• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

پرحکمت نصائح اور زریں اقوال ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نور الدین رض ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پرحکمت نصائح اور زریں اقوال ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نور الدین رض ۔ یونی کوڈ


پُر حکمت نصائح
اور
زریں اقوال


از
افاضات
حضرت مولانا نورالدین نوراللہ مرقدہ قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل
مرتبہ : بشیر احمد قمر
اللہ الصمد
صمد کہتے ہیں جس کی طرف ان کی احتیاج ہو۔ اور وہ خود محتاج نہ ہو۔ صمد سردار کو کہتے ہیں۔ اس نام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں :۔
’’ یہ ایسا پاک نامہے کہ انسان کو اگر اللہ تعالیٰ کے اس نام پر کامل ایمان ہو تو اس کی ساری حاجتوں کے لئے کافی اور سارے دکھوں سے نجات کے سامان ہو جاتے ہیں۔ میں خود تجربۃً کہتا ہوں اور اس امر کی عملی شہادت دیتا ہوں ۔ جب صرف اللہ کو ہی محتاج الیہ بنا لیا جاتا ہے تو بہت سے ناجائز ذرائع اور اعمال مثلاً کھانے پینے۔ مکان۔ مہمانداری۔ بیوی بچوں کی تمام ضروری حاجات سے انسان بچ جاتا ہے اور انسان ایسی تنگی سے بچ جاتا ہے جو اس کو ناجائز وسائل کے ان مشکلات کا علاج کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ جوں جوں دنیا خدا سے دور ہو کر آمدنی کے وسائل سوچتی ہے اور دنیوی آمد میں ترقی کرتی جاتی ہے توں توں قدرت اور منشاء الہی ان آمدنیوں کو ایک خرچ کا کیڑا بھی لگا دیتا ہے۔ ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 35صفحہ 345)
اللہ صَمَدہے اس پر ناز کرو :۔
فرماتے ہیں :۔
’’ دیکھو میں پھر کہتا ہوں اور درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ صمدہے۔ اسی کو اپنا محتاج الیہ بنائے رکھو۔ کھانے ۔ پینے ۔ پہننے ۔ عزت اکرام ۔ صحت ۔ عمر ۔ علم۔ بیوی بچے اور ان کی تمام ضروریات کے واسطے اسی کی طرف جھکو۔ مَیں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب انسان خدا کو اپنا محتاج الیہ یقین کر لیتا ہے اور اس کا کامل ایمان جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی انسان کو کسی انسان کا محتاج نہیں کرتا ۔ مَیں اپنا ہر روزہ تجربہ بیان کرتا ہوں کہ اللہ صمد ہے۔ اسی پر ناز کرو۔ خدا کو چھوڑ کر اگر مخلوق پر بھروسہ کرو گے تو بجز ہلاکت کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میں نصیحت کے طور پر تم کو یہ باتیں دردِ دل سے اور سچی تڑپ سے کہتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے اور ہر ایک ذرہ اس کے اختیار اور تصرف میں ہے۔‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 35صفحہ 349)
دعا کرو کہ بچپن میں عادات نیک نصیب ہوں:۔
مجھے ایک بات آپ سے کہنی ہے اور وہ یہ ہے کہ سننے والے اس وقت میرے سامنے کچھ بچے ہیں۔ کچھ جوان ۔ کچھ ادھیڑ ہیں اور کچھ بوڑھے ہیں میں سب کو یہ بات سناتا ہوں کہ میرا بھی تجربہ ہے اور محبت اور بھلائی کی خاطر اور بہتری کی امید سے میں نے مناسب سمجھا کہ سنا دوں۔
یاد رکھو کہ ابتداء کی عادات۔ لڑکپن اور جوانی کی بدعادتیں ایسی طبیعت ثانی بن جاتی ہیں کہ آخر ان کا نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ پس ابتداء میں دعا کی عادت ڈالو اور اس ہتیھار سے کام لو کہ کوئی بدعادت بچپن می نہ پڑ جاوے۔ بڑے بڈھے اپنی اولاد کے واسطے دعائیں کریں اور لڑکے اور جوان اپنے واسطے آپ کریں کہ ابتدا میں عادات نیک ان کو نصیب ہوں۔…
دیکھو جھوٹ بولنا ، چوری کرنا ، بدنظری کرنا ، بے جا ہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنا، غرض کل بدعادتیں ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اور دعا سے کام لینا چاہئے۔ جوں جوں عمر پختہ ہوتی جاتی ہے توں توں بدعادات بھی راسخ ہوتی جاتی ہیں۔ بعض اوقات دل مین ایک شیطانی وسوسہ آجاتا ہے کہ چلو جی جہاں اور اتنی نیکیاں ہیں ، ایک بدی بھی سہی، خبردار اور ہوشیار ہو جائو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ اس کے فریب میں مت آنا اور ابتداء سے ان بدیوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش اور سرتوڑ سعی کرتے رہنا چاہئے۔ اور ان باتوں کے واسطے عمدہ علاج دعا۔ استغفار۔ لاحول اور الحمد شریف کا پڑھنا اور صحبت صالحین ہے۔
(ماخوذ از خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 31صفحہ 316)
بڑے افسوس اور شرم کا مقام:۔
میں ان لوگوں کو جو حضرت اقدس علیہ السلام کی اتباع میں ہمارے ساتھ شامل ہیں خصوصیت سے تاکید کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم لوگوں نے اپنا ملک چھوڑا‘ وطن چھوڑے‘ خویش و اقارب‘ یاردوست چھوڑے‘ قوم سے الگ ہوئے اور ان کے سخت سے سخت فتووں کے نیچے آئے‘ بے دین‘ کافر‘ مرتد‘ ضال‘ مضل کہلائے ہو اگر تم بھی علم میں اور پھر عمل میں‘ دین میں اور ایمان میں اپنا اعلیٰ نمونہ نہ دکھائو اور بین ثبوت نہ دو کہ واقعی تم نے خدا کی طرف قدم اٹھائے ہیں‘ بے نظیر ترقی کی ہے اور تمہارے افعال‘ تمہارے اقوال‘ تمہارے ظاہر‘ تمہارے باطن‘ تمہاری زندگی کی موجودہ روش‘ لباس‘ پوشاک‘ خوراک اس امر کی پکار کر گواہی نہ دے اٹھیں کہ واقعی تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور تمہارے اعمال کی حالت پاکیزگی تمہارے ایمان کے نہایت مضبوط اور غیر متزلزل ہونے اور تمہارے معتقدات کے صحیح ہونے پر شاہد ناطق نہ ہو اور تم میں اور تمہارے غیروں میں ایک نور اور مابہ الامتیاز پیدا نہ ہو جاوے تو بڑے ہی افسوس اور شرم کا مقام ہے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 33صفحہ 330)
اس زمانہ کا ہتھیار:۔
حضرت نبی کریم ﷺ جو کہ اعلم الناس تھے ان کو حکم ہوتا ہے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً کی دعا کرو- تو پھر کون امتی ایسا ہے جو دعویٰ کرے کہ مجھے علم کی‘ عمل کی‘ مشورہ کی‘ سیکھنے کی سننے کی اور صحبت پاک کی ضرورت نہیں ہے- یاد رکھو کہ یہ غلط راہ ہے اور بالکل غلط طریق ہے- اس سے پرہیز کرنا چاہئے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 33صفحہ 330)
’’یاد رکھو کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس وقت تیر و تفنگ اور بندوق توپ اور قواعد جنگ و فنون حرب سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں- اس زمانہ کے مناسب حال ہتھیار یہی ہے کہ کامل اور صحیح علم کی زبردست طاقت اور تقریر اور قوت بیان اور عجیب در عجیب پیرایوں سے اپنے خیالات کو مدلل اور مبرہن کر کے اپنے دشمنوں پر حجت پوری کرنے کے زبردست اور تیز ہتھیاروں کی ضرورت ہے- فتدبروا- ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 33صفحہ 233`232)
ہماری ترقی علوم سے مراد:۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان بڑا کمزور‘ ناتواں اور سست ہے- علم حقیقی سے بہت دور ہے- آہستگی سے ترقی کر سکتا ہے- ہم تم تو چیز ہی کیا ہیں؟ اس عظیم الشان انسان‘ علیہ الف الف صلٰوۃ و السلام‘ کی بھی یہ دعا تھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً تو جب خاتم الانبیاء افضل البشر کو بھی علمی ترقی کی ضرورت ہے جو اتقی الناس- اخشی الناس- اعلم الناسہیں اور ان کے متعلق الرحمٰن علم القراٰن وارد ہو جانے کے باوجود بھی ان کو ترقی علم کی ضرورت ہے تو ماوشما حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ہم علمی ترقی نہ کریں۔‘‘
علم سے میری مراد کوئی دنیوی علم اور ایل- ایل- بی یا ایل- ایل- ڈی کی ڈگریوں کا حصول نہیں ہے- لاحول و لاقوۃ الا باللہ- بلکہ ایسا تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسی میری کبھی اپنی ذات یا اپنی اولاد کے واسطے خواہش ہوئی ہے- عام طور پر لوگوں کے دلوں میں آج کل علم سے بھی ظاہری علم مراد لیا گیا ہے اور ہزارہا انسان ایسے موجود ہیں کہ جن کو دن رات یہی تڑپ اور لگن لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح وہ بی- اے یا ایم- اے یا ایل- ایل- بی کی ڈگریاں حاصل کر لیں- ان لوگوں نے اصل میں ان علوم کی دھن ہی چھوڑ دی ہے جن پر سچے طور پر علم کا لفظ صادق آسکتا ہے- پس ہماری مراد ترقی علوم سے خدا کی رضامندی کے علوم اور اخلاق فاضلہ سیکھنے کے علوم‘ وہ علوم جن سے خدا کی عظمت اور جبروت اور قدرت کا علم ہو اور اس کے صفات‘ اس کے حسن و احسان کا علم آ جاوے- غرض وہ کل علوم جن سے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ کا علم آ جاوے‘ مراد ہیں۔
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 1صفحہ 338`337)
انسان علم کا محتاج ہے:۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب سورۃ فاتحہ سے جو کہ قرآن شریف کی کلید اور ام الکتاب ہے شروع ہوئی ہے اور یہ ام الکتاب‘ ضالین پر ختم ہوئی ہے- ضال کہتے ہیں کسی سے محبت بے جا کرنے کو یا جہالت سے کام لینے اور سچے علوم سے نفرت اور لاپرواہی کرنے کو- صرف دو شخص ہی ضال کہلاتے ہیں- ایک تو وہ جو کسی سے بیجا محبت کرے- دوسرا وہ جو سچے علوم کے حصول سے مضائقہ کرے-
انسان ہر روز علم کا محتاج ہے- سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے- پس جو علم نہیں سیکھتا اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے جس سے انسان اچھے اور برے‘ مفید اور مضر‘ نیک اور بد‘ حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکتا
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 35صفحہ 343`342)
خدا کو مقدم رکھو:۔
’’حاکم وقت کی فرماں برداری کا تاکیدی حکم ہے- فان تنازعتم فی شییء فردوہ الی اللہ والرسولکہہ کر بتا دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے پیش کرو- پھر جیسا کہ حکم ہو کرو- غرض نفس ہو یا دوست ہوں‘ رسم ہو یا رواج ہو‘ قوم ہو یا ملک ہو‘ ماں باپ ہوں یا حاکم ہوں جب وہ خدا کے مقابلہ میں آ جاویں یعنی خدا ایک طرف بلاتا ہے اور یہ سب ایک طرف‘ تو خدا کو مقدم رکھو- ‘‘
(خطبات نور جلد 1صفحہ 301)
وہ دعویٰ اور معاہدہ کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا قابلِ غور ہے:۔
اب اپنے حرکات و سکنات‘ رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے- پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو- ایسا نہ ہو کہ ما ھم بمومنین کے نیچے آ جائو- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 99)
دنیا کو دین پر مقدم نہ کرو- بعض اوقات دنیاداروں کو دولت و عزت اندھا کر دیتی ہے- خدا کی برسات لگ گئی ہے- وہ اب سچے پودوں کو نشوونما دے گی اور ضرور دے گی- خدا کی ان ساری باتوں پر ایمان لا کر سچے معاہدہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ اذا لقوا الذین اٰمنوا قالوا اٰمنا ہی کے مصداق ہو جائو۔
(خطبات نور جلد 1صفحہ 100)
یہ بات کہ دین کو ہم نے دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں ہم کو واجب ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں‘ دین کے ہوں یا دنیا کے متعلق ہوں یا مال کے متعلق‘ ہر وقت سوچتے اور پرکھتے رہیں اور اپنا محاسبہ آخرت کے محاسبہ سے پہلے آپ کریں- اور جب خدا کی راہ میں قدم اٹھایا جاتا ہے تو معرفت کا نور ملتا ہے- پس کوشش کرو‘ استغفار کرو اور جس درخت کے ساتھ تم نے اپنا آپ پیوند کیا ہے اس کے رنگ میں رنگین ہو کر قدم اٹھائو- اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔
(خطبات نور جلد 1 ایڈیشن اوّل صفحہ 116)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل وعدہ خلافی کے بدانجام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنے کے برابر ہی وہ معاہدہ ہے جو انسان اپنے امام و مرشد کے ہاتھ پر کرتا ہے- جیسا کہ ہم نے کیا ہے کہ ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘- کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس کے معانی پر غور کرو کہ کس قدر وسیع ہیں- حی علی الصلٰوۃکی آواز آتی ہے اور یہ سنتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ بہت سے ضروری کام کرنے کو ہیں اور ان سے اگر ذرا سی بھی لاپروائی کی تو حرج ہو گا- اس لئے فرض تنہاہی میں ادا کر لوں گا- یہ خیالات دل میں ایک طرف ہیں- دوسری طرف حی کا لفظ بتاتا ہے کہ جلدی کرو اور ادھر یہ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا- اب اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت مقدم کرتا اور حی علی الصلٰوۃ کی آواز پر مسجد کو چلتا ہے تو بیشک اس معاہدہ کو پورا کرنے والا ٹھہرتا ہے لیکن اگر تساہل کرتا ہے تو اس معاہدہ کو توڑتا ہے-
اسی طرح دنیا کے ہر کاروبار میں اس قسم کے امتحان اور مشکلات پیش آتے ہیں- ایک طرف بیوی بچوں کے لئے خرچ کی ضرورت ہے- ادھر قرآن کریم میں پڑھتا ہے لاتسرفوا اور ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین (کہ اسراف نہ کرو اور اسراف کرنے والے لوگ یقینا شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں)اور ایک طرف دین مال و عزت اور جان خرچ کرانی چاہتا ہے- اس وقت اپنے اندرونہ کا معائنہ کرے اور اپنے فعل سے دکھائے کہ کیا دین کو مقدم کرتا ہے یا دنیا کو……سچے اخلاص سے- اپنے ہر قول اور فعل کی پڑتال کرے کہ کیا واقعی خدا تعالیٰ کے لئے ہے یا دنیوی اغراض اور مقاصد پیش نظر ہیں-
پس اپنے اس بڑے عظیم الشان معاہدہ کو اپنے پیش نظر رکھو- یہ معاہدہ تم نے معمولی انسان کے ہاتھ پر نہیں کیا- خدا تعالیٰ کے مرسل مسیح و مہدی کے ہاتھ پر کیا ہے-… دیکھو اور اپنے حالات خود مطالعہ کرو کہ کیا جس قدر تڑپ‘ کوشش اور اضطراب دنیوی اور ان ادنیٰ ضروریات کے لئے دل میں ہے کم از کم اتناہی جوش دینی ضروریات کے لئے بھی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر دین کو دنیا پر تقدم تو کہاں‘ برابری بھی نصیب نہ ہوئی- ایسی صورت میں وہ معاہدہ جو امام کے ہاتھ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کیا ہے کہاں پورا کیا-
(از خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 230`229)
معیت کے سوا انسان کبھی خوشحال نہیں ہو سکتا :۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقُوْا متقیوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے- کسی کے ساتھ کسی کا باپ ہے- کسی کے ساتھ باپ اور ماں دونوں ہیں- کسی کے ساتھ اس کے بھائی ہیں- کسی کے ساتھ اس کے دوست- کسی کو اپنے جتھے پر ناز ہے- غرض معیت کے سوا انسان خوشحال نہیں ہو سکتا- میں نے دیکھا ہے بیوی ہو تب انسان خوش ہوتا ہے- حاکم ہو‘ فوج ہو‘ مال و اسباب ہو جب جا کر خوشی حاصل ہوتی ہے- معیت کا انسان متوالا ہے- میری طبیعت میں محبت کا مادہ ہے- میں نے دیکھا ہے کہ محبت بھی معیت کو چاہتی ہے- بطال لوگوں میں محبت کا مادہ ہو تو وہ بھی معیت کے متوالے ہوتے ہیں- صوفیوں میں ان بطال لوگوں کے متعلق بحث یہی ہے- مگر اس سے انکار نہیں کہ معیت کی تڑپ سب میں ہے- انسان جب سرد ملکوں میں جاوے تو گرم کپڑوں کی معیت- ریل کاسفر کرے تو پیسوں کی معیت چاہیے-
غرض انسان معیت کے بغیر کچھ بھی نہیں- مگر خدا کی معیت سے بڑھ کر کوئی بھی معیت نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت موجود ہے- سوتے‘ جاگتے- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری معیت چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو-
(ماخوذ از خطبہ جمعہ 18اپریل 1910ئ)
انسان فطرۃ چاہتا ہے کہ کوئی اس کا پیارا ہو:۔
انسان فطرتاً چاہتا ہے کہ کوئی اس کا پیارا ہو جو ہر صفت سے موصوف ہو- سو اللہ سے بڑھ کر ایسا کوئی نہیں ہو سکتا- یہ پیارے تو آخر جدا ہوں گے- ان کا تعلق ایک دن قطع ہونے والا ہے مگر اللہ کا تعلق ابدالآباد تک رہنے والا ہے- دنیا کی فانی چیزیں محبت کے قابل نہیں کیونکہ یہ سب فنا پذیر ہے- کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو بقارکھتی ہے؟ ہرگز نہیں- پس اس کی رحمت اور اس کے فضل کا سہارا پکڑو اور اسی کو اپنا پیارا بنائو کہ وہ باقی ہے- (حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 150)
قوت مقناطیسی والا شخص :۔
اللہ تعالیٰ جب انسان کو سچے علوم عطا کرتا ہے اور اس کا ان علوم کے مطابق عملدرآمد ہو پھر اس میں قوت مقناطیسی پیدا ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا نمونہ ہو کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے- یہ درجہ اس کو تب ملتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ رنج میں‘ راحت میں‘ عسر میں‘ یسر میں‘ باساء میں‘ ضراء میں‘ غرض ہر حالت میں قدم آگے بڑھانے والا ہو اور اللہ جل شانہ کی وفاداری میں چست ہو- اس کو حاجتیں پیش آتی ہیں مگر وہ اس کے ایمان کو ہر حال میں بڑھانے والی ہوتی ہیں کیونکہ بعض وقت حاجت پیش آتی ہے تو دعا کا دروازہ اس پر کھلتا ہے اور توجہ الی اللہ اور تضرع الی اللہ کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور اس طرح پر وہ حاجتیں مال|و|جان کی ہوں‘ عزت و آبرو کی ہوں‘ غرض دنیا کی ہوں یا دین کی‘ اس کے تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی ہیں- کیونکہ جب وہ دعائیں کرتا ہے اور ایک سوز و رقت اور دلگداز طبیعت سے باب اللہ پر گرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو باب شکر اس پر کھلتا ہے اور پھر وہ سجدات شکر بجا لا کر ازدیادنعمت کا وارث ہوتا ہے جو ثمرات شکر میں ہیں- اور اگر کسی وقت بظاہر ناکامی ہوتی ہے تو پھر صبر کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور رضا بالقضائکے ثمرات لینے کو تیار ہوتا ہے- اسی طرح یہ حاجتیں جب کسی بدبخت انسان کو آتی ہیں اور وہ مالی‘ جانی یا اور مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ حاجتیں اور بھی اس کی دوری اور مہجوری کا باعث ہو جاتی ہیں- کیونکہ وہ بے قرار مضطرب ہو کر قلق کرتا اور ناامید اور مایوس ہو کر مخلوق کے دروازہ پر گرتا ہے- اس وقت اللہ تعالیٰ سے ایسا بیگانہ اور ناآشنا ہوتا ہے کہ ہر قسم کے فریب|و|دغا سے کام لینا چاہتا ہے- اگر کبھی کامیاب ہو جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ذکر اور اس کی حمد و ستائش کا موقع نہیں ملتا- بلکہ وہ اپنی کرتوتوں اور فریب و دغا اور چالبازیوں کی تعریف کرتا اور شیخی اور تکبر میں ترقی کرتا اور اپنیحیل و تجاویز پر عجب و ناز کرتا ہے- اگر ناکام ہوتا ہے تورضا بالقضائکے بدلے اس کی مقادیر کو کوستا اور بری نگاہ سے دیکھتا اور اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے-
غرض یہ حاجتیں تو سب کو ہیں …… مگر سعید الفطرت کے لئے وہ تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی اور اس کو مزید انعامات کا وارث بنا دیتی ہیں اور شقی مضطرب ہو کر قلق کرتا ہے اور ناکام ہو کر سخط علی اللہ کر بیٹھتا ہے- کامیابی پر وہ مبتلا فی الشرک ہو جاتا ہے اور ناکامی پر مایوس- (خطبات نور جلد 1صفحہ 138`137)
صفاتِ الٰہیہ کے متعلق سکھانے والا :۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات اور افعاں کے متعلق سچا علم بخشنا اس شخص کا کام ہوتا ہے جو آیات اللہ کی تلاوت کرے اور اپنی قدسی تاثیر سے تزکیہ کرے اور سچی توحید پر قائم کرے۔ جب تک مزکی نہ ہو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ اس جہان کا پیدا کرنے والا رب العالمین ایک ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 101)
ایک کامیاب رہنما کے اوصاف :۔
کسی سچے اور خاص رہنما میں تین وصف ہونے ضروری ہیں۔
ایک تو وہ خود واقف کار ہو۔ اسے نیکی و بدی ۔ نافع وضار کا علم ہو۔
دوم ۔ وہ اجنبی نہ ہو ۔ اس ملک کے رسم و رواج ۔ مذاق ۔ عادات ۔ حالات سے آگاہ ہو۔ اور اس ملک کے باشندے بھی اس کے کیریکٹر ۔ علم ۔ قابلیت کو خوب جانتے ہوں۔ تا کہ نہ وہ دھوکہ کھائے نہ اس کے بارے میں احتمال ہو کہ یہ ہمیں دھوکا دے گا۔
سوم۔ عالم باعمل ہو، اپنے علم کو اپنے اور اپنے بھائیوں کی اصلاح میں خرچ کرنے والا ہو۔ نہ یہ کہ وہ اپنے علم سے مفاسد و شرارت کو بڑھانے والا ہو۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 26)
ہدایت سے بے نصیب لوگ :۔
بعض لوگ ہدایت سے ایسے بے نصیب ہوتے ہیں کہ جب انہیں کوئی نیکی کی راہ بتلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم نبی ہیں یا ولی کہ ایسے کام کریں۔ اور اگر بدی سے روکا جاوے تو کہتے ہیں۔ کہ کیا ہم فرعون ہیں جو ہم کو ایسی نصیہت کی جاتی ہے۔ اور بہر حال اپنی ہی رائے کو بڑا سمجھتے ہیں۔
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 24)
متقی کی شان :۔
متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو- دوست پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے- حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے‘ اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس|قدر دور ڈال دے کہ وہ کام نہ آ سکیں- پس ہر آن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی‘ موت کسی حال میں ہم سے جدا نہیں ہو سکتا-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 68)
انسان اور گھوڑا :۔
ان الانسان لربہ لکنود حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اس پر فرماتے ہیں ۔
کنود کند سے ماخوذ ہے اور کند کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔ رسی کاٹ دینے کو کند الحبل کہتے ہیں ۔
گھوڑا گھاس، توڑی۔ بھوسہ کھاتا ہے اور وفاداری میں بڑا جانباز ہے۔ انسان ہزاروں قسم کی لذیز سے لذیز نعمتیں اپنے رب کی دی ہوئی کھاتا ہے اور وفاداری کے وقت رشتہ ربوبیت کو کاٹ دیتا ہے … گھوڑا میدان کے دن بڑا چست ہوات ہے مگر بے وفا انسان کند ہوتا ہے۔ کنود میں اس بات کو بیان فرمایا ہے۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 443)
اَکْرَمَ اَوْلَادَکُمْ :۔
اولاد کے لئے ایسی تربیت کی کوشش کرو کہ ان میں باہم اخوت‘ اتحاد‘ جرات‘ شجاعت‘ خودداری‘ شریفانہ آزادی پیدا ہو- ایک طرف انسان بنائو دوسری طرف مسلمان-
آخرت کا ثبوت :۔
بہت سے لوگ ورلی زندگی کو پسند کرتے ہیں- وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے- پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لطف دے اور وہ نظارہ ان کے مرغوب خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہو- لیکن اس سچے سرور کی پروا نہیں کرتے جو دائمی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی-
ایسے لوگوں کے لئے بھی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ‘ ہر گھڑی ان کو دکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا- چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بعد میں ہوتے ہیں جو عذاب ہے- وہ اس سے معذب ہوتے ہیں- لیکن اس قسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں- یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے تاکہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو-
(خطبات نور جلد 2صفحہ 20`19)
دنیا کی زندگی اختیار کرنے کا نتیجہ :۔
حضرت خلیفہ اوّل فرماتے ہیں :۔
پس میں جو کچھ کہتا ہوں خلوص دل سے کہتا ہوں اور یہ کسی قیاس سے نہیں بلکہ اس کلام الٰہی کی بنا پر جس کی تہ تک پہنچ کر میں نے یقین کر لیا کہ دنیا کی زندگی اختیار کرنا اپنے پر عذاب وارد کرنا ہے-
(خطبہ جمعہ 25دسمبر 1908ء ۔ خطبات نور جلد 2صفحہ 21)
اچھے دوستوں کے فائدے :۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو فہم عطا کرے- عاقبت اندیشی دے- یہ دنیا چند روزہ ہے- سب یار و آشنا الگ ہونے والے ہیں- ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دنیا|و|آخرت میں ساتھ ہیں- ان کی نسبت فرمایا الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین ۔ پس تمہارے دوست ہوں مگر وہ جن کو اللہ نے متقی فرمایا- اگر وہ تم سے پہلے مر گئے تو تمہارے شفیع ہوں گے اور اگر ہم ان سے پہلے وفات پا گئے تو ان کی دعائیں تمہارے کام آئیں گی-
(خطبات نور جلد 2صفحہ 21۔ 23) (البدر 31دسمبر 1908ئ)
عبادت فرمانبرداری
عبادت کا مدار حُسن و احسان پر :۔
عبادت کا مدار ہے حسن و احسان پر‘ پھر یہ دونوں باتیں بدرجہ کامل کس میں موجود ہیں؟اللہ ہی میں- احسان دیکھ لو- تم کچھ نہ تھے- تم کو اس نے بنایا- کیسا خوبصورت‘ تنومند اور دانشمند انسان بنا دیا- بچے تھے- ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کیا- سانس لینے کو ہوا‘ پینے کو پانی‘ کھانے کو قسم قسم کی لطیف غذائیں‘ طرح طرح کے نفیس لباس اور آسائش کے سامان کس نے دیئے؟ خدا نے! میں کہتا ہوں کیا چیز ہے جو انسان کو فطرتاً مطلوب ہے اور اس نے نہیں دی- سچی بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسان اور افضال کو کوئی گن ہی نہیں سکتا -
حسن۔ دیکھو تو کیسا اکمل- ایک ناپاک قطرہ سے کیسی خوبصورت شکلیں بناتا ہے کہ انسان محو ہو ہو رہ جاتا ہے- پاخانہ سے کیسی سبز اور نرم‘ دل|خوشکن کونپل نکالتا ہے- انار کے دانے کس لطافت اور خوبی سے لگاتا ہے- ادھر دیکھو- ادھر دیکھو- آگے پیچھے دائیں بائیں جدھر نظر اٹھائو گے اس کے حسن کا ہی نظارہ نظر آئے گا-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 25`24)
’’کس قدر ظاہر ہے نور اس مبداء الانوار کا
بن راہ ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا ‘‘ (درثمین)
محسن سے محبت کے ذرائع :۔
انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے - اسی قاعدہ اور تقاضائے فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ طرز بھی اختیار کیا ہے کہ سعادت مندوں کو اپنے احسان وانعام یاد دلاتا ہے کہ وہ محبت الٰہی میں ترقی کر کے سعادت حاصل کریں- اندرونی اور بیرونی انعامات پر غور کریں اور سوچیں تا ان کی جناب الٰہی سے محبت ترقی کرے- پھر یہ بات بھی انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان کسی سے محبت بڑھا لیتا ہے تو محبوب کی رضامندی کے لئے اپنا وقت‘ اپنا مال‘ اپنی عزت و آبرو غرض ہر عزیز سے عزیز چیز کو خرچ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے- پس جب خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کے مطالعہ کی عادت پڑ جاوے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو گی اور روز بروز محبت بڑھے گی- اور جب محبت بڑھ گئی تو وہاپنی تمام خواہشوں کو رضاء الٰہی کے لئے متوجہ کر سکے گا اور اس رضاء الٰہی کو ہر چیز پر مقدم سمجھ لے گا-
دیکھو سب سے بڑا اور عظیم الشان احسان جو ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ ہم کو پیدا کیا- اگر کوئی دوست مدد دیتا ہے تو ہمارے پیدا ہونے اور موجود ہونے کے بعد- اگر کوئی بھلی راہ بتلا سکتا ہے یا علم پڑھا سکتا ہے‘ مال دے سکتا ہے- غرض کہ کسی قسم کی مدد دیتا ہے تو پہلے ہمارا اور اس چیز کا اور دینے والے کا وجود ہوتا ہے تب جا کر وہ مدد دینے والا مدد دینے کے قابل ہوتا ہے- غرض تمام انعاموں کے حاصل کرنے سے پیشتر جو کسی غیر سے ہوں پہلا اور عظیم الشان احسان خدا تعالیٰ کا یہ ہے کہ اس نے ہم کو اور اس چیز کو جس سے ہمیں راحت پہنچی اور جس نے ہمیں راحت پہنچائی اس کو وجود عطا کیا-
پھر صحت و تندرستی عطا کی - اگر ذرا بھی بیمار ہو جاوے تو تمام راحت رساں چیزیں بھی راحت رساں نہیں رہتیں- دانت درد کرے تو اس کو نکالنا پسند ہو جاتا ہے- آنکھ دکھ دینے کا باعث بن جاوے تو گاہے اس کو نکالنا ہی پڑتا ہے- چونکہ ان لوگوں کو جو احسانات کا مطالعہ نہیں کرتے خبر بھی نہ تھی- غرض یہ سب انعامات جو ہم پر ہوتے ہیں ان میں سے اول اور بزرگ ترین انعام وجود کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے
چنانچہ فرماتا ہے ۔ انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ- ہم نے انسان کو نطفہ سے بنایا- نطفہ میں صدہا چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان بنتا ہے- عام طور پر ہم لوگ ان کو دیکھ نہیں سکتے- کوئی بڑی اعلی درجہ کی خورد بین ہو تو اس کے ذریعہ سے وہ نظر آتے ہیں- پھر بتلایا کہ پہلا انعام تو عطاء وجود تھا پھر یہ انعام کیا فجعلنٰہ سمیعاً بصیراً- خدا ہی کا فضل تھا کہ کان دیئے‘ آنکھیں دیں اور سنتا دیکھتا بنا دیا- سارے کمالات اور علوم کا پتہ کان سے لگ سکتا ہے یا نظارئہ قدرت کو دیکھ کر انسان باخبر ہو سکتا ہے- یہ عظیم الشان عطیے بھی کس کی جناب سے ملے؟ مولیٰ کریم ہی کی حضور سے ملے- آنکھیں ہیں تو نظارئہ قدرت کو دیکھتی ہیں- خدا کے پاک بندے اس کے پاک صحیفوں کو دیکھ کر حظ اٹھاتے ہیں- کان کے عطیہ کے ساتھ زبان کا عطیہ بھی آ گیا- کیونکہ کان اگر نہ ہوں تو زبان پہلے چھن جاتی ہے- اب اگر ان میں سے کوئی نعمت چھن جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ کیسی نعمت جاتی رہی- آنکھ بڑی نعمت ہے یا کان بڑی دولت ہے-
ان عطیوں میں کوئی بیماری یا روگ لگ جاوے تو اس ذرا سے نقصان کی اصلاح کے لئے کس قدر روپیہ‘ وقت خرچ کرنا پڑتا ہے- مگر یہ صحیح سالم‘ عمدہ‘ بے عیب‘ بے روگ عطیے اس مولیٰ کریم نے مفت بے مزد عنایت فرمائے ہیں- یوں نظر اٹھاتے ہیں تو وہ عجیب در عجیب تماشا ہائے قدرت دیکھتے ہوئے آسمان تک چلی جاتی ہے- ادھر نظر اٹھاتے ہیں تو خوش کن نظارے دیکھتی ہوئی افق سے پار جا نکلتی ہے- کان کہیں دلکش آوازیں سن رہے ہیں‘ کہیں معارف وحقایق قدرت کی داستان سے حظ اٹھاتیہیں‘ کہیں روحانی عالم کی باتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں- بیشک یہ مولیٰ کریم ہی کا فضل اور احسان ہے کہ ایسے انعام کرتا ہے- پیدا کرتا ہے اور پھر ایسی بے بہا نعمتیں عطا کرتا ہے- (خطبہ جمعہ از خطبات نور فرمودہ 20 اکتوبر 1899)
سب سے بڑے کی بات ماننا اور فرمانبرداری کرنا انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے:۔
حضور نماز کے ضمن میں اذان کے علاوہ نماز میں کئی بار اللہ اکبر کہنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
وہ اکبر بھی ہے یعنی بہت بڑا- اس کے یہ معنی ہوئے کہ اب اپنے کاروبار‘ یاروں دوستوں غرض ہر ایک کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آ جائو- اور چونکہ وہ سب سے ہر رنگ میں بڑا ہے‘ اب اس کا حکم آنے پر دوسروں کے احکام کی پرواہ مت کرو- ایک طرف خدا کا بلاوا آ جاوے‘ دوسری طرف کوئی یار دوست آشنا بلاویں یا کوئی دنیا کا کام بلاوے تو اللہ کے مقابلہ میں ان کو ترک کر دو- کیونکہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑے کی بات کو مان لینا تمہاری فطرت میں رکھا گیا-
حتیٰ کہ ماں باپ جن کی اطاعت اور فرمانبرداری کی خدا نے سخت تاکید فرمائی ہے خدا کے مقابلہ میں اگر وہ کچھ کہیں تو ہر گز نہ مانو- فرمانبرداری کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے کہ آیا فرمانبردار اللہ کا ہے یا کہ مخلوق کا- ماں باپ کی فرمانبرداری کا خدا نے اعلیٰ مقام رکھا ہے اور بڑے بڑے تاکیدی الفاظ میں یہ حکم دیا ہے- ان کے کفر واسلام اور فسق و فجور یا دشمن اسلام وغیرہ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی اور ہر حالت میں ان کی فرماں برداری کا تاکیدی حکم دیا ہے مگر ہر مقابلہ کے وقت ان کے متعلق یہی فرما دیا کہ ان جاھدٰک لتشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما اگر خدا کے مقابلہ میں آ جاویں تو خدا کو مقدم کرو‘ ان کی ہر گز نہ مانو-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 30صفحہ 300)
فرمانبرداری کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے :۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنا معبود‘ محبوب اور مطاع نہ بنائو- اور زبان‘ آنکھ‘ کان‘ ہاتھ‘ پائوں غرض کل جوارح اور اعضاء اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہوں- کوئی خوف اور امید مخلوق سے نہ ہو- اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں اور اس کے حکم کے مقابل کسی اور حکم کی پروا نہ کریں-
فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے- ایک طرف قوم اور رسم و رواج بلاتا ہے‘ دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے- اگر قوم اور رسم و رواج کی پروا کرتا ہے تو پھر اس کا بندہ ہے- اور اگر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پروا نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہے اور یہی عبودیت ہے- قرآن مجید نے اسلام کی یہی تعریف کی ہے من اسلم وجھہ للٰہ و ھو محسن سچی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے- اس کی آرزوئیں اور امیدیں‘ اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں-
حضور فرماتے ہیں:۔ ’’میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا‘ چلنا پھرنا‘ سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے- ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 29صفحہ 292)
یقیناً یاد رکھو فرمانبرداری بڑی دولت ہے- یہی دولت ابراھیم علیہ السلام کو ملی جس نے اس کو اسقدر معظم و مکرم بنا دیا- خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فیض اور فیضان اسی فرمانبرداری پر نازل ہوتے ہیں مگر تھوڑے ہیں جو اس راز کو سمجھتے ہیں-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 232`231)
معزز کون؟ فکر کرو :۔
خدا تعالیٰ کے حضور معزز وہی ہو سکتا ہے جو رب العالمین کا فرمانبردار ہو- یہ ایک دائمی سنت ہے جس میں تخلف نہیں ہو سکتا- اب ہم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم غور کر کے دیکھیں کہ ہم لباس‘ عادات‘ عداوت‘ دوستی‘ دشمنی‘ غرض ہر رنج و راحت‘ ہر حرکت و سکون میں کس پر عمل درآمد کرتے ہیں- کیا فرمانبرداری کی راہ ہے یا نفس پرستی کی۔
عام مسلمانوں اور عام غیر مذہب کے لوگوں کو دیکھو کہ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں تو کیا مسلمان ہو کر ایک مسلمان جھوٹ سے محفوظ ہے؟ غیر مذہب والے اگر نفس پرستیاں اور شہوت پرستیاں کرتے ہیں تو کیا مسلمانوں میں ایسے کام نہیں کرتے؟ اگر ان میں باہم تباغض اور تحاسد ہے تو کیا ہم میں نہیں؟ اگر ان حالات میں ہم ان ہی کے مشابہ ہیں اور کوئی فرق اور امتیاز ہم میں اور ان میں نہیں ہے تو بڑی خطرناک بات ہے‘ فکر کرو- (خطبات نور جلد 1صفحہ 95)
خدا کے فرماں بردار بننے کی کوشش کرو :۔
ہر وقت جناب الٰہی سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اسی کو اپنا والی اور ناصر جانو- بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو سمجھانے والے کے سمجھانے کی برداشت نہیں- …… اللہ بڑا بے پروا ہے- اسے فرمانبرداری پسند ہے- خد تعالیٰ آسودگی بخشے تو متکبر نہ بنو- لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے- حالانکہ ان کے اپنے گھر بیٹیاں ہیں جو دوسرے گھروں میں جانے والی ہیں- جو سلوک تم نہیں چاہتے کہ ہم سے ہو وہ غیروں سے کیوں کرو- اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور خدا کے فرمانبردار بننے کی کوشش کرو- اللہ تمہیں توفیق بخشے-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 441`440)
خدا کے فضلوں کے وارث بننے کی شرط:۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں :۔
اس وقت خدا تعالیٰ پھر ایک قوم کو معزز بنانا چاہتا ہے اور اس پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا- وہ کیا؟ سچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری- اس کو اپنا شعار بنائو اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا پر مقدم کر لو- دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھائو- پھر خداتعالیٰ کی نصرتیں تمہارے ساتھ ہوں گی- اس کے فضلوں کے وارث تم بنو گے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 232)
اسلامی اَذان کے معنی سوچو اور غور کرو :۔
’’اسلامی اذان میں سارا اسلام کوٹ کوٹ کر بھرا ہے- غور کرنے والا غور کرے اور سوچنے والا دل گہری سوچ کے بعد بتائے کہ بھلا اپنے مذہب کی تبلیغ اور خدا کے جلال اور اس کی عظمت اور جبروت کے اظہار کی اس سے بہتر بھی کوئی تجویز ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں- یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلی جوش‘ ان کے سچے ارادوں اور ولولوں کا ایک سچا فوٹو ہے۔‘‘
’’یہ قاعدہ کی بات ہے اور انسانی فطرت میں یہ امر مرکوز ہے کہ انسان اپنے سے بڑے کی بات کو مان لیتا ہے- آج کل کا کوئی نادان لڑکا اپنی بے ہودگی کی وجہ سے اپنے بڑے بزرگوں کی نہ مانے تو یہ اس کی بے|ہودگی ہے- انسانی صحیح فطرت میں روز ازل سے یہی رکھا گیا ہے- بڑے علم والوں‘ تاجروں‘ فلاسفروں‘ تجربہ کاروں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سب اپنے سے بڑوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں اور یہی سلیم فطرت کا تقاضا ہے- ‘‘ (خطبات نور جلد 1صفحہ 300`299)
اللہ اکبر کی شہادت اپنی کامل حد تک ادا کر چکنے کے بعد موذن لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہے یعنی کوئی بھی بجز اللہ تعالیٰ قابل عبادت اور واجب الاطاعت وجود نہیں ہے- پس خدا کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی فرمانبرداری کرنا‘ سجدہ کرنا‘ رکوع کرنا‘ دعا کرنا‘ کسی پر بھروسہ رکھنا اللہ کے سوا بالکل جائز نہیں ہے-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 302)
غرض اذان ایک اعلیٰ قسم کا کامل و اکمل طرز دعوت ہے جس میں خلاصہ اسلام بیان کر دیا ہے- دعوت کیوجہ بیان فرمائی گئی ہے اور پھر نتیجہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ حی علی الفلاح - … پھر (مؤذن ۔ ناقل) بعد اذان کے جوش میں آ کر کہتا ہے اور دعوت کو ختم کرتا ہے- لا الٰہ الا اللہ … اذان کے معنی سوچو اور غور کرو-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 303`302)
میری آرزو :۔
ح,رت خلیفہ اوّل رضی اللہ فرماتے ہیں :۔
میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں کہ وہ اسلام کا خاصہ ہے۔ ایمان کیا ہے؟ اللہ کو ذات میں بے ہمتا ، صفات میں یکتا ، افعال میں لیس کمثلہ یقین کیا جائے۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 452)
تسخیر
تسخیر مفت میں بلامزدوری کام میں لگا دینے کو کہتے ہیں۔ بے شک کشتیاں۔ جہاز ۔ دریا۔ سمندر۔ سورج ۔ چاند ۔ ستارے۔ رات دن۔ چارپائے مویشی باری تعالیٰ جل شانہ نے محض اپنے لطف و کرم سے مفت ہمارے کام میں لگا رہے کھیںبایں معنی کہ ان کی خلقت اور فطرت ایسی بنائی ہے کہ بلا اجرت ہمارے منافع اور مصالح دنیوی کے اہتمام والنصرام میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ حقیقۃ ہماری زندگی و معاش انہیں اشیاء اور قویٰ طبعی کے وجود پر موقوف ہے چونکہ ان بڑے بڑے قوائے طبعی مثلاً سمندر۔ ہوا۔ سورج چاند ستارگان ۔ رات دن وغیرہ پر من حیث الخلق ہم قدرت نہیں رکھتے۔ اور نہ جبرا و قہراً ان سے کام لے سکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اپنا فضل وامتنان و احسان جتا کر ہم سے فرماتا ہے کہ دیکھو ایسی بڑی زبردست چیزیں جن پر تمہارے دست قدرت کو رسائی ممکن نہ تھی مفت میں مَیں نے تمہارے کام میں لگا دی ہیں۔ اس کے یعنی خدا کے ہمارے کام میں ان اشیاء کو لگا دینے یا ہمارے ان کو کام میں لانے کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے تمام منافع اور مصالح کا مدار ان ہی اشیاء کے وجود پر ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 164)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار فرماتا ہے ۔ میری نعمتوں کو یاد کرو۔ حضور اس ضمن میں فرماتے ہیں:۔
انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت رکھی ہے کہ جب کوئی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت مولینا نورالدین صاحب خلیفہ اوّل فرماتے ہیں :۔
’’اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا مطالعہ کرو اور ان کو یاد کر کے اس محسن اور منعم کی محبت کو دل میں جگہ دو- اس کے بے شمار اور بے نظیر احسانوں پر غور تو کرو کہ اس نے کیسی منور اور روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارئہ قدرت کو دیکھتے اور ایک حظ اٹھاتے ہیں- کان دیئے جن سے ہر قسم کی آوازیں ہمارے سننے میں آتی ہیں- زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں- ہاتھ دیئے کہ جن سے بہت سے فوائد خود ہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں- پائوں دیئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں- ‘‘
جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اب میں ایک عظیم الشان نعمت‘ روح کے فطرتی تقاضے کو پورا کرنے والی نعمت کا ذکر کرتا ہوں- وہ کیا؟ یہ اس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہوا اور ایک ظلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا- ایک انسان دوسرے انسان کی‘ باوجود ہم جنس ہونے کے‘ رضا سے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا سے واقف ہونا کس قدر محال اور مشکل تھا- یہ خدا تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی رضا کی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الوریٰ مرضیوں کو ظاہر کر نے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایا-
(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 150-141)

قرآن
قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان کے آٹھ پہر خوشی سے گزرتے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل کرنے سے انسان کو خوش اور عزت اور کم سے کم بندوں کی اتباع اور محتاجی سے نجات ملتی ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 57)
’’ بھلائی اور برائی سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ قرآن شریف ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
غلطی پر ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں قرآن پر عمل نہیں ہو سکتا۔ لوگ قرآن کے احکام سے بڑھ کر … اپنی رسوم پر عمل کرتے ہیں۔ اسلام نے تو شادی کو ایجاب و قبول اور غمی کو جنازہ اور انا للہ پر ختم کردیا ہے۔ اور لوگوں کو ان دونوں امو ر میں جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ ظاہر ہے۔ کہتے ہیں۔ شریعت پر عمل مشکل ہے۔ اور شادیوں کے لئے تو اپنی زمینوں تک رہن کر دینے سے نہیںجھکتے۔ کیا خدا کے نام کچھ دینے کا حکم ناقابل برداشت کہا جا سکتا ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 204)
سچے علوم کا مخزن قرآن شریف ہے :۔
علوم میں سے ہمیں ضرورت ہے۔ اس بات کی کہ اسماء اللہ معلوم ہوں۔ خدا تعالیٰ کے افعال کا علم ہو ایمان کے معنی معلوم ہوں۔ کفر و نفاق کی حقیقت معلوم کریں۔‘‘ (خطبات نور جلد 1صفحہ 90)
پہلا الہام جو ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا وہ بھی رب زدنی علماکی دعا تعلیم ہوتی ہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علم کی کس قدر ضرورت ہے- سچے علوم کا مخزن قرآن|شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے- (خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 8صفحہ 91)
لطف اور راحت دینے والی کتاب :۔
میں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا ‘ راحت بخش‘ لذت دینے والی جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو‘ نہیں دیکھی جس کو باربار پڑھتے ہوئے‘ مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اکتائے‘ طبعیت نہ بھر جائے اور یا بدخو دل اکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو- میں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر‘ میری مطالعہ پسند طبیعت‘ کتابوں کا شوق اس امر کو‘ ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر‘ کہنے کے لئے جرات دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے- اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے- وہ کونسی کتاب؟ ذالک الکتاب لاریب فیہ
…… میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو‘ جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی- طبیعت اکتانے کی بجائے چاہے گی کہ اور وقت اسی پر صرف کرو- عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان‘ یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 34)
بڑا بننے کی صورت :۔
قرآن کریم عجیب عجیب پیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے- بہادر سپاہی کی اولاد! تم بھی غور کر لو- کوئی اپنے آپ کو سید سمجھتا ہے- وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے- کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیدوں کو اپنی جزء قرار دیتا ہے- اسی طرح کوئی مغل ہے‘ کوئی پٹھان‘ کوئی شیخ‘ غرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کو کسی بڑے آدمی سے منسوب کرتے ہیں- مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا؟ اپنے اعمال سے- پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو؟ ہرگز نہیں- … پس میرے پیارو ! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو …… تو بڑوں کے کاموں کو نابود کرنے والے نہ بنو- تم خود ہی بتائو کہ وہ شرک کرتے‘ جھوٹ بولتے‘ دھوکا کرتے‘ دوسروں کو دکھ دیتے تھے؟ ہرگز نہیں- تو کیا تم ان افعال کے مرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو؟
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 151`150)
قرآن کریم کیونکر آسکتا ہے اور اس کی غرض :۔
لوگ مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کیونکر آ سکتا ہے- میں نے بارہا اس کے متعلق بتایا ہے کہ اول تقویٰ اختیار کرو- پھر مجاہدہ کرو- اور پھر ایک بار خود قرآن شریف کو دستور العمل بنانے کے واسطے پڑھ جائو- جو مشکلات آئیں ان کو نوٹ کر لو- پھر دوسری مرتبہ اپنے گھروالوں کو سنائو- اس دفعہ مشکلات باقی رہ جائیں ان کو نوٹ کرو- اس کے بعد تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو سنائو- چوتھی مرتبہ غیروں کے ساتھ پڑھو- میں یقین کرتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر کوئی مشکل مقام نہ رہ جائے گا- خدا تعالیٰ خود مدد کرے گا- لیکن غرض ہو اپنی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید- کوئی اور غرض درمیان نہ ہو- (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 315)
یاد رکھو کہ ہماری اور ہمارے امام کی کامیابی ایک تبدیلی چاہتی ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل بنائو- نرے دعوے سے کچھ نہیں ہو سکتا-
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 315)
حبل اللہ :۔
’’ واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ سب کے سب مل کر حبل اللہ کو پکڑ لو۔ مجھے نہایت رنج اور قلق سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ حبل اللہ یعنی قرآن کریم کو پکڑنا چاہئے تھا مگر اس کی پرواہ نہیں کی جاتی۔
تمہاری کوئی حرکت اور سکون۔ کوئی رسم اور پابندی اس رسن سے الگ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کو سپر بنانے کے واسطے اس کی رضامندی کی راہوں کو معلوم کرنا از بس ضروری تھا ۔ اور وہ بیان ہوئی ہیں قرآن کریم میں۔ اس لئے اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا ارشاد ہوا۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 516)
فرماتے ہیں :۔
سب کے سب حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔ مدرسوں میں رسہ کشی کا ایک کھیل ہوتا ہے۔ اور تم نے دیکھا ہو گا۔ اس میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ ایک ایک طرف ۔ اور دوسری دوسری طرف ۔ جس طرف کے لڑکے وحدت کے ساتھ مل کر زور نہ لگائیں وہ جیت نہیں سکتے… مسلمانوں کو بھی ایک حبل اللہ دیا گیا ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ سب کے سب مل کرزور لگا دیں۔
یاد رکھو کہ اگر پوری طاقت و ہمت اور یک جہتی سے حبل اللہ کو مضبوط نہ پکڑو گے تو مخالفین اس رسہ کو لے جائیں گے۔ اس رسہ کو مضبوط پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ قرآن مجید تمہارا دستور العمل ہو۔ تمہاری زندگی اس کی ہدایتوں کے ماتحت ہو۔ تمہارے ہر ایک کام ہر حرکت۔ ہر سکون میں جو چیز تم پر حکمران ہو وہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک کتاب ہوجو نور اور شفا ہے۔ ‘‘
پس اس وقت ضرورت ہے کہ تم میں عملی زندگی پیدا ہو۔ تفرقہ نہ ہو۔ میں پھر تمہیں اللہ کا حکم سناتا ہوں۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا -
(ماخوذ از حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 517`516)
مطالعہ قرآن کے آداب :۔
قرآن شریف میں مطالعہ کرو کہ نابکار خدا تعالیٰ سے نہ ڈرنے والوں اور انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ کرنے والے شریروں کا انجام کیا ہوا- کس طرح وہ ذلت کی مار سے ہلاک ہوئے- …… رذائل سے بچنے اور فضائل کو حاصل کرنے کی بے تعداد ضرورت ہے- اور یہ بات حاصل ہوتی ہے کسی برگزیدہ انسان کی صحبت میں رہنے سے جس کو خدا نے اس ہی کام کے لئے مقرر کیا ہے-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 90)
وصل الٰہی کے اسباب :۔
یاد رکھو انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اورپھر تزکیہ کرنے والا اور پھر علم اور عمل کی قوت دینے والا نہ ہو- تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علم معلم سے ملتا ہے- (خطبات نور جلد 1صفحہ 98)
قرآن سے بے رُخی :۔
میں نے بہت سے آدمیوں کو دیکھا ہے کہ جب ان کو کہا گیا کہ قرآن|شریف بھی پڑھا کرو تو انہوں نے آخر کہا تو یہی کہا کہ کوئی بہت ہی خوبصورت عمدہ سا قرآن دو اور وہ بھی مفت- اللہ! اللہ!! ناولوں اور انگریزی کتابوں کی خرید میں جس قدر روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس کا سواں حصہ بھی قرآن شریف کے لئے خرچ نہیں کر سکتے- چاہئے تو یہ تھا کہ ساری توجہ اسی کی طرف ہوتی مگر ساری چھوڑ ادھوری بھی نہیں- (خطبات نور جلد 1صفحہ 83)
بھلائی اور برائی سمجھنے کا ذریعہ :۔
خذوا ما اٰتیناکم بقوۃ جیسے بنی اسرائیل کو تورات محکم پکڑنے کا حکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآن مجید کے بارے میں حکم ہے- اگر مانو گے تو فائدہ ہو گا اور اگر نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے- عورتوں کا بڑا حصہ تو قرآن سنتا ہی نہیں- امیر بھی بدبختی سے قرآن نہیں سن سکتے‘ نہ باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں- ……آرام میں آسودگی میں انسان اپنے مولیٰ‘ اپنے حقیقی محسن کو بھول جاتا ہے- …… میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو- اس پر عمل کرو- (حقائق الفرقان جلد 12صفحہ 198)
قرآن میری غذا اور تسلی کا سچا ذریعہ ہے :۔
قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے۔ اور میں جب تک ہر روز اس کو کئی مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا۔ بچپن ہی سے میری طبیعت خدا نے قرآن شریف پر تدبر کرنے الی رکھی ہے۔ اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 82)
سائنسی علوم قرآن کی صداقت و عظمت کے گواہ ہوں گے :۔
میرا یقین ہے کہ جس جس قدر سائنس اور دوسرے علوم ترقی کرتے جائیں گے۔ اسی قدر اسلام کے عجائبات اور قرآن شریف کے حقائق اور معارف زیادہ روشن اور درخشاں ہوں گے اور خدا کی تسبیح ہو گی۔ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 83)
نیز فرماتے ہیں :۔
’’ زمین وآسمان کے تمام ذرات اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی ان صفات پر گواہ ہیں۔ پس زمینی علوم یا آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے۔ خدا تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات کی زیادہ وضاحت زیادہ صراحت ہو گی۔ میں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز یہ تسلیم نہیں کرتا کہ علوم کی ترقی اور سائنس کی ترقی قرآن شریف یا اسلام کے مخالف ہے۔ سچے علوم ہوں وہ جس قدر ترقی کریں گے قرآن شریف کی حمد اور تعریف اسی قدر زیادہ ہو گی۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 85)
قرآن کریم میں علمائے بنی اسرائیل اور بڑے لوگوں
کی بے عملی اور بدعملی کا ذکر کرنے سے مقصد :۔
خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے لوگوں کا ذکر کیا۔ کیونکہ اس سے چھوٹوں کا خود اندازہ ہو سکتا تھا… اگر ایک نمبردار کی حالت بیان کریں کہ ایک قحط میں اس پر فاقہ کشی کی مصیبت ہے تو اس سے چھوٹے درجے کے زمیندار کا حال خود بخود معلوم ہو جاتا ہے… وہ جو اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے ۔ ان کی نسبت قرآن ہی نے خود شہادت دی ہے اکثرھم فاسقون (توبہ:8) ان میں اکثر لوگ فاسق تھے اور یہاں تک فسق و فجور نے ترقی کی ہوئی تھی کہ جعل منھم القردۃ الخنازیر (مائدہ:61) یہ اس وقت کے لکھے پڑھے علماء سجادہ نشین خدا کی کتاب مقدس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل اور خوار ہیں جیسے بندر اور ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے خنزیر۔ اس سے اندازہ کرو ان لوگوں کا جو لکھے پڑھے نہ تھے۔
(حقائق القرآن جلد 4صفحہ 86)
قرآن کے صحیح اور درست معانی کرنے کا گُر :۔
یہ ایک غلطی پیدا ہو گئی ہے کہ بعض وقت اللہ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنیکر لئے جاتے ہیں جو اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس کے لئے میں تمہیں ایک گر بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کے معانی کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفات الٰہی کے خلاف ہوں۔ اسماء الٰہی کو مدنظر رکھو اور ایسے معنی کرو اور دیکھو کہ قدوسیت کو بٹہ تو نہیں لگتا ۔
’’لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنے ہو سکتے ہیں ۔ اور ایک ناپاک دل انسان کلام الٰہی کے گندے معنے بھی تجویز کر سکتا ہے اور کتاب الٰہی پر اعتراض کر بیٹھتا ہے ۔ مگر تم ہمیشہ یہ لہاظ رکھو۔ کہ جو معنے کرو اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفت قدوسیت کے خلاف تو نہیں ہے۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 84)
خدا کرے تم لوگ ایسے نہ بنو کہ تمہارا قرآن سنانے والا ایسے لوگوں سے ہو کہ اس کے سامعین ایسے ہوں۔ جو نہ آنکھیں رکھتے ہوں کہ دیکھیں نہ کان رکھتے ہوں کہ سنیں۔ نہ زبان رکھتے ہوں کہ حق بولیں۔ تم قرآن شریف سننے کو غنیمت سمجھو،… سات اصول بتائے ہیں۔ ان کو ہر وقت زیر نظر رکھو۔ حلال طیب کھائو۔ سوء و فحشاء و تقول نہ ہو۔ تقلید بے جا نہ ہو کبھی ایسے رنگ میں اپنے تئیں نہ بنائو کہ گوش حق کے شنوا، آنکھیں حق کی بینا نہ رہیں۔ ‘‘
مالداروں کا انجام :۔
حق کے حصول کا ذریعہ حلال و طیب روزی ہے۔ انسان فاقے پر فاقہ اٹھائے مگر حلال کا رزق کھائے۔ جو مالدار ہین ان کی حالت نہایت نازل ہے۔ غضب الٰہی بھی مال والوں پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کی ہدایت سے محرومی بھی اکثر مال والوں کے حصہ میں آئی ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 285`284)
’’ جو حلال رزق چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غیر معمولی حوصلہ دیتا ہے اور اپنی جناب سے رزق عطا فرماتا ہے۔ اور حرام رزق سے کسی نہ کسی یلے سے بچا لیتا ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 285)
حرام کوری سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ جب دعائیں قبول نہ ہوئیں تو یہ کہہ دیا کہ اچھا دعائیں بھی دیکھ لیں۔ اس قول کا نتیجہ کفر ہے۔ پس بجائے اس کے کہ مغفرت حاصل کریں انہیں عذاب ہو گا۔
فرماتے ہیں :۔
’’ میرے پاس کوئی ایسا چاقو نہیں جس سے میں اپنا دل چیر کر تمہیں سکھلا سکوں کہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے۔ قران کا ایک ایک حرف کیسا عمدہ اور پیارا لگتا ہے۔ ‘‘ فرماتے ہیں ۔
’’ مجھے قرآن کے ذریعہ سے بڑی بڑی فرحتوں کے مقام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ‘‘ (ح جلد 4صفحہ 50)
اب ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا یا سنتا ہے۔ یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع کے آگے نہ چلے جب تک انے دل میں یہ فیصلہ نہ کرے کہ مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فکر کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان صحیح عطا فرمائے۔
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 101)
پس قرآن کریم کی تلاوت کی غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے۔ (ایضاً)
میرے پیارو تم خدا کی کتاب پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ (ح 1صفحہ 198)
فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کی اصل غرض اور مقصد ہے اور یہ بتایا ہے کہ حقیقی راحت اور سکھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے- اور فرمانبرداری کے راہوں کے بیان کرنے میں قرآن کریم کا ذکر فرمایا جس سے یہ مراد اور منشا ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بنائو اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرو-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 103)
یاد رکھو۔ انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر مزکی کرنے والا اور پھر علم اور عمل کی قوت دینے والا نہ ہو۔ تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو ۔ اور علم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علم معلم سے ملتا ہے۔
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 10صفحہ 98)
حضرت مولینا نورالدین صاحب فرماتے ہیں :۔
’’ ہمارے بھائیوں کو چاہئے کہ وہ امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا- پس وہ دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ خدا بھول جائیں- پھر فرمایا کہ جھوٹے قصے اپنے وعظوں میں ہرگز روایت نہ کرو‘ نہ سنو- مخلوق الٰہی کو قرآن مجید سنائو- ہدایت کے لئے کافی ہے- ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 429)
وحدت
وحدت پیدا کرو تا کامیاب ہو :۔
دیکھو تفرقہ بہت بری چیز ہے۔ اس کا انجام دکھ اور درد اور ذلت کی زندگی کے سوا کچھ نہیں۔ عیب چینی اورچھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنا چھوڑ دو۔
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 518)
تفرقہ پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کی بات نہ سننے سے جس کی تم لوگوں کو عادت ڈالنی چاہئے… مسلمان ہیں ان کو خود مذہب نے سکھایا کہ تم وحدت پیدا کرو۔ اور محنت کرو مگر انہوں نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی۔
وحدت پیدا کرو تا کامیاب بنو۔ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 519)
خلافت و امامت وحدت کے قیام کا ذریعہ یا علامت ہے :۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات کی تشریح کرتے ہوئے بہت سے نکات کے علاوہ ایک یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’ دیکھو انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے اجزا متفرق ہو جاتے ہیں مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے۔ اس نے حضرت مرزا صاحب کی جماعت کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء اور اجزاء کے تھی۔ اس تفرقہ سے بچا لیا اور اتفاق اور اتحاد اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیاتِ ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دنیا پر ظاہر کر دیا۔ صرف تخمریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے مونہ پر خاک ڈال کر وحدت کو قائم کر دیا۔ و‘‘
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 269)
وحدت کی برکات :۔
- یاد رکھو کہ الٰہی فضل کی بہت قسمیں ہیں- اکیلے پر وہ فضل نہیں ہوتا جو کہ دو کے ملنے پر ہوتا ہے- اس کی ایک مثال دنیا میں موجود ہے کہ اگر مرد اور عورت الگ الگ ہوں اور وہ اس فضل کو حاصل کرنا چاہیں جو کہ اولاد کے رنگ میں آتاہے تو وہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں نہ ملیں اور ان تمام آداب کو بجا نہ لاویں جو کہ حصول اولاد کے لئے ضروری ہیں- اسی طرح ایک بھاری جماعت پر جو فضل الٰہی ہوتا ہے وہ چند آدمیوں کی جماعت پر نہیں ہو سکتا…… اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک تم لوگوں میں باوجود اختلاف کے ایک عام وحدت نہ ہو گی اور ہر ایک تم میں سے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں نہ لگا رہے گا تو تم خدا کے اس فضل عظیم کو حاصل نہ کر سکو گے جو ایک بھاری مجمع پر ہوتا ہے- ……اس وحدت کے پیدا ہونے کے لئے چاہئے کہ آپس میں صبر اور تحمل اور برداشت ہو- اگر یہ نہ ہو گا اور ذرا ذرا سی بات پر روٹھو گے تو اس کا نتیجہ آپس کی پھوٹ ہو گا- اسی وحدت کی بنیاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا- اطیعوا اللہ و رسولہ و لاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو- اور ان کی اطاعت اسی حال میں کر سکو گے جبکہ تم میں تنازع نہ ہو- اگر تنازعات ہوں گے تو یاد رکھو کہ قوت کی بجائے تم میں بزدلی پیدا ہو گی- اور جو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہو گی وہ نکل جاوے گی- یہ بات تم کو صبر اور تحمل سے حاصل ہو سکتی ہے- ان کو اپنے اندر پیدا کرو- تب خدا کی معیت تمہارے شامل حال ہو کر وحدت کی روح پھونکے گی- پس اگر تم کوئی طاقت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہو اور مخلوق کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہو تو صبر اور تحمل سے کام لو اور تنازع مت کرو- اگر چشم پوشی سے باہم کام لیا جاوے تو بہت کم نوبت فساد کی آتی ہے- (ماخوذ از خطبات نور جلد 1صفحہ 217-215)
وحدت کو ہاتھ سے نہ دو :۔
آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھہو- قرآن تمہارا دستور العمل ہو- باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان|الٰہی کو روکتا ہے- موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے- اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے- اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے- تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ- اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں- استغفار کثرت سے کرو اور دعائوں میں لگے رہو- وحدت کو ہاتھ سے نہ دو- دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو- (خطبات نور جلد 1صفحہ 163)
وحدت مانگو تا وحدت کے فیوض سے مستفید ہو سکو :۔
ایک خطبہ جمعہ میں حضور کو وحدت پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ دیکھو تم جو اس وقت اس جگہ موجود ہو عمروں میں مختلف ہو- بلحاظ قوم کے آپس میں بڑے بڑے اختلاف ہیں- رسوم و رواج‘ عادات‘ تعلیم و تربیت‘ خیالات‘ امنگیں بالکل مختلف ہیں-عزت اور مرتبوں کے لحاظ سے مختلف ہیں- پھر باوجود ان اختلافات کے گرمی ہے اور پھر قحط کی مصیبت ہے- ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے پھر ایک بگل بجنے سے تم کیسے یکدم جمع ہو گئے ہو- ذرا اس میں غور تو کرو- اسی طرح سے و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے واسطے بھی اس طرح یکجا کوشش کرو- دعا کرو کہ باوجود ہر قسم کے اختلاف کے وحدت کی روح پھونکی جاوے اور بغض‘ کینے‘ عداوتیں سب دور ہو کر باہمی محبت اور ملاپ پیدا ہو جاوے- تکلیف میں صبر اور استقلال نصیب ہو جاوے- سوء ظنی آپس میں اور خدا کی ذات پر دور ہو جاوے- مصائب اور شدائد میں خدا کے ساتھ صلح ہو جاوے- غرض دعائوں سے کام لو اور وحدت مانگو تا وحدت کے فیوض سے بھی مستفید ہو سکو- ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 31صفحہ 312)
اسلام اور وحدت :۔
مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اٹھا دیا- جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا- قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علیٰ خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی‘ اسے دور کر دیا-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 8ایڈیشن اوّل )
اپنی اصلاح کی فکر کرو :۔
حضور انور احباب جماعت کو اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
دعا اور استغفار اور لاحول سے کام لو- پاک لوگوں کی صحبت میں رہو- اپنی اصلاح کی فکر میں مضطر کی طرح لگے رہو کہ مضطر ہونے پر خدا رحم کرتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے- دوسرے کی تحقیر مت کرو کہ اس سے خدا بہت ناراض ہوتا ہے اور دوسرے کو حقیر جاننے والے لوگ نہیں مرتے جب تک کہ اس گند میں خود نہ مبتلا ہوں جس کی وجہ سے دوسرے کو حقیر جانتے ہیں-
(ماخوذ از خطبات نور جلد 1صفحہ 218خطبہ نمبر 19)




بدظنی
یہ خطرناک مرض ہے جس کو شریعت میں سوء ظن کہتے ہیں- بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ہزاروں قسم کی نکتہ چینیوں سے دوسروں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں اور اسے حقیر بنانے کی فکر میں ہیں- مگر یاد رکھو …انسان جو بلاوجہ دوسرے کو بدنام کرتا ہے اور سوء ظن سے کام لے کر اس کی تحقیر کرتا ہے اگر وہ شخص اس بدی میں مبتلا نہیں جس بدی کا سوئ|ظن والے نے اسے متہم ٹھہرایا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ سوء ظن کرنے والا ہرگز نہیں مرے گا جب تک خود اس بدی میں گرفتار نہ ہو لے- پھر بتائو کہ سوئ|ظن سے کوئی کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے- مت سمجھو کہ نمازیں پڑھتے ہو- عجیب عجیب خوابیں تم کو آتی ہیں یا تمہیں الہام ہوتے ہیں- میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوئ|ظن کا مرض تمہارے ساتھ ہے تو یہ آیات تم پر حجت ہو کر تمہارے ابتلا کا موجب ہیں- اس لئے ہر وقت ڈرتے رہو اور اپنے اندر کا محاسبہ کر کے استغفار اور حفاظت الٰہی طلب کرو-
(حضرت) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا- ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث کہ بدگمانیوں سے اپنے آپ کو بچائو‘ ورنہ نہایت ہی خطرناک جھوٹ میں مبتلا ہو کر قرب الٰہی سے محروم ہو جائو گے- یاد رکھو حسن ظن والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا- مگر بدظنی کرنے والا ہمیشہ خسارہ میں رہتا ہے-
(ماخوذ از حقائق القرآن جلد 3صفحہ 180)
جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے- اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو- بغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلی پرہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو- اس سے بڑا فائدہ ہو گا-
جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا۔ جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا- بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جائو- خوب یاد رکھو کہ ایک چوہڑی یا لوہار کی بھٹی یا کسی عطار کی دوکان کے پاس بیٹھنے سے ایک جیسی حالت نہیں رہا کرتی- ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جائو کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا- اور اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جائو کہ اس سے غیبت تک پہنچ جائو گے- اور یہ ایک بہت بری بداخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے- (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 7)
سوء ظن کرنے والا نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بلکہ اس کا اثر اس کی اولاد پر‘ اعقاب پر ہوتا ہے اور وہ ان پر مصیبت کے پہاڑ گراتا ہے۔
(ماخوذ خطبات نور جلد 1صفحہ 106)
’’ یٰایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم یعنی اے ایماندارو۔ ظن سے بچنا چاہئے ۔کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں- اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے- لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے- اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑا- تب محض ظن کی بنا پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہئے تھی‘ عداوت کا بیج بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں- ‘‘
یاد رکھو بہت بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے- میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرمادی کہ بات اس کے خلاف نکلی- میں اس میں تجربہ کار ہوں اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوئ|ظنیوں سے بچو- اس سے سخن|چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے- اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے و لاتجسسوا تجسس نہ کرو- تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے- جب انسان کسی کی نسبت سوء ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا‘ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے- اور پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے- …… غرض خوب یاد رکھو کہ سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 24صفحہ 257`256)
جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں ۔ جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے- اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو- بغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلی پرہیز کرو۔ اور بالکل الگ تھلگ رہو- اس سے بڑا فائدہ ہو گا- (ایضاً صفحہ 258)
بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جائو۔ ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جائو کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا- اور اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جائو کہ اس سے غیبت تک پہنچ جائو گے- اور یہ ایک بہت بری بداخلاقی ہے…تقویٰ اختیار کرو اور پورے پورے پرہیزگار بن جائو- (ایضاً صفحہ 259)
عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا :۔
’’عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا- کسی کا عیب بیان کیا اور اس نے سن لیا‘ وہ بغض|وکینہ میں اور بھی بڑھ گیا- پس کیا فائدہ ہوا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہو جاتے ہیں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جائو ہم یونہی کریں گے- ‘‘
’’واعظ کو چاہئے کہ ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ پر عمل کرے اور ایسی طرز میں کلمہ حکمت گوش گذار کرے کہ کسی کو برا معلوم نہ ہو-
تم لوگ جو یہاں باہر سے آئے ہو اگر کوئی نیک بات یہاں والوں میں دیکھتے ہو یا یہاں سے سنتے ہو تو اس کی باہر اشاعت کرو اور اگر کوئی بری بات دیکھی ہے تو اس کے لئے درد دل سے دعائیں کرو کہ الٰہی! اب لکھوکھہا روپے خرچ ہو کر یہ ایک قوم بن چکی ہے…… پس تو ان میں اصلاح پیدا کر دے- ‘‘
(خطبات نور جلد 2صفحہ 26)
عیب چینی :۔
’’عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا ٹھیک نہیں- کچھ اپنی اصلاح بھی چاہئے- ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتباع|رسول پر کہاں تک قدم مارا اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے- ایک عیب کی وجہ سے ہم کسی شخص کو برا کہہ رہے ہیں- کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہوتا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں برا معلوم ہوتا یا نہیں؟ ‘‘ (خطبات نور جلد 2صفحہ 24)
’’ پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ معائب کی طرف خیال نہ کرو۔ بلکہ خوبیوں کو دیکھو۔ ‘‘
’’ اللہ کو بہت پیار کرو۔ ہر وقت دعا میں لگے رہو۔ اور اپنی حالت کی تبدیلی کرنے کی کوشش کرو۔ تم اس وقت دوسری قوموں کے لئے نمونہ ہو۔ پس اپنے تئیں نیک نمونہ بنائو۔ ‘‘ (خطبات نور جلد 2صفحہ 25)
گوشت کے کباب :۔
حضرت مولینا نورالدین صاحب بانی جماعت احمدیہ کے پہلے جانشین اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو 1907ء کے رمضان میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ غرض خوب یاد رکھو ۔ سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے- اور چونکہ آجکل ماہ رمضان ہے اور تم لوگوں میں سے بہتوں کے روزے ہوں گے اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے- اگر ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا ا یحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ- اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے- اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بدآدمی ہوتا ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے- مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا- ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی- تب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بو بھی آتی تھی- یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں- یہ واقعات ہیں- ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 7`6)
ایفائے عہد
بہت معاہدے کرنے سے پرہیز کرو کیونکہان کے نقض کا نتیجہ نفاق ہے۔
یاد رکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کو محروم ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے کچھ وعدے کرتا ہے ۔ لیکن جب ان وعدوں کے ایفاء کا وقت آتا ہے تو ایفاء نہیں کرتا۔ ایسا شخص منافق ہوتا ہے ……
اس سے ہمیشہ بچتے رہو- انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے- اس وقت وہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا ملجا و ماویٰ تصور کرتا ہے اور فی الحقیقت وہی حقیقی پناہ ہے- اس وقت وہ اس سے وعدے کرتا ہے- پس تم پر مشکلات آئیں گی اور آتی ہیں- تم بہت وعدے خدا تعالیٰ سے نہ کرو اور کرو تو ایفاء کرو- ایسا نہ ہو کہ ایفاء نہ کرنے کا وبال تم پر آئے اور خاتمہ نفاق پر ہو۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 302`301)
اور ہم کو بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ ہم سب ایک عظیم الشان وعدہ کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور جہاں تک طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتے رہیں گے- اس وعدہ کو ایفاء کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر خدا تعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد چاہو- کیونکہ وہ مانگنے والوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے- (خطبات نور خطبہ نمبر 20جلد 1صفحہ 233`232)
وعدہ منافق :۔
خدا تعالیٰ سے بہت وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے۔ امام کے ہاتھ پر بڑا زبردست اور عظیم الشان وعدہ کرتے ہیں کہ ’’ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘ اب سوچ کر دیکھو کہ کہاں تک اس وعدہ کی رعایت کرتے ہو اور دین کو مقدم کرتے ہو۔
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 8صفحہ 89)
مال دار
بہت سے لوگ ہیں جن کو روپیہ مل جائے وہ تیس مارخان بن بیٹھتے ہیں- ان کو واضح رہے کہ حساب ہو گا اور ضرور ہو گا- ذرا تم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سہی‘ آج تک اپنے نفس کے عیش و آرام کے لیے کس قدر کوشش کی ہے اور اپنی بیوی بچوں کے لیے کیسے کیسے مصائب جھیلے ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا- سوچو! اپنے ذاتی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الٰہی احکام کی نگہداشت کس حد تک کرتے ہو- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 438)
اکثر لوگ جب خدا انہیں دولت و مال ، جاہ و جلال، جتھا ، صحت عافیت دیتا ہے تو اس آسودگی میں خدا کو راضی کرنے کی بجائے ناراض کر لیتے ہیں۔ اور قسم قسم کی بدیان اور حق تلفیاں کرتے ہیں اور اس آرام میں حدود الٰہیہ سے نکل جاتے ہیں … … مرفہ الہال ہو کے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرے تو وہ بھی برا اور خدا نے جو عبادت کے وقت مقرر کر رکھے ہیں ان میں حیلہ گریوں سے کام لے تو وہ بھی برا۔ پس ان دونوں باتوں سے بچو۔ دیکھو ایک قوم نے ایام راحت اور یوم عبادت کی قدر نہ کی۔ حکم الٰہی کی بجا آوری میں طرہ طرح کے حیلے کئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عذاب دیا کہ بندروں کی طرح ذلیل بنا دیا۔ وہ احکام کو تال کر اپنی عزت چاہتے تھے۔ مگر خدا نے انہیں ذلیل کر دیا۔
(سورہ بقرہ زیر آیت 67`66۔ حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 169`168)
قوی و انفرادی تنزل کا موجب :۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں :۔
میں نے بارہا بتایا ہے کہ جب خدا کے فضل سے کوئی قوم مالدار اور آسودہ حال ہوتی ہے اور اسے عزت ۔ مکان ۔ اولاد ۔ صحت و عافیت جتھا مل جاتا ہے۔ تو وہ خدا کو بھلا دیتی ہے۔ کبھی تو اس کے افراد علموں پر گھمنڈ کرتے ہیں …… کہ ہم مولوی فاضل ہیں حکیم ہیں یا مدبر ہیں۔ اس لئے ہم کو یہ کامیابی ہوئی ہے۔ اور کبھی مال و منال ۔ جاہ و جلال پر غرہ کرتے ہیں ۔ اور جب قوم کی یہ حالت ہو جاتی ہے۔ پھر اس کا تنزل شروع ہو جاتا ہے ۔ پھر بعض کی تو قطع نسل ہو جاتی ہے اور وہ بالکل بے نام و نشان ہو جاتے ہیں۔ اور بعض حاکم سے محکوم بن جاتے ہیں اور ان کا نام عزت سے نہیں لیا جاتا۔ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 376)
آسودہ حالوں کے لئے ابتلاء :۔
فرماتے ہیں :۔
آسودہ حالوں پر غریب ناصح کی بات کم اثر کرتی ہے ۔ حضرت نوح کا زمانہ بہت آسودہ حالی کا تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنے ناصح کی باتوں پر سے فائدہ نہ اٹھایا۔ بہت افسوس ہے کہ یہ مرض مسلمانوں میں بھی پھیلتا جاتا ہے۔ اسی واسطے میں نہیں چاہتا کہ بہت دولتمند میری بیعت میں داخل ہوں۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 360)
حرام خوری کی صورت :۔
باطل طریق سے اموال کا لینا بہت خطرناک بات ہے- پس ہر ایک اپنے اپنے اندر سوچو اور غور کرو کہ کہیں بطلان کی راہ سے تو مال نہیں آتا- اپنے فرائض|منصبی کو پورا کرو- ان میں کسی قسم کی سستی اور غفلت نہ کرو-
…آپس میں ایک دوسرے کا مال مت کھایا کرو- حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قسم کا ہوتا ہے- ایک نوکر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے- مگر وہ اپنا کام سستی یا غفلت سے‘ آقا کی منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے- ایک دوکاندار یا پیشہ|ور خریدار کو دھوکا دیتا ہے- اسے چیز کم یا کھوٹی حوالہ کرتا ہے اور مول پورا لیتا ہے- تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا تو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ ہرگز نہیں- جب وہ اس دھوکا کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے- اس کے کاروبار میں ہرگز برکت نہ ہو گی-
پھر ایک شخص محنت اور مشقت سے مال کماتا ہے مگر دوسرا ظلم )یعنی رشوت‘ دھوکا‘ فریب( سے اس سے لینا چاہتا ہے تو یہ مال بھی مال بالباطل لیتا ہے- ایک طبیب ہے- اس کے پاس مریض آتا ہے اور محنت اور مشقت سے جو اس نے کمائی کی ہے اس میں سے بطور نذرانہ کے طبیب کو دیتا ہے یا ایک عطار سے وہ دوا خریدتا ہے تو اگر طبیب اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور تشخیص کے لئے اس کا دل نہیں تڑپتا اور عطار عمدہ دوا نہیں دیتا اور جو کچھ اسے نقد مل گیا اسے غنیمت خیال کرتا ہے یا پرانی دوائیں دیتا ہے کہ جن کی تاثیرات زائل ہو گئی ہیں تو یہ سب مال بالباطل کھانے والے ہیں-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 311)
رشوت نہ دو اور نہ یونہی مقدمہ بازی میں ناحق خرچ کرو۔ باطل کہتے ہیں اس کو اجازت شرعیہ کے خلاف کچھ حاصل کیا جائے۔ (ایضاً صفحہ 311)
بَد سے بَد پیشہ طبابت :۔
بد سے بد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھوٹ بولا جا سکتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جا سکتا ہے- ایک راکھ کی پڑیا دیکر طبیب کہہ سکتا ہے کہ یہ سونے کا کشتہ ہے- فلانی چیز کے ساتھ اسے کھائو- اور ایسے ہی طرح طرح کے دھوکے دیئے جا سکتے ہیں- جس طبیب کو پوری فہم نہیں‘ پوری تشخیص نہیں اور دوائیں دے دے کر روپیہ کماتا ہے تو وہ بھی بطلان سے مال کماتا ہے- وہ مال طیب نہیں بلکہ حرام مال ہے- اسی طرح جتنے جعلساز‘ جھوٹے اور فریبی لوگ ہوتے ہیں اور دھوکوں سے اپنا گزارہ چلاتے ہیں وہ بھی بطلان سے مال کھاتے ہیں- ایسا ہی طبیبوں کے ساتھ پنساری بھی ہوتے ہیں جو جھوٹی چیزیں دے کر سچی چیزوں کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو طرح طرح کے دھوکے دیتے ہیں اور پھر پیچھے سے کہتے ہیں کہ فلاں تھا تو دانا مگر ہم نے کیسا الو بنا دیا- ایسے لوگوں کا مال حلال مال نہیں ہوتا بلکہ وہ حرام ہوتا ہے اور بطلان کے ساتھ کھایا جاتا ہے-
مومن کو ایک مثال سے باقی مثالیں خود سمجھ لینی چاہئیں- میں نے زیادہ مثالیں اس واسطے نہیں دی ہیں کہ کہیں کوئی نہ سمجھ لے کہ ہم پر بدظنیاں کرتا ہے- اسی واسطے میں نے اپنے پیشہ کا ذکر کیا ہے- (حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل ؓ مہاراجہ جموں کے شاہی طبیب تھے) …… اس میں حرام خوری کا بڑا موقع ملتا ہے- اور طب کے ساتھ پنساری کی دوکان بنانا اس میں بہت دھوکہ ہوتا ہے- نہ صحت کا اندازہ لوگوں کو ہوتا ہے‘ نہ مرض کی پوری تشخیص ہوتی ہے- اور پھر نہایت ہی معمولی سی جنگل کی سوکھی ہوئی بوٹی دے کر مال حاصل کر لیتے ہیں- یہ بھی سخت درجہ کا بطلان کے ساتھ مال کھانا ہے- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 313`312)
’’ حلال روزی کمائو۔ حرامخوری سے نیکی کی توفیق نہیں ملتی۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 504)
’’ مومن کو چاہئے اکلِ حلال سے غازی بنے۔ ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 287)
سود خواروں کے اخلاق :۔
آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ سود خواروں کے اخلاق ایسے خراب ہوتے ہیں کہ ایک سود خوار کے آگے میں نے ایک فقیر کے لئے سفارش کی تو وہ کہنے لگے کہ پانچ روپے میں دے تو دوں گا ۔ مگر میرے پاس رہتے تو سو برس میں سود در سود سے سوا لاکھ ہو جاتا۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 430)

نکاح کی غرض
حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کا نکاح 17فروری 1908ء کو ہوا۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے حضور انور علیہ السلام کی موجودگی میں خطبہ نکاح کی اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا :۔
’’ نکاح کی اصل غرض تقویٰ ہونی چاہئے اور قرآن مجید سے یہی بات ثابت ہے- نکاح تو اس لئے ہے کہ احصان اور عفت کی برکات کو حاصل کرے- مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ وہ دولتمندی‘ حسن و جمال اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علیک بذات الدین بہت سے لوگ خدوخال میں محو ہوتے ہیں جن میں جلدتر تغیر واقع ہو جاتا ہے- ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہی نہیں رہتا- مگر عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ عمر اور حوادث کے ماتحت خدوخال میں تغیر ہوتا رہتا ہے اس لئے یہ ایسی چیز نہیں جس میں انسان محو ہو- آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح کی اصل غرض تقویٰ بیان فرمائی- دیندار ماں باپ کی اولاد ہو- دیندار ہو- پس تقویٰ کرو اور رحم کے فرائض کو پورا کرو- میں تمہارے لئے نصیحتیں کرتا ہوں- یہ تعلق بڑی ذمہ داری کا تعلق ہے- میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے نکاح جو اغراض حب پر ہوتے ہیں ان سے جو اولاد ہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی جو اس کی روح اور زندگی کو بہشت کر کے دکھائے- ان ساری خوشیوں کے حصول کی جڑ تقویٰ ہے اور تقویٰ کے حصول کے لئے یہ گر ہے کہ اللہ|تعالیٰ کے رقیب ہونے پر ایمان ہو- چنانچہ فرمایا- ان اللہ کان علیکم رقیباً جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقویٰ سے دور پھینک دیتی ہے بچو گے- ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 29صفحہ 294)
بیوی بچوں والی جماعت :۔
’’ کوئی شخص جب تک گھر والا نہ ہو تمام کمالاتِ انسانیہ کا مظہر نہیں ہو سکتا اور نہ تمامکلقت کے لئے نمونہ بن سکتا ہے۔ پس ضرور تھا کہ راست بازوں کی جماعت بیوی بچوں والی ہوتی۔ جن لوگوں نے تقدس و تطہر کے لئے نکاح سے علیحدگی لازم ٹھہرائی آخر سخت سے سخت بدکاریوں میں گرفتار ہوئے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ بیوی بچوں میں اتنا انہماک کہ خدا کو بھول جاوے ناجائز ہے۔ ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 425)
نسخۂ راحت و سُکھ
جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشا اور مقصد معلوم ہو گی- وہ ہے حصول سکھ- اس کے لئے وہ ہر قسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے- لیکن میں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پورا کرنے کا ایک آسان اور مجرب نسخہ بتاتا ہوں- کوئی ہو جو چاہے اس کو آزما کر دیکھ لے- میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہو گی اور میں یہ بھی دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پر سکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اس کے لئے کرو تو کامل طور پر سکھ مل سکتا ہے- وہ نسخہ|راحت یہ کتاب مجید ہے۔
اور میں اسی لئے اس کو بہت عزیز رکھتا ہوں- اور اس وجہ سے کہ انسان اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘ میں اس کتاب کا سنانا بہت پسند کرتا ہوں-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 100)
سُکھ کے ذرائع :۔
انسانی ترقی کا بڑا ذریعہ انسان کے ذاتی اخلاق ہوتے ہیں جن سے وہ واحد شخص خود اپنے نفس میں سکھ پاتا ہے اور امن اور آرام کی زندگی بسر کرتا ہے- مثلاً اگر وہ کسی کی نعمت دیکھ کر حسد نہیں کرتا تو اس سوزش اور جلن سے محفوظ رہتا ہے جو کہ حاسد کے دل کو ہوتی ہے- اگر کوئی دوسرے کو دیتا ہے تو یہ طمع نہیں کرتا تو اس عذاب سے بچا رہتا ہے جو کہ طمع کرنے سے ہوتا ہے- ایسے ہی جو لوگ اخلاق فاضلہ حاصل کرتے ہیں وہ جزع فزع‘ شہوت اور غضب کے تمام دکھوں اور آفتوں سے محفوظ رہتے ہیں- اور اس سے ظاہر ہے کہ ذاتی سکھ کے ذرائع اخلاق فاضلہ ہیں-
(ـخطبات نور جلد 1صفحہ 215)
سُکھ کی ماں :۔
’’میں دیکھتا ہوں آتشک انہی کو ہوتی ہیجو نافرمانی کرتے ہیں۔ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کو نماز پڑھنے سے سوزاک ہو گیا ہو یا زکوٰۃ دینے سے کوڑھ ہو گیا ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ نیکی مشکل ہے یہ غلط ہے۔ نیکی تو سُکھوں کی ماں ہے۔ ‘‘
سنو او لوگو فرماں برداری کرو۔ اپنے اس محسن، مربی کی جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو خلق کیا۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے بچ جائو گے۔
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 114)
اسلام
اسلام دلی محبت و اخلاق سے حق بات ماننے کا نام ہے اسی لئے اسلام میں جبر نہیں۔ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 391)
امت محمدیہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اس کو خدا نے چھوڑا نہیں۔ حضور کے فیض کو جاری رکھنے کے لئے خلافت و امامت کو جاری رکھا ۔ جبکہ دوسرے مذاہب کو چھوڑ دیا۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 236)
وصیتوں کی ماں۔ فرماں برداری :۔
اسلام کسی دعوے کا نام نہیں- بلکہ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچا نمونہ ہو- صلح و آشتی سے کام لے- فرمانبردار ہو- سارے اعضا قلب‘ زبان‘ جوارح‘ اعمال و اموال انقیاد الٰہی میں لگ جائیں- منہ سے مسلمان کہلا لینا آسان ہے- شرک‘ حرص‘ طمع اور جھوٹ سے گریز نہیں- زنا‘ چوری‘ غفلت‘ کنبہ پروری اور ایذارسانی سے دریغ نہیں- پھر کہتا ہے میں فرمانبردار ہوں- یہ دعویٰ غلط ہے-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 139)
پس تم اپنے کھانے پینے‘ لباس‘ محبت‘ رنج و راحت‘ عسر‘ یسر‘ افلاس‘ دولتمندی‘ صحت اور مرض ۔مقدمات و صلح میں اس اصول کو مدنظر رکھو کہ اللہ کی فرمانبرداری سے کوئی قدم باہر نہ ہو- پس یہ وصیت تمام وصیتوں کی ماں ہے- اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ ہر حال میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری مدنظر ہو-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 143)
انسان کی ذمہ داری :۔
انسان کو بلحاظ انسانیت ضرور ہے۔ اپنے خالق۔ اپنے رازق۔ اپنے محسن رحیم اور کریم مالک کی حمد اور ثنا کرے۔ اس کے شکریہ میں مشغول رہے اور اس کے بعد تمام لق سے عموماً اور ابناء جنس سے خصوصاً پیار اور مہبت کرے اور بنی نوع انسان سے برادرانہ برتائو سے پیش آوے اور بغض و کینہ سے پاک رہے۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 205)
تعلق و محبت کا تقاضا :۔
انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ جس کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اس کی صفات کے خلاف حتی الواسع کوئی بات نہیں کرتا۔ اس خیال سے کہ اس کی نظر سے گر نہ جائے۔
پس حضرت حق سبحانہٰ کے قرب کے لئے بھی ہم کو کفر و رذائل سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (حقائق الفرقان صفحہ 390)
میری خواہش :۔
’’ میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری زندگی میں متقی اور پرہیزگار ہی بنیں۔ اور دنیا اور اس کی رسموں کی طرف کم توجہ کریں۔
(خطبہ جمعہ 18؍ اپریل 1910ئ)
حق و باطل میں فرق کرنے والی چیز :۔
1۔ زمین یں بہت سے بیج ہوتے ہیں جن میں تفریق نہیں ہو سکتی۔ مگر بارش جب برستی ہے تو ہر ایک بیج پھوٹ کر نکل آتا ہے پھر ظاہر ہو جاتا ہے یہ گلاب اور یہ ستیاناسی۔ اسی طرح وحی الٰہی آکر حق کو باطل سے ممتاز کر دیتی ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر 3فروری 1915ئ)
2۔ جسمانیات سے روحانیات کی طرف عبور کرو اور دیکھو کہ گوبر و لہو میںسے ہی دودھ ہے۔ مگر وہ خدا کی بنائی ہوئی کل کے سوا نکالنا دشوار ہے اسی طرح راست بازی دنیا میں موجود ہے مگر باطل سے الگ کر کے دکھانا خدا کا کام ہے۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 487)
محاسبہ :۔
میں نے نیچے اور اوپر جانے والے چیزوں پر غور کی ہے- ڈول جوں جوں نیچے جاتا ہے اس کی قوت میں تیزی ہوتی جاتی ہے اور اسی طرح پتنگ جب اوپر جاتا ہے پہلے اس کا اوپر چڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن آخر وہ بڑے زور سے اوپر کو چڑھتا ہے- یہی اصل ترقی اور تنزل کی جان ہے یا صعود اور نزول کے اندر ہے- انسان جب بدی کی طرف جھکتا ہے اس کی رفتار بہت سست اور دھیمی ہوتی ہے لیکن پھر اس میں اس قدر ترقی ہوتی ہے کہ خاتمہ جہنم میں جا کر ہوتا ہے- یہ نزول ہے- اور جب نیکیوں میں ترقی کرنے لگتا اور قرب الی اللہ کی راہ پر چلتا ہے توابتدا میں مشکلات ہوتی ہیں اور ظالم لنفسہ ہونا پڑتا ہے مگر آخر جب وہ اس میدان میں چل نکلتا ہے تو اس کی قوتوں میں پرزور ترقی ہوتی ہے اور وہ اس قدر صعود کرتا ہے کہ سابق بالخیرات ہو جاتا ہے- جو لوگ اس اصل پر غور کرتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں یا تنزل کی طرف‘ وہ ضرور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں-
(خطبات نور جلد 1صفحہ 163`162)
نوجوان :۔
’’ یہ بات یاد رکھو کہ انسان جوانی میں بہت کچھ غلطیاں کرتا ہے۔ مگر جو لاحول اور استغفار کے عادی ہوتے ہیں اور پاک صحبتوں میں رہ کر دعائوں میں مشغول ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دستگیری کرتا ہے۔
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 281)
ذرا سوچو :۔
ہر روز سوچو کہ بہ نسبت کل کے تم نے خدا سے نزدیک ہونے یا مخلوق پر شفقت کرنے میں کیا ترقی کی۔ تا سمجھ آئے کہ ظلمات سے نور میں یعنی بے تمیزی سے تمیز میں کہاں تک پہنچے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے من استواہ یوماہ فھو مغبون (جس کے دو دن برابر ہوئے وہ گھاٹے میں ہے۔ نقصان میں ہے) پس تم ضرور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 181)
ہر گناہ دوسرے گناہ کو اور ہر نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے :۔
انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو اسے دوسرے کے واسطے بھی تیار رہنا چاہئے- کیونکہ ایک گناہ دوسرے کو بلاتا ہے- اور اسی طرح ایک نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے- دیکھو بدنظری ایک گناہ ہے- جب انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے تو دوسرے گناہ کا بھی اسے ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور زبان کو بھی اس طرح شامل کرتا ہے کہ کسی سے دریافت کرتا ہے کہ یہ عورت کون ہے‘ کس جگہ رہتی ہے وغیرہ وغیرہ-
اب زبان بھی ملوث ہوئی اور ایک دوسرا شخص بھی اور جواب سننے کی وجہ سے کان بھی شریک گناہ ہو گئے- اس کے بعد اس کے مال اور روپیہ پر اثر پڑتا ہے اور اس گناہ کے حصول کے واسطے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے- غرض ایک گناہ دوسرے کا باعث ہوتا ہے- پس مسلمان انسان کو چاہئے کہ ایسے ارادوں کے ارتکاب سے بھی بچتا رہے اور خیالات فاسدہ کو دل میں ہی جگہ نہ پکڑنے دے اور ہمیشہ دعائوں میں لگا رہے-
انسان اپنی حالت کا خود اندازہ لگا سکتا ہے- اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو دیکھتا رہے کہ کیسے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہے اور کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کی ہے- اگر اس کے یار آشنا اچھے ہیں اور جن کو اس نے چھوڑا ہے ان سے بہتر اسے مل گئے ہیں جب تو خوشی کا مقام ہے ورنہ بصورت دیگر خسارہ میں- دیکھنا چاہئے کہ جو کا م چھوڑا ہے اور جو اختیار کیا ہے ان میں سے اچھا کون سا ہے- اگر برا چھوڑ کر اچھا کام اختیار کیا ہے تو مبارک ورنہ خوف کا مقام ہے- کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کو اور ہر بدی دوسری بدی کو بلاتی ہے- اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو توفیق دے کہ تم اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکو اور نیکی کے قبول کرنے اور بدی کے چھوڑنے کی توفیق عطا ہو-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 36صفحہ 359`358)
بہتر اور افضل زندگی :۔
خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا‘ آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اس سے بہتر اور افضل وہم میں بھی نہیں آسکتی- منافق کا نفاق جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے- جھوٹ بولنے والے کے جھوٹ کے ظاہر ہونے پر‘ وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ کام کرنے پر ان کو کیسا دکھ ہوتا ہے- …کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعویٰ سے افضل ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 150)
جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں
جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا
مربی و معلم کے اوصاف :۔
حضرت مولینا ایک معلم اور مربی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا شخص نہیں کہ وہ طوطے کی طرح چند کتابیں رٹ لے اور دستار فضیلت باندھ کر یا ایک کاغذ سند کے طور پر ہاتھ میں لے کر قوم پر ایک بوجھ بن کر مالیہ وصول کرتا پھرے- نہیں‘ بلکہ اس کی روحانی اور اخلاقی حالت‘ اس کی نکتہ رسی اور معرفت ایسی ہو‘ اس کے کلام میں وہ تاثیر اور برکت ہو کہ لوگوں پر خوف الٰہی مستولی ہو کر ان کو گناہوں سے بچانے کا باعث ہو- وہ ایک نمونہ ہو جس سے قوم پر اثر پڑ سکے-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 155)
موجودہ ذریعہ تعلیم کا نتیجہ :۔
وہ لڑکے ہیں جن پر آئندہ نسلیں ہونے کا فخر کیا جاتا ہے اور ان کو اپنی بہتری اور بہبودی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے- ان کو سکولوں اور کالجوں میں اس قسم کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا لازمی نتیجہ دہریت اور بے دینی ہونی چاہیے- اس لئے کروڑ در کروڑ مخلوق دہریت کے لئے تیار ہو رہی ہے- ان کالجوں کی ذریت بجائے اس کے کہ وہ خدا پرست اور اعلیٰ درجہ کے الٰہیات میں غور کرنے والے ہوتے‘ پکے دہریہ اور مذہب کے سلسلہ سے آزاد پیدا ہو رہے ہیں- (خطبات نور جلد 1صفحہ 81)
کتاب اور استاد کا اثر :۔
’’ وہ علم جو خشیۃ اللہ کا موجب ہوتا اور دل میں ایک رقت پیدا کرتا‘ ہرگز نہیں رہا- رہی نری زبان دانی جس پر کوئی یونیورسٹی فکر کر سکتی ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ان لوگوں کے کلام ہیں جو شراب خور‘ فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نام سے نا آشنا تھے-
یہ ایک باریک علم ہے جس کی لوگوں کو بہت کم اطلاع ہے- زبان اندر ہی اندر انسان کے روحانی اور اخلاقی قویٰ پر ایک زبردست اثر کرتی ہے- بہت سی کتابیں اس قسم کی موجود ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ فسق و فجور میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا ہے- استادوں اور کتابوں کا اثر بہت آہستہ دیرپا ہوتا ہے- اسی لئے یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ استادوں کے تقرر اور تعلیمی کتابوں کے انتخاب میں بڑی فکر کرنی چاہئے کیونکہ ان کا اثر اندر ہی اندر چلتا ہے- ‘‘
(ماخوذ از خطبات نور جلد 1صفحہ 82)
ضروری علوم :۔
علوم میں سے ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ اسماء اللہ معلوم ہوں- خدا تعالیٰ کے افعال کا علم ہو- ایمان کے معنے معلوم ہوں- کفر اور نفاق کی حقیقت معلوم کریں- (خطبات نور جلد 1صفحہ 91`90)
ایک میرے بڑے پڑھے لکھے دوست نے کئی بار مجھ سے پوچھا ہے کہ عبادت کیا چیز ہے؟ پس جب اتنے بڑے علم کے بعد بھی ان کو مشکل پیش آئی تو وائے ان لوگوں پر جو مطلق بے خبر اور ناواقف ہیں-
نصائح
میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور بدی کو اس کے ابتداء میں چھوڑ دو۔
کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھو۔ بلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ نے علم۔ طاقت اور آبرو دی ہے تو اس کے شکریہ میں اس کی جو نعمت سے متمتع نہیں مدد کرے نہ یہ کہ تمسخر اڑائے۔ یہ منع ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 4)
بدیوں کی اصل جڑ :۔
بدیوں کی اصل جڑ سوء ظن ہوتا ہے- میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم فرمادی کہ بات اس کے خلاف نکلی- میں اس میں تجربہ کار ہوں اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوئ|ظنیوں سے بچو- اس سے سخن|چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے- اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے ولاتجسسوا تجسس نہ کرو- تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے- جب انسان کسی کی نسبت سوء ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا‘ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے- اور پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے- (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 7)
جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا- بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جائو- خوب یاد رکھو …… ظن کے قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جائو کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہو گا- اور اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جائو کہ اس سے غیبت تک پہنچ جائو گے- اور یہ ایک بہت بری بداخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 7)
نصائح نہ سننے کاانجام :۔
عادت اللہ قدیم سے اس طرح پر جاری ہے کہ جن قوموں نے ہادیان برحق کے نصائح نہ سنے اور ان کے دل سوز مشفقانہ کلام پر دھیان نہ کیا ضرور وہ کسی نہ کسی تباہی میں گرفتار ہوئے۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 555)
مطالعہ کرو :۔
اپنے اعمال کا مطالعہ کرو- اپنے فعلوں میں‘ باتوں میں‘ خوشیوں میں‘ ملنساریوں میں‘ اخلاق میں غور کرو کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے ترک کرتے ہو یا نہیں؟ اگر کرتے ہو تو مبارک ہے۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 97)
نصیحت کون حاصل کرتا ہے :۔
1۔ وعظ ان کے لئے مفید ہوتا ہے جنہیں یوم الحشر کا خوف ہوتا ہے۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 154)
2۔ انبیاء ایک آدمی کو وعظ نہیں کرتے کیونکہ ممکن ہے کہ ضائع ہو جائے۔ اس لئے وہ عام مجلس میں سمجھاتے ہیں تا کوئی سعادت مند روح نجات پاوے۔
نصیحت تو وہی پکڑیں جو عقل والے ہیں۔ وہی جو الٰہی معاہدوں کا پورا خیال رکھتے ہیں اور جس کسی سے مستحکم وعدے کئے ان کو نہیں توڑتے۔ جن سے ملاپ کرنا چاہئے ان سے ملاپ کرتے۔ اللہ کی نافرمانی کا خوف رکھتے اور برے کاموں کے بدلہ سے ڈرتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے طالب ہو کر بردباری کرتے ہیں۔ اور نمازوں کو درست رکھتے اور اللہ کا دیا ظاہری اور باطنی طور پر خرچ کر دیتے ہیں اور خاص بدی کا مقابلہ خاص نیکی سے کیا کرتے ہیں۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 418)
نافع الناس وجود بنو :۔
تمہارے کاموں میں تعظیم امر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ ہو۔ کیونکہ فرمایا اماما ینفع الناس فیمکث فی الارض (رعد:28) جو مضر وجود ہوتے ہیں وہ کود بھی سکھ نہیں پاتے۔ دوسروں کو بھی سکھ نہیں کرنے دیتے۔ آپ بھی دوزخ میں رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں۔ پس تم مضر نہیں بلکہ نافع الناس وجود بنو۔ سب سے بھاری مسئلہ یہ ہے کہ وقتوں کی حفاظت کرو۔ دعا سے کام لو۔ صحبت صلحاء اختیار کرو۔ محبت صلحاء بڑھائو … میری فطرت میں یہ بات ہے کہ جو کام کسی کو بتائوں اور وہ نہ کرے تو میری اس کے ساتھ محبت نہیں رہ سکتی۔ خدا کی محبت کا بھی یہی حال ہے۔ وہ اپنی فرماں برداری کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 417)
متقی بنو اور اللہ کا خوف کرو- تمہارے اعمال میں تکبر‘ کذب اور دوسرے کو ایذا نہ ہو- ان شرائط کی پوری پابندی کرو جو بیعت کے لئے بیان کی گئی ہیں اور پھر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور استغفار کرتے رہو اور لاحول پڑھ کر دوسری قوموں کے لئے نمونہ بنو- (خطبات نور جلد 1صفحہ 135)
استغفار کیا ہے ؟
پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمداً ہوں یا سہواً اور نسیان اور خطا سے- غرض ما قدم و اخر جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے‘ اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو مااعلم و لا اعلم کے نیچے رکھ کر یہ دعا کرے کہ میری غلطیوں کے بدنتائج اور بد اثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان غلط کاریوں سے محفوظ فرما- (خطبات نور جلد 1صفحہ 125)
ناصح اور واعظ کے وعظ سے فائدہ اٹھانے کی صورت :۔
عمل کے اصول کے واسطے کہنے والے پر حسن ظن ہونا ضروری اور لازمی امر ہے- اگر دل میں ہو کہ کہنے والا مرتد‘ فاسق و فاجر ہے‘ منافق ہے تو پھر نصیحت سے فائدہ اٹھانا معلوم اور عمل کرنا ظاہر- بعض اوقات شیطان اس طرح سے بھی حملہ کرتا ہے اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے کہ دل میں نصیحت کرنے والے کے متعلق بدظنی پیدا کر دیتا ہے- پس اس سے بچنے کے واسطے بھی وہی ہتھیار ہے جس کا نام دعا‘ دردمند دل کی اور سچی تڑپ سے نکلی ہوئی دعا ہے-
(خطبات نور جلد 1 خطبہ 31صفحہ 314)
چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر سمجھ کر ترک مت کرو۔ نہ جانے تم کس راہ سے قبول کئے جائو :۔
یاد رکھو کبھی کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھو- چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے انسان ایک خظرناک اور گھیر لینے والے گناہ میں گرفتار ہو جاتا ہے- تمہیں معلوم نہیں یہ پہاڑ چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنے ہیں- یہ عظیم الشان بڑ کا درخت ایک بہت ہی چھوٹے سے بیج سے بنا ہے- بڑے بڑے اجسام ان ہی باریک ایٹمز و ذرات سے بنے ہیں جو نظر بھی نہیں آتے- پھر گناہ کے بیج کو کیوں حقیر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو! چھوٹی چھوٹی بدیاں جمع ہو کر آخر پیس ڈالتی ہیں- انسان جب چھوٹا سا گناہ کرتا ہے تو اس کے بعد اور گناہ کرتا ہے- یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی حدبندی کوتوڑ کر نکل جاتا ہے جس کا نام کبیرہ ہوتا ہے اور پھر راستبازوں کے قتل کی جرات کر بیٹھتا ہے-
اس طرح پر ادنیٰ سی نیکی اگر کرو تو اس سے ایک نور معرفت پیدا ہوتا ہے- نیکی اور بدی کی شناخت کا انحصار ہے قرآن شریف کے علم پر- اور وہ منحصر ہے سچے تقویٰ اور سعی پر- چنانچہ فرمایا و اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ (کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو وہ تمہیں علم سکھائے گا۔) (خطبات نور جلد 1 صفحہ 116`115)
عید کے دن کی نصائح اور فطرت کا تقاضا :۔
حضرت حکیم مولوی نورالدین قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل ایک خطبہ عیدالفطر میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا وعظ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ دیکھو آج لوگوں نے کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا ہے- غسل کیا ہے- لباس حتیٰ المقدور عمدہ و نیا پہنا ہے- خوشبو لگائی ہے- پگڑی سنوار کر باندھی ہے- یہ سب کچھ کیوں کیا؟ صرف اس لئے کہ ہم باہر بے عیب ہو کر نکلیں- بہت سے گھر ایسے ہوں گے جہاں بیوی بچوں میں اسی لئے جھگڑا بھی پڑا ہو گا اور اس جھگڑے کی اصل بناء یہی ہے کہ بے عیب بن کر باہر نکلیں-
جس طرح فطرت کا یہ تقاضا ہے اور انسان اسے بہر حال پورا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا مربی‘ میں تمہارا محسن ہوں- جیسے تم نے اپنے جسم کو مصفیٰ و مطہر‘ بے عیب بنا کر نکلنے کی کوشش کی ہے ویسے ہی تم اپنے رب کے نام کی بھی تسبیح کرتے ہوئے نکلو اور دنیاوالوں پر اس کا بے عیب ہونا ظاہر کرو-
غرض تم زبان سے سبحان اللہ کا ورد کرو تو اس کے ساتھ دل سے بھی ایسا اعتقاد کرو اور اپنے دل کو تمام قسم کے گندے خیالات سے پاک کر دو- اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ مالک ہماری اصلاح کے لئے ایسا کرتا ہے- ‘‘
(خطبہ عید الفطر 1910ئ)
آئندہ نسلوں کے لئے نیک نمونہ بنو :۔
اے عزیزو اور دوستو اپنی کمزوری کے رفع کرنے کے لئے کثرت سے استغفار اور لاحول پڑھو۔ اور رب کے نام سے دعائیں کروکہ خدا تعالیٰ تمہاری ربوبیت یعنی پرورشکرے۔ تم کو مظفر و منصور کرے تا کہ تم آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نیک نمونہ بن سکو… آپس میں خوش معاملگی اور حسن سلوک برتو۔ رنج ۔ بخل ۔ حسد کینہ سے بچو۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 203)
انسان کی ہمدردی :۔
انسان کو بلحاظ انسانیت ضرور ہے۔ اپنے خالق۔ اپنے رازق۔ اپنے محسن رحیم اور کریم مالک کی حمد اور ثنا کرے۔ اس کے شکریہ میں مشغول رہے اور اس کے بعد تمام لق سے عموماً اور ابناء جنس سے خصوصاً پیار اور مہبت کرے اور بنی نوع انسان سے برادرانہ برتائو سے پیش آوے اور بغض و کینہ سے پاک رہے۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 205)
بہادروں کے بیٹے بنو :۔
قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں ایک تعظیم لامر اللہ ۔ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ اس کلمہ توحید کی تکمیل کے لئے ہے۔
اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو- آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں- حرفت پیشہ کو فرصت نہیں- زمیندار صبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں- ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں-
پھر واعظوں اور قرآن سنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو- علمائ‘ فقرائ‘ گدی نشین‘ سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو- منافق نہ بنو- حق میں باطل نہ ملائو- وفادار بنو تاکہ بے خوف زندگی بسر کرو- دوسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو- ……بدیوں سے بچو- نیکیوں پر جمے رہو- نمازیں پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اللہ کے پاس جانا ہے- زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں- ……غرض یہ دوست‘ یہ احباب‘ یہ آشنا‘ یہ اقربا‘ یہ مال‘ یہ دولت‘ یہ اسباب‘ یہ دوکانیں‘ یہ سازو سامان‘ سب یہیں رہ جائیں گے- آخر ’’کار باخداوند-‘‘ اللہ تم پر رحم کرے-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 144)
بدظنی :۔
بدظنی سے بچو۔ اوقات ضائع نہ کرو۔ علوم دین سے واقفیت پیدا کر کے اس پر عمل کرو۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 327)
نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں۔ نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے نیک گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں۔ (جیسے آدم علیہ السلام شیطان کی قسموں پر دھوکہ کھا گئے۔ ناقل) (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 131)
میری آرزو :۔
میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام تعلقات میں‘ مخلوق سے ہوں یا خدا سے‘ عدل مدنظر رکھو اور میری آرزو ہے کہ میں تم میں سے ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محب ہو- اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی متبع ہو- قرآن سمجھنے والی ہو- میرے مولا نے مجھ پر بلا امتحان اور بغیر میری محنت کے بڑے بڑے فضل کئے ہیں اور بغیر میرے مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں جن کو میں گن بھی نہیں سکتا- وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے- وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے- وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے- وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے- اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے‘ بیوی بچے دیئے‘ مخلص اور سچے دوست دیئے- اتنی کتابیں دیں اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے- پھر مطالعہ کے لئے وقت‘ صحت‘ علم اور سامان دیا-
اب میری آرزو ہے‘ اور میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا‘ کہ تم میں سے اللہ کی محبت رکھنے والے‘ اللہ کے کلام سے پیار کرنے والے‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھنے والے‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کلام سے محبت رکھنے والے‘ اللہ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم|النبیین کے سچے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو- دیکھو ! میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا- نہ تمہارے نذر و نیاز کا محتاج ہوں- میں تو اس بات کا امیدوار بھی نہیں کہ کوئی تم میں سے مجھے سلام کرے- اگر چاہتا ہوں تو صرف یہی کہ تم اللہ کے فرمانبردار بن جائو- اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متبع ہو کر دنیا کے تمام گوشوں میں بقدر اپنی طاقت و فہم کے امن و آشتی کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ پہنچائو- (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 502)
مخالفوں کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو :۔
نیک نمونہ دکھانے کا دن ہے پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ مخالفوں کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیری۔ اگر ایسا کرو گے تو بہت سی روحیں قبول حق کے لئے تیار ہیں
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 253)
وامر بالمعروف کو مت چھوڑو۔ ورنہ بدی کی وجہ سے عذاب آنے پر سب کو ملوث ہونا پڑے گا۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 255)
نیکی سے نفرت اور بدیوں پر جرات کی وجہ :۔
کبھی اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان روک ڈال دیتا ہے یہ سزا ہے اس بات کی کہ تحریک فلک پر عمل نہیں کیا جو وقت نیکی کا تھا اس میں نیکی نہیں کی۔
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 254)
بدیوں پر اسے جرات ہوتی ہے جو مومن باللہ نہ ہو یا مومن بالیوم الاخرہ نہ ہو… باصحبت بد میں رہنے والا ہو۔ (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 272)
وضعداری کا توڑ :۔
وضعداری ہمارے ملک میں بہت ہی رائج ہے اس کے توڑنے کے لئے حج ہے جس میں ایسی وضعداریاں خاک میں مل جاتی ہیں ۔
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 147)
وعظ
وعظ بجائے اس کے کہ قرآن و حدیث کا وعظ کریں مضحکات و مبکیات کو وعظ کی روح رواں سمجھتے ہیں اور اس قسم کی حکایتیں یاد کئے ہوئے ہیں۔
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 141)
ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم - افسوس کہ آجکل کے کالجیئیٹ اور نئے تعلیم یافتہ مولوی اللہ کی ذات صفات ، احکام افعال ، تعلیمات میں بحث کرنے کو تو ہر وقت تلے رہتے ہیں مگر مطلقاً علم قرآن و حدیث سے بے خبر ہوتے ہیں۔ (حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 139)
واعظ اور سامع کی مشکلات :۔
بعض سامعین ایسے ہیں کہ انہیں مجلس وعظ میں محض کسی کی دوستی یا کوئی ذاتی غرض لاتی ہے- بعض نکتہ چینی کے لئے جاتے ہیں- ان کا خیال واعظ کی زبان کی طرف رہتا ہے- بس جونہی کوئی انگریزی یا سنسکرت یا عربی لفظ اس کے منہ سے غلط نکل گیا تو یہ مسکرائے- بس ان کے سننے کا ماحصل صرف یہی ہے کہ وہ گھر میں آ کر واعظ کی نقل لگایا کریں-
چور کی داڑھی میں تنکا :۔
پھر ایک اور مشکل ہے- وہ یہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا- واعظ ایک بات کتاب اللہ سے پیش کرتا ہے- اب اگر سننے والے میں بھی وہی عیب ہے جو اس واعظ نے بتایا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو سنا سنا کر یہ باتیں کرتا ہے اور گویا مجھے طعنے دے رہا ہے حالانکہ واعظ کے وہم میں بھی یہ بات نہیں ہوتی- غرض دو طرفہ مشکلات ہیں- ایک طرف واعظ کو اور ایک طرف سامعین کو-
(حقائق الفرقان جلد2صفحہ 247)
واعظ:۔
میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود‘ ان کے حوصلے چھوٹے‘ خیالات پست ہوتے ہیں- جس واعظ کی اغراض نہ ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیوی وعظ سب اس کے اندر آ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے- ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بری بات سے روکنے والا ہوتا ہے- (حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 106)
صرف یہ کہتے رہنا کہ نیکی کرو۔ نیکی کرو۔ اور بدی کو چھوڑو۔ یہ کوئی وعظ نہیں ہے۔ اور نہ اس سے سننے والے کو فائدہ تو جب ہو گا جب نیکی اور بدی کا علم ہو گا اور کسی بدی کے ارتکاب سے وہ اس وقت بچ سکے گا جب وہ جانتا ہو گا کہ یہ بدی ہے۔
( )
واعظ کے لئے مہلک امر :۔
خداتعالیٰ کی مدد ہی شامل حال ہو تو بات بنتی ہے ورنہ واعظ میں ریائ‘ سمعت‘ دنیاطلبی پیدا ہو سکتی ہے- اور وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو اپنا معبود اور محبوب بنا لیتا ہے جب اس کے دل میں مخلوق سے اپنے کلام اور وعظ کی داد کی خواہش پیدا ہو- واعظ کے لئے یہ امر سخت مہلک ہے-
(خطبات نور نمبر 1خطبہ نمبر 1صفحہ 288، نیز صفحہ 107-104)
حضور فرماتے ہیں :۔
’’ واعظ کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس قوم کو وعظ کر رہا ہو تو وہ خود اس قسم کے رسم و رواج ، عادات ، حالات ، زبان سے خوب واقف ہو۔ ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 570)







صحبت صالح
شیطانی اوہام اور وساوس سے بچنے کا طریق :۔
اس کا طریق یہی ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار پڑھو- استغفار سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ طوطے کی طرح ایک لفظ رٹتے رہو- بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ استغفار کے مفہوم اور مطلب کو ملحوظ رکھ کر خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور وہ یہ ہے کہ جو انسانی کمزوریاں صادر ہو چکی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بدنتائج سے محفوظ رکھے اور آئندہ کے لئے ان کمزوریوں کو دور کرے اور ان جوشوں کو جو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں دبائے رکھے‘ پھر لاحول پڑھے‘ پھر دعائوں سے کام لے اور جہاں تک ممکن ہو راستبازوں کی صحبت میں رہے- (خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 228)
صحبت صالحین اور مجالس دینیہ کی ضرورت :۔
تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر فائدہ اٹھا لو اور انہیں ہی کافی سمجھو- میں سچ کہتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں- کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز و اقارب کو چھوڑا تھا- پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے- کیا تم ہم کو نادان سمجھے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا ہماری ضرورتیں نہیں؟ کیا ہم کو روپیہ کمانا نہیں آتا؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے- شائد اس لئے کہ میری بیماری بڑھی ہوئی ہو- دعائوں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا- مختلف اوقات میں آنا چاہئے- بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہے اس لئے وہ شخص جو اسی دن آ کر چلا گیا وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصہ کر رہے ہوں گے اس وقت جو عورت آئی ہو گی تو حیران ہی ہو کر گئی ہو گی-
غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلائوں کہ تم یہاں باربار آئو اور مختلف اوقات میں آئو-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 89`88)
آئو ذرا مجلس گرم کریں :۔
یہ عام قاعدہ ہو رہا ہے کہ دو تین آدمی جب مل کر بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آئو ذرا مجلس گرم کریں- وہ مجلس گرم کرنا کیا ہوتا ہے؟ کسی کی تحقیر شروع کر دی- کسی کے لباس پر‘ کسی کی زبان پر‘ کسی کے قد و قامت پر‘ کسی کے علم و عقل پر‘ غرض مختلف پہلوئوں پر نکتہ چینی اور ہنسی اڑانا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتے یہ ناپاک اور بے ہودہ کلام مذمت‘ غیبت اور دروغ گوئی تک جا پہنچا- پس تمہیں مناسب ہے کہ ایسی مجلسوں کو ترک کر دو جہاں سے تم بغیر *** کے اور کچھ لے کر نہ اٹھو- خدا تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے- کونوا مع الصادقین صادقوں کے ساتھ رہو- کیونکہ وہاں تو بجز صدق کے اور کوئی بات ہی نہ ہو گی- ایسی تمام مجلسوں سے الگ ہو جائو جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ذکر نہیں ہے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 233)
بے عمل زندگی کی وجہ :۔
یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ بعض باتیں اصل ہوتی ہیں اور بعض ان کی فروعات ہوتی ہیں- جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے وہ کوئی حقیقی اور سچی نیکی ہرگز نہیں کر سکتے اور وہ کسی کامل خلق کا نمونہ نہیں دکھا سکتے کیونکہ وہ کسی صحیح نتیجہ کے قائل نہیں ہوتے- میں نے بڑے بڑے دہریوں کو مل کرپوچھا ہے کہ کیا تم کسی سچے اخلاق کو ظاہر کر سکتے ہو اور کوئی حقیقی نیکی عمل میں لا سکتے ہو تو وہ لاجواب سے ہو کر رہ گئے ہیں- ہمارے زیر علاج بھی ایک دہریہ ہے- میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا تو وہ ہنس کر خاموش ہو گیا تھا-
ایسے ہی جو لوگ قیامت کے قائل نہیں ہوتے وہ بھی کسی حقیقی نیکی کو کامل طور پر عمل میں نہیں لا سکتے- نیکیوں کا آغاز جزا سزا کے مسئلہ سے ہی ہوتا ہے- جو شخص جزا سزا کا قائل نہیں ہوتا وہ نیکیوں کے کام بھی نہیں کر سکتا-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 24صفحہ 256)
وہ کیوں اپنے روحانی امراض کا فکر نہیں کرتے ؟
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں :۔
ہزاروں خطوط میرے پاس آتے ہیں جن میں ظاہری بیماریوں کے ہاتھ سے نالاں لوگوں نے جو جو اضطراب ظاہر کیا ہے میں اسے دیکھتا ہوں لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ظاہری بیماریوں کے لئے تو اس قدر گھبراہٹ ظاہر کرتے ہیں مگر باطنی اور اندرونی بیماریوں کے لئے انہیں کوئی تڑپ نہیں-
باطنی بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہی بدظنی‘ منصوبہ بازی‘ تکبر‘ دوسرے کی تحقیر‘ غیبت اور اس قسم کی بدذاتیاں اور شرارتیں‘ شرک‘ ماموروں کا انکار وغیرہ- ان امراض کا وہ کچھ بھی فکر نہیں کرتے اور معالج کی تلاش انہیں نہیں ہوتی- میں جب ان بیماریوں کے خطوط پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں یہ اپنے روحانی امراض کا فکر نہیں کرتے۔نفس کو کبھی توکل اور صبر کے مسائل پیش کر دیتا ہے لیکن جب ظاہری بیماریاں آ کر غلبہ کرتی ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے اور تردد کرتا ہے- لیکن جب روحانی بیماریوں کا ذکر ہو تو توکل کا نام لے دیتا ہے- یہ کیسی غلطی اور فروگذاشت ہے- ان دونوں نظاموں کو مختلف پیمانوں اور نظروں سے دیکھتا ہے- یعنی باطنی اور روحانی امور میں تو کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور ظاہری امور میں اس کا نام شدید|البطش رکھا ہے- یہ نادانی اور غلطی ہے- خدا تعالیٰ دونوں امور میں اپنی صفات کی یکساں جلوہ نمائی کرتا ہے- پس جو لوگ امور دنیا میں تو سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں اور اسی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور منشائ|اعظم سمجھتے ہیں اور دین کو بالکل چھوڑتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 20صفحہ 231)
ذرا سوچو :۔
ذرا تم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سہی‘ آج تک اپنے نفس کے عیش و آرام کے لیے کس قدر کوشش کی ہے اور اپنی بیوی بچوں کے لیے کیسے کیسے مصائب جھیلے ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا- سوچو! اپنے ذاتی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الٰہی احکام کی نگہداشت کس حد تک کرتے ہو-
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 437)
چندہ مانگنے کی غرض دینے والے کو زیادہ دلانے کے لئے ہے :۔
خوب یاد رکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے۔ اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے کہ جو حلال طیب اور پاکیزہ مال سے خرچ کرتے ہیں محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ان کو دس سے سات سو گنا دیتا ہے۔ حضرت حاجی الحر میں مولینا نور دین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ:۔
’’ رابعہ کے گھر میں بیس مہمان آگئے۔ گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں۔ آپ نے اپنی جاریہ (خادمہ) سے کہا۔ جائو۔ یہ فقیر کو دے دو۔ اس نے دل میں کہا کہ زاہد عابد بیوقوف بھی پرلے درجے کے ہوتے ہیں۔ دیکھو گھر میں بیس مہمان ہیں۔ اگر انہیں ای ایک ٹکڑا دے تو بھی بھوکے رہنے سے تو بہتر ہے اور ان مہمانوں کو یہ بات بری معلوم ہوئی۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ رابعہ کا کیا مطلب ہے۔ تھوڑی دیر ہئی تو ایک ملازمہ کسی امیر عورت کی ۱۸ روٹیاں لائی۔ رابعہ نے انہیں واپس دے کر فرمایا کہ یہ ہمارا حصہ ہرگز نہیں۔ واپس لے جائو۔ اس نے کہا۔ میں بھولی نہیں۔ مگر رابعہ نے یہ اصرار کیا۔ کہ نہیں۔ یہ ہمارا حصہ نہیں۔ ںاچار وہ واپس ہوئی۔ ابھی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا کہ مالکہ نے چلا کر کہا کہ تو اتنی دیر کہاں رہی۔ یہ تو دو قدم پر دیں۔ جو وہ لائی تو آپ نے بڑی خوشی سے لے لیں کہ واقعی یہ ہمارا حصہ ہے۔ اس وق جاریہ اور مہمانوں نے عرض کیا کہ ہم اس نکتہ کو سمجھے نہیں۔ فرمایا جس وقت تم آئے تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں ۔ میرے دل میں آیا کہ ہو آئو پھر مولیٰ کریم سے سودا کر لیں۔ اس وقت میرے مطالعہ میں یہ آیت تھی من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امتالھا (الانعام:160) اس لحاظ سے دو کجی بجائے بیس آنی چاہئے تھیں۔ یہ اٹھارہ لائی تو میں سمجھی کہ میں نے تو اپنے مولیٰ سے سودا کیا ہے وہ تو بھولنے والا نہیں۔ پس یہی بھولی ہے۔ آخر یہ خیال سچا نکلا۔ یہ بات واقعی ہے۔ کہانی قصہ نہیں میں نے خود بارہا آزمایا ہے۔
مگر خدا کا امتحان مت کرو۔ اس کو تمہارے امتحانوں کی کیا پرواہ ہے۔ خدا کے قول کا علم عام کھیتی باڑی سے ہو سکتا ہے۔ بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیڑے کھانے کو موجود۔ پھر جانور موجود۔ پھر ہزاروں بلائیں ہیں۔ ان سے بچ کر آخر اس دانے کے سینکڑوں دانے بنتے ہیں۔ اسی طرح جو خدا کی راہ میں بیج ڈالا جاوے وہ ضائع نہیں جاتا۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 421`420)
دنیا طلبی کے نقصانات :۔
’’موجودہ زمانے میں دنیا طلبی اور دنیا کمانے کی کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ جس کو دیکھو اسی دھن میں لگا ہے اور جسے ٹٹولو اسی فکر میں حیران و سرگردان ہے- کوئی محکمہ‘ کوئی سوسائٹی ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک‘ ماتحت سے افسر تک‘ حاکم سے بادشاہ تک جسے دیکھو دنیا کی فکر میں لگا ہے- ضروریات کے وقت جائزوناجائز کی بھی پروا نہیں کی جاتی بلکہ بلا امتیاز حلال و حرام اکٹھا کرنے کی کوشش اور فکر کی جا رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے حضرت امام علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بھی اس امر کو محسوس کر کے اس زمانہ کے مناسب حال اقرار لیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا- ‘‘
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 33صفحہ 336`335)
بے برکت مال:۔
’’ غرض ایک وہ وقت تھا کہ آمدنیاں اگرچہ کم تھیں مگر بوجہ کسب حلال ہونے کے بابرکت تھیں- اور ایک یہ زمانہ ہے کہ در اصل اگر غور کیا جاوے تو آمدنیاں کم مگر خرچ زیادہ ہیں- آمدنی بڑھی تو خرچ بھی ساتھ ہی ترقی کر گئے- کیونکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے لوگ اکثر ادھر ادھر سے آمدنی کے بڑھانے کے واسطے بہت قسم کے ناجائز و سائل اختیار کرتے ہیں- اکثر یہی کوشش دیکھی گئی ہے کہ روپیہ آ جاوے- اس بات کی پروا نہیں کہ وہ حلال ہے یا حرام- یہی وجہ ہے کہ وہ بے برکت ہوتا ہے‘‘-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 35صفحہ 346)
غرض یہ کہ اگر اپنی چالاکی اور ناجائز تدابیر اور ناجائز ذرائع سے مالوں کو بڑھانے کی کوشش کرو گے تو دوسری طرف خدا اس کو خاک میں ملاتا جاوے گا-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 35صفحہ 347)
غرض انسان کہتا ہے کہ مَیں چالاکی اور دھوکہ سے کامیاب ہو جائوں گا۔ مگر خدا اس کو عین اسی رنگ میں سزا دیتا ہے اور ناکام کرتا ہے جس رنگ میں خدا کو ناراض کر کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ (ایضاً صفحہ 348)
بدی سے بچنے کے فطرتی ذرائع
فطرت انسانی میں یہ امر روز ازل سے ودیعت کر دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کو اپنے واسطے یقیناً مضر جانتا ہے اس کے نزدیک تک نہیں جاتا- بھلا کبھی کسی نے کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالتے یا آگ کے انگارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے- یا کوئی شخص اس حالت میں کہ اس کو اس امر کا وہم ہی ہو کہ اس کے کھانے میں زہر کی آمیزش ہے‘ اس کھانے کو کھاتے دیکھا ہے؟ یا کبھی کسی نے ایک کالے سانپ کو حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس کے دانت نہیں توڑے گئے اور اس میں زہر اور کاٹنے کی طاقت موجود ہے‘ کسی کو ہاتھ میں بے|خوف پکڑنے کی جرات کرتے دیکھا ہے؟ یاد رکھو کہ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جائے گا- کیونکہ یہ امر فطرت انسانی میں مرکوز ہے کہ جس چیز کو یہ ضرر رساں یقین کرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا اور حتی|الوسع اس سے بچتا رہتا ہے- تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب انسان خدا پر کامل یقین رکھتا ہو اور اس کی صفات سے خوب آگاہ ہو اور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ خدا نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہوتا ہے اور سخت سے سخت سزا دینے پر قادر ہے اور سزا دیتا ہے اور یہ کہ گناہ حقیقت میں ایک زہر ہے اور خدا کی نافرمانی ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے اور اس کو آگ کے جلانے پر اور زہر کے ہلاک کر دینے پر اور سانپ کے کاٹنے سے مر جانے پر جیسا ایمان ہے اگر ایسا ہی ایمان خدا کی نافرمانی اور گناہ کرنے پر خطرناک عذاب اور ہلاکت و عذاب کا یقین ہو تو کیونکر گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور کیونکر خدا کی نافرمانی کے انگارے کھائے جا سکتے ہیں-
دیکھو انسان اپنے مربی‘ دوست‘ یار‘ آشنا اور کسی طاقتور با اختیار حاکم کے سامنے کسی بدی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور گناہ کر تا ہے تو چھپ کر کرتا ہے‘ کسی کے سامنے نہیں کرتا- تو پھر اگر اس کو خدا پر اتنا ایمان ہو کہ وہ غیب در غیب اور پوشیدہ در پوشیدہ انسانی اندرونہ اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے اور یہ کہ کوئی بدی خواہ کسی اندھیری سے اندھیری کوٹھڑی میں جا کر کی جاوے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ انسان کا بڑا مربی‘ رب‘ محسن‘ اور احکم الحاکمین ہے تو پھر انسان کیوں گناہ کی جگرسوز آگ میں پڑ سکتا ہے-
پس ان باتوں میں غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کو خدا اور اس کی صفات اور افعال اور علیم و خبیر اور ہر بات سے واقف ہونے اور قادر مقتدر اور منتقم‘ شدیدالبطش ہونے پر ایمان نہیں-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 21صفحہ 307`306)
ہر بدی خدا کی صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے :۔
ہر بدی خدا کی صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے- صفات الٰہی پر ایمان لانے کی کوشش کرو- انسان اگر خدا کے علیم‘ خبیر اور احکم الحاکمین ہونے پر ہی ایمان لاوے اور یقین جانے کہ میں اس کی نظر سے کسی وقت اور کسی جگہ بھی غائب نہیں ہو سکتا تو پھر بدی کہاں اور کیسے ممکن ہے کہ سرزد ہو- غفلت کو چھوڑ دو کیونکہ غفلت گناہوں کی جڑ ہے- ورنہ اگر غفلت اور خدا کی صفات سے بے علمی اور بے ایمانی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا کو قادر مقتدر اور احکم|الحاکمین‘ علیم و خبیر اور اخذ شدید والا مان کر اور اور یقین کر کے بھی اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں- حالانکہ اپنے معمولی دوستوں‘ آشنائوں‘ حاکموں اور شرفا کے سامنے‘ جن کا نہ علم ایسا وسیع اور نہ ان کی طاقت اور حکومت خدا کے برابر‘ ان کے سامنے بدی کا ارتکاب کرتے ہوئے رکتا ہے اور خدا سے لاپرواہ ہے اور اس کے سامنے گناہ کئے جاتا ہے- اس کی اصل وجہ صرف ایمان کی کمی اور صفات الٰہی سے غفلت اور لاعلمی ہے-
پس یقین جانو کہ اللہ اور اس کے اسماء اور صفات پر ایمان لانے سے بہت بدیاں دور ہو جاتی ہیں- (خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 31صفحہ 308`307)
انسان کا اپنی ہتک اور بے عزتی سے ڈر بھی گناہ سے بچاتا ہے :۔
انسان کی فطرت میں یہ بھی رکھا گیا ہے کہ انسان اپنی ہتک اور بے عزتی سے ڈرتا ہے اور جن باتوں میں اسے اپنی بے عزتی کا اندیشہ ہوتا ہے ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے- پس غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس کا دائرہ بہت تنگ ہے- زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں یا محلے میں یا گائوں یا شہر میں یا اگر بہت ہی مشہور اور بہت بڑا آدمی ہے تو ملک میں بدنام ہو سکتا ہے- مگر قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین‘ خدا کے کل انبیائ‘ اولیا‘ صحابہ اور تابعین اور کل صالح اور متقی مسلمان بزرگ‘ باپ دادا و پڑدادا وغیرہ اور ماں‘ بہن‘ بیوی‘ بچے غرض کل اقرباء اور پھر خود ہمارے سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں تو ذرا اس نظارے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس ہتک اور بے عزتی کا خیال تو کرو اور اس نظارے کو ہمیشہ آنکھ کے سامنے رکھو اور پھر دیکھو تو سہی کیا گناہ ہونا ممکن ہے؟ جب انسان ذرا سی بے عزتی اور معدودے چند آدمیوں میں ہتک کے باعث ہونے والے کاموں سے پرہیز کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میری ہتک نہ ہو جاوے تو پھر جس کو اس نظارے کا ایمان اور یقین ہو جس کا نام یوم الآخرۃ ہے تو بھلا اس سے بدی کہاں سرزد ہو سکتی ہے؟
پس یوم الآخرۃ پر ایمان لانا بھی بدیوں سے بچاتا ہے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 31صفحہ 308)
نیکی کی توفیق اور بدی سے بچنے کا ذریعہ ایمان بالملائکہ ہے :۔
بڑا ذریعہ نیکی کے حصول و توفیق اور بدی سے بچنے کا ایمان بالملائکہ ہے- ہر نیکی کی تحریک ایک ملک کی طرف سے ہوتی ہے- اس تحریک کو مان لینے سے اس ملک کو اس ماننے والے سے انس اور محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور اس طرح سے ملائکہ کے نزول تک نوبت پہنچ جاتی ہے- پس چاہئے کہ انسان کے دل میں جب کوئی نیکی کی تحریک پیدا ہو تو فوراً اس کو مان لے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور اس پر اچھی طرح سے کاربند ہو جاوے- ورنہ اگر اس موقع کو ہاتھ سے دے دے گا تو پچھتانا بے سود ہو گا- بعض لوگ پچھتاتے ہیں کہ فلاں وقت اور موقع کیسا اچھا تھا- یہ کام ہم نے کیوں اس وقت نہ کر لیا- پس نیکی کی تحریک کا موقع فرصت اور وقت مناسب اور نیک فال سمجھ کر فوراً مان لینا چاہئے- اس طرح سے نیکی کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اور انسان بدیوں سے دور ہو جاتا ہے-
(خطبات نور جلد 1خطبہ نمبر 31صفحہ 309)
تعلق باللہ ۔ اور ترقیاتِ علوم و یقین میں خطرناک مرض یا روک :۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقویٰ اللہ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴-(کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے- خواہ کسی قسم کا علم ہو‘ وجدان کا‘ سائنس کا‘ صرف و نحو یا کلام یا اور علوم‘ غرض کچھ ہی ہو انسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے-
راستباز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بجھ سکتی بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے- اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان اعلم باللہ- اتقیٰ للٰہ- اخشیٰ للٰہ جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سچے علوم‘ معرفت‘ سچے بیان اور عمل درآمد میں کامل تھا- اس سے بڑھ کر اعلم‘ اتقیٰ اور اخشیٰ کوئی نہیں- پھر بھی اس امام المتقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قل رب زدنی علماً-
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقہ کے لئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی جس قدر وہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرے گا- جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بجھا ہوا محسوس کرے اور فرحوا بما عندھم من العلم )المومن:۸۴( کے آثار پائے اس کو استغفار اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہے جو اس کے لئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے- (حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 397`396)
غفلت کا علاج :۔
جس مقام یا جس صحبت سے غفلت پیدا ہو اس کو فوراً چھوڑ دینا چاہئے۔
(حقائق الفرقان جلد3صفحہ 162)
نئے چاند کا پیغام :۔
ہرایک مہینہ جو چڑھتا ہے وہ انسان کی بہتری کے لئے ہی آتا ہے- انسان کو چاہئے کہ نئے چاند کو دیکھ کر اپنی عمر رفتہ پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ میری عمر میں سے ایک ماہ اور کم ہو گیا ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ چاند تک میری زندگی ہے کہ نہیں- پس جس قدر ہو سکے وہ خیر و نیکی کے بجالانے میں اور اعمال صالحہ کرنے میں دل و جان سے کوشش کرے اور سمجھے کہ میری زندگی کی مثال برف کی تجارت کی مانند ہے- برف چونکہ پگھلتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہوتا رہتا ہے……ایسے ہی انسان کی زندگی کا حال ہے جو برف کی مثال ہے کہ اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کم ہوتا ہی رہتا ہے۔ پس وقت کی قدر کرو اور ہر ایک چاند جو تمہاری روح کے لئے ایک وقت اور فرصت لاتا ہے اس سے نصیحت سیکھو۔
غرض کہ ہر ایک چاند کو غنیمت جانو اور اپنی بہتری۔ کنبہ کی بہتری۔ خلق اللہ کی بہتری کو ہر وقت مدنظر رکھو اور نیک سلوک سے سب سے پیش آئو۔
(ماخوذ از خطبات نور جلد 1خطبہ 17صفحہ 195)
پل صراط (انفاق فی سبیل اللہ) :۔
خدا کی راہ میں مال و جان کو قربان کران کوئی اتنا مشکل نہیں۔ اکثر لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ … رسم و رسوم کی پابندی میں مال کا بہت سا حصہ ضائع کر دیتے ہیں۔ کئی گیارھویں دینے والے بڑے استقلال سے قرض لے کر بھی ناغہ نہیں کرتے مگر زکوٰۃ کہو تو کہتے ہیں کہ غریب آدمی ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی متابعت واقعہ میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اور یہی حقیقت ہے پل صراط کی۔ (حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 163)
مومن نماز کا پابند ہوتا ہے :۔
والذین یومنون بالاخرۃ یومنون بہ وھم لی صلوتھم یحافظون(انعام:93) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی اس (یعنی قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہین ار اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ہمیشہ خیال رکھتے ہیں۔
انسان جب اللہ پر ایمان لاتا ہے تو آخرت پر ایمان لے آتا ہے اور جزا و سزا اعتقاد کے بعد ضرور ہے کہ قرآن اور رسول کریم ~صل۲~ پر ایمان لائے جس کے ساتھ ملائکہ وکتب کا ایمان بھی آگیا اور پھر مومن نماز کا پابند ہو جاتا ہے-
پس جو لا الٰہ الا اللہ کا دعویٰ کرے بایں ہمہ نماز کا تارک رہے اور قرآن شریف کی اتباع میں سستی کرے‘ حقیقت میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے دعویٰ میں سچا نہیں جیسا کہ یہ آیت )یومنون بہ( ظاہر کرتی ہے
(خطبہ جمعہ 25مارچ 1910ئ)
دکاندار :۔
حضور فرماتے ہیں :۔
’’میں دیکھتا ہوں کہ ایسے انسان ہیں کہ دعویٰ اسلام کرتے ہیں مگر عمل دیکھو تو بازار میں کفار کے اعمال اور ان کے اعمال برابر ہیں- نیک نمونہ دکھا کر دوسروں کو قائل کر سکتا ہے- ‘‘
دراز گوش :۔
یاجوج و ماجوج دونوں قوموں کی نسبت بعض مصنفوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ دراز گوش ہیں اور اس فقرہ کے سمجھنے میں بہت لوگوں نے جومقدس کتابوں کی طرز کلام سے بالکل ناآشنا ہیں کئی غلط نتیجے نکالے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ دراز گوش گدھے کو کہتے ہیں اور جو آدمی علم کے مطابق عمل نہ کرے اسے بھی الہامی زبان میں گدھے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ دیکھو قرآن میں آیا ہے۔ مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفاراً (جمعہ:6)
’’ یہ علوم جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں درس و تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقویٰ اور محض تقویٰ سے ملتے ہیں …… اگر محض درس و تدریس سے آسکتے تو پھر قرآن مجید میں مثل الذی حملوا لتوراۃ کمثل الحمارـ کیوں ہوتا ؟ ‘‘
یہودیوں کو اس لئے خصوصاً مخاطب فرمایا کہ وہ کتاب اللہ کے وارث تھے۔ چونکہ عمل نہ تھا اور دنیوی لذات اور شہوات پر جو عارضی اور فانی تھیں مرمٹے تھے اس لئے گدھے کہلائے۔ (از حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 119`118)
خطرناک بات۔ اپنا امتحان کرو :۔
حضرت مولینا نورالدین قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو فرماتے ہیں:۔
سورہ عنکبوت آیت 46میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
’’ نماز تمام بے حیائیوں اور بدکاریوں سے روکتی ہے ، پس اگر نماز پڑھ کر بھی بے حیائیاں اور بدیاں نہیں رکتی ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی تک نماز اپنے اصل مرکز پر نہیں۔ اور وہ سچا مفہوم جو نماز کا ہے وہ حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے میں تم سب کو جو ہہاں موجود ہیں مخاطب کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی نمازوں کا اس معیار پر امتہان کرو اور دیکھو کہ کیا تمہاری بدیاں دن بدن کم ہو رہی ہیںیا نہیں۔ اگر نسبتاً ان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تو پھر یہ خطرناک بات ہے۔ ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 123)
دین کو دنیا پر مقدم کروں گا:۔
لا الہ الا اللہ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ وہ گا اور کوئی غرض و مقصد اللہ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہو گی۔ اس امام (حضرت مسیح موعود۔ ناقل) نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے۔ کہ ہم سے یہ اقرار ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا۔ اب اس اقرار کو مدنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اللہ تعالیٰ کے احکام اور امرو نواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب۔ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 127`126)
بہت سے آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں- لیکن اللہ|تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! تو ہمارا رسول ہے لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں تو یہ صریح جھوٹے ہیں اور منافق ہیں کیونکہ ان کا عمل|درآمد ان کے دلی ایمان کے خلاف ہے- اور جو باتیں یہ زبان سے کہتے ہیں ان کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے- (حقائق الفرقان جلد 4از تفسیر سورہ منافقون صفحہ 135)
زندہ ایمان :۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں : کہ ’’ مان لینے سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ مان لیا کہ وہ حق ہے اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ یہ ایمان زندہ ایمان نہیں کہلاتا جب تک اس میں عمل کی روح نہ ہو یہ بالکل سچ ہے کہ ایمان بدوں عمل کے مردہ ہے۔ ‘‘ نیز حضور فرماتے ہیں :۔
میں نے جس وقت حضرت امام (مسیح موعود علیہ السلام) کے منہ سے یہ سنا کہ ت مین سے بہت ہیں جو اس چشمہ پر پہنچ گئے ہیں جو زندگی کا چشمہ ہے مگر ابھی پانی نہیں پیا۔ ہاں منہ رکھ دیا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جس وقت سے میں نے یہ سنا ہے میں بہت ہی ترساں ہوں اور استغفار پڑھتا رہا ہوں کہ خدا نہ کرے کہ کہیں میں ہی نہ ہوں۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 126)
زیارت مرکز کے آداب :۔
حضرت مولینا نورالدین امام جماعت احمدیہ اوْل سورہ جمعہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ بعض لوگ جو یہاں (قادیان مرکز احمدیت۔ ناقل) آتے ہیں اور رہتے ہیں۔ ان کو ایسی مشکلات پیش آتی ہیں جو ان کی اپنی پیدا کردہ مشکلات سمجھنی چاہئیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ مجھے چارپائی نہیں ملی۔ یا روٹی کے ساتھ دال ملی۔ میں ایسی باتوں کو جب سنتا ہوں تو اگرچہ مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو ان خدمات کے لئے مقرر ہیں۔ مگر ان سے زیادہ افسوس ان پرہوتا ہے جو ایسی شکائتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ کیا وہ اس قدر تکالیف سفر کی برداشت کر کے روٹی یا چارپائی کے لئے آتے ہیں؟ یا ان کا مقصود کچھ اور ہوتا ہے۔
میرے ایک پیر شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدینہ میں رہا کرتے تھے۔ ایک سخص مدینہ میں آیا۔ پھر اس نے ان سے کہا کہ میں یہاں نہیں رہتا۔ کیونکہ لوگ شرارتی ہیں۔ شاہ صاحب نے ان کو کہا کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے آئے تھے تو وہ تو ویسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے یقین کیا تھا۔ اور اگر عربوں کے لئے آئے تھے تو وہ بے شک ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو۔ حضور فرماتے ہیں :۔
پس میں بھی ان احمقوں سے یہی کہوں گا ۔ جو اس قسم کی شکائیتیں کرتے ہیں کہ … اگر ہمارے لئے آئے ہو تو ہم ایسے ہی ہیں۔ کیا کھانا ۔ کپڑا۔ چارپائی گھر میں نہیں ملتی تھی جو اس قدر تکلیف اٹھا کر اسی روٹی کے واسطے یہاں آئے۔
آنحضرت ﷺ کے پاس لوگ آتے تھے۔ ان کے لئے جانتے ہو کوئی مہمان خانہ تجویز ہوا ہوا تھا۔ یا کوئی لنگرخانہ جاری تھا۔ کوئی نہیں۔ پھر بھی لوگ آتے تھے اور کوئی شکایت نہ کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے آتے تھے اور وہی ان کی غرض ہوتی تھی۔ غرض یہاں آئو نہ اس لئے کہ روٹی یا بستر ملے بلکہ اس لئے کہ تمہاری بیماریوں کا علاج ہو۔
(ماخوذ حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 124`123)
خدا سے بگاڑ نہ ہو :۔
بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں- کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے- دوست بھی ہوتے ہیں- دشمن بھی ہوتے ہیں- مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو-
دوست پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے- حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے‘ اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس|قدر دور ڈال دے کہ وہ کام نہ آ سکیں- پس ہر آن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی‘ موت کسی حال میں ہم سے جدا نہیں ہو سکتا-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 68)
خدا سے قطع تعلق کرنے والے کون ہوتے ہیں :۔
ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانسھم انفسھم
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے خدا سے قطع تعلق کر لیا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے اور سکھ نہ پائو گے بلکہ ہر طرف سے ذلت کی مار ہو گی اور ممکن ہے کہ وہ ذلت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے- ایسے لوگ جو خدا سے قطع|تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق‘ فاجر ہوتے ہیں- ان میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا- یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں- نہیں- ان میں شفقت علیٰ خلق اللہ بھی نہیں ہوتی-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 68)
تقویٰ کی توفیق کا ذریعہ :۔
مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے- گالی نکالتا ہے مگر وہ سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس اصل کو مدنظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی-
نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو- اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ و اللہ خبیر بما تعملونجو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے- انسان اگر یہ یقین کر لے کہ کوئی خبیر علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری‘ دغا‘ فریب‘ سستی‘ اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بچ سکتا ہے- ایسا ایمان پیدا کرو- بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض‘ نوکری‘ حرفہ‘‘ مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں- ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا- اللہ|تعالیٰ سب کو تقویٰ کی توفیق دے-
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 68`67)
علماء بنی اسرائیل کے حالات :۔
خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے لوگوں کا ذکر کیا۔ کیونکہ اس سے چھوٹوں کا خود اندازہ ہو سکتا تھا۔ اگر ہم ایک نمبردار کی حالت بیان کریں کہ ایک قحط میں اس پر فاقہ کشی کی مصیبت ہے تو اس سے چھوٹے درجے کے زمیندار کو حال خود معلوم ہو جاتا ہے۔ قرآن شریف نے نہایت جامع الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ظھر الفساد فی البر والبحر کہ جنگلوں اور مندروں میں غرض ہر جگہ پر فساد نمودار ہو چکا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے۔ ان کی نسبت قرآن نے خود شہادت دی ہے اکثرھم فاسقون (توبہ) ان میں سے اکثر لوگ فاسق تھے اور کہاں تک فسق و فجور نے ترقی کی ہوئی تھی کہ جعل منھم لقردۃ والخنازیر (مائدہ )
یہ اس وقت کے لکھے پڑھے علماء اور سجادہ نشین خدا کی کتاب مقدس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل اور خوار ہیں جیسے بندر اور ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے خنزیر۔ اس سے اندازہ کرو ان لوگوں کا جو لکھے پڑھے نہ تھے جو کتاب مقدس کے وارث نہ تھے۔ جو موسیٰ کی گدی پر نہ بیٹھے ہوئے تھے۔
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 86)
امن پسند جماعت بنو۔ اور باہم محبت کو بڑھائو
1910ء کے ایام جلسہ سالانہ میں جو خطبہ جمعہ حضور نے فرمایا اس میں حضور انور نے جماعت کو جو قیمتی نصیحت فرمائی اس کی تلخیص حضور انور کے الفاظ میں عرض ہے۔ حضور فرماتے ہیں :۔
ہمارے سارے دنیا کے کام بلکہ دین کے بھی سب کام امن پر موقوف ہیں! اگر امن قائم نہ رہے گا تو کوئی کام نہیں ہو سکے گا- جس قدر امن بڑھ کرہو گا اسی قدر حق کا ابلاغ عمدہ طور سے ہو گا۔ اس واسطے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اس کے حامی رہے- آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی خود رہ کر اور عیسائیوں کی سلطنت میں جو حبشہ میں تھی صحابہ کرام ؓ کو رکھ کرہمیں تعلیم دی ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے- اس زندگی کے فرائض میں سے امن ہے- اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین یا دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے- میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ امن کی کوشش کرو- امن کے لئے ایک تو طاقت کی ضرورت ہے جو گورنمنٹ کے پاس ہے- دوسرے نیک چلنی اور گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری کی، جو تمہارا فرض ہے۔
میں اس امر کو کسی کی خوشامد کی غرض سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی غرض سے کہتا ہوں کہ امن پسند جماعت بنو۔ تا کہ ہر قسم کی ترقیوں کا تم کو موقع ملے اور چین سے زندگی بسر کرو۔ اس کا بدلہ مخلوق سے نہ مانگو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرو اور اس سے مانگو۔ یہ خوب یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے ۔ پس تم امن کے قائم رکھنے میں ہمیشہ گورنمنٹ کا وفاداری سے ساتھ دو۔
محبت بڑھانے کا گُر :۔
اسی تسلسل میں فرماتے ہیں :۔
پھر اس کے بعد ایک اور بات کہتا ہوں کہ باہم محبت کو بڑھائو اور بغضوں کو دور کرو اور محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو۔ اور صبر کرنے والے کے ساتھ آپ خدا تعالیٰ ہوتا ہے۔ اس واسطے صبر کرنے والے کو کوئی ذلت اور تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ (مقدمہ مرقاۃ الیقین صفحہ 48)
بھیک نہ مانگنے کا عہداور اس کی برکات :۔
حضرت مولوی صاحب ساہیوال ضلع شاہ پور (حاصل ضلع سرگودھا) کے ایک بڑے تاجر مولوی عبداللہ صاحب سے ملاقات کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ کہ وہ کس طرح بہت بڑے تاجر بنے۔ مولوی عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ :۔
’’ مں مکہ معظمہ میں حج کو گیا۔ اس زمانہ میں بہت ہی عریب تھا۔ مکہ معظمہ میں صبح سے شام تک ’’ لقمہ للہ مسکین‘‘ کی صدا سے بھیک مانگتا تھا۔ پھر بھی کافی طور پر پیٹ نہیں بھرتا تھا۔ اور تمام دن بازاروں گلی کوچوں میں پھرتا رہتا تھا۔ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ تو اگر بیمار ہو جائے اور تنا زیادہ نہ چل سکے تو بھوک کے مارے مر جائے گا۔ اس تحریک کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ بس آج ہی مر جائیں گے اور سوال نہ کریں گے۔
پھر میں بیت اللہ شریف میں چلا گیا۔ اور پردہ پکڑ کر یوں اقرار کیا کہ ’’ اے میرے مولا گو تو اس وقت میرے سامنے نہیں مگر میں اس مسجد کا پردہ پکڑ کر عہد کرتا ہوں کہ کسی بندہ اور کسی مخلوق سے اب نہیں مانگوں گا۔ ‘‘
ایک آنہ سے تجارت کی برکت :۔
یہ معاہدہ کر کے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اس نے میرے ہاتھ پر ڈیڑھ آنہ کے پیسے (اس وقت کے انگریزی سکہ کے چھ پیسے جبکہ روپیہ کے 64پیسے ہوتے تھے۔ ناقل) رکھ دئیے۔ اب میرے دل میں یہ شک ہوا کہ میری شکل سائل کی سی ہے۔ گو میں نے زبان سے سوال نہیں کیا۔ اس لئے میرے لئے یہ پیسے جائز ہیں یا نہیں۔ میں یہ سوچنے لگا۔ اور وہ شخص اتنے مین غائب ہو گیا۔ میں نے وہاں سے اٹھ کر دو پیسے کی تو روٹی کھائی اور چار پیسے کی دیا سلائیاں خریدیں جو بارہ ڈبیاں ملیں چونکہ مجھ کو گلی کوچوں میں دن بھر چلنے کی عادت تو تھی ہی۔ ان دیا سلائیوں کو ہاتھ میں لے کر کبریت کبریت کہتا پھرتا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ چھ پیسے کی بک گئیں۔ پھر میں نے چھ پیسے کی خریدیں وہ بھی اسیطرح بیچ دیں۔ آخر شام تک میرے پاس ایک چونی ہو گئی (یعنی چار آنے۔ گویا ایک آنہ سے چار آنے بن گئے۔ ناقل) دو پیسے کی روٹی کھا کر ۔ رات کو سو رہا۔ دوسرے دن پھر دیا سلائیاں خریدیں اور اسی طرح بیچیں۔ چند روز کے بعد وہ اتنی ہو گئیں کہ جن کے اٹھانے میں دقت ہوتی تھی۔ آخر میں نے دو مختلف چیزیں جن کی عورتوں کو ضرورت ہوتی ہے، خریدیں اوبقچہ کمر سے لگا کر پھرنے لگا۔ مگر سودا ایسا خریدتا تھا اور نفع اس قدر کم لیتا تھا کہ شام تک سب فروخت ہو جائے۔ رات کو بالکل فارغ ہو کر سوتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک چادر بچھا کر اس پر سودا جما کر بیٹھ جاتا اور فروخت کرتا۔ پھر اس قدر ترقی ہوئی کہ میں نے نصف دوکان کرایہ پر لے لی۔ پھر اس قدر ترقی ہوئی کہ میں بمبئی آگیا وہاں قرآن شریف خریدتا اور اردگرد کے گائوں میں اور قصبوں میں لے جا کر فروخت کرتا تھا۔ پھر میری ایسی ساکھ بڑھی کہ میں تیس ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر تمہارے شہر بھیرہ میں لے گیا اور تمہارے والد نے وہ سب خرید لئے۔ مجھ کو اس میں منافع عظیم ہوا۔ پھر دوبارہ اسی طرح ہزاروں ہزار کے قرآن شریف خرید کر لے جاتا ۔ جب میں نے دیکھا کہ اب روپیہ بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس تجارت سے بڑھ کر ہے تو میں نے کپڑے کی تجارت شروع کی۔ یہ میری عادت تھی کہ مال بہت جلد فروخت کر دیتا تھا۔ اور نفع بہت کم لیتا تھا۔ اب مال اس قدر بڑھا کہ میں برہان پور سے اس کو اٹھا نہ سکا۔ میں نے یہیں کوٹھی بنا لی اور اب میں اتنا بڑا آدمی ہوں۔
حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں اس سے مجھ کو اس حدیث کا مضمون صحیح ثابت ہوا۔ جس میں ارشاد ہے کہ تجارت میں بڑا رزق ہے۔
(مرقاۃ الیقین صفحہ 90`89)



قصہ دو صدریوں کا اور صدقہ کی برکات
حضرت مولوی صاحب اپنے طالب علمی کے زمانہ کے ایک ابتلا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :۔
’’ میں نے نہایت عمدہ دو صدریاں بنوائی تھیں جن کے پہننے کی ہمیشہ مجھے عادت تھی۔ ان میں سے ایک چوری ہو گئی، مجھے یقین ہوا کہ طالب علمی کی حالت میں یہ بھی ایک مصیبت ہے۔ مصیبت پر صبر کرنے والے کو نعم البدل ملتا ہے۔ دوسری صدری کو اس کے شکریہ میں دے دیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک امیر کبیر کے لڑکے کو سوزاک ہوا۔ اس نے اپنے آدمی کو کہا کہ کوئی ایسا طبیب جس کو لوگ نہ جانتے ہوں بلا لائو… چنانچہ وہ مجھ کو وہاں لے گئے۔ میں نے ان کا حال دریافت کر کے کہا کہ کیلے کی جڑ کا ایک چھٹانک پانی صاف کر کے اس میں قلمی شورہ ڈال کر جو اپ کے دالان میں بارود بنانے کے لئے رکھا ہے۔ کئی دفعہ پیئیں… قدرت اللہی سے ان کو شام تک تحفیف ہو گئی۔ اس نے مجھے گراں بہا خلعت اور اتنا روپیہ دیا کہ مجھ پر حج فرض ہو گیا۔
خوش رہنے کا نسخہ :۔
مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ :۔
’’ جب میں حج کے لئے بھوپال سے رخصت ہونے لگا تو اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں ہ جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں۔ فرمایا کہ ۔
’’ خدا نہ بننا اور نہ رسول بننا ‘‘
میں نے عرض کیا کہ حضرت میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں۔ غالباً یہ نہ سمجھے ہوں گے۔ سب نے کہا ۔ ہاں۔ ہم بھی نہیں سمجھے۔ مولوی عبدالقیوم صاحب نے فرمایا ۔ کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟میری زبان سے نکلا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت فعال لما یرید (ہود:108) ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے۔ یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور پوری نہ ہو۔ تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم کوئی خدا ہو؟ رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے۔ وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے۔ تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے۔ لہذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہئے۔
حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالقیوم صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی (لیکن حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا جانشین اور قدرت ثانیہ کا مظہر اوّل بنایا اس طرح آپ کو رسول والا غم و رنج بھی برداشت کرنا پڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو قبول فرما کر خلافت احمدیہ کے استحکام کے لئے بہت کام کرنے کی توفیق دی۔ ناقل)
میری تو یہ دعا قبول ہو گئی :۔
حضرت مولوی نورالدین صاحب فرماتے ہیں :۔
میں نے کسی روایت کے ذریعہ سنا تھا کہ جب بیت اللہ نظر ائے تو اس وقت کوئی ایک دعا مانگ لو۔ وہ ضرور ہی قبول ہو جاتی ہے… میں نے یہ دعا مانگی کہ ’’ الٰہی میں تو ہر وقت محتاج ہوں۔ اب میں کون کون سی دعا مانگوں۔ پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ مَیں جب ضرورت کے وقت تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کرلیا کر۔ ‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ روایت کا حال تو مہدثین نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دعا قبول ہو گئی۔ بڑے بڑے نیچریوں۔ فلاسفروں۔ دہریوں سے مباحثہ کا اتفاق ہوا اور ہمیشہ دعا کے ذریعہ مجھ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ایمان میں بڑی ترقی ہوتی گئی۔ (مرقاۃ الیقین صفحہ 93)
٭٭٭٭٭
 
Top