• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

وحی عقل علم اور ھق ۔ Revelation Rationality knowledge and truth ۔ اردو ۔یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
وحی عقل علم اور ھق ۔ Revelation Rationality knowledge and truth ۔ اردو ۔یونی کوڈ



باب اوّل
تعارف: تاریخی تناظر میں
فرد اور معاشرہ
اسلامی مکاتبِ فکر
فلسفۂ یورپ
یونانی فلسفہ

تعارف : تاریخی تناظر میں
دینی اور لا دینی (سیکولر) نظریات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے بڑے بڑے فلاسفر، دانشور اور مذہبی رہنما عقل،منطق اور الہام کی تقابلی حیثیت کے بارہ میں مختلف خیالات کے حامل رہے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیںمختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ایک طبقہ تو وہ ہے جو عقل کو اس حد تک اہمیت دیتا ہے کہ اس کے نزدیک صداقت تک پہنچنے کا یہی ایک واحد اور مستند طریق ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک صرف وہی نتیجہ تسلیم کئے جانے کے قابل ہے جو عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہو۔ لہٰذا ان کے مطابق صداقت کی جو بھی تعریف کی جائے، اس تک رسائی صرف عقل اور استدلال کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ لیکن کچھ مفکرین وہ ہیں جو آسمانی ہدایت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک آسمانی ہدایت انسانی فکر کی صحیح رہنمائی کے سلسلہ میں بنیادی اور معین کردار ادا کرتی ہے اور بہت سے الجھے ہوئے اور حل طلب سوالات کے جواب فراہم کرتی ہے۔
کچھ اور لوگ بھی ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حقیقت کو باطنی تجربات کے ذریعہ صرف اپنی ذات میں ڈوب کر ہی تلاش کیا جا سکتا ہے جسے وجدان کہا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خود اپنے نفس کے گہرے مطالعہ کے ذریعہ حقیقت کو پایا جا سکتا ہے۔ گویا اس کی چھاپ ہر انسانی روح پر نقش ہے۔ یہ لوگ اپنے نفس کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر خود اپنی ذات کے مطالعہ سے قوانین قدرت کے بنیادی حقائق تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت تک پہنچنے کا ایک اور طریق تصوف ہے جسے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں مکتبہ ہائے فکر نے اپنایا ہے۔ زندگی کے اسرار و رموز کو صوفیانہ رنگ میں دیکھنے کا رجحان مذہب کے ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں گروہوں میں پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ تمام مکاتبِ فکر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا انداز فکر فلسفیانہ بھی ہو سکتا ہے اور مذہبی بھی۔ لیکن اخفا اور اسراریت ان سب میں قدرِمشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔
پھر وہ نام نہاد فلسفی ہیں جنہوں نے ایسی پیچیدہ اور ادق اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں جو عام آدمی کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔ اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے نظریات کو پراسرار لفّاظی کے پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ تاہم فیثاغورث اور ابن رشد کی طرح کے ایسے مفکرین بھی ہیں جو فی الحقیقت سائنسی ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ رنگ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ حقائق الاشیا ء کی تلاش میں بہت گہرائی تک جاتے ہیںاور محض اشیاء کے ظواہر پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ ان کا بالاستیعاب مطالعہ ہمیشہ نتیجہ خیز اور مفید مطلب ہوتا ہے۔
مذہبی دنیا میں بھی کئی طرح کے درویش صفت اور صوفی منش بزرگ پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو مذہب کی طرف سے عائد کردہ عبادات کو ان کی ظاہری شکل میں بجالانے کے ساتھ ساتھ گہرے مطالب کی تلاش میں بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جو اندرونی سچائی پر اتنا زور دیتے ہیں کہ بسا اوقات عبادات سے بھی بکلی انکار کر دیتے ہیں۔
لیکن وہ مذاہب جن کی بنیاد الہام پر ہے ان کے پیرو کار بھی ہمیشہ اپنے مباحث میں الہامی صداقتوں تک ہی محدود نہیں رہا کرتے۔ انجام کار ہر مذہب کے بعد کے دور میں ایسے مباحث بھی زیر بحث آنے لگتے ہیں جن کو یکسر مذہبی قرار دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہی صدیوں پرانے سوالات نئے سیاق و سباق میں از سر نو زندہ ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عقل کیا ہے؟ انسانی معاملات میں اس کا کیا کردار ہے؟ الہام کا عقل اور منطق سے کیا رشتہ ہے؟
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بلا استثناء ہر مذہب کے دور انحطاط میں مختلف نظریات کا باہمی تعامل لازماً اس انتشار پر منتج ہوتا ہے جو مذہب کے ظہور سے پہلے موجود تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دست برد کے نتیجہ میں مذہب بالآخر مختلف فرقوں میں تقسیم ہوتا رہا ہے اور اس طرح ایک حد تک قدیم اساطیری تصورات اور فلسفوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس صورت حال میں مذہبی شکست وریخت سے پیدا ہونے والے مختلف مکاتبِ فکر شاذ ہی اتحاد اور یکجہتی کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ انحطاط کے اس عمل کا رخ موڑا نہیں جاسکتا۔
جن مذاہب کا آغاز خداتعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان کامل سے ہوتا ہے وہ بعد میں رفتہ رفتہ مشرکانہ گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ مذہبی نظریات میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور خداتعالیٰ کی وحدانیت کے دنیا میں ازسر نو قیام کیلئے انسان کبھی کبھار اپنی سی کوشش بھی کر دیکھتا ہے لیکن افسوس کہ ایسی کوششیں پوری طرح بار آور نہیں ہوتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی خاص تائید اور رہنمائی کے بغیر اس انحطاط کا رخ کبھی بھی موڑا نہیں جا سکا۔
گزشتہ فلسفیوں اور صوفیا کے مختلف نظریات پر یہاں مفصّل بحث تو نہیں کی جا سکتی تا ہم ماضی کے کچھ ممتاز دانشوروں نے الہام، عقل اور ان کے باہمی تعلق کے بارہ میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کا مختصر ذکر ضرور کریں گے۔
ابدی صداقت کیا ہے،علم کسے کہتے ہیں اور اگر ان کے درمیان کوئی تعلق ہے تووہ کیا ہے؟ کیا الہام ایسا علم عطا کرتا ہے جو بالآ خر ابدی سچائی تک لے جاتا ہو یا ہر دو یعنی علم اور ابدی سچائی کے حصول کے لئے مجرد عقل ہی کافی ہے؟ زمانۂ قدیم سے ہی کیا فلاسفر اور کیا مذہبی رہنما اور کیا سیکولر مفکرین ان سوالوں اور ان جیسے دیگر سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن پیشتر اس کے کہ ہم بنظر غائران موضوعات کا مطالعہ کریں مناسب ہو گا کہ پہلے ابدی سچائی کے بارہ میں مختلف مفکرین کے نظریات کی مزید وضاحت کر دی جائے۔
خداتعالیٰ پر ایمان رکھنے والے تمام لوگ جو ابدی صداقت کے علمبردار ہیں اس کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالہ سے ایک غیر مبدّل حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے ابدی صداقت سے ان کی مراد بنیادی طور پر خداتعالیٰ اور اس کی صفات ہیں لیکن جب سیکولر (خدا کو نہ ماننے والے) فلسفی اِس پر بحث کرتے ہیں تو وہ اکثر خداتعالیٰ کے حوالہ سے بات نہیں کیا کرتے۔ ان کی بحث بالعموم بعض اقدار مثلاً سچائی، دیانت، امانت، خلوص اور وفا وغیرہ کے حوالہ سے ہی ہوا کرتی ہے۔ فلسفیوں کے نزدیک سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ ہر آن تغیر پذیر کائنات میں کیا کسی غیرمبدّل حقیقت کا وجود ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح اگر ایک مسلّمہ سچائی کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا جائے جیسا کہ اکثر اوقات ہوتا ہے تو انسان سوچنے لگتا ہے کہ مختلف حالات میں سچائی کا مفہوم کہیں مختلف تو نہیں ہو جاتا۔
اسی سوال کا ایک اور پہلو بھی ہے جو سچائی کے اس تصور سے تعلق رکھتا ہے جو عالم شہود کے پس پردہ عالم غیب کے بارہ میں قائم کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم سورج کی روشنی کو فی ذاتہٖ ایک مستقل حقیقت سمجھیں تو عین ممکن ہے کہ ہم غلطی پر ہوں۔ روشنی سے زیادہ اہم، روشنی پیدا کرنے والا ریڈی ایشن (Radiation) کا وہ عمل ہے جس کے بہت سے مظاہر میں سے روشنی تو صرف ایک ہے۔ دراصل بنیادی حقیقت تو ریڈی ایشن ہے جو طیف یعنی spectrumمیں ارتعاش پیدا کرنے یا نہ کرنے کے سبب کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ رہتی ہے۔ دراصل لہروں کا یہی ارتعاش ہے جو ہمیں روشنی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے سورج کی تابانی کو اپنی ذات میں ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے اگر سورج کی تابانی کے اصول کو بخوبی سمجھ لیا جائے تو جہاں کہیں بھی ایسا عمل ہو گا وہ ایک ہی نتیجہ پیدا کرے گا اور اس لحاظ سے اس کو ایک ایسی دائمی حقیقت کا نام دیا جا سکے گا جو تابکاری اور روشنی کے قوانین میں کارفرما ہے۔ اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ’ابدیّت‘ کی اصطلاح ہر جگہ کسی نہ ٹوٹنے والے اور ہمیشہ جاری رہنے والے تسلسل کو ظاہر نہیں کرتی۔ ابدیّت سے مراد وہ سبب ہے جس کی موجودگی ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کیا کرتی ہے۔
ابدی صداقت کی اس سادہ تفہیم کے بعد جو خارجی حقائق سے متعلق ہے کشش ثقل کو بجا طور پر ایک دائمی حقیقت قرار دیا جا سکتا ہے۔ تا ہم اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ کشش ثقل کے عمل میں خفیف سا ردّوبدل بھی اس کی غیر مبدّل اور بنیادی حیثیت کو جھٹلا نہیں سکتا۔
اس تمام بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ ہر ابدی صداقت سے علم حاصل ہوتا ہے لیکن ہر علم کو ابدی صداقت نہیں کہہ سکتے۔ علم کسی شے کا وہ ادراک ہے جو ہمارے دماغ میں مستند معلومات کے ایک جزو کے طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ انسانی علم کا تمام تر ذخیرہ ایسی جزئیات سے مل کر ہی تشکیل پاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یقینی علم کیسے حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کو کیسے پرکھا جا سکتا ہے؟ مزید برآں ان علوم کو مختلف شاخوں مثلاً وقتی،نسبتی، ٹھوس اورابدی صداقتوں میں کیسے تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ یہ انسان کی قوتِ استدلال اور قوت ِفکر ہی ہے جو دماغ تک پہنچنے والے پیغامات پر مختلف ممکنہ پہلوؤں سے بار بار غور کرنے کے بعد مختلف نتائج اخذ کرتی ہے۔ یہی وہ ذہنی عمل ہے جو صحیح کو غلط سے اور واضح کو مبہم سے جدا کرتا ہے اور عقل کہلاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم کے اجزائے ترکیبی کی دریافت کا یہ طریق کار کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ جب ہم عقل انسانی کی تفہیم کی اس منزل پر پہنچتے ہیں تو بہت سے پیچیدہ سوال سر اٹھانے لگتے ہیں۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ انسانی ذہن کے اخذ کردہ نتائج میں رد و بدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جس بات کو ایک عہد میں معقول خیال کیا جائے ضروری نہیں کہ کسی اور عہد میں بھی اسے بعینہٖ قابلِ قبول سمجھا جائے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمل ارتقا کے نتیجہ میں جب سے انسان اپنے حیوانی دور سے نکل کر انسانی دور میں داخل ہوا ہے اس کی قوتِ استدلال بتدریج بالغ نظری کے مقام پر جا پہنچی ہے۔ بعد ازاں ایک طرف توبنی نو ع انسان کے علم وصداقت کے اجتماعی تجربہ میں وسعت پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی کاوشوں اور عقلی نتائج کے معیار میں بھی بہتری پیدا ہوتی چلی گئی۔
جس طرح جسمانی ورزش عضلات کو طاقت بخشتی ہے اسی طرح دماغی ورزش کے نتیجہ میں ذہنی، فکری اور یادداشت کی صلاحیتیں بھی نشو ونما پاتی ہیں۔ غالباً اس مشق ہی کا نتیجہ ہے کہ ارتقائی عمل کے دوران جانوروں کے دماغ کی جسامت بڑھتی چلی گئی۔
ہماری ذہنی استعدادوں کی نشوو نما کا یہ احساس جہاں ایک لحاظ سے خوش آئند ہے وہاں ایک لحاظ سے پریشان کن بھی ہے۔ کیونکہ اس طرح تو انسان کی عہد بعہد ترقی کے دوران اس کی ذہنی اور فکری کاوشیں اور ان سے اخذ کردہ نتائج ہی مشکوک ہو کر رہ جاتے ہیں۔
کیا یہ قرینِ قیاس نہیں کہ انسانی دماغ نے ارتقا کی جو مختلف منازل طے کی ہیں ان کے دوران ایک ہی قسم کے حقائق سے مختلف نتائج اخذ کئے ہوں؟ اگر معروضی حقائق مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے مختلف دکھائی دیں اور اگر غیر متعصّب ذہن بھی مختلف ادوار میں ان سے مختلف نتائج اخذ کرے تو کیا ایسے نتائج کو مسلّمہ حقائق قرار دینا درست ہو گا؟ لہٰذا محض منطق کے عمل استخراج اور استدلال سے حاصل کردہ علم کو مطلق سچائی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
اب ہم ان مسائل پر گفتگو کریں گے جن کا تعلق ان ذرائع سے ہے جو علم کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور اس طریق کار سے متعلق ہیں جس سے کسی بھی علم کی صداقت کو پرکھا جا سکے۔ اگر لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے تمام ممکنہ زاویہ ہائے نگاہ کو ایک متحرک پلیٹ فارم پر رکھ دیا جائے تو کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی بھی علم کو پورے یقین کے ساتھ حتمی قرار دے سکیں۔ البتہ ایک زاویۂ نگاہ ایسا ہے یعنی خالقِ کائنات کا جو ازلی ابدی ہے۔ لہٰذا اگر ایک علیم و خبیر، قادر مطلق اور حاضر ناظر ہستی کے وجود کو ثابت کیا جا سکے جو ازلی ابدی ہو، ہر کمزوری سے پاک ہو، اعلیٰ و ارفع، سب طاقتوں کی مالک اور تمام تنزیہی صفات سے متّصف ہو تو صرف اور صرف ایسی ہستی کے حوالہ ہی سے دائمی سچائی کا عرفان ممکن ہے۔ لیکن یہ مفروضہ اس امکان کے ساتھ مشروط ہے کہ نہ صرف یہ کہ ایک قادر مطلق خدا موجود ہے بلکہ وہ بنی نوع انسان کو مکالمہ مخاطبہ سے بھی مشرف فرماتا ہے جسے مذہبی اصطلاح میں الہام کہا جاتا ہے۔
اتنے اہم موضوعات پر خالصۃً سیکولر اور منطقی بنیادوں پر بحث کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی شامل کر لیا جائے کہ کیا الہام نے انسان کی رہنمائی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیاہے تو اس مسئلہ کا حل اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ بایںہمہ اس راہ میں حائل تمام تر دقّتوںکے باوجود ہم اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
اس مرحلہ پر قاری کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بحث کی باریکیوں کو سمجھنے کی پو ری کوشش کرے۔ جب وہ ایک بار فلسفیانہ اور عقلی دلائل کی بھول بھلیوں سے واقف ہوجائے گا تو اس معمّہ کو حل ہوتے دیکھ کر وہ یقینا لطف اندوز ہوگا۔
مذہب کے حوالہ سے جدید مفکرین اور ماہرین عمرانیات کا ایک مکتب فکر ایسا بھی ہے جو مذہب کے ظہور اور ارتقا کو انسان کے عقلی ارتقا کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں ماضی بعید کے ابتدائی دور میں انسان اپنی کمتر عقلی استعداد کے باعث بہت سے دیوتاؤں کی پرستش کی طرف مائل ہوا اور ان شروعات سے بالآخر ایک معبود کے تصور نے جنم لیا جسے خدا، اللہ یا پرماتما وغیرہ مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا۔ اگر اس نظریہ کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں انسان کی بدلتی ہوئی استعدادوں کے مطابق ہی مذہب اپنے ارتقا کی منازل طے کرتا چلا آیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ خیال مذاہب عالم کے اس نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر متصادم ہے جس کے مطابق مذہب کا منبع و ماخذ الہام الٰہی ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے یہ ازلی ابدی اور حکیم خدا ہی ہے جس نے انسان کو مذہب یعنی آسمانی ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اہل مذہب کے نزدیک انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں شرک کی موجودگی مذہبی انحطاط ہی کی مرہون منت ہوا کرتی ہے۔ انبیاء کے ذریعہ قیام توحید کے بعد یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بعد میں آنے والے زمانہ میں انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس امر پر مزید بحث آگے آئے گی۔
قریباً تمام بڑے مذاہب ایک ایسی وراء الوریٰ ہستی پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں جو انسان سے ہمکلام ہوتی اور اپنے نمائندے خود منتخب کرتی ہے۔ اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت ہی حقیقی علم کے حصول کا واحد اور قابل اعتماد ذریعہ ٹھہر تی ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ محض انسانی تجربہ اور عقلی استنباط سے حاصل کر دہ علم کو پورے وثوق سے کامل سچائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تفصیل اس اجمال کی آئندہ ابواب میں آئے گی۔

فرد اور معاشرہ
آزادی ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے۔ چنانچہ انسان بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ آزادی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ انسانیت آزادی سے عبارت ہے۔ آزادی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس کا تانا بانا آزادی ہی سے بُنا ہوا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انسان کے تمام خود ساختہ ادارے آزادی ہی کے خلاف مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔
روایت،رواج اور قانون کی عہد بعہد ترقی کا بغور مطالعہ اس دعویٰ کی تصدیق کیلئے کافی ثابت ہوگا۔ ریاست کے ارتقا کا اگر غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے تو غلامی کی طرف یہ ایک منظم اور مرحلہ وار سفر دکھائی دیتا ہے۔ اس گُتھی کو سلجھانے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے آزادی سے غلامی کی جانب اس تدریجی سفر کے اسباب کا تعین کر لیاجائے۔
سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ انسان طبعاً اپنے ذاتی فائدہ کی خاطر ہی معاشرہ کی حاکمیت تسلیم کرتاہے۔ بصورت دیگر اسے جبر سے ہی اطاعت پر مجبور کیا جاسکتاہے۔ لیکن گروہی زندگی صرف انسان ہی سے مخصوص نہیںہے۔ اگر عالم حیوانات کا نچلی سطح سے اُوپر کی سطح تک بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آغاز میں تو ایک گونہ ابتری کی کیفیت موجود ہے لیکن جوں جوں حیات کی اعلیٰ سطح کی طرف سفر کریں تو بتدریج ہمیں زیادہ منظم، مرتّب اور مرکزیت کی طرف مائل نظامِ حیات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کبھی کبھی یہ رجحان بھی ہمارے مشاہدہ میں آتا ہے جیسے کچھ جانوروں نے ضرورت کے تحت بقائے باہمی کی خاطر اکٹھا رہنا سیکھ لیا ہو۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جاندار مخلوق کی ایسی انواع بھی ہیں جن کا ارتقائی لحاظ سے تو مرتبہ اتنا بلند نہیں لیکن ان کی جبلّت اور سرشت میں معاشرتی رکھ رکھاؤ اور نظم وضبط کا ایک عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے اتنے منظم اور منضبط معاشرہ میں کسی تدریجی ارتقاکے آثار نظر نہیں آتے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اپنی آخری مکمل شکل میں اچانک معرض وجود میں آ گیا ہو۔ ایسی مربوط اور مرتّب طرزِ حیات سے زیادہ سے زیادہ یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نظم و ضبط کایہ ملکہ انہیں فطرتاً ودیعت کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر کچھ حشرات الارض ہی کو لیں۔ آپ شہد کی مکھی کے معاشرتی نظام کو ارتقا کی کس منزل پر رکھیں گے؟ اگر شہد کی مکھی نے اپنی ارتقائی منازل مرحلہ وار تدریجاً طے کی ہیں تو اس سے پہلے اس کی کیا شکل تھی اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حشرات الارض کا ایک ایسا سلسلہ بھی موجود تھا جو درجہ بدرجہ ترقی کر تا ہوا بالآخر شہد کی مکھی کی تخلیق پر منتج ہوا؟ اسی طرح دیمک اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کا مطالعہ کرتے وقت بھی ہمیں ایسی ہی مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہاں بھی کسی تدریجی ارتقاکے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ مخلوق ابتداء ہی سے ایک طے شدہ اور معین نظام کے تحت اپنے مخصوص وظائف پوری تندہی سے بجالارہی ہے جو ان کے RNA اور DNA پر اس طرح نقش ہے کہ وہ اس سے سرموبھی انحراف نہیں کر سکتے یہاںتک کہ انتہائی منضبط اور منظم اشتراکی معاشرے بھی ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ ایسی استثنائی اور منظم تخلیق کے عجائبات ہیں جن کے بارہ میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے جن سے ثابت ہوسکے کہ انہوں نے کسی ابتدائی شکل سے رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے ایک انتہائی منظم معاشرہ کی صورت اختیار کر لی ہو۔
لہٰذا تخلیق حیات کا دو طرح سے مطالعہ کرنا ہو گا۔ اوّل یہ کہ حیات خداتعالیٰ کے تخلیقی ارادہ سے یکدم عدم سے وجودمیں آگئی۔ ہوسکتا ہے کہ سائنسدان اسے بیک وقت ہونے والے بہت سے جینیاتی تحولات کا نتیجہ قرار دیں۔ لیکن یہ مفروضہ سائنسی لحاظ سے قابل اعتنا نہیں ہے۔
عالم حیوانات کی اجتماعی ترقی کی دوسری قسم عمومی ہونے کے ساتھ ساتھ ارتقائی بھی ہے۔ اگرچہ اس کے نتائج اوپر بیان کردہ مثالوں کی طرح اتنے ڈرامائی نہیں۔ کتوں، بھیڑیوں اور چکاروںمیںبھی اجتماعی بقا کی خاطر مل جل کر رہنے کا مثبت رجحان پایا جاتا ہے۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، یہی میلان پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مچھلیوں، کچھووں اور بحری خارپشت میں بھی ایسی ہی خصوصیات دیکھنے میں آتی ہیں۔ پس اجتماعیت زندگی کا خاصہ ہے۔
نظم و ضبط کے نتیجہ میں ہی حاکمیت کا تصور جنم لیتا ہے،قیادت ابھر کرسامنے آتی ہے اور معاشرہ کی ہر سطح پر جرم و سزا کے قانون کا دھندلا سا خاکہ اُبھر نے لگتا ہے۔ لہٰذا انسان کا معاشرتی حیوان کی حیثیت سے ارتقا کوئی منفرد اور اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ کم و بیش اکثر جانوروں کی طرح پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے عین مطابق معرضِ وجود میں آیا ہے۔
یہ سوال کہ دنیا بھر میں معاشرتی زندگی کا ایک ہی وقت میں ارتقا کیسے ممکن ہوا، ایک لمبی بحث کا متقاضی ہے۔ ہم یہاں انسانی معاشرہ کے ارتقا کے بعض ان پہلوؤں کا ذکر کریں گے جن کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔
شخصی آزادی فی ذاتہٖ ہمیشہ سے معاشرتی پابندیوں سے بر سرِ پیکار رہی ہے۔ ان قوّتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے اس کشمکش کا گہرا ادراک ضروری ہے جو بالآخر شخصی آزادی اور معاشرہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مابین حدود کا تعین کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرد سے خاندان، فرد سے قبیلے اور فرد سے ریاست کے تعلقات اس بات پر گواہ ہیں کہ زندگی کو اس کی منظم معاشرتی شکل ہی میں زیر غور لایا جاسکتا ہے۔ اگر انسان فطرتاً آزاد اور آزادی پسند ہے تو پہلے اس بنیادی سوال کا جواب دینا ہو گا کہ آخر معاشرہ کی حاکمیت کے سامنے کیوں سر تسلیم خم کیا جائے؟
جب بھی کوئی سماجی، نسلی، اقتصادی یا سیاسی نظام اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ہے تو یہ عمل ہمیشہ سوسائٹی اور ان افراد کے ما بین جن سے یہ سوسائٹی تشکیل پاتی ہے ’کچھ لو کچھ دو‘ کے ایک ایسے سمجھوتہ کا مرہون منت ہوا کرتا ہے جو تحریری شکل میں موجود نہیں ہوتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی فرد بھی اس وقت تک اپنی آزادی سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس سودے میں نقصان کی نسبت فائدہ زیادہ ہے۔ بنیادی طورپر وہ اپنے تحفّظ کی خاطر اپنی شخصی آزادی کا سودا کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے کچھ حقوق سے اس نظام کی خاطر دستبردار ہوجاتا ہے جس کا وہ رکن بنتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنے تحفّظ اور آسان تر زندگی کی ضمانت مل جاتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب معاشرہ کی تشکیل کا عمل شروع ہوتا ہے تو ہر سطح پر افراد ہی زیادہ تر فائدہ میں رہتے ہیں۔ اسی طرح حیوانات میں بھی یہ اصول کارفرمانظر آتا ہے جس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدائی سطح پر۔ البتہ انسانی معاشرہ جوں جوں زیادہ منظم ہونے لگتاہے فرداور معاشرہ کے مابین طاقت کا توازن بھی بگڑنے لگتا ہے۔ عوام اور ان پر حکومت کرنے والے چند افراد کا باہمی تناسب جوں جوں بڑھنے لگتا ہے معدودے چند اربابِ اختیار کے ہاتھوں استحصال اور طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگرچہ اصولاً یہ تو ممکن ہے کہ فرد اپنی آزادی کے عوض کچھ نہ کچھ فائدہ بھی حاصل کرے لیکن عملاً اس کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی۔ شخصی آزادی کا بنیادی اصول بتدریج معاشرہ کے مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کا ماحول جہاں ایک طرف تحکّمانہ ہوتا چلا جاتا ہے وہاں فرد کے حقوق بھی سلب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس مضمون پر جامع بحث آگے آئے گی جب ہم مارکس کے نظریہ پر گفتگو کریں گے۔ یہاں صرف اس انحطاط کی بنیادی وجہ تلاش کرنا مقصود ہے کہ ایک نسبتاً ترقی یافتہ اور منظم معاشرہ میں فرد اپنے آپ کو محفوظ و مامون کیوں نہیں سمجھتا؟ جانوروں کے معاشرتی رویہ میں تو ہمیں کہیںبھی ایسا منفی اور بیمار رجحان نظر نہیں آتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی معاشرہ ہی فرد کے حقوق اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں قاصر رہتا ہے؟
بنی نو ع انسان اور حیوانات میں ایک حدّ فاصل اور واضح مابہ الامتیاز تو بہرحال موجود ہے یعنی یہ کہ حضرت انسان ہی ہے جس میں دھوکہ دہی اور قوانین قدرت کو تہ وبالا کرنے کا خوفناک رجحان پایا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں انسان باقی تمام جانوروں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ بے شک بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے جانور بھی دھوکہ دہی کے مرتکب ہورہے ہوں لیکن دراصل یہ مجرمانہ دھوکہ دہی نہیں بلکہ ایک قسم کی حکمت عملی ہوا کرتی ہے۔ جانوروں کے ہاں انسانوں کی مانند دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا تصور نہیں ملتا۔ وہ قوانین قدرت کے مطابق اور ان کی حدود میں رہتے ہوئے ایک منظم اور طبعی زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کبھی وہ دھوکہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو جینیاتی قوانین کے تحت ہی ایسا کرتے ہیں۔ اور یہ چیز جرم کی تعریف میں نہیں آتی۔ جرم کا شعور تو بالواسطہ نتیجہ ہے ارادہ کی آزادی اور خودمختاری کا۔ جانور تو مکمل طور پر فطرت کے تابع ہوتے ہیں۔ نہ تو وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکتے ہیں اور نہ ہی اچھائی اور برائی ان کیلئے کوئی معنی رکھتی ہے۔
یہ انسان ہی ہے جو نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے دیدہ دانستہ پہلو تہی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں بھی کوئی عارنہیں سمجھتا۔ کسی نظام کے جزو کے طور پر انسان پر جو اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے پس منظر میںانسان کی شخصی آزادی اس لئے بری طرح مجروح ہو کر رہ جاتی ہے کہ انسان کے اندر فطری طور پر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ بسا اوقات دھوکہ دہی کا مرتکب ہو اور عمداً غلط رستہ اختیار کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی رکھے کہ وہ اپنی غلط کاریوں کے باوجود بچ کر نکل جائے گا۔ کارل مارکس کا مقولہ ہے کہ ’’انسان ایک بد دیانت مخلوق ہے‘‘۔ بالکل بجا، لیکن اس صورت میں کیا وہ خود بھی بد دیانت قرار نہیں پائے گا اور کیا وہ سوشلسٹ قیادت کو جس کی بنیادیں ہی بددیانتی پر استوار ہیں اس تعریف سے مستثنیٰ قرار دے سکے گا؟ انسانی معاشرہ کا ہر دور میں یہی المیہ رہا ہے اور کوئی بھی نظام اس سے مستثنیٰ نہیں۔ فرد اور معاشرہ کے تعلق میںپائی جانے والی یہ خرابی ہی بڑھتی ہوئی قانون سازی کے رجحان کو جنم دیتی ہے۔
بظاہر ہر نئے قانون کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف فرد کے حقوق کی حفاظت کی جائے تو دوسری طرف معاشرہ کے حقوق کوتحفّظ دیا جائے تا کہ وہ ناجائز طور پر ایک دوسرے کے حقوق میں دخل اندازی نہ کر سکیں۔ لیکن بد قسمتی سے قانون ساز ادارے کامل انصاف کی فراہمی میں اس وجہ سے نا کام رہتے ہیں کہ انسان کی اپنی بدعنوانی آڑے آ جاتی ہے۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ قانون سازی کے اس اجتماعی عمل کے دوران فردکے حقوق کی حفاظت کے لئے وضع کئے گئے قوانین کے ذریعہ ہی فرد کو اس کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
سر دست ہم مذہبی معاشروں کے بارہ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے لیکن معاشرتی فلسفہ کے سیکولر نقطۂ نگاہ سے کسی حد تک مذہب کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ماہرین عمرانیات من حیث الجماعت تسلیم نہیں کرتے کہ مذہب خداتعالیٰ کی قائم کردہ ایک حقیقت ہے۔ ان کے نزدیک مذہب بھی دراصل انسان کے معاشرتی عمل کا ایک گونہ اظہار ہے۔
اگربفرضِمحال مذہب کے ارتقا سے متعلق ان کا نظریہ درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس صورت میں تمام مذہبی معاشروں کو انسان کے معاشرتی طبقات میں ایک انوکھی حیثیت حاصل ہو جانی چاہئے۔ بالفاظِ دیگر مذہب، معاشرہ اور فردکے خلاف ایک مجسّم فریب کی علامت بن کر رہ جاتا ہے۔ بظاہر اس سے وہ ثابت یہ کرنا چاہیں گے کہ تمام بانیان مذاہب (نعوذباللہ من ذٰلک) پرلے درجہ کے مکّار تھے جو خود تراشیدہ خداؤں کے نام پر جان بوجھ کر عوام الناس کو دھوکہ دیتے رہے۔ کیا کہنے اس منطق کے!
یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بانیان مذاہب قوانین خود بناتے ہیں اور نام خداتعالیٰ کا لیتے ہیں تاکہ بقول ان کے سادہ لوح عوام کو نام نہاد شرعی قوانین کی زنجیروں میں جکڑا جا سکے اور اس طرح یہ دھوکہ باز گروہ (نقل کفر کفر نہ باشد) خداتعالیٰ کے نام پر اپنے مفاد ات کیلئے حکومت کرتا رہے۔ مذہبی معاشرہ کے بارہ میں یہ تصور توماہرین عمرانیات کا ہوا۔ کارل مارکس بھی مذہب کے اس تصور سے پوری طرح متفق دکھائی دیتاہے۔ اس کے نزدیک مذہب محنت کش طبقہ کو ہمیشہ حال مست رکھنے کا ایک نشہ ہے تا کہ متوسّط طبقہ کے ہاتھوں اسے اپنے بے رحم استحصال کا شعور ہی پیدا نہ ہو سکے۔ اس کے نزدیک یہ طاقتور نشہ جو محنت کش طبقہ کو مدہوش رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اُس اخلاق پر مشتمل ہے جسے جملہ مذاہب عالم کی تائید حاصل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے اخلاقیات کا اللہ تعالیٰ کے تصور کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس حوالہ سے اخلاقیات انسانی کردار کی تہذیب و تشکیل کا باعث بنتی ہے۔
اسلا می مکا تبِ فکر
اسلامی نقطئہ نظر دو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ کہ اسے مختلف مسلم مفکّرین کی علمی کاوشوں کے تجزیہ کی روشنی میں بیان کیا جائے اور دوم یہ کہ اسے قرآنی تعلیمات، سنّت رسول ﷺ اور احادیث کی روشنی میں براہ راست پیش کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کے بارہ میں اوّل الذکر طریق کی تفہیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکوک اور غیر مستند ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مفکرین اپنے استنباط میں، جو ضروری نہیں کہ جائز اور معقول بھی ہو، روز بروز کٹرّ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ جسے وہ اسلام قرار دیتے ہیں ابتدائی طور پر تو وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارہ میں ان کے اپنے فہم پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو قرآن وسنت سے استنباط کرتے ہیں اگر اقلیت کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں تو ایسی صورت میں انہیں دوسروں سے الگ حیثیت دی جا سکتی ہے۔ آگے چل کر ہم بنیادی مسائل کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے۔ سردست ہم قرون اولیٰ کے مسلمان علمائ، دانشوروں اور فلسفیوں کے اوّل الذکر گروہ کے ان افکار کی وضاحت کریں گے جن کے پس منظر میں اس دور کے مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کی تشکیل ہوئی۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں دو قسم کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں:
اوّل: سب سے زیادہ غالب اور طاقتور اثر قرآن اورسنت کا تھا جس کی وجہ سے تصورِعلم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور مطالعہ اور تحقیق مختلف جہتوں میں بے پایاں وسعت سے ہمکنار ہوئے۔
دوم: یونانی فلسفہ اور سائنس میں روزافزوں دلچسپی نیز ہندوستان، ایران اور چین کے کلاسیکی فلسفہ کے مطالعہ نے بھی مسلمانوں کے فکری ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے بیرونی فلسفے آزادانہ طور پر یا اسلامی تعلیمات کے اختلاط سے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
ان مختلف فلسفوں میں دلچسپی اور ان کی قرآنی آیات سے مطابقت کی خواہش نے نئے مکاتبِ فکر کو جنم دیا جو اس لئے اسلامی کہلائے کہ ابتدائی طور پر یہ مکتبہ ہائے فکر اسلامی سوچ، تعلیم اور عقائد کی گود میں پروان چڑھے تھے۔ بدیشی فلسفہ کا قرآنی مطالعہ پر مبنی خیالات سے اختلاط شروع ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ چند تنگ نظر علماء نے ان کے وسیع النظر اور لچکدار رویہ کے باعث ان پر غیر اسلامی ہونے کی مہر لگا دی تھی اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ عظیم علماء بنیادی طور پر مسلمان ہی تھے۔ مختلف دنیوی علوم سے ان کا تعلق شاذ ہی ان کے ایمان کی راہ میں حائل ہوا ہو گا۔ اس لحاظ سے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن وسنت کے مطالعہ کے بعد خو د فیصلہ کرے کہ ایسے مفکرین کا پیش کردہ فلسفیانہ نقطۂ نظر اسلامی ہے یا نہیں۔ تاہم ان کے اخذ کردہ نتائج ہمیشہ بحث طلب رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ نتائج اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور بعض کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ تاہم کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کی نیتوں پر شک کرے۔ سچائی کے ہر متلاشی کا یہ حق ہے کہ قرآن اورسنت کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کے بعد اپنے نتائج اخذ کرے۔ اسی طرح دوسروں کو بھی اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسرے کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے کہ وہ جس چیز پر چاہے ایمان لائے اور خود کو حق پر سمجھے۔
اب ہم بعض اسلامی مکاتبِ فکر کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں جو ایک ہی ماخذ سے مختلف نتائج اخذ کرنے کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔ تاہم یاد رہے کہ قرآن وسنت پر مبنی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہر مکتبۂ فکر کو براہ راست ان شواہد کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہئے جو وہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے۔ اسلامی حکومت کے دور میں پنپنے والے تمام نظریات اور نقطہ ہائے نظر کو فی ذاتہٖ اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان میں سے کچھ جزوی طور پر متضاد بلکہ ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ تاہم یہ بات ان کو اس حق سے محروم نہیں کرتی کہ ان کے ماننے والے ان کا حوالہ دیتے وقت ان کو اسلامی قرار دیں۔
الاشعریہ
الاشعریہ مکتبۂ فکر امام ابوالحسن علی بن اسمٰعیل الاشعری (260 تا 330ھ) کا مرہون منت ہے کہ انہوں نے اسے مروّجہ مکاتبِ فکر میں ایک منفرد اور نمایاں
اسلوب بخشا۔ یہ وہ دور تھا جب بعض مسلمان علماء تیزی سے عقلیت پسندی کی طرف مائل ہو رہے تھے اس لئے اس رجحان کے ردّکی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس جوابی تحریک کے سربراہ مشہور امام اسمٰعیل الاشعری تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ الاشعری کے اپنے استاد الجبائی (وفات 303ھ) اس وقت کے سرکردہ عقلیت پسند تھے۔ امام اشعری نے نہ صرف عقلیت پسندوں سے اختلاف کیا بلکہ ہر اس نظام کی خامیوں کو پر زور طریق پر بیان کیا جو سچائی کی شناخت کے لئے عقل پر انحصار کرتا ہے۔
اشعریہ کے نزدیک عقلیت پسندی نہ تو کسی یقینی علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نہ ہی اس سے ابدی صداقت تک رسائی ممکن ہے بلکہ شکوک و شبہات کی طرف لے جاتی ہے۔ اشعریہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ حقیقی علم صرف عرفان حق سے وابستہ ہے کیونکہ حق کا ابدی سرچشمہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے حصول کا واحد راستہ وحی ٔالٰہی ہے۔
عقلیت پسندی کے خلاف ردعمل میں بعض اشعری اس انتہا تک چلے گئے کہ انہوں نے قرآنی آیات کی ہر منطقی تفسیر کو بھی مسترد کر دیا یہاںتک کہ انہوں نے قرآنی آیات کے مجازی معنوں کا بھی مطلق انکار کر دیا۔ امام اشعری خود ماہر منطقی تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عقلیت پسندی کے خلاف ان کے پیش کردہ دلائل کی بنیاد خود عقل پر رکھی گئی ہے۔
اس امر کی وضاحت ان کے اپنے استاد الجبائی کے ساتھ ایک مناظرہ سے بخوبی ہو جاتی ہے جس میں اشعری نے الجبائی سے سوال کیا کہ آپ کی ان تین بھائیوں کی نجات کے بارہ میں کیا رائے ہے جن میں سے ایک مومن ہو، ایک کافر اور ایک ابھی بچہ ہو؟ الجبائی نے جواب دیا کہ مومن جنت میں جائے گا اور کافر جہنم میں، جبکہ بچہ نہ تو جنت میں جائے گا اور نہ ہی جہنم میں کیونکہ بچہ اپنے اعمال کی بنیاد پر کسی جزا سزا کا مستحق نہیں۔ اس پر اشعری نے کہا کہ بچہ خدا سے سوال کرسکتا ہے کہ تو نے مجھے کچھ وقت دیا ہوتا تو میں بھی کچھ اچھے اعمال کر لیتا۔ پس مجھے جنت سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟ الجبائی نے جواباً کہا۔ خدا کہہ سکتا ہے کہ میں جانتا تھا کہ تم بڑے ہو کر برے عمل کرو گے اس لئے کم سنی میں تمہاری موت درحقیقت تم پر شفقت ہے کیونکہ اس طرح تم جہنم سے بچ گئے ہو۔ اشعری نے برجستہ کہا اس صورت میں کافر بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اے خدا! تو نے مجھے بھی کیوں نہ بچپن میں وفات دے دی تا کہ میں بھی برے اعمال سے بچ جاتا؟
یہ امر قابل ذکر ہے کہ عقلیت پسندی کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اشعری خود انہی کے ہتھیار استعمال کر رہے تھے۔ پس یہ کہنا درست نہیں کہ وہ سراسر عقلیت پسندی کے خلاف تھے۔ اس مکتبۂ فکر کے امام غزالی اور امام رازی وغیرہ جیسے پیروکار اپنے مسائل کے حل اور عقائد کی مضبوطی کیلئے عقلی دلائل پر بے حد انحصار کرتے تھے کہ اسلامی دنیا میں متعارف ہونے والے نئے فلسفوں سے کہیں اسلامی تعلیم کو ہی نقصان نہ پہنچ جائے۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں مجرد عقل کا استعمال ایسی تحریکات کا پیش خیمہ نہ بن جائے جو بالآخر حقیقی اسلام سے دور لے جانے والی ہوں۔ اس لئے عقلیت پسندی کا میلان رکھنے والی تمام ایسی تحریکات کو الحادی یا بدعتی قرار دے دیا گیا جو ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے کیونکہ اس سے مراد صراط مستقیم سے انحراف ہے۔ عقلیت پسند تحریکات کے بانیوں کو کٹر علماء جن القابات سے نوازتے تھے ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علماء کا یہ کٹر طبقہ کتنا پریشان تھا۔ مثلاً وہ ان کو معتزلہ یا الحادی کہتے تھے یعنی راہ راست سے ہٹ جانے والے۔
ایک اور گروہ جو متردّیہ کے نام سے موسوم ہے اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وحی کو پہلے بعینہٖ قبول کر کے اس کی تائید میں منطقی توجیہات تلاش کرنی چاہئیں۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ وحی ایمان کو مضبوط کرتی ہے جبکہ منطقی تشریحات اس ایمان کو مزید تقویت بخشتی ہیں۔ اشعریہ نے منطقی تشریحات کا رد نہیں کیا بلکہ وہ انہیں زوائد میں سے سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اگر منطقی تشریح ممکن ہو تو فبہا وگرنہ مطلق وحی منطقی اور عقلی دلائل کے بغیر ہی کافی ہے۔ اشعریہ ہی کا ایک انتہا پسند گروہ جنہوں نے قدیم علماء کی اندھادھند پیروی کی سلفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے نزدیک وحی کو بغیر کسی فلسفیانہ یا منطقی توجیہہ کے بلا حیل و حجت قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ یہ تشریحات بالآخر صراط مستقیم سے انحراف پر منتج ہوں گی۔
معتزلہ
جہاںتک معتزلہ کا تعلق ہے انہوں نے اس امر سے انکار نہیں کیا کہ وحی صداقت تک پہنچنے کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وحی کا حقیقی
پیغام عقلی استدلال کے بغیر صحیح معنوں میں سمجھا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ انہوں نے عقل کو وحی پر ان معنوں میں ترجیح دی کہ جب کبھی یہ دو نوں بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آئیں تو وحی کی صحیح تفہیم کیلئے عقل کو فوقیت دی جائے گی یعنی عقل کو یہ فوقیت الہام کے متبادل کے طور پر نہیں بلکہ الہام کی صحیح توجیہہ و تشریح کے مددگار کے طور پر حاصل ہو گی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ قرآن وسنت کی معروف تشبیہات، استعارات اور علامات کو سمجھے بغیر سچائی تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ اور اس کے چہرے سے مراد اس کی طاقت اور شان و شوکت ہے علیٰ ھٰذا القیاس۔
الاشعری کا اپنا موقف تھا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں صفاتِ الٰہیہ کا تذکرہ ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی حقیقی صفات مراد ہیں اگرچہ ان کی پوری حقیقت کا ہمیں علم نہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان اصطلاحات سے ظاہری خدّو خال مراد نہیں۔ اگرچہ تحریک معتزلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے نویں صدی سے سترھویں صدی عیسوی تک یورپی مکاتبِ فکر سے مماثل دکھائی دیتی ہے لیکن اس نے کوئی ایسا الحاد یا بدعت کا رنگ اختیار نہیں کیا جیسا کہ یورپ میں عقلیت پسندی نے اپنے مسلسل انحطاط کے زمانہ میں اختیار کیا۔ معتزلہ نے اپنے دلائل کے حق میں ہمیشہ قرآن وسنت کے حقیقی سرچشموں سے ہی استنباط کیا اور خود کو کبھی ان سے الگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان سے منسلک رہے۔
آج معتزلہ اور اشعریہ کے نقطئہ نظر میں کوئی واضح فرق نہیں رہا۔ اگرچہ مذکورہ بالا تاریخی پس منظر نے عصر حاضر کے علماء کی علمی کاوشوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں لیکن ماضی کی واضح تفریق کے نقوش اب دھندلا چکے ہیں۔ عصرِ حاضر کے علماء گزشتہ فرقہ وارانہ مکاتبِ فکر کے مقابل پر اپنے ذاتی نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہیں تاہم دورِ گزشتہ کی باقیات کے کچھ آثار اب بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ یہ باقیات وہ ہیں جو ایک لمبے عرصہ پر محیط مختلف مکاتبِ فکر کی باہمی افہام وتفہیم کا ثمر ہیں۔ ان میں سے بعض تو قطعی طور پر قرون وسطیٰ کی سوچ کے حامل ہیں۔ لیکن وہ اپنے موقف کی تائید میں اگرچہ کسی واحد پرانے مکتبۂ فکر پر انحصار نہیں کرتے لیکن اپنی تائید میں کسی نہ کسی مکتبۂ فکر کے عالم کی تلاش میں سرگرداں ضرور رہا کرتے ہیں۔ ان کیلئے قرون وسطیٰ کے مختلف فرقوں کے مابین پائی جانے والی حدود تو اب مفقود ہو چکی ہیں مگر ان کے نزدیک ازمنۂ وسطیٰ کے دقیانوسی خیالات سے آج بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہی بات کسی حد تک نام نہاد جدّت پسندوں کے بارہ میں بھی کہی جاسکتی ہے جو ایک طرف تو بڑی بے باکی سے ذاتی نقطئہ نظر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف گزشتہ دانشوروں کا کوئی حوالہ مل جائے جو ان کے مفید مطلب ہو تو وہ اسے بھی اپنے موقف کی تائید میں پیش کرنے سے نہیں جھجکتے۔
صوفی ازم
تصوف ترکی، ایران اور دریائے آمو سے مشرق کے علاقہ میں، جو تاریخی طور پرماورائالنہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خاصا مقبول تھا۔ سابقہ
سوویت یونین میں رہنے والے بہت سے مسلمان باشندے تصوف کے بہت دلدادہ تھے۔ تصوف نے پہلے روس کے زاروں اور پھر اشتراکیت کے دور میں ان علاقوں میں اسلام کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تصوف جس بات پر شدت سے زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب کی ظاہری یا صوری ہیئت کے پس پردہ ایک مصنوعی حقیقت بھی ہوا کرتی ہے جو الہام اور اس کی روح سے عبارت ہے۔ صوفیاء کے نزدیک اس روح کو ظاہر پر ہر صورت میں فوقیت حاصل ہونی چاہئے۔ اس روح سے مراد صوفیاء کی آخری منزل ہے جس تک پہنچنے کیلئے تمام مذاہب کوشاں ہیں۔ یہ آخری منزل عشق الٰہی اور تعلق باللہ کی ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک مذہب کی ظاہری شکل و صورت پر کاربند رہتے ہوئے یا اس کے بغیر اگر انسان کسی نہ کسی طرح اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے تو مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور یہی اس کا منتہیٰ اور مقصود ہے۔ تاہم سب صوفیاء نے ظاہر کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق شریعت کے تحت زندگیاں بسر کرتے چلے گئے۔ لیکن وہ اپنی تمام تر کوششیں ظاہری عبادات میں صرف کرنے کی بجائے شب و روز اللہ تعالیٰ کی بعض خاص صفات کے ورد میں مشغول رہتے تا کہ ان کی تمام تر توجہ ذکر الٰہی پر مرکوز رہے۔
کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ ریاضتیںآہستہ آہستہ یوگا کی ان کسرتوںکی ہمشکل ہو گئی ہوں جن کا ذکر ہندومت کے باب میں کیا گیا ہے۔ بعض اوقات صوفیاء کرام نے ذکر کے نئے سے نئے طریقے اور انداز ایجاد کر لئے جو ہوتے ہوتے آنحضرتﷺ کی سنّت سے بہت دور چلے گئے۔ تاہم ان صوفی فرقوں کے پیروکار قرآنی تعلیمات سے بھی شدت کے ساتھ وابستہ رہے۔ اس طرح مسلم دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں تصوف کے نئے مکاتب جنم لیتے رہے۔ اس بحث سے مراد یہ نہیں ہے کہ تصوف کے ارتقا اور تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے یا مختلف صوفی فرقوں کے ان باہمی اختلافات پر بحث کی جائے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ لیکن ایک فرق جو اسلامی تصوف کو اس سے ملتے جلتے دیگر مذاہب کے صوفیانہ مسالک سے ممتاز کرتا ہے وہ صوفیائے اسلام کا وحی کے جاری رہنے اور تعلق باللہ پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ درحقیقت تمام معروف صوفیاء کرام کا دعویٰ ہے کہ ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مستقل تعلق قائم ہے۔ چنانچہ ان کے بہت سے الہامات و کشوف مختلف مستند کتب میں درج ہیں۔ البتہ صوفیاء کرام میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسلام کے بنیادی اصولوں سےاپنا تعلق توڑ دیا۔ ان کے نزدیک مذہب کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان کی خدا کی طرف رہنمائی کرے۔ اس لئے ان کے نزدیک وہ لوگ جو یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں ان کیلئے رسمی عبادات بیکار محض ہیں۔ انہوں نے کچھ ایسی ذہنی اور روحانی ریاضتیں متعارف کروائیں جن کے بارہ میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اس رابطہ کو بعض اوقات انسان کے فنا فی اللہ ہونے کے احساس کا نام دیا جاتا ہے۔ تصوف کے اس مکتبۂ فکر میں موسیقی اور نشہ کی لت نے جلد ہی راہ پالی اور ان لوگوں کو حقیقت سے دور سراب اور خود فریبی کی دنیا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا۔ تاہم تمام صوفیانہ تحریکات نے اپنے سفر کا آغاز بدعات سے نہیں کیا اگرچہ بالآخر وہ اپنے انحطاط کے دور میں اس راہ پر چل نکلیں۔
تصوّف کے چار مستقل مشہور و معروف سلسلے ہیں جومرورِ زمانہ کے ساتھ شریعت کی راہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ لیکن جہاں تک ان کے بزرگ بانیوں کا تعلق ہے قرآن وسنت کے ساتھ ان کی وفاداری ہمیشہ مسلّم اور شک و شبہ سے بالا رہی ہے۔ یہ بڑے سلسلے چشتیہ، سہروردیہ، قادریہ اور نقشبندیہ ہیں جو آگے کئی ذیلی فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ سب کے سب حصول حق میں آسانی کیلئے زہد و ورع اور نفس کشی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ آغاز میں صوفیاء کی یہ ریاضتیں روایتی اسلامی عبادات کا متبادل نہیں سمجھی جاتی تھیں بلکہ نوافل کے طور پر ادا کی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ خالق و مخلوق کے باہمی تعلق کا صوفیانہ تصور ایسے فلسفیوں سے متاثر ہونے لگا جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر بعض صوفی سلسلوں میں کلاسیکی یونانی فلسفہ کے اثرات صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ بعض صوفی فرقوں نے وحدت الوجود کا یونانی نظریہ ایک ترمیم شدہ صورت میں اختیار کر لیا اگرچہ بعض نے اس کی شدید مخالفت بھی کی۔ وحدت الوجود کے مخالفین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک واضح اور بیّن حدِّفاصل موجود ہے۔ اگرچہ مخلوق خالق کی مظہر ہے اور اس پر اس کے خالق کی چھاپ کے نقوش ثبت ہیں تاہم مخلوق کو خالق کی ذات میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے بالمقابل بعض دوسرے مسالک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی مظہر ہے اس لئے خالق اور مخلوق کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ان کے خیال میں مخلوق کو خالق سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خداتعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی اس فطرت سے الگ نہیں کیا جا سکتا جس پر اس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا دونوں کے درمیان کوئی حدِّفاصل نہیں کھینچی جا سکتی۔ چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا۔ اس کے باوجود مادہ کے قدرتی خواص میں اللہ تعالیٰ کی آزادانہ مرضی کارفرما ہے۔
بادی النظر میں کائنات کا یہ تصور مکمل طور پر وحدت الوجود کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے یعنی خدا سب کچھ ہے اور سب کچھ خدا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وجود کے خارج میں بھی ایک مقتدر اور بااختیار ہستی موجود ہے جو بنی نوع انسان سے بذریعہ الہام مخاطب ہوتی ہے، اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی اور اس کی رہنمائی فرماتی ہے۔
مسلمان صوفیاء وحدت الوجود کے اس روایتی نظریہ کے برعکس خدا کی الگ ذات پر یقین رکھتے رہے ہیں جو خالق ہے اگرچہ اس کا عکس مخلوق میں نظر آتا ہے۔ جہاں تک صوفیاء کرام کے مزاج کا تعلق ہے وہ تندو تیز مباحثوں کی طرف بہت کم راغب ہوئے۔ وہ اپنے عقائد کے اظہار میں معتدل رہے اور مخالفانہ رائے کو صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن یہ بات کٹّرملاّئوں کے بارہ میں نہیں کہی جا سکتی جو رفتہ رفتہ حسد میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ اس لئے اکثر صوفی فرقوں کو انتہا پسند ملائیت کے ہاتھوں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ملائوں کی طرف سے اکثر جوابی تحریکیں اٹھتی رہیں اور وقتاً فوقتاً ہر صوفی فرقہ کو شدید جارحیت کے مراحل میں سے گزرنا پڑا۔ اور وہ صوفی حضرات جو وحدت الوجود کے عقیدہ سے وابستہ رہے خاص طور پرانتہا پسند علماء کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو وہ موت کے سزاوار بھی ٹھہرے اور بڑی سفّاکی سے قتل کئے گئے۔ ان کا یہ احتجاج کہ ان کا وحدت الوجود کا فلسفہ کبھی بھی خالقِ مطلق کی الگ ذات کے موجود ہونے کے خلاف نہیں رہا، کسی کام نہ آیا اور ان کی اس بنا پر شدید مذمت کی گئی کہ وہ خدا کی خدائی میں شرکت کے مدعی ہیں۔ الغرض نام نہاد کٹر علماء کی طرف سے ان لوگوں پر طرح طرح کا ظلم وستم روا رکھا گیا۔
خدائی کے دعویٰ کا الزام لگا کر ان صوفیاء سے جو سلوک کیا گیا اس کی ایک موزوں مثال مشہور صوفی منصور الحلّاج کے واقعہ میں ملتی ہے۔ ان صوفیاء پر اس قسم کے الزام لگائے گئے کہ گویا وہ بذات خود خدائی کے دعویدار ہیں۔ منصور الحلّاج کو اس جرم میں سولی پر لٹکایا گیا کہ وہ وجد کی کیفیت میں ’اناالحق انا الحق‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ کٹر ملائوں نے اس سے یہ مراد لی کہ وہ خود خدائی کے دعویدار ہیں۔ حالانکہ انہوں نے روحانی سرور کی کیفیت میں اپنی ذات کی مکمل نفی کا اعلان کیا تھا۔ اس سے مراد صرف یہ تھی کہ وہ لاشیء محض ہیں۔ اور جو کچھ بھی ہے فقط خدا کی ذات ہے۔ منصور الحلّاج موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر بلند کئے بے خوف وخطر سولی پر چڑھ گئے۔ اور سبّ وشتم کے اس طوفان میں ’اناالحق انا الحق‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے۔ متوقع موت کا خوف ان کے عزم کو ذرہ بھر بھی متزلزل نہ کر سکا اور نہ ہی گالی گلوچ کا شور ان کے نعرہ کو دبا سکا۔
خارجی کائنات ایک حقیقت ہے یا محض ایک تخیّل؟ اس نظریہ پر مبنی ایک نئے صوفی فرقہ نے جنم لیا۔ درحقیقت یہ ایک صدیوں پرانا مسئلہ تھا جسے افلاطون اور ارسطو نے بھی حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن نہ اس وقت اس کا کوئی حل نکل سکا اور نہ ہی بعد کے صوفیاء کسی منطقی نتیجہ پر پہنچ سکے۔ فلسفیوں میں اب بھی یہ بحث اسی شدت سے جاری ہے اور کوئی ہمعصر فلسفی اس سے صرفِنظر نہیں کر سکتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسانی ذہن کی شمولیت کے بغیر زمان و مکان کا ادراک ممکن نہیں۔ دیوانہ کو اپنا تخیّلاتنا ہی معروضی اور حقیقی نظر آتا ہے جتنا کسی سائنس دان کو قوانین قدرت کا مشاہدہ۔ ان زاویوں سے دیکھا جائے تو یہ مسائل لاینحل معلوم ہوتے ہیں۔
مزید برآں خارجی کائنات کے متعلق ہر شخص کا تاثر دوسرے سے مختلف ہے۔ تاہم ہمارے اردگرد موجود اشیاء اور ان کی خصوصیات کا ادراک بالعموم ایک سا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر لوگ کسی عام شے مثلاً کرسی یا میز کی ماہیت کے بارہ میں تو اتفاق کریں گے لیکن اور بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جن کے بارہ میں ضروری نہیں کہ وہ متفق ہوں۔ مثلاً مختلف حسِّ بصارت رکھنے والوں کو ایک ہی چیز کا رنگ مختلف نظر آئے گا۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ تمام انسانی استعدادیں ہر ایک میں یکساں ہوں۔ قوتِ شامّہ ایک سی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہر شخص کا گرمی سردی کا احساس بھی مختلف ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف مزاجوں اور مختلف جسمانی حالتوں کے حوالہ سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ کوئی معروضی حقیقت انسانی ذہن میں موجود کسی بھی موضوعی حقیقت سے مکمل طور پر متفق دکھائی نہیں دیا کرتی۔ المختصر، ضروری نہیں کہ موضوعی تاثرات زمینی حقائق کی ہو بہو عکاسی کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض طبقوں کے نزدیک دیکھنے والا کبھی بھی کامل یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔
اس لحاظ سے انسانی تجربہ جس تشّکک اور اشتباہ سے دو چار ہے اور جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، صوفیاء کے ایک ایسے فرقہ کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا جس نے اشیاء کے خارجی وجود کو یکسر مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ابدی حقیقت محض ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس کی کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ کچھ صوفی جو ان سے بھی زیادہ انتہا پسند تھے، انتہا پسندی میں اس سے بھی آگے نکل گئے۔ انہوں نے مادی اشیاء کے وجود کا سرے سے ہی انکار کر دیا یہاں تک کہ وہ اپنے مادی وجود سے بھی انکار کر بیٹھے۔ چنانچہ ایک علمی تحریک جو شروع تو اس لئے ہوئی تھی کہ حقائق الاشیاء کا لطیف در لطیف ادراک کر سکے بالآخر ایک گونہ دیوانگی کا شکار ہو گئی۔ تاہم اس دیوانگی میں ایک عجیب سحر تھا جس نے اپنے وقت کے علماء اور منطقیوں کو بھی مسحور کر دیا۔
اس فرقہ کے ایک مشہور صوفی رہنما کے بارہ میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ بعض سرکردہ علماء سے مناظرہ کیلئے اسے بادشاہ کے دربار میں طلب کیا گیالیکن حاضرین کی حیرت اور جھنجھلاہٹ کی انتہا نہ رہی جب بحث کا نتیجہ ان کی توقعات کے بالکل برعکس نکلا۔ سوال و جواب کے آغاز ہی میں یہ دبستانی علماء حواس باختہ ہو گئے اور دلائل کیلئے ہاتھ پائوں مارنے لگے مگر بن نہ آئی اور کوئی بھی اس صوفی کی ماورائی اور باریک منطق کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اس موقع پر بادشاہ کو ایک عجیب خیال سوجھا۔ اس نے فیل خانہ کے مہاوت کو حکم دیا کہ سب سے خونخوار ہاتھی کو محل کے احاطہ میں لایا جائے۔ یہ ہاتھی دیوانگی کا شکار تھا جو شاید صوفی کی دیوانگی سے کسی طور کم نہ تھی۔ اگر فرق تھا تو صرف اتنا کہ صوفی صاحب تو فقط خارجی اشیاء کے وجود کے منکر تھے جبکہ ہاتھی خارج کی موجودات کو تباہ کرنے کے درپے تھا۔ چنانچہ ایک طرف تو صوفی صاحب کو کھلے میدان میں لاکھڑا کیا گیا اور دوسری جانب ہاتھی کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ صوفی صاحب حواس باختہ ہو کر اپنی جان بچانے کیلئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بادشاہ اپنے محل کے جھروکہ سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ صوفی کو یوں بھاگتا دیکھ کر بولا: صوفی صاحب! آپ کو اس موہوم ہاتھی کو دیکھ کر بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو محض آپ کے تصور کا واہمہ ہے۔ صوفی بولا، بھاگ کون کم بخت رہا ہے۔ یہ بھی آپ کے تصور کا واہمہ ہے۔ اس طرح صوفی کو خطرناک صورت حال سے چھٹکارا تو مل گیا لیکن یہ بحث آج بھی بڑے زور شور سے جاری ہے۔
مسلم سپین کا مکتبۂ فکر
اس بحث کا ذکر گزر چکا ہے کہ تجربہ و مشاہدہ اور الہام دونوں میں سے کس کو فوقیت حاصل ہے۔ بعض مفکرین وحی کو منطق پر ترجیح
دیتے ہیں اور بعض اس کے برعکس خیال کرتے ہیں۔ ابن رشد نے جو مغرب میں Averroes کے نام سے معروف ہیں اور عظیم ترین مسلمان مفکرین میں سے ایک ہیں، یہ خیال پیش کیا کہ مندرجہ بالا نظریات متوازی سچائیوں پر مبنی ہیں۔ لہٰذا ان پر الگ الگ غور کرنا چاہئے۔ الہامی سچائی کو من وعن قبول کرنا چاہئے جبکہ مشاہدہ اور تجربہ کو مشاہدہ اور تجربہ کی حد تک رکھنا چاہئے۔ ان کے نزدیک الہام اور تجربہ کے مابین ربط تلاش کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی اس امر کی ضرورت ہے کہ دونوں میں متناقضات تلاش کئے جائیں اور ان کے حل کیلئے سرگردان ہوا جائے۔
یہ وہ دور تھا جب ہسپانیہ میں مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں تیزی سے ترقی کر رہے تھے اور انہیں اس امر کی پروا نہیں تھی کہ پرانے مکاتبِ فکر کے بعض مذہبی علماء ان کے خلاف بدعتی یا ملحد ہونے کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔ ابن رشد نے غالباً بہتر یہی سمجھا کہ وہ ان تنازعات میں نہ الجھیں مبادا یہ امر سائنسی ترقی کی راہ میں حائل ہو جائے۔ انہوں نے مذہب اور سائنس میں تضادات ابھرنے کے خدشہ کے پیش نظر اس بحث میں الجھنے سے عملاً گریز کیا۔ ایک سچے مسلمان اور صداقت کے غیر جانبدار متلاشی سائنسدانوں کی حکمت عملی ہسپانیہ میں ایک لمبے عرصہ تک مذہب اور سائنس کی ترویج میں ممد رہی۔ الہامی اور مشاہداتی سچائی کے مابین موجود اس مزعومہ تضاد کے خطرہ سے کبھی بھی کھل کر مقابلہ کی نوبت نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی فوقیت کا معاملہ سنجیدگی سے زیر غور نہیں آیا۔ عدم تصادم کی یہ حکمت عملی جو ہسپانیہ میں صدیوں تک غالب رہی ابن رشد ہی کی مرہون منت ہے۔
بعد کے واقعات کی روشنی میں اس مسئلہ کے ممکنہ پہلوئوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ابھی اس قسم کے مسائل کو سلجھانے کاوقت نہیں آیا تھا۔ اس امر کا امکان بہرحال موجود تھا کہ حقائق کا ادراک ناقص ہو یا محض جزوی بلکہ عین ممکن تھا کہ یہ ادراک سرے سے ہی غلط ہو۔ مثال کے طور پر ازمنۂ وسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کا تصور کائنات قرآن کریم اور احادیث پر مبنی نہیں تھا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ تصور زیادہ تر اپنے دور کی مروّجہ جہالت کا آئینہ دار تھا۔ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، مذہبی علماء اپنے نظریات کو عین اسلام سمجھتے تھے اور انہیں حتمی قرار دیتے تھے۔ حالانکہ امرِواقعہ یہ تھا کہ علومِ متداولہ کے حوالہ سے حقیقی قرآنی نظریات کی تفہیم ان کی بساط سے باہر تھی۔ ہسپانیہ میں سائنسدانوں اور مذہبی علماء کے مابین اس قسم کے موضوعات پر کسی مکالمہ یا گفتگو کا سراغ نہیں ملتا۔
ان دونوں گروہوں میں علمی تبادلہ خیال کیلئے کوئی ادارہ یا مرکز نہیں تھا اور نہ ہی اپنے اپنے نظریات کی تقابلی خوبیوں کے بارہ میں کوئی مناظرہ یا مباحثہ ممکن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہسپانیہ میں گیلیلیو کا کوئی پیش رو پیدا نہ ہو سکا جسے صداقت اور زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا۔ سائنسدانوں کو جب بھی اپنے ہمعصر علماء کے سامنے حق کو حق کہنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مذہبی علماء کے سامنے کسی قسم کی وضاحت پیش کرنے کی کوشش تک نہیں کی اور نہ ہی یہ بات ثابت کرنا ضروری سمجھی کہ ان علماء کی پیش کردہ قرآنی تشریح غلط اور معروف سائنسی حقیقتوں سے متصادم ہے۔
دو متوازی تحریکوں کا ارتقا ہوا جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئی۔ بالآخر اسلامی سوچ نے فلسفیانہ اور سائنسی طرز فکر سے بالکل علیحدہ راستہ اختیار کر لیا۔ وہ دو ایسی ندیوں کی طرح تھے جو ایک دوسرے میں مدغم ہو ئے بغیر متو ازی بہ رہی ہوں۔
چنانچہ اندلس کے مسلمان سائنسی تحقیق کے اکثر میدانوں میں دوسرے اسلامی ممالک سے سبقت لے گئے۔ ایک خوش کن بات یہ بھی تھی کہ ہسپانیہ نے نسبتاً ایک طویل پر امن زمانہ پایا جس میں وہ چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے بیرونی حملہ آوروں کی دست برد سے محفوظ رہا۔ اسلامی تاریخ کا یہ اندلسی دور صحیح معنوں میں عقلیت پسندی کا زرّیں دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اندلس سے مسلمانوں کے خروج کے ساتھ ہی ان کی علمی برتری کا عظیم الشان عہد ختم ہو گیا اور اہل ہسپانیہ کے اسلام کے ساتھ ہر قسم کے روابط منقطع ہو گئے۔ اگر دنیا میں کہیں علم ودانش اور سائنسی ترقی کازوال ہوا تو یہ المیہ اندلس کی سرزمین پر ہوا۔ یہ کیا ہی دردناک واقعہ تھا۔ اندلس کے جنوبی کنارے سے مسلمانوں کے خروج کے ساتھ ہی وہاں سے دانائی، علم ودانش، انصاف پسندی، سچائی اور روشنی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ غالباً صدیوں تک کیلئے رخصت ہو گئی لیکن روشنی کے اس سیلابِ تُند نے ان مسلمان جلاوطنوں کا ساتھ نہ دیا اور ہسپانیہ ایک بار پھر قبل از اسلام کی سی جہالت کی تاریکی میں ڈوب گیا۔ ان دنوں دیگر اسلامی ممالک کی حالت بھی کچھ اس سے بہتر نہیں تھی۔ وہاں تاریکی اندر ہی اندر سے پھوٹ رہی تھی۔ مذہبی تعصبات، ہٹ دھرمی، تنگ نظری، نخوت، خود پسندی اور باہمی حسد کی آگ کے شعلے جہنم کی آگ کی طرح بھڑک رہے تھے۔ ایک گونہ دھوئیں کا بادل تھا جو پھیلتے پھیلتے آسمانی نور کے رستے میں حائل ہو گیا۔ اِس بڑھتی ہوئی گھٹا ٹوپ تاریکی میں زمین چھپ سی گئی اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے سائے اور بھی گہرے ہوتے چلے گئے۔
جہاں تک شمالی یورپ کے باشندوں کا تعلق ہے یہ ایک بالکل مختلف داستان ہے۔ ہسپانیہ کے لوگوں نے جو کھویا تھا وہ ان لوگوں نے پالیا اور کیا ہی خو ب پایا! وہی ملکہ ازابیلہ اور بادشاہ فرڈیننڈ جنہوں نے مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کیا تھا، متعصّب اور متشدّد پادریوں کے روز افزوں رسوخ کے زیر اثر، اپنے غیظ و غضب کا رخ یہودیوں کی طرف موڑ دیا اور جس طرح اندلس کے جنوبی دروازوں سے مسلمانوں کو باہر دھکیل دیا گیا اسی طرح شمالی سپین سے یہودیوں کی بھاری اکثریت کو ملک بدر کر دیا گیا۔ ان میں بڑے بڑے علمائ، فضلائ، سائنسدان اور عظیم دانشور بھی تھے جو کئی ایک شعبوں میں صاحب کمال تھے۔ انہوں نے سات صدیوں پر محیط مسلم حکومت کے سنہری دور میں متعدد فنون پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ انہیں صنعت و حر فت، تجا رت، سائنسی تحقیق، فنِ تعمیر، سنگ تراشی اور جر ّاحی جیسے شعبہ ہائے زندگی میں کمال حاصل تھا۔ ان سب کو ایک منظم اور مستقل اذیت ناک منصوبہ کے تحت تمام املاک سے بے دخل کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو اندلس سے علم کی روشنی جنوبی فرانس بلکہ اس سے بھی آگے تک لے کر گئے۔ ارسطو اور افلاطون کا فلسفہ ہسپانیہ کے مسلمان فلسفیوں کے ذریعہ یورپ تک پہنچنا شروع ہوا۔ اس وقت حاذق طبیب ابن سینا کے کمالِ طب اور دنیوی اور مذہبی فلسفہ اور سائنس کواپنی ذات میں یکجا کرنے والے ابنِ رُشد کی دانشمندی نے یورپ کے تاریک افق کو روشن کرنا شروع کر دیا۔ یہودیوں کے اس اخراج کے باعث یہ علوم عام ہو گئے اور ان کے مختلف یورپین زبانوں میں ترجمے کئے جانے لگے۔ درحقیقت انہی لوگوں نے یورپ میں علم و حکمت اور آگہی کے نئے دور کی داغ بیل ڈالی جو یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے نام سے موسوم ہے۔
عالم اسلام کی حالت زار
ہسپانوی دور کے بعد کے زمانہ پر نظر ڈالی جائے تو تمام عالم اسلام ہمیں علمی پژمردگی کے المناک اندھیروں میں
ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد دیگر مسلم ممالک نے بھی سائنسی علوم میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور تحقیق و جستجو کا وہ شوق جاتا رہا جسے خود مسلمانوں نے فروغ دے کر کمال تک پہنچایا تھا۔
یہ افسوسناک رجحان نہ صرف سائنس بلکہ مذہب کیلئے بھی بیحد نقصان دہ ثابت ہوا اور امت مسلمہ تفرقہ کا شکار ہو کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو گئی یہاں تک کہ توحیدِ خالص کا عظیم عقیدہ بھی خودکشی کے اس رجحان کی زد میں آ گیا۔ توحید باری کے تصور میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک خدا کی بجائے مختلف خدائوں کی باتیں کر رہے ہوں۔ ان کی علمی پیاس تو کم نہ ہوئی لیکن ترجیحات بدل گئیں۔ اگرچہ موضوعِ بحث تبدیل ہو گیا مگر خیر و شر سے متعلق بحث کا سلسلہ پورے جوش و خروش سے جاری رہا۔ بایں ہمہ یہ سوالات بھی وہی تھے جنہوں نے انہیں صدیوں سے مضطرب کر رکھا تھا۔ سنجیدہ اور بنیادی نوعیت کے عملی مسائل کی بجائے وہ فروعی فقہی مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔ مثلاً یہ کہ کوّے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ اس سوال پر مخالف آراء رکھنے والوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان مسائل پر جو تندوتیز مباحثے ہوئے وہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ ان کی ذہانت کو اس اعتبار سے داد دینا پڑتی ہے کہ وہ رائی کا پہاڑ بنا سکتے تھے۔ لیکن یہ خراج تحسین اس امر کا غماز ہے کہ ان میں عقلِ سلیم نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ ان کی اس قسم کی موشگافیوں کو زیادہ سے زیادہ لایعنی اور بے مقصد دانشوری کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
چند ایک بے کار قسم کے سوالات بھی تھے جو ان لوگوں کے نزدیک بے حد اہم تھے۔ ذہنوں کے اضطراب اورمشتعل جذبات کے ہاتھوں خاک و خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ مثال کے طور پر ایک بیہودہ امر اور بے مصرف سوال یہ بھی تھا کہ اگر ایک کتا کنوئیں میں گر جائے تو اس میں سے پانی کی کتنی بالٹیاں نکالی جائیں کہ باقی ماندہ پانی وضو کے قابل ہو جائے۔ یہ وہ ’اہم ترین‘ سوال تھا جو اس دور کے علماء کرام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ یہ محض کتے پرہی موقوف نہ تھا بلکہ اگر کوئی مخالف علماء کے فتویٔ کفر کی زد میں آیا ہوا مولوی کنوئیں میں جا گرے تو ذرا سوچئے کہ مسئلہ کتنی سنگین صورتِحال اختیار کر جاتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علم ریاضی کے کسی پیچیدہ کلیہ کے مطابق پانی کو پاک کرنے کیلئے کتنی بالٹیاں نکالی جائیں۔ بہت سے اس کنوئیں کو مٹی سے پاٹنے کو ترجیح دیتے اور یہ کنؤاں مولوی صاحب کا مقبرہ بن کر رہ جاتا۔ یہ وہ دور تھا اور یہ وہ نا قابل یقین کہانیاں ہیں جن کی دیواریں تشدد اور عدم برداشت کے جنون پر استوار تھیں۔ بظاہر یہ کہانیاں عجیب و غریب دکھائی دیتی ہیں تاہم انہیں سراسر جھوٹ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دور کا علمِ فقہ دیوانگی کاشکار ہو کر رہ گیا تھا۔ فقہاء ایسی بے معنی اور لغو بحثوں میں پڑے ہوئے تھے جن کی وجہ سے نماز جیسا مقدس مذہبی فریضہ بھی گویا ایک مذاق بن چکا تھا۔
نماز کی دوسری رکعت میں قعدہ کی حالت میں مسلمان ہمیشہ تشہّد پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ تشہّد پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں جبکہ بعض ایسا نہیں کرتے۔ اس دور کے فقہاء میں اس مسئلہ پر بھی شدید اختلاف پایا جاتا تھا اور وہ اس مظلوم انگلی کو سزا دینے پر تلے ہوئے تھے جو ان کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنی تھی۔ ان کا متفقہ فتویٰ تھا کہ ان کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے والی اس غریب انگلی کو خواہ وہ اٹھے یا نہ اٹھے، بہرحال کاٹ دیا جائے۔ ماسوا اس کے ان میں ہر بات میں اختلاف تھا۔ ان حالات میںدوسرے مسلک کی مساجد میں جانا خطرہ سے خالی نہ تھا جہاں داخل ہونا تو یقینا کوئی مسئلہ نہیں تھا، اصل مسئلہ تو باہر نکلنے کا تھا۔ کیونکہ عین ممکن تھا کہ باہر آتے ہوئے خداتعالیٰ کی عطا کردہ پانچ انگلیوں میں سے ایک کم ہو چکی ہو۔
تیسرا فروعی نوعیت کا مسئلہ "آمین"کہنے سے متعلق تھا جو امام کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کہی جاتی ہے۔ بنیادی بحث یہ تھی کہ آمین بالجہر کہنی چاہئے یا زیرِلب۔ عین ممکن تھا کہ ایک ایسی مسجد میں جہاں آمین بالجہر کہنا سنگین جرم سمجھا جاتا تھا بلند آواز میں آمین کہنے والوں کو زد و کوب کیا جائے۔ اسی طرح آمین بالجہر کہنے والوں کے درمیان آمین زیر لب کہنا بھی کچھ کم اشتعال انگیز نہ تھا۔
ان مذہبی اختلافات میں سے جس مسئلہ نے خطرناک صورت اختیار کی وہ قرآن کریم کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ تھا۔ مخالفانہ نظریات رکھنے والے بلا شک و شبہ گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ اتفاق یعنی چانس پر منحصر تھا۔ اگر بادشاہِ وقت قرآن کریم کو مخلوق نہ ماننے والوں کا حامی ہوتا تو مخالف عقیدہ رکھنے والے نہ صرف قتل کر دئیے جاتے بلکہ گھروں میں زندہ جلا دئیے جاتے۔ اگر دوسروں کی قسمت یاوری کرتی تو تشدد کرنے والے خود تشدد کا شکار ہو جاتے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ لوگ جنہیں فوت اور دفن ہوئے عرصہ گزر چکا تھا ان کی قبریں اکھیڑ کر نعشیں باہر نکالی گئیں اور انہیں سر عام پھانسی دی گئی تا کہ وہ لوگ جو زندہ ہیں اس سے عبرت پکڑیں۔ لیکن اس صورت حال سے کیا نتیجہ نکل سکتا تھا؟ ہنڈولے کے اس کھیل میں کون محفوظ تھا اور کون غیر محفوظ۔ یہ ایک لاینحل سوال تھا۔ البتہ جو بھی ان فضول جھگڑوں میں اتنی سنجیدگی سے حصہ لیتے ان کی زندگی بہرحال اس دنیا میں جہنم بن کر رہ جاتی۔ یعنی جس جہنم سے ان کے مخالفین انہیں ڈرایا کرتے تھے اس کامزہ وہ اسی دنیا میں چکھ لیتے تھے اور انہیں مو ت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔
ازمنۂ وسطیٰ کی صدیوں پر محیط تاریکی کے مہیب سائے دور دور تک پھیلنا شروع ہوئے یہاں تک کہ دنیائے اسلام جو عرب کے ریگزاروں سے طلوع ہونے والے آفتاب عالمتاب کی بدولت تاریکی سے نکل کر روشنی میں آن کھڑی ہوئی تھی ایک بار پھر جہالت کے عمیق گڑھے میں جا گری۔ اسلام کا تصور تناظر اور زوایۂ نگاہ کے بدلنے سے تاریک اور اداس راتوں میں دور کائنات میں نظر آنے والے جھلملاتے اور رنگ بدلتے ستاروں کی مانند بدلنا شروع ہو گیا۔ اسلام کی پہلی سی شان و شوکت اورقوت باقی نہ رہی۔
علم و آگہی کے دو بڑے راستے جو جہالت کی تاریکی کو روشنی میں بدل سکتے تھے بظاہر ہمیشہ کیلئے مسدود ہو گئے۔ نہ تو بصیرت کی پہلی سی سچائی اور صفائی رہی اور نہ ہی آسمان سے کسی وحی کے اترنے کی امید! ان پر یہ دونوں دریچے بند ہو گئے۔ کتنا ہی المناک انجام تھا!
تاہم کچھ صدیوں کے بعد دنیوی علوم کا سورج ایک بار پھر طلوع ہونا شروع ہوا لیکن اس مرتبہ یہ سورج مغرب سے نکلا۔ مشرق سے تعلق رکھنے والے روشنی کے میناروں نے اس امید پر مغرب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ شاید انہیں اس روشنی کی ایک جھلک نظرآجائے جو انہوں نے صدیوں پہلے خود مغرب کو عطا کی تھی۔
فلسفۂ یورپ
علم و آگہی کا سورج بالآخر اندلس پر غروب ہوا اور اس کا روشن چہرہ فرانس کے افق سے نمودار ہوا تا کہ باقی یورپ کو بھی اپنی روشنی سے منور کر سکے۔ جنوب سے شمال اور مشرق سے مغرب تک تما م یورپ علم کی روشنی سے جگمگا اٹھا۔ علوم کا ایسا شاندار دور شروع ہوا جس کا آئندہ کئی صدیوں تک یورپ پر غلبہ مقدّر تھا۔ یوں تحریک احیائے علوم یا نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔
لیکن آج یورپ میں بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ علم و حکمت کی اس صبح کیلئے جسے نشأۃ ثانیہ کہا جاتا ہے، مسلم ہسپانیہ کے کتنے مرہون منّت ہیں۔ اندلس کے بہت سے ممتاز فلسفی، ریاضی دان، سائنسدان، ہیئت دان اورماہرین طب ایسے ہیں جن کا نام و نشان تک یورپ کے حافظہ سے مٹ چکا ہے اور جن کی یادیں گمنامی کے ویران قبرستان میں دفن ہیں۔
نشأۃ ثانیہ کی صبح طلوع ہوتے ہی ظلمت کافور ہو گئی اور عقل و استدلال نے اندھے اعتقادات کو ان مقامات سے بھی نکال باہر کرنا شروع کر دیاجو صدیوں سے اس کی مکمل گرفت میں تھے۔ ان حالات میں مادی فلسفوں اور ایمان و اعتقاد کے مابین توازن قائم رکھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ پادریوں کے زیر تسلط اس دور کے معاشرہ کیلئے عقلی اور استدلالی فلسفوں کے نئے حملوں سے اپنے عقائد کا دفاع کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مغرب کو عیسائیت کا جو تصور ورثہ میں ملا وہ زیادہ تر پولوسی اثر کے تحت بگڑ کر اساطیری عقائد میں بدل گیا۔ اس میں اب وہ آسمانی نور باقی نہیں رہا تھا جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سینہ کو منور کیا تھا۔
تحریک احیائے علوم سے پہلے بھی بعض یورپی دانشوروں نے عقل اور ایمان کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں ای۔جے۔سکاٹس (E.J. Scotus) نے عقل اور ایمان میں ایک گونہ مصالحت کی عمدہ مثال قائم کی۔ اس کا خیال تھا کہ مجرد عقل سے صداقت تک رسائی ممکن نہیں بلکہ عقل اور ایمان دونوں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے نزدیک آغاز میں مذہبی عقائدعقلی بنیادوں پر ہی قائم تھے کیونکہ ایمان اور یقین ظن محض سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ یقین کی تشکیل کیلئے کوئی نہ کوئی منطقی بنیاد درکار ہوتی ہے۔ خواہ آپ سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں، ہر عقیدہ کے پس منظر میں بالارادہ یا بلا ارادہ کوئی نہ کوئی عقلی بنیاد ضرور موجود ہوتی ہے۔ المختصر سکاٹس (Scotus) کے نزدیک حقیقی ایمان اور اساطیر کو یکساں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقی ایمان کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ عقل کی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کے نزدیک جب ایمان انسانی ذہن میں راسخ ہوا تو لازماً کسی برہان و منطق کی بنا پر ہی ایسا ممکن ہوا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق بظاہر نظروں سے غائب ہو گیا اورپھر یوں لگا جیسے ایمان کسی عقلی سہارے کے بغیر ہوا میں معلّق ہو کر رہ گیا ہو۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس استقلال اور ثبات کے ساتھ ایمان نے مرورِزمانہ کا مقابلہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقل و دانش کے بغیر اسے یہ بلندیاں کبھی نصیب نہ ہوسکتیں۔ حاصل کلام یہ کہ سکاٹس کی رائے میں انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ گاہے بگاہے اپنے ایمان کی صحت کا عقل کی روشنی میں جائزہ لیتا رہے۔ اگر دونوں میں تضاد نظر آئے تو لازماً عقل کی پیروی کی جائے گی۔ اس طرح عقل کو ایمان پر ہمیشہ برتری حاصل رہے گی۔
تثلیث کے بارہ میں نیوٹن (1642ئ۔ 1727ئ)کا طرز فکر اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ جب تک اس نے ورثہ میں ملنے والے مذہبی عقائد کا شعوری طور پر سائنسی جائزہ نہیں لیا تھا وہ اس عقیدہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا۔ لیکن بعد میں جب اس نے اپنے ایمان کو عقل و استدلال کی کسوٹی پر پرکھا تو عقیدئہ تثلیث کو ردّ کرنے کے سوا اس کے لئے کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ اس کے نزدیک تثلیث کا عقیدہ عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ یوں وہ ہمیشہ کیلئے چرچ کے تعصّبات کا سب سے بڑا نشانہ بن گیا۔ حالانکہ یہ نیوٹن ہی تھا جس کی ذہانت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، اسے کیمبرج یونیورسٹی کے College of the Holy and Undivided Trinity کا فیلو منتخب کیا گیا۔ وہ کئی سال تک اس عہدہ پر فائز رہا۔ تاہم 1675ء میں اسے مطالبہ کیا گیا کہ یا تو وہ اپنے عہدہ سے دستبردار ہو جائے یا پھر اپنے نظریات کو ترک کر کے اپنے راسخ العقیدہ عیسائی ہونے کا حلفیہ اعلان کرے۔ لیکن College of the Holy and Undivided Trinity اس کے رستہ میں حائل ہو گیا جس سے دو ٹوک اور صاف انکار کے باعث اسے نہ صرف فیلو شپ سے محروم ہونا پڑابلکہ اس کا60پونڈ سالانہ کا معقول وظیفہ بھی بند کر دیا گیا جو اس زمانہ کے لحاظ سے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ چنانچہ نیوٹن پر کفر والحاد کا الزام لگا کر اسے یونیورسٹی کی فیلو شپ اور عہدہ سے فارغ کر دیا گیا۔ اس پر فتویٰ صرف اس لئے لگایا گیا کہ اس کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پرستش بت پرستی میں داخل تھی جو کہ ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ نیوٹن کے متعلق آر۔ ایس۔ویسٹ فال(R.S.Westfall) لکھتا ہے:
’’وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو بندہ اور خدا کے درمیان ایک الٰہی وسیلہ سمجھتا تھا جو خود اپنے پیدا کرنے والے آسمانی باپ کے ماتحت تھا۔‘‘1
’’اس کا یہ یقین پختہ سے پختہ ترہوتا چلا گیا کہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں وسیع پیمانے پر دئیے جانے والے فریب کی وجہ سے ابتدائی کلیسا کے اصل عقائد میں بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ اس فریب کا مرکزی نقطہ تثلیث کی تائید میں اناجیل میں کی جانے والی تحریف تھی۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ نیوٹن نے یہ عقیدہ کب اختیار کیا۔ اس کا معین طور پر جواب دینا تو ممکن نہیں لیکن اس کی بعض تحریریں اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ شکوک و شبہات تو شروع ہی سے اس کے دماغ میں پیدا ہوچکے تھے جن کا وہ ازالہ تو کیا کرتا الٹا وہ خود ہی ان کے زیر اثر آ گیا۔‘‘ 2
پس توحید باری تعالیٰ پر نیوٹن کے ایمان اور تثلیث سے انکار کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس نے عیسائی عقائد کی کسی جانبداری اور تعصب کے بغیر تحقیق کی تھی۔ اس کی ذاتی بائیبل کے حاشیہ پر جگہ جگہ اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے متعدد نوٹ موجود ہیں۔ مثلاً:
’’لہٰذا باپ اپنے بیٹے کا خدا ہے بشرطیکہ بیٹے کو خدا متصوّر کیا جائے۔‘‘ 3
اس سے ویسٹ فال یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ:
’’نیوٹن کے دینی مطالعہ کا پہلا نتیجہ تو یہ نکلا کہ اس کے ذہن میں تثلیث اور مسیح کے مقام کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔‘‘ 3
جب یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دوران ایمان اور عقلیت کے قدیم مسئلہ پر از سر نو دلچسپی پیدا ہوئی تو اس وقت رینے ڈیکارٹ (1650-1596) Rene Descartesکو ایمان کا پرچم بلند رکھنے کی توفیق ملی۔ اس کے نزدیک اصل بحث عیسائیت اور عقل کے باہمی تقابل کی نہیں بلکہ فلسفیانہ موشگافیوںکے دور میں جبکہ انسانی ذہن انتشار کا شکار تھا، اصل سوال ایمان باللہ کا تھا۔
رینے ڈیکارٹ (Rene Descartes) غیر معمولی طور پر روشن دماغ منطقی تھا جو نہ صرف ہستی ٔباری تعالیٰ پر یقین رکھتا تھا بلکہ یہی وہ پہلا فلسفی ہے جس نے بڑی جرأت کے ساتھ عقل کو خدا کی طرف رہنمائی کا وسیلہ قرار دیا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس نے تثلیث کے متعلق عقلی مباحث میں الجھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے صرف یہ ثابت کیا کہ ایک ارفع و اعلیٰ ہستی موجود ہے۔ غالباً ڈیکارٹ کو اپنے ہم عصر مفکرین میں اس کے بلند اور قابل عزت مقام سے اس لئے محروم کر دیا گیا کہ اس نے مروجہ عیسائی عقیدہ سے انحراف کیا تھا۔ جے۔گٹ مین (J. Gutman)نے اس صورتِ حال کی وضاحت اپنی کتاب 'Philosophy'4 میں کی ہے جس میں وہ ڈیکارٹ کو (Revelational Thiest) یعنی ایسے مفکر کے طور پر پیش نہیں کرتا جو ہستی ٔباری تعالیٰ اور الہامِالٰہی کا قائل تھاجو کہ واقعتہً درست بات تھی۔ لیکن گٹ مین کے نزدیک وہ ایسا تھا نہیں، ایسا سمجھا جاتا تھا۔ ڈیکارٹ کے ساتھ یہ سلوک محض اس لئے روا رکھا گیا کہ اس نے عقلی دلائل کی بنا پر عیسائیت کے مخصوص عقائد کو قابل اعتنانہ سمجھا۔
حق بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت سے عیسائی پادریوں کے جذبات اتنے مجروح نہیں ہوئے جتنے عیسائیت کی اعلانیہ مذمت سے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ڈیکارٹ جیسے عظیم فلسفی اور ریاضی دان کووہ خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ صرف ایک نظریاتی فلاسفر ہی نہیں تھا بلکہ جیومیٹری کا بھی ایک بہت بڑا ماہر تھا جس نے فیثا غورث (580تا500ق۔ م) کے جیومیٹری کے کام کو نسبتاًاس بلند مقام تک پہنچا دیا جس کی نظیرپہلے کہیں نہیں ملتی۔ علم جیومیٹری کے سلسلہ میں اس نے جو ٹھوس کام سر انجام دیا وہ بہت سے ایسے جدید مسائل پر مشتمل ہے جن کی بنا پر ڈیکارٹ کو اوّلیت کا درجہ حاصل رہے گا اور اس کی عظمت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
اس کی عظمت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے ریاضی کے طرزِاستدلال کو فلسفہ میں متعارف کرایا۔ اس کے نزدیک مطلق سچائی کا تصور نفس کے مشاہدہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے سچائی کے معیار کا تعلق اس پہلے نقش سے ہے جو کسی چیز کے بارہ میں سننے یا اسے دیکھنے کے بعد ذہن میں ابھرتا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ کوئی بھی ایسی بات جو سچائی کے اس معیار پر فوراً پوری نہیں اترتی یقینا مشکوک ٹھہرے گی۔ بالفاظ دیگر ہر وہ امر جسے بغیر دلیل کے حقیقت تسلیم کیا جا سکے ایک بدیہی حقیقت کہلائے گا۔ وہ اس منطق کا اطلاق اپنے شعور ذات پر کس طرح کرتا ہے اسے آسان لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ میں سوچ رہا ہوں اس لئے میں ہوں۔ میں اس سادہ حقیقت کو بغیر کسی منطقی دلیل کے قبول کرتا ہوںپس یقینا میں ہوں۔
چنانچہ یہ نتیجہ اوّلین اور خالصۃً بدیہی صداقت کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس دلیل کو بیان کرنے کے لئے اس نے ایک سادہ اور دلکش فقرہ استعمال کیا "cogito ergo sum" یعنی ’’میں سوچ رہا ہوں اس لئے میں ہوں‘‘۔ 5
اس پہلی سچائی کے بعد دوسری سچائی جس تک وہ پہنچا ہستی ٔباری تعالیٰ کی سچائی تھی۔ اس نے ریاضی کے ذریعہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور ہی اس بات کی کافی دلیل ہے کہ وہ موجود ہے۔ جیسے مثلث کے تین زاویے یقینی طور پر دو قائمہ زاویوں کے مجموعہ کے برابر ہوتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ خداتعالیٰ کی ہستی کے بارہ میں اس کا فلسفیانہ ثبوت بعد میں آنے والے فلسفیوں کیلئے قابل قبول تھا یا نہیں، ایک بات بہرحال یقینی ہے کہ وہ اس سے غیرمعمولی طور پر متاثر ضرور ہوئے۔ یوں بعد میں آنے والے دانشوروں نے خداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان کی تائید یا مخالفت میں منطق کو خوب استعمال کیا۔ اسی رجحان کے نتیجہ میں جدلی مادیت کے فلسفہ نے جنم لیا۔
اس قسم کی سوچ سترھویں صدی میں بھی جاری رہی جب جان لاک (John Locke)، برکلے(Berckley) اور ہیوم(Hume) نے دعویٰ کیا کہ Phenomenaیعنی واقعات محسوسہ اور عقل کی حدود کا ایمان اور یقین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے لاک نے ایمان اور یقین کو رد نہیں کیا بلکہ اسے صرف ایمان لانے والوں پر چھوڑ دیا کہ وہ جو راستہ چاہیں اختیار کریں۔ یہ بات بعد میں آنے والے یورپی فلسفیوں کے حصہ میں آئی کہ وہ عقلی بنیاد پر خداتعالیٰ کے وجود کا انکار کر دیں جن میں روسو (Rousseau)اور نیٹشے (Nietzsche)قابل ذکر ہیں۔
نیٹشے(Nietzsche)نے تو اپنے ڈرامائی انداز میں گویا خداتعالیٰ کو مردہ ہی قرار دے دیا۔ روسو نے الہامی مذاہب کی جگہ ایک نئے مذہب کی تشکیل ضروری سمجھی اور ایک ایسے مذہب کا خیال ظاہر کیا جو انسانی فطرت اور تجربات پر مبنی ہو۔ اس کے نزدیک انسانی ذہن کو بذات خود ایک حیات ترتیب دینا چاہئے۔ روسو شاید پہلا یورپی فلسفی تھا جس نے ہر اس فلسفہ کی مخالفت کی جس کا خدا پر ایمان کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔ یہ وہ دور تھا جب مذہب عقلیت پسندی کی تحریک سے شعوری طور پر شدید متاثر ہو رہا تھا۔
ان فلسفیوں کے بعد مل (Mill)اور سِج وِک(Sidgwick)جیسے افادیت پسند آئے۔ وہ بنیادی طور پر افادیت کے قائل تھے۔ یعنی جس چیز میں کسی کا مفاد ہو اسے اس چیز تک آزادانہ رسائی ہونی چاہئے۔ لیکن خود غرضی اور ایثار میں ٹکراؤ کی صورت میں انہوں نے ثالثی کے لئے عقل کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لذّت کے حصول میں جب انتہائی خود غرضی اور بے لوث قربانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ان کے درمیان فیصلہ عقل کو کرنا چاہئے۔ بلا شبہ یہ فلسفہ لفظوں کا ایک طلسم ہے۔ لذّات کے پیچھے بھاگنے والوں کو خود غرضی چھوڑ کر اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کیلئے بنیتھم (Bentham)،مِل(Mill)اور سج وک(Sidgwick)کے مشورہ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ایسے لوگوں کے نزدیک egoism اور altruism یعنی خود غرضی اور ایثار کے درمیان انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے کون عقل کو ثالث بنائے گا؟ شہوانی اور نفسانی خواہشات سے مغلوب شخص کسی مشورہ کی ضرورت محسوس نہیں کیا کرتا۔ وہ اپنے نفعنقصان سے آگاہ ہونے کے باوجود اس راستہ پر چل نکلتا ہے۔
‏Utilitariansیعنی افادیت پسندوں کے بعد فلسفیوں کی ایک ایسی نسل ابھری جنہوں نے یورپی فلسفہ کی تاریخ پر ایک گہرا نقش چھوڑا۔ لاک(Locke) ، برکلے(Berkelay)اور ہیوم (Hume) جیسے Empiricists یعنی مشاہدہ پسند اس تحریک کے سرخیل قرار پائے۔ فلسفیوں کی بہت سی نسلیں ان سے متاثر ہوئیں جن کے فلسفہ کو سادہ لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’صرف ان نتائج کو معتبر سمجھنا چاہئے جو تجرباتی مشاہدات سے حاصل ہوں اور جنہیں باربار دہرا کر ثابت کیا جا سکے۔‘‘ ان کو یقین تھا کہ خالص عقل اور مشاہدہ نے قابل قبول نظریات کو جنم دیا ہے یعنی ایسے نظریات جنہیں سائنسی تجربات کے ذریعہ دہرایا جا سکے اور جن میں کوئی تضاد موجود نہ ہو۔ سائنس کی اس سے بہتر تعریف متصور نہیں ہو سکتی۔
ہیوم کے بعد عمانویل کانٹ (1804-1724) Immanuel Kantآیا جس کا فلسفہ کافی حد تک ہیوم کے Empiricalیعنی مظہری یا تجربی فلسفہ کا مرہون منّت ہے۔ وہ agnostic یعنی لااَدری تو تھا ہی مگر اتنا دانشمند ضرور تھا کہ اس نے اخلاقیات کی لابدّیت کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ شاید پہلا شخص تھا جس نے اصول اخلاق کو صرف عقل سے اخذ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے نزدیک حقیقت کے دو عالم ہیں۔ عالم مظاہر یا عالم صفات اور عالم ذات۔ اسے یقین تھا کہ سائنسی تحقیق عالم صفات سے باہر نہیں جا سکتی۔ لہٰذا اس نے اس امر کو خارج از امکان قرار دیا کہ خداتعالیٰ کا وجود سائنسی تحقیق کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ عموماً اس کے فلسفہ کو Transcendental Idealismیا ماورائی تصوریت کا نام دیا جاتا ہے۔
اسی فلسفہ نے آگے چل کر ہیگل کی Absolute Idealismیعنی مطلق تصوریت کے فلسفہ کو جنم دیا۔ اس فلسفہ کے اس زرخیز دور میں بہت سی نئی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ مثلاً منطقی ایجابیت (Logical Positivism)، وجودیت (Existentialism) اورمعروضیت (Objectivism) وغیرہ۔ لیکن افلاطون اور ارسطو کے جو (دونوں کے دونوں) بلا شرکت غیرے رہتی دنیا تک اپنی عظمت کا لوہا منواتے رہیں گے، نظام ہائے فکر میں کسی نئے ڈرامائی باب کا اضافہ نہ ہو سکا حتٰی کہ جدلی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی معروف اور چست لفظیات میں بھی کوئی نئی یا اچھوتی بات نہیں تھی۔ دراصل یہ وہی مضمون تھے جو پہلے بھی ارسطو کی تصانیف میں کھل کر زیربحث آ چکے تھے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یورپ کے فلسفی اپنے یونانی اساتذہ کے ساتھ ساتھ اندلس اوربغداد کے مسلمان پیش روؤں کے کچھ کم مرہون منت نہ تھے۔ اس دور میں ہیگل کا Absolute Idealismیعنی مطلق تصوریت کا نظریہ ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ لیکن اکثر یورپین اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ یہ فلسفہ دراصل افلاطون کے نظریہ تصوریت ہی کا تسلسل تھا۔ اگر ہم ہیگل کو صحیح طور پر سمجھ سکے ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک subjectivism یعنی موضوعیت، معروضی حقائق کا جزولا ینفک ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ ہیگل نے معروضی حقائق کا یکسر انکار نہیں کیا البتہ زور اس نے تصور کی فوقیت پر دیا۔
اسلامی مکاتبِ فکر میں موضوعیت پسند صوفیا کا اپنا ایک جدا رنگ ہے۔ وہ موضوعیت کو ان بلندیوں تک لے گئے جو یورپین فلسفیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ آ سکیں اگرچہ ان صوفیاء پر مجذوبیت کا الزام بھی لگایا جا سکتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ کیا الہام الٰہی انسانی علم کا مبدء و ماخذقرار پا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی دور کے مغربی فلسفی کے ہاں اس بحث کا سراغ نہیں ملتا۔ ہستی ٔباری تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں میں سے ڈیکارٹ اپنے اس موقف پر مضبوطی سے قائم رہا کہ عقل کو ایمان پر مقدم رکھنا چاہئے۔ وہ اللہ تعالیٰ پر اس لئے یقین رکھتا تھا کہ اس کی عقل اس کے ایمان کی مؤید تھی۔ لہٰذا اس کے فلسفہ میںکوئی تضاد نہیں تھا۔ والٹئیر(Voltaire) اور تھامس پین (Thomas Paine)کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی تہذیب کے ارتقامیں عقل نے ایمان کی نسبت زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ مابعد الطبیعیاتی فلسفہ میں مادی دنیا سے ماورا کسی خیالی وجود کی اہمیت تو موضوع بحث بنی رہی لیکن الہام الٰہی کے مسئلہ کا کبھی بھی سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا گیا۔
اس دور کے لوگوں کی فلسفہ میں دلچسپی کے باوجود ایمان اور عقل کی خصوصیات کا موازنہ کرتے ہوئے ان لوگوں نے بوجوہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے رکھی کہ الہام الٰہی نے بنی نوع انسان کو علم و معرفت کی طرف رہنمائی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ ان کی دلچسپی محض نظری رنگ میں اس امر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی کہ آیا خداتعالیٰ ہے یا نہیں؟ لیکن کائنات میں خداتعالیٰ کی ہستی کی طرف رہنمائی کرنے والے شواہد کیلئے کبھی کوئی جستجو نہیں کی گئی۔ الہام الٰہی کی صداقت کو کما حقہ‘ کبھی سنجیدگی سے نہیں پرکھا گیا۔ حالانکہ اس کے بالمقابل آجکل تویہ حال ہے کہ غیر ارضی مخلوق کے مزعومہ پیغامات کے سلسلہ میں کی جانے والی کوششوں تک کو بھی نہایت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ ان کوششوں کو باقاعدہ اداروں کی سرپرستی حاصل ہے اور بڑی بڑی عالمی طاقتیں ان کی مالی امداد کرتی ہیں۔
جوں جوں ہم جدید دور کے قریب آتے چلے جاتے ہیں خصوصاً بینتھم (Bentham)، مِل (Mill) اور سج وک (Sidgdwick) کے وقت سے عقل پر انحصار بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے مقابل پر ایمان کی اہمیت بتدریج کم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ عقلیت پر روز افزوں اصرار بالآخر ایمان باللہ کے انکار کا باعث بنا۔ اس طرح عقلیت قطب شمالی کی طویل سحر کی طرح غالب ہوتی چلی گئی جو کبھی کبھار auroraکی رنگین کرنوں سے جگمگا اٹھتی ہے۔
عقلیت پسندوں نے حصول علم و صداقت کے دوسرے ذرائع پر عقل کو ترجیح دی۔ تا ہم عقلیت پسندوں میںبھی عیسائیت کے ماننے والے اور نہ ماننے والے ہر دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ البتہ مؤخر الذکر گروہ ہی ہمیشہ غالب رہا۔ معقولیت کے اس دور میں کلیساکو چاروناچارمنطق کا سہارا لے کر عیسائیت کا دفاع کر نا پڑا لیکن اپنی غلط حکمت عملی کے نتیجہ میں وہ عقل سے ٹکر لے بیٹھا۔
عیسائیت پر ایمان لانے والوں میں اس دور میں سب سے نمایاں کرکیگارڈ (Kierkegaard)، ژاسپر (Jaspers) اور مارسل (Marcel) تھے۔ سب سے پہلے کرکیگارڈ نے کلیسا کو متنبہ کیا کہ وہ ایمان اور عقل کی منطقی بحث میں الجھ کر خود کشی کا ارتکاب نہ کرے۔ ایمان پر عقل کے کاری حملوں کے خلاف دفاع کیلئے کی جانے والی اس کی کوششوں کے بارہ میں کوپل سٹن (Coppleston)اپنی کتاب "Contemporary Philosophy" میں لکھتا ہے:
’’کرکیگارڈ کے نزدیک یہ طریق کار عیسائیت سے بددیانتی اور غداری تھی۔ ہیگل کا فلسفہ عیسائیت کا اندرونی دشمن ہے اور کسی عیسائی مصنّف یا مبلّغ کا حق نہیں کہ وہ عیسائیت میں تعلیمیافتہ عوام کے حسب منشاء ردّوبدل کر دے۔ تجسیم یسوع کا عقیدہ یہود کے لئے ایک ابتلا تھا اور یونانیوں کے نزدیک ایک حماقت۔ اور یہی صورت حال ہمیشہ رہے گی۔ کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف ماوراء العقل ہے بلکہ عقل کے لئے ناگوار بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم تر معمہ بھی۔ جہاں تک اس کی تصدیق کا تعلق ہے تو اس کے لئے ایمان اور دلی جوش و جذبہ کی ضرورت ہے اور عقل کو ایمان کا متبادل قرار دینا عیسائیت کی موت ہے۔‘‘ 6
اگر کرکیگارڈ اس مسئلہ پر تفصیلی غور کرتا تو اسے پتہ چلتا کہ وہ جس نتیجہ پر پہنچا تھا اس کا الٹ بھی درست ہے۔ بالفاظ دیگر مطلب یہ بنتا ہے کہ عیسائیت دلیل اور عقل سے یکسر عاری ہے اور ردّ کرنے والا ہی اس سے وابستہ رہ سکتا ہے۔ جونہی یہ کچھوا اپنے خول سے گردن باہر نکالنے کی جسارت کرتا ہے، عقل، جو موقع کی تلاش میں ہے، وہیں اس کاسر قلم کر دیتی ہے۔ بایں ہمہ کرکیگارڈ عیسائیت اور عقل دونوں کا بیک وقت قائل ہے۔ شاید اسے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی مہارت حاصل تھی۔
برکلے (Berkeley)اور ہیگل (Hegel)ہمیشہ اس بات پر مصر رہے کہ عقل کو حواس خمسہ پر مبنی تجربہ پر فوقیت دی جانی چاہئے۔ ان کے نزدیک خدا محض ایک تصور تھا جو منطقی خلا کو پر کرنے کیلئے ایجاد کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ بحث عیسائیت کو ماننے والے اور نہ ماننے والے یورپی فلسفیوں کے مابین پورے زور شور سے اس وقت تک جاری رہی جب تک یہ آگ خود بخود ٹھنڈی نہ پڑ گئی۔ صرف الحاد اور لاادریت (agnosticism) کے تابوتوں میںبند ایمان کی راکھ ہی تھی جو باقی بچی۔ جہاںتک یہودی فلسفیوں کا تعلق ہے ان کی حکمت عملی نسبتاً محفوظ تھی۔ وہ اپنے دین کی تاریخی حیثیت پر یقین رکھتے تھے۔ یہودیت نے ماضی میں اپنے حریفوں پر جوشاندار فتوحات حاصل کیں وہ ایمان کی چنگاری کو سلگائے رکھنے کیلئے کافی تھیں۔ لہٰذا اس مسئلہ پر ایمان اور عقل کے مابین بحث ان کیلئے غیر متعلق تھی۔
ملحدین میں نیٹشے (Nietzsche)، سارترا (Sartre)، مارلیو پانٹی (Merleau-Ponty)، کامیو(Camus)اور مارکس (Marx) کا ایک اپنا ہی گروہ تھا۔ ان میں سے کسی کا بھی تعمیم (Generalization) پر ایمان نہ تھا۔ ان کے نزدیک موضوعیت کو عالمگیر بنانا مناسب نہ تھا۔ کیونکہ ہر شخص کا ذاتی تجربہ منفردنوعیت کا حامل ہوتا ہے جس میں دوسرے اسی طرح شریک نہیں ہو سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک ذیلی باب مارکسزم (Marxism)کیلئے مخصوص ہونا چاہئے۔ ہم اس فلسفہ سے جتنا چاہیں اختلاف رکھیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے عالمی طور پر اپنے لئے ایک مستقل مقام حاصل کر لیا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد اسے ہمیشہ عزت و احترام سے یاد رکھے گی۔
انیسویں صدی کے فلاسفۂ الحاد میں مارکس (1818ئ۔ 1883ئ)کی اہمیت ایک الگ تفصیلی بحث کی متقاضی ہے۔ وجودباری تعالیٰ سے اس کا انکار محض اتفاقی نہیں بلکہ یہ انکار اس کے فلسفہ کا جزو لاینفک ہے۔ یہ فلسفہ بنیادی طور پر مذہب سے متصادم ہے۔ مارکس کے نزدیک انسان بھی عناصر طبعی کی مانند عمرانی و معاشیاتی قوانین کے تابع ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ انسانوںکو مذہبی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئے کیونکہ یہ انہیں فطرت سے دور لے جاتی ہے۔ مارکس کا خیال ہے کہ وحی اور القا قسم کے مذہبی تصورات کا فلسفہ سے کوئی تعلق نہیں۔
مارکس کے بعد نیٹشے کی قد آور شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ نیٹشے اپنے تلوار جیسے تیز قلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کو نشانہ پر رکھ کر حملہ آور ہوتا ہے اور بالآخر فاتحانہ اعلان کرتا ہے کہ خدا مر چکا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائیت کے خدا کے سوا اسے کسی اور خدا کا علم تک نہ تھا۔ اس نے عیسائیت کے پیش کردہ اس خدا کو اپنی عقل سے تہِ تیغ کر دیا۔ اس طرح کرکیگارڈ کاانتباہ جو اس نے پادریوں کو کیا تھا درست ثابت ہوا کہ تثلیث کے متعلق چاروناچار چپ رہنا ہی عقلمندی ہے اور خاموشی دفاع کی ناکام کوشش سے کہیں بہتر ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں یورپ کے اکثر دہریہ خیالات رکھنے والے مفکرین کو کلیسا کے رویہ نے اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ ہستی ٔباری تعالیٰ کا سرے سے انکار کر دیں کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے تصور کو نامعقول حد تک مبہم بنا دیا تھا۔ دہریہ فلسفیوں میں سے شاید ژاں پال سارترا (1980-1905) Jean Paul Sartreسب سے زیادہ دلچسپ اور زندہ دل ہے۔ وہ سادہ لفظوں میں گہری بات کہنے کا فن خوب جانتا ہے۔ خداتعالیٰ کے تصور کے بغیر کائنات میں انسان کس طرح آزاد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بے بس اور تنہا محسوس کرتا ہے، اس کے متعلق سارترا یوں رقمطراز ہے:
’’انسان کی سزا یہ ہے کہ اسے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ 7
یعنی جب ایک انسان پوری آزادی کے ساتھ خود ایک فیصلہ کرتا ہے تو یہ عمل اس کے لئے ایک ناقابل قبول چیلنج بن کر سامنے آتا ہے۔ کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جو کارگاہ حیات کے لق و دق صحرا میں اس فیصلے میں اس کی رہنمائی کر سکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ فرشتوں کی موجودگی کو ایک نفسیاتی کیفیت قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی الٰہی آپ کے شدید روحانی کرب ہی کی ایک گونہ تجسیم تھی۔ ہم ساتخ یا سارترا کی اس وضاحت کو خواہ کتنا ہی غلط کیوں نہ سمجھیں پھر بھی ہم اس کی بے بسی اور مایوسی کے اس شعلہ بیان اظہار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ کیفیت زیادہ تر سارترا کی اپنی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جس نے اپنے ملحدانہ فلسفہ کی ویرانیوں میں شدید ذہنی کرب محسوس کیا ہوگا۔ ’’وحی ٔالٰہی کو روح کی اذیت قرار دینا‘‘ درحقیقت ایک ایسا بیان ہے جس سے ایک دہریہ کے نقطۂ نظر کے متعلق خوب وضاحت ہوتی ہے بشرطیکہ اس نے کبھی ارواح کے وجود کو تسلیم کیا ہو۔ برنارڈ شا جب وحی کو اندرونی آواز قرار دیتا ہے تو مکمل طور پر تو نہیں لیکن کافی حد تک سارترا کے قریب آجاتا ہے۔ تاہم برنارڈ شا کا یہ بیان ایک ایسے ڈرامہ نگار کی ذہانت کا آئینہدار ہے جس میں سارترا کی فکری گہرائی اور قوت عنقا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سارترا وحی اور وجدان میں فرق نہ کر سکا بلکہ ان اصطلاحات کا اس کے فلسفہ میں ذکر تک نہیں ملتا۔ اس کا فلسفہ محض روح کی اذیت کا اظہار ہے۔ ایک ایسا آتش فشاں جس سے وقتاً فوقتاً مایوسی اور ناامیدی کے شعلے اٹھتے رہتے ہیں۔ اس کے نزدیک کوئی وحی آسمان سے نہیں اترتی۔ یہ سب انسان کی اپنی ہی مایوسیوں کی صدائے باز گشت کے سوا کچھ نہیں۔
ہیگل (1831-1770)بھی ایک ’لاادری‘ فلسفی ہے جسے ہستی ٔباری تعالیٰ کے انکار میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا فلسفہ براہ راست مذہبی امور سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس کا ایک نمایاں کام یہ ہے کہ اس نے موضوعیت اور معروضیت کے درمیان پل تعمیر کرنے کی کوشش کی۔
ہیگل ہی وہ شخص ہے جس نے پہلی اور دوسری نسل کے تصورات میں جدلیاتی کشمکش کا نظریہ پیش کیا۔ یہ ہیگل کا وہ مشہور نظریہ ہے جس کے مطابق اضداد کے مابین جدلیاتی کشمکش جاری رہتی ہے۔ وہ محض تصورات میں اختلافات کا قائل تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان خیالات کے مابین جو ایک دوسرے کے مخالف ہوں لیکن متضاد نہ ہوں برتری کے حصول کیلئے ایک جدلیاتی کشمکش جاری رہتی ہے۔
ہیگل کے نظریہ کے مطابق اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ برتر نظریات گزشتہ جدلیاتی عمل کی پیداوار ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ایک نظریہ (Thesis)سے ایک مخالف نظریہ (Antithesis) ابھرتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس کے نزدیک بالآخر ایک مطلق نظریہ تک رسائی ہو جائے گی جو معروضی حقیقت کے ادراک کی آئینہ دارہے۔
اس نے یہ طریق کار حصول علم کے لئے منطق کے کردار کو واضح کرنے کیلئے اختیار کیا تاہم اس کے نزدیک حقیقت تک رسائی کا یہ جدلیاتی طریق صرف ایسے نظام حیات میں ممکن ہے جو معروضی ہوں نہ کہ تجریدی۔ اس کشمکش کے آخری نتیجہ کو وہ مطلق تصور کا نام دیتا ہے۔ حقیقت تامہ یا آفاقی صداقت کے بارہ میں یہ ہیگل کا تصور ہے۔ اس کے نزدیک تاریخ تصورات کی تحریک کا نام ہے۔ دعویٰ (Thesis)اور ضد دعویٰ (Antithesis)کا تسلسل ترکیب یعنی Synthesis کی شکل میں تکمیل پاتا ہے۔ لینن کے الفاظ میں ہیگل کا نظریہ یہ ہے :
’’زندگی ذہن کو جنم دیتی ہے۔ انسانی دماغ فطرت کا آئینہ دار ہے۔ اس میں منعکس ہونے والے حقائق کی صحت کو اپنے عمل اور طریق کار سے جانچنے کے نتیجہ میں انسان معروضی صداقت تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘ 8
اس کے نزدیک کوئی بھی ایسا نظام فکر جو مادی تجربات سے تعلق نہ رکھتا ہو سنجیدہ توجہ کا مستحق نہیں۔ اس لئے اس کی اہمیت کو زیر بحث لانا ایک علمی مشغلہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔
یہ مارکس ہی تھا جس نے ہیگل کے فلسفہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انسان کو ایک ایسا ضابطۂ حیات دینے کا تجربہ کیا جو اس کے نزدیک مجرّد عقل پر مبنی تھا۔ آغاز میں یہ ایک خالصۃً سیکولر تصور تھا جو معاشرہ میں جلد ہی توجہ کا مرکز بن گیااور اس طرح انسان کا ایک خودساختہ قسم کا سیاسی اور اقتصادی مذہب معرض و جود میں آیا جس کی عمارت وجود ِباری تعالیٰ کے انکار پر اٹھائی گئی تھی۔ مارکسی ذہن رکھنے والے دانشور بنیادی طور پر ہیگل کے نقطۂ نظر سے متفق تھے اور ابدی صداقت کے تصور کے منکر۔ ان کے نزدیک حقیقت صرف مادی اور معروضی ہوا کرتی ہے، مطلق نہیں۔ کیونکہ مادی حقائق وقت اور حالات کے تابع ہوا کرتے ہیں۔ گو سوشلسٹ فلسفیوں میں سے اینگلز (Engels)نے مطلق صداقت کے تصور کو قبول کر لیا لیکن باگونوف (Bogdanov)کی ناراضگی مول لے لی۔ بالعموم کمیونسٹ مفکرین کے نزدیک حقیقت اس علم کو کہتے ہیں جو وقتی حالات و واقعات کے معروضی مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ان مخصوص شرائط کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کے نزدیک ایسا علم صداقت اور ایسی صداقت علم ہے۔ اس لحاظ سے علم کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ ایک مسلسل تغیر پذیر معروضی حقیقت ہے جو ہمیشہ بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔
جلد ہی اس مادہ پرست فلسفہ نے ایک متشدد قسم کے نظام حیات کی شکل اختیار کر لی اور مارکس کو اس خدا کے تصور سے عاری مذہب کا امام تصور کیا جانے لگا۔ آئیے اب ہم کارل مارکس کے نظریہ کا بغور مطالعہ کریں کیونکہ جدلیاتی مادیت کی میکانیت نہیں بلکہ یہ اس کے نظریہ کی زبردست قوت ہی تھی جس نے بالآخر کرہ ٔارض کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
انسانی نظریات اور عقائدکی باہمی کش مکش کی اس قوس قزح کی ایک انتہا پر تو مذہب ہے جو وحی ٔالٰہی ہی کو ہدایت کا اصل سرچشمہ قرار دیتا ہے اور دوسری انتہا پر مارکسزم ہے جو الہامی صداقت کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے۔ ان ہر دو انتہاؤں کے مابین متعدد فلسفے موجود ہیں جن میں سے بعض مذہب اور بعض مارکسزم کے قریب تر ہیں۔ لیکن جہاںتک ’مذہب‘اور اس کی تعلیم سے کلّی انکار اور روگردانی کا تعلق ہے تو یہ مارکس کی جدلیاتی مادیت اور سائنٹفک سوشلزم کا فلسفہ ہی ہے جو الہامی مذہب اور اس کی تعلیمات کا یکسر منکر ہے۔
تمام یورپی فلسفیوں میں مارکس سب سے زیادہ صاف گو اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے والا، ٹھیٹھ اور سیدھا سادا لیکن بایں ہمہ مانیں یا نہ مانیں، وہ ایک اچھا بھلا مثالیت پسند (Idealistic)فلسفی ہے۔ اپنے فلسفہ میں اس نے خدا اور مذہب کے خلاف مکارانہ موقف اختیار کیا ہے۔ اس کے نزدیک نہ خدا کی کوئی حقیقت ہے اور نہ وحی کی۔ اسی طرح وجدان کیلئے بھی اس کے فلسفہ میں کوئی جگہ نہیں۔ مارکس، ہیگل کے اس نظریۂ تصوریت سے متفق نہیں جس کے مطابق حقائق کے تحرّک کا باعث بننے والے تصورات (Ideas)کو معروضی حقائق پر فوقیت حاصل ہے۔
ہیگل کے فلسفہ کے مطابق تصورات کی تخلیق پہلے ہوتی ہے اور مادی تبدیلیاں بعد میں اس کے زیر اثر وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ جب یہ تبدیلیاں پختہ ہو کر نئے تصورات کی حامل بن جاتی ہیں تو پھر ان کی تصدیق کیلئے نئے سرے سے آزمائش کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں موضوعی حقائق ایسے معروضی حقائق اور تجربہ پر مبنی صداقتوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور جو تجرباتی طور پر ثابت بھی کئے جا سکتے ہیں۔
مارکس انتہائی ہوشیاری سے اس پوشیدہ خطرے کو بھانپ لیتا ہے کہ اگر ہیگل کے فلسفہ کے مطابق موضوعی تصورات ہی معروضی حقائق کا باعث بنتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ موضوعی تصورات کو معروضی حقائق پر تقدم حاصل ہے۔ علت و معلول کا ایک خطرناک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور تصورات سے قبل ابتداء ً ایک شعور کا ماننا ضروری ہو جاتا ہے جس کا ادراک زندگی کے تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ انجام کار ہستی ٔباری تعالیٰ بحیثیت علت العلل ہونے پر منتج ہوتا نظر آتا ہے جو تصورات کے ذریعہ معروضی تبدیلیاں لانے پر قادر ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مارکس نے کھل کر ہیگل کے مثالیت پسند فلسفہ کو قبول نہیں کیا۔ تاہم اس نے علت و معلول کے سلسلہ کو نہایت باریک بینی سے توڑ مروڑ کر ہیگل کے فلسفہ کی قلب ماہیت کردی ہے اور اسے اپنے فلسفہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مادہ پہلے اور خیال بعد میں۔ اس کے نزدیک یہ جدلیاتی عمل خیال سے نہیں بلکہ مادہ سے پیدا ہوتا ہے اور مادہ بجائے خود ان قوانین قدرت کے ماتحت ہے جو خود کار ہیں۔ جدلیاتی مادیت کا یہ عمل آخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے خواہ اس میں تصورکا عمل دخل ہو یا نہ ہو۔ خالص مادہ زندگی پر اثرانداز ہوتے ہوئے اس کا راستہ متعین کرتا چلا جاتا ہے اور اس طرح اپنا راستہ خود دریافت کر لیتا ہے۔ یہ فلسفہ اس بنیادی مفروضے پر قائم ہے کہ خداتعالیٰ موجود نہیںتاکہ ایک قادر خدا کو انسانی معاملات سے بے دخل کر دیا جائے۔ کیونکہ اس کے نزدیک یہ صرف انسان ہی ہے جو اپنے معاملات کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔
جس طرح مارکس عقل اور منطق پر انحصار کرتا ہے اسی طرح وہ خدا اور وحی کا مطلقاً منکر بھی ہے۔ اس کے نزدیک مطلق مثالیت اور جدلیاتی مادیت میں صرف ترتیب کا فرق ہے۔ فیصلہ طلب امر یہ ہے کہ ان دونوں میں سے اوّلیت کس کو حاصل ہے۔ اس پہلو سے ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے جس کے حل ہوجانے پر ہم مارکس کے درپردہ مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ کوئی نظام اخلاقی قدروں کے بغیر بھی بلاروک ٹوک آسانی سے چل سکتا ہے۔ اس جیسے ذہین آدمی سے یہ توقع تو کی نہیں جا سکتی کہ اُسے اس بات کی سمجھ نہ آئی ہو کیونکہ اس نے اپنی ذہانت کے باعث یہ بخوبی اندازہ کر لیا تھا کہ ہستیٔباریتعالیٰ اور اخلاقی قدروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر اخلاقی قدروں کا شعور حاصل نہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ آسمان تلے بدترین مخلوق بن کر سامنے آتا ہے اور ایسی کوئی کوشش انسان کو اچھے اور برے کی تمیز نہیں سکھا سکتی جس کا منبع و ماخذ ایمان باللہ نہ ہو۔ لیکن مارکس کو بخوبی اندازہ تھا کہ اس کے فلسفہ اور ایمان باللہ میں بُعدالمشرقین ہے۔ چنانچہ اس کے نظام فکر میں کسی بھی ایسے امر کیلئے کوئی گنجائش نہیں جو ہستی ٔباری تعالیٰ سے متعلق ہو۔ چنانچہ اسے دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یا تو اشتراکی نظام کے مفاد کے تحفّظ کی اشاعت اور ترویج کے حق میں فیصلہ کرتا۔ گویا یوں اس نظام کو واپس اللہ تعالیٰ کی طرف لانے کا خطرہ مول لیتا یا پھر اس خطرہ سے دامن بچاتے ہوئے ایک ایسے خطرہ کو دعوت دیتا جس سے بالآخر اشتراکی نظام کی نفی ہو جاتی۔ غالباً وہ سمجھتا تھا کہ فوری سزا کا خوف اشتراکیت کے ارباب حل و عقد میں اخلاقی قدروں کے خلا کو ایک حد تک پر کر دے گا۔
اس کا یہ مفروضہ قطعی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے کیونکہ انسان جب گرتا ہے تو جابر سے جابر شخصی حکومت کی بے رحم لاٹھی بھی اس کی اصلاح نہیں کر سکتی۔
مارکس کی جدلیاتی مادیت میں خدا کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی جن لوگوں نے اخلاقی قدروں کے حق میں بات کرنے کی جرأت کی وہ لینن کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہو گئے۔
چنانچہ مارکسزم میں نہ تو آسمانی وحی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی ایسےاخلاق کی جس کی بنیاد وحی پر ہو۔ معلوم ہوتا ہے مارکس نے انسانی معاملات سے اخلاق کو اس خطرہ کے پیشِنظر خارج کیا کیونکہ اخلاقیات کو تسلیم کرنے سے بالآخر ہستی ٔباری تعالیٰ کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
اخلاقیات کو مسترد کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مارکس کو یہ خطرہ تھا کہ مبادا اخلاقیات تندوتیز پرولتاری انقلاب کے راستے کی دیوار بن کر رہ جائیں۔ پرولتاری یعنی محنت کش طبقہ اخلاقی قدروں کے نام پر اپنے بورژوا آقاؤں کے غلام بن کر رہ گئے تھے۔ اس کے نزدیک ضروری تھا کہ آقا اور غلام کے اس رشتے کو ختم کر دیا جائے اور عوام کو کھلا چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ اپنے غاصب اور جابر آقاؤں کے خلاف پوری قوت سے جدوجہد کر سکیں۔ ہرگز یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ کسی قسم کی اخلاقی حِیل و حجت انقلاب کے راستہ میں حائل ہو۔ لہٰذا محنت کش عوام کو چاہئے کہ وہ پوری آزادی سے قتل و غارت، لوٹ مار اور تباہی وبربادی کے ذریعہ بورژوا طبقہ کے اقتصادی اور سیاسی غلبہ کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دیں۔ اس طرح مارکس کے نزدیک اخلاقی قدریں ہی اس ملحدانہ نظام کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ مارکس کا فلسفہ اس کی متوازن سوچ کے باوجود تضادات سے پر ہے۔ وہ اپنے بیان کردہ تصورات کی بنیاد اتنی وضاحت اور صحت کے ساتھ عقل اور تجزیہ پر رکھتا ہے کہ ان تصورات میں پائے جانے والے تضادات کے جرم کا اس پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجو د مارکسزم میں گہرے تضادات موجود ہیں۔ تضاد کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی کہ ایک طرف تو وہ اخلاقیات کو مکمل طور پر مستر د کر دیتا ہے اور دوسری طرف اپنے انقلاب کی بنیاد ہمدردی پر رکھتا ہے جو کہ ایک اخلاقی قدر ہے۔
اسی پر بس نہیں بلکہ مظلوموں کے ساتھ ایسی ہمدردی جو عدل و انصاف کی تمام حدوں کو پار کرتی ہوئی دوسروں پر ظلم کی حد تک جاپہنچے، تو اس صورت میں یہ تضاد اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ انسانی معاملات میںانصاف کی عدم موجودگی میں اگر قیام انصاف کے نام پر کوئی تحریک شروع کی جائے تو اس تحریک کے بنیادی اصول یعنی انصاف سے کسی صورت بھی انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے انسان اسی شاخ کو کاٹنے لگے جس پر وہ خود بیٹھا ہو۔
علاوہ ازیں ایک ایسے نظام حیات کا علمبردار جس کے ہاں جذبات اور اخلاقی ضوابط کے لئے سرے سے کوئی جگہ ہی نہ ہو لیکن اخلاقیات سے عاری اس نظام کو چلانے کیلئے دوسروں سے مکمل وفاداری کی توقع بھی رکھے تو وہ ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہو جائے گا۔ بورژوا طبقہ کے استبداد کا جوا اتار پھینکنے کیلئے پرولتاریوں کی مدد کے لئے مارکس کی سوچی سمجھی سکیم میں ایک اور تضاد بھی ہے۔ اگریہ فلسفہ درست ہے تو اسے خواہ آپ سائینٹفک سوشلزم کہیں یا جدلیاتی مادیت پسندی کا نام دیں، اس کے نفاذ اور اسے صحیح خطوط پر چلانے کیلئے کسی خارجی انسانی مدد کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہئے جو اسے قدم قدم پر سہارا دے اور اس کے ر خ کو متعیّن کر ے۔
ایک اور اہم پہلو بھی مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ مارکس کا جدلیاتی مادیت پسندی کا نظریہ بدیہی طور پر ڈارون کی عظیم کتاب The Origin of Species سے واضح طور پر متاثر ہوا ہے۔ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو درحقیقت جدلیاتی مادیت پسندی انسانی عمرانیات کے پس منظر میںڈارون کے نظریہ ’تنازع للبقائ‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔
خوراک کی رسد اور بقا کے ذرائع آج بھی انسانی زندگی کیلئے اسی طرح ضروری ہیں جس طرح انسان سے قبل عالم حیوانات کے لئے ہمیشہ سے ضروری رہے ہیں۔ "بقائے اصلح" کا اصول ہمیشہ کی طرح آج بھی سرگرمی سے کارفرماہے۔ اس قانون کو اپنانے کے سوا زندگی کے پاس اب نہ تو کوئی متبادل راستہ ہے اور نہ ہی کوئی اختیار۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ اگر مارکسی فلسفہ میں صحت اور حتمیت کا مذکورہ قانون موجود نہیں تو اسے سائینٹفک نہیں کہا جا سکتا۔ یوں جدلی مادیت ایک طبعی اور لازمی اصول کے طور پر اپنی حیثیت کھو بیٹھے گی۔
اب دیکھتے ہیں کہ جدلی مادیّت کا نظام ڈارون کے نظریہ ارتقاسے کس قدر مختلف ہے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقاراہ حیات کی تعیین و تشکیل میں ہر دوسرے نظریہ پر تفوق رکھتا ہے۔ اسے اپنی مدد کے لئے نہ تو کسی نظریاتی تحریک کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی خارجی تائید کی ضرورت۔ اس کے برعکس اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنا راستہ روکنے والی ہر خارجی قوت کو ناکام بنا دے۔ اگر ڈارون پیدا نہ ہوا ہوتا اور اگر کوئی بھی شخص ارتقا کے راز سے پردہ نہ اٹھاتا تو بھی ارتقا کا قانون غیرمبدّل رہتا اور ڈارون کی موجودگی یا عدم موجودگی کا اس لابدّی حقیقت پر سرِمو فرق نہ پڑتا۔
قوانینِ فطرت کی تنفیذ انسانی ادراک کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔ ان قوانین کا وجودفہمِ انسانی کا دست نگر نہیں ہے۔ کوئی ان قوانین کا شعور رکھے یا نہ رکھے، نظامِ فطرت کا دیوہیکل پہیہ چلتا چلا جاتا ہے۔ جدلی مادیت کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اگر مارکس اور لینن پیدا نہ ہوتے تو روس یا دنیا میں کہیںاور کمیونسٹ انقلاب برپا نہ ہو سکتا؟ روس اپنی تاریخ کے اس دور میں لینن کی موجودگی یا عدم موجودگی سے بے نیاز انقلاب کیلئے تیار تھا۔ لینن نے صرف اتنا کیا کہ اس طوفان کے برپا ہونے پر اس نے اسے سائینٹفک سوشلزم کے مفاد کیلئے استعمال کیا۔ لیکن ڈارون کے نظریہ ارتقا کیلئے کسی مؤیّد کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ فطرت کا رخ متعین کرنے کے لئے کسی ڈیزائنر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہیگل اور مارکس کے فلسفہ کے تقابلی جائزہ کے دوران ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تصورات مادی دنیا میں معروضی تبدیلیوں کا باعث ہوتے ہیں یا معروضی تبدیلیاں تصورات کو جنم دیتی ہیں؟ اگر مارکس درست ہے تو پھر اسے کمیونسٹ انقلاب کیلئے کسی نظریاتی اور عقلی تحریک کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سائنسی طور پر بھی لازماً یہی نتائج ظاہر ہونے تھے۔
اگر کمیونزم، نظریۂ ارتقا کی طرح فی ذاتہٖ ایک قانون ہوتا تو پھر مختلف قوتیں باہم مل کر بھی کمیونزم کے راستہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی تھیں۔ یہاں مارکس کے نظریات میں ایک اور تضاد ہے۔ بظاہر وہ دعویٰ تو یہ کرتا ہے کہ جدلی مادیت کو تصور اور فکر پر تقدم حاصل ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے لئے وہ تصور کی قوت پرہی انحصار کرتا ہے۔
اگر مارکس کی سوچ ٹھوس سائنسی اصولوں پر مبنی ہوتی تو پھر سیاسی اور اقتصادی قوت چند ہاتھوں سے نکل کر لازماً کئی ہاتھوں میں منتقل ہو جاتی کیونکہ یہی اس کی فکر کا منطقی نتیجہ تھا۔ لیکن وہ حالات جنہوں نے مارکس اور لینن کو جنم دیاقطعًا ناگزیر نہیں تھے کیونکہ مارکس کا اعلیٰ ذہنی فکری صلاحیتوں کے ساتھ اس عالم میں جنم لینا اور پھر اینگلز (Engels) جیسے دانشور، بارسوخ اور دولتمند کی تائید حاصل کر لینا ہرگز جدلیاتی مادیت کا فکری نتیجہ نہ تھا۔
مزید برآں جرمنی میں جو مارکس کے فلسفہ کی رو سے پرولتاری انقلاب برپا کرنے والے تمام عوامل کا مثالی اکھاڑہ تھا ایسا انقلاب لانے میں اس کی ناکامی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ جدلی مادیت فی ذاتہٖ اس صلاحیت کی حامل نہ تھی کہ وہ بجائے خود تمام روئے زمین پر کوئی سیاسی یا معاشی انقلاب برپا کر سکتی۔
اس کے برعکس جرمنی سے مقابلۃً کم ترقی یافتہ صنعتی ملک میں لینن کی کامیابی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ روسی انقلاب مارکسزم کا بلا واسطہ نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ محض ایک اتفاقی امر تھا۔ یہ روسی تاریخ کی بدقسمتی تھی کہ لینن اس وقت موجود تھا جب زار کی استبدادی، خودغرضانہ اور قابل نفرت حکومت اور جنگ عظیم اوّل میں شکست کی بددلی نے مل کر ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کا لینن نے خوب فائدہ اٹھایا۔
روس پکے ہوئے پھل کی طرح کسی بھی انقلاب کی جھولی میں گرنے کیلئے تیار تھا۔ اگر وہاں کمیونزم نہ بھی آتا تو پھر کوئی اور انقلاب آیا ہوتا۔ صرف لینن جیسا ایک رہنما درکار تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ روس کو لینن کی شکل میں وہ عظیم انقلابی قائد مل گیا جو مارکس کا سائنسی اشتراکیت پسند شاگرد بھی تھا۔ استحصال کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے والا خود ہی روسی تاریخ کا بدترین استحصالی ثابت ہوا۔ حقیقت میںروسی تاریخ کا رخ موڑنے کا سہرا جدلی مادیت کے سر نہیں بلکہ لینن کے سر ہے۔
دیگر تضادات کے علاوہ مارکس کو ایک انتہائی سنگین کوتاہی کا ملزم بھی گردانا جاتاہے۔ اس کے سوشلزم کے سائنسی اندازوں میں ذہنی صلاحیتوں کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
ذہن، خیالات اور افکار کا سر چشمہ ہے۔ اس کا دماغ سے الگ ایک اپنا وجود ہے۔ اگرچہ دماغ خیالات و افکار کا مادی مسکن ہے لیکن اس مسکن میں مقیم ذہن کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ اگر دماغ کو کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تو ذہن کواس کا آپریٹر قراردیا جا سکتا ہے۔ ایک عمدہ تصور اس وقت جنم لیتا ہے جب ذہن دماغ کے کمپیوٹر کو چلاتا ہے۔ اگر دو دماغ سوفیصد ایک جیسے ہوںلیکن ان کو چلانے والے ذہن مختلف ہوں تو ان میں جنم لینے والے افکار ہرگز یکساں نہیں ہوں گے۔
انسان کی تمام تر سائنسی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی ترقی اس کے ذہن ہی کی مرہون منّت ہے۔ دنیا کی طاقتور اقوام، کمزور اقوام پر مجموعی طور پر اپنی برتر ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی حکومت کیا کرتی ہیں۔ یہ ذہنی صلاحیتیں بورژوائی طبقہ کو خوفناک حد تک مطلق اقتدار کا مالک بنا دیتی ہیں۔ لیکن جدلی مادیت کا نظریہ اس طاقتور اور مؤثر عنصر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔
مارکس کی ایک غلطی یہ بھی تھی کہ اس کے نزدیک سرمایہ دارانہ نظام میں جس جمع شدہ سرمایہ کا سرمایہ دار استحصال کرتے ہیں وہ دراصل کارکنوں ہی کی محنت کا پھل ہوا کرتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سرمایہ دراصل محنت کشوں کو ان کی محنت کے معاوضہ کی عدم ادائیگی اور بینکوں میں جمع سرمایہ کے سود کا نتیجہ ہے۔ اس طرح پرولتاری اکثریت بورژوائی اقلیت کے ہاتھوں لوٹی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف محنت دولت کے انبار نہیں لگا سکتی جب تک اس کے ساتھ ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن مصروف کار نہ ہو۔ لیکن مارکس اس حقیقت کو آسانی سے نظرانداز کر دیتا ہے۔ ترقی یافتہ سائنسی ایجادات نے محنت اور پیداوار کی باہمی نسبت میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ یہ سب کچھ بنیادی طور پر ذہنی قوت کا ہی کرشمہ ہے۔
تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں مزدوراپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی مجموعی پیداوار صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کی پیداوار کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ فرق اعلیٰ قسم کے آلات، جدید ٹیکنالوجی اور بہترین مشینوں اور محنت کے اشتراک ہی کا مرہون منت ہے۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیت ہی دراصل پیداوار میں اضافہ کا موجب ہواکرتی ہے۔ ورنہ محنت تو محنت ہی ہے خواہ برطانیہ میں ہو یا بنگلہ دیش میں، بحرالکاہل میں پائے جانے والے جزائر میں ہو یا افریقہ کے جنگلوں میں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کسی جگہ تو محنت کا معاوضہ زیادہ دیا جائے اور کسی جگہ کم؟ لازماً یہ ذہن ہی ہے جو اس غیر مساوی معاوضہ کے سلسلہ میں فیصلہ کن کردار ادا کر تا ہے۔ یہاں یہ امر یاد رہے کہ ذہنی قوت ایک طبعی صلاحیت ہے جو اچھے برے ہر قسم کے مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتی ہے لیکن اس امر کا انحصار اپنی صلاحیت کو استعمال کرنے والے پر ہوا کرتا ہے۔
جس طرح محنت ذہن کی مدد سے بے حد بار آور ہو جاتی ہے اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی اعلیٰ صلاحیتوںکی مدد سے ناقابل شکست طاقت بن جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہ طاقت دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز سے خود بخود پیدا نہیںہوتی بلکہ دولت کے چند ہاتھوں تک محدود ہونے کا عمل تب ممکن ہے جب اس کے پس منظر میں ایک اعلیٰ ذہنی قوت کارفرما ہو۔ اس ذہنی قوت کے منفی ہونے کی صورت میںمافیا جنم لیتے ہیں۔ اس قسم کے مافیا گروہوں کے مقابلہ میں پرولتاریوں کی تمام قوتیں مل کر بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں۔
جب اس قسم کے مافیا ایک دفعہ پیدا ہو جائیں تو پھر ان کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر شعبۂ زندگی میں ان کا عمل دخل ہو جاتاہے۔ رفتہ رفتہ یہ بہت طاقتور ہو جاتے ہیں اورہرکس و ناکس سے اپنی شرائط منوا لیتے ہیں۔ مالیات، تجارت،سیاست، تفریح، صحت، بیماری، سیروسیاحت کی بہترین سہولیات، کمپیوٹر، برقی آلات الغرض ہر شعبۂ زندگی میں مافیا کے ان گروہوں کے منحوس سائے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ اچھی ہو یا بری، یہ ذہنی قوت ہی ہے جو بالآخر دنیا کی حکمران ہے۔ جدلی مادیت کا نظام انسانی تقدیر کی تشکیل میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ وہ ذہن جو عالمی معاملات پر کنٹرول اور تسلط کے لئے پیدا ہو اہے بذات خود بھی بُرا ہے۔ اور یہ صورت حال ہستی ٔباری تعالیٰ کے انکار کے لابدی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔
انسانی معاملات میں سے اخلاقیات کا اخراج صرف مارکسزم ہی کی امتیازی خصوصیت نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹ جس کام کو علی الاعلان کرتے ہیں سرمایہ دار اسی کام کو انتہائی منافقت اور مکاری کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ سیاست، تجارت اور اقتصادیات، اخلاقیات سے اتنی ہی عاری ہے جتنی کمیونسٹوں کی۔ دونوں کے دونوں اس جرم میں برابر کے شریک ٹھہرتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں بھی محنت کش طبقہ کیلئے اپنا استحصال کرنے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا امکان اتنا ہی کم ہے جتنا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں۔
اگرکمزور اور تہی دست عوام اپنے حکمرانوں کا راستہ کاٹنے کی کوشش کریں تو سرمایہ دارانہ نظام میں بھی شرپسند قوتوں سے جنم لینے والے مافیا گروپ اسی قدر ہیبت ناک ثابت ہوتے ہیں جس قدر اشتراکی نظام کے مافیا گروپ۔ ہماری توجہ کا مرکز بھی اب یہی امر ہونا چاہئے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کل کے پسے ہوئے تہی دست عوام کو جب حکومت مل جاتی ہے تو اقتدار ملتے ہی انہیں اپنے ماضی کے مصائب و آلام کیوں اچانک بھول جاتے ہیں اور وہ انتہائی سنگدلی سے اپنے آہنی ہاتھوں کے ساتھ عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اخلاقی قدریں ہیں جو ان کا راستہ روکیں اور نہ ہی ان کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ جب اخلاقی قدریں ہی موجود نہ ہوں تو ضمیر کی ملامت کہاں سے آئے گی؟ پس یہی وہ بے حس مشینی صورت حال ہے جو بالآخر اشتراکی نظام کی ناکامی کا باعث بنتی ہے۔
گہرے تجزیہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ تمام آمرانہ نظام ہائے حکومت میں ایک عجیب و غریب قسم کا اندرونی تضاد پایا جاتا ہے۔ اشتراکیت یا فسطائیت کے یک جماعتی فلسفۂ اقتدار پر قائم حکومتیں ہوں یا سرمایہ داروں کی آمرانہ حکومتیں، ان سب میں ایک قدر مشترک موجود ہوا کرتی ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ اخلاقی اقدار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بے لگام ظلم و ستم کے بغیر ان کی بقا ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اخلاقیات اور ظلم اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذایہ لوگ اخلاق کی عدم موجودگی میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ تا ہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اخلاقیات کا یہ فقدان ہی آخرکار ان کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
استبدادی حکومتوں کی بقا کے لئے صرف سنگدلی ہی کافی نہیں بلکہ سنگ دلی کے ساتھ ساتھ چالاکی، مکاری، منصوبہ سازی اور سازشی ذہنوں کی قوت بھی اتنی ہی ضروری ہوا کرتی ہے۔ تمام آمرانہ حکومتیں دراصل شیطانی ذہن اور بے رحم دل کے ناپاک گٹھ جوڑ سے ہی معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ کچھ عرصہ تک تو یہ گٹھ جوڑ ان کو سہارا دیتا ہے لیکن بالآخر وہ انہیں بیچ منجدھار چھوڑ جاتا ہے۔ انجام کار اخلاقی گراوٹ اور سازشیں ان کی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حیات انسانی میں خیر اور شر کا ظہور کسی ناگزیر باطنی نظام کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ذہن اور اخلاقی اقدار ہی وہ دو اہم ترین عناصر ہیں جن سے انسانی تقدیرتشکیل پاتی ہے۔ ہرانسانی منصوبہ کے نتائج کا فیصلہ انہی عناصر کی خوبی یا خامی اور ان کی مضبوطی یا کمزوری پر منحصر ہوتا ہے۔ چنانچہ مارکس دونوں لحاظ سے غلطی خوردہ ہے۔ ذہن اور اخلاقی اقدار کو سائنٹفک سوشلزم سے نکا ل دیں تو یہ نظام نہ تو سائنٹفک رہتا ہے اور نہ ہی سوشل۔ پرولتاری خواہ کتنی ہی کثرت میں کیوںنہ ہوجائیں وہ شر کی قوتوں کے حامل اذہان کی متحدہ قوت کا مقابلہ کرنے کی قطعاًطاقت نہیں رکھتے۔ وہ دور بہت ہی افسوسناک ہوا کرتا ہے جب کوئی خود پسند اور شریر ذہن کا مالک اقتدار پر قبضہ کر لے۔ چنانچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا پر اخلاقیات سے عاری کسی بے شعور مشینی مادیت پسند کی حکمرانی ہو یا کسی شیطانی دماغ والے بدکردارسرمایہ دار مافیا کی۔ تا ہم ایک فرق بلکہ بہت بڑا فرق جو مارکسزم کی بنیادی خامیوں اور موجودہ نقائص کو بے نقاب کرتا ہے، یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشرہ کا ہر فرد ہمیشہ کسی نہ کسی حد تک آزادی سے لطف اندوز ہوتا ہے اور فرد کی یہ آزادی معاشرہ کی مجموعی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اشتراکیت میں کسی قسم کی آزادی نہیں ہوتی۔ اشتراکی معاشرہ کے ہر فرد میں مایوسی اور گھٹن کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے جو معاشرہ کے افراد کی ہر صلاحیت کو دبادیتا ہے سوائے اس صلاحیت کے جس کی ترقی ریاست کی مجبوری ہو۔
مارکسزم کو ایک یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ اخلاقیات کی تعریف پارٹی یا گروپ کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ وہ معاشرہ جس کے افراد کی تعلیم و تربیت ہی دوسروں کے حقوق کی مکمل نفی پر کی گئی ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ خود اپنے حقوق کی ادائیگی کر سکے۔ وہ اپنے اوپر عائد شدہ فرائض کی ادائیگی کو پسند نہیں کرتا۔ انسانی کردار کا یہ خاصہ ہے کہ اگر ایک بار گمراہ ہو جائے تو پھر وہ ہمیشہ اسی راستے پر گامزن رہتا ہے۔ یہی اصول اشتراکی نظام حکومت میں ہر سطح پر کارفرما نظر آتا ہے۔ اس نظام پر جس کو چلانے کے وہ ذمہ دار ہیں بد عنوان لوگوں کی گرفت اخلاقی قدروں کے فقدان کی وجہ سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوں جوں وہ بدعنوانی میں بڑھتے جاتے ہیں انہیں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے اتنی ہی زیادہ سنگدلی اور ظلم و ستم سے کام لینا پڑتا ہے۔
اخلاقیات اور بدعنوانی ایک ہی وقت میں ایک ہی راستہ پر نہیں چل سکتے۔ اشتراکی نظام کے کرتا دھرتا لوگوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ چاہیں بھی تو اشتراکی دنیا میں اخلاقی اقدار کو قائم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ انہیں ابتدا ہی سے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ غیر اشتراکی دنیا اور ان کے جملہ مفادات کے حوالہ سے اخلاقی پابندیوں کا کوئی لحاظ نہ رکھیں۔ چنانچہ یہی امر آخرکار اشتراکی آمریت کے زوال کا ایک قوی سبب ثابت ہوا۔
’’آمریت انسان کو بدعنوان بناتی اور مکمل آمریت انسان کو مکمل طور پر بد عنوان بنا دیتی ہے۔‘‘ یہ مشہور مقولہ اشتراکی قیادت پر مکمل طور پر چسپاں ہوتا ہے۔ اخلاق سے عاری کوئی بھی نظام ظلم و تشدد، جبرواستبداد اور انصاف سے رو گردانی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ جیسے نفرت سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے اسی طرح بدعنوانی، بدعنوانی ہی کو جنم دیتی ہے۔ اشتراکی نظام میں حکومتی سطح پر اخلاقی اقدار سے دوری کا نتیجہ ہمیشہ ایک مطلق اور بدعنوان آمریت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بدعنوان اور مطلق آمریت زیادہ عرصہ تک ایک مخصوص حاکم طبقہ تک محدود نہیں رہ سکتی۔ آمریت کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ بدعنوانی ہر سطح پر موجود ہو۔ یوںبدعنوانی کے بنجر دائرے وسیع سے وسیع تر ہو کر تمام اطراف پر محیط ہو جاتے ہیں۔
ا س کے برعکس ایک مرسل من اللہ کا منصب دنیوی حکمرانوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ نبی مکمل طور پر ایک کامل مذہبی اور اخلاقی ضابطہ کا پابند ہوتا ہے جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس کے اپنے منصب کی عمارت زمین بوس ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وحی ٔالٰہی پر مبنی اخلاقی اقدار میں ہمیشہ ایک طرح کی ہم آہنگی اور موافقت پائی جاتی ہے اور اس میں یہ اہلیت بھی موجود ہوتی ہے کہ اپنے معتقدین کے کردار میں بھی ویسی ہی باہمی موافقت اور ہم آہنگی پیدا کر دے۔ اس طرح الہامی سچائی یہ صلاحیت بھی رکھتی ہے کہ وہ انسان کے باطنی امراض کو شفا دے سکے۔ انسان کا خالصۃً اپنی عقل پر مبنی کوئی ایک بھی ایسا ضابطۂِ اخلاق نہیں ہے جو یہ معجزہ دکھا سکے خواہ اسے بے انتہا ظلم و ستم ہی کی حمایت کیوں نہ حاصل ہو۔ ایک آمر اور ایک نبی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آمر ہرقسم کے قانونی ضابطہ کی پابندیوں سے آزاد ہوا کرتا ہے جبکہ انبیاء اور ان کے پیروکار سب کے سب کلام الٰہی کے ذریعہ دی جانے والی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔یہی بات ان دونوںکو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔
اگر ایک مرتبہ کمیونسٹوں کا اقتدار پر قبضہ ہو جائے تو محنت کش طبقے کی بغاوت بھی اسے اقتدار سے الگ نہیں کر سکتی۔ اقتدار پر قابض یہ گروہ مطلق العنان اور بے رحم ہوتا ہے۔ مارکسی لغت میں عفوودرگزر اور اخلاقیات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ سٹالن اخلاق سے عاری اشتراکی کردار کی ایک بد ترین مثال ہے۔ اس کے مطلق العنان آمرانہ عہدِ حکومت میں جس طرح محنت کش طبقہ کا اشتراکیت کے نام پر قتل عام کیا گیا اسے صرف کمیونسٹ فلسفہ ہی قابلتحسین ٹھہرا سکتا ہے۔
افسوس کہ مارکس اپنی انتہائی ذہانت کے باوجود جدلی مادیت میں مضمر نقائص سے آگاہ نہ ہو سکا۔ اشتراکیت کی طاقت اگر صحرائی طوفانوں سے بھی بڑھ کر غضبناک ہوتی تب بھی وہ انسانی معاشرہ میں اعلیٰ و ادنیٰ کے تفاوت کو کبھی ختم نہ کرسکتی۔
ہر طوفانی سمندر قدرتی ہیجان کے بعد پُر سکون ہو جاتا ہے یہاںتک کہ سطح سمندر پر ہلکی سی لہر بھی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح ریت کا ایک وسیع اور لق و دق صحرا بظاہر مکمل امن وسکون کا منظر پیش کرتا ہے۔ انسانی معاشرہ کے متعلق مارکسزم کا تصور بھی اس منظر سے ملتا جلتا ہے لیکن اشتراکیوں کو یہ معلوم نہیں کہ ایسے پر سکون مناظر دراصل موت کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔ جہاں ہر قسم کی اونچ نیچ ختم ہو جائے وہاں طبعی قوتوں کا باہمی ردعمل بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اشتراکی یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پُر سکون سمندر اور پُرسکوت صحرا انسانوں کی طرح آزاد نہیں ہیں کہ اگر چاہیں تو مکروفریب سے طبعی تفاوت کی عدم موجودگی میں بھی مصنوعی تفاوت پیدا کر سکیں۔ مزید برآں انسان کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ ایک ایسا ضابطہ ٔحیات تجویز کر سکے جو معاشرہ میں پائی جانے والی ہر قسم کی اونچ نیچ کو ختم کر دے۔ پانی کے قطرات آپس میں متماثل ہو سکتے ہیں۔ ریت کے ذرّے بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہو سکتے ہیں لیکن انسانوں کے بارہ میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہیں اس طرح پر تخلیق ہی نہیں کیا گیا۔
مارکس کے فلسفہ میں کمیونزم کی جس خیالی جنت کا تصور ہے اس کی تشکیل انسان ہی کرتے ہیں۔ اگر ایک اشتراکی ریاست کے ہر شہری کو یکساں اقتصادی مواقع مہیا ہوں اور سب کو ایک سی عمدہ غذاملے اور انسانی خواہشات عین اس کی ضرورت کے مطابق ہو جائیں تو پھر اصولاً ایسی کوئی برائی پیدا ہی نہیں ہونی چاہئے جولالچ کا نتیجہ ہو۔ جس معاشرہ میں ایسی اقتصادی مساوات موجود ہو اس میں چوری، ڈاکہ یا دھوکہ دہی کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں رہنی چاہئے یہاںتک کہ کسی کو دولت اکٹھی کرنے کی ضرورت بھی نہ رہے۔ جہاں کوئی شہری حکومت کی فراہم کردہ اشیاء کے علاوہ کچھ اور خرید ہی نہ سکے وہاں بظاہر ایسے معاشرہ کو بالآخر تمام جرائم سے پاک ہو جانا چاہئے کیونکہ جرم کے سب سے بڑے محرّک یعنی لالچ کا قلع قمع ہو چکا ہو گا۔
جب یکساں اقتصادی مواقع، یکساں ضروریات اور ان ضروریات کو یکساں طور پر پورا کرنے کی ضمانت میسرہو، بشرطیکہ معاشرہ کا ہر فرد کماحقہ محنت کرے، تو صرف اسی صورت میں ہی مکمل ریاستی استحکام کا اشتراکی خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ایسے معاشرہ کو اپنے معاملات چلانے کیلئے کسی حکومت کی ضرورت نہیں رہنی چاہئے۔ الغرض یہ ہے مارکسی مادیت کا یوٹوپیا یا مثالی معاشرہ۔
تا ہم دنیا کے تازہ ترین سیاسی اور اقتصادی رجحانات مادیت کے اس ڈھول کا پول پہلے ہی کھول چکے ہیں۔ اس لئے مارکس کی اس جنت کو تباہ کرنے کے لئے کسی خارجی عنصر کی ضرورت ہی نہیں۔ اخلاقیات سے روگردانی ہی اس کی مکمل تباہی کیلئے کافی ہے۔
مارکس کے آمرانہ فلسفہ میں اور بھی کئی اندرونی نقائص موجود ہیں۔ اس حقیقت سے قطعنظر کہ یہ نظام اپنے ممبران کیلئے کوئی ایسا اخلاقی ضابطہ وضع نہیں کرتا جو فرائض کی دیانتدارانہ ادائیگی کے سلسلہ میں ان کی رہنمائی کرے، اس نظام میں خداتعالیٰ کے وجود کا قطعی انکار نیز یہ دعویٰ کہ چونکہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہ ہو گی لہٰذا حساب کتاب کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہوگا، یہ امر پارٹی کے کارکنان کو مکمل بے راہ روی اور خودغرضی میں دلیربنا دیتا ہے۔ اگر بے لگام ذاتی خواہشات کو حدود و قیود کا پابند نہ کیا جائے تو خود غرضی اور مفادپرستی کو عروج حاصل ہو جاتا ہے اور ہر فرد واحد اپنی طمع و حرص کی تسکین کیلئے ہر قسم کے کام کو جائز سمجھنے لگتا ہے۔ بدعنوان لوگ ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفّظ کیلئے جتھے بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے جیسے لوگوں کے تعاون سے اپنے جرائم پر پردہ ڈال کر بالآخر عموماً سزا سے بچ نکلتے ہیں۔ غالباًانسان کے اندر اسی خود غرضی کے میلان کو دیکھ کر مارکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انسان اخلاق عالیہ سے عاری ایک حیوان ہے۔ لیکن اس وقت اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ انسان کا یہی میلان بالآخر اشتراکی نظام کو تہ و بالا کر دے گا۔
مارکس کے غیر ریاستی معاشرہ کے قیام میں اور اس حسین خواب کی تعبیر کے راستہ میں صرف اخلاقِ عالیہ کا انکار ہی واحد رکاوٹ نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک غیر ریاستی معاشرہ کو منزل تک پہنچنے کیلئے یہی کافی نہیں کہ سب کوترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں اور نہ ہی انسانی ہوس اقتصادی ضرورتوں تک محدود ہوا کرتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کسی بھی آمرانہ نظام میں اقتدار کے اصل ماخذ پر قبضہ کرنے کی ہوس کو کیسے روکا جائے؟ نیز اس امر کی کیا سائنسی ضمانت ہے کہ اس قسم کے نظام میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے باہمی رقابتوں، نفرتوں اور انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا جائے گا؟ مارکس کا سائنسی فلسفہ اس مسئلہ کا ذکر تک نہیں کرتا۔
یوٹوپیا (جنّت ارضی) تک پہنچنے کے لئے معاشرہ کو ایسے خطرناک رستوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں اخلاقیات اور رحمدلی نام کو نہیں۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ معاشرہ میں سیاسی اور اقتصادی مساوات کے قیام سے کہیں پہلے انسان کی اخلاقی قدروں سے بیگانگی اشتراکی نظریہئحیات کے خوشنما محل کو مسمارکر چکی ہوگی۔ اس حوالہ سے جب ہم اشتراکی نظام کے زوال کا باعث بننے والے امور کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس کے کرتا دھرتا لوگوں کی اخلاقی ناکامی ہی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ سوویٹ یونین کی اشتراکی سلطنت کے زوال کی بڑی وجہ اشتراکی دنیا کی بدعنوانی ہے۔ ناکامی تو اس وقت ہی اس کے مقّدر میں لکھ دی گئی تھی جب اس کے منشور سے اخلاقی قدروں کو حذف کر دیا گیا تھا۔
ایک طرف تو الہامی سچائی ہے اور دوسری طرف وہ نام نہاد سچائی جس کی دریافت کا سہرا خالصۃً انسانی عقل کے سر ہے۔ دونوں فلسفوں کی خوبیوں کا موازنہ کچھ اتنا مشکل بھی نہیں۔ بغیر کسی قسم کے استثناء کے وحی ٔالٰہی کا اعلان یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے معاملات میں عدل و انصاف کا قیام کامل اور مطلق عدل و انصاف کے بغیر ناممکن ہے۔ مطلق انصاف پر مبنی ضابطہ ٔ اخلاق اور بدعنوانی دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ صداقت اخلاقیات کا بنیادی جوہر ہے اور مطلق اخلاقیات اور مطلق صداقت باہم لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ بنی نوع انسان میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کے قیام کے بغیر جنت ارضی کا کوئی خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ہر زمانہ کی یہی عالمگیر آواز رہی ہے۔
الہام پر مبنی صدیوں پرانے اس فلسفہ کی مخالفت کیلئے مارکس میدان میں اترا جسے اس نے یکسر ردّ کر دیا اور اس کے بالمقابل یہ دعویٰ کیا کہ انسان کو کسی آسمانی ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک خدا تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ پس انسان کو اپنی جنت ارضی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے خود ہی راستہ بنانا ہو گا۔ چنانچہ اس نے آسمانی ہدایت سے عاری خالصۃً اپنی عقل و دانش کی مدد سے ایک راستہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
مارکس کے غیر طبقاتی معاشرہ کے اس تصور میں ایک اور بنیادی نقص موجود ہے جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے۔ کسی ٹھوس بنیاد کے بغیر یہ فرض کر لیا گیا کہ اگر معاشرہ میں معاشی مساوات قائم ہو جائے تو جرم کی خود بخود بیخ کنی ہو جائے گی اور جرائم کے خاتمہ کیلئے کسی ریاستی قوت کی ضرورت نہ رہے گی۔ تا ہم انسان کی حرص و ہوا کا دائرہ صرف معاشی مسائل تک محدود نہیں۔ اگر مارکسزم کے تمام مقاصد حاصل بھی ہو جائیں تب بھی انسانی حرص و ہوا کی اشتہاء کے لئے بہت کچھ باقی رہ جائے گا جسے مارکسی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
انسانی نفس اتنی خواہشات اور تمناؤں کو جنم دیتا ہے کہ اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے تو کوئی بھی منصوبہ کیوں نہ ہو وہ انسانی مسائل کے حل میں ناکافی ثابت ہو گا۔ انسانوں میں عدم مساوات صرف اقتصادی سطح پر ہی نہیں ہوتی بلکہ ان میں یہ فرق جسمانی یا ذہنی میلان اور رجحانات اور دل ودماغ کی صلاحیتوں میں عدم مساوات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ حکمرانی، فتوحات، فرمانروائی، غلبہ، محبت کرنے یا محبوب بننے کی اس کی جبلّی خواہشات وہ چند ایک میدان ہیں جن کی زرخیز زمین میں انسانی حرص و ہوا کے بیج خوب جڑ پکڑتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔
حسن و جمال ہی کو لے لیجئے۔ نہ تو تمام انسان اس میں برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی جسمانی صحت ایک سی ممکن ہے۔ سماعت و بصارت کی صلاحیتیں، لمس اور ذائقہ کی قوتیں، پسند ناپسند، کسی چیز کی خواہش یا اس سے بیزاری کے علاوہ فنون لطیفہ کے رجحانات مثلاً موسیقی کا ذوق یا فن سے لگاؤ یا ادبی ذوق اور اس کے بالمقابل ادب سے بیگانگی کا یہ عالم کہ مطالعہ کے شوقین جس ادب پارہ کے دیوانگی کی حد تک مشتاق ہوں اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا تک گوارا نہ ہو۔ یہ چند مختصر مثالیں ہیں جن سے انسانی فطرت کے ان مختلف پہلوؤں کا پتہ چلتا ہے جو ارتقا کے ایک لمبے سفر کے بعد تخلیق ہوتے ہیں اور جن سے سائنٹفک سوشلزم کا کوئی بھی حامی چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ بس ان کوایک حقیقت ثابتہ سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہی تنوّع انسانی معاشرہ کی بدعنوانی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ ہر قسم کی معاشرتی برائیاں اس سے جنم لیتی ہیں۔ ان رجحانات کی تہذیب وتعدیل کا واحد طریق وہ اخلاقی ضابطہ ہے جس کی بنیاد وحی الٰہی پر رکھی گئی ہو اور جس پر عمل کیلئے ہستی ٔباری تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے وجود اور الہام کے ذریعہ نازل ہونے والی صداقت کو انسانی معاملات سے نکال دیں تومعاشرہ میں امن و سلامتی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
مارکسزم کی ملحدانہ فلاسفی اور الہامی سچائی پر ایمان کا یہ گہرا تقابلی جائزہ اس امر کو مزید واضح کر دیتا ہے۔ ایک طرف آسمانی ہدایت سے عاری مجرّدانسانی عقل ہے جو صرف اپنے بل بوتے پر تمام انسانی مسائل کو حل کرنے میں کوشاں ہے۔ دوسری طرف اس کے بالمقابل الہامی صداقت ہے جو انسان کی بے راہ روی کے مقابلہ کیلئے ارفع اخلاقی قدروں کے کردار کو اہمیت دیتی ہے۔
اوّل الذکر کا بغور جائزہ لینے سے صرف یہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ عقل فی ذاتہٖ انسان کو امن وسکون کی منزل تک لے جانے کیلئے قطعًا ناکافی ہے۔ تاریخ مذاہب کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ امن و سکون کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہوا جب انبیاء ؑ نے انسان کی اخلاقی بے راہ روی کے خلاف جہاد کیا اور سخت جدوجہد اور جانفشانی کے نتیجہ میں معصیت سے بھری ہوئی دنیا میں کہیں کہیں پُرامن معاشرہ تشکیل پانے لگا۔ اگر چہ انسان دوبارہ ہواوہوس کے طوفان میں گھر گیا، بایں ہمہ انسان کی اخلاقی اقدار کا معیار کچھ نہ کچھ ضرور بلند ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور الہامی تحریکات کے ذریعہ بنی نوع انسان کی اخلاقی اصلاح نہ کی جاتی تو معاشرہ اس سے کہیں بدتر حالت میں ہوتا جتنا آج نظر آتا ہے۔ اس صداقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انسان کے لئے وحی و الہام کی رہنمائی کتنی ضروری ہے۔
حوالہ جات
1. WESTFALL, R.C. (1993) The Life of Issac Newton. Cambridge University Press, Cambridge, p. 124
2. WESTFALL, R.C. (1993) The Life of Issac Newton. Cambridge University Press, Cambridge, p. 122
3. WESTFALL, R.C. (1993) The Life of Issac Newton. Cambridge University Press, Cambridge, p. 121
4. GUTMAN, J. (1963) Philosophy A to Z. Grosset & Dunlap Inc, New York.
5. IERNAN, T. (1966) Who's Who In The History of Philosophy Vision Press, New York, p. 54
6. COPLESTON, F. (1956) Contemporary Philosophy. Studies Logical Positivism and Existentialism. Burns, Oates Washbourne Ltd., London, pp.154-155
7. SARTRE, J. (1975) Existentialism and Humanism. Eyre Methuen Ltd., London, p.34
8. LENIN, V, I. (1963) Collected Works. Vol.38, Philosophical Notebooks. Foreign Languages Publishing House, Moscow, p.201
یونانی فلسفہ
یونانی فلسفیوں میں سقراط کے علاوہ ایسے فلسفیوں کی تلاش جن پر نبی کی حقیقی تعریف اطلاق پا سکے اور جن کی ذات میں وحی ٔالٰہی اور عقل انسانی دونوں پورے توازن کے ساتھ جلوہ فرما ہوں، ایک مشکل کام ہے۔
سقراط (470تا 399ق م) تو اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یونانی فلسفہ کی تاریخ میں اسے جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ سقراط سے پہلے اور بعد میںبھی انبیاء ضرور آتے رہے ہوں گے لیکن ان کے متعلق ہم کوئی رائے سقراط کے بالواسطہ اشاروں کنائیوں ہی سے قائم کر سکتے ہیں۔ مثلاً سقراط کہتا ہے صرف وہی الہام الٰہی سے سرفراز نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے عظیم انسان گزرے ہیں جنہیں الہام الٰہی سے نوازا گیا تا کہ وہ نیکی اور بھلائی کے کام سرانجام دے سکیں۔ اسی طرح وہ ایتھنز کے باشندوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے قتل نہ کرو ورنہ مجھ جیسا انسان تم پھر کبھی نہ دیکھ سکو گے سوائے اس کے کہ خدا تمہاری ہدایت اور رہنمائی کیلئے کسی اور کو مبعوث فرمائے۔
سقراط کی ذات میں ہمیں الہام اور عقل کے مابین ایک کامل توازن نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ باب زیادہ تر سقراط اور اس کے فلسفہ کیلئے وقف ہے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ یونانی فلسفہ کی بات کرتے ہوئے افلاطون اورارسطو کا ذکر نہ آئے۔ درحقیقت افلاطون اور ارسطو نے ایک لازوال طرزِفکر کی بنیاد رکھی لیکن ان دونوں کی عظمت اپنے قابل احترام استاد سقراط کی مرہون منت ہے۔
یہ سقراط ہی تھا جس نے اس دور کے فلسفیانہ مباحث میں علم، سچائی اور عقل کو اتنے پُرزور طریق پر متعارف کرایا کہ بعض سوانح نگار وں نے لکھا ہے کہ وہ بہت ارفع واعلیٰ اور لطیف فلسفوں کو گویا آسمان سے اتار کر زمین پر لانے والا انسان ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سقراط سے پہلے سو فسطائیوں کی لفظی موشگافیاں زمینی لوگوں کی اختراع تھیں۔ علم، سچائی اور عقل ہی درحقیقت وہ عناصر ہیں جو انسانی افکار کو آسمانی رفعتوں سے ہمکنار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ افلاطون اور ارسطو نے ہمارے لئے تمام فلسفیانہ موضوعات پر ایک وسیع اور گہرا علمی ورثہ چھوڑا ہے لیکن جو شاندار اور دائمی نقوش سقراط کے بلند کردار اور دیانتداری نے ثبت کئے ان کی مثال نہیں ملتی۔ افلاطون اور ارسطو دراصل اسی کی تربیت کا پھل ہیں۔ چنانچہ ان دونوں کے افکار کا اس باب میں مختصر تعارف دیا جا رہا ہے۔
افلاطون اور ارسطو دونوں نظام کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے عقل کو فوقیت دیتے ہیں۔ عقل اور خارجی دنیا کا باہمی تعلق کیا ہے؟ علم کیسے حاصل ہوتا ہے؟ اور ابدی صداقت کیا ہے؟ ان موضوعات پر دونوں عظیم فلسفیوں کے نظریات بہت مختلف ہیں۔ افلاطون کے نزدیک خارجی دنیا کے ادراک کو آخری اور کامل صداقت سمجھنا غلط ہے۔ کیونکہ کسی چیز کی حقیقت کا صحیح علم حاصل کرنے کیلئے اس کا سطحی مطالعہ ناکافی ہے۔ اس کے خیال میں ہر خارجی مظہر (Phenomenon)کے اندر گہرے معانی کا ایک جہان پوشیدہ ہے جس تک رسائی محض سطحی تجزیہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتی۔
افلاطون نظر نہ آنے والی ایسی بادشاہت کو تسلیم کرتا ہے جسے ایک عظیم الشان باشعور ہستی تمام نظام کائنات کو قائم رکھنے کیلئے بہت سے ماتحت کارندوں کے ذریعہ چلا رہی ہے۔ تاہم وہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ نامعلوم حقائق کا علم حاصل کرنے میں الہام کوئی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے نزدیک سچا علم صرف عقل اور وجدان کے باہمی اشتراک سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ عقل اور وجدان کے اس باہمی تعامل سے بعض اوقات بہت شاندار اور حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں انسانی علم قدم بقدم آگے بڑھنے کی بجائے چھلانگیں لگاتا ہوا ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ نئے تصورات جنم لے سکتے ہیں مگر یہ ہمیشہ انسان کے فکری عمل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کی حیثیت مفکرین کی عقل کی گہرائی پر منحصر ہوتی ہے۔
افلاطون کے نزدیک عقل ایک ایسی جستجو اور تلاش کی متقاضی ہے جو تمام اقسام کے طبعی مظاہر کی کنہ تک پہنچنے کیلئے کی جاتی ہے۔ اس طرح جو حقائق حاصل ہوتے ہیں انہیں دماغ میں صحیح طور پر ترتیب دینے سے انسان سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ افلاطون کہتا ہے:
’’چونکہ انسانی فطرت میں آسمانی ہدایت کی کسی قدر چنگاری موجود ہے اس لئے اگر انسان چاہے تو عقل کے ذریعہ مناسب جستجو کے بعد عالَم غیب کے حقائق کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور پھر ان کی روشنی میں معلوم کر سکتا ہے کہ سچ کیا ہے اور انسان کا کردار کیاہونا چاہئے۔ اس منزل تک رسائی کوئی آسان کام نہیں۔ اس کیلئے بہت زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایسا غورو فکر جس میں بہت سے مفروضے غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر اس چیز کو چھوڑنا ہو گا جو محض حیوانی اور جسمانی خواہشات سے متعلق ہو۔ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ ہر شخص اس منزل کو حاصل کر لے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ اصولاً اس منزل کا حصول ممکن ہے اور اس منزل تک وہی پہنچتا ہے جو اپنے وجود کا بہترین حصہ اس راہ میں خرچ کرتا ہے جو اس کے لئے کھلی ہے۔‘‘ 1
پس افلاطون کے نزدیک علم محض مشاہدہ اور عقل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھی وجدان اور تخلیقی تحریک بھی حصول علم میں مدد کرتی ہے۔ اس طرح جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا نام صداقت ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ افلاطون کا یہ نظریہ تھا کہ ظاہری عالَم محض ایک سراب ہے۔ پس پردہ جو صداقت پوشیدہ ہے وہ ہمارے ظاہری مشاہدہ سے بہت مختلف ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خواہ کتنی ہی کوشش کر لیں کسی خارجی حقیقت کی کنہہ کو مکمل طور پر نہیں پاسکتے کیونکہ تمام خارجی حقائق اور اشیاء مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس لئے ایک وقت کا مشاہدہ دوسرے وقت کے مشاہدہ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
’’افلاطون کے نزدیک تصور عالم امثال (Ideal) کی ایک حقیقت ہے۔ جسمانی حواس پر مبنی ہمارا ادراک مثال کے صرف قریب قریب پہنچتا ہے۔ تصور جیومیٹری کی ایک مثالی تکون کی طرح ہے جو خشکی و تری میں کہیں موجود نہیں ہے، اگرچہ تمام حقیقی تکونیں کم و بیش اس مثالی تکون کو ظاہر کرتی ہیں۔ افلاطون کے خیال میں تصورمادی اشیاء سے زیادہ حقیقی ہے۔ مادی اشیاء تو اس کا پرتوہیں۔ اس کے نزدیک ایک فلسفی کو چاہئے کہ وہ اِن اَن دیکھے حقائق میں ڈوب کر اپنے تصور کی آنکھ سے ان کے باہمی ربط کا مشاہدہ کرے۔ اس کے خیال میں یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جو بیک وقت ابدی، قابل فہم اور مبنی بر خیر ہے۔‘‘ 2
افلاطون کے برعکس ارسطو دکھائی دینے والی خارجی حقیقت کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کسی خاص وقت جو ادراک حاصل کرتا ہے وہی سچائی ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارسطو کے نزدیک خارجی دنیا بذات خود ایک ابدی صداقت ہے۔ ارسطو بھی ایسے تصورات کی موجودگی کا قائل تھا جن کی جانب تمام مادی اجسام حرکت پذیر ہیں۔ افلاطون کے برعکس وہ مادہ کو ایک قائم بالذات ابدی حقیقت سمجھتا ہے اور ایک ایسے ارتقا کا نظریہ پیش کرتا ہے جس میں کوئی بیرونی باشعور ہستی کسی قسم کا کردار ادا نہیں کر رہی۔ اس کے خیال میں یہ ارتقا مادہ کے اندر پوشیدہ طبعی خواص کے باعث ہے۔
لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ارسطو ایک خالق خدا کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ ایک ایسی بالا ہستی پر ایمان لاتا ہے جس کے باعث دراصل علت و معلول کا یہ تمام سلسلہ جاری ہے اور جسے علت اولیٰ یا علت العلل کہہ سکتے ہیں۔ تا ہم جب ہم سقراط، افلاطون اور ارسطو کے بیان کردہ خدا کے تصور کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے تصورات میں ہمیں بتدریج تبدیلی نظر آتی ہے۔
سقراط کے یہاں خداتعالیٰ کی ہستی کے ساتھ ایک بہت گہرا اور ذاتی تعلق نظر آتا ہے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ہی انبیاء کی طرز پر ہوئی ہے۔ سقراط کے شاگردوں کی پہلی نسل میں بڑی حد تک سقراط کی روح موجود ہے اور افلاطون اس پہلی نسل کا نمائندہ ہے جس کے فلسفیانہ اور سائنسی مباحث پر روحانیت کی چھاپ نمایاں ہے۔ لیکن افلاطون سے ارسطو تک کے عبوری دور میں ہمیں اس خدا کا تصور روبہ زوال نظر آتا ہے جو مظاہر قدرت میں ایک زندہ اور فعّال کردار ادا کرتا ہے۔ اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ ارسطو خدا اور بندہ کے درمیان کسی قسم کے رابطے کا قائل تھا۔
اگرچہ ارسطو کے فکری نظام میں نہ تو کسی ازلی ابدی سچائی کا کھل کر ذکر پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں کسی قسم کی تحقیق و جستجو کے آثار ملتے ہیں۔ تاہم اگر اس کی تحریروں کا تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں بھی ایک ازلی ابدی سچائی کا تصور موجود ضرور ہے۔ اور اس تصور کا تعلق مادہ کی اس مسلسل حرکت اور اس کی طبعی خصوصیت سے ہے جس کی وجہ سے مادہ ہمیشہ ایک مثالی حالت کی طرف ارتقاپذیر رہتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ارسطو کے نزدیک کسی خاص لمحہ میں کیا گیا مشاہدہ اس لمحہ کی حقیقت کہلائے گا۔ لہٰذا ان حقائق سے عقل جس نتیجہ کو اخذ کرتی ہے اسے علم کہا جائے گا۔ اور جب مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے مشاہدہ اس علم کی تصدیق کر دے تو اسے صداقت کے طور پر تسلیم کر لینا مناسب ہو گا۔
پرانے دور سے تعلق رکھنے والے فلسفیوں میں ارسطو کو ایک نمایاں اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ فلسفیانہ فکر کے بہت سے ادوار پر اس کا ایک دائمی اور مستقل اثر رہا ہے یہاں تک کہ آج بھی فلسفہ کی کوئی شاخ ایسی نہیں جسے ارسطو کے فکر اور زبردست فہم و فراست سے آزاد کہا جا سکے۔
یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یونان کے اکثر فلسفی خواہ وہ ہستی ٔباری تعالیٰ پر ایمان بھی کیوں نہ رکھتے ہوں الہام کو خداتعالیٰ سے علم پانے کا ضروری ذریعہ قرار نہیں دیتے تھے۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ عقل انسانی کو مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی میں علم اور صداقت کے حصول کا معتبر ترین ذریعہ تسلیم کرتے تھے۔ یونانی فلسفہ کا یہ مختصر تذکرہ یونان کے ان تمام عظیم فلسفیوں کا احاطہ نہیں کرتا جنہوں نے فکر انسانی کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ موجودہ جائزہ کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ ان یونانی فلسفیوں کے ہاں موجود عقل، الہام اور صداقت کے تصور کا مختصرطورپر جائزہ لیا جائے جن کے اقوال باقی رہنے والے اور جن کی شہرت لازوال ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ سقراط اور اس کی شخصیت کا تفصیلی خاکہ پیش کیا جائے۔
سقراط یونان کے فلسفیوں میں سے اعلیٰ ترین کردار کا حامل تھا۔ اس کے افکار اور کردار میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ لیکن بعض جدید مصنفین نے اس کی تصویر کشی کچھ اس رنگ میں کی ہے کہ اس کے خدوخال دھندلا کر رہ گئے ہیں اور تضاد کا شکار ہو گئے ہیں۔ سقراط جیسے عظیم معلّم اخلاق کو آج ہم بڑی حد تک افلاطون، زینوفون اور اس کے بعض دیگر ہمعصروں کے آئینہ میں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک اس کے صحیح مقام کی شناخت نہیں کی جا سکی۔ زینوفون کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ ایتھنز کے باشندوں کی طرح دیومالائی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتا تھا اور وہی اپنے مشرکانہ عقائد کو سقراط کی طرف منسوب کرنے کا زیادہ تر ذمہ دار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط کے متعلق جو کچھ آج لکھا جارہا ہے اس میں باربار اسے مشرکانہ عقائد کا حامل بتایا جاتا ہے۔ بایں ہمہ اسے ایک ایسا موحّد بھی تسلیم کیا جاتا ہے جو خالق کائنات پر ایمان رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے وجود کا ذرہ ذرہ خدائے واحد کی محبت اور عقیدت کے نشہ میں سرشار تھا اور خداتعالیٰ کی توحید پر اس کا ایمان غیر متزلزل تھا۔ وہ یونانی دیومالا ئی خداؤں کو کسی قیمت پر ماننے کیلئے تیار نہیں تھا اور نہ ہی اس معاملہ میں اسے کسی قسم کی مفاہمت کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ اس کی ساری زندگی نیکی، علم، سچائی کی اشاعت اور نفس کے تمام تضادات کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے وقف تھی۔ وہ کامل انصاف اور احتساب پر یقین رکھتا تھا۔ اسی طرح حیات بعد الموت اور جزا سزا پر بھی اسے کامل یقین تھا۔ وہ تمام عمر برائی، جہالت، تکبر اور منافقت کے خلاف جہاد کرتا رہا۔ اس نے توحید کی خاطر ایسے سکون اور اطمینان قلب کے ساتھ جان دی جو کسی بھی عظیم پیغمبر کے شایان شان ہے۔
اس کی عظیم الشان قربانی کا صرف یہی ایک پہلو نہیں تھا۔ دراصل ادنیٰ سے جھوٹ کے ساتھ بھی مصالحت کرنا سقراط کی فطرت میں ہی نہیں تھا اور معاشرہ کے دباؤ کے نتیجہ میں اپنے عقیدہ میں معمولی سی تبدیلی قبول کرنے کی بجائے وہ بخوشی جان دینے کے لئے تیار تھا۔ یہ وہی یونانی فلسفی نبی ہے جس کے متعلق بظاہر یہ متناقض دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مغربی فلسفہ کا بانی مبانی تھا۔
سقراط اور مغربی فلسفیوں کی سوچ میں کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ سقراط کا فلسفہ نیکی، عاجزی، کامل انصاف، توحید پر پختہ ایمان اور دنیا و آخرت میں انسانی اعمال کے محاسبہ پر مبنی ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی سقراط کو ڈیکارٹ (Descartes)، ہیگل (Hegel)، اینگلز (Engels)اور مارکس کا جد امجد قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگرایسا ہے تو پھر ضرور سقراط کے جسمانی نقوش امتداد زمانہ کے ہاتھوں مٹ چکے ہوں گے۔ ان فلسفیوں نے جس طرح اخلاقیات کو مسترد کیا ہے کیا بنظرِانصاف ہم اس کے آثار سقراط میں تلاش کر سکتے ہیں؟ یقینًا نہیں۔
سقراط کی تو دنیا ہی اور تھی۔ وہ تو انبیاء کی دنیا تھی۔ سقراط رؤیائے صادقہ اور الہام پر ایمان رکھتا تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ علم صداقت ہے اور صداقت علم۔ اس کے نزدیک انسان کیلئے خداتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم کے علاوہ کوئی علم قابل اعتبار نہیں ہے۔
سقراط، اہل یونان کو خداتعالیٰ کا پیغام پہچانے کیلئے مامور کیا گیا تھا۔ اس کے نزدیک یہ زندگی آئندہ زندگی کیلئے بطور تیاری کے ہے۔ وہ انسانی روح کو اہمیت دیتا تھا کیونکہ روح ہی ہے جس کا اگلے جہان میں جانا مقدر ہے۔ سقراط کے اس فلسفہ کو آسمانی صداقت تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے کسی طور بھی سیکولر فلسفہ قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ جدید دانشوروں کا خیال ہے۔
سقراط کو انبیاء کے زمرہ سے نکال کر محض فلسفیوں میں شامل کرنے کی بارہا کوشش کی گئی ہے۔ بہت سے جدید مصنفین بلند علمی مقام رکھنے کے باوجود سقراط کے حقیقی مقام کی شناخت سے یکسر لاعلم رہے ہیں۔ انہوں نے سقراط کو ایک ایسا مقام دینے کی کوشش میں جو اس کا اصل مقام نہیں ہے، کتابوں کی کتابیں لکھ ماری ہیں۔
بعض مشہور محققین نے سقراط کے متعلق بعض فرضی تضادات کو جو درحقیقت موجود ہی نہیں، دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک الہام الٰہی پر سقراط کے اعتقاد اور اس کی عقلیت پسندی میں باہمی تضاد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل اور الہام میں کوئی تضاد ہے تو پھر یہ تضاد تمام انبیاء میں موجود ہونا چاہئے۔ اور سقراط بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انبیاء اور بانیانِمذاہب نے بیک وقت الہام اور عقل پر ایمان رکھتے ہوئے دونوں کے پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان کے نزدیک الہام اور عقل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ اگر ان میں انہیں کوئی تضاددکھائی دیتا تو وہ اپنی راستبازی کی وجہ سے خدا اور عقل میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کو ہی ردّ کردیتے۔ ان کے نزدیک خدا پر ایمان اور عقل دونوں متضاد ہو ہی نہیں سکتے۔ پس وہ لوگ جنہیں سقراط کے اعتقادات اور اس کی عقلیت پسندی میں تضاد نظر آتا ہے خود نظر کے دھوکہ میں مبتلا ہیں۔ انہیں دوبارہ سقراط کے نظریات اور اس کے بارہ میں مستند ماخذ کا بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس صورت میں ان پر ایک نیا سقراط آشکار ہو گا جو بیک وقت موحّد بھی ہے اور عقلیت پسندی کا علمبردار بھی۔ سقراط سے متعلق مستند مواد کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی ان پر کھل جائے گی کہ وہ سب سے زیادہ اس امر کے متعلق فکرمند رہتا تھا کہ لوگ نیکی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی وہ اس کے حقیقی معانی سے آشنا ہیں۔
دیکھا جائے تو سقراط دو ہیں۔ ایک تایخی اور دوسرا فرضی۔ دونوں میں تضاد کی حد تک زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط سے متعلقہ ماخذ میں جو لفظیات اور اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ان کے مفہوم و معانی کی تعیین و تفہیم خاصی مشکل اور مشتبہ ہو کر رہ گئی ہے۔ مثلاً ایک ایسی ہی اصطلاح ARETE کو لے لیجئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے معنی نیکی کے ہیں یا اس کا کوئی اور مفہوم ہے۔ ڈبلیو۔ کے۔ سی۔ گوتھرائی (W.K.C. Guthrie)کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ :
’’یہ بات اب ہمارے علم میں ہے کہ نیکی (Virtue)کے لفظ کو غلط طور پر یونانی لفظ ARETEکے ساتھ ملا دیا گیا ہے جس کے بنیادی معنی کسی کام میں مہارت کے ہیں۔‘‘ 3
گوتھرائی کے خیال میں گویا یہ وہ بات تھی جو عمل پسند اہلِ ایتھنز کے جذبات پر گراں گزری۔ لیکن اس نے اپنی سمجھ کے مطابق ARETEکے جو معنی لئے ہیں ان میں واضح تضاد ہے۔ کیونکہ اگر یہ تعریف درست ہے تو پھر ایتھنز کے باشندوں میں سے سب سے زیادہ عملیت پسندسقراط ثابت ہوتا ہے نہ کہ اس کے ناقدین جو صرف سیاسی داؤ پیچ اور اخلاقیات میں نفع نقصان کی حد تک دلچسپی رکھتے تھے۔
’’سمجھ بوجھ رکھنے والے عمل پسند اہل ایتھنز کو سقراط کی ایک یہ بات بھی نا گوار گزرتی تھی کہ وہ بحث کا رخ غریب، مسکین اور بظاہر غیر متعلق افراد مثلاً موچی بڑھئی وغیرہ کی طرف موڑنے پر اصرار کرتا ہے۔ جبکہ اہل ایتھنز سیاسی داؤ پیچ کے اصول سیکھنا چاہتے تھے۔ نیز وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آیا اخلاقی ذمہ داری قسم کی بھی کوئی چیز ہے؟‘‘ 3
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ گوتھرائی کے نزدیک سقراط کو’خیر‘میں بطور اخلاقی قدر کے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ بقول گوتھرائی اس کے پیش نظر محض اپنی پیشہ وارانہ علمی اور تکنیکی مہارت اور اس مقصد کی توضیح و تشریح تھی جس کی خاطر وہ کام کر رہا تھا۔ مثلاً اس کے نزدیک سیڑھی کی بناوٹ اور غرض و غایت کا علم رکھنا ضروری ہے۔ گوتھرائی کے نزدیک سقراط کا فلسفہ دراصل سیکولر ہے۔ بالفاظ دیگر سقراط کی دلچسپی فقط ایک کاریگر کے فن اور اس کے مقصد تک ہی محدود تھی۔ گوتھرائی نے جو نقشہ کھینچا ہے اس کے مطابق توسقراط، گلی گلی پھر کر اہل ایتھنز کو تلقین کیا کرتا تھا کہ دستکاری اور صناعی میں مہارت حاصل کریں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ گوتھرائی سقراط کے فلسفہ کے بنیادی مقصد کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ تو یہ ماننے کیلئے بھی تیار نہیں کہ سقراط کو خیر اور پرہیزگاری میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی تھی۔
سقراط کے متعلق ایک بات تو طے ہے کہ اس کا ہر قول و فعل areteہی تھا۔ بایں ہمہ معاشرہ نے اگر اسے اس بنا پر ٹھکرا دیا تھا کہ اس کا نقطۂ نظر اخلاقیات سے عاری تھا تو اس سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک arete کا اخلاق سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ گوتھرائی کی اس الزام تراشی پر جو سراسر بے بنیاد ہے ہم پر زور احتجاج کرتے ہیں۔ اہل ایتھنز نے کبھی بھی سقراط پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ اخلاقیات کو زیر بحث نہیں لاتا۔ اس کے برعکس اہل ایتھنز اس کو محض اس وجہ سے جھٹلاتے تھے کہ اس نے اپنی مخصوص قسم کی اخلاقیات پر ضرورت سے زیادہ زور دے کر ایتھنز کے نوجوانوں کے اخلاق تباہ کر دیئے ہیں۔ پس ہوا یہ ہے کہ گوتھرائی نے یہ کہہ کر کہ ’areteکا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں‘ سقراط کو اس کے معلّم اخلاق کے مقام سے گرانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس نے نہایت چابک دستی سے تاریخی حقائق کو مسخ کیا ہے۔ عملاً ہوا یہ ہے کہ مصنف نے سقراط کی حقیقی شخصیت اور اپنی خود ساختہ فرضی شخصیت کے درمیان اختلاف تناظر کی وجہ سے التباس پیدا کر دیا ہے۔ جو شخص بھی اس سقراط سے واقف ہے جس کی عکاسی افلاطون اور اس کے بعض دیگر ہمعصروں نے اپنی تحریروں میں کی ہے وہ مصنف کی ان بے بنیاد قیاس آرائیوں کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اہل ایتھنز کو اشتعال دلانے والی بات وہ نہیں تھی جس کا مصنف دعویٰ کرتا ہے۔ سقراط نے تو توحید کا پرچار کیا اور بد اخلاقی کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ یہی سقراط کا مشن تھا اور یہی اس کے نزدیک areteکے معنی تھے۔ چنانچہ arete کے معانی کو سمجھنے کیلئے ان حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
گوتھرائی کے برعکس بہت سے دیگر علماء نے areteکا ایک ترجمہ اپنے تمام تر مفاہیم کے ساتھ نیکی یا خیر کیا ہے جو بالکل درست ہے۔ جب سقراط چھوٹی موٹی اشیاء مثلاً صنعت و حرفت کے آلات اور ان کے طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ہر چیز کا ایک معین مقصد ہے جس کی تکمیل از حد ضروری ہے تو درحقیقت وہ تشبیہات اور استعارات میں انسانوں کی بات کر رہا ہے۔ ورنہ وہ ہنرمندوں اور کاریگروں کے ہنر اور فن سے متعلق علم کی نفی نہ کرتااور نہ ہی ان کو ان کی جہالت پر برا بھلا کہتا۔ سقراط دراصل کہہ یہ رہا ہے کہ لوگ آسمانی علوم کی حقیقت سے ناآشنا ہیں حالانکہ یہ تمام انسانی مشاغل کی گہرائیوں میںموجود ہیں۔ اس کے باوجود لوگ اس سے غافل رہتے ہیں۔ اس کے نزدیک یہ ایک ایسی جہالت ہے جس کی موجودگی میں کوئی انسان درحقیقت انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک کاریگر اس وقت تک کاریگر نہیں کہلا سکتا جب تک وہ اپنے کام کی سوجھ بوجھ نہ رکھتا ہو یا وہ اپنی بنائی ہوئی چیز کا مقصد ہی نہ جانتا ہو۔ بنی نوع انسان کی یہی وہ جہالت ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانے کیلئے سقراط عمر بھر کوشاں رہا۔
اسے یقین تھا کہ تخلیق انسانی کے الٰہی مقصد کو انسان محض اپنی کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان نہیں جانتا کہ اپنی تخلیق کا مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی کو کن خطوط پر استوار کرے۔ اگرچہ سب کچھ جاننے کے دعویٰ کے باوجود وہ کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔ اور یہی اس کے نزدیک سب سے بڑی جہالت ہے۔ areteکے معنی دراصل اپنی ہستی کے مقصد کی تلاش ہے مگر کامل عجز اور اپنی لاعلمی کا اعتراف کئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف اسی صورت میں انسان اس قابل ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اسے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر درجہ بدرجہ علم کی روشنی کی طرف اس کی رہنمائی فرمائے۔ سقراط کے نزدیک حقیقی علم صرف خداتعالیٰ کا عطا کردہ علم ہے۔ اس کے سوا باقی سب جہالت ہے۔
قرآن کریم بھی بعینہٖ یہی پیغام دیتا ہے۔ وہ تمام علم خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے یہاں تک کہ فرشتے بھی اس کے حضور اپنی لاعلمی کا اقرار کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

)البقرۃ 33:2 (
ترجمہ : پاک ہے تو۔ ہمیں کسی بات کا کچھ علم نہیں سواrئے اس کے جس کا تو ہمیں علم دے۔ یقینا تو ہی ہے جو دائمی علم رکھنے والا (اور ) بہت حکمت والا ہے۔
قرآن کریم بار بار یاد دلاتا ہے کہ انسان کو اس وقت تک سیدھے راستے کاکوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خدا کے در کا فقیر بن کر اپنے لئے اس سے رہنمائی طلب نہ کرے:

(الفاتحۃ 6-5:1)
ترجمہ: تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا۔
عجز کا یہی درس ہے جس پر سقراط نے بھر پور زور دیا ہے کہ انسان اس وقت تک حقیقی علم حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی لاعلمی کا اقرار نہ کرلے اور یہ عرفان نہ پا لے کہ صراط مستقیم کا حصول آسمانی ہدایت کے بغیر ناممکن ہے۔
سقراط جب ایک فرضی کاریگر کے حوالہ سے بات کرتا ہے تو دراصل وہ علامتی زبان میں بالواسطہ انسان ہی کا ذکر کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان اپنے علم کے بارہ میں دھوکہ کا شکار ہے حالانکہ جب تک وہ خود کو عالم سمجھتا ہے تب تک اسے علم حاصل کرنے کی ضرورت کا احساس نہیں ہو سکتا۔ پس سقراط نے اپنے پیغمبرانہ فرائض کی ادائیگی میں اشاروں کی زبان کا طریق اختیار کیا ہے۔ اس کا مشن تو یہ ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو تخلیق انسانی کے اس اخلاقی، روحانی اور الٰہی مقصد سے آگاہ کرے جسے وہ خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اکثر انسان تو شطرنج کے مہروں کی طرح ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیوں حرکت کر رہے ہیں۔ انہیں اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کون استعمال کر رہا ہے۔ ایسے غافل انسان نہ تو حقوق اللہ سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی حقوق العباد سے۔ اس صورت حال کی اہمیت کو سمجھانے کیلئے سقراط انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے جہاں وہ دنیوی زندگی میں کئے گئے اعمال کا جواب دہ ہو گا۔ لیکن سیکولر فلسفی حیات بعد الموت کی بات کبھی نہیں کرتے۔ یہ کام اور یہ فرض تو انبیاء کے سپرد ہوتا ہے۔ ہماری خواہش تو صرف اتنی ہے کہ کاش گوتھرائی کو وہ الفاظ بھی یاد ہوتے جو اس نے اپنی اسی کتاب میں سقراط کے بارہ میں استعمال کئے ہیں۔ خصوصاً مندرجہ ذیل الفاظ توبے حد اہم ہیں جن کے بارہ میں خود مصنف کا دعویٰ ہے کہ سقراط نے اپنی موت سے ذرا پہلے کہے تھے:
’’اگر اکثر نہیں تو بہت سے لوگ ایسے ضرور تھے جوسقراط سے اختلاف رائے تو رکھتے تھے لیکن اس کی موت کے ہرگز خواہاں نہ تھے۔ وہ یقینا بہت خوش ہوتے اگر سقراط کو ایتھنز سے ہجرت کرنے پر آمادہ کر لیا جاتا۔‘‘ 4
سقراط نے اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ:
’’اس نے عمر بھر ایتھنز کے باشندوں کیلئے وضع کردہ قوانین سے استفادہ کیا ہے۔ اب اگر وہی قوانین اسے زہر کا پیالہ پلانا چاہتے ہیں تو ان کے اس فیصلے سے گریز نا انصافی ہی نہیں ناشکری بھی ہو گی۔ علاوہ ازیں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس دنیا سے کہیں بہتر دنیا کی طرف نہیں جا رہا ہے۔‘‘ 4
بہت سے دیگر بلند پایہ علماء نے بھی areteکا درست ترجمہ کرنے کے سلسلہ میں تحقیق کی ہے۔ ان میں سے ایک بہت نمایاں نام گریگری ولاسٹوز (Gregory Vlastos)کاہے جو اس خیال کی پرزور تردید کرتا ہے کہ areteکو محض کاریگر کی ایک اصطلاح سمجھا جائے۔ وہ اصل یونانی لفظ کے مختلف ممکنہ معانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب سقراط اس لفظ کو استعمال کرتا ہے تو اس کے نزدیک اس کے معنی لازماً تقویٰ، نیکی اور ہر قسم کی خیر کے ہوتے ہیں۔
’’اس بارہ میں اگر قارئین کے دل میں اب بھی کوئی شبہ باقی ہے تو وہ اس حقیقت پر غور کرنے سے دور ہو سکتا ہے کہ سقراط جب بھی عمومی نظریہ کو زیر بحث لاتا ہے مثلاً جب وہ پروٹے گرس(Protagoras)اور مینو(Meno)کے ذکر میں areteکے سکھائے جانے کے بارہ میں بات کرتا ہے تو وہ دلیل دیئے بغیر یہ تسلیم کرتا ہے کہ areteکے پانچ اجزاء یا مسلّمہ خوبیاں ہیں جو بالاتفاق اعلیٰ اخلاقی اقدار کے بیان کیلئے یونانی اصطلاحات کا حکم رکھتی ہیں۔ یعنی Andreia (مردانگی۔ جرأت)، Sophrosyne (اعتدال)، Dikaiosyne (انصاف۔ تقویٰ)، Hosiotes (نیکی۔ پاکیزگی) اور Sophia (عقل و دانش)۔‘‘ 5
پس ولاسٹوزکا یہ موقف بہت معقول ہے کہ خود سقراط کے نزدیک لفظ areteکے جو بنیادی معانی ہیں پہلے ان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
‏Areteکے ان معنوں کا ذکر ایک اور بڑے عالم کرسٹوفرجے ناوے(Christopher Janaway)نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے:
’’…سقراط کے پیش نظر تو اخلاقیات کے مسائل تھے۔ بالخصوص اسے انصاف، حکمت، جرأت، تقویٰ اور اعتدال جیسی نیکیوں کے قیام کا شدّت سے احساس تھا۔ افلاطون نے ’ابتدائی مکالمات‘ (Dialogues) میں سقراط کی تصویر کشی بھی اسی رنگ میں کی ہے۔ اور اعتذار (Apology) میں بھی سقراط کو اپنے آپ کو اسی طرح پیش کرتے ہوئے دکھایا ہے۔‘‘ 6
’’اخلاقیات سے متعلق سقراط کے بنیادی نظریات یہ ہیں کہ نیکی علم ہے۔ تمام نیکیوں میں وحدت پائی جاتی ہے۔ نیکی مسرت ہے .....‘‘
’’سقراط کا یہ نظریہ بھی ہے کہ جو شخص اچھے اور برے کا علم رکھتا ہے وہ کسی بھی نیکی سے محروم نہیں رہ سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شخص جرأتمند، پاکباز، معتدل مزاج اور انصاف پسند ہو۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایک کامل طور پر نیک انسان یقینا زیادہ خوش رہتا اور اس شخص کی نسبت زیادہ پر سکون اور مطمئن ہوا کرتا ہے جو نیکی سے محروم ہو۔‘‘ 7
ہم سقراط کے علم الاخلاق کے بارہ میں جے ناوے (Janaway) کے خیالات سے پوری طرح متفق ہیں۔
دراصل سقراط ایک ایسے قانون کا ذکر کر رہا ہے جس کا انسانی نفسیات سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اور جسے کلّیہ کے طور پر تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ مثلاً یہ علم ہی ہے جو ایک خاردار جھاڑی کو ایک وحشی درندے سے بچاؤ کی واحد پناہ گاہ سمجھنے کی صورت میں ایک معقول آدمی کو کانٹوں کی چبھن جو نسبتاً کم تکلیف دہ ہوتی ہے برداشت کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے اور جب تک وہ شخص محفوظ ہے اسے کانٹوں کی اذیت بھی ایک راحت محسوس ہوتی ہے۔ سقراط کو اس بات سے انکار نہیں کہ صحیح علم رکھنے والے انسان کو جسمانی تکلیف نہیں ہوتی۔ وہ زور اس بات پر دے رہا ہے کہ صحیح علم رکھنے والا شخص اسی کام کو مناسب حال سمجھے گا جس میں اسے اطمینانِ قلبِ نصیب ہو گا۔ یہ بات آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسے کل تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے نیک بندے اپنی مرضی سے تکالیف برداشت کرتے ہیں اور اس میں انہیں مسرت ملتی ہے۔ خدا کے فضل سے محرومی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ عظیم لوگ جو اصولوں کو قربان کرنے کے بعد آرام کی زندگی بسر کرنے کی بجائے تکلیف کے ساتھ مرنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کی موت تو خوشی کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی اخلاقی فتح کے احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ وہ روحانی اذیت کو قبول کرنے کی بجائے جو ان کیلئے بہت زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے جسمانی اذیت کو خوشی سے برداشت کرلیا کرتے ہیں۔
ولاسٹوزنے سقراط کی نیکی اور تقویٰ پر ایک طویل باب باندھا ہے جس میں اس کے نظریات اور اس کے اپنے عمل اور تجربہ کے مابین ایک فرضی تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن اس نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ درحقیقت کوئی تضاد موجود ہی نہیں ہے بڑا معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا ہے۔ ولاسٹوز کی نظر میں سقراط کا فلسفہ سراسر عقلیت پسندی پر مبنی ہے۔ لیکن اس کا الہام کا تجربہ اور رہنمائی کرنے والی ایک برتر ہستی پر اس کا اعتقاد ایسا تضاد ہے جو بہرحال دور ہونا چاہئے۔ اس حل کیلئے اس نے خود سقراط کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ اپنی عقلیت پسندی کے بارہ میں سقراط کہتا ہے:
’’یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ میں ہمیشہ سے ہی اس قسم کا انسان ہوں کہ میں کسی بات سے قائل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ گہرے غور و فکر کے بعد کوئی نظریہ بہترین نظر آئے۔‘‘ 8
سقراط کے عقلی استدلال کی اہمیت پر اتنا زور دینے کے باوجود جب وہ اپنے ذاتی تجربات کی بات کرتا ہے تو ولاسٹوز اسے ایک توہم پرست انسان قرار دیتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:
’’اس کے باوجود وہ مافوق الفطرت ذرائع سے ملنے والے احکامات کی اطاعت پر کمر بستہ ہے‘‘۔ 8
اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کیلئے ولاسٹوز سقراط کے اس بیان کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے مقدمہ کی کارروائی کے دوران دیا:
’’میں یہی کہوں گا کہ مجھے خدا نے نہ صرف الہامات اور رؤیا کے ذریعہ اس کام کو سرانجام دینے کا حکم دیا ہے بلکہ دیگر تمام ذرائع سے بھی یہ حکم دیا گیا ہے جن سے آج تک کسی کو بھی کچھ کرنے کا حکم دیا جاتا رہا ہے۔‘‘ 8
یہ مفروضہ قائم کرنے کے بعد ولاسٹوز نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ سقراط پر روحانی تجربہ کا الزام غلط ہے بہت طویل بحث کی ہے۔ حالانکہ سقراط خود اپنے اس روحانی تجربہ کا معترف ہے۔ نہایت پیچیدہ دلائل کے بعد بالآخر وہ یہ مفروضہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ درحقیقت سقراط اس روحانی تجربہ پر یقین نہیں رکھتا اگرچہ بقول اس کے وہ خود صاحب تجربہ ہے۔ بہرحال ولاسٹوز اپنی تمامتر علمی کاوش کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پر مذکورہ بالا حوالہ کو پھر پڑھیں جس کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:
’’مجھے یہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے.........‘‘ 8
اس میں سقراط نے انگریزی لفظ 'God' کو واحد کے صیغہ میں استعمال کیا ہے لیکن اس کے باوجود ولاسٹوز نے اسے ’G‘ کی بجائے ’g‘ سے لکھا ہے۔
سچے خوابوں، الہامات اور دوسری قسم سے تعلق رکھنے والے معین احکام کے متعلق اپنے صاحب تجربہ ہونے کے بارہ میں سقراط کا بیان اتنا قوی اور انبیاء علیہم السلام کے آفاقی تجربہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ اس سلسلہ میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ سقراط جو کچھ کہہ رہا ہے بعینہٖ حقیقتِ حال کے مطابق ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات سقراط کے اس بیان کی تائید کرتی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ سے قبل کے تمام انبیاء کے بارہ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طریق پر کلام کیا جس طرح آنحضرتﷺ سے کلام فرمایا۔
ولاسٹوز اپنے ’’متضاد نظریہ‘‘ کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال اٹھاتا ہے کہ :
’’اس کی وجہ سے کیا ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ دیوتاؤں کے بارہ میں علم حاصل کرنے کیلئے سقراط دو مختلف ذرائع کا سہارا لیتا ہے۔ ایک عقل اور ایک ماورائے عقل۔ صحیح عقائد تک پہنچنے کیلئے دو مختلف نظام جنم لیتے ہیں۔ ایک وہ جس تک عقلی دلائل کی رسائی ہوتی ہے اوردوسرا وہ جس تک الہام کے ذریعہ پہنچا جاتاہے جو کہ کسی ہاتف غیبی (oracles)، سچے خوابوں اور دیگر ایسے ذرائع سے عبارت ہے۔‘‘ 9
یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سقراط کے نظریہ اور اس کے ذاتی تجربہ کے درمیان کیسے کیسے فرضی تضاد پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ بہرحال سقراط کے متعلق یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ نام نہاد یونانی دیوتاؤں پر تنقید کیا کرتا تھا اور oraclesیعنی پراسرار قسم کے علم غیب کے جاننے کے انکشافات اور پیشگوئیوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا تھا۔ البتہ جب وہ اپنے ذاتی تجربہ یعنی الہام الٰہی یا رؤیائے صادقہ کا ذکر کرتا ہے تو کبھی بھولے سے بھی اس کا مذاق نہیں اڑاتا۔ مصنف یعنی ولاسٹوزنے الہامِالٰہی کے بعد oraclesکے لفظ کا اضافہ کر کے سقراط کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے کیونکہ اس نے اپنے کسی الہام کے حوالہ سے کہیں بھی کسی oracle کا ذکر نہیں کیا۔ وہ جب بھی اپنے ذاتی تجربہ کی بات کرتا ہے تو ہمیشہ وہ اللہ تعالیٰ (God)کا لفظ واحد کے صیغے میں اور احترام کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ وہ کسی مرحلہ پر بھی خدائے واحد کو دیوتا نہیں کہتا۔ البتہ جب وہ شعراء کے تخیلات کو God-givenیعنی خداداد قرار دیتا ہے تو یہ محض ایک طرز بیان ہے ورنہ یہ مراد نہیں کہ وہ واقعی خدا کی باتیں ہیں۔
’’یہ درست ہے کہ ایک شاعر آمد اور روانی ٔ طبع کی حالت میں ایک حیران کن نظم کہہ جاتا ہے تو اسے تحفۂ خدا وندی تو کہا جا سکتا ہے مگر نہ تو یہ علم ہے اور نہ ہی اسے علم کہا جاسکتا ہے۔ شاعری باقاعدہ فکر کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی۔‘‘ 10
سقراط کی یہ تنقید کہ شاعری علم نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے علم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ فکر سے خالی ہوتی ہے، درست بات ہے کیونکہ عام شاعرانہ پیرایۂ اظہار یقینا ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اشعار میں ایک قسم کا جادو ہوتا ہے اور یوںلگتا ہے جیسے شاعر کی زبان سے خدا کلام کر رہا ہو۔ مگر ایک معتدل صاحب فہم آدمی اسے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ سقراط جب ایک شاعر کے متعلق کہتا ہے کہ اس پر دیوتاؤں کا تصرّف ہے تو وہ دراصل اہل ایتھنز کے ان توہم پرستانہ نظریات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کے مطابق بعض لوگوں پر دیوتا قبضہ کر لیتے تھے۔ اس قسم کے فقرات اور اس زبان میں جو سقراط نے اپنے لئے استعمال کی ہے، بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے۔ سقراط نے خداتعالیٰ کی شان میں کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو سقراط سے اپنے ایک عاجز بندہ کی حیثیت سے ہمکلام ہوا۔
سقراط نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ بعض اوقات شعری تجربہ کے متعلق یوں لگتا ہے جیسے یہ ایک روحانی تجربہ ہو لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ شعری تجربہ خواہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہو، زیادہ سے زیادہ اسے ایک وجدانی کیفیت تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی صورت میں الہام الٰہی نہیں کہا جا سکتا۔
’’مجھے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ شعراء کا کلام علم پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک قسم کا فطری ملکہ ہے جس کے ذریعہ وہ ایک وجدانی حالت میں شعر کہتے ہیں۔‘‘ 11
تاہم ولاسٹوز نے اسی اقتباس سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ شاعر کو عقل سے بیگانہ قرار دینے کی بجائے قاری ہی کو احمق بنا دیتا ہے:
’’جب دیوتا شاعر کے وجود میں داخل ہو جائے تو شاعر عقل سے عاری ہو جاتا ہے۔‘‘ 11
پھر ولاسٹوز سقراط پر لگائے گئے الزام کو کہ ’’وہ عقلیت پسندنہیں ہے‘‘ یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ:
’’سقراط نے اس غیر منطقی اعتقاد کو توڑ کے رکھ دیا کہ مافوق الفطرت دیوتا انسان کے ساتھ مافوق الفطرت ذرائع سے رابطہ رکھتے ہیں۔‘‘ 12
جب ولاسٹوز اس امر کا اطلاق سقراط کے اپنے ’روحانی‘ تجارب پرکرتا ہے تو ہم بڑے ادب سے پر زور طریق پر اختلاف کرتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ لوگوں کو مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والے احکامات کی حقیقت کے متعلق مصنف نے جو نتیجہ نکالا ہے اس سے صرف دو صفحات آگے چل کر وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کے بارہ میں سقراط کا تصور مختلف تھا۔ وہ کہتا ہے:
’’جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سقراط کا خدا ان کے دیوتاؤں سے قطعاً مختلف ہے۔ سقراط کا خدا دائمی خیر ہے۔ وہ کسی کے ساتھ، کسی بھی وقت کسی قسم کی بھی برائی نہیں کرتا۔ اور چونکہ کسی کو دھوکہ دینا اس کے ساتھ برائی کرنے کے مترادف ہے اس لئے سقراط کا خدا جھوٹ نہیں بول رہا۔‘‘ 13
اسی باب میں آگے چل کر سقراط کی طرف وہ عبادت کا ایک ایسا تصور منسوب کرتا ہے جو اہل ایتھنز کے عبادت کے تصور سے قطعاً مختلف ہے۔ مصنف کے نزدیک ایتھنز کے رہنے والوں کی عبادت:
’’دیوتاؤں اور انسانوں کے مابین تجارتی لین دین تک ہی محدود تھی۔‘‘ 14
ایتھنز کے باشندوں کی عبادت بہرحال مسترد کئے جانے کے قابل تھی۔ کیونکہ ان کے نزدیک دیوتا ان چڑھاووں کے محتاج تھے جو یہ لوگ قربان گاہوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ مگر سقراط اپنے خدا کے بارہ میں جسے مصنف نے غلط طور پر ’دیوتاؤں‘ سے تعبیر کیا ہے، کہتا ہے:
’’ہمارے تحائف کی اسے ضرورت نہیں،بلکہ ہم اس کی عطا کے محتاج ہیں۔‘‘ 14
یہ امر ظاہر ہے کہ سقراط اہل ایتھنز کی عبادت کا ذکر ان کے خداؤں یا دیوتاؤں کے حوالہ سے کرتا ہے جن کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سقراط جب خدا (god) کا لفظ جمع کے صیغہ میں استعمال کرتا ہے تو اس سے ہمیشہ یونانی دیوتا جو محض اہلِایتھنز کے تخیّل کی پیداوار تھے، مراد نہیں ہوتے۔ بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ godsکی اصطلاح سے بعض اوقات اس کی مراد فرشتے یا خداتعالیٰ کے ماتحت مافوق البشر دیگر روحانی وجود بھی ہوتے ہیں۔ تا ہم جب وہ اپنے روحانی تجربہ کا ذکر کرتا ہے تو جمع کے صیغہ کو ترک کر کے ایک خدا کا حوالہ دینے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ:
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ کے حضورجو خدمت بجا لانے کی توفیق ملی ہے اس سے بڑھ کر کوئی خیر کبھی تم پر نازل نہیں ہوئی۔‘‘ 15
(سقراط کو سونپے گئے مشن کے حوالہ سے یہاں خداتعالیٰ کا واحدکے صیغہ میں استعمال قابلِغور ہے)۔
سقراط کا مذہبی اور سیاسی فلسفہ آسمانی تعلیمات کے عالمی انداز سے ہمیشہ ہم آہنگ رہا۔ تاریخ کسی بھی ایسے نبی کا ذکر نہیں کرتی جس نے ملکی قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو۔ لیکن جب بھی ریاست خداتعالیٰ کی اطاعت کے راستہ میں حائل ہوئی تو انبیاء نے اسے بلاخوف و تردد رد کر دیا اور خداتعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے۔
سقراط کا بھی بالکل یہی فلسفہ تھا۔ وہ ریاست کا کامل فرمانبردار تھا لیکن جب یہ وفاداری اطاعتِ خداوندی سے متصادم ہوئی تو پھر اس کا دو ٹوک فیصلہ تھا کہ وہ اس وفاداری کو جو خالق کا حق ہے ریاست کی وفاداری پرترجیح دے گا۔ اس نے سزائے موت سنانے والے ایوان کے سامنے پورے سکون اور وقار کے ساتھ کہا:
’’ایتھنز کے لوگو! مجھے تم سے بہت پیار ہے اور میں تمہاری عزت کرتا ہوں لیکن اطاعت میں خدا ہی کی کروں گا، تمہاری نہیں۔ اور جب تک میں زندہ ہوں حکمت و دانائی کی تعلیم دینے اور اس پر عمل کرنے سے نہیں رکوں گا۔‘‘ 16
یہ بات قابل غور ہے کہ جووٹ Jowett سقراط کے تعلق میں خداتعالیٰ کا نام ہمیشہ بڑے 'G'کے ساتھ یعنیGodلکھتا ہے۔
جب اہل ایتھنز نے اس شرط پر سقراط کی سزائے موت ختم کرنے کی پیشکش کی کہ وہ ایتھنز کے دیوتاؤں کی نافرمانی اور اپنے خدا کی اطاعت کی تعلیم دے کر نوجوانوں کو بگاڑنا چھوڑ دے تو اس نے فی الفور اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس بارہ میں سقراط اوراس کے بڑے مخالف وکیل میلٹس (Meletus)کے مابین ایک طویل مکالمہ موجود ہے۔ میلٹس اس بات پر مصر ہے کہ خدائے واحد پر ایمان کے دعویٰ کے باوجود سقراط کا ایتھنز کے دیوتاؤں کا کھلم کھلا انکار سراسر دہریت کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اسے ضرور سزائے موت ملنی چاہئے۔ اس مقام پر سقراط کا خداتعالیٰ سے اطاعت کا مرتبہ ایتھنز کے مروّجہ قوانین کی اطاعت کے مقابلہ پر بہت بلند اور ارفع تھا۔ وہ اسی کی خاطر جیا اور اسی پر اپنی جان قربان کر دی۔ لیکن اپنی موت سے پہلے اس نے ایتھنز کے لوگوں کو پیغمبرانہ شان کے ساتھ یوں انذار کیا :
’’ممکن ہے تمہارا یہ خیال ہو کہ مجھے سزا دے کر تم خدا کے حضور کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کر رہے یا اس کی کسی نعمت کو جھٹلا نہیں رہے۔ لیکن یادرکھو اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تمہیں میرے جیسا انسان آسانی سے نصیب نہیں ہو گا۔‘‘ 17
یہ کہنے کے بعدسقراط ناقابل تردید دلائل کے ساتھ اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر ایک ایسی دلیل دیتا ہے جو ہمیشہ سقراط کی عظمت کو سلام کرتی رہے گی۔ جووٹ نے سقراط کے ان الفاظ کو یوں درج کیا ہے:
’’......مجھ پر الزام لگانے والے اپنی تمام تر گستاخیوں کے باوجود یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکے کہ میں نے کبھی کسی سے کوئی اجر طلب کیا ہے۔ ان کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی شہادت نہیں ہے لیکن میرے قول کی صداقت پر میرا ایک گواہ ہے، یعنی میری غربت۔ اور یہ ایک کافی گواہ ہے۔‘‘ 17
سقراط اپنے ماضی کے کردار کو اپنے موجودہ کردار کی سچائی پر بطور شہادت پیش کرتا ہے۔ پھر وہ ایک گزشتہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سقراط ہی وہ واحد آدمی تھا جس نے سارے ایوان اقتدار کی مخالفت کی جرأت کی، یہ اعلان کرتا ہے:
’’میں نے کبھی موت کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔ مجھے صرف ایک ہی خوف تھا کہ میں کسی گناہ یا غلطی کا ارتکاب نہ کر بیٹھوں۔ مگر ظلم و استبداد کی طاقتیں مجھ سے ایسا کروانے میں ناکام رہی ہیں۔‘‘ 18
ایسے مواقع پر نام نہاد معززین ذلت کا راستہ اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ لیکن سقراط ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا :
’’میں نے بڑے مشہور و معروف لوگوں کو اس وقت عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے جب انہیں سزا سنائی گئی۔ ایسے لگتا تھا کہ ان کے خیال میں اگر وہ مارے گئے تو انہیں بڑی خوفناک مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا اور جان بخشی کی صورت میں انہیں بقائے دوام حاصل ہو جائے گی.......‘‘ 19
’’پس جس کام کو میں ذلت آمیز، برا اور غلط سمجھتا ہوں اس کے کرنے کی مجھ سے توقع نہ رکھو۔ بالخصوص اب جبکہ مجھ پر میلٹس کی طرف سے غیر متقی ہونے کا الزام لگا کر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔‘‘ 19
اس کے بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ خدا کی وحدانیت پر پختہ ایمان رکھنے کے باوجود سقراط دیوتاؤں کی طرح کے بعض وجودوں پر بھی ایمان رکھتا تھا۔ لیکن جو مختلف اور اعلیٰ درجہ کی صفات وہ ان کی طرف منسوب کرتا ہے وہ اہل ایتھنز کے نام نہاد دیوتاؤں پر ہرگز اطلاق نہیں پاتیں۔ وہ ان وجودوں کا ذکر بالکل اسی رنگ میں کرتا ہے جیسے دیگر الہامی مذاہب میں فرشتوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے فرشتوں کے مفہوم میں دیوتاؤں پر ایمان خدائے واحد پر ایمان سے یقینامتناقض نہیں ہے۔ اور جب آخر میں وہ اپنے عہد وفا کا اظہار کرتا ہے تو ایتھنز کے لوگوں اور خدا کے ساتھ یہ عہد باندھتا ہے:
’’اور میں تمہارے اور اپنے رب کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں۔‘‘ 20
سقراط چھوٹے سے چھوٹے پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم اور دیگر صحفِ مقدسہ میں مذکور انبیاء جیسا ہی ہے۔ وہ خود کشی کو خداتعالیٰ کے قانون کے خلاف ایک جرم قرار دے کر اس کی مذمت کرتاہے کیونکہ اس کے نزدیک زندگی خداتعالیٰ کی عطا ہے اور وہی اس کا واحد مالک بھی ہے۔ فیڈو(Phaedo) میں وہ قوی دلائل کے ساتھ خود کشی کے قانونی جواز کے خلاف مفصّل بحث کرتا ہے۔ اس کے نزدیک خودکشی قطعی طور پر ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ پر وہ اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہتا ہے:
’’عقل کا تقاضا ہے کہ انسان کو خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے یہاں تک کہ خداتعالیٰ اس کو بلا لے جیسا کہ وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘ 21
اس کی گفتگو کے دوران کرائٹو (Crito)نے دخل اندازی کر کے زہرپلانے پر متعین ملازم کی طرف سے کہا کہ زیادہ باتیں کرنے کی وجہ سے زہر کا اثر کم ہو جائے گا اور دو تین بار زہر دینا پڑے گا۔ سقراط نے اس تنبیہ اور اپنی اس تکلیف کی جو اسے پہنچ سکتی تھی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کی اور ملازم سے کہا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور دو تین بار زہر پلانے کے لئے تیار رہے۔
سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے سقراط نے کہا :
’’میرے منصفو! اب میں تمہاری بات کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ ’منصفو‘ کہہ کر وہ اپنے ان مداحوں کو مخاطب کرتا ہے جو اس کے آخری لمحات میں اس کے گرد جمع تھے۔ ’’اور تمہیں دکھاتا ہوں کہ وہ شخص جو ایک سچے حکیم اور فلسفی کے طور پر زندہ رہا جب مرنے لگا ہے تو اسے سکینت و اطمینان حاصل ہے اور موت کے بعد دوسری دنیا میں بھی بہترین خیر و برکت کے حصول کی امید کر سکتا ہے۔‘‘ 22
یو ں سقراط ایتھنز کے لوگوں کو علم و معرفت کا درس دیتا رہا یہاںتک کہ اس نے زہر کا پیالہ اپنے لبوں سے لگا لیا۔ آہستہ آہستہ اس کے جسم سے جان نکل رہی تھی۔ لیکن جب تک اس میں بولنے کی سکت رہی وہ اپنا مقدس فریضہ برابر ادا کرتا رہا یہاںتک کہ موت نے اسے خاموش کر دیا۔
یوں خدا کے ایک عظیم الشان نبی کی زندگی اختتام کو پہنچی۔ سقراط کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح ہے۔ اس لحاظ سے وہ حضرت بدھ علیہ السلام کا ہمعصر تھا اور حضرت بدھؑ ہی کی طرح اس نے بھی اپنی تعلیمات کے بارہ میں خود کچھ نہیں لکھا بلکہ اس کے ساتھیوں اور ہمعصروں مثلاً افلاطون نے اس کی تعلیم اور زندگی کا ریکارڈ رکھا جو بعد ازاں مکالموں کی شکل میں ضبط تحریر میں لایا گیا۔ حضرت بدھ ؑ پر بھی برہمنوں کے دیوتاؤں کے انکار کی وجہ سے دہریت کا الزام لگایا گیا تھا۔
سقراط نے فلسفہ کی جو عظیم ترین خدمت سرانجام دی اس کا خلاصہ چیمبرزانسائیکلوپیڈیا میں درج ذیل الفاظ میں دیا گیا ہے:
’’فلسفہ کو آسمان کی بلندیوں سے اتار کر ایک عام انسان کی زندگی سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلہ میں سقراط کی مخلص اور عظیم کوششیں (جیسا کہ سسرو Cicero نے کہا ہے) اس کے عہد میں ایک نیا علمی رخ اختیار کر گئی تھیں۔‘‘ 23
’’اسے دنیوی آسائشوں سے کوئی رغبت نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ تارک الدنیا بھی نہ تھا۔‘‘ 23
سقراط پر نازل ہونے والے الہام کی حیثیت کے بارہ میں مندرجہ بالا مضمون کا مصنف رقمطراز ہے کہ:
’’وہ آسمانی نشان جس کو سقراط ما فوق الفطرت آواز کہا کرتا تھا اور جو اکثر اس کی رہنمائی کرتی تھی اس کے متعلق بہت بحث کی گئی ہے۔ زینوفون کے نزدیک یہ آواز سقراط کو کچھ کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتی تھی۔ افلاطون کے خیال میں اسے کچھ کرنے سے تو باز رکھتی تھی لیکن کسی عمل کا محرک نہیں تھی۔ البتہ بعد میں آنے والے مصنفین بالخصوص عیسائیت کے دور میں بعض لوگوں نے اسے ایک نہایت ذہین اور ساتھ رہنے والی شیطانی روح کا وجود قرار دے دیا۔ مگر اس کی کوئی بھی سند افلاطون یا زینوفون کے پاس نہیں۔‘‘ 23
’’........یوں معلوم ہوتاہے جیسے سقراط کو مستقبل میں ہونے والے واقعات کا یقینی علم ہو جاتا تھا جو اس کے خیال میں الٰہی انذار کے مترادف تھا اور ایسا ممکن ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بقول ان کے سقراط کو کبھی کبھار یہ وہم ہوتا تھا کہ اسے کچھ آوازیں سنائی دے رہی ہیں جیسا کہ بعض اوقات ایک صحیح الدماغ انسان بھی اس قسم کے تجربہ سے گزر سکتا ہے۔‘‘23
یوں سقراط کے الہامات کو ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے وہم قرار دے کر ردّ کر دیا گیاہے۔ درحقیقت سقراط کی شخصیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر کسی قسم کا کوئی تضاد ہے تو وہ بہرحال مصنف کے ذہن میں ہے جو یہ کہہ کر بظاہر سقراط کا دفاع کرتا ہے کہ اس کے وہم اتنے برے نہیں تھے جیسا کہ ایسے ذہنی معذوروں کے ہوا کرتے ہیں جو دماغی خلل کا شکار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ صحیح الدماغ لوگ بھی سقراط کی طرح بعض اوقات وہم کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سقراط کے ساتھ یہ بھی کیا خوب ہمدردی ہے کہ ایک جدید مصنف نے سقراط کی شخصیت کو تسلیم تو کیا ہے لیکن سقراط کے خدا پر ایمان کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ تبصرہ اپنی جگہ خواہ کتنا ہی ہمدردانہ کیوں نہ ہو، سقراط کے لئے اسے خراج تحسین نہیں کہا جا سکتااور نہ ہی سقراط کو اس سلسلہ میں کسی معذرت کی ضرورت ہے۔ کیا سقراط سے پہلے اور بعد میں آنے والے سب انبیاء کے ساتھ یہی سلوک روا نہیں رکھا گیا؟ کیا ان میں سے ہر ایک پر اس کی قوم نے یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ اوہام کا شکار ہے؟ اگرچہ اتنی تہذیب اور شرافت سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا گیا جیسا کہ مذکورہ بالا تحریر کے مصنف نے سقراط پر لگایا ہے۔ ایسے تمام الزام تراش خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ جن انبیاء پر وہ یہ تہمت لگا رہے ہیں وہ نہ تو کسی دماغی کمزوری کا شکار ہیں اور نہ ہی اخلاقی اعتبار سے کم تر ہیں۔ یہ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ دانا لوگ تھے۔ صحت مند دل ودماغ کے مالک تھے اور اس معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جس میں وہ اپنا بچپن گزار کر بلوغت کی عمر کو پہنچے تھے۔ دعویٔ نبوت سے پہلے کبھی بھی ان پر یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ ان کا طرز عمل نجومیوں جیسا تھا اور نہ ہی دعویٰ کے بعد کسی نبی کے متعلق اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ وہ فریب نظر کا شکار ہوا ہو۔ اوہام تو غیریقینی، بے ربط اور بے جوڑ ہوا کرتے ہیں۔ وہم میں مبتلا بعض لوگوں کو شاید کچھ آوازیں یہ پیغام دیتی ہیں گویا وہ خدا کی طرف سے ہیں۔ لیکن ان آوازوں میں کبھی بھی کوئی علم و حکمت اور دانائی کی بات نہیں پائی جاتی اور نہ ہی ان سے کبھی کسی نے کوئی ایسا طرز حیات سیکھا جس کو دوسرے بھی اپنا سکیں۔ اور جو کچھ وہ سنتے ہیں اس میں کوئی منطق نہیں پائی جاتی اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ معقولیت سے خالی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہم کبھی معقولیت کو جنم نہیں دے سکتا۔
وہم کو پیشگوئی کہنا دراصل وحی ٔ الٰہی کے مقام اور مرتبہ کو گرانے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔ انبیاء کا تجربہ تو بالکل مختلف ہوتا ہے۔ سچائی، دانائی اور معقولیت ان کی امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں جبکہ ان کا مخالف معاشرہ بے بنیاد عقائد، جھوٹ اور توہم پرستی سے عبارت ہوتا ہے۔ انبیاء کا پیغام ہمیشہ ایک اعلیٰ ضابطۂ اخلاق پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے لبوں سے حکمت کے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔ وہ مجسّم نیکی اور تقویٰ ہوتے ہیں اور ہمیشہ معقول بات کرتے ہیں۔ وہ اخلاق فاضلہ، انصاف، اعتدال، صلح، شفقت علیٰ خلق اللہ، صبر، خدمت اور قربانی کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا ایسی مقدس تعلیم انہیں اپنی وہمی کیفیت میں سوجھتی ہے؟ کیا خوب اوہام ہیں! کاش انبیاء پر ایسا الزام لگانے والوں کو اپنی کسی بیماری مثلاًشدید بخار یا ٹائیفائیڈ وغیرہ کے دوران محسوس ہونے والے اوہام یاد ہوتے۔ کیا کبھی انہیں کسی وقت ہذیان کے دوران کوئی ایسا اعلیٰ ضابطۂ حیات ملا ہے جس کی صداقت شک وشبہ سے بالاہو اور جس میں بنی نوع انسان کیلئے کوئی ایسا پیغام ہو جسے سنجیدگی سے قبول کیا جائے؟
ایک صحتمند دماغ میں معقولیت اور وہم کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ کاش سقراط پر وہم میں مبتلا ہونے کا الزام لگانے والے خود اپنے تجربات کی روشنی میں مزید وضاحت کر دیتے۔ کیا کسی صحیح الدماغ شخص نے کبھی ہذیان کے دوران کوئی فلسفۂ حیات سیکھا ہے؟ کا ش مصنف کو یاد ہوتا کہ سقراط نے حکمت و دانائی، نیکی اور تقویٰ، معقولیت اور ایمان کا جو پاک نمونہ دکھایا تھا وہ اس نے انہی آوازوں سے سیکھا تھاجنہیں وہم قرار دیا جاتا ہے ! اگر وحی و الہام پر اس کے ایمان کو وہم قرار دے کر ردّ کر دیا جائے تو پھر اس کے تمام فلسفۂ حیات اور اس کی ساری حکمت و دانائی کو اسی بنیاد پر مسترد کرنا پڑے گا۔ سقراط کو کبھی بھی اس کے معقولیت کے مقام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ہم سقراط کی شخصیت کے ہر پہلو کے معترف ہیں۔ اس کا کردار نہایت اعلیٰ تھا اور مطمحِ نظر عظیمالشان۔ اس نے ایسی پاکیزہ زندگی گزاری جو اوہام پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس نے سلامتی کے ساتھ جنم لیا، سلامتی کے ساتھ زندہ رہا اور سلامتی کے ساتھ ہی مسکراتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی جبکہ اس سے محبت کرنے والے اس کے گرد کھڑے سسکیوں، آہوں اور چیخوں میں اسے الوداع کہہ رہے تھے۔ ایتھنز نے کبھی اس جیسی پاک روح کو رخصت ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ خدا اس سے راضی ہو اور اس پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرمائے۔ مگر اس کے قاتلوں پر افسوس کہ ایتھنز کو سقراط جیسا عظیم انسان کبھی دوبارہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
1. The New Encyclopaedia Britannica. Vol 24, 15th ed.
2. The New Encyclopaedia Britannica. Vol 25, 15th ed.
3. GUTHRIE, W.K.C. (1950) The Greek Philosophers. Methuen & Co, p.72
4. GUTHRIE. W.K.C. (1950) The Greek Philosophers. Methuen & Co, p.79
5. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.200
6. GRAYLING, A.C. (1995) Philosophy - A Guide Through The Subject. Oxford University Press, Oxford, p.360
7. GRAYLING, A.C. (1995) Philosophy - A Guide Through The Subject. Oxford University Press, Oxford, p.364
8. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.157
9. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p. 167
10. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.168
11. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.169
12. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, pp. 170-171
13. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p. 173
14. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.174
15. VLASTOS, G. (1991) Socrates, Ironist and Moral Philosopher. Cambridge University Press, Cambridge, p.175
16. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, p. 459
17. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, pp.460-461
18. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, p.462
19. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, p.464
20. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, pp.464-465
21. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, pp.493-494
22. JOWETT, B. (1989) Plato, The Republic And Other Works. Anchor Press, New York, p.495
23. Chambers Encyclopaedia (1970) New Revised Edition Volume XII Roskilde-Spahi. International Learning Systems Corporation Limited, London, p.673


باب دوم

ہندومت
بدھ مت
کنفیوشن ازم
تائوازم
زرتشت ازم
دکھ اور الم کا مسئلہ

ہندو مت
مذاہب کی برادری میں ہندومت اپنی ذات میں منفرد ہے۔ ہندو لٹریچر میں الہام کا مفہوم تلاش کرناجو روایتی الہامی مذاہب میںملتا ہے ایک مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہندومت میں الہام کا ایک جدا گانہ تصور ہے جو صرف ویدوں تک ہی محدود ہے اور دوسری طرف ان کے ہاں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے خدا کو انسانی شکل میں متمثل دکھایا گیا ہے۔
ہر چند کہ عیسائیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تصور بھی کسی حد تک ہندومت میں حضرت کرشن علیہ السلام کے تصور سے مشابہت رکھتا ہے لیکن یہ مشابہت سطحی نوعیت کی ہے۔ یسوع مسیح کی شکل میں ابنیت کے ظہور کے باوجود عیسائیوں کے نزدیک کائنات کا اختیار باپ کے پاس ہی ہے اور یسوع کی انسانی شکل میں تجلی دراصل باپ کی صفات کا ظہور ہی ہے۔ عیسائیت میں روح القدس کے نام سے ایک تیسرا وجود بھی ہے جو ان دونوں سے الگ فی ذاتہٖ تثلیث کا جزوِلاینفک ہے۔
تا ہم ہندومت میں کرشن کی صورت میں ’برہما‘ کے ظہور کا عقیدہ اتنا واضح نہیں ہے۔ جب اس کا اوتار کرشن زمین پر موجود ہوتا ہے تو کیا وہ اس وقت بھی اپنے عرش سے زمین ا ور آسمان پر حکمرانی کر رہا ہوتا ہے۔ یا پھر یہ کہ کرشن ہی انسانی روپ میں بحیثیت خدا زمین سے کائنات کی حکمرانی کرتا ہے۔ یا یہ کہ کرشن محض ایک بت تھا یا ایک ظل، اور خدا خود ہمیشہ کی طرح کائنات کا حاکم تھا۔ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو حل طلب ہیں۔
پھر جہاں تک الہام الٰہی کا تعلق ہے عیسائیت اس سلسلہ میں باقی مذاہب سے متفق ہے کہ الہام آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ تا ہم ہندو مت میں الہام کا تصور باقی مذاہب سے مختلف ہے۔ اس کے نزدیک خدا انسانوں کے لئے بطور نمونہ خود انسانی شکل میں متمثل ہوتا ہے۔ اس کام کیلئے اسے کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
قدیمی رشیوں کا معاملہ، جن کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ ان پر وید نازل ہوئے، مختلف ہے۔ ’رشی‘ ایک ہندو اصطلاح ہے اس سے ایسے مذہبی بزرگ مراد ہوتے ہیں جو دنیا سے قطع تعلق کر لیں اور خدائی منشا کے تابع ہو جائیں۔ اگرچہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ وید الٰہی تعلیم پر مشتمل ہیں لیکن رشیوں کے بارہ میں کوئی ایسی واضح تفاصیل دستیاب نہیں ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ ان پر یہ پیغام وحی کی صورت میں نازل ہوا تھا۔ یہ سوال کہ کیا رشیوں کے وجدان کو حقیقت میں الہام کہا جاسکتا ہے شاید ہمیشہ کیلئے ایک معمہ ہی بنا رہے۔ جو کچھ ہمیں ہندو علم کلام سے پتہ چلتا ہے اس کی بنیاد ان کے عقیدہ پر ہے۔ اگرچہ مختلف علماء رشیوں کے مختلف زمانے بتاتے ہیں لیکن اس دعویٰ پر سب متفق ہیں کہ رشی ہی قدیم ترین انسان تھے۔
غالب امر یہ ہے کہ ہندومت کی یہ تشریح محض انسانی تخیّل کی پیداوار ہے۔ انبیاء کے بعد آنے والے لوگ انبیاء کی تعلیمات میں ہمیشہ تحریف و تلبیس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہندو انبیاء کے بعد ان کے پیروکار وں کی آنے والی نسلوں نے بھی ان کی تعلیم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہو۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ویدوں میں تحریف ہوئی ہے تو ہماری ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ ویدوں کی تمام تر تعلیمات بد ل دی گئی ہیں۔ مذہبی صحیفوں کے ساتھ خداتعالیٰ نے کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیا۔ اصل صداقت کسی نہ کسی حد تک انسانی تحریف و دستبرد سے ہمیشہ محفوظ رہی ہے۔ اس اصول کی روشنی میں ہر مذہب کے اصل ماخذ کا بغور مطالعہ ہمیشہ سود مند ثابت ہوتا ہے۔ ہندومت کی گہری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک خالص بنیادی عقائد کا تعلق ہے یہ مذہب باقی الہامی مذاہب سے چنداں مختلف نہیں ہے۔
سیربین (Kaleidoscope)میں معمولی سی حرکت سے منظر ڈرامائی طور پر بدل جاتا ہے۔ ’مہا بھارت‘ اور ’بھگوت گیتا‘ سے اس بات کی کافی شہادت پیش کی جا سکتی ہے کہ حضرت کرشن علیہ السلام نے نہ تو کبھی خدا ئی کا دعویٰ کیا اور نہ ہی خود کولافانی کہا۔ مذہب کی معلوم تاریخ میں سلسلۂ انبیاء میں سے حضرت کرشن علیہ السلام کی بحیثیت ایک نبی کے شناخت چنداں مشکل نہیں ہے۔
حضرت کرشن علیہ السلام کی مستند سوانح سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 1458قبل مسیح میں عام بچوں کی طرح بسوڈیبا (Basudeba) اور اس کی بیوی دیبوکی (Deboki)کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں (والدین) نے بچے کا نام ’کنہیا‘ رکھا۔ ’کرشنا‘ کا نام جس کے معنی ’روشن کیا گیا‘4 کے ہیں انہیں بعد میں دیا گیا۔ ان کے بارہ میں مشہور ہے کہ ان کا بچپن عام بچوں جیسا تھا سوائے اس کے کہ ان کے اندر ایک خارق عادت رنگ پایا جاتا تھا جیسا کہ انبیاء کے بارہ میںبھی ان کے پیروکار ایسے ہی عقائد رکھتے ہیں۔ وہ عام انسانوں کی طرح معاملت کرتے تھے۔ عام انسانوں کی طرح ہی انہوں نے زندگی گزاری اور عام انسانوں کی طرح وہ بھی حوائج ضروریہ کے محتاج تھے۔ بعض ہندو تجزیہنگاروں کے مطابق بچپن میں ان سے کبھی کبھار بچپنے کی حرکات بھی صادر ہو جایا کرتی تھیں۔ جیسا کہ تجزیہنگاروں کے بقول وہ گھر سے سیر دو سیر مکھن بھی چرا لیا کرتے تھے۔ تا ہم اسے ہم حضرت کرشن کا کوئی جرم نہیں سمجھتے۔ کیونکہ رحمدل بچے اپنے غریب ساتھیوں کی خاطر جائز سمجھتے ہوئے ایسا کر ہی لیتے ہیں۔ ایسے بچہ پر تو پیار آتا ہے نہ یہ کہ اس سے نفرت کی جائے۔ یہ سب کچھ بشریت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور کسی طرح بھی خدا کے دوسرے انبیاء سے مختلف نہیں۔ بڑے ہو کر وہ ایک مضبوط اور مثالی رہنما کے طور پر ابھرے اور میدان جنگ میں تاریخ ساز فتوحات کی حامل فوجوں کے سپہ سالار بنے۔ وہ اپنی زندگی میں ایک عالی مرتبت روحانی نمونہ بن کر سامنے آئے اور پھر عمر بھر ایک عظیم مصلح کا کردار ادا کیاجس کی مثال ہندوستان میں خال خال ہی ملے گی۔ انہوں نے لوگوں کونیکی کی تلقین کی اور بدی سے روکا۔ ان کے نزدیک ضروری تھا کہ شریر لوگوں کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ ایسے لوگ مذہب کو ختم کر کے الحاد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
جہاںتک حضرت کرشن ؑکے جسمانی خدوخال کا تعلق ہے وہ کچھ انوکھے سے نظر آتے ہیں۔ ہندوفنکاروں نے ان کی جو تصویر بنائی ہے اس میں ان کے دو کی بجائے چار ہاتھ ہیں۔ اسی طرح ان کے پر بھی دکھائے گئے ہیں۔ اکثر تصاویر میں انہیں بانسری بجاتے دکھایا گیا ہے۔ نیز خوش رنگ کپڑوں میں ملبوس کچھ خوبرودوشیزائیں ان کے ارد گرد بیٹھی دکھائی گئی ہیںجو ’’گوپیاں‘‘ کہلاتی ہیں۔ گوپی ایک اصطلاح ہے جو گائیں پالنے والی عورت کیلئے مستعمل ہے۔ اسے چرواہن بھی کہتے ہیں۔یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود کرشن کا لقب بھی ’’گوپال‘‘ تھا جس کا مطلب ہے ’’گائیں پالنے والا‘‘۔ اس کو اگر اسرائیلی انبیاء کیلئے بائیبل کی اصطلاح یعنی ’’بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے چرواہے‘‘ کے پس منظر میں پڑھا جائے تو مشابہت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ چونکہ ہندوستان میں بھیڑوں کی بجائے گائے عام ہے اس لئے اگر عوام الناس کو گائے سے تشبیہ دی جائے اور کرشن کو گائیوں کا رکھوالا کہا جائے تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اسی طرح ان کے حواریوں کو گوپیاں کہا جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔
حضرت کرشن ؑ کے بارہ میں دیومالائی قصوں کو ظاہر پر محمول کرنے کی بجائے محاورات اور استعاروں کے رنگ میں سمجھنا چاہئے۔ ان کی تصویر میں ان کے چار ہاتھوں اور پروں سے علامتی طور پر وہ غیر معمولی صلاحیتیں اور قویٰ مراد ہو سکتے ہیں جو خداتعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ودیعت فرماتا ہے۔ قرآن کریم بھی پیغمبر ِاسلام کے تعلق میں پروں کا ذکر فرماتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کو خدا کی طرف سے مومنوں پر رحمت کے پروں سے سایہ فگن ہونے کا ارشاد ہے۔ اسی طرح جہاں فرشتوں کے پروں کی مختلف تعداد کا ذکر ملتا ہے تو مراد ان کی خصوصیات ہوتی ہیں نہ کہ ظاہری پر۔
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دینی محاوروں اور تمثیلات کو ان کے پیروکار اس حدتک لفظی مفہوم پر محمول کر لیتے ہیں کہ اصل حقیقت نظرانداز ہو جاتی ہے۔ حضرت کرشن ؑ اور ان سے منسوب تصورات بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔
حضرت کرشن ؑ کو ’’مرلی دھر‘‘ یعنی بانسری بجانے والا بھی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ ’بانسری‘ واضح طور پر الہام کی علامت ہے۔ کیونکہ وہ دھن جو بانسری سے نکلتی ہے دراصل بانسری کی اپنی دھن نہیں بلکہ اسے بانسری میں پھونکا جا تا ہے۔ بانسری سے خود بخود کوئی دھن نہیں نکلتی۔ پس بانسری خود کرشن ؑ تھے جنہیں خدا کی بانسری کے طور پر دکھایا گیا ہے اور خدا نے جو سُر بھی اس میں پھونکا، انہوں نے بعینہٖ اسے آگے دنیا کو پہنچایا۔ اس لئے حضرت کرشنؑ کو دیگر انبیاء سے کسی طرح بھی منفرد اور الگ قرار نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے خدا کے پیغام کو دیانتداری کے ساتھ من وعن دنیا تک پہنچایا۔ اس طرح دنیا کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ انبیاء اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو انہیں خدا کی طرف سے الہام کیا جاتا ہے وہی دنیا کو پہنچاتے ہیں‘ بانسری ان کی دیانتداری کی بلیغ ترین علامت ٹھہرتی ہے۔
آئیے ہندومت کے ایک اور بنیادی عقیدہ یعنی تناسخ کا جائزہ لیں۔ یہ عقیدہ چند ایک دیگر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے جن میں سے نمایاں ترین بدھ مت ہے۔ تناسخ کے علاوہ ہندو فلسفہ میں دو اور عقائد بھی شامل ہیں جن میں سے ایک تو روح اور مادہ کا اور دوسرے پرمیشر اور اس کے ماتحت دیوتاؤں کا ابدی ہونا ہے اس فلسفہ کی رو سے زمین پر زندگی نئی تخلیق نہیں ہے۔ اگرچہ تمام جاندار اپنی ذات میں انادی نہیں ہیں مگر انادی اجزا سے بنے ہیں۔ دھرتی ماتا ان کے نزدیک محض ایک ایسی لیبارٹری کی حیثیت رکھتی ہے جہاں روح اور مادہ کو باہم ملانے سے مختلف شکلیں ظہور میں آتی رہتی ہیں۔ پس وہ خدا کی تخلیقی قدرتوں کو کسی پنساری یا عطار کی مہارت سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ خداتعالیٰ اپنی ذات میں ایسا خالق ہے جو عدم محض سے کوئی چیز تخلیق نہیں کر سکتا۔
ان کے نزدیک کائنات میں زندگی کے تین مدارج ہیں۔ سب سے بلند درجہ دیوتائے اعلیٰ ’’برہما‘‘ کا ہے جس کے ساتھ بہت سے دیوتا اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کائنات کے مختلف نظام چلاتے ہیں۔ ان میں بعض بادلوں کے لانے اور آسمانی بجلی کی گرج چمک کے ذمہ دار ہیں۔ کچھ دوسرے دیوتا نظام فطرت کو چلانے کے ذمہ دارہیں۔ وہ اپنے اپنے دائرۂ کار میںکسی حد تک بااختیار ہیں اور شاذ ہی ایک دوسرے سے الجھتے ہوں۔ تا ہم کبھی ان کا متصادم ہونا کائنات کیلئے انتہائی خطرناک ہوتاہے۔ آسمانوں میں طوفان برپا کئے جاتے ہیں اور زمین پر غضب نازل ہوتا ہے۔ ان دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور ان کی ناراضگی بنی نوع انسان کو مہنگی پڑتی ہے۔ اس طرح دولت کے دیوتا ہیں، بارآوری کے اور صحت و طول عمری کے دیوی دیوتا ہیں۔ نہ جانے کس کس چیز کے دیوی دیوتا ہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک اس درجہ کے افسانوی دیوتا ابدیّت کے حامل ہوتے ہیں۔
جاندار اشیاء کا دوسر ا یا درمیانی درجہ مادہ اور روح پر مشتمل ہے۔ ان کے باہمی ملاپ سے حیات کا ادنیٰ درجہ معرض وجود میں آتا ہے جس کا تعلق زمین پر موجود زندگی سے ہے۔ اس ہندو فلسفہ کے مطابق دیوتاؤں میں سے صرف اعلیٰ ترین دیوتا ’’برہما‘‘ کو ہی یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ روح اور مادہ کو جوڑ کر زمین پر زندگی پیدا کر سکے۔
ہندو فلسفہ کے لٹریچر میں ویدوں کی تعلیمات کے حوالہ سے یہ بحث بہت تفصیل سے ملتی ہے کہ یہ سلسلہ کب اور کیوں شروع ہوا۔ ویدوں کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز اس طرح نہیں ہوا جس طرح جدید سائنس بیان کرتی ہے۔ یعنی زندگی کئی ارب سال پہلے چٹانوں کی سطح اور سمندروں میں موجود قدیم ترین پانیوں میں بہت ابتدائی نامیاتی مرکبات اور خلیات سے پیدا نہیں ہوئی۔ چنانچہ پروفیسر جے ورمن (J.Verman)اپنی کتاب " The Vedas"میں لکھتے ہیں :
’’ایسے دانشور جن کے ذہنوں میں ڈارون کا غیر مستند نظریۂ ارتقا مسلط ہو چکا ہو ا ن کیلئے الہام کے اس راز کو سمجھنا مشکل ہے۔ تا ہم ہمارے پاس ایسی ٹھوس شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی حالت ابتدائے زمانہ میں بہتر تھی اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے سمجھا جائے کہ قبل از تاریخ کا انسان یقینا وحشی ہو گا۔ ویدوں کے رشی سادہ لوح لوگ نہیں تھے وہ تو شاعر، اہل وجدان اور روحانیت سے مرصع تھے۔ ان کے شاگرد جو خود بھی رشی تھے، منتروں کو سنتے ہی ان کا حقیقی مفہوم سمجھ لیتے تھے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پھر جوں جوں لوگوں کی ذہنی اور نفسیاتی قوتیں انحطاط پذیر ہونے لگیں رشیوں کی نسلیں بھی معدوم ہونے لگیں۔‘‘ 1
پروفیسر جے۔ ورمن کا خیال ہے کہ موجودات کے الٰہی منصوبہ کی رو سے یہ زمین اور اس پر زندگی ازل سے بار بار پیدا ہوتی چلی آ رہی ہے۔ زمین کی ہر نئی پیدائش پر ہر بار ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور زندگی کے ہر نئے آغاز پر ’برہما‘ رشیوں پر آفاقی آئین کے طور پر ویدوں کو نازل کرتا ہے جن کی روشنی میں رشی زمین پر بسنے والے دوسرے انسانوں کیلئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اس طرح زندگی کا آغاز انسانوں سے ہوا نہ کہ حیات کی دوسری انواع سے۔
اسی کتاب کے ایک اور اقتباس سے دنیا کی چھت پہ بیٹھے ہوئے چار رشیوں کا مقام مزید واضح ہو جاتا ہے کہ وہ مستقبل کی انسانی نسلوں کیلئے کیا چھوڑ کر جا رہے تھے:
’’چاروں بزرگ اہل نظر یعنی اگنی‘ وایو‘ سوریا‘ اور انگیرا جو درحقیقت اعلیٰ ترین دانش اور ممتاز روحانی شان کے حامل انسان تھے ان کے دل تخلیق کے خوشکن مناظر کو دیکھ کر وجد میں آگئے اور ان کی نظریں بام دنیا سے تبت کی منوسمرتی جھیل کا نظارہ کرنے لگیں جو علاقہ میں مقدس شعائرکی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سر زمین دیوتاؤں کی سرزمین ہے اور ہمالیہ کے اس پار عظیم دریاؤں گنگا، سندھو، برہما پترا اور شاتا درو کا عظیم الشان سرچشمہ ہے جو فطرت کے پرکشش مناظر اور پروقار برف پوش چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے۔ ان (رشیوں) کے دل ایک سرور اور کیف کے عالم میں ڈوب گئے۔ ان کے حواس مصفّا اور تیز ہو گئے۔ ان کے ذہن مزید حصول علم کے لئے مجسم پیاس بن گئے۔ تب عرفان کی یہ مقدس حالت گہرے گیان اور ریاضت میں منتقل ہو گئی۔ پھر انہوںنے مادّی دنیا سے بالکل مختلف حقائق کا مشاہدہ کیاا ور اپنے اندر سے ایک آواز سنی جس کے ساتھ ہی حقیقی سچائی ان پر منکشف ہوگئی۔‘‘ 2
پس ویدوں کی تعلیمات سے پنڈت جو کچھ سمجھے ہیں اس کی رو سے وہ ہمیں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ زندگی ارتقا کی بجائے انحطاط پذیرہے۔ چار عظیم ابتدائی رشیوں کے بعد سے پیدا ہونے والی نسلوں کا مقدر یہی ٹھہرے گا کہ وہ ابتدائی انسانوں کے بالمقابل اپنی تمام تر صلاحیتوں میں زوال پذیر ہوں۔ انسانی صلاحیتوں کا گرتا ہوا یہ گراف ان کے اخلاقی رویہ پر بھی حاوی ہو گا۔ کرموں اور جونوں کا یہ ہندوفلسفہ بنی نوع انسان کے مستقبل کیلئے یقینا ایک برا شگون ہے۔ پروفیسر ورمن کے بقول:
’’آنے والی زندگی کے انحطاط سے یہ مراد ہے کہ نوع انسان کی بجائے کسی ادنیٰ نوع میں پیدا ہونے کیلئے تیار رہا جائے۔ یہ کرموں کا پھل ہے اور بداعمالیوں کی سزا۔ اور یہ سزا مختلف انسانی صلاحیتوں، احساسات اور قویٰ سے محرومی کی شکل میں ملتی ہے۔ یہ کرموں کا فلسفہ ہے اسی کے تحت الٰہی قوانین کام کرتے ہیںاور اسی کو قوانین قدرت کی حکمرانی کہتے ہیں۔‘‘ 3
ہم سمجھتے ہیں کہ اس فلسفہ کو ویدوں کی تعلیمات کی طرف منسوب کر کے ہندوؤں نے ویدوں کی حرمت سے کوئی انصاف نہیں کیا۔ اگر ایسے بیانات کو سنجیدگی سے لیا جائے توزندگی کے آغاز کی کہانی کو از سر نو لکھنا پڑے گا۔ اس نئے خیال کے مطابق زندگی کی ابتداء کے بارہ میں کرموں کا کردار یقینا بہت ہی مرکزی حیثیت اختیار کر لیتاہے۔ زندہ رہنے کیلئے جدوجہد ’بقائے اصلح‘ اور جینیاتی تغیرات جن کے بارہ میں نظریہ ٔ ارتقا کے حامی رطب اللسان رہتے ہیں کو یکسر مسترد کرنا پڑے گا۔ یہ اصطلاحیں محض سائنس فکشن کی من گھڑت اختراعات ٹھہریں گی جن کے حق میں کوئی ٹھوس شہادت نہیں ملتی۔ زندگی کے معمہ کا واحد حل صرف کرموںتک محدود ہو کر رہ جائے گا۔
چنانچہ اس اشارے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم بآسانی یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ زندگی کا سفر اعلیٰ درجہ کے مقدس انسانوں کی پیدائش سے شروع ہوا مگر اگلی نسلیں ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر انحطاط پذیر ہونا شرع ہو گئیں اور زمین کو گناہوں سے بھرنے میں انہیں زیادہ دیر نہیں لگی۔ گناہ کے ساتھ ہی عذاب اترا اور وہ لوگ تیزی سے انسانیت کے مقام سے گرنا شروع ہو گئے۔ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل ہوتے دیکھ کروہ شدید غم اور سکتے میں آ گئے ہوں گے۔ مگر تنزل کا الزام ان کے اپنے کئے ہوئے گناہوں کے سر ہی تھا۔ کرموں کے قانون کا نفاذ تو ہو کر رہنا تھا اور گناہوں نے بھی بہرحال اپنا خراج وصول کرنا تھا۔ چنانچہ افزائش نسل کے پس منظر میں انسانی بچوں کی بجائے جانوروں کی مختلف انواع کا جنم لینا ان کے مشاہدے میں کوئی انوکھی بات نہیں ہو گی۔
لیکن شاید ہندومت کے علماء بھی اصل انواع اور کرموں کے قانون کو اس طرح پیش نہیں کرتے۔ اس پر کسی واضح بیان کی عدم موجودگی میں ان کے پاس اپنے عمومی اعتقاد کے اندر رہتے ہوئے کچھ ممکنہ تاویلات کا راستہ ہی رہ جاتا ہے۔ شاید وہ زمین پر زندگی کے دقیق رازوں کو مختلف انداز میں آشکار ہوتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ چاروں رشیوں کے زمانہ کے بعد انسان جونہی زوال کا شکار ہوا تو اس کے تولیدی قویٰ کمزور ہونا شروع ہو گئے ہوں گے اور بانجھپن کی وبا پھوٹ پڑی ہو گی۔ انسانوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہو گی اور حیران کن طور پر جانوروں کی مختلف انواع سطح زمین پر نمودار ہونے لگی ہوں گی۔
ہاتھیوں اور شیروں کے نمودار ہونے پر زمین مختلف جگہوں سے شق ہونے لگی۔ اسی طرح کتے بلیاں،لگڑ بگڑ اور بھیڑیے ظاہر ہونے لگے۔ پانی میں ہر رنگ، شکل اور جسامت کی مچھلیاں نمودار ہونے لگیںاور کچھوے بھی پیچھے نہیں رہے ہوں گے۔ پھر حشرات الارض ٹڈی دل کی طرح دنیا میں آن موجود ہوئے ہوں گے۔
زندگی کی ان ظاہری شکلوں کے علاوہ نظر نہ آنے ولے وائرس اور بیکٹیریا کی بادشاہت تیزی سے پھیلی ہو گی۔ مگر افسوس ! کہ چاروں رشیوں کی تمامتر کوششوں اور انذار کے باوجود انسان نے اطاعت سے انکار کر دیا اور ویدوں کی تعلیمات سے بغاوت جاری رکھی۔ ان کے گناہوں کے طبعی نتیجہ کے طور پر انسانوں کا جانوروں کی جونوں میں ظاہر ہونے کا سلسلہ ایک وحشیانہ انتقامی کارروائی کا رنگ اختیار کرتا چلا گیا۔
جب سطح زمین اور سمندروں کی گہرائیاں ناکافی ثابت ہوئیں تو انسان نے انسان کے اندر بھی جنم لینا شروع کر دیا۔ Flatworms, Tapeworms, Roundworms اور Threadworms کے بارہ میں کیا کہیں گے جو شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ پھر وائرس اور بیکٹیریا کی بیشمار اقسام ہیں جن کے روپ میں معتوب انسان نے خون کی نالیوں، خلیائی بافتوں اور اعضائے رئیسہ میں جنم لیا ہو گا۔ حتیٰ کہ ہڈیوں کے گودے میں بھی انسان کو اس کے اپنے ہی ہاتھوں سزادینے کا کتنا نرالا طریق ہے لیکن افسوس کہ انسان بقول ان کے پھر بھی اسے سمجھ نہ سکا۔
بے شک بہت دلچسپ نظام ہے جس کی تائید میں پروفیسر ورمن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ٹھوس شہادتیں موجود ہیں۔ اس میں صرف واحد ننھا سا سقم یہ نظر آتا ہے کہ انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جا تا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ الٹا اس کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی بلکہ اس کی بجائے اس میں دھماکہ خیز قسم کا اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
یہی بات ایک بارپھر ہمیں ماضی کی طرف لے جاتی ہے جب بقول ان کے زندگی کا آغاز چار رشیوں اور عامۃ الناس کی تخلیق سے ہوا۔ اگر اس وقت کا انسان سماجی اور روحانی لحاظ سے بہترین تھا تو اس نیک نسل کے ختم ہونے کے بعد تو اس کے ادنیٰ درجہ کی نوع میں تبدیل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ کرموں کا نظام اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ جب تک انسان نیکی پر قائم ہے، کوئی انسان کسی نوع کے جانور کی شکل میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بقول ان کے تناسخ کے اصول کے مطابق حیوانات تو صرف انسانوں کی کسی گنہگار نسل کے گناہوں کی سزا کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسرورمن کے پاس اس مشکل کا حل یہ ہے کہ جوں جوں انسانی نسلیں مقدس رشیوں سے دور ہوتی چلی گئیں ان کا کردار شکست وریخت کا شکار ہونے لگا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے بعد تو یوں ہوا کہ انسان کے گناہوں کی وجہ سے انواع و اقسام کے حیوانات کی تخلیق کی راہیں کھل گئیں۔ لیکن اگلے جنم میں حیوانات کے درجہ پر پیدا ہونے والی ایسی گنہگار روحوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جنہیں عمل تناسخ کے نتیجہ میں انسانی رتبہ سے گرا کر سزا کے طور پر کمتر اقسام میں دوبارہ پیدا کیا گیا ہو۔
لیکن یہ منصوبہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا تھا جب اس وقت کے انسانوں کی مجموعی آبادی آج کی نسبت کروڑوں اربوں گنا زیادہ ہوتی۔ تمام انواع کے جانداروں کی مجموعی تعداد کھرب ہاکھرب سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا بلا تردد یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بیکٹیریا سمیت تمام جاندار کسی زمانہ میں ضرور انسان رہے ہوں گے۔ ایسی صورت میں تو مقدس رشیوں کے وقت میں انسانی آبادی اتنی تو ہونی چاہئے تھی جسے شمار کرنے کیلئے تمام تخمینے ناکافی ٹھہریں۔ نیز کرۂارض کو آج کی نسبت اربوں گنا زیادہ وسیع ہونا چاہئے تھا جس میں ویدک دھرم کے خوف خدا رکھنے والے پیروکاروں کی ساری کی ساری آبادی سما سکتی۔
ضمناً یاد رکھنا چاہئے کہ سائنسدان ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ابتدائے زمانہ میں تبت کی سرزمین جس میں یہ چار عظیم روایتی رشی رونق افروز تھے اس کی تو ابھی تخلیق بھی نہیں ہوئی تھی۔ کرئہ ارض کا یہ حصہ تو بہت بعد میں آج سے تقریباً ایک ارب سال قبل براعظموں کے سرکنے اور باہمی ٹکراؤ کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا تھا۔ ماہرین ارضیات اور ویدوں کے علماء کے مابین اس نزاع کی وجہ سے چار رشیوں والا منظر نامہ شکوک و شبہات کے دھندلکوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے جہاں ان رشیوں کو تبت کی سطح مرتفع پر موجود اپنے بلند مقامات سے رواں دواں دنیا کو بڑے اطمینان سے مشاہدہ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ البتہ پروفیسر ورمن جیسے ہندو علماء کو یقینا یہ حق حاصل ہے کہ وہ ماہرین ارضیات کی اس گپ شپ کو بھی اسی طرح ہوش و حواس سے عاری سمجھیں اور اسی طرح کھوکھلی قرار دیں جیسے انہوں نے نظریۂ ارتقا کو رد کردیا۔ اب اس سائنسی تحقیق کو بھی سائنسی توہمات قرار دے کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دنیا چاہئے جس میں نظریۂ ارتقا کو پہلے ہی پھینکا جا چکا ہے۔
آیئے اب انسانی آبادی کے سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ آبادی بقول ان کے عظیم رشیوں کے مقدس صلب سے پھیلی، سوچیں تو لازماً یہ آبادی نا قابل یقین حد تک وسیع ہو گئی ہو گی۔ کیونکہ آنے والے جانوروں کی انواع کے آباؤ اجداد وہی تو تھے۔ یہ انہی کی گنہگار ارواح تھیں جو ادنیٰ درجہ کے جانوروں کے مقام تک گرا دی گئی تھیں۔ اس وقت کی انسانی آبادی کی تعداد میں بھی آنے والی تمام انواع کے جانوروں کی کل تعداد بھی شامل سمجھی جانی چاہئے۔ ڈھیروں ڈھیر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے، بل کھاتے انسانوں کی زمین جیسے ایک چھوٹے سے سیارہ پر اتنی کثیر تعداد کے تصور سے ہی انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کسی بھی بلندی سے دیکھا جائے خواہ وہ تبت ہو یا کوہ ہمالیہ، ہر جگہ انسان ہی انسان نظر آئیں گے جن کے پاس کھانے کیلئے ایک ذرہ بھی نہیں ہو گا۔
کرموں کے مسئلہ پر دوبارہ غور کرتے ہوئے اب ہم اس کا خالصۃً علمی لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی کی ہر نسل کا مقدر مکمل طور پر اپنے سے پہلی نسل کے کرموں سے وابستہ ہے۔ روح اپنی ذات میں ایک غیر جانبدار اکائی ہے، اسی طرح اس کے ساتھ جڑنے والا مادہ بھی۔ اس طرح اصل سوال، جس کا حل ہندو علماء پیش کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں، یہ ہے کہ اس سارے تخلیقی عمل کے پیچھے کونسی خدائی حکمت کارفرما ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خداتعالیٰ ایک منصف خدا ہے تو وہ انسانوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل جانبداری کا سلوک کیوں کرتا ہے؟ یہ وہ بظاہر ناقابل حل عقدہ ہے جس کے جواب میں وہ لامتناہی کرموں اور ان کے نتیجہ میں دی جانے والی جوابی سزاؤں کے چکر کا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ روح کے جون بدلنے کا یہ وہ اصول ہے جو اسے علت و معلول، جرم و سزا اور نیکی و جزا کے مستقل چکر میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے دیگر بڑے مذاہب میں خدا کا تصور ایک ایسی قادر مطلق اور برتر ہستی کا ہے جو محض اپنے ارادہ سے جو چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ وہ مالکیت تامہ رکھتا ہے، اپنی مخلوق سے جیسا چاہے سلوک کر سکتا ہے۔ وہ بااختیار ہے اور جو چاہے بنا سکتا ہے۔ وہ تخلیقی عمل میں عدل کے اصولوں کا محتاج نہیں ہے تا ہم کمالِ تام، حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کی صفات سے متّصف ہونے کی بنا پر وہ کسی بھی نوع سے متعلق جاندار کو اس کے مناسب حال تمام اندرونی و خارجی ضروریات بکمال تام مہیا فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ننھی اور محدود عملداری میں ایک ’امیبا‘ (amoeba)بھی اتنا ہی خوش وخرم اور سر شار رہتا ہے جتنا ایک پر شکوہ تخت پر بیٹھا ہواکوئی بادشاہ۔
ہندوؤں کی لوک داستانوں میں مذکور خداتعالیٰ کا مختارِ کُل ہونا اس طور پر ثابت نہیں ہے۔ یعنی جب وہ کسی چیز کا خالق ہی نہیں ہے تو اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مادہ اور روح کی آزادی میں دخل اندازی کرے اور انہیں اپنا غلام بنا لے۔ نیز تخلیق کے ہر فعل پر اختیار کا سوال بھی پیدا ہوگا کہ کسی کو اوروں سے بہتر کیوں بنایا جائے یا اسے تخلیق کے مدارج میں بلندتر مقام پر فائز کیا جائے؟ اس کا کیا جواز ہے کہ ایک شخص تو شاہی محلات میں پیدا ہو جبکہ دوسرا کسی قلاّش کی کٹیا کے گھپ اندھیروں میں۔
یہ وہ اشکال ہے جس کی وجہ سے خداتعالیٰ کیلئے ایسی متنوع اور گوناگوں تخلیق کے وقت کسی نہ کسی طرح کا جواز ضروری ہو جاتاہے۔ ہندو فلسفہ اس سوال کا یہ جواب دیتا ہے کہ خدا بحیثیت خالق کوئی صوابدیدی فیصلہ نہیں کرتا۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے برعکس وہ زمین ہی کو جزا سزا کا مقام سمجھتے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق زمین پر گزاری گئی زندگی کے اعمال کا اثر براہ راست اگلی جونوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ سب سے بڑا دیوتا ’برہما‘ زمین پر زندگی کے ہر عمل پر گہری تنقیدی نگاہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کے مستقبل کا دارومدار اس کے اپنے ہی کرموں پر ہے۔
زندگی اور موت ایک ابدی سکیم کے ماتحت نیکی اور جزا اور جرم و سزا کے طور پر باہم منسلک ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ خدا جب ایک آزاد روح کو اس کے مسکن سے اٹھا کر زمین پر کسی بھی نوعِحیات کے جسم میں قید کرتا ہے تو اسی لمحہ وہ روح بغیر کسی سابقہ کرم کے پہلی دفعہ قید کر دی جاتی ہے۔ عدل و انصاف کے اصولوں کی یہ پہلی خلاف ورزی ہے جس کا بقول ان کے خدا مرتکب ہوتا ہے جس کے بعد انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی کسی گھٹیا ترین جانور کی جون میں ڈال دیا جائے۔ نعوذباللہ۔
آئیے ایک بار پھر ویدوں کی تعلیم کے پس منظر میں کرموں کے کردار کا جائزہ لیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ سکیم ہے جس کے مطابق اس دنیا میں کیا گیا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی، خواہ اچھا ہو یا برا، ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اعمال کا یہ فرق جزا اور سزا میںکمی بیشی کرنے میں خدا کا مددگار ہو سکتا ہے۔
ضروری نہیں کہ ہر جرم پر انسان جانور میں بدل دیا جائے۔ مثلاً ایک شخص جو اپنے سابقہ جنم میں بادشاہ تھا ممکن ہے اگلے جنم میں ایک گدائے مفلس کے طور پر پیدا کر دیا جائے۔ اسی طرح ایک فقیر کو اگلے جنم میں ایک پر شکوہ بادشاہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کا انحصار خدا کی نظر میں کئے گئے پچھلے جنم کے اچھے یا برے اعمال پر ہے۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے اس ویدک فلسفہ کے مطابق ایک نوع کی دوسری نوع میں تبدیلی کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کسی جنم میں انسان کے طور پر پیدا ہونے والا اگلے جنم میں کیڑا بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بڑی ناخوشگوار بات ہو گی لیکن اس کا سہرا اپنے ہی گناہوں کے سر ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ آواگون کا یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوتا ہے؟ یہ ایک مستقلاً لاینحل معمہ ہے کہ اگر ہر نئی جون کسی سابقہ جنم کی متقاضی ہے تو پھر یہ سلسلہ شروع کیسے ہوا؟ یقینا علت و معلول کے اس سلسلہ کو عہد ماضی میں اور پیچھے دھکیلنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ اس سے زندگی کی تمام شکلوں اور ان سے متعلق کرموں پر ابدیّت لازم آتی ہے۔ لیکن یہ ایسا خیال ہے کہ جس سے بہت پر جوش ہندو پنڈت بھی متفق نہیں ہوسکتے کیونکہ جانوروں کے ابدی ہونے سے تخلیقی عمل فضول اور بے معنی ٹھہرتا ہے۔ کرموں اور ان کی پاداش کو سمجھنے کا ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں ایک مدوّر زنجیر کے طور پر سمجھا جائے۔ لیکن یہ بھی کسی طور سے ممکن نہیں کیونکہ کرموں اور پاداش کا ایسا بے انت دائرہ کسی ابتداء اور انتہاء کے بغیر ممکن نہیں۔ علت و معلول کا ایسا ابدی چکر منطقی طور پر صرف اس صورت میں قابل قبول ہو سکتا ہے جب اس سلسلہ کی ہر کڑی ایک جیسی ہو۔ جہاں ان کڑیوں کی بناوٹ میں فرق نظر آئے گا وہیں آغاز اور انجام بھی دکھائی دینے لگے گا۔ مثلاً جو کڑیاں زوال کا نزولی اور ارتقا کا صعودی رجحان رکھتی ہوں انہیں کسی ابدی چکر میں نہیں جوڑا جا سکتا۔
آئیے ویدوں کے بیان کردہ موقف کے پس منظر میں ایک بار پھر اس امر کا جائزہ لیں کہ زندگی اور انواع و اقسام کی حیات کی ابتدا کیسے ہوئی۔ اگر یہ ایک مسلسل چکر ہے جیسا کہ ہندوؤں کے مذہبی دانشوروں کا اصرار ہے کہ جب تنزل اپنی انتہاء کو پہنچتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے نقطۂ آغاز سے بالکل مختلف ہو۔ جب روئے زمین سے نوع انسانی کی صف لپیٹ دی جائے تو صرف گناہ کے عادی جانوروں کا مسلسل نیچے گرتا ہوا گراف ہی باقی رہ جاتا ہے۔ یا دائرہ مکمل کرنے کے لئے ان جانوروں کو زمین پر زندگی کی ابتداء سے منسلک کرنے کا کام۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ویدوں کی تعلیمات کے مطابق زندگی کی ابتداء ہمیشہ تبت یعنی دنیا کی چھت پر براجمان چار رشیوں سے ہوا کرتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ محض چکر کو مکمل کرنے کی خاطر کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، ہزار پایوں، چوہوں اور نیولوں کو جو گنہگار انسانوں کی باقیات ہیں زندگی کی ابتداء کے ارفع ترین مقام پر فائز چار رشیوں کی مقدس ہستیوں سے جوڑ دیا جائے۔ آواگون کے دائرہ کو، جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے، نہ تو اس کے آغاز سے منسلک کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ابدی کہا جا سکتاہے کیونکہ ابدیّت ایک اٹوٹ تسلسل کو چاہتی ہے۔
اگر زنجیر کے آخری سرے کو حیات کے آغاز سے منسلک کر دیا جائے تواس کے ایسے گھناؤنے نتائج نکلیں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر کوئی اژدھا اپنی دم کو منہ میں دبائے بیٹھا ہو تو کوئی ہوشمند انسان اسے ایسا ابدی دائرہ نہیں کہہ سکتا جس کی نہ کوئی ابتداء ہے، نہ کوئی انتہائ۔ دم، دانتوں میں اچھی طرح دبا لینے کے باوجود، دم ہی کہلائے گی۔ اس دائرہ کا ایک سرا ہو گا اور ایک دم ہو گی۔ یعنی اس کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی۔ چاروں رشیوں کیلئے دل میںمعمولی سا احترام رکھنے والا شخص بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسی دم سے پیدا ہو جو ادنیٰ درجہ کے جانوروں سے معرض وجود میں آئی ہو۔
ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ کوئی بھی ہندو خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، ابدی دائرہ کے ایسے جاہلانہ خیال سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ ایسے خیال کو فطرت مسترد کرتی ہے اور نہ ہی اس کی تائید میں کوئی ادنیٰ سی شہادت سامنے آئی ہے۔
کرموں کے مسئلہ کا ایک اور زاویہ سے بھی جائزہ لینا چاہئے۔ ’کرموں‘ کی اصطلاح ایسے تمام افعال پر اطلاق پاتی ہے جن کا فاعل ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔ یعنی اگر عمل نیک ہے تو جزاء اور بد ہے تو سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ نیک اور بد اعمال کے بارہ میں الٰہی مشیت اور پسندناپسند کا واضح اظہار ہو ورنہ کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ خداتعالیٰ کو کونسا عمل پسند ہے اور کون سا ناپسند۔ اس خاص حکمت کی بنا پر بنی نوع انسان کی ابتداء عظیم رشیوں سے کی گئی۔ اگر ان پروید نازل نہ ہوتے تو انسان کو کبھی یہ علم نہ ہوتا کہ ان کیلئے کیا اچھا ہے اور کیا برا اور نہ ہی وہ اپنے کرموں کی پاداش میں جوابدہ ہوتے۔ پس کرموں کے اس اصول کا اطلاق صرف انسان پر ہی ہو سکتا تھا جسے ابتدائی چاررشیوں کے ذریعہ اوامرونواہی کا ایک واضح لائحہ عمل دیا جا چکا ہو۔
اگر اس اصول کا اطلاق انسانوں کی بجائے جانوروں پر کیا جائے تو مسئلہ خاصا الجھ جاتا ہے۔ کیا حیات کی ہر نوع کے پاس الٰہی قانون پر مبنی واضح صحیفے موجود ہیں؟ اگر نہیں تو انہیں زندگی کیسے بسر کرنی چاہئے اور ان کا حساب کیونکر ہو گا؟ کیا ان کے جبلّی رویّے ہی خدائی احکام کے قائم مقام ہوں گے۔ اگر جانوروںکا فطری نظام ہی ان کے لئے خدائی احکام کا قائم مقام ہے تو دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے اس مزعومہ اختیار کا استعمال کیسے کرتے ہیں؟
علاوہ ازیں انسانوں میںالٰہی تعلیمات انسانی واسطہ ہی سے پہنچتی ہیں (بلا شبہ چاروں رشی انسان ہی تھے)۔ لیکن عقل سلیم اس امر کو قبول نہیں کرتی کہ نبوت کا سلسلہ جانوروں میں بھی موجود ہو۔ ہر نوع کے فہم کے دائرہ کی ایک حد ہوا کرتی ہے جو اس کے مخصوص طرز زندگی سے مترتب ہوتی ہے۔ اگر جانوروں میں بھی نبی مبعوث کئے جانے مقصود ہوں تو حیات کی ہر نوع کیلئے علیحدہ علیحدہ نبی چاہئے۔ اگر جانوروں میں ان کے رشی پیدا ہونے ہیں تو پھر شیروں، بھورے ریچھوں، برفانی ریچھوں، لگڑ بگڑ، رینگنے والے جانوروں، تمام قسم کی مچھلیوں اور ہر قسم کے پرندوں میں ایسا ہونا چاہئے۔ مثلاً کیا کوئی کوّے نبی یا بھیڑیئے رشی کا تصور کر سکتا ہے؟
مگر اسی پہ بس نہیں۔ اگر جبلّت، الٰہی تعلیم کی قائم مقام ہو اور جانوروں کیلئے اسے ضابطۂ حیات قرار دیا جائے تو پھر اختیار والا وہی سوال ان کے جبلّی رویوں کے تعلق میںبھی اٹھتا ہے جس کا جواب دینا ہو گا۔ کیا جانور اپنے جبلّی رجحانات کو رد یا قبول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر گھوڑے کیلئے گھاس یا دانہ کھانا جبلّی طور پر طے ہے تو کیا اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس الٰہی حکم کو ٹال سکے۔ اگر وہ نافرمانی کا فیصلہ کر ہی لے تو کیا وہ جبلّت کے الٰہی قانون کی بے باکی سے مخالفت کرتے ہوے چارہ چھوڑ کر گوشت کھانا شروع کر دے گا؟ کیا ایسی صورت میں خدا بجا طور پر گھوڑے کو نافرمانی کی سزا دے سکتاہے؟ شاید اگلے جنم میں اس کے لئے ممکن سزا یہ ہو کہ اسے گدھا بنا دیا جائے۔ اگر وہ گدھا بھی بد اعمالی پر اصرار کرے جو اس کی اسفل پیدائش کا موجب بنی اور گوشت خور ہی رہے اور چارے کی بجائے کتّے کا گوشت کھانے پر ہی اصرار کرے تو پھر کیا ہو گا۔ ذرا سوچئے کہ اس صورت میں اس کا اگلا جنم کیا ہو گا۔ ممکن ہے کتا بنا کر اسے باغی گدھوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔ کیا ہو گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ فرضی نقشہ ہم نے صرف ان بین السطور تضادات کو نمایاں کرنے کیلئے پیش کیا ہے جو ویدوں کی تعلیمات کی موجودہ ہندوتفہیم پر مبنی جونوں کے فلسفہ میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے دل میں دور دور تک کسی کے احساسات کو صدمہ پہچانا مقصود نہیں ہے۔
اس فرضی تشریح کا اطلاق تمام عالم حیوانات پر ہوتا ہے مثلاً شیر کے بارہ میں یہ تاثر کہ وہ نیک اور پارسا ہے صرف اپنی جبلّت کے ساتھ مخلص رہنے کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں زندگی کی قدر نہ کرنا شرافت کی یقینی علامت ٹھہرے گی۔ بصورت دیگر اگر وہ گوشت خوری ترک کر دے جو کہ اس کی شریفانہ جبلّت کی کھلی نافرمانی ہے تو ایسے درندہ صفت گھاس خور شیر کیلئے اگلے جنم میں ایک مردار خور گدھ کے د رجہ پر تنزل کا خاصا امکان ہے۔ پس جنگلی درندے خداکے نزدیک صرف اسی صورت میں شرفا قرار پائیں گے جب وہ اپنی غیر شریفانہ جبلّت کی پیروی جاری رکھیں۔
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ جب تک جانوروں کو اختیار سے محروم نہ سمجھا جائے، ان کی جبلّت کو الٰہی ضابطۂ حیات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تا ہم اگر ویدوں کے حامی یہ اصرار کریں کہ جانوروں کا جبلّی رویہّ ہی الٰہی احکام کا متبادل ہے تو پھر تمام جانوروں کی ان کے اگلے جنم میں انسانوں کے درجہ پر ترقی ہو جانی چاہئے کیونکہ وہ اپنی جبلّت کی من و عن پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک تجویز ہے جو انسان کے علاوہ تمام دوسرے حیوانات کے مکمل خاتمہ پر منتج ہو گی۔ اس سے انسانی آبادی کا بند ٹوٹ جائے گا اور انسان ابتدائی زمانہ میں لوٹ جائے گا۔ کیا ان کے زندہ رہنے کیلئے خوراک میسر ہو گی یا بالآخر وہ بھی آدم خوری پر اتر آئیں گے؟ کیا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
تاہم نسل انسانی کی خوش قسمتی ہے کہ جانوروں میں کرموں کا کوئی نظام دکھائی نہیں دیتا۔ جو روحیں ایک دفعہ جانوروں کی جون میں ڈال دی جائیں انہیں کبھی بھی اپنا کھویا ہوا انسانی مقام دوبارہ نہیں مل سکتا۔ پس کرموں کا نظام انسانی مقدر کو ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جھولا جھلاتا رہے گا۔ اگر اسے کبھی ارادہ کی آزادی اور اختیار کا حق دیا گیا تو وہ ان انتہاؤں میں سے کونسی انتہا منتخب کرے گا؟ اگر اس میں ذرہ برابر بھی عقل ہوئی تو یقینا کوئی انتخاب بھی نہ کرنا ہی اس کا واحد دانشمندانہ فیصلہ ہو گا۔
یہاں ہم یہ بھی بتا نا مناسب سمجھتے ہیں کہ آواگون کا ہندوفلسفہ معدودے چند افراد کے لئے ایک تیسری صورت بھی پیش کرتا ہے۔ ایسے انسان مثلاً چاروں رشی جو کامل زندگی گزارتے ہیں، انہیں جونوں کے چکر میں فوراً نہیں ڈال دیا جاتا بلکہ ان کی ارواح کیلئے سکون اور چین کے ایک لمبے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ہندو مذہب کے ’’نروان‘‘ یا جنت کا تصور ہے۔ لیکن سکون کا یہ دورانیہ خواہ لاکھوں سال پر محیط کیوں نہ ہو، لازم ہے کہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچے۔ "نروان" سے ایک عرصہ تک لطف اندوز ہونے کے بعد ضروری ہے کہ ایسی تمام روحوںکو جون کے چکر میں شمولیت کے لئے واپس زمین پر بھیجا جائے۔
ہندومت کا یہ تنقیدی جائزہ کچھ زیادہ ہی طول پکڑ گیا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی علماء چاہیں تو اپنے عقیدہ میں سے عقل کو بالکل بے دخل کر سکتے ہیں جیسا کہ بعض دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرف سے اکثر و پیشتر ایسا کیا بھی گیا ہے۔ اس صورت میں خواہ برعکس حقیقت ہی ثابت کیوں نہ ہو جائے وہ پھر بھی مصر ہوں گے کہ معجزانہ طور پر خدا، جانداروں کی مختلف اقسام میں کسی حد تک ایک توازن قائم رکھتا ہے اور ان سب کا محاسبہ کرموں کے کسی غیر مرئی نظام سے کیا جاتا ہے۔
زندگی کی ہر نوع کا محاسبہ اس سے متعلقہ جانداروں کے کرموں کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بدی کے مرتکب شخص کو اگلے جنم میں کسی ادنیٰ درجہ کے جانور کے طور پر پیدا کر دیا جائے گا۔ اسی طرح نیک چلن جانورکو اگلے جنم میں انسان کے درجہ پر ترقی دی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک نیک چلن کتا اپنے مالک کے گھر خود مالک کے طور پر پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ بد چلن مالک کو خود اس کے اپنے گھر میں ہی کتا بنا کر ایک نئے انسانی مالک (سابقہ کتے ) کے ہاں پیدا کیا جا سکتا ہے۔
یہ تو طے شدہ بات ہے کہ یہ فلسفہ اپنی ایک اندرونی منطق رکھتا ہے۔ اگرچہ خدا ایک ایسے مطلق العنان آمر کے طو پر ظاہر ہوتا ہے جو بلااستحقاق ملکیت، آزاد روحوں اور جسموں کو اپنی غلامی کے ابدی سلسلہ میں باندھ دیتا ہے لیکن بقول ان کے یہ سب کچھ وہ نظامِ عدل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اجسام اور ارواح کو زمین پر سابقہ جنم کے کرموں کی جزا یا سزا کے طور پر جوڑتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے ارواح کیلئے مادے کی قید سے عارضی رہائی کی صورت میں، جو بہت موہوم ہی سہی، پھر بھی نروان کا ایک امکان ضرور باقی رہتا ہے۔ لہٰذا موت جسے ہم نا پسند کرتے ہیں یعنی روح کی اپنے لازمی رفیق بدن سے علیحدگی، دراصل ایک درپردہ انعام کا رنگ رکھتی ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ جدا کیا گیاجوڑا اس آزادی کے مزے کب تک لوٹے گا، اس کی زمین پر گزشتہ مشترکہ زندگی کے طرزعمل کی بنیاد پر ہوگا۔ اگر تو ان کا باہمی سلوک مثالی تھا یعنی جسم نے روح کا اچھی طرح خیال رکھا اورروح نے جسم کے معاملہ میں خود پر عائد ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھایا تو جزا کے طور پر ان میں جدائی اتنی ہی طویل ہو گی۔ شادی شدہ جوڑوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ ایسے میاں بیوی جن کا تعلق مثالی رہا ہوگا اور جو ایک دوسرے کی خوشگوار اور پیاری صحبت سے حد درجہ مطمئن رہے ہوں گے بلا شبہ انہیں اعلیٰ درجہ کا نروان عطا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان میں صرف جسمانی جدائی ہی نہیں ہو گی بلکہ ان کی روحیں بھی ابد تک جدا رکھی جائیں گی۔ تا ہم گنہگار جوڑوں کو مرنے کے بعد جلد ہی واپس زمین پر بھیج دیا جائے گاتا کہ وہ اپنی گناہ آلود نفسانی لذّات کا ایک اور دورانیہ گزار سکیں۔ خدا کی پناہ ! زمین پر کیسی جہنم ہے اور آسمان پر کیسی جنت!
ممکن ہے کسی سائنسدان کو موت و حیات اور ابدیّت کا یہ ہندو فلسفہ معقولیت سے عاری نظر آئے مگر اس امر سے بھی انکار نہیں کہ اس فلسفہ میں ایک خاص قسم کی لذت ضرور موجود ہے جس کی وجہ سے عقلی دلائل کے بکھیڑوں میں پڑے بغیر جدید دور کے بہت سے افراد اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ اس کی بڑی کشش تو یہ ہے کہ اس کے مطابق پر صعوبت ارضی زندگی میں واپسی کی امید قائم رہتی ہے۔
تمام جاندار مخلوق میں سے انسان تضادات کا عجیب و غریب مجموعہ ہے۔ وہ زندگی کے مصائب کا رونا روتا رہتا ہے اور ان کے حل کے لئے موت کے انتظار میں رہتاہے لیکن اس کے باوجود وہ اس ارضی قید خانہ میں دوبارہ آنے کی شدید خواہش بھی رکھتا ہے ؎
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
صاف ظاہر ہے کہ اس فلسفہ کا سحر تمام جانداروں میں زندہ رہنے کی ہمہ گیر خواہش میں پوشیدہ ہے۔
تا ہم اس وعدۂ فردا کے اسیروں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسانی معاشرہ بحیثیت مجموعی اخلاقی اور دینی اعتبار سے خاصے انحطاط کا شکار ہے۔ یہ لوگ جو ایک دفعہ پھر انسانی شکل میں پیداہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں یاد رکھیں کہ اس خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا قرین قیاس نہیں ہے۔ اگر کرموں کا ویدک فلسفہ درست ہے تو غالب امکان ہے کہ آج کے انسانوں کی اکثریت کل کو بندروں، جنگلی سؤروں، مگر مچھوں یا صرف کیڑوں مکوڑوں کی شکل میں دوبارہ پیدا ہو۔ دوبارہ زندگی پانا اچھی بات سہی مگر کس قیمت پر!
آئیے ایک بار پھر ان چار رشیوں کی بات کریں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان پر وید نازل ہوئے۔ اگر ہندو فلسفہ کو مان بھی لیا جائے تو ان رشیوں کا زمانہ زمین پر زندگی کے آغاز سے بہت پہلے کا زمانہ بنتا ہے جب فضا میں آکسیجن بھی موجود نہیں تھی۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سے کرم تھے جن کے نتیجہ میں انہیں رشیوں کا مقام عطا ہوا۔ نیز یہ بھی کوئی اتنا غیر اہم سوال نہیں ہے کہ آکسیجن کے بغیر نسلاً بعد نسلٍ زندہ کیسے رہے اور ان کی غذا کیا تھی۔ سمندر اور فضا تو وائرس اور بیکٹیریا کی ابتدائی شکل میں آلودگی سے بھرے ہوئے تھے۔ ان مقدس لوگوں کی پہلی نسل یا تو بیکٹیریا پر مشتمل اس خاص خوراک پر پلی ہو گی یا پھر ہو سکتا ہے کہ حیات انسانی کی ابتدا ہی مقدس رشیوں کی بجائے مقدس وائرس اور پاکباز بیکٹیریا سے ہوئی ہو۔ اگر رشیوں کی بعثت کے وقت کا اندازہ غلط ہے اور اگر وہ اس زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے جس پر بعض تعلیم یافتہ پنڈت اصرار کرتے ہیں تو پھر زمین پر زندگی کا ظہور اور ویدوں کا نزول بہت بعد میں ہوا ہے جو کرۂ ارض پر تبت کی سطح مرتفع اور اس کے گردو نواح کے وجود میں آنے سے پہلے ممکن نہیں۔ درحقیقت پورے برصغیر کی موجودہ شکل کوئی دو سے چارکروڑ سال قبل ہی معرض وجود میں آئی ہے۔ اگرچہ 16کروڑ سال قبل ہندوستان کے خدوخال کسی حد تک برصغیر کے طور پر متشکل ہو چکے تھے لیکن اس کا ایشیا کے ساتھ ادغام نہیں ہوا تھاجس کے نتیجہ میںہمالیہ، دیگر سلسلہ ہائے کوہ، سطح مرتفع تبت اور اس کے گردونواح کے علاقے وجود میں آئے۔ اس سارے دورانیہ میں تبت کا کسی معین وقت میں معرضِوجود میں آنا اتنا اہم نہیں ہے۔ متحجرات(fossils)کے مطالعہ سے ملنے والی شہادت کے مطابق بلاشک و شبہ کرہ ٔارض پر زندگی کا ظہور برصغیر کا خطّہ وجود میں آنے سے تقریباً آٹھ کروڑ سال پہلے ہو چکا تھا۔ سطح مرتفع تبت کی بلندی پر بیٹھنے والے کچھ بھی ہوں، انسان بہرحال نہیں تھے۔ کیونکہ انسان زمین پر بہت بعد میں پیدا ہوا۔ اس وقت ڈائناسار تھے جو زندگی کی سب سے ترقی یافتہ شکل تھی۔ ظاہر ہے کہ قوتکی بڑی سے بڑی جہت سے بھی کسی ڈائناسار رشی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پس اگر موجودہ تحریف شدہ ویدوں کی تعلیمات کو ظاہر ی معنوں میں لیا جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ رشی اور ان کے حواری کسی دوسرے سیارہ سے زمین پر اترے ہوں گے۔ مگر یہ حل جسے بفرض محال حل کہنے کی جسارت کی بھی جا سکے تو ایک اور انتہائی پیچیدہ اور ٹیڑھے مسئلہ کو جنم دے گا جسے پھر حل کرنا پڑے گا اور کرموں کی کہانی چار رشیوں سے نہیں بلکہ اربوں سال قبل پیدا ہونے والے جراثیم کی ہر دم بدلتی اور مسلسل ترقی پذیر شکلوں سے شروع کرناپڑے گی۔
غیر جانبدارانہ جائزہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جونوں اورکرموں کا یہ عقیدہ ہندو فلسفہ کے بگڑے ہوئے دور کی پیداوار ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب ہندو مذہب کے علماء نے جزا سزا اور حیات وممات کے عقدہ کا جواب، آسمانی روشنی کے بغیر، محض فلسفیانہ طریق سے ازخود ڈھونڈ نا چاہا۔ بایںہمہ اگر کوشش کی جائے تو آج بھی ویدوں میں الہام الٰہی کے آثار مل سکتے ہیں۔ ویدوں میں آج جہالت کے جو نمونے نظر آتے ہیں یقینا انسانی دست برد کا نتیجہ ہیں۔
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ہم یوگا کی حقیقت پر غور کریں گے اور ہندوفلسفہ کے وسیع اور پیچیدہ نظام میں اس کی حیثیت کا جائزہ لیں گے۔ یہ مسئلہ اصل موضوع بحث سے خاص تعلق رکھتا ہے کیونکہ عام طور پر یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ گہری ریاضت سے ایک یوگی علم اور سچائی کے سرچشمہ کو اپنی ذات ہی میں دریافت کر لیتا ہے۔ تا ہم یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یوگا کا تعلق بنیادی طور پر ہندومت سے ہے یا بدھ مت سے۔ یہ گیان کا ایک ایسا طریق ہے جس کے متعلق یہ شواہد نہیں ملتے کہ اسے حضرت کرشن علیہ السلام نے کبھی اختیار کیا ہو۔
لیکن یوگا کی بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ مراقبہ کے ساتھ ساتھ یوگا بدنی سائنس کی بھی ایک انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے جس کے ذریعہ انسان کی خوابیدہ جسمانی صلاحیتوں کو نقطۂ عروج تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یوگا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزانہ کام سرانجام پاسکتے ہیں۔ بلکہ یہاںتک بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان سرماخوابی کی ایسی ساکت حالت تک پہنچ جاتا ہے جس میں جسمانی شکست و ریخت کا عمل تقریباً رک جاتا ہے اور زندگی ایک باریکترین دھاگے سے معلق نظر آتی ہے۔
اس فن میں کمال رکھنے والے بعض یوگیوں کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ کئی دن تک زیرآب زندہ رہے۔ ان کی ایک مافوق الفطرت صلاحیت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہ مبالغہ کی انتہا ہو مگر یوگا کی مشقوں کے ذریعہ حاصل کی گئی بعض مخصوص صلاحیتوں کو صرف مبالغہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً بعض یوگیوں کے بارہ میںکہا جاتا ہے کہ وہ لمبے عرصہ تک اپنا سانس روک سکتے ہیں جس کے دوران ایک عام آدمی سانس لئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ علاوہ ازیں یوگا ایک جسمانی ورزش بھی ہے جس سے انسان کے قویٰ اور افعال کی ہمہ جہتی نشوو نما بھی ہو سکتی ہے۔ نیز یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یوگا انسان کی بدنی اور ذہنی تکان کا بھی بہترین علاج ہے۔ ہم نے یوگا کے ان فوائد کا مختصراً ذکر کر دیا ہے جو ایسی جسمانی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں جو یوگا کے بغیر خوابیدہ ہی رہتیں۔ اور اگر ان صلاحیتوں کی منظم طریق سے تہذیب و تعدیل کی جائے تو انسان کی روحانی صلاحیتیں بھی جلا پا سکتی ہیں۔
اب ہم یوگا کے حوالہ سے بعض امکانات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یوگی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صرف یوگا کی مشقوں اور مراقبہ سے باطنی سچائی کے سرچشمہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس دعویٰ میں وہ کس حد تک صحیح ہیں یا غلط، اس بارہ میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک یوگا سے حاصل ہونے والی مزعومہ باطنی سچائی کو دنیا کے مسائل حل کرنے کے لئے عملاً پیش نہ کیا جائے اس دعویٰ کے غلط یا صحیح ہونے کے بارہ میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جاسکتا ہے تو صرف اتنا کہ یوگا فی ذاتہٖ ایک بہت عمدہ ورزش ہے۔
حوالہ جات
1. VERMAN, J. (1992) The Vedas. Oxford & IBH Publishing Co. PVT. LTD, New Delhi, p. 6
2. VERMAN, J. (1992) The Vedas. Oxford & IBH Publishing Co. PVT. LTD, New Delhi, p. 4
3. VERMAN, J. (1992) The Vedas. Oxford & IBH Publishing Co. PVT. LTD, New Delhi, p.24
4. Krishna is referred to as `black' which must have been a metaphorical expression. The colour black absorbs light completely. Hence when referred to a Godly person it can only mean extremely enlightened by Divine light. (WARD, NASIR (October, 1995) Hinduism and Christ. Review of Religions, p.6)


بدھ مت
بدھ مت کے متعلق دنیا میں عام تاثر یہ ہے کہ اسے مذاہب میں سے تو شمار کیا جاتا ہے لیکن بایں ہمہ اس کے فلسفۂ حیات میں خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ تاثر درست تو ہے لیکن ایک حد تک اور وہ بھی جزواً۔ آج بھی بدھ مت کے ماننے والوں کے بارہ میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ ان میں سے کوئی بھی خداتعالیٰ پر یا دیوتاؤں پر یقین نہیں رکھتا۔ مہایان (Mahayans)اور تھیراویڈن (Theravadins) جیسے نمایاں فرقے باطنی حکمتِ اعلیٰ پر یقین رکھتے ہیں جو مہاتما بدھ کو کامل طور پر حاصل تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ بہت سے توہمات اور بھوت پریت کے قائل بھی ہیں جو ان کے نزدیک خدا کے قائممقام ہیں۔ بدھ مت کے بارہ میں خدا کے وجود کی نفی کا یہ تاثر ایک اور پہلو سے بھی غلط ہے۔ بدھ مت کی ابتدائی تاریخ کے مطالعہ سے اس امر کی کافی شہادت ملتی ہے اور ہم آگے چل کر اس بات کو ثابت کریں گے کہ بدھ مذہب کا آغاز بھی دوسرے الہامی مذاہب کی طرح ہوا اور خدا کی وحدانیت پر زور دیا گیا۔
مہاتما بدھ 563قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور 483قبل مسیح میں وفات پائی۔ ان کے ماننے والے ان کو خداتعالیٰ کا مقام تو نہیں دیتے لیکن جس رنگ میںان کااحترام کیا جاتا ہے وہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسا دوسرے مذاہب کے ماننے والے خداتعالیٰ کا احترام اوراس کی پرستش کرتے ہیں۔ مہاتما بدھ کے پیروکار ان کا احترام اور تعظیم اسی طرح کرتے ہیں جیسے بت پرست بتوں کی اور بدھ کی مورتی اور مجسمہ کے سامنے اسی طرح جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں جیسے بت پرست۔
اگرچہ بدھ مت کے اکثر پیروکار بظاہر ہستی ٔباری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں لیکن ان کے دل کی گہرائیوںمیں کسی بالا ہستی کی عبادت کی خواہش ضرور موجودنظر آتی ہے۔ مہاتما بدھ کی اس قسم کی تعظیم یہ ثابت کرتی ہے کہ ایسی خواہش واقعی موجود ہے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے جو فطری خواہش انسانی روح پر نقش ہے وہ اسے خدا یا کسی اور کی پرستش پر آمادہ کرتی ہے۔ چنانچہ بدھ مت کے ماننے والے اس خلا کو پر کرنے کیلئے بدھ کو خدا تسلیم کئے بغیر اس کی رسمی طور پر عبادت کرتے نظر آتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تبت میں بدھ مت کی جو شکل پائی جاتی ہے اس میں مافوق البشر دیوتاؤں یا بھوت پریت وغیرہ کا تصورنہ صرف ایمان کا جزوِ لا ینفک ہے بلکہ اُن کا پختہ عقیدہ ہے کہ یہ دیوتا اُن سے باتیں بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نئے پنچن لامہ کے انتخاب کیلئے بہت سی مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں تا کہ دیوتاؤں سے اس بارہ میں رہنمائی حاصل ہو سکے کہ نوزائیدہ بچوں میں سے مستقبل کا پنچن لامہ کون ہو گا۔
نام نہاد بدھ فرقوں میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ مہاتما بدھ خود بھی خدا کے وجود کے منکر تھے۔ اپنے اس دعویٰ کو تقویت دینے کیلئے وہ ہمعصر ہندو پنڈتوں کی مہاتما بدھ سے دشمنی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ دشمنی بہت حد تک ہندوؤں کے خداؤں کے بارہ میں بدھ کے ہتک آمیز رویہ کا نتیجہ تھی۔ بدھ مت کے پیروکار عموماً ان اسباب کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے جن کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جو بدھ پر کئے گئے ظلم وستم کا باعث بنیں۔ ان کیلئے یہی کافی ہے کہ بدھ نے خدا کے وجود کا سرے سے ہی انکارکردیا تھا۔
تا ہم تاریخی حقائق کے جائزہ اور بدھ مت کے مذہبی لٹریچر کے گہرے مطالعہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ بدھ ایسے تمام الزامات سے بری الذمہ تھے۔ مگریہ واضح رہے کہ تاریخی حقائق جن کا دونوں مکاتبِ فکر ذکر کرتے ہیں کافی نہیں۔ البتہ اس اشکال کو حالات و واقعات کی روشنی میں بہت حد تک دور کیا جا سکتا ہے۔
بدھ مت کا فلسفہ، تعلیمات اور رسومات قریباً پانچ سو سال تک تو سینہ بہ سینہ ہی منتقل ہوتی رہیں سوائے ان کے جو چٹانوں، پتھروں اور مزاروںپر اشوکا کے عہد(273تا232قبل مسیح ) میں کندہ کی گئیں جو اپنے روحانی پیشوا بدھ کے تین سو سال بعد حکمران ہوا۔ اور یہ حقیقت نہایت اہم ہے کیونکہ اشوکا کے دور حکومت کی تحریرات کی رو سے بدھ کے فلسفہ اور طرز زندگی پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ مزید برآں اشوکا نے ہی بدھ کی تعلیمات کو اس وقت تحریری شکل دی جبکہ بدھ مت پر ابھی کچھ بھی نہیںلکھا گیا تھا۔ نیز اشوکا کی بدھ مذہب کی نمائندہ حیثیت کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اب جھگڑا صرف مختلف تشریحات کا ہے۔
مہاتما بدھ کے حالات زندگی اگرچہ ان کی وفات کے کئی سو سال بعد قلمبند کئے گئے تا ہم تمام محققین کسی قابل ذکر اختلاف کے بغیر متفقہ طور پر ان واقعات کو مستند تسلیم کرتے ہیں۔ یہ واقعات ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کی شخصیت اور ان کے طرز زندگی کے آغاز سے آخر تک ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قرین قیاس ہو گا کہ بدھ اور بدھ مت کے جو حالات دو ذرائع یعنی بدھ کی زندگی کے واقعات اور مزاروں (stupas) پر کندہ تحریرات سے حاصل ہوئے ہیں وہ نسبتاً زیادہ قابل قبول ہیںاور جو نظریات اس کے برعکس پیش کئے جاتے ہیں انہیں رد کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اگر ابتدائی ماخذ ہی باہم متضاد دکھائی دیں تو ایک کو اپنانے اور دوسرے کو رد کرنے میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
بدھ کی زندگی کے بغور مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا طرز زندگی مختلف علاقوںاور زمانوں میں مبعوث ہونے والے دیگر انبیاء سے مختلف نہیں تھا۔ تمام انبیاء کے کردار میں ایک ہمہ گیر مشابہت پائی جاتی ہے جو ہمیں بدھ کی زندگی میںبھی نظر آتی ہے۔
تا ہم بدھ مت کے بنیادی عقائد سے متعلق بدھ کے اقوال و افعال کی مختلف تشریحات سے مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمیں اس عام خیال سے اختلاف ہے کہ مہاتما بدھ دہریہ تھے۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بدھ مت خداکا بھیجا ہوا مذہب ہے اور ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس کے بانی ہرگز دہریہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ ایسی شخصیت تھے جنہیں خود خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے انبیاء مبعوث کئے گئے تھے۔
بدھ مت پر تحقیق کرنے والے اکثر علماء اس مشکل سے دو چار ہوتے ہیں کہ بدھ مت کودنیا کے عظیم مذاہب میں کس طرح شمار کیا جائے؟ اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں مذہب کی مسلّمہ تعریف سے انحراف کرنا پڑتا ہے تا کہ اس میں دہریہ فکرومذہب کی گنجائش نکل سکے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کو مذاہب کی صف میں کیسے شمار کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد خدا کے انکار پر ہو؟ ہمارے نزدیک یہ اعتراض ہی درست نہیں ہے۔ ہم اس بات کا سرے سے ہی انکار کرتے ہیں کہ بدھ مت منجانب اللہ نہیں ہے۔ اپنے نقطۂنگاہ کے حق میں ہم ان ماخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں جن پر بدھ مت کے پیروکار بھی انحصار کرتے ہیں۔ ہم ثابت کریں گے کہ ہمارا نقطۂنگاہ بنیادی طور پر زیادہ قابل قبول ہے۔ ہم پھر یہی کہتے ہیں کہ بدھ مت مذاہب عالم میں کوئی عجوبہ نہیںہے۔ اس کے برعکس بدھ مت کے بنیادی خدوخال بھی وہی ہیں جو دیگر الہامی مذاہب کے ہیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی محققین بدھ مت کے بارہ میں یہ عام غلط فہمی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں کہ یہ ایک ملحدانہ مذہب ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی معلومات کی بنیاد زیادہ تر بدھ علماء کے پالی زبان سے کئے گئے تراجم پر تھی جن کے متعصبانہ اور ملحدانہ خیالات نے ان تراجم کو متاثر کیا۔ ان مغربی محققین میں سے کم ہی پالی زبان کو سمجھ سکتے تھے جو بدھ کی بنیادی تعلیم کا ماخذ تھی۔ علاوہ ازیں بجائے اس کے کہ یہ علماء بدھ مت کے معتبر ذرائع سے خود نتائج اخذ کرتے ان کا میلان مکمل طورپر ان عقائد کی طرف رہا جو بدھ مت کے اکثر فرقوں میں رائج تھے۔
مغربی مفکرین کے اس عمومی رجحان کے خلاف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام (1908-1835)نے تنہا آواز بلند کی اور ایک بالکل مختلف نظریہ پیش کیا۔ آپؑ نے دعویٰ کیا کہ مہاتما بدھ ؑ وجود باری پر ایمان رکھتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کیلئے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ ؑ نے ثابت کیا کہ باقی انبیاء کی طرح حضرت بدھؑ بھی فرشتوں، جنت دوزخ، قیامت کے دن اور شیطان کے وجود پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ الزام کہ حضرت بدھؑ خداتعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے تھے، سراسر اختراع ہے۔ حضرت بدھؑ نے دراصل ویدانتا (وہ مذہبی عقائد اور اصول جو ہندوؤں کی مقدس کتب ویدوں میں موجود ہیں) کی نفی کی تھی اور ہندومت کے خدا کے جسمانی شکل میں ظہور کے عقیدہ کو ردّ کیا تھا۔ حضرت بدھ ؑنے برہمنوں پر سخت تنقید کی جنہوں نے اپنی غلط تشریحات سے ہندومت کی الہامی تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی آواز زیادہ دیر تک تنہا نہ رہی اور بہت جلد مغربی محققین کی دوسری نسل کی اکثریت اس سلسلہ میں آپؑ کے نقش قد م پر چلنے لگی۔ ان میں سب سے ممتاز فرانسیسی سکالر ڈاکٹر گستاولے بون Dr.Gustavr Le Bon (1931-1841) لکھتے ہیں:
’’بد قسمتی سے یورپین محققین نے ہندوستان کی مذہبی یادگاروں کے مطالعہ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔ ہندوستانی ثقافت کے ماہرین، جن کے ذریعہ ہمیں بدھ مت کا علم حاصل ہوا ہے، کبھی ہندوستان گئے ہی نہیں۔ اس مذہب کے بارہ میں ان کا علم صرف کتابی تھا۔ سوئِاتفاق سے وہ فلسفیانہ کتب ان کے ہاتھ لگ گئیں جو بدھ کی وفات کے پانچ چھ سو سال بعد لکھی گئی تھیں اور جو عملی تعلیم سے یکسرمختلف تھیں۔ مابعد الطبیعیاتی نظریات جنہوں نے اپنے علم کی گہرائی سے یورپین محققین کو متحیرّ کر دیا کوئی نئی چیز نہ تھے۔ جب لوگ ہندوستانی کتب سے متعارف ہوئے تو پتہ چلا کہ اس فلسفہ ٔحیات کے ماننے والے برہمن فرقے اس دور میں بھی موجود تھے۔‘‘ 1
یہاںتک تو ڈاکٹر لے بون (Dr. Le Bon)کی تنقید درست ہے لیکن درج ذیل اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ خود بدھ مت کے حقیقی تصور کو نہیں سمجھ سکے۔ کیونکہ مزاروں (stupas) پرکندہ تحریرات ثابت کرتی ہیں کہ مہاتما بدھ ہرگز مشرک نہیں تھے۔ ڈاکٹر لے بون کا بیان ہے کہ-:
’’بدھ مت کے بارہ میں معلومات ہمیں کتابوں سے نہیں بلکہ یادگار عمارتوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہ عمارتیں جو معلومات ہمیں مہیا کرتی ہیں وہ کتب سے حاصل کردہ معلومات سے حیران کن حد تک مختلف ہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بدھ مت جسے دور جدید کے محققین ملحدانہ خیال کرتے ہیں دراصل انتہائی مشرکانہ رسوم کا حامل ہے۔‘‘ 2 ٭
لیکن جیسا کہ ابھی ثابت کیا جائے گا اس تحریر کا آخری حصہ درست نہیں۔
ڈاکٹر لے بون کے بعد آنے والے مشہور سکالر آرتھر للی (Arthur Lillie) نے اشوکا کے مزاروں پر کندہ تحریرات کے بغور مطالعہ کے بعد بالکل مختلف نتیجہ نکالا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی کتاب India in Primitive Christianity میں بہت سے حوالے دیئے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ نقوش خاص مقصد کیلئے صرف تعمیر شدہ مزاروں پر ہی نہیں بلکہ ان چٹانوں پر بھی ملتے ہیں جو شاہراہوںاور تجارت کیلئے بنائے گئے راستوں پر بھی موجود تھیں۔ ذیل میں ہم اس قسم کی تحریرات کے دو نمونے پیش کرتے ہیں۔
دریائے کٹک کے مشرقی ساحل پر جگن ناتھ سے 20میل کے فاصلے پر موجود ایک چٹان Pardohli پر یہ تحریر کندہ ہے:-
’’میں دوبارہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اس زندگی کی چیزوں کی شدید خواہش نافرمانی ہے۔ اور یہ بھی نافرمانی میں داخل ہے کہ ایک شہزادہ دنیوی اقتدار کے حصول کی شدید خواہش رکھے جبکہ وہ جنت کا وارث بن سکتا ہو۔ توبہ کرو اور خدا (Is'ana) پرایمان رکھو جو فرمانبرداری کا مستحق ہے۔ میں تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جنت کے حصول کیلئے اطاعت جیسا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ تم ہمت کر کے یہ بیش بہا خزانہ حاصل کر لو۔‘‘ 3
اس عبارت میں اسانا (Is'ana)کا لفظ شِو دیوتا (Shiv Devta) یعنی خدا کیلئے استعمال ہوا ہے۔ (ملاحظہ ہو سنسکرت--انگریزی ڈکشنری از Shivram Apte)۔
ساتویں مزار (Stupa) سے متعلق یہی مصنف ذیل کا ایک اور حوالہ دیتا ہے:
‏’’Devanampiya Piyadasi یوں مخاطب ہوا:’اسی لمحہ سے میں نے مذہبی تبلیغ کا حکم دیا ہے اور ایسے مناسک کا نفاذ کیا ہے جن کی اتباع میں انسان سیدھا راستہ اختیار کر لے گا اور خدا کی عظمت کے گیت گا ئے گا۔‘‘ 4 ٭
ان اقتباسات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ابتدائی ماخذ کے مطابق حضرت بدھؑ کا خدا پر پختہ ایمان تھا۔
مستند اور ثقہ ہونے کے لحاظ سے دوسرا اہم ماخذ بدھ مت کا وہ مذہبی لٹریچر ہے جو مہاتما بدھ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد منظر عام پر آیا۔ اس لٹریچر میں بھی کافی شہادت موجود ہے کہ حضرت بدھؑ نہ تو ملحد تھے اور نہ ہی لاادری، بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھنے والے تھے۔ ہم یہاں خاص طور پر Theravada کے متن کا حوالہ دیں گے جو Tripitaka یعنی تین ٹوکریوں کے نام سے موسوم ہے۔ یہ نام ظاہر کرتا ہے کہ کتاب کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ Vinaya-Pitaka یعنی ضابطہ ٔ اخلاق پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہSutta-Pitaka یعنی مکالمۂ صداقت اور تیسرا حصہ Abhidhamma Pitakaہے جسے تجزیۂ مذہب کہا جاتا ہے۔
‏Sutta Niptaکے 'The Chapter on going to the far shore' 5 بالفاظ دیگر ’دورساحل کا سفر‘ میں موت کی تسخیر کا مقصد بیان کیا گیا ہے جس میںحضرت بدھؑ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اپنی ’انا‘ مٹا ڈالتے ہیں اور خدا کے ہو جاتے ہیں‘ موت ان کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ البتہ یہ درست نہیں کہ یہ تحریریں غلط فہمیوں کا شکار ہو گئی ہیں اور مکتی کے بارہ میں برہمن سوچ سے خلط ملط ہو گئی ہیں۔ حضرت بدھؑ نے بڑے واضح الفاظ میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اسی دنیا میں جسمانی موت سے پہلے ہی دوسرے عالم کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک کوئی شخص اسی زندگی میں موت سے گزرے بغیر اخروی زندگی کو نہیں پا سکتا۔ یہ تصور قرآنی تعلیم کے بہت قریب ہے۔ حضرت بدھؑ نے تعلیم دی کہ جب انسان کامل طور پر خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ زندگی اور موت سے بالا تر ہو کر دائمی زندگی پا لیتا ہے۔
اس باب کے آخر پر حضرت بدھؑ کا ایک پیروکار‘ پنجیا (Pingiya)اپنے استاد کے کمالات کا ذکر کرتا ہے جن کے نتیجہ میں اس نے بدھ مت کو اختیار کیا۔ یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ ضعیف العمر اور قریب المرگ ہے پنجیا اپنی گفتگو کو یوں سمیٹتا ہے:-
’’میں یقینا اس کے پاس جاؤں گا جو غیر متغیر اور غیر متزلزل ہے جس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس میں ذرہ بھی شک نہیں۔ اس لئے مجھے انہی لوگوں میں شمار کرو جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ 6
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت بدھؑ کا ایک مرید یہ خواہش اور تمنارکھتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گاجو ایک غیر متغیر، غیر متزلزل اور بے مثل و مانند ہستی ہے۔ خدا کی یہی تعریف بعینہٖ دوسرے مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے۔
‏Tripitakaکے حصہ دوم Sutta-Pitakaمیں، جو مزید پانچ کتابوں میں منقسم ہے اور بدھ کے بہت سے مکالمات پر مشتمل ہے، نہایت دلچسپ پیرائے میں حضرت بدھؑ کے عقائد کا ذکر کیا گیا ہے۔ پالی ٹیکسٹ سوسائٹی لنڈن کی پریذیڈنٹ Mrs. T.W. Rhys Davidsنے ان میں سے بعض مکالمات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ ترجمہ Sacred Books of the Buddhists کے عنوان سے شائع شدہ کتاب میں درج ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی دوسری جلد کا مکالمہ نمبر 13(Tevigga Sutta) خصوصیت کے ساتھ اس سوال سے متعلق ہے کہ انسان کس طرح خدا تک پہنچ سکتا ہے؟
حضرت بدھؑ اوّل تو اس بات ہی کو رد فرماتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں کوئی ہندو پنڈت کسی انسان کی خداکی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اس سوال کا مختلف جواب وہ اپنے طور پر دیتے ہیں۔ اس مکالمہ کا پس منظر بھی بہت دلچسپ ہے۔
کہتے ہیں کہ بہت پہلے برہمنوں کا ایک مشہور گاؤں مناساکٹا (Manasakata) تھا جو ملک کے ایک بہت ہی خوبصورت علاقے میں دریا کے کنارے واقع تھا اور برہمنوں کے مذہبی نزاع کا مرکز ہونے کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا۔ ان میں سے پانچ برہمن جو اپنے اپنے مذہبی مکتبۂ فکر کے سربراہ تھے، بہت ممتاز تھے۔ اتفاق سے حضرت بدھؑ نے بھی اپنے بعض مریدوں کے ساتھ اسی دریا کے کنارے پڑاؤکیا۔ ان کی آمد کا سن کر لوگ ان سے ملنے کیلئے آنے لگے تاکہ وہ ان کی تعلیمات خود ان کی زبانی سن کر بصیرت حاصل کر سکیں۔ ایک مرتبہ اس گاؤں کے واسیتا (Vasettha)اور بھردواگا (Bharadvaga) نامی دو نوجوانوں کے مابین اشنان کے بعد چہل قدمی کے دوران مذہبی عقائد پر بحث چھڑ گئی۔ لیکن کوئی ایک بھی دوسرے کو اپنے گورو کی سچائی کا قائل نہ کر سکا۔ واسیتا (Vasettha)نے یہ معاملہ حضرت بدھؑ کے حضور پیش کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ اس بارہ میں وہ حضرت بدھؑ سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوران گفتگو بھردواگا تو خاموش رہا اور واسیتا نے مسئلہ بیان کیا۔ مگر حضرت بدھؑ نے جواب دینے سے قبل بعض مزید سوال پوچھے۔
ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویدوں کے کسی عالم نے برہما (یعنی خدا ) کو ظاہری شکل میں دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ’’نہیں‘‘۔ پھر حضرت بدھؑ نے واسیتا سے پوچھا کیا پچھلی سات پشتوں سے کسی برہمن یا اس کے شاگردوں میں سے کسی نے برہما کو دیکھا ہے؟ جواب پھر نفی میں تھا۔ پھر حضرت بدھؑ نے سوال کیا کہ کیا آپ دونوںنے کبھی برہما کو دیکھا ہے؟ جواب پھر نفی میں تھا۔ پھر انہوں نے واسیتاسے پوچھا کہ ایک شخص جو مناساکٹا میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ہو، اس سے مناساکٹا کا راستہ پوچھا جائے تو کیا وہ راستہ بتانے میں کوئی دقت محسوس کرے گا؟ واسیتا نے جواب دیا ہرگز نہیں، اور ایسا ممکن بھی نہیں۔ اے مقدس گوتما! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ جو شخص مناساکٹا میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ہو وہ تو مناساکٹا کی طرف جانے والے ہر راستہ سے پوری طرح واقف ہو گا۔ اس موقع پر حضرت بدھؑ نے وضاحت فرمائی کہ:
’’پس اے واسیتا! ایسا شخص جو مناساکٹا میں ہی پیدا ہوا اوروہیں پروان چڑھا ہو، مناساکٹا کا راستہ بتانے میں شاید دقت محسوس کرے لیکن تتھاگتا Tathagata (روحانی نور سے آشنایعنی خود بدھ ) سے اس راستہ کے بارہ میں پوچھا جائے جو برہما یا خدا تک پہنچاتا ہے تو وہ راستہ بتانے میں کسی مشکل یا شک میں مبتلا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اے واسیتا! میںبرہما یعنی خدا اور اس تک پہنچنے کے راستوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اور ہاں، میں انہیں یوں پہچانتا ہوں جیسے میں اس عالم کا حصہ ہوں اور وہیں پیدا ہوا ہوں۔‘‘ 7
حضرت بدھؑ کا موقف تھا کہ مناساکٹاکے رہنے والوں کو وہاں جانے والے راستوں کا بخوبی علم ہونا چاہئے۔ اسی طرح تعلق باللہ کے دعویدار کو خدا کی طرف جانے والے راستوں کا علم ہونا چاہئے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ واقعۃً خدا کی طرف سے آیا ہو اور اس کا عرفان رکھتا ہو۔ حضرت بدھؑ کے سوال و جواب سے صاف ظاہر تھا کہ ان دونوں کے کسی بھی گورو (استاد) نے نہ تو کبھی خدا کو دیکھا تھا اور نہ ہی انہیں خدا کی معرفت حاصل تھی۔ اس لئے خدا کی ہستی کی شناخت ان کی سمجھ سے بالا تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مکالمہ میں بدھ کے دلائل سے یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہو کہ وہ اس لئے خدا کے وجود کا انکار کر رہے ہیں کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ درحقیقت مترجم نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اِس مکالمہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
’’اگر تم برہما سے ملنا چاہتے ہو (تم جیسوں کیلئے بہتر ہے کہ تم اس کی خواہش نہ ہی کرو) تو اسے حاصل کرنے کا یہی رستہ ہے۔‘‘ 8
اس مکالمہ کے تجزیہ سے ظاہر ہے کہ حضرت بدھؑ نے جو بات پورے وثوق سے بیان کی ہے مصنف اسے سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح بعض محققین ان بدھ بھکشوؤں کے عقائد سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے حضرت بدھؑ کی اپنے زمانہ کے پنڈتوں کے خلاف عظیم جدوجہد کو غلط سمجھا ہے۔ حضرت بدھؑ نے قطعی طور پر ان توہم پرست عقائد اور بتوں کا انکار کیا تھا جن کے ماننے والوں نے کبھی خداتعالیٰ کو دیکھا، نہ سنا۔ لیکن حضرت بدھؑ کا جواب یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ تتھاگتا (Tathagata)کیلئے خدا کی طرف رہنمائی کوئی مشکل بات نہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ خود بھی انسان کی خدا کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں اور ان کا خدا کے ساتھ زندہ تعلق ہے۔
اب یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ حضرت بدھؑ کا خدائے بزرگ و برتر پر پورا ایمان تھا جس نے انہیں مبعوث کیا تھا۔ جس طرح مناساکٹا (Manasakata) کے لوگ اپنے گائوں کی طرف جانے والے راستوں سے واقف تھے اس سے کہیں بڑھ کر حضرت بدھؑ کو خدا کا عرفان حاصل تھا۔ چنانچہ انہوں نے بڑی تحدی سے دعویٰ کیا کہ ان کا خدا کے ساتھ مسلسل زندہ تعلق ہے۔ یہ مقام خدا کے قرب کے حوالہ سے محض الہام پانے کی نسبت کہیں زیادہ بلند تر ہے۔ بہت سے بزرگ انبیاء کا یہی دعویٰ ہے کہ موت سے پہلے اس دنیا میں ہی ان کا خدا کے ساتھ ایک زندہ اور دائمی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ یعنی تمام انبیاء کو خدا کی طرف سے اس تعلق کا تجربہ حاصل ہوتا ہے اور حضرت بدھؑ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ حضرت بدھؑ خدا کو برہما اس لئے کہتے تھے کہ ہندو اپنے دیوتاؤں کے ذکر میں اس اصطلاح کو خدائے عظیم کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ لہٰذا جوں جوں گفتگو آگے بڑھتی رہی بات اور بھی واضح ہوتی چلی گئی۔
حضرت بدھؑ کی بات مکمل ہونے پر نوجوان برہمن واسیتا نے اس مقدس ہستی کی خدمت میں عرض کی:
’’گوتما! مجھے معلوم ہوا ہے کہ سامانا(Samana)گوتما خدا کے پانے کا طریق جانتے ہیں۔ یہ درست ہے! ہم قابل احترام گوتما کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ ہماری رہنمائی اُس رستے کی طرف فرمائیں جو برہما کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اے عظیم گوتما! ہماری نسل کو تباہی سے بچا لیں۔‘‘ 9
اس حوالہ سے حضرت بدھؑ واسیتا کی دعا اور خواہش کو رد نہیں کرتے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جو کچھ حضرت بدھؑ نے خدا اور اس کے پیاروں سے تعلق کے بارہ میں فرمایا تھا وہ سچ تھا۔ وہ لوگ جو ذات پات کی تمیز کے بغیر خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، ان پر خدا تک پہنچنے کی راہ آسان کر دی جاتی ہے۔ جس شخص کے دل میں خوفِ خدا ہو وہ غصہ‘ حسد‘ بغض اور دیگر نفسانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ہی انسان خدائی صفات کو اپنا سکتا ہے۔ خدا کے بارہ میںحضرت بدھؑ کا عقیدہ جاننے کیلئے یہ گفتگو نہایت اہم ہے۔
پھر حضرت بدھؑ کو ان کے ماننے والوں نے غلط کیوں سمجھا؟ اس سوال کا جواب غالباً بدھمت کی ابتدائی تاریخ سے مل سکتا ہے جب نئے ابھرتے ہوئے بدھ مت کا ٹکراؤ برہمن مذہب کی قدیم روایات سے ہوا۔ ممکن ہے کہ اس وقت حضرت بدھؑ کے ماننے والوں نے اپنے پرانے خیالات جان بوجھ کر ان کی طرف منسوب کر دیئے ہوں یا وہ ان کی تعلیم کے بارہ میں دیانتدارانہ طور پر غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں۔ جب حضرت بدھؑ نے برہمنوں کی مروجہ بت پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تو ان پر الحاد کا الزام لگایا گیا۔ با اثر برہمنوں نے یہ تحریک اس زور سے چلائی کہ اس شوروغوغا میں حضرت بدھؑ کی آواز دب کر رہ گئی۔
رسل و رسائل کی مشکلات اور لکھنے کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ اس تحریک کا اثر ہندوؤں کے ساتھ ساتھ خود حضرت بدھؑ کے پیروکاروں پر بھی ہوا ہو اور انجام کار وہ اس بات پر یقین کرنے لگے ہوں کہ حضرت بدھؑ نے ہندو دیوتاؤں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ تاثر عام ہو گیا کہ حضرت گوتم بدھؑ نے ہندودیوتاؤں کا انکار کیا ہے اور اکثر لوگ انہیں ملحد سمجھنے لگے۔
البتہ ان کے ماننے والوں کی اطاعت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ حضرت بدھؑ کو ایک شفیق، محبت کرنے والا، نرم دل، کامل اور انتہائی دانشمند استاد مانتے تھے۔ ہم اس زمانہ کی بات کر رہے ہیں جب خواندگی بہت ہی کم تھی۔ لوگ اکثر سنی سنائی باتوں پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ حضرت بدھؑ کے ماننے والے بھی اس تحریک کی رو میںبہہ گئے ہوں۔ لیکن اس سے ان کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کیلئے حضرت بدھؑ کا عقل کل ہونا ہی کافی تھا۔ وہ ان کا احترام دل کی گہرائیوں سے کرتے اور رفتہ رفتہ غیر محسوس طریق پر ملحد قرار دئیے جانے والے اس محبوب اور دانشمند استاد کا احترام خدا کی مانند کیا جانے لگا۔
مذہب کی تاریخ میں ایسا پہلی دفعہ نہیںہوا کہ پروہتوں اور بعض دیگر انسانوں کو دیوتاؤں کا مقام دے دیاجائے۔ لہٰذا حضرت بدھؑ کے تعلق میں ان کے پیروکاروں کی تمام تر محبت اور توجہ ان پر ہی مرکوز رہی جنہیں وہ انسانی حسن کا ایک کامل نمونہ سمجھتے تھے۔ اسا طیری داستانوں کی طرح حضرت بدھؑ کو روایتی دیوتا تو نہیں بنایا گیا مگر ان کیلئے یہی کافی تھا کہ وہ اپنے عقائد کی ایک انتہا پر برہمن کو اور دوسری پر حضرت بدھؑ کو جگہ دیں۔ ان کے نزدیک برہمن کسی دیومالائی وجود کے نمائندہ اور حضرت بدھؑ سچائی، دانشمندی اور عقلمندی کا مجسم نمونہ تھے۔ چنانچہ بدھ مت نے تدریجاً ایسی شکل اختیار کر لی جس میں کسی فرضی خدا کے تصور کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ فطرت انسانی میں موجود ایمان باللہ کی خواہش نے رفتہ رفتہ حضرت بدھؑ کو اس مقام پر فائز کر دیا۔ چنانچہ چوتھی صدی میں حضرت بدھ ؑ نے دانشوری کے سرچشمہ کی حیثیت سے جس سفر کا آغاز کیا اس کی وجہ سے وہ اپنے ماننے والوں کی نظر میں عام لادینی فلسفیوں کی نسبت بہت بلند مقام پر فائز ہو گئے اور جلد ہی عام دانشمندی کی علامت سے بالاتر عزت و احترام کے اس مقام کو پا لیا جو مذاہب عالم میں خدا یا دیوتاؤں کیلئے خاص ہے۔
یہاں ہم صرف چند سالوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ بدھ مت پر الحاد کا منحوس سایہ پڑنے میں صدیاں لگ گئیں۔ اسی طرح حضرت بدھؑ کو خدا کا نام دیئے بغیر خدا کا مقام دینے میں بھی اُن کے پیروکاروں کو صدیاں لگی ہوں گی۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے حضرت بدھؑ کے ماننے والوں میں رفتہ رفتہ ایسی تبدیلی آتی گئی جس کے نتیجہ میں وہ ایمان باللہ سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے اور بالآخر خدا کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے۔ اور یہ محض ایک اندازہ نہیں بلکہ بدھ مت کے بغور مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حضرت بدھؑ موحّد تھے اور انہوں نے شرک کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ تاثر مخالفین کی انتہائی کوشش کے باوجود پہلی تین صدیوں تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہا۔
اب ہم قاری کی توجہ اس دور کی طرف مبذول کراتے ہیں جب عظیم بادشاہ اشوکا نے سلطنت کے وسیع و عریض خطہ پر، جو ہندوستان سے افغانستان تک پھیلا ہوا تھا، حکومت کی۔ اشوکا کو حضرت بدھؑ کی تعلیم اورطرز ِ زندگی کے بارہ میں مستند حیثیت حاصل ہے اور اس نے حضرت بدھؑ کو خدا کے ایک ایسے نبی کے طور پر پیش کیا جن کی تعلیم وحی ٔالٰہی پر مبنی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دنیا کو وہی تعلیم دی جس کی ذمہ داری خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو سونپی گئی تھی۔ اشوکا کے اس مسلک کے نقوش تاریخ کی الواح پر آج بھی کندہ ہیں۔
ترکِ دنیا یا فرار
ترک دنیا اور دنیوی علائق سے کنارہ کشی کے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدھ مت کے ماننے والوں کے نزدیک یہی وہ آخری
ذرائع ہیں جو دکھ درد سے آزادی اور مکمل نجات دلاتے ہیں۔ روز مرہ کی خواہشات کے معاملہ میں روح اور زندگی کی باہمی کشمکش کو ایک زاہد و عابد ہی سمجھ سکتا ہے۔ غیر معمولی صبر اور مصمّم ارادہ کے بغیر یہ مہم ناقابل تسخیر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن بدھ مت کے ماننے والوں کے نزدیک اسی میں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ مادی دنیا سے مکمل کنارہ کشی اور دنیوی لذّات سےاجتناب ہی نِروان اور ابدی نجات کا واحد راستہ ہے۔ اسی لئے حضرت بدھ ؑ کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ درحقیقت اپنے جذبات کی نفی ہی کامل سچائی ہے۔ کیونکہ طاقت اور دولت کی ہوس حتیٰ کہ دوسروں سے بے لوث محبت میں ناکامی، روحانی اذیت اور احساسِ محرومی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی طرح نفرت کا احساس ذہنی سکون کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ بدھ مت کے نزدیک ایسے تمام جذبات انسان کی روحانی قوتوں کو کمزور کردیتے ہیں۔ اس بات کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت تبدیل نہیںکی جاسکتی اور نہ ہی اس کی ھل من مزید کی خواہش ختم ہو سکتی ہے لہٰذا کامل اطمینان مادی دنیا سے تعلق توڑے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس طرح حضرت بدھ ؑ کے ماننے والوں کیلئے ترک دنیا کے لمبے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو بالآخر نجات پر منتج ہوتا ہے۔ انہیں آرام دہ زندگی کیلئے درکار تمام لذّات کو چھوڑنا پڑتا ہے اور حواسِخمسہ کے خلاف ایک مستقل جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ یعنی قوت بصارت، سماعت، ذائقہ، شامّہ اور لامسہ غرضیکہ ان تمام احساسات کی نفی ضروری ہے جو انسان کو کسی نہ کسی طرح بے چینی میں مبتلا کر دیا کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان حالات ہی سے بچا جائے جن کی وجہ سے انسان مصیبت میں مبتلا ہوتا اور مادی خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ الغرض مادی خواہشات کی نفی سے امن اور سکون کے حصول کیلئے بدھ مت کا یہ تصور دراصل فرار ہی کا دوسرا نام ہے۔ بالفاظ دیگر اگر زندگی دو بھر ہے تو موت ہی اس کا واحد حل ہے۔
وہ اپنے گھٹیا جذبات کو روح کے تابع کرنے کی جدوجہد کی بجائے روح کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زندگی کی اس کشمکش سے فرار کا راستہ اختیار کرلے۔ ان کے نزدیک چونکہ انانیت کو تسکین دینے والا ہر احساس گھٹیا، سفلی، محض مادی اور رذیل ہوا کرتا ہے اس لئے انجام کار ـ’انا‘ کے اعلیٰ ترین مفاد کی خاطر اسے قربان کردینا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرار کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا سکون زندگی کی نفی کے مترادف ہوگا۔
سکون دو قسم کا ہو سکتا ہے۔ موت کو بھی سکون کا نام دیا جا سکتا ہے۔ موت اور سکون میں فرق کرنا کوئی آسان نہیں۔ مثلاً شکست سے سمجھوتہ اور بے عزتی پر راضی رہنا ہمارے اس نقطۂنگاہ کی وضاحت کرتا ہے۔ فتح کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا اطمینان اور شکست کے بعد امن بظاہر ایک سے لگتے ہیں لیکن دراصل ان میں بُعدالمشرقین ہے۔ اگر ایک زندگی ہے تو دوسرا موت۔ باہمی اختلافات اور تضادات کی وجہ سے مذاہب کی پہچان اور ان میں امتیاز بعض اوقات مشکل ہو جاتاہے۔ بظاہر ہر مذہب ایک اطمینان بخش انجام کی طرف رغبت دلاتا ہے تا ہم بعض ایسے ہیں جو آرام سے موت کے آگے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ بعض کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی عظیم الشان مقصد کیلئے اپنی جان کی قربانی بھی پیش کر سکیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو بدی کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں اوراخلاقیات سے نبردآزما تمام چیلنجوں کا نہایت دلیری سے مقابلہ کر کے انہیں ہر قیمت پر شکست دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس طرح حاصل ہونے والا روحانی سکون ہی حقیقی نروان کہلا سکتا ہے۔
بدھ مت جیسے زوال پذیر مذاہب اپنے ماننے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ فرار کے ذریعہ سکون کی پناہ گاہ تلاش کریں۔ وہ انہیں تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے فطری احساسات کو انگیخت کرنے والے ہر قسم کے لالچ اور تحریص سے بچنے کی کوشش کریں۔ بدھ مت کا پیروکار اپنے من کے حصار میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس حالت کو مبہم سے الفاظ میں خلا سے تعبیر کیا ہے جبکہ بعض اس کیفیت کو دائمی اور روحانی قرار دیتے ہیں۔ کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ دونوں قسم کے خیالات کے حامل لوگ ایک ہی خدا کی بات کر رہے ہیں؟ اگرچہ اس بارہ میںبھی اختلاف ہے۔ اکثر کے نزدیک اس کیفیت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس میں سے گزر چکے ہوں اور صاحب تجربہ ہوں۔ اگریہ کیفیت بالآخرخدا کی طرف نہیںلے جاتی،جب کہ بہت سے بدھ علماء خداتعالیٰ کے وجود کے ہی منکر ہیں تو پھر اس کیفیت کی صرف یہی معقول تعریف ٹھہرتی ہے کہ ایسا خلا مکمل تباہی اور کامل موت کے مترادف ہے۔
الغرض تمام فطری خواہشات کو، جن کاتعلق حواس خمسہ سے ہے اور جو زندگی کا حصہ ہیں، مکمل طور پر رد کر دیا جائے تا کہ کامل اطمینان یا نروان حاصل ہو۔ یقینا سب پیروکار اس مقصد کو بیک وقت حاصل نہیں کر سکتے لیکن تمام سچے پیروکاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کوشش کرتے چلے جائیں حتیٰ کہ رفتہ رفتہ قدم بہ قدم وہ اپنی ذات کی کامل نفی کے مقام تک پہنچ جائیں۔
اس مضمون کی مزید تفہیم کے لئے مناسب ہو گا کہ ہم اس موقع پر ایک نہایت موزوں واقعہ کا ذکر کریں۔ کشمیر میں ایک بھکاری تھا جو کسی حد تک صوفی بھی تھا۔ وہ اپنی محدود ضروریات کے سوا اور کچھ نہیں مانگتا تھا اور اکثر گہری سوچ میں گم رہتا جیسے وہ اپنے اندر کسی چیز کی تلاش میں ہو۔ ایک دفعہ ایک عارف نے وہاں سے گزرتے ہوئے اسے خوشی سے ناچتے اور وجد میں رقص کرتے دیکھا۔ اس عارف نے پوچھا: ’’بابا! بڑے خوش نظر آ رہے ہو، تم پہلے والے بھکاری تو نہیں لگتے۔ کوئی خزانہ وغیرہ تو نہیں مل گیا تمہیں؟‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ مجھے ایک بیش بہا خزانہ ملا ہے۔ جب کسی کی ساری خواہشات پوری ہو جائیں تو وہ خوش کیوں نہ ہو؟‘‘ بھکاری نے جواب دیا۔
یہ سن کر عارف نے کہا ’’خود کو دیکھا بھی ہے تم نے؟ چیتھڑوں میں پھر رہے ہو اور تمہارا سارا جسم مٹی سے اٹا پڑا ہے۔ پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ تمہاری ساری تمنائیں پوری ہو گئی ہیں؟‘‘
بھکاری نے کمال بے اعتنائی سے جواب دیا: ’’بات یہ ہے برخوردار، کہ انسان کی ساری خواہشیں پوری ہونے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اس کی کوئی خواہش ہی نہ رہے۔ میری خوشی اور وجد کا بھی یہی راز ہے۔ اب تم یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘
یہ جواب سن کرعارف دم بخود ہو کر رہ گیا۔ لیکن اگر اس پر دوبارہ غور کیا جائے تو لامحالہ محسوس ہو گا کہ بھکاری کا جواب جتنا عمدہ تھا اتنا ہی مہمل بھی تھا۔ اس کی محدود ذات سے ہٹ کر دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ارد گرد کا ماحول اسی طرح خرابیوں اور دکھ درد سے بھرا پڑا تھا۔ وہی ظلم وستم، وہی استبداد اور مطلقالعنانی تھی اور پھر بھکاری کو بھی زندہ رہنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو بہرحال درکار تھا۔ حسبِ معمول غذا پانی اورہوا اس کے لئے ناگزیر تھے۔ بالفاظ دیگر انسان خواہشات سے نجات حاصل کر بھی لے تو اس کے لئے ضروریات سے نجات بہرحال ممکن نہیں۔
جو تبدیلی بھی ہوئی وہ بھکاری کی ذات سے متعلق تھی۔ لیکن کسے معلوم کہ تبدیلی مستقل تھی یا محض عارضی؟ ہو سکتا ہے کہ سخت سرد رات میں اپنے ماحول کو گرم رکھنے کیلئے اس نے بھی ایک انگیٹھی، کچھ کپڑوں اور سر چھپانے کیلئے جگہ کی ضرورت محسوس کی ہو، بیماری کی حالت میں کسی معالج کی خواہش کی ہو اور اس کے جلد پہنچنے کا منتظر بھی رہا ہو۔ محض ارادہ سے، خواہ کتنا ہی مصمم کیوں نہ ہو، وہ کس طرح زندگی کے تلخ حقائق پر قابو پا سکے گا؟ شاید ایک بدھ بھکشو ہی اس کا جواب جانتا ہو۔ اس سارے عمل میں خالی قناعت پسندی کے ذہنی احساس کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ ترک دنیا کی کیفیت درحقیقت کامل بے بسی کا نتیجہ تھی جسے چاہے سکون کا نام دیں یا موت کا، اسے حقیقی نِروان بہرحال نہیں کہا جا سکتا۔
ہندوستان کے دو بڑے مذاہب یعنی ہندومت اور بدھ مت اس نظریہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے کہ سکون قلب کا حصول ضروریات زندگی کو مسترد کر کے ہی ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نظریہ زندہ رہنے کی جدوجہد اور بقائے اصلح سے متصادم ہے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب ہارمان کر ناکامی کو قبول کرنا ہے۔
یہاں ہندومت اور بدھ مت کے بانیوں کی تعلیم زیر بحث نہیں ہے۔ فقط ان کے ہزاروں سال سے زوال پذیر فلسفوں کے نتائج کو پرکھنا مقصود ہے۔ یہ دونوں مذاہب اپنے الہامی منبع سے بہت دور جا چکے ہیں۔ درحقیقت انہوں نے وہی راستہ اختیار کر لیا ہے جو دنیا کے دیگر بڑے بڑے مذاہب کے صوفیوں اور عارفوں نے کیا۔ جہاں تک مؤخر الذکر طبقہ کا تعلق ہے تو وہ توحید سے اپنا تعلق توڑے بغیر الہامی مذہب کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے روحانی تجربات سے گزرتے ہیں جن کا تعلق الہام کی بجائے وجدان سے ہوتا ہے۔
جہاںتک ہندومت اور بدھ مت میں یوگا فلسفہ کا تعلق ہے دونوں مذاہب اپنی اپنی روایتی تعلیم سے دور چلے گئے ہیں یہاں تک کہ ان میں بنیادی تعلیم کا نشان تک نہیں ملتا۔ حضرت بدھؑ کی روشن خیالی کا ذریعہ تو الہام تھا لیکن بعد کے زمانہ میں وجدان، غور و فکر اور مراقبہ نے الہام کی جگہ لے لی۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اوائل میںبدھ مت کی تعلیمات ہندومت کی تعلیمات سے بالکل مختلف تھیں لیکن بعد میں یو گا کی فلاسفی اور عملی طریق میں دونوں مذاہب ایک ہو گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ یوگا کی تعلیمات کا ذکر پہلی دفعہ مزعومہ مذہبی دستاویز تنتراس (Tantras) میں ملتا ہے جو حضرت بدھؑ کے پانچ سو سال بعد مرتّب ہوئی۔ یہ دستاویزات صرف اونچے درجہ کے مذہبی رہنماؤں کیلئے مخصوص تھیں اور عام لوگوں سے سخت قسم کی رازداری میں رکھی جاتی تھیں۔ اس راز کو مزیدچھپانے کیلئے ان دستاویزات میں ایسی پیچیدہ زبان اور اصطلاحات استعمال کی گئی تھیں جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تھیں۔ کافی عرصہ بعد جب تنتراس تک محققین کی رسائی ہوئی تو وہ اس کا متن دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ یہ مزعومہ مقدس دستاویزات نہایت گندی اور غیر اخلاقی داستانوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ان میںبھوت پریت اور شیطانی وجودوں کا ذکر ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ان میں نہایت فحش زبان میں شہوات اور جنسی تعلقات کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے جس سے ایک شریف انسان کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ اس لحاظ سے تنتراس میں پائی جانے والی یوگا کی تعلیم کا بدھ کے پاک کلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
عین ممکن ہے کہ عفریتوں اور شہوات کا ذکر محض علامت کے طور پر ہو۔ موجودہ زمانہ کے پنڈتوں میں سے شاید کوئی بھی اس پیچیدہ اور خفیہ زبان کو سمجھ نہ سکے۔ غالباً دوہزار سال پہلے بدھ مت کے ان مذہبی پیشواؤں نے ان پیچیدہ اصطلاحات کو ایجاد کیا اور وہی ان کے معانی سے واقف تھے۔ لیکن ان کو گزرے ہوئے مدت ہو چکی اور تنتراس کازمانہ بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ تاہم تنتراس کی پیچیدہ زبان کے باوجود ’’یوگا‘‘آج بھی زندہ ہے اور ایسے بہت سے ماہرین اب بھی موجود ہیں جو تنتراس میں مذکور ’’یوگا‘‘ کی اس پوشیدہ سائنس کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
ہندومت اور بدھ مت میں پائے جانے والے یوگا کے تصور اور اس پر عملدرآمد کے طریق میں واضح تفریق کرنا مشکل کام ہے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے اختلافات محض اصطلاحات کی حد تک ہیں۔ خواہ ہم انہیں ہندو سادھو کہیں یا بدھ بھکشو، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں خدا کی خاطر رہبانیت یا ترکِ دنیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس مفہوم اور تصور کو کسی بھی نام سے پکاریں ان کے روحانی تشخص پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جو کچھ بھی انہیں حاصل ہوا اور جو بھی روشن خیالی ان کے حصہ میں آئی ان میں سے کوئی بھی اپنے موضوعی تجربات کی بنا پر دنیا کا نقشہ تبدیل نہ کر سکا۔ حضرت بدھؑ اور حضرت کرشن ؑ کو اس طبقہ میں شمار کرنا ان کی توہین ہے۔ وہ تو دراصل خدا کے دیگر انبیاء کی طرح انقلاب برپا کرنے والے تھے جن کے روحانی اور اخلاقی انقلاب کے سوتے الہام کے سرچشمہ سے پھوٹے۔ انہوں نے جھوٹ اور برائی کے خلاف جہاد کیا اور اپنی زندگی میں انتھک جدوجہد کا وہ علم بلند رکھا جس کی بنیاد محض موضوعی نہیں تھی۔ ظلمت کے خلاف ان کی یہ جدوجہد اعلانیہ، معروضی اور مسلسل جنگ تھی۔ بقائے اصلح کی خاطر ایک عظیم جدوجہد کا آغاز ہوا۔ حضرت بدھ ؑ اور حضرت کرشن ؑ کے حالاتِ زندگی سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ سینہسپر ہو جانے والے لوگ تھے نہ کہ موت سے بھاگنے والے۔ ان کا ایمان وحی ٔالٰہی کا نتیجہ تھا۔ ان کی تعلیمات نے ان کے وجدان کو جنم دیا لیکن وجدان ان کی تعلیمات کا سرچشمہ نہیں تھا۔
حضرت بدھ ؑ کے عصرِ حاضرکے بیشتر پیرو سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب محض حکمت یا بدھی ہے جو حضرت بدھؑ نے مراقبہ کے نتیجہ میں حاصل کی۔ ان کا فلسفہ اس بات کا دعویدار ہے کہ یہ سب کچھ حضرت بدھؑ کے وجدان کا نتیجہ تھا۔
وہ لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک عرفان ایک نفسیاتی تجربہ ہے جس میں انسان اکثر روحانی سرور محسوس کرتا ہے۔ اس روحانی کیفیت کے دوران صاحب تجربہ انتہائی سکون محسوس کرتا ہے۔ جب یہ وجدانی کیفیت جاتی رہتی ہے تو یو ں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس نے زندگی کا وہ مقصد پا لیا ہو جس کے حصول کے لئے بنی نوع انسان اتنی جدوجہد میں مصروف ہے۔
وہ اس نفسیاتی تجربہ کو روحانی نور کے طور پر باعث فخر محسوس کرتے اور مادیت کی غلامی سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح یہ تجربہ اپنی بہترین شکل میں بھی نہ تو معروضی حقائق کو بدل سکتا ہے اور نہ ہی برے لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے، اسی طرح یہ نہ تو غیرمعلوم حقائق کو معلوم حقائق میں بدل سکتا ہے اور نہ ہی اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کر سکتا ہے۔ وجدان میں کبھی بھی یہ صلاحیت نہیں رہی کہ وہ ماضی میں مدفون واقعات سے پردہ اٹھا سکے یا مستقبل میں جھانک کر کوئی پیشگوئی کر سکے۔
اگر ذات کی مکمل نفی کا فلسفہ اپنے منطقی انجام کو پہنچتاہے تو یقینا نسلِ انسانی کے خاتمہ پر منتج ہو گا۔ الہامی نور سے منور حضرت بدھؑ کی حکمت اور دانش کو ایک مبہم وجدان سے تعبیر کرنا، حضرت بدھؑ کی عزت افزائی نہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ وجدان وہ روحانی آبِ حیات نہیں تھا جسے پی کر انہوں نے حیاتِ جاوداں پائی۔
حوالہ جات
I . LE BON, G., GUIMET. E. (1992) Mirages Indiens: de Ceylan au Nepal, 1876-1886. Chantal Edel et R. Sctrick, Paris, p.241
2. LE BON, G., GUIMET, E. (1992) Mirages Indiens:de Ceylan au Nepal, 1876-1886. Chantal Edel et R. Sctrick, Paris, p.240
3. LILLIE, A. (1909) India in Primitive Christianity. Kegan Paul, Trench, Trubner & Co, London, p.85
4. LILLIE, A. (1909) India in Primitive Christianity. Kegan Paul, Trench, Trubner & Co, London, p.86
5. NORMAN, K.R., (1992) The Group of Discourses (Sutta-Nipata). Vol II. The Pali Text-Society, Oxford, pp.112-129
6. NORMAN, K.R., (1992) The Group of Discourses (Sutta-Nipata). Vol II. The Pali Text Society, Oxford, p.129
7. MAX MULLER, F. (1881) The Sacred Books of the East. Vol. XI, Clarendon Press, Oxford, p.186
8. MAX MULLER, F. (1992) Dialogues of The Buddha I. The Pali Text Society, Oxford, p.299
9. MAX MULLER, F. (1881) The Sacred Books of the East. Vol. XI, Clarendon Press, Oxford, p. 186

کنفیوشن ازم
کنفیوشن ازم گہری حکمت و دانائی کاخزانہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقل، الہام اور علم انسان کی حق کی طرف رہنمائی کرتے وقت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے چینی خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح کنفیوشن ازم کو بھی ایک مذہب مانتے ہیں تا ہم ان میں سے بعض اسے محض ایک فلسفہ خیال کرتے ہیں۔ مثلاً جاپان میں کنفیوشن ازم کی کوئی ایک حیثیت نہیں ہے۔ تا ؤ ازم، شنٹو ازم اور بدھ ازم کے پیروکار کنفیوشن ازم پر بھی ایک ایسے فلسفہ کے طور پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کے اپنے مذاہب سے ہم آہنگ ہے۔ یہ سب اِزم آپس میں یوں خلط ملط نظر آتے ہیں جس کی مثال دنیا کے دیگر مذاہب میں نہیں ملتی۔
جب ہم کنفیوشن ازم کا محض ایک فلسفہ کے طور پر ذکرکرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ہستی ٔ باری تعالیٰ کا سوال خاص طور پر ابھرتا ہے۔ حضرت کنفیوشس ؑ (478-550ق۔ م)کے کچھ پیروکار آج بھی خداتعالیٰ کے وجود پر واضح ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ارواح کے وجود اور ان کی طاقتوں کے بھی قائل ہیں اور بعض تو اپنے آباؤ اجداد کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ تا ہم ہمارے نزدیک کنفیوشن ازم کے مروجہ تصور کا ازسر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔
جب اس ابتدائی تحریری مواد کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس پر کنفیوشن ازم کی بنیاد ہے تو اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہ مذہب بھی ہستی ٔ باری تعالیٰ کے مسلّمہ عقیدہ پر قائم تھا اور یہ کہ اس کے فلسفہ اور دانائی کا بڑا حصہ دانش مند لوگوں کی سوچ کی بجائے الہام الٰہی کا مرہون منت ہے۔
اس بات کا اندازہ کہ یہ مذہب اپنے آغاز سے کس قدر دور جا چکا ہے، ارواح پرستی کے اس رواج سے لگایا جا سکتا ہے جو موجودہ دور کے کنفیوشس کے پیروکاروں میں عام ہے حالانکہ حضرت کنفیوشس ؑکی ابتدائی تعلیمات میں اس قسم کے توہماتی اعتقادات اور رسوم کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ چنانچہ دیگر مذاہب کی طرح کنفیوشن ازم بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصل ماخذ سے دور ہوتا چلا گیا اور توحید پر ایمان کی آڑ میں اس کے پیروکاروں میں بہت سے توہمات اور غلط رسم و رواج راہ پا گئے۔ افسوس ! یہ ایک ایسا المیہ ہے جو بار بار رونما ہوتا رہتا ہے۔
جہاں تک آباء پرستی کاتعلق ہے اگر چہ اس مذہب کے پیروکار اپنے بزرگوں کو دیوتا یا اولیاء کا مقام تو نہیں دیتے تا ہم بہت سے لوگ ان سے حاجت براری کیلئے دعائیں ضرور مانگا کرتے ہیں۔ لیکن جاپان میں اس قسم کی پرستش سے وہ مطلب نہیں لیا جاتا جو دیگر مقامات پر لیا جاتا ہے۔ یہ مرنے والے کی یاد اور اس کا احترام اور اس سے وفاداری کا ایک قسم کا اظہار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی مردوں کی ارواح سے نہیں مانگا کرتا اور نہ ہی وہ ارواح کو بااختیار دیوتاؤں کا درجہ دیتا ہے۔ قوانین قدرت میں کامل توازن اور ہم آہنگی اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کو لازماً ایک واحد اور برتر ہستی نے تخلیق کیا ہے اور اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ اس کی تخلیق میں دو یا تین تخلیقی قوتیں کارفرما ہوں۔ اس سے یہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی ایسی ہستی پر ایمان لانے کی گہری اور فطری خواہش لازماً خالق اور مخلوق کے درمیان ایک واسطہ قائم کرنے کی غرض سے رکھی گئی ہو گی۔ اور اگر یہ واسطہ اور ربط موجود نہ ہو اور قائم نہ ہو سکے تو الہام الٰہی کی عدم موجودگی سے ایک ایسا خلا رہ جاتا ہے جسے اس بنیادی خواہش کے زیر اثر کسی نہ کسی طرح پُر کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ خواہش اپنے لئے خود ہی کوئی خدا تراش لیتی ہے خواہ وہ ارواح ہوں یا مافوق الفطرت غیر مادی وجود، بھوت پریت ہوں یا دوسرے سماوی وجود۔ چنانچہ توہم پرستی کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ توہم پرستوں کے ہاں پائے جانے و الے دیوتاؤں کے خیالی پیکر بھوتوں کے ان ہیولوں کی مانند ہیں جو روشنی کی عدم موجودگی میں جنم لیا کرتے ہیں۔
اس انحطاط پذیر رجحان کے نتیجہ میں مذہبی عقائد سے آہستہ آہستہ خدا کا تصور ہی غائب ہو جاتا ہے۔ دراصل خداتعالیٰ پر ایمان انسان کی اصلاح نفس اور ایک محاسبہ کا متقاضی ہے۔ جب کہ ارواح،بھوت پریت اور دیگر خیالی مخلوق کسی قسم کے مذہبی ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرنے کا تقاضانہیں کرتے۔
کنفیوشن ازم کی مسلّمہ تحریرات کے گہرے مطالعہ سے یہ ثابت کرنا مشکل نہیں کہ بنیادی طور پر دراصل یہ کوئی محض انسانی فلسفہ نہیں تھا بلکہ کائنات کو چلانے والے زندہ جاوید خدا کا تصور ہی اس کی تعلیمات کا سرچشمہ تھا۔ آسمان اسی خدا کی ایک تجلّی ہے اور بعض اوقات اسی خدا کو آسمان قرار دے دیا جاتا ہے۔ کنفیوشن ازم میں حقیقی علم سے مراد خداتعالیٰ کی صفات کا عرفان اور ان صفات کا اپنی ذات میں اجرا اور قیام ہے۔ یہ امر انسان کو ابدی سچائی کے قریب تر کر دیتا ہے اور علم اس کے فائدہ کیلئے وسیلہ کا کام دیتا ہے۔
کنفیوشن ازم اور تاؤازم کی تاریخ کا آغاز فُوشیFu Hsi 3322)ق۔م( کے زمانہ سے ہوتا ہے جو ایک بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم عالم بھی تھا۔ ایک مرتبہ اس نے رؤیا میں ایک گھوڑا نما جانور Yellow River سے نمودار ہوتے دیکھا جس کی پیٹھ پر ایک خاکہ بنا ہوا تھا۔ چینی تاریخ میں کسی نبی کا رؤیا کے ذریعہ علم حاصل کرنے کا یہ منفرد واقعہ نہیں ہے۔
یُو Yu ( 2140ق۔ م) نامی نبی کا بھی الہام الٰہی سے مستفیض ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ فُوشی نے رؤیا ہی میں اس خاکہ کا مطالعہ کیا جو تین نر اور تین مادہ خطوط کے آٹھ سیٹ پر مشتمل تھا۔ ان سہ پہلو اشکال کے اوپر اور نیچے کے جوڑوں کی صورت میں ملاپ سے چھ کونوں والی چونسٹھ شکلیں وجود میں آئیں۔ ہر شکل کی اہمیت اس کے نام سے ظاہر کی گئی اور اس کا تعلق نر اور مادہ خطوط کی ایک خاص ترتیب سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے ایک دانشمند کنگ وان King Wan ) 1143ق۔ م( نے وضاحت کی۔ اس کے بیٹے چن کنگChen King 1120)ق۔م( نے ان تشریحات میں اضافے کئے اور بعد میں کنفیوشس نے ضمیموں کی صورت میں اس کی مزید تشریح کی۔ یوںفُوشی کی رؤیا Book of Changes میں I Ching یا Yi King کے نام سے متعارف ہوئی۔
آٹھ مثلثوں کے اس نظریہ کے قواعد چین میں ایسے علوم و فنون کی نشو و نما پر اثرانداز ہوئے جن کا تعلق انسانی زندگی کے جملہ شعبوں سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین میں اس فلسفہ نے زراعت، صنعت، طب، معیشت، سیاست اور کئی دوسرے شعبہ ہائے علم کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک چینی دانشور Chuo Chih Huaاپنی کتاب Acupuncture & Science1 میں لکھتا ہے کہ آٹھ مثلثوں کے نظریہ کا چینی طریق علاج کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو ریاضی کا یورپی سائنس کے ساتھ۔ History of Medicine of China2 کے مطابق فُوشی نبی، جس کا آٹھ مثلثوں کا نظریہ الہام پر مبنی تھا،نے علم الادویہ اور آکوپنکچر بھی دریافت کیا تا ہم بعض کے نزدیک اس علم کا ارتقا بعد ازاں ایک عالم King Huang Tiکے ذریعہ ہوا جس نے I Ching سے استفادہ کیا تھا۔
ماسٹر سن (Master Sun)کی کتاب Art of Warجو I Chingکو بھی استعمال میں لاتی ہے فوجیوں میں بہت مقبول ہے۔ فوجی لوگ ہر دور میں اسے اہمیت دیتے رہے ہیں اور چھ مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ چینی منطقیوں اور مختلف قدیم روایتی مکاتبِ فکر نے بھی اپنے نظریات کی بنیاد Book of Changes میں پیش کر دہ قوانین پر ہی رکھی ہے۔ Book of Changesکسی حد تک مغربی دنیا پر بھی اثرانداز ہوئی ہے جہاں اسے مستقبل کا حال بتانے کیلئے ایک طرح کے جوتشی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
کنفیوشن ازم کے مطابق حق کی شناخت کیلئے باقاعدہ درسی تعلیم ضروری نہیں۔ خدا خود حق ہے اس لئے وہ جس چیز کو بھی پیدا کرتا ہے اسے اس صفت سے نوازتا ہے جو اس کی اپنی پہچان کا مرکزی نقطہ ہے۔ چنانچہ کنفیوشن ازم میں انسانی فطرت اور ابدی سچائی ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔
من شی عس Mencius 289-372) ق۔م( ایک چینی فلسفی، مفکر اور ماہر تعلیم تھا۔ و ہ ایک مذہبی آدمی بھی تھا اور کنفیوشس کے پیروکاروں میں ایک نمایاں شخصیت کا حامل تھا۔ اس نے چینی فلسفہ پر بھی بہت گہرا اثر چھوڑا یہاں تک کہ بعض اسے نبی خیال کرتے ہیں۔ ابدی سچائی تک پہنچنے کے رستہ کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقع پر اس نے کہا:
احسان، نیکی، حسن معاشرت اور علم انسان میں باہر سے داخل نہیں ہوتے۔ لازماً یہ خصوصیات ہمارے اندر پہلے سے موجود ہیں اور اس سے اختلاف محض عدم فکر کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے: ’’ڈھونڈو تو پا لو گے۔ غفلت سے کام لو گے تو کھو دو گے‘‘۔ 3
یہاں من شی عس،جس خارجی ذریعہ کا انکار کر رہا ہے اس سے مراد الہام الٰہی نہیں ہے بلکہ وہ ذکر اس بات کا کر رہا ہے کہ ہماری اخلاقی خوبیاں جو ہماری ہستی کا ایک لازمی عنصر ہیں، ہمارے اندر باہر سے نہیں آتیں۔ اس کا خیال ہے کہ ہمارا حسّی تجربہ بذاتہٖ ہمیں کوئی نیا پیغام نہیں دیتا بلکہ انسان اپنے حسّی تجربہ کے آئینہ میں اپنی فطرت کے خارجی نقوش کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ درحقیقت وہ معروضیت کی افادیت سے انکاری نہیں۔ وہ محض اس کی اس صلاحیت سے انکار کرتا ہے کہ صرف وہی انسان کی حق کی طرف رہنمائی کر نے کیلئے کافی ہے۔ مزید برآں وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ معروضی تجربہ فطری سرچشمہ کی طرف ہماری رہنمائی میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ بایں ہمہ من شی عس اس بات کی مزید وضاحت کرتا ہے کہ فطرت یعنی کل کائنات اپنی ذات میں ابدی نہیں بلکہ ہمارے لئے آسمان نے تخلیق کی ہے جو باشعور ہستی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے من شی عس نے کہا :
‏’’Book of Poetry میں مذکورہے کہ ’آسمان‘ نے بنی نوع انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی مختلف خواص عطا کئے اور مخصوص قوانین کے ساتھ ان کا تعلق جوڑا۔ فطرت کے ان غیر متبدل قوانین پر سب کو عمل پیرا ہونا چاہئے اور اس قابل ستائش نیکی یا خیر کے ساتھ محبت کا تعلق پیدا کرنا چاہئے۔‘‘ 4
من شی عس کے نزدیک آسمان سے مراد ایک ایسی باشعور ہستی ہے جسے ہم ’’خداتعالیٰ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح لفظ ’’آسمان‘‘ کو خداتعالیٰ کے فعّال اور شعوری تخلیقی قوانین کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے۔
‏’’"Book of Poetry" میںاس کی وضاحت یوں درج ہے: ہمیشہ کوشش کرو کہ تمہیں خدائی احکام سے ہم آہنگ ہونے کی توفیق ملتی رہے۔ تمہیں بہت خوشی حاصل ہو گی۔‘‘ 5
روایتی کنفیوشن ازم انسان کو ایک بے شعور کائنات کے ہاتھوں اتفاقی پیدائش کی بجائے خداتعالیٰ کی مخلوق قرار دیتا ہے۔ حضرت کنفیوشسؑ کے نزدیک اپنی ذات کے عرفان کا مقصد خدا سے تعلق قائم کرنا ہے اور جنت سے متعلق انسانی تصور کا انتہائی مقصد بھی یہی ہے۔ یہ عقیدہ کہ انسان کو خدائی صفات پر پیدا کیا گیا ہے، بڑی حد تک قرآنی تعلیم کے مطابق ہے۔ چنانچہ فرمایا:

(الروم 31 : 30 )
ترجمہ۔ یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔
کنفیوشس اس بات کی مزید وضاحت کرتا ہے کہ اوّل تو انسان کو خدا کے اس عکس کے ادراک کی پوری کوشش کرنی چاہئے جو اس کی ذات میں پنہاں ہے اور پھر ان صفات کو اپنی ذات میں جاری کرنا چاہئے۔ اگر وہ یہ کوشش مخلصانہ طور پر نہیں کرتا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کے کردار پر خداتعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھ سکے۔
کنفیوشن ازم کے مطابق انسانی اعمال اور کردار اس کی نیکی، عظمت اور حسن معاشرت سے الگ آزادانہ حیثیت نہیں رکھتے۔ دونوںباہم گہرے طور پر مربوط ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے پتہ چلتا ہے۔
’’عظیم استاد(کنفیوشس ) نے کہا۔ جب انسان کافی علم تو حاصل کر لے لیکن اس کی نیکی اس علم کی متحمل نہ ہو تو جو کچھ وہ حاصل کر چکا ہے اسے ضائع کر دے گا۔ اسی طرح اگر اس کا علم تو وافر ہو اور وہ نیک بھی بہت ہو اور نیکی پر مضبوطی سے قائم بھی ہو لیکن وہ وقار کے ساتھ حکومت کے معاملات طے نہ کر سکے تو لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام اٹھ جائے گا۔ اسی طرح اس کا علم بھی کافی ہوــ، وہ نیکی پر بھی مضبوطی سے قائم ہو اور امور حکومت کو بھی باوقار طریق سے بجالاتا ہو لیکن اگر عوام الناس کو قاعدے قانون سے ہٹ کر متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کمال تام حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘ 6
یہ امر بھی واضح ہے کہ کنفیوشس کا اس بات پر پختہ ایمان تھا کہ انسان پر خالق کا بہت گہرا اثر ہوا کرتا ہے اور یہ کہ صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ یہ بات مندرجہ ذیل روایت سے واضح ہوجاتی ہے۔
’’وانگ سن چیا (Wang Sun Chia) نے عظیم استاد کنفیوشس سے دریافت کیا کہ’’اس قول کا کیا مطلب ہے کہ جنوب مغربی کونے کی بجائے بہتر ہے کہ بھٹی کی تعظیم کی جائے۔‘‘ استاد نے جو اب دیا کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ وہ جو آسمان (خدا ) کی ناراضگی مول لے لیتاہے اس کا کوئی نہیں رہتا جس سے وہ مانگ سکے۔‘‘ 7
خدا کے تخلیقی قوانین کی خلاف ورزی سے مراد انسان کا اپنی فطرت کے خلاف عمل ہے۔ انسانی فطرت کو خدا نے ایک ایسے آئینہ کے طور پر بنایا ہے جس میں اس کی اپنی ہی صفات منعکس ہوتی ہیں۔ جب انسان خدا سے منہ موڑ لیتا ہے تو اس کے بعد کوئی بھی باقی نہیں رہتا جس کی طرف وہ رجوع کر سکے۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کنفیوشن ازم کوئی انسانی فلسفہ نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ ایک ایسی خالق اور قائم بالذات ہستی کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کی تعظیم اور اطاعت فرض ہے۔ مزید برآں اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اس ہستی کی تلاش اور اس کے احکام کی بجا آوری کے بغیر محض علم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
علاوہ ازیں درج ذیل حوالوں سے ظاہر ہوتاہے کہ کنفیوشن ازم خدا (یا آسمان) کو ایک ایسی ہستی کے طور پر پیش کرتا ہے جو بنی نوع انسان کی بھلائی اور ترقی میں بھرپور دلچسپی رکھتی ہے۔ بنینوع انسان کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ صداقت کو دنیا میں قائم کرتا ہے جو اس منصب کے اہل ہوں۔
چینی بزرگوں کو قرآن یا بائیبل میں مذکور انبیاء کے برابر سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ لوگ جو خدا کے نمائندے یا پیامبر ہیں۔ اس مشابہت کا ذکر کنفیوشس سے منسوب درج ذیل بیان میں ملتا ہے:
‏K'wangمیں عظیم استاد کو خوف دامنگیرہوا تو انہوں نے فرمایا ’’کیا King Wan کی موت کے بعد حق کو پھیلانے کی ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی تھی؟ اگر آسمان سچائی کے اس مشن کی تباہی چاہتا تو میرے جیسے فانی کا اس مشن کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوتا۔ اب جبکہ آسمان کو اس مشن کی تباہی مقصود نہیں ہے تو K'wangاور اس کے باسی میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں‘‘۔8
یہاںکنفیوشس کامل یقین سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غیر مبدّل فیصلے کے باعث یہ امر یقینی ہے کہ سچ بالآخر کامیاب ہو گا اور وہ خود تو اس الٰہی فیصلے کے محفوظ ہاتھوں میں محض ایک آلۂکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس سے براہ راست ہدایت یافتہ لوگ اپنے مشن یعنی حق کے قیام کی تکمیل کے بغیر تباہ کر دیئے جائیں خواہ وہ انتہائی طاقتور مخالفت کے مقابل پر تنہا ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ بعینہٖ یہی تصویر بائیبل اور قرآن نے انبیاء کی پیش کی ہے۔ ایسے کاموں کے اہل وہی لوگ ہوا کرتے ہیں جو خدا کی صفات کو اپنانے میں سب پر سبقت لے جاتے ہیں۔
کنفیوشس نے کہا: ’’Yaouایک فرمانروا کے طور پریقینا عظیم تھا۔ لیکن اصل عظمت آسمان یعنی خداتعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور صرف Yaouہی تھا جس نے اس سے اپنا تعلق استوار کیا۔ اس کی نیکی وسیع اور ہمہ گیر تھی جسے بیان کرنے کے لئے لوگوں کے پاس اس کے شایان شان الفاظ نہیں تھے۔‘‘ 9
بالفاظ دیگر اس کی صفات نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ کچھ اس عمدگی سے اختیار کر لیا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
‏Changنے کہا: ـ’’کیا میں پوچھ سکتا ہوںکہ یہ ہوا کیسے کہ پہلے Yasuنے Shun کو آسمان یعنی خدا کی خدمت میں پیش کیا اور آسمان نے اسے قبول کیا اور پھر اس نے اسے لوگوں پر ظاہر کیا اور لوگوں نے اسے قبول کیا۔‘‘ 10
یہ آیات اس بات کی خوب وضاحت کر دیتی ہیں کہ آسمان سے مراد یہ کائنات نہیں اور نہ ہی انسان کے اندر کا عالم صغیر مراد ہے بلکہ اس سے مراد وہ مدبر بالارادہ اور باشعور ہستی ہے جس کا دوسرا نام ’خدا‘ہے۔ جس طرح اللہ تعالی ابدال کو اس وقت منتخب فرماتاہے جب وہ ایک خاص معیار پر پورا اترتے ہیں انبیاء کا انتخاب بھی اللہ تعالیٰ بالکل اسی طریق پر کرتا ہے۔ اوپر پیش کئے گئے حوالہجات سے ہمارا یہ نقطۂ نظر بڑی عمدگی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ چینی بزرگوں کو انہی صفات کا حامل خیال کیا جاتا ہے جو بائیبل اور قرآن کریم میں مذکور انبیاء میں پائی جاتی تھیں۔
کنفیوشس کی تحریرات کا تفصیلی مطالعہ اس بات کو مزید واضح کردیتا ہے کہ الہام نہ صرف زندگی کے حقیقی فلسفہ کے اظہار کاذریعہ تھا بلکہ روزمرہ کی زندگی میں انسانی اعمال کی صحیح سمت میں رہنمائی بھی اسی کی مرہون منت تھی۔ قبل ازیں فُوشی (Fu Hsi )کے کشف اور عملی صورت میں چینی تہذیب کے کئی شعبوں میں اس کے اثر کا ذکر کر چکے ہیں جو کئی ہزار سال تک قائم رہا۔ ذیل میں ہم کچھ اور مثالیں پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الہام نے ایک قوم کی مادی خوشحالی اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے:
’’.........جب بادشاہ کلام کرتا ہے تو اس کے کلمات احکام کی صورت اختیار کر لیتے ہیں لیکن اگر وہ خاموش رہے تو وزراء کیلئے احکام حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں رہتی‘‘۔ بادشاہ نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی اور ا نہیں مطلع کیا کہ چونکہ میرا فرض ہے کہ سلطنت کے اندر جو کچھ ہے اس کی حفاظت کروں اور مجھے اندیشہ تھا کہ میری نیکی میرے پیشروؤں کے برابر نہیں ہے اس لئے میںنے کلام نہیں کیا۔ جب میں عاجزانہ طور پر خاموشی سے صراط مستقیم پر غورکر رہا تھاتو میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا نے مجھے ایک اچھا مدد گار یا سلطانِ نصیر دیا ہے جو میری طرف سے کلام کرتا ہے۔ پھر اس نے تفصیلاً اس شخص کا حلیہ بیان کیا اور اس کا خاکہ تیار کروا کر ساری سلطنت میں اس کی تلاش شروع کروا دی۔ چنانچہ Foo-Yen میںYueنامی ایک معمار اس خاکے کے مشابہ پایا گیا۔ لہٰذا بادشاہ نے اس کار تبہ بڑھا کر اسے اپنا وزیر اعظم بنا لیا اور اپنے قرب سے نوازا اور یہ کہتے ہوئے اسے ذمہ داری سونپی: ’’بھلائی کے کاموں میں معاونت کیلئے صبح و شام اپنی تجاویز پیش کیا کرو....‘‘ 11
ـاس اقتباس میں بتایا گیا ہے کہ بادشاہ کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ حکومت کو درپیش مشکلات پر کیسے یا کس کی مدد سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے رویاء میں اس سوال کا جواب عطا کیا گیا۔
پھر بادشاہ Wan جو ایک عظیم عالم بھی تھا،کے متعلق روایت ہے :
خداتعالیٰ نے بادشاہ Wan سے فرمایا۔ ’’ان کی طرح مت بنو جو کچھ باتوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ نیز ان کی طرح بھی نہ بنو جو اپنی خواہشات کے غلام ہوں۔ چنانچہ وہ بڑی شان سے دوسروں کے بالمقابل نیکی کے معراج کو پہنچا۔MEIHکے لوگ نافرمان تھے....‘‘
خداتعالیٰ نے بادشاہ Wan سے فرمایا: ’’میں تمہاری ذہانت سے بہت خوش ہوں۔ جس میں نیکی ہی نیکی ہے۔ جس کا نہ تو تم ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہو۔ جس میں نہ مبالغہ آمیزی ہے اور نہ ہی متلوّن مزاجی۔ جو ریا کاری اور تکلّفات سے پاک ہے اور خداتعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہے۔‘‘
خدا نے بادشاہ Wanسے کہا: ’’اپنے دشمنوں کے خلاف کمر کس لو اور Ts'ungکی فصیلوں پر حملہ کرنے کیلئے اپنے بھائیوں کی مدد سے اونچی سیڑھیاں اور حملہ کرنے والے انجن تیار کرو۔‘‘12
مندرجہ بالا اقتباس سے اس طریق کار کا پتہ چلتا ہے جس کے ذریعہ خداتعالیٰ اپنے ان غلاموں کا انتخاب کرتا ہے جنہوں نے اس کے مشن کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے۔ چنانچہ جب خداتعالیٰ نے بادشاہ Wan کی ہدایت اور رہنمائی فرمائی تو اس نے ان ہدایات پر عمل کرنا شروع کردیا۔ اس طرح خداتعالیٰ کی بارگاہ میں اسے بلند مقام حاصل ہو گیا۔
مذکورہ بالا اقتباس کی آخری آیات بائیبل میں مذکور حضرت داؤد ؑ کی یاد دلاتی ہیں جو نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ جس طرح حضرت داؤد ؑکو اپنے ان دشمنوں پر حملہ کی اجازت دی گئی تھی جو سچائی کو نیست و نابود کرنے کے خواہاں تھے اسی طرح بادشاہ Wanکو بھی اجازت دی گئی۔ تاریخِمذاہب کے مطالعہ سے Wan اور حضرت داؤد ؑ کے حالات میں پائی جانے والی اور بھی بہت سے مشابہتوں کا علم ہوتا ہے لیکن ہم یہاں اس طویل بحث میں نہیں پڑیں گے۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ چینی مذاہب اور فلسفوں میں الہام کو ایک اہم مقام حاصل ہے اور اسے حصول حق کا ایک خاص ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ چینی روایات میں موجود بہت سی دوسری مثالوں سے یہ بات عیاں ہے کہ کنفیوشن ازم کو ایک ایسا فلسفہ قرار نہیں دیا جا سکتا جو محض انسانی سوچ کا نتیجہ ہو اور خداتعالیٰ کے علیحدہ وجود کے تصور کے منافی ہو۔ اس کے برعکس خداتعالیٰ کا تصور اس مذہب کا لازمی جزو ہے اور جو علم بھی رؤیا اور کشوف کے ذریعہ حاصل ہوا اسے یقینی طور پر الہامِ الٰہی سمجھ کر قبول کیا گیا۔

حوالہ جات
1. CHOU, C.H. [year unknown] Acupuncture and Science. 1st ed. Shi-Wei Typographic Co., Ltd., Taiwan
2. ZHENG, M.Q. , LIN, P.S. [year unknown] History of Medicine of China. Shang Wu Printing and Publishing House, Taiwan, pp.2-3
3. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, p.862
4. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, p. 863
5. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, p. 544
6. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, pp. 354-355
7. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, pp. 152-153
8. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, pp. 231,232
9. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, p. 632
10. LEGGE, J. (1985) The Four Books. The Great Learning, The Doctrine of the Mean, Confucian Analects and the Works of Mencius. 2nd ed, Culture Book Co., Taiwan, p. 793
11. LEGGE, J. (1865) The Chinese Classics. Vol. III, Part I, The Shoo King. Trubner Co., London. pp. 248-252
12. LEGGE, J. (1871) The Chinese Classics. The She King, Part III. Decade of King Wan Book I, Vol. IV, Part II, Trubner and Co., London. pp. 452-454

تاؤ ازم
عظیم درویش نبی فُوشی (Fu Hsi) کے مذہبی اور روحانی تجربات ہی تمام چینی مذاہب کا سرچشمہ ہیں۔ بعد میں آنے والے بڑے بڑے بزرگوں اور مفکروں نے ’فُوشی‘ کی ان تحریرات کا گہرا مطالعہ کیا اور چینی قوم کے سامنے نئے فلسفوں‘ علوم، مذہبی افکار اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا۔ ان رہنماؤں میں بالخصوص کنگ وان (King Wan)، ان کے بیٹے Cheu Kungاور Lao-tzu کو چینی قوم ہر دور میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتی چلی آئی ہے۔ Lao tzu(600ق۔ م) جو کنفیوشس کے ہمعصر تھے، کے پیش کردہ طرز زندگی کو تائوازم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تاؤازم کے مطابق ابدی صداقت تاؤ نامی ایک ایسے وجود میں موجود ہے جو غیر مادیـ، مقدس اور روحانی صفات سے متّصف ہے۔ تاؤ کو ابدی اور دائمی نیکیوں کا پیکر کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ بعینہٖ یہی صفات اسلام اور دوسرے الہامی مذاہب میں خداتعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔ تاؤ ازم انسان کو اس ابدی صداقت کی کامل اطاعت اور اس کا نمونہ اپنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ تاؤ دراصل ایک نمونہ ہے اور تاؤ ازم اس تک رسائی کا ذریعہ ہے۔
خداتعالیٰ اور انسان کے تعلق کو قرآن کریم میں بھی اسی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

)البقرۃ 2 (139 :
ترجمہ۔ اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔
اسلام میں خداتعالیٰ اپنی صفات کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور مسلمانوں کیلئے ان صفات سے متّصف زندگی کو ہی مقصد قرار دیا گیا ہے۔ Lao-tzuکا پیش کردہ ’تاؤ‘ کا تصور قرآن کریم میں مذکور صفاتِ الٰہیہ سے کافی مشابہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تاؤ اتنا عظیم ہے کہ وہ مشرق میں بھی ہے اور مغرب میں بھی۔ جملہ مخلوقات اس کی محتاج ہیں۔ وہ ان کی فلاح و بہبود کو کمال تک پہنچاتا ہے اور جملہ مخلوقات کا پالنے والا ہے مگر وہ خود غنی ہے۔ تمام مخلوقات اپنی ضروریات کے لئے اس سے رجوع کرتی ہیں جبکہ وہ خود ان سے بے نیاز ہے۔ اس طرح اسے عظیم ترین کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی عظمت کا مدعی نہیں۔ بایں وجوہ وہ یقینا عظیم ہے۔‘‘ 1
پھر ایک اور جگہ یوں بیان ہوا ہے:
’’سب کی توجہ کا مرکز مگر غیر مرئی جس کا وجود گویا بے رنگ ہے۔ خاموش وجود جسے سننے کے بہت خواہش مند ہوں اور ایسا مخفی جس کے بہت متلاشی ہوں۔ کسی کے لئے ان تینوں صفات کے منبع کا ادراک ممکن نہیں گو وہ ایک ہی وجود میں پائی جاتی ہوں۔ بظاہر وہ روشن نہیں مگر اس کے نیچے کوئی اندھیرا بھی نہیں۔ اس کی لا محدودیت کے باعث اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس کا وجود کسی شکل و صورت کا محتاج نہیں۔ وہ ہمارے ادراک سے بالا ہے۔ وہ ازلی ابدی ہے۔ پس بہتر یہی ہے کہ ماضی کی روشنی میں اپنا حال سنوارو۔‘‘ 2
اسی طرح ایک اور جگہ تاؤ کے بارہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’وہ ایک غیر منقسم وجود ہے جس کی کُنہ معلوم نہیں کی جا سکتی۔ وہ تمام مخلوقات کا خالق اور زمین اور آسمان کی تخلیق سے بھی پہلے موجود تھا۔ وہ واحد لا شریک اور کسی شکل اور آواز کی احتیاج سے مستغنی ہے۔ اس کا وجود کسی سہارے کا محتاج نہیں۔ وہ غیر متبدل ہے۔ وہ مسلسل مصروفِ عمل ہے مگرتھکتا نہیں۔ اسے خالق کائنات کہا جا سکتا ہے۔‘‘ 3
قرآن کریم کی مختلف آیات میں مذکور صفات الٰہیہ کی تصویر مجموعی طورپر تائو کے مندرجہ بالا تصور کے مطابق ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی ٔ جماعت احمدیہ نے خدا کے بارہ میں قرآنی تصور کو خلاصۃً یوںبیان فرمایا ہے:
’’وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دور ہے باوجود نزدیک ہونے کے …وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگرنہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامدِ حقہ کا۔‘‘ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 310)
یہ کہنا بجا ہو گا کہ چینی فلسفہ کی بنیاد مذہب پر تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پس منظر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے متبعین نے اس فلسفہ کا دامن تو ہاتھ سے نہ چھوڑا مگر اس منبع سے تعلق کاٹ لیا جس نے اس فلسفہ کو ماضی میں پروان چڑھایا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ خداتعالیٰ کی ذات کا تصور ذہنوں سے اٹھ گیا اور تاؤ کے پیروکاروں نے اس برتر، قادرمطلق اور زندہ خدا سے ذاتی تعلق توڑ لیا۔
الغرض اس میں کوئی شک نہیں کہ کنفیوشن ازم کی طرح تاؤ ازم میں بھی ابتدا میں ایک زندہ اور قائم بالذات خدا پر ایمان ہی ایک ابدی صداقت تھی۔ تاؤ ازم اور کنفیوشن ازم کی ابتدائی تعلیمات کے مطابق تاؤ کا عقلی ادراک ہی کافی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ تاؤ کے احکامات کے سانچہ میں اپنے اعمال اور کردار کو ڈھالنا ہی اصل مقصد حیات تھا۔
تاؤ ازم کے بنیادی ماخذ پر، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ایک طویل عرصہ گزرنے کے باعث اگرچہ تائو پر ایمان بطور ایک حکیم و علیم اور حقیقی خالق کے بڑی حد تک دھندلا ہو چکا ہے تا ہم وجدان کی صورت میںسہی الہام الٰہی کا تصور بہرحال اب بھی قائم ہے۔ وحی ٔالٰہی سے وجدان کی طرف یہ سفر بعد میں آنے والے مذہبی مفکرین کے رجحان کا آئینہ دار ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تحریروں سے روحانیت بالکل ہی مفقود ہو کر رہ گئی اور ان کے نزدیک وجدان محض ایک باطنی عمل بن گیا جو گہرے غور و خوض اور مراقبہ کی مدد سے انسان میں موجود سچائی کے سرچشمہ کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔
بے شک انسان اپنی ذات میں ڈوب کر باطنی سچائی کو پا سکتا ہے مگر تاؤ کے مستند لٹریچر کے مطابق تاؤ کے تعلق میں وجدان کا یہ تخلیقی عمل مکمل طور پر باطنی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک وجدان کی اپنی حدود ہیں جن کی وجہ سے اس تجربہ سے گزرنے والا شخص محض وجدان کی بنا پر معروضی سچائی کو نہیں پا سکتا۔
در اصل فُوشی (Fu Hsi)کے عظیم کشف پر ہی تاؤ ازم کی بنا ہے۔ وجدان کی تعریف کو جس قدر بھی وسیع کر لیا جائے اسے اس کشف پر کسی صورت بھی چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ تشریح سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کشف علم کے ایسے سرچشموں پر مشتمل ہے جن کو مستقبل بعید میں ترقی یافتہ اور دقیق چینی فلسفوں اور علوم کی تخلیق کا سبب بننا تھا۔
زیر بحث موضوع کی وضاحت کیلئے یہی دلیل کا فی ہے کہ وجدانی قوتیں پیشگوئیوں کو جنم نہیں دیتیں اور نہ ہی مستقبل میں رونما ہونے والے ان واقعات کی طرف رہنمائی کر سکتی ہیں جو علیموخبیر اور خدائے بزرگ و برتر کے وجود پر گواہ ہوں۔





حوالہ جات
1. DAN, L (1969) The Works of Lao Tzyy. Truth and Nature. The World Book Company, Ltd. Taipei, Taiwan, China. Ch.34, p.17
2. DAN, L (1969) The Works of Lao Tzyy. Truth and Nature. The World Book Company, Ltd. Taipei, Taiwan, China. Ch.14, p.6
3. DAN, L (1969) The Works of Lao Tzyy. Truth and Nature. The World Book Company, Ltd. Taipei, Taiwan, China. Ch.25, p.12
زرتشت ازم
فارس کی تاریخ کے مطابق زرتشت ازم نے مذہبی فلسفہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس فلسفہ کی رو سے نہ صرف صداقت اور نیکی دائمی ہیں بلکہ جھوٹ اور بدی بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دونوں کے الگ الگ دیوتا ہیں جو اپنے انتظامی معاملات میں خودمختار ہیں۔ نیکی کا دیوتا اہورامزدا ہے جسے نور کا دیوتا بھی کہا جاتا ہے جبکہ بدی کا دیوتا اہرمن ہے جو ظلمت کا دیوتا بھی کہلاتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا الگ اور معین کردار ہے۔ اس کائنات کی تمام تر سرگرمیاں ان دونوں متحارب دیوتاؤں کی باہمی کشمکش اور تصادم ہی کا نتیجہ ہیں۔ یہ دونوں ازل سے بقا اور برتری کی خوفناک جنگ میں مصروف ہیں۔
نیکی کے دیوتا کی قوتیں ہمیشہ بدی کے دیوتا کی قوتوں کو زیر کرنے میں کوشاں رہتی ہیں۔ ہنڈولے کے کھیل کی طرح اس کشمکش کا نتیجہ کبھی نیکی کے حق میں اور کبھی بدی کے حق میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا زرتشتی فلسفہ برائی اور اچھائی، دکھ اور خوشی دونوں کے ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہنے کا فلسفہ ہے اور ایک سیدھی سادی وضاحت ہے جو ان دونوں کے نقطۂ آغاز کو دو مختلف ماخذوں کی طرف منسوب کرتی ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی آفات ہیں مثلاً مختلف قسم کے رنج و الم، جسمانی و ذہنی تکالیف، صدمات، جہالت اور دکھ، ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب بدی کا دیوتا غالب آ جاتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت زرتشت علیہ السلام٭ (چھٹی صدی قبل مسیح) نے اپنے پیرو کاروں کو حقیقتاً یہ تعلیم دی تھی کہ نیکی اور بدی کی قوتوں کی بیک وقت موجودگی انسان کو اپنے ارادہ کو آزادانہ استعمال کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ لہٰذا انجام کار انسان اپنے اچھے اور برے اعمال اور ارادوں کے حوالہ سے پرکھا جائے گا۔ انہوں نے یہ تعلیم بھی دی کہ کائنات روشنی کے دیوتا کی تخلیق ہے اور بالآخر نیکی کی قوتیں ہی غالب آئیں گی۔
زرتشتی مذہب کے گہرے مطالعہ سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جسے ظلمت کا آزاد اور خودمختار دیوتا قرار دیا گیا ہے وہ بعینہٖ اس شیطان کے تصور کے مطابق ہے جو دیگر مذاہب مثلاً یہودیت، عیسائیت، اور اسلام میں پایا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی نہ کسی مرحلہ پر حضرت زرتشت علیہ السلام کے پیرو کاروں نے ان کے فلسفہ خیرو شر کے سمجھنے میں غلطی کھائی ہو اور نیکی اور بدی کو دو خودمختار اور برتر وجودوں کے طور پر قیاس کرنا شروع کر دیا ہو کیونکہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ زرتشتی مذہب کے تصور ثنویت کی یہی روح ہے۔ اس پر دوبارہ ایک نظر ڈالنے سے کسی دانشمند کے لئے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں رہتا کہ محض اصطلاحات کے فرق نے دونوں تصورات میں غلط فہمی پیدا کر دی ہے۔
زرتشتی مذہب میں اہرمن کا کردار وہی ہے جو دوسرے مذاہب میں شیطان کا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زرتشتی مذہب کے ماننے والوں نے شیطان کے تصور کو ایک آزاداور خودمختار دیوتا کی شکل دے کر اسے ظلمت کی قوتوں کا آقا قرار دے دیا اور اس پر طرہ یہ کہ غلطی پر غلطی کرتے ہوئے اہرمن یعنی بدی کے دیوتا کو خدائے واحد و اعلیٰ اور خالق کل کا ازلی و ابدی شریک قرار دے دیا۔
اس بات کا اندازہ لگانا ایک مشکل امر ہے کہ کب یہ غلط عقیدہ آہستہ آہستہ زرتشتی مذہب کی بنیاد بن گیا۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ حضرت زرتشت علیہ السلام کے ایک مثالی ہیرو خورس (590تا 529ق۔ م) دو خداؤں کے قائل نہیں تھے۔ زرتشتی مذہب میں ان کا مقام بدھ مت کی تاریخ میں مذکور اشوکا کے مقام سے بھی بلند تر ہے۔
زرتشتی مذہب کا ـ’خورسـ‘ کی ذات کے حوالہ سے تجزیہ بدھ مت کے اشوکا کی ذات کے آئینہ میں تجزیہ سے کچھ کم نہیں۔ خورس کے موحّد ہونے کا ثبوت وہ خراج تحسین ہے جو ’’عہدنامہقدیم‘‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر وہ دو خداؤں کے قائل ہوتے تو اسرائیل کا خدا ایسے عظیم الشان الفاظ میں انہیں ہرگز نہ سراہتا۔ چنانچہ یسعیاہ نبی نے فرمایا:
’’خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں اور دروازوں کو اس کیلئے کھول دوں اور پھاٹک بند نہ کئے جائیں گے۔ میں تیرے آگے آگے چلوں گا اور ناہموار جگہوں کو ہموار بنا دوں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر وں گا اور لوہے کے بینڈوں کو کاٹ ڈالوں گا اور ظلمات کے خزانے اور پوشیدہ مکانوں کے دفینے تجھے دوں گا تا کہ تو جانے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے تجھے نام لے کر بلایا ہے۔ میں نے اپنے خادم یعقوب اور اپنے برگزیدہ اسرائیل کی خاطر تجھے نام لے کر بلایا میں نے تجھے ایک لقب بخشا اگرچہ تو مجھ کو نہیں جانتا۔ میں ہی خدا وند ہوں اور کوئی نہیں۔ میرے سوا کوئی خدا نہیں....‘‘ (یسعیاہ 5-1:45)
قدیم ایرانیوں سے ’بابائے قوم‘ کا خطاب پانے والا عظیم خورس‘ فارس کے روایتی ادب کی داستان میں ایک بردبار اور مثالی حکمران کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بائیبل نے اسے بابل میں اسیریہودیوں کو رہائی دلانے والے رہنما کے طور پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مختصر یہ کہ ساری تاریخ میں خورس کا تاثر ایک غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیت کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس نے ایک ایسی وسیع و عریض سلطنت کی بنیاد رکھی جو شاید ہی کسی دوسرے عظیم فاتح نے قائم کی ہو۔ شہنشا ہوں میں وہ واحدشہنشاہ ہے جو تمام مؤرخین کی ملامت و تنقید سے بالا نظر آتا ہے۔ بحیثیت انسان یا بطور حکمران دونوں صورتوں میں اس کے اخلاق اور کردار آلودہ نظر نہیں آتے۔ وہ ایک حاکم میں پائی جانے والی تمام خوبیوں کا مرقّع تھا۔ جنگوں کے دوران وہ نڈر اور بے خوف اور فتح یابی کی صورت میںوسیع القلب نظر آتا ہے۔ خدا کی وحدانیت پر اس کا غیر متزلزل ایمان یقینا حضرت زرتشت علیہ السلام کو ماننے ہی کا نتیجہ تھا۔ زرشتی مذہب اپنے تمامتر خدوخال میں یہودیت اور اسلام سے قریب تر ہے۔ چنانچہ خیروشر یا نور اور ظلمت کے بارہ میں اس کا تصور یہودیت اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ لہٰذا امکان غالب ہے کہ ’اہرمن‘ محض شیطان ہی کا دوسرا نام ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر حضرت زرتشت ؑ کے ماننے والوں کو تصور ’ثنویت‘ کیوں اس قدر پسند آیا کہ نہ صرف ان کے عقائد و تعلیمات میں جڑ پکڑ گیا بلکہ پھلنا پھولنا بھی شروع ہو گیا۔ اس کی غالب وجہ وہ فلسفیانہ دور ہے جس میں مفکرین نے کھل کر گناہ اور دکھ کے مسئلہ کی بات کی جو عرصۂ دراز سے انسان کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ مختلف زمانوں میں مذہبی دانشور ایک ’اچھے خدا‘ پر ایمان کے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کیلئے کئی قسم کی توجیہات کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ اس عمومی دور میں ایتھنزمیں بھی اسی مسئلہ نے مختلف اخلاقی، مذہبی اور سیکولر مفکرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کئے رکھی۔ مسئلہ کا حل ان لوگوں کیلئے کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا کیونکہ ایتھنز کے لوگوں کی اکثریت ان دیومالائی دیوتاؤں کے وجود پر یقین رکھتی تھی جن کیلئے نہ صرف انسانوں کو بلکہ دیوتائوں تک کو بھی دھوکا دینا ایک معمولی بات تھی۔
ہومر(Homer) کی ایلیڈ(Illiad) اس قسم کے مکار اور دھوکہ باز دیوتاؤں کی خوب قلعی کھولتی ہے۔
انہی لوگوں میں سقراط نامی ایک توحید پرست فلسفی نے 470قبل مسیح میں جنم لیا۔ وہ فلسفیوں کے درمیان ایک پیغمبر اور پیغمبروں کے درمیان ایک فلسفی نظر آتا ہے۔ وہ خدا کی وحدانیت پر غیرمتزلزل یقین رکھتا تھا اور اس ذات ِ کامل کے حسن و خوبی پر اسے ذرہ برابر بھی شک نہ تھا۔
ایتھنز کے ایوان کے سامنے کی گئی اپنی آخری تقریر میں اس نے اسی بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ اس خدائے واحد پر یقین رکھتا ہے جو کامل خوبیوں کا مالک ہے اور یہ یقین اسے محض اپنی عقلی و نقلی کاوشوںسے حاصل نہ ہواتھا بلکہ اس لئے کہ وہ اسے خود ذاتی طور پر بچپن سے جانتا تھا۔ بالفاظ دیگر وہ خدا کی گود میں اس کی ذاتی شفقت اور حفاظت میں ہی پلا بڑھا تھا۔ یہ سقراط ہی تھا جس نے اس مسئلہ کا منطقیانہ حل پیش کیا کہ خدا کی ذات کسی شر کا مبدأ نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک دنیوی زندگی میں گناہ اور دکھ کا تعلق ہے اس نے منطقی اعتبار سے ثابت کیا کہ یہ سراسر انسانی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہونہیں سکتا کہ ان کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہو۔ خداتعالیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجسم خیر ہو بلکہ وہ مجسم خیر ہے۔ وہ بدوں خیر کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا برائی ہمیشہ سفلی سطح پر سے ہی پھوٹتی ہے اور خداتعالیٰ کو ان کی بداعمالیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سقراط کا یہ جواب بالکل سیدھا سادہ تھا لیکن اس پر فلسفیانہ رنگ میں ایسے اعتراضات اٹھائے جا سکتے تھے جن کے نتیجہ میں وہ عدم تحفّظ کا شکار ہو جاتا۔ ایران کے زرتشتی مفکرین چونکہ اس جواب سے مطمئن نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس مسئلہ کی بنظرِ غائر مزید تحقیق کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر شریر کون تھے اور کس نے انہیں پیدا کیا۔ اگر خداتعالیٰ ہی نے انہیں پیدا کیا ہے تو وہی ان کی بداعمالیوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرتا ہے۔ یوں زرتشتی دانشوروں نے اس کے بالمقابل ایک اور خالق کا وجود تراش لیا۔ ایک کو نیکی کا اور دوسرے کو بدی کا دیوتا قرار دے دیا گیا۔ دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار یعنی نور اور ظلمت میں بلاشرکت غیرے خودمختار سمجھ لیا گیا۔
ضمناً یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اگرچہ حضرت زرتشت ؑ کے تما م پیروکار اس نام نہاد زرتشتی عقیدئہ ثنویّت کی اندھی تقلید نہیں کرتے، کچھ زرتشتی خواہ وہ ایک قلیل تعداد ہی میں کیوں نہ ہوں بڑے شدومد سے توحید کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ یقینی امر ہے کہ اسلام نے فارس میں داخل ہونے پر بیشتر موحدین کو پورے زور سے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یاد رہے کہ ’ثنویت‘ اور آگ کی پرستش کے عقیدہ سے قطع نظر زرتشتی مذہب دیگر تمام مذاہب کی نسبت اسلام سے قریب ترین ہے۔ زرتشتی مذہب میں خدا یعنی اہورامزدا (Ahura Mazda) انہی صفات اور اصطلاحات کا حامل ہے جن کا تصور دیگربڑے بڑے مذاہب میںپایا جاتا ہے۔ چنانچہ اہرمن کو قربانی کا بکرا بنا کر تمام برائیوں اور تکالیف کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اور یو ں بزعمِ خود زرتشتی مفکرین نے اس مصیبت سے تو چھٹکارا پا لیا لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہو سکا۔ عین ممکن ہے کہ ان کے ہمعصر سقراط نے بھی اس عقیدہ کے بارہ میں سنا ہو یا خود اس پر غور کیا ہو۔ بہرحال اس نے اسے یکسر رد کر دیا اور پوری وفاداری کے ساتھ عقیدۂ توحید کا قائل رہا۔ اگرچہ زرتشتیوں کے اس عذر نے بظاہر ایک گتھی کو تو سلجھا دیا لیکن ایک اور مشکل مسئلہ کھڑا کر دیا۔ اس مسئلہ کی طرف تو ہم بعد میں آئیں گے لیکن سردست یہ کہنا کافی ہو گا کہ برائی یا بدی فی ذاتہٖ ایسا وجود نہیںرکھتی جس کا پیدا کیا جانا ناگزیر ہو۔
درحقیقت نیکی کی عدم موجودگی ہی بدی کا دوسرا نام ہے۔ یہ حقیقت روشنی اور سایہ کی آنکھمچولی سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ سایہ کوئی مادی چیز نہیں، اصل اہمیت روشنی کی ہے۔ اور بظاہر روشنی سایہ کو پیدا کرتی ہے لیکن دراصل روشنی سایہ پیدا نہیں کرتی بلکہ سایہ تو روشنی کی عدم موجودگی کا نام ہے۔ جب روشنی کی راہ میں رکاوٹ آتی ہے تو سایہ وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا بعد میں آنے والے زرتشتیوں کو اہرمن یا شیطان گھڑ لینے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ دراصل صرف نیکی ہی ہے جس کی ضرورت ہے اور گناہ تو نیکی کو ترک کرنے کے نتیجہ میں خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر اہرمن ظلمت کا دیوتا ہے بھی تو وہ نور اور خیر کی عدم موجودگی کا ایک نتیجہ ہے نہ کہ ان کا خالق۔
مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ہم بآسانی یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ حضرت زرتشت ؑ خدائے واحد یعنی نیکی کے خدا پر ایمان رکھتے تھے اور اسی کی طرف سے آپؑ کو وحی سے نوازا گیا تھا۔ ان کا علم اور راستبازی کسی منطق اور وجدان کا نتیجہ نہ تھی بلکہ وحی الٰہی کی مرہونِ منت تھی۔
آئیے ایک بار پھر دنیا میں دکھ اور برائی کی موجودگی سے متعلق زرتشتیوں کے پیش کردہ فلسفیانہ حل کا بغور جائزہ لیتے ہیں کہ اگر بدی کی منصوبہ بندی کرنے والے دو الگ الگ دیوتا ہوتے تو ان کی باہمی کشمکش کے نتیجہ میں فتح کس کی ہوتی اور کیونکر؟ اگرچہ زرتشتی مذہب کے پیروکار بظاہر یہی امید دلاتے ہیں کہ فتح بالآخر نیکی کی ہو گی لیکن ان کا فلسفہ اس بات کی قطعاً وضاحت نہیں کر پاتا کہ نیکی کی قوت ہی کیوں لازماً جیتے گی۔ اگر باوجود ایک دیوتا کے دوسرے سے کمزورہونے کے، دونوں آزاد ہیں تو طاقتور کمزور کو کبھی کا نیست و نابود کر چکا ہوتا۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیکی کو بدی کی قوتوں پر کامل غلبہ حاصل کر لینا چاہئے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لئے دونوں دیوتا اپنی مخصوص قوتوں میں مساویانہ توازن قائم رکھتے ہوئے گویا ہنڈولے کے کبھی نہ ختم ہونے والے کھیل میں مشغول ہیں۔ اندریں صورت یہ کیسے ممکن ہے کہ نیکی بدی پر کامل غلبہ حاصل کر لے؟
ایک اور اہم مسئلہ دنیا میں دکھ کی موجودگی کا ہے جسے دوبارہ زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ یہ امر ثابت کیا جا چکا ہے کہ زرتشتی نظریۂ ثنویّت اپنی سطحی سادگی کے باوجود اصل مسئلہ کے حل میں نا کام رہا ہے۔ نظریۂ ثنویّت کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شفیق و مہربان خالق کی تخلیقی منصوبہ بندی کی موجودگی میں یہ نظریہ دُکھ اور درد کے معمہ کو حل کرنے کیلئے قطعاً ناکافی ہے۔ اس مسئلہ پر ہم اگلے باب میں الگ بحث اٹھائیں گے۔
دکھ اور الم کا مسئلہ
حواس اور متعلقہ اعضاء کے ارتقائی مطالعہ سے بآسانی یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ان میں نفع نقصان کا احساس شروع ہی سے موجود تھا۔ یہ ارتقائی سفر فائدہ اور نقصان کی شناخت پر مبنی ایک طویل سفر ہے جس کے نتیجہ میں اعضائے حس بتدریج ترقی پا کر خوشی اور تکلیف،آرام اور دکھ کی موجودگی کو محسوس کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اگرہم پیچھے مڑ کر حیات کی سب سے ادنیٰ حالت کا جائزہ لیں اور اس زینہ کے نچلے درجوں کا چوٹی کے اعلیٰ مراحل کے ساتھ مقابلہ کریں تو یہ جان لینا مشکل نہیں رہتا کہ دراصل ارتقا سے احساس اور شعور کا ارتقا ہی مراد ہے۔ زندگی تسلسل کے ساتھ شعور کے دائرے میں نیچے سے اوپر کی طرف ترقی کر رہی ہے جس کے نتیجہ میں احساس کی قوتیں مسلسل بیدار سے بیدار تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔
آغاز حیات میں سودو زیاں کا احساس خاصا دھندلا اور مبہم ہوا کرتا ہے اور ابتدائی حیات کی جسمانی ساخت میں اس احساس کو کنٹرول کرنے والا کوئی مرکز دریافت نہیں ہوا لیکن اپنے ماحول اور بعض عناصر کی موجودگی میں ان کے ردعمل سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں مبہم سا شعور موجود ضرور ہے۔ یہی وہ بظاہر مبہم اور ناقابل بیان حس ہے جسے خالق نے کسی نہ کسی طرح قوت ادراک کی شروعات میں استعمال کیا ہے۔ اسی قوت مدرکہ نے بتدریج ترقی پا کر جانداروں کے جسم میں اپنی جگہ بنا لی۔ یہی مقامات بالآخر موجودہ اعضائے حِس کی شکل اختیار کر گئے۔ دماغ کی تخلیق ایک الگ اور غیر متعلق واقعہ نہیں۔ اعضائے حِس کی ترقی کسی بھی متوازی مرکزی اعصابی نظام کے بغیر با مقصد نہیں ہو سکتی جو مختلف اعضائے حِس کے ذریعہ پہنچائے جانے والے پیغامات کی تشریح کر سکے۔ چنانچہ صاف ظاہر ہے کہ دماغ نے بھی اعضائے حِس کے لازمی جزو کے طور پر ساتھ ساتھ ترقی کی ہے۔ شعور جتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو گا سود و زیاں کا احساس بھی اتنا ہی شدید ہو گا جسے مخصوص اعصابی مراکز محسوس کر کے نقصان کے احساس کو بطور رنج اور فائدہ کے احساس کو بطور راحت اعصاب کے ذریعہ ذہن تک منتقل کرتے ہیں۔
شعور جتنا کم ترقی یافتہ ہو گا اتنا ہی تکلیف کا احساس بھی کم ہو گا۔ یہی حال خوشی کا ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کے احساس کیلئے اعضائے حِس کی موجودگی ناگزیر ہے۔ امکان غالب ہے کہ اگر تکلیف محسوس کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ خوشی اور لذت محسوس کرنے کی صلاحیت بھی اسی حد تک کم ہو جائے گی۔ یہ دونوں برابر اہمیت کے حامل ہیں اور یکساں طور پر ارتقا کے پہیہ کو آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ ایک کو دوسری سے الگ نہیں کیا جا سکتا ورنہ ارتقا کا تمام تخلیقی منصوبہ کالعدم ہو جائے گا۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکلیف کو اپنی حیثیت میں ایک علیحدہ وجود کے طور پر نہیں بلکہ لذت اور آرام کے ایک ناگزیر جزو کے طور پر پیدا کیا ہے۔ خوشی کی عدم موجودگی تکلیف ہے جو کہ اس کے سائے کی طرح ہے بالکل اسی طرح جیسے تاریکی ایک سایہ ہے جو روشنی کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے۔ زندگی کیلئے موت نا گزیر ہے۔ دونوں مختلف درجات پر مشتمل ایک ہی سطح کی دو انتہائیں ہیں۔ جوں جوں ہم موت سے دور ہٹتے ہیں بتدریج زندگی کی ایک حالت یعنی خوشی کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم زندگی سے دور ہٹتے ہیں تو احساس زیاں اور دکھ کے ساتھ موت کی طرف سفر کرتے ہیں۔ بقا کی جدوجہد کو سمجھنے کی یہی کلید ہے جو زندگی کے معیار کو بہتر بناتی اور ارتقا کی آخری منزل کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ ’’بقائے اصلح‘‘ کا اصول ارتقا کے اس عظیم الشان منصوبہ میں بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔
یہ امر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات میں بیان کیا گیاہے:

(الملک 3-2 : 67)
ترجمہ : بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضۂ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔ اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔
دنیا میں دکھ کیوں ہے؟ مندرجہ بالا آیت میں اس سوال کا جواب بڑی وسعت اور وضاحت سے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں موت و حیات کا گہرا فلسفہ، ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے ان گنت مراتب نیز زندگی کی تشکیل اور اس کا معیار بہتر بنانے میں ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وہ ترتیب ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہاں واضح فرمائی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زندگی ایک مثبت قدر ہے اور موت سے محض اس کی عدم موجودگی مراد ہے اور ان کے درمیان کوئی حدِّفاصل نہیں ہے۔ حیات کا موت کی طرف سفر اور زوال پذیری یا دوسرے پہلو سے موت کی حیات کی طرف حرکت اور طاقت، توانائی اور شعور کا حصول ایک تدریجی عمل ہے۔ یہ تخلیق کا عظیم منصوبہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا ہے: ’’کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔‘‘
یہ موت اور حیات کے مابین پیہم جدوجہد ہے جو جانداروں کو ایک مستقل آزمائش میں مبتلا رکھتی ہے۔ چنانچہ باقی وہی رہتے ہیں جو اپنے طرز عمل سے اپنے آپ کو بہترین ثابت کریں اور اپنی بقا کیلئے بہتر مقام حاصل کر پائیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ارتقا کا فلسفہ اور طریق بیان کیا گیا ہے۔ یہ موت اور حیات کی قوتوں کی مسلسل جدوجہد ہی ہے جو جاندار انواع کو مستقلاً موت سے دور لے جانے یا اس کی طرف جانے کی قوت عطا کرتی ہے۔ ارتقائی تبدیلیوں کے وسیع تناظر میں اس کا نتیجہ کسی وجو د کی زندگی کے معیار کی بہتری یا ابتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی ارتقا کی اصل روح ہے۔
دکھ کو صرف اس صورت میں قابل اعتراض قرار دیا جا سکتا ہے اگر اسے نظام کائنات میں کوئی بامقصد کردار ادا کئے بغیر ایک علیحدہ وجود کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن دکھ کے احساس کے اس تجربہ سے گزرے بغیر تو سکون اور آرام کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ رنج اور تکلیف کے بغیر خوشی اور مسرت کا بھی کوئی لطف نہیں رہتا۔ بلا شبہ اس کے بغیر زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا اور ارتقا کی منازل راستے ہی میں دم توڑ دیں گی۔
چنانچہ حواس خمسہ کے ارتقا میں تکلیف اور سکون کے احساس نے یکساں کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ گاڑی کے دو پہیے کہ اگر ایک کو الگ کر دیںتو دوسرا بھی بیکار ہو کر رہ جائے گا اور یوں گاڑی کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ موت و حیات کے مابین یہی کشمکش جو تکلیف کو جنم دیتی ہے، خوشی پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہی بنیادی محرک ارتقا کی گاڑی کو ہمیشہ آگے بڑھنے کی قوت مہیا کرتا ہے۔
ارتقا کی طویل تاریخ میں پائی جانے والی بیماریوں کی مختلف وجوہات بالواسطہ یا بلا واسطہ ارتقائی تبدیلیوں سے ہی متعلق تھیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں، بقا کی جدوجہد، تغیر اور حادثات، سب نے اکٹھے یا الگ الگ اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یعنی بیماریاں، نقائص اور کمزوریاں بھی ترقی پر اثرانداز ہونے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ یوں جانوروں کی مختلف انواع بظاہر لاشعوری طور پر، مگر دراصل ایک رہنما اصول کے تحت شعور کے اعلیٰ مدارج کی طرف ارتقا پذیر ہوتی رہی ہیں۔
اب ہم ایک اور منصوبہ کا جائزہ لیتے ہیں جس میں ایک مفروضہ کے تحت تکلیف کے عنصر کو یکسر ہٹا دینا مقصود ہے۔ بالفاظ دیگر زندگی کی تمام حالتوں کو لازمی طور پر کسی تکلیف کے بغیر خوشی میں برابر کا حصہ ملنا چاہئے۔ مقصد یہ ہے کہ شاید اس طرح ہم تکلیف کو ختم کر کے زندگی کو ایذا سے بچا سکیں۔ تب مطلق مساوات قائم ہو جائے گی اور سب برابر کی سطح پر کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن اس منصوبہ کو کیسے اور کہاں متعارف کروایا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ہم ارتقاکے طویل سلسلہ میں اس منصوبہ کو متعارف کروانے کی کوشش کریں گے ہمیں لازماً بعض لاینحل مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افسوس کہ یا تو اس نئے منصوبہ کے اصولوں کو ابتدائے آفرینش سے متعارف کروانا ہو گا یا اسے سرے سے ترک کرنا پڑے گا۔ اس قسم کی مطلق مساوات کا اطلاق خواہ کسی بھی سطح پر کیوں نہ کیاجائے، لاینحل تضادات کو جنم دے گا۔ اس کے لئے ہمیں زندگی کے نقطۂ آغاز کی طرف لوٹنا ہو گا۔ ہمیں حیات کی تاریخ میں بالکل وہاں لوٹ جانا ہو گا جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوئی اور ارتقا کی سیڑھی کو از سر نو زینہ بہ زینہ تعمیر کرنا ہوگا۔ مگر انتہائی کوشش کے باوجود ہم پہلے مرحلہ پر ہی رک جائیں گے اور ایک قدم بھی آگے بڑھنے کے قابل نہ ہوں گے کیونکہ خوشی کی مساوی تقسیم اور تکلیف کی عدم موجودگی ارتقا کی قوت رفتار کو بالکل ختم کر دے گی۔ چنانچہ نہ تو بقا کیلئے کوئی جدوجہد ہو گی اور نہ ہی کوئی انتخاب طبعی اور بقائے اصلح کے اصولوں کا نفاذ۔ اور زندگی کی خام حالت سے ترقی کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکے گا۔
زندگی کے اس مرحلہ کا تصور کیجئے جو انسانی علم کے مطابق تین بنیادی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ یعنی مرکزہ والے بیکٹیریا۔ بغیر مرکزہ کے بیکٹیریا اور آگ کی توانائی سے جنم لینے والے پائروبیکٹیریا۔ اس فرضی نظام میں سب کو برابر میسر آنے کی وجہ سے خوراک یا بالفاظ دیگر بقا کیلئے کوئی مقابلہ نہیں ہو گا اور نہ ہی تکلیف کا وجود ہو گا۔ اس فرضی نظام میں زندگی ہمیشہ اپنی ابتدائی خام حالت میں ساکت اور جامد رہے گی۔ انسانی تخلیق تو اس نقطۂ آغاز سے دور کی بات ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آیا اس نظام کو منتخب کیا جائے جس کا اہم جزو دکھ ہے اور جو زندگی کے ارتقا کے عمل کو مسلسل جاری رکھتا ہے یا تکلیف کے خوف سے اس نظام کو بکلی ترک کر دیا جائے۔ چنانچہ حتمی تجزیہ میں ’’زندگی یا موت‘‘ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اگر حیات کی ابتدائی حالتوں میں کچھ شعور ہوتا تو حیات اس بے معنی مشقت میں زندہ رہنے کی بجائے موت کو ترجیح دیتی۔
دکھ کا تعلق سزا اور مکافات کے تصور سے بھی ہے۔ حیوانات میں ایک محدود پیمانے پرانتقام لینے کی جبلت مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ یہ جبلت بہت سے زمینی، بحری اور فضائی جانوروں کے رویوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہاتھی اور بھینس انتقامی جذبہ کی وجہ سے خاصے بدنام ہیں۔ حیات کی اس بتدریج ترقی پذیر خصوصیت کا تعلق لازماً قوت فیصلہ کے بتدریج ارتقا سے ہے۔ کچھ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ یا تو جبلت کے تحت ہو سکتا ہے یا سوچ سمجھ کر۔ تا ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جانوروں کے طرز عمل میں فیصلہ کی صلاحیت کیا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن یہ یقینی بات ہے کہ انسان کے طرز عمل میں اس صلاحیت کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ فیصلہ عموماً انسان کا اپنا ہوتا ہے کہ آیا وہ نور اور حیات کی طرف حرکت کرے یا ظلمت اور موت کی طرف۔ اس لئے اگر انسان کو اپنے اعمال کے نتیجہ میں کوئی انعام ملے یا سزا بھگتنا پڑے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔
بعض اوقات لوگ تکلیف تو اٹھاتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ مگر قدرت میں جزا سزا کا ایک عمومی قانون کارفرما ہے جسے مکافاتِعمل کہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انہیں اپنے کسی دانستہ یا نادانستہ عمل کے نتیجہ میںوجہ معلوم ہوئے بغیر یہ تکلیف اٹھانا پڑی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر غلطی کی سزا فوری طور پر نہیں ملا کرتی۔ بسا اوقات قانون شکنی پر قدرت غیر محسوس طریق پر سزا دیتی ہے۔
تاہم یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ الجھا ہوا، وسیع اور پیچیدہ ہے اور اسے بعض فرضی یا حقیقی سائنسی مثالوں کی مدد سے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض صورتوں میں وضاحت مشکل ہو جاتی ہے۔ مثلاً بعض پیدائشی نقائص والے بچوں کے متعلق یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ انہیں کیوں تکلیف میں ڈالا گیا؟ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ اگر کہیں کوئی غلطی ہے توخواہ یہ نادانستہ طور پر ہی ہو، والدین کی ہو سکتی ہے۔ اس سیاق و سباق میں لفظ ’’نقص‘‘ کو اس کے وسیع معانی میں سمجھنا چاہئے جس میں حادثاتی واقعات کے نتیجہ میں جنم لینے والی پیدائشی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ ایسی غلطیوں کا دانستہ جرائم سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی نقص کی وجہ کچھ بھی ہو،یہ بات یقینی ہے کہ اس نقص کے ساتھ پیدا ہونے والا معصوم بچہ کسی بھی صورت میں اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہر تکلیف سزا نہیں اور نہ ہی ہر خوشی جزا ہے۔ کچھ لوگ بغیر کسی وجہ کے تکلیف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ تا ہم ایسے معاملات کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں بالارادہ ناانصافی کا سوال نہیں بلکہ ایسی تکا لیف تخلیق کے وسیع تر منصوبہ کا ناگزیر نتیجہ ہیں اور یہ انسانی معاشرہ کے عمومی ارتقا میں ایک با مقصد کردار ادا کرتی ہیں۔
یادرکھیں کہ علت اور معلول اور اسی طرح جرم اور سزا، خواہ کتنے ہی مشابہ کیوں نہ دکھائی دیں، دو مختلف امور ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ جرم ہی ایک سبب ہے جس کے نتیجہ میں سزا ملتی ہے لیکن یہ دعویٰ درست نہیں کہ ہر تکلیف ماضی میں سرزد ہونے والے کسی جرم کی سزا ہے۔ یہ کہناغلط ہے کہ تمام صحت مند بچے اپنے والدین کے کسی نیک عمل کے صلہ میں صحتمند ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں کہ ہر بیمار بچہ اپنے آباؤ اجداد یا اپنے والدین کے کسی نا معلوم جرم کے باعث بیمار ہے۔ صحت اور بیماری، اہلیت اور نا اہلی، خوش قسمتی اور بد قسمتی، پیدائشی صحت یا معذوری، اپنی ذات میں اثرانداز ہونے کے علاوہ ایک وسیع نظام میں بھی ایک فعّال کردار ادا کرنے کیلئے ضروری ہیں اور جرم اور سزا، اچھائی اور صلہ کے تصور سے نمایاں طور پر الگ ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے راحت کی طرح تکلیف بھی زندگی کے ارتقا کی لازمی اور بنیادی شرط ہے جس کا ارتقا کے اس سفر میں جرم و سزا کے نظریہ سے کوئی تعلق نہیں۔
تکلیف اپنے فعّال کردار کی وجہ سے ایسے مفید اثرات پیدا کرتی ہے جو اس کی موجودگی کی یاد دلاتے ہیں۔ ہمارے کردار کو سنوارنے کیلئے تکلیف ایک بہترین استاد کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ قوتِادراک کو ترقی دے کر اسے جلا بخشتی، فروتنی سکھاتی اور کئی طریق سے انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہے۔ یہ تحقیق اور جستجو کو بیدار کر کے اس خواہش کو جنم دیتی ہے جو تمام ایجادات کی ماں ہے۔ اگر تکلیف کو جو انسان کی پوشیدہ قوت کا باعث ہے، دور کر دیا جائے تو ارتقا کا پہیہ لاکھوں گنا پیچھے چلا جائے گا۔ انسان اس قدرتی منصوبہ کو تبدیل کرنے کی کوشش تو کر سکتا ہے مگر سوائے مایوسی کے اسے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ چنانچہ تکلیف اور دکھ کی موجودگی کی وجہ سے خالق کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بلکہ ان حالات میں دکھ اور تکلیف کا تو ایک تخلیقی کردار ہے اور یہ زحمت تو دراصل ہمارے لئے رحمت کا باعث ہے۔
ان تمام سائنسی تحقیقات اور دریافتوں کے پس منظر میں تکلیف اور بے آرامی سے چھٹکارا پانے کی ایک مستقل جدوجہد ہے جو کارفرما ہے۔ سائنسی تحقیق اور دریافتوں کے محرکات آرام کے حصول کی خواہش پر اس قدر مبنی نہیں جس قدر تکلیف سے نجات حاصل کرنے پر۔ تعیّش دراصل ہے کیا؟ یہ بے آرامی کی حالت سے نسبتاً آرام کی حالت کی طرف جانے کے رجحان میں وسعت کا نام ہے۔
آئیے ایک بار پھر ان معصوم اور دکھی لوگوں کے معاملہ پر مزید غور کریں۔ مثلاً پیدائشی نقائص کے حامل نو مولود بچے یا وہ بچے جو بعد میںٹائیفائیڈ یا کسی اور معذور کر دینے والی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اندھے، بہرے یا گونگے ہو جاتے ہیں اور جزوی یا مکمل طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کے مرکزی اعصابی نظام کو دوران پیدائش نقصان پہنچ جاتا ہے ان کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے اور اس کا نتیجہ دماغی امراض کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ اب کیا یہ سوال درست ہو گا کہ کیوں ایک بچہ مثلاً زید یا بکر تو اس تکلیف میں مبتلا ہے اور عمر یا خالد نہیں؟ علیٰ ہذا القیاس ’’الف‘‘یا ’’ب‘‘ کیوں بیمار ہے اور’’ج‘‘ اور’’د‘‘ کیوں نہیں؟ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ درست سوال صرف یہ ہو سکتا ہے کہ آخر کوئی بھی بچہ اس طرح کیوں بیمار ہوتا ہے؟ اس صورت میں خالق کے پاس ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ یا تو تمام بچوں کو یکساں صحت مند پیدا کرے یا غیرصحتمند۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بچے کی صحت بذات خود ایک نسبتی قدر ہے۔ شاید ہی دو بچے ایسے ملیں جن کی ذہنی و جسمانی صحت اور تمام اعضاء یکساں ہوں۔ دکھ اور تکلیف کے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے خالق کے متعلق بھی ایک موزوں سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بچہ جو چھوٹی چھوٹی آنکھیں، ایک بڑی بھدی سی ناک اور دوسرے غیر متناسب نقوش لے کر پیدا ہوا ہو تو کیا وہ اپنے دوسرے خوشنصیب ساتھیوں کی خوبیاں دیکھ کر عمر بھر دکھی نہیں رہے گا؟
صحت اور شکل و صورت کا یہ اختلاف بہت سے لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر دے گا۔ کیا مطلق انصاف اور ایمانداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو صحت اور ظاہری خدوخال میں یکساں پیدا کرتا۔ فکری اور قلبی استعدادوں اور رجحانات کے موازنہ کو بھی شامل کر لیں تو اعلیٰ اور ادنیٰ کا باہمی تضاد بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ دونوں انتہاؤں کو چھوڑ کر عام انسانوں سے معمولی فرق بھی انصاف کے خلاف دکھائی دینے لگے گا۔ یکسانیت کو ختم کر کے تنوع پیدا کرنے کیلئے آخر کہیں سے تو ابتداء کرنا ہوگی۔ تنوع اور تفاوت کی نسبت سے تکلیف اور راحت بھی لازماً پیدا ہو گی۔ معذور بچوں کیلئے رحم کے نام پر ترتیب کائنات کے خلاف اعتراض اور چیز ہے لیکن اس سکیم کو بظاہر زیادہ ہمدردانہ اور انصاف پر مبنی سکیم سے بدل دینا ایک اور چیز۔ انسان ابتدائے آفرنیش سے موجود کائنات کی اس سکیم کو بدلنے کی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن اس کا نعم البدل پیش کرنے کے قابل ہرگز نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ہم اسی سوال کی طرف واپس لوٹتے ہیں کہ کوئی بیماری اور تکلیف آخر ہے کیوں؟ اور یہ کیوں ناگزیر ہے؟ اس سوال کا ایک جواب ہم پہلے ہی اوپر دے چکے ہیں۔
آیئے ایک دہریہ اور ایک مومن کے نقطۂ نگاہ سے اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ منطقی لحاظ سے دہریوں کے لئے نہ تو کوئی حل طلب مسئلہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسا سوال جس کا جواب مطلوب ہو۔ کیونکہ بقول ان کے وہ اپنی ہستی کے لئے کسی خالق کے محتاج نہیں۔ نیز اگر انہیں اِس اتفاقی تخلیق میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو اصولاً کوئی خالق اُن کے سامنے جوابدہ نہیں۔ ہر تکلیف، ہر شامت اعمال اور ہر خوشی کی غیرمساویانہ تقسیم کیلئے صرف چانس یا اتفاق کو ہی ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے اور اس سے صدیوں پرانی بحث کا خاتمہ ممکن ہے۔ دہریوں کے نزدیک چونکہ اصل خالق چانس یا اتفاق ہے، خواہ اس کا نام نیچر ہی کیوں نہ رکھ لیں جس میں نہ تو شعور ہے نیز یہ بہرا،گونگا،اندھا اور بے ترتیب ہے، اس لئے اگر اس بے ترتیبی میں کوئی نقص رہ جائے تو اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کسی خالق کے بغیر اتفاقیہ پیدائش بغیر کسی ترتیب، دلیل یا سمت کے لازماً اندھی ہو گی۔
جو لوگ خداتعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں جو خالق ہے ان کیلئے اس جامع منصوبہ کی حکمت اور دانائی کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کیونکہ انہیں اس تخلیق میں ایک واضح سمت، توازن اور مقصد نظر آتا ہے۔ اتنی مہارت سے ترتیب دیئے گئے اس رنگا رنگ اور معطر گلدستے میں کہیں کوئی ایک آدھ کانٹا بھی موجود ہو تو کیا اسے بد صورت کہا جا سکتا ہے؟
اگر دہریہ کا وہم درست ہو تو معصوم اور دکھی لوگوں کیلئے نجات کا واحد راستہ صرف موت ہے۔ لیکن تخلیق کے بارہ میں اگر مومن کا نظریہ درست ہو تو اس صورت میں موت ایک بالکل مختلف انداز میں نجات دہندہ بن جاتی ہے۔ ان کیلئے موت ایک نئی زندگی کی ابتداء ہے جو ان مبتلائے آزار معصوم لوگوں پر لامحدود جزا کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اگر وہ اس جزا کا تصور کر سکتے ہوں جو اس دنیوی زندگی میں پہنچنے والی عارضی اذیت کی تلافی کے طور پر ان کی منتظر ہے تو وہ اذیت کے باوجود مسکراتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ گویا یہ تکلیف ایک کانٹے کی ہلکی سی چبھن کی مانند ہے جو راحت اور خوشی کی ابدی زندگی کے رستے میں انہیں اٹھانا پڑی ہے۔
ممکن ہے کہ کچھ لوگ پھر بھی مطمئن نہ ہوں اور مصر ہوں کہ چونکہ نہ کوئی خد ا ہے اور نہ ہی موت کے بعد کوئی جزا سزا، اس لئے ان کے نزدیک اس جواب کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس سوال پر بحث فضول ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سوال صرف اس صورت میں ہی زیر بحث لایا جا سکتا ہے جب پہلے خداتعالیٰ کو خالق تسلیم کر لیا جائے۔ اخلاقیات اور کسی امر کے اچھا یا برا ہونے کا سوال صرف اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہستیٔ باری تعالیٰ پر ایمان بھی ہو۔ اگر خدا ہے تب ہی مذکورہ بالا طریق سے تلافی ممکن ہے اور اسے ہنس کر ٹالا نہیں جا سکتا۔ اور اگر خدا نہیں ہے تو اتفاقی طور پر پہنچنے والی اذیت پر کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہر ا سکتے۔ اس صورت میں ہمیں زندگی اور متعلقہ امور کو محض ایک بے معنی، بے سمت اور بے مقصد اتفاقی سانحہ کے طور پر قبول کرنا ہو گا۔ اور دکھ یا اذیت کو قدرت کے ایک ایسے جزولاینفک کے طور پر قبول کرنا ہو گا جس سے مفر نہیں اور انسان کو ہر صورت میں اذیت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھنا ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اذیت ارتقا کی قوت متحرکہ کا نہایت اہم جزو ہے۔ تا ہم اس امر کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ہستی کے شعور سے حاصل ہونے والی لذت اور اذیت کا توازن کیسے برقرار رکھا جائے؟ لذت اور اذیت کی اس سادہ مساوات میں اگر رنج و الم کا پلہ بھاری رہے تو اکثریت ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دے گی۔ اگر رنج و الم میں مبتلا لوگوں کی اکثریت دکھ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بجائے شعوری سطح پر اپنی شناخت کو ضائع کرنا ہی پسند کرے گی تو اس صورت میں کائنات کے اس منصوبہ کی حکمت ہی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ حالانکہ حقیقی زندگی میں ہمارا مشاہدہ مندرجہ بالا مفروضہ کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی بسا اوقات اپنے وجود کے شعور کے ساتھ ہر قیمت پر چمٹی رہتی ہے خواہ کتنی ہی تکلیف اور دکھ کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ غالب اصول تو یہی ہے تا ہم بعض استثنائی صورتیں ہیں جو شاذ کالمعدوم کا حکم رکھتی ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ رنج و الم کا تناظر بدلتا رہتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو زاویہ ہائے نگاہ کے بدلنے سے بدل جاتا ہے۔ صحت مند لوگ کسی معذور بچے کی حالت کو انتہائی تکلیف دہ خیال کرتے ہیں لیکن وہ جو اس بچے سے بھی زیادہ تکلیف دہ حالت میں ہیں ان کے لئے اس کی یہ حالت قابل رشک ہوتی ہے۔
وسیع تر تناظر میں زندگی کی ہر صورت اپنے سے نیچے یا اوپر کی حالتوں سے بالترتیب بہتر یا کمتر نظر آتی ہے۔ ارتقا کے سفر میں ہمارا اقدار کا شعور بھی ادنیٰ سے اعلیٰ حالتوںکی طرف تبدیل ہوتا چلا گیا ہے۔ اگر ارتقا کے اس ہمہ وقت ترقی پذیر رستے میں بلندی پر واقع مراحل کو کسی بلند تر مقام سے دیکھا جائے تو وہ بھی نسبتاً پست دکھائی دیتے ہیں۔ حیات کی اعلیٰ حالتوں کا ان قدروں سے چولی دامن کا ساتھ ہے جن کا شعور ارتقا کے طویل عمل کے دوران حاصل ہوا۔ اقدار کی اس آگہی اور استعدادوں میں کسی قسم کی کمی یقینا ایسی اذیت پر منتج ہو گی جو بذات خود ان کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ اگر کیڑے کی زندگی کا حیات کی بعض اعلیٰ حالتوں سے موازنہ کریں اور پھر ان کا موازنہ جانوروں کی بعض مزید ترقی یافتہ انواع سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سب کی استعدادیں یکساں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر گلے سڑے نامیاتی مادہ اور گندگی پر پلنے والے کیڑے کسی صورت میں بھی اپنے آپ کو گھاس کے وسیع میدانوں میں آزادی سے گھومتے پھرتے اور نرم گھاس چرتے ہوئے جنگلی گھوڑوں سے بہتر قرار نہیں دے سکتے۔ نہ ہی وہ یہ سمجھ سکتے ہیںکہ وہ ان سے گھٹیا اور کم تر درجہ رکھتے ہیں۔ ہر دو انواع کے مختلف جہان ہیں مختلف صلاحتیں، مختلف ضروریات اور مختلف خواہشات ہیں بشرطیکہ کیڑے بھی خواہشات رکھتے ہوں۔
تاہم یہ عدم توازن کسی نا انصافی پر دلالت نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر چند ایسے ہٹے کٹے کیڑوں کا تصور کیجئے جو بظاہر اپنے ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں اور اپنی موجودہ صلاحیتوں پر قانع ہوں اور نہ ہی اپنے محسوسات سے ہٹ کر کوئی خواہش کر سکتے ہوں۔ اس کے باوجود اگر اذیت میں مبتلا بچے کو کسی کیڑے کی خوشحال زندگی سے بدلنے کی پیشکش کی جائے تو کیا وہ اس پر موت کو ترجیح نہیں دے گا؟
محض انسانی زندگی اور اس زندگی کی ان اعلیٰ حالتوں کا شعور جن سے اسے نوازا گیا ہے،ہی بالعموم اذیت کے احساس کو کم کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اذیت بہرحال ایک نسبتی حالت ہے۔ اذیت کی بنیادی وجہ احساس محرومی ہے۔ جب معروف اور پسندیدہ اقدار کو نقصان پہنچتا ہے تو اذیت کا شعور جنم لیتا ہے۔
یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب انسان ان اقدار کی لذت کا مزہ چکھ چکا ہو یا دوسروں کو ان سے لطف اندوز ہوتے دیکھ چکا ہو۔ چنانچہ ان اقدار میں کمی جن سے کبھی وہ خود لطف اندوز ہو چکا ہو یا اوروں کو ان قدروں سے لطف اندوز ہو تا دیکھے لیکن خود اس لذت سے محروم ہو، یہ دونوں ایسے مضبوط عوامل ہیں جو اذیت کا باعث ہوا کرتے ہیں۔ البتہ ان اقدار کی عدم موجودگی اذیت کا باعث نہیں بن سکتی جن کا انسان کو علم ہی نہ ہو۔ لہٰذا اگر اذیت محض کسی محرومی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ اس حقیقت کے باوجود کہ اذیت کا ذمہ دار خاص صدمات کو ہی قرار نہیں دیا جا سکتا، گہرے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذیت کا ہر احساس دراصل کسی محرومی کے احساس ہی سے پید اہوتا ہے۔
حواس کی تخلیق اور ارتقا، سو دوزیاں، لذت اور اذیت کی اس لمبی اور نہ ختم ہونے والی کشمکش ہی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں وہ موثر ترین مخفی تخلیقی عوامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ہمارے حواس خمسہ انہی عوامل کی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہیں جو لاکھوں سالوں پر محیط ارتقا کے عمل کے دوران بتدریج معرض وجود میں آ گئے۔ راحت اور اذیت بذات خود نظامِشعور کی تخلیق کا باعث نہیں ہیں۔ تکلیف اور خوشی ازخود اعصابی نظام تخلیق نہیں کر سکتے۔ اور اس شعوری نظام کی عدم موجودگی میں کسی راحت و اذیت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ عدم سے وجود کیونکر ممکن ہے؟ عدم شعور اربوں کھربوں سالوں میں بھی شعور کی نہ تو تخلیق کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی تشکیل۔
اس کے لئے ایک باشعور خالق کی ضرورت ہے جو موت کو شعور عطا کرے اور اس سے زندگی پیدا کرے۔ یوں لگتاہے جیسے خالق کل نے ایک ایسے طریق پر جو اب تک ایک سربستہ راز ہے لذت اور اذیت کو ان اعضاء کی تخلیق کے لئے استعمال کیا ہے جو لذت و اذیت کو محسوس کرتے ہیں۔ اس حیرت انگیز شاہکار کی تخلیق میں اذیت کے کردار کو ختم کر دینے سے زندگی اپنے آپ سے محض ایک بیگانہ اور بے حس نباتاتی مواد کی صورت میں رہ جائے گی۔ شعور کی اس حیرت انگیز صلاحیت کے مقابل پر اذیت اور محرومی کی محدود اور استثنائی مثالیں کیا کوئی مہنگا سودا ہے؟
یاد رکھیں کہ اسلام کے نزدیک بدی ایک ایسا سایہ ہے جو روشنی کی عدم موجودگی سے پیدا ہوتا ہے۔ بذات خود اس کا کوئی مثبت وجود نہیں۔ روشنی کے ماخذ کا تصور تو کیا جا سکتا ہے مثلاً لیمپ یا سورج مگر تاریکی کے ماخذ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی چیز اندھیرے کا ماخذ اس وقت بنتی ہے جب اس میں روشنی کو روکنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اسی طرح یہ نیکی کی عدم موجودگی ہی ہے جو بدی کہلاتی ہے اور بدی کے مختلف مدارج کا انحصار نیکی روکنے والے واسطے کی کثافت پر ہے۔
کسی چیز کو حاصل کر لینے کا شعور ہی لذت کہلاتا ہے اور اس چیز کا نقصان یا کھو دینے کا اندیشہ درد یا اذیت کہلائے گا۔
لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ دونوں دو انتہاؤں کے طور پر بیک وقت موجود رہیں۔ یعنی ایک کو ختم کرنے سے دوسرا خود بخود ختم ہو جائے گا۔کوئی شخص بھی اذیت اور لذت، نیکی اوربدی کے اس تخلیقی نظام میں نہ تو دخل اندازی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ یہ انسانی ہمدردی کے بس سے باہر ہے کہ وہ زندگی کو ختم کئے بغیر اذیت کو ختم کر سکے۔



باب سوم
سیکولر نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا خدا کے بارہ میں تصور



سیکولر نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ
ماہرینِ عمرانیات کے نزدیک مذہب کا ارتقااور ہستی ٔباری تعالیٰ پر ایمان کا نظریہ بنیادی طور پر معاشرتی نفسیات پر مبنی ہے۔ انسان کے معاشرتی رویہ میں اس عمومی رجحان کے مشاہدہ کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان ہر اس چیز کا احترام کرتا ہے جس سے وہ خوفزدہ ہو اور ہر اس چیز کے بارہ میں جسے وہ پسند کرتا ہو یا جس کی اسے احتیاج ہو محتاط اور مؤدّب رویہ اختیار کرتا ہے۔ ان ماہرین کی سوچ معاشرتی نظام میں کارفرما ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے محرکات کے حوالہ سے مذہبی عقائد تک ممتد ہو جاتی ہے اور اس میں خوف اور طمع کے عناصر بھی شامل کر لیتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ عہد قدیم کا انسان جبکہ وہ ابھی حیوان نما انسان سے انسانیت کی طرف صرف ایک قدم ہی آگے بڑھا تھا اس کے سادہ ذہن کو گردو پیش کے مناظر نے پریشان اور مبہوت کر رکھا تھا اور جب بھی اس نے مختلف پیچیدہ سوالات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو وہ ان اشیا کی صحیح ماہیت کا احاطہ کرنے میں نا کام رہا۔ انسان کے ابھرتے ہوئے شعور کی جھلملاتی روشنی میں عجائبات فطرت نے اس کے ترقی پذیر شعور کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نے مظاہر قدرت کو کسی مافوق الفطرت ہستی کے ایسے کرشمے تصور کر لیا جو اس کے فہم و ادراک سے بالا ہونے کے باوجود اس کی زندگی پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انسان نے انہی مظاہر قدرت کو دیوتا قرار دے دیا۔ سیلابوں اور طوفانوں کی تباہ کاریاں دیکھ کر وہ اس خوف سے ان کے آگے سجدہ ریز ہو گیا کہ کہیں وہ اسے بھی تباہ و برباد نہ کر دیں۔ اسی طرح اس نے دن کی روشنی اور سورج کی تخلیقی قوتوں کا مشاہدہ کر کے اپنے تخیلاتی دیوتاؤں کے بارہ میں بھی نفع رساں ہونے کا تصور قائم کر لیا۔ ان مظاہر کو قدرت کے آئینہ میں منعکس ہوتے دیکھ کر انسان نے ان میں سے کسی کے بارہ میں خوفناک ہونے اور کسی کے بارہ میں مشفق ہونے کا تصور قائم کر لیا۔ اس طرح اس نے قدرت کے خوفناک مظاہر مثلاً مدو جزر کے ان سمندری طوفانوں اور بادوباراں کو اپنا دشمن سمجھ لیا جو اپنے بعد بجلی کی چمک اور کڑک اور سیلاب کے ریلے چھوڑ جاتے ہیں۔
خطرناک جانور بھی اس دائرہ سے باہر نہ رہ سکے۔ شیر، چیتے، سانپ، بچھو اور دیگر خطرناک جنگلی جانور بھی حصہ رسدی ان تصوراتی خداؤں اور طاغوتی طاقتوں کے زمرہ میں آ شامل ہوئے۔ اس کے بر عکس فطرت کے جمالی مظاہر مثلاً زندگی بخش بارش لانے والی مرطوب ٹھنڈی ہوائیں اور باد شمیم میں اسے مہربان دیویوں کا فیض نظر آیا۔ دور اوّل کے انسان نے اپنی دقیانوسی سوچ کی بنا پر ان مظاہر فطرت کو دیوتا یا دیوتاؤں کے ایسے کارندے شمار کر لیا جو مختلف مزاج، انداز اور خصوصیات کے مالک تھے۔ اس کے یہ تصوراتی دیوتا اس کی عقیدت کے حقدار تھے ورنہ اسے ڈر تھا کہ وہ ان کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بن جائے یا ان کی عنایات سے محروم نہ ہو جائے۔ فلکیاتی عجائبات مثلاً سورج، چاند اور ستارے اپنے طلسمی جھرمٹوں سمیت رفتہ رفتہ اس کے انتہائی احترام کے مستحق ٹھہرے۔ اس طرح دیوتاؤں کے بارہ میں اس کے تصورات ارتقائی منزلیں طے کرنے لگے اور درجہ بندی شروع ہو گئی۔ ان میں سے کچھ اعلیٰ اور کچھ ادنیٰ قرار پائے۔
آج ہم قدیم انسان کی ضعیف الاعتقادی پرگو لاکھ تنقید کریں لیکن ماہرین عمرانیات کی رائے ہے کہ ابتدائی انسان کی یہ سادہ لوحی اس کے مبہم اور غیر ترقی یافتہ ذہنی صلاحیتوں کا فطری نتیجہ تھی۔ مختصراً، اکثر ماہرین عمرانیات کا مذہب کی ابتدا اور ارتقا کے بارہ میں یہی خیال ہے۔
پھر وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اسی قدیم طرز فکر کا ارتقا بالآخر خدائے واحد کے نظریہ پر منتج ہوا اور اس بات پر مصر ہیں کہ خدائے واحد کا تصور دراصل بہت سے خداؤں پر اعتقاد کے نتیجہ میں ہی تدریجاً ظہور پذیر ہوا ہے۔ لیکن توحید کے اس نظریہ نے مشرکانہ خیالات کو بالکل ختم نہیں کیا۔ دونوں تصورات بیک وقت موجود رہے اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی سخت اور مشکل کشمکش سے دوچار رہے۔ مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ کئی مذاہب منصّہ شہود پر ابھرے اور مختلف نظریات فروغ پاتے گئے۔ ایک خدا کی عبادت بھی ہوتی رہی اور بہت سے دیوتا بھی پوجے جاتے رہے۔ جہالت کی بنا پر انہیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ وہ محض اپنے ہی تصورات کی پوجا کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ لوگوں ہی نے دیوتا گھڑ لئے ہیں، خداتعالیٰ نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ اس طرح ایک سیدھا سادا فرسودہ طرزِفکر ترقی پا کر جڑ پکڑتا اور پھیلتا چلا گیا اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی ذہنی پراگندگی اور غلط فہمیوں کا باعث بنا جن کا محور بے شمار فوق البشر تصورات تھے جنہیں آقاؤں کا درجہ دے دیا گیا۔
دہریت پر مبنی نقطہ نظر والوں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر بانیانِ مذاہب پر ارادۃً دروغگوئی اور دھوکہ دہی کا الزام عائد کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مذہب کے فروغ کے بعد کے دور میں مذہب محض عامۃ الناس کے توہمات کا ملغوبہ نہ رہا بلکہ ایک منظم اور پیشہ ور صورت اختیار کر گیا اور اس مرحلہ پر پیشہ ور مذہبی طبقہ کی فریب کاری کو مزید تقویت دینے کیلئے الہام کا نظریہ متعارف کرایا گیا۔ مذہبی خانوادہ کے یہ پیشہ ورپادری اور ملاّں خدا سے شرف مکالمہ کے مزعومہ تعلق کے باعث خصوصی مرتبہ کے دعویدار بن گئے اور خود کو خدا اور بندے کے مابین رابطے کا ذریعہ قرار دینے لگے۔ اس قسم کے کئی دعویدار مختلف اوقات میں اٹھے جن میں سے ہر ایک نے ان مافوق الفطرت طاقتوں سے تعلق کا دعویٰ کیا جو انسان کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں۔
ماہرین عمرانیات کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یونانی دیومالا اور قدیم مذاہب کے عقائد اور رسم و رواج سے یہی مترشح ہوتا ہے۔ دور اوّل کے انسان کی اپنے گردوپیش میں فطرت کے پیچیدہ اسرار کے حل کے لئے حقیقی جستجو کو بالآخر مذہب کے اکابرین نے دیوی دیوتاؤں کے نام پر عمداً دھوکہ اور فریب دہی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ انسان کے ترقی پذیر شعور نے ایک اور متوازی راستہ بھی اختیار کیا۔ ماہرین عمرانیات کے نزدیک جوں جوں ماحول میں واقع مادی دنیا کے بارہ میں انسانی سوچ ترقی کرتی گئی خدا کی ہستی کے متعلق اس کے تصور میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی۔ بتوں اور مجسموں جیسی غیر ذی روح اشیا کو جنہیں پہلے فی ذاتہٖ خدا سمجھا جاتا تھا اب آسمانوں میں بسنے والے دیوتاؤں تک رسائی کا ایک وسیلہ سمجھا جانے لگا۔ اس طرح بتدریج وہ ان دیوتاؤں کے غضب یا رحم کی مختلف حالتوں کے اظہار کا ذریعہ قرار دیئے جانے لگے۔ دیوتاؤں کے تصور میں یوں آہستہ آہستہ تبدیلی آنی شروع ہوئی اور بقول ان کے ان خداؤں کو ایک عام محسوس اور مشہود ہستی کی بجائے ایک نادرویگانہ و غیر مرئی تخیلاتی وجود سمجھا جانے لگا۔ اس طرز فکر نے مزید ترقی کر کے خدائی کے ایک ایسے گنجلک نظام کو جنم دیا جس میں دیوتاؤں کے مختلف مقام متعین کئے گئے اور ہر دیوتا کیلئے کائنات میں ایک الگ دائرہ کار تجویز ہوا۔ دیوی دیوتاؤں کی یہی درجہ بندی تھی اور ان کے باہمی مراتب میں فرق تھا جو بالآخر ایک اعلیٰ و برتر خدا کی تخلیق پر منتج ہوا۔ الغرض ماہرین عمرانیات اس انداز فکر کی بنا پر اندازہ لگاتے ہیں کہ انسانی دماغ نے خدا کی تخلیق اس طرح پر کی ہو گی۔ بالفاظ دیگر اگر خداسازی کا کام ان ماہرین کے سپرد کیا جاتا اور اس کام کیلئے درکار طویل وقت بھی دے دیا جاتا تو غالباً وہ اسی طریق پر خداتعالیٰ کو تخلیق کرتے۔ ان کے اس کلیہ کی اساس اس مفروضہ پر ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ مگر چونکہ اس مفروضہ کی بنیاد کسی حقیقی تحقیق پر نہیں ہے بلکہ ان کی سوچ محض ایک دہریہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے اس لئے وہ اپنے پہلے سے طے شدہ نتیجہ کے بارہ میں بزعم خود عقل ودانش پر مبنی غیرجانبدارانہ تحقیق کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ نہ تو انہیں اپنی سوچ کی خامیاں اورتضادات نظرآتے ہیں اور نہ ہی وہ اس فرضی تاریخ کے واقعات میں کوئی باہمی ربط پیدا کر سکتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فکرِانسانی کے ارتقا کی تاریخ کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہیںملتا۔ وہ نہ صرف مبہم ہے بلکہ درحقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم اسی کو تاریخ کا نام دے سکتے ہیں جو تھوڑا بہت بطور ثبوت کے ہمیں پُرانے آثار سے ملتا ہے اور جن سے اس زمانہ کے طرزِ زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ تاریخ کم و بیش دو لاکھ سال پرانی ہے۔ جہاں تک مذہب کی تاریخ کا تعلق ہے تو اس پر بمشکل چند ہزار سال ہی گزرے ہیں۔ پس مفروضے ہی ہیں جن پر انہیں اپنے نظریات کی بنیاد رکھنا پڑتی ہے۔
زمانۂ قدیم کے لوگوں کی سوچ کے بارہ میں ان کے نظریات محض ایک افسانوی اڑان کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا رخ دہریت کی جانب پہلے سے طے شدہ ہے۔ انسانی فطرت جو کہ انسان کے اندازِ فکر کو پرکھنے کا واحد ذریعہ ہے، ان کے اخذکردہ نتائج کی تصدیق نہیں کرتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہم اُسی کی عبادت کرتے ہیں جس سے خوف کھاتے ہیں یا حرص ہمیں اشیاء کی عبادت کرنے پر ہمیشہ مجبور کرتی ہے؟ یہ دونوں عوامل کسی ادنیٰ درجہ کے مذہب کی بنیاد بھی فراہم نہیں کر سکتے۔ انسان خوفناک اشیاء سے تو دور بھاگتا ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ اذیت کا نشانہ بننے والے بے بس مظلوم جو بھاگنے کی سکت نہیں رکھتے وہ ظالموں سے رحم کی بھیک مانگیں لیکن یہ نہیں کہ ان کی عبادت شروع کر دیں۔ رہائی کے بعد یہی مظلوم سابقہ ظالموں کو بے نقط سناتے ہیںاور گندی گالیاں دیتے ہیں۔ پوجا کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسی کوئی جاسوسی کہانی آج تک ہماری نظر سے نہیں گزری کہ MI5کے کسی جاسوس نے KGB کے تشدد کرنے والے کارندے کو خوف کی وجہ سے پوجنا شروع کر دیا ہو۔ جس خوفِ خدا کا ذکر آسمانی مذاہب کرتے ہیں اس کا درندوں یا دیگر دہشت ناک چیزوں کے خوف سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ بے شک عذاب الٰہی کی تہدید جرم سے باز رکھنے کی غرض سے ہے تا کہ لوگ اپنے ساتھ زیادتی کے مرتکب نہ ہوں تاہم قدیم انسانی معاشروں میں محض جنگلی درندوں یا طوفانِ بادوباراں کے خوف کی بنا پر اس قسم کی تہدید کی کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ جنگلی درندوں یا طوفان بر پا کرنے والے عناصر کے خوف یا دھمکی کی بنا پر اس معاشرہ نے جارحیت سے ہاتھ روک لیا ہو۔ پولیس، ٹریفک پولیس اور مجسٹریٹ وغیرہ سے لوگ خوف تو کھاتے ہیں اور شاید نفرت بھی کرتے ہیں لیکن کبھی کوئی ان کی پوجا نہیں کرتا۔ نہایت قدیم دور کا وحشی انسان بھی کسی خونخوارشیر سے خوف کھا کر اپنی جان بچانے کیلئے اس سے دور بھاگے گا نہ یہ کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو کر رحم کی بھیک مانگے اور نہ ہی اس کی عظمت اور جاہ وحشمت کے گن گائے گا۔ بجلی کا کوندا، بارش کا طوفان اور گرمیوں کے سورج کی جھلسا دینے والی تپش قدیم انسان کو پناہ گاہ تلاش کرنے اور حفاظتی اقدام کرنے پر ہی مائل کر سکتی ہے۔ کیا کوئی ماہرعمرانیات، درحقیقت یہ تسلیم کرتا ہے کہ سخت طوفانِ بادوباراں کے دوران زمانہ قدیم کا انسان حفاظتی اقدام کی بجائے اپنے غار سے باہر آ کر قدرت کے غضبناک اور بپھرے ہوئے عناصر کے سامنے سربسجود ہو جائے گا۔ سورج اور ستاروں کی پوجا کا، خوف اور لالچ کی بنا پر پوجا کرنے کے نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس امر کی قطعاً کوئی شہادت موجود نہیں کہ انسان نے چھوٹے ارضی معبودوں کی عبادت سے رفتہ رفتہ زیادہ طاقتور اور ارفع تصوراتی وجود کی عبادت شروع کر دی ہو۔
ماہرین عمرانیات ارتقا کے بارہ میں گفتگو توکرتے ہیں لیکن وہ اپنے مفروضہ کو سائنسی طریق پر ثابت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس سائنسدان ارتقا کی بات کرتے وقت زندگی کے جملہ ادوار کی منزل بہ منزل ترقی کی نشاندہی کرتے ہیں جس کی بنا پر زندگی کے اربوں سالوں پر محیط ماضی کے سفر کی بخوبی پہچان ہو سکتی ہے۔ کیا اس بارہ میں کوئی شمّہ بھر ثبوت موجود ہے کہ ہستی ٔباری تعالیٰ کے تصور کی تکمیل کا سفر بھی اس قسم کے ارتقائی مراحل سے گزرا ہو۔ کیا بتوں کی پوجا کرنے والا کوئی ایسا توہم پرست معاشرہ بھی کہیں ہو گزرا ہے جس نے بالآخر اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد توحید اختیار کر لی ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ ایک بھی نہیں۔
بایں ہمہ ماہرینِ عمرانیات پھر بھی مصرّ ہیں کہ انسان کی بنیادی قوتِ ادراک ہی بالآخر خدا کے تصور پر منتج ہوئی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے وہ بڑی تحدی سے اس امر پر قائم ہیں کہ دیوتاؤں کے وجود گھڑ لینے میں ان دیکھی ہستی کا خوف کارفرما ہے۔ جاہلانہ شعبدہ بازیوں اور جہالت کے پردوں میں پنہاں خطرات نے دل و دماغ پر تسلط جما لیا۔ ان کے نزدیک دور قدیم کے انسانوں نے سانپوں، بچھوؤں، تندوؤں، چیتوں اور شیروں کی پوجا شروع کر دی۔ زلزلوں کے زمین کو زیرو زبر کرنے، آسمانی بجلی کے درختوں کی دھجیاں بکھیرنے اور طوفانوں کی شوریدہ سری اور بے رحمی کے نتیجہ میں ہستی ٔباری تعالیٰ کے تصور کا آغاز ہوا جس نے مظاہرقدرت کی پرستش کے بعد دل ہلا دینے والی مادی اشیاء کی پوجا کی شکل اختیار کر لی۔ اسی طرح بے جان اشیاء کی پرستش کے بعد جانوروں کی پوجا یعنی بچھوؤں اور سانپوں کی پوجا سے لے کر بلّیوں اور دیگر جنگلی جانوروں تک کی پوجا ہونے لگی حتیٰ کہ بندر بھی دیوتا تصور کئے جانے لگے۔ قدیم انسان نہ تو آسمانی بجلی کا راز پا سکے اور نہ ہی اسے تخلیق کرنے والی قوتوں کو جان سکے۔ اس کے باوجود وہ ان سے خوفزدہ ضرور تھے۔
انہوں نے سمجھا کہ ہر پر جلال مظہر قدرت بادلوں کی اوٹ میں موجود ہیبت ناک دیوتا کے غیظ و غضب کا اظہار ہے۔ اس طرح ان کے ناپختہ ذہنوں نے اپنی سادہ لوحی سے توہمات پر مبنی قصے گھڑنے شروع کر دیئے اور ان جابر اور مطلق العنان دیوتاؤں کو خوش کرنے اور ان کے غضب سے بچنے کیلئے رسومات اور قواعد و ضوابط وضع کر لئے۔ عبادت گاہیں تعمیرہوئیں۔ قربانیاں دی گئیں۔ صحیح اور غلط کا شعور پیدا ہونا شروع ہوا۔ طرح طرح کی مذہبی رسوم ایجاد کی گئیں اور بالآخر الہامی کتب مرتّب کر لی گئیں۔ واہ! کیا کہنا۔ ان بے چاروں کے ابتدائی اور قدیم ترین طرز فکر کو کیسا مبالغہآمیز خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے ! یا ان ماہرین عمرانیات کی فراست کو داد دیجئے جنہوں نے ان سادہ ذہن والے قدیم انسانوں کی طرف سے بلندو بالا آسمانی اور ہوائی قلعے تعمیر کر دئیے۔
وہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکے کہ فطرت پرست مذاہب اور الہام پر مبنی مذاہب میں زمین آسمان کا فرق ہے اور نہ ہی وہ یہ جان پائے کہ ان دینی پیشواؤں اور پرانے دیو مالائی مسالک کا درس دینے والوں نے کبھی الہام الٰہی پر مبنی کسی نظام کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح ان کے درمیانی واسطہ ہونے کے نام نہاد دعویٰ کو بھی کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ انہیں یہ منصب نسلاً بعد نسلِِ ان کے پیشروؤں کی طرف سے وراثتاً ملتا رہا۔ معاشرہ بھی اسے بلا چون و چرا تسلیم کرتا رہا۔ ان کے دعاوی کی تائید میں کبھی بھی ان سے آسمانی نشانات پیش کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ لہٰذا وہ اپنی تائید میں طرح طرح کے شعبدے اور ہتھکنڈے ایجاد کرتے رہے۔ یوں ضعیف الاعتقاد لوگ ان لوگوں کے دیوتاؤں کے فرضی قرب سے اور بھی مرعوب ہوتے رہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ فریب تھا۔ اس طرح جھوٹے دیوتاؤں کو جھوٹے دعویداروں کی تائید حاصل ہوتی رہی۔
ان پیشہ ور غیب دانوں اور خداتعالیٰ کے فرستادہ بانیان مذاہب عالم کے مابین فرق کرنے میں جن امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے انہیں خلاصتہً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
.1 بت پرست کاہنوں کی حیثیت پہلے سے قائم شدہ عبادت گاہوں میں مسلم ہوتی ہے۔
.2 یہ لوگ کوئی ایسا نیا مذہبی نظریہ متعارف نہیں کراتے جو پہلے سے رائج مسلک سے اختلاف رکھتا ہو یا سرے سے ہی اس کا منکر ہواور نہ ہی وہ معاشرہ کی قدروں اور کردار کو تبدیل کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف پرانے اعتقادات او ر رسوم کی تائید کیا کرتے ہیں بلکہ عوام الناس میں مقبول دیو مالائی کہانیوں اور توہمات کی بھی کبھی مخالفت نہیں کرتے۔
.3 وہ اکثر و بیشتر مروجہ سیاسی نظام میں مقبول ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے مذہبی اعتقادات کی مخالفت کبھی مول نہیں لیتے۔ بے شک کبھی کبھار شاذ کے طور پر مذہبی رہنماؤں نے اپنے ہم عصر حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن ایسا ہمیشہ حاکمِ وقت کی بیجا مداخلت کے نتیجہ میں بھڑکنے والے جذبہ انتقام کی وجہ سے ہوتاہے اور بعض اوقات ایسی بغاوتوں کے پیچھے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے۔ تا ہم یہ استثنائی مثالیں ہیںلیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ بد عنوان اور بت پرست قیادت ایسے مقبولِ عام فرضی قصّوں کو زندہ رکھتی ہے جو دراصل اس کے اقتدار کو ایک گہری بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ سب کے سب توحید کے علمبردار تھے۔ عظیم مذاہب ِ عالم مثلاً یہودیت، عیسائیت، اسلام اور زرتشت ازم کے بانی انبیاء اسی زمرہ میں شامل ہیں۔ اگر ہم حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ جیسے انبیاء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیشہ یہ نظر آئے گا کہ ان میں سے کوئی بھی کسی مشہور و معروف اور مقبول مذہبی گروہ کا نمائندہ نہیں تھا۔ انقلاب کی آواز بلند کرنے والے تنہا یہی لوگ تھے۔ اُن کے دعاوی کی بنیاد ہمیشہ الہام الٰہی تھا۔ وہ ایک ایسے نئے طرز فکر کے علمبردار تھے جو ایک بالکل مختلف طرزِ زندگی کا متقاضی تھا۔ انہوں نے جن اقدار کو دنیا میں قائم کیا وہ اس وقت کے رسوم و رواج سے بالکل مختلف تھیں۔ وہ ہمیشہ ایک نئے نظام کے پیش رو بن کر اُبھرے۔ انہوں نے اپنے ہمعصر مذہبی رہنماؤں کو چیلنج کرنے کی جرأت کی۔ وہ ایک ایسے وقت میں ظاہر ہوئے جب بڑے بڑے مذاہب مختلف فرقوں میںبٹ چکے تھے اور جاہل عوام پر اپنا زیادہ سے زیادہ تسلط قائم کرنے کے لئے باہم برسر پیکار تھے۔
ایسے وقت میں جب کسی الٰہی فرستادہ کا ظہور ہوا تو مخالفین نے وقتی طور پر اپنے اختلافات کو بھلا کر نئے خدائی نظام کا مقابلہ کر نے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کو مجتمع کر کے تشدد پر مبنی متحدہ مخالفت کا عظیم محاذ قائم کر لیا۔ اس کے بالمقابل خداتعالیٰ کے کسی فرستادہ کو کسی قسم کی کوئی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ نہ تو عوام الناس کی اکثریت نے اس کی تائید کی اور نہ ہی اسے کسی برسراقتدار طبقہ کی آشیر باد حاصل ہوئی اور نہ کسی سیاسی قوت نے حمایت کی۔ اسے تنہا اور بے یارومدد گار چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایسے بد کردار معاشروں کے مقابلہ کیلئے اٹھے جو ہمیشہ توہمات پر مبنی رجحانات کی وجہ سے فروغ پا یاکرتے ہیں۔ نئے نظام کے یہ داعی ہمیشہ توحید کا پرچار کرتے رہے اور ہر قسم اور ہر شکل کی بت پرستی کی بیخ کنی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ ان کے مخالفین اگر کسی ایک بات پر متحد ہوئے تو وہ محض انبیاء کی مخالفت ہی تھی اگرچہ ہمیشہ کی طرح وہ باہمی طور پر افتراق کا شکار رہے۔ توحید کے علمبردار اگر مفتری تھے تو ان کا ہدف ناممکن الحصول تھا۔ کیونکہ کوئی مفتری ایسے ناممکن الحصول اہداف کیلئے کبھی ایسی استقامت نہیں دکھایا کرتا جو اس کی پہنچ سے باہر ہوں۔ یہ لوگ بلا شبہ ہستی ٔباری تعالیٰ پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے ورنہ وہ تباہ و برباد ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے۔ اور اگر خداتعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے تو معاشرہ ایسے دعویداروں کو بڑی آسانی سے پاگل قرار دے کر ردّ کر دیتا۔ اس کے علاوہ اور کوئی رستہ ہی نہیں تھا۔ اگر یہ لوگ پاگل نہیں تھے تو پھر کس طرح اتنی مستقل مزاجی اور یقین کے ساتھ اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے اور ایک بے مصرف اور حقیقت سے دور مقصد کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دیا؟ لیکن انہیں پاگل قرار دے کر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاگل ہمیشہ الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ نبیوں کے بالمقابل تو معاشرہ ایسا شدید ردعمل دکھاتا ہے جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین پھٹ گئی ہو۔ ان متشدد مخالفین کے اجتماعی غیظ و غضب کے مقابل پر انبیاء کو کسی امیر یا غریب، طاقتور یا کمزور انسان کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ان کے پیغام کی عظمت، ان کے کردار کی شوکت اور انتہائی نا امیدی کے لمحات میں بھی ان کا اپنی فتح پر غیر متزلزل یقین ہمیشہ ان کی صداقت پر گواہ رہا ہے۔
وہ عظیم قربانیاں پیش کرنے والے لوگ تھے نہ کہ ہواوہوس کے بندے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ اپنے عظیم نصب العین کی راہ میں لٹا دیا۔ وہ صرف خود ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مسلسل شامل ہوتے چلے جانے والے بھی کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر عظیم قربانیوں کی اسی راہ پر گامزن رہے اور کسی کی انگشت نمائی کبھی ایسے لوگوں کے حوصلے پست نہیں کر سکی۔
یہ نظریہ کہ جس کے مطابق خیالی خداؤں کا تصور انسانی جہالت کے باعث ہے، انسانی تاریخ کے بعض ادوار کے حوالہ سے جزوی طور پر درست بھی ہو سکتا ہے جبکہ انسان جاہل اور ذہنی طور پر نا پختہ تھا۔ ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ ملاؤں کے ہاتھوں جاہل عوام کا استحصال ہوا ہے۔ لیکن یہ ہرگز تسلیم نہیں کرتے کہ اس سے نظریاتی ارتقا کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر خدائے واحد کے عقیدہ پر منتج ہوا۔ تاریخی حقائق اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ توحید کا عقیدہ بت پرستی پر مبنی توہمات کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔ یہ محض ماہرین عمرانیات کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے۔ اس نظریہ کی تائید میں تاریخ سے کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ شرک تدریجاً ترقی کر کے بالآخر توحید میں تبدیل ہو گیا ہو اور نہ ہی ایسی کوئی درمیانی کڑیاں ملتی ہیں کہ لوگوں نے دیوتاؤں کی پرستش کرتے کرتے خدائے واحد کی عبادت شروع کر دی۔ اس کے برعکس یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک عظیم انسان اچانک اور یکلخت دنیا کے پردہ پر ابھرتا ہے جس کی و جہ سے مسلسل ایسے واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو بڑی بڑی انقلابی تبدیلیوں اور آزمائشوں کا باعث بنتے ہیں اور اس کے پیروکاروں کو عظیم الشان قربانیاں پیش کرنا پڑتی ہیں۔
قرآن کریم اس نظریہ کو ردّ کرتا ہے اور اس کے بالکل برعکس نظریہ کو درست قرار دیتا ہے یعنی دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کا آغاز بلا استثناء توحید کے عقیدہ سے ہوا۔ ارتقا کا مذکورہ بالا نظریہ نہ تو تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی ذہن کے تقاضوں کے مطابق ہے۔
انبیاء کا کردار ایسی کھلی کتاب ہے جو مخفی عزائم اور خفیہ منصوبوں کے الزامات کو یکسر رد کرتی ہے۔ دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کا کوئی بھی دور اس الزام کو ثابت نہیں کر سکتا کہ انہوں نے نبوت کے جھوٹے دعویٰ کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ توحید کے عظیم علمبرداروں مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی زندگیوں میں اس امکان کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ظہور کے وقت تک حضرت نوح علیہ السلام کا عقیدۂ توحید بعد کی نسلوں میں زوال پذیر ہو کر متعدد خداؤں کی سفلی حکایات کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کے قیام کیلئے دوبارہ ایک عظیم جدوجہد کا آغاز کیا جو بالآخر کامیاب ہوئی اور توحید کی مشعل آپ ؑ کی اولاد اور آپ ؑ کے پیروکاروں نے کئی نسلوں تک روشن کئے رکھی۔
بالآخر انحطاط کا وہی پرانا عمل اپنے سابقہ تباہ کن نتائج کے ساتھ پھر سے شروع ہو گیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کے چند سو سال بعد ہی بنی اسرائیل بت پرستی کی بدعادت کی طرف لوٹ گئے۔ یہ سلسلہ حضرت موسٰی ؑ کے زمانہ تک جاری رہا۔ اگر چہ انبیاء علیہم السلام میں سے حضرت موسٰی ؑکو بطور توحید کے علمبردار کے بہت بلند مقام حاصل ہے تا ہم بعد میں آنے والی صدیوں میں بت پرستی ان کے متبعین کے ایمان میں سرایت کرتی رہی اور اسے آلودہ کرتی رہی۔ اس سے ایک بار پھر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ توحید سے برگشتگی کا لازمی نتیجہ تنزل ہے۔ اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ ہمیشہ پھسل کر بت پرستی کے قعرِ مذلت میں جا گرے گا۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاںشرک کے جراثیم پروان چڑھتے ہیں۔
قرآن کریم نے اس سلسلہ میں ایک اور مثال مکہ میں موجود بیت الحرام کی دی ہے یعنی اللہ کا وہ گھر جسے حضرت ابراہیم ؑ نے خالصتہً توحید کے قیام کیلئے تعمیر کیا تھا لیکن بتوں کو خدا کے اس عظیم گھر میں دوبارہ داخل ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ نام کے علاوہ اس کی ہر شے تبدیل کر دی گئی۔ بالآخر360بت اس پر قابض ہو گئے جن میں سے ہر ایک بت قمری سال کے ایک دن کی نمائندگی کرتا تھا۔ خانۂ خدا کے درودیوار بتوں سے بھر گئے یہاں تک کہ ان بتوں کیلئے تو اس میں جگہ تھی لیکن جگہ نہیں تھی تو صرف خدا کے لئے۔
کیا ماہرین عمرانیات اسی ارتقائی عمل کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ کیا بقول ان کے اسی طریق پر بت پرستی ترقی کرتے کرتے خدائے واحد کے تصور میں ڈھل گئی؟ کیا واقعی انسان نے ادنیٰ ذہنی حالت سے ترقی کرتے کرتے اعلیٰ ذہنی حالت کو پا کر ہستی ٔ باری تعالیٰ کا تصور تخلیق کیا؟ ہرگز نہیں۔ تاریخ مذاہب بیک زبان ماہرین عمرانیات کے اس یک طرفہ نتیجہ کو مسترد کرتی اور واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ عقیدہ ٔ توحید کا اصل ماخذ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے اور یہ اسی کی عطا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ لوگ بت پرستی کرتے کرتے تدریجاً خدائے واحد کے تصور تک پہنچ جائیں۔ اگر عقیدہ توحید شرک کے ارتقا کا نتیجہ ہوتا تو تاریخ ِمذاہب لازماً اس کی تصدیق کرتی۔ لیکن مذاہب عالم کی مسلّمہ تاریخ میں اس کا نشان تک نہیں ملتا۔ ہوتا یہ ہے کہ موحّد تو دھیرے دھیرے تنزل کا شکار ہو کر مشرک معاشروں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس صورت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
نیک لوگوں کیلئے یہ امر انتہائی مشکل ہے کہ وہ لمبے عرصہ تک کے لئے آنے والی نسلوں میں اپنی نیکی بطور ورثہ منتقل کر جائیں۔ چنانچہ ان میں ایک لمبے عرصہ تک اپنے آباؤ اجداد کی پرہیز گاری قائم رکھنے کا عمل شاذ کا حکم رکھتا ہے۔ پہلی نسل جو روشنی کو براہ راست دیکھ چکی ہو اس کی بھاری اکثریت کبھی بھی جہالت کی طرف نہیں لوٹتی تا ہم بعد کی نسلوں میں ایمان بتدریج کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسا اچانک نہیں ہوتا بلکہ یہ تنزل کا ایک ایسا طویل اور سست رفتار عمل ہے جس کا آغاز انبیاء کے وصال کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اوربالآخر اتنی محنت سے پایا ہوا عقیدہ ٔ توحید کمزور پڑنے لگتا ہے۔ جب ایمان کمزور پڑتا ہے تو توہم پرستی غالب آنے لگتی ہے۔ ایک واحد اور قادر مطلق خدا پر ایمان متزلزل ہو جاتا ہے اور توحید کا تصور پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔ عبادت گاہیں جھوٹے کاہنوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ بد دیانت ملاّں اور مذہبی اجارہ دار عوام الناس کو دھوکہ و فریب دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
جملہ مذاہب بلا استثناء انسانی معاملات میں اخلاقیات کے کردار پر بڑا زور دیتے ہیں۔ ان کا دیگر امور میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اخلاقیات کی اہمیت کے بارہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ ایک ایسا عالمگیر رجحان ہے جو ہر زمانہ میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ مذہب پر امراء اور صاحبِ اقتدار لوگوں کی طرف داری کا الزام صرف اور صرف انحطاط پذیر دور کے حوالہ سے تو کسی حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن مذہب کی ابتدائی تاریخ کی روشنی میں نبی کی بعثت کے وقت یہ الزام کسی طور بھی ہرگز قابل قبول نہیں۔ نبی جن اقدار کا درس دیتا ہے وہ ہمیشہ حق و انصاف کی حمایت اور بد اخلاقی اور کمزور اور بے سہارا لوگوں کے استحصال کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا کرتی ہیںاور ہمیشہ مظلوم کے ہاتھ ظالم کے خلاف اور شکار کے ہاتھ شکاری کے خلاف مضبوط کرتی ہیں۔
کیا دنیا میں کبھی مذہبی اخلاقیات نے مظلوم کی بجائے ظالم کی حمایت کی ہے؟ مذاہب کی تاریخ کا جتنا بھی مطالعہ کر لیں آپ کو اس کی ایک بھی مثال نہیں ملے گی۔ ہر مذہب نے کمزور اور غریب کے حقوق کی حفاظت کیلئے قوانین ترتیب دئیے جن کے حقیقی نفاذ کی ضمانت خدائے علیم وخبیر پر ایمان میں مضمر ہے۔ مومن جو کچھ کرتا ہے یا جو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ خدا کے علم سے باہر نہیں ہوتا۔ لیکن انسان کے وضعکردہ قوانین کے نفاذ کے بارہ میں ایسی کوئی ضمانت موجود نہیں۔ اس کا وضعکردہ نظام ہمیشہ اس لئے نا کام رہتا ہے کہ مجرم کو اس بات کا اطمینان ہوتا ہے کہ قانون ساز اسے دیکھ نہیں رہا۔ قانون کی حفاظت کیلئے مقرر کی گئی شدید ترین سزاؤں کا خوف بھی مجرم کے ہاتھ نہیں روک سکتا کیونکہ یہ خوف جرائم کی پرورش گاہوںیعنی مخفی نیّتوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ مجرم کو اپنا بچاؤ ہمیشہ اس امید میں نظر آتا ہے کہ اس کی نیت کی طرح اس کا جرم بھی قانون کی نظر سے مخفی رہے گا۔ جھوٹ کی آڑ میں تحفّظ تلاش کرنا بھی جرائم کا ایک بڑا محرک ہے۔ انسان کا جرم کی طرف رجحان اور ارتکابِ جرم کی خواہش اس کے بچ نکلنے کی امید اور امکان سے وابستہ ہے۔ چونکہ ایسی قانون سازی جرائم کی تاریک و تار پرورش گاہوں کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لئے وہ معاشرتی برائیوں کے خاتمہ میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بہت سی برائیوں کا ارتکاب نظروں سے اوجھل رہ کر گرفت سے بچ نکلنے کی مزعومہ آس کے پس پردہ کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ سراغ رسانی کے جدید ترین ذرائع بھی مجرم کو اس کے ان عزائم سے باز نہیں رکھ سکتے جو اس نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں پوری سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کئے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ہستی پر پختہ ایمان اور احتساب کا خوف ہی دراصل جرائم کی روک تھام کر سکتا ہے۔ انہی مقاصد کے تحت مذہب نے اخلاقی ضابطۂ حیات پیش کیا۔ فی الحقیقت یہ اخلاقی حیات ہی خود مذہب کی بقا کیلئے ازبس ضروری ہے۔ اخلاقی قدروں کے پامال ہونے کے نتیجہ میں سب سے پہلے مذہب کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ بد دیانتی اور بد عملی انسان کے بنائے ہوئے قانون اور آئین کے بلند و بالا ایوانوں کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ اسی طرح مذہب کے عظیم روحانی درودیوار بھی فسق و فجور کے نتیجہ میں شکست و ریخت کی نذر ہو جاتے ہیں اور دیمک کی طرح عظیم مذاہب کی فلک بوس اخلاقی عمارات کو پیوند خاک کر دیتے ہیں۔
ہر سطح پر مذہبی عقائد اور اعمال کے انحطاط کو سمجھنے کی یہی کلید ہے۔ اخلاقیات کا معیار پست ہونے کی بنا پر توحید کا عقیدہ ہی پارہ پارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بت پرستی توحید کی جگہ لینے لگتی ہے اور بت خدا کے گھر پر قابض ہو جاتے ہیں جنہیں مندروں میں تبدیل کر دیا جاتاہے۔ انحطاط کے اس پس منظر میں غور سے دیکھنے والے کو ہمیشہ بددیانتی کے جراثیم نظر آئیں گے۔ قیادت کی کسی بھی سطح پر ہونے والی بددیانتی ایک مہلک زہر ہے۔ لیکن اگر یہ مذہبی قیادت پر قبضہ جما لے تو اس سے بڑھ کر مہلک زہر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مذہبی رہنما خدا کے نام پر اس کی مخلوق کے امن کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ تب انسانی معاملات سے خداتعالیٰ کا کردار ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کے خالی تخت پر مذہبی اکابرین کے جعلی خدا قبضہ جما لیتے ہیں۔
زیادہ دانشمندانہ طریق یہ ہے کہ مذاہب کی سچائی کا محاکمہ ان کے دور اوّل کو سامنے رکھ کر کیا جائے نہ کہ اس وقت جب وہ انسانی دست برد کا شکار ہوچکے ہوں۔ مذاہب کا آغاز جتنا ارفع واعلیٰ ہوتا ہے اتنا ہی عاجزانہ بھی لیکن اس کے اوائل میں جب مذہب اپنی اصل اور بے داغ حالت میں ہوتا ہے تو معاشرہ شدید مخالفت کے ساتھ اسے رد کر دیتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام مذہبی تعلیمات کا بہترین نمونہ ہوتے ہیں لیکن انہی کو لوگ نہ صرف مسترد کر دیتے ہیں بلکہ ان سے استہزاء کرتے اور انہیں ظالمانہ مخالفت کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہی حال ابتدائی ایمان لانے والوں کا ہوتا ہے جن کی دیانت، مقصد سے لگن اور حق کے لئے رضاکارانہ قربانیوں کی مثال بعد کے دور میں ملنی محال ہوا کرتی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان جیسے نیک لوگ اپنی زندگی میں تو معاشرہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوتے لیکن اس سرائے فانی سے کوچ کرنے کے بعد بعض دفعہ ان کی تکریم ان کے اصل مرتبہ سے بھی بڑھ کر کی جاتی ہے یہاں تک کہ انہیںخدائی کے مرتبہ تک پہنچا دیا جاتا ہے اور ان کی قبروں کی پوجا شروع ہو جاتی ہے۔ معاشرہ کا یہ عجیب اور متضاد رویہ ان لوگوں میں بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے جو کوئی قربانی دیئے بغیر اس عقیدہ کو وراثتاً اپنا لیا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اعلیٰ مذہبی اقدار کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتے ہیں اور انہیں گھن کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی توحید ہمیشہ دو طریق پر کام کرتی ہے۔ اوّل یہ کہ توحید کے علمبردار اللہ تعالیٰ سے ایک اٹوٹ رشتہ میں منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی اسی طرح جڑے ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ خالق اور مخلوق کے درمیان بھی یکجہتی کا رشتہ پایا جاتا ہے۔
مستند تاریخ کی رو سے کبھی کسی نبی نے اپنے سے پہلے آنے والے نبیوں پر نہ تو کوئی الزام لگایا اور نہ ہی ان کی تردید کی۔ ’’وحدانیت‘‘ کا یہ رویہ مستقبل پر بھی محیط ہے۔ جھوٹے نبیوں کے بارہ میں، جو اپنی فتنہ پردازیوں سے شناخت کئے جا سکتے ہیں،بلاشبہ انتباہ بھی کیا جاتا ہے لیکن سچے مرسلین کے ظہور کا ہمیشہ محبت اور احترام سے ذکرکیا جاتاہے۔ اس کا اطلاق توحید کے علمبرداروں پر یکساں ہوتا ہے۔ وہ توحید کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ لیکن بد عنوان مذہبی پیشوا اس خوبی سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ توحید کی آڑ میں تفرقہ کا پرچار کرتے ہیں۔ توحید کی محبت خدا کے نبیوںکو باہم اس طرح متحد کر دیتی ہے کہ ایک کی ناراضگی سب کی ناراضگی متصوّر ہو تی ہے۔ توحید ایک طرف تو اللہ اور اس کے رسولوں کے مابین یگانگت کی علامت ہوتی ہے اور دوسری طرف ان برگزیدہ بندوں میں باہمی اتحاد کی۔
اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان توحید ایک آفاقی رشتہ ہے جو خالق کو اس کی مخلوق سے ملاتا ہے۔ یہ تعلق ظاہری بھی ہو سکتا ہے اور باطنی بھی۔ لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق منقطع ہونے لگتا ہے اور ایسی زمین تیار ہو جاتی ہے جس میں بدی کا درخت خوب پھلتا پھولتاہے۔
تفرقہ کے پہلے آثار اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب بعد کے ادوار کے متکبر مذہبی پیشوا انبیاء کے درجہ کو بڑھا کر توحید کے عظیم الشان مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں اور ان کی طرف کچھ ایسی الوہی صفات منسوب کر دیتے ہیں جو انہوں نے خود اپنی طرف کبھی بھی منسوب نہیں کی ہوتیں۔ گزرے ہوئے رسولوں کی محبت میں غلو اس انحطاط پذیر مذہبی معاشرہ کا نیا دین بن جاتا ہے۔ ان کی مدح سرائی میں حد درجہ مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے۔ نئے خدا تراشے جاتے اور فانی ہستیوں کو غیر فانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ انہیں اور ان کے پیروکاروں کو اس بیہودہ تضادکی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ گزشتہ انبیاء کی اندھی محبت ان کے دین کی جان اور پہچان بن جاتی ہے۔ لیکن اس رسول کے جعلی متبعین کا یہ نیا طبقہ یہ سب کچھ اصل پیغام کی روح اور جذبہ کو مکمل طور پر برباد کرنے کے نتیجہ میں حاصل کرتا ہے۔ انبیاء تو ہمیشہ گناہ کے خاتمہ کیلئے آیاکرتے ہیں لیکن ان سے محبت کے جذبات کو بہانہ بنا کر الٹا گناہ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ گویا ان کی محبت انہیں ان کے سارے گناہوں سے نجات دلا دے گی۔ ایک فوت شدہ نبی کی اس قسم کی محبت ان کی زندگی کو موت سے بھی بد تر بنا دیتی ہے۔ وہ توحید کے عقیدہ کو پارہ پارہ کرنے کے باوجود خود کو خدا کے حضور اس وقت تک بری الذمہ خیال کرتے ہیں جب تک وہ اس کی خدائی میں مزعومہ شریک کے آگے سر جھکاتے رہیں گے۔ یہ عقیدہ اخلاقی بے راہ روی کے بند کو اس طرح توڑدیتا ہے کہ پھر اس کا روکنا انسان کے بس کی بات نہیں رہتی۔ یوں معصوم رسولوں کی محبت میں غلوکے نتیجہ میں گنا ہ ہمیشہ پروان چڑھتا ہے۔
یہی انحطاط پذیر مذہبی لیڈر خدا کی محبت کے نام پر نہایت ڈھٹائی سے خونریزی، دہشتگردی اور بنیادی انسانی حقوق کے استحصال کا درس دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف خدا اور مخلوق کے درمیان ایک حدّ فاصل کھڑی کر دیتے ہیں بلکہ خود کو خدائی کے مرتبہ پر فائز کر کے احکام جاری کرنے لگتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار کئے بغیر خود خدا بن بیٹھتے ہیں۔ ان کیلئے خداکی ذات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ اصل اہمیت ان کی اپنی ذات کو حاصل ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک اب معاشرہ کو ان کے غضب سے بہر صورت ڈرتے رہنا چاہئے اور ہمیشہ کے لئے ان کی خوشنودی کا طلبگار رہنا چاہئے۔ یہ سارا عمل جزا سزا کے ایک نئے معیار کو قائم کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ جو ان کے خودساختہ خداؤں سے ٹکر لینے کی جرأت کرتا ہے، اسے واصلِ جہنم کر دیا جاتا ہے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے کوابدی جنت کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ خدا ہی ان کی ریشہ دوانیوں سے بچائے۔ انہیں عوام الناس کے اخلاق کی کچھ بھی پرواہ نہیں۔ انہیں تو صرف اپنی اور اپنے اقتدار کی ہوس ہے۔ اسی کی بنا پر تو وہ عوام الناس پر حکومت کرتے ہیں۔ اس طرح مروت، تہذیب اور عدل وانصاف کو ان کے انتہاپسند اور متشدد عقائد کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔ جب بھی توحیدِ الٰہی سے کسی نہ کسی رنگ میں انحراف کیا جائے تو معاشرہ کو ہمیشہ یہی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
جب خدا کی تقدیر جاری ہوتی ہے تو جوشِ انتقام میں وہ زخمی سانپ کی طرح پھنکارنے لگتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کی یہ نام نہاد پرستش محض ایک چال ہے ورنہ ان کا اصل رویہ ہمیشہ ہی سے اپنی انا کی پرستش رہا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ملحد معاشرہ ان جیسے بہت سے جعلی خداؤں سے بھرا پڑا ہے۔ درحقیقت توحید باری تعالیٰ کے بغیر اتحاد ممکن ہی نہیں۔ ملاؤں کی باہمی رقابتیں بالآخر اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نظریاتی اختلافات کے نام پر معاشرہ نئے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
عوام الناس پر تسلط حاصل کرنے کیلئے ان کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ ان کو صرف اپنے دھڑے کی کثرت تعداد مطلوب ہوتی ہے۔ لیکن اپنے پیروکاروں کے اخلاق کی ان کو ذرہ بھر پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ رہنما ان کی روز مرہ کی زندگی اور معاشرہ سے متعلق ان کے اخلاقی فرائض کی بجا آوری پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈالتے۔ وہ تو صرف عوام کے جذبات کو مشتعل کر کے دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ان کے دلوں کی زمین کو نرم اور ہموار کر کے اس میں محبت اور قربانی کے بیج نہیں بویا کرتے۔ ایسا معاشرہ بت پرستی کے پنپنے کیلئے بڑی موزوںزمین فراہم کرتا ہے۔ ان کا تو فقط ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک مذہبی امور اور عقائد کا تعلق ہے ان کے فیصلوں کے سامنے غیر مشروط طورپر سرتسلیم خم کیا جائے۔ ان کے نزدیک اس امر کی کوئی اہمیت نہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق بسر کی جائے۔ لوگ ڈاکے ڈالیں، چوری کریں، کسی کو اپاہج بنا دیں، قتل کردیں، دولت سمیٹیں، جھوٹ، مکرو فریب اور دھوکہ سے قلعے تعمیر کر لیں۔ الغرض لوگ جو چاہیں کریں، شرط یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشواؤں کی وفاداریاں تبدیل نہ کریں اور ان کے مدمقابل کے سامنے سر نہ جھکائیں۔ ان کے نزدیک اس کے علاوہ ہر دوسری بات جائز ہے۔ ان کا قبلہ خدا کی بجائے انبیاء اور پھر انبیاء کی بجائے ان کی اپنی ذات اور انابن جاتا ہے۔ یوں اخلاق سے عاری اور فانی لوگ چھوٹے چھوٹے خداؤں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
ان کی پیروی کرنے والے جاہل عوام کی حالت بھی قابلِ رحم ہے۔ ان کے نزدیک خدا ہی مذہبی پیشوا ہے اور مذہبی پیشوا ہی خدا۔ مذہبی معاملات میں وہ اس کو چیلنج کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔ ان کی اطاعت کا مرکز تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے یہاں تک کہ ان کے لئے خدا اور مذہبی پیشوا میں فرق کا شعور ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ان کیلئے مذہبی پیشوا کی مرضی خدا کی مرضی بن جاتی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ مذہبی پیشوا ان کے ذاتی مفادات کی راہ میں حائل نہ ہو جائے۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو اسی وقت اس کا سارا اختیار ختم ہو جاتا ہے اور وہ ان کیلئے قابل اطاعت نہیں رہتا۔ اس جیسے اخلاقی گراوٹ کے شکار معاشرہ کا ہر فرد اپنے سوا کسی اور خدا کو نہیں جانتا۔ ان مذہبی پیشواؤں کے مصنوعی خداؤں کی تکریم اس وقت تک کی جاتی ہے جب تک کہ ان کا اپنے پیروکاروں کی انا سے تصادم نہیں ہوتا۔ اس طرح توحید سے شرک تک کا سفر مکمل ہو جاتا ہے۔ انا کی پوجا ہی ایک انحطاط پذیر مذہبی معاشرہ کا منطقی انجام ہے۔
اس قسم کے ملے جلے رجحانات کے حامل معاشروں میں خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نذیر کی اچانک بعثت ہمیشہ ایک نا پسندیدہ مداخلت تصور کی جاتی ہے۔ اسی قسم کا سلوک حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ روا رکھا گیا جو اسرئیل کی بھیڑوں کی طرف مبعوث ہوئے لیکن ان کے رویہ کی بنا پر انہیں بھیڑوں کی بجائے بھیڑیئے کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ تا ہم حضرت عیسیٰ ؑ کا رویہ ایک مہربان گڈریے کا تھا جو اپنے ریوڑ کی ہر بھیڑ کا خیال رکھتا ہے۔
دیکھنے والی آنکھ بآ سانی دیکھ سکتی ہے کہ کس طرح مکرو فریب کے ذریعہ انبیاء کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں۔ انبیاء کو فرضی معبود بنا لینا بعد میں آنے والے نبیوں کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے کیونکہ ان کا ظہور بہرحال انسانی شکل میں ہوتا ہے۔ انہیں معبود نہ بھی سمجھا جائے تب بھی ان کی مبالغہ آ میز مدح سرائی اور ان کی طرف مافوق الفطرت طاقتوں کا منسوب کیا جانا ہی سچے نبیوں کی تکذیب کیلئے کافی وجہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ کبھی اس شان وشوکت کے ساتھ نہیں آتے جس کی لوگ توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا خیالی تصور ان کی شناخت کے راستے مسدود کر دیتا ہے۔
انبیاء پر ایمان لائے بغیر خدا پر ایمان کا دعویٰ دراصل الحاد ہی کا دوسرا نام ہے کیونکہ ایمان کا ایسا دعویٰ کرنے والوں کی زندگی میں خدا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ گویا خدا نے ان کو ایسے چھوڑ دیا ہے جیسے کوئی پرندہ کبھی واپس نہ آنے کیلئے اپنے آشیانہ کو چھوڑ دیتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اسی قسم کے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ آپ کے زمانہ میں یہودی معاشرہ بھی ایک ایسے ہی روحانی اور اخلاقی بحران سے گزر رہا تھا۔ یہودی علماء کیا فریسی اور کیا صدوقی سب مصنوعی خدا بنے بیٹھے تھے اور حقیقی خدا کیلئے کوئی جگہ باقی نظر نہیں آرہی تھی۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ کی خدا کے نام پر تنہا اور فقیرانہ آواز کا مخالفوں کے شور و شغب میں ڈوب جانا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔
مذہب کے آغاز اور عروج و زوال کی یہی مختصر سی داستان ہے۔ لیکن ہر زوال کے بعد توحید کے از سر نو قیام کیلئے ہمیشہ وحی ٔ الٰہی کے ذریعہ ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ یہ آغاز زمین سے نہیں ہواکرتا۔ انسانی خیالات تو زمین سے اٹھنے والے دھوئیں کی مانند ہیں جو کبھی بھی حقیقی توحید کے عقیدہ میں نہیںڈھل سکتے۔ توحید حقیقی ہمیشہ آسمان سے ہی آیاکرتی ہے اور گرے ہوئے انسان کو قربِ الٰہی کی رفعتوں سے ہمکنار کر دیتی ہے۔
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میںخداتعالیٰ کا تصور
اب تک ہم نے مغربی ماہرین عمرانیات کے ان نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو آجکل مقبول عام ہیں۔ انہوں نے اپنی عجیب و غریب منطق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نہ صرف انسان خداتعالیٰ کی تخلیق نہیںبلکہ ایک خدا کا تصور بھی انسانی ذہن کی ہی پیداوار ہے۔ اس نظریہ کے حق میں ان کے نام نہاد ثبوت محض قیاس آرائیوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ امر کہ ایک ارب سال پر محیط انسانی جسم اور ذہن کا ارتقائی مطالعہ کہاں تک ان کے اس عجیب و غریب مفروضہ کی تائید کرتا ہے، بذات خود تحقیق طلب ہے اور گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے۔ دوسری طرف تاریخ مذاہب کے غیر جانبدارانہ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ پر ایمان انسانی توہمات کی پیداوار نہیں۔ کیا انسان خدا کی تخلیق ہے یا خدا انسان کی؟ اس نہایت اہم سوال پر ہم پہلے ہی دنیا کے بعض بڑے بڑے توحید پر ست مذاہب کی تاریخ کے حوالہ سے بحث کر چکے ہیں۔
اب ہم آسٹریلیا کے قدیم مذاہب کے حوالہ سے ماہرین عمرانیات کے اس نقطۂ نظر کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعۃً خدا کا تصور بتدریج پروان چڑھا ہے؟ یہ جائزہ ان ماہرین کے طرز تحقیق میں موجود غلطیوں کو اور بھی واضح کر دے گا۔ یہ لوگ تحقیق شروع کرنے سے پہلے ہی یہ مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کیا کوئی انصاف پسند شخص ایسی تحقیق کو سائنسی تحقیق کہہ سکتا ہے جس کے نتائج کا فیصلہ تحقیق کے شروع ہونے سے پہلے ہی کر لیا جائے؟ یہ اندرونی تضاد اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے جب ان ماہرین عمرانیات کو آسٹریلیا سے ملنے والے ناقابل تردید شواہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی تحقیق کو شروع کرنے سے پہلے اس کے اصول وضع کر لئے جائیں۔ لیکن ماہرین عمرانیات نے ایسے اصول وضع کرنے یاتحقیق کا مقصد متعین کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیںکی۔ ان کا تو صرف ایک ہی اصول ہے اور ایک ہی مفروضہ اور وہ یہ کہ کوئی خدا موجود نہیں۔ ان کی تحقیق کا مقصد تو صرف یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ لوگ خدا یا دیوتاؤں کی پرستش کرتے کیوں ہیں؟ حالانکہ بقول ان کے ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ان کی تحقیقات کا واحد مقصد ایسے توہمات کی نشوونما کا جائزہ لینا ہوتا ہے جو دیوتائوں کی تخلیق پر منتج ہوتے ہیں۔
اب ہم قاری کو آسٹریلیا کی مذہبی تاریخ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ وہ براعظم ہے جس کی ثقافت، معاشرت اور مذہبی تاریخ کم از کم پچیس ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ بہت سے محققین کے نزدیک اس کا عرصہ چالیس ہزار سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور بعض تاریخ دانوں کے نزدیک یہ عرصہ ایک لاکھ تیس ہزار سال تک ممتدہے۔ اس عرصہ میں بغیر کسی وقفہ، ملاوٹ اور خلل کے مذہب کی نشو ونما مسلسل جاری رہی۔
براعظم آسٹریلیا صرف اسی لئے منفرد نہیں کہ یہ باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا بلکہ اس لئے بھی منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں سینکڑوں قبائل پر مشتمل ایسے معاشرتی جزیرے تھے جو ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں پانچ سو سے چھ سو تک ایسے قبائل تھے جن کے مذہبی اور معاشرتی ارتقاکی اپنی اپنی آزادانہ تاریخ تھی جو پچیس سے چالیس ہزار سال پرمحیط ہے۔ اس دوران سوائے چند سرسری سرحدی رابطوں کے وہ ایک دوسرے سے بالکل الگ رہے۔
یہ رابطے نہ صرف مختصر تھے بلکہ ایک د وسرے کے نظریات، عقائد، روایات اور توہمات کی منتقلی کے لحاظ سے بھی غیر مؤثر تھے۔ صرف زبانوں کا اختلاف ہی اس راہ میں حائل نہیں تھا بلکہ یہ لوگ روایتاً دوسروں سے میل جول اور روابط کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ اور یوں ایک دوسرے کو معلومات بہم پہنچانے کے رستہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں حائل ہوگئی تھیں۔
اگر ماہرین عمرانیات کا نقطۂ نظر جو ہستی ٔباری تعالیٰ کے انکار سے شروع ہوتا ہے اپنے اندر کوئی وزن رکھتا تو مظاہر قدرت کی پرستش سے خدائے واحد پر ایمان میں تبدیل ہونے والا آفاقی رجحان تما م قدیم آسٹریلوی قبائل میں بھی نظر آتا۔ لیکن وہاں حقائق کو اس کے برعکس دیکھ کر ماہرینعمرانیات جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آسٹریلیا کے تمام قبائل بلا استثنا تمام کائنات کی تخلیق کرنے والی ایک بالا ہستی پر ایمان رکھتے ہیں۔ تفصیلی مطالعہ سے کہیں کہیں ان کے عقائد میں معمولی فرق ضرور نظر آتا ہے اور کچھ اصطلاحات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن عمرانیات اور انسانی ارتقاکے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ سب قبائل ایک بالا ہستی پر ایمان رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ، خدا، پرماتمااور برہما اسی ہستی کے دوسرے نام ہیں۔
ایک ازلی ابدی خالق کائنات کا یہ مرکزی تصور تمام توہمات کی آمیزش سے پاک نظر آتا ہے۔ اگرچہ ہر قبیلہ میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں لیکن ایک خدا پر ایمان کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ ماہرین عمرانیات کو آسٹریلیا میں کہیں بھی خدا کے تصور کے تدریجی ارتقا کے شواہد نہیں ملے۔ البتہ مختلف قبائل کے مروجہ عقائد میں صرف انداز بیان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً ومبایو (Wimbaio) قبیلے کا عقیدہ ہے کہ زمین کی تخلیق کے وقت خدا زمین کے قریب تھا لیکن اس کام کی تکمیل کے بعد وہ آسمان کی بلندیوں کی طرف واپس چلا گیا۔ اسی طرح ووجو بالک (Wotjobaluk) قبیلے کا عقیدہ ہے کہ بنجل (Bunjil) نامی ایک بالا ہستی پہلے زمین پر عظیم انسان کی شکل میں موجود تھی لیکن بالآخر آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔ 1
ماہرین عمرانیات ان عقائد کا ذکر کرتے ہوئے قاری کو اکثر یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ مذکورہ بالا پانچ سو یا اس سے بھی زائد قبائل ایک خالق کے ازلی ابدی ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ کیا کبھی وہ ہستی انسانی شکل میں ظاہر ہوئی؟ تو یہ ایک ضمنی بات ہے اس کا اس بحث کے مرکزی نقطہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد اس ایمان پر تھی کہ زمین اور اس میں موجود تمام اشیاء اپنے خالق کی طرح ازلی ابدی نہیں ہیں۔
بہت سے ماہرین بشریات (Anthropologists) کے نزدیک قدیم آسٹریلوی باشندوں میں خدا کے تصور کے آغاز اور مقصد کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ انہیں اس بارہ میں شک ہے کہ آیا ان قدیم باشندوں کا بیان کردہ دیوتا٭ (High Gods) وہی برتر ہستی ہے جس کا تصور دیگر روایتی مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ ان ماہرین کو یقین ہی نہیں آتا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں جیسی پس ماندہ قوم بھی اتنے ترقییافتہ نظریات کی کیونکر حامل ہو سکتی ہے۔
اس نقطۂ نظر کی نامعقولیت بالکل واضح ہے۔ چونکہ یہ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اس لئے ان کے نزدیک ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ یہی ان کے دلائل کی بنیاد ہے۔ اس سے ان کا متعصبانہ رویہ بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اگر قدیم آسٹریلوی معاشرہ میں بھی اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی ایک خدا پر ایمان پایا جاتا ہے تو ماہرین عمرانیات کو یہ ماننا پڑے گا کہ خدائے واحد سے متعلق نظریات قدیم توہماتی داستانوں سے ارتقا پذیر نہیں ہوئے۔ لیکن ہمیں ان کی طرف سے یہی بچگانہ اور گھساپٹا جواب ملتا ہے کہ چونکہ ہمارے نزدیک ایسا ممکن ہی نہیں اس لئے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ای۔ بی۔ ٹائلر (E.B.Tylor) نے اپنی خفت مٹانے کیلئے آسٹریلیا سے ملنے والے شواہد کو رد کرنے کی کوشش کی ہے اور حقائق سے پہلوتہی کرتے ہوئے یہ عذر تراشا ہے۔ اس نے جرنل آف انتھروپالوجیکل انسٹی ٹیوٹ (Journal of Anthropological Institute - 1891) میں اپنے ایک مضمونLimits of Savage Religion (وحشی مذہب کی حدود) میں یہ انوکھا نظریہ پیش کیا ہے کہ آسٹریلیا میں ایک برتر خدا کا تصور عیسائی مشنریوں کے اثرات سے پیدا ہوا تھا۔ مصنف کے اس بے سروپا خیال کو تاریخی حقائق رد کر دیتے ہیں۔
ٹائلر (Tylor)کے دعویٰ کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتے ہوئے ارتقائیات کے ایک اور ماہر اے ڈبلیو ہووٹ (A.W.Howitt) نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ جنوب مشرقی آسٹریلیا میں ایک ازلی ابدی خدا پر ایمان بہرحال عیسائی مشنریوں بلکہ مغربی آباد کاروں کی آمد سے قبل بھی موجود تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ وہ یہ بھی معلوم نہیں کر سکا کہ عیسائی مشنریوں کے آسٹریلیا میں توحید کا بیج بونے کا انوکھا تصور تو ویسے ہی رد کے قابل ہے۔ کیونکہ آسٹریلیا کے پورے براعظم میں یہ قدیم باشندے خدا کے جس تصور سے محبت کرتے ہیں اس میں تثلیث کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔
اسی طرح مشاہدات کے وسیع دائرہ کے باوجود ہووٹ اپنی تحقیق کو اس کے منطقی نتیجہ تک پہنچانے میں متذبذب ہے۔ جبکہ اس نے اپنی کتاب مطبوعہ 1904میں تسلیم کیا ہے کہ آسٹریلیا کے باشندے ایک ایسی کامل ہستی پر ایمان رکھتے تھے جو باپ کا درجہ رکھتی ہے:
’’اور جو بدیہی طور پر دائمی ہے۔ کیونکہ وہ تمام اشیاء کے آغاز کے وقت بھی موجود تھی اور اب بھی موجود ہے۔ لیکن قدیم باشندوں کے عقیدہ کے مطابق اپنے اس وجود کے ساتھ بھی وہ صرف اسی حالت میں ہے جس میں کہ ہر وہ انسان ہو گا جس کو جادو کے ذریعہ قبل از وقت مار نہ ڈالا گیا ہو۔‘‘ 2
چنانچہ یوں ہووٹ (Howitt) اس مسئلہ کو الجھا کر اس ناگزیر نتیجہ سے بچنا چاہتا ہے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے خداتعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ:
’’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا شعوری طور پر کسی نہ کسی شکل میں کوئی مذہب بھی ہے۔‘‘ 3
اس نا گزیر نتیجہ سے بچ نکلنے کیلئے ماہرین ارتقا کی مایوسانہ کوششوں کی یہ ایک اور مثال ہے۔ ہووٹ نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ نہ صرف بے نتیجہ ہیںبلکہ موضوع بحث سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ماہرین عمرانیات اس سادہ سوال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے کہ سینکڑوں قبائل میں منقسم آسٹریلیا کے قدیم معاشرہ میں جہاں باہمی رابطوں کی کوئی بھی صورت نہیں تھی ایک بزرگ و برتر اور ازلی ابدی ہستی کا ہر جگہ ایک جیساتصور کیسے پیدا ہو ا۔
علاوہ ازیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے کہ ان حقائق کی موجودگی میں ان کے ان نظریات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ ہستیٔ باری تعالیٰ کا تصور بہت سی ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد پیدا ہوا۔
اگر ہم ہووٹ کے اس بلند بانگ دعویٰ کو تسلیم کر بھی لیں کہ ان لوگوں کا واقعی یہ عقیدہ تھا کہ اگر انہیں جادو کے زور سے نہ مارا جاتا تو ارتقائی منازل طے کرتے وہ اپنے خالق کی طرح ہو جاتے تو بھی ہووٹ کیلئے فرار کی کوئی راہ نہیں رہ جاتی۔ اس سے ماہرین عمرانیات کی اس فرضی داستان کی کسی صورت میں بھی تائید نہیں ہوتی کہ خدا کا تصور کسی ارتقاکا نتیجہ ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہووٹ جیسے شہرت رکھنے والے عالم نے بھی دو بالکل مختلف امور کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے یہ نظریہ کہ پہلے انسان نے توہمات کا شکار ہو کر بہت سے دیوتاؤں کو مانا اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے ایک خدا پر ایمان لے آیا، اس فرضی بحث سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کہ اگر موت انسان کو فنا نہ کر دے تو وہ ترقی کرتے ہوئے دیوتا بھی بن سکتا ہے۔ قدیم آسٹریلوی باشندوں کے اس خیال کا موازنہ زیادہ سے زیادہ عہد نامہ قدیم میں مذکور حضرت آدم ؑ، حوا اور سانپ کے اس قصہ سے کیا جا سکتا ہے جس میں سانپ کے بقول خداتعالیٰ نے حضرت آدم ؑ اور حوا کو شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے سے محض اس لئے روکا تھا کہ مبادا وہ حیات ابدی میں خالق کے شریک بن جائیں۔ قدیم آسٹریلوی باشندوں کے اس نظریہ کی یہودو نصاریٰ کے عقائد سے مماثلت انہیں روایتی مذاہب کے اور بھی قریب لے آتی ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ہووٹ کو اس مماثلت کی کیوں سمجھ نہیں آئی۔
ظاہر ہے کہ یہ انداز آسٹریلیا کے قدیم باشندوں نے خالق اور مخلوق کے درمیان فرق کو واضح کرنے کیلئے اختیار کیا جس میں پیغام یہ ہے کہ خالق نہ صرف ازل سے ہے بلکہ تا ابد رہے گا۔ صرف وہی ہے جو ان صفات سے متّصف ہے۔ چونکہ ہر انسان فانی ہے اس لئے کوئی بھی ہمیشہ کی زندگی نہیں پا سکتا۔ یہ نظریہ انہیں دنیا کے ان توحید پرست مذاہب کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کو بے دین قرار دینے کے جوش میں ہووٹ ایک اور دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ ان کے ہاں عبادت یا قربانی کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ اس کا یہ تبصرہ زیرِبحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ وہ ان کے عقائد کو مذہب کا نام دے یا نہ دے لیکن ان کے ہاں ایک ازلی ابدی خالق پر ایمان کو تسلیم کرنے سے تو وہ ماہرین عمرانیات کے اس نظریہ کو بھی باطل ثابت کر دیتا ہے جس کے مطابق خدا کا تصور کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔
اس کے اس دعویٰ کو بعینہٖ قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے کسی نہ کسی شکل میں خدا کی عبادت کرتے تھے یا اس کے نام پر قربانی دیا کرتے تھے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر مغربی محققین نے ان لوگوں کی بعض مذہبی رسومات کو بالکل غلط سمجھا ہے۔ یہ محققین جس امر کو قدیم باشندوں کے خواب دیکھنے کی عادت گردانتے ہیں، یہ قدیم باشندے خود اس کے متعلق یہ نظریہ نہیں رکھتے۔
مجھے آسٹریلیا کے ایک صاحب علم لیڈر سے مل کر آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے خوابوں کی حقیقت معلوم کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ امر اس لئے بھی اہم ہے کہ آسٹریلیا کے پرانے قبائل کے متعلق قریباً سارے مغربی لڑیچر میں خوابوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ صاحب جن سے میری بات ہوئی ایک غیر قوم کے شخص سے اپنے عقائد پر گفتگو کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اس لئے ان کو اس گفتگوپر آمادہ کرنے کیلئے مجھے خاصی کوشش کرنا پڑی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بہت سے غیر ملکیوں نے جو ان قبائل کی زندگی اور تاریخ پر تحقیق کر رہے تھے ان کے عقائد کو غلط سمجھا اور پھر ان عقائد کو غلط طریق پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بہرحال ہم دونوں میں باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو گئی تو میں نے ان کی باتوں سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے۔
ان کے نزدیک خداتعالیٰ خوابوں کے ذریعہ اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ خوابوں کے ذریعہ انہیں اپنی زندگی کے بہت سے اہم واقعات پر قبل از وقت اطلاع دی جاتی ہے۔ ان کے ہاں مذہبی رہنماؤں کا باقاعدہ ایک درجہ بدرجہ نظام موجود ہے جو تعبیر الرؤیا کا علم رکھنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ رہنما نہ تو بیرونی لوگوں سے کوئی رابطہ رکھتے ہیں اور نہ ہی غیر قوم کے کسی شخص کو ان تک رسائی ہوتی ہے۔ جب خواب تعبیر کیلئے ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو خواب دیکھنے والے کو اکثر یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے خواب میں کیا پیغام مضمرہے لیکن تعبیر کرنے والا اس پیغام کو سمجھ لیتا ہے اور بالعموم اس کی تعبیر درست نکلتی ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات تعبیر کرنے والے کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خوابوں کے نظام کی سچائی بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
چنانچہ ایک طرف تو ان کے مذہبی عقائد اور عبادات ہیں اور دوسری طرف ان کی غیر اہم رسمیں اور توہمات ہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ہر قبیلہ کے توہمات اور رسومات الگ الگ ہوتی ہیں اور ان میں کوئی قدر مشترک نہیں پائی جاتی۔ خوابوں کا معاملہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔ خدائے واحد پر ایمان کی طرح وہ سب کے سب خوابوں کو آسمانی رہنمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہیں اکثر خواب بیحد اہم معاملات پر غور و خوض کے بعد آتے ہیں۔ چنانچہ بعید نہیں کہ یہ غور و خوض دعا ہی کا دوسرا نام ہو۔ ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ ان کو بدھ مت والوں کے برخلاف مراقبہ کے نتیجہ میں جواب کے طور پر خواب دکھائے جاتے ہیں۔ خوابوں کے بارہ میں یہ قدیم باشندے بڑے کٹر اور نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیںاور ان قواعد کی خلاف ورزی مستوجب ِ سزا تصور کی جاتی ہے۔
پس ان کو بے دین قرار دینا نا انصافی ہے۔ جہاں تک ـ’’جادو کے ذریعہ موت‘‘ کے عقیدہ کا تعلق ہے اس سے وہ مراد نہیں جو عموماً دوسرے لوگ سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ان قدیم قبائل میں باقی دنیا کی طرح تماشا دکھانے والے جادوگر نہیں پائے جاتے۔ ان کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ان کے ہاں ہر موت کسی برُے شخص کے جادو ٹونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں جادو سے مراد غالباً وہ شیطانی وساوس ہیں جو روحانی اصطلاح میں روشنی کے مقابل پر تاریکی کی علامت ہیں۔ ان قبائل کی اصطلاح میں جادو کا مطلب صریحاً گناہ ہے۔ حیرت ہے کہ ماہرین بشریات (Anthropologists) اور ماہرین عمرانیات اتنی واضح بات کو سمجھنے سے کیوں قاصر رہے ہیں۔ یہ لوگ موت کو جادو کا نتیجہ سمجھتے ہیں جو بلا استثنا ہر فانی وجود پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ صرف خدا کی ذات ہی اس سے مستثنیٰ ہے۔ کوئی اور اس کی ابدیّت میں شریک نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر شخص کی موت صرف کسی جادوگر کے ٹونے ٹوٹکے سے ہوتی ہے۔ موت ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے جس کا اطلاق دنیا کے تمام جانداروں پر یکساں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں کتنا ہی سادہ لوح کیوں نہ سمجھا جائے یہ احمقانہ خیال ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ ہر موت جادو ٹونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جادو کے دو ہی معانی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اوّل اس سے مراد گناہ ہے جو روحانی موت کا بنیادی سبب ہے۔ جیسا کہ دیگر الہامی مذاہب میں بھی یہی خیال پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں انہوں نے لازماً یہ نظریہ اسی سرچشمہ سے لیا ہے جس نے ایک ازلی ابدی خدا کے وجود کے بارہ میں اہل کتاب کی رہنمائی کی۔ جادو کا دوسرا معنی جو عقلاً ان کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے یہ ہے کہ ہر وہ بات جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو، جادو ہے۔ اس سے ان کی مراد صرف کوئی پر اسرار چیز ہوتی تھی۔ چنانچہ موت کی عالمگیر اور اٹل حقیقت جو محدود اور غیر محدود اور خالق و مخلوق کے درمیان حد بندی کرتی ہے ان کیلئے ایک ایسا راز تھاجسے وہ جادو کا نام دیتے تھے۔ تا ہم جادو کی اصطلاح صرف اسی مفہوم میں استعمال نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی روز مرّہ کے تجربہ میں آنے والی ہر وہ چیز جس کی وجہ معلوم نہ ہو جادو ہی کہلاتی ہے۔
اسی طرح زرتشتی مذہب میں روشنی اور اندھیرے کے مابین دائمی کشمکش کا جو ظاہری نقشہ کھینچا گیا ہے عین ممکن ہے کہ یہی فلسفہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کی ان رسومات کے پس منظر میں بھی کارفرما ہو جنہیں توہمات کہا جاتا ہے۔ جس طرح ظلمت، گناہ اور شیطان کی علامت ہے اسی طرح ہو سکتا ہے ان کا متحرک اشیا کے سائے سے گریز کا بھی یہی مفہوم ہو۔
مگر ان کے خواب اور ان کی تعبیر کا توہمات سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ان کے خواب خدا پر ایمان کا مرکزی نقطہ ہیں اور خدا سے رابطے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے نزدیک وہ ہمیشہ سے اس علیم و خبیر اور برتر ہستی کے نشانات دیکھتے رہے ہیں جو اپنی مخلوق کے ساتھ زندہ تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا ان قبائل کا مغربی محققین سے شکوہ بجا ہے جو ان کے روحانی تجربات کو مذہب کا نام تک دینے کیلئے تیار نہیں کیونکہ وہ انہیں نہایت قدیم اور جاہل خیال کرتے ہیں۔ وہ اس خوف کے پیش نظر قدیم آسٹریلوی باشندوں کے مذہب کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں کہ اگر ان کی اصلیت ظاہر ہو گئی تو ان محققین کے نظریات غلط ثابت ہو جائیں گے۔
ان آسٹریلوی قبائل کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد سے مل کر میں بہت متاثر ہوا۔ وہ عیسائیت قبول کر چکے تھے یا کم از کم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قبل ان کے متعلق یہی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ عیسائی ہو گئے ہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ انجینئر تھے۔ گفتگو کے آغاز میں وہ قدیم باشندوں کے عقائد اور رسومات کے بارہ میں تبادلۂ خیال سے ہچکچا رہے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ عیسائی ہو جانے کے باوجود وہ دل کی گہرائیوں سے آسٹریلیا کے قدیم باشندے ہی تھے۔ ان کو گفتگو پر آمادہ کرنے کے لئے مجھے بڑی کوشش کرنا پڑی۔ تب کہیں جا کر انہیں میرے اس احساس اور اخلاص کا یقین آیا جو میں قدیم آسڑیلوی باشندوں کیلئے رکھتا تھا۔ چنانچہ ان کی سرد مہری ختم ہوئی۔ ان کی آنکھوں سے جھلکنے والا دکھ آسٹریلوی تہذیب کی قدیم تاریخ کی طرح گہرا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی غیر کی ان کے کسی معزز مذہبی رہنما تک رسائی ہوئی ہو۔ اس لئے وہ سطحی معلومات ہی حاصل کر پائے ہیں۔ مغربی محققین نے جس انداز سے آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے خوابوںکا نقشہ کھینچا ہے اس پر ان صاحب نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
یہاں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کا ذکر مناسب ہو گا جس میں سچے خوابوں کو نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ 4 اگرچہ گہرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ سچے خواب ہی ہیں جن سے نبوت کی شروعات ہوتی ہیں جو بالآخر الہام الٰہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں تا ہم اگر خداتعالیٰ چاہے تو ملہم کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرما دے۔
مغربی محققین کے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ سب کے سب قدیم آسٹریلوی باشندوں کے روحانی تجربات کے متعلق منفی رویہ نہیں رکھتے۔ ان میں بعض اہل بصیرت اور یہ تسلیم کرنے کی جرأت رکھنے والے بھی موجود ہیں کہ قدیم آسٹریلوی قبائل کا ایک واحد اور مقتدر بالارادہ خدا پر ایمان تھا۔ اینڈریولینگ (Andrew Lang) نے اپنی کتابThe Making of Religion5 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قدیم آسٹریلوی باشندے واقعی خداتعالیٰ پر یقین رکھتے تھے۔ اور چونکہ All Fathersکے بارہ میں بہت کم اساطیر ی قصے ملتے ہیں اس لئے لینگ (Lang)یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہے کہ ایک برتر خدا کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور یہ فرضی کہانیاں بعد میں گھڑی گئیں۔
جرمنی کے ایک رومن کیتھولک پادری پیٹر ولیم شمٹ (Peter William Schmidt) نے 1912 اور 1925 کے درمیان بارہ جلدوں پر مشتمل کتاب Usprung der Gottesidee لکھی جس میں اس نے لینگ کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اساطیری قصہ خدائے برتر کے تصور کے بعد پیدا ہوا ہے۔ شمٹ کا تحقیقی کام سب سے پہلے 1908 اور 1910 کے درمیان ایک فرانسیسی رسالہ Anthroposمیں شائع ہوا جس کا بانی خود شمٹ تھا۔ اس کتاب کا ایک ایڈیشن "L'origine de Dieu. Etude Historico - Critique et Positive. Premiere Partie. Historico Critique" کے نام سے 1910ء میں وی آنا سے شائع کیا گیا۔ 1926 میں جرمن زبان میں اس کی دوسری مفصّل اشاعت ہوئی۔ اس میں شمٹ اساطیر اور مذہب میں بیک وقت خدا کے تصور کی موجودگی کی وضاحت کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا ہے کہ دراصل خدائے برتر کا تصور بعد کے لایعنی توہمات کے ساتھ خلط ملط ہو گیا تھا۔
تا ہم بعض ماہرینِ بشریات اس بات پر مصر ہیں کہ خدا کا تصور دیومالائی کہانیوں کی پیداوار ہے۔ ان میں ایک نمایاں نام Dio کے رہنے والے Raffael Pettazzoni (1922)کا ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ قدیم آسٹریلیا کے بڑے بڑے قبائل سے مسلسل ملنے والے شواہد اس کے دلائل کی ہرگز تائید نہیں کرتے۔ اس کا ایک مخصوص قبیلہ کی دیو مالائی کہانیوں سے نتائج اخذ کر کے اسے عام دیگر قبائل پر چسپاں کر دینا نہ تو دیانتداری ہے اور نہ ہی اس میں کوئی معقولیت پائی جاتی ہے۔ 6
جن کہانیوں کا وہ ذکر کر رہا ہے اکثر قدیم آسٹریلوی قبائل میں وہ نہیںملتیں۔ جہاں تک ان قبائل کے خدا پر ایمان کا تعلق ہے وہ سب کے سب ایک اعلیٰ، علیم اور ازلی ابدی خالق کے قائل ہیں۔ گو Pettazzoniایک نامور ماہر بشریات (Anthropologist)ہے لیکن اس کا یہ اصرار کسی طرح بھی قابل قبول نہیں کہ اساطیر اور خدائے واحد کے تصور کی بیک وقت موجودگی اس امر کی دلیل ہے کہ اساطیر پہلے تھیں اور خداتعالیٰ کا نسبتاً کامل تصور بعد میں پیدا ہوا۔ اس نے تو یہ ثابت کرنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کی کہ یہ اساطیر کس ارتقائی عمل کے ذریعہ بالآخر خداتعالیٰ کے تصور تک پہنچیں۔
آسٹریلیا سے ملنے والے شواہد اس نظریہ کی ہرگز تائید نہیں کرتے جس کے مطابق یہ توہمات اور اساطیر ایک ارتقائی عمل کے ذریعہ خدا کے تصور تک پہنچیں اور نہ ہی اس بات کاکوئی ثبوت ملا ہے کہ خوف اور حیرت کے باعث مظاہر قدرت کی پرستش کی گئی ہو۔ ان میں مروجہ عبادات کا ایسا نظام موجود نہیں تھا جو بالآخر ترقی پا کر خدا پر ایمان میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اس لئے لامحالہ ہمیں اینڈریولینگ (Andrew Lang) سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ یہ اساطیر ایک خدا کے تصور سے پہلے نہیں تھیں بلکہ بعد کی پیداوار ہیں۔ قدیم آسٹریلوی باشندوں کی اساطیر کیا ہیں، پراگندہ اور بے سروپا توہمات کے ٹکڑے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قدیم ان پڑھ لوگ اپنے ذہن میں ان متفرق ٹکڑوں کو باہم ملا کر کسی قسم کے مفہوم یا معنی کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ان کی یہ کوشش عام انسانی ذہن کی اس قسم کی دیگر کوششوں سے چنداں مختلف نہیں۔
انسان ہمیشہ سے آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کی حقیقت کے متعلق تحیر میں مبتلا رہا ہے جس کے نتیجہ میں بسا اوقات فرضی کہانیوں نے جنم لیا۔ بالآخر بت پرستوں کے خیالی دیوتاؤں کو انہی فرضی کہانیوں کا لباس پہنا دیا گیا۔ تا ہم آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کی فرضی کہانیاں باقی دنیا کی طرح نہ تو عبادت کے تصور سے وابستہ ہیں اور نہ ہی دیوتاؤں کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے نزدیک خدا کا تصور ایک الگ اور آزادانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اجرامِ فلکی میں بسنے والی دیگر مخلوقات کو وہ خدا قرار نہیں دیتے۔ لہٰذا Pettazzoni کے اس نظریہ سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ برتر خدا کا تصور ان فرضی داستانوں کی پیداوار ہے۔
عقلیت پسند ماہرینِ بشریات اور ماہرینِ عمرانیات کا مسئلہ بنیادی طور پر وہی ہے جس کا دیگر سیکولر محققین کو سامنا ہے۔ اگر وہ آسٹریلوی شواہد کو قبول کرتے ہیں تو انہیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ایک برتر اور ازلی ابدی خالق کا تصور تدریجاً پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ اپنی مکمل شکل میں ضرور خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہو گا۔ بصورتِ دیگر یہ ممکن نہیں تھا کہ خدائے واحد کا تصور تمام قدیم اور سیدھے سادے آسٹریلوی باشندوں میں بلا استثناء یکساں طور پر پایا جائے جبکہ ان میں باہمی رابطہ کی کوئی صورت بھی نہ ہو۔ چنانچہ بعض ماہرین بشریات اور ماہرین عمرانیات کا اس ثبوت کو صرف اس لئے رد کر دینا کہ یہ ان کے اپنے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتا، خود ان کی علمی حیثیت اور دیانتداری کے تقاضوں کے منافی ہے۔ تاہم یہ معلوم کر کے اطمینان ہوتا ہے کہ ان میں بہت سی خوش کن مستثنیات بھی ہیں۔ یقینا بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ان شواہد کو حقیقت تسلیم کرنے میں بالغ نظری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بایں ہمہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ مبہم اور مجہول توجیہات کی دھند میں پناہ لے سکیں۔
ایک ایسی ہی مثال ایف۔ گریبنر (F. Graebner) کی بھی ہے۔ وہ یہ تو مانتا ہے کہ جہاں تک قدیم آسٹریلوی باشندوں کا تعلق ہے Great God یعنی عظیم خدا ہر اس چیز کا اصل خالق ہے جو انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے:
’’لیکن پریئس (Preuss) یہ شک کرنے میں شاید حق بجانب تھا کہ سبب اوّل جیسا تجریدی خیال، ان قدیم لوگوں میں زندگی سے بھر پور ہستی کا اس قسم کا تصور پیدا کیسے کر سکتا ہے؟‘‘ 7
ہووٹ (Howitt) کی طرح گریبنر (Graebner) بھی اس نظریہ کی کھل کر حمایت کرنے سے ہچکچا رہا ہے کہ قدیم آسٹریلیوی باشندوں کو ایک اعلیٰ ترین ہستی کی صفات کا ازخود ہی کیونکر علم ہوگیا۔ دراصل اس طرح اس کا اپنا الحاد کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
آسٹریلیا کے بعض قبائل میں ایک ’’برتر خدا‘‘ کے تصور کے ساتھ ساتھ اس کے بیوی بچوں کے فرضی قصے کہانیاں بھی ملتے ہیں۔ اس سے ہمارے اس دعویٰ کے متعلق کوئی شک پیدا نہیں ہوتا کہ ان لوگوں میں پایا جانے والا خدا کا تصور دیگر توحید پرست مذاہب میں پائے جانے والے تصور سے مختلف نہیں ہے۔ ان روایات کو بیان کرنے والے جن محققین نے یہ دریافت کیا ہے کہ اس قسم کی اساطیر بہت عمومیت کے ساتھ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں، انہوں نے ان اساطیر کے بعض پہلوؤں کو خاص طور پر اجاگر بھی کیا ہے جن کی وجہ سے قاری ان میں اور خداتعالیٰ کے تصور میں جس سے وہ متعلق ہیں بآسانی فرق اور تمیز کر سکتا ہے۔ قدیم آسٹریلیا کے دیومالائی قصوں اور باقی دنیا میں پائے جانے والے دیومالائی قصوں کو ایک جیسا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ باقی دنیا میں ہر جگہ بت پرست مذاہب کے یہ قصے دیوتاؤں کے تصور کے ارد گرد بنے جاتے ہیں جبکہ قدیم آسٹریلوی باشندوں میں نہ تو ان دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے اور نہ ہی تعظیم و تقدیس۔ ماہرینِ عمرانیات کے بیان کردہ قصے کہانیاں لازماً آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے خداتعالیٰ کے تصور پر مبنی نہیں ہیں۔ اور صرف چند قبائل میں ان اساطیر کی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام قدیم آسٹریلوی قبائل کے عقائد کی ترجمانی نہیں کرتیں۔ ان قصے کہانیوں کی طرف نہ تو کوئی تخلیقی قوت منسوب کی جاتی ہے اور نہ ہی وہ ازلی ابدی ہونے میں خدا کے شریک ہیں۔ چونکہ وہ ازل سے نہیں ہیں اس لئے وہ سب کے سب مخلوق ہیں اور نہ ہی انہوں نے خود کبھی کوئی چیز پیدا کی۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ بے سروپا روایات بعد میں ان کے بعض مذہبی رہنماؤں نے گھڑ لی تھیں۔
اس ضمن میں ایلیاد (Eliade) مغربی آرانڈا (Aranda) کے ایک قبیلہ کی مثال دیتے ہوئے ٹی۔ جی۔ ایچ سٹریلو (T.G.H.Strehlow) کا موقف یوں بیان کرتا ہے کہ اس قبیلہ کے نزدیک:
’’زمین او رآسمان ہمیشہ سے موجود ہیں اور مافوق الفطرت ہستیوں کا مسکن چلے آ رہے ہیں۔ مغربی آرانڈا کے قبیلے کا عقیدہ ہے کہ آسمان میں رہنے والا ایمو پرندے کے پنجوں جیسے پاؤں رکھنے والا عظیم باپ (Kinaritja)ہے جو (Altjira nditja) یعنی ازلی طور پر جوان ہے۔ اس کی کتوں کے سے پنجوں والی بہت سے بیویاں،بیٹے اور بیٹیا ں ہیں۔ وہ پھلوں اور سبزیوں پر گزارہ کرتے اور ایک سدا بہار سر زمین پر رہتے تھے جس میں قحط نہیں آتے تھے اور جس میں کہکشاں ایک وسیع و عریض دریا کی طرح رواں دواں تھی۔‘‘ 8
ان کا مسکن باغ عدن کی مانند ہے جو لہلہاتے ہوئے درختوں، پھلوں اور پھولوں سے لدا ہوا ہے۔ آسمان کے یہ تمام باسی ان کے خیال کے مطابق سدا جوان رہتے ہیں اور موت کی دسترس سے باہرہیں۔ باوجود اس کے کہ آسمان کے یہ باسی جو ٹوٹمی (Totemic) زمانہ کے ہیرو یا عظیم لوگوں سے بھی پہلے موجود تھے اپنے لافانی ہونے اور دوسروں کے پیشرو ہونے کے لحاظ سے برتری کے حامل ہیں مگر سٹریلو (Strehlow) بجا طور پر آسٹریلوی مذہب کی تشکیل میں ان کی اہمیت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ آسمان پر بسنے والے یہ وجود سب سے برتر ہیںکیونکہ زندگی کی تخلیق اور تشکیل میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ 9
سٹریلو (Strehlow) کے دلائل رد نہیں کئے جا سکتے کیونکہ جن فرضی وجودوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ ابدی تو خیال کئے جاتے ہیں لیکن ازل سے موجود نہیں۔ جبکہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نہ ہی ان وجودوں کی طرف صفت خالقیت منسوب کی جاتی ہے۔ چنانچہ انہیں ایک خالق کی خدائی میں شریک بھی قرار نہیں دیا جاتا۔ عین ممکن ہے کہ اس عقیدہ کو غلط طور پر اس تصور سے جو دیگر تمام آسمانی مذاہب میں یکساں ہے خلط ملط کر کے دیو مالائی کہانیوں کی شکل دے دی گئی ہو۔ البتہ یہ تفاصیل کہ جنت کے اس سب سے عظیم باسی کے پاؤں ایمو (Emu) پرندے جیسے ہیں اور اس کی بیوی اور بچوں کے پاؤں کتے کی طرح کے ہیں، اسے باقی مذاہب سے مختلف بنا دیتی ہیں۔ ورنہ عدن کے سے سدا بہار باغات، پھلوں اور سبزیوں کی افراط، قحط کے خوف سے نجات وغیرہ یہ سب علامات ان تمثیلات سے ملتی جلتی ہیں جو قرآن کریم میں جنت کے متعلق بیان ہوئی ہیں۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ خداتعالیٰ کی اولاد کے علاوہ کسی اور جاندار مخلوق کا ذکر تک نہیں۔ دنیا کے دیگر بڑے مذاہب میں بھی جنت کے تصور میںجانوروں کا ذکر نہیں ملتا۔ اہالیان جنت صرف وہ نیک لوگ تصور کئے جاتے ہیں جنہیں تمثیلی طور پر ’’خدا کی اولاد‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اگر یہ محض آسٹریلیا کے سادہ لوح باشندوں کی گھڑی ہوئی کہانیا ں ہوتیں تو یہ امکان بہت کم تھا کہ یہ خیالی جنت جانوروں کے ذکر سے اس طرح بالکل خالی ہوتی۔ دنیا کے باقی حصوں میں پائی جانے والی دیومالائی کہانیوں میں عموماً جانوروں کا کچھ نہ کچھ ذکر ضرور ملتا ہے۔ لیکن تمام بڑے بڑے مذاہب میں جنت کا تصور جانوروں کے ذکر سے یکسر خالی ہے۔
تہذیب اور مذہبی خیالات کے ارتقا کی محض ایک ہی وجہ نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ ایک ایسا ملا جلا عمل ہوتا ہے جس میں نظریات ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اس طرح منتقل ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا یا اس انتقال کی سمت کا تعین کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ ویسے کسی بھی سوچ کے ارتقا کا آغاز سے انجام تک سراغ لگانا اتنا آسان نہیں ہواکرتا۔
یہ بحث کہ کس نے کس پر اثر ڈالا، ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ مثلاً یہ کہ کیا بدھ مت نے عیسائی نظریات کو جنم دیا یا عیسائیت بدھ مت پر اثرانداز ہوئی؟ ایک ایسا سوال ہے جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔ مگر آسٹریلیا میں ہمیں بالکل مختلف اور منفرد صورت حال نظر آتی ہے۔ اگر قدیم آسٹریلوی مذہبی شواہد ان ماہرین عمرانیات کے نظریات کی تائید کرتے تو نہ جانے ان کا ردعمل کیا ہوتا؟ کیا وہ ایک طوفان نہ اٹھا دیتے اور جوش اور فخر سے ’’میں نے پا لیا،میں نے پالیا‘‘ کے نعرے نہ بلند کرنے لگتے۔ مگر جب وہ وہاں کی مذہبی تاریخ کے ٹھوس حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی حالت قابلِرحم ہوتی ہے اور وہ ایک منطقی نتیجہ سے جان چھڑانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں۔
ہم خصوصیت سے صرف ان نیچریوں کی بات کر رہے ہیں جو ایک خالق خدا کو نہیں مانتے ان پر یہ حقائق بے حد شاق گزرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں کامل یقین تھا کہ آسٹریلیا کی قدیم تاریخ ان کے خیالات کی تائید کرے گی اور ان کے اس نظریہ کی تصدیق ہو جائے گی کہ خدا کا تصور ہزاروں سال کے ارتقا کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ لیکن جو حقائق سامنے آئے وہ بالکل برعکس تھے جس کی وجہ سے یہ لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ صرف صداقت کے متلاشی ہیں تو آخر اس جھنجھلاہٹ کی وجہ کیا ہے؟ اگر صداقت ان کے نظریات کے برعکس ہے تو اس میں مایوسی کی کیا بات ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے والی ہر دلیل کو رد کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہر اس دریافت کو جو ان کے مزعومہ تصور کے برعکس ہو یا تو رد کردیں گے یا پھر اس کی غلط تاویلیں کرنا شروع کر دیں گے۔ سیکولرازم ان کے نزدیک دراصل خداتعالیٰ کا انکار ہے۔ اپنے سیکولر نظریات کا بھرم رکھنے کیلئے وہ جو عذر بھی پیش کرتے ہیں اس سے ان کی غیرسائنسی سوچ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے کہ تعصب صرف مذہبی علماء ہی کا خاصہ ہے بلکہ غیر مذہبی مفکرین اور فلاسفر بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس زہر کو غٹا غٹ پی جاتے ہیں اور ان کی منطق، عقل اور انصاف پسندی، غر ضیکہ سب کچھ زہر کے اس ایک گھونٹ کی نذر ہو جاتا ہے۔ بے شک وہ خود کو سیکولر مفکر ظاہر کریں لیکن اس زہر کے زیرِ اثر ان کا طرز عمل مذہبی جنونیوں جیسا ہی ہوا کرتا ہے۔
اپنے نظریہ کے حق میں وہ جو دلائل بھی پیش کریں، ان کا یہ مردہ نظریہ تو اب زندہ ہونے سے رہا۔ ان کا یہ بلند بانگ دعویٰ کہ خدا پر ایمان انسانی تصورات کے ارتقا کا نتیجہ ہے براعظم آسٹریلیا سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکا ہے۔ وہ بوکھلا گئے ہیں اور اب ان کیلئے کوئی جائے فرار باقی نہیں رہی۔ ان کا دوبارہ اتحاد نہ تو کسی بادشاہ کے بس کی بات ہے اور نہ کسی مسخرے کے۔ ان کی حالت دیکھ کر تو مشہور شاعر ملٹن کی نظم ’’فردوس ِ گم گشتہ‘‘ کی یاد آ جاتی ہے۔ البتہ ایک فرق کے ساتھ کہ کوئی منطق یا دلیل ان کے اس مسمار شدہ محل کو از سر نو تعمیر نہیں کر سکتی۔ ملٹن تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کا ڈرامہ کبھی حقیقی زندگی میں بھی کھیلا جائے گا جس میں کچھ انسان اپنا اپنا کردار ادا کریں گے اور ان کی ’’فردوس ِ گم گشتہ‘‘ قرب الٰہی میں نہیں بلکہ ایک مصنوعی اور خود ساختہ خدا میں ہو گی ۔ اور ہمیں اس کی کچھ بھی پروا نہیں کہ وہ اس مصنوعی خدا سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھیں اور نہ ہی انہیں یہ احساس ہے کہ خداتعالیٰ کو بھی ان کی کچھ پروا نہیں۔
حوالہ جات
1. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach, p.4
2. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach, p.13
3. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach.
4. Musnad Al-Imam Ahmad Bin Hanbal (1983) Vol.4. Al-Maktab-Al-Islami. Beirut, p.10
5. LANG, A. (1898) The Making of Religion. Longmans, Green & Co., London.
6. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach.
7. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach, p.24
8. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach, p.30
9. ELIADE, M. (1973) Australian Religions. An Introduction. Cornell Uni Press, Ithach, pp.32-33


باب چہارم
الہام کی حقیقت
الہام اور عقل
ایمان بالغیب
البیّنہ: ایک بیّن اصول، القیّمہ: دائمی تعلیم
قرآنِ کریم اور کائنات
عنطراپی اور محدود کائنات
قرآن کریم اور غیر ارضی حیات کا وجود
الہام کی حقیقت
الہام کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک اصطلاح ہے جو انسانی ذہن کی شعوری اور تحت الشعوری کائنات کی تحقیق اور دریافت کے عمل کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے یا اس کا منبع کوئی خارجی وجود ہے جس کا علم انسانی علم پر غالب ہے۔
الہام پر ایمان رکھنے والوں میں بھی اس کی حقیقت کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً بد ھ ازم، کنفیوشن ازم اور تاؤ ازم کے عصر حاضر کے پیرو کاروں کا خیال ہے کہ ان کے مذہبی پیشواؤں کے علم کا منبع ان کا شعور (conscious)یا تحت الشعور (subconscious) ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ سچائی ہر روح کے اندر فطرتاً موجود ہے۔ ان کے نزدیک القاء اس ابدی صداقت کے سر چشمہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا ذریعہ ہے جبکہ دیگر مذاہب کے مطابق الہام ایک خارجی وجود یعنی ازلی ابدی اور کامل حکمت والے خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔
اگر ہم اپنی تحقیق کے دائرہ کو اور وسیع کر دیں تو معلوم ہو گا کہ مذاہب کی شہادت کے علاوہ بھی الہام کے بہت سے مستند شواہد ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض سائنسدانوں کے ہاں الہام کے ذریعہ پیچیدہ مسائل کا حل معلوم کرنے کے بہت سے دلچسپ واقعات ملتے ہیں۔
1865ء میں ایک جرمن دوا ساز (کیمسٹ)فریڈرک آگوسٹ کیکولے(Fredrich August Kakule)علم کیمیا سے متعلق ایک ایسے مسئلہ کے حل میں کوشاں تھا جس نے تمام محققین کو پریشان کر رکھا تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں ایک سانپ کو اپنی دم اپنے منہ میں پکڑے دیکھا۔ اس خواب نے اس کی رہنمائی صحیح سمت میں کر دی اور بالآخر اس نے اس الجھے ہوئے مسئلہ کا حل معلوم کر لیا۔ اس طرح اس راز کا انکشاف ہوا کہ بعض نامیاتی مرکبات میں مالیکیولز کا کیا کردار ہے۔ یہ ایک ایسی تحقیق تھی جس نے نامیاتی کیمیا کے سمجھنے میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ فریڈرک کیکولے نے ا س خواب کی یہ تعبیر کی کہ بینزین (Benzene) کے سالمے میں کاربن کے ایٹم دائرے کی شکل میں موجود ہیں۔ اس علم کے نتیجہ میں بہت ترقی یافتہ ترکیبی نامیاتی کیمیا (Synthetic Organic Chemistry)نے جنم لیا جس کی وجہ سے ترکیبی مرکبات (Synthetic materials) بنانے کا راستہ کھل گیا۔ عصرِ حاضر کی دواسازی کی صنعت کا زیادہ تر دارومدار ترکیبی ادویہ پر ہے اور ساری انسانیت فریڈرک کیکولے کے اس خواب کی مرہونِمنت ہے جس کے ذریعہ اس نے ایک پیچیدہ مسئلہ کا حل معلوم کیا۔
الیاس ہوو (Elias Howe)پہلا انسان ہے جس نے سلائی مشین ایجاد کی۔ اسے بھی خواب کے ذریعہ ایک ایسے مسئلہ کا حل معلوم ہوا جس نے ایک مدت تک اسے الجھا رکھا تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ بعض وحشی لوگ گھیر کر اسے دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر اس نے سلائی مشین نہ بنائی تو وہ اسے جان سے مار ڈالیں گے۔ یہ مطالبہ پورا نہ ہونے پر انہوں نے اسے ایک درخت سے باندھ کر تیروں اور نیزوں سے اس پرحملہ کر دیا۔ ان کے نیزوں کے سروں پر سوراخ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ بیدار ہونے پر اس کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ اس خواب نے سلائی مشین کی ابتدائی شکل تیار کرنے میں اس کی رہنمائی کی جس نے آگے چل کرسلائی کی صنعت میں حیرت انگیز انقلاب برپا کر نا تھا۔ الیاس ہوو نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ اسے سوئی کے سرے میں سوراخ رکھنے پر غور کرنا چاہئے۔ بالآخر یہی بات بظاہر ایک ناممکن مسئلہ کے حل میں اس کی مدد گار بن گئی۔ اگر وہ یہ خواب نہ دیکھتا تو اس افسوس ناک حالت کا تصور کرنا بھی مشکل ہے جس سے آج انسان دو چار ہو سکتا تھا۔ پس اس انکشاف کی وجہ سے ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہوا۔
اس قسم کے تجربات کی ایک ممکنہ توجیہہ یہ ہے کہ الہام انسان کے تحت الشعور (subconscious)کی پیداوار ہے۔ جب انسان سونے سے پہلے پیچیدہ امور پر غور کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو اس کا شعور ان خیالات کو تحت الشعور کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور نیند کی حالت میں تحت الشعور ان معلومات پر غور کرتا رہتا ہے اور بالآخر مطلوبہ حل تلاش کر لیتا ہے۔ یہ حل بعض اوقات خواب کے ذریعہ معلوم ہوسکتے ہیں یا کبھی زبانی پیغام کی صورت میں بھی منکشف ہوتے ہیں۔ کیا اس صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ الہام خواہ کسی بھی شکل میں ہو، بلا استثنا تحت الشعور کی پیداوار ہے؟
مذکورہ بالا واقعات کے بارہ میں کہا جا سکتا ہے کہ تمام ضروری معلومات جو ان مسائل کے حل کیلئے درکار تھیں شعور میںپہلے سے موجود تھیں اور تحت الشعور نے ان کو نامعلوم طریق پر اکٹھا کر دیا۔ کیا انسان کے وجدانی تجربات کا یہی ماحصل ہے یا الہام کی ایسی اقسام بھی ہیں جو انسانی ذہن کی دسترس سے باہر ہیں؟
دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا عقیدہ ہے کہ انبیاء اور دوسرے بہت سے پاک لوگوں کو بھی الہام ہوتا تھا جس کا منبع ایک خارجی وجود یعنی خدا ہے۔ لیکن دوسرے لوگ اس عقیدہ کو غلط فہمی کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک چونکہ اوّل الذکر اپنے اندرونی تجربات کو واقعۃً کسی خارجی وجود کی طرف سے موصول شدہ پیغام قرار دیتے ہیں اس لئے وہ ان پر یہ الزام نہیں لگاتے کہ وہ دیدہ دانستہ دھوکہ دہی سے کام لے رہے ہیں۔ اس خیال کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کی طرف منسوب ہونے والے تمام مذاہب کمزور بنیادوں پر قائم ہیں۔ لیکن اس قسم کے دعاوی کو صرف اسی صورت میں سچا ثابت کیا جا سکتا ہے جب ان کی تائید میں کافی خارجی شواہد موجود ہوں۔
چونکہ ایسے ہر مدعی کی صداقت کا پرکھنا بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے اس لئے ہم اسے قرآن کریم کے پیش کردہ معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گے۔ بیشتر بڑے بڑے مذاہب کی بنیاد اس عقیدہ پر قائم ہے کہ اس کائنات کی خالق ایک اعلیٰ ہستی ہے جس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اسے تنہا اور بے تعلق نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کے معاملات میں اس کا نگران ہے۔ اور جب بھی بنی نوع انسان کو رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے ذریعہ جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرما دیتا ہے۔ وہ اپنے وجود کا خود پتہ دے کر بنی نوع انسان کو اپنی مشیت سے آگاہ کرتا ہے تا کہ وہ اپنی زندگی کواس کی ہدایات کے مطابق ڈھالیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر الہام کو وجدان سے بالا علم کا ایک ایسا ذریعہ قرار دینا پڑے گا جس کے مقابل پر عقلیت کو ثانوی حیثیت حاصل ہو گی۔
انسانی ذہن کے نقطۂ نظر سے الہام ایک اندرونی نفسیاتی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الہام کو تحت الشعور کے دیگر ملتے جلتے تجربات کے ساتھ خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ بالعموم ہر شخص کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر نفسیاتی دباؤ سے واسطہ پڑتا ہے۔ نفس انسانی میں نت نئے تصورات باندھنے کا اندرونی نظام موجود ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات صاحب تجربہ کو یہ تصورات حقیقت پر مبنی دکھائی دینے لگتے ہیں۔
یہ تجربات اس وسیع دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی درجہ بندی بالعموم خوابوں، زبانی پیغامات، سریلی آوازوں،ہیولوں اور تصورات کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ پراگندہ یا انتہائی ہیجان آمیز ذہنوں کیلئے ایسے تجربات خطرناک حد تک شدید ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ یہ کیفیت انہیں دیوانہ کر سکتی ہے۔ تیز بخار بھی اس قسم کا ذہنی ہیجان پیدا کر سکتا ہے۔ مزیدبرآں بالکل مختلف تجربات بھی مشاہدے میں آئے ہیں جو نہایت منظم، تسلی آمیز اور سکون بخش خوابوں اور مکاشفات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ذہن کو کئی قسم کے بے نام خوف اور ڈر سے چھٹکارا دلا کر اطمینان بخشتے ہیں، ایسا خوف جس میں بعض اوقات لوگ بغیرکسی شعوری وجہ کے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کچھ پیغامات واضح اور صاف طور پر سنائی دینے والی آوازوں کی صورت میں یا بعض اوقات انسان یا فرشتہ کی شکل میں یا غیر مرئی وجودوں کی آواز وں کے ذریعہ سے موصول ہوتے ہیں۔ اگر ان کی وضاحت یوں کی جائے کہ یہ انسانی ذہن اور نفس کے پیدا کردہ خیالات ہیں تو تما م روحانی تجربات اپنے مقام سے گر جائیں گے اور ایک عام انسانی سوچ بن کر رہ جائیں گے۔
اس صورت میں وحی اور مکاشفات کی کیا امکانی حیثیت ہو گی؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کا ادراک بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کا جواب اور حل۔ دراصل حسب ضرورت یہ صلاحیت انسانی ذہن کو قدرتاً عطا کی گئی ہے کہ وہ ایسے تاثرات کو قبول بھی کر سکے اور ان کی تخلیق بھی۔ اللہ تعالیٰ بھی جب چاہتا ہے اس ذہنی نظام کی براہ راست رہنمائی فرماتاہے۔ اس اہم سوال کے حل کیلئے اس کی جزئیات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس مشکل مضمون کو ذیلی عناوین کے تحت تقسیم کر کے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
وجدان
تحت الشعور جس طرح وہم اور ہذیان کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے اسی طرح یہ منظم اور بامقصد مکاشفات و پیغامات تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ممکن ہے دماغ
کے اندرونی حصے لا شعوری طور پر کسی موضوع پر غور کر کے ایک ایسا قطعی جواب تیار کر لیں جو شعور کیلئے بالکل نیا ہو۔ درحقیقت کسی بھی مسئلہ کا حل تلاش کرنے تک ذہن یہ کام کرتا رہتا ہے۔ پھر اس حل کو خواب یا کشف کی صورت میں دماغ کے اعلیٰ شعور کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ اس عمل کے ذریعہ حاصل کردہ نتائج ہمیشہ دماغ کو پہلے سے میسر معلومات کی وسعت اور گنجائش کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ اس عمل کو متحرک کرنے کیلئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ایک مجرم بھی ارتکاب جرم کیلئے اپنے تحت الشعور کی وجدانی قوت کی مدد سے ایک انوکھا طریقۂ واردات سوچ سکتا ہے۔ لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ وجدان کے نتائج ہمیشہ انسانی ذہن کو میسر معلومات کے عین مطابق ہوتے ہیں اور اس کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
واہموں کے علاوہ دیگر نفسیاتی تجربات
دیوانگی یا منشیات کے استعمال کے نتیجہ میں واہمے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ
منشیات کا استعمال انسانی ذہن کو غیر معمولی طور پر انگیخت کر دیتا ہے۔ تحت الشعور کا نظام جو پہلے سے موجود ہوتا ہے متحرک ہو جاتا ہے۔ اس صورت میںپیدا ہونے والے نتائج میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ اکثروبیشتر بیرونی تجزیہ نگار بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ایسے تصورات محض تخیلاتی پراگندگی کی وجہ سے بے ہنگم سوچ یا دہشتناک خوابوںکے ٹکڑے ہوا کرتے ہیں۔ اور ایسا تجزیہ نگار اس ذہنی انتشار کے ساتھ ساتھ مایوسی، گھبراہٹ اور پراگندگی کی کیفیت کو بھی بآسانی مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود عین ممکن ہے کہ تحت الشعور بامعنیٰ اور مربوط تصورات کا ایسا تانا بانا بن لے جس میں کوئی پیغام بھی شامل ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحت الشعور، شعوری ذہن کو کوئی بامقصد پیغام پہنچا دے۔ البتہ یہ بات طے ہونے والی ہے کہ آیا کوئی بیرونی واسطہ بھی انسانی دماغ کے اندرونی نظام پر اثرانداز ہو رہا ہے یا نہیں۔
وسیع پیمانے پر تحقیق و تجربات کے بعد پیراسائیکالوجی کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ ایک آدمی کا ذہن کسی دوسرے آدمی کے ذہن کو متحرک کر کے اپنی ہدایات کے تابع رہنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ بہت سی یونیورسٹیوں میں اس اچھوتے موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ایسا ہونا نہ صرف ممکنات میں سے ہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بعض اوقات ازخود اور کبھی کبھار شعوری کوشش کے نتیجہ میں کسی بھی مادی واسطہ کے بغیر ایک آدمی کے خیالات کسی دوسرے کے ذہن میں منتقل کئے جا سکتے ہیں۔
عمل تنویم یا ہپناٹزم
عمل تنویم کا ماہر ارتکازِ توجہ سے دوسروں کے ذہنوں پر اپنے تصورات مسلط کر سکتا ہے۔ جیسا کہ نفسیاتی علاج کے بارہ میں
بالعموم سمجھا جاتا ہے، عمل تنویم کا مقصد دماغ میں پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانا یا اس کی صحت یابی کیلئے دماغی قوت کو متحرک کرنا ہے۔
بسا اوقات ایک پراگندہ حال مریض اپنے منتشر خیالات کا سامنا کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے۔ وہ ان خیالات کو اپنے ذہن کی گہرائی میں دفن کر چکا ہوتا ہے لیکن اتنی گہرائی میں بھی نہیں۔ بلکہ ایسے خیالات کہیں شعور اور تحت الشعور کے درمیان بے چینی کی کیفیت میں معلّق رہتے ہیں۔ اور مریض بالآخر معمولی سی بیرونی مدد سے اس حد تک قوت مجتمع کر لیتا ہے کہ ان خیالات کو ذہن کی شعوری سطح تک لا کر ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے جیسے جلد میں کوئی نہایت تکلیف دہ چیز داخل ہو جائے اور باہر نکالنے تک نا قابل برداشت اذیت اور بے چینی کا باعث بنی رہے۔ ایسی حالت میں ایک سرجن کا نشتر جو کردار ادا کرتا ہے ہپنا ٹزم کے ماہر کا مشورہ بھی ایک نفسیاتی مریض کے معاملہ میں بعینہٖ یہی کردار ادا کرتا ہے۔
ٹیلی پیتھی یا اشراق
کسی معلوم سائنسی واسطہ کے بغیر پیغامات ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل کرنا اشراق یا ٹیلی پیتھی کہلاتا ہے۔ اس میں کوئی
صوتی یا بصری واسطہ استعمال نہیں ہوتا۔ اس دو شاخہ سُر (Tuning forks) کی طرح جس میں ایک کی تھرتھراہٹ سے ہم آہنگ ہو کر دوسرا بھی تھر تھرانا شروع ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہپناسس اور ٹیلی پیتھی حقیقت ہے جیسا کہ شواہد سے ثابت ہے تو اللہ تعالیٰ یہ نظام انسانوں کی رہنمائی کیلئے کیوں استعمال میں نہیں لا سکتا۔
تحت الشعور سے متعلق دیگر تجربات
خوابوں کی حیثیت عالمگیر ہے اور ہر زمانہ اور علاقہ کے لوگوں کو ان کا تجربہ ہے۔
تاہم خواب ایک ہی قسم سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ اکثر خواب انسانی نفسیات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ تحت الشعور کو حاصل ہونے والی معلومات کسی شخص کے روزمرہ کے مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ موجودہ زمانہ میں علم رؤیا کا مطالعہ فرائڈ کے نظریہ سے بہت آگے جا چکا ہے۔ چنانچہ جدید الیکڑونک آلات کی مدد سے اس موضوع پر تحقیق جاری ہے۔
مذہبی نقطۂ نگاہ سے خواب کی دو اقسام ہیں:
.1 ایسے خواب جو انسانی نفسیات کی پیداوار ہیں۔
.2 ایسے خواب جو خدا کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں اور اپنے اندر گہرے مطالب رکھتے ہیں۔ ایسے خواب پیشگوئیوں یا خوشخبریوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں اور ایسے واقعات پر بھی مشتمل ہو سکتے ہیں جن کا علم خواب دیکھنے سے پہلے، خواب دیکھنے والے کو بھی قطعاً نہیں ہوتا۔ ایسے خواب ایک ایسی غیر مرئی، ماورائی اور باشعور ہستی کے وجود پر دلالت کرتے ہیں جو چاہے تو اپنے کسی پسندیدہ موضوع پر انسانوں کے ساتھ ہمکلام بھی ہو سکے۔
اس سلسلہ میں مذہبی تجربات کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کیلئے ان مثالوں کا قبول کر لینا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی بالا اور باشعور ہستی انسانی ذہن پر اثرانداز ہو سکتی ہے تو لازماً اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا جو ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار بہت سے سیکولر مفکرین اور سائنسدانوں کیلئے مشکل ہے۔
دوسری بڑی دقت یہ ہے کہ اکثر مذاہب میں اس نظریہ کو جس انوکھے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اس کو ماننا سائنسدانوں کیلئے مشکل ہے۔ کیونکہ گزشتہ زمانہ کے بزرگوں اور انبیاء کے روحانی تجربات کو ان کے ماننے والے جس ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں وہ نہ تو ان کے پیغام کیلئے مفید ہے اور نہ ہی اس سے ان کی سچائی کوکوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ الٰہی مکالمہ مخاطبہ جیسے اہم اور سنجیدہ معاملہ کی صداقت کو اس حد تک الجھا دیا جاتا ہے کہ خود ساختہ انسانی تصورات اور روحانی تجربات کے مابین امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
الہامی کتب میں سے صرف قرآن کریم ہی تحریف سے محفوظ ہے جو خارق عادت باتوں پر یقین نہ رکھنے والوں کا ردکرتے ہوئے روحانی امور اور تجربات کو فطری اور معقولی رنگ میں پیش فرماتاہے۔ قرآنی بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو معجزات اور نشانات کہیں بھی قوانین قدرت سے متصادم دکھائی نہیں دیتے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشہورومعروف معجزہ کو ہی لے لیں۔ اگرچہ اہل کتاب اس معجزہ کو مافوق الفطرت خیال کرتے ہیں لیکن قرآن کریم نے اسے نہایت سادہ، معقول اور منطقی انداز میں بیان فرمایا ہے۔ تا ہم اس میں مخفی معانی سرسری نظر سے سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ اگرچہ یہ ایسے پیچیدہ بھی نہیں تا ہم پہلے سے قائم کردہ رائے کے زیر اثر اس کا مطالعہ کرنے والوں کو مغالطہ بھی لگ سکتا ہے۔ یہاں ہم قرآن کریم کی روشنی میں اس معجزہ کی وضاحت کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:

(الاعراف 7 : 119-117)
ترجمہ: اس نے کہا تم پھینکو۔ پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انہیں سخت ڈرا دیا اور وہ ایک بہت بڑا شعبدہ لائے۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ تو اپنا سونٹا پھینک۔ پس اچانک وہ اس جھوٹ کو نگلنے لگا جو وہ گھڑرہے تھے۔ پس حق واقع ہو گیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے جھوٹا نکلا۔
یہاں قرآن کریم ایک ایسے واقعہ کا ذکر فرماتا ہے جس میں فرعون کے جادوگروں کو ان رسیوں پر نہیں بلکہ تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کرتے بیان کیا گیا ہے۔ یہ دراصل ہپناسس کے عمل کی وضاحت ہے جو قانون قدرت کے مخالف نہیں۔ مسمریزم کی اس شعبدہ بازی اور جادوگروں کے سحر کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ کے ذریعہ اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا۔ یاد رہے کہ قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عصائے موسیٰ نے رسیوں کو سچ مچ نگلا نہیں تھا بلکہ ساحروں کے اس اثر کو توڑا تھا جس کے نتیجہ میں رسیاں سانپ دکھائی دے رہی تھیں۔ یہی واقعہ ایک اور سورۃ میں مندرجہ ذیل طریق پر بیان ہوا ہے جس سے بات مزید واضح ہو جاتی ہے:

(طٰہٰ 20 :69-67)
ترجمہ : اس نے کہا بلکہ تم ہی ڈالو۔ پس اچانک ان کے جادو کی وجہ سے اسے خیال دلایا گیا کہ ان کی رسیاں اور ان کی سونٹیاں دوڑ رہی ہیں تو موسیٰ نے اپنے جی میں خوف محسوس کیا۔ ہم نے کہا مت ڈر۔ یقیناً تو ہی غالب آنے والا ہے۔
قرآن کریم کے اس بیان کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی جادو گروں کی نفسیاتی قوتوں سے متاثر ہو گئے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو وہ محض اپنی ذہنی قوت کے بل بوتے پر ساحروں کا سحر نہ توڑ سکتے تھے۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی ذہن پر غالب آنے والے ہپناٹزم کے حملہ کو توڑ دینا ناممکن ہے۔ گویا ساحروں کے حملہ کا توڑ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بالارادہ نہیں کیا۔
اس تناظر میں یہ واقعہ ایک معجزہ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ورنہ مضبوط ترین قوت ارادی کا مالک بھی ساحروں کی ان کوششوں سے شکست کھا سکتا تھا۔ ساحروں سے بڑھ کر کس کو علم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں تائید الٰہی کام کر رہی ہے کیونکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی دیگر حاضرین کی طرح اپنے سحر سے متاثر ہوتا دیکھ چکے تھے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ دیگر تماشائیوں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا متاثر ذہن ان کی سحر انگیزی سے خود بخود چھٹکارا پا لیتا۔ ضمناً یہ آیت نام نہاد جادوگری کی حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے کہ ساحروں نے رسیوں اور سونٹیوں کو سچ مچ سانپ نہیں بنایا تھا بلکہ اپنی نفسیاتی قوت سے ایک فریب کی صورت پیدا کر دی تھی۔
الہام بھی دراصل انسان کی نفسیاتی کیفیت کا ایک عمل ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ عمل صرف اورصرف خداتعالیٰ کے اپنے حکم اور ارادہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یقینا پیغام وصول کرنے کے لئے انسانی ذہن کو ایک جدید ترین اور پیچیدہ مواصلاتی نظام و دیعت کر رکھاہے۔ اس لئے وحی و الہام کا یہ نظام انوکھا اور غیر فطری نہیں ہے۔
ہر انسانی ذہن کو دیگر انسانوں سے رابطہ کے لئے حواس خمسہ سے بالا صلاحیتیں بھی بخشی گئی ہیں۔ یہاں قاری کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ ہمارے زیر بحث یہ شاندار نظام بڑی عمدگی، خوبی اور ذمہ داری کے ساتھ ہر شخص کے صداقت کے معیار کی نسبت سے کام کرتا ہے۔ کسی جھوٹے کے دماغ میں غیر حقیقی اور بے بنیاد خیالات شتر بے مہار کی طرح گزرتے رہتے ہیں اور اس کی نفسانی خواہشات اس کے لئے جھوٹے خواب تراشتی رہتی ہیں۔ لیکن غالب امکان ہے کہ ایک کھرا، دیانتدار اور راستباز شخص اپنے تخیّل کو اتنا بے لگام نہیں چھوڑتا کہ وہ بے معنی آوازوں اور پراگندہ تصورات کا شکار ہو کر رہ جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے ایسے کامل راستباز، دیانتدار اور امین رسول چنتا ہے جن کا کردار اس پیغام کو ہر قسم کے کھوٹ سے پاک رکھنے کا ضامن ہوتا ہے۔ لہٰذا ملہم کی صداقت اور امانت ہی وحی و الہام کی حفاظت اور سچائی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ پس یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ سب کی سب الہامی کتب میں مذکور تمام کے تمام انبیاء کی تصدیق کی گئی ہے کہ وہ مجسّم امین اور راستباز تھے۔ دراصل ان کی راستبازی ہی ہے جو ان کے دعویٰ کی مصدق اور اس پیغام کی حقانیت کی سب سے بڑی شاہد ہوا کرتی ہے جسے وہ دنیا تک پہنچاتے ہیں۔
بعض اوقات بغیر آواز یا نظارہ کے ایک وجدانی تجربہ ایسا بھی ہوتا ہے جو درحقیقت بیرونی وحی کی ایک قسم کہلا سکتا ہے۔ بہت سے بزرگ ایسے تجربات بیان کرتے ہیں جن کے دوران وہ دنیا وما فیہا سے بیخبر ہو کر اپنی باطنی کیفیات میں ڈوب جاتے ہیں اور موتی تلاش کرنے والے غوطہزن کی طرح عرفان کے موتی لے کر خارجی دنیامیں واپس آتے ہیں۔ چنانچہ انسانی ذہن کا یہ ایک ایسا اندرونی تجربہ ہے جو بظاہر فی ذاتہٖ کسی آواز یا منظر کے بغیر ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایسا پر شوکت تجربہ ہے جو فوراً ہی لفظوں میں ڈھل جاتا ہے اور اس تجربہ سے گزرنے والے پر اس کا اثر اتنا شدید ہوتا ہے گویا کسی نے عین بیداری کے عالم میں اس سے براہ راست اور واضح طور پر کلا م کیا ہو۔ تاہم اس کلام کی صداقت کو پرکھنے کیلئے ملہم کی راستبازی کے علاوہ اس کے مندرجات پر غور کرنا ضروری ہے۔ پس ملہم کے راستباز ہونے کے ساتھ ساتھ الہام کی تصدیق کیلئے اس کے مضامین کی اندرونی شہادت بھی ضروری ہے۔
ایک ناواقف کے لئے آسان نہیں کہ وہ وحی ٔالٰہی اور نفسیاتی تجربات کے مابین فرق کو واضح طور پر سمجھ سکے۔ تاہم اس کیفیت سے گزرنے والا شخص بالعموم پہچان سکتا ہے کہ یہ پیغام وحیٔ الٰہی پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اس کی روح ملہم کے ذاتی علم اور نفسیاتی تجربات سے یکسر مختلف ہوتی ہے پھر بھی اس وحی ٔالٰہی کی صداقت ایک غیر ملہم بھی خارجی شہادت کی مدد سے پرکھ سکتا ہے۔ اس خارجی شہادت کا مشاہدہ ہمعصر لوگ بھی کر سکتے ہیں اور بعض اوقات کوئی پیشگوئی بعد کے زمانہ میں پوری ہو کر وحی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کے بارہ میں کوئی بھی قبل از وقت سوچ نہیں سکتا۔ ایسے الہامات کی صداقت کا دراصل مقصد یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لو گ بھی اس کی سچائی کی تصدیق کر سکیں جن کی ترقی یافتہ سوچ ان کی صداقت کو پرکھ سکتی ہے۔ تا ہم کسی تجزیہ نگار کے لئے نفسیاتی تجربات اور وحی ٔالٰہی کے مابین فرق کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔
اب ہم وحی ٔالٰہی پر مبنی ایک ایسی پیشگوئی کاذکر کرتے ہیں جو اگرچہ اپنے ہم عصروں کے بارہ میں ہے لیکن مستقبل کے لوگوں کو چونکا دینے کا عنصر بھی اپنے اندر رکھتی ہے۔
اس کی وضاحت مصر کے بادشاہ کے اس معروف خواب کے حوالہ سے کی جا سکتی ہے جس کی تعبیر بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب وہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق ایک جھوٹے الزام کی پاداش میں جیل میں سزا کاٹ رہے تھے اور یہ خواب ان کے سامنے بیان کیا گیا تھا۔ یہ ایک عجیب خواب تھا جس نے شاہی دربار کے دانشوروں کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو اس خواب میں مخفی پیغام کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ چنانچہ مستقبل میں رونماہونے والے واقعات نے اس دانشمندانہ تعبیر کی تصدیق کر دی۔
بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ غلّہ کی سات سبزوشاداب بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں۔ نیز یہ بھی دیکھا کہ سات دبلی پتلی گائیں سات موٹی گائیوں کو کھا رہی ہیں۔ جب بادشاہ نے یہ خواب تعبیر کے لئے درباریوں کو سنایا تو انہوں نے اسے ایک مہمل، بے معنی اور پراگندہ خواب قرار دیا۔
بادشاہ کا ایسا خادم بھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید کاٹ چکا تھا اس موقع پرموجود تھا۔ اس نے جیل میں ایک عجیب خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے یوں کی تھی کہ وہ جلد رہائی پا کر ایک بار پھر اپنے آقا یعنی بادشاہ کی خدمت کا موقع پائے گا۔ اس امید پر کہ حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ کے خواب کی بھی صحیح تعبیر کریں گے اس نے درخواست کی کہ اسے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملنے کی اجاز ت دی جائے۔
اجازت ملنے پر اس نے جیل جا کر بادشاہ کا خواب حضرت یوسف علیہ السلام کو سنایا جنہوں نے فوراً ہی خواب کا مفہوم سمجھ لیا اور اس کی واضح اور منطقی تعبیر فرمائی۔
واپس آ کر خادم نے بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر یوں سنائی:
آئندہ سات سالوں میں اللہ تعالیٰ کی برکات اچھی بارشوں کی صورت میں نازل ہوں گی جس کے نتیجہ میں فصلیں اور پھل بہترین پیداوار دیں گے۔ بہترین پیداوار کے ان سات سالوں کے بعدخشک سالی کے سات سال آئیں گے جن میں شدید قحط پڑے گا۔ اگر ان پہلے سات سالوں کی وافر فصل میں سے ان سخت سالوںکی ضرورت پورا کرنے کے لئے کچھ بچایا نہ گیا تو شدیدقحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس تعبیر سے بادشاہ بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی فوری رہائی کے احکام جاری کر دیئے۔ لیکن آپ ؑ نے مطالبہ کیا کہ جب تک منصفانہ تحقیقات کے ذریعہ جھوٹے الزامات سے ان کی بریت نہ ہو جائے وہ جیل میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔ آپؑ صرف اس وقت جیل سے باہر آنے پر رضا مند ہوئے جب اصل مجرم نے اقبال جرم کر لیا اور آپ ؑ کو تمام الزامات سے باعزت طور پر بری قرار دیدیا گیا۔ بادشاہ کی طرف سے آپؑ کی غیر معمولی طور پر عزت افزائی کی گئی اور آپ ؑ کو اس کی حکومت میں وزیر خزانہ و اقتصادیات بنا دیا گیا۔
خواب میں پہلے سے بتائے گئے تمام واقعات حیرت انگیز طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئے جس کی وجہ سے نہ صرف مصریوں کو ہلاکت سے بچایا گیا بلکہ ہمسایہ ممالک کے رہنے والے اور اسی طرح خانہ بدوش قبائل بھی قحط سالی کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ نیز انہی واقعات کے نتیجہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے دوباہ ملاقات کی صورت بھی پیدا ہو گئی۔
ایسے خواب کو جو بعد میں سچا ثابت ہوا یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کسی بسیار خور کے ذہنی انتشار کا نتیجہ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس خواب کی تعبیر ایک یوسف ؑ ہی کر سکتا ہے۔ اس مثال سے یہ امر بخوبی واضح ہو جانا چاہئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک با مقصد اندرونی نفسیاتی نظام جاری فرما رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معین اور بامقصد پیغام کی ترسیل سے عالم غیب کا ایک حصہ عالم شہود میں منتقل ہو جاتا ہے۔ تا ہم یہاں یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ زیر بحث نفسیاتی نظام صرف الہام الٰہی کے ذریعہ ہی استعمال نہیں ہوتا، اور نہ اس پر تحت الشعور کی اجارہ داری ہے۔ بلکہ قرآن کریم ایک تیسرے امکان کا بھی ذکر کرتا ہے۔

(الشعرائ224-222:26)
ترجمہ: کیامیں تمہیں اس کی خبر دوں جس پر شیاطین بکثرت اترتے ہیں؟ وہ ہر پکّے جھوٹے (اور) سخت گنہگار پر بکثرت اترتے ہیں۔ وہ (ان کی باتوں پر )کان دھرتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔
ان آیات کی رو سے جھوٹے اور جھوٹ کے عادی لوگ بھی اپنی شیطانی فطرت کے باعث اس نظام کو متحرک کر سکتے ہیں۔ اس طرح ان کا جھوٹ وحی کا روپ دھار کر انہیں اور ان کے چیلوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ اس نفسیاتی نظام کے استعمال کی تیسری قسم ہے۔ اس سلسلہ میں فیصلہ کن کردار ہمیشہ صاحب تجربہ کا اپنا صدق یا کذب ادا کرتاہے۔ جھوٹے لوگوں کے الہامات بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔ پس آ جا کر بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ جھوٹوں کے الہامات کی ہمیشہ یہی پہچان ہوتی ہے کہ ان کے نام نہاد الہامات میں ہمیشہ شیطانی عنصر موجود ہوتا ہے اور اس طرح ان کے ذریعہ جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں۔
الہام اور عقل
اس کتاب کے ایک اور باب میں مختصراً ذکر ہو چکا ہے کہ مسلمان مفکرین کی ذہنی کاوش انسانی دلچسپی کے مختلف شعبوں میں کس طرح عہد بعہد ترقی کی منازل سے گزری۔ اگرچہ اس زمانہ میں ان کی تحقیق زیادہ تر قرآنی تعلیمات اور احادیث سے متاثر تھی لیکن اسے اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تا ہم ہر جہت میں علمی ترقی نہایت تیز رفتاری سے ہوئی۔ کئی نئے سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کے سلسلہ میں ماضی کے سیکولر علمی اور سائنسی نظریات سے بھی استفادہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں نامور مسلم مفکرین نے کئی نئے دینی اور دنیوی علوم کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح مذہب اور عقل دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ چنانچہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں علم کے حصول پر جو زوردیا گیا ہے اس سے انہوں نے خوب کھل کر اکتسابِ فیض کیا۔ عقل کے کردار پر اس شدت سے زور دیا گیا کہ ایمان اور عقل دونوں ہم معنی ہو گئے۔ قرآن کریم کا یہ اعلان کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کیلئے نبی ہیں اور آپﷺ کا پیغام کل عالم کے لئے ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کی بنیاد عقل پر ہے۔ ایسا مذہب جس کی بنیاد عقل پر نہ ہو انسانی ضمیر کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

(سبا34:29)
ترجمہ: اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کیلئے بشیر اور نذیر بنا کر۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
قرآن کریم اپنی تعلیم کے عالمی ہونے کے ثبوت میں جملہ معاشرتی یعنی اخلاقی، سماجی اور مذہبی مسائل کے حل کے لئے رنگ و نسل اور ملت کے فرق اور امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ تمام دنیا کے لئے قابل قبو ل اور فطرت انسانی کے مطابق ہوں۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں یہی ایک دلیل نہیں ہے۔
چنانچہ صداقت تک پہنچنے کیلئے قرآن کریم عقل کی اہمیت کو واشگاف الفاظ میں تسلیم کرتا ہے اور دینی اور دنیوی صداقت میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ صداقت تو اسلام کی جان ہے اور درحقیقت اسلام صداقت کا ہی دوسرا نام ہے۔ سچائی کو اپنے ابلاغ کیلئے کسی جبر کی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت ہے تو صرف عقل کی۔ چنانچہ اسلام فطرت انسانی، تاریخ اور معقولیت کے سیاق و سباق میں عقل سے ہی رجوع کرتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کی سچائی کو پرکھے۔ وہ نہ صرف دینی بلکہ دنیوی امور میں بھی تحقیق کیلئے عقل اور منطق کو بنیاد بناتا ہے۔ حصول علم کے لئے قرآن کریم میں مذکور تاکید سے متاثر ہو کر مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام صاحب٭نے اس بات کا بغور مطالعہ کیا کہ کس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس روشن خیالی سے استفادہ کیا۔ وہ اس موضوع پر اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں:
’’دمشق یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد اعجاز الخطیب کے مطابق سائنس کی اہمیت ثابت کرنے کیلئے اور کس چیز کی ضرورت ہے جبکہ قرآن کریم کی 250آیات قانون کے بارہ میں ہیں اور 750آیات میں جو کہ قرآن کریم کا قریباً آٹھواں حصہ بنتا ہے مومنین کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا مطالعہ کرنے کیلئے عقل کا بھرپور استعمال کریں اور سائنسی تحقیق کو اپنی اجتماعی زندگی کا ایک اہم جزو بنائیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ـ‘‘ 1
لیکن قرآن کریم اس کے علاوہ ایک انتباہ بھی کرتا ہے کہ صحیح نتائج اخذ کرنے کیلئے صرف تحقیق ہی کافی نہیں ہوا کرتی بلکہ انسان کی راستبازی شرط اوّل ہے۔ یہ نہایت اہم بنیادی اصول سورۃ البقرہ کے آغاز میں مذکور ہے۔ اگر چہ سورۃ البقرہ سورۃ الفاتحہ کے بعد آتی ہے جو قرآن کریم کا خلاصہ ہے، مگر عملاً اسے قرآن کریم کی تعارفی سورۃ کے طور پر لینا چاہئے۔ کیونکہ اسی سے قرآن کریم کا تفصیلی متن شروع ہوتا ہے۔ اس سورۃ کا آغاز کچھ اس طرح ہے۔

(البقرہ 2: 3-1)
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بن مانگے دینے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔ اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ۔ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ ’’وہ‘‘ کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔
اس سادہ مگر گہرے اعلان کا تقاضا ہے کہ اس کے بنیادی پیغام کو سمجھنے کیلئے خصوصی توجہ دی جائے۔ الٰہی تعلیمات کا اصل مقصود گمراہوںکی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اعلان سے کیا مراد ہے کہ یہ کتاب صرف ان لوگوں کی رہنمائی کر سکتی ہے جو پہلے ہی نیک ہوں؟ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ سچائی کے طالب کیلئے اس کا خود راستباز ہونا ضروری ہے ورنہ اس کی جستجو اور تحقیق رائیگاں جائے گی۔ اس بیان کے مطابق سچائی کا حصول محقق کی صحت نیت پر ہے۔ یہ گہری حکمت اس مختصر مگر سادہ بیان سے واضح ہے کہ: ھدًی للمتقین۔ ( ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو)۔
یہی اصول دنیوی امور کی تحقیق پر بھی صادق آتا ہے۔ متعصب ذہن سے کی جانے والی تحقیق اکثر و بیشتر قابل اعتبار نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی سچی اور بامعنی تحقیق کیلئے صاف اور صحتمند ذہن اوّلین شرط ہے۔ کوئی بھی جانبدارانہ ذہن کبھی غیر جانبدارانہ نتائج اخذ نہیں کر سکتا۔ جس طرح بھینگا کبھی سیدھا نہیں دیکھ سکتا اسی طرح کوئی ہدایت بھی از خودہر کسی کو صداقت تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس سے فقط غیر متعصب،راستباز، صحت مند اور دیانتدار ذہن ہی استفادہ کر سکتا ہے۔ اس مقام پر ایک مسئلہ کے حل کے بعد ایک اور حل طلب مسئلہ سامنے آتا ہے۔
امید تو یہی کی جاتی ہے کہ مذہبی تنازعات میں فریقین سچائی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ مگر موجودہ زمانہ میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بالعموم توقع تو یہی کی جاتی ہے کہ دنیوی معاملات کی نسبت مذہبی معاملات میں سچ کا عنصر غالب ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مذاہب کا معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ آغاز میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے اوروں کی نسبت مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، زیادہ خلوصِ نیت سے سچائی پر کاربند ہوتے ہیں۔ بانیانِ مذاہب کی زندگی میں ان پر ایمان لانے والوں کی عقل و حکمت اور راستبازی کا گراف انتہائی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔
مندرجہ بالا قرآنی آیات ایک ایسے خدا کا تصور پیش کرتی ہیں جو ہر چیز کے بارہ میں انتہائی صحت و صفائی کے ساتھ پورا علم رکھتا ہے۔ لہٰذا ایسی ہستی کی طرف سے عطا کیا جانے والا علم یقینا انتہائی کامل اور قابل اعتماد ہو گا۔ لیکن اس علم کوحاصل کرنے والا اگر باطنی سچائی کی صفت سے محروم ہے تو ایسے علم سے استفادہ نہیں کر سکتا۔
اگر ہم ملحدین کی سہولت کیلئے عقل کو خدا کا مقام دے دیں تو صورت حال کچھ یوں بنتی ہے:- مجرد عقل کسی کو سچائی کی طرف نہیں لے جا سکتی سوائے ان لوگوں کے جن کے اندر تقویٰ یا باطنی سچائی موجود ہو۔ قابل اعتماد علم کے حصول کے لئے خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی، سب سے ضروری شرط یہی ہے۔ علم کے سرچشمہ اور اس سے فیض پانے و الے دونوں کے لئے سچا ہونا ضروری ہے۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ آخری منزل نہیں ہے بلکہ یہاں سے تو اس سفر کا مشکل مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی اور کی باطنی سچائی کے بارہ میں فیصلہ کون کرے گا؟ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے باطن کی سچائی کے متعلق دعویٰ کرے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم اس مسئلہ کو کس طرح حل کرتا ہے؟ محض یہ کہنے سے کہ ’’خداتعالیٰ خوب جانتا ہے‘‘انسانی سوچ کی سطح پر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم اس مسئلہ کا یہ حل تجویز نہیں کرتا۔ قرآن کریم کے مطابق ہر انسان کی اندرونی حالت کا صحیح اندازہ اس کے روزمرہ کے نظر آنے والے کردار اور رویہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں سچ کا عادی ہے تو اسے راستباز کہنا بجا ہو گا۔ انبیاء کی صداقت پرکھنے کا بھی یہی پیمانہ ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ جھوٹ کا عادی کبھی کبھار اپنی گفتگو یا رویہ سے سچائی کا اظہار بھی کر دے۔ لیکن ایسے شخص کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ ہمیشہ سچ بولے۔ اس لئے انبیاء کرام کی یہ دلیل عین عقل کے مطابق ہے کہ دعویٰ نبوت سے پہلے جو معاشرہ ادنیٰ سا جھوٹ بھی ان کی طرف منسوب نہیں کر سکتا تھا اب کیسے الزام لگا سکتا ہے کہ وہ اچانک خداتعالیٰ کے متعلق جھوٹ گھڑ لیں اور اسے الہام قرار دے دیں۔
اس کسوٹی پر انبیاء کی راستبازی کو بخوبی پرکھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ زندگی بھر اپنے عمل سے ثبوت مہیا کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ معیار سوائے انبیاء کرام کے دیگر انسانوں پر اطلاق نہیں پاتا کیونکہ ہر انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور نقطۂ نگاہ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ نیز کسی معاملہ کو سمجھنے اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت سب میں یکساں نہیں ہوتی۔ پھر ہر شخص میں تصنع یا ملمعسازی کو شناخت کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ مشاہدہ کرنے والے اور مشہود کے باہمی ردعمل سے کئی نئے امکانات ابھرتے ہیں۔ بعض اپنی نیتوں کو نہایت کامیابی سے چھپا سکتے ہیں جبکہ بعض میں اس صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے۔ ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشاہدہ کرنے والا انسان کس حد تک کسی دوسرے انسان کے اندرونی سچ اور جھوٹ کے بارہ میں حتمی رائے قائم کرنے کا اہل ہے۔ ایمان اور اعتقاد کے معاملہ میں یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔ ایک انسان انتہائی احمقانہ نظریات اور عقائد تو اپنا سکتا ہے اور ایسے لوگوں کی آج کل کوئی کمی بھی نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کے متعلق حتمی طور پر یہ فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایسے انسان سادہ لوح اور کم فہم ہی ہو سکتے ہیں جو اپنی ایسی غلطی کو بھی محسوس نہ کر سکیں جو اوروں کو نظر آ رہی ہو۔ اس کے باوجود انہیں پورا حق حاصل ہے کہ جس بات کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اسے مانیں اور یہ دعویٰ بھی کریں کہ وہ حق پر ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں یہ پورا حق بھی حاصل ہے کہ وہ اوروں کے نظریات یا عقائد کو یہ کہہ کر رد کر دیں کہ یہ باطل ہیں۔ خواہ ان کے ماننے والوں کو وہ کتنے ہی صحیح اور عقل کے عین مطابق نظر کیوں نہ آئیں۔
اس مشکل مسئلہ کا واحد اور ٹھوس حل قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ قرآن کریم ہر انسان کو یہ بنیادی حق دیتا ہے کہ وہ جس عقیدہ کو بھی صحیح سمجھے اسے اختیار کرے اور اس کی سچائی کا اعلان کرے۔ لیکن کسی صورت میں بھی کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے عقائد کو اوروں پر مسلط کرے یا اوروں کو ان کے عقائد کی وجہ سے جو اس کی اپنی دانست میں غلط ہیں سزا دیتا پھرے۔ انسان صرف خداتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے اور صرف وہی واحد ذات ہے جو دلوں کے بھید خوب جانتی ہے۔ یاد رہے کہ صداقت کو شناخت نہ کر سکنے کی وجہ سے کوئی انسان مستوجبِ سزا نہیں ٹھہرتا۔ قابلِمواخذہ امر یہ ہے کہ کوئی شخص کسی بات کو دل کی گہرائی سے برحق سمجھتے ہوئے بھی اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ ظاہر ہے کہ اس قبیل کے پوشیدہ جرائم کا کھوج لگانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ حق کو شناخت نہ کر سکنا جرم نہیں ہے بلکہ شناخت کے بعد اسے تسلیم نہ کرنا جرم ہے۔ اور یہ فیصلہ تو صرف خداتعالیٰ کی علیم و خبیر، حاضر ناظر، غیر مبدّل اور حکیم ذات ہی کر سکتی ہے۔ یہ وہ اہم بات ہے جس کی قرآن کریم متعدد مقامات پر اپنے قاری کو بار بار یاددہانی کراتا ہے اور اس بات کی خاص طور پر تنبیہ کرتا ہے کہ کسی شخص کو اجازت نہیں کہ وہ ایمانیات اور عبادات کے حوالہ سے خود کو حَکَم قرار دے کر شریعت نافذ کرتا پھرے بلکہ بانی اسلامﷺ کو بھی قرآن کریم میں اس کی تاکید کی گئی ہے:

(الغاشیہ23-22:88)
ترجمہ : تُو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے۔ تُو ان پر داروغہ نہیں۔
حتیٰ کہ مشرکوں کے خود ساختہ معبودوں کو جو محض ان کے اپنے ذہن کی اختراع ہیں برا بھلا کہنے کی بھی ممانعت ہے:

(الانعام 6:109)
ترجمہ: اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر قوم کو ان کے کام خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کے رب کی طرف ان کو لوٹ کر جانا ہے۔ تب وہ انہیں اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کو آخری دم تک سچائی کی تلاش اور اسے شناخت کرنے اور اس پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عقیدہ کی آزادی ایک الگ بات ہے لیکن ان عقائد کے نتائج سے فرار دوسری بات۔ عقیدہ کی آزادی کا حق اور دیگر بنیادی حقوق ہرگز یہ اجازت نہیں دیتے کہ سچائی کو پامال کر دیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آزادیٔ ضمیر اور اس کے مطابق عمل کرنے کے حق کا تحفّظ کیا جائے۔ عقیدہ کی آزادی کا حق نہ ہو تو ہر کوئی سچائی کے نام پر دوسروں کے نظریات کو طاقت کے زور پر بدلنے اور اپنا ہم خیال بنانے کیلئے جبر کر سکتا ہے۔ اس کی غلط منطق اسے اس بات پر آمادہ کرے گی کہ چونکہ کسی کو کوئی غلط عقیدہ اپنانے کا حق نہیں ہے اس لئے ہر ایک کو اپنے عقیدہ کے مطابق دوسروں کا عقیدہ زبردستی بدلنے کا حق حاصل ہے۔ عقیدہ کی آزادی کے حق کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جوابدہی سے بالا قرار دے دیا جائے۔ جوابدہی کے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہی آزادی کے حق کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کوہپیماؤں کی کسی جماعت کو یہ کہا جائے کہ وہ بیشک جس طرف بھی چاہیں جا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ انتباہ بھی کر دیا جائے کہ بعض راستے ان کو یقینی موت کے منہ میں لے جائیں گے تو اس صورت میں وہ اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں گے۔ اس کے باوجود اگر بعض سرپھرے اس انتباہ کی پرواہ نہ کریں اور اپنے مفاد کی طرف سے آنکھیں بند کر کے آزادی کے حق کا راگ الاپتے ہوئے جدھر چاہیں چل پڑیں تو ان کا یہ رویہ انہیں یقینی تباہی کی طرف لے جائے گا۔ چنانچہ آزادیٔعقیدہ اور آزادیٔ ضمیر کا یہی نظریہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوا ہے:

(البقرہ 257:2)
ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقینا ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایا ں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹناممکن نہیں۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والاہے۔
کسی کے عقیدہ کو جبراً تبدیل کرنے کی واضح ممانعت کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کو بغیر کسی قسم کے جبر کے، دلیل کے ذریعہ اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کی دعوت اور ترغیب بھی نہیں دی جا سکتی۔ اسلام میں نہ صرف اس کی اجازت ہے بلکہ مومنوں پر فرض ہے کہ وہ دوسروں کو دلائل اور حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں۔ چنانچہ فرمایا:

(النحل16:126)
ترجمہ: اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔
یہ وہ عالمگیر الٰہی منصوبہ ہے جس کے ذریعہ نظریات اور دلائل کی سطح پر اسلام کا غلبہ مقدر ہے۔ کیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو رتی بھر بھی عقل کے خلاف ہو۔ موجودہ زمانہ کے انتہا پسند علماء مسلمان عوام کو ان کے جذبات بھڑکانے کے بعد غیر مسلموں کے خلاف جس خونی جنگ کی ترغیب دیا کرتے ہیں اس کی کوئی مثال انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی زندگی میں نہیں ملتی۔ ان کا یہ رویہ اسلامی تعلیم سے اتنا ہی متناقض ہے جتنا مرض شفا سے اور زہر تریاق سے۔ ان قرآنی آیات کی تعداد جن میں مسلمانوں کو دلیل، عقل اور سائنسی تحقیق کی پرزور تلقین کی گئی ہے، ڈاکٹر محمد اعجاز الخطیب کے نزدیک سات سو پچاس ہے۔ اس کے بالمقابل قرآن کریم میں ایک بھی ایسی آیت نہیں ملتی جس میں کسی قسم کی بھی اندھا دھند پیروی کی تعلیم دی گئی ہو۔ ذیل میں قرآن کریم کی چند ایک آیات درج کی جاتی ہیں جن سے قارئین کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ عقائد اور نظریات کے سلسلہ میں قرآن کریم عقل و خرد، استدلال اور ٹھوس شہادت پر کس قدر زور دیتا ہے۔

(البقرۃ 2:45)
ترجمہ: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو جبکہ تم کتاب بھی پڑھتے ہو۔ آخر تم عقل کیوں نہیں کرتے؟

(البقرۃ 77:2)
ترجمہ: اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے۔ اور جب ان میں سے بعض بعض دوسروں کی طرف الگ ہو جاتے ہیں تو وہ (ان سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تا کہ انہی باتوں کے ذریعہ وہ تمہارے رب کے حضور تم سے جھگڑا کریں۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے۔

(البقرۃ 112:2)
ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہرگز جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا سوائے ان کے جو یہودی یا عیسائی ہوں۔ یہ محض ان کی خواہشات ہیں۔ تو کہہ کہ اپنی کوئی مضبوط دلیل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔

(النساء 175:4)
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی حجت آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک روشن کر دینے والا نور اتارا ہے۔

(الانعام 33:6)
ترجمہ: اور دنیاکی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کر دے۔ اور یقینا آخرت کا گھر ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟

(الانعام 51:6)
ترجمہ: تو کہہ دے میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں اس کے سوا جو میری طرف وحی کی جاتی ہے کسی چیز کی پیروی نہیںکرتا۔ کہہ دے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ پس کیا تم سوچتے نہیں۔

(الانعام66:6)
ترجمہ: کہہ دے کہ وہ قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے یا تمہیں شکوک میں مبتلا کر کے گروہوں میں بانٹ دے اور تم میں سے بعض کو بعض دوسروں کی طرف سے عذاب کا مزہ چکھائے۔ دیکھ کس طرح ہم نشانات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تا کہ وہ کسی طرح سمجھ جائیں۔

(یونس 17:10)
ترجمہ: تو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ (اللہ) تمہیں اس پر مطلع کرتا۔ پس میں اس (رسالت) سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں، تو کیا تم عقل نہیں کرتے؟

(ھود52:11 )
ترجمہ: اے میری قوم ! میں تم سے اس (خدمت ) پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو اس کے سوا کسی پر نہیں جس نے مجھے پیدا کیا۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟

(الانبیاء 25:21)
ترجمہ: کیا انہوں نے اس کے سوا کوئی معبود بنا رکھے ہیں؟ تو کہہ دے کہ اپنی قطعی دلیل لاؤ۔ یہ ذکر ان کا ہے جو میرے ساتھ ہیں اور ان کا ذکر ہے جو مجھ سے پہلے تھے۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کا علم نہیں رکھتے اوروہ اعراض کرنیو الے ہیں۔

(المومنون81:23)
ترجمہ : اوروہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور رات اور دن کا اختلاف بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟

(المومنون118:23)
ترجمہ: اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو یقینا اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ یقینا کافر کامیاب نہیں ہوتے۔

(النمل65:27)
ترجمہ: کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ تو کہہ دے کہ اپنی قطعی دلیل لاؤاگر تم سچے ہو۔

(القصص 61:28)
ترجمہ: اور جو کچھ بھی تم دیئے جاتے ہو یہ دنیوی زندگی کا عارضی فائدہ اور اس (دنیا) کی زینت ہے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ پس کیا تم عقل نہیںکروگے؟

(القصص 76:28)
ترجمہ: اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ اپنی برہان لاؤ۔ پس وہ جان لیں گے کہ حق اللہ کے اختیار میں ہے اور جو کچھ وہ افترا کیا کرتے تھے ان سے جاتا رہے گا۔

(یٰس 63:36)
ترجمہ: مگر اس نے یقینا تم میں سے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر دیا۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے تھے؟

(الحشر22:59)
ترجمہ: اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو توُ ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ تفکّر کریں۔


حوالہ جات
1. LAI, C.H., KIDWAI, A (1989) Ideals and Realities. Selected Essays of Abdus Salam. 3rd ed. World Scientific Publishing Co. London, pp.343-344
ایمان بالغیب

(البقرۃ 4-3:2)
ترجمہ: ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
جیسا کہ مندرجہ بالا آیات میں مذکور ہے ’’ایمان بالغیب‘‘ اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے۔ لیکن جیسا کہ گزشتہ باب میں بڑی وضاحت سے بیان کیاجا چکا ہے قرآن کریم عقل و دلائل پر مبنی کتاب ہے جو انسانی فکر کو جبرواکراہ سے بدلنے کی ہر کوشش کی مذمت کرتی ہے۔ لہٰذا مندرجہبالا آیت کی کوئی بھی ایسی تشریح اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو گی جس کا مفہوم یہ ہو کہ ’ایمان بالغیب‘ کی تعلیم کے ذریعہ قرآن کریم اندھے اعتقاد کو فروغ دیتا ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ قرآن کریم تو بلا جواز اور بلا ثبوت اندھی تقلید کو کافروں کا خاصہ قرار دیتا ہے اور مومنوں کے خیالات کو بدلنے کیلئے کافروں کی طرف سے جبر کے استعمال کی مذمت کرتا ہے۔ ’’ایمان بالغیب‘‘ کی اصطلاح سے آخرکیا مراد ہے؟ اس سوال کا پوری طرح جائزہ لینا ضروری ہے۔
’’ایمان بالغیب‘‘ کا اس پہلو سے بھی بغور مطالعہ ضروری ہے کہ یہ قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا حقیقی مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجہ میں سنگین نتائج مرتّب ہو سکتے ہیں جیسا کہ قرونِوسطیٰ کے مسلمان علماء کے درمیان مختلف متنازع مسائل پر بحثوں کے دوران ہو چکا ہے۔ بعض کٹّر علماء عقیدہ کے معاملہ میں عقل کے استعمال کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک الہامی سچائی اپنی ذات میں کافی ہے اور اسے بلا تحقیق قبول کر لینا چاہئے۔ اس نظریہ سے اختلاف رکھنے والے قرآن کریم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں تاکید کی گئی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ہر مرحلہ پر عقل کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہئے اور اندھے اعتقاد پر عقل کو ترجیح دینی چاہئے۔
لیکن آخر ایمان ہے کیا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص پوری تسلی کئے بغیر ہی کسی بات پر ایمان لے آئے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مذاہب کے بہت سے پیروکار اپنے عقائد کو صحیح طور پر سمجھے بغیر ہی ایمان لے آتے ہیں۔ وہ فقط اعتقاد رکھتے ہیں اور بس۔
یہ وہ اشکال ہے جو ایمان اور عقل کے تقابلی جائزہ اور ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کے تعین کا متقاضی ہے۔ اسی کتاب میں ’’یورپی فلسفہ‘‘ کے باب میںچونکہ اس موضوع پر سیر حاصل بحث موجود ہے لہٰذا ہم کوشش کریں گے کہ کسی غیر ضروری تکرار سے اجتناب کریں۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ لفظ ’’غیب‘‘ کا وسیع تر مفہوم معلوم کیا جائے۔
اوّلاً واضح رہے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کچھ اشیاء پردہ ٔ غیب میں موجود ہوں اور بعد میں کسی وقت انسانی تحقیق یا الہام الٰہی کے سبب سے عالم غیب سے عالم شہود میں آجائیں۔
’’غیب‘‘ کا لفظ اپنے وسیع تر معنوں میں ان تمام اشیاء کیلئے استعمال ہوتا ہے جو بصارت یا سماعت کی رسائی سے باہر ہیں۔ اسی طرح اس میں وہ سب اشیاء بھی شامل ہیں جو حواس خمسہ کی حدود سے باہر ہوں۔ اس پہلو سے ہم ’’غیب‘‘ سے مراد وہ عالم بھی لے سکتے ہیں جو انسان کے حواس خمسہ کی رسائی سے باہر ہیں۔ اس زمرہ سے تعلق رکھنے والی چیزیں ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی حواس خمسہ کی رسائی سے باہر ہوں بلکہ ان کا انسانی پہنچ سے باہر رہنا ایک محدود مدت کیلئے ہوتا ہے۔
محسوس اشیاء کی تمام مخفی خصوصیات خواہ وہ ماضی سے متعلق ہوں یا حال یا مستقبل سے، علمِغیب ہی کے زمرہ میں آتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہم سے ان باتوں پر ایمان رکھنے کا تقاضا کیا جاتاہے جن کا اگر چہ ایک معینہ مدت تک علم تو حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن وجود ضرور رکھتی ہیں اور کسی اور وقت پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ ایسے ایمان کو اندھا اعتقاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن کریم مومنوں سے ہرگز کسی ایسی بات پر ایمان لانے کا تقاضا نہیں کرتا جو قطعی دلائل پر مبنی نہ ہو۔ پس ’’غیب‘‘ کے لفظ کا اطلاق انہی اشیاء پر ہوتا ہے جن تک عقل و دانش، دلائل اور استخراجی منطق کے توسط سے رسائی ممکن ہو۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس تعریف کی رو سے اگرچہ ’’غیب‘‘ حواسخمسہ کی براہ راست پہنچ سے باہر ہے تا ہم اس کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے۔ اس مدلل قرآنی موقف کی انسانی تجربہ بھی پورے طور پر تائید کرتا ہے۔
کائنات کی بہت سی مادی صورتوں کا براہ راست معائنہ ممکن نہیں۔ ان کے وجود اور مادی خواص کا علم منطقی استدلال سے ممکن ہے یا پھر ایسے جدید ترین حساس برقی آلات کے ذریعہ سے جو انہیں بالواسطہ انسانی حواس کے دائرہ میں لاسکتے ہیں۔ آخر نیوٹرینوز (Neutrinos) اور اینٹی نیوٹرینوز (Anti-Neutrinos)کیا ہیں؟ مادہ (matter) اور ضدّ مادہ (Antimatter) میں فرق کیا ہے؟ باسنز (Bosons) اور اینٹی باسنز (Anti-Bosons) کسے کہتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کسی بھی قسم کے براہ راست مشاہدہ سے ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہ ان دیکھی دنیا ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زندگی کی اصل حقیقت ذہن ہے جو دماغ کے کمپیوٹر کے ذریعہ حواس خمسہ سے موصول شدہ تمام پیغامات کی تشریح کرتا ہے۔ ذہن سے مراد دماغ نہیں بلکہ یہ دماغ سے بالا اور وسیع تر حقیقت ہے جو عمل پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ذہن شعور کابنیای مرکز ہے۔ اس میں منطقی استخراج کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے۔ حقائق اور شواہد کی عدم موجودگی میں ذہن محض مفروضہ کی بنا پر بھی کام کر سکتا ہے۔ اسی طرح ذہن دماغ میں محفوظ معلومات پر غور و فکر کے ذریعہ بھی اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے۔ فیصلے ذہن کی سطح پر ہی ہوتے ہیں جبکہ دماغ محض معلومات محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ مزیدبرآں ذہن ’’لا انتہا‘‘ اور ’’ابدیّت‘‘جیسے غیر مادی تصورات پر غور کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ نیز علت و معلول کے بظاہر ناقابل حل معمہ کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ کسی بھی چیز کا آغاز کیسے ہوا۔ آغاز سے پہلے کیا تھا۔ کیا تمام اسباب کا محرک کوئی پہلا سبب تھا؟ اگر تھا تو کیا وہ زندہ اور ذی شعور تھا یا مردہ اور بیشعور؟ اس قسم کے سوالات کا منطقی جواب جو ذہن میں آسکتا ہے یہی ہے کہ وہ سبب ہرگز مردہ اور بے شعور نہیں ہو سکتا۔
پھر یہ سوال کہ آیا موت زندگی کو تخلیق کر سکتی ہے اور بے شعوری سے شعور جنم لے سکتا ہے؟ یہ ایسے مضامین ہیں جن کا کھوج دماغ نہیں صرف ذہن لگا سکتا ہے۔ لہٰذا بعض اوقات تو ذہن مفروضوں کے ذریعہ غیب کے وجود کو تسلیم کر لیتا ہے اور بعض اوقات دستیاب معلومات کی جانچ پڑتال کے ذریعہ منطقی نتائج اخذ کر تا ہے۔ ذہن ہمارے ارد گرد موجود شعاعوں اور لہروں کا تصور تو کر سکتا ہے لیکن انسان ان شعاعوں کو حواس خمسہ یعنی بصارت یا سماعت یا ذائقہ یا شامّہ یا لامسہ سے براہ راست محسوس نہیں کر سکتا۔ البتہ انہیں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ سن اور دیکھ سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ لہروں کو قابل سماعت اور قابل بصارت بنا دیا جائے۔ ان لہروں کو بالآخر آوازوں اور جیتی جاگتی تصویروں میں ڈھالنے کی طاقت بھی ذہن ہی کو حاصل ہے۔ ذہن میں ابھرنے والے نقوش فقط ٹیلیویژن کی سکرین تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ اس سے کہیں وسیع تر ہوا کرتے ہیں۔ ایک ظاہری نظارہ کو بامعنی بنانے کیلئے انسانی ذہن اپنی طرف سے اس میں کئی اَن دیکھے مطالب شامل کر لیتا ہے۔
مذکورہ بالا ذرائع کے علاوہ وحی بھی ’’غیب‘‘ کے پوشیدہ حقائق تک رسائی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس طرح انسانی ذہن جو تمام تاثرات کی آخری قیام گاہ ہے نظام محسوسات اور وحی دونوں ہی کے ذریعہ اثرات قبول کر تا ہے۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ یا مل جل کر کام کرتے ہیں۔ مثلاً حواس کے ذریعہ محسوس ہونے والی اشیاء کا عرفان وحی کی مدد سے بہتر طور پر ہو سکتا ہے کیونکہ وحی انسانی قویٰ کو جلا بخشتی ہے اور ذہن کو اس قابل بناتی ہے کہ اعضائے حس کے ذریعہ موصول ہونے والے پیغامات کی زیادہ صحیح اور واضح تاویل کر سکے۔ اسی طرح دوسری طرف ملہم اپنے حواس اور یادداشت کی مدد سے وحی کے پیغام کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ گو وحی کے بغیر بھی انسان کیلئے اپنی حدود سے باہر جانا ناممکن نہیں لیکن ذہن کی بھی اپنی حدود ہیں۔ خدا کا علم زمان و مکان کی حدود سے بالا ہے لیکن انسان کا نہیں۔ لہٰذا وہ تمام علوم جو انسانی استعدادوں کی رسائی سے باہر ہیں خدا کے اذن سے وحی کے ذریعہ حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:

(الجن28-27:72)
ترجمہ: پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔
واضح رہے کہ مؤخر الذکر آیت اس امکان کو رد نہیں کرتی کہ کوئی غیر نبی بھی رویائے صادقہ، کشوف یا الہامات کے ذریعہ ’’غیب‘‘ کا علم حاصل کر سکے۔ البتہ اس امکان کا رد ضرور کیا گیا ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ کوئی اورشخص اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب کے کسی بھی شعبہ پر عبور حاصل کر لے۔ یہاں جس اصول پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کے علاوہ جن لوگوں کو یہ علم عطا کیا جاتا ہے خواہ بذریعہ الہام ہی کیوں نہ ہو صراحت، قطعیت اور کمال کے اعتبار سے بہرحال اس علم کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو انبیاء کو دیا جاتا ہے۔
یہ علمِ لدنیّ جو دراصل انبیاء کو عطا ہوتا ہے عموماً عالم روحانی اور عالم عقبیٰ سے متعلق ہوتا ہے۔ ہر چند کہ وحی ٔالٰہی دنیوی علوم کے متعدد شعبوں کا بھی احاطہ کرتی ہے لیکن محض اس غرض سے کہ اس کے ذریعہ خدائے علیم کے وجود اور انبیاء کی صداقت پر مومنوں کا ایمان مضبوط ہو۔ دنیوی علوم کی تحقیق میں انسان کو بالعموم یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ وحی کی مدد کے بغیر ہی ’’غیب‘‘ کا علم حاصل کر لے۔ تا ہم قرآن کریم اس تصور کو رد فرماتا ہے کہ انسان خدا کے اذن اور تائید کے بغیر اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ کر سکے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(البقرۃ256 :2 )
ترجمہ: اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔
پیغام واضح ہے کہ انسان کی ’’غیب‘‘ تک رسائی اسی حد تک ممکن ہے جس حد تک خدا اجازت دے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ وہ علمی تحقیق اور تفتیش جسے عرف عام میں سیکولر یا دنیوی قرار دیا جاتا ہے وہ سیکولر نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر نئے دور میں علم کا نیا باب الٰہی منصوبہ اور ارادہ کے ماتحت ہی کھلتا ہے۔ اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے:

(الحجر 22:15)
ترجمہ: اور کوئی چیز نہیںمگر ہمارے پاس اُس کے خزانے ہیں اور ہم اُسے نازل نہیں کرتے مگر ایک معلوم اندازے کے مطابق۔
اس آیت کے ذریعہ جو نہایت حسین پیغام ارشاد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ غیب کی کوئی حدّونہایت نہیں۔ بایں ہمہ انسان کو ہمیشہ ہی اس تک رسائی کی اجازت بھی دی جاتی ہے لیکن یہ رسائی اس معین حد تک عطا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں زمانہ کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ہو۔ یوں ’’غیب‘‘ کی قرآنی اصطلاح کسی صورت میں بھی اندھے اعتقاد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس مسلسل تحقیق کو فروغ دیتی ہے اور انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ جو کچھ بھی اسے معلوم ہے وہ دراصل غیر معلوم کا نہایت ہی قلیل حصہ ہے۔ اور چونکہ اسرارِ فطرت کا سمندر بے کنار ہے لہٰذا تلا ش علم کا سفر بھی مسلسل جاری رہنا چاہئے۔
معقول فیصلہ کرنے کیلئے انسانی عقل کو دو ہی قسم کے ذرائع یا وسائل میسر ہیں۔ اوّل subjectiveیعنی موضوعی یا ذہنی تصورات، دومobjective یعنی معروضی حقائق۔ لہٰذا اگر فیصلہ کرنے والے کی دیانت شک و شبہ سے بالا بھی ہو تب بھی بعض دیگر عوامل کی موجودگی میں جو اس کے اختیار میں نہیں اس سے غلط فیصلے بھی صادر ہو سکتے ہیں۔ غلط معلومات، غلط فہمی، دھوکہ دہی یا اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے فیصلوں پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ علاوہ ازیں عام طور پر پائے جانے والے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باعث بھی مشاہدات مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان تمام اندیشوں کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر زمانہ میں عقل نے انسان کی رہنمائی ہمیشہ تاریکی کے ادوار سے نسبتاً روشنی کے ادوار کی طرف ہی کی ہے۔
کیا قرآن کریم کے اس دعویٰ کو یقینی طور پر سچا ثابت کیا جا سکتا ہے کہ خداجس پر چاہے غیب کے بعض پہلو ظاہر فرما دے؟ کیا ایک منکر کو یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ ’’ایمان بالغیب‘‘ محض ایک فریب اور خوش فہمی نہیں بلکہ اس کی بنیاد ایک حقیقت پر قائم ہے اور اسے معقولی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب مسلّمہ حقائق اور سائنسی شواہد کے ذریعہ پیش کرنا ضروری ہوں گے۔ دراصل اس کتاب کے لکھنے کی اصل غرض بھی یہی ہے۔ چنانچہ آئندہ ابواب میں قاری کو بکثرت اس بات کے ثبوت ملیں گے کہ الہام الٰہی واقعۃً انتقال علم کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔
سورۃ الحجر کی آیت 22کے مضمون کے مطابق انسانی علم کا افق مسلسل وسعت پذیر ہے اور اس علم میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ علم کی ایک نہ بجھنے والی پیاس بھڑک اٹھتی ہے۔ اس میں بیک وقت امیداور افتخار کا ایک پیغام بھی ہے اور کم مائیگی اور عجز کا درس بھی۔
کم مائیگی ان معنوں میں کہ انسان کا یہ احساس مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے کہ اس کا علم اس کی لاعلمی کی نسبت کس قدر قلیل ہے۔ جیسے ایک لا محدود افق پر ایک نقطہ بلکہ اس سے بھی کم۔ ممکن ہے کہ ہمارا آج کا علم ایک ہزار سال قبل کے مقابلہ میں کروڑوں گنا زیادہ ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آج سے ایک ہزار سال بعد کے انسان کا علم موجودہ علم سے اربوں گنا زیادہ ہو۔ اس کے باوجود وہ علم خدا کے لا محدود علم کی نسبت بے حقیقت ہی ہو گا۔
جوں جوں دریافت کے اس سفر کی رفتار بڑھتی ہے یہ احساس بھی بڑھتا چلا جاتا ہے کہ ہمارے حواس خمسہ کی پہنچ تو انتہائی محدود ہے۔ حیات او رصوت و صدا کی ایک وسیع کائنات ہمارے محسوسات کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر اسے محسوس کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا تو ہم بہت سے نئے رنگ دیکھتے اور نئی آوازیں سننے کے قابل ہو سکتے۔ اسی طرح جو رنگ اور روپ ہمیں دکھائی دیتے ہیں وہی رنگ بعض دوسرے جانوروں کو مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ مادی دنیا کے مناظر، رنگوں کا احساس، خوشبو، بدبو اور ذائقہ یہ سب مختلف جانوروں کو مختلف طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ گویا ہر محسوس حقیقت ایک نسبتی حقیقت بن جاتی ہے۔ لیکن اس تنوّع کے باوجود حیوانات کی وسیع دنیا کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کے برعکس احساسات میں تنوع سے زندگی ارتقاپذیر رہتی ہے۔ مثلاً گدھ یا شہد کی مکھی یا Squidمچھلی کی بصارت ان سب کی مخصوص ضروریات کے عین مطابق ہے۔ انسان کے مقابلہ میں Squidمچھلی یا کیڑے مکوڑے اپنے ماحول کی اشیاء کو مختلف شکلوں میں ہی دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ یہ اشیاء ا ن کو اپنی اصل حالت سے بڑی یا چھوٹی دکھائی دیں۔ لہٰذا ہر جانور کی بصری صلاحیت مختلف ہے۔ لیکن انسانی آنکھ کی محدود صلاحیتیں اب محدود نہیں رہیں بلکہ جدید الیکٹرانک آلات کی مدد سے انسان کی دیکھنے کی صلاحیت انتہائی حیرت انگیز حد تک ترقی کر چکی ہے۔
جب گیلیلیو (1600ئ) نے اپنی ابتدائی دور بین سے کائنات کا مشاہدہ کیا تو وہ اپنی ایجاد پر بہت خوش ہوا اور بڑے فخر سے یہ اعلان کیا کہ اس نے انسان کے مشاہدہ کی طاقت کو سو گنا بڑھا دیا ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ مستقبل قریب میں انسان کو اس کے مقابلہ میں کروڑوں گنا وسیع کائنات کا مشاہدہ کرنا تھا۔ و ہ اپنی دریافتوں اور ایجادات کو صرف ماضی کے حوالہ سے دیکھ رہا تھا۔ بیشک انسان کا اپنی کامیابیوں پر فخر کتنا عارضی ہوتا ہے!
اس بات کا ثبوت گیلیلیو کی زندگی کے آخری ایام سے ملتا ہے جب وہ بینائی کی نعمت سے محروم ہو چکا تھا۔ وہ اپنے غم و اندوہ کا اظہار ایک عزیز دوست کے نام خط میں یوں کرتا ہے کہ کائنات کے افق کو اپنے زعم میں سو گنا وسیع کر کے دکھانے والا، دور بین کا موجد خود اپنی ذات میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اس محرومی کا اس کے دل پر بہت بوجھ تھا جس کی وجہ سے اس کی زندگی ناقابل برداشت حد تک تلخ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کی بے بسی کا یہ تلخ اظہار ہمیں ’’غیب‘‘ کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اگر گیلیلیو نابینا ہونے سے قبل ہی پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہوتا تو وہ تصور ہی نہ کر سکتا کہ زمین کے علاوہ بھی کائنات کا وجود ہے اور نہ ہی وہ روشنی اور تاریکی میں فرق کر سکتا۔ اسے زیادہ سے زیادہ شنید کے مطابق روشنی کے وجود کا کچھ علم ہوتا بھی تو صرف مبہم سا۔ ا گر چہ وہ رنگوں اور روشنی کے وجود کی براہ راست اور ذاتی طور پر تصدیق تو نہ کر سکتا لیکن محض ایک سنی سنائی بات قرار دے کر اسے رد بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ مثال صرف ایک مخصوص تناظر میں اطلاق پاتی ہے۔ یہاں ہم ایک ایسے نابینا کی مشکل کا تصور کر رہے ہیں جوبیناؤں کے درمیان گھرا ہوا ہے جن کی وجہ سے اسے کچھ نہ کچھ سہولت تو حاصل ہے جس پر وہ اپنے یقین کی عمارت استوار کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک ایسے معاشرہ کا تصور کریں جس کے تمام افراد ہی اندھے ہوں۔ کیا انہیں کبھی روشنی اور قوتِ بصارت پر یقین ہو سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ اندھوں کو آنکھوں والوں کی ضرورت ہے جن کی مدد سے وہ ان اشیاء کے وجود کا ادراک کر سکیں جو ان کے اپنے حیطۂ ادراک سے باہر ہیں۔ اس مقام پر خوب ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حصول علم کے جسمانی ذرائع پر وحی کو کس قدر فوقیت حاصل ہے۔
انسان خواہ کتنا ہی دانا کیوں نہ ہو اپنے حواس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ البتہ بعض اور حواس کی موجودگی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کو ان حقائق سے آگاہ کر سکتا ہے جو اس کی طاقت سے ماوراء ہوں۔
آخرت کی جو تصویر کشی قرآن کریم نے کی ہے اس کا تعلق ہوبہو ’’غیب‘‘ کی ان وسعتوں سے ہے جن کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیا گیا ہے۔ اس صورت حال کے ضمن میں انسان کی بیبسی کے حوالہ سے قرآن کریم نے ایک نہایت خوبصورت محاورہ متعارف کرایا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم اس بے بسی کا ذکر یوں کرتا ہے۔ ’’اے انسان ! تجھے کیونکر سمجھایا جائے کہ آخرت کیا ہے۔‘‘
اس کی چند مزید مثالیں درج ذیل ہیں۔

(الانفطار82:19-18)
ترجمہ: اور تجھے کیا بتائے کہ جزا سزا کا دن کیا ہے۔ پھر تجھے کیا بتائے کہ جزا سزا کا دن کیا ہے۔

(الحاقہ69:4-2)
ترجمہ : لازماً واقع ہونے والی۔ لازماً واقع ہونے والی کیا ہے؟ اور تجھے کیا سمجھائے کہ لازماً واقع ہونے والی کیا ہے؟

(المدثر28-27:74)
ترجمہ: میں یقینا اسے سَقَر میں ڈالوں گا۔ اور تجھے کیا سمجھائے کہ سَقَر کیا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ یہ دشواری خداتعالیٰ کو نہیں، انسان کو لاحق ہے جس کے حواس کی رسائی بہت محدود ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی انسان پانچ میں سے دو حواس سے محروم ہو تو وہ کسی بھی شے کی صفات کو محسوس نہیں کر سکے گا۔ مثلاً بہرا آواز کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتا اور نابینا بینائی کے تصور سے قاصر ہے۔ لیکن سن سکنے اور دیکھ سکنے والے ان لوگوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں ایک حد تک کچھ نہ کچھ سمجھانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں جو ان صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ اسی طرح جب قرآن کریم انسان کو آخرت کے بارہ میں متنبہ کرتا ہے کہ اس کی حقیقت انسانی فہم سے بالا ہے تو انسان کی قلتِ فہم کی نشاندہی مقصود ہے نہ کہ خدائی بیان کی کمزوری۔ اس میں یہ اشارہ مضمر ہے کہ آخرت میں ہمارے حواس میں بعض نئے حواس کا اضافہ بھی ہو گا۔ آخرت کے بارہ میں ہمارا موجودہ علم زیادہ سے زیادہ ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی نابینا کا روشنی کے بارہ میں۔ پس اے انسان! تجھے کیسے سمجھایا جائے کہ آخرت کیا ہے؟
ہمارے حواس میں اضافہ کی صورت میں دنیوی زندگی کے تجربات کے حوالہ سے ہماری سوچ یکسر بدل جائے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم محبت کی کیفیت کو جانتے ہیں نیز یہ کہ ہم رنج کی حقیقت سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ لیکن انسان یہ سوچ کر کانپ اٹھتا ہے کہ جب آخرت میں محبت کی ماہیت اور رنج کی اصلیت اس پر کھلے گی تو وہ کیسی ہو گی؟ چنانچہ قرآن کریم جنت کی واضح تصویر کشی کے باوجود ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے کبھی ویسا سنا۔ اسی طرح جہنم کے بارہ میں واضح بیان کے باوجود قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ ’’اے انسان! تجھے کیسے سمجھایا جائے کہ جہنم کی آگ کیا ہے؟‘‘ انسان جس قدر ’’غیب‘‘کے مضمون پر غور کرتا ہے اسی قدر نئے امکانات ابھرنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مخفی حقائق کے انکشاف کیلئے انسان ہمیشہ وحی کا محتاج رہے گا۔ ہمارے حواس کا محدود ہونا ہماری جستجو کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ حواس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی جو کچھ ہم محسوس کر سکتے ہیںاس سے کہیں زیادہ ہم سے مخفی ہے۔ ’’ایمان بالغیب‘‘ سے جو بھی مراد لیں اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ سرے سے کچھ موجود ہی نہیں۔ یہ کہنا کہ کچھ بھی موجود نہیں گویا ’’ایمان بالغیب‘‘ کی نفی ہے۔
تحقیق کے لا متناہی سفر میں یہ آیت مومنین کیلئے ایک رہنما بن جاتی ہے۔ ان کیلئے نہ تو کوئی خلا ہے نہ عدم۔ فقط پردے ہیں جو علم کے خزائن پر سے اٹھنے کو تیار ہیں۔ ہم اپنے علم پر کتنے ہی نازاں کیوںنہ ہوں علمِ کُل سے اسے اتنی نسبت بھی نہیں جتنی رائی کو پہاڑ سے ہے۔ زمین پر موجود پہاڑی سلسلے تو لا محدود نہیں۔ لیکن علم کے جن پہاڑی سلسلوں کا ذکر یہا ں چل رہا ہے وہ ازلی ابدی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن کی نہ تو ابتدا ہے نہ ہی انتہا۔
اس اعلان سے کسی تحقیق کرنے والے کی حوصلہ شکنی مقصود نہیں۔ ہاں اس میں یہ پیغام ضرور مضمر ہے کہ انسان جو علم بظاہر اپنی کاوش سے حاصل کرتا ہے دراصل اس کے پس پردہ خداتعالیٰ کا اذن اور فضل کارفرما ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے اذن اور مرضی کے بغیر کوئی بھی انسانی جستجو اور کوشش بار آور نہیں ہو سکتی۔ حصولِ علم کی انسانی کوشش مناسب حد تک اور مناسب وقت پر اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب یہ کوشش تخلیق کے الٰہی منصوبہ کے حسبِ حال ہو۔ اگرچہ مادی تحقیق کے میدان میں ترقی کیلئے وحی کی براہ راست ضرورت نہیں ہوتی تا ہم اللہ تعالیٰ کے اذن اور منظوری کی مہر اس پر ثبت ضرور ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ حواس خمسہ کی جو استعدادیں انسان کو عطا ہوئی ہیں اور انہیں اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی جو توفیق اسے حاصل ہے، وہ دراصل خدا کے فضل ہی سے ہے تا کہ وہ علم حاصل کرنے کے قابل ہو سکے۔
خالقِ کُل نے ہی کائنات کے ظاہری اور مخفی خواص کو انسان کیلئے مسخر کیا ہے اور خداتعالیٰ کو انسان کی تخلیق سے بھی پہلے اس کی آئندہ روحانی، مادی، علمی، اقتصادی اور تمدنی ترقی کیلئے درکار ضروریات کا علم تھا:

(الجاثیہ14:45)
ترجمہ: اور جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہے اس میں سے سب اس نے تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے یقینا کھلے کھلے نشانات ہیں۔
بے حد و نہایت تحقیق کی اتنی حیرت انگیز حوصلہ افزائی کا اس سے بہتر اظہار تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔ اس میں یہی پیغام مضمر ہے کہ جو کچھ انسان دریافت کرے گا وہ اسی کی خدمت کیلئے ہو گا۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ مندرجہ ذیل آیت صرف نظر آنے والے زمین ا ور آسمان کی بات ہی نہیں کرتی بلکہ اس چیز کا ذکر بھی کرتی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان موجود خلا کو پُر کرنے والی ہے اور اسے بھی انسان کیلئے مفیدقرار دیتی ہے۔ قرآن کریم نے یہ حیرت انگیز انکشاف چودہ سو سال قبل ہی کر دیا تھا۔ اس میں واضح پیغام یہ ہے کہ ستاروں کے درمیان بظاہر نظر آنے والا خلا فی الحقیقت خلا نہیں بلکہ مادہ کی ایک ایسی قسم سے پُر ہے جس کا انسان کو علم نہیں:

(الحجر86:15)
ترجمہ : اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔
زمین اور آسمان کے درمیان کیا چیز موجود ہے اور وہ کس طرح انسان کے کام آ سکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا۔ یہاں قرآن کریم ایسی وسعتوں کا ذکر کر رہا ہے جو انسانی تصور کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ممکن ہے یہاں تاریک مادہ کی طرف اشارہ ہو یا کوئی ایسی شے مراد ہو جس کا فی الحال ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔ قرآن کریم کا یہ حیرت انگیز انکشاف اس طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ ایک دن انسان اس آیت میں مذکور مخفی حقائق سے بھی فائدہ اٹھا سکے گا۔
کرۂ ارض کا محیط فقط پچیس ہزار میل ہے۔ لیکن قرآن کریم جس کائنات کا ذکر کر رہا ہے اس کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ 18سے 20ارب نوری سال ہے اور اس میں حیرت انگیز رفتار کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک خلانورد آج سے کائنات کے ایک سرے سے اپنے سفر کا آغاز روشنی کی رفتار یعنی186,000میل فی سیکنڈ سے کرے تو وہ آج سے اندازاً 18سے 20ارب سال کے بعد کائنات کے دوسرے سرے تک اس صورت میں پہنچ سکے گا کہ کائنات جوں کی توں رہے، جو واقعۃً نہیں ہے۔ اس موقع پر قرآن کریم کے اس اعلان پر غور کرنا چاہئے کہ کائنات کی اس عظیم وسعت میں ذرہ برابر بھی خلا نہیں۔ ایک انچ تو کیا، ایک ملی میٹر یا نینو میٹر کے برابر بھی خلا نہیں۔
زیر نظر آیت کا ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے کہ خدائے علیم بغیر کسی تحقیقی وسیلہ کے امورِغیب ظاہر فرما سکتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے ذریعہ دریافت ہونے والے فطرت کے رازوں کا مقدس کتابوں میں ذکر اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ کائنات کا ایک علیم اور بزرگ و برتر خالق موجود ہے۔ اور وہی ہے جسے حاضر اور غائب دونوں دنیاؤں کا کامل علم حاصل ہے۔ (عالم الغیب والشھادۃ)۔
وحی کی مدد سے حاصل ہونے والا علم تحقیق کے ذریعہ حاصل شدہ علم سے بہت مختلف ہو تا ہے۔ آسمانی صحائف سائنس کی نصابی کتب نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان میں کسی سائنسی مضمون کا بیان اتفاقاً نہیں ہوتا۔ ان کا اصل مقصد ایک مشترک منبع کی طرف رہنمائی کر کے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مادی اور روحانی کائنات ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں۔ یاد رہے کہ بانی ٔ اسلامﷺ جن پر قرآن کریم نازل ہوا خود اُمّی تھے اور اُمّی معاشرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپﷺ کی پیدائش اور پرورش ایک ایسے خطہ میں ہوئی جس کی مشرقی سرحد پر کسریٰ اور مغربی سرحد پر روم کی سلطنت واقع تھی۔
صحرائے عرب جس میں ہر طرف تاریکی اور جہالت کا دور دورہ تھا ان دو عظیم سلطنتوںکے درمیان واقع تھا۔ کیا یہ امر غیر معمولی نہیں کہ چھٹی صدی عیسوی میں اس خطہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہو جو کائنات کی ان وسعتوں اور رازوں کا اتنی وضاحت سے ذکر کرے جن کی اہمیت اور معانی اب کہیں جا کر کھلنے لگے ہیں۔ یہ کس قد ر ناقابل یقین بات ہے کہ کوئی شخص ان امور کا ذکر کرے جو اس وقت کے دنیا بھر کے بڑے سے بڑے اہل علم کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں یہاں تک کہ بیسویں صدی کی سائنسی تحقیق بالآخر اسی امّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا ٹھہرائے۔ آپﷺ کا یہ دعویٰ کتنا سچا ہے کہ آپﷺ کو جو علم بھی حاصل ہوا وہ آپﷺ کی اپنی کوشش سے نہیں بلکہ ایک اعلیٰ، علیم، ازلی ابدی اور حکمتِ کاملہ کے سرچشمہ سے حاصل ہوا۔
اسی سے متاثر ہو کر مشہور فرانسیسی مصنف ڈاکٹر موریس بوکالے (Dr. Maurice Bucaille) اپنی کتاب The Bible, the Quran and Science1 میں تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اس نے بائیبل اور قرآن سے علمی مواد اکٹھا کر کے غیرجانبداری کے ساتھ سائنسی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا۔ اسے یہ توقع نہ تھی کہ تحقیق کے ہر مرحلہ پر قرآن کریم کا ہر بیان ہی سچا ثابت ہوگا۔ اس کی پہلی تحقیقی رپورٹ 1976ء میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی لیکن قرآن کریم کا کوئی ایک بیان بھی اسے بیسویں صدی کی سائنسی معلومات سے متناقض دکھائی نہ دیا۔
اس جگہ ٹورانٹو یونیورسٹی کے شعبۂ طِب کے سربراہ اور معروف کینیڈین ماہر علم الاعضاء کیتھ ایل مور (Keith L. Moore)کا ذکر بھی مناسب ہو گا جنہوں نے قرآن اور Embryology کے موضوع پر تفصیلی تحقیق کی ہے۔ 2,3 قرآن کریم کے ساتھ ساتھ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور اپنی اس تحقیق کے نتائج کی بنا پر وہ وحیء قرآن کی جرأت کے ساتھ کھل کر تصدیق کرتے ہیں۔
یہاں اس امر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ہم کس حد تک مقدس کتب اور سائنسی علوم کے موازنہ سے حاصل شدہ نتائج پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکری صلاحیتوں کو جلا ملتی رہتی ہے اور یوں اس کی آگہی کا افق وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ انسان کا ادراک مستقلاً بدلتا رہتا ہے۔ پھر کیونکر کسی بھی دور کے سائنسی نظریات پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً قوانین فطرت کے بارہ میںبھی جنہیں متفقہ طور پر آفاقی اور اٹل سمجھا جاتا ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر دور کے فلسفی اور سائنسدان انہیں ایسا ہی خیال کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں کیا آج کی سائنسی تحقیق قرآن کریم کے مقابل پر اپنی ساکھ نہیں کھو بیٹھتی؟ کیا کوئی شخص ان قوانین کی حتمیت پر مکمل انحصار کر سکتا ہے؟ کیا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ کل کی سائنسی تحقیق آج کے مسلّمہ سائنسی اصولوں کو محل نظر نہیں ٹھہرائے گی؟
اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ماضی کے سب کے سب تصورات یکسر تبدیل ہو جائیں۔ حقائق الاشیاء کے بارہ میں بیشمار نظریات ایسے ہیں جن سے متعلق انسانی سوچ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتے بدلتے بالآخر ایک مقام پر آکر ٹہر جاتی ہے۔ فطرت کے متعدد قوانین ایک بار کلیہ کے طور پر تسلیم کئے جانے کے بعد پھر کبھی اعتراض کا نشانہ نہیں بنے۔ معمولی ترامیم تو ہوتی رہیںلیکن عمومی طور پر ان کی تفہیم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یہاںتک کہ اب ان کی صحت ثابت کرنے کیلئے مزید کسی پیچیدہ فلسفیانہ یا سائنسی بحث وتمحیص کی ضرورت نہیں رہی۔ بے شک وقت کے ساتھ ساتھ پانی، آگ، ہوا اور مٹی کے بعض خواص بہتر طور پر سمجھ میں آتے رہے ہیں لیکن ان کے بنیادی خواص میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ آگ اب بھی پہلے کی طرح جلاتی اور پانی اب بھی اسے بجھاتا ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو ہر زمانہ میں مسلّم رہے ہیں۔ کوئی صاحب فراست کبھی یہ پیشگوئی نہیں کر سکتا کہ ایک دن پانی آگ کے شعلوں کو بھڑکانے کا سبب بنے گا لیکن الہامی پیشگوئیاں انسانی علم کے مقابل پر فیِالواقعہ بہت مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً ماضی میں سوائے نبی کے کوئی بھی یہ پیشگوئی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن آئے گا جب پانی میں آگ لگے گی۔ اس کو کہتے ہیں پیشگوئی۔ لیکن سوڈیم کے خواص دریافت ہونے کے بعد تو کسی کو اس پیشگوئی کو ردّ کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ سوڈیم کے ان خواص کی دریافت کے بعد اب یہ خواص بھی فطرت کے غیرمبدّل قوانین کے زمرہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب کوئی یہ شبہ نہیں کر سکتا کہ شاید آئندہ کسی وقت پانی کے اندر سوڈیم کو آگ نہ پکڑ سکے۔ اگر انسان اپنے ماحول کا بغور جائزہ لے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اس کے علم کا کتنا حصہ غیرمبدّل حقائق کے طور پر قبول کیا جا چکا ہے۔
یہی اصول انسانی حواس پر صادق آتا ہے۔ اگر حواس کا دائرہ وسیع ہو بھی جائے تب بھی شیریں اور تلخ، لذیذ اور بد مزہ، سرد اور گرم، شور اور خاموشی، سکون اور بے سکونی، اذیّت اور لذّت اور اسی طرح کے دیگر احساسات جو غیر مبدّل ہوا کرتے ہیں۔ ان میں ایک ٹھہراؤ ہے، استقرار ہے جسے یقین کی پہلی منزل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقین کی اگلی منزل سائنسی تحقیق سے متعلق ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی سائنسدانوں میں کئی ایسے امور پر کامل اتفاق ہے جنہیں وہ حقیقتِ ثابتہ قرار دیتے ہیں۔ مثلاً پانی کی کیمیائی ترکیب پر کوئی دو آراء نہیں۔ یہ کوئی نہیں کہے گا کہ مرورِزمانہ کے ساتھ پانی کا فارمولا H2O کی بجائے H3O5 ہو جائے گا۔
ظاہر ہے کہ اشیاء سے متعلق انسانی ادراک میں توسیع اور تبدیلی کے امکانات کی بھی حدود ہوا کرتی ہیں۔ مستحکم ہو جانے کے بعد دور افتادہ ذیلی امور میں معمولی ردّوبدل کی گنجائش کے باوصف سائنسی علوم کا ڈھانچہ مستقل ہو جاتا ہے۔ ایٹم کا ایٹم سے اور مالیکیول کا مالیکیول سے ملاپ اور یہ علم کہ ان کے باہمی اتصال میںکونسے کمزور اور کون سے مضبوط ہیں اور پھر اس علم کی بنا پر نئے کیمیائی مادے کیسے بنائے جا سکتے ہیں؟ یہ تمام امور اب بخوبی سمجھے جا چکے ہیں۔ نت نئی معلومات کی وجہ سے مادہ کے مسلّمہ خواص میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ سائنس کے مسلّمہ اور بنیادی اصولوں سے ٹکرائے بغیر تحقیق کے میدان میں انسانی علم ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر کسی آسمانی صحیفہ کے بیان کا ان مسلّمہ سائنسی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے جن کی صداقت عرصہ ٔ دراز سے مسلّم چلی آرہی ہو تو یقینا ایسے بیان کی سچائی ثابت ہو جائے گی۔
بعض امور محض اس لئے یقینی طور پر صحیح تسلیم نہیں کئے جاتے کہ مرورِ زمانہ نے انہیں سچا ثابت کر دیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان کو ہر جگہ اور ہر وقت عملاً سچّا ثابت کیا جا سکتا ہے۔ وہ تمام طبعی قوانین جنہیں تجربہ گاہوں میں ٹیسٹ کرنے کے بعد درست ثابت کیا جا سکے، اسی زمرہ میں داخل ہیں۔ جب ہم روحانی دعاوی کی صداقت کا سائنسی تحقیق کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں تو ہماری مراد دراصل اسی نوعیت کے مسلّمہ حقائق ہی ہوا کرتے ہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں قرآنی وحی ہمیشہ ہی سچی ثابت ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ سچائی ایک مرتبہ سچی ثابت ہو جائے تو اسے کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ عالمِ غیب سے عالم شہود کی طرف رہنمائی کرنے میںقرآن کریم کا کردار حیرت انگیز ہے جس کا تفصیلی ذکر آئندہ ابواب میں کیا جائے گا۔
فی الحال ہم اس عمومی بحث کی طرف لوٹتے ہیں جس کا تعلق انسان کی عملی وسعت اور ان مراحل سے ہے جن سے گزر کر کوئی بھی نیا خیال ایک مسلّمہ حقیقت کا روپ دھار لیتاہے۔ غیب سے ابھرنے والا کوئی بھی تصور ہمیشہ عقل کے پیمانہ اور تجربہ کے معیارپر جانچا جاتا ہے۔ لمبے عرصہ تک اس امتحان سے گزرنے کے بعد ہی اسے مسلّمہ سچائی کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
انسانی تجربہ کے ہر دائرہ میں بلااستثناء یہی آفاقی اصول کارفرما ہے۔ ہم یہاں ہیگل (Hegel)کی Theses اور Anti-thesesجیسی فلسفیانہ اصطلاحوں کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ روزمرہ کے عام فہم انسانی تجربات، تاثرات اور احساسات کا ذکرکر رہے ہیں۔ ارتقا کی طرح یہ بھی ایک مسلسل عمل ہے۔ حقائق کا یہ ذخیرہ انسانی علم کو بتدریج بڑھاتا اور مادہ کے بارہ میں اس کے فہم کو ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔ اسی طریق پر شبہات معقولیت کا رنگ اختیار کرتے ہیں، معقولیت امکان میں بدل جاتی ہے اور امکانات حقائق میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس طرح اگر انسانی علم کے حاصل کردہ نتائج وحی الٰہی کے مطابق ہو جائیں تو اس کی سچائی پر مزید شبہات کی گنجائش نہیں رہتی۔
’’غیب‘‘ کا تعلق ماضی، حال، مستقبل ہر زمانہ سے یکساں ہے۔ قرآن کریم ان اسرار کو بیان کرنے میں خود کو کسی ایک زمانہ تک محدود نہیں رکھتا۔ وہ کمال صراحت کے ساتھ تمام زمانوں پر اس طرح حاوی ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی تمیز باقی نہیںرہتی۔ کائنات کی پیدائش جیسے قدیم ترین واقعات انسانی تصور میں یوں ابھرتے ہیں گویا وہ حال کا قصہ ہوں۔ اسی طرح مستقبل بعید میں کائنات کا صفحۂ ہستی سے کسی نئے بلیک ہول (Black Hole) میں گم ہوجانا بھی قرآن کریم میں اس انداز سے مذکور ہے گویا نزولِ قرآن کے وقت یہ واقعہ ہو رہا ہو۔
اسی طرح نہایت صراحت کے ساتھ زندگی کی ابتداء اور انجام کا ذکر بھی ملتا ہے۔ قرآن کریم انسانی ترقی کی منزل بہ منزل تاریخ کو جس وضاحت سے بیان کرتا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم اس بصیر ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی نظر بیک وقت ازل اور ابد کی دونوں انتہاؤں پر ہے۔ اور یہی ہماری اس کتاب کا مقصد ہے۔
اس مضمون پر مزید غور کرنے سے قبل ہم قاری کی توجہ اِس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وحیٔ الٰہی کی صداقت کا مدار محض سیکولر اور موضوعی شہادت پر نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی تصدیق تو بعد میں ہونے والی سائنسی، معاشرتی اور سیاسی ترقی سے بھی ہوئی ہے۔ تمام الہامی حقائق میں سے سب سے بدیہی اور اعلیٰ قسم کو ’البیّنہ‘کہتے ہیں۔ اس موضوع کا جائزہ ہم اگلے باب میں لیں گے۔
حوالہ جات
1. BUCAILLE, M. (1979) The Bible, The Qur'an and Science. BB Books & Books, Lahore.
2. MOORE, K. L., PERSAUD T.V.N. (1993) The Developing Human: Clinically Oriented Embryology. 5th ed., W.B. Saunders Company, Philadelphia.
3. MOORE, K.L. (1986) A Scientists Interpretation of References to Embryology in the Holy Quran. Journal Islamic Medical Association of the United States and Canada. 19:15-16
البیّنہ: ایک بیّن اصول
القیّمہ : دائمی تعلیم
البیّنۃ ایک قرآنی اصطلاح ہے جو ایسی بیّن سچائی پردلالت کرتی ہے جس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کردے گویا سورج طلوع ہو گیا ہو اور رات کے اندھیرے چھٹ گئے ہوں۔ تمام انبیاء کو جن کے ساتھ روشنی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے البیّنۃ عطا کی جاتی ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلام کے آغاز ہی سے نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے آغاز سے ہے۔ ہر پیغمبر جو معاشرہ میں انقلاب برپا کر دیا کرتا ہے البیّنۃ کا مجسم ظہور ہوتا ہے اور اس کا پیش رو بھی۔
(البیّنہ 4:98)
ترجمہ: ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔
القیّمۃ: یہ ایک اور اصطلاح ہے جس سے مراد کسی نبی کی وہ تعلیمات ہیں جو تمام مذاہب میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں ایک ایسی سرمدی کیفیت ہے جو ہر تبدیلی سے منّزہ ہے۔ سورۃ البیّنۃ کے مطابق تمام نبی بنیادی طور پر ایک ہی پیغام لے کر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے اوّلین مرسل حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء مقام نبوت کے لحاظ سے برابر ہیں۔ القیّمۃ تمام مذاہب کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے والے دھاگے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس اعلان کے مطابق خداتعالیٰ کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری صاحب شریعت نبی حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ، ہر دو کی بنیادی تعلیمات ایک ہی ہونی چاہئیں۔ اس مشابہت کے باوجود ابتدائی مذاہب اور بعد کے ترقی یافتہ مذاہب کے مابین نمایاں فرق بھی ہو سکتا ہے۔ بنیادی طور پر قریب تر ہونے کے باوجود تفاصیل میں نمایاں فرق ارتقائی عمل کی ایک پیچیدہ خصوصیت ہے۔ مثلاً ممالیہ کی اصطلاح گرم خون والے تمام جانوروں کیلئے جو ریڑھ کی ہڈی جیسے اعضاء رکھتے ہوں، استعمال ہوتی ہے۔ بھیڑیں انسانوں سے اور بلیاں بندروں سے بہت مختلف ہونے کے باوجود ممالیہ جانوروں کے ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ پس اسی طرح سے جوں جوں مذاہب ارتقا کی منازل طے کرتے جاتے ہیں وہ نئے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ مگر بنیادی طور پر ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ القیّمۃ انہیں آپس میں باندھے رکھتی ہے۔
جیسا کہ بیان ہو چکا ہے البیّنۃ سے مراد محض نبی کی لائی ہوئی صداقت ہی نہیں بلکہ اس کا ذاتی کردار بھی ہے۔ نبی کی صداقت اتنی ظاہروباہر ہوتی ہے کہ جس معاشرہ میں وہ پلا بڑھا ہو وہ متفقہ طور پر اس کی سچائی کی گواہی دیتا ہے۔ لیکن البیّنۃ یہیں تک محدود نہیں بلکہ جب نبی کی صداقت کی آسمانی نشانات مزید تائید کر دیتے ہیں تو معاشرہ کے پاس انکار کا کوئی جائز عذر باقی نہیں رہتا۔ یہ امر کسی مرسل کے منجانب اللہ ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہوتا ہے۔ لیکن ستمظریفی یہ ہے کہ یہی ثبوت بالآخر الٹا شدید مخالفت اور ایذادہی کا باعث بن جاتا ہے۔ مخالفت کی اس آگ کو بھڑکانے میں رجعت پسند اور متشدد مذہبی حلقے بطور خاص پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ اس الٰہی فرستادہ کو اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ انہیں ایک صبح نو کے آثار دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جس کے غلبہ کی صورت میں بیخبر عوام پر ان کی بالا دستی ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کا پرانا اور فرسودہ مذہبی نظام ملیامیٹ ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ وہ ممکنہ خطرہ ہے جس سے انہیں بحیثیت مجموعی اپنی بقا خطرہ میں دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنے تمام باہمی اختلافات کو بھول کر ایک متفقہ محاذ کھول لیتے ہیں۔ نہ کسی قاعدہ کا احترام باقی رہتا ہے نہ ہی قانون کا۔ جب ان کا بندروں کا سا شور و غوغا اور دھمکیاں کسی نبی کو مرعوب کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو بالآخر یہ لوگ مایوس ہو کر تشدّد پر اتر آتے ہیں۔ لیکن البیّنۃ کو شکست دینا ان کی مجموعی طاقت کے بس میں بھی نہیں ہوتا جس کی کامیابی کا انحصار اس کی اپنی باطنی سچائی پر ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر خداتعالیٰ کی تائید و نصرت پر ہوا کرتا ہے۔ اس طرح تقدیر کی مدد سے البیّنۃ زمان و مکان کی حدود کو پار کرتی ہوئی ہمیشہ ایک ارفع سچائی کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ البیّنۃ کے دائیں طرف زندگی ہے اور بائیں طرف تباہی۔
البیّنۃ نہ تو مطلق سچائی کے بارہ میں اٹھائے جانے والے فلسفیانہ مباحث کی ذیل میں آتی ہے اور نہ ہی بعد کے ادوار میں بتدریج ارتقا پانے والے پختہ خیالات سے اسے کوئی مماثلت ہے۔ آغاز کار ہی سے الہام الٰہی کے طفیل اسے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ایک چمک عطا کی جاتی ہے۔
البیّنۃ کی اصطلاح اپنے اندر کچھ اور مفاہیم بھی رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا محرک ہے جو ایمان اور روحانی ارتقا کو مسلسل آگے بڑھاتا رہتا ہے۔ اس میں جمود بھی نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تریہ ارتقا کے غالب اصولوں سے ملتا جلتا ہے۔ تمام پیغمبرانہ تحریکیں البیّنۃ ہی سے نکلتی ہیں۔
اس لفظ کے مصدر کے بنیادی معنی ہیں فرق کرنا اور امتیاز کرنا۔ البیّنۃ معنوی اعتبار سے ایک اور قرآنی اصطلاح ’’البیان‘‘ کے ساتھ بھی مشترک ہے۔
’’البیان‘‘ ایسی گفتگو کو کہتے ہیں جو دو مفاہیم میں فرق کرنے اور انسانی خیالات کے معین اظہار کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یادرکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے مطابق البیّنۃ کی طرح ’’البیان‘‘ کا ماخذ بھی الہام ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں مذکور ہے:

(الرحمٰن55:5-4)
ترجمہ : )اس نے( انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا۔
کلام کرنے کی صلاحیت انسان کو خداتعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ جس سے لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کو جو زبان سب سے پہلے سکھائی گئی تھی وہ خداتعالیٰ نے خود سکھائی تھی۔ اس لئے اس وضاحت کی روشنی میں انسان کی قوتِ گویائی کا معمہ بآسانی حل ہو جاتا ہے۔ قوتِ گویائی انسان کو عالم حیوانات سے اتنا ممتاز کر دیتی ہے کہ محض نظریۂ ارتقا سے اس کی تشریح نہیں ہو سکتی خواہ اس کی کتنی بھی کھینچا تانی کیوں نہ کی جائے۔
اس طرح سے ’’البیان‘‘ یعنی کلام کرنے کی صلاحیت خداتعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ٹھہرتی ہے۔
پس ’’البیان‘‘ اور البیّنۃ کا ماخذ ایک ہی ہے اور دونوں قریباً ہم معنی اصطلاحات ہیں تا ہم اس مماثلت کے باوجود دونوں میں ایک خاص فرق بھی ہے۔ ’البیان‘ کا تعلق لفظی اظہار سے ہے۔ جبکہ البیّنۃ کو صرف لفظی اظہار تک ہی محدود نہیں کیا جا سکتا۔ بعض اوقات اس کا اظہار الفاظ میں ہوتاہے اور کبھی بغیر الفاظ کے۔ البیّنۃ کا یہ خاموش اظہار نصف النہار کے سورج کی طرح ہوتا ہے جس میں تمام دائمی الٰہی تعلیمات چمک رہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ ایک طرف تو یہ اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل کرتی ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کو جو اس پر انحصار کرتے ہیں تقویت بہم پہنچاتی ہے۔
القیّمۃکی اصطلاح کا اطلاق ایسی تمام بنیادی تعلیمات پر ہوتاہے جو حتمی اور پائیدار ہونے کی صفت سے متّصف ہوں۔ اس مقام پر یہ دونوں اصطلاحیں ایک ہی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ اقدار کی آفاقیت اور مطلقیت ایسی فلسفیانہ اصطلاحیں ہیں جن کو مذہبی اصطلاح میں القیّمۃ کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا نظریات یا اقدار حقیقت میں مطلق یا آفاقی کہلا سکتی ہیں؟ اس سوال کا ہمیں سیکولر نقطۂ نظر سے جائزہ لینا ہوگا۔ سائینٹفک سوشلزم کے تقریباً تمام بڑے بڑے مفکرین نے خیال اور اقدار کے مطلق ہونے کو رد کیا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک مطلقیت مارکس کے نظریہ جدلی مادیت کے ساتھ لگاّ نہیں کھاتی۔ لیکن جب ان کا سامنا مادی دنیا کے روزمرہ کے حقائق سے ہوتا ہے تو ان کے پاس مطلقیت کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن آتا ہے۔ آگ جلاتی اور پانی آگ بجھاتا ہے۔ گرمی سردی اور دکھ سکھ کا احساس، بھوک اور سیری، پیاس اور سیرابی کا تصور اور اسی قسم کے دیگر احساسات اس امر کے محتاج نہیں کہ کوئی سائنسدان ان کی سچائی ثابت کرتا پھرے۔ پس وہ بغیر کسی تغیر اور شک وشبہ کے موجود ہیں اور اس امر کیلئے کسی کی وکالت کی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح سے ان کی قطعیت بھی انسانی تفہیم کا جزولاینفک ہے۔ رات اور دن کا تصور بصارت سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان کے بارہ میںکیا کہیں گے جو اس صلاحیت سے یکسر محروم ہیں؟ اشیاء کے بارہ میں ایسے لوگوں کا تصور مقابلۃً ان سے مختلف ہو گا جنہیں دیکھنے کی بہتر صلاحیت عطا ہوئی ہو۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جسے ہم مطلق تصور سمجھ رہے ہیں، کہیں وہ اپنی ذات میں نسبتی تو نہیں۔ شک اور یقین کے درمیان کئی مدارج ہیں۔ اس دائرہ میں کسی بھی طرف سفر کیا جا سکتا ہے جس کی سمت کا انحصار مشاہدہ کرنے والے کی قوتِ بصارت اور روشنی کی موجودگی پر ہے۔ لیکن اس قسم کے شبہات مخصوص اور غیر معمولی حالات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسانی تجربات کے وسیع تناظر میں ان کی حیثیت اتنی معمولی اور ناقابل ذکر ہوا کرتی ہے کہ وہ انسان کے عالمگیر اور مسلّمہ تجربہ کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
علاوہ ازیں محض ان ابتدائی تصورات کی بدولت ہی انسان یقین کے مرتبہ تک نہیں جا پہنچابلکہ کئی اورامور کو بھی حتمی قرار دیا جا سکتا ہے باوجود اس کے کہ وہ اِن سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں۔ طبیعیات اور کیمیا کی آج کی ترقی یافتہ معلومات اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ علوم ترقی پذیر ہیں مگر بالعموم ان کی ترقی انسان کے سابقہ تجربات سے ٹکرائے بغیر جاری ہے۔ تبدیلی اگر کہیں ہے تو وہ فروعی نوعیت کی ہے۔ بے یقینی کا عنصر ثابت شدہ حقائق پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ اس کا اثر تحقیق کے مخصوص دائروں تک ہی محدود ہوتا ہے۔ اس لئے بلاتردد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم سیکولر نقطۂ نظر سے انسانی تجربہ میں قطعیت کا تصور نہ صرف موجود ہے بلکہ یقینا یہ ایک ترقی پذیر عمل ہے۔ لیکن اعتقاد اور ایمان کے معاملہ میں اس قسم کے دعویٰ کا کوئی جواز نہیں۔ عام اہل ایمان کیلئے حقیقت اور وہم کے درمیان امتیاز اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ وہ بچپن ہی سے اپنے عقیدہ کے گہوارہ میں پرورش پاتے ہیں اور خود اس نظام کا ایک جزولاینفک بن چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے معدودے چند جن کی اس ذہنی سستی اور بے ہوشی کی نیند سے آنکھ کھل جاتی ہے انہیں اپنے اپنے عقیدہ سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں جس کا اظہار وہ عوام الناس کے سامنے کم ہی کیا کرتے ہیں۔ وہ ا س نام نہاد ظاہری چولہ کو بدستور پہنے رکھتے ہیں تا کہ کم از کم ان کی مذہبی شناخت قائم رہ سکے۔ بد قسمتی سے ہر اس مذہب کا یہی انجام ہوا کرتا ہے جو اعتقادات کی صحت کو پرکھنے کے لئے عقل کے کردار کی نفی کرتا ہے۔ بے یقینی سے یقین اور یقین سے قطعیت کے سفر میں بد قسمتی سے بعض فلاسفر قطعیت کے تصور سے ہی منکر ہو بیٹھے ہیں۔ ان کے خیال میں کوئی بھی تفہیم ہمہ وقت بدلتے ہوئے حالات اور ذہنی کیفیات کے زیر اثر قطعی طور پر مطلق نہیں ٹھہر سکتی۔ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتاکہ ہر چیز کو امکانی طور پر غلط سمجھ کر اس کے وجود سے انکار کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فلسفہ کے نتیجہ میں روز مرہ کی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی۔ مثلاً اگر کسی شخص کو ایک عمودی اور بلند و بالا چٹان نظر آ رہی ہو تو یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ وہ چٹان حقیقتاً وہاں موجود ہے بھی یا نہیں؟ اسی طرح وہ کونسا معیار ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ ایک مہلک سانپ جو کسی کا راستہ روکے کھڑا ہے وہاں ہے بھی یا نہیں؟ زندگی میں درپیش ایسے تمام خطرات کے وقت بڑے سے بڑا شکّی مزاج بھی عام انسانی تجربہ کا فیصلہ ہی تسلیم کر لے گا۔ یہی وہ عام مشترک انسانی تجربات ہیں جو قطعیت کی جانب مسلسل گامزن ہیں۔ کسی بھی مخصوص زمانہ کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ یہ انسانی تجربات ہر دور میں تسلیم کئے گئے ہیں۔ اس کو اگر قطعیت کی بجائے امکان کہہ لیں تو یاد رہے کہ یہ امکان ہی ہے جس کے ہاتھ میں انسانی تقدیر کی باگ ڈور ہے۔ کسی بھی بظاہر نظر آنے والی حقیقت کا انکار محض اس بنا پر نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں یہ مستقبل میں غلط ثابت نہ ہو جائے۔
اس کے باوجود انسانی علم کے ارتقائی سفر میں اکثر تصورات یقینا اس حد تک پختگی حاصل کر لیتے ہیں کہ ان میں نہ تو تغیر و تبدل کا امکان باقی رہ جاتا ہے نہ کسی شک و شبہ کا۔ اسی طرح بہت سے طبیعی اور کیمیاوی قوانین بعینہٖ اسی طرح سے کام کرتے رہتے ہیں جس طرح سے انہیں آغاز کار میں سمجھا گیا تھا۔ ان کی کارکردگی کے کسی حصہ سے ہماری لاعلمی ان کے بارہ میں ہمارے دریافت شدہ علم کو غلط ثابت نہیں کردیا کرتی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اجرام فلکی اور کشش ثقل میں نت نئی اور باریک دریافتوں سے ہمارے علم میں بہت گہری تبدیلیاں آچکی ہیں نیوٹن کے قوانین بنیادی طور پر جوں کے توں ہیں۔ پس اجرام فلکی سے متعلق قوانین حرکت اپنے مخصوص دائرہ کار میں پہلے کی طرح آج بھی قطعی ہیں۔ اسی طرح ایٹم کے ذیلی ذرات کے قوانین حرکت بھی اپنے عالم صغیر میں قطعی ہیں۔ پس اجرام فلکی کے عالمِ کبیر کے قوانین حرکت اور ایٹم کے عالم صغیر کے قوانینِحرکت کے مابین نہ کوئی تضاد ہے اور نہ ہی اختلاف۔ اگرچہ ان کا میدان اور دائرہ کار الگ الگ ہے۔ انسان اب تک اتنا ہی جان سکا ہے کہ نیوٹن کے قوانین حرکت کا اطلاق صرف کائنات کے عالم کبیر پر ہوتا ہے۔ انسان خواہ سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے ان قوانین کی ہر دو اقسام قطعی ہیں اور آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ پس مطلق حقیقت محض انسانی ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ یہ فی ذاتہٖ موجود ہے۔
اب ہم قرآن کریم کے اس موقف کی طرف لوٹتے ہیںجو عقلیت اور عقلیت کے مذہبی حقائق سے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔ ہم قاری کی توجہ مندرجہ ذیل آیات قرآنی کی طرف مبذول کراتے ہیں جو خداتعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات میں کسی بھی تضاد کے امکان کو رد کرتی ہیں:

(الملک67 : 5-4)
ترجمہ: تو رحمن کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا۔ تیری طرف نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہو گی۔
اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ الہامی کتب میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا کا قول ہے۔ (23:21,83:4)
خدا کا قول جو ایک الہامی سچائی ہے اور خدا کا فعل جو مادی کائنات ہے، دونوں میں کامل ہم آہنگی لازمی ہے۔ پس الہام الٰہی کبھی بھی قوانین قدرت سے متصادم نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہی حکیم ازلی کی ذات ہے۔ تضاد کی یہ مطلق نفی عقلیت کے عالمگیر اصول کا مزید اثبات ہے۔ چنانچہ سائنس کی درست تشریح اور قول خدا وندی باہم متصادم نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا جہاں کہیں بھی ان دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہاں ان کی سچائی کی قطعیت شک و شبہ سے بالا ہو جاتی ہے۔
اب ہم مذکورہ بحث کی روشنی میں منطق اور معقولیت کے حوالہ سے وحیٔ قرآنی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیں گے۔
قرآن کریم اور کائنات
نزول قرآن کے وقت کائنات کی ساخت اور اجرام فلکی کے متحرک یا جامد ہونے کے متعلق انسانی تصور بہت مبہم اور قدیم تھا۔ مگر اب یہ حالت نہیں۔ اب کائنات کے متعلق ہمارا علم کافی ترقی کر چکا ہے اور وسیع ہو چکا ہے۔ تخلیق کائنات کے متعلق بعض نظریات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب وہ مسلّمہ حقائق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جبکہ کچھ اور نظریات پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اب سائنسی حلقوں میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ سب سے پہلے ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے 1920کی دہائی میں یہ انکشاف کیا تھا۔ مگر اس سے بھی تیرہ سو سال قبل قرآن کریم درج ذیل آیت میں اس کا ذکر واضح طور پر فرما چکا تھا۔

(الذٰ ریٰت48 : 51)
ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقینا ہم وسعت دینے والے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسی کائنات کا تصور جو مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہو صرف قرآن کریم میں ہی مذکور ہے۔ کسی اور آسمانی صحیفہ میں اس کا دُور کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ دریافت کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے انہیں کائنات کی تخلیق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز یہ دریافت تخلیق کائنات کی مرحلہ وار اس طرح وضاحت کرتی ہے جو بگ بینگ (Big Bang) کے نظریہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ قرآن کریم اس سے بھی آگے بڑھ کر کائنات کے آغاز، انجام اور پھر ایک اور آغاز کے مکمل دور کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم کائنات کی پیدائش کے پہلے کا جو نقشہ پیش کرتا ہے، وہ ہو بہو بگ بینگ کے نظریہ کے مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں:

(الانبیائ31 : 21)
ترجمہ: کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟
یہاں معنی خیز بات یہ ہے کہ اس آیت میں بالخصوص غیر مسلموں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ مذکورہ بالا راز سے پردہ غیر مسلموں نے اٹھانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہ امر قرآن کریم کی صداقت کا ایک زندہ نشان بن کر ان کے سامنے آ جائے۔
اس آیت کے دو الفاظ یعنی ’’رتقًا‘‘ (بند کیا گیا ہیولہ) اور ’’فتقنا‘‘ (ہم نے اسے پھاڑ کر الگ کر دیا)میں بنیادی پیغام پوشیدہ ہے۔ مستند عربی لغات میں ’’رتقاً‘‘ کے دو مطالب بیان کئے گئے ہیں اور دونوں ہی اس موضوع سے متعلق ہیں۔1 ایک معنی یکجان ہو جانے کے ہیں اور دوسرے معنی کامل تاریکی کے ہیں۔ یہاں یہ دو نوں ہی مراد ہو سکتے ہیں اور دونوں کو ملا کر بعینہٖ ایک بلیک ہول کا نقشہ ابھرتا ہے۔
بلیک ہول اس وسیع و عریض مادہ کی منفی شکل ہے جو اپنی ہی کشش ثقل کے دباؤ کے زیر اثر سکڑ کر اپنا مادی وجود کھو بیٹھتا ہے۔ سورج سے تقریباً پندرہ گنا بڑے ستارے جب اپنا دورِ حیات ختم کر چکتے ہیں تو ان سے بلیک ہول کے بننے کا آغاز ہوتا ہے۔ ان ستاروں کی کشش ثقل ان کے وجود کو سکیڑ کر چھوٹی سی جگہ پر سمیٹ لیتی ہے۔ اس کشش ثقل کی شدت کی وجہ سے مادہ مزید سکڑ کر سپرنووا (Supernova) کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ اس مرحلہ پر مادہ کے بنیادی ذرات مثلاً مالیکیول، ایٹم وغیرہ پس کر ایک عجیب قسم کی توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ زمان و مکان کے اس لمحہ کو ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) یا واقعاتی افق کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی اندرونی کشش ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں جا سکتی اور واپس جذب ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں مکمل تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ ان حقائق سے ذہن خود بخود قرآن کریم میں مذکور لفظ ’’رتقاً‘‘کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جس کا مطلب مکمل تاریکی ہے اور اس کو اصطلاحاً Singularity کہا جاتا ہے جو Event Horizon یا واقعاتی افق سے بھی آگے کہیں دور واقع ہوتی ہے۔
بلیک ہول ایک بار معرض وجود میں آ جائے تو یہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگتا ہے۔ کیونکہ دوردراز کے ستارے اس کی بڑھتی ہوئی کشش ثقل کی وجہ سے اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دس کروڑ گنا ہو جاتی ہے۔ اس کی کشش ثقل کا میدان وسیع ہوتے ہی خلا سے مزید مادہ اس کی طرف اتنی تیزرفتاری سے کھنچتا چلا جاتا ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ 1997ء میںیہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ہماری کہکشاں میں ایک بلیک ہول میں موجود مادہ کی مقدار سورج میں موجود مادہ کی مقدار سے دو لاکھ گنا زیادہ ہے۔ بعض اعداد وشمار کے مطابق بہت سے بلیک ہول ایسے بھی ہیں جن میں سورج سے تین ارب گنا زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے۔2 ان کی کشش ثقل اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ بڑے بڑے ستارے بھی اپنا راستہ چھوڑ کر ان کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ اور بلیک ہول میں غائب ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ’رتقاً‘ کا عمل مکمل ہو کر Singularityیا اس واحد ہیولہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جو مکمل طور پر بند بھی ہے اور تاریک بھی۔ رہا اس سوال کا جواب کہ یہ کائنات کس طرح پیدا ہوئی تھی۔ تو اس کے متعلق دو تازہ ترین نظریات بگ بینگ کے نظریہ کی ہی تائید کرتے ہیں۔ ان نظریات کے مطابق یہ کائنات ایک ایسی Singularity یا وحدت سے جاری ہوئی جس میں مقیّد مادہ اچانک ایک زبردست دھماکہ سے پھٹ کر بکھرنا شروع ہو گیا اور اس طریق پر Event Horizon یا واقعاتی افق کے ذریعہ ایک نئی کائنات کا آغاز ہوا۔ جس مرحلہ پر بلیک ہول کی حد سے روشنی پھوٹنا شروع ہوئی اسے وائٹ ہول (White Hole)کہا جاتا ہے۔ 3,4 ان دونوں میں سے ایک نظریہ کے مطابق یہ کائنات ہمیشہ پھیلتی چلی جائے گی جبکہ دوسرے نظریہ کے مطابق ایک مرحلہ پر پہنچ کر کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا اور کشش ثقل اسے اندر کی طرف کھینچنا شروع کر دے گی۔ آخرکار تمام مادہ واپس کھینچ لیا جائے گا اور غالباً ایک اور عظیم الشان ’بلیک ہول‘ جنم لے گا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم مؤخرالذکر نظریہ کی تائید کرتا ہے۔
کائنات کی تخلیق اوّل کے ضمن میں قرآن کریم بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ اس کائنات کا خاتمہ ایک اور بلیک ہول کی صورت میں ہو گا۔ اس طرح کائنات کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ہی طرز پر ہو گااور یوں کائنات کا دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم اعلان کرتاہے۔

(الانبیائ105:21)
ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہو تا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ نیز ایک وقت یہ عالم بہیکھاتوں کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ سائنسدان بلیک ہول کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ اسی آیت کے بیان کردہ نقشہ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تصویر نمبر 1)
جوں جوں خلا سے مادہ بلیک ہول میں گرتا ہے توں توں کشش ثقل اور الیکٹرومگنیٹک (Electromagnetic)قوت کی شدت کی وجہ سے دباؤ کے تحت ایک چادر کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ بلیک ہول کا مرکز اپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے اس لئے یہ تمام مادہ کوئی نامعلوم صورت اختیار کرنے سے پہلے اس کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔
اسی آیت کریمہ میں آگے چل کر بیان کیا گیا ہے:

(الانبیائ105:21)
ترجمہ: جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیاتھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقینا ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔
اس آیت میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ جب کائنات ایک بلیک ہول میں گم ہو جائے گی تو اس کے بعد ایک نیا آغاز ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کائنات کی از سرنو تخلیق کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا۔ بلیک ہول میں گم کائنات ایک بار پھر اندھیرے سے باہر آ جائے گی۔ اور تخلیق کا یہ عمل ایک بار پھر شروع ہو جائے گا۔ قرآن کریم کے مطابق کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ایک جاری عمل ہے۔
تخلیق کے آغاز اور اس کے انجام سے متعلق قرآنی نظریہ بلا شبہ غیر معمولی شان کا حامل ہے۔ اگر عصر حاضر کے کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کو یہ باتیں الہاماً بتائی جاتیں تو یہ بھی کچھ کم تعجب کی بات نہ ہوتی۔ لیکن یہ دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ تخلیق کے ہمیشہ دہرائے جانے سے متعلق یہ اتنے ترقی یافتہ نظریات آج سے چودہ سو سال قبل صحرائے عرب کے امّی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بذریعہ وحی منکشف فرمائے گئے تھے۔
قرآن کریم اور اجرام فلکی
اب ہم اجرام فلکی کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی حرکت کے بارہ میںہے۔ اس کی نمایاں
خصوصیت یہ ہے کہ زمین کی حرکت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ اس زمانہ کے مروجہ نظریات سے کوئی بھی تضاد دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ اس زمانہ میں تمام اہل علم اور دانشور اس بات پر متفق تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج، چاند اور دیگر اجرام فلکی اس کے گرد مسلسل گھوم رہے ہیں۔ اس تناظر میں عام قاری کو قرآن کریم میں زمین کی گردش کا ذکر شاید ہی دکھائی دیتا لیکن غور سے پڑھنے والے کیلئے پیغام بہت واضح اور صاف تھا۔ اگر قرآن کریم میں زمین کو ساکن اور اجرام فلکی کو اس کے گرد گردش کرتے ہوئے بیان کیا جاتا تو اگرچہ اس دور کے لوگ اس سے مطمئن ہو جاتے لیکن بعد میں آنے والوں کے نزدیک یہ نظریہ قرآن کریم کو نازل کرنے والے کی لاعلمی کا ثبوت قرار پاتا اور سارا زور اس بات پر ہوتا کہ یہ کلام کسی اعلیٰ اور علیم وخبیر ہستی کی طرف سے نہیں ہے۔
زمین کی حرکت کو دیگر اجرام فلکی کی حرکت کی نسبت سے من و عن بیان کرنے کی بجائے قرآن کریم اسے یوں بیان کرتا ہے:

(النمل27 :89)
ترجمہ : اور تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔
اس اعلان سے کہ ’’پہاڑ مسلسل حرکت میں ہیں‘‘ لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین بھی ان کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ لیکن قرآن کریم کی فصاحت کا یہ کمال ہے کہ اس وقت کے لوگوں کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی۔ باقی دنیا کی طرح وہ بھی یہی خیال کرتے رہے کہ زمین ساکن ہے اور اسی وجہ سے اس غلط نظریہ کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اگر اس آیت کے آخری حصہ کو غور سے پڑھا جاتا تو کسی غلط فہمی کی گنجائش نہ رہتی کیونکہ اس میں خدا کی صفت خالقیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے کہ خالق کائنات نے سب چیزوں کو اس خوبی سے پیدا کیا ہے کہ انہیں اپنے مقام سے ہٹایا نہیں جا سکتا اور جو چیز اپنے مقام سے ہٹائی نہ جا سکے وہ زمین کو چھوڑ کر اس کے مدار سے باہر نہیں جا سکتی۔
علاوہ ازیں قرآن کریم کی بہت سی آیات میں پہاڑوں کے متعلق ’’رواسی‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’’زمین میں گاڑے ہوئے۔‘‘

(لقمٰن11:31)
ترجمہ: اس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بنایا جنہیں تم دیکھ سکو اور زمین میں پہاڑ بنائے تا کہ تمہیں خورا ک مہیا کریں اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جاندار پیدا کئے اور آسمان سے ہم نے پانی اتارا اور اس (زمین) میں ہر قسم کے عمدہ جوڑے اگائے۔

(الانبیائ32 : 21)
ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تا کہ وہ ان کے لئے غذا فراہم کریں اور ہم نے اس میں کھلے رستے بنائے تا کہ وہ ہدایت پاویں۔

(النحل16:16 )
ترجمہ : اور اس نے زمین میںپہاڑ رکھ دیئے تا کہ تمہارے لئے کھانے کا سامان مہیا کریں اور دریا اور راستے بھی تا کہ تم ہدایت پاؤ۔
چنانچہ قرآن کریم ایسے عمدہ انداز میں ان حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے کہ اس زمانہ کے مروجہ علوم سے کھلم کھلا ٹکراؤ بھی نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ سورۃ نمل کی آیت 89کو قیامت پر چسپاں کریں لیکن جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے یہ غلط استدلال مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر قبول نہیں کیا جا سکتا:
.1 اس آیت میں حال کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نہ کہ مستقبل کا۔ یہاں استعمال ہونے والا حرف ’و‘’اور‘کے علاوہ ’جبکہ‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ’تم پہاڑوں کو ساکن خیال کرتے ہو جبکہ وہ مسلسل حرکت میں ہیں‘، اس لئے آیت کے اس حصہ کو صرف مستقبل پر چسپاں کرنا درست نہیں۔
.2 اگر مستقبل میں کبھی پہاڑوں کی پرواز مراد ہوتی اور انسان کسی دوسرے سیارہ سے ان کا نظارہ کرتا تو انہیں ساکن خیال نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس کو نظروں کے سامنے اڑتے نظر آتے۔ اس لئے اس قسم کے ترجمہ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس آیت کا یہ ترجمہ بھی غلط ہو گا کہ اگرچہ آج کا انسان ان پہاڑوں کو ساکن خیال کرتا ہے لیکن آئندہ کبھی وہ پرواز کرنے لگیں گے۔ اگر آج پہاڑ ساکن ہیں تو انسان ہمیشہ انہیں ساکن ہی دیکھے گا۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق انہیں ساکن خیال کرتا ہے اس صورت میں تو قرآن کریم کویوں ذکر کرنا چاہئے تھا ’’تم انہیں ساکن سمجھتے ہو جیسا کہ وہ ہیں لیکن مستقبل میں وہ ساکن نہیں رہیں گے‘‘ حالانکہ قرآن کریم ہرگز یہ بیان نہیںکر رہا۔
.3 اس آیت کے آخر پر خداتعالیٰ کی تخلیق کی پائیداری کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ پہاڑ متحرک ہونے کے باوجود مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابتدائی تفاسیر اس آیت کے حقیقی معانی کے متعلق خاموش ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مفسرین کے لئے اس کی تشریح بہت مشکل تھی۔
قرآن کریم یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ تمام اجرام فلکی مسلسل حرکت میں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ساکن نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:

(الانبیاء 34 : 21)
ترجمہ: سب (اپنے اپنے) مدار میں رواںدواں ہیں۔
یہ ہمہ جہت اعلان تمام کائنات کا احاطہ کرتا ہے اور ہمارا نظام شمسی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مزیدبرآں قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ تمام اجرام فلکی بیضوی مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ تمام اجرام اپنی فنا کے مقررہ وقت کی طرف رواں دواں ہیں۔ مندرجہ ذیل آیات ان موضوعات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔

(الرعد3:13 )
ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو خدمت پر مامور کیا۔ ہر چیز ایک معین مدت تک کیلئے حرکت میں ہے۔ وہ ہر معاملہ کو تدبیر سے کرتا ہے (اور) اپنے نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے رب سے ملاقات کا یقین کرو۔

(لقمان30:31 )
ترجمہ: کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے۔ ہر ایک اپنی مقررہ مدت کی طرف رواںدواں ہے اور (یاد رکھو کہ) اللہ اس سے جو کچھ تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

(فاطر14:35 )
ترجمہ: وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر تا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے۔ ہر ایک اپنے مقررہ وقت کی طرف چل رہا ہے۔ یہ ہے اللہ، تمہارا رب۔ اسی کی بادشاہت ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔

(الزمر6:39 )
ترجمہ: اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ دن پر رات کا خول چڑھا دیتا ہے اور رات پر دن کا خول چڑھا دیتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ہر ایک اپنی مقررہ میعاد کی طرف متحرک ہے۔ خبردار ! وہی کامل غلبہ والا(اور) بہت بخشنے والا ہے۔
اب ہم سورج کی حرکت کے بارہ میں قرآن کریم کے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کا ذکر کرتے ہیںجس کا ذکر کسی اورالہامی کتاب میں نہیں ملتا۔ چنانچہ قرآن کریم یہ اعلان کرتا ہے:

(یٰس39:36 )
ترجمہ: اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحب علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے۔
اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ خلا میں ایک ایسا مقام ہے جو بالآ خر سورج کی آخری قرار گاہ بنے گا۔ اگر چہ اس آیت میں صرف سورج کا ذکر ہے لیکن بعد کی آیات میں تمام کائنات کو سورج کی اس حرکت کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے:

(یٰس41-39:36 )
ترجمہ: اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحب علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے اور چاند کے لئے بھی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔
اگر صر ف سورج ہی ایک معین سمت میں سفر کررہا ہے تو اگلی آیت میں یہ بیان نہ ہوتا کہ سورج اور چاند کا باہمی فاصلہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے اور وہ کبھی بھی نہ تو ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور نہ ہی دور جائیں گے۔ یہ ایک ایسی تقدیر ہے جس میں ان کے مقررہ وقت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ سورج اور چاند ایک ہی سمت میں سفر کر رہے ہیں۔
یہ حرکت صرف، سورج اور چاند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے مطابق تمام اجرام فلکی نہایت خاموشی سے محو سفر ہیں۔ نیز بہت سی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام آپس میں دکھائی نہ دینے والے رشتوں میں وابستہ ہیں۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں:

(الانبیائ34:21 )
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے) مدار میں رواں دواں ہیں۔

(یٰس41 : 36)
ترجمہ : سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے) مدار پر رواں دواں ہیں۔
قرآن کریم کا یہ منفرد اسلوب زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کے بارہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اُس زمانہ کے عامۃ الناس ان آیات میں مضمر پیغام کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے تھے اور یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے تھے کہ پہاڑوں کی حرکت زمین کی حرکت سے وابستہ ہے نیز یہ کہ اگر سورج خلا میں ایک مخصوص مقام کی طرف سفر کر رہا ہے تو تمام کائنات بھی اسی طرح حرکت پذیر ہے۔ یہ نظریہ کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اس دور کے سائنسدانوں کے تصور میں بھی نہیں آیا تھا لیکن قرآن کریم کے گہرے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ساری کائنات خلا میں ایک خاص سمت میں سفر کر رہی ہے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو تمام کی تمام 180ارب یا اس سے بھی زیادہ کہکشائیں جن میں ہمارے نظام شمسی کی حیثیت ایک چھوٹے سے نقطہ کی ہے سورج کی طرح ایک معین سمت میں سفر کر رہی ہیں۔
اس باب میں ہم ایک ایسے عظیم بلیک ہول کا ذکر کر چکے ہیں جو ایک دن تمام کائنات کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر لے گا۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق یہ کائنات پھیلتی اور سکٹرتی رہتی ہے بگ بینگ کے آغاز پر یہ کائنات تقریباً روشنی کی رفتار سے پھیل رہی تھی جو بالآخر دوبارہ ایک بلیک ہول میں واپس کھینچ لی جائے گی۔
بگ بینگ کا نظریہ ایک واحد آفاقی بلیک ہول کے تصور کی تائید کرتا ہے جو قرآنی آیات کے عین مطابق ہے۔ بعض سائنسدان ایک مسلسل وسعت پذیر کائنات کا تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں کائنات پھیلتی چلی جائے گی یہاںتک کہ مادہ منتشر ہوتے ہوتے اتنا لطیف ہو جائے گا کہ کائنات کے مرکز کی کشش سے باہر نکل جائے گا۔ اس صورت حال میں کائنات کے یکجا ہو کر دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم اس نظریہ کو رد کرتا اور واضح اعلان کرتا ہے کہ کائنات Singularity یا اکائی سے شروع ہوئی تھی اور اسی پر اس کا اختتام ہو گا۔ خداتعالیٰ کی وحدانیت، تمام کائنات کی تخلیق اور تخلیق کا پھرخداتعالیٰ کی طرف رجوع کا بیان اس آیت سے بہتر نہیں ہو سکتا:

(البقرۃ 157 : 2 )
ترجمہ: ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔



حوالہ جات
1. LANE, E.W. (1984) Arabic - English Lexicon. Islamic Text Society, William & Norgate, Cambridge.
2. Space Telescope Science Institute. (1997) Press release no. STScI-PR97-01, Baltimore, Maryland, USA.
3. RONAN, C. A. (1991) The Natural History of the Universe. Transworld Publishers Ltd., London.
4. Reader's Digest Universal Dictionary. (1987) The Reader's Digest Association Limited. London.
عنطراپی (Entropy) اور محدود کائنات
قبل ازیںہم وضاحت سے بیان کر چکے ہیں کہ ساری کائنات بالآخر ایک بلیک ہول میں سمٹ جائے گی اور ایک بار پھر بگ بینگ کے نتیجہ میں بلیک ہول میں سمٹا ہوا یہ مادہ نئی کائنات کی صورت میں جنم لے گا۔ اس سے قاری کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ کائنات ابدی ہے کیونکہ ہر دفعہ بلیک ہول میں سمٹنے کے بعد اور بگ بینگ کے نتیجہ میں ایک اور کائنات دوبارہ جنم لیتی ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ یونہی چلتا رہتا ہے۔
لیکن علم ریاضی کی رو سے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ کائنات ازلی ابدی نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کو ابدی کہنا درست نہیں اس امر کی مزید وضاحت کیلئے عنطراپی (Entropy) کی اصطلاح کی سائنسی تعریف کا سمجھنا ضروری ہے۔ عنطراپی کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات میں موجود مادہ کا بہت معمولی سا حصہ توانائی کی صورت میں ضائع ہو تا رہتا ہے اور اسے کبھی بھی دوبارہ کسی بھی شکل میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
تمام اشیاء مخصوص حالات میں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس عمل کی سادہ ترین مثال ہائیڈروجن اور آکسیجن سے پانی کا بننا ہے جس کا ایک مالیکیول بننے کے نتیجہ میں کچھ توانائی خارج ہوتی ہے۔ اگر آکسیجن سے بھرے ہوئے ایک مرتبان میں ہائیڈروجن کو اس طرح جلایا جائے کہ جلتی ہوئی ہائیڈروجن دباؤ کے ساتھ اس میں داخل کی جائے تو اس کا یہ شعلہ صرف اسی وقت تک جلے گا جب تک کہ مرتبان میں موجود آکسیجن ختم نہیں ہو جاتی۔ مرتبان میں پانی حاصل ہو گا۔ پانی بننے کے اس عمل کے دوران کچھ توانائی خارج ہوتی ہے۔ پانی کو دوبارہ ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل کرنے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے یعنی جتنی توانائی اس مرکب یعنی پانی کی تشکیل کے عمل کے دوران خارج ہوئی تھی اتنی ہی توانائی اس پانی کی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تحلیل کیلئے درکار ہو گی۔
ایسی تمام صورتوں میں توانائی کا ایسا ضیاع نہیں ہوتا جو مستقل ہو۔ نیز یہ ایسا ضیاع نہیں ہے جسے عنطراپی کہا جا سکے۔ ہر کیمیائی عمل کے دوران توانائی یا تو خارج ہوتی ہے یا جذب ہوتی ہے مگر ان تمام صورتوں میں توانائی مستقل طور پر ضائع نہیں ہوتی لیکن عنطراپی کے ذریعہ ہونے والا ضیاع مستقل ہوتا ہے۔ کیمیائی عوامل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنسی پیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے اگر آپ ایک ایسے گرم جسم کا تصور کریں جو رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو کر ماحول کے درجۂ حرارت پر آجائے تو یوں ایک توازن پیدا ہو جائے گا۔ جس جسم کی گرمی ٹھنڈے ماحول کی وجہ سے زائل ہو چکی ہو دوبارہ ازخود گرم نہیں ہو سکتا کیونکہ گرمی کا بہاؤ ہمیشہ ٹھنڈ ک کی طرف ہوتا ہے۔ انجام کار جب کائنات کی ساری حرارت آخرکاراز خود ختم ہو جائے گی اور درجۂ حرارت برابر ہو جانے سے ایک توازن پیدا ہو جائے گا تو کوئی کیمیائی عمل بھی جاری نہیں رہ سکے گا۔ اسی کو سائنسدان heat death یا انزاعِ حرارت کہتے ہیں۔
کائنات میں استعمال شدہ توانائی کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ قابل استعمال توانائی کی مقدار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گو بہت دیر کے بعد ہی سہی لیکن ایسا وقت آسکتا ہے جب کائنات میں کسی قسم کا کوئی کیمیائی عمل ممکن نہ رہے گا اور کائنات کبھی اپنی پہلی حالت کو لوٹ نہ سکے گی۔ نہ تو کوئی عمل ہو رہا ہو گا اور نہ ہی کوئی ردعمل۔ اس کو فنا یا عدم کہتے ہیں۔
اس طرح سے ضائع ہونے والی توانائی کی مقدار اتنی معمولی ہے کہ اس کا اندازہ کرنے کیلئے سائنسدان بڑے پیچیدہ حسابی طریق اختیار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں کائنات اپنی کمیت اور وزن دونوں کے اعتبار سے اب بھی عملاً اتنی ہی ہے جتنی کہ بیس ارب سال پہلے تھی۔ اس وقت تک ضائع ہو جانے والی توانائی کو کائنات کے ambient temperature سے ماپا جاتا ہے جو اب تک صرف چار ڈگری کیلون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معلوم کائنات میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کا درجۂ حرارت چار ڈگری کیلون سے کم ہو۔ پس جو توانائی اس کم سے کم درجۂ حرارت کی طرف سفر کرے وہ وہیں رہتی ہے اور اسے دوبارہ کبھی بھی بلند درجۂ حرارت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ریاضی کا یہ مسئلہ کسی کو سمجھ آئے یا نہ مگر یہ بات یقینی ہے کہ کائنات میں توانائی کا کچھ ضیاع ایسا ضرور ہو رہا ہے جس کو ازسرنو واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ضائع ہوجانے والا یہ مادہ دوبارہ کبھی بھی کائنات کا حصہ نہیں بن سکے گا۔
اس کتاب کے مقصد کے لئے ’عنطراپی‘ کی اتنی ہی وضاحت کافی ہو گی۔ اب ہم قاری کی توجہ اس عمل کے ناگزیر نتیجہ کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ عنطراپی کی پوری تفہیم سے قبل اکثر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ کائنات کیلئے کسی خالق کا ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ کائنات ازل سے ہے۔ مگر عنطراپی کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد بعض سائنسدانوں کے نظریات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور بعض اس موضوع پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس کائنات کے ازلی ابدی ہونے کا جائزہ ماضی اور مستقبل دونوں کے حوالہ سے لیا جا سکتا ہے۔ مادہ کو ابدی تسلیم کرنے والے سائنسدانوں کے نزدیک مادہ ماضی اور مستقبل ہردو حوالوں سے ازلی ابدی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی کے کسی بھی لمحہ کو کائنات کا نقطۂ آغازقرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ازل اور ابد کی نہ تو ابتدا ہوا کرتی ہے اور نہ ہی انتہا۔
پس عنطراپی کے اصول کی دریافت سے مادہ کے ازلی ابدی ہونے کا نظریہ درست ثابت نہیں ہوتا۔ کائنات کو کسی بھی شکل میں ابدی کیوں نہ سمجھا جائے تو بھی حقیقت یہ ہے کہ عنطراپی کی وجہ سے کائنات میں موجود مادہ متواتر ضائع ہو رہا ہے۔ پس اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد کائنات کا وجود ختم ہو جائے گا وقت کے کسی ایک مقام سے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو زمانہ ہمیشہ ازلی اور لا محدود دکھائی دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر وقت کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں ہے جہاں سے ہم ماضی کا تعین کر کے یہ کہہ سکیں کہ اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ کوئی بھی اگر چاہے تو اپنے تصور میں ماضی میں سفر کر سکتا ہے۔ فرض کریں کہ وہ روشنی کی رفتار سے کھر ب ہا کھرب سال بھی ماضی میں سفر کرتارہے تب بھی وہ زمانہ اور وقت کے نقطۂ آغاز تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر وہ کسی مقام کو نقطۂ آغاز سمجھ بھی لیتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے بلکہ اس صورت میں وہ دراصل ازل کی بجائے کسی اور چیز کی تلاش میں تھا۔
ایک بار پھر فرض کریں کہ وہی مسافر کسی کائنات کی تلاش میں ماضی کی طرف سفر کرتا ہے اور اگر اسے کوئی کائنات ملتی بھی ہے تو ازلیت اس کائنات کو اس کے ہاتھ سے چھین کر دوبارہ ایک لامتناہی راستہ پر ڈال دے گی۔ بظاہر یہ بات سمجھنا بہت مشکل نظر آتی ہے لیکن درحقیقت بہت آسان ہے۔ ماضی کی طرف ایسے فرضی سفر کرنے والے انسان کو اگر کائنات کا کوئی نشان ملتا بھی ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا چاہئے کہ یہ کائنات آخر اب تک معدوم کیوں نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس لمحہ جب اسے یہ کائنات ملی تھی عنطراپی کو اتنا لمبا وقت میسر آ چکا تھا جس میں ایسی بے شمار کائناتیں معدوم ہو سکتی تھیں۔
بڑے سے بڑے کسی ایسے عدد کا تصور کریں جس میں وقت کے تما م بے شمار اور عظیم ادوار سماسکیں۔ اب اگر ہم اس عدد سے ازل کا خلا پر کرنے کی کوشش کریں تو بھی ہمارا فرض کیا ہوا عدد یقینی طور پر ازل تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہو جائے گا۔ لیکن ازل کی کوئی حد دور دور تک نظر نہیں آئے گی۔ عنطراپی کو کائنات کے خاتمہ کیلئے خواہ ٹریلین ضرب ٹریلین سال درکار ہوں تب بھی خاتمہ ناگزیر تھا۔ ماضی کے اس فرضی سفر سے زمانۂ حال میں پہنچ کر سوچیں کہ آج ہمارے ارد گرد یہ کائنات آخر کیوں موجود ہے؟ کیا عنطراپی کے نتیجہ میں اسے اب تک فنا نہیں ہو جانا چاہئے تھا یہاں تک کہ ماضی کے اس فرضی لامتناہی سفر میں اس کا کوئی سراغ نہ مل سکتا؟
عنطراپی ہو یا نہ ہو، لیکن ایک اور امکان کو ضرور مد نظر رکھا جانا چاہئے۔ جدید تحقیقات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پروٹان کی ایک محدود عمر ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جبکہ قبل ازیں نظری طبیعیات کے ماہرین پروٹان کی عمر کو لامحدود خیال کرتے تھے۔ یہ عمر خواہ 1032 سال ہو یا 1034 سال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواہ یہ عمر کھربوں سال ہی کیوں نہ ہو پھر بھی یہ ایک محدود عمر ہے۔ اگر پروٹان کبھی تخلیق کئے گئے ہیں تو ایک دن ضرور ختم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ہمیشہ سے موجود ہیں اور کبھی تخلیق نہیں کئے گئے تو اصولاً آج سے بہت عرصہ پہلے انہیں عنطراپی کے ہاتھوں معدوم ہو جانا چاہئے تھا۔
ضیاع اور ازل اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ناممکن ہے کہ ایک چیز مسلسل ضائع ہونے کے باوجود بچی بھی رہے۔ ہر ضائع ہونے والی چیز لازماً ایک دن ختم ہو جائے گی لیکن کیا وجہ ہے کہ میں اور آپ اور دیگر اشیاء اس کائنات میں اس لمحہ موجود ہیں جبکہ ہماری اس کائنات کے اس لمحہ موجود رہنے کا کوئی جواز نہیں اور اسے اپنی تمام جاندار اور بے جان اشیاء کے ساتھ کہیں بہت پہلے ختم ہو جانا چاہئے تھا۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے بے حد پیچیدہ اور حیران کن خیال کریں مگر دراصل یہ حساب کا ایک سیدھا سادہ سوال ہے۔ ضائع ہو جانے والی چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اگر وہ ہمیشہ سے موجود ہے تو وہ ضائع نہیں ہو سکتی۔ اب ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ کہ ہم ایک ایسے ازلی ابدی خالق پر ایمان لائیں جو عنطراپی اور فنا کی دسترس سے بالا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آج سے دو ہزار چار سو سال پہلے ارسطو بھی اسی نتیجہ پر پہنچا تھا۔ اور وہ نتیجہ آج بھی ویسا ہی درست ہے۔
اس امر کی مزید وضاحت کیلئے ہم پھر بگ بینگ کا مطالعہ کرتے ہیں جو ایک کائنات کو نگلنے کے بعد دوسری کو جنم دیتا چلا جاتا ہے۔ یہاں اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ ہر بار جب بلیک ہول کائنات کو اپنی اتھاہ گہرائیوں میںسمیٹ لیتاہے تو عنطراپی کے نتیجہ میں ضائع ہونے والی توانائی کو واپس نہیں کھینچ سکتا اور نہ ہی بگ بینگ کے وقت بلیک ہول مادہ کی اتنی مقدار واپس لوٹا سکتا ہے جتنی اس نے نگلی تھی۔ بلیک ہول میں ایونٹ ہورائزن(Event Horizon) یاواقعاتی افق سے پرے غیر معمولی اور بڑی بڑی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں جو اسی نسبت سے عنطراپی کے باعث ہونے والے ضیاع کی شرح کو بڑھا دیتی ہیں۔ پس بلیک ہول سے جنم لینے والی نئی کائنات میں مادہ کی مقدار یقیناً اس مقدار سے کم ہو گی جو بلیک ہول کے اندر غائب ہو گیا تھا۔ عنطراپی کا شکار ہونے والا مادہ ہمیشہ کیلئے ضائع ہو جانا چاہئے پس بلیک ہول سے جنم لینے والی ہر نئی کائنات پہلی کی نسبت چھوٹی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل ابدالآباد تک بار بار نہیں دہرایا جا سکتا۔ بالآخر ایک وقت ایسا آئے گا جب کائنات کا حجم اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اس میں شاید اتنا مادہ بھی باقی نہ بچے جس سے ایک نیا بلیک ہول بن سکے۔
کیا یہ بچا ہوا تھوڑا سا مادہ ہمیشہ باقی رہے گا؟ یقینا نہیں۔ بچا کھچامادہ بھی بالآخر عنطراپی کی نذر ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر اس کائنات کا کوئی خالق نہیں تو اس کا نقطۂ آغاز بھی متصوّر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی آغاز نہیں تو لازماً یہ کائنات ازلی ابدی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو مذکورہ بالا محرکات کے نتیجہ میں یہ کائنات کب کی نیست و نابود ہو چکی ہوتی۔ ہر چیز کو فنا ہے اور لازماً ختم ہونے والی ہے۔ ایسی صورت میں آج کسی بھی چیز کی موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تو پھر ہم ہر ایک چیز کو فنا کردینے والی عنطراپی کے ہاتھوں اب تک کیسے بچے ہوئے ہیں؟ اور ایک بار معدوم ہو جانے کے بعد ہم عدم سے وجود میں کیسے آ گئے؟ یہ صرف خالق کائنات کی ذات ہی ہے جس تک عنطراپی کی رسائی نہیں۔ اس کی ہستی ہر اس چیز سے مختلف ہے جسے وہ پیدا کر چکا ہے یا آئندہ کرے گا۔ جونہی یہ فرض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جیسی کوئی ہستی پیدا کی ہے تو اسی وقت اس کا ازلی ابدی ہونے کا دعویٰ رد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہم بلیک ہول یا عنطراپی کا ذکر مخلوق کے حوالہ سے کرتے ہیں نہ کہ خالق کے۔ مخلوق اپنے لئے کوئی خالق تجویز نہیں کر سکتی۔ اس لئے لازماً خالق کو ہی ہر تخلیق کی علت العلل قرار دینا پڑے گا۔
بلیک ہول سے ہر بار جنم لینے والی نئی کائنات کی تخلیق کا یہ نظریہ ’بند کائنات‘ (Shut Universe)کا نظریہ کہلاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق کائنات پھیل تو رہی ہے لیکن یہ ہمیشہ اسی طرح نہیں پھیلتی رہے گی بلکہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اس پھیلاؤ کی ذمہ دار مرکز گریز قوت (Centrifugal Force)اپنے سے زیادہ طاقتور مرکز مائل (Centripetal) کشش ثقل کے برابر ہو جائے گی۔ کائنات پھیلنے کی بجائے سکڑنے لگے گی۔ جو سائنسدان ’بند کائنات‘ کے نظریہ کی بجائے وسعت پذیر کائنات (Open Universe)پر یقین رکھتے ہیں ان کے خیال میں کائنات کا مادہ ہمیشہ پھیلتا ہی چلا جائے گا۔ یہاںتک کہ کسی مرکزی قوت کشش کے تابع واپس اکٹھا نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ خلا کے ہر حصہ میں توانائی کی مقدار اتنی کم ہو جائے گی کہ کسی نئے بلیک ہول کی تشکیل ناممکن ہو جائے گی۔ کائنات کے متعلق اس نظریہ کو قبول کرنے کے باوجود بھی عنطراپی سے جان نہیں چھوٹتی۔ کائنات خواہ کتنی ہی پھیل جائے اور اس پر کتنا ہی طویل وقت کیوں نہ گزر جائے بالآخر عنطراپی کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتی۔ کیونکہ مادہ جہاں بھی موجود ہے عنطراپی اس پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ پس کائنات کے متعلق آپ کا جو بھی نظریہ ہو ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ یہ ابدی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:
(البقرۃ118:2 )
ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا آغاز کرنے والا ہے۔
اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔

(الرحمٰن28-27:55)
ترجمہ: ہر چیز جو اس پر ہے فانی ہے مگر تیرے رب کا جاہ و حشم باقی رہے گا جو صاحبِ جلال و اکرام ہے۔
عنطراپی کے عمل اور وجود کائنات کے معمہ کے حل کی صرف ایک ہی صورت ہے اور یہ وہ حل ہے جسے قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل پیش فرما دیا تھا۔ یہ ایک ایسی کائنات نہیں جس کے تخلیقی عمل میں گزشتہ بچا ہوا مادہ استعمال کرنا پڑے۔ بلکہ خالق کائنات اس کائنات کو ہر بار ازسر نو تخلیق کرتا ہے اور جب ایک کائنات اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر لیتی ہے تو خداتعالیٰ اسے ختم کر دیتاہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ اعلان اس وقت فرمایا جب دنیا میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ ایسے اعلانات ہی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح امور غیب کے اسرار ایک تسلسل کے ساتھ شہود میں بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ اسرار ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ تک پوشیدہ رہے اور ان کی کنہ تک نہیں پہنچا جا سکا۔ لیکن تحقیق و جستجو کے اس جدید دور میں یوں کھل کر سامنے آگئے جیسے ان کا ہمیشہ سے اس دور سے ہی تعلق رہا ہو۔
ایک اور امر بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں سائنس کی عظیم الشان ترقیات کے باوجود اس صدی کے آغاز تک سائنسدان اس بات کے قائل تھے کہ ایٹم کو توڑا نہیں جا سکتا۔ کچھ عرصہ تک تو وہ اسی نظریہ پر قائم رہے لیکن بالآخر وہ ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایٹم بم سے دنیا میں ہونے والی تباہی کے ساتھ ہی ایٹم کے غیر فانی ہونے کا نظریہ بھی دم توڑ گیا۔ بعدازاں پروٹان کے متعلق بھی یہی نظریہ پیش کیا گیا کہ اسے توڑنا محض حسابی امکان ہے، عملًاا یسا نہیں ہو سکتا۔ بہت زیادہ اخراجات سے تیار کی گئی گہری، زمین دوز تجرباتی سرنگوں کے ذریعہ اب تھوڑے تھوڑے کمزور سے شواہد ملنا شروع ہوئے ہیں کہ پروٹان کو توڑنا بھی ممکن ہے اور اس کی ممکنہ توڑ پھوڑ کے مشاہدہ کیلئے بہت وسیع اور مہنگے تجربات کئے جا رہے ہیں تا کہ ثابت کیا جا سکے کہ پروٹان کو توڑا جا سکتا ہے۔ اور اس کی عمر کا اندازہ لگانے کیلئے سائنسدانوں کو اب محض تھوڑا سا وقت درکار ہے۔
پروٹان کی توڑ پھوڑ کیسے اور کس شکل میں ہوتی ہے اور کیا اس کے بعد اسی مادہ سے دوبارہ پروٹان بن سکتا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب سائنسدانوں کی آئندہ آنے والی نسلیں دے سکیں گی۔ بہرحال گزشتہ نظریات کے برعکس اب یہ طے ہے کہ پروٹان ہمیشہ باقی نہیں رہتے۔
قرآن کریم اس کے متعلق چودہ سو سال پہلے ہی واضح فیصلہ دے چکا ہے۔ ہر اس چیز کیلئے جو پیدا کی گئی ہے ایک مدت مقرر ہے اور ایک دن وہ لازماً ختم ہو جائے گی صرف خداتعالیٰ ہی عدم سے وجود میں لاتا ہے اور جب چاہتا ہے معدوم کر دیتا ہے۔
قرآن کریم کا ایک دلکش انداز یہ ہے کہ وہ ایسی ایسی اصطلاحیں اور محاورے استعمال کرتا ہے جو بہت بعد میں کہیں جا کر انسانوں نے اختیار کیں۔ اس جدید دور میں ہر شخص اس سائنسی طریق سے واقف ہے جس کے مطابق اکثر اشیاء پر درج ہوتا ہے کہ یہ چیز کب تیار کی گئی اور کب تک قابل استعمال رہے گی۔ مثلاً جب پل بنائے جاتے ہیں تو ان کے افتتاح سے بھی پہلے انجینئر ان کی عمر کی تعیین کر کے ان کے ستونوں پر اسے کندہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح موٹر گاڑیوں، ریلوے انجنوں، ریل کی پٹریوں، سڑکوں اور متعلقہ سازو سامان کیلئے بھی یہی طریق اختیار کیا جاتا ہے درحقیقت انسان کے استعمال میں آنے والی ہر چیز کیلئے ایک عمر مقرر ہے۔ جس کی تعیین سائنسی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ آج کل تو ڈبوں اور بوتلوں میں بکنے والی خوردنی اشیا پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں تاریخ تک قابل استعمال ہے۔
پس خالق کائنات کی اپنی مخلوق کے بارہ میں باریک تفاصیل سے آگاہی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ قرآن کریم کا اسلوب اور اصطلاحات بالکل جدید معلوم ہوتی ہیں۔ مختصراً کائنات کے محدود ہونے کے متعلق یہ قرآنی اصول کہ، ہر چیز کو فنا ہے اور بالآخر وہ ختم ہو جائے گی، کبھی بھی باطل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تخلیق کے عظیم الشان منصوبے کی کتاب میں ہر چیز کا آغاز اور انجام پہلے سے درج کیا جا چکا ہے۔

(الانبیاء 105 : 21)
ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیںگے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیا تھا اُس کا اعادہ کریںگے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقینا ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔
اب ہم ذیل میں اپنے مذکورہ بالا موقف کی تائید میں بعض ممتاز سائنسدانوں کے حوالے پیش کرتے ہیں۔
پال ڈیویز(Paul Davies)جو ایڈلیڈ(Adelaide)یونیورسٹی میں نیچرل فلاسفی کے پروفیسر ہیں اور ٹمپلٹن(Templeton)جیسا اعلیٰ اعزاز حاصل کر چکے ہیںیوں رقم طراز ہیں:
’’انیسویں صدی کے وسط میں سائنسدانوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت تک ماہرین طبیعیات کا مطالعہ ایسے قوانین تک محدود تھا جو حاضر وقت سے مطابقت رکھتے تھے۔ اور جو وقت کے اعتبار سے ماضی اور مستقبل میں چنداں فرق کے روادار نہیں تھے۔ پھر حرارت اور انتقال حرارت کی دریافت سے صورت حال ہمیشہ کیلئے تبدیل ہو گئی۔ حرارت کی سائنس میں سب سے اہم اور مرکزی نقطہ دوسرا قانون حرارت ہے۔ جس کے مطابق حرارت ٹھنڈک سے گرمی کی بجائے گرمی سے ٹھنڈک کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس قانون کو الٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ قانون کائنات میں وقت کی سمت معین کرنے والے ایک ایسے اشارے کا کام دتیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلیاں ایک ہی سمت میں ہورہی ہیں۔ چنانچہ سائنسدانوں نے بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ کائنات مسلسل ایک ایسے مقام کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں پہنچ کر درجہ حرارت برابر ہو جائے گا۔ اور کائنات ایک ایسی حالت پر آکر ٹھہر جائے گی جہاں حرارت سرے سے مفقود ہو گی۔ اس انتہائی حالت کو، جس میں مالیکیول بے ترتیب ہو جائیں گے، عنطراپی کہا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کہ کائنات ابھی تک فنا نہیں ہوئی یعنی عنطراپی کی آخری حد نہیں آئی، یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔‘‘1
اسی طرح وہ اپنی کتاب God and the New Physics میں لکھتے ہیں:
’’ماہرین طبیعیات نے بے ترتیبی کا اندازہ لگانے کیلئے ایک حسابی پیمانہ متعارف کرایا ہے جسے عنطراپی کہتے ہیں بہت سے تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کسی نظام کی مجموعی عنطراپی کبھی بھی کم نہیں ہوتی۔‘‘2
’’اگر اس کائنات کی ترتیب محدود ہے اور یہ اس طرح درہم برہم ہو رہی ہے کہ یہ بے ترتیبی واپس دوبارہ ترتیب میں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی تو بالآخر ایک وقت ایسا آئے گا جب حرارت ہر جگہ یکساں ہو جائے گی۔ چنانچہ اس سے دو گہرے نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ یہ کائنات بالآخر ایک دن اسی عنطراپی کے ہاتھوںفنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ سائنسدان اس کو کائنات کی انزاعِ حرارت (Heat Death) کہتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے ورنہ ماضی بعید میں، جس کی کوئی حد و نہایت نہیں۔ وہ توازن (Equilibrium) کی حالت کوپہنچ چکی ہوتی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہے۔‘‘3
سان فرانسسکو یونیورسٹی کے چیئرمین پروفیسر ایڈورڈ کیسل (Edward Kessel)لکھتے ہیں:
’’زندگی جاری و ساری ہے۔ طبعی اور کیمیائی عوامل واقع ہو رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہماری کائنات ازل سے موجود نہیں ہو سکتی ورنہ بہت پہلے ہی اس کی قابل استعمال توانائی ختم ہو چکی ہوتی۔ اور اس کا سفر رک گیا ہوتا۔ پس بالواسطہ سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ کائنات کا ایک نقطۂ آغاز ہے اور یہ کہ خداتعالیٰ ایک حقیقت ہے کیونکہ کوئی بھی چیز ازخود پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کی تخلیق ایک علت العلل اور محرک اور خالق یعنی خداتعالیٰ کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘4
اس اقتباس سے واضح ہے کہ ہستی ٔباری تعالیٰ پر ایمان کیلئے بڑی ٹھوس سائنسی شہادت موجود ہے۔
ہمارا یہ موقف ان سائنسی معلومات پر مبنی ہے جن کے رخ پر سے ان بظاہر غیر جانبدار سائنسدانوں نے پوری تحقیق کے بعد پردہ اٹھایا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ چاہیں تو اس واحد اور ناگزیر نتیجہ کو تسلیم کرنے سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیں جو یہ ہے کہ:
اس کائنات کا لازماً ایک خالق ہونا چاہئے ورنہ ہم کیا کسی بھی چیز کے وجود کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ خواہ یہ وجود لمحہ بھر ہی کے لئے کیوں نہ ہو۔
حوالہ جات
1. DAVIES, P. (1992) The Mind of God: Science and The Search for the Ultimate Meaning. Penguin Books Ltd., England, p.47
2. DAVIES, P. (1990) God and the New Physics. Penguin Books Ltd., England, p.10
3. DAVIES, P. (1990) God and the New Physics. Penguin Books Ltd., England, p.11
4. KESSEL, E.L. (1968) Lets Look at Facts, without Bent or Bias. In: The Evidence of God in an Expanding Universe by Monsma, J.C. Thomas Samuel Publishers, India, p.51







قرآن کریم اور غیر ارضی حیات
کائنات کے بارہ میں قرآن کریم کا پیش کردہ تصور گزشتہ فلاسفروں اور دانشوروں کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت یونانی علم فلکیات کا دنیا بھر میں دور دورہ تھا اور تمام تہذیبیں اس سے متاثر تھیں۔ یہ صورت حال کوپرنیکس (Copernicus) کے زمانہ تک مسلسل جاری رہی۔ سب کا یہی خیال تھا کہ آسمان کسی پلاسٹک نما شفاف مادہ کی تہوں سے بنا ہوا ہے جس میں چمکدار اجسام جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مبلغ علم لے دے کردرج ذیل نکات تک محدود تھا:
.1 زمین مٹی، چٹانوں، پانی، ہوا اور دھاتوں پر مشتمل ہموار سطح والا ایک ایسا ساکن مادہ تھا جو نہ تو اپنے محور کے گرد اور نہ ہی کسی ستارہ کے گرد گھوم رہا تھا۔
.2 کائنات میں زمین کی حیثیت بالکل منفرد تھی جس کی کوئی اورمثال موجود نہیں تھی۔ زمین کو اپنی جگہ پر گڑا ہوا خیال کیا جاتا تھا جس کے گرد ستارے چکر لگا رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ کائنات کے متعلق اس تصور کی موجودگی میں زمین کے علاوہ کہیں اور زندگی کا امکان نہیں تھا۔ ان کے ذہنوں میں زمین کے علاوہ کسی اور مسکن کا تصور بھی نہیں آ سکتا تھا کیونکہ زمین ان کے نزدیک کائنات کے کہیں وسط میں واقع تھی۔ اس کے برعکس قرآن کریم نہ تو زمین کی کوئی منفرد حیثیت تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ساکن قرار دیتا ہے۔ زمینوں کی تعداد کے بارہ میں قرآن کریم کا بیان ہے:

(الطلاق 13:65)
ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور زمینوں میں سے بھی ان کی طرح ہی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس آیت اور دیگر بہت سی آیات میں ’سات‘ کا ہندسہ ایک معین قرآنی اصطلاح ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات بہت سی اکائیوں پر مشتمل ہے اور ہر اکائی سات (جو کہ ایک کامل عدد ہے) گروہوں میں منقسم ہے اور ہرگروہ میں کم ازکم ایک زمین موجود ہے جو اپنے اپنے کہکشانی نظام کے سہارے قائم ہے۔ اس نظام کا عمومی ذکر کرتے ہوئے ایک اور آیت کریمہ میں زمین کے علاوہ زندگی کی موجودگی کے تصور کو یوں بیان کیا گیا ہے۔:

(الشورٰی30:42)
ترجمہ: اور اس کے نشانات میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور جو اس نے ان دونوں میں چلنے پھرنے والے جاندار پھیلا دیئے۔
’دابۃ‘ سے مراد وہ تمام جاندار ہیں جو سطح زمین پر رینگتے یا حرکت کرتے ہیں۔ اس لفظ کا اطلاق پرواز کرنے والے یا تیرنے والے جانداروں پر نہیں ہوتا اور روحانی زندگی سے تو اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ عربی میں یہ لفظ ارواح یا فرشتوں کے متعلق کبھی استعمال نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا آیت کے دوسرے حصہ میں نہ صرف غیر زمینی مخلوق کے امکان کا ذکر ہے بلکہ معین طور پر ایسی مخلوق کے پائے جانے کا ذکر بھی ہے۔ یہ دعویٰ جدید ترین دور کے سائنسدان بھی وثوق سے نہیں کر پائے۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب ہم اس آیت کو آخر تک پڑھتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دیگر کروّں پر موجود زندگی کو زمین پر موجود زندگی سے ملا دے گا:

(الشورٰی30:42)
ترجمہ: اور وہ انہیں اکٹھا کرنے پر خوب قادر ہے جب وہ چاہے گا۔
اس آیت میں ’جمعھم‘ کا لفظ زمین اور دوسرے مقامات پر موجود زندگی کو باہم ملا دینے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان سے یہ رابطہ کب ہو گا اور نہ ہی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ رابطہ زمین پر ہوگا یا کہیں اور؟ مگر یہ ذکر قطعی طور پر موجود ہے کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا انہیں ملا دے گا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ’جمع‘ کے لفظ کا اطلاق بالواسطہ جسمانی رابطہ پر بھی ہو سکتا ہے اور بلا واسطہ رابطہ پر بھی۔ صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ کب اور کیسے ہو گا؟ لیکن چودہ سو سال قبل کی گئی یہ پیشگوئی اپنی ذات میں ایک جیتا جاگتا اعجاز ہے۔
قرآن کریم میں درج یہ پیشگوئی اس دور میں کی گئی جب علم فلکیات کی سائنس نے ابھی جنم نہیں لیا تھا۔ اس دور میں کائنات کی ہیئت کے متعلق محض تک بندیوں سے کام لیا جاتا تھا۔ اور زمین کے علاوہ زندگی کی موجودگی کا خیال بھی بعیدازقیاس تھا حتیٰ کہ یہ دعاوی آج بھی صرف سائنسی ناولوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔
کائنات میں کسی اور جگہ حیات کی موجودگی کے متعلق سائنسدان اب تک اپنے پرانے شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں اور حیات کی موجودگی کی تائید میں کوئی معین شہادت نہ ملنے کی وجہ سے گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔
گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر آرچبالڈ رائے (Archibald Roy)ان معروف سائنسدانوں میں سے ہیں جو اس خیال کے پرجوش حامی ہیں کہ دوسرے کرّوں پر آباد ذی عقل مخلوق کی موجودگی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ رقمطراز ہیں:
’’مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں غیر ارضی زندگی کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نہ صرف اس بات کا امکان ہے کہ ہم ان کا بھیجا ہوا سگنل وصول کر سکیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم کسی باشعور زندگی کے ساتھ رابطہ اور معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔‘‘ 1
اس مسئلہ پر ہر شخص پروفیسر رائے (Roy)سے متفق نہیں۔ ٹیولین (Tulane) یونیورسٹی، نیواورلینز (New Orleans)کے پروفیسر ڈاکٹر فرینک ٹپلر(Frank Tipler)کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس سلسلہ میں زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کی مایوسی کی بنیاد اعداد و شمار پر ہے جن کے مطابق ان کے نزدیک محض ارتقا کے اندھے عمل کے نتیجہ میں انسان جیسی ذہین مخلوق کی کہیں اور موجودگی کا امکان اتنا کم ہے کہ وہ اعداد و شمار کے کسی قانون کے دائرے میں نہیں آ سکتا۔ ابھی تک تو زمین پر زندگی کا ارتقا خود ایک حل طلب معمہ ہے۔ اس عمل کے دہرائے جانے کیلئے اتنے اتفاقات کا جمع ہو جانا حساب کی روسے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر ٹپلر لکھتے ہیں:
’’زمین کے علاوہ کسی اور کرّہ پر ذوی العقول موجود نہیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ شواہد اس امکان کے خلاف ہیں اکثر ماہرین فلکیات اس خیال سے محض ایک فلسفیانہ اصول کی بنا پر چمٹے ہوئے ہیں کہ کوپرنیکس (Copernicus) کے نظریہ کے مطابق کائنات میںہماری حیثیت بہت معمولی ہے۔ مگر ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ خیال درست نہیں کائنات ارتقا پذیر ہے اور ہر طرف سے آنے والی شعاعوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کائنات میں زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ یہ بہت زیادہ گرم تھی۔ چنانچہ کائنات میں ہماری حیثیت غیر معمولی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو پہلی تہذیب بننا تھاسو وہ ہم ہیں۔‘‘ 2
برٹش انٹرپلینیٹری سوسائٹی (British Interplanetary Society)کے سابق نائب صدر ڈاکٹر ٹونی مارٹن بھی انہی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ اس تمام مخالفت کے باوجود ڈاکٹر رائے (Roy) کے سائنسی خواب کے کم از کم جزوی طور پر پورا ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ کا ادارہ ناسا (NASA)غیر ارضی باشعور مخلوق کی وسیع پیمانے پر تلا ش کیلئے پہلے ہی حکومت سے منظوری لے چکا ہے۔ پروفیسر ساگاں (Sagan)جیسے بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنسدان بھی اس خیال کے پر جوش حامی ہیں۔ 3
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جس حقیقت کو قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے بیان کیا تھا وہ عصر حاضر کے سائنسدانوں پر آج منکشف ہو رہی ہے۔ قرآن کریم ایک قدم اور آگے جا کر پیشگوئی فرماتا ہے کہ ایک دن انسان اس مخلوق سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اگرچہ اس پیشگوئی کے کامل ظہور کا وقت ابھی نہیں آیا مگر اس کے آثار افق پر نمودار ہونے لگے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی پیشگوئیوں کو سائنسی ترقی پر سبقت حاصل ہے۔ ہر نیا دور کچھ ایسی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھتا ہے جن کی تصدیق ماضی میں ممکن نہیں تھی۔ لہٰذا اچھی طرح واضح ہو جانا چاہئے کہ بنیادی طور پر قرآنی پیشگوئیاں اپنی نوعیت کے اعتبار سے سائنسی اندازوں سے بالکل مختلف ہیں۔
انسانی تصور کا فطرت کے معلوم حقائق سے بڑھ کر آئندہ رونما ہونے والے واقعات تک پہنچنے کی کوشش کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر مستقبل ان قیاس آرائیوں کی تصدیق شاذ ہی کرتا ہے۔ نیز ایسے تمام قصے انہی باتوں تک محدود ہوتے ہیں جن کے ہونے کا امکان اس زمانہ کے علم سے ثابت ہو۔ سائنسی افسانہ نگار مروجہ علم کی بنیاد پر مستقبل کے امکانات کے بارہ میں اندازے لگایا کرتے ہیں۔ بسا اوقات حقیقت ان کے بے ہنگم اندازوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور مستقبل کی شکل و صورت ان کے تصورات کے مطابق نہیں ڈھلتی۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ غیب کے متعلق انسانی تصور کی پہنچ بہت ہی محدود ہے۔
کسی بھی دور میں انسانی تصورات کے محدود ہونے کے حوالہ سے لیونا رڈو ڈا ونچی (Leonardo da vinci)جیسے ذہین شخص کی مثال بہت موزوں ہو گی۔ اس نے انسان کے پرواز کرنے کی صلاحیت پر غور کیا مگر اپنے زمانہ کے محدود علم کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ اس وقت تک سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جس کی بنا پر انسانی ذہن آگ کی مدد سے اڑنے والی مشین کے ذریعہ پرواز کرنے کا تصور کر سکے۔ چنانچہ ہوائی جہاز کی ابتدائی شکل کا کوئی تصور بھی لیونارڈو کی پہنچ سے باہر تھا۔
لیکن آسمانی صحیفوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے بیان کردہ علوم زمانی قیود سے آزاد ہوا کرتے ہیں اور ان کا درست ثابت ہونا کوئی اتفاقی امر نہیں ہوا کرتا۔ جدید علوم کی کسی بھی دریافت سے کوئی قرآنی پیشگوئی کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوئی۔
چنانچہ ہمیں امیدواثق ہے کہ مستقبل سے تعلق رکھنے والی تمام پیشگوئیاں اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی۔ زمین پر آباد زندگی اوراس سے باہر بسنے والی مخلوق کے باہمی رابطہ کی پیشگوئی کا تعلق بھی اس قسم کی پیشگوئیوں سے ہے جن کا پورا ہونا ابھی باقی ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں جب انسان خلا میں بسنے والی مخلوق سے کسی نہ کسی طرح رابطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
حوالہ جات
1. ROY, A. E., CLARKE, D. (1989) Astronomy: Structure of the Universe. Adam Hilger Ltd., Bristol, p.270
2. TIPLER, F. (November, 1991) Alien Life. Nature: 354:334-335
3. Mc KIE, R. (September, 1985) Calling Outer Space: Is Anybody There? Readers Digest:31-35

باب پنجم
٭حیات: وحی ٔ قرآن کی روشنی میں
٭زندگی کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات
٭جنّات کا وجود
٭ارتقا میں چکنی مٹی اور ضیائی تالیف کا کردار
٭بقا: حادثہ یا منصوبہ بندی؟
٭قدرت میں سمت یا کائریلیٹی
٭نظریۂ انتخابِ طبعی اور بقائے اصلح
٭شطرنج کی بازی یا اتفاقات کا کھیل؟
٭کرئہ ارض پر زندگی کا مستقبل
٭ عضویاتی نظام اور ارتقا
٭وقت کا اندھا، بہرہ اور گونگا خالق
حیات:وحیٔ قرآن کی روشنی میں اجمالی تعارف
قرآن کریم نے تخلیقی عمل کے بہت سے پہلوؤں کو بڑی وسعت سے بیان کیا ہے جن میں ارتقا کے جملہ عوامل بھی شامل ہیں اور وہ حالات بھی جو اس کا باعث بنے۔ قرآن کریم کے بعض بیانات اس قدر منفرد اور اچھوتے ہیں کہ وہ تخلیق سے متعلق تحقیق میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں ہم قارئین کو انہی اصولوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تعارف کے طور پر جو کچھ یہاں بیان کیا جا رہا ہے اس کی مزید وضاحت آگے چل کر متعلقہ ابواب میں کی جائے گی۔
مندرجہ ذیل آیات میں اہم رہنما اصول بیان کئے گئے ہیں جو قابل توجہ ہیں:

(الملک 4-2:67)
ترجمہ: بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضۂ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔ اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔ وہی جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟
یہ وہ خاص آیات ہیں جو تمام کائنات کی تخلیق کے منصوبہ پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہاں مندرجہ ذیل دو بنیادی اصولوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دوم یہ کہ زندگی کا ظہور اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کا ارتقا درجہ بدرجہ ہوا ہے۔ یہ دوسرا اصول اللہ تعالیٰ کی صفت ’’رب‘‘ سے متعلق ہے جس کا استعمال قرآن کریم میں عموماً تخلیقی عمل کے سلسلہ میں ہوا ہے اور اس سیاق و سباق میں اس کا اشارہ ایسی ہستی کی طرف ہے جو کسی چیز کو اس کی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت تک پہنچائے۔ مثلاً جب گھوڑے کے کمزور اور ناتواں بچہ کی دیکھ بھال کر کے اسے خوبصورت اور مضبوط گھوڑا بنا دیا جائے تو اس کے لئے عرب رَبَّ الْفُلُوَّ کا محاورہ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے گھوڑے کی نہایت عمدگی سے دیکھ بھال اور پرورش کی۔ اسی طرح الرّبکا ایک اور معنی ’پیش بینی کرنے والا‘ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو خالق ہے اپنی تخلیق کے درجہ بدرجہ ارتقا کی مناسبت سے ان کی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم مرحلہ وار تخلیق کا ذکر فرماتا ہے اور کسی چیز کے یکدم عالم وجود میں آنے کے تصور کو رد کرتا ہے۔ اس خیال کی تردید اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسا خیال اللہ تعالیٰ کی عظمت کے منافی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم اس بارہ میں انسان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(نوح15-14:71)
ترجمہ: تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ سے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے تمہیں مختلف طریقوں پر پیدا کیا۔
سورۃ الانشقاق کی مندرجہ ذیل آیت بنی نوع انسان پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ ان کا سفر مسلسل جاری ہے:
(الانشقاق20:84)
ترجمہ: یقینا تم ضرور درجہ بدرجہ ترقی کرو گے۔
یہ تخلیق کا مکمل اور ہمہ گیر منصوبہ ہے۔ ارتقاکے مختلف مراحل میں زندگی پر اثرانداز ہونے والے عوامل مختلف رہے مگر ان کا منتہیٰ ہمیشہ انسان کی تخلیق ہی رہا۔
یہ اہم موضوع سائنسدانوں اور علماء دین کے مابین نزاع کا موجب بنتا رہا ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی جگہ تخلیق کے گورکھ دھندے کو سلجھانے کیلئے کوشاں تھے۔ چنانچہ مختلف نظریات تجویز کئے گئے اور اس مقصد کیلئے مختلف تجربات بھی تشکیل دیئے گئے تا کہ کسی طرح تجربہ گاہ میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو زندگی کے آغاز میں زمین پر موجود حالات سے ملتے جلتے ہوں جن کی موجودگی میں اربوں سال پہلے حیات سے یکسر عاری بے جان زمین میں نامیاتی جرثوموں کی پیدائش ممکن ہوئی لیکن اس بیان سے پہلے ہم قرآن کریم کی وہ آیات سامنے رکھتے ہیں جن میں زندگی کے آغاز اور ارتقا کا ذکر ہے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے دو مقاصد ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن کریم کس طرح غیب کے رُخ سے پردہ اُٹھا کر اُسے شہود میں بدل دیتا ہے۔ دوم یہ کہ قرآن کریم اس پہلو سے مخفی حقائق کو اس طور سے کھولتا ہے کہ اس علم کے ماہرین کے لئے رہنمائی کا موجب بنے۔
سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن کریم عموماً جہاں کہیں بھی تخلیق کا ذکر کرتا ہے انسانی تخلیق کے حوالہ سے ہی کرتا ہے جبکہ اس سے قبل جو کچھ تخلیق ہوا تھا اس سے اس کی کوئی انسانی مشابہت نہیں تھی۔ لیکن چونکہ خداتعالیٰ کا بنیادی مقصد انسان کی تخلیق تھا اس لئے یہ امر اسی حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔
مثلاً ایک ہوائی جہاز کو لے لیں جس کی تکمیل کا عمل کئی مراحل میں سے گزرتا ہے اور بہت سے پرزے درکار ہوتے ہیں۔ ڈیزائن کرنے والے کی نظر میں ہر مرحلہ اور ہر پرزہ (نٹ بولٹ، سے لیکر سیٹوں تک) اپنی اپنی جگہ خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اصل مقصد تو بہرحال جہاز اور اس کی تیاری ہے۔ نٹ بولٹ کیل وغیرہ دیگر کاموں میں بھی استعما ل ہو سکتے ہیں لیکن یہاں وہ اصل مقصد یعنی ہوائی جہاز کی تیاری کیلئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
اس زاویۂ نگاہ سے جائزہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں قرآن کریم ماہرین حیاتیات سے اختلاف کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ارتقائی عمل حادثاتی اور محض اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کا آغاز اور ارتقا محض بے مقصد اور لغو ہے ہم یہاں قرآن کریم میں بیان فرمودہ مختلف مراحل کا باری باری مختصرتعارف کرائیں گے لیکن تفصیلی ذکر متعلقہ ابواب میں کیا جائے گا۔
اوّلین جاندار اجسام کی تخلیق
یہاں ہم قرآن کریم کے حوالہ سے تخلیق کے اس دور کا ذکر کرتے ہیں جو حیاتیاتی ارتقا سے قبل وجود میں
آیا۔ قرآن کریم میں اس دور کے ذکر کے ساتھ ایک خاص مخلوق یعنی ’جنّ‘ کا ذکر ملتا ہے لیکن یہ جنّ روز مرہ کی بول چال میں مذکور جنّوں اور بھوتوں سے قطعی طور پر مختلف ہیں۔
انسانی ذہن میں جنوں اور بھوتوں کا تصور عجیب و غریب قسم کے توہمات پر مبنی ہوا کرتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنوں میں آدھی انسانی اور آدھی بھوتوں اور چھلاووں والی صفات پائی جاتی ہیں یہ اپنی منشا کے مطابق شکل تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ عموماً عورتوں اور کمزوروں میں دہشت پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ فلاں پر جنّ چڑھ گیا ہے۔ نام نہاد پیر مختلف الہامی کتب کی بعض مخصوص آیات کے ذریعہ انہیں قابو کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار قابو میںلانے کے بعد جنوں سے حیرت انگیز کام لئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً اپنی مرضی سے اچانک کسی چیز کو ہوا میں اچھال دینا یا پیاروں کو اپنی طرف مائل کرنا یا دشمن کو زیر کرنا وغیرہ۔ بہرحال قرآن کریم میں ابتدائے آفرنیش کے حوالہ سے بیان کئے گئے جنوں کا ہرگز ہر گز اس قماش کے جنّات سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ جنّ تو محض انسانی وہم کی پیداوار ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ جنّوں کا تفصیلی ذکر ایک علیحدہ باب میں کیا جائے گا۔
تخلیق میں مٹی کا کردار
قرآن کریم زندگی کے ارتقائی سفر کے حوالہ سے خشک اور گیلی مٹی کا ذکر بار بار کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
(اٰل عمران 60:3)
ترجمہ: اسے اس نے مٹی سے پیدا کیا۔
اسی ضمن میں قرآن کریم کا مزید ارشاد ہے:
(الانعام 3:6)
ترجمہ: اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا
گیلی مٹی سے تخلیق کا ذکر سورۃ رحمان میں کچھ اس انداز سے ملتا ہے:

(الرحمٰن15:55 )
ترجمہ: اس نے انسان کو مٹی کے پکائے ہوئے برتن کی طرح کی خشک کھنکتی ہوئی مٹی سے تخلیق کیا۔
یہاں ٹھیکری کی اس حالت کا ذکر مقصود ہے جس میں سے آواز آتی ہو۔ اسی طرح سورۃ الحجر میں بھی مٹی کا ذکر موجود ہے۔ لیکن وہاں مٹی کی حالت سڑے ہوئے گاڑھے گارے کی مانند بیان کی گئی ہے۔
غرضیکہ قرآن کریم زندگی کے آغاز کا جو نقشہ پیش کرتا ہے اس میں درجہ بدرجہ خشک مٹی، پانی، گیلی مٹی اور پھر ایسے سڑے ہوئے گارے کا ذکر ہے جس نے بعد میں خشک ہو کر کھنکتی ہوئی مٹی کی شکل اختیار کر لی۔ آخری دو مراحل خصوصی توجہ کے محتاج ہیں کیونکہ نزول قرآن کے وقت کسی کے خواب و خیال میںبھی نہیں آ سکتا تھا کہ انسانی پیدائش کا تعلق کیچڑ یا کھنکتی ہوئی مٹی سے ہو سکتا ہے۔
اس بارہ میں سائنسدانوں کا موقف ہم مختصراً آگے چل کر بیان کریں گے تا کہ قاری سائنسی تحقیق اور قرآن کریم کے پیش کردہ حقائق کا موازنہ کر کے آزادانہ طور پر نتیجہ اخذ کر سکے۔ ایک طرف الہام الٰہی پر مبنی قرآن کریم کا بیان ہے اور دوسری طرف ایسے سائنسدانوں کی سوچ اور کاوش جنہوں نے زندگی کے آغاز کی جستجو میں اپنی زندگیاں سائنسی تحقیقات پر صرف کردیں تو قاری پر یہ واضح ہو جائے گا کہ جب بھی اور جہاں بھی سائنسی تحقیق کسی ٹھوس نتیجہ پر پہنچتی ہے تو وہ نتیجہ قرآن کریم کی پیش کردہ تصویر کے عین مطابق ہوتا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے وقت سائنس ابھی اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی کہ زندگی کے آغاز اور اسرار کا کھوج لگا سکے۔ ان قرآنی آیات کا مقصد یقینا آج کے ترقی یافتہ انسان کے استفادہ کیلئے ہے تا کہ اس کا ایمان ایک علیم وخبیر خدا کی ہستی پر مستحکم ہو جائے۔
زندگی کی تخلیق یا بقا بامقصد ہے یا اتفاقی؟
اس ضمن میں قرآنی تعلیم عام خیال کے بالکل برعکس ہے۔
قرآن کریم کے مطابق اس زندگی کا ہر قدم با مقصد ہے اور انفرادی یا اجتماعی سطح پر اس کے ارتقا اور بقا میں کسی قسم کا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوا۔ ہر چیز کی حفاظت کا ایسا سامان کیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے خطرہ سے محفوظ رہ سکے اور زندگی کی بازی نہ ہار جائے۔ چنانچہ مختلف انواع کی بقا کسی بھی صورت میں حادثاتی نہیں ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کی بقا کیلئے ایک جامع اور مکمل منصوبہ زیر تکمیل ہے اور جس پر حیات کی پوری تاریخ کے دوران عمل ہو رہا ہے۔ اس امر کی وضاحت کیلئے ہم نے بہت سی قرآنی آیات میں سے مندرجہ ذیل آیات کا انتخاب کیا ہے:

(الرّعد12-9:13 )
ترجمہ : اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ (بطور حمل) اٹھاتی ہے اور (اسے بھی) جو رحم کم کرتے ہیں اور جو وہ بڑھاتے ہیں۔ اور ہر چیز اس کے ہاں ایک خاص انداز ے کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے بہت بڑا (اور) بہت رفیع الشان ہے۔ برابر ہے تم میں سے وہ جس نے بات چھپائی اور جس نے بات کو ظاہر کیا اور وہ جو رات کو چھپ جاتا ہے اور دن کو (سر عام) چلتا پھرتا ہے۔ اس کے لئے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ (مقرر) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
سمتوں کی حقیقت
الہامی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اور کتاب میں انسانی زندگی کے حوالہ سے سمتوں کا ذکر
موجود نہیں۔ جبکہ قرآن کریم میں مذکور دائیں، بائیں سمت کی اہمیت کا مطالعہ کر کے انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اور یہی رنگ آنحضورﷺ کے قول و فعل میں نظر آتا ہے جہاں ایک مسلمان کی زندگی میں دائیں اور بائیں کے مخصوص کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہر صاف ستھرے کام میں دائیں ہاتھ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانا، کوئی چیز دائیں طرف سے پیش کرنا اور دائیں ہاتھ سے کسی گندی چیز کو نہ چھونا جبکہ بائیں ہاتھ کا استعمال اس کے الٹ ہے۔ چنانچہ جب ایک مسلمان دوسرے سے ہاتھ ملاتاہے تو اسے کامل یقین ہوتا ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ صاف ستھرا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آئندہ جب یہ مضمون مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے گا تو قاری پر قدرت میں پائی جانے والی ’سمت‘ کے بارہ میں حیران کن انکشافات ہوں گے جو اس حقیقت سے پردہ اٹھائیں گے کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا واحد لا شریک خدا ہی کائنات کا خالق ہے۔
ترجیح (Partiality) کی اصطلاح کا استعمال عموماً اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ بتانا مقصود ہو کہ ایک چیز کو بغیر کسی خاص وجہ کے اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن جب یہی بات اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے ہو توانسان اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کیوں ایک خاص سمت کو ترجیح دی ہے؟ تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں کوئی مخفی حکمت پوشیدہ نہیں ہے۔
جوں جوں سائنس علت اور معلول کی جستجو میں زیادہ گہرائی میں جاتی ہے قدرت کے ناقابلِ توضیح حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں۔
انتخابِ طبعی اور اصول بقائے اصلح
قرآن کریم میں بار بار واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ تخلیق کے ہر قدم پر کوئی نہ
کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور ہر بار یہ فیصلہ کسی اتفاقی حادثہ کا نتیجہ نہیں ہواکرتا بلکہ ہر فیصلہ کے پیچھے علیم و خبیر خدا کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیت میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے:

(القصص 69:28 )
ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (اس میں سے) اختیار کرتا ہے۔ اور ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پاک ہے اللہ اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
مندرجہ ذیل آیات میں بھی یہی مضمون چلتا ہے:

(الواقعہ74-58:56 )
ترجمہ: ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے۔ پھر تم کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ بتاؤ تو سہی کہ جو نطفہ تم (رحم میں)گراتے ہو، کیا تم ہو جو اسے پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے ہی تمہارے درمیان موت کو مقدر کیا ہے اور ہم باز نہیں رکھے جا سکتے کہ تمہاری صورتیں تبدیل کر دیں اور تمہیں ایسی صورت میں اٹھائیں کہ تم اسے نہیں جانتے۔ اور یقینا پہلی پیدائش کو تم جان چکے ہو۔ پھر کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو کچھ تم کاشت کرتے ہو کیا تم ہی ہو جو اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہتے تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کر دیتے پھر تم باتیں بناتے رہ جاتے کہ یقینا ہم چٹی تلے دب گئے ہیں۔ نہیں! بلکہ ہم محروم ہو چکے ہیں۔ کیا تم نے اس پانی پر غور کیا ہے جو تم پیتے ہو؟ کیا تم ہی نے اسے بادلوں سے اتارا ہے یا ہم ہیں جو اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہتے تو اسے کھارا کردیتے پس تم شکر کیوں نہیں کرتے؟ بتاؤ تو سہی کہ وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو، کیا تم اس کا شجر(نماشعلہ) اٹھاتے ہو یا ہم ہیں جو اسے اٹھانے والے ہیں؟ ہم نے اسے ایک نصیحت کا ذریعہ اور مسافروں کیلئے فائدہ کا موجب بنایا ہے۔
یہ آیات بہت تواتر سے اور مؤثر رنگ میں ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق حقیقی ہے اور تمام فیصلے اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ فیصلہ کا انحصار چانس یا اتفاق پر نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی کوئی تخلیق حادثاتی ہے۔ ایسے ہر موقع پر خداتعالیٰ کی ذات ہی فیصلہ کرتی اور ایک مدبر بالارادہ ہستی کی حیثیت سے اسے نافذ بھی کرتی ہے۔
حیات کے ارتقائی عمل کے دوران کسی اندھا دھند اتفاقی اور حادثاتی خصوصیات کا دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خداتعالیٰ ہی ہے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں زندگی کو پروان چڑھاتا، اس کے خدوخال ابھارتا اور اسے جینے کے ڈھنگ سکھاتا ہے اور اس عظیم الشان منصوبہ میں کوئی رخنہ نہیں کیونکہ اس کا چلانے والا اسے اپنے عرش عظیم سے نہایت قدرت اور تدبیر سے چلا تا ہے۔ اس کی تخلیق بے عیب اور تضادات سے پاک ہے۔ مندرجہ بالاآیات اس مضمون کو نہایت وضاحت سے بیان کرتی ہیں۔
ڈارون کے مفروضہ ’’بقائے اصلح‘‘ جس کی وضاحت آئندہ صفحات میں آئے گی، میں اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ طریق غلطی سے مبرا ہے۔ اس کے برعکس بعض جانور زندگی کی تگ ودو میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ محض ان مخصوص حالات سے ہی عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جہاں تک زیادہ ترقی یافتہ جانوروں کا تعلق ہے، کسی جانور کی بقا اس بات کی ضمانت نہیں دیتی کہ اس کی بقا بخش قوتیں بدستور محفوظ رہیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظریہ میں کسی ایسی با شعور ہستی کی گنجائش نہیں ہے جو ہمیشہ اس زندگی اور موت کی کشمکش کے نتیجہ میں ابھرنے والی خوبیوں کا انتخاب کر سکے تخلیق کائنات کے بارہ میں قرآن کریم ایک ایسے ہمہ گیر نظام کی وضاحت کرتا ہے جو ہر طرح سے بے عیب ہے اور اس میں کسی کمزوری یا رخنہ کا امکان تک نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے:

(المک 4-2:67)
ترجمہ: بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضۂ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔ وہی جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟
شطرنج یا چانس کا کھیل !
مندرجہ بالا آیات میں اسی مضمون کا ذکر ہے کہ ارتقا کے پس پردہ ایک باکمال ہاتھ کارفرما ہے جو اس کے مہروں کو
ایک خاص مہارت کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ تخلیق کی اس عظیم الشان بساط پر ہر مہرہ ایک مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے اور تخلیق کے اس منظر میں کسی بے ترتیبی یا حادثہ کی گنجائش نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے مطابق جاندار اور بے جان تمام اشیا میں ایسا باہمی ربط ہے کہ اس میں کوئی بد نظمی نہیں پائی جاتی۔ اس طرح کسی دوسرے خدا کا تصور بھی مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے وگرنہ تمام ترتیب درہم برہم ہو کر رہ جاتی۔
اب تک ہماری بحث محض تعارف کی حد تک تھی۔ اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ انہی مضامین کا کھل کر اور تفصیل سے جائزہ لے سکیں۔
زندگی کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات
صدیوں سے فلسفی اس گتھی کو سلجھانے میں سرگرداں رہے ہیں کہ کائنات کیسے معرض وجود میں آئی؟ موجودہ دور میں ان کی توجہ خاص طور پر زندگی کی ابتدا کے مطالعہ پر مرکوز رہی ہے۔ لیکن وہ بھی اسی روایتی اوّل و آخر کے معمہ میں الجھ کر رہ گئے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی تھی یا انڈہ؟ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ نامیاتی مادہ کیسے وجود میں آیا؟ زندگی اور نامیاتی مادہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کی تخلیق سے پہلے غیر نامیاتی اجزا نامیاتی کیمیائی مادہ میں کیسے تبدیل ہوئے؟
محققین کو ایک عجیب متناقض صورت حال در پیش تھی۔ ایک مسئلہ حل ہوتا تو کئی اور زیادہ پیچیدہ اور بظاہر لا ینحل سوال سر اٹھانے لگتے۔ تحقیق کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے سائنسدان اس میں شامل ہو گئے۔ اور کبھی کبھی تو یوں لگتا تھا کہ جیسے خزانہ کی کنجی ہاتھ آنے لگی ہو۔ جس سے بعض بلند بانگ دعاوی کرنے والے سائنس دانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی کہ ان کی تحقیق کے نتائج ان کی سوچ کے عین مطابق ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض محتاط سائنسدان ایسے بھی تھے جو اپنے ساتھیوں کو بے وجہ ایسے بلند بانگ دعاوی سے روکتے رہے اور انہیں خبردار کرتے رہے کہ وہ کسی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ غرضیکہ سائنسدانوں نے اس علمی خزانہ کی کنجی کی تلاش میں جو ان کے معیار کے مطابق ہو اپنی تحقیق کے گھوڑے ہر طرف دوڑا دیئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تا حال کوئی ایسا مجوزہ حل سامنے نہیں آیا جسے سائنسی حلقوں نے بالاتفاق تسلیم کر لیا ہو۔ مختلف نظریات سے متعلق مختلف سائنس دانوں کا ردّ عمل بھی اتنا ہی مختلف رہا ہے۔ دنیا کے سامنے پیش ہونے والے ہر نئے خیال کو سائنسدان یا تو مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں اور اس کی جگہ ایک اپنا نظریہ پیش کر دیتے ہیں یا اس نئے خیال کو جزوی طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر تحقیق کی ایک سمت معین ہو چکی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہے اور ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں جو بعض نظریات کی مزید تائید کرتے ہیں اور سائنسدانوں میں زیادہ مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔
سائنسی اصطلاحات کے غیر ضروری استعمال سے ہمارا مقصد قارئین کو ہر گز پریشان کرنا نہیں لیکن ایک حد تک ان کا استعمال لابدی ہے ورنہ ہم سائنسی معلومات کو متعلقہ قرآنی آیات سے مربوط نہیں کر سکیں گے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اس مضمون کو ایسے سادہ انداز میں پیش کریںکہ سائنس سے ناواقف قاری بھی تھوڑی سی کوشش سے اس کو سمجھ سکے جو مشکل تو ہو گا لیکن انشاء اللہ ناممکن نہیں۔ ہمارے استدلال سے کم از کم یہ ضرور واضح ہو جائے گا کہ زندگی کے آغاز اور ارتقا سے متعلق قرآنی بیان کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس سائنسی تحقیق مسلسل قرآنی بیانات کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس مضمون کے مطالعہ سے انسان پر ایسے عجائبات کا دروازہ کھل جائے گا جس کے سامنے ایلس ان ونڈرلینڈ (Alice in Wonderland) جیسے عجائبات بھی ماند پڑ جائیں گے۔ ایلس کے عجائبات تو لے دے کر محض افسانوی تھے لیکن ہم الہام الٰہی کے دوش پر سوار ماضی بعید کے جس سفر پر آپ کو لئے جا رہے ہیں اسے سائنسی تحقیقات کی حمایت حاصل ہے۔ یہ قصے کہانی کی بات نہیں بلکہ یکتا و بیمثل خالق کی تخلیق کے عجائبات اور اسرار و رموز ہیں۔
آغازِ حیات کے متعلق مختلف آراء
آئیے اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے تصور کریں کہ آج سے ساڑھے تین ارب سال پہلے
زمین پر حیات کے آغاز سے بھی پہلے کرۂ ارض کے ماحول اور آب و ہوا کی کیا کیفیت تھی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ فضا میں آکسیجن کا یکسر فقدان تھا ایسے ماحول کو Anoxicکہا جاتا ہے۔ زندگی کی کوئی بھی شکل جسے اپنی بقا کیلئے عمل تکسید (Oxidation) پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ غیر نامیاتی مادہ کو نامیاتی مادہ میں تبدیل ہونے کیلئے آکسیجن کے بغیر ایسے ہی ماحول کی ضرورت تھی۔ چنانچہ ہمارے عقیدہ کے مطابق ایک ارادہ اور منصوبہ بندی کے تحت اور سیکولر سائنسدانوں کے خیال میں اتفاقاً کرہ ٔہوائی شروع کے ساڑھے تین ارب سال کے دوران آکسیجن سے خالی رہا۔ حتیٰ کہ Stratosphereیعنی کرۂ قائمہ میں اوزون (Ozone) کی حفاظتی تہ تک موجود نہیں تھی۔ اس سے یہ بات اخذکی جا سکتی ہے کہ وہ کیمیاوی مادے جنہیں انجام کار زندگی کو جنم دینا تھا آکسیجن کے بغیر ہی ارتقا کے عمل میں سے گزر رہے تھے۔
’’جے۔ بی۔ ایس ہالڈین (J.B.S. Haldane)،جو کہ ایک انگریز سائنس دان تھے اور بائیوکیمسٹری کے ماہر تھے، غالباً انہوں نے پہلے پہل اس امر کو تسلیم کیا کہ بے جان نامیاتی مادے میں سے زندگی کے ارتقا کیلئے ضروری تھا کہ ایک Reducing Atmosphere یعنی ایسا تخفیفی کرّۂ ہوائی ہو جس میں آزاد آکسیجن کا یکسر فقدان ہو۔‘‘ 1
اوزون (Ozone) کی تہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت طاقتور تابکار شعاعیں بلاروک ٹوک زمین اور سطح سمندر پر اثرانداز ہوتی ہوں گی اور اس تابکار بمباری کے نتیجہ میں ایسا جاندارمادہ پیدا ہوا جس میں بے جان نامیاتی مادہ کو جاندار نامیاتی مادہ میں تبدیل کرنے کی خاصیت موجود تھی۔ سمندروں میں موجود غیر نامیاتی مادہ کی ابتدائی نامیاتی مادہ مثلاً امینوایسڈ وغیرہ میں تبدیلی ان شعاعوں اور فضا میں آکسیجن کی غیر موجودگی کا نتیجہ تھی۔ یہ کیمیائی عمل سادہ غیر نامیاتی مالیکیولز (molecules) مثلاً پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور امونیا کے ملنے سے پیدا ہوا۔ ہالڈین کے مطابق جوں جوں یہ سلسلہ بڑھتا گیا قدیم سمندروں کا پانی اس گرم پتلے کثافتی شوربہ کی شکل اختیار کر گیا جسے Primordial Soupیعنی قدیمی شوربہ کہا جاتا ہے۔2 ہالڈین کی تحقیق کے نتائج 1929ء میں Rationalist Annual میں شائع ہوئے لیکن انہیں سائنسی حلقوں میںکوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ ایک روسی سائنسدان اے۔ آئی۔ اوپرن (A.I. Oparin) بھی چند سال قبل 1924ء میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکا تھا۔ اس مضمون کا بھی وہی حشر ہوا جو ہالڈین کے مضمون کا ہوا تھا، حالانکہ دونوں الگ الگ کام کر کے اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ حیاتیاتی ارتقا کے آغاز میں غیر نامیاتی مادہ کس طرح نامیاتی مادہ میں تبدیل ہوا تھا۔
ایک نیا سنگِ میل
ہالڈین اور اوپرن کے بعد دیگر سائنسدانوں نے بھی تحقیق کے اس میدان میں شہرت پائی۔ اس میدان میں نظریاتی سطح پر امریکن
یونیورسٹی شکاگو سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ہیرلڈ۔ سی یوری (Herald. C. Urey) کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ اپنی کتاب The Planets3 میں ہالڈین اور اوپرن کے کام کا ذکر کرتا ہے۔ زندگی کے آغاز سے متعلق ان کی ابتدائی تحقیقات کے نتیجہ میں سائنسدانوں میں اس موضوع پر تحقیق کا شوق مزید بڑھ گیا تاہم یوری (Urey) کے ایک شاگرد سٹینلے ایل۔ ملر۔(Stanly L. Miller) نے 1953ء میں عملی تحقیق کے میدان میں خوب نام کمایا۔ اس نے یوری کے نظریہ میں پیش کردہ حالات کے مطابق اپنی تجربہ گاہ میں ایک برتن میں چند لٹر امونیا۔ میتھین اور ہائیڈروجن گیسوں کو اکٹھا کر کے وہ ماحول پیدا کیا جو سائنسدانوں کے خیال میں زمین کی ابتداء میں موجود تھا۔ اس آمیزہ میں اس نے کچھ پانی ملایا اور ایک گرم تار کی مدد سے اسے ابالا پھر اس آمیزہ میں سے بجلی گزاری۔ چند دنوں میں ہی ایک سرخ رنگ کا مرکب تیار ہو گیا۔ اس کا تجزیہ کیا گیا تو اس میں بہت سے امینوایسڈ موجود تھے۔ 4 چنانچہ اس تجربہ سے ملر کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ پروٹین جو زندگی کے بنیادی اجزائے ترکیبی میں سے ہیں امینوایسڈ کے آپس میں ملنے سے بنتے ہیں۔
اس تجربہ کے عظیم الشان نتائج سے اس وقت کے سائنسدان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سمندر کے پانی اور دیگر قدرتی عناصر کے باہم ملنے سے Primordial Soup تیار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ سائنس افسانوی رنگ اختیار کر گئی اور بعض سائنسدان بڑے بڑے خواب دیکھنے لگے کہ جلد ہی ٹیسٹ ٹیوب میں زندگی پیدا کر لی جائے گی۔ کئی سال گزرنے کے بعد خود ملر کو بھی یہ احساس ہوا کہ ایسی امیدیں قبل از وقت تھیں۔ چنانچہ وہ مایوس ہو کر یہ اعتراف کرتا ہے کہ :
’’زندگی کی ابتدا ء کا مسئلہ میرے اور میرے ہمعصر سائنسدانوں کے اندازہ سے کہیں زیادہ پیچیدہ نکلا۔‘‘5
ملر کا یہ عہد ساز تجربہ 1953ء میں جبکہ وہ شکاگو یونیورسٹی میں ابھی تئیس سالہ طالبعلم تھا کیا گیا۔ اتفاق سے انہی دنوں اسی تحقیق سے متعلق واٹسن(Watson) اور کرک(Crick) نے ایک اور بہت کامیاب تجربہ کیا۔ انہوں نے پہلی بار DNA اور RNA کی ساخت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور یہ ثابت کیاکہ DNA اور RNA مل کر زندگی کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس خیال نے سائنسدانوں کے سامنے ایک اور چیلنج رکھ دیا یعنی یہ کہ نامیاتی مادہ کیونکر محض اتفاق سے اتنی پیچیدہ شکل اختیار کر سکتا ہے۔
سائنسدانوں کو کئی مسائل کا سامنا تھا۔ طرح طرح کے سوالات سراٹھانے لگے ان میں سے ایک یہ تھا کہ کیسے اور کونسے اتفاقی کھیل کے نتیجہ میں غیر نامیاتی مادہ نامیاتی مادہ میں تبدیل ہو گیا۔ جوبالآخر زندگی کے اجزائے ترکیبی کی بنیاد بنا۔ چنانچہ یوری کا تجربہ دوبارہ توجہ کا مرکز بن گیا اور اس پر مزید تحقیق ہونے لگی۔ سائنسدانوں نے ٹیسٹ ٹیوب میں بننے والے مادہ کے نمونوں کا تنقیدی جائزہ لیا تو انہیں ملّر کے تجربہ میں کئی خامیاں نظر آئیں جس کی وجہ سے اس کے تجربہ کی اہمیت کم ہو گئی۔ ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ تجربہ گا ہ میں اصل حالات مکمل طورپر پیدا نہیں کئے جا سکتے۔ اور یہ تجربہ تو صرف ایک بوتل اور ٹیسٹ تک ہی محدود تھا۔ تجربہ گاہ میں سمندری پانی کی جگہ جو پانی استعمال کیا گیا تھا اسے مستقل طور پر ابلتی حالت میں رکھا گیا جبکہ عام حالات میں ایسا ممکنات میں سے نہیں۔ نیز اگر یہ بات درست بھی مان لی جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سمندر اربوں سال کھولتے ہی رہے۔
مِلر کے مجوزہ نظریہ کے برعکس بعض سائنس دانوں کے نزدیک زندگی کی ابتدا کھولتے ہوئے پانی کی بجائے زیادہ ٹھنڈے ماحول میں ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تحقیق کا رخ کھولتے ہوئے پانی کی بجائے ٹھوس کیمیائی عوامل کی طرف موڑ دیا۔ بعض یہاںتک کہنے لگے کہ کرۂ ارض پر تو زندگی کے آغاز کیلئے ماحول ساز گار ہی نہیں تھا۔ اس نظریہ کی تائید میں انہوں نے شہابی پتھروں کا حوالہ دیا جن میں امینوایسڈ موجود تھے۔ درحقیقت ملر کے تجربہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے امینوایسڈ 35تھے۔ جبکہ ان پتھروں میں موجود امینوایسڈکی تعداد 52تھی۔ لیکن جو لوگ زندگی کے آغاز کیلئے پانی کی موجودگی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس نظریہ پر کئی اعتراض کئے۔ ان کا ایک بہت معقول اعتراض یہ تھا کہ فضائی سفر کے دوران رگڑ سے پیدا ہونے والی حرارت کے نتیجہ میں اگر شہاب ثاقب میں کوئی نامیاتی مادہ موجود تھا بھی تو وہ جل کر خاکستر ہو گیا ہو گا۔ چونکہ اس حرارت کے نتیجہ میں فضا میں داخل ہونے والے پتھر آگ پکڑ لیتے ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ ایسا تمام مادہ زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں بکھر گیا ہو گا۔ اگر ان پتھروں میں امینوایسڈ پائے بھی گئے ہیں تو وہ زمین پر گرنے کے بعد ان میں داخل ہوئے ہوں گے۔ جن سائنس دانوں کا خیال تھا کہ نامیاتی مادہ شہاب ثاقب کے ذریعہ زمین پر پہنچے انہوں نے اس اعتراض کے جواب میں تجویز کیا کہ یہ باریک ذرّات برف کی حفاظتی تہوں میں موجود تھے،جیسا کہ شہاب ثاقب کی دُم میں پائے جاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ ذرّات شبنم کی طرح آہستگی سے سطح زمین پر اتر آئے ہوں۔
یہاں ملر کے عہد ساز تجربہ کا ذکر کرنا ضروری ہے جس نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا لیکن جلد ہی اس کی خامیاں نظر آنے لگیں اور بعض سائنسدان ٹھنڈے دل کے ساتھ اس پر غور کرنے لگے۔
ایک ممتاز سکالر آر۔ ای۔ ڈکرسن (R.E.Dickerson) نے اس سلسلہ میں اپنے ایک مضمون Chemical Evolution and the Origin of Life (کیمیاوی ارتقا اور آغازِحیات) میں نہایت جامع اور غیر جانبدارانہ انداز میں ملر کے تجربہ سے اخذ کردہ نتائج کو تنقیدی نظر سے دیکھا ہے۔ ڈکرسن کے اس مضمون سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ملر کے تجربہ سے متعلق تمام اعداد و شمار پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ چنانچہ ڈکرسن کہتا ہے:
’’اگرچہ ملر کی تجربہ گاہ میں بہت سے اہم امینوایسڈ مصنوعی طور پر پیدا ہوئے تھے جو جاندار اجسام کی لحمیات میں موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے سالمے بھی پیدا ہوئے جو جاندار اجسام میں نہیں پائے جاتے۔‘‘6
جب دوسرے سائنس دانوں نے ملر کے ابتدائی تجربہ کو دہرایا تو یہ بات سامنے آئی کہ ان تجربات کے دوران تین Isomeric (ہم ترکیب) امینوایسڈ پیدا ہوئے جن میں سے صرف Valine(غذائی جزو) ہی موجودہ لحمیات میں پائی جاتی ہے۔ بجلی کی رو کے زیر اثر کئے گئے ان تجربات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے امینوایسڈز کے سات Isomers (ہم ترکیبی مادے) میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے عالمگیر حیاتیاتی نظام میں پائی جانے والی لحمیات کا جزو قرار دیا جا سکے۔ ڈکرسن مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
’’ان بیسamino acids کے سیٹ کا انتخاب ہی کیونکر ہوا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بعض اور امینوایسڈبھی آزمائے گئے ہوں جو مقابلۃً کمزور ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر نیست و نابود ہو گئے ہوں۔‘‘6
ملر کے تجربہ سے حاصل شدہ سادہ amino acids سے نہایت پیچیدہ اور مربوط لحمیات کا پیدا کرنا جو DNA/ RNAجیسی زندگی کے اجزائے ترکیبی کیلئے از حد ضروری ہیں ایک سعیٔلاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ باہمی تعامل کی بے شمار صورتوں کے نتیجہ میں DNA / RNAکے سالمے موجود ہ شکل اختیار کر سکتے ہیں تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ DNAکے صرف ایک مالیکیول کے اتفاقاً پیدا ہو جانے کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے ڈکرسن ایک انگریز سائنس دان جے۔ ڈی۔ برنل (J.D. Bernal)کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ DNAکے واحد مالیکیول سے تمام سلسلۂ حیات کا پیدا ہو جانا اتنا ہی ناقابل یقین امر ہے جتنا کہ آدم اور حوا کا جنت میں اچانک پیدا ہو جانا۔ 7
ڈکرسن (Dickerson) اس مسئلہ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ان مشکلات کا بطور خاص ذکر کرتا ہے جو (مختلف سائنسدانوں کی طرف سے) پیش کردہ نظریات میں پائی جاتی ہیں اور کہتا ہے کہ یہ سائنسدان دراصل اپنے نظریات کی بنیاد ایک تخیلاتی اور بے سروپا اتفاقی کھیل پر رکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم آئندہ صفحات میں مزید گفتگو کریں گے۔

حوالہ جات
1. DICKERSON, R.E. (September, 1978) Chemical Evolution and The Origin of Life. Scientific American, p.70
2. DICKERSON, R.E. (September, 1978) Chemical Evolution and The Origin of Life. Scientific American, p.71
3. UREY, H.C. (1952) The Planets. Yale University Press, New Haven.
4. MILLER, S.L. (1955) Production of Some Organic Compounds under Possible Primitive Earth Conditions. Journal of The American Chemical Society: 77:2351-2361
5. HORGAN, J. (February, 1991) In The Beginning. Scientific American, p.117
6. DICKERSON, R.E. (September, 1978) Chemical Evolution and The Origin of Life. Scientific American, pp.75-76
7. DICKERSON, R.E. (September, 1978) Chemical Evolution and The Origin of Life. Scientific American, p.73
جنّات کا وجود
اب ہم سائنسی تناظر میں از منۂ قدیم کے قصّے کہانیوں میں مذکور جنّ کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔ قرآن کریم نے جنّ کا جو تصور پیش کیا ہے اس پر مختصراً Life in the Perspective of Quranic Revelations (زندگی کے بارہ میں قرآنی نظریہ) میں بحث اٹھائی گئی ہے۔ عربی لغت کے لحاظ سے لفظ جنّ کے درج ذیل معانی ہو سکتے ہیں۔ جنّ کا لفظ کسی پوشیدہ، غیر مرئی، الگ تھلگ اور دور کی چیز پر دلالت کرتا ہے۔ ا س میں گہرے اور گھنے سائے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے جَنَّۃٌ کے لفظ کو (جو اسی مادہ سے نکلا ہے) جنت کیلئے استعمال کیا ہے جو ایسے گھنے باغات پر مشتمل ہے جن کے سائے بہت ہی گہرے ہیں۔ جنّ کے لفظ کا اطلاق سانپوں پر بھی ہوتا ہے جو فطرتاً پوشیدہ اور چھپ کر رہنا پسند کرتے ہیں جس کیلئے وہ الگ تھلگ بلوں اور چٹانوں میں موجود سوراخوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جنّ کا لفظ با پردہ عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے سرداروں اور بڑے لوگوں کیلئے بھی جو عوام سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح دوردراز اور دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں بسنے والے لوگوں پر بھی جنّ کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ المختصر عام انسانی نگاہ سے اوجھل اور پوشیدہ ہر چیز پر جنّ کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔
جنّ کے لفظ کا مذکورہ بالا مفہوم آنحضرتﷺ کی اس حدیث کے عین مطابق ہے جس میں آپﷺ نے لوگوں کو خشک گوبر اور ہڈیوں سے استنجا کرنے سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ یہ جنّوں کی خوراک ہے۔ جس طرح آج کل صفائی کیلئے ٹائلٹ پیپر استعمال کئے جاتے ہیں اسی طرح پرانے زمانہ میں لوگ صفائی کیلئے مٹی کے خشک ڈھیلے، پتھر یا قریب پڑی کوئی اور خشک چیز استعمال کیا کرتے تھے۔ پس ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں جس جنّ کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد کوئی غیر مرئی مخلوق ہی ہے جس کا گزارہ ہڈیوں اور فضلہ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا میں بیکٹیریا اور وائرس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور کوئی شخص اس قسم کی غیر مرئی اور خوردبینی مخلوق کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس مخلوق کی طرف آنحضرتﷺ نے اشارہ فرمایا ہے، عربی زبان میں اس کیلئے جنّ سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہے۔
ایک اور اہم بات جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے وہ جنّ کی آگ سے تخلیق کے بارہ میں ہے۔ چنانچہ فرمایا:

(الحجر28:15)
ترجمہ: اور جنّوں کو ہم نے اس سے پہلے سخت گرم ہوا کی آگ سے بنایا۔
یہاں آگ کی اس مخصوص قسم کو بیان کرنے کیلئے جس سے جنّ پیدا کئے گئے، سموم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انتہائی گرم اور اچانک بھڑک اٹھنے والی آگ کے ہیں۔ جس سے کوئی دھواں نہیں اٹھتا۔ 1 اسی بات کو قرآن کریم نے ایک اور جگہ اس طرح بیان کیا ہے:

(الرحمٰن 16 : 55)
ترجمہ: اور (اس نے) جنّ کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا۔
آئیے اس امر کے ثابت کرنے کے بعد کہ جنّ کا لفظ یہاں بیکٹیریائی قسم کے جانداروں کیلئے مستعمل ہے ہم دوبارہ مذکورہ بالا آیات پر غور کریں جن میں جنّ کی آگ سے تخلیق کا ذکر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ان آیات کا زیادہ تر اطلاق ان جانداروں پر ہوتا ہو جو اپنی بقا کیلئے آگ کے شعلوں یا خلائی تابکاری شعاعوں (Cosmic Radiation)سے توانائی حاصل کرتے ہیں جس کیلئے سموم کا لفظ بولا گیا ہے۔
ڈکرسن (Dickerson) قدیم ترین جاندار حیات کے بارہ میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر قرآن کریم کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ’’وہ روشنی کی قوت اور بالائے بنفشی (Ultra violate) شعاعوں سے توانائی حاصل کرتے ہوں گے۔‘‘2
خلائی تابکاری (Cosmic Radiation)کے تناظر میں زندگی کے آغاز کے بارہ میں دیگر سائنسدانوں کی تحقیق میں کوئی خاص ذکر نہیںملتا۔ لیکن وہ اس نظریہ سے بہرحال متفق ہیں کہ جو مادے بھی حیات کے ارتقاسے پہلے موجود تھے وہ حرارت سے توانائی حاصل کرتے تھے۔ سائنسدانوں کی سابقہ نسل نے بیکٹیریا کی انتہائی قدیم اقسام میں سے صرف پروکیرائیوٹس (Prokaryotes) اور یوکیرائیوٹس(Eukaryotes)کا ذکر کیا ہے تاہم کارل۔ آر۔ ووز (Karl R. Woese) اور اس کے رفقاکے نزدیک یہ نتیجہ جلد بازی میں اخذ کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’خوردبینی سطح پر دو قسم کے خلیات پائے جانے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ضرور سالماتی (molecular) سطح پر بھی ان کی دو ہی اقسام پائی جاتی ہوں گی۔‘‘3
عام قاری کی آسانی کیلئے ان دو بیکٹیریایعنی پروکرائیوٹس اور یوکرائیوٹس کے مابین فرق کو عام فہم زبان میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان میں مرکزہ یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں۔ پروکیرائیوٹس قسم کے بیکٹیریا میں خلیاتی جھلی تو ہوتی ہے لیکن مرکزہ مفقود ہوتا ہے جبکہ یوکرائیوٹس کے ہر خلیہ میں ایک مرکزہ موجود ہوتا ہے۔
قبل ازیں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ابتدا میں بیکٹیریا کی یہی دو اقسام تھیں جن سے حیات کی ایسی اقسام نے جنم لیا جنہیںزندگی کا ماخذ کہاجا سکتا ہے۔ اگر چہ ووز (Woese) جون 1981ء کے سائنٹیفک امریکن (Scientific American)میں اپنی اس اہم تحقیق کے نتائج کو بیان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آرک بیکٹیریا (Archaebacteria) یا قدیمی بیکٹیریا کو حقیقی طور پر زندہ مادہ کی ابتدائی شکل سمجھا جا سکتا ہے۔ اس نے اور اس کے رفقائے کار نے سائنسی دنیا کو مطلع کیا کہ آرک بیکٹیریا،بیکٹیریاکی تیسری واضح قسم ہے جو بعد کی تمام اقسام کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔ چنانچہ ان آرک بیکٹیریا کو ہی زندگی کا قدیم ترین ماخذ سمجھنا چاہئے۔
ووز (Woese) اور اس کے رفقائے کار نے اس دریافت کے بارہ میں بہت سے ایسے مزید شواہد پیش کئے ہیں جن کے نتیجہ میں جمود ٹوٹنے لگا۔ اس کے مطابق:
’’گو چند ایک ماہرین حیاتیات ابھی تک ہمارے اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں تا ہم یہ نظریہ کہ آرک بیکٹیریا انتہائی اعلیٰ سطح پر ایک علیحدہ گروپ کی نمائندگی کرتا ہے اب تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘‘4
ووز (Woese) پھر لکھتا ہے کہ:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ میتھانوجنز (Methanogens)کسی بھی بیکٹیریا جتنے یا ان سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔‘‘4
‏'The Hutchinson Dictionary of Science' کے مطابق:
’’آرک بیکٹیریا کا تعلق بالکل ابتدائی شکل سے ہے جو چار ارب سال قبل معرض وجود میں آئی جب کرہ ٔارض پر آکسیجن نہیں تھی۔‘‘ 5
لیکن'Genetics, a Molecular Approach' کا مصنف کہتا ہے:
’’1977ء سے آرک بیکٹیریا اور دوسرے پروکرائیوٹس (Prokaryotes) کے مطالعہ کے نتیجہ میں اتنے نمایاں فرق دریافت ہوئے کہ اب مائکروبیالوجی (Microbiology) کے ماہرین ان اقسام کو آرک بیکٹیریا سے ممتاز کرنے کے لئے آرکیا (Archaea) کی اصطلاح تجویز کرتے ہیں۔‘‘6
قرآن کریم نے جس مخلوق کیلئے جنّ کا لفظ استعمال کیا ہے وہ مذکورہ بالا وضاحت کے عین مطابق ہے۔ سائنس دان متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بیکٹیریا حرارت سے توانائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ڈکرسن (Dickerson) کے علاوہ کوئی بھی اس سے متفق نہیں ہے کہ یہ بیکٹیریا بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں اور کا سمک شعاعوں سے براہ راست پیدا کئے گئے ہیں۔ مگر دیگر سائنس دان جدید تحقیق کے ذریعہ مزید اسرار سے مسلسل پردہ اٹھا رہے ہیں۔
’’یہ بیکٹیریا سمند رکی تہوں، گرم چشموں، بحیرہ ٔمردار اور نمک کے میدانوں حتیٰ کہ گندگی کے ڈھیروں پر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘‘7
ان سب میں سے آغاز حیات کے مسئلہ پر ووز (Woese) اور اس کے رفقائے کار کو کامل یقین ہے کہ آرک بیکٹیریا ہی سب سے قدیم ہے۔ کچھ سائنسدانوں کے نزدیک ممکن ہے کہ ان کا ارتقا کسی نا معلوم ماخذ سے بیک وقت ہوا ہو۔
لیکن یہ معاملات نفس مضمون سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ دوسرے بیکٹیریا انہی سے پیدا ہوئے تھے یا نہیں، تو موجودہ بحث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ متعلقہ بات تو صرف اتنی ہے کہ قدیم ترین بیکٹیریا کی تمام اقسام اپنی توانائی براہ راست حرارت سے حاصل کرتی تھیں اور یہ امر اس قرآنی دعویٰ کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل ان الفاظ میں کیا گیا تھا:

(الحجر28:15)
ترجمہ: اور جنّوں کو ہم نے اس سے پہلے سخت گرم ہوا کی آگ سے بنایا۔
مسلّمہ سائنسی تحقیقات کے مطابق آگ سے براہ راست حاصل ہونے والی حرارت نے زندگی کے آغاز سے قبل ہی ان جاندار اجسام کی تخلیق اور ان کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں منظم زندگی کیلئے درکار توانائی کے انتقال کا یہی واحد ذریعہ تھا۔ ارب ہاسال تک پھلنے پھولنے اور پھر موت سے ہمکنار ہونے کے بعد گلنے سڑنے اور عمل تخمیر کے نتیجہ میں یقینا سمندر آلودہ ہو گئے ہوں گے یہاںتک کہ سمندر قدیمی شوربہ (Primordial Soup)کی شکل اختیار کر گئے جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔


حوالہ جات
1. LANE, E.W. (1984) Arabia.English Lexicon. Islamic Text Society, William & Norgate. Cambridge.
2. DICKERSON, R.E. (September 1978) Chemical Evolution and the Origin of Life. Scientific American, p.80
3. WOESE, C.R. (June, 1981) Archaebacteria. Scientific American, p.104
4. WOESE, C.R. (June, 1981) Archaebacteria. Scientific American, p.114
5. The Hutchinson Dictionary of Science (1993) Helicon Publishing Ltd. Oxford. p.37
6. BROWN, T.A. (1992) Genetics A Molecular Approach. Chapman & Hall. London, p.245
7. The Hutchinson Dictionary of Science (1993) Helicon Publishing Ltd. Oxford. p.37
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ارتقا میں چکنی مٹی اور ضیائی تالیف کا کردار
آگ کا ذکر تو کافی ہو چکا اب اس کے بالمقابل زندگی کی تخلیق میں پانی کے کردار کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جنّوں کا دور ختم ہوا اور ایک بالکل مختلف دور کا آغاز ہوا جو جنّوں کے زمانہ اور ضیائی تالیف (Photosynthesis)کے مابین واقع ہے۔ اس درمیانی عرصہ میں وہ مادہ تیار ہوا جو آئندہ زندگی کی تخلیق کیلئے ضروری تھا۔ اس دور میں گزرنے والے تخلیقی مراحل کا صحیح اندازہ درج ذیل بیان کے بغور مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔
کیمیا کی دو ہی بڑی شاخیں ہیں۔ غیر نامیاتی کیمیا اور نامیاتی کیمیا۔ غیر نامیاتی کیمیا کا تعلق ان مرکبات سے ہے جو معدنی صفات تو رکھتے ہیں لیکن ان کی پیدائش میں حیات کا عمل دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی کاربن کی موجودگی کی وجہ سے ان کو نامیاتی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پانی، خوردنی نمک اور پوٹاشیم غیر نامیاتی اس لئے کہلاتے ہیں کہ یہ زندہ خلیوں کے علاوہ بھی تقریباً ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈبھی غیر نامیاتی ہے اگرچہ یہ خلیوں کے عمل تنفس کے دوران بنتی ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ جو ایک غیر نامیاتی مرکب ہے، کاربن تمام نامیاتی مرکبات میں پایا جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ یہ مرکبات جاندار اجسام سے وجود میں آئے ہوں۔
یہ باب ان تمام ابتدائی مراحل سے بحث کرتا ہے جو حیات کی ابتدائی اکائی کی تخلیق کے لئے ضروری تھے۔ اس درمیانی اور نازک مرحلہ کے متعلق قرآن کریم کے بیان کو یہاں ہم اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں یعنی یہ کہ آگ سے پیدا ہونے والے قدیم ترین بیکٹیریا کے دور کے بعد پانی نے ان سالموں کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا جو زندگی کی مختلف شکلوں کی تیاری کیلئے ضروری تھے۔
بعض چوٹی کے سائنسدانوں نے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین پر زندگی سے قبل نامیاتی مرکبات کیسے وجود میں آئے۔ اصل مشکل یہ پیش آئی کہ تمام نامیاتی مرکبات تو خود زندگی کی پیداوار ہیں۔ سمندر یا خشکی پر یہ مرکبات پہلے پہل کیسے وجود میں آئے جبکہ اس زمانہ میں صرف غیر نامیاتی مرکبات ہی موجود تھے۔ اُس وقت جدید تجربہ گاہیں تو تھیں نہیں جو غیرنامیاتی سے نامیاتی مرکبات بنا سکتیں جیسا کہ آجکل کی جدید ادویہ سازی میں ہوتا ہے۔ ابتدائی کام کرنے والے عظیم سائنسدانوں برنل (Bernal)، ہالڈین (Holdane)، ڈکرسن (Dickerson)، ملر (Miller)، یوری (Urey)، کیرنز سمتھ (Cairns-Smith) اور اوپرِن (Oparin) وغیرہ کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے لیبارٹری سے باہر کے حالات میں، جو ان کے قابو میں نہیں تھے، غیر نامیاتی مرکبات کے نامیاتی مرکبات میں تبدیل ہو جانے کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی۔ ذیل میں ان کامیابیوں اور ناکامیوں کی حیرت انگیز داستان درج ہے۔ ناکامیوں کا اعتراف انہوں نے خود کیا ہے جو ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ اس باب میں ان کی کاوشوں کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے ان معمّوں کو حل کرنے کی کوشش کی اور دوران تحقیق کیسے کیسے مختلف حل خود بخود ان کے سامنے آتے چلے گئے۔ یہ صرف حیاتیاتی کیمیا کے عظیم کارناموں کی داستان نہیں بلکہ ہم آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جو سائنسی تحقیق بھی اس موضوع پر کی گئی وہ قرآن کریم کے مذکورہ بالا بیان کی مصدق ہے۔
یہ تحقیق دراصل ان نامیاتی مرکبات کے گرد گھومتی ہے جن کا تعلق حیات سے ہے اور اس میں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کی ابتداء پانی سے ہوئی تھی۔ یہ سائنسدان صرف اسی حد تک قرآن کریم سے متفق ہیں۔ مگر قرآن کریم تو اس کے علاوہ ایک علیحدہ آغاز کا بھی ذکر کرتا ہے جو خشکی پر ہوا۔
بات دراصل یہ ہے کہ اگرچہ نامیاتی مرکبات زمانہ قبل از تاریخ کے قدیم سمندر وںکے آبی محلول میں ہی بنے ہوں گے۔ مگر وہ آب پاشیدگی (Hydrolysis) کے عمل کے باعث اپنی پہلی حالت میں واپس لوٹ جاتے ہوں گے۔ اس اشکال کو حل کرنے کیلئے کوئی نظریہ پیش کرنا کہ ادنیٰ درجہ کے نامیاتی مرکبات پرانی حالت میں لوٹ جانے کی بجائے بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے، ایک چیلنج تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ابتدائی نامیاتی مواد کی پانی میں موجودگی کے باعث ہائیڈروجن ایٹم کے نئے کیمیکلز میں منتقل ہونے سے مادہ ہمیشہ ہی اپنی پہلی اور سادہ حالت میں واپس لوٹ جاتا ہو گا اور نامیاتی مرکبات کے بننے اور ٹوٹنے کا یہ گھن چکر مسلسل جاری رہتا ہو گا۔ سائنسی طرز بیان سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کیلئے ہم اس عمل کو درج ذیل انداز سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زندگی کے اجزائے ترکیبی کے لئے درکار تمام کے تمام امینوایسڈ (Amino acids)، ایلڈی ہائڈز (Aldehydes) ایک معروف عمل کے ذریعہ معرض وجود میں آتے ہیں جسے Strecker Synthesisکہا جاتا ہے اور جو دو مراحل میں مکمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں ایلڈی ہائیڈ، ایمونیا اور HCN کے آمیزہ سے مل کر Aminonitrile بناتا ہے جس کی آب پاشیدگی سے دوسرے مرحلہ میں Amino acid بنتا ہے۔
لیکن دقت یہ ہے کہ Strecker Synthesisکے یہ دونوں مراحل اپنی پہلی حالت میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان غیر متوازن ابتدائی مرکبات کا ارتقا کیسے ممکن ہوا۔ اگرچہ اس معمّہ کے متعدد حل پیش کئے گئے ہیں مگر ان سے یہ گتھی سلجھنے کی بجائے مزید الجھتی چلی گئی۔
اکثر سائنسدان اس نظریہ کے حامی ہوتے جارہے ہیں کہ اس عمل میں کہیں نہ کہیں خشکی کا کوئی ایسا دور ضرور آیا ہو گا جس میں Primordial Soup یعنی زمانہ قبل از تاریخ والے ’سوپ‘ یا شوربہ کے ابتدائی غیر متوازن نامیاتی مرکبات اعلیٰ درجہ کے متوازن اور غیرمبدّل نامیاتی مرکبات میں تبدیل ہوئے ہوں گے۔ نیز ابتدائی امینوایسڈمیںسے پروٹین اور نیو کلیک ایسڈ (Nucleic Acid)کے بننے کیلئے لازمی ہے کہ پانی کا ایک مالیکیولAmino acid کے مالیکیول اور Nucleotidesکے ہر جوڑے میں سے خارج ہو جائے۔ اس عمل کو کثیرالترکیبہ سازی کہتے ہیں۔ مگر دقت یہ ہے کہ چونکہ یہ تمام عمل سمندر میں ہوا تھا اس لئے ضروری تھا کہ پانی کی موجودگی کی وجہ سے یہ ردعمل واپس عمل کی طرف لوٹ جاتا اور کثیر الترکیبہ سازی کا عمل ختم ہو کر رہ جاتا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قدیمی محلول میں ہر سالمہ (Molecule) کو پانی میں ہی خشک (Dehydrate) ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ عمل اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ اگر آمیزہ کو لیبارٹری میں خشک ہونے دیا جائے تو عمل تکثیف (Condensation Reaction) کے نتائج اکثر و بیشتر بہتر ہوتے ہیں۔ اس مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی محلول ساحل کی ریت، پتھر اور کیچڑ سے ٹکرانے کے بعد ہی خشک ہوا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ ابتدائی محلول کا ساحل سے یوں ٹکرانا اس اہم ضرورت کے تحت ہو تاکہ پانی میں بننے والے ابتدائی ادنیٰ مرکبات کا ارتقا ایسے اعلیٰ مرکبات کی صورت میں ہو سکے جو واپس اپنی ادنیٰ حالت کی طرف نہ لوٹ سکیں۔
اس بارہ میں پیش کئے جانے والے نظریات میں سے سب سے زیادہ دلچسپ اور قابل قبول وہ نظریات ہیں جو سیلیکا (Silica) اور چکنی مٹی کے ذریعہ سطح پر ہونے والے عمل انگیز (Catalyst) کو پیش کرتے ہیں۔ اس کی نشاندہی سب سے پہلے جان برنل (John Bernal) نے 1951 میں کی۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب 'The Physical Basis of Life'میں لکھتے ہیں:
’’چکنی مٹی، کیچڑ اور غیر نامیاتی قلمیں(Crystals) وہ طاقتور ذریعہ ہیں جن کے ارتکاز اور تکثیر (Polymerize) سے نامیاتی مادے تشکیل پاتے ہیں۔‘‘ 1
اس نظریہ کی مقبولیت میں آج تک کمی نہیں آئی۔
’’........سڈنی۔ ڈبلیو۔ فاکس(Sydney, W. Fox)نے تجربات سے ثابت کیا کہ امینوایسڈ کرۂ ارض کے قدیمی حالات میں بھی بآسانی کثیرالترکیبہ سازی یا عمل تکثیر سے پولی پیپٹائڈز (Polypeptides) بن جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ عمل برقی اخراج سے حاصل ہونے والی توانائی سے یا حرارت سے یا بعض اقسام کی چکنی مٹی اور پولی فاسفیٹ (Polyphosphates) کے باہم ملنے سے ظہور میں آتا ہو۔‘‘ 2
کیرنزسمتھ) (Cairns-Smith نے اس نظریہ کو مزید آگے بڑھایا۔ برنل (Bernal) کا خیال تھا کہ چکنی مٹی کے علاوہ نامیاتی سالموں کی تشکیل والے Silicon کی موجودگی بھی ضروری تھی جبکہ کیرنز سمتھ کے نزدیک غالباً چکنی مٹی ہی سے ضروری نامیاتی مرکبات بنے ہوں گے۔ ان کے 1966 کے تحقیقی مقالہ کے آغاز میں ہی اس نظریہ کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔
تا ہم بعض سائنسدان اس بات پر مصر ہیں کہ نامیاتی مواد کا ارتقا پانی کے بغیر ہوا ہو گا۔ کیونکہ اگرپانی ہوتا تو آب پاشیدگی کے مسلسل عمل کے باعث یہ مواد اپنی پہلی حالت میں لوٹ جانے کے چکر سے نکل نہیں سکتا تھا۔ ان کا اصرار ہے کہ ہمیں اس کا حل Solid State Chemistry میں تلاش کرنا چاہئے۔
آب پاشیدگی سے متعلقہ دقت کا جو حل بھی پیش کیا گیا ہو اس سلسلہ میں اختلاف رائے کے باوجود یہ بات یقینی ہے کہ کیمیاوی ارتقا کے بارہ میں کسی ایسے نظریہ کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا جس میں خشک ابتدائی اور وسطی مراحل کا ذکر نہ ہو۔
خشکی کا یہ دور اس وقت ظہور میں آیا ہو گا جب Oceanic Prebiotic Soup یعنی زمانہ قبل از تاریخ کا قبل از حیات سمندری سوپ گاڑھا اور خشک ہو کر چکنی مٹی کی نہایت باریک درباریک تہوں کی صورت اختیار کر گیا ہو گا۔ قرآن کریم اس نظریہ کی تائید کرتا ہے کہ زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی اور درمیان میں خشکی کا ایک ایسا دور آیا جس میں قدیمی شوربہ (Primordial Soup) ٹھیکریوں کی طرح بجنے والی خشک چکنی مٹی کی شکل اختیار کر گیا۔
نوم لاہو (Noam Lahav)، ڈیوڈ وائٹ (David White)اور شرووڈ چانگ (Sherwood Chang)کی تحقیق نے نامیاتی مواد کی تالیف میں چکنی مٹی کی افادیت اور اس کے بنیادی کردار کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ چکنی مٹی کو بار بار گیلا اور خشک کرنے سے کس طرح امینوایسڈ کے سالمے گلائیسین (Glycine)کی شکل میں آپس میں جڑتے چلے جاتے ہیں۔ بار بار کے اس عمل سے ماحول کی توانائی نامیاتی سالموں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ 3
ان کا مجوزہ حل قرآن کریم کے پیش کر دہ بیان سے بہت قریب تھا۔ مگر یہ کیرنز سمتھ (Cairns-Smith) تھا جس نے کھل کر اور بلا جھجک قرآن کریم کے موقف کی تائید کی ہے حالانکہ وہ خود قرآن کریم کے اس بیان سے بالکل بے خبر تھا۔
متعلقہ آیات قرآنیہ کا ذیل میں دوبارہ ذکر کیا جاتا ہے۔

(الانبیاء 31:21)
ترجمہ : اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔

(الرحمٰن 15:55)
ترجمہ: اُس نے انسان کو مٹی کے پکائے ہوئے برتن کی طرح کی خشک کھنکتی ہوئی مٹی سے تخلیق کیا۔

(الحجر27:15)
ترجمہ: اور یقینا ہم نے انسان کو گلے سڑے کیچڑ سے بنی ہوئی خشک کھنکتی ہوئی ٹھیکریوں سے پیدا کیا ہے۔
جیسا کہ مندرجہ بالا آیات وضاحت سے بتاتی ہیں کہ جس طرح ظروف سازی کیلئے چکنی مٹی کی پلیٹیں استعمال کی جاتی ہیں اسی طرح زندگی کے آغاز میں استعمال ہونے والا مواد سیاہ گارے جیسا گلا سڑانامیاتی مادہ ہی تھا۔
چونکہ مفسرین اس بات کو سمجھ نہ سکے کہ انسان مٹی کے برتنوں سے کس طرح بنایا گیا ہو گا اس لئے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جب ٹھیکریاں آپس میں ٹکراتی ہیں تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ اس آیت میں انسان کے بولنے کی صلاحیت کا ذکر ہے۔ یہ ایک دور کی کوڑی ہے جس سے الفخّار کے اصل معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ اب جبکہ ہم نے عمل ارتقاکے درمیانی (intermediary)مراحل کو سمجھنا شروع کر دیا ہے،جب زندگی کے اجزائے ترکیبی تشکیل پا رہے تھے لہٰذاہمارے لئے اس اصطلاح کو بہتر طور پر سمجھناممکن ہو گیا ہے۔ اس پس منظر میں قرآنی اصطلاح الفخّار کا یہی مفہوم ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب یہ مادہ مزید خشک ہوا تو چکنی مٹی کی غیر متناسب قلمیں بنی ہوں گی جو نہایت باریک اوراق کی صورت میں ایک دوسرے کے اوپر ظروف سازی کی مانند تہ بہ تہ واقع ہوئی ہوں گی۔ ایک اور دلچسپ بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ باریک تہ چڑھانے کا یہ عمل ایک اور اہم مقصد کو بھی پورا کرتا ہے یعنی کیمیاوی ردّعمل کے لئے مادہ کے حدود اربعہ کو مزید وسیع کر دیتا ہے۔ ابرق اور چکنی مٹی سیلیکیٹ کی تہوں پر مشتمل ہوا کرتے ہیں جن کے درمیان پانی کے سالمے ہوتے ہیں جو انہیں علیحدہ علیحدہ رکھتے ہیں اور ان کا باہمی فاصلہ صرف 0.71نینو میٹر ہوتا ہے (ایک نینو میٹر ایک سنٹی میٹر کے کروڑویں حصہ کے برابر ہوتا ہے)جس سے اس کی سطح کا رقبہ بڑھ جانے کی وجہ سے سالموں کے اس پر زیادہ تعداد میں چپکنے کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ پس خشک مٹی کا ایک مکعب جس کی سمت اگر ایک سنٹی میٹر ہو تو اس کی سطح کا کل رقبہ تقریباً 2800مربع میٹر ہو گا جو کہ ایک ایکڑ کے تین چوتھائی کے برابر ہے۔
آغاز حیات کیلئے درکار مادہ کی تخلیق کے شواہد معلوم کرنے کیلئے سائنسدان جو کچھ بھی کرتے رہے ہیں اس کا مختصر ذکر تو گزر چکا ہے۔ اس سلسلہ میں بعد ازاں جو کام ہوا اس کا ذکر کائن(Coyne) کی گہری تحقیق کے حوالہ سے ذیل میں کیا جاتا ہے۔
کائن(Coyne) جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے وابستہ تھے، کیمیاوی ارتقا کے ابتدائی مراحل میں چکنی مٹی کی ایک قسم Kaolinite کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چکنی مٹی کی یہ اقسام تابکاری کے ذریعہ ماحول سے توانائی حاصل کر کے اس کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بار بار گیلا یا خشک ہونے کے عمل سے یہ ذخیرہ شدہ توانائی ماحول میں واپس لوٹا دیتی ہیں۔ 4
تحقیق اور تدقیق کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ دراصل سائنسدانوں کی تمام تحقیق اور حیات کے آغاز کی عقدہ کشائی کے سلسلہ میں تمام کاوشیں اس قدیمی شوربہ سے آگے نہیں بڑھ سکیں جس کی تہ تک پہنچنے کی کوشش جاری ہے۔ اس راز سے ہنوز پردہ نہیں اٹھ سکا کہ تخلیق کے عمل کی دھندلی صبح کے وقت سمندروں کے قدیمی شوربہ میں کیا کچھ ہوا اور کیسے ہوا؟ اس سلسلہ میں تحقیق کی ابھی شروعات ہی ہوئی ہیں۔
حیاتیاتی ارتقا کے ابتدائی مراحل میںکھنکنے والی چکنی مٹی کے حیرت انگیز کردار کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم قرآن کریم کے چودہ سو سال پہلے کے خیرہ کر دینے والے دعویٰ پر غور کرتے ہیں۔ یہ خیال کہ آدم کی تخلیق کھنکنے والی چکنی مٹی سے ہوئی نہ صرف انوکھا اور منفرد ہے بلکہ تخلیق آدم کے اس وقت کے ہم عصراور معروف نظریہ کے بھی بالکل برعکس ہے۔ مروجہ کہانیوں سے متاثر ہو کر ایک سیدھا سا دہ ذہن سوچ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی اور مٹی کو ملا کر اس قدر خشک کیا ہو گا کہ وہ کسی بھی شکل میں ڈھل جانے کے قابل ہو گئی۔ جس کے بعد اس کو محض انسانی شکل میں ڈھالے جانے کا عمل باقی رہ گیا ہو گا۔ اور یوں آدم اپنے تمام ترنامیاتی اجزا سمیت مٹی سے جی اٹھا اور اسی لمحہ اس کے جسم کو تمام ضروری اجزا مثلاً RNA، DNA،کروموسومز (Chromosomes)، جینز(Genes)اور جسمانی اور تولیدی خلیوں وغیرہ سے آراستہ کر دیا گیا۔ کان، ناک اور آنکھیں وجود میں آئیں، خون کی نالیوں کو پیدا کیا گیا۔ نیز دل اور پھیپھڑوں کو تمام باریک در باریک اجزاء کے ساتھ مکمل کر کے موزوں ترین جگہ پر ر کھ دیا گیا اور ساتھ ہی لمحہ بھر میں مرکزی اعصابی اور دفاعی نظام بھی مکمل ہو گیا۔
الہامی کتب کے بعض سادہ لو ح قارئین کے نزدیک خالق کی ایک ہی پھونک سے یہ تمام خوبیاں چکنی مٹی کے آدم کے بت میں یکدم داخل ہو گئیں۔ یہ نظریہ بھی اندھے ارتقا کی طرح عقل سے یکسر عاری ہے۔ جن سائنسدانوں کے نزدیک تخلیق میں خدایا کسی اور باشعور اور بالا ہستی کا ہاتھ نہیں وہ عہد نامہ قدیم کے بیان کو ظاہر پر محمول کرنے والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا اپنا موقف بھی تو ویساہی مضحکہ خیز ہے۔ اگر عہد نامہ قدیم کے بیان کے لفظی معنی کئے جائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خداتعالیٰ خالق اور قادر مطلق تو ہے لیکن حکیم نہیں۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک حکیم خدا تخلیق کا ایسا احمقانہ منصوبہ سوچے جس میں کوئی ماہر کوزہ گر اسے اپنے ہی میدان میں شکست دے دے۔
انسان کی تخلیق سے قبل ارتقا کا منصوبہ عجائبات قدرت کا حسین اور لاثانی شاہکار ہے۔ یہ بات تصور سے باہر ہے کہ ایسی تخلیق کے خالق کو خود اپنے بنائے گئے قوانین قدرت بھول گئے ہوں اور زندگی کے جن بنیادی اجزاء کو اس نے خود انتہائی ذہانت سے ڈیزائن کیا ہو اور باریک در باریک عجائبات سے ان چھوٹے چھوٹے خلیوں کو مزین کیا ہو، انہیں نظرانداز کر دے اور ارتقائے حیات کی اربوں سالہ تاریخ کو بھول جائے۔ اور جب وہ ایک اور آدم کو چکنی مٹی سے پورے انہماک سے بنا رہا تھا تو کیا اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ لاکھوں سال پہلے نہایت احسن طریق پر اسے پہلے ہی تخلیق کر چکا ہے۔ کرۂ ارض تو پہلے ہی نسل انسانی سے بھرا ہوا تھا۔ یہ لوگ باغِ عدن میں تخلیق آدم کی اس بے معنی تکرار کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے۔
ان مذہبی جنونیوں کے تخلیقِ انسانی کے بارہ میں اس بچگانہ خیال کو خواہ کوئی حقارت سے رد کر دے لیکن سیکولرسائنسدانوں کا نظریہ بھی کچھ کم قابل مذمّت نہیں۔ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ تخلیق کی سکیم کی لاتعداد پیچیدگیوں کے باوجود ارتقاکا منصوبہ نہایت عمدہ طریق سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ کچھ بھی ہو یہ لوگ اس حیران کن شاہکار کو محض ایسا اتفاقی حادثہ قرار دیتے ہیںجو نہ صرف عقل سے عاری ہے بلکہ اندھا، بہرا اور گونگا بھی ہے۔ اس صورت میں مذہبی جوشیلوں کا تمسخر اڑانا انہیں زیب نہیں دیتا۔ ان کا ایسے خدا کے بارہ میں تصور جو تخلیق کے عظیم الشان منصوبہ کی تکمیل کے بعد خواہ کسی بھی قسم کے ضعف کا شکار ہو چکا ہو، ان ماہرینِ ارتقا کے تخلیقی قوت کے نظریہ سے بدرجہا بہتر ہے۔ ان کے نزدیک تخلیق کا یہ نہایت عمدہ اور حیرت انگیز پیچیدہ منصوبہ محض ایک ایسے وجود کے ذہن کی پیداوار اور عمل کا نتیجہ ہے جو بینائی اور عقل سے عاری ہے۔
بائیبل کی کتاب پیدائش سے خدا کا جو تصور ابھرتا ہے اس کو اگر ظاہر پر محمول کیا جائے تو خدا نعوذباللہ ایک پیرفرتوت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن سائنسدان اس سے بھی زیادہ بیہودہ بات ہم سے منوانا چاہتے ہیں۔ نیچری اس بات پر مصر ہیں کہ اربوں سالہ حیاتیاتی ارتقا کے پیچھے عقل سے عاری محض اتفاقات کا ایک سلسلہ ہے جس نے ارتقاکے عمل کو نہایت پیچیدہ اور دشوار گزار مراحل سے گزار کر موجودہ صورت تک پہنچادیا ہے۔
جب وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں ہالڈین (Holdane) کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ جو ماحول ابتداء میں موجود تھا اس کے مطابق زندگی کا آغاز بغیر آکسیجن کے ہونا چاہئے تو بدقسمتی سے ان کا نظریہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ہالڈین (Holdane) کے اس نظریہ سے اتفاق کرتے ہوئے سائنسدان یقین رکھتے ہیں کہ آکسیجن کی غیر موجودگی کے باوجود غیر حیاتیاتی دور، حیاتیاتی دور میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس ہمیں یقین ہے کہ اگرچہ فضا میں آکسیجن آزاد حالت میں موجود نہ بھی ہو پھر بھی یہ کسی نہ کسی طرح اتنی مقدار میں ضرور موجود ہو گی جو حیات کے لئے ضروری ہو۔ اس عمل کے بارہ میں ہمارے پاس کوئی متبادل حل نہیں، لیکن ہمارے عدم علم سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسا ہوا ہی نہیں ہوگا۔
کسی خاص دور میں کئی لاینحل اور ناقابل فہم مسائل ایسے تھے جنہیں بعد کی تحقیقات نے قابل فہم بنا دیا۔ ایک معین مثال تو ڈائناسار (Dinosaurs) کی ہے کہ وہ کس طرح روئے زمین سے اچانک مفقود ہو گئے۔ یہ معمّہ ایک لمبے عرصہ تک لاینحل ہی رہا اور سائنسدان سمجھ نہ سکے کہ ڈائناسار کیونکر صفحۂ ہستی سے یکسر غائب ہو گئے حالانکہ ان سے بدرجہا کمزور انواع حیات بلا روک ٹوک ارتقائی عمل سے گزرتی رہیں۔ آخرکار یہ معمّہ اس وقت حل ہوا جب پتہ چلا کہ ساڑھے چھ کروڑ برس قبل ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کے سمندر میں گرنے سے زمین کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا جس کے منفی اثرات بالخصوص ڈائناسار پر پڑے اور اس تبدیل شدہ ماحول میں ان کا زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ جب تک اس بات کا علم نہ ہواتھا اس وقت تک اس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہ تھا کہ ڈائناسار کے دور کا اختتام اس قدر اچانک کیوں ہوا۔
آزاد آکسیجن سے خالی ماحول کی مقابلۃً زیادہ آکسیجن والے ماحول میں تبدیلی ایک ایسا ہی واقعہ ہے جیسے ڈائنا سار کا صفحہئہستی سے کالعدم ہو جانا۔ اگر سائنسدان حق پر ہیں تو اس امر کا فیصلہ کہ ہم حقیقت سے کس قدر دور ہیں، مستقبل ہی کرے گا۔ اگر سائنسدانوں کی سوچ درست ہے تو بعض ایسے سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے جن سے شاید ضیائی تالیف کے موجودہ دور کا وجود ہی مشتبہ ہو کر رہ جائے۔
ہمارے ذہنوں میں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ ضیائی تالیف کے دور کے آغاز کے وقت کیا کیا تغیرات رونما ہوئے۔ سائنس دانوں کی عمومی رائے کے مطابق ساری کی ساری آکسیجن مختلف غیر نامیاتی مرکبات مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) پانی (H2O)اور سیلیکان ڈائی آکسائیڈ (SiO2)سے منسلک تھی۔ بالفاظ دیگر نئے سرے سے وجود میں آنے والے حیاتیاتی اجزاء نے اپنی ضرورت کے مطابق آکسیجن خود تیار کی ہو گی۔ اس غیرحقیقی نظریہ کو بیان کرنے کے بعد کہ غالباً اس طرح ہوا ہو گا جبکہ ایسا ہوناممکن نہیں، ہم ضیائی تالیف اور کلوروفل کی حقیقت جیسے اہم موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور کلوروفل سے وابستہ غیر معمولی پیچیدگیوں پر غور کرتے ہیں۔
چند ایسے ابتدائی سالموں کا تصور کریں جو ارتقا کے سفر میں آکسیجن سے یکسر خالی قدیم ماحول میں اچانک نمودار ہوئے جنہوں نے آئندہ چل کر کہیں مستقبل میں ہر قسم کی زندگی کا پیش رو بننا تھا۔ یہ تصور جتنا خوبصورت ہے اتنا ہی عجیب و غریب بھی ہے جس سے وابستہ بہت سے مسائل اور سربستہ راز ابھی حل ہونا باقی ہیں۔ حیات کے ان اوّلین سالموں کی بقا کے لئے محض ضیائی تالیف کافی نہیں تھی۔ سورج سے حاصل شدہ توانائی کو کیٹابولِزم یا عملِ تحول کے ذریعہ محفوظ اور قابل استعمال بنایا جانا بھی ضروری تھا جس کیلئے آزاد آکسیجن درکار تھی۔ لیکن ان کے نظریہ کے مطابق اس زمانہ میں یا تو یہ میسر ہی نہیں تھی یا اس کا حصول انتہائی دشوار تھا۔ اس دور میں طوفان کثرت سے آتے تھے اور فضائی نظام اکثر درہم برہم رہتا تھا۔ اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ زندگی نے پیدا ہوتے ہی اپنے لئے آکسیجن خود ہی بنانا شروع کر دی ہو اور کیٹا بولزم یا تحول کا عمل جاری رکھنے کیلئے اس آکسیجن کو ماحول سے واپس لے کر اپنے نظام میں جذب کر لیا ہو۔ حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے قدیم اجداد نے زندگی کا سفر شروع کیا بھی ہو گا تو کیسے؟ کیونکہ زندہ رہنے کیلئے انہیں جس آکسیجن کی ضرورت تھی وہ تو انہوں نے ضیائیتالیف کی مدد سے از خودتیار کرنا تھی۔ یہ خیال واقعی انوکھا ہے کہ پیدائش کے وقت وہ آکسیجن کے بغیر اس وقت تک زندہ رہے۔ گویا انہوں نے اپنی سانس روکے رکھی یہاں تک کہ وہ اپنی بنیادی ضرورت یعنی آکسیجن بنانے اور اسے فضا سے دوبارہ حاصل کرنے کے قابل ہو گئے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خوش قسمتی سے ان کی زندگی کا آغاز کسی روشن صبح کو ہوا ہو گا۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں ضیائی تالیف اپنا وہ عمل شرو ع کر سکتی تھی جس کے نتیجہ میں آکسیجن کا بنناممکن تھا۔ لیکن محض اتنا ہی کافی نہ تھا بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ یہ آکسیجن حیاتیاتی اجزاء کے اس قدر قریب رہتی کہ اسے فوری طور پر استعمال کیا جا سکتا۔ طوفانی اور شوریدہ ماحول میں ممکن نہ تھا کہ پیدا ہوتے ہی یہ تھوڑی سی آکسیجن ان کے آس پاس موجود بھی رہتی جسے بوقت ضرورت واپس عمل تنفس کے ذریعہ استعمال کیا جا سکتا۔
ہر ایٹم عمل تالیف کے ذریعہ جس تیزی سے پیدا ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ طوفانی ہوائیں اسے اڑالے جاتی ہوں گی۔ کیا کوئی حیات کے ان خلیات کی بے کسی کا تصور کر سکتا ہے کہ سانس لینے سے قبل ہی وہ آکسیجن کو اپنی دسترس سے باہر جاتا ہوا دیکھتے ہوں گے؟ لیکن اسی پر بس نہیں۔ آخر دن بھی اپنی دھوپ، روشنی اور سکون کے ساتھ رات میں بدل جاتا ہوگا۔
زمانہ قبل از تاریخ کے شب وروز کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اب ہم عہد نامہ قدیم کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ یہ جان سکیں کہ آسمانی صحائف کے مطابق زمانہ قبل از تاریخ میں کیا کیا واقعات ظہور پذیر ہو رہے تھے۔
’’اور زمین ویران اور سنسان تھی۔ اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے۔ اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات۔ اور شام ہوئی اور صبح ہوئی سو پہلا دن ہوا۔‘‘ (پیدائش 5-2:1)
جیسا کہ مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہے اس روشن دن میں پہلی مرتبہ جو ابتدائی اجزائے حیات ظہور میں آئے زمین میں ان کے بچ نکلنے کا امکان تو تھا لیکن کم۔ لیکن بالآخر وہ دن ختم ہو گیا ہو گا اور دوسرے دن کے شروع ہونے سے قبل ضیائی تالیف کا عمل مکمل طور پر رک گیا ہو گا۔ حیات کے ان سالموں نے آکسیجن کے بغیر اپنی پہلی رات کن مشکلات میں گزاری ہوگی، کیونکہ اتنا لمبا عرصہ تو ماہر یوگی بھی سانس نہیں روک سکتے۔ چنانچہ اس شام ان بیچاروں پر روشنی کا نہیں بلکہ زندگی کا سورج غروب ہو گیا ہو گا۔
اس تعلق میں یقیناکئی ایک تناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ قانونِ انتخابِ طبعی (Natural Selection) کا ذکر بھی سرسری طور پر کر دیا جاتا ہے مگر کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ تو سائنسدانوں کے لئے ایک گھسا پٹا فرسودہ نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ سائنسدانوں کا سامنا جب اس چیلنج سے ہوتا ہے کہ یہ بڑی بڑی اور پیچیدہ اشیاء حادثاتی طور پر کیسے ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ معرض وجود میں آگئیں تو شک کا فائدہ اٹھانے والے سائنسدان قانون انتخابِ طبعی کے محاورہ کا سہارالیتے ہیں۔ ڈکرسن (Dickerson)نے چند ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن کو وہ آج تک حل نہیں کر پائے۔
ذیل میں ہم ڈکرسن (Dickerson)کے پیش کردہ پانچ مدارج کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
.1کسی سیارہ اور اس کی بیشمار اقسام کی گیسوں سے معمور فضا جن سے زندگی کی تخلیق ہوئی ہے کوئی اتنا سیدھا سادہ عمل نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے۔
متعدد اقسام کی گیسوں کا مطلوبہ تناسب کے ساتھ زمین کی ابتداء ہی سے بنتے چلے جانا بجائے خود اپنے اندر ایسی پیچیدگیاں رکھتا ہے جو خصوصی توجہ کی متقاضی ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ زمین کی فضا میں گیسوں کے تناسب کی ہر تبدیلی پر ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ کا سوال ابھرتا ہے۔ زمین کی فضا کا ساڑھے تین ارب سال تک آکسیجن کے بغیر رہنا محض حادثاتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان مشکلات میں اس امر کا اضافہ بھی کر لیا جائے کہ زمین پر آسمان سے مسلسل طاقتور تابکار شعاعوں کی ہونے والی بوچھاڑ بھی ابتدائی حیات کیلئے کتنی تباہ کن تھی تو اس سے درپیش مشکلات کا کچھ ادراک ہو سکتا ہے۔ جب تک ان مضر اثرات سے بچنے کیلئے کوئی دفاعی تدابیر اختیار نہ کی جاتیں تب تک زمین پر کسی قسم کی حیات کی بقا کا کوئی امکان نہ تھا۔
.2 حیاتیاتی مرکبات مثلاً امینوایسڈ (Amino Acids)، نشاستہ اور نامیاتی بنیادیں (Organic Bases) پچاس کروڑ برس تک وجود میں آتی رہیں اور اس دور میں جو کچھ بھی ہوا وہ یقینا بیشمار مشکلات کاشکار ہوا ہو گا۔
.3 زندگی کے آغاز ہی میں ان مرکبات کا پانی میں آپس میں یوں جڑ کر ابتدائی لحمیات اور نیوکلیک ایسڈ (Nucleic Acid) کی لڑیوں کی شکل اختیار کرنا ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ صرف اس مرحلہ کو سمجھنے کیلئے ہی کثیر تعداد میں ایسے سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو اپنی ساری زندگی صرف اسی کام کیلئے وقف کردیں۔ پچاس سال سے زائد عرصہ کی گہر ی اور مسلسل تحقیق کے باوجود بھی سائنسدان تا حال اس معمولی سی گتھی کو سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ پروٹین یعنی لحمیات کا ارتقاکیسے ہوا؟ بالفاظِ دیگر یہ مسئلہ کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈہ، ابھی تک حل طلب ہے۔
.4 زندگی کی ابتداء میں ہالڈین (Holdane)کے مجوزہ سوپ یا آمیزہ کی Protobiontsمیں تقسیم اور ہر جزو کی اپنی کیمیاوی ساخت اور پہچان کا ہونا بھی ایک بہت بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔
.5 آخری اہم بات یہ معلوم کرنا ہے کہ ابتدائی اجزائے زندگی میں نظامِ تولید کا اجراء کیسے ہوا۔ کیونکہ نئے خلیوں میں ویسی ہی کیمیائی اورمیٹا بولک(Metabolic) استعدادوں کاہونا نہایت ضروری تھا جو ان کے پیشروؤں میں موجود تھیں۔
اس باب کے اختتام سے قبل ہم چند اور مثالوں سے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سائنسدان زندگی کے ازخود وجود میں آنے کے نظریہ کے بارہ میں کتنی مشکلات کا شکار ہیں۔ کیمیائی ارتقا نے کروڑوں چھوٹے چھوٹے نظرنہ آنے والے مراحل میں سے اپنا راستہ بنایا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ ہر کیمیائی قدم ایک خاص سمت میں کیسے اٹھایا گیا اور اس دوران اس پر کیا کیا قدرتی اثرات مرتّب ہوئے۔ بلکہ اس بات کا اندازہ لگانا اور بھی دشوار ہے کہ مذکورہ کیمیائی مراحل یکے بعد دیگرے کس طرح ایک موزوں اور منظم ترتیب سے ایک لڑی کی صورت میں اس طرح پروئے گئے کہ ہر جزو اپنی اپنی مناسب جگہ اور مقام پر موجود ہے۔ کسی سائنس دان کے لئے یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ biontsکے عمل تخمیر سے توانائی حاصل کرنے کا دور جب ختم ہوا تو ضیائی تالیف کا دور شروع ہو گیا۔ مگر ایک دور کے خاتمہ اور دوسرے کے آغاز پر درپیش مسائل کا تصور کرنا اور ان کا حل تجویز کرنا بہت مشکل کام ہے۔
ہر زندہ خلیہ میں فاسفورس کی موجودگی کا جو از پیش کرنا بھی ضروری ہے جو کہ ایک کمیاب عنصر ہے مزید برآں مالیبڈینم (Molybdenum) کو ہی لے لیجئے اور اس قسم کے چند اور عناصر کو بھی جو بہت کمیاب ہیں مگر حیات کی تیاری میںبنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سب کو شامل کر لینے سے معاملہ اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔ بعض سائنسدانوں نے تو اس کا یہ حل بھی تجویز کیا ہے کہ حیات کہیں باہر سے زمین پر آئی ہے کیونکہ فاسفورس اور مالیبڈینم وہاں نسبتاً زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا گیا کہ اگر حیات باہر سے زمین پر آئی ہے تو اسے فاسفورس اور مالیبڈینم اب تک کیسے مسلسل میسر آتے رہے؟ حیات ایسے غیرموافق ماحول میں بلاروک ٹوک کیسے نشوونما پاتی رہی جہاں اسے فاسفورس اور مالیبڈینم جیسے ضروری عناصر بآسانی میسر نہ تھے؟
سائنسدانوں کو ایک اور مشکل یہ در پیش ہے کہ دو ایسے مظاہر قدرت بیک وقت موجود ہیں جن پر زندگی کے قیام اور تسلسل کا دارومدار ہے۔ ہر زندہ خلیہ دو بنیادی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک عملِ تحول اور دوسرا عمل تولید۔ مگر مشکل یہ ہے کہ نہ تو نیو کلیک ایسڈکسی خامرہ کے بغیر وجود میں آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی خامرہ نیو کلیک ایسڈ کے بغیر پیدا ہو سکتا ہے۔ کرِک (Crick) اور واٹسن(Watson) کے مطابق DNA عمل انگیز لحمیات یا خامرات کے بغیر اپنے جیسا مزید DNA تیار نہیں کر سکتا۔ المختصر، نہ تو لحمیات DNA کے بغیر جنم لے سکتی ہیں اور نہ ہی DNA لحمیات کے بغیر وجود میں آ سکتا ہے۔ زندگی کی ابتداء کے بارہ میں غورو فکر کرنے والوں کو یہاں بھی مرغی اور انڈے جیسا ایک معمّہ درپیش ہے کہ پہلے کیا چیز وجود میں آئی۔ لحمیات یا DNA ؟
اس مشکل سے جان چھڑانے کیلئے بعض سائنسدان تجویز کرتے ہیں کہ DNA اور لحمیات نے الگ الگ متوازی طور پر ارتقا کے مراحل طے کئے یہاںتک کہ آگے چل کر دونوں کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کا دور شروع ہوا۔ بظاہر تو یہ ایک حیرت انگیز تجویز ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو نہ تو اس میں ذہانت کا کوئی عنصر دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی عقلمندی کا کوئی شائبہ۔ انہوں نے اس حقیقت سے آنکھیں چرالیں کہ دونوں کا الگ الگ ارتقا کیسے ممکن ہوا اور وہ کیسے باہم متوازی سمت میں چلتے رہے۔ جبکہ ہر مرحلہ پر ان کی بقا کا دارومدار باہم ایک دوسرے کے بغیر ناممکن تھا۔
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام ممکنات کے محض اتفاقیہ طور پر اکٹھا ہونے کے نتیجہ میں یہ عمل ہوا اور اس طرح بظاہر ایک ناممکن بات ان تجربہ کار سائنسدانوں کی نگرانی کے بغیر ہی ممکن ہو گئی ہو۔ ان سائنسدانوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے جدید سامان سے آراستہ سائنسی لیبارٹری کی ضرورت تو تھی لیکن مذکورہ معمّہ ماحول کو کنٹرول کئے بغیر خود بخود کیسے معرض وجود میں آگیا؟ جن لوگوں نے یہ تجربات کئے انہوں نے RNAسے لحمیات اور خامروں کی غیر موجودگی میں مزید RNA بنانے کی کوشش کی جبکہ لحمیات اور خامروں کی غیر موجودگی میں RNA خود مزید RNA نہیں بنا سکتا۔ لیکن انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس مشکل سوال کے حل کرنے کی کوشش میں ان کی کامیابی دراصل کوئی کامیابی نہیں ہے۔ ہارگن (Horgan) تسلیم کرتا ہے کہ یہ سائنسی تجربات اتنے پیچیدہ ہیں کہ یہ آغازِ حیات کے کسی بھی قابل قبول حل کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چنانچہ آرگل (Orgel) نے ان تجربات کے بعد تسلیم کیا کہ:
’’ان تجربات میں بے شمار امور کی درست حالت میں موجودگی اور کسی بھی غلطی کے امکان کی عدم موجودگی نہایت ضروری ہے۔‘‘5
وہ اور ہارگن اس بات پر متفق ہیں کہ لیبارٹری کے انتہائی محتاط حالات میں ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت نہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قبل آزاد ماحول میں بھی یہ سب کچھ اسی طرح ظہور میں آیا ہو۔ J. Szostak نے بھی اپنے طور پر اس سے ملتے جلتے کامیاب تجربات کئے مگر یہ تجربات بھی لیبارٹری میں ہی کئے گئے۔
‏Santa Clara Universityکے Harold P. Kleinنے اپنے شکوک کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’.......اس کا تصور کرنا بھی تقریباً ناممکن ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟‘‘6
ہمیں صرف لفظ ’’تقریباً‘‘ پر اعتراض ہے۔ انہیں واضح طور پر اقرار کرنا چاہئے تھا کہ خداتعالیٰ کے وجود کے بغیر ایسا ہونا قطعاً ناممکن ہے۔
ڈکرسن لحمیات اور نیوکلیک ایسڈ کے باہمی اشتراک کی وجہ معلوم کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ ان میں سے کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔
دو متوازی نظام آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہو جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے معاون بن جائیں اور ایک نظام دوسرے کو جنم دینے والا ہو، وہ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تو وہی مرغی اور انڈے کی پیدائش والا معمہ ہے کہ کون پہلے پیدا ہوا۔ بایں ہمہ اس کا پیش کردہ حل نہایت ناقص ہے۔ اس کے نزدیک انڈے اور مرغی کو علیحدہ علیحدہ ترقی کرنی چاہئے تھی اور ان کا ارتقابھی ایک دوسرے کی مدد کے بغیر ہونا چاہئے تھا۔
جو لوگ ڈکرسن کو اس لئے عظیم سمجھتے ہیں کہ اس کا زندگی کے آغاز کامعمہ حل کرنے کا ابتدائی کام نہایت عظیم الشان ہے وہ بھی یقینا اس کے اس سادہ لوحی پر مبنی بیان پر دنگ رہ گئے ہوں گے۔ ڈکرسن کو صرف یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ شاید وہ اس طویل اور دشوار تحقیق کے نتیجہ میں بری طرح تھک گئے ہوں گے جو وہ خدا کے وجود کا اقرار کئے بغیر اس معمہ کے حل کیلئے کرتے رہے۔ لیکن اللہتعالیٰ کے وجود کا اقرار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ سب کچھ اس قادرِ مطلق کے ہاتھ میں ہو تو پھر مظاہر قدرت میں کسی قسم کے paradox یا تناقض کا امکان نہیںرہتا۔ سائنسدانوں کا ایک ایسی اعلیٰ، علیم و خبیر اور مقتدر بالارادہ ہستی کو جو تخلیق کے پیچیدہ عمل کی خالق ہے، تسلیم نہ کرنا ایک ناقابلِفہم امر ہے جو بیّن حقائق سے جان بوجھ کر آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ ہستی ٔباری تعالیٰ کے اقرار سے یہ نام نہاد تضادات خودبخود دور ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم اعلان کرتا ہے:

(الملک5-4:67)
ترجمہ: وہی جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمان خدا کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے۔ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا۔ تیری طرف نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہو گی۔
ڈکرسن اور ان جیسے دیگر سیکولر سائنسدانوں کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے سوچ رکھا ہے اور اس پر انہیں فخر ہے کہ کائنات کے نظام میں خداتعالیٰ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ لیکن یہ تضاد اسی لمحہ شروع ہو جاتا ہے جس لمحہ خداتعالیٰ کو اس کی اپنی کائنات کی تخلیق کے امر سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں جو تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو تی ہے اس کی مثال کا ڈکرسن کے پیش کردہ مذکورہ بالا حل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دراصل یہ صورت حال ان کے لئے کامل شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
بطور یاددہانی بتاتے چلیں کہ DNAکی طرف سے جاری ہونے والی معلومات اور ہدایات کو معین مقامات تک پہنچانے کے لئے RNA کے سالمے پیغام رسانی کا کام دیتے ہیں جہاں ان ہدایات کی تعمیل کی جاتی ہے۔ جب سائنسدان قدرت کے اس پیچیدہ عمل کے رخ پر سے پردہ اٹھاتے ہیں تواس عمل کی پیچیدگی کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ پیغام رساں RNA مالیکیول کے ساتھ ایک مخصوص امینوایسڈ کوجوڑنے کیلئے ایک ایسے توانائی مہیا کرنے والے خامرہ کی ضرورت ہوتی ہے جو دوسری طرف موجود اینٹی کوڈان (anticodon) کو شناخت کر سکے۔ مگر دقت یہ ہے کہ توانائی مہیا کرنے والا یہ خامرہ اسی عمل کے دوران پیدا ہوتا ہے جسے اس نے آگے بڑھانا ہے۔ یعنی پھر وہی انڈے اور مرغی والا مسئلہ!
مذکورہ بالا مطالعہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہDNA، RNA کی ماں ہے۔ اگرچہ RNAکی ہو بہو نقل بنانے کا کوڈ DNA کی جینز (genes) میں موجود ہے مگر سائنسدانوں کو یقین ہے کہ بعض حالات میں RNA، DNA سے بھی پہلے موجود تھے۔ اسے ایک اور مرغی اور انڈے والا معمہ کہہ لیں یا کوئی اور نام دے لیں یہ بات تو پھر بھی حل طلب ہی رہے گی کہ RNA، DNA سے پہلے کیسے معرضِ وجود میں آ گئی۔
پس سائنسدان اس معمہ کو حل کرنے کیلئے جس راہ پر بھی قدم مارتے ہیں انہیں اسی برسوں پرانی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس تحقیق کی راہ میںپتھر کی دیوار حائل ہے۔ تاہم ڈکرسن نے ان دونوں کے ارتقا کو متوازی قرار دے کر اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ اگر واقعۃً ایسا ہی ہوا ہے تو اس تناظر میں ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ارتقا کے انہی متوازی خطوط پر چلتے ہوئے اربوں سال سے انڈوں سے انڈے اور مرغیوں سے مرغیاں جنم لیتی چلی آرہی ہیں۔ اس صورت میں یہ ایک دوسرے پر انحصار کئے بغیر زندہ رہے۔ چنانچہ ایک سہانی صبح مرغی کو انڈے دینے کا خیال آیا اور انڈوں نے مرغیاں پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ یوں یہ کہانی دونوں کے باہمی مفاد کے حوالہ سے اپنے منطقی اختتام کو پہنچی اور وہ ایک دوسرے کو جنم دیتے ہوئے اکٹھے ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
ہم دل کی گہرائی سے ڈکرسن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور سائنسی مسائل کے حل کی تلاش میں ان کے متوازن اور غیر متعصبانہ رویہ کو سراہتے ہیں مگر پھر بھی ڈکرسن کی یہ تجویز حیران کن ضرور ہے۔ شاید یہ ایک سائنسدان کا نپاتُلا نتیجہ نہیں بلکہ شدید تکلیف میں مبتلا ڈکرسن کی روح کی پکار ہے جس کا واحد علاج ہستی ٔباری تعالیٰ کا اقرار ہے۔
ہم نے ابھی عظیم سائنسدانوں کے اس اقرار کا ذکر کیا ہے کہ وہ باوجود انتہائی کوشش کے زندگی کا معمّہ حل نہیں کر سکے۔ ان کی تحقیقات میں قاری کو کہیں بھی کلوروفل کی پیچیدگیوں کا ذکر نہیں ملتا،جسے انہوں نے محض سبز رنگ کا ایک مادہ قرار دے کر چھوڑ دیا ہے۔ نہ ہی دیگر پیچیدہ نامیاتی مرکبات کی طرح اس کے ارتقا کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ کلوروفل کا کبھی ارتقا نہیں ہوا اور نہ ہی خشکی، ہوایا سمندر میں اس کے ارتقا کے کوئی آثار ملتے ہیں۔
زمین پر زندگی کی ابتداء کے ساتھ ہی کلوروفل کے حامل پودوں نے سورج کی روشنی کو جذب کر کے اسے کیمیاوی توانائی میں تبدیل کرنا شروع کر دیا جس سے غیر نامیاتی مرکبات نامیاتی مرکبات میں بدل گئے۔ اس عمل کے دوران ان مرکبات نے کاربن ڈائی آکسائیڈ اورپانی سے کاربوہائیڈریٹ تیار کیا اور بیک وقت آکسیجن خارج کی جس کا کیمیائی فارمولا یہ ہے:
شمسی توانائی
‏ C6H12O6 + 6O2 --------------> 6CO2 + 6H2O
کلوروفل کی دو قسمیں ہیں:
کلوروفِل A (C55H72MgN4O5) اورکلوروفل B (C55H70MgN4O6)
ان فارمولوں کی ترکیب ہیموگلوبن (Haemoglobin)کی ترکیب کی طرح اپنی پیچیدگی میں کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے۔ اس میں ہر عنصر ایک خاص ترتیب سے اپنے مقام پر موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ Stenen Rose اپنی تصنیف 'The Chemistry of Life' میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اگرچہ کلوروفل ضیائی تالیف (Photosynthetic Pigment) کا واحد ذریعہ نہیں مگر اس کا لازمی جزو ضرور ہے ....اس کے سالمہ کے قطبی حصہ کا ڈیزائن درحقیقت سائٹوکرومز (Cytochromes) اور ہمیوگلوبن(Haemoglobin) کے سالموںکے قطبی حصہ کے ڈیزائن سے ملتا جلتا ہے۔ ہیم (Haem) کی طرح اس میں بھی کاربن اور نائٹروجن کی چار کڑیاں ایک دائرے کی صورت میں جڑی ہوتی ہیں جنہیں پائرول رنگز (Pyrrole Rings)کہا جاتاہے۔ یہ میٹھے آٹے کے پیڑے(doughnut )سے مشابہ ہے جس کے درمیان ایک بڑا سا سوراخ ہوتا ہے۔ ہیم کا یہ سوراخ لوہے سے جبکہ کلوروفل میں میگنیشیم سے پُر ہوتا ہے۔ ان کروی ساختوں میں ترتیب واراکہری اوردہری کڑیاں ہوتی ہیں اور جب یہ کڑیاں روشنی کی ایک معین اور قلیل مقدار جذب کر لیتی ہیں جس کی اپنی ایک طول موج (Wavelength) ہوتی ہے تو اس سے ان کڑیوں کے اردگرد ایک قسم کا ارتعاش اور گونج پیدا ہوتی ہے۔ چونکہLamellaeمیں تمام Pigment سالمے باہم منسلک ہوتے ہیں اس لئے مرتعش توانائی ایک رنگدار سالمہ سے دوسرے رنگدار سالمہ میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے اور آخرکار کلوروفل ہی کے ذریعہ سے مختلف سالموں میں پہنچا دی جاتی ہے جہاں سے وہ ضائع نہیں ہو سکتی۔ توانائی کو محفوظ کرنے والا یہ خاص قسم کا سالمہ، کلوروفل کے تین سو عام سالموں سے توانائی حاصل کر کے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس طرح روشنی سے حاصل کردہ توانائی اتنی بڑی مقدار میں ایک ہی جگہ پر مرتکز ہو جاتی ہے کہ دوسرے سالمہ کو یہ صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ کسی الیکٹران کو الیکٹران قبول کرنے والے کسی ایسے حصہ کو منتقل کر دے جو خود کلوروفل سے خالی ہو اور متعدد درمیانی واسطوں کے ذریعہ اس الیکٹران کو آگے NADPتک منتقل کر دے…
مگر قابل غور امر یہ ہے کہ سوائے کلوروفل والے حصہ کے جس کا کام پانی کے سالمہ کو تقسیم کر کے ابتدائی توانائی حاصل کرنا ہے ضیائی تالیف کے باقی تمام مراحل، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجماد کا عمل اور نشاستہ (Sugars) کی تالیف جس طریق سے ہوتی ہے اس کا علم ہمیں پہلے ہی حیواناتی خلیہ کے نامیاتی مطالعہ سے ہوچکا ہے۔‘‘ 7
کلوروفل کے نہایت پیچیدہ اور بڑے سالمے میں ایٹموں کی ایک لمبی زنجیر ہوتی ہے جس میں ہر ایٹم ایک مخصوص جگہ پر خاص ترتیب کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس ترتیب کی کسی کڑی میں معمولی سی تبدیلی بھی کلوروفل کی اہمیت اور کردار کو ضائع کر دیتی ہے۔ ہر قسم کی زندگی کا انحصار توانائی کے اس بنیادی ماخذ پر ہے مگر اس عمل کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے نشاستہ کو جاندار ایسی حالت میں استعمال نہیں کر سکتے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے تمام کیمیاوی مراحل کا دارومدار ATP اور ADP پر ہوتا ہے جن میں دو یا تین فاسفیٹ گروپ لازماً پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں میں فاسفورس گروپ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ اہم جزو ہے جو پودوں اور جانوروں کے ہر زندہ خلیہ میں موجود ہوتا ہے اور جاندار اشیاء کو درکار بے شمار نامیاتی مرکبات کو تیار کرنے والے کارخانہ کو چلاتا ہے۔
مذکورہ بالا بحث میں ہم نے دراصل تخلیق کے ان تین پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے جو سربستہ راز ہیں اور جو عموماً سائنسدانوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ مگر زندگی کے آغاز پر تحقیق کرنے والے تمام عظیم سائنسدانوں نے ان رازوں کے رخ سے پردہ اٹھانے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلوروفل تو ایک استثناء ہے۔ اس معمّہ کو حل کرنے کی بجائے وہ ایسی مشکلات کے حل میں الجھ جاتے ہیں جن کے بارہ میں ان کے پاس کم از کم کوئی جزوی حل موجود ہو۔
یہ لوگ کلوروفل پر تحقیق کرنے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ شاید انہیں مکمل احساس ہے کہ یہ بے انتہا پیچیدہ کیمیاوی مادہ یکدم وجود میں نہیں آیا اور اگر اس کا ارتقا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے پیچھے ارتقا کی ایک لمبی داستان چھوڑی ہو گی۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ عدم سے اچانک وجود میں نہیں آیا۔ بلکہ یہ ایک موجود حقیقت ہے۔ اس کی موجودگی ملحدوں، فلاسفروںاور سائنسدانوں کیلئے چیلنج ہے۔ وہ بتائیں کہ یہ یکدم کیسے وجود میں آ گیا؟ ہیموگلوبن کے ارتقاکا تصور کرنا آسان ہے مگر اس چھوٹے سے مادہ کے وجود کا جواز تقریباً ناممکن ہے۔

حوالہ جات
1. BARBIERI, M. (1985) The Semantic Theory of Evolution. Harwood Academic Publishers: p.86
2. OLOMUCKI, M. (1993) The Chemistry of Life. McGraw-Hill, Inc. France, p.55
3. CAIRNS-SMITH, A.G. (June, 1985) The First Organisms. Scientific American: p.100
4. CAIRNS-SMITH, A.G. (June, 1985) The First Organisms. Scientific American: p.100
5. HORGAN, J. (February, 1991) In The Beginning. Scientific American: p.119
6. HORGAN, J. (February, 1991) In The Beginning. Scientific American: p.120
7. ROSE, S. (1991) The Chemistry of Life. Penguin Books Ltd., London, pp.353-355

بقا: حادثہ یا منصوبہ بندی؟
تمام جانداروں کی بقا کا معاملہ اتنا آسان اور سادہ نہیں جتنا ڈارون کے نظریہ ’’بقائے اصلح‘‘ کے گھسے پٹے فارمولے کی روشنی میں نظر آتا ہے۔ یہ اصطلاح پورے طور پر صرف اس وقت ہی سمجھ میں آ سکتی ہے جب بعض مخصوص اور معین مثالوں کو پیش نظر رکھ کر اس کا جائزہ لیا جائے۔ ورنہ خدشہ ہے کہ یہ معروف اصطلاح لوگوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنے کی بجائے انہیں غلط راستہ پر نہ ڈال دے۔ اصل نزاع لفظ ’بہترین‘ یا’Fittest‘کا ہے جس کے صحیح مفہوم کا تعیّن کئے بغیر اس دعویٰ کو آزمایا نہیں جا سکتا اور جہاں تک ادنیٰ درجہ کی حیات سے اعلیٰ درجہ کی حیات تک کے ارتقا میں’بقائے اصلح‘ کے کردار کا تعلق ہے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ نظریہ غلط ثابت ہو جائے۔
حیات کی کسی ایک خصوصیت کو دوسری پر ترجیح دینا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر ایک برتر نوع حیات بعض حالات میں مشکلات کا سامنا نہیں کر پاتی جبکہ ایک کمتر درجہ کی نوع انہی حالات سے بآسانی گزر جاتی ہے۔ چنانچہ بحران کی نازک حالت میں قدرت خود بخود اس کمتر درجہ کی نوع کے حق میں اپنا فیصلہ صادر کر دیا کرتی ہے۔
شدید قسم کی خشک سالی کے دوران بہت سی کمتر درجہ کی انواع ِ حیات بچ جاتی ہیں جبکہ انسان اس دباؤ کو برداشت نہ کر سکنے کے نتیجہ میں فنا ہو سکتا ہے۔ قدرتی آفات مثلاً درجہ حرارت میں اچانک تبدیلیاں، آتش فشاں کا پھٹنا، بگولے اور آندھیاں، جنگل کی آگ، سیلاب اور زلازل وغیرہ حیات کی مختلف انواع کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے۔
ان حالات میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ چند گھنٹوں یا سیکنڈوں میں وہ سب کچھ تباہ وبرباد ہو جائے جسے عمل ارتقانے لاکھوں کروڑوں سالوں میں تیار کیا ہے۔ لیکن انہی خطرناک حالات میں کمتر درجہ کی انواع بلا روک ٹوک نشو و نما پاتی رہیں۔ یہ سوال حل طلب ہے کہ ان میںسے کونسی نوع بہترین ہے اور اس کے بہترین ہونے کو کس پیمانہ سے ناپا جا سکتا ہے؟
یہ تو بقا کے ایک سیدھے سادے معاملہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہر بار صرف موزوں ترین یعنی Fittestہی باقی نہیں رہتا اور نہ ہی باقی رہ جانے والا ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بعض انواع حیات بعض مخصوص حالات میں بقا کے حوالہ سے بہترین قرار دی جا سکتی ہیں اور بعض دیگر انواع کو بعض مختلف حالات میں بہترین کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ محض بقا کو انواع کی نسبتی خصوصیا ت کے موازنہ کا معیار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اب ہم جہد للبقا کے اس عمل کا تجزیہ کرتے ہیں جو ایک ہی نوع کے افراد کے مابین قدرتی آفات کے وقت جاری ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ان نامساعد حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ختم ہو جاتے ہیں لیکن بعض ان خطرات کا اپنی فطری قوت کی مدد سے سامنا کرتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جن پر ایسے حالات اثرانداز ہی نہیں ہوتے۔ وہ بآسانی ان مصائب میں سے گزر جاتے ہیں جو دوسروں کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں۔ پیچش کی شدید وبا میں عین ممکن ہے کہ ایک نہایت مشہور و معروف سائنس دان ہلاک ہو جائے جبکہ دل و دماغ کی اعلیٰ استعدادوں سے عاری ایک کسان محض اپنے مضبوط نظامِہضم کی وجہ سے بچ نکلے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک وبائی مرض سے بچ جانے والا کسی اورمتعدی مرض کا شکار ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض ہیضہ سے تو بچ جائیں مگر انفلوئنزا یا کسی اور معمولی موسمی بیماری کی بھینٹ چڑھ جائیں۔
یہ زندگی کے نشیب و فراز ہیں اور کسی کا خاص حالات میں بچ نکلنا ایک نسبتی امر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ بچ جانے والے ہر اعتبار سے زندہ رہنے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ سائنسدان تو اس بات سے بھی آگاہ نہیں ہیں کہ انتخاب طبعی(Natural Selection) کا عمل کیوں بعض ایسے جانداروں سے ترجیحی سلوک کرتا ہے جو بظاہر زندہ رہنے کے قابل نہیںہوتے۔ کوئی ایسا واحد پیمانہ موجود نہیں ہے جس کی مدد سے ہر معاملہ کے بارہ میں حتمی رائے دی جا سکے۔ انتخاب طبعی کا یہ غیر شعوری عمل حق میںیا خلاف فیصلہ دیتے وقت کسی بھی معاملہ سے متعلق تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کو مد نظر نہیں رکھ سکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ زندگی اور موت کے قوانین عام طور پر بقا اور فنا کے سلسلہ میں انتخاب طبعی کے عمل کے براہ راست زیر اثر نہیں ہوا کرتے۔ کسی جانور کی زندگی یا موت کا فیصلہ ان بیشمار عوامل کی بنا پر ہوا کرتا ہے جو ایک عظیم آسمانی اور آفاقی نظام کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔ یہ آسمانی نظام ارتقا کے عمل میں کبھی ممد نہ ہوتا اگر اس آسمانی سکیم کا ذرّہ ذرّہ ایک علیم و خبیر۔ خالق و مالک۔ ا رفع و اعلیٰ اور مقتدر بالارادہ ہستی کے کامل تصرف میں نہ ہوتا۔ اس کا انکار کرنے والے دراصل انکار کا فیصلہ پہلے سے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ یعنی کسی خالق کو مانے بغیرارتقا پریقین رکھنے کا لازمی نتیجہ درحقیقت ارتقا کا انکار ہے۔
ابتدائے آفر ینش سے کرہ ٔارض پر تخلیقِ انسان کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ زندگی استثنا ہے اور فنا قانون۔ اس کے بیشمار اسباب ہیں جن کا اتفاقات سے چولی دامن کا سا تھ ہے۔ ان عوامل کا شعور ہو جائے تو زندگی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آنے لگے اور جاندار ایک مسلسل خوف اور دہشت کے عالم میں زندگی گزارنے لگیں۔ خوش قسمتی سے موت خاموشی سے آتی ہے اور انسان اکثر اس کے خطرہ سے بے خبر رہتا ہے۔ اگر انسان میں یقینی موت کی موجودگی کے باوجود بے خبری میں رہنے کی صلاحیت موجود نہ ہوتو زندگی ایک عذاب بن جائے۔
پینے کے پانی میں پائے جانے والے جراثیم اگر انسان کو نظر آنا شروع ہو جائیں تو پیاس بجھانا بھی لطف کی بجائے سزا بن جائے۔ اگر ہمیں سانس کے ساتھ جسم کے اندر جانے والے جراثیم دکھائی دینے لگیں تو سانس لینا بھی دو بھر ہو جائے۔
اگر ہم کسی عمدہ، صاف ستھرے ایرانی قالین پر پڑنے والے ہر قدم کے ساتھ اڑنے والی مخلوق دیکھنے لگیں تو بہتوں کے لئے سانس لینے کا معمولی عمل بھی تکلیف دہ ہو جائے۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ تمام گھریلو مائیٹ (Mite)کی قسم کے حشرات اگر نظر آنے لگیں تو وہ زمین پر بسنے والے نہایت بد صورت ڈائنوسار سے بھی زیادہ بھیانک دکھائی دینے لگیں۔
ہوا، جس میں ہم سانس لیتے ہیں اتنی مختلف اقسام کے جراثیم سے بھری ہوئی ہے کہ اگر وہ ہمارے جسمانی نظام میں جڑ پکڑ جائیں تو ٹی۔ بی، نمونیہ، پھیپھڑوںاور جگر کے کینسر، ہر قسم کی پیچش اور اسہال، سیپٹی سیمیا (Septicaemia)، ایگزیما اور تمام اعضائے رئیسہ کی دیگر کئی مہلک بیماریاں لاحق ہو جائیں۔ یہ جراثیم سانس کے ذریعہ ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود اکثر ہم ان کے مضر اثرات کا شکار نہیں ہوتے۔ یقینا کوئی ایسا دفاعی نظام موجود ہے جو ان جراثیم کو اندرونی اعضاء تک بآسانی پہنچنے نہیں دیتا اور یوں ہمیں ان سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو بقا کو یقینی بنانے کے لئے ضرورت کے عین مطابق وضع کیا گیا ہے۔ بقا اس نظام کا کوئی حادثاتی نتیجہ نہیں۔
اس مختصر سے تعارف کے علاوہ اس مسئلہ کے بیشمار پہلو ہیں۔ ہمارا ہر فعل یا ذہن میں آنے والا ہر خیال ہمارے اعصابی نظام میں استعمال شدہ توانائی کے ایسے فاضل مادے چھوڑتا ہے جن کا کوئی فوری بندوبست نہ ہو تو وہ اچانک موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ چنانچہ زندگی کے ہر لمحہ میں ہم موت سے برسرپیکار ہیں۔ ’’بقائے اصلح‘‘ کے دراصل یہی معنی ہیں۔ یہ صرف اتفاقات کا نتیجہ نہیں ہے۔ ہر قدم پر پیش آنے والے بے شمار خطرات سے زندگی کی حفاظت کیلئے نہایت گہرا اور پیچیدہ نظام وضع کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے پودوں اور جانداروں کے عمل تحول (metabolism) میںآکسیجن کے کردار کا مطالعہ ایک بہترین مثال ہے۔
عمل تحول کی اصطلاح کو آگے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عمل تعمیر(Anabolism) اورعمل تخریب(Catabolism)۔
اینا بولزم سے مراد موجود خوراک سے نئی بافتوں کی تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ زائد توانائی کو چربی کی صورت میں محفوظ کرنا بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ اس کے برعکس کیٹابولزم ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجہ میںپیچیدہ مالیکیولز،سادہ مالیکیولز میںبدل جاتے اور توانائی خارج کرتے ہیں۔ پیچیدہ مالیکیولز کے اندر زیادہ توانائی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب یہ مالیکیولز ٹوٹتے ہیں تو توانائی خارج کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے مجموعی وزن اور کمیت میں جو کمی ہوتی ہے وہ اس توانائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے جسے جاندار اپنی بقا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بظاہر عمل تخریب ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے مگر زندگی کے قیام کیلئے نہایت ضروری ہے کیونکہ توانائی کی روزمرہ کی ضروریات اسی ذریعہ سے پوری ہوتی ہیں۔ تمام جسمانی حرکات، جذباتی ہیجانات اور ذہنی کاموں کیلئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جوعمل تخریب کے ذریعہ ہی مہیا ہوتی ہے۔ زندگی کی تمام ادنیٰ شکلوں کو حتیٰ کہ ایسے جانداروں کو بھی جن میں پھیپھڑے اور خون کی نالیاں موجود نہیں سانس لینے کیلئے ایک متبادل نظام فراہم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کی آکسیجن کی ضرورت بھی ویسے ہی پوری ہو جاتی ہے جیسے ان جانوروں کی جن کے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔
عمل تخریب کے بغیر محض خوراک کا میسر آ جانا بے فائدہ ہے۔ روز مرہ کے انسانی تجربہ میں بھی اس عمل کی اہمیت بڑی واضح ہے۔ انسان غذاکے بغیر چند ہفتے اور پانی کے بغیر چند دن زندہ رہ سکتا ہے مگر سانس لئے بغیر چند منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ جونہی آکسیجن کی فراہمی ختم ہوتی ہے عملِ تخریب بھی ختم ہو جاتاہے اور تمام خلیات مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے دماغ متاثر ہوتا ہے۔
آکسیجن کے نہایت مضر اثرات اور ان کے خلاف نہایت مؤثر حفاظتی اقدامات کا ذکر کرنے سے قبل ہم قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آکسیجن زندگی کے ہر عمل کے لئے نہایت ضروری ہے۔ قدرت نے توازن قائم کرنے کے لئے جو راستے اختیار کئے ہیں یہ اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ ہر مفید چیز کے کچھ نقصانات بھی ہوا کرتے ہیں جو اس حد تک ہو سکتے ہیں کہ اگر ان پر قابو نہ پایا جائے تو وہ اس چیز کے فوائد کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔ یہ تضاد جو واقعی ایک تضاد ہے زمین پر زندگی کے قیام کیلئے نہایت ضروری ہے۔ تخلیق کی یہ کہانی بار بار بے شمار مرتبہ دہرائی جا رہی ہے مگر آج تک بے رحمی سے تنقید کرنے والا کوئی نقاد اس داستان میںکوئی معمولی سا سقم بھی تلاش نہیں کرسکا۔ آکسیجن کے بارہ میں مفصّل بحث آئندہ صفحات میں آئے گی۔
فی الحال ہم قارئین کی توجہ آکسیجن کی ایک شکل اوزون یعنی(O3)کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ یہ واحد گیس ہے جس کے مالیکیول میں تین ایٹم ہوتے ہیں۔ یہ وہ منفرد خصوصیت ہے جو کسی اور گیس میں نہیں پائی جاتی۔ یہ عنصر زندگی کیلئے نہایت ضروری ہونے کے باوجود شدید مہلک بھی ہے۔ یہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ زمین پر زندگی کی بقا کو اتفاقات کے سہارے پر نہیں چھوڑدیا گیا بلکہ وہ تمام ضروری اور معین اقدامات کئے گئے ہیں جو نہ صرف زندگی کا سہارا ہیں بلکہ ان عوامل کے مضر اثرات سے بھی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں جو اس کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب زمین کی قریبی فضا میں آکسیجن آزاد حالت میں موجود نہیں تھی۔ اب تو یہ بات سب کو معلوم ہے مگر جب ہالڈین (Haldane) نے اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا تو ان سائنس دانوں میں حیرت واستعجاب کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جو ایسے شواہد کی تلاش میں تھے، جن سے آغاز حیات کے راز کھل سکیں۔ حیاتیاتی ارتقا سے قبل دنیا پر ایک بہت طویل عرصہ ایسا گزر چکا ہے جو سائنسدانوں کیلئے ہمیشہ ایک معمہ بنا رہا ہے۔ اگر اس وقت کی فضا میں آکسیجن آزاد حالت میں موجود ہوتی تو حیاتیاتی ارتقا سے قبل زندگی کی جو شکل موجود تھی اسے آکسیجن کی موجودگی میں مکمل طور پر تباہ ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر اسے آکسیجن کے مہلک اثر سے بچانے کیلئے معین اقدامات نہ کئے جاتے تو زندگی کی کوئی شکل باقی نہ رہتی۔
چنانچہ یہ ایک عظیم الشان انکشاف تھا کہ اس دور میں آزاد شکل میں کوئی آکسیجن موجود نہیں تھی۔ ا س بات کا علم ہو جانا کہ زمین کے نزدیک کا کرہ ٔہوائی آزاد آکسیجن سے خالی تھا ایک سنگِمیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ اس مرحلہ پر بعض مزید الجھا دینے والے سوالات سر اٹھانے لگے۔
ہالڈین(Haldane) کے مجوزہ حل کے نتیجہ میں یہ علم تو ہو گیا کہ زمین کا ماحول آزاد آکسیجن سے پاک تھا مگر کا سمک شعاعوں کی مسلسل بوچھاڑ سے حفاظت کیونکر ممکن ہوئی؟ آکسیجن کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ سوال اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیاکیونکہ کا سمک شعاعوں سے حفاظت صرف اس وقت ممکن ہے جبکہ ماحول میں آکسیجن آزاد حالت میں موجود ہو۔ یہ ایک ایسا معمہ تھا جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ آکسیجن کا ہونا بھی مہلک تھا اور نہ ہونا بھی مہلک تھا۔ اگر آپ یہ فیصلہ کرتے کہ زندگی کی حفاظت کے لئے فضا آکسیجن سے بالکل خالی ہو تو اس کانتیجہ یہ نکلے گا کہ مہلک کاسمک شعاعیں زندگی کا خاتمہ کر دیں گی۔
جیسا کہ ابھی بیان کیا جا ئے گا ماحول میں آزاد آکسیجن کی موجودگی کی وجہ سے بالواسطہ یہ مہلک کاسمک شعاعیں زمین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ باقی تمام گیسوں کی طرح آکسیجن کا مالیکیول بھی دو ایٹموں پر ہی مشتمل ہوتاہے جو اپنے ایلوٹراپ (Allotrope) اوزون سے ایک ایٹم کم ہوتا ہے۔ عموماً خیال اس طرف جا سکتا ہے کہ بھاری ہونے کی وجہ سے اوزون سطح زمین کے زیادہ قریب ہو گئی اور اپنی موجودگی کے باوصف آکسیجن کو ہلکی ہونے کی وجہ سے کرہ ہوائی کے بالائی حصہ کی طرف چلا جانا چاہئے تھا۔ ایک معمہ تو یہ ہے لیکن اس سے بھی حیران کن معمہ یہ ہے کہ اگر آکسیجن آزاد حالت میں موجود ہی نہیں تھی تو وہ اپنے بغل بچے اوزون کو پیدا کیسے کر سکتی تھی؟ اور اسے کس طرح آسمان کے اس حصہ میںپھینک سکتی تھی جہاں اس کی شدید ضرورت تھی۔ یہ ہے توایک پہیلی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک لطیفہ بھی ہے۔ پنجابی کہاوت ہے کہ:
ماں جمی نئیں تے پُت کوٹھے تے
اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ماں کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بیٹا چھت پر بھاگتا پھر رہا ہے۔ پنجابی میں تو یہ محض ایک لطیفہ ہے جس کا مقصد مخالف کی دلیل کو خارج از امکان قرار دینا ہے۔ مگر یہاں ہم ایسے ہی ایک مسئلہ سے دو چار ہیں جو سائنسدانوں کے خیال میں بالکل اسی طرح درپیش ہے۔ یہ مسئلہ کسی با مقصد اور تخلیقی منصوبہ بندی کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم اس زمانہ کی بات کر رہے ہیں جب آکسیجن جو اوزون کی ماں کے مشابہ ہے سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ لیکن اس کا بچہ اوزون کی شکل میں بالائی کرئہ ہوائی پر چوکڑیاں بھرتا پھر رہا تھا۔
یہاں ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ اوزون، بالائے بنفشی (Ultraviolet)شعاعوں کو یکسر تباہ نہیں کر سکتی۔ سب سے بڑے طول موج والی شعاعیں اوزون کی تہ کے آر پار بآسانی گزر کر سطح ارض کے قریب آ پہنچتی ہیں اور زمین پر رہنے والے جانداروں کیلئے کسی قسم کے خطرہ کا باعث نہیں بنتیں۔ بلکہ اس کے برعکس اسی طولِ موج پر وہ انسانوں سمیت تمام ممالیہ جانوروںمیں وٹامن ڈی کی تیاری میں ممد ہوتی ہیں۔ انسان یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اربوں اندھے اتفاقات کے نتیجہ میں یہ عجوبہ کیسے وقوع پذیر ہوا کہ ہر چیز کی تکمیل نہایت باریک حسابی ترکیب، نہایت عمدہ ڈیزائن اور نہایت خوبصورت طریق پر ہو پائی۔
باقاعدہ منصوبہ بندی کے برعکس انتخاب طبعی کے طریق میں مختلف قسم کے لاکھوں ماحول درکار ہوں گے تا کہ لاکھوں کروڑوں زمینوں میں اربوں، کھربوں اتفاقات کے نتیجہ میں صرف ایک زمین ہی عین درست تناسب کے ساتھ اچانک تخلیق ہو جائے جو حیات کے لئے مناسب اور ساز گار ہو۔ اوزون کے بارہ میں ایک اور دلچسپ بات اس کی ترکیب و تالیف سے متعلق ہے۔ طاقتوربالائے بنفشی شعاعوں کے آکسیجن سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اوزون پیدا ہوتی ہے اور آکسیجن کا مالیکیول پھٹ کر اپنی آیونی (ionic)شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بالفاظ دیگر اٹامک آکسیجن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر آکسیجن کے یہ آزاد ایٹم ایک دوسرے میں جذب ہو کر اوزون یعنی O3بناتے ہیں۔ اوزون ان شعاعوں کے براہ راست اثر سے تیار ہوتی ہے لیکن اس عمل میں یہ اپنی محسن یعنی بالائے بنفشی شعاعوں کو ہی تباہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ زندگی کے دو خطرناک دشمنوں کو اس طرح باہم مصروف کر دینا کہ وہ آپس میں ہی برسرپیکار رہیں اور کوئی بھی جیت نہ سکے، ایک زبردست منصوبہ اور حیرت انگیز توازن ہے۔
زمین پر حیات کے باقاعدہ آغاز سے قبل کے حالات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب حیات نہایت ابتدائی مراحل میں تھی تو اس وقت اوزون کی تہ کی عدم موجودگی نے یقینا ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہو گا۔ کاسمک شعاعوں کی بلاروک ٹوک بوچھاڑ قبل از حیات، مخلوقات کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہو گی۔ چنانچہ زندگی کے آغاز سے قبل ہی کرہ ٔہوائی کے بالائی حصوں میں اوزون کی کچھ مقدار تو موجود ہونی چاہئے تھی۔ لازماً ایسا ہونا بھی چاہئے تھا مگر کیسے؟ یہ وہ سوال ہے جس سے دانستہ طور پر پہلو تہی کی جاتی رہی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ زندگی ایسی متضاد قوتوں میں گھری ہوئی ہے جو بیک وقت موافق بھی ہیں اور مخالف بھی۔ لیکن یہی دو متضاد قوتیں زندگی کے قیام کے لئے ضروری بھی ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح حیات خدائی حفاظت میں ان خطرات سے بچ نکلی ہو گی۔

(الرعد13 :12-11)
ترجمہ: برابر ہے تم میں سے وہ جس نے بات چھپائی اور جس نے بات کو ظاہر کیا اور وہ جو رات کو چھپ جاتا ہے اور دن کو (سر عام) چلتا پھرتا ہے۔ اس کے لئے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ (مقرر) ہیں جو اﷲ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں زندگی کے ہر لمحہ کی حفاظت کا وعدہ خداتعالیٰ کی طرف سے کیا گیا ہے ورنہ زندگی ختم ہو کر رہ جائے۔
حیات کی اعلیٰ ترین بلندیوں کو پا لینے والا انسان اگر اپنے نیچے بے شمار ادوار پر نظر ڈالے تو اسے اکثر یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ اس کا ارتقائی منازل کے دوران پیش آنے والے ان بے شمار خطرات سے بچ نکلنا بجائے خود ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ ہمیں ان ماہرین حیاتیات کا ممنون احسان ہونا چاہئے جنہوں نے نسلاً بعد نسلٍ بڑی کوشش اور عرق ریزی سے ہمیں کسی حد تک زندگی کی نہ ختم ہونے والی بجھارتوں میں سے کچھ بجھارتوں کے سمجھنے میں مدد کی ہے۔ مگر افسوس کہ زندگی کی ان گتھیوں کو سلجھانے والوںمیں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیںکہ وہ خداتعالیٰ کے بے پایاں احسانات اور ا س کی لا محدود تخلیقی حکمت کے کس قدر زیر بار ہیں۔
اس امر کی مزید وضاحت کیلئے ہم قاری کی توجہ ایک بار پھر انسانی اعضاء کی غیر معمولی پیچیدگیوں کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ درحقیقت ہر انسان اپنی ذات میں ایک عالم صغیر ہے جو ازخود زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ اپنی بقا کیلئے قدم قدم پر لاکھوں منظم حفاظتی اقدامات کا محتاج ہے۔
فزیالوجی کے ماہرین نے انسان کے جسمانی نظام میں کارفرما بہت سے ایسے عوامل دریافت کئے ہیں جن کے مقابل پر اگر حفاظتی نظام تشکیل نہ دیا جاتا تو وہ اچانک موت کا باعث ہو سکتے تھے۔ ان مشکلات اور چیلنجوں کو دراصل ضرورت سے زیادہ سادہ سمجھ لیا گیا ہے۔ زندگی کو درپیش خطرات کے مقابل پر ایک مکمل اور جامع دفاعی نظام کا منصوبہ تیار کرنا اور اس کا نفاذ دراصل اتنا بڑا چیلنج ہے کہ اس کی تحقیق کیلئے سائنسدانوں کی آئندہ کئی نسلیں درکار ہیں۔
مثلاً جس محلول میں خلیہ معلّق ہوتا ہے اس کے اندرونی حصوں کو اس محلول سے ہمہ وقت خطرہ لا حق رہتا ہے۔ قدرت نے نیوکلیس (Nucleus) کو ارد گرد موجود پانی کے انجذابی دباؤ سے بچانے کیلئے نہایت مضبوط نظام تیار کر رکھا ہے ورنہ وہ اس دباؤ سے ہی ختم ہو جاتا۔ لیکن شکر کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت انسولین کو خلیہ کے اندر پہنچانے کیلئے تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کیمیائی ردِّ عمل کے دوران بننے والے فاضل مواد کے اخراج کیلئے بھی ایک کامل نظام موجود ہے۔
یہ بات خوب ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر خون کے آبی محلول میں موجود خلیات میں محلول کو داخل ہونے دیا جائے تو وہ فوراً ختم ہو جائیں۔ پانی کے مالیکیولز کے حادثاتی طور پر ان خلیات میں داخل ہونے سے بچاؤ کیلئے چربی کی دو تہیں بہت عمدگی سے تخلیق کی گئی ہیں۔ یہ غیر ضروری مادہ کو خلیہ میں داخل ہونے سے کمال مہارت سے روکتی ہیں۔ مگر غذا کے راستہ میں روک نہیں بنتیں جو باہر سے ان تہوں سے ہوتی ہوئی مسلسل اندر جاتی رہتی ہے تاہم یہ دفاعی اقدام بجائے خود بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے جن میں سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر چربی کی ان تہوں سے کوئی مائع اندر جا ہی نہیں سکتا تو پھر خلیہ کی زندگی کیلئے نہایت ضروری شکر اور آکسیجن کے مالیکیولز کس طرح اندر جاتے ہیں؟ اپنی زندگی کے ہر سیکنڈ کے لاکھویں حصہ میں بھی خلیات کو شکر، انسولین، آکسیجن اور دیگر ضروری نمکیات درکار ہوتے ہیں۔ خون کے ان چھوٹے چھوٹے ذرات کو مدنظر رکھتے ہوئے متضاد قسم کی مشکلات پر غور کریں تو اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے قوانین قدرت کا دقیق علم اور نہایت اعلیٰ درجہ کی تکنیکی مہارت درکار ہے۔
مرکزہNucleus))اورپرو ٹوپلازم(Protoplasm)کو کسی بھی غیر ضروری مادہ کی دخل اندازی سے بچانے کیلئے ایک طرف تو دوہری حفاظتی تہ کے حصار میں رکھا گیا ہے اور دوسری طرف انہیں ان تہوں کے پار توانائی کی مسلسل فراہمی درکار ہے۔ اس مقصد کیلئے قدرت نے جو طریق اختیار کیا ہے وہ اتنا عمدہ اور اتنا پیچیدہ ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ یہ منصوبہ اندھے اتفاقات کا نتیجہ ہو۔ لازم تھا کہ گلوکوز کے مالیکیولز کو خلیہ کے اندر لے جانے والے لحمیات کی اندرونی پیچیدہ بناوٹ اور ترتیب ضرورت کے عین مطابق ہو۔ اسی طرح ضروری تھا کہ وہ سب اقدامات کئے جاتے جن سے گلوکوز حاصل کرنے والے ہر خلیہ کو ان لحمیات کے کردار سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیا جاتا۔ بعض ایسے قارئین جو سائنسی اصطلاحات سے ناواقف ہیں شاید اس مضمون کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں مگر ہماری کوشش یہی ہے کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے جو ایک عام قاری کیلئے بھی قابل فہم ہو۔
رسد کا یہ نظام اس قدر عمدگی سے وضع کیا گیا ہے کہ اس بارہ میں کچھ بھی بیان نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظام خاص طور پر اس طرح تخلیق کیا ہے کہ رسدی لحمیا ت کا ایک جال چربی کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے جو کہ 492 امینو ایسڈ کی ایک لڑی پر مشتمل ہے اور جسے 25حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے 13ہائیڈروفلک (Hydrophilic) ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کی طرف ایک خاص قسم کی کشش رکھتے ہیں اور بارہ ہائیڈروفوبک(Hydrophobic)ہیں جو پانی کے مالیکیولز سے دور ہٹتے ہیں۔ ہائیڈروفلک پانی کو جذب کرتے رہتے ہیں اور باہر موجود پانی کو اندر آنے دیتے ہیں۔ جبکہ ہائیڈرو فوبک پانی کو پرے دھکیلتے ہیں اور خلیہ کے اندرونی ماحول کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ دونوں چربی کی دو تہوں کے درمیان آگے پیچھے بارہ دفعہ1 اس طرح بُنے گئے ہیں کہ اپنی شکل و صورت تبدیل کرتے رہتے ہیں جس کے دوران ان کے پاس جو شکر یا لحمیات وغیرہ ہوتے ہیں انہیں پہلے ایک مسام دار جھلی سے گزار کر پروٹوپلازم تک پہنچاتے ہیں۔ پھر جب پروٹو پلازم سے کوئی چیز خون میں پہنچانا مقصود ہو تو پہلے اس مادہ کو یہ چربی کی دیوار تک پہنچاتے ہیں جو کہ آگے ایک اور خاص مسام دار جھلی میں سے گزر کر خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح ٹرانسپورٹر آسی لیٹر (Transporter Oscillator):ـــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــ
’’گلو کوز سے جڑنے والے کیمیکلز کو خلیہ کی جھلی کے دونوں اطراف میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ حرکی(Kinetic )کے مطالعہ سے جس میں سے بہت سا کام ڈارٹ ماؤتھ(Dart mouth)میڈیکل سکول میں ہوا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ آمد و رفت غیر معمولی تیز رفتاری سے ہوتی ہے۔ گلوکوز جب ٹرانسپورٹرز کیمیکلز کے ساتھ جڑ جاتا ہے تب یہ آمدورفت تقریباً 900مرتبہ فی سیکنڈ تک بڑھ جاتی ہے۔‘‘2
ایک علیم وخبیر اور مدبر بالارادہ ہستی کے بغیر جسے یہ لوگ شناخت نہیں کر سکے اتنا عمدہ نظام نہ تشکیل پا سکتا ہے اور نہ ہی اتنی خوبی سے خود بخود جاری رہ سکتا ہے۔ طیفی (Spectroscopic) شہادت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ لحمیات کی دو لڑیاں ایک دوسرے سے اس طرح لپٹی ہوئی ہیں کہ ان کے ایک طرف ہائیڈر وفلک لحمیات ہیں اور دوسری طرف ہائیڈروفوبک۔ اس نظام کو دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یہ باریک اور پیچیدہ نظام ہرگز کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک با مقصد منصوبہ بندی ہے۔
خلیہ کی توانائی کی ضروریات کے علاوہ ایک اور مسئلہ خلیہ کے اندر اور باہر نمکیات کے تناسب کو متوازن رکھنا ہے۔ خلیہ میں موجود ضروری نمکیات کا ایک خاص تناسب قائم رہنا چاہئے۔ یہ تناسب خلیہ کے باہر موجود الیکٹرولائٹ (Electrolyte) محلول میں پائے جانے والے نمکیات کے تناسب سے بہت مختلف ہے۔ مثلاً خلیہ کے باہر سوڈیم آئن اندر کی نسبت دس گنا زیادہ تعداد میں ہیں۔ اگر گلوکوز کو خلیہ میں داخل کرنے کیلئے عام سادہ مسام ہوتے تو سوڈیم آئن بھی ساتھ ہی خلیہ میں جا کر اس کے اندر دس گنا زیادہ تعداد میں اکٹھے ہو کر اس کی تباہی کا باعث بن جاتے۔ سوڈیم آئن کا صحیح تناسب میں مسلسل انجذاب بھی خلیہ کیلئے ضروری ہے اور یہ ایک تکنیکی معجزہ ہے کہ قدرت نے اس کا بھی خیال رکھا ہے کہ چربی کی تہوں میں خصوصی والو موجود ہیں جن کے کھلنے پر ہر سیکنڈ میں تقریباً ایک کروڑ سوڈیم آئن خلیہ کی جھلی میں سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہ رفتار گلوکوز کے اندر جانے کی ر فتار سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔3 کیا ہی تیز رفتار ہے! لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اس مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ زندگی کو اپنی بقا کیلئے بالکل ابتدا سے ہی مسلسل حفاظت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مظاہر فطرت کا مطالعہ کریں تو ایک اور جگہ ہمیں مختلف طریق پر یہی مقصد حاصل ہوتا دکھائی دیتا ہے جہاں موت بالکل مختلف انداز میں زندگی کی خدمت پر مامور ہے۔ یہاں شرح اموات زندہ بچ جانے والوں کی نسبت بہت بڑھ جاتی ہے۔ گو یہ بات اب تک اٹھائی جا نے والی بحث کے بظاہر بالکل برعکس ہے لیکن درحقیقت اس بحث کو مزید تقویت دیتی ہے کہ داستانِ حیات میں کوئی چیز اتفاقی یا حادثاتی قرار نہیں دی جا سکتی۔
قدرت کا پیدا کیا ہوا ہر قانون اور ہر منصوبہ کسی نہ کسی پہلو سے زندگی کیلئے مفید ہے۔ یہاں ہم ڈارون کے نظریہ ’’بقائے اصلح‘‘ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اس اصول کے مطابق زندگی کے ارتقا کیلئے قدرت میں انتخاب کا ایک خود کار نظام جاری ہے۔ یہ آہستہ رو اور مسلسل جاری نظام اس وقت بہت نمایاں ہو جاتاہے جب کسی نوع حیات کو اپنی بقا کیلئے کوئی چیلنج در پیش ہو۔ یہ اصول جانوروں کی پوری زندگی میں کارفرما ہوتاہے۔ شکاری جانور جب زمین پر یا فضا میں اپنے شکار کا تعاقب کرتے ہیں تو وہ کمزورو ں کو مسلسل ختم کرتے رہتے ہیں۔ شکاری جانور یقینا شعوری طور پر یہ تمیز نہیں کرتے بلکہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ طاقتور، تیز رفتار اور نسبتاً زیادہ ہوشیار جانوروں کے بچ جانے کا زیادہ امکان ہے۔
اسی طرح عمل تولید کے وقت ایک طاقتور اور مضبوط نر کمزور کی نسبت جنسی اختلاط میں کامیابی کا زیادہ امکان رکھتا ہے۔ چنانچہ آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ موت دراصل زندگی کی خدمت پر مامور ہے۔ اس سطح پر اس عمل کا مشاہدہ آسان ہے۔ یہ طبعی طور پر جاری ہے اور کسی معین نظام کا متقاضی نہیں ہے۔ تا ہم یہ قانون صرف مختلف انواع کے باہمی مقابلہ میں ہی کارفرما نہیں ہے۔ زندگی کے بعض پوشیدہ افعال میں یہ قانون زیادہ لطافت اور نسبتاً غیر محسوس طریق پر جاری ہے۔
رحم مادر میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کی خاطر حمل کے ارب ہا ارب امکانات رد کر دئیے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہر صحتمند مرد کو قدرت نے اتنی تولیدی طاقت بخشی ہے کہ وہ ایک اوسط عمر میں اربوں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر ایک مرد کی ساری زندگی میں صرف چند خوش قسمت جرثومے ہی مادہ کے بیضہ سے ملنے میں کامیاب ہوتے ہیں اوربچہ کی ممکنہ پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ ایک ایسے قدیم معاشرہ میں جہاں تعدد ازدواج پر کوئی پابندی نہیں ایک شخص سینکڑوں بچوں کا باپ ہونے پر نازاں ہو سکتا ہے مگر مادہ کے بیضہ کو بارآور کرنے والے جرثوموں کی ان جرثوموں کی تعداد سے کوئی نسبت ہی نہیں جن سے ممکنہ طور پر بچہ پیدا ہو سکتاتھا۔
مگر قدرت کے انتخاب میں ناکام رہنے والے یہ اربوں جراثیم بھی دراصل بے مقصد ضائع نہیںجاتے۔ ان کی موت اس بات کی ضمانت ہے کہ ان میں سے بہترین اور باقی رہنے کا سب سے زیادہ اہل جرثومہ ہی اگلی نسل کا آغاز کرے گا۔ اسی طرح یہ بات بھی حیران کن ہے کہ آخر کون سا ایسا اتفاق تھا جس کے نتیجہ میں مادہ میں تو صرف ایک بیضہ جبکہ نر میں اربوں جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ اگر مادہ میںبھی اسی طرح ہوتا تو ہر شادی شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑا اتنے بچے پیداکرتا کہ دنیا کے اقتصادی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔
پس زندہ رہنے کی جدوجہد میں بہت بڑی تعداد میں افراد کو ارتقائے حیات کے سفر کی ایک چھوٹی سی منزل سر کرنے کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے۔ مگر ایک دفعہ موت کے آ ہنی پنجہ سے بچ نکلنا ہرگز زندگی کے اس کھیل کا اختتام نہیں ہے۔ بچ رہنے والے اپنی زندگی کے ہر لمحہ موت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ یہی وہ منڈلاتے ہوئے خطرات ہیں جن کے بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ خدا ہر لمحہ فرشتوں کے ذریعہ زندگی کی حفاظت فرماتا ہے۔ چنانچہ نہ تو موت کوئی اتفاق ہے اور نہ ہی زندگی بلکہ یہ دونوں رات اور دن کی طرح پہلو بہ پہلو شعوری طور پر زندگی کا تانا بانا بنتے چلے جاتے ہیں۔
جس حفاظتی نظام کا ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں وہ زندگی کے تمام مدارج پر حاوی ہے۔ خواہ وہ سطحی ہوں یا گہرے۔ عمل ارتقا میں ممد حفاظت اور ترقی کا یہ منصوبہ ایک ایسا ابدی قانون ہے جو تمام فلسفۂ حیات پر محیط ہے۔ اگر ہم حیات کے آغاز سے حال تک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میںبہت سے پر خطر مقام آتے ہیں۔ اس کی مثال دلدل میں مناسب مقامات پر رکھے ہوئے پتھروں پر چلنے سے دی جا سکتی ہے۔ کسی بے سمجھ اور اندھے مسافر کے کتنے امکانات ہیں کہ وہ بغیر غلط قدم اٹھائے ان خطرات سے بچ نکلے گا؟ اور اگر یہ مہلک فاصلہ اربوں قدم طویل ہو جہاں ہر پتھر کے گرد موت دلدل کی صورت میںمنہ کھولے کھڑی ہو تو کون ہے جو اپنی آخری منزل پر حفاظت سے پہنچنے کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ہمیشہ صحیح سمت میں قدم اٹھانا اور بقا کی اگلی منزل پر مضبوطی سے قائم ہو جانا ایک ایسے اندھے مسافر کے لئے ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو قدیم سے اتفاقات کے راستہ پر چل رہا ہے۔
ارتقا تو یقینا ہوا ہے، مگر یہ اندھاارتقا نہیں۔ اس سفر کے ہر دوراہے پر جانوروں نے کبھی بھی اپنا رستہ خود منتخب نہیں کیا۔ اس راستہ میں کسی باشعور خالق کے منصوبہ کے بغیر کسی واضح منزل کا تعین ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ زندگی کا ہر قدم کسی بھی سمت میں اٹھ سکتا تھا۔ صحیح سمت میں ایک قدم بھی اٹھنے کا امکان بہت کم تھا۔ ہر قدم کا ہمیشہ صحیح سمت میں اٹھنا اور اربوں دفعہ اسی طرح ہوتے چلے جانا تا کہ وہ راستہ اختیار کیا جا سکے جو بالآخر انسان کی تخلیق پر منتج ہو، ایک ایسا محیر العقول افسانہ ہے جس پر کہانیوں والے بھوت پریت بھی اعتبارنہیں کریں گے۔ اس کے باوجود بعض سائنسدان اس پر یقین رکھتے ہیں۔
اگر خداتعالیٰ کے وجود کو اس نہایت پیچیدہ نظام سے باہر نکال دیا جائے تو محض یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس کائنات کا خالق آخر کون ہے؟ حیات سے خالی کائنات بلکہ چھوٹے سے سیارہ زمین پر موجود حیات کے عجائبات بھی ایک ایسے خالق کا تقاضا کرتے ہیں جس نے انہیں وجود بخشا اور بے انت پیچیدگیوں سے بھر دیا۔ ہستی ٔباری تعالیٰ کے بغیر ان کی پکار ایک صدائے بازگشت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ انسان صرف ایک بات کا یقین کر سکتا ہے کہ حیات خودبخود پیدا نہیں ہوئی اور موت حیات کو جنم نہیں دے سکتی۔
حوالہ جات
1. LIENHARD, G.E., SLOT, J.W., JAMES, D.E., MUECKLER, MM. (January, 1992) How Cells Absorb Glucose. Scientific American: p.34
2. LIENHARD, G.E., SLOT, J.W., JAMES, D.E., MUECKLER, M.M. (January, 1992) How Cells Absorb Glucose. Scientific American: pp.36-37
3. LIENHARD, G.E., SLOT, J.W., JAMES, D.E., MUECKLER, M.M. (January, 1992) How Cells Absorb Glucose. Scientific American: p.37
قدرت میں سمت پذیری یا کائریلیٹی
سمت پذیری (Chirality)کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی اہمیت ہے؟ اور پھر یہ کہ کیا اس پر غور کرنے کی کوئی ضرورت ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی طرف اب ہم متوجہ ہوتے ہیں۔ ایک دائرہ میں خواہ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں سمت میں حرکت کی جائے، اس بات سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا کہ اس گردش کا آغاز کس سمت سے ہوا ہے؟ ہم کوئی چیز اپنے دائیں ہاتھ سے اٹھائیں یا بائیں ہاتھ سیــ، جتنی دیر تک ہم نے اسے اٹھا رکھا ہے دائیں یا بائیں کے سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم دائیں یا بائیں میں پوشیدہ حکمت کو سمجھتے ہیں تو پھر یہ سوال یقینا اہم ہو جائے گا۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور قانونِ قدرت کے بعض مظاہر سے یوں لگتا ہے کہ سمت کو بلاوجہ ترجیح دی گئی ہے۔ ’’حیات: قرآنی آیات کی روشنی میں‘‘کے باب میں ہم نے بالاختصار قرآن کریم کی متعدد ایسی آیات کا ذکر کیا ہے جن میں مذہبی نقطۂ نظر سے سمت کی اہمیت کا بیان ہے۔ بہت سی احادیث میں اسی قرآنی طرز فکر کی مزید تشریح کی گئی ہے جن میںمومنوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کس طرح روز مرہ کی سماجی اور مذہبی زندگی بسر کریں اور ان تعلیمات میں معین طور پر دائیں کو بائیں پر ترجیح دی گئی ہے۔
دائیں بائیں جیسے بظاہر معمولی اور چھوٹے امور کی مذہبی تعلیمات میں اس قدر اہمیت واقعی ایک حیران کن بات ہے لیکن جب ہم نظام قدرت میں ہر جگہ سمت کی اہمیت کو دیکھتے ہیں تویہ معمہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ مذہبی تعلیمات کا سر چشمہ ہمیشہ الہام الٰہی ہوا کرتا ہے یا پھر کوئی باشعور انسانی ذہن۔ سیکولر سائنسدان کسی ایسے مدبر بالارادہ خالق کے قائل نہیںجس نے نظام قدرت کی باضابطہ تشکیل کی ہو تو پھر قدرت اور مذہب میں سمت کے لحاظ سے یہ حیران کن مشابہت کیسی؟ اگر ان کا سرچشمہ مشترک نہیں تو کیا اسے محض ایک اتفاق قرار دے کر مسترد کیا جا سکتا ہے؟ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جتنا ہم قدرت میں سمت کی اہمیت کا مطالعہ کرتے ہیں اتنا ہی حیرت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ سمت کے تعین کے بارہ میں کوئی معروف سائنسی قاعدہ موجود نہیں ہے۔ قدرت ایک حصہ کو دوسرے پر کیوں ترجیح دے رہی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا اور شاید آئندہ کئی دہائیوں تک مل بھی نہ سکے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کے مطابق ہر قدرتی عمل کی معقولی رنگ میں وضاحت ممکن ہے اور قرآن کریم بڑی وضاحت سے کسی ایسی تخلیق کا انکار کرتا ہے جو کسی اتفاق یا حادثہ کا نتیجہ ہو۔ آج نہیں تو کل، وہ وقت دور نہیں جب سائنسدان اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ قدرت میںسمت کے تعین کی وجوہات معلوم کر سکیں۔
آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ سمت کا تعین قدرت میں کس طرح کارفرما ہے۔ یہ بات جسمانی تربیت حاصل کرنے والے بچوں کے ان اجتماعی مظاہروں سے بآسانی سمجھی جا سکتی ہے جن میں ان کی تربیت کی خوبی کو پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر کے دائرہ کی شکل میں کھڑا کر دیا جائے۔ پھر ان میں سے ایک گروپ کو بائیں سے دائیں اور دوسرے کو دائیں سے بائیں طرف گھمایا جائے۔ اس کو مزید واضح کرنے کیلئے اگر ان گروپوں کو جوڑوں کی شکل میں اس طرح تشکیل دیا جائے کہ جوڑے کا ایک حصہ اگر ایک سمت میں گھومے تو دوسرا مخالف سمت میں گھومے گا۔ اس طرح کے گروپوں کے جوڑے کا تصور کریں تو آپ پر سمت کے تعین کے معنی سائنسی اصطلاح کے اعتبار سے واضح ہو جائیں گے۔ باہمی مطابقت کے باوجود ایک طرف گھومنے والے گروپ کو مخالف سمت میں گھومنے والے گروپ پر منطبق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی حرکت مخالف سمت میں ہے۔ اسی طرح اگر چہ تمام مالیکیولز گھومتے ہیں مگر سب ایک ہی سمت میں نہیں بلکہ بعض دائیں سے بائیں طرف گھومتے ہیں اور بعض مخالف سمت میں۔ بعینہٖ ایک ہی کیمیائی فارمولہ کے حامل بعض مرکبات کے محلول میں دونوں سمتوں میں گھومنے والے مالیکیولز اکٹھے موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ بعض مرکبات میں تمام مالیکیولز ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ صرف مالیکیولز میں ہی نہیں بلکہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات میں سمت کا تصور پایا جاتا ہے۔
کائنات میں سمت کی اہمیت کا علم آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ہوا۔ عظیم فرانسیسی سائنسدان لوئی پاسچر(Louis Pasteur)نے 1848ء میں اسے اس کی مالیکیولز کی گردش میں دریافت کیا اور یہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور گہرے مشاہدے کو خراج تحسین ہے کہ طرطیری ترشہ (Tartaric Acid) کے ایک خاص نمک کے مرکب کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس نے دو ہو بہو لیکن برعکس قلمیں دریافت کیں۔ اس نے بڑی احتیاط سے ان دونوں کو علیحدہ کر کے پانی میں حل کیا اور روشنی کی ایک کرن اس محلول میں سے گزاری۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دونوں نمونوں میں تقطیب شدہ (Polarized) روشنی مختلف سمتوں میں گھومی۔ ایک بائیں سے دائیں اور دوسری دائیں سے بائیں۔ اس سے پتہ چلا کہ طرطیری ترشہ کے مالیکیولز میں سے بعض دائیں طرف گھوم رہے تھے اور بعض بائیں طرف۔ اور انہیں ایک دوسرے پر منطبق نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ عناصر میں سمت کے تعین کا مشاہدہ کیا۔ 1
1857ء میں پاسچر ہی نے اس میدان میں ایک اور انوکھاانکشاف کیا۔ ایک دن اس نے بوتل میں موجودکیمیائی محلول میں پھپھوندی کو نشوونما پاتے دیکھا۔ اس خراب محلول کو پھینکنے کی بجائے اس نے روشنی کی ایک شعاع اس میں سے گزاری تا کہ محلول میں موجود پھپھوندی پر کسی اثر کا مشاہدہ کر سکے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قبل ازیں درست حالت میں محلول میں روشنی پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا لیکن خراب محلول میں روشنی کی تقطیب(Polarize) ہونے لگی۔ قبل ازیں روشنی کے پولرائز نہ ہونے کی ایک سادہ سی وجہ یہ تھی کہ اس محلول میں موجود مخالف سمتوں میں گھومنے والے مالیکیولز کی تعداد برابر تھی۔ اس لئے روشنی کا اثرزائل ہو رہا تھا۔ چنانچہ روشنی کے تقطیب ہونے کی وجہ صرف یہی سامنے آئی کہ پھپھوندی نے ایک طرف گھومنے والے مالیکیولز کو ختم کر دیا جس کے نتیجہ میںمخالف سمت میں گھومنے والے مالیکیولز ہی باقی رہ گئے۔ یوں ایک عقدہ تو وا ہو گیا۔ لیکن اس کے نتیجہ میں کئی ایک پیچیدہ مسائل نے جنم لیا کہ کس طرح ایک معمولی پھپھوندی مالیکیولز کی حرکت کا بالکل درست اندازہ کر سکتی ہے اور اس نے خاص طور پر ایک ہی سمت میں گھومنے والے مالیکیولز کو ہی کیوں ختم کیا؟ ان سوالات نے اس وقت نہ صرف پاسچر کے ذہن کو الجھایا بلکہ آج تک سائنسدانوں کیلئے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کب تک اس کا جواب تلاش کرتے رہیں گے۔ یہ ایک بہت بڑا مخمصہ ہے۔ کسی بھی عنصر یا مرکب کے مالیکیولز خواہ دائیں طرف گھوم رہے ہوں یا بائیں طرف، بعینہٖ ایک جیسی کیمیائی اور طبعی صفات رکھتے ہیں؟ کس کے حکم سے وہ ایک معین سمت میںحرکت کر رہے ہیں۔ یہ دماغ کو چکرا دینے والا سوال ہے لیکن جب حیات کی اس غیر معمولی صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرح یہ معلوم کر لیتی ہے کہ کون سے مالیکیولز کس سمت میں گھوم رہے ہیں تو یہ سوال عجیب اور اہم دکھائی دینے لگتا ہے۔ حواس خمسہ مالیکیولز کی گردش کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ متحرک مالیکیولز مادہ پر کوئی ایسا نقش نہیں چھوڑتے جسے انسانی حواس شناخت کر سکیں۔ لیکن پھپھوندی تو سوائے موہوم سے احساس کے اور کوئی معلوم حواس نہیں رکھتی۔
کائنات میں سمت کے تعین کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ یہ تو ابھی آغاز ہے۔ پاسچر کے زمانہ سے اب تک اس بارہ میں وسیع پیمانہ پر تحقیق ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجہ میں کئی الجھا دینے والی اور حیران کن مثالیںسامنے آئی ہیں جو اس بات کابیّن ثبوت ہیں کہ مختلف انواعِ حیات بغیر کسی غلطی کے سمت کا تعین کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
اب تک یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ سمت کا تعین مادہ کی ہر سطح پر کارفرما ہے لیکن کیوں اور کیسے؟ یہ سوالات ابھی تک سمجھ سے بالا ہیں۔ 1957ء تک یہی سمجھا جا رہا تھاکہ ابتدائی ذرات کے باہمی تعامل کی ذمہ دار چار بنیادی قوّتیںParity Conservingیعنی مساوات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی ابتدائی سطح پربھی تمام ذرات میں مخصوص سمتوں کا توازن پایا جاتا ہے۔ تا ہم 1957ء میں کولمبیا یونیورسٹی کی چین شونگ وُو (Chein Shuing Wu)اور اس کے ساتھیوں نے یہ دریافت کیا کہ تابکار نیو کلیس میں سے خارج ہونے والے بیٹا(Beta) ذرات مخصوص سمتوں کی اس ترتیب کو ظاہر نہیں کرتے۔ بلکہ بائیں طرف گردش کرنے والے الیکڑانز دائیں طرف گھومنے والے الیکڑانز سے بہت زیادہ ہیں۔ مزید برآں اس امر کا بھی انکشاف ہواکہ ایٹم کے سب سے چھوٹے ذرات یعنی نیوٹرینوز(Neutrinos)اور اینٹی نیوٹرینوز (Anti-neutrinos) جن پر کوئی چارج نہیں ہوتا اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں ان میں بھی ایک خاص قسم کی گردش پائی جاتی ہے لیکن بائیں سمت میںگھومنے والے الیکڑانز کے برعکس اینٹی نیوٹرینوز دائیں سمت میں گھومتے ہیں۔ قدرت میںاس کے برعکس کوئی مثال نہیں ملتی اور کوئی نہیں جانتا کہ مادہ کی بنیادی سطح پر سمتوں میں یہ عدم توازن کیوں پایا جاتا ہے؟
مفروضوں کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان میں اکثر فضول اور خلاف عقل پائے جاتے ہیں۔ البتہ ایک نظریہ ایسا ہے جس میں سائنسدانوں کیلئے ان عوامل کی طرف اشارہ موجود ہے جو کائنات میں نہایت ابتدائی سطح پر سمت کے تعین میں کارفرما ہیں لیکن اس سطح پر اس کی تصدیق یا ثبوت مہیا کرنا ایک نہایت دقیق امر ہے۔ اس کا تعلق اس نظریہ کے ساتھ ہے جو کمزور اور طاقتور برقی مقناطیسی قوتوں کو یکجا کر دیتا ہے جسے سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام،Steven WeinbergاورSheldon Glashewنے1960ء میں پیش کیا۔ اس نظریہ میں ایک نئی کمزور اور برقی قوت کی پیشگوئی کی گئی ہے جو مساوات کو برقرار نہیں رکھتی۔ سائنسدانوں کے نزدیک ایسی عدم مساوات کے باعث ممکن ہے کہ اینٹی نیوٹرینوز دائیں طرف اور نیوٹرینوز اور الیکٹرانز بائیں طرف گھومتے ہوں لیکن یہ کمزور برقی توانائی سمت کے تعین کی ہر سطح پر دائیں یا بائیں جانب گردش کا سبب قرار نہیں دی جا سکتی۔ د ائیں اور بائیں طرف کی گردش کا فرق خصوصاً حیاتیاتی ارتقا کے حوالہ سے بعض اوقات سائنسدانوں کو چکرا کے رکھ دیتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی الجھ جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کیمیائی فارمولہ کے حامل دو دائیں جانب والے اور دو بائیں جانب والے مرکبات زندگی پر بالکل مختلف طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذیل میں کچھ دلچسپ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
لائمونین(Limonene)لیموں اور مالٹے میں پایا جانے والا ایک مرکب ہے۔ ان دونوں میں اس کا کیمیائی فارمولا بالکل ایک ہے۔ لیموں میں لائمونین کے مالیکیولز کی گردش مالٹے میں موجود لائمونین کے مالیکیولز کی گردش کے الٹ ہے۔ لیموں میں لائمونین کی گردش دائیں طرف جبکہ مالٹے میں بائیں طرف ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لیموں اور مالٹے میں لائمونین کی ایک خاص گردش پائی جاتی ہے۔ جن میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی گردش مخالف سمتوں میں ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مخالف سمتوں میں گھومنے والے لائمونین کے دونوں مرکبات بعینہٖ ایک جیسی کیمیائی اورطبیعی خصوصیات رکھتے ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ انسانی ناک میں موجود قوتِشامہ کے غدود (Olfactory Glands)مالٹے اور لیموں میں موجود لائمونین کے مالیکیولز کی مختلف گردش کی بنیاد پر ان دونوں کی خوشبو میں تمیز کر لیتے ہیں۔ یقینا اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکی۔
اس خصوصیت کے حیات پر اثرانداز ہونے کی ایک ہولناک مثال 1963ء میں اس وقت منظر عام پر آئی جب حاملہ خواتین کوصبح کے وقت ہونے والی متلی کے علاج کے لئے ایک دوا ساز کمپنی نے ایک دوائی Thalidomideمتعارف کرائی۔ کئی مریض تواس سے ٹھیک ہو گئے۔ لیکن بہتوں کیلئے یہ دوا خطرناک ثابت ہوئی۔ اس دوائی کے استعمال سے بعض خواتین کے ہاں ایسے بچے پیدا ہوئے جو پیدائشی طور پر معذور تھے۔ بعد کی گہری تحقیق سے پتہ چلا کہ جس دوا ساز کمپنی نے یہ دوائی تیار کی تھی اس نے لاعلمی میں ایک ہی فارمولے کی دو اقسام تیار کر دیں جن کے مالیکیولز کی حرکت مخالف سمتوں میں تھی۔ ایک دوائی جنین پر مضر اثرات ڈالے بغیر مفید ثابت ہوئی جبکہ دوسری قسم متلی کے علاج کی بجائے خوفناک پیدائشی نقائص کا باعث بنی جو زیادہ تر نومولود بچوں کے نچلے د ھڑ میں پائے گئے۔
ایک سمت کی گردش کی دوسری سمت کی گردش پر ترجیح کی ایک حیرت انگیز مثال حیات کی ابتدائی سطح کے مطالعہ سے معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ قدیمی شوربہ (Primordial soup) میں سینکڑوں امینوایسڈ موجود تھے جن سے ایسے لحمیات تخلیق ہوئے جو زندگی کی بنیاد بنے یعنی DNA اور RNA۔ لیکن قدرت نے ان میں سے صرف ایسے بیس امینوایسڈ منتخب کئے جن میں مالیکیولز کی گردش بائیں طرف تھی۔ مگر شکر بنانے والے مالیکیولز میں معاملہ برعکس تھا۔ شکر کے چار مختلف اقسام کے تمام مالیکیولز جو زندگی کی تمام انواع کو توانائی مہیا کرتے ہیں بلا استثنا دائیں سمت میں گردش کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہو ا کہ قدرتی ذرائع مثلاً گنّا، چقندر اور پھل وغیرہ سے مہیا ہونے والی شکر جو زندگی کو توانائی فراہم کرتی ہے، کے تمام مالیکیولز دائیں طرف گردش کرتے ہیں۔
اس کے باوجود شکر کی تیاری کے سلسلہ میں چند سال پہلے ایک کامیاب تجربہ کیا گیا جس سے حاصل شدہ شکر کے تمام مالیکیولز بائیں طرف گردش کرتے تھے۔ اس دوران یہ انکشاف ہوا کہ مصنوعی طور پر تیار کی جانے والی یہ شکر اگرچہ ذائقہ، کیمیائی خصوصیات اور پکانے میں قدرتی شکر جیسی ہی تھی لیکن نظام انہضام نے اسے مکمل طور پر رد کر دیا حتیٰ کہ ایک بھی مالیکیول ہضم نہیں ہوا۔ چنانچہ اس سے یہ عجیب خیال پیدا ہوا کہ اگر تجارتی پیمانہ پر ایسی شکر تیار کی جائے جس کے تمام مالیکیولز صرف بائیں جانب گردش کرتے ہوں تو نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کو فائدہ ہو گا بلکہ وہ ایسے خوش خوراک اور بسیار خوروں کیلئے بھی باعث تسکین ہو گی کہ وہ تھوڑی سی بھی چربی چڑھنے کے خوف سے آزاد ہو جائیں گے اور ڈھیروں شکر استعمال کر سکیں گے۔ اس کی تیاری میں رکاوٹ اب صرف اس پر اٹھنے والے بھاری اخراجات ہیں اس قسم کی رتی بھر چینی بنانے کیلئے بھی خطیر رقم درکار ہے۔ اس عیاشی کے متحمل شاید وہی بادشاہ ہو سکیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔
دائیں یا بائیں کی اس یک طرفہ ترجیح کا کئی طرح سے اظہار ہوتا ہے۔ اکثر انسان دائیں ہاتھ سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح دل اور جگر سوائے بعض مستثنیا ت کے بالترتیب بائیں اور دائیں طرف ہیں Dillip K. Kondepudiاور Roger A. Hegstromنے اپنے مشترکہ مضمون: 'The Handedness of Universe' (مطبوعہ Scientific Americanجنوری 1990) میں کئی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں قدرت نے بغیر کسی ظاہری وجہ کے کبھی دائیں کو بائیں پراور کبھی بائیں کو دائیں پر ترجیح دی ہے۔ اس کے باوجود یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا میں بہت سے لوگ دائیں ہاتھ سے کام لیتے ہیں وہ اس کی کوئی وجہ تلاش نہیں کر سکے کہ:
کیا وجہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے کام لینے والوں اور بائیں ہاتھ سے کام لینے والوں کی تعداد برابر نہیں؟ 2
لیکن سمت کے تعین کا اظہار صرف نسل انسانی سے ہی مخصوص نہیںہے۔
عالم حیوانات اور عالم نباتات میں سمت کے متعلق پائی جانے والی ترجیح کے حوالہ سے یہ دونوںمصنفین یوں رقمطراز ہیں:
‏’’Right handed یا Dextral یعنی دائیںرخ والے مونگے خطِ استوا کے دونوں جانب کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دائیں جانب رجحان کے حامل ان جانوروں میں بائیں جانب رجحان والے جاندار جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میںپیدا ہوتے ہیں۔ جن کی شرح سینکڑوں میں ایک سے لے کر لاکھوں میں ایک تک ہو سکتی ہے اور اس کا انحصار مختلف انواع پر ہوتا ہے۔‘‘3
اس کے برعکس بحراوقیانوس کے ساحل پر پائے جانے والے بحری شکم صدفہ (Lightning Whelk)میں بائیں جانب کا رجحان بہت غالب ہے۔ پودوں میں Honeysuckle کی بیل سہارے کے گرد بائیں جانب سے لپٹتی ہے جبکہ Bindweed دائیں جانب سے۔ یہاں تک کہ بیکٹیریا کے بعض گروہ بھی دائیں سے بائیں جانب گردش کرتے ہیں۔ لیکن درجۂ حرارت میں اضافہ سے ان کی یہ گردش الٹ جاتی ہے۔
یہ توچند مثالیں ہیں ورنہ ارتقا کی ہر سطح پر ہمیں زندگی کے مالیکیولز کی اس گردش کے بارہ میںاس ترجیح کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں جن کے مطالعہ سے انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی با شعور، حکیم اور بالا تر ہستی ضرور موجود ہے جس نے ارتقا کے ہراہم موڑ پر درست فیصلے کئے ورنہ اس تمام عمل کو اندھی قدرت کی طرف منسوب کر نا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ آخر پر اس ساری بحث کو دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ کیا علم کے غیب سے شہود میں منتقل ہونے میں وحی ٔالٰہی کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟ اس کتاب میں مختلف عناوین کے تحت اٹھائی گئی ہر بحث بلااستثناء اسی مسئلہ سے متعلق ہے۔ اس بحث کا زیر نظر باب سے تعلق شاید پوری طرح واضح نہ ہوا ہو۔ اس لئے اس کی کچھ مزید تشریح مناسب ہو گی۔ قبل ازیں بیان ہو چکا ہے کہ مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی ہے جو مذہبی زندگی میں سمت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ہم پورے احترام سے قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ تمام مذاہب میں دائیں (Right)کے بالمقابل بائیں (Left)کا مطلب غلط (Wrong)اور دائیں کا درست(Right)کیا جاتا ہے۔
اسلام میں دائیں کو صرف اچھائی کے معنوں میں ہی استعمال نہیں کیا گیا۔ بلکہ ظاہری معنوں میں اسے سمت کو ظاہر کرنے کیلئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس تعلق میں درست کی اصطلاح غلط کے بالمقابل استعمال نہیں کی گئی بلکہ واضح طور پر دائیں(Right)کو بائیں (Left)کے بالمقابل استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے سمت مراد ہے۔ بہت سی آیات قرآنی میں دائیں کو بائیں پر واضح طور پر ترجیح دی گئی ہے۔ آنحضورﷺ نے مومنوں کے لئے دائیں کو بائیں پر ترجیح دینے کی تعلیم ضرور انہی قرآنی آیات سے حاصل کی ہوگی۔
آپﷺ کا یہ طریق تھا کہ آپﷺ ہمیشہ ہر اچھا کام دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے شروع فرماتے تھے۔ مثلاً وضو کرتے وقت پہلے دایاں ہاتھ دھونے کا حکم ہے اسی طرح جوتا پہنتے وقت دایاں پاؤں پہلے ڈالنے کا ارشادہے۔
مہمانِ خصوصی میزبان کے دائیں طرف بیٹھتا ہے۔ جب کسی مسلمان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہمیشہ دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے اور بائیں کان میں تکبیر کہی جاتی ہے۔ یہ ہدایات یونہی اتفاقاً نہیں دے دی گئیں بلکہ ان کی بہت باریک اورمعین تفاصیل بیان کی گئی ہیں۔ آپﷺ کی ہدایات اور ذاتی مثالوں کے حوالہ سے مسلمانوں کو ارشاد ہے کہ وہ صاف ستھری چیزوں کو دائیں ہاتھ سے چھوئیں جبکہ باقی کام بائیں ہاتھ کیلئے چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مسلمان دوسرے سے ہاتھ ملاتا ہے تو پورے اعتماد کے ساتھ یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس کا ہاتھ صاف ستھرا ہے۔
ایسی ہدایات واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ مذہبی اور معاشرتی امور میں سمت کی اہمیت کو باقاعدہ اسلامی تعلیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان معنوں میں بھی انسانیت کے مستقبل کے متعلق پیشگوئیوں میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ چنانچہ عصرحاضر کی سیاسی اور معاشی تقسیم جو دائیں بازو یا بائیں بازو کے فلسفوں پر مبنی ہے انسانیت کے مستقبل کے بارہ میں قرآنی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے۔
سوال یہ ہے کہ سمت کی اہمیت پر صرف اسلام ہی کیوں اس قدر زور دیتا ہے جبکہ دیگر الہامی مذاہب اس کا ذکر تک نہیں کرتے؟
اس کے جواب میں یہ بات مدّ نظر رہے کہ قرآن کریم کی رو سے ظہور اسلام کے ساتھ ہی دیگر تمام مذاہب کا دور ختم ہو گیا۔ اسلام سے پہلے انسانی معاملات میں قطبیت اور سمت پذیری کا ابھی تصور ہی پیدا نہیں ہوا تھا۔ دراصل اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے ایسے دور کے لوگوں سے مخاطب ہونا تھا جس میں قطبیت اور سمت پذیری کی اصطلاحیں عام استعمال میں آنے والی تھیں۔
اس لحاظ سے روز مرہ کی زندگی میں سمت کا تعین اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتا ہے کہ انسان اس ترقی یافتہ دور میں داخل ہونے والا ہے جس میں سمت کے گہرے معانی کھلیں گے اور نئی نئی جہات دریافت ہوں گی۔ چنانچہ آج ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اُس دور کا انسان کب یہ جانتا تھا کہ نہ صرف سیاست اور معیشت بلکہ سائنس میں بھی سمت اتنی اہمیت اختیار کر جائے گی جس کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہ تھا۔

حوالہ جات
1. FESSENDEN, R.J., FESSENDEN, J.S. (1982) Organic Chemistry. 2nd ed. PWS Publishers. Willard Grant Press. Massachusetts, p.139
2. HEGSTROM, R.A., KONDEPUDI, D.K. (January, 1990) The Handedness of the Universe. Scientific American: pp. 98-99
3. HEGSTROM, R.A., KONDEPUDI, D.K. (January, 1990) The Handedness of the Universe. Scientific American: p. 99
نظریۂ انتخابِ طبعی اور بقائے اصلح
ارتقائے حیات کے ہر مرحلہ پر اہم فیصلے کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ قرآن کریم نے اس کا جواب درج ذیل آیات میں دیا ہے۔

(الملک67 :5-2 )
ترجمہ: بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضۂ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دا ئمی قدرت رکھتا ہے۔ وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔ اور وہ کامل غلبہ والا(اور) بہت بخشنے والا ہے۔ وہی جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تورحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا، تیری نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہو گی۔
اگر خدا کا وجود نہ ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ زندگی کا سفر ہمیشہ با مقصد طور پر ایک ہی سمت میں جاری رہتا۔ ارتقا کے ہر مرحلہ پر مشکلات سے پُر اور بے مقصد امکانات کا ایک وسیع جال بچھا ہوا تھا۔ راستہ میں بے شمار مشکلات حائل تھیں، جن میں سے زندگی کو اپنا راستہ بنانا تھا۔ ہر نازک موڑ پر ارتقا کی سمت تبدیل ہو جانے کے ان گنت امکانات موجود تھے۔ سوال پیدا ہو تا ہے کہ حیات نے ارتقا کا ایک ہی معین راستہ کیوں اختیار کیا؟ یوں لگتا ہے جیسے کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں۔
سائنسدان اس کی صرف ایک توجیہہ پیش کرتے ہیں اور وہ ہے ’’انتخاب ِ طبعی‘‘ کا کردار۔ اگرچہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں اس کے باوجود وہ ہمیں یقین دلاناچاہتے ہیں کہ ہر اہم مرحلہ پر ــ’’انتخابِ طبعی‘‘ نے ان گنت راستوں میں سے ہمیشہ صحیح راستہ کا ہی انتخاب کیا۔
جب سے ڈارون نے ’’انتخاب طبعی‘‘ کی اصطلاح وضع کی ہے فطرت کے سربستہ رازوں کی تلاش میں مصروف سائنسدانوں کے لئے اس نے جادو کی چھڑی کا کام کیا۔ ایسے شواہد کی موجودگی کے باوصف جو ایک مقتدربالارادہ اورباشعور خالق کے فیصلہ کن کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں سائنسدان اس دھندلی اور مبہم اصطلاح کی پناہ ڈھونڈتے ہیں جسے بالعموم غلط سمجھا گیا ہے۔ ارتقاکے ہر اگلے قدم کو غالباً غیر ارادی طور پر انہوں نے ان بے شمار اتفاقات کی طرف منسوب کیا ہے جن میں سے’’انتخابِ طبعی‘‘ کا عمل محض ایک اتفاق کا انتخاب کرلیتا ہے۔ لیکن وہ اس امر پر متفق ہیں کہ ’’انتخابِ طبعی‘‘ کا یہ عمل اتفاقی اور غیر شعوری ہے۔ جب مختلف انواع اپنی اپنی بقا کی خاطرجدوجہد میں مصروف ہوں تو یہ ایک قدرتی امر ہے کہ بقا کیلئے موزوں ترین انواع قائم رہیں گی جبکہ غیر موزوں ختم ہو جائیں گی۔
اب ہم ڈارون کی ایک اور گھسی پٹی اصطلاح یعنی ’’بقائے اصلح‘‘ کا ذکر کرتے ہیں جسے ماہرین حیاتیات نے بکثرت استعمال کیا ہے۔ یہ اصطلاح اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ قدرتی انتخاب کا عمل خواہ کتنا ہی اندھا کیوں نہ ہو ہمیشہ درست ہو گا اور بقا کی اس جدوجہد میں ہمیشہ موزوں ترین ہی باقی رہے گا اور کمزور لازماً مٹ جائے گا۔ ڈارون کے اس اصول کی اس قدر غلط تشریحات کی گئی ہیں کہ یہ اصول خود محل نظر بن چکا ہے۔ تمام کرئہ ارض پر ایسے ناقابل تردید شواہد پھیلے ہوئے ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ کمترین خصوصیات کی حامل انواع اور ارتقا کے سب سے نچلے درجہ پر موجود حیات کی کمزور ترین انواع بھی آج تک باقی ہیں۔ بعض انواع دوسری انواع کے بالمقابل صرف اس وقت معدوم ہوا کرتی ہیں جب جہد للبقا بہت سخت ہوجائے اور باہمی کشمکش کا رنگ اختیار کر لے۔ بایں ہمہ اس کا ہمیشہ یہ نتیجہ ہی نہیں نکلا کرتا کہ اپنے مطلق معنوں میں صرف موزوں ترین ہی باقی رہتے ہوں۔ ’’بقائے اصلح‘‘ اپنے مطلق معنوں میں اگرچہ ممکن تو ہے لیکن بقا کی ہر جدوجہد میں ایسا ہونا بعید از قیاس ہے۔ ان حالات میں وہی باقی رہتا ہے جو ایک خاص چیلنج کے سیاق و سباق میں موزوں ترین ہوا کرتا ہے۔ وہ بدنصیب انواع جو ان مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکیں عین ممکن ہے کہ وہ زندگی کی ایسی اعلیٰ خصوصیات کی حامل ہوں جن کی بنا پر انہیں کسی اور سیاق وسباق پر موزوں ترین قرار دیا جاسکے۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت کیلئے ایک ایسے عظیم قحط کا تصور کریں جو غیر معمولی خشک سالی کی وجہ سے ایک پورے براعظم پر محیط ہو۔ اس قسم کی قحط سالی کا زمانہ اگر طول پکڑ جائے تو بہت سی انواع معدوم ہو جائیں گی۔ اس صورت میں مختلف انواع کی بقا یا فنا کا انحصار ان حالات میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر ہوگا۔
مذکورہ بالا قحط سالی کے نتیجہ میں تقریباً ہر قسم کے پودے، درخت اور گھاس پھوس وغیرہ جن کی جڑیں چھوٹی ہوتی ہیں مکمل طور پر نیست و نابود ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوں جوں خشک سالی بڑھتی جائے گی توں توں زیر زمین پانی کی سطح گرتی چلی جائے گی حتیٰ کہ اوپر کی تہ بالکل خشک ہو جائے گی۔ نتیجہ یہ کہ چھوٹی جڑوں میں پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔ لیکن لمبی اور گہری جڑیں رکھنے والے پودے اس قسم کی صورت حال کا شکار نہیں ہوں گے۔ ایسی جڑیں شدید قحط سالی کے طویل زمانہ میں حیرت انگیز طور پر بہت گہری چلی جاتی ہیں۔ بعض ماہرین آثار قدیمہ نے پہاڑوں میں ایسے غار دریافت کئے ہیں جن میں اس حقیقت کے شواہد موجود ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوںپر پائے جانے والے بعض درختوں کی جڑیں پانی کی تلاش میں حیرت انگیز گہرائی تک اتر جاتی ہیں۔ اسی طرح ریگستانوں میں بار بار کی طویل خشک سالی کے باوجود نخلستان کی بقا کا راز بھی یہی ہے کہ وہاں پر موجود درختوں کی جڑیں پانی کی تلاش میں بہت گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
متذکرہ بالا حالات میں چھوٹی جڑیں رکھنے والے پودوں، جڑی بوٹیوں، درختوں اور گھاس پھوس کا مکمل خاتمہ عین قرین قیاس ہے جبکہ لمبی اور گہری جڑیں رکھنے والے بعض درخت شدید خشک سالی کا مقابلہ بھی کر سکیں گے۔
آئیے اب ہم چشم تصور سے دیکھیں کہ کڑی آزمائش کے اس دور میں اس براعظم میں عمومی طور پر جاندار کس صورت حال سے دوچار ہوں گے۔ چرنے والے اکثر جانور جن کی گردن اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں خشک سالی میں بھوک اور پیاس کی تاب نہ لا کر موت کا شکار ہوجائیں گے۔ اسی طرح وہ گوشت خور جانورجن کا گزارہ ان چرندوں کے شکار پر تھا خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہو جائیں گے۔
اس ماحول میں شاید وہی جانور زندہ رہ سکیں جنہیں پانی کی نہایت قلیل مقدار درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کیڑے مکوڑے، بچھو، کن کھجورے نیز وہ جانور جو اپنی پانی کی روز مرہ ضرورت پوری کرنے کیلئے ان کیڑوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ ان میں نیولہ کی قسم کے جانوروں یعنی Meerkats میں ایسے نامساعد حالات میں زندہ رہنے کی غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح کترنے والے جانوروں یعنی Rodents مثلاً چوہوں وغیرہ کی بعض اقسام بھی طویل خشک سالی کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
تمام فقاریہ جانوروں (Vertebrates) میں سے صرف زرافہ ایک ایسا جانور ہے جو ان نامساعد حالات میں زندہ رہنے کا تھوڑا بہت امکان رکھتا ہے۔ یہ جانور اپنی غیر معمولی لمبی گردن اور اگلی لمبی ٹانگوں کی وجہ سے بآسانی لمبی جڑوں والے درختوں کی اونچی ٹہنیوں پر سرسبز پتوں سے خوراک حاصل کرسکتاہے جبکہ باقی تمام چرنے والے جانور ان حالات میں خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں بعض دیگر عوامل کا ذکر بھی ضروری ہے۔ بعض جانور پانی کی تلاش میں بڑی دور تک تیزی سے سفر کر سکتے ہیں جبکہ بعض اپنی سست رفتاری کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں۔ بعض جانور بہت دور سے پانی کی موجودگی کو محسوس کر لیتے ہیں جبکہ بعض کے لئے ضروری ہے کہ پانی بالکل قریب ہو۔ یہاں پر ان درندوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو چرندوں کے گوشت پر گزارہ کرتے ہیں اور جہاںبھی جائیں درندے ان کا تعاقب کر تے ہیں تاہم انہیں بھی زندہ رہنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس منظر کو ایک ڈرامہ کی شکل دی جائے تو اس کا خاکہ کچھ اس بھیانک انداز میں سامنے آتا ہے جہاں سب جانور تھکن سے چور اور بھوک سے نڈھال یکے بعد دیگرے جان کی بازی ہارتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بچے ہوئے کرداروں میں سے کچھ زرافے، کچھ حشرات الارض اور نیولہ کی قسم کے بعض جانور نظر آئیںگے اور اس وقت اگر داد دینے کا کوئی موقع ہو تو وہ محض ان کی تالیوں اورزرافہ کی ہنہناہٹ کی صورت میں سنائی دے گابشرطیکہ اس میں ہنہنانے کی ذرا سی بھی قوت باقی رہی تو وہ اپنے بچ نکلنے پر پھولا نہ سمائے گا۔
کیا اسی کو موزوں ترین کی بقا کہتے ہیںاور کیا سائنسدانوں کے نزدیک ــ’’انتخابِ طبعی‘‘ سے یہی مراد ہے جس کے بارہ میں وہ رطب اللسان ہیں؟ کیا زرافہ، نیولہ کی قسم کے جانور اور حشرات الارض کی بچ نکلنے والی انواع ہی ارتقائی عمل کا آخری ماحصل ثابت ہوں گی؟ ایک ارب سال کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے شدید قسم کے موسمی تغیر و تبدل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس دور میں زندگی کبھی شدید سردی کی لپیٹ میں آجاتی تو کبھی سخت گرمی کا شکار ہو جاتی۔ کبھی شدید خشک سالی کا دور دورہ ہو تا تو کبھی متواتر بارشوں کا موسم۔ موسمی اتار چڑھاؤ کے باعث بہت سی بیماریوں نے بھی ڈیرہ ڈال دیا ہو گا۔ بدلتے ہوئے ان حالات میں یہ ناممکن ہے کہ ہمیشہ زرافہ، نیولہ اور حشرات الارض ہی زندہ رہ سکیں۔
مختلف حالات میں ’’بقائے اصلح‘‘ کے اصول کے تحت صرف ایک دوسرے سے مختلف قسم کی انواع ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ اس کا دارومدار ہر ناگہانی آفت کے بعد پیدا ہونے والے ماحول کی اپنی ترجیح پر ہے۔ ایک ارب سال کے عرصے کے ارتقائی مراحل پر محیط سفر کے دوران زندگی کو جن مختلف قسم کے خطرات اور حادثات کا سامنا تھا ان کی موجودگی میں اس کے بچ رہنے کے بارہ میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ہر دور میں مختلف قسم کے نازک مراحل درپیش ہوتے ہیں جن کے اہداف بھی اکثر اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ جانوروں کی تمام کی تمام انواع کا اب تک زندہ رہنا ناممکن نظر آتا ہے۔ کچھ جانداروں کیلئے بعض زہریلے مادے دوسرے جانداروں کیلئے خوراک بن جاتے ہیں۔ پس’’انتخاب طبعی‘‘ کے اس اندھے قانون کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ قانون حادثاتی طور پر بغیر کسی منصوبہ کے بعض انواع کا اندھا دھند انتخاب کرلے گا اور باقی انواع کو جو اس کے رستہ میں حائل ہوئیںروندتا چلا جائے گا۔
امید ہے کہ اب تک قارئین ’’بقائے اصلح‘‘ اور ’’انتخاب طبعی‘‘ کے راستہ میں درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ’’انتخاب طبعی‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے دائرہ کار کے تمام پہلوؤں کا مکمل طور پر ہم نے جائزہ نہیں لیا اور موجودہ مضمون کے حوالہ سے اس نظریہ کے صرف ایک معین پہلو پر ہی خاص طور پر بحث کی ہے۔
جب نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ انواع حیات کے حوالہ سے ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا مشاہدہ کیا جائے تو ’’انتخاب طبعی‘‘ کا کردار بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں بھی جہاں تک صحیح اقدار کو قبول کرنے اور غلط اقدار کو رد کرنے کا تعلق ہے یہ نظریہ ناکافی ثابت ہوتا ہے۔
اس جگہ اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں ’’انتخابِ طبعی‘‘ کے عمل کے پاس ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے ذریعہ وہ بیرونی ضروریات کے مطابق خلیات کے اندر بھی تبدیلی پیدا کرسکے۔ کروموسومز (Chromosomes) اور خصوصیات کا تعین کرنے والے جینز پُرآشوب بیرونی تبدیلیوں کی رسائی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ وہ قدرتی قوانین جو ان میں کارفرما ہیں سردی اور گرمی یا خشکی اور نمی کے بے لگام اثرات سے یکسر محفوظ ہوتے ہیں۔ ان ہر دو عوامل کا ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ ’’انتخاب طبعی‘‘ کا عمل صرف اور صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب مرحلہ وار یا بلا ترتیب جینیاتی تبدیلیوں کے باعث بہت سے متبادل راستہ کھل جاتے ہیں۔ اتفاقی طور پر معرض وجود میں آنے والے باہمی مقابلہ سے بھر پور زندگی میں صرف انہی جانداروں کی بقا ممکن ہے جو یہ ثابت کر سکیں کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کی سب سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ مقابلوں کی نوعیت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ’’موزوں ترین‘‘ کی تعریف بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ پس یہ سمجھنا کہ ’’انتخابِ طبعی‘‘ تمام بدلتے ہوئے حالات کے باوجود ہمیشہ بہترین خصوصیات کو ترجیح دیتا ہے ایک غلط فہمی ہے جسے ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دینا چاہئے۔ بے شک کبھی کبھار تو ایسا ہو سکتاہے لیکن اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ ’’انتخابِ طبعی‘‘ کوئی معین چیز نہیں بلکہ محض ایک نسبتی امر ہے۔ بقا کیلئے مقابلہ ایک ہی نوع کے ارکان کے درمیان بھی ہو سکتا ہے اور مختلف انواع کے مابین بھی۔ مخصوص حالات میں زندہ بچ جانے والے جانداروں کا انتخاب محض اتفاق کا نتیجہ ہو اکرتاہے۔ بقا کیلئے اندھی جدوجہد کبھی موزوں خصوصیات کا انتخاب نہیں کر سکتی۔ اس جدوجہد کا ماحصل خواہ اچھا ہو یا برا، اُسے بہرحال ’’موزوں ترین‘‘ کے طور پر ہی قبول کر نا ہوگا۔ بقا کی اہلیت کے حوالہ سے کسی خاص نوع کو ایک خاص ماحول میں ہی کامیاب قرار دیا جاسکتاہے اورعین ممکن ہے کہ معدوم ہو جانے والی انواع کسی دوسرے اعتبار سے بہتر خصوصیات کی حامل ہوں۔
مثلاً ایک گوریلے کے مقابلہ میں جسے قطب شمالی کے مخالف ماحول میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے برفانی ریچھ اور لومڑیوں کیلئے بقا کے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اس مخصوص مثال میں گوریلے کو برفانی ریچھ اور لومڑیوں کے مقابلہ میں بہتر ہونے کے باوجود محض’’انتخا بِ طبعی‘‘ کے ذریعہ ایک ناکارہ چیز کی طرح ختم کر دیا جائے گا۔ ایسے ہی فرضی ماحول میں گوریلے کی جگہ اگر انسان ہو تو وہ بھی ’’بقائے اصلح‘‘ کے اصول کے تحت گوریلے کی نسبت بہت جلد معدوم ہو جائے گا۔ پس یہ خیال غلط ہے کہ’’انتخابِ طبعی‘‘ کا عمل کسی اعلیٰ معیار کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ یہ ضرب المثل کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ انتخابِ طبعی کے عمل کی بہترین تشریح ہے۔ یعنی جیت ہمیشہ طاقتور ہی کی ہوتی ہے۔ طاقتور خواہ کتنا ہی برا، کجرو، جابر اور بے رحم کیوں نہ ہو ’’انتخابِ طبعی‘‘ کے تحت کامران ہمیشہ وہی ہوگا۔
اگرہم حیات کی تمام اقسام کے حوالہ سے ارتقاکی تاریخ کا جائز ہ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انتخاب طبعی اور ’’بقائے اصلح‘‘ کے اصول کس طرح کارفرما ہیں تو اس کیلئے لاکھوں صفحات پر مشتمل ضخیم کتابوں اور سائنسدانوں کی کئی نسلیں درکار ہوںگی۔
تاہم قارئین کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کراناضروری ہے کہ اگر تمام ممکنہ توجیہات کا جائزہ لیا جائے تو ارتقا کا مسلسل آگے کی طرف کا سفر ناممکن ہو جائے گا۔ ایسے ہر موقع پر جہاں اس قسم کا امتیاز ضروری ہو جائے ایک اعلیٰ خصوصیت کے انتخاب کے لیے لاکھوں اتفاقات کی موجودگی درکار ہوگی۔ اس کے برعکس صورتِ حال کو بھی سنجیدگی سے زیر غور لانا ہوگا۔
اتفاقی تغیرات کا کسی بھی سمت کو اختیار کر سکنا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ ارتقا کی معیّن منزل تک پہنچنے کیلئے ان تغیرات نے ہمیشہ درست رستہ کا ہی انتخاب کیا ہو۔ پس اتفاقات کا کھیل تو محض اتفاقات کا کھیل ہے۔ یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ ارتقائی ضروریات کے تحت ہمیشہ صحیح وقت پر صحیح سمت میں ہی یہ قدم اٹھایا جائے۔ بہرحال افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثرسائنسدان ہمیشہ ایک ایسی علیم و خبیر ہستی کے وجود سے جان بوجھ کر آنکھیں موندلیتے ہیں جس کا انتخاب ہمیشہ درست ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کیلئے اسے کسی پانسہ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تخلیق انسان کی طرف ارتقا کا مسلسل سفر کیسے ممکن ہوا جبکہ اس کے لئے ہر لمحہ غلط سمت میں قدم اٹھانے کے بے شمار امکان موجود تھے؟ اس پیچیدہ اور بظاہر لاینحل مسئلہ کا ایک ملتا جلتا حل ممکن ہے یعنی ارتقانے واپسی کا وہی رستہ اختیار کیا ہو جو ایک لڑکے نے بارش کے دوران اختیار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک لڑکا بہت دیر سے سکول پہنچا۔ استاد کے ڈانٹنے پر اس نے یہ عذر تراشا کہ سکول کے راستہ میں بہت کیچڑ تھا اور پھسلن اتنی زیادہ تھی کہ اگر میں ایک قدم آگے بڑھاتا تھا تو دو قدم پیچھے لڑھک جاتا تھا۔ استاد نے غصے سے پوچھا ’’تو پھر تم سکول پہنچے کیسے؟‘‘ لڑکے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا’’معافی چاہتا ہوںجناب! دراصل مجھے ذرا دیر سے خیال آیا کہ مجھے سکول کی بجائے گھر کی سمت منہ کرکے چلنا چاہئے۔ چنانچہ جب میں نے اس طرح چلنا شروع کیا تو سکول کی طرف تیزی کے ساتھ پھسلتا چلا آیا(اگرچہ میں عموماً اس قدر تیز نہیں چلا کرتا) یہاںتک کہ میرا سر سکول کی دیوار سے ٹکراگیا۔ سکول پہنچنے کی جلدی میں مجھے سارا راستہ الٹا ہی چلنا پڑا۔‘‘
زندگی کو درپیش مشکلات کو اگر محض اتفاقات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو یہ اس لڑکے کی مشکل کی نسبت کہیں زیادہ حیران کن بات ہوگی۔ اتفاقات پر مبنی ارتقا اگر ایک قدم آگے بڑھتا تو اصولاً اسے لاکھوں قدم پیچھے لڑھک جانا چاہئے تھا۔ لیکن جیسا کہ بعض ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ چونکہ حیات کیلئے کسی مقررہ سمت کا تعین نہیں کیا گیا اس لئے ارتقا کے آگے کی طرف سفر کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر اتفاقات کو ہی زندگی کا خالق قرار دیا جائے تو ہر اٹھنے والے پہلے قدم کی سمت اور اس سفر کی منزل کے تعین میں لاینحل مسائل درپیش ہوںگے کیونکہ کوئی بھی قدم کسی بھی سمت میں اٹھ سکتا تھا۔ تاہم حیات کے اس سفر کو الٹی سمت چلانے سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اگر انسان ارتقا کی آخری منزل نہ ہوتا تو زندگی ویرانوں میں بھٹک کر رہ جاتی اور اتفاقات کے نتیجہ میں حا صل ہونے والی خصوصیات معدوم ہو کر رہ جاتیں۔
اگر غلط سمت میں قدم بڑھایا جاتا تو وہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو جینیاتی تغیرات کے نتیجہ میں حاصل ہوا تھا۔ آیئے آنکھوں کی تخلیق کے حوالہ سے اس امر کا جائزہ لیں کہ اندھے جینیاتی تغیرات ایک ایسی آنکھ کی ابتدائی شکل بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے جو دیکھنے کی اہلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ دکھائی دینے والی اشیاء کا عکس بھی دماغ کے پردہ پر منتقل کرنے کے قابل ہے۔ اچانک ہونے والے تغیرات یا خلیات کے درجہ بدرجہ ارتقامیں اپنی ہی تخلیق کردہ اشیاء کے درہم برہم ہو جانے کے امکانات اس بات کی نسبت کہیں زیادہ ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گردوپیش کی بے ترتیب اشیاء میں خودبخود ہی ترتیب پیدا ہونے لگے۔ محض اتفاق کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے غیر مربوط تغیرات درحقیقت زندگی کی مربوط کیفیت اور ڈیزائن کو بری طرح بگاڑ سکتے ہیں۔ مثلاً آنکھ۔ ناک۔ کان۔ منہ۔ زبان اور ان اعضا کے حسی خلیات کے مقام تبدیل ہو سکتے تھے۔ ممکن تھا کہ چند نسلوں کے بعد حیات کی بعض انواع کی آنکھیں سر کے پیچھے یا پیٹ پر موجود ہوتیں یا ہر بغل کے اندر ایک آنکھ ہوتی۔ ظاہر ہے کہ اتفاقات کے بہاؤ کو کون روک سکتا ہے اور کون اسے نظم و ضبط کا پابند کر سکتا ہے؟ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ کان دیکھنے لگتے، ناک بولنے اور زبان سننے لگتی۔ ایڑیوں میں چکھنے اور سونگھنے کی حس پیدا ہو جاتی۔ مختلف جانوروں میں سے کم از کم کچھ تو ایسے عجیب الخلقت ہوتے جن کا کوئی مقصدنہ ہوتا۔ لیکن ہم نے جہاں کہیں بھی قدرتی طور پر کان یا آنکھ کو ان کی مقررہ جگہ کے سوا دیکھا ہے ایسی تبدیلی کسی مقصد کے تحت ہی ہوا کرتی ہے اور غرض اس کی اس جانور کو تکلیف کی بجائے فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ استثنائی صورتیں ہیں۔ وہ قانون جو لاکھوں انواعِ حیات میں کارفرما ہے ایک ہمہ گیر اصول کے مطابق ہے۔ جب ہم اتفاقات پر غور کرتے ہیں تو نتیجہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ بعض بچے پیدائشی نقائص لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ان نقائص سے انہیں کبھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو تا۔ آجاکر اتفاقات کا کھیل تو محض اتفاقات کا کھیل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
آنکھ کی تخلیق میں در پیش ارتقائی مراحل پر غور کرنے کیلئے بہت جامع اور گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔ نیز جانوروں کے تمام اعضاء کے اس انتہائی پیچیدہ ارتقائی عمل کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جو بجائے خود ہر جانور ایک کائناتِ صغیر کا حکم رکھتا ہے۔
چنانچہ وہ تمام تخلیقی عوامل جو ان اعضا کی تخلیق کا پیش خیمہ تھے کے متعلق ہم نے اس کتاب میں ایک علیحدہ باب باندھا ہے جس میں آنکھ کی تخلیق کو مرکزی مقام حاصل ہے۔
بدقسمتی سے ماہرین حیاتیات نے کسی بھی نوع کے ارتقائی مراحل میں اس کی طبعی خصوصیات کو اس کے حواس پر ضرورت سے زیادہ ہی ترجیح دی ہے۔ ایک وسیع مرغولہ نما ارتقائی چکر میں طبعی تغیرات کا کسی خاص سمت میں وقوع پذیر ہونا اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنی اہمیت شعور اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کے ارتقا کی ہے۔ زندگی شعور کے سوا اور ہے کیا، جبکہ موت عدم شعور کا نام ہی تو ہے؟
یہ حیرت انگیز معجزہ محض خلیاتی تبدیلیوں اور لحمیات کی سطح پر ہونے والے مالیکیولز کی پیچیدگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حیات کے آغاز کا اصل معجزہ اس وقت ظاہر ہوا جب پہلے سے موجود بے جان کائنات کے افق پر شعور کے آثار نمودار ہوئے۔ حیات کا یہ سفر آغاز ہی سے ضعف سے طاقت اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری رہا۔ اگر ڈارون کے اس محدود نظریہ کو مان لیا جائے کہ جسمانی تبدیلیاں اتفاقی طور پر’’انتخاب طبعی‘‘ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو ارتقا کا مفہوم کسی صورت میں بھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اس کے معانی اسی صورت میں سمجھ میں آسکتے ہیں جب ان حواس خمسہ کا کماحقہ ادراک حاصل ہوجائے جنہوں نے ارتقا کے پچھلے ایک ارب سال کے پُرخطر سفر کے نتیجہ میں بالا ٓخر موجودہ شکل اختیار کی ہے۔
اگر انسان اپنے موجودہ مقام سے مڑ کر اور نیچے کی طرف دیکھے تب کہیں جاکر اس پر زندگی کے ارتقا کا صحیح مفہوم واضح ہو سکے گا کہ کس طرح خفیف سے خفیف آگے کی طرف حرکت کے ساتھ آہستہ آہستہ ارتقا کا یہ عمل لامتناہی سیڑھیاں چڑھتا ہوا موجودہ مقام تک پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عملِ ارتقا کے مقصود اور اس کے مفہوم کا راز حواس خمسہ کی تخلیق و ترقی ہی میں مضمر ہے جن میں سے ہر حس اپنی ذات میں تخلیق کی حیرت انگیز شاہکار ہے اور ان حواس کی تخلیق اعلیٰ پیمانہ کے اس بہترین ڈیزائن پر شاہد ہے جس میں توازن اور ہم آہنگی کو فوقیت حاصل ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قرآن کریم نے ارتقاکے مضمون کو خلاصۃًان تین آسان سی اصطلاحات کے ذریعہ بارہا بیان فرمایا ہے یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کی تخلیق اور ان کا کمال۔ چنانچہ فرمایا:

(النحل16 :79 )
ترجمہ: اور اﷲ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے ہم ایک بار پھر اس بات پر زور دیں گے کہ جینیاتی تغیرات کیلئے درست راستہ اختیار کرنے کی بجائے اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ یہ عمل غلط راستہ پر چل پڑتا۔ نیز یہ کہ حیات کی بہتری کیلئے انتخاب طبعی کے عمل کے پاس انتخاب کا حق نہ ہونے کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں حیات کے سٹیج پر ارتقاکے وسیع تر پس منظر میں صرف یہی امر کارفرما نظر نہیں آتا۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت کیلئے ہم قطب شمالی کے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہاں پر پائے جانے والے برفانی ریچھ اور لومڑیوں پر خصوصی تحقیق کے ذریعہ ماہرین حیاتیات کو ارتقا کے سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ برفانی ریچھ کی شکل بھورے اور سیاہ ریچھ سے مختلف ہوتی ہے۔ ان کا پچھلا دھڑ اگلے سے نسبتاً اونچا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بڑی تیزی سے شکار کا تعاقب کر سکتے ہیں جبکہ لمبی گردن تیرنے میں ان کو مدد دیتی ہے۔ دوسرے ریچھ بھی تیر تو سکتے ہیں لیکن برفانی ریچھ ان کے مقابلہ میں اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے زیادہ لمبا فاصلہ طے کر سکتے ہیں جو قطبی ماحول میں ان کی بقا کیلئے بہت ضروری ہے۔
برفانی ریچھ کا وزن زیادہ سے زیادہ 800 کلو گرام اور لمبائی تین میٹر تک ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ حجم انہیں شدید سردی سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ شکار کرنے میں بھی ممدہے۔ لیکن ان کے بچے پیدائش کے وقت حیرت انگیز طور پر اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ایک بچہ کا وزن صرف آدھا کلو ہوتا ہے یعنی انسان کے وزن کے ایک حصہ کے برابر۔ ان کی سیاہ جلد پر سفید رنگ کے گھنے اور ملائم بال ہوتے ہیں۔ اس طرح قدرت انہیں سارا سال مختلف خطرات سے مکمل تحفّظ فراہم کرتی ہے۔ موسم گرما میں ان کے بال زردی مائل ہوکر مکمل طور پر پگھلتی ہوئی برف کے ہمرنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے گھنے بال اور چربی کی موٹی تہ انہیں نقطۂ انجماد تک کو چھوتے ہوئے درجۂ حرارت میں بھی تحفّظ فراہم کرتی ہے۔ 1 تیرنے کے دوران بھی ان کے جسم کی چربی اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اس وقت سردی سے بچاؤ کیلئے درکار ہوا ان کے بالوں میں ٹھہرنہیں سکتی۔ خشک ہونے پر ان کے سفید بال سورج کی شعاعوں سے حاصل کردہ حرارت کو واپس جسم کی طرف منعکس کرتے ہیں۔ ان کے بال کھوکھلے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی تمام بالائے بنفشی شعاعیں ان میں سے بآسانی گزر کر سیاہ جلد میں جذب ہو جاتی ہیں۔
برفانی ریچھ کی ایک اور نمایاں خاصیت اس کے پنجوں کا بڑا ہونا ہے۔ یہ بہت چوڑے اور نوکیلے ناخنوں سے لیس ہوتے ہیں تاکہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ سکیں اور برف پر اپنے قدم جماسکیں۔ ان کے تلووں پر بھی سفید بالوں کی ایک تہ ہوتی ہے جو چلتے وقت برف پر ان کی گرفت کو مضبوط اور انہیں ٹھنڈک سے محفوظ رکھتی ہے۔ حیرت انگیز طور پربرفانی ریچھ برف پر اتنا تیز بھاگ سکتے ہیں جتنا ایک تیز رفتار کتّا میدانی علاقہ میں بھاگ سکتا ہے۔ اس علاقہ میں موسم سرما کی غیر معمولی لمبی راتوں میں یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ برفانی ریچھ کسی ایسے تالاب تک پہنچ سکیں جہاں سِیل(Seal) پائی جاتی ہے۔ لیکن قدرت نے انہیں سونگھنے کی اتنی غیر معمولی قوت بخشی ہے کہ اندھیرا ان کی راہ میں روک نہیں بن سکتا۔ ماہرین کے مطابق وہ 20 کلومیڑ کے فاصلہ سے بھی سِیل، گوشت اور مردار کی بو سونگھ لیتے ہیں۔ ان کی بصارت کی حس بھی سونگھنے کی حس کی طرح تیز ہے جو عام ریچھ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ دن کی روشنی میں یہ بہت دور سے سِیل کو دیکھ لیتے ہیں جس کے بعد وہ بڑے حیرت انگیز صبر سے اس کا شکار کرتے ہیں۔ چت لیٹ کر اور اگلے پاؤں کو دوہرا کر کے پیٹ کے ساتھ لگا لیتے ہیں اور صرف پچھلے پاؤں سے جسم کو دھکیلتے ہوئے رینگتے جاتے ہیں۔ وہ بہت عیاری کے ساتھ خود کو دوسروں سے چھپانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنی سیاہ تھوتھنی چھپانے کیلئے اپنے منہ کے سامنے برف کی ڈھیری سی بنا لیتے ہیں یا پھر ناک کو اپنے سفید پنجوں سے چھپا لیتے ہیں تا کہ کوئی ان کو دیکھ نہ سکے۔
برفانی ریچھ کا اکثر وقت پانی میں گزرتا ہے۔ اس ماحول کے حوالہ سے وہ اپنے اندر منفرد خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کا برف پر سِیل کی گھات لگانے کا طریق الگ ہوتا ہے۔ لیکن پانی میں یہ اپنی ٹانگوں کا استعمال بالکل الٹ طریقہ سے کرتا ہے۔ پچھلی ٹانگوں کی بجائے جو پانی میں پتوار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں یہ تیرنے کیلئے اپنی اگلی ٹانگوں کو استعمال کر تا ہے۔ اس کے اگلے پنجے غیر معمولی طور پر بڑا حجم رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی قدر جھلی دار بھی ہوتے ہیں جو تیرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ ایک اور غیر معمولی صلاحیت جو اسے قطبی ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرتی ہے یہ ہے کہ وہ پانی کے اندر اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر اور نتھنے بند کرکے تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگرچہ بعض سائنسدان قطبی ریچھ میں پائی جانے والی منفرد خصوصیات کی یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ دراصل یہ ارتقا کے عمل کا نتیجہ ہیں لیکن اس کے برعکس بعض اور سائنس دانوں کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ برفانی ریچھ اور عام ریچھ کی خصوصیات میں اتنا فرق ہے کہ ارتقائی طریق سے ان خصوصیات کی پیدائش میں تو لاکھوں کروڑوں سال کا عرصہ لگا ہوگا۔
قطب شمالی کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے اعتبار سے برفانی لومڑی بھی برفانی ریچھ سے کچھ کم نہیں ہے۔ موسم سرما میں گرم رکھنے اور دوسروں سے چھپانے کیلئے اس کے جسم پر گھنے سفید بال اگ آتے ہیں۔ اس کے چھوٹے، گول اور بالدار کانوں سے جو دوسرے علاقہ میں پائی جانے والی لومڑیوں کے کانوں سے مختلف ہوتے ہیں بہت کم مقدار میں جسمانی حرارت خارج ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسری لومڑیوں کے مقابلہ میں اس کی تھوتھنی اور ٹانگیں بھی بہت چھوٹی ہوتی ہیں جو حرارت کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ برفانی ریچھ کی طرح اس کے تلووں پر بالوں کی موٹی تہ ہوتی ہے جو اسے شدید سردی سے بخوبی محفوظ رکھتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لومڑیوں کی تمام اقسام میں صرف صحرائی لومڑی ایسی ہے جس کے تلووں پر برفانی لومڑی کی طرح بال پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بال صحرا میں اسے شدید گرمی سے بچاتے ہیں۔ سفید برفانی لومڑی برفانی ماحول میں آسانی سے چھپ جاتی ہے اور بمشکل نظر آتی ہے لیکن اس کے برعکس اس کے یہی سفید بال کسی اور ماحول میں نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلاً بحر منجمد شمالی کے ساحلوں پر بعض جزیروں میں جہاں برف قدرے کم ہوتی ہے لومڑی کو کسی اور رنگ کے کیموفلاژ (camouflage) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاًنیلگوں خاکستری رنگ اس ماحول کے عین مطابق ہو تا ہے اور یہاں پر پائی جانے والی لومڑی کے جسم پربھی بعینہٖ اسی رنگ کے بالوں کی تہ جم جاتی ہے۔ 2
یہ حقائق ہمیں پھر سب سے اہم سوال کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ مختلف انواع میں’’انتخاب طبعی‘‘ کا کیا کردار ہے؟ قطب شمالی کے ماحول میں زندہ رہنے کیلئے برفانی ریچھ کے غیرمعمولی خواص کے حصول اور تکمیل میں اگر کئی لاکھ سال کا عرصہ لگا تو کیا ضروری نہیں کہ لومڑی کے ارتقا میں بھی اتنا ہی وقت خرچ ہوا ہو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی جسمانی ساخت میں ایسی تبدیلیاں جو ان کی بقا کیلئے از بس ضروری تھیں رونما ہونے سے پہلے لومڑیوں کی کتنی ہزاروں ہزار نسلیں عبث ضائع ہوگئی ہوں گی۔
ان تمام غیر معمولی خصوصیات کے نہ ہونے کے باوجود جو ان کو قطب شمالی کے ماحول میں رہنے کے موافق بنا سکتی تھیں اگر یہ نسلیں زندہ رہتیں جیسا کہ وہ لاکھوں سال تک زندہ رہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کو ماحول کے مطابق ڈھلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تمام جینیاتی تبدیلیوں اور حادثاتی تغیرات کو آخر اتنے لمبے عرصہ تک ایک دوسرے سے مل کر’’انتخاب طبعی‘‘ کی خاطر ان تبدیلیوں کی ضرورت ہی کیا تھی جو اُن پر ٹھونس دی گئیں؟
مزید برآں اگر برفانی ریچھوں اور لومڑیوں کو ان کے علاقہ سے نکال کر دیگر مقامات پر پائے جانے والے ریچھوں اور لومڑیوں کو ان کی جگہ آباد کر دیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ آیا وہ اس خطرناک ماحول میں لقمۂِ اجل بنے بغیر نسلاً بعد نسلٍ زندہ رہ سکیں گے۔ اگر وہ خود زندہ رہ سکیں اور اپنی دیگرانواع کی بقا کی بھی خاطر خواہ ضمانت دے سکیں تو کیا برفانی ریچھوں کے تمام ارتقائی عوامل اور ان کے خدوخال میں ہونے والی مخصوص تبدیلیاں غیر ضروری سمجھی جائیں گی۔
اب ہم اسی تناظر کا قدرے مختلف پہلوسے جائزہ لیتے ہیں۔ قطب شمالی میں پائے جانے والے بے آب و گیاہ ماحول کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے اثر سے خلیات کی حیاتیاتی کیمیا (Biochemistry)میں مناسب تبدیلیاں رونما ہو جائیں تاہم جینز میں بنیادی تبدیلیوں کے بغیر مرحلہ وار یا حادثاتی تغیرات کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔ قطب شمالی میں رہنے والے برفانی ریچھوں اور لومڑیوں میں محض ماحول کے زیر اثر ایسی مربوط تبدیلیاں لانے کی صلاحیت ودیعت نہیں کی گئی کہ ان کی سیاہ جلدکے اوپر سفید پشم اگ آئے۔ اگلی ٹانگیں چھوٹی اور پچھلی لمبی ہوجائیں۔ چھوٹے چھوٹے گول کان پیدا ہو جائیں۔ سونگھنے اور دیکھنے کی حس غیر معمولی تیز ہو جائے۔ تلووں پر پشم کی گھنی تہ موجود ہو۔ نیز ایسے خواص پیدا ہوجائیں کہ وہ ماحول کے مطابق بالوں کا رنگ بدل سکیں اور ان کی جلد کے نیچے چربی کی کئی تہیں بن جائیں۔ غرضیکہ چانس کا خلیاتی کیمسٹری کے حوالہ سے اپنا ایک الگ اور اندھا کردار ہے جو بالآخر گوناگوں خواص اور جاندار خلیات میں ازخود پیدا ہونے والے حادثاتی تغیرات پر منتج ہوتا ہے۔
’’انتخاب طبعی‘‘ کو متعدد امکانات میں سے کسی ایک امکان کے انتخاب کیلئے نہایت سست رفتاری سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تکلیف دہ حد تک انتظار کرنا پڑے گا۔ مثلاً خلیاتی کیمیا میں ہونے والی حادثاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں اگر بالوں کا رنگ سیاہ سے سفید ہو سکتا ہے اور جلد پر سفید پشم کی موٹی تہ بھی چڑھ سکتی ہے تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ بالوں کا رنگ سیاہ سے نیلا یا سرخ یا ارغوانی یا بنفشی یا سبز یا گہرا زرد یا زعفرانی ہوجائے؟ خلیاتی کیمیا کوکیسے علم ہو گیا کہ قطب شمالی کے ماحول میں زندہ رہنے کیلئے صرف سفید رنگ کی ضرورت ہے؟ حالانکہ اسے یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ سفید پشم کے نیچے جلد تو سیاہ ہی رہ جائے گی۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ایک ہی قسم کے خلیاتی تغیرات نے جلد کو تو جوں کا توں رہنے دیا لیکن انہیںپشم کا رنگ بدلنے کی سوجھی۔ سیاہ جلد پر سفید پشم کا اُگ آنا بلاشبہ ایک انوکھا خیال ہے۔ چنانچہ برفانی ریچھ اور لومڑی کے حوالہ سے بیان کردہ خصوصیات کی حادثاتی تخلیق کیلئے اس قسم کے دیگر ان گنت امکانات درپیش ہوں گے۔
اصلِ انواع سے متعلق ڈارون کے پیشکردہ نظریہ کے مطابق اصولاً تو’’انتخاب طبعی‘‘ کے عمل سے پہلے اتفاقی طور پر پیدا ہونے والے مختلف خصوصیات کے حامل برفانی ریچھ اور لومڑیوں کا ایک انبوہ کثیر موجود ہونا چاہئے تھا نیز قطب شمالی کے خطہ سے ملنے والے متحجرّات (fossils) کے ذخیرہ میں سرخ، نیلے، زعفرانی اور گلابی ریچھوں کا بھی کوئی نشان تو ملنا چاہئے تھا۔ لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ برفانی ریچھ کے حوالہ سے ارتقاکا عمل رنگوں کی پہچان سے عاری تھا اور صرف سیاہ اور سفید رنگ میں ہی فرق کر سکتا تھا۔ مزید برآں اس نظریہ کی رو سے چاہئے تھا کہ ریچھ ہر شکل وصورت اور جسامت میں پائے جاتے۔ مثلاً یہ ضروری تھا کہ بعض ریچھ ننھے منے ہوتے اور بعض دیو ہیکل۔ بعض بہت وزنی ہوتے، بعض اوسط درجہ کے اور کچھ لائٹ ویٹ (lightweight) کے ہوتے۔ اسی طرح بعض ریچھ فلائی ویٹ(flyweight) کے ہوتے تو بعض بنیٹم ویٹ(bantamweight) اور کچھ فیدرویٹ (featherweight) کے ہوتے۔ بعض ایسے ریچھ ہوتے کہ ان کا اگلا دھڑ اونچا ہوتا اور پچھلا دھڑ نیچا۔ اسی طرح بعض ریچھوں کی نظر کمزور اور سونگھنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی۔ ارتقا میں کارفرما تخلیقی عوامل نے قطب شمالی کے ماحول میں آخر ایک ہی راستہ کیوں چنا جس کے نتیجہ میں’’انتخاب طبعی‘‘ کا سارا عمل بیکار ہو کر رہ گیا کیونکہ اس کے لئے انتخاب کی کوئی گنجائش سرے سے باقی ہی نہ رہی۔
علاوہ ازیں حادثاتی طور پر بعض ایسے برفانی ریچھ بھی پیدا ہونے چاہئیں تھے جنہیں سِیل کے گوشت کا ذائقہ بالکل پسند نہ ہوتا اور انہیں اس سے اس حد تک کراہت ہوتی کہ یہ اس کے ایک بھی لقمہ کھانے پربھوکا رہنے کو ترجیح دیتے۔ یعنی سِیل کے گوشت پر نگاہ پڑتے ہی وہ قے کر دیتے اور گھنٹوں تک متلی کا شکار رہتے۔ اور اگر ان میں سے بعض تیرنے کے لحاظ سے نکمے اور دوڑنے میں سست رفتار ہوتے تب بھی تعجب کی کوئی بات نہ ہوتی۔
اگر فی الحقیقت ایسا ہوتا تو ڈارون کے حامی ماہرین حیاتیات ہمیں یہ باور کرانے میں کسی حد تک حق بجانب ہوتے کہ اتفاقی تخلیق ہی اس علاقہ میں ارتقائی عوامل کی ذمہ دار ہے۔ ’’بقائے اصلح‘‘ اور’’انتخاب طبعی‘‘ کے لابدی قانون کے باعث برفانی ریچھوں کی غیر ضروری اور ناموافق اقسام ناپید ہوجاتیں اور اس طرح برفانی ریچھ کی موجودہ شکل ہی بقا کی اہل ٹھہرتی۔
لیکن وہ تمام برفانی ریچھ جنہیں ’بقائے اصلح‘ کے اصول کے تحت معدوم ہونا پڑا آخر کہاں غائب ہوگئے؟ ہم یہاں کسی گرم علاقے کے ماحول کا ذکر نہیں کررہے بلکہ ہم قطب شمالی کے یخبستہ ماحول کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں معدوم ہونے والے برفانی ریچھوں میں سے کم از کم بعض کی لاشیں تو برف میں مدفون ہو جانے کے باعث صحیح حالت میں محفوظ ہو نی چاہئیںتھیں۔ یاد رہے کہ لاکھوں سال قبل پائے جانے والے بعض جانور قطب شمالی کے منجمد علاقہ میں محفوظ حالت میں مدفون پائے گئے یہاں تک کہ ان کا گوشت بھی کھانے کے قابل تھاگویا انہیں کل ہی دفن کیا گیا ہو۔ حال ہی میں اسی طرح کا ایک اور واقعہ دیکھنے میں آیا ہے جب سائبیریا میں ایک دیوہیکل ہاتھی دریافت ہوا۔ غیر قطبی علاقوں میں بھی جہاں ایسا ماحول نہیں پایا جاتا اسی طرح کی اتفاقی خلیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونی چاہئیں تھیں جو جانوروں کی انواع میں تنوّع کا باعث بنتیں اور ذخیرۂ قدرت میں ایسی انواع کے کچھ نہ کچھ تو متحجرّات کے آثار ملتے۔
اب ہم قطبی علاقوں سے غیر قطبی علاقوں کی طرف آتے ہیں۔ بڑے بڑے برفانی ریچھوں کے مقابلہ میں ایک ننھی سی مکڑی تصویر کا دوسرا نہایت دلچسپ رخ پیش کرتی ہے۔
قطبی علاقوں کے علاوہ عملاً دنیا میں ہر جگہ مکڑیاں پائی جاتی ہیں لیکن منطقۂ حارہ کے جنگلوں میں ان کی ایسی کثرت اور فراوانی دیکھنے میں آئی ہے جو کہیں اور نظر نہیں آتی۔ ان کا مسکن صرف بارانی جنگلات ہی میں نہیں بلکہ شدید ترین موسمی حالات میں بھی ان میں زندہ رہنے کی حیرت انگیز صلاحیت پائی جاتی ہے۔ وہ نہ صرف پہاڑوں کی چوٹیوں پر بلکہ گہرے کھڈّوں اور غاروں میں بھی زندہ رہتی ہیں۔
مکڑیوں کی معلوم انواع کی تعداد کم از کم 30 ہزار ہے۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ تعداد دو گنی تک بھی ہو سکتی ہے۔ 3 مکڑیوں کی تمام اقسام جالا نہیں بنتیں۔ آدھی اقسام جالا بنتی ہیں اور باقی باوجود ریشمی دھاگہ پیدا کرنے کے اپنے شکار پر حیرت انگیز رفتار کے ساتھ جَچا تُلا حملہ کرتی ہیں۔ جالا بننے والی مکڑیاں ہمیشہ کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتی ہیں جبکہ دوسری مکڑیاں نسبتاً بڑے جانوروں پر حملہ کرکے انہیں ختم کر سکتی ہیں۔
ضمناً یاد رہے کہ پچھلی صدی میں ایک ماہر حیاتیات نے اندازہ لگایا تھا کہ مکڑیاں تقریباً اتنے کیڑے مکوڑے ہڑپ کر جاتی ہیں جن کا عمومی وزن تمام انسانی آبادی کے وزن سے بھی زیادہ ہے۔ اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے ہم قاری کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مختلف انواع کی بودوباش میں جتنا زیادہ فرق ہوگا اتنا ہی ماہرین ارتقا کیلئے ہر نوع کی ارتقائی تاریخ کا کھوج لگانا مشکل ہوتا چلاجائے گا۔ وہ کونسے قدرتی عوامل تھے جنہوں نے لاکھوں سالوں پر محیط ان کے ارتقا کے اس سفر میں رہنمائی کی اور یہ کیسے ممکن ہوا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر نوع اتفاقاً اس مقام پر پہنچی ہے جس پر وہ آج پائی جاتی ہے۔
قاری کی دلچسپی کیلئے ہم یہاں چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلے گا کہ مکڑیوں کی مختلف انواع میں کس قدر تنوّع پایا جاتا ہے۔ بعض مکڑیاں بھیڑیا نما ہیں جو بھیڑیے کی سی درندگی سے شکار کرتی ہیں اور کچھ شکاری مکڑیاں ہیں جن کی رفتار حیرت انگیز طور پر بہت تیز ہوتی ہے اور بعض مکڑیاں ایسی بھی ہیں جو پرندوں کو اپنی خوراک بناتی ہیں اور ترن تلا (Tarantula) کہلاتی ہیں۔ دوسری مکڑیوں کی نسبت ان کا حجم غیر معمولی طور پر بڑا ہوتا ہے حتیٰ کہ فقاریہ (Vertebrates) بھی ان کے سامنے بالکل معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان کو بہت زیادہ اشتعال دلایا جائے تو وہ انسان پر حملہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔ چھوٹے چھوٹے پالتو پرندے، حشرات الارض، جل تھلئے، بھنورے، پروانے اور جھینگر ان کی بنیادی خوراک ہیں۔ تاہم ضرورت پڑنے پر یہ دوسری مکڑیوں کو بھی ہڑپ کر جاتی ہیں۔
علاوہ ازیں چیونٹیاں کھانے والی مکڑیاں بھی ہیں جو ترن تلا کے مقابلہ میں حقیر دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا حجم عام چیونٹیوں سے جن کا یہ شکار کرتی ہیں زیادہ نہیں ہوتا۔ خالق نے انہیں کیموفلاژ کا اتنا زبردست ملکہ عطا کیا ہے کہ چیونٹیوں کو اس مہلک اجنبی مخلوق کی اپنے اندر موجودگی کا ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوتا۔ وہ چیونٹیوں ہی کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور ان کی حرکات و سکنات بھی چیونٹیوں جیسی ہوتی ہیں۔ ان پر ’جیسا دیس ویسا بھیس‘ والا مقولہ پوری طرح صادق آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چیونٹیوں جیسا خیال نہیں کرتیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محض اندھے اتفاقات کے اجتماع سے اس حیرت انگیز کیموفلاژ نے جنم لیا اور آخر کتنے عرصہ میں بے مقصد جینیاتی تغیرات نے اس شاہکار کو نقطۂ کمال تک پہنچا دیا۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ماہرین ارتقا کے ذمہ ہے۔
یقینا یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ اس بات کی کوئی توجیہہ پیش کی جائے گی کہ انتخاب طبعی کا عمل چیونٹیوں کا شکار کرنے والی مکڑیوں میںکیسے کارفرمارہا؟ قبل اس کے کہ نام نہاد ارتقائی عوامل کے بے مقصد پیچ و خم کے نتیجہ میں ایک ماہر شکاری وجود میں آئے ناقص شکاریوں کی لاکھوں کروڑوں نسلیں پیدا ہوئیں اور مٹ گئی ہوں گی۔
مکڑیوں کی ایک اور پُر اسرار نوع ایٹی پس (Atypus) کے نام سے مشہور ہے۔ جب سے ڈبلیو۔ ای۔ لیچ(W.E.Leach) نے اسے 1816 ء میں دریافت کیا یہ مکڑیاں ماہرینِ حیوانات کیلئے دلچسپی کا باعث بنی رہی ہیں۔ جس زمانہ میں جاسوسی ناول نگاروں نے بند کمروں کی پر اسرار داستانوں کو لکھنا شروع کیا اس سے بہت پہلے قدرت نے ٹریپ ڈور trapdoor مکڑی کی اس مادہ نوع کو کامل حالت میں پیدا کر کے ’بند کمروں کے پر اسرار راز‘ کا ایک زندہ شاہکار تخلیق کر دیا تھا۔ ماہرین حیاتیات بہت عرصہ سے اس ذہنی کشمکش میں مبتلا رہے کہ یہ مکڑی ایک لمبی ریشمی ٹیوب میں جس کا منہ دونوں طرف سے بند ہو،آخر کیسے زندہ رہ سکتی ہے۔ بالآخرایف۔ انوک(F.Enoch) نے اس پریشان کن مسئلہ کا حل دریافت کر لیا۔ اس نے1885ء سے 1892ء تک اس سلسلہ میں کام کیا۔ وہ ریشمی ٹیوب جس میں ایٹی پس اپنے آپ کو قید کر لیتی ہے عام طور پر 8 سے 9 انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ اس میں سے اس کا صرف2 سے 3 انچ کا حصہ زمین کے اندر چلا جاتا ہے اور باقی تمام زمین کے اوپر یوں ابھرا ہوا ہو تا ہے جیسے دستانہ کی کوئی پھولی ہوئی انگلی ہو۔ یہ ٹیوب درمیان میں زیادہ کھلی ہوتی ہے تاکہ مکڑی اس میں بآسانی حرکت کر سکے۔ موسم سرما میں جب مکڑیاں زمین کے اندر جاکر سو جاتی ہیں تو اندھے ارتقا کا عظیم منصوبہ ساز ذہن اس بات کابھی خیال رکھتا ہے کہ اس ٹیوب کا وہ حصہ جو ہوا میں ہے ٹوٹ جائے۔ بعض اوقات انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ زمین سے باہر نکلی ہوئی جڑیں ہوں۔ یہ مکڑیاں ریشمی ٹیوب کو مٹی یا ریت کے ذرات میں اس طرح ملا دیتی ہیں کہ وہ نمایاں نظر نہیں آتیں۔ اگر یہ مشاہدہ کرنا ہو کہ کیڑوں کو کیسے پکڑا جاتا ہے تو گھاس کے ایک تنکے سے ٹیوب کو چھیڑیں۔ اچانک دو چمکدار اور نوکیلے دانت جالے میں سے تیزی سے باہر نکل آئیں گے اور ان کی پوزیشن سے بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مکڑی اپنے نچلے دھڑ کو اوپر لا کر بالکل شارک مچھلی کی طرح حملہ کرتی ہے۔ اگر بھنبھناتی ہوئی کوئی مکھی ٹیوب سے ٹکرا جائے تو مکڑی کے ڈنک مچھلیاں پکڑنے والے کانٹوں کی طرح اس کے جسم میں پیوست ہو جاتے ہیں اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں۔ اس کو تھوڑا سا گھسیٹنے اور پٹخنے کے بعد ٹیوب کی دیوار میں ایک شگاف نمودار ہو تا ہے جہاں سے مکڑی کیڑے کو اندر کھینچ لیتی ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ مکڑی اپنا شکار اندرونی حصہ میں واپس لے جا کر اپنی محنت کا مزہ اٹھائے پہلے ٹیوب میں اوپر کے حصہ کا رخ کرتی ہے تاکہ اس کی مرمت کرکے اسے پھر سے سر بمہر کر دے۔ 4
ڈارون کے ’بقائے اصلح‘ کے اصول نے جینیاتی تغیرات جیسے اکلوتے سہارے کے بل بوتے پر trapdoor مکڑی کے تخلیقی عوامل کو کس طرح تشکیل دیا اور ان کو کیسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا؟ یہ ایک ایسا راز ہے جس تک شاید ماہرین حیاتیات میں سے بھی صرف غیر معمولی قابلیت کے حامل افراد ہی کی اطمینان کی حد تک رسائی ممکن ہو۔
آخر میں ہم جالا بننے والی مکڑیوں کے ذکر کے ساتھ جو مکڑیوں کی تمام انواع کا تقریباً نصف ہیں اس بحث کو سمیٹتے ہیں۔ نہایت چھوٹی، نازک اور کمزور مخلوق ہونے کے باوجود انہیں یہ حیرت انگیز صلاحیت اور مہارت بھی حاصل ہے کہ اڑنے والے کیڑوں کو پکڑنے کیلئے پیچیدہ جال کس طرح بنے جاتے ہیں۔ یہ ایک نہایت دلچسپ مطالعہ ہے کیونکہ جونہی ہم جالا بننے والی مکڑیوں کی قسم سے دوسری قسم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ ان کا طرزِحیات، حکمت عملی اور تعمیر کی مہارت سب کے سب ڈرامائی انداز میں بدل جاتے ہیں۔ آئیے اس بات کو تصور میں لائیں کہ اندھے اتفاقات نے کس طرح مکڑی کو اس انعام سے نوازا کہ اس کے لعاب پیدا کرنے والے غدود انتہائی مؤثر سوت کاتنے والے چرخہ میں تبدیل ہوگئے۔
ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی راتوں رات جینیاتی تغیرات کے نتیجہ میں تو واقع نہیں ہوئی۔ اگر ہم اس تمام عمل کا آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ خاکہ تیار کریں تو شاید کسی حد تک اس بات کو تصور میں لاسکیں کہ ارتقا کے بے مقصد عمل نے مکڑی کیلئے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے۔
شاید اس روداد کا آغاز اس وقت ہوا ہو جب مکڑی کے لعاب پیدا کرنے والے غدودوں کی حس اچانک حادثاتی عوامل کے باعث بہت تیز ہوگئی۔ پھر ممکن ہے کہ اگلے دس یا بیس لاکھ سالوں میں بہت سارے اتفاقات نے مل کر اس لعاب دہن کو خشک بھی کر دیا ہو کہ وہ ہوا میں پہنچتے ہی ریشوں کی طرح سخت ہو جائے۔ نیز بظاہر نفیس اور نازک نظر آنے والے ان ریشوں کو تناؤ کی اس قدر طاقت عطا کی گئی جو اس کے ہم وزن فولاد کی تناؤ کی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔
اگر حادثاتی عوامل کے نظریہ کو درست مانا جائے تو اِس صورت میں اِن جھنجھلا دینے والے لمبے بے قابو ریشوں کو ہر جگہ پھیلا ہونا چاہئے تھا جو مکڑی کی ٹانگوں سے الجھ کر رہ جاتے اور مکڑی اُس بطخ کی طرح ہو جاتی جو اپنے شکاریوں کا ترنوالہ بننے کے لئے تیار بیٹھی ہو۔ غالباً ماہرینِارتقا ہی اس کا بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ عمل کتنا عرصہ جاری رہا۔ لیکن ایک عام آدمی کی حیثیت سے تو ہم اتنا اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ دس بیس لاکھ سال بعد ذہنی طور پر زیادہ ترقی یافتہ مکڑی دھوپ سینکتے ہوئے اپنی حالت زار پر ماتم کرتی رہی ہو گی۔ اس نادر لمحہ پر بالآخر جینیاتی تغیرات کا اجتماع دفعۃً اس کی امداد کو آن پہنچا جس نے اس کے ننھے منے دماغ کے ایک حصہ کو ایسی مہارت بخشی جس سے اس کا نقصان فائدہ میں بدل گیا۔ اچانک اسی نایاب لمحہ کے ساتھ ہی مکڑیوں کی زندگی میں ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوا جس کی کوئی نظیر تمام عالمِ حیوانات میں نہیں ملتی۔
پھر مکڑی فی الفور پھندوں کی طرح کے جالے بننے کے فن کو سیکھنے کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس امر کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ مکڑی کو اس مشق میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کتنا عرصہ لگا۔ مزعومہ ارتقاکی رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کیلئے مکڑی کو مزید بیس لاکھ سال لگے ہوں گے۔ مختلف قسم کے جالوں کی ساخت نہ صرف بے حد پیچیدہ اور نہایت عمدہ ہوتی ہے بلکہ انہیں ایک خاص مقصد کی خاطر ایک معین اندازہ اور ڈیزائین کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ مکڑی اپنے ہلکے پھلکے قدموں کے ساتھ کسی ماہر رقّاصہ کی طرح ا ن جالوں پر پھرتی کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ یہ جالے اس کی نقل و حرکت میں کبھی حائل نہیں ہوتے۔ اور تنے ہوئے رسے پر کرتب دکھانے والا بڑے سے بڑا ماہر بھی مکڑیوں کے سامنے پانی بھرتا نظر آتا ہے۔ یہ کبھی غلط قدم نہیں اٹھاتی، نہ ہی اس کے قدم کبھی ڈگمگاتے ہیں۔ اسے توازن قائم رکھنے کے لئے کسی ڈنڈے کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور اس معاملہ میں وہ کبھی بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتی کہ اپنا ریشہ کہاں تانے تاکہ انتہائی محتاط طریقے سے اپنے تیار کردہ جالے کو مکمل کرسکے۔ چنانچہ اس طرح سوت تیار کرنے اور ایسے عمدہ اوربہترین جالا بننے اوراس فن کو سیکھنے اور اس سے پھندا تیار کرنے والی مکڑی کی کہانی ایک فرحت بخش اختتام کو پہنچتی ہے۔ مکڑی اپنے اس ریشے دار قلعہ میں اس طرح مورچہ بند ہوتی ہے کہ نہایت خونخوار بِھڑوں کو بھی اس پر حملہ کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔
یہاںتک تو ٹھیک ہے لیکن اچانک ایک بے چین کر دینے والا سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر اس لمبے چوڑے کھیل کا مقصد کیا تھا اور اندھے ارتقا نے بغیر کسی شعوری غرض و غایت کے یہ سفر کیوں اختیار کیا؟ آجاکر اس کا ایک ہی مقصد ذہن میں آتا ہے کہ مکڑی کو اس قدر خوراک مہیا کی جائے جو اس کی بقا کیلئے از بس ضروری تھی۔
بیچاری مکڑی کو قدرت کی طرف سے چند ٹیڑھی میڑھی اور بھدی ٹانگیں ہی عطا ہوئی تھیں۔ پھندا نما جالا بننے میں مہارت حاصل کرنے سے پہلے لاکھوں سال تک نسلاً بعد نسلٍ زندہ رہنے کیلئے مکڑی کو قُوت لایموت کی ضرورت تو یقینا درپیش رہی ہوگی۔ مکھیاں بیوقوف تو ہو سکتی ہیں لیکن اتنی بھی نہیں کہ بغیر کسی جال کے سیدھی مکڑی کے منہ میں چلی جاتیں بہرحال مکھیوں کی اس خوراک کے سہارے یا اس کے بغیر ہی مکڑیاں عرصہ ٔدراز تک زندہ رہیں۔ اس سارے عرصہ کے دوران ریشہ پیدا کرنے اور جالا بننے کی ضرورت کب پیش آئی اور اس عبوری عرصہ میں ان سے متعلق اور لازم و ملزوم ارتقائی تقاضے کہاں تھے؟
اس علم سے نابلد شخص کیلئے اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میںتبدیلی کے دوران کتنے بڑے بڑے چیلنج درپیش ہوا کرتے ہیں۔ آدمی یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ جانے مکڑیوں کی کتنی ہی نسلیں بے مقصد ماری گئی ہوں گی۔
قبل ازیں ہم نے اس امکان کا ذکر کیا تھا کہ ممکن ہے بہت سے اچانک ہونے والے جینیاتی تغیرات نے خوراک کی خاطر مکڑی کو جالا بننے کا فن اچانک سکھا دیا ہو۔ مقصد یہ تھا کہ ایسا تصور ہی بنیادی طور پر کتنا لغو اور بے معنی ہے۔ جینیاتی تغیرات مکمل، مربوط اور بامقصد انداز میں بیک وقت وقوع پذیر نہیں ہوا کرتے۔ کسی بھی جاندار کی انواع کے طرز حیات میں اس قسم کی ڈرامائی تبدیلیاں لانے کیلئے ایسے لاکھوں امکانات درکار ہوتے ہیں جو جینیاتی تغیرات کو ایک بامقصد اور مربوط شکل دے سکیں۔
گوشت خور نازک آبی پودوں کا معاملہ بھی کچھ کم حیران کن نہیں ہے۔ ان میں سے سادہ ترین پودے بھی اپنی ساخت میں اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انسانی کوششیں اس امر کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں کہ لاکھوں سالوں پر محیط ارتقا کے اندھے اتفاقات کا یہ سفر اتنی ترتیب سے اتنی صحیح سمت میں کیسے ممکن ہوا کہ انجام کار شکار کو پھانسنے والی ایسی جیتی جاگتی مشینیں معرض وجود میں آگئیں۔ ہم اپنی بحث کا آغاز مارش پچر (Marsh Pitcher) سے کرتے ہیں جو ماہرین کے نزدیک گوشت خور آبی پودوں میں سادہ ترین قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے پتوں کی لمبائی تقریباً ایک فٹ ہوتی ہے اور یہ ایک دوسرے میں باہم پیوست ہو کر قیف کی شکل بناتے ہیں۔ جب یہ قیف پانی کی سطح پر نمودار ہوتی ہے تو اس کی ساری لمبائی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ قیف کے اوپر والے حصہ پر سرخ حاشیے ہوتے ہیں جو رس پیدا کرنے والے بے شمار غدودوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ استوائی علاقوں میں جہاں یہ پودے اگتے ہیں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان پودوں کے قیف پانی سے بھرے رہتے ہیں لیکن پھر بھی نہ تو یہ قیف پھٹتے ہیں اور نہ ہی اپنے وزن کے بوجھ سے دب جاتے ہیں۔ ایسا دو وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
(الف) ایک دو انچ بالائی حصہ کو چھوڑ کر اس کے پتّے سارے کے سارے آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اوپر والا حصہ جو جڑا ہوا نہیں ہوتا اس کے ذریعہ اتنا رستہ مل جاتا ہے جس سے فالتو پانی کا اخراج ہو سکے۔
(ب) اوپر والے کنارے کے بالکل نیچے چھوٹے چھوٹے سوراخوں کا ایک دائرہ بنا ہو تا ہے جس کے باعث پانی کی ایک مخصوص سطح ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
پودے کے رنگ اور غدودوں سے نکلنے والے رس کی مسحور کن خوشبو کیڑوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیڑے مکوڑے جب رس کی تلاش میں اس کے گرد اچھلتے پھرتے ہیں تو پھسل کر قیف کے اندر جاگرتے ہیں جو نیچے کی جانب جھکے ہوئے چکنے بالوں سے بھری ہوتی ہے جس کے باعث کیڑے مکوڑے دوبارہ اوپر نہیں چڑھ سکتے۔ یہ نیچے پھسلتے چلے جاتے ہیں یہاںتک کہ قیف کے سب سے نچلے حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جہاں بال نہیں ہوتے۔ اور یوں اس بند پیندے میں گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور ریزہ ریزہ ہو کر قیف میں موجود پانی کو لحمیات اور نمکیات سے بھر دیتے ہیں۔ اس خوراک کو یہ پودا پنی بقا کی خاطر ہضم کر لیتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس انتہائی مربوط پھندے کی تکمیل سے پہلے قدرت کی کتنی اندھی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہوگا۔
اب ہم ایک اور مثال پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ نباتاتی زندگی کے حق میں قدرت نے عالم حیوانات کے خلاف حالات کا پانسہ کیسے پلٹ دیا۔ Trumpet-pitcher کے پھندے کی اوپر والی سطح پر موجود مومی چھلکوں پر چلنے والے جانوروں کے پاؤں چپک جاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا توازن کھو کر پانی سے بھرے ہوئے پیندے میں لڑھک جاتے ہیں۔ اس عمل سے پیدا ہو نے والا ارتعاش قیف کے ہضم کرنے والے غدودوں کیلئے ایک محرّک کا کام دیتا ہے جس کے نتیجہ میں غدود فی الفور ایک طاقتورہاضم رس خارج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح اس میں گرے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے چند ہی گھنٹوں میں مکمل طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں جبکہ مکھیوں کو تحلیل ہونے میں ایک یا دودن درکار ہوتے ہیں۔ صرف حشرات ہی ان گوشت خور پودوں کا شکار نہیں بنتے بلکہ Trumpets کا ’’راجہ‘‘ تو بچھوؤں اور چوہوں کو بھی ہڑپ کر کے ہضم کر سکتا ہے۔
وینس فلائی ٹریپ(Venus fly trap) (ملاحظہ ہو پلیٹ نمبر3 ) کا معاملہ اوربھی زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ یہ برقی توانائی سے چلتا ہے۔ برقی لہریں کیسے پیدا ہوتی ہیں اور اس نظام کی نگرانی کون کرتا ہے۔ یہ وہ راز ہے جسے سمجھنے کیلئے سائنسدانوں کی طرف سے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
ڈارون کے حامی ماہرین ارتقاکی توجہ اس حیرت انگیز تخلیق کی طرف مبذول کراتے ہوئے ہم نہایت ادب سے استفسار کرتے ہیں کہ اس کا ارتقا کیسے ممکن ہوا؟ گوشت خور پودے اور اس کے تمام ضروری اجزاء نیز ہضم کرنے والے خامروں کی تخلیق کے آخری کامیاب ارتقائی تجربہ سے پہلے کی ناکام کوششوں میں کتنی ہی نسلیںنابود ہوگئیں۔ عام سبز پودوں کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس بالکل مختلف دور کا آغاز کر سکتے جب تک کہ وہ خوفناک شکار کرنے والی مشینوں کی شکل اختیار نہ کر لیتے۔ ان دونوں کے مابین بُعد المشرقین ہے۔ اس انقلاب کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ان پودوں کیلئے اپنی خوراک میں حیوانی خامروں اور لحمیات کا اضافہ ناممکن تھا۔ اس امر کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ ڈارون کے پیش کردہ ’’انتخاِب طبعی‘‘ کے اصول کے تحت عمل ارتقا کو یہاں تک پہنچنے میں کتنے لاکھ سال درکار تھے۔
بات یہ ہے کہ ایسا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ کوئی ماہر حیاتیات بھی عام سبزپودوں کی گوشت خور پودوں میں بتدریج تبدیلی کا خیال تک بھی پیش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس قسم کی کامل قلبِ ماہیت کے بغیر گوشت خوری والے نظام حیات کے آغاز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابھی تک کسی ماہر حیاتیات کی ایسی تحقیق ہمارے سامنے نہیں آئی جس میں گوشت خور پودوں کے بتدریج عضویاتی ارتقا کی تاریخ بیان کی گئی ہو۔ جب ہم چھوٹے سے چھوٹے حشرات خور پودوں کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور اپنی توجہ ان کی انتہائی مربوط نامیاتی شناخت پر مرکوز کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کتنے بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ہر حصہ ایک خاص مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اور اسے ایک مخلوط نامیاتی اکائی کی صورت میں ایک مخصوص طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے۔
آخری لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس امر کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ ان پودوں نے اپنے ان آباؤاجداد کے مفید طرز حیات کو اچانک چھوڑ دیا ہو جن کا دارومدار اس ضیائی تالیف پر تھا جس نے بقا کی جدوجہد میں انہیں شاندار آغاز فراہم کیا تھا۔ ان پودوں کے نام نہاد ارتقا میں انہیں بقا کے حوالہ سے موزوں ترین قرار دینے میں ڈارون کے’’بقائے اصلح‘‘ کے اصول کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا ہوتا تو زمین کے تمام خشک اور آبی علاقے ان پودوں سے بھر گئے ہوتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اس ماحول میں زندہ رہنے کیلئے بنایا گیا تھا جس کے پیچھے کوئی ارتقائی تاریخ نظر نہیں آتی۔
علاوہ ازیں ارتقا کے اصولوں کے مطابق گو یہ بات تو قابل فہم ہے کہ کوئی پودا یا جانور ناموافق ماحول سے موافق ماحول کی طرف منتقل ہو جائے مگر اس کے برعکس یہ نہیں سنا گیا کہ یہ سفر الٹی سمت بھی اختیا رکر سکتا ہے۔ لیکن اگر ماہرین حیاتیات کی رائے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو Sundew اور Venus fly trap کے بارہ میں ان کی رائے تو اس اصول کے برعکس نظر آتی ہے۔
‏Sundew plantکی ہیمثال لیجئے جو ایک متعفّن جوہڑ کے کنارے خوب پنپ رہا ہے اور جوہڑ کو کراہت سے دیکھ رہا ہے۔ انتہائی ناموافق ماحول کے باعث کوئی پودا بھی یہاں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر Sundew کے پاس دماغ اور آنکھیں ہوتیں تو وہ اس منظر کو دیکھ کر عین ممکن تھا کہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوتا بشرطیکہ اس کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے پیوست نہ ہوتیں۔ لیکن ماہرین حیاتیات کا نظریہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے نزدیک جوہڑ کے کنارے اگنے والے اس خودرو Sundew نے fly-trap کی شکل اختیار کر لی جو اب اس نامساعد ماحول میں بغیر کسی رکاوٹ کے خوب پھول پھل رہا ہے۔ اگر یہ قبل ازیں ارتقاکے مزعومہ عمل سے گزر نہ چکا ہو تا تو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کیلئے اس کا زندہ رہنا ہی بعید از قیاس تھا۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ جب خشک زمین میں اس کی موجودگی کے دوران ہی تمام ضروری تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہوتیں۔ یہ پودا اس ماحول میں ایک لمحہ کیلئے بھی زندہ نہیں رہ سکتا تھا جب تک اس کی قلب ماہیّت کا عمل پہلے ہی سے مکمل نہ ہو چکا ہو تا۔
یہ وہ معمہ ہے جس سے سائنسدان دوچار ہیں۔ اور اس کی عقلی اور منطقی توجیہہ ان کے ذمہ ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل دو اہم نکات کا ذکر ضروری ہے۔
(ا) سائنسدان جسSundewکو Venus fly-trap کا جد امجد قرار دیتے ہیں وہ بجائے خود ایک معمہ ہے جس کی ارتقائی تار یخ کا عام سبز حیات سے دور کا تعلق بھی دکھائی نہیں دیتا۔
(ب) Venus fly-trap کی تخلیق کیلئے ضروری تھا کہ وہ بغیر کسی ارتقائی دباؤ کے اپنی تمامتر جزئیات کے ساتھ جوہڑ سے باہر خشک مٹی پر حتمی شکل اختیار کر چکا ہوتا۔
اس معاملہ کو یہیں چھوڑتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ ماہرین حیاتیات اس بحث کو یہاں سے آگے بڑھائیں گے۔ ہمیں ان کی توجیہہ کا شدت سے انتظار رہے گا۔
چونکہ Venus fly-trap کا معاملہ انتہائی پیچیدگی اور باریکی سے تشکیل دیا گیا ہے اور یہ ایسے برقی نظام سے لیس ہے جو ماہر سائنسدانوں کی سمجھ سے بھی بالاہے اس لئے ہم نے اسے خصوصی طور پر نمایاں کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ Venus fly-trap حتمی یعنی موجودہ شکل میں اپنے مزعومہ آباؤاجداد کی جسمانی ساخت سے قطعاً مختلف ہے اس لئے ممکن ہے کہ ماہرین حیاتیات بیشمار چھوٹے چھوٹے موزوں اور مناسب حال ارتقائی مراحل کا خیال پیش کرکے اس وسیع خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں۔ اس قسم کے مواد کی عدم موجودگی میں یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ’’انتخاب طبعی‘‘ کا عمل کسی ایسی چیزمیں کارفرمارہا ہو جس کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ ماہرین حیاتیات کی دلیل کو لغو ثابت کرنے کیلئے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان کے نزدیک ایک ایسی ماں کے ہاں بھی بچہ پیدا ہو سکتا ہے جو خود ہی موجود نہیں۔ کیا ’’بقائے اصلح‘‘ کا اصول، ارتقا کی یہی تصویر پیش کر تا ہے؟ کیسی بقا اور کیسی موزونیت اور کہاں کا مقابلہ؟ اگر سائنسدانوں کے پاس پیشہورانہ مہارت کا ضابطۂ اخلاق موجود ہے، جو عموماً ان میں پایا جاتا ہے تو ان کو اپنے ضابطۂ اخلاق کو ان گوشت خور پودوں پر اطلاق کرکے دیکھنا چاہئے جو انتخاب کے زمرہ میں داخل ہونے سے قبل ہی شکار کرنے کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر لیس تھے۔ اگر اسی کا نام’’انتخاب طبعی‘‘ ہے تو یہ عقلِ سلیم (Common Sense) کی سراسر تضحیک ہے۔
مچھر
مچھر کی مثال ہی لے لیں۔ اس میں مخفی رازوں سے پردہ اٹھانے اور اس کے اجزائے ترکیبی اور اعلیٰ نظام کے بارہ میں منطقی اعتبار سے تشریح و توضیح کی اس قدر
ضرورت ہے کہ اس مقصد کے لئے سائنسدانوں کی کئی نسلیں درکار ہوں گی۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی تحقیق ہے کیونکہ اس کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کیلئے جب بھی سائنسدان ایک مرحلۂ فکر طے کرتے ہیں تو انہیں ایک اور مرحلہ کا سامناہوتا ہے۔
چنانچہ یہ امر تعجب انگیز نہیں کہ قرآن کریم اﷲتعالیٰ کے تخلیقی عجائبات کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس چھوٹے سے تخلیقی معجزہ کو پیش کرتا ہے۔ وہ مچھر جسے انسان انتہائی حقیر جانتا ہے اس کی تخلیق بھی خالق کیلئے باعث عار نہیں۔ موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم قاری کو اڑنے والی اس مشین کی ایسی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہیں جن کے سامنے جدید تکنیکی ماہرین کے کارہائے نمایاں بھی بے حقیقت نظر آتے ہیں۔
اب ہم مچھر سے متعلق جو دیگر تمام جانوروں سے بہت مختلف ہے قرآنی بیان کاذکر کرتے ہیں۔ یہ واحد مخلوق ہے جس کا ذکر اس پرزور تردید کے ساتھ آیا ہے کہ اس کی تخلیق اس کے خالق کیلئے کسی شرمندگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:

(البقرۃ 27:2 )
ترجمہ: اﷲ ہرگز اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اس کی بھی جو اس کے اوپر ہے۔
یہاں ’فوق‘ کے لغوی معنی اوپر کے ہیں تاہم دیگر مترجمین نے اسے لغوی معنوں میں نہیں لیا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات سے بیخبر تھے کہ مچھر اپنے اوپر کیا کچھ اٹھائے پھرتا ہے۔
مندرجہ ذیل سوالات سے قاری کے ذہن میں یقینا اضطراب پیدا ہوگا۔ کم از کم مجھے تو اس آیت میں موجود پیغام نے ہمیشہ متعجب کیا ہے اور دعوت فکر دی ہے۔
سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ خداتعالیٰ کو آخر کیا ضرورت پڑی کہ وہ مچھر کی تخلیق کے ضمن میں شرمانے کی تردید کرے۔ اس آیت کے علاوہ قرآن کریم میں کہیں بھی کسی اور مخلوق کے تعلق میں ایسی تردید نہیں کی گئی بلکہ ہر جگہ فخریہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کیا اس آیت میں مچھر کی تخلیق کے سلسلہ میں اختیار کیا گیا یہ غیر معمولی انداز اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہا کہ قرآن کریم قاری کی توجہ مچھر کے بظاہر بے حقیقت وجود کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے؟ کسی ادنیٰ چیز کی تخلیق کے حوالہ سے شرمندگی یا خفت کی مذمت دراصل اس بات کی مذمت ہے کہ وہ بظاہر حقیر چیز حقیر نہیں۔ یہ تردید انسان کو اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ مچھروں کے بارہ میں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرے۔ اس حقیقت میں مندرجہ ذیل حقائق مضمر ہیں:
(1) مچھر اس قدر بے حقیقت اور ادنیٰ نہیں ہے جتنا کہ اسے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔
(2) وہ بہت اہم کردار کا حامل ہے لیکن اسے ابھی تک پوری طرح سمجھا نہیں گیا اور ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئندہ جب بھی تحقیق کی جائے گی مچھر کا کردار نہایت ضرررساں اور خطرناک ثابت ہو گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے باوجود مچھر کی مضر تخلیق کے تعلق میں تاسف کے پہلو کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مچھر کے منفی کردار کیلئے ضروری تھا کہ اسے ایسا ہی بنایا جاتا۔
دوسرے یہ کہ مچھر کا کردار منفی سہی، لیکن نظام تخلیق کے منصوبہ میں اسے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ چنانچہ مچھر کی تخلیق اور تکمیل کے لا بدی امر کو اس کے خالق کیلئے باعث فخر سمجھنا چاہئے نہ کہ باعثِ شرم۔ ہمارا اخذ کردہ نتیجہ محض اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب مچھر میں پایا جانے والا غیر معمو لی حسن دیگر انواع حیات کے حسن سے بھی زیادہ دلکش ہو۔ مزید برآں یہ دریافت ہنوز سائنسدانوں کی توجہ کی محتاج ہے کہ روز مرہ کے نظام حیات اور اس کے ارتقا میں مچھروں کا وجود درحقیقت باعث زحمت نہیں بلکہ باعث رحمت ہے۔ فی الحال ہماری رائے یہی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ہماری قوت مدافعت کو بڑھانے اور اسے مکمل کرنے میں مچھروں نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ ایک ایسا کردار جو ابھی تک جاری ہے۔
اس آیت کی مندرجہ بالا ممکنہ توضیحات سے رہنمائی لیتے ہوئے میں نے مچھرکی جسمانی ساخت اور عالم حیوانات میں اس کے کردار کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہ کام آغاز میں ہی کٹھن دکھائی دیتا تھالیکن جوں جوں آگے بڑھتا گیا مزید پیچیدہ اور مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ مچھر پر دستیاب لڑیچر اس کے عضویاتی ارتقا کی بابت خاموش ہے۔ اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے مچھر پر تحقیق میں خصوصی دلچسپی لی کیونکہ مچھر کے علاوہ دیگر بہت سے جانوروں پر کی گئی تحقیق اور اس سے اخذ کئے گئے نتائج سے موجودہ لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ اس میں ان جانوروں کے عضویاتی ارتقا کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے بہت حد تک اس مواد سے استفادہ کیا ہے جس سے قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے کہ مچھر کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے قابل اور اہل احمدی سکالرز کی ایک ٹیم پہلے سے ہی مچھر کی تخلیق کے ارتقا پر تحقیق کر رہی ہے۔ لیکن چونکہ اس کام کیلئے بہت وقت درکار ہے اور اس کتاب کی اشاعت اتنی دیر تک روکی نہیں جاسکتی اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مچھر سے متعلق جو مواد بھی موجود ہے، اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اس کتاب کو مکمل کر لیا جائے۔
بظاہر معمولی اور بے حیثیت دکھائی دینے والا مچھر شاید بنی نوع انسان اور دیگر انوع حیات کے حوالہ سے حشرات الارض میں سے سب سے اہم ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مچھر طباشیری (Cretaceous) دور (ساڑھے 6 سے 14کروڑ سال قبل)5 میں وجود میںآئے جب جدید سائنسی درجہ بندی میں موجود اکثر حشرات اور پھولدار پودوں کا ارتقا شروع ہوا۔ ایک اور اندازہ کے مطابق مچھر کی افزائش جراسک (Jurassic) دور (یعنی 13.6کروڑ تا 19کروڑ سال قبل)میں ہوئی۔ چونکہ اس وقت تک ممالیہ جانوروں کی تخلیق نہیں ہوئی تھی اس لئے لازماً مچھر خزندوں یعنی رینگنے والے جانوروں، جل تھلیوں اور ابتدائی ممالیہ جیسے جانوروںیا شاید ڈائنو سار کے خون پر ہی گزارہ کرتے ہوں گے۔ خون چوسنے کی یہ جبلّی خواہش جو ماہرین حیاتیات کے نزدیک مچھرکی تخلیق کے قدیم دور میں پیدا ہوئی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر یہ خون کے بغیر ہی محض سبزیوں کا رس چوس کر ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہے تو پھر یہ خواہش پیدا ہی کیوں ہوئی؟ اس زمانہ میں پھولدار پودے تو تھے نہیں اس لئے شاید یہ پتوں اور تنوں سے رسنے والی میٹھی رطوبت پر ہی گزارہ کرتے رہے ہوں۔ 6
مچھردو پروں والے حشرات ہیں جو دو پروں والی مکھیوں(Diptera) کی فیملی Culicidae سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دیگر تمام مکھیوں سے اپنے سر پر موجود لمبے ڈنک اور بعض دیگر منفرد خصوصیات کے لحاظ سے بھی مختلف ہیں۔ مثلاً ان کے پروں کی رگوں پر چھلکے موجود ہوتے ہیں اور پچھلے کناروں پر چھلکوں کی ایک جھالر لٹک رہی ہوتی ہے جبکہ لمبائی کے رخ پر موجود دوسری، چوتھی اور پانچویں رگیں تقسیم ہو جاتی ہیں۔
اس گروپ (Diptera) کے دوسرے ارکان کی طرح مچھر بھی اپنی تولیدکے دوران میٹامورفوسس(Metamorphosis) یعنی قلب ماہیت کے عمل سے گزرتا ہے لیکن یہ قلب ماہیت بعض صورتوں میں دوسری مکھیوں سے نمایاں طور پر مختلف ہوتی ہے۔ انڈہ سے نمودار ہونے والا لاروا(Larva) اپنے والدین سے کسی طور بھی مماثلت نہیں رکھتا اور پانی میں رہ کر خوراک حاصل کرنے کیلئے انتہائی موزوں ہوتا ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ مچھر پر تحقیق کرنے والے تمام احباب اپنی تمام تر قابلیت اور اس کی بیرونی اور اندرونی ساخت سے متعلق مکمل علم رکھنے کے باوجود انتخاب طبعی کی کوئی واضح صورت پیش نہیں کر سکے جو منطقی لحاظ سے قابل قبول ہو اور اس تخلیقی عجوبہ کے ڈیزائن اور ساخت کو بیان کر سکے۔
خون نہ چوسنے والے مچھروں کی خون چوسنے والے مچھروں میں تبدیلی کو اگر محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیا جائے تو اس کیلئے لا محدود وقت کی ضرورت ہوگی اور یہ سوچ تو نا قابلِ قبول حد تک ایک عجوبے سے کم نہ ہوگی کہ مچھر کی دونوں اقسام آہستہ آہستہ بیک وقت قدم بقدم اپنے اپنے اجزاء کے ساتھ الگ الگ، لیکن بایںہمہ باہم کامل ربط کے ساتھ ارتقا کے عمل سے گزرتی رہیں۔ یہ بات خاص طور پر پیش نظر رہے کہ جب تک مچھر اپنا ارتقا مکمل نہ کر لے اس کی زندگی میں درجہ بدرجہ نامیاتی پیش رفت کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ مثلاً جب سائنسدان مچھر کے خون کی تلاش کرنے اور اس تک پہنچنے کی حاجت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس ادنیٰ سی صورت کیلئے بھی ایک بہت ہی پیچیدہ مددگار نظام درکار ہے۔
مچھروں کو خوراک حاصل کرنے کیلئے ایک موزوں میزبان کی تلاش ہوتی ہے جس کیلئے اس کی اندرونی ساخت، اعضائے حس اور دیگر جسمانی اعضاء میں تبدیلیاں درکار ہوا کرتی ہیں۔ مچھر کو اپنے ماحول میں بکثرت پائے جانے والے خارجی محرکات میں سے مناسب لحمیاتی ماخذ کی تلاش ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق جس لائحہ عمل کے تحت ان کا ارتقا ہوا وہ کچھ یوں ہے:
’’…بصری محرکات، حرارت اور مختلف مادوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، لیکٹک ایسڈ(Lactic acid ) اور جلد تحلیل ہو جانے والے فیٹی ایسڈز(Fatty acids) کا امتزاج دموی جانوروں کا خاصہ ہے جن پر مچھر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔‘‘7
ایک او رمشکل جو مچھر کو درپیش ہوتی ہے یہ ہے کہ بو خارج کرنے والے کیمیاوی مادے ہوا کی لہروں پر منتشر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مچھر کو لازماً اپنے میزبان تک بالواسطہ پہنچنا پڑتا ہے جس کیلئے وہ میزبان کے جسم سے خارج ہونے والی حرارت کو محسوس کرتا ہے۔ ان مراحل کے دوران مچھر کے طرز عمل کیلئے ایک محرک اور ردعمل کے نظام کا کامل صورت میں موجود ہونا ضروری ہے۔ مچھر شعوری طور پر کسی میزبان کی تلاش نہیں کرتا بلکہ خارجی محرکات پر اپنے خود کار نظام کے تحت ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت مزید الجھ جاتاہے جب اکثر مچھر اپنا host یعنی میزبان تلاش کرتے وقت ایک خاص نوع حیات ہی کو چنتے ہیں۔ مثلاً ہو سکتاہے کہ مچھر کی ایک خاص نوع صرف گائے کے پیدا کر دہ محرکات پر ردعمل تو ظاہر کرے لیکن انسانی محرکات پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کرے۔
سائنسدانوں کے اندازہ کے مطابق مچھر کے اس طرز عمل کا ارتقا Mesozoic (6 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل) دور میں ہوا۔
’’…جس میں خزندوں، پرندوں اور ممالیہ جانوروں نے زمین کو باقاعدہ اپنا مسکن بنایا…‘‘8
بعض سائنسدانوں کے نزدیک جب سے پرندوں، ممالیہ جانوروں اور ڈائنوسارمیں اپنے بچوں کے لئے والدینی جبلت بیدار ہوئی ہے تب سے مچھر کو مزید محفوظ اور موافق ماحول مل گیا ہے۔ مچھر کیلئے ان گھونسلوں کے اندریا ان کے قرب وجوار میں رہنا نہایت سود مند ثابت ہوا جہاں پرندوں کے بچے پلتے ہیں۔ یہی صورتِ حال جنگل میں رہنے والے درندوں کی کچھاروں اور ڈائنوسار کی رہائش گاہوں کی ہوتی ہوگی جہاں ان کے بچوں کی پرورش گاہیں تھیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں اس امر نے مچھروں کیلئے ایسے مواقع مہیا کئے کہ وہ جب چاہیں بلا روک ٹوک جانوروں کا خون چوس سکیں۔ اس عجیب و غریب نظریہ پر اسی صورت میں سنجیدگی سے غور کیا جاسکتا ہے جب پہلے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مادہ مچھر آسان شکار تلاش کرنے سے پیشتر ایک قسم کی خون چوسنے والی مشین میں تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ قیاس کسی بھی صورت میں کسی ایسے طریق کار کی نشاندہی نہیں کرتا جسے خون چوسنے والی مادہ مچھر کے ارتقا کا ذمہ دار قرار دیا جاسکے۔ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ انسانی جسم پر مادہ مچھر کے بیٹھنے کے پانچ سیکنڈ کے اندر اندر اگر انسان کسی قسم کی کوئی حرکت کرے تو مچھر فوراً اڑ جاتا ہے ۔ اگر میزبان کی تلاش کے سلسلہ میں مچھر کے جبلی طرزِعمل کی پیچیدگیوں پر غور کیا جائے تو خون چوسنے کی خاصیت کا اتفاقی طور پر پیدا ہو جانا بعید از قیاس دکھائی دیتا ہے۔ (ملاحظہ ہو پلیٹ نمبر5)۔
خون چوسنے والی مادہ مچھر کو اپنے میزبان کے خون تک رسائی حاصل کرنے کیلئے اپنے نظام میں محض چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کے لئے اسے ایسے موزوں آلات بھی درکار تھے جنہیں یہ جلد میں پیوست کر کے خون کی شریانیں تلاش کر سکے۔ علاوہ ازیںاسے نقل و حمل کے ایسے نظام کی بھی ضرورت تھی جس کے ذریعہ خون ایک ایسی تھیلی تک پہنچ جائے جو پودوں کا رس جمع کرنے والی تھیلی سے یکسر مختلف ہو۔ رس تمام مچھروں حتیٰ کہ خون چوسنے والی مادہ مچھر کی غذا کا بنیادی جزو ہے کیونکہ اسے مخصوص اوقات میں ہی خون کی ضرورت ہوتی ہے (ملاحظہ ہو پلیٹ نمبر 6)۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے مچھر کے ارتقا سے متعلق سائنسی لٹریچر زیادہ تر خاموش ہے۔ مختلف حشرات کے آغاز پر بحث کرنے والے سائنسدان بتاتے ہیں کہ:
’’......حشرات کی بعض مشہور انواع بہت ترقی یافتہ ہیں۔ مثلاً بہت سے طفیلئے جیسے Culicidae مچھرجن کی ارتقائی تاریخ غیر واضح اور بالکل مبہم ہے۔‘‘9
سائنسدانوں کے نزدیک اس ابہام کی وجہ متحجّرات (fossils) کا ناکافی ریکارڈ ہے۔ لیکن یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ڈارون کے نقشِ قدم پر چلتے اور وہ ایسا کر بھی سکتے تھے۔ ڈارون نے اپنے نظریۂ ارتقا کو پیش کرتے وقت جزائر گیلا پاگوس (Galapagos) میں پائے جانے والے زندہ فنچز(Finches) کا مطالعہ کیا نہ کہ ان کے متحجّرات کا۔ اسی طرح متحجّراتکی مکمل اور تفصیلی تاریخ کی عدم موجودگی میںبھی چاہئے تو یہ تھا کہ مچھر کے ارتقائی عمل کا تجزیہ کیا جاتا۔ دوسرے حشرات کے مقابل پر موجودہ دور کے مچھر کی خصوصیات یا ایک ہی نوع کے نر مچھر کی نسبت مادہ مچھر کا اس غرض سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ مچھر موجودہ شکل اختیار کرنے سے پہلے کن کن مراحل سے گزر چکا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم مچھر کی منفرد خصوصیات کا تجزیہ کریں آئیے مچھر کے ارتقاکے بارہ میں سائنسدانوں کی طرف سے حال ہی میں پیش کردہ امکانی منظر کا جائزہ لیں۔ ان کے خیال میں مچھر کے آباؤ اجداد فقاریہ جانوروں (Vertebrates) کا خون چوسنے کے دور سے پہلے نرم جلد والے حشرات پر پلتے تھے۔ بعد ازاں اپنی ارتقائی تاریخ کے کسی مرحلہ پر بالغ مچھر فقاریہ جانوروں کے خون پر پلنے لگے۔10 اس نظریہ کے مطابق ان کے آباؤ اجداد کے منہ کے مختلف حصوںمیںپہلے ہی ایسی تبدیلیاں واقع ہو چکی تھیں جو موجودہ حتمی شکل میں پائے جانے والے مچھر کے منہ کے مختلف حصوں سے مشابہ تھیں۔ تا ہم یہ معلوم شدہ حقیقت ہے کہ یہ حشرات لاروا کے مرحلہ پر (جو تتلی کے دور حیات کے caterpillarکے مرحلہ کے مشابہ ہے) فقاریہ جانوروں پر کسی قسم کا انحصار نہیں کرتے حالانکہ اس سے ان کی خون کی ضروریات بآسانی پوری ہو سکتی تھیں۔ مزید برآں اگر ڈائنوسار ہی درحقیقت مچھر کے اوّلین میزبان تھے تو مچھر کا اچانک نرم جلد والے حشرات سے خوراک حاصل کرنے کی بجائے ڈائنوسا رکی سخت جلد میں سوراخ کر کے خوراک حاصل کرنے کا عمل اور بھی نا قابل فہم دکھائی دیتا ہے۔ سائنسدان خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس ارتقائی عمل کے دوران ایسی تبدیلیوں کی ضرورت تھی جو بالآخر حشرات کی بجائے خون سے خوراک حاصل کرنے کی انقلابی خاصیت پر منتج ہوئیں۔ 11 اس نظریہ کی تائید میں ان کی طرف سے جو وضاحت پیش کی جاتی ہے وہ محض اس قیاس آرائی پر مبنی ہے کہ مچھروں کی کسی نئی نسل نے حادثاتی طور پر اچانک ان نئے میزبانوں سے خوراک حاصل کرنا شروع کر دی جوپوشیدہ مرطوب گوشوں اور بلوں میں مشکل حالات میں اپنی گزراوقات کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا جائے گا خون چوسنے کے عمل کیلئے مچھر میں بہت سی مخلوط قسم کی خاص صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کا باہم ایک دوسرے پر اتنا انحصار ہوتا ہے کہ یہ تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ مچھروں کی خوراک حاصل کرنے کی صلاحیت میں حادثاتی طور پراچانک تبدیلی رونما ہو گئی ہو۔
یاد رہے کہ فقاریہ جانوروں کے خون کو بطور خوراک حاصل کرنے کے لئے مادہ مچھر کی اندرونی ساخت اور شکل و صورت میں تین بنیادی پہلوؤں کے لحاظ سے ارتقاضروری تھا۔
’’ ......مثلا ً اس کے منہ کے حصوں کی اس طرح کی بناوٹ کہ وہ جلد میں سوراخ کر سکیں اس کی عضویاتی تبدیلیاں یعنی خون ہضم کرنے والے proteolyticیعنی انحلالی خامرے پیدا کرنا۔ مزید برآں اپنے بنیادی طرز عمل میں تبدیلیاں کرنا یعنی خون رکھنے اور خون نہ رکھنے والے جانوروں میں تمیز کرنا،‘‘12
یہ سار اعمل وسیع سائنسی علم اور تکنیکی مہارت کا محتاج ہے۔
اپنے میزبان کو تلاش کر کے سیدھا اسے نشانہ بنانے کے جبلی نظام کے علاوہ مادہ مچھر کی خون چوسنے کی صلاحیت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اعلیٰ درجہ کے متعددحساس آلات سے لیس ہوتی جن میں سے ایک ڈنک(proboscis) بھی ہے جو اپنی ذات میں سات عجائبات عالم سے بھی بڑاعجوبہ ہے۔ یہ قدرت کی صناعی کا شاہکار ہے۔ مچھر کے نظام انہضام کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ نظام کسی ایسی اندھی قوت کی پیداوار نہیں ہے جس نے ارتقائے حیات کی تشکیل کی ہو۔ مچھر کے ڈنک کا سرسری مطالعہ بھی اس شبہ کے ازالہ کیلئے کافی ہے کہ یہ انتخاب طبعی کے نتیجہ میں دس لاکھ سال یا اس سے بھی زائد عرصہ میں تخلیق ہوا ہو گا۔ ایک بالغ مادہ مچھر کا ڈنک جو جسم میں سوراخ کرنے اور خون چوسنے کا آلہ ہے چھ لمبوترے حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے اوپر ایک لچکدار خول بھی موجود ہوتا ہے۔
یہ چھ حصے دندانہ دار آلات (mandibles) پر مشتمل ہوتے ہیں جو میزبان کی جلد کو چھیدنے کے کام آتے ہیں۔ ڈنک کے اندر بند مینڈیبل کے یہ بلیڈ نما سرے اس وقت باہر نکلتے ہیں جب مچھر کو اپنی خوراک کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف اسی صورت میں ہی یہ بلیڈ بیرونی ٹیوب کے ذریعہ باہر نکل کر جلد میں تیزی سے سوراخ کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ لیبرم ایپی فیرنکس(Labrum epipharynx) ہے جسے خوراک کی نالی کہا جاتا ہے اور کاٹنے کے عمل کے دوران یہ ایک مکمل نالی بن جاتی ہے اور خون اس کے ذریعہ اندر کھینچا جاتا ہے۔ جب بھی مچھر کاٹتا ہے تو اس کا لعاب دہن (Saliva) ہائپوفیرنکس(Hypopharynx) کے ذریعہ اس زخم میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔
اس کے اندر ایک پمپ بھی ہوتا ہے جو خون چوس کر اسے معدہ تک پہنچانے نیز پودوں سے حاصل شدہ رس، غذا کی نالی تک الگ الگ پہنچانے کا کام کرتا ہے۔
ماہرین حیاتیات کی رائے میں کارڈیا(Cardia) جو غذا کی درمیانی نالی کا اگلا موٹا سرا ہوتا ہے، کے مخصوص عمل کے ذریعہ خون براہ راست غذا کی درمیانی نالی میں پہنچتا ہے۔ نباتاتی رس وغیرہ پر مشتمل باقی ماندہ خوراک ڈائیورٹیکلا(Diverticulla) میں پہنچ کر کچھ دیر وہیں پڑی رہتی ہے۔
ڈنک کے اندر پائے جانے والے لعاب کے منفرد غدود ایک ایسا عجوبہ ہیں جن کی نظیر سارے عالم حیوانات میں نہیں ملتی۔ اگر یہ غدود نہ ہوتے تو مچھر کے خون چوسنے کا سارا عمل اکارت چلا جاتا۔ ان غدودوں کے تیار کردہ لعاب میں ایک نایاب قسم کا کیمیائی عنصر پایا جاتا ہے جو خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ مثلاً جب کوئی شریان پھٹتی ہے تو خون میں پائے جانے والے پلیٹلیٹس(Platelets)چند ہی لمحوں میں وہاں پہنچ کر خون کو جمانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں تاکہ رستا ہوا خون بند کیا جا سکے۔ خون کو بطور خوراک استعمال کرنے کے عمل کو ممکن بنانے کیلئے مادہ مچھر کے لعاب میں apyrase نامی ایک خامرہ پایا جاتا ہے جو حیوانی بافتوں میں کمیاب ہے۔ لیکن مچھر کے لعاب پیدا کرنے والے غدودوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی عنصر خون میں موجود پلیٹلیٹس کے عمل انجماد کیلئے بطور تریاق کے ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر حیران کن امر یہ ہے کہ مچھر کا نظام انہضام اور دوران خون اس نہایت خطرناک خامرہ سے مکمل طور پر محفوظ رہتا ہے۔ یہ صرف وہیں استعمال ہوتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ڈنک مارنے والی جگہ پر۔
تا ہم یہ خامرہ لعاب دہن میں موجود ہوتا ہے جس سے مچھر بڑی حد تک خشک پودوں کے رس کو تحلیل کر کے چوسنے کے قابل بناتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس عمل کو آسان بنانے کیلئے مچھر کے منہ سے دھار کی شکل میں لعاب مسلسل بہتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود لعاب میںپایا جانے والا apyraseخامرہ استعمال نہیں ہوتا کیونکہ رس میں خون نہیں پایا جاتا۔ مچھر یہ غیراستعمال شدہ خامرہ بآسانی ہضم کر لیتا ہے اور اس کے دوران خون کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ اس سے ہر شخص یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ یہ تخلیق محض اتفاقات کا ایسا کھیل نہیں جس کا دارومدار انتخاب طبعی پر ہو بلکہ یہ تخلیق بالارادہ منصوبہ کے تحت ہوتی ہے۔ عالم حیوانات میں مچھر کے تمام تر منفی کردار کا یہی سبب ہے۔ اگر اپنے میزبان کے خون میں لعاب کے ذریعہ apyraseخامرہ کو شامل کرنا مادہ مچھر کیلئے طبعاً لازم نہ رکھا جاتا تو دنیا بھر کے مختلف قسم کے جانوروں میں بیماری پھیلانے کا وسیع منفی کردار کسی طور بھی ممکن نہ تھا۔ مچھر کی تمام تر جسمانی ساخت اسی مقصد کے حصول کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔
اب تک سائنسدانوں کے علم میں آنے والی وائرس کی تقریباً پانچ سو اقسام میں سے آدھی مچھروں میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے سو کے قریب تو صرف انسانوں میں بیماری پھیلانے کا باعث ہیں۔ بعض مچھرجانوروں کی دیگر انواع کو اپنا میزبان بناتے ہیں تا ہم ان میں بھی ایسے وائرس موجود ہوتے ہیںجو انسانوں میں بیماری پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً کچھ وائرس ان مچھروں کے ذریعہ جو انسان اور بندر دونوں سے خوراک حاصل کرتے ہیں، بندر سے انسان یا انسان سے بندر میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مچھر اپنے اندر ایک ہی قسم کے وائرس رکھتے ہوں بلکہ یہ بیک وقت مختلف اقسام کے وائرس کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ مچھر ایک خاص ماحول میں وائرس کو منتقل کرنے میں بہت فعّال ہوں جبکہ دوسرے ماحول میں انتہائی سست ثابت ہوں۔
مچھر کے ذریعہ عالمگیر اور علاقائی سطح پر پھیلنے والی بیماریوں میں ملیریا سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور بیماریوں میں فلیرسس(Filariasis) ، زرد بخار، ڈینگیوفیور(لال بخار) اور این سیفا لائٹس(Encephalitis)وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ دیگر جانوروں کے مچھر نے صرف انسان کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ بہت ہولناک ہے۔ ضروری نہیں کہ ملیریا براہ راست موت کا باعث بنے بلکہ یہ مریض کے عضویاتی نظام کو بالکل درہم برہم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی خطرناک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
ملیریا اگرچہ دنیا میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن اسے ہمیشہ ان اموات کا ذمہ دار نہیں سمجھا جاتا۔ ملیریا کے باعث واقع ہونے والی بہت سی اموات کا تیسری دنیا کے ممالک میں یاتو کہیں اندراج ہی نہیں ہوتا یا ان اموات کا سبب ملیریا کو خیال نہیں کیا جاتا۔ ملیریا کے اکثر مریض ملیریا والے علاقوں میں اس بیماری کے اثرات کے باعث تپِ دق یا نمونیہ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی بیماریا ں ایسی ہیں جن کا درحقیقت ملیریا سے گہرا تعلق ہے کیونکہ ملیریا مریض کے اعضائے رئیسہ کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ متعدد بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
فلیرسس(Filariasis) پھیلانے والے کیڑے کی دو انواع بڑی حد تک مچھر کے ذریعہ منتقل ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے پھیلنے والی طویل انفیکشن انسانوں اور پالتو جانوروں میں فیل پا جیسی بیماری (Elephantiasis)کا سبب ہو سکتی ہے۔
زرد بخار جو مچھر کے ذریعہ منتقل ہونے والی ایک اور بیماری ہے شہری اور جنگلی دونوں اقسام پر مشتمل ہے۔ مؤخر الذکر قسم مچھر کے ذریعہ جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں میں منتقل ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ زرد بخارکی دہشت ناکیوں سے بھری پڑی ہے۔ زرد بخارکی وجہ سے ہی مغربی افریقہ کو گوروں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔
مچھرکی وجہ سے عالمی سطح پر پہنچنے والا نقصان انسانوں یا جانوروں کے جانی ضیاع تک ہی محدود نہیں بلکہ مچھر نے انسانی معیشت پر بھی کئی لحاظ سے منفی اثرات مرتّب کئے ہیں۔ مثلاً دفاتر، فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرنے والوں کے اوقات کار میں شدید کمی یا ان زمینوں کی قیمتوںمیں کمی جو مچھر والے علاقوں کے قرب و جوار میں واقع ہوں۔ علاوہ ازیں بعض رہائشی علاقوں پر طرح طرح کی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تاریخ بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس دوران بہت سے معرکے اس ادنیٰ اور بظاہر حقیر کیڑے کی وجہ سے جیتے یا ہارے گئے۔
اب ہم اس عظیم الشان مگر عجیب و غریب نظام کائنات میں انتخاب طبعی کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین حیاتیات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ارتقائے حیات کے ذمہ دار عوامل کے متعلق اپنے نظریہ پر نظر ثانی کریں۔ اگر وہ صرف ایک خامرہ apyraseپر ہی غور کریں تو یہ انکشاف ان کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہو گا کہ انتخاب طبعی کے کس نظام یا تخلیقی قوت نے مادہ مچھر کے لعاب دہن میں تو خامرہ پیدا کرنے کا یہ انتظام کر دیا جبکہ نر مچھر اس کو پیدا کرنے سے بکلی محروم رہا؟ ان سے مکرر گزارش ہے کہ صرف ایک معقول وجہ ہی پیش کریں کہ انتخاب طبعی نے مادہ مچھر کو پودوں سے حاصل کردہ روز مرہ خوراک کے علاوہ خون کو بطور خوراک استعمال کرنے پر کیوں کر اور کیسے مجبور کیا۔ نیز کیا وجہ ہے کہ صرف مادہ مچھر ہی اپنے میزبان کا خون چوستی ہے جبکہ نر اور مادہ دونوں اپنی بقا کیلئے پودوں کے رس اور شکر پر گزارہ کرتے ہیں؟ کیا اس سارے عمل کا مقصد یہی نہیں کہ مادہ مچھر کو انڈوں کی تیاری اور ان کی خوراک کیلئے اپنے میزبان کے خون میں پائی جانے والی لحمیات کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی نر مچھر کو قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ انتخاب طبعی مادہ مچھر کو ہی یہ بات کیسے سکھا سکتا تھا کہ ان کے تولیدی اعضا کیلئے لحمیات ضروری ہیں؟ اس لئے انہیں خون چوسنے کیلئے ایک نہایت پیچیدہ نظام تشکیل دینا ہو گا۔ مادہ مچھر میں خون سے لحمیات حاصل کرنے کی جبلت پیدا ہونے سے پہلے مچھر اتنا لمبا عرصہ آخر کیونکر زندہ رہے؟ نیز مادہ مچھر کو اپنی جسمانی ساخت میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں لانے اور اپنی بقا کے نئے انداز اختیار کرنے کیلئے Apyraseجیسے حیرت انگیز خامرہ کی تیاری میں کتناعرصہ لگا حالانکہ وہ اس خامرہ کے بغیر لکھوکھہا سال سے زندہ چلی آ رہی تھی؟
اس سوال کا صرف ایک ہی معقول جواب ہے کہ مچھر کی تخلیق اتفاقی طور پر انتخاب طبعی کا نتیجہ نہیں ہو سکتی بلکہ اسے خاص منصوبہ کے تحت ارادۃً تشکیل دیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ نظامِحیات میںمچھر کے منفی لیکن انتہائی اہم کردار کو اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ اس کی جبلت میں جانوروں کے خون کی طرف طبعی میلان رکھ دیا گیا ہے۔ مادہ مچھر کی خون چوسنے کی صلاحیت واضح طور پر عمل ارتقامیں پائی جانے والی مقصدیت پر روشنی ڈالتی ہے۔
ماہرین ارتقا کے خیال میں انتخاب طبعی کے فیصلے بہرحال درست ہو اکرتے ہیں اور صرف وہی باقی رہتا ہے جو حیات کیلئے مفید ہو۔ مچھر جو زندگی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیا واقعی انتخابِطبعی کی پیداوار ہے؟
اس کے برعکس قرآن کریم کے مطابق مچھر کے ذریعہ زندگی کو جو خطرات در پیش ہیں ان کی ایک معیّن اور وسیع غرض و غایت ہے۔
اس منصوبہ کی ماہرانہ تکمیل اور اس کی لطیف صنعت اورکاریگری پر گفتگو ہو چکی ہے۔ اب ہم قارئین کویہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر قرآنی آیت بجائے خود ایک علمی اور ادبی معجزہ ہے بالخصوص آیت کے الفاظ فما فوقھا (البقرۃ: 27:2)توجہ طلب ہیں۔ اگرچہ آیت کے اس حصہ کا یہ ترجمہ بھی درست ہے کہ ’’مچھر سے بھی بڑھ کر اسی طرح کے جانداروں کی تخلیق‘‘۔ لیکن ’’فوق‘‘ کے عام لغوی معنی جس کی طرف گزشتہ مترجمین کی توجہ ہی نہیںگئی یہ ہیں ’’اور یہ (مچھر) جو چیز اٹھائے ہوئے ہے‘‘۔ جب قرآن کریم زمین اور جو کچھ یہ اٹھائے ہوئے ہے، کا ذکر کرتا ہے تو وہاں بھی ’’فوق‘‘ کا لفظ ہی استعمال فرماتا ہے۔ چنانچہ عربی محاورہ ’وما فوق الارض‘ کے معنی یہ ہوںگے: ’اور جوکچھ زمین پر موجود ہے‘۔ اس بیان کی روشنی میں زیر بحث آیت کا لغوی ترجمہ یہ ہو گا: ’’اللہ ہرگز نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اس کی بھی جو اس کے اوپر ہے یا جو کچھ یہ اٹھائے ہوئے ہے۔‘‘
اب ہم بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ مفسرین نے مندرجہ بالا لغوی معنی کیوں بیان نہیں کئے۔ دراصل وہ اس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ مچھر کے اوپر انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے وائرس موجود ہیں۔
رہا یہ سوال کہ انتہائی اہمیت کی حامل اور بیماری پھیلانے والی اس مخلوق کی تخلیق پر اللہ تعالیٰ کیوں خفت محسوس نہیں کرتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مچھر کی تخلیق میں ایک اہم مقصدمضمر تھا یعنی حیات کے وسیع منصوبہ کی مختلف جہات میں توازن کا پیدا کرنا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس اڑنے والی انوکھی مشین کی تخلیق اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دراصل اس کا خالق ہی کامل حمد کا سزاوار ہے۔ میرے نزدیک مچھر نے زندگی کے دفاعی نظام کو فروغ دینے میںبھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس نوعیت کی ایک مثال sickle cell anaemiaکی بیماری سے تعلق رکھتی ہے جو گیمبیا کے باشندوں میں عام پائی جاتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریضوں میں ملیریا کی مہلک اقسام کے خلاف قوت مدافعت پید ا ہو جاتی ہے۔ تا ہم یہ بات انہونی نہیں کہ مچھر کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں سے حاصل ہونے والے بہت سے نا معلوم فوائد میں سے دفاعی نظام کا ارتقا ایک اہم پہلو بھی ہے۔ خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر قرآن کریم اس بات کا کھلا اظہار کرتا ہے کہ زندگی کو قائم رکھنے اور موت کی طرف لے جانے والے عناصر دونوں تخلیق کے منصوبہ کا اٹوٹ انگ ہیں۔
دوسری حیرت انگیز بات جس کا ذکر ضروری ہے یہ ہے کہ مچھر اپنے اندر سینکڑوں بیماریوں کے جراثیم رکھنے کے باوجود خود کبھی بیمار نہیں پڑتا۔ کبھی کسی ماہر حیاتیات نے مچھر کو ملیریا سے کپکپاتے ہوئے نہیں دیکھا، نہ ہی کبھی کسی نے مچھر کو کسی ایسی بیماری میں مبتلا دیکھا ہے جسے یہ اپنے اندر یا اپنے پروں اور پاؤں پر موجود جراثیم کی وجہ سے آگے پھیلاتا ہے۔ اس کے اوپر پائے جانے والے فیل پا کے وائرس نے کبھی اس کے ڈنک (probascis)پر حملہ نہیں کیا جس سے وہ ہاتھی کے بچہ کی سونڈ جیسی شکل اختیار کر لے۔
مچھر کی تخلیق کے سلسلہ میں اس قدر سائنسی علم اور پیچیدہ تکنیک درکار ہے کہ انسان ابھی تک اس کا تنہا ڈنک تک تخلیق نہیںکر سکا۔ مچھر آج کل کے کسی بھی مشہور اور تیز فہم جینیاتی انجینئر کے کان میں بھنبھنا کر اسے مقابلہ کیلئے للکار سکتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ آگے بڑھ کر اسے قابو میں لے لے یا اسی کی طرح کا ایک اور مچھر بنا کر دکھائے۔ مگر افسوس کہ دنیا کے تمام مچھر اس دہریہ کو مل کر بھی کاٹیں تب بھی اسے اس کے ملحدانہ تصور سے باہر نہیں نکال سکتے۔ اس لئے انہیں اڑنے اور اپنے اپنے راگ الاپنے دیں کیونکہ نہ تو بہرے ان کی بھنبھناہٹ سن سکتے ہیں اور نہ ہی اندھے انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
خلاصۂ بیان کے طور ایک بار پھر ہم واضح کرتے چلیں کہ جانوروں کی تمام انواع کی خصوصیات اور خدوخال خلیوں کی جینیاتی علامات میں موجود مخفی پیغام کو نہایت مربوط اور معین طریق پر ظاہر کرتے ہیں۔ خلیوں میں موجود لحمیات ان کیلئے بطور محافظ فرشتوں کے ہیں۔ مخصوص کردار کے حامل دھاگے (strands) جن سے تمام جانداروں کے RNA - DNAجسمانی اور تولیدی خلیات بنتے ہیںبیرونی ماحول اور اس کے اثرات سے بکلی آزاد ہوتے ہیں۔ بے شعور ماحول کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں جو زندگی کے جینیاتی محافظوں پر اپنا حکم چلا سکے۔ نہ تو زندگی کے جینیاتی محافظ اس قابل ہیں کہ وہ ازخود اپنی تشکیل کر سکیں اورنہ ہی وہ اپنے اندر پائے جانے والے امینو ایسڈز کی اس معین ترتیب کو قائم رکھ سکتے ہیںجن میں معمولی سی گڑ بڑ بھی زندگی کی تمام بنیادی اکائیوں اور ان کی تمام تر غرض و غایت اور تخلیقی صلاحیت کو برباد کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد سائنسدانوں کی رائے میں زندگی کی بنیادی اکائیوں کی تخلیق محض اتفاق کے نتیجہ میں کھرب ہا سال میں بھی ممکن نہیں تھی۔ اس کے باوجود زندگی کی بنیادی اکائیوں کی تخلیق بہرحال کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ ان کا اپنا ایک الگ جہان ہے جو موسمی اور ماحولیاتی اثرات سے بے نیاز ہے۔
اگر خداتعالیٰ کے وجود کو زندگی کی اس پیچیدہ سکیم سے نکال دیا جائے تو پھر اس کی بجائے کوئی دوسرا خالق ضرور تلاش کرنا پڑے گا۔ اگر صرف بے جان کائنات کے راز کو ہی لیا جائے تو اس میں زمین جیسے سیارہ پر پائے جانے والے زندہ عجائبات اس دست ِ قدرت کیلئے بزبان حال پکار اٹھیں گے جس نے انہیں تشکیل دیا اور ان کے وجود میں ایسا پیچیدہ نظام جاری فرمایا۔ اگر ہستیٔباریتعالیٰ کو درمیان سے نکال دیا جائے تو ان کی فریادیں ہمیشہ محض ایک گنبدبے در سے ٹکراتی رہیں گی۔ ایک بات بہرحال یقینی ہے کہ زندگی ازخود پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی موت حیات کی خالق ہے۔ انتخابِ طبعی میں نہ تو شعور ہے اور نہ ہی حیات کے آثار۔ اس کی حقیقت کشش ثقل جیسے مظہر سے زیادہ نہیں جو ایک چٹان کو گہری کھائی میں گرا سکتی ہے اس بات کا خیال کئے بغیر کہ وہ کسی ہرن پر جاکر گرے گی یا سیہہ(Procupine) پر۔
حوالہ جات
1. THEODOROU, R., TELFORD, C. (1996) Polar Bear & Grizzly Bear. Heinemann Publishers, Oxford.
2. HARPER, D. (1995) Polar Animals. Ladybird Books Ltd., Leicestershire.
3. O'TOOLE, C. (1986) The Encyclopaedia of Insects. George Allen & Unwin, London, p.134
4. BRISTOWE, W.S. (1958) The World of Spiders. Collins, London, pp.70-75
5. LANE, R.P., CROSSKEY, R.W. (1993) Medical Insects and Arachnids. Chapman & Hall, London, p.120
6. DOWNES, W.L., DANLEM, G.A. (1987) Key to the Evolution of Diptera:
Role of Homoptera. Environmental Entomology: 16:852-853
7. KLOWDEN, M.J. (1995) Blood, Sex and the Mosquito. Bioscience:
45:327
8. WAAGE, J.K. (November 1979) The Evolution of Insect/Vertebrate Associations. Biological Journal of the Linnean Society: 12:216
9. WAAGE, J.K. (November 1979) The Evolution of Insect/Vertebrate Associations. Biological Journal of the Linnean Society: 12:188
10. KLOWDEN, M.J. (1995) Blood, Sex and the Mosquito. Bioscience:45:326
11. WAAGE, J.K. (November 1979) The Evolution of Insect/Vertebrate Associations. Biological Journal of the Linnean Society: 12:195
12. KLOWDEN, M.J. (1995) Blood, Sex and the Mosquito. Bioscience: 45:327

شطرنج کی بازی یا اتفاقات کا کھیل
’’اے قسمت کا چوگان کھیلنے والے، چپ رہو، سیدھا چلتے رہو اور کچھ نہ کہو!
جس ہستی نے تمہیں اِس جہانِ تگ و دو میں بھیجا ہے وہی بہتر جانتا ہے، وہی بہتر جانتا ہے۔1
یہ حقیقت ہے نہ کہ مجاز، کہ ہم مہرے ہیں اور چرخِ گردوں شطرنج کی بازی کھیلنے والا۔
ہماری حیثیت بساطِ ہستی پر شطرنج کے مہروں کی سی ہے جو ایک ایک کر کے عدم کے صندوق میں بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘2
موت اور حیات کے اس ڈرامہ کا تصور کیجئے جو آغاز ارتقاسے آج تک کھیلا جا رہا ہے۔ پردہ کے اٹھنے پر آپ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا یہ ایک ایسی اندھی کائنات ہے جو اتفاقات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے یا اس سے بالکل مختلف کوئی اور منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے آتاہے؟ یہ خیال رہے کہ ڈرامہ تو ایک ہی ہے اور اس کے کردار بھی و ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ منظر کی تبدیلی کا تعلق تو صرف دیکھنے والی آنکھ سے ہے۔ اگر دیکھنے والے کی نظر تعصبات اور دہریت کے خیالات کی وجہ سے دھندلا گئی ہو تو بلا شبہ اسے یہی دکھائی دے گا کہ بیترتیبی، بد نظمی اور فساد کی کوکھ سے نہایت منضبط اور منظم نظام جنم لیتا ہے اور نسلاً بعد نسلٍ ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے. چنانچہ مکمل انتشار اور ابتری سے بلا استثناء ہر بار نظم و ضبط ہی پھوٹتا چلا آتا ہے۔ پس ارتقا کا یہ کھیل کسی منظم ذہن کے عمل دخل کے بغیر ہی ابتری اور انتشار سے تنظیم و ترتیب کی طرف رواں دواں ہے۔ تا ہم ترتیب نے ہر مرتبہ بیترتیبی سے جنم لیا۔ یہاں تک کہ ارتقا کا شاہکار انسان وجود میں آ گیا۔ کیا بے ترتیبی اور بد نظمی کا ماحصل ایساہی ہوتا ہے؟
اس کے برعکس اگر دیکھنے والا تعصب سے پا ک ہو کر اس سمت میں اپنی نظر دوڑائے جس طرف یہ نظام تخلیق رہنمائی کرتا ہے تو یہی کھیل اس کیلئے ایک نیا منظر پیش کرے گا۔ یعنی ارتقائے حیات کے اس سفر کے دوران ہر قدم پر ہونے والی پیچیدہ اور منظم تبدیلیوں کے پس پردہ اسے ایک بزرگ و برتر خالق کا ہاتھ دکھائی دے گا۔ اگر پہلے منظر کو جوئے کے کھیل سے تشبیہ دی جائے تو دوسرے منظر کو شطرنج کی بازی قرار دینا زیادہ مناسب ہو گا جہاں ہر پیادہ، بادشاہ، ملکہ، فیل اور رخ (rook) کی حرکات و سکنات کے پیچھے ایک عظیم الشان مدبرّ کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان پیچیدگیوں اور مشکلات کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ تسلیم کر لیاجائے کہ ایک قادر اور حکیم ہستی اس سارے کارخانہ کو چلا رہی ہے۔ گویا شطرنج کی بازی کھیلی جا رہی ہے جو تمام کرۂ ارض کیا خشکی اور کیا تری، کیا وادیاں اور کیا پہاڑ سب پر محیط ہے۔ الغرض یہ بساط اس قدر وسیع ہے کہ عدم سے وجود کے اس کھیل میں ان گنت اداکار اپنا اپنا کردار ادا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کا کام موت کے اس گہرے سکوت کو توڑنا ہے جو تمام کرۂ ارض پر ساڑھے چار ارب سال پہلے چھایا ہوا تھا۔
کیا یہ واقعی شطرنج کی بساط تھی جس میں یا تو ایک طرف محرک ازلی جو ترتیب، دانائی، منصوبہ بندی، دور بینی اور اقتدار کا نمائندہ تھا یا یہ محض فساد، ابتری یا جوئے کا ایسا کھیل تھا جس کے دونوں طرف فساد ہی فساد تھایعنی اس کا رزارِ حیات و ممات میں فساد اورابتری کا دور دورہ تھا اور حدنگاہ تک بدنظمی اور فتور پھیلا ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر اس کھیل کے نہ تو کوئی قواعد و ضوابط تھے اور نہ ہی کوئی مقصد۔ اس کے باوجود شعور سے عاری کائنات سے بغیر سوچے سمجھے یہ توقع رکھی گئی کہ افراتفری اور فساد میں سے کوئی بھی نہیں جیتے گا۔ یا تو یہ دونوں باہمی کشمکش کا شکار ہو کر فنا ہو جائیں گے یا پھر انتشار، نا امیدی اور مایوسی کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کشی کر لیں گے۔ ہاراکری کی رسم کا کیا ہی عظیم مظاہرہ ہے! افرا تفری اور فساد کی باہمی کشمکش کے نتیجہ میں کسی مربوط نظام کے وجود میں آنے کے حامیوں کیلئے اس کا واحد حل شاید ہاراکری میںہی موجود ہے۔ انتشار کی دیوی کے پجاری اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں فقط جدید حسابی خرافات کے ذریعہ اسے خوب خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر فساد کا فساد کے ذریعہ ہی خاتمہ ہو جائے تو یا تو کوئی مربوط نظام معرض وجود میں آئے گا یا پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ لہٰذا سرے سے کوئی مخمصہ کوئی معمہ یا کوئی عقدہ باقی ہی نہیں رہ جاتا۔ خس کم جہاں پاک!
اب تک اٹھائے جانے والے مباحث سے ہم نے بعض ناگزیر منطقی نتائج اخذ کئے ہیں۔ لیکن بالآخر تان یہیں پر آن کر ٹوٹتی ہے کہ ممتاز سیکولر محققین کے بیان کے مقابلہ میں یہ بیان ایک ایسے شخص کا ہے جو براہ راست اس شعبہ سے تعلق نہیں رکھتا۔ چنانچہ آخر میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم اپنے اخذ کردہ نتائج کی تائید میں بعض ماہر سائنسدانوں کے حوالے پیش کرتے ہیں جنہیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مسئلۂ تخلیق کا واحد حل ایک خالق کُل ہستی کے وجود کے اقرار میں ہے۔ اسی نے تخلیق کے ہر مرحلہ پر نہ صرف مختلف امکانات کو پیدا کیا بلکہ ارتقا کی ہر نئی منزل پر موزوں ترین راستہ کا انتخاب بھی خود ہی کیا۔ ارتقا کے اس سفر میں ہر مرحلہ پر اسی کی منصوبہ بندی ایک معین مقصد کے تحت کارفرما ہے۔
فرینک ایلن (Frank Allen)جو مینیٹوبا (Manitoba) یونیورسٹی کینیڈا میں حیاتیاتی طبیعیات کے پروفیسر ہیں اور کینیڈا کی رائل سوسائٹی کی طرف سے ٹوری طلائی تمغہ بھی حاصل کر چکے ہیں،لکھتے ہیں:
’’کرۂ ارض پر زندگی کیلئے ساز گار ماحول بے شمار عوامل کا متقاضی تھا جنہیں محض اتفاق کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘3
پروفیسر ایلن کا بیان بڑاواضح ہے یعنی ارتقا کے اس طویل سفر میں ہمیں جو منصوبہ بندی، ترتیب اور ہم آہنگی نظرآتی ہے اسے کسی صورت میںبھی اتفاق سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
لحمیاتی خلیات کی پیچیدگی اور ارتقائے حیات کی تعمیر و ترقی میں ان کے اہم کردار پر بحث کرتے ہوئے پروفیسر ایلن اس خیال کورد کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتفاقاً وجود میں آ سکتا ہے۔
چونکہ صرف ایک لحمیاتی سالمہ کے اتفاقاً بننے کیلئے248 10سال کا عرصہ درکارہے۔ اس لئے جہاں تک ارتقا کی معلوم مدت کا تعلق ہے اس میںمندرجہ بالا اعداد و شمار کا سمونا قطعاً ناممکن ہے۔ یاد رہے کہ تخلیق کے تمام حیرت انگیز مراحل صرف چار ارب سال میں طے ہوئے ہیں۔
سائنسدان لیبارٹری میں اپنے تجربات مسلسل نگرانی میں سر انجام دیتے ہیں۔ ایک خفیف سی غلطی بھی تجربہ کو ناکام کر سکتی ہے جس کی وجہ سے سارا تجربہ دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے تمام تجربہ کی نگرانی نہایت بیدارمغزی سے کرنا پڑتی ہے کہ کہیں اتفاقی طور پر بھی کوئی غلطی سرزد نہ ہو جائے۔
ارتقا کے اس سفر کے دوران مختلف مراحل میں موجود ماحول کو کسی صورت بھی ساز گار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ جان ہارگن(John Horgan) کے مطابق:
’’زندگی کا وجود اور اس کا ارتقا بعض اوقات تو نہایت نامساعدحالات میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہا ہے۔‘‘4
ارتقا پذیر انواع میں کسی نئی خصوصیت کے پیدا ہونے اور قائم رہنے کیلئے صرف مسلسل اور طویل مدت پر مبنی سازگار ماحول کا ہونا ہی کافی نہیں کیونکہ وقت خود خالق نہیں۔ بلکہ اس کی مثال ایک وسیع و عریض کڑاہے کی سی ہے جس میں تعمیری یا تخریبی تعامل جاری ہے۔ مثلاً اگر ہم ایک کڑاہے میں مختلف عناصر یونہی بغیر کسی منصوبہ بندی اور ترتیب کے ڈال دیں تو وقت ازخود اس مجموعہ کو مفید مصنوعات میں نہیں بدل سکتا۔
سائنس دان جو فطرت (Nature) میں پائے جانے والے تخلیقی عوامل کو تجربہ گاہوں میں مصنوعی طور پر ہو بہو پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ان تجربات کو اپنی مکمل نگرانی اور رہنمائی میں سرانجام دیتے ہیں۔ تا ہم بڑے بڑے سائنسدانوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی کے باوجود بعض اوقات ایسے تجربات پر ان کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ تجربہ گاہ کو ذرا وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر تو دیکھیں پھر پچاس ساٹھ سال بعد جائزہ لیں کہ امتداد زمانہ سے اس میں کیسی بے ترتیبی اور بد نظمی پھیل گئی ہے۔ اگر بر وقت سوچے سمجھے اقدامات نہ کئے جائیں تو وقت ہر ترتیب اور تنظیم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ولیم کرانٹس(William Krantz)، کیون جے گلیسن(Kevin J. Gleason) اور نیلسن کین(Nelson Kaine) اپنے مضمون " Patterned Ground"میں لکھتے ہیں۔
’’فطرت میں پائی جانے والی ترتیب و تنظیم دراصل قاعدہ نہیں بلکہ استثنا ہے۔ نظام شمسی کا باہمی مربوط سلسلہ، جاندار اشیاء کی پیچیدہ تشکیل اورقلموں (crystals) کی منظم ترتیب سب عارضی اور ناپائیدار نقوش ہیں جو بالآخر فساد اور بد نظمی کا شکار ہو جائیں گے۔ کائنات کی غالب حقیقت اس کی ہر آن زائل ہوتی ہوئی توانائی ہے۔ اس کے باوجود فطرت میںترتیب و تنظیم کا پایا جانا حیرت انگیز ہے۔‘‘5
علاوہ ازیں دیگر بہت سے سائنس دان تخلیق کے آغاز اور حیات کے تعلق میں وقت اور اتفاق کے کردار پر نظر ڈالنے کے بعد اس ناگزیر نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس کائنات کی تشکیل، منصوبہ بندی، ترتیب اور تخلیقی عمل کو برقرار رکھنے کے لئے ایک حکیم و علیم، قادر مطلق اور حیّ و قیوم ہستی کا وجود لازمی ہے۔ ایسا وجود جس کے بغیر زندگی کی تخلیق اور ارتقا کا حسابی نقطۂ نظر سے تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہارگن (Horgan) اپنے مضمون 'In the Beginning' میں کرک (Crick)کے اس مشاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حیات کا آغاز تقریباً ایک معجزہ ہے۔ کیونکہ محض اس کی ابتداء ہی کے لئے بے شمار شرائط کا پورا کیا جانا ضروری تھا۔‘‘6
سوال یہ ہے کہ’’تقریباً‘‘معجزہ کیوں؟ درحقیقت یہ تو ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ ہارگن مزید لکھتے ہیں:-
’’بعض سائنس دان یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر بعض واقعات کو وقت کے مناسب پس منظر میں دیکھا جائے تو بظاہر ناممکن واقعات بھی ممکن نظر آنے لگتے ہیں۔ مثلاً کیمیاوی عناصر کے بے ترتیب ملاپ کے نتیجہ میں یک خلوی جانداروں کی ازخود تخلیق۔‘‘7
لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی کی پیدائش کیلئے اس قسم کے کتنے اتفاقات درکار ہوں گے۔ نامور برطانوی ماہر فلکیات فریڈ ہو ئیل (Fred Hoyle) اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ر قمطراز ہیں:
’’یہ امکان اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے اگر ہم یہ تصور کریں کہ ایک کباڑ خانہ میں طوفان کے نتیجہ میں اچانک ایک بوئنگ 747ہوائی جہاز تیار ہو جائے۔‘‘7
پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک ممتاز ماہر حیاتیات پروفیسر ایڈون کو نکلن(Edwin Conklin) اس بارہ میں لکھتے ہیں:
’’زندگی کا حادثاتی طور پر وجود میں آ جانا ایسا ہی ہے جیسے یہ تصور کیا جائے کہ کسی چھاپہ خانہ میں دھماکہ کے بعد ایک مکمل لغت تشکیل پا جائے۔‘‘8
ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ونچسٹر (Dr. Winchester)اعتراف کرتے ہیںکہ:۔
’’سائنس کے میدان میں سالہا سال کی تحقیق کے نتیجہ میں خداتعالیٰ پر میرا ایمان بجائے متزلزل ہونے کے اور بھی مضبوط اور پختہ ہو گیا ہے۔ سائنس کی ہر نئی دریافت اس بزرگ وبرتر ہستی کے جاہ و جلال اور قدرت کاملہ پر ازدیادایمان کا باعث ہوتی ہے۔‘‘9
اگر ارتقا کو اندھے اتّفاقات کا نتیجہ قرار دیا جائے تو اس کیلئے اتنا غیر معمولی طویل عرصہ درکار ہو گا کہ جس کے تصور سے بھی بڑے سے بڑے حسا ب دان کا ذہن چکرا جاتا ہے۔ اس طویل مدت کو نہ تو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی انسانی ذہن ان اعداد و شمار کی وسعت کا کماحقہ ادراک کر سکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے پروفیسر ایلن کے نزدیک لحمیات کی حادثاتی تخلیق کیلئے 10248سال کا عرصہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر صرف لحمیات بننے کیلئے اتنا عرصہ چاہئے تو ارتقا کے سارے سفر کیلئے تو اس سے بھی کہیں زیادہ عرصہ درکار ہوگا۔
اس حسابی تصورسے ناآشناقاری کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ "Big Bang"سے اب تک کائنات کی کل عمر 18تا 20ارب سال ہے۔ ابھی تک اتنابڑا عدد ایجاد نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکے گا جس کے ذریعہ پروفیسر ایلن کے پیش کردہ عظیم الشان اعداد و شمار بیان کئے جا سکیں۔ اس کے قریب ترین لفظ شاید ’’ابدیّت‘‘ کا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ تخلیق کائنات اور ارتقائے حیات کا یہ سفر کھرب ہا کھرب سال پہلے شروع ہوا تھا پھر بھی حسابی اعتبار سے ارتقائے حیات کا تخلیق انسانی پر منتج ہونا ناممکن ہے۔
اس کا ایک ہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب کے مصنف اور قاری دونوں نے ابھی جنم ہی نہیں لیا۔ بالفاظ دیگر نہ تو کبھی قلم وجود میں آئے گا اور نہ ہی اس کو پکڑنے والا ہاتھ۔ اسی طرح نہ ہی پڑھنے والی آنکھ پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی وہ دماغ جو اس کا ادراک حاصل کر سکے۔ کیونکہ اندھے خالق یعنی اتفاق نے ابھی ان کے متعلق سوچا بھی نہیں، تو پھر من و تو کا جھگڑا کیسا؟ آئیے ہم سب اس وقت تک خواب راحت کے مزے لوٹیں جب تک بے شعور اور اندھا اتفاق اس ارتقائی منصوبہ کی تکمیل نہ کر لے جس کا ابھی تک اسے خیال بھی نہیں آیا۔ وجہ یہ ہے کہ صحیح سمت میں ایک قدم اٹھانے کیلئے اتفاق کو کروڑوں قدم غلط سمت میں اٹھانا پڑیں گے۔ مگر افسوس ! اس وقت تک کائنات میں جاری عنطراپی کا عمل اندھے خالق یعنی اتفاق سمیت ہر چیز کو نیست و نابود کر چکا ہو گا اور اس آفاقی سکوتِ مرگ میں اتفاق اپنی موت آپ مر جائے گا۔ 10248 سال اتنی لمبی مدت ہے کہ اس سے بہت پہلے ہی عنطراپی کا عمل تمام موجودات کو فنا کر چکا ہوگا۔
ظاہر ہے کہ اس احمقانہ بات پر کوئی نہایت ضدی اور اڑیل شخص ہی یقین کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سمجھدار اور زیرک سائنسدان اس پر یقین کئے بیٹھے ہیں۔ ان کا حال اس مذہبی جنونی جیسا ہے جو روزمرہ کے معاملات میں تو ہوشمندی کا مظاہرہ کرتاہے مگر ایمان اور اعتقاد کے معاملہ میں فہم و فراست اور معقولیت کا لبادہ اتار کرخود کو تعصبات کے خول میںبند کر لیتا ہے۔ حیرت ہے کہ انسان جوش جنون میں کس طرح حقائق سے آنکھیں چرا لیتا ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ بیک وقت حقیقت اور افسانہ کی دو مختلف دنیاؤں میں بستا ہے اور ان افسانوی خیالات کی غلامی سے اسے صرف موت ہی نجات دے سکتی ہے۔
حوالہ جات
1. HERON-ALLEN, E. (1899) Edward Fitzgeralds Rubaiyat of `Omar Khayyam. H.S. Nicholas Ltd., London, p.104
2. HERON-ALLEN, E. (1899) Edward Fitzgeralds Rubaiyat of `Omar Khayyam. H.S. Nicholas Ltd., London, p.102
3. ALLEN, F. (1968). The Origin of The World - By Chance or Design? In: The Evidence of God in An Expanding Universe, by Monsma, J.C. Thomas Samuel Publishers, Bombay, p.20
4. HORGAN, J. (February, 1991) In the Beginning. Scientific American: p.121
5. KRANTZ, W.B., GLEASON, K.J., CAINE, N. (1988) Patterned Ground. Scientific American: p.68
6. HORGAN, J. (February, 1991) In the Beginning. Scientific American: p.125
7. HORGAN, J. (February, 1991) In the Beginning. Scientific American: p.118
8. KORNTELD, E.C. (1968) God - Alpha and Omega. In: The Evidence of God in An Expanding Universe, by Monsma, J.C. Thomas Samuel Publishers, Bombay, p.174
9. WINCHESTER, A.M. (1968) Science Undergirded my Faith. In: The Evidence of God in An Expanding Universe, by Monsma, J.C. Thomas Samuel Publishers, Bombay, p.165
کرۂ ارض پر زندگی کا مستقبل
کیا ارتقاکی آخری منزل انسان ہے یا اس کے بعد کوئی اور مخلوق ظاہر ہو گی؟ کیا اس امر کا امکان ہے کہ دور حاضر کے انسان سے ایسی نوع بشر جنم لے جو زیادہ ترقی یافتہ اور زائد حسیات کی مالک ہو نیز نئی جہات کا فہم و ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں میں ترقی کرنے کی استعداد بھی رکھتی ہو؟ مزید برآں کیا یہ ممکن ہے کہ یہ نئی نوع حیات ایک بالکل مختلف شکل و صورت اورنئے طرز زندگی کے ساتھ ظاہر ہو؟ ہمارے علم کے مطابق اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے سرے سے ان سوالات کو چھیڑا ہی نہیں۔
جہاںتک ماضی کے فلسفیوں اوردانشوروں کا تعلق ہے تو یہ امور ان کی ذہنی استعداد سے ماوریٰ تھے حتیٰ کہ جدید سائنس نے بھی اس مسئلہ کو مبہم سے انداز میں بیان کیا ہے نہ ہی ان امکانات کا جائزہ لینے کیلئے باقاعدہ علمی تحقیق کا کوئی معین طریق کار وضع کیا گیا ہے۔
یہ قرآن کریم ہی کی امتیازی شان ہے کہ وہ نہ صرف اس قسم کے سوالات اٹھاتا ہے بلکہ ان کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ نیز ایسے امکانات کے بارہ میںپیش گوئی بھی فرماتا ہے۔ البتہ حیات بعد الموت کا مسئلہ قدرے مختلف ہے جس پر تمام بڑے مذاہب نے روایتی انداز میں بحث کی ہے۔ تاہم کسی مذہب نے مفروضہ کے طور پر بھی قیامت سے پہلے یا بعد میں نوع انسانی کے کسی اور شکل وصورت میں ارتقا پذیر ہونے کا امکان پیش نہیں کیا۔
یہاں ہم قاری کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ دیگر الہامی کتب میں بھی ’’قیامت‘‘ کا ذکر پایا جاتا ہے لیکن قرآنی اصطلاح اپنے معانی اور اطلاق کے لحاظ سے اپنے اندربہت وسعت رکھتی ہے۔ قرآن کریم نے مستقبل کے کئی ایک عہدساز اور عظیم الشان انقلابات اور تغیرات کا پیشگوئی کے رنگ میں ذکر فرمایا ہے۔ ان سب کیلئے ’’قیامت‘‘ یا اس کے مترادف ’’ساعت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اگرچہ ان اصطلاحات کے معانی معروف لفظ ’’یوم الحساب‘‘ پر بھی دلالت کرتے ہیں جس سے مراد تمام بنی نوع انسان کا خاتمہ لیا جاتا ہے اور درحقیقت دیگر صحف مقدسہ میں بھی قیامت کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اگر چہ دیگر مذاہب کے پیروکار قیامت کی تشریح کرتے وقت کائنات کا خاتمہ مراد لیتے ہیں لیکن قرآن کریم یہ اصطلاح پورے طور پر ان معنوں میں استعمال نہیں کرتا۔ قرآن کریم کی رو سے زمین اس وسیع و عریض کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ کسی عظیم حادثہ کے نتیجہ میں کرۂارض سے زندگی کا خاتمہ تو ممکن ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پوری زمین ہی صفحۂہستی سے مٹ جائے یا یہ کہ کائنات کی سرے سے صف ہی لپیٹ دی جائے گی۔
اس بحث کو مزید آگے بڑھانے سے قبل ہم اس باب میں کرۂ ارض پر انسان کے مستقبل یا کائنات میں کسی اور جگہ پائی جانے والی حیات کا قرآنی آیات کی روشنی میں مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ قرآن کریم کی بعض آیات میں قیامت کے بعد اسی دنیا میں بعض واقعات کے رونما ہونے کا ذکر ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان ایک نئی ہیٔت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ پھر کچھ ایسی آیات ہیں جو قیامت کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کرتی ہیں جن کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ آیات واضح طور پر اسی زمین پر ایک ایسے مسلسل ارتقا کا منظر پیش کرتی ہیں جو انسان سے اعلیٰ و ارفع انواع حیات کی تخلیق پر منتج ہو گا۔ اس مؤخر الذکر تصور کو حیات بعد الموت کے تصور سے خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
اب ہم اخروی زندگی سے تعلق رکھنے والی ایسی آیات کا جائزہ لیتے ہیں جو ان آیات سے مختلف ہیں جن میں زمین پرمکمل طور پر ایک مختلف ہیٔت اور فہم و ادراک رکھنے والی زندگی کے امکان پر بحث کی گئی ہے۔ ایسے لوگ جو حیات بعد الموت کے بارہ میں شک میںمبتلا ہیں، انہیں متنبّہ کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ انہیں اخروی زندگی سے زیادہ اس کرۂ ارض پر اپنے وجود کے متعلق شک ہونا چاہئے۔ جس امر کا انہیں کامل یقین ہے وہ ان کا عدم سے وجود میں آنا ہے اور یہ کہ ان کی ہستی سے قبل نیستی تھی۔ پس جب انہیں عدم سے وجود میں لایا جا سکتا ہے تو پھر وہ اپنی دوبارہ تخلیق پر شک میں کیوں مبتلاہیں؟ کیونکہ عدم سے وجود میں آنے کی نسبت موجودہ حالت سے دوبارہ پیدا کئے جانے کا مفروضہ منطقی اعتبار سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ یہ ان بہت سی آیات کا خلاصہ ہے جو قرآن کریم میں حیات بعد الموت کے بارہ میں انسانی شکوک کے موضوع پر پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ تو مزید تحقیق کے لئے محض ایک تمہید ہے جسے بجائے خود حیات بعد الموت پر دلیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ اس بارہ میں شک و شبہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اسے شعور کا جو بلند مقام حاصل ہے وہ اس کیلئے تاریکی کی بجائے روشنی کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ انسان کو اپنے ماحول سے جو آگاہی اور اس سے ماوریٰ کا جو ادراک حاصل ہے اس کے نتیجہ میں اسے اپنے خالق کی ہستی کا قائل ہونا چاہئے جس سے وہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن اگر اس کا خدا کی ہستی پر ایمان ہے تو پھر آخرت کا انکار تحیرواستعجاب کے نتیجہ میں ہی ممکن ہے یعنی یہ سوچ کہ ایسی حیرت انگیز بات سچ کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کی پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے کہیں زیادہ حیران کن اور ناقابل یقین ہے۔
اب ہم استخراجی دلیل کا جائزہ لیتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر قرآن کریم یہ اعلان فرماتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کیلئے عالم آخرت کا براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں۔ انسان کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو موت سے آگے عدم محض کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ذرا انسان کی دانائی تو دیکھئے! وہ اس بات کو تو بلا حیل و حجت مان لیتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ہے لیکن جب اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا تو وہ اس خیال کو غیرمعقول اور لغو قرار دے کر رد کر دیتا ہے۔ اس موازنہ کو بنیاد بنا کر جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ اتنی قطعی اور مستند ہے کہ اس کے ادراک کیلئے کسی فلسفیانہ دماغ کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ حیات بعد الموت کی تردید کے خلاف انسان کے اپنے وجود سے بڑھ کر اور کوئی گواہ نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم منکرین کے نقطۂ نظر کو نہایت معین اور واضح انداز میں بیان کر کے اس کی تردید کرتا ہے۔ اس ضمن میں چند ایک آیات درج ذیل ہیں:

(الجاثیۃ 25:45)
ترجمہ : اور وہ کہتے ہیں یہ (زندگی) ہماری دنیا کی زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم مرتے بھی ہیں اور زندہ بھی ہوتے ہیں اور زمانہ کے سوا اور کوئی نہیں جو ہمیں ہلاک کرتا ہو۔ حالانکہ ان کو اس بارہ میں کچھ بھی علم نہیں۔ وہ تو محض خیالی باتیں کرتے ہیں۔

(المومنون38-36:23)
ترجمہ: کیا تمہیں یہ اس بات سے ڈراتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے تو تم نکالے جاؤ گے۔ دور کی بات ہے،بہت دور کی بات ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔ ہماری تو صرف یہی دنیا کی زندگی ہے۔ ہم مرتے بھی ہیں اور زندہ بھی رہتے ہیں اور ہم ہرگز اُ ٹھائے نہیں جائیں گے۔

(مریم (67:19
ترجمہ : اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟

(النحل 40-39:16)
ترجمہ: اور انہوں نے اللہ کی پکی قسمیں کھائی ہیں کہ اللہ اسے پھر کبھی نہیں اٹھائے گا جو مرجائے گا۔ کیوں نہیں! یہ ایسا وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس پر واجب ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تا کہ وہ ان پر وہ چیز خوب کھول دے جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے اور تا کہ وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا جان لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

(یٰس 79:36)
ترجمہ: اورہم پر باتیں بنانے لگا اور اپنی خلقت کو بھول گیا۔ کہنے لگا کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ وہ گل سڑ چکی ہوں گی؟

(قٓ 16:50)
ترجمہ: کیا ہم پہلی تخلیق سے تھک چکے ہیں؟ نہیں! بلکہ وہ تو تخلیق نو کے متعلق بھی شک میںمبتلا ہیں۔

(الواقعہ 49-48:56)
ترجمہ: اور کہا کرتے تھے کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے کیا ہم پھر بھی ضرور اٹھائے جائیں گے؟ کیا ہمارے پہلے آباؤ اجداد بھی؟

(الواقعہ (63-61:56
ترجمہ: ہم نے ہی تمہارے درمیان موت کو مقدر کیا ہے اور ہم باز نہیں رکھے جا سکتے کہ تمہاری صورتیں تبدیل کر دیں اور تمہیں ایسی صورت میں اٹھائیں کہ تم اسے نہیں جانتے۔ اور یقینا پہلی پیدائش کو تم جان چکے ہو۔ پھر کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
اس طرح قرآن کریم کے ان دلائل کی روشنی میں انسان کے لئے آخرت پر ایمان لانا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔

(لقمان29:31)
ترجمہ: تمہاری پیدائش اور تمہارا دوبارہ اٹھایا جانا محض نفس واحدہ(کی پیدائش اور اٹھائے جانے) کے مشابہ ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت سننے والا(اور) گہری نظر رکھنے والاہے۔
یہ وہ آیت ہے جو اس مضمون کو مزیدآگے بڑھاتی ہے اور حیات بعد الموت کی تفہیم کیلئے ایک نئی راہ کھولتی ہے۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا تعلق ہر فرد بشر کی پیدائش سے ہے۔ اگرنطفہ اور بیضہ کے ملاپ کی ابتدائی حالت پرغور کیا جائے اور پھر اس کے نتیجہ یعنی ایک صحیح سالم بچہ کی پیدائش کا تصور کیا جائے تو یہ سب بظاہر ناقابل یقین دکھائی دے گا۔ ذرا تصور کریں کہ معمولی سے بار آور بیضہ کا نو ماہ بعد ایک جیتے جاگتے اور بھاگتے دوڑتے بچہ کی شکل اختیار کر لینا کتنی عظیم تبدیلی ہے۔ ایسا شخص جس نے بار بار تبدیلی کے اس عمل کا مشاہدہ نہ کیا ہو وہ بار آور بیضہ کے صرف ابتدائی مراحل کو دیکھ کر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایسا ہی و قوع میں آیا ہو گا۔ حیات بعد الموت اسی حیرت انگیز عمل سے مشابہ ہے۔ یعنی عدم سے نہایت درجہ ترقی یافتہ اور منظم حیات کا وجود میں آنا۔
انسان کے ارتقا کا محض ایک نامیاتی اکائی سے موجودہ حالت تک کا سفرا پنی ذات میں ایک عظیم الشان انقلاب ہے۔ زندگی کی ابتدائی حالتوں کے لئے ارتقاکے ایسے مستقبل کا تصور بھی ناممکن ہے جو بالآخر انسان کی تخلیق پر منتج ہو خواہ انہیں پہلے سے اس کا شعور حاصل بھی کیوں نہ ہو۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انہیں اپنی ہستی کا اتنا معمولی شعور حاصل ہے کہ انسانی نقطۂ نگاہ سے اسے شعور قرار دینا بھی بے حد مشکل ہے۔ یہ ایک نہایت حکیمانہ بیان ہے، اگرچہ مختصر لیکن دوررس نتائج کا حامل! نیز یہ ارتقاکی ساری داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا منطوق یہ ہے کہ تمہاری موجودہ حالت اور بعث بعد الموت کی حالت کے مابین اتنا ہی زیادہ فرق ہو گا جتنا کہ زمین پر زندگی کی ابتدائی حالت کا تمہاری موجودہ حالت سے ہے۔ یہ ایک عظیم الشان تبدیلی ہو گی۔ اور موت کے بعد جس حالت میں تمہیں اٹھایا جائے گا اس کی نوعیت کا تصور کرنا بھی تمہارے لئے ناممکن ہے۔ تا ہم اس بدیہی نتیجہ سے مفر ممکن نہیں کہ تمہاری پہلی پیدائش دوسری پیدائش سے جس کے تم منکر ہو کہیں بڑھکر نا قابل یقین ہے۔ ممکن ہے کہ بعث بعد الموت کے بعد ایک روح کو اپنے روحانی ارتقا کی کامل صورت تک پہنچنے میں ارب سال یا اس سے بھی زائد عرصہ لگے۔ ہم یہ نتیجہ اس لئے اخذ کر رہے ہیں کہ بعث بعد الموت انسان کی عدم تخلیق کے مشابہ ہے۔
ہمیں اب اس امر کا بخوبی علم ہو چکا ہے کہ ارتقائے انسانی کو حیا ت کی ابتدائی حالتوں سے موجودہ حالت تک پہنچنے میں کم و بیش ایک ارب سال کا عرصہ لگا۔ چنانچہ انسانی تخلیق کا یہ مرحلہ اگر دوسرے مرحلہ یعنی بعث بعد الموت سے مشابہ ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ مشابہت پہلی اور دوسری پیدائش کے درمیانی عرصہ پر بھی محیط ہو۔
اس امر کے مزید ثبوت کیلئے قرآن کریم استخراجی منطق کا ایک منفرد انداز اختیار کرتا ہے۔ اس ضمن میں چونکہ قرآنی آیات دیگر ابواب میں زیر بحث آ چکی ہیں اس لئے یہاں اس امر کی مزید تشریح مقصود نہیںہے۔ ہم یہاں صرف اس طرز استدلال پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس جہان میں مستقبل میں ہونے والے بعض ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے جن کے بارہ میں اس وقت کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا قرآن کریم حیات بعد الموت کا بھی تذکرہ کرتا ہے اور بعض اوقات ذومعنی الفاظ بھی استعمال فرماتا ہے۔ نیز ان آیات میں مذکور پیشگوئیوں کا اطلاق دنیا اور آخرت دونوں پر یکساں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جب یہ پیشگوئیاں اس دنیا میں اس طرح پوری ہو جاتی ہیں کہ کسی کیلئے بھی انہیں جھٹلاناممکن نہ رہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ آخرت کے متعلق واقعات بھی ضرور اپنے وقت پر پورے ہوں گے۔ وہ مافوق البشر ہستی جو اس دنیا کے متعلق بیان کردہ واقعات کے پورا ہونے کی بنا پر سچی ثابت ہو چکی ہے اس پر آخرت سے متعلق بیان کردہ واقعات جو ہنوز معرض وجود میں نہیں آئے، کے بارہ میں بھی لازماً یقین کیا جا سکتا ہے۔ اخروی زندگی کے بارہ میں یہی دلیل دی جا سکتی ہے کیونکہ موت سے قبل کسی اور ذریعہ سے اس کو ثابت کرناممکن نہیں۔
موت کے بعد ایک ترقی یافتہ وجود کے امکان پر بحث کے بعد قرآن کریم کی بعض آیات اسی زمین پر زندگی کی ایک نئی حالت کا واضح طور پر ذکر کرتی ہیں جو بنی نوع انسان کی جگہ لے لے گی لیکن ان سے بالکل مختلف ہو گی۔

(ابراھیم 21-20:14)
ترجمہ: کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو(اے انسانو!) تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے اور اللہ پر وہ کچھ مشکل نہیں۔
ان آیات کا اطلاق حیات بعد الموت پر نہیںکیا جا سکتا کیونکہ ان میں مذکورہ حرف شرط ’’انْ‘‘ جس کے معنے ’اگر‘ کے ہیں، واضح طور پر بتا رہا ہے کہ یہاں حیات بعد الموت مراد نہیں ورنہ یہ حرف شرط اخروی زندگی جو ایک یقینی امر ہے، کو مشکوک بنا دے گا جبکہ سارا قرآن کریم عالمِآخرت کو قطعی اورلابدی حقیقت قرار دیتا ہے۔ زیر بحث آیت میں انسان کی جگہ اسی کے مشابہ مخلوق لانے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اس میں واضح طور پر ایک نئی مخلوق کی تخلیق کا ذکر ہے جیسا کہ لفظ ’’خلق‘‘ سے ظاہر ہے۔ نیز یہ کہ تمام بنی نوع انسان کو ایک مختلف مخلوق سے بدل دیا جائے گا۔
ساری کائنات کی بنیاد حق پر رکھی گئی ہے،بشمول انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔ حیات بعد الموت کے مضمون سے بالکل ہٹ کر قرآن کریم کرۂ ارض پر حیات کی ایک بالکل مختلف حالت کا ذکر کرتاہے جو انسانوں کی جگہ لے لے گیـ:

(الدّھر 29:76)
ترجمہ: ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط بنائے ہیں اور جب ہم چاہیں گے ان کی صورتیں یکسر تبدیل کر دیں گے۔

(المعارج42-41:70)
ترجمہ : پس خبردار! میں مشارق اور مغارب کے رب کی قسم کھاتا ہوں یقینا ہم ضرور قادر ہیں اس پر کہ انہیں تبدیل کر کے ہم ان سے بہتر لے آئیں اور ہم پر سبقت نہیں لے جائی جا سکتی۔
اس دوسری مخلوق کا ذکر نہ تو کسی الگ قوم کے طور پر اور نہ ہی انسانوں کی کسی علیحدہ نسل کے طور پر کیا گیا ہے۔ لفظ ’’اگر‘‘ کے مشروط استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر انسان اپنی اصلاح کر لے اور درست رویہّ اپنا لے تو ضروری نہیں کہ اس کے باوجود انسان کو بحیثیتِ نوع صفحۂ ہستی سے نابود کرکے اس کی بجائے کوئی بہتر مخلوق لائی جائے۔
چنانچہ قرآن کریم ایک ایسی ترقی یافتہ نوع کے ظاہر ہونے کے امکان کا ذکر کرتا ہے جو زیادہ بہتر حواس رکھتی ہو یا حواس خمسہ سے زائد بعض نئی حسیات کی مالک ہو۔ اگرچہ قرآن کریم قطعیت کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ضرور ایسا ہی ہو گا تا ہم یہ اعلان ضرور کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی تبدیلیاں لانے پر قادر ہے جو اس کے قانون قدرت میں داخل ہیں۔ قرآن کریم کسی ایسے اندھے ارتقاکا تصور پیش نہیں کرتا جس کی بنیاد حادثاتی واقعات پر ہو بلکہ یہاں مذکورایک جاری وساری ارتقا کا امکان بجائے خود قرآن کریم نازل کرنے والی ہستی کے علم و حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ ابواب میں ارتقائے حیات کے متعلق جو کچھ قرآن کریم کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے وہ بھی لازماً درست ہو گا۔ بصورت دیگر قرآن کریم انسان کے تدریجاً کسی دوسری نوع میں تبدیل ہونے کے امکان کا ذکر ہی نہ کرتا۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کا کسی اور مذہبی یا غیر مذہبی لٹریچر میں ذکر تک نہیں ملتا۔ ایسا بیان کامل اور یقینی علم کی بنا پر ہی دیا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ ہمیں ابھی تک اپنے مسلسل ارتقاکے امکانات یا ایک بالکل نئے ارتقائی سلسلہ کے آغاز کا پورا ادراک ہی نہ ہو۔ کیونکہ ہمارا فہم و ادراک تو فقط موجودہ علم تک ہی محدود ہے۔ چنانچہ ہمارے لئے یہ امر ابھی تک پردۂ غیب میںہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ غیب مسلسل شہود میں بدلتا چلا جا رہا ہے۔ اور حصول علم کا فطری طریق بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور غیب سب کا مالک ہے۔ وہی بتدریج ہمارے ذہنی افق کو کشادہ کرتا ہے تا کہ ہمارا شعور ماضی کے نامعلوم حقائق کومعلوم کر کے مسلسل ترقی پذیر رہے۔

عضویاتی نظام اور ارتقا
طبّی اصطلاح میں عضو جسم کے ایسے خاص حصّہ کو کہا جاتا ہے جس کے سپرد کوئی معین فنکشن یا کام ہو۔ انسانی جسم میں بہت سے ایسے اعضاء ہیں جن کا بغور مطالعہ اس بات کی تعیین کیلئے ضروری ہے کہ آیا وہ ایک لمبے عرصے میں بتدریج ارتقاپذیر ہوئے ہیں یا بقول بعض مذہبی علماء کے اچانک اپنی کامل صورت میں پیدا کئے گئے۔ مذہبی علماء ڈارون کے مخصوص نظریۂ ارتقا کی فی ذاتہٖ نفی تو کرتے ہیں جبکہ ہمارا اصرار اس بات پر ہے کہ وہ ارتقا کی فی ذاتہٖ یکسر نفی نہیں کرتے۔
ماہرین ِ حیاتیات اس بات کے سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ان کے اور ارتقائیوں کے مابین اصل اختلاف فقط یہی ہے۔ مذہبی علماء جن میں سے اکثر کا وہ حوالہ دیتے ہیں دراصل عیسائی علماء کا وہ انتہا پسند طبقہ ہے جو ہر سطح پر ارتقا کی نفی کرتا ہے اور اس کی بجائے اچانک مکمل تخلیق کا قائل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جانور علیحدہ طور پر اپنے تمام تر اعضاء کے ساتھ تخلیق کیا گیا۔ لیکن قرآن کریم تخلیق کے بارہ میں ہرگزیہ نظریہ پیش نہیں کرتا جیسا کہ ہم اس کتاب میں وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ قرآنی نقطۂ نظر عیسائیوں میں پائے جانے والے اس قسم کی تخلیق کو ماننے والوں کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ چنانچہ جب ہم اعضاء کی تخلیق اور نشو ونما کی بات کرتے ہیں توہمارے نقطۂ نظر کو ان لوگوں کے نقطۂ نظر سے خلط ملط نہیں کیا جانا چاہئے۔ تاہم نامیاتی نظام میں یہ بات تو یقینی ہے کہ ابتدائی حالت میں اس کے اندر درج ذیل چار باتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔
.1کسی بھی عضو کا بیرونی حصہ بجائے خود organ یعنی عضو کہلانے کا مستحق ہے۔
.2 پیغام رسانی کا نظام یعنی عصبی ریشوں کی تخلیق جو بیرونی عضوسے حاصل شدہ اطلاعات کی نقل و حمل کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
.3 شناخت کے انتہائی پیچیدہ نظام کی تخلیق (جسے ہم دماغ کا مخصوص حصہ قرار دیتے ہیں)کا کام یہ ہے کہ اطلاعات کو موصول کرے، پیغام کی تمام جہتوں کا جائزہ لے اور پیغام کی حقیقی تصویرکشی کرے۔
.4 بعد ازاں دماغ کا مرکزہ اس جمع شدہ معلومات کے ذخیرہ کو دماغ کے دیگر مرکزی حصوں میں منتقل کرتا ہے جو ان معلومات کو محفوظ کرتے ہیں اور جسم کے مختلف حصوں میں متعلقہ عصبی مراکز تک پہنچاتے ہیں۔
اس انتہائی جامع عضویاتی نظام کی تشکیل کا حصہ بننے والے ہر عضو کی بناوٹ اور مقصد واضح ہے۔ ہمارا اختلاف اس بات میں ہے کہ آنکھیں اور کان وغیرہ غلطی سے ایسے اعضاء سمجھے جاتے ہیں جو خود بخود ایک بامقصد کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ اعضاء تنہا اپنی ذات میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ یہ اسی وقت کار آمد ثابت ہوتے ہیں جب وہ اس اجتماعی نظام کی معیت میں کام کرتے ہیں جس کا وہ جزولاینفک ہیں۔ نیز ان کی ظاہری بناوٹ کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعضاء بذات خود ذیلی نظاموں میں منقسم ہیں جو آگے چھوٹے چھوٹے اعضاء پر مشتمل ہیں۔ یوں اپنی اجتماعی شکل میں یہ ذیلی نظاموں کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اعضاء اپنی ابتدائی حالتوں میں بھی بعینہٖ چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً انسانوں سے لاکھوں سال قبل کے جانوروں کا بصری نظام بھی اسی طرح کی ایک بہت منظم اور محکم ترتیب پر مشتمل ہے اوریہ بصری نظام آگے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہے اور اسے کسی بھی منطق کے ذریعہ نیچرل سلیکشن یعنی انتخاب طبعی یا ڈارون کے کسی اور اصول کے تحت واضح نہیں کیا جاسکتا۔
ہم قارئین کے سامنے اس آنکھ کے علاوہ جس سے وہ بخوبی واقف ہیں مختلف قسم کی آنکھوں کی بناوٹ کی مثال پیش کرتے ہیں جو بیرونی دنیا کے اندرونی دنیا سے رابطہ کا کام دیتی ہیں۔ اس عالمی اصول میں کوئی بھی استثناء نہیں۔ ہمارا مقصد زیرک قارئین پر یہ واضح کرنا ہے کہ زیر بحث معاملات کے بنیادی ڈھانچہ کی تفصیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے ابتدائی خاکہ اور اس کو ڈیزائن کرنے والے کی کامل سائنسی قدرت کا مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر عضو کئی چھوٹے چھوٹے اعضاء پر مشتمل ہو تا ہے جو بذاتِ خود اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کی اندرونی ترکیب اور ہیئت کا مطالعہ فی ذاتہٖ ایک دفتر چاہتا ہے۔
دو بنیادی اعضاء کسی جاندار کو کسی بے جان چیز سے ممتاز کرتے ہیں۔
.1 کان جو قوت سماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
.2 آنکھیں جو قوت باصرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
اسی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماعت کے بارہ میں ہم قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے بات شروع کرتے ہیں۔

(النحل16:79 )
ترجمہ: اور اﷲنے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
قارئین کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ عربی لفظ ’الفؤاد‘ جس کا ترجمہ دل کیا جاتا ہے، سے مراد انسان کا جسمانی دل نہیں بلکہ اس کا فہم و ادراک ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات بڑی تحدی کے ساتھ اس دلیل کی تائید کرتی ہیں۔ مثلاً:

(النجم12:53 )
ترجمہ۔ اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا۔
اس آیت کریمہ میں آنحضرتﷺ پر خداتعالیٰ کی تجلیات کے ظہور کاذکر ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہاں ’دل‘ (الفؤاد) کا لفظ استعارۃً دماغ کیلئے استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی تجلیات کا اندازہ جسمانی دل نہیں بلکہ دماغ کیا کرتا ہے۔ اس ضروری وضاحت کے بعد ہم دوبارہ انسانی کان کی بناوٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔
کان کا بیرونی حصہ اُذین auricalیا pinnaکہلاتا ہے۔ مختلف افراد میں اس کی بناوٹ قدرے مختلف ہوتی ہے۔ نیز بعض کے کان بڑے ہوتے ہیں اور بعض کے چھوٹے۔ لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی آواز کی لہریں جو کان کے بیرونی سوراخ کی طرف بھیجی جاتی ہیں ان کے جائے متا ثرہ ) (catchment areaکو بڑھانا۔ یہاں سے سمعی نالی کا آغاز ہوتا ہے جو تقریباً ایک انچ لمبی ہوتی ہے جس کے استر سے نرم موم خارج ہوتا رہتا ہے۔ اس ٹیوب کا سرا tympanic membrane یعنی کان کے پردہ یا طبلی جھلّی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں تک تو کان کا بیرونی حصہ تھا۔ کان کا پردہ کان کے بیرونی اور اندرونی حصہ کی حد بندی کرتا ہے۔ دونوں طرف ہوا کا دباؤ برابر رکھنے کیلئے ایک سمعی نالی (eustachian tube) کان کے وسطی حصہ کو حلقوم (pharyax) سے ملاتی ہے۔ یہ نظام انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی بدولت پردہ (eardrum) دونوں طرف بآسانی ارتعاش پیدا کر سکتا ہے۔
وسطی کان ایک نالی نما خلا کی شکل میں بیرونی آڈیٹری کینال اور اندرونی کان کے مابین واقع ہوتا ہے۔ اس میں ہوا اور تین ossicles یعنی سمعی استیزے یا باہم مربوط چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں جو آواز کی پچ کو بڑھا کر صوتی لہروں کو طبلی جھلّی (Tympanic membrane) یعنی کان کے پردہ سے اندرونی کان تک پہنچاتی ہیں۔ یہ تین ہڈیاں بالترتیب malleus یعنی مطرقہ incus یعنی سندان اور stappes یعنی عظم رکاب کہلاتی ہیں۔ امریکن اصطلاح میں انہیں hammer یعنی ہتھوڑا anvil یعنی اہرن اور stirrup یعنی عظم رکاب کہا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلی ہڈی طبلی جھلّی سے جڑی ہوتی ہے جبکہ دوسری ہڈی پہلی اور تیسری ossicle یعنی سمعی استیزہ سے ملی ہوتی ہے۔ تیسری ہڈی stapes یا stirrup یعنی عظم رکاب دوسری طرف ایک بیضوی سوراخ کی جھلّی سے جڑی ہوتی ہے جس میں اس ہڈی کی حرکت کے ساتھ ساتھ ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس ارتعاش کو وہ اندرونی کان کی رطوبت میں منتقل کرتا ہے۔
اندرونی کان مختلف نالیوں اور تھیلیوں کا مجموعہ ہے جو بیک وقت سماعت اور توازن دونوں کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ کان کا سب سے پیچیدہ حصہ ہے جو کھوپڑی کی ہڈی(Temporal bone) میں کھدے ہوئے تین الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ حصے مل کرbony labyrinth بناتے ہیں جس میںcochlea-vestibule اور semi circular canals یعنی عظمی نیم دائری قنالیں ہوتی ہیں۔ یہ سب perilymph نامی رطوبت سے بھری ہوتی ہیں۔ ان کی جھلیاں ایسے اعصابی خلیات سے پر ہوتی ہیں جو اپنے گرد اس رطوبت میں ہلکے سے تموج کوبھی محسوس کر لیتے ہیں۔ عظمی نیم دائری قنالوں (bony semi circular canals) کی رطوبت کے اندر جھلّی دار عظمی نیم دائری قنالیں (semi circular canals) ہیں جن کے اندر ایک اور رطوبت درون لمف(endolymph) موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح قوقعہ(bony cochlea) کے گرد لمف (perilymph) میں درون لمف(endolymph) سے بھرا ہواایک جھلّی دارقوقعہ (cochlea) موجود ہو تا ہے۔ صوتی لہریں طبلی جھلّی(tympanic membrane) سے ٹکرا کر اس میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں۔ سمعی استیزے(ossicles) ان مرتعش لہروں کی پچ کو بڑھا کر گرد لمف (perilymph) تک پہنچاتے ہیں جو انہیں ایک جھلی کے ذریعہ درون لمف(endolymph) تک پہنچا دیتی ہے جس کی لہریں ایسے بال نما متموج receptors تک پہنچائی جاتی ہیں جو ان لہروں کو اعصابی خلیات کے ذریعہ دماغ کے مرکز (cerebrum) تک لے جاتی ہیں۔
توزان کا کام نیم دائری قنالوں کی تین قوسی نالیوں سے لیا جاتا ہے جو تین مختلف سطحوں پر ایک دوسرے سے قائمہ زاویو ں پر واقع ہیں۔ ان کے درمیان موجود رطوبت کسی سطح کی طرف بھی ہلکا سا سر گھمانے سے گھومنے لگتی ہے اور یہ اطلاعات اعصاب کے ذریعہ دماغ تک مسلسل پہنچائی جاتی ہیں اور وہاں ان کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ہمیں اپنی حالت کا اندازہ ہو تا ہے اور دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے کی تبدیلی بھی فوراً معلوم کی جاسکتی ہے۔ اور ایک سمت سے دوسری سمت میں خفیف سی تبدیلی بھی دماغ میں محفوظ کی جاتی ہے اور اطلاع کا نظام بیدار ہو جاتا ہے۔ 1 قاری کی سہولت کیلئے کان کی ایک ڈرائنگ، پلیٹ نمبر 7 میںدی گئی ہے۔
ہم نے مختصراً کان کی بناوٹ اور اس کے مختلف حصوں کے کام کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت مختلف حصوں پر مشتمل خلیات اور بافتوں نیز ان کی اندرونی پیچیدگیوں کے حوالہ سے ہی کی جاسکتی ہے۔ جو کچھ بھی یہاں بیان ہوا ہے وہ اس بات کے ثبوت کیلئے کافی ہے کہ بیرونی کان ایک ایسا عضو ہے جو اس نظریۂ ارتقاسے متصادم ہے جس میں تدریجی ترقی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس عضو کا ہر ایک حصہ سماعت کیلئے ضروری ہے جو اگر بیمار پڑجائے تو یا تو خرابی پیدا کر دیتا ہے یا ایسا انسان قوت سماعت سے مکمل طور پرمحروم ہو جاتا ہے۔ ہم ان تمام احباب کو جو ارتقا کے مضمون میں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو ہی ایک مکمل نظریہ تسلیم کرتے ہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ واضح کریں کہ کس طرح اس نظریہ کی رو سے کان جیسا سائنس اور ٹیکنالوجی کا شاہکار عضو اربوں بلکہ کھربوں سالوں میں درجہ بدرجہ ترقی کر تا ہوا یہاں تک پہنچا؟ کیا سائنسدان حیاتیات، فزکس اور کیمسٹری کے بارہ میں اپنے تمام تر موجودہ علم کی مدد سے صرف اس عضو کی ساخت ڈیزائن کر سکتے ہیں جو سماعت کی صلاحیت رکھتا ہو؟ اب جبکہ انہیں کھوپڑی کی کھوکھلی ہڈی کے بارہ میں علم ہے جس میں labyrinth گزرتا ہے تو کیا وہ اس کو دیکھ کر کسی ایسے مواد سے جو انہوں نے خود بنایا ہو اس کی نقل بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ ایسی محیّرالعقول شے اپنی تمام تر باریک خوبیوں کے ساتھ بغیر کسی مقصد کے محض ایک بے دماغ انتخاب طبعی کے زیر اثر تخلیق ہو گئی ہو؟ قدرت کی بے مہار طاقتیں انسانی کان جیسا عجوبہ ازخود بنانے میں جتنا وقت لیں گی اسی قدر اس کو منظم کرنا اور مختلف حصوں کو کار آمد ترتیب میں لانا ناممکن ہوتا جائے گا۔ لہٰذا ایک ایسی با شعور ہستی کی ضرورت ہے جسے قوانین قدرت کا مکمل ادراک ہو جنہیں استعمال کرکے انسانی کان جیسا عضو تخلیق کیا جاسکے۔
کان کا بیرونی حصہ جس پر ہم بحث کر چکے ہیں اندھے ارتقاکے قائلین کیلئے صرف یہی ایک مسئلہ نہیں ہے۔ اب ہم کان میں موجود اعصاب کاجائزہ لیتے ہیں جو موصول شدہ پیغامات کو آگے لے جاتے ہیں۔ ان کی تخلیق بھی فی ذاتہٖ شعوری ڈیزائن کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی تخلیق کیلئے موزوں مادہ کی تیاری نیز بجلی کے کرنٹ کا ضرورت کے عین مطابق مہیا کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اعصابی جھلّی ایک خاص قسم کے مادہ سے بنی ہوئی ہونی چاہئے جو اعصاب اور بیرونی ماحول کے درمیان بطور حاجز کام کرے اور اعصاب کو شارٹ سرکٹ ہونے سے بچائے۔ یہ اعصاب اندرونی کان کی مناسب جگہ پر جڑے ہوئے ہونے چاہئیں اور دوسرے سرے کا مرکز دماغ یعنی سیربرم(cerebrum) کے مخصوص حصہ کے ساتھ جڑا ہونا ضروری ہے تاکہ ہلکے سے ارتعاش کو بھی مرکز دماغ تک پہنچا سکے جہاں ان مرتعش لہروں کو مجموعی صورت میں پڑھ کر سیربرم کیلئے پیغام مکمل کرناممکن ہو سکے۔ فی الحال ہم سیربرم کی تفصیلات بیان نہیں کر رہے جہاںتک کسی ماہر سائنسدان کی رسائی بھی ممکن نہیں۔ سیربرم کیسے تخلیق ہوا۔ یہ اپنا کردار کیسے ادا کرتا ہے؟ بامقصد پیغام کو جو اس نے pulse یا برقی پیغام کی صورت میں پڑھا ہوتا ہے آگے دماغ میں کس طرح پہنچاتا ہے اور ایک زندہ بدن میں یہ پیغام کیسے پہنچ جاتا ہے؟ ایسے پیچیدہ امور کا ازخود وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے۔ آخر کس طرح یہ پیغامات یادداشت کے متعلقہ اربوںخلیات میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کیسے ہماری سوچ کے افق پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ بغیر کسی ظاہری توقّف کے یک لخت ایسا وقوع پذیر ہوجانا بھی ناممکنات میں سے ہے سوائے اس کے کہ اسے اس مخصوص کام کیلئے بنایا گیا ہو۔ اس قسم کے ہر پیغام کو مستحضر کرنے کیلئے ایسے اعلیٰ کمپیوٹر کی ضرورت ہے جو انسان کے اب تک کے بنائے ہوئے کمپیوٹر سے زیادہ عظیم الشان اور جامع ہو۔
اگر ہم اپنے بچپن کے کسی ایسے لمحہ کا تصور کریں جب ہم اپنے گرد کسی انسان یا جانور کی آواز پر ہنس دیتے تھے تو عین ممکن ہے کہ ستر سال بعد اس سے ملتی جلتی آواز سن کر ہمارے دماغ میں محفوظ پرانی یادیں اچانک تازہ ہو جائیں اور ہم دوبارہ اسی طرح مسکرا دیں۔ ملتی جلتی آوازوں کا یہ نظام اتنی باریکی اور عمدگی سے تشکیل دیا گیا ہے کہ اس نے آواز کی خصوصیات (acoustics) کے علم کے بڑے بڑے ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیا ڈارون کا کوئی حامی کبھی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ اس قدر دقیق سمعی نظام انتخاب طبعی کی اندھی قوتوں کی تخلیق ہے؟ لیکن ہم ان کی الگ انفرادی تخلیق کی بات نہیں کر رہے۔ سب سے حیران کن اور حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ سمعی نظام کے مختلف اجزاء اپنی الگ الگ حیثیت رکھنے کے باوجود باہم کیسے مربوط ہیں۔ جونہی بیرونی کان کا ارتقا شروع ہوا اتفاق سے ایک عصب خود بخود پیدا ہونا شروع ہو گیا اور انہی قوتوں کے زیرِاثر اسی قسم کے مزید اعصاب بننے لگے، ہر کوئی دوسرے سے بالکل الگ اور اپنے آپ کو تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے عاری اور کسی مقصد اور منصوبے کے بغیر۔ اس کے باوجود ہر عصب بجائے خود ایک عظیم الشان منصوبہ ہے اور وسیع تر اجتماعی مقصد بھی سر انجام دے رہا ہے۔ ہمیں اس گونا گوں مشکل کا سامنا ہے جس کا تعلق ایک واحد عضو یا اعضاء کے ایک مجموعہ سے ہے جن میں سے ہر ایک حس سماعت کیلئے ضروری ہے۔
ہم نے نہ صرف انسانی کان اور اس کے پیچیدہ عضویاتی نظام کو زیر بحث لا نے کا وعدہ کیا تھا بلکہ بعض جانوروں کے کانوں کے بارہ میں گفتگو کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھاجن کی پیچیدگیوں کی حدونہایت نہیں۔ اور ان میں سے بعض کان ایسے ہیں جو ماہرین کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ ایسی منفرد صلاحیتیں رکھنے والے کانوں کی اپنے ڈرائنگ بورڈ پر کس طرح نقشہ کشی کریں۔
آئیے! الّو سے بات شروع کرتے ہیں جو مغرب میں عقل و فہم کی علامت لیکن مشرق میں انتہائی حماقت کا نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔ الّو اگر عقلمند ہو بھی تو کوئی عقلمند ترین الّو بھی کسی قسم کا کوئی سمعی نظام وضع نہیں کر سکتا تھا چہ جائیکہ اپنے کان جیسا انتہائی فعّال نظام وضع کر سکتا۔ اس کے کان کے منفرد اوربینظیر نقوش کو واضح کرنے کیلئے ہمارا مشورہ ہے کہ قاری اس نظام کا موازنہ انسان کے سمعی نظام سے کرے۔ اکثر جانوروں کی طرح انسانی کان بھی دو receptors پر منقسم ہے۔ اکثر جانوروں کی ترقی یافتہ انواع میں ویسا ہی نظام پایا جاتا ہے جو اسی طرح کام کرتا ہے۔ دونوں کانوں کے ذریعہ موصول ہو نے والی آواز کی لہروں کو دماغ ہم آہنگ کر کے ایک آواز بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ آوازکس سمت اور کتنے فاصلہ سے آرہی ہے۔ ایک کان سے اونچا سننے والوں کیلئے آواز کا محل وقوع معلوم کرنا ہمیشہ مشکل ہو تا ہے۔ دونوں کانوں کا الگ الگ جگہ واقع ہونا ان کے ڈیزائنر کے کمال کا اعتراف ہے لیکن ماہرین حیاتیات، سمعی انجینئرنگ کے اس عظیم شاہکار کے بارہ میں کسی ڈیزائن کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اگر کوئی ان سے یہ کہے کہ یہ واقعی بلا کسی با مقصد ڈیزائن کے تخلیق ہوئے ہیں اور ان کی تخلیق میں بعض اندھے اصولوں کا حصہ ہے تو وہ خوشی سے کھل اٹھیں گے اور کہیں گے کہ ’’ہاں! اب تمہیں سمجھ آگئی ہے!‘‘ کیا کسی عقلمند الّو کی مسکراہٹ ایسے موقع پر ان کی مسکراہٹ سے کچھ مختلف ہوگی؟ مگر یہاں ہم اس نکتہ کو مزید واضح نہیں کر نا چاہتے۔
الّو کے کان نہ صرف اس پیچیدہ نظام کا حصہ ہیں بلکہ وہ تمام جانوروں کے کانوں میں ایک ممتازمقام رکھتے ہیں۔ دائیں اور بائیں طرف کے بیرونی کان اپنی پوزیشن میں ایک دوسرے سے ذرا مختلف ہیں۔ ان کی پوزیشن میں یہ ذرا سا فرق ایک خاص مقصد کے حصول کیلئے ایسی باریکی اور احتیاط سے رکھا گیا ہے کہ اس پیچیدہ نظام میں ذرا سی اتفاقی تبدیلی سے بھی یہ بیکا ر ہو جاتے۔ بیرونی کان آواز کی لہریں اندرونی کان کو فراہم کرتے ہیں جنہیں باوجود بہت پیچیدہ ہونے کے دماغ کامل طور پر سمجھ لیتا ہے۔ یہ سارا طریق اتنا بیمثل اور نپا تلا ہے کہ الّو گہری تاریکی میں بھی کسی غلطی کے بغیر اپنا شکار تلاش کر لیتا ہے۔
الّو کی اس غیر معمولی صلاحیت سے متاثر ہو کر دنیا کے سائنسدانوں نے نہایت حساس الیکٹرانک آلات کی مدد سے اس کے سمعی نظام کی تعیین کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس مو ضوع پر سب سے اہم تحقیق کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے Behavioural حیاتیات کے پروفیسر ماسا کا زو کو نیشی(Masakazu Konishi)اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ ان کایہ کام اپریل 1993ء کے سائنٹفک امریکن (Scientific American) میںشائع ہو چکا ہے۔ 2 ہم نے درج ذیل معلومات کیلئے زیادہ تر اسی تحقیق پر انحصار کیا ہے لیکن ہمارا یہ مختصر بیان اس نازک اور حساس تحقیق کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ وہ حضرات جو سائنسی اور حسابی معلومات میں دلچسپی رکھتے ہیں اس عالمانہ مقالہ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
الّو اپنے منفرد اور بیمثل سمعی نظام کی وجہ سے رات کی تاریکی میں گرے ہوئے پتوں کے نیچے موجود کسی چوہے کی معمولی سی حرکت کی آواز کا بھی پتہ لگا لیتا ہے اور معیّن طور پرجان لیتا ہے کہ کتنی دور، کس سمت میں اور کس خاص جگہ پر چوہا چھپا ہوا ہے اور ملی میٹرز کی حد تک فاصلہ کی ٹھیک ٹھیک تعیین کر لیتاہے اور پھر مکمل تاریکی میں اپنے پروں کی بے آواز پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ چوہے پر جھپٹتا اور اتنی عمدگی سے اپنے پنجوں میں دبوچ لیتا ہے کہ نیچے موجود مٹی میں ہلکی سی جنبش بھی نہیں ہوتی۔ یہ کان کس نے اور کس طرح بنائے اور کیا کوئی عظیم ماہر پلاسٹک سرجن کسی اندھے شخص کے کانوں میں اتنی تبدیلی کر کے اس کی بینائی کے نقصان کو اس طرح پورا کر سکتا ہے کہ وہ ایک تاریک رات میں آزادانہ گھومنے پھرنے والے الّو کی طرح اپنا راستہ تلاش کر سکے؟
مگر ماہرین حیاتیات پھر بھی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ صنّاعی کا یہ شاہکار اندھے ارتقا کا اتفاقی نتیجہ ہے جسے انتخاب طبعی نے بغیر کسی تخلیقی کردار کے بقا کیلئے چن لیا ہے۔ یہ امر انسانی فہم سے بالا ہے کہ ماہرین حیاتیات تخلیقی نظام کے حقائق اور اپنے لایعنی نظریات کے باہمی تضاد سے آخر مطمئن کیسے ہیں۔
چمگادڑ کے کان کی ساخت کی تشریح ایک پیچیدہ مضمون ہے اور دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ ان کے وسطی اور اندرونی کانوں کی ساخت عمومی طور پرانسانی کان سے ملتی جلتی ہے لیکن ان میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو انہیں کا خاصہ ہیں اور جو ان کی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔
اس سلسلہ میں کیڑے مکوڑے کھانے والی چمگادڑوں کے کان خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان کا صوتی لہروں کا جدید ترین نظام (sonar system) اتنا پیچیدہ اور باریک ہے کہ ماہر سائنسدانوں کے تیار کر دہ جدید ترین صوتی نظام بھی اس کے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چمگادڑیں گہری تاریکی میں بھی حیران کن حد تک تیزفتاری سے پرواز کرتی ہیں اور ان کے صوتی ریشے (vocal cords) اور کان کے receptors ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ کیڑے کھانے والی یہ چمگادڑ حیرت انگیز تیزرفتاری سے آواز نکالتی ہے اور اس آواز کی پچ (pitch) اتنی بلند ہوتی ہے کہ اگر ایک نہایت عمدہ حفاظتی نظام موجود نہ ہو تو یہ آواز اس کے اپنے کانوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ درمیانی کان میں موجودstapedius muscle سے ملحق وسطی کان کی تین چھوٹی ہڈیوں سندانی مطرقہ) (incus-malleus اور عظم رکاب (stapes )کی تخلیق سے حل ہو جاتا ہے جوصوتی لہروں کو اندرونی کان میں منتقل کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ٹک ٹک کی ہر آواز پر جو چمگادڑ نکالتی ہے یہ عضلہ کان کے پردہ سے منسلک ہڈی (stapes) کو ایک طرف دھکیل دیتا ہے۔ آواز براہ راست اندرونی کان تک نہیں پہنچ پاتی۔ آواز کے تسلسل اور رابطہ میں وقفہ یعنی جوڑتوڑ (make and break )ایک ایسانظام ہے جو اونچی فریکوئنسی کے باوجود کبھی معطل نہیں ہوتا۔ ایسی چمگادڑیں ایک سیکنڈ میں دوسو سے زائد مرتبہ یہ آواز نکالتی ہیں اور یہ عضلہ ان تیز تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتا ہے۔ جب یہ آواز کسی ٹھوس چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے تو اس ہڈی کا کان کے پردہ سے رابطہ بحال ہو جاتا ہے اور اس طرح چمگادڑ کی سماعت سے باوجود بیشمار دفعہ رابطہ منقطع ہونے کے ایک گونج بھی ضائع نہیں جاتی۔ یہ جادوگری ادراک سے بالا ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک سیکنڈ میں دوسو دفعہ آواز نکالنے کے باوجود اس کی ایک چھوٹی سی لہر کابھی اندرونی کان تک نہ پہنچنا مگر اسی دوسو دفعہ میں پیدا ہونے والی گونج کی ایک لہر کو بھی ضائع نہ جانے دینا، جادوگری نہیں تو کیا ہے؟ مختلف frequencies اور pitches اور گونج کی محیّر العقول دنیا میں چمگادڑ کے کان مسلسل یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے تیرہ و تار کمرے میں اڑتی ہوئی چمگادڑیں مختلف pitches میں آواز یں نکالتی رہتی ہیں۔ چمگادڑیں ایک دوسرے کی آواز کے سگنلز میں مخل نہیں ہوتیں۔ گویا ہر ایک آواز ایسی مختلف فریکوئنسی پرمشتمل ہے جسے پیدا کرنے والی چمگادڑ ہی سمجھ سکتی ہے۔
‏frequencies کا شعوری اختیار اور قدرت، اس نظام کا ایک نہایت حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ جتنی زیادہ تیز رفتاری سے آواز نکالی جاتی ہے اتنی ہی تیز رفتاری سے ایک سیکنڈ کے بہت تھوڑے حصہ میں اطلاعات کی فراہمی شروع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ چمگادڑ ہر قسم کی روک سے نہایت سہولت کے ساتھ گزر جاتی ہے خواہ یہ روک کوئی دوسری چمگادڑ ہو یا کسی بھی قسم کی کوئی اور جسمانی روک۔ چمگادڑیں گھنے جنگلات میں درختوں کی بیشمار شاخوں کے درمیان ان سے ٹکرائے بغیر اڑتی رہتی ہیںاور اسی طرح غاروں میں چٹانوں کے نشیب و فراز کے درمیان محو پرواز رہتی ہیں۔ ان کا سر شاذو نادر ہی کسی اور چمگادڑ سے یا کسی چٹان کے ابھرے ہوئے حصہ سے ٹکراتا ہے۔ وہ بال سے زیادہ باریک دھاگہ کی موجودگی کو بھی محسوس کر لیتی ہیں اور اس طرح تصادم سے بچ جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ سگنلز،ان کی فریکوئنسی یا سگنلز اور پچ کی مدد سے ہو تا ہے جو acoustic چمگادڑوں کے مکمل دائرہ اختیار میں ہو تا ہے۔
ضرورت پڑنے پر بعض چمگادڑیں دو سو دفعہ فی سیکنڈ آواز نکالتی ہیں جو سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں ختم ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہر سگنل دوسرے سے بالکل الگ شناخت رکھتا ہے اور کان میں انقطاع اور رابطہ کا نظام آوازوں کے اس نظام کا مسلسل ساتھ دیتاہے۔ انسانی کان میں موجود ہڈیوں کی طرز کی ہڈیوں کا رابطہ سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں منقطع ہونا اور پھر اسی دورانیہ میں ہر گونج سننے کیلئے دوبارہ بحال ہوجانا ارادۃًہوتا ہے۔ 3 چمگادڑ کو کسی سگنل کی فریکوئنسی بڑھانے اور ان کی پچ میں حسب ضرورت تبدیلی پر پوری قدرت حاصل ہے۔ یہ ایسی فریکوئنسی چنتی ہے جو دیگر چمگادڑوں کے ہزاروں لاکھوں سگنلز میں مزاحم نہیں ہوتی۔ انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح انتخاب طبعی نے ایسا کان، گلا اور دماغ تخلیق کیا ہو گا جو اس مہارت اور کامل ہم آہنگی سے مصروف عمل ہے۔ کسی انسان میں یہ قدرت نہیں کہ وہ چمگادڑوں کی یہ آوازیں سن سکے۔ ان میں سے اکثر آوازیں ایسی پچ پر ہیںجنہیں انسانی کان نہیں سن سکتے۔ اگر آوازوں کا یہ سلسلہ سنا جاسکتا تو انسانی کانوں کے پردے پھٹ جاتے لیکن خوش قسمتی سے ہم چمگادڑوں سے بھرے ہوئے جنگل کو بالکل خاموش پاتے ہیں۔ جس طرح کسی انسانی عضو کا عدم استعمال اسے بیکار کر دیتاہے بعینہٖ آنکھیں ایک لمبے عرصہ تک عدم استعمال کی وجہ سے سکڑ کر بیکار ہو جاتی ہیں۔ لمبے عرصہ تک کسی عضو کے استعمال نہ کرنے کے نتیجہ میں وہ سکڑنے لگتا ہے یہاںتک کہ کم ہوتے ہوتے بالآخر معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ زندگی کا ایسا عمومی قانون ہے جو کسی کو بھی نہیں بخشتا۔ چنانچہ کیڑے مکوڑے کھانے والی چمگادڑوں کی آنکھیں سکڑ کر اتنی چھوٹی رہ جاتی ہیں کہ دیکھنے والے کو محض سوراخ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن پھل کھانے والی چمگادڑوں کی آنکھیں بڑی اور خوبصورت ہوتی ہیں جن سے وہ صاف صاف دیکھ سکتی اور جگہ کی تعیین کر سکتی ہیں۔ چمگادڑوں کے کان کے بارہ میں اور پھر انسانی کان کی پیچیدگیوں کے بارہ میں ہم نے مندرجہ بالا سطورمیں جو گفتگو کی ہے خصوصاً چمگادڑ کے کان کے اس عضلہ کے بارہ میں جو انقطاع اور رابطہ کا بے مثل کام کرتا ہے، نظریۂ ارتقاکے مدّاحین کے لئے ایک لا جواب چیلنج ہے۔ اس چھوٹے سے عضلہ کا کام ختم کر دیں جو صرف چمگادڑ کے کان میں اپنا کام کر تا ہے تو کیڑے مکوڑے کھانے والی چمگادڑوں کی قوتِسماعت بالکل بیکار ہو کر رہ جائے گی۔ اس عضلہ کی تخلیق اور چناؤ میں انتخاب طبعی کیسے اور کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ساخت کے اعتبار سے اس کا عین موقع اور محل پر واقع ہونا ہرگز انتخاب طبعی کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ انتخاب طبعی کا صرف یہ کام ہے کہ اس عضلہ میں واقع ہونے والی اتفاقی اور جینیاتی تبدیلیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکے۔ کسی مخصوص کام کے لئے بنائے گئے عضو کے بارہ میں یہ خیال ہی ناممکنات میں سے ہے کہ یہ کسی ڈیزائن، ٹیکنالوجی اور کامل علم کے بغیر ہی محض اتفاقی تخلیقی قوتوں کے ذریعہ وجود میں آگیا ہو بلکہ اس قسم کے خاص آلات تو خاص مقصد کیلئے بنائے جاتے ہیں اس لئے انہیںمحض اتفاقی تخلیق قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اتفاق سے پرندوں میں ہی ایک اور اسی قسم کی مثال موجود ہے جو منفرد اور ان کی ضرورت کے عین مطابق ہے اور اس سے یہ پرندے اپنی ہی ایک ایسی صلاحیت کے مضر اثرات سے محفوظ رہتے ہیں جو انہیں دیگر تمام جانوروں کی سلطنت سے ممتاز کرتی ہے۔
ہد ہد بڑی بیدار مغزی سے درخت کی چھال میں موجود کیڑوں کے رینگنے کی آواز سن کر ایک سیکنڈ میں سینکڑوں مرتبہ اپنی چونچ چھال پر مارتا ہے۔ کیڑے گھبرا کر باہر نکل آتے ہیں اور ہدہد انہیں اپنی لچکیلی زبان سے اچک لیتا ہے۔ یہ ضرب اتنی تیز ہوتی ہے کہ ایک مسلسل حرکت نظر آتی ہے۔ یہ خوبی صرف ہد ہد ہی سے خاص ہے۔ اس کی ایک اور منفرد خصوصیت اس کے دماغ کی ان تیز رفتارجھٹکوں سے حفاظت کا نظام ہے۔ دراصل اس کی چونچ اور دماغ کے درمیان بعض ایسی بافتیں موجود ہیں جو اس کے دماغ کو ان تیز جھٹکوں کے اثر سے محفوظ رکھتی ہیں۔ کوئی اور پرندہ نہ ہی اس طرح اپنی چونچ کا استعمال کرتاہے اور نہ ہی اس میں یہ بافتیں موجود ہوتی ہیں۔ کسی جانور کی اپنی ہی کسی خوبی کے مضر اثرات سے محفوط رہنے کی یہ ایک اور مثال ہے۔ کیا کوئی ماہر حیاتیات اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ انتخاب طبعی نے بذات خود یہ انتخاب کیسے کر لیا؟
اب ہم دوبارہ کان،آواز کی لہروں اور Sonar آلات کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ تاریکی کے پرندوں کے ذکر کے بعد ہم بغور جائزہ لیں گے کہ گدلے سمندروں اور دریاؤں مثلاً سندھ، گنگااور ایمزون کی گہرائیوں میں رہنے والے جانور ان گدلے پانیوںکی تاریکی میں نقل وحمل اور باہمی رابطہ کیسے کر لیتے ہیں۔
ڈالفن (Dolphin) میں ایک نہایت حیران کن اور عمدہ صوتی آلہ موجود ہوتا ہے جو نہ صرف کھلے سمندروں میں بلکہ گدلے دریاؤں کی دلدلی تہ میں بھی ان کے کام آتا ہے۔ کیچڑ کی موٹی تہوں میں انہیں چند انچ آگے تک بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ اس لئے انہیں آنکھوں کے ساتھ ساتھ ایک مکمل sonar نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو نظام تمام ڈالفنز میں موجود ہو تا ہے۔ یہ نظام اتنا پیچیدہ اور مربوط ہوتا ہے کہ اس کے لئے خصوصی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ڈالفن کے سر میں مخصوص گزرگاہیں اور خلا رکھے گئے ہیں جن کے ذریعہ ہوا میں دباؤ پیدا ہوتا ہے جو سر کے اوپر کے حصہ سے ٹکراتا ہے۔ ان ڈالفنزکے ماتھے پر چربی سے بھرا ہوا بیضوی شکل کا عضو ہوتا ہے جسے میلن(melon) کہتے ہیں۔ جب ہوا شدید دباؤکے تحت اس سے ٹکراتی ہے تو ایک عجیب اور ناقابل فہم ردعمل پیدا ہو تا ہے۔ چربی کا گومڑ ایک عمدہ sonar مشین میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک صوتی آلہ (sound lens)کے طور پر کام کرنے لگتا ہے جس میں سے آواز کی ایسی لہریں نکلتی ہیں جن کے ذریعہ گدلے پانی یا کیچڑ میں بآسانی بغیر کسی خلل کے حرکت ممکن ہو جاتی ہے۔
ڈالفن کے میلن سے ایک سیکنڈ میں آواز کی سات سو لہریں نکلتی ہیں جو ٹھوس اشیاء سے ٹکرا کر گونج کی صورت میں واپس آتی ہیں۔ ڈالفن کا دماغ ایسی گونج کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ کر اپنے اور اس چیز کے درمیانی فاصلہ اور اس کی ہیئت کا مکمل اندازہ لگا سکتا ہے۔ نیز ڈالفن کچھ فاصلہ سے کسی دھاتی شے کو نہ صرف محسوس کر سکتی ہے بلکہ اس کے بھرے یا خالی ہونے کا اندازہ بھی لگا سکتی ہے۔ اسی طرح یہ جاندار اور بے جان اشیاء میں بھی تمیز کر سکتی ہے۔ مزیدبرآں ڈالفن کھلے سمندروں میں میلوں دور تک اس sonar نظام کی مدد سے مچھلیوں کے جھنڈ (shoals) تک پہنچ کر انہیں یکے بعد دیگرے نگل لیتی ہے۔ 4 کیا انتخاب طبعی ایک پیچیدہ sonar نظام اور دماغ میں اس کے متوازی لہریں موصول کرنے والا نظام تخلیق کر سکتا ہے جو گونج کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے۔ کیا انتخاب طبعی کا کوئی نمائندہ چربی کا ایسا لوتھڑا تیا ر کر سکتا ہے جو آواز کی لہروں کو ایک خاص سمت میں پھینک سکے؟ ذرا وہ چربی کے اس لوتھڑے سے آواز کی ایک لہر تو پیدا کر کے دکھائے خواہ اسے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ بایں ہمہ ڈالفن کا میلن(melon) ایک سیکنڈ میں سات سو ایسی لہریں پیدا کر سکتا ہے۔
چارلس ڈارون جو دور کی کوڑی لائے ہیں اور جس نے بقول ماہرین حیاتیات زندگی کا معمہ حل کر دیا ہے دراصل تین مردہ اصولوں پر مشتمل ہے یعنی جہدللبقائ۔ بقائے اصلح اورانتخاب طبعی جن سے زندگی تشکیل پاتی ہے۔ لیکن ماہرین حیاتیات یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تین اصول مردہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہرے گونگے اور اندھے بھی ہیں۔ یہ اصول زندگی کے خالق نہیں ہیں بلکہ صرف اسی صورت میں کارفرما ہوتے ہیں جب خالق نے کوئی چیز پہلے سے ہی تخلیق کر رکھی ہو۔ ماہرین حیاتیات کو سب سے پہلے تو ڈالفن کے سمعی نظام کے تخلیقی عوامل کی وضاحت کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ہی وہ بتا سکتے ہیں کہ انتخاب طبعی کس طرح ان تخلیقی عوامل پر اثرانداز ہوا ہو گا۔ ہمارا ان سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ وہ انتخاب طبعی کو تخلیقی عوامل سے خلط ملط نہ کریں۔ ڈالفن یا چمگادڑ کے تعلق میں کونسے تخلیقی عوامل کارفرما تھے اور ان تخلیقی عوامل نے کس طرح اس نظام کو کمال تک پہنچایا۔ نیز ڈارون کے اصولوں نے ان ارتقائی عوامل کو موجودہ مکمل صورت تک پہنچانے میں کس طرح تخلیق کے ہر قدم پر ان کے مخفی خالق کی مدد کی؟
اب ہم بصارت کی حس پر گفتگو کرتے ہوئے انسانی آنکھ کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم ثابت کریں گے کہ یہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ عضو ہے۔ لہٰذا قدرت نے بڑی احتیاط سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا ہے۔ چنانچہ کھوپڑی کی ہڈی آنکھ کے پچھلے حصہ کی حفاظت کرتی ہے جبکہ پپوٹے اور پلکیں آنکھ کے سامنے والے نصف اور اندرونی حصہ کی حفاظت کرتی ہیں۔
ایک جھلی آنکھ کے اندرونی حصہ کو اس کی پتلی سے الگ کرتی ہے جس پر ایپی تھیلیئم (epithelium) کی ایک اور جھلی موجود ہوتی ہے جو باہر سے آنکھ میں داخل ہونے والے بیکٹیریا کو تلف کرتی ہے۔
اگر باہر سے کوئی چھوٹی سی چیز بھی آنکھ میں داخل ہوجائے تو قدرت کا حفاظتی نظام فوراً فعّال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پپوٹوں کی تیز حرکت اور آنسوؤں کے غدود (tear glands) آنسوؤں کے اخراج سے جن میں جراثیم کش خامرے شامل ہوتے ہیں،اس چیز کو باہر نکال پھینکنے کی کو شش میں لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ آنسو ساکٹ) (socket کے نچلے کونوں میں موجود مخصوص نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں جو انہیں آگے نتھنوں تک پہنچا دیتی ہیں۔ آنکھ کی پتلی اپنے مخصوص خانہ میں چربی کے حفاظتی گدّوں(cushions) میں پیوست ہوتی ہے اور دوہرے عضلات کے ذریعہ ساکٹ سے جڑی ہوتی ہے جو ساکٹ کے اندر سے لے کر آنکھ کی پتلی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی عضلات آنکھ کو حرکت دیتے ہیں۔ آنکھ تقریباً ایک کرّہ کی شکل میں ہوتی ہے جس کی پتلی کی دیواریں تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔
‏:Sclera .1 یہ بیرونی تہ مضبوط، سفید رنگ کی بافت پر مشتمل ہوتی ہے جسے آنکھ کی سفیدی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حصّہ سامنے سے کچھ ابھرا ہوا اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔ اسے کارنیا(cornia) کہتے ہیں۔
‏:Choroid .2 یہ درمیانی تہ نازک بافتوں اور خون کی نالیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ آنکھ کو pupil یعنی پتلی کے علاوہ جو کارنیا کے عین عقب میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ پتلی کے گرد آئرس(Iris) نامی یہ تہ رنگدار ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے آنکھیں مختلف رنگوں مثلاً بھورا، نیلا، سبز، سرخی مائل یا ان کا مجموعہ دکھائی دیتی ہیں۔ پتلی کے ذریعہ آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کی مقدار کو کنٹرول کیا جاتا ہے جو Choroid میں موجود ایک عدسہ میں سے گزرتی ہے۔ یہ عدسہ پلکوں (ciliary) کے عضلات کے کورائڈ (Choroid) کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ ان عضلات کے ذریعہ دور یا نزدیک کی اشیاء کو فوکس کرنا آنکھوں کیلئے آسان ہو جاتا ہے۔ aqueous humor ایک پانی نما سیال ہے جو کارنیا اور عدسہ کے درمیان بھرا رہتا ہے اور اسی کے دباؤ سے کارنیا ذرا سا باہر کی طرف نکلا ہوا ہوتا ہے۔ عدسہ کے پیچھے کا تمام تر حصّہ ایک نسبتاً موٹے اور شفاف مادہ سے بھرا ہوتا ہے جسے vitreous humor کہتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھ ٹھوس اور کروی شکل اختیا ر کئے رکھتی ہے۔ 5
.3 ریٹینا (retina) یہ وہ حساس اور اندرونی ترین پردہ ہے جس کی موٹائی ایک ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ یہ پردہ بجائے خود خلیات کی دس مختلف تہوں پر مشتمل ہے جنہیں ریسیپٹر (receptor) گینگلیا (ganglia) اور عصبی ریشے کہا جاتا ہے۔ 6
ریسیپٹرجنہیں فوٹوریسیپٹر کہنا زیادہ مناسب ہوگا، دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کونز (cones) اور راڈز(rods) ان میں راڈ سیل (rod cells) جو سفید اور سیاہ رنگ میں تمیز کر سکتے ہیں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ ہے اور کونز سیلز (cones cells) جو انسانی آنکھ میں رنگوں کی تمیز کرتے ہیں کی تعداد صرف ستّر لاکھ ہے۔7کونز کی شکل مخروطی ہوتی ہے جب روشنی ریٹینا(retina) پر پڑتی ہے تو وہ کونز اور راڈز کو متحرک کر دیتی ہے۔ کونز کا سب سے بڑا اور بنیادی کام روشنی کو مختلف رنگوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اگر ان میں کوئی خامی ہو تو آدمی کلر بلائینڈ ہو جاتاہے۔ دن کی پوری روشنی میںکونز بصارت کے تمام افعال سر انجام دیتی ہیں۔ اس وقت راڈز بظاہر بیکار ہوجاتے ہیںمگر ہلکی روشنی یا تاریکی میں ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ مدھم روشنی یا مکمل تاریکی میں راڈز ہی بصارت کا کام دیتے ہیں۔ لیکن وہ صرف سفید اور سیاہ میں تمیز کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں کونز بالکل کوئی کام نہیں کر سکتیں۔ انتہائی مدھم روشنی میں رنگ یا توبہت ہلکے نظر آتے ہیں یا بالکل ہی دکھائی نہیں دیتے۔ جب بھی کوئی روشنی سے تاریکی میں جاتا ہے تو وہاں موجود اشیاء کو دیکھنے کیلئے اسے جتنا وقت درکار ہو تا ہے وہ دراصل راڈز کے دوبارہ فعّال ہونے کا وقت ہے۔ کونز اور راڈز ان لہروںکے ارتعاش کو ریٹینا(retina) کے سامنے موجود گینگلیا(ganglia) کو منتقل کر دیتے ہیں اور انہیں متحرک کر دیتے ہیں۔ گینگلیا سے نکلنے والے پانچ لاکھ عصبی ریشے ان لہروں کو دماغی عقب تک پہنچاتے ہیں جو عصب بصری (optic nerve) کہلاتا ہے۔ جس مقام پر عصب بصری اور پردۂچشم باہم ملتے ہیں وہ بلائینڈ سپاٹ (blind spot) کہلاتا ہے کیونکہ وہاں کسی بھی قسم کے کونز اور راڈز نہیں ہوتے۔
ہر آنکھ کے عقب سے الگ الگ آپٹک نرو (optic nerve) ہی دماغ میں مخ کبیر (cerebrum) کے آکسی پٹل حصہ(occipital lobe) تک بصارت کے پیغامات پہنچاتی ہے جو بصارت کا مرکز ہے۔ یہ مرکزی حصہ مزید دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ ایک آنکھ کیلئے مخصوص ہے اور دوسرا دوسری آنکھ کیلئے۔ کچھ اعصاب دائیں ڈیلے سے بائیں حصہ میں اور کچھ بائیں ڈیلے سے دائیں حصہ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک آنکھ کسی چیز کو دیکھتی ہے تو دماغ کے دونوں حصوں میں اسی کی شبیہ ابھرتی ہے۔ 8 ریٹینا جو عکس بناتا ہے وہ الٹا ہو تا ہے مگر بصارت سے متعلق مرکزی حصہ میں پہنچ کر وہ پھر سیدھا ہو جاتا ہے۔ بصارت کا مرکز دیگر بہت سے محیرالعقول کام سرانجام دیتا ہے۔ یہ عکس دراصل بہت چھوٹا ہو تا ہے مگر یہاں پہنچ کر اُس کا سائز مکمل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات یہ عکس اصل شبیہ سے لاکھوں۔ کروڑوں بلکہ اربوں گنا بڑا ہوتا ہے۔ ستاروں پرایک نظر ڈالیں تو دماغ میں اس عظیم کائنات کا جو عکس ابھرتا ہے وہ ریٹینا پر پڑنے والے عکس سے کئی کھرب گنا بڑا ہوتا ہے۔ یہ حیرت انگیز عمل تنہا آنکھ ہی نہیں کرتی بلکہ بصری نظام کے تینوںبنیادی اعضاء اس میں برابر کے شریک ہیں لیکن اس سارے عمل کے نتیجہ میں بننے والی شبیہ دماغ میں موجود بصارت کے مرکز ہی کی مرہون منت ہے۔
ریٹینا بعض اور بھی حیران کن کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ ایسی فلم کی طرز پر کام کر تا ہے جو عکس وصول کرکے انہیںفوراًصاف کر دیتی ہے اور نئے مناظر پرانے مناظر کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ ایساکام ہے جو انسان کی بنائی ہوئی فلموں اور وڈیوٹیپس کے بس سے باہر ہے۔ بصارت کے مرکزی حصہ میں اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب کام ہورہے ہیں۔ یہ پورے کے پورے عکس کو دماغ کے پیچیدہ اور نازک فائلنگ سسٹم میں فی الفور محفوظ رکھتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی میں ایسی اربوں شبیہیں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ ایک صحیح الذہن آدمی اپنے بچپن کے کسی واقعہ کو بعینہٖ اس کی اصلی حالت اور شکل و صورت میں اپنی یادداشت میں محفوظ رکھ سکتاہے۔ اسی طرح کسی خاص عکس سے متعلقہ محرکات بھی خواہ وہ کتنے ہی پرانے کیوں نہ ہوں، عکس کے ساتھ ہی دوبارہ یاد آجاتے ہیں۔ چنانچہ بصری نظام کا تیسرا عضو دماغ خود ہے۔
مختلف جانوروں میں خوف کے محرکات پر گہری تحقیق کی گئی ہے کہ کس طرح یہ محرکات دماغ کے سماعت اور بصارت کے حصوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماعت اور بصارت کی و جہ سے پیدا ہونے والے خوف کے نقوش دماغ کی متعلقہ بافتوں پر مستقل طور پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین نفسیات کی کوششوں یا ادویات کے ذریعہ اس کا ردعمل کسی حد تک کم تو کیا جا سکتاہے مگر یہ نقش اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ عصرجدید کے سائنسدانوں کی بصری نظام کو مکمل طور پر سمجھنے کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ انسان کا ایجاد کر دہ کوئی بھی سمعی یا بصری نظام جو مذکورہ بالا تین اعضاء پر مشتمل ہو اپنی نزاکت اور پیچیدگی میں ان حیرت انگیز اور باہم مربوط مشینوں کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ماہرین حیاتیات کو دراصل اس بات پر تحقیق کرنی چاہئے کہ اس نظام میں کونسی فطری قوتیں ایک مربوط تخلیقی کردار ادا کر رہی ہیں۔ دراصل ایسا وہ کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس صورت میں یہ اہم مربوط نظام ڈارون کی بجائے خداتعالیٰ کی ہستی کی موجودگی پر دلالت کرے گا۔ یہاں اندرونی حیاتیات اور زندگی کے میکانکی نظام(mechanism) کا ذکر ہو رہا ہے نہ کہ بیرونی اندھی قوتوں کا جن کا اس میکانکی نظام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
جیساکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں بصارت کا آغاز محض آنکھ کی تخلیق سے نہیں ہوتا۔ یہ ایک مخلوط (composite) احساس ہے جو جانور کی عضویاتی نشوونما پر منتج ہو تا ہے۔ حال ہی میں سمندر میں سینکڑوں میٹر نیچے بہت سے تحقیقاتی سائنسی تجربات کئے گئے ہیں اور اس تحقیق کو کئی کلومیٹر نیچے سمندر کی تہ تک پھیلا دیا گیا ہے۔ سطح سمندر سے دو سو میٹر نیچے روشنی عملاً ختم ہو جاتی ہے۔ مگر ان تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض جانور جن میںآنکھ ہوتی ہی نہیں، روشنی پیدا کرنے والے بعض جانوروں کی بہت مدھم روشنی میں بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دریافت ایک نہایت حساس الیکٹرانک مشین ventana کی مدد سے کی گئی ہے جس میں کوئی پائلٹ نہیں ہو تا اور جسے تاروں کے ذریعہ مسلسل برقی توانائی پہنچا کر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں میں اوپر بیٹھے ہوئے سائنسدانوں کو انہی تاروں کے ذریعہ معلومات موصول ہوئی ہیں جو دن رات ان کے مشاہدہ میں مصروف رہتے ہیں۔ اس تجربہ کی ایک نہایت دلچسپ رپورٹ جولائی 1995 ء کے سائنٹفک امریکن رسالہ میں شائع ہوئی ہے۔9 دیگر بہت سی حیرت انگیز باتوں کے علاوہ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ Medusae نامی جیلی فش(Jelly fish) جس کی آنکھیں ہوتی ہی نہیں جب اس پر روبوٹ کی روشنی پڑتی ہے تو ردعمل کے طور پر وہ زیادہ گہرائی میں چلی جاتی ہے۔ اسی امر کا ہم اس سے قبل ذکر کر چکے ہیں کہ دراصل ادنیٰ درجہ کی مخلوق میں بھی ایک مبہم سا احساس ضرور ہوتا ہے جو تصرف الٰہی کے تحت بالآخر اعضائے حس کی تخلیق پر منتج ہو تا ہے۔ اکثر ہر آغاز اگرچہ نہایت معمولی ہو تا ہے تاہم اس میں ارتقا کے بڑے حیران کن مراحل کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ بصارت کا یہ مبہم احساس جو ہمیں Medusae میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے اس سے اگلا قدم ایک ایسی آنکھ کی تخلیق ہے جو pin hole کیمرہ کی طرح بغیر عدسہ کے ہو۔ اور قانون قدرت میں ہمیں بعینہٖ اسی طرح نظر آتا ہے۔ مگر ڈارون کا نظریہ اس باریک سوراخ (pin hole) والی ابتدائی آنکھ کی تشریح کا بھی متحمل نہیں ہو سکتاکیونکہ اس ابتدائی سطح پر بھی بصارت کا مکمل نظام موجود ہے نہ کہ صرف معمولی سا سوراخ۔ ان جانوروں میں ایک کی بجائے دو pin holes موجود ہوتے ہیں جو باہم مربوط معلومات کو عقب میں موجود عضو receptacle تک پہنچاتے ہیں جہاں سے یہ معلومات ایسی حس شعور تک پہنچتی ہیں جسے ابتدائی دماغ قرار دیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں انسانوں میں پایا جانے والا بصری نظام کروڑوں سال پہلے کے جانوروںمیں بھی بعینہٖ اسی ترقی یافتہ شکل میں موجود تھا۔ اس صورت میں زندگی کے آغاز سے ان جانوروں کی اتفاقی تخلیق تک اندھے ارتقا کیلئے وقت اور بھی کم رہ جاتا ہے۔ اکثر حشرات میں مکمل بصری نظام پایا جاتا ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا سے ملنے والی پچاس کروڑ سال پرانی مچھلیوں کے متحجّرات (fossils) میں سوراخ پائے گئے ہیں جو بڑی بڑی آنکھوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 10 لہٰذا جانوروں کے بصری نظام کے ارتقا کیلئے محض پچاس کروڑ سال کا عرصہ بچتا ہے جو ناقابل یقین حد تک کم ہے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ پچاس کروڑ سال کے اس عرصہ کو مزیدچھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جانا ضروری ہے جن میں سے ایک حصہ زندگی کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق کیلئے بھی درکار ہے۔
تاہم آغاز سے زندگی کی تکمیل کے لئے اب تک کا عرصہ نہایت قلیل ہے۔ گویا مطلوبہ وقت کے مقابلہ میں یہ عرصہ محض ایک رتی ّ کے برابر ہے۔ صرف زندگی کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق کیلئے اس سے کہیں زیادہ وقت درکار ہے جتنا وقت ارتقائے حیات پر اب تک صرف ہوا ہے۔ یہی وہ گمبھیر معمّہ ہے جس کا سائنسدانوں کو سامنا ہے جبکہ باقی دنیا اس مخمصہ کا شکار ہے کہ ان سائنسدانوں کی عقل پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔
عالم حیوانات میں پائی جانے والی ہر قسم کی آنکھ وہی کام کرتی ہے جس کے لئے اسے تشکیل دیا گیا ہے اور وہ اپنے ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اگر ارتقائی عمل بے مقصد ہو تا تو کسی ایسی چیز کا وجود میں آنا ہی ناممکن تھا جس کا ایک مخصوص کام ہو۔ ایک معمولی سے آلہ کی تیاری سے بھی پہلے اس کے مقصد کی تعیین ضروری ہوتی ہے اور یہی حیات کے اسرار و رموز کی سادہ اور عام فہم منطق ہے۔
انسان نے سب سے پہلے پتھروں سے کام لینا شروع کیا۔ بظاہر یہ پتھر بے مقصد تھے مگر جیسے ہی ہم انہیں ایک دستہ والی کلہاڑی کی صورت میں ڈھالتے ہیں تو کوئی بھی معقول اور صحیح الدماغ شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ معمولی سا ہتھیاربھی بغیر کسی مقصد کے محض اتفاقاً وجود میں آگیا ہے جبکہ زندگی تو اس کی نسبت اربوں گنا زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہے ہر تخلیق کا ایک مقصد ہے جس کو پورا کرنے کیلئے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔ چنانچہ اسے ایک بے مقصد تخلیقی سفر قرار دینا اندھیپن کی انتہا ہے۔
حوالہ جات
1. Anatomy Notes (details not listed).
2. KONISHI, M. (April, 1993) Listening with Two Ears. Scientific American, pp.34-41
3. DAWKINS, R. (1996) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, pp.27-29
4. DAWKINS, R. (1996) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, pp.96-97
5. Anatomy Notes (details not listed).
6. OTTO, J.H., TOWLE, A. (1977) Modern Biology. Holt, Rinehart and Winston, Publishers. USA, p.592
7. The Hutchinson Dictionary of Science (1993) Helicon Publishing Ltd. London, p.224
8. OTTO, J.H., TOWLE, A. (1977) Modern Biology. Holt, Rinehart and Winston, Publishers. USA, pp.593-595
9. ROBISON, B.H. (July, 1995) Light In The Ocean's Midwaters. Scientific American, pp.51-56
10. LONG, JOHN A. (1995) The Rise of Fishes 500 million years of Evolution. University of New South Wales Press, Australia. (Also worthy of study are his other works on fishes like The Rise of Fishes (1957).
وقت کا اندھا، بہرہ اور گونگا خالق
اب ہم حسب وعدہ رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins)جو اب پروفیسر ڈاکنز ہیں، کی کتاب 'The Blind Watchmaker'1 کا جائزہ لیتے ہیں۔
شروع شروع میں تو اس کتاب کا مطالعہ کچھ مشکل تھا کیونکہ پروفیسر ڈاکنز زندگی کے حقیقی مسائل کو جاننے اور ان کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کا سامنا کرنے سے کتراتے دکھائی دیتے ہیں۔ وقت ضائع کئے بغیر وہ اس کتاب میں خود ساختہ نظریات کے باہمی تضادات کو بڑی چابکدستی سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اٹھائے گئے تمام نکات پر گفتگو کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ا ن میں سے بیشتر غیر ضروری اور غیر متعلق ہیں۔ تاہم جب وہ زندگی کے حقائق اور اس کے سربستہ رازوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ خالصۃً ایک سائنسدان کی حیثیت سے ایسا کرتے ہیں اور بدنیتی سے حقائق کو مسخ نہیں کرتے۔ پروفیسر ڈاکنز کا یہ انداز یقینا قابل تعریف ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کا یہی انداز انتخابِ طبعی کی توجیہہ کو انتہائی منفی رنگ میں پیش کرتا ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کے مطالعہ سے کسی رنگ میں بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ زندگی اپنی تمامتر پیچیدگیوں کے ساتھ پہلے سے موجود کسی باشعور خالق ہستی کے بغیر معرض وجود میں آئی ہو۔ انتخابِ طبعی بہرحال ایسا وجود نہیں ہے۔ اسی منطقی نتیجہ سے بچنے کیلئے وہ ہوشیاری سے اپنی ہی بنائی ہوئی کمپیوٹر گیمز اور حیوانی جسم کی ساخت کے عجائبات کی تصوراتی دنیا میں پناہ لیتے ہیں اور پھر بظاہر وہ انسان کی بنائی ہوئی مشینوں اور زندگی کی پیچیدگیوں کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ قاری کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کے بنائے ہوئے عجائبات کی پیچیدگیاں تو کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے سوچ سمجھ کربنائی گئی ہیں جبکہ قدرت کی تخلیق میں موجود پیچیدگیاں اگرچہ مشینوں سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہیں لیکن ان کی تخلیق کے پیچھے کوئی خاص مقصد یا منصوبہ کارفرما نہیں ہے۔ وہ قاری کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ قدرت کے عجائبات اور ان کی کسی خاص مقصد کے تحت تخلیق صرف ایک واہمہ ہے۔ اس جگہ وہ بیچارے قاری کو فریب کاری سے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھما کر اس کے ذہن کو الجھانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ وہ دنیا کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ انسان کی بنائی ہوئی اشیاء تو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ لہٰذا ان میں مقصد، منصوبہ بندی اور پیچیدگی کا پایا جانا ضروری ہے جو کسی ذہن کی بالارادہ کوشش کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے۔ کائنات کا ذکر کرتے ہوئے اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں انسان کی بنائی ہوئی اشیاء کی نسبت کہیں زیادہ عجائبات دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس بات پر مصر ہیں کہ چونکہ انسان کی بنائی ہوئی اشیاء کے پیچھے کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے اس لئے لاشعوری طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کا کوئی مقصد ضرور ہوگا اور اس طرح ہم غلطی سے یقین کر بیٹھتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی کسی باشعور خالق کا ہاتھ ہے۔ اپنے اس نظریہ کے حق میں وہ کسی قسم کی دلیل دینے کی بجائے فقط اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کے برعکس ان کی پیش کردہ ہر مثال کا نتیجہ ان کے اخذ کردہ نتائج کے بالکل برعکس نکلتا ہے۔
مثلاً چمگادڑ پر ان کی تحقیق نہایت عمدہ ہے۔ چونکہ ہم پہلے ہی چمگادڑ کے متعلق بعض حیرت انگیز امور کا ذکر کرچکے ہیں اس لئے یہاں ہم صرف پروفیسر ڈاکنز کے بیان کردہ مشاہدات میں سے بعض کا حوالہ دیں گے اور انہیں ان کا وعدہ بھی یاد دلائیں گے جو ان کی اپنی کتاب کے دیباچہ کے صفحہ اوّل پر مذکور ہے کہ:
’’اس پر اسرار حقیقت کے بیان کے بعد میرا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ میں اس حقیقت کا حل پیش کروں‘‘۔ 2
لیکن افسوس کہ وہ یہ وعدہ پورا نہیں کر سکے۔
اپنی کتاب کے باب بعنوانGood Design کے بیشتر حصہ میں انہوں نے چمگادڑ پر ہی قلم اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’چمگادڑ کے دماغ کے خلیات انتہائی اعلیٰ کارکردگی پر سیٹ کئے گئے برقی عجائبات کا مجموعہ ہیں۔ جن میں کسی کمپیوٹر کی طرح وہ تمام پروگرام موجود ہیں جو انہیں صدائے باز گشت کے تمام قوانین کو سمجھنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ ان کے چہرے عموماً بگڑی ہوئی انسانی شکلوں سے مشابہ ہوتے ہیں جو اس وقت تک بھیانک دکھائی دیتے ہیں جب تک ہمیں اس کی وجہ معلوم نہ ہوجائے۔ دراصل ان کی یہ شکل انہیں انتہائی اعلیٰ درجہ کے ایسے آلات بنادیتی ہے جو الٹرا ساؤنڈ آوازوں کو مطلوبہ سمت میں نشر کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘3
پروفیسر ڈاکنز نہایت عمدگی سے اس معمہ کو حل کرتے اور مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے صدائے بازگشت کے قوانین کو استعمال کرنے میں چمگادڑ کی اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں کو ان الفاظ میں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
’’جب ایک چھوٹی سی بھورے رنگ کی چمگادڑ کسی کیڑے کو قریب پاکراسے شکار کرنے کے لئے اس کی طرف حرکت کرنا شروع کرتی ہے تو اس کے منہ سے نکلنے والی صوتی لہروں کے ارتعاش کی رفتار کسی مشین گن کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہو جاتی ہے اور جب یہ حرکت کرتے ہوئے شکار پرجھپٹتی ہے تو ارتعاش کی یہ رفتار 200 دفعہ فی سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘4
پھر وہ یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ:
’’اگر چمگادڑ اپنی صوتی لہروں کی رفتار کو 200 دفعہ فی سیکنڈ تک بڑھانے کی استعداد رکھتی ہے تو پھر وہ ہمیشہ ہی اس رفتار کو برقرار کیوں نہیں رکھتی۔ اگر چمگادڑ اپنے stroboscope سے اس رفتار کو کم و بیش کرنے کی مخصوص صلاحیت رکھتی ہے تو پھر وہ اسے ہمیشہ انتہائی بلند صوتی ارتعاش کی سطح پرقائم کیوں نہیں رکھتی تاکہ ماحول میں اچانک پیدا ہونے و الی صورت حال سے بآسانی نمٹا جاسکے۔‘‘4
ان سوالات کا وہ خود ہی درج ذیل جوا ب دیتے ہیں:
’’اس کی ایک و جہ تو یہ ہے کہ صوتی لہروں کی یہ تیز رفتاری صرف قریبی ہدف کے لئے ہی مناسب ہے۔ اگر کسی آواز کی لہر اپنے سے پہلی لہر کے معاً بعد بہت قریب سے گزرے تو وہ اس پہلی آواز کے کسی دور کے ہدف سے ٹکرا کر صدائے بازگشت کی صورت میں واپس لوٹتے وقت اس کے ساتھ خلط ملط ہوسکتی ہے۔‘‘5
اس طرح پروفیسر ڈاکنز صدائے بازگشت اور پرواز کے معاملہ میں چمگادڑ کی صوت وصدا کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :
’’ہم ان امور کو صرف اورصرف مخصوص آلات اور ریاضی کے کلیوں کی مدد سے ہی کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ یقین نہیں آتا کہ ایک چھوٹا سا جانور کس طرح یہ سب جمع تقسیم اپنے دماغ میں ہی کر لیتا ہے۔‘‘6
اس سے ملتی جلتی لیکن پیچیدگی میں بہت کمتر مشینوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’یقینا ایک ماہر اور باشعور دماغ نے ہی ا س قسم کی مشین کے تمام تاروں کا تانا بانا جوڑا ہوگا (یا کم ازکم ان کا نقشہ تیار کیا ہوگا) اگرچہ اس کی لمحہ بہ لمحہ کارکردگی کے پیچھے کوئی باشعور ذہن کارفرما نہیں ہوتا۔‘‘7
’’…ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارا تجربہ ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم ان مشینوں کے پس پردہ خاص ارادہ اور منصوبہ کے تحت کام کرنے والے ڈیزائنر کے ذہن کی حقیقت کو تسلیم کریں۔‘‘8
یہاں پروفیسر صاحب جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ نہایت بے معنی اور لغو ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ دراصل شعور سے عاری انتخابِ طبعی ہی وہ ڈیزائنر ہے جسے اندھے گھڑی ساز کا نام دیا جاسکتا ہے۔ چمگادڑ کے اس عجیب و غریب سمعی نظام کی تخلیق میں ڈارون کے اندھے اور سوجھ بوجھ سے عاری قانون کے عمل کو وہ یکسر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ایسے پیچیدہ نظام والے عضو کی خود بخود تخلیق کیسے ممکن ہے؟‘‘
اس کا جوب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سوال بحث کی غرض سے نہیں اٹھایا گیا بلکہ بے یقینی کا اظہار ہے۔‘‘9
اگر پروفیسر ڈاکنز کو کہا جائے کہ ان کے زیر استعمال 64 کلو بائٹ کا کمپیوٹر کسی باشعور دماغ کی تخلیق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ساخت کا کسی ڈیزائن سے تعلق ہے تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کر لیں گے؟ اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا ادنیٰ درجے کا کمپیوٹر چمگادڑ کے سمعی نظام سے کہیں کم پیچیدہ ہے وہ یقینا یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ کمپیوٹر خود بخود بن گیا۔
اگر وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ کوئی کمپیوٹر کسی قابل ڈیزائنر کی مدد کے بغیر خود بخود بن سکتا ہے تو انہیں نہایت ایمانداری سے خالق کائنات کے وجود سے انکار کی وجوہات کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس کی واحد دلیل یہی ہے کہ کمپیوٹر کا پیچیدہ اور مربوط نظام ازخود وجود میں نہیں آسکتا۔ لیکن جب وہ حیات کی تشکیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کا انداز یوں یکسر بدل جاتا ہے جیسے ان کی قلب ماہیئت ہوگئی ہو۔ بحیثیت ماہر حیاتیات انہیں اس چیز کا پتہ ہونا چاہئے کہ زندگی کمپیو ٹر سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کھرب ہا کھرب گنا زیادہ پیچیدہ کہنا بھی شاید مبالغہ نہ ہو۔ اگر کمپیوٹر کو واہمہ قرار نہیں دیا جاسکتا تو اتنے بڑے نظامِحیات کو کس طرح واہمہ قرار دیا جاسکتا ہے جو کمپیوٹر کے مقابلہ میں بدرجہا پیچیدہ ہے۔ پروفیسر ڈاکنز کو ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر ان کا نظریہ درست ہے تو پھر تو خود ان کا اپنا دماغ بھی اپنی تمام ترپیچیدگیوں کے باوجود محض ایک واہمہ قرار پائے گا۔ ہم ان کے بارہ میں کسی قسم کے سخت الفاظ استعمال نہیں کرناچاہتے۔ لہٰذا ہم یہ فیصلہ انہیں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ دو باتوں میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ کیا وہ یہ چاہیں گے کہ ان کا دماغ سمجھ بوجھ سے عاری بے ترتیب اعصابی خلیات کے ڈھیر کی صورت میں موجود محض ایک واہمہ قرار دیا جائے یا وہ اپنے نظریات کو محض وہم سمجھ کر رد کرنا پسند کریں گے۔ باوجود خواہش کے ہماری نظر میں کوئی تیسرا راستہ موجو د نہیں ہے۔ اگر انسانی دماغ محض ایک واہمہ ہے تو پھر تو اس میں جنم لینے والے خیالات کئی گنا زیادہ وہم کا شکار ہوں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک پاگل کے پراگندہ خواب مزید پراگندگی کو جنم دیتے ہیں یا اوہام دراوہام کا سلسلہ چلتاچلا جاتا ہے۔ ہم ایسے صاحب علم اور اعلیٰ درجے کے فہم و فراست والے شخص کے دماغ کو محض واہمہ قرار دینا ہرگز پسند نہیں کرتے۔ اس جگہ پروفیسر ڈاکنز لفظوں کا جال بننے لگتے ہیں۔ وہ بڑی ہی سادگی سے یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ زندگی پیچیدہ ہے ہی نہیںاور اسے پیچیدہ سمجھنا محض ایک واہمہ ہے۔ لہٰذا جب یہ پیچیدہ ہی نہیں تو خود بخود جنم لے سکتی ہے۔ زندگی کی پیچیدگی کو واہمہ قرار دینا اور کمپیوٹر کے نظام کو پیچیدگی سے تعبیر کرنا گویا عقل کو الٹا لٹکا دینے کے مترادف ہے۔ پروفیسر ڈاکنز کی اس قلابازی کے مقابلہ میں تو دن کو رات اور رات کو دن قرار دے دینا زیادہ قرین قیاس ہوگا۔ اس سارے معاملہ کی تان تو ڈاکنز کے عدم یقین پر ٹوٹتی ہے۔ ان کے نزدیک ایک معمولی بوئنگ 747 کا خود بخود معرضِ وجود میں آنا تو ناقابل یقین ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ کائنات کا کسی خالق کے بغیر وجود میں آنا ان کے لئے ایک معمولی بات ہے۔ اس مخمصہ سے نجات پانے کے لئے اور وجود باری کے متعلق اپنے تعصب کو چھپانے کیلئے وہ قدرت کی پیچیدگیوں کی پناہ ڈھونڈتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ تو محض ضعیف الاعتقاد مذہبی لوگوں کے توہمات ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے قبل بہتر ہوتا کہ وہ بوئنگ 747 بنانے والوں کے وجود کو بھی اپنے ذہن کا واہمہ قرار دے کر مسترد کر دیتے۔ کیونکہ جو دلیل وہ خداتعالیٰ پر ایمان لانے والوں کے خلاف دیتے ہیں وہی دلیل زیادہ شدّت سے ان کے اپنے خلاف جاتی ہے۔ اگر ایک سادہ سے کمپیوٹر کا خود بخود وجود میں آناممکن نہیں تو بوئنگ 747 کا خود بخود بن جانا تو اور بھی زیادہ ناممکن ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان ناممکنات پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی چیزیں اپنے پیچیدہ ہونے کی وجہ سے اس حقیقت کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو بالارادہ بنانے والا کوئی دماغ موجود ہے۔ لیکن جب قدرت کی صناعی کی بات ہوتی ہے تو کسی باشعور خالق ہستی کے انکار سے بچنے کیلئے وہ اس تخلیق کی پیچیدگی کو محض واہمہ قرار دے دیتے ہیں۔ اگر پروفیسر ڈاکنز کے نزدیک کسی بوئنگ 747 کا خود بخود بن جانا ناممکن ہے تو زندگی کاخود بخود وجود میں آجانا کہیں زیادہ ناممکن سمجھا جانا چاہئے۔ ان کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہلے ہی سے انکار پر تلے بیٹھے ہیں۔
پروفیسر ڈاکنز کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے دعویٰ کے ساتھ ساتھ فریقِ ثانی کے نظریہ کی وضاحت بھی اسی منطقی طرز پر کرتے جو انہوں نے خود اپنے خیالات کی وضاحت کیلئے استعمال کی ہے۔ اپنے دعویٰ کی تائید میں ان کی واحد دلیل ہے کہ:
’’…ارتقائی عمل کے تحت ہونے والی تبدیلی کیلئے جس قدر لمبے عرصہ کی ضرورت ہے ہمارا ذہن اس کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔‘‘ 9
بالفاظ دیگر ان کا مطلب یہ ہے کہ بوئنگ 747 کے بننے کیلئے جس قدر وقت درکار ہے اس دوران تو ہونے والی تبدیلیوں کا ہمیں فطرتی طور پر علم ہوتا ہے۔ لیکن ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی یہ دلیل سراسر غیر متعلق ہے۔ وقت کی کمی بیشی کا اس امر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ بوئنگ 747 کے بارہ میں تو انہیں علم ہے کہ چونکہ اس کی تیاری کے پیچھے ایک باشعور ذہن کارفرماتھا اس لئے وہ پہلے سے ایک تیار شدہ منصوبہ اور مقصد کے قائل ہیں۔ ایک مثال کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ دراصل وقت کا ان کی دلیل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً اگر اس ہوائی جہاز کا کوئی حصہ کسی ایسے ویرانے سے جہاں وہ گزشتہ پچاس کروڑ سال سے مدفون تھا دریافت ہوجائے تو کیا پروفیسر ڈاکنز یقین کر لیں گے کہ وقت ہی اس کا خالق ہے؟ ہرگز نہیں۔ انہیں لامحالہ ایک ایسے غیرمعلوم خالق کا، جو ایک باشعور ذہن کا مالک ہو، قائل ہونا پڑے گا۔ پروفیسر ڈاکنز وقت کو جتنا چاہیں طول دے دیںپھر بھی وہ کبھی اس بات پر یقین نہیں کر سکتے کہ بوئنگ 747 کا ایک پہیہ تک امتداد زمانہ کے ساتھ رفتہ رفتہ ازخود تیار ہوگیا ہو۔ یہاں زندگی کا ہونا یا نہ ہونا زیر بحث نہیں ہے بلکہ اس کی پیچیدگی، تکنیکی ساخت اور اعلیٰ بناوٹ موضوعِ سخن ہے۔
علاوہ ازیں اس موقف پر اصرار کہ چمگادڑ کی پیدائش نیچر کی اندھی اور شعور سے عاری قوتوں کی مرہون منت ہے، کا مقصد کسی نہ کسی طرح ایک مقتدر بالا رادہ خالق ہستی سے انکار کرکے ڈارون کے اندھے اور شعور سے عاری قانون کو اس کی جگہ لا بٹھانا ہے۔ اس مفروضہ سے تو صرف وہی دانشور اتفاق کر سکتے ہیں جو وسیع علم اور فہم رکھنے کے باوجود محض خدا کی ہستی سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے، وقتی طور پر ہی سہی، عقل کے تقاضوں سے منحرف ہوجائیں۔
پروفیسر ڈاکنز نے ڈارون کے نظریہ کی تائید میں کمال ہوشیاری سے انتخاب طبعی کے اصول پر اٹھنے والے اس عمومی اعتراض کو رد کرنے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق پیچیدہ اندرونی جینیاتی افعال میں انتخاب طبعی کے عمل دخل کی نفی ہو جاتی ہے۔ دراصل حیاتیات (Biology) کے متعلق ان کا بنیادی موقف یہی ہے۔ انتخاب طبعی اور جینز(genes) کے باہمی تعلق پر انہوں نے ایک بالکل نیا تصور پیش کیا ہے۔ انہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عمل ارتقامیں ہو نے والی تبدیلیوں کے ذمہ دار جینز ہیں۔ نہ ہی بظاہر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلیاں براہ راست انتخابِ طبعی کا نتیجہ ہیں۔ وہ تو محض اس بات کے مدعی ہیں کہ جینز کے تحت ہونے والی تمام جسمانی تبدیلیوں کا بالآخر ذمہ دار انتخاب طبعی کا عمل ہے۔ انتخاب طبعی کے ماتحت جب بعض جسمانی تبدیلیاں مقصود ہوتی ہیں تو اس کا دائرہ کار خود بخود جینز تک پھیل جاتا ہے جو ان تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن پروفیسر ڈاکنز یہ سب کچھ ’’اتفاقات کی سائنس‘‘ کی مدد سے پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ ہیموگلوبن (haemoglobin) کی اتفاقی تخلیق کے امکان پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکنز اس اتفاقی تخلیق کو رد کرتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ صفحہ 45 پر رقمطراز ہیں کہ امینوایسڈز کی چار باہم بل کھاتی ہوئی لڑیاں مل کر کل 146 امینوایسڈز بناتی ہیں جن سے ہیموگلوبن کا ایک خلیہ تشکیل پاتا ہے۔ یہاں سے آگے وہ ایک پیچیدہ حسابی تخمینہ لگانے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہیمو گلوبن کا محض اتفاق سے پیدا ہوجانا قطعی ناممکن ہے۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
’’یہ اتنا بڑا عدد ہے کہ اس کے تصور سے بھی دماغ چکرا جاتا ہے۔ دس لاکھ کے عدد میں ایک (1)کے بعد چھ صفر لگتے ہیں۔ ارب کے عدد میں ایک(1) کے بعد نو صفر لگتے ہیں۔ لیکن جس عدد کی ہمیں تلاش ہے یعنی ہیمو گلوبن نمبر، اس میں ایک (1) کے بعد قریباً 190 صفر لگتے ہیں۔ ہیموگلوبن کی اتفاقی تخلیق کیلئے کم از کم مذکورہ بالا عرصہ درکار ہے جبکہ ہیموگلوبن کا مالیکیول اپنی ذات میں ایک زندہ جسم کے پیچیدہ نظام کا ایک معمولی جزو ہے۔‘‘10
یہ نہایت ہوشیاری سے اختراع کی گئی ایسی دلیل ہے جو پروفیسر موصوف کے نزدیک ڈارون کے اصولوں کی روشنی میں زندگی کے معمہ کو حل کر سکتی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس دلیل کی رو سے تو جینز کے حامل ہیموگلوبن کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہے۔ پروفیسر ڈاکنز کی کتاب کے متعلقہ باب کے گہرے مطالعہ سے ہم تو یہی سمجھ پائے ہیں۔ دراصل ان کے اسی اچھوتے تصور نے نئی نسل کے سائنسدانوں کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم ابھی ثابت کریں گے کہ یہ پروفیسر موصوف کا خود ساختہ واہمہ ہے۔ کیونکہ حقائق اس نظریہ کی تائید نہیں کرتے۔
ہم قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ جینز بذات خود ماحولیاتی عوامل کے رحم وکرم پر ہوتے ہیںلیکن ان عوامل کا موافق یا ناموافق ہونا جینز کے کردار کو کسی طرح بھی تبدیل، کنٹرول یا متاثر نہیں کرتا۔
ہمیں یقین ہے کہ پروفیسر ڈاکنز کی طرف سے پیش کی گئی سب سے اہم اور مضبوط دلیل یہی ہے۔ لہٰذا ہم اپنے موقف کو مزید کھول کر بیان کرتے ہیں۔ چونکہ ہم پہلے ہی اپنی اس کتاب میں ارتقائی عوامل پر اس انداز میں گفتگو کر چکے ہیں جس کی روشنی میں ڈارون کے اصولوں کا غلط اور بیجا اطلاق ممکن نہیں رہتا اس لئے ہمیں امید ہے کہ ارتقا کے تصور کو زیادہ بہتر رنگ میں سمجھنے کیلئے ہماری یہ تحقیق علوم طبعی(Natural Sciences) کے طلباء کیلئے مفید ثابت ہوگی۔
ہمارا موقف ان مذہبی اور سائنسی سکالرز سے قطعی طور پر مختلف ہے جنہوں نے بالخصوص ڈارون کے نظریات کی مخالفت کی ہے۔ ہماری یہ تحقیق سائنسی لٹریچر کے عمومی مطالعہ پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ہم نے ڈارون کے نظریات کے خلاف تحریر کردہ کتب کا مطالعہ تو نہیں کیا لیکن بایں ہمہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری تحقیق ان سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران ہمیں ہمیشہ قرآن کریم کی رہنمائی حاصل رہی ہے جو بدقسمتی سے ڈارون کے مخالف سائنس دانوں کو نصیب نہیں ہوئی۔
پروفیسر ڈاکنز کی انقلابی سوچ کے حوالہ سے یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ جینز کی کارکردگی جینز کے اندر ودیعت کئے گئے قوانین کے تابع ہوتی ہے جن سے پروفیسر موصوف بے خبر ہیں۔ جینز ماحولیاتی تبدیلیوں سے بے نیاز ہو کر اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ حتی کہ جب انتخابِطبعی کا اصول کسی جاندار میںکوئی جسمانی تبدیلی کرناچاہتا ہے تب بھی وہ اس جسم میں موجود جینز کی سرگرمیوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب انتخابِ طبعی اس کا رزار حیات میں بقا کی خاطر بعض جسمانی تبدیلیوں کو رد کر دیتا ہے تب بھی جینز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اوّل تا آخر ارتقا کے مطالعہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ قدیم جاندار اجسام مثلاًامیبا (amoebas) اور ان کے بعد آنے والی دیگر ابتدائی انواع حیات جو نسبتاًزیادہ ترقی یافتہ تھیں سب کی سب جینزکے تحت کام کرنے والے خلیات کی کارکردگی کا نتیجہ تھیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ قدیم انواع حیات بظاہر عدم صلاحیت کے باوجود مع اپنے جینز کے ارتقا کے سارے عمل سے بال بال بچ گئے۔
بالآخر ارتقا کے نقطۂ کمال کے طور پر انسان کا ظہور ہوا۔ عالم حیوانات اور انسان کے مابین اتنی وسیع خلیج حائل ہے کہ درحقیقت ایک سائنسدان تو بتدریج وقوع پذیر ہونے والی ایسی ارتقائی تبدیلیوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا جو اس خلیج کو پاٹ سکیں۔ ہم یہاں ان عام جسمانی مشابہتوں کا ذکر نہیںکر رہے جو ڈارون نے بیان کی ہیں۔ نظریۂ ارتقاکے حامی ایک ایسی گمشدہ کڑی کی بات کرتے ہیں جو بعض کے نزدیک چمپینزی (cheimpanzee) اور بعض کے نزدیک گوریلا ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بندروں کی بعض انواع میں دُم موجود نہیں۔ لیکن سوال دُم کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان اور جانوروں کے کردار اور ذہنی قویٰ کے درمیان جو اس قدر وسیع خلا حائل ہے اس کی تشریح کیسے ممکن ہے؟ کونسا جانور ہے جس نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہو اور انسان کی طرح ترقی یافتہ زبان میں اپنا مدعا بیان کر سکتا ہو؟ انسان اور حیوان کے درمیان اگر کسی بھی پہلو سے موازنہ کیا جائے تو ثابت ہو گا کہ جانوروں کے مقابلہ میں انسانی قویٰ اربوں گنا ترقییافتہ ہیں۔ اور حقائق کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ بھی محتاط نظر آئے گا۔ دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود کتب اور ان کے مندرجات پر ایک نگاہ ڈالیں۔ کوئی سائنسدان کسی گوریلا کے غار یا چیمپینزی کی رہائش میں موجود کسی برائے نام ننھی منی لائبریری کا نام و نشان تک تو دکھائے جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا لکھا ہوا ایک صفحہ ہی کسی خانے میں محفوظ پڑا ہو۔ اگر ایسا ممکن ہو تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ ہمارا بیان مبالغہ آمیز تھا۔ لوگ جانوروں کی زبان کی بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زبانیں محض چند اشارے ہیں جن میں شعوری کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ڈالفن کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی زبان کی نقل کرتے ہوئے چند الفاظ بول لیتی ہے۔ جس قدر تنوع انسانی زبانوں میں پایا جاتا ہے عالم حیوانات میں اس کا سراغ تک نہیں ملتا۔
ہو سکتا ہے پروفیسر ڈاکنز کا فرضی بندر ان کے کمپیو ٹر کے Keyboard کو بلا سوچے سمجھے دبا کر شیکسپئر کے ڈرامہ کا کوئی جملہ لکھ لے۔ لیکن اتفاقاً لکھے جانے والے اس ایک جملہ کیلئے نہ صرف بیحد طویل وقت درکار ہوگا بلکہ ایسا ہونا عملاً ناممکنات میں سے ہے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پروفیسر موصوف کو اس کام کیلئے کسی فرضی بندر کی کیا ضرورت تھی جبکہ اصلی بندر بآسانی دستیاب تھے۔ انہیں چاہئے تھا کہ اصلی بندر کو Keyboardکا استعمال سکھائے بغیر کمپیوٹر کے قریب کسی جگہ باندھ دیتے۔ اگلی صبح کو جب وہ اپنے تجربہ کا نتیجہ دیکھنے کیلئے تشریف لاتے تو شیکسپئر کے کسی فقرہ کی بجائے ان کے سامنے کمپیوٹر کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہوتے۔ ہمارے خیال میں اس تجربہ کے لئے یہ وقت بہت کم ہوگا۔ لہٰذا انہیں روزانہ ایک نیا کمپیوٹر بندر کے پاس رکھنا پڑتا یہاں تک کہ بندر کی موت واقع ہونے تک پورا کمرہ ٹوٹے ہوئے کمپیوٹرز کا کباڑ خانہ بن جاتا مگر شیکسپئر کی کسی عبارت کا نام و نشان بیچارے بندر کی لاش پر بھی نہ مل سکتا۔ لیکن اتنا وقت بھی ڈارون کے معیاری وقت سے بہت کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان سے 50 سے 80 لاکھ سال قبل بندر موجود نہ تھے اور ان میں ارتقا نہیں ہو رہا تھا؟ کیا اس عرصہ میں رفتہ رفتہ ارتقا کے نتیجہ میں ان میں کسی شیکسپئر کے پیدا ہو جانے کا امکان نہ تھا؟ آخر ان کے اور انسان کے دماغ میں فرق تو صرف ایک جست کا ہی ہے نا۔ اگرچہ یہ جست بہت لمبی ہے۔
ہم ایک بار پھر ہیموگلوبن کے مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کو خدا قرار دیناممکن ہوتا تو پھر اس کی صحیح حقدار ہیموگلوبن ٹھہرتی ہے نہ کہ انتخاب طبعی کا اندھا، گونگا اور بہرہ قانون۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آغاز حیات سے انسانی جسم کی تخلیق تک (جس کا پروفیسر ڈاکنز کے نزدیک اتفاقاً پیدا ہو جانا کہیں زیادہ ناممکن ہے) جو کچھ وقوع پذیر ہوا ہے اس کا سہرا ڈارون کے اصول کی بجائے ہیموگلوبن کے سر ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے پروفیسر موصوف نے اپنے خدا کو شناخت تو کر لیا لیکن پھر بھی اس کے انکار پر مصر ہیں۔ اس صورت میں انہیں لازماً تسلیم کرنا پڑے گاکہ ہیموگلوبن ہی ساری تخلیق کا خدا ہے۔ لیکن پھر ہیمو گلوبن کا بھی کوئی خدا ہونا ضروری ہے اور یہ خدا پروفیسر موصوف کے نزدیک اتفاقات کا اتنا بڑا مجموعہ ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں۔
ان کے استدلال کا لب لباب یہ ہے کہ ہیموگلوبن کا وجود میں آناممکن نہیں ہے کیونکہ اس کی تخلیق کیلئے جس قدر اتفاقات درکار ہیں ان کا بیک وقت پایا جانا ناممکن ہے اگلے مرحلہ پر پروفیسر ڈاکنز کو اس بات کا منطقی جواب پیش کر نا چاہئے تھا کہ ہیموگلوبن آخر کیونکر وجود میں آگئی جبکہ ایسا ہونا کسی طور ممکن ہی نہیں تھا۔ اس مشکل کا واحد حل یہی ہے کہ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ’’اتفاق‘‘ بہرحال ہیمو گلوبن کا خالق نہیں ہے۔ مزید برآں ہیموگلوبن کی لامحدود پیچیدگیاں اور اس کی بناوٹ کی باریکیاں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اتفاق کی بجائے اس کا خالق کوئی اور ہے۔ پروفیسر موصوف کے پاس تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یا تو وہ اس کشتی میں سوار ہوں جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے یا انہیں طوعاً وکرہاً اس کشتی میں سوار ہونا پڑے گا جو انہیں بالآخر اصل خالق یعنی خداتعالیٰ کی بارگاہ تک لے جائے گی۔ اس طرح وہ ہستی ٔباری تعالیٰ کا اقرار کرنے کے قریب تر پہنچ سکتے تھے۔ لیکن جونہی انہیں اپنی اس ’’حماقت‘‘ کا احساس ہوتا ہے تو وہ فوراً خدا سے دور بھاگتے ہوئے ڈارون کے نظریات میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جو ان کا مصنوعی خدا ہے اور جس کے بارہ میں انہیں بخوبی علم ہے کہ ہیموگلوبن کی تخلیق میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس امر کی وضاحت کئے بغیر کہ خود ان کا خالق یعنی ہیموگلوبن کیسے وجود میں آیا تھا انہیں ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی جسم کے خلیات میں پائے جانے والے عجائبات کو ڈارون کے نظریات کی طرف منسوب کریں۔ اصل سوال جس کا جواب پروفیسر موصوف کے ذمہ ہے وہ یہ ہے کہ اتفاق کے علاوہ وہ کونسے عوامل تھے جو زندگی کے بنیادی خلیوں کی تشکیل کا باعث بنے۔ چنانچہ جینز کو ماحولیاتی عوامل کے زیر اثر ثابت کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں بلکہ جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں الٹا ان کے خلاف جاتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکنز کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قاری کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر فرضی مسائل کی طرف مبذول کرا نا چاہتے ہیں۔
اس تجزیہ کی روشنی میں پروفیسر موصوف کا کمپیوٹر کا استعمال اور رفتہ رفتہ جمع ہونے والے عوامل کا نظریہ عبث ٹھہرتا ہے۔ وقت کی کمی بیشی کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ زندگی کے ابتدائی اجزائے ترکیبی کی بتدریج تخلیق کیلئے اس سے کھرب ہا کھر ب گنا زیادہ وقت درکار ہے جتنا فی الحقیقت گزر چکا ہے۔ اور چونکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ جاندار اجسام کی ازخود تخلیق کیلئے حقیقی وقت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ وقت درکار ہے لہٰذا ان کے پاس اس بات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ یہ نظریہ پیش کریں کہ زندگی کی تخلیق رفتہ رفتہ جمع ہونے والے عوامل کا نتیجہ ہے۔ یہ تو سرا سر اپنا اور قاری کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جس چیز کو پروفیسر ڈاکنز صرف ایک ارب سال کے عرصہ میں سمونا چاہتے ہیں (امریکہ میں ارب ایک ’’1‘‘ کے بعد 9 صفر اور برطانیہ میں ایک’’1‘‘کے بعد 12 صفر پر مشتمل ہوتا ہے) نیچر کو اس کی تخلیق کیلئے اس سے کہیں زیادہ عرصہ درکار ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ جمع ہونے والے عوامل کے نتیجہ میں زندگی کی (اتفاقی) تخلیق کیلئے جتنا عرصہ درکار ہے اسے بیان کرنے کیلئے ایک’’1‘‘ کے بعد1000 صفر لگانے پڑیں گے۔ گویا دوسرے لفظوں میں سرے سے انہیں وجود کائنات کا انکار کرنا پڑے گا۔ لہٰذا پروفیسر ڈاکنز کو چاہئے تھا کہ کائنات کی حقیقت کو محض ایک واہمہ قرار دے کر اس کا انکار کردیتے۔
اپنی کتاب کے آخری باب میں پروفیسر ڈاکنز نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں خداتعالیٰ یا انتخاب طبعی میں سے کسی ایک کے خالق ہونے کے بارہ میں قطعی فیصلہ کرنا ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کو مانیں یا نہ مانیں، انہیں یہ حق ہرگز نہیں پہنچتا کہ وہ انتخابِ طبعی کو خداتعالیٰ کے متبادل کے طور پر پیش کریں۔ ہمارے نزدیک انتخاب طبعی کو کسی بھی صورت میں خالق قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انتخاب طبعی خود تخلیق نہیں کر سکتابلکہ صرف پہلے سے تخلیق شدہ اشیاء پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ امر باعث حیر ت ہے کہ پروفیسر ڈاکنز جیسا آدمی محض ایک ایسے فرضی قانون کو خدا قرار دے دے جو نہ صرف بہرہ، گونگا اور اندھا ہو بلکہ اس کا کوئی جسمانی یا روحانی وجود تک نہ ہو۔ ایسا خیالی اصول تو بہرحال خالق نہیں ہوسکتا۔ اگر پروفیسر موصوف خدا کے انکار پر مصر ہیں تو یہ تو طے ہے کہ انہیں کسی قانون کوخداتعالیٰ کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ لہٰذا انہیں ایک دفعہ پھر ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ یا تو انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تخلیق تو موجود ہے لیکن پروفیسر صاحب اس کے خالق کو پہچان نہیں پائے یا یہ کہ یہ سب کچھ بغیر خالق کے موجود ہے۔ گویا کتاب ’’بلائنڈ واچ میکر‘‘ (Blind watch maker) تو موجود ہے لیکن اس کے مصنف پروفیسر ڈاکنز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
کسی گزشتہ باب میں ہم نے آنکھ کی ساخت اور بصری نظام کے بارہ میں تحریر کیا تھا کہ آنکھ کی تخلیق کے بارہ میں پروفیسر صاحب مو صوف کے اس قدر سطحی اور ناقص خیالات پڑھ کر ہمیں بے حد مایوسی ہوئی۔ ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ آنکھ کی تخلیق رفتہ رفتہ جمع ہونے والے عوامل کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جس کو ہم پہلے ہی پروفیسر مو صوف کے اپنے بیانات کی روشنی میں غلط ثابت کر چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ آنکھ کے ڈیلے کو اپنی ذات میں ایک علیحدہ عضو خیال کرنا سراسر غلط ہے۔ یہ مکمل نظام بصارت کا ایک جزو ہے۔ بصورت دیگر بصری نظام میں اس کا کوئی کردار نہیں رہتا۔ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش بیکار ہوگی کہ کچھ بصارت کا ہونا اس کے نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی بے معنی ہوگی کہ عدسہ کے بغیر بصارت ممکن ہے۔ ہم نے انسان کے بصری نظام کو سائنسی تفاصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ پروفیسر ڈاکنز کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے تدریجی ارتقا کے نظریہ کو بصری نظام پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے احتراز کیا ہے۔
مثلاًوہ آنکھ کے پردے کے متعلق بتائیں کہ اس میں پائی جانے والی راڈز (rods) اور کونز(cones)کس طرح رفتہ رفتہ ارتقاپذیر ہوئیں اور بالآخر کیسے رنگ، روشنی اور اندھیرے میں تمیز کرنے کے قابل ہوئیں۔ اگر راڈز اور کونز کی یہ صلاحیتیں ان کی ذات تک محدود رہتیں اور بصری نظام کو متحرک نہ کرتیں تو ان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ پروفیسر صاحب موصوف کو چاہئے کہ رفتہ رفتہ جمع ہونے والے اتفاقی عوامل کے نظریہ کا اطلاق بصری نظام کے ان تمام حصوں پر کریں جو مجموعی طور پر راڈز اور کونز کی تخلیق کے ذمہ دار ہیں۔ ایک نا پختہ اور کمزور آنکھ جس کی بصارت صرف ایک فیصد ہو پھر بھی آنکھ تو ہے لیکن آدھی آنکھ بھی کوئی آنکھ ہے۔ پردئہ چشم ، راڈز، کونز، گینگلیا جس ترتیب سے تشکیل دیئے گئے ہیں وہ بصری لہروں کو دماغ تک پہنچانے کیلئے از بس ضروری ہے۔ اسی طرح ان اجزاء کی اور بہت سی پیچیدگیاں پروفیسر موصوف کے نظریہ کو رد کرتی ہیں۔ ہمیں ان سے یہ بات پوچھنے کا پورا حق حاصل ہے کہ پردئہ چشم کو اپنی تکمیل کیلئے کتنا عرصہ لگا۔ اگر کونز اپنی جملہ صلاحیتوں کے ساتھ پہلے سے تخلیق شدہ نہیں تھیں اور اسی طرح راڈز میں موجود تکنیکی نظام کا کونز کے ساتھ ربط پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق نہیں تھا تو یہ سب کچھ ایک انتہائی باہم مربوط نظام خودبخود کیسے تشکیل پا گیا جو انسان کی ترتیب دی ہوئی آرکسٹرا کی کسی بھی بہترین دھن سے کہیں زیادہ مربوط اور ہم آہنگ ہے۔ اس عظیم الشان عضو کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حصہ کیلئے بھی گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ امر ناقابل فہم ہے کہ بصری نظام کے یہ اجزاء کس طرح بتدریج ترقی کرتے کرتے کامل توازن کے ساتھ آنکھ کے ڈیلے کی شکل اختیار کر گئے اور اپنے اپنے مفوضہ افعال سر انجام دینے لگے۔ یہ اور ایسے سینکڑوں سوالات ہیں جن کا جواب ان ملحد ماہرینِحیاتیات کے ذمہ ہے۔ اسی طرح ان کو آ نکھ کے پورے ڈیلے اور اس کے نہایت نازک اور پیچیدہ خواص کے ارتقا کی قدم بقدم وضاحت کرنا ہوگی۔ بصری نظام ایک عام آدمی کے فہم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مربوط نظام ہے یہاں تک کہ پروفیسر ڈاکنز جو ایک معروف ماہر حیاتیات ہیں ان کا علم بھی اس کے بارہ میں محض سطحی ہے، اگرچہ سطح کا مکمل احاطہ کرنا بھی کارے دارد ہے۔ اور اس میدان میں ان کے لئے مزید تحقیق کی بہت گنجائش ہے۔ جانوروں کے حسی نظام میں بیشمار ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں کروڑہا سال قبل بھی ان کی ساخت کا وہی بنیادی ڈیزائن موجود تھا جو آجکل ہے۔ البتہ دونوں میں ثانوی اور ذیلی نوعیت کے فرق ضرور ہیں۔ تاہم یہ فرق بھی جانوروں کی مخصوص ضروریات کے مطابق تشکیل دیئے گئے ہیں۔
چمگادڑ، الو اور ڈالفن کے علاوہ بھی ایسے جانور ہیں جنہیں گھپ اندھیرے میں سننے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والا انتہائی حساس اور ترقی یافتہ نظام عطا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ذیل میں ایسے شعوری نظاموں کی چند مثالیں دی جارہی ہیں جو اپنے اپنے محدود دائرہ کار میں انسانوں اور انسان کی بنائی ہوئی مشینوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک نہایت دلچسپ مثال ایسے سانپوں کی ہے جن میں ماحول سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے ایک ایساحساس نظام پایا جاتا ہے جس کا تمام تر دارومدار بالائے بنفشی شعاعوں پر ہے گو اس نظام کا دائرہ کار محدود ہے۔ اس قسم کے سانپ انتہائی ترقی یافتہ بالائے صوتی (ultrasonic) اور زیریں سرخ (infrared) آلات سے پوری طرح لیس ہوتے ہیں۔ سانپوں کی ایک خاص نوع میں آنکھوں اور نتھنوں کے درمیان ایک انتہائی حساس عضو پایا جاتاہے جو اسے کسی پن ہول کیمرہ کی طرح ایک چھوٹے سے سوراخ کی مدد سے زیریں سرخ لہروں کو منتقل کرتا ہے۔ یہ چند ملی میٹر کا سوراخ ان لہروں کو اس عضو تک پہنچاتا ہے جو اتنا حساس ہے کہ0.003C جیسے کم درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی محسوس کر لیتا ہے اور ایسی تبدیلیوں پر سانپ 35 ملی سیکنڈ کے انتہائی مختصر وقت کے اندر ردّ عمل دکھاتا ہے۔ سانپ کے ردعمل کی یہ رفتار جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے گئے کسی بھی آلے کے مقابل پر سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ 11
تھر تھراہٹ پر ردعمل ظاہر کرنے کے اعتبار سے لا ل بیگ (کاکروچ) اس قدر حساس واقع ہوئے ہیں کہ وہ اتنی خفیف حرکت کو بھی محسوس کر لیتے ہیں جسے صرف اس پیمانہ سے ماپا جا سکتا ہے جو مالیکیولز کے باہمی فاصلوں کو ماپنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ خفیف حرکت ہائیڈروجن ایٹم کی حرکت سے دوہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ 12 لال بیگ جیسی مخلوق کا اتنی خفیف حرکت کو بھی محسوس کر لینا عقل کو چکرا دینے والی بات ہے۔ ہائیڈروجن ایٹم کا سائز اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسانی آنکھ اسے صرف اس صور ت میں دیکھ سکتی ہے جب 4کے ہندسہ کے ساتھ 23 صفر لگا کر اس کے سائز کو اتنے گنا بڑا کر دیا جائے۔ اگر کوئی قاری اس عدد کو بیان کرنا چاہے تو اس کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ٹریلین جو انگریزی گنتی کا آخری لفظ ہے اس میں 1 کے ساتھ صرف 18 صفر لگتے ہیں لہٰذا اتنے بڑے عدد کو بیان کرنا سعیٔ لاحاصل کے مترادف ہو گا۔
سائنسدانوں نے سمندروں کی مقناطیسی قوت میں قدرتی طور پر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے چارٹ اور نقشے بنانے کا انتہائی زبردست اور پیچیدہ کام حال ہی میں مکمل کیا ہے۔ ویل مچھلی سمندر میں دوران سفر درست سمت کا تعین کرنے کے کیلئے انہی مقناطیسی تبدیلیوں کو استعمال کرتی ہے۔ اب تک سائنسدانوں کو اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ یہ کس طرح ان تبدیلیوں کو محسوس کرکے اس مقصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔ شاید پروفیسر ڈاکنز ڈارون کے انتخابِ طبعی کے قانون کے نظریہ کی روشنی میں یہ مسئلہ بآسانی سمجھا سکیں۔ لیکن اس کے لئے سائنسدانوں کو صبر سے کام لینا ہو گا۔ کیونکہ اس تدریجی قانون کی وضاحت کے لئے پوری عمر درکار ہے اور اغلب امکان یہی ہے کہ یہ گتھی پھر بھی نہ سلجھ سکے گی۔
بطخ کی چونچ والا پلے ٹیپس (platypus) بجلی کی موجودگی کے بارہ میں اس قدر حساس ہے کہ ماحول میں پائی جانے والی بجلی کے ایک وولٹ (فی سنٹی میٹر) کے پچاس کروڑویں حصہ کو بھی محسوس کر لیتا ہے۔ یہ صلاحیت اتنی زبردست ہے کہ انتہائی جدید اور حساس بجلی کے آلات اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ پلے ٹیپس کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ وہ جھینگا مچھلی کی دم سے خارج ہونے والی ایک سینٹی میٹر میں موجود ایک وولٹ کے ہزارویں حصہ کے برابر بجلی کو محسوس کرلے۔ شارک اور رے(Ray) مچھلیاں تو ساکن شکار کی موجودگی کو بھی محسوس کر لیتی ہیں۔ وہ شکار کے عملِتنفس کے دوران اس کے اعصاب سے پیدا ہونے والی بجلی کو محسوس کر لیتی ہیں چاہے شکار سمندر کی تہ کی تلچھٹ میں ہی چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ 13
شکاری پرندوں کی آنکھ دو گول پردوں (fovea) اور ان کے درمیان موجود خلا پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی آنکھ کی بناوٹ اور پوزیشن ایسی ہے کہ وہ مکبّر عدسہ(Telephoto Lens) کا کام کرتی ہے اور اشیاء کو حیرت انگیز حد تک بڑا کرکے دکھاتی ہے۔ گدھ دوہزار میٹر یا اس سے بھی زیادہ بلندی سے میلوں کے فاصلہ پر اپنا شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ 14
سخت خول والے کوپیلیا(copilia) کی آنکھیں بھی بہت عجیب و غریب ہیں۔ آنکھ کے ایک عدسہ سے تو وہ عکس بناتا ہے اور دوسرے متحرک عدسہ اور پردئہ چشم یعنی ریٹینا کی مدد سے اس عکس کا بغور معائنہ کر کے تصویر مکمل کرتا ہے۔
’’پردہ چشم میں روشنی کو محسوس کرنے والے صرف نو نقاط ہوتے ہیں جو کسی بھی عکس کو دس مرتبہ فی سیکنڈ کی رفتار سے دیکھ کر تصویر کو مکمل کر لیتے ہیں۔‘‘15
’’الیکٹرک اِیل(eel) کی دم میں70 قطاروں میں منقسم دس ہزار نہایت چھوٹے چھوٹے برقی اجزاء ہوتے ہیں۔ مچھلی کا نصف سے بھی زائد جسم صرف بجلی پیدا کرتا ہے جو ناقابل یقین حد تک 550 وولٹ طاقت کی ہوتی ہے اور ایک انسان کو ہلاک کر سکتی ہے۔‘‘16
ہم بڑے احترام سے پروفیسر ڈاکنز کی توجہ ہزاروں میں سے ان چند حقائق کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اب تک سائنسدانوں کے علم میں آچکے ہیں۔ ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ کمپیوٹر کے بچگانہ کھیلوں میں الجھ کر اپنا اور قاری کا وقت خواہ مخواہ ضائع نہ کریں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے نظریات کا اطلاق حقیقی زندگی پر نہیں کرتے۔ اگر وہ مذکورہ بالا عجائبات قدرت کا ان کے نہایت پیچیدہ نظام حیات کے حوالہ سے مطالعہ کرتے تو یہ امر کہیں زیادہ معقول اور قابل قبول ہوتا۔ اس صورت میں انہیں متحجرات کے ریکارڈ (fossil record) یا ان سے بھی قبل پائے جانے والے جانوروں کی کڑیاں تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہم انہیں اس مشکل کام کی زحمت تو نہیں دینا چاہتے لیکن ہمارا ان سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ اوپر بیان کئے گئے آٹھ زندہ عجائبات اور ان کے حیرت انگیز کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔
انہیں ڈارون کے نظریہ ارتقا کے اندھے اصولوں کی روشنی میں یہ بات ثابت کرنی چاہئے کہ ان جانوروں کے اتنے پیچیدہ اعضاء آخر کیونکر باہم مربوط ہیں؟ بایں ہمہ اس کے بعد بھی ابھی بہت سا توجہ طلب کام باقی ہے۔ ہر عضو کا تفصیلی جائزہ لینا ہو گا۔ کیونکہ ہر عضو مزید چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہے جن میں سے ہر جزو کسی بھی عضو کی تشکیل میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کر رہا ہے۔
آخر میں سب سے اہم حل طلب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ ان سب اشیاء کی تشکیل کے لئے جو مادہ درکار تھا وہ کہاں سے دستیاب ہوا اور اسے بلا مقصد کس نے پیدا کیا اور بغیر کسی موزوں کارخانے کے یہ تیار کیسے ہوگیا؟ اگر فی الحقیقت ایساکوئی پیچیدہ کارخانہ موجود ہے تو اسے بنانے کا اتنا گہرا اور تفصیلی علم رکھنے والا کون ہے؟ ایسے کارخانے بلا روک ٹوک تیز ہواؤں اور بحری طوفانوں کے باوجود آخر قائم کیسے رہے۔ کس طرح اس مادہ نے بوقت ضرورت خود کو اس خدمت کیلئے پیش کر دیا؟ یہ سب سوال بڑے واضح اور حقیقت پسندانہ ہیں جن کا جواب پروفیسر ڈاکنز کے ذمہ ہے۔ انہیں زندگی کے اسرار و رموز کو منطقی استدلال سے ثابت کرنا ہو گا جو سچے ہونے کے باوجود کسی بھی فرضی قصہ سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ پروفیسر موصوف ان اسرار کو حیات کے حوالہ ہی سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کیلئے انہیں ا لیکڑک ایل (eel) سے کام شروع کرنا چاہئے جس کا ہم نے آٹھویں عجوبہ کے طور پر مختصراً ذکر کیا ہے۔
یہ مچھلی راستہ تلاش کرنے کیلئے اپنے برقی میدان (electric field) کو استعمال میں لاتی ہے۔ اس کے چاروں طرف بجلی کی لہروںکا جال بچھا ہو تا ہے۔ کسی چیز سے سامنا ہونے کی صورت میں اس کے گرد موجود کرنٹ میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو اس کے وولٹیج کو بدل کر سمت کی تعیین کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ سمت کی تعیین کرنے والے اس حیرت انگیز نظام کے ذریعہ یہ مچھلی مختلف رکاوٹوں، شکاری اور شکار میں بآسانی تمیز کرسکتی ہے۔ جب تک اس کا سامنا کسی چیز سے نہیں ہوتا اس کا وولٹیج معمول کی حالت میں رہتا ہے اور اس پر کوئی غیرضروری بوجھ نہ پڑنے کی وجہ سے توانائی کا ضیاع بھی نہیں ہوتا۔ لیکن جوں ہی اس کا سامنا کسی چیز سے ہوتا ہے تو اس کے وولٹ میٹر کو کسی نہ کسی طرح پیغام پہنچ جاتا ہے جو فوری طور پر وولٹیج کو اس حد تک بڑھادیتا ہے جو اتھلے پانیوں میں کسی انسان کو جان سے ماردینے یا گھوڑے کو بے ہوش کر دینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکنز یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انتخابِ طبعی یا تدریجی ارتقا جس کے وہ بے حد دلدادہ ہیں اس قدر پیچیدہ اور مربوط نظام کا خالق نہیں ہو سکتا۔ کیا انہیں یہ سوچنے کی بھی فرصت نہیں کہ آخر رفتہ رفتہ پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں کا ماخذ کیا ہے؟ ایسی باریک در باریک تبدیلیاں ایک جسم کے اندر کیسے پیدا ہو سکتی ہیں جو نہ صرف اس جسم کیلئے غیر مانوس ہوں بلکہ ان تبدیلیوں کے قائم رہنے کے سامان ابھی وہاں موجود نہ ہوں۔
الیکٹر ک ایل (eel) کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک باشعور خالق لازماً موجود ہے جو اس بات کا کامل علم رکھتا ہے کہ بجلی کیسے پیدا ہوتی اور کام کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پہلی تبدیلی کب اور کیسے واقع ہوئی ہوگی جس سے برقی لہروں کی تخلیق کا تصور پیدا ہوا۔ اور آخر کس طرح مچھلی کے عضلات ایک ایسی مخصوص ترتیب سے جڑے ہوئے ہیں کہ وہ اچانک تن کر کسی بہترین اور انتہائی حساس برقی آلے کی مانند بجلی پیدا کرنا شروع کردیتے ہیں جو سرے پر مرکوز ہو کر انتہائی اونچی وولٹیج میں بدل جاتی ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مچھلی کے بجلی پیدا کرنے والے عضلات کا ہر عضلہ ایک مربوط نظام میں منسلک ہونے کی وجہ سے اونچی وولٹیج کے اس نقصان سے محفوظ رہتا ہے جو نقصان بصورت دیگر انہیں پہنچ سکتا تھا۔ پروفیسر ڈاکنز کے مطابق:
’’مچھلی کے جسم کا بے لچک ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر اس مچھلی کا جسم عام مچھلیوں کی طرح لچکدار ہوتا تو پیدا ہونے والی لہروں کی غیر معمولی گڑ بڑ (distortions) سے مچھلی کا دماغ نمٹنے کا متحمل نہ ہو سکتاتھا۔‘‘17
منطق اور عقلِ سلیم کی روسے کلیدی سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگریہ مچھلی اس وقت ان تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تھی تو پھر یہ تبدیلیاں رونما کیسے ہوئیں۔
اس سلسلہ میں پروفیسر موصوف یوں رقمطراز ہیں:۔
’’تاہم ان مچھلیوں کو اس امر کی قیمت یوں چکانا پڑی کہ انہیں تیرنے کا نارمل اور انتہائی موثر انداز ترک کرنا پڑا اور اس مسئلہ کا حل انہوں نے یوں نکالا کہ اپنے جسم کو ڈنڈے کی طرح سخت اور بے لچک رکھ کر سانپ کی طرح بل دار بنا دیا۔‘‘18
اور ’وہ‘ کون ہیں جنہوں نے اس مسئلہ کا حل نکالا؟ پروفیسر ڈاکنز نے اس کی نشاندہی سے گریز کیا ہے۔ کیا مچھلیوں نے ازخود یہ کام کیا؟ اگر نہیں تو پھر یہ کام کس نے کیا ہے۔ اگر ہم تدریجی ارتقا کے نظریہ کے تحت برقی مچھلی کی ابتدا پر غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ اس کے سارے نظام کی ابتدا بجلی پیدا کرنے والے اعصاب سے ہوئی۔
پروفیسر ڈاکنز اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مچھلی کے بجلی پیدا کرنے والے ہر عصب میں ایسانظام موجود ہے جسے ہم چھوٹے سے وولٹ میٹر کا نام دے سکتے ہیں جو وولٹیج کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر مچھلی کے قرب و جوار میں کوئی چٹان یا کسی قسم کی خوراک موجود ہو تو برقی لہریں ان سے ٹکراتی ہیں اور ان لہروں کی ہئیت میں جو تبدیلی ہوتی ہے اسے مچھلی کا متعلقہ وولٹ میٹر محسوس کر لیتا ہے۔ جس طرح ایک کمپیوٹربرقی لہروں کے پیغام کو پڑھ لیتا ہے بالکل اسی طرح برقی مچھلی کا دماغ بھی بظاہر وہی کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔‘‘19
مچھلی کا دماغ الیکٹرانک انجینئرنگ کا یہ بیمثل کارنامہ ازخود کس طرح سر انجام دے سکتا ہے۔ کسی کو مکمل یقین اگر ہو بھی کہ مچھلی کے دماغ کا یہ پیچیدہ ڈیزائن کسی باشعور خالق کا تخلیق کردہ نہیں ہے یا اس میں شعوری طور پر کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ پروفیسر ڈاکنز کا اصرار ہے تو پھر اسے الیکٹرانک انجینئر نگ کا شاہکار قراردینا یا تو انتہائی سادگی ہے یا دوسروں کو گمراہ کرنے کی غیر ارادی کوشش۔ اس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں:
’’اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مچھلیاں بڑی اچھی ریاضی دان ہیں۔ دراصل ان کے جسم میں ایک ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے وہ اپنے ماحول کے مسائل کو حل کر لیتی ہیں عین اسی طرح جیسے کسی گیند کو دبوچتے وقت ہمارا دماغ لا شعوری طور پر ایسے مسائل کو حل کر لیتا ہے۔‘‘19
مشکل یہ ہے کہ جو مسئلہ انہیں در پیش تھا اسے حل کرنے کی کو شش میں انہوں نے نادانستہ طور پر ایک اور مسئلہ کھڑا کر لیا۔ انسانی دماغ اور اس کے گیند کو دبوچنے کے طریق کار سے قطع نظر، مچھلی کے دماغ پر غور کریں جو لاشعوری طور پر ازخود نہایت مشکل حسابی مسائل حل کر لیتا ہے۔ پروفیسر ڈاکنز کے اس اقرارکے بعد ہمیں ان سے یہ توقع تھی کہ وہ اپنے وضاحت کردہ تدریجی ارتقا کے نظریہ کا اطلاق الیکٹرک ایل(eel) پر کرکے دکھائیں گے۔ انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہئے تھا کہ مچھلی کے بجلی پیدا کرنے والے اعصاب کیسے بتدریج ارتقاپذیر ہوئے۔ کس طرح عین ہر مخصوص ضرورت کے مطابق برقی قوت کی طاقت کنٹرول کرنے کا مسئلہ حل ہوتا گیا۔ اور بجلی پیدا کرنے والا نہایت عمدہ نظام جو مچھلی کے ہر حکم کی تعمیل بغیر غلطی کئے کرتا ہے اپنے تمام تر اعصاب نیز برقی قوت کنٹرول کرنے کی صلاحیت سمیت خود بخود کیسے ارتقا پذیر ہو گیا؟ یہ تمام سوالات ہنوز حل طلب ہیں۔
ہم پروفیسر ڈاکنز کو نسبتاً کم صلاحیتیں رکھنے والی مچھلیوں کے ارتقاکے لمبے سلسلہ پر دوبارہ تحقیق کی زحمت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے کہ وہ تو دنیا کے نقشہ سے غائب ہو چکیں۔ اب ان کا ذکر بے سود ہے۔ تدریجی ارتقا کے نظریہ کو ثابت کرنے کیلئے پروفیسر موصوف کے سامنے اب صرف ایک ہی رستہ باقی ہے کہ وہ ایل (eel) کے انتہائی پیچیدہ نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تسلیم کریں کہ وہ انسان کی بنائی ہوئی ہر مشین سے بہرحال بہتر ہے۔ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے بہت اچھا موقع تھا کہ ایل(eel) کے دماغ نے محض اپنے اندر موجود جینز کی مدد سے لا شعوری طور پر خود بخود اتنے پیچیدہ نظا م کو تخلیق کر لیا۔ لیکن انہیں یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ جینز تو بذات خود عقل سے بے بہرہ اور شعور سے عاری ہیں۔ کچھ وقت کیلئے وہ ایل (eel)کو ایک طرف رکھ کرذرا اس امر پر غور فرمائیں کہ اگر انہیں ہر قسم کی جدید ترین سائنسی سہولت اور علم میسر ہوتا تو کیا وہ ایسی مچھلی بنا سکتے تھے!
بجلی پیدا کرنے والا یہ حساس اور پیچیدہ نظام سمندر میں خود بخود کیسے تشکیل پا گیا؟ نیز یہ نظام بلامقصد، بغیر کسی منصوبہ اور شعور کے کیسے کام کرتا ہے؟ اس کا تصور کرکے ذہن میں جو منظر ابھرتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ماضی بعید میں کسی وقت ایک عام مچھلی یہ دیکھ کر ششدر رہ گئی کہ اس کے پیٹ پر بجلی پیدا کرنے والے اعصا ب اچانک ابھر آئے ہیں۔ اس موقع پر ہم تو اس بیچاری مچھلی کی سراسیمگی پر اس سے ہمدردی ہی کر سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ انتظار بھی کہ بجلی پیدا کرنے والا یہ انتہائی پیچیدہ نظام ترقی پذیر ہوکر کسی بامقصد آلے کی شکل اختیار کر لے۔ مچھلی کیلئے بہرحال یہ پریشانی کی بات ہوگی کیونکہ اب تک تو یہ عجیب و غریب کیفیت اس کی سمجھ سے بالا تھی۔ ڈارون کے نظریہ کی رو سے یہ صورت حال کتنا طویل عرصہ چلی ہوگی، اس بارہ میں پروفیسر ڈاکنز ہی بہتر جانتے ہیں۔ پھر جسم کے کسی اور حصہ میں وولٹ میٹر نمودار ہونا شروع ہوا جس سے منسلک اعصاب مچھلی کے ننھے سے دماغ سے جڑے ہوئے تھے۔ کچھ عجیب و غریب جسمانی تبدیلیوں کے بعد عضلات نے ایک نئی ترتیب اختیار کرنا شروع کی۔ مچھلی نے اپنے اندر حیرت انگیز صلاحیتیں پیدا ہوتی ہوئی محسوس کیں۔ اس طرح سے کسی گمنام خالق نے، وہ جو کوئی بھی تھا، الیکٹرک جینریٹر کا شاہکار پیدا کردیا۔ کیا یہ خالق، جسم، علم اور شعور سے عاری انتخابِ طبعی کا قانون تھا یا یہ مچھلی کا دماغ تھا جو خود اپنی صلاحیتوں سے بھی بیخبر ہے یا یہ بیشمار طاقتوں کے حامل جینز تھے جنہوں نے شعور سے عاری ہونے کے باوجود وہ تمام اختیارات سنبھال لئے جو ایک ایسے نظام کو پوری مہارت سے چلانے کیلئے ضروری تھے اور جن کا چلانا ایک نہایت قابل سائنسدان کا متقاضی تھا؟
پروفیسر ڈاکنز اور بھی بہت سے بنیادی نوعیت کے مسائل پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ اس سوال کا بھی کوئی واضح جواب نہیں دے پائے کہ دو قسم کی الیکٹرک مچھلیاں یعنی جبوبی امریکہ کی مچھلی اور افریقہ کی نسبتاً کمزور قسم کی مچھلی ایک دوسرے سے بالکل مختلف کیوں ہیں اور دونوں علیحدہ علیحدہ طور پر مختلف جغرافیائی علاقوں میں نشوونما پانے کے باوجود ایک جیسا نظام کیوں رکھتی ہیں؟
جغرافیائی بُعدکے باوجود ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والے نظام کے ارتقا کے بارہ میں پروفیسر موصوف یوں وضاحت کرتے ہیں:
’’اتفاقاً اور وہ بھی الگ الگ کم ازکم دومرتبہ راستہ تلاش کرنے کا یہ انتہائی باکمال طریق الیکٹرک مچھلیوں کے ہاتھ لگا ہے۔‘‘20
وہ مزید لکھتے ہیںکہ:
’’عجیب بات یہ ہے کہ جنوبی امریکہ کی الیکٹرک مچھلیوں نے بھی اسی طرح اتفاقاً ہُو بُہو افریقہ کی مچھلیوں والا حل ڈھونڈ نکالا۔‘‘21
یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ ان مچھلیوں نے کس طرح اتفاقاً ایک ہی جیسا طریق اختیا ر کر لیا۔ مزید برآں انہوں نے ایسا طریق محض اتفاقاً کیسے اختیار کر لیا جو اتنا پیچیدہ اور مشکل ہے کہ اس پر عمل در آمد تو کجا وہ تو اس کے متعلق سوچنے کی اہل بھی نہیں۔ اگر اس صورت حال کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا بھر کے مختلف جانوروں کو بھی محض اتفاق سے تدریجاً ارتقا کی نئی نئی صورتیں اندھے کے بٹیر کی طرح ہاتھ لگتی رہی ہیں۔ بالفاظِ دیگر قطب جنوبی کے ریچھ نے اتفاقاً یہ فیصلہ کر لیا کہ اس کا رنگ سفید ہو جبکہ کینیڈا میں قطبی ریچھ نے بھورا رنگ اختیار کر لیا اور دونوں نے یہ فیصلہ اپنی اپنی جگہ آزادانہ طور پر کیا۔ دراصل اس کے پیچھے باقاعدہ ایک مقصد اور منصوبہ کارفرما ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مچھلیاں یا کوئی اور جانور محض اتفاق کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش نہیں کیا کرتے۔ اگرچہ پروفیسر ڈاکنز نے خود ہی ایک عظیم باشعور خالق کی موجودگی کے بارہ میں تمام اعداد و شمار مہیا کر دیئے ہیں لیکن وہ اپنی اس جانکاہ محنت کے صحیح نتائج اخذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی ناقص نظریہ کی وجہ سے وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ:
’’مچھلیاں پانی میں موجود برقی میدان کے جس طبعی قانون کو استعمال کرتی ہیں اس کو سمجھنا ہمارے لئے چمگادڑوں اور ڈالفن کے طریق کار کو سمجھنے کی نسبت بھی کہیں زیادہ مشکل ہے۔‘‘22
جس حیرت انگیز امر پر پروفیسر ڈاکنز اتنا زور دے رہے ہیں اس کے بارہ میں ہم پہلے ہی اس باب کے آغاز میں اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس عبارت سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ پروفیسر موصوف کا یہ نظریہ کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، بالکل غلط ہے۔ ارتقا کے ان تمام مراحل کی کڑیاں جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے ایک دوسرے سے بے تعلق ہونے کے باوجود آزادانہ طور پر سفر کرتے ہوئے بھی بالآخر ایک ہی مقام پر جاملتی ہیں۔ ایک دوسرے سے بالکل مختلف سمتوں میں سفر کرنے کے باوجود اور سفر بھی ایسا کہ بظاہر کوئی منزل دکھائی نہ دے، آخر کس نے انجام کار ان سب کو ایک ہی جگہ لاکھڑا کیا؟ اگر مختلف لوگ مختلف سمتوں میں بلا مقصد سفر شروع کر دیں جنہیں انہوں نے منتخب بھی خود نہ کیا ہو تو وہ عین ایک ہی جگہ پر آکر آپس میں کیسے مل سکتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کیلئے مفید ہو؟ پروفیسر ڈاکنز کو اس بات کی خوب تسلی کر لینی چاہئے اور خود اپنی عالمانہ تحریرات کی روشنی میں تخلیق کے بے مقصد نظریہ پر نئے سرے سے غور کرنا چاہئے۔ جانوروں اور پودوں کا ایک دوسرے کی مدد سے آگے بڑھتا ہوا ارتقا بھی کسی منصوبہ کے بغیر تخلیق کے نظریہ کی نفی کرتا ہے۔ ہم اس کتاب میں پہلے بھی ایسی ہزاروں مثالوں میں سے چند ایک کا ذکر کرچکے ہیں۔ یہاں پر ہم ڈارون کی اپنی بیان کردہ ایک ایسی ہی مثال کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈارون نے کئی قسم کی حیوانی اور نباتاتی زندگی کی بقائے باہمی کا ذکر کیا ہے جو ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہوئے ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔ ایک طرف سنڈیاں، کیڑے مکوڑے اور پرندے پودوں کے ارتقا کے عین مطابق ارتقا کا سفر طے کر تے ہیں تو دوسری طرف پھولوں اور پھلوں کی ساخت ٹھیک ان جانوروں کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوتی ہے جو آزادانہ طور پر اپنی اپنی ارتقائی منازل طے کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم سینکڑوں ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جن کی موجودگی میں انتخاب طبعی کے قانون کے تحت پودوں اور جانوروں کے ایک دوسرے سے اس قسم کے باہمی تعاون کو اندھا اور بلامقصد قرار دینا ناممکن ہے۔
یہاں ہم انگرا سِکم(Angraceacum) کا ذکر کریں گے جو کہ مڈغاسکر میں پیدا ہونے والا پھول دار پودا ہے جس کے بارہ میں ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ یہ پھول برف کی طرح سفید ستارے کی شکل کا تھا جس کے نیچے سے ایک فٹ لمبی خمدار ٹیوب نکل کر بیضہ دانی تک پہنچتی تھی۔ اس کا پیندا صرف آدھ انچ تک پھول کے رس سے بھرا ہوا ہو تا تھا۔ جب ڈارون سے اس پودے کی افزائش نسل کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی نہ کوئی پروانہ اس پودے کا ساتھی ضرور ہوگا جس کے منہ سے ایک فٹ لمبی ایسی سونڈ نما نلکی لگی ہوگی جو اس رستہ کے ساتھ ساتھ پھول کے رس تک پہنچ سکے۔ چنانچہ بعد میں بعینہٖ یہی انکشاف ہوا۔ اس بات کی اگر کسی کو داد دی جاسکتی ہے تو وہ ڈارون کی ذہانت ہے نہ کہ اس کا انتخاب طبعی کا اصول۔ کیونکہ انتخاب طبعی کے اصول کے نتیجہ میں پودا اور پروانہ الگ الگ اتنی ہم آہنگی کے ساتھ ارتقا پذیر نہیں ہو سکتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اپنے تولیدی نظام کے فعّال ہوئے بغیر اس پھول کی بقاممکن کیسے ہوئی۔ اگر اس کی بقا میں تدریجی عمل ارتقا کا دخل تھا تو اس نے ارتقا کی ایسی ناممکن صورت آخر کیونکر اختیار کی؟ اتنی لمبی اور ٹیڑھی ٹیوب کے پیدا کرنے اور اپنے رس کو اس کے پیندے میں چھپانے کا آخر کیا مقصد تھا؟ اسی طرح کسی پرندے یا پروانے کو روکنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ اس پھول کی تہ میں موجود رس تک نہ پہنچ سکے اور زیرگی(pollination) کے ذریعہ تولیدی عمل کو بروئے کار لاسکے۔ ایک پودے اور جانور میں اپنی اپنی جگہ مختلف لیکن بیک وقت ہونے والے ارتقائی عمل کو اتفاقی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کیا پروفیسر ڈاکنز مذکورہ بالا مسئلہ کا کوئی حل پیش کر سکتے ہیں؟ یہ پھول اور غیر معمولی لمبی سونڈ رکھنے والا ہاک ماتھ (hawk-moth) یعنی عقاب نما پروانہ ارتقائی نظریہ کے تحت بیک وقت دونوں کیسے معرض وجو د میں آگئے؟ کیا کہیں پروانوں کی بھی اتنی لمبی اور ٹیڑھی چونچ ہوا کرتی ہے؟ قبل اس کے کہ انتخاب طبعی اپنا کام شروع کرتا پروانوں کی کتنی ہی اقسام بنی اور مٹی ہوں گی۔ پھول اور پروانے کا آغاز نہایت معمولی حالت سے ہوا ہوگا اور دونوں کو مسلسل اس امر سے باخبر رہنا پڑا ہوگا کہ دوسری طرف کیا ہورہا ہے تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل اور بناوٹ کے عین مطابق ارتقا پذیر ہو سکیں۔ بالآخر دونوں ایک واحد اکائی کی صورت میں باہم اس طرح منسلک ہوگئے ہوں گے کہ بحیثیت جانور اور پودے کے ان کی الگ الگ شناخت مٹ گئی ہوگی۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے بعد پروفیسر موصوف کو چاہئے کہ وہ ان قوتوں پر بھی روشنی ڈالیں جن کے زیر اثر ان کی نشوونما الگ الگ لیکن کامل آہنگی کے ساتھ ہوئی اور یہ بھی بتائیں کہ انتخاب طبعی کا کونسا اندھا اصول یہ کارنامہ سر انجام دے سکتا تھا؟ پھول اور پروانہ جن لاکھوں چھوٹے چھوٹے ارتقائی مراحل میں سے گزرے، اصول اتفاق کی رو سے اس دوران غلط سمت میں اٹھنے والے قدموں کی تعداد صحیح سمت میں اٹھنے والے قدموں کی نسبت بہت زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ انتخابِ طبعی کے اندھے اصول کو ان لاکھوں مراحل میں سے کچھ کو منتخب کرنے او رباقی کو رد کرنے کا بہت بھاری کام کرنا پڑا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود انتخابِ طبعی کا فیصلہ بالآخر غلط ثابت ہوا۔ ایک ایسا پھول پیدا ہوا جس کا بار آور ہونا تقریباً ناممکن تھا اور ایک ایسا پروانہ ظہور میں آیا جس کی بقا کا تمام تر دارومدار ایک مخصوص پھول کی تکمیل پر تھا۔
یہاں پروفیسر ڈاکنز کو کم ازکم یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ انتخاب طبعی نے اپنے ہی خلاف عمل کرکے انواع حیات کی بقا کے رستے میں شدید مشکلات کھڑی کردیں۔ ان دونوں یعنی پھول اور پروانہ کے ارتقا کا تمامتر دارومدار ان کے باہمی تعاون پر تھا۔ لیکن ایک باشعور اور باخبر دماغ کے بغیر ایسا خود بخود ظہور میں آنا ناممکن ہے جب کہ انتخابِ طبعی ایسے دماغ سے قطعاً عاری ہے۔ یہ متوازی ارتقااپنے کمال کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے تھے جب تک کہ انہیں کنٹرول کرنے والی ایک ایسی ہستی موجود نہ ہوتی جو ان کی الگ الگ اس طرح رہنمائی کرتی کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل میں مددگار ہوں۔ خداتعالیٰ کے تخلیق کردہ اس عظیم الشان کارخانہ قدرت میں اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو انتخاب طبعی کی دسترس سے باہر ہیں۔ اگر مخصوص طریق سے ترتیب دیئے گئے عناصر اپنا کردار ادا نہ کرتے اور ارتقائے حیات کو محض انتخاب طبعی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا تو زندگی اپنی مقصدیت اور توازن کھو بیٹھتی۔
ارتقائے حیات کے دوران خداتعالیٰ کے ایسے بے شمار تصرّفات دکھائی دیتے ہیں جن کا انتخاب طبعی سے دور کا بھی تعلق نہیں اور جن کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان کا تصور ہی محال ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار کی تباہی میں بھی ایک عظیم الشان مقصد پنہاں تھا۔ آخر کیوں ایک بہت بڑے شہابِ ثاقب کے ہاتھوں ڈائنو سار کا خاتمہ عین اس وقت ہوا جب اس کی ضرورت تھی؟ اگر یہ خداتعالیٰ کا پہلے سے ترتیب دیا ہوا منصوبہ تھا جیسا کہ ہمارا ایمان ہے تو اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ زندگی کی دوسری اقسام کو ڈائنو سار کی عدم موجودگی میں اپنی ارتقائی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینے کا موقع ملے۔ اس کا ایک اور مفید اور اہم مقصد جسے بہت بعد میں سمجھا گیا یہ تھا کہ ڈائنوسار ساحل سمندر کے قریب اس طرح دفن ہو جائیں کہ وہ بالآخر تیل میں تبدیل ہو جائیں جس کی آج کے زمانہ کے انسان کو شدید ضرورت تھی۔ یہ علیم و خبیر خالق ہی کا کام ہے۔ کوئی شخص اس مکمل اور بے عیب عمل کا سہرا محض اتفاق کے سر نہیں باندھ سکتا۔ ایسے واقعہ کا اتفاقاً وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے خصوصاً اب تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ اس سارے عمل کے پس منظر میں ایک کامل اور مربوط الٰہی منصوبہ کارفرما تھا جس سے اس کارخانہ قدرت میں کم ازکم دو اہم مقاصد پورے ہو رہے تھے۔ یہ سارا عمل انتخابِ طبعی کی طرف ہرگز منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
کاش پروفیسر ڈاکنز اپنے ہمہ گیر نظریہ کا اطلاق اپنے ذہن کے خیالی اور فرضی قصوں پر کرنے کی بجائے فطرت کے ان اسرار کی حقیقت کھولنے پر کرتے جو انہوں نے نہایت عمدگی سے پیش کئے ہیں۔ ضمناً ہم ان کی توجہ انہیں کی کتاب کے صفحہ 61 پر دیئے گئے خاکہ نمبر5 کی طرف مبذول کراتے ہیں جسے انہوں نے رفتہ رفتہ پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نظریہ کی تائید میں پیش کیا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ وہاں دیئے گئے سترہ خاکوں میں سے سویلوٹیل (swallowtail) سے شروع کر کے ہر خاکہ دوسرے سے مشابہ ہے۔ یہ تو بیچارے کمپیوٹرکو عمداً دھوکہ دینے والی بات ہے کیونکہ کمپیوٹر تو بہرحال اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے۔ ان خاکوں کو بناتے وقت جینز کا جو تصور کمپیوٹر کو مہیا کیا گیا تھا وہ ہمیشہ ایک معمہ رہے گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ جینز کے کردار کے بارہ میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی جینز کا لکیروں اور خاکوں کی دو جہتی دنیا سے کوئی تعلق ہے۔ جینز کی دنیا انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جس میں نسلاً بعد نسلٍ انسانی دماغ اعداد و شمار میں تصرّفات کر تا رہتا ہے۔ لیکن جینز کا اپنا کوئی ذہن نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ یہ اعداد و شمار کمپیو ٹر چلانے والے ایک ایسے ذہن کی پیداوار ہیں جو ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ جینز کی دنیا کی تمام پیچیدگیوں سے واقف ہے۔ جو بچگانہ خاکے ان کے کمپیو ٹر نے بنائے ہیں وہ آسانی سے کوئی چھوٹا بچہ بھی کاغذ پر بنا سکتا ہے اور یہ خاکے فہم و ادراک اور حقیقت سے اتنے ہی دور ہوں گے جتنے ان کے کمپیوٹر کے بنائے ہوئے خاکے۔ کیا جینز کی تخلیق ایسی ہی ہوتی ہے؟ جینز ذہن نہ رکھنے کے باوجود جو پیچیدہ کام سر انجام دیتے ہیںوہ عقل سے عاری کوئی چیز نہیں کرسکتی۔ ان کے طریقِکار سے یوں لگتا ہے جیسے وہ نہایت ترقی یافتہ ذہن کے مالک ہوں اور اپنے انتہائی پیچیدہ فیصلوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ کمپیوٹر کے بنائے ہوئے ان خاکوں اور جاندار اشیا کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر لحظہ بھر کیلئے فرض کریں کہ یہ ماڈل واقعی درست ہے تو ان سترہ خاکوں میں سے کوئی ایک خاکہ خلیات کی افزائش یا جینز کی کسی اچانک تبدیلی کی وجہ سے ان میں سے کسی بھی دوسری شکل کا روپ دھار سکتا ہے۔
جو تخمینے پروفیسر ڈاکنز نے لگائے ہیں اگر واقعی درست ہوتے تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ سویلوٹیل (swallowtail) سے ایک مہذب آدمی پیدا ہو جاتا اور اس سے بچھو جنم لے لیتا۔ اسی طرح ایک غصیلے آدمی سے مینڈک پیدا ہو جاتا جو آگے لومٹر کو جنم دیتا۔ پھر اس سے خوبصورت لیمپ بن جاتے اور ان سے اچھلتی کودتی مکڑیاں یا چمگادڑیں پیدا ہوتیں جو تیزی سے اڑتی ہوئی تاریک غاروں میں غائب ہو جاتیں۔ بالکل یہی کیفیت پروفیسر موصوف کے کمپیوٹر کی ہے جس پر آڑی ترچھی لکیروں کی مدد سے یہ کھیل کھیلا گیا۔ پروفیسر ڈاکنز گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان کا تجزیہ کر کے ہمیں سمجھائیں تو سہی کہ انتخاب طبعی کے نتیجہ میں موجودہ انسان آخر کیسے پیدا ہو گیا؟ اپنے کمپیوٹر کی شعبدہ بازیوں کے ذریعہ مداری کی طرح ہیٹ سے چمگادڑ برآمد کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہوتا کہ وہ چمگادڑوں کے تدریجی ارتقا پر روشنی ڈالتے جس کا ذکر انہوں نے بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس مقام پر پروفیسر موصوف تھوڑا سا رک جاتے اور یہ ثابت کرکے دکھاتے کہ انتخاب طبعی کے عمل سے اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک چمگادڑ کا ایک پر کیسے پیدا ہوگیا۔
ا ب جبکہ پروں کی بات چل نکلی ہے تو اس ضمن میں گزارش ہے کہ ہمیں ان کی یہ بات پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اگر جل تھلیے(amphibians) اپنے بازوؤں کو مسلسل حرکت دیتے رہتے تو رفتہ رفتہ اڑنے والے پرندے بن جاتے اور کچھ نہیں تو پروفیسر ڈاکنز کو کم از کم اتنا علم تو ہونا چاہئے تھا کہ بازوؤں کو حرکت دینے یا مروڑنے سے پر پیدا نہیں ہو جاتے خواہ یہ عمل اربوں سال تک ہی کیوں نہ جاری رہے۔
ایک اڑنے والے پرندہ کی جسمانی ساخت تو کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اگر بازوؤں کی اوپر نیچے کی حرکت کسی پرندے میں عضویاتی تبدیلیاں پیدا کر سکتی اور اس کے نتیجہ میں اس کی سینے کی ہڈی کی تراش خراش ممکن ہوتی تو شاید ہم پروفیسر صاحب کی اس بے معنی اور لغو تجویز پر غور کر سکتے۔ لیکن اڑنے کیلئے صرف پر ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی پرندے کے ڈھانچے میں موجود ہلکی اور کھوکھلی ہڈیوں کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔ نیز یہ کہ بازوؤں کی اوپر نیچے کی جسمانی حرکت سے پر پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بازو اس طرح خواہ قیامت تک حرکت کرتے رہیں اس کے نتیجہ میں پروں کی ’’پ‘‘بھی نہیں بن سکتی۔ ہماری نظر سے ابھی تک ورزش کروانے والا کوئی ایسا استاد نہیں گزرا جس کے بازو چھوٹے چھوٹے پروں سے مشابہ روئیدگی سے بھر گئے ہوں اور جو رفتہ رفتہ مکمل پروں میں تبدیل ہو جائیں۔ کوئی ماہر حیاتیات اس پر یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ انسٹرکٹر کی عمر اتنی قلیل ہے کہ اتنے تھوڑے عرصہ میں ایسی جسمانی اور عضویاتی تبدیلیاں پیدا نہیں ہو سکتیں۔ ایسے معترض کو یاد رکھنا چاہئے کہ ممالیہ جانور تقریباً تیس کروڑ سال سے موجو د ہیں جو اپنے مختلف اعضاء کو حرکت بھی دیتے ہیں لیکن اوپر اٹھنے کیلئے انہیں جست لگانا پڑتی ہے اور ان کے پر کبھی بھی نمودار نہیں ہوتے۔ کیا یہ امتیاز صرف جل تھلیوں ہی کا مقدر تھا؟ لیکن یہاں سوال پروں کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جل تھلیوں میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے اندرونی عضویاتی نظام کو پرندوں کی ابتدائی شکل کے مطابق ڈھال سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا تھا لیکن اس کے پیش کردہ نظریہ کی وجہ سے حیات کے حقائق ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ جل تھلیوں کے ہونے یا نہ ہونے سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ پروفیسر ڈاکنز کو چاہئے کہ وہ پچاس کروڑ سال پیچھے ماضی میں جھانکیں جب تمام کرّۂ ارض اڑنے والے حشرات کی بھنبھناہٹ سے گونج رہا تھا۔ آخر ان حشرات نے رفتہ رفتہ کیسے اپنے جسم میں وہ خلیاتی اور عضویاتی تبدیلیاں پیدا کر لیں جو اڑنے کے لئے ضروری ہوا کرتی ہیں؟
ہم ایک دفعہ پھر پروفیسر ڈاکنز کے کمپیوٹر کے بنائے ہوئے خاکوں کی طرف لوٹتے ہیں جن کے وہ بیحد دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے صرف 29 مراحل کا ذکر کیا ہے جبکہ اس امر کا صحیح جائزہ لینے کیلئے کہ جینز کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے اور وہ کیسے کام کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ مراحل درکار ہوں گے۔ مزید برآں ان کے اپنے بیان کے مطابق جینز میں نہ تو کوئی دماغ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کمپیوٹر، جبکہ پروفیسر موصوف کے پاس دماغ بھی ہے اور کمپیوٹر بھی اور اس کمپیوٹر سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج حاصل کرنے کا طریق بھی انہیںمعلوم ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے کمپیوٹر کی بنائی ہوئی اشکال میں سے چند مخصوص شکلوں کا انتخاب کیا اور دوبارہ کمپیوٹر میں ان کا اندراج کیا تاکہ ان شکلوں کی اگلی کڑی تیار کی جاسکے۔ انہوں نے اس اہم نکتہ کو بھی نظرانداز کر دیا ہے کہ کوئی شخص بھی جینز میں تبدیلی واقع ہونے یا نہ ہونے کے وقت کی تعیین نہیں کر سکتا۔ کسی بھی سائنسدان کا ذہن خواہ کتنا ہی تیز کیوں نہ ہو خلیات کی دنیا تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔ لہٰذا کسی بھی قابل سائنسدان کا کمپیوٹر پر بنایا گیا کوئی بھی مجوزہ خاکہ جو اس اندازہ پر مبنی ہو کہ جینز کب اور کیسے ہزاروں دیگر اندرونی عوامل کے ساتھ مل کر اچانک فعّال ہو جاتے ہیں، محض افسانہ ہے نہ کہ حقیقت۔
کمپیوٹر گیمز کا بہت ذکر ہو چکا ! اب ہم شہد کی مکھی کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈارون کے اصولوں کے ماتحت شہد کی مکھی کے اندرونی نظام کا تصور بھی ممکن نہیں جب تک ایک ایسے خالق کے وجود کو تسلیم نہ کر لیا جائے جس کے ذہن میں پہلے سے ایسے نظام کا معین نقشہ موجود ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جینزنے خود بخود شہد کی مکھی میں موجود حیرت انگیز اور عجیب وغریب صلاحیت پیدا کر لی ہو۔ اس امر کو سمجھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا اوّل الذکر امرکو۔ کیا کوئی سائنسدان بتا سکتا ہے کہ کس طرح یہ اندرونی نظام اپنی تمام مخصوص صلاحیتوں سمیت رفتہ رفتہ خود ہی وجود میں آگیا؟ شہد کی مکھی کا بصری نظام جو پھولوں اور پھلوں کی دنیا کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے ان ماہرین حیاتیات کیلئے جو نظام تخلیق میں کسی منصوبہ کے قائل نہیں، بذات خودایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ آخر وہ کونسی قوتیں ہیں جنہوں نے انہیں تشکیل دیا۔ اور اگر ان قوتوں کا کوئی وجود نہیں تو یہ نظام رفتہ رفتہ ازخود کیسے وجود میں آگیا؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ شہد کی مکھیاں جس طریق پر اپنا چھتا بناتی ہیں اور اس کے لئے سازوسامان اکٹھا کرتی ہیں، ماہرین حیاتیات کو اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔ محض سازو سامان اکٹھا کرنا تو تمام جانوروں کا مشترکہ خاصہ ہے۔ لیکن ایک خاص مقصد کو مدنظر رکھ کر ایسا سامان خود تیار کرنا شاذ کا حکم رکھتا ہے اور شہد کی مکھی بعینہٖ یہی کرتی ہے۔
مکھیکی پچھلی ٹانگ کا بڑا جوڑ پیٹ کے نچلے حصہ میں واقع غدودوں کے چار جوڑوں کے ذریعہ موم کے باریک چھلکوں کو اکٹھا کر کے آگے دھکیل دیتا ہے جہاں اگلی ٹانگیں اور مینڈیبلز(mandibles) مل کر اس سے چھتا بنانے کا کام لیتے ہیں۔ موم کو لعاب دہن سے ملاکر اس طرح گوندھا جاتا ہے تاکہ اس میں اس قدر نرمی اور لچک پیدا ہو جائے جو مطلوبہ شکل میں ڈھالنے کیلئے ضروری ہے۔‘‘23
کیا وجہ ہے کہ ایک کیڑا جس کا دماغ مادی دنیا کی سائنسی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں سکتا، اچانک انہیں اپنے مفا د کیلئے استعمال کرنے لگے؟ اس طرح شہد کی مکھی کے دماغ کا بتدریج ترقی پانا اور اس امر کا وجدان کہ اسے اپنا چھتا کس طرح بنانا چاہئے اور اس کے لئے کن اشیاء کی ضرورت ہے، یہ سب کچھ لازماً کسی علیم وخبیر ہستی کی طرف سے اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ شہد کا چھتا شش پہلو خانوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کی دیواریں ٹھیک 120 ڈگری کے زاویہ پر باہم ملتی ہیں۔
’’چھتا بذاتِ خود حیواناتی فن تعمیر کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ یہ شش پہلو خانوں پرمشتمل ہوتا ہے جو بڑی ترتیب سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور متوازی قطاروں میں واقع ہوتے ہیں۔ مزید برآں ہر خانہ ساتھ والے خانے سے ایک معین فاصلے پر واقع ہوتا ہے‘‘۔ 24
شہد کی مکھیاں انجینئرنگ کی شاندار مہارت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور ان کی تعمیر سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہیں پیمائش کرنے والے نہایت ترقی یافتہ اور حساس آلات سے لیس کیا گیا ہے۔
’’ایک نئے چھتے کی مضبوطی اور اس کا ہر پہلو سے صحیح اور مکمل ہونا ایک غیر معمولی امر ہے۔ مثلاً ہر خانہ کی دیوار کی موٹائی 0.073+0.002 ملی میٹر ملحقہ دیواروں کا زاویہ ٹھیک120 ڈگری اور ہر خانہ اپنے قریبی خانہ سے 0.95 سینٹی میٹر کے فاصلہ پر واقع ہوتا ہے‘‘۔ 25
ایک جیسے انڈوں سے پیدا ہونے والے بچے تقسیم کار کے لحاظ سے تین مختلف گروہوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ ملکہ، کارکن اور نکھٹّو۔ ملکہ ایک دن میں ہزاروں انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’’اسم بامسمّٰی ملکہ چھتے پرحکمرانی کرتی ہے۔ کارکن ہمہ وقت اس کی خدمت پر مامور رہتے ہیں اور اس کیلئے بہترین مقوّی غذا مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ کالونی میں اپنے محدود مفوضہ اور اہم فرائض سر انجام دے سکے۔ ملکہ کے چھریرے بدن سے اس کی بڑی بڑی بیضہ دانیوں کا اندازہ نہیں ہوتا جو اسے ایک ایسی غیر معمولی مشین میں تبدیل کر دیتی ہیں جو ایک دن میں ہزاروں انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملکہ کی حرکات و سکنات سے ان اشاروں کا اندازہ نہیں ہوتاجو وہ اپنے کارکنوں کو pheromone کے ذریعہ دیتی ہے۔ یہ اشارے کارکن مکھیوں کے کردار کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کی اجتماعی زندگی کے ضامن ہیں۔‘‘26
نکھٹّو جنہیں کارکن مکھیاں خوراک مہیا کرتی ہیں مضبوط جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی کام ہے کہ ملکہ سے ملاپ کریں تاکہ انڈے پیدا ہوں۔ جس کے بعد ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
کالونی کی آبادی کا اکثر حصہ کارکن مکھیوں پر مشتمل ہو تا ہے جو زرِ گل اکٹھا کرتی ہیں اور شہد بناتی ہیں نیز وہ چھتے کے اردگرد دفاعی حصار بنائے رکھتی ہیں۔ ہمیشہ چوکس رہتی ہیں اور کالونی کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ ان کی ایک لمحہ کے نوٹس پر اڑنے کی صلاحیت کا دارومدار ان کے جسمانی درجہ حرارت پر ہے جو 35ڈگری سنٹی گریڈ رہنا چاہئے۔ چھتا جو چاروں طرف سے گھرا ہوا ہوتاہے اس میں تو درجہ حرارت کو قائم رکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بیرونی طرف کھلی ہوا کے زیر اثر جب درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے تو اس کا حل وہ اپنے پروں کو وقتاً فوقتاً تیزی سے پھڑ پھڑا کر رگڑ سے توانائی پیدا کر کے نکالتی ہیں۔
شہد کی مکھی اپنا چھتا کسی درخت کے کھوکھلے تنے یا تنگ غار میں بناتی ہے۔ چونکہ اس کا ایک ہی دروازہ ہو تا ہے اس لئے اس کے اندر ہوا کی گردش نہ ہونے کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہوا میں موجود دوسری گیسوں کا تناسب ازخود قائم نہیں رہ سکتا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھ جانے سے مکھیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جس سے بچاؤ کیلئے کارکن مکھیاں چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں دروازہ پر اس طرح بیٹھتی ہیں کہ ان کی دم باہر کی طرف ہوتی ہے۔ اس پوزیشن میں وہ اپنے پروں کو تیزی سے پھڑ پھڑاتی ہیں جس کی وجہ سے تازہ ہوا اندر داخل ہوکر آلودہ ہوا کو باہر نکال دیتی ہے۔ ایک گروپ کا یہ عمل 10 سیکنڈ تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اگر مزید ضرورت ہو تو دوسرا گروپ اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اگر چھتے کا درجہ حرارت 35 ڈگریسنٹی گریڈ سے بڑھ جائے توبھی وہ یہی عمل دہراتی ہیں یعنی درجہ حرارت کو مطلوبہ حد تک برقرار رکھنے کیلئے نہایت عمدگی سے اپنے پر پھڑپھڑاتی ہیں نیز تمام کی تمام بیک وقت پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں اور پھر بیک وقت رک بھی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں پھولوں کے رس کی بجائے چھتے میں پانی لاکر ان خانوں کے ارد گرد رکھتی ہیں جن کے اندر ایسے لاروے موجود ہوتے ہیں جو گرمی برداشت نہیں کر سکتے۔
شہد کی مکھی اپنی منتخب اور پسندیدہ خوراک تیار کرتی ہے اور جس طریق سے شہد کا ایک ایک قطرہ پھولوں کے رس سے حاصل کرتی ہے اور اسے گاڑھا کرنے کیلئے اس میں لعاب دہن ملاتی ہے، یہ سارا عمل اپنی ذات میں ایک عجوبہ سے کم نہیں۔ اس محلول کا ہر ذرہ اپنی زبان پررکھ کر شہد کی تیاری کے عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھتی ہے تا آنکہ شہد پوری طرح تیار ہو جاتاہے۔ اس طرح شہد کے ایک ایک قطرہ کی تیاری کیلئے ان مکھیوں کو بار بار پھولوں کے رس کی تلاش میں باہر جانا پڑتا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مقصد کیلئے بنا ئے گئے چھتے کے مخصوص حصہ کو بھر دیتی ہیں۔ کسی نا معلوم طریق سے وہ عام شہد اور رائل جیلی میں فرق کر لیتی ہیں جسے وہ صرف اور صرف ملکہ کیلئے تیار کر تی ہیں۔ رائل جیلی میں خاص تاثیر پائی جاتی ہے جو ملکہ کے تولیدی نظام کو قوت دے کر اسے تیزی سے انڈے دینے کے قابل بناتی ہے۔ ملکہ روزانہ اپنے جسم کے وزن کے برابر انڈے دے سکتی ہے جو عام مکھیوں کے وزن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ نیز رائل جیلی میں ایک ایسی پر اسرار تاثیر بھی موجود ہے جو ملکہ کی عمر کو عام مکھیوں کی عمر کی نسبت سو گنا تک بڑھادیتی ہے۔ تقریباً اسّی ہزار مکھیوں پر مشتمل تمام کالونی ملکہ کی رعایا ہوتی ہے۔ انسانی بادشاہتوں میں اس سے بہتر نظام ممکن نہیں۔
متذکرہ بالا فرائض کے علاوہ اردگرد کے ماحول سے باخبر رہنے کیلئے بھی ایک نظام موجود ہے جس کے تحت باصلاحیت کارکن مکھیاں موجودہ کالونی کو چھوڑنے کی صورت میں نئی کالونی بنانے کیلئے مناسب جگہ تلاش کرتی ہیں۔ یہ مکھیاں اور ان کے کام کا انداز جانوروں کے کردار کے حوالہ سے عظیم ترین عجائبات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ مکھیاں ایسے علاقے میںجہاں پھولوں کا رس دستیاب ہو کسی مناسب اور محفوظ مقام کی تلاش میں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں جو پھولوں کے رس والے علاقوں کے قرب میں واقع ہوں۔ تا ہم یہ مقامات پھولوں سے مختلف فاصلوں کی دوری پر ہو سکتے ہیں اور نئی کالونی کیلئے نسبتاً کم یا زیادہ موزوں بھی ہوسکتے ہیں۔ مختلف مکھیوں کی حاصل کردہ معلومات کا باہمی مقابلہ اور تجزیہ اور نئی کالونی کیلئے مناسب جگہ کا فیصلہ ملکہ مکھی کا کام ہے۔ مکھیاں جس طریق سے ملکہ کو یہ معلومات فراہم کرتی ہیں وہ انسانی سمجھ سے بالا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا نظام جانوروں کی دنیا میں منفرد ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ معلومات کو آگے پہنچانے والے اس زبر دست نظام کا کسی مدبر ہستی کے بغیر معرض وجود میں آجانے کے تصور سے ہی بڑے سے بڑے نیچری سائنسدان کا ذہن بھی ششدرہو کر رہ جاتا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا یہ لوگ کبھی ان چیزوں پر بھی دھیان دیتے ہیں یا نہیں؟ جائزہ لے کر آنے والی ہر مکھی کالونی میں پہنچنے کے بعد ایک خاص سمت میں ایک خاص اور عجیب و غریب ڈانس کرتی ہے۔ وہ اس ڈانس اور اپنے معین رخ کے ذریعہ ملکہ تک سب معلومات پہنچادیتی ہے۔ اس ڈانس سے فراہم ہونے والی معلومات کو انسانی زبان میں بھی اس سے زیادہ بہتر اور قطعی شکل میں آگے نہیں پہنچایا جا سکتا۔ یہ مکھی ملکہ کو بتاتی ہے کہ اس نے کیا دیکھا اور کہاں دیکھا، وہ جگہ کتنے فاصلہ پر واقع ہے اور اس کے قریب پھولوں کی کس قدر بہتات ہے۔ نیز یہ کہ موجودہ کالونی سے نئی جگہ اور وہاں سے پھولوں تک کا فاصلہ کتنا ہے؟ یہ اس نئی جگہ کی مکمل تفصیل بھی بیان کرتی ہے کہ وہ کہاں تک قدرتی آفات سے محفوظ ہے۔ کیا یہ کسی درخت کی کھوہ ہے۔ کسی چٹان کی دراڑ ہے یا پھر کسی درخت کے تنے پر چاروں طرف سے ٹہنیوں میں گھری ہوئی کوئی جگہ۔ باہر سے آنے والی مکھیاں باری باری یہ ڈانس کرتی ہیں اور ملکہ سب کے ڈانس ختم ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ فیصلہ کر کے عین اپنی منتخب شدہ جگہ کی طرف اڑ جاتی ہے۔ یوں کسی نئی جگہ پر منتقل ہو کر نئی کالونی بنانا بجائے خود ایک عجوبہ ہے۔
آخر میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ شہد کی مکھیوں کا خود کو اور چھتے کو صاف ستھرا رکھنے کا معیار اتنا بلند ہے کہ اس کے بالمقابل جدید ترین ہسپتالوں اور کلینکس کی صفائی کو کوئی دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ تحقیق کرنے والے سائنسدان یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے کہ مختلف قسم کے وائرس اور جراثیم سے آلودہ مچھر کے برعکس شہد کی مکھی کے جسم پر کسی بھی قسم کے وائرس یا جراثیم موجود نہیںہیں۔ چنانچہ اس کی وجہ معلوم کرنے کیلئے انہوں نے ایک نئی تحقیق کا آغاز کیا تو ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ شہد کی مکھیاں ایک خاص قسم کا جراثیم کش مادہ تیار کرتی ہیں جسے وہ مخصوص درختوں کی گوند سے اکٹھا کرتی ہیں جسے پراپلس(propolis) کہا جاتا ہے۔ اس مادہ میں ہر قسم کے وائرس اور جراثیم کو ہلاک کردینے کی حیرت انگیزصلاحیت پائی جاتی ہے۔ شہد کی مکھیاں اپنے چھتہ کے چاروں طرف بیرونی کناروں پر یہ مادہ چپکا دیتی ہیں۔ ہر مکھی چھتے میں داخل ہونے سے پہلے لازماً اس مادہ پر رکتی ہے تاکہ اگر اس کے جسم پر کوئی وائرس یا بیکٹیریا موجود ہوں تو وہ ہلاک ہو جائیں۔
ہم نے اس جگہ شہد کی مکھی کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کیا ہے جبکہ اس سے قبل اسی قسم کے آٹھ دیگر جانوروں کاذکر کیا گیا تھا لیکن ان کے بارہ میں زیادہ تفصیل بیان نہیں کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قرآن کریم شہد کی مکھی کا ذکر خاص طور پر اس انداز سے فرماتا ہے جس سے ماہرینِحیاتیات کیلئے حیات کے معمہ کو سمجھنے میں آسانی ہو، اس لئے ہم نے بھی شہد کی مکھی کو منتخب کیا ہے تاکہ یہ لو گ پورے غورو خوض کے بعد ان تخلیقی قوتوں کا سراغ لگانے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے یہ معجزانہ صورت حال معرض وجود میں آئی۔ چونکہ ماہرین حیاتیات نے اس موضوع پر ماہرانہ تحقیق کی ہے اس لئے شہد کی مکھی اور اس کی پیچیدہ زندگی کے بارہ میں ان کا علم ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ لوگ شہد کی مکھی اور اس کی زندگی سے متعلق حیرت انگیز امور کو محض اتفاق قرار دے کر یوں آسانی سے نظرانداز کر دیں۔
انہیں چاہئے کہ قرآنی حقائق کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور یہ تسلیم کر لیں کہ کسی خالق کا وجود ایک یقینی امر ہے۔ قرآن کریم اسی خالق کا ذکر فرماتا ہے جو کلام کرتا ہے اور زندگی کے اسرار کھولتا ہے۔ چنانچہ شہد کی مکھی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے:

(النحل70-69: 16 )
ترجمہ: اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں بھی اور درختوں میں بھی اور ان (بیلوں)میں جو وہ اونچے سہاروں پر چڑھاتے ہیں گھر بنا۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے رب کے رستوں پر عاجزی کرتے ہوے چل۔ ان کے پیٹوں میں سے ایسا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں۔ اور اس میں انسانوں کیلئے ایک بڑی شفا ہے۔ یقیناً اس میں غورو فکر کرنے والوں کیلئے بہت بڑا نشان ہے۔
دنیا میں پائے جانے والے تمام حشرات میں سے اﷲ تعالیٰ نے صرف شہد کی مکھی کو چنا تاکہ وہ ثابت کر دے کہ جب وہ کسی عام سے جانور کو اپنی وحی سے مشرف کرتا ہے تو اس کا مرتبہ تمام جانوروں سے بہت بلند ہو جاتا ہے۔ آخر شہد کی مکھی ایک مکھی ہی تو ہے۔ لیکن واہ! اس مکھی کے کیا کہنے کہ جب اس کی تخلیق کے اوّلین مرحلہ ہی میں اس کے جینز میں وہبی طور پر پیغامِ ربی مرتسم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد وہ خودبخود سب کچھ کر نے کے قابل ہو جاتی ہے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس کا یہ کام کسی سوچ بچار کا نتیجہ نہیں جس کے لئے کسی باشعور ذہن کی ضرورت ہو بلکہ جو جینز اس مقررہ فرض کو نبھا رہے ہیں وہ خود تو کوئی دماغ نہیں رکھتے۔ البتہ ان کا خالق علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ جینز تو محض غلام ہیں اور غلا موں کی طرح اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے دنیا پر بخوبی واضح کرنے کیلئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ کسی بے حیثیت کیڑے کو چن لیتا ہے تو وہ حشرات کی دنیا میں اعلیٰ ترین حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور باقی کیڑوں کے برعکس جو بیماری پھیلانے کا موجب ہیں شفا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ بلا شبہ ان دونوں قسم کے کیڑوں کی زندگی میں بُعد المشرقین ہے۔
جہاںتک شہد کی صحت بخش صفات کا تعلق ہے تو یہ ایک جاری و ساری تحقیق ہے اور وہ محققین جو پہلے ہی اس کی حیرت انگیز خوبیاں دریافت کرچکے ہیں ابھی مزید بہت سی خوبیوں کی دریافت کی توقع رکھتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی اب تک کی دریافت کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
’’فی الحال شہد جن بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہو رہا ہے ان میں آنتوں کی تکالیف اور دل کی بعض بیماریاں اور پھیپھڑوں۔ گردوں۔ جلد۔ اعصاب۔ ناک۔ کان اور گلے کی انفیکشن۔ عورتوں کے اعضائے تولید اور رحم کی بیماریاں شامل ہیں۔‘‘27
شہد میں شفا کی ایک تاثیر جس کی دریافت سے برطانوی سائنسدان حیران رہ گئے وہ اس کی آنکھوں کے ایسے زخموں کو ٹھیک کر دینے کی صلاحیت ہے جو اس سے قبل لا علاج سمجھے جاتے تھے۔ اس کے استعمال سے بہت سے مریض مکمل نابینا پن سے بچائے جاچکے ہیں۔
’’جن مریضوں کی آنکھوں میں زخم یا ککرے تھے انہوں نے شہد کے استعمال کے بعد محسوس کیا کہ ان کی آنکھوں میں چبھن اور ریت کی رڑک کا احساس جاتا رہا۔ اندرونی جھلی کی سرخی کم ہوگئی یابالکل ختم ہوگئی پپوٹوں کے کناروں کے زخم علاج کے دوران مندمل ہونا شروع ہوگئے اور ایسے مریض جن کی آنکھوں میں روشنی کی تاب نہ رہی تھی شہد کے مسلسل استعمال سے ان کی آنکھ کی بیرونی جھلی بہتر ہونا شروع ہوگئی اور ان کی بصارت بھی بہتر ہوگئی۔‘‘27
کیا اس میں ماہرین حیاتیات کے لئے غور وفکر کرنے کا کوئی پیغام نہیں ہے؟ کاش کہ وہ سمجھیں!
اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم ایک بار پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ماہرین حیاتیات، حیات کی تشکیل کے بامقصد ہونے کے محض اس وجہ سے انکاری ہیں کہ اس سے لازماً خداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کے برعکس وہ اس خیال کو ترجیح دیتے ہیں جس کے مطابق کسی بہری،گونگی اور اندھی طاقت نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ یوں وہ دانستہ دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیںکیونکہ ڈارون کے اندھے قوانین ہرگز ہرگز خالق نہیں ہیں،نہ ہو سکتے ہیں۔ ان قوانین کا تو صرف اور صرف اس وقت اطلاق شروع ہوتا ہے جب تخلیق خالق کے ہاتھوں معرضِ وجود میں آجاتی ہے۔ یہ قوانین بھی فزکس کے قوانین کی طرح طاقتور ہیں۔ لیکن فزکس اور کیمسٹری کے قوانین اور قوانین حرکت سب مل کربھی کسی غریب آدمی کی جھونپڑی میں آب رسانی کا مکمل انتظام، اور ایک چھوٹا سا باورچی خانہ اور بیت الخلا تک مہیا نہیں کر سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ قوانین تعمیر کے دوران کام تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے استعمال کیلئے کسی ذی شعور وجود کا ہونا ضروری ہے جو ذہن رکھتا ہو۔ کیونکہ ذہن ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو قوانین قدرت کو کام میں لاتا ہے۔
اندھے ارتقا کا نظریہ محض چند ایک محدود واقعات تک تو کارآمد ہو سکتا ہے لیکن ان واقعات کا بھی تنقیدی جائزہ لینا ہوگا تاکہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔ مونگے کے جزائر اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ کھربوں کی تعداد میں مرنے والے مونگوں میں سے کسی ایک مونگے کی موت بھی بظاہر با مقصد نظر نہیں آتی۔ لیکن لاکھوں سال تک ان کے ایک ایک کرکے مرنے کے بعد ایک دوسرے کے اوپر جمع ہونے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ بننے والا ایک بڑا ڈھیر بالآخر ان جزائر کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں جھانک کر دیکھیں کہ یہ عمل کس طرح شروع ہوکر تکمیل کو پہنچا توہم اس میں وہ مقصد دیکھ سکتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ ہم چشم تصور سے ایسے ٹیلوں کا رفتہ رفتہ ایک انتہائی لمبے زمانہ میں سمندر کے بیچوں بیچ معرضِ وجود میں آنا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ آس پاس خشکی پر بسنے والے لوگوں کو ان کی موجودگی کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ سطح سمندر سے اوپر نہ ابھرآئیں۔ جب ایک خاص مقصد کیلئے ان کا استعمال شروع ہوتا ہے تب کہیں ان کی اہمیت ہم پر کھلتی ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے کس طرح زندگی کے قیام میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اس بے مقصد تدریجی تخلیق کی ایک مثال ہے جس میں بظاہر پہلے سے موجود کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ عین ممکن ہے کہ اس تخلیق کے پیچھے یہ مقصد کارفرمانہ ہو۔ تاہم اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
قوانینِ قدرت ذہن کے بغیر آزادانہ طور پر خود بخود کام کرتے ہیں۔ یہی قوانین ہر موجودہ چیز میں جاری و ساری ہیں اور اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ ان آفاقی قوانین سے جاندار بھی مستثنیٰ نہیں۔ ان قوانین کو شعوری طور پر استعمال کرنے والے ذہن کی عدم موجودگی سے وہ فرضی لائن ختم ہو جاتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جاندار کو بے جان سے ممتاز کرتی ہے۔ اگر جانداروں کا دماغ خود منصوبہ سازی نہیں کر سکتا اور اپنے جسم کی تشکیل پروگرام کے مطابق نہیں کر سکتا تو پھر تو جاندار اور بے جان سب اشیاء پر یکساں طور پر ایک ہی قسم کے قوانین قدرت کا اطلاق ہونا چاہئے۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ ذہن سے عاری یہ قوانین ہی ہیں جن کی وجہ سے زندگی کے اجزائے ترکیبی رفتہ رفتہ جمع ہو کر کوئی شکل اختیار کرلیا کرتے ہیں۔ اگر واقعی یہ قوانین زندگی کے اجزائے ترکیبی کو تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ اس تدریجی عمل کے ذریعہ رفتہ رفتہ ایک دن ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو بھی تعمیر کر ڈالیں۔ لیکن ماہرین حیاتیات خود اپنے اس نظریہ کی تردید بھی کر دیتے ہیں اور یہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ بغیر کسی منصوبہ کے رفتہ رفتہ جمع ہو جانے والے اتفاقی عوامل کے تحت ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کا وجود میں آناممکنات میں سے ہے خواہ یہ عوامل بظاہرکتنے ہی چھوٹے اور بے حقیقت کیوں نہ ہوں۔ اس طرح یہ لوگ بے جان اشیاء اور جاندار مخلوق میں جاری و ساری قوانین قدرت کے درمیان ایک مصنوعی تفریق پیدا کر دیتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں یعنی بے جان اور جاندار مخلوق میں اس قسم کا کوئی فرق موجود نہیں۔ اس لئے اگر قوانین قدرت کو شعوری طور پر استعمال کرنے والا کوئی ذہن ہی موجود نہیں ہے تو ان میں کسی ایسی تفریق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چونکہ ماہرین حیاتیات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جاندار اشیاء کے حوالہ سے کوئی با شعور ہستی موجود نہیں ہے، لہٰذا انہیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ اس لحاظ سے جاندار اور بے جان اشیاء میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ باقی تو صرف قوانین قدرت ہی بچتے ہیں جو جاندار اور بے جان مخلوق دونوں میں یکساں طور پر کارفرما ہیں۔ اگر یہ قوانین بجائے خود زندگی کے اجزائے ترکیبی جیسی پیچیدہ اشیاء کے خالق ہو سکتے تو ان کیلئے ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی تعمیر تو ایک طرف، رائی کا پہاڑ بنانا بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہئے۔ اس سلسلہ میں واحد اعتراض جو درحقیقت اعتراض ہے ہی نہیں، یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس کام کیلئے دستیاب وقت بہت کم ہے حالانکہ یہ قوانین ارتقائے حیات کے مقابلہ میں بے جان اشیاء پر کہیں زیادہ وقت صرف کر چکے ہیں۔ سر دست ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو بھول جائیں کیونکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اس کو ایک باشعور ذہن نے تخلیق کیا۔ اس کی کی جگہ ذرا تصور تو کریںکہ اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا اور بے شمار جزئیات پر مشتمل آسمان سے باتیں کرنے والی عمارات سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں تقریباً پچھلے پندرہ ارب سال کے عرصہ میں محض قوانین قدرت کے عمل سے معرض وجود میں آگئیں۔ یاد رہے کہ جاندار اور بے جان مخلوق دونوں پر قوانین قدرت کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ماہرینِ حیاتیات کے مطابق ہر دو صورتوں میں کسی باشعور ذہن کا وجود یکسر خارج ازامکان ہے۔ اس لحاظ سے ان دونوں کے مابین تفریق کرنا بعید از عقل ہے۔ چنانچہ جاندار مخلوق اور بے جان اشیاء کی تدریجی تخلیق میں پیچیدگی اور نظم و ضبط یکساں طور پر نظر آنا چاہئے۔ لہٰذا جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ زندگی کی تخلیق کے پس منظر میں کوئی با شعور ذہن کارفرما نہیں ہے اس کو اپنے گمان کے مطابق یہ حق بھی پہنچتاہے کہ وہ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر سے بآواز بلند یہ اعلان کرے: ’’یہ عمارت کھرب ہا کھرب اندھے اتفاقات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی ہے۔ نہ تو اس کے پیچھے کوئی منصوبہ کارفرما ہے اور نہ ہی کسی باشعور ذہن نے اسے تشکیل دیا ہے۔ یہ عمارت محض ایک واہمہ ہے جسے بعض احمق اور مذہبی جنونی حقیقت سمجھ رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی اعلیٰ اور خوبصورت صنّاعی سے خواہ مخواہ متاثر ہو بیٹھے ہیں۔‘‘
اسی قسم کے اعلان کی توقع اتنی ہی شدت کے ساتھ نظریہ ارتقا کے ان حامیوں کی طرف سے بھی ہونی چاہئے جو زندگی کے ارتقامیں مقصد اور ڈیزائن کی موجودگی کا انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت عملِ ارتقاکی ان بلندیوں پر موجود ہیں جہاں اس عمل نے انسان کا آخری روپ اختیار کیا ہے۔ ارتقا کی اس بلند چوٹی سے نیچے دیکھنے والے کو تو ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ زمین پر موجود ایک چھوٹے سے نقطہ کی شکل میں دکھائی دینی چاہئے تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ بآواز بلند اعلان کر رہے ہیں کہ: ’’ہماری تخلیق کے پسِ پردہ کوئی ڈیزائن، کوئی مقصد کارفرمانہیں ہے۔ ہمارا وجود ہی ناممکنات میں سے ہے لیکن اس کے باوجود یوںلگتا ہے جیسے ہم موجود ہوں۔ یہ تمام دنیا محض ایک واہمہ ہے۔ تم خیال کرتے ہو کہ ہم موجود ہیں اور ہمارا وہم ہے کہ تم بھی موجود ہو۔ یوں یہ کائنات واہموں کا ایک سلسلہ ہے جیسا کہ اپنی ہی ذات میں گم فلسفی سمجھا کرتے ہیں۔ ہستی کے واہمہ سے نجات پانے کیلئے دوبارہ ہیموگلوبن کے اعداد وشمار پر غور کرو اور نیستی میں گم ہو جاؤ۔‘‘
ایک ایسے خالق کی ہستی کے انکار سے جو شعوری طور پر اپنے فیصلوں کے نفاذ پر قادر مطلق کی حیثیت رکھتا ہو یہ لوگ ایک فرضی خیال کو اس کی جگہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تخلیق یا انتخاب کے عمل کی بنیاد کسی ذہن سے عاری مفروضہ پرر کھنا ایک ایسی احمقانہ کوشش ہے جسے قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں یکسر رد کیا گیا ہے۔

(الاعراف196:7 )
ترجمہ: کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں۔ تو کہہ دے کہ تم اپنے شرکاء کو بلاؤ اور پھر میرے خلاف ہر چال چل دیکھو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔
قرآن کریم کے اس بیان میں واضح طور پر اس زمانہ کے بت پرست مخاطب کئے گئے ہیں اور انہیں یاد دلایا گیا ہے کہ اگرچہ ان کے اعتقاد کے مطابق ان کے دیوتا انسانی شکل و صورت رکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ محض فرضی تصورات ہیں۔ اس بیان کو یہیں پر ختم ہو جانا چاہئے تھااور بظاہر وقت کا سوال نہیں اٹھایا جانا چاہئے تھا جیسا کہ یہاں کیا گیا ہے۔ لیکن اس آیت کے آخر میں واضح طور پر یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ تصورات ازخود کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے خواہ ان کے پاس کتنا ہی وقت کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس اﷲ تعالیٰ اپنی تخلیقی صفات کے اظہار کیلئے وقت کا محتاج نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ آیت انتخاب طبعی کے جدید تصور پر اطلاق پاتی ہے جسے عام طور پر ارتقائے حیات کا ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے بشرطیکہ اس کیلئے اسے کافی وقت دیا جائے۔ انتخاب طبعی کے سیاق وسباق میں وقت کا عنصر بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ تدریجی ارتقاکے نظریہ کے مطابق ایک بے سروپا، اندھے، بے شعور اور طویل وقت پر محیط تصور کو عمل تخلیق کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس وقت کو سکیڑ کر اگر ایک ارب سال کے عرصہ تک لے آئیں تو اس نظریہ کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ ان کے نزدیک زندگی کے تخلیقی عمل میں سب سے زیادہ اہمیت وقت ہی کو حاصل ہے۔ قرآن کریم دراصل اس نظریہ کی عملاً تردید کر تا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ فرضی تصورات جتنا بھی چاہیں وقت کیوں نہ لے لیں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ اپنی تخلیقی صفات کا اظہار آنِ واحد میں کر سکتا ہے۔
وقت کے عمل کے اس تصور نے ڈارون کے قوانین کے حوالہ سے حا ل ہی میں کچھ مزید اہمیت اختیار کر لی ہے۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ شبہ ہو کہ یہ آیت موجودہ زمانہ میں پیش کئے گئے نظریات کے متعلق نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس آیت کا متن مکمل طور پر موجودہ نظریہ پر صادق آتا ہے۔ اس کے نزول کا تعلق اس حوالہ سے نہ بھی ہو تو بھی انتخابِ طبعی کے نظریہ پر ان سے بہتر الفاظ میں تنقید نہیں کی جاسکتی۔
ماہرین حیایتات کا دعویٰ ہے کہ تخلیق اور انتخاب کی قوتیں اگرچہ علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ ہمیں یقین دلانا چاہتے ہیں کہ دماغ سے بے بہرہ جینز(genes) تخلیق کرتے ہیںاور ہیئت سے عاری انتخاب طبعی کا قانون انتخاب کرتا ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ جینز کے مسئلہ کو ایک مسلّمہ امر قرار دے کر پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور انہیں بھی انتخاب طبعی کے اقتدار کے تحت لے آتے ہیں۔ اس طرح وہ ان دونوں عوامل کو جنہیں الگ الگ سمجھا جانا چاہئے تھا عجیب بے معنی طریقہ سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اگر جینز کو بطور خالق پسِپشت ڈال دیا جائے تو آجاکر محض انتخاب کرنے والی ایک ایسی قوت باقی رہ جاتی ہے جس کے پاس مسلّمہ طور پر نہ تو دماغ ہے اور نہ ہی وہ شعوری طور پر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جینز کو یوں پس پشت ڈال دینے سے انتخاب طبعی ہی واحد کھلاڑی کے طور پر میدان میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تخلیق اور انتخاب کی دو مختلف قوتوں کو بلا جواز آپس میں ملا دیا جاتا ہے تاہم کوئی بھی سائنسدان جو ڈارون کے نظریہ کا کچھ بھی ادراک رکھتا ہے اس کی طرف یہ نظریہ منسوب نہیں کر سکتا کہ انتخاب طبعی براہ راست تخلیق بھی کر سکتا ہے۔ کسی تخلیق کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے جس پر انتخاب طبعی اپنا عمل شروع کر سکے۔ یہ وہ الجھن ہے جس کو انتخاب طبعی کے نظریہ کے حامی کبھی حل نہیں کر سکتے۔
قرآن کریم ایک بالکل مختلف تصویر پیش کر تا ہے جس میں اس مسئلہ کا مکمل حل مو جود ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے مطابق ارتقاکے حقائق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ خالق کے دو الگ الگ وجود نہیں ہو سکتے۔ صرف خالق ہی ہے جو اپنی تخلیق میں سے انتخاب کر سکتا ہے۔ جس چیز کو وہ اگلے زیادہ ترقی یافتہ مرحلہ کیلئے منتخب نہیں فرماتا صفحۂ ہستی سے نابود نہیں ہو جاتی بلکہ اپنی سطح پر تخلیق کی بنیاد کو وسیع تر کرنے اور نظام عالم میں بامعنی کردار ادا کرنے کیلئے باقی رہتی ہے۔ چنانچہ عملِارتقاکے ہر اگلے مرحلہ کے ساتھ ساتھ ارتقاکی بنیاد بھی اسی نسبت سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے تاکہ وہ ارتقا کے آگے بڑھتے ہوئے سلسلہ کو سہارا فراہم کر سکے۔
قرآن کریم کے مطابق عالم حیوانات میں انسان کو جو بلند ترین مقام حاصل ہے وہ نچلے درجہ کے حیوانات کے تعاون کے بغیر نہ تو حاصل ہو سکتا تھا اور نہ ہی قائم رہ سکتا تھا۔ اس امر کی طرف درج ذیل آیت خاص طور پر اشارہ کرتی ہے۔

(النحل62:16 )
ترجمہ: اور اگر اﷲ انسانوں کا ان کے ظلم کی بنا پر مؤاخذہ کرتا تو اس (زمین ) پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک طے شدہ میعاد تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی میعاد آپہنچے تو نہ وہ (اس سے) ایک لمحہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
یہاں انتہائی قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر انسان کو سزا دینا مقصود ہوتا تو سارے عالم حیوانات کی صف لپیٹ دی جاتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلے درجہ کی تمام تر حیات کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ اپنے سے بالا تر انسانی زندگی کو قائم رکھنے میں مدد دے۔ اگر یہ ختم ہو جائے تو وہ بھی ختم ہوجائیں۔
فلسفیوں، سائنسدانوں اور ان کو جو کائنات میں انتخاب طبعی کو عملاً تخلیق اور ارتقا دونوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو آخری اور فیصلہ کن سوال اٹھا کر حل کر نا چاہئے تھا وہ یہ ہے:
تخلیق اور انتخاب دونوں کی ذمہ دار صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہے جو خالق کی ہے نہ کہ انتخاب کی کیونکہ انتخاب تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ نتیجہ صرف اور صرف ہستی ٔ باری تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے نیچری راہ فرار اختیار کرنے کی پوری کوشش کیا کرتے ہیں۔ اسی ناگزیر نتیجہ سے بچنے کیلئے ڈارون نے تخلیق اور انتخاب دونوں کے عمل کو انتخاب طبعی سے منسوب کرنے کی بالواسطہ کوشش کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ڈارون نے واقعی یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انتخاب طبعی کا عمل بجائے خود خالق بھی ہے؟ ہمارے علم کے مطابق اس نے ہرگز ایسا نظریہ پیش نہیں کیا۔ کیونکہ ہر ذی شعور آدمی کی طرح وہ خوب جانتا تھا کہ تخلیق اور انتخاب دو الگ الگ کام ہیں۔ یہ بات زیادہ معقول ہے کہ خالق اپنی تخلیق میں انتخاب کا عمل بھی بروئے کار لائے۔ لیکن یہ امر اندھے ارتقا کے نظریہ سے مطابقت نہیں رکھتا اس لئے بڑی شدت اور تحدی سے ایسے با شعور خالق کا سرے سے انکار کر دیا جاتا ہے جو تخلیق کے ساتھ ساتھ انتخاب پربھی قدرت رکھتا ہو۔ تاہم ایسے الگ الگ اور بے شعور نظام تخلیق اور نظام انتخاب کا تصور ہی محال ہے جو باہم مربوط اور ہم آہنگ بھی ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ ڈارون نے اس مسئلہ کا یہ حل نکالا ہے کہ چونکہ انتخاب طبعی کا عمل جینز کے تخلیق کردہ اجسام کو قبول کر لیتا ہے اس لئے ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ بالواسطہ انتخاب طبعی کا عمل بھی تخلیق کے عمل میں شریک ہے۔
ہم نے اسی کتاب میں ایک اور جگہ اس نظریہ کا رد کرتے ہوئے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جینز کی تخلیق کر دہ اشیاء کو بالواسطہ یا بلا واسطہ انتخاب طبعی کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تخلیقی عوامل کو بجائے خود بیک وقت جینز کی طرف منسوب کر نا اور انہیں شعور سے عاری قرار دینا باہم متعارض امور ہیں۔ ان عوامل کی نشاندہی کئے بغیر کہ آخر جینز کو پیدا کس نے کیا، ارتقاکے سفر کو خود جینز ہی سے شروع کر دینا بذات خود ایک لغو بات ہے۔ ڈارون کے نظریہ کے کسی بھی حامی کیلئے اس بات کی وضاحت کر نا ناممکن ہے کہ انتخاب طبعی کے عمل نے جینز کی تخلیق کیسے کردی اور پھر یہ کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل باشعور دماغ کی عدم موجودگی میں جینز تخلیق کیسے اور کیونکر کرتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے سب سے پہلے حل کرنا چاہئے تھا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ یا تو جینز کا کوئی باشعور خالق ڈھونڈنا ہو گا یا یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ دماغ سے عاری جینز نے اپنے آپ کو خود ہی تخلیق کر لیا تھا۔ گویا کہ وہ خود ہی اپنی مرضی کے مطابق تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہو گئے تھے۔ لیکن فہم سے عاری کسی چیز کا حیران کن مہارت کے ساتھ خود کو تخلیق کرنا ایک ناقابل یقین امر ہے۔ نیچری اس انتہائی اہم اور بنیادی شرط پر غور کئے بغیر اپنے سفر کی ابتدا جینز سے کر دیتے ہیں۔ اس سوال کو زیر بحث لانا انہیں اس لئے گوارا نہیں ہے کہ اس کے جواب سے ان کے خود ساختہ نظریہ ارتقا کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ قرآن کریم اس معمّہ کا آسان حل پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(القصص69:28 )
ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (اس میں سے) اختیار کرتا ہے۔ اور ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پاک ہے اﷲ اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
اس آیت کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انتخاب کا عمل بنیادی طور پر خالق ہی کا حق ہے اور ان دونوں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں خداتعالیٰ اپنے متعلق ایسا خالق ہونے کا اعلان فرماتا ہے جو (تخلیق کے ساتھ ساتھ) انتخاب پر بھی کامل قدرت رکھتا ہے۔ ایسا ہی ہونا بھی چاہئے اور بعینہٖ ایسا ہی ہے بھی۔ کوئی نیچری اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی خداتعالیٰ کا مقام اپنی مرضی سے کسی بے شعور خالق کو دے سکتا ہے۔ مایوسی کی حالت میں کی جانے والی کوشش میں وہ انتخاب طبعی کے عمل کو خالق کا اضافی مرتبہ بھی سونپ دینا چاہتے ہیں۔ ا س طرح وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ فہم و فراست سے عاری اور بے شعور قانون کو انتخاب اور تخلیق کرنے والی قوت تسلیم کر لیں جو کسی بھی حیثیت میں اپنی مرضی کی مالک نہیں ہے۔ بلکہ ترجیحاً وہ تو یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ انہیں ’صفر‘نے پیدا کر دیا۔ بالفاظ دیگر ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ جیسا باپ ویسا بیٹا۔
اس طرح ان کے پاس ایک بے شعور، جسم سے عاری، بہرہ، گونگا اور اندھا قانون باقی بچتا ہے جس کے بارہ میں ان کا اعتقاد ہے کہ وہی ان کا خالق ہے۔ ضمناً اس پر تو یہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ’جیسی روح ویسے فرشتے‘۔ وہ اس پر بیشک جتنا چاہیں فخر کریں لیکن ہم معذرت کے ساتھ اس سے پورا پورا اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم تو خودکو ایک ایسے خالق کی تخلیق قرار دینے کو ترجیح دیں گے جو ایک عظیم الشان ذہن کا مالک ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اسے پورا کر لے۔ ہمیں ایسے خالق پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں۔ ورنہ ہمیں یہ ماننا پڑے گاکہ ہم خود عقل اور جذبات سے عاری ہیں جو بظاہر ہم میں موجود ہیں۔ اگر خدا کا انکا ر کرنے والوں کے پاس انتخاب کا کوئی اختیار ہے تو یہ اختیار انہیںیہاں استعمال کرنا چاہئے کہ وہ اپنے لئے متذکرہ بالا دو قسم کے خالقوں میں سے کون سے خالق کو انتخاب کر نا پسند کریں گے۔ ہم یہ فیصلہ ان پر چھوڑ تے ہیں۔
حوالہ جات
1. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England.
2. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.xiii
3. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.24
4. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.25
5. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, pp.25-26
6. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.35
7. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.36
8. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.37
9. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.39
10. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.45
11. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, pp.12-13
12. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, p.16
13. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, p.29
14. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, pp.48-49
15. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, p.64
16. DOWNER, J. (1988) Supersense. Perception In The Animal World. BBC Books, London, p.32
17. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.98
18. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.99
19. DAWKINS. R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.98
20. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, pp.98-99
21. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.99
22. DAWKINS, R. (1986) The Blind Watchmaker. Penguin Books Ltd, England, p.97
23. WINSTON, M.L., (1991) The Biology of the Honey Bee. Harvard University Press, London, p.83
24. WINSTON, M.L., (1991) The Biology of the Honey Bee. Harvard University Press, London, p.81
25. WINSTON, M.L., (1991) The Biology of the Honey Bee. Harvard University Press, London, p.83
26. WINSTON, M.L., (1991) The Biology of the Honey Bee. Harvard University Press, London, p.1
27. MOZHERENKOV, V.P., SHUBINA, L.F. (1982) Use of Honey In Treating Eye Diseases - Translation of Russian Article: Feldsher Akush.


باب ششم
عالمِ غیب کا انکشاف اور قرآن کریم
عالمگیر ایٹمی تباہی
جینیاتی انجینئرنگ
طاعون کا نشان
ایڈز کا وائرس


عالم غیب کا انکشاف اور قرآن کریم تاریخی پس منظر
انسانی علم سے ماوریٰ چاروں طرف لا محدود اسرار غیب پھیلے ہوئے ہیں۔ ماضی، حال یا مستقبل کے متعلق انسانی علم کی مثال روشنی کے اس چھوٹے سے نقطہ جیسی ہے جس کی حیثیت جگنو کی ٹمٹماتی ہوئی اس دم سے زیادہ نہیں جو تاریکی کے اتھاہ سمندر میں گم ہو۔ یوں لگتا ہے کہ اگرچہ انسانی علم فلکی طبیعیات اور اعلیٰ ریاضیات کی وجہ سے بظاہر کائنات کے کناروں تک پھیل چکا ہے لیکن واقعاتی شہادت اسے کائنات کے کناروں سے اب جا کر ملنا شروع ہوئی ہے اور وہ بھی ان اشاروں کے طفیل جو اٹھارہ سے بیس ارب سال کے بعد ہم تک پہنچ پائے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہاں ان اشاروں یا سگنلز کی اتنا عرصہ قبل روانگی کے بعد سے اب تک کیا ہو چکا ہے یا کیا ہو رہا ہے تو اس کے متعلق کچھ کہناممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اسے قیاس آرائی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ماضی اور مستقبل کو تو چھوڑیں، حال سے متعلق علم بھی زیادہ تر انسانی دسترس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ کیا انسان اپنے گھر، گلی، قصبہ اور ملک سے باہر وقوع پذیرہونے والے واقعات سے واقعۃً باخبر ہے؟ جملہ ذرائع ابلاغ مل کر بھی اسے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے اربویں حصہ سے بھی آگاہ نہیں کر سکتے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ انسان اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق کچھ نہ جانتے ہوئے بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ انسانی چہرہ کو پڑھ کر اس کے اندرونی خیالات کو معلوم کرنا بعض اوقات کیچڑ سے بھرے ہوئے کسی جوہڑ کی سطح کے نیچے دیکھ لینے کی کوشش سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ انسان دونوں صورتوں میں محض سطح پر منعکس خاکوں کو دیکھتا ہے۔ فرق صر ف اتنا ہے کہ جوہڑ بذات خود کچھ نہیں کر سکتے۔ نہ وہ تصنع سے کام لے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے غیر حقیقی تاثرات پیدا کر سکتے ہیں۔ موسم اور سال کے مخصوص دنوں میں جوہڑ تقریباً ایک جیسے ہی رہتے ہیں جبکہ انسان کا معاملہ مختلف ہے۔ انسان کی نفسیاتی پیچیدگیاں، اس کے مزاج اور رویوں میں مختلف تبدیلیاں، اس کی سوچ اور اخلاقیات کے بدلتے ہوئے معیار اور دل و دماغ کی مختلف صلاحیتیںاور استعدادیں نیز اس کے کردار کی گہرائی یا اتھلاپن اور ایسے ہی دیگر کئی ان گنت تغیرات ہیں جو ہمیں جوہڑوں میں دکھائی نہیں دیتے حتیٰ کہ انسان کی باطنی تبدیلیاں بھی اکثر و بیشتر اس کی اپنی سمجھ سے بالا ہوتی ہیں۔ تاہم معدودے چند انسان ہی منکسرالمزاج ہوا کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ صداقت کا اصل منبع اور مطلق علم کا سرچشمہ خالق حقیقی کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ وہی ہے جو اپنی مخلوق کے ہر پہلو سے باخبر ہے۔ وہی بصیر ہے، وہی علیم ہے، وہی عظیم ہے اور وہی بزرگ و برتر ہستی ہے۔
کسی چیز کی تخلیق کیلئے اس کے بارہ میں علم ایک لازمی شرط ہے خواہ یہ علم الٰہی ہو یا انسانی۔ کیونکہ گہرے علم کے بغیر کوئی تخلیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا تخلیق کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کا علم خالق سے بڑھ کر کسی اور کو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مطلق علم اﷲ تعالیٰ سے ہی خاص ہے یعنی جامع اور کامل علم۔ لہٰذا یہ اصطلاح بلا شرکت غیرے اﷲ تعالیٰ کیلئے ہی استعمال ہوتی ہے۔
اگر یہ وہی علیم و خبیر اور حاضر ناظر خدا ہے جس نے قرآن کریم کو نازل فرمایا تو لازم ہے کہ بلااستثناء ماضی، حال یا مستقبل سے تعلق رکھنے والی تمام قرآنی آیات کی تصدیق نئے منکشف ہونے والے مصدّقہ حقائق سے بھی ہو۔ چنانچہ آئندہ صفحات میں یہی موضوع زیرِ بحث آئے گا۔ انشاء اﷲ ہم ناقابل تردید اور غیر متنازع حقائق کی مدد سے اپنے مو قف کو ثابت کرنے کی کو شش کریں گے۔
قبل ازیں ہم تخلیق کائنات سے متعلق بعض قدیم ترین واقعات پر روشنی ڈالنے والی آیاتِقرآنی کا قدرے تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں۔ یہ عمل اس وقت شروع ہوا جب وقت کا آغاز ہوا اور جب کائنات ایک بلیک ہول سے دھماکہ کے ساتھ باہر نکل کر اچانک معرض وجود میں آئی۔ قرآن کریم کے مطابق یہ کائنات صرف قادر مطلق خالق کے حکم ہی سے یوں اچانک پھٹ کر منتشر ہونا شروع ہوئی اور سمٹ کر انجام کار ایک اور بلیک ہول میں دوبارہ غائب ہو جائے گی۔
جہاں تک حیات کے آغاز کا تعلق ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو انکشافات فرمائے ہیں وہ بھی حیران کن حد تک جامع اور معین ہیں۔ قرآن کریم نامیاتی اور حیاتیاتی ارتقا کی تاریخ کے تمام اہم مدارج کا احاطہ کرتا ہے جو ساڑھے چار ارب سال پر ممتدہیں اور جو بالآخر تخلیقِانسانی پر منتج ہوئے۔ اس مرحلہ کے بعد سے قرآن کریم انسانی تاریخ کو معاشرہ، مذہب اور تمدّن کے ارتقا کے حوالہ سے بیان کرتا ہے اور اس امکان کا ذکر بھی کرتا ہے جب بالآخر نسل انسانی معدوم ہو جائے گی اور اس کی جگہ ایک بہتر اور زیادہ ترقی یافتہ نوع حیات وجود میں آجائے گی۔
یہ خلاصہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس کی تفصیلی بحث اس کتاب کے متعلقہ ابواب میں پیش کی جاچکی ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آسمانی وحی کس طرح عالم غیب کے کسی حصہ کو عالم شہود میں منتقل کرتی ہے۔ اس باب میں ہم یہ ثابت کریں گے کہ قرآن کریم کس تفصیل سے ان تاریخی واقعات کا ذکر کرتا ہے جو ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو چکے ہیں۔ نیز مستقبل میں رونما ہونے والے بہت سے ایسے واقعات کا انکشاف بھی کرتا ہے جو نزول قرآن کے وقت کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ خصوصاً یہ کہ قرآن کریم کس طرح معین طور پر آئندہ ہونے والی ان سائنسی ترقیات کی پیشگوئی کرتا ہے جن کے نتیجہ میں انسان کا طرزِ حیات یکسر تبدیل ہو جانا مقدر تھا۔
اب ہم یہاں ایک عظیم تاریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جو یہود و نصاریٰ او رمسلمانوں کے لئے یکساں مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے خروج اور ان کا تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کے لاؤلشکر کے انجام سے ہے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم دریائے نیل کے پر خطر ڈیلٹا سے بخیر و عافیت گزر گئی۔
اسی طرح یہود و نصاریٰ کی تاریخ سے تعلق رکھنے والے اور متعدد واقعات بھی ہیں جن کا ذکر عہدنامہ قدیم، عہد نامہ جدید اور قرآن کریم میں ملتا ہے لیکن ہم نے اس مقصد کیلئے خروج کے واقعہ کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ واقعہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔
بائیبل کا بیان اگرچہ ہمعصر تاریخ کو محفوظ تو کر تا ہے لیکن قرآن کریم کے مقابلہ میں بالکل سرسری اور سطحی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک ماننے والے نے جو کچھ دیکھا اور محفوظ کیا وہ بس اتنا ہے کہ فرعون اور اس کا لشکر پہاڑوں جیسی دو بلند لہروں میں غرق ہو گیا۔ غرق ہونے سے پہلے فرعون پر کیا گزری؟ ڈوبتے وقت اس کے اور خداتعالیٰ کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟ آیا اس نے ڈوبتے وقت خداتعالیٰ سے کوئی دعا مانگی۔ اگر مانگی تو کیا؟ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ساحل پر کھڑے ہو کر مشاہدہ کرنے والے انسان کی سوچ سے بالا ہیں۔ چنانچہ بائیبل فرعون اور اس کی فوج کے متعلق صرف اتنا بتاتی ہے کہ بلا استثناء وہ سب ڈوب گئے۔
’’اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کر تا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔‘‘
(خروج 29-28:14)
بائیبل کے اس بیان سے واضح ہے کہ سارے کا سارا لشکر بشمول فرعون سمندر کی نذر ہو گیا۔ یہ مکمل تباہی تھی۔ اس کے بالمقابل قرآن کریم میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے:ــــ

(یونس10 : 91 93-)
ترجمہ: اور ہم بنی اسرائیل کوسمندر پار اتار لائے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے بغاوت اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (بھی) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ کیا اب (ایمان لایا ہے) ! جبکہ اس سے پہلے تو نافرمانی سے کام لیتا رہا اور تو مفسدوں میں سے تھا۔ پس آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کیلئے ایک عبرت بن جائے۔ حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر یقینا ہمارے نشانات سے بالکل غافل ہیں۔
یہاں یہ امر بالخصوص توجہ طلب ہے کہ قرآنی بیان کے برعکس بائیبل کے بیان میں فرعون کی جسمانی نجات کے امکان کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔ کیونکہ بائیبل کے مطابق ان میں سے ایک بھی نہ بچا۔ چنانچہ قرآن کریم سے پہلے کسی انسانی تاریخ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ فرعون کے جسم کو اس لئے بچایاگیا تاکہ وہ آئندہ نسلوں کیلئے باعث عبرت ہو۔
نزول قرآن کے وقت فراعین مصر کے مقابر صحرا کی ریت کی تہوں میں مدفون تھے تو اس زمانہ کے لو گوں کو ممی بنانے کا علم نہیں تھا اور خصوصاً عرب تو اس سے بالکل ہی نابلد تھے۔ کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی کتاب یا روایت میں فرعون کی جسمانی نجات کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ کجا یہ ذکر کہ اس کا جسم بعد میں بھی محفوظ رہا۔
قرآن کریم کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ نہ صرف بعض گزشتہ واقعات کا انکشاف کر تا ہے جو اس وقت تک دنیا کو معلوم نہ تھے بلکہ وہ یہ پیشگوئی بھی کرتا ہے کہ مستقبل بھی ان بیانات کی تصدیق کرے گا۔ اس وقت اس بات کا تصور بھی محال تھا کہ بائیبل کے بیان کردہ حالات کی رو سے غرق ہونے کے بعد فرعون کا جسم بچا لیا گیا ہو۔ لیکن بفرض محال اگر اسے بچا بھی لیا جاتا تو بھی ممی کا ذکر بجائے خود ایک عجوبہ سے کم نہ ہوتا۔ بایں ہمہ قرآن کریم بعینہٖ یہی دعویٰ کرتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں کوئی آدمی ایسا بیان دینے کے بارہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو اس وقت کے موجود تاریخی شواہد کے اتنا برعکس ہوتا۔ اس وقت ان لوگوں کا یہی خیال تھا کہ فرعون کو سمندر نے ہمیشہ کیلئے نگل لیا تھا حتیّٰ کہ ان مقابر میں چوری کی نیت سے داخل ہونے والوں کے ذہن میں یہ شائبہ تک نہ تھا کہ ’ویلی آف کنگز‘(valley of kings) یعنی ’’بادشاہوں کی وادی‘‘ میں فراعین مدفون ہیں۔ اگر قرآن کریم رسول کریمﷺ کی اختراع ہو تا تو انہیں اس قسم کا عجیب بیان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اوّل تو یہ کہ ایسا بیان تو ویسے بھی ایک بالکل بے سود بات تھی بلکہ اس سے تو بجائے فائدہ کے نقصان کا احتمال تھا۔ کیونکہ اگر کوئی اسے چیلنج کر دیتا تو رسول کریمﷺ کے پاس اس مو قف کے دفاع میں ان دنوں کوئی شہادت موجود نہ ہوتی۔ اس کا تو صرف ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا یعنی یہ کہ قرآن کریم کی صداقت مشتبہ ہو جاتی۔ نزول قرآن سے کئی صدیاں بعد زمین نے اپنے بھید کھولنا شروع کئے اور اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے منسوب تمام فراعین کی حنوط شدہ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
یہ امر ہنوز حل طلب ہے کہ یہ فرعون رعمسیس ثانی ہی تھا یا کوئی اور؟ لیکن اس امر میں تو شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ’ویلی آف کنگز‘ (valley of kings) یعنی وادیٔ شاہانِ مصر سے برآمد ہونے والی ایک ممّی اسی فرعون کی ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ٹکر لی تھی۔ لا محالہ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری تاریخ عالم کے فیصلے کے خلاف صرف قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی درست ثابت ہوا ہے: ’فالیوم ننجِّیک ببدنک‘ یعنی آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے۔ قرآن کریم کا یہ وہ فیصلہ ہے جس پر تاریخِ عالم نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
فرعون سے اﷲ تعالیٰ کے اس خطاب کے ایک معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اس کی زندگی بچانے کا وقت تو گزر چکا تھا لہٰذا اب صرف اس کا مردہ جسم ہے جسے بچایا جائے گا۔ دوسرے ممکنہ معنی یہ ہیں کہ ایمان لانے کا وقت اب گزر چکا ہے لہٰذا اس کی روح کو نجات نہیں ملے گی۔ البتہ جسمانی طور پر اسے بچا لیا جائے گا لیکن روحانی طور پر وہ ایک بے جان لاشہ کی مانند ہو گا۔ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی مراد مؤخر الذکر معنی سے ہے۔ اپنے موقف کی مزید تائید کیلئے ہم قرآن کریم کے اس خاص اسلوب کاحوالہ دیتے ہیں جس میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ یہ اسلوب خصوصی توجہ کا طالب ہے جس میں فرعون کے بدن کو بچانے پر زور دیا گیا ہے ننجیک ببدنک (ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات دیں گے)۔
ظاہر ہے کہ فرعون کو اس دنیا میں اپنی بقا کی فکر تھی نہ کہ اپنی لاش کے بچاؤ کی۔ اگر اس کی روحانی اور جسمانی زندگی دونوں کا بچایا جانا مقصود نہ تھا توپھراس وعدہ کا مطلب کیا ہوا۔ ظاہر ہے کہ فر عون محض اپنی مردہ لاش کے بچاؤ کے لیے التجا نہیں کر رہا تھا۔
اگر فرعون کی دعا جزوی طور پر ہی قبول ہوئی تھی جیسا کہ قرآن کریم سے ظاہر ہے تو پھرجسمانی یا روحانی دونوں اعتبار سے اس کے مرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو اس کی التجا کے رد ہونے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کے خدا پر اس کے ایمان کا اقرارموت کے ڈر کی وجہ سے تھا۔ لہٰذا اس کی یہ بے معنی دعا جائز طور پر رد کئے جانے کے لائق تھی۔ اس سے وعدہ صرف اس کے جسم کو بچائے جانے کا تھا نہ کہ روح کو۔ لیکن اکثر مسلمان مفسّرین مصرّ ہیں کہ اس کی دعا رد کی گئی اور اس کے جسم کے بچائے جانے کا وعدہ سمندر سے اس کی لاش نکال کر محفوظ کئے جانے سے متعلق ہے۔
ان مفسرین کے نزدیک بائیبل اور قرآن کریم میں بیان کردہ حالات کے مطابق یہ بھی کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے حتیّٰ کہ فرعون کی لاش بچائے جانے کا وعدہ بھی اس کے لئے نعمت عظمٰی سے کم نہ تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ فراعین مصر نہایت متکبر اور انا پر ست حکمران تھے۔ اس لئے فرعون کے محض جسم کو بچائے جانے کی یقین دہانی ہی آخری لمحات میں اس کیلئے کچھ نہ کچھ تسکین کا باعث بنی ہوگی۔ تاہم اﷲ تعالیٰ کا صرف یہی منشا نہیں تھا کہ فرعون کی انا کو تسکین پہنچے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ آنے والی نسلوںکو ایسا عظیم الشان نشان دیا جائے جو کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہو جس سے وہ عبرت حاصل کر سکیں۔
اس بحث کا نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ نکلے، خواہ یہ ثابت ہو جائے کہ یہ فرعون ڈوبنے سے مرا تھا یا یہ کہ ڈوبتے ڈوبتے بچا لیا گیا تھا، اس قرآنی بیان کے اعجاز میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ فرعون کا جسم بلا شبہ محفوظ رہا اور آئندہ نسلوں پر یہ حقیقت بالکل اسی طرح منکشف ہوئی جس طرح قرآن کریم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
ضمناً یاد رہے کہ وہ مفسرین جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب فرعون کو سمندر سے نکالا گیا تو وہ مر چکا تھا ان کے نزدیک یہ رعمسیس ثانی کا جانشین منفتاح (Merneptah) تھا نہ کہ خود رعمسیس۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک کی بجائے دو فراعین کا زمانہ پایا۔ آپؑ کی پیدائش رعمسیس ثانی کے دور میں ہوئی اور اسی کے محل میں اس کی ایک خدا ترس بیوی نے آپ کی پرورش کی جس کے متعلق کہا جا تا ہے کہ وہ اس کی سب سے چھوٹی بیوی تھی۔ چونکہ اس کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی لہٰذا اس کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متبنٰی بنانے کی خواہش نا قابل فہم نہیں ہے۔ اگر اس نقطۂ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو رعمسیس ثانی کی وفات کے بعد جب منفتاح تخت نشین ہو چکا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اس وقت مصر واپس تشریف لائے ہوں گے۔ یہ لوگ اپنی تائید میں بائیبل کا یہ حوالہ پیش کیا کر تے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کومدین کی طرف اپنی جلا وطنی کے دوران اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی کہ وہ فرعون جس کے عہد میں آپ ؑکے ہاتھوں ایک شخص قتل ہوا تھا، مرچکا ہے۔
دیکھنے میں تو یہ بات منطقی اور قابل قبول معلوم ہوتی ہے لیکن ایک بادشاہ کی وفات سے کوئی شخص اپنے جرم سے بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔ اور اس میں کوئی منطق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خوف کو دور کرنے کے لئے فرعون کی موت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ اس کے برعکس انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ ہرگز خوف نہ کریں۔ اﷲتعالیٰ ان کی اور ان کے بھائی کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ توجیہہ کہیں زیادہ معقول نظر آتی ہے۔
مزید برآں مسئلہ یہ ہے کہ رعمسیس ثانی کی ممی کی حالت کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ کی شہادت یہ ہے کہ اس نے نوّے سال عمر پائی اور اپنی زندگی کے آخری تیس سال انتہائی نقاہت، کمزوری اور غالباً شریانوں کے سکڑنے کی امراض کے باعث بستر علالت پر گزارے۔ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ حالت اس کے ڈوب کر مرنے کے قریب پہنچ جانے کے بعد ایک بلا واسطہ نتیجہ کے طور پر ہوئی ہو جس کی وجہ سے اس کا دماغ آکسیجن کی مناسب مقدار نہ مل سکنے کی وجہ سے مستقلاً مفلوج ہو گیا ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدین کی طرف ہجرت اور وہاں کا عرصہ قیام آٹھ سے دس سال تک بنتا ہے جس کے اختتام پر رعمسیس ثانی کی عمر چالیس سے پچاس سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا بائیبل کا یہ بیان نا قابل قبول ہے کہ اﷲ تعالیٰ صرف فرعون کی موت کا انتظار کر رہا تھا تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بطور نبی مبعوث فرما کر مصر واپس جانے کا حکم دے۔ ضمناً قرآن کریم یہ ذکر بھی کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس فرعون کے پاس واپس گئے اس نے آپؑ پر قتل کا الزام تو ضرور لگایا لیکن بوجہ ان معجزوں کے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے وہ آپؑ کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے باز رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؑ کا سزا سے بچ جانا کسی ایک فرعون کی موت اور دوسرے کی تخت نشینی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی مصر میں واپسی کے بعد کی زندگی کو قرآن کریم اور بائیبل دونوں نے بیحد مصروف قرار دیا ہے اور فرعون کے ساتھ ان کا مقابلہ کم و بیش دس سال پر محیط دکھائی دیتا ہے کیونکہ بیان کردہ معجزات تمام کے تمام ایک یا دو سال کی محدود مدت میں سمیٹے نہیں جا سکتے۔ اس کے برعکس مؤرخین کے اندازہ کے مطابق تاجپوشی سے وفات تک منفتاح کا سارا عہد حکومت آٹھ سال یا اس سے بھی کم مدت پر مشتمل ہے۔
مزید برآں تاریخ بتاتی ہے کہ منفتاح ایک جنگجو بادشاہ تھا جو کئی سال فلسطینیوں پر مسلسل حملے کر تا رہا۔ جبکہ قرآن کریم اور بائیبل دونوں ہی فرعون موسیٰ کے اسرائیل پر ایسے حملوں کے بارہ میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔ لیکن یہاں اس معاملہ کی تفصیل میں جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ خروج رعمسیس ثانی کے دور میں ہوا یا منفتاح کے دور میں۔ جب تک دونوں کی ممیاں محفوظ ہیں، دونوں ہی ہمیشہ کے لئے قرآنی پیشگوئی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے رہیں گے۔ ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مستقبل قریب اور بعید کی پیشگوئیاں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی مصری تاریخ کے بعض اہم واقعات کو
جو نزول قرآن کے وقت تک پردئہ اخفاء میں تھے، قدرے تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اب ہم قرآن کریم کی بعض ایسی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا کئی دیگر واقعات سے تعلق ہے جو انسان کی معاشرتی، مذہبی، سیاسی اور عہد ساز انقلابی سائنسی ترقیات سے متعلق ہیں اور جنہوں نے مستقبل میں دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دینا تھا۔
ان میں سے کچھ پیشگوئیاں ایسے اہم موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارہ میں بھی ہیں جو سائنسی ایجادات اور صنعتی پھیلاؤ کے نتیجہ میں رونما ہونے والی تھیں۔ قرآن کریم کی آخری چند سورتوں میں خصوصیت سے ایسی پیشگوئیوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ لیکن یہ تفصیل انہی سورتوں تک محدود نہیں ہے اور یہ بحث یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آنحضرتﷺ کی احادیث میں بھی بعض قرآنی پیشگوئیوں کی تشریح موجود ہے۔ ہم نے ان میں سے محض چند پیشگوئیوں کو منتخب کیاہے۔ ایسی پیشگوئیاں جن کا تعلق سفر کے نئے ذرائع اور ان کے وسیع اثرات سے ہے اپنی عالمگیراہمیت کے باعث اس باب کے آخر میں قدرے تفصیل سے بیان کی جائیں گی۔
تاریخی ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ایسی پیشگوئیوں سے آغاز کرتے ہیں جو آنحضرتﷺ کی زندگی ہی میں پوری ہو گئیں۔ ان میں سے چند ایک کا تعلق آپﷺ کی ہجرت کے بعدمکہ واپسی سے ہے۔ ایسی تمام آیات آپﷺ کی ہجرت مدینہ سے پہلے کی ہیں جن میں بیک وقت ہجرت اور واپسی کی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ درج ذیل آیت سورۃ القصص کی ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

(سورۃ القصص86:28)
ترجمہ: یقینا وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔ تو کہہ دے میرا ربّ اسے زیادہ جانتا ہے جو ہدایت لے کر آتا ہے اور اسے بھی جو کھلی کھلی گمراہی میں ہے۔
آنحضرتﷺ کی ہجرت مدینہ سے پہلے ہی واپسی کی یہ پیشگوئی درحقیقت دوہری اہمیت کی حامل ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیش نظر جس کی وجہ سے آپﷺ کی اور آپﷺ کے اصحابؓ کی زندگی مکہ میں ناممکن ہوتی جارہی تھی، بعض قارئین کے نزدیک ہجرت اس کا ایک منطقی نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ امر یاد رہے کہ اس پیشگوئی میں حیرت کے عنصر کا ہجرت کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس آیت میں مکہ والوں کے فیصلے اور طاقت کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا ہے جو ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ یہ ہجرت ممکن ہوسکے جس کے بارہ میں پہلے سے بتا دیا گیا ہو۔ اسی طرح مشرکین مکہ کی بڑھتی ہوئی ضد کہ وہ آنحضورﷺ کو بچ کرنکلنے کی اجازت نہیں دیں گے، ایسے عوامل ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی آپﷺ نے اپنی اس انتہائی مظلومیت اور بے بسی کی حالت میں خودبخود اپنی طرف سے نہیں بنا لی ہو گی۔
ایک اور الٰہی وعدہ کہ آپﷺ فاتحانہ شان کے ساتھ یقینا مکہ واپس آئیں گے، مندرجہ ذیل آیت میں مذکور ہے:

(بنی اسرائیل81:17)
ترجمہ: اور تو کہہ اے میرے رب! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو۔ اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو۔
پھر تیسری مثال کہ آنحضرتﷺ کس طرح عظیم الشان فتح کے ساتھ مکہ واپس تشریف لائیں گے، ہجرت سے بھی پہلے کی پیشگوئی ہے جو سورۃ الروم کی پہلی چند آیات میں مذکور ہے۔ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ ہجرت سے قبل نازل ہوئی تھی۔ آیات درج ذیل ہیں۔

(الروم 6-3:30)
ترجمہ: اہل روم مغلوب کئے گئے قریب کی زمین میں۔ اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آئیں گے تین سے نو سال کے عرصہ تک۔ حکم اﷲ ہی کا (چلتا )ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن مومن(بھی اپنی فتوحات سے) بہت خوش ہوں گے۔ (جو) اﷲ کی نصرت سے (ہوں گی)۔ وہ نصرت کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
ان آیات میں ایرانیوں کے ہاتھوں رومیوں کی جزوی علاقائی شکست کا ذکر ہے۔ نیز واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایرانی فتح عارضی ہو گی اور پھر چند سالوں میں رومیوں کی شکست فتح میں بدل جائے گی۔ ’’اس دن مومن بھی اس تائید پر بہت خوش ہوں گے جو انہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوگی‘‘ اس پیشگوئی کا مسلمانوں سے تعلق صاف ظاہر ہے کیونکہ اس کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمانوں کو مشرکین مکہ کی مخالفت کی وجہ سے اپنے گھر اور جائدادیں اسی طرح چھوڑنا پڑیں جس طرح رومیوں نے بت پرست ایرانیوں کی وجہ سے چھوڑی تھیں۔ اس لئے تمام صحابہؓ کی متفقہ رائے یہی تھی کہ رومیوں کی فتح کے جلد بعد مسلمان بھی اپنے علاقہ یعنی مکہ کو دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ اختلاف صرف’بضع سنین‘ کے بارہ میں تھا کہ یہ پیشگوئی کب پوری ہو گی کیونکہ لغوی طور پر اس سے مراد تین سے نو سال تک کا عرصہ ہو تا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کے بعض صحابہؓ نے جوشِ ایمانی میں بڑے وثوق سے کہنا شروع کر دیا کہ رومی تین سال کے بعد ضرور فتح حاصل کر لیں گے جبکہ دوسرے صحابہ نے انہیں توجہ دلائی کہ اس واپسی میں نو سال کی تاخیر ہو سکتی ہے جو کہ بضع سنین کی انتہائی حد ہے۔ اور پھر جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہو گیا، دوسری رائے ہی درست ثابت ہوئی۔ چنانچہ دونوں وعدے لفظاً و معناً پورے ہوئے۔ پہلے تو رومیوں نے اپنا مقبوضہ علاقہ مقررہ مدت میں واپس حاصل کیا۔ پھر مسلمان آٹھویں سال کے اختتام سے قبل فاتحانہ شان سے مکہ واپس آئے۔
آنحضرتﷺ کی زندگی میں واضح طور پر پوری ہونے والی بعض پیشگوئیوں کا تعلق مدینہ کے مسلمانوں پر مکہ والوں اور ان کے خانہ بدوش حلیف قبائل کے متواتر حملوں سے ہے۔
ان میں سے پہلی پیشگوئی جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہے غزوہ بدر کے واقعات کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اہل مکہ کی زبردست پیشہ ورانہ منظم فوج کے خلاف مسلمانوں کے اس پہلے شدید معرکہ میں حملہ آور لشکر مکمل طور پر تباہ ہو کر اپنے سے کہیں چھوٹی مسلم قوت کے ہاتھوں انتہائی شرمناک پسپائی پر مجبور ہو گیا۔

(القمر 47-45:54)
ترجمہ: کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والا گروہ ہیں؟ ضرور یہ انبوہ کثیر ہزیمت دیا جائے گا اور وہ پیٹھ پھیر جائیں گے۔ بلکہ ان سے انقلاب کی گھڑی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور وہ گھڑی بہت سخت اور بہت کڑوی ہو گی۔
قریش مکہ کی تباہ کن شکست کاذکر مندرجہ بالا آیات قرآنی میں بطور پیشگوئی موجود ہے۔ ان آیات کے آخری حصہ میں ان کے دردناک انجام کا ذکر ہے۔ سردارانِ قریش، جو اسلام کے پکے دشمن اور آنحضرتﷺ سے شدید عداوت رکھتے تھے، ایک ایک کر کے میدان بدر میں کھیت رہے۔ ابو جہل دو نوعمر مسلمان لڑکوں کے ہاتھوں ما را گیا۔ اسی طرح شیبہ اور عتبہ چند گھنٹوں ہی میں تہ تیغ ہو کر کیفرِ کردار کو پہنچے۔ اہل مکہ کے مایوس اور رنجیدہ دلوں پر وہ رات قیامت بن کر ٹوٹی۔ وہ انتہائی افراتفری میں بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ اس ذلت آمیز شکست کا ذکر سورۃ الانفال کی مندرجہ ذیل آیت میں موجود ہے۔

(الانفال 8:8)
ترجمہ : اور(یاد کرو) جب اﷲ تمہیں دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ دے رہا تھا کہ وہ تمہارے لئے ہے اور تم چاہتے تھے کہ تمہارے حصہ میں وہ آئے جس میں ضرر پہنچانے کی صلاحیت نہ ہو۔ اور اﷲ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔
غزوئہ خندق
دشمنان اسلام سے مسلمانوں کے وہ معرکے جو بعینہٖ اسی طرح وقوع پذیر ہوئے جیسا کہ پیشگوئی کی گئی تھی، ان میں سے غزوئہ خندق خصوصی اہمیت کا
حامل ہے۔ اسی غزوہ کے دوران بعض اور عظیم الشان تاریخی فتوحات کی پیشگوئی بھی ایسے وقت میں کی گئی جبکہ خود مسلمانوں کی بقا خطرہ میں تھی۔
غزوئہ خندق کی پیشگوئی سب سے پہلے سورۃ صٓ میں کی گئی جو یقینی طور پر مکی سورۃ ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک آنحضرتﷺ کی بعثت کے ابتدائی دورسے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ درج ذیل آیت میں اشارہ ہے۔

(صٓ 12:38)
ترجمہ: (یہ بھی) احزاب میں سے ایک لشکر (ہے) جو وہاں شکست دیا جانے والا ہے۔
اسی پیشگوئی کے بارہ میں قرآن کریم مزید فرماتا ہے۔

(الاحزاب 23:33)
ترجمہ: اور جب مو منوں نے لشکروں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہی تو ہے جس کا اﷲ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اﷲ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس نے ان کو نہیں بڑھایا مگر ایمان اور فرمانبرداری میں۔
آنحضرتﷺ کی زندگی میںجو غزوات ہوئے، ان میں سے غزوئہ خندق اس اعتبار سے نمایاں ہے کہ اس دوران مسلمانان مدینہ کو انتہائی خطرناک حالات اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ بہت سی ایسی مشکلات بھی پیش آئیں جن سے بچ نکلنا محال نظر آتا تھا۔ قرآن کریم میں اس حالت کو یوں بیان کیا گیا ہے۔

(الاحزاب 14-11:33)
ترجمہ:جب وہ تمہارے پاس تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (اچھلتے ہوئے) ہنسلیوں تک جا پہنچے اور تم لوگ اﷲ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔ وہاں مومن ابتلاء میں ڈالے گئے اور سخت (آزمائش کے) جھٹکے دیئے گئے۔ اور جب منافقوں نے اور ان لو گوں نے جن کے دلوں میں مرض تھا، کہا ہم سے اﷲ اور اس کے رسول نے دھوکے کے سوا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا۔ اے اہل یثرب! تمہارے ٹھہرنے کا کوئی مو قع نہیں رہا پس واپس چلے جاؤ۔ اور ان میں سے ایک فریق نے نبی سے یہ کہتے ہوئے اجازت مانگنی شروع کی کہ یقینا ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں۔ حالانکہ وہ غیر محفوط نہیں تھے۔ وہ محض بھاگنے کا ارادہ کئے ہوئے تھے۔
اس غزوہ کو غزوئہ خندق اس لئے کہا جا تا ہے کہ جب آنحضرتﷺ کو معلوم ہوا کہ تمام قبائل عرب اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ مدینہ پر حملہ کر کے اسلام کو ہمیشہ ہمیش کے لئے نا بود کر دیا جائے تو مدینہ کی کھلی جانب ایک روک کی تعمیر نا گزیز ہو گئی۔ اس وقت مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد حملہ آور افواج کے مقابلہ میں اتنی کم تھی کہ ان کیلئے کھلے میدان میں نکل کر دشمنوں کو مدینہ میں داخل ہونے سے روکنا قطعًا ناممکن تھا۔ لہٰذا مشورہ کے بعد طے پایا کہ خندق ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ چنانچہ سنگلاخ زمین میں ایک میل لمبی خندق کھودی گئی۔
خندق کی کھدائی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ کم سے کم سات سو اور زیادہ سے زیادہ تین ہزار کاذکر ملتا ہے۔ ہمارے اندازہ کے مطابق یہ تعداد اٹھارہ سو سے زیادہ نہیں بنتی۔ مؤرخین اس پر متفق ہیں کہ دس کس کے ہر گروپ کو دس گز لمبی خندق کھودنے پر متعین کیا گیا تھا۔ چونکہ خندق کی لمبائی ایک میل سے زیادہ نہ تھی۔ اس لئے مسلمانوں کی تعداد 1760 سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ یہ کام بے حد مشکل لیکن مشقت طلب تھا۔ غربت اور بے سرو سامانی نے مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا تھا جنہیں بعض اوقات کئی کئی دن بھوکا رہ کر کام کرنا پڑتا تھا۔
ان انتہائی مشکل اور نا مساعدحالات میں ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو بتایا گیا کہ پوری کوشش کے باوجود ایک سخت چٹان کسی طرح بھی ٹوٹ نہیں رہی۔ چنانچہ آپﷺ خود وہاں تشریف لے گئے اور اپنے دست مبارک میں کدال لے کر چٹان پر تین کاری ضربیں لگائیں جن سے چٹان ٹوٹ گئی۔ ہرضرب پر چٹان سے شعلے نکلتے اور آپﷺ بآواز بلند اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے۔ بعد میں صحابہؓ نے دریافت کیا کہ آپﷺ نے اﷲ اکبر کا نعرہ اتنے فاتحانہ انداز میں کیوں بلند فرمایا۔ آپﷺ نے فرمایا:
پہلی ضرب سے اٹھنے والے شعلوں میں میں نے بازنطینی سلطنت کے شام کے محلّات دیکھے اور ان کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ دوسری دفعہ مجھے مدائن میں ایران کے روشن اور جگمگاتے ہوئے محلات دکھائے گئے اور مجھے ان کی چابیاں دی گئیں اور جب میں نے چٹان پر تیسری ضرب لگائی۔ تو اس سے نکلنے والے شعلوں میں مجھے صنعا کے محلاّت دکھائے گئے اور ان کی چابیاں عطا کی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ واقعات بعینہٖ اسی طرح رونما ہوئے۔ لیکن معجزہ صرف یہی نہیں کہ یہ پیشگوئیاں اپنے وقت پر پوری ہوئیں بلکہ ان حالات میں محض ان پیشگوئیوں کا کیا جانا ہی بجائے خود معجزہ کا حکم رکھتا ہے۔ 1
تاریخ میں ایسی مثالیں شاذ ہی ملتی ہیںکہ اپنے دفاع پر مجبور، بے سرو سامان، معدودے چند مسلمان بھوک اور تھکن سے نڈھال، شب و روز خندق کھودنے میں مصروف ہوں۔ اور ایسے وقت میں جب مسلمانوں کی بے بسی اور کمزوری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی آنحضرتﷺ نے وہ تاریخی الفاظ استعمال فرمائے جن سے تاریخ عالم تہی دامن تھی اور جن کے طفیل نئے تاریخی کارنامے رقم ہوئے۔
ایسے وقت میں فتوحات کی پیشگوئی کرنا یا تو ایک دیوانے کی بڑ ہو سکتی تھی یا پھر ایک عظیم الشان نبیﷺ کے منہ سے نکلا ہوا ارشاد خداوندی۔ آپﷺ سب داناؤں سے بڑھ کر دانا تھے اور دیوانہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی نبی ہاتف غیبی کہلانے کا حقیقی حقدار ہے تو وہ صرف اور صرف آنحضرتﷺ ہی ہیں جن کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے الفاظ نے تقدیریں بدل ڈالیں اور جس طرح خدا آپﷺ سے ہمکلام ہوا اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے کلام کو آپﷺ نے بیان فرمایا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے یہاں قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی تمام پیشگوئیوں کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں بلکہ ہم چند مخصوص پیشگوئیوں کو ان کے وسیع تناظر میں پیش کر نا چاہتے ہیں۔ وہ پیشگوئیاں جن کا تعلق آنحضرتﷺ کی زندگی اور معاً بعد کے زمانہ سے ہے، ان کے بیان کے بعد اب ہم پیشگوئیوں کی ایک اور قسم کا ذکر کرتے ہیں جو مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ پہلے کس پیشگوئی کا ذکر کیا جائے۔ تاہم مناسب معلوم ہو تا ہے کہ امریکہ کی دریافت اور معلوم دنیا کے پھیلاؤ کے بارہ میں پیشگوئی سے آغاز کیا جائے۔ متعلقہ آیات درج ذیل ہیں۔

(الانشقاق6-4:84)
ترجمہ: اور جب زمین کشادہ کر دی جائے گی اور جو کچھ اس میں ہے نکال پھینکے گی اور خالی ہو جائے گی اور اپنے رب کی طرف کا ن دھرے گی اور یہی اس پر لازم کیا گیا ہے۔
سورۃ الانشقاق کی چوتھی آیت میں مذکور پیشگوئی پندرہویں صدی کے اختتام یعنی 12 اکتوبر 1492 ء کو اس وقت پوری ہوئی جب کرسٹوفر کولمبس نے بہا ماس(Bahamas) کے ایک جزیرے پر قدم رکھا اور نئی دنیا دریافت ہوئی۔
یوں مقامی امریکیوں کے انجام کا آغاز شروع ہوا۔ تاہم امریکیوںکیلئے بظاہر یہ ایک لامتناہی سفر کی شروعات تھیں جس کے نتیجہ میں انہیں بالآخر باقی دنیا پر غلبہ نصیب ہونا تھا جس کا ذکر اگلی آیت میں کی گئی پیشگوئی میں بڑی وضاحت سے موجود ہے یعنی زمین اپنے تمام اسرار اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی۔
اسی مضمون کو بعض دوسری سورتوں میں بھی زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الزلزال میں فرماتا ہے۔

(الزلزال3-2:99)
ترجمہ: جب زمین اپنے بھونچال سے جنبش دی جائے گی اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔
یہاں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ زمین پر ایک زبردست زلزلہ آئے گا۔ زمین اپنے اندر کی بھاری دھاتیں نکال باہر کر ے گی۔ اور انسان حیران ہو گا کہ آخر اسے ہو کیا گیا ہے۔
اثقال کا لفظ ہر بھاری چیز کیلئے استعمال ہو تا ہے۔ لہٰذا زمین کا اپنے اندر موجود بھاری دھاتوں کے اگلنے کا مفہوم کوئی بہت زیادہ بعید از امکان نہیں۔ اس کا یہ ترجمہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ’زمین اپنے مخفی خزانے اگل دے گی‘۔ اگر پیشگوئی کے مطابق زمین دریافت شدہ دھاتوں کواگل نہ دیتی تو ہمارے زمانہ کی زبردست سائنسی ترقیات ممکن ہی نہ تھیں۔ ان معدنی ذخائر کا شمار کیا جائے اور انہیں ایک طرف الگ رکھ دیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ان کے بغیر سائنسی ترقی کا پہیہ الٹا چل پڑے گا۔ کوئلہ، پٹرولیم، یورینیم اور پلاٹونیم وغیرہ کی دریافت کے بغیر جدید دور کی کسی بھی اہم ایجاد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ بالا دونوں پیشگوئیوں کی تاریخی ترتیب بھی اپنے اندر ایک پیغام رکھتی ہے۔ زمین کے پھیلاؤ اور توسیع کی پیشگوئی کے معاً بعد نئی دھاتوں کی دریافت سے متعلق پیشگوئی مذکور ہے اور بعینہٖ اسی ترتیب سے یہ پیشگوئیاں پوری بھی ہوئی ہیں۔
آثار قدیمہ کی دریافت کے متعلق پیشگوئی
(الانفطار5:82)
ترجمہ: اور جب قبریں اکھاڑی جائیں گی۔
چنانچہ سورۃ الزلزال کی تیسری آیت میں تو بتایا گیا ہے کہ زمین اپنے مخفی خزانے اگل دے گی۔ اور سورۃ الانفطار کی مندرجہ بالا آیت آثار قدیمہ کی دریافت کی واضح طور پر خبر دے رہی ہے۔
لیکن قرآن کریم کی صرف یہی آیت اس مضمون پر روشنی نہیں ڈالتی۔ ہم نے اس آیت کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے۔ ورنہ قرآن کریم کی بہت سی آیات قدیم مدفون بستیوں اور تہذیبوں کی طرف انسان کو بار بار اور براہ راست متوجہ کرتی ہیں۔ نیز اسے ان آثار قدیمہ کی کھدائی اور ان کی تباہی کے اسباب کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں۔
سورۃ التکویر کی مندرجہ ذیل آیات میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ اسلام اپنی نشاۃ ثانیہ سے پیشتر زوال پذیر ہو چکا ہو گا۔

(التکویر3-2:81)
ترجمہ: جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔
یاد رہے کہ یہاں سورج اور ستاروںسے تمثیلی طور پر اسلام اور بزرگان امت مراد ہیں۔ قرآن کریم آنحضرتﷺکو سراجِ منیرقرار دیتا ہے جس کے لغوی معنی روشن اور چمکدار سورج کے ہیں اور آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ کو ایسے روشن ستارے قرار دیا ہے جنہوں نے براہ راست آپﷺ سے روشنی حاصل کی اور آپﷺ کے بعد بھٹکے ہوؤں کی ہدایت کا موجب بنے۔
اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدیتم اھتدیتم
یعنی میرے صحابہ ؓ ستاروںکی طرح ہیں۔ تم جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤگے۔ 2
جب یہ کہا جائے کہ سورج نے روشنی دینا چھوڑ دی ہے تو واضح طور پر اس سے مراد اسلام کا زوال ہے کیونکہ آنحضرتﷺ اس کی زندہ علامت ہیں۔ اسی استدلال کے مطابق ستاروں کے ماند پڑ جانے سے مراد وہ زمانہ ہے جب علمائے دین، اسلام کی روشنی پھیلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ بعد کی آیات اس استدلال کی بھرپورتائید کرتی ہیں اور دور حاضر کی عظیم سائنسی، سیاسی اور معاشرتی ترقی کا مسلسل ذکر کرتی ہیں۔ کیونکہ اگر اس سورۃ کے ابتدائی حصہ کو ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے تو اس کے دونوں حصوں میں تضاد دکھائی دے گا۔ اس صورت میں یہ کوئی قابل تعریف بات نہیں ہو گی۔ ان غیرمعمولی علمی ترقیات کے شاندار دور کا ذکر کچھ یوں ہو گا گویا سورج لپیٹ دیا جائے اور ستاروں کی روشنی ماند پڑ جائے۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں جو مستقبل میں ہونے والی ترقیات کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم اگر اس سورۃ کا اکثر حصہ عیسائی دنیا کی مادی ترقی کا ذکر کر تا ہے جو امریکہ کی دریافت کے بعد مقدر تھی تو اس کے بالمقابل پہلی دو آیات لازماً اسلام کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی دریافت کے ساتھ ہی اسلام کیوں زوال پذیر ہوگیا؟ اگر ہمیں اس سوال کا جواب مل جائے تو ہمیں ان آیات کی تشریح کیلئے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں 1492 ء کا سال تاریخ انسانی میں ایک اہم سنگ میل ہے جو نئی دنیا اور پرانی دنیا کے مابین حدِّفاصل کا حکم رکھتا ہے۔ کیا ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلام کا زوال بھی اسی سال اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا جس سے قاری ان دونوں کے باہمی تعلق کو بآسانی شناخت کر سکے؟ ہمارے خیال میں یہ بات بآسانی ثابت کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ہماری رائے نہیں ہے بلکہ تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے جس کی شہادت عیسائی مؤرخین نے خود دی ہے۔ Chronicle of the World میں اسلام کے تعلق میں اس سال کے نمایاں واقعات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’دس سال کی معرکہ آرائی کے بعد مسلم سپین کا آخری شہر غرناطہ ہسپانوی فوج کے قبضہ میں آگیا۔ اس شہر پر قبضہ عیسائیوں کی نظر میں ہسپانیہ کی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ اور مقدس دن تھا جبکہ مسلمان اسے عالم اسلام کے لئے ایک نہایت المناک سانحہ قرار دیتے ہیں۔‘‘3
ــ’’سپین کی اسلامی سلطنت کا آخری شہر غرناطہ جس نے دو سو سال تک عیسائی یلغار کا مقابلہ کئے رکھا بالآخر فرڈیننڈ(Ferdinand) اور ازابیلہ(Isabella) کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گیا۔‘‘ 3
اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سپین پر سات سو سال پرانی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔1492 ء میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے خاتمہ کے بعد چرچ نے اسلام کو نابود کرنے کی ایک منظّم مہم چلائی۔ اگرچہ پانچ صدیوں سے زائد اسلامی غلبہ کو دفعۃً ختم کر دیا گیا لیکن وہ اثرات جو اسلام نے گزشتہ پانچ صدیوں میں مرتّب کئے تھے ایک دو سال میں مٹائے نہ جا سکتے تھے کیونکہ مورز(Moors) جو کثرت سے اندلس کے جنوبی پہاڑی علاقہ میں پھیلے ہوئے تھے اپنی اپنی جگہ پر شدید مزاحمت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ سپین کے نو مسلم باشندوں کی ایک خاصی تعداد بھی تھی جو اپنے اخلاص اور جذبہ کے لحاظ سے کسی صورت بھی عرب اور افریقی فاتحین سے کم نہ تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے جو دیگر مسلمانوں کی نسبت عیسائی پادریوں کے راستہ کا پتھر بنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کی اسلام کو تباہ کرنے کی تمام کو ششیں ناکام ہوتی جارہی تھیں۔ خے می نیز (XIMENESE) جو انتہا پسند عسکری کلیسا کا سب سے سرگرم پادری تھا، نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ:
’’وہ ان ’کافروں‘ کو ضرور جہنم کی آگ سے بچائے گا خواہ وہ اسے پسند کریں یا نہ۔‘‘ 3


+کر دی گئیں۔ مسلمانوں کے علمی ذخیرہ کو جو صدیوں کی تحقیق اور محنت کا ثمر تھا اور بے شمار مسوّدات پر مشتمل تھا، بے رحم پادریوں نے جلا کر راکھ کر ڈالا۔ اور ان غریب بے بس ’’کفار‘‘ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ وہ مقدس انجیل کی ’’رواداری‘‘ اور’’امن کی تعلیم‘‘ پر ایمان لے آئیں۔ اور انہیں اسی انداز میں زدوکوب کیا گیا جس طرح کیتھولک فرمانرواؤں کی خوشنودی کی خاطر غریب یہودیوں کو مارا پیٹا جاتا تھا۔ اکثریت نے بلا شبہ ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے گھروں کی تباہی کی بجائے مذہب کو قربان کرنا زیادہ آسان خیال کیا۔ البتہ الیکارس (الفراس) Alpuxarras کے پہاڑی لوگوں کے سینوں میں ایمان کی شمع بدستور روشن رہی۔‘‘5
’’…سپین کے حکمرانوں کا Moriscos کے باشندوں سے سلوک نہ تو دانشمندانہ تھا اور نہ ہی دیانتدارانہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ظلم و ستم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان’’کفار‘‘ کو حکماً مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا آبائی خوبصورت اور دیدہ زیب لباس چھوڑ کر عیسائیوں کا مخصوص لباس یعنی ہیٹ اور تنگ پتلون پہننا شروع کر دیں۔ غسل کی عادت ترک کرکے اپنے فاتحین کی طرح گندگی اختیار کر لیں۔ اپنی زبان، روایات اور تہواروں حتیٰ کہ اپنے ناموں سے دستکش ہو کر ہسپانوی بولیں، ہسپانوی رویہ اپنائیں اور خود کو ہسپانوی کہنا شروع کر دیں۔‘‘6
’’اب یہ کام فلپ ثانی کے سپرد ہوا کہ وہ ان ظالمانہ قوانین کو عملی جامہ پہنائے جن کے نفاذ سے اس کے باپ نے بڑی ہوشیاری سے پہلو بچالیا تھا۔ چنانچہ 1567 ء میں اس نے زبان اور رسم و رواج وغیرہ سے متعلق گھناؤنے اور مکروہ قوانین نافذ کئے اور ’انسدادصفائی‘ کے قانون کا جواز ثابت کرنے کے لئے الحمرا کے خوبصورت غسل خانوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔‘‘7
’’1569-70 کے موسم سرما میں اس (ڈان جان) نے اپنی مہم کا آغاز کیا اور مئی میں ہتھیار ڈالنے کی شرائط کو آخری شکل دے دی گئی۔ اس سارے درمیانی عرصہ میں خون کے دریا بہا دیئے گئے۔ ڈان جان کا نعرہ تھا کہ ’’کوئی بچ کر نکلنے نہ پائے‘‘۔ چنانچہ مرد و زن اور بچے اس کے حکم پراس کی آنکھوں کے سامنے ذبح کر دیئے گئے۔ الفراس(Alpuxarras) کے دیہات انسانی مذبح خانوں میں تبدیل کر دیئے گئے۔‘‘8
’’بہت سے بدقسمت جلاوطن لوگ بھوک، تکان اور موسم کی شدت کے باعث رستہ ہی میں ہلاک ہو گئے۔ اور جو گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح افریقہ پہنچ سکے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ ان کے پاس زرعی زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا تک نہیں تھا۔‘‘ 9
بیان کیا جاتا ہے کہ سقوط غرناطہ سے لے کر سترھویں صدی کی پہلی دہائی تک کم از کم تیس لاکھ ہسپانوی مسلمان جلا وطن کئے گئے۔ ایک عرب مؤرّخ اس آخری المیہ کا بڑے درد ناک انداز میں یوں ذکر کر تا ہے:’ ’چونکہ اﷲ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ مسلمان فتح یاب ہوں لہٰذا وہ مغلوب ہوئے اور انہیں ہر جگہ تہ تیغ کیا گیا یہاں تک کہ انہیں سر زمین اندلس سے نکال باہر کیا گیا۔ مسلمانوں پر یہ تباہی 1017 ہجری میں آئی۔ یقینا زمین اور حکومت خدا ہی کی ملکیت ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کر تا ہے۔‘‘10
’’مسلمانوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور کچھ عرصہ کیلئے عیسائی سپین اس چاند کی طرح چمکنے لگا جس کی روشنی مستعار ہو۔ لیکن جلد ہی وہ گہنا گیا اور آج تک اسی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘11
چنانچہ Stanley Lane-Poole اپنی کتاب"The Moors in Spain" میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ سپین میں مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کا سورج جو 1492 ء میں غروب ہوا، ایسی تاریکی چھوڑ گیا جس نے سپین کے آسمان سے اسلام کی روشنی کو اگلی دو صدیوں میں بالکل ختم کر کے اسے گھپ اندھیرے میں دھکیل دیا۔
اسی طرح مسلم تہذیب نے سپین میں جس سیکولر روشن خیالی (Secular Enlightenment) کو جنم دیا تھا وہ بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی۔ اس طرح 1492 ء کے سال نے بیک وقت دو دروازے کھولے۔ ایک دروازہ سے دنیا میںعیسائیت کا مستقبل بڑی شان و شوکت سے داخل ہوا اور دوسرے دروازہ سے اسلام کا تابناک ماضی سرنگوں ہو کر رخصت ہوا جس کی واپسی کا ایک ایک قدم ناقابل برداشت حد تک کربناک تھا۔
سورۃ التکویرکی چوتھی آیت جو پہاڑوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے کا ذکر کرتی ہے، یہ ہے۔
(التکویر4:81)
ترجمہ: اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔
اسلامی اصطلاح میں پہاڑوں سے مرادبڑی بڑی دنیاوی طاقتیں ہیں۔ قرآن کریم کی دیگر بہت سی آیات میں پہاڑوں کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اس آیت سے جس میں پہاڑوں کا ذکر ہے، سے ہمیں آخری زمانہ میں رونما ہو نے والے واقعات کا علم ہو تا ہے کہ اسلام کے زوال پذیر ہوتے ہی ایک تاریک رات چھا جائے گی جس کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہو گی جو اسلام کی صبح نہ ہوگی بلکہ اس میں عظیم مادی قوتیں ابھریں گی اور اپنی سلطنت کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ اور ایک بر اعظم سے دوسرے براعظم تک وسیع کردیں گی نیز ایک کے بعد دوسرے ملک پر قبضہ کرتی چلی جائیں گی۔ چنانچہ پہاڑوں کی حرکت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ پہاڑوںکی حرکت کے کئی اور معانی بھی ہو سکتے ہیں جن پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ اب ہم ان عظیم تبدیلیوں کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں جن کا اس سورۃ کے مطابق موجودہ زمانہ میں رونما ہونا مقدر تھا اس لئے ہم اس مضمون کو قرآنی آیات کی ترتیب کے مطابق مرحلہ وار بیان کرتے ہیں۔
حرکت سے متعلق پانچویں آیت کا مفہوم بآسانی سمجھ آسکتا ہے۔ یہ آیت یوں ہے۔
(التکویر5:81)
ترجمہ: اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔
اس سیاق و سباق میں اونٹنیوں کے بیکار ہونے کی پیشگوئی سے واضح طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ پہلے سے بہتر، تیز تر اور زیادہ طاقتور ذرائع نقل و حمل ایجاد ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت یعنی بڑی طاقتوں کے ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا اونٹنیوں کے بیکار ہو جانے سے براہ راست تعلق ہے۔
یاد رہے کہ پہاڑوں کی حرکت سے جہاںبھاری بھرکم سامان کی نقل وحرکت مراد ہے وہاں عظیم سیاسی قوتوں کا پھیلاؤ بھی مراد ہے۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کیلئے اونٹنیوں کی بجائے یقینا زیادہ ترقی یا فتہ اور طاقتور ذرائع نقل و حمل کی ضرورت تھی۔ جب تک انسان کو ایسے نئے ذرائع میسر نہ ہوتے، پہلے سے موجود ذرائع نقل و حمل، خواہ وہ کتنے ہی معمولی اور ادنیٰ تھے، کو ترک کر دینا پاگل پن ہو تا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ انسان اونٹنیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں جیسے وزن اپنی ننگی پیٹھ پر اٹھانے کا کبھی سوچ بھی نہ سکتا۔
اس آیت سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جانوروں سے کہیں زیادہ طاقتور اور تیز تر مشینی ذرائع ایجاد ہو جائیں گے جن کی بدولت ان کا استعمال غیر اہم اور متروک ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ یہاں تمثیلی طور پر اونٹنیوں کے خشکی پر استعمال ہونے والے ذرائع نقل و حمل مراد ہیں۔ سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن کریم میں کشتیوں اور جہازوں وغیرہ کا ذکر کیوں مو جود نہیں ہے نیز یہ کہ قرآن کریم بحری نقل و حمل کے بارہ میں کیا پیشگوئی کر تا ہے۔ اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ فی الحال ہم اگلی آیت کو لیتے ہیں جس میں تمام قسم کے جانوروں کے اکٹھا کئے جانے کا ذکر ہے۔
(التکویر6:81)
ترجمہ: اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے۔
اونٹنیوں کے بیکار ہو جانے کے بعد جانوروں کے اکٹھا کئے جانے کا ذکر انتہائی غور طلب ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ اونٹنیوں کو مکمل طور پر ترک نہیں کیا جائے گا۔ وحشی جانوروں کے اکٹھا کئے جانے کا ذکر بھی درحقیقت انقلابی ذرائع نقل وحمل کی ایجاد کے تصور کو تقویت دیتا ہے۔ بلاشبہ وحشی جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ اونٹنیوں کی پشت پر نہیں لے جائے جا سکتے۔ کوئی شخص یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ہاتھیوں، گینڈوں، دریائی گھوڑوں، زرافوں، مگرمچھوں، نیلی ویل مچھلیوں اور دیو قامت تیندوؤں کو اونٹنیوں کی پشت پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ ان کی نقل و حمل صرف انہی ذرائع سے ممکن ہے جو مو جودہ دور میں ایجاد ہوئے ہیں۔
اس سے اگلی آیت بھی ذرائع نقل و حمل سے متعلق ہے اور وہ یہ ہے۔
(التکویر7:81)
ترجمہ: اور جب سمندر پھاڑے جائیں گے۔
لین(Lane) کے نزدیک سُجِّرت کا لفظ تین ملتے جلتے معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔
.1 اور جب سمندر بھر دیئے جائیں گے۔
.2 اور جب سمندر ایک دوسرے سے ملا دیئے جائیں گے۔
.3 اور جب سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔
سمندروں کے بھر جانے سے مراد یہ ہے کہ سمندروں میں جہازوں کی آمد و رفت کثرت سے ہو گی۔ چنانچہ اس آیت میں بھی بنیادی طور پر پہلی آیات والا مضمون ہی بیان ہوا ہے۔ جب ہم اس مضمون کی طرف واپس آئیں گے تو اس کی مزید تشریح کی جائے گی۔
سر دست ہم مذکورہ بالا تین معانی میں سے دوسرے کو لیتے ہیں جس میں سمندروں کے ملائے جانے کا ذکر ہے۔ اس پیشگوئی کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل آیا ت میں کی گئی ہے۔

(الرحمٰن 55:21-20)
ترجمہ: وہ دو سمندروں کو ملا دے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے (سر دست) ان کے درمیان ایک روک ہے(جس سے) وہ تجاوز نہیں کر سکتے۔

(الفرقان54:25)
ترجمہ: اور وہی ہے جو دو سمندروں کو ملا دے گا۔ یہ بہت میٹھا اور یہ سخت کھارا (اور) کڑوا ہے اوراس نے ان دونوں کے درمیان (سردست) ایک روک اور جدائی ڈال رکھی ہے جو پاٹی نہیں جا سکتی۔
مذکورہ بالا آیات قرآن کریم کی دو مختلف سورتوں سے لی گئی ہیں۔ ہر آیت میں دو مختلف سمندروں کے ملائے جانے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ چنانچہ مو جودہ زمانہ میں بعینہٖ یہی واقعہ رونما ہوا۔ 1869 -1859 کے دوران نہر سویز کی کھدائی اور 1914 -1903 کے دوران نہر پانامہ کی کھدائی ہوئی اوریوں دنیا نے ان پیشگوئیوں کو ایسے رنگ میں پورا ہو تے دیکھا جسے آنحضرتﷺ کے زمانہ کا انسان وہم و گمان میں بھی نہیںلاسکتاتھا۔
اسی طرح کا تیسرا ملتا جلتا معنی یعنی سمندروں میںآگ کا بھڑک اٹھنا بھی کچھ کم عجیب نہیں ہے۔ آج سے 1400 سال پہلے انسانی ذہن اس کا تصور بھی نہیںکر سکتا تھا۔ یہ تصور صرف اسی دور میںجنم لے سکتا ہے جس کے دوران بحری لڑائیوں میں شدید آتشیں اسلحہ کا استعمال شروع ہو جائے۔ ضمناً یاد رہے کہ جدید بحری لڑائیوں میں جہازوں کے بیڑے اتنے وسیع علاقہ کو گھیر لیتے ہیں کہ ہماری تشریح بالکل درست ٹھہرتی ہے جس کے مطابق سمندروں کے بھرے جانے سے مراد یہ ہے کہ سمندر جہازوں سے بھر جائیں گے۔
اسی طرح تیسرا معنی یعنی سمندروں میں آگ بھڑک اٹھنا ایک ایسا خیال ہے جس کا تعلق اس دور سے ہے جب تیل بڑی مقدار میں آئل ٹینکرز سے نکل کر سمندر میں بہہ جائے گاجیسا کہ اس زمانہ میں ہو رہا ہے۔ اس طرح سمندر میں بہہ جانے والے تیل کو اکثر آگ لگا دی جاتی ہے تاکہ یہ سمندری زندگی کیلئے کم سے کم خطرہ کا باعث ہو۔ ایسے مواقع پر لاکھوں مربع میل سمندر عملاً آگ کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے۔
سورۃ التکویر کی اگلی آیت بھی اسی تصور کو مزید آگے بڑھاتی ہے۔ آیت کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جانوروں کی بجائے انسانوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔
(التکویر8:81)
ترجمہ: اور جب نفوس ملا دیئے جائیں گے۔
اس آیت کے بھی بیک وقت تین مختلف معانی ہو سکتے ہیں۔
.1 جب لو گ باہمی تعلقات کے ذریعہ اکٹھے کر دیئے جائیں گے۔
.2 جب ساری دنیا کے لو گ ملا دیئے جائیں گے۔
.3 جب لو گوں کے ملاپ کو تیز رفتار ذرائع نقل و حمل کے باعث آسان کر دیا جائے گا۔
مندرجہ بالا تینوں مفاہیم بڑی صراحت سے سچے ثابت ہو چکے ہیں۔ ہمارے زمانہ میں بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ تمام اقوام عالم کو بلا استثناء عملاً اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ معنے تو بالبداہت درست ثابت ہو چکے ہیں اور اس کی مزید وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔
اسی طرح انجمن اقوام عالم کے قیام نے بھی، جس کی جگہ بعد میں اقوام متحدہ نے لے لی، بالآخر اتحاد عالم کو تقویت دی ہے جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا۔
جہاں تک اس آیت میں تیسری پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق ہے، ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ جدید ذرائع نقل وحمل کی وجہ سے فاصلے سمٹ گئے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ گویا پوری دنیا سکڑ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے مناسب ہو گا کہ ایک اور پیشگوئی کا ذکر کیا جائے جس کا تعلق بھی لو گوں کے اکٹھا کئے جانے سے ہے۔ اس پیشگوئی میں بنی اسرائیل کے آخری زمانہ میں ارض موعودہ کی طرف واپس آنے کا ذکر ہے۔

(بنی اسرائیل105:17)
ترجمہ: اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے۔
70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی یہودی ریاست کے خاتمہ کا اعلان تھا۔ اس کے بعد یہودی ساری دنیا میں منتشر ہو گئے اور ملک ملک پھرتے رہے۔ یہود کے اسی آخری انتشار کی طرف مندرجہ بالا آیت اشارہ کر تی ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ایک دن ساری دنیا کے یہودکو اکٹھا کر کے ارض مقدس میں واپس لایا جائے گا۔ یہ وہ خدائی وعدہ ہے جو بہرحال پورا ہو کر رہے گا۔ ہم اس وعدہ کو اتنے وسیع پیمانہ پرپورا ہوتے دیکھ چکے ہیں کہ اس سے پہلے کسی انسان نے نہ دیکھا ہو۔ ساری یہودی تاریخ میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا کہ یہود کو جلاوطنی کے بعد دنیا بھر کے ممالک سے یوں اکٹھا کر کے واپس لایا گیا ہو جیسا کہ ماضی قریب میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہوا۔
سورۃ التکویرکی طرف دوبارہ لوٹتے ہوئے اب ہم اس کی نویں آیت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ اور اس سے اگلی آیت اسی زمانہ کے متعلق ہیں جس پر ان سے پہلی آیات مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالتی ہیں۔

(التکویر10-9:81)
ترجمہ: اور جب زندہ درگور کی جانے والی(اپنے بارہ میں)پوچھی جائے گی (کہ) آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے؟
زمانۂ جاہلیت میں بعض عرب بیٹی کی پیدائش کو اپنی توہین سمجھتے تھے اور شرم کے مارے اسے زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ معاشرہ کو ان معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں تھا۔ بالفاظدیگر اولاد کو گویا باپ کی ملکیت ہی تصور کیا جاتا تھا۔
اس آیت سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانہ میں قانون کی حکمرانی ہو گی۔ تاہم خاص طور پر حقوق نسواں کے حوالہ سے اس میں پیغام موجودہے۔ ورنہ قانون کی حکمرانی سے متعلق تو سادہ بیان ہی کافی تھا۔ اس لئے اس وضاحت کی روشنی میں اس پیغام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس آیت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ مرد کبھی بھی حقوق نسواں کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ چنانچہ حقوق نسواں کو جس قدر اہمیت عصر حاضر میں حاصل ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
قرآن کریم کی اس سورۃ میں آخری زمانہ کے خدو خال کا نقشہ جس خوبصورت ترتیب اور منظم انداز میں کھینچا گیا ہے اس پر کسی ماہر مصّور کی پینٹنگ کا گمان ہو تا ہے۔ ان آیات میں جن مسلسل سائنسی ترقیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کا آخری زمانہ کے سائنسی اور معاشرتی حالات سے گہرا تعلق ہے۔ آٹھویں آیت میں بنی نوع انسان کے ایک سے زائد ذرائع سے اکٹھا ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ گیارہویں آیت میں بھی معاشی اور سیاسی ترقیات کے ذکر سے اسی مو ضوع کو طاقتور ذرائع رسل و رسائل یعنی ادب، اخبارات اور رسائل کی وسیع تر اشاعت کے حوالہ سے دوبارہ بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا سب کے سب ذرائع نے بنی نوع انسان کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان کو باہم ملانے میں پریس نے جو کردار ادا کیا ہے کوئی اور ذریعہ نہ تو اس کی اہمیت کو کم کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی جگہ لے سکتا ہے۔ اگر آپ اس زمانہ سے مطبوعہ لٹریچر کے کردار کو نکال دیں تو فاصلوں کے سمٹ جانے کے باوجود بنی نوع انسان ایک دفعہ پھر منتشر اور بٹے ہوئے دکھائی دیں گے۔ زیر بحث آیت میں جدید دور کے انہی ذرائع ابلاغ اور وسیع پیمانہ پر لٹریچر کی اشاعت کا ذکر ہے۔ آیت یہ ہے۔
(التکویر11:81)
ترجمہ: اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔
یہ پیشگوئی چھاپہ خانوں کی ایجاد پر بھی دلالت کرتی ہے۔ ورنہ قلمی نسخوں کی وسیع پیمانہ پر ترویج و اشاعت ممکن نہ ہوتی۔
وسیع پیمانہ پر اشاعت کا زمانہ ہی دراصل علم و تحقیق کی اشاعت کا زمانہ ہے۔ قرآن کریم قلم کے کردار پر اس قدر زور دیتا ہے کہ وہ اس صفت کو براہ راست اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے کہ اس نے انسانوں کو لکھنا سکھایا۔
آنحضرتﷺ پر نازل ہو نے والی سب سے پہلی سورۃ العلق کی مندرجہ ذیل آیات پُرزور اعلان کرتی ہیں۔

(العلق6-4:96)
ترجمہ: پڑھ، اور تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
ان آیات کو جب زیر بحث آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آخری زمانہ علمی ترقی کا زمانہ ہو گا جس میں کثرت سے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں جیسے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔
سب سے پہلی آیت میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ معزز ہستی کے طور پر پیش کیا گیا ہے کیونکہ اس نے قلم سے لکھنا سکھایا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ قلم حصول علم کا ذریعہ اور علم ہر قسم کی عظمت وعزت کا سرچشمہ ہو گا۔ ضمناً یہ بھی یاد رہے کہ یہ وحی اس ہستی پر نازل ہوئی جس نے کبھی قلم پکڑنا تک نہیںسیکھا تھا ۔ اس آیت کا ایک اور مفہوم یہ ہے کہ علم طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے گا اور قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور بن کر ابھرے گا۔ اگلی آیت (یعنی سورۃ التکویر کی آیت: 12) اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ انسانی علم آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہو گا۔ چنانچہ فرمایا۔
(التکویر12:81)
ترجمہ:اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی۔
یہ آیت آخری زمانہ میں اسلام کے زوال اور عیسائی طاقتوں کے عروج کا ایک المناک موازنہ پیش کرتی ہے جب اسلام کے سورج کی روشنی لپیٹ دی جائے گی اور عالم اسلام کے ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ مادہ پرست دنیا خلا کے راز معلوم کرنے کیلئے آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے گی۔
یہ تناظر ہمیں قرآن کریم کی بعض اور آیات کی یاد دلاتا ہے جن میں فضائی اور خلائی سفر کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ وہ آیات درج ذیل ہیں۔
(الذٰریٰت8:51)
ترجمہ: قسم ہے راستوں والے آسمان کی۔

(المرسلٰٰت5-2:77)
ترجمہ:قسم ہے پے بہ پے بھیجی جانے والیوں کی۔ پھر بہت تیز رفتار ہو جانے والیوں کی۔ اور(پیغام کو) اچھی طرح نشر کرنے والیوں کی۔ پھر واضح فرق کرنے والیوں کی۔
یہ اور ان جیسی دیگر بہت سی آیات ایک ایسے آسمان کی منظر کشی کرتی ہیں جس میں کثرت سے سفر کیا جائے گا۔ اس میں راستے بنے ہوں گے۔ پیغام رساں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پرواز کریں گے۔ فضائی پراپیگنڈہ کا دور دورہ ہوگا اور بالآخر انسان کیلئے ہوا کے دوش پر پرواز کرناممکن ہو جائے گا۔ پرواز کا خواب پورا ہونے کے بعد انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں مزید اونچا اڑنے کی خواہش کرے گا۔ آسمانوں اور اجرام فلکی کے مخفی راز اس پر عیاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ وہ خلائی سٹیشن اور چوکیاں بنائے گا تاکہ آسمانوں کی نگرانی کر سکے۔ درج ذیل آیات انسان کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی واضح طور پر تصویر کشی کرتی ہیں جس کی مدد سے انسان کائنات کی بیکراں وسعتوں کو کھنگال سکے گا۔

(الصٰفٰت 10-9:37)
ترجمہ: وہ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکیں گے اور ہر طرف سے پتھراؤ کئے جائیں گے۔ اس حال میں کہ دھتکارے ہوئے ہیں اور ان کیلئے چمٹ جانے والا عذاب(مقدر) ہے۔
ہر وہ شخص جو تسخیر خلا کو عروج تک پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے،قرآن کریم اسے مندرجہذیل چیلنج دیتا ہے۔ البتہ متعلقہ آیت کے ذکر سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے؟ ’’جن و انس کے گروہ‘‘ سے ترجمہ کا پورا حق ادا نہیں ہوتا۔ یہاں لفظ ’جن‘ سے انسانوں سے مختلف بھوتوں جیسی مخلوق مراد نہیں۔ بلکہ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے ’جن‘ کا لفظ بڑے لوگوں کیلئے اور ’الناس‘ کا لفظ عام لو گوں کیلئے استعمال ہو تا ہے۔ لہٰذا اس خطاب کا حقیقی مفہوم تب سمجھ آئے گا جب اس کا ترجمہ یوں کیا جائے۔ ’’اے سرمایہ دارانہ طاقتوں کے گروہ اور پرولتاری طاقتوں کے گروہ۔‘ ‘
متعلقہ آیت اور اس کا (انگریزی) ترجمہ جو حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے ترجمۂ قرآن سے لیا گیا ہے، درج ذیل ہے۔

(الرحمٰن34:55)
‏O company of Jinn and men! if you have power to go beyond the confines of the heavens and the earth, then do go. But you cannot go save with authority.
میرے نزدیک سیاق و سباق کے اعتبار سے ’’الّا بسلطٰن‘‘ کا ترجمہ یو ں ہو نا چاہئے:
‏"Except with the help of most powerful deductive logic."
یعنی ’بغیر کسی غالب استخراجی دلیل کے‘۔ اس سے یہ مراد ہے کہ اگرچہ انسان کائنات کی حدود سے جسمانی طور پر تجاوز نہیں کر سکتا پھر بھی وہ اپنے علم کی وسعت کے اعتبار سے کائنات کے کناروں تک ضرور جا پہنچے گا۔ اس نتیجہ کی تائید میں ہم مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتے ہیں۔
‏'save with authority' والے ترجمہ سے دراصل قرآن کریم کے منشا کے مخالف اور برعکس تاثرّابھر سکتا ہے جس میں انسان کے جسمانی طور پر خلا کی حدود تک پہنچنے کے امکان کا رد کیا گیا ہے۔ لفظ ـ’سلطان‘ کے معنی صرف ’دلیل‘ نہیں ہے۔ بلکہ بیک وقت اس کے معانی طاقتور شہنشاہ، قوی دلیل اور مضبوط استدلال کے بھی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ انسان مضبوط استدلال کے ذریعہ کائنات کی حدود پار کر سکتا ہے۔
اس امر سے قطعاً انکار نہیں کیا گیا کہ انسان خلا میں ایک یا دو چھلانگیں بھی نہیں لگا سکتا بلکہ انکار اس امکان کا کیا گیا ہے کہ انسان کسی وقت اپنے مادی جسم کے ساتھ کائنات کی حدود تک پہنچ سکتاہے۔ ضمناً خلائی پرواز کے خطرات کا ذکر بھی مندرجہ ذیل آیت میں کیا گیا ہے۔

(الرحمٰن36:55)
ترجمہ: تم دونوں پر آگ کے شعلے برسائے جائیں گے اور ایک طرح کا دھواں بھی۔ پس تم دونوں بدلہ نہ لے سکو گے۔
یہ آیت درحقیقت عام آگ کے شعلوں کی بجائے کائناتی شعاعوں پر اطلاق پاتی ہے۔
سورۃ الرحمن کی مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں سورۃ التکویر کی بارھویں آیت کے معانی بیان کرنے کے بعد ہم سورہ التکویر کی طرف واپس لو ٹتے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے سورۃ الرحمن کی ان آیات پر اپنی گفتگو ختم کی تھی جن میں آگ کے مسلسل عذاب کی وعید ہے۔ سورۃ التکویر کی تیرہویں آیت جو ذیل میں درج ہے، میں بعینہٖ اسی مضمون کا ذکر ہے جسے اب ہم تفصیل سے بیان کریں گے۔
(التکویر13:81)
ترجمہ: اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی۔
یہاں جہنم کی آگ سے وہ جنگیں مراد ہیں جن سے یہ تأثر ابھرتا ہے کہ گویا جہنم کے دروازے کھول دیئے گئے ہوں۔ چنانچہ اس آیت میں اسی وعید کا ذکر ہے۔ مذکورہ بالا پیشگوئیوں کے سیاق و سباق میں جو اس دنیا کے واقعات سے تعلق رکھتی ہیں، یہی ایک توجیہہ ممکن ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ جب یہ واقعات زمین پر رونما ہو رہے ہوں گے تو عالمِ آخرت میں بھی جہنم بھڑک رہی ہو گی۔
یوں یہ پیشگوئیاں ایک ترتیب اور تسلسل کے ساتھ اپنے منطقی نتیجہ کو پہنچتی ہیں۔ یعنی اگر انسان دنیوی خواہشات کے حصول کی خاطر رضائے باری تعالیٰ کو پس پشت ڈال دے تو وہ کتنی ہی مادی ترقی کیوں نہ کر لے، اس کیلئے ایسی ترقی بے سود ہو گی۔ تمام تر مادی قوت وحشمت کے باوجود انسان سزا کی گھڑی سے نہیں بچ سکتا۔ وہ تو بہرحال آکر رہے گی۔ آسمان سے کوئی عذاب اس پر نازل نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنے لئے خود ہی جہنم کی آگ بھڑکائے گا اور اس کی خود غرضی ایسی عالمگیر کشیدگی کو جنم دے گی جو بالآخر ایسی جنگوں پر منتج ہو گی جن پر جہنم کا گمان ہوگا۔ گزشتہ دو عالمگیر جنگوں کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تشریح کو محض قیاس آرائی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک حقیقی خطرہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس صورت حال نے اسلام کے المناک زوال اور غیر مسلم طاقتوں کے عروج کے مابین پائے جانے والے تضاد کو نمایاں کر دیاہے۔ زیر نظر آیت صاف ظاہر کر تی ہے کہ مادیت کا عالمگیر غلبہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ مادی طاقتوں کا زوال ان کی باہمی دشمنی کے ساتھ شروع ہو جائے گا جو ایسی خوفناک تباہی پر منتج ہو گی جس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ جنگوں پر جنگیں ہوں گی جن کے نتیجہ میں بڑی بڑی طاقتیں خاکستر ہو کر رہ جائیں گی۔ دو عالمگیر جنگوں نے پہلے ہی عالمی طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ اس کے برعکس کمزوراور غریب قومیں اپنے وقار کی کسی قدر بحالی کے احساس کے ساتھ ابھری ہیں۔ لیکن طاقت کا توازن ابھی خطرناک حالت تک نہیں بگڑا۔ تاہم حالات آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عالمگیر انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ وہ انقلاب ہے جس کی قرآن کریم میں پیشگوئی کی گئی ہے اور جو اسلام کا آخری انقلاب ثابت ہو گا۔ مبادا اسے مبالغہ آمیز اور غیر مصدقہ بیان سمجھا جائے، اس لئے ہم اگلے باب میں ایسے شکوک و شبہات کے ازالہ کیلئے بعض ٹھوس شہادتیں پیش کریں گے۔
آنحضرتﷺ نے قرآن کریم کی متعدد آیات کی روشنی میں ہو نے والے عالمی تصادم کے انجام کے متعلق واضح پیشگوئی فرمائی ہے۔ یہ پیشگوئی آپ نے دجّال کے خروج کے حوالہ سے فرمائی ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ دجّال کا وہ تصور جو آنحضرتﷺ کی احادیث سے ابھرتا ہے وہ فی الحقیقت اتنا مبہم نہیں ہے جتنا کہ بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ احادیث دجّال کا ذکر اس رنگ میں کرتی ہیں گویا اس میں طاقتور اقوام کی عظمت و جبروت جمع ہو جائے گی۔ درحقیقت آنحضرتﷺ نے آخری زمانہ کو دجّال کا زمانہ قرار دیا ہے جس کی تمام علامات دجّال کے حوالہ سے بیان کی گئی ہیں۔ اس کی شناخت کی علامات میں سے ایک کا تعلق خاص طور پر ایسے جدید ذرائع نقل و حمل سے ہے جن کا انسان کو اس سے پہلے کسی قسم کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ دجّال کے تفصیلی ذکر سے اس بات کا ذرہ بھر شائبہ نہیں رہتا کہ یہ ساری پیشگوئیاں ایک ہی شخص کے بارہ میں نہیں ہیں۔ آنحضرتﷺ نے دجّال کی جو اصطلاح بیان فرمائی ہے وہ تمثیلی رنگ رکھتی ہے۔ یعنی دجّال اپنے زمانہ کی عظیم طاقتوں کا مظہر ہو گا اور اس کے کارنامے دراصل ترقی یا فتہ اور طاقتور عیسائی اقوام کے کارنامے ہوں گے لیکن ان کا غلبہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح بڑی تحدی سے یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ دجّال جوان اقوام کا مظہر ہے، بالآخر زوال پذیر ہو گا۔ مادیت کے کھنڈرات سے ایک دفعہ پھر اسلام کا آفتاب طلوع ہوگا۔ وہ اپنی چمک دکھائے گااور شکوک و شبہات کے بادل چھٹ جائیں گے جو صدیوں سے اس پر چھائے ہوئے تھے۔
اب ہم احادیث نبویہ کی روشنی میں انقلابی ذرائع آمد و رفت کا دوبارہ ذکر کرتے ہیں لیکن جہاں تک دجّال کی بقیہ علامات کا تعلق ہے خاص طور پر جو مذہبی اہمیت کی حامل ہیں، ان کی تفصیل ایک الگ باب میں بیان کی جائے گی۔
احادیث میں بری، بحری اور فضائی ذرائع آمد و رفت کو بلا استثنا ایسے انداز میں بیان کیا گیا ہے جو قرآنی آیات کی ہماری تشریح کے عین مطابق ہیں حتٰی کہ پہاڑوں کی حرکت کو اس رنگ میں بیان کیا گیا ہے جس سے متعلقہ قرآنی آیات فوراً یاد آجاتی ہیں۔ آنحضرتﷺ کا دجّال اور اس کے منفرد گدھے کا بیان جس پر وہ سواری کرے گا،آ پﷺ کے زمانہ کے لوگوں کو انتہائی عجیب لگا ہو گا کیونکہ باوجود اس حقیقت کے کہ آپﷺ اس سواری کو بار بار گدھا قرار دیتے ہیں اس میں گدھے کی معروف خصوصیات میں سے ایک بھی نہیں پائی جاتی۔ تاہم موجودہ زمانہ کے تمام ذرائع نقل و حمل پر یہ تعریف پوری طرح صادق آتی ہے۔
ان سب ذرائع میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے۔ یہ سب آگ سے توانائی حاصل کرتے ہیں حتیٰ کہ بھاپ سے چلنے والے ریلوے انجن کا انحصار بھی دراصل آگ پر ہی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو دجّال کے زمانہ میں جانوروں کی سواری اور نئے انقلابی ذرائع نقل وحمل کے مابین پایا جاتا ہے جس سے معلوم ہو تاہے کہ وہ سواری کسی جانور کی بجائے ایک غیر جاندار چیز ہو گی۔ ہم نے اس سواری کیلئے انگریزی میں 'he' کی ضمیر محض اس لئے استعمال کی ہے کیونکہ پیشگوئی میں اسے جانور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہی درحقیقت اس کی پہچان کی علامت ہو گی۔ اگر آپ دجّال کے گدھے کو پہچان لیں تو آپ جدید ذرائع آمد و رفت کو شناخت کر سکتے ہیں ورنہ بصورتِ دیگر آپ واپس گدھوں کے زمانہ میں لوٹ جائیں گے۔ اسی طرح احادیث کی مختلف کتب میں دجّال کے اس تمثیلی گدھے کی مختلف خصوصیا ت بیان ہوئی ہیں۔ ان احادیث سے ماخوذ معلومات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
.1 اپنے گدھے کی طرح خود دجّال بھی اتنا بڑا اور دیو قامت ہو گا کہ اس جیسا وجود دیومالائی کہانیوں میں بھی نہیں ملتا۔ وہ اس قدر لمبا ہو گا کہ گویا اس کا سر بادلوں سے بھی اوپر نکلا ہوا ہو۔ وہ اتنا طاقتور ہو گا کہ تن تنہا ساری دنیا کو تسخیر کر لے گا۔ 11
.2 اپنی تمام تر جسمانی خوبیوں کے باوجود اس میںایک نقص یہ ہو گا کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا۔ 12
.3 یہ گدھا صرف دجّال کے ہی کام نہیں آئے گا بلکہ عوام الناس کو بھی نقل و حمل کیلئے بآسانی دستیاب ہو گا۔ لو گ اس کے پہلو میں موجود کھڑکیوں کے راستے اس کے پیٹ میں داخل ہوں گے جو بالخصوص اسی مقصد کیلئے بنائی گئی ہوں گی۔ 13
.4 اس کا پیٹ اندر سے خوب روشن اور آرام دہ نشستوں سے آراستہ ہوگا۔ 13
.5 یہ گدھا برق رفتار ہو گا اور مہینوں کا سفر دنوں یا گھنٹوں میں طے کرے گا۔ 14
.6 دوران سفر باقاعدہ پڑاؤ کرے گا۔ ہر پڑاؤ پر لوگوں کو اس میں سوار ہونے کی دعوت دی جائے گی اور ہر بار چلنے سے پہلے بآواز بلند اعلان کیا جائے گا۔ یوں یہ تمثیلی گدھا جگہ جگہ سفر کرے گا اور لوگوں کیلئے آرام دہ اور پر سکون ذریعہ سفر ثابت ہو گا۔ 15
.7 اس کے پیٹ کے اندر بیٹھے ہوئے مسافروں کو اس آگ سے کسی قسم کا کوئی گزند نہیں پہنچے گا جسے کھا کر وہ چلے گا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس کے اندر موجود نشستیںآگ کے اثر سے مکمل طور پر محفوظ رہیں گی۔ 15
.8 یہ گدھا سمندر میں بھی سفر کرے گا اور سمندری لہروں پر سوار ہو کر ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچ سکے گا۔ 16
.9 بحری سفر کے دوران اس کا حجم اور قد کا ٹھ بڑھ جائے گا۔ چنانچہ وہ خوراک کے پہاڑ اپنی پشت پر لا د کر سمندر پار لے جائے گا۔ وہ متعدد بار خوراک کے بڑے بڑے ذخائر ایسی غریب اقوام کی طرف لے کر جائے گا جو دجّال کے آگے سر تسلیم خم کریں گی۔ خوراک کے ان ذخائر کی نقل و حمل ایسا استعارہ ہے جو پہلے بیان کی گئی ایک اور آیت میں بھی موجود ہے جس میں ایسے زمانہ کی پیشگوئی کی گئی ہے جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ 17
.10 یہ حیرت انگیز گدھا اُڑنابھی جانتا ہو گا کیونکہ اس کے بارہ میں بیان ہوا ہے کہ وہ ایسی غیر معمولی لمبی چھلانگیں لگائے گا جو مشرق و مغرب تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ گویا اس کا ایک قدم مشرق میں ہو گا تو دوسرا مغرب میں۔ اس کی غیر معمولی لمبی چھلانگ سے یہ مراد ہے کہ وہ ایک براعظم سے اڑے گا تو دوسرے براعظم میں جا اترے گا۔ 18
.11 وہ بادلوں سے بھی بلند پرواز کر سکے گا۔ 19
.12 اس نے پیشانی پر چاند اٹھا رکھا ہوگا۔ یقینا یہاں چاند سے مراد سامنے والی وہ روشنیاں ہیں جو ہر جدید سواری کے ماتھے پر نصب ہو تی ہیں۔ 19
ساری دنیا کو فتح کرنے کیلئے استعمال ہونے والے دجّال کے اس گدھے کے بارہ میں اتنی واضح علامات مذکور ہونے کے باوجود بھی اگر کسی قاری کو اسے شناخت کرنے میں کوئی مشکل درپیش ہو تو یہ کس قدر تعجب کی بات ہوگی۔
صاف ظاہر ہے کہ یہاں دجّال 20 کے عنوان کے تحت ان عیسائی طاقتوں کا ذکر کیاگیا ہے جنہوں نے ایک روز پوری دنیا پر قابض ہونا تھا۔ آگ سے چلنے والے اس گدھے نے طیاروں، بحری جہازوں اور غیر معمولی تیز رفتار گاڑیوں کی شکل میں ان عیسائی طاقتوں کے دنیا فتح کرنے کے سلسلہ میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرنا تھا۔ اس غلبہ کے حصول کی عالمگیر کشمکش میں تیز رفتاری کے فوائد پر زور دینے کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم سازو سامان کا بھی خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے۔

(القارعۃ8-7:101)
ترجمہ: پس وہ جس کے وزن بھاری ہوں گے تووہ ضرور ایک پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔
یہ سامان جتنا زیادہ بھاری اور تیز رفتار ہو گا اتنا ہی ان عالمی طاقتوں کا غلبہ آسان ہو جائے گا۔ اس کمیت اور تیز رفتاری کی وجہ سے ہی وہ فتح سے ہمکنار ہو سکیں گے۔
یہ پیشگوئیاں اتنی منفرد ہیں کہ دیگر مذاہب میں ان کی نظیر ملنا محال ہے اور اس قدر واضح اور معین ہیں کہ گویا کسی مصور نے اپنے قلم سے بعینہٖ کسی منظر کی تصویر کشی کر دی ہو۔ بالکل اسی طرح آنحضرتﷺ اپنی چشم بصیرت پر منکشف ہو نے والے راز نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان فرمادیتے ہیں۔
سورۃ التکویر میں مذکور پیشگوئیوں کے ذکر کو ختم کرتے ہوئے اب ہم قارئین کے سامنے بعض اور انتہائی اہم پیشگوئیاں رکھتے ہیں جو اسی زمانہ کے بعض دیگر اہم پہلوؤں کے بارہ میں ہیںجن میں سے ہر پیشگوئی کسی خاص مو ضوع سے تعلق رکھتی ہے اور جو بڑے بلیغ انداز سے قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں بیان ہوئے ہیں۔
حوالہ جات
1. Fat-hul-Bari - The Commentary of Sahih Al-Bukhari by Hafiz Ahmad bin `Ali Hajar Al-`Asqalani (773-852). Kitab AI-Maghazi Babo Ghazwah Al-Khandaq Al-Ahzab. Vol.VII p.397.
2. Mishkat-ul-Masabih. Vol.I, Chapter III. Kitab Al-Manaqib. Babo Manaqib Al-Sahabah. Publisher: Al-Maktab Al-Isl'ami, Beirut.
3. Chronicle of the World. (1989) Chronicle Communications Ltd and Longman Group UK Ltd., London, p.436
4. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.270
5. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, pp.270-271
6. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.271
7. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.273
8. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.278
9. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.279
10. LANE-POOLE, S. (1888) The Moors in Spain. 8th ed., T. Fisher Unwin, London, p.280
12. 'ALLAMAH `ALA-UD-DIN `ALI AL-MUTTAQI. Kanz-ul-'ummal VOL:14
13. p.604 & 613 (1979), Beirut.
14. IMAM MUSLIM BIN AL-HAJJAJ BIN MUSLIM AL-QUSHAIRI AL- NAISAPURI. Sahih Muslim, Kitabul-Fitan, Babo Zikrid-Dajjal wa Sifatehi Wa Ma Ma`ahu.
15. ALLAMAH MUHAMMAD BAQIR AL-MAJLISI. Biharul-Anwar, Babo `Alamate Zohurihi Alaihis-salam min Al-sufyani wad-Dajjal.
16. 'ABDUR-REHMAN AL-SAFORI. Nuzhat-ul-Majalis, vol: 1 p.109. Maimaniyyah Press, Egypt.
17. ALLAMAH MUHAMMAD BAQIR AL-MAJLISI. Biharul Anwar, Babo `Alamate Zohurihi Alaihis-salam min Al-sufyani wad-Dajjal.
18. 'ABDUR-REHMAN AL-SAFORI. Nuzhat-ul-Majajis, vol:l p.109. Maimaniyyah Press, Egypt.
19. Sahih AI-Bukhari . Kitab-ul-Fitan, Babo Zikrid-Dajjal.
20. `ABDUR-REHMAN AL-SAFORI. Nuzhat-ul-Majalis, vol:1p.109. Maimaniyyah Press, Egypt.
21. `ALLAMAH `ALA-UD-DIN `ALI AL-MUTTAQI. Kanz-ul-`ummal, VOL:14 p.604 & 613 (1979), Beirut.
22. IMAM MUSLIM BIN AL-HAJJAJ BIN MUSLIM AL-QUSHAIRI AL- NAISAPORI. Sahib Muslim, Kitabul-Fitan, Babo Zikrid-Dajjal wa Sifatehi Wa Ma Ma`ahu.
عالمگیر ایٹمی تباہی
عصر حاضر سے تعلق رکھنے والی بعض قرآنی پیشگوئیاں غیر معمولی طور پر عالمگیر اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ایک ایسی ہی پیشگوئی ہونے والی ممکنہ ایٹمی تباہی سے متعلق ہے۔
یہ پیشگوئی اس زمانہ میںکی گئی جب ایٹمی دھماکے کا تصور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ابھی بیان کیا جائے گا قرآن کریم کی بعض آیات میںبڑی صراحت کے ساتھ ایسے باریک ذرات کا ذکر ملتا ہے جوبے انتہا توانائی کا منبع ہیں گویا کہ اپنے اندر جہنم کی آگ سمیٹے ہوئے ہیں۔ مندرجہ ذیل آیات حیرت انگیز حد تک عین اسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہیں۔

(الھمزۃ 10-2:104)
ترجمہ: ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جُو کیلئے۔ جس نے مال جمع کیا اور اس کا شمار کرتا رہا۔ وہ گمان کیا کرتا تھا کہ اس کا مال اسے دوام بخش دے گا۔ خبردار ! وہ ضرور حُطَمَہ میں گرایا جائے گا۔ اور تجھے کیا بتائے کہ حُطَمَہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی آگ ہے بھڑکائی ہوئی۔ جو دلوں پر لپکے گی۔ یقینا وہ ان کے خلاف بند رکھی گئی ہے۔ ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے کئے گئے ہیں۔
یہ مختصر سورۃ حیرت انگیز پیشگوئیوں کا زبردست مجموعہ ہے جن کا اس زمانہ میں کوئی تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ بعض گنہگار حُطَمَہ میں ڈالے جائیں گے۔ حُطَمَہ سے مراد وہ مہین اور باریک ترین ذرات ہیں جو ایک نیم روشن کمرے میں سے گزرتی ہوئی روشنی کی شعاع میں تیرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
مستند عربی لغات میںحُطَمَہ کے دو بنیادی معانی پائے جاتے ہیں۔ ایک حَطَمَہ ہے جس کا مطلب کسی چیز کو پیسنا یا ریزہ ریزہ کرنا ہے دوسرا حِطـمَہجس کے معنی بے حقیقت سے چھوٹے ذرات کے ہیں۔ گویا حِطمَہ کسی چیز کو اس کے باریک ترین ذرات میں توڑنے کو کہتے ہیں۔
ان دو نوں معانی کا جائز طور پر اطلاق ان باریک ترین ذرات پر ہو سکتا ہے جن کی مزید تقسیم ناممکن ہو۔ آج سے چودہ سو سال قبل ایٹم کا کوئی تصور موجود نہیں تھا لیکن صرف حُطَمَہ ہی ایک ایسا لفظ ہے جسے ایٹم کا قریب ترین مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب صوتی اعتبار سے بھی یہ دونوں الفاظ ملتے جلتے ہیں۔ انسان ابھی اس دعویٰ پرحیران ہے کہ اسے حُطَمَہ میں جھونکا جائے گا کہ ایک اور پہلے سے بھی زیادہ حیرت انگیز دعویٰ سامنے آ جاتا ہے۔
لفظ حُطَمَہکی وضاحت کرتے ہوئے قرآن کریم اسے ایک ایسی بھڑکتی ہوئی آگ قرار دیتا ہے جو ایسے ستونوں میں بند ہے جو کھینچ کر لمبے کئے گئے ہوں۔ جب انسان کو اس میں جھونکا جائے گا تو یہ آگ پسلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر براہ راست دل پر لپکے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آگ خاصیت کے لحاظ سے عام آگ سے یکسر مختلف ہو گی جو جسم کو جلانے سے پہلے ہی دل کی حرکت کو یوں بندکر دے گی جیسے اسے روکنے والی پسلیوں کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ نزول قرآن کے وقت یقینا اس قسم کی آگ کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
یہاں بیان کردہ تشریح ہی حیران کن نہیں، آگے آنے والی وضاحت اس سے بھی زیادہ حیرت انگیزہے۔ جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایسے ستونوں میں بند ہے جو کھینچ کر لمبے کئے گئے ہوں۔ اوریہ آگ ایسے وقت میں انسان پر حملہ آور ہو گی جب اس کا بے قابو ہونا مقدر ہو گا۔
یہ چھوٹی سی سورۃ حیرت انگیز امور پر مشتمل ہے۔ اوّل یہ ذکر کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب انسان چھوٹے چھوٹے ذرّات میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر ان ذرّات کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان میں ہے کیا؟ ان میں آگ ہے جو چھوٹے چھوٹے سلنڈروں میں بند ہے جن کی شکل لمبوترے بلند و بالا ستونوں جیسی ہے۔
چھوٹے ذرات میں جھونکے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف ایک آدمی ان میں ڈالا جائے گا بلکہ یہ لفظ وسیع معنوں میں بنی نوع انسان کیلئے استعمال ہوا ہے اور ان میں ڈالے جانے سے مراد وہ عذاب ہے جس میں اسے مبتلا کیا جائے گا جو اس کا مقدّر ہے۔ جب سے انسان نے ایٹم کا پوشیدہ راز دریافت کر کے اس میں موجود بے انتہا توانائی سے آ گہی حاصل کی ہے یہ بات قابل فہم ہو گئی ہے۔ یہی وہ دور ہے جب باریک ترین ذرات میں چھپی ہوئی آگ باہر نکل کر ہزارہا مربع میل علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس کی زد میں آنے والی انسان سمیت ہر چیز تباہ ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ بات جو آج سے چودہ سو سال قبل غیر حقیقی دکھائی دیتی تھی اسے آج کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
حیرت اور مبالغہ آرائی کا کوئی بھی محاورہ اس پیشگوئی کی عظمت کے بیان کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ کیا یہ حقیقت کم حیرت انگیز ہے کہ اس زمانہ کے لوگ اس چھوٹی سی سورۃ یعنی الھمزۃ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ وگرنہ اس کا اثر دلوں کی بجائے ان کے ایمان و اعتقاد پر ہوتا۔ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ عظیم الشان پیشگوئیاں ان کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکیں۔ شاید ان کا خیال ہو کہ ان آیات کا تعلق اس دنیا کے واقعات سے نہیں، آخرت سے ہے۔ بہت سے مفسرین نے ان آیات کی تفسیر کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور جنہوں نے اس مشکل کام کو اپنے ذمہ لیا وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو گئے کہ یہ تو دوبارہ جی اٹھنے کی باتیں ہیں۔ اور اس طرح ان تما م پیشگوئیوں کے معانی پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
مغربی مستشرق سیل (Sale)کو بھی حُطَمَہ کا لفظی ترجمہ کرنے میں مشکل پیش آئی۔ اس نے حُطَمَہ کا لفظی ترجمہ کئے بغیر صرف یہ لکھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حُطَمَہ میں ڈالی جائے گی۔ اس طرح اس نے انگریزی جاننے والوں کی اس ممکنہ بے یقینی کو دور کر دیا جس کا انسان کے چھوٹے چھوٹے ذرات میں ڈالے جانے کے ترجمہ سے پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ چنانچہ حُطَمَہ کے درست معنی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے قاری کے ذہن میں حُطَمَہ کے معنی کسی بڑے کمرہ میں جلتی ہوئی آگ کے آتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے سیل (Sale)کو غلط ترجمہ سے پیدا ہونے والی شرمندگی سے تو بچا لیا لیکن وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا حق ادا کرنے میں نا کام رہا۔
اس آیت میں مذکور آگ کا تعلق خواہ اس دنیا سے ہو یا آخرت سے، اسے کسی بھی طرح باریک ترین ذرّات میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ ایٹمی دور کے ارتقا سے قبل اس قسم کی آگ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا اس لئے سیل اور دیگر پہلے مفسرین کو اس کے حل کرنے میں مشکل در پیش تھی۔ آخرکار اب کہیں جا کر یہ عقدہ کھلتا ہوا نظر آتا ہے جس کی تمام کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ ترتیب سے جڑی ہوئی ہیں۔
جب تک سائنسی لحاظ سے یہ معلوم نہ ہو کہ ایٹمی دھماکہ کس طرح ہوتا ہے اورجوہری کمیت میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، قرآن کریم میں مذکور لمبے ستونوں کے معنی مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ پھٹنے سے قبل جوہری کمیت کی کیفیت کو ایٹمی ماہرین اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے کوئی چیز اپنے اندر موجود بے انتہا دباؤ کی وجہ سے پھٹ پڑنے والی ہو۔ یہ دباؤایٹم کے مرکزہ کے پھٹنے سے قبل اس کے پھیلنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس عمل میں ایک بڑے ایٹمی وزن والا عنصر کم ایٹمی وزن والے دو عناصر میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ نئے بننے والے عناصر کے ایٹمی وزن کا مجموعہ ابتدائی عنصر(parent-element) جو heavy metalبھی کہلاتا ہے، کے ایٹمی وزن سے کچھ کم ہوتا ہے۔ اس عمل میں ایٹمی وزن کا جو معمولی سا حصہ ضائع ہوتا ہے وہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایٹم بم کا یہی ایک واحد ماڈل نہیں ہے لیکن ہم نے لمبے ستونوں کے عمل کو بیان کرنے کیلئے یہ آسان ماڈل چنا ہے۔
اب ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ آگ براہ راست دلوں پر کس طرح لپکے گی۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ایٹمی دھماکہ کے وقت گاماریز (gamma rays)، نیوٹرانز(neutrons)اور ایکس ریز کی ایک بہت بڑی تعداد خارج ہوتی ہے۔ ایکس ریز درجہ حرارت کو فوری طور پر بے انتہا بڑھا دیتی ہیں۔ آگ کا ایک بڑا سا گولہ بنتا ہے جو انتہائی گرم ہواؤں کے دوش پر تیزی سے بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بہت بڑی کھمبی نما آگ کی چھتری میلوں دور سے نظر آتی ہے۔
ایکس ریز، نیوٹرانز کے ساتھ تمام افقی سمتوں میں بھی پھیل جاتی ہیں اور اپنی حرارت کی وجہ سے راستہ میں موجود تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔ ان گرم لہروں کی رفتار آواز کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے جن سے shockwaves بھی بنتی ہیں لیکن ان سے بھی کہیں زیادہ تیز اور نفوذ کرنے والی گاما ریز ہیں جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ان گرم لہروں کو مات دے دیتی ہیں۔ یہ بے حد مرتعش ہوتی ہیں اور اسی ارتعاش کی وجہ سے دلوں کی حرکت کو بند کر دیتی ہیں۔ فوری موت ایکس ریز سے پیدا ہونے والی حرارت کی بجائے گاما ریز کی شدید توانائی کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو بعینہٖ اس طرح بیان کیا ہے۔
پھر سورۃ الدخان میں قرآن کریم ایک ایسے مہلک بادل کا ذکر فرماتا ہے جو تباہ کن چمکدار دھوئیں پر مشمل ہو گا:

(الدخان 44:12-11 )
ترجمہ: پس انتظار کر اس دن کا جب آسمان ایک واضح دھواں لائے گا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ ایک بہت درد ناک عذاب ہو گا۔
مندرجہ ذیل آیات اس دھوئیں کی نوعیت پر مزید روشنی ڈالتی ہیں:

(المرسلات34-30:77)
ترجمہ: اس کی سمت چلو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ ایسے سائے کی طرف چلو جو تین شاخوں والا ہے۔ نہ تسکین بخش ہے نہ آگ کی لَپٹوں سے بچاتا ہے۔ یقینا وہ ایک قلعہ کی طرح کا شعلہ پھینکتا ہے۔ گویا وہ جو گیا رنگ کے اونٹوں کی طرح ہے۔
یہاں اِنطَلِقُوا سے مراد یہ ہے کہ کسی وقت بنی نوع انسان پر ایسا زمانہ آئے گا جب انہیں ایک اذیت ناک بادل کی شکل میں ایک ایسی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا جو کوئی سایہ یا تحفّظ فراہم نہیں کرے گی۔ سائے تو آرام اور پناہ دیا کرتے ہیں۔ بادل ہمارے اور سورج کی جھلسا دینے والی تپش کے مابین حائل ہو جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا آیات میں کسی سورج کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ صرف اسی آگ کا ذکر ہے جس کی تپش سے یہ سایہ کوئی تحفّظ فراہم نہیں کر سکے گا۔ اس کے برعکس اس بادل کا سایہ آگ کے عذاب میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔ اس کے سائے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہو گا۔ یقینا یہ اشارہ اس تابکار بادل کی طرف ہے جو ایٹمی دھماکہ کے وقت بنتا ہے۔ جس واقعہ کا یہاں ذکر ہو رہا ہے اس میںجوگیا رنگ کے بڑے بڑے شعلے بلند ہوں گے جنہیں قلعوں اور اونٹوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مشابہت میں محض اونٹ کے رنگ کی طرف ہی نہیں بلکہ اس کے کوہان کی طرف بھی اشارہ ہے۔
ساتویں صدی کے لوگ اس ہلاکت خیز بادل یا دھوئیں کی اہمیت کو کما حقہ سمجھنے کے قابل نہیں تھے کیونکہ یہ بات ان کے فہم سے بالا تھی۔ تا ہم آج ہمیں ایٹمی دھماکوں کا بخوبی علم ہے اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تابکار بادل کو ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
اس خوفناک تباہی کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں بھی ملتا ہے۔
(المرسلات16:77)
ترجمہ: ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں پر۔
اگرچہ یَوْمَئِذٍ سے مراد قیامت کا دن بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اس زمانہ پر بھی دلالت کرتا ہے جب ان لوگوں کو جو الٰہی نشانات کا انکار کرتے ہیں ایک ایسے دھوئیں کا عذاب دیا جائے گا جس کے سائے کے نیچے ہر چیز پر موت برسے گی۔ یہ ایک ایسا سایہ ہو گا جو ایک جگہ سے دوسرے جگہ حرکت کرے گا اور آرام دینے کی بجائے عذاب کا باعث ہو گا۔ یہ وہ دور ہو گا جب انسان اس عظیم آسمانی عذاب کو دیکھنے کے بعد بالآ خر خدا کی طرف رجوع کرے گا اور اس سے اس ناقابلبرداشت عذاب سے بچنے کی التجا کرے گا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا عذاب لوگوں پر نازل ہوتا ہے تو بخشش اور نجات کا وقت پہلے ہی گزر چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔

(الدخان 15-14:44)
ترجمہ: ان کیلئے اب کہاں کی نصیحت جبکہ ان کے پاس ایک روشن دلائل والا رسول آ چکا تھا۔ پھر بھی انہوں نے اس سے اعراض کیا اور کہا سکھایا پڑھایا ہوا (بلکہ) پاگل ہے۔
بنی نوع انسان کو انبیاء کے ذریعہ تنبیہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کی بداعمالیوں کے المناک نتائج سے آگاہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا پیشگوئیاں واضح طور پر عصر حاضر سے تعلق رکھتی ہیں جن میں ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے پرانے زمانہ کے لوگ کلیۃًبے خبر تھے۔ انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام پیشگوئیوں کی خبر آنحضرتﷺ کو پہلے سے دے دی تھی۔ لیکن جس وضاحت کے ساتھ آپﷺ مستقبل کے واقعات کو بیان فرماتے ہیں اس سے بڑا قوی تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ گویا یہ تمام واقعات آپﷺ کے سامنے کسی فلم کی طرح گزر رہے ہیں۔ تا ہم بنی نوع انسان کو ان پیشگوئیوں کے ظہور کیلئے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ انتظار کرنا پڑا اور ان واقعات کا ظہور موجودہ ایٹمی دور میں ہی ممکن ہوا۔ ایٹمی تباہی کا تصور بہت ہولناک ہے لیکن انسان نے اس کے اسباب کا کھوج لگانے کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ آدمی کی نظر عموماً سطحی معاملات تک ہی محدود رہتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گریبان میں جھانک کر برائی کی شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ اندھاپن بطور خاص انسان کی کج روی سے تعلق رکھتا ہے۔ اپنے ماحول میں مصائب اور برائیاں پھیلانے کے باوجود انسان اپنے آپ کو کبھی اس کا ذمہ دار نہیں گردانتا۔
انہی عالمگیر آفات کا ہم اس وقت تجزیہ کر رہے ہیں۔ ایک سائنسدان ایٹمی دھماکوں کے پیچھے کارفرما عوامل کی تشریح محض مادی اور طبعی اسباب کی حد تک ہی کرتا ہے۔ مگر جب اس قسم کے تباہ کن ہتھیاروں کو انسان کی امن و سلامتی کی تباہی کیلئے استعمال کیا جائے تو ایسے ہتھیاروں کے موجد سائنسدانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بلکہ اصل وجہ کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ دراصل بڑی بڑی عالمی طاقتیں ہی ہیں جو عالمگیر سطح کے ظالمانہ اور نامعقول فیصلوں کی ذمہ دار ہیں۔ تا ہم اپنی تمام تر عظمت کے باوجود ان کی حیثیت خود غرض عوام کی اجتماعی سوچ کے ہاتھوں کھیلنے والے مہروں سے زیادہ نہیں ہے۔ قرآن کریم اگرچہ ان سائنسی عجائبات کا بڑے معین رنگ میں ذکر فرماتا ہے لیکن سائنس کے کسی معلّم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف بھی مبذول کراتا ہے کہ انسان کے مسخ شدہ رویہ کے اصل اسباب دراصل غیراخلاقی محرکات ہوا کرتے ہیں۔ قرآن کریم نہ صرف ان پوشیدہ محرکات کو بیان کرتا ہے بلکہ ہماری توجہ ان کے پیچھے کارفرما قوت پر بھی مرکوز کرتا ہے۔ یعنی وہ بندوق کی لبلبی کا ذکر تو کرتا ہے لیکن ہماری توجہ اس انگلی کی طرف بھی مبذول کراتا ہے جو اسے دباتی ہے۔ قرآن کریم کی تنبیہات کا یہی مقصد ہے۔ اس طرح وہ بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ انسان پر ہونے والے ہر ظلم کا ذمہ داردراصل انسان ہی ہے۔ پس قرآن کر یم کی رو سے اس سلسلہ میں کئے جانے والے حفاظتی اقدامات کا تعلق انسانی کردار کی اصلاح سے ہے۔ یعنی اگر لوگ اپنے رویہ میں تبدیلی لائیں اور الٰہی ہدایت کے مطابق اپنی اصلاح کریں تو اس سے وہ صحت مند انہ ماحول پیدا ہو گا جو عدل و انصاف کی بقا کیلئے ضروری ہے۔
قرآنی پیشگوئیاں روشنی کے ایک مینار کی حیثیت سے پیش آمدہ خطرات اور ان سے بچنے کے طریقوں کی طرف واضح رہنمائی کرتی ہیں لیکن بظاہر یہ بات محال نظر آتی ہے کہ انسانی معاملات کی کشتی کے ناخدا اس تنبیہ پر کان دھریں گے اور انسان کو ان خطرات سے نکال کر کسی محفو ظ مقام پر لے جائیں گے۔ اور یہی تباہی کی اصل وجہ ہے۔ انسانی رویہ کے تمام پہلوؤں کا حقیقت پسندانہ اور تنقیدی جائزہ لئے بغیر آج کے انسان کو درپیش مسائل کا کوئی بھی قابل عمل حل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض ان مسائل کا حل بنیادی انسانی اقدار کی بحالی میں مضمر ہے۔ مثلاً سچائی، دیانت، ایمانداری، انصاف،دوسروں کا خیال رکھنا، لوگوں کی تکلیف کا احساس خواہ ان سے کوئی رشتہ نہ ہو اور نیکی کے ساتھ عمومی وابستگی۔ ان اقدار کو انسانی تعلقات کے دائرے سے نکال دیں تو پھر خوفناک آفات سے کوئی مفر نہیں۔ اور اس صورت حال کا یہی واحد اور منطقی نتیجہ ہے۔
سورۃ القمر میں اس امر کی وضاحت گزشتہ اقوام کی تاریخ کے حوالہ سے کی گئی ہے جنہوں نے اپنے وقت کے انبیاء کے انذار پر کان نہ دھرا۔ وہ اپنے المناک انجام کو پہنچیں جس کا انہیں وعدہ دیا گیاتھا اور وقت گزرنے کے بعد کی توبہ ان کے کسی کام نہ آئی۔ اس انذار سے یہ فائدہ ضرور حاصل ہوا کہ وہ آئندہ نسلوں کیلئے عبرت کا نشان بن گئیں۔ چنانچہ قرآن کریم ان کے المیہ کی طرف اس لئے اشارہ کرتا ہے تا ان کی موت سے آئندہ نسلیں صحیح اندا ز سے زندگی بسر کرنے کا فن سیکھ سکیں۔

(القمر6-5:54)
ترجمہ: اور ان کے پاس کچھ خبریں پہنچ چکی تھیں جن میں سخت زجرو توبیخ تھی۔ کمال تک پہنچی ہوئی حکمت تھی۔ پھر بھی اِنذار کسی کام نہ آئے۔
اگر کوئی قوم سبق حاصل نہ کرے تو اپنی اس خوفناک تباہی کی وہ خود ذمہ دار ہو گی جو ان کی منتظر ہے۔ جس ایٹمی تباہی کا ہم ذکر کر رہے ہیں، سورۃ طٰہٰ میں بھی اس کے انجام کے بارہ میں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تباہی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا غرور اور رعونت پاش پاش کر کے رکھ دے گی۔ انسان کو بحیثیت مجموعی صفحۂ ہستی سے نہیں مٹایا جائے گا۔ متعلقہ آیت میں واضح طور پر یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ موقع بنی نوع انسان کے خاتمہ کا نہیں ہو گا بلکہ متکبر سیاسی طاقتیں سرنگوں کی جائیں گی اور ان کے مقبروں پر نظامِنو کی بنیادیں اٹھائی جائیں گی۔ پہاڑوں جیسی عظیم عالمی طاقتیں اس طرح خاک میں ملا دی جائیں گی جیسے وہ ایک چٹیل میدان ہو جس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہو تا:

(طٰہٰ109-106:20)
ترجمہ: اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ انہیں میرا ربّ ریزہ ریزہ کر دے گا۔ پس وہ انہیں ایک صاف چٹیل میدان بنا چھوڑے گا۔ تُو اس میں نہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ نشیب و فراز۔ اس دن وہ اس دعوت دینے والے کی پیروی کریں گے جس میں کوئی کجی نہیں۔ اور رحمان کے احترام میں آوازیں نیچی ہو جائیں گی اور تُو سرگوشی کے سوا کچھ نہ سنے گا۔
خداتعالیٰ جو کجیاں دور کرنے والا کامل خدا ہے ان کی کجیاں اور اونچ نیچ ختم کر دے گا اور اسی کی قدرت سے یہ حیرت انگیز انقلاب برپا ہو گا۔ یہاں پہاڑوں سے استعارۃ ً حکومتیں اور اقوام مراد ہیں جن کے بارہ میں قرآن کریم پیشگوئی فرماتا ہے کہ جب ان کا غرور توڑ دیا جائے گا اور بالآخر وہ ذلیل و رسوا کر دیئے جائیں گے اور ان کے سب کس بل نکل جائیں گے تب کہیں جا کر وہ خداتعالیٰ کے نہایت ہی منکسر المزاج منادی کی آواز پر لبیک کہیں گے جس میں کوئی کجی نہیں۔ یہ تباہی ان گنت ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں ہی ممکن ہے جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان اس وقت تک نصیحت نہیں پکڑے گا جب تک یہ تباہی اس کے کبر کو پارہ پارہ نہ کر دے۔ وعید کے اس افسوس ناک پیغام کے ساتھ ساتھ اس سے امید کی ایک کرن بھی پھوٹتی ہے کہ بنی نوع انسان آخرکار بچ کر روشنی کے ایک نئے دور میں داخل ہوں گے۔ انسان اپنے اطوار میں اگر بروقت تبدیلی پیدا نہ کر سکا تو خداتعالیٰ کے انکار اور اپنی حماقتوں کے نتائج کا کسی قدر مزہ چکھنے کے بعد بالآخر توبہ کر ہی لے گا۔
ایک اور سورۃ میں قرآن کریم ایسی خوفناک اور عظیم جغرافیائی اور موسمی تبدیلیوں کا ذکر کرتا ہے جو کئی خطوں، ملکوں اور براعظموں کو بنجر کر کے رکھ دیں گی۔ غالباً اس کا تعلق ایٹمی تباہی کے بعد کے اثرات سے ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے یہی زمینیں دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار کی جاتی تھیں اور اپنی بے مثل خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھیں۔ ہماری خواہش ہے کہ کاش پیشگوئیوں کا کم سے کم یہ حصہ تو نہ ہی پورا ہو۔ اس کا یقینا یہ مطلب نہیں کہ ہم قرآنی پیشگوئیوں کا احترام نہیں کرتے بلکہ ہماری یہ خواہش خداتعالیٰ کی بے پایاں رحمت پر ہمارے غیر متزلزل ایمان سے پھوٹ رہی ہے جو بہت معاف کرنے والا اور بڑا رحیم و کریم ہے۔ تمام وعیدیں خواہ کتنی ہی واضح اور دو ٹوک کیوں نہ ہوں انسان کے اپنے عمل سے مشروط ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کس طرح اپنی حالت میں تبدیلی لانے کے باعث خداتعالیٰ کی تقدیرِمبرم سے بچا لی گئی تھی، یہ مثال ہمارے لئے امید کی شمع روشن کرتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ انسان کی اخلاقی اقدار میں مسلسل انحطاط ہو رہاہے اس خوش فہمی کا کوئی جواز تو نہیں بنتامگر انسان کم از کم امید کا دامن تو تھام سکتا ہے۔ و رنہ سخت مایوسی اور ناامیدی کی بھیانک رات تو سامنے کھڑی ہے۔ مگر ان گہرے امراض کا علاج ہستی ٔباری تعالیٰ کے منکر ملحد ’مسیحاؤں‘ کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس کا واحد علاج صرف اور صرف خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بشرطیکہ ہمارے ہاتھ ہمیشہ دعا کیلئے اس کے حضور اٹھے رہیں۔ شاید ہم ایک ایسی زبان بول رہے ہیں جسے عصر حاضر کے انسان کیلئے سمجھنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس کے کان اس کے برعکس زبان سننے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
جینیاتی انجنیئرنگ
موجودہ دور میںجینیاتی انجنیئرنگ (Genetic Engineering) کے ذریعہ حیات کی بعض خصوصیات کو تبدیل کرناممکن ہو گیا ہے۔ لیکن مندرجہ ذیل آیات کے نزول کے وقت تو یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی:

(النسائ120-119:4)
ترجمہ : اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے ضرور ایک معین حصہ لوں گا۔ اور میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے کانوں پر زخم لگائیں گے۔
یہاں جانوروں کی دم کاٹنے یا کان چھیدنے سے ان کا مثلہ کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس جگہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے اس رواج کا ذکر ہے جس میں دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھانے کیلئے جانوروں کے کان چھید کر نشان زد کیا جاتا تھا۔ لیکن اسی آیت میں آگے جس بات کا ذکر ہے وہ بہت ہی انوکھی اور انقلابی نوعیت کی ہے۔ اس آیت کے آخر پر شیطان کی طرف ایک اور گھناؤنے ارادہ کو منسوب کیا گیا ہے کہ وہ انسان کو خداتعالیٰ کی مخلوق کی ماہیت تبدیل کرنے پر اکسائے گا۔ چنانچہ آگے مذکورہے:

(النساء 120:4)
ترجمہ: اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیر کردیں گے۔ اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو یقینا اس نے کھلا کھلا نقصان اٹھایا۔
گزشتہ زمانہ کے لوگ خداتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی لانے کے امکان کے بارہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ آیت واضح طور پر ان امکانات کا ذکر کر رہی ہے جن کا ازمنۂ گزشتہ میں کوئی تصورتک نہیں تھا۔ پچھ لگانا یا تھوڑی بہت سطحی تبدیلی کرنا ایک سادہ سا عمل ہے اور ہر زمانہ کے انسان کی دسترس میں رہا ہے۔ لیکن یہ امکان کہ انسان خداتعالیٰ کی مخلوق میں بڑی بڑی تبدیلیاں لے آئے، زمانۂ حال سے پہلے انسانی تصور سے بعید تھا۔ سائنسی علوم میں جینیاتی انجنیئرنگ کا آغاز صرف دس سے بیس سال پہلے ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سائنس کی یہ شاخ بڑی تیزی سے اس سمت بڑھ رہی ہے جس کے متعلق1400سال پہلے قرآن کریم نے واضح طور پر تنبیہ کر دی تھی۔ انسان نے ابھی سے تخلیق کے منصوبہ میں دخل اندازی شروع کر دی ہے اور بیکٹیریا اور حشرات کی سطح تک زندگی کو تبدیل کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا ہے لیکن چند قدم آگے تباہی اس کی منتظر ہے۔
بعض سائنسدانوں نے تو ابھی سے آنے والی تباہی سے خبردار کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس میدان میں ہونے والے نت نئے تجربات کا رخ واپس پلٹ دینا ان کی بساط سے باہر دکھائی دے رہا ہے۔ ماہرین جینیاتی انجنیئرنگ کے جواز کے بارہ میں دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بعض ان خطرات سے بچنے کیلئے مسلسل تنبیہ کر رہے ہیں لیکن بعض اس بات پر مصرّ ہیں کہ ہمیں اس میدان میں بھر پور ترقی کرنی چاہئے تا کہ تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے۔ انہیں یقین ہے کہ تکنیکی ترقیات انسان کے مستقبل کو روشن کر دیں گی۔
امریکہ میں ان دونوں گروہوں کے مابین شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ خوب گرماگرم بحث جاری ہے۔ ایک گروہ جینیاتی انجنیئرنگکے حق میں ہے اور دوسرا اس کے خلاف۔ جینیاتی انجنیئرنگمیں کئے جانے والے تجربات کے خلاف امریکی عدالتوں میں بعض مقدمات بھی زیرِسماعت ہیں جن میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک نوع سے دوسری نوع میں جینز کے تبادلہ کے نتیجہ میں ان تجربات سے وابستہ سائنسی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ بعض صورتوں میں تو متوقع نتائج اس قدر مختلف ہیں کہ توقعات پر بالکل ہی پورے نہیں اترتے۔ تاہم معاملہ ابھی ہاتھ سے نہیں نکلا۔ بیکٹیریا اور فصلوں کی بعض مخصوص اقسام پر کئے جانے والے تجربات زرعی پیداوار اور بیماریوں سے دفاع میں مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ لیکن ان عارضی کامیابیوں پر خوش ہو جانا قبل ازوقت ہو گا۔
نئی تیار کردہ یا تبدیل شدہ مصنوعی اقسام کا مستقبل کے ماحول پر کیا اثر ہو گا، اس کا اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک کہ عمل اور تاثر کا کئی نسلوں تک بغور مشاہدہ نہ کیا جائے۔ ممکنہ تباہی کا خطرہ بہرحال حقیقی اور بہت بڑا ہے۔ اگرجینیاتی انجنیئرنگ میں کئے جانے والے تجربات میں احتیاط سے کام نہ لیا گیا تو عین ممکن ہے کہ ان تجربات کے نتیجہ میں غیر متوقع طور پر کوئی ایسی نوع وجود میں آ جائے جو انسان کے کنٹرول سے باہر ہو۔ جس تحدی سے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کے نتیجہ میں پہنچنے والے عذاب سے ڈرایا ہے وہ کرۂ ارض پرحیات کے مستقبل کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ انسان خدا بننے کی کوشش کو کبھی ترک کرے گا بھی یا نہیں۔ کیا مکمل تباہی کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے جو انسان کو عاجزی سکھا سکے؟
یہ استنباط بھی درست نہیں کہ یہ آیت جینیاتی انجنیئرنگکے استعمال کو یکسر غلط قرار دیتی ہے۔ سائنس کی کسی بھی ایسی شاخ کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت اور اس میں تبدیلی کی بجائے اس کی حفاظت کیلئے کام کر رہی ہو۔ مثلاً کسی حادثہ کے نتیجہ میں جینز میں پیدا ہونے والی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے جینیاتی انجنیئرنگکا استعمال کسی صورت میں بھی خداتعالیٰ کے کاموں میں دخل اندازی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور کسی بیماری یا غلط ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں جینز میں پیدا ہونے والی خرابیوں کوجینیاتی انجنیئرنگکے ذریعہ ٹھیک کرنے کی کوشش یقینا مذکورہ بالا آیت کے منافی نہیں۔
بہرحال کچھ بھی ہو، یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سائنسدانوں کو خدائی تخلیق کے عظیم منصوبہ میں بے جا دخل اندازی کی کھلی چھٹی ہرگز نہیں دی جانی چاہئے۔ انہیں تو شکر گزار ہونا چاہئے کہ ابھی تک کوئی شدید حادثہ رونما نہیں ہوا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو سراسر یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔ ہم دنیا کی حکومتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جینیاتی انجنیئرنگکے میدان میں ہونے والے تجربات کے رجحانات اور امکانات پر کڑی نگاہ رکھیں گی۔ کیونکہ ان تجربات کے نتیجہ میں عالمِحیوانات میں نوع انسانی کی عزت اور وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ نوع انسانی وہ دن دیکھنے سے محفوظ رہے جب اس کے اپنے ہی تخلیق کردہ ’’غلام‘‘ اس پر حکومت کرنے لگیں۔

طاعون کا نشان
آج کی دنیا محض سو سال پہلے کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ اس وقت ابھی فضائی دور کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ رائٹ (Wright) برادران کی ناتجربہ کار پرواز کے ادھورے خواب کی تکمیل اور پہاڑوں کی طرح بلند و بالا سمندری جہاز اور آبدوزوں کی تیاری میں ابھی کچھ دیر تھی۔ تاہم فضا میں طلوعِ سحر کے آثار بتا رہے تھے کہ سائنسی ایجادات کا انقلاب انگیز اور خیرہ کر دینے والا دن طلوع ہونے کو ہے۔
مذاہب کی دنیا میں بھی بیداری کے آثار نمایاں تھے۔ ہر مذہب ایک عالمگیر ربانی مصلح کی انتظار میں تھا۔ ’’وہ کون ہو گا اور اس کا ظہور کہاں ہو گا۔‘‘ یہ سوال زبان زد عام تھا۔ دعویٰ اور جوابِدعویٰ کی وجہ سے فضا ایک تناؤ کا شکار تھی۔ لیکن سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ موضوع برصغیر میں زیرِبحث تھا۔
مسلمان اور عیسائی دونوں ہی منتظر تھے کہ مسیح کا ظہور ان میں ہو گا۔ اگر ہنود سرگرمی سے حضرت کرشن ؑ کی راہ تک رہے تھے تو بدھ کے پیروکار حضرت بدھؑ کے دوبارہ ظہور کا بے چینی سے انتطار کر رہے تھے۔
مذاہب کی اس کشمکش کے دور میں ایک گمنام بستی سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی پر شکوت آواز بلند ہوئی۔ آپ ؑنے دیگر تمام مذاہب پر اسلام کی برتری کے دعویٰ سے مذہبی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ آپ ؑنے قوی اور زبردست عقلی اور نقلی دلائل سے دیگر مذاہب کے عمائدین کو اس انداز میں مقابلہ کی دعوت دی کہ وہ متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ہر طرف دھوم مچ گئی کہ اسلام کی تائید میں ایک نیا پہلوان میدان میں اترا ہے۔
اس وقت تک دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں اسلام اپنے د فاع کے قابل بھی نہیں تھا۔ لیکن اس نئے پہلوان کے میدان میں اترتے ہی مسلمانان برصغیر خوشی اور امید کے ملے جلے جذبات سے نہال ہو گئے۔ آپ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے پہلے چند نسخے شائع ہونے کے ساتھ ہی آپؑ کی شہرت سارے برصغیر میں اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ ممتاز مسلمان علماء کی طرف سے آپؑ کو عظیم خراج تحسین پیش کیا گیا اور آپؑ کی تعریف میں مسلم اخبارات نے نمایاں مقالے شائع کئے لیکن تعریف و توصیف کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہا۔ صورت حال اچانک اس وقت تبدیل ہو گئی جب آپؑ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ خداتعالیٰ نے آپؑ پر الہام کے ذریعہ یہ ظاہر کیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں اور صلیب سے نجات پانے کے ایک عرصہ بعد دوسرے انبیاء کی طرح آپؑ کی طبعی وفات ہوئی۔ نیز آپؑ نے دعویٰ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے نام پر اور ان کے رنگ میں رنگین فرما کر مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اس آخری زمانہ میں مبعوث فرمایا ہے۔ اس موضوع پر اس کتاب کے آخر پر تفصیل سے ذکر کیا جائے گا۔ سردست یہی کہنا کافی ہو گا کہ دعویٰ سے قبل آپؑ کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی لیکن دعویٰ کے فوراً بعد ہر طرف سے آپؑ پر انگشت نمائی ہونے لگی۔ گو اب بھی آپؑ کے نام کا ڈنکا برصغیر میں بج رہا تھامگر اب نہ تو آپ ؑ کو پہلا سا عزت و احترام دیا جا رہا تھا اورنہ ہی پہلی سی امیدیں اور توقعات آپ ؑ سے وابستہ کی جارہی تھیں۔ اور خود امت مسلّمہ ہی مخالفین اسلام کی سرکوبی کرنے والے اس پہلوان کی مخالفت پر تل گئی۔ دوست دشمن ہو گئے اور چاہنے والے موت کے درپے۔ انہیںحضرت مسیح علیہ السلام کی موت گوارانہ تھی اور نہ ہی وہ یہ ماننے کیلئے تیار تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ظہور ثانی مسلمانوں میں بروزی رنگ میں ہو گا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کو گالیاں دی گئیں، تہمتیں لگائی گئیں، دشنام دہی سے کام لیا گیا اور اتنی شدید مخالفت ہوئی جس کی نظیر سارے برصغیر میں نہیں ملتی۔ ایسے وقت میں جب اپنے پرائے سب آپ ؑ کے جانی دشمن ہو رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکو تسلی دی کہ وہ آپؑ کو کبھی بھی اکیلا اور بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔ آپؑ کی مخالفت اور تکذیب کرنے والوں کی وسیع تر ہلاکت کے بارہ میں خداتعالیٰ نے آپؑ کو پیش خبریاں عطا فرمائیں جو لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بن گئیں۔ لیکن انہو ں نے توجہ نہ دی اور اپنی اصلاح نہ کی اور آپؑ کو ہر قدم پر جھٹلایا۔ مگر عذاب الٰہی کی ان پیشگوئیوں کو جھٹلاناممکن نہ تھا۔
ایک ایسی ہی اِنذاری پیشگوئی طاعون کے بارہ میں تھی جس کے متعلق آپؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ یہ صوبہ پنجاب میں غیر معمولی تباہی لائے گی۔ اس بارہ میں جو پرشوکت پیش گوئی آپؑ نے فرمائی اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘1
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے طاعون ان بہت سے اندازی نشانوں میں سے ایک نشان تھا جن کی آپ ؑ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ مگر یہ اتنا غیر معمولی اور پر ہیبت نشان تھا کہ اس کا خصوصیت سے علیحدہ ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ہی نہیں بلکہ قرآن کریم اور حامل قرآن آنحضرتﷺ کی صداقت کا بھی نشان ہے۔ اس نشان سے یہ بات بھی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ الہام ہی دراصل علم کے غیب سے شہود میں منتقل ہونے کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ طاعون کی جو خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی وہ درحقیقت قرآنی پیشگوئی ہی تھی جو آپ کے زمانہ میں دوبارہ کی گئی۔ کیونکہ اسی دور میں اس کا پورا ہونا مقدر تھا:

(النمل83:27)
ترجمہ: اور جب ان پر فرمان صادق آ جائے گا تو ہم ان کیلئے سطح زمین میں سے ایک جاندار نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا (اس وجہ سے) کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں لاتے تھے۔
قرآن کریم میں مذکور لفظ ’دابّہ‘ کے معانی پہلے ہی ایک اور آیت کے حوالہ سے بیان ہو چکے ہیں۔ اس کا اطلاق سطح زمین پر حرکت کرنے والے تمام قسم کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے جانوروں پر ہوتا ہے۔ 2
اس پیشگوئی کی اہمیت اور مفہوم کو سمجھنا از بس ضروری ہے جس میں عصر حاضر کیلئے ایک قوی اور عظیم الشان پیغام پوشیدہ ہے۔ ماضی کے اکثر علماء اور مفسرین نے اس پیشگوئی کا تعلق اس دور سے باندھا ہے جس میں مسیح ا ور مہدی کی آمد مقدر تھی۔ اگرچہ وہ گہرائی میں جا کر اس پیش گوئی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو نہ کر سکے تاہم کافی حد تک ان پر اس پیشگوئی کی حقیقت کھل گئی۔ علامہ اسماعیل حقی البروزوی (وفات1137ہجری) اپنی کتاب’’روح البیان‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مہدی کے ظہور کے بعد دجّال کا خروج ہو گا۔ تب حضرت مسیح علیہ السلام ظاہر ہوں گے۔ اسی دوران دابّۃ نکلے گا اور اس کے بعد سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔
شیعہ عالم ملّا فتح اللہ کا شانی (وفات988ہجری) اپنی تفسیر’’منہاج الصادقین‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ہمارے بعض فاضل دوست دابّۃ والی آیت سے امت مسلّمہ میں ایک ربانی حَکَم کا ظہور مراد لیتے ہیں جو امام مہدی ہو گا۔‘‘
مفسرین احادیث کی روشنی میں اس قرآنی آیت کی تشریح اسی حد تک سمجھ سکتے تھے تا ہم وہ دابّۃکی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہ شرف صرف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو نصیب ہوا جنہوں نے آخری زمانہ کے مصلح کی حیثیت سے وحی ٔ الٰہی کی روشنی میں اس عظیم الشان پیشگوئی کی وضاحت فرمائی۔
فروری 1898ء میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو خبر دی کہ طاعون کا عذاب سر پر منڈلا رہا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے فوری طور پر اس اہم وعید کو اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ تمام دنیا میں مشتہر کر دیا۔ اس پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ طاعون کے جس عذاب کی پیشگوئی کی گئی تھی دابّۃکے ظہور والی آیت اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
آپؑ نے مزید فرمایا کہ آیت میں مذکور لفظ تُکَلِّمُکے دو بنیادی معنے ہیں۔ ایک معنی کاٹنا اور دوسرا کلام کرنا ہے۔ آیت کا سیاق و سباق واضح کرتا ہے کہ اس کا تعلق ایسے جانور سے ہے جو الٰہی نشانات کے انکار کی وجہ سے لوگوں کو کاٹے گا۔ دوسرے معنوں کی رو سے ’دابّۃ‘ لوگوں سے کلام کرے گا۔ اور اس کا کلام کرنا اس رنگ میں ہو گا کہ وہ کاٹتے وقت نیک و بد میں امتیاز کرلے گا۔
اس ابتدائی تنبیہ کے بعد بہت سے دیگر الہامات نے طاعون کی حقیقت کو کھولتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ یہ کس طرح حملہ آور ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بالصّراحت بتا دیا گیا تھا کہ طاعون سے پنجاب میں وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلے گی اور گاؤں کے گاؤں ویران ہو جائیں گے۔ یہ ہر گھر کے دروازہ پر دستک دے گی اور جہاںجہاں سے گزرے گی اپنے پیچھے خوف اور دہشت چھوڑتی چلی جائے گی۔ آپ ؑنے فرمایا کہ آپؑ کا اپنا قصبہ قادیان بھی اس سے محفوظ نہ رہے گا۔ لیکن اس کاحملہ آپ ؑکی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دے گا۔ یہ آپؑ کے گھر کے چاروں طرف حملہ آور ہو گی لیکن اسے آپؑ کے گھر کی چار دیواری کے اندر بھی داخل ہونے کی ہرگز اجازت نہ ہوگی۔
اِنّی اُحافظ کُلَّ مَن فی الدّار3
یعنی’’ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا۔‘‘
آپؑ نے اپنے ماننے والوں پر یہ بات واضح فرما دی کہ حفاظت کا یہ وعدہ صرف ان لوگوںتک محدود نہیں ہے جو آپؑ کے ظاہری گھر میں رہائش پذیر ہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آپؑ کے روحانی گھر میں رہتے ہیں یعنی احمدیہ مسلم جماعت۔ چنانچہ ایک طرف آپؑ نے مکذبین کو کھلم کھلا انذار کیا تو دوسری طرف اپنے ماننے والوں کو معجزانہ حفاظت کی خوشخبری دی۔
جہاں آپؑ نے یہ فرمایا کہ احمدی اعجازی طور پر اس آفت سے محفوظ رہیں گے وہاں یہ وضاحت بھی فرمادی کہ وہ لوگ جوصرف نام کے احمدی ہیں استثنائی طور پر اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مگر احمدی بالعموم اتنے نمایاں تناسب سے بچائے جائیں گے کہ دیکھنے والوں کو اس بات میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ یہ حفاظت محض اتفاقی نہیں ہے۔
پنجاب میں طاعون کا آنا درحقیقت ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے جو ہر پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کوئی شخص اپنی صداقت کے نشان کے طور پر نزلہ زکام سے بھی محفوظ رہنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا چہ جائیکہ یہ دعویٰ کرے کہ اس کے ماننے والے بھی طاعون جیسی مہلک وبا سے بچائے جائیں گے جب تک خود خدا اس کو یہ نشان عطا نہ کرے۔ فی الحقیقت یہ ایک عظیم الشان دعویٰ تھا کہ وہ تمام لوگ جو صدق دل سے آپؑ کے مہدیٔ دوراں ہونے پر یقین رکھتے ہیں طاعون کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
بالآ خر جب عذاب کی گھڑی آن پہنچی تو آپؑ کے جانی دشمنوں کیلئے گویا موت کا نقارہ بج گیا۔ ان میں کئی ایک تو حلفاً اعلان کر چکے تھے کہ مرزا غلام احمد قادیانی خود ہی طاعون کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن وہ خود یکے بعد دیگرے اپنے خاندانوں سمیت اس کا شکار ہوتے چلے گئے حتیٰ کہ ان کا ماتم کرنے کیلئے بھی کوئی باقی نہ بچا۔ اور پیشگوئی کے عین مطابق آپؑ کے ماننے والے اتنے غیر معمولی تناسب سے محفوظ رکھے گئے جسے کسی طور بھی اتفاقی یا حادثاتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا کی کوئی منطق اس امر کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتی کہ سینکڑوں دیہات کی مخلوط آبادی میں سے آخر احمدی ہی کیونکر بچ نکلے۔ یہ معجزہ بار بار ایسی شان کے ساتھ ظاہر ہوا کہ اندھوں کو بھی صاف دکھائی دینے لگا اور وہ جوق در جوق احمدیت کی آغوش میں اس کثرت سے کھنچے چلے آئے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ خدا کی شان ہے کہ یہ سب طاعون سے محفوظ رکھے گئے۔ لیکن افسوس ان لوگوں پر جو بینا ہونے کے باوجود اس نشان کی آب و تاب سے اندھوں کی طرح ہو گئے۔ ایسے دیہات بھی تھے جہاں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے ماننے والوں کے سوا کوئی بھی لاشوں کو قبرستان لے جانے والا باقی نہ رہا جنہوں نے بلا خوف و خطر منکرین کی لاشیں دفنانے کا فریضہ انجام دیا۔
پنجاب کے عمومی جائزہ کے بعد اب ہم قادیان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب کچھ پیشگوئی کے عین مطابق ہوا سوائے ان اکّا دکا واقعات کے جو بظاہر پیشگوئی سے متناقض دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک معروف رفیق مولوی محمدعلی صاحب شدید بخارمیں مبتلا ہو گئے جس کی تمام علامات طاعون سے ملتی جلتی تھیں۔ حتیٰ کہ بغل کے نیچے موجود گلٹیاں بھی خطرناک حد تک متورم ہو کر شدید درد اور تکلیف کا باعث بن گئیں۔ ہر ممکن اور دستیاب علاج کرایا گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا اور تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ مولوی صاحب یہ بات تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق ہو کر خدائی وعدہ کے برخلاف ایسے انجام سے دوچار ہوں۔ بیماری کی اذیت تو ناقابل برداشت تھی ہی، لیکن اس سے بڑھ کر یہ بات ان کیلئے سوہان روح بن گئی کہ مبادا خدا کی نظر میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے پیروکار وں میں شمار نہ ہوں۔
اسی حالت میں بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے انہوںنے فریاد کی کہ خدارا کوئی دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر میری کربناک حالت سے آپؑ کو آگاہ کرے اور درخواست کرے کہ حضور تشریف لا کر میرے لئے دعا کریں۔ چنانچہ آپ ؑ فوراً تشریف لے آئے اوراس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ مریض طبی تشخیص کی رو سے طاعون کا شکار ہو چکا ہے۔ آپ ؑ نے مولوی صاحب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ میں خدا کا سچا مسیح ہوں اس لئے آپ ہرگز طاعون سے وفات نہیں پائیں گے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے جلد ہی اس پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ ان کی پیشانی پر ہی تھا اور آپؑ محو گفتگو ہی تھے کہ بخار کا زور ٹوٹ گیا اور طاعون کا نام و نشان تک نہ رہا۔ مولوی صاحب اٹھ بیٹھے اور بخار کے اتنی جلدی زائل ہونے پر حیرت سے اپنے آپ کو ٹٹولنے لگے۔ نہ صرف مولوی صاحب بلکہ ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ جو ان کی موت کا یقین کئے بیٹھے تھے اس اعجازی شفایابی پر حیران رہ گئے۔ مولوی صاحب اس کے بعد ایک لمبا عرصہ زندہ رہے اور 77سال کی عمر میں 1951ء میں لاہور میں وفات پائی۔
طاعون نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں آخر کیونکر تمیز کر دی۔ یہ بات لوگوں کیلئے ہمیشہ معمہ بنی رہے گی سوائے ان کے جو قادرِ مطلق خدا کی لامتناہی صفات پر ایمان لاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس باب میں بیان کردہ واقعات کی تصدیق میں وہ کونسی ٹھوس شہادتیں ہیں جو غیر جانبدارانہ تحقیق کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس تعلق میں پیش کی جانے والی تمام شہادتیں اندرونی ہیں۔ تمام گواہ یا تو احمدی تھے یا پھر وہ جو اس کو دیکھنے کے بعد احمدیت کی آغوش میں آ گئے تا ہم تمام بیرونی شہادتیں بالواسطہ ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک زبردست اثر رکھتی ہیں کیونکہ یہ خودمعاندین کی طرف سے پیش کی گئیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ کسی غیر جانبدارادارہ کی طرف سے اس معاملہ کی آزادانہ چھان بین نہیں کی گئی۔ اس وقت صرف احمدی اور غیر احمدی دو گروہ ہی موجود تھے۔ طاعون کی تباہ کاریوں کے بارہ میں تمام حقائق اور اعداد وشمار ہمیں اس زمانہ میں شائع ہونے والے اخبارات، رسائل، اشتہارات اور کتابوں سے مل سکتے ہیں لیکن یہ مواد صرف اسی صورت میں قابل اعتماد سمجھا جا سکتا ہے جب اس دور کے حالات کو مدّ نظر رکھ کر اس کی چھان بین کی جائے۔
سب سے اہم اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے کردار، دعاوی اور سرگرمیوں کے بارہ میں غیر معمولی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ انتہائی معاندانہ اور مضبوط غیراحمدی صحافتی دنیا جماعت احمدیہ کی تکلیف دہ،دل خراش اور منفی تصویر پیش کر رہی تھی۔ چنانچہ معاندین حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے ہر قول و فعل کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لینے اور اسے ریکارڈ کر لینے کے عادی تھے۔ ہر وہ امر جس سے آپؑ کے خلاف اشتعال انگیزی کی جا سکتی تھی اسے خوب اچھالا جاتا۔ یہ اشتعال انگیزی صرف غیر احمدی صحافتی دنیا تک محدود نہ تھی بلکہ عیسائیوں اور ہندوؤں نے بھی اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آپ کی مذمت اور مخالفت میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے طاعون کے بارہ میں پیش کئے جانے والے حقائق اور اعدادو شمار میں اگر خفیف سی بھی غلطی ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ متعصب غیر احمدی صحافتی دنیا اس کو نظرانداز کر دیتی۔
پنجاب میں کم و بیش سات سال طاعون کا دور دورہ رہا۔ اس دوران حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں سے متعلق طاعون کے نتائج کے بارہ میں عامۃالناس کی توجہ مسلسل برقرار رکھی۔ کئی معروف معاندین سے آپؑ کا مباہلہ ہوا اور دونوں جانب سے اس بارہ میں دعویٰ اور جواب دعویٰ شائع ہوتا رہا کہ فریقین میں سے کون خداتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے گا۔ بہت سے مخالفین ایک ایک کر کے مرتے چلے گئے جبکہ باقی خوف ورجا کی حالت میں رہے۔ مگر طاعون نے آ پ ؑ کو چھؤا تک نہیں اور نہ ہی آپؑ کی اہلیہؓ کو۔ اسی طرح آپؑ کی تمام اولاد بھی طاعون سے محفوظ رہی حتیٰ کہ آپؑ کے گھر کی چاردیواری میں ایک چوہا تک نہیں مرا۔
آپؑ نے ان حقائق کو بار بار مشتہر کیا جس سے مخالفین میں مخالفت کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی اور انہوں نے زور شور سے بد دعائیں کیں کہ آپؑ طاعون کا شکار ہوں مگر سب بے سود۔ آپؑ اور وہ سب لوگ جو آپ ؑکے ظاہری اور روحانی گھر میں مقیم تھے اس بلا سے محفوظ رہے۔ کیا کوئی شخص کسی اخبار، رسالہ یا کتاب میں سے ایک سطر بھی نکال کر دکھا سکتا ہے جو ان حقائق کو جھٹلاتی ہو اور آپؑ کے خاندان یا آپؑ کے گھر میں بسنے والے افراد میں سے کسی ایک کا نام پیش کر سکتا ہے جو طاعون کا شکار ہوا ہو؟
یہ بات ہمیں اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ تمام لٹریچر میں نظر آتی ہے جس میں اس قسم کے کسی سانحہ کا کوئی ذکر نہیںملتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور آپؑ کے ساتھ رہنے والے لوگوں میں سے کسی ایک کی وفات کا بھی ذکر موجود نہیں۔ یہ امر قابلِذکر ہے کہ جن واقعات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دور کا بھی تعلق ہوتا جماعتی اخبارات میں ان کا باقاعدگی سے تذکرہ کیا جاتا تھا۔
جہاں تک قادیان سے باہر کے احمدیوں کا تعلق ہے وہ ایک غیر معمولی تناسب سے طاعون سے بچائے گئے۔ ایسے دیہات میں جہاںطاعون سے ہلاک ہونے والے غیر از جماعت افراد کی شرح اموات مقابلۃً کہیں زیادہ تھی وہاں احمدی اموات شاذ کے طور پر تھیں۔
اگر جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ غلط ہوتا تو مخالف پریس ضرور اسے اچھالتا اور اپنے حق میں اسے استعمال کرتا۔ چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لئے بجا طور پر اسے ایک مضبوط بالواسطہ بیرونی شہادت قرار دیا جا سکتا ہے۔
جماعت احمدیہ کے دعویٰ کی تائید میں ایک اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ طاعون کے ایام میں احمدیت کو غیر معمولی ترقی نصیب ہوئی۔ چنانچہ جماعت کے ترجمان ’الحکم‘ میں چھپنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس نازک دور میں احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا جبکہ غیر از جماعت اخبارات کی طرف سے کبھی بھی اس امر کی تردید نہیں کی گئی۔ یہ اعداد وشمار حقیقی تھے نہ کہ فرضی۔ آخر کیوں مخالفانہ پریس نے ’الحکم‘کو جھٹلاتے ہوئے اپنی تائید میں کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ یاد رہے کہ ایسے ہی مواقع پر خاموشی الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوا کرتی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 1891ء سے1906ء تک جب پنجاب میں طاعون کا غلبہ تھا احمدیت نے غیر معمولی سرعت سے ترقی کی۔ ’الحکم‘ میں وقتاً فوقتاً چھپنے والے اعداد وشمار کے مطابق 1902ء تک احمدیوں کی تعداد ہزاروں سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ 1904ء تک یہ تعداد دو لاکھ تھی اور 1906ء میں جبکہ طاعون کا زور ٹوٹ چکا تھا احمدیوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
مندرجہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی غلط ثابت ہو جاتی تو احمدیت کبھی کی صفحۂ ہستی سے نابود ہو چکی ہوتی اور طاعون کے عذاب سے بچ جانے والے احمدی بھی لازماً حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی نعوذ باللہ جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے نتیجہ میں طاعون کا شکار ہو جاتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ جس رفتار سے معاندین احمدیت طاعون کا شکار ہوتے جا رہے تھے اسی رفتار سے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اور احمدیت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔
(الروم22:30)
یقینا اس میں ایسی قوم کیلئے جو غورو فکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔
یہاں ہم قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ آیت جس پر اس پیشگوئی کی بنیاد ہے اپنی ذات میں بجائے خود ایک نشان ہے۔ اس کی اعجازی شان اورمسحور کن لطافتوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے قاری کو مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت گلٹیوں والی طاعون کے پھیلنے کے اسباب معلوم نہ تھے اور نہ ہی اس وبا کے پھیلانے میں چوہوں کے کردار کا کچھ پتہ تھا۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ وبا چوہوں کے کاٹنے سے ہرگز نہیں پھیلتی اور نہ ہی اس پسّو کے بارہ میں کوئی علم تھا جو اس مہلک مرض کو منتقل کرنے کا باعث بنتا ہے اور جس کے کاٹنے سے طاعون کا جرثومہ خون میں سرایت کر جاتا ہے۔ اگر قرآن کریم انسان کا کلام ہوتا تو وہ کبھی بھی اس پیشگوئی میں طاعون کے پھیلنے کے سبب کو دابّۃ کے کاٹنے سے منسوب نہ کرتا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ طاعون دراصل ایک کیڑے سے پھیلتی ہے اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حشرات کی ایک بھاری تعداد کے پَر ہوتے ہیں جبکہ پَرنہ رکھنے والے حشرات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ مثلاً جوئیں، کرم کتابی اور دیمک وغیرہ۔ بالآخر یہ بات بھی اب جا کر معلوم ہوئی ہے کہ پسّو حشرات میں سے ہونے کے باوجود بجا طور پر دابّۃ قرار دیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت یہی تو اس کا غیر معمولی وصف ہے جس کی وجہ سے یہ دابّۃ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ وگرنہ یہ قرآنی آیت تو قطعی طور پر غلط ثابت ہو جاتی۔
ہم نہایت ادب سے ماہرین حیاتیات کی توجہ اس انوکھی مثال کی طرف مبذول کراتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر بتائیں کہ کیا وہ اس استثنائی امر کو محض اتفاق قرار دے سکتے ہیں؟
حوالہ جات
1. Nozul-ul-Masih - Ruhani Khaza'en (1984) Vol.18 pp.466-467.
2. LANE, E.W. (1984) Arabic-English Lexicon. Islamic Text Society, William & Norgate. Cambridge.
3. Tazkirah - Collection of the Revelations and Dreams of the Promised Messiah - HAZRAT MIRZA GHULAM AHMAD OF QADIAN (1969) Published by Al-Shirkatul Islamiyyah Ltd. p. 428

ایڈز کا وائرس
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے دنیا کے بعض حصوں میں ایک اور قسم کی طاعون کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی بھی فرمائی تھی جس کے بارہ میں1907ء میں جب ہندوستان میں طاعون کی وبا ختم ہو چکی تھی آپ کو ان الفاظ میں الہاماً بتایا گیا۔
’’یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہو گی۔‘‘1
’ایک قسم کی طاعون‘ کی اصطلاح سے کیا مراد ہے اور بالخصوص یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک ہی کیوںاس کا نشانہ بننے والے تھے؟ ایک حدیث میں جو ابن ماجہ کتاب الفتن میں مذکور ہے، آنحضرتﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریباً تیرہ سو سال قبل اس کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
لَمْ تَظْھَرِالْفَاحِشَۃُ فی قَومٍ قَطُّ حَتّٰی یُعْلِنُوا بِِھَا اِلَّا فَشَابِھِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِیْ اَسْلَافِھِمُ الَّذِیْنَ مَضَوا۔2
ترجمہ : کسی قوم میں کبھی اس قدر بدکاری نہیں پھیلی کہ وہ لوگ اسے اعلانیہ کرنے لگے مگر اس کے نتیجہ میں ان میں طاعون اور دیگر امراض پھیل گئے جو ان کے اسلاف میں نہیں تھے۔
لفظ ’فا حشہ‘ سے مراد ایسی جنسی آزادی ہے جو اشاعت فحشاء پر مشتمل ہو اور جس میں انتہائی بے حیائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ جنسی تعلقات کا کھلے بندوں اظہار کیا جائے۔ یہاں یہ امر مدّنظر رہے کہ محض جنسی آزادی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شدید عذاب نازل نہیں فرماتا بلکہ جب بے حیائی تمام حدود سے تجاوز کر جائے اور اس کو عمومی طور پر مقبول سماجی رویّہ کی حیثیت حاصل ہو جائے تو پھر ایسا معاشرہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے باعث بعض نئی جنسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں خصوصیت سے عصر حاضر کی گناہ آلود حالت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ جس قسم کی بے حیائی اور فحاشی کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس کی اشاعت آجکل دن رات ٹیلیویژن، اخبارات اور رسائل میں کھلے عام اس طرح کی جار ہی ہے جس کی اس سے پہلے انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ سزا لازماً جرم کے مطابق ہو۔ اس سزا کا تعلق دراصل بے دریغ اشاعت فحشا سے ہے۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں خاص طور پر یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک کا ذکر ہے۔ آنحضرتﷺ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کسی خاص ملک کے لوگوںیا مذہب کے پیروکاروں کا ذکر نہیں کرتی بلکہ محض جرم کی نوعیت تک محدود رہتے ہوئے جرم کے مطابق سزا کا ذکر کرتی ہے۔
دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر پڑھنے سے بات مکمل ہو جاتی ہے۔ عیسائی ممالک میں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حالت بعینہٖ اس بیان کے مطابق نظر آتی ہے۔ لیکن تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع افریقی ممالک اس قسم کی جنسی آزادی میں پیش پیش ہیں جبکہ جزائر غرب الہند اس معاملہ میں ان سے ذرا سا ہی پیچھے ہیں3۔ مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق افریقن عیسائی ممالک باقی تمام افریقی ممالک کی نسبت ایڈز سے زیادہ متاثر ہیں۔
اب صرف طاعون کی اس خاص قسم کی تعیین باقی رہ جاتی ہے جس کا پیشگوئیوں میں ذکر ہے۔ اس حوالہ سے یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ ایڈز ہی دراصل وہ سزا ہے جس کا ذکر پیشگوئیوں میں موجود ہے۔ ممتاز ڈاکٹر اسے وبا ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ طاعون کی طرح ایڈز بھی تیز بخار کے ساتھ بعض غدودوں کی سوزش کا باعث بنتی ہے۔ گلٹیوں والی (bubonic) طاعون کی طرح یہ بھی ایک بے رحم قاتل ہے تا ہم اس کی بعض منفرد خصوصیات ہیں جو گلٹیوں والی طاعون میں نہیں پائی جاتیں۔ ایڈز کا تعلق قطعی طور پر جنسی تعلقات سے ہے جبکہ طاعون میں ایسا نہیں ہے۔ دراصل یہ حد سے بڑھی ہوئی جنسی بے راہ روی کیلئے بطور سزا کے ہے۔
یاد رہے کہ مذہبی پیشگوئیوں کو ہمیشہ ظاہری معنوںپر محمول نہیں کرنا چاہئے۔ اس پیشگوئی میں خصوصیت سے یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ ہم ان علاقوں کو بآسانی شناخت کر سکیں جہاں اس نئی قسم کی طاعون کا کثرت سے پھیلنامقدر تھا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ محض یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں تک ہی محدودرہے گی۔
آنحضرتﷺ کی پیشگوئی واضح طور پر اس کے وسیع تر پھیلاؤ کے امکان کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اس میں بیماری کا تعلق ملکوں سے نہیں بلکہ ایک مخصوص اخلاقی جرم سے جوڑا گیا ہے۔ جہاں کہیں بھی یہ اخلاقی جرم پھیلے گا وہیں یہ سزا وارد ہو گی۔ لیکن یہ بیماری صرف انہی ممالک میں وبائی صورت اختیار کرے گی جو جنسی آزادی میں حدسے بڑھے ہوئے ہوں گے۔ قطعنظر اس کے کہ یہ کون سے ممالک ہیں یا ان کی آبادی زیادہ تر عیسائی ہے یا ہندو یا مسلمان، اس کا سبب ممالک یا مذاہب نہیں بلکہ اصل سبب بے محابا جنسی آزادی ہے۔ لہٰذا جہاںکہیں بھی وجہ موجود ہو گی وہیں نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
اس پیشگوئی میں دوسرے ممالک کو چھوڑ کر بالخصوص یورپ اور دیگر عیسائی ملکوں کے ذکر کی وجہ شاید یہ ہو کہ جنسی بے راہ روی کی روز افزوں قومی سطح پر اشاعت اور اسے ایک سماجی رویہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے دنیا میں کسی اور جگہ نہیں دیکھا گیا۔ مغربی ممالک کے علاوہ کسی اور جگہ ہم جنس پرستی کو قانونی تحفّظ نہیں دیا گیا اور نہ ہی عیسائیت کے علاوہ کسی اور مذہب میں ہم جنس پرستی کا ذکر ملتا ہے۔
یاد رہے کہ بظاہر تو یہ ممالک عیسائی کہلاتے ہیں لیکن حقیقت میں عیسائی اقدار سے بہت دور ہیں۔ جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے تو انہیں بھی اسلام کا صحیح محافظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس لئے اگر ہندو یا مسلمان ممالک میںبھی بطور سماجی رویہ کے جنسی بے راہ روی اور بے حیائی کی حرکات کا اظہار ہو تو بعید نہیں کہ وہ بھی اسی آفت کا نشانہ بن جائیں۔
ایڈز کی وبا دنیا کے تمام براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ شاید ہی کوئی ہو جو اس کے خطرات سے شناسا نہ ہو۔ تا ہم سادہ لوحی سے یہ سمجھ لینا درست نہیں ہو گا کہ اس بیماری کے تمام خطرناک پہلوؤں کا کامل علم ہو چکا ہے اور نہ ہی یہ خیال صحیح ہو گا کہ ایڈز نے جو کرنا تھا کر لیا۔ اب جلد ہی اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہ لوگ نادان ہیں جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد ہی سائنسی تحقیق ایڈز کے وائرس کے خلاف کوئی مؤثر تریاق تیار کر لے گی۔ ہم اس بارہ میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس ہمیں تو یہ خدشہ ہے کہ اس مہلک مرض کا بڑا حملہ ابھی باقی ہے۔ اس موقف کی تائید میں ہم جو دلیل پیش کرتے ہیں اس کا تعلق اس عمومی مماثلت سے ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت اولیٰ (حضرت عیسیٰ ؑ کی صورت میں) اور بعثت ثانیہ (یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکی صورت میں) کے مابین پائی جاتی ہے۔
یہاں پر پرانے اور نئے مسیح کے مابین پائی جانے والی مماثلت کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ تا ہم یہ بتانا ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخالفین کو سزادینے کیلئے طاعون کی وبا ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوئی تھی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کے بعد پہلی بار طاعون 65عیسوی میں ظاہر ہوئی۔ اسے اتفاق کہئے یا تقدیر، طاعون کی یہ وبا زیادہ تر انہی علاقوں میں پھیلی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام پہنچا اور اس کا انکار کیا گیا تھا۔ تقریباً ایک سو سال بعد یعنی 167عیسوی میں طاعون دوبارہ ظاہر ہوئی۔ اس دفعہ اس نے دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو تباہ و برباد کر دیا جو دو براعظموں یعنی ایشیائے کوچک سے روم تک نیز گال (فرانس) اور مصر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس وقت ان تمام ممالک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام پہنچ چکا تھا اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اسے رد کر دیا تھا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے چونکہ ان دونوں زمانوں میں باہمی مماثلت ہے اس لئے کچھ بعید نہیں کہ طاعون کی یہ نئی قسم اس صدی کے اختتام سے لے کر اگلی صدی کے آغاز تک اپنی انتہائی حدوں کو جا چھوئے۔ ہمارا یہ اندازہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پہلی بار جو طاعون پھوٹی تھی اس میں 1898ء سے 1904ء تک غیر معمولی شدت تھی۔ خداتعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس حد تک ان مشابہتوں کو تمام تر تفاصیل کے ساتھ دہرائے گا۔ بہرحال اس آفت کے سلسلہ میں ہمیں ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہنا چاہئے۔
ہماری دعا ہے کہ خداتعالیٰ بنی نوع انسان کو اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں اس عالمگیر تباہی سے محفوظ رکھے۔ اگر انسان اپنی اصلاح کر لے اور اسے سچی توبہ کی توفیق حاصل ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے عفو و درگزر کا سلوک فرمائے اور اسے گناہوں کے بداثرات سے بچا لیا جائے۔ لیکن افسوس کہ انسان کی توبہ اور اصلاح احوال ایک محال امر نظر آتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی اہل مذاہب میں سے ہے یا غیر مذہبی، مومن ہے یا دہریہ، جہاں تک انسان کی اخلاقی حالت کا تعلق ہے یوں لگتا ہے جیسے ساری دنیا گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہو۔ دیندار ہونے کے دعویدار بدقسمتی سے برائیوں میں بے دین لوگوں سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ خداتعالیٰ کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا اس لئے یہ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہو گا کہ سارے کا سارا زمانہ گھاٹے میں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کا آخری زمانہ کے لوگوں کے بارہ میں یہی ارشاد ہے:

(العصر4-2:103)
ترجمہ : زمانہ کی قسم۔ یقینا انسان ایک بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور حق پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور صبر پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
وہ چند خوش نصیب جو صبر کرتے اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں طوفان کا رخ موڑنے کیلئے مقابلۃً بہت تھوڑے ہیں۔ گھاس کا ایک تنکا یا کسی ننھی چڑیا کی چہچہاہٹ خزاں کی ویرانی کو بہار کی رنگینی میں تبدیل نہیں کر سکتی۔

حوالہ جات
1. Tazkirah (1969), Al-Shirkatul Islamiyyah Ltd., Rabwah. Urdu edition, p.705
2. Sunan Ibn-e-Majah. Kitabul-Fitan, Babul-`Ugoobat. Vol.11. Da`rul-Fikr Al-'Arabi, p.1333
3. UNAIDS and WHO (December 1996) HIV/AIDS: The Global Epidemic. UN web site.



باب ہفتم
مستقبل میں وحی و الہام
کیا غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوّت
تتمہ


مستقبل میں وحی و الہام
حیوانات، قدرت کی نعمتوں میں سے جو بھی میسر آ جائے اس پر گزر اوقات کر لیتے ہیں۔ وہ نہ تو اپنے ماضی کی یادوں میںکھوئے رہتے ہیں اور نہ ہی آئندہ کے متعلق سنہرے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس عالم حیوانات میں انسان کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ شاذ ہی وہ کبھی اپنے حال پر قانع ہوتا ہے۔ یا تو وہ ماضی کی یادوں میں کھویا رہتاہے یا پھر اس سہارے پر زندہ رہتا ہے کہ مستقبل میں اچھے دن آنے والے ہیں۔ اس کی ان امیدوں کا تعلق بالعموم اقتصادی، سیاسی یا مذہبی معاملات سے ہوتا ہے۔ ذیل میں ہم خصوصیت سے اس کی مذہبی امیدوں اور ارادوں کے حوالہ سے گفتگو کر یں گے۔
تمام بڑے مذاہب ایک عظیم الشان روحانی وجود کے ظہور کی خبر دیتے ہیں جو بنی نوع انسان کیلئے امید کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا اور انہیںایک آسمانی جھنڈے تلے جمع کر دے گا۔ یہ وہ ’ارض موعودہ‘ ہے جس تک تمام مذاہب ایک نہ ایک دن پہنچنے کی امید رکھتے ہیں اور بالآخر اپنی مرضی کے مطابق حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ جنت ارضی ہے جو تمام مذاہب کی مستقبل سے وابستہ توقعات کا مرکزی نقطہ ہے مگر افسوس! یہی نقطہ انتشار کا باعث بھی ہے۔ یعنی خوابوں میں تو اشتراک نظر آتا ہے مگر تعبیروں میں نہیں۔ اس عقیدہ پر تو سب متفق ہیں کہ نسل انسانی کے نجات دہندہ کے طور پر ایک آسمانی وجود یقینا ظاہر ہو گا لیکن جب اس وجود کی تعیین کا سوال اٹھتا ہے تو مذاہب کا باہمی اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ کرشن جی مہاراج ہوں گے یا یسوع مسیح۔ زرتشت ہوں گے یا گوتم بدھ یا پھر کنفیوشس یا تاؤ۔ ہر مذہب ایک مختلف نام اور منصب کے حامل وجود کے ظہور کی امید لگائے بیٹھا ہے اور ہر مذہب یہی توقع رکھتا ہے کہ آنے والے کا ظہور اسی سے مخصوص ہو گا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک نجات دہندہ کے ظہور کیلئے وہ دروازے جو پہلے کھلے نظر آتے تھے اب بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور ہر وہ قوم جو اپنے مذہب کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کو باطل سمجھتی ہے، اپنے مذہب کے علاوہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس کا اپنا دروازہ اوروں کو بھی بند دکھائی دیتا ہے۔ گویا پہلے تو سب مل کر ایک عالمگیر نجات دہندہ کی آمد کے گیت گا رہے تھے مگر جونہی اس نجات دہندہ کے تشخص کا سوال اٹھا ہر ایک نے اپنا اپنا الگ راگ الاپنا شروع کر دیا۔ بالفاظ دیگر اگر یہ موعود ان کی خود ساختہ تعبیروں کے مطابق ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ کسی اور کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ افسوس! یہی وہ انجام ہے جو ان لوگوں نے اپنی اپنی جگہ تراش رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب لوگ خداتعالیٰ کی رضا کی پرواہ نہیں کرتے تو خداتعالیٰ ان کی خواہشات کی کیوں پیروی کرے گا۔ تو پھر تو یہ لوگ اپنا مزعومہ منجّیاپنی نا معقول اور بے بنیاد امیدوں کے بل پر خود ہی تخلیق کرتے پھریں۔
عالمی سطح پر اس مذہبی تنازعہ کا جائزہ عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ ہر قسم کے دعاوی اور ان کی تردید میں تمام دلائل پیش کر چکنے کے بعد مختلف مذاہب کے حامیان کا اتفاق رائے صرف اس امر پر ہوتا ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ ایک دوسرے سے مباحثہ جاری رکھا جائے۔ ان میں سے ہر ایک صرف ایسے ہی مصلح کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے جو ان کے اپنے عقائد کا حامل اور انہی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔ ان کی باتیں بیکار، امیدیں بے سود اور ان کا منجی محض ایک تصوراتی وجود ہے۔ اگر ایسے منجی کا ظہور ہوا تو کیا وہ تمام مذاہب یا صرف ایک ہی مذہب کی توقعات پر پورا اترے گا؟ درحقیقت اس کا تعلق کس مذہب سے ہو گا جبکہ تمام مذاہب کے پیروکار امید کے چشمہ پر کھڑے یہ گیت گا رہے ہوں گے کہ اس منجی کو ہمارا بنا دے۔ ہمارا بنا دے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آنے والا ایک ہی وجود ہو گا یا بیک وقت مختلف وجود۔ خداتعالیٰ کی ذات میں تو کوئی تضاد نہیں اس لئے یا تو وہ ایک ہی شخص کو اپنا پیغام دے کر بھیجے گا یا پھر کسی کو بھی نہیں۔ اس صورت میں مختلف مذاہب کے باہم دست و گریبان فرقوں کا کیا بنے گاجن کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ اب ہم ان لوگوں کے طرز عمل میں پائے جانے والے بنیادی تضادات کا جائزہ لیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جس رنگ میں یہ لوگ اپنی امیدوں کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں وہ قطعی ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر یہودی مدتوں سے مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ وہ ہزاروں سال سے دیوار گریہ سے اپنا سر ٹکراتے چلے آ رہے ہیںاور مسیح کی جلد آمد کے لئے التجائیں کر رہے ہیں مگر انہیں یہ احساس تک نہیںہوا کہ وہ تو آ کر چلا بھی گیا۔ لیکن اس کا ظہور اس رنگ میں نہیں ہوا جیسے یہود اس کی توقع کر رہے تھے اور جس کو وہ اس کی آمد سے منسوب کئے بیٹھے تھے۔ تصور توکریں کہ وہ امید و بیم کی کس کیفیت سے دو چار ہوئے ہوں گے کہ جس دروازہ کو انہوں نے اپنے گمان میں کھول رکھا تھاوہ عملاً مقفل ہو چکا تھا۔ انہیں کیسی شدید مایوسی کا سامنا ہوا ہو گا۔ اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اپنے محبوب ترین مہمان کا منتظرہو مگر وہ کوئی روک نہ ہونے کے باوجود بھی نہ آئے۔ درحقیقت وہ تمام لوگ جو کسی روحانی وجود کی آمد کے منتظر ہیں اس کی آمد کے راستہ میں ناقابل عبور روکیں پیدا کرنے کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ بوجوہ وہ اس حقیقت سے بھی بیخبر ہیں کہ اگر ان لوگوں کو اتنا احساس ہی ہو جائے کہ ان کی خود ساختہ توقعات کبھی شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکتیں تو کم از کم اتنا فائدہ تو ہو کہ انہیں کچھ نہ کچھ قرار آ جائے جو لامحالہ مایوسی کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ رکاوٹیں امیدوں کو مسمار کر دیا کرتی ہیں اور اگر حقائق سے نظریں نہ چرائیں تو آتش شوق کے شعلے سرد پڑجاتے ہیں۔ لیکن ان حقائق سے نظریں چرانے والے اپنی بے چینی اور ناکامی کے خود ہی ذمہ دار ہوا کرتے ہیں۔ اپنی تمام تردانائی کے باوجود یہود کا اس سادہ سی حقیقت سے آنکھیں بند کر کے اپنے مسیح کی آمد کے انتظار پر اصرار اور ضد اس کی ایک واضح مثال ہے۔ مسیح اب کبھی نہیں آئے گا۔ چیخنے چلانے اور پتھر کی دیوار کے سائے تلے رونے دھونے کے علاوہ اب ان کے مقد ر میں کچھ بھی تو نہیں۔ وہ جس کا انہیں انتظار ہے کبھی نہیں آئے گا۔ کبھی نہیں آئے گا۔
لیکن دانائی اور نادانی کے اس عجیب امتزاج کے حامل صرف یہود ہی نہیںبلکہ دیگر اہل مذاہب کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھی یہود کی طرح آخری منجی کے منتظر ہیں۔ گویاڈرامہ تو وہی ہے البتہ اداکار بدلتے رہتے ہیں۔ یہود کی نجات کے لئے ایک مسیح کی سخت ضرورت تھی جو فی الحقیقت آبھی گیا لیکن یہ ان کا وہ خیالی مسیح نہیں تھا جس کا وہ انتظار کر رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اسے پہچاننے میںنا کام رہے۔ وہ تو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مسیح سر پر تاج سجائے تخت شاہی پر جلوہ گر ہو گا۔ نیز ان کا عقیدہ تھا کہ وہ ایک جنگجو مسیح ہو گا جو ظالم رومی سلطنت کے خلاف اسرائیلی فوجوں کی فاتحانہ شان سے قیادت کرے گا۔ یہود کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب پر دو ہزار سال گزرگئے لیکن ان کی توقعات پر پورا اترنے والا مسیح اب تک نازل نہیں ہوا۔ مرور زمانہ سے دنیا کا سیاسی جغرافیہ بھی بدل چکا ہے اور مسیح کی آمد کی پیشگوئی اپنی اہمیت بھی کھو چکی ہے اور اب تو یہودیہ یا فلسطین نام کی کوئی ریاست بھی رومی سلطنت کے تسلط میں نہیں رہی جس سے نجات دلانا مقصود تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ رومی سلطنت جو کسی زمانہ میں آدھی دنیا پر حاکم تھی اب تو وہ دنیا کے نقشہ سے ہی مٹ چکی ہے۔ بے شک نجات کا لفظ تو اب بھی ہم سنتے ہیں لیکن موجودہ دور میں تو اس سے ’’یہود کی نجات‘‘ کی بجائے ’’یہود سے نجات‘‘ مراد لی جاتی ہے۔
اگرچہ یہود کا یہ عقیدہ درست تھا کہ مسیحؑ کی پیدائش عام انسانوں کی طرح شکم مادر ہی سے ہو گی لیکن انہوں نے مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ ایسی مافوق الفطرت اور عجیب و غریب شرائط وابستہ کر رکھی تھیں جن کا پورا ہونا کسی طور ممکن نہ تھا۔ مثلاً یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیا کا آسمان سے جسمانی نزول ضروری ہے۔ دراصل یہی وہ عقیدہ تھا جو ان کے زعم میں مسیحؑ کی آمد کے رستہ میں روک بنا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کی آمد کی نسبت یہود کا عقیدہ دوسرے لفظوں میں مسیحؑ کی آمد کے انکار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
یہودیوں کے بعد اگر عیسائیوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں مذکورہ بالا صورت حال سے کچھ مختلف حالت دکھائی نہیں دیتی۔ ذرا عیسائیوں کے خیالی مسیح کو شان و شوکت کے ساتھ زمین پر دوبارہ اترتے ہوئے تصور کریں جیسا کہ وہ ظاہری معنوں میں اس کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ خدا کے بیٹے کا انسانی شکل میں زمین پر یوں شاہانہ انداز میں اترنے کے تخیّل کو ایک دیومالائی داستان ہی کہا جا سکتا ہے۔ چلو اتنا تو ہے کہ مسیحؑ کی آمد ثانی کی اب تک امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اور پھر اس کے طفیل ایک طرح کا اندھا اعتقاد ابھی زندہ ہے۔ اگر غیر جانبدارانہ نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس عقیدہ کی نا معقولیت اور کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ کوئی شخص جو عیسائی نہ بھی ہو اور مذہب میں دلچسپی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو کبھی اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ عقیدہ روح اور مادہ کے درمیان ایک نہایت ناقابل قبول اور بے تکے بندھن کا تصور پیش کرتا ہے۔ افسوس کہ عیسائیوں کو اس میں نامعقولیت کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا کیونکہ خوش اعتقادی نے انہیں اندھا کر رکھا ہے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی یہی غیر معقول صورتِ حال دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی غیرحقیقی اور مافوق الفطرت امیدوں پر بھی چسپاں ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ اوروں کے اعتقادات میں بظاہر نا معقولیت کا شائبہ بھی ان کی صحیح و غلط میں تمیز کی حس کو مجروح کر دیتا ہے لیکن ا نہیں اپنے اعتقادات کی نامعقولیت خواہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، ہرگز نظر نہیں آتی۔ اگر وہ خود کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھ سکتے تو انہیں اپنی آنکھوں کا بھینگا پن ضرور نظر آجاتا۔ اگر یہ لوگ عقل سے کام لیتے تو انہیں صاف نظر آ جاتا کہ کسی نبی یا دیوتا کا ایک بار زمین پر آ کر ظاہری معنوں میں جسمانی طور پردوبارہ آنا عقل اور منطق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ تاریخ ِعالم میں کبھی بھی، کہیں بھی نہ تو ایسا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہوناممکن ہے۔ کسی بھی مذہب کے بانی کو کبھی بھی جسمانی طور پر آسمان سے اترتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ ہمیشہ اس کا ظہور معمول کے مطابق معروف انسانی پیدائش کے طور پر ہی ہوا اور بلا استثنا ہر مذہب کے بانی نے جب بھی اپنے عقیدہ کو پیش فرمایا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے اپنے پیغام کی اشاعت اور بقا کیلئے سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ یہی ایک حقیقتِ مثبتہ ہے۔ ہر وہ عقیدہ جو اس حقیقت کے منافی ہو گا اس کی حیثیت محض فرضی اور تخیلاتی ہو گی۔ احیائے دین کے تمام ایسے وعدوں کو رد کرنا پڑے گا جو سرا سر عقل کے منافی ہیں اور نہ ہی مذاہب کی تاریخ میں خدا کی طرف سے کئے گئے اس قسم کے وعدوں کا کہیں ذکر ملتا ہے۔
مسلمانوں کا معاملہ اس عمومی قانون سے بظاہر مختلف معلوم ہوتا ہے لیکن قریب سے دیکھنے والے کومسلمانوں اور دو سروں کے نقطۂ نظر میں صرف ترتیب ہی بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مسلمان آنحضرتﷺ کو مطلق آخری نبی مانتے ہیں۔
ختم نبوت کی اصطلاح سے جمہور مسلمان یہی مراد لیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ بھی آپﷺ سے پہلے کے ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجسد عنصری آسمان سے نازل ہونے کے منتظر ہیں۔ کیا ان کی بعثت آنحضر تﷺ کی خاتمیت کے منافی نہیں ہو گی؟ یہی وہ سب سے اہم اور فیصلہ کن سوال ہے جس کا انہیں جواب دینا ہو گا۔ ان کے نزدیک اس بدیہی تضاد کا حل یہ ہے کہ اگرچہ نبی پیدا تو نہیں ہو سکتا البتہ نئی ضروریات کے پیش نظر کوئی سابقہ نبی واپس آ سکتا ہے۔ اس چال سے بظاہر وہ نبوت کے دروازہ کو بند کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن چور دروازہ سے حضرت مسیحؑ کو اندر لے آتے ہیں۔ اس دور کے مسلمان خواہ سنّی ہوں یا شیعہ، ختم نبوت کی اس تشریح پر متفق ہیں۔ ان سب کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیحؑ کی آمد ثانی نبی کے طور پر ہی ہو گی۔ اور اس کے ساتھ وہ آنحضرتﷺ کی مطلق خاتمیت کے بھی علمبردار ہیں۔
جب موعود امام مہدی کے ظہور کی بات ہوتی ہے تو ان کے عقیدہ میں پایا جانے والا تضاد اور بھی کھل کر نمایاں ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت امام مہدی کا مامور من اللہ ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اس پر ایمان لانا ہر مسلمان پر واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت امام مہدی کے اس منصب کے بارہ میں بعد میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا یہاں یہ مختصر ذکر صرف یہ امر واضح کرنے کیلئے کیا گیا ہے کہ امام مہدی کو اگرچہ نبی کا خطاب تو نہیں دیا گیا لیکن اس کا مرتبہ اپنے اندر نبوت کی تمام شرائط رکھتا ہے۔ اس کے بعد اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کب اور کس صورت میں ہو گی۔ آمد ثانی کے متعلق جماعت احمدیہ کا عقیدہ جمہور مسلمانوں کے عقیدہ سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن یہ آمد ثانی کس رنگ میں ہو گی؟ اس بارہ میں اختلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بعثت ظاہری ہوگی یا تمثیلی؟ کیا آنے والا وہی شخص ہو گا یا اس کی خوبیوں کا حامل کوئی دوسرا۔ کیا وہ اسلام قبول کرنے والا کوئی عیسائی نبی ہو گا یا ایسا مسلمان نبی جو مسیح کا مثیل ہو گا؟ اس کا باقی مذاہب کے ساتھ کس نوعیت کا تعلق ہو گا؟ یہ وہ پیچیدہ سوالات ہیں جن کا مکمل جواب دینا ضروری ہے۔
اس تعلق میں جماعت احمدیہ کا موقف ہی واحد معقول موقف ہے۔ جماعت احمدیہ اصولی طور پر تمام مذاہب کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتی ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عالمگیر ربانی مصلح ظاہر ہو گا۔ جب ہندو حضرت کرشن علیہ السلام کی آمد ثانی کی بات کرتے ہیں تو یہ دعویٰ اسی طرح تسلیم کئے جانے کے لائق ہے جیسے عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیحؑ دوبارہ آئیں گے۔ اسی طرح حضرت زرتشتؑ، حضرت بدھؑ یا حضرت کنفیوشس ؑ کے ماننے والوں کا یہ دعویٰ کہ موعود نجات دہندہ دوبارہ دنیا میں ظاہر ہو گا، بھی اسی طرح قابل احترام ہے۔ لیکن بظاہر یہ متضاد دعاوی صرف اسی صورت میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں جب انہیں ظاہر کی بجائے استعارہ پر محمول کیا جائے۔ چنانچہ اس صورت میں یہی منطقی استنباط ممکن ہے کہ موعود مصلح بہرحال ایک ہی شخص ہو گا جو سب کا مظہر ہو گا۔ ورنہ ان تمام پیشگوئیوں کا ظاہری طور پر پورا ہونا ناممکن ہے کیونکہ ان سب کے ساتھ مافوق الفطرت عنصر بھی شامل ہے۔ یہی وہ بات تھی جسے حضرت بانی جماعت احمدیہ نے دنیا کے سامنے ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر پیش کیا کہ اتنے سارے مصلحین کا بیک وقت ظہور صرف استعارہ کے رنگ میں ہو سکتا ہے نہ کہ ظاہری طور پر۔ چنانچہ آپ ؑکا بعینہٖ یہی دعویٰ تھا کہ امام مہدیؑ، عیسیٰ ؑ، بدھ ؑ، کرشن ؑ اور باقی تمام مصلحین جن کا انتظار کیا جا رہا تھا، کے دوبارہ ظہور کا وعدہ آپ ؑکے وجودِ باجود میں پورا ہوا ہے۔
اس دعویٰ پر غیروں کی طرف سے ہونے والے ردّعمل کو کچھ دیر کیلئے ایک طرف رکھتے ہیں اور مسلمان ملّاؤں کے ردّعمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ انہیں حضرت بدھ ؑ، حضرت کرشن ؑ یا کسی دوسرے کی آمد ِ ثانی سے جنہیں وہ سرے سے مانتے ہی نہ تھے، کوئی غرض نہیں تھی سوائے اسرائیلی نبی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے۔ انہیں یہ دعویٰ ہضم نہیں ہو رہا کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ ؑ کا ظل یا بروز ہو۔ کیونکہ ان کے خیالی مسیح کی وفات کا اعلان ہی ان کے نزدیک سخت کفر ہے اور مثیل مسیح کی مسلمانوں میں سے ہی آمد کے تصور سے انہیں ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ یاد رہے کہ برطانوی ہند میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کی شہرت ان کے دعویٰ سے پہلے آپ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کی وجہ سے خوب پھیل چکی تھی۔ آپ کی ا س کتاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرقہ اہل حدیث کے نامور عالم مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد آج تک اسلام کے دفاع میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کے مصنّف سے بڑھ کر خدمت کی توفیق کسی کو نصیب نہیں ہوئی1۔ مقبولیت کے اس دور میں جب آپ ؑ نے اچانک یہ اعلان فرمایا کہ اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود نہیں بلکہ وفات پا چکے ہیں تو صورت حال ڈرامائی طورپر یکدم تبدیل ہو گئی۔ وہی علماء جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تعریف میں رطب اللسان تھے، یکسر بدل گئے۔ ان کے نزدیک ان کے آقا اور مستقبل کے نجات دہندہ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے بالمقابل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی حیثیت ہی کیا تھی۔ پس راتوں رات آپ کی شہرت آسمان سے زمین پر آ رہی۔ ان کے زعم میں اب ضروری ہو گیا تھا کہ مسیح کی آسمان پر بجسد عنصری موجودگی کے تصور کو بحال کیا جائے۔ اور مثیل مسیح ہونے کے دعویدار کو تو قتل کر دینا چاہئے تھا۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ؑؑ کے دعویٰ نے جو ہلچل مچائی ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپؑ کے خلاف سبّ و شتم اور دشنام دہی کا بازار گرم ہو گیا۔ جو کل تک ہندوستان کے افق پرابھرتا ہوا درخشاں ستارہ اورمسلمانوں کی امیدوں کا مرکز اور اسلام کا محبوب ترین رہنما تھا، اب ان کے نزدیک گردن زدنی ٹھہرا دیا گیا یہاںتک کہ اب وہ ایک عام مسلمان کہلانے کا بھی مستحق نہ رہا۔ مگر یہ مخالفت اسے مرعوب نہ کر سکی اور نہ ہی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے باز رکھ سکی۔
عیسائی بھی معاندانہ رویہ میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ انہوں نے بھی آپ ؑاور آپ ؑکے مشن کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا حتٰی کہ برطانوی ہند کی عدالتوں میں آپؑ کے خلاف قتل کے جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے۔ لیکن نہ تو آپؑ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش آئی اور نہ ہی آپ ؑمرعوب ہوئے۔
صرف یہی نہیں بلکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے حضرت کرشن ؑ کے مظہر ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا جو ہندوستان کے ایک عظیم نبی تھے اور جنہیں ہندو خدائی کا درجہ دیتے ہیں۔ آپؑ نے آریہ سماج کو جو ہندوؤں میں سب سے زیادہ فعّال اور سرگرم فرقہ تھا اپنا دشمن بنا لیا کیونکہ آپؑ نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات با برکات پر ان کے ظالمانہ حملوں کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپؑ نے ان کے رہنماؤں کو مباہلہ کی دعوت دی تا کہ جھوٹے پر خدا کا عذاب نازل ہو۔
مختصر یہ کہ آپؑ نے دعویٰ کیا کہ آخری زمانہ میں آنے والے تمام مصلحین کی پیشگوئیوں کا مصداق صرف ایک ہی شخص ہے۔ مختلف صحیفوں میں مذکورناموں اور خطابوں کے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ یہ مصلح براہ راست خدا کی طرف سے مبعوث ہو۔ تعصّب کے مارے ہوئے ان لوگوں کے نزدیک آپؑ کی اور آپؑ کے دعویٰ کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ زیادہ تریہی لوگ تھے جنہوں نے آپؑ کے انکار میں اس قدر ہٹ دھرمی دکھائی۔ خداتعالیٰ کے فرستادوں کی طرح آپؑ کی بھی تکذیب کی گئی اور انہی کی طرح آپؑ کو بھی خدا کی تائیدو نصرت حاصل ہوئی جیسا کہ وہ ہمیشہ سے کرتا چلا آیا ہے۔
تعجب ہے لوگ کیسے بھول جاتے ہیں کہ خداتعالیٰ اپنے انبیاء کے ساتھ ہمیشہ ایک جیسا سلوک فرماتا ہے اور انبیاء کرام بھی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ آنے والا عالمگیر مصلح بھی صرف اور صرف خداتعالیٰ ہی کا نمائندہ ہو نہ کہ ان مختلف مذہبی فرقوں کا جو اب خداتعالیٰ کے نمائندے نہیں رہے اور جو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آنے والا مصلح ان کے مسخ شدہ عقائد ہی کی تائید کرے گا۔ مصلحین کا تعلق تو اللہ تعالیٰ کے سب بندوں سے ہوتا ہے نہ کہ خلق خدا کے خود ساختہ آقاؤں سے۔
توحید اور رسالت ہر مذہب کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ نام اور خطاب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مدعی کا خداتعالیٰ کی طرف سے ہونا ضروری ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑنے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ایک نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں متعدد ناموں اور خطابات کی حامل شخصیات بن گئے ہیں۔ لیکن اکثر ملّاؤں نے تجاہل ِعارفانہ سے کام لیتے ہوئے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی اور عوام الناس کو یہ کہہ کر اشتعال دلایا کہ مرزا صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ تمام موعود انبیاء ایک ہی وقت میں جسمانی طور پر آپؑ کے وجود میں جمع ہو گئے ہیں۔ اس پر عوام کو سخت صدمہ پہنچا کہ آخر ایک ہی شخص بیک وقت کرشن، بدھ، عیسیٰ اور مہدی کیسے ہو سکتا ہے؟ ان میں سے بعض نے تو حقارت سے کہہ دیا کہ مدعی تو یقینا مجنون معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؑ کے ساتھ جوسلوک کیا گیا وہ اسی سلوک کی یاد دلاتا ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ آنحضرتﷺ کے ساتھ روا رکھا گیا تھا جب آپﷺ نے توحید خالص کا علم بلند کیا۔ اس وقت کی مشرک ملائیت نے دانستہ طور پر اس پیغام کو مسخ کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کیا اور لوگوں کو یقین دلا دیا کہ آپﷺ نے چالاکی سے ہمارے متفرق خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک خدا بنا دیا ہے اور اس کا نام اللہ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے:

(صٓ 6:38)
ترجمہ: کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔ یقینا یہ (بات) تو سخت عجیب و غریب ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اپنے مخالفین سے بحث کے دوران جس دانش و دانا ئی سے کام لیا، ایک غیر متعصب محقق کیلئے اسے سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ آپؑ کا موقف ہمیشہ معقولیت پر مبنی ہوتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپؑ کے عقائد اور خیالات اسی معقولیت کی کسوٹی پر بآسانی غلط ثابت کئے جا سکتے تھے۔
اگر حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ غلط ہوتا تو چاہئے تھا کہ ہر مذہب میں الگ نام اور خطاب کا حامل مصلح آتا۔ اس صورت میں دعویٰ اور جواب دعویٰ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا اور ان میں سے ہر ایک کا یہی دعویٰ ہوتا کہ صرف وہی موعود مصلح کا حقیقی مظہر ہے اور ہر ایک بنی نوع انسان کو یہ کہہ کر بلاتا کہ فقط میں ہی تمہارا نجات دہندہ ہوں۔ اسی طرح ہر ایک یہ اعلان کرتاکہ دوسرے تمام مدّعی جھوٹے اور کذّاب ہیں۔ اس منظر کا پاگل پن ظاہر و باہر ہے اور ذرہ بھر بھی فہم و فراست رکھنے والا شخص کسی ایسے خدا پر ہرگز ایمان نہیں لا سکتا جو اپنے نام پر اور اپنے حکم سے بنی نوع انسان کو سینکڑوں متحارب گروہوں میں تقسیم کر دے۔
یہ کیسا خدا ہو گا جو حضرت عیسیٰ ؑ کو عیسائی دنیا میں مبعوث کرے تا کہ وہ تثلیث یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس کے نام پر ساری دنیا کو فتح کرنے کا اعلان کرے اور جب یہ ہو چکے تو وہ حضرت کرشن ؑ کے روپ میں سر زمین ہند میں ظاہر ہو جائے اور ہندوستانی لوگوں کو یقین دلا دے کہ خدا نہ تو ایک ہے، نہ دو، نہ تین بلکہ وہ خود خداؤں کا ایک ایسا جم غفیر ہے جس کی شخصیات اور مظاہر کا شمار ممکن نہیں۔ اور اسی کو درختوں، سانپوں، بچھوؤں، ہاتھیوں اور بہرہ کر دینے والی آسمانی بجلی کی کڑک کے روپ میں پوجا جائے۔ اسی طرح رات کے گہرے سکوت میں تیرتے ہوئے چاند کی پوجا کی جائے۔ نیز سورج بھی وہ خود ہے اور ان گنت ستارے بھی اسی کی مختلف صورتیں ہیں۔ زمین پر اسے گائیوں، بندروں، ریچھوں، لگڑبگڑوں، شیروں، گھوڑوں، گدھوں اور خشکی و تری نیز فضا میں موجود جانداروں کی بیشمار صورتوں میںصاف پہچانا جائے۔ نیز بدروحوں اور تصوراتی جنوں، بھوتوں کو اسی کی مختلف شکلیں جان کر اس کی پرستش کی جائے اور ببانگ بلند اعلان کرے کہ میری طرف دوڑ کر آؤ اورــــ ’’ہماری‘‘ عبادت کرو۔
پیشتر اس کے کہ اس کی آواز اس کے عبادت گزاروں کی ’اے کرشنا،ہرے رام،ہرے رام‘ کی دعاؤںکے شور میں ڈوب جائے بدھ کی آواز بلند ہو گی جو حضرت کرشنؑ کے ان جملہ اوتاروں کے وجود کا سرے سے انکار کر دے گی اور بقول ان کے ماننے والوں کے حضرت بدھؑ توبآواز بلند ہستی ٔباری تعالیٰ کے تصور ہی کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے جس کے مطابق حضرت کرشنؑ نے بطور خدا بے شمار شکلیں اختیار کر رکھی ہیں اور بآواز بلند اعلان کریں گے کہ میں بدھ ہوں۔ نہ تو میں خدا ہوںاور نہ ہی میرے سوا کوئی اور خدا ہے۔ فقط میں ہی انسانی عقل و دانش کی انتہا اور کمال ہوں۔ اس جہان میں تمہارے لئے یہی جاننا کافی ہے۔ آؤ تمام خداؤں کا انکار کر کے انسان کی خودتراشیدہ خرافات سے نجات کا جشن منائیں۔ میں نجات دلانے کیلئے ایک بار پھر دنیا میں آیا ہوں جیسا کہ ہر ہزار سال کے بعد میرا ظہور ہوتا رہا ہے اور اب میرے سوا کوئی نہیں جو مجھ سے بہتر تمہاری رہنمائی کر سکے۔
لیکن قبل اس کے کہ وہ ایک ہمہ گیر سناٹے میں ڈوب کر اپنے اندرونی خلا کے ازلی ابدی عدم میں واپس چلا جائے ایک اور آواز ہمسایہ ملک ایران سے بلند ہو گی۔ یہ آواز روشنی کے خدا اہورامزدا (Ahura Mazda)کی ہو گی جو حضرت زرتشتؑ کی زبان پر جاری ہو گی اور کہے گی کہ اے بھارت، تبت اور چین کے سپوتو! جو آواز تم نے ابھی سنی یہ ظلمات کے خدا اہرمن کی آواز تھی جو میرے ساتھ خدائی میں شریک ہے اور یہ وہی ہو سکتا ہے کیونکہ میرے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ اے بنی آدم! غور سے سنو کہ خدا نہ ایک ہے، نہ تین، چار یا پانچ۔ بے شمار خداؤں پر یقین رکھنا سراسر حماقت ہے۔ ہم نہ تو ایک ہیں نہ کئی بلکہ صرف دو ہیں اور باقی سب قصیّ ہیں۔ میں نیکی کا خدا ہوں اور وہ بدی کا۔ یہ صرف وہی ہو سکتا ہے جس کی آواز تم نے بدھ کے روپ میں اس سے پہلے سنی۔ وہ ظلمت کا خدا ہے جبکہ میں روشنی کا خدا ہوں۔ وہ ہمیشہ میرا انکار کرتا اور مجھے جھٹلاتا آیا ہے اور میرے بندوں کو میری عبادت سے روکتا ہے۔ وہ بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ وہ ہر انسان کی ’انا‘ پر مسلّط ہوتا ہے اور اس ’انا‘ کے نام پر حاصل شدہ خراجِ تحسین کا خود کو حقدار سمجھنے لگتا ہے۔ بایں ہمہ میں مانتا ہوں کہ اس کے باوجود بھی وہ خدا ہے مگر تاریک ترین رات کی طرح۔ پس تم صبر کرو لیکن اس سے ہوشیار رہو اور عبادت صرف میری کرو۔
مذکورہ بالا متحارب مذہبی گروہوں کی وجہ سے برپا ہنگامہ کے دوران اسلامی دنیا بھی امام مہدی کے آتے ہی متحرک ہو جائے گی۔ اور اگر وہ بقول جمہور علماء اتنا ہی خونی ہو گا تو پھر تو وہ تلوار لہراتا ہوا آئے گا اور دنیا کی تمام غیر اسلامی حکومتوں کے خلاف جہاد یعنی قتال کا اعلان کر دے گا۔
مذہبی جنون کے اس طوفان میں بالآخر مذہب ہی مورد الزام ٹھہرے گا۔ نا معقولیت اور پاگل پن کے اس اکھاڑے سے معقولیت خدا سے یہ فریاد کرتے ہوئے رخصت ہو گی کہ خدایا! مذہب کو ان خود ساختہ نجات دہندوں سے نجات دلا۔ جب تک تو اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے خود کوئی فوری اقدام نہیں فرمائے گا ہندو، عیسائی،زرتشتی، یہودی اور مسلمان یکساں طور پر اسی مصیبت میں گرفتار رہیں گے۔
کوئی معقول آدمی الٰہی ارادوں کی اس نامعقول اور لغو تشریح کی ایک لمحہ کیلئے بھی تائید نہیں کر سکتا۔ مذہبی پیشگوئیوں اور تمثیلات کی تشریح کیلئے عقل سلیم کا استعمال ضروری ہے۔ وحدتِانسانی کے سنہری دور کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خداتعالیٰ کے ایک منتخب مذہب میں اس کا بھیجا ہوا ایک فرد واحد مصلح کے طور پر ظاہر نہ ہو۔ اس آخری زمانہ میں مذہبی دنیا کو درپیش مسائل کا واحد حل یہی ہے جسے انہی لوگوں نے رد کر دیا ہے جنہیں اپنی بقا کیلئے اس کی ضرورت ہے۔ اس کی بجائے وہ اپنے مزعومہ سنہری دور کے اس کھوکھلے تصور کے ساتھ چمٹے رہنے پر مصر ہیں جس کی ایک سراب سے زیادہ حیثیت نہیں۔
مذکورہ بالا منظر ہر مذہب کے اندر موجود تناقضات کو واضح کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ کیونکہ بالآ خر اسی سے بنی نوع انسان کی نجات وابستہ ہے۔ مگر وہ امید کے دروازے کھول کر خود ہی انہیں بند بھی کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں کا معاملہ صرف زمانی ترتیب کی حد تک ہی مختلف ہے۔ وہ آنحضرتﷺ کی مطلق خاتمیت کے عقیدہ کی بنیاد پر ان دروازوں کو پہلے بند کرلیتے ہیں اور پھر فوراً انہیں دوبارہ کھولتے بھی جاتے ہیں۔ مگر ان کے موقف میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیںآتی۔ چنانچہ عام اسلامی دنیا کی سٹیج پر جاری ڈرامہ باقی دنیا کی مذہبی سٹیج پر کھیلے جانے والے ڈراموں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ کی مطلق خاتمیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ وہ اسی اشتیاق اور جوش و جذبہ کے سا تھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود سے بھی چمٹے ہوئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ آئیں گے اور آنحضرتﷺ کے بعد آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان کی آمد کا جو اسلوب تجویز کرتے ہیں وہ اس آمد کو یکسر ناممکن بنا دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر پرنالہ وہیں رہتا ہے جہاں پر تھا۔
خاتمیت کی حکمت
کسی نبی کا آخری نبی ہونا یا تو اس کے پیغام یا پھر اس کے مقام کے حوالہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے مقام اور
پیغام کے اعتبار سے تو آخری ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے کم درجہ والا کوئی دوسرا نبی اس کی مہرِ ختمیّت توڑے بغیر مبعوث ہو جائے۔ اب ہم نبوت کے اسی پہلو کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
قرآنی شریعت اور آنحضرتﷺ جن پریہ شریعت نازل ہوئی کی خاتمیت پر تمام مسلمانوں کا پختہ ایمان ہے۔ قرآن کریم جو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے قیامت تک انسانی دست بردسے الٰہی حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے جیسا کہ مسلمانوں کا ایمان ہے تو ایسی شریعت کے حامل کو لازماً آخری تشریعی نبی ماننا پڑے گا اور بلا استثناء تمام مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن غیرمسلموں کے نقطۂ نظر سے اس بات کو سمجھنا مشکل ہے کہ کس طرح کوئی کتاب بدلتے ہوئے حالات کے باوجود تمام ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ اور اگرقرآن کریم کے عا لمگیر ہونے کے دعویٰ کو بھی مان لیا جائے تو ایک غیر مسلم کے نزدیک یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس بات کی کیا منطقی توجیہہ ہو سکتی ہے کہ ایک الہامی کتاب بیک وقت تمام بنی نوع انسان کے جملہ مسائل کا حل پیش کر سکے۔ دنیا میں یورپی، امریکی، افریقی، عرب، روسی، اسرائیلی اور ایشیائی اقوام موجود ہیں جو اپنے اپنے لسانی پس منظر اور لوک ثقافت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پھر ان کی سیاسی اور سماجی روایات میں اتنا فرق ہے کہ یہ تصور انتہائی مشکل ہے کہ ایک ہی مذہبی شریعت ان سب کو منصفانہ طور پر مطمئن کر سکے۔
ان دونوں سوالات کے جواب میں قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی تمام تعلیمات کی بنیاد انسانی فطرت پر ہے جو زمانی لحاظ سے غیر مبّدل اور تمام انسانوں میں مشترک ہے۔ جو تعلیم بھی فطرت انسانی کے مطابق ہو غیر مبدّل ہوگی۔ چنانچہ قرآن کریم اسی اصول کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(الروم 31:30)
ترجمہ: پس (اللہ کی طرف) ہمیشہ مائل رہتے ہوئے اپنی توجہ دین پر مرکوز رکھ۔ یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ قائم رکھنے اور قائم رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
بلا شبہ خدا کی تخلیق کردہ فطرت تبدیل نہیں کی جا سکتی حتیٰ کہ ایک دہریہ کو بھی تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ انسانی فطرت ازل سے ہی غیر مبدّل ہے۔ مگر شریعت کی کوئی کتاب جو اس غیرمبدّل فطرت کے مطابق تو ہو، انسانی دست برد کی وجہ سے تحریف کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اس خدشہ کے پیش نظر یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ کتاب مکمل طور پر محفوظ ہے۔

(الحجر10:15)
ترجمہ: یقینا ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
تاریخ نے اس دعویٰ کو درست ثابت کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ نبی جس پر یہ شریعت نازل ہوئی ہے، اسے لازماً آخری نبی ماننا پڑے گا اور یہ ایک معقول دعویٰ ہے۔ مگر جب یہ کہا جائے کہ کوئی غیر تشریعی نبی بھی نہیں آ سکتا تو یہ بغیر کسی عقلی جواز کے خاتمیت کے غلط معنی کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیش نظر رہے کہ جونہی آپ حضرت عیسیٰ ؑ کو خاتمیت کے اس قاعدہ سے مستثنیٰ قرار دیں گے (جیسا کہ آپ کا موقف ہے) اسی لمحہ آپ مطلق خاتمیت کے اپنے ہی دعویٰ کی تردید کے مرتکب بھی ہو جائیں گے۔
جب ان لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا جائے تو وہ یوں بے پروائی ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے کوئی مسئلہ موجود ہی نہ ہو۔
دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر آنحضرتﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بطور نبی مبعوث ہونا مطلق خاتمیت کے منافی نہیں۔
٭ حضرت عیسٰیؑ کو انبیاء کی اس جماعت میں سے واپس لایا جائے گا جو آنحضرتﷺ سے پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ چنانچہ یوں آپﷺ کی مہر ختمیت نہیں ٹوٹے گی۔ مہرختمیت تو صرف اسی صورت میںٹوٹ سکتی ہے کہ اگر خداآپﷺ کے بعد ایک نبی مبعوث کرے خواہ وہ صاحب شریعت نہ بھی ہو اور بیشک آپﷺ ہی کی امت کا ایک فرد ہو۔
٭ حضرت عیسٰیؑ کی نبوت وہی ہو گی جو انہیں اسلام سے پہلے ملی تھی۔ لیکن چونکہ بعثت ثانیہ میں وہ آنحضرتﷺ کے ماتحت ہوں گے اس لئے ان کی حیثیت ایک آزاد نبی کی نہیں ہو گی۔
پس چونکہ حضرت عیسیٰ ؑ پرانے نبی ہیں اور اپنی آمد ثانی میں آنحضرتﷺ کے ماتحت ہوں گے اس لئے ان کی آمد سے مہر ختمیت نہیں ٹوٹتی۔ اس طرح ان کے نزدیک خاتمیت کا صرف یہ مطلب ہوا کہ نیا نبی مبعوث نہیں ہو سکتا البتہ سابقہ انبیاء کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ ایک نہایت احمقانہ عقیدہ ہے۔ یہ کیسا صاحبِ حکمت خدا ہے جو کسی کے حق میں مکمل خاتمیت کا حکم اس علم کے باوجود صادر کرے گا کہ اس کے بعد بھی کسی نبی کی ضرورت باقی رہے گی۔ نئے اور پرانے کا سوال غیر متعلق ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا نبی کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
آخری نبی کے بعد کسی اور نبی کے ظہور کا عقیدہ اپنی ذات میں ایک تضاد رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں علماء ہمیشہ دلیل توڑ موڑ کر یوں پیش کرتے ہیں کہ آخری نبی کے بعد اگرچہ نبی کی ضرورت تو پڑ سکتی ہے تا ہم آخری نبی کی خاتمیت پر اس صورت میں کوئی حرف نہیں آتا اگر اس ضرورت کوکسی پرانے نبی سے پورا کر لیا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ چالاکی اور دھوکہ دہی کی ایک کھلی کھلی کوشش ہے۔ پرانے اور نئے کی تفریق صرف مسئلہ کو الجھانے کی ایک بچگانہ حرکت ہے۔ اگر حضرت مسیح ناصری ؑ دوبارہ آکر آنحضرتﷺ کے ماتحت ہوں بھی تو بھی ان کی اپنی نبی کی حیثیت تو بہرحال قائم رہے گی۔ اس لئے کیا یہ ہزاردرجہ بہتر نہ ہو گا کہ نئے تقاضوں کو پورا کر نے کے لئے گزشتہ امتوں میں سے کسی پرانے نبی کو واپس بلانے کی بجائے اسی مقصد کے حصول کیلئے امت مسلّمہ میں سے ہی کوئی شخص بطور نبی کے مبعوث ہو۔ کیونکہ اگر اوّل الذّکر پرانے نبی کے آنے سے مہر ختمیت نہیں ٹوٹتی تو مؤخر الذکر کے آنے سے کیسے ٹوٹ جائے گی۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام
اب ہم کچھ دیر کیلئے مسیحؑ کی آمد ثانی کے مسئلہ سے اپنی توجہ ہٹا کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے
مقام اور منصب کا جائزہ لیتے ہیں۔
آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آخری زمانہ میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کے ظہور کا ذکر نہیں ملتابلکہ ’المہدی‘ کے نام سے ایک اور مصلح کا بار بار ذکر ملتا ہے جس کا مطلب ’ہدایت یافتہ‘ ہے۔ اکثر احادیث عیسیٰ (مسیح) اور مہدی کو دو الگ الگ شخصیات کے طور پر پیش کرتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں ایک واضح اور اہم استثناء بھی ہے۔ چنانچہ ابن ماجہ جو صحاح ستہّ میں شامل ہے، سے بڑا قوی اور واضح تاثر ملتا ہے کہ یہ دونوں یعنی عیسیٰ ؑ اور مہدیؑ دراصل ایک ہی وجود کے دو مختلف نام ہیں۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں۔
لا المھدی الا عیسی ابن مریم
یعنی عیسیٰ بن مریم ؑ کے علاوہ کوئی اور مہدی نہیں۔ 2
اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ مہدیٔ موعود کو ہی عیسیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ تا ہم اکثر احادیث کے مطابق مہدی امت محمدیہ میں سے ہی پید اہوگا تو پھر وہ عیسیٰ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ نے تو ان کے یعنی مہدی کے بعد آسمان سے اترنا ہے؟ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ عیسیٰ کے لفظ کو تمثیلی رنگ میں ایک خطاب قرار دیا جائے جس کا حامل امام مہدی ہو اور کوئی علیحدہ عیسیٰ آسمان سے نازل نہ ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ میں پیدا ہونے والا مہدی ہی دراصل عیسیٰ بھی ہو گا۔ یہ بات امام مہدی کے حقیقی مقام کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ جیسا کہ ذیل میں وضاحت کی جائے گی کہ اس کا مقام ایک امتی نبی کا ہی ہو گا اگرچہ جمہور علماء ایسا نہیں سمجھتے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے معاملہ میں تو وہ بے دھڑک ہو کر مذکورہ بالا توجیہات پیش کر کے انہیں نبی مان لیتے ہیں لیکن مہدی کے تعلق میں وہ اس لئے ایسا نہیں کر سکتے کہ کہیں ان کا یہ اقرار ان کے خاتمیت کے فلسفہ سے متصادم نہ ہو جائے۔
مہدی کے متعلق ان کی سوچ بالکل مختلف ہے۔ ان کے نزدیک وہ ایک بے تاج نبی ہو گا جس کو اگرچہ نبی کا نام تو نہیں دیا جائے گا لیکن وہ تمام صفاتِ نبوت کا حامل ہو گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی آدمی کو آدمی کہہ کر نہ پکارا جائے حالانکہ کسی اور نام سے پکارنے سے اسے مقام آدمیت سے تو نہیں گرایا جا سکتا۔ علماء کو معلوم ہونا چاہئے کہ مہدی کا مقام تو اس کی صفات سے ہی متعین ہوگا اور اپنے کاموں کے اعتبار سے عملاً وہ نبی ہی ہو گا۔ اگر کسی شخص میں نبی کی علامات موجود ہوں تو پھر آپ اسے خواہ کسی بھی نام سے پکاریں وہ بہرحال نبی ہی رہے گا۔ جسے براہ راست خدا کی طرف سے مامور کیا گیا ہو، اس کا انکار دراصل خداتعالیٰ کے انکار کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ حضرت امام مہدی کو امتی نبی نہ ماننے والا حقیقی مومن کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ اس بات کو تو کٹّر علماء بھی تسلیم کرتے ہیںکہ حضرت امام مہدی پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس طرح امام مہدی کو وہ تمام اختیار ات حاصل ہوں گے جو صرف اور صرف انبیاء کا خاصہ ہیں۔ امام مہدی کے حقیقی مقام کا انکار کرنے سے وہ اپنے مقام سے کسی طرح بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ انکار کرنے والوں کے متضاد عقائد کے تضاد میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
غیر تشریعی نبی اور الہام
اسلام میں نبی کو وہ بلند ترین مقام حاصل ہے جس پر اللہتعالیٰ کسی انسان کو فائز فرماتا ہے اور نبی صرف پیشگوئیاں
ہی نہیں کرتا بلکہ اسے خاص طور پر خداتعالیٰ کی طرف سے یہ منصب عطا ہوتا ہے۔ ہر مصلح کیلئے نبی ہونا ضروری نہیں لیکن اللہ تعالیٰ ہر نبی کو لازماً بطور ایک مصلح کے مبعوث فرماتا ہے۔ الہام فی ذاتہٖ کسی کو نبی نہیں بنا دیتا حتیٰ کہ الہام تو غیر نبی کو بھی ہو سکتا ہے اور اسے خداتعالیٰ کے ساتھ مکالمہ مخاطبہ سے مشرف فرمایا جا سکتا ہے۔
الہام کی اصطلاح اپنے اندر بہت وسعت رکھتی ہے اور اس کے بہت سے معانی اور مفاہیم ہیں۔ مثلاً خواب، کشف، وجدان اور کلام الٰہی وغیرہ۔ چنانچہ الہام کی اس حیثیت کا قرونِ وسطیٰ کے اکثر علماء نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اختلاف اگر ہے تو صرف نبوت کے متعلق ہے اور الہام کے اسی مخصوص پہلو کا اس وقت جائزہ لینا مقصود ہے۔
اس پس منظر میں تشریعی انبیاء کے سلسلہ کے اختتام کی حکمت کو ہر کس و ناکس بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن جس سوال کے تفصیلی جائزہ کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ غیرتشریعی نبی کی آمد کو بھی ناممکنات میں سے قرار دے دیا جائے اور سلسلۂ نبوت کو اچانک اور بند کر دیا جائے۔
تاریخ مذاہب سے قطعی طورپر یہ ثابت ہے کہ ہر نبی کیلئے نئی شریعت لانا ضروری نہیں تھا۔ چنانچہ ان میں سے حضر ت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت لوط اور حضرت یسعیاہ علیہم السلام کی طرح کے کئی ایسے انبیاء ہیں جو اگرچہ نئی شریعت تو نہیں لائے تھے پھر بھی پہلے آنے والے انبیاء کی طرح یہ انبیاء بھی خداتعالیٰ کی طرف سے روحانی امام اور مصلح کے طور پر مبعوث فرمائے گئے تھے۔





حوالہ جات
1. BATALVI, MAULAWI MUHAMMAD HUSSAIN, Isha `at-us-Sunnah (June/July/Aug, 1884) No.6. Vol.7. p.169
2. Sunan Ibn-e-Majah. Kitabul-Fitan. Babo Shiddatiz-Zaman

کیا غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے؟
مسلم علماء اور مفکّرین کی طرف سے غیر تشریعی نبوت کے بند ہو جانے کے عقیدہ کو عقلاً ثابت کرنے کی دو بڑی کوششیں کی گئی ہیں۔ پہلی کوشش کا تعلق کسی بھی نئے معلّم کی ضرورت سے ہے۔ اس کی دلیل ان کے نزدیک یہ ہے کہ ہادیٔ کامل اور مکمل کتاب کے بعد کسی اور مصلح کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ ایک مکمل کتاب اور ہادیٔ کامل کے بعد کبھی بھی اخلاقی اور روحانی انحطاط نہیں ہو گا تو لازماً کسی اور نبی کے آنے کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔ لیکن افسوس کہ اس نظریہ کو نہ تو دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخی شواہد سے۔
یہ نظریہ اس لئے بھی ناقابل تسلیم ہے کہ انبیاء صرف شریعت ہی نہیں لاتے بلکہ نبوت تو بہت سے فضائل کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ کسی تشریعی نبی کے وصال کے بعد اس کی کتاب یا سنّت نبوت کی قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد مسلمانوں کی حالت سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے ہے اور مسلسل انحطاط پذیر مسلم معاشرہ اس امر کا کافی ثبوت ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ ؓ کی بلند اور ارفع اخلاقی حالت سے عصرِ حاضر کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے پاس اب بھی وہی کامل اور ہر قسم کی تبدیلی اور تحریف سے پاک کتاب موجود ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھی۔
ہر قسم کی نبوت کے بند ہو جانے کے عقیدہ کے حق میں دی جانے والی دوسری دلیل کا تعلق انسان کی ذہنی بلوغت سے ہے۔ اس نظریہ کے سب سے بڑے علمبردار علامہ اقبال ہیں جو بعض کے نزدیک دور حاضر کے سب سے بڑے مسلم مفکر ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد اس مفروضہ پر رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس وقت ہوا جب انسان ذہنی اور عقلی بلوغت کی معراج کو پہنچ چکا تھا۔ لہٰذااب اسے مرسلین کی وساطت سے ہر وقت رہنمائی کی ضرورت نہیں جیسی اس کے آباؤ اجداد کو تھی۔ کیا خوب فلسفہ ہے! لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے پر کتنا بودا اور حقیقت سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ یہ مفروضہ کہ انسان اتنی ذہنی بلوغت حاصل کر چکا ہے کہ وہ کسی کامل مذہب کے چیدہ چیدہ احکام کی روشنی میں اپنے فیصلے خود کر سکے اور اپنے لئے آپ کوئی ضابطۂ اخلاق مرتّب کر سکے، کئی اعتبار سے قابل تنقید ٹھہرتا ہے۔
اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ ترقی کے ہر زینہ پر انسان نے اپنی دانست میں ہمیشہ یہی سمجھاہے کہ وہ ذہنی بالیدگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہر عہد کے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ انہوں نے انسانی ترقی کی معراج کو پا لیا ہے۔ اپنے نسبتاً بلند مقام سے نیچے دیکھتے ہوئے انہیں گزشتہ نسلیں مقابلۃً یقینا نا پختہ اور کم ترقی یافتہ معلوم ہوتی ہوں گی۔ لیکن اس کے باوجود ماضی میں کسی بھی مر حلہ پر انسان نے اتنی عقل و دانش کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے وہ اپنے لئے ہدایت کا راستہ خود متعین کر سکتا۔ فرعون جیسے خود سر لوگ ہمیشہ خداتعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے نبردآزما رہے۔ اس قسم کے سرکش لوگوں نے ہمیشہ اپنی انا کے ہاتھوں وقت کے نبی کو ماننے سے انکار کیا۔ ان سب کا ہمیشہ سے یہی دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو سلجھانے کیلئے ایک پختہ شعور کے مالک ہیں۔ لیکن تاریخ نے ان سب کی خوش فہمی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ بچگانہ سوچ اور کیا ہو گی کہ انسان کسی بھی مرحلہ پر یہ خیال کرے کہ اب وہ اپنی اخلاقی اور روحانی ضروریات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے خود کفیل ہو گیا ہے۔
جہاں تک ذہنی بالیدگی کا تعلق ہے تو تاریخی حقائق نے اسے بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ نبی کی وفات کے بعد فقہی اختلافات اور تفسیر میں باہمی فرق کی بنیاد پر ملت کا کئی فرقوں میں تقسیم ہو جانا ایک ایسا عالمگیر رجحان ہے جس سے اسلام سمیت کوئی مذہب محفوظ نہیں رہا۔ لہٰذا محض ذہنی پختگی ہی انسان کیلئے شریعت سے صحیح نتائج اخذ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے خود خداتعالیٰ کی طرف سے رہنمائی بھی ضروری ہے۔ اگر انسان کی ذہنی پختگی سے یہ مراد لی جائے کہ وہ خود ہی آسمانی صحیفوں سے صحیح نتائج اخذ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو پھر لازماً مذہبی تعلیمات کے تمام بنیادی مسائل پر کامل اتفاق ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ عملی زندگی میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی۔ اگر مسلمان بھی جنہیں آخری کامل کتاب کے پیروکار ہونے پر فخر ہے اس کی تفسیر کے بارہ میں باہمی اختلافات میں کسی سے پیچھے نہیں رہے تو پھر یہ نام نہاد ذہنی پختگی کس کام کی؟ تاریخ مذاہب اس امر پر شاہدہے کہ جب کسی مذہب کے پیروکار ایک دفعہ مختلف فرقوں میں بٹ جائیں تو محض انسانی کوشش سے کبھی دوبارہ متحد نہیں ہوا کرتے۔ اور یہی بات آج کے مسلمانوں پر بھی پورے طور پر صادق آتی ہے۔ کسی آسمانی مصلح کے بغیر یہ لوگ بھی وحدانیت کے ایک جھنڈے تلے دوبارہ جمع نہیں کئے جا سکتے۔ افسوس کہ انہوں نے تو اس آسمانی ذریعہ کو جوان کیلئے امید کی واحد کرن تھی، سرے سے ہی رد کر دیا۔
ہر اعتبار سے محفوظ کتا ب اور نہایت حزم و احتیاط سے ترتیب دی گئی احادیث کے ذخیرہ کے باوجود جس پر مسلمانوں کا فخر بجا ہے امت مسلمہ کی بہتّر (72)فرقوں میں تقسیم اقبال کے انسانی ذہن کی پختگی پر مبنی فلسفہ کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات محض فروعی نہیں بلکہ بنیادی اور گہرے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں اگر اسلامی دنیا کی اخلاقی زبوں حالی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی یہ حالت اور بھی زیادہ قابل رحم اور افسوس ناک ہو جاتی ہے۔ اور اگر ان کی بقا کو ان کی ذہنی پختگی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے! آج کے دانشور کیوں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی مذہبی معاشرہ کی پاکیزگی کیلئے محض کامل کتاب کی موجودگی کافی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے پیروکاروں کے عقائد میں مثالی وحدت نظر آنی چاہئے تھی۔ لیکن بد قسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال کے دفاع میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسمانی روشنی کو لفظوں کے ہیر پھیر سے روکنے کا تصور دراصل ان کا اپنا نہیں تھا۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے عظیم جرمن فلسفی نیٹشے (Nietzsche) کی اندھا دھند تقلید کی۔ یہ نیٹشے ہی تھا جس نے عہد حاضر میں سب سے پہلے الٰہی ہدایت کی ضرورت کے بالمقابل انسانی ذہن کی پختگی کا تصور پیش کیا۔ درحقیقت نیٹشے نے انسان کو یہ ترغیب دلائی کہ وہ بالغ نظری سے اپنے حواس خمسہ کا استعمال کرے۔ اس نے ایسے آدمی کیلئے جو ذہنی بلوغت کو پہنچ چکا ہو اور اس کے حواسِ خمسہ مکمل طور پر نشوونما پا چکے ہوں Overman،Superman یا فوق البشر کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ایسے شخص کو رہنمائی کیلئے کسی ایسے خدا کی ضرورت نہیں ہے جو اس کے نزدیک محض ایک تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے نزدیک اس قسم کے مفروضے اس وقت قائم کئے گے تھے جب انسان ابھی ذہنی طور پر اتنا بالغ نہیں ہوا تھا کہ اپنی تقدیر کا خود مالک بن سکے۔ نیٹشے نے اپنی کتاب 'Thus spoke Zarathustra' میں جو اس کے دانشکدہ کا علامتی ترجمان ہے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ اب انسان ذہنی پختگی کی معراج کو پہنچ چکا ہے اس لئے اسے مفروضوں کے ساتھ چمٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نٹیشے لکھتا ہے:
’’جب انسان دور تک پھیلے ہوئے سمندروں کو دیکھتا تھا تو خدا کو پکارا کرتا تھا لیکن اب میں نے تمہیں overmanیعنی superman کہنا سکھا دیا ہے‘‘۔
’’خدا محض ایک تصور ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمہارے تصورات تمہارے تخلیقی ارادہ کی قوت سے آگے نہ بڑھنے پائیں۔‘‘1
’’تمہارے نزدیک خدا کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن اگر تم حقیقت تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ ہر چیز ایسی صورت میں ہو جسے انسان سوچ سکے،دیکھ سکے اور محسوس کر سکے۔ تمہیں اپنے حواس کو بروئے کار لاتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ ان سے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔‘‘2
’’خدا تو ایک تصور ہے لیکن کون ہے جو موت کا مزہ چکھے بغیر اس تصور کی اذیت سے نجات پا سکے؟‘‘2
‏'Thus spoke Zarathustra'کا لبّ لباب نیٹشے کی ایک خیالی خدا کے خلاف بغاوت ہے جو دراصل عیسائیوں کا تصور ہے اور Zarathustraکو اچھی طرح سمجھنے کیلئے کہ اس نے کیوں خدا کے خلاف بغاوت کی، اس کتاب کے باب ریٹائرڈ (Retired)3 کا مطالعہ ضروری ہے۔ لیکن ہمارے موقف کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا کافی ہے کہ نیٹشیکے دانش کدہ کے مطابق انسان آسمانی ہدایت سے مستثنیٰ ہو چکا ہے کیونکہ اب اس کی ذہنی بلوغت رہنمائی کیلئے کافی ہے۔
اقبال کا فلسفہ بھی بعینہٖ یہی ہے کہ چونکہ انسان کی ذہنی صلاحیت پختہ ہو چکی ہے اس لئے اب اسے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مستعار فلسفہ کو خداتعالیٰ کی ضرورت سے قطعی انکار کی صورت میں استعمال کرنے کی بجائے اقبال نے ذہنی پختگی کے تصور کو اسلام کے تناظر میں ڈھال کر اور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے استعمال کیا۔ انہیں یہ تو مسلّم تھا کہ انسان کو ایک کامل مصلح اور کامل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ایک دفعہ اس مقصد کے حاصل ہو جانے کے بعد ان کے خیال میں اسے آسمان سے مزید کسی دخل اندازی کی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن صرف اسی پر بس نہیں۔ ذہنی پختگی کا یہ نظریہ جس میں اقبال نے کسی قدر ترمیم کی ہے نہ صرف ضرورتِ نبوت کی نفی کرتا ہے بلکہ غیر انبیاء کے ساتھ بھی خدا کے مکالمہ مخاطبہ کا سرے سے انکار کر دیتا ہے۔ ان کے اس نظریہ سے صرف یہی ایک منطقی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ انسان کو خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزید رہنمائی سے آزاد کر دیتاہے کیونکہ پہلے سے موجودرہنمائی کی روشنی میں اب وہ اپنے ہر قسم کے اہم فیصلے خود کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اقبال کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں جس کی انگلی کسی نبی کے ہاتھ میں دے کر اسے چلنا سکھایا جائے۔ کیا وہ اتنی بلوغت حاصل نہیں کر چکا کہ ازخود چل سکے؟ بظاہر یہ منطق بڑی ٹھوس ہے مگر آج کے انسان کی روحانی زبوں حالی اور اخلاقی اقدار کی مکمل تباہی پر ایک نظر ہی اس دلیل کو بودا اورخیالی ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
اقبال اور اس کے مفروضوں کے بارہ میں اتنا ہی کافی ہے۔ اب ذرا مودودی صاحب کے نظریہ کا جائزہ لیں جو سنّی مسلمانوں کے ایک مشہور عالم ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا بند ہو جانا بنی نوع انسان کیلئے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کیلئے تویہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے کیونکہ اس طرح انہیں اب ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلانے کا خطرہ مول لینے کی حاجت نہیں رہی۔ یوں وہ پہلی امتوں کے برعکس اپنے زمانہ کے نبی کو جھٹلانے کے جرم سے بال بال بچ گئے ہیں اور خداتعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے نظریہ کو ایک مذاق تو کہہ سکتے ہیں، اسے ایک سنجیدہ دلیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اگر مودودی صاحب کا فلسفہ درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نعمت کی بجائے نبوت معاذ اللہ ایک *** ہے ورنہ اس کے بند ہو جانے کو نعمت اور انقطاع کو رحمت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ سوچ تو پولوس کی سوچ کے قریب تر معلوم ہوتی ہے جس نے تورات کی شریعت کو *** قرار دیا تھا اور وہ حضرت مسیحؑ کو اس لئے نجات دہندہ مانتا تھا کیوں کہ بقول اس کے مسیحؑ نے تورات کی شریعت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ جب کوئی قانون موجود ہی نہیں ہو گا جسے توڑا جائے تو گناہ بھی سرزد نہ ہو گا۔
تا ہم مودودی صاحب کے اس پورے فلسفہ کا ماخذ صرف پولوس ہی معلوم نہیں ہوتا بلکہ یوںلگتا ہے جیسے بہاء اللہ کے تصور کے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی ہو۔ پولوس کے نزدیک جس طرح حضرت مسیحؑ نے تورات کی شریعت کو منسوخ کر دیا تھا اسی طرح بہاء اللہ کا بھی قرآنی شریعت کے بارہ میںیہی دعویٰ ہے۔ اس نے بزعمِ خود بنی نوع انسان کو قرآن کریم کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے البتہ اس نے پولوس کی پیروی نہیں کی۔ کیونکہ پولوس نے کبھی مجسم خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ اس نے خدائی کو حضرت مسیحؑ کی طرف منسوب کیا۔ اس کے نزدیک مسیح ایک ایسا نجات دہندہ تھا جس نے خدا باپ کی طرف سے بنی نوع انسان کے خلاف کی جانے والی غلطی کا ازالہ کر دیا۔ اس کے نزدیک شریعت کا نفاذ بذات خود گناہ کو پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا شریعت کو منسوخ کر کے مسیحؑ نے گناہ کے بیج کو ہی ختم کر دیا۔ بنی نوع انسان کو نجات دلانے کے ساتھ ساتھ گویا اس نے خدا باپ کو بھی گناہ پیدا کرنے کی غلطی سے نجات دلادی۔
بہاء اللہ اس فلسفہ کا جزوی طور پر اطلاق کرتے ہوئے یہ دلیل دیتاہے کہ قرآنی شریعت چونکہ بہت سخت اور مشقت میں ڈالنے والی ہے لہٰذا دور حاضر کے انسان کیلئے قابل عمل نہیں رہی۔ یوں بزعم خود اس نے بنی نوع انسان کو اس تکلیف دہ بوجھ سے اگرچہ نجات تو دلا دی مگر مکمل نجات نہیں۔ اس نے پہلی شریعت منسوخ کر کے ایک نئی شریعت گھڑلی لیکن آخرکار وہ خداتعالیٰ کا اور خود اپنا تمسخر اڑانے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ اس نے قرآنی شریعت کو منسوخ کر کے جو شریعت پیش کی وہ عقلِ سلیم، تفکّراور معقولیت کی کھلی توہین کے سوا کچھ نہیں۔
یوں لگتا ہے کہ پولوس کے ان دو نوں جدید شاگردوں یعنی بہاء اللہ اور موددی صاحب نے مل کر اسلام کے خاتمہ کی پوری کوشش کی ہے۔ جہاںتک قرآنی شریعت کا تعلق ہے تو جس طرح بہاء اللہ نے اسے آزادی کے نام پر قربان کر دیا اسی طرح نبوت کو مودودی صاحب نے پولوسی فلسفہ کی بھینٹ چڑھانے کی جسارت کی۔ دونوں ہی خدا کی نظر میں اپنے اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔ دونوں ہی ان لوگوں کی نظر میں ہیرو قرار پائے جو خودروحانی امراض کا شکار تھے۔ لیکن مودودی صاحب نے پورے طور پر پولوس کی پیروی نہیں کی۔ انہوں نے یہ تجویز کرنے کی جرأت تو نہیں کی کہ خداتعالیٰ کو چاہئے کہ قرآنی شریعت ہی کو منسوخ کر دے تا کہ لوگ اس کی نافرمانی کرکے مغضوب نہ بنیں۔ مودودی صاحب نے پولوس کے اصول کے اطلاق کو صرف نبوت کے منصب تک محدود رکھا۔ چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام کے مقدّس بانیﷺ کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے امتی نبی بھی بھیجے گئے توغالب امکان ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کا انکار کر دے جیسے ان سے پہلے نبیوں کا انکار ہوتا چلا آیا ہے۔ اس طرح مودودی صاحب کی منطق کے مطابق خداتعالیٰ کی *** کا خطرہ دو دھاری تلوار کی طرح ان کے سروں پر لٹکتا رہے گا۔ مودودی صاحب کی نظر میں خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند کر کے بنی نوع انسان پر بے انتہا رحمتیں نازل کی ہیں خصوصاً مسلمانوں پر۔
لوگوں کو *** سے بچانے کیلئے نبوت کے سلسلہ کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ تو خود نبوت کو *** قرار دینے کے مترادف ہے۔ اس طرح مودودی صاحب کا یہ جدید پولوسی فلسفہ خداتعالیٰ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ نبوت کی *** کو سرے سے ہی ختم کر دے۔ کیسی نجات اور گناہوں سے کیسی آزادی۔ خس کم جہاں پاک!
لیکن اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ فلسفہ ماضی اور مستقبل دونوں پر یکساں اطلاق پاتا ہے۔ آنحضرتﷺ سے پہلے حضرت مسیحؑ کو کیوں مبعوث کیا گیا؟ کیا قرآن کریم حضرت مسیحؑ کے انکار کی وجہ سے یہودیوں کو ملعون قرار نہیں دیتا؟ اور پہلی قوموں کا کیا حشر ہوا؟ کیا انہوں نے خداتعالیٰ کے فرستادوں کا انکار نہیں کیا اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کا سلوک نہیں کیا گیا؟ بنی نوع انسان کے کبر اور نخوت کا یہ کیسا افسوس ناک منظر ہے! چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:

(یٰس 31:36)
ترجمہ: وائے حسرت بندوں پر ! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ خداتعالیٰ کو اس *** کو ختم کر دینے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا۔ انبیاء کے ساتھ واسطہ پڑنے کے لمبے تاریخی سفر کے دوران یہودیوں کا کیا حشر ہوا؟ کیا ان پرحضرت داؤد ؑ کی زبان سے *** نہیں ڈالی گئی؟ حضرت موسٰیؑاور حضرت عیسٰیؑ کے درمیانی عرصہ میں اہلِکتاب کا کیا حال ہوا؟
کیا ہر زمانہ کے لوگوں کا خدا کے تمام انبیاء کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک خداتعالیٰ کو یہ باور کرانے کیلئے کافی نہیں تھا کہ نبوت رحمت نہیں بلکہ *** ہے۔ پھر حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لوطؑ کی بعثت کا کیا مقصد تھا؟ کیا ان کی تکذیب کی وجہ سے ان کی اقوام پر خد اتعالیٰ کا غضب نازل نہیں ہوا؟ سوائے چند بظاہر بے حیثیت لوگوں کے کیا انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا نہیں دیا گیا؟ تا ہم جو خیال مودودی صاحب کو سوجھا وہ خدا کو کیوں نہ سوجھ سکا۔ خداتعالیٰ کے بارہ میں یہ دیومالائی تصور کہیں مودودی صاحب کے دماغ نے خود ہی تو نہیں گھڑ لیا؟ ایسی ناقص رائے انہی کے دماغ کا شاخسانہ ہو سکتی ہے۔ خداتعالیٰ پیغمبر پر پیغمبر بھیجتا رہا لیکن متکبر لوگ ایک کے بعد دوسرے فرستادہ کا انکار کرتے رہے۔ اس طرح وہ لوگ جس *** کے مورد ہوئے اس کی ذمہ داری نبوت پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ وہ لوگ خود ہی اس کے ذمہ دار تھے۔
اگر یہ دلیل کسی ایک زمانہ کیلئے قبول کر لی جائے تو پھر اسے حضرت آدم ؑ کے وقت سے لے کر ہر زمانہ کے لئے قبول کرنا پڑے گا۔ اس امر کا احتمال کہ آدم ؑ کی قوم انبیاء کو جھٹلا کر مغضوب ہو جائے گی کیا خداتعالیٰ کیلئے کافی جواز تھا کہ وہ حضرت آدم ؑ کو مبعوث ہی نہ فرماتا۔ اگر یہ خوف کہ لوگ امت محمدیہ میں سے مبعوث کئے گئے نبی کا انکار کر دیں گے، نبوت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کا مناسب جواز ہے تو اس کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ خود اسلام کے مقدس بانیﷺ کی بعثت کی راہ میں روک بن جانا چاہئے تھا۔ کیا آپﷺ سب نبیوں سے افضل نہیں؟ یقینا ہیں۔ اور سارا عالم اسلام اس پر گواہ ہے، توسب انبیاء سے افضل ہونے کے باعث آپﷺ کا انکار خداتعالیٰ کے سب سے زیادہ قہر کا موجب ہونا چاہئے۔ افسوس ! مودودی صاحب نے اس بات کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے کہ نہ صرف آنحضرتﷺ کی زندگی میں دنیا بھر کی بیشتر آبادی نے آپﷺ کا انکار کر دیا تھا بلکہ آج بھی بنی نوع انسان کی تین چوتھائی آبادی آپﷺ کی سچائی کی منکر ہے۔ زیادہ سے زیادہ انسانی آبادی کے ایک چوتھائی حصہ کو آنحضرتﷺ کا پیروکار کہا جا سکتا ہے لیکن کیا وہ بھی صحیح معنوں میں مسلمان کہلا سکتے ہیں؟ کیا ان کا آپﷺ پر ایسا سچا ایمان ہے کہ وہ حقیقی مومن شمار ہوں؟ مودودی صاحب کا خیال اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کی ایک ارب کی آبادی میں سے 999فی ہزار پر انہوں نے عملاً مسلمان نہ ہونے کا فتویٰ لگا رکھا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:-
’’یہ انبوہ ِعظیم جس کومسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیزسے آشنا ہیں نہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے اس لئے یہ مسلمان ہیں۔‘‘4
مودودی صاحب کے اس فلسفہ کے مطابق تو بہتر ہوتا کہ خداتعالیٰ نہ تو کوئی کتاب بھیجتا اور نہ کوئی پیغمبر تا کہ بیچاری مخلوق کو ہمیشہ کی *** سے چھٹکارا مل جاتا۔
بایں ہمہ مودودی صاحب حضرت آدم ؑ سے لے کر خیر الانبیاء ﷺ تک خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں کے سلسلہ کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ اگر فرستادوں کی تکذیب کی وجہ سے منکرین پر خدا کی *** پڑتی رہی ہے تو ایک اور نبی کے اضافہ سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ مودودی صاحب کا تضاد اس وقت اور بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے جب ان کے اس عقیدہ کا علم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عیسٰی ؑ کی بطور نبی اللہ آمد ثانی کے بھی قائل ہیں۔
اگر پہلے مسیح کی بجائے امت مسلّمہ میں سے ہی ایک غیر تشریعی نبی مبعوث ہو تو اس کے آنے سے *** کے اس دائمی فلسفہ پر کیا فرق پڑے گا؟ صرف امتی نبی کے آنے پر اعتراض کیوں جبکہ بقول مودودی صاحب حضرت آدم ؑ سے لے کر اب تک تمام انبیاء دائمی *** کے اس قانون کے اطلاق کا باعث بنتے چلے آئے ہیں!




حوالہ جات
1. KAUFMANN, W (1976) The Portable Nietzsche. Penguin Books. England, p.197
2. KAUFMANN, W (1976) The Portable Nietzsche. Penguin Books. England, p.198
3. KAUFMANN, W (1976) The Portable Nietzsche. Penguin Books. England, p.370-375
4. MAUDOODI, SYED ABUL-A`ALA. Musalman Aur Maujoodah Siyasi Kashmakash. 1st ed. Vol.ٰٰIII Published by Maktabah Jama`at-i-Islami, Dar-ul-Islam, Jamalpur, Pathankot, p.130
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت
یہ عقیدہ کہ آنحضرتﷺ بطور آخری نبی مبعوث ہو کر گزر بھی گئے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کہ آپ ﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی اللہ نازل ہوں گے، متضاد عقائد ہیں جو ایک ہی وقت میں درست تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو متغائر امور کا ملغوبہ قرونِ وسطیٰ کے بعض علماء کی اختراع ہے ورنہ نزول قرآن کے وقت تو ان دونوں کا باہمی تعلق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
ایک نا واقف غیر مسلم قاری کی خاطر ہم اس مسئلہ کا تاریخی پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں مبادا وہ سمجھ ہی نہ سکے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ آیت خاتم النبیّین قرآن کریم کی بنیادی آیات میں سے ہے جو اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتی ہے اور جس کی کئی پہلوؤں سے تفسیر کی جاسکتی ہے لیکن اس آیت کے کسی ایک مفہوم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ ملاؤں کا یہ موقف کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر اس وجہ سے اٹھائے گئے تھے کہ آیت خاتم النبیّین کا نزول ابھی مقدر تھا، حددرجہ مضحکہ خیز اور ڈرامائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجسد عنصری آسمان پر چڑھ جانے کا نہ توآیت خاتم النبیّین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور آیت سے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھانے کا خداتعالیٰ کو خیال تک نہ گزرا۔ سارا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی احادیث خدا کی مقدس ذات کو اس لغو فعل سے مبرا قرار دیتی ہیں کیونکہ ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر تک نہیں ملتا۔ اس لئے علماء کا یہ اصرار کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس لئے آسمان پر اٹھا لیا تھا تا کہ قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکل کا پیشگی حل تلاش کیا جائے ایک سفید جھوٹ اور قرآن کریم پر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ چنانچہ یہ ملاّں ہی ہے جس نے ازخود یہ مسئلہ کھڑا کیا اور پھر خود ہی اسے خدا کے نام پر حل کرنے کی کوشش کی۔ ملاؤں کے اس خود ساختہ اور بے بنیاد خیال کو قرآن کریم کی ایک بنیادی آیت سے منسلک کر دینا ایک خوفناک گستاخی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر قرون وسطیٰ کے مذہبی عمائدین نے یہ مسائل کھڑے کئے اور فریب دہی کے ایسے طریق اختیار کئے جن سے بالکل غیر متعلقہ مسائل کو باہم خلط ملط کر دیا گیا، اس وقت اس بحث کا بنیادی موضوع ہیں۔ اس پس منظر میں علماء کی ان بے سود کوششوں کے ذکر کے بعد ہمیں امید ہے کہ ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے قاری اس مسئلہ کو خوب سمجھ سکے گا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے یا اترآنے کا قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین سے دور کا بھی واسطہ نہیں، علماء یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ ان دونوں میں ایک یقینی تعلق موجود ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا اس لئے آپﷺ کے بعد عیسیٰ بن مریم نبی اللہ آسمان سے زمین پر واپس لائے جائیں گے۔ گو قدامت پسند مسلمانوں کو یہ من گھڑت نظریہ پسند ہے کہ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آنحضر تﷺ کے ایک امتی کی بجائے کسی پرانے نبی کو مبعوث کیا جا رہا ہے لیکن ان کے اس جوش و خروش میں عوام ہرگز شریک نہیں۔ کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا انسان بھی اس قسم کے دجل کو خدائے قادر و حکیم کی طرف ہرگز منسوب نہیں کر سکتا۔ یہ حرکت صرف ملاّں ہی کر سکتے ہیں اور بعینہٖ یہی کچھ وہ کر بھی رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں واپسی کے نظریہ سے جوڑ کر انہوںنے بزعم خود خداتعالیٰ کی ارفع ذات کو ان عواقب سے بچا لیا ہے جو ختم نبوت کے قبل از وقت اعلان سے پیدا ہوئے تھے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس طرح انہوں نے خدائے عزوجل کو تناقض کے مخمصہ سے بچا لیا ہے۔ ایسی سوچ ایک نادان ملاّں ہی کی ہو سکتی ہے اور اسی پر جچتی ہے۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ذات کے متعلق یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نعوذ باللہ وہ کسی کو اس علم کے باوجود کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہو گا، آخری نبی قرار دے دے۔ پھر اپنے اس وعدہ کو اس طرح پورا کرنے کی کوشش کرے کہ ایک پرانے نبی کو اس آخری نبی کی وفات کے بعد دنیا میں بھیج دے۔ یہ تو محض تمسخر ہوا۔ یوں ملّاں خداتعالیٰ کو اپنی خود ساختہ کسوٹی پر پرکھتا ہے اور تضاد کا شرمناک فعل خدائے قدوس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور پھر خود ہی اس کا دفاع بھی کرتا ہے۔ ملّاںکی یہ بیہودہ کوشش بلا مقصد نہیں۔ اس کے نزدیک تو یہ ایک ایسا اعلیٰ منصوبہ ہے جس میں بہت سے فوائد مضمر ہیں۔
یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کی *** موت سے بچا کر دشمنوں کی طرف سے آپ ؑ کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اس موقع پر ذرا یہودیوں کی جھنجھلاہٹ کا تصور کیجئے جبکہ انہیں پتہ چلا ہو گا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام ان کے چنگل سے نکل کراچانک ہوا میں غائب ہو گئے ہیں (بشرطیکہ چوتھے آسمان پر، جہاں وہ گئے ہیں، ہوا کا کوئی وجود بھی ہو)۔ لیکن اس سے خداتعالیٰ کیلئے ایک اور چھوٹا سا مسئلہ ضرور کھڑا ہو گیا ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کب اور کیوں زمین پر واپس لایا جائے گا۔ انہیں قیامت تک اس آسمانی قرار گاہ میں کسی صورت بھی تنہا تو نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک تو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ ملّاں کا یہ خود ساختہ مسئلہ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس تضاد کو کیسے حل کیا جائے کہ آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بحیثیت نبی اللہ دوبارہ مبعوث ہونے پر بھی ایمان لانا ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ملّاں آیت خاتم النبیّین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خیالی صعود سے جوڑتا ہے اور یہ کام وہ ایسی چالاکی سے کرتا ہے کہ عام مسلمان اس کی اس چال کو سمجھ نہیں سکتا۔ وہ اپنے موقف کی یوں تعمیرکرتا ہے:
.1 حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک خاص مقصدکی خاطر آسمان پر اٹھائے گئے اور انجام کار وہ
زمین پر واپس لائے جائیںگے۔
.2 آخری نبی کے ظہور کے بعد کسی پرانے نبی کا نزول خاتمیت کی مہر کو نہیں توڑتا۔
.3 خدائی فرمان میں تضاد پیدا کئے بغیر آخری زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت بھی پوری ہو
جائے گی۔
بعض لوگ ایک تیر سے دو شکار کرنا بھی جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اپنے ذہن کی کجی کو خدا کی طرف منسوب کر کے ایک نا قابل معافی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لغو اور عجیب و غریب قصہ گھڑ کر دیگر فوائد کے علاوہ سب سے بڑافائدہ ملّاں یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ خودکسی نہ کسی طرح الٰہی فرستادہ کی اطاعت سے بچ جائے۔ یوں ایک طرف تو نبوت سے ہمیشہ ہمیش کیلئے جان چھوٹ گئی تو دوسری طرف جاہل مسلمانوں پر ملّاں کے مکمل اقتدار کے کھو جانے کا خوف بھی جاتا رہا۔ یہ عقیدہ کہ دو ہزار سالہ پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا، دراصل اس بات کا ضامن ہے کہ اب کوئی بھی نہیں آئے گا اور سادہ لوح مسلمانوں پر وہ اپنا آمرانہ اقتدار ہمیشہ کیلئے برقرار رکھ سکے گا۔
مردے دنیا میں کبھی واپس نہیں آیا کرتے۔ کیونکہ جو شخص ایک دفعہ اس جہان فانی سے کوچ کر جائے وہ دوبارہ واپس نہیں آیا کرتا۔ خدا گزرے ہوئے لوگوں کو کبھی اس دنیا میں لوٹا یا نہیں کرتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جسمانی آمد کے قائل خواہ قیامت تک ان کا انتظار کرتے رہیں وہ کبھی نہیں آئیں گے اور نہ ہی ملّاں کبھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر حاصل ہونے والے اقتدار سے دستبردار ہو گا یعنی وہ ملاّں جو رحم و کرم کے نام تک سے واقف نہیں۔ بے چارے مسلم عوام بے فائدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واپس آنے کے انتظار کے دھوکہ میں مبتلا رہیں گے جن کے ہاتھ میں ان کے دکھوں کے تیر بہدف علاج کا شیریں پیالہ ہوگا۔ ان مسلم ملاؤںکی آمرانہ حکومت کے ہاتھوں اسلام صدیوں تک پستا ہی چلا جائے گا۔
مزید برآں ہمارے خیال میں خاتمیت محمدی کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے سوال پر ملاّں کا مجوزہ حل ہر لحاظ سے ناقابل عمل ہے۔ موسوی امت کے کسی نبی کو بعد میں آنے والی مسلم امت کے مختلف النوع مسائل کے حل کیلئے مستعار لینا کسی طور سے بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسلمان علماء یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک مستعار نبی تو امت محمدیہ میں مبعوث ہو کر دراصل خاتم النبیّین آنحضرتﷺ کی خاتمیت کے نقوش کو ملیا میٹ کر دے گا نہ کہ وہ نبی جو اسی امت میں پیدا ہو کر آنحضرتﷺ کے روحانی فرزند کی حیثیت سے مبعوث ہو۔
علاوہ ازیں مندرجہ بالا جائزہ کی روشنی میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ زیر بحث مسئلہ کے ضمن میںمحض وقت کی تقدیم و تاخیر کی بنیاد پر کسی نبی کے پرانے یا نئے ہونے کے بارہ میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک نبی اپنی پہلی صفات کے ساتھ ہی دوبارہ دنیا میں آتا ہے تب تو اس کا آنا واقعی دوسری بعثت کہلائے گا لیکن اگر وہ اپنی ظاہری جسمانی خصوصیات اور فطری صلاحیتوں کے حوالہ سے مکمل طور پر تبدیل کر دیا جائے اور اس کا اپنے دشمنوں سے سلوک بنیادی طور پر پہلے سے مختلف ہو تو کسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہی پرانا نبی دوبارہ مبعوث ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جس روحانی مقام کا وہ حامل ہے، جو پیغام وہ لایا ہے، جو معجزات اس سے وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو تمام بنی نوع انسان کیلئے حکم و عدل ہے، اس کی تو انجیل میں مذکور مسیحؑ کی ذات سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس عیسیٰ کے نزول کا وعدہ آنحضرتﷺ نے دیا تھا ان کی تو پوری شخصیت ہی مسیح ناصری ؑ سے یکسر مختلف ہے۔ موعود عیسیٰ سے اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مراد نہیں کیونکہ نہ تو وہ تورات کے تابع ہو ں گے اور نہ ہی انجیل کے جس کی تعلیم انہوں نے خود دی تھی۔ اس طرح ان کی عمل داری صرف اسرائیل کے گھرانہ تک محدود نہیں ہو گی۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر علماء یہ اصرار کریں کہ موعود عیسیٰ وہی اسرائیلی مسیح ہے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں دوبارہ آنے سے قبل ان کی حالت بالکل تبدیل ہو جائے گی۔ نیز انہیں نبوت کی نئی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ اس صورت میں اگر یہ نئی نبوت نہیں تو پھر کیا ہے؟ کوئی ملّاں تسلیم نہیں کرے گاکہ مندرجہ بالا خصوصیات کا حامل عیسیٰ اس وقت تک اسلام میں شامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک آنحضرتﷺ کی مہر ختمیت میں گنجائش نہ نکالی جائے۔ اس صورت میں ان کے لئے صرف یہی رستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر کسی تبدیلی کے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کی دوبارہ آمد پر شجراسلام سے ان کی اس طرح پیوندکاری کی جائے گی کہ وہ ایک ایسے مصلح کے طور پر پرورش پا سکیںجسے عالمگیر مسلم نبی کہا جا سکے۔ ہم ملّاں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ امت مسلمہ میں اجنبی ہی ہوں گے اور اپنے اسرائیلی تشخص کو چھوڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی حیثیت اس پیوند کی سی ہوگی جسے کسی اور نوع کے درخت سے جوڑ دیا جائے۔ اگر کنول کی چیری کے درخت سے پیوندکاری ہو سکتی ہے یا جھڑبیری کی انناس سے، تو صرف اسی صورت میں اسلام سے قبل کے نبی کا اسلام کے درخت سے پیوند کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا کیا فائدہ؟ کیونکہ پیوند شدہ تنا اپنی اصل نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لئے اسلام کے ساتھ جڑ جانے کے باوجود حضرت عیسیٰ ؑ کی حیثیت اسرائیلی نبی کی ہی رہے گی۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مسلمانوں میں جسمانی نزول کے باوجود ان کی اصلی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ اگر وہ کبھی آ بھی جائیں تو کوئی بھی جنونی مسلمان عالِم ان کے دعویٰ کو صرف اسی قرآنی تعلیم کی بنا پر بآسانی ردّ کر سکتا ہے۔ بلکہ انہیں تو مفتری قرار دے کر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کس بنا پر انہوں نے اس قرآنی ارشاد کو منسوخ کر دیا کہ وہ تو محض بنی اسرائیل کے نبی ہیں۔ پس جب تک قرآن کریم انہیں اسرائیلی نبی قرار دیتا رہے گا ان کی یہ حیثیت کبھی تبدیل نہیں ہو سکے گی۔ آپؑ صرف اسرائیلی نبی تھے اور ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔
(اٰل عمران50 : 3)
ترجمہ : وہ رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف۔
آجکل بنیاد پرستوں نے توہین رسالت کا مسئلہ کھڑا کر کے مسلم عوام کے جذبات کو بہت زیادہ مشتعل کر دیا ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو جتنا خطرہ یہودیوں سے درپیش تھا اس سے کہیں زیادہ متعصب مسلمانوں کے ہاتھوں درپیش ہو گا۔ علاوہ ازیں اپنی پہلی بعثت کے مقابلہ میں دوسری بعثت کے دوران آپ ؑ کو پہلے سے بھی زیادہ مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے وقت میں یہودی جتنے فرقوں میں بٹے ہوئے تھے آج عالم اسلام تنگنظری اور مذہبی جنون کی وجہ سے ان سے کہیں زیادہ بٹا ہوا اور تفرقہ کا شکار ہے۔
اگر کبھی حضرت عیسٰیؑ اس دنیا میں آ گئے تو آپ ؑکی زندگی کو بیشمار خطرات لاحق ہوں گے خواہ آپؑ کسی بھی مسلمان مملکت میں نازل ہوں۔ مثلاً اگر آپؑ ایران میں نازل ہوئے تو یہ بات واضح ہے کہ آپؑ کو اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر سخت امتحان میں سے گزرنا پڑے گا۔ کیا آپ ؑبارہ اماموں پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔؟ کیا آپ ؑکا حضرت ابوبکر۔ حضرت عمر۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت پر ایمان ہے؟ کیا آپؑ حضرت علی ؓ کی خلافت بلا فصل پر ایمان رکھتے ہیں؟ ان کے جواب میں اگر حضرت عیسٰیؑ کے عقائد شیعہ عقائد کے مطابق بھی ہوئے تب بھی بارہویں امام کی غیبوبت کے مسئلہ پر آپ ؑکی زندگی خطرے سے باہر نہیں ہو گی۔ آپ ؑسے پوچھا جائے گاکہ آپ ؑنے اکیلے زمین پر آنے کی جرأت کیسے کی جبکہ بارہواں مقدس امام (المہدی) ابھی کہیں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ آپؑ کو بارہویں امام کی تصدیق کے بغیر ہی نازل ہو جانے پر مورد الزام ٹھہرا کر اور جھوٹا قرار دے کر سزا دی جا ئے گی۔ لیکن اگر آپؑ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کو صحیح سمجھنے کی وجہ سے مجرم گردانے گئے تب تو آپؑ یقینا مفتری قرار پائیں گے اور شیعہ قانون کے تحت آپؑ کی سزا ئے موت عام ضابطہ کی کارروائی ہو گی۔
تا ہم اگر مندرجہ بالا عقائد پر ایمان رکھتے ہوئے حضرت عیسٰی ؑ کسی سنی علاقہ میں نازل ہوئے تو زمین پر قدم رکھتے ہی آپؑ کو واپس آسمان پر بھجوا دیا جائے گا۔ لیکن سنی نظریات رکھنے کے باوجود بھی آپ ؑکی زندگی خطرہ سے خالی نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہاں موجود ہر سنی فرقہ آپؑ سے اپنے عقائد کی تصدیق چاہے گا ورنہ کاذب قرار دے کر ردّ کر دے گا۔ یہ خیال مشکل ہے کہ جونہی حضرت عیسٰی ؑ ان ممالک میں تشریف لائیں گے تو یا توفوراً بریلوی اعتقادات تسلیم کر لیں گے یا وہابی بنیاد پرست بن جائیں گے۔ ان دونوں میںسے کس کے عقائد کو آپ ؑدرست قرار دے کر اپنائیں گے؟ ہر صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپؑ کو موت کے اس پروانہ پر دستخط کرنا ہوںگے جو ان دو فرقوں کے علماء میں سے کوئی ایک آپؑ کے خلاف جاری کرے گا۔
آپؑ کو معتوب کرنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہو گی کہ آپؑ کا تعلق کسی اور فرقہ سے ہے بلکہ آپؑ کی سزائے موت کی بنیاد آپؑ کے جھوٹے دعوی ٔ نبوت پر ہوگی۔ مخالفین کی دلیل یہ ہو گی کہ کوئی بھی سچا نبی جھوٹے عقائد نہیں رکھ سکتا۔ ہر فرقہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنے عقائد کی کسوٹی پر پرکھے گا نہ کہ اپنے عقائد کو ان کی کسوٹی پر۔
پھر یہ سوال اٹھے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کس فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟ آپ حضرت امام مالکؒ۔ امام ابوحنیفہؒ۔ امام شافعیؒ یا امام احمد بن حنبلؒ میں سے کس مسلک کی پیروی کریں گے؟ چونکہ آپؑ کو فقہی اختلافات کا پہلے سے کوئی علم نہیں ہوگا اس لئے اس گورکھ دھندے میں پھنس کر آپ ؑخود کو بے یارومددگار پائیں گے۔ اس وقت ممکن ہے آپ ؑیہ خواہش کریں کہ کاش! میں زمین پر واپس ہی نہ آیا ہوتا۔ بالآخر آپؑ جس فرقہ کو بھی چنیں گے اس کے مخالف 71فرقے آپ کو رد کر دیں گے۔ مزید برآں آیت قرآنی کہ ’’آپؑ صرف بنی اسرائیل کے رسول ہیں‘‘ کی روشنی میں کیا تمام فرقے آپ ؑکو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے؟
ممکن ہے کہ ہجوم میں سے کوئی سر پھرا جنونی یہ نعرہ بھی بلند کر دے کہ ’’آپؑ وہیں واپس چلے جائیے جہاں سے آپؑ آئے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ؑسے سختی سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ ’’براہِکرم آپؑ اپنے جہاز کا رخ اسرائیل کی طرف موڑ لیجئے۔‘‘ اور یہ بھی کہا جائے کہ ’’اگر آپ ؑ اتنے ہی بہادر ہیں کہ آپؑ دوبارہ یہودی عدالت کا سامنا کر سکتے ہوں تو جائیے وہاں جا کر اپنا تشخص ثابت کیجئے۔‘‘
انسان سوچتا ہے کہ ان تازہ ترین بدلے ہوئے حالات میں خداتعالیٰ کیا ارشاد فرمائے گا۔ کیا وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جلدی سے جا کر حضرت عیسیٰ ؑکو بچاؤ اور انہیں واپس اپنی اسی آسمانی قرارگاہ پر پہنچا دو یا خداتعالیٰ انہیں مسلم یا یہودی علماء کے رحم و کرم پر چھوڑدے گا؟ کیا آپ ؑ اسرائیل میں اسرائیلی سپاہیوں کے ہاتھوں دوبارہ مصلوب ہوں گے یا پھر کسی مسلم جلّاد کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکا دیئے جائیں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب مستقبل ہی دے سکتا ہے بشرطیکہ آپؑ اس دکھ بھری دنیا میں دوبارہ تشریف لے آئیں۔ قصہ مختصر، آپ کی بعثت ثانیہ بھی بعثت اولیٰ سے کہیں بڑھ کر ناکا م ہو گی۔
ہم خلوص نیت سے قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جب مذہب کی تشریح کسی معقولیت کے بغیر کی جائے اور ایمان سے عقل کا خانہ خالی ہو جائے تو بے حقیقت افسانے اور بے بنیاد روایات جنم لیا کرتی ہیں اور مذہب کے شعور سے عاری ٹھیکیدار خدائی حکمتوں کو مضحکہ خیز رنگ میں پیش کرنا شروع کر دیا کرتے ہیں۔ بے شک قرون وسطیٰ کے بڑے بڑے علماء جو ان پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے جائز طور پر معذور قرار دیئے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کا دور ایک مختلف دور تھا اور کائنات کے متعلق ان کا علم محض ظنّی تھا۔ لیکن عصرِ حاضر کے دقیانوسی علماء جو روشن خیالی کے اس جدید دور میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ان کیلئے تو ہرگز کوئی جواز نہیں کہ وہ ان پیشگوئیوں کی ایسی غلط تفسیر کریں۔ خدا کے سچے بندے حضرت عیسٰی ؑ کی مقدس روح یقینا اپنے رب کی طرف لوٹ گئی تا وہ اپنے مقررہ اعلیٰ روحانی مقام پر قرارپکڑے۔ لیکن وہ عیسیٰ جس کے یہ منتظر ہیں وہ تو محض ان کے ذہنوں کی خام خیالی ہے۔ کسی کو اس سے کیا غرض کہ یہ خیالی وجود صلیب پر لٹکایا جائے، خنجر سے مارا جائے یا ہزار بار پھانسی دے دیا جائے۔ حضرت عیسیٰؑ کا جسمانی رفع اور ان کا آسمان میں کسی جگہ محفوظ رہنا اور مستقبل میں بطور نبی ان کا دوبارہ ظہور، انسانی عقل و فہم پر نہایت شاق گزرتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ ایسی احمقانہ بات خدائے علیم و حکیم کی طرف منسوب کرنے کی جرأت کی جائے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے دماغ کس مادہ سے بنے ہوئے ہیں؟
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وہم سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کر لیں اور وہ ملّاں بھی جو اس میں رنگ آمیزی کرتے رہے ہیں نظروں سے اوجھل ہو جائیں۔ ان لوگوں کے دور کے خاتمہ ہی سے دراصل احیائے اسلام کا دور شروع ہوگا۔
آخری لیکن نہایت اہم اعترض اس نظریہ پر یہ اٹھتا ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے ایک نبی کو کسی طرح تراش خراش کر امت مسلمہ کا نبی قرار دے بھی دیا جائے تو قدامت پسند علماء یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی زمین سے غیرحاضری کے زمانہ میں قرآن کریم کا آنحضرتﷺ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰؑ پر بھی نزول ایک ناممکن اور ناقابل قبول امر ہے۔ تنقید کا یہ زاویہ علماء کیلئے بہت سے مشکل سوال اٹھاتا ہے۔ سب سے اہم سوال تو حضرت عیسیٰؑ کے حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کا ہے۔ کب اور کس نے انہیں بتایا کہ نیچے صفحۂ زمین پر سب سے بڑا اور عظیم بنی ظاہر ہو گیا ہے۔ کیا آپؑ نے آنحضرتﷺ کی سچائی کی فوراً تصدیق کر دی تھی اور مومن بن گئے تھے؟ اگر آپ واقعۃً یہ خبر سنتے ہی فوراً ایمان لے آئے تھے تو آپؑ پہلے خلائی مومن ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کئے بغیر آپؑ نے اس پر عمل کرنا کہاں سے سیکھا؟
لہٰذا یہ بنیادی سوال کہ کیا قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ پر براہ راست خداتعالیٰ کی طرف سے جبرائیل ؑ کی وساطت سے نازل کیا گیا تھا، بہت ہی اہم ہے اور اس کا جواب دیا جانا اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ اگر تو قرآن کریم آپؑ پر اس وقت نازل کیا گیا جب آپؑ ابھی آسمان پر ہی تھے تو اس صورت میں آپ ؑیقینا آنحضرتﷺ کی نبوت میں شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کی نبوت میں شریک تھے اور دونوں کا مقام و مرتبہ تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔ اور اگر قرآن کریم براہ راست آپ ؑپر جبرائیل ؑکے ذریعہ نازل نہیں کیا گیا تھا تو زمین پر نزول سے پہلے آپ ؑکے ایمان کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا اس وقت تک آپ ؑ اپنی گزشتہ تعلیم پر ہی کاربند ہوں گے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کب کا اسلام کو تمام بنی نوع انسان کیلئے آخری عالمگیر مذہب قرار دے چکا ہے۔ یا کیا آپ ؑسے کوئی استثنائی سلوک روا رکھا گیا ہو گا اور بانی ٔ اسلامﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد بھی آپ ؑکو اسلام قبول نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہو گی؟ بصورت دیگر اس منطقی نتیجہ سے ہرگز کوئی مفر نہیں کہ قرآن کریم آپ ؑ پر کسی نہ کسی طرح ضرور نازل ہوا ہو گا۔
کیا ملّاں یہ تجویز کریں گے کہ حضرت عیسیٰؑ کو یہ پیغام جبرائیل کی بجائے آنحضرتﷺ نے ہی بنفس نفیس پہنچایا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کا پیغام اپنے صحابہ کو پہنچایا تھا اس وقت توکوئی درمیانی واسطہ موجود نہیں تھا۔ جبرائیل ؑکے ذریعہ جو بھی آنحضورﷺ پر نازل کیا جاتا تھا آپﷺ براہ راست اسے اپنے صحابہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ لیکن قرون وسطیٰ کے ملاّؤںکے مطابق حضرت عیسیٰؑ تو اس وقت کہیں آسمان پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا آنحضرتﷺ سے براہ راست کوئی رابطہ بھی نہ تھا۔ اس لئے اب دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک حضرت عیسیٰؑ زمین پر واپس نہیں آجاتے اس وقت تک آپؑ وحی ٔ قرآن سے بالکل بے خبر ہوں گے۔ یا پھر قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ کو آنحضرتﷺ کی طرف سے ایک پیغام کی صورت میں مل جائے۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ تک ان کے خلا میں ہونے کی حالت میں قرآن کریم کا پیغام ان تک پہنچایا کیسے جا سکے گا جب تک کہ جبرائیل کو پھر اس کام پر مامور نہ کیا جائے۔ الغرض یہ منظر ایسا گستاخانہ اور توہین آمیز ہے جسے ایک سچا مومن ایک لمحہ کیلئے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ذرا تصور تو کریں کہ جبرائیل ؑآنحضرتﷺ پر قرآن کریم اتار رہے ہیں اور پھر آنحضرتﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو قرآن کریم دوبارہ سنائیں تا کہ وہ اسے خداتعالیٰ کی بجائے آنحضرتﷺ کی طرف سے بطور پیغام حضرت عیسٰی ؑکو پہنچا سکیں۔
اب ہم حضرت عیسٰی ؑکے اسلام قبول کرنے کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ آپؑ پر قرآن کریم نازل نہ ہونے کے باعث آنحضرتﷺ پر آپ ؑ کا ایمان انوکھا اور مبہم ہو تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ ؑایک بے عمل مسلمان ہوں گے جو قرآنی تعلیمات سے نا آشنا ہوں۔ آپ ؑکے بالمقابل عام مسلمان جہالت کے باوجود آپ ؑسے بہتر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکیں گے۔ پس جب ایسے عیسٰی ؑکا زمین پر نزول ہو گا تو بڑے بڑے مسلم علماء اور عمائدین انہیںکیسے خوش آمدید کہہ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام کے متعلق اپنی لاعلمی دور کرنے کیلئے انہیں امام مہدی علیہ السلام کے حضور فی الفور حاضر ہو کر وقت ضائع کئے بغیر بیعت کرنا ہو گی۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے معًا بعد کیا آپؑ کو باہم متصادم مسلم فرقوں پر حکم و عدل تسلیم کر لیا جائے گا؟ کب اور کون آپ ؑ کو اسلام کی اس رنگ میں تعلیم دے گا کہ آپ ؑ ایسی عظیم الشان ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہو سکیں؟
اگر علماء اس بات پر مصر ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑکے زمین پر نزول سے پہلے ہی انہیں آسمان پر ایک مسلمان نبی کی حیثیت سے دوبارہ مامور کر دیا گیا ہو گا تو اس صورت میں انہیں قبل از اسلام زمانہ کا نبی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
خلاصۂ کلام یہ کہ قبل از اسلام کے ایک نبی کو مستعار لینے کا مطلب یہ ہے کہ آخری نبیﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد یا تو انہیں آسمان پر ہی اسلام کے نبی کی حیثیت سے مامور کیا جائے گا یا زمین پر اترنے کے بعد پہلے انہیں مسلمان بنایا جائے گا اور پھر بطور نبی مامور کیا جائے گا۔
اندورنی تضادات کا حامل ایسا بے سروپا نظریہ خواہ دنیا کو کتنا ہی لغو اور غیر معقول نظر کیوں نہ آئے کٹر اور قدامت پرست علماء کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔ ان کے نزدیک آسمانی پیشگوئی کی تفہیم میں دلائل اور معقولیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔ یہ لوگ پیشگوئیوں کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ اس طرح اسلام کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ یہی دیوانگی دراصل ان کے فکر و تدبر، امیدوں اور خواہشات میں پائے جانے والے انتشار کا باعث ہے۔
المختصر یہ کہ قبل از اسلام کے ایک اسرائیلی نبی کو مستعار لینا اتنا مفید نہیں جتنا علماء سمجھتے ہیں۔ ان کی کمال درجہ کی ہٹ دھرمی کا کیا کہنا! وہ آسمانوں سے اترنے والے ایک اسرائیلی نبی کو تو قبول کرنے کیلئے تیار ہیںلیکن امت مسلمہ میں جنم لینے والے کسی نبی کو قبول کرنے کیلئے ہرگزتیار نہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکی دوبارہ آمد کے اس من گھڑت قصہ سے انہیں اور بہت سے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ آسمانوں سے نازل ہونے والے عیسیٰ عام بشر نہیں ہوں گے بلکہ زمین پر اترنے سے پہلے وہ ایسی فوق البشر طاقتیں حاصل کر چکے ہوں گے جن کا اس سے قبل انبیاء کی پوری تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکا یہ خیالی نقشہ علماء نے اپنے اسی میلان کے نتیجہ میں تخلیق کیا ہے جس میں وہ پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دلائل اور عقل کو رد کر دینے کی احمقانہ کوشش کی وجہ سے انہیں کتنی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسلام کا جو رہا سہا وقار اور عزت ہے آخری زمانہ میں اس کو بچانے کی ذمہ داری وہ حضرت عیسٰی ؑپر ڈال دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ حضرت عیسٰی ؑہی دجّال کے خلاف پورے کرہ ٔارض میںتن تنہا حملہ آور ہوں گے۔ اس خوفناک اور یک چشم کانے دجّال کو شکست دینے اور ہلاک کر دینے کے بعدحضرت عیسٰی ؑتمام دنیا کی حکومتوں کی چابیاں مسلمانوں کے حوالہ کریں گے۔ نیز جمعشدہ بے بہا دولت اور خزائن بھی ان میں تقسیم کر دیں گے۔ اس طرح دجّال کی لڑائی میں ہاتھ آنے والا تمام مال غنیمت مسلم امت کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جائے گا۔
لوگوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دیں گے جن کا تعلق مذہب سے ہے۔ وہ اپنی مہم کا آغاز عیسائیت پر حملہ سے کریں گے۔ چنانچہ دنیا میں ہر قسم کی صلیب کو توڑنا خواہ وہ کسی چیز کی بنی ہوئی ہو، آپؑ کا فرض منصبی ہو گا اور صلیب کی تلاش میں آپؑ ہر خانقاہ، ہر گرجا، ہر معبد اور ہر راہب کے ٹھکانے پر جائیں گے اور ہر شہر کے ہر گلی کوچے میں گھومیںگے۔ وہ ہر رہگیر کو گھور گھور کے دیکھیں گے۔ خواتین شایدان کی خاص جستجو کا مرکز بنیں گی۔ کیونکہ حضرت عیسٰی ؑاُن کی اس قبیح عادت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ اپنے جواہرات اور زیورات پر صلیب کندہ کروا لیتی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں گے کہ خواتین صلیبوں کو اپنی گردن میں لٹکائے رکھتی ہیں۔ چنانچہ آپؑ ان کی ہر چوڑی، ہر کڑے، ہر لاکٹ اور ہر بُندے کو جس پر صلیب کا نشان ہو گا چھین لیں گے۔ افسوس ان خواتین پر جو حضرت عیسٰی ؑکے راستہ میں آنے کی جرأت کریں گی۔ لیکن یہ بے چاری قابل رحم خواتین کہاں جا کر چھپ سکیں گی کیونکہ حضرت عیسٰی ؑتو ہر گھر میں داخل ہوں گے۔ ہر زیور والی الماری اور صندوق کی تلاشی لیں گے۔ ہر دیوار اور ہر کونے کو چھان ماریں گے۔ چنانچہ تمام ظاہری صلیبیں توڑ پھوڑ کر دنیا سے نابودکر دی جائیں گی۔ آپ ؑجب تک یہ فرض پوری طرح ادا نہ کر لیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ہے وہ تصور جو قدامت پسند مسلمان حضرت عیسٰی ؑکی آمدِثانی کی غرض کے حوالہ سے رکھتے ہیں بشرطیکہ ان کی آمدِثانی اس رنگ میں واقعۃً وقوع پذیر بھی ہو۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ تثلیث کی اس نشانی کو مکمل طور پر نابود کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان دوسرے فرائض کی طرف توجہ دیں گے جن کا ذکر آسمانی پیشگوئیوں میں ملتا ہے بشرطیکہ انہیں ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے۔ آپ بلا توقف دنیا میں موجود ہر غیر مسلم کو قتل کرنا شروع کریں گے۔ ان لوگوں کے پاس صرف ایک ہی رستہ ہو گا کہ یا تو مسلمان ہو جائیں یا مرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ قتل کرنے کے لئے آپؑ ایک انوکھا طریق اختیار کریں گے۔ آپؑ کسی افسانوی اژدہا کی طرح منہ سے آگ پھینکیں گے، اگرچہ دیومالائی کہانیاں بھی اس قسم کے تصور کی متحمل نہ ہوں۔ آپ کی دہکتی ہوئی سانس کے اثر سے کوسوں میل دور موجود کافر بھی جل کر راکھ ہو جائیں گے اور آپ کی تلوار کی زد میں آنے والوں کے سر قلم کر دیئے جائیں گے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ فوراً ہی شناخت کر لیں گے کیونکہ ہر کافر کی پیشانی پر واضح طور پر ’الکافر‘ کا لفظ ابھر آئے گا۔ اس طرح آپ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ سوائے مسلمانوں کے اور ان عیسائیوں کے جو اس وقت عیسائی نہیں رہے ہوںگے اور ان کے پاس عبادت کیلئے ایک بھی صلیب نہیں رہے ہو گی۔ اس خیالی عیسٰی ؑکے اس بے مثال قتل عام کے بعد کرۂ ارض بدبو اور شدید سڑاند سے بھر جائے گا جو مقتولوں اور جل کر مرے ہوئے انسانوں کی لاشوں سے اٹھ رہی ہو گی۔ اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ نفرت مزید نفرت کو جنم دے گی اور خونریزی مزید خونریزی کا باعث بنے گی۔
حضرت عیسٰی ؑکی آخری ظالمانہ کارروائی روئے زمین سے سؤروں کی نسل کو نابود کرنا ہو گی۔ سؤروں کیلئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ تمام سؤر بمع ’اہل و عیال‘ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ دہکتی ہوئی سانس اور ہاتھ میں تلوار تھامے حضرت عیسٰی ؑشہر شہر، گاؤں گاؤں، گلی گلی، گھر گھر اور ہر باڑہ میں چھپے ہوئے ان بد ذاتوں کو تلاش کرتے پھریں گے۔ وہ ان کی تلاش میں تمام جھاڑیوں کو چھانٹ ماریں گے اور پھر جنوبی امریکہ کے گھنے جنگلات میں ان کا شکار کریںگے۔ ان کے حملہ سے نہ تو چین بچ پائے گا اور نہ ہی جاپان۔ بلکہ سؤر کی تلاش میں جنوبی بحرالکاہل کے جزائر جہاں اس کا گوشت مرغوب غذا شمار ہوتا ہے کو بھی خوب کھنگالا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ساری انسانی تاریخ میں کسی نبی نے ایسا خونی اور غلیظ کام نہیں کیا جو قدامت پسند علماء حضرت عیسٰی ؑکی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ وہ سلوک ہے جو مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کے گہری حکمتوں پر مبنی کلام کے ساتھ روارکھا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اس پیشگوئی کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔
اس پیشگوئی میں مسیح موعود کا اصل کام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو غیر انسانی طرزعمل اور ان بدعا دات سے پاک کرے جو سؤر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بہت سے جانور اور پرندے زندہ رہنے کے لئے کسان کی محنت پر انحصار کرتے ہیں لیکن محض کھیل تماشے کی خاطر فصلوں اور درختوں کو برباد نہیں کیا کرتے۔ تباہ و برباد کرنے کی اس خصلت میں سؤر منفرد ہے۔ خشکی کے تمام جانور وں میں صرف سؤر ہی اپنے مردہ بچوں کو کھا جانے کے اعتبار سے بد نام ہے۔ خون کا پیاسا شیر یا سفاک بھیڑیا اپنے مردہ بچوں کے پاس بھوک سے مر توسکتا ہے لیکن ان کو کھا جانے کا خیال اس کے دل میں نہیں آسکتا۔ حتیٰ کہ کتے بھی اپنے مردہ پلّوں کو نہیں کھاتے۔ یاد رہے کہ سؤر سبزی خور جانور ہے تاہم کسی بہیمانہ خصلت کی بنا پر وہ اپنے ہی مردہ بچوں کی لاشوں کوبڑے شوق سے ہڑپ کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ پیغام مضمر تھا کہ ان انسانوں کی بگڑی ہوئی عادات کے خلاف ایک مقدس جنگ لڑی جائے جو کمزوروں کی نسل کشی اور ان کے حقوق غصب کرنے میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ سؤروں کی اپنے بچوں کو کھا جانے کی قبیح عادت کو موجودہ زمانہ میں بچوں کے ساتھ نامناسب سلوک سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بچوں سے بدسلوکی خواہ اپنے بچوں سے ہو یا اوروں کے بچوں سے، بہرحال ایک خصلت ہے۔ آج کل چونکہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرہ میں عام بحث کا موضوع بن گیا ہے اس لئے اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ کسی اور جانور کو اس برائی میں انسانوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔
انبیاء کا مقصد ہمیشہ برائی کے خلاف جہاد رہا ہے اس لئے اگر عیسٰی ؑبن مریم کا آنا استعارۃً خیال کیا جائے تو ان کی آمد کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن وہ عیسٰی ؑ جنہیں ملاّیت نے بت بنا رکھا ہے اور جو لفظاً سؤروں کو قتل کریںگے ایسے ہی عیسیٰ کی انہیں ضرورت ہے اوراس کیلئے وہ چشم براہ ہیں۔ اور جونہی ان کی آنکھوں کا یہ تارا نازل ہو کر عالم حیوانات سے سؤروں کا خاتمہ کر دے گا تو وہ زبردست خراجِ تحسین کا حقدار ٹھہرے گا اور اس کے آخری پُر شوکت اور جلالی ایام عزّت و تکریم سے یاد کئے جائیں گے۔
سمندروں، پہاڑوں اور وادیوں سے ’عیسیٰ زندہ باد‘ کا نعرہ بلند ہو گا۔ آپ کی قتل و غارتگری پر گرجوں کی گھنٹیاں تو خاموش رہیں گی لیکن مسجد کے مینار ے اس صدا سے ضرور گونج اٹھیں گے۔ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، ہمارا منجی عیسیٰ زندہ باد۔‘‘
بالآخر حضرت عیسٰی ؑکو دنیا سے کوچ کرنے سے پہلے ایک اور اہم کام سر انجام دینا ہو گا جس کیلئے آپ کو ملّاں کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔ بقول ان ملّاؤں کے آپ ؑ کو ہمیشہ ہی ملّاں کا مفاد پیش نظر رہا اور اب چاہئے کہ ملاّں بھی کم از کم ایک مرتبہ تو حضرت عیسٰی ؑکا خیال کرے۔ ان عالمگیر کارناموں کے بعد آپ ؑکا ملّاں سے صرف اتنا مطالبہ ہو گا کہ وہ شادی کروانے میں ان کی مدد کریں۔ اتنے قتل و غار ت اور خونریزی کے بعد شادی ان کیلئے یقینا ایک بہت خوشگوار تبدیلی ہو گی۔ اگر ملاّں حضرات کو آسمانی پیشگوئیوں کو ظاہری معنوں میں لفظاً پورا کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اب انہیں حضرت عیسٰی ؑکیلئے نہایت شاندار اور خوبرو دوشیزہ تلاش کرنی ہو گی جس سے حضرت عیسٰی کے ہاں اولاد بھی پیدا ہو۔ لیجئے ! اب حضرت عیسیٰ ؑشادی کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اس مقدّس کام کیلئے کسی بڑے ملّاں کی ضرورت بھی ہو گی جو نکاح پڑھا سکے اور آپ ؑکے ہونے والے سسر سے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنی دختر نیک اختر کا ہاتھ حضرت عیسیٰ ؑکے ہاتھ میں دینے کے لئے راضی ہے۔؟ اس منظوری کے بعد بالآخر حضرت عیسٰی ؑکی باری آئے گی جو اپنی رضا مندی ظاہر کریںگے۔ یہ کتنی مسرّت اور انبساط کے لمحات ہوں گے۔ کتنی سر مستی کی حالت ہو گی۔ دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ مجرد رہنے کے بعد آپؑ کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے ’’مجھے قبول ہے۔ میرے عزیز ملّاں۔ مجھے قبول ہے‘‘۔ آپ ؑکے کارہائے نمایاں کا جشن منانے کیلئے اس سے بہتر اور کونسا طریق ہو سکتا ہے۔ شمال سے جنوب۔ مشرق سے مغرب ہر جگہ آپ ؑکی تعریف میں گیت گائے جائیں گے۔ اس خوشی کے موقع پر شادی کے نغمات کی سریلی آوازوں سے پوری فضا معمور ہو جائے گی۔ اب حضرت عیسٰی ؑکا صرف ایک یہ کام باقی رہ جائے گاکہ آپ ؑاپنے پلوٹھے کی پیدائش کا انتظار کریں گے جس کے بعد مزید بیٹوں اور بیٹیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عمر ہونے کے باوجود آپ ؑکے ہاں بچوں کی پیدائش ان تمام معجزات سے بڑھ کر ایک معجزہ ہو گی جو آپؑ اُس وقت تک دکھا چکے ہوں گے۔ آپ ؑکی روح تو ہمیشہ سے توانا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑکا جسم بھی کچھ کم طاقتور نہ ہو گا۔ کتنا عظیم الشان معجزہ ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ا ٓپؑ قوی سے قوی تر ہوتے چلے جائیں گے۔ جبکہ آپؑ کا بڑھاپا پہلی بعثت میں ہی کہیں دفن ہو چکا ہو گا۔ بالآخر موت کی گھڑی آپہنچے گی لیکن یہ موت بھی کیسی شاندار اور قابل رشک ہو گی۔ مبارک وہ دن جب آپؑ پید ا ہوئے اور مبارک وہ گھڑی جب آپؑ کی وفات ہو گی۔
حضرت عیسٰی ؑکی یہ وہ دلفریب داستان ہے جو اگر حقیقت کا روپ دھار لے تو ملّاں حضرات تمام اسلامی مدارس میں اسے سال ہا سال نسلاً بعد نسلٍ دہراتے چلے جائیں گے۔
جاہل مادہ پرست علماء نے آسمانی پیشگوئیوں کا جو حشر کیا ہے مذہب کی پوری تاریخ میں اس سے زیادہ دلخراش مثال نہیں ملتی۔ لیکن یہ بات صرف مسلم علماء سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ جب بھی کسی بھی جگہ ملّائیت مذہبی نظام پر قابض ہو جاتی ہے تو وہ اسی طرح حقائق کو افسانوں اور دیومالائی کہانیوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جب انسان اپنے ایمان کو عقلِ سلیم اور شعور سے عاری ملائیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے جو صحیح اور غلط میں امتیاز نہ کر سکے تو اسے ہمیشہ اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ملائیت کا کردار کچھ بھی کیوں نہ ہو معقولیت نام کی کوئی چیز ان کے ہاں نہیں پائی جاتی۔
دنیا کے تمام مذہبی لیڈروں میں سب سے زیادہ افسوسناک حالت مسلم ملائیت کی ہے۔ اسلام کی آخری فتح کیلئے ان کی لاحاصل تمنائیں دراصل پیشگوئیوں کی حد درجہ غلط توجیہات پر مبنی ہیں جن کی حیثیت کسی سراب یا واہمہ سے زیادہ نہیں۔ اسلام تو درکنار یہ تو اب کسی معمولی سی مذہبی تنظیم کی قیادت کے اہل بھی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی نبی کی اطاعت کے اہل رہے ہیں خواہ پرانا نبی ہو یا نیا۔
حضرت عیسٰی ؑ کے زورِبازو سے حاصل ہونے والی اسلام کی آخری فتح کے بارہ میں علماء کا تصور انہیں اسلام کی آخری فتح کی جدوجہد میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے فارغ کر دیتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان علماء کو ایک نبی کی نہیں بلکہ ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس قسم کے عیسیٰ کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں تمام سلسلہ انبیاء میں آج تک کبھی کوئی ایک بھی ایسا مبعوث نہیں ہوا۔ قرآن کریم یا دیگر الہامی کتب میں کسی بھی ایسے نبی کا ذکر نہیں ملتا جو اپنی قوم کے غلبہ کیلئے تن تنہا لڑاہو اور اس کی قوم ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہو۔ یہی مطالبہ یہود نے حضرت موسیٰؑ سے کیا تھا لیکن اسے ردّ کر دیا گیا تھا۔ اگر کسی مذہب کی آخری فتح بغیر قربانی اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہو سکتی ہے تو پھر کسی نبی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ نبی تو ہمیشہ قربانیوں کی طرف ہی بلایا کرتا ہے۔ ان علماء کا اس قسم کے شاہ خرچ عیسیٰ کا تصور کسی جنّ بھوت کے تصور کے مشابہ تو ہو سکتا ہے لیکن ایک آسمانی مصلح کے مشابہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کا اصل مسئلہ ایک پرانے یا نئے نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا نہیں بلکہ جنّ اور نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل ایک مشہور الف لیلوی داستان کی یاد تازہ کرتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جادو گر، پھیری والے کے لباس میں بغداد کی گلیوں میں یہ آواز لگاتا پھرتا تھا کہ ’’پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔‘‘ بہت سی خواتین یہ آواز سن کر باہر آگئیں تا کہ پرانے چراغ کے بدلے نیا چراغ حاصل کر سکیں۔ ان کے خیال میں واقعۃً یہ ایک اچھا سودا تھا۔ تاہم اس میں ایک استثناء بھی تھا اور وہ یہ کہ ان خواتین میں سے ایک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے پرانے چراغ میں جو اس نے اس جادوگر کو دے دیا، ایک لامحدود طاقتوں والا جنّ مقیّد ہے۔ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس چراغ کا مالک جنّ کا مالک بھی بن جاتا ہے۔ اس دھوکہ باز پھیری والے کی دلچسپی چراغ میں مقیّد جنّ سے تھی نہ کہ چراغ سے۔ اگر لاکھوں نئے چراغوں کے بدلے ایک پرانا چراغ حاصل کر کے جنّ پر قبضہ ہو جائے تو اس سے بہتر اور کونسا سودا ہو سکتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ملّاں کی دلچسپی نہ تو آنحضرتﷺ کے روشن کردہ نئے نورانی چراغ سے ہے اور نہ ہی موسوی امت کے پرانے چراغ سے۔ انہیں تو صرف اس شاہ خرچ عیسیٰ سے دلچسپی ہے جو ان کی خیالی دنیا میں محصور ہے۔ ان کی نظر میں آسمانی مشعل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ تو انہیں نبی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی پرواہ۔ انہیں تو صرف ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے جو ان کے اشاروں پر دنیا بھر کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر کر دے۔
ان کی تمنا تو صرف یہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر سیاسی اور اقتصادی اقتدار حاصل کر لیں جس کے حصول کیلئے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ انہیں صرف اسی کام میں مہارت ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے اور خون بہاتے رہیں۔
کسی مسلم ملک میںملاّں کا لایا ہوا خونی انقلاب دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے۔ یہ انقلاب کسی طرح بھی طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑ سکتا۔ سائنسی اور تکنیکی ترقی کے بغیر دنیا پر غلبہ کا خواب، اقتصادیات اور صنعت میں انقلاب لائے بغیر طاقت کے موجودہ توازن کو بدلنے کی خواہش اور اسی طرح جدید ترین اور حساس سامان حرب کو خود بنانے کی قابلیت حاصل کئے بغیر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنا پاگل پن کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ا س مقصد کے حصول کیلئے تمہارے پاس ہے ہی کیا؟
ان ملاّؤں کو خوب جان لینا چاہئے کہ اسلام کے مقدس بانی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیمالشان پیشگوئیوں کو دیدہ دلیری سے مسخ کر نے کی اس گھناؤنی حرکت کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ ان ملاّؤں اور ان کے حواریوں کے مقدر میں سوائے ناکامی اور تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ وہ سزا ہے جو انہیں خدائی حکمت کو مسخ کرنے کی جسارت کی پاداش میں بہرحال بھگتنا ہو گی۔ انہیں چاہئے کہ وہ چپ چاپ وقت گزرنے دیں اور اپنے کان آسمان سے اترنے والے عیسیٰ کے قدموں کی آہٹ سننے کی طرف لگائے رکھیں۔ یاد رکھیں کہ وہ نسلاً بعد نسلٍ اسی امید اور انتظار میں جیئیں گے اور اسی حسرت کے ساتھ مریں گے۔ لیکن ان کو ان کی کج فہمی اور قول و فعل کے تضاد کے جال سے نکالنے والا کبھی نہیں آئے گا۔ ہر لمحہ اور ہر پل جو گزرتا ہے وہ ان کے دلوں سے خدا کا خوف ختم کرتا جا رہا ہے۔ دیانتداری، انصاف،بے لوث قربانی، باہمی اخوت اور دوسروں کی املاک کا احترام جیسے اخلاق قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ان کا ذکر تو بڑے زور شور سے کیا جاتا ہے لیکن انہیں اپنایا نہیں جاتا۔ ان کے متعلق جوش و خروش تو بہت دکھایا جاتا ہے اور بڑے پیار اور محبت سے اخلاق عالیہ کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن صرف خیال کی حد تک۔
چوری، ڈاکہ، قتل، بچوں سے بدسلوکی، اغوا، زنا، بدکاری، عصمت فروشی اور دھوکہ دہی جیسے جرائم کی وہی لوگ پولیس میں رپورٹ درج کرواتے ہیں جو ان کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ یہ سانحہ گزرا ہوتا ہے۔ باقی لوگ اسی گندے ماحول میں رہ کر ہی اس غلیظ زندگی سے صلح کر لیتے ہیں۔ مزید برآں امن و سلامتی کے نام نہاد محافظ ہی دن دہاڑے اجتماعی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ رشوت، بددیانتی اور کھلے بندوں دیدہ دلیری سے قانون شکنی کی جسارت ان اعلیٰ عدالتوں کے ان منصفین کا شیوہ ہے جو انصاف کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے معاشرہ میں یہی سلامتی کے رکھوالے لوگوں کے ناحق قتل اور شر کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے فتنہ و فساد روزمرہ کا دستور بن جاتے ہیں۔ تا ہم یہ عجیب بات ہے کہ ابھی تک یہ معاشرہ اچھے اور برے کی تمیز سے عاری نہیں ہوا۔ معاشرہ جس برائی کو جنم دیتا ہے اسی سے نفرت بھی کرتا ہے۔ جن خوفناک جرائم کا مرتکب ہوتا ہے انہی سے کراہت بھی محسوس کرتا ہے۔ اپنی ہی پھیلائی ہوئی گندگی سے گھن بھی کھاتا ہے۔ اپنی ہی پیداکردہ برائیوں کی جگہ جگہ اور ہمہ وقت مذمت بھی کی جاتی ہے۔ ان برائیوں پر اس زورشور اور تکرار سے تنقید اور *** ملامت کی جاتی ہے کہ اس کی بازگشت اقتدار کے اونچے ایوانوں سے لے کر غریب کی کٹیاتک سنائی دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود روز مرہ کی زندگی میں معاشرہ کے ہر طبقہ میں اور ہر سطح پر ان برائیوں کو بلا تردداختیار بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا عمل ان کے قول سے متصادم ہوتاہے۔ اس جھوٹ کے ساتھ وہ زندہ رہتے ہیں اور اس موت کا مزہ وہ روز چکھتے ہیں جسے وہ زندگی کا نام دیتے ہیں۔ کہاں ہیں اسلامی اقدار کے پاسدار اور کہاں ہیں تہذیب کے علمبردار؟ کیا اِن میںسے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ان تلخ حقائق کو دیکھ کر اپنے آرام اور سکون کا ایک لمحہ بھی قربان کر سکے؟ آخر ان کے نزدیک اس صورتِحال کی اہمیت ہی کیا ہے، اور اگر ہو بھی تو ملاّں کی بلا سے! ایسے معاشرہ میں اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے جسے یہ یقین دلادیا گیاہو کہ خدائی تقدیر بالآخر ضرور ظاہر ہو گی اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اپنی آسمانی قرار گاہ سے زمین پر نازل ہو کر مسلمانوں کو حکومت و اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا دیں گے اور مسلمان ہی اس وقت سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ اس طرح ملاّں مسلم عوام کو اس وقت تک لوریاں دے کر سلاتے رہیں گے جب تک مغرب کی عیسائی دنیا کا خدا ان سے منہ موڑ کر پوری شان سے مشرق کے مسلمانوں کا آقا بن کر جلوہ گر نہ ہو جائے۔ ملاّں کو کیا پڑی ہے کہ اپنے مریدوں کے ریوڑ کے اخلاقی دیوالیہ پن کی فکر کرے، ان کی اصلاح کی کوشش کرے اور ان کی بیمار اور مایوس اخلاقی حالت کے علاج کی بے سود کوشش کرتا پھرے۔ بس صبر اور انتظار ہی اس کا واحد علاج ہے۔ پس اس گھڑی کا انتظار کرتے رہو۔ اور اگر بغرض محال یہ تقدیر پوری ہو جائے تو وہ لمحہ کتنا خوف ناک ہو گا ! خدا کی پناہ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو سکتی ہے کہ مخلوق خدا ملّاں کے زیر تسلط آجائے۔ کیا حضرت عیسیٰ نعوذ باللہ اتنا گر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اور کیا وہ ایسے صریح جرم میں کبھی شریک ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا خدا کا کوئی اور نبی، وہ کبھی اس حد تک نہیں گر سکتا کہ ایسے بدکردار لوگوں کی حمایت میں بھی کھڑا ہو جائے۔ یہ کام تو اقتدار کے بھوکے اور لوگوں کے سفلی جذبات سے کھیلنے والے ان سیاستدانوں کو ہی زیب دیتا ہے جنہیں درندہ صفت انسان تو کیا، درندوں کا حاکم بننے میں بھی تامّل نہیں ہواکرتا۔ ایسے شخص کو خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد حاصل ہو یا نہ ہو، اپنے نا پاک عزائم کی تکمیل کے لئے وہ اپنے زعم میںمقدس نبیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر بھی اپنا مطلب نکالنے سے نہیں ہچکچاتا۔
ملاّں کے خواب تو پاگلوں کی حرکات سے بھی زیادہ احمقانہ ہوتے ہیں لیکن کیا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیرہو سکتے ہیں۔ ایسے خواب کبھی بھی تاریکی کو روشنی میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کبھی ان سے کوئی نیا دن طلوع ہو سکتا ہے۔ یہ نئی سحر ہی ہے جو اس قسم کے خوابوں کا تاروپود بکھیر دیا کرتی ہے۔ ملاّں کو ہمیشہ کیلئے سونے دیں اور اسے اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں اقتدار کی لا محدود خواہشیں اور اس کے فریب اور وہم سے بہلنے دیں۔مگر کا ش! مسلمان بیدار ہو جائیں اور ملّاں کو یونہی قیامت تک خوابِ خرگوش کے مزے لینے دیں۔ اور ملاّں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی گہری نیند میں ڈوبا رہے اور خدا کے لئے آنحضرتﷺ کی امّت کو تنہا چھوڑ دے تا اسے پھر سے دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہو۔
تتمہ
آخر پر ہم انبیاء کے علاو ہ دوسروں پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر کرتے ہیں۔ اس نظریہ کو تسلیم کرنا حد درجہ مشکل ہے کہ نبوت کے خاتمہ کے ساتھ عام آدمی پر نازل ہونے والی وحی بھی بند ہو جائے۔ خداتعالیٰ پر غیر متزلزل اور مستحکم ایمان کیلئے محض عقلی تحقیق ہی کافی نہیں بلکہ وحیٔ الٰہی بھی ضروری ہے۔ خدا ئے علیم و خبیر اور قادر مطلق پر ازدیادِ ایمان کیلئے وحی ٔالٰہی ہمیشہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
وحی صرف نبوت کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تو جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے مابین تعلق اور رابطہ کا ذریعہ ہے، وہاں یہ ایک عالمگیر انسانی تجربہ بھی ہے۔ اس لئے اس کا انکار درحقیقت ہر دور کے کروڑوں بندگانِ خدا کی شہادت کا انکار ہے۔
وحی ٔالٰہی سے بالعموم ان بندگانِ خد ا کو سرفراز کیا جاتا ہے جو اپنے آپ کو خالصۃً رضائے باری تعالیٰ کے تابع کر لیتے ہیں۔ جو لوگ خداتعالیٰ کا انکار کرتے ہیں یا اس کے وجود پر مبہم سا ایمان رکھتے ہیں، انہیں شاذونادر ہی وحی و الہام سے نوازا جاتا ہے۔ یہی اصول حد سے زیادہ ایسے گناہگاروں پر اطلاق پاتا ہے جو ہمہ وقت دنیوی فوائد اور مادی لذّات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی خداتعالیٰ کے اس فضل سے محروم نہیں رکھے جاتے۔ اگر خدا کسی وقت کسی کو سچے خواب، مکاشفات اور مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرنا چاہے تو کون ہے جو اس کو روک سکے۔
وحی ٔالٰہی ہمیشہ وحی پانے والے یعنی مُلہَم کے تقوٰی و طہارت کی دلیل نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ وحی ٔالٰہی کا نزول اس لئے بھی ہوتا ہے تا بنی نوع انسان کو یاد دلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ واقعی موجود ہے اور وہ جس سے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔ نمونے کا ایسا کلام کسی مذہب، ملک یا زمانہ سے مخصوص نہیں۔ یہ فیض عام ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کے وجود اور وحی ٔالٰہی کے سلسلہ پر سرے سے ایمان ہی اٹھ جاتا۔ ایسے نمونہ کے الہامات تو اس اچانک غیرمتوقع بارش کے چھینٹوں کی طرح ہیں جو کسی خشک اور بے آب وگیاہ صحرا میں زندگی بخش نخلستانوں کو پیدا کر دیا کرتے ہیں۔
بعض منکرین اس عالمگیر شہادت کو محض ایک ذہنی واہمہ قرار دے کر رد کر دیا کرتے ہیں۔ بے شک یہ بات خارج از امکان قرار نہیں دی جا سکتی۔ لیکن وحی ٔالٰہی کی شہادت اس قسم کے واہمہ سے اس قدر الگ اور ممتاز ہوا کرتی ہے کہ ان دونوں کو باہم خلط ملط کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ان کا باہمی فرق اتنا ہی واضح اور بیّن ہوا کرتا ہے جیسے زندگی اور موت یا روشنی اور اندھیرے کا۔ تا ہم یہ بھی درست ہے کہ جوں جوں ہم نبی کے زمانہ سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں یہ شہادت بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مادہ پرستی لوگوں پر زہر کی طرح اثر کرتی ہے۔ ان کے ذہنوں کو آلودہ کر دیتی ہے اور دلوں کی پاکیزگی کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ وحی ٔالٰہی پر ایمان بھی اس نسبت سے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخربے یقینی اور تشکک کے باعث روحانی موت کا ایک منجمد دور شروع ہو جاتاہے۔ صرف جھوٹ اورفریب باقی رہ جاتے ہیں۔ منافقت گھس آتی ہے اور مذہب کا تقدس پامال ہو جاتا ہے۔ ایمان صرف نام کا باقی رہ جاتا ہے۔ اکثریت کی عملی زندگی ان کے دعویٔ ایمان کی نفی کرتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ سے سچائی مفقود ہو جاتی ہے۔ شک والتباس بلکہ بے ایمانی یقین کے ایوانوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ روحانیت ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ تا ہم اس کے باوجود خدا اور بندہ کے درمیان مکالمہ مخاطبہ ختم نہیں ہوتا۔ ایسے میں وحی ٔالٰہی ہی دم توڑتے ہوئے ایمان کو زندہ رکھتی ہے۔ اس مکمل تاریکی میں بھی عشق الٰہی میں مخمور لوگوں پر اللہ تعالیٰ پوری شان سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ شکوک و شبہات اور جہالت کے اس دور میں کہیں کہیں نمونہ کے طور پر وحی ٔالٰہی کے چھینٹے پڑتے بھی ہیں تو ان کی خدا کے اپنے خاص بندوں سے محبت کے اظہار سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ قرآن کریم مسلسل یہی پیغام دے رہا ہے اور بڑی وضاحت سے ایک مومن کو ہر دور میں وحی ٔالٰہی سے مشرف ہونے کا وعدہ دیتا ہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کو ارشاد فرماتا ہے کہ آپﷺیہ اعلان فرمائیں:

(الکھف111: 18)
ترجمہ : کہہ دے کہ میں تو محض تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔ پس جو کوئی اپنے ربّ کی لقاء چاہتا ہے وہ (بھی) نیک عمل بجا لائے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔
قرآنی الفاظ یَرْجُوْا لِقَائَ سے واضح طور پر وحی ٔالٰہی مراد ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ کہ کون اس کا اہل ہے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے نہ کہ بندہ کے اختیار میں۔
وحی ٔالٰہی کا یہی وعدہ ان مومنوں کیلئے جو ہر ابتلا میں ثابت قدم رہتے ہیں، زیادہ وضاحت کے ساتھ قرآن کریم کی دیگر بہت سی آیات میں موجود ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

(حٰم السّجدہ32-31:41 )
ترجمہ : یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا۔ اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔ ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔
ان آیات کی موجودگی میں وحی ٔالٰہی کے جاری رہنے کے بارہ میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم مزید فرماتاہے:

(البقرۃ187:2 )
ترجمہ: اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں۔
یہاں وحی ٔالٰہی کا دائرہ وسیع کر کے ان تمام بندگانِ خدا کو شامل کر لیا گیا ہے جو خلوصِ نیت سے اسے تلاش کرتے اور اس کی آواز پر کامل فرمانبرداری سے لبیک کہتے ہیں۔ یہ ایک عالمگیر وعدہ ہے جو کسی زمانہ یا قوم سے مخصوص نہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو ہمیشہ امید کا پیغام دیتاہے اور خدا کے مکالمہ مخاطبہ کو ماضی تک ہی محدود نہیں رکھتا۔ خدا کا انسان کے ساتھ شفقت اور ہدایت دینے کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ جب بھی اسے تلاش کیا جائے وہ مل جاتا ہے۔ جب بھی اس سے دعا کی جائے وہ جواب دیتا ہے۔ وہ ازلی ابدی ہے۔ اس کی جملہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی کبھی معطل نہیں ہو گی۔
انسان ہمیشہ وحی ٔالٰہی کا محتاج رہے گا۔ سلسلۂ نبوت کے بعد وحی ٔالٰہی ہی تمام عقلی اور فلسفیانہ تحقیق کی موشگافیوں سے الگ ایمان کی کی شمع کو روشن رکھتی ہے۔ اسی سے انسان کو زندہ خدا کے وجود پر یقین نصیب ہوتا ہے۔ خدا اپنی قربت کے معروضی اور موضوعی دونوں قسم کے نشان دکھاتا ہے۔ وحی ٔالٰہی ہر قسم کے شکوک و شبہات کو دور کر کے ایمان کو تقویت بخشتی ہے۔ عہدحاضر میں اسلام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ قرون وسطیٰ کے علماء اور جدید دانشوروں کے درمیان کشمکش کا شکار ہے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار بڑی حد تک تو قرون وسطیٰ کے علماء ہیں لیکن علامہ اقبال جیسے مفکر اور مودودی صاحب جیسے مذہبی عالم بھی اسے نقصان پہنچانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ نیٹشے(Nietzsche)کا ہونہار شاگرد اقبال آسمانی ہدایت سےجان چھڑانا چاہتا ہے اور مودودی نے پولوس اوربہائی نظریات کا ایک ملغوبہ تیار کر دیا ہے۔ وہ نبوت سے اس لئے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے کہ کہیں نبی کا انکار قہر الٰہی کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ ان دونوں سورماؤں نے نہ تو نبوت کا کچھ باقی چھوڑا ہے اور نہ ہی وحی و الہام کا۔ یوں اسلام کا دامن ہر قسم کی امید سے خالی کر دیا ہے۔ عصرحاضر کے ایک عظیم شاعر فیض احمد فیضؔ کے مندرجہ ذیل اشعار ان دونوں مفکّروں کے فلسفہ کی بہترین عکّاسی کرتے ہیں:
اجنبی خاک نے دھندلا دئیے قدموں کے سراغ
گل کروشمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
افسوس صد افسوس ! پیشگوئی اور وحی ٔالٰہی جو ہر زندہ مذہب کی جان ہوتی ہے اسے یوں اسلام کے بدن سے ہمیشہ کیلئے نکا ل باہر کیا گیا۔ اس کھینچا تانی میں بس ایک نیم مردہ سا وجود باقی بچا ہے جس میں زندگی کی محض ایک بے مقصد اور بے سود سی رمق باقی ہے۔ نہ جانے یہ لوگ جلی حروف میں نقش اس نوشتۂ دیوار کو کیوں نہیں پڑھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر روحانی تجربہ سے وحی ٔالٰہی کو نکال دیا جائے تو ایمان محض قصوں کہانیوں تک محدود ہو جاتا ہے اور الہامِ الٰہی سے خالی روحانی زندگی بے معنی اور مذہب بیمقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔
الہامِ الٰہی نہ صرف ایمان کو جلا بخشتا اور روح کو منوّر کر دیتا ہے بلکہ ایمان میں زندگی کی روح بھی پھونک دیتا ہے۔ مادہ پرستی کے اس گھپ اندھیرے میں جب دہریت، مایوسی اور قنوطیت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے تو اس وقت صرف الہامِ الٰہی ہی ہے جو روشنی کا پیامبر بن کر ناامیدی کو امید میں اور کفر کے اندھیرے کو ایمان کی روشنی میں بدل دیتا ہے۔ جو مقام دن کے وقت سورج کو حاصل ہے وہی مقام مذہب میں نبی کو حاصل ہے۔ اسی طرح جو تعلق ستاروں کا اندھیری رات سے ہے بعینہٖ وہی تعلق وحی کا کفر کی تاریکی سے ہے۔ الہامِ الٰہی سے انکار اور نبوت کی نفی سے قیامت اور یقینی ہلاکت کے سوا کچھ بھی تو باقی نہیں بچتا۔
خدا حافظ
٭٭٭٭٭٭٭٭
فرہنگ
10248 سال : اگر 10 کے ساتھ248 صفر لگا دئے جائیں تو اتنے سال بنتے ہیں جن کا تصور کرنا بھی انسان کے لئے نا ممکن ہے۔
‏ Allotrope : کسی عنصر کی متعدد مادی شکلوں میںسے کوئی (گرافائٹ، کوئلہ اور ہیرا سب کاربن کے عنصری ملاپ ہیں) ۔
‏ Anti-bosons : ضدِّ ذرات۔
‏ Anti-neutrinos : ضدّ نیوٹرینوز۔
‏ Aurora : فضا میں روشنی کی دھاریاںجو قطب شمالی کے اوپر نظر آتی ہیں۔
‏ Bosons : کئی ابتدائی ذروں میں سے کوئی جو بوس اور آئن سٹائن کے بیان کردہ ربط کے تابع ہوتے ہیں۔
‏ Chromosomes : عموماً خلیوں کے مرکز میں پائی جانے والی ریشہ نما ساخت جس میں موروثی معلومات جینز(genes) یا مورثوں کی شکل میں منتقل ہوتی ہیں،لونیہ ، لونی جسمیہ۔
‏Cones : پردہ چشم میں واقع مہین مخروط اجزائ۔
‏Cytochromes : حیاتی کیمیا۔ ایک مرکب جس میں ایک پروٹین یا لحمیہ شامل ہے جو ہیم (Heam) سے علاقہ رکھتا ہے اور برقیروں کی منتقلی کے رد عمل میں بروئے کار آتا ہے۔
‏Electrolyte: ایک مادہ جو پگھلانے یا حل کرنے پر برقی توانائی کی ترسیل کرتاہے خصوصاً بیٹری یا برقی مور چوں میں مستعمل ہے۔
‏ Encephalitis : دماغ کی سوزش یا ورم۔
‏ Entropy: کائنات کے بکھرنے یاتوانائی زائل کرنے کی مقدار کا قیاسی پیمانہ۔
‏ Filariasis : خیطیت ۔ ایک عارضہ جو لمفی نالی میں خیطیہ کیڑوں کی موجودگی سے پیدا ہوتا ہے۔
‏ Ganglia : عصبی خلیات کا مجموعہ۔
‏Gnu : ایک قسم کا بیل نما افریقی جانور۔
‏:HCN Hydrocyanic Acid کا مخفف ہے۔
‏ Jurassic : دنیا کی تاریخ کادور وسیط یا بین حیاتی زمانہ جبکہ دریافت شدہ آثار کے مطابق کرۂ ارض پر بہت سے عظیم الجثّہ ڈائنا سار (مہیب سوسمار) ابتدائی پرندے اور پستانی جانور پائے جاتے تھے۔
‏NADP : Nicotinam adenine dinucleotide phosphate کا مخفف ہے۔
‏ Neutrinos : تحت جوہری مستحکم ذرّہ جس کی کمیّت تقریباً صفر ہوتی ہے اور بے بار ہوتا ہے یہ روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور عام مادّہ سے شاذ ہی متعامل ہوتاہے۔
‏Platelet : چھوٹا بے رنگ قرص کی شکل کا بلا مرکزہ خلیے کا ٹکڑا جو خون میں کثرت سے ہوتا اور خون میں پھٹکی پڑنے کا باعث ہے۔
‏RNA : مخفف ہےRibonucliec acidکا جبکہ DNA مخفف ہےDeoxyribonucliec acid کا۔ یہ جینیاتی مواد ہے جس میں جسم کی تشکیل کے لئے خدا تعالیٰ نے توارثی عنصرمحفوظ کیا ہوا ہوتاہے۔
‏ Receptor : کوئی عضو یا خلیہ جو بیرونی مہیّج مثلاً روشنی، حرارت یا دوا کا اثر قبول کرے اوراس کی بابت عصبی پیغام دے۔
‏ Rods : آنکھ کے اندر اسطوانی ساختوں میں سے کوئی جوکم روشنی کو شناخت کرتی ہیں
‏ Sonar : صوتی لہروں کی بازگشت سے فاصلے کا تعین کرنے کا نظام۔
‏Spetroscopic : طیف پیما یا طیف بین۔

الہام ، عقل
علم اور سچائی

مرزا طاہر احمد



2005
‏ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS



‎الہام، عقل، علم اور سچائی
(Ilham, 'Aql, 'Ilm aur Sachai)

Urdu translation of 'Revelation, Rationality, Knowledge and Truth'
by Hadrat Mirza Tahir Ahmad (1928-2003),
Khalifatul Masih IV, Head of the Ahmadiyya Muslim Jama'at.

© Islam International Publications Ltd.

Published in 2005 by:
Islam International Publications Ltd.
'Islamabad' Sheephatch Lane,
Tilford, Surrey GU10 2AQ,
United Kingdom.

Printed in U.K. at:



No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

ISBN: 1 85372 782 2
انتساب
میں اس کتاب کو بانی ٔجماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے نام کرتا ہوں جنہوں نے انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں فلسفہ اور مذہب پر مبنی دو معرکۃ الآراء کتب ’براہینِ احمدیہ‘‘ اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ تصنیف فرمائیں جن کی بدولت ظلمتیں چھٹ گئیں اور زمانہ آپؑ کے قلم سے پھوٹنے والی حکمت الٰہی کے نور سے بھر گیا۔ ان کتب کی آب و تاب محض انیسویں صدی تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اسے تو آئندہ آنے والی صدیوں تک عظیم مینارئہ نور بن کر دنیا کی رشدوہدایت کا موجب بننا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
میری زندگی کی یہ کامیابی میری والدہ محترمہ حضرت سیّدہ مریم مرحومہ کی مرہونِ منّت ہے جو خود تو اللہ کے حضور حاضر ہو چکیں لیکن ان کی دعائیں ہمیشہ میرے شاملِ حال رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔
آمین



فہرست مضامین
کچھ ترجمہ سے متعلق ix
اظہارِ تشکّر xiii
پیش لفظ xxi
باب اوّل
تعارف : تاریخی تناظر میں 3 فرد اور معاشرہ 11
اسلامی مکاتبِ فکر 17
فلسفہء یورپ 35
یونانی فلسفہ 65
باب دوم
ہندومت 93
بدھ مت 115
کنفیوشن ازم 135
تائو ازم 147
زرتشت ازم 151
دکھ اور الم کا مسئلہ 157
باب سوم
سیکولر نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ 171
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا خدا کے بارہ میں تصور 189
باب چہارم
الہام کی حقیقت 209
الہام اور عقل 223
ایمان بالغیب 235
البیّنہ: ایک بیّن اصول، القیّمہ: دائمی تعلیم 253
قرآن کریم اورکائنات 261
عنطراپی اور محدود کائنات 273
قرآن کریم اور غیر ارضی حیات کا وجود 285
باب پنجم
حیات: وحیٔ قرآن کی روشنی میں 293
زندگی کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات 303
جنّات کا وجود 311
ارتقا میں چکنی مٹی اور ضیائی تالیف کا کردار 317
بقا: حادثہ یا منصوبہ بندی؟ 339
قدرت میں سمت یا کائریلیٹی(Chirality) 355
نظریہء انتخابِ طبعی اور بقائے اصلح 365
شطرنج کی بازی یا اتفاقات کا کھیل؟ 409
کرئہ ارض پر زندگی کا مستقبل 417
عضویاتی نظام اور ارتقا 427
وقت کا اندھا، بہرہ اور گونگا خالق 449
باب ششم
عالَمِ غیب کا انکشاف اور قرآن کریم 497
عالمگیر ایٹمی تباہی 537
جینیاتی انجنیئرنگ 547
طاعون کا نشان 551
ایڈز کا وائرس 563
باب ہفتم
مستقبل میں وحی و الہام 571
کیا غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے؟ 589
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوّت 599
تتمہ ّ 621
فرہنگ 627
انڈیکس



کچھ ترجمہ سے متعلق
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ کی انگریزی زبان میں معرکۃ الآراء اور عہدساز تصنیف" "Revelation, Rationality, Knowledge, and Truth ( الہام،عقل، علم اور سچائی) کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
اس عظیم کتاب کے اردو ترجمہ کی انتہائی اہم ذمہ داری وکالت تصنیف کو سونپتے ہوئے حضوررحمہ اﷲ نے خاکسار سے ارشاد فرمایا:
‏’’ Revelation کے موضوع پر جو میری کتاب ہے لوگ اس کا اردو ترجمہ مانگ رہے ہیں۔ قبل ازیں آپ کو اس کا ترجمہ کرنے کی خواہش ظاہر کرنے والے دو احباب کے خطوط بھجوائے تھے تاکہ آپ خود ان سے رابطہ کر کے ان کے ترجمہ کا معیار دیکھ کر فیصلہ کریں۔ مگر اب میرے ذہن میں یہ تجویز آئی ہے کہ اس کے مختلف مضامین اور ابواب کو مختلف اہل علم کے پاس پھیلایا جا سکتا ہے۔‘‘
چنانچہ حسب ارشاد کتاب کے مختلف حصوں کے ترجمہ کا کام جماعت کے مختلف اہل علم احباب و خواتین کے سپرد کیا گیا جنہوں نے محنت اور اخلاص سے ترجمہ کیا۔ جن احباب و خواتین کو اس کارِخیر میں حصّہ لینے کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
٭ مکرم سیّد قمر سلیمان احمدصاحب
٭ مکرم مرزا فضل احمد صاحب
٭ مکرم سیّد محمود احمد صاحب
٭ مکرم مرزا ناصر انعام صاحب
٭ مکرم ٖڈاکٹر سیّد حمیداللہ نصرت پاشا صاحب
٭ مکرم ڈاکٹر سیّد جلید احمد صاحب
٭ مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب
٭ مکرم را جہ غالب احمد صاحب
٭ مکرم رانا محمد خان صاحب
٭ مکرم محمود احمد اشرف صاحب
٭ مکرم طاہر احمد نسیم صاحب
٭ مکرم طاہر احمد بھٹی صاحب
٭ مکرم پروفیسر مبارک احمد طاہر صاحب
٭ مکرم پروفیسر مبارک احمد عابد صاحب
٭ مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب
٭ مکرم شفیق الرحمن صاحب
٭ مکرم میاں عبدالقیّوم صاحب
٭ مکرم محمد محمود اقبال صاحب
٭ مکرم مرزا نصیر احمد صاحب
٭ مکرم محمد مقصوداحمد منیب صاحب
٭ مکرم ملک خالد احمد زفر صاحب
٭ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب
٭ مکرم ابن آدم صاحب
٭ مکرم مشتاق احمد صاحب شائق
٭ مکرمہ شاہدہ شمیم صاحبہ
٭ مکرمہ روبینہ ندیم صاحبہ
٭ مکرمہ ماریہ مظفر صاحبہ
٭ مکرمہ ناعمہ عفّت صاحبہ
٭ مکرمہ سیّدہ عفّت ثنا صاحبہ
٭ مکرمہ عائشہ منان صاحبہ
٭ مکرمہ امۃ المجیب صاحبہ
ترجمہ کے معیار کو جانچنے کی غرض سے محترم و مکرم چوہدری حمید اﷲ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمدیہ کی منظوری سے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی:
.1 مکرم سیّد قمر سلیمان احمد صاحب (صدر)
.2 مکرم بشیر احمد اختر صاحب (سیکرٹری)
.3 مکرم ڈاکٹر سیّد غلام احمد فرخ صاحب
.4 مکرم ڈاکٹر سیّد جلید احمد صاحب
.5 مکرم مرزا ناصر انعام صاحب
.6 مکرم محمود احمد اشرف صاحب
.7 مکرم ذوالقرنین صاحب
بعد میں مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب کو بھی اس کمیٹی میں شامل کر لیا گیا۔ کمیٹی نے مسلسل محنت اور تندہی سے سارے ترجمہ کا جائزہ لیا جس کی آخری چیکنگ خاکسار نے کی۔ اس دوران مکرم ذوالقرنین صاحب مربی سلسلہ بھی خاکسار کی مدد کرتے رہے۔
مسودہ کی پروف ریڈنگ اور کمپوزنگ وغیرہ کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل احباب نے بہت محنت سے کام کیا:
٭ مکرم بشیراحمد اختر صاحب
٭ مکرم راجہ عطاء المنان صاحب
٭ مکرم محمد مقصوداحمد منیب صاحب
٭ مکرم طاہر محمود مبشر صاحب
٭ مکرم کاشف عمران خالد صاحب
٭ مکرم عزیز الرحمن حافظ زادہ صاحب
٭ مکرم شیخ نصیر احمد صاحب
٭ مکرم افتخار اﷲسیال صاحب
٭ مکرم منصور احمد صاحب
یہ سب احباب اور خواتین ہمارے دلی شکریہ اور دعاؤں کے مستحق ہیں۔ فجزاھم اﷲ احسن الجزا۔
ترجمہ سے متعلق دو باتوں کا ذکر ضروری ہے:
.1کتاب میں مختلف مقامات پر جو آیات قرآنی مذکور ہیں، ان کا اردو ترجمہ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ تعالیٰ کے ترجمۂ قرآن سے لیا گیا ہے۔
.2 کتاب میں استعمال کی گئی بعض اصطلاحات اور الفاظ کے معانی کتاب کے آخر پر
دیئے گئے ہیں۔
چوہدری محمد علی
اظہارِ تشکر
جن لوگوں نے اس کتاب کی تصنیف کے دوران میری مدد کی ہے ان کی فہرست اگرچہ طویل ہے لیکن ان کی یادیں محبت بھرے جذبات کے ساتھ میرے دل پر نقش ہیں۔
کام کے مختلف مراحل میں مختلف احبابِ جماعت کا تعاون شامل حال رہا۔ ان میں سے اکثراحباب نے محنت اور صحت و درستی کے ساتھ اصل اردو متن سے ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ محنت ہرگز اکارت نہیں گئی۔ تاہم کسی بھی ترجمہ کا تنقیدی جائزہ لینے پر ہر بار نئے نئے خیالات نے جنم لیا جو بعد میں کتاب کا حصہ بنتے چلے گئے۔ ان تراجم کے تنقیدی جائزہ کے بعد میں نے اس کتاب میں اٹھائے گئے مباحث میں کچھ ترمیم کر کے انہیں بہتر رنگ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ بعض مقامات پر اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کی ایک کاوش سے دوسری کاوش تک کا یہ سفر کئی مشکل اور پُر پیچ مراحل سے گزرا ہے ۔مجھے امید ہے کہ اب اس کا معیار تسلّی بخش ہو گا۔
ان تمام مراحل کے دوران بہت سے سکالرز اور تکنیکی ماہرین نے ترجمہ کے علاوہ بعض ان امور میں بھی میری اعانت کی جنہیں میں اکیلا انجام نہیں دے سکتا تھا۔ مثلاً، مجھے ان کتب یا مضامین کے بعض اقتباسات کی ضرورت تھی جن کا مطالعہ میں نے گزشتہ چالیس سالوں میں کیا تھا۔ ان اقتباسات کی گو ناگوں اقسام تھیں جن کا ان مضامین سے تعلق تھااور جو اس کتاب میں زیر بحث آئے ہیں۔ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں مختلف برّاعظموں اور شہروں سے تعلق رکھنے والے سکالرز کو وہاں کے کتب خانے چھاننا پڑے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کے مرکز ،ربوہ کے بہت سے علماء بھی مذہبی حوالہ جات کی تلاش میں مصروف رہے۔
امریکہ کے پروفیسر ملک مسعود احمد صاحب اور ان کی ٹیم کو ان حوالہ جات کی تلاش کی ذمہ داری سونپی گئی جو پچھلے بیس سال یا اس سے زیادہ عرصہ کے دوران سائینٹفک امریکن (Scientific American) اور امریکن سائینٹسٹ(American Scientist) جیسے جرائد میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ٹیم سارے امریکہ کے احمدی سکالرز میں سے منتخب کی گئی تھی۔ ان سب کے نام تو اس مختصر تعارف میں نہیں دئیے جا سکتے البتہ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب اور جواد ملک صاحب کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے خاص طور پر پروفیسر ملک مسعود احمد صاحب کی مدد فرمائی۔
ڈاکٹر صلاح الدین صاحب نے خا ص طور پر گمشدہ حوالہ جات کو تلاش کر کے بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے۔ مجھے ان مضامین کے عناوین یاد تھے اور نہ ہی سن اشاعت۔ ان مضامین کے بارہ میں میرے حافظہ میں ایک عمومی سا تاثر تھا جس کی مدد سے انہوں نے حیرت انگیز طور پر تمام حوالہ جات تلاش کر لئے اور مجھے یہ دیکھ کر خو شگوار حیرت ہوئی کہ ان میں جو کچھ بھی درج تھا اس کے متعلق میری یادداشت بالکل درست تھی۔
لندن کی مسز صالحہ صفی صاحبہ نے حوالہ جات کی تلاش میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی صوفیہ صفی محمود کی مدد سے مطلوبہ حوالہ جات پر مشتمل کتب تلاش کرنے کا حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا۔ اسی طرح یہاں کے احمدی بچوں اور بچیوں نیز خواتین و حضرات نے مختلف کاموں کے لئے خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کیا اور انتہائی محنت،لگن اور اخلاص سے کام کیا۔ اگرچہ ان سب کا فرداً فرداً ذکر تو یہاں ممکن نہیں تاہم اگر میں ان چند ناموں کا تذکرہ کروں جو مجھے بطور خاص یاد ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔
ان میں سر فہرست فرینہ قریشی ہیں جنہوں نے علمی ٹیم کو یکجا کرنے اور اس کی رہنمائی کے سلسلہ میں مثالی کام کیا۔ اس ٹیم نے خاص طور پر ان امور کی نشاندہی میں مدد کی جو میرے لئے خاص اہمیت کے حامل تھے۔ اس ضمن میں فرینہ قریشی کے علاوہ فریدہ غازی کی خدمت یقینا ٹیم کے ہر ممبر سے بڑھ کر ہے۔ فرینہ قریشی نے نہایت انکسار کے ساتھ یہ خدمت سر انجام دی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے دوران اپنے مشوروں کو ضروری ترامیم تک محدود رکھا۔ شاذ کے طور پرجب بھی مجھے ان کی اور ان کی ٹیم کی رائے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے ہمیشہ ادب واحترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے مشورے دیئے، اگرچہ ہر بار ان کے مشورے قبول نہیں کئے گئے۔ میں ان کی فراخدلی کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ میرے فیصلوں کو بڑی خوش دلی سے قبول کیا۔ متبادل تجاویز کو قبول کرنے کے ضمن میں میری طرح انہوں نے بھی محسوس کیا کہ ساری عبارت کو تبدیل کئے بغیر کسی محاورہ کو تبدیل کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔ تاہم جلدہی ہم محاوروں کے اس کھیل سے لطف اندوز ہونے لگے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ معیار کوقائم رکھنے میں ٹیم کا تعاون ایک ایسی خدمت ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس ٹیم کا تفصیلی ذکر پیش لفظ میں کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی تصنیف کے دوران جن احباب اور خواتین کا تعاون حاصل رہا ان کے نام ذیل میں درج ہیں ۔ جو نام میری یادداشت میں محفوظ نہیں رہے ان کی خدمت میں خاکسار محبت بھری معذرت پیش کرتا ہے۔
1 ۔ منیر احمد صاحب جاوید ، پرائیویٹ سیکر یٹری لندن۔
2۔منیر الدین صاحب شمس ، لندن۔
3۔فرینہ قریشی صا حبہ، لندن۔
4۔منصورہ حیدر صا حبہ، لندن۔
5۔فریدہ غازی صا حبہ ، لندن۔
6۔ محمود احمد صا حب ، اسلام آباد UK
7۔ پروفیسر ا مۃ المجید چودھری صا حبہ ، اسلام آباد UK ۔
8۔ باسط احمد صاحب ، لندن۔
9۔ فوزیہ شاہ صا حبہ ، لندن۔
10۔مسرّت بھٹی صا حبہ، نارتھمپٹن Northampton
جن لوگوں نے اس کام کے مختلف مراحل میں تعاون کیا ان کے ناموں کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن مندرجہ بالا ناموںکا خاص طور پر انتخاب ان کی نہایت اہم، مسلسل اور انتھک خدمات کی وجہ سے کیا گیا ہے اس لئے ان کا خصوصی ذکر ناگزیر تھا۔ ان میں سر فہرست منیر احمد صاحب جاوید ہیں جنہوں نے مختلف علماء کے سپرد مختلف کام تجویز کرکے میرے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ اسی طرح مکرم منیر الدین صا حب شمس کو ان کی مسلسل محنت ِ شا قّہ کی بدولت جو مجھیہمیشہ حیران کر دیا کرتی تھی، ایک خاص مقام حا صل ہے۔ مذکورہ خواتین و حضرات میں سے اکثر نے دن رات بغیر آرام کئے اور مجھے بتائے بغیر حیرت انگیزخدمات انجام دیں۔انہوں نے اپنی محنت اور خدمت کو چھپانے کی کوشش تو بہت کی لیکن لا محالہ ان کی خدمات ہمیشہ ہی میرے سامنے رہیں اور ان کے چھپائے نہ چھپ سکیں۔ پیشتر اس کے کہ وہ برداشت کی انتہا پر پہنچ کر تھک کر چور ہو جائیں ، بعض اوقات تومجھے انہیں حکم دینا پڑتا تھا کہ تھوڑاسا آرام کرلیں اور کچھ کھا پی لیں۔
11۔ مظفر احمد صا حب ملک ، اسلام آباد (یو۔کے) اس لحاظ سے خاص طور پر قابل ذکر ہیںکہ طباعت اور مختلف مطبع خانوں سے معاملات طے کرنے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی تھی۔ کیمرہ ریڈی کاپی کی آخری تیاری میں ان کا کام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
12۔ بشیر احمد صا حب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکر یٹری صا حب لندن۔
13۔ پیر محمد عالم صا حب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکریٹری صا حب لندن۔
یہ ہر دو احباب میری مدد کرنے والے علماء کرام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے۔ رات گئے تک کام ہوتا تو بشیر صا حب اور پیر صا حب ان کی جملہ ضروریات کاخود ہی خیال رکھتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ بھوک سے نڈھال بھی کیوں نہ ہو جائیں بتائیں گے نہیں۔
ذیل میں ربوہ کے ان علماء کے نام دیئے جا رہے ہیں جو مختلف اوقات میں منیر احمدصاحب جاوید کو وہ تمام مطلوبہ مواد مہیّا کرتے رہے جس تک ان کی رسائی ممکن تھی۔
14۔ مولوی دوست محمد شاہد صا حب ۔
15۔ سیّد عبدالحی صا حب۔
16۔ حافظ مظفر احمد صا حب۔
17۔حبیب الرحمن صاحب زیروی ، اسسٹنٹ لائبر یرین۔
18۔ پروفیسر چوہدری محمد علی صا حب
ایک دوست ایسے بھی ہیں جنہوں نے گو براہ راست کام میں حصّہ نہیں لیا لیکن اس کے باوجود ان کی خدمت ایسی ہے جس کے لئے میں ان کا ممنون احسان ہوں۔ میری مراد لاہور کے پروفیسر راجہ غالب احمد صاحب سے ہے، جن کے اصرار پر کتاب کے آخر میں ـ’’ ختم نبوّت ‘‘ کے باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اور یہ باب بجا طور پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ راجہ صاحب آپ نے کیا ہی درست فرمایا تھا !
منصورہ حیدر صا حبہ نے ایک ایسا اضافی کام کیاجو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد مشقت طلب بھی تھا۔ انہوں نے کتاب میں دیئے گئے تمام حوالہ جات کے ہر نقطہ، comma ، لفظ اور تلفظ کا بہت باریک بینی سے جا ئزہ لیا تا کہ وہ اصل متن کے عین مطابق ہو۔اس کام کے لئے ایک ایسی مختصر لیکن جامع لائبریری کی ضرورت تھی جس میں ہمارے مطلوبہ حوالہ جات موجود ہوں۔ یہ کام انہوں نے کمال مہارت سے سر انجام دیا۔ میرے علم کے مطابق مضامین میں دیئے گئے مختلف حوالہ جات کے لئے انہیں اصل کتاب کو ڈھونڈنا پڑا اور جب تک انہیں مطلوبہ کتاب مل نہیں گئی انہوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ ان کا یہ شاندار کارنامہ قابلِ تحسین ہے۔ پھر عثمان ایم چاؤ (Chou) ہیں ۔ اصل چینی کتب اور ان کے موجودہ تراجم کے حوالہ سے ان کی خدمات نہایت اہم اور قیمتی ثابت ہوئیں۔ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور چینی علماء کی بھاری اکثریت ان کے قرآن کریم کے چینی ترجمہ کی معترف ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر ہم ان چینی محاورات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے جن کا پرانے کلاسیکل لٹریچر میں کسی حد تک غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔
میں عظمیٰ آفتاب احمد خان صا حبہ کی خدمات کا بھی خاص طور پر معترف ہوں۔ وہ ادبی کاموں میں ایسی معمولی غلطیوں کا باریک بینی اور پیشہ وارانہ مہارت سے جائزہ لیتی ہیں جو غیر محسوس طریقہ پر ان میں رہ جاتی ہیں۔ مزید برآں وہ ان امور کا تنقیدی جائزہ لینے کے سلسلہ میں بھی بیحدمہارت رکھتی ہیں جن کو اشاعت کی غرض سے آخری منظوری کے لئے پیش کرنا ہو۔ مجھے اور میری ٹیم کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ بلا شبہ غیر معمولی حد تک تیز نگاہ کی مالک ہیں۔ ان کے تعاون اور سخت محنت کے بغیر شاید ہم اکثر محاروات کی مزید وضاحت یا نئی ترتیب کی طرف توجہ نہ دیتے۔ میرے دل میںان کی پیشہ وارانہ مہارت اور رضاکارانہ خدمات کی بے حد قدر ہے۔
جب پریس کی طرف سے ہمیں کمپیوٹر کی غلطیوں کی نشاندہی کیلئے کہا گیا تو فوزیہ شاہ صاحبہ نے اس کام کو انتہائی مہارت اور باریک بینی سے سر انجام دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ایسی غلطیوں کی نشاندہی کا انہیں فطرتی ملکہ حاصل ہے۔ ان کی اس خدمت کا شکریہ ادا کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
مکرم منور احمد سعید صاحب واشنگٹن ڈی سی ( امریکہ) نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کتاب کا انڈیکس تیار کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں، جو مخلص احباب پر مشتمل ہے ، ان کے بیٹے احمد منیب سعید صاحب کے علاوہ فوزان پال صاحب، جواد اے ملک صاحب، مظہر احمدصاحب اور فیضان عبداﷲصاحب خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ کام کی وسعت اور طوالت کے باوجود انہوں نے ماشاء اﷲ نہایت کم وقت میں شاندار خدمت سرانجام دی۔
مصوّر حضرات
جہاں تک کتاب کے سرورق کی ڈیزائننگ کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں امریکہ کی نوما سعید صاحبہ نے مضامین کو تصویری زبان میں پیش کرنے کی متعدد کوششیں کیں۔ مگر بد قسمتی سے پریس کے پیشہ ور ماہرین نے ان کے اس طویل اور محنت سے کئے گئے کام کو یکسر مسترد کر دیا۔ وہ اس بات پر مصرّتھے کہ کتاب میں دی جانے والی تصاویر کو کمپیوٹر کی بجائے مصور کا برش تخلیق کرے۔ چنانچہ بالآخر اس دانشمندانہ تجویز کو قبول کر لیا گیا اور لندن کے بہت سے مصوروں کی خدمات حاصل کی گئیں جن میں ہادی علی چودھری صاحب، چودھری عبد الرشید صاحب اور سیدفہیم ذکریا صاحب آف برمنگھم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مکرم چودھری عبد الر شید صاحب جو ایک مشہور ما ہر تعمیرات ہیں ، تجریدی مفاہیم کو تصویری زبان دینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔
کتاب میں دی گئی مختلف تصویروں کی تیاری میں بہت سے مصوروں کی خدما ت شامل حا ل رہیں۔ لیکن صفدر حسین عبّاسی صاحب اور ہادی علی چودھری صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو انمول خدمات سر انجام دے کر دوسرے مصوروں پر سبقت لے گئے۔ دیگر مصوّروں میں مسرّت بھٹی صا حبہ، فریدہ غازی صا حبہ، فریجہ ایودک صا حبہ اور طاہر عثمان صا حب شا مل ہیں۔
ایک ایسی شخصیّت جنہوں نے کام کے سلسلہ میں ہونے والے اخراجات کے لئے مجھے ایک خطیر رقم پیش کی، ان کا ذکر، ان کی خواہش کے مطابق نام لئے بغیر، ضرور کروں گا۔ ان کی صرف اتنی درخواست تھی کہ میں انہیں ، ان کے والدین اور ان کے خاندان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھوں۔ میں نے اس بات کا ذکر اس لئے مناسب سمجھا تا کہ دوسرے تمام احباب بھی میرے ساتھ ان دعاؤں میں شامل ہو جائیں۔
میری بڑی بیٹی عزیزہ فائزہ لقمان بھی میرے خصوصی شکریہ کی مستحق ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف کے دوران انہوں نے ان تمام احباب کے لئے جو وقت بے وقت کام کرتے رہے خورو نوش کا انتھک محنت اور پوری توجہ سے خیال رکھا۔ ان کی خاموش لیکن قابل قدر خدمت کا میں خصوصی طور پر معترف ہوں۔
میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ان سب خواتین و احباب کے شامل حال ہو جن کا ذکر اوپرہو چکا ہے اوروہ بھی جن کے اسماء کا ذکر تو اگرچہ نہیں ہوا لیکن جن کی شمولیت کو میںہمیشہ ذاتی طور پر تشکّر کے رنگ میں یاد رکھوں گا۔ آمین ۔
مرزا طاہر احمد



پیش لفظ
اس کام کا آغاز 1987ء میں مکرم مسعود احمدصاحب جہلمی،سابق مربی انچارج سوئیٹزرلینڈ کی ایک تجویز سے ہوا جو انہوں نے زیورک یونیورسٹی میں علم الملل (Ethnology) کے پروفیسر ڈاکٹر کارل ہینکنگ کو پیش کی۔ انہوں نے پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ جماعت احمدیہ عالمگیر کے سربراہ کو اسلام کے متعلق لیکچر دینے کی دعوت دی جائے کیونکہ اس موضوع پر کبھی کسی مذہبی عالم نے یونیورسٹی میں خطاب نہیں کیا۔
پروفیسر صاحب نے پہلے تو اس تجویز کو قبول نہ کیا کیونکہ ان کے خیال میں یونیورسٹی کے طلبا مذہب میں بہت کم دلچسپی رکھتے تھے۔ درحقیقت ان میں سے اکثر دہریہ ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے اور کسی بھی مذہب کے لئے ان کے دل میں کوئی خاص احترام نہ تھا۔ تاہم چند دنوں کے بعد پروفیسر صاحب نے خود مسعود صاحب کو یہ تجویز دی کہ عنوان کچھ اس طرح بنایا جائے کہ عقلیّت پسندی اس میں بنیادی موضوع ہو۔موازنہ کی خاطر وحی و الہام کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ حقیقی علم اور ابدی صداقتوں تک لے جانے میں دونوں کا الگ الگ کیا کردار ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ شاید اس قسم کے موضوع میں طلبا دلچسپی لیں چنانچہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ ان کا خیال درست تھا۔
14جون1987ء بروز جمعرات ، رات آٹھ بجکر پندرہ منٹ پر الہام،علم اور ابدی صداقت کے موضوع پر مجوزہ لیکچر دیا گیا۔طلبا اس موضوع کو سن کر کھنچے چلے آئے اور Oule آڈیٹوریم کی تمام نشستیں پُر ہو گئیں یہاں تک کہ ایک دوسرے ہال میں ٹیلی ویژن سکرینز اور لاؤڈ سپیکر کے اضافی انتظامات کے ذریعہ پروگرام دکھانا پڑا۔
اتفاق کی بات ہے کہ یہ وہی آڈیٹوریم تھا جہاں سر ونسٹن چرچل نے 9ستمبر1946ء کو 'Let Europe Arise' کے موضوع پر تاریخی خطاب کیا تھا۔ درحقیقت اسی لیکچر سے یورپین کامن مارکیٹ کے موجودہ خدوخال ابھرے ہیں۔ اس وقت وہ برطانیہ کے وزیراعظم نہیں رہے تھے لیکن ان کی عظمت کا باعث ان کا عہدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کی شخصیت تھی جس نے اس عہدہ کو عظمت عطا کی۔ اُن کا یہ لیکچر عہد ساز تھا۔
مقررہ وقت پر میں نے انگریزی میں چندتعارفی کلمات کہے جس کے بعد میرا خطاب جو کہ میں نے اردو میں لکھا ہوا تھا مکرم شیخ ناصر احمدصاحب نے جرمن زبان میں پیش کیا۔ انہیں اس تحریرشدہ تقریر کو پڑھ کر سنانے میں قریباً سوا گھنٹہ لگا۔ اس کے اختتام پر حاضرین کو سوالات کی دعوت دی گئی۔ سوال و جواب کے دوران شیخ ناصر احمد صاحب نے ترجمانی کے فرائض سرانجام دیئے۔ یہ ایک نہایت ہی خوشگوار تجربہ تھا۔ مجلس اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس کے باوجود طلباکی دلچسپی آخر وقت تک برقرار رہی۔ لیکن چونکہ یونیورسٹی کے مقررہ اوقات کے مطابق ہال کو خالی کیا جانا تھا اس لئے دس بجکر پینتالیس منٹ پر مجلس برخاست ہوئی۔
یوں اس کتاب کا آغاز ہوا۔ اس کی حیثیت محض ایک بیج کی تھی کیونکہ میرے نوٹس میںسے بہت سے نکات اس مضمون میں شامل نہیں کئے جاسکے تھے۔ مزید برآںوقت کی کمی کے باعث شیخ ناصر احمد صاحب کا تیار کردہ سارا ترجمہ بھی نہ پڑھا جاسکا۔ بعد ازاںمیں نے اردو مسوّدہ میں کئی اضافے کئے اور آنے والے سالوں میں اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں مگران میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکی اور آخرترجمہ کا یہ سلسلہ ترک کر دیا گیا۔موضوع اس قدر متنوع تھا کہ کسی ایک عالم کے لئے تنِ تنہاممکن نہ تھاکہ زیر بحث مضامین کا تسلّی بخش ترجمہ کرسکے۔کچھ علما نے اپنی سی کوششیں ضرورکیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
آخربے شمار مصروفیات کے باوجود یہ ضروری سمجھاگیا کہ مجھے خود ہی ازسرنو اس کتاب کو لکھوانا چاہئے۔اس کام کے لئے باسط احمدصاحب نے،جو رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے بورڈ آف ایڈیٹرز میں شامل ہیں،رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ انہوںنے میرے لکھوائے ہوئے مواد کے بہت سے حصّے اپنے لیپ ٹاپ پر تیار کئے لیکن میری تسلی نہ ہو سکی۔ چونکہ ہماری ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ بہت طویل ہوتا تھا اس لئے مضمون میں ربط قائم کرنے کے لئے اسے ہر بار دہرانا پڑتا تھا۔ مزید برآںہر بار مضمون میں کئی نئے خیالات شامل کرنا پڑتے تھے اور کچھ ایسی تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں جن کی وجہ سے کتاب کے دیگر ابواب کو بھی تبدیل کرنا پڑتا تھا۔ باسط صاحب نے مسلسل دو سال تک،بغیر کسی شکوہ کے، بے حد محنت کی یہاں تک کہ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہونے لگی کہ وہ بیچارے خواہ مخواہ اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں۔بالآخر انہیں اس کام سے فارغ کرناپڑا تاہم ان کی گراں قدر خدمت سے کام کو آگے بڑھانے میں بے حد مدد ملی۔ یقینا، ہر ترجمہ پہلے ترجمہ کی نسبت بہتر ہوتاتھا۔
باسط صاحب کے بعد خواتین کی ایک ٹیم کویہ کام دوبارہ شروع کرنے کے لئے منتخب کیاگیا۔ رفتہ رفتہ کام میں بہتری تو آتی گئی مگر ایک مربوط اور رواں مضمون نہ بن سکا۔
آخر اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ مسوّدہ کے اکثر حصّہ کو میں خود دوبارہ تحریر کروں۔ اس کٹھن کام پر پچھلے سال کا بیشتر حصّہ صرف ہوا جس میں بعض دوسری ناگزیر مصروفیات بھی حائل ہوتی رہیں۔اب آخر میںکسی ایسے قابل شخص کی ضرورت تھی جو آغاز سے اختتام تک کام کا جائزہ لے اور اس میں موجود بظاہر نظر نہ آنے والی غلطیوں اور بعض باتوں کی تکرار کی نشاندہی کرے۔ یہ محنت طلب مگرانتہائی اہم کام فرینہ قریشی صاحبہ نے انجام دیا۔ اُن کے ہمراہ مختلف علمی و ادبی کاموں کا تجربہ رکھنے والی ایک بے حد محنتی ٹیم بھی تھی۔ فرینہ قریشی کی رہنمائی میں اس ٹیم نے مل کر کام کیا اور مسوّدہ میں موجود اُن تمامغلطیوں کی طرف توجہ دلائی جو میری نظر سے رہ گئی تھیں۔ چنانچہ اس طرح میرے لئے بالآخر یہ ممکن ہوا کہ میں کتاب کے مسوّدہ میں چھوٹی چھوٹی الجھنوں اور پیچ و خم کو دور کرکے مسوّدہ کو آخری شکل دوں۔
یہ ٹیم فریدہ غازی صاحبہ، منصورہ حیدر صاحبہ، پروفیسر امۃ المجید چودھری صاحبہ، صالحہ صفی صاحبہ، منیر الدین صاحب شمس، محمود احمدملک صاحب (کمپیوٹر ٹائپسٹ) اور منیر احمد صاحبجاوید پر مشتمل تھی۔ یہ سب نام ان انتہائی محنتی اور رضاکارانہ کام کرنے والے احباب کی طویل فہرست میں شامل ہیں جن کا میں تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
زیورک میں اس کام کا آغاز ہوا تھا جس کے دس سال بعد جو بظاہر ایک نہ ختم ہونے والا انتظار تھا یہ کتاب بالآخر اشاعت کے لئے تیار ہوئی۔ اگر پروفیسر ڈاکنز (Dawkins) ،جو برطانیہ کے ایک ممتاز ماہر حیوانات ہیں اور مشہورِ زمانہ کتاب The Blind Watchmaker' ' کے مصنف بھی ہیں، نہ ہوتے تویہ کتاب بہت عرصہ قبل چھپ سکتی تھی۔ اپنی اس غیرمعمولی تصنیف میں انہوں نے ڈارون کے نظریہ کو از سر نو پیش کیا ہے اور اس کے اس نظریہ کی بے جا حمایت کی ہے جس کے مطابق وہ انتخاب طبعی کے اندھے اصول کے سوا ہر دوسرے خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس کتاب کی طرف میری توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب میں اپنی کتاب کی نوک پلک سنوارنے کاکام تقریباً ختم کر چکا تھا لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔بہر حال ان معلومات کے بعد میں مجبور ہو گیا کہ اپنی کتاب کی اشاعت اس وقت تک کے لئے مؤخر کردوں جب تک اس کتاب کے بنظرِ عمیق مطالعہ کے بعد اس میں دیئے گئے دلائل کا تجزیہ نہ کر لوں۔ اس کام کی تکمیل کے بعد اب میں نے اس کتاب میں پروفیسر ڈاکنز کے، ’’ بغیر خالق کے تخلیق‘‘ کے نظریہ پر ایک مکمل نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر تخلیق ایک خالق کی محتاج ہے۔ کیا ایساممکن ہے کہ آپ مونالیزا (Mona Lisa) کو تسلیم کریں اور لیو نارڈو ڈاونچی (Leonardo da Vinci) کا انکار کردیں۔ پروفیسر ڈاکنز نے ایسی ہی فاش غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ مخلوق کو تسلیم کرتے ہوئے خالق کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور نہایت بھونڈے انداز میں اس کی جگہ ڈارون کے انتخاب طبعی کے اصول کومتبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ممتاز ماہر حیاتیات کی حیثیت سے ان سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ڈارون کے اصول تخلیقی اصول نہیں ہیں۔
یہ ساری بحث اس کتاب کے ایک باب "The Blind Watchmaker who is also Deaf and Dumb" یعنی ـ’’ اندھا، گونگا اور بہرہ خالق‘‘ میں اٹھائی گئی ہے۔ تاہم یہاںاتنا کہنا کافی ہو گا کہ پروفیسر ڈاکنز اگر اس کتاب کا عنوان "Mr Bat, the Watchmaker par Excellence" رکھ دیتے تو بہت مناسب ہوتا۔ظاہر ہے کہ پروفیسر ڈاکنز کی کتاب کا ’’ اندھا گھڑی ساز‘‘ کوئی انسان نہیں بلکہ صرف ایک تصور ہے۔ اور محض تصورات کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے خصوصاً ان سے’’گھڑی‘‘ تو بالکل نہیں بنائی جا سکتی۔ پروفیسر ڈاکنز کے بیان کے مطابق چمگادڑیں گھڑی بنانے کی زیادہ اہل ہیں اور اس مقصد کے لئے ضروری آلات سے بھی پوری طرح لیس ہیں۔ ان کے پاس دماغ ہے اور وہ آوازوں کو اس طرح سن سکتی ہیںکہ کوئی اور جانور اس طرح نہیں سن سکتا۔ وہ عملاً مکمل تاریکی میں بھی دیکھ سکتی ہیں۔ وہ آواز کی لہروں کے نہایت معمولی ارتعاش میں فرق محسوس کر سکتی ہیں جو انسان کے خود ساختہ انتہائی پیچیدہ اور جدید نظام بھی نہیں کر سکتے۔
چمگادڑ گھڑی کے دندانوں اور سپرنگ کی اتنی معمولی سی حرکت کو بھی سن سکتی ہے جو انتہائی حساس کان رکھنے والا گھڑی ساز بھی نہیں سن سکتا۔ عنوان کے متعلق اتنا کہنا ہی کافی ہو گا۔ ہم معذرت کے ساتھ مصنف سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور یہ کہنے پر معافی چاہتے ہیں کہ اس کا نظریہ کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ بہرحال پروفیسر ڈاکنز عالمی شہرت کے حامل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد نئی نسل کے ان سائنسدانوں سے تعلق رکھتی ہے جو دہریہ پہلے ہیں اور سائنسدان بعد میں۔یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ قدرت کے عظیم اسرار کے بارہ میں ہمیشہ ہی الجھنوں کا شکار رہے ہیں اور یقینا اس بات پر حیران بھی کہ ایک باشعور اور ماہر صنّاع کے بغیرآخروہ پیداکس طرح ہو گئے۔ پروفیسر ڈاکنز کی صورت میں انہیں اپنا ایک اور ہم خیال رہنما مل گیا جس نے حقائق کو اس ہوشیاری سے توڑ موڑ کر پیش کیا کہ طبعی سائنس کے بعض جدید رجحانات رکھنے والے طالب علم بھی دھوکہ کھا گئے اور سمجھے کہ ان کی الجھن حل ہو گئی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ صرف وہی لوگ اس مغالطہ کاشکار ہوئے جو خود اس کا شکار ہونا چاہتے تھے۔ اگر انہوں نے پروفیسر ڈاکنز کے پیش کردہ انتخاب طبعی کے اصول کا تعصب کے بغیر کھلے ذہن سے تجزیہ کیا ہوتا تو یقینا پروفیسر صاحب کے موقف میں موجود غلطیاںاور تضادات انہیں نظر آجاتے۔ شاید ان کے پھیلائے ہوئے اندھیروں میںوہ اس لئے پناہ کی تلاش میں سر گرداں ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ خدا تعالیٰ پرہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔
ہمیں بعض ایسے لوگوں کا تجربہ ہے جنہوں نے ایمان اور مذہب کے ہر معاملہ میں پہلے ہی سے اپنے کٹّرعقائد وضع کر رکھے ہیں۔ موجودہ کتاب نہ تو ایسے لوگوں سے براہ راست مخاطب ہے اور نہ ہی ان کے اندرہم کسی حقیقی تبدیلی کی امید رکھتے ہیں۔ ہمارا مخاطب تو وہ قاری ہے جس میں کوئی سائنسی یا غیر سائنسی عصبیّت اور کٹر پن نہیں پایا جاتا۔ پروفیسر ڈاکنز کا نظریہ دراصل کوئی نئی چیز نہیں ہے کیونکہ ڈارون نے 1859ء کے آغاز میں اپنی عظیم کتاب The Origin of Species (اصلِ انواع) میں آنکھ کی پیچیدہ ساخت پر بحث کرتے ہوئے خود اس نظریہ کو بیان کیا ہے۔ وہ کھلم کھلا اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ ’انتخاب طبعی‘ کا نظریہ کسی بھی طرح آنکھ کے پیچیدہ نظام کی کوئی تشریح نہیں کرتا۔ ڈارون کا یہ اعتراف اس کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔
’’ میں کھل کر اعتراف کرتا ہوں کہ یہ تصور کہ آنکھ فاصلہ اور روشنی کی کمی بیشی کے مطابق خود بخود فوکس کر کے اور کروی اور لونیاتی نقائص کی از خود اصلاح کی صلاحیتوں کے ساتھ محض انتخاب طبعی کے اصول کے زیر اثر معرض وجود میں آگئی ، میرے نزدیک ایک انتہائی احمقانہ تصور ہو گا۔‘‘1
اس اعتراف کے بعد ڈارون اپنے "bit by bit theory" یعنی رفتہ رفتہ جمع ہو جانے والے اتفاقی عواملکے نظریہ کا سہارا لے کرپسپائی کا راستہ تراش لیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ وہ نظریہ ہے جو انتخابِ طبعی کے خالق ہونے کے حق میں پروفیسر ڈاکنز کے دلائل کی بنیاد ہے۔ حالانکہ ڈارون کا اسی قبیل کا اپنا نظریہ ایسی ہی قیاس آرائیوں پر مشتمل تھا جو پہلے ہی کلیّۃً غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ اور اگر کچھ باقی ہے تو اس سے قطعی طور پر برعکس نتیجہ نکلتا ہے۔ پوری دیانتداری کے ساتھ کئے گئے اس مذکورہ بالا اعتراف کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ڈارون مزید کہتا ہے:
’’ تاہم عقل یہ کہتی ہے کہ ایک مکمل آنکھ سے لے کر ایک نامکمل اور سادہ آنکھ تک کے بے شمار تخلیقی مراحل کے متعلق اگریہ ثابت کیا جا سکے کہ ہر مرحلہ ایک ذی حیات کے لئے کوئی افادیت رکھتا تھا، نیزیہ بھی کہ آنکھ میں بہت باریک تبدیلیاں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی رہی ہیں اور پھر یہ بھی کہ یہ تبدیلیاں وراثتاً منتقل بھی ہوئی ہیں جیساکہ امر واقعہ ہے۔ مزیدبرآں اگر یہ ثابت کیا بھی جا سکے کہ زندگی کے بدلتے ہوئے حالات میں آنکھ میں ہونے والی ہر تبدیلی اور ہرترمیم ایک جاندار کے لئے ہمیشہ مفید ثابت ہوئی ہے پھر بھی اس امر کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ آنکھ اپنے مکمل اور پیچیدہ نظام کے ساتھ ’انتخاب طبعی‘ کے اصول کے تحت تشکیل پا سکتی ہے اس کا تصوربھی بعید از قیاس ہو گا۔‘‘1
پس ’’رفتہ رفتہ جمع ہوجانے والے اتفاقی عوامل‘‘ کا مبالغہ آمیز نظریہ، اور وہ بھی خصوصاً آنکھ کے حوالہ سے ،سب سے پہلے خود ڈارون نے پیش کیا تھا۔ لیکن جدید ترین تحقیقات نے جن کی رو سے ابتدائی اور قدیم ترین آنکھ میںبھی بے حد جدیدنظام کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، یہ نظریہ غلط ثابت کر دیا ہے۔
گہرے سمندروں کے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ آنکھ کے جو قدیم ترین نمونے آبی حیات میں ملتے ہیں وہ نظام بصارت کے ایسے مکمل شاہکار ہیں کہ انہوں نے جدید ترین بصری آلات بنانے والوں کوبھی ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہاں کسی قسم کی تفصیلی بحث اٹھانے کی ضرورت نہیںتاہم قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم مائیکل ایف۔ لینڈ(Michael F. Land) کے مقالہ "Animal Eyes with Mirror Optics"2 ، کا ذکر کریں گے جو سائینٹفک امریکن (Scientific American) میں اس کتاب کی اشاعت سے تقریباً 20 سال قبل شائع ہوا تھا۔ ہم قارئین کی توجہ خاص طور پر اس مقالہ کے صفحہ93کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جس میں جائیگنٹو سپرس (Gigantocypris) کی آنکھ کا بیان ہے۔ اس کی دو منفرد آنکھیں تخلیق کا ایک معجزہ ہیں۔ عام گول آنکھوںکی بجائے جنہیں فوکس کرنے کے لئے عدسہ کی ضرورت ہوتی ہے ان میں انعکاسی شیشے(Reflectors) رکھے گئے ہیں جو ان کی ضرورت کے عین مطابق ہیںاور بجائے خود تخلیق کا ایک اعجاز ہیں۔ تاریک سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والے اس جانور کے لئے اسی قسم کی آنکھیں مطلوب تھیں۔اس کو گھپ اندھیرے میں انتہائی مدہم روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ایسا ہونا ہرگز ممکن نہیں جب تک پہلے کسی ایسے ماہر صنّاع کا وجود تسلیم نہ کیا جائے جونہ صرف اس ابتدائی لیکن انتہائی لطیف بصری آلے کی مکمل سمجھ بوجھ رکھتا ہوبلکہ اس کی تخلیق کے اصولوں کابھی اچھی طرح علم رکھتا ہو۔ اس مقالہ میں انتہائی قدیم زمانہ میں پائی جانے والی آنکھوں کی ایسی کئی مثالیں دی گئی ہیں جن کی تخلیق حیران کن حد تک با مقصد تھی۔ ایسی ہر مثال پروفیسر ڈاکنز اور ان کے عظیم استاد چارلس ڈارون کے ’’ رفتہ رفتہ جمع ہوجانے والے اتفاقی عوامل ‘‘ کے نظریہ کے پرخچے اڑا دیتی ہے۔ ان سب مثالوںکاتو ہم نے اپنی اس کتاب میں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس میں پہلے ہی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ڈارون کی اس قیاسی دلیل کو جو اس نے آنکھ کی تشکیل کے متعلق اپنے ’’رفتہ رفتہ جمع ہوجانے والے اتفاقی عوامل ‘‘ کے نظریہ کے حق میں دی ہے، یہ حوالہ مکمل طور پر رد کر دیتا ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ ایک انتہائی متشکک ماہر حیاتیات کوبھی یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ آنکھ کی تشکیل کے تقاضے اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بظاہر پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر تشکک پہلے سے موجود تعصب پر مبنی ہوتواس کا کوئی علاج نہیں۔ امید ہے کہ پروفیسر ڈاکنز کی مشہور کتاب کے متعلق یہ باب ان لوگوں کے لئے فائدہ مند ہو گا جو ان سے اتفاق تو نہیں کرتے مگر ان سے مرعوب ضرور ہیں۔
ہم تمام حضرات سے، خواہ وہ سائنسدان ہوںیا نہ، یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف پروفیسر ڈاکنز سے متعلقہ باب کو پڑھیں بلکہ ہماری ساری کتاب کا مطالعہ کریں جوپروفیسر صاحب کی مذکورہ کتاب سے پہلے لکھی جا چکی تھی۔ قارئین خودجان لیں گے کہ پروفیسر ڈاکنز کی کتاب کا ذکر کئے بغیر بھی یہ کتاب ان تمام سوالات کے تسلّی بخش جواب دیتی ہے جو پروفیسر صاحب نے اٹھائے ہیں۔ البتہ کتاب کا مرکزی مضمون مذکورہ بالا محدود بحث سے کہیں زیادہ وسیع ہے جو اس کتاب میںاٹھائے گئے مسائل پر قرآن کریم کے نقطۂ نظر کو بیان کرتاہے۔قرآن کریم کا یہ بیان انتہائی حسین اور دلکش ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا معقول اور مدلّل ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ وہ امر ہے جس پر قارئین کی توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔ اس مطالعہ کے دوران ’حیات‘ کے بہت سے اسرار اُن کے سامنے آئیں گے اور اُن اسرار کا وہ حل بھی نظر آئے گا جسے قرآن کریم پیش فرماتا ہے۔
ہم قارئین کو یقین دلاتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ ان کے لئے بے حد مفیدثابت ہو گا اور انہیں اس خدا تک لے جائے گا جو کائنات کاحقیقی خالق اور مالک ہے۔

حوالہ جات
1. DARWIN, C. (1995) The Origin of Species. Introduction by Burrow, J. W. Penguin Classics, England, p. 217
2. LAND, M.F. (December, 1978) Animal Eyes with Mirror Optics. Scientific American, p. 93
 
Top