جس میں ہر طرف سے بچے اور عورتیں آتی رہتی ہیں اورخلوت میسر نہیں آتی اور یہ بات صرف بیت الدعا پر ہی صادق آتی ہے۔ پس یہ مکتوب ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۲ء کے قریب کا ہے۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے ساری تفصیل بالا کا راقم سے ذکر کیا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
٭٭٭
۲۸ مئی ۱۹۰۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کی افتتاح کارروائی کے اختتام پر حضرت نواب صاحبؓ نے حضور کی خدمت میں ذیل کا عریضہ تحریر کیا۔ (مرتب)
۱۸
۸۱
سیدی و مولائی حبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لا سکتے گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیابتاً فرمائے ان سے روح تازہ ہوگئی اور خداوند تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی۔ جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا اور کالج کی رسم افتتاح ہوگئی۔ اطلاعاً گزارش ہے خداوند تعالیٰ حضور کو صحت عطا فرمائے۔ حضور نے …… دعا فرمائی ہوگی۔ اب بھی استدعائے دعا ہے۔
راقم محمد علی خان




جواباً حضور نے تحریر فرمایا:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رات سے مجھے دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہو سکا لیکن میں نے اسی حالت میں بیت الدعا میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی۔ غالباً آپ کا وہ وقت اور میری دعاؤں کا وقت ایک ہی ہوگا۔ خدا تعالیٰ قبول فرماوے۔ آمین ثم آمین۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(الحکم پرچہ ۳؍ جولائی ۱۹۲۴ء)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱۹
۸۲
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل کے خط کے جواب میں لکھتا ہوں کہ میں صرف چند روز کیلئے اہل و عیال کو ساتھ لے جاتا ہوں کیونکہ میں بیمار رہتا ہوں اور گھر میں بھی سلسلہ بیماری جاری ہے۔ بچے بھی بیمار ہو جاتے ہیں بار بار مجھے خط پہنچتے ہیں۔ حیران ہو جاتا ہوں اور محض اس امید پر کہ آپ یہاں تشریف رکھیں گے اور مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب یہاں ہیں میں نے ارادہ کیا ہے اور یقین ہے انشاء اللہ جلدی یہ فیصلہ ہو جائے گا اس لئے میرے نزدیک آپ کا اس جگہ ٹھہرنا مناسب ہے۔ آپ کے یہاں رہنے سے مکان میں برکت ہے امید ہے کہ آپ پسند نہیں فرمائیں گے کہ مکان ویران ہو جائے اور آنے والے مہمان خیال کریں گے کہ گویا سب لوگ اُجڑ گئے ہیں اور شماتت اعداء ہوگی ماسوا اس کے آپ اگر گورداسپور جائیں تو دو تین میل کے فاصلہ پر مجھ سے دور رہیں گے۔ ملاقات بھی تکلیف اُٹھانے کے بعد ہوگی پھر علاوہ اس کے خواہ نخواہ چھ سات روپیہ۱؎ کرایوں وغیرہ میں آپ کا خرچ آ جائے گا۔ پہلے ہی مصاف کا نتیجہ ظاہر ہے۔ اب اس قدر بوجھ اپنے سر پر ڈالنا مناسب نہیں۔ میرے خیال میں یہ سفر صرف چند روز کا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: یہ مکتوب۶؍ جولائی تا ۱۳؍ اگست ۱۹۰۴ء کے درمیانی عرصہ کا ہے تفصیلی اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۴۸۱۔۴۸۲ پر مرقوم ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۰
۸۳
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ میں برابر آپ کی ہر ایک کامیابی کیلئے نماز میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ (کو٭) مشکلات سے نجات بخشے۔ آمین۔ گھر میں میری طرف سے اور والدہ محمود احمد کی طرف سے السلام علیکم کہہ دیں۔ میں اُن کی شفا کے لئے بھی دعا کرتا رہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے۔ آمین
دوسرے ضروری امر یہ ہے کہ ایک شہادت واقعہ کے لئے آپ کو گورداسپور میں تکلیف دینے کیلئے ضرورت پڑی ہے باوجود یکہ مجھ کو علم ہے کہ آپ کا لاہور سے ایسے موقعہ پر نکلنا بہت مشکل ہے مگر تا ہم یہ ضرورت اشد ضرورت ہے۔ بجز اس شہادت کے معاملہ خطرناک ہے۔ شاید تار کے ذریعہ سے آپ کو خواجہ صاحب اطلاع دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۹؍ ستمبر ۱۹۰۴ء (ب)
۱؎ نقل مطابق اصل۔ سات کے بعد صد کا لفظ چھوٹ گیا ہے جیسا کہ فارسی اعداد ظاہر کرتے ہیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۱
۸۴
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ حال معلوم ہوا مجھ کو پہلے ان مجبوریوں کا مفصل حال معلوم نہ تھا اب معلوم ہوا اس لئے میں نے اپنے خیال کو ترک کر دیا ۔ خدا تعالیٰ جلد تر شفا بخشے آمین۔ میں نے ان دنوں میں آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور دعا کرنے کا ایسا موقعہ ملا کہ کم ایسا ملتا ہے۔ الحمدللہ۔ اسیدکہ جلد یا کسی دیر سے ان دعاؤں کا ضرور اثر ظاہر ہوجائے گا دوسرے آپ کو یہ تکلیف دیتا ہوں میں بروز پنجشنبہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء سیالکوٹ کی طرف مع اہل و عیال جاؤں گا اور شاید ایک ہفتہ تک وہاں رہوں اور شاید دو روز کیلئے کڑیانوالہ ضلع گوجرانوالہ میں جاؤں اور میرے ساتھ اہل و عیال اور چھوٹے بچے ہیں۔ آپ براہِ مہربانی ہفتہ عشرہ کے لئے مرزا خدا بخش صاحب کو میرے اس سفر میں ہمراہ کر دیں تا کہ ایک حصہ حفاظت اور کام کا ان کے سپرد کیا جائے امید ہے کہ دس دن تک بہرحال یہ سفر طے ہو جائے گا۔ اگر وہ قادیان آ جائیں اور ساتھ جائیں تو بہتر ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۲
۸۵
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ اس جگہ سب طرح سے خیریت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تمام غموم ہموم سے نجات بخشے۔ آمین۔ میری طبیعت بہ نسبت سابق اچھی ہے۔ صرف کثرت پیشاب اور دورانِ سر کی شکایت ہے اور بعض اوقات ضعف قلب ایسا ہو جاتا ہے کہ ہاتھ پیر سرد ہو کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا ان میں ایک قطرہ خون نہیں اور زندگی خطرناک معلوم ہوتی ہے۔ پھر کثرت سے دبانے سے وہ حالت جاتی رہتی ہے میں تو جانتا ہوں کہ ضرورتھا کہ ایسا ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ جو دو زرد چادروں کی نسبت بیان فرمائی گئی ہے۔ دشمن ہر طرف جوش و خروش میں ہے۔ خدا تعالیٰ دوستوں کو وہ اعتقاد بخشے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا کیا گیا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے جن کے دل صاف ہیں اور روح پاک ہیں اور ایمانی ترقی کی استعداد رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ضرور اُن کو ایمانی ترقی بخشے گا اور جو لوگ نفسانی اغراض اور دنیا پرستی سے سخت ملوث اور دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں میں ہمیشہ ان کی حالت سے ڈرتا ہوں کہ ٹھوکر نہ کھاویں اور ایمان اور سعادت سے خارج نہ ہو جاویں لیکن میں اس بات کے لکھنے سے بہت ہی خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے آپ میں ہر یک موقعہ پر دلی ہمدردی اور اخلاص نمونہ پایا۔ پس یہ نشان اس بات کا ہے کہ گو آپ کو دنیا کے تردّد کی وجہ سے ہزار ہا غم ہوں لیکن بہرحال آپ دین سے محبت رکھتے ہیں۔ یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے آخر کار ہر ایک غم سے رہائی دی جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک مجھ سے ممکن ہے آپ کے لئے دعا میںمشغول ہے۱؎۔ اور میرا ایمان ہے کہ یہ دعائیںخالی نہیں جائیں گی۔ آخر ایک معجزہ کے طور پر ظہور میں آئیں گی اور میں انشاء اللہ دعا کرنے میں سست نہیں ہونگا۔ جب تک اس قسم کا معجزہ نہ دیکھ لوں۔ پس آپ کو اپنے دل پر غم غالب نہیں کرنا چاہئے۔ ہونے ہوتا رہے۲؎ جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ مصیبت اور ابتلا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ہر حملہ کہ داری نکنی نامردی۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ صبر کے ساتھ آخری دن کا انتظار کریں گے تو انجام کار میری دعاؤں کا نمایاں اثر ضرور دیکھ لیں گے۔ باقی سب خیریت ہے۔ میری طرف سے اور والدہ محمود کی طرف سے اپنے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں اور بچوں کو پیار۔ راقم
خاکسار
مرزا غلام احمدعفی عنہ
۱؎ نقل مطابق اصل۔ مؤلف
۲؎ اصل مکتوب میں ’’ہوتار ہے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ غالباً مراد ہوگی ’’ہونے والا ہوتا رہے‘‘ ہونے کے بعد ایک لفظ کٹا ہوا بھی ہے۔
مکرر یہ کہ اپیل خدا تعالیٰ کے فضل سے منظور ہو گیا ہے اور سات سَو روپیہ جیسا کہ دستور ہے انشاء اللہ واپس مل جائے گا اس لئے میں نے کہہ دیا ہے کہ جب وہ روپیہ ملے تو وہ آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے کیونکہ مشکلات کے وقت میں آپ کو ہر طرح روپیہ کی ضرورت ہے۔
والسلام
غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مؤلف: اپیل بمقدمہ کرم الدین کا فیصلہ ۷؍ جنوری ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا تھا اس لئے اس کے بعد کا یہ مکتوب ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۳
۸۶ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۵ء
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ میں دعا میں مصروف ہوں خدا تعالیٰ جلد تر آپ کے لئے کوئی راہ کھولے دنیا کی مشکلات بھی خدا تعالیٰ کے امتحان ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو اس امتحان سے نجات دے۔ آمین۔ میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور نیز تجربہ بھی کہ آخر دعائیں قبول ہو کر کوئی مخلصی کی راہ پیدا کی جاتی ہے اور کثرت دعاؤں کے ساتھ آسمانوں پر ایک خلق جدید اسباب کا ہوتا ہے یعنی بحکم ربی نئے اسباب پیدا کئے جاتیہیں۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سچ ہے کہ ادعونی استجب لکم جو انقلاب تدبیر سے نہیں ہو سکتا وہ دعا سے ہوتا ہے باایں ہمہ دعا کے ثمرات دیکھنے کیلئے صبر درکار ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعاؤں کا آخیر نتیجہ یہ ہوا کہ باراں برس کے (بعد٭) یوسف زندہ نکل آیا۔ ایمان میں ایک عجیب برکت ہے جس سے مردہ کام زندہ ہوتے ہیں۔ سو آپ نہایت مردانہ استقامت سے کشائش وقت کا انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ کریم و رحیم ہے اور میری طرف سے والدہ محمود کی طرف سے گھر میں السلام علیکم ضرور کہہ دیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسارمرتب کی طرف سے ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۴
۸۷
عزیزی محبی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس وقت آپ کا پریشانی سے بھرا ہوا خط پڑھ کر میرے دل کو اس قدر قلق اور اضطراب کا صدمہ پہنچا جو میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے بباعث طوقِ امراض و صدمات ضعف قلب ہے کسی مخلص دوست کے غم سے بھری ہوئی بات کو سن کر اس قدر متاثر ہو جاتا ہوں کہ گویا وہ غم میرے پر ہی وارد ہو گیا مجھے آپ کی غمخواری کے لئے بے اختیار ایک کشش اور کرب دل میں پیدا ہو گیا ہے۔ انشاء اللہ القدیر میں پوری توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر اے عزیز آپ کو یاد رہے ہمارا آقا و مولیٰ ربّ السموات والارض نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم و کریم ہے کہ اپنے گنہ گار بندوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور آخر وہی ہے جو اُن کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور اُن کی بیقراری کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخر کار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے۔ اُس پر جہاں تک ممکن ہو توکل رکھو اور اپنے کام اُس کو سونپ دو۔ اُس سے اپنی بہبودی چاہو مگر دل میں اُس کی قضاء وقدر سے راضی رہو۔ چاہئے کہ کوئی چیز اُس کی رضا سے مقدم نہ ہو۔ میں آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں اور کروں گا اور اگر مجھ کو معلوم ہوا تو آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درود شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر ایک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھی یاحی یا قیوم برحمتک استغیث۔ پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں اور اپنے لئے دعا کریں اور مرزاخدا بخش کو کہہ چھوڑیں کہ جلد جلد مجھے اطلاع دیویں۔ دہلی میں آ کر میری طبیعت بہت علیل ہوگی ہے اس وقت خارش کی پھنسیاں ایسی ہیں جیسے شاخ کو پھل لگا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بخار بھی رہا ریزش بھی بشدت ہوگئی طبیعت ضعیف اور کمزور ہے لیکن میں نے نہایت قلق کی وجہ سے نہ چاہا کہ آپ کے خط کو تاخیر میں ڈالوں۔ خدا تعالیٰ آپ کے غم و درد دُور کرے اور اپنی مرضات کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین
والسلام
خاکسار
غلام احمد از دہلی
کوٹھی نواب لوہارو و غلام احمد۱؎
۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۵
۸۸
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آپ کے ترددات اور غم اور ہم انتہا تک پہنچ گیا ہے اس لئے بموجب مثل مشہور کہ ہر کمالے راز والے۔ امید کی جاتی ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی اللہ تعالیٰ پیدا کر دے گا اور اگر وہ دعا جو گویا موت کا حکم رکھتی ہے اپنے اختیار میں ہوتی تو میں اپنے پر آپ کی راحت کے لئے سخت تکالیف اُٹھا لیتا۔ لیکن افسوس کہ جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے ایسی دعا خداتعالیٰ نے کسی کے ہاتھ میں (نہیں٭) رکھی۔ بلکہ جب کہ وقت آ جاتا ہے تو آسمان سے وہ حالت دل پر اُترتی ہے۔ میں کوشش میں ہوں اور دعا میں ہوں کہ وہ حالت آپ کے لئے پیدا ہو اور امید رکھتا ہوں کہ کسی وقت وہ حالت پیدا ہو جائے گی اور میں نے آپ کی سبکدوشی کیلئے کئی دعائیں کی ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ خالی نہ جائیں گی۔ جس قدر آپ کے لئے حصہ تکالیف اور تلخیوں کا مقدر ہے
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
اُس کا چکھنا ضروری ہے بعد اس کے یکدفعہ آپ دیکھیں گے کہ نہ وہ مشکلات ہیں اور نہ وہ دل کی حالت ہے۔ اعمال صالحہ جو شرط دخول جنت ہیں دو قسم کے ہیں اوّل وہ تکلیفات شرعیہ جو شریعت نبویہ میں بیان فرمائی گئیں ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے سے قاصر رہے یا بعض احکام کی بجا آواری میں قصور ہو جائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایت الٰہیہ نے ایک دوسری قسم بطور تتمہ اور تکملہ شریعت کے اُس کے لئے مقرر کر دی ہے اور وہ یہ کہ اُس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اُس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے اور اس قدر کامیابی کے دروازے اُس کی نگہ میں ہیں سب کے سب بند کر دئے جاتے ہیں۔ تب وہ تڑپتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری وقت ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ اور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اُس کی جان کو تحلیل کرتے ہیں تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آ جاتا ہے اور درد انگیز دعائیں اُس قفل کے لئے بطور کنجی کے ہو جاتی ہیں۔ معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کیلئے یہ خدائی کام ہیں۔ مدت ہوئی ایک شخص کے لئے مجھے انہی صفات الٰہیہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا۔
قادر ہے وہ بار گاہ ٹوٹا کام بناوے۔بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے دن اہل مصائب کو بڑے بڑے اَجر ملیں گے تو جن لوگوں نے دنیا میں کوئی مصیبت نہیں دیکھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمارا تمام جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹا جاتا تا آج ہمیں بھی اَجر ملتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
نوٹ از مرتب: جیسا کہ دیگر متعدد خطوط سے ظاہر ہے ریاستی حقوق کے بارہ میںابتلا اواخر ۱۹۰۴ء میں شروع ہوا۔ ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کو اس بارہ میں حضور کو الہام ہوا۔ ’’اے یوسف! اپنا رُخ اس طرف پھیر لے‘‘ اور ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے حضرت نواب صاحب کے مرقومہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دن قبل اس بارہ میں اُن کو اور ان کے بھائیوں کو کامیابی ہوئی تھی۔ حضور کے مکتوب ہذا کی اندرونی شہادت واضح ہے کہ اس کی تحریر تک ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء والا الہام نہ ہوا تھا ورنہ دیگر نصائح کے ساتھ حضور تسلی کی خاطر اس امر کا اشارۃً ہی ذکر فرما دیتے بلکہ اس الہام کے ہو جانے کے بعد طبعاً حضرت نواب صاحبؓ کا رکب و قلق کم ہو جاتا۔ سو جب ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء کی تاریخ ہی ابھی نہیں آئی تھی تو دو دن بعد (۱۵؍ نومبر) کے الہام ’’قادر ہے وہ بارگاہ…الخ‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے کہ ۱۵؍ نومبر ۱۹۰۶ء والا الہام یہاں مراد نہیں۔ اس پر مزید اندرونی شہادت بھی ہیں ایک تو یہ کہ ’’قادر ہے‘‘ والے الہام کے متعلق حضور تحریر فرماتے ہیں کہ مدت قبل کا ہے جو یہاں صادق نہیں آتی۔ دوسرے اسے ایک معین شخص کے لئے قرار دیتے ہیں جب کہ اس اور دیگر الہامات کے ساتھ مرقوم ہے ’’اصل میں یہ ہرسنہ الہام پیشگوئیاں ہیں خواہ ایک شخص کیلئے ہوں اور خواہ تین جدا شخصوں کے حق میں ہوں‘‘۔ (بدر جلد۲ صفحہ۴۷ والحکم جلد۲۰ صفحہ۳۹)
تیسرے ۱۵؍نومبر ۱۹۰۶ء والے الہام کی عبارت یہ ہے:۔
’’قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے‘‘ اور مکتوب زیر بحث میں ’’جو‘‘ کا لفظ موجود نہیں۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں الہاموں میں سے مدت قبل یعنی ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کا الہام مراد ہے جو معین طور پر حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے لئے ہوا تھا اور اس میں ’’جو‘‘ کا لفظ بھی موجود نہیں سو یہ مکتوب زیر بحث اواخر ۱۹۰۴ء سے ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء تک کے عرصہ کا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اس عرصہ کے آخری حصہ کا ہے جب کہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ اور لفٹنٹ گورنر پنجاب کی طرف سے مایوسی ہوئی اور معاملہ وائسرائے تک پہنچایا گیا۔ چنانچہ وہاں کامیابی ہوئی۔ اس معاملہ کے متعلق مکتوب ۹۴؍۳۱ کتاب ہذا ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۶
۸۹
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللّٰہ تا دم تحریر خط ملا ہر طرح سے خیریت ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو معہ اہل و عیال سلامت قادیان میں لاوے۔آمین
آج میں میاں الٰہی بخش صاحب کو خود ملا تھا۔ وہ بہت مضطرب تھے کہ کسی طرح مجھ کو کوٹلہ میں پہنچایا جاوے اور کہتے تھے کہ کوٹلہ میں میری پنشن مقرر ہے جولائی سے واجب الوصول ہوئی میں نے ان کے بیش اصرار پرتجویز کی تھی کہ ان کو ڈولی میں سوار کر کے اور ساتھ ایک آدمی کر کے پہنچایا جاوے۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں وہ بموجب قادیان ریل والوں کے ریل پر سوار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اسی وقت میں نے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب کو ان کی طرف بھیجا ہے تا ملائمت سے ان کو سمجھا دیں کہ ایسی بے اعتبار حالت میں ریل پر وہ سوار نہیں ہو سکتے اور بالفعل دو روپیہ ان کو بھیج دیئے ہیں کہ اپنی ضروریات کے لئے خرچ کریں اور اگر میرے روبرو واقعہ وفات کا ان کو پیش آ گیا تو میں انشاء اللہ القدیر اسی قبرستان میں ان کو دفن کراؤں گا۔
باقی سب طرح سے خیریت ہے بہتر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ضروری کام کے انجام کے بعد زیادہ دیر تک لاہور میں نہ ٹھہریں اور میری طرف سے اور میرے گھر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے گھر میں السلام علیکم کہہ دیں۔
والسلام
راقم
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء
نوٹ از مرتب: میاں الٰہی بخش صاحب خلیفہ کہلاتے تھے۔ نعلبند تھے فوج میں ملازم رہ چکے تھے۔ حضرت نواب صاحب سے بطور اعانت ماہوار وظیفہ پاتے تھے وطن مالیر کوٹلہ بعمر اسّی سال ۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو قادیان میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب موصوف ۹؍ جون ۱۹۲۱ء کو۔ ڈاکٹر صاحب سکنہ گوریانی تحصیل جھجھر ضلع رہتک کا نام ۳۱۳ صحابہ مندرجہ انجام آتھم میں ۶۸ نمبر پر ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۷
۹۰
محبی عزیزی نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط مجھ کو ملا جو بہت غمناک دل کے ساتھ پڑھا گیا کل مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے ایک الہام مندرجہ ذیل الفاظ میںیا کسی قدر تغیر لفظ سے ہوا تھا کہ کئی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل ہوگئی ہیں۔ مَیں تمام دن اس الہام کے بعد غمگین رہا کہ یہ کیا بھید ہے۔ آج خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ آپ کا پیغام خداتعالیٰ نے پہنچایا تھا میں اس میں خاص توجہ سے دعا کروں گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ یہ بلا ٹال دے گا۔ وہی احکم الحاکمین ہے اور ہر ایک امر اس کے اختیار میں ہے آپ اس میں بے صبری نہ کریں اور نہایت نرمی سے کام لیں۔ اصل حکم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے یہ دنیا ایک عجیب مقام ہے کہ ایک دن ایک شخص ایک کے ہاتھ سے روتا ہے اور دوسرے دن وہی ظالم مصیبت میں گرفتار ہو کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ پس آپ بار بار یہ عذر پیش نہ کریں کہ جاگیر سے دست بردار ہوتے ہیں بلکہ سب کچھ قبول کر لیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے۔ ہاں قادیان میں رہنے کے بارے میں نرمی اور عذر کرنا چاہئے اور ہو سکتا ہے کہ آپ عذر کر دیں کہ مالیر کوٹلہ میں میری حالت صحت اچھی نہیں رہتی کیونکہ صحت جیسا کہ صحت جسمانی ہے روحانی بھی ہے اور روحانی صحت کے خیال سے کسی طرح آپ کے کوٹلہ کی سکونت مفید نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تنگ کریں تو سکونت کو اس شرط سے قبول کریں کہ اس وقت تک رہوں گا جب تک اس جگہ کا قیام میری صحت کے مخالف نہ ہو یہ تو تمام ظاہری باتیں ہیں مگر میں امید رکھتا ہوں کہ میری دعا پر ضرور خدا تعالیٰ کوئی راہ آپ کے لئے نکال دے گا۔ بالفعل آپ کو قضا و قدر الٰہی پر سرتسلیم خم کرنا چاہئے اور یہ نہ سمجھیں کہ انسان کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک ابتلا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص منالاموال والانفس اور میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دیتا بلکہ میں آج ہی بہت توجہ سے آپ کے لئے دعا کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ آخر دعاؤں کے بعد کوئی راہ آپ کے لئے نکل آئے گی۔ بالفعل نرمی اور صبر اور رضا بقضا سے کام لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے فبشر الصابرین الذین اذا اصبتھم مصیبۃ قالوا انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اور یہ بات ضروری ہے کہ آپ دوسرے بھائیوں کے جوشوں کی پیروی نہ کریں کیونکہ کہ ان کی زندگی غافلانہ ہے اور وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ابتلا آیا کرتے ہیں جب دیکھیں کہ ہر ایک راہ بند ہے اور سیدھی بات بھی الٹی ہوئی جاتی ہے۔ تب لازم ہے کہ فی الفور عبودیت کا جامہ پہن لیں اور سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے۔ عزت خدا کے ہاتھ میں ہے میں دنیا داری طریقوں کی عزت کو پسند نہیں کرتا۔ میں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں دیکھتا کہ نذریں دی جائیں اور رعایا کہلایا جائے۔ دنیا کی ہستی جاب کی طرح ہے معلوم نہیں کہ کل کون زندہ ہوگا اور کون قبر میں جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب واقعہ حدیبیہ کے وقت کفار مکہ سے صلح کرنے گئے تو صلح نامہ کے سر پر لکھا ھذا من محمد رسول اللّٰہ کفار مکہ نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو۔ اگر ہم آپ کو رسول جانتے تو اتنے جھگڑے کیوں ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی فرمایا کہ ’’اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ دو‘‘ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں تو ہرگز نہیں کاٹوں گا۔ تب آپ نے اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔ پھر وہی لوگ تھے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے ہر ایک بات وقت پر موقوف ہے۔ (ب)
نوٹ از مرتب: اس مکتوب کے پہلے صفحہ پر حضور کی ایک مہر بھی ثبت ہے جو مجھ سے پڑھی نہیں گئی۔ بدر جلد ۲ نمبر۲۲ و الحکم جلد۱۰ نمبر۱۹ میں مرقوم ہے۔ ’’(۲) آفتوں اور مصیبتوں کے دن ہیں‘‘ ایک دوست کا ذکر تھا جس پر بہت سے دنیاوی مشکلات گر رہے ہیں۔ فرمایا ’’یہ الہام اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے‘‘ اور اس الہام کی تاریخ ۲۰؍ مئی ۱۹۰۶ء درج ہے۔ گویا کہ یہ مکتوب ۲۸؍ مئی ۱۹۰۶ء کا ہے۔


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۲۸
۹۱
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ مضمون سے آگاہی ہوئی اب یقینا معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہے بلکہ ایک سخت ابتلا ہے۔ میں اسی فکر میں تھا کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کیلئے پوری توجہ بخشے اور خدا کا استغناء ذاتی بھی پیش نظر تھا کہ اتنے میں نظام الدین مستری کا قصہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا معاً دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ خدا کے فضل اور کرم سے کیا تعجب ہے کہ اگر نظام الدین کی کارروائی کے موافق آپ کی طرف سے مع اپنے بھائیوں کے کارروائی ہو تو خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو نظام الدین کے ساتھ کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا۔ افسوس ہے کہ وہ خط شاید چاک کیا گیا ہے۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ میں ایک فوجداری جرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی۔ اس بیقراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس خوفناک مقدمہ سے رہا کر دے تو میں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلاتوقف ادا کروں گا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی تب میں نے دعا کی کہ اے خدائے قادر و کریم! اگر تو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا۔ اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بلا سے رہائی پا جائے گا۔ دوم مجھے جو اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پورا ہو گا۔ سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہو جائے گا۔ دعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا جو آپ کے ملاحظہ کیلئے بھیجتا ہوں اور دوسرے روز پچاس روپے آ گئے۔ پس میرے دل میں خیال گزرا کہ ان دنوں میں دینی ضرورت کے لئے بہت کچھ تفکرات مجھے پیش ہیں مہمان کے اُترنے کیلئے عمارت نامکمل ہے مرزا خدا بخش کی چار سَو روپیہ کی خریدی ہوئی زمین ہے وہ توسیع مکان کے لئے مل سکتی ہے۔ اگر اس قدر روپیہ دیا جائے پھر کم سے کم دو ہزار روپیہ اور چاہئے تا اس پر عمارت بنائی جائے اور تکمیل مینار کا فکر بھی ہر وقت دل کو لگا ہوا ہے۔ مگر وہ ہزار ہا روپیہ کا کام ہے جس طرح خدا چاہے گا اس کو انجام دے گا۔ بالفعل بموجب وہی الٰہی وسع مکانات کے مہمانوں کے پورے آرام کے لئے ان اخراجات کی ضرورت ہے۔ پس میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اگر ایک بلا سے رہا ہونے کے لئے آپ معہ اپنے بھائیوں کے دوسری بلا کو منظور کر لیں یعنی یہ نذر کر لیں کہ اگر ہمیں اس بلا سے غیبی مدد سے رہائی ہوئی تو ہم اس قدر روپیہ محض للہ ان دینی ضروریات کیلئے جس طرح ہم سے ہو سکے بلا توقف ادا کر دیں گے تو میں اسی طرح دعا کروں گاجس طرح میاں نظام الدین مستری کیلئے دعا کی تھی خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے کچھ تعجب نہیں آپ کے اس مقصد کو دیکھ کر آپ کی مشکل کشائی فرماوے۔ میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز ہے مگر مجھے اپنے ربّ کریم کی سابق عنایتوں پر نظر کر کے یقین کُلّی ہے کہ کم سے کم وہ مجھے آئندہ کے حالات سے اطلاع دے دے گا اور چونکہ اس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ نشان اوردکھلاؤں گا اس لئے تعجب نہیں کہ آپ کی اس بیقراری کے وقت یہ بھی ایک نشان ظاہر ہو جائے۔ لیکن قبل اس کے کہ خداتعالیٰ مشکل کشائف فرما دے ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور ایک پیشہ کا بھی مطالبہ نہیں ہاں اگر دعا سنی جائے اور آپ کا کام ہو جائے تب فی الفور آپ کو نذر مقررہ بلاتاخیر ایک ساعت ادا کرنا ہوگا اور دو نفل پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کرنا ہوگا اور بعد پختگی عہد بلاتوقف مجھے اطلاع دینا ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین کے لئے میں نے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک چڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کر دیا اور میں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائی پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا۔
یہ بات خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے دل تومانتا ہے کہ کچھ ہونے ہار بات ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۵؍ جون ۱۹۰۶ء (ب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
۹ ۲
۹۲
سیدی و مولائی طبیب روحانی۔ السلام علیکم
مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے پانی جو آیا کرتا ہے اس کی طرح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریہ دَب جاتی ہیں پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا اب پھر یہ قبریں دَب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے۔ پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رو آ گیا تو کیاحالت ہوگی۔
اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے۔
(راقم محمد علی خاں)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے نزدیک اندیشہکی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انما الاعمال بالنیات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے۔ والسلام
مرزا غلام احمد عفی عنہ (ب)
نوٹ از مرتب: (۱) دونوں مکتوبات میں خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مؤلف کی طرف سے ہیں۔ (۲) دونوں مکتوبات کی تاریخ کی تعیین ذیل کے امور سے ہوتی ہے۔
(الف) تاریخ وفات غوثاںؓ ۲۳؍ستمبر۱۹۰۶ء ، صاحب نور صاحب ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء اور اہلیہ صاحبہؓ حضرت نواب صاحب ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء ہے۔ (ب) موسم برسات یہاں جون سے ستمبر تک ہوتا ہے۔ اور مکتوب میں معمولی بارش ہونے کا ذکر ہے اور ۱۹۰۶ء میں ان مرحومیں کی وفات سے پہلے یہ موسم گزر چکا تھا اور ۱۹۰۸ء میں حضور نے ۲۷؍ اپریل کو سفر لاہور اور وہاں اگلے ماہ سفر آخرت اختیار کیا۔ گویا کہ اس سال میں موسم برسات شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ (ج) ایک دفعہ پہلے یہ قبریں بارش سے دَب چکی تھیںاور درست کرائی گئیں تھیں اور اب موسم برسات کی ابتداء تھی ان تمام امور سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم برسات ۱۹۰۷ء یا برسات دسمبر ۱۹۰۷ء یا اوائل ۱۹۰۸ء کا یہ مکتوب ہے۔ موسم سرما میں دسمبر یا جنوری میں بھی بارش ہوتی ہے قابل ترجیح یہ امر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار نئی نئی قبریں دسمبر ۱۹۰۶ء یا جنوری ۱۹۰۷ء میں بارش سے دَب گئی ہوں گی اور دوبارہ موسم برسات ۱۹۰۷ء کی ابتداء میں دَب گئیں۔ واللّٰہ اعلم
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۰
۹۳
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
آج سیر میں تذکرہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت پھر علیل ہے اور ان کی غذا کا انتظام درست نہیں ہے جونکہ مجھ کو حضرت مولانا نے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھایا ہے اور اس طرح مجھ کو ان کی شاگردی کا (گو میں بدنام کنندہ نکونامے چند کے طور سے شاگرد ہوں) فخر حاصل ہے۔ اس لئے میرے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ حضرت مولانا کی کچھ خدمت کر سکوں۔ کبھی کبھی میں ن(نے٭)ان کی غذا کا التزام کیا ہے مگر حضرت مولانا کی غیور طبیعت برداشت نہیں کرتی اور وہ روک دیتے ہیں اسی لئے الامرفوق الادب کے لحاظ سے پھر جرأت نہیں پڑتی اب اگر حضور حکم فرماویں تو اس طرح مجھ کو خدمت کا ثواب اور حضرت مولانا کے غذا کا انتظام ہو جاتا ہے اور حضرت مولانا حضور کے حکم کی وجہ سے حد انکار بھی نہ کریں گے اصل بات یہ ہے کہ لنگر میں بہ سبب کثرت کار پوری طرح سے التزام مشکل ہے میرے باورچی کو چونکہ اتنا کام نہیں اس لئے خدا کے فضل اور حضور کی دعا سے امید کی جاتی ہے کہ التزام ٹھیک رہے گا بس اگر میری یہ عرض قبول ہو جائے تو میرے لئے سعادت دارین کا موجب ہو۔
دوم میں نے اپنے بھائی کو حضور کے حکم کے بموجب خط لکھا ہے حضور ملاحظہ فرما لیں اگر یہ درست ہو تو بھیج دوں۔
راقم محمد علی خاں
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ حضرت مولوی صاحب کی نسبت مجھے کچھ عذر نہیں واقعی لنگر خانہ کے لوگ ایک طرف تاکید کی جائے دوسری طرف پھر غافل ہو جاتے ہیں کثرت آمد مہمانوں کی طرف سے بعض اوقات دیوانے کی طرح ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سے عمدہ طور سے انتظام ہو سکے تو میں خوش ہوں اور موجب ثواب۔
خط آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے مگر ساتھ لکھتے وقت ترتیب اوراق کا لحاظ نہیں رہا خط… پڑہتے جب دوسرے صفحہ میں مَیں پہنچا تو وہ عبارت پہلے صفحہ سے ملتی نہیں تھی اس کو درست کر دیا جائے۔
والسلام
مرزاغلام احمد
نوٹ از مرتب: یہ مکتوب آخر ۱۹۰۶ء یا ابتدا ۱۹۰۷ء کا ہے تفصیل کیلئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ۴۸۶
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
۳۱
۹۴
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عجیب اتفاق ہوا کہ آپ نے ہزار روپیہ کانوٹ بند خط کے اندر بھیجا اور میاں صفدر نے شادی خاں کی والدہ کے حوالہ کیا جس کو دادی کہتے ہیں۔ وہ بیچاری نہایت سادہ لوح ہے وہ میری چارپائی پر وہ لفافہ چھوڑ گئی میں باہر سیر کرنے کو گیا تھا اور وہ بھول گئی اب اس وقت اس نے یاد دلایا کہ نواب صاحب کا ایک خط آیا تھا میں نے پلنگ پر رکھا تھا پہلے تو وہ خط تلاش کرنے سے نہ ملا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ کل زبانی دریافت کر لیں گے پھر اتفاقاً بستر کو اُٹھانے سے وہ خط مل گیا اور کھولا تو اس میں ہزار روپیہ کا نوٹ تھا یہ بے احتیاطی اتفاقی ہوگئی گویا ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا تھا۔ مگر الحمدللہ مل گیا۔ وہ عورت بیچاری نہایت سادہ اور نیم دیوانہ ہے۔ وہ بے احتیاطی سے پھینک گئی۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے اپنی نذر کو پورا کیا۔ آمین
والسلام
مرزا غلام احمد
حضور چشمہ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں کہ نواب صاحبؓ نے بعد کامیابی بلا توقف تین ہزار روپیہ لنگر خانہ کے لئے ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کر دیا۔ صفحہ ۳۲۳،۳۲۴)
چنانچہ مکتوب ہذا میں اس نذر کے پورا کرنے کا ذکر ہے اور نواب صاحب کے ۱۶؍ فروری ۱۹۰۸ء کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ چند روز قبل بذریعہ تار کامیابی کی اطلاع آئی تھی اس لئے مکتوب حضور اس تاریخ کے قریب کا ہے۔ تفصیل کیلئے اصحاب احمد جلد دوم حاشیہ صفحہ۵۹۲ دیکھئے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۲
۹۵
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم
بھائی خاں صاحب محمد احسن علی خاں صاحب نے مجھ کو ایک خط لکھا تھا اور ایک خط حضور کی خدمت میں بھی بھیجا تھا جو کل یہاں پہنچے۔ میں (نے٭) اس خط کا جواب لکھا ہے اور برائے ملاحظہ حضور پیش ہے۔ اگر حضور اس کو ملاحظہ (کر کے ٭) تصحیح سے سرفراز فرمائیںتو عین سعادت ہے۔
راقم محمد علی خاں
٭ خطوط واحدانی کے الفاظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہیں۔
جواباً حضور نے رقم فرمایا:
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
میں نے اوّل سے آخر تک حرفاً حرفاً پڑھ لیاہے یہ خط نہایت عمدہ اور مؤثر معلوم ہوتاہے۔ ایسا ہی لکھنا چاہئے تھا۔ جزاکم اللہ خیرا
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
٭٭٭
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۳
۹۶
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا تعالیٰ کا درحقیقت ہزار ہاگونہ شکر ہے کہ موت جیسی حالت سے واپس لا کر صحت بخشی اب آپ کو اختیار ہے کہ کسی دن خواہ جمعہ کوعام دعوت سے اس شکریہ کا ثواب حاصل کریں۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ


۳۴
۹۷
مکتوب ہذا منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے۔
حضور نے جواباً تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کو اجازت ہے آپ چلے جائیں نور محمد بے شک اس وقت تک رہے صرف اس قدر کام کر دیاکرے کہ پانچ چار روٹیوں کے لئے جو پھلکے پکاتا ہے وہیں آٹا لے جائے اور پکا کر بھیج دے اور لال ٹینوں میں تیل ڈال دیا کرے اور رتھ تو آپ کا مال ہے جب چائیں لے جائیں اور میں اب ایک مدت سے ہر یک نماز میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اور کل میں نے سنا ہے کہ میری لڑکی مبارکہ کے (لئے٭) آپ کی طرف سے پیغام آیا تھا اس میں ابھی دو مشکلات ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ ابھی وہ صرف گیارہ سال عمر پورے کر چکی ہے اور پیدائش میں…۱؎ بہت ضعیف البنیان اور کمزور ہے کھانسی ریزش تو ساتھ لگی ہوئی ہے جب تک کہ پندرہ سال کی نہ ہو جائے کسی صورت میں شادی کے لائق نہیں اگر پہلے ہو تو اس کی عمر کا خاتمہ ہو جائے گا۔
(۲) دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چن دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکی ہے میں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا۔ اس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے بہت دعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا عادۃ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ ۲۷؍ تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا۔ نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کونسا سن ہے۔ اخبار میں میں نے چھپوا دیا ہے اور آپ کو معلوم ہوگا کہ شاید ایک مہینہ کے قریب ہوگیا کہ میں نے ایک الہام اخبار میں صرف اشارہ کے طور پر چھپوایا تھا جس کی یہ عبارت تھی کہ ایک نہایت چھپی ہوئی خبر پیش کرتا ہوں۔ دراصل وہ خبر انہی حوادث کے متعلق ہے یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے۔ پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے۔ یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں۔
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
۱؎ خالی جگہ پر مرتب سے دو لفظ پڑھے نہیں گئے غالباً ’’شروع سے‘‘ ہیں۔
میں دعا کر رہا ہوں۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ: اس خط کا جواب میں نے یہ دیا تھاکہ جو کچھ حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے درست اور قبول و منظور اور انتظار ممکن۔ (محمد علی خاں)
نوٹ از مرتب: (۱) رویا کہ ’’ایک ران لٹک رہی ہے‘‘۔ غیر مطبوعہ ہے اور خاکسار کو پہلی بار اس کی اشاعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ (۲) ۱۹۰۷ء کا رؤیا بدر و الحکم میں اس قدر شائع ہوا ’’ایک گو سفند مسلوخ دیکھا‘‘ لیکن مکتوب ہذا میں زیادہ تفصیل ہے (۳) الہام و رؤیا اس مکتوب میں ۱۹۰۷ء کی درج ہیں نواب صاحب کے خط سے جلسہ سالانہ کا قرب اور ۲۷؍ سے ایک ہفتہ قبل ان کے اجازت طلب کرنے کا علم ہوتا ہے گویا کہ یہ مکتوب ۲۰ دسمبر ۱۹۰۷ء کا ہے یہ خیال نہ کیا جائے کہ مسلوخ گو سپند والی رؤیا صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات (۱۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء) سے پوری ہوگئی جیسا کہ الحکم بابت ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ب کالم ۲ اور بابت ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶ کالم ۲ اور بدربانیہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ۵ کالم ۳ میں لکھا گیا ہے (اور یہ بھی درج ہے کہ یہ رؤیا حضرت نے تین اشخاص کو سنائی تھی جن میں سے ایک حضرت نواب صاحب تھے) کیوں کہ صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد حضور مکتوب ہذا میں اس رؤیا کا ذکر فرماتے ہیں کہ گویا کہ ابھی پوری نہیں ہوئی اور اس رؤیا کے متعلق اس امر کا علم صرف نواب صاحب اور حضور کے ان مکتوبات سے ہوتا ہے نیز تذکرہ میں اس رؤیا کی تاریخ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء سے قبل لکھی گئی ہے۔ حوالہ جات مذکورہ سے ظاہر ہے کہ یہ ۳۱؍ اکتوبر نہیں بلکہ اس کی تاریخ ڈیڑھ ماہ قبل درج ہونی چاہئے۔ یعنی ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء سے قبل۔


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۵
۹۸
میری لخت جگر مبارکہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میںتامل نہیں ہوگا۔ اور وہ یہ ہے کہ مہر میں آپ کی دو سال کی آمدن جاگیر مقرر کی جائے یعنی … ہزار روپیہ اور اس قرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو۔ میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نہایت درجہ اخلاص میںگداز شدہ ہیں اور آپ نے ہر ایک پہلو سے ثبوت دے دیا ہے کہ آپ کو جانفشانی تک دریغ نہیں مگر جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے وہ اوّل تو آپ کی خداداد حیثیت سے بڑھ کر نہیں اور پھر آپ کی ذات کے متعلق نعوذ باللہ اس میں کوئی بدگمانی نہیں۔ محض خدا نے میرے دل میں ایسا ہی ڈال دیا ہے اور ظاہری طور پر اس کے لئے ایک صحیح بنا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ موت حیات کا اعتبار نہیں اور آپ کے خاندان کے عمل درآمد کے رو سے عورتیں اپنے شرعی حقوق سے محروم ہوتی ہیں اگر بعد میں کچھ گزارہ تجویز کیا جائے تو وہ مشکوک اور (نہ٭) اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور خدا آپ کی اولاد کی عمر دراز کرے وہ بعد بلوغ اپنے اپنے خیالات اور اغراض کے پابند ہونگے اور حق مہر کا فیصلہ ایک قطعی امر ہے اور ایک قطعی حق ہے جو خدا نے ٹھہرا دیا ہے اور عورتیں جو بے دست و پا ہیں اس حق کے سہارے سے ظلم سے محفوظ رہتی ہیں آپ کی زندگی میں اس مہرکا مطالبہ نہیں لیکن خدانخواستہ اگر لڑکی کی عمر ہو اور آپ کی عمر وفا نہ کرے تو اس کی تسلی اور اطمینان کیلئے اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ طریق اور اس قدر مہربانی ہوگا تا کہ دوسروںکے لئے صورت رعب قائم رہے یہ وہ امر ہے جس کو سوچنے کے لئے میں آپ کو اجازت نہیں دیتا ایک قطعی فیصلہ ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر ان دونوں باتوں کی آج آپ تکمیل کر دیںتو گو لڑکی ایک سال کے بعد رخصت ہومگر پیر کے دن نکاح ہو جائے یہ ایک قطعی فیصلہ ہے جو میری طرف سے ہے اس میں کسی طرح کمی بیشی نہیں ہوگی اس وجہ سے میں
٭ خطوط واحدانی والا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
نے اس خیال سے اور اسی انتظار سے عزیزی سید محمد اسماعیل کو پیر کے دن تک ٹھہرا لیا ہے اگر آپ کی طرف سے اس شرط کی نامنظوری ہوگی تو پھر وہ کل ہی اپنی نوکری پر چلا جائے گا۔
والسلام
راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ
۱۲؍ فروری ۱۹۰۸ء
نوٹ: اس خط کا جواب زبانی پیر منظور محمد صاحب حامل خط ہذا کو یہ دے دیا تھا کہ مجھ کو بلاعذر سب کچھ منظور ہے۔
محمد علی خان)
نوٹ: مکتوب میں حضور کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ مراد ہیں۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۳۶
۹۹
محبی عزیزم اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مرسلہ پہنچا اس کے رقعہ کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ جس طرح انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک فیصلہ کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر پھر اس درد سے نجات پاتا ہے کہ جو تنازع کی حالت میںہوتی ہے اسی طرح انسان کا نفس خدا تعالیٰ نے ایسا بھی بنایا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر کئی مقدمات برپا رکھتا ہے اور ان مقدمات سے نفس انسانی بے آرام رہتا ہے لیکن جب انسان کسی امر کے متعلق ایک فیصلہ کرلیتا ہے تب اس فیصلہ کے بعد ایک آرام کی صورت پیدا ہو جاتی ہے آپ کی رائے میں صرف یہ کسر باقی ہے کہ ہمیں زندگی کا اعتبار نہیں جیساکہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے ایساہی آپ بھی زندگی پر بھروسہ نہیں کر سکتے اور اس بارے میں یہ شعر شیخ سعدی کا بہت موزوں ہے۔
من تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازی روز گار
پس اگر ہمیں موت آ گئی تو ہم اس رشتہ کی خوشی سے محروم گئے اور نیز اس دعا سے محروم رہے کہ جو ہماری زندگی کی حالت میں اس رشتہ کے مبارک ہونے کے لئے کر سکتے تھے۔ کیونکہ وہ دعا اس وقت سے مخصوص ہے جب نکاح ہو جاتا ہے علاوہ اس کے ہر یک کو اپنی عمر پر اعتماد کرنا بڑی غلطی ہے۔ آج سے چھ ماہ پہلے آپ کے گھر کے لوگ صحت کے ساتھ زندہ موجود تھے کون خیال کر سکتا تھا کہ وہ اس عید کو بھی نہ دیکھ سکیں گے اسی طرح ہم میں سے کس کی زندگی کا اعتبار ہے؟ اگر موت کے بعد اس وعدہ کی تکمیل ہو تو گویا میری اس بات کو یاد کر کے خوشی کے دن میں رونا ہوگا مگر میں آپ کی رائے میں کچھ دخل نہیں دیتا صرف عمر کی بے ثباتی پر خیالکر کے یہ چند سطریں لکھی ہیں کیونکہ بقول شخصے
اے ز فرصت بے خبر در ہرچہ باشی زود باش
وقت فرصت کو ہاتھ سے دینا بسا اوقات کسی دوسرے وقت میں موجب حسرت ہو جاتا ہے میری دانست میں تو اس میں کچھ حرج نہیں اور سراسر مبارک ہے کہ رمضان کی ۲۷؍ تاریخ کو بظن غالب لیلۃ القدر کی رات اور دن ہے مسنون طور پر نکاح ہو جائے اور اس… میں کیا حرج ہے کہ اس سے لڑکی کو اطلاع دی جائے مگر وداع نہ کیا جائے۔ لڑکی بجائے خود… پرورش اور تعلیم پاوے اور لڑکا بجائے خود جب دونوں بالغ ہو جائیں تب رخصت کیا جائے کیونکہ کہ فی التاخیر آفات کا ہی مقولہ صحیح ہے جو تجربہ اس کی صحت پر گواہی دیتا ہے۔ زندگی کا کچھ بھی اعتبار نہیں شیخ سعدی نے اس میں کیا عمدہ ایک غزل لکھی ہے اور وہ یہ ہے۔
بلبلے زاد زا رمی نالید
بر فراق بہار و وقتِ خزاں
گفتمش صبر کن کہ باز آید
آں زمانِ شگوفہ و ریحاں
گفت ترسم بقا وفا نکند
ورنہ ہر سال گل دہدبستاں
اسی طرح شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
سال دیگر را کہ میداند حساب
تا کجا رفت آنکہ باما بود یار
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لاتقف مالیس لک بہ علم یعنی ان باتوں کے پیچھے مت پڑ جن کا تجھے علم نہیں۔ پس ہمیں کیا علم ہے کہ سال آئندہ میں ہم زندہ ہوں گے یا نہ ہوں گے اور جب قائمقاموں کے ہاتھ میں بات جاتی ہے تو وہ اپنی ہی رائے کو پسند کرتے ہیں میں نے٭ یہ محض میں نے اپنی رائے
٭ ’’میں نے‘‘ خط میں دو بار مرقوم ہے۔ مرتب
لکھی اور آپ اپنی رائے اور ارادہ میں مختار ہیں۔
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۲۰؍ رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ
٭٭٭
اس خط کا چربہ آخر میں ملاحظہ فرمائیے۔
۳۷
۱۰۰
یہ مکتوب منجانب نواب صاحب بنام حضرت اقدس ہے
اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یہ تجویز آپ کی خدمت میں اس لئے پیش کی گئی تھی کہ فی التاخیر آفات کا مقولہ یاد آتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے بعض خوابیں دیکھی ہیں اور بعض الہام ہوئے ہیں جن کا میں نے مختصر طور پر آپ کی خدمت میں کچھ حال بیان کیا تھا۔ اگر میرے پاس زینب ہو تو دعا کا موقعہ ملتا رہے گا میں دیکھتا ہوں کہ لڑکا بھی جوان ہے ابھی مجھے نیا مکان بنانے کی گنجائش نہیں اسی مکان میں مَیں نے تجویز کر دی ہے لیکن چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر لڑکیاں والد کے گھر سے سرسری طور پر رخصت ہوں تو ان کی دل شکنی ہوتی ہے اس لئے میں اس وقت تک جو آپ مناسب سمجھیں اور رخصت کیلئے تیاری کر سکیں مہلت دیتا ہوں مگر آپ اس مدت سے مجھے اطلاع دے دیں میرے نزدیک دنیا کے امور اور ان کی الجھنیں چلی جاتی ہیں لڑکیوں کی رخصت کو ان سے وابستہ کرنا مناسب نہیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد

۳۷
۱۰۰
مذکورہ بالا کے جواب میں نواب صاحب نے تحریر فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم۔ میری اپنی رائے تو یہی تھی کہ حضور ہی کوئی مہلت معقول عطا فرما دیتے مگر جب حضور (نے٭) مجھ پر چھوڑا تو یہ امر زیادہ ذمہ داری کا ہو گیا۔ اس لئے جہاں حضور نے یہ عنایت فرمائی ہے اتنی مہربانی اور ہو کہ میں ایک ماہ کے اندر سوچ کر عرض کر دوں کہ میں کب تک رخصتانہ کا انتظام کر سکتا ہوں۔ اس کی صرف یہ ضرورت ہے کہ میں انتظام میں لگا ہوں پس اس عرصہ میں مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر عرصہ میں انتظام مکمل ہو جائے گا۔ حضور بھی دعا فرمائیں کہ میں اس کامیں کامیاب ہوں۔ میں آج کل ہر طرح کی ابتلاؤں (کے٭) نرغے میں ہوں۔
راقم محمد علی خان
مکرر: اس عرصہ بعد مجھ کو جتنی مہلت کی ضرورت ہوگی عرض کر کے تاریخ مقرر کردوں گا باقی اختیار اللہ تعالیٰ کے ہیں وہی سامان کرنے والا ہے حضور کی دعا کے ہم سب ہر وقت محتاج ہیں۔
محمد علی خاں
اس پر حضور نے تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مجھے منظور ہے امید کہ آپ ایک ماہ کے بعد مطلع فرمائیں گے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
٭ خطوط واحدانی والے لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہیں۔
نوٹ از مرتب: پانچ عدد خطوط جو حضرت عرفانی صاحب کی طرف مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم میں شائع ہو چکے ہیں ان کے چونکہ چار عدد چربے اور ایک بلاک یہاں دیئے جارہے ہیں اس لئے ان کو بھی یہاں درج کر دیا گیا ہے نچلے نمبر جلد پنجم نمبر چہارم والے ہیں۔
٭٭٭
مکتوب نمبر(۳۹)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی ڈاک میں آپ کا خط مجھ کو ملا اس وقت تک خدا کے فضل و کرم اور جود اور احسان سے ہمارے گھر اور آپ کے گھر میں بالکل خیروعافیت ہے۔ بڑی غوثان کو تپ ہو گیا تھا۔ا س کوگھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے اورماسٹر محمد دین کوتپ ہو گیا اور گلٹی بھی نکل آئی ۔ اس کوبھی باہر نکال دیا ہے۔ غرض ہماری اس طرف بھی کچھ زور طاعون کا شروع ہے بہ نسبت سابق کچھ آرام ہے۔ میں نے اس خیال سے پہلے لکھا تھا کہ اس گائوں میں اکثر وہ بچے تلف ہوئے ہیں۔ جو پہلے بیمار یا کمزور تھے۔ اسی خیال نے مجھے اس بات کے کہنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ د وہفتہ تک ٹھہر جائیں یا اس وقت تک کہ یہ جوش کم ہو جائے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ محسوس طور پر تو کچھ کمی نظر نہیں آتی۔ آج ہمارے گھر میں ایک مہمان عورت کو جو دہلی سے آئی تھی بخار ہو گیا ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ آپ سخت تفرقہ میں مبتلا ہیں۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ بعد استخارہ مسنونہ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے قادیان آجائیں۔ میں تو دن رات دعا کررہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعائیں کی گئی ہیں کہ بعض اوقات میں ایسا بیمار ہو گیا کہ یہ وہم گزرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اورخطرناک آثار ظاہر ہو گئے۔ اگر آتے وقت لاہور سے ڈس انفکیٹ کے لئے کچھ رسکپور اور کسی قدر فلنائل لے آویں اور کچھ گلاب اور سرکہ لے آویں تو بہتر ہو گا۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء
مکتوب نمبر(۴۰)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاخط آج کی ڈاک میں پہنچا پہلے اس سے صرف بہ نظر ظاہر لکھا گیا تھا۔ اب مجھے یہ خیال آیا ہے کہ توکلا علی اللہ اس ظاہرکو چھوڑ دیں۔ قادیان ابھی تک کوئی نمایاں کمی نہیں ہے۔ ابھی اس وقت جو لکھ رہاہوں ایک ہندو بیجاتھ نام جس کاگھرگویا ہم سے دیوار بہ دیوار ہے۔ چند گھنٹہ بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کر کے آپ کو اجازت دیتا ہوںکہ آپ بخیروعافیت تشریف لے آویں۔ شب بیداری اور دلی توجہات سے جو عبدالرحمن کے لئے کی گئی میرا دل ودماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے۔ بسا اوقات آخری دم معلوم ہوتا تھا۔ یہی حقیت دعا ہے۔ کوئی مرے تا مرنے والے کو زندہ کرے۔ یہی الٰہی قانون ہے۔ سو میں اگرچہ نہایت کمزور ہوں لیکن میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ آپ جب آویں تو پھر چند روز درد انگیز دعائوں سے فضل الٰہی کو طلب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ صحت اور تندرستی رکھے۔ سو آپ بلا توقف تشریف لے آویں۔ اب میرے کسی اورخط کا انتظار نہ کریں۔
والسلام ۔خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ

مکتوب نمبر(۴۱)ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
عزیزہ سعیدہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کاخط غور سے پڑھ لیا ہے اور جس قدر آپ نے اپنی عوارض لکھی ہیں غور سے معلوم کر لئے ہیں۔ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ میں نہ صرف دوا بلکہ آپ کے لئے بہت توجہ سے دعا بھی کرتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری شفاء دے گا۔ یہ تجویز جو شروع ہے۔ آپ کم سے کم چالیس روز تک اس کو انجام دیں اوردوسرے وقت کی دوا میں آپ ناغہ نہ کریں۔ وہ بھی خون صاف کرتی ہے اور دل کی گھبراہٹ کو دو رکرتی ہے اورآنکھوں کوبھی مفید ہے۔ مگر آپ بیچ میں ناغہ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ کل آپ نے دوا نہیں پی۔ ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور نیز مصالحہ۔ مرچیں اورلونگ او رلہسن وغیرہ نہیں کھانا چاہئے یہ آنکھوں کے لئے مضر ہیں۔
آپ کے لئے یہ غذا چاہئے۔ انڈا۔ دودھ۔ پلائو گوشت ڈال کر۔ گوشت جس میں کچھ سبزی ہے۔ ثقیل یعنی بوجھل چیزوں سے پرہیز چاہئے۔ کچھ میٹھا یعنی شیرینی نہیں کھانی چاہئے۔ ایک جگہ بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ کچھ حرکت چاہئے۔ عمدہ ہوار ربیع کی لینی چاہئے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ اس علاج سے پھنسیاں وغیرہ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ


مکتوب نمبر (۶۰) دستی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اشتہار کے بارے میں جو مدرسہ کے متعلق لکھا ہے۔ چند دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ لکھوں اور ایک دفعہ یہ مانع اس میں آیا کہ وہ حال سے خالی نہیں کہ یا تو یہ لکھا جائے کہ جس قدر مدد کا لنگر خانہ کی نسبت ارادہ کیا جاتا ہے۔ اسی رقم میں سے مدرسہ کی نسبت ثلث یا نصف ہونا چاہئے۔ تواس میں یہ قباحت ہے کہ ممکن ہے اس انتظام سے دونوں میں خرابی پید اہو۔ یعنی نہ تو مدرسہ کا کام پورا ہو اور نہ لنگر خانہ کا۔ جیسا کہ دو روٹیاں دو آدمیوں کو دی جائیںتو دونوں بھوکے رہیںگے اور اگر چندہ والے صاحبوں پر یہ زور ڈالا جائے کہ وہ علاوہ اس چندہ کے وہ مدرسہ کے لئے ایک چندہ دیں تو ممکن ہے کہ ان کو ابتلاء پیش آوے اور وہ اس تکلیف کو فوق الطاقت تکلیف سمجھیں۔ اس لئے میںنے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ مارچ اور اپریل دو مہینے امتحان کیا جائے کہ اس تحریک کے بعد جو لنگر خانہ کے لئے کی گئی ہے۔ کیا کچھ ان دو مہینوں میں آتا ہے۔ پس اگر اس قدر روپیہ آگیا جو لنگرخانہ کے تخمینی خرچ سے بچت نکل آئے تو وہ روپیہ مدرسہ کے لئے خرچ ہو گا۔ میرے نزدیک ان دو ماہ کے امتحان سے ہمیں تجربہ ہو جائے گا کہ جو کچھ انتظام کیا گیاہے۔ کس قدر اس سے کامیابی کی امید ہے۔ اگر مثلاً ہزار روپیہ ماہوار چندہ کا بندوبست ہو گیا تو آٹھ سو روپیہ لنگر خانہ کے لئے نکال کر دو سو روپیہ ماہوار مدرسہ کے لئے نکل آئے گا۔ یہ تجویز خوب معلوم ہوتی ہے کہ ہر ایک روپیہ جو ایک رجسٹر میں درج ہوتا رہے اور پھر دو ماہ بعد سب حقیقت معلوم ہوجائے۔
غلام احمد عفی عنہ

مکتوب نمبر (۶۱) ملفوف
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اس جگہ آکر چند روز بیمار رہا۔ آج بھی بائیں آنکھ میں درد ہے۔ باہر نہیں جا سکتا۔ ارادہ تھا کہ اس شہر کے مختلف فرقوں کو سنانے کے لئے کچھ مضمون لکھوں۔ ڈرتا ہوں کہ آنکھ کا جوش زیادہ نہ ہو جائے خدا تعالیٰ فضل کرے۔
مرزا خد ابخش کی نسبت ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گو ہر شخص اپنی رائے کا تابع ہوتا ہے۔ مگر میں محض آپ کی ہمدردی کی وجہ سے لکھتا ہوں کہ مرزا خد ابخش آپ کا سچا ہمدرد اورقابل قدر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی لوگ جیسا کہ ان کی عادت ہوتی ہے۔ اپنی کمینہ اغراض کی وجہ سے یا حسد سے یا محض سفلہ پن کی عادت سے بڑے آدمیوں کے پاس ان کے ماتحتوں کی شکایت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میںنے سناہے کہ ان دنوں میں کسی شخص نے آپ کی خدمت میں مرزا خدا بخش صاحب کی نسبت خلاف واقعہ باتیں کہ کر آپ پر ناراض کیا ہے۔ گویا انہوں نے میرے پاس آپ کی شکایت کی ہے اور آپ کی کسر شان کی غرض سے کچھ الفاظ کہے ہیں مجھے اس امر سے سخت ناراضگی حاصل ہوئی اور عجیب یہ کہ آپ نے ان پر اعتبار کر لیا ایسے لوگ دراصل بد خواہ ہیں نہ کہ مفید۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ مرز اخد ابخش کے منہ سے ایک لفظ بھی خلاف شان آپ کے نہیں نکلا اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بے چارہ دل وجان سے آپ کا خیر خواہ ہے اور غائبانہ دعا کرتا ہے اور مجھ سے ہمیشہ آپ کے لئے دعا کی تاکید کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ چند روزہ زندگی آپ کے ساتھ ہو۔ رہی یہ بات کہ مرزا خدا بخش ایک بیکار ہے۔ یا آج تک اس سے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ یہ قضائو قدر کا معاملہ ہے۔ انسان اپنے لئے خود کوشش کرتا ہے اوراگر بہتری مقدر میں نہ ہو تو اپنی کوشش سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے انسانوں کے لئے جوایک بڑا حصہ عمر کاخدمت میں کھو چکے ہیں اور پیرانہ سالی تک پہنچ گئے ہیں۔ میرا تو یہی اصول ہے کہ ان کی مسلسل ہمدردیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ مگر ایک سچا ہمدرد انسان حکم کیمیا رکھتا ہے۔وہ نہیں ملتے۔ ایسے انسانوں کے لئے شاہان گزشتہ بھی دست افسوس ملتے رہے ہیں۔ اگر آپ ایسے انسانوں کی محض کسی وجہ سے بے قدری کریں تو میری رائے میں ایک غلطی کریں گے۔ یہ میری رائے ہے کہ جومیں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے اور آپ ہر ایک غائبانہ بد ذکر کرنے والوں سے بھی چوکس رہیں کہ حاسدوں کا جو وجود دنیا میں ہمیشہ بکثرت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
مکرر یاد دلاتا ہوں کہ میرے کہنے سے مرزا خد ابخش چند روز کے لئے لاہور میرے ساتھ آئے تھے۔







حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے نام
تعارفی نوٹ
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سابق ہریش چندر موہیال ولد مہتہ گوراندتہ مل صاحب سکنہ کنجروڑ دتاں تحصیل شکر گڑھ (سابق ضلع گورداسپور حال ضلع سیالکوٹ) پر اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا کہ پنڈت لیکھرام اور چوہدری رام بھجدت جیسے آریہ معاندینِ اسلام کی برادری میں سے ہونے کے باوجود پندرہ سولہ سال کی عمر میں حضرت اماں الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت کی توفیق عطا کی آپ کے والد نے زبردستی آپ کو قادیان سے اُٹھالے جانے کی کوشش کی جب کامیابی نہ ہوئی تو منت و لجاجت سے تحریری وعدہ حضور کی خدمت میں پیش کر کے چند دن کیلئے لے گئے لیکن وہاں جا کر گھر میں جو جانگلی علاقہ میں تھا اتنی کڑی نگرانی میں رکھا کہ کوئی مسلمان آ کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس آگ سے آپ کو صحیح و سلامت نکال لایا اور حضور کے قدموں میں دھونی رما کر بیٹھنے کی توفیق دی۔ حضور کے وصال کے وقت آپ حضور کی خدمت میں ہی حاضر تھے۔ آپ کا نام، ضمیمہ انجام آتھم میں تین سو تیرہ صحابہ میں ۱۰۱ نمبر پر ہے۔ غیر مبائعین کے فتنہ کے وقت بھی آپ نے نہایت سرگرمی سے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ ۱۹۲۴ء میں مصلح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفر یورپ کے رفقاء میں آپ بھی شامل تھے اور روزانہ کے حالات بصورت خطوط قادیان ارسال کرنے کی آپ کو سعادت حاصل ہوئی جو بہت مقبول ہوئے فتنہ ارتداد ملکانہ کے موقعہ پر آپ نے اس علاقہ میں نہایت قابل قدر کام سرانجام دیا چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس ہزار اشخاص کے برابر قرار دیا۔ ۱۹۴۸ء میں آپ کو پھر قادیان آنے کا موقعہ ملا۔ اس وقت سے آپ یہاں بطور درویش مقیم ہیں۔ اپریل ۱۹۵۰ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قلم مبارک سے آپ کو اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی کو خاص طور پر دعا کیلئے تحریر فرمایا آپ کے نام کے تو خطوط آپ ہی نے مجھے بلاک بنوانے کیلئے عنایت فرمائے تھے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۴
۱
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبلغ آٹھ روپے پہنچے۔ جزاکم اللہ خیراً میں انشاء اللہ دعا کروں گا ہمیشہ اپنے حالات خیریت سے اطلاع دیتے رہیں۔
والسلام
مرزا غلام احمد
۲۳؍ نومبر ۱۹۰۶ء (ب)
نوٹ از مرتب: تاریخ حضرت اقدس کے قلم مبارک کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ حضرت بھائی جی کے قلم سے تحریر شدہ ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۴
۲
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور آپ کا ایک الہام جسکا مضمون یہ ہے آریوں کا بادشاہ آیا اس کے اصل الفاظ کیا ہیں۔
عبدالرحمن قادیانی احمدی
۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء
السلام علیکم۔ یہ مدت دراز کا الہام ہے مجھ کو صرف اسی قدر یاد ہے معلوم نہیں کہ یہ وہی الفاظ ہیں یا کچھ تغیر ہے۔ غالباً یاد یہی پڑتا ہے کہ وہی الفاظ ہیں۔ واللّٰہ اعلم
مرزا غلام احمد (ب)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۶
۳
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور مبلغ ایک روپیہ پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ للہ قبول فرمایا جاوے۔ اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا کی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق عطا فرماوے۔ اور قوت ایمانی اور اعمال صالحات کی توفیق ملے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ آمین۔ حضور کی خادمہ اور ایک بچہ عبدالقادر بھی ملتجی ہیں ان کے حق میں بھی سعادت دارین اور انجام بخیر کی دعا فرمائی جاوے۔ حضور میں بہت کمزور حالت میں ہوں مجھے خاص خاص دعاؤں میں یاد فرمایا جاوے۔
والسلام
خاکسار
عبدالرحمن قادیانی احمد
۳؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا۔ جزاکم اللہ خیراً۔ آمین۔ انشاء اللہ القدیر دعا کروں گا۔
مرزا غلام احمد (ب)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۷
۴
میرے آقا اور میرے مولا خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور ایک کھال چیتل کی پیش خدمت کر کے ملتجی ہوں کہ قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ قوت ایمانی اور توفیق اعمال صالحات عطا فرماوے۔حضور میں بہت ہی کمزور اور قابل رحم ہوں۔ للہ میرے واسطے خاص طور سے دعا فرمائی جایا کرے حضور ایسا ہو کہ میری زندگی دین کی خدمت میں حضور کے منشاء اور رضائے الٰہی کے عین مطابق ہو جاوے۔ حضور میری یہ بھی خواہش ہے کہ یہ کھال حضور کی نشستگاہ میں ایسی جگہ رہے جہاں ہمیشہ میرے واسطے حضور کی خدمت میں دعاؤں کے واسطے عرض کرتی رہے۔ فقط
خاکسار
غلام عبدالرحمن قادیان احمدی
۵؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کھال پہنچ گئی ۔ جزاکم اللہ خیرا۔ انشاء اللہ اپنے استعمال میں لائی جاوے گی۔
والسلام
مرزا غلام احمد (ب)
٭٭٭
۴۸
۵
اس خط کا چربہ آخر میں ملاحظہ فرمائیے۔
یہ مکتوب منجاب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بنام حضرت اقدس ہے۔
(از قلم مبارک حضرت اقدس علیہ السلام)
بشریٰ۔ میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا۔ خیر وخوبی کا نشان۔ میری مرادیں پوری ہوئیں۔ (ب)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۴۹
۶
آقائی و مولائی ایدکم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور یہ ایک چیتے کی کھال ہے قبول فرمائی جاوے اور اس خاکسار غلام کے حق میں دعا فرمائی جاوے کہ اللہ تعالیٰ خادم دین بناوے اعمال صالحات کی توفیق عطا ہو اور ایسی پاک زندگی میسر آ جاوے جو خدا کی رضا مندی کا باعث ہو اور خاتمہ بالخیر ہو۔
حضور اب لاہور جانے والے ہیں ہماری بہت سی کمزوریاں حضور کے سایہ کی وجہ سے نظر انداز کی جاتی تھیں۔ اب حضو رکے وجود مبارک کا سایہ جو کہ خدا کی طرف سے اس کے فضل اور رحمت کا سایہ بن کر ہماری سپر بنا ہوا تھا۔ حکمت الٰہی کی وجہ سے لاہور جاتا ہے۔ لہٰذا اب ہم لوگ حضور کی خاص دعا اور توجہ کے از بس محتاج ہیں۔ لہٰذا نہایت عاجزی سے بصد ادب التماس ہے کہ خاص خاص اوقات میں اس خاکسار اور حضور کی خادمہ اور بچے اور اقربا کے واسطے ضرور دعا کی جایا کرے۔ فقط
حضور کا غلام در
عبدالرحمن قادیانی احمدی
بقلم خود
۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء
السلا م علیکم کھال پہنچی۔ جزاکم اللہ خیرا۔ انشاء اللہ دعا کروں گا۔
والسلام
مرزا غلام احمد (ب)
نوٹ از مرتب: اس پر حضرت بھائی جی کے قلم کا ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء کا ذیل کا نوٹ درج ہے۔
’’حضرتاقدس کاپی دیکھ کر لکھ رہے تھے۔ ہاتھ میں پنسل ہی تھی۔ حضرت اقدس کے الفاظ پنسل سے تھے میں نے سیاہی سے اوپر قلم پھیر دی‘‘۔
عبدالرحمن قادیانی احمدی بقلم خود ۔ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۰
۷
آقائی و مولائی فداک روحی ایدکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے کیوں کہ جس مکان میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے۔لہٰذا اکرم حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میںجا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آؤں یا اگر حضور کے دولت سرائے میںکوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آؤ۔ جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے۔
حضور کی دعاؤں کا محتاج خادم در
عبدالرحمن قادیان احمدی
۱۴؍ مئی ۱۹۰۸ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
ابھی جانا مناسب نہیں ہے لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بندوبست کر دیں کہ کوئی لڑکا آپ کے گھر سو رہا کرے۔
مرزا غلام احمد (ب)




محترم محمد ابراہیم خاں صاحبؓ کے نام
تعارفی نوٹ
محترم محمد ابراہیم خاں صاحب مرحوم کے صاحبزادہ جناب احسان اللہ خاں صاحب سے ذیل کا مکتوب اور کوائف حاصل ہوئے آپ ہائی کمشنر برائے پاکستان متعینہ دہلی کے سیکرٹری کے معزز عہدہ پر سرفراز ہیں۔ اگست ۱۹۵۲ء میں خاکسار کی وہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کا بیان ہے کہ میرے والد صاحب اور گلزار خاں صاحب مرحوم سکنہ کراچی دونوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ یہ غالباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء کی بات ہے۔ والد صاحب نے ۲۰؍ مئی ۱۹۳۱ء کو بمقام خیر پور (سندھ) وفات پائی جہاں آپ کی قبر معروف ہے۔ آپ کے ذریعہ مکرم ڈاکٹر حاجی خاں صاحب سابق صدر جماعت کراچی کا خاندان احمدی ہوا۔ چچا حسن موسیٰ خاں صاحب آسٹریلیاں میں کان کنوں کیلئے رسد کے قافلوں کی مینیجر تھے بعد ازاں جنرل مرچنٹ کا کام کرتے رہے آپ نے وہیں سے ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور پھر وہیں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد مبارک میں قادیان آئے اور غالباً ۱۹۴۳ء میں آسٹریلیا میںبمقام پرتھ (Perth) وفات پائی۔ عمر بھر وہاں بطور مبلغ کام کرتے رہے۔ اور خلافت ثانیہ سے بھی وابستہ تھے۔ چچا محمد حسین خاں صاحب سناتے تھے کہ میرے والد صاحب کی بیعت کے بعد میںنے بھی بیعت کی اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ محمد حسین خاں صاحب اور گلزار خاں صاحب (جو غالباً ۱۹۲۶ء میںکراچی میں فوت ہوئے) اور والد صاحب غیر مبائع خیالات کے تھے۔ لیکن بالآخر والد صاحب نبوت کے قائل ہوگئے تھے گو انہوںنے باقاعدہ بیعت نہیں لیکن انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہاللہ تعالیٰ کی بیعت کر لوں چنانچہ مجھے اس کی توفیق ملی۔ والدہ صاحب نے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی بیعت کر لی تھی گو زیارت کا موقع نہیں ملا۔ ۱۹۱۱ء میں بوقت وفات انہوں نے حضور کی صداقت کا بار بار اقرار کیا اور اس وقت ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور جو باتیں انہوں نے اس وقت بتائیں جلد پوری ہوگئیں۔
مکرم احسان اللہ خان صاحب کے پاس متعدد تبرکات ہیں جن کی تفصیل خاکسار کی طرف سے بدر جلد۲ نمبر۸ ابابتہ ۱۴؍ مئی ۱۹۵۳ء میں شائع ہو چکی ہے۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۱
۱
محبیاخویم محمد ابراہیم خاں صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مبلغ ۲۵ روپے آپ کے جو آپ نے کمال اخلاص سے روانہ کئے تھے مجھ کو پہنچ گئے اور آپ کے لئے دعائے خیر کی گئی۔ اس لئے میں آپ کو رسید ۲۵ روپے سے شکرگزاری کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کی جزائے خیر آپ کو بخشے۔ آمین۔ باقی خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
(لفافہ پر کاپتہ)بمقام کراچی بندر مکان قریب گورنمنٹ گارڈن
بخدمت محبی اخویم محمد ابراہیم خاں صاحب بن حاجی موسیٰ خاں صاحب
راقم مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۳؍ اگست ۱۹۰۳ء
نوٹ از مرتب: جس روپیہ کا اوپر ذکر آیا ہے اس کی رسید حضور کی دستخطی بھی موجود ہے جس پر مرقوم ہے ’’مرزا غلام احمد ۲۹؍ اگست ۱۹۰۳ء‘‘ کا بلاک بھی علیحدہ درج کر دیا گیا ہے وہاں ہر دو میں جو کچھ مرقوم ہے وہ حضور کا قلمی نہیں۔ ان ایام میں ڈاک گوراسپور سے ہو کر جاتی ہوگی۔ کیونکہ ڈاک خانہ قادیان کی مہر ۲۹؍ اگست کی گورداسپور کی ۳۱؍ اگست کی اور کراچی کی ۳؍ ستمبر کی ثبت ہے۔ اور دستخط اور تاریخ کے درمیان حضور کی مہر ثبت ہے جو پڑھی نہیں جاتی… بمفوف اور رسید
وصیۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
برادرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب کہ آپ کی وفات قریب آ گئی بطور وصیت مسلمانوں کو جمع کر فرمایا۔ دِمَائُ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ (اور ابی بکرہ کی حدیث میں ہے وَاَعْرَاضَکُمْ) حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یُوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِ کُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔ اس شہر میں اس مہینہ میں اس دن کو اللہ تعالیٰ نے جو حفاظت بخشی ہے (یہ حج کے ایام کی بات ہے) وہی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں (اور ابی بکرہ کی روایت کے مطابق اور تمہاری عزتوں) کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے۔ یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پُر امن بنایا ہے اسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کو سب کو حفاظت کرنی چاہئے جو اپنے بھائی کی جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے گویا وہ ایسی ہی ہے جیسا کہ حج کے ایام اور مقامات کے بے حرمتی کرنے والا پھر آپ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سے آگے دوسروں تک پہنچائے میں اس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں آپ کو چاہئے کہ اس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقعہ پر یہ حدیث پہنچا دیں اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے اُسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
۱۶؍ ذیقعدہ ۱۳۵۸ھ


حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ و
حضرت قاضی عبدالرحیم ؓ صاحب بھٹی کے نام
حضرت قاضی ضیاء الدینؓ کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے۔ آپ پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں قادیان ۷؍ فروری ۱۸۸۵ء کو حاضر ہوئے تھے۔ آپ سلسلہ احمدیہ سے اس کے آغاز میں وابستہ ہونے والے سابقون الاوّلون میں سے تھے۔ آپ کا خاندان ان معدودے چند خوش قسمت خاندانوں میں سے ایک ہے جن کے ایک زیادہ افراد ۳۱۳ صحابہ میں شمار ہوئے۔ چنانچہ آئینہ کمالات اسلام میں نمبر۱۰۴ پر اور انجام آتھم میں نمبر۳۵ پر آپ کا نام مرقوم ہے۔ انجام آتھم میں آپ کے دونوں صاحبزادگان قاضی عبدالرحیم صاحبؓ اور قاضی عبداللہ صاحب کے اسماء ۱۴۵ اور ۲۸۱ نمبر پر درج ہیں۔ آئینہ کمالات اسلام میں حضرت قاضی صاحب کا نام مطبع وغیرہ کے لئے ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۲ء کو چندہ کا وعدہ کرنے والوں میں مرقوم ہے۔ تریاق القلوب میں زیر نشان نمبر ۴۷ حضرت اقدس نے قریباً دو صفحات میں قاضی صاحب کا خط درج فرمایا ہے۔ اس میں قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور نے میرے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو بعینہٖ پوری ہوئی۔ اس میں قاضی عبدالرحیم صاحبؓ کا بھی ذکر آتا ہے۔ آپ ۱۹۰۴ء میں قادیان میں جہاں آپ ہجرت کر کے مقیم ہوگئے تھے فوت ہو کر قادیان کے مشرقی جانب برائے قبرستان میں مدفون ہوئے اس وقت ابھی بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں نہ آیا تھا۔
قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ولادت ۲۳؍ جون ۱۸۸۱ء وفات ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۵۳ء بمقام ربوہ مبارکہ) کو قادیان میں تکمیل منارۃ المسیح، و پل براستہ بہشتی مقبرہ، مسجد نور، تعلیم الاسلام ہائی سکول، مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کی سعادت نصیب ہوئی۔ حقیقۃ الوحی میں چراغ دین جمونی کی تحریر کا جو عکس دیا گیا ہے یہ تحریر آپ ہی نے جموں سے بھجوائی تھی آپ ہی کا صاحبزادہ (اور خاکسار کے استاذ المحترم) قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی پرنسپل و صدر جماعت احمدیہ نیروبی (مشرقی افریقہ) سے ذیل کے مکتوبات مجھے نقل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ آپ قادیان کی زیارت کے موقعہ پر گذشتہ اپریل میں میرے لکھنے پر مکتوبات قادیان لے آئے تھے۔ مگر قاضی محمد عبداللہ صاحب کو بھی بہت سی خدمات سلسلہ کا موقعہ ملا ہے۔
۱؍۵۵
یہ مکتوب صفحہ ۱۳ ضمیمہ پر مندرجہ خطوط میں سے پہلا ہے اور حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کے نام ہے۔ وہاں سہواً نمبر درج ہونے سے رہ گیا ہے اس کا چربہ اصل کتاب کے صفحہ۷۳،۷۴ پر دیا گیاہے۔
نوٹ بر ۱؍۵۵: اس مکتوب میں ’’بہو‘‘ سے مراد محترمہ صالح بی بی صاحبہؓ مرحومہ اہلیہ محترم قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بھٹی ہیں۔ موصوفہ نے ۱۳؍ نومبر ۱۹۵۰ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور امانتاً دفن ہوئی۔ آپ کے بیٹے محترم قاضی عبدالسلام صاحب تابوت کو جو قدرت خداوندی سے بالکل محفوظ تھا ربوہ لے آئے اور ۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کو انہیں بہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا۔ قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہِ ذرہ نوازی بعد ظہر جنازہ پڑھایا اس سے قبل ان کی وفات پر مسجد مبارک ربوہ میں نماز جمعہ کے بعد جنازہ غائب پڑھا تھا۔ سو مرحومہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ دو دفعہ خلیفہ وقت نے ان کا جنازہ پڑھا۔
(مرتب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۲
۲
بحضور امامنا وحبیبنا
بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عرضداشت آنکہ مہدی حسین صاحب رخصت سے واپس آگئے ہیں۔اب عاجز کے واسطے کیا حکم ہے یہاں کوچہ میں جلد بندی کی بہت چیزیں لڑکے بے اخبر اُٹھالے جاتے ہیں کوئی چیز محفوظ نہیں رہتی۔ اس سے پہلے یہ عاجز چھاپہ خانہ۱؎ کے مشرقی دروازہ میں
۱؎ مراد مطبع ضیاء الاسلام ہے جو مطب حضرت خلیفہ اوّلؓ سے ملحق جانب جنوب تھا اور خلافت ثانیہ میں بطور گیراج استعمال ہوتا رہا۔ اب بھی گیراج کی شکل میںموجود ہے (مطب اور پریس کے نقشہ کے لئے دیکھئے اصحاب احمد جلد دوم صفحہ۱۶؍۱۶) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی فرماتے ہیں کہ بعد ازاں حضرت قاضی صاحبؓ مہمان خانہ کے اس کمرہ میں جلد
حکیم صاحب کے حکم سے بیٹھتا رہاہے۔۱؎ چونکہ اور کوئی ایسی جگہ موجود نہیں لہٰذا سال بھر سے زیادہ وہیں گزارہ ہوتا ہے کیا اب بھی وہیں اجازت دیتے ہیں یا کوئی اور جگہ جو عاجز کے حال کے موزوں ہو۔ دراصل جگہ کے بارہ میں عاجز از حد مضطر ہے۔ گھر کی نسبت یہ حال ہے کہ پرسوں ڈپٹی کے بیٹے نے بذریعہ ڈاک نوٹس ۲؎ دیا ہے کہ ایک ہفتہ تک مکان خالی کر دو ورنہ تین روپیہ ماہوار کرایہ مکان واجب الادا ہوگا۔ اس وقت کے رفع کے لئے بھی حضور دعا فرماویں کہ بے منت غیرے کوئی جگہ مولا کریم میسر کرے۔
والسلام والاکرام
غرضیہ نیاز مسکین
ضیاء الدین عفی عنہ
۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء



حاشیہ بقیہ صفحہ: جلد سارڑ کی دکان کرتے رہے جو بلکہ کے پاس جانب شمال ہے اور اس کا ایک دروازہ احمدیہ بازار میں کھلتا ہے۔
۱؎ مراد حضرت حکیم مولوی فضل الدین صاحبؓ بھیروی ہیں جو مطبع ضیاء الاسلام قادیان کے مہتمم تھے اور حضور کے جواب میں ان کا ذکر ہے۔
نوٹ: (۱) اس خط کے جواب میں جو کچھ حضور نے تحریر فرمایا ضمیمہ صفحہ ۱۳ پر دوسرے نمبر پر درج ہے۔ اس کا چربہ ضمیمہ صفحہ اصل کتاب کے حکم صفحہ۷۳،۷۴ پر دیا گیاہے۔
(۲) محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ نے مجھے لکھوایا کہ حضرت دادا صاحبؓ جب قادیان میں آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دارالمسیح میں رہائش کی جگہ دی تھی۔ میری ولادت دسمبر ۱۹۰۲ء میںاس مکان میں ہوئی جہاں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا مکان ہے۔ یہ جگہ ڈپٹیوں کی تھی اور کرایہ پر لی ہوئی تھی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۷
۳
سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور نے غلام کی ہمشیرہ امۃ الرحمن کے رشتہ کیلئے اپنے رشتہ داروں میں کوشش کرنے کے لئے فرمایا تھا سو عاجز نے مطابق حکم حضور اپنے قبیلہ میں ہرچند کوشش کی ہے کوئی صورت خاطر خواہ میسر نہیں آئی۔ جو خواہاں ہیں وہ حضور کے مخالف ہیں مخالفوں سے تعلق قائم کرنا پسند نہیں۔ عاجز کی گزارش ہے کہ اس معاملہ کو زیادہ عرصہ تک ملتوی نہ رکھا جائے۔ حضور جس جگہ مناسب سمجھیں تجویز فرماویں۔ عاجز کو کل جناب نواب صاحب۱؎ نے بھی جلدی فیصلہ کرنے کی تاکید کی ہے اور دیر کر بہت مکروہ خیال کیا ہے۔ چند آدمیوں کا انہوں (نے٭)نام بھی لیاہے اور ان کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے۔ اُن میں سے ایک اخویم احمد نور صاحب کابلی ہیں۔ احمد نور صاحب کی طرف کبھی کبھی والد صاحب مرحوم بھی خیال کیا کرتے تھے مگر محض للہ۔ حضور جیسا مناسب جانیں اور جہاں بہتر سمجھیں تجویز کر دیں مگر جلدی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ عاجز کا اور ہمشیرہ امۃ الرحمن کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضور کے فیصلہ میں نور اور برکت ہوگی۔
والسلام
حضور کی جوتیوں کا غلام
عبدالرحیم ولد قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم
مورخہ ۳۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء
نوٹ: (۱) حضور کا جواب ضمیمہ صفحہ۱۳ پر درج ہے۔ غلطی سے وہاں نمبر لکھنے سے رہ گیاہے۔ چربہ اصل کتاب کے صفحہ ۷۳،۷۴ پر درج ہے۔
(۲) ’’1904‘‘ بحرف انگریزی خط والی سیاہی سے مختلف سیاہی سے مرقوم ہے۔ مکرم قاضی عبدالسلام صاحب فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ کب ’’1904‘‘ لکھاگیا۔ غالباً والد صاحب مرحوم
۱؎ مراد حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ ۔ (مرتب)
٭ خطوط واحدانی کا لفظ خاکسار مرتب کی طرف سے ہے۔
نے لکھا ہوگا۔ حضرت قاضی ضیاء الدینؓ صاحب کی وفات ۱۹۰۴ء ہی میں ہوئی تھی۔
(۳) محترم قاضی عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں کہ:
’’عاجز کی پھوپنی صاحبہ کا اصلی نام فاطمہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدل کر امۃ الرحمن تجویز فرمایا کہ فاطمہ نام کے ساتھ کچھ صعوبت کی زندگی کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ ان کی ولادت ۲۱؍ شعبان ۱۲۹۵ھ کو ہوئی اور وفات رتن باغ لاہور میں ۱۳؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کو ہوئی چوبرجی والے قبرستان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے قریب دفن ہوئیں۔ میں وہاں سے ہڈیاں وغیرہ نکال لایا اور ۲۸؍ مارچ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت والد صاحبؓ کے قریب دفن کیا۔ ان کی شادی غالباً ۱۹۰۶ء میں دارالمسیح میں منشی مہتاب علی صاحبؓ سیاح سکنہ ضلع جالندھر سے ہوئی تھی۔ حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود انہیں رخصت کیا تھا۔ پھوپھی صاحبہ مرحومہ بیان کیا کرتی تھیں کہ رخصتانہ کے وقت جب حضرت اُمّ المؤمنین نے فکر سے کہا کہ وہ تو اب جاتی ہے تو حضور نے فرمایا فکر نہ کرو ہم اس کا مُکلاوا لمبا کریں گے یعنی خاوند سے واپس آئے گی تو زیادہ دیر تک اپنے پاس ٹھہرائیں گے۔ منشی صاحبؓ نے ہمارے خاندان کے ایک نوجوان فیض اللہ نامی سے مباہلہ کیا تھا جو ایک سال کے اندر طاعون سے ہلاک ہو گیا تھا۔ حضور نے تتمہ حقیۃ الوحی میں صفحہ ۱۶۵،۱۶۶ پر اس نشان کا ذکر فرمایا ہے۔ منشی صاحبؓ ۱۹۲۱ء میں فوت ہوئے۔ اولاد میں سے صرف میری بیوی مبارکہ بیگم زندہ ہے۔باقی بچے بچپن میں فوت ہوگئے تھے‘‘۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۸
۴۰
سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔خاکسار نے ایک عریضہ چراغ دین کی وفات پر حضور پُرنور کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور اخبار میں چھپنے کے واسطے بھی لکھ دیا تھا اس کے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا کہ چراغ دین کے متعلق چند باتیں تحقیقات سے دریافت کر کے لکھو جو کچھ مجھے دریافت کرنے سے معلوم ہوا میں نے تحریر کر دیا لیکن مجھے یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ خط اخبار میں چھاپا جائے گا۔ میں نے اس خیال پر کہ شاید چراغ دین کے متعلق کوئی مضمون لکھا جائے گا وہ کل حالات صرف پرائیویٹ طور پر تحریر کئے تھے اور اس خیال سے تحریر کئے تھے کہ اس مضمون کے لئے مصالحہ درکار ہوگا اس لئے میں نے اس خط میں بعض باتیں بے تعلق بھی درج کر دی تھیں جن کا اصل غرض کے ساتھ کوئی لگاؤ نہ تھا۔ اگر اخبار کے لئے مضمون لکھتا تو طرز تحریر بدل دیتا جیسے کہ پہلے خط میں نے قابل گرفت الفاظ کا لحاظ رکھا ہے ایسی ہی اس خط میں بھی ان باتوں کو مدنظر رکھتا۔ میں نے تو صرف حضور کے واسطے لکھا تھا نہ اخبار کیلئے۔ مفتی صاحب کی طرف اس لئے لکھا تھا کہ شاید مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی جابجا مفتی صاحب خط وکتابت کا کام کرتے ہیں کیونکہ حضرت کی خدمت میں جو خط لکھا تھا اس کا جواب مفتی صاحب نے دیا تھا۔ اور نیز میں نے یہ اجازت نہیں دی کہ اس کو اخبار میں شائع کیا جاوے جب کہ پہلے خط میں دی تھی اور اگر میں لکھ بھی دیتا کہ اس کو شائع کیا جاوے تو بھی ایڈیٹر صاحب اور مینیجر صاحب کا فرض تھاکہ چھپنے سے پیشتر مضمون پر ہر ایک پہلو سے غور کر لیتے اور بعد قانونی تصحیح کے چھاپتے کیونکہ کرم الدین کے مقدمہ نے پورا پورا سبق سکھا دیا تھا جن مخالفوں نے ایک لئیم کے لفظ پر اس قدر زور مارا کیا اب وہ کچھ کم کریں گے؟ آئندہ ماشاء اللہ ان کو تو خدا خدا کر کے ایسے موقع ہاتھ لگتے ہیںاب بھلا وہ کس طرح درگزر کریں۔ اصل مضمون میں یہ الفاظ ہیں۔
’’اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے ہیں ممکن ہے وہ اس کی زندگی میں بھی خراب ہو‘‘۔
یعقوب مسیحی سے میں نے یہ سنا تھا لیکن اب وہ انکاری ہے اور ثبوت طلب کرتا ہے۔ یہی عیسائی اور مسلمان اس پر تلے ہوئے ہیں کہ عورت کی طرف سے فوجداری مقدمہ کرایا جاوے آج کل میں مقدمہ دائر کرنے والے ہیں پیروی کے واسطے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی ہے بظاہر ان کے باز رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ۱۹؍ فروری کا الہام ’’ایک عورت کی چال ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘ شاید یہی چال ہو۔ میں دین کے کام میں لڑنے اور تکلیف سے نہیں ڈرتا۔ صرف ناداری اور عیالداری کی وجہ سے خوف ہے اس وقت میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں جو مقدمہ میں کام آئے اور مقدمہ کی ایک پیشی بھی سرمایہ بغیر بھگتی نہیں جا سکتی۔ اس لئے یہ مقدمہ میرے لئے سخت ابتلاء ہے۔ حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عورت کے شر سے بچالے۔ بھروسہ ہے تو صرف اس کی ذات بابرکات پر ہے۔ میرے مادی اسباب بھی کارگر نہیں ہوا کرتے۔ بواپسی جواب (سے٭) سرفراز کریں کہ کیا تجویز کی جاوے۔ کیونکہ آج کل میں مقدمہ جاری ہونے والا ہے۔ دیگر عرض ہے کہ شیخ رحیم بخش صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ چراغ دین کی کتاب چھپوانے کے واسطے حضور نے سخت تاکید کی ہے سو عرض ہے کہ میں مہتمم چھاپہ خانہ کے اس غرض سے کئی دفعہ گیا ہوں اس سے یہی معلوم ہوا ہے کہ اب چھپنے کی تجویز ملتوی ہوگئی ہے۔ ان کے پاس روپیہ نہیں اور میں خود اس لئے نہیں چھاپتا کہ یہ کوئی مفید کتاب نہیں جو دست بدست فروخت ہو سکے۔ آخر میں نے اسے بہت کچھ طمع و ترغیب دے کر چھاپنے پر آمادہ کر لیا ہے کل لاگت کوئی ۵۰ یا ۶۰ روپیہ تک ہوگی جس کے ادا کرنے کے واسطے میں نے اس سے عہد کر لیا ہے۔ کچھ کتب حق تصنیف میں دی جائیںگی اور کچھ کتب مہتمم چھاپہ خانہ کی نذر ہونگی۔ اگر خریدار پیدا ہو جاویں تو باقی ماندہ کتب فروخت کر کے لاگت کا کچھ حصہ وصول ہو سکتاہے وہ نقلیں جو حضور کی خدمت میں ارسال کی تھیں وہ کاپی میں آگئی ہیں کچھ مسودہ اِدھر اُدھر منتشر ہے۔ مہتمم چھاپہ خانہ اس کے جمع کرنے کی فکر میں ہے۔ فراہم ہو جانے کے بعد ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جاوے گا۔ دعا کریں کہ جیسے پہلے نقل حاصل کرنے میں خدا نے مجھے کامیاب کیا تھا ایسا ہی اب بھی کامیاب کرے جواب سے ممنون فرماویں۔ عاجز کا بڑا بچہ اور منجھلے سے چھوٹا بیمار ہیں اور عاجز کی اور عاجز کی بیوی کی بھی صحت درست نہیں ہے۔ حضور خاص توجہ سے دعا کریں کہ شافی مطلق پوری پوری صحت بخشے ۔آمین۔
والسلام
عاجز قاضی عبدالرحیم نقشہ نویس
محکمہ نہر از جموں
مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۶ء
میں نے اس میں کسی کی شکایت نہیں کی اور نہ ایڈیٹر صاحب پر شاکی ہوں جو کچھ مقدر ہوتا ہے ہو گزرتا ہے۔ صرف اصلیت امر کو ظاہر کیاہے۔
٭ خطوط واحدانی کا لفظ مرتب کی طرف سے ہے۔
اس خط پر حضور نے اپنی قلم مبارک سے تحریر فرمایا:
اس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خداتعالیٰ پر توکّل کریں۔ دعا کی جائے گی۔
والسلام
مرزا غلام احمد
نوٹ: (۱) مکرم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ذکر کرتے تھے کہ میرے بھائی کو ۱۹۴۷ء میں اچانک اپنے گھر سے نکلنا پڑا۔ بعد ازاں قادیان کا ایک سکھ دوست آیا اور کہنے لگا کہ گھر سے کچھ لانا ہے تو میرے ساتھ چلیں۔ بھائی گئے اور صرف وہ تھیلا لائے جس میں یہ مکتوبات تھے۔ یقینا حضور کے ارشاد کے باعث کہ ’’اس خط کو بہت محفوظ رکھاجائے۔ حضور کے اور صحابہؓ کرام کے کئی مکتوبات بچ گئے۔
(۲) اس مقدمہ کے متعلق قاضی عبدالرحیم صاحب نے قاضی عبدالسلام صاحب کو بتایا کہ ’’اس مقدمہ ازالہ حیثیت عرفی کے متعلق یہ واقعہ ہوا کہ عین اس تاریخ جس دن دعویٰ دائر ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہو چکی تھی تو علی الصبح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہوگئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا‘‘۔
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۵۹
۵
مکرمی اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا پُردرد و غم خط مجھ کو ملا۔ آپ صبر کریں جیسا کہ خداتعالیٰ کے صابر و شاکر بندے صبر کرتے رہے ہیں خدا تعالیٰ ان غموں سے اور ان پریشانیوں سے نجات دے گا اور درود شریف بہت پڑھیں تا اُس کی برکات آپ پر نازل ہوں اس جگہ میں نے مطبع منگوایا ہے اس میں رسالہ دافع الوساوس چھپے گا اور انشاء اللہ عنقریب چھپنا شروع ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اگر طبیعت پریشان ہے تو چند ماہ کیلئے میرے پاس آ جائیں۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۵؍ جون ۱۸۹۲ء
نوٹ: یہ مکتوب الحکم جلد ۲ نمبر۳۲ صفحہ۳ سے درج کیا گیا ہے تا تمام مکتوبات ایک جگہ جمع ہو جائیں۔








بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
بخدمت امامنا و مخدومنا حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ خداوندکریم و رحیم کا بڑا فضل ہمارے شامل حال ہوا کہ ہم نے اُس نعمت عظمٰی کو پا لیا جس کے لئے ہمارے آبا و اجداد ایک زمانہ دراز سے متمنی گزر گئے کہ ہم کو حضرت والا کی بیعت کا شرف حاصل ہوا جس سے لاکھ لاکھ شکر ہے اُس خداوند کریم کا کہ ہمارے ایمان و اتقان میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی حضور سے استدعا ہے کہ ہمارے لئے ایسی دعا فرمائیں کہ خداوند کریم ہمیں شیاطین والانس والجن سے محفوظ رکھ کر ہمارے خاتمہ بخیر کرے اور ہمارے آخر دم تک اپنی اور اپنے پیارے نبی کی فرمانبرداری کا ایک سچا عملی اور پُر اثر جوش مرحمت فرمائے اور ہم سے راضی و خوشی ہو جائے۔
اور یہ امر بھی ضروری الفرض ہے کہ حضور کی خاص توجہ دینیات کی وجہ یہاں ہمیں کسی قسم کی تکلیف پیش نہیں آئی جس چیز کی ضرورت ہوئی حسب خواہش مہیا ہوتی رہے۔ہر چند دل کی خواہش تو یہی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے حضور سے جدا نہ ہوں لیکن ایام رخصت کے قریب الاختتام ہونے و اسباب معاش کی انجام دہی کیلئے ضرورت کی وجہ سے خدام مستدعی اجازت ہیں کہ کل صبح اپنے وطن کی جانب راہی ہو جائیں۔
خاکساران
سید ظہور اللہ احمد سید عابد حسین
سرجن دواخانہ راجورہ وردال منصبدار علاقہ نظام حیدر آباد
ضلع بیدر علاقہ نظام حیدر آباد بحظ کنٹری
سید نعیم اللہ احمد دستخط بشیر احمد سوداگر
نوٹ: ڈاکٹر سید ظہور اللہ احمد صاحبؓ حیدر آبادی کے نام کے دو خطوط جو صفحہ۱۰تا۱۲ پر درج ہیں وہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل ہائیکورٹ یادگیر کی کوششوں سے ملے ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا۔ اصل خطوط مکرم سید اسد اللہ صاحب حیدر آبادی جو اُن کے فرزند ہیں کے پاس محفوظ ہیں۔ (مرتب)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
محبی عزیزی اخویم قاضی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خیریت نامہ پہنچا بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ تشریف لاویں آپ کی بہو کے لئے اگر ساتھ لے آویں تین چار ماہ تک کوئی بوجھ نہیں ایک یا دو انسان کا کیا بوجھ ہے۔ پھر تین چار ماہ کے بعد شاید آپ کے لئے اللہ تعالیٰ اس جگہ کوئی تجویز کھول دے۔ ومن یتوکل علی اللّٰہ وھو حسبہ سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ہمارا اور آپ کی عمر کا آخری حصہ ہے بھروسہ کے لائق ایک گھنٹہ بھی نہیں ایسا نہ ہو کہ جدائی کی مدت موجب حسرت ہو۔ موت انسان کے لئے قطعی اور اس جگہ موت سے ایک جماعت میں نزول رحمت کی امید ہے۔ غرض ہماری طرف سے آپ کو نہ صرف اجازت بلکہ یہی مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں ہماری طرف سے روٹی کی مدد اور انسان کے لئے ہو سکتی ہے اور دوسرے بالائی اخراجات کے لئے آپ کوئی تدبیر کر لیں اور امید ہے کہ خدا کوئی تدبیر نکال دے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد عفی عنہ
۳؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حکیم فضل دین صاحب سے دریافت کر لیجئے کہ مہمان خانہ میں آپ کے لئے جگہ نہیں اور عنقریب میرے اس دالان کے پیچھے ایک مکان بننے والا ہے اس میں آپ رہ سکتے ہیں بالفعل گزارہ کر لیں کوئی گھرتلاش کر لیں۔
والسلام
نوٹ: اس پر ستخط موجود نہیں مگر تحریر حضور کی ہے۔ (مرتب)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
امۃ الرحمن کے معاملہ میں مجھے بہت حیرت ہے کوئی صورت خاطر خواہ ظاہر نہیںہوتا۔ احمد نور نیک بخت آدمی ہے۔ بہت مخلص ہے۔ مگر وہ پردیسی ہے۔ زبان پنجابی اور اُردو سے محض ناواقف ہے۔ اس صورت میں اصول معاشرت میں پہلے ہی یہ نقص ہے کہ ایک دوسرے کی زبان سے ناواقف ہیں پھر وہ عنقریب ایک لمبے سفر کے لئے جاتے ہیں اور خطرناک زمین کابل کا سفر ہے معلوم نہیں کہ کیا ہو میں نے کئی جگہ کہہ دیا ہے اب اختیار میں نہیں ایسی جلدی نہیں چاہئے جس میں اور فساد پیدا ہو۔
مرزا غلام احمد عفی عنہ








ڈاکٹر سید ظہور اللہ صاحب حیدر آباد ی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں ان کے اولاد کے پاس جو خط حضرت اقدس کا محفوظ تھا اس کو معہ اصل درخواست دعا ڈاکٹر صاحب مع جواب کے شائع کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ…










بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
(۱) عریضہ بیعت مولوی سید بشارت احمد ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن و ہمشیرہ صاحب موصوف سے متعلق نوٹ
(۲) معہ اصل خط حضرت میر محمد سعید صاحبؓ
(۳) اصل خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن (سابق نام میر بشارت علی صاحب) کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تحریر اصلی معہ دیگر عریضہ کے موجود تھے جو ان سے حاصل کر کے مکتوبات احمدیہ جلد ہفتم ہذا میں شائع کئے جا رہے ہیں۔ اصل تحریر سے پہلے خود مولوی صاحب موصوف کے نوٹ درج ہیں۔
(محمد اسماعیل فاضل وکیل ہائی کوٹ یادگیر)
۷؍ستمبر ۱۹۵۴ء
عریضہ بیعت کے متعلق نوٹ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
میں میر بشارت علی خاں ہاشمی ولد میر احمد علی خاں صاحب منصبدار علاقہ حضور نظام میر محبوب علی خاں شاہ وقت ریاست حیدر آباد دکن ہوں مدت سے یہ آرزو تھی کہ اعلیٰ حضرت حضور اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود حضرت اقدس و اعلیٰ مرزا غلام احمد صاحب ساکن قادیان سے جو کہ برحق مسیح تھے جن کے لئے تیرہ سَو سال سے انتظار تھا شرف قدم بوسی حاصل کروں لیکن بوجوہات عسرت و امور خانگی حضور کی دیدار و قدم بوسی سے محروم رہا۔ واقعہ یہ … ہے کہ میر محمد سعید صاحب احمدی کشمیری جو کہ میرے استاد اور بزرگ تھے وہ ماہ مئی ۱۹۰۸ء میں حضور اقدس کی خدمت میں جب کہ آپ دارالسلطنت لاہور میں بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اُمّ المؤمنین رونق افروز تھے جانے کا مقصد ظاہر فرمایا گو کہ میںتمام خرچ روانگی وغیرہ بہم پہنچایا اور جانے کے لئے ایک روز باقی تھا کہ حضرت قبلہ جنابہ سردار بیگم صاحبہ جو کہ میری مشفق اور چاہتی ماں ہیں انہوں نے بوجہ جدائی و سفر دور دراز سخت مضطرب و بدحال ہوگئے اور مانع بھی ہوئے۔ پس باایں نصیحت حضرت اقدس کہ (جو شخص اپنے ماں باپ کی اطاعت نہ کرے وہ میری مریدی سے خارج ہے۔ دیکھو کشتی نوح)جانے سے باز رہا اور کچھ نذرانہ خدمت اقدس میں بذریعہ مولوی صاحب موصوف معہ ایک عریضہ شوق و نیزیک عریضہ بایں بیان کہ میری ہمشیرہ یعنی غریب النساء بیگم عرف حاجی بیگم صاحب بیعت میں داخل ہوتے ہیں لہٰذا حضور شریک فرما کر خاص اپنے دستخط خاص سے کچھ نصیحت وغیرہ تحریر فرما کر غلام کو سرفراز فرمائیں معہ نذر روانہ خدمت کیا تھا چنانچہ مولوی صاحب موصوف جب کہ لاہور پہنچ گئے تو میرا و نیز ہمشیرہ صاحبہ کا عریضہ بمعہ نذر حضرت کی خدمت میں پیش کیا جس پر حضور نے نذر قبول فرما کرخاص اپنے دست مبارک سے بتاریخ ۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء اپنے وفات کے نو روز قبل بمقام لاہور عزیز منزل میں یہ جواب تحریر فرمایا ہے جس کی نقل صفحہ۶۶ کتاب ہذا پر ہے۔
نوٹ نمبر۲ از مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ و امیر جماعت احمدیہ حیدر آبا دکن
گو کہ میں نے ۱۹۰۶ء میں اپنے گھر میں سب سے پہلے بیعت کی اور حضور کی زندگی تک کثرت سے عررائض دعا کیلئے لکھتااور اپنے پتہ سے پوری طرح اطلاع نہ دے سکا تو میرے خطوط کے جواب میں جو خطوط حضور بھجواتے تھے محض واپس جانے سے اور اخبار میں میرے کو تسلی دینے کیلئے چھپوا دیا جاتا رہا کہ دعائیہ خطوط بھیجتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے بوجہ طفولیت میں اپنے پتہ خطوط میں نہیں لکھا کرتا تھا ورنہ جوابات مجھے وصول ہوتے۔
میری ہمشیرہ کا خواب: میری ہمشیرہ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ جن کا رتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کا ہے میرے گھر تشریف لا کر چنبیلی کے منڈوے کے پاس جو کہ میرے صحن میں تھا کھڑے تھے اتنے میں میری ہمشیرہ ان کی بیعت کے لئے میرے کمرہ میں سے ایک مخمل کی میری شیروانی لے کر باہر آئیں اور بیعت کیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ میں نے اپنے خط میں اپنی ہمشیرہ کا جو ذکر لکھا تو حضور نے ان کی بیعت کے ساتھ میری بیعت کا بھی ذکر فرما دیا۔
نوٹ نمبر۳ از محمد اسماعیل وکیل یادگیر
مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کی ہمشیرہ صاحبہ جن کا ذکر اس بیعت میں موجود ہے ان کی شادی بعد میں جناب نواب اکبر یار جنگ بہادر جج ہائی کورٹ حیدر آباد سے ہوئی تھی وہ اب دیر ہوئے فوت ہوچکی ہیں جن کے بطن سے ایک لڑکا رشید الدین احمد صاحب بقید حیات ہے جو سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کے داماد ہیں۔
(نقل تحریر حضرت مولوی میر محمد سعید صاحبؓ)
صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (جو مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ کے خسر اور جماعت احمدیہ حیدر آباد کے بانی تھے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بیعت فارم سید بشارت احمد صاحب اور ان کی بہن کا پیش فرمایا تھا جس کا حضور اقدس نے جواب دیا وہ دوسرے صفحہ پر درج ہے۔
نقل مطابق اصل تحریر مبارکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بیعت ونذر میر بشارت علی صاحب و ہمشیرہ شان بدعا خیر منظور است نصیحت ہمیں کہ اقامت صلوٰۃ و معموری آن بدعاہا و استقامت براحادیث صحیحہ و احکام قرآن و کثرت درود شریف و استغفار دایم لازم۔ بجملہ یادکنندگان سلام شوق۔
مرزا غلام احمد
لاہور عزیز منزل
۱۸؍ مئی ۱۹۰۸ء
نوٹ از مرتب: مکتوب ہذا ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے تعلق میں ہے۔ نواب صاحبؓ کی تحریر مالیر کوٹلہ میں اس ساٹھ سالہ جوبلی کے (جون ۱۹۷ء) منائے جانے کے متعلق حضور نے اشتہار جلسہ احباب میں شائع فرما دی تھی۔
شکریہ احباب
اس کتاب کی طباعت اور اشاعت اور پروف ریڈنگ و دیگر تمام کام کی انجام دہی … مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل وکیل ہائی کورٹ یادگیر نے میری بہت مدد کی ان کے علاوہ مکرم سیٹھ عبدالحی صاحب احمدی یادگیر و سیٹھ معین الدین صاحب احمد چنتہ کنٹھ سیٹھ رشید احمد صاحب احمدی حیدر آباد سیٹھ محمد اسماعیل صاحب چنتہ کنٹھ و اعجاز حسین صاحب چنتہ کنٹھ نے بھی حتی المقدور مالی اعانت فرمائی۔ جزاھم اللّٰہ احسن الجزاء
ملک صلاح الدین ایم۔ اے
قادیان
۴؍ دسمبر ۱۹۵۴ء






ضروری اعلان
ذیل کے نہایت مفید کتب ہر گھرانے میں ہونی چاہئیں
۱۔ حمائل شریف و قرآن مجید مترجم (مرتبہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) مطبوعہ مکتبہ احمدیہ
۲۔ خصائص القرآن (مرتبہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل یادگیر ۲۰۲ صفحات میں قرآن مجید کے متعلق نہایت مفید معلومات تبع کی گئی ہیں۔قیمت ڈیڑھ روپیہ
۳۔ حضرت عرفانی الاسدی صاحب کی طرف سے شائع کردہ:
الف: مکتوبات احمدیہ۔ جلد اوّل تا ششم ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قیمتی خطوط درج ہیں۔
ب: حیات احمد۔ متعدد جلدوں میں حضرت عرفانی صاحب نے سن ولادت سے سن بیعت تک کی تاریخ سلسلہ مکمل طور پر درج فرمائی ہیں۔
ج: سیرت اُمّ المؤمنین نوراللہ مرقدھا دو جلد
۴۔ تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات: (حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے عقائد و اعمال کے متعلق بصیرت افروز خطبات کا مجموعہ۔ قیمت ایک روپیہ
۵۔ حیات حسین (سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی یادگیر صحابہ کے ایمان افروز سوانح حیات مرتبہ حضرت عرفانی صاحب الاسدی)
۶۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل۔ حضرت اُمّ المؤمنینؓ۔ حضرت خلیفۃ اوّلؓ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ کے نہایت مفید خطوط کا مجموعہ اس میں حضور کے غیر مطبوعہ خط کا ایک حصہ بھی ہے۔
۷۔ اصحاب احمد جلد اوّل مؤلف ملک صلاح الدین ایم۔ اے
۸۔ اصحاب احمد جلد دوم اس میں نہ صرف حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۱۰۴ صفحات۔ تفصیلاً حالات زندگی درج … بلکہ بعض صحابہ کے بھی حالت ہیں۔ حضرت مسیح موعود، حضرت خلیفہ اوّل، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ، حضرت حکیم فضل دین صاحب کے کئی درج غیرمطبوعہ… بھی درج ہیں جن میں حضور کی غیر مطبوعہ الہام، رؤیا اور کشوف ہیں۔ صفحات ۷۰۰
کتب بالا اور دیگر لٹریچر کے ملنے کا پتہ
عبدالعظیم صاحب تاجر کتب قادیان و فخر الدین صاحب مالا باری تاجر کتب قادیان
حضرت عرفانی صاحب کی مطبوعات ذیل کے پتہ پر مل سکتی ہیں۔
معرفت الہ دین بلڈنگ سکندر آباد و دفتر الحکم عید گاہ روڈ کراچی
 
Top