اشتہارات و اعلانات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
مجموعہ اشتہارات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(۱۸۱)
چونکہ بعض احباب چندہ مدرسہ میرے نام بغیر ذکر مدرسہ یوں ہی روانہ فرماتے ہیں- اور پھر کسی دوسرے وقت اس اطلاع دہی کے لئے ان کا خط آتا ہے جبکہ وہ اُن کا روپیہ ہمارے کاموں میں خرچ بھی ہو جاتا ہے- اس صورت میں خواہ نخواہ کی ایک تکلیف ہوتی ہے لہذا تمام احباب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ انتظام چندہ مدرسہ الگ قرار پایا ہے- اور وہ یہ ہے کہ اس میں اخویم میر ناصر نواب صاحب محاسب روپیہ قرار پائے ہیں اور روپیہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے پاس جمع ہوتا ہے- اس لئے مناسب ہے کہ آیندہ ایسا روپیہ میرے نام ہرگز نہ روانہ ہو- بلکہ براہ راست مولوی صاحب موصوف کے نام روانہ فرمایا کریں اور اس میں بھی لکھ دیا کریں کہ یہ مدرسہ کا روپیہ ہے- یہ امر ضروری ہے جس کی پابندی ہر ایک صاحب کو لازمی ہو گی-
اس جگہ یہ بھی اطلاع دیتا ہو کہ کتابُ البَر یّہ چھپ کر طیار ہو گئی ہے - قیمت اس کی ایک روپیہ چار آنہ ہے جو صاحب خریدنا چاہیں بذریعہ ویلیوپے-ایبل منگوا سکتے ہیں- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
۵ فروری ۱۸۹۸ء
خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مطبع ضیاء اسلام قادیان (یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۸۲)
جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس کو چاہیے کہ وہ اور لوگوں کو دکھائے اور اس کی اشاعت میں کوشش کرے-
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
قُلْ مَا یَعْبُؤُا بِکُمْ رَبِّی لَوْ لَا دُعَاؤُ کُمْ
طاعون
اس مرض نے جس قدر بمبئی اور دوسرے شہروں اور دیہات پر حملے کئے او کر ہی ہے اُن کے لکھنے کی ضرورت نہیں…دو سال کے عرصہ میں ہزاروں بچے یتیم ہو گئے اور ہزار ہا گھر ویران ہو گئے- دوست اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ہمیشہ کے لئے جُدا کئے گئے اور ابھی انتہاء نہیں- کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے روپیہ کا ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیّہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدائتیں شائع کیں- مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلّی امن حاصل نہیں ہوا- بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ مُلک پنجاب بھی خطرہ میں ہے ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوح انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسا ن نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو- اور یہ امر بحی نہایت ضروری ہے کہ گونمنٹ کی تدبیروں اور ہدایتوں کو بد گمانی کی نظر سے نہ دیکھا جائے- غور سے معلوم ہو گا کہ اس بارے میںگورنمنٹ کی تمام ہدایتیں نہایت احسن تدابیر پر مبنی ہیں گو ممکن ہے کہ آیندہ اس سے بھی بہتر تدابیر پیدا ہوں مگر ابھی نہ ہمارے ہاتھ میں نہ گورنمنٹ کے ہاتھ میں ڈاکٹری اصول کے لحاظ سے کوئی ایسی تدبیر ہے کہ جو شائع کردہ تدابیر سے عمدہ اور بہتر ہو-
بعض اخباروالوں نے گورنمنٹ کی تدابیر پر بہت کچھ جرح کی - مگر سوال تویہ ہے کہ ان تدابیر سے بہتر کونسی تدبیر پیش کی- بے شک اس ملک کے شرفاء اور پردہ داروں پر یہ امر بہت کچھ گراں ہوگا کہ جس گھر میں بَلا طاعُون نازل ہو تو ایسا مریض کوئی پردہ دار جران عورت ہی ہو تب بھی فی الفور وہ گھر والوں سے الگ کر کے ایک علیحدہوا دار مکان میں رکھا جائے جو اس شہر گائوں کے بیماروں کے لئے گورنمنٹ نے یہ ہدایت بھی تو شائع کی ہے کہ اگر اس بیمار کے تعہد کے لئے ایک دو قریبی اُس کے اُسی مکان میں رہنا چاہیں تو وہ رہ سکتے ہیں- پس اس سے زیادہ گورنمنٹ اور کیا تد بیر کر سکتی تھی کہ چند آدمیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت بھی دے دی- اور اگر یہ شکایت ہو کہ کیوں اس گھر سے نکالا جاتا ہے اور باہر جنگل میں رکھا جاتا ہے تو یہ احمقانہ شکوہ ہے میں یقینا اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ ایسے خطرناک امراض میں مداخلف بھی نہ کرے تو خود ہر ایک انسان کا اپنا وہم وہی کا اس سے کرائے گا- جس کام گورنمنٹ نے اپنے ذمہ لیا ہے - مثلاً ایک گھر میں جب طاعون سے مرنا شروع ہو تو دو تین موتوں کے بعد گھر والوں کو ضرور فکر پڑیگا- کہ اس منحوس گھر سے جلد نکلنا چاہیے اور پھر فرض کرو کہ وہ اس گھر سے نکل کر محلّہ کے کسی اور گھر میں آباد ہوں گے اور پھر اس میں بھی یہی آفت دیکھیں گ تب ناچار اُن کو شہر سے علیحدہ ہونا پڑے گا مگر ہ تو شرعاً بھی منع ہے کہ وبا کے شہر کا آدمی کسی دوسرے شہر میں جا کر آبادہویا بہ تبدل الفاظ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا قانون بھی کسی دوسرے شہر میں جانے سے روکتا ہے تو اس صورت میں بجز اس تد بیر کے جو گورنمنٹ نے پیش کی ہے کہ اُسی شہر کے کسی میدان میں وہ لوگ رکھے جائیں اور کونسی نئی اور عمدہ تدبیر ہے جو ہم نعوذ باللہ اس خوفناک وقت میں اپنی آزادگی کی حالت میں اختیار کر سکتے ہیں- پس نہایت افسو س ہے کہ نیکی کے عوض بدی کی جاتی ہے اور ناحق گورنمنٹ کی ہدایتوں کو بد گمانی سے دیکھا جاتا ہے- ہاں یہ ہم کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں ڈاکٹروں اور دوسرے افسروں کو جو ان خدمات پر مقرر ہوں نہایت درجہ کے اخلاق سے کام لینا چاہیے اور ایسی حکمت عملی ہو کہ پردہ داری وغیرہ امور کے بارے میں کوئی شکایت بھی نہ ہو اور ہدایتوں پر عمل بھی ہو جائے- اور مناسب ہو گا کہ بجائے اس کے کہ حکومت اور رعب سے کام لیا جائے ہدایتوں کے فوائد دلوں میں جمائے جائیں تا بد گمانیاں پیدا نہ ہوں- اور مناسب ہے کہ بعض خوش، اخلاق ڈاکٹر واعظوں کی طرح پھیلنے سے پہلے دیہات اور شہروں کا دورہ کر کے گورنمنٹ کے شفقانہ منشاء کو دلوں میں جما دیں تا اس نازک امر میں کوئی فتنہ پیدا نہ ہو -
واضح رہے کہ اس مرض کی اصل حقیقت ابھی تک کامل طور پر معلوم نہیں ہوئی اس لئے اس کی تدابیر اور معالجات میں بھی اب تک کوئی کامیابی معلوم نہیں ہوئی- مجھے ایک رُوحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرض اور مرض خارش کامادہ ایک ہی ہے- ایسی دوائیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہو سکیں - اور جبکہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہونے سے اس مرض میں کمی پیدا ہو جائے- یہ رُوحانی قواعد کا ایک راز ہے جس سے مَیں نے فائدہ اُٹھایا ہے- اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکہ لگانے والوں کی طرح بطور حفظ ما تقدم ایسے ملکوں کے لوگوں میں جو خطرہ طاعوں میں ہوں خارش کی مرض پھیلاویں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ میں تحلیل پاجائے اور طاعون سے امن رہے- مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے- مَیں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کو لکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو میں روک نہیں سکا-
اور ایک اَور ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ رُوحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھینگے مگرمیرا فرض ہے کہ مَیں اس کو نوع انسا ن کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۲ فروری ۱۸۹۸ء روزیکشنبہ ہے مَیں نے خواب دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں مَیں نے بعض لگا نے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تواُنہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب مُلک میں پھیلنے والی ہے- میرے پر ہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے کہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا- لیکن نہایت خوف ناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا- اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور یہ ہے کہ اِنّ اﷲ یفیّر ما بِقو مرٍ حتّٰی یغیّرُو بانفسھم اِنہ اٰویٰ٭ القریۃ یعنی جب تک دلوں کی وباء معصّیت دُور نہ ہو تب تک ظاہری وبا بھی دُور نہیں ہو گی- اور درحقیقت دیکھا جاتا ہے کہ مُلک میں بد کاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہوا وُہوس کا ایک طُوفان برپا ہو رہا ہے اکثر دلوں سے اللہ جلشانہ کا خوف اُٹھ گیا ہے- اور وبائوں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دُور ہو سکتی ہے- ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہو رہے ہیں اَور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے- وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں اُن مسے سے جو غریب اور مفلس یں اکثر اُن میں سے چوری اور خیانت اور مکروہ حرکات ان سے سزد ہوتے ہیں اور وحثیوں کی طرح زندگی بسر کرتے یہں - نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک مُنہ بھی نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے اور جو لوگ امیر اور رئیس اور نواّب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکہ دار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زناکاری اور بد اخلاقی اور فضول خرچی اُن کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ہیں اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لا پروا پائے جاتے ہیں-
اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی مَیں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلّق ہے اور توبہ دور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دُور ہو سکتی ہے- لہذا تمام بندگان خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بد کاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں- مسلمانوں کو چاہیے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجا لاویں، نماز کے پابند ہوں ، ہر ایک فسق و فجور سوے پرہیز کریں، توبہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں، غریبوں اور ہمسائیوں اور یتیموں اور بیوائوں اور مسافروں اور دردمندوںکے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ و خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میںاِس بَلا سے محفوظ رہنے کے لئے دُعا کریں- پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دُعائیں کریں- غرض ہر قسم کے نیک کام بجا لائیں- اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں- اور اُس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم ہی دُنیا کو ہلاک کر سکتا ہے-
میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ یہ تقدیر ایسی ہے کہ جو دُعا اور صدقات اور خیرات اور اعمال صالحہ ار توبہ نصوع سے ٹل سکتی ہے اس لئے میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ مَیں عام لوگوں کو اس سے اطلاع دوں - یہ بھی مناسب ہے کہ جو کچھ اس بارے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہدایتیں شائع ہوتی ہوں خواہ نخواہ اُن کو بد ظنی سے نہ دیکھیں بلکہ گورنمنٹ کی اس کاروبار میں مدد دیں اور اس کے شکر گذار ہوں کیونکہ سچ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں- اور ایک قسم کے مدد یہ بھی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں-
اور ایک اقسم کی مدد یہ بھی ہے کہ نیک چلنی اور نیک بختی اختیار کر کے اس بَلا کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دُعائیں کریں تا یہ بلا رُک جائے یا اس حد تک پہنچے کہ اس مُلک کو فنا کر دیوے- یاد رکھو کہ سخت خطرہ کے دن ہیں اور بَلا دروازہ پر ہے نیکی اختیار کرو اور نیک کام بجا لائو- خدا تعالیٰ بہت حلیم ہے لیکن اس کا غضب بھی کھا جانے والیٰ آگ ہے- اور نیک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا - ماَ یفعل ﷲ بعذایکم ان شکر تم و اٰمنتم ؎
بتر سید از خدا ئے بے نیاز سخت قہارے
نہ پندارم کہ بد نیند خدا تر سے انکو کارے
مرا باور نمی آید کے رسوا گردو آن مروے
کہ می تر سد ازاں یا رے کی غفار ست و ستارے
گرآں چیز سے کہ محی بینم عزیزاں نیز دید ندے
ز دُنیا توبہ کروندے بچشم زار و خونبارے
خور تاباں سیہ گراں ست از بد کاری مردم
زمیں طاعوں ہمی آرد پئے تخولیف و اندازے
یہ تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی
علاجے نیست بہرد فعِ آں جُز حُسن کردارے
نشاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت
مکہ گر خوابد کُشد در یکدے چُوں کرم بیکارے
من از ہمذردی گفتم تو خود ہم فکر کُن بارے
خرو از بہرایں روز ست اے دانائوہشیارے
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
۶ فروری ۱۸۸۹ء
گلزار محمدی پریس لاہور بازار کشمیری ( یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے چار صفحوں پر ہے)
(۱۸۳)
یہ وہ درخواست ہے جس کا ترجمہ انگریزی بحضور لیفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ روانہ کیا گیا ہے )
امید رکھتا ہوں کہ اس درخواست کو جو میرے اور میری جماعت کے حالات پر مشتمل ہے غور اور توجہ سے پڑھا جائے)
بحضور نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ
چونکہ مسلمانوں کاایک ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیریہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زورسے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے یافتہ مہذّب اور معزز عہدوں اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیںاور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی اے اور ایم اے اس فرقہ میں داخل ہیں اور داخل ہو رہے ہیں اور یہ ایک گروہ کثیر ہو گیا ہے جو اُس مُلک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے - اس لئے مَیں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقہ کا پیشوا ہوں حضور لفٹنٹ گورنر بہادر کو آ گاہ کروں- اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے- گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریانہ مخبریوں سے گونمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں- پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پیدا کرے اور بد ظنی کی طرف مائل ہو جائے- لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں-
(۱)سب سے پہلے مَیں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ مَیں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں دولت مدار انگریزی کاخیر خواہ ہے - چنانچہ صاحب چیف کمشنر بہادر پنجاب کی چٹھی نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰ اگست ۱۸۵۸ء میں یہ مفصّل بیان ہے کہ میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کیسے سرکاری انگریزی کے سچّے وفادار اور نیک نام رئیس تھے- اور کس طرح اُن سے ۱۸۵۷ء میں رفاقت اور خیر خواہی اور مدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ ظہور میں آئی اور کس طرح وہ ہمیشہ بدل ہواخواہ سرکار رہے- گورنمنٹ عالیہ اس چھٹی کو اپنے دفتر سے نکال کر ملاحظہ کر سکتی ہے اور رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر لاہور نے بھی اپنے مراسلہ میں جو میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ کے نام ہے - چھٹی مذکورہ بالا کا حوالہ دیا ہے جس کو مَیں ذیل میں لکھتا ہوں-
’’ تہود شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند از انجاکہ ہنگام مفدسدہ موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد وہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگاہداشت سواران و بہمر سانی اسپان بخوبی بمنصّہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدِل ہوا خواہ سرکارہے اور باعث خوشنودی سرکار ہو لہٰذا بجلدوی اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو سو روپیہ کا سرکار آپ کا عطا ہوتا ہے اور حسب منشاء چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰ اگست ۱۸۵۸ء پر دانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و فاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے مرقوعہ تاریخ ۲۰ ستمبر ۱۸۵۸ء ‘‘
اور اسی بارے میں ایک مراسلہ سر رابرٹ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر بہادر کا میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر کے نام ہے جو کچھ عرصہ سے فوت ہو گئے ہیں اور وہ یہ ہے:-
’’ مشفق مہربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ‘ - آپ کا خط ۲ ماہ حال کا لکھا ہوا ملا حظہ حضور اینجانب میںگذرا - مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا- مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفا دار رئیس تھا- ہم آہ کے خاندانی لحاظ سے اسی طرح پر عزّت کر ینگے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی- ہم کسی کو اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا- المرقوم ۲۹ جون ۱۸۷۶ء ‘‘
اسی طرح اور بعض چٹھیات انگریزی اعلیٰ کر ہیں جن کو کئی مرتبہ شائع کر چکا ہوں چنانچہ وِنس صاحب کمشنر لاہور کی چٹھی مرقوعہ ۱۱ جون ۱۸۴۰ء میں میرے والد صاحب کو یہ لکھا ہے-
ہم بخوبی جانتے یہں کہ بلا شک آپ اور آپ کا خاندان ابتداء دخل حکومت سرکار انگریزی سے جاں نثار اور وفا کیش اور ثابت قدم رہے ہیں اور آپ کے حقوق واقعی قابل قدر ہیں اور آپ بہر نہج تسلّی رکھیں کہ سرکار انگریزی آپ کے حقوق اور آپ کے خاندانی خدمات کو ہر گز فراموش نہیں کرے گی- اور مناسب موقعوں پر آپ کے حقوق اور خدمات پر غور اور توجہ کی جائے گی-
اور سر یسپل گرفن صاحب نے اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہمارے خاندان کا ذکر کر کے میرے بھائی مرزا غلام احمد قادر کی خدمات کا خاص کر کے ذکر کیا ہے جو اُن سے تمو کے پُل پر باغیوں کی سرزنش کے لئے ظہور میں آئیں-
ان تمام تحریرات سے ثابت ہے کہ میرے والد صاحب اور میرا خاندان ابتداء سے سرکار انگریزی کے بدل و جان ہوا خواہ اور وفادار رہے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزّز افسروں نے مان لیا ہے کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیر خواہ سرکار انگریزی ہے- اور اس بات کے یاد دلانے کی ضرورت نہیںکہ میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی رئیسوں میں سے تھے کہ جو ہمیشہ گورنری دربار میں عزّت کے ساتھ بُلائے جاتے تھے ار تمام زندگی اُن کو گورنمنٹ عالیہ کی خیر خواہی میں بسر ہوئی-
(۲) دوسرا امر قابل گزارش یہ ہے کہ مَیں ابتدائے عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عُمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں میں گورنمنٹ انگلشیہ کی سچّی محبت اور خیر خواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور اُن کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دُور کروں جو اُن کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے رہ کتے ہیں- اور اس ارادہ ار قصد کی اوّل وجہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی کہ تا مَیں ان وحشیانہ خیالات کو سخت نفرت اور بیزاری سے دیکھوں جو بعض نادان مسلمانوں کے دلوں مین مخفی تھے جن کی وجہ سے وہ نہایت بیوقوفی سے اپنی گورنمنٹ محسنہ کے ساتھ ایسے طور سے صاف دل اور سچے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے جو صاف دلی اور خیر خواہی کی شرط ہے بلکہ بعض جاہل مُلّائوں کیکے ورغلانے کی وجہ سے شرائط اطاعت اور وفاداری کا پُورا جوش نہیں رکھتے تھے- سو میں نے نہ کسی بنائوٹ اور ریاکاری سے بلکہ محض اس اعتقاد کی تحریک سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں ہے بڑے زور سے بار بار اس بات کو مسلمانوں میں پھیلایا ہے کہ اُن گورنمنٹ برطانیہ کو جو درحقیقت اُن کی مُحسن ہے سچّی اطاعت اختیار کرنی چاہیے اور وفاداری کے ساتھ اُس کی شکر گزاری کرنی چاہیے ورنہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے- اور مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دل پرمیری تحریروں کا بہت اثر ہوا ہے اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہو گئی-
اور مَیں نے نہ صرف اسی قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچّی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسی کتابوں کے چھانپے اور شائع کرنے میں ہزار ہا روپیہ خرچ کیا گیا- مگر با ایں ہمہ میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا- کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ مَیں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا فرض سمجھا اور درحقیقت وجود سلطنت انگلشیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو مدّت دراز کی تکالیفات کے بعد ہم کو ملی اس لئے ہمارا فرض تھا کہ اُس نعمت کا بار بار اظہار کریں- ہمارا خاندان سکھّوں کے ایّام میں ایک سخت عذاب می تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صد ہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا- ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کااندیشہ تھا چہ جائیکہ اور رسوم عبادت آزادی سے بجا لا سکتے - پس یہ اس گورنمنت محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی اور خدا تعالیٰ نے ایک ابر رحمت کی طرح سے گورنمنٹ کو ہمارے آرام کے لئے بھیج دیا پھر کس قدر بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس نعمت کا شُکر بجا نہ لاویں - اس نعمت کو ہمارے آرام کے لئے بھیج دیا پھر قدر بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس نعمت کی شُکر بجا نہ لاویں- اس نعمت کی عظمت تو ہمارے دل اور جان اور رگ و ریشہ میں منقوش ہے اور ہمارے بزرگ ہمیشہ اس راہ میں اپنی جان دینے کے لئے طیار رہے- پھر نعوذ باللہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنے دلوں میں مفسدانہ ارادے رکھیں-ہمارے پاس تو وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے ہم اس آرام اور راحت کا ذکر کر سکیں جو اس گورنمنٹ سے ہم کو حاصل ہوئی ہماری تو یہی دُعا ہے کہ خدا اس گورنمنٹ محسنہ کو جزا خیر دے اور اس سے نیکی کرے جیسا کہ اس نے ہم سے نیکی کی- یہی وجہ ہے کہ میرا باپ اور میرا بھائی اور خود مین بھی رُوح کے جوش سے اس بات می مصروف رہے کہ اس گورنمنٹ کے فوائد اور احسانات کو عام لوگوں پر ظاہر کریں اور اس کی اطاعت کی فرضیّت کو دلوں میں جما دیں- اور یہی وجہ ہے کہ میں اٹھارہ برس سے ایسی کتابوں کی تالیف میں مشغول ہوں کہ جو مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی محبت اور اطاعت کی طرف مائل کر رہے ہیں گو اکثر طاہل مولوی ہماری اس طرز اور رفتار اور ان خیالات سے سخت ناراض ہیں اور اندر ہی اندر جلتے اور دانت پیستے ہیں- مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے بھی بے خبر ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص انسان کا شُکر ادا نہ کرے- وہ خدا کا شُکر ادا نہیں کرتا یعنے مُحسن کا شکر کرنا ایسا فرض ہے جیسا کہ خدا کا-
یہ تو ہمارا عقیدہ ہے مگر افسوس کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ اٹھارہ برس کی تالیفات کو جن میں سے بہت سی پُر زور تالیفات اطاعت گورنمنٹ کے بارے میں ہیں کبھی ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے توجہ نہیں دیکھا اور کئی مرتبہ میں نے یاد دلایا مگر اُس کا اثر محسوس نہیں ہوا- لہذا میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ مفصّلہ ذیل کتابوں اور اشتہاروں کو توجہ سے دیکھا جائے اور وہ مقامات پڑھے جائیں جن کے نمبر صفحات میں نے ذیل میں لکھ دیئے ہیں-
نمبر شمار
نام کتاب یا اشتہار
تاریخ طبع
نمبر صفات
۱
۲
۳
۴
۵
۶
۷
۸
۹
۱۰
۱۱
۱۲
۱۳
۱۴
۱۵
۱۶
براہین احمدیہ حصّہ سوم
براہین احمدیہ حصہ چہارم
نوٹس دربارہ توسیع دفعہ درکتاب آریہ دھرم
التماس دربارہ ایضاً ایضاً
درخواست دربارہ ایضاً ایضاً
خط دربارہ ایضاً
آئینہ کمالات اسلام
اعلان درکتاب نُور الحق
گورنمنٹ کی توجہ کے لائق
نور الحق حصّہ دوم
سرالخلافہ
اتمام الحجہ
حمامۃ البشریٰ
تحفہ قیصریہ
ست بچن
انجام آتھم
۱۸۸۲ء
۱۸۸۴ء
۲۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء
ایضاً
ایضاً
۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۵ء
فروری ۱۸۹۳ء
۱۳۱۱ھ
۱۲؍ستمبر۱۸۹۳ء
۱۳۱۱ھ
۱۳۱۲ھ
۱۳۱۱ھ
ایضاً
۲۵؍ مئی ۱۸۹۷ء
نومبر ۱۸۹۸ء
جنوری ۱۸۹۷ء
الف سے ب تک (شروع کتاب)
الف سے د تک ایضاً
۵۷ سے ۶۴ تک آخر کتاب
تمام اشتہار ہر چہار صفحہ آخرکتاب
۶۹ سے ۷۲ تک آخر کتاب
۱ سے ۸ تک تمام علیحدہ اشتہار
۱۷ سے ۲۰ تک اور ۱۱ھ سے ۲۸ھ تک
۲۳ سے ۵۴ تک
ا سے ع تک آخری کتاب
۴۹ سے ۵۰ تک
۷۱ سے ۷۳ تک
۲۵ سے ۲۷ تک
۳۹ سے ۴۲ تک
تمام کتاب
۱۵۳ سے ۱۵۴ تک اور ٹائیٹل پیچ
۲۸۳ سے ۲۸۴ تک آخر کتاب
نمبر شمار
نام کتاب یا اشتہار
تاریخ طبع
نمبر صفات
۱۷
۱۸
۱۹
۲۰
۲۱
۲۲
۲۳
۲۴
سراج منیر
تکمیل تبلیغ معہ شرائط بیعت
اشتہارقابل توجہ گورنمنٹ اور عام اطلاع کیلئے
اشتہار دربارہ سفیر سلطان رُوم
اشتہار جلسہ احباب بر حبشن حویلی بمقام قادیان
اشتہار جلسہ شکریہ حبشن جوبلی حضرت قیصرہ دام ظلّہا
اشتہار متعلق بزرگ اخبار چودھویں والہ
اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ معہ ترجمہ انگریزی
مئی ۱۸۹۷ء
۱۲؍جنوری ۱۸۹۹ء
۲۷؍ فروری ۱۸۹۵ء
۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
۲۳؍جون۱۸۹۷ء
۷؍جون۱۸۹۷ء
۲۵؍جون۱۸۹۷ء
۱۰؍دسمبر۱۸۹۴ء
صفحہ ۷۶
۲۸۳ سے ۲۸۴تک آخر کتاب
تمام اشتہار یکطرفہ
۱ سے ۳ تک
۱ سے ۴ تک
تمام اشتہار یک ورق
صفحہ ۱۰
تمام اشتہار ۱ سے ۷ تک
ان کتابوں کے دیکھنے کے بعد ہر ایک شخص اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ جو شخص برابر اٹھارہ برس سے ایسے جوش سے کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں گورنمنٹ انگلشیہ کی تائید میں ایسے پر زور مضمو ن لکھ رہا ہے اور اُن مضمونوں کو نہ صرف انگریزی عمل داری میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی شائع کر رہا ہے کیا اس کے حق میں یہ گمان ہو سلتاہے کہ وہ گورنمنٹ محسنہ کا خیرہ خواہ نہیں، گورنمنٹ متوجہ ہو کر سوچے کہ یہ مسلسل کارروائی جو مسلمانوں کو اطاعت گورنمنٹ برطانیہ پر آمادہ کرنے کے لئے برابر اٹھارہ برس سے ہو رہی ہے اور غیر ملکوں کے لوگوں کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کیسے امن اور آزادی سے زیر سایہ گورنمنٹ برطانیہ زندگی بسر کرتے ہیں -
یہ کارروائی اور کس غرض سے ہے اور غیر ملک کے لوگوں تک ایسی کتابیں اور ایسے اشتہارات کے پہنچانے سے کیا مدّعا تھا؟ گورنمنٹ تحقیق کرے کہ کیا یہ سچ نیہں کہ ہزاروں مسلمانوں نے جو مجھے کافر قرار دیا اور مجھے اور میری جماعت کو جو ایک گروہ کثیر پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہے- ہر ایک طور کی بد گوئی اور بد اندیشی سے ایذا دنیا اپنا فرض سمجھا- اس تکفیر اور ایذا کا ایک مخفی سبب یہ ہے کہ ان نادان مسلمانوں کو پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل و جان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکر گزاری کے لئے ہزار ہا اشتہارات شائع کئے گئے اور ایسی کتابیں بلاد عرب و شام وغیرہ تک پہنچائی گئیں؟ یہ باتیں بے ثبوت نہیں- اگر گورنمنٹ توجہ فرماوے تو نہایت بد یہی ثبوت میرے پاس ہیں- مَیں زور سے کہتا ہوں اور مَیں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میںاعلان دیتا ہوںکہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں گورنمنٹ کا اوّل درجہ کا وفادار اور جان نثار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں کوئی اصول گورنمنٹ کے لئے خطر ناک نہیں- ہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ میَں نے بہت سی مذہبی کتایں تالیف کر کے عملی طور پر اس بات کو بھی دکھلایا ہے کہ ہم لوگ سِکھّوں کے عہد میں کیسے مذہبی امور میں مجبور کئے گئے اور فرائض دعوت دین اور تائید اسلام سے روکے گئے تھے اور پھر اس گورنمنٹ مُحِسنہ کے وقت میں کسی قدر مذہبی آزادی بھی ہمیں حاصل ہوئی کہ ہم پادریوں کے مقابل پر جو گورنمنٹ کی قوم میں داخل ہیں پُورے زور سے اپنی حقانیت کے دلائل پیش کر سکتے ہیں- مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسی کتابوں کی تالیف سے جو پادریوں کے مذہب کے ردّ میں لکھی جاتی ہیں گورنمنٹ کے عادلانہ اصولوں کا اعلیٰ نمونہ لوگوں کو ملتا ہے اور غیر ملکوں کے لوگ خاص کر اسلامی بلاد کے نیک فطرت جب ایسی کتابوں کو دیکھتے ہیں جو ہمارے ملک سے اُن ملکوں میں جاتی ہیں تو اُن کو اس گورنمنٹ سے نہایت اُنس پیدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ گورنمنٹ درپردہ مسلمان ہے- اور اس طرح پر ہماری قلموں کے ذریعہ سے گورنمنٹ ہزاروں دلوں کو فتح کرتی جاتی ہے-
دیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتابیں درحقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ اُن کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض میں کسی قدر مہذّبانہ سختی استعمال نہ آتی تو بعض جاہل جو جلد تر بد گمانی کی طرف جُھک جاتے ہیں شاید خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے- مگر اب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اور بالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جوپادریوں کی سخت تحریروں سے پیدا ہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیرو کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اُٹھا سکتا ہے- پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں- غرض ہماری بالمقابل تحریروں سے گورنمنٹ کے پاک ارادوں اور نیک نیّتی کا لوگوں کو تجربہ ہو گیا- اور اب ہزار ہا آدمی انشراح صد ر سے اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ درحقیقت یہ اعلیٰ خوبی اس گورنمنٹ کو حاصل ہے کہ اُس نے مذہبی تحریرات میں پادریوں کا ذرہ پاس نہیں کیا اور اپنی رعایا کو حق آزادی برابر طور پر دیا ہے-
مگر تا ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ اس تدر آزادی کا بعض دلوں پر اچھا اثر محسوس نہیں ہوتا اور سخت الفاظ کی وجہ سے قوموں میں تفرقہ اور نفاق اور بُغض بڑھتا جاتا ہے- اور اخلاقی حالات پر بھی اس کا بڑا اثر ہوتا ہے- مثلاً حال میں جو اسی ۱۸۹۷ء میں پادری صاحبوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے ردّ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام یہ رکھا ہے- ’’ اُمہات المومنین یعنی دربار مصطفائی کے اسرار‘‘٭ وہ ایک تازہ زخم مسلمانوںکے دلوں کو پہنچانے والی ہے اور یہ نام ہی کافی ثبوت اس تازہ زخم کا ہے اور اس میں اشتعال دہی کے طور پر ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیںاور نہایت دلآزار کلمے استعمال کئے ہیں- مثلاً اس کے صفحہ ۸۰ سطر ۴۱ میں یہ عبارت ہے ’’ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے خدا پر بہتان باندھا زنا کیا اور اوس کو حکم خدا بتلایا‘‘ ایسے کلمات کس قد ر مسلمانوں کے دلوں کو دُکھائیں گے کہ اُن کے بزرک اور مقدّس نبی کو صاف اور صریح لفظوں میں زانی ٹھہرایااور پھر دل دُکھانے کے لئے ہزار کاپی اس کتاب کی مسلمانوں کی طرف سے مفت روانہ کی گئی ہے- چنانچہ آج ہی کی تاریخ جو ۱۵؍ فروری ۱۸۹۸ء ہے ایک جلد مجھ کو بھی بھیج دی ہے-٭ حالانکہ مَیں نے طلب نہیں کی اور اس کتاب میں یعنی صفحہ ۵ میں لکھ بھی دیا ہے کہ ’’اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں مفت بصیفہ ڈاک ایک ہزار مسلمانوں کی نذر کرتے ہیں‘‘ اب ظاہر ہے کہ جب ایک ہزار مسلمان کو خواہ نخواہ یہ کتاب بھیج کر اُن کا دل دُکھایا گیا تو کس قدر نقض امن کا اندیشہ ہو سکتا ہے- اور یہ پہلی تحریر ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پادری صاحبوں نے بار بار بہت ہی فتنہ انگیز تحریریں شائع کی ہیں اور بے خبر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے وہ کتابیں اکثر مسلمانوں میں تقسیم کی ہیں جن کا ایک ذخیرہ میرے پاس بھی موجود ہے جن میں ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بدکار ، زانی، شیطان، ڈاکو، لٹیرا، دغا باز، دجّال وغیرہ دلآزار ناموں سے یاد کیا ہے اور گو ہماری گورنمنٹ مُحسِنہ اس بات سے روکتی نہیں کہ مسلمان بالمقابل جواب دیں لیکن اسلام کا مذہب کا مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مقبول القوم نبی کو بُرا کہیں بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو پاک اعتقاد عام مسلمان رکھتے ہیں اور جس قدر محبت اور تعظیم سے اُن کو دیکھتے ہیں وہ ہماری گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ حالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرماوے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف اُن کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلّم کتابوں پر وارد نہ ہو سکے- اوراگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرماوے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے- مَیں دل سے چاہتا ہوں کہ مَیں یقینا جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مخالفانہ حملے روک دیئے جائیں- ہر ایک شخص صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے کا ذکر زبان پر نہ لاوے- اگر گورنمنٹ عالیہ میری اس درخواست کو منظور کرے تو مَیں یقینا کہتا ہوں کہ چند سال میں تمام قوموں کے کینے دُور ہو جائیں گے اور بجائے بُغض محبت پیدا ہو جائے گی- ورنہ کسی دوسرے قانون سے اگرچہ مجرموں سے تمام جیلخانے بھر جائیں مگر اس قانون کا اُن کی اخلاقی حالت پر نہایت ہی کم اثر پڑے گا-
(۳) تیسرا امر جو قابل گذارش ہے یہ ہے کہ مَیں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتاہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا مَیں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لئے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلحکاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی- جو ہدایتیں اس فرقہ کے لئے مَیں نے مرتب کی ہیں جن کو مَیں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مُرید کو دیا ہے کہ اُن کو اپنا دستور العمل رکھے- وہ ہدایتیں میرے اُس رسالہ میں مندرج ہیں جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مُریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت٭ ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی- ان ہدایتوں کو پڑھ کر اور ایسا ہی دوسری ہدایتوں کو دیکھ کر جو وقتاً فوقتاً چھپ کر مُریدوں میں شائع ہوتی ہیں گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ کیسے امن بخش اصولوں کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور کسی طرح بار بار اُن کو تاکیدیں کی گئی ہیں کہ وہ گورنمنٹ برطانیہ کے سچے خیر خواہ اور مطیع رہیں اور تمام بنی نوع کے ساتھ بلاامتیاز مذہب و ملّت کے انصاف اور رحم اور ہمدردی سے پیش آویں- یہ سچ ہے کہ مَیں کسی ایسے مہدی ہاشمی قرشی خونی کا قائل نہیں ہوں جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور زمین کو کفّار کے خون سے بھردے گا میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرہ موضوعات جانتا ہوں- ہاں مَیں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعود کا ادّعا کرتاہوں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہو گا اور نرمی صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچّے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے- میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں- اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مُرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے- مَیں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دُکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا- دُوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبّوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والے حضرت سیّدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یقین رکھنا- تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات خازیانہ اورجہاد اور جنگجویٔ کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا- چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنے گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا- پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دُنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دُنیا میں پھیلانا- یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے- اور میری جماعت جیسا کہ مَیں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر اُن میں سے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروّجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معزّز عہدوں پر سرافراز ہیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اوّل درجہ کے خیر خواہ پائے گی-
(۴) چوتھی گذارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر اُن میں سے سرکار انگریزی کے معزّز عہدوں پر ممتاز اور یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور یا وکلاء اور یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفاء ہیں جو کسی وقت سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں یا اب نوکری پر ہیں یا اُن کے اقارب اور رشتہ دار اور دوست ہیں جو اپنے بزرگ مخدوموں سے اثر پذیر ہیں اور یا سجادہ نشینان غریب طبع- غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں اور یا وہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں- ان کے علاوہ ایک بڑی تعدادعلماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جمادیئے ہیں- اور مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن میں سے اپنے چند مریدوں کے نام بطور نمونہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھ دوں-
(۵) میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں …… ہے کہ اگرچہ مَیں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو مَیں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اوراخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے کی ہیں عنایت خاص کا مستحق ہوں- لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالیہ کی توجہات پر چھوڑ کر بالفعل ضروری استغاثہ یہ ہے کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بعض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں- اس لئے اندیشہ ہے کہ اُن کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کروہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحو م کی جن کا تذکر ہ سرکاری چٹھیات اور سر لیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضایع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے- اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمربستہ ہو جاتے ہیں- صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خودکاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکّام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں- اور ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے- لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تا ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے- اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں-
(۱۸۴)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعتہ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کُرسی ملی؟
(راستی موجب رضائے خداست )
نہایت افسوس ہے کہ اس زمانہ کے بعض نام کے مولوی محض اپنی عزّت بنانے کے لئے یا کسی اور غرض نفسانی کی وجہ سے عمداً جھوٹ بولتے ہیں اور اس بد نمونہ سے عوام کو طرح طرح کے معاصی کی جرأت دیتے ہیں کیونکہ جُھوٹ بولنا اختیار کرے تو بتلائو کہ عوام پر اس کا کیا اثر ہو گا- ابھی کل کی بات ہے کہ بچارہ میاں شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی اشاعتہ السنہ کو بمقام بٹالہ کُرسی مانگنے سے کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے تین مرتبہ تین جھڑکیاں دیں اور کُرسی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ’’ بک بک مت کرو‘‘ اور ’’ سیدھا کھڑے ہو جائو‘ ‘ اوریہ بھی فرمایا کہ ’’ ہمارے پاس تمہارے کرسی ملنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں ‘‘ لیکن نہایت افسوس ہے کہ شیخ مذکور نے جا بجا کُرسی کے بارے میں جھوٹ بولا- کہیں تو یہ مشہور کیا کہ مجھے کُر سی ملی تھی اور کسی جگہ یہ کہا کہ کُرسی دیتے تھے مگر مَیں نے عمداً نہیں لی- اور کسی جگہ کیا کہ عدالت میں کُرسی کا ذکر ہی نہیں آیا چنانچہ آج میری طرف بھی اس مضمون کا ٭خط بھیجا ہے کہ گویا اوس کا کُرسی مانگنا اور کرسی نہ ملنا اور بجائے اس کے چند جھڑکیوں سے پیچھے ہٹانے جانا یہ باتیں غلط ہیں - ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ الکاذبین- ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات فی الوقعہ سچ ہے کہ شیخ مذکور نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرسے کرسی مانگی تھی- اور اس کا اصل سبب یہی تھا کہ مجھے اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے روبروئے کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر بے اختیاری کے عالم میں اپنی طمع خام کو ظاہر کیا اور نہ چاہا کہ میرا دشمن کرسی پر ہو اور مَیں زمین پر بیٹھوں- اس لئے بڑے جوش سے کچہری کے اندر داخل ہوے ہی کُرسی کی درخواست کی اور چونکہ عدالت میں نہ اُس کو اور نہ اُس کے باپ کو کُرسی ملتی تھی- اس لئے وہ درخواست زجر اور توبیخ کے ساتھ ردّ کی گئی- اور درحقیقت یہ سوال نہایت قابل شرم تھا کیونکہ سچ یہی ہے کہ نہ یہ شخص اور نہ اُس کا باپ رحیم بخش بھی رئیسان کُرسی نشین میں شمار کئے گئے- اور اگر یہ یا اس کا باپ کُرسی نشین تھے تو گویا سر لیپل گریفن نے بہت بڑی غلطی کی کہ جو اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان دونوں کا نام نہیں لکھا غضب کی بات ہے کہ کہلانا مولوی اور اس قدر فاش دروغگویٔ اور پھر آپ اپنے خط میں ٭ میں کُرسی نہ ملنے کا مجھے سے ثبوت مانگتے ہیں- گویا اپنی ذلّت کو کامل طور پر تمام لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں- اور اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کاذب نکلیں تو اپنے تئیں شکست یافتہ تصور کریں گے اور پھر کبھی ردّ و قدح نہیں کریں گے- افسوس کہ اس شخص کو جھوٹ بولتے ذرہ شرم نہیں آئی- جھوٹ کہ اکبر الکبائر اور تمام گناہوں کی ماں ہے کس طرح دلیری سے اس شخص نے اس پر زور دیا ہے- یہی دیانت اور امانت ان لوگوں کی ہے جس سے مجھے اور میری جماعت کو کافر ٹھہرایا اور دُنیا میں شور مچایا-
واضح رہے کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا کا گواہ کوئی ایک دو آدمی نہیں بلکہ اس وقت کہ کچہری کے اردگرد صد ہا آدمی موجود تھے جو کُرسی کے معاملہ کی اطلاع رکھتے ہیں- صاحب ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب بہادر خود اس بات کے گواہ ہیں جنہوں نے بار بار کہا کہ تجھے کُرسی نہیں ملے گی- بک بک مت کر اور پھر کپتان لیمارچنڈ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ کرسی مانگنے پر محمد حسین کو کیا جواب ملا تھا اور کیسی عزت کی گئی تھی- پھر منشی غلام حیدر خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ضلع جواب تحصیلدار ہیں اور مولوی فضل دین صاحب پلیڈر اور لالہ رام بھج دت صاحب وکیل اور ڈاکٹر کلارک صاحب جن کی طرف سے یہ حضرت گواہ ہو کر گئے تھے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تمام اردلی یہ سب میرے بیان مذکورہ بالا کے گواہ ہیں اور اگر کوئی شخص اُن میں سے محمد حسین کی حالت پر رحم کر کے اس کی پردہ پوشی بھی چاہے- مگر مَیں خوب جانتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات پر قسم نہیں کھا سکے گا کہ یہ واقعہ کُرسی نہ ملنے اور جھڑکیاں دینے کا جھوٹ ہے- مجھے حیرت پر حیرت آتی ہے کہ اس شخص کو کیا ہو گیا اور اس قدر گندے جھوٹ پر کیوں کمربستہ کی- ذرہ شرم نہیں کی کہ اس واقعہ کے تو صد ہا آدمی گواہ ہیں وہ کیا کہیں گے- اس طرح تو آئندہ مولویوں کا اعتبار اُٹھ جائے گا- اگر درحقیقت اس شیخ بٹالوی کو کُرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزازسے اپنے پاس اُن کو کُرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی اور دائیں طرف صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کی کُرسی تھی اور اسی طرح ایک کُرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا- اب دکھلانا چاہئیے کہ کون سی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے ملنے کُرسی بچھائی گئی تھی- سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے- اس شخص نے میری ذلّت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ کیا- خدا نے اُس کو عین عدالت میں ذلیل کیا- یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے- اگر اس بیان میں نعوذ باﷲ مَیں نے جھوٹ بولا ہے طریق تصفیہ دو ہیں- اوّل یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رُقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر میرے بیان کا انکار کیاہو اور جب ایسے حلفی رُقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے- مَیں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہو جائوں گا- مَیں ایسے شخص کے رقعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے کُرسی نہیں مانگی اور نہ اس کو کوئی جھڑکی ملی بلکہ عزّت کے ساتھ کُرسی پر بٹھایا گیا- شیخ مذکور ذخوب یاد رہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کرے گا او ر ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہو گا کہ کوئی شخص مذکورین میں سے اس کے دعویٰ باطل کی تائید میں قسم کھاوے- واقعات صحیحہ کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے- پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہو گا اور اگر شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلاتوقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہو گا کہ عدالت نے اس کو کُرسی دی اور میں نے بجائے کُرسی جھڑکیاں بیان کیں اور عدالت نے قبول کیا کہ وہ اور اس کا باپ کُرسی نشین رئیس ہیں اور مَیں نے اس کا انکار کیا اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں کُرسی ملی تھی اور کوئی جھڑکی نہیں ملی اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی کُرسی نہیں ملی بلکہ جھڑکیاں ملیں- اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں کُرسی ملتی تھی اور ضلع کے کُرسی نشینوں میں میرا نام بھی درج ہے اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے ان سب باتوں سے انکار کر کے خلاف واقعہ بیان کیا ہے- پھر عدالت خود تحقیقات کر لے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت کُرسی ملی تھی یا جھڑکیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم کر لیا جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے کُرسی نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیونکہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہیں جن میں کُرسی نشین رئیسوں کا نام درج ہوتا ہے- اگر شیخ مذکور نے ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریق اختیار نہ کیا تو پھر ناچار ہمارا یہی قول ہے کہ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین زیادہ کیا لکھیں-
اور یاد رہے کہ ہمیں بالطبع نفرت تھی- ایسے ایک شخص معاملہ میں قلم اُٹھائیں اور ذاتیات کے جھگڑوں میں اپنے تئیں ڈالیں اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی صرف اسی جھوٹ پر کفایت کرتا کہ مجالس میں ہمارا ذکر درمیان نہ لاتا اور صرف اپنی پردہ پوشی کے لئے کُرسی مانگنے کے معاملہ سے انکار کرتا رہتا تو ہمیں کچھ ضرورت نہ تھی کہ اصل حقیقت کو پبلک پر کھولتے- لیکن اس نے نہایت خیرگی اختیار کر کے ہر ایک مجلس میں ہماری تکذیب شروع کی اور سراسر افتراء سے میری نسبت ہر ایک جگہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ شخص کاذب ہے اور اس نے میرے پر کُرسی کے معاملہ میں جھوٹ باندھا ہے اور اس طرح پر عوام کے دلوں پر بُرا اثر ڈالنا چاہا- تب ہم نے اُس کے اس دروغ کو اکثر نادانوں کے دلوں پر مؤثر دیکھ کر محض حق کی حمایت میں یہ اشتہار لکھا تا بعض ناواقف ایک راستگو کو جُھوٹا سمجھ کر ہلاک نہ ہو جائیں اور تا اس کی یہ دجّالی تقریریں حقّانی سلسلہ کی رہزن نہ ہوں- غرض اسی ضرورت کی وجہ سے ہمیں اس کے اس مکروہ جُھوٹ کو کھولنا پڑا-
بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ وہ خط شیخ محمد بٹالوی کا میرے پاس موجود ہے جو آج یکم مارچ ۱۸۹۸ء کو بٹالہ سے اُس نے بھیجا ہے جس میں میرے بیان کُرسی نہ ملنے اور جھڑکی کھانے سے صاف انکار کیا ہے اور ایسا ہی اُن لوگوں کے خط بھی محفوظ ہیں- جن کے روبرو ئے طرح طرح کی دروغگویٔ سے اس واقعہ کو پوشیدہ کرنا چاہا ہے جیسا کہ اُوپر لکھا چکا ہوں- اور مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن معزّز گواہوں کے نام بھی اس جگہ درج کردوں- جنہوں نے واقعہ مذکورہ بالا بچشم خود دیکھا اور ریا عین موقعہ پر سُنا اور جو کچہری میں حاضر تھے اور وہ یہ ہیں -
(۱۸۵)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
جَلسۂ طَاعُونْ
چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ ایک جلسہ دربارہ ہدایات طاعون قادیان میں منعقد ہو اور اس جلسہ میں گورنمنٹ انگریزی کی ان ہدایتوں کے فوائد جو طاعون کے بارے میں اب تک شائع ہوئی ہیں اور طبی اور شرعی اُن فوائد کے جو اُن ہدایتوں کی مؤید ہیں اپنی جماعت کو سمجھائے جائیں اس لئے یہ اشتہار شائع کیاجاتا ہے کہ ہماری جماعت کے احباب حتی الوسع کوشش کریں کہ وہ اس جلسہ میں عید الضحٰی کے دن شامل ہو سکیں- اصل امر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس بات پر اطمینان نہیں ہے کہ ان ایّام گرمی میں طاعون کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ جیسا کہ پہلے اشتہار میں شائع کیا گیا ہے دو جاڑوں تک سخت اندیشہ ہے- لہٰذا یہ وقت ٹھیک وہ وقت ہے کہ ہماری جماعت بنی نوع کی سچّی ہمدردی اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کی ہدایتوں کی دل وجان سے پیروی کر کے اپنی نیک ذاتی اور نیک عملی اور خیر اندیشی کا نمونہ دکھاوے - اور نہ صرف یہ کہ خود ہدایات گورنمنٹ کے پابند ہوں بلکہ کوشش کریں کہ دوسرے بھی اُن ہدایتوں کی پیروی کریں اور بدبخت احمقوں کی طرح فتنہ انگیز نہ بنیں- افسوس ہمارے ملک میں یہ سخت جہالت ہے کہ لوگ مخالفت کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں- مثلاً اب گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے یہ ہدایتیں شائع ہوئیں کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ گھر خالی کر دیا جائے- اس پر بعض جاہلوں نے ناراضگی ظاہر کی- لیکن مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ کی طرف سے یہ حکم ہو تا کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ لوگ ہرگز اُس گھر کو خالی نہ کریں اور اسی میں رہیں تب بھی نادان لوگ اُس حکم کی مخالفت کرے اور دو تین واردات کے بعد اُس گھر سے نکلنا شروع کر دیتے- سچ تو یہ ہے کہ نادان انسان کسی پہلو سے خوش نہیں ہوتا- پس گورنمنٹ کو چاہئیے کہ نادانوں کے لئے بے جا واویلا سے اپنی سچّی خیر خواہی رعایا کو ہرگز نہ چھوڑے کہ یہ لوگ اُن بچوں کا حکم رکھتے ہیں کہ جو اپنی ماں کی کسی کارروائی کو پسند نہیں کر سکتے- ہاں ایسی ہمدردی کے موقعہ پر نہایت درجہ کی ضرورت ہے کہ ایسی حکمت عملی ہو جو رُعب بھی ہو اور نرمی بھی ہو اور نیز اس ملک میں رسوم پردہ داری کی غایت درجہ رعایت چاہئیے- اور اس مصیبت میں جو طاعون زدہ لوگوں اور اُن کے عزیزوں کو جو مشکلات اوقات بسر کے پیش آئیں شفقت پدری کی طرح حتی الوسع ان مشکلات کو آسان کرنا چاہئیے بہتر ہے کہ اس وقت سب لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا انجام بخیر ہو - والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبع ضیاء الاسلام پریس ۲۲؍ اپریل ۱۸۹۸ء
(یہ اشتہار ۲۶/۲۰ کے ایک صفحہ پر درج ہے-)
(۱۸۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
میموریل
بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر بالقابہ
یہ میموریل اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ایک کتاب امّہات المومنین نام ڈاکٹر احمد شاہ صاحب عیسائی کی طرف سے مطبع آر پی مشن پریس گوجرانوالہ میں چھپ کر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مصنّف نے ٹائٹل پیج کتاب پر لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی تحدّی اور ہزار روپیہ کے انعام کے وعدہ کے معاوضہ میں شائع کی گئی ہے- ‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل محرک اس کتاب کی تالیف کا محمد حسین مذکور ہے- چونکہ اس کتاب میں ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن کو کوئی مسلمان سُن کر رنج سے رُک نہیں سکتا- اس لئے لاہور کی انجمن حمایت اسلام نے اس بارے میں حضور گورنمنٹ میں میموریل روانہ کیا تا گورنمنٹ ایسی تحریر کی نسبت جس طرح مناسب سمجھے کاروائی کرے اور جس طرح چاہے کوئی تدبیر امن عمل میں لائے- مگر مَیں مَع اپنی کثیر اور مع دیگر معّزز مسلمانوں کے اس میموریل کا سخت مخالف ہوں- اور ہم سب لوگ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ کیوں ان انجمن کے ممبروں نے محض شتاب کاری سے یہ ٭کاروائی کی- اگرچہ یہ سچ ہے کہ کتاب اُمّہات المومنین کے مولّف نے نہایت ایسی سختی اور بد گوئی کے اپنے اعتراضات میں اسلام کے معتبر کتابوں کا حوالہ بھی نہیں دے سکا- مگر ہمیں ہر گز نہیں چاہیے- کہ بجائے اس کے کہ ایک خطا کار کو نرمی اور آہستگی سے سمجھا ویں- اور معقولیت کے ساتھ اس کتاب کا جواب لکھیں یہ حیلہ سوچیں کہ گورنمنت اس کتاب کو شائع ہونے سے روک لے تا اس طرح پر ہم فتح پا لیں کیونکہ یہ واقعی فتح نہیں ہے بلکہ ایسے حیلوں کی طرف ڈورنا ہمارے عجز اور درماندگی کی نشانی ہو گی اور ایک طور سے ہم جبر سے مُنہ بند کرنے والے ٹھہریں گے- اور گو گورنمنٹ کی حکومت سے چارہ جویٔ چاہی- اور وہ کام لیا جو مغلوب الغضب اورجواب سے عاجز آ جانے والے لوگ کیا کرتے ہیں- ہاں جواب دینے کے بعد ہم ادب کے ساتھ اپنی گورنمنت میں التماس کر سکتے ہیں کہ ہر ایک فریق اس پیرایہ کو جو حال میں اختیار کیا جاتا ہے- ترک کر کے تہذیب اور ادب اور نرمی سے باہر نہ جائے- مذہبی آزادی کا دروازہ کسی حد تک کھلا رہنا ضروری ہے تا مذہبی علوم اور معارف میں لوگ ترقی کریں اور چونکہ اس عالم کے بعد ایک اَور عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہیے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے اور اس طرح اپنے تیئں اور نیز بنی نوع کو نجات اخروی کے متعلق جہاں تک سمجھا سکتا ہے اپنی عقل کے مطابق فائدہ پہنچاوے- لہذا گورنمنٹ میںاس وقت ہماری یہ التماس ہے کہ جو انجمن حمایت اسلام لاہور نے میموریل گورنمنت میں اس بارے میں روانہ کیا ہے - وہ ہمارے مشورہ اور اجازت سے نہیں لکھا گیا بلکہ چند شتاب کاروں نے جلدی سے یہ جرأت کی ہے جو درحقیقت قابل اعتراض ہے- ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ہم تو جواب نہ دیں اور گورنمنٹ ہمارے لئے عیسائی صاحبوں سے کوئی باز پرس کرے یا اُن کتابوں کو تلف کرے بلکہ جواب ہمارے طرف آہستگی اور نرمی کے ساتھ اس کتاب کا ردّ شائع ہو گا تو خود وہ کتاب اپنی قبولیت اور وقعت سے گِر جائے گی اور اس طرح پر وہ خود تلف ہو جائے گی- اس لئے ہم بادب ملتمس ہیں کہ کیونکہ اگر ہم گورنمنٹ عالیہ سے یہ فائدہ اُٹھاویں کہ وہ کتابیں تلف کی جائیں یا کوئی انتظام ہو تو اس کے ساتھ ایک نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے کہ ہم اس صورت دین اسلام کو ایک عاجز اور فرع ماندہ دین قرار دیں گے جو معقولیت سے حملہ کرنے والوں کا جواب نہیں سے سکتا ہم گورنمنٹ کے ذریعہ سے اپنے انصاف کو پہنچ کر پھر کسی کتا ب کا ردّ لکھنا بھی شروع کردیں اور درحالت نہ لکھنے جواب کے اس کے فضول اعتراضات نا وقفوں کی نظر میں فیصلہ ناطق کی طرح سمجھے جائیں گے اور خیال کیا جائے گا کہ ہماری طاقت میں یہی تھا جو ہم نے کر لیا سو اس سے ہماری دینی عزّت کو اس سے بھی زیادہ ضرر پہنچتا ہے جو مخالف ٹھہرا کر اپنی کتاب کے ذریعہ سے پھر شائع کرنا نہایت نا معقول اور بیہودہ طریق ہو گا- اور ہم گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم درد ناک دل سے اُن تمام گندے اور سخت الفاظ پر صبر کر تے ہیں جو صاحب اُمہات المومنین نے استعمال کئے ہیں اور ہم اس مؤلف اور اس کے گروہ کوو ہر کسی قانونی مواخذہ کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے کہ ایہ امر اُن لوگوں سے بہت ہی بعید ہے جو واقعی نوع کا انسان کی ہمدردی اور سچی اصطلاح کے جوش کا دعویٰ رکھتے ہیں-
یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اگرچہ ہماری جماعت بعض امور میں دوسرے مسلمانوں سے ایک جُزیٔ اختلاف رکھتی ہے مگر اس مسئلہ میں کسی سمجھ دار مُسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے- ولا تجادلوا اھل الکتاب الّا بالّتی ھی احسن اور دوسری جگہ یہ حکم ہے کہ جاد لھم بالکمۃ المواعظۃ الحسنۃ اس کے معنی یہی ہیں کہ نیک طور پر وہ ایسے طور پر مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور پر پابند ہونا چاہیے کہ اُن کو فائدہ بخشے- لیکن یہ طریق کہ ہم گورنمنٹکی مدد سے یا نعوذ باللہ خود اشتعال ظاہر کریں ہر گز ہمارے اصل مقصود کو مفید نہیں ہے - یہ دنیاوی جنگ وجدل کے نمونے ہیں اور سچے مسلمان اور اسلامی طریقوں کے عارف ہر گز ان کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اُن سے وہ نتائع جو ہدایت بنی نوع کے لئے مفید ہیں پیدا نہیں ہو سکتے- چنانچہ حال میں پرچہ مخبر دکن میں جو مسلمانوں کا ایک اخبار ہے ماہ اپریل کے ایک پرچہ میں اسی بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ رسالہ اُمہات المومنین کے تلف کرنے یا روکنے کے لئے گورنمنٹ سے ہر گز التجا کرنی نہیں چاہیے کہ یہ دوسرے پیرایہ میں اپنے مذہب کی کمزوری کا اعتراف ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ اخبار مذکورہ اس کی رائے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی جس سے ہم کہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی یہی رائے ہے کہ اس طریق کی جس کا انجمن مذکور نے ارادہ کیا ہے ہر گز اختیار نہ کیا جائے کہ اس میں کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ ایک ذرّہ برابر بھی نہیں ہے- اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیّت کے طور پر حکم ہے کہ جس کو ترک کرنا سچے مسلمانوں کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ لتبلونّ فی اموالکم وانفسکم ولتسمعنّ من الّذین اوتو الکتاب من قبلکم و من الّذین اشرکو اذیٌ کثیرا- و ان تصبروا و تتّقو فانَ ذلک من عزم الامور - سورہ آل عمران ترجمہ ہے کہ خدا تمہارے مالوںاور جانوں پر بِلا بھیج کر تمہاری آزمایش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دُکھ دینے والی باتیں سُنو گے سو اگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچائو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں ٹھہرو گے- یہ مدنی سورۃ ہے اوریہ اس زمانہ کے لئے مسلمانوں کو وصیّت کی گئی ہ کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہو گا اور جو کوئی کچھ گوئی کرنا چاہے وہ کر سکے گا- جیسا کہ یہ زمانہ ہے - سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پُوری ہوئی- کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں اذًی کثیراً کا لفظ ایک عظیم الشّان ایذاء لسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیںاپنے مذہب تک ہی محدود تھیں- قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بد گوئی کا دروازہ کھلا جس کے اوّل بانی ہمارے ملک میں پادی فنڈل صاحب تھے -بہرحال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دلآزار کلمات سے دُکھ دیئے جائو اور گالیاں سُنو تو اس وقت صبر کور یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا- سو قرآنی پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدّس رسول کو جس ک اُمت سے ایک کثیر حصّہ دُنیاکا پُر ہے - عیسائی قوم جسیے لوگ جن کا تہذیب کا دعویٰ تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دُنیا کے سب بد تروںسے بد تر ٹھہراتے - بے شک یہ اُن لوگوں کے لئے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رُسول کی راہ میں فدا ہیں اور ایک دانشمند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلاًایسی کتاب اُمہات المومنین میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ زنا کار کے نام پکارا گیا ہے اور گندے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اورپھر عمداً ہزار کاپی کی محض دلوں کے دُکھانے کے لئے عا م اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر درد ناک زخم عام مسلمانوں کے پہنچے ہوں گے- اور کیا اُن کے دلوں کی حالت ہوئی ہو گی- اگرچہ بد گوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے- بلکہ ایسی تحریروں کی پادری صاحبوں کی طرف سے کروڑ ہاتک نوبت پہنچ گئی ہے- مگر یہ طریق دل دُکھانے کا ایک نیاطریق ہے کہ خواہ نخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتابیں پہنچائی گئیں- اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور اُٹھا ہے- باوجود اس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی پچیس سال کی مسلسل تحریریں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں- یہ توسب کچھ ہوا- مگر ہمیں تو آیت موصوفہ بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم ایسی بد زبانی کے کلمات سُنیں جس سے ہمارے دلوں کو دُکھ پہنچے تو ہم صبر کریں- اور کچھ شک نہیں کہ جلد تر حکام کو اس طرف متّوجہ کرنا یہ بھی ایک بے صبری کی قسم ہے اس لئے عقل مند اور دور اندیش مُسلمان ہر گز اس طریق کو پسند نہیں کرتے ک گورنمنٹ عالیہ تک اس بات کو پہنچایا جائے- ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میںیہ تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں- جیسا کہ وہ فرماتا ہے لا اکراہ فی الدین اور جیسا کہ فرماتا ہے کہ افانت تکرہ النّاس - لیکن اس قسم کے حیلے اکراہ اور جبر میں داخل ہیں جس سے اسلام جیسا پاک اور معقول مذہب بد نام ہو تا ہے-
غرض اس بارے میں مَیں اور میری جماعت اور تمام اہل علم اور صاحب تدبر مسلمانوں میں سے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کتاب اُمہات المومنین کی لغو گوئی کی یہ سزا نہیں ہے کہ ہم اپنی گورنمنٹ مُحسنہ کو دست اندازی کے لئے توجہ دلا دیں- گو خواہ دانا گورنمنٹ اپنے قوانین کے لحاظ سے جو چاہے کرے- مگر ہمارا صرف فرض ہونا چاہیے کہ ہم ایسے ایسے اعتراضات کا کہ جو درحقیقت نہایت نادا نی یا دھوکہ دہی کی اخلاق کی روشنی دکھلائیں- اسی غرض کی بناء پر یہ میموریل روانہ کیا گیا ہے - اور تمام جماعت ہماری معّزز مسلمانوں کی اسی پر متفق ہے-
۴ مئی ۱۸۹۸ء
الراقـــــــــــــــــــــــــم
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
(یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے چار صفحوں پر ہے مطبع کا نام درج نہیں- محمد اسمٰعیل پریس مین کا نام اس پر لکھا ہوا کہ)
( یہ اشتہار کتاب البریہ میںبھی مندرج ہے- (عبد اللطیف بہادلپوری )
(۱۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوِ لِہٖ الْکَرْیم
اپنی جماعت کو متبہ کرنے کے لیے ایک ضروری
اشتھار
میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میںبودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سُنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مُریدی کا رکھتے ہیں اس غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے- وہ پنجوقت نمازجماعت کے پابند ہوں - وہ جھوٹ نہ بولیں- وہ کسی انسان سے ایذاد نہ دیں- وہ کسی قسم کی بد کاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں- غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردانی اور نا گفتی اور تمام نفسانی جذبات اور بیحا حرکات ہے - مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل سے بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیںاور کوئی زہریلا خمر اُن کے وجود نہ رہے- گورنمنٹ برطانیہ جس کے اُن کے مال اور جائیں اور آبروئیں محفوظ ہیں بصدق دل اس کے وفا ور تابعدار رہیں اور تمام انسانوں کی ہمدردی اُن کا اُصول ہو- اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچا ویں ااور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعّدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں- اور اگر بعد میں ثابت ہو ک ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمدورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے پابند نہیں ہے یا اس گورنمنٹ مُحسِنہ کا خیر خواہ نہیں یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بیوجہ بد گوئی اور زباندارزی اور بد زبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دُور کرو- اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے- اور چاہے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا اردہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہیے کہ شریروں اور بد معاشوں اور مفسدوں اور بد چلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گذر نہ ہو- اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ رسکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے-
یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو مَیں ابتداء سے کہتا چلا آتا ہوں- میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ اُن تمام وصیّتوں کے کاربند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو- اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو- اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالواو ر صبر اور علہم سے کام لو اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات کو دبائے رکھو- اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جائو - اگر ہم ستائے جائو اور گالیاں دیئے جائو اور تمہارے حق میں بُرے بُرے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار ہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں خدا تعالیٰ چاہتا کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دُنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو- سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے - جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبابی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتاوہ جلد ہم سے جدا ہو جائے- کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناوہ بد بختی سے مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا- سو تم ہوشیار ہو جائو اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جائو- تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جائو گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا-
چاہے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بَری اور تمہاری آنکھیں نا پاکی سے منّزہ ہوں اور تمہارے اندر بُجز اور ہمدردیٔ خلائق کے اَور کچھ نہ ہو- میرے دوست جو میرے پاس قادیان میں رہتے ہیں مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے خلائق کے اَور کچھ نہ ہو- کہ وہ اپنے تمام انسانی قویٰ اور اعلیٰ نمونہ دکھائیں گے مَیں نہیں چاہتا کہ اس نیک جماعت میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل کر رہے جس کے حالات مشتبہ ہوں یا جس کے چال چلن پر کسی قسم کا اعتراض ہوسکے- یا اس کی طبیعت میں کسی قسم کی مفسدہ پردازی ہو یا کسی اَور قسم کی ناپاکی اس میں پائی جائے- لہٰذا ہم پر یہ واجب اور فرض ہوگا کہ اگر ہم - کسی کی نسبت کوئی شکایت سُنیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرائض کو عمداً ضائع کرتا ہے کسی ٹھٹھے اور بیہودگی کی مجلس میں بیٹھا ہے یا کسی اَور قسم کی بد چلنی اس میں ہے تو وہ فی الفور اپنی جماعت سے الگ کر دیا جائے گا- اور پھر وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے دوستوں سے ساتھ نہیں رہ سکے گا-
ابھی مَیں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سُنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ اُن کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اورحُقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیز گاری کے پاک اُصول پر قائم نہیں ہیں اس لئے میں نے بِلا توقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کو ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں- اگرچہ شرعی طور پر اُن پر کچھ ثابت نہ ہوا- لیکن اس کارروائی کے لئے اسی قدر کافی تھا کہ شکّی طور پر اُن کی نسبت شکایت ہوئی - مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر وہ راستبازی میں ایک روشن نمونہ دکھاتے تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اُن کے حق میں بول سکتا- مَیں یہ بھی ظاہر کرتا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ درحقیقت اُن لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے راستبازی کی تلاش میں ہماری ئمائیگی اختیار کی ہے- اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا ہے اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کو لائق ہوتی ہیں- ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہو سکتیء- اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل نہ ہیں اُن کے دل خد اتعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعاً بدی اور متفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے-
والسلام ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء
الرقـــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام داحمد از قادیان ضلع گورداسپور
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان )
یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ ۶ کے ایک صفحہ پر ہے-)
(۱۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوِ لِہٖ الْکَرْیم
اپنی جماعت کے لیے ضروری اشتہار
چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اُس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اُن باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز اُن کو اہل اقارب کے بعد اثر اور بد نتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے- یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصّب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں اُن کی محتاج نہیں- مال میں دولت میں عہم میں فضلیت میں خاندان میں پرہیز گاری میں خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماوت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی فرق نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت میں نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے اور ہمارا نام دجّال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخوان اور تابع ہیں-
یاد رہے کہ جو شخص کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہمارعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ انہیں ہو گا تب تک وہ ہم میں سے نہیں- سو تمام جماعت توجہ سے سُن لے کہ راست باز کے لئے شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے اس لئے مَیں نے انتظام کی اہے کہ آیندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں- اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لرکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز اُن کے اطمینان کے موافق لائق ہو- ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں اُن پر لازم ہو گا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں- اور ہر ایک کو تسلّی رکھنی چاہیے کہ ہم والدین کے سچّے ہمدرد اور غم خوار کی طرح تلاش کریں گے- اور حتیٰ الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں- اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں- یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتاً فوقتاً جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے- اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء بقید عمرو قومیّت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے- مندرجہ ذیل نمونہ کے لحاظ رہے
نام دختر یا پسر نام والد عمر دختر یا پسر
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷ جون ۱۸۹۸ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمعیل
(یہ اشتہار ۲۰ ۳۶کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۸۹)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
مردام ما نصیحت بود کریم
دوائے طاعُون
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک دوا علاج طاعون کے لئے بصرف مبلغ دو ہزار پانسو روپیہ طیار ہویٰ ہے٭-اور ساتھ کے ظاہر بدن پر مالش کرنے کے لئے مرہم عیسیٰ بھی بنائی گئی ہے یعنی وہ مرہم حو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی اُن چوٹوں کے لئے بنائی گئی تھی جبکہ نا اہل یہودیوں نے آپ کو صلیب پر کھینچا تھا-یہی مبارک مرہم چالیس دن برابر مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموںپر لگتی رہی اور اسی سے خدا تعالیٰ نے آپ کر شفا بخشی گویا دوبارہ زندگی ہوئی- یہ مرہم طاعون کے لئے بھی نہایت درجہ مفید ہے بلکہ طاعون کی تمام قسموں کے لئے فائدہ مند ہے- مناسب ہے کہ جب نعوذ باللہ بیماری طاعون نمودار ہو تو فی الفو اس مرہم کو لگا نا شروع کر دیں کایہ مادہ سمتی کی مدافعت کرتی ہے اور پھُنسی یا پھوڑے کو طیار کر کے ایسے طور سے پھوڑ دیتی ہے کہ اس کی سمیت دل کی طرف رجوع نہیں کرتی اور نہ بدن میں پھیلتی ہے- لیکن کھانے کی دوا جس کا نام ہم نے تریاق الہٰی رکھا ہے اس کے استعمال کا طریق یہ ہے کہ اوّل بقدر فلفل گرد کھانا شروع کریں اور پھر حسب برداشت مزاج بڑھاتے جائیں اور ڈیڑھ ماشہ تک بڑھا سکتے ہیں اوربچوں کے لئے جن کی عُمر دس برس سے کم ہے ایک یا ڈیڑھ رتی تک دی جا سکتی ہے اور طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے جب یہ دوا کھائیں تو مفصلہ ذیل دوائوں کے ساتھ اس کو کھانا چاہیے- کیمفر کو ۱۵ قطرہ، وائینم اپنی کاک ۹ قطرہ، سپرٹ کلورا فارم۱۵ قطرہ، عرق کیوڑہ ۵ تولہ، عرق سلطان الاشجار یعنے سرس ۵ تولہ باہم ملا کر تین چار تولہ پانی ڈال کر گولی کھانے کے بعد پی لیں- اور یہ خوراک اوّل حالت میں ہے ورنہ حسب برداشت کیمفر کو ساٹھ بوند تک اور وائینم اپی کاک چالیس بوند تک اور سپرٹ کلورافارم ساٹھ بوند تک اور عرق کیوڑہ بیس تولہ تک اور عرس سرس یعنی سلطان الا شجار پچیس تولہ ہر ایک شخص استعمال کر سکتا ہے - بلکہ مناسب ہے کہ وزن بیان کردہ کے اندر اندر حسب تجربہ تحمل طبیعت ان ادویہ کر بڑھاتے جائیں تا پورا وزن ہو کر جلد طبیعت میں اثر کرے مگر بچوں میں بلحاظ عمر کم مقدار دینا چاہیے - اور اگر تریاق الہٰی میسر نہ آسکے تو پھر عمدہ جدوار کو سرکہ میں پیس کر بقدر ساتھ رتی بڑوں کے لئے اور بقدر دو دو رتی چھوٹوں کے لئے گولیاں بنا لیںاور اس دوا کے ساتھ صبح شام کھا ویں- حتی المقدور ہر روز غسل کریں اور پوشاک بدلیں اور بدر رویں گندی نہ ہونے دیں اور مکان کی اُوپر چھت میں رہیں اور مکان صاف رکھیں اور خوشبو دار چیزیں عوو وغیرہ جلاتے رہیں اور کوشش کریں کہ مکانوں میں تاریکی اور حبس ہونہ ہو اگھر اوراس قدر ہجوم نہ ہو کہ بدنی عفونتوں کے پھیلنے کا احتمال ہو جہاں تک ممکن ہو گھروں مین لکڑی اور خوشبودار چیزیں بہت جلاویں- اور اس قدر گھر کو گرم رکھیں کہ گویا گرمی کے موسم سے مشابہ ہو اور گندھک بھی جلاویں اور گھر میں بہت کچے کوئلے اور چو نہ بھی رکھیں اور درد رنج ستربی کے ہار پرو کر دروازوں پر لٹکاویں- اور سب سے ضروری بات یہ کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں- دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مشغول ہو ں وَالسَّلام
المشتــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان تعداد ۲۰۰۰ محمد اسمٰعیل پر یسمن
(یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۹۰)
اشتہار واجب الاظہار متعلق کتب دفتر ضیا ء الاسلام
قادیان
چونکہ ہمار ے مطبع میں ہمیشہ نو تالیف کتابیں جو میری تالیفات میں سے ہیں چھپتی رہتی اس لئے یہ اندیشہ ہمیشہ وامنگیر رہتا ہے- کہ کوئی کتاب ہمارے شائع کرنے سے پہلے کسی اتفاق سے دفتر سے نکل جائے یا بطور خیانت کسی بیرونی آدمی کی چالاکی سے کسی کو پہنچ نہ جائے لہذا قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس اندیشہ کے دُور کرنے کے لئے کوئی احسن انتظام کیا جائے اس لئے عام طور پر اطلاع دی جاتی ہے کہ کوئی کتاب جب تک کہ اس پر مُہر اور میرے دستخط موجود نہ ہوں جائز طور پر شائع کردہ نہ سمجھی جائے- بلکہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس کتاب ہر صرف مُہر ہو اور میرے دستخط ساتھ نہ ہوں- اور بھی مسروقہ ہے اور جس پر مُہر اور میرے خاص دستخط دونوں موجود ہوں وہ کتاب مسروقہ نہیں ہے- اور جس پر نہ مُہر اور نہ دستخط ہو وہاس انتظام سے پہلے کی ہے اور بہرحال اُس کو جائز طور پر شائع شدہ سمجھنا چاہئے اور یہ انتظام آیندہ کے لئے ہے کیونکہ اب دفتر کی تمام موجود کتابوں پر مُہر لگا دی گئی ہے اور دستخط نہیں کئے- آیندہ ہر ایک کتاب جوجائز طور پر ہماری مرضی اور اجازت سے کسی طرف روانہ ہو گی وہ کتاب اگر کسی اور کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھاجائے گااور مُہر میں یہ الفاظ ہوں گے- ( الیس اللہ بکافٍ عبدہ ) اور دستخط میں ہمارا نام مع تاریخ ہو گا- اور اب جو چند کتابیں جیسے کتاب ایّام صلح اور ازالہ اوہام فارسی اور کتاب ترغیب المومنین اور کتاب فریادرد کتاب نجم الہُدیٰ زیر تالیف ہیں- یہ ابھی تک شائع نہیں ہوئیں- جب یہ شائع ہوں گی تو دستخط اور مُہر کے ساتھ شائع کی جائیں گی - اور اُن کتابوں میں سے جو کتاب بغیر دستخط اور مُہر کے کسی کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھنا چاہیے- اور ایسا آیندہ جو کتاب اگست ۱۸۹۸ء کے بعد کی نئی تصنیف نکلے اس کے لئے بھی یہی قاعدہ تصور کرنا چاہیے یعنی مُہر اور دستخط دونوں کا ہونا ضروری ہو گااور جس کتاب پر جو اس تاریخ سے بعد کی تالیف ہو مُہر اور دستخط دونوں نہ ہوں گے یا اُن میں سے صرف مُہر ہی ہو گی تو وہ بہرحال مسروقہ قرار دی جائے گی- یا د رہے کہ مُہر اور دستخط پہلے صفحہ پر ہوں گے جہاں سے مضمون شروع ہوتا ہے-
المشتھـــــــــــــــــــــــر
مرزا غلام احمد از قادیان
تعداد ۷۰۰ ۲۰ ستمبر ۱۸۹۸ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمعیل
(یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۱۹۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
رَ حِمَ اللہْ عَبْدًا سَمِعَ کَلَامَنَا
خدا اُس پر رحم کرے جو ہماری بات کو سُنے
ہماری جماعت میں ہمارے ایک دوست ہیں نوجواب اور نوعمر اور خوش شکل اور قوی اور پُورے تندرست - قریباً بائیس تیئس برس کی اُن کی عُمر ہو گی- اور جہاں تک مَیں نے اُن کے حالات میں غور کیا ہے مَیں انہیں ایک جواب صالح اور مہذب نیک مزاج اور خوش خلق اور غریب طبع اور نیک چلن اور دیندار اور پرہیزگار خیال کرتا ہوں- واللہ سٰعیبہ - ماسوا اس کے وہ ایک ہونہار جوان ہیں- تعلیم تافتہ جو ایم اے درجہ حاصل کر چکے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب وہ کسی معزز عہدہ اکسٹرااسسٹنٹی وغیرہ کے مستحق ہیں - اُن کو اپنی شادی کے لئے ایک ایسے رشتہ کی ضرورت ہے - جہاں بہیودہ رسوم اور اسراف نہ ہو- اور لڑکی میں عقل اور شکل اور نیک چلنی اور کسی قدر نوشت خواند کی ضروری شرطیں پائی جائیں-
میری رائے میں اس لڑکی کی بڑی خوش نصیبی ہو گی جو ایسے جوان صالح ہونہار کے گھر میں آئے- مَیں بہت خوش ہوں گا اگر کوئی شخص میرے دوستوں اور میری جماعت میں سے صفات مذکورہ کے ساتھ اپنی لڑکی رکھتا ہوں اور اس تعلق کو قوبل کرے- مجھے اس جواب ایم سے پر نہایت نیک ظن ہے- اور مَیں گمان کرتا ہوں کہ یہ رشتہ مبارک ہو گا یہ تمام خط وکتابت مجھ سے کرنی چاہیے مگر اس صورت میں جبکہ پختہ ارادہ ہو- اور نیز بات فی الواقع شرائط کے موافق ہو تا کہ میرا وقت ضائع نہ ہو- والسّلالم ۲۷ اکتوبر ۱۸۹۸ء
المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبع ضیاء الاسلام قادیان اسمٰعیل
(یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۱۹۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
رَبنا افتح بیننا و بین قومنا بالحقّ وانت خیر الفاتحین اٰمین
ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں اور مبارک وہ جو خدا کے فیصلہ کو عزت کی نظر سے دیکھیں
جن لوگوں نے شیخ محمد حسین بٹالوی چند سال کے پرچہ اشاعت السّنہ دیکھے ہوں گے وہ اگر چاہیں تو محض للہ گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس راقم کی تحقیر اور توہین اور دشنام وہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی- ایک وہ زمانہ تھا- جو اُن کا پرچہ اشاعتہ السنہ کف لسنان اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے طریق کا موید تھا اور کفر کے ننانوے وجوہ کو ایک ایمان کی وجہ پائے جانے سے کالعدم قرار دیتا تھا اور آج وہی پرچہ ہے جو ایسے شخص کو کافر اور دجّال قرار دے رہا ہے جو کلمّہ طیبہ لَا الٰہ اللہ محمّد رسول اللہ کا قائل اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء سمجھتا اور تمام ارکان اسلام پر ایمان لاتا ہے اور اہل قبلہ میں سے ہے - اور ان کلمات کو سُن کر شیخ صاحب اور اُن کے ہم زبان یہ جواب دیتے ہیں کہ تم لوگ دراصل کافر اور منکر اسلام اور دہریہ ہو صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنا اسلام ظاہر کرتے ہو- گویا شیخ صاحب اور اُن کے دوستوں نے ہمارے سینوں کو چاک کر کے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے اندر کُفر بھرا ہے- خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی تائید میں اپنے نشان بھی دکھلائے مگر وہ نشان بھی حقارت اور بے عزتی کی نظر سے دیکھے گئے اور کچھ بھی ان نشانوں سے شیخ محمد حسین اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ سختی اور بد زبانی روز بروز بڑھتی گئی- چنانچہ ان دنوں میں میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ مسلمانوں میں آپ کے فتویٰ کفر کی وجہ سے روز بروز تفرقہ بڑھتا جاتا ہے- اور اب اس بات سے نو میدی کلّی ہے کہ آپ مباحثات سے کسی بات کو مان لیں اور نہ ہم آپ کی بے ثبوت باتوں کا مان سکتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ آپ مباہلہ کر کے تصفیہ کر لیں- کیونکہ جبح کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مباہلہ اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے اور یہ شرط الہام کی بناء پر ہے لیکن تا ہم آپ کو اختیار ہے کہ اپنے مباہلہ کا اثر تین دن یاایک دم ہی رہنے دیں کیونکہ مباہلہ دونوں جانب کی *** اور بد دُعا کا نام ہے- آپ (…) بد دُعا کے اثر کی مدّت قرار دینے میں اختیار رکھتے ہیں- ہماری بد دُعا کے اثر کا وقت ٹھہرانا آپ کا اختیار نہیںہے- یہ کام ہمارا ہے کہ وقت ٹھہرا دیں اس لئے آپ کو ضِد نہیں کرنی چاہیے- آپ اشاعتہ السنہ نمبر ۱۱ جلد ۷ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ شخص ملہم جہاں تک شریعت کی سخت مخالفت پیدا نہ ہواپنے الہام کی متابعت ضرور ی ہے لہٰذا ایک سال کی شرط جو الہام کی بناء پر ہے اس وجہ سے ردّ نہیں ہو سکتی کہ حدیث میں ایک سال کی شرط بصراحت موجود نہیں- کیونکہ اوّل تو حدیث مباہلہ میں ایک سال کا لفظ موجود ہے اور اس سے انکار دیانت کے برخلاف ہے کے برخلاف ہے- پھر اگر فرض کے طور پر حدیث میں سال کا لفظ موجود بھی نہ ہوتا تو چونکہ حدیث میں ایسا لفظ بھی موجود نہیں جو سال کی شرط کی حرام اور ممنوع ٹھیراتا ہو اس لئے آپ ہی حرام اور ناجائز قرار دے دینا امانت سے بعید ہے - اگر خدا تعالیٰ کی عادت فوری عذاب تھا تو قرآن شریف میں یا تعلیم رسُول صلے اللہ علیہ وسلم میںاُس کی تصریح ہونی چاہیے تھی لیکن تصریح تو کیا اس کے بر خلاف عملدر آمد پایا گیا ہے - دیکھو مکّہ والوں کے عذاب کے لئے ایک برس کا وعدہ دیا گیا تھا اور یونسؓ کی قوم کے عذاب کے لئے چالیس دن مقرر ہوئے تھے بلکہ خد ا تعالیٰ کی کتابوں میں بعض عذابوں کی پیشگوئی صد ہا برس کے وعدوں ہر کی گئی ہے- پھر خواہ نخواہ کچّے اور بیہودہ بہانے کر کے اور سراسر بد دیانتی کو شیوہ ٹھہرا کر طریق فیصلہ سے گریز کرنا اُن علماء کا کام نہیں ہو سکتا جو دیانت اور امانت اور پرہیز گاری کا دم مارتے ہوں - اگر ایک شخص درحقیقت مفتری اور جھوٹا ہے تو خواہ مباہلہ ایک سال کی شرط پر ہو خواہ دس سال کی شرط پر افتراء کرنے والا کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتا-
غرض نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس درخواست مُباہلہ کو جو نہایت نیّتی سے کی گئی تھی محمد حسین نے قبول نہیں کیا اوریہ عذر کی کہ تین دن تک مہلت اثر مباہلہ ہم قبول کر سکتے ہیں زیادہ نہیں٭ حالانکہ حدیث شریف میں سال کا لفظ تو ہے مگر تین دن کا نام و نشان نہیں اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حدیث میں جیسا کہ تین دن کی کہیں تحدید نہیں- ایسا ہی ایک سال کی بھی نہیں تا ہم ایک شخص جو الہام کا دعویٰ کر کے ایک سال کی شرط پیش کرتا ہے علماء اُمّت کا حق ہے کہ اُس پر حجّت پُوری کرنے کے لئے ایک سال ہی منظور کرلیں- اس مین تو حمایت شریعت ہے تا مدّعی کو آیندہ کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے - ’’ خدا لکھ چکا ہے کہ مَیں اور میرے نبی اور میرے پر ایمان لانے والے غالب رہیں گے-‘‘ سو شیخ محمد حسین نے باوجود بانی تکفیرہونے کے اس راہ راست پر قدم مارنا نہیں چاہا اور بجائے اس کے نیک نیتّی سے مباہلہ کے میدان میںآتا یہ طریق اختیار کیا ایک گندہ اور گالیوں سے پُر اشتہار لکھ کر محمد بخش جعفر زٹلی اور ابولحسن تبتی کے نام سے چھپوا دیا-
اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے - اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے- اور وُہ جو مَیں نے کی ہے یہ کہ اے میر ے ذولجلال پروردگار اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعہ السُّنہ میں بار بار مجھ کو کذّاب اور دجّال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اُس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی نے اس اشتہار میں جو ۱۰ نومبر ۱۸۸۹ء تک چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی وقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تو اسے میرے مولیٰ اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیلہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر ینی پندرہ دسمبر جنوری ۱۹۰۰ء تک ذلّت کی مار وارد کر اور ان لوگوں کی عزّت اوروجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما- لیکن اگر اے میرے آقا میرے مولیٰ میرے منعم میری اُن نعمتوںکے دینے والے جو تو جانتا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ تیری جناب میں میری کچھ عزّت ہے تو مَیںعاجزی سے دُعا کرتا ہوں کہ ان ٭تیرہ (۱۳) مہینوں مین جو ۱۵ دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء تک شمار کیے جائیں گے شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی ا ور تبتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلّت کی مار سے دُنیا میں رُسوا رک غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں سچّے اور متقی اورپرہیز گار اور مَیں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلّت کی مار سے تبارہ کر اور اگر تیری جنابمیں مجھے وجاہت اورعزّت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہرکہ ان تینوں کو رُسوا اور ضُربت علیھم الذلۃ کا مصداق کر - آمین ثم آمین -
یہ دُ عا تھی جو مَیں نے کی- اس کے جواب میں الہام ہوا کہ مَیں ظالم کو ذلیل اور رُسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا٭ اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں- انّ الّذین یصدّون عن سبیل اللہ سینا لھم ٖغضب مّن ربّھم - ضرب اﷲ اشد من ضرب الناس- انّما امر نا ازا اردنا شیئاً اَن نقول لہ کن فیکون- أتعجب لا مری- انّی مع العُشَّاق- انّین انا الرحمٰن والمجد والعلیٰ - ویعض الظالم علیٰ یدیۃ- و یُطْرَ ح بین یدی- جزاء سیّۃ بمثلھا- و تر ھقھم ذلہ- مالھم من اﷲمن عاصم الصبر حتیٰ یا تی اﷲ بامرہ انّ ﷲ مع الّذین اتقوا والّذین ھم الحسنون-
یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مولوی ابو الحسن تبّتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں- ان میں سے جو کاذب ہے وہ ذلیل ہو گا- یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بناء پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے کھلا کھلا نشان ہو کر ہدایت کی راہ اُن پر کھولے گا-٭
اب ہم ذیل میں شیخ محمد حسین کا وہ اشتہار رلکھتے ہیں جو جعفر ززٹلی اور ابوالحسن تبتی کے نام ہر شائع کیا گیا ہے تا خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے وقت دونوں اشتہارات کے پڑھنے سے حق کے طالب عبرت اور نصیت پکڑ سکیں- اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہی کہ جو لوگ سچّے کی ذلّت کے لیے بد زبانی کر رہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں خدا اُن کو ذلیل کرے گا- اور میعاد پندرہ دن دسمبر۱۸۹۸ء سے تیرہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور ۱۴ دسمبر ۱۸۹۸ء تک جو دن ہیں وہ توبہ اور رجوع کے لئے مُہلت ہے- فقط
۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
مطبوعہ ضیاء لاسلام پریس قادیان تعداد ۱۴۰۰
نقل کفر کر نباشد
الامر فوق الادب
راقم کاتب
نقل مطابق اصل
’’ سچے اور قطی فیصلہ کی صورت صواب ‘‘
’’ دجّال کا دیانی کے اشتہار مباہلہ کا جواب‘‘
’’ دجّال کادیانی کو ڈگلس بہادر ڈپٹی کمشنرگورداسپور نے دبایا ٭اور اس سے عہد لے لیا کہ آئیندہ دل آزار الفاظ کو بند رکھے ( چنانچہ اشاعتہ السّنہ نمبر ۹ جدل ۱۸ کے صفحہ ۲۰۹ میں تفصیل بیان ہوا ہے ) اور اس وجہ سے اس کو مجبوراً الہام کے ذریعہ لوگوں کو دل آزاری سے زبان کو بند کرنا پڑا-اور الہامی گولے چلانا یا یوں کہو کہ گوز چھوڑنا ترک کرنا ضروری ہوا اور پھر الہامی دلآزاری کے سوا س کا کام بند ہونے لگا اور اس کی دُکانداری میں نقصان واقع ہوا تو یہ کام اُس نے اپنے نائبین (…) کے ذریعہ شروع کر دیا- تب سے وہ کام اُس کے نائب کر رہے ہیں اور اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے لوگوں کی دل آزاری میں مصروف ہیں- از انجملہ بعض کا ذکر اشاعتہ السنّہ نمبر ۲ جلد نمبر ۱۹ وغیرہ میں ہوا ہے و ازانجملہ بعض کا ذکر ذیل میں ہوتا ہے کہ اس کے چند نائبین…… لاہور و لدھیانہ و پٹیالہ و شملہ نے مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب نے نام اس مضمون کے اشتہار جاری کئے ہیں کہ وہ بمقام بٹالہ کادیانی کے ساتح مباہلہی کرلیں- اور اس مباہلہ کا اثر ظاہر نہ ہونے کی صورت میں آٹھ سو پچیس روپیہ ( جس کو وہ ان چاروں مواضع سے جمع کر کے پیش کریں گے )انعام لیں- اس کے ساتھ ان لوگوں کے دل کھول کر آزاری و بد گوئی سے اپنے دلوں کا ارمان نکال لیا اور کادیانی کی نیابت اشاعتہ السنہ نمبر ۸ و ۱۲ جلد ۱۵ کے صفحہ ۱۶۶، ۱۸۸، ۳۱۳ اور نمبر ۲ جلد ۱۸ کے صفحہ ۸۶ اور دیگر مقامات میں کاریانی سے مباہلہ کے لئے مستعدی ظاہر کر چکے ہیں اور اس سے گریز انکار اسی کادیانی بدکار کی طرف سے ہوا نہ مولانا موصوف کی طرف سے- پھر یہ لوگ کس مُنہ سے مولانا مولوی صاحب کو مُباہلہ کے لئے بُلاتے ہیں اور شرم حیا سے کچھ کام نہیں لیتے- اسی وجہ سے مولوی صاحب کو مباہلہ کے لئے بُلاتے ہیں اور شرم و حیا سے کچھ کام نہیں لیتے اسی وجہ سے مولوی صاحب ان مجاہیل کی فضول لاف و گذاف کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اُن لوگوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے البتہ اُن کے مرشد وجّال اکبر اکذاب العصرسے مباہلہ کرنے کے لئے ہر وقت بغیر کسی شرط کے مستعد و تیار ہیں- اگر کادیانی اپنی طرف سے دعوت مباہلہ کا اشتہار دے یا کم سے کم یہ مشتہر کر دے کہ اُس میں مولوی صاحب ممدوح اپنی طرف سے کوئی شرط پیش نہیں کرتے صرف کادیانی کی شروط و میعاد ایک سال کو اُڑا کر یہ چاہتے ہیں کہ اتر مباہلہ سی مجلس میں ظاہر ہو یا زیادہ سے زیادہ تین روز ٭میں ( جو عبد اللہ آتھم کے مباہلہ و قسم کے لئے اس نے تسلیم کئے تھے اور قبل ا ز مباہلہ کادیانی اس اثر کی تعیین بھی کر دے کہ وہ کیا وہ گا- اس کی وجہ و لیل بتفصیل مع حوالہ حدیث و تفسیر وہ اشاعتہ السنّہ نمبر ۸ جدل۱۵ کے صفحہ ۱۷۱ و غیرہ اور نمبر ۳ جلد ۱۸ کے صفحہ ۵۶ میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ معیاد ایک سال کی خلافت سُنت ٭ ہے اور اس میں کادیانی کی حیلہ سازی و فریب بازی کی بڑی گنجائیش ہے اور درصورت نہ ہونے ظاہر اثر مباہلہ کے مولوی صاحب کچھ نقد انعام نہیں لینا چاہیتے- صرف وہی سزا تجویز کی تھی کہ اس کامنہ ٭ کالا کیا جاوے اس کو ذلیل کیا جاوے ( دیکھو جنگ مقدس میں آخری پرچہ قادیانی کا صفحہ اخیر ) ]س ہم کو یہ شرط منظور ہے لیکں اس رُو سیاہی کے بعد اس کو گدھے پر سوا ر کر کے کوچہ بکوچہ ان چاروںشہروں میںپھرایا جاوے اور بجائے دینے کے جرمانہ یا انعام آٹھ سو پچس جوتے ……… حضرت اقدس کے سر مبارک پر رسید ہوں جن کو اُنھیںچوروں مواضح کے مرید … آپ کا جلوس نکلے اور اور آگے آگے آپ کے مخلص مرید بطور مرثیہ خوانی یہ مصراع پڑھتے جاویں- چرکارے کند عاقل کہ باز آید٭ پشیمانی اور یہ شعر صائب کا بنمائے بہ صاحب نظرے گوہر خودرا -
عیسیٰ نتواں گشت بہ تصدیق خر ے چند اور یہ رُباعی
مُرسل یزدانی و عیسٰی نبی اللہ شدی- بازی گوئی کہ دجالت نخوائے اے حمار - کفشہار بر سر خوری از افترائے ناسزا- رویہ گشتی میان مردم قرب جوار اور یہ بیت اردو اُڑاتا خاک سر پر جھومتا مستانہ آتا ہے- یہ کھاتا جوتیاں سر پر ما دیوانہ آتا ہے-
راقم سید ابو الحسن تبتی حال وارد کوہ شملہ- سنجولی ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۸ء
’’ضروری نوٹ (یادداشتیں)‘‘
’’ (۱)…… نائعبین دجّال اکبر کا دیانی لعین نے جو اشتہاروں میں لکھا ہے کہ نام مولوی عبد القادر لودہانوی صاحب موصوف کا ہم مکتب ہے یہ محض دروغ ہے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بد نصیب بمقام ہندلہ( جبکہ ہم مولوی نور الحسن مرحوم سے شمس باز عہ پڑھتے تھے ہم سے شرح ملّا پڑھتا تھا- اب وہ ہمارا ہم مکتب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس پر فخر کر رہا ہے کیوں نہ ہو- یہ قدیم سے ہوتا چلا آیا ہے جس کی شکایت اس شعر میں ہے ؎
کس نیا موخت علم تیرا زمن
کہ مرا عاقبت نشانہ نکرو‘‘
’’(۲)یہ بھی مُریدان دجّال نے مشتہر کیا ہے عبد القادر نے قلمی خط مولوی صاحب کے پاس بھیجا ہے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بھی محض کذب ہے لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین ہم کو عبد القادر کا کوئی خط نہیں پہنچا- قلمی خط تو یکطرف رہا کوئی مطبوعہ پرچہ اخبار الحکم جس میں اس کا یہ خط درج ہوا ہے یاکوئی اشتہار لاہور یا شملہ وغیرہ سے بھی اس مضمون کا دیانی کا دیانی یا اس کے اتباع کا مُرسلہ ہم کو نہیں پہنچا- بہت مشکل اور تلاش سے ہم نے ایک مدرس سکول بٹالہ سے اخبار کا پرچہ مستعار لے کر شیخ فتح محمد اہل حدیث گجرات کی قلم سے وہ خط نقل کرایا اور اشتہار اہل شملہ ہم نے شملہ کے ایک کلرک آب وہوا سے نتقاضا وصول کیا- اور اس دجّال کے چیلوں کی قدیم عادت ہے کہ جو مضمون جواب طلب وہ چھاپتے ہیں اس کی کاپی ہماری طرف نہیں بھیجتے- ‘‘
’’(۳) عربی نویسی میں دجّال کادیانی کا مقابلہ کرنے سے گریز یا اعراض کو جو اِن نائبین دجّال نے مولو ی صاحب موصوف کی طرف منسوب کیا ہے اس میں بھی ان گمناموں نے دجّال اکبر کی سُنت پر عمل کیا ہے- مولوی صاحب موصوف اپنے رسالہ اشاعتہ السنّہ نمبر ۸ جلد ۱۸ کے صفحہ ۱۸۹ میں کادیانی کو عربی میں مقابلہ کے لئے للکار چکے ہیں پھر نمبر ۱۲ جلد ۱۵ میں کادیانی کی عربی نویسی کا اچھی طرح بخیہ ادھیڑ چکے ہیں- مگر اس گروہ بے شکوہ نے شرم و حیا کو نصیب اعداد سمجھے کر ان دعاوی ان بابطلہ واغلیط عاطلہ کادیانی کا اعادہ کر کے گڑے مُردے اُکھاڑنے کو عمل میں لا کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہے- ان میں ذرہ شرم ہوتی تو وہ اشاعتہ السنّہ کے ان مقامات کو پڑھ کر ڈوب کر مَر جاتے اور پھر عربی نویسی کا دعویٰ زبان پر نہ لائے- مگر یہاں شرم کہاں- ان کا تو یہ مقولہ ہے کہ شرم جہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید‘‘
’’ (۴)کادیانی کا مستجاب الدعوات ہونے کا جو اُن شیخ چلی کے شاگردوں نے دعویٰ کر کے جلد ۱۴ مولوی صاحب سے مقابلہ چاہا ہے اس کا جواب مولوی صاحب اشاعتہ السنہّ نمبر جلد ۱۴ میں ۱۸۹۱ء اور نمبر ۱ جلد۱۶ بابت ۱۸۹۵ء کے صفحہ ۱۴۵ وغیرہ میں دے چکے ہیں مگر ان حیا کے دشمنوں نے حیا سے قسم کھا کر اُنہی پچھلی باتوں کا اعادہ شروع کر دیا ہے- ہم کہاں تک جوابات کا اعادہ کرے جاویں‘‘
’’(۵) مولوی سیّد ابولحسن صاحب تبتی نے جو ۸۲۵ روپیہ انعام کے بدلے آٹھ سو پچیس جُوتے کادیانی کے لئے تجویز کئے ہیں اس پر حضور اینجانب کا صاد ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اس قدر رعایت ضروری ہے کہ اگر حضرت اقدس (اکذب) کادیانی اس قدر جوتوں کے بذات شریف و نفس نفیس متحمل نہ ہو سکیں اور سر مبارک حضرت اکذب کا گنجہ ہو جاوے یا جوتوں کی مار سے آپ کو الہامی قبض لاحق ہو جاوے تو باقی ماندہ آپ کے نائبین جنہوں نے گمنام اشتہارات دیئے ہیں آپس میں اس طرح بانٹ لیں کہ لاہور والے مخلص گمنام پٹیالہ والوں کو اور لدھیانہ والے شملہ والوں کو اور پٹیالہ والے لدھیانہ والوں کو اور اسی طرح وہ ایک دوسرے کو بطور ہمدردی مدد دیں- ہم کو ا س پر اصرار نہیں کہ وہ سب کے سب جُوتے حضرت اقدس (اکذب) ہی کے سر پر پورے کئے جاویں- یہ امر بحکم آیت لاَیُکلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّوُسْعَھَا ہم کو پسندیدہ نہیں اور عام ہمدردی انسانی اور اخلاق کے بھی مخالف ہے-‘‘ ٭
الراقم احقر العباد ملہم ربّانی ملا بخش لاہور ۱۰ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء
محمد بخش قادری مینیجر اخبار جعفرز ٹلی تاج الہند پریس لاہور
(۱۹۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ ط
مبادا دل آں فرو مایہ شاد کہ از بہر دنیا دہد دیں بباد
مَیں اپنی جماعت کے لئے خصوصاً یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ وہ اُس اشتہار کے نتیجے کے منتظر رہیں کہ جو ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو بطور مباہلہ شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السُّنّہ اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت شائع کیا گیا ہے جس کی میعاد ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء میں ختم ہو گئی-
اور مَیں اپنی جماعت کو چند لفظ بطور نصیحت کہتا ہوں کہ وہ طریق تقوی پر پنجہ مار کر یا وہ گویٔ کے مقابلہ پر یاوہ گویٔ نہ کریں- اور گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں نہ دیں- وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور ہنسی سُنیں گے جیسا کہ وہ سُن رہے ہیں- مگر چاہئیے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک بختی کے ساتھ خدا ئے تعالیٰ کے فیصلہ کی طرف نظر رکھیں- اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں- اب اس عدالت کے سامنے مسل مقدمہ ہے جو کسی کی رعایت نہیں کرتی اور گستاخی کے طریقوں کو پسند نہیں کرتی- جب تک انسان عدالت کے کمرے سے باہر ہے اگرچہ اس کی بدی کا بھی مواخذہ ہے مگر اس شخص کے جرم کا مواخذہ بہت سخت ہے جو عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر بطور گستاخی ارتکابِ جُرم کرتا ہے- اس لئے مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ خدایتعالیٰ کی عدالت کی توہین سے ڈرو- اور نرمی اور تواضع اور صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور خدایتعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم میں اور تمہاری قوم میں فیصلہ فرماوے- بہتر ہے کہ شیخ محمد حسین اور اُس کے رفیقوں سے ہرگز ملاقات نہ کرو کہ بسا اوقات موجب جنگ و جدل ہو جاتی ہے- اور بہتر ہے کہ اس عرصہ میں کچھ بحث و مباحثہ بھی نہ کرو کہ بسا اوقات بحث و مباحثہ سے تیز زبانیاں پید اہوتی ہیں- ضرور ہے کہ نیک عملی اور راستبازی اور تقویٰ میں آگے قدم رکھو کہ خدا اُن کو جو تقویٰ اختیار کرے ہیں، ضائع نہیں کرتا- دیکھو حضرت موسٰی علیہ السلام جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ میں حلیم اور متقی تھے تقویٰ کی برکت سے فرعون پر کیسے فتیحیاب ہوئے- فرعون چاہتا تھا کہ اُن کو ہلاک کرے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کے آگے خدایتعالیٰ نے فرعون کو معہ اُس کے تمام لشکر کے ہلاک کیا- پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بدبخت یہودیوں نے چاہا کہ اُن کو ہلاک کریں اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک رُوح پر صلیبی موت سے *** کا داغ لاویںکیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ *** ہے یعنی اس کا دل پلید اور ناپاک اور خدا کے قرب سے دُور جا پڑتا ہے اور رائدہ درگاہ الٰہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے- اس لئے لعین شیطان کا نام ہے اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالایق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باﷲ *** ہے جس کا دل پاک نہیں ہے- اور جیسا کہ مفہوم *** کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور اﷲ اس سے بیزار ہے- اور جیسا کہ مفہوم *** کا ہے- لیکن خدائے قادر و قیوم نے بد نیت یہودیوں کو اس راہ سے ناکام اور نامُراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اُس کو ایک سو بیس برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اس کے سامنے ہلاک کیا- ہاں خدایتعالیٰ کی اُس قدیم سنّت کے موافق کہ کوی اوالوالعزم نبی ایسا نہیں گذرا جس نے قوم کی ایذا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبّت میں آئے ہوئے تھے- خدایتعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخرکار خاک کشمیر جنّت نظیر میں انتقال فرمایا ا ور سرینگر خانیار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کئے گئے- آپ کی قبر بہت مشہورہے یزار ویتبرک بہٖ - ایسا ہی خدایتعالیٰ نے ہمارے سیّد و مولیٰ نبی آخر الزّمان کو جو سیّدالمتقین تھے انواع اقسام کی تائیدات سے مظفر اور منصور کیا- گو اوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی طرح داغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اندر رکھتی تھی-
سوا َے دوستو! یقینا سمجھو کہ متقی کبھی برباد نہیں کیا جاتا- جب دو فریق آپس میں دشمنی کرتے ہیں اور خصوصیت کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں تو وہ فریق جو خدایتعالیٰ کی نظر میں متقی اور پرہیز گار ہوتا ہے آسمان سے اس کے لئے مدد نازل ہوتی ہے اور اس طرح پر آسمانی فیصلہ سے مذہبی جھگڑے انفعال پا جاتے ہیں- دیکھو ہمارے سیّد و مولیٰ نبیناً محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کیسی کمزوری کی حالت میں مکّہ میں ظاہر ہوئے تھے اور ان دنوں میں ابوجہل وغیرہ کفا کا کیا عروج تھا اور لاکھوں آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فتح اور ظفر بخشی- یقینا سمجھو کہ یہی راستبازی اور صدق اور پاک باطنی اور سچائی تھی- سو بھائیو! اُس پر قدم مارو اور اس گھر میں بہت زور کے ساتھ داخل ہو- پھر عنقریب دیکھ لو گے کہ خدایتعالیٰ تمہاری مدد کرے گا- وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے- جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں وہ شوخی اور چالاکی کو پسند نہیں کرتا اور ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے سو اُس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو- تم اس کی جماعت ہو جن کو اس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چُنا ہے سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے لَب جُھوٹ سے اور اس کا دل ناپاک خیالات سے پرہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا-
اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھو ڈالو- تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو مگر خدا کو اس خصلت سے غضب میں لائو گے- اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریّت کو ہلاکت سے بچائو- کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو- حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اَور عزیز بھی ہے- اس کی راہ میں فدا ہو جائو اور اس کے لئے محو ہو جائو- اور ہمہ تن اس کے ہو جائو- اگر چاہتے ہو کہ اسی دُنیا میں خدا کو دیکھ لو- کرامت کیا چیز ہے؟ اور خوارق کب ظہور میں آتے ہیں؟ سو سمجھو اور یاد رکھو کہ دلوں کی تبدیلی آسمان کی تبدیلی کو چاہتی ہے- وہ آگ جو اخلاص کے ساتھ بھڑکتی ہے وہ عالم بالا کو نشان کی صورت پر دکھلاتی ہے- تم مومن اگرچہ عام طور پر ہر ایک بات میں شریک ہیں- یہاں تک کہ ہر ایک کو معمولی حالت کی خوابیں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتے ہیں- لیکن وہ کرامت جو خدا کا جلال اور چمک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور خدا کو دکھلا دیتی ہے وہ خدا کی ایک خاص نُصرت ہوتی ہے جو اُن بندوں کی عزّت زیادہ کرنے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جو حضرت احدیّت میں جان نثاری کا مرتبہ رکھتے ہیں جبکہ و ہ دُنیا میں ذلیل کئے جاتے اور اُن کو بُرا کہا جاتا اور کذّاب اور مفتری اور بدکار اور *** اور دجّال اور ٹھگ اور فریبی ان کا نام رکھا جاتا ہے اور اُن کے تباہ کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں تو ایک حد تک وہ صبر کرتے اور اپنے آپ کو تھامے رہتے ہیں- پھر خدایتعالیٰ کی غیرت چاہتی ہے کہ ان کی تائید میں کوئی نشان دکھاوے تب یک دفعہ ان کا دل دُکھتا اور اُن کا سینہ مجروح ہوتاہے- تب وہ خداتعالیٰ کے آستانہ پر تضرعات کے ساتھ گرتے ہیں اور اُن کی درد مندانہ دُعائوں کا آسمان پر ایک صعبناک شور پڑتا ہے اور جس طرح بہت گرمی کے بعد آسمان پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بادل کے نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر وہ جمع ہو کر ایک تہہ بہ تہہ بادل پیدا ہو کر یک دفعہ برسنا شروع ہو جاتا ہے ایسا ہی مخلصین کے دردناک تضرعّات جو اپنے وقت پر ہوتے ہیں رحمت کے بادلوں کو اُٹھاتے ہیں اور آخر وہ ایک نشان کی صورت میں زمین پر نازل ہوتے ہیں- غرض جب کسی مرد صادق ولی اﷲ پر کوئی ظلم انتہاء تک پہنچ جائے تو سمجھنا چاہئیے کہ اب کوئی نشان ظاہر ہوگا-
ہر بلاکیں قوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است
مجھے افسوس سے اس جگہ یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ ہمارے مخالف ناانصافی اور دروغ گویٔ اور کجروی سے باز نہیں آتے- وہ خدا کی باتوں کی بڑی جرأت سے تکذیب کرتے اور خدائے جلیل کے نشانوں کو جھٹلاتے ہیں- مجھے امید تھی کہ میرے اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے بعد جو بمقابلہ محمد حسین بٹالوی اور محمد بخش جعفرزٹلی اور ابو الحسن تبّتی کے لکھا گیا تھا- یہ لوگ خاموش رہتے کیونکہ اشتہار میں صاف طور پر یہ لفظ تھے کہ ۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء تک اس بات کی میعاد مقرر ہو گئی ہے کہ جو شخص کاذب ہو گا خدا اس کو ذلیل اور رُسوا کرے گا- اور یہ ایک کھلا کھلا معیار صادق و کاذب کا تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے قائم کیا تھا- اور چاہئیے تھا کہ یہ لوگ اُس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد چُپ ہو جاتے اور ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء تک خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرتے- لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا- بلکہ زٹلی مذکور نے اپنے اشتہار ۲۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں وہی گند پھر بھر دیا جو ہمیشہ اس کا خاصہ ہے اور سراسر جھوٹ سے کام لیا- وہ اس اشتہار میں لکھتا ہے کہ کویٔ پیشگویٔ اس شخص یعنی اس عاجز کی پُوری نہیں ہوئی- ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین- وہ یہ بھی کہتا ہے کہ آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری نہیں ہوئی- ہم اس کے جواب میں بھی بجز لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین کچھ نہیں - اصل تو یہ ہے کہ جب انسان کا دل بخل اور عناد سے سیا ہ ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سُنتے ہوئے نہیں سُنتا- اُس کے دل پر خدا کی مُہر لگ جاتی ہے- اس کے کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں- یہ بات اب تک کس پر پوشیدہ ہے کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اور خدا کے الہام نے ظاہر کیا تھا کہ وہ رجوع الی الحق کی حالت میں مرنے سے بچ جائے گا ا ور پھر آتھم نے اپنے افعال سے اپنے اقوال سے اپنی سراسمیگی سے اپنے خوف سے اپنے قسم نہ کھانے سے اپنے نالش نہ کرنے سے ثابت کر دیا کہ ایّام پیشگوئی میں اس کا دل عیسائی مذہب پر قائم نہ رہا اور اسلام کی عظمت اس کے دل میں میں بیٹھ گئی اور یہ کچھ بعید نہ تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کی اولاد تھا اور اسلام سے بعض اغراض کی وجہ سے مُرتد ہوا تھا- اسلام چاشنی رکھتا تھا- اسی وجہ سے اس کو پورے طور پر عیسائیوں کے عقیدہ سے اتفاق بھی نہیں تھا اور میری نسبت وہ ابتدا سے نیک ظن رکھتا تھا- لہٰذا اس کا اسلامی پیشگوئی سے ڈرنا قرینِ قیاس تھا- پھر جبکہ اُس نے قسم کھا کر اپنی عیسائیت ثابت نہ کی اور نالش کی اور چور کی طرح ڈرتا رہا اور عیسائیوں کی سخت تحریک سے بھی وہ اُن کاموں کے لئے آمادہ نہ ہوا تو کیا اس کی یہ حرکات ایسی نہ تھیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلے کہ وہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت سے ضرور ڈرتا رہا- غافل زندگی کے لوگ تو نجومیوں کی پیشگوئیوں سے بھی ڈر جاتے ہیں چہ جائیکہ ایسی پیشگوئی جو بڑے شدّ و مدّ سے کی گئی تھی جس کے سُننے سے اسی وقت اس کا رنگ زرد ہوگیا تھا جس کے ساتھ در صورت نہ پورے ہونے کے مَیں نے اپنے سزایاب ہونے کا وعدہ کیا تھا- پس اس کا رُعب ایسے دلوں پر جو دینی سچایٔ سے بے بہرہ ہیں- کیونکہ نہ ہوتا- پھر جبکہ یہ بات صرف قیاسی نہ رہی بلکہ خود آتھم نے اپنے خوف اور سراسمیگی اور دہشت زدہ ہونے کی حالت سے جس کو صدہا لوگوں نے دیکھا اپنی اندرونی بے قراری اور اعتقادی حالت کے تغیّر کو ظاہر کر دیا اور پھر معیاد قسم نہ کھانے اور نالش نہ کرنے سے اس تغیر کی حالت کو اور بھی یقین تک پہنچایا اور پھر الہام الٰہی کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے چھ ماہ کے اندر مر بھی گیا تو کیا یہ تمام واقعات ایک منصف اور خدا ترس کے دل کو اس یقین سے نہیں بھرتے کہ وہ پیشگوئی کی معیاد کے اندر الہامی شرط سے فائدہ اُٹھا کر زندہ رہا اور پھر الہام الٰہی کی خبر کے موافق اخفائے شہادت کی وجہ سے مَر گیا- اب دیکھو تلاش کرو کہ آتھم کہاں ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیںکہ وہ کئی برس سے مر چکا مگر جس شخص کے ساتھ اس نے ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر بمقام امرتسر مقابلہ کیا تھا وہ تو اب تک زندہ موجود ہے جو اب یہ مضمون لکھ رہا ہے-
اے حیا و شرم سے دُور رہنے والو! ذرہ اس بات کو تو سوچو کہ وہ شہادت اخفاء کے بعد کیوں جلد مَر گیا؟ مَیں نے تو اُس کی زندگی میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر مَیں کاذب ہوں تو مَیں پہلے مروں گا ورنہ مَیں آتھم کی موت کو دیکھوں گا- سو اگر شرم ہے تو آتھم کو ڈھونڈ کر لائو- کہاں ہے- وہ میری عمر کے قریب قریب تھا اور عرصہ تیس برس سے مجھ سے واقفیت رکھتا تھا- اگر خدا چاہتا تو وہ تیس برس تک اور زندہ رہ سکتا تھا- پس یہ کیا باعث ہوا کہ وہ انہیں دنوں میں جبکہ اس نے عیسائیوں کی دلجوئی کے لئے الہامی پیشگوئی کی سچائی اور اپنے دلی رجوع کو چھپایا خدا کے الہام کے موافق فوت ہو گیا- خدا اُن دلوں پر *** کرتا ہے- جو سچائی کو پا کر پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور چونکہ یہ انکار جو اکثر عیسائیوں اور بعض شریر مسلمانوں نے کیا خدا تعالیٰ کی نظر میں ظلم صریح تھا- اس لئے اس نے ایک دوسری عظیم الشان پیشگوئی کے پُورا کرنے سے یعنی پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے منکروں کو ذلیل اور رسُوا کر دیا- یہ پیشگوئی اس مرتبہ پر فوق العادت تھی کہ اس میں قبل از وقت یعنی پانچ برس پہلے بتلایا گیا تھا کہ لیکھرام کس دن اور کس قسم کی موت سے مرے گا- لیکن افسوس کہ بخیل لوگوں نے جن کو مرنا یاد نہیں- اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے- یہ سب سے انکار کرتے ہیں- اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے- یہ سب سے انکار کرتے ہیں- اب یہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء آخری فیصلہ ہے- چاہئیے کہ ہر ایک طالبِ صادق صبر سے انتظار کرے- خدا جھوٹوں ، کذّابوں ، دجالوں کی مدد نہیں کرتا- قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدایتعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ وہ مومنوں اور رسولوں کو غالب کرتا ہے- اب یہ معاملہ آسمان پر ہے- زمین پر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا- دونوں فریق اُس کے سامنے ہیں اور عنقریب ظاہر ہو گا کہ اس کی مدد اور نصرت کس طرف آتی ہے-
واٰخر دعوٰنا اِن الْحَمْدُ لِلّٰہِ رب العالمین والسلام علٰی مَن اتّبع الھُدٰی
۳۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء
المشتہر
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
(یہ اشتہار الحکم جلد ۲ نمبر ۴۰ کے صفحہ ۶ پر اور رسالہ راز حقیقت کے صفحہ ۱ لغایت ۱۴ پر درج ہے-)
(۱۹۴)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
میری وہ پیشگوئی جو الہام ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں فریق کاذب کے بارے میں تھی
یعنی اس الہام میں جس کی عربی عبارت یہ ہے کہ جَزاء سیّئۃِ بمثلھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی پر
پوری ہو گئی
میری التماس ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس اشتہار کو توجہ سے دیکھے
مندرجہ عنوان امر کی تفصیل یہ ہے کہ ہم دو فریق ہیں- ایک طرف تو مَیں اور میری جماعت اور دوسری طرف مولوی محمد حسین اور اس کی جماعت کے لوگ یعنی محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی وغیرہ … محمد حسین نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے مجھے دجّال اور کذّاب اور ملحد اور کافر ٹھہرایا تھا اور اپنی جماعت کے تمام مولویوں کو اس میں شریک کر لیا تھا اور اسی بناء پر وہ لوگ میری نسبت بدزبانی کرتے تھے اور گندی گالیاں دیتے تھے- آخر مَیں نے تنگ آ کر اسی وجہ سے مباہلہ کا اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء جاری کیا جس کی الہامی عبارت جَزاء سیّئۃِ بمثلھا میں یہ ایک پیشگوئی تھی کہ ان دونوں فریق میں سے جو فریق ظلم اور زیادتی کرنے والا ہے اس کو اسی قسم کی ذلّت پہنچے گی جس قسم کی ذلّت فریق مظلوم کی گئی- سو آج وہ پیشگوئی پوری ہو گئی کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے مجھے یہ ذلّت پہنچائی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ٹھہرا کر ملحد اور کافر اور دجّال قرار دیا اور مسلمانوں کو اپنی اس قسم کی تحریروں سے میری نسبت بہت اُکسایا کہ اس کو مسلمانوں اور اہل سنّت مت سمجھو کیونکہ اس کے عقائد تمہارے عقائد سے مخالف ہیں اور اب اس شخص کے رسالۂ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کے پڑھنے سے جس کو محمد حسین نے اس غرض سے انگریزی میں شائع کیا ہے کہ تا گورنمنٹ سے زمین لینے کے لئے اس کو ایک ذریعہ بناوے- مسلمانوں اور مولویوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ شخص خود اُن کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ہے کیونکہ وہ اس رسالہ میں مہدی موعود کے آنے سے قطعی منکر ہے جس کی تمام مسلمانوں کو انتظار ہے جو اُن کے خیال کے موافق حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے پیدا ہو گا اور مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور نیز اُن کے مذہب کا پیشوا اور دوسرے فرقوں کے مقابل پر مذہبی لڑائیاں کرے گا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اس کی مدد اور تائید کے لئے آسمان سے اُتریں گے اور اُن دونوں کا ایک ہی مقصد ہو گا اور وہ یہ کہ تلوار سے دین کو پھیلاویں گے اور اب مولوی محمد حسین نے ایسے مہدی کے آنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اس انکار سے نہ صرف وہ مہدی کے وجود کا منکر ہوا بلکہ ایسے مسیح سے بھی انکار کرنا پڑا جو اس مہدی کی تائید کے لئے آسمان سے اُترے گا اور دونوں باہم مل کر مخالفین اسلام سے لڑائیاں کریں گے اور یہ وہی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد حسین نے مجھے دجّال اور ملحد ٹھہرایا تھا اور اب تک مسلمانوں کو یہی دھوکہ دے رہا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں اُن سے اتفاق رکھتا ہے اور اب یہ پردہ کھل گیا کہ وہ دراصل میرے عقیدہ سے اتفاق رکھتا ہے- یعنی ایسے مہدی اور ایسے مسیح کے وجود سے انکار ی ہے اس لئے مسلمانوں کی نظر میں اور اُن کے تمام علماء کی نظر میں ملحد اور دجّال ہو گیا- سو آج پیشگوئی جَزاء سیّئۃِ بمثلھا اس پر پوری ہو گئی- کیونکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ فریق ظالم کو اسی بدی کی مانند سزا ہو گی جو اس نے اپنے فعل سے فریق مظلوم کو پہنچائی-
رہی یہ بات کہ اس نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا- سو خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں- ابھی سُلطانِ رُوم کے ذکر میں اس نے میرے پر حملہ کر کے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۳ جلد ۱۸ میں ایک خطرناک اور باغیانہ مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’سلطان روم کو خلیفہ برحق سمجھنا چاہئیے اور اس کو دینی پیشوا مان لینا چاہئیے اور اس مضمون میں میرے کافر ٹھہرانے کے لئے یہ ایک وجہ پیش کرتا ہے کہ یہ شخص سلطانِ روم کے خلیفہ ہونے کا قائل نہیں ہے-‘‘ سو اگرچہ یہ درست ہے کہ مَیں سلطان رُوم کو اسلامی شرائط کے طریق سے خلیفہ نہیں مانتا کیونکہ وہ قریش میں سے نہیں ہے اور ایسے خلیفوں کا قریش میں سے ہونا ضروری ہے- لیکن یہ میرا قول اسلامی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ حدیث الائمہ من قریش سے سراسر مطابق ہے- مگر افسوس کہ محمد حسین نے باغیانہ طرز کا بیان کر کے پھر اسلام کی تعلیم کو بھی چھوڑا- حالانکہ پہلے خود بھی یہی کہتا تھا کہ سلطان خلیفہ مسلمین نہیں ہے اور نہ ہمارا دینی پیشوا ہے اور اب میری عداوت سے سلطان روم اس کا خلیفہ اور دینی پیشوا بن گیا اور اس جوش میں اُس نے انگریزی سلطنت کا بھی کچھ پاس نہ کیا اور جو کچھ دل میں پوشیدہ تھا وہ ظاہر کر دیا اور سلطان روم کی خلافت کے مُنکر کو کافر ٹھہرایا اور یہ تمام جوش اس کو اس لئے پیدا ہوا کہ مَیں نے انگریزی سلطنت کی تعریف کی اور یہ کہا کہ یہ گورنمنٹ نہ محض مسلمانوں کی دُنیا کے لئے بلکہ ان کے دین کے لئے بھی حامی ہے- اب وہ بغاوت پھیلانے کے لئے اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی دینی حمایت انگریزوں کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین کا حامی فقط سلطان رُوم ہے مگر یہ سراسر خیانت ہے- اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکہ شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں- کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سُننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے - کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے- اب محمد حسین ہمیں جواب دے کہ اس وقت سلطان روم کہاں تھا اور اس نے ہماری اس مصیبت کے وقت ہماری کیا مدد کی تھی؟ پھر وہ ہمارا دینی پیشوا اور خدا کا سچا خلیفہ کیونکر ہوا- آخر انگریز ہی تھے جنہوں نے ہم پر یہ احسان کیا کہ پنجاب میں آتے ہی یہ ساری روکیں اُٹھادیں- ہماری مسجدیں آباد ہو گئیں- ہمارے مدرسے کھل گئے اور عام طور ہمارے وعظ ہونے لگے اور ہزار ہا غیر قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے- پس اگر ہم محمد حسین کی طرح یہ اعتقاد رکھیں کہ ہم صرف پولیٹیکل طور پر اور ظاہری مصلحت کے لحاظ سے یعنی منافقانہ طور پر انگریزوں کے مطیع ہیں ورنہ دل ہمارے سلطان کے ساتھ ہیں وہ خلیفہ اسلام اور دینی پیشوا ہے- اس کے خلیفہ ہونے کے انکار سے اور اس کی نافرمانی سے انسان کافر ہو جاتا ہے تو اس اعتقاد سے بلاشبہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے چھپے باغی اور خدا تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے- تعجب ہے کہ گورنمنٹ ان باتوں کی تہہ تک کیوں نہیں پہنچتی اور ایسے منافق پر کیوں اعتبار کیا جاتا ہے کہ جو گورنمنٹ کو کچھ کہتا ہے اور مسلمانوں کے کانوں میں کچھ پھونکتا ہے- مَیں گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ غور سے اس شخص کے حالات پر نظر کرے کہ یہ کیسے منافقانہ طریقوں پر چل رہا ہے اور جن باغیانہ خیالات میں آپ مبتلا ہے وہ میری طرف منسوب کرتا ہے-
بالآخر یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ جس قدراس شخص نے مجھے گالیاں دیں اور محمد بخش جعفر زٹلی سے دلائیں اور طرح طرح کے افتراء سے میر ی ذلّت کی اس میں میری فریاد جناب الہٰی میں ہے جو دلوں کے خیالات کو جانتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ایک کا انصاف ہے- مَیں یہی چاہتا ہوں کہ جس قسم کی ذلّت جھوٹے بہتانوں سے اس شخص نے کی یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں مجھے باغی ٹھہرانے کے لئے خلاف واقعہ باتیں بیان کیں وہی ذلّت اس کو پیش آوے- میرا ہر گز یہ مدّعا نہیں ہے کہ بجز طریق جزاء سیّۃ بمثلھا کے کسی اور ذلّت میں یہ مبتلا ہو بلکہ مَیں اُن تہمتوں سے پاک ہوں تو وہ ذلتیں اس کو پیش آویں- اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بہت حلیم اورحتی المقدور چشم پوشی کرنے والی ہے- لیکن اگر میں بقول محمد حسین باغی ہوں یا جیسا کہ میں نے معلوم کیا ہے کہ خود محمد حسین کے ہی باغیانہ خیالات ہیں تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کامل تحقیقات کر کے جو شخص ہم دونوں میں سے تحقیقات مجرم ہے اس کو قرار واقعی سزا دے تا مُلک میں ایسی بدی پھیلنے نہ پاوے- حفظ امن کے لئے نہایت سہل طریق یہی ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے نامی مولویوں سے دریافت کیا جائے- کہ یہ شخص جو اُن کا سر گروہ اور ایڈووکیٹ کہلاتا ہے اس کے کیا اعتقاد ہیں؟ اور کیا جو کچھ گورنمنٹ کو اپنے اعتقاد بتلاتا ہے- اپنے گروہ کے مولویوں پر بھی ؓظاہر کرتا ہے؟ کیونکہ ضرور ہے کہ جن مولویوں کا یہ گروہ اور ایڈووکیٹ ہے ان کے اعتماد بھی یہی ہوں جو سر گروہ کے ہیں-
بالآخر ایک اَور ضروری امر گورنمنٹ کی توجہ کے لئے یہ ہے کہ محمد حسین نے اپنی اشالۃ السّنہ جلد ۱۸ ۳ صفحہ ۹۵ میری نسبت اپنے گروہ کو اُکسایا ہے کہ یہ شخص واجب القتل ہے - پس جبکہ ایک قوم کا سرگروہ میری نسبت واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیتا ہے تو مجھے گورنمنٹ حالیہ کے انصاف سے امید ہے کہ جو کچھ ایسے شخص کی نسبت قانونی سلوک ہونا چاہیے وہ بلا توقف ظہور میں آوے- تا اس کے معتقد ثواب حاصل کرنے کے لئے اقدام قتل کے منصوبے نہ کریں - فقط
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام احمد قادیان تعداد ۷۰۰
مطبوعہ ضیاء اسلام قادیان
(یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸ کے ۴ صفحوں پر ہے )
(۱۹۵)
نہایت ضروری عرضہ اشت قابل توجہ گورنمنٹ
چونکہ ہماری گورنمنٹ برطانیہ اپنی رعایا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اس کی شفقت اور رحمت ہر ایک قوم کے شامل گال ہے لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم ہر ایک درد دُکھ اس کے سامنے بیان کریں اور اپنی تکالیف کی چارہ جوئی اس سے ڈھونڈیںسو اِن دنوں میں بہت تکلیف جو ہمیں پیش آئی وہ یہ ہے کہ پادری صاحبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر یاک طرح سے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بے ادبی کریں گالیاں نکالیں بیجا تہمتیں گاویں اور ہر ایک طور سے توہین کر کے ہمیں دُکھ دیں اور ہم اُن کے مقابل پر بالکل زبان بند رکھیں اور ہمیں اس قدر بھی اختیار نہ رہے کہ اُن کے حملوں کے جواب میں کچھ بولیں- لہذا وہ ہماری ہر ایک تقدیر کو گو کیسی ہی نرم ہو سختی پر حمل کر کے حکّام تک شکایت پہنچاتے ہیں حالانکہ ہزار ہا درجہ بڑھ کر ان کی طرف سے سختی ہوتی ہے-
ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ کا سچّا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں لیکن پادری صاحبان چونکہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے جو چاہتے ہیں مُنہ پر لاتے ہیں- یہ ہمارا حق تھا کہ ہم اُن کے دل آزار کلمات کی اپنی گورنمنٹ عالیہ میں شکایت پیش کرتے اور دادرسی چاہتے- لیکن انہوں نے اوّل تو خود ہی ہزاروں سخت کلمات سے ہمارے دلوں کو دُکھایا اور پھر ہم پر ہی اُلٹی عدالت میں شکایت کی کہ گویا سخت کلمات اور توہین ہماری طرف سے ہے اور اسی بناء پر وہ خون کا مقدمہ اُٹھایا گیا تھا جو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے محکمہ سے خارج ہو چکا ہے-
اس لئے قرین مصلحت ہے کہ ہم اپنی عادل گورنمنٹ کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جس قدر سختی اور دل آزاری پادری صاحبوں کی قلم اور زبان سے اور پھر اُن کی تقلید اور پیروی سے آریہ صاحبوں کی طرف سے ہمیں پہنچ رہی ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں جو ہم بیان کر سکیں-
یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنے مقتدا اور پیغمبر کی نسبت اس قدر بھی سُننا نہین چاہتا کہ وہ جھوٹا اورمفتری ہے اور ایک باغیرت مسلمان بار بار کی توہین کو سن کر اپنی زندگی کوے بے شرمی کی زندگی خیال کرتاہے تو پھر کیونکر کوئی ایماندار اپنے ہادی پاک بنی کی نسبت سخت سخت گالیاں سُن سکتا ہے - بہت سے پادری اس وقت برٹش انڈیا میں ایسے ہیں جن کا دن رات پیشہ ہی یہ ہے کہ ہمارے نبی اورہمارے سیّد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے رہیں- سب گالیاں دینے میں پادری عمادالدین امرت سری کا نمبر بڑھا ہوا ہے- وہ اپنی کتابوں تحقیق الایمان وغیرہ میں کھلی کھلی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور دغا بازی پرائمی عورتوں کو لینے والا وغیرہ وغیرہ قرار دیتا ہے اور نہایت سخت اور اشتعال دینے والے لفظ استعمال کرتا ہے- ایسا ہی پادری ٹھا کر داس سیرۃ المسیح اور ریویو براہین احمدیہ میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا نام شہوت کا مطیع اور غیر عورتوں کا عاش، فریبی ، لیٹرا، مکّار ،جاہل، حیلہ باز، دھوکہ باز رکھتا ہے اور رسالہ دافع البہتان میں پادری انکلین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے ہیں- شہوت پرست تھا- محمد کے اصحاب زناکار، دغاباز، چورتھے- اور ایسا ہی تفتیش الاسلام میں پادری راجرس لکھتا ہے کہ محمد شہتوت پرست نفس اتارہ کا از حد مطیع عشق باز- مکّار گہنگار، عاشق حرام ازنا کا مرتکب مکّار ، ریا کار تھا- اور رسالہ مسیح الدجال میں ماسٹر رامچند ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتا ہے کہ محمد سرغنہ ڈکیتی تھا- اور لیٹرا ، ڈاکو، فریبی، عشقباز ، مفتری ، شہوت پرست، خوزیز، زانی اور کتاب سوانح عمری محمد صاحب مصنّفہ واشنگٹن اردنگ صاحب میں لکھا ہے کہ محمد کے اصحاب قزاّق اور لیٹرے تھے اور وہ خود طابع ، جھوٹا ، دھوکہ باز تھا- اور اندرونہ بائبل مصنفّہ آتھم عیسائی میں لکھا ہے کہ محمد دجّال تھا اور دھوکہ باز - اورپھر کہتا ہے کہ محمدیوں کا خاتمہ بڑاخوفناک ہے- یعنی جلد تبارہ ہو جائیں گے- اور پرچہ نور افشاں لُدھیانہ میں لکھا ہے کہ محمد کو شیطانی وحی ہوتی تھی- اور ناجائز حرکات کرتا تھا اور نفسانی آدمی گمراہ، مکّار فریبی، زانی ، چور، خونریز، لٹیرا، رہزن رفیق شیطان اور اپنی بیٹی فاطمہ کو نظر شہوت سے دیکھنے والا تھا-
اب یہ تمام الفاظ غور کرنے کے لائق ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں پادری صاحبوں کے مُنہ سے نکلے ہیں- اور سوچنے کے لایق ہے کہ ان کے کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں -کیا اس قسم کے الفاظ کبھی کسی مسلمان کے مُنہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت نکل سکتے یہں کیا دُنیا میں ان سے سخت الفاظ ممکن ہیں جو پادری صاحبوں نے اس پاک نبی کے حق میں استعمال کئے ہیں جس کی راہ میں کڑور ہا خدا کے بندے فدا شدہ ہیں اور وہ اس نبی سے سچّی محبت رکھتے ہیں جس کی نظیر دوسری قوموں میں تلاش کرنا سخت لاحاصل ہے پھر باوجود ان گستاخیوں ان بد زبانیوں اور ان ناپاک کلمات کے پادری صاحبان ہم پر الزام سخت گوئی کا رکھتے ہیں- یہ کس قدر ظُلم ہے- ہم یقینا جانتے ہیں کہ ہر گز ممکن نہیں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ ان کے اس طریق کو پسند کرتی ہو یا خبر پا کر پسند کرے اور نہ ہم باور کر سکتے ہیں کہ آئندہ پادریوں کے کسی ایسے بیجا جوش کے وقت کہ جو کلارک کے مقدمہ میں ظہور میں آیا- ہماری گورنمنٹ پادریوں کو ہندوستان کے چھ کڑور مسلمانوں پر ترجیع سے کوئی رعایت ان کی کرے گی- اس وقت جو ہمیں پادریوں اور آریوں کی بد زبانی پر ایک لمبی فہرست دینی پڑی و ہ صرف اس غرض سے ہے کہ تا آیندہ وہ فہرست کام آئے اور کسی گورنمنٹ عالیہ اس فہرست پر نظر ڈال کر اسلام کی ستم رسیدہ رعایا کو رحم کی نظر سے دیکھے-
اور ہم مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی اب تک خبر نہیں ہے کہ کیونکہ پادریوں کی بد زبانی نہایت تک پہنچ گئی ہے اور ہم دلی یقین سے جانتے ہیں کہ جس وقت گورنمنت عالیہ کو ایسی سخت زبانی کی خبر ہوئی تو وہ ضرور آیندہ کے لئے کوئی احسن انتظام کرے گی-
نوٹ از مرتب ہذا
( یہ عرضد اشت کتاب البریّہ مطبوعہ بار اوّل کے صفحہ ۹۳ پر درج ہے اس کے آگے صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۲۴ تک مخالفین اسلام و سلسلہ کی گالیوں کی فہرست نقل کی گئی ہے جس کو چھوڑ دیا ہے اور اگلا اعلان بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے)
(۱۹۶)
بیس ہزار روپیہ تاوان
ان لوگوں نے اس عقیدہ کو اختیار کرنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام زندہ آسمان پر چلے گئے اور وہاں قریباً اُنیس سو برس سے زندہ بحبم عنصری موجود یں اور پھر کسی وقت پر واپس آئیں گے- قرآن شریف کی چار جگہ مخالفت کی ہے- اوّل یہ کہ قرآن شریف صریح لفظوں مین حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی وفات ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ بیان ہوا- اور یکہ لوگ اُن کے زندہ ہونے کے قائل ہیں- دوسرے یہ کہ قرآن شریف صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کوئی انسان بجز زمین کے کسی اور جگہ زندہ نہیں سکتا جیسا کہ وہ فرماتا ہے فیھا تحیون و فیھا تمر تون و منھا تخرجون یعنی تم زمین میںہی زندہ رہو گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جائو گے- مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ نہیں اس زمین اور کرہ ہوا سے باہر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے - جیسا کہ اب تک جو قریباً انیسویں صدی گذرتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان پر زندہ ہیں ‘‘ حالانکہ زمین پر جو قرآن کے رو سے انسانوں کے زندہ رہنے کی جگہ ہے - باوجود زندگی کے قائم رکھنے کے سامانوں کے کوئی شخص اُنیس سو برس تک ابتداء سے آج تک کبھی زندہ نہیں رہا تو پھر آسمان پر اُنیس سو برس تک زندگی بسر کرنا باوجود اس امر کے کہ قرآن کی رُو سے ایک قدر قلیل بھی بغیر زمین کے انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا- کس قدر خلاف نصوص صریح قرآن ہے جس پر ہمارے مخالف ناحق اصرار کر رہے ہیں تیسرے یہ کہ قرآن شریف صاحب فرماتا ہے کہ کسی انسان کا آسمانن پر چڑھ جانا عادۃ اللہ کے مخالف ہے- جیسا کہ مرما تا ہے کہ قل سبحان ربیّ ھَل کنت اِلّا بشراً رسولاً- لیکن ہمارے مخالف حضرت عیسیٰ ؑ کو ان کے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھاتے ہیں چوتھے یہ کہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں مگر ہمارے مخالف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خاتم انبیاء ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو صحیح مسلم وغیرہ میں آنے والے مسیح کو نبی اللہ کا نام سے یاد کیا ہے وہاں حقیقی نبوت مراد ہے - اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی نبوت کے ساتھ دُنیا میں آئے تو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم انبیاء ٹھہر سکتے ہیں؟ نبی ہونے کی حالت میں حضرت عیسٰیؑ نبوت کے لوازم سے کیونکر محروم رہ سکتے ہیں-
غرض ان لوگوں نے یہ عقیدیہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت کی ہے اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں- اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں- صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں- چنانچہ ہمارے ملک کا بھی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی واردشہر کو پوچھا کرتے یں کہ آپ کہاں اُترے ہیں- اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اُترا ہے- اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پائو گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میںزمین کی طرف واپس لائیں گے- اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے یں اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کو جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا جس طرح چاہیں تسلّی کر لیں-
افسوس ہے کہ ہمارے سادہ لوح علماء صرف نزول کا لفظ احادیث میں دیکھ کر اس بلا میں گرفتار ہو گئے ہیں کہ خواہ نخواہ امیدیں باندھ رہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان سے واپس آئیں گے اور وہ دن ایک بڑے تماشے اور نظارہ کا دن ہو گا کہ اُن ک دائیں بائیںفرشتے ساتھ ساتھ ہوں گے جو اُن کو آسمان سوے اُٹھا کر لائیں گے- افسوس کہ یہ لوگ کتابیں تو پڑھتے ہیں - مگر آنکھ بند کر کے فرشتے تو اہر ایک انسان کے ساتھ رہتے ہیںاور بموجب حدیث صحیح ک طالب لعلموں پر اپنے پروں کا سایہ ڈالتے ہیں اگر مسیح کو فرشتے اُٹھائیں تو کیوں نرالے طور پر اس بات کو مانا جائے- قرآن شریف سے تو یہ ثابت ہے کہ ہر ایک شخص کو خداتعالیٰ اُٹھائے پھرتا ہے حملنا فی البر و البحر مگر کیا خدا کسی کو نظر آتا ہے؟ یہ سب استعارات ہیں مگر ایک بیوقوف فرقہ چاہتا ہے کہ اُن کو حقیقت کے رنگ میں دیکھیں اور اس طرح پر ناحق مخالفوں کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر حدیثوں کا مقصد ہ تھا کہ وہی مسیح جو آسمان پر گیا تھا واپس آئے گا تو اس صورت میں نزول کا لفظ بولنا بے محل تھا- ایسے موقعہ پر یعنی جہاں کسی کا واپس آنا بیان کیا جاتا ہے - عرب کے فصیح لوگ ر جوع بولا کرتے ہیں نہ نزول - پھر پھر کیونکہ ایسا غیر فصیح اور بے محل لفظ اس افصح الفحاء اور اطراف الناس صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح منسوب کیا جائے جو تمام فصحاء کا سردار ہے-
( یہ اعلان کتاب البریّہ کے حاشیہ صفحہ ۱۸۹ تا ۱۹۳ پر درج ہے)
(۱۸۷)
اشتہار عام اطلاع کے لیے
اگرچہ یہ کتاب بعض متفرق مقامات میں عیسائیوں کے حملولوں کا جواب دیتی اور ان کو مخاطب کرتی ہے- لیکن یاد رہے کہ باوجود اس بات کے کہ عیسائیوں کی کتاب امہات المومنین نے دلوں میں سخت اشتعال پیدا کیا ہے- مگر پھر بھی ہم نے اس کتا ب میں جہاں کہیں عیسائیوں کا ذکر آتا ہے بہت نرمی اور تہذیب اور لطف بیان سے ذکر کیا ہے- اور گو ایسی صورت میں کہ دل دکھانے والی گالیاں ہمارے پیغمبر صلے اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں- ہمارا حق تھا کہ ہم مدافعت کے طور پر سختی کا سختی سے جواب دیتے- لیکن ہم نے محض اس حیا کے تقاضا سے جو مومن کی صفت لازمی ہے ہر ایک تلخ زبانی سے اعراض کیا اور وہی امور لکھے جو موقعہ اور محل پرچسپاں تھے اور قطع نظر ان سب باتوں کے ہماری اس کتاب میں اور رسالہ فریاد درد میں وہ نیک چلن پادری اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافت ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بد گوئی سے کنارہ کرتے ہیں- اور دل کو دُکھانے والے لفظوں سے ہمیںدُکھ نہیں دیتے اور نہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور نہ اُن کی کتابیں سخت گوئی اور توہین سے بھری ہوئی ہیں- ایسے لوگوں کو بلا شبہ ہم عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ہماری کسی تقریر کے مخاطب نہیں ہیں بلکہ صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حداعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں- سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی کی کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ نے سچّا اورپاک راستباز نبی مانیں اور ان کی نبّوت پر ایمان لاویں- سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو اُن کی شانِ بزرگ کے بر خلاف ہو- اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے - والسّلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
(یہ اشتہار ایّام صلح اردو مطبع بار اوّل کے ٹائٹل پر ہے
(۱۹۸)
واپسی ٭قیمت براہین احمدیہ
قولہ براہین احمدیہ کا بقیہ نہیں چھاپتے-
اقول اس توقف کو بطور اعتراض پیش کرنا محض لغو ہے- قرآن شریف بھی باوجود کلام الٰہی ہونے کے تئیس برس میں نازل ہوا- پھر اگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے بعض مصالح کی غرض سے براہین کی تکمیل میں توقف ڈال دی تو اس میں کونسا حرج ہوا- اور اگر یہ خیال ہے کہ پیشگی خریداروں سے روپیہ لیا گیا تھا تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور ناواقفی کے باعث ہو گا- کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصّہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس روپے لئے گئے ہوں اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں- پھر باوجود اس قیمت کے جو اس حصص براہین احمدیہ کے مقابل پر جو منطبع ہو کر خریداروں کو دیئے گئے یں کچھ بہت نہیں بلکہ عین موزوں ہے- اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے- لیکن پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق کے شور و غوغا کا خیال کر کے دو مرتبہ ٭اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کر ے اوراپنی قیمت لے لے چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی- اور کئی دفعہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعوں کی نازبرداری کرنا نہیں چاہتے اور ہر وقت قیمت واپس کرنے کے لئے طیار ہیں- چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خد ا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی- مگر پھر بھی اب مجدداً ہم یہ چند سطور بطور اشتہار لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی ایسا خریدار چھپا ہوا موجود ہے کہ جو غائبانہ براہین کی توقف کی شکایت رکھتا ہے تو وہ فی الفور ہماری کتابیں بھیج دے ہم اس کی قیمت جو کچھ اس کی تحریر سے ثابت ہو گی اس کی طرف روانہ کر دیں گے اور اگر کوئی باوجود ہمارے ان اشتہارات کے اب اعتراض کرنے سے باز نہ آوے تو اس کا حساب خد اتعالیٰ کے پاس ہے - اور شہزادہ صاحب یہ تو جواب دیں کہ انہوں نے کونسی کتاب ہم سے خریدی اور ہم نے اب تک وہ کتاب پوری نہ دی اور نہ قیمت واپس کی - یہ کس قدر نا خدا ترسی ہے کہ بعض پُر کینہ مُلّانوں کی زبانی بے تحقیق اس بات کو سُننا اور پحر اس کو بطور اعتراض پیش کر دین٭
الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان
( یہ اشتہار ایام الصلح اردو طبع اوّل کے صفحہ ۱۷۳ پر درج ہے)
*** اللہ علیٰ من اعراض عن ھٰزا و ابی و رحمۃ اللّٰہ علیٰ من قبل داتی
مولوی محمد حسین بٹالوی پر آخری حجت پر
یعنے
دو ہزار پانچسو پچیس روپیہ آٹھ آنہ کا انعام
یہ امربوضاحت بیان ہو چکا ہے کہ میاں محمد حسین بٹالوی ہی جناب حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعوؑد کی تکفیر کا اصل محرک اور بانی ہوا اور باقی تمام مکفریرین نے اُس کی یا اس کے استاد میاں نذیر حسین دہلوی کی پیروی کی ہے - اس لئے اسی کو اس درخواست مباہلہ میں مخاطب کیا گیا ہے چونکہ اس نے حضرت اقدس مرزا صاحبؑ سلمہ ربہ کی تکفیر اور تکذیب پر حد سے زیادہ زور مارا ہے- اور باوجودیہ کہ وہ اپنی ناکامیوں اور حضرت اقدس کی کامیابیوں کو بار ہا دیکھ چکا اور بہت سے نشانات بھی ملا حظہ کر چکا ہے مگر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا - اس لئے اس کو مباہلہ کی دعوت کی جاتی ہے جو آسمانی اورخدائی فیصلہ ہے- یہ مباہلہ بدوں کو کسی قسم کی شرط کے ہو گا اور اگر ایک سال کے اندر نتیجہ مباہلہ ہمارے حق میں نہ ہوا- اور ایک اثر قابل اطمینان ہماری تائید میں ظہور میں نہ آیا تو رقم مندرجہ بالا جو پہلے سے جمع کرا دی جائیگی ان کو بطور نشان کامیابی ان صاحبوں کی طر ف سے دی جاوے گی جنہوں نے وہ مقرر کی ہے
لہذا اب ہم پنجاب کے ان معّززین کو جو میاں محمد حسین کو جانتے ہیں اور اُن سر بر آورہ حضرات کو جن کی شیخ صاحب سے آشنائی ہے اور اُن خدا ترس لوگوںکو جو اسلام میں تفرقہ اور قتنہ پسند نہیں کرتے مخاطب کر کے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ خلق اللہ پر رحم کریں اور ان کو پریشانی اور گھبراہٹ میں نہ رہنے دیں اور میاں محمد حسین صاحب کو مباہلہ پر آمادہ کریں تاکہ یہ آئے دن کا جھگڑا ایک سال کے اندر طے ہو جاوے یا کسی شدید عذاب میں مبتلاء ہ وکر صداقت پر مُہر کر دے- اس پر بھی اگر میاں محمد حسین انکار کریں اور مباہلہ کے لئے مرد میدان ہو کر نہ نکلیں تو پھر
اے آسمان گواہ رہ اور اے زمین سُن رکھ
کہ حجّت پُوری کر دی گئی- اور ہم تمام اہل اسلام کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اب بھی میاں محمد حسین صاحب فیصلہ کی سیدھی راہ پر نہیں آئیں تو پھر آپ خود انصاف کر لیں کہ سچ کس کے ساتھ ہے اور آیندہ اپنی زندگی کے چند عارضی اور بے بنیاد دنوں کے لئے اس سلسلہ سے فائدہ اُٹھائیں جس کو خد اتعالیٰ نے محض تمہارے ہی رُوحانی فائدہ کے لئے قائم کیا ہے -
بالآ خر ہم پھر میاں محمد حسین صاب کو اطلاع دیتے ہیں کہ بدوں کسی قسم کی شرط کے عالی جناب مرزا غلام احمد صاحب ادام اللہ فیوضہم آپ سے مباہلہ کرنے کے لئے طیار ہیں اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور یوم الجزاء پر ایمان ہے اور مرزا صاحب کی تکفیر و تکذیب میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو تو پھر آئو اور مرد میدان بن کر مباہلہ کر لو-
ضروری یاداشت
۱- میاں محمد حسین بٹالوی کو اختیار ہو گا کہ اخیر نومبر ۱۸۹۸ء تک کسی وقت منظوری مباہلہ کی درخواست مطبوعہ یا تحریری بصیغہ رجسٹری ہمارے پاس بھیجدیں-
۲- ان کی درخواست کے موصول ہونے بعد تین ہفتہ کے اندر کل روپیہ انجمن حمایت اسلام لاہور یا اگر وہ چاہیں تو بنگال بنک میں جمع کرادیا جاوے گا-
۳- روپیہ جمع کرا دینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر تاریخ مقرر ہو کر بمقام بٹالہ بلا کسی قسم کی شرط کے مباہلہ ہو جاوے گا-
مباہلہ میں میاں محمد حسین کے کامیاب ہونے پر انعام دینے والوں کی فہرست
شیخ یعقوب علی (تراب) ایڈیٹر الحکم قادیان
(۱۹۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک پیشگوئی کا پُورا ہونا اشتہار قابل توجہ
گورنمنٹ
اس میں یہ بیان ہے کہ پیشگوئی مندرجہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جزاء سیئۃ بمثلھا و تر ھتھم ذلّہ آج پوری ہو گئی- اس پیشگوئی کا حاصل مطلب یہی تھا کہ فریق مظلوم کو جس قسم کی ذلّت پہنچائی ہے اس قسم کی ذلّت فریق طالم کو پہنچے گی کوئی اس کو روک نہیں سکتا- سو وہ ذلّت فریق ظالم کو پہنچ گئی-
آج میں اس خدائے قادر قدّوس کے ہزار ہزار شکر کے بعد جو مظلوموں کی فریاد کو پہنچتا اور سچائی کی حمایت کرتا اور اپنے پاک کلمات کو پورے کرتا ہے، عام مسلمانوں اور دوسرے لوگوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ جو مَیں نے مولوی صاحب محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعتہ السُّنہ کے مقابل پر اس کی بہت گالیوں اور بہتانوں اور دجّال کذّاب کافر کہنے کے بعد اور اُس کی اس پلید گندہ زبانی کے بعد جو اس نے خود اور اپنے دوست محمد بخش جعفر زٹلی وغیرہ کے ذریعہ سے میری نسبت کی تھی ایک اشتہار بطور مباہلہ ۱۲نومبر ۱۸۹۸ء کو لکھا تھا اور اس میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا کہ جزاء سیعۃ بمثلھا و ترھتھم ذلہ یعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو مدی پہنچائی گئی ہے اسی قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی- سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پُوری ہو گئی کیونکہ مولوی محمد حسین نے بد زبانی سے میری ذلّت کی تھی اور میرا نام کافر اور دجّال اور کذّاب اور ملحدر رکھا تھا اوریہی فتویٰ کفر وغیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا اور اسی بناء پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور کود اس کے لکھواانے سے محمد بخش جعفر زٹلی لاہور وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوںپر لگائے - سو اب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین اور اُستاد نذیر حسین کی نسبت دے دیا یعنی یہ کہ وہ کذّاب اور دجّال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سُنت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے اس فتوے کا باعث یہ ہوا کہ محمد حسین مذکور نے تمام علماء پر اپنا عقیدہ یہ ظاہر کر رکھا تھا کہ وہ ان کی طرح اُس مہدی موعود کا منتظر ہے جو بنی فاطمہ میں سے خلیفہ ہو گا اور کافروں سے لڑے گا اور مسیح موعود اس کی مدد کے لئے اور اس کی خونریزی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے آسمان سے اُترے گا اور اُس نے علماء کو یہ بھی کہا تھا کہ پہلے میں نے غلطی سے ایسا خیال کیا تھا کہ مہدیؑ کے آنے کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں مگر مَیںنے اب اس قول سے رجوع کر لیا ہے اور اب مَیں نے پختہ اعتقاد سے جانتا ہوں کہ ایسا مہدی ضرور آئے گا اور عیسائیوں اور دوسرے کافروں سے لڑے گا اور اس کی تائید کے لئے عیسٰی علیہ السّلام آسمان سے اُتریں گے تا دونو مل کر کافروں کو مسلمان کریں یا مار ڈالیں-‘‘ یہ اعتقاد اس وقت محمد حسین نے مولویوں میں جوش پھیلانے کے لئے ظاہر کیا تھا جبکہ اس نے میرے کافر ٹھہرانے کے لئے ایک فتویٰ لکھا تھا اور بیان کیا تھا کہ یہ شخص مہدی موعود کے آنے سے اور اس کی لڑائیوں سے منکر ہے لیکن جب ان دنوں میں محمد حسین کو گورنمنٹ سے زمین لینے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے پوشیدہ طور پر ۱۴ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو انگریزی میں ایک فہرست شائع کی جس میں اس نے گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا ہے کہ مَیں اس مہدی موعود کی نہیں مانتا جس کے مسلمان منتظر ہیں اور وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں جس میں اس کے آنے کی خبر ہے اور اس کی بد قسمتی س اس انگریزی فہرست کی مسلمانوں کو اطلاع ہو گئی اور لوگوں نے بڑا تعجب کی کیا کہ یہ کیسا منافق ہے کہ اپنی قوم کے آگے مہدی موعود کے آنے کے بارے میں اپنا اعتقاد ظاہر تا ہے اور گورنمنٹ کو یہ سُناتا ہے کہ مَیں اس اعتقاد کا مخالف ہوں - تب مَیں نے اس کے بارے میں استفادہ لکھا اور فتویٰ لینے کے لئے پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کے سامنے پیش کیا- تب مولویوں اور نذیر حسین اس کے اُستاد نے بھی وہ استفتاء پڑھ کر اسی طرح محمد حسین کو کافی اور دجّال ٹھیرایا تھا اور اسی طرح ذلیل کے الفاظ اس کی نسبت لکھے جیسا کہ محمد حسین نے میری نسبت لکھے تھے - سو وہ اسی طرح ذلیل کیا گیا جیسا کہ اس نے جھوٹے فتووں سے مجھے ذلیل کیا تھا-سو اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوگئی- یہ سچ ہے کہ مَیں ایسے خونی مہدی کو نہیں مانتا کہ جو تلوار سے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا چاہے گا اور نہ ایسے مسیح کے آسمان سے اُترنے کا میں قائل ہوں جو ناطق اس خونریزی میں شریک ہوگا- اور مَیں نے دلائل قویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ ایہ اعتقاد خونی میں شریک ہو گا- اور مَیں نے دلائل قویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ اعتقاد خونی مہدی اور ایسے مسیح کے آسمان سے اُترنے کا سراسر جھوٹ اور لغو اور بے اصل ہے اور قرآن اور حدیث سے سراسر مخالف ہے- اب ہر ایک سوچ سکتا ہے کہ اس منافقانہ کاروائی سے جو محمد حسین گورنمنٹ کو تو کچھ کہتا رہا- اور پوشیدہ طور پر لوگوں کو کچھ کہتا رہا- کامل درجہ پر اس کی ذلّت ہو گئی ہے اور مولویوں کی طرف سے وہ بُرے خطاب بھی اس کو مل گئے ہیں جو سراسر ظلم سے اس نے مجھے دیئے تھے- یعنی ہر ایک نے اس کو کذّاب اور دجّال کہا ہے ٭
رہا یہ امر کہ اب گورنمنٹ عالیہ اس کی نسبت کیا رائے رکھتی ہے- سو ہماری دانا گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سوچ سکتی ہے کہ ایسا منافق جس نے گورنمنٹ کے سامنے جُھوٹ بولا کہ مَیں یہ کاروائی کر رہا ہوں کہ خونی مہدی کے آنے کے خیالات لوگوں کے دل سے ہٹا دوں اور مویوں کو یہ لکھ لکھ کر دیتا رہا کہ اس اعتقاد پر پختہ رہو کہ مہدی خونی فاطمہ کی اولاد سے ضرور آئے گا- اور کہتا رہا کہ جو شخص یہ اعتقاد چھوڑتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے ایسے منافق کے قول اور فعل کا کیا اعتبار ہے اور کون سا فائدہ اس کے وجود سے گورنمنٹ کو پہنچ سکتاہے -
پھر دوسری خیانت جو اس کی ذلّت کا موجب ہے یہ ہے کہ اس نے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ مَیں سلطان روم کو خلیفہ بر حق سمجھتا کیونکہ وقریش میں سے نہیں اور پھر اپنی اشاعتہ السنہ نمبر ۵ جلد ۱۸ صفحہ ۱۴۳ سطر ۶ میں میری مخالفت کے لئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مذاہبی پیشوا اور خلیفہ برحق مان لیا ہے اور انگریزی سلطنت کی نسبت اُسی صفحہ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اُن کی اطاعت پولیٹیکل نظر سے یعنی محض منافقانہ طور پر اور مصلحت وقت کے لحاظ سے کرنی چاہیے- مگر مذہبی نظر سے یعنی دلی اخلاص صرف سلطان ہی واجب الاطاعت ہے‘‘ اس تقریر میں اس نے یہ خیانت کی ہے کہ جو مذہبی آزادی مذہبی فوائدہمیں سلطنت انگریزی سے پہنچے ہیں- ان سب کا انکار کر دیا ہے اور سرکار انگریزی کے ایک ثابت شدہ احسان کا خون کر دیا ہے اور یہ نہیں سوچا کہ سکّھوں کے وقت میں جب ہمارے تمام دینی فرائض روکے گئے تھے اور مذہبی احکام بجا لانے میں ہر وقت جان اور مال اورعزّت کا اندیشہ تھا یہاں تک کہ بلند آواز میں بانگ دینیسے مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے- اس وقت سُلطان روم کہاں تھا؟ آخرانگریز ہی تھے جو ہمارے چھوڑانے کے لئے عقاب کی طرح دُور سے آئے اور صد ہا دینی روکوں سے ہمیں آزادگی دی- یہ بڑی بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس سے انکار کریں کہ گورنمنٹ انگریزی کے وجود سے دینی فوائد ہمیں کچھ بھی نہیں پہنچا- بلا شبہ پہنچا ہے بلکہ سُلطان روم سے زیادہ پہنچا ہے- اس گورنمنٹ کے آنے سے ہم اپنے فرائض مذہبی آزادی سے ادا کرنے لگے- ہمارے مذہبی مدسے کھُل گئے- ہمارے واعظ تسلّی سے وعظ کرنے لگے- سکھّوں کے وقت کسی ہندو کو مسلمانوں کرنے سے ……… اکثر خون ہو جاتے تھے- صد ہا مسلمان اسی وجہ سے قتل گئے گئے- اب انگریزی عمل داری کا جھنڈا ہمارے ملک نے اعلیٰ درجہ تک دینی علوم میں ترقی کی اور ہمیں اس گورنمنٹ کے آنے سے وہ دینی فائدہ پہنچا کہ سلطان روم کے کارناموں میں اس کی تلاش کرنا عبث ہے - اب کس قدر نا شکری بلکہ بد ذاتی ہوگی کہ ہم ان تمام احسانوں کو اندر ہی اندر دبا دیں اور اس شکر کا اقرار نہ کریں جو انصاف کے رو سے ہمیں کرنا لازم ہے- کیا یہ سچ ہے کہ انگریزی سلطنت سے ہمیں امن اور آزادی اور دینی فائدہ نہیں پہنچا؟ ہر گز سچ نہیں- پھر محمد حسین کا یہ قول کہ وہ یہ تمام احساناب سلطان روم کی طرف منسوب کرتا ہے کس قدر بے انصافی اور ظلم پر مبنی ہے- وہ لکھتا ہے کہ ’’ ہم لوگ انگریزوں کی اطاعت محض پولیٹیکل نظر سے کرتے ہیں ورنہ دینی حمایت ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں یہ سب سلطان کی طرف سے ہے‘‘ یہ دونو فقرے اس کے ایسے برے اور گندے اور فتنہ انگیز ہیں کہ اگر میرے مُنہ سے بھی نکلتے تو مَیں ضرور اپنے اُوپر فتویٰ دیتا کہ مَیں نے سرکار انگریزی کے بے شمار دینی احسانوں کے مقابل سخت نا شکر گزاری اور نمک ّ*** کا کلمہ استعمال کیا ہے- ان لوگوں نے اسی بناء پر مجھے کافر ٹھہرایا تھا جبکہ مَیں نے سلطان روم کے مقابل گورنمنٹ انگریزی کے احسانات کو ترجیع دی تھی جس کی نسبت سید احمد خانصاب کے سی ایس آئی نے اپنے علی گڑھ انسٹیٹوٹ گزٹ مع تہذیب الاخلاق ۲۴ جولائی ۱۸۹۷ء میں میری گوئی دی تھی-
اب خلاصہ کلام یہ کہ حیا دار آدمی کے لئے بھی کچھ تھوڑی نہیں کہ گورنمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا اور اپنی قوم سے بھی اپنی نسبت کافر اور کذّاب اور مفتری کا فتویٰ سُنا - سو بلا شبہ وہ الہامی پیشگوئی اس پر پوری ہو گئی جس میں لکھا تھا کہ فریق ظالم اسی قسم کی ذلّت دیکھے گا جو اُس نے فریق مظلوم کی - اب ذیل میں مولویوں کا وہ فتویٰ جس میں نذیر حسین محمد حسین کا اُستاد بھی شامل ہے لکھتا ہوں اور ناظرین پر اس بات کا انصاف چھوڑتا ہوںکہ میرے الہام ۱۲ نومبر ۱۸۹۸ء کو غور سے پڑھ کر خود گواہی دیں کہ خدا تعالیٰ نے کیسے وہی الفاظ محمد حسین کی نسبت مولویوں کے مُنہ سے نکالیٰ جو محمد حسین نے میری نسبت کہے تھے اور یہی معنے اس الہامی فقرہ کے ہیں کہ جزاء سیۃ بمثلھا- نقل فتویٰ شامل ہذاہے-
راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۳ جنوری ۱۸۹۹ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عَلیٰ رَسُولٰہ الکَرِیْم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع کہ ایک شخص مہدی موعودؑ کے آنے سے جو آخر زمانہ میں آئے گا- اور بطور ظاہر فاطمہ میںسے ہو گا- جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے - قطعاً انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو کہ جس پر تمام اہل سنت والی دلی یقین سراسر لغو و بیہوردہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کی ضلالت اورالحاد خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہل سنت میں سے اور راہِ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذّاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہل سنت میںسے اور راہِ راست پرسمجھ سکتے ہیں یا وہ کذّاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجّال ہے- بیّنو توجروا المر قوم ۲۹ دِسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵شعبان ۱۳۱۶ھ
السائل المعقصم باللہ الاحدمرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایّد
(۱) جو شخص عقیدہ ثابتہ مسلّمہ اہل سُنت و جماعت سے خلاف کرے تو وہ صریح اور بے شک اس آیت کریمہ کے وعید کا مستحق ہے-
قال عز من قال و من یشا قق الرسل من بعد سا تیبعین لہ الھدی و یَّتَّبِعْ غیر سبیل المومنین نو لہ ما تولی و نسلہ جھنمو ساء ت مصیرا- قال صلّی اللہ علیہ وسلم من فارق الجماعۃ قید شبر فقد خلع ر بقۃ الاسلام من عنقہ رراہ احمد و ابو داؤد - قل صلے اللّٰہ علیہ وسلم اتبعو السوادالاعظم فانہ من شَذّ شُذّ فی نار رواہ ابن ماجہ - قال صلے اللّٰہ علیہ و سلم ان اللّٰہلا یجمع امتی علیٰ ضلالۃو ید اللّٰہ علی الجماعۃ و من شَذّ شُذّ فی النار رواہ الترمذی- اورجمہور اہل سُنت اس پر متفق ہیں کہ مہدی علیہ السّلام اخیر زمانہ زمانہ میں تشریف لادیں گے اور نبی فاطمہ میں سے ہو گااور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہو گا اور ظاہر باطنی خلافت کرے گا- و من خالف عن ذالک فقد ضل اضلل و من یضلل اللہ فما لہ من سبیل - حررہ عبد الحق الغزنوی تلمیذ مولوی عبد اللہ غزنوی
(۲)درباب مہدی معہود و نزول عیسیٰ مریم رسول اللہ و خروج دجّال اکبر احادیث متواترہ دارو اند و بریں است اجماع اہل سُنت و جماعت منکر احادیث متواترہ کافر و مخالف اہل وسنّت جو جماعت مبتدع و ضال مفصل است - فقط
عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہا ثم امرتسری
(۳) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا شخص جس کا ذکر سوال میں مندرج ہے - مبتدع اور دائرہ اہل سُنت و جماعت سے خارج ہے- کما حررہ المجیب انا عبداللہ الغنی ابو محمد زبیر غلام رسول الحنفی ابو محمد زبیر غلام رسول الحنفی القاسمی عفی عنہ- امرت سر ی ٭ مہر
(۷) یہ شخص مذکور سوال مفتری کذّاب و ضال و مضل و خارج اہلسنّت سے ہے الراقم سیّد محمد نذیر حسین دہلوی - بقلم خود
(۸) الجواب صحیح و صواب (۹) صحیح الجواب
(۱۰) جو عقیدہ خلاف اہلسنّت و الجماعت ہو وہ اہل اسلام کے نزدیک کس طرح معتبر ہو سکتا ہے- فقیر حشمت علی عفی اﷲ عنہ
(۱۱) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے اور احادیث نبوی صلعم کا منکر ہے- فقط العبد الخیف محمد وصیت علی مدرس مدرسہ حسین بخش صاحب
(۱۲) اصاب من اجاب- محمد شاہ عفا عنہ
(۱۳) جو شخص کہ احادیث صحیحہ سے اور اجماع سے انکار کرے اس کی ضلالت اور گمراہی میں کچھ شک نہیں کیونکہ سینکڑوں حدیثوں سے امام مہدی علیہ السلام کا آنا اخیر زمانہ میں ثابت ہے اور یہ شخص کذّاب اور دجّال ہے- فقط محمد یونس
مدرس مدرسہ مولوی عبدالواحد صاحب
(۱۴) الجواب صحیح - فتح محمد مدرس مدرسہ فتح پوری
(۱۵) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے- عبدالغفور مدرس مدرسہ حسین بخش
(۱۶) جو شخص مہدی علیہ السلام کے وجود باوجود کا انکارکرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے- ایسے مغشوش الرائے یا وہ گو عبدالدنیا کے کلام کا اعتبار نہیں- ایسا شخص منکر احادیث نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے- اس کا مقام ہے- محمد عبدالغنی الہ آبادی مدرس مدرسہ فتح پوری
(۱۷) واقعی یہ شخص مخالف حدیث نبوی کے عقیدہ رکھتا ہے- ایسے شخص کا مکان بلا شک نار ہے کیونکہ یہ فعل اہل بدعت کا ہے- محمد ہدایت اﷲ عفی عنہ فلتی علاقہ کانپور مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی
(۱۸) جو شخص امام مہدی علیہ السلام کا انکار کرتا ہے- وہ گمراہ ہے اور احادیث صحاح کا منکر ہے- مثلاً ترمذی وغیرہ میں یہ حدیثیں موجود ہیں- عبداﷲ خاں بچھرایونی بقلم خود - مہر
(۱۹) الجواب الصحیح واقعی حدیث نبوی صلعم کا منکر ہے اور ایسے عقیدہ کا شخص کذاب لوگوں میں سے ہے- فقط
مولوی محمد عبدالرزاق خلف حاجی خدا بخش المتلخص ناچیز ساکن قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر
(۲۰) الجواب - اقوال و باﷲ التوفیق- معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفاً و خلفاً اہل اسلام کے نزدیک مسلم ہے صرف ضلالت اور گمراہی ہے- اور یہ انکار کسی دجّال کا کام ہے- فقط واﷲ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم
دستخط الراقم عبدالعزیز عفی عنہ لودیانوی
(۲۱) از بندہ رشید احمد عفی عنہ- بعد سلام مسنون مطالعہ فرمایند
مسیح موعود کا آنا اور مہدی کا آنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چنانچہ ابودائود میں ان الفاظ میں وارد ہوئی- لولم یبق من الدنیا الاّ یوم لطول اﷲ ذٰلک الیوم حتی یبعث رجلاً منّی او من اھل بیتی یواطیٔ اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی یملاً الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً انتھیٰ- پس جو شخص اس سے منکر ہے وہ مخالف عقیدہ سنت جماعت اور خاطی ہے اس کو ہرگز متبع سنّت نہ جاننا چاہئیے- فقط- واﷲ اعلم
رشید احمد
مورخہ ۱۸؍ شعبان ۱۶ ہجری
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) ۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء
تعداد ۴۰۰۰
(۲۰۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک پیشگوئی کا پورا ہونا
جس سے علماء پنجاب و ہندوستان دینی و اخلاقی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں
اے علماء پنجاب و ہندوستان خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم کرے- آپ کو معلوم ہو کہ اس وقت اس خدا نے جو سچائی کو پسند کرتا اور نفاق اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہے- آپ لوگوں کے لئے بڑا عمدہ موقعہ دیا ہے کہ آپ اس فتوے پر نظر کر کے جو آپ نے ۱۵؍ شعبان ۱۳۱۶ھ کے استفتاء کے پیش ہونے کے وقت دیا ہے آئندہ اس طریق کو اختیار کریں جو تقویٰ اور دیانت اور امانت کے مناسب حال ہے-
اس امر کی تفصیل یہ ہے کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنۃ جو آپ لوگوں کا سرگروہ کہلاتا ہے- کئی سال سے مجھے مہدی معہود کا منکر قرار دے کر کیسی بدگوئی اور بدزبانی کارروائی میری نسبت کر رہا ہے- یہاں تک کہ اب اس نے گالیوں اور طرح طرح کے افترائوں اور تہمتوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور میری توہین اور ازالۂ حیثیت عرفی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا اور ایک شخص محمد بخش جعفر زٹلی نام کو کئی قسم کی طمع دے کر اس بات کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس بات کا برابر سلسلہ جاری رکھے کہ طرح طرح کے گندے اشتہار گالیوں سے بھرے ہوئے میری نسبت جاری کرے- پس بے عزتی اور توہین اور ازالہ حیثیت عرفی میں کوشش کی گئی اور اب تک برابر بلاناغہ یہ سلسلہ جاری رہا اور بار بار اشتہاروں اور خطوط کے ذریعہ سے مباہلہ کی درخواست بھی کی گئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ ناپاک کارروائی محمد حسین اور اس کے رفیقوں کی کسی فتنہ کی موجب نہ ہو اور میرے گروہ کو اس سے اشتعال پیدا نہ ہو اس لئے مَیں نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ میں میموریل بھیجنے کی صلاح دی تاکہ گورنمنٹ کی طرف سے انتظاماً اس گندی کارروائی کے انسداد کے لئے کوئی حکم جاری ہو اور اس طرح پر ایک مظلوم فرقہ اپنا انصاف پا کر خاموشی اختیار رکھے- لیکن گورنمنٹ کی طرف سے اس میموریل کا صرف اس قدر جواب آیا کہ بذریعہ اطلاعات چارہ جوئی کرنی چاہئیے اور اس جواب کا یہ نتیجہ ہوا کہ محمد حسین اور اس کے رفیق محمد بخش نے اپنی بدگویٔ کے اشتہار شائع کرنے میں اَ ور بھی ترقی کی- کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ عدالتوں میں نالش کرنا ہمارا طریق نہیں ہے- سو انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ تیزی اور گندہ زبانی سے میری نسبت گالیوں سے بھر ے ہوئے اشتہار شائع کرنے شروع کر دیئے اور اس پر جعفرزٹلی محمد حسین کی ایما سے مباہلہ پر بھی زور دیتا رہا- چنانچہ کئی اشتہار مباہلہ کے لئے بھیجے اور ہمارے دل کو بار بار دکھایا- چونکہ ان فتنہ انگیز تحریروں کے بد اثر کا اندیشہ تھا اس لئے مَیں نے ان فتنوں کے روکنے کی غرض سے یہ مصلحت سمجھی کہ مباہلہ کے طور پر نہایت نرم الفاظ میں ایک اشتہار لکھوں- سو مَیں نے ایک اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع کیا- اس اشتہار کا خلاصہ مطلب صرف ایک دعا تھی یعنی یہ کہ ہم دونوں فریق میں سے جو ظالم ہے خدا اس کو ذلیل کرے- اور اس دُعا پر ایک الہام ہوا تھا جس میں ارادہ الٰہی ان الفاظ سے بتلایا گیا تھا کہ جزاء سیۃ بمثلھا و ترھقھم ذلّہ- یعنی جس فریق ظالم کی طرف سے فریق مظلوم کو کوئی بدی پہنچی ہے- کیونکہ پیشگوئی کا اصل مطلب اس شخص کو ذلّت پہنچنا تھا جو کاذب اور ظالم ہو- اور الہام الٰہی میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اسی قسم کی ذلّت اس کو پہنچے گی جو اس نے پہنچائی ہو- سو یہ الہام کامل طور پر ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو پورا ہو گیا- کیونکہ اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے بعد تاریخ مذکورہ میں محمد حسین کی یہ ایک خیانت آمیز کارروائی پکڑی گئی کہ اس نے محض دروغ گوئی کی راہ سے گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو یہ یقین دلایا کہ وہ اس مہدی کے آنے کا منکر ہے جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور وہ کافروں سے لڑے گا- اور اس بارے میں زمین کی طمع کے لئے ایک تحریر انگریزی میں ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو شائع کی اور اس میں گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا کہ میں مہدی کے آنے کی تمام حدیثیں غلط سمجھتا ہوں اور پہلے سے گورنمنٹ کو یہ دھوکہ بھی دے رکھا کہ مَیں اہل حدیث کا سرگروہ ہوں یعنی میرا اور ان کا ایک عقیدہ ہے اور ادھر پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کو یوں خراب کیا کہ ان کو بار بار یہی سبق دیا کہ مہدی معہود ضرور آئے گا اور وہ خلیفہ وقت اور صاحب السیف والامر ہو گا اور بار بار ان کو یہی کہتا رہا کہ میرا اور تمہارا مہدی کے بارے میں عقیدہ ایک ہے اور مَیں اس مہدی کا قائل ہوں جو تلوارکے ساتھ دین کو پھیلائے گا اور خلیفۃ المسلمین ہو گا اور اسی بناء پر اس نے میری تکفیر کے لئے استفتاء طیار کر کے شور قیامت برپا کیا- سو جب مولوی محمد حسین کا اس قسم کا رسالہ مجھے دستیاب ہوا تو اسی وقت مَیں نے بلاتوقف اسی تاریخ یعنی ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو ایک استفتاء لکھا اور علماء پنجاب اور ہندوستان سے یہ فتویٰ طلب کیا کہ ایسا شخص جو مہدی کے وجود سے منکر ہے اس کے حق میں تمہارا کیا فتویٰ ہے سو نذیر حسین دہلوی اس کے اُستاد نے جیسا کہ مجھے کذاب دجّال مفتری لکھا تھا ایسا ہی بلاتوقف محمد حسین کی نسبت فتویٰ دے دیا کہ وہ کذّاب دجّال مفتری ہے اور مولوی عبدالجبار غزنوی نے اس کی نسبت یہ فتوے ٰ دیا کہ وہ کافر اور گمراہ اور ضال مضل ہے اور عبدالحق غزنوی نے اپنے فتویٰ میں اس کو جہنمی اور گمراہ ٹھہرایا اور مولوی احمد اﷲ امرتسری نے اپنے فتویٰ میں عبدالحق سے اتفاق کیا مگر اتنا زیادہ لکھا کہ ایسے گمراہ کے ساتھ میل ملاقات اور نشست برخواست جائز نہیں- لدھیانہ اور لاہور کے مولویوں نے بھی ان فتووں سے اتفاق کیا اور مولوی عبداﷲ صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور نے بڑے شدّ و مد سے حدیثوں کے حوالہ سے اس خیانت پیشہ کی خبر لی اور مولوی عبدالعزیز لدھیانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد یعقوب دہلوی اور دیگر علماء نامدار نے جیسا کہ ایسے شخص کی سزا تھی بڑی شدّ و مد سے فتوے لکھے اور تمام علماء کے فتووں کا خلاصہ یہی ہے کہ انہوں نے اس خیانت پیشہ اور مہدی معہود کے منکر کو کافر دجّال بے ایمان مفتری کذّاب جہنمی دائرہ اسلام سے خارج گمراہ ضال مضل اور ایسا ہی دوسرے الفاظ سے یاد کیا اور اس طرح پر اس پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پُورا کیا کہ جو مَیں نے اشتہار مباہلہ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی-
اب مَیں ان تمام مولوی کو جنہوں نے منکر مہدی معہود کی نسبت یہ فتوے دیا ہے یہ نیک صلاح دیتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان پر منافقانہ طریق کا کوئی دھبہ نہ لگے اور ان کی دیانت اور امانت اور تقویٰ اور دینداری میں فرق نہ آوے تو وہ بلاتوقف ایک جلسہ کر کے محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنّہ کو اس جلسہ میں بلاویں اور اس کو صاف طور پر کہہ دیں کہ آج تک تم ہم سب پر یہ اپنا اعتقاد ظاہر کرتے رہے کہ تمہارا یہی عقیدہ ہے کہ تم اس مہدی معہود کے قائل ہو جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور لڑائیاں کرے گا اور دین کو پھیلائے گا اور اب تمہاری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم نے زمین لینے کی طمع سے گورنمنٹ کو یہ احسان جتلانا چاہا ہے کہ تم ان تمام حدیثوں کو جو مہدی معہود کے بارے میں آئی ہیں جھوٹی سمجھتے ہو اور تم نے صریح طور پر ایک انگریزی فہرست مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مہدی کی حدیثوں کی نسبت لفظ موضوع کہہ کر اپنا عقیدہ انکار مہدی ظاہر کر دیا ہے- اب یا تو صاف طور پر اپنا توبہ نامہ چھاپ کر شائع کرو تا گورنمنٹ عالیہ کو بھی تمہارے اندرونی حالات معلوم ہوں اور یا اس بات کو مان لو کہ تم اس ہمارے فتوے کے مستحق اور اہلحدیث کے عام عقیدہ کے مخالف اور دجّال اور کذّاب اور ملحد اور بے دین ہو-
غرض اب تمام علماء فرض ہے کہ محمد حسین سے ضرور فیصلہ کریں اور اگر وہ فیصلہ چھاپ کر شائع نہ کریں تو ان کی مولویت اور تقویٰ اور طہارت کا یہی نمونہ کافی ہے کہ وہ فتوے ٰ جس کو انہوں نے اپنی قلم سے لکھا اب محض نفسانی مصالح سے اس کے پابند رہنا نہیں چاہتے اور جس کو اپنے فتووں میں کافراور بے دین اور کذّاب اور دجّال اور مفتری قرار دیا اور اس سے کنارہ کرنے کا بھی حکم دیا- پھر اس سے مخالطت اور موانست رکھتے ہیں- یہ کس قدر بدچلنی اور بدامانتی اور ناپاکی نفس کا طریق ہو گا کہ جب مَیں نے ایسے مہدی سے انکار کیا تو مجھے کافر اور دجّال ٹھیرانے میں اب تک برابر کوششیں ہو رہی ہیں اور جب محمد حسین نے نفسانی طمع کے لئے ایسے مہدی سے انکار کیا تو اس کے ساتھ برابر میل ملاقات جاری رہے- آپ لوگ جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ مَیں منافقوں اور کافروں کو ایک ہی جگہ جمع کروں گا-
پس اب آپ لوگوں کو ڈرنا چاہئیے کہ اس فتویٰ کے بعد خاموشی اختیار کر کے منافقوں کر ذیل میں نہ آجائیں-وقال اﷲ تعالیٰ ان المنافِقِین فی الدرک الاسفل من النار- اگر ممکن ہو تو محمد حسین کا دامن اس الزام سے اسی کے صریح اقرار سے پاک کرنا چاہئیے- ورنہ بآواز بلند اپنے فتوے ٰ کی جابجا اشاعت کرنی چاہئیے- خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی کہ اب قبر میں پائوں لٹکائے ہوئے ہیں بڑے الزام کے نیچے ہیں کیونکہ انہوں نے استفتاء میں موٹی قلم سے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ ایسا شخص مفتری کذّاب اور دائرہ اہل سنت سے خارج ہے- اب چاہئیے کہ وہ اس فتوے کے بعد محمد حسین اپنے شاگرد سے پورا فیصلہ کریں- یا اس سے توبہ نامہ لیں اور شائع کریں اور یا اس کا وہ عقیدہ جو اہل حدیث کا اجماعی عقیدہ ہے اس کی قلم سے لکھوا کر شائع کرا دیں تا گورنمنٹ بھی اُس کے منافقانہ حالات سے دھوکہ میں نہ رہے- اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو تو اپنے فتوے کو اس کی نسبت عام طور پر شائع کر دیں- اور اگر ایسا نہ کریں تو پھر یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ اپنی ریش سفید کو منافقانہ سیاہی کے ساتھ قبر میں لے جاویں گے-
بالآخر ہم مردانہ طور پر اپنا اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خیالات ان تمام مولویوں کے کہ خونی مہدی کسی وقت آنے والا ہے جو بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور وہ جبر کے ساتھ دین کو غالب کرے گا اور خلیفہ یعنی بادشاہ ہو گا بالکل لغو اور باطل اور جھوٹا عقیدہ ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا- بلکہ یہ ثابت ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی- اور غفلت پھیل جائے گی- تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق پر اور بروزی طور پر ایک شخص آئے گا جو نہ لڑے گا اور نہ خونریزی کرے گا اور نہ زمین کی بادشاہی اور خلافت ظاہری سے اس کو کچھ سروکار ہو گا- اور محض روحانی طور پر سچے دین کی دلائل اور نشانوں کے ساتھ مدد کرے گا اور نیک دل اور غریب طبع انسان اس کے ساتھ شامل ہو جاویں گے- سو یاد رکھو کہ وہ پیشگوئی تمہارے ملک میں پوری ہو گئی- اب کسی خونی مہدی کی انتظار عبث ہے- دلوں کو صاف کرو اور نفسانی جوشوں کے تابعدار مت بنو اور سچّائی کے ساتھ اور علمی طاقت کے ساتھ اور رُوحانی برکتوں کے ساتھ دین کی مدد کرو نہ یہ کہ تلوارکے زمانہ کی انتظار کرو- اس دین میں کیا خوبی ہو سکتی ہے جو اپنی ترقی میں تلوار کا محتاج ہے؟ سو یقینا سمجھو کہ اسلام تلوار کا محتاج نہیں- اسلام اُسی خدا کی طرف ہدایت کرتا ہے جو زمین و آسمان کے دیکھنے سے بھی اس کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے-
سو ایسے خیالات سے توبہ کرو اور رُوحانیت کے طالب بنو تا تمہارے دل روشن اور پاک ہوں اور تا ہر ایک قسم کا فساد اور فتنہ تم سے دُور ہو اور تا تم پاک دل ہو کر اس خدا کو دیکھ سکو جو بغیر حقیقی پاکیزگی کے نظر نہیں آ سکتا-
یہی راہ خدا کے پانے کی راہ ہے - خدا
ہر ایک کو اس کی
توفیق دے
آمین
الراقم الناصح میرزا غلام احمد از قادیان
۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء
ضمیمہ اشتہار ہذا
مورخہ ۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء
محمد حسین کی فہرست انگریزی مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کا عنوان یہ ہے-
The following is a list of articles in the Ishat- ul- Sunnah where in the illegality of rabettion or apposition to the govt and the tase nature of iehad (leascentade) is aplained.
ترجمہ:- ذیل میں فہرست اُن مضامین اشاعت السنّہ کی ہے جن میں گورنمنٹ کی مخالفت اور اس کے برخلاف بغاوت کا ناجائز ہونا اور جہاد کی اصل حقیقت کو بیان کیا ہے-
اس کے بعد شیخ محمد حسین ایک ایک دو دو سطر میں نتیجہ اور لُب لباب ان مضامین کا دیتا ہے جو اس نے مذکورہ بالا غرض کے لئے ۱۸۶۹ء سے لے کر ۱۸۹۶ء تک لکھے- ان ہی مضامین میں وہ مہدی کے متعلق مضامین کا ذکر کرتا ہے جن کا وہ لب لباب صفحہ ۵ میں اس طرح پر درج کرتا ہے -
Criticism of Traditions reqarding the mehdi and qrguments showing their inoorrectness.
ترجمہ:- ان حدیثوں پر جرح کی گئی ہے جو مہدی کے متعلق ہیں اور دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ان حدیثوں کا نا درست ہونا ثابت ہوتا ہے-
Questioning the authenticity of traditions describring the signs of the mehdi.
ترجمہ :- جن حدیثوں میں مہدی کی علامات دی گئی ہیں اُن کے غیر وضعی ہونے پر شُبہ ہے-
اس فہرست کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں صرف وہی مضمون درج کرنے مدّنظر ہیں کہ جن کے ذریعہ سے محمد حسین نے اہلِ اسلام کے دلوں سے گورنمنٹ کے برخلاف مخالفانہ اور باغیانہ خیالات کو دُور کرنا چاہا ہے- ایسی فہرست میں اپنے مضامین متعلقہ مہدی کا ذکر کرنا اور پھر اُن کا یہ لب لباب دینا کہ وہ سب احادیث جو مہدی کے متعلق ہیں وہ غلط اور نادرست اور بے اعتبار اور وضعی ہیں- اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ محمد حسین مہدی کے متعلق احادیث ماننے والوں کو گورنمنٹ کا مخالف اور باغیانہ خیال رکھنے والا سمجھتا ہے ورنہ مہدی کی حدیثوں کو غلط اور موضوع قرار دے کر ان کو اس فہرست میں درج کرنے سے اور کیا غرض ہو سکتی ہے- اس کے نزدیک مہدی پر ایمان گورنمنٹ کی نگاہ میں ایک باغیانہ خیال ہے جس کی تردید اس نے اس طرح سے کر دی ہے-
بالآخر ہم ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جیسے محمد احمد اﷲ صاحب امرتسری وغیرہ کہ جو محمد حسین کو ہماری مخالفت کر نے پر یہ سمجھتے تھے کہ اس نے انکار مہدی سے رجُوع کر لیا ہے- وہ یقین رکھیں کہ وہ اندرونی طور سے ہمیشہ مہدی کا منکر رہا ہے- ورنہ وہ آج اس فہرست میں گورنمنٹ کے آگے ان حدیثوں کا غلط ہونا ظاہر نہ کرتا- منہ
(۲۰۱)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پنجاب اور ہندوستان کے اُن مولویوں کی ایمانداری کا نمونہ جنہوں نے میری نسبت کفر کا فتویٰ دیا تھا- خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی استاد شیخ ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے تقویٰ اور دیانتداری کی حقیقت اور ابُو سعید محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنّہ کا گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو صریح جھوٹ بول کر سخت دھوکہ دینا اور اُس کی اور اُس کے گروہ کی اس قابلِ شرم کارروائی سے اُس میری پیشگوئی کا پورا ہونا جو اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی-
یعنی یہ پیشگوئی کہ جزاء سئۃ بمثلھا ترھقھم ذلہ- مالھم من اﷲ من عاصم- یعنی فریق ظالم کی اُسی قسم کی ذلّت پہنچے گی جو اس نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو-
مبادا دلِ آں فرویایہ شاد
کہ از بہرِ دنیا دہد ویں بباد
اس بات سے تو ہم کو بہت خوشی ہوئی کہ مولوی نذیر حسین دہلوی اور عبد الجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور دوسرے علماء ان کے ہم مشربوں نے مولوی حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنّہ کو جس نے مہدی خونی کے آنے کی نسبت حضور گورنمنٹ عالیہ میں اپنا انکار ظاہر کیا بوجہ اس کے اس عقیدہ کے اس کو کذاب اور مفتری اور دجّال اور کافر اور دائرہ اسلام سے خارج اپنے فتووں میں لکھااور اس طرح پر اس کو ذلیل کر کے ہماری وہ پیشگوئی پوری کی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی- اور نیز ان احادیث نبویہ کو بھی پورا کیا جو آخری زمانہ کے مولویوں کے بارے میں ہیں اور اپنے طریق عمل سے ان کی صحت پر گواہی دے دی- مگر اس دوسری بات کے خیال کرنے سے ہمیں رنج بھی ہوا کہ ان لوگوں کے یہ فتوے دیانت اور ایمانداری پر مبنی نہیں بلکہ یہود کے علماء کی طرح اپنی نفسانی اغراض اور تعصبات اور کینہ دری پر مبنی ہیں- چنانچہ ان لوگوں کی یہی کاروائی ان کے حالات باطنی پر کافی گواہ ہے جو ہمارے استفاء مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء میں ان سے ظہور میں آئی- ان سے یہ فتویٰ طلب کی گیا تھا کہ اس شخص کی نسبت آپ لوگ کیا فرماتے ہیں جو اس مہدی کے آنے کا منکر ہو جس کے نسبت آپ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی خلیفہ ہو گا- اور بذریعہ لڑائیوں کے دین کو غالب کرے گا تو ان مولویوں نے اپنے دلوں میں یہ خیال کر کے ایسے اعتقاد کا پابند تو یہی شخص یعنی یہ عاجز ہے محض شرارت کی راہ سے یہ تجویز کی کہ آئو اب بھی اس فتوے کے رو سے اس کو کافر اور دجّال اور مفتری قرار مرردود حدیثوں کے ردّ کرنے والے اور ایسے مہدی کے منکر ککی نسبت کافر اور دجّال اور کذّاب اور مفتری ہونے کا فتویٰ دیں جیسا کہ نذیر حسین اور عبد الجبار اور رشید احمد اور عبد الحق وغیرہ نے فتویٰ دیا- تو یہ فتویٰ محض بد دیانتی کی راہ سے ہے- لیکن محمد حسین نے جس پیمانہ سے ہمیں ناپ کر دیا تھا- خدا نے وہی پیمانہ اس کی ذلّت کے لئے اس کے آگے رکھانا الہام جزا سیئۃ بمثلھا کامل طورپر پورا ہو جائے- غرض محمد حسین کو صرف یہی سزا نہیں ملی کہ اس کے دوستوں نے ہی اس کا نام کافر اور دجّال رکھا بلکہ جس تعّدی اور زیادتی کے ساتھ میری نسبت اس نے فتوے دلائے تھے- اسی طرح فتویٰ دینے والوں نے اس کے ساتھ بھی اپنے فتووں میں تعّدی اور زیادتی کی تو دونوں پہلو سے مثل کی شرط پوری ہو جائے جو الہام جزاء سیئۃ بمثلھا میں پائی جاتی تھی-
اب ان مولویوں کے لئے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ مہدی معہود کا انکار کرنے والا کافر اور دجّال اور مفتری اور دائرہ اسلام کے خارج ہو جاتا ہے- بہتر طریق یہ ہے کہ ایک جلسہ کر کے اس جلسہ میں محمد حسین کو طلب کریں- پھر اگر وہ صاف طور پر اقرار کر ے کہ وہ بھی اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر ہے جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے پھیلائے گا تو اس کے دستخطی تحریر لے کر چھپوا دیں اور یاد رکھیں کہ وہ ہر گزایسی تحریر نہیں دے گا اگرچہ یہ لوگ اس کو ذبح کردیں کیونکہ یہ اس کے دینوی مقاصد کے بر خلاف ہے- اور اگر وہ ایسا کرے توپھر گورنمنٹ کو کیا منہ دکھاوے - ابھی تو وہ لکھ چکا ہے کہ وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں تو پھر اب ان کو صحیح کیونکر بناوے- لہذا ممکن نہیں کہ ایسا کرے- پس اگر یہ علماء جو اس کافر اور دجّال اور مفتری ہیں لیکن ہم نہایت نیک نیتی سے گورنمنٹ عالیہ کو اس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ وہ محمد حسین کے چال چلن سے خبر دار رہے اور اس وقت تک اس کی حالت کو قابل اعتماد نہ سمجھے جب تک وہ ان مولویوں سے جو ایسے خطرناک مہدی کے آنے کے منتظر ہیں- بکلی علیحدگی اختیار نہ کرے- گورنمنٹ عالیہ سمجھ سکتی ہے کہ کیسا ان لوگوں کا خطرناک عقیدہ ہے کہ ایسے خونی مہدی کے منکر کو کافر قرار دیتے ہیں اور کذّاب اور دجّال اور مفتری کا نام رکھتے ہیں- اور مَیں گورنمنٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ محمد حسین مذکور کا یہ کہنا کہ مَیں ایسے مہدی کے آنے کا قائل نہیں اور مَیں ایسی حدیثوں کے صحیح نہیں سمجھتا بالکل منافقانہ پیرایہ میں ہے اور وہ انکا مہدی میں سراسر عنافقانہ طریق اختیار کرتا اور گورنمنٹ کو دھوکہ دیتا ہے - یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ دیکھ لے گی یہ فتویٰ جومنکر مہدی کی نسبت مولویوں نے لکھا ہے کہ یہ محمد حسین کی نسبت ہر گز جاری نہیں کیا جاوے گاکیونکہ وہ در پر فی الفور اون کو کہہ دے گا کہ مَیں اس خونی مہدی کے آنے کا قائل ہوں- اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس قدراختلاف کے ساتھ کہ وہ مہدی کے آنے سے انکاری ہو اور وہ لوگ اس کافر کو دجّال کہیں اور مفتری اور کذّاب اور جہنّمی اس کا نام رکھیں- اور پھر ان کا باہمی میل ملاقات جاری رہے بجز اس صورت کے کہ درپردہ ایک ہی اعتقاد پر متفق ہوں- وہ تو فتویٰ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ ایسے آدمی کے ساتھ کہ اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر نہیں میل ملاقات ہر گز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہے-
غرض اب اگر اس کے بعد مولوی محمد حسین کے تعلقات ان مولویوں کے ساتھ قائم نہ رہے اور میل ملاقات سب ترک ہو گیا اور ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے تب تو اس بات کو مان لیا جائے گا کہ محمد حسین کا گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یہ ظاہر کرنا کہ مَیں اس مہدی کا آنا نہیں مانتا لیکن اگر محمد حسین مذکور کا میل ملاقات ان فتویٰ دینے والوں سے موقوف نہ ہوا- اور بدستور باہم شیر و منکر رہے تو پھر گورنمنٹ عالیہ کو قطعی اور یقینی طور پر سمجھنا چاہیے کہ ان باہمی تعلقات قائم ہیں اور یہ سب اس خونی مہدی کے منتظر ہیں-
اور عام مسلمانوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے ان مولویوں کے ایسے چال چلن پر غور کریں یہ ان کے کشتی بان کہلاتے ہیں اور سوچیں کہ کیا ایسے لوگوں کی پیروی کر کے کسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے- اب ذرا فتویٰ ہاتھ میں لے کر نذیر حسین کو پوچھیں کہ کیا ہم محمد حسین کو کذّاب دجّال، مفتری کہیں ؟ پھر عبد الجبار غزنوی کے پاس جائیں اور اس سے دریافت کریں کہ کیا آپ کے فتویٰ کے مطابق محمد حسین کو ہم کافر قرار دیں؟ اورپھر عبد الحق غزنوی کو بھی اسی جگہ مل لیں اور اس سے پوچھیں کہ کیا تمہارے فتویٰ کے رُو سے ہم محمد حسین کو جہنمی اور ناری کہا کریں- اورپھر ذرا تکلیف اُٹھا کراسی جگہ امرتسر میںمولوی احمد اللہ صاحب کے پاس جائیں اور ان سے دریافت کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کا فتویٰ عبد الحق کے فتویٰ کے مطابق ہے؟ کیا ہم آیندہ محمد حسین کو جہنّمی کہا کریں اور ہم آیندہ اس کی ملاقات چھوڑدیں-
اے مسلمانو! یقینا سمجھو کہ یہ وہی مولوی ہیں جن سے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے- تم ان کو اسی نمونہ سے شناخت کر لو گے کہ بعد اس کے جو انہوں نے شیخ محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنّہ کو کافر اور دجّال اور مفتری اورجہنمی قرار دیا- پھر کیا حقیقت میں اس کو ایساہی سمجھتے ہیں- یا وہ صرف دکھانے کے دانت تھے-
اب مَیں وہ ٭استفتاء جس پر ایسے شخص کے کافر اور دجّال ہونے کی نسبت مولویوں نے فتوے لکھے ہیں گورنمنٹ عالیہ کے گوش گزار کرنے کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں تا کہ گورنمنٹ کو یاد رہے کہ یہ لوگ ان خیالات کے آدمی ہیں- فقط
الـــــــــــــــــــــــــراقم
خاکسار مرزا غلام احمدؐ از قادیان
۷ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۰۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
نقل اس ڈیفنس کی جو انگریزی میں چھاپا گیا
مَیں عدالت میں اپنی بریّت ثابت کرنے کے لئے بطور ڈیفنس یہ عریضہ لکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر تمام واقعات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو اس الزام سے جو مجھ پر لگایا جاتا ہے میرا بری ہونا صاف طور پر کھل جائے گا-
مَیں سب سے اوّل اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے اپنے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جس سے محمد حسین یا اس کے کسی اَور شریک کی جان یا مال یا عزّت کو خطرہ میں ڈالا ہویا ڈالنے کا ارادہ کیا ہو- میرا اشتہار مباہلہ کے بعد لکھا گیا اور ایساہی دوسرا اشتہار جو ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو شایع ہوا- یہ دونوں اشتہار صاف طور پر بتلا رہے ہیں کہ اس پیشگوئی میں یعنی جو عربی الہام مندرجہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ میں ذلّت کا لفظ ہے اس سے فریق کاذب کی ذلّت مراد ہے - اور ذلّت بھی اس قسم کی ذلّت جو فریق کاذب نے دوسرے فریق کو بذریعہ اپنے کسی فعل کے پہنچائی ہو- یہ اس الہامی فقرہ کی تشریح ہے- جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے- یعنی یہ فقرہ کہ جزاء سیعۃ بمثلھا ذلہ جس کے لفظی معنے یہی ہیں کہ بدی کی سزا ذلّت ہے مگر اس ذلّت کی مانند اور مشابہ جو فریق ظالم نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو- اب اگر اس الہامی فقرہ جو ملہم کے ارادہ اور نیّت کا ایک آئینہ ہے ایک ذرہ تدبر اور فکر سے سوچا جائے تو بد یہی طور پر معلوم ہو گا کہ اس فقرہ کے اس سے بڑھ کر اور کوئی معنے نہیں کہ ظالم کو اسی قسم کی ذلّت پہنچنے والی ہے جو فی الواقعہ مظلوم کو اس کے ہاتھ سے پہنچ چکی ہے- یہ معنے امربحث طلب کو بالکل صاف کر دیتے ہیں اور ثابت کر دیتے ہیں کہ اس پیشگوئی کو کسی مجرمانہ ارادہ سے کچھ بھی لگائو نہیں- اور یہ معنے صرف اسی وقت نہیں کئے گئے، بلکہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء اور ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء اور دوسرے اشتہارارت میں جو پیش از اطلاع یابی مقدمہ شائع ہو چکے ہیں ان سب میں کامل طور پر یہی معنے کئے گئے ہیں- عدالت کا فرض ہے کہ ان سب اشتہارات کو غور سے دیکھیکیونکہ میرے پر وہی الزام آ سکتا ہے جو میری کلام سے ثابت ہوتا ہے- پھر جبکہ مَیں نے الہامی عبارت کے معنوں کی قبل از وقوعیابی اپنے اشتہارات میں بخوبی تشریح کر دی ہے - بلکہ ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں ذلّت کی ایک مثال بھی لکھ اور بار بار تشریح کر دی ہے تو پھر یہ الہام قانونی زد کے نیچے کیونکر آ سکتا ہے ہر ایک مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظالم کو یہ بد دُعا دے کہ جیساتو نے میرے ساتھ کیا خدا تیرے ساتھ بھی وہی کرے- اصول انصاف عدالت پر یہ فرض کرتا ہے کہ عدالت اس عربی الہام کے معنے غور سے دیکھے جس پر تمام مقدمہ کا مدار ہے - اگر میرے عربی الہام میں ایسا لفظ ہے جو ہر ایک ذلّت پر صادق آ سکتا ہے تو پھر بلا شُبہ مَیں قانونی الزا م کے نیچے ہوں- اگر الہام میں مثلی ذلّت کی شرط ہے تو پھر اس الہامی فقرہ کو قانون سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس صورت میں یہ بات تنقیح طلب ہوئیکہ فریق مظلوم کو کس قسم کی ذلّت ظالم سے پہنچی ہے اور فریق مخالف اس بات کر ہر گز قبول نہیں کرے گا کہ اس نے کبھی مجھ کو ایسی ذلّت پہنچائی ہے جو فوجداری قوانین کے نیچے آ سکتی ہے مگر مثلی ذلّت کے لئے جو الہام نے قرار دی ہے یہی شرط ہے کہ ظالم کی اسی قسم کی ذلّت ہو جو بذریعہ اس کے مظلوم کو پہنچی ہو- اگر یہ پیشگوئی ایسے طور سے پوری ہوتی جو وہ طور مثلی ذلّت برخلاف ہوتا تو ہر ایک کو چنانچہ یہ پیشگوئی اپنے اصل معنے کے رو سے بھی پوری ہو گئی کیونکہ محمد حسین نے مع اپنے گروہ کے جو فتویٰ کفر کا میری نسبت دیا تھا میرا نام دجّال اور کذّاب اور مفتری رکھا تھا ایسا ہی اس کی نسبت اُس کے ہم مشرب علماء نے فتویٰ دے دیا-
یعنی اس کی وجہ اس فہرست انگریزی کے نکلنے کے بعد جس میں اس نے مہدی کے آنے کی احادیث کو غلط اور نا درست لکھا ہے اس کی نسبت اسی کی قوم کے مولویوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ وہ کافر اور کذّاب اور دجّال ہے- سو وہ فقرہ الہامی جس میں لکھا تھا کہ ظالم کی ذلّت اسی قسم کی پہنچے گی جو اس نے مظلوم کو پہنچائی ہو اور وہ بعینہ پورا ہو گیا - کیونکہ محمد حسین اپنی منافقانہ طبیعت کی وجہ سے جس کا وہ قدیم سے عادی ہے گورنمنٹ کو یہ دھوکا دیتا رہا کہ وہ اس خطرناک اور خُونی مہدی کا منکر ہے جس کے آنے کے لئے وحشیانہ حالت کے مسلمان منتظر ہیں- مگر تمام مولویوں کو یہ کہتا رہا کہ مَیں اس مہدی کا قائل ہوں جیسا کہ تم قائل ہو- اوریہ اس کا نہایت قابل شرم تھا- جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا- اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطرناک مہدی جسکی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا- اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطرناک مہدی کے آنے کا مُنکر ہوتا تو میری نظر میں اور ہر ایک منصف کی نظر میں قابل تعریف ٹھیرتا- لیکن اس نے ایسا نہ کتا اور نفاق سے کام لیا- اس لئے الہام کے مطابق اس کی ذلّت ہوئی اور جس اعتقاد کی وجہ سے قوم کی نظر میں مجھے اس نے کافر ٹھیرایا اور میرا نام دجّال او ر ملحد اور مفتری رکھا اب دہی القاب قوم کی طر ف سے اس کو بھی ملے- اور بالکل الہام کے منشاء کے موافق پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء پُوری ہو گئی کیونکہ جیسا کہ مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں پیشگوئی میں ذلّت کے لفظ کے ساتھ مثل کی شرط تھی سو اس شرط کے موافق الہام پُورا ہو گیا اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی- مَیں حکام انصاف پسندسے چاہتاہوں کہ ذرا ٹھہر کر سوچ کر اس مقام کو پڑھیں یہی وہ مقام ہے جس پر غور کرنا انصاف چاہتا ہے-
اصل جواب اسی قدر ہے جو مَیں نے عرض کر دیا- لیکن اس وقت یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے حملوں کا دفعیہ بھی جو الزام کے قوت دینے کے لئے پیش کئے گئے ہیں گزارش کر دوں - منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ عدالت میں میری نسبت یہ الزام پیش کیا گیاہے کہ گویا میری قدیم سے یہ عادت ہے کہ خود بخود کسی کی موت یا ذلّت کی پیشگوئی کیا کرتاہوں اورپھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے پوشیدہ طور پر اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح وہ پیشگوئی پُوری ہو جائے - گویا مَیں ایک قسم کا ڈاکو یا خونی یا رہزن ہوں- اور گویا میری جماعت بھی اس قسم کے اوباش اور خطرناک قسم کے لوگ ہیں جن کا پیشہ اس قسم کے جرائم ہیں- لیکن مَیں عدالت پر ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء سے خمیر کرکیا گیا ہے نہایت بری طرح میری اور میری معزز حماعت کی ازالہ حیثیت عرفی کی گئی میں اس معزز خاندان میں سے ہوں - میرے باپ دادے ڈاکو اور خونریز نہ تھے او نہ کبھی کسی عدالت میں میرے پر کوئی جُرم ثابت ہوا-اگر ایسے بد اور ناپاک ارادہ سے جو میری نسبت بیان کیا گیا ہے ایسی پیشگوئیاں کرنا میرا پیشہ ہوتا تو اس بیس برس کے عرصہ میں جو براہین احمدیہ کی تالیت سے شروع ہوا ہے - کم سے کم دو تین سو پیشگوئی موت وغیرہ کی میری طرف سے شائع ہوتی حالانکہ اس مدّت دراز میںبجز ان دو تین پیشگوئیوں کے ایسی پیشگوئی اَور کوئی نہیں کی گئی-
مَیں عرض کر چکا ہوں کہ یہ پیشگوئیاں لیکھرام اور عبد اللہ آتھم کے بارے میں مَیں نے اپنی پیشدستی سے نہیں کیں بلکہ ان دونوں صاحبوں کے سخت اصرار کے بعد ان کی دستخطی تحریریں لینے کے بعد کی گئیں اور لیکھرام نے میری اشاعت سے پہلے خود ان پیشگوئیوں کو شائع کیا تھا اور مَیں نے بعد میں شائع کیا- چنانچہ لیکھرام کو اپنی کتاب تکذیب صفحہ ۳۳۲ میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے لیے دو ماہ تک قادیان میں ٹھہرا رہا اور اس نے پیشگوئی کے لئے اجازت دی اور اپنی دستخطی تحریر کر دیا وہ اس صفحہ میں میری نسبت یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ وہ موت کی پیشگوئی کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے جب تک اجازتے نہ ہو‘‘ اور پھر اسی صفحہ میں اپنی طرف سے اجازت کا اعلان کرتا ہے- اس کی کتاب موجود ہے- یہ مقام پڑھا جائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے میری اشاعت سے پہلے میری پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی ایک تحریر مثل مقدمہ ڈاکٹر کلارک پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور لیکھرام کی خط و کتابت جو مجھ سے ہوئی اور جس اصرار سے اپنے لئے اُس نے پیشگوئی طلب کی وہ رسالہ مدت سے چھپ چُکا ہے اور قادیان کے ہندو بھی قریب دو سو کے اس بات کے گواہ ہیں کہ لیکھرام قریباً دو ماہ تک پیشگوئی کے تقاضا کے لئے پشاور سے آ کر قادیان میں رہا- مَیں کبھی اس نے پاس پشاور نہیں گیا اس کے سخت اصرار اور بد زبانی کے بعد اس کے تحریر لینے کے بعد اس کے حق میں پیشگوئی کی گئی تھی- اور یہ دونوں پیشگوئیاں چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اس لئے پوری بھی ہو گئیں- اور مجھے اس سے خوشی نہیں بلکہ رنج ہے کہ کیوں ان دونوں صاحبوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ پیشگوئی حاصل کی جس کا نتیجہ ان دونوں کی موت تھی- مگر مَیں اس الزام سے بالکل الگ اور جُدا ہوں کہ کیوں پیشگوئی کی گئی- لیکھرام نے اپنی تحریروں کے ذریعہ کے ذریعہ سے یہ ارادہ بار بار ظاہر کیا تھا کہ اس وجہ سے مَیںنے پیشگوئی اصرار سے طلب کی ہے کہ تا جُھوٹا ہونے کی حالت میں میں ان کو ذلیل کروں- مَیں نے اس کو اور عبد اللہ آتھم کو یہ بھی کہا تھا کہ پیشگوئیان طلب کرنا عبث ہے کیونکہ اس سے پہلے تین ہزار کے قریب مجھے آسمانی نشان ظاہر ہر چکے ہیں جن کے گواہ بعض قادیان کے آریہ بھی ہیں- اُن سے حلفاًدریافت کرو اور اپنی تسلّی کر لو… مگر مجھے اس بات پر سخت مجبور کر دیا کہ مَیں ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی کروں- یہ کہنا انصاف اور دیانت کے برخلاف ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پُوری نہیں ہوئی بلکہ نہایت صفائی سے الفاظ کے منشاء اور شرط مندرجہ پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق پُوری ہو گئی- ڈپٹی عبد اللہ آتھم سے بہت مدت سے بہت مدت سے میری ملاقات تھی اور میرے حالات سے وہ بہت واقف تھا- مجھ کو اس کی نسبت زیادہ افسوس اور درد ہے کہ کیوں اس نے ایسی پیشگوئی کو جس میں اس کی موت کی خبر تھی طلب کیا جس کے آخری اشتہار سے چھ مہینے بعد عین منشاء کے مطابق وہ فوت ہو گیا- صرف یہی نہیں کہ یہ دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں بلکہ انیس برس کے عرصہ میں تین ہزار کے قریب ایسے نشان ظاہر ہوئے اور ایسی غیبت کی باتیں قبل از وقت بتلائی گئیں اور نہایت صفائی سے پُوری ہوئیں جن سے غور کر کے گویا انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدر نشان کیونکر ظاہر ہو سکتے جن کی وجہ سے میری جماعت کے دل پاک اور خدا کے نزدیک ہو گئے- میری جماعت ان تمام باتوں پر گواہ ہے کہ کیونکر خد اتعالیٰ نے عجیب در عجیب نشان دکھلا کر اس طرح پر ان کو اپنی طرف کھینچا جس طرح پہلے اس سے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں پر ایمان لانے والے پاک دلی اور صاف باطنی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف کھینچے گئے تھے مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرتے خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور اس گورنمنٹ کے جس کے وہ زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں سچّے خیر خواہ اور نبی نوع کے ہمدرد ہیں- یہ ان آسمانی نشانوں کا اثر ہے جو انہوں نے دیکھے اور وہ نشان خدا کی رحمت ہے جو اس وقت اور اس زمانہ میں لوگوں کا خدا کا یقین دلانے کے لئے اس بندہ درگاہ کے ذریعہ سے نازل ہو رہے ہیں- اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک جو اُن نشانوںکو دل کی سچائی سے طلب کرے گا دیکھے گا- امن اور سلامتی کے نشان اور امن کے سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میںکچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدم سُنّت کے موافق ضرورتھا کہ مَیں بھی اسی طرح عوام کی زبان سے دُکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی دُکھ دیئے گئے خاص کر وہ اسرائیلی نبی سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے سعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی ناانصافی اور نابینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیرودوس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا سو مجھے اس بات سے فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے مَیں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا گیا- اور میرے پر بھی خود غرض لوگوں نے گورنمنٹ کو ناراض کرنے کے لئے اور مجھے جھوٹا ظاہر کرنے کے لئے افتراء کئے جیسا کہ اس مقدس نبی پر کئے تھے تا وہ سب کچھ پورا ہو جو ابتداء سے لکھا گیا تھا- واقعی یہ سچ ہے کہ آسمانی برکتیں زمین سے نزدیک آ رہی ہیں- گورنمنٹ انگریزی جس کی نیّت نہایت نیک ہے اور جو دعایا کے لئے امن اور سلامتی کی پناہ ہے- خدا نے پسند کیا کہ اس نے زیر سایہ مجھے مامور کیا- مگر کاش اس گورنمنٹ محسنہ کو نشان دیکھنے کے ساتھ کچھ دلچسپی ہوتی اور کاش مجھ سے گورنمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتاکہ اگر تم سچّے ہو تو کوئی آسمانی نشان یا کوئی ایسی پیشگوئی جو امن اور سلامتی کے اندر محدود ہو دکھلائو تو جو میرے افتراء کیاگیا ہے کہ گویا مَیں ڈاکوئوں کا کام کر رہا ہوںیہ سب حقیقت کھُل جاتی - آسمان پر ایک خدا ہے جس کی قدرتوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے - سو ایک مدعی الہام کی سچّائی معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی میعار نہیں کہ اس سے پیشگوئی طلب کی جائے توریت میں خدا تعالیٰ نے سچّے ملہم کے لئے یہ نشانی قرار دی ہے - پھر اگر اس میعارکے رُو سے وہ سچا نہ نکلے تو جلد پکڑا جائے گا اور خدا اُسے رُسوا کرے گا- لیکن اگر وہ رُوح القدس سے تائید یافتہ ہے اور خدا اس کے ساتھ ہے تو ایسے امتحان کے وقت اس کی عزّت اسی طرح ظاہر ہو گی جیسا کہ دانیال نبی کی عزّت بابل کی اسیری کے وقت ظاہر ہوئی تھی- ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ گذرتا ہے کہ مَیں نے اس عہد کو چھاپ کر شائع کر دیا ہے کہ مَیں کسی کی موت و ضرر وغیرہ کی نسبت ہر گز کوئی پیشگوئی شائع نہ کروں گا- پس اگریہ پیشگوئی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں ہے - کسی کی موت یا اس قسم کی ذلّت کے متعلق ہوتی تو مَیں ہر گز اس کو شائع نہ کرتا- لیکن اس پیشگوئی کو کسی کی ایسی ذلّت سے جو قانونی حد کے اندر آ سکتی ہے کچھ تعلق نہ تھا- جیسا کہ مَیں نے اپنے اشتہار میں مثال کے طور پر اس کی نظیر صرفی اور نحوی غلطی لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کسی مولوی کو اس طرح پر نادم کیا جائے کہ اس کے کلام میں صرفی اور نحوی غلطی ہے تو اس قسم کی ذلّت سے جو اس کو پہنچے گی قانون کو کچھ علاقہ نہیں-
میرے اس الہام میں مثلی ذلّت کی ایک شرط ایسی شرط ہے کہ اس شرط کے دیکھنے کے بعد حکّام کو پھر زیادہ غورکرنے کی حاجت نہیں- میری نیک نیتی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور جو شخص غور سے میری اس پیشگوئی کو پڑھے گا اور اس کی تشریحات کو دیکھے گا جو مَیں نے قبل از مقدمہ شائع کر دی ہیں تو اس کا کانشنس اور اس کی حق شناس رُوح میرے بے خطا ہونے پر ضرور گواہی دے گی- مَیں عدالت کو اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ مَیں نے یہ اشتہار مباہلہ ایک مدّت تک وہ الفاظ سن کر جو دل کو پاش پاش کرتے ہیں لکھا تھا- اور میرا اس تحریر سے ایک تو یہ ارادہ تھا کہ بد ی کا بدی سے مقابلہ نہ کروں اور خدا تعالیٰ پر فیصلہ چھوڑوں اور دوسرے یہ بھی ارادہ تھا کہ اُن فتنہ انگیز تحریروں کے اشتعال وہ اثر سے جن کا اس ڈیفنس میں کچھ ذکر کر چکا ہوں- اپنی جماعت کو بچا لوں اور جوش اور اشتعال کو دبا دوں تا میری جماعت صبر اورپاک دلی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی منتظر رہے-
مَیں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میری کاروائی محمد حسین کے مقابل پر اخیر تک سلامت روشنی کے ساتھ رہی ہے اور مَیں نے بہت سے گندے اشتہار دیکھ کر جو اس کی تعلیم سے لکھے گئے تھے- جن کا بہت سا حصہ خود اس نے اپنی اشاعتہ السُّنہ میں نقل کیا ہے وہ صبر کیا جو دُنیا داروں کی فطرت سے ایسا صبر ہونا غیر ممکن ہے محمد حسین نے میرے ننگ و ناموس پر نہایت قابل شرم کیمنگی کے ساتھ اور سراسر جُھوٹ سے حملہ کیا ہے اور میری بیوی کی نسبت محض افتراء سے نہایت ناپاک کلمے لکھے ہیں اور مجھے ذلیل کرنے کے لئے بار بار یہ کلمات شائع کئے کہ ’’ یہ شخص *** اور کُتّے کا بچہ ہے اور دو سو جوتہ اس کے سر پر لگانا چاہیے اور اس کو قتل کر دینا ثواب کی بات ہے-‘‘ لیکن کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی مَیں اس کے یا اس کے گروہ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے- مَیں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتا رہا جو ایک شریف انسان کو تہذیب کے لحاظ سے کرنے چاہیں- ہاں جیسا کہ مذہبی مباحثات میں باوجود تمام تر نیک نیتی اور نرمی اور تہذیب کے ایسی صورتیں پیش آ جایا کرتی ہیںکہ ایک فریق اپنے فریق مخالف کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے- جو عین محل پر چسپاں ہوتے ہیں- اس مہذبانہ طریق سے مَیں انکار نہیں کر سکتا- مباحثات میں ضرورت کے وقت بہت سے کلمات ایسے بھی استعمال ہوتے ہیں جو فریق مخالف کو طبعاً ناگوار معلوم ہوتے ہیں مگر محل پر چسپاں اور واقعی ہوتے ہیں مثلاً جو شخص اپنے مباحثات میں عمداً خیانت کرتا ہے یا دانستہ روایتوں کے حوالہ میں جھوٹ بولتا ہے اس کو نیک نیتّی اوراظہار حق کی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ تم نے طریق خیانت یا جھوٹ کو اختیار کیا ہے اور ایسا بیان کرنا نرمی اور تہذیب کے برخلاف نہیں ہوتا کہ اس حد تک جو سچّائی اور نیک نیتی کا التزام کیا گیا ہو- حق کے ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے- ایسے طریق کو یورپ کے ممتاز محققوں نے بھی جو طبعاً تہذیب اور نرمی کے اعلیٰ اصولوں کے پابند ہوتے ہیں، اختیار کیا ہے- یہاں تک کہ سر میور سابق لفٹنٹ گورنر ممالک مغربی و شمالی نے اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں اس مذہبی تحریر میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مَیں ایسے الفاظ کا ذکر بھی سخت نا مناسب سمجھتا ہوں- اور میرے ایک مُرید نے جو محمد حسین کی نسبت ایک مضمون اخبار الحکم میں لکھا ہے جو مسل مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے- گو وہ مذہبی مباحثات کی طرز کو خیال کر کے ایسا ہر گز نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تا ہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مجھے اُس اخبار سے کچھ بھی تعلق نہیں - چنانچہ اخبار الحکم کے پرچہ ۸ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۳ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء میں خود اس اخبار کے مالک شیخ یعقوب علی نے اس کی بخوبی تصریح کردی ہے-
میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ قریباً ڈیڑھ برس کے عرصہ تک محمد حسین نے نہایت سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ مجھے دُکھ دیا- پہلے ایسے ناپاک اشتہار محمد بخش جعفرز ٹلی کے نام پر شائع کئے اور پھر نقل کے طور پر اُن کو اشاعتہ السُّنہ میں لکھا اور کئی دوسرے لوگوں سے بھی یہ کام کرایا مگر مَیں چُپ رہا اور اپنی جماعت کو بھی ایسے گندے الفاظ بالمقابل بیان کرنے سے روک دیا- یہ واقعی اور سچّی بات ہے- خدا گالیوں سے نہایت درجہ درد مند ہوئی اور ایسے اشتہار لاہور کی گلی کوچوں اور مسجدوں میں محمد حسین نے چسپاں کراد ئیے تو مَیں نے اپنی جماعت کو یہ اصلاح دی کہ وہ بحضور نواب لفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ اس باے میں میموریل بھیجیں - چنانچہ میموریل بھیجا گیا- جس کے چند پرچے میرے پاس موجود ہیں- پھر جب اس ذریعہ سے اس فتنہ کا انسداد نہ ہوا تو ایک اَور میموریل پندرہ ہزار یا شاید سولہ ہزار معرز لوگوں کے دستخط کرا کر بحضور وائسرائے بالقابہ اسی غرض کے حصول کے لئے روانہ کیاگیا- اس کے چند پرچے بھی موجود ہیں مگر اس کا کوئی جواب نہ آیا - تب گندی گالیوں کے دینے میں اور بھی محمد حسین نے نہایت بے باکی سے آگے قدم رکھا، چنانچہ ان گالیوں کا نمونہ محمد بخش جعفر زٹلی کے اس اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے ۱۱ جون ۱۸۹۷ء میں شائع کیا ہے- اس اشتہار میں اس کی عبارت میں جو دراصل محمد حسین کی عبارت ہے، یہ ہے ’’ مرزا عیسائیوں کا کوڑا اور گندگی اُٹھانے کے لئے تیار اور راضی ہے اور اپنا منہ ان کی جوتیوں پر ملنے کے لئے اس نے برٹش گورنمنٹ کو خدا کا درجہ دے یا ہے- اس خردجّال نے حضرت سلطان العظم یعنے سلطان رُوم کی نسبت ایسی بیہودہ گوئی کی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ یہ خبیث باطنی شیطان سامنے بٹھایا جائے اور دو سو جوتے مارے جائیں- اور جب شمار کرتے وقت عد بھُول جائے تو پھر از سرِ نو گننا شروع کیا جائے- اس کُتے کے بچے پر ***- سلطان کی نسبت حقارت آمیز لفظ استعمال کرنے سے تو یہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ کھلا کھلا عیسائی ہو جاتا- مَیں نے مرزا کے متعلق پانچ پیشگوئیاں کی ہیں- اور وہ یہ ہیں-
(۱) قادیانی ایک سخت مقدمہ میں پھنس جائے گا اور جلا وطن کیا جائے گا- یا بیڑیاں پڑیں گی اور قید خانہ میں ڈالا جائے گا-
(۲) قید میں وہ دیوانہ ہو جائے گا-
(۳) ایک ناسُور نکلے گا-
(۴) وہ جذامی ہو جائے گا اور خود کشی کر کے دوزخ میں ڈالا جائے گا- ‘‘
ایسا ہی ایک اشتہار کے ساتھ ایک تصویر لکھی ہے جس میں مجھے شیطان بنایا ہے محمد حسین کا یہی طریق ہے کہ یہ گندے اشتہار پہلے اُس کے نام پر شائع کرتا ہے اور پھر نقل کے طور پر اپنی اشاعتہ السنّہ میں شائع کرتا ہے تا اگر کوئی اعتراض کرے تو نے مولوی کہلا کر ایسی گندی اور قابل شرم کاروائی شروع کر رکھی ہے تو فی الفور اس کا جواب دیتا ہے کہ مَیں تو صرف اپنی اشاعتہ السّنہ میں دوسرے کے کلام کو نقل کرتا ہوں- اس میں کیا حرج ہے- لیکن اگر محمد بخش زٹلی وغیرہ کو عدالت خود بُلا کر دریافت کرے تو مَیں یقین رکھتاہوں کہ سارا پردہ کھُل جائے گا-
غرض محمد حسین کی ایسی گندی کاروائیوں کے پہلے مَیں نے مجازی حکام کی طرح رجوع کیا یعنی میموریل بھیجے اور پھر حقیقی حاکم کی طرف توجہ کی جو دلوں کے خیانت کو جانتا اور مفسد اور نیک خیال آدمی میں فرق کرتا ہے یعنی مباہلہ کو جو اسلام میں قدیم سنّت اور نماز روزہ کی طرح فرائض مذہب میں بوقت ضرورت داخل ہے، تجویز کر کے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ لکھا اور خدائے علیم جانتا ہے جس پر افتراء کرنا بد ذاتی ہے کہ بعد دُعایہی الہام ہوا کہ امَیں ظالم کو ذلیل کروں گا مگر اُسی قسم کی ذلّت ہو گی جو فریق مظلوم کو پہنچائی گئی ہو-
میرے حالات میری انیس برس کی تعلیم سے ظاہر ہو سکتے ہیں کہ مَیں اپنی جماعت کو کیا تعلیم دے رہا ہوں- ایسا ہی میرے حالات میری جماعت کی چال چلن سے معلوم ہو سکتے ہیں اور بہتیرے ان میں سے ایسے جو گورنمنٹ کی نظر میں نہایت نیک نام اور معزز عہدوں ہر سرفراز ہیں- ایسے ہی میرے حالات قصبہ قادیان کے عام لوگوں سے دریافت کرنے کے وقت معلوم ہو سکتے ہیں -کہ میں نے اُن میں کس طرز کی زندگی بسر کی ہے - ایسا ہی میرے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی کی طرز زندگی سے معلوم ہو سکتے ہیں- کہ گورنمنٹ انگلشیہ کی نظر میں کیسے تھے- اور عجیب تریہ کہ محمد حسین جو ہروقت میری ذلّت کے روپئے ہے اور اپنی اشاعتہ السنّہ نمبر ۹ جلد نمبر ۷ میں میری نسبت اقرار کرتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کا پاک باطن اور نیک خیال اور سچّائی کا حامی اور گورنمنٹ انگریزی کا نہایت درجہ خیرخواہ ہے-‘‘
یہ بھی گزارش کرنا ضرورہے کہ اگر لیکھرام کے مارنے جانے کے وقت میں میری نسبت آریوں کو شکوک پیدا ہوئے تھے تو ان شکوک کی بناء بجز اس پیشگوئی کے اور کچھ نہ تھا جس کو لیکھرام نے آپ مانگا تھا اور مجھ سے پہلے اپ مشتہر کیا تھا- پھر اس میں میرے پر کیا الزام ہے- نہ مَیں نے خود بخود پیشگوئی کی اور نہ مَیں نے اس کو مشتہر کیا- اور اگر صرف شک کے لحاظ کیا جائے تو ہندوئوں نے سرسید احمد خان کے سی ایس ائی پر بھی قتلِ لیکھرام کا شُبہ کیا تھا-فقط-
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰ جنوری ۱۸۹۹
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد اشاعت ۱۰۰
(۲۰۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ہمارے استفتاء کی نسبت ایک منصفانہ گواہی
ناظرین کو معلوم ہو گا کہ ہمیں اس بات پر اطلاع پا کر کہ شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنّہ کے آنے کے بارے میں اپنے ہم جنس مولویوں کو تو یہ کہا کہ ضرور وہ مہدی معہود آئے گا جو قریش میں سے ہو گا اور خلافت ظاہری و باطنی سے سرفراز ہو گا- اور لڑائیاں خونریزیاں کر کے تمام روئے زمین پر دین اسلام کو غالب کر دے گا اور اُس کے آنے کا منکر *** اور کافر اور دجّال اورضال اور مضل ہے اور پھر پوشیدہ طور پر گورنمنت عالیہ انگریزی پر یہ ظاہر کرتا رہا کہ مسلمانوں کا یہ خیال بالکل بیہودہ ہے کہ ایسا مہدی آئے گا اور اس کے خونریزیی کے کاموں کی تائید کے لئے مسیح موعود آسمان سے اُترے گا اور وہ دونوں مل کر جبر اور اکراہ سے لوگوں کو مسلمان کر یں گے- یہ حالت محمد حسین کی عام مسلمانوں سے پوشیدہ تھی- آخر ان دنوں میں ایک طرح کی وجہ سے محمد حسین نے ایک فہرست انگریزی رسالہ کے طور پر شائع کی اور اس میں صاف طور پر اس نے لکھ دیا کہ جس خونی مہدی کے آنے کے عام مسلمان منتظر ہیں- اس کے متعلق کی جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب موضوع اور غلط اور نا درست ہیں- اور اس تحریر سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ ایسے مہدی کے آنے سے منکر ہے -یہ رسالہ ۱۴ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو وکٹوریہ پریس میں چھپا ہے-
غرض چونکہ خدا تعالیٰ نے چہا تھا کہ ہمارے اشتہار مباہلہ مورخہ ۱۲ نومبر ۱۸۹۸ء کی الہامی پیشگوئی کے مطابق محمد حسین کو مثلی ذلّت پہنچا وے جیسا کہ جزاء سیّئۃ بمثلھا و تر ھقھم ذلہ کا منشاء تھا- اس لئے محمد حسین نے پوشیدہ طور پر یئہ انگریزی رسالہ شائع کر دیا اور مولویوں کو اس رسالہ کے مضمون سے بالکل خبر نہ دی - مگر تا ہم رسالہ شائع کر دیا اور مولویوں کو اس رسالہ کے مضمون سے بالکل خبر نہ دی- مگر تا ہم خدا تعالیٰ کے انصاف اور غیرت نے وہ رسالہ ظاہر کر دیا- تب ہم نے فی الفور سمجھ لیا کہ ہماری پیشگوئی پُورا کرنے کے کئے یہ سامان غیب سے ظہور میں آ رہا ہے - تب اسی بناء پر استفتاء لکھا گیا اور مولوی نذیر احمد دہلوی سے لے کر تمام مشہور علماء نے اس پر مُریں اور دستخط کر دیئے- اور ایسے منکر کی نسبت کسی کافر اور کسی نے دجّال اور کسی نے کذّاب اور مفتری کے لفظ استعمال کئے اور عبدالجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی نے جو وحشیانہ جوش کی وجہ سے صدق اور دیانت سے کچھ بھی غرض نہیں رکھتے نہ صرف نرم الفاظ میں فتویٰ دیا بلکہ جوش ایسے الفاظ استعمال کئے کہ ایسا شخص جو مہدی کا مُنکر ہو کافر اور جہنمی ہے- اور جب ان پر یہ بات کھُلی کہ فتویٰ تو ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی نسبت پوچھا گیا تھا تب مارے غم اور غصہ کے دیوانہ ہو گئے اور اشتہار کے ذریعہ سے یہ شور مچایا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور محمد حسین کا نام ظاہر نہ کیا- اس کے جواب میں ہماری طرف سے ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب نے اس مضمون کا اشتہار جاری کیا تھا یہ شور اور جزع فزع سراسر بد دیانتی سے ہے - فتویٰ صورت مسئلہ اور کیفیت سوال پر دیا جاتا ہے- اس میں ضرور نہیں کہ سائل کا نام لکھا جائے یا اس شخص کا نام جس کی نسبت فتویٰ ہے- ہم منتظر تھے کہ ایسے صاف امر میں کوئی صاحب دیانت کی پابندی سے عبد الحق اور عبد الجبار غزنوی کے خائنانہ طریق سے مخالفت کر کے ہمارے اس بیان کی تصدیق کریں- سو ہمیں اس استفتاء کے دیکھنے سے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ اس بیان کی تصدیق کریں- جوہمیں آج ملا ہے- جس میں مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور عبد الجبار کے برخلاف اسی اپنے پہلے فتوے پر قائم کردہ ہمارے بیان مذکور بالا کی تصدیق کرتے ہیں اور صاف طور پر لکھتے ہیں کو استفتاء پیش ہوا تھا اس میں کوئی دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا- فتویٰ دینے والے کو اس بات سے کام نہیں کہ فتویٰ زید کی نسبت پوچھا گیا ہے یا بکر کی نسبت اور ظاہر کیا کہ ہم اپنے فتویٰ پرقائم ہیں سو اس وقت محض عبد الحق اور عبد الجبار غزنوی کی پُر خیانت کاروائی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اشتہار کے ساتھ اس استفتاء کی نقل مع ان دونوں بزرگوں کے فتوے شامل کی جاتی ہے- فقط-
المشتہر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۱۲ جنوری ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد اشاعت ۷۰۰
نقل فتویٰ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
السلام علیکم
۱۵ ماہ شعبان المبارک ۱۳۱۶ھ کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بوساطت اپنے مرید ڈاکٹر اسمٰعیل صاحب ملازم فوج ملک افریقہ کے ایک استفتاء عام موافق سنت علماء خلف و سلف جس میں کسی شخص کا نام نہیں تھا- آپ صاحبان کی خدمت میں بڑے ادب سے پیش کیا- اب اعادہ الفاظ استفتاء کی کچھ ضرورت نہیں- صرف اگر کوئی شخص انکار امام مہدی موعود کر ے اور عقیدہ اپنا تحریری ایک مقام بطور دستاویز دے کر اطمینان دلاوے کہ جو جو احادیث اسلام میں بحق مہدی علیہ السّلام لکھی گئی ہیں وہ سراسر جھوٹ اور لغو ہیں تو اس پر علماء کیا فتویٰ فرماتے ہیں- سو علمائے نامدار پنجاب و ہندوستان نے اپنی اپنی فہم سے ایسے عقیدے والے کو جس کا ذکر استفتاء میں موجود ہے کافر، صنال، خارج از اسلام وغیرہ اپنی اپنی مواہیر اور دستخط سے قرار دیا تھا- چنانچہ وہ استفتاء چھپ کر عام طور پر شائع ہو چکا یہانتک کہ گورنمنٹ عالیہ تک بھی بھیج دیا گیا-
اب ایک مولوی عبد الحق نام نے جس کی مہر یا دستخط اُس کُفر نامہ پر ثبت ہیں- اپنے ہاتھوں کی تحریرپر سخت افسوس کھا کر بڑے حسرت اور غضب سے ایک اشتہار نکال کر مشتہر کیا ہے کہ فتویٰ دینے میں مَیں نے دھوکہ کھایا ہے یعنی وہ فتویٰ زید کے بارے میں ہم نے دیا ہے نہ عمر کے حق میں نیز بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے فتویٰ پیش کرنے والے اور کرانے والے پر بے جا الزام و غا اور فریب بد دیانتی بے ایمانی و غیرہ وغیرہ کا لگایا ہے وہ اس واسطے کو بالواسطہ فتویٰ کیوں لیا گیا اور جس فتویٰ دینا ہے اس کا نام کیوں نہیں لیا گیا…………………لہذا آپ صاحبان کی خدمت شریف میں انصاف اور عدل کے خواہاں ہو کر التماس ہے کہ کیا آپ نے بھی مولوی موصوف کی طرح دھوکہ سے مُریں یا دستخط کفر نامہ پر لگائے ہیں یا عام طور پر خواہ زید ہو خواہ عمر، جو شخص ایسا عقیدہ بر خلاف اہل سنت و الجماعت کے رکھتا ہے اس پر کُفر کی مُہریں لگائی ہیں جیسا کہ مفہوم آیات قرآن مجید ہے اور ایسا فتویٰ دینے کے لائق شرعاً ہے-
راقم خیرخواہ مومنین
الجواب و ھوالموفق للصواب
(۱) وہ استفتاء جس کا اس سوال میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اَبْ چھپ کر مشہور ہو چکا ہے میرے سامنے بھی پیش ہوا تھا - اس کا جواب مَیں نے مندرجہ ذیل لفظوں میںدیا تھا-
’’امام مہدی علیہ و علیٰ آباعہ الصلٰوۃ والسلام کا قرب قیامت میں ظہورفرمانا اور دُنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور اُمت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت و الجماعت سے انحراف کرنا ہے ‘‘ مَیں نے اس جواب دینے میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں کھایا ہے- اور میرے نزدیک اس وقت بھی استفائے مذکورکا یہی جواب ہے اور مَیں اس شخص کو جس کا استفتاء مذکور میں ذکر ہے اس وقت بھی مسلک اہل سنت و الجماعت منحرف جانتا ہوں خواہ وہ زید ہو یا بکر - فقط مفتی محمد عبد اللہ عفاء الخ (ٹونکی پروفیسر اورنیٹل کالج لاہور ، پریزیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العماء )
(۲) جو استفتاء مطبوعہ مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵ شعبان ۱۳۱۶ھ معرفت ڈاکٹر محمد اسمعٰیل خان مثبت یہ مواہیر اور دستخط علماء امرتسر تھا میرے رو برو پیش ہوا- اس کے اوپر مَیں نے یہ عبارت لکھی ہے علماء مظام کا جواب صحیح ہے - بے شک مذکور السوال ضال اور مضل ہے- اور اہلسنت سے خارج ہے- پس یہ جواب بشرط صدق سوال صحیح ہے مصداق علیہ کا خواہ زید ہو یا عمر کسی کاص آدمی پر فتویٰ نہیں ہے عام طور پر عقیدہ اہل سنّت کالکھا گیا ہے اور اس میں کسی شخص کا کسی قسم کا دھوکہ نہیںہے-
فقیر غلام البگوی عفا عنہ امام مسجد شاہی لاہور ۱۲
مورخہ ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۰۴)
گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیرخواہ کے پہنچاننے کے لئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش
(گورنمنٹ عالیہ سے بادب التماس ہے کہ اس مضمون کو غور سے دیکھا جائے اور حسب منشاء درخواست ہر دو فریق کا امتحان لیا جائے)
چونکہ مولوی ابو اسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السُّنہ ہمیشہ طور پر کوشش کرتا رہا ہے کہ گورنمنٹ کو میرے پر بد ظن کر ے اور مجھے معلوم ہوا کہ کئی سال سے اس کا یہی شیوہ ہے- اس لئے مَیں نے مناسب دیکھا کہ محمد حسین اور میری نسبت ایک ایسا طریق آزمائش قائم ہو جس سے گورنمنٹ عالیہ کو سچا خیر خواہ اور چھپا پوا بد خواہ معلوم ہو جائے اور آئندہ ہماری دانا گورنمنٹ اسی پیمانہ کے رو سے دونوں میں مخلص اور منافق میں امتیاز کر سکے-
سو وہ طریق میری دانست میں یہ ہے کہ چند ایسے عقاید جو غلط فہمی سے اسلامی عقائد سمجھے گئے اور ایسے ہیں کہ ان کو جو شخص اپنا عقیدہ بناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے ان عقائدبناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے ان عقائد کو اس طرح پر آلہ شناخت و منافق بنایا جائے کہ عرب یعنے مکہ اور مدینہ وغیرہ عربی کا بلاد اور کابل اور ایران وغیرہ میں شائع کرنے کے لئے عربی فارسی میں وہ عقائد ہم دونوں فریق لکھ کر اور چھاپ کر سرکارِ انگریزی کے حوالہ کریں تا کہ وہ اپنے اطمینان موافق شائع کر دے- اس طریق سے جو شخص منافقانہ طور پر برتائو رکھتا ہے اس کی حقیقت کھل جائے گی کیونکہ وہ ہر گز ان عقائد کو صفائی سے نہیں لکھے گا اور ان کا اظہار کرنا اس کو موت معلوم ہو گی اور ان عقائد کا شائع کرنا اس کے لئے محال ہو گا اور مکّہ اور مدینہ میں ایسے اشتہار بھیجنا تو اس کو موت سے بد تر ہوگا- سو اگرچہ میںعرصہ بیس برس سے ایسی کتابیں عربی اور فاسی میں تالیف کر کے ممالک عرب اور فارس میں شائع کر رہا ہوں- لیکن اس امتحان کی غرض سے اب بھی اس اشتہار کے ذیل میں ایک تقریر عربی اور فارسی میں اپنے پرُ امن عقاید کی نسبت اور مہدی اور مسیح کی غلط راوایات کی نسبت اور گورنمنٹ برطانیہ کی نسبت شائع کرتا ہوں- میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ اگر محمد حسین جو اہل حدیث کا سر گروہ کہلاتا ہے میرے عقائد کی طرح امن اور صلح کاری کے عقائد کا پابند ہے تو وہ اپنا اشتہار عربی اور فارسی میں چھاپ کر دو سو کاپی اس کی میری طرف راونہ کر ے- تا مَیں اپنے ذریعہ سے مکّہ اور مدینہ میں عربی اور فارسی کی لے لے تا بطور اُن کو شائع کرے-
ہماری دانا گورنمنٹ کو بخوبی یاد رہے کہ یوں ہی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے صرف بگفتن کوئی رسالہ ذومعنین لکھنا اور پھر اچھی طرح اس کو شائع نہ کرنا یہ طریق اخلاص نہیںہے- یہ اَور بات ہے اور سچّے دل سے اور پورے جوش سے کسی ایسے رسالہ کو جو عام خیالات مسلمانوں کے برخلاف ہو درحقیقت غیرممالک تک بخوبی شائع کر دینا یہ اَور بات ہے اور اس بہادر کا کام ہے جس کا دل اور زبان ایک ہی ہوں اور جس کو خدائے درحقیقت یہی تعلیم دی ہے - بھلا اگر یہ شخص نیک نیت ہے تو بلاتوقف اس کو یہ کاروائی کرنی چاہیے- ورنہ گورنمنٹ یاد رکھے کہ اگر اس نے میرے مقابل پر ایسا رسالہ عربی اور فارسی میں شائع نہ کیا تو پھر اس کا نفاق ثابت ہو جائیگا - یہ کام صرف چند گھنٹہ کا ہے اور بجز بد نیتی کے اس کا کوئی مانع نہیں- ہماری عالی گورنمنٹ یاد رکھے کہ یہ شخص سخت درجہ کے نفاق کا برتائو رکھتا ہے- اور جن کا یہ سرگروہ کہلاتا ہے وہ بھی اسی عقیدے اور خیال کے لوگ ہیں-
اب مَیں اپنے وعدہ کے موافق اشتہار عربی اور فارسی ذیل میں لکھتا ہوں اور سچائی کے اختیار کرنے میں بجز خدا تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتا- اور مَیں نے حسن ترتیب اور دونوں اشتہاروں کی موافقت تامہ کے لحاظ سے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ عربی میں اصل اشتہار لکھوں اور فارسی میں اسی کا ترجمہ کر دوں تا دونوں اشتہار اپنے اپنے طور پر لکھے جائیں اور نیز عربی اشتہار جس کو ہر ایک غیر زبان کا آدمی بآسانی پڑھ نہیں سکتا اس کا ترجمہ بھی ہو جائے-چنانچہ اب وہ دونوں اشتہار لکھ کر اس رسالہ کے ساتھ شامل کرتا ہوں-
وباللّٰہ التوفیق
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار: میرزا غلام احمد از قادیان
۲۱ فروری ۱۸۹۹ء
(۲۰۵)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اپنے مُریدوں کی اطلاع کے لیے
جو پنجاب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور نیز دوسروں کے لئے اعلان جوکہ ایک مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ اضابطہ فوجداری مجھ پر اور مولوی سعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السُّنہ پر عدالت جے ایم- ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں دائرہ تھا بتاریخ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط رکرائے گئے کہ آیندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے- کوئی کسی کا کافر اور دجّال نہ کہے- کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جائے اور نہ بٹالہ کو طا کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں- بد گوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں- اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں سے بھی یہی چاہیئے‘‘ لہذا میں نہایت تاکید سے اپنے اہر یک مرید کو مطلع کرتا ہوںکہ وہ ہدایت مذکور بالا کے پابند رہیں اور نہ مولوی محمد حسین اور نہ اس کے گروہ اہل حدیث اور نہ کسی اور سے اس ہدایت کے مخالف معاملہ کریں تو بہتر تو یہی ہے کہ ان لوگوں سے بکلی قطع کلام اور ترک ملاقات رکھیں- ہاں جس میں رشد اور سعادت دیکھیں اس کو معقول اور نرم الفاظ سے راہِ راست سمجھائیں اور جس میںتیز ی اور لڑنے کا مادہ دیکھیں اس سے کنارہ کریں- کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں- کہ یہ کافر ہے یا دجّال یا کذّاب یا مفتری ہے گو وہ مولوی محمد حسین ہو یا اس گروہ میں سے یا اس کے دوستوں میں سے کوئی اور ہو- ایسا ہی کوئی عیسائی اور کسی دوسرے فرقہ کے ساتھ بھی ایسے الفاظ جو فتنہ کر برپا کر سکتے ہیں استعمال نہ لاویںاور نرم طریق سے ہر ایک سے برتائو کریں- اور ہم مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں- کہ چونکہ اس نوٹس پر اُن کے بھی دستخط کرائے گئے ہیں بلکہ اسی تحریری شرط سے عدالت نے اُن پر مقدمہ چلانے سے اُن کو معافی دی ہے لہذا وہ بھی اسی طور سے اپنے گروہ اہل حدیث امرتسری لاہوری لدہانوی دہلوی اور راولپنڈی کے رہنے والے اور دوسرے اپنے دلی دوستوں کو بذریعہ چھپے ہوئے اعلان کے بلا توقف اس نوٹس سے اطلاع دیں کہ وہ حسبِ ہدایت صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور اپنے فریق مخالف یعنے میری نسبت کافر اور دجّال اور مفتری اور کذّاب کہنے سے اور گندی گالیاں دینے سے روکے گئے ہیں اور اس معاہدہ کی پابندی کے لئے نوٹس پر دستخط کر دیئے گئے ہیں کہ وہ آیندہ نہ مجھے کافر کہیں گے نہ دجال نہ کذّاب نہ مفتری اور نہ گالیاں دیں گے کہ ان کے دوستوں اور ملاقاتیوں اور گروہ کے لوگوں میںسے کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے- سو سمجھا ویںکہ اگر وہ لوگ بھی اس نوٹس کی خلاف ورزی کریں گے تو اس عہد شکنی کے جواب وہ ہوں گے-
غرض جیسا کہ میں نے اس اعلان کے ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے مولوی محمد حسین کی دلی صفائی کایہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ بھی اپنے اہل حدیث اور دوسرے منہ زور لوگوں کو جو اُن کے دوست ہیں بذریعہ اعلان متنبہ کریں کہ اب وہ کافر، دجّال، کذّاب کہنے سے باز آ جائیں اور دلآزار گالیاں نہ دیں ورنہ انگریزی جو امن پسند ہے باز نہ آنے کی حالت میں پورا پورا قانون سے کام لے گی- اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع کر چکے ہیں کہ آیندہ کسی مخالف کے حق میں موت وغیرہ کی پیشگوئی نہیں کریں گے اور اس مقدمہ میںجو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصلہ ہوا، ہم نے اپنے ڈیفنس میں جو عدالت میں دیا گیا ثابت کر دیا ہے کہ یہ پیشگوئی کسی شخص کی موت وغیرہ کی نسبت نہیںملتی تھی- محض ایسے لوگوں کی غلط فہمی تھی جن کو عربی سے نا واقفیت تھی- سو ہمارا خدا تعالیٰ سے وہی عہد ہے جو ہم اس مقدمہ سے مدت پہلے کر چکے- ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۲۷ میں شیخ محمد حسین اور اس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے- لیکن اس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجّال کہنے سے باز آ جائیں یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑا جس کو ہم صلح کاری کے طور پر چاہتے تھے-
یاد رہے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے مقدمہ کے فیصلہ کے وقت مجھے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جویٔ کراتے اور وہ حق اب تک قائم ہے - اس لئے مَیں شیخ محمد حسین اور اُن کے دوستوں جعفر زٹلی وغیرہ کو مطلع کرتا ہوں کہ اب بہتر طریق یہی ہے کہ اپنے مُنہ کو تھام لیں- اگر خدا کے خوف سے نہیں تو اس عدالت کے خوف سے جس نے یہ حکم فرمایا یہ فہمایش کی اپنی زبان کو درست کر لیں اور اس بات سے ڈر یں کہ مَیں مظلوم ہونے کی حالت میں بذریعہ عدالت کچھ چارہ جوئی کروں- زیادہ کیا لکھا وجاوے-
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان
(۲۶ فروری ۱۸۹۹ء)
مطبوعہ ضیاء السلام پریس قادیان تعداد ۷۰۰
(۲۰۲)
اشتہار
اپنی جماعت کے نام اور نیز ہر ایک رشتہ دار کے نام جو خواہشمند ہو
ہماری جماعت میں اوّل درجہ کے مخلص دوستوں میں سے مولوی علی صاحب ایم- اے ہیں جنہوں نے علاوہ اپنی لیاقتوں کے ابھی وکالت میں بھی امتحان پاس کیا ہے اور بہت سا اپنا حرج اُٹھا کر چند ماہ سے ایک دینی کام کے انجام کے لئے یعنی بعض میری تالیفات کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئے میرے پاس قادیان میں مقیم ہیں- اور یقین ہے کہ جب وہ فراغت اس کام کے اپنے کام وکالت پر جائیں گے تو کسی قریب ضلع مدیں ہی کام شروع کریں گے- اور مَیں اس مدّت میں یعنے جب سے کہ وہ میرے پاس ہیں ظاہری نظر سے اور نیز پوشیدہ طور پر اُن کے حالات کا اخلاق اور دین اور شرافت کے رُو سے تجسس کرتا رہا ہوں- سو خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مَیں نے اُن کو دینداری اور شرافت کے ہر پہلو میں بھی نہایت عمدہ انسان پایا ہے- غریب طبع با حیا نیک اندرون پرہیز گار آدمی ہے- عمر تخمیناً جوبیس ۲۴ برس کے قریب ہو گی - خاندان کے زمیندار شریف اور موضع مرار علاقہ ریاست کپورتھلہ کے باشندے ہیں- پہلے بھی مَیں نے اُن کے لئے اپنی جماعت میں تحریک ٭ کی تھی مگر وہ بعض وجود کے سبب اس وقت کام کی انجام دہی میں معذوری پیش آئی- اور اب وہ وقت ہے کہ بخیر و خوبی وہ کام کیا جائے- لہذا دوبارہ یہ اشتہار جاری کیا گیا - میرے نزدیک جہانتک مجھے علم ہے ہماری جماعت کا ایسا انسان یا کوئی اور شخص بہت ہی خوش قسمت ہو گا جس کی لڑکی یا ہمشیرہ کا رشتہ مولوی صاحب موصوف سے ہو جائے گا-
یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے ہونہار لڑکے جو بہمہ صفت موصوف ہوں اور بہر طرح لائق اور معّزز درجہ کے آدمی تلاش کرنے سے نہیں ملتے اور لوگ اکثر دھوکہ کھا لیتے ہیں اور اپنی لڑکیوں پر ظلم کرتے ہیں چاہیئے کہ ہر ایک صاحب بہت جلد مجھے اطلاع دیں - اور یہ بات ضروری ہے کہ لڑکی علاوہ شکل صورت خداداد کے سنجیدگی اور عورتوںکی ضرورت کے موافق علم اور لیاقت سے کافی بہرہ رکھتی ہو- زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں-
والسلام
المشتھـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۹ اگست ۱۸۹۹ء
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان تعداد ۲۰۰) محمد اسمعٰیل
(۲۰۷)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
(ضمیمہ ۳ منسلکہ کتاب تریاق القلوب)
حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست
جبکہ ہماری یہ محسن گورنمنٹ ہر ایک طبقہ اور درجہ کے انسانوں بلکہ غریب سے غریب اور عاجز سے عاجز کی ہمددری کر رہی ہے- یہاں تک کہ اس ملک کے پرندوں اور چرندوںاور بے زبان مویشیوں کے بچائو کے لئے بھی اس کے عدل گستر قوانین موجود ہیں- اور ہر ایک قوم اور فرقہ کو مساوی آنکھ سے دیکھ کر ان کی حق رسی میں مشغول ہے تو اس انصاف اور داد گستری اور عدل پسندی کی خصلت پر نظر کر کے یہ عاجز بھی اپنی ایک تکلیف کے رفع کے لئے حضور گورنمنٹ عالیہ میں یہ عاجزانہ عریضہ پیش کرتا ہے اور پہلے اس سے کہ اصل مقصود کو ظاہر کیا جائے- اس محسن اور قدر شناس گورنمنٹ کے اس قدیم خیرخواہ خاندان میں سے ہے جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام کے اعتراف کیا ہے اور اپنی چٹھیوں سے گواہی دی ہے کہ وہ خاندان ابتدائی انگریزی عملداری سے آج تک خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ میں برابرسرگرم رہا ہے - میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیر خواہ اور دلی جاں نثار تھے کہ وہ تمام حکام پر جو اُن کے وقت میں اس ضلع میں آئے ، سب سکے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوںنے میرے والد موصوف کو ضرورت کے وقتوں میں گورنمنٹ کی خدمت کرنے میں کیسا پایا- اور اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوںنے ۱۸۵۷ء کے مفسدہ کے وقت اپنی تھوڑی حیثیت کے ساتھ پچاس گھوڑے معہ پچاس جوانوں کے اس محسن گورنمنٹ کی امداد کے لئے دئیے اور ہر وقت امداد اور خدمت کے لئے کمر بستہ رہے یہاں تک کہ اس سے گذر گئے- والد مرحون گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معّزز اور ہر دلعزیز رئیس تھے جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور وہ خاندان مغلیہ میں سے ایک تباہ شدہ ریاست کے بقیہ تھے جنہوں نے بہت سی مصیبتوں کے بعد گورنمنٹ انگریزی کے عہد میں آرام پایا تھا- یہی وجہ تھی کہ وہ دل میں اس گورنمنٹ سے پیار کرتے تھے اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی ایک میخ فولادی کی طرح ان کے دل میں دھنس گئی تھی - اُن کی وفات کے بعد مجھے خد ا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی طرح بالکل دُنیا سے الگ کر کے اپنی طرف کھینچ لیا اور مَیں نے اس کے فضل سے آسمانی مرتبت اور عزّت کے اپنے لئے پسند کر لیا- لیکن مَیں اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہوں کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیر خواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کی بیس برس کی مدّت سے مَیں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچّے خیر خواہ اور دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہر ثابت نہیں ہو سکتے دست بردار ہو جائیں- اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو کم سے کم یہ اُن کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے ناشکر گذار نہ بنیں اور نمک ّ*** سے خدا کے گنہگار نہ ٹھہریں کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزّت کی محافظ ہے اور اس کے مبارک قدم سے ہم جلتے ہوئے تنور میں سے نکالے گئے ہیں- یہ کتابیں ہیں جو مَیں نے اس مُلک اور عرب اور شام اور فارس اور مصر وغیرہ ممالک میں شائع کی ہیں- چنانچہ شام کے ملک کے بعض عیسائی فاضلوں نے بھی میری کتابوں کے شائع ہونے کے گواہی دی ہے- اور میری بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے-٭ اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرات سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا-
یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک کہ چوبیس برس کا زمانہ ہے- ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکور بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کا کام نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کاکام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچّی خواہی ہے- ہاں مَیں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مَیں نیک نیتی سے دوسرے کے لوگون سے مباحثات بھی کیا کرتا ہوں - اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شایع کرتا رہا ہوں- اور مَیں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ پادریوں مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نو افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریری شایع ہوئیں-اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا- چور تھا- زناکار تھا- اور صد ہا پرچوں میں یہ شایع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بد نیّتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اورلُوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تومجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو- تب مَیں نے اُن جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیّت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دیا نے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیاجائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرد ہو جائیں اور ملک میںکوئی بے امنی پیدا نہ ہو٭- تب مَیں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میںکمال اور سختی سے بد زبانی کی گئی تھی چند کتابیںلکھیں جن کی کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویی دا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں اُن کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا- سو یہ میری پیش بینی کی تدبر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثرہوا کہ ہزار مسلمان جو پادری عمادالدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندمی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے ایک دفعہ اُن کے اشتعال فرد ہو گئے- کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اس کا عوض دیکھ لیتا ہے تو اس کا وہ جوش نہیں رہتا- باایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل ہر بہت نرم تھی گویا کچھ نسبت نہتھی- ہماری مُحسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے محبت رکھتے ہیں - سو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیںکہ اس حدتک پہنچائے جس حد تک ایک متعصّب عیسائی پہنچا سکتاہے - اور مسلمانو ں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو چکے ہیں ایک عزّت سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفصیل کے لئے اس جگہ موقع نہیں- سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہیہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا- اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مَیں تمام مسلمانوں میں سے اوّل دجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں- کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے- (۱) اوّل والد مرحوم کے اَثر نے (۲) اس گورنمنٹ حالیہ کے احسانوں نے، (۳)تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے:-
اَب مَیں اس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں- صرف ایک رنج اور درد و گم ہر وقت مجھے لاحق حال ہے جس کا استغاثہ پیش کرنے کے لئے اپنی محسن گورنمنٹ کی خد مت میںحاضر ہواہوں- اور وہ یہ ہے کہ اس ملک کے مولوی مسلمان اور ان کی جماعتوں کے لوگ حد سے زیادہ مجھے ستاتے اور دُکھ دیتے ہیں- میرے قتل کے لئے ان لوگوں نے فتوے دئیے ہیں- مجھے کافر اور بے ایمان ٹھہرایا ہے- اور بعض ان میں سے حیا اور شرم کو ترک کر کے اس قسم کے اشتہار میرے مقابل پر شائع کرتے ہیں کہ یہ شخص اس وجہ سے بھی کافر ہے کہ اس نے انگریزی سلطنت روم پر ترجیح دی ہے اور ہمیشہ سلطنت انگریزی کی تعریف کرتا ہے اور ایک باعث یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مجھے اس وجہ سے بھی کافر ٹھیراتے ہیں کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کے سچّے الہام سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس خونی مہدی کے آنے سے انکار کیا ہے جس کے یہ لوگ منتظر ہیں بیشک مَیں اقرار کرتا ہوںکہ مَیںنے ان لوگوں کا بڑا نقصان کیا ہے کہ مَیں نے ایسے خونی مہدی کا آنا سراسر جُھوٹ ثابت کر دیا ہے جس کی نسبت ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آ کر بے شمار ان کو روپیہ دے گا مگر مَیںمعذور ہوں- قرآن اور حدیث سے یہ بات بپایہ ثبوت نہیں پہنچی کہ دُنیا میں کوئی ایسا مہدی آئے گا جو زمین کو خون میںغرق کر دے گا- پس مَیں نے ان کومحروم کر دیا ہے - مَیں خدا پاک سے الہام پاکر یہ چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے اخلاق اچھے ہو جائیں اور ان میں آہستگی اور سنجیدگی اور علم اور میانہ روی اور انصاف پسندی پیدا ہو جائے اور یہ اپنی گورنمنٹ کی ایسی اطاعت کریں کہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں اور یہ ایسے ہو جائیں کہ کوئی فساد کی رگ ان میں باقی نہ رہے- چنانچہ کسی قدر یہ مقصود مجھے حاصل بھی ہو گیا ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو میری ان پاک تعلیموںکے دل سے پابند ہیں٭ او ر یہ نیا فرقہ مگر گورنمنٹ کے لئے نہایت مبارک فرقہ برٹش انڈیا میں زور سے ترقی کر رہا ہے- اگر مسلمان ان تعلیموں کے پابند ہو جائیں تو مَیں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فرشتے بن جائیں- اور اگر وہ اس گورنمنٹ کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو جائیں تو تمام قوموںسے زیادہ خوش قسمت ہو جائیں- اگر وہ مجھے قبول کر لیں اور مخالفت نہ کریں تو یہ سب کچھ نہیں حاصل ہو گا اور ایک نیکی اور پاکیزگی کی رُوح ان میں پیدا ہو جائے گی-اور جس طرح ایک انسان خوجہ ہو کر گندے شہوات کے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے- اسی طرح میری تعلیم سے ان میں تبدیلی پیدا ہو گی- مگر اور مَیں اس وقت ی استغاثہ کرتا ہوں کہ وہ ہر وقت میرے قتل کے درپے ہیں اور کیوں میرے قتل کے لئے جھوٹے فتوے شائع کر رہے ہیں- اور مَیںجانتا ہوں کہ یہ بد ارادے ان کے عبث ہیں- کیونکہ کوئی چیز زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر نہ ہولے- اور مَیںاُن کی بدی کے عوض میں اُن کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اُن کی آنکھیں کھولے اور وہ خدا اور مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ایک تجویز سوچی ہے جو ہماری گورنمنٹ کی امن پسند پالیسی کے مناسب حال ہے جس کی تعمیل اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ محسن گورنمنٹ جس کے احسانات سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہیں، ایک یہ احسان کرے کہ اس ہر روزہ تکفیر اور قتل کے فتووں اور منصوبوں کے روکنے کے لئے خود درمیان میں ہو کر یہ ہدایت فرما دے کہ اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مدعی یعنی یہ عاجز جس کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے اور جس کو یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح نبیوں سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے اور غیب کے بھید مجھ پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور آسمانی نشان دکھلائے جاتے ہیں- یہ مدعی یعنے یہ عاجز گورنمنٹ کے حکم سے ایک سال کے اندر ایک ایسا نشان جس کا مقابلہ کوئی قوم اور کوئی فرقہ جو زمین پر رہتے ہیں نہ کر سکے اور مسلمانوں کی قوموں یا دوسری قوموں میں سے کوئی ایسا ملہم اور خواب بین اور معجزہ نما پیدا نہ ہو سکے جو اس نشان کے ایک سال کے اندر نظیر پیش کرے اور ایسا ہی ان تمام مسلمانوں بلکہ ہر ایک قوم کے پیشوائوںکو جو ملہم اور خدا کے مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت اور فہمائش ہو کہ اگر وہ اپنے تئیں سچ پر اور خدا کے مقبول سمجھتے ہیں اور ان میں کوئی ایسا پاک دل ہے جس کو خدا نے ہمکلام ہونے کا شرف بخشاہے اور الہٰی طاقت کے نمونے اس کو دیئے گئے ہیں تو وہ بھی ایک سال تک کوئی نشان دکھلاویں- پھر بعد اس کے اگر ایک سال تک اس عاجز نے ایسا کوئی نشان نہ دکھلایا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر اور انسانی ہاتھ کی ملونی سے بھی بلند تر ہو یا یہ کہ نشان تو دکھلایا مگر اس قسم کے نشان اور مسلمانوں یا اور قوموں سے بھی ظہور میں آ گئے تو یہ سمجھا جائے کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور اس صورت میں مجھ کو کوئی سخت سزا دی جائے گو موت کی ہی سزا کیونکہ اس صورت میں فساد کی تمام بنیاد میری طرف سے ہو گی اور مفسد کو سزا دینا قرین انصاف ہے- اور خدا پر جھوٹ بولنے سے کوئی گناہ بدتر نہیں- لیکن اگر خدا تعالیٰ نے ایک سال کی میعاد کے اندر میری مدد کی اور زمین کے رہنے والوں میں سے کوئی میرا مقابلہ نہ کر سکا تو پھر میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ گورنمنت محسنہ میرے مخالفوں کو نرمی سے ہدایت کر ے کہ اس نظارہ قدرت کے بعد شرم اور حیا سے کام اور تمام مردی اور بہادری سچائی کے قبول کرنے میں ہے-
اس قدر عرض کر دینا پھر دوبارہ ضروری ہے کہ نشان اس قسم کا ہو گا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو اور اس میں نکتہ چینی کی ایک ذرہ گنجایش نہ ہو کہ ممکن ہے کہ اس شخص نے ناجائز اسباب سے کام لیا ہو بلکہ جس طرح آفتاب اور ماہتاب کے طلوع اور غروب میں یہ ظن کر دیا ہے اسی طرح اس نشان میں بھی ایسا ظن کرنا محال ہو- اس قسم کا فیصلہ صد ہا نیک نتیجے پیدا کرے گا اور ممکن ہے کہ اس سے تمام قومیں ایک ہو جائیں اور بے جا نرزاعیں اور جھگڑے اور قوموں کا تفرقہ اور حد سے زیادہ عناد جو قانون سڈیشن کے منشاء کے بھی بر خلاف ہے یہ تمام پھوٹ صفحہ برٹش انڈیا سے نابود ہو جائے اور اس میں شک نہیں کہ یہ پاک کاروائی گورنمنٹ کی ہمیشہ کے لئے اس مُلک میں یادگار رہے گی اور یہ کام گورنمنٹ کے لئے بہت مقدّم اور ضروری ہے اور انشاء اللہ اس سے نیک نتیجے پیدا ہو ں گے- چونکہ آجکل یورپ کی بعض گورنمنٹیں اس بات کی طرف بھی مائل ہیں کہ مختلف مذاہب کی خوبیاں معلوم کی جائیں کہ اُن سب میں سے خوبیوں میں بڑھا ہوا کونسا مذہب ہے اور اس غرض سے یورپ کے بعض ملکوں میں جلسے کئے جاتے ہیں جیسا کہ ان دونوں میں اٹلی میں ایسا ہی جلسہ درپیش ہے اور پھر پیرس میں بھی ہو گا- سو جبکہ یورپ کے سلاطین کا میلان طبعاً اس طرف ہو گیاہے اور سلاطین کی اس قسم کی تفتیش بھی لوازم سلطنت میں شمار کی گئی ہے اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ہماری یہ اعلیٰ درجہ کی گورنمنٹ دوسرں سے پیچھے رہے- اور تمہید اس کاروائی کی اس طرح پر ہو سکتی ہے کہ ہماری عالی ہمّت گورنمنٹ ایک مذہبی جلسہ کا اعلان کر کے اس زیر تجویز جلسہ کی ایسی تاریخ مقرر کرے جو دو سال سے زیادہ نہی ہو- اور تمام قوموں کے سرگروہ علماء اور فقرہ میں مُلہموں کو اس غرض سے بلایا جائے کہ وہ جلسہ کی تاریخ پر حاضر ہو کر اپنے مذہب کی سچائی کے دو ثبوت دیں (۱) اوّل ایسی تعلیم پیش کریں جو دوسری تعلیموں سے اعلیٰ ہو جو انسانی درخت کی تمام شاخوں کی آبپاشی کر سکتی ہو (۲)دوسرے یہ ثبوت دیں کہ ان کے مذہب میں روحانیت اور طاقت بالا ویسی ہی موجود ہو جیسا کہ ابتداء میں دعوے کیا گیا تھا اور وہ اعلان جو جلسہ سے پہلے شائع کیا جائے- اس میں بہ تصریح یہ ہدایت ہو کہ قوموں کے سرگروہ ان دو ثبوتوں کے لئے طیار ہو کر جلسہ کے میدان میں قدم رکھیں اور تعلیم کی خوبیاں بیان کر نے کے بعد ایسی اعلیٰ پیشگوئیاں پیش کریں جو محض خدا کے علم سے مخصوص ہوں اور نیز ایک سال کے اندرپوری بھی ہو جائیں- غرض ایسے نشان ہوں جن سے مذہب کی رُوحانیت ثابت ہو اور پھر ایک سال تک انتظار کر کے غالب مغلوب کے حالات شائع کر دیئے جائیں- میرے خیال میں ہے کہ اگر ہماری دانا گورنمنٹ اس طریق پر کار بند ہو اور آزماوے کہ کس مذہب اور کس شخص میں روحانیت اور خدا کی طاقت پائی جاتی ہے تو یہ گورنمنٹ دُنیا کی تمام قوموں پر احسان کرے گی اور اس طرح سے ایک سچے مذہب کو اس کی تمام رُوحانی زندگی کے ساتھ دُنیا پر پیش کر کے تمام دُنیا کو راہ راست پر لے آئے گی کیونکہ وہ تمام شور و غوغا جو کسی ایسے مذہب کے نزدیک نہیں کر سکتا اور نہ گناہ سے نفرت دلا سکتا ہے مذہب پکارنے میں ہر ایک کی بلند آواز ہے - لیکن کبھی ممکن نہیں کہ فی الحقیقت پاک زندگی اور پاک دلی اور خدا ترسی میسر آ سکے جب تک کہ انسان مذہب کے آئینہ میں کوئی فوق العادۃ نظارہ مشاہدہ نہ کرے نئی زنگی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو- اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہو سکتا جب تک موسیٰ اور مسیح اور ابراہیم اور یعقوب اور محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح نئے معجزات نہ دکھائے گائیں نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو، نشان نئے ہوں اور دوسرے تمام لوگ قصّو ں کہانیوں کے جال میں گرفتار ہیں- دل غافل ہیں اور زبانوں پر خدا کا نام ہے - مَیںسچ سچ کہتا ہوں کہ زمین کے شور و غوغا تمام قصے اور کہانیاں ہیں اور ہر ایک شخص جو اس وقت کئی سو برس کے بعد اپنے کسی پیغمبریا اوتار کے ہزار ہا معجزات سناتا ہے وہ خود اپنے دل میں جانتا ہے جہ وہ ایک قصّہ بیان کر رہا ہے جس کو نہ اُس نے اور نہ اُس کے باپ نے دیکھا ہے اور نہ اس کے دادے کو اُس کی خبر ہے- وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں تک اس کا یہ بیان صحیح اور درست ہے کیونکہ یہ دُنیا کے لوگوں کی عدالت ہے کہ ایک تنکے کا پہاڑ بنا دیا کرتے ہیں اس لئے یہ تمام قصّے جو معجزات کے رنگ میں پیش کئے جاتے ہیں ان کا پیش کرنے والا خواہ کوئی مسلمان ہو یا عیسائی ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا جانتاہے یا کوئی ہندو ہو جو اپنے اوتاروں کے کرشمے کتابیں اور پستک کھول کر سناتا ہے یہ سب کچھ ہیچ اور لاشی ہیں اور ایک کوڑی ان کی قیمت نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی زندہ نمونہ ان کے ساتھ نہ ہو-اور سچا مذہب وہی ہے جس کے ساتھ زندہ نمونہ ہے- کیا کوئی دل اور کوئی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک مذہبتو سچا ہے مگر اس کی سچائی کی چمکیں اور سچائی کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں- اور ان ہدایتوں کے بھیجنے والے کے مُنہ پر ہمیشہ کے لئے مہر لگ گئی ہے - مَیں جانتا ہوں کہ ہر اک انسان جو سچی بھوک اور پیاس سے خدا تعالیٰ کی طلب رکھتا ہے وہ ایسا خیال ہرگز نہیں کرے گا- اس لئے ضروری ہے کہ سچے مذہب کی یہی نشانی ہو کہ زندہ نمونے اور اس کے نشانوںکے چمکتے ہوئے نور اس مذہب میں تازہ بتازہ موجود ہوں- اگر ہماری گورنمنٹ عالیہ ایسا جلسہ کرے تو یہ نہایت مبارک اردہ ہے اور اس سے ثابت ہو گا یہ گورنمنٹک سچّائی کی حامی ہے اور اگر ایسا جلسہ ہو تو ہر ایک شخص اپنے اختیار سے اور ہنسی خوشی سے اس جلسہ میں داخل ہو سکتا ہے قوموں کے پیشوا جنہوں نے مقدس کہلا کر کروڑ ہا روپیہ قوموں کا کھا لیا ہے ان کے تقدس کو آزمانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ طریق نہیں کہ جو اُن کا یا اُن کے مذہب کا خدا کے ساتھ رشتہ ہے اس رشتہ کا زندہ ثبوت مانگا جائے- یہ عاجز اپنے دلی جوش سے جو ایک پاک جوش ہے یہی چاہتا ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ کے ہاتھ سے یہ فیصلہ ہو- خدایا اس عالی مرتبہ گورنمنٹ کو یہ الہام کرتا وہ اس قسم کے جلسوں میں سب کے پیچھے آ کر سب سے پہلے ہو جائے- اور میں چونکہ مسیح موعود ہوں اس لئے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے - حضرت مسیح علیہ السّلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے ـصلیب چڑھے گو خدا کے رحم نے اُن کو بچا لیا اور مرہم عیسیٰ٭ نے ان کے زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں اُن کو پہنچا دیا- سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عناں گھوڑے پر چڑھتا ہے- سو ایسا ہی مَیں بھی مخلوق کی بھلائی کے ل ئے صلیب سے پیار کرتا ہوں اور مَیں یقین رکھتا ہوںکہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچا لیا اور ان کے تمام رات کی دُعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب اور صلیب کے نتیجوں سے نجات دی ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا- اور حضرت مسیح صلیب سے نجات پا کر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں سے ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے اور جیسا کہ اس جگہ شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک گواہی دے رہا ہے وہ ایک مدت تک کوہ نعمان میں رہے اور پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے- آخر کشمیر میں گئے اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت کرتے رہے اور سکھوں کے زمانہ تک ان کی یادگار کا کوہ سیلمان پر کتبہ موجود تھا- آخر سری نگر میں ایک سو پچیس برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کئے قریب آپ کا مقدس مزار ہے - اگر اس جلسہ کے بعد جس کی گورنمنٹ محسنہ کو ترغیب دیتا ہوں ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں اور مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں- مَیںراضی ہوں کہ اس جُرم کی سزا میں سُولی دیا جائوںاور میری ہڈیاں توڑی جائیں- لیکن وہ خدا جو آسمان پر ہے جو دل کے خیالات کو جانتا ہے جس کے الہام سے مَیں نے اس عریضہ کو لکھا ہے وہ میرے ساتھ ہو گا اور میرے ساتھ ہے جو میرے اندر بولتی ہے- مَیں نہ اپنی طرف سے بلکہ اس کی طرف سے یہ پیغام پہنچا رہا ہوں تا سب کچھ جو اتمام حجت کے لئے چاہیے پورا ہو - یہ سچ ہے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف یہ پیغام پہنچا رہا ہوں تا سب کچھ جو اتمام حجت کے لئے چاہیے پورا ہو- یہ سچ ہے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے کہتا ہوں- اور وہی ہے جو میراپروردگار ہو گا-
بالآخر مَیں اس بات کا بھی شکر کرتا ہوں کہ ایسے عریضہ کو پیش کرنے کے لئے بجز اس سلطنت محسنہ کے اور کسی سلطنت کو وسیع الاخلاق نہیں پاتا- اور گو اس ملک کے مولوی ایک اور کفر کا فتویٰ بھی مجھ پر لگا دیں مگر مَیں کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ایسے عرائیض کے پیش کرنے کے لئے عالی حوصلہ عالی اخلاق صرف سلطنت انگریزی ہی ہے میں اس سلطنت کے مقابل پر سلطنت روم کو بھی نہیں پاتا جو اسلامی سلطنت کہلاتی ہے اب مَیں اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری محسنہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو عمر دارز کر کے ایک اقبال سے بہرہ در کرے اور تمام دُعائیں جو مَیں نے اپنے رسالہ رستارہ قیصرہ اور تحفہ قیصریہ میں ملکہ موصوفہ کو دی ہیں- قبول فرماوے- اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ محسنہ اس کے جواب سے مجھے مشرف فرما وے گی- والدعا-
عریضئہ خاکســـــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان المرقوم ۲۷ دسمبر ۱۸۹۹ ء
(ضمیمہ نمبر۳ منسلکہ کتاب تریاق القلوب
(۲۰۸)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
الاشتھار الانصار
نحمد اﷲ و نصلی علی رسولہ الکریما لامین- واٰلہ الطاہرین اطیبّین
ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں جو کریم اور امین ہے اور اس کے آل پردرود بھیجتے
واصحابہ الکاملین المکملین- الذین سعوا فی سُبل ربّ العلمین -
ہیں جو طیّب اور طاہر ہیں اور نیز اس کے اصحاب پر جو کامل مکمل ہیں- وہ اصحاب جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دوڑے
واعرضوا عن الدنیا وما فیھا و اقبلوا علی اﷲ مُتبتّلین منقطعین- امّا بعد
اور دنیا اور مافیھا سے کنارہ کیا اور خدا کی طرف دوسروں سے بکلی توڑ کر جھک گئے- بعد اس کے
فاعلموا ایّھا الاحباب رحمکم اﷲ انّ داعی اﷲ قدجاء کم فی وقتہٖ و
اے دوستو! تمہیںمعلوم ہو خدا تم پر رحم کرے کہ خدا کی طرف سے ایک بُلانے والا تمہارے پاس اپنے وقت پر
ادرککم رحم اﷲ علی رأس المائۃ وکنتم من قبل تنظرون کالعُطاشی
آیا ہے اور خدا کے رحم نے صدی کے سر پر تمہاری دستگیری کی اور تم پہلے اس بُلانے والا کا انتظار پیاسوں کی
اوکجائعین- فقد جاء کم فضلاٗ من اﷲ لیندرقوماً ماانذار اٰباء ھم ولتستبین
طرح یا بھوکوں کی طرح کر رہے تھے سو وہ خدا کے فضل سے آ گیا تا اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ
سبیل المجرمین- و اِنّہ اُمِرلیَدْعوکُم الی الصدق والایمان- ولیھدیکم الٰی
دادے نہیں ڈرائے گئے تھے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور اس کو حکم ہے کہ تم کو صدق اور ایمان کی طرف بلاوے
سبیل العرفان- والٰی کل ماینفعکم فے یوم الدین یوم الدین- فعلکم مالم تکونوا
اور معرفت کی راہوں کی طرف تمہیں ہدایت کرے اور ہر ایک امر جو جزا کے دن تمہیں کام آوے سمجھاوے-
تعلمون و اتم علیکم حجۃ اﷲ و جعلکم من المبصرین- وانکم رأیتم
پس اس نے تمہیں وہ حقایق اور مصارف سکھلا دیئے کہ تم خودبخود ان کونہیں جان سکتے تھے اور خدا تعالیٰ کی
مالم یرآباء کم الاوّلون- واتا مالم یا تھم من نور و یقین فلا تردّد انعم اﷲ
حجّت تم پر پوری کر دے اور تمہیں بینا بنایا اور تم نے وہ دیکھا جو تمہارے پہلے باپ دادوں نے نہیں دیکھا تھا
و لاتکونوا من الغافلین- وانی اریٰ فیکم قوماً ماقدروا اﷲ حق قدرہ و
اور وہ نور اور یقین تم کو ملا جو انہیں نہیں ملا تھا پس خد اکی نعمتوں کو ردّ مت کرو اور غافل مت ہو- اور مَیں تم
قالوا اٰمنّا و اماھم بمومنین- ایمنّون علی اﷲ ا لمنۃ کلّھا لِلّٰہ ان کانوا عالمین-
میں ایسے لوگ بھی دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے خدا کا ایسا قدر نہیں کیا جو کرنا چاہئیے تھا- اور کہتے ہیں کہ ہم
لہ العزۃ والکبریاء ان لم تقبلوا فیصرف عنکم وجہہ ویأت بقوم اٰخرین
ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے- کیا یہ لوگ خد اپر احسان کرتے ہیں اور سب احسان خدا کے ہی ہیں
ولاتضرونہ شیئا واﷲ غنی عن العٰلمین- وانّ ھٰذہٖ ایام اﷲ و ایام ججہ
اگر یہ جانتے ہوں- اسی کے لئے عزت اور بزرگی ہے- اگر تم قبول نہیں کرو گے تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر لے گا
فاتقوا اﷲ وایامہ ان کنتم متقین- دستردّون الی اﷲ وتُسئلون و مانریٰ
اور ایک اور قوم لائے گا ا ورتم اس کا کچھ بھی حرج نہیں کر سکو گے اور یہ خدا کے دن ہیں اور اس کی حجتوں کے
معکم اموالکمولا املاککم فتیقّظوا ولاتکونوا من الجاھلین- وجاھدوا
دن- پس خدا سے اور اس کے دنوں سے ڈرو اگر متقی ہو اور عنقریب تم خدا کی طرف واپس کئے جائو گے اور
باموالکم و انفسکم وقومو اﷲ قانتین- احسبتم ان یرضٰی عنکم ربکم
پوچھے جائو گے اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہارے ساتھ تمہارے مال اور املاک جائیںگے پس ہوش میں آ جائو اور
ولماتفعلوا فی سُبُلہ ماخلٰی من سننالصادقین- لن تنالوا البر حتٰی تنفقوا
جاہل مت بنو-اور اپنے مالوں کے ساتھ اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں کوشش کرو اور اطاعت کرتے
بماتحبون- مالکم لاتفھمون- اتُتْرکون احیائٗ ا ابداً غیر میّتین- انی
ہوئے کھڑے ہو- کیا تم یہ گمان کرتے ہوکہ خدا تم سے راضی ہو جائے گا حالانکہ ابھی تم نے وہ کام نہیں کئے
أمرتُ ان انبھّکم فاعلموا ان اﷲ ینظر الٰی اعمالکم وانما انانذیر مبین-
جو صادقوں کے کام ہیں- تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ وہ چیزیں خرچ نہیں کرو گے جو تمہیں
واﷲ یذعوکم لتنصروہ باموالکم وجھد انفسکم فھل انتم من الطائعین-
پیاری ہیں- کیا سبب جو تم نہیں سمجھتے- کیا تم ہمیشہ زندہ چھوڑے جائو گے اور نہیں مرو گے- مجھے حکم دیا گیا ہے
و من ینصر اﷲ ینصرہ ویردّ الیہ ما ارسل الیہ ویزید و ھو خیر المحسنین-
کہ میں تمہیں متنبہ کروں- پس جان لو کہ خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور خدا تمہیں بلاتا ہے تا اپنے
فقرموا ایّھا النّاس ولیسبق بعضکم بعضًا واﷲ یعلم من کان من
مالوں اور جانوں کی کوششوں کے ساتھ تم اس کی مدد کرو - پس کیا تم فرمانبرداری اختیار کرو گے اور جو تم میں
السابقین- والذین اٰمنوا ورعواید اﷲ البیعۃ وما حاھدوا وعملوا الصالحات
سے خدا کی مدد کرے گا- خدا اس کی مدد کرے گا- اور جو کچھ ا س نے خدا کو دیا خدا کچھ زیادہ کے ساتھ اس کو
ثم جاھدوا فیھا ثم استقاموا فلھم مغفرۃ و رزق کریم و رضوان من اﷲ ط
واپس دے دے گا اور وہ سب محسنوں سے بہتر محسن ہے- سو اٹھولوگو اور چاہئیے کہ ایک دوسرے پر سبقت لے
واوٰلئک ھم المومنون حقا و و اوٰلئک من عباد اﷲ الصالحین
جائے اور خدا جانتا ہے ان کو جو سبقت لے جائیں گے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور بیعت کے ہاتھ اور اپنے عہد کی رعایت رکھی اور اچھے کام کئے پھر ترقیات کرتے رہے پھر استقامت اختیار کی ان کے لئے مغفرت اور رزق اور بزرگ اور خدا کی رضا ہے اور وہی سچے مومن ہیں اور وہی ہیں جو خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں-
من انصاری الی اﷲ
اے دوستو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم فرماوے اور آپ کے دل میں الہام کرے کہ ہماری تمام ضرورتوں کے لئے آپ صاحبوں کے دلوں میں سچے جوش پیدا ہوں- حال یہ ہے کہ بہت سا حصّہ عمر کا ہم طے کر چکے ہیں اور جو کچھ باقی ہے وہ معمولی قانون قدرت کے سہارے پر نہیں بلکہ محض اس کے ان وعدوں پر نظر ہے جن میں سے کسی قدر براہین احمدیہ اور ازالہ اوہام میں بھی درج ہیں کیونکہ اس نے محض اپنے فضل سے وعدہ دیا ہے کہ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا اور نہ مجھ سے الگ ہو گا جب تک پاک اور خبیث میں فرق کر کے نہ دکھلاوے- اور تیس برس کے قریب اس الہام کو ہو گیا کہ ا س نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ مَیں ان کاموں کے لئے تجھے اسی برس تک یا کچھ تھوڑا کم یا چند سال اسی برس٭ سے زیادہ عمر دوں گا- اب جب مَیں خدا تعالیٰ کے اس پاک الہام پر نظر کرتا ہوں تو بے اختیار ایک زلزلہ میرے دل پر پڑتاہے اور بسا اوقات میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور ایک موت کی سی حالت نمودار ہو جاتی ہے کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ اس میعاد کا گذر گیا اور اب میں بہ نسبت اس دنیا کی ہمسایگی کے قبر سے زیادہ نزدیک ہوں- میرے اکثر کام ابھی ناتمام ہیں اور مَیں خدا تعالیٰ کے ان تمام الہامات پر جو مجھے ہو رہے ہیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن مقدس پر ایمان رکھتا ہوں- اور مَیں اس خدا تعالیٰ کو جانتا اور پہچانتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے- اندھا ہے وہ دل جو خدا کو نہیں جانتااور مردہ ہے وہ جسم جو یقینی الہام اور وحی سے منّور نہیں اور نہ منّور ہونے والوں کے ساتھ ہم صحبت اور ہم نشین ہے- سو مَیں اس پاک وحی سے ایسا ہی کامل حصّہ رکھتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کامل قرب کی حالت میں انسان رکھ سکتا ہے- جب انسان ایک پُرجوش محبت کی آگ میں ڈالا جاتا ہے جیسا کہ تمام نبی ڈالے گئے تو پھر اس کی وحی کے ساتھ اضغاث احلام نہیں رہتے بلکہ جیسا کہ خشک گھاس تنور میں جل جاتا ہے- ویسا ہی وہ تمام اوہام اور نفسانی خیالات جل جاتے ہیں اور خالص خدا کی وحی رہ جاتی ہے اور یہ وحی صرف اُنہی کو ملتی ہے جو دنیا میں کمال صفاء محبت اور محویّت کی وجہ سے نبیوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۴ اٹھارھویں سطر میں یہ الہام میری نسبت ہے- جری اﷲ فی حُلل الانبیاء یعنی خدا کا فرستادہ نبیوں کے حُلّہ میں- سو مَیں شکّی اور ظنّی الہام کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ یقینی اور قطعی وحی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں- اور میرے نزدیک سب بدبختوں سے زیادہ تر وہ بدبخت ہے جو شکّی اور ظنی الہامات کے ابتلاء میں بلعم کی طرح چھوڑا گیا ہے کیونکہ شک اور ظن علم میں داخل نہیں اور ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی صادق کی تکذیب سے جلد تر جہنم میں گے کیونکہ شک ہمیشہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے- مگر مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے دلائل قاطعہ سے یہ علم دیا گیا ہے اور ہر ایک وقت میں دیا جاتا ہے کہ جو کچھ مجھے القاء ہوتا ہے اور جو وحی میرے پر نازل ہوتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے نہ شیطان کی طرف سے- مَیں اس پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آفتاب اور ماہتاب کے وجود پر یا جیسا کہ اس بات پر کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں- ہاں جب مَیں اپنی طرف سے کوئی اجتہاد کروں یا اپنی طرف سے کسی الہام کے معنے کروں تو ممکن ہے کہ کبھی اس معنی میں غلطی بھی کھائوں مگر مَیں اس غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا اور خدا کی رحمت جلد تر مجھے حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے اورمیری رُوح خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے-
اب وہ غرض جس کے لئے مَیں نے یہ اشتہار لکھا ہے یہ ہے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ عمر کم اور کئی مقاصد میرے التواء میں پڑے ہوئے ہیں جن کا اہتمام بجز مالی مدد کے غیر متصور ہے سب سے پہلے مَیں اس بات کا ذکر کرتاہوں کہ میرے نزدیک خدا تعالیٰ کے حکم اور امر کے موافق جو متواتر مجھے بتلایا گیا ہے اس انتظام کا قائم رکھنا ضروری ہے بلکہ سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ مہمانوں کی آمد و رفت بکثرت جاری رہے اور ہمیشہ ایک جماعت حق کے طالبوں اور انصار کی معارف دینی میرے مُنہ سے سُننے کے لئے قادیان میں حاضر رہتی ہے چنانچہ اب تک یہ انتظام قائم رہا- خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ باوجودیکہ کوئی احسن انتظام اس لنگر خانہ کے تمام متعلقات کا خرچ جس کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں اکثر سات سو روپیہ ماہوار تک یا کبھی اس سے بھی بڑھ کر اور کبھی دوہزار ماہوار تک بھی پہنچ گیا مگر خدا تعالیٰ کی پوشیدہ مدد کا ہاتھ شامل رہا کہ کوئی امتحان پیش نہ آیا- اب یہ صورت ہے کہ بباعث ایام قحط خرچ بہت بڑھ گیاہے اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ مثلاً ہم جو اس سے پہلے دو سو روپیہ ماہواری یا اڑھائی سو روپیہ یا اس سے کم کا لنگر خانہ کے لئے آٹا منگوایا کرتے تھے- اب شاید پانسو روپیہ تک نوبت پہنچے- اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی سامان نہیں اور اسی خرچ کے قریب قریب لکڑی اور گوشت اور روغن اور تیل وغیرہ کا خرچ ہے- میرے نزدیک یہ انتظام ہمارے اس تمام سلسلہ کی بنیاد ہے ا ور دوسری تمام باتیں اس کے بعد ہیں کیونکہ فاقہ اُٹھانے والے معارف اور حقائق بھی سُن نہیں سکتے- سو سب سے اوّل اس انتظام کے لئے ہماری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئیے- اور یہ خیال نہ کریں کہ اس راہ میں روپیہ خرچ کرنے سے ہمارا کچھ نقصان ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے لئے وہ خرچ کریں گے- اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریاکاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں- شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خسّت اور بخل کو نہ چھوڑے- یہ خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ ہر ایک اہل اﷲ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے- ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہؓ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سب سے بڑھ کر رہے- سو مردانہ ہمّت سے امداد کے لئے بلاتوقف قدم اٹھانا چاہئیے- ہر ایک اپنی مقدرت کے موافق اس لنگرخانہ کے لئے مدد کرے- مَیں چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ایک ایسا انتظام ہو کہ ہم لنگر خانہ کے سردرد سے فارغ ہو کر اپنے کام میں بافراغت لگے رہیں اور ہمارے اوقات میں کچھ حرج نہ ہو جو ہمیں مدد دیتے ہیں- آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے-
مَیں اس بات کے لکھنے سے رہ نہیں سکتا کہ اس نصرت اور جانفشانی میں اوّل درجہ پر ہمارے خالص مخلص حبّی فی اﷲ مولوی حکیم نور الدین صاحب٭ ہیں جنہوں نے نہ صرف مالی امداد کی بلکہ دُنیا کے تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر اور فقیروں کا جامہ پہن کر اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان میں موت کے دن تک آ بیٹھے اور ہر وقت حاضر ہیں- اگر مَیں چاہوں تو مشرق میں بھیج دوں یا مغرب میں- میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسب براہین احمدیہ میں یہ الہام اصحاب الصفہ وما ادراک ما اصحاب الصفہ اور حضرت ممدوح سے دوسرے درجہ پر حبّی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ہیں- اور ان کو توپہلے ہی خدا تعالیٰ نے دنیا میں مناسب اور جاہ طلبی کی مناسبت نہیں دی مگر وہ بالکل دینوی خیالات کو بھی استغاء دے کر اس دروازہ پر بیٹھے ہیں اور دن رات اپنے دماغ سے فوق الطاقت کام لے کر خدمت دین کر رہے ہیں اور جمعہ کی نماز میں بہت سے حقائق معارف قرآن شریف بیان کرتے اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں- اور مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ہم شہر حکیم فضل دین ہیں اور وہ بھی قریباً اسی جگہ رہتے اور خدمات میں مشغول ہیں- اور ایک مخلص دوست ہمارے ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب دُنیا سے گزر گئے مگر جانے شکر ہے کہ چار اور مخلص ڈاکٹر یعنی خلیفہ رشیدالدین صاحب لاہوری اور ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب ہماری جماعت میں موجودہیں- ایسا ہی نہایت بااخلاص بعض وہ مخلص ہیں جنہوں نے اس جگہ بودوباش اختیار کی ہے- منجملہ ان کے مرزا خدا بخش صاحب بھی ہیں - اور نیز صاحبزادہ سراج الحق صاحب سرساوی اپنے وطن سرساوہ سے ہجرت کر کے قادیان آ گئے ہیں- اور کئی اور صاحب ہیں- اورہم دُعا کرتے ہیں کہ ان تمام صاحبوں کے لئے یہ ہجرتیں مبارک ہوں- اور مولوی حکیم نورالدین صاحب تو ہمارے اس سلسلہ کے ایک شمع روشن ہیں - ہر روز قرآن شریف اور حدیث کا درس دیتے ہیں اور اس قدر معارف حقائق قرآن شریف بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ خدا کی مدد نہیں تو اور کیا ہے - حضرت مولوی صاحب اور حبی جی اللہ مولوی عبد الکریم دونوں دلی صدق سے چاہتے ہیں کہ قادیان میں ہی ان کا جینا ہو اور قادیان میں ہی مرنا- اور مجھے اس سے بہت خوشی ہے کہ ایک اور جوان صالح خدا تعالیٰ کے فضل کو پاکر ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے یعنی حبی فی اللہ مولوی محمد علی صاحب ایم - اے پلیڈر- میں اُن کے آثار بہت پاتا ہوں- اور وہ ایک مدّت سے اپنے دنیائی کاروبار کا حرج کر کے خدمت دین کے لئے قادیان میںمقیم ہیں اورحضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب حقائق معارت قرآن شریف سُن رہے ہیں- اور مجھے٭ یقین ہے کہ میری فراست اس بات میں خطا نہیں کرے گی کہ جوان موصوف خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرے گا اور یقین ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ اور محبت دین پر ثابت قدم رہ کر ایسے نمونے دکھائے گا جو ہم جنسوں کے لئے پیروی کے لائو ہوں گے- اے خدا ایسا ہی کر آمین ثم آمین- اور بھی کئی دوست مخلص انگریزی خوان ہیں جیسے عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور خواکہ کمال الدین صاحب بی -اے اور خواجہ جمال الدین صاحب بی-اے اور مولوی شیر علی صاحب بی- اے ان سب پر مجھے ظن ہے - خدا ظن کو بحال رکھے اور یہ لوگ اپنے وقتوںپر خدمات میں مستعد ہیں- اور میرے خیال میں مولوی شیر علی غریب طبع نیک مزاج اور حلیم اور سلامت طبع اور مولوی محمد علیی صاحب سے مشابہ ہیں اور ایس جگہ قادیان میں رہتے ہیں- اور وہ گروہ مخلص جو ہماری جماعت میں سے کاروبار تجارت میں مشغول ہیں ان میں ایک حبی فی اللہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدر اس قابل تعریف ہیں اور انہوں نے بہت سے مواقعہ ثواب کے حاصل کئے ہیں- وہ اس قدر پُر جوش محب ہیں کہ اتنی دُور رہ کر پھر نزدیک ہیں اور ہمارے سلسلہ کے لنگر خانہ کی بہت سی مدد کرتے ہیں اور ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کی ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں- کیونکہ تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں- وہ ایک سو روپیہ ماہواری بلاناغہ بھیجتے ہیں اور آج تک کئی دفعہ پانسو روپیہ تک یکمشت محض اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے بھیجتے رہے ہیں اور جو ایک سو روپیہ ماہواری ہے وہ اس سے علاوہ ہے- اسی طرح حبّی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سیٹھ صاحب مصرع ثانی ہیں- مَیں خوب جانتا ہوں کہ شیخ صاحب موصوف دل و جان سے ہمارے محب ہیں- انہوں نے فوجداری مقدمات میں جو میرے پر کئے گئے تھے- اپنے بہت سے روپیہ سے میری مدد کی اور جوشِ محبت سے دیوانہ وار سرگردان ہو کر میری ہمدردی کرتے رہے- اب وہ ہمارے کام کے لئے صد ہا روپیہ کا خرچ اُٹھا کر لندن میں بیٹھے ہیں- خدا تعالیٰ ان کو جلد تر خیر وعافیت سے واپس لائے- یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ حبّی فی اﷲ سردار نواب محمد علی خان صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو فدا کریں گے- خدا تعالیٰ ہر ایک حملوں کو دیکھتا ہے- مجھے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں-
ان کے سوا اور بھی مخلص ہیں- جنہوں نے حال میں ہی بیعت کی ہے جیسا کہ ان دنوں حبّی فی اﷲ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ ممباسہ جو ہزارہا کوس سے اپنا اخلاص ظاہر کر رہے ہیں اور انہوں نے اور ان کے دوستوں نے ممباسہ ملک افریقہ سے اپنی مالی امداد سے بہت سا ثواب حاصل کیا ہے-٭ اور ڈاکٹر صاحب پرامید ہے کہ وہ آئندہ بھی بہت توجہ سے خود اور اپنی جماعت سے یہ نصرت دین کا کام لیں گے- ایسا ہی میری جماعت میں سے شیخ حامد علی تہہ غلام نبی اور میاں عبدالعزیز پٹواری سکنہ اوجلہ اور میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امان الدین کشمیریاں ساکنان سیکھواں اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانہ اور حبی فی اﷲ منشی چودھری نبی بخش صاحب رئیس بٹالہ جو بطور ہجرت اسی جگہ قادیان میں آ گئے ہیں - اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ شہر اور میاں عبداﷲ صاحب پٹواری ساکن سنور ریاست پٹیالہ اور سیّد فضل شاہ صاحب اور سیّد ناصر شاہ صاحب سب اورسیر اور میاں محمد علی صاحب ملہم لاہور اور شیخ غلام نبی صاحب تاجر راولپنڈی اور سید امیر علی شاہ صاحب مُلہم اور سیّد امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ اور بابو تاج دین صاحب اکونٹنٹ لاہور اور حبی فی اﷲ حکیم سید حسام الدین صاحب سیالکوٹی جو میرے پُرانے دوست ہیں- اور منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور مولوی غلام امام صاحب برہما ملک آسام اور مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہہ ضلع مراد آباد اور سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی اور خلیفہ نور دین صاحب ہیں جو ابھی محض ﷲ ایک خدمت پر مامور ہو کر کشمیر بھیجے گئے تھے اور چند روز ہوئے تو فائز المرام ہو کر واپس آ گئے ہیں اور اسی طرح اور بہت سے مخلص ہیں مگر افسوس کہ اگر مَیں ان کے نام لکھوں تو یہ اشتہار اشتہار نہیں رہے گا ان سب کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو دونوں جہان کی خوشی عطا کرے- جو کچھ وہ خدا کے لئے کرتے ہیں یا آئندہ کریں گے وہ سب خدا تعالیٰ کی آنکھ کے نیچے ہیں-
مگر بطور شکر احسان باری تعالیٰ کے اس بات کا ذکر کرنا واجبات سے ہے کہ میرے اہم کام تحریر تالیفات میں خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے ایک عمدہ اور قابل قدر مخلص دیا ہے یعنے عزیزی میاں منظور محمد کاپی نویس جو نہایت خوشخط ہے جو نہ دنیا کے لئے بلکہ محض دین کی محبت سے کام کرتا ہے اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے اسی جگہ قادیان میں اقامت اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ میری مرضی کے موافق ایسا مخلص سرگرم مجھے میسّر آیا ہے کہ مَیں ہر ایک وقت دن کو یا را ت کو کاپی نویسی کی خدمت اس سے لیتا ہوں- اور وہ پوری جان فشانی سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اس خدمت کو انجام دیتا ہے- یہی سبب ہے کہ اس روحانی جنگ کے وقت میں میری طرف سے دشمنوں کو شکست دینے والے رسالوں کے ذریعہ سے تاڑ تاڑ مخالفوں پر فیر ہو رہے ہیں- اور درحقیقت ایسے مویّد اسباب میسّر کر دینا یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے- جس طرف سے دیکھا جائے تمام نیک اسباب میرے لئے میسّر کئے گئے ہیں- اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں-
دوسری شاخ اخراجات کی جس کے لئے ہر وقت میری جان گذارش میں ہے سلسلہ تالیفات ہے- اگر یہ سلسلہ سرمایہ کے نہ ہونے سے بند ہو جائے تو ہزارہا حقائق اور معارف پوشیدہ رہیں گے اس کا مجھے کس قدر غم ہے؟ اس سے آسمان بھر سکتا ہے- اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سے میرے دل میں ڈالا گیا ہے مَیں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں- دُور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر مَیں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں- میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں- لیکن اگر کتابوں کے چھپنے کا سامان نہ ہو اور عملہ مطبع کے خرچ کا روپیہ موجود نہ ہو تو مَیں کیا کروں جس طرح ایک عزیز بیٹا کسی کا مَر جاتا ہے اور اس کو سخت غم ہوتا ہے- اسی طرح مجھے کسی ایسی اپنی کتاب کے نہ چھپنے سے غم دامنگیر ہوتا ہے جو وہ کتاب بندگان خدا کو نفع رساں اور اسلام کی سچائی کے لئے ایک چراغ روشن ہو-
تیسری شاخ اخراجات کی جس کی ضرورت مجھے حال میں پیش آئی ہے جو نہایت ضروری بلکہ اشد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں- اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دُنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچاتا رہا ہے کہ مَیں گران نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو بلکہ اگر ہم و غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے- ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے مَیں ہلاک نہ ہو جائوں اور پھر اس کے ساتھ یہ دقت تھی کہ رسمی مباحثات ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرتے اور پرانے مشرکانہ خیالات اس قدر دل پر غالب آ گئے ہیں کہ ہیئت اور فلسفہ اور طبعی پڑھ کر ڈبو بیٹھے ہیں اور ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اسی برس کا بڈھا ہندو ہر چند دل میں تو خوب جانتا ہے کہ گنگا صرف ایک پانی ہے جو کسی کو کچھی بھی نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ ضرر کر سکتا ہے- تب بھی وہ اس بات کے کہنے سے باز نہیں آتا کہ گنگا مائی میں بڑی بڑی ست او رطاقتیں ہیں- اور اگر اس پر دلیل پوچھی جائے تو کوئی بھی دلیل بیان نہیں کر سکتا- تاہم منہ سے یہ کہتا کہ اس کی شکتی کی دلیل میرے دل میں ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے- مگر وہ کیا دلیل ہے- صرف پُرانے خیالات جو دل میں جمے ہوئے ہیں- یہی حالات ان لوگوں کے ہیں کہ نہ ان کے پاس کوئی معقول دلیل حضرت عیسٰی ؑ کی خدائی پر ہے اور نہ کوئی تازہ آسمانی نشان ہے جس کو وہ دکھا سکیں٭ اور نہ توریت کی تعلیم جس پر انہیں ایمان لانا ضروری ہے اور جس کو یہودی حفظ کرتے چلے آئے ہیں- اس مشرکانہ تعلیم کی مصدّق ہے مگر تاہم محض تحکم اور دھکّے کی راہ سے یہ لوگ اس بات پر ناحق اصرار کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح خدا ہی ہے خدا نے قرآن کریم میں سچ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس افتراء سے آسمان پھٹ جائیں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا جاتا ہے اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی کہے مَیں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری رُوح ہر وقت دُعا کرتی ہے کہ اے خدا اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کر حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھا دی جائے گی کہ گویا نعوذ باﷲ انہوں نے خدایٔ کا دعویٰ کیا- ایک زمانہ گذر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دُعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لادیں اور اس کے رُسول کو شناخت کر لیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں چنانچہ ان دُعائوں کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب سے نجات پا کر اور پھر مرہم عیسیٰ سے صلیبی زخموں سے شفاء حاصل کر نے نصبین کی راہ سے افغانستان میں آئے اورافغانستان سے کوہ نعمان میںگئے اور وہاںاس مقام میں ایک مدت تک رہے جہاں شہزادہ نبی کا ایک چبوترہ کہلاتا ہے جو اَبْ تک موجود ہے اور پھر وہاں سے پنجاب میں آئے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے آخر کشمیر میں گئے اور ایک سَو پچیس برس کی عمر پاکر کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور سرینگر خانیار کے محلہ کے قریب دفن کئے گئے اور مَیں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا نام ہے- مسیح ہندوستان میں چنانچہ مَیںنے اس تحقیق کے لئے مخلصی محبّی خلیفہ نوردین صاحب کو جن کا ذکر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا٭ تو وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کر کے اور موقعہ پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پانسو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسٰی صاحب کی قبر کہتے ہیں- ۱۷ ستمبر۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے سو کشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا اور پانسو چھپن شہادت سے ثابت ہو گیا کہ درحقیقت یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے کہ جو سری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے-
لیکن اب ایک اور خیال باقی رہا ہے کہ اگر پورا ہو جائے تو نور علیٰ نور ہو گا اور وہ باتیں ہیں- اوّل یہ کہ مَیں نے سُنا ہے کہ وہ نعمان میں جو شہزادہ نبی کا چپوترہ ہے اس کے نام ریاست کابل میں کچھ جاگیر مقرر ہے- لہذا اس غرض احباب کا کوہ نعمان میں جانا اور بعض احباب کا کابل میں جانا اور جاگیر کے کاغذات کی ریاست کے دفتر سے نقل لینا فائدہ سے خالی معلوم نہیں ہوتا٭ دوسرے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام افغانستان کی طرف نصیبی کی راہ سے آئے تھے اور کتاب روضتہ الصفا سے پایا جاتا ہے کہ اس فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بلایا تھا اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ ضرور حضرت مسیحؑ کو اس کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے - اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ نصیبین میں بھی حضرت مسیح علیہّ السلام کے اس سفر کی اب تک کچھ یاد گار قائم ہو گی- اور کچھ تعجب نہیں کہ وہاں بعض کتبے بھی پائے جائیں یا آپ کے بعض حواریوں کی وہاں قبریں ہوں جو شہرت پا چکی ہوں لہذا میرے نزدیک یہ قرین مصلحت قرار پایا ہے کہ تین دانشمند اور الوالعزم آدمی اپنی جماعت میں نصیبین میں بھیجے جائیں٭ - سو اُن کی آمدروفت کے اخراجات کا انتظام ضروری ہے - ایک اُن میں سے مرزا خدا بخش صاحب ہیں اور یہ ہمارے ایک نہایت مخلص اور جان نثار مرید ہیں جو اپنے شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آ رہے ہیں اور دن رات خدمتِ دین میں سرگرم ہیں- اور ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص باہمت نے اپنے ذمّہ لے لیا ہے اور وہ نہیں چاہتے ہ ان کا نام ظاہر کیا جائے- مگر دو اور آدمی ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ہم سفر ہوں گے- اُن کے سفر خرچ کا بندوبست قابل انتظام ہے - سو امور متذکرہ بالا میں سے ایک یہ تیسرا امر ہے کہ ایسے نازک وقت میں جو پہلی دو شاخیں بھی امداد مالی سخت محتاج ہیں پیش آ گیا ہے - اور یہ سفر میرے نزدیک ایسا ضروری ہے کہ گویا کسی شاعر کا یہ شعر اسی موقع کے حق میں ہے ؎گرجاں طلبد مضائقہ نیست - زرمی طلبد سخن دریں ست- خدا تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں- ممکن ہے کہ چند آدمی ہی ان تینوں شاخوں کا بندوبست کرسکیں-٭ غرضی انہی تینوں شاخوں کے لئے نہایت ضروری سمجھ کر یہ اشتہار لکھا گیا ہے- اے عقل مندو! خدا کے راضی کرنے یہ وقت ہے کہ پھر نہیں ملے گا- مَیں تاکیدًا لکھتا ہوں کہ جو صاحب اہل مقدرت ہوں اور کوئی بڑی رقم بھیجنا چاہیں تو بہتر ہے کہ وہ بذریعہ تار بھیج دیں کہ تینوں شاخوں کے سوا اور کئی شاخیں مصارف کی بھی ہیں جیسا کہ مدرسہ کی شاخ جس کو محض اس غرض سے قادیان میں قائم کیا گیا ہے کہ تا لڑکے اپنی ابتدائی حالات میں ہی راہ راست سے واقفیت پیدا کر لیں اور نادان مولویوں یا پادریوں کے پنجہ میں نہ پھنس جاویں اور ایسا ہی وہ دوسری تمام شاخوں کے لئے جن کی سخت ضرورتیں پیش آ گئی ہیں شائع کیا جاتا ہے- اب جو شخص صدق دل سے ہماری تحریر کی اطاعت کرنا چاہے اس کوچاہئے ہمارے اس اشتہار کی تعمیل میں ایک ذرّہ توفف نہ کرے اور موجودہ مشکلات کے دُور کرنے کے لئے جو کچھ اس کے ہو سکے اور جو کچھ بن پڑے مگر خدا کے علم سے خوف کر کے بلا توقف اس کو بھیج دے- یہ سچ ہے کہ یہ دن ایام قحط ہیں اورہماری جماعت کے اکثر افراد سقیم الحال اور نادار اور عیال دار ہیں گو خدا کی راہ میں صدق دل سے خدمت کے لئے حاضر ہو جانا ایک ایسا مبارک امر ہے جو درحقیقت اور تمام مشکلات اور آفات کا علاج ہے پس جس کو یقین ہے کہ خدا برحق ہے اور دین و دُنیا میں اس کی عنایات کی حاجت ہے اس کو چاہیئے کی اس مبارک موقع کو ہاتھ سے نہ دے اور بخل کے دق مبتلا ہو کر اس ثواب سے محروم نہ رہے - اس عالی سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے وہی لائق ہے جو ہمت بھی عالی رکھتا ہو اور نیز آئندہ کے لئے ایک تازہ اور سچّا عہد خدا تعالے سے لے کر حتی الوسع بلا ناغہ ہر ایک مہینہ میں اپنی مالی امداد سے ان دینی مشکلات کے رفع کرنے کے لئے سعی کرتا رہے گا- یہ منافقانہ کام ہے کہ اگر کوئی مصیبت پیش آوے تب خدا اور اہل خدا یاد آ جائیں اور جب آرام اور امن دیکھیں تو لا پروا ہو جائیں- خدا غنی بے نیاز ہے اس سے ڈرو اور اُس کا فضل پانے کے لئے اپنے صدق کو دکھلائو- خدا تمہارے ساتھ ہو والسّلام ۴ اکتوبر ۱۸۹۹
راقم مرزا غلام احمد از قادیان
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان )
(۲۰۹)
جلسۃ الوداع
(ضمیمہ اشتہار الاتصار ۴ اکتوبر ۱۸۸۹ء)
ہم اس اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے گے کہ وہ نصیبین اور اس کو نواح میں جاویںاور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے آثار اس ملک میں تلاش کریں- اب حال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر سے خرچ کا امر تقریباً انتظام پذیر ہو چکاہے - صرف ایک شخص کی زادراہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دے دیا ہے اور اخویم منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپیہ دیئے ہیں اور میں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دیئے ہیں- ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دُنیا کے مال کے نہایت ہی کم حصّہ رکھتے ہیں- گویا حضرت ابو بکرؓ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی- ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے بھی اس سفر خرچ کے کئے پچاس روپیہ چندہ دیا ہے خدا تعالیٰ سب کو اجر بخشے- آج ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص تجویز کئے گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیبین کی طرف جائیں گے- اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کو روانگی کے لئے ایک مختصر ساجلسہ کیا جائے کیونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل و عیال کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر کے اور وطن کی محبت کو خیرباد کہہ کر دُور دراز ملکوں میں جائیںگے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سَیر کریں گے اور کربلا معّلی کی زیارت بھی کریں گے- اس لئے یہ تینوں عزیزقابل قدر اور تعظیم ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے ایک بڑا تحفہ لائیں گے- آسمان اُن کے سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کے لئے قوموں کو شرک سے چھوڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک منجی کی صورت پر اُٹھے ہیں- اس لئے لازم ہے کہ ان کی وداع کے لئے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر و عافیت اور ان کے متعلقین کی خیرو عافیت کے لئے دعائیں کی جائیں- لہذا میں نے اس جلسہ کی تاریخ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا جائے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے اس سردی کے ایام میں اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیال اور دوستوں سے علیٰحدہ ہو کر جاتے ہیں اس مراد کو حاصل کر کے واپس آویں اور فتح کے نظارے ان کے ساتھ ہوں-
مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اے خدا جس نے اس کام کے لئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کواور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر و خوبی فائر المرام واپس آئیں- آمین ثم آمین اور مَیں رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضرع ہو ں گے اور اپنے ان مسافر عزیزوں کے لئے رو رو کر دُعائیں کریں گے- والسلام
راقــــــــــــــ ــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (ا سمٰعیل پریسن )
(۲۱۰)
ضمیمہ تریاق القلوب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار
چونکہ مجھے ان دنوں میں چند متواتر الہام ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عنقریب آسمان سے کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا- جس سے میراصدق ظاہر ہو- اس لئے مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو امید دلاتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب آسمان سے کوئی تازہ شہادت میری تائید کے لئے نازل ہو گی- یہ ظاہر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے مادر دُنیا میں آئے ہیں گراں کی تعلیم نہایت اعلیٰ تھی اور اُن کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے اور ان کی زیر کی اور فراست بھی اعلیٰ درجہ پر تھی لیکن ان کا خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونا لوگوں نے قبول نہ کیا جب تک ان کی تائید میں آسمان سے کوئی نشان نازل نہیں ہوا- اسی طرح خد تعالیٰ اس جگہ بھی بارش کی طرح اپنے نشان ظاہر کر رہا ہے تا دیکھنے والے دیکھیں اور سوچنے والے سوچیں- اور اب مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک برکت اور رحمت اور اعزاز کا نشان ظاہر ہو گا جس سے لوگ تسلّی پائیں گے جیسا کہ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۹ء کویہ الہام ہوا-
ایک عزّت کا خطاب ایک عزّت کا خطاب للئخطاب العّزہ- ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا- یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے جس کو مَیں نے موٹی قلم سے لکھ دیا ہے- اگرچہ انسانوں کے لئے بادشاہوں اور سلاطین وقت سے بھی خطاب ملتے ہیں مگر وہ صر ف ایک لفظی خطاب ہوتے ہیں جو بادشاہوں کی مہربانی اور کرم اور شفقت کی وجہ سے یا اور اسباب سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں اور بادشاہ اس کے ذمہ دارنہیں ہوتے کہ جو خطاب انہوں نے دیا ہے اس کے مفہوم کے مو۱فق وہ شخص اپنے تیئں ہمیشہ رکھے جس کو ایسا خطا ب دیا گیا ہے مثلاً کسی بادشاہ نے کسی شیر بہادر کا خطاب دیا تو وہ بادشاہ اس بات کا متکفل نہیں ہو سکتا کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنی بہادری دکھلاتا رہے گا- بلکہ ممکن ہے کہ ایسا شخص خلف قلب کی وجہ سے ایک چوہے کہ تیز رفتاری سے بھی کانپ اُٹھتا ہو چہ جائیکہ وہ کسی میدان میں شیر کی طرح بہادری دکھلاوے لیکن وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ سے شیر بہادر کا خطاب ملے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ درحقیقت بہادر ہی ہو کیونکہ خدا انسان نہیں ہے جہ جھوٹ بولے یا دھوکہ کھاوے یا کسی پولیٹیکل مصلحت سے ایسا خطاب دیدے جس کی نسبت وہ اپنے دل دل میں جانتا ہے کہ دراصل اس خطاب کے لائق نہیں ہے اس لئے یہ بات محقق امر ہے کہ لایق وہی خطاب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے - اور وہ خطاب دو قسم کا ہے- اوّل وہ جو وحی اور الہام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ عطا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک نبیوں میں سے کسی کو صفی اللہ کا لقب دیا اور کسی کو کلیم اللہ کا اور کسی کو رُوح اللہ کا اور کسی کو مصطفیٰ اور حبیب اللہ کا ان تمام نبیوں پر خدا تعالیٰ کا سلام اور رحمتیں ہوں- اور دوسری قسم خطاب کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض نشانوں اور تائیدات کے ذریعہ سے بعض اپنے مقبولین کی اس قدر محبت لوگوں کے دلوں میں یک دفعہ ڈال دیتا ہے کہ یا تو اُن کو جھوٹا اور کافر اور مفتری کہا جاتا ہے اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں اور ہر ایک بدعادت اور عیب اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور یا ایسا ظہور میں آتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی ایسا پاک نشان ظاہر ہو جاتا ہے جس کی نسبت کوئی انسان کوئی بد ظنی نہ کر سکے اور ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکے کہ یہ نشان انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے پاک ہے اور خاص خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہاتھ سے نکلا ہے- تب ایسا نشان ظاہر ہونے سے ہر ایک سلیم طبیعت بغیر کسی شک و شبہ کے اس انسان کوقبول کر لیتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰکی طرف سے ہی یہ بات پڑ جاتی ہے کہ یہ شخص درحقیقت سچّا ہے- تب لوگ اس الہام کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اس شخص کو صادق کا خطاب دیتے ہیں-٭ کیونکہ لوگ اس کو صادق صادق کہنا شروع کر دیتے ہیں- اور لوگوں کا یہ خطاب ایسا ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آسمان سے خطاب دیا کیونکہ خد تعالیٰ آپ ان کے دلوں میں یہ مضمون نازل کرتا ہے کہ لوگ اس کو صادق کہیں- اب جہاں تک مَیں نے غور اور فکر کی ہے، مَیں اپنے اجتہاد سے نہ کسی الہامی تشریح سے اس الہام کے جس کو مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے یہی معنی کرتا ہوں کیونکہ ان معنوں کے لئے اس الہام کا آخری فقرہ ایک بڑا قرینہ ہے کیونکہ آخری فقرہ یہ ہے کہ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا لہذا میں اپنے اجتہاد٭ سے اس کے یہ معنی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پُرانا ہو گیا ہے - اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہو چکی ہے کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلحکاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے بر تر اور پاک تر ہو گا- تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہو گی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے یک دفعہ ہو جائیں گے- مگر جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے یہ میرا خیال ہے ابھی کوئی الہامی تشریح نہیں ہے - میرے ساتھ خد ا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طر سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑتا دیتا ہے - مگر یہ تشریح جو ابھی مَیںنے کی ہے اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے جو ابھی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء کومَیں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں محبّی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے اور قبل اس کے جو مَیں اس خواب کی تفصیل بیان کروں اس قدر لکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہو گا کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں جن کا گھر بھیرہ ضلع شاہ پور میں ہے مگر ان دنوںمیں ان کی ملازمت لاہور میں ہے- یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں مجھے افسوس ہے کہ مَیں اپنے اشتہار ۱۶ اکتوبر میں سہواً اُن کا تذکرہ کرنا بھول گیا- وہ ہمیشہ میرے دینی خدمات میں نہایت جوش سے مصروف ہیںخدا ان کو جزاء خیردے- اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ مَیں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرا ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیںاور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر مَیں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے، یہ خواب ہے اس اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے مَیں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہو گا اور جیسا کہ مَیں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ مَیں صادق سمجھاجائوں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی اور ایسا ہی ۲۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے٭ اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا مَیںنے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے-مَیں نے اس خواب کی یہ تعبیرکی ہے کہ عزیز عزّت پانے والے کو کہتے ہیںاور سلطان جو خواب میں لڑکے کا باپ سمجھایا گیا ہے- یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میںاس دلیل کو کہتے ہین کہ جو ایسی بیّن الظہور ہو جو بباعو اپلے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلّط کرے- گویا سلطان کا لفظ تسلّط سے لیا گیا ہے- اورسلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل ہو کہنتے ہیں جو اپنی قبولیّت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کر لے- اور طبائع سلیمہ پر اس کا تسلّط تام ہو جائے - پس اس لحاظ سے کو خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا اُس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلّط کرنے والا ہو گا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کے نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہوتا ہو گا جس کو خواب میں عزیز کی تمثل سے ظاہر کیا گیا- پس خدا نے مجھے یہ دکھلایا ہے کہ قریب ہے جو سلطان ظاہر ہو یعنی دلوں پر تسلّط کرنے والا نشان جس سے سلطان کا لفظ کا اشتقاق ہے اور اس کا لازمی نتیجہ جو اس کے فرزند کی طرح ہے عزیز ہے- اوریہ ظاہر ہے کہ جس انسان سے وہ نشان ظاہر ہو جس کو سلطان کہتے ہیں جو دلوں پر ایسا تسلّط اور قبضہ رکھتا ہے جیسا ظاہری سلطان جس کا بادشاہ کہتے ہیں- رعایا پر تسلّط رکھتااور قبضہ رکھتا ہے تو ضرور ہے کہ ایسے نشان کے ظہور سے اس کا اثر بھی ظاہرہو- یعنی دلوں پر تسلّط اس نشان کا ہو کر صاحب نشان لوگوں کی نظر میںعزیز بن جائے اور جبکہ عزیز بننے کا موجب اور علّت سلطان ہی ہوا یعنی ایسی دلیل روشن جو دلوں پر تسلّط کرتی ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ عزیز ہونا سلطان کے لئے بطور فرزند کے ہوا- کیونکہ عزیز ہونے کا باعث سلطان ہی ہے جس نے دلوں پر تسلط کی اور تسلّط سے پھریہ عزیز کی کیفیت پیدا ہوئی سو خدا تعالیٰ نے مجھ کو دکھلایا کہ ایسا ہی ہو گا- اور ایک نشان دلوں کو پکڑنے والا اور دلوں پر قبضہ کرنے والا اور دلوںپر تسلّط رکھنے والا ظاہر ہو گا جس کو سلطان کہتے ہیں- اور اس سلطان سے پیدا ہونے والا عزیز ہو گا- یعنی عزیز ہونا سلطان کا لازمی نتیجہ ہو گا کیونکہ نتیجہ بھی عربی زبان میں بچہ کو کہتے ہیں- فقط
الرقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد ۰۰۰
(۲۱۱)
ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
لبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
وہی اُس کے مقرب جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں راہ اس کے عالی بار گہ تک خد پسندوں کو
یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُ س سے قربت کو
اسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلائو سب کمندوں کو
اس عاجز غلام احمد قادانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دُعا اور حضرت عزّت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست
اے میرے حضرت اعلیٰ ذولجلال قادر و قدّوس حیّ وقیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالآباد مبارک ہے - تیرے قدرت کے کام کبھی نہیں رک سکتے- تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ ’’ اٹھ مَیںنے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجّت پوری کرنے کے لئے اور اسلام سچّائیوں کو دُنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ کرنے کے لئے چُنا‘‘ اور تو نے ہی مجھے کہا‘‘ تو میری نظر میں منظور ہے- مَیں اپنے عرش پر تیری تعریف کرتاہوں‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا ’’ کہ تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا‘‘ اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ’’ تو مجھ سے ایسا ہے کہ جیسا کہ میری توحید اور تفرید‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ ’’ مَیں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا- ان کو کہہ دے کہ مَیں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلائوں اور کوئی مذہب ان تمام مذاہبوں میں سے جو زمین پر میں معارف میں تعلیم کی عمدگی میں خدا کی تائیدوں میں خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام کی ہمسری نہ کر سکے‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا’’ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے -مَیں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا‘‘ مگر اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر اور کذّاب اور دجّال رکھا گیا- مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دلآزار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا کہ ’’ حرام خور لوگوں کا مال کھانے والا وعدوں کا تخّلف کرنے والا حقوق کو تلف کرنے والا لوگوں کو گالیاں دینے والا عہدوں کو تورنے والااپنے نفس کے لئے مال کو جمع کرنے والا اور شریر اور خونی ہے‘‘ یہ وہ باتیں ہیں جو خود اُن لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تیئں اچھے اور اہل عقل اور پرہیز گار جانتے ہیں اور ان کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ درحقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور انہوں نے صد ہا آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہ کیا- وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں- ہر ایک ان میں جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے سو اسے میرے قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طورپر یقین کریں کہ مَیںتیرا مقبول ہوں اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو اور زمین پر پاکی اور پرہیزگاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلاویں اور ہر ایک طالب حق کی نیکی کی طرف کھنچیں اور اس طرح تمام قوتیں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دُنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تیئں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے- لیکن اگر اے پیارے مولیٰ میری رفتار تیری نظر سے اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دُنیا سے مٹا دے تا مَیں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں- مَیں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا مَیں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جائوں- لیکن مَیں عاجزی سے اور حضرت ربویت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر مَیں اس عالی جانت کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دُعا کے موافق میری تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع ور غروب کو انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہیں- اگرچہ اے میرے خداوند یہ سچ ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں- لیکن اس وقت مَیں اسی بات کی اپنی سچّائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کی تصّرفات سے بالکل بعید ہو- تا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے- سو اے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہوں نہیں- اگر تو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے- تو میرا ہے جیسا کہ مَیں تیرا ہوں - تیری جناب میں الحاح سے دُعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ مَیں تیری طرف سے ہوںاور اگر سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تُو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا جو پبلک کی نظر میں انسانوں کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتر یقین کیا جائے تا لوگ سمجھیںکہ مَیں تیری طرف سے ہوں- اے میرے قادر خدا! اے میرے توانااور سب قوتوں کے مالک خداوند ! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جنّ اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں- دُنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں- مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی ک وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے کیونکہ تو وہ ہے جس کی شنا لا الٰہ الَا اللہ ہے جو العلیٰ العظیم ہے جو لوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں ان کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس کی الوہیت کی قدت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو- وہ تُو ہی جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھلاتے رہے ہیں- اور بڑی بڑی پیشگوئیان کرتے رہے ہیںجن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی درماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی تیری پیشگوئیوں میں تیرے جلال کی چمک ہوتی ہے اور تیری الوہیت کی قدرت اور عظمت اور حکومت کی خوشبو آتی ہے اور تیرے مُرسلوں کے آگے فرشتہ چلتا ہے تا ان کی راہ میں کوئی شیطان مقابلہ کے لئے نہ ٹھہر سکے- مجھے تیری عزّت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے- پس اگر تو تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ء میں عیسوی شروع ہو کر دسمبر ۱۹۰۲ء عیسوی تک پورے ہو جائیںگے ، میری تائید مین اور تصدیق میں کوئی آسمانی نشان نہ دکھلا وے اور اپنے اس بندہ کو اُن لوگون کی طرح ردّ کر دے جو تیری نظر میں شریر اور پلید اور بے دین اور کذّاب اور دجّال اور خائن اور مفسد ہیں تو مَیں تجھے گواہ کرتا ہوںکہ مَیں اپنے تیئں صادق نہیں سمجھوں گا اور ان تمام تہمتوں اور الزاموں اور بہتانوں کا اپنے تئیں مصداق سمجھ لوں گاجو میرے پر لگائے جاتے ہیں دیکھ! میری رُوح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرح ایسی پرواز کر رہیہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے سو مَیں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور انہ اپنی عزّت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دُور نہ پڑجائیں- مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے اور میری تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں یہاں تک کہ چاند سورج کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں پیشگوئی کی تاریخون کے موافق گرہن میں آویں اور تو نے وہ تمام نشان کو ایک سو سے زیادہ ہیں میری تائید میں دکھلائے جو میرے رسالہ تریاق القلوب میں درج ہیں- تو نے مجھے وہ چوتھا لڑکا عطا فرما یا جس کی نسبت مَیں نے پیشگوئی کی تھی کہ عبد الحق غزنوی حال امرت سری نہیں مرے گا- جب تک وہ لڑکا پیدا نہ ہو لے- سو وہ لڑکا اس کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا-مَیںاُن نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں- مَیں تجھے پہنچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے - اس لئے میری رُوح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوںنے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا- اس لئے نہ مَیںنے بلکہ میری رُوح نے اس پر زور دیا کہ مَیںتیرے حضور میں سچّا ہون اور اگر تیرے غضب میرے پر نہیں ہے اور اگر مَیں تیری جناب میں مستجاب الداعوت ہوں تو ایسا کر کہ جنوری ۱۹۰۰ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے جس کو زبانون سے کچلا گیا ہے دیکھو! مَیںتیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اُٹھاتا ہوں کہ تُو ایسا ہی کر- اگر مَیںتیرے حضور میں سچا ہوں اورجیسا کہ خیال کیا گیا ہے کافر اور کاذب نہیں ہوں تو ان تین سال میں جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ختم ہو جائیں گے کوئی ایسا نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو جبکہ تو نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دُعا قبول نہ ہو تو مَیں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بیدین اور خائن ہوں جیسا کہ مجھے سمجھا گیا ہے- اگر مَیں تیرا مقبول ہوں تو میرے لئے آسمان سے ان تینوں برسوں کے اندر گواہی دے تا ملک میں امن اور صلح کاری پھیلے اور تا لوگ یقین کریں کہ تو موجود ہے اور دُعائوں کو سُنتا اور جوان کی طرف جھکتے ہیں جھکتا ہے- اب تیری طرف اور تیسرے فیصلہ کی طرف ہر روز میری آنکھ رہے گی جب تک آسمان سے تیری نصرت نازل ہو اور میں کسی مخالف کو اشتہار میں مخاطب نہیں کرتا اور نہ اُن کو کسی مقابلہ کے لئے بُلاتا ہوں- یہ میری دُعا تیری ہی جناب میں ہے کیونکہ تیری نظر سے کوئی صادق یا کاذب غائب نہیں ہے میری رُوح گوہی دیتی ہے کہ تو صادق کو ضائع نہیں کرتا اور کاذب تیری جناب میں کبھی عزّت نہیں پا سکتا اور وہ جو کہتے ہیں کہ کاذب بھی نبیوں کی طرح تحدّی کرتے ہیں- اور اُن کی تائید اور نصرت بھی ایسی ہی ہوتی ہے- جیسا کہ راست باز نبیوں کی - وہ جھوٹے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نبوت کے سلسلہ کو مشتبہ کردیں- بلکہ تیرا قہر تلوار کی طرح مفتری پر پڑتا ہے- اور تیرے غضب کی بجلی کذاب کو بھسم کر دیتی ہے مگر صادق تیرے حضور میں زندگی اور عزّت پاتے ہیں - تیری نصرت اور تائید اور تیرا فضل اور رحمت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے- آمین ثم آمین -
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۵ نومبر ۱۸۹۹ء
تعداد ۳۰۰۰ مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان
(۲۱۲)
اپنی جماعت کے لیے اطلاع
یاد رہے کہ ایہ اشتہار محض اس غرض سے شائع کیا جاتا ہے کہ تا میری جماعت خدا کے آسمانی نشان دیکھ کر ایمان اور نیک عملوں میں ترقی کرے اور ان کو معلوم ہو کہ وہ ایک صادق کا دامن پکڑ رہے ہیں نہ کاذب کا- اور تا وہ راست بازی کے تمام کاموں میں آگے بڑھیںاور اُن کا پاک نمونہ دُنیا میں چمکے- ان دنوں میں وہ چاروں طرف سے سُن رہے ہیں کہ ہر ایک طرف سے مجھ پر حملے ہوتے ہیں اور نہایت اصرارسے مجھ کو کافر اور دجّال اور کذّاب کہا جاتا ہے اورقتل کرنے کے لئے فتوے لکھے جا تے ہیں- پس ان کو چاہیے کہ صبر کریں اور گالیوں کا گالیوں کے ساتھ ہر گز جواب نہ دیں- اور اپنا نمونہ اچھا دکھاویں- کیونکہ اگر وہ بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ اُن کے مقابل پر کی جاتی ہے- تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے - اس لئے مَیںسچ سچ کہتا ہون کہ وہ ہر گز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگذر کی خصلت سب سے زیادہ اُن میں پائی جائے - اگر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں تو کیا یہ نئی بات ہے؟ کیا اس سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کو ایسا ہی نہیں کیا گیا؟ اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسُولوں اور راستبازوں پر الزام نہیں لگائے گئے؟ کیا حضرت موسیٰ پر یہ اعتراض نہیں ہوئے کہ اُس نے دھوکہ دے کر حق مصریوں کا مال کھا یا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں اور جلد واپس آئیں گے اور عہد توڑا اور کئی شیر خوار بچوں کو قتل کیا- اور کیا حضرت دائودؑ کی نسبت نہیں کہا گیا کہ اس نے ایک بیگانہ عورت سے بد کاری کی اور فریب سے اور یا نام ایک سپہ سالار کو قتل کرا دیا اور بیت المال میں ناجائز دست اندازی کی؟ اور کیا ہارون ؑ کی نسبت یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ اس نے گو سالہپرستی کرائی؟اور کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعویٰ کیا تھا کہ مَیںدائود کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ اس نے اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی؟ اور کیونکر ممکن ہے کہ صادق کی پیشگوئی جھوٹی نکلے- یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہ۰وں گے کہ مَیں واپس آئوں گا مگر یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اب تک واپس نہیں آیا- ایساہی ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض امور پر جاہلوں کے اعتراض ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے واقعہ پر بعض نادان مرتد ہو گئے تھے- اور کیا اب تک پادریوں اورآریوں کی قلموں سے وہ تمام جھوٹے الزام ہمارے سیّد و مولی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت شائع نہیں ہوتے جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں - غرض مخالفوں کا کوئی بھی میرے پر ایسا اعتراض نہیں جو مجھ سے پہلے خدا کے نبیوں پر نہیں کیا گیا- اس لئے مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ جب تم ایسی گالیاں اور ایسے اعتراض سنو تو غمگین اور دلگیر مت ہو کیونکہ تم سے اور مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کی نسبت یہی لفظ بو لے گئے ہیں- سو ضرور تھا کہ خدا کی وہ تمام سُنتیں اور عادتیں نبیوں کی نسبت وقوع میں آ چکی ہیں ہم میں پوری ہوں- ہاں یہ درست بات ہے اور ہمارا حق ہے کہ جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے جب کہ ہم دُکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں اور ہمارا صدق لوگوں پر مشتبہ ہو جائے اور ہماری راہ کے آگے صد ہا اعتراضات کے پتھر پڑ جائیں تو ہم اپنے خدا کے آگے روئیں اور اس کی جناب میں تضرعات کریں اور اس کے نام کی زمین پر تقدیس چاہیں اور اس سے کوئی ایسا نشان مانگیں جس کی طرف حق پسندوں کی گردنیں جھک جائیں- سو اسی بناء پر مَیں نے یہ دُعا کی ہے- مجھے بار ہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دُعا کرے تو مَیں تیری سُنوں گا- سو مَیں نوح نبی کی طرح دو نوں ہاتھ پھیلاتاہوںاور کہتا ہوں رَبّ انی مغلوب مگر بغیر نانقر کے - اور میری رُوح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا اور میرے لئے ضرور کوئی ایسا رحمت اور امن کا نشان ظاہر کر دے گا کہ جو میری سچائی پر گواہ ہو جائے گا- میں اس وقت کسی دوسرے کو مقابلہ کے لئے نہیں بُلاتا اور نہ کسی شخص کے ظلم اور جود کا جناب الہٰی میں اپیل کرتا ہوں- بلکہ جیسا کہ مَیں تمام اُن لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں جو زمین پر رہتے ہیں خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہیں اور خواہ یورپ کے اور خواہ امریکہ کے- ایسا ہی مَیں عام اغراض کی بناء پر بغیر اس کے کہ کسی زید یا بکر کا میرے دل میں تصور ہو خدا تعالیٰ سے ایک آسمانی شہادت چاہتا ہوں جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو- یہ فقط دُعائیہ اشتہار ہے جو خدا تعالیٰ کی شہادت طلب کرنے لئے مَیں لکھتا ہوں- اور مَیں جانتا ہوںکہ اگر مَیں اس کی نظر میں صادق نہیں ہوں تو اس تین برس کے عرصہ تک جو۱۹۰۲ء تک ختم ہو ں گے میری تائید میں ایک ادنیٰ قسم کا نشان بھی ظاہر نہیں ہو گا اور اس طرح پر میرا کذب ظاہر ہو جائے گا اور لوگ میرے ہاتھ سے مخلصی پائیں گے- اور اگر اس مدت تک میرا صدق ظاہر ہر جائے جیسا کہ مجھے یقین ہے تو بہت سے پردے جو دلوں پر ہیں اُٹھ جائیں گے میری یہ دُعا بدعت نہیں ہے بلکہ ایسی دُعا کرنا اسلام کی عبادات میں سے ہے جو نمازیوں میں ہمیشہ پنجوقت ن مانگی جاتی ہے کیونکہ ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم سراط الّذین انعمت علیھم اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور نبی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں- نبیوں کا کمال صدیقوں کا کمال، صدیقوں کا کمال، شہیدوں کا کمال، صلحا کا کمال، سو نبی کا خالص کمال یہ ہے کہ خد اسے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو- اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے- ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کومعلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں- اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دُکھوں اور ابتلائوں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے اور خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے- اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے- سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے یں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں- ہماری ن ماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنجوقت خدا تعالیٰ سے چارنشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین پلید نہ کرے- اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتاہے کہ جب وہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے- حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا- دیکھو متی باب ۸ آیت ۹ پس تم اسی طرح دُعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو- والسّلام
راقــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۵ نومبر ۱۸۹۹ء
(۲۱۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار
ایّھا النّاس قدظھرت اٰیات اﷲ لتائیدی و تصدیقی و شھدت لی شھداء اﷲ من تحت ارجلکم و من فوق رؤسکم و من یمینکم و من شمالکم و من انفسکم و من اٰفاتکم فھل فیکم رجل امین و من المستبصرین- اتقوا اﷲ و لاتکتموا شھادات عیونکم و لاتوثروا الظنون علی الیقین- ولاتقدموا تصصًا غیر ثابتۃ غلٰی مارأیتم باعینکم ان کنتم متقین- واعلموا ان اﷲ یعلم بما فی صدور کم ونیاتکم ولایخفی علیہ شیٌ من حسناتکم و سیّٰاتکم وان اﷲ صیلم بما فی صدور العالمین- انکم رأیتم اٰیات اﷲ ثم نبذتم دلائل الحق وراء ظھور کم و اعرضتم عنا متعمّدین وقد کنتم منتظرین مجددًا من قبل فاذاجاء ولی اﷲ تولّیتم وجوھکم مستکبرین- أتنتظرون مجددًا ھو غیری و قد مرعلٰی رأس المائۃ من سنین- وقد مُلئت الارض جورًا و ظلمًا و سبق مساجد اﷲ مایُعبد فی دیور الضالین- فضکروا فی انفسکم أتجعلون رزقکم انکم تکذبون الصادقین- انکم کضرتم بمسیح اﷲ و اٰیاتہٖ وماکان لکم ان تتکموا فیہ و فیھا الاّخائقین
رومی سلطنت ایک معزز عہدہ دار حسین کامی کی نسبت جو پیشگوئی اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء میں درج ہے وہ کامل صفائی سے پُوری ہو گئی-
مَیںنے اپنے اشتہار ۲۴ فروری مئی ۱۸۹۷ء میںیہ پیشگوئی کی تھی کہ رُومی سلطنت میں جس قدر ارکان دولت سمجھے جاتے ہیں اور سلطنت کی طرف سے کچھ اختیار رکھتے ہیں اُن میں ایسے لوگ بکثرت یہںجن کا چال چلن سلطنت کو مضر ہے کیونکہ ان ان کی عملی حالت اچھی نہیں ہے- اس پیشگوئی کے لکھنے اور شائع کرنے کاباعث جیساکہ مَیںنے اسی اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء میں بہ تفصیل لکھا ہے یہ ہوا تھا کہ ایک شخص مسمی حسین بک کامی وائس تونصل مقیم کرانچی قادمایان میں میرے پاس آیا جو اپنے تئیں سلطنت روم کی طرف سے سفیر ظاہر کرتا تھا اور اپنی نسبت اور اپنے ماں باپ کی نسبت یہ خیال رکھتا تھا کہ گویا یہ دونوں اوّل درجہ کے سلطنت کے خیر خواہ اور دیانت اور امانت اور دونوں مقدس وجود اور سراپا نیکی اور راست بازی کا تدین اور خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ جیسا کہ پرچہ اخبار ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء وغیرہ نواح سے اس ملک میںتشریف لائے ہیں کہ تا اس ملک کے غافلوں کو اپنی پاک زندگی کا نمونہ دکھلادیں اور تا لوگ ان کے مقدس اعمال کو دیکھ کر ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا ویں اور اس تعریف میں یہانتک اصرار کی گیا تھا کہ اسی ایڈیٹر ناظم الہند نے اپنے پرچہ مذکورہ یعنے ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء کے پرچہ میں جھوٹ اور بے شرمی کی کچھ بھی پروا نہ کر کے یہ بھی شائع کر دیا تھا کہ نائب خلیفۃ اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں - اس لئے قادیان میں بُلائے گئے ہیں کہ یا مرزائے قادیاں اپنے افتراء سے اس نائب الخلافت یعنے مظہر نور الہٰی کے ہاتھ پر توبہ کرے اور آئندہ اپنے تیئں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آجائے اور ایسا ہی اَور بھی بعض اخباروں میں میری بد گوئی کو مدنظر رکھ کر اس قدر اس شخص کی تعریفیں کی گئیں کہ قریب تحا کہ اس کو آسمان چہارم کا فرشتہ بنا دیتے - لیکن جب وہ میرے پاس آیا تو اس کی شکل دیکھنے سے ہی میری فراست نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص امین اور دیانت دار اور پاک باطن نہیں اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھ کو القا کیا کہ رومی سلطنت انہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ یہ لوگ کہ جو علیٰ حسب مراتب قرب سلطان سے کچھ حصّہ رکھتے ہیں اور اس سلطنت کی نازک خدمات پر ما مورہیں یہ اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچّے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کی جو حرمین شریفین کے محافظ اور مسلمانوں کے لئے منعتنمات میں سے ہے کمزور کرنا چاہتے ہیں- سو مَیں اس الہام کے بعد محض القاء الہٰی کی وجہ سے حسین بک کامی سے سخت بیزار ہو گیا- لیکن نہ رومی سلطنت کے بغض کی وجہ سے بلکہ محض اس کی خیر خواہی کی وجہ سے- پھر ایساہوا کہ ترک مذکور نے درخواست کی کہ مَیں خلوت میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں- چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے میرے دل نے اخلاقی حقوق کی وجہ سے جو تمام بنی نوع کو حاصل ہیں یہ نہ چاہا کہ اس کی اس درخواست کو رد کروں- سو مَیں نے اجازت دی کہ وہ میرے خلوت خانہ میں آیا تو اس نے جیسا کہ مَیں نے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے پہلے اور دوسرے صفحہ میںلکھا ہے مجھ سے یہ درخواست کی کہ مَیں اُن کے لئے دُعا کروں - تب مَیں نے اس کو وہی جواب دیا جو اشتہار مذکور کے صفحہ ۲ میں درج ہے جو آج سے قریباً دو برس پہلے تمام برٹش انڈیا میں شائع ہو چکا ہے - چنانچہ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۲ کی یہ عبارت ہے جو میری طرف سے سفیر مذکور کو جواب ملا تھا اور وہ یہ ہے کہ جو مَیں موٹی قلم سے لکھتا ہوں’’ سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اُس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں ‘‘ دیکھوصفحہ ۲ سطر ۵،۶ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء مطبع ضیاء الاسلام قادیان
پھر میں نے اسی اشتہار کے صفحہ ۲ سطر ۹ کے مطابق اُس ترک کو نصیحت دی اور اشارہ سے اس کو یہ سمجھایا کہ اس کشف کا اوّل نشانہ تم ہو اور تمہارے حالات الہام کی رو سے اچھے معلوم نہیں ہوتے توبہ کرو تا نیک پھل پائو- چنانچہ یہی لفظ کہ ’’ توبہ کرو تا نیک پھل پائو‘‘ اس اشتہار کے صفحہ ۲ سطر میںاب تک موجود ہے جو سفیر مذکور کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا- پس یہ تقریر میری جو اشتہار میںسے اس جگہ لکھی گئی ہے دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی (۱) ایک یہ کہ مَیں نے اس کو صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں ہے اور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو (۲) دوسرے یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھاپھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہو گا- پھر مَیں نے صفحہ ۳ میں بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت لکھا ہے ’’ اُس کے لئے ( یعنی سفیر مذکور کے لئے) بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا میرے پاس ایسی بدگوئی سے واپس جانا اس کی سخت بد قسمتی ہے ‘‘ دیکھو صفحہ ۲ سطر نمبر ۱ - اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء - پھر اسی صفحہ کی سطر ۹ میں یہ پیشگوئی ہے ’’ اللہ جل شانہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھا *** کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے ‘‘پھر مَیںنے اشتہار۲۵ کوم ۱۸۹۷ء کے صفحہ میں مذکوہ پیشگوئیوں کے اعادہ کر کے دسیویں سطر سے سولہویں سطر تک یہ عبارت لکھی ہے- ’’ہم نے گذشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب٭ اندرون ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اُس خدا واد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیںعطا ہوا چند ایسی باتیں لکھی ہیں جو خود ان کے مفہوم کے خوفناک اثر سے ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہیں- سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھے ہیں کسی نفسانی جوش پر مبنی نہ تھی - بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہٰی نے ہمیں بخشاہے-
پھر اسی اشتہار کے صفحہ ۴ میں یعنے سطر ۱۹ سے ۲۱ تک یہ عبارت ہے- ’’کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ مَیں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں -‘‘ یاد رہے کہ ابھی میں اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں کہ یہ غدّاری اور نفاق کی سرشت بذریعہ الہام الٰہی حسین بک کامی میں معلوم کرائی گئی ہے- غرض میرے ان اشتہارات میں جس قدر پیشگوئیاں ہیں جو مَیں نے اس جگہ درج کر دی ہیںاُن سب سے اوّل مقصود بالذات حسین کامی مذکور تھا- ہاں یہ بھی پیشگویٔ سے مفہوم ہوتا تھا کہ اس مادہ کے اَور بھی بہت سے لوگ ہیں جو سلطنت روم کے ارکان اور کارکن سمجھے جاتے ہیں- مگر بہرحال الہام کا اوّل نشانہ یہی شخص حسین کامی تھا جس کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ وہ ہرگز امین اور دیانت دار نہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں جیسا کہ ابھی مَیں نے اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حسین کامی کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ یہ آدمی سلطنت کے ساتھ دیانت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اسی کو مَیں نے مخاطب کر کے کہا کہ توبہ کرو تا نیک پھل پائو-
یہ تومیرے الہامات تھے جو مَیں نے صاف دلی سے لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵؍ جون ۱۸۹۷ء شائع کر دیئے- مگر افسوس کہ ان اشتہارات کے شائع کرنے پر ہزارہا مسلمان میرے پر ٹوٹ پڑے- بعض کو تو قلّتِ تدبّر کی وجہ سے یہ دھوکہ لگا کہ گویا مَیں نے سلطان روم کی ذات پر کوئی حملہ کیاہے حالانکہ وہ میرے اشتہارات اب تک موجود ہیں- سلطان کی ذات سے اُن پیشگوئیوں کو کچھ تعلق نہیں- صرف بعض ارکان سلطنت اور کارکن لوگوں کی نسبت الہام شائع کیا گیا ہے کہ وہ امین اور دیانت دار نہیں ہیں- اور کھلے کھلے طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اوّل نشانہ ان الہامات کا وہی حسین کامی ہے اور وہی دیانت اور امانت کے پیرایہ سے محروم اور بے نصیب ہے- اور ان اشتہاروں کے شائع ہونے کے بعد بعض اخبار والوں نے حسین کامی کی حمایت میں میرے پر حملے کئے کہ ایسے امین اور دیانت دار کی نسبت یہ الہام ظاہر کیا ہے کہ وہ سلطنت کا سچا امین اور دیانتدار عہدہ دار نہیں ہے اور اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اس کو ڈرایا گیا ہے کہ توبہ کرو ورنہ تیرا انجام اچھا نہیں حالانکہ وہ مہمان تھا- انسانیت کا یہ تقاضا تھا کہ اس کی عزت کی جاتی- ان تمام الزامات کا میری طرف سے یہی جواب تھا کہ مَیں نے اپنے نفس کے جوش سے حسین کامی کو کچھ نہیں کہا بلکہ جو کچھ میں نے اس پر الزام لگایا تھا وہ الہام الٰہی کے ذریعہ سے تھا نہ ہماری طرف سے مگر افسوس کہ اکثر اخبار والوں نے اس پر اتفاق کر لیا کہ درحقیقت حسین کامی بڑا امین اور دیانت دار بلکہ نہایت بزرگوار اور نائب خلیفۃ المسلمین سلطان روم تھا- اس پر ظلم ہوا کہ اس کی نسبت ایسا کہا گیا اور اکثر نے اپنی بات کو زیادہ رنگ چڑھانے کے لئے میرے تمام کلمات کو سلطان المعظم کی طرف منسوب کر دیا تا مسلمانوں میں جوش پیدا کریں- چنانچہ میرے ان الہاما ت سے اکثر مسلمان جوش میں آ گئے اور بعض نے میری نسبت لکھا کہ یہ شخص واجب القتل ہے- اب ہم ذیل میں بتلاتے ہیں کہ ہماری یہ پیشگوئی سچی نکلی یا جھوٹی واضح ہو کہ عرصہ تخمیناً دو ماہ یا تین ماہ کا گذرا ہے کہ ایک معزز ترک کی معرفت ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ حسین کامی مذکور کو ایک ارتکاب جُرم کی وجہ سے اپنے عہدہ سے موقوف کیا گیا ہے اور اُس کی املاک ضبط کی گئی- مگر مَیں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کر کے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو- آج اخبار نیّر آصفی مدراس مورخہ ۱۲ ؍ اکتوبر کے ذریعہ سے ہمیں مفصل طور پر معلوم ہوگیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت کامل صفائی سے پوری ہو گئی- ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اس کو کی تھی کہ توبہ کرو تا نیک پھل پائو- جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداش کردار کو پہنچ گیا- اور اب وہ ضرور اس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اس ملک کے بعض ایڈیٹر ان اخبار اور مولویان کو بھی جو اس کو نائب خلیفۃ المسلمین اور رکن امین سمجھ بیٹھے تھے اپنے ساتھ ہی ندامت کا حصہ دے گیا اور اس طرح پر انہوں نے ایک صادق کی پیشگوئی کی تکذیب کا مزہ چکھ لیا- اب ان کو چاہئیے کہ آئندہ اپنی زبانوں کو سنبھالیں- کیا یہ سچ نہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے بار بار ان کو خجالت پہنچ رہی ہے- اگر وہ سچ پر ہیں تو کیا باعث کہ ہر ایک بات میں آخرکار کیوں ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے- اب ہم اخبار مذکور میں سے وہ چٹھی مع تمہیدی عبارت کے ذیل میں نقل کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے:
’’چندۂ مظلومان کریٹ اور ہندوستان‘‘
’’ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک معزز اور لائق نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطیہ والی چٹھی ملی ہے- جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں- اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے- افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ منتظم و مہذب اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے ان کانوں سے سننا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب الہندی نزیل قسطنطیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حسین بک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرقریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پر عدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یا نہیں- ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کارروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہئیے- بہرحال ہم امید رکھتے ہیں کہ یہی ایک کیس غبن کا ہو گا جو اس چندہ کے متعلق وقوع میں آیا ہو- اور جو رقوم چندہ جناب مُلا عبدالقیوم صاحب اوّل تعلقہ دار لنگسگور اور جناب عبدالعزیز بادشاہ صاحب ٹرکش قونصل مدراس کی معرفت حیدر آباد اور مدراس سے روانہ ہوئیں وہ بلاخیانت قسطنطیہ کو کمیٹی چندہ کے پاس برابر پہنچ گئی ہوں گی-‘‘
’’قسطنطیہ کی چٹھی‘‘
’’ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دو سالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجرومین عساکر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا- معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چندہ تمام و کمال قسطنطیہ میں نہیں پہنچا- اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزارچھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اﷲ صاحب ایڈیتر اخبار وکیل امرتسر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا- ایک کوڑی تک قسطنطیہ میں نہیں پہنچائی- مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی ا ور اس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا- اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرمائیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدرروپیہ چندہ کا بھیجا گیا تو ا س کو اپین جریدہ میں مشتہر کرائیں اور نام معہ عنوان کے ایسا مفصّل لکھیں کہ بشرط ضرورت اس سے خط و کتابت ہو سکے اور ایک پرچہ اس جریدہ کا خاکسار کے پاس بمقام قاہرہ اس پتہ سے روانہ فرماویں- حافظ عبدالرحمن الہندی الامرتسری- سکّہ جدیدہ- وکالہ صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر)‘‘
المشتہر
میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور - ۱۸؍ نومبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمٰعیل
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار
ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا
اور نیز
ان لوگوں کا جواب جنہوں نے نافہمی سے اس پیشگویٔ کے
پورا ہونے سے انکار کیا ہے
اس بات کی زیادہ تصریح کی ضرورت نہیں کہ مَیں نے ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت اپنے اشتہار مجریہ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہی تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اپنے قلم سے انواع و اقسام کے بہتانوں سے میری ذلّت کی ہے اور نیز اسی قسم کی ذلّت بیجا تحریروں سے جعفرزٹلی اور ابو الحسن تبتی اپنے دوستوں سے کرائی ہے- یہ کارروائی اس کی جناب الٰہی میں مورد اعتراض ہو کر مجھے الہام ہوا ہے کہ جس قسم کی اس نے میری ذلّت کی اور مذکورہ بالا دو اپنے دوستوں سے کرائی اسی قسم کی ذلّت اس کی بھی ہو جائے گی- یہ الہام ہزاروں انسانوں میں شائع ہوا- یہاں تک کہ اسی کی بناء پر ایک مقدمہ میرے پر ہو کر اس بہانہ سے عدالت تک بھی اس الہام کی شہرت ہو گئی مگر افسوس کہ اب تک بعض کوتہ اندیشہ اور نادان دوست محمد حسین کے محض خلاف واقعہ طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور جو پیشگوئی میں ذلت کا وعدہ تھا وہ اب تک ظہور میں نہیں آیا- چنانچہ ان میں سے ایک صاحب ثناء اﷲ نام امرت سری نے بھی پرچہ اخبار عام نومبر ۱۸۹۹ء میں اعتراض پیش کیا ہے- اور چونکہ ان مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک خلاف واقعہ بات پر جم کر پھر ہزاروں انسانوں کو وہی سبق دیتے ہیں اور اس طرح پر ایک شخص کی غلط فہمی ہزاروں انسانوں کو غلطی میں ڈالتی ہے- لہٰذا میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ وہ پیشگوئی مع تمام اس کے لوازم کے تحریر کر کے پبلک کے سامنے رکھوں تا لوگ خود انصاف کر لیں کہ آیا وہ پیشگوئی پوری ہو گئی یا کچھ کسر باقی ہے- اس لئے ہم ذیل میں مبسوط طور پر اوّل سے آخر تک اس کو لکھتے ہیں-
سو واضح ہو کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے میرے ذلیل کرنے کی غرض سے تمام لوگوں میں مشہور کیا تھا کہ یہ شخص مہدی معہود اور مسیح موعود سے منکر ہے اس لئے بیدین اور کافر اور دجّال ہے بلکہ اسی غرض سے ایک استفتاء لکھا تھا ا ور علماء ہندوستان اور پنجاب کی اس پر مہریں ثبت کرائیں تھیں تا عوام مسلمان مجھ کو کافر سمجھ لیں اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ گورنمنٹ تک خلاف واقعہ یہ شکایتیں پہونچائیں کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور بغاوت کے خیالات رکھتا ہے اور عوام کے بیزار کرنے کے لئے یہ بھی جابجا مشہو رکیا کہ یہ شخص جاہل اور علم عربی سے بے بہرہ ہے اور ان تینوں قسم کے جھوٹ کے استعمال سے اس کی غرض یہ تھی کہ تاعوام مسلمان مجھ پر بدظن ہو کر مجھے کافر خیال کریں اور ساتھ ہی یہ یقین کر لیں کہ یہ شخص درحقیقت علم عربی سے بے بہرہ ہے اور نیز گورنمنٹ بدظن ہو کر مجھے باغی قرار دے یا اپنا بدخواہ تصور کرے- جب محمد حسین کی بداندیشی اس حد تک پہنچی کہ اپنی زبان سے بھی میری ذلّت کی اور لوگوں کو بھی خلاف واقعہ تکفیر سے جوش دلایا اور گورنمنٹ کو بھی جھوٹی مخبریوں سے دھوکہ دینا چاہا اور یہ ارادہ کیا کہ وجوہ متذکرہ بالا کو عوام اور گورنمنٹ کے دل میں جما کر میری ذلّت کراوے تب مَیں نے اس کی نسبت اور اس کے دو دوستوں کی نسبت جو محمد بخش جعفرزٹلی اور ابوالحسن تبتی ہیں وہ بدعا کی جو اشتہار ۲۱ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے- اور جیسا کہ اشتہار مذکور میں مَیں نے لکھا ہے- یہ الہام مجھ کو ہوا- ان الذین یصدون عن سبیل اﷲ سینا لھم غضب من ربّھم- ضرب اﷲ اشد من ضرب النّاس - انما امرنا اذا اردنا شیئا ان نقول لہ کون فیکون- أتعجب لامری- اِنی مع العشاق- انی انا الرحمٰن ذوالمجد والعلے- ویعض الظالم علٰی یدیہ- ویُطرح بین یدیّ- جزاء سیّئۃ بمثلھا و ترھقھم ذلۃ- ما لھم من اﷲ من عاصم- فاصبر حتٰی یاتی اﷲ بامرہ- ان اﷲ مع الّذین اتقوا والذین ھم محسنون- ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں- عنقریب خدا تعالیٰ کا غضب ان پر وارد ہو گا- خدا کی مار انسانوں کی مار سے سخت تر ہے- ہمارا حکم تو اتنے میں ہی نافذ ہو جاتا ہے کہ جب ہم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں کہ ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے- کیا تو میرے حکم سے تعجب کرتا ہے- میں عاشقوں کے ساتھ ہوں- میں ہی وہ رحمان ہوں جو بزرگی اور بلندی رکھتا ہے اور ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا اور میرے آگے ڈال دیا جائے گا- بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے اور ان کو ذلّت پہنچے گی یعنی اسی قسم کی ذلّت اور اسی مقدار کی ذلّت جس کے پہنچانے کا انہوں نے ارادہ کیا ان کو پہنچ جائے گی- خلاصہ منشاء الہام یہ ہے کہ وہ ذلّت مثلی ہو گی کیونکہ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے- اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی ان کو بچانے والا نہیں- پس صبر کر جب تک کہ اﷲ تعالیٰ اپنے امن کو ظاہر کرے- خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں- اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں-
یہ پیشگویٔ ہے جو خدا تعالیٰ نے محمد حسین اور ا س کے دو رفیقوں کی نسبت کی تھی اور اس میں ظاہر کیا تھا کہ اسی ذلّت کے موافق ان کو ذلّت پہنچائی جائے گی جو انہوں نے پہنچائی- سو یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ محمد حسین نے اس پیشگوئی کے بعد پوشیدہ طور پر اپنے ایک انگریزی٭ فہرست اپنی ان کارروائیوں کی شائع کی جن میں گورنمنٹ کے مقاصد کی تائید ہے اور اس فہرست میں یہ جتلانا چاہا کہ منجملہ میری خدمات کے ایک یہ بھی خدمت ہے کہ میں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ہے کہ مہدی کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں اور اس فہرست کو اس نے بڑی احتیاط سے پوشیدہ طور پر شائع کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قوم کے روبرو اس فہرست کے برخلاف اس نے اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے اور ا س دو رنگی کے ظاہر ہونے سے وہ ڈرتا تھا کہ اپنی قوم مسلمانوں کے روبرو تو اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایسے مہدی کو بدل و جان مانتا ہے کہ جو دنیا میں آ کر لڑائیاں کرے گا اور ہر ایک قوم کے مقابل پر یہاں تک کہ عیسائیوں کے مقابل پر بھی تلوار اُٹھائے گا- اور پھر اس فہرست انگریزی کے ذریعہ سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ خونی مہدی کے متعلق تمام حدیثوں کو مجروح اور ناقابل اعتبار جانتا ہے لیکن خداتعالیٰ کی قدرت سے وہ پوشیدہ کارروائی اس کی پکڑی گئی اور نہ صرف قوم کو اس سے اطلاع ہوئی بلکہ گورنمنٹ تک بھی یہ بات پہنچ گئی کہ اس نے اپنی تحریروں میں دونوں فریق گورنمنٹ اور رعایا کو دھوکہ دیا ہے اور ہر ایک ادنیٰ عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پردہ دری محمد حسین کی ذلّت کا باعث تھی اور وہی انکار مہدی جس کی وجہ سے اس مُلک کے نادان مولوی مجھے دجّال اور کافر کہتے تھے- محمد حسین کے انگریزی رسالہ سے اس کی نسبت بھی ثابت ہو گیا یعنی یہ کہ وہ بھی اپنے دل میں ایسے حدیثوں کو موضوع اور بے ہودہ اور لغو جانا ہے- غرض یہ ایک ایسی ذلّت تھی کہ یک دفعہ محمد حسین کو اپنی ہی تحریروں کی وجہ سے پیش آگئی- اور ابھی ایسی ذلّت کا کہاں خاتمہ ہے بلکہ آئندہ بھی جیسے جیسے گورنمنٹ اور مسلمانوں پر کھلتا جائے گا کہ کیسے اس شخص نے دو رنگی کا طریق اختیار کر رکھا ہے ویسے ویسے اس ذلّت کا مزہ زیادہ سے زیادہ محسوس کرتا جائے گا اور اس ذلّت کے ساتھ ایک دوسری ذلّت اس کو یہ پیش آئی کہ میرے اشتہار ۲۱ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۲ کے اخیر سطر میں جو یہ الہامی عبارت تھی کہ أتعجب لامری اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے اس لئے یہ خدا کام الہام نہیں ہو سکتا اور اس میں غلطی یہ ہے کہ فقرہ أتعجب لامری لکھا ہے یہ من امری چاہئیے تھا کیونکہ عجب کا صلہ من آتا ہے نہ لام- اس اعتراض کا جواب مَیں نے اپنے اس اشتہار میں دیا ہے جس کے عنوان پر موٹی قلم سے یہ عبارت ہے ’’حاشیہ متعلقہ صفحہ اوّل اشتہار مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء‘‘ اس جواب کا ماحصل یہ ہے کہ معترض کی یہ نادانی اور نا واقفیت اور جہالت ہے کہ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا عجب کا صلہ لام نہیں آتا- اس اعتراض سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض جن عربی سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے اور صرف نام کا مولوی ہے کیونکہ ایک بچہ بھی جس کو کچھ تھوڑی سی مہارت عربی میں ہو سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں عجب کا صلہ لام بھی بکثرت آتا ہے اور یہ ایک شائع متعارف امر ہے اور تمام اہل ادب اور اہل بلاغت کی کلام میں یہ صلہ پایا جاتا ہے- چنانچہ اس معروف و مشہور شعر میں لام ہی صلہ بیان کیا گیا ہے اور وہ شعر یہ ہے -
عجبت المولود لیس لہ اب
رمن زیی ولد لیس لہ ابوان
یعنی اس بچہ سے مجھے تعجب ہے کہ جس کا باپ نہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے اور اس سے زیادہ تعجب اس بچّوں والوں سے ہے جس کے ماں باپ دونوں نہیں- اس شعر میں دونوں صلوں کا بیان ہے لام کے ساتھ بھی اور من کے ساتھ بھی اور ایسا ہی دیوان حماسہ میں جو بلاغت فصاحت میں ایک مسلّم اور مقبول دیوان ہے اور سرکاری کالجوں میں داخل ہے- پانچ شعر میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے چنانچہ منجملہ ان کے ایک شعر یہ ہے کہ جو دیون مذکور کے صفحہ ۹ میں درج ہے-
عجبت لمسر اھاوا انّی تخلصّت
الیّ وباب السجن دونی مغلق
یعنے وہ معشوقہ جو عالم تصّور میں میرے پاس چلی آئی مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایسے زندان میں جس کے دروازے بند تھے میرے پاس جو مَیںقید تھا کیونکر چلی آئی- دیکھو اس شعر میں بھی اس بلیغ فصیح شاعر نے عجبت کا صلہ لام ہی بیان کیا ہے جیسا کہ لفظ لمسراھا سے ظاہر ہے- اور ایسا ہی وہ تمام اشعار اس دیوان کے جو صفحہ ۳۹۰ ،۴۱۱، ۵۷۵ میں درج ہیں ان سب میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے- جیسا کہ یہ شعر ہے:-
عجبت السیعی الدھر بینی و بیمنھا
فلّما انقضی ما بیننا سکن الدھر
یعنے مجھے اس بات سے تعجب آیا کہ زمانہ نے ہم میں جدائی ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں مگر جب وہ ہمارا وقت عشقبازی کا گذر گیا تو زمانہ بھی چپ ہو گیا- اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے- اور ایسا ہی حماسہ کا یہ شعر ہے-
عجبت البریٔ منک یا عز عبد ما
عمرت زماناً منک غیر صحیح
یعنے اے معشوقہ یہ عجیب بات ہے کہ تیرے سبب سے ہی مَیں اچھا ہوا یعنی تیرے وصال سے اور تیرے سبب سے ہی ایک مدّت تک مَیں بیمار رہا یعنی تیری جدائی کی وجہ سے علیل رہا- شاعر کا منشاء اس شعر سے یہ ہے کہ وہ اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری بیماری کا بھی تو ہی سبب تھی اور میرے اچھا ہو جانے کا تو ہی سبب ہوئی- اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے پھر ایک اَور شعر حماسہ میں ہے اور وہ یہ ہے-
عجبار لاحمد والعجائب جمہ
انی یلوم علی الزمان تبدّلی
یعنی مجھ کو احمد کی اس حرکت سے تعجب ہے اور عجائب پر عجائب جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ مَیںنے زمانہ کی گردش سے بازی کو کیوں ہار دیا- وہ کب تک مجھے ایسی بیہوہ ملامت کرے گا- کیا وہ نہیں سمجھتا کہ ہمیشہ زمانہ موافق کی گردش سے مَیں ناکام رہا- اب دیکھو کہ اس شعرمیں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے-اور اسی حماسہ میں اسی قسم کا ایک اور شعر ہے:-
عجبت لعبد ھجونی سفاھۃ
ان اصطجحو شائھم و تقیّلوا
یعنے مجھے آیا کہ کنیزک زادوں نے سرسر حماقت سے میری ہجوکی اور اس ہجو کا سبب ان کا صحیح کی شراب اور دوپہر کی شراب تھی- اب دیکھو اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام آیا ہے- اور اگریہ کہو کہ یہ تو اُن شاعروں کے شعر ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں گذرئے ہیں تو وہ کافر ہیں- ہم اُن کے کلام کو کب مانتے ہین تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باعث اپنے کفر کے جاہل تھے نہ بباعث اپنی زبان کے بلکہ زنان کی رو سے تو وہ امام مانے گئے ہیںیہاں تک کہ قرآن شریف کے محاورات کی تائید میں ان کے شعر تفاسیہ میں بطور حجّت پیش کئے جاتے ہیں اور اس سے انکار کرنا ایسی جہالت ہے کہ کوئی اہل علم اس کو قبول نہیں کرے گا- ما سوا اس کے یہ محاورہ صرف گذشتہ زمانہ کے اشعار میں نہیں ہے- بلکہ ہمارے سیّد و مولیٰ رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی اس محارہ کی تائید ہوتی ہے- مثلاً ذرہ مشکوۃ کو کھولو اور کتاب الایمان کے صفحہ ۳ میں اُس حدیث کو پڑھوجو اسلام کے بارے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس کو متفق علیہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے عجبنا لۃ یسئلہ و یصدقہکا صلہ لام ہی لکھا ہے اور عجبنا منہ نہیں لکھا بلکہ عجبنالہ کہا ہے-
اب کوئی مولوی صاحب انصافاً فرمائیں کہ ایک شخص جو اپنے تیئں مولوی کہلاتا ہے بلکہ دوسرے مولویوں کا سر گروہ اور ایڈووکیٹ اور اپنے تئیں قرار دیتا ہے کیا اس کے لئے ذلّت نہیں ہے کہ اب تک اس کو یہ خبر ی نہیں کہ عجب کا صلہ لام بھی ایا کرتا ہے - کیا اس قدر جہالت کہ مشکوۃ کی کتاب الایمان کی حدیث کی خبر نہیں- کیا یہ عزّت کو موجب ہے اور اس سے مولویّت کے دامن کو کوئی ذلّت کا دھبّہ نہیں لگتا؟ پھر جبکہ یہ امر پبلک پر عام طور پر کھل گیا اور ہزار ہا اہل علم کو معلوم ہو گیاکہ محمد حسین نہ صرف علم صرف و نحو سے ناواقف ہے- بلکہ جو کچھ احادیث کے الفاظ ہیں ان سے بھی بے خبر ہے تو کیا یہ شہرت اس کی عزّت کا موجب ہوئی یا اس کی ذلّت کا؟
پھر تیسرا پہلو ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی کے پُورا ہونے کا یہ ہے کہ مسٹر جے - ایم ڈوئی صاحب بہادر سابق ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے اپنے حکم ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں مولوی محمد حسین سے اس اقرار پر دستخط کرائے کہ وہ آئندہ مجھے دجّال اور کافر اور کاذب نہیں کہے گااور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہیں لکھے گا اور اس نے عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ آیندہ وہ مجھے کسی مجلس میں کافر نہیں کہے گا اور نہ میرا نام دجّال رکھے گا اور نہ لوگوں میں مجھے جھوٹا اور کاذب کر کے مشہور کرے گا- اب دیکھو کہ اس اقرار کے بعد وہ استفتاء اس کا کہاں گیا جس کو اس نے بنارس تک قدم فرسائی کر کے طیار کیا تھا- اگر وہ فتویٰ دینے میں راستی پر ہوتا تو اس کو حاکم کے رو برو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ میرے نزدیک بے شک یہ کافر ہے اس لئے مَیںاس کو کافر کہتا ہوں اور دجّال بھی ہے اس لئے مَیں اس کا نام دجّال رکھتا ہوں اور یہ شخص واقعی جھوٹا ہے اس لئے مَیں اس کو جھوٹا کہتا ہوں بالخصوص جس حالت میں خدا تعالیٰ کے فضل اورکرم سے مَیں اب تک اور اخیر زندگی تک انہی عقاید پر قائم ہوں جن کو محمد حسین نے کلمات کفر قرار دیا ہے - تو پھر یہ کس قسم کی دیانت ہے کہ اس نے حاکم کے خوف سے اپنے تمام فتووں کو برباد کر لیا اور حکام کے سامنے اقرار کر دیا کہ مَیں آیندہ ان کو کافر نہیں کہوں گا اور نہ اُن کا نام دجّال اور کاذب رکھوں گا- پس سوچنے کے لائق ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا ذلّت ہو گی کہ اس شخص نے اپنی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے گرایا- اگر اس عمارت کی تقویٰ پر بنیاد ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ محمد حسین اپنی قدیمی عادت سے باز آ جاتا- ہاںیہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر مَیں نے بھی دستخط کئے ہیں- مگر اس دستخط سے خدا اور منصفوں کے نزدیک میرے پر کھ الزام نہیں آتا اور نہ ایسے دستخط میری ذلّت کا موجب ٹھہرتے ہیں کیونکہ ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں٭ ہو سکتا ہاں ضال اور جاؤہ سواب سے منحرف ضرور ہو گا اور مَیں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا- ہاںمَیں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادہ صدق و صواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں-مَیں بلا شُبہ ایسے ہر ایک آدمی ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے- لیکن مَیں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کو کافربنا لیوے- سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا- میرے لئے فتویٰ طیار کیا- مَیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ان پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں- سو مَیں ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں- سو اگر مسٹر ڈویٔ صاحب کے رو برو مَیں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ مَیں اُن کو کافر نہیں کہوں گا تو واقعی میرا یہی مذہب ہے کہ مَیں مسلمان کو کافر نہیں جانتا- ہاںیہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ جو شخص مسلمان ہو کر ایک سچّے ولی اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں ان سے نیک عملوں کی توفیق چھین لی جاتی اور دن بد ن اُن کے دل کا نُور کم ہوتا چلا جاتا یہاں تک کہ ایک دن چراغ سحری کی طرح گُل ہو جاتا ہے - سو یہ میرا عقیدہ ہے اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے- غرض جس شخص نے ناحق جوش میں آ کر مجھ کو کافر قرار دیا اور میرے لئے فتویٰ طیار کیا کہ یہ شخص کافر و دجّال کذّاب ہے اس نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تو کچھ خوف نہ کیا کہ وہ اہل قبلہ اور کلمہ گو کوکیوں کافر بناتا ہے اور ہزار ہا بندگان خدا کو جو کتاب اللہ کے تابع اور شعار اسلام ظاہر کرتے ہیں کیوں دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے - لیکن مجسٹریٹ ضلع کی ایک دھمکی سے ہمیشہ کے لئے یہ قبول کر لیا کہ مَیں آئندہ ان کو کافر اور دجّال اور کذاب نہیں کہوں گا اور آپ ہی فتویٰ طیار کیا اور آپ ہی حکام کے خوف سے منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی جعفر زٹلی وغیرہ کی قلمیں ٹوت گئیں اور باایں ہمہ رسوائی پھر محمد حسین نے اپنے دوستوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ فیصلہ میری منشاء کے موافق ہوا ہے- لیکن سوچ کر دیکھو کہ کیا محمد حسین کا یہی منشاء تھا کہ آئندہ مجھے کافر نہ کہے اور تکذیب نہ کرے اور ان باتون سے توبہ کر کے اپنا مُنہ بند کر لے اور کیا جعفر زٹلی یہ چاہتا تھا کہ اپنی گندی تحریروں سے باز آ جائے؟ پس اگر یہ وہی بات نہیں جو اشتہار ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی پوری ہو گئی اور خدا نے میرے ذلیل کرنے والے کو ذلیل کیا ہے تو اور کیا ہے ؟جس شخص نے اپنے رسالوں میں یہ عہد شائع کیا تاحا کہ مَیں اس شخص کو مرتے دم تک کافر اور دجّال کہتا رہوں گاجب تک وہ میرا مذہب قبول نہ کرے تو اس میں اس کی کیا عزت رہی جو اس عہد کو اُس نے توڑ دیا- اور وہ جعفر زٹلی جو گندی گالیوں سے کسی طرح سے باز نہیں آتا تھا اگر ذلّت کی موت اس پر وارد نہیں ہوئی تو اب کیوں نہیں گالیاں نکالتا- اور اب ابو الحسن تبتی کہاں ہے اس کی زبان کیوں بند ہو گئی- کیا اس کے گندے ارادوں پر کوئی انقلاب نہیں آیا- پس یہی تو وہ ذلّت ہے جو پیشگوئی کا منشاء تھا کہ ان سب کے منہ میں لگام دی گئی اور درحقیقت اس الہام کی تشریح جو ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو ہوا اس الہام نے دوبارہ کردی ہے - جوبتاریخ ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء رسالہ حقیقت المہدی میں شائع کیا گیا- بلکہ یہ عجیب تر بات یہ ہے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں جو الہام شائع ہوا تھا اس میں ایک فقرہ تھا کہ یعض الظالم علیٰ یدیہاور پھر یہی فقرہ ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کے الہام میں بھی جو ۲۱ نومبر۱۸۹۸ء کے الہام کے لئے بطور شرح کے آیا ہے جیسا کہ رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ سے ظاہر ہے- پس ان دونوں الہاموں کے مقابلہ سے ظاہر ہو گا کہ یہ دوسرا الہام جو ۲۱ نومبر۱۸۹۸ء کے الہام سے قریباً تین ماہ بعد ہوا ہے اس پہلے الہام کی تشریح کرتا ہے اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ ذلّت جس کا وعدہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں تھا وہ کس رنگ میں پوری ہو گی- اس غرض سے یہ موخر الذکر الہام جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو ہوا پہلے الہام کا ایک فقرہ کا اعادہ کر کے ایک اور فقرہ بطور تشریح اس کے ساتھ بیان کرتا ہے یعنے پہلا الہام جو اشتہار۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے جو محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کی ذلّت کی پیشگوئی کرتا ہے اس میں یہ فقرہ تھا کہ یعض الظالم علی یدیۃ یعنی ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور دوسرے الہام میں جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء میں بذریعہ رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ کی اخیر سطر اور صفحہ ۱۳ کی پہلی سطر میںیہ بیان کئے گئے ہیں ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا- اب دیکھوکہ اس تشریح میں صاف تبلایا گیا ہے کہ ذلّت کسی قسم کی ہو گی یعنے یہ ذلّت ہو گی کہ محمد حسین اور جعفرزٹلی اور ابوالحسن تبتی اپنی گندی اور بے حیائی کی تحریروں سے روک جائیں گے- اور جو سلسلہ انہوں نے گالیاں دینے اور بے حیائی کے بے جا حملوں اور ہماری پرائیوٹ زندگی اور خاندانی تعلقات کی نسبت نہایت درجہ کی کمینہ پن شرارت اور بد زبانی اور افتراء اور جھوٹ سے شائع کیا تھا وہ جبراًبند کیا جائے گا-
اب سوچو کہ کیا وہ سلسلہ بند کیا گیا یا نہیں اور کیا و ہ شیطانی کاروئیاں جو ناپاک زندگی کا خاصہ ہوتی ہیں جن کی بے جا خلّو سے پاک دامن بیویاں آل رُسول صلے اللہ علیہ وسلم پر گندہ زبانی کے حملے کرنے کی نوبت پہنچ گئی تھی کیا یہ پلید اور بے حیائی کے طریق جو محمدح حیسن اور اس کے دوست جعفر زٹلی نے اختیار کئے تھے حاکم سے روکے گئے یا نہیںاور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کی کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے چھوڑائی گئی یا نہیں-اور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کو کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا چاہتے تھے چھوڑائی گئی یا نہیں- پس ایک عقل مند انسان کے لئے یہ ذلّت کچھ تھوڑی نہیں کہ اس کے خلاف تہذیب اور بے حیائی اور سفلہ پن کی عادات کے کاغذات عدالت میں پیش کئے جائیںاور پڑھے جائیں اور عام اجلاس میں سب پر یہ بات کھلے اورہزار لوگوں کو شہرت پاوے کہ مولوی کہنا کر ان لوگوں کی یہ تہذیب اور شائستگی ہے- اب خود سوچ لو کہ کیا اس حد تک کسی شخص کی گندی کاروائیاںگندے عادات گندے اخلاق حکام اور پبلک پر ظاہر ہونا کیا یہ عزّت ہے یا بے عزّتی؟ اور کیا ایسے نفرتی اور ناپاک شیوہ پر عدالت کی طرف سے مؤاخذہ ہونا یہ کچھ سرفرازی کا موجب یا شانِ مولویت کو اس سے ذلّت کا دھبہ لگتا ہے-
اگر ہمارے معترضوں میں حقائق کا کانشنس کچھ باقی رہتا تو ایسا صریح باطل اعتراض ہر گز پیش نہ کرتے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہارکی ذلّت کی پیشگوئی پُوری نہیں ہوئی کیونکہ یہ پیشگوئی تو ایسے زور شور سے پوری ہوگئی کہ عدالت کے کمرہ میں ہی لوگ بول اُٹھے کہ آج خدا کا فرمودہ پورا ہو گیا- صد ہا لوگوں کویہ بات معلوم ہوگی کہ جب محمد حسین کو یہ فہمایش کی گئی آئندہ ایسی گندی تحریریں شائع نہ کرے اور کافر اور دجّال اور کاذب بھی نہ کہے تو مسٹر برون صاحب ہمارا وکیل بھی اختیار بول اُٹھا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی-یاد رہے کہ موجودہ کاغذات کے رُو سے جو عدالت کے سامنے تھے عدالت نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ محمد حسین نے مع جعفر زٹلی کے یہ زیادتی کی ہے کہ مجھے نہایت گندی گالیاں دی ہیں اور میرے پرائیوٹ تعلقات میں سفلہ پن سے گندہ دہانی ظاہر کی ہے- یہاں تک کہ تصویریں چھاپی ہیں لیکن عدالت نے احتیاطاً آیندہ کی روک کے لئے اس نوٹس میں فریقین کو شامل کرلیا تا اس طریق سے بکلی سد باب کرے-مسٹر جے - ڈوئی صاحب زندہ موجود ہیں جن کے سامنے یہ کاغذات پیش ہوئے تھے اور اب تک وہ مسل موجود ہے جس میں وہ تمام کاغذات نتھی کئے گئے - کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ عدالت میں محمد حسین کی طرف سے بھی کوئی ایسے کلمات پیش ہوئے جن میں مَیں نے بھی سفلہ پن کی راہ سے گندی تحریریں شایع کی ہوں- عدالت نے اپنے نوٹس میں قبول کر لیا ہے کہ ان گندی تحریروں کے مقابل کر جو سراسر حیاء اور تہذیب کے مخالف تھیں میری طرف سے صرف یہ کاروائی ہوئی کہ مَیں نے جناب الہٰی میں اپیل کیا- اب ظاہر ہے کہ ایک شریف کے لئے یہ حالت موت سے بد تر ہے کہ اس کا رویہ عدالت پر کھل جائے کہ وہ ایسی گندہ زبانی کی عادت رکھتا ہے بلکہ ایک شریف تو اس خجالت سے جیتا ہی مر جاتا ہے جہ حاکم مجاز عدالت کی کرسی پر اس کو یہ کہے کہ کیا گندہ طریق ہے جو تُو نے اختیار کیا اور ان کاروائیوں کا نتیجہ ذلّت ہونا یہ تو ادنیٰ امر ہے- خود پولیس کے افسر جنہوں نے مقدمہ اُٹھایاتھا ان سے پوچھنا چاہیے کہ اس کاروائی کے دوران میں جبکہ وہ محمد حسین اور جعفر زٹلی کی گندہ زبانی کے کاغذات پیش کررہے تھے کیا میری گندہ زبانی کا بھی کوئی کاغذ ان کو ملا جس کو انہوں نے عدالت میںپیش کیا اور چاہوتو محمد حسین کو حلفاً پوچھ کردیکھ لو کہ کیا جو واقعات عدالت میں تم پر گزرے اور جبکہ عدالت نے تم سے سوالات کے وقت تمہارے دل کا کیا حال تھا- کیا اس وقت تمہارا دل حاکم کے ان سوالات کو اپنی عزّت سمجھتا تھا یا ذلّت سمجھ کر غرق ہوتا جاتا تھا- اگر اتنے واقعات کے جمع ہونے سے جو ہم لکھ چکے ہیں پھر بھی ذلّت نہیں ہوئی- اور عزّت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ آپ لوگوں کی عزّت بڑی پکی ہے-
پھر ماسوا اس کے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار کی میعاد کے کئی اور ایسے امور بھی ظاہرہوئے ہیں- جن سے بلا شبہ مولوی محمد حسین صاحب کی عالمانہ عزّت میں اس قدر فرق آیا ہے کہ گویا وہ خاک میںمل گئی ہے- ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے پرچہ پیسہ اخبار اور اخبار عام میں کمال حق پوشی کی راہ میں یہ شائع کر دیا تھا کہ وہ مقدمہ جو پولیس کی رپورٹ پر مجھ پر ان پر دائر کیا گیا تھا جو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں فیصلہ ہوا اس میں گویا یہ عاجز بَری نہیں ہوا بلکہ ڈسچارج کا لفظ ہے اور ڈسچارج کو بَری نہیں کہتے بلکہ جس پر جرم ثابت نہ ہو سکے اس کا نام ڈسچارج ہے اور اس اعتراض سے محمد حسین کی غرض یہ تھی کہ تا لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ پیشگوئی]پوری نہیں ہوئی - لیکن جیسا کہ ہم کتاب تریاق القوب کے صفحہ ۸۱ میں بہ تفصیل تحریر کر چکے ہیں یہ اس کی طرف سے محض افتراء تھا اور دراصل ڈسچارج کا ترجمہ بَری ہے اور کچھ نہیں اور اس نے عقل مندوں کے نزدیک بَری کے انکار سے اپنی بڑی پردہ دری کرائی کہ اس بات سے انکار کای کہ ڈسچارج کا ترجمعہ بَری نہیں ہے- چنانچہ اس صفحہ مذکورہ یعنی صفحہ ۸۱ میں بہ تفصیل مَیں نے لکھ دیا کہ انگریزی زبانی میں کسی جرم سے بَری سمجھنے یا بَری کرنے لئے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں- (۱) دیک ڈسچارج (۲) دوایکئٹ - ڈسچارج اس جگہ بولا جاتا ہے کہ جہاں حاکم مجوز کی نظر میں جرم کا ابتداء سے ہی کچھ ثبوت نہ ہو اور تحقیقات کے تمام سلسلہ میںکوئی ایسی بات پیدا نہ ہو جو اس کو ایسا مجرم ٹھہرا سکے اور فرد قرارداد جُرم قائم کرنے کے لائق کر سکے- غرض اس کے دامن عصمت پر کوئی غبار نہ پڑ سکے اور بوجہ اس کے جُرم کے ارتکاب کا کچھ بھی ثبوت نہیں ملزم کو چھوڑا جائے- اور ایکئٹ اس جگہ بولا جاتا ہے جہاں اوّل جُرم ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد جُرم لگائی جائے اور پھر اپنی صفائی کا ثبوت دے کر اس الزام سے رہائی پائے- غرض ان دونوں لفظوں میں قانونی طور پر فرق یہی ہے کہ ڈسچارج وہ بریت کی قسم ہے جہاں سرے سے جُرم ثابت ہی نہ ہو سکے اور ایکئٹ وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں جرم تو ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد بھی لگ جائے مگر آخر میں ملزم کی صفائی ثابت ہو جائے - اور عربی میں بریت کا لفظ ایک تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ان دونوں مفہوموں پر مشتمل ہے -یعنی جب ایک ملزم ایسی حالت میں چھوڑا جائے کہ اس کے دامنِ عصمت پر کوئی دھبہ جرم کا لگ نہیں سکا اور وہ ابتداء سے کبھی اسی نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا کہ وہ مجرم ہے یہاں تک کہ جیسا کہ وہ داغ سے پاک عدالت کے کمرہ میں آیا ویسا ہی داغ سے پاک عدالت کے کمرہ سے نکل گیا- ایسی قسم کے ملزم کو عربی زبان میں بری کہتے ہیں اور جب ایک ملزم پر مجرم ہونے کا قوی شُبہ گذر گیا اور مجرموں کی طرح سے اس سے کاروائی کی گئی اور اس تمام ذلّت کے بعد اس نے اپنی صفائی کی شہادتوں کے ساتھ اس شُبہ کو اپنے سر پر سے دُور کر دیا تو ایسے ملزم کا نام عربی زبان میں مبّرد ہے- پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ ڈسچارج کا عربی میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ بَری ہے اورایکئٹ کا ترجمہ مبّرد ہے- عرب کے یہ دو مقولے ہیں انابری من ذالک و انا مبرّ ء من ذالک پہلے قول کے یہ معنے ہیں کہ میرے کوئی تہمت ثابت نہیں کی گئی اور دوسرے قول کے یہ معنے ہیں کہ میری صفائی ثابت کی گئی ہے اور قرآن شریف میں یہ دونوں محاورے موجود ہیں- چنانچہ بری کا لفظ قرآن شریف اور بعینہ ڈسچارج کے معنوں پر بولا گیا ہے جیسا کہ وہ فرماتاہے ومن یکسب خطیئۃ اوثما ثم یرم بہٰ بریئاً فقد احتمل بھتاناً و اثما مبیناً- الجزاء نمبر ۵ سورہ نساء- یعنی جو شخص کوئی خطا یا کوئی گناہ کرے اور پھر کسی ایسے شخص پر وہ گناہ لگا دے جس پر وہ گناہ ثابت نہیں تو اس نے کھلے کھلے بہتان اور گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لیا اور مبرد کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولٰئک مبّرئون ممّا یقولون- یہ مقام کی آیت ہے کہ جہاں بے لوث بے گناہ ہونا ایک کا ایک وقت تک مشتبہ رہا- پھر خدا نے اس کی طرف سے ڈیفنس پیش کر کے اس کی بریّت کی- اب آیت یرمہ بہ بریئاًسے بہ ہدایت ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کا نام بری رکھا ہے جس پر کوئی گناہ ثابت نہیں کیا گیا- اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو انگریزی میں ڈسچارج کہتے ہیں - لیکن اگر کوئی مکابرہ کی راہ سے یہ کہے کہ اس جگہ بَریکے لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو جرم ثابت ہونے کے بعد اپنے صفائی کے گواہوں کے ذریعہ سے اپنی بریّت ظاہر کرے تو ایسا خیال بدیہی طورپر باطل ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا بَری کے لفظ سے یہی منشاء رہے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہو گی کہ اس آیت سے یہ فتویٰ ملے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر جس کا گناہ ثابت نہیں کسی گناہ تہمت لگانا کوئی جرم نہیں ہو گا گو وہ مستور الحال شریفوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو اور صرف یہ کسر ہو کہ ابھی اس نے بے قصور ہونا عدالت میں حاضر ہو کر ثابت نہیں کیا- حالانکہ ایسا سمجھنا صریح باطل ہے- اور اس سے تمام تعلیم القرآن شریف کی زیرو زبر ہو جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں جائز ہو گا کہ جو لوگ مثلاً ایسی مستور الحال عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جنہوں نے عدالت میں حاضر ہو کر اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ وہ ہر قسم کی بدکاری سے مدت العمر سے محفوظ رہی ہیں وہ کچھ گناہ نہیں کرتے اور اُن کو رواہے کہ مستور الحال عورتوں پر ایسی تہمتیں لگایا کریں حالانکہ ایسا خیال کرنا اس مندرجہ ذیل آیت کی رو سے صریح حرام اور معصیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- والذین یرمون المحسنات ثم لم یا توا باربعۃ شھداء فا جللدا و ھم ثمانین جلدۃ یعنی جولوگ اایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کار ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں تو اُن کو اسّی درّے مانے چاہئیں - اب دیکھو کہ ان عورتوں کا نام خدا نے بَری رکھا ہے جن کا رانیہ ہونا ثابت نہیں-
پس بَری کے لفظ کی یہ تشریح بصینہ ڈسچارج ک مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بَری کا لفظ جو قرآن نے آیات یرمہب بریئاً میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا کہ جبکہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرارد اور جُرم لگائی جائے اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صوف میں ہر ایک شریر کو آزادی ہو گی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگا دے جنہوں نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت نہیں کر دیا کہ وہ زانیہ نہیں خواہ وہ رسولوں اور نبیوں کی عورتیں ہوں اور خواہ صحابہ ؓ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیںہوں- اور ظاہر ہے کہ آیت یرم بہ بیریئاً میں بَری کے لفظ کے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہر گز خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ بدیہی طور پر معلو ہوتا ہے کہ اس آیت میں بَری کے لفظ سے خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جو مستور الحال لوگ ہیں خواہ مرد ہیں خواہ عورتیں ہیں جن کا کوئی گناہ ثابت نہیں اور سب بَری کے نام کے مستحق ہیں اور بغیر ثبوت ان پر کوئی تہمت لگانا فسق ہے جس سے خدا تعالیٰ اس آیت میں منع فرماتا ہے کہ اگر کسی نبیوں اور رسولوں کر کچھ پرواہ نہ ہو اور اپنی ضد سے باز نہ آ وے تو پھر ذرہ شرم کر کے اپنی عورتوںکی نسبت ہی کچھ انصاف کر ے کہ کیا اگر ان پر کوئی شخص ان کی عفت کے مخالف کوئی ایسی ناپاک تہمت لگاوے جس کا کوئی ثبوت نہ ہو تو کیا وہ عورتیں آیت یرم بہ بریئاً کی مصداق ٹھہر کر بَری سمجھی جا سکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزا کے لائق ٹھہرتا ہے یا وہ محض اس حالت میں بَری سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاک دامنی کے بارے میں عدالت میں گواہ گذرائیں اور جب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت اور عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے ان کی عفت پر حملہ کیا کرے اور ان کو غیر بری قرار دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں بار ثبوت تہمت لگانے والے پر رکھا ہے اور جب تک تہمت لگانے ولاا کسی گناہ کو ثابت نہ کرے تب تک تما مردوں اور عورتوں کو بَری کہلانے کے مستحق ٹھہرایا ہے- پس قرآن اور زبان عرب کے رو سے بری کے معنی ایسے وسیع ہی کہ جب تک کسی پر کسی جُرم کا ثبوت نہ ہو وہ بری کہلائے گا کیونکہ انسان کے لئے بری ہونا طبعی حالت ہے اور گناہ ایک عارضہ ہے جو پیچھے سے لاحق ہوتا ہے- لہذا ہر ایک انسان جب تک اس کا کوئی جرم ثابت نہ ہوبری کہلانے کا حقدار ہے کیونکہ طبعی حالت بغیر کسی عارضہ لاحق کے دُور نہیںہو سکتی-
ایک اور امر عظیم الشان ہے جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد میں ظہور میں آیا جس سے اشتہار مذکور کی پیشگوئی کا پُورا ہونا اور بھی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ پیشگوئی جو چوتھا لڑکا ہونے کے بارے میں ضمیہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں کیگئی تھی جس کے ساتھ یہ شرط تھی کہ عبد الحق غزنوی جو امرت سر میں مولوی عبدالجبارغزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا لڑکا پیدا نہ ہو لے- وہ پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد کے اندر پوری ہو گئی اور وہ لڑکا بفضلہ تعالیٰ ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو مطابق ۴ صِفر ۱۳۱۷ ھ پیدا ہو گیا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور جیسا کہ پیشگوئی میں شرط تھی کہ عبد الحق غزنوی اس وقت تک زندہ ہو گا کہ چوتھا لڑکا پیدا ہو جائے گا- ایسا ہی ظہور میں آیا اور اب اس وقت تک کہ ۱۴ دسمبر ۱۸۹۹ء ہر ایک شخص امرت سر میں جا کر تحقیق کر لے کہ عبد الحق اب تک زندہ ہے - پس اس میں کیا شک ہے کہ یہ صاف صاف کھلی کھلی پیشگوئی محمد حسین اور اس کے گروہ کی عزّت کا موجب نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا نے ایسے انسان کی دعا کو قبول کر کے جو محمد حسین اور اس کے گروہ کی نظر میں کافر اور دجّال ہے اس کی پیشگوئی کے مطابق عبد الحق غزنوی کی زندگی میں اس کو پسر چہارم عطا فرمایا یہ ایک تائید الہٰی ہے جو بجز صادق انسان کے اور کسی کے لئے ہر گز نہیں ہو سکتی- پس جب کہ اس پیشگوئی کا میعاد کے اندر پورا ہو جانا اور عبد الحق کی زندگی میں ہی اس کا ظہور میں آیا میری عزّت کا موجب ہوا تو بلا شبہ محمد حسین اور اس کے گروہ جعفر زٹلی وغیرہ کی ذلّت کا موجب ہوا ہو گا- یہ اَور بات ہے کہ یہ لوگ ہر ایک بات میں اور ہر ایک موقعہ پر یہ کہتے رہیں کہ ہماری کچھ بھی ذلّت نہیںہوئی-لیکن جو شخص منصف ہو کر ان تمام واقعات کر پڑھے گا اس کو تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ بلا شبہ ذلّت ہو چکی ہے -
اس جگہ افسوس سے ہمیں یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ پرچہ اخبار عام ۲۳ نومبر ۱۸۹۹ء میںایک شخص ثنا ء اللہ نام امرت سری نے یہ مضمون چھپوایا ہے کہ اب تک مولوی محمد حسین کی کچھ بھی ذلّت نہیں ہوئی - ہم حیران ہیںکہ اس صریہح خلاف واقعہ امر کاکیا جواب لکھیں- ہم نہیں جانتے کہ ثنا ء اللہ صاحب کے خیال میں ذلّت کسی کو کہتے ہیں- ہاں ہم کہ قبول کرتے ہیں کہ ذلّت کئی قسم کی ہوئی ہے اور انسانوں کے ہر ایک طبقہ کے مناسب حال ایک قسم کی ذلّت خیال کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر اس قسم کے زمینداربھی دیکھے جاتے ہیں کہ قسط مالگذاری بروقت ادا نہ ہونے کی وجہ سے تحصیل کے چپراسی ان کو پکٹر کر لے جاتے ہیں اور بوجہ نہ ادائیگی معاملہ سخت گو شمالی کرتے ہیں اور ذرہ خیال نہیں کرتے کہ کچھ بھی ان کی بے عزّتی ہوئی ہے اور ان سے بھی زیادہ بعض شریر چوہڑوں اور حیماروں اور ساہنسیوں میں سے ایسے ہوتے ہیں جو جیل خانہ میں جاتے ہیں اور چوتڑوں پر بید بھی کھاتے ہیں اور باایں ہمہ کبھی نہیں سمجھتے کہ ہماری عزّت میںکچھ فرق بھی آیا ہے بلکہ جیل میں ہنستے رہتے اور گاتے رہتے ہیں گویا ایک نشے میں ہیں- اب چونکہ عزتیں کئی اور ذلتیں بھی کئی قسم کی ہیں اس لئے یہ بات میں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لایق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمد حسین کی ذلّت قرار دیتے ہیں- اور اگر اتنی قابل شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں- اب تک اس کی کچھ ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا دیں کہ وہ کونسی صورت تھی جس سے اس کی ذلّت ہو سکتی اور بیان فرما ویں کہ جو مولوی محمد حسین جیسی شان اور عزّت کا آدمی ہو اس کی ذلّت کس قسم کی بے عزّتی میں متصّور ہے- اب تک تو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز انسانوں کی عزّت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑے سی کسر شان سے عزّت میں فرق آ جاتاہے- مگر اب میاں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لایق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمدحسین کی ذلّت قرار دیتے ہیں اور اگر اتنی قابل شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں- اب تک اس کی کچھ ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا دیں کہ وہ کونسی صورت تھی جس کو سے اس کی ذلّت ہو سکتی اور بیان فرما ویں کہ جو مولوی محمد حسین جیسی شان اور عزّت کا آدمی ہو- اس کی ذلّت کس قسم کی بے عزّتی میں متصوّر ہے- اب تک جو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز انسانوں کی عزّت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑی سی کسر شان سے عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اب میاں ثناء اللہ صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام قابل شرم امور سے مولوی صاحب موصوف کی عزّت میں کچھ فرق نہیں آیا- پس اس صورت میں ہم سے انکار کا کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے جب تک میاں ثناء اللہ کھول کر ہمیں نہ بتلا دیں کہ کسِ قسم کی ذلّت ہونی چاہیے تھی جس سے موحدین کے اس ایڈووکیٹ کی عزّت میں فرق آ جاتا - اگر وہ معقول طور پر ہمیں سمجھا دیں گے کہ شریفوں اور معّززوں اور ایسے نامی علماء کی ذلّت اس قسم کی ہونی ضروری ہے تو اس صورت میں اگر ہماری پیشگوئی کے رو سے وہ خاص ذلّت نہیں پوری پہنچی جو پہنچی چاہیے تھی تو ہم اقرار رکر دیں گے کہ ابھی پیشگوئی پورے طور پر ظہور میں نہیں آئی - لیکن اب تک تو ہم مولوی محمد حسین کی عالمانہ حیثیت پر نظر کر کے یہی سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی ان کی حیثیت کے مطابق اور نیزالہامی٭ شرط کے مطابق پورے طور پر ظہور میں آ چکی-
مدت ہوئی کہ ہمیں ان مولویوں سے ترک ملاقات ہے- ہمیں کچھ معلوم نہیں یہ لوگ اپنی بے عزّتی کسی حد کی ذلّت میں خیال کرتے ہیں اور کسی حد کی ذلـّت کو ہضم کر جاتے ہیں- میاں شناء اللہ کو اعتراض کرنے کا بے شک حق ہے مگر ہم جواب دینے سے معذور ہیں جب تک وہ کھول کر بیان نہ کریں کہ بے عزّتی تب ہوتی تھی جب ایسا ظہور میں آتا- ہم قبول کرتے ہیں کہ انسانوں کی مختلف طبقوں کے لحاظ سے بے عزّتی بھی مختلف طور پر ہے اور ہر ایک کے لئے وجود ذلّت کے جدا جدا ہیں لیکن ہمیں کیا خبر ہے کہ آپ لوگوں نے مولوی محمد حسین کی کسی طبقہ کا انسان قرار دیا ہے اور اس کی ذلّت کن امور میں تصّور فرمائی ہے - ہماری دانست میں تو میاں ثناء اللہ کو مولوی محمد حسین صاحب سے کوئی پوشیدہ اور معززوں اوراہل علم کے لئے کافی ہے-
یہ تو ظاہر ہے کہ دُنیا تین قسم کی ہوتی ہے ایک تو جسمانی ذلّت جس کے اکثر جرائم پیشہ تختہ مشق ہوتے رہتے ہیں- دوسرے اخلاقی ذلّت یہ تب ہوتی ہے جب کسی کی اخلاقی حالت نہایت گندی ثابت ہو- اور اس پر اس کو سرزنش ہو- تیسرے علمی پردہ دری کی ذلّت جس سے عالمانہ حیثیت خاک میں ملتی ہے - اب ظاہر ہے کہ اخلاقی ذلّت ظہور میں آ چکی ہے - اگر کسی کو شک ہے تو اس مثل کو ملا حظہ کرے جو مسٹر دوئی صاحب کی عدالت میں طیار ہوئی ہے- ایسا ہی عالمانہ حیثیت کی ذلّت ظہور میں آ چکی اور عجبت کے صلہ پر جو اعتراض محمد حسین صاحب نے کیا اور پھر جو ڈسچارج کا ترجمعہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ڈسچارج کا ترجمہ بَری نہیں ہے- ان دونوں اعتراضوں سے صاف طور پر کھل گیا کہ علاوہ کمالات نحودانی اور حدیث دانی کے آپ کو قانون انگریزی میں بھی کچھ دخل ہے اور یاد رہے کہ دشمن کی ذلّت ایک قسم کی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے مخالف کو جس کے ذلیل کرنے کے لئے ہر دم تدبیریں کرتا اور طرح طرح کے مکر استعمال میںلاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے عزّت مل جائے- سو اس قسم کی ذلّت بھی ظاہر ہے کیونکہ ڈئوئی صاحب کے مقدمہ کے بعد جو کچھ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے میری طرف ایک دُنیا کو رجوع دیا اور دے رہا ہے یہ ایک ایسا امر ہے جو اس شخص کی اس میںصریح ذلّت ہے جو اس کے بر خلاف میرے لئے چاہتا تھا- ہاں میاں ثناء اللہ کے تین اعتراض اور باقی ہیں اور وہ یہ کہ ریاست میں اس کا کچھ وظیفہ مقرر ہو گیا ہے - اور مسٹر جے - ایم ڈوئی صاحب نے اس کی منشاء کے موافق مقدمہ کیا ہے-
تیسرے اعتراض کے جواب کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ابھی ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ دعویٰ تو سراسر ترک حیا ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ محمد حسین کی منشاء کے موافق مقدمہ ہوا ہے- خود محمد حسین کو قسم دے کر پوچھنا چاہیے کہ اس کا منشاء تھا کہ آئندہ وہ کافر اور دجّال اور کاذب کہنے سے باز آ جائے اور کیا اس کا یہ منشاء تھا کہ آئندہ گالیوں اور فحش کہنے اور کہانے سے باز آ جائے؟ پھر کون منصف اور صاحب حیا کہہ سکتا ہے کہ یہ مقدمہ محمد حسین کی منشاء کے موافق ہوا- ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ ہمیں بھی آئندہ موت اور ذلّت کی پیشگوئی کرنے سے روکا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہماری کاروائی خود اس وقت سے پہلے ختم ہو چکی تھی کہ جب ڈوئی صاحب کے نوٹس میں ایسا لکھا گیا- بلکہ ہم اپنے رسالہ انجام آتھم میں بتصریح لکھ چکے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو آیندہ مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتے جب تک یہ ہمیں مخاطب نہ کریں اور ہم بیزار اور متنفر ہیں کہ ان لوگوں کا نام بھی لیں چہ جائیکہ ان کے حق میں پیشگوئی کر کے اسی قدر خطاب سے ان کو کچھ عزّت دیں- ہمارا مدعا تین فرقوں کی نسبت تین پیشگوئیاں تھیں- سو ہم اپنے اس مدّعا کو پورا کر چکے- اب کچھ ضرورت نہیںکہ ان لوگوں کی موت اورذلّت کی نسبت پیشگوئی کریں اور یہ الزام کہ آیندہ عموماً الہامات کی اشاعت کرنے اور ہر قسم کی پیشگوئیوں سے روکا گیا ہے یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو وعیدلعنۃ اللہ علی الکاذبین میں داخل ہیں-اب بھی ہم اس مقدمہ کے بعد بہت سی پیشگوئیاں شائع کرچکے ہیں- پس یہ کیسا گندہ جھوٹ ہے کہ یہ لوگ بے خبر لوگوں کے پاس بیان کر رہے ہیں-
رہا یہ سوال کہ محمد حسین کو کچھ زمین مل گئی ہے یعنی بجائے ذلّت کے عزت ہو گئی ہے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے بلکہ یہ اُس وقت اعتراض کرنا چاہیے تھا کہ جب اس زمین سے محمد حسین کچھ منفعت اُٹھا لیتا- ابھی تو وہ ایک ابتلاء کے نیچے ہے کچھ معلوم نہیں کہ زمین سے انجام کار کچھ زیر باری ہوگی یا کچھ منفعت ہو گی- ماسوا اس کے کنز العمال کی کتاب المزارعہ میں لینے صفحہ ۷۲ میں جناب رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث موجود ہے لا تد خل سکت الحرث علیٰ قوم الاّ لھم اللہ (طب عن ابی یمامہ) یعنی کھیتی کا لوہا اور آلہ کسی قوم میں نہیں آتا جو اس قوم کو ذلیل نہیں کرتا- پھر اسی صفحہ میں ایک دوسری حدیث ہے انا صلی اللہ علیہ وسلم رأی شیئاً من اٰلۃ الحرث نقال ید خل حذا بیت قوم الّادخلہ الذل رخ عن ابی امامہ ) یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک آلہ زراعت کا دیکھا اور فرمایا کہ یہ آلہ کسی قوم کے گھر میں داخل نہیں ہوتا مگر اس قوم کو ذلیل کر دیتا ہے - اب دیکھو ان احادیث سے صریح طور پر ثابت ہے کہ جہاں کاشت کاری کا آلہ ہو گا وہیں ذلّت ہو گی- اب ہم میں ثنا ء اللہ کی بات مانیں یا رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی جو شخص آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان رکھتا ہے اس کو ماننا پڑے گا کہ کسی کے گلے میں کاشت کاری کا سامان پڑا یہ بھی ایک قسم کی ذلّت ہے سو یہ تو میاں ثنا ء اللہ نے ہماری مدد کی کہ جس قسم کی ذلّت کی ہمیں خبر بھی نہیں تھی ہمیں خبر دے دی- ہمیں تو پانچ قسم کی ذلّت کی خبر تھی- اس چھٹی قسم کی ذلّت پر میاں ثناء اللہ کی معرفت اطلاع ہوئی- اور رہی یہ بات کہ محمد حسین کا کسی ریاست میں وظیفہ مقرر ہو گیا یہ ایساامر ہے اس کو کوئی دانشمند عزّت قرار نہیں دے گا- ان ریاستوں میں تو ہر ایک قسم کے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں جن میں سے بعض کے ناموں کا ذکر بھی قابل شرم ہے- پھر اگر محمد حسین کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا تو کس عزت کا موجب ہوا بلکہاس جگہ تو وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بمئس الفقیر علیٰ باب الامیر-
غرض یہ پیشگوئی جو محمد حسین اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت تھی اعلیٰ درجہ پر پوری ہو گئی- ہم قبول کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی اس قسم کی ذلّت نہیں ہوئی جو ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کی ذلّت ہوتی ہے مگر پیشگوئی میں پہلے سے اس کی تصریح تھی کہ مثلیذلّت ہو گی جیسا کہ پیشگوئی کا یہ فقرہ ہے- جزاء سیئۃ و تر ھقھم ذلہ یعنی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی اسی قسم کی ذلّت ان کو پہنچے گی- اب ہم اس سوال کی زٹلی اور تبتی سے تو نہیں پوچھتے کیونکہ ان کی ذلّت اور عزت دونوں طفیلی ہیں- مگر جو شخص چاہے محمد حسین کو قرآن شریف ہاتھ میں دے کر حلفاًپوچھ لے یہ مثلی ذلّت جو الہام سے مفہوم ہوتی ہے یہ تمہیں اور تمہارے رفیقوں کو پہنچ گئی یا نہیں؟ بے حیائی سے بات بڑھانا کسی شریف کا کام نہیں ہے بلکہ گندوں اور سفلوں کا کام ہے- لیکن ایک منصف مزاج سوچ سکتا ہے کہ الہام الہٰی میں یہ تو نہیں بتلایا گیا تھا کہ وہ ذلّت پہونچائی جائے گی بلکہ الہام الہٰی کے صاف اور صریح یہ لفظ تھے کہ ذلّت صرف اس قسم کی ہو گی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی- الہام موجود ہے- ہزاروں آدمیوں میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے- پھر یہودیوں کی طرح میںتحریف کرنا اس بے حیاء انسان کا کام ہے جس کو نہ خدا تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ انسانوں سے شرم ہے-
راقم
میرزا غلام احمد از قادیان
تاریخ طبع ۱۷ دسمبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمٰعیل
(۲۱۵)
اپنی جماعت کے لیے ایک ضروری اشتہار
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
چونکہ مسلمانان ہند پر علی العلوم اور مسلمانان پر بالخصوص گورنمنٹ برطانیہ کے بڑے بڑے احسانات ہیں- لہذا مسلمان اپنی اس مہربان گورنمنٹ کا جس قدر شکریہ ادا کریں اتنا ہی تھوڑا ہے کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دستِ تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دُنیاہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بد تر تھی- دینی فرائض کیا ادا کرنا رتو درکنار بعض اذان نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے- ایسی حالت زار میں اللہ تعالیٰ نے دُور اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابر رحمت کی طرح بھیج دیاجس نے ان کو نہ صرف اُن ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کر کے ہر قسم کے سامان آسایش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دین متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کرسکتے ہیں-
ہم نے عید الفطر کے موقع پر اس مضمون پر مفصل تقریر کر تھی جس کی مختصر کیفیت تو انگریزی اخباروں میں جا چکی ہے اور باقی کیفیت عنقریب مرزاخدا بخش صاحب شائع کرنے والے ہیں- ہم نے اس مبارک عید کے موقع پر گورنمنٹ کے احسانات کا ذکر کر کے اپنی جماعت کو جو اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتی اور دیگر لوگوں کی طرح منافقانہ زندگی بسر کرنا گناہ عظیم سمجھتی ہے توجہ دلائی کہ سب لوگ تہ دل سے اپنی مہربان گورنمنٹ کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جنگ میں جوٹر نسوال میں ہو رہی ہے فتح عظیم بخشے اور نیز یہ بھی کہا کہ حق اللہ کے بعد اسلام کا اعظم ترین فرض ہمدردی خلایق ہے اور بالخصوص ایسی مہربان گورنمنٹ کے خادموں سے ہمدردی کرنا کا ثواب ہے جو ہماری جانوں اور مالوں اور سب سے بڑھ کر ہمارے دین کی محافظ ہے- اس لئے ہماری جماعت کے لوگ جہاں جہاں ہیں اپنی توفیق اور مقدور کے موافق سرکاربرطانیہ کے ان زخمیوں کے واسطے جو جنگ ٹرینسول میں مجروح ہوئے ہیں چندہ دیں- لہذا بذریعہ اشتہار ہذا اپنی جماعت کے لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہر یاک شہر میں فہرست مکمل کر کے اور چندہ وصول کر کے یکم مارچ سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کے پاس قادیان بھیج دیں کیونکہ یہ ڈیوٹی ان کے سپرد کی گئی ہے - جب آپ کا روپیہ مع فہرستوں کے آ جائے گا تو اس فہرست چندہ کو اس رپورٹ میں درج کیاجائے گا جس کا ذکر اور ہو چکا ہے ہماری جماعت اس کام کو ضروری سمجھ کر بہت جلد اس کی تعمیل کرے- والسّلام
راقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۰ فروری ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۲۱۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
گورنمنٹ انگریزی اور جہاد
جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت کے ایسا پیچیدہ امراور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقعہ ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں-
جاننا چاہیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوئوں میں جو لڑائی کو یُدّھ کہتے ہیں دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا بگڑا ہوا ہے چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اورتمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّھ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرف جیم کو یاء کے ساتھ بدل دیا اور کچھ تصرف کر کے تشیدید کے ساتھ بولا گیا -
اب ہم سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیںکہ اسلام کوجہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے - سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہین بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا اور تمام قوتیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں- جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رُسول خدا کی طر ف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے - بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں- کیونکہ اس مرد خدا کے ظہور سے اُن کی آمدنیوں اور وجاہتوں میں فرق آتا ہے- اُن کے شاگرد اور مرید ان کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیںجو خدا کی طرف سے پیدا ہو تا ہے- لہذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے ان عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب ان کو دیئے گئے جیسے نجم الامتہ اور شمس الامتہ اور شیخ المشائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے- سو ان وجوہ سے اہل عقل ان سے مُونہہ پھیر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے- ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء اور مشائخ اور فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے- وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگون کی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصّہ نور سے دیکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راست بازوں سے محض نفسانی ہوتیہے اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آ گئے ہیں اور اُن کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیںان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ تیز انجن کی عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے- یہی اسباب تھے - جنہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میںمشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا- لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحہ دُنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل و دماغ میں جا گزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں مال میں کثرت جماعت میں عزّت میں مرتبت میں دوسرے فرقہ سے بر تر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتائو کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راست بازوں کے ہلاک کرنے کے لیے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی وقیقہ آزار رسائی کا اُٹھا نہیں رکھاتھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پَیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے- سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کاروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے درد ناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ درازتک جوتیرہ برس کی مدّت تھی ان کی طرف سے یہی کاروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفا دار بندے اور نوعِ انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے- اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرکا کا ہر گزمقابلہ نہ کر و- چنانچہ ان بر گزیزہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا- اُن کے خُونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا- وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی- خدا کے پاک اور مقدس رسُول کو جس پرزمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں با ر ہرا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی کی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا- تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمیء حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُسکا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے کہ مَین سب کچھ دیکھ رہا ہوں- مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور مَیں خدائے قادر ہوں- ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا - یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد کا نام رکھا گیا-اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے ہے اُذِنَ للذین یقاتلون بانھم ظُلِمُوْا ان اللہ علیٰ نصر ھم القدیر- الذین اخر جو امن دیار ھم بغیر حق- یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے- الجزو نمبر ۱۷ سورۃ الحج- مگر یہ حکم مختص الزمان و الوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑیوں کی طرح ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیا- اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کی مخلوق کے حقوق کی نسبت - یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بناکر اُس قادر و قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں- اور مسلمانوں نے انسانوں پر نا حق تلوار چلانے سے نبی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا- غرض حق تلفی کی ایک راہ اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کر لی اور اس زمانہ کی بد قسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا- اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں- اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے- کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہے ہیں جو نبی نوع کی نسبت ان سے سرزد ہو رہی ہے-
یاد ہے کہ مسئلہ جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے - اور جس طرح پر حال کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہر گز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پر جوش وعظوں سے بے نصیب کر دیں- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون ان نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی ان سب کاگناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طورپر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خوریزیاں ہیں- یہ لوگ جب حکّام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارا الحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں- یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے بر خلاف ہے - اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اس کا نام دجّال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں - چنانچہ مَیں بھی مدّت سے اسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے اس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا ہے اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لُوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے - اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونااور ان کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور ان کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مار کی بڑی بڑی امیدیں تھیں سراسر باطل ٹھیرانا ان کے غضب اورعداوت کا موجب ہو گیا- مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ ان کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں- ایک یہ کہ خیال قیاس مع الفارق ہے- اور ہمارے نبی صلے اللہ و علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اُٹھائی بجز ان لوگوں اور جنہوں نے پہلے تلوار اُٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے درد انگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے - دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اُٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اس کی دُعا اس کا حربہ ہو گا اور اس کے عقد ہمّت اس کی تلوار ہو گی- وہ صلح کی بنیاد ڈالے گااور بکر اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اُس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہو گا- ہائے افسوس ! کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمہ یضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا او ر اسی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے- حتی تضع الحرب اوزارھا ہے- دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح کتاب مانی گئی ہے- اس کو غور سے پڑھو- اے اسلام کے علامو اور مولویو! میرے بات سُنو ! مَیں سچ کہتا ہوں کہ اجہاد کا وقت نہیں ہے- خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو- مسیح موعود جو آنے والا تھا آ چکا اور اس نے حکم بھی دیا کہ آیندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت وخون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آ جائو تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے- جس نے مجھے قبول کیا ہے رہ نہ صرف ان وعظوں سے مونہہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الہٰی جانے گا-
اس جگہ ہمیں یہ افسوس سے لکھنا پڑا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لُوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے- اسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کاروائی کی- اور ہزاروںرسالے اور اشتہار اُردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوںمیں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار جلانے کا نام اسلام ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کے دو گواہیاں پا کر یعنی ایک یہودیوں کو گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی ہے - میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراء سے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے- یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے ان بے جا افترائوں سے اہل اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتجہ ہو گا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اوروہ سوائے ہوئے جاگ اُٹھیں گے- غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے- اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شاید اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا- مگر اب تو مَیں آ گیااور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا- اس لئے اب مذہبی طورپر تلوار اُٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں- جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریو جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفسِ امّارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہر گز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دارز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کی اجو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اُٹھائو اور صبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا- وہ پیَروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا- ان کے بچے اپں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے، وہ آگ اورپانی کے ذریعے سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شر کے مقابلہ ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خور بچے ہیں- کون ثابت کر سکتا ہے کہ دُنیا میں تمام نبیوں کے استوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا، کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دُنیا میں کوئی اَور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مروحی اور مردانگی کے پھر خونخوار کے دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا- ہمارے سیّد و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جاں نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جوجہاد کے حکم کے بعد انہوں کے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی- ایسا ہوا تا لوگوںکو معلوم ہو کہ جو مکّہ میںدشمنوں کی خونزیوں پر صبر کیا گیا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے سبر کا قصّہ بھی ہم سُنتے ہیں تو فی الفور دل میں گذرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب دراصل بزدلی اور عدم قدرت انتقام ہو- مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہُنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اورآپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلائوں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس تک دراز مدّت تک لمبا تھا درحقیت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہوتو ہمیں بتلا دے کہ گذشتہ راستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟
اور اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دُکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کاحکم ہے- غرض ہمیشہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک آسمان سے حکم مقابلہ آ گیا- اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اوّل اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو- پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلائو-
حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دُنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بد بختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ پر چھوڑ دیا گیا ہے - جاہل مولویوں نے خدا ان کو ہدایت دے عوام کا لا نعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بیر حمی اور انسانی اخلاق کے بر خلاف ہے- کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلاجاتا ہے اور ہم نے اس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے- کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں- سبحان اللہ ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکّہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بد ی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو- پس وہ اس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے- گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوئوں میں طاقت- بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اُونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اُونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اُونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑایا گیا- پس وہ ایک دم میں ایسے چِر گئے جیسے گاجر یامُولی چیری جاتی ہے- مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دُنیا اُن کا شکار ہے- اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقو پا کر بندوق کافائر کرتا ہے- یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں-انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بٰھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ مخوایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے- ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہؓ کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں- کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دی اہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہمیں وہ جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں- کیا سیا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جُرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جائو اس سے تم بہشت میں داخل ہو جائوگے- افسوس کامقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ رُوشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کسی آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں- ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اُٹھائی اور اس وقت اُٹھائی گئی جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میںپہنچ گئے- آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں- خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے- لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے - مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لیے قتل نہیں کر تا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتیہیں- کیول ان کے مولوی بے جادست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہین گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان با اسلام ہوئے- چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہیے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دُعائوں کے بعد سکھّوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی ردّ کر دیں-
اور مَیں اس وقت اپنی جماعت کوجو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتون سے پرہیز کریں مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لائو اپنے دلوں کے بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہوجائو گے- کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے - سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو- تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے - کیا یہی ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے- جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہو گی بجز اس کے کہ خدا کی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں- خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو- آئو مَیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اورہمدرد نوع انسان ہو جائو اور خدا میں کھوئے جائو اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی یں اور دُعائیں قبول ہو تی یں اور فرشتے مدد کے لئے اُترتے یں مگر یہ ایک دن کا کام نہیں- ترقی کرو- ترقی کرو- اس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اوّل بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کا تاثیریں تمام مَیل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہے - تب صبح اُٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ مَیل جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اُٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو مار کھا کر یک دفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے - یہانتک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں- جیسے ابتداء میں تھے - یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے- یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قد افلح من زکّٰھا یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے مَیلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا- دیکھو مَیں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوان اور وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے اور یہ بات مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے- صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ عضع الحرب یعنی جب مسیح آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا- سو مَیں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام کے پیچھے ہٹ جائیں- دلوں کو پاک کر یں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں- زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں ایسا کیونکر ہو گا- کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا- بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی- تب آخر میں لوگ سمجھ جائیںگے کہ جو خد کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا سب غلطیاں تھیں- سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرت مند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نا فرمانوں میں لکھے جائو- اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتداء سے وعدہ تھا- خدا ان قصّوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دُور دُور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتیہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پُورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کے طرح دُنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی- زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے - اور ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیر و سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے- سویہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کی حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دُنیا میں پھیلے گی جیسے اُونچے مینار پر سے آواز اور روشنی دُور تک جاتی ہے - اس لئے ریل اور تار گھر اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے اور قرآن بھی کہتا ہے وَاِذَا الْعِشَارُعُطِّلَتْ یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے وہ ٭ہے جبکہ اُونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اُونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے یترک القلاص فلا یسعی علیھا- یعنی اس زمانہ میں اُونٹ بے کار ہو جائیں گے- اور یہ علامت کسی اَور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی- سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے تیاریاںہیں- زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیںدیکھے- گویا دُنیا نئی ہو گئی ہ- بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میںمل سکتے ہیں چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے- ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آ سکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود یں- اگر چاہو تو ریل میں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر میں ایک بُستان سرائے میں- پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے -اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں ہیں- انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے ان السمٰوٰت والارض کانتا و تقاً ففتقنا ھما- یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جوہر ظاہر کر دیئے-٭
بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اشتہار میں مفصّل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں- یہ شرعی جہاد نہیں بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے- لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اِسلامی قوموں میں پرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑنا آسانی سے ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اس قصّہ بھی تمام کرنا چاہیں- ہاں ایک طریق میرے دل پر گزرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل جن کا رُعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں نہیں ملے گی نامی علماء کو جمع کر کے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لا ویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کرا کر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کاروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور و ہ جوش جو نادان ملّا عوام میںپھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقینا امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بد قسمتی ہو گی اگر اس ضروری اصلاح ی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ملّائوں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی ہے کیونکہ آجکل ان ملّائوں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی وجہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کا فر ٹھیرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت ان کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں- پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے-ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّا لوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر ان کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر ان کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفار کے لئے وہ لکھا رکرتے ہیں- پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بناتا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہیے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سر چشمہ یہی لوگ ہیں- عوام بے چارے ان لوگون کے قابومیں ہیں اور اُن کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر یدں اور ایک دم میں قیامت بر پا کردیں- پس یہ گناہ کی بات نہیں کہ عوام کی اُن کے پنجہ سے چھڑادیا جائے اور خود اُن کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے- اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمانوں رہزنوں اور ڈاکوئوں کی طرح بن جائیںاور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں- اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام چاہتے ہیں اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں امیر صاحب پر یہ الزام لگا دیں کہ انہی اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے- لہذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر ساحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اُٹھے گی اور ثواب بھی ہو گا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کر کے اس سے بڑھ کر اَور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلور چلانے والے اکثر افغان ہین ہیں جن کا امیر صاحب کے مُلک میں ایک معتدبہ حصّہ ے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقعہ دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور وحشیانہ عادات جو اسلام کی بد نام کنندہ ہیں جہاں تک ان کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ دَور مسیح موعود آ گیا ہے - اب بہر حال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خونریزی سے پُر تھی اب عدل اورصلح کاری سے پُر ہو جائے گی اور مبارک وہ امیر بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصّہ لیں-
ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں- اور گو یہ جانتاہوںکہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے - لیکن ہماربھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گزرے تو اُسے پیش کر دیں- اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اس کے اسباب جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں دو ہیں (۱) اوّل وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے- مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں-آخر دن رات ایسے وعظوںکو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں تھوڑاہی فرق ہے بہت بڑا اثر پڑتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرّہ باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خونریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے- اور اگرچہ سرحدی اورافغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں- اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبّرا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے- میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب مُلّا ایسے یں کہ ان گندے خیالات سے بَری نہیں ہیں- اگر وہ خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو مَیں اُن کو معذور سمجھتا کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے- لیکن مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کر کے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا رتعالیٰ کا کلام ہر گز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہ ہوں کے خون کیاکریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے-(۲)دوسرا سبب ان مجرمانہ خونریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں - میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے - میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی- یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا- میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالیاور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں- بلکہ جب سکّھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور ان کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کی اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے - جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میں کتاب میزان الحق تالیف کر کے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے- ان باتون کو سُن کہ سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے - مَیں نے غور کر کے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اورپُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئای اس کا سبب پادری صاحبوںکی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذر گئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر ۲۳ ۱۸۶۷ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کو روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا- یہ قانون سرحد کی چھ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی- لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرت سری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے مُلک کی اندرونی محبت اور مصالحت کر بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوںمیں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی- غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے- ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کاروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی وجہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلانہ طریق ثابت ہو جانے کی وجہ سے اندر ہی اندر دب گئے- پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملّائوں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ جہاد کی پیروی کر کے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا کہ وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروںکو سُرخ کیا کریں اور اس طرح نا حق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذاء پہنچایا کریں- مگر ساتھ ہی یورپ کی ملّائوں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے نا حق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے- ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کر کے وحشی مسلمانوں کے دلوں میںیہ جما دیا کہ اُن ک مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے بہت جلد بہشت مل جاتا ہے- اگر ان پادریوں صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کر کے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے - اگر ہم فرج کر لیں کہ اس فتنہ عوام جوش دلانے کے بڑے سمجھ جاتے اور چپ رہتے- اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کو جوش دلانے کے بڑے متحرک اسلامی مولوی ہیں تا ہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگریزی میں پادریوں کی وہ تحریوں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمانوں شاکی نظر آتے ہیں- افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کی مشکلات پیش آتی ہیں- ان مشکلات پیش آتی ہیں- ان مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیززبانی تقریروں میں ہر گز ہر گز کسی دوسرے مذہب کا صراحتہً یا اشارۃً ذکر نہ کرے- ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے- اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخمریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے اور جب سرحد کی وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم اُنس اور محبت اور پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریں گے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے - اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کر کے اور پشتومیں ان کا ترجمہ کراکر سرحدی اقوام میں مشتہر کر دیں- بلا شبہ ان کا بڑا اثر ہوگا مگر ان باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچّے دل اور جوش سے کاروائی کی جائے نہ نفاق سے- والسلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی از قادیان
المرقوم ۲۲ مئی ۱۹۰۰ء
(۲۱۷)
ضمیمہ رسالہ جہاد
عیسٰی مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت
او رجناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں
ایک درخواست
اگرچہ مَیں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ مَیں عیسٰی مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ مَیں درحقیقت حضرت عیسٰی علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شُبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا مَیں نے تناسخ کے طور پر اس دعوے ٰ کو پیش کیا ہے اور گویا مَیں اس بات کا مدعی ہوں کہ سچ مچ ان بزرگ نبیوں کی رُوحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں- لیکن واقعی امر ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسا زمانہ ہو گا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا- ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہو گا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت- مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہو گا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوعِ انسان کی خونریزیاں ہوں گی یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا وہ ایسی خونریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی چنانچہ وہ زمانہ یہی ہے کہ ایمان اور انصاف کے رُو سے ہر ایک خدا ترس کو اس زمانہ میں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مثلاً آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کی یا اُن کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں- کس قدر ظلم صریح اور حقوق العباد کا تلف کرنا ہے کہ کیا ان کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں رہا جو بانگ نماز پر بھی قتل کرنے کو مستعد ہو جاتے تھے- گورنمنٹ انگریزی نے کیا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا اس کے معزز حکام کو دی جاتی ہے- اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی- اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مار کھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں- سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی غلاموں کی طرح زندگی تھی اور اب انگریزی عملداری سے دوبارہ ان کی عزت قائم ہوئی- جان اور مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے اسلامی کتب خانوں کے دروازے کھولے گئے تو کیا انگریزی گورنمنٹ نے نیکی کی یا بدی کی، سکھوں کے زمانہ میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اُکھیڑی جاتی تھیں- سرہند کا واقعہ بھی اب تک کسی کو بھولا نہیں ہو گا- لیکن یہ گورنمنٹ ہماری قبروں کی بھی ایسی ہی محافظ ہے جیسا کہ ہمارے زندوں کی- کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرّہ بھی مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا- کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لاوے- حج کرے- زکوٰۃ دے- نماز پڑھے یا خدا کی طرف سے ہو کر یہ ظاہر کرے کہ مَیں مجدّد وقت ہوں یا ولی ہوں یا قطب ہوں یا مسیح ہوں یا مہدی ہوں اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں بجز اس صورت کے کہ وہ خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو- پھر باوجود اس کے کہ گورنمنٹ کے یہ سلوک اور احسان ہیں مسلمانوں کی طرف سے اس کا عوض یہ دیا جاتا ہے کہ ناحق بے گناہ بے قصور ان حکام کو قتل کرتے ہیں جو دن رات انصاف کی پابندی سے ملک کی خدمت میں مشغول ہیں- اور اگر یہ کہو کہ یہ لوگ تو سرحدی ہیں- اس ملک کے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کا کیا گناہ ہے تو اس کا جواب بادب ہم یہ دیتے ہیں کہ ضرور ایک گناہ ہے چاہو قبول کرو یا نہ کرو اور وہ یہ کہ جب ہم ایک طرف سرحدی وحشی قوموں میں غازی بننے کا شوق دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے مولویوں میں اپنی گورنمنٹ اور ا س کے انگریزی حکام کی سچی ہمدردی کی نسبت وہ حالت ہمیں نظر نہیں آتی اور نہ وہ جوش دکھائی دیتا ہے- اگر یہ اس گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں تو کیوں بالاتفاق ایک فتویٰ تیار کر کے سرحدی ملکوں میں شائع نہیں کرتے تا ان نادانوں کا یہ عذر ٹوٹ جائے کہ ہم غازی ہیں اور ہم مرتے ہی بہشت میں جائیں گے- مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ مولویوں اور اُن کے پیروئوں کا اس قدر اطاعت کا دعویٰ اور پھر کوئی عمدہ خدمت نہیں دکھلا سکتے- بلکہ یہ کام تو بطریق تنّزل ہے- بہت سے مولوی ایسے ہی بھی ہیں جن کی نسبت اس سے بڑھ کر اعتراض ہے- خدا ان کے دلوں کی اصلاح کرے- غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے- جب ایک محسن بادشاہ کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر اوروں کے ساتھ کیا ہو گا- پس خدا نے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا اس لئے اس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسٰی مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے- اس عکس کو مجازاً کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے کیونکہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چاہو- اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گذرا ہے جس کا نام عیسٰی مسیح ہے- اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی اُن سے نہیں کی بلکہ نیکی کی- اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پا کر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خو اور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے- کیا اس زمانے میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسیٰ مسیح کا اوتار ہے؟ بے شک ضرورت تھی- جس حالت میں اسلامی قوموں میں سے کروڑہا لوگ رُوئے زمین پر ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا ان کا شیوہ ہے بلکہ بعض تو ایک محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رہ کر بھی پوری صفائی سے ان سے محبت نہیں کر سکتے- سچی ہمدردی کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ نفاق اور دو رنگی سے بکلّی پاک ہو سکتے ہیں- اس لئے حضرت مسیح کے اوتار کی سخت ضرورت تھی- سو میں وہی اوتار ہوں- جو حضرت مسیح کی روحانی شکل اور خُو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں-
اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلّو تک پہنچ گیا ہے- اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دُنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور ا س کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنّم سے نجات پائیں گے لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے- خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے- اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو اُن میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنے کے رُو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویلیں کی جاتی ہے کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پا کر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اس کی نسبت مجازًا بولنا قدیم محاورہ اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے لیکن اس سے درحقیقت یہ نہیں کُھلتا کہ وہی شخص درحقیقت رب العالمین ہے- اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھسل جاتا ہے اور ہزار ہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہی لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں- اصل بات یہ ہے کہ جب رُوحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ اُن کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے- آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کر کے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں- سو اسی غلطی میں آ جکل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمدؐ اور احمدؐ تھا- خدا کے اس پر بے شمار سلام ہوں- شریعت دو حصوں میں منقسم تھی- بڑا حصہ یہ تھا کہ لاَالٰہ الاّ اﷲ یعنی توحید اور دوسرا حصّہ یہ کہ ہمدردی بنی نوع انسان کرو اور لئے وہ چاہو جو اپنے لئے- سو ان دو حصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا- اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ یعنی لا الہ الا اﷲ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے- اس پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا- پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں- اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں- یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزار بے گناہوں کو وحشیوں نے تہِ تیغ کر دیا تھا- اور پھر دوسری طرف حقوق خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہئیے وہ مسیح ہی ہے اور اس قدر غلّو ہو گیا کہ اگرچہ اُن کے نزدیک عقیدہ کی رو سے تین اقنوم ہیں لیکن عملی طور پر دعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح- یہ دونوں پہلو اتلاف حقوق کے معنی یعنی حقوق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور رُوپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کر کے بھیجا- ایسا ہی اس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اوراحمد رکھا اورمجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بُو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا- سو مَیں ان معنوں کر کے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی- مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا اور اس کا خلیفہ اور صدق اور راست بازی کو اختیار کرنے والا- اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتاً ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل- سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو مَیں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی- اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں- سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں- بروز عیسیٰ اور بروز محمد- غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے- عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طو رسے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دُنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا سو ایسا ہی ہوتا جاتاہے- آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے ٭ جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے کیونکہ مسیح آچکا - خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے- اور یہ وہ صلح کاری کا جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے کہ اگر ایک لاکھ مولوی بھی چاہتا کہ وحشیانہ جہادوں کے روکنے کے لئے ایسا پُر تاثیر سلسلہ قائم کرے تو اس کے لئے غیر ممکن تھا- اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹا رہی ہے کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی اور وحشیانہ جہاد کرنے والے اپنا چولہ بدل لیں گے-
اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دُنیا میں دوبارہ قائم کروں- کیونکہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محض آسمان نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی- سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے- وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسٰی کلیم اﷲ پر بمقام طور ظاہر ہوا- اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا، وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلّی فرما ہوا ہے- اس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے مَیں ہوں- میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور مَیں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ جو کچھ مسیح کی نسبت دُنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے- خدا نے اپنے زندہ کلام سے بلاواسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اس نے کہا کہ اگر تیسرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پریہ دلیل کافی ہے کہ اس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں- دُعائیں قبول ہوتی ہیں- پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خد ا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں- اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دُعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس قبولیت کا علم دیا جانا یا اَور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ معلوب رہے گا گو وہ مشرقی ہو یا مغربی- یہ وہ نشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں تا اُن کے ذریعہ سے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو کھینچوں جو درحقیقت ہماری روحوں اور جسموں کا خدا ہے جس کی طرف ایک دن ہر ایک کا سفر ہے- یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیزنہیں جس میں الٰہی طاقت نہیں- تمام نبیوں نے سچے مذہب کی یہی نشانی ٹھیرائی ہے کہ اُس میں الٰہی طاقت ہو- یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ دونوں نام جو خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر فرمائے یہ صرف چند روز سے نہیں ہیں بلکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں جس کو شائع کئے قریباً بیس برس گذر گئے یہ دونوں نام خدا تعالیٰ کے الہام میں میری نسبت ذکر فرمائے گئے ہیں یعنی عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی تا مَیں ان دونوں گروہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو وہ پیغام پہنچا دوں جس کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے- کا ش اگر دلوں میں طلب ہوتی اور آخرت کے دن کا خوف ہوتا تو ہر ایک سچائی کے طالب کو یہ موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ مجھ سے تسلّی پاتا- سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھاتا ہے- سو مَیں اس بات کا گواہ رویت ہوں کہ ایسا مذہب توحید کا مذہب ہے جو اسلام ہے جس میں مخلوق کو خالق کی جگہ نہیں دی گئی اور عیسائی مذہب بھی خدا کی طرف سے تھا مگر افسوس کہ اب وہ اس تعلیم پر قائم نہیں رہا- اور اس زمانہ کے مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ وہ شریعت کے اس دوسرے حصہ سے محروم ہو گئے ہیں جو ہمدردی نوع انسان اور محبت اور خدمت پر موقوف ہے- اور وہ توحید کا دعویٰ کر کے پھر ایسے وحشیانہ اخلاق میںمبتلا ہیں جو قابل شرم ہیں- مَیں نے بارہا کوشش کی جو اُن کو ان عادات سے چھڑائوں لیکن ا فسوس کہ بعض ایسی تحریکیں ان کو پیش آ جاتی ہیں کہ جن سے وحشیانہ جذبات ان کے زندہ ہو جاتے ہیں اور وہ بعض کم سمجھ پادریوں کی تحریرات ہیں جو زہریلا اثر رکھتی ہیں- مثلاً پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور صفدر علی کی کتابیں اور امہات المومنین اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نہایت درجہ کی توہین اور تکذیب سے پُر ہیں- یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبر اور حلم سے اعلیٰ درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آ جائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کی عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے- چنانچہ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنو سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہو گی- اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطرناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحب یہ رائے ظاہر کرتے ہیں- اور گذشتہ دنوں میں مَیں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدر سخت تھا- ان تحریروں سے میرا مدّعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش رُک جائے- سو اگرچہ اس حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا- اور وہ ایسے رنگ کا جواب پا کر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریریں نکلتی رہتی ہیں کہ جو زود رنج اور تیز طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے یہ نہایت خوفناک کارر وائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے گویا وہ ان کو جہاد کی رسم یاد دلاتے رہتے ہیں اور پھر تیز تحریریں نکال کر ان میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں- نہ معلوم کہ یہ لوگ کیسے سیدھے ہیں کہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان دونوں طریقوں کو ملانے سے ایک خوفناک نتیجہ کا احتمال ہے- ہم بارہا لکھے چکے ہیں کہ قرآن شریف ہرگز جہاد کی کی تعلیم نہیں دیتا- اصلیّت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میں بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا- سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے ان پر تلوار اُٹھائی اور انہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں- سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا اور اسلام ان بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں- اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کو تحریک دینا چاہتا ہے- کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مدّنظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے- جس کتاب میں یہ آیت اب تک موجود ہے کہ لا اکراہ فی الدین یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہئیے-کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے- غرض اس جگہ ہم مولویوں کا کیا شکوہ کریں خود پادری صاحبوں کا ہمیں شکوہ ہے کہ وہ راہ انہوں نے اختیار نہیں کی جو درحقیقت سچی تھی اور گورنمنٹ کے مصالح کے لئے بھی مفید تھی- اسی درد دل کی وجہ سے مَیں نے جناب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے- لیکن اب تک ان درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی- لہذا اب بار سوم حضور ممدوح میں درخواست کرتا ہوں کہ کم از کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائے اور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرے کہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے- یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کردیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتا ہے اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لئے بطور یاددہانی ہو کر بھولے ہوئے جوش اس کو یاد دلادیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھیرتا ہے- سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کردے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذہب پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہرناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوونما پا رہا ہے جلد تر مقفود ہو جائے گا- اور یہ کارروائی گورنمنٹ کی قابل تحسین ٹھیر کر سرحدی لوگوں پر بھی بے شک اثر ڈالے گ اور امن اور صلحکاری کے نتیجے ظاہر ہوں گے- آسمان پر بھی یہی منشاء خد اکا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ و جدل کے طریق موقوف ہوں اور صلحکاری کے طریق اور باہمی محبت کی راہیں کھل جائیں- اگر کسی مذہب میں کوئی سچائی ہے تو وہ سچائی ظاہر کرنی چاہئیے نہ یہ کہ دوسرے مذہب کی عیب شماری کرتے رہیں- یہ تجویز جو مَیں پیش کرتا ہوں اس پر قدم مارنا یا اس کو منظور کرنا ہر ایک حاکم کا کام نہیں ہے- بڑے پُرمغز حکام کا یہ منصب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے عالیجاہ نواب معلّٰے القاب وائسرائے بہادر کرزن صاحب بالقابہ اپنی وسعت اخلاق اور موقع شناسی کی قوت سے ضرور اس درخواست پر توجہ فرمائیں گے اور اپنی شاہانہ ہمت سے اس پیش کردہ تجویز کو جاری فرمائیں گے- اگر یہ نہیں تو اپنے عہد دولت مہد میں اسی قدر خدا کے لئے کارروائی کر لیں کہ خود بدولت امتحان کے ذریعہ سے آزما لیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے- یعنی تمام مسلمان آریوں سکھوں سناتن دھرمیوں عیسائیوں برہموئوں یہودیوں وغیرہ فرقوں سے نامی علماء کے نام یہ احکام جاری ہوں کہ اگر ان کے مذہب میں کوئی الٰہی طاقت ہے خواہ وہ پیشگوئی کی قسم سے ہو یا اور قسم سے وہ دکھائیں- اور پھر جس مذہب میں وہ زبردست طاقت ہو جو طاقت بالا ہے ثابت ہو جائے ایسے مذہب کو قابل تعظیم اور سچا سمجھا جائے- اور چونکہ مجھے آسمان سے اس کام کے لئے رُوح ملی ہے اس لئے میں اپنی تمام جماعت کی طرف سے سب سے پہلے درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لئے دوسرے فریقوں کے مقابل پر مَیں تیار ہوں- اور ساتھ ہی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے جس کے زیر سایہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہو کر ایسی درخواستیں خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کریں- والسلام ۷؍ جولائی ۱۹۰۰ء
الملتمس خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
بشپ صاحب لاہور
سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست
مَیں نے سُنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلاویں- میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو- لیکن مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے اُن کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا- میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہو گا- کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں - مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مریدمع بزرگان دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی- ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنا بھی زنا ہے- مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بے شک اس صورت میں ہم بستر ہو جائے جبکہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے- ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پسو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے اور ایک کے مذہب میں سُور کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں تمام سفید اور سیاہ سور بہت عمدہ غذاہیں- اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلّی اتفاق نہیں ہے- عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور خدا کے برابر ٹھہراوے- غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہرگز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے- ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مقدس محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل ہیں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں- کیونکہ جب ہم کلام کلّی کے طور پر تمام طرق فضیلت کو رکھ کر ایک نبی کے وجوہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہو گا کہ اُسی تقریب پر ہم اس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں- اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں اور شاخوں پر مشتمل ہے- اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہو گی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پر ہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہو گا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گی جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں- بلکہ ہر ایک مذاق کے انسان کے لئے اس مقابلہ اور مو ازنہ کے وقت ضرور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے- پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئیے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو- کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقیدہ کی رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گنہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی- اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے- ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دُوسرے سے ہم بستر کرا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رامچندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشر ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں- اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کو چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچا دیناکچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے نزدیک سُود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ جج ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے- اور اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تاہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا ،خون نہیں کرتا،جھوٹی گواہی نہیں دیتا- ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے- مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ مَیں نے کئی دفعہ یہ موقع پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیر خوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی مَیں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا- تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق فضائل کو پیش کرنے والا کوئی بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا- ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوں کے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقعہ ملا تھا کہ میں تمہارے سر یا گردن یا ناک پر اُسترہ ما ردیتا مگر مَیں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھیر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جُرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے - غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے جہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اسے روکتا تھا- مثلاً اگر شریر نقب لگانے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رُک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانوں سزا بھی تو اسے ڈرا را تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر مَیں نے نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی نے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھونٹنے کے وقت پکڑا گیا تو پھر گورنمنٹ پُوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی- غرض اگر ہی حقیقی یکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر تمام جرائم پیشہ ایسے لگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا- لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کے لئے ہمیں یہی وجوہ پیش کرنے چاہیئں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی-چوری نہیںکی، کسی بیگانہ عورت ہر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا- حاشا و کلّا یہ کمینہ باتیں ہر گزکمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے- مثلاً اگر مَیں یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیںہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہکا کر لے گئے تھے اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کا ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے- پس خدا کے پاک نبیوں کی تعریف اسی حدتک ختم کر دینا بلا شبہ اُن کی ایک سخت مذمّت ہے- اور اسی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوںکی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیںبچایا اُن کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے- اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہ اجاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے - دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں ی ادھاڑ ماریں یا خون کریں یا شیرخواز بچوں کا گلا گھونٹیں یا بچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں-پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنا محسن ٹھیراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوا اس کے ترک شرّ کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجود ہیں-ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقع پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کر بھاگ جائے- اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کر جرأت پید ا ہی نہیں ہو سکتی- ایسا ہی زنا کاری بھی قوت مروی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے- بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں- تلوار چلانے کے لئے بھی بازو چاہیے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی- بعض ایک چڑیا کو بھی مارنہیں سکتے- اور ڈاکہ مارنا بھی ایک بُزدل کا کام نہیں- اب اس بات کا کون فیصلہ کرے گا مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا تھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیںتوڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا- کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑاکہ دن کا وقت تھا- پچاس محافظ باغ میں موجود تھے اگر توڑتا تو پکڑا جاتا مار کھاتا بے عزّت ہوتا- اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے- ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضایقہ نہیں مگر صرف اتنی سی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دو چار آنے کی طرح کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بد ی کا مرتکب نہیں ہوا بہ بلا شبہ ہجو ہے - یہ ان لوگوں کے خیال ہیںجنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی کمال میں کبھی غور نہیں کی جس شخص کا نام انسان کامل رکھتے ہیں- ہمیں نہیں چاہیے کہ محض ترکِ شرّ کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگرکچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہو گا کہ ایسا انسان بد معاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے- معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں- ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتاہے کہ آگے سے خاموش گذر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گذر جاتا ہے- ہزاروں بچے ایسی حالت میں مَر جاتے یہں کہ کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا- بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہیے یعنی یہ کیا کیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل میں دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اُس کے اندر موجود ہیں- سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہیے مثلاً سخاوت، فتوت، مواسات، حقیقی علم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے ، حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتقام شرط ہے، حقیقی شجات جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے،حقیقی عدل جس کے لئے ظلم شرط ہے ، حقیقی رحم جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ کی زیر کی اور علیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں- پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہیے نہ صرف ترک شر میں جس کا نام بشپ صاحب معصومیت ر کھتے ہیں کیونکہ نبیوںکی نسبت یہ خیال کرنابھی ایک گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پا کر اپنے تئیں بچایا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح علیہ اسّلام کایہ فرمایا کہ ’’ مجھے نیک مت کہہ‘‘ یہ ایک ایسی وصیّت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہیے تھا-
اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شایق ہیں تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے ایسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ دونوں نبیوں میں کمالات ایمانی و اخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے- اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کایہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہو گی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے-
راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے چار صفحہ پر ہے )
(۲۱۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
جناب بشپ صاحب لیکچر زندہ رسُول پر کچھ ضروری بیان
چونکہ مسلمانوں کو ابھی اس تقریرکے بعد میں بات کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے- اس لئے مختصراً مَیں کچھ بیان کرتا ہوں- بشپ صاحب کی طرف یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام زندہ اپنے خاکی جسم کی ساتھ آسما ن کی طرف چلے گئے تھے مگرافسوس کی ہم کسی طرح اس دعویٰ کو قبول نہیں کر سکتے- نہ عقل کے رو سے نہ انجیل کے رو سے- اور نہ قرآن شریف کے رو سے- عقل کے رو سے اس لئے کہ حال اور گذشتہ زمانہ کے تجارب ثابت کر تے ہیں کہ انسان سطح زمین سے چھ میل تک بھی اوپر کی طرف صعود کر کے زندہ نہیں رہ سکتا اور ثابت نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کے وجودکی کوئی ایسی خاص بناوٹ تھی جس سے کرہ ز مہر برکی سردی ان کو ہلاک نہیں کر سکتی تھی بلکہ بر خلاف اس کے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تمام انسانوں کی طرح وہ کھاتے پیتے اور بھوکھ اور پیاس سے متاثر ہوتے تھے یہ تو عقل کے رو سے ہم نے بیان کی اور انجیل کے رو سے اس لئے یہ دعوی قبول کے لائق نہیںکہ اوّل کو انجیلیں چالیس سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے حضرات عیسائی صاحبوں کی رائے میںچار صحیح اور باقی جعلی ہیں- لیکن یہ محض ایک رائے ہے جس کی تائید میںکافی وجود شائع نہیں کی گئیں اور نہ وہ تمام انجیلیںچھاپ کر عام طور پر شائع کی گئی ہیں تا پبلک کو رائے لگانے کا موقوع ملتا-پھر قطع نظر اس سے یہ چار انجیلیں جن کے بیان پر بھروسہ کیا گیا ہے - یہ بھی کھلی کھلی اور یقینی شہادت اس بات کی نہیں دیتیں ک درحقیقت حضرت مسیح آسمان پر مع جسم عنصری چلے گئے تھے- ان انجیلوں نے کوئی جماعت دو یا چار ثقہ آدمیوں کی پیش نہیں کی جن کی شہادت پر اعتماد ہو سکتا- اور اس واقعہ کے ذاتی اورروئیت کے مدعی ہوتے- پھر انہیں انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک چور کو تسلّی دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بہشت میں روزہ کھولے گا- بہت خوب- مگر اس سے لازم آتا ہے کہ یا تو چور بھی جسم عنصری کے ساتھ بہشت میں گیا ہو اور یا حضرت مسیح چور کی طرح محض روح کے ساتھ بہشت میں گئے ہوں- پھر اس صورت میں جسم کے ساتھ جانا صریح باطل- یا یوں کہو کہ چور تو بدستور بہشت میں روحانی رنگ میںرہا لیکن حضرت مسیح تین دن بہشت میں رہ کر پھر اس سے نکالے گئے- اسی طرح اور کئی قسم کے مشکلات اور پیچید گیاں ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتی ہیں چنانچہ یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح فوت ہونے پر بہشت کی طرف نہیں گئے تھے- اس سے سمجھا جاتا ہے کہ غالباً وہ چور بھی دوزخ کی طرف گیا ہو گا کیونکہ وہ تو خود دوزخ کے لائق ہی تھا - پس حق بات ہی تھی کہ انجیل کے متناتض بیان نے انجیل کو بے اعتماد کر دیا ہے- حضرت مسیح کا صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملنا- کباب کھانا ، زخم دکھلانا، سڑک پر چلنا، ایک گائون میں رات اکٹھے رہنا جو انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے- یہ وہ امور ہیں جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں جو حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے - اور قرآن شریف توہمیں یہ بار بار یہ بتلاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں- ہاں جو رفع ایماندار لوگوں کے لئے فوت کے بعد ہوا کرتا ہے وہ ان کے لئے بھی ہوا جیسا کہ آیت یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الیّ سے سمجھاجاتا ہے کیونکہ لفظ رافع قرآن شریف میں لفظ متوفیک کے بعد مذکور ہے کہ قطعی قرینہ اس بات پر ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو وفات کے بعد مومنوں کے لئے ہوا کرتا ہے- اصل جڑھ اس کی یہ تھی کہ یہودی حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ وہ سُولی دیئیگئے تھے تو بوجب حکم توریت کے وہ اس رفع سے بے نصیب ہیں جو مومنوں کو موت کے بعد خدا کی طرف سے بطور انعام ہوتا ہے اور خدا کے قرب کے ساتھ ایک پاک زندگی ملتی ہے- سو ان آیات میں یہودیوں کے اس خیال کا اس طرح پر رد کیا گیا کہ مسیح صلیب کے ذریعے قتل نہیں کیا گیا تھا اور اس کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے وہ توریت کے اس حکم کے نیچے نہیں آ سکتا کہ جو شخص سُولی پر چڑھا یا جاوے اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ *** ہو کر جہنم کی طرف جاتاہے - اب دیکھو کہ جسمانی رفع کا اس جگہ کوئی جھگڑا نہ تھا اور یہودیوں کا کبھی یہ مذہب نہیں ہوا- اور نہ اب ہے کہ جو شخص سُولی پر لٹکایا جاوے اس کا جسمانی طورپر رفع نہیں ہوتا- یعنی وہ مع جسم آسمان پر نہیں جاتاکیونکہ یہودیوں نے جو حضرت مسیح کے اس رفع کا انکار کیا جو ہر ایک مومن کے لئے موت کے بعد ہوتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں اور نیز مسلمانوں کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایماندار کا فوت کے بعد خدا کی طرف رفع ہو جیسا کہ آیت لا تفتح لھم ابواب السماء صریح دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ ارجی الیٰ ربک راضیۃ میں بھی یہی اشارہ ہے لیکن جسمانی رفع یہودیوں کے نزدیک اور نیز مسلمانوں کے نزدیک بھی نجات کے لئے شرط نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کا جسمانی رفع نہیں ہوا تو کیا وہ یہودیوں کے نزدیک نجات یافتہ نہیں - غرض اس قصّہ میں اکثر لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے ہیں - قرآن شریف ہر گز اس عقیدہ کی تعلیم نہیں کرتا کہ نجات کے لئے جسمانی رفع کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں-
قرآن نے کیوں اس قصہ کو چھیڑا- اس کا فقط یہ سبب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں رُوحانی طور پر رفع اور عدم رفع میں ایک جھگڑا تھا- یہودیوں کو یہ حجّت ہاتھ آ گئی تھی کہ یسُوع مسیح سُولی دیا گیا ہے لہذا وہ توریت کے رو سے اس رفع کا جو ایمانداروں کا ہو تا ہے بے نصیب رہا اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ وہ سچا نبی نہیں ہے جیسا کہ اب بھی وہ سُولی کا واقعہ بیان کر کے یہی مقام توریت کاپیش کرتے ہیں - اور مَیں اکثر یہودیوں سے جو دریافت کیاتو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں جسمانی رفع سے کچھ غرض نہیں- ہم تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخص توریت کے رو سے ایماندار اور صادق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سُولی دیا گیا- پس توریت فتویٰ دیتی ہے کہ اس اس کا رفع رُوحانی نہیں ہوا- بمبئی اور کلکتہ میں بہت سے یہودی موجود یں جس سے چاہو پوچھ لو یہی جواب دے گا - سو یہی جھگڑا تھا جو فیصلہ کے لائق تھا- خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے اس جھگڑے کا فیصلہ دیا کہ یا عیسیٰ انّی متوفیک و رافیک الیّ یعنی یہ کہ وفات کے بعد حضرت مسیح کا رفع ہوا ہے اور وہ ایمان داروں کے گروہ میں سے ہے نہ اُن میں سے جن پر آسمان کے دروازے بند ہوئے ہیں- مگر جسمانی طور پر کسی آسمان پر جا بیٹھنا نجات کے مسئلہ سے کچھ بھی تعلق اس کو نہیں اور نہ کوئی قرب الہٰی اس سے ثابت ہوتا ہے- آجکل تو ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان پر بھی مجسم مخلوق رہتے ہیں جیسے زمین پر- تو کیا آسمان پر رہنے سے وہ سب نجات یافتہ ہیں- باایں ہمہ یہ خیال سخت غیر معقول ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ حضرت مسیح کے جسم کو آسمان پر پہنچا دے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کے تمام ذرات کو محفوظ رکھتا اور کوئی ذرّہ اُن کے جسم میں تلف ہونے نہ پاتا اور نہ تحلیل ہوتا- تا یہ ظلم صریح لازم نہ آتا کہ بعض حصّے مسیح کے جسم کے ذرات میں تحلیل نہیں ہوئے تو کم سے کم صلیب کے وقت میں حضرت مسیح کا جسم پہلے جسم سے دس حصّے زیادہ چاہیے تھا کیونکہ علم طبعی کی شہادتوں سے یہی ثبوت ملتا ہے اور ثابت شدہ امر ہے کہ تین برس کے بعد پہلے جسم کے اجزاء تحلیل ہو کر کچھ توہوا میں مل جاتے ہیںاور کچھ خاک ہو جاتے ہیں- سو چونکہ مسیح نے تینتیس برس کے عرصے میں دس جسم بدلے ہیں- اس کے آخری جسم کو آسمان پر پہنچانا اور پہلے جسموں کو خاک میں ملانا یہ ایک ایسی بیہودہ حرکت ہے جس کی فلاسفی یقینابشپ صاحب کو بھی معلوم نہیں ہو گی- اب جبکہ عقل اور انجیل اور قرآن شریف سے حضرت مسیح کا آسمان پر معہ جسم جانا ثابت نہیں بلکہ اس عقیدہ پر عقلی اور نقلی طور پر سخت اعتراضات کی بارش ہوتی ہے تو اس خیال کو پیش کرنا میرے نزدیک تو قابل شرم امر ہے کہ سچ ہے کہ لوگ اس طرح پر اپنے رُسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور نہ روحانی قربوں کے لئے اس کی کچھ ضرورت ہے- مگر روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف آیت و اٰخرین منھم لمّا یلحقوا بھم رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانے میں ہو گا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آ رہا ہے اور ایک بڑی دلیل اس بات پر کہ صرف ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم رُوحانی طور پر اعلیٰ زندگی رکھتے ہیں دوسرا کوئی نہیں رکھتا آپ کے تاثیرات اور برکات کا زندہ سلسلہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کے مکالمات سے شرف پاتے ہیں اور فوق العادت خوراق اُن سے صادر ہوتے ہیں اور فرشتے ان سے باتیں کرتے ہیں- دُعائیںان کی قبول ہوتی ہیں- اس کا نمونہ ایک مَیں ہی موجود ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی- یہ تو دلیل حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہے مگر حضرت مسیح کی زندگی پر کون سی دلیل آپ کے پاس ہے - اتنا بھی تو نہیں کہ کوئی پادری صاحب یا مسیح! یا مسیح!! کر کے پکاریں اور آسمان سے مسیح کی طرف سے کوئی آواز آوے کہ تمام لوگ سُن لیں اور اگر اس قدر ثبوت بھی نیہں تو محض دعویٰ قابل التفاف نہیں- اس طرح پر تو سِکّھ صاحب بھی کہتے ہیں کہ بابا نانک صاحب زندہ آسمان پر چلے گئے - پھر جب ہم ان سب باتوں سے الگ ہو کر تاریخی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سارے پردے درمیان سے اُٹھ کر کھلی کھلی حقیقت نظر آ جاتی ہے کیونکہ تاریخ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان ہر نہ جانے کے تین گواہ ایسے پیش کئے ہیں جن سے قطعی طور پر فیصلہ ہو گیا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے اس قول کے مطابق کہ اُن کا قصّہ یونس نبی کے قصّے سے مشابہ ہے قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ وہ قبر مرے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا بلکہ یونس نبی زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے کیونکہ ممکن نہیں کہ مسیح نے اس مثال کے بیان کرنے میں جھوٹ بولا ہو:-
اس واقعہ پر پہلا گواہ تو یہی مثال ہے کہ مسیح کے منہ سے نکلی کیونکہ اگر مسیح قبر میں مُردہ ہونے کی حالت میں داخل کیا گیا تھا تو اس صورت میں یونس سے اس کو کچھ مشابہت نہ تھی پھر دوسرا گواہ اس پر مرہم عیسیٰ ہے- یہ ایک مرہم ہے جس کا ذکر عیسائیوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کی طب کی کتابوں میں اس طرح پر لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی اور یہ کتابیں ہزار نسخہ سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں بہت سی میرے پاس بھی موجود ہیں - پس اس مرہم مرہم سے جس کا نام مرہم عیسیٰ ہے- یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر جانے کا قصّہ غلط اور عوام کی خود تراشیدہ باتیں ہیں- سچ صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے تو بچ گئے تھے مگر آپ کے ہاتھوں اور پیروںپر زخم ضرور آئے تھے اور وہ زخم مرہم عیسیٰ کے لگانے سے اچھے ہو گئے- آپ کے حواریوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی تھا غالباً یہ مرہم اُس نے تیار کی ہو گی چونکہ مرہم عیسیٰ کا ثبوت ایک علمی پیرایہ میں ہم کو ملا ہے جس پر تمام قوموں کے کتب خانے گواہ ہیں- اس لئے یہ ثبوت بڑے قدرکے لائق ہے - تیسرا تاریخی گواہ حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے کا یوز آسف کا قصہ ہے جو آج سے گیارہ سو برس پہلے تمام ایشیا یورپ میں شہرت پا چکا ہے - یوز آسف حضرت مسیح ہی تھے جو صلیب سے نجات پا کر پنجاب کی طرف گئے اور پھر کشمیر میں پہنچے اور ایک سو برس کی عمر میں وفات پائی- اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ یوز آسف کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم ایک ہے اور دوسرے یہ قرینہ کہ یوز آسف اپنی کتاب کا نام انجیل بیان کرتا ہے تیسرا قرینہ میں کہ اپنے تئیں شہزادہ نبی کہتا ہے چوتھا یہ قرنیہ کہ یوز آسف کا زمانہ اور مسیح کا زمانہ ایک ہی ہے- بعض انجیل کی مثالیںاس کتاب میں بعینہ موجودہیںجیسا کہ ایک کسان کی مثال- چوتھا تاریخی گواہ حضرت مسیح علیہ السّلام کی وفات پر وہ قبر ہے جو اب تک محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں موجود ہے- بعض کہتے ہیں کہ یوزا آسف شہردہ نبی کی قبر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عیسٰی صاحب کی قبر ہے اور کہتے ہیں کہ کتبہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ شہزادہ اسرائیل کے خاندان میں سے تھا کہ قریباً اٹھارہ سو برس اس بات کو گزر گئے جب یہ نبی اپنی قوم سے ظلم اُٹھا کر کشمیر میں آیا تھا اورکوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا- اور ایک شاگرد ساتھ تھا- اب بتلائو کہ اس تحقیق میں کونسی کسر باقی رہ گئی- سچائی کو قبول نہ کرنا اور بات ہے کہ لیکن کچھ شک نہیں کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور یوزآسف کے نام پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ نام یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے - آسف بھی حضرت مسیح کا عبرانی میں ایک نام ہے جس کا ذکر انجیل میں بھی ہے اور اس کے معنے یہں متفرق قوموں کو اکٹھا کرنے والا- اب بخوف اندیشہ طول اسی پر مَیں ختم کرتا ہوں اور مَیں تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب آسمان کے نیچے اعلیٰ اور اکمل طور پر زندہ رسُول صرف ایکہے یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم - اسی ثبوت کے لئے خدا نے مجھے مسیح کر کے بھیجا ہے جس کو شک ہو وہ آرام اورآہستگی سے مجھ سے یہ اعلیٰ زندگی ثابت کرالے- اگر مَیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم ہے- دیکھو مَیں آسمان اور زمین کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے - اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے دُنیا زندہ ہو رہی ہے - نشان ظاہر ہو رہے ہیں- برکات ظہور میں آ رہے ہیں غیب کے چشمے کھل رہے ہیں- پس مبارک وہ جو اپنے تئیں تاریکی سے نکال لے- والسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰ء مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۳۱۸ہجری روز جمعہ
( یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸ کے ۶ صفحہ پر ہے ) رفاہ عام سٹیم پریس لاہور
(۲۲۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار معیار الاخیار
اس اشتہار کو منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب اور اولاد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی غور سے پڑھیں اور منشی الہٰی بخش صاحب جواب دیںکہ کیا ان کا الہام سچا ہے یا اُن کے مرشد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا-
انی انا المسیح الموعود فطوبیٰ لمن عرفنی اوعرف مَنْ عَرَفنی
اے لوگو میری نسبت جلد مت کرو اور یقینا جانو کہ مَیں خد اکی طرف سے ہوں- مَیں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں سمجھو اور سوچو کہ دنیا میں کس قدر مفتری ہوئے اور اُن کا انجام کیا ہوا- کیا وہ ذلّت کے ساتھ بہت جلد ہلاک کئے گئے؟ پس اگر یہ کار بار بھی انسانی افتراء ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا کیا ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کو افتراء اور دعوی وحی اللہ کے بعد میری طرح ایک زمانہ دراز تک مہلت دی گئی ہو- وہ مہلت جس میں سے آج تک بقدر زمانہ وحی محمد ی علیہ السلام یعنے قریباً چوبیس برس گزر گئے- اور آئیندہ معلوم نہیں کہ ابھی کس قدر ہیں- اگر پیش کر سکتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ایسے مفتری کانام لو اور اس شخص کی مدّت کا جس قدر زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور *** ہے اس شخص کی مدّت افتراء کاجس قدر زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور *** ہے اس شخص پر جو مجھے جھوٹا جانتا ہے اور پھر یہ نظیر مع ثبوت پیش نہ کرے و ان لم تفعلوا ولن تفعلو فاتقوالنارالتی و قودھا النّاس و لحجارۃ اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلائو کہ کیا تم کسی ایسے مفتری کو بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کے کھلے کھلے نشان تحریر اور ہزاروں شہادتوں کے ذریعہ سے میری طرح بپایہ ثبوت پہنچ گئے ہوں- اے لوگو تم پر افسوس تم نے اپنے ایمانوں کو ایسے نازک وقت میں ضائع کیا جیسا کہ ایک نادان ایسے لق و دق بیابان میں پانی کو ضائع کر دے جس میں ایک قطرہ پانی کا میسر نہیںآ سکتا- خدا نے عین صدی کے سر پر عین ضرورت کے وقت میں تمہارے لئے مجّدد بھیجا اور صدی نے بھی چودھویں صدی جو اسلام کے ہلال کو بدر کرنے کے لئے مقرر کی گئی تھی جس کی تم اور تمہارے باپ دادے انتظار کرتے تھے اور جس کی نسبت اہل کشف کے کشفوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور دوسری طرف مجّدد کے ظہور کے لئے ضرورتیں وہ پیش آئی تھیں جو کبھی نبوت کے زمانہ کے بعد پیش نہ آئیں مگر آپ لوگوں نے پھر بھی قبول نہ کیا- اس مہدی کے وقت میں جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے خسوف کسوف بھی رمضان میں ہوا جو قریباً گیارہ سو برس سے تمہاری حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود تھا مگر پھر بھی آپ لوگوں کے دلوں میں کچھ سوچ پیدا نہ ہوئی- یہ ضرورتیں اور صدی خالی گئی- کیا تم کوئی بھی سوچنے والا نہیں؟ مَیں نے بار بار کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں- مَیں نے بلند آواز سر ہر ایک کو پکار ا جیسا کہ کوئی پہاڑ پر چڑھ کر نعرے مارتا ہے- خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھو اور ان لوگوں کو کہہ دے میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی کو رد کر دو گے- خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اس کے الفاظ یہ ہیں قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مومنون- قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون- قل ان کنتم تحبّون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ وقل یا آیھا النّاس انی رسُول اللہ ا لیکم جمیعا ای مرسل من اللّٰہ-
غرض خدا کے روشن نشان میرے ساتھ ہیں اسی کی مانند جو خدا کے پاک نبیوں کے ساتھ تھے مگر آپ لوگوں کو روحوں میں کچھ حرکت نہ ہوئی- اس سے دل درد مند ہے کہ آپ لوگوں نے ایسی قابل شرم غلطی کھائی اور نور کو تاریکی سمجھا- مگر آپ لوگ اے اسلام کے علماء اب علماء اب بھی قاعدہ کے موافق جو سچّے نبیوں کی شناخت کے لئے مقرر کیا گیا ہے قادیان سے کسی قریب مقام میں جیسا کہ مثلاً بٹالہ ہے یا اگر آپ کو انشراح صدر میسّر آوے تو خود قادیان میں ایک مجلس مقرر کر یں جس مجلس کے سرگروہ آپ کی طرف سے چند ایسے مولوی صاحبان ہوں کہ جو علم اور برداشتاور خوف باری تعالیٰ میں آپ لوگوں کے نزدیک مسلّم ہوں- پھر ان پر واجب ہو گا کہ منصفانہ طور پر بحث کریں اور ان کا حق ہو گا کہ تین طورسے مجھ سے اپنی تسلّی کرلیں- (۱) قرآن اور حدیث کے رو سے (۲) عقل کی رو سے (۳) سماوی تائیدات اور خوراق اور کرامات کی رو سے- پس اگر مَیں ان تینوں طوروں سے ان کی تسلّی نہ کر سکا یا اگر ان تینوں میں سے صرف ایک یا دو طور سے تسلّی کی تو تمام اور حلف کی رو سے انکار نہ کر سکیں اور نیز وزن ثبوت میں ان دلائل کی نظیر پیش نہ کر سکیں تو لازم ہو گا کہ تمام مخالف مولوی اور اُن کے نادان پیرو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور کروڑوں انسانوں کے گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر نہ لیں-
اور اس جگہ مَیں بالخصوص اُن صاحبوں کو مندرجہ ذیل شہادت کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو مولوی عبد اللہ غزنوی کی نسبت جن کی اولاد مولوی عبد الواحد صاحب اور عبد الجبار صاحب امرت سر میں موجود ہیں راست بازی کا اعتقاد رکھتے ہیں یا خود اُن کے فرزند ہیں-
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مجھے میرے مخالفوں کے گروہ میں سے وہ شخص کے ذریعہ سے خبر پہنچی ہے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے میرے ظہور کی نسبت پیشگوئی کی تھی- ان دونوں صاحبوں میں سے ایک صاحب نے نام حافظ محمد یوسف ہے جو داروغہ نہر ہیں اور غالباًاب مستقل سکونت امرتسر میں رکھتے ہیں- دوسرے صاحب منشی محمد یعقوب نام ہیں اور یہ دونوں حقیقی بھائی ہیں اور یہ دونوں صاحب عبد اللہ صاحب کے خاص متعقدین اور مصاحبین میں سے ہیں جس سے کسی صاحب کو بھی انکار نہیں اور ان کی گواہیاں اگرچہ دو ہیں مگرحاصل مطلب ایک ہی ہے- حافظ محمد یوسف صاحب کا حلفی بیان جس ک غالباً دو سو کے قریب گواہ ہو ں گے یہ ہے کہ ـ’’ ایک دن عبد اللہ صاحب نے مجھے فرمایا کہ مَیں نے کشفی طورپر دیکھا ہے کہ ایک نو ر آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے اورمیری اولاد اس سے محروم رہ گئی ہے یعنی اس کو قبول نہیں کیا اور وہ انکار اور مخالفت پر مرے گی اور منشی محمد یعقوب صاحب کا ایک تحریری بیان ہے جو ایک خط میں موجود ہے جو ابھی اپریل ۱۹۰۰ء کو بذریعہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ سے مجھ کو پہنچا ہے جس کو انہوں نے بتاریخ ۲۴ اپریل ۱۹۰۰ء اپنے ہاتھ سے لکھ کر منشی ظفر احمد صاحب کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے میرے پاس بھیج دیا جو اس وقت میرے سامنے رکھا ہے اور جو شخص چاہے دیکھ سکتا ہے - مگر مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس تمام حقیقت کے سمجھانے کے لئے وہ حالات بھی لکھ دوں جو مجھے معلوم ہیں کیونکہ جو کچھ خط میں ایک کمزور عبارت میں لکھا گیا ہے اسی کو منشی محمد یعقوب صاحب ایک بڑے شدّ و مد میرے سامنے بیان کر چکے ہیں- مگر چونکہ اب وہ اور اُن کے دُنیا سے پیار کرنے والے بھائی حافظ محمد یوسف شیعوں کی طرح خلافتِ حقّہ سے انکار کر کے تقیّہ کے رنگ میں بسر کررہے ہیں- اس لئے اب اُن کے لئے ایک موت ہے کہ سچّا واقعہ مجلس میں اسی شدّ و مد کے ساتھ منہ پر لاویںتا ہم امید نہیں کہ وہ اس شہادت کو مخفی رکھیں کیونکہ حق کو چھپانا لعنتیوں کا کام ہے نہ قرآن شریف کے حافظوں کا- اس لئے ہم بھی منتظر ہیں کہ ان کی طرف سے کیا آواز آئی ہے- منشی محمد یعقوب صاحب تو بوجہ اس خط کے قابو میں آ گئے ہیں مگر حافظ محمد یوسف صاحب کے لئے اس وقت تک حیلہ بازی کی راہ کھلی ہے جب تک قرآن شریف ہاتھ میں دے کر ایک مجمع مسلمانوں میں قسم کے ساتھ ان سے پوچھا نہ جائے- ٭
القصّہ جو میرے سامنے منشی محمد یعقوب صاحب نے کہا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بمقام امرتسر مولوی عبد الحق غزنوی سے میرا مباہلہ ہوا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری سچائی ظاہر کرنے کے لئے ستر کے قریب نشان ظاہر کئے جن کے ہزار ہا انسان گواہ ہیں- ایسا اس کے بعد ہزار ہانیک دل لوگوں کو میری بیعت میں داخل کیا جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں- جنہوں نے اپنا صدق ظاہر کرنے کے لئے ہمارے سلسلہ کی تائید میں تیس ہزار کے قریب روپیہ دیا ہو گا- ایسا ہی خدا تعالیٰ نے مجھے اس مباہلہ کے بعد پیشگوئی کے موافق کئی فرزند عطا فرمائے اور ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمد ٭ ظاہر فرمایا کہ عبدالحق نہیں مرے گا جب تک وہ پیدا نہ ہو -٭ یعنی مباہلہ کے بعدیہ ذلّت بھی اس کو نصیب ہو گی کہ اس کی بیوی کا حمل خطا جائے گا اور اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلے گی - مگر میری تصدیق کے لیے اس کی زندگی میں چوتھا لڑکا پیدا ہو گا- ایسا ہی خدا نے مباہلہ کے بعد لاکھوں انسانوں میں عزّت کے ساتھ مجھے شہرت دی اور مخالفون کی ذلّت اور نامرادی ثابت کر کے دکھلا دی- اس مباہلہ کے میدان میں ایک کثیر جماعت کے رو برو منشی محمد یعقوب صاحب نے کھڑے ہو کر میری نسبت بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ایک نور پیدا ہو گا جس سے دُنیا کے چاروں طرف روشنی ہو جائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جو قادیان میں رہتاہے- یہ وہ گواہی ہے کہ جو منشی محمد یعقوب نے بمقام امرت سر محمد شاہ صاحب کی مسجد کے قریب ایک میدان میں کھڑے ہو کر قریباً دو سو آدمی کے رو برو دی تھی اور اب جو ۳۰ اپریل ۱۹۰۰ء کو منشی صاحب مذکور کا اس جگہ خط پہنچا اس کی عبارت یہ ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں-
’’ میرے اشفاق فرمائے منشی ظفر احمد جی زاد لطفہ‘- السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘ آج ۲۲ اپریل ۱۹۰۰ء کو آپ کا عنایت نامہ صادر ہوا-دریافت خریت سے بہت خوشی ہوئی- اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ بامن خود رکھ کر خواہش دلی پر پہنچا وے- آپ میرے بیان کو بالکل بھول گئے - مَیں نے تو اس صورت میں بیان کیا تھا کہ میرے گھر میں خواب دیکھا تھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور درمیان آسمان اور زمین کے آ کر اُس کے چار ٹکڑے ہو کر ہر چہار ٹکڑے ہر ایک گوشہ دُنیا میں گرے اور گرے ہوئے ہر چہار گوشہ میں بہت شور سے شعلہ زن ہوئے - یہ خواب بندہ نے علی الصباح مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے بیان کر کے تعبیر دریافت کی فرمایا قریب ہے کہ کوئی شخص اللہ کی طرف سے پیدا ہو جس کے سبب سے دُنیا کے ہر گوشہ سے دین کی ترقی ہو- اور ساتھ ہی ایسا بھی فرمایا کہ شاید مرزا قادیان سے ظہور ہو- یعنے اس نور کا ظہور مرزا قادیانی کے وجود سے ہو- فقط ‘‘
اب یہ دو گواہیاں ان دونوں انسانوں کی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی ذلیل دُنیا کی مصلحت سے میرے مخالف ہیں- یہ دونوں صاحب کے رفیق اور مصاحب تھے- ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ ان صاحبوں سے حلفاً دریافت کر لو کہ ان کا یہ خط ہے یا نہیں- اور حافظ محمد یوسف صاحب کی گواہی کا نہ ایک دو بلکہ دو سو آدمی گواہ ہے و لعنۃ اللہ علی الکاذبین- اب اگر مولوی عبد اللہ صاحب کی اولاد کے دل میں کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے باپ کی پیشگوئی کو عزّت کی نگاہ سے دیکھیں- ہاں اس پیشگوئی میں یہ بھی ہے کہ وہ اس نور کو قبول نہیں کریں گے- اور محروم رہ جائیں گے- سو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے اگر محروم کے لفظ کے یہی معنے ہیں جوس مجھے گئے تو پھر قضا و قدر کے مقابل پر کیاپیش جا سکتی ہے- لیکن ہم خاص طور پر منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ کو اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ ان کے مرشد کی پیشگوئی ہے جس کو وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ عزت دیتے ہیں- ہاں اگراُن کا شک ہو تو حافظ محمد یوسف صاحب اور منشی محمد یعقوب سے قسمیہ دریافت کرلیں- اس قدر کافی ہو گا کہ ا گر وہ اس بیان کو تصدیق نہ کریں تو اتنا کہہ دیں کہ میرے پر خدا کی *** ہو اگر مَیںنے جھوٹ بولا ہے- اور نیز ذرہ شرم کر کے اس بات کو سوچیں کہ وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ صد ہا الہامات سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور دجّال اور مفتری ہے اور ان کا مرشد عبد اللہ غزنوی یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص خدا کا نور ہے اور اس سے محروم خدا سے محروم ہے- اب بابو الہٰی بخش صاحب تبلائیں کہ اُن کا کشف جھوٹا ہے یا اُن کے مُرشد مولوی عبد اللہ کا- اور اب ہم بہت انتظار کے بعد اس کے ذیل میں اپنا وہ خط درج کرتے ہیں جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا اور وہ یہ ہے -
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
از جانب متوکل علی اللہ الاحد غلام احمد عافاہ اللہ و ایدّ- بخدمت مکرم بابو الہٰی بخش صاحب السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘
بعد ہذا اس عاجز کو اس وقت تک آں مکرم کے الہامات کی انتظار رہی-مگر کچھ معلوم نہیں ہوا کہ توقف کا کیا باعث ہے- مَیں نے سراسر نیک نیتی سے جس کو خدائے کریم جانتا ہے یہ درخواست کی تھی تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان متناقض الہامات میں کچھ فیصلہ ہو جائے کیونکہالہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقع ملتاہے اور اس طرح پر دین کا استخفاف ہوتا ہے- بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ ایک شخص کو تو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مومنوں سے بہتر اور افضل اور مثیل الا نبیاء اور مسیح موعود کا مجدّد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کی مانند اور خدا کا مرسل ہے اور اس کی درگاہ میں وجیہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کی مانند ہے اور اودھر سے دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر اور ایسااور ایسا ہے - ایسا ہی اس شخص کو تو یہ الہام کر ے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا- اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں- پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسلام پر یہ مصیبت ہے کہ ایسے مختلف الہام ہوں اور مختلف فرقے پیدا ہوں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوں- اس لئے ہمدردیٔ السام اسی میں ہے کہ ان مختلف فرقے پیدا ہوں جوا یک دوسرے کے سخت مخالف ہوں- اس لئے ہمدردی السام اسی میں ہے ہ ان مختلف الہامات کافیصلہ ہو جائے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی فیصلہ کی راہ پیدا کر دے گا- اور اس مصیبت سے مسلمانوں کو چھوڑے گا- لیکن فیصلہ تب ہو سکتا ہے کہ ملہمین جن کو الہام ہوتا ہے وہ زنانہ سیرت اختیار نہ کریں اور مرد میدان بن کر جس طرح کے الہام ہوں وہ سب دیانت کے ساتھ چھاپ دیں اور کوئی الہام جو تصدیق کے متعلق ہو پوشیدہ نہ رکھیں- تب کسی آسمانی فیصلہ کی امید ہے- اسی وجہ سے مَیں نے اللہ تعالیٰ کی قسمیں آپ کو پہلے خط میں دی تھیں تا آپ جلد تر اپنے الہام میری طرف بھیج دیں مگر آپ نے کچھ پرواہ نہیں کی اور میرے نزدیک یہ عذر آپ کا قبول کے لایق نہیں کہ آپ کو مخالفانہ الہام میں اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ایک مدّت ان کی تشریح کے لئے چاہیے- میرے خیال میںیہ کام چند منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہے اور غایت درجہ دو گھنٹہ تک مع تشریح و تفسیر آپ لکھ سکتے ہیں اور اگر کسی کتاب کی تالیف کا ارادہ ہے تو اس کو اس سے کچھ تعلق نہیں- مناسب ہے کہ آپ اس امت پر رحم کر کے اور نیز خدا تعالیٰ کی قسموں کی تعظیم کر کے بالفعل دو تین سو الہام ہی جو گھنٹہ ڈیڑھ کا کام ہے چھپوا کر روانہ فرماویں- یہ تو میںتسلیم نہیں کر سکتا کہ الہامات کی بڑی بڑی عبارات ہیں- بلکہ ایسی ہوں گی جیسا کہ آپ کا الہام ’’ مسرت‘‘ ’’ کذاب‘‘ تو اس صورت میں آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے الہام کاغذ کے ایک صفحہ میں کس قدر آ سکتے ہیں- مَیں پھر آپ کو اللہ جل شانہ‘ کی قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے بمجرو پہنونچنے اس خط کے اپنے الہامات چھپوا کر روانہ فرماویں- مجھے اس بات پر بھی سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے بیوجہ میری یہ شکایت کی کہ گویا مَیں نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی کوئی بے ادبی کی ہے آپ جانتے ہیں کہ میری گفتگو صرف اس قدر تھی کہ آپ مولوی محمد حسین کو کیوں بُرا کہتے ہیں حالانکہ آپ کے مُرشد مولوی عبد اللہ صاحب اس کے حق میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ وہ تمام عالموں کے لئے رحمت ہے اور سب اُمت سے بہتر ہے- یہ قرآنی الہام تھے جن کا مَیں نے ترجمعہ کر دیا ہے- اس صورت میں اگر شک تھا تو آپ مولوی محمد حسین سے دریافت کر لیتے- سچّی بات پر غصہ کرنا مناسب نہیں ہے پھر ما سوا اس کے جس دعویٰ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کے مقابل پر عبد اللہ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایا ہے- مَیں یقینا جانتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے تو وہ میرے تابعداروں اور خادموں میں داخل ہوجاتے- ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے آگے گردن خم کرنا اورغربت اور چاکری کی راہ سے اطاعت اختیار کر لینا- ہر ایک دیندار اور سچّے مسلمان کا کام ہے - پھر وہ کیونکر میری اطاعت سے باہر رہ سکتے تھے- اس صورت میں آپ کا کچھ بھی حق نہیں تھا- اگرمَیں حَکمْ ہونے کی حیثیت سے اُن میں کچھ کلام کرتا- آپ جانتے ہیں کہ خدا اور رسُول نے مولوی عبد اللہ کا کوئی درجہ مقرر نہیں کیا اور انہ اُن کے بارے میں کوئی خبر دی- یہ فقط آپ کا نیک ظن ہے جو آپ نے اُن کو نیک ہمیں خبر ہے وہ پابند نماز تھے- رمضان کے روزے رکھتے تھے اور بظاہر دیندار مسلمان تھے اور اندرونی حال خدا کو معلوم -
حافظ محمد یوسف صاحب نے کئی دفعہ قسم یاد کرنے سے یقین کامل سے کئی مجلسوں میں میرے رو برو بیان کیا کہ ایک دفعہ عبد اللہ صاحب نے کسی خواب یا الہام کی بناء پر فرمایا تھا کہ آسمان سے ایک نُور قادیان میں اگر جس کے فیضان سے اُن کی اولاد بے نصیب رہ گئی- حافظ صاحب زندہ ہیں اُن سے پوچھ لیں٭ پھر آپ کی شکایت کس قدر افسوس کے لایق ہے- اور اللہ جل شانہ خوب جانتا ہے کہ ہمیشہ مولوی عبد اللہ غزنوی کی نسبت میرا نیک ظن رہا ہے اور اگرچہ بعض حرکات ان کی مَیں نے ایسی بھی دیکھیں کہ اس حُسن ظن میں فرق ڈالنے والی تھیں تا ہم مَیں نے اُن کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور ہمیشہ سمجھتا تہا کہ مَیں انکو ایسے درجہ کا انسان خیال کرتا کہ جیسے خدا کے کامل بندے مامورین ہوتے ہیں اور مجھے خدا نے اپنی جماعت کے نیک بندوں کی نسبت وہ وعدے دیئے ہیں کہ جو لوگ اُن وعدوں کے موافق میری جماعت میں رُوحانی نشوونما پائیں گے اور پاک دل ہو کر خدا سے پاک تعلق جوڑ لیں گے مَیں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ مَیں ان کو صد ہا درجہ مولوی عبد اللہ غزنوی سے بہتر سمجھوں گا اور سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو وہ نشان دکھلاتا ہے کہ جو مولوی عبد اللہ صاحب نے نہیں دیکھے اور اُن کو وہ معارف سمجھاتا ہے جن کی مولوی عبد اللہ کو کچھ بھی خبر نہیں تھی اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی سے مسیح موعود کر پایا اور اُسے قبول کیا مگر مولوی عبد اللہ اس نعمت سے محروم گزر گئے- آپ میری نسبت کیسا ہی بد گمان کریں اس فیصلہ تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے- لیکن مَیں بار بار کہتا ہوں کہ مَیں وُوہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکرؓ کے درجہ پر ہے تو انہوں کے جواب دیا کہ ابو بکرؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے- یہ خدا تعالیٰ کی عطا کی تقسیم ہے- اگر کوئی بخل سے مَر بھی جائے تو اس کو کیا پرواہ ہے- اورجو شخص مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے ذکر سے مجھ پر ناراض ہوتا ہے اس کو ذرا خدا سے شرم کر کے اپنے نفس سے ہی سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ عبد اللہ اس مہدی و مسیح موعود کے درجہ پر ہو سکتاہے- جس کو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اور فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ امت جو دوپنا ہوں کے اندر ہے ایک مَیں جو خاتم الانبیاء ہوں اور ایک مسیح موعود جو ولایت کے تمام کمالات کو ختم کرتاہے اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو نجات پائیں گے- اب فرمایئے کہ جو شخص مسیح موعود سے کنارہ کر کے عبداللہ غزنوی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوتا ہے اس کا کیا حال ہے- کیا سچ نہیں ہے کہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کے صلحاء اور اولیاء او ابدال اورقطبعں اور غوثوں میں سے کوئی مسیح موعود کی شان اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا- عبد اللہ غزنوی کا ذکر کرنا اور بار بار شکایت کرنا کہ عبد اللہ کے حق میں یہ کہا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کریمؐ کی وصیتوں سے لا پروائی ہے کیا نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ عبد اللہ غزنی سے نکالا جائے گا اورپنجاب میں آئے گا اس کو تم مان لینا اور میرا سلام اس کو پہنچانا؟ یا یہ نصیحت فرمائی تھی کہ غلبہ صلیب کے وقت مسیح موعود پر ظاہر ہر گا اور وہ نبیوں کی شان لے کر آئے گا اور خدا اس ہاتھ پر صلیبی مذہب کو شکست دے گا اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام پہونچانا؟ اور اگر یہ کہو کہ وہ تو آ کرنصاریٰ سے لڑے گا اور ان کو صلیبوں کو توڑے گا اور ان کو خنزیروں کو قتل کرے گا تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ علماء اسلام کی غلطیاں ہیں بلکہ ضرور تھا کہ مسیح موعود نرمی اور صلحکاری کے ساتھ آتا اور صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا- اور نہ تلوار اٹھائے گا بلکہ اس کا حربہ آسمانی حربہ ہو گا اور اس کی تلوار دلائل قاطعہ ہو گی- سو وہ اپنے وقت پر آ چکا- اب کسی فرضی مہدی اور فرضی مسیح موعود کی انتظار کرنا اور خونریزی کے زمانہ کا منتظر رہنا سراسر کوتہ فہمی کا نتیجہ ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر بہت سے نشان دکھلائے اور ایسے یقینی طورپر ظاہر ہو ئے کہ تیرہ سو برس کے زمانہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ان کی نظیر نہیں پائی جاتی- اسلامی اولیاء کی کرامات ان کی زندگی سے بہت پیچھے لکھی گئی ہیں- اور اُن کی شہرت صرف اُن کے چند مُریدوں تک محدود تھی- لیکن یہ نشان کر وڑ ہا انسانوں میں شہرت پا گئے ٭ مثلاً دیکھو کہ لیکھرام کی پیشگوئی کو کیونکر فریقین نے اپنے اس پیشگوئی کا مضمون پا گیا اور تین قومیں ہندو مسلمان عیسائی اس پر گواہ ہو گئیں- پھر اسی کرو فر سے وہ پیشگوئی ظہور میں بھی آئی اور اُسی طرح لیکھرام قتل کے ذریعہ سے فوت ہوا-جیسا کہ پیش از قت ظاہر کیا گیاتھا- کیا ایسی ہیبت ناک پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا اس ملک کی تین قوموں میں اس قدر شہرت پا کر اور کُشتی کی طرح لاکھوں انسانوں کے نظارہ کے نیچے آ کر اس کاپورا ہو جانا ایسی پیشگوئی کی جو اس شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی ہو تیرہ سو برس کے زمانہ میں کوئی نظیر بھی ہے؟ بعض کا یہ کہنا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اس کا جواب بجز اس کے ہم کیا دیں کہ لعنۃ اللّٰہ علیٰ الکاذبین- ا گر ان لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ نور انصاف ہوتا تو وہ شُبہ کے وقت میرے پاس آتے تو مَیں اُن کو بتلاتا کہ کس خوبی سے تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں ہاں ایک پیشگوئی ہے جس کا ایک حصّہ پورا ہو گیا اور ایک حصّہ شرط کے اثر کی وجہ سے باقی ہے جو اپنے وقت پر پورا ہو گا- افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی وہ سنتیں اور قانون بھی معلوم نہیں جو پیش گوئیوں کے متعلق ہیں- ان کے قول کے مطابق تو یونس نبی بھی چھوٹا تھا جس نے اپنی پیشگوئی کے قطعی طورپر چالیس دن مقرر کئے تھے مگر وہ لوگ چالیس برس سے بھی زیادہ زندہ رہے- اور چالیس دن میں نینوا کا ایک تنکا بھی نہ ٹوٹا بلکہ یونس نبی تو کیا تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ نظیریں ملتی ہیں-پھر اخیر پر خدا تعالیٰ کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہو لکھ کر چھاپ دیں- اب دس دن سے زیادہ مَیں آپ کو مہلت نہیں دیتا- جُون مہینے کی ۳۰ تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے پاس آ جانا چاہیے-٭ ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گا اور پھر آیندہ آپ کو کبھی مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہو گا-
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد عفی ۱۶ جون ۱۸۹۹ء
بابو الہٰی بخش صاحب کو میں نے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے مخالفانہ پیشگوئیوں کے شائع کرنے کے لئے مہلت دی تھی مگر مَیں نے بجائے دس دن کے برس زیادہ انتظار کر کے اب یہ خط شائع کیا ہے- ان کو یاد کرنا چاہیے- کہ ان کا ایک وعدہ تھا اور کیا ظہور میں آیا-
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے)
(۲۲۱)
ضمیمہ خطبہ الہامیہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار چندہ منارۃ المسیحؑ
’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘
(یہ وہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو شائع ہوئے بیس برس گزر گئے )
خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والد صاحب درہم برہم ہو جائے لیکن جوںجوں وہ بیخکنی کے لئے کوشش کرتے گئے اور وہ بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا- سو یہ ایسا امر ہے ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے- اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو اس مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا- مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی-
اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اور تجویز قرارپائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی مشرقی طرف جیسا کہ احادیث رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہے ایک نہایت اُونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کے لئے مخصوص ہو-
اوّل : یہ کہ تا مؤذن اس پر چڑھ کر پنچوقت بانگ نماز دیا کرے اور تا خداکے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ وفعہ تبلیغ اور تا مختصر لفظوں میں پنچوقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کو تمام انسانوں کو کوشش کرنی چاہیے صرف ہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کرتا ہے- اس کے سوا زمین میں نہ آسمان میں کوئی خدانہیں-
دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہو گا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اُونچے حصّے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہو گی- یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی-
تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہو گا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اُونچے حصّے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چار پانسو روپیہ کی قیمت کا ہو گا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت شناسی کی طرف توجہ ہو-
یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں-
اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اُونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آ گیا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنونچے- یعنی اب وقت خود بولتا ہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خدا کے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد صلے اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں - کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ ماننے والے کوئی برکت اُن سے پا نہیں سکتے- کوئی نشان دکھلا نہیں سکتے-
دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی- اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا ز مانہ آ گیا ہے اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اور اس روشنی کی ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے-
تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصّہ میں دیوار میںنصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا اب سے زمینی جہاد بند ہو گیا ہے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا-
سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا -اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نا فرمان ہے- صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنے یضع الحرب جس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا- سو مسیح آ چکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے -
غرض حدیث نبوی میں جو مسیح کی نسبت لکھا گی تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعو د کا وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے- یہ اشارہ ریل اور تار اگن بوٹ اور انتظام ڈاک کی طرف تھا جس نے تمام دُنیا کو ایک شہر کی مانند کر دیا- غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دُنیا میں پھیلے گی اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میّسر نہیں آئیں- اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کا آنا ایسے زمانہ میں ہو گا جیس اکہ بجلی آسمان کے ایک کنارہ میںچمک کر تمام کناروں کو ایک دم روشن کر دیتی ہے- یہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ تھا - یہی وجہ ہے کہ چونکہ مسیح تمام دُنیا کو روشنی پہنچانے آیا ہے اس لئے اس کو پہلے سے یہ سب سامان دیئے گئے- وہ خون بہانے کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیاکے لئے صلح کاری کا پیغام لایا ہے- اب کیوں انسانوں کے خون کئے جائیں- اگر کوئی سچ کاطالب ہے تو وہ خدا کے نشان دیکھے جو صد ظہور میں آئے اور آ رہے ہیں اور اگر خدا کا طالب نہیں تو اس کو چھوڑ دو اس کے قتل کی فکر میںمت ہو کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ آخری دن نزدیک ہے جس سے تمام دنیا میں آئے ڈراتے رہے-
غرض یہ گھنٹہ جو وقت شناسی کے لئے لگایا جائے گا- مسیح کے وقت کے لئے یاد دلائی ہے- اور خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور یہ کہ احادیث نبویہ میںمتواتر آ چکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المنارہ ہو گا یعنی اس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہار تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو- اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اسی کی مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند مینار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آ جاتی ہے- سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ھوا لذی ارسل رسولہ یا لھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علے الدّین کلّہ- یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجّت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاس کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی عمارت اُونچی نہیں- اسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے جو کتاب مذکور کے صفحہ ۵۲۲ میں درج ہے اور وہ یہ ہے ’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘ ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے اور ایک روایت میں خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصیٰ کے شرقی منارہ کے قریب ہو گا- ٭
اب اے دوستو یہ منارہ اس لئے طیار کیا جاتا ہے کہ تا حدیث کے موافق مسیح موعود کے زمانہ کی یادگار ہو اور نیز وہ عظیم پیشگوئی پوری ہو جائے جس کا ذکر قرآن شریفکی اس آیت میں ہے کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہٖ لیلاً من المسجد الحرامالی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ اور جس منارہ کا ذکر حدیث میں بھی ہے کہ مسیح کا نزول منارہ کے پاس ہو گا- دمشق کا ذکر اس حدیث میں جو مسلم نے بیان کی ہے-
اس غرض سے ہے کہ تین خدا بنانے کی تخمریزی اوّل دمشق سے شروع ہوئی ہے اور مسیح موعود کا نزول اس غرض سے ہے کہ تا تین کے خیالات کو محو کر کے پھر ایک خدا کا جلال دُنیا میں قائم کرے - پس اس ایما کے لئے بیان کیا گیاکہ مسیح کا منارہ جس کے قریب اس کا نزول ہو گا دمشق سے شرقی طرف ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور اس سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے - وہ دمشق سے ٹھیک ٹھیک شرقی جانب پر پڑی ہے- پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ منارہ المسیح بھی دمشق سے شرقی جانب واقع ہے- ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ دمشق کے لفظ پر خوب غور کر کے اس میں حکمت کیا ہے کہ یہ لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف نازل ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی قرارداد باتیں صرف امور اتفاقیہ نہیں ہو سکتے- بلکہ اُن کے نیچے اسرار اور رموز ہوتے ہیں وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام باتیں رموز اور اسرار سے پُر ہیں-
اب ہمارے مخالف گو اس دمشقی حدیث کو بار بار پڑھتے ہیں مگر وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے کہ جو اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعودکی شرقی طرف کے منارہ کے قریب نازل ہو گا اس میں بھید ہے - بلکہ انہوں نے محض ایک کہانی کی طرح اس حدیث کو سمجھ لیا ہے- لیکن یاد رہے کہ یہ کہانی نہیں ہے اور خدا تعالیٰ لغو کاموں سے پاک ہے بلکہ اس حدیث کے الفاظ میں جو اوّل دمشق کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے شرقی طرف ایک منارہ قرار دیا کہ ایک عظیم الشان راز ہے اور وہ دہی ہے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں یعنے یہ تثلیث اور تین خدائوں کی بنیاد دمشق سے ہی پڑی تھی- کیا ہی منحوس وہ دن تھا جب پولوس یہودی ایک خواب کا منصوبہ بنا کر دمشق میں داخل ہوا - اور بعض سادہ لوح عیسائیوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ خداوند مسیح مجھے دکھائی دیا اور اس تعلیم کے شائع کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ گویا وہ بھی ایک خدا ہے- بس وہی خواب تثلیث کے مذہب کی تخمریزی تھی - غرض یہ شرک عظیم کا کھیت اوّل دمشق میں ہی بڑھا اور پھولا اور پھر یہ زہر اور اور جگہوں میں پھلتی گئی- پس چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اوّل دمشق میں ہی رکھا گیا اس لئے خدا نے اس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرت خدا وندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی- پھر دمشق کا ذکر فرمایا اور کہا کہ مسیح کامنارہ لینے اس کے نور کے ظاہر ہونے کی جگہ دمشق کی مشرق طرف ہے- اس عبارت سے یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ منارہ دمشق کی ایک جزو ہے اور دمشق میں واقع ہے جیسا کہ بد قسمتی سے سمجھا گیا- بلکہ مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتا ب کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دُور کر ے گا اور یہ ایک لطیف اشارہ تھا کیونکہ مسیح کے منارہ کو جس کے قریب اس کا نزول ہے دمشق کے مشرقی طرف قرار دیا گیا اور دمشقی تثلیث کو اس کے مغربی طرف رکھا اور اس طرح پر آنے والے زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو آفتاب کی طرح جو مشرق سے نکلتا ہے ظہورفرمائے گا اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے دن بدن مردہ ہوتا جائے گا- کیونکہ مشرق سے نکلنا خدا کی کتابوں سے اقبال کی نشانی قرار دی گئی ہے اور مغرب کی طرف جانا ادباء کی نشانی - اور اسی نشانی کی طرف ایماء کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو جو مسیح موعود کا نزول گاہ ہے- دمشق سے مشرق کی طرف آباد کیا اور دمشق کو اس سے مغرب کی طرف رکھا- بڑا دھوکہ ہمارے مخالفوں کو یہ لگا ہے کہ انہوں نے حدیث کے لفظوں میں یہ دیکھ کر مسیح موعود اس منارہ کے قریب نازل ہو گا جو دمشق کی شرقی طرف ہے یہ سمجھ لیا کہ وہ منارہ دمشق میں ہی واقع ہے- حالانکہ دمشق میں ایسے منارہ کا وجود نہیں - اوریہ خیال کیا جہ اگر کہا جائے کہ اگر مثلاً فلاں ہر جگہ فلاں شہر کے شرقی طرف ہے تو کیا ہمیشہ اس سے یہ مراد ہوا کرتا ہے کہ وہ جگہ شہر سے پیوستہ ہے- اور اگر حدیث میں ایسے لفظوں اور اگر حدیث میں ایسے لفظ بھی ہوتے جن سے قطعی طور پر یہی سمجھا جاتا کہ وہ منارہ دمشق کے ساتھ پیوستہ ہے- اور اگر دوسرے احتمال کی راہ نہ ہوتی تا ہم ایسا بیان دوسرے قرآئن کے مقابلہ پر قابل قبول نہ ہوتا- مگر اب چونکہ حدیث پر غور کرنے سے صاف طورپر سمجھ آتا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ منشاء کہ وہ منارہ دمشق کے شرقی طرف ہے نہ درحقیقت اس شہر کاایک حصّہ تو دیانت سے بعید اور عقل مندی سے دُور ہے کہ خدا تعالیٰ کی ان حکمتوںاور بھیدوں کو نظر انداز کر کے جن کو ہم نے اس اشتہار میں بیان کر دیا ہے بیوجہ اس بات پر زور ڈالا جائے کہ وہ منارہ جس کے قریب مسیح کا نزول ہے وہ دمشق میں واقع ہے بلکہ جناب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اس منارہ سے اُس مسجد اقصیٰ کا منارہ مُراد لیا ہے جو دمشق سے شرق طرف واقع ہے یعنی مسیح موعود کی مسجد جو حال میں وسیع کی گئی ہے اور عمارت بھی زیادہ کی گئی- اور یہ مسجد فی الحقیقت دمشق سے شرقی طرف واقع ہے- اور یہ مسجد صرف اس غرض سے وسیع کی گئی اور بنائی گئی ہے کہ تا دمشقی مفاسد کی اصلاح کرے اور یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیث نبویہ میں تسلیم کی گئی- اور اس منارۃ المسیح کا خرچ دس ہزار روپیہ سے کم نہین - اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے مَیں یقینا سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے- اور مَیں یقینا جانتا ہوںکہ ایسے موقع پر خرچ کرنا ہر گز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہو گا- وہ خدا کو قرض دیں گے اور معہ سود واپس لیں گے- کاش ان کے دل سمجھیں کہ اس کام کی خدا کے نزدیک کس قدر عظمت ہے- جس خدا نے منارہ کاحکم دیا ہے - اس نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مردہ حالت میں اسی جگہ سے زندگی کی رُوح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کامیدان ہو گا مگر یہ فتح ان ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ہو گی جو انسان بناتے ہیں بلکہ آسمانی حربہ کے ساتح ہے جس سے فرشتے کام لیتے ہیں- آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا- اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اُٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رُسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے - کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے- سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں- ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے- خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں- پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے- اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی ہے - وہ ہمارے سیّد رسول صلے اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیئے گئے- لہذامسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے- جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے- اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچائو مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو- جو شخص ایک شخص کو اس غرض سے تلخ دوا دیتا ہے کہ تا وہ اچھا ہو جائے وہ اس نیکی کرتا ہے- ایسے آدمی کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ اس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا- ہر ایک نیکی اور بدی نیّت سے ہی پیدا ہوتی ہے- پس چاہیے کہ تمہاری نیت کبھی ناپاک نہ ہو تا تم فرشتون کو طرح ہو جائو-
یہ اشتہار منارہ بننے کے لئے لکھا گیا ہے مگر یاد رہے کہ مسجد کی بعض جگہ کی عمارات بھی ابھی نا درست ہیں- اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ جو کبھی منارۃ المسیح کے مصارف میں سے بچے گا وہ مسجد کی دوسری عمارت پر لگا دیا جائے گا- یہ کام بہت جلدی کا ہے- دلوں کو کھولو اور خدا کو راضی کرو- یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ لوگوں کی طرف واپس آئے گا- مَیں اس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا اور ختم کرتا ہوں اور خدا کے سپرد-
بالآخر مَیں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوںکہ اس منارہ میں ہماری یہ بھی عرض ہے کہ مینار کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا- کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں کو ہندوئوں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرئے- مگر یہ شرط ہو گی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے- فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہتے تہذیب سے کہے اس لئے لکھا جاتا ہے کہ ہمارے دوست اس کو ہر ایک کاریگر معمار کو دکھلائیں اور اگر وہ کوئی عمدہ نمونہ اس منارہ کا جس میں دونوں مطلب مذکور بالا پورے ہو سکتے ہوں تو بہت جلد ہمیں اس سے اطلاع دیں - وَالسَّلام
خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے ۱۰ صفحہ پر ہے- )
(۲۲۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
دینی جہاد کی ممانعت کا فتویٰ مسیح موعود
کی طرف سے
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ وہ قتال
اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو
جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو
کیوں بھولتے ہوں تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سیِدّ کونینِ مصطفیٰ
عیسٰی مسیح جنگوں کا دے کا التوا
جب آئے گا تو صلح کو دو ساتھ لائے گا
جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے
پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند
کھلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و بیگزند
یعنے وہ وقت امن کا ہو گا نہ جنگ کا
بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا
یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں
کر دے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود قوت وطاقت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی
وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی
وہ عزم مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی
وہ علم وہ صلاح وہ عفّت نہیں رہی
وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی
وہ درد وہ گداز وہ رقّت نہیں رہی
خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی
حالت تمہاری جازب نُصرت نہیں رہی
حُمق آ گیا ہے صر میں وہ فطنت نہیںرہی
کسل آ گیا ہے دل میں جلاوت نہیں رہی
وہ علم و معرفت و فراست نہیں رہ
وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی
دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی
اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی
وہ اُنس و شوق و جد وہ طاعت نہیں رہی
ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی
ہر وقت جھوٹ سچ کی تو عادت نہیں رہی
نور خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی
سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی
نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی
خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی
دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی
مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی
دل مر گئے نیکی کی قدرت نہیں رہی
سب پر یہ ایک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی
اک پھوٹ پڑ رہی ہے موّدت نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی
بھید اس میں یہی ہے کہ وہ حاجت نہیں رہی
اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے
کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ و صوم سے
ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو
عادت میںاپنی کر لیا فسق و گناہ کو
اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کا فرانہ ہے
اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں
روتے رہو دعائوں میں بھی وہ اثر نہیں
کیونکہ ہو نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں
شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں
تقویٰ ک جامے جتنے سب چاک ہو گئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے
اب تم تو خود ہی مورد خشم خداا ہوئے
اس یار سے بشامت عصیاں جدا ہوئے
سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں
وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں
پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا
وہ نور مومنانہ وہ عرفان نہیں رہا
پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے
آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے
ایسا گماں کہ مہدیٰ خونی بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا
اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں
بہتاں ہیں بے ثبوت یں اور بیفروغ ہیں
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
اب سال سترہ بھی صدی سے گزر گئے
تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاںجو دکھائے تمہیں
کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں
پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا فائدہ
مونھ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ
بخلوں سے یاروں باز بھی آئو گے یا نہیں
مخفی جو دل ہے وہ سنائو گے یا نہیں
آخر خدا کے پاس بھی جائو گے یا نہیں
اُس وقت اس کو مونھ بھی دکھائو گے یا نہیں
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے اُستوار
لوگوں کو یہ بتائے ک ہوقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا
المشــــــــــــــــــــــــــــــتھر
مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان
۷ جون ۱۹۰۰ء
مطوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے ۴ صفحہ پر ہے )
(نوٹ از مرتب:- اس نظم کے نیچے عربی خط ممانعت جہاد کا ہے جو درج ذیل ہے-)
عربی زبان میں ایک خط اہل اسلام پنجاب اور ہندوستان اور عرب اور فارس وغیرہ ممالک کی طرف جہاد کی ممانعت کے بارے میں
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اعلمو ایھا المسلمون رحمکم اللّٰہ اناللّٰہ الذی تولّی الاسلام- و کفل امورہ العظام- جعل دینہ ھٰذا رُصلۃً الیٰ جکّمہ و علو مہ و رضع المعارف فی ظاھرہ و مکتوبہ فمن الحِِکم التی اودع ھٰذا الدین المھتدین - ھوا الجھاد الزی امریہ فی صدرزمن
الاسلام- ثم نھی عنہ نی ھٰذہِ الا یّام- والسر فیہ انہ تعالیٰ اذن للذین یقاتلون فی اوّل زمان الملۃ رفعاً لصول الکھزۃ و حفظاً للذین و نفوس الصحبۃ- ثمّ انقلوب امرا الزمان عند اعھد الدولۃ البر طانیۃ٭ وحصل الامن للمسلمین وما بقی حاجۃالسیوف والاَ سِنَّۃِ- فعند ذلک اثمّ المخالفون المجاھدین و سلکھم مسلک الظالمین السفاکین- ولیّس
اللّٰہ علیھم سرّ الغزاۃ والغازین- ننظرو الیٰ محاربات الدین کلمھا بنظر الزریۃ- و نسبو کل من غزالی الجبر و الطغیان والغوایۃ فاقتضت مصالح اللّٰہ علیھم سرّا لغزاۃ والغازین- فنظر واالیٰ محاربات الدین کلمھا نبظر الزریۃ- و نسبوا کل من غزا الی الجبر والطغیان والغوایۃ فاقتصنت مصالح اللّٰہ ان یضع الحرب و الجہاد- وقد مضت سنتہ ھزہ فی شیع الاء لین - فان نبی اسرائیل طعن فیھم حم من قبل ففبعث اللّٰہ المسیح فی اٰخر زمن موسٰی واریٰ ان الز ارین کا نو اخاطئین- ثم بعثنی ربّی نی اٰخر زمن نبیِّنا المصطفیٰ- وجعل مقدارھزا الزمن کمقدار زمن کان بین موسیٰ و عیسٰی- وان وجوہ و ھو اصلاح الاخلاق و منع الجھاد- واٰراء ۃ الاٰیات لتقویۃ ایمان العباد- ولاشک ان وجوہ الجھاد ومعدویۃ فی ھزا الزمن رھذہ البلاد- فالیوم حرام علی المسلمین ان یحاربواللدین- و ان یقتلوامن کفر بالشرح المتین-فااﷲ صرّح حرمۃ الجہاد عند زمان الا من و العافیۃ و ندّ الرسول با نہ من المناھی عند نزول المسیح فی الامۃ- ولا یخفٰی ان الزمان قد بدّل احوالۃ تبدیلاً صریحاً- و ترک طورًا فبیحاً-ولا یو جد فی ھزا الزمان ملک یظلم مسلماً لا سلامہ ولا حاکم یحبو دلدینہ فی الحکامہ- فلا جل ذالک بدّل اﷲ حکمہ فی ھزا الاٰوان- ومنہ ان یحا رب للدین اور تقتل نفسٌ لا ختلاف الادیان- و مران یتّم المسلمون حججھم علی الکفّار- ویضعوا البر اھین العالیۃ حتٰی نظأم اقد مہم کل اساس یقوم علیہ البرھان- ولا یفو تھم حجۃ الیہ الاذھان- ولا سلطان یر غب فیہ الزمان- ولا یبقٰی شبھۃ یولّہ الشیطان- و ان یکونوا فی اتمام حجج مستشفین-
وارادان تصیّد شو ارد الطبائع المتنفرۃ من مسئلۃ الجھاد- و یُنْزل ماء الاٰی علی القلوب المجدیۃ کالعھا- و یعسل و سخ الشبھات و درن اوساوس وسو الاعتقاد- فقدر للا سلام وقتاً کابّان الربیع و ھو وقت المسیح النازل من الرقیع- لیحبری فیہ ماء الاٰیات کا لینا بیع- و یُنظھر صدق الاسلام ویُبیّن انّ المتنز رین کانوا کاذبین- وکان ذالک واجباً فی علم فی اﷲ لا من الحاربین- انّی انا المسیح النازل امن السماء - و ان وقتی وقت ازالۃ الظنون وراء ۃ الا سلام کالشمس فی الضیاء- نفکّروا ان کُنتم عاقلین- و ترون ان الاسلام قد وقعت حد تہ ادیان کاذبۃ یُسعٰی لتصدیقھا- و اعین کلیلۃ یجا ھد التبر یقھا- و ان اھلھا اخزو الطریق الرفق والحلم فی دعواتھم - وارد التواضع اور الزل عند ملا قاتھم - و قالو ان الاسلام اولع فی الابدان المُدیٰ- لیبلغ القوۃ العلیٰ- وانا ند عوالخلق متواضعین- فرأی اﷲ کیدھم من السماء- و ما ارید من البھتان والا زدراء ولا فتراء- فجلّی مطلع ھزاالدین بنور البرھان- و اری الخلق انہ ھوا القائم و الشایٔع بنور بّہ لا بالسیف السنان- و منع ان یقاتل فی ھزا الحین- و ھوحکیم یعلمنا ارتضا کأس الحکمۃ و العرفان- ولا یفعل نعلاً لیس من مصالح الوقت والاٰ وان- و یرحم عبادہ و یحفظ القلوب م الصداء والطبائع من الطفیات - فانزل میسحیہ الموعود و المھدی المعھود- لیعصم قلوب الناس من وساوس الشیطان- و تجارتھم من
من الخسران- الیجعل المسلمین کرجل ھَیْمن ما اصطفاہ- راصاب ما اصباہ فثبت ان الاسلام لا یستجعل السیف والسھام عند الدعوۃ- ولا یضرب الصعدۃ- ولٰکن یأتی بد لائل تحکی الصعدۃ فی اعدام الفریۃ- و کانت الجاجۃ قد اشتدات فی زمننا لرفع الالتباس الالتباس لتباس لیعلم النّاس حقیقۃ الامر و یعرفوا السرّکا لاکیاس- والاسلام مشرب قد احتویٰ کل نوع حفادۃ- والقرآن کتاب جمع کل حلاوۃ وطلاوۃ- و لکن الاعداء لایرون من الظلم والضیم - وینسابون انسیاب الایم- مع ان الاسلام دین خصھ اﷲ بھذھ الاثرۃ- وفیہ برکات لایبلغھا احد من الملۃ- وکان الاسلام فی ھذا الزمان- کمثل معصوم اثّم و ظُلِمَ بانواع البھتان- وطالت الالسنۃ علیہ وسانوا علیٰ حریمہ- وقالوا مذھب کان قتل الناس خلاصۃ تعلیمہ نبعثت لیجد النّاس مافقدوا من سعادۃ الجدّ- ولیخلصوا من الخصم الالدّ و انّی ظھرتُ برثٍ فی الارض و حلل بارقۃ فی السماء- فقیر فی الغبراء و سلمان فی الخضراء- فطوبٰی للذی عرفنی او عرف من عرفنی من الاصدقاء- و جئتُ اھل الدنیا ضعیفًا نحیفًا کخافۃ الصّب- و غرض القذف الشتم و السبّ- و لٰکنی کیّ قویٰ فی العالم الاعلیٰ- ولی عذب مذرب فی الافلاک و ملک لا یبلی- و حسام یضاھی البرق صقالھ- و یمزّق الکذب قتالھ- ولی صورۃ فی السماء لایراھا الانسان- لاتدرکھا العینان- و انّنی من اعاجیب الزمان و انّی طُھرّتُ و بدّلتُ و بُعّدتُ من ا
لعصیان- وکذالک یطھّرُ و یبدّل من احبنی وجاء بصدق الجنان- و ان انفاسی ھذھ تریاق سمّ الخطیّات- وسدُّ مانع من سرق الخطرات الٰی سُوْق الشبھات- ولایمتنع من الفسق عبدٌ ابدًا الاّ الذی احبّ حبیب الرحمان- اوذھب من الاطیبان وعطف الشیب شطاطہ بعد ماکان لقضیب البان- و من عرف اﷲ و اعرف عبدھ فلایبقی فیہ شئ من الحدوالسنان- وینکسر جناحہ ولایبقٰی بطش فی الکف و البنان- ومن خواص اھل النظر انھم یجعلون الحجر کالعقیان- فانھم قوم لایشقی جلیسھم و لایرجع رفیھم بالحرمان- فالحمد ﷲ علٰی مِنَنھ ان ھو المنّان- ذوالفضل والاحسان- واعلموا انی انا المسیح و فی البرکات اسیح- و کل یوم تزید البرکات و تزداد الاٰیات- و النور یبرق علیٰ بابی- ریأتی زمانٌ یتبّرک الملوک باثوابی- وذالک الزمان زمان قریب ولیس من القادر بعجیب
الاختبار اللطیف لمن کان یعدل اویحیف
ایھا الناس ان کنتم فی شک فی امری- وممّا اوحٰی الّی من ربّی فناضلونی فی انباء الغیب من حضرۃ الکبریاء- و ان لم تقبلوا ففی استجابۃ الدعاء و ان لم تقبلوا ففی تفسیر القراٰن فی لسان العربیۃ- مع کمال الفصاحۃ ورعایۃ الملَح الابیۃ- فمن غلب منکم بعد ماساق ھذاالمساق- فھو خیر منّی ولامراء ولاشقاق- ثم ان کنتم تعرضون عن الامرین الاوّلین و تعتذرون و تقولون انا مااُعطِینا عین رؤیۃ الغیب ولامن قدرۃٍ علٰی اجراء تلک العین- فصار عونی فی فصاحۃ البیان مع التزام بیان معارف القرآن- واختارو امسحب نظم الکلام- ولتسحبوا ولاترھبوا ان کنتم من الاُدَباء الکرام- وبعد ذالک ینظر الناظرون فی تفاضل الانشاء- ویحمدون من یستحق الاحماد والایرادویلعنون من لُعِن من السماء- فھل فیکم فارس ھذا المیدان- ومالک ذالک البستان- وان کنتم لاتقدرون علی البیان- ولاتکفون حصائداللسان- فلستم علٰی شیٍٔ من الصدق والسداد ولیس فیکم الامادۃ الفساد- اتحمون وطیس الجدال- مع ہذہ البرودۃ والجمود و الجھل و الکلال- موتوا فی غدیر- اوبار زونی کقدیر- وارونی عینکم- ولاتمشواکضریر- واتقوا عذاب ملک خبیر- واذکروا اخذ علیم وبصیر وان لم تنتھوا وفیأتی زمانٌ تحضرون عند جلیل کبیر- ثم تذوقون مایذوق المجرمون فی حصیر- و ان کنتم تدّعون المھارۃ فی طرق الاشرر- و مکائد الکفّار- فکیدوا کل کید الٰی قوۃ الاظفار- وقلّبوا دبیرکم- واجمعوا کبیر کم و صغیر کم واستعملوا وقایرکم- وادعوا الھذا الامر مشاھیرکم- و کل من کان من المحتالین- واسجدوا علی عتبۃ کل قریع زمَن وجابر زمِنٍ لیُمدّکم بالمال و العقیان- ثم انھضوا بذالک المال و ھدّمونی من البنیان- ان کنتم علٰی ھدّھیکل اﷲ قادرین- واعلموا ان اﷲ یُخزیکم عند قصد الشرّ- و یحفظنی حم الضرّ- ویتم امرہ وینصر عبدہ ولاتضرونہ شیئًا و لاتموتن حتی یریکم مااریٰ من قبلکم کل من عادیٰ اولیاء ہ من النبیین و المرسلین المامورین- واٰخر امرنا نصر من اﷲ و فتح مبین- واٰخر دعوٰـنا ان الحمد ﷲ رب العالمین-
المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان
۷؍ جون ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(۲۲۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لئے منارہ المسیح کے بارے میں توجّہ دہانی اور اس کام کے لئے ان سے ایک درخواست
منارہ المسیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک اشتہار٭ شائع ہو چکا ہے - لیکن جس کمزوری اور کم توجہی کے ساتھ اس کام کے لئے چندہ وصول ہو رہا ہ اس سے ہرگز یہ امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے - لہذا میں آج خاص طور پر اپنے اُن مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کے شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں - ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصّہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آجائے تا ہم وہ کار خیر کی توفیق پا لیتا ہے - نظیر کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں ایسے دو مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے جو باقی دوستون کے لئے درحقیقت جائے رشک ہیں- ایک ان میں سے منشی عبد العزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لئے چندہ دیا ہے- اور میں خیال کرتا ہوںکہ یہ سو روپیہ کئی سال کا ان کا ان اندوختہ ہو گا- اور زیادہ وہ قابلِ تعریف اس کے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک کام اور کام میں سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں- اور اب اپنے ظیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کر یہ چندہ پیش کر دیا- جزاء ہم اللہ خیرالجزاء- دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں- ابھی وہ اہک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں- اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے- اور یہ متوک شخص ہے جہ اگر اس کے گھر کاتمام اسباب دیکھا جائے شاید جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو- انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ چونکہ ایام قحط ہیں اور دینوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں- اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا- سب بھیج دیا- اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر ؓ نے کیا تھا- شاید ہمارے بعض مخلصوں کو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ منارہ المسیح کیا چیز ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے- سو واضح ہو کہ ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الانبیاء خاتم الانبیاء سیّدنا محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کو خدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اور عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں نازل ہو گا اس کا نزول ایک سفید منارہ کے نزدیک ہو گا جو دمشق سے مشرقی طرف واقع ہے- اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے دو مرتبہ اسلام میں کوشش کی گئی ہے- اوّل ۷۴۱ھ سے پہلے دمشق کی مشرقی طرف سنگِ مرمر کاپتھر سے ایک منارہ بنایا گیا تھا جو دمشق سے شرقی طرف جامع اموی کی ایک جزو تھی اورکہتے ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ اس پرخرچ آیا تھا اور بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ تا وہ پیشگوئی رسول صلے اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو جائے - لیکن عبد اس کے نصاری نے اس منارہ کو جلادیا- پھر اس حادثہ کے بعد ۷۴۱ھ میں دوبارہ کوشش کی گئی کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف پھر طیار کیاجائے-چنانچہ اس منارہ کے لئے بھی غالباً ایک لاکھ روپیہ تک چندہ جمع کیا گیا- مگر خدا تعالیٰ کی قضاء و قدر سے جامع اموی کو آگ لگ گئی-اور وہ منارہ بھی جل گیا- غرض دونوں مرتبہ مسلمانوں کو اس قصد میں ناکامی رہی-٭ اور اس کا سبب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بن کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے- سو اب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں- جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں ہو گا- مَیں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں مگر مقبول وہ گروہ ہی ہیں-
(۱)اول وہ گروہ جنہوں نے بعد اس کے جو مجھے پہچان لیا جو میں خدا کی طرف سے ہوں بہت نقصان اُٹھا کر اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور قادیان میں اپنے گھربنالئے اور اس درد کی برداشت کی جو ترک وطن اور ترکِ احبابِ وطن میں ہوا کرتی ہے- یہ گروہ مہاجرین ہے- اور مَیں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا قدر ہے- کیونکہ خدا کے واسطے اپنے وطنوں کو چھوڑنا اور اپنے چلتے ہوئے کاموں کو خاک میںملا دینا اور اپنے وطن کی پیار مٹی کو خدا کے لئے الوداع کہہ دینا کچھ تھوڑی بات نہیں-فطوبیٰ للغرباء المھلجرین- دوسرا گروہ انصار ہے- اور وہ اگرچہ اپنے وطنوں میں ہیں- لیکن ہر ایک حرکت اور سکون میں ان کے دل ہمارے ساتھ میں اوروہ مال سے محض خدا کو راضی کرنے کے لئے مدد دیتے یہں اور مَیں ارادہ کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو کہ اس منارہ کے کسی مناسب پہلو میں ان مہاجریں کے نام لکھوں- جنہوں نے محض خدا کے لئے یہ دُکھ اپنے اُوپر لیا کہ اپنے پیارے وطنوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے مامور کا قرب مکانی حاصل کرنے کے لئے قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور ایسا ہی ان انصار کے نام بھی جنہوں نے اپنی خدمت اور نصرت کو انتہا تک پہہنچایا اور میرا نو قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لئے جس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے- پس مَیں اسی غرض سے چند مخلـصین کے نام ذیل میںلکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان سے میں سے کم سے کم ایک سو روپیہ اس عظیم الشّان کام کے لئے پیش کرے- اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اگر انسان بہیودہ عذرات کی طرف مائل نہ ہو- اس قدر رقم ان لوگوں کے لئے کچھ مشکل نہیں جو چالیس یا پچاس یا اس سے زیادہ آمدنی رکھتے ہیں- مثلاً عورتوں کا زیور ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر صدق دل ہو تو اس میں کچھ ایسے کام کے لئے آ سکتا ہے- بلکہ دیکھا گیاہے کہ جب نیک بخت عورتیں اپنے دیندار خاوندوں اور باپوں اور بھائیوں کے مُنہ سے ایسی باتیں سُنتی ہیں تو خود ان کا ایمانی جوش حرکت کرنے لگتا ہے- اور بسا اوقات اپنے خاوندوں کے حوصلہ سے زیادہ ایک رقم کثیر پیش کر دیتی ہیں- بلکہ بعض عورتیں بعض مردوں سے صد ہا درجے اچھی ہوتی اور موت کو یاد رکھتی ہیں- وہ خوب جانتی ہیںکہ جبکہ کبھی کبھی اس زیور کو چور لے جاتے ہیں یا کسی اور طریق سے تباہ ہو جاتا ہے- تو پھر اس سے بہتر کتا ہے کہ اس خدا کے لئے جس کی طرف عنقریب کوچ کرنا ہے- کوئی حصہ زیور کا خرچ کیا جائے- آخر یہ کام اسی جماعت نے کرنا ہے- اور دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہو سکتے وہ تو اَور خیالات میں مبتلاء ہیں-
سو اے مخلصو! خداتعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں کو قوت بخشے - خدا تعالیٰ نے آپ کو ثواب حاصل کرنے ٍٍٍاور امتحان میں صادق نکلنے کا یہ موقع دیا ہے- مال سے محبت مت کرو- کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا- مسیح موعود کے لئے جو وہی مہدی آخر الزمان ہے- وہ پیشگوئیاں تھیں- ایک پیشگوئی آسمان کے متعلق تھی جو دعویٰ میں صادق ہونے کی نشانی تھی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا یعنے رمضان میں چاند کا پہلی رات میں اپنیخسوف کی راتوں میں گرہن لگنا اورسورج کا بیچ کے دن میں اپنے کسوف کے دنوں میں گرہن لگنا- دوسری پیشگوئی زمین کے متعلق تھی جو مسیح کے نازل ہونے کی نشانی تھی اور وہ یہ کہ دمشق کہ شرقی طرف ایک سفید منارہ انسانی ہاتھوں سے طیار ہونا- سو وہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل ہے یعنے ہدایات اور برکات کی روشنی کا دُنیا میں پھیلنا٭ یہ اسی پر موقوف ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو یعنے منارہ طیار ہو کر کیونکہ مسیح موعود کے لئے جو یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ نازل ہو گا- یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وسیلہ انسانی اسباب کے آسمان سے ایک قوت نازل ہو گی جو دلوں کو حق کی طرف پھیرے گی اور مراد اس سے انتشار روحانیت اور بارش انوار و برکات ہے- سو ابتداء سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جو نور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو خدا کی طرف پھیرے گا- منارہ کی طیاری کے بعد ہو گا- کیونکہ منارہ اس بات کے لئے علامت ہو گا کہ وہ *** کی تاریکی جو شیطان کے ذریعہ دُنیا میں آئی ہے - مسیح موعود کے منارہ کے ذریعہ سے یعنے نور سے دنیا سے مفقود ہو اور منارہ بیضا کی طرح سچّایٔ چمک اُٹھے اور اونچی ہو- خدا کے بعض جسمانی کام اپنے اندر رُوحانی اسرار رکھتے یہں- پس جیسا کہ توریت کے رو سے صلیب پر چڑھنے والا رحمت سے حصّہ لے گا- اور یہ جو لکھا ہے کہ منارہ کے قریب مسیح کا نزول ہو گا- اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ اُسی زمانہ ہیں جبکہ منارہ طیار ہو جائے گا مسیحی برکات کا زور شورسے ظہور و بروز ہو گا- اور اسی ظہور وبروز کو نزول کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے- پس جو لوگ اس عظیم الشان سعادت سے حصّہ لیں گے یہ تو مشکل ہے کہ ان سب کے نام منارہ پر لکھے جائیں- لیکن یہ اقرار دیا گیا ہے کہ بہرحال چندمہاجرین کے مقابل پر ایسے تمام لوگوں کے نام لکھے جائیں گے جنہوں نے کم سے کم سو روپیہ منارہ کے چندہ میں داخل کیا ہو- اور یہ نام ان کے نام دراز کتبہ کے منارہ پر کندہ رہیں گے جو آیندہ آنے والی نسلوں کو دعا کا موقع دیتے رہیں گے-
وَالسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
فہرست اسماء چندہ دہندگان
نمبر
نام
نمبر
نام
۱
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی قادیان
۸
شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہائوس لاہور
۲
نواب محمد علی صاحب رئیس مالیر کوٹلہ
۹
محمد شادی جان صاحب چوب فروش سیالکوٹ (انہوں نے روپیہ ادا کر دیا)
۳
سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا ساجن کمپنی مدارس
۱۰
مولوی محمد علی صاحب ایم -اے ایل ایل بی قادیان (انہوں نے ایک سو روپیہ ادا کر دیا)
۴
سیٹھ احمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدارس
۱۱
حکیم محمد حسین صاحب مالک کارخانہ مرہم عیسیٰ لاہور
۵
سیٹھ علی محمد صاحب حاجی اللہ رکھا سواگر بنگلور
۱۲
مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست جہلم
۶
سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدارس
۱۳
سیّد فضل شاہ صاحب ٹھکیدار لاہور
۷
سیٹھ والجی لالجی صاحب سوداگر مدارس
۱۴
سیدناصر شاہ صاحب اوورسیئر سڑک کشمیر مقام دومیل
نمبر
نام
نمبر
نام
۱۵
مرزا خدا بخش صاحب اہلکار ریاست مالیرکوٹلہ
۲۹
منشی اﷲ دتہ صاحب ٹیچر یورپینی سیالکوٹ
۱۶
مولوی ظہور علی صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدرآباد دکن
۳۰
منشی تاج الدین صاحب اکونٹنٹ ایگزیمنر آفس لاہور
۱۷
مولوی سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن
۳۱
ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن فاضلکار
۱۸
مولوی ابوالحمید صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدرآباد دکن
۳۲
ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن لکھنؤ
۱۹
مولوی میر مردان علی صاحب جنرل محاسب حیدر آباد دکن
۳۳
ڈاکٹر عبدالحکیم خانصاحب ایم ڈی اسسٹنٹ سرجن نارنول ریاست پٹیالہ
۲۰
منشی محمد نصیر الدین صاحب پیشکار ریونیو بورڈ حیدر آباد
۳۴
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ گڑھ شنکر
۲۱
مولوی میر محمد سعید صاحب مدرس مدرسہ سرکار نظام حیدر آباد دکن
۳۵
ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ ملک افریقہ
۲۲
مولوی غلام حسین صاحب سب رجسٹرار پشاور
۳۶
شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک ممباسہ افریقہ
۲۳
خواجہ کمال الدین صاحب بی -اے ایل ایل بی پشاور
۳۷
منشی نبی بخش صاحب کلرک ممباسہ افریقہ
۲۴
مولوی عزیز بخش صاحب بی اے ریکارڈ کیپر ڈیرہ غازی خاں
۳۸
منشی محمد افضل صاحب ٹھیکہ دار ممباسہ افریقہ
۲۵
خواجہ جمال الدین صاحب بی اے ہیڈماسٹر ہائی سکول کشمیر
۳۹
منشی محمد نواب خاں صاحب تحصیل دار جہلم
۲۶
میر حامد شاہ صاحب ڈپٹی کشمیر سپرنٹنڈنٹ ضلع سیالکوٹ
۴۰
شیخ غلام نبی صاحب سوداگر راولپنڈی
نمبر
نام
نمبر
نام
۴۱
حکیم فضل الدین صاحب قادیان
۵۷
مرزا فضل بیگ صاحب مختار بٹالہ
۴۲
زوجگان حکیم فضل الدین صاحب موصوف
۵۸
منشی محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار بٹالہ
۴۳
خلیفہ نور الدین صاحب تاجر جموں
۵۹
حکیم فضل الٰہی صاحب محلہ ستھاں لاہور
۴۴
میاں اﷲ دتہ صاحب تاجر جموں
۶۰
حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور
۴۵
شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک آف دی کورٹ ڈویزنل جج ملتان
۶۱
منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر سیالکوٹ
۴۶
منشی رستم علی خاں صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ
۶۲
صو فی کرم الٰہی صاحب گورنمنٹ پریس شملہ
۴۷
بابو محمد صاحب ہیڈکلرک محکمہ انہار چھائونی انبالہ
۶۳
حافظ محمد اسحاق صاحب سب اوورسیرلاہور لالیاں ضلع جھنگ
۴۸
قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکہ دار لدھیانہ
۶۴
شیخ محمد جان صاحب سوداگر وزیر آباد
۴۹
میاں نبی بخش صاحب سوداگر پشمینہ امرت سر
۶۵
شیخ محمد کرم الٰہی صاحب تھانہ دار بٹھنڈہ ریاست پٹیالیہ
۵۰
میر ناصر نواب صاحب پنشنر قادیان
۶۶
مفتی محمد صادق صا حب کلرک اکونٹنٹ جنرل پنجاب لاہور
۵۱
منشی عبدالعزیز صاحب کلرک محکمہ نہر جمن غربی دہلی
۶۷
شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان
۵۲
شیخ محمد اسمٰعیل صاحب ہیڈ ڈارفٹ مین محکمہ ریلوے دہلی
۶۸
شیخ چراغ الدین صاحب ٹھیکہ دار گجرات
۵۳
حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صاحب لاہور
۶۹
راجہ پایندہ خاں صاحب رئیس داراپورضلع جہلم
۵۴
میاں چراغ الدین صاحب ملازم پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ لاہور
۷۰
منشی محمد جان صاحب محرر جیل راولپنڈی برادر حقیقی منشی عبدالعزیز صاحب پٹوار ی
۵۵
چوہدری نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ
۷۱
ماسٹر شیر علی صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر سکول ہیڈماسٹر سکول قادیان
۵۶
میاں معراج الدین صاحب عمر صاحب وارث میاں محمد سلطان صاحب رئیس لاہور
۷۲
منشی گلاب خاں صاحب نقشہ نویسی لنڈی کوتل
نمبر
نام
نمبر
نام
۷۳
شیخ عطا محمد صاحب سب اوورسیئر فورٹ سنڈیمن بلوچستان
۹۰
مستری احمد الدین صاحب بھیرہ
۷۴
بابو روشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر اٹک
۹۱
مولوی محمد اسمٰعیل تاجر پشمینہ امرتسر
۷۵
منشی عبدالعزیز صاحب سنوری پٹواری ماچھی واڑہ
۹۲
محمد ابراہیم صاحب ٹھکیدار ممباسہ- افریقہ
۷۶
منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کپورتھلہ
۹۳
انوار حسین خانصاحب شاہ آباد ضلع ہر دوئی
۷۷
بابوشاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دومیلی
۹۴
سیّد تفضل حسین صاحب تحصیلدار ضلع متھرا
۷۸
مولوی صفدر حسین صاحب ڈسٹرکٹ انجینئر لنگور حیدر آباد دکن
۹۵
مولوی احمد جان صاحب پنشنرجالندھر
۷۹
منشی نبی بخش صا حب سٹور کیپر گورنمنٹ پریس شملہ
۹۶
منشی کرم بخش صاحب پنشنر محلہ راجاں لدھیانہ
۸۰
منشی امام الدین صاحب سب اوورسیئرواٹر ورکس راولپنڈی
۹۷
منشی عبد العزیز صاحب پٹواریس ساکن اوجلہ ضلع گوداسپور ( ایک سو روپیہ ادا کر دیا )
۸۱
شیخ نیاز احمد صاحب تاجر وزیر آباد ( ادا کر دیا ہے)
۹۸
مرزا اکبر بیگ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ملتان
۸۲
قاضی یوسف علی نعمانی پولیس افسرسنگرور
۹۹
حاجی مہدی صاحب بغدادی نزیل مدارس
۸۳
منشی عمر الدین صاحب لدھیانہ- کوٹھی
۱۰۰
مولوی غلام امام صاحب منی پور آسام
۸۴
محمد صدیق صاحب معہ پسران میاں جمال الدین صاحب امام الدین صاحب و خیر الدین صاحب سیکھواں
۱۰۱
مولوی محمد اکرم صاحب ساکن کملہ - مدرس مالیر کوٹلہ- ماسٹر قادر بخش لدھیانہ
۸۵
منشی محمد بخش صاحب ٹھیکدار ساکن کڑنوالہ گجرات
۸۶
مولوی خدا بخش صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ
۸۷
منشی شمس الدین صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ
۸۸
چودہری حاکم علی صاحب جلال پور جٹاں
۸۹
سردار فضل حق صاحب رئیس دھر مکوٹ بگہ
راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں - یکم جولائی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے چھ صفحہ پر ہے)
(۲۲۴)
نحمدہ نصلی
من اظلم ممّن افتریٰ علی اﷲ کذبًا او کذّب بٰایاتِہٖ
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
جو سخت مکذب ہیں اُن کے ساتھ ایک طریق فیصلہ
مع ان علماء کے جن کا نام ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہے-٭
یہ صاحب جن کا نام عنوان میں درج ہے یعنی مہر علی شاہ صاحب ضلع راولپنڈی کے سجادہ نشینوں میں سے ایک بزرگ ہیں- وہ اپنے رسمی مشیخت کے غرور سے اس سلسلہ آسمانی کو مٹادیں- چنانچہ اسی غرض سے انہوں نے وہ کتابیں بھی لکھی ہیں جو اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ وہ علم قرآن اور حدیث سے کیسے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں- اور چونکہ ان لوگو ں کے خیالات بالکل پست اور محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے تمام ذخیرہ لغویات میں ایک بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتے جس کے اندر کچھ روشنی ہو- معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس دھوکہ میں پڑے ہو ئے ہیں کہ بعض حدیثوں میں لکھا کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا- حالانکہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے یا کسی آخری زمانہ میں جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوں گے- اگر لکھا ہے تو کیوں ایسی حدیث پیش نہیں کرتے- ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنے کرتے ہیں- خدا کی کتابوں کا یہ قدیم محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا- دیکھو انجیل یوحنا باب۱ آیت ۳۸پ اور اسی راز کی طرف اشارہ ہے سورہ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر میں اور نیز آیت ذکراً رسولاً میں- لیکن عوام جو جسمانی خیال کے ہوتے ہیں- وہ ہر ایک بات کو جسمانی طور پر سمجھ لیتے ہیں- یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ جیسے حضرت مسیح ان کے زعم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اُتریں گے- ایسا ہی ان کا یہ بھی تو عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر گئے تھے بلکہ اس جگہ تو ایک براق بھی ساتھ تھا- مگر کس نے آنحضرت ؐ کا چڑھنا اور اُترنا دیکھا- اور نیز فرشتوں اور براق کو دیکھا؟ ظاہر ہے کہ منکر لوگ معراج کی رات میں نہ دیکھ سکے کہ فرشتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آسمان پر لے گئے- اور نہ اُترتے دیکھ سکے- اسی لئے انہوں نے شور مچا دیا کہ معراج جھوٹ ہے- اب یہ لوگ جو ایسے مسیح کے منتظر ہیں جو آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اُترتا نظر آئے گا یہ کس قدر خلاف سنت اﷲ ہے- سیّد الرسلؐ تو آسمان پر چڑھتا یا اُترتا نظر نہ آیا تو کیا مسیح اُترتا نظر آجائے گا- لعنۃ اﷲ علی الکاذبین- کیا ابوبکر صدیقؓ نے سیّد المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مع فرشتوں کے معراج کی رات میں آسمان پر چڑھتے یا اُترتے دیکھا؟ یا عمر فاروقؓ نے اس مشاہدہ کا فخر حاصل کیا- یا علیؓ مرتضیٰ نے اس نظارہ سے کچھ حصّہ لیا- پھر تم کون اور تمہاری حیثیت کیا کہ مسیح موعود کو آسمان سے مع فرشتوں کے اُترتے دیکھو گے-!! ٭ خود قرآن ایسی رویت کا مکذّب ہے-
سو اے مسلمانوں کی نسل ان خیالات سے باز آ جائو! تمہاری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوئے اور کسوف خسوف تم نے رمضان میں دیکھ لیا اور صدی میں سے بھی سترہ برس گذر گئے- کیا اب تک مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے مجدد پیدا نہ ہوا- خدا سے ڈرو اور ضدّ اور حسد سے باز آ جائو- اس غیور سے ڈرو جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے- اور اگر مہر علی شاہ صاحب اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو مَیں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے-
(۱) ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت ویجعل لکم فرقانا اس کی شاہد ہے-
(۲) ان کو علم معارف قرآن دیا جاتاہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا- جیسا کہ آیت لایسمہ الاالمطھرون اس کی شاہد ہے-
(۳) ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت ادعونی استجب لکم اس کی گواہ ہے- سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اور اس میں چالیس آیت یا ساری صورت ( اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقن یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دُعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اُس کو تُو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک رُوحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر٭ اور جو شخص ہم دونوںفریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اورتیرے نزدیک صادق نہیں ہے اُس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا معلوم لے-٭پھر اس دُعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع شروع کریں- اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگاراور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سُنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تااس کی فصیح عبارت اور معارف کے سُننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے- اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مُہلت دی جائے گی اور زانولکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں-ہر ایک فریق کو اختیار ہو کہ کہ اپنی تسلّی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہوں اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی- مگرایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں تفیسر کو گواہوں کے رو برو ختم کرنا ہو گا- اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا- سُنائی جائیں گی- اور ان ہرسہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر اور عبارت تائید رُوح القدس سے لکھی گئی ہے- اورضروری ہو گا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تیں اور مولوی منتخب کر یں جو اُن کے مُرید اور پیرو نہ ہوں-٭مگر ضروریہ ہو گا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاًاپنی رائے ظاہر کریں کہ کسی کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ اور تائیدالہٰی سے ہے- لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہیے جس کا ذکر قرآن میں قذف محسنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسکم کھانا ضروری ہے - اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں بیس ورق سے کم نہ ہو- اور ورق سے مراد اس کے اوسط درجہ کے تقطیع اورقلم کا ورق ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صد ہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں-٭ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عرنی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دیکھایا توتمام دنیا گواہ رہے کہ مَیں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں مَیں یہ بھی اقرار کرتا ہوںکہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوے کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا- میری طرف سے یہی کافی ہے جس کو مَیں آج بہ ثبت شہادت بیس گواہاں کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی- نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقایق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو اس تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہ گا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں-
مَیں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اسی صورت میں متصور ہو گا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھیں سکیںاور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفریں کریں- کیونکہ مَیں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے- اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا- اور اگر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں جانتے یہں کہ وہ مومن اور مستجاب الداعوات ہیں تو وہ بھی ایسی دُعا کریں- اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی دُعا کو ہر گز قبول نہیں کرے گا- کیونکہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں-
غرض یہ طریق فیصلہ ہے جس سے تینوں علامتوں متذکرہ بالا جو صادق کے لئے قرآن میں ہیں ثابت ہو جائیں گی- یعنے فی البدیہہ عربی نویسی سے جس کے لئے بجز ایک گھنٹہ کے سوچنے کے لئے موقع نہیں دیا جائے گا-فریق غالب کا وہ مابہ الامتیاز ثابت ہو گا جس کا فرقان ہے- اور قرآنی معارف کے لکھنے سے وہ علامت مستحقق ہو جائے گی جو آیت لا یمسہ الا المطھرون کا منشاء رہے- اور دعا کے قبول ہونے سے جو پیش از مقابلہ فریقن کریں گے، فریقن غالب کا حسب آیت ادعونی استجب لکم مومن مخلص ہونا بپایہ ثبوت پہنچے گا- اور اس طرح پر یہ اُمّت تفرقہ سے نجات پا جائے گی- چاہیے کہ اس اشتہار کے وصول کے بعد جس کو مَیں رجسٹری کرا کر بھیجوں گا- مہر علی شاہ صاحب اس دن تک اپنی منظوری سے مجھے اطلاع دیں ٭ لیکن ضروری ہو گا کہ یہ اطلاع ایک چھپے ہوئے اشتہار کے ذریعہ سے ہو- جس پر میرے اشتہار کی طرح بیس معززلوگوں کی گواہی ہو اور بحالت مغلوبیت اپنی بیت کا اقرار بھی درج ہو-
یاد رہے کہ مقام بحث لاہور کے جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہو گا- اور ایک ہفتہ پہلے مجھے بذریعہ رجسٹری شدہ خط کے اطلاع دینا ہو گا یا اسی جگہ حاضر ہو جائوں- اگر مَیں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں مَیں کاذب سمجھا جائوں گا- انتظام مکان جلسہ پیر صاحب کے اختیار میں ہو گا- اگر ضرورت ہوئی ٭ تو بعض پولیس کے افسر بُلالئے جائیں گے-
ھٰزا ما ارانی ربیّ رب السمٰوات العلے نادعوک یا قرنی علیٰ بصیرۃ من ربیّ و لعنۃ اللّٰہ علیٰ من تخلّف منا اوابیٰ والسلام علیٰ من تبع الھدیٰ تعالو الیٰ کلمۃ سرابینا و بینکم واتقو اللّٰہ الذی یسمع و یریٰ
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــار
المشتھــــــــــر
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء
گواہ شد ند
مولوی حکیم نور الدین صاحب - مولوی محمد احسن صاحب امروہوی- مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی- مولوی محمد علی صاحب ایم - اے- ایل ایل بی- مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی- مرزا خدا بخش صاحب مصاحب- نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ- حکیم شاہ نواز صاحب راولپنڈی- ماسٹر مولوی شیر علی صاحب بی- اے ہیڈماسٹر سکول تعلیم الاسلام قادیان- صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی- صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرساوی اولاد چار قطب- میر ناصر نواب صاحب گورنمنٹ پیشنر دہلوی حال قادیان- ماسٹر عبد الرحمن صاحب ایف - اے سیکنڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان- سیّد فضل شاہ صاحب ٹھکیدار - مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹندٹ ضلع جہلم- مولوی قطب الدین صاحب کمپونڈر شفاخانہ قادیان- مولوی محمد فضل صاحب چنگوی- مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری- مولوی حافظ احمد اللہ خانصاحب مدرس سکول قادیان- مولوی قاضی سیّد امیر حسین صاحب مدرس - شیخ عبد الرحیم صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڑ نگ قادیان
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان)
ضمیمہ اشتہار دعوت
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی
پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہزار ہا مرید اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم میں اور حقایق اور معارف دین میں اور علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں- اسی وجہ سے مَیں نے اس امتحان کے لئے پیر صاحب موصوف کو اختیار کیا ہے کہ تاان کے مقابلہ سے خدا تعالیٰ کا وہ نشان ظاہر ہر جائے جو اُن کے مرسلین اور مامورین کی ایک خاص علامت ہے- لیکن ممکن ہے کہ اس ملک کے بعض علماء ناحق شیخی سے یہ خیال کریں کہ ہم قرآن شریف کے جاننے اور زبان عربی کے علم ادب میں پیر صاحب موصوف پر فوقیت رکھتے ہیں- یا کسی آسمانی نشان کے ظاہر ہونے کے وقت یہ عذر پیش کردیں کہ پیر صاحب موصوف کا مغلوب ہونا ہم پر حجّت نہیں ہے اور اگر ہمیں اس مقابلہ کے لئے بُلایا جاتا تو ضرور ہم غالب آتے- اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان تمام بزرگوں کو بھی اس مقابلہ سے باہر نہ رکھا جائے اور خود ظاہر ہے کہ جس قدر مقابلہ کرنے والے کثرت سے میدان میں آئیں گے اسی قدر الہٰی نشان کی عظمت بڑی قوت سے سطوت سے ظہور میں آئے گی- اور یہ ایک ایسا زبردست نشان ہو گا کہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے گا اور ممکن ہے کہ اس سے بعض نیک دل مولویوں کو ہدایت ہو جائے اور وہ اسی الہٰی طاقت کو دیکھ لیں جو اس عاجزکے شامل حال ہے- لہذا اس ضمیمہ کے ذریعہ سے پنجاب اور ہندوستان کے تمام اُن مولویوں کو مَدعوّ کیا جاتا ہے جویہ خیال کرتے ہیں کہ وہ علم قرآن اور عربی کے علم ادب اور بلاغت فصاحت میں سر آمد روز گار ہیں- مگر شرائط ذیل کی پابندی ضروری ہو گی-
(۱) اس مقابلہ کے لئے پیر مہر علی صاحب کی بہر حالت شمولیت ضروری ہو گی- کیونکہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ علم اور قرآن دانی میں ان تمام مولویوں سے بزرک اور افضل ہیں- لہذا کسی دوسرے مولوی کو صرف اس حالت میں قبول کیا جائے جب پیر مہر علی شاہ صاحب اس دعوت کو قبول کر کے بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے شائع کر دیں- کہ مَیں مقابلہ کے ل طیار ہوں٭ یا مقابلہ کرنے والے علماء کی ایک ایسی جماعت پیش کریں جو چالیس سے کم نہ ہو - ہاں ضروری ہو گا کہ دوسرے مولوی صاحبوں کے لئے وقت اور گنجائیش نکالنے کے لئے پیر صاحب موصوف مباحثہ کے لئے ایک مہینے سے کم تاریخ مقرر نہ کریں تا اس مدّت تک باور کرنے کی وجہ پیدا ہو جائیکہ ان تمام مولویوں کو پیر مہر علی شاہ صاحب کے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد پیر صاحب موصوف دس دن کے اندر اس دعوت کے قبول کے بارے میں ایک عام اشتہار شائع کر دیں- اور بہتر ہو گا کہ پانچ ہزار کاپی چھپوا کر بذریعہ چند نامی مولوی صاحبان پنجاب وہندوستان میں اس معرکہ مباحثہ کی عام شہرت دے دیں-
(۲) دوسری شرط یہ ہو گی کہ مقال مباحثہ لاہور ہو گا جو صدر مقام پنجاب ہے اور تجویز نکان پیر صاحب کے ذمّہ ہو گی- لیکن اگر وہ اپنے اس اشتہار میں جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے تجویز مکان اپنے ذمہ نہ لیں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہو گی اور کچھ حرج نہیں تمام کرایہ مکان مباحثہ مَیں ہی دوں گا-
ّ(۳) تیسری شرط یہ ہے کہ بحث صرف ایک دن میں ہی ختم ہو جائے گی اور ہر ایک شخص مقابل کر سات گھنٹے تک لکھنے کے لئے مہلت ملے گی-
(۴) چوتھی یہ شرچ ہے کہ جس قدر اس مقابلہ کے لئے مولوی صاحبان حاضر ہوں گے اُن کے لئے جائز نہ ہو گا کہ ایک دوسرے کو کسی قسم کی مدد دیں- نہ تحریر سے نہ تقریر سے نہ اشارات سے بلکہ ضروری ہو گا کہ ایک صاحب ایک مناسب فاصلہ پر ایک ایک دوسرے سے دُور ہو کر بیٹھیں اور ایک دوسرے می تحریر کو نہ دیکھیں- اور جو شخص ایسی حرکت کرے وہ کمرہ مقابلہ سے فی الفور نکال دیا جائے گا- اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب اپنے ہاتھ سے ہی لکھے- ہر گز جائز نہیں ہو گا کہ آپ بولتاجائے اور دوسرا لکھتا جائے کیونکہ اس صورت میں اقتباس سے استراق کا اندیشہ ہے-
(۵) ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب جب اپنے مضمون کو تمام کر لیں جو کم سے کم حسب ہدایت اشتہار ہذا بیس ورق کا ہو گا جس میں کوئی عبارت اردو کی نہیں ہو گی بلکہ خالص عربی ہو گی تو اس کے نیچے اپنے پوری دستخط کریں اور اسی وقت ایک ایک نقل اس کی مع دستخط اور نیز مع ایک تصدیقی عبارت جو بدیں مضمون ہو کہ نقل ہذا مطابق اصل ہے- اس عاجز کے حوالہ کر دیں- اور یہ میرا بھی فرض ہو گا کہ مَیں بھی بعد اخذ تمام نقول کے ایک نقل اپنی تحریر بعد ثبت دستخط پیر مہر علی صاحب کو دے دوں٭ یہ میرے ذمہ نہیں ہو گا کہ ہر ایک پیر صاحب کو ایک ایک نقل دوں کیونکہ اس تھوڑے سے وقت میں ایسا ہونا غیر ممکن ہے- کہ مَیں مثلاً پچاس مولویوں کے لئے پچاس نقلیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں- ہاں ہر ایک مولوں صاحب کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے لئے ایک ایک نقل میرے مضمون کی پیر مہر علی شاہ صاحب سے لے کر خود لکھ لیں- مگر یہ اس وقت ہو گا کہ جب اپنے مضمون کی نقل مجھے دے چکیں -
(۶) ہر ایک شخص اپنا اپنا مضمون بعد لکھنے کے آپ سُنائے گا یا اختیار ہو گا کہ جس کو وہ پسند کرے وہ سُنا دے-
(۷) اگر سُنانے کے لئے وقت کافی نہیں ہو گا تو جائز ہو گا کہ وہ مضمون دوسرے دن سُنایا دیا جائے - مگر یہ ضروری شرط ہو گی کہ سُنانے سے پہلے اسی دن اور اسی وقت جبکہ وہ بالمقابل تحریر ختم کر چکے ہوں ایک نقل بعد ثبت دستخط مجھ کو دے دیں اور جائز نہیں ہو گا کہ نقل دینے کے بعد اس مضمون پر کچھ زیادہ کریں یا اصلاح کریں اور سہوونسیان کا کوئی عذر سُنا نہیں جائے گا- اور اس شرط کا ہم میں سے ہر ایک پابند ہو گا-
(۸) تمام مضامین کے سُنانے کے بعد تین مولوی صاحبان جن کو پیر مہر علی شاہ صاحب تجویز کریں گے اس قسم کے تین مرتبہ کے حلق کے ساتھ جو قذف محسنات کے بارے میں قرآن شریف میں مندرج ہے اپنی رائے ظاہر کریں گے کہ کیا یہ تمام مولوی صاحبان مقابل میں غالب رہے یا مغلوب رہے اور وہ رائے منطبع ہو کر وہی آخری فیصلہ ہمرا اور ہمارے اندرونی مخالفوں کا قطعی طور پر قرار دیا جائے گا- ٭
(۹) نویں شرط یہ ہے کہ اگر الہٰی رُعب کے نیچے آ کر پیر مہر علی شاہ صاحب اس مقابلہ سے ڈر جائیں اور دل میں اپنے تئیں کاذب اور ناحق پر سمجھ کرگریز اختیار کر لیں تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہو گا کہ دوسرے مولویوں میں سے صرف ایک یا دو شخص مقابلہ کا اشتہار دیں کیونکہ ایسا مقابلہ بے فائدہ اور محض تضیع اوقات ہے- وجہ یہ کہ بعد میں دوسرے مولویوں کے لئے یہ عذر بنا رہتا ہے کہ مقابلہ کرنے والے کیا چیز اور کیا حقیقت تھے یا جاہل اور بے علم تھے- لہذا یہ ضروری ہو گی کہ اس حالت میں جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنے مریدوں کو دریائے ندامت میں ڈال کر بھاگ جائیں اور اپنے لئے کنارہ کشی کا داغ قبول کر لیں تو کم سے کم چالیس نامی مولویوں کا ہونا ضروری ہے جو میدان میں آنے کی درخواست کریں اور ہمیں منظور ہے کہ وہ ان میں سے ہوں جن کے نام ذیل میں لکھے جائیں گے یا اسی وجہ سے اور مولویں صاحبان باہم مل کر اشتہار دیں جو چالیس سے کم نہ ہوں اور اس صورت میں ان سے بپابندی شرائط مذکور بالا مقابلہ کیا جائے گا-
(۱۰) اگر اشتہار ہذاکے شائع ہو نے کے تاریخ سے جو ۲۲ جولائی ۱۹۰۰ء ہے ایک ماہ تک نہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اس میدان میں حاضر ہونے کے لئے کوئی اشتہار نکلا اور نہ دوسرے مولویوں کے چالیس کے مجمع نے کوئی اشتہار دیا تو اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اُن سب کے دلوں میں رُعب ڈال کر ایک آسمانی نشان ظاہر کیا کیونکہ سب پر رُعب ڈال کر سب کی زبان بند کر دینا اور ان کی شیخیوں کو کچل ڈالنا یہ کام بجز الہٰی طاقت کے کسی دوسرے سے ہر گز نہیں ہو سکتا- وتلک عشرۃ کاملۃ من الاشراط التی ارد ناذکرھا- اب مَیں ذیل میں ان حضرات صاحبان کے نام لکھتا ہوں جو اس مقابلہ کے لئے بشرط شمولیت پیر مہر علی شاہ صاحب یا بشرط مجمع چالیس بُلائے گئے ہیں- اور اگر ان کے سوا اہل پنجاب اور ہندوستان میں سے یا اُن عربوں میں سے جو نزیل برٹش انڈیا ہوں اس ملک کے کسی گوشہ میں اور مولوی صاحبان موجود ہوں جو مکذّب موصوفین کے نام یہ ہیں-
(۱) مولوی محمد صاحب لدھیانہ (۸) مولوی غلام حسن صاحب سیالکوٹ
(۲) مولوی عبدالعزیز صاحب برادر (۹)مولوی محمد خلیل احمد صاحب
مولوی محمد صاحب لدھیانہ انھیٹہ ضلع سہارنپور
(۳) مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ (۱۰) مولوی شاہ محمد حسین صاحب
(۴) مولوی مشتاق احمد صاحب صابری محب الٰہی سنبل مراد آباد
انبھنیٹوی مدرس لودھیانہ (۱۱)مولوی نذیر احمد خان صاحب دہلوی
(۵) مولوی شاہد ین صاحب مفتی لودھیانہ سابق ڈپٹی کلکٹر پنشنر سرکار نظام
(۶) مولوی معظم الدین صاحب (۱۲) مو لوی عبداللطیف صاحب امروہی
مرولہ والہ ضلع شاہ پور لوٹ مومن مدرس مدرسہ اودے میواڑ- راجپوتانہ
(۷) مولوی عبد اللہ صاحب چکٹرانوی (۱۳) مولوی ولی محمد صاحب جالندھری
معرفت میاں مٹھو صاحب ساکن لاہور ساکن پتارہ
(۱۴) قاضی عبدالقدوس صاحب چھائونی بنگلور (۲۷) مولوی محمد حسین صاحب تحصیل چکوال
(۱۵) مولوی شیخ عبداﷲ صاحب ساکن چک عمر تحصیل چکوال موضع بھین ضلع جہلم
ضلع گجرات تحصیل کھاریاں (۲۸) مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری
(۱۶)مولوی محمد حسن صاحب مفسر ساکن (۲۹) مولوی کلیم اﷲ صاحب مچھیانہ- گجرات
امروہہ محلہ ملانا - ضلع مراد آباد (۳۰) مولوی محمد اسحاق صاحب اجراوری
(۱۷) مولوی عبدالغفار صاحب مفتی پٹیالہ
ریاست گوالیر (۳۱) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی
(۱۸) مولوی عبدالعزیز صاحب محلہ کہڈہ یا جس مولوی وہ اپنا وکیل کریں
کرانچی (۳۲) مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی
(۱۹) مولوی احمد حسن صاحب مدرس (۳۳) مولوی کرامت اﷲ صاحب دہلوی
مدرسہ پانواڑی امروہہ- ضلع مراد آباد محلہ باڑہ - بازار صدر
(۲۰) مولوی قاسم شاہ صاحب سیفی (۳۴) مولوی فضل الدین صاحب گجرات پنجاب
مجتہد لاہو ر (۳۵)مولوی عبدالوہاب صاحب امام مسجد
(۲۱) مجتہد صاحب لکھنؤ صدر دہلی
(۲۲) مولوی عنایت علی صاحب شیعی (۳۶) علماء ندوہ لکھنؤ جس عالم کو اپنا وکیل کریں
سامانہ ریاست پٹیالہ (۳۷)مولوی منشی سلیمان صاحب ملازم
(۲۳) مولوی سکندر صاحب شہر میسور ریاست پٹیالہ- مولف غایت المرام
(۲۴) مولوی لطف اﷲ صاحب قاضی (۳۸)مولوی مسیح الزمان صاحب شاہجہانپور
القضاۃ حیدر آباد یا جو عالم شاہجہانپور کا ہو
(۲۵) مولوی نذیر حسین صاحب انبھیٹہ سہارنپور (۳۹) مولوی محمد صدیق صاحب دیوبندی
(۲۶) مو۸لوی عبداﷲ صاحب سجادہ نشین حال مدرس بچھرایوں- مراد آباد
گڑھی پٹھانونکی- ضلع راولپنڈی (۴۰) مولوی محمد شفیع صاحب قصبہ رامپور
ضلع سہارنپور (۵۴) مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر
(۴۱)مولوی محمد شبلی صاحب نعمانی سابق حمایت اسلام
پروفیسر علیگڑھ کالج (۵۵) مولوی محمد بشیر صاحب بھوپال
(۴۲) مولوی دیدار علی صاحب ریاست (۵۶) مولوی عبد الجبار صاحب امرتسر
انور مسجد دائرہ (۵۷) مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر
(۴۳)شیخ خلیل الرحمن صاحب سرساوہ (۵۸) مولوی رسل بابا صاحب امرتسر
سہارنپور سجادہ نشین چار قطب ہانسوی (۵۹) مولوی عبد الحق صاحب مفسر تفسیر
(۴۴) مولوی نظام الدین صاحب قاضی حقانی دہلی
مالیرکوٹلہ (۶۰) مولوی عبد الحق صاحب امرتسر
(۴۵) شیخ اﷲ بخش صاحب تونسوی سنگھڑ (۶۱) مولوی عبد الواحد صاحب امرتسر
مع جماعت علماء (۶۲) مولوی منہاج الدین صاحب کوٹ (۴۶) مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی پروفیسر (۶۳) مولوی احمد صاحب ساکن سکندر پور ہزارہ
(۴۷) قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر (۶۴) مولوی احمد صاحب ساکن سکندر پور ہزارہ
(۴۸) مولوی عبدالحکیم صاحب پروفیسر (۶۵)قاضی امیر عالم صاحب ساکن
(۴۹) مولوی عبداﷲ صاحب ساکن جلو سکندر پور ہزارہ
خلیفہ پیر مہر شاہ صاحب گولڑوی (۶۶) مولوی رشید احمد صاحب کنگوہ
(۵۰) مولوی غلام محمد صاحب چکوال جہلم ضلع سہارنپور
(۵۱) مولوی ابراہیم صاحب آرہ (۶۷) مولوی الطاف حسین صاحب
(۵۲) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عالی پانی پتی
(۵۳)مولوی شیخ حسین صاحب عرب (۶۸) مولوی ابولخیر نقشبندی خانقاہ
یمانی - بھوپال حضرت مرزا مظہر جانجاں صاحب ٍٍ خالص دہلی
(۶۹) مولوی احمد علی صاحب واعظ سابق (۷۹) مولوی عبد السمیع صاحب راہپوری
مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور حال مدرسہ حال ملازم شیخ الہٰی بخش صاحب
اسلامیہ میرٹھ رئیس میرٹھ
(۷۰) مُلاّ مانکی صاحب نوشہرہ- پشاور ( ۸۰)مولوی محمود حسن صاحب مدرس اوّل
صابری دہلی جامع مسجد مدرسہ دیو بند
(۷۱) مولوی عبد المنان صاحب وزیر (۸۱) مولوی احمد حسن صاحب کنج پوری صابری
آبادی جس عالم بینا کو منتخب فرما ویں دہلی جامع مسجد
(۷۲) قاضی سلطان محمود صاحب آئی آوان (۸۲) مولوی احمد حسن صاحب ایڈیٹر
گجرات اخبار شحنہ ہند- میرٹھ
(۷۳) مولوی غلام محمد صاحب بگہ والہ مسجد (۸۳) مولوی عبد الخالق صاحب جہاں شای لاہور خیلاں ضلع ہوشیار پور
(۷۴)مولوی محمد زکریا صاحب انجمن حمایت (۸۴) مولوی عبد الرحمن صاحب
اسلام لاہور یا جس مولوی صاحب کو انجمن تجویز کرے چھوہردی ضلع ہزارہ
(۷۵)مولوی غلام محمد صاحب ملازم انجمن نعمانیہ لاہور (۸۵) مولوی فقیر محمد عزیز صاحب تر
(۷۶) مولوی غازیخانصاحب گولڑہ راولپنڈی نواہ ضلع ہزارہ
(۶۷) مولوی غلام رسول صاحب قطب ال- گوجر خاں(۸۶) شیخ نظام الدین صاحب
(۷۸)مولوی مفتی غلام محی الدین گڑھا ڈاکخانہ ڈومیلی سجادہ شاہ نیاز صاحب خاص بریلی
المشتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہر
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان - ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء اسلام پریس قادیان ـ
یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے)
(۲۲۵)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی
اربعین نمبر او ّل
آج مَیں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں-٭ تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو مَیں نے پورا کیا- سو اب مَیں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتاہوں کہ مَیں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دُنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہے- انہی معنوں سے مَیں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دُنیا میں پھیلائوں- میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اُٹھائی جائے اورمذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں اور مَیں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بردباری اور حلم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلائوں - مَیں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دُنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے- مَیں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر - مَیں صرف اُن باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے- انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے- اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول -
میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرّک یہ ہے کہ مَیں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیںگے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے- وہ ہیرا کیا ہے؟ سچّا خدا- اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچّا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا- پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ مَیں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور مَیں عیش کروں- یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوگا- میرا دل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے- ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے- مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پُر ہو جائیں-
ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنے نوع سے محبت کرتی ہے یہانتک کہ چیونٹیاں بھی- اگر کوئی خود غرضی حائل نہ ہو- پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ محبت کرے- سو مَیں نوعِ انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتاہوں- ہاں ان کی بدعملیوں اور ہر ایک قسم کے ظلم اور فسق اور بغاوت کا دشمن ہوں- کسی ذات کا دشمن نہیں- اس لئے وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے- وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں- اور یہ امر کہ وہ مال جو مجھے ملا ہے وہ حقیقت میں از قسم ہیرا اور سونا اور چاندی ہے کوئی کھوٹی چیزیں نہیں ہیں- بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ان تمام درہم اور دینار اور جواہرات پر سلطانی سکّہ کا نشان ہے یعنی وہ آسمانی گواہیاں میرے پاس موجود ہیں جو کسی دوسرے کے پا س نہیں ہیں- مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں دین اسلام ہی سچا ہے- مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے- مجھے سمجھایا گیا ہے تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیّدنا و مولانا مصطفیٰ صلے اللہ و علیہ وسلم ہیں- اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے- کہ مَیں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی موعود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں- یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا- اور پھر خدا نے اپنے بلاواسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو- غرض میرے ان ناموں پر تین گواہ ہیں- میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے- مَیں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے- اگر آسمانی نشانوں میںکوئی میرا مقابلہ کر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر دعائوں کے قبول ہونے کے کوئی میرے ہم پلّہ ٹھیر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلّہ ٹھیر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو مَیںخدا کی طرف سے نہیں ہوں-
اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سیّدنا و سیّد الوریٰ محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئییا کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا- مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گذرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروئوں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے- بجز اسلام وہ مذہب کہا ں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں- اگر انسان ایسے مذہب کا پیرو ہو جس میں آسمانی ذرائع کی کوئی ملاوٹ نہیں تو و اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی رُوح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو- اور میںصرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتاہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچّی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا- مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے- اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے- اور یاد رکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے- پس یہ اسلامی حقیقت اور میری حقانیت کی زندہ دلیل ہے-
ختم اہوا پہلا نمبر اربعین کا-
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء
(۲۲۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
عام لوگوں کو اس بات کی اطلاع کہ
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے
میری دعوت کے جواب میں کیا کاروائی کی
ناظرین آپ لوگ میرے اشتہار کو پڑھ کر دیکھ یں کہ مَیںنے پیر مہر علی شاہ صاحب کو یہ لکھا تھا کہ مجھ سے اس طرح پر فیصلہ کر لیںکہ بطور قرعہ اندازی کے قرآن شریف میں سے ایک ایک سُورۃ لی جائے اور اگر وہ سورہ چالیس آیت سے زیادہ ہو تو اس میں سے صرف چالیس آیت سورۃ کے ابتداء سے لی جائیں- اور پھر میں اور پہر مہر علی شاہ صاحب بغیر کسی دوسرے کے اس سورہ کی عربی تفسیر لکھیں اور جو شخص اس طرح غالب قرار پاوے کہ تین گواہ جو وہ بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کے فریق مغلوب اپنے تئیں کاذب سمجھ للے اور اپنے کذاب کا اقرار شائع کر دے اور اس طرح یہ روز کا جھگڑا جو دن بدن موجب تفرقہ ہے فیصلہ پا جائے گا- کیونکہ اس سخت مشکل کام میں کہ فصیح عربی میں قرآن شریف کی تفسیر چند گھنٹہ میں بغیر کسی مدد کسوی دوسرے شخص اور کتاب کے لکھیں- درحقیقت یہ ایسا کام ہے جوبجز تائید رُوح القدس ہر گز انجام پذیر نہیں ہو سکتا- اگر پیر صاحب اس طریق کا فیصلہ منظور کر لیتے تو اُن کے لئے بہت بہتر تھا کیونکہ وہ اہل علم بھی کہلاتے ہیں اور اُن کے مرید ان کو قطب اور صاحب دلایت بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے منظور نہ کیا اور چونکہ کھلے کھلے انکار میں ان کی علمیّت اور قطبت پر داغ لگتا تھا اس لیے ایک چال بازی کی راہ اختیار کر کے یہ حجت پیش کر دی کہ آپ کے شرائط منظور ہیں- مگر اوّل قرآن و حدیث کے رُو سے تمہارے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہیے- پھر اگر مولوی محمد حسین بٹالوں اور ان کے ساتھ کے دو اَور آدمیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ تم اس بحث میں حق پر نہیں ہو تو تمہیں میری بیعت کرنی پڑے گی- پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا بھی مقابلہ کر لینا- اب ناظرین خوط سوچ لیں کہ انہوں نے اس طرز کے جواب میں میری دعوت کو قبول کیا یا ردّ کیا- مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کا ٹھٹھا اور ہنسی ہے کہ ایسے عقائد کے بحثوں میں جن میں ان کو خود معلوم ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی سب سے اوّل مخالف شخص ہے اُس کی رائے پر فیصلہ چھوڑتے ہیں- حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مجھے سچّا قرار دینا گویا اپنی قدیم مخالفت کو چھوڑنا ہے- ہاں اعجازی مقابلہ پر اس کی قسم کا مدار رکھا جاتا تو یہ صورت اَور تھی کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ خد اتعالیٰ ایک معجزہ کے طور پر ایک فریق کی تائید کرتا تو محمد حسین کیا بلکہ صد ہا انسانوں بے اختیار بول اُٹھتے کہ خدا نے اپنے رُوح القدس سے اس شخص کی مدد لی کیونکہ اس قدر انکشاف حق کے وقت کسی کی مجال نہیں جو جھوٹی قسم کھا سکے ورنہ منقولی مباحثات میں تو عادتاً ایک کو دن طبع اپنے تئیں سچ پر سمجھتا ہے- اور قسم بھی کھا لیتا ہے-
ماسوا!اس کے پیر صاحب کویہ بھی معلوم ہے کہ میں رسالہ انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ آیندہ مَیں منقولی بحثیں ان علماء سے نہیں کروں گا- اور پھر کیونکہ ممکن ہے کہ مَیں اس عہد کو توڑ دوں- اور پیر صاحب کی جماعت کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ گندی گالیوں کے کارد میرے نام ڈاک کے ذریعہ سے بھیجے جاتے ہیں- ایسی گالیاں کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چوہڑہ یا چمار بھی زبان پر نہیں لا سکتا- پہلے میرا ارادہ تھا کہ پیر صاحب کا یہ گمان باطل بھی توڑنے کے لئے کہ گویا نصوص قرآنیہ اور حدثیہ کی رو سے کچھ بحث کر سکتے ہیں اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج دوں- اور اگر حبی فی اللہ فاضل جلیل القدر مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی پیر صاحب کے ساتھ بحث کرنا قبول فرماتے تو اُن کا فخر تھا کہ ایسے سیّد بزرگو محدّث اور فقیہ نے اپنے مقابلہ کے لئے اُن کو قبول کیا- مگر افسوس کہ سیّد صاحب موصوف نے جب دیکھا کہ اس جماعت میں ایسے گندے لوگ موجود ہیں کہ گندی گالیاں اُن کا طریق ہے تو اس کو مشتے نمونہ ازخروارے پر قیاس کر کے ایسی مجلسوں میں حاضر ہونے سے اعراض بہتر سمجھا- ہاں مَیں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے لئے بطور تحفہ ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام مَیں نے تحفہ گولڑویہ رکھا ہے جب پیر صاحب موصوف اس کا جواب لکھیں گے تو خود لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دلائل کیا ہیں اوران کا جواب کیا- اب ہم اپنے اس اشتہار کے مقابل پر جو بنا اس دعوت کی ہے- پیر مہر علی شاہ صاحب کا اشتہار لکھ دیتے ہیں - ناظرین خود فیصلہ کر لیں کہ آیا ان کا جواب نیک نیتی اور حق پژدہی کی راہ سے ہے یا شطرنج کے کھیلنے والے کی طرح ایک چال ہے- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پیر مہر علی شاہ صاحب کے توجہ دلانے کے لئے آخری
حیلہ
ناظرین کو خوب یاد ہو گا کہ مَیںنے موجودہ تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہم دونوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے ایک قرآنی سورہ لے کر عربی فصیح یا بلیغ میں اس کی ایسی تفسیر لکھیں جو قرآنی علوم یا حقایق اور معارف پر مشتمل ہو اور پھر تین کس مولوی صاحبان جن کا ذکر پہلے اشتہار میں درج ہے- قسم کھا کر ان دونوںتفسیروں میں ایک تفسیر کوترجیع دیں کہ اس عربی نہایت عمدہ اور اس کے معارف نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں- پس اگر پیر صاحب کی عربی کو ترجیح دی گئی تو مَیںسمجھ لوں گا کہ خدا میرے ساتھ نہیں ہے تب ان کے غلبہ کا اقرار کروں گا اور اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اور اس طرح پر فتنہ جو ترقی پر ہے فرد ہوجائے گا- اور اگر مَیں غالب رہا تو پھر میرا دعویٰ مان لینا چاہیے- اب ناظرین خود سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح سے بڑی صفائی سے فیصلہ ہو سکتا تھا- اور پیر صاحب کے لئے مفید تھا کیونکہ قسم کھانے والا جس کے فیصلہ پر حصر رکھا گیا تھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی ہے اور دواُن کے اَور رفیق تھے-مگر پیر صاحب نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اس کے جواب میں یہ اشتہار بھیجا کہ پہلے نصوص قرآنیہ حدیثیہ کے رو سے مباحثہ ہونا چاہیئے اور اس مباحثہ کے حکم وہی مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے دو رفیق تھے- اگر وہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ اس مباحثہ میںپیر مہر علی شاہ صاحب جیت گئے تو اسی وقت لازم ہو گا کہ مَیں ان کی بیعت کر لوں- پھر بالمقابل تفسیر بھی لکھوں- اب ظاہر ہے کہ اس طرح جواب میں کیسی چال بازی سے کام لیا گیا ہے مُنہ سے تو وہ میری تمام شرطیں منظور کرتے یہں مگر تفسیر لکھنے کے امر کو ایک مکر سے ٹال کر زبانی مباحثہ پر حصر کر دیا ہے اور ساتھ ہی بیعت کی شرط لگا دی ہے- بہت زور دیا گیا مگر اُن کے مُنہ سے اب تک نہیں نکلا کہ ہاں مجھے بغیر زیادہ کرنے کسی اور شرط کے فقط بالمقابل عربی میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور باایں ہمہ ان کے مرید لاہور کے کوچہ وبازار میں مشہور کر رہے ہیں کہ پیر صاحب نے شرطیں منظور کر لی تھیں- اور مرزا ان سے خوف کھا کر بھاگ گیا- یہ عجیب زمانہ ہے کہ اس قدر مُنہ پر جھوٹ بولا جاتا ہے پیر صاحب کا وہ کونسا اشتہار ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مَیں کوئی زیادہ شرط نہیں کرتا- مجھے بالمقابل عربی فصیح میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور اسی فریقین کے صدق و کذب کا فیصلہ ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی شرط زائد نہیں لگائی جائے گی- ہاں مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ شرطیں منظورہے اور اسی فریقین کے صدق وکذب کا فیصلہ ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی شرط زائد نہیں لگائی جائے گی- ہاں مُنہ سے تو کہتے ہیںکہ شرطیں منظور ہیں- مگر پھر ساتھ ہی یہ حجت پیش کر دیتے ہیں کہ پہلے قرآن اور حدیث کے رُو سے مباحثہ ہو گا- اور مغلوب ہو گئے اسی وقت بیعت کرنی ہو گی- افسوس کہ کوئی صاحب پیر صاحب کی اس چال کو نہیں سوچتے کہ جبکہ مغلوب ہونے کے حالت میں کہ صرف مولوی محمد حسین کی قسم سے سمجھی جائے گی میرے لئے بیعت کرنے کا قطعی حکم ہیجس کے بعد میرا عذر نہیں سنایا جائے گا- تو پھر تفسیر لکھنے کے لئے کونسا موقع میرے لئے باقی رہا-گویا مجھے تو صرف مولوی محمد حسین صاحب کے ان چند کلمات پر بیعت کرنی پڑے گی کہ جو پیر صاحب کے عقائد میں وہی صحیح ہیں گویا پیر صاحب آپ ہی فریق مقدمہ اور آپ ہی منصف بن گئے- کیونکہ جبکہ مولوی محمد حسین صاحب کے عقائد حضرت مسیح اور مہدی کے بارے میں بالکل پیر صاحب کے مطابق ہیں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب اور پیر صاحب گویا ایک شخص ہیں، دو نہیں تو پھر فیصلہ کیاہوا- انہی مشکلات اور انہی وجود پر تو مَیں نے بحث سے کنارہ کر کے یہی طریق فیصلہ نکالا تھا جو اس طرح پر ٹال دیا گیا- بہر حال اب مجھے معلوم ہوا کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا- اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں بلکہ پیر صاحب خود بھاگ گئے ہیں- اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور انہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے- اور مَیں بہرحال لاہور پہنچ جاتا- مگر مَیں نے سُنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں-اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستون کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے - تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے- ان لوگوں کا جوش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بعض کارڈ گندی گالیوں کے ان لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں جو چوہڑوں چمارون کی گالیوں سے بھی فحش گوئی میں زیادہ ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں- بعض تحریروں میں قتل کی دھمکی دی ہے- یہ سب کاغذات حفاظت سے رکھے گئے ہیں- مگر باوجود اس کے اس درجہ کی گندہ زبانی کو ان لوگوں نے استعمال کیا ہے کہ مجھے امید نہیں کہ اس قدر گندہ زبانی ابوجہل نے آنحضرت صلے اللہ وعلیہ وسلم کے مقابل پر یا فرعون کے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے مقابلے پر دکھلائی ہو- پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیّت کو درست کر لیا ہے اور سیدھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل پر عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیںبہرحال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تفسیر لکھنے میں ہو گا لاہور میں اپنے تئیں پہنچائوں گا صرف دو امر کا خواہشمند ہوں جن پر لاہور میں میر ا پہنچنا موقوف ہے- (۱)اوّل یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی پیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کردیں جس پر پانچ لاہور کے معّزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ مَیں نے قبول کر لیا کہ مَیں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف لکھوں گا اور (۱) پہلے اس طرف پر قرعہ اندازی کی جائے گی کہ تمام قرآنی سُورتوں کے متفرق پرچوں پر نام لکھ کر فریقین میں سے ایک فریق کی جھولی میںڈال دیئے جائیں گے اور وہ فریق ان پرچوں پر نام لکھ کر فریقین میں سے ایک فریق کی جھولی میں ڈال دئیے جائیں گے اور وہ فریق ان پرچوں کو پوشیدہ رکھے گا اور دوسرا فریق اس جھولی میں ہاتھ ڈال کر ایک پرچہ نکال لے گا اور اس پرچہ کی سورۃ اگر بہت لمبی ہو گی تو اس میں اسے چالیس آیت تک یا پوری سورۃ اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو تفسیر لکھنے کے لئے اختیار کی جائے گی- (۲)فریقین کا اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے ایک دوسرے کی بخوبی تلاشی لے لیں تا کہ کوئی پوشیدہ کتاب ساتھ نہ ہو اور یہ امر موجب رنج نہ سمجھا جائے گا- (۳)اگر کوئی فریق کسی ضروری حاجت کے لئے باہر جانا چاہے تو دوسرے فریق کا کوئی نگرانی کرنے والا اس کے ساتھ ہو گا اور وہ تین آدمی سے زیادہ نہ ہوں گے (۴)ہر گزجائز نہ ہو گا کہ تفسیر لکھنے کے وقت کسی فریق کو کوئی دوسرا مولوی مل سکے بجز کسی ایسے نوکر کے جو مثلاً بانی پلانا چاہتا ہے اور فی الفور خدمت کے بعد واپس جانا ہو گا- (۵)فریقین ایک دوسرے کے مقابل دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر بیٹھیں گے اس سے زیادہ دُوری نہیں ہو گی تا وہ دونوں ایک دوسرے کے حالات کے نگران رہ سکیں- اگر کسی فریق کی کوئی خیانت ثابت ہو تو مقابلہ اسی جگہ ختم ہو جائے گا اور اس فریق کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس حالت میں کیا جاتا جو وہ مغلوب رہتا- (۶)ہر ایک فریق اپنی تفسیر کے دو دو ورق دیتا جائے گا- یا یک دفعہ نقل لکھنے میں کسی خیانت کا کسی فریق کو موقع نہ ملے- (۷)تفسیر کے بہرحال بیس ورق ہو ں گے اس قلم سے تقطیع کے موافق جو مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی کا قرآن شریف شائع ہوا ہے (۸)صبح کے چھ بجے سے ایک بجے تک یا اگر کوئی ہرجہ پیش آ جائے تو دو بجے تک دونوں فریق لکھتے رہیں گے- (۹)ہر گز اختیار نہ ہو گا کہ کوئی فریق اپنے پاس کوئی کتاب رکھے یا کسی مددگار کو پاس بٹھاوے یا کسی اشارہ کنایہ سے مدد لے- (۱۰)تفسیر میں کوئی غیر متعلق بات نہیں لکھی جائے گی- صرف قرآن شریف کی اُن آیا ت کی تفسیر ہو گی جو قرعہ اندازی سے نکلی ہیں- اگر کوئی اس شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ بھی مغلوب سمجھا جائے گا- (۱۱) اس بات پر کوئی بات زیادہ نہیں کی جائے گی کہ فریقین بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں اور نہ یہ کہا جائے گا کہ اوّل کوئی بحث کر لو یا کوئی اور شرائط قائم کر لو - فقط عربی میں تفسیر لکھنا ہو گا بس-
(۱۲) جب دونوں فریق قرعہ اندازی سے معلوم کر لیں کہ فلاں سورۃ کی تفسیر لکھنی ہے تو اختیار ہو گا کہ قبل لکھنے کے گھنٹہ یا دو گھنٹہ سوچ لیں مگر کسی سے مشورہ نہیں لیا جائے گا نہ مشورہ کا موقعہ دیاجائے گا بلکہ گھنٹہ یا دو گھنٹہ بعد لکھنا شروع کر دیا جائے گا-
یہ نمونہ اشتہار ہے جس کی ساری عبارت بلا کم و بیش پیر صاحب کو اپنے اشتہاروں میں لکھنی چاہیے اور اس پر پنج کسی معّززین لاہور کی گواہیاں ثبت ہوئی چاہیئں- اور چونکہ موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ اس مقابلہ کی لکھنی چاہیئے کہ کم سے کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے- (۲) دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہیوہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنے نواب شیخ غلاب محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سیّدبرکت علی خاں صاحب سابق اکسٹراسسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمّہ دار ہیں کہپیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں اور اُن کے ہم جنس مولویوں کی طرف سے کوئی گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی- اور یاد رہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں- مَیں اُن کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپیہ ان تینوںرئیسوں کے پاس جمع کرادوں گا- اگرمیرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زد وکوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے - مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مرید ی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں کافی ہو گا کہ حضرات معّزز رئیسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پُرجوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیزان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویون کی گفتار کردار کی ذمہ داری اپنے سر پر لیں- جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوے دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے- ان چند سطروں کے بعد جو ہرسہ معزز رئیسان مذکوریں بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر سآحب کے مذکور ہ بالا اشتہار کے بعد پھر مَیں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جائوں تو کاذب ٹھہروں گا- ہر ایک شخص جو نیک مزاج اور انصاف پسند ہے اگر اس نے لاہور میں پیرمہر علی شاہ صاحب کی جماعت کا شور و غوغا سُنا ہو گا اور ان گالیوں اور بد زبانیوں اور سخت اشتعال کے حالات کو دیکھا ہو گا تو وہ اس بات میں مجھ سے اتفاق کرے گا اس فتنہ اور اشتعال کے وقت میں بجز شہر کے رئیسوں کی پورے طور کی ذمہ داری کے لاہور میں قدم رکھنا گویا آگ میں قدم رکھنا ہے- جو لوگ گورنمنٹ کے قانون کی بھی کچھ پرواہ نہ رکھ کر علانیہ فتویٰ میری نسبت دے رہے ہیں کہ شخص واجب القتل ہے کیا ان کا وجود خطرناک نہیں ہے اور کیا شرع اور عقل فتویٰ دے سکتے ہیں کہ پُر جوش اور مشتعل لوگوں کے مجمعوں میں بغیر کسی قانونی بندوبست کے مضائقہ نہیںہے؟
بے شک لاہور کے معّزز رئیسوں کا یہ فرض ہے کہ آئے گن کے فتنوں کے مٹانے کے لئے یہ ذمہ داری اپنے سر پر لے لیں اور اپنی خاص تحریروں کے ذریعہ سے مجھے لاہور میں بُلا لیں اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ درحقیقت یہی سّچا امر ہے تو ایک اَور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے- اور وہ طریق یہ ہے کہ اس کے ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آئوں اور مجھے اجازت دی جائے کہ اس مجمع عام میں جس میں پر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں- تین گھنٹہ تک اپنے دعوے اور دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں- پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے کوئی خطاب نہ ہوگا- اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پھر پیر مہر علی شاہ صاح اُٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلککو مخاطب کر کے یہ ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا- پھر بعد اس کے لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے- ان دونوں باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرمائیں تو بشرط تحریری ذمہ داری رئو سا مذکورین مَیں لاہور میں آ جائوں گا- واللہ علیٰ ما نقول شہید- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی حکیم نور الدین صاحب
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی عبد الکریم صاحب
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی سیّد محمد سعید صاحب حیدر آبادی
گواہ شـــــــــــــــــــــــد صاحبزادہ سراج الحق جمالی نعمانی
گواہ شـــــــــــــــــــــــد شیخ غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ
گواہ شـــــــــــــــــــــــد کاتب اشتہار منظور محمد لدھیانوی
المشتھــــــــــــــــــــــــــــر
مرزا غلام احمد قادیانی- ۲۸ اگست ۱۹۰۰ء
(یاد رہے کہ جس اشتہار کے شائع کرنے کا نمونہ پیر صاحب کے لئے اس اشتہار میں لکھا گیا ہے یا جو دوسری شرط رئیسوں کی ذمہ داری کی بابت لکھی ئی ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی -منہ
نوٹ:یہ دونوں اشتہار ’’ واقعات صحیحہ‘‘ مرتبہ مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ نومبر ۱۹۰۰ء انوار احمدی پریس لاہور کے صفحات ۵۰ لغایت ۵۶ پر درج ہے- ( المرتب)
(۲۲۸)
ضمیمہ اربعین نمبر ۲
اعلان
اس امر کا اظہار ضروری سمجھایا گیا ہے کہ اربعین ۲ کے صفحہ ۲۰ پر جو تاریخ انعقاد مجمع قراردی گئی ہے- یعنی ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۰ء وہ اس وقت تجویز کی گئی تھی جبکہ ہم نے ۷ اگست ۱۹۰۰ء کو مضمون لکھ کر کاتب کے سپرد کر دیاتھا- لیکن اس اثناء میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ اشتہارات جاری ہوئے اور رسالہ گولڑویہ کے تیار کی وجہ سے اربعین نمبر ۲ کا چھپنا ملتوی رہا- اس لئے میعاد مذکور ہماری رائے اب ناکافی ہے- لہذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بجائے ۱۵ اکتوبر کے ۲۵ دسمبر ۱۹۰۰ء قرار دی جائے تا کہ کسی صاحب کو گنجایش اعتراض نہ رہے اور مولوی صاحبان کو لازم ہو گا کہ تاریخ مقررہ کے تین ہفتہ پہلے اطلاع دیں کہ کہاں اور کس موقعہ پر جمع ہونا پسند کرتے ہیں- آیا لاہور میں یا امرتسر میں بٹالہ میں- اور یہ بھی یاد رہے کہ جب تک کم از کم چایس علماء فقراء نامی کی درخواست ہمارے پاس نہیں آئے گی تب تک ہم مقام مقررہ پر وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہو ں گے-
الراقم مرزا غلام احمد از قادیان
۲۹ ستمبر ۱۹۰۰ء
(ضیاء الاسلام پریس قادیان )
(۲۲۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار واجب الاظہار
اپنی جماعت کے لئے اور گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لیے
چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ امتیاز رکھتا ہے علیٰحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے- اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کا نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد لایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں- اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے- گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہیئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے-
یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقررفرمایاہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے- بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہر گز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں یا دین کے بغض اور دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جائے یا کسی اور نوع کی ایذادی جائے یا کسی انسانی ہمدردی کا حق بوجہ کسی اجنیت مذہب کے ترک کیا جائے- یا کسی قسم کی بے رحمی اور تکبّر اور لا پرواہی دکھلائی جائے بلکہ جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کے سوہ فاتحہ میں پنجوقت اپنی نماز میںیہ اقرار کرتا ہے کہ خدا ربّ العالمین ہے اور خدا الرحمان ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے، یہی چارون صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے- ورنہ وہ اس دُعا میں کہ اس سُورت میں پنجوقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ ایّاک نعبد یعنی اے ان چاروں صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے- سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیّت نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربیّ اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کر بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا اس کی صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہٰی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے ، تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کر لے تا اپنے محب کے رنگ میں آ جائے- ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچّا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ مَیںخدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے- ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنے کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا- یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچّا عابد جو خدا کی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے - ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا دیا ہے نہ نفس کے جوش سے - یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچّا عابد کہ جو تمام الہٰی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے- لہذا خدا نے سُورۃ افاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں- میری رائے یہ ہے کہ دُنیا میں اکثر مسلمانون باستثناء قدر قلیل کے دو قسم کے ہیں- ایک وہ علماء جو آزادی کے ملکوں میں رہ کر علانیہ جہاد کی تعلیم کرتے اور مسلمانون کواس کے لئے اُبھارتے ہیں اور ان کے نزدیک برا کام دینداری کا یہی ہے کہ نوعِ انسان کو مذہب کے لئے قتل کیا جائے-
وہ اس بات کو سُننے ہی نہیں کہ خدا فرماتا ہے کہ لا اکراہ فی الدّین یعنی دین کو جبر سے شائع نہیں کرنا چاہیے- (۲)دوسرا فرقہ مسلمانوں کا یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ خُفیہ طور پر تو اس پہلے فرقہ کے ہمرنگ ہیں مگر اسی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے تقریراً یا تحریراً ظاہرکرتے رہتے ہیں کہ ہم جہاد کے مخالف ہیں- اُن کے امتحان کا ایک سہل طریق ہے مگر اس جگہ اس کے لکھنے کا موقع نہیں- جس شخس کو خدا نے وقت کانشنس عطا کی ہے- اور نور قلب بخشا ہے وہ ایسے لوگوں کو اس طرح پہنچان لے گا کہ اُن کے عام تعلقات کس قسم کے لوگون سے ہیں مگر اس جگہ ہمارا مدّعا صرف اپنا مشن بیان کرنا ہے- اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے جہادون کے سخت مخالف ہیں- ہمارے اس الہٰی فرقہ کی مختصر طور پر لائف یہ ہے کہ خدا نے پہلی قوموں کو دُنیا دے اُٹھا کر دُنیا کو نیکی کا سبق دینے کے لئے ابراہیم کی نسل سے دو سلسلے شروع کئے- ایک سلسلہ موسیٰ جو کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے شروع کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ختم کیا گیا- دوسرا سلسلہ مثیل موسیٰ یعنی سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم جو خدا کے اس وعدہ کے موافق ہے جو توریت استثناء باب۱۸ آیت۱۸ میں کیا گیا تھا- یہ سلسلہ ماسویہ کی ایک پوری نقل ہے جو مثیل موسیٰ سے شروع ہو کر مثیل مسیح تک ختم ہوا- اور عجیب تر یہ کہ جو مدت خدا نے موسیٰ سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تک رکھی تھی یعنے چودہ سو برس -اسی مدت کی مانند اس سلسلہ کی مدت بھی رکھی گئی اور موسوی خلافت کا سلسلہ جس نبی پر ختم ہوا یعنی مسیح پر، نہ وہ نبی اسرائیل میں سے پیدا ہوا کیونکہ اس کا کوئی اسرائیلی باپ نہ تھا اور نہ وہ موسیٰ اور یشوعا کی طرح تلوار کے ساتھ ظاہر ہوا، اور نہ وہ ایسے ملک اور وقت میں جس میں اسرائیلی سلطنت ہوتی پیدا ہوا- بلکہ وہ رُومی سلطنت کے ایّام میں ان اسرائیلی آبادیوں میں وعظ کرتا رہا جو پیلاطوس کے علاقہ میں تھیں-اب جبکہ پہلے مسیح نے نہ تلوار اُٹھائی اور نہ وہ بوجہ نہ ہونے باپ کے بنی اسرائیل میں سے تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کو اس نے اپنی آنکھ سے دیکھا- اس لئے دوسرا مسیح جو انجیل متی ۱۷ باب آیت ۱۰، ۱۱،۱۲ کے رُو سے پہلے مسیح کے رنگ اور طریق پر آنا چاہیے تھا جیسا کہ یوحنا نبی ایلیا کے رنگ پر آیا تھا ضرور تھا کہ وہ بھی قریش میں سے نہ ہوتا جیسا کہ یسوع نبی اسرائیل میں سے نہیں تھا- اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح اسلامی سلطنت کے اندر پیدا نہ ہوتا اور ایسی سلطنت ماتحت مبعوث ہوتا جو رُومی سلطنت کے مشابہ ہوتی- سو ایسا ہی ظہور میں آیا- کیونکہ جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ ہماری یہ سلطنت برطانیہ (خدا اس پر دین و دُنیا میں فضل کرے) رُومی سلطنت سے نہایت درجہ مشابہ ہے اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح بھی تلوارکے ساتھ نہ آتا - اور اس کی بادشاہت صرف آسمان مں ہوتی سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا- بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتح آشتی اور صلح پھیلے گی- ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اورایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا- یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں- غرض مَیںاس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ و جدل کا میدان گرم کروں- بلکہ اس لئے ظاہر ہوا ہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح اور آشتی کے دروازے کھول دوں- اگر صلح کاری کی بنیاد پر درمیان نہ ہو تو پھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فضول -حقیقت یہ ہے کہ پہلا مسیح بھی اس وقت آیا تھا-٭جب یہود میں خانہ جنگیاں کثرت سے پھیل گئی تھیں اور ان کے گھر ظلم اور تعّدی سے بھر گئے تھے-اور سخت دلی اُن کی عادت ہو گئی تھی اور سرحدی افغانون کی طرح ہو لوگ بھی دوسروں کو قتل کر کے برا ثواب سمجھتے تھے- گویا بہشت کی کُنجی بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا تھا- تب خدا نے حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد اپنا مسیح بھیجا جو لڑائیوں کا سخت مخالف تھا- وہ درحقیقت صلح کا شہزادہ تھا اور صلح کا پیغام لایا لیکن بد قسمت یہودیوں نے اس کا قدر نہ کیا- اس لئے خدا کے غضب سے عیسیٰ مسیح کو اسرائیلی نبوت کے لئے آخری اینٹ کر دیا اور اس کو بے باپ پیدا کر کے سمجھا دیا کہ اب نبوت اسرائیل میں سے گئی- تب خدا وند نے یہودیوں کو نالائق پا کر ابراہیم کے دوسرے فرزندکی طرف رُخ کیا - یعنی اسمٰعیل کی اولاد میں سے پیغمبر آخر الزّمان پیدا کیا- یہی مثیل موسیٰ کا تھا جس کا نام محمدؐ ہے- اس نام کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا- خدا جانتا تھا کہ بہت سے نا فہم مذّمت کرنے والے پیدا ہوں گے اس لئے اس کا نام محمدؐ رکھ دیا جبکہ آنحضرت شکمِ آمنہ عفیفہ میں تھے- تب فرشتہ نے آمنہ پر ظاہر ہو کر کہا تھا کہ تیرے پیٹ میں ایک لڑکا ہے جو عظیم الشّان نبی ہو گا- اس کا نام محمد رکھنا- غرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ کی طرح اپنے قوم راست بازوں کو درندون اور خونیوں سے نجات دی- اور موسیٰ کی طرح ان کو مکّہ سے مدینہ کی طرف کھینچ لایا- اور ابوجہل کو جو اس امت کا فرعون تھا بدر کے میدان جنگ میں ہلاک کیا اور پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے توریت باب ۱۸ آیت ۱۸ کے وعدہ کے موافق موسیٰ کی طرح ایک نئی شریعت ان لوگوں کو عطا کی جو کئی سَو برس سے جاہل اور وحشی چلے آتے تھے اور جیسے نبی اسرائیل چار سو برس تک فرعون کی غلامی میں رہ کر وحشیانہ حالت میں بہت بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ حلال حرام میں بھی کچھ فرق نہیں کر سکتے تھے- پس ان لوگوں کے لئے قرآن شریف بالکل ایک نئی شریعت تھی اسی شریعت کے موافق تھی جو کوہ سینا پر نبی اسرائیل کو ملی تھی- تیسری مماثلت حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ سے یہ تھی کہ جیسا کہ آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم نے بھی مثیل فرعون یعنے ابو جہل کو والی مکہ سمجھا جاتا تھا اور عرب کے نواح کا فرمان روا تھا ہلاک کر کے اپنی قوم کو سلطنت عطا کی اور جیسا کہ موسیٰ نے کسی پہلے نبی سے اصطباع نہیں پایا خود خدا نے اس کو سکھلایا ، ایسا ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اُستاد بھی خدا تھا- کسی نبی کی مریدی اختیار نہیں کی-
غرض ان چار باتون میں محمد صلے اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السّلام میں مماثلت تھی اور مَیںبیان کر چکا ہوں کہ جیسا کہ حضرت موسیٰ کا سلسلہ ایک ایسے نبی پر ختم ہوا جو چودہ سو برس کے ختم ہونے پر آیا اور باپ کے رُو سے نبی اسرائیل میں سے نہیں تھا اور نہ جہاد کے ساتھ ظاہر ہوا تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کے اندر پیدا ہوا- یہی تمام باتیں خدا نے محمدی مسیح کے لئے پیدا کیں- چودھویں صدی کے سر پر مجھے مامور کرنا اسی حکمت کے لئے تھا کہ تا اسرائیلی مسیح اور محمدی مسیح اس فاصلہ پر رُو سے جو اُن میں اور اُن کے مورث اعلیٰ میں ہے باہم مشابہ ہوں- اور مجھے خدا نے قریش میں سے بھی پیدا نہیں کیا- تا پہلے مسیح سے یہ مشابہت بھی حاصل ہو جائے کیونکہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں اور مَیں تلوار کے ساتھ بھی ظاہر نہیں ہوا- اور مَیں انگریزی سلطنت کے ماتحت مبعوث کیا گیا- اور یہ سلطنت رُومی سلطنت کے مشابہ ہے- اور مجھے امید ہے کہ اس سلطنت کے میرے ساتھ شاہانہ اخلاق رُومی سلطنت سے بہتر ظاہر ہوں گے- اور میری تعلیم وہی ہے جو مَیں اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں ملک میں شائع کر چکا ہوں- اور وہ یہ کہ اُسی خدا کو مانو جس کے وجود پر توریت ، انجیل اور قرآن تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا - وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے - اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں- خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے- زنا نہ کرو جھوٹ نہ بولو اور بد نظری نہ کرو- اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو اور نفسانی جوشوں کے مغلوب مت ہو- پنجوقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنچ طور پر ہی انقلاب آتے ہیں- اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو اور اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی-
(۴)عام خلق اللہ کی ہمدردی کرو اور اپنے نفسانی جوشوں سے کسی مسلمان ہو یا غیر مسلمان تکلیف مت دو- نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے-
(۵)بہرحال رنج و راحت میں خدا تعالیٰ کے وفا دار بندے نبے رہو- اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے مُنہ نہ پھیرو بلکہ آگے قدم بڑھائو-
(۶)اپنے رسول کی متابعت کرو اور قرآن کی حکومت اپنے سر پر لے لو کہ وہ خدا کا کلام اور تمہارا سچّا شفیع ہے-
(۷)اسلام کی ہمدردی اپنی تمام قوتوں سے کرو- اور زمین پر خدا کے جلال اور توحید کو پھیلائو-
(۸)مجھ سے اس غرض سے بیعت کرو تا تمہیں مجھ سے رُوحانی تعلق پیدا ہو- اور میرے درخت وجود کی ایک شاخ بن جائو اور بیعت کے عہد پر موت کے وقت تک قائم رہو-
یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لئے امتیازی نشان کی طرح ہیں - جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء نبی نوع اور ترک مخالفت حکّام کہ یہ سلسلہ بنیاد ڈالتا ہے- دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں- ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے-
اور وہ نام جو س سلسلہ کے موزون ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیّہ ہے- اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں- یہی نام جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات میں مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیّہجہاں تک میرے علم میں ہے مَین یقین رکھتا ہوں کہ آج تک تیس ہزار کے قریب متفرق مقامات پنجاب اور ہندوستان کے لوگ اس فرقہ میں داخل ہو چکے ہیں- اور جو لوگ ایک قسم کی بد عات اور شرک سے بیزار ہیں اور دل میںیہ فیصلہ بھی کر لیتے ہیں کہ ہم اپنی گورنمنٹ سے منافقانہ زندگی بسر کرنا نہیں چاہتے اور صلح کاری اور بُردباری کی فطرت رکھتے ہیں- وہ لوگ بکثرت اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً عقل مندوں کی اس طرف ایک تیز حرکت ہو رہی ہے اور یہ لوگ محض عوام میں سے نہیں ہیں بلکہ بعض بڑے بڑے معزز خاندانوں میں سے ہیں- اور ہر ایک تاجر اور ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ اور علماء اسلام اور رئوسا اس فرقہ میں داخل ہیں- گو بہت کچھ عام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرقہ ایذا بھی پارہا ہے لیکن چونکہ اہل عقل دیکھتے ہیں کہ خدا سے پُوری صفائی اور اس کی مخلوق سے پوری ہمدردی اور حکام کی اطاعت میں پوری طیاری کی تعلیم اسی فرقہ میں دی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ طبعاً اس فرقہ کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں- اور یہ خدا کا فضل ہے کہ بہت کچھ مخالفوں کی طرف سے کوششیں ضائع گئیں- کیونکہ جو کام خدا کے ہاتھ سے اور آسمان سے ہو انسان کو ضائع نہیں کر سکتا اور اس کا نام مسلمان فرقہ احمدیّہاس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم - اور اسم محمدؐ جلالی نام تھا اور اس میں مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتح اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا- لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے- سو خدا نے ان دونوں ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مکّہ زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا- اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمدؐ کا ظہور ہوا- اورمخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی- لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسلم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنے جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا- پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائیے تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ فرقہ دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کا کچھ سروکار نہیں-
سو اے دوستو آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں- زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے- خداایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں- تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے- اے قادر و کریم تو ایسا ی کر - آمین
واٰخروعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین
مرزا غلام احمد از قادیان ۴ نومبر ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
تعداد ۲۸۰۰ (یہ اشتہار بڑے سائز کے ۴ صفحہ پر ہے)
(۳۳۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
ناظرین کو معلوم ہو گا کہ مَیں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سُن کر اُن کی درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے ایک اشتہار٭ شائع کیا تھا جس میں ان لوگون میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے-اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا- اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کی درخواست کرتے رہتے ہیںکچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اُٹھالیں- اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی توغل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آ کر انہوں نے میری دانست فتویٰ تکفیر کو تازہ کیااور عوام کو بھڑکانے کے لئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنے مایہ علمی پر فخر کر کے میری نسبت یہ زور لگایا کہ یہ شخص علم حدیث اور قرآن سے بے خبر ہے- اور اس طرح سرحدی لوگون کو میری نسبت مخالفانہ جوش دلایا اور علم قرآن کا دعویٰ کیا- اگر یہ دعویٰ ان کا سچّا ہے کہ ان کو کتاب اللہ میں بصیرت نام عنایت کی گئی ہے تو پھر کسی کو ان کی پیروی سے انکار نہیں کرنا چاہیئے- اور علم قرآن سے بلا شبہ با خدا اور راست باز ہونا بھی ثابت ہے- کیونکہ جب آیت لا یمسّہ لا ا لمطھرون صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے- لیکن صرف دعویٰ قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہو سکتا ہے- اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے- اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا کہ الرحمن علم القراٰن کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا- اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پرکھنے کے لئے یہ نشان کافی ہو گا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میریمقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح بلیغ میں تفسیرلکھیں- اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر ان کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کلام نہیں ہو گا- پس مَیں نے اس امر کو قرار دے کر ان کی دعوت میں اشتہار شایع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے- اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ اُن کو قرآن شریف سے کچھ مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی - اور جیسا کہ عام چال بازوں کا دستور ہوتا ہے - یہ اشتہار شایع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں- پھر اگر مولوی محمد حسین اور ان کے دوسرے دو رفیق کہہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح یں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں- پھر بیعت کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی- مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار ان کی حالت پر رونا آیا ا ور ان کی حق طلبی کی نسبت جو امیدیں تھیں- سب خاک میں مل گئیں-
اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اب تک ان کے متعلقین سبّ شتم سے باز نہیں آتے٭ اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوںسے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے اور عوام کو دھوکہ پر دھوکہ دے رہے ہیں اور میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اُٹھا کر لاہور میںپہنچے مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پاکر درحقیقت وہ بزرگ نابغہ زمان اور سحبان دوران اور علم معارف قرآن میں لاثانی روز گار میں اپنے گھر کے کسی کوٹھہ میں چھپ گیا ورنہ پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے سے عربی کی بلاغت فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا- لہذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی- جس میں مَیں اتمام حجّت کے لئے پیش کرتا ہوں- اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھُل جائے گی کیونکہ تمام دُنیا اندھی نہیں ہے - انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں- اور وہ تدبیریہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کی ادب اور فصاحت بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی- کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا- اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعویٰ کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقایق سورہ ممدوحہ کے بھی بیان کروں اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرچاہیں سُورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرما دیں-
یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہے-٭تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے- اور اگر اہل علم میں سے تین کس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقن سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رُو سے اور کیا معارف قرآنی کی رُو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقدبلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا- اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے پر روز بیان کرکے روتے ہیں جو ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی- اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے - کیونکہ پیر صاحب کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقل لوگ ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں - بلکہ ہمیں اُن کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفاق پیش نہیں آیا- ورنہ اُن کے تمام دوست اُن کے طفیل سے شاھت الوجوہ سے ضرور حصہ لیتے- سو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُن کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں- جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مزین بہ بلاغت و فصاحت دیکھ لیں گے تو اُن کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں جاتے رہیں گے اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہو گا جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مدعا ہوا کرتا ہے- اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلی رکھیں کہ ہم اُن سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ اُن کو بیعت کے لئے مجبور کرتے ہیں- صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جوہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میری ردّ میں کتاب تالیف کی لوگوں پر ظاہر ہو جائیں اور شاید زلیخاؔ کی طرح اُن کے منہ سے بھی الاٰن حصحص الحق نکل آئے- اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں- مگر پیر صاحب دلگیر نہ ہوں ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسین بھین وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دوچار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں- فریقین کی تفسیر چارجز سے کم نہیں ہونی چاہئیے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر دن ہیں- فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تووہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کا کاذب ہونے کے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی-
والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
المشتھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے چار صفحہ پر ہے)
(۲۳۱)
شتاب کار نکتہ چینیوں کے لئے مختصر تحریر
اور براہین احمدیہ کا ذکر
چونکہ یہ بھی سنت اﷲ ہے کہ ہر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آتا ہے بہت سے کوتہ اندیش ناخدا ترس اس کی ذاتیات میں دخل دے کر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کیا کرتے ہیں- کبھی اس کو کاذب ٹھہراتے ہیں- کبھی اس کو عہد شکن قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کو لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا اور مال خور اور بددیانت اور خائن قرار دیتے ہیں- کبھی اس کا نام شہوت پرست رکھتے ہیں اور کبھی اس کو عیاش اور خوش پوش اور خوش خور سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی جاہل کر کے پکارتے ہیں-٭اور کبھی اس کو ان صفت سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبّر بدخلق ہے- لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سبّ و شتم کرنے والا بخیل زر پرست کذّاب دجّال بے ایمان خونی ہے- یہ سب خطاب ان لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور مامورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن اور دل کے اندھے ہوتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتاً مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں- چند روز تک یہ تمہاری چیزیں واپس لا کر دے دیں گے اور دل میں دغا تھا- آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لا کر کنعان کی طرف بھاگ گئے- اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر اُن کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوابات سے تسلّی نہیں پا سکتے- اس لئے خدا تعالیٰ کی عادت ایسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی جواب ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر اُن کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہاں تک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی- کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے کرتا رہا ہے- اسی کی طرف اﷲ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے- اِنَّا فَتَّحْنَالَکَ فَتْحًامُّبِیْنًا o لِیَغْفَرِلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ- یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطاکار ہونا ثابت کریں- غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلا م شروع ہوا ہے سُنّۃ اﷲ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرّب ہونا ثابت کردیتا ہے- تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں- سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے- اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے- بات سہل تھی- ٭ کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطور ایک حَکم کے فعل کے مان لیتے - مگر ان لوگوں کو اس قسم کے مقابلہ کا نام سننے سے بھی موت آتی ہے- مہر علی شاہ گولڑوی کو سچا ماننا اور یہ سمجھ لینا کہ وہ فتح پا کر لاہور سے چلا گیا ہے کیا یہ اس بات پر قوی دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں- نہ خدا کا ڈر ہے نہ روزِ حساب کا کچھ خوف ہے- ان لوگوں کے دل جرأت اور شوخی اور گُستاخی سے بھر گئے ہیں گویا مرنا نہیں ہے- اگر ایمان اور حیا سے کام لیتے تو اس کارروائی پر نفرین کرتے جو مہر علی گولڑوی نے میرے مقابل پر کی- کیا مَیں نے اس کو اس لئے بُلایا تھا کہ مَیں اس سے ایک منقولی بحث کر کے بیعت کر لوں؟ جس حالت میں مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کر کے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے- قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر مَیں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں جب کہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر- تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ مَیں اُن کے طنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سُن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بناء ہے اور وہ لوگ بھی اپنی ضد کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ میرے مقابل پر جھوٹی کتابیں شائع کر چکے ہیں- اور اب اُن کو رجوع اشدّ من الموت ہے تو پھر ایسی حالت میں بحث سے کونسا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا- اور جس حالت میں مَیں نے اشتہار دے دیتا کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ سے منقولی بحث نہیں کروں گا تو انصاف اور نیک نیتی کا تقاضا یہ تھا کہ ان منقولی بحثوں کا میرے سامنے نام بھی نہ لیتے- کیا مَیں اپنے عہد کو توڑ سکتا تھا؟ پھر اگر مہر علی شاہ کا دل فاسد نہیں تھا تو اس نے ایسی بحث کی مجھ سے کیوں درخواست کی جس کو مَیں عہد مستحکم کے ساتھ ترک کر بیٹھا تھا اور اس درخواست میں لوگوں کو یہ دھوکا دیا کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے دیکھو یہ کیسے عجیب مکر سے کام لیا اور اپنے اشتہار میں یہ لکھا کہ اوّل منقولی بحث کرو- اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو رفیق قسم کھا کر کہہ دیں کہ عقائد صحیح وہی ہیں جو مہر علی شاہ پیش کرتا ہے تو بلاتوقف اسی مجلس میں میری بیعت کر لو- اب دیکھو دُنیا میں اس سے زیادہ بھی کوئی فریب ہوتا ہے- مَیں نے تو اُن کو نشان دیکھنے اور نشان دکھلانے کے لئے بُلایا اور یہ کہا کہ بطور اعجاز دونوں فریق قرآن شریف کی کسی سورۃ کی عربی میں تفسیر لکھیں اور جس کی تفسیر اور عربی عبارت فصاحت اور بلاغت کی رُو سے نشان کی حد تک پہنچی ہوئی ثابت ہو وہی مؤید من اﷲ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا کہ کوئی منقولی بحثیں نہیں ہوں گی- صرف نشان دیکھنے اور دکھلانے کے لئے یہ مقابلہ ہو گا- لیکن پیر صاحب نے میری اس تمام دعوت کو کالعدم کر کے پھر منقولی بحث کی درخواست کر دی اوراسی کو مدار فیصلہ ٹھہرا دیا اور لکھ دیا کہ ہم نے آپ کی دعوت منظور کر لی- صرف ایک شرط زیادہ لگا دی- اے مکّار! خدا تجھ سے حساب لے- تُونے میری شرط کا کیا منظور کیا جبکہ تیری طرف سے منقولی بحث پر بیعت کا مدار ہو گیا جس کو مَیں بوجہ مشتہر کردہ عہد کے کسی طرح منظور نہیں کر سکتا تھا تو میری دعوت کیا قبول کی گئی؟ اور بیعت کے بعد اس پر عمل کرنے کا کونسا موقعہ راہ گیا- کیا یہ مکر اس قسم کا ہے کہ لوگوں کا یہ ایمان ہے- اس قدر ظلم کر کے پھر اپنے اشتہاروں میں ہزاروں گالیاں دیتے ہیں گویا مرنا نہیں- اور کیسی خوشی سے کہتے ہیں کہ مہر علی شاہ صاحب لاہور میں آئے ان سے مقابلہ نہ کیا- جن دلوں پر خدا *** کرے مَیں ان کا کیا علاج کروں- میرا دل فیصلہ کے لئے درمند ہے- ایک زمانہ گذر گیا میر ی یہ خواہش ابط تک پوری نہیں ہوئی کہ ان لوگوں میں سے کوئی راستی اور ایمانداری اور نیک نیتّی سے فیصلہ کرنا چاہے مگر افسوس کہ یہ لوگ صدق دل سے میدان میں نہیں آتے- خدا فیصلہ کے لئے تیار ہے اوراُس اُونٹی کی طرف جو بچّہ جننے کے لئے دُم اُٹھاتی ہے زمانہ خود فیصلہ کا تقاضا کرتارہا ہے- کاش اُن میں سے کوئی فیصلہ کا طالب ہو- کاش ان میں سے کوئی رشید ہو- مَیں بصیرت سے دعوت کرتا ہوں اور یہ لوگ ظن پر بھروسہ کر کے میرا انکار کر رہے ہیں- ان کی نکتہ چیناں بھی اسی اغراض سے ہیں کہ کسی جگہ ہاتھ پڑ جائے - اے نادان قوم!یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے- تم خدا سے مت لڑو- تم اس کو نابوع نہیں کر سکتے- اس کا ہمیشہ بول بالا ہے- تمہارے ہاتھ میں کیا ہے بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتّر٭ فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھٰ ہیں- رئویت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو- کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حکم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا- سو یہی وقت ہوا- وہ شخص حَکَمْ کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے- اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو- اور یقینا سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا- سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو- کم سے کم سے یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہو گئی ہے اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو- اور کیوں مجھ پر یہ الزام لگاتے ہو کہ براہین احمدیہ کا روپیہ کھا گیا ہے-٭ اگر میرے پر تمہارا کچھ حق ہے جس کا یماناً تم مؤاخذہ کر سکتے ہو- یا اب تک مَیں نے تمہارا کوئی قرضہ ادا نہیں کیا- یاتمنے اپنا حق مانگا اور میری طرف سے انکار ہوا تو ثبوت پیش کر کے وہ مطالبہ مجھ سے کرو- مثلاً اگر مَیں نے براہین احمدیئہ کی قیمت کا روپیہ تم سے وصول کیا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے جس کے سامنے حاضر کئے جائو گے کہ براہین احمدیہ کے وہ چاروں حصّے میرے حوالے کرو اور اپنا روپیہ لے لو- دیکھو -مَیں کھول کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ اب اس کے بعد اگر تم براہین احمدیہ کی قیمت کا مطالبہ کرو اور چاروں حصّے بطور ویلیو پی ایبل میرے کسی دوست کو دکھا کر میری طرف بھیج دو اور مَیں ان کی قیمت بعد لینے ان چہار حصّوں کے ادا نہ کروں تو میرے خدا کی *** پو- اور اگر تم اعتراض سے باز نہ آئو اور نہ کتاب کو واپس کر کے اپنی قیمت لو تو پھر تم پر خدا کی *** ہو- اسی طرح ہر ایک حق جو ایک حق جو میرے پر ہو ثبوت دینے کے بعد مجھ سے لے لو- اب بتلائو اس سے زیادہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی حق کا مطالبہ کرنے والا یوں نہیں اُٹھتا تو مَیں *** کے ساتھ اس کو اُٹھاتا ہوں-اور مَین پہلے سے براہین کی قیمت کے بارے میں تین اشتہار شائع کر چکا ہوں جن کا یہی مضمون تھا کہ مَیں قیت واپس دینے کو تیارہوں- چاہیے کہ میری کتاب کے چاروں حصّے واپس دیں اور جن دراہم معدودہ کے لئے مَر رہے ہیں وہ مجھ سے وصول کر یں- والسّلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان - ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۲)
اسلام کے لیے ایک رُوحانی مقابلہ کی ضرورت
(ملحقہ اربعین نمبر ۴
ایہا الناظرین! انصافاً اور ایماناً سوچو کہ آجکل اسلام کیسے تنّزل کی حالت میں ہے اور جس طرح ایک بچہ بھیڑیے کے منہ میں ایک خطر ناک حالت میں ہو تا ہے- یہی حالت ان دونوں میں اسلام کی ہے- اور دو آفتوں کا سامنا اس کو پیش آیا ہے-
(۱)ایک تو اندرونی کہ تفرقہ اور باہمی نفاق حد سے بڑھ گیا ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر دانت پیش رہا ہے-
(۲)دوسرے بیرونی حملے دلائل باطلہ کے رنگ میں اس زور شور سے ہو رہے ہیں کہ جب سے آدم پیدا ہوا یا یُوں کہو کہ جب سے نبّوت کی بنیاد پڑی ہے- ان حملوں کی نظیر دُنیا میں نہیں پائی جاتی- اسلام وہ مذہب تھا جس میں آدمی کے مرتد ہو جانے سے قومِ اسلام میں نمونہ محشر برپا ہوتا تھا اور غیر ممکن سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص حلاوتِ اسلام چکھ کر پھر مُرتد ہو جائے- اور اب اسی ملک برٹش انڈیا میں ہزار ہا مُرتد پائو گے بلکہ ایسے بھی جنہوں نے اسلام کی توہین اور رسول کریم کی سبّ دشتم میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی- پھر آجکل اس کے یہ آفت برپا ہو گئی ہے کہ جب عین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ نے تجدید٭ اور اصلاح کے لئے اورخدمات ضروریہ کیمناسب حال ایک بندہ بھیجا اور اس کا نام مسیح موعود رکھا - یہ خدا کا فعل تھا جو عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا- اور آسمان نے اس پر گواہی دی اور بہت سے نشان ظہورمیں آئے- لیکن تب بھی اکثر مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ اس کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان اور مکاّر اور خائن اور دروغگو اور عہد شکن اور مال خور اور ظالم اور لوگوں حقوق دبانے ولا اور انگریزوں کی خوشامد کرنے والا رکھا اور جو چاہا اس کے ساتھ سلوک کیا- اور بہتون نے یہ عذر پیش کیا کہ جو الہامات اس شخص کو ہوتے ہیں وہ سب شیطانی ہیں یا اپنے نفس کا افتراء ہے- اور یہ بھی کہا کہ ہم بھی خدا سے الہام پاتے ہیںاور خدا ہمیں بتلاتا ہے کہ یہ شخص درحققیت کافر اور دجّال اور دروغ گو اور بے ایمان اور جہنمی ٭ہے- چنانچہ جن لوگوں کو یہ الہام ہوا ہے وہ چار سے بھی زیادہ ہوں گے- غرض تکفیر کے الہامات یہ ہیں اور تصدیق کے لئے میرے وہ کلمات اور مخاطبات الہٰیہ ہیںجن میں سے کسی قدر بطور نمارنہ اس رسالہ٭ میںلکھے گئے ہیں- اور علاوہ اس کے بعض واصلانِ ح نے میرے زمانہ بلوغ سے بھی پہلے میرا اور میرے گائوں کا نام لے کر میری نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہی مسیح موعود ہے - اور بہتوں نے بیان کیا کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ یہ شخص حق پر ہے اور ہماری طرف سے ہے- چنانچہ پیر جھنڈے والا سندھی نے جن کے مُرید لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے یہی اپنا کشف اپنے مریدوں میں شائع کیا اور دیگر صالح لوگوں نے بھی دو سو مرتبہ سے بھی کچھ زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کی تصدیق کی- اور ایک شخص حافظ محمد یوسف نام نے جو ضلعدار نہر ہیں بلاواسطہ مجھ کو یہ خبر دی ٭ کہ مولوی عبداﷲ صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک نور آسمان سے قادیان پر گرا (یعنی اس عاجز پر) اور فرمایا کہ میری اولاد اس نُور سے محروم رہ گئی- پھر حافظ محمد یوسف صاحب کا بیان ہے جس کو مَیں نے بلاکم و بیش لکھ دیا- ولعنۃ اﷲ علی الکاذبین- اور اس پر اور دلیل یہ ہے کہ یہی بیان دوسرے پیرایہ اور ایک دوسری تقریب کے وقت عبداﷲ صاحب موصوف غزنوی نے حافظ محمد یوسف صاحب کے حقیقی بھائی منشی محمد یعقوب صاحب کے پاس کیا اور اس بیان میں میرا نام لے کر کہا کہ دُنیا کی اصلاح کے لئے جو مجدّد آنے والا تھا وہ میرے خیال میں مرزا غلام احمد ہے- یہ لفظ ایک خواب کی تعبیر میں فرمایا- اور کہا کہ شاید٭٭ اس نور سے مراد جو آسمان سے اُترتا دیکھا گیا مرزا غلام احمد ہے- یہ دونوں صاحب زندہ موجود ہیں اور دوسرے صاحب کی دستی تحریر اس بارے میں میرے پا س موجود ہے- اب بتلائو کہ ایک فریق تو مجھے کافر کہتا ہے اور دجّال نام رکھتا ہے اور اپنے مخالفانہ الہام سُناتا ہے جن میں سے منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ ہیں جو مولوی عبداﷲ صاحب کے مُرید ہیں اور دوسرا فریق مجھے آسمان کا نور سمجھتا ہے اور اس بارے میں اپنے کشف ظاہر کرتا ہے جیسا کہ منشی الٰہی بخش صاحب کا مرُشد مولوی عبدا ﷲ صاحب غزنوی اور مُرید مجھے کافر ٹھیراتا ہے- کیا یہ سخت فتنہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کو کسی تدبیر سے درمیان سے اُٹھایا جائے؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اوّل ہم اس بزرگ کو مخاطب کرتے ہیں جس نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو- اور ان کے لئے دو طور پر طریق فیصلہ قرار دیتے ہیں- اوّل یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دوگواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداﷲ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور اُستاد کی عزت کا لحاظ کر کے اس کی گواہی کو قبول کر لیں اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسٰی کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردی میں پھینک دیں- ٭ کیونکہ مرشد کی مخالفت آثار سعادت کے برخلاف ہے اور اگر وہ اب مرشد سے حقوق اختیار کرتے ہیں اور عاق شدہ فرزندوں کی طرح مقابلہ پر آتے ہیں تو وہ تو فوت ہو گئے ان کی جگہ مجھے مخاطب کریں اور کسی آسمانی طریق سے میرے ساتھ فیصلہ کریں- مگر پہلی شرط یہ ہے کہ اگر مُرشد کی ہدایت سے سرکش ہیں تو ایک چھپا ہوا اشتہار شائع کردیں کہ مَیں عبداﷲ صاحب کے کشف اور الہام کو کچھ چیز نہیں سمجھتا اور اپنی باتوں کو مقدم رکھتا ہوں- اس طریق سے فیصلہ ہو جائے گا مَیں اس فیصلہ کے لئے حاضر ہوں- جواب باصواب دو ہفتہ تک آنا چاہئیے- مگر چھپا ہوا اشتہار ہو- والسَّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۳)
(ضمیمہ اربعین نمبر ۳ و ۴)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی
درددل سے ایک دعوت قوم کو
مَیں نے اپنا رسالہ اربعین اس لئے شائع کیا ہے کہ مجھ کو کاذب اور مفتری کہنے والے سوچیں کہ یہ ہر ایک پہلو سے فضل خدا کا جو مجھ پر ہے ممکن نہیں کہ بجز نہایت درجہ کے مقرب اﷲ کے کسی معمولی ملہم پر بھی ہو سکے- چہ جائیکہ نعوذ باﷲ ایک مفتری بدکردار کو یہ نشان اور مرتبہ حاصل ہو-
اے میری قوم! خدا تیرے پر رحم کرے- خدا تیری آنکھیں کھولے- یقین کر کہ مَیں مفتری نہیں ہوں- خد اکی ساری پاک کتابیں گواہی دیتی ہیں کہ مفتری جلد ہلاک کیا جاتا ہے- اس کو وہ عمرہرگز نہیں ملتی جو صادق کو مل سکتی ہے- تمام صادقوں کا بادشاہ ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے- اس کو وحی پانے کے لئے تیئس برس کی عمر ملی- یہ عمر قیامت تک صادقوں کا پیمانہ ہے- اور ہزاروں لعنتیں خدا کی اور فرشتوں کی اور خدا کے پاک بندوں کی اس شخص پر ہیں جو اس پاک پیمانہ میں کسی خبیث مفتری کو شریک سمجھتا ہے- اگر قرآن کریم میں آیت لوتقوّل بھی نازل نہ ہوتی اور اگر خدا کے تمام پاک نبیوں نے نہ فرمایا ہو تاکہ صادقوں کا پیمانہ عمر وحی پانے کا کاذب کو نہیں ملتا تب بھی ایک سچے مسلمان کی وہ محبت جو اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہونی چاہئیے- کبھی اس کو اجازت نہ دیتی کہ وہ یہ بے باکی اور بے ادبی کا کلمہ منہ پر لا سکتا کہ یہ پیمانہ وحی نبوت یعنی تیئس برس جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیا گیا یہ کاذب کو بھی مل سکتا ہے- پھر جس حالت میں قرآن شریف نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ نبی کاذب ہوتا تو یہ پیمانہ عمر وحی پانے کا اس کو عطا نہ ہوتا- اور توریت نے بھی یہی گواہی دی اور انجیل نے بھی یہی- تو پھر کیسا اسلام اور کیسی مسلمانی ہے کہ ان تمام گواہیوں کو صرف میرے بغض کے لئے ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا گیا اور خدا کے پاک قول کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا- میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر ایک ثبوت جو پیش کیا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور وہ اعتراضات بار بار پیش کرتے ہیں جن کا صدہا مرتبہ جواب دیا گیا ہے اور جو صرف میرے پر ہی نہیں ہیں بلکہ اگر اعتراض ایسی باتوں کا ہی نام ہے جو نسبت بطور نکتہ چینی ان کے مُنہ سے نکلتے ہیں تو اُن میں تمام نبی شریک ہیں- میری نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے پہلے سب کچھ کہا گیا ہے- ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیا ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچّافلاں آدمی ہے- ہائے ! یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر مہدی معہود موجود نہیں تھا تو کس کے لئے آسمان نے خسوف کسوف کا معجزہ دکھلایا- افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں- اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ مَیں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو- تیرھویں صدی میں ہی دل بول اُٹھے تھے کہ چودھویں صدی میں ضرور خدا کی نصرت اور مدد آئے گی- بہت سے لوگ قبروں میں جا سوئے جو رو رو کر اس صدی کی انتظار کرتے تھے اور جب خدا کی طرف سے ایک شخص بھیجا گیا تو محض اس خیال سے کہ اس نے موجودہ مولویوں کی ساری باتیں تسلی نہیں کیں اس کے دشمن ہو گئے- مگر ہر ایک خدا کا فرستادہ جو بھیجاجاتا ہے ضرور ایک ابتلاء ساتھ لاتا ہے- حضرت عیسیٰ جب آئے تو بدقسمت یہودیوں کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ ایلیا دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوا- ضرور تھا کہ پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہوتا تب مسیح آتا جیسا کہ ملاکی نبی کی کتاب میں لکھا ہے- اور جب ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اہل کتاب کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا- اب کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت بھی کوئی ابتلاء ہو اور اگر مسیح موعود تمام باتیں اسلام کے تہتر فرقہ کی مان لینا تو پھر کن معنوں سے اس کا نام حکم رکھا جاتا- کیا وہ باتوں کو ماننے آیا تھا یا منوانے آیا تھا؟ تو اس صورت میں اس کا آنا بھی بے سود تھا- سوا ے قوم! تم ضد نہ کرو- ہزاروں باتیں ہوتی ہیں جو قبل از وقت سمجھ نہیں آتیں- ایلیا کے دوبارہ آنے کی اصل حقیقت حضرت مسیح سے پہلے کوئی نبی سمجھ نہ سکا تا یہود حضرت مسیح کے ماننے کے لئے تیار ہو جاتے- ایسا ہی اسرائیلی خاندان میں سے خاتم الانبیاء آنے کا خیال جو یہود کے دل میں مرکوز تھا اس خیال کو بھی کوئی نبی پہلے نبیوں میں سے صفائی کے ساتھ دُور نہ کر سکا- اسی طرح مسیح موعود کا مسئلہ بھی مخفی چلا آیا- تا سنت اﷲ کے موافق اس میں بھی ابتلاء ہو- بہتر تھا کہ میرے مخالف اگر ان کو ماننے کی توفیق کو دیکھتے- اب جس قدر عوام نے بھی گالیاں دیں سب گناہ مولویوں کی گردن پر ہے- افسوس یہ لوگ فراست سے بھی کام نہیں لیتے- میں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہو گا اور وہ دو زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کی رُو سے دو بیماریاں ہیں- سو ایک چادر میرے اُوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سردرد اور دوران سر اور کمیٔ خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابطیس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں- بسا اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہری حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پائوں رکھنے تک مَیں زندہ رہوں گا- اب جس شخص کی زندگی کا یہ حال ہے ہر روز موت کا سامنا اس کے لئے موجود ہوتا ہے اور ایسے مریضوں کے انجام کی نظیریں موجود ہیں تو وہ ایسی خطرناک حالت کے ساتھ کیونکر افترا پر جُرأت کر سکتا ہے اور وہ کس صحت کے بھروسے پر کہتا ہے کہ میری اسی برس کی عمر ہوگی حالانکہ ڈاکٹری تجارب تو اس کو موت کے پنجہ میں ہر وقت پھنسا ہوا خیال کرتے ہیں- ایسی مرضوں والے مدقوں کی طرح گداز ہو کر جلد مرجاتے ہیں یا کار بینکل یعنی سرطان سے اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر جس زور سے میں ایسی حالتِ پُرخطر میں تبلیغ میں مشغول ہوں کیا کسی مفتری کا کام ہے- جب مَیں بدن کے اُوپر کے حصہ میں ایک بیماری اور بدن کے نیچے کے حصہ میں ایک دوسری بیماری دیکھتا ہوں تو میرا محسوس کرتاہے کہ یہ وہی دو چادریں ہیں جن کی خبر جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے-
مَیں محض نصیحتاً ﷲ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے- اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی- لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددُعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں - پھر اگر مَیں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی- اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں- لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوئوں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں- جو شخص میرے پر بددُعا کرے گا وہ بددُعا اسی پر پڑے گی- جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر *** ہو وہ *** اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں- اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے- اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا- کیونکہ اس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے- اورضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا اور اگر مَیںجھوٹا ہوں تو مَیں پہلے مَر جائوں گا اور یہی دُعابھی کی تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مَر گیا- اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا- مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچّائی کی گواہی دے گیا- پس ہر ایک شخص جو ایسا مقابلہ کر ے گا اور ایسے طور کی دُعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا- بھلا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لیکھرام کے مارے گانے کی نسبت بعض شریروں ظالم طبع نے میری جماعت کو اس کا قائل قرار دیا ہے- حالانکہ وہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا اور ایک میری پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی- تو یہ تو بتلا دیں کہ مولوی دستگیر کو میری جماعت میں سے کس نے مارا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ بغیر میری درخواست کے آپ ہی ایسی دُعا کر کے دُنیا سے کوچ کر گیا- کوئی زمین پر مَر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے میری رُوح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کو دی گئی تھی- مجھے خداسے ابراہیمی نسبت ہے- کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا- مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں- مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اُکھڑ سکوں- اگر اُن کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کالئے دُعائیں کریں تو میرا خدا اُن تمام دُعائوں کو *** کی شکل پر بنا کر اُن کے مُنہ پر مارے گا- دیکھو صدا ہا دانش مند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں- آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں- اب اس آسمانی کاروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو رہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اُٹھا نہ رکھو ناخنوںتک زور لگائو- اتنی بد دُعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جائو - پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں- مبر بد قسمت انسان دُور سے اعتراج کرتے ہیں جن دلوں پر مُہریں ہیں اُن کا کیا ہم علاج کریں- اے خدا! تُو اس امت پر رحم کر- آمین
المشتھــــــــــــــــــــــر خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۴)
ایک ضروری تجویز
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
یہ امر ہمیشہ میرے لئے موجبِ غم اور پریشانی کا تھا کہ وہ تمام سچائیاں اور پاک معارف اور دین اسلام کی حمایت پختہ دلائل اور انسانی رُوگ کو اطمینان دینے والی باتیں جو میرے پر ظاہر ہوئیں اور ہو رہی ہیں- ان تسلّی بخش براہین اور موثر تقریروں سے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور یورپ کے حق کے طالبوں کو اب تک کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا- یہ درد دل اس قدر تھا کہ آیندہ اس کے برداشت مشکل تھی- مگر چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ قبل اس کے کہ ہم اس ناپائدار گھر سے گزر جائیںہمارے تمام مقاصد پورے کر دے اور ہمارے لئے وہ آخری سفر حسرت کا سفر نہ ہو- اس لئے اس مقصد کے پُورا کرنے کے لئے جو ہماری زندگی کا اصل مقصود ہے ایک تدبیر پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج چند ایک احباب نے اپنے مخلصانہ مشورہ سے مجھے توجہ دلائی ہے کہ ایک رسالہ ( میگزین) بزبان انگریزی مقاصد مذکوہ بالا کے اظہار کے لئے نکالا جائے جس میں مقصود بالذات ان مضامین کا شائع کرنا ہو گا- جو تائید اسلام میں میرے ہاتھ سے نکلے ہوں- اور جائز ہو گا کہ اور صاحبوں کے مذہبی یا قومی مضامین بھی بشرطیکہ شایع ہوں-
اس رسالہ کی اشاعت کے لئے سب سے زیادہ دو قابل غور ہیں- ایک یہ کہ اس رسالہ کا نظم و نسق کس کے ہاتھ میں ہو- اور دوسرا یہ کہ اس کے مستقل سرمایہ کی کیا تجویز ہو- سو امر اوّل کے متعلق ہم نے یہ پسند کیا ہے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صڈاحب ایم - اے پلیڈ ر اور خواجہ کمال الدین صاحب بی اے پلیڈر مقرر ہوں- اور ان ہردو صاحبان نے اس خدمت کو قبول کر لیا ہے- امر دوم سرمایہ ہے- سو اس کے متعلق بالفعل کسی قسم کی رائے زنی نہیں ہو سکتی - اور یہی ایک بڑا بھاری امر ہے جو سوچنے کے لائق ہے- اس لئے قرین مصلحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس دوستوں کی منعقد کر کے اس کے متعلق بحث کی جائے اور جو طریق بہتر اور اولیٰ معلوم ہو وہی اختیار کیا جائے- مگر یہ بات ظاہر کرنے کے لائق ہے کہ مجھے اس سرمایہ کے انتظام میں کچھ دخل نہیں ہو گا- اور غالباً اس کو ایک امر تجارتی تصّور کر کے ایسے ممبر مقرر کئے جائیں گے جو اس تجارت کے حصّہ دار ہوں گے اور انہی کی تجویز اور مشورہ سے جس طور سے مناسب سمجھیں گے یہ روپیہ جمع ہو کر بینک میں جمع کیا جاوے گا- لیکن چونکہ ایسے مامور صرف اشتہارات سے تصفیہ نہیں پاسکتے لہذا مَیں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس جلسہ کے لئے بڑی عید کا دن قرار پاوے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ہمارے دوست کوشش کریں کہ اس دن قادیان پہنچ جائیں- تب سرمایہ کے متعلق بحث اور گفتگو ہو جائے گی- کہ کس طور سے یہ سرمایہ جمع ہونا چاہیے- اور اس کے خرچ کے لئے انتظام کیا ہو گا- یہ سب حاضرین جلسہ کے کثرت رائے پر فیصلہ ہو گا- بالفعل اس کے ذکر قبل از وقت ہے- ہاں ہر ایک صاحب کو چاہیے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے طیار ہو کر آئیں- اور یہ یاد رکھیں کہ یہ چندہ صرف تجارتی طور پر ہو گا- اور ہر ایک چندہ دینے والا بقدر اپنے روپیہ کے اپنا حق اس تجارت میں قائم کر ے گا- اوراس کے ہر ایک پہلو پر بحث جلسہ کے وقت میں ہو گی- یہ خیراتی چندہ نہیں ہے- ایک طور پر تجارت ہے جس میں شراکت صرف دینی تائید تک ہے- اس سے زیادہ کوئی امر نہیں ہے- والسّلام - اس امر کے متعلق خط و کتابت خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر پشاور سے کی جائے -
المشتھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ایک صفحہ سکیپ سائز پر ہے- )
(۲۳۵)
خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا
ہزار ہزار شکر اُس قادر یکتا کا ہے جس نے اس عظیم الشّان میدا ن میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے ان ستر دنوں میں کئی قسم کے موافق پیش آئے چند دفعہ مَیں سخت مریض ہوا- یعض عزیز بیمار ہوئے - مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی- جو شخص اس بات کو سوچیگا- کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزارون مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کر کے بالمقابل لکھی گئی ہے- وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گا- بھلا مَیںپوچھتا ہوں کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت جب مخالف علماء کو غیرات وہ الفاظ کے ساتھ بولاگیا تھا تفسیر لکھنے سے ان کو روک دیا- اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علماء کے خیال میں ایک جاہل ہے جو اُن کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پر نہیں جانتا ایسی لا جواب اور فصیح بلیغ تفسیر لکھنے پر باوجود امراض اور تکالیف بدنی کے قادر کر دیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے- اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتا یا خدا اُن کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر اُن کی طرف سے بالمقابل شایع ہونی چاہیے تھی- لیکن اب ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیر نویسی کی مدار فیصلہ ٹھیرا کر مخالف علماء کو دعوت کی تھی اور ستر دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی- اور مَیں اکیلا اور وہ ہزار ہا عربی دان اور عالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے وے نامراد رہے- اگر وہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے توایک دُنیا اُن کی طرف اُلٹ پڑتی- پس وہ کونسی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور دماغوں کو پست کر دیا اور علم اور سمجھ کو چھین لیا- اور سورۃ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پر مُہر لگادی اور ان کے دلوں کو ایک مُہر سے نادان اور نا فہم کر دیا- ہزاروں کے رو برو ان کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کئے اور مجھے سفید کپڑوں کی خلعت پہنا دی جو برف کی طرح چمکتی تھی اور مجھے ایک عزّت کی کُرسی پر بٹھا دیا- اور سورۃ فاتحہ سے ایک عزت کا خطابمجھے عنایت ہوا- وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ - اور خدا کے فضل اور کرم کو دیکھو کہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چار جُز کی شرط تھی یعنی کہ ستر دن کی میعاد تک چار جُز لکھیں لیکن وہ لوگ باجود ہزاروں ہونے کے ایک جُز بھی نہ لکھ سکے اور مجھ سے خدائے کریم نے بجائے چار جُز کے ساڑھے باراں جُز لکھوا دیئے-
اب مَیں علماء مخالفین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ معجزہ نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو- کوئی انسان حتی المقدور اپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا- پھر اگر تفسیر لکھنا مخالف مولویوں کے اختیار میں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے- کیا یہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالمقابل ستر دن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کاذب سمجھا جائے گا- یہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کر کے بالمقابل اس کام کو پورا کرے تا جھوٹا نہ کہلاوے- لیکن کیونکر مقابلہ کر سکتے- خدا کا فرمودہ کیونکر ٹل سکتا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رَسُلِیْ- خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ ہم دُنیا کا انتہار ہو جو حجّت اُن پر پوری کرنی تھی کہ باوجود یہ کہ علم اور لیاقت کی یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں اُن کے عالم و فاضل کہلانے والے دم نہیں مار سکتے پھر بھی کافرکہنے پر دلیر ہیں- کیا لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامِل ہوتے پھر کافر کہتے- جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کر بھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کر سکے- چار جُز کی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک مامور من اللہ کی مخالفت اختیار کرنا جو نشان پر نشان دکھلا رہا ہے - بڑے بد قسمتوں کا کام ہے-
بالآخر ایک اور ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی- اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا- اور اس سے آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوتُ یعنے مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی- اب ہمارے مخالف علماء یہ بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو نہیں مانتے ہیں یا نہیں کہ پیشگوئی پُوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آئی آ گئی- اور اگر وہ نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں- یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو-
والسَّـــــــــــــــــــــــــــــلام
علیٰ مَنِ اتَّبَعَ اَلْھُدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیانی ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء
یہ اشتہار ۲۰ × ۲۶ ۸ کے ۳ صفحہ پر ہے جس پر پریس کا نام نہیں)
(۲۳۶)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
الصُّلحُ خَیر
اے علماء قوم جو میرے مکذب اور مکفر ہیں اور یا میری نسبت متذبذب ہیں- آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں- مصالحت سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ مَیں آپ صاحبوں کو اپناہم عقیدہ بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں- جو خدا نے مجھے عطا فرمائی ہے- بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کر یں کہ وہ اور تمام لوگ جو اُن کے زیر اثر ہیں- ہر ایک قسم کی سخت زبانی٭ سے باز رہیں- اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں- اور اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائیستگی ہے، فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں-
یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کار انہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دُنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آجکل حنفی شافعی مالکی حنبلی باوجود اُن سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارض مقدسہ بھی ان کو ایک مصلّے پر جمع نہیں کر سکی- ایک دوسرے سے مخالطت اور ملاقات رکھتے ہیں- لیکن بڑی خوبی کی یہ بات ہے کہ کسی اندرونی فرقہ کی ابتدائی حالت میں ہی اس سے اخلاقی برتائو کیا جائے- خدا جس کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے وہی نابود ہوتا ہے- انسانی کوششیں کچھ بگاڑ نہیں سکتیں- اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہوتا کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا- اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپَے رہنا طریق تقویٰ کے برخلاف ہے- یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں- ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اُس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خودبخود لوگوں کے دلوں سے دُور ہو جائے گا- لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہو گی- اور اُس وقت مخالف علماء کا نرمی اختیار کرنا تقویٰ کی وجہ سے نہیں سمجھا جائے گا- تقویٰ دکھلانے کا آج ہی دن ہے جب کہ فرقہ دُنیا میں بجز چند ہزار انسان کے زیادہ نہیں- اور مَیں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور توہین کا ارادہ کیا گیا ہو- اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عملدرآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اسی مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا اور آئندہ آپ پورے عہد سے ذمہ دار ہو جائیں گے کہ آپ صاحبان اور نیز ایسے لوگ جو آپ کے زیر اثر ہیں یا زیر اثر سمجھے جا سکتے ہیں ہر ایک قسم کی بدزبانی اور سب و شتم سے مجتنب رہیں گے اور اس نئے معاہدہ سے آیندہ اس بات کا تجربہ ہو جائے گا کہ کس فریق کی طرف سے زیادتی ہے- اس سے آپ صاحبوں کو ممانعت نہیں کہ تہذیب سے ردّ لکھیں اور نہ ہم اس طریق سے دستّکش ہو سکتے ہیں- لیکن دونوں فریق پر واجب ہو گا کہ ہر ایک قسم کی بدزبانی بدگوئی سے مُنہ بند کر لیں- مجھے بہت خوشی ہو گی جب آپ کی طرف سے یہ اشتہار پہنچے گا اور اسی تاریخ سے ان تمام امور پر ہماری طرف سے بھی عملدرآمد شروع ہوگا- بالفعل اس اندرونی تفرقہ کے مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں- آیندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا وہ خود غالب ہوتا جائے گا- دُنیا میں سچّائی اوّل چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاا ہے جو پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں٭
المشتہر میرزا غلام احمد از قادیان ۵؍ مارچ ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان - ۷۰۰ کاپی
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے دو صفحوں پر ہے)
(۲۳۷)
طاعُون
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْمط
ناظرین کو یاد ہو گا کہ ۲۶؍ فروری ۱۸۹۸ء کو مَیں نے طاعون کے بارے میں ایک٭٭ پیشگوئی شائع کی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک کے مختلف مقاموں میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں- مَیں نے اطلاع دی تھی کہ توبہ اور استغفار سے وہ پودے دُور ہو سکتے ہیں- مگر بجائے توبہ اور استغفار کے وہ اشتہار بڑی ہنسی اور ٹھٹھے سے پڑھا گیا- اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ پیشگوئی ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے- خدا مُلک کو اس آفت سے بچاوے- اگر خدانخواستہ اس کی ترقی ہوئی تو وہ ایک ایسی بلا ہے جس کے تصور سے بدن کانپتا ہے- سو اے عزیزو اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جائو اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلائو تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابود کرے-
اے غافلو! یہ ہنسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے- یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دُور ہوتی ہے- اگرچہ ہماری گورنمنٹ عالیہ بہت کوشش کر رہی ہے اور مناسب تدبیروں سے یہ کوشش ہے- مگر صرف زمینی کوششیں کافی نہیں- ایک پاک ہستی موجود ہے جس کا نام خدا ہے- یہ بلا اسی کے ارادہ سے ملک میں پھیلی ہے- کوئی تبدیلی نہیں بیان کر سکتا کہ یہ کب تک رہے گی اور اپنے رخصت کے دنوں تک کیا کچھ انقلاب پیدا کرے گی- اور کوئی کسی کی زندگی کا ذمہ دار نہیں- سو اپنے نفسوں اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں پر رحم کرو- چاہئیے کہ تمہارے گھر خدا کی یاد اور توبہ اور استغفار سے بھر جائیں اور تمہارے دل نرم ہو جائیں- بالخصوص مَیں اپنی جماعت کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ یہی وقت توبہ اور استغفار کا ہے- جب بلا نازل ہو گئی تو پھر توبہ سے بھی فائدہ کم پہنچتا ہے اب اس سخت سیلاب پر سچی توبہ سے بند لگائو- باہمی ہمدردی اختیار کرو- ایک دوسرے کو تکبّر اور کینہ سے نہ دیکھو- خدا کے حقوق ادا کرو اور مخلوق کے بھی تا تم دوسروں کے بھی شفیع ہوجائو- میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک شہر میں جس میں مثلاً دس لاکھ کی آبادی ہو ایک بھی کامل راستباز ہو گا تب بھی یہ بلا اس سے دفع کی جائے گی- پس اگر تم دیکھو کہ یہ بلا ایک شہر کو کھاتی جاتی اور تباہ کرتی جاتی ہے تو یقینا سمجھو کہ اس شہر میں ایک بھی کامل راستباز نہیں- معمولی درجہ کی طاعون یا کسی اور و با کا آنا ایک معمولی بات ہے- لیکن جب یہ بلا ایک کھاجانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا منہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راست بازوں کے وجود سے خالی ہے- تب اس شہر سے جلد نکلو یا کامل توبہ اختیار کرو - ایسے شہر سے نکلنا طبی قواعد کے رو سے مفید ہے- ایسا ہی رُوحانی قواعد کے رُو سے بھی- مگر جس میں گناہ کا زہریلہ مادہ ہو وہ بہرحال خطرناک حالت میں ہے- پاک صحبت میں رہو کہ پاک صحبت اور پاکوں کی دُعا اس زہر کا علاج ہے- دُنیا ارضی اسباب کی طرف متوجہ ہے مگر جڑ اس مرض کی گناہ کا زہر ہے اور تریاقی وجود کی ہمسائیگی فائدہ بخش ہے- اﷲ جلّ شانہ اپنے رسُول کو قرآن شریف میں فرماتا ہے- ماکان اﷲ لیعذبھم واَنت فیھم یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ وبا وغیرہ سے ان لوگوں کو ہلاک کر ے جن کے شہر میں تُورہتا ہو- پس چونکہ وہ نبی علیہ السلام کامل راست باز تھا اس لئے لاکھوں کی جانوں کا وہ شفیع ہو گیا- یہی وجہ ہے کہ مکہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں تشریف رکھتے رہے- امن کی جگہ رہا اور پھر جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کا اس وقت نام یثرب تھا جس کے معنے ہیں ہلاک کرنے والا- یعنی اس میں ہمیشہ سخت وبا پڑا کرتی تھی- آپ نے داخل ہوتے ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد اس شہر کا نام یثرب نہ ہو گا- بلکہ اس کا نام مدینہ ہو گا یعنی تمدّن اور آبادی کی جگہ- اور فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ مدینہ کی وبا اس میں سے ہمیشہ کے لئے نکال دی گئی- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور اب تک مکہ اور مدینہ ہمیشہ طاعون سے پاک رہے میں اُس خدائے کریم کا شکر کرتا ہوں کہ اسی آیت کے مطابق اس نے مجھے بھی الہام کیا اور وہ یہ ہے-
الامراض تشاع النفوس تضاع- ان اﷲ لایغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسھم انہ اٰوی القریۃ-
یہ الہام اشتہار ۲۶؍ فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہو چکا ہے- اور یہ طاعون کے بارے میں ہے- اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ موتوں کے دن آنے والے ہیں مگر نیکی اور توبہ کرنے سے ٹل سکتے ہیں اور خدا نے اس گائوں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور متفرق کئے جانے سے محفوظ رکھا- یعنی بشرط توبہ- اور براہین احمدیہ میں یہ الہام بھی درج ہے کہ
ماکان اﷲ لیعذبھم و انت فیھم
یہ خدا کی طرف سے برکتیں ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب اور یاد رہے کہ یہ ہماری تحریر محض نیک نیتی اور سچی ہمدردی کی راہ سے ہے-
وماعلی الرسول الابلاغ والسلام علٰی من اتبع الھدیٰ
الــــــــمشتھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ضلع گورداسپور
یہ اشتہار صفحہ ۲۰× ۲۶ کے دو صفحوں پر ہے-
(۲۳۸)
الاعلان
ایّھا الاخوان من العرب و فارس والشام و غیر ھامن بلاد الاسلام- اعلموا رحمکم اﷲ الّی کتبتُ ھذا الکتاب لکم ملھمًا مِنْ رَّبّی- وامرتُ ان ادعوکم الی صراطٍ ھُدیتُ الیہ واؤبکم بادبی و ھذا بعد ما انقطع الامل سن علماء ھذہ الدیار۰ و تحقق انھم لایبالون عقبہ الدار- انقطعت حرکتھم الی الصدق من تفالحٍٍ لامن فالجٍ- وما نفعھم اثر دوائٍ ولاسعی معالجٍ وما بقی لِاَجَارِد المعارف فی ارضھم مرتع- ولافی اھلھا مطمع- فعند ذالک القی فی قلبی من الحضرۃ- ان اٰوی الیکم لمطلب النصرۃ- لتکولّوا انصاری کاھل المدینۃ- ومن نصرنی وصدقنی فقد ارضیٰ ربّہ وخیر البریۃ- وان شرّالدّوابّ الصُّمُّ البُکم الذین لایصغون الی الحق والحکمۃ- ولایسمعون برھانا ولوکان من الحجج البالغۃ- واذا قیل لھم اٰمنوا بما اتاکم من ربکم من الحق و البینۃ- بعد ایامٍ کثرت الفِرَقُ و اختلافھم فیھا و تلاطم بحر الضلالۃ- قالوالانعرف ما الحق وانّا وجدنا اباء نا علٰی عقیدۃ- وانا علیھا الٰی یوم المنیّۃ- وما قلت لھم الاما قال القراٰن- فما کان جوابھم الاالسبّ و الھذیان- وان اﷲ قد علمنی ان عیسی ابن مریم قدمات- ولحق الاموات- وامّا الدی کان نازلاً من السماء فھو الھذا القائم بینکم کما اُوْحِیَ اِلَّی من حضرۃ الکبریاء وکانت حقیقۃ النزول٭ ظھور المسیح الموعود و عند انقطاع الاسباب- و
ضعف الدولۃ الاسلامیۃ و غلبۃ الاحزاب- و کان ھذا اشارۃ الی ان الا کلہ ینزل من السماء من غیر ضرب الاعناق و قتل الاعداء- و یئریٰ کا الشمس فی الضیاء- ثم فقل اھل اظاھر ھذہ الاستعارۃ الی الحقیقۃ فھذہ اوّل مصیبۃ نذلت علیٰ ھذہ الملۃ- و ماارادﷲ ،انزالی المسیح- الالیری مقابلۃ اللمتین بالتصریح- نان نینا المصطفیٰ- کان میثل موسیٰ - و کانت سلسلۃ خلافۃ الاسلام کمثل سلسلۃ خلافۃ اکلیو مَن اﷲ العلّام- فوجب- ضرروۃ ھذہالمماثلۃ والمقابلۃ ان یظھر فی اٰخر ھذہ الملسۃ مسیح کسیح السلسلۃ الموسیۃ- ویھود کالیھود الذین کفّرو عیسٰی و
اور گروہوں کے غلبہ کے بعد ظاہر ہو گا- اوریہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ امر سارے کا سارا بغیر گردنوں کے اُڑانے اور دشمنوں کے قتل کرنے کے آسمان سے نازل ہو گا اور روشنی میں سُورج کی مانند دکھائی دے گا- لیکن اہل ظاہر نے اس استعارہ کی حقیقت پر محسوس کر لیا- اور یہ پہلی مصیبت تھی جو اس قوم پر نازل ہوئی-
کذبوہ و اردوقتلہ و جروہ الی ارباب الحکومۃ- فمن العجب ان علماء الاسلام اعترفوابان الیھود الموعودون فی اٰخرالزمان لیسوایھودًا فی الحقیقۃ- بل ھم مثلھم من المسلمین فی اعمال والعادۃ ثمّ یقولون مع ذلک ان المسیح ینزل من السماء- و ھوابن مریم رسول اللّٰہ فی الحقیقۃ لا مثیلۃ من الاصفیاء- فکانھم حسبو ھذہ الامۃ اردء الامم و اخبثھم فانہم نعمو ان المسلمین قوم لیس فیھم احد یقال لہ انہ مثیل بعض الاخیار السابقین- واما مثیل الاشرار فکثیر فیھم ففکّروا فیہ یامعشر العاقلی- ثمّ ان مسئلۃ نزول عیسٰی نبی اﷲ کانت من اختراعات النصرانین- وامّا القراٰن فتوناہ و الحقہ بالمیتین- واما اضطرت النّصاریٰ الٰی تحت ھذہ العقیدۃ الواہیۃ الاّ فی ایّام الیاس و قطع الامل من النصرۃ الموعودۃ- فانّ الیہود کانوا یسخرون منھم و یضحکون علیھم ویؤذونھم بانراع الکلمت- عند مارأ واخذلانھم وتقلبھم فی الاٰفات- فکانوا یقولون این مسیحکم الذی کان یذھم انہ یرث سریر داؤد- وینال السلطنۃ فی ینجی الیہود- فتالم النصاریٰ من سماع ھذہ المطاعن- والام الصبرباللاّعن- فنحتوا الجوابین- عند ھذین الطعنین و الخطابین- فقالوا ان یسوع ابن مریم و ان کان مانال السلطنۃ فی ھذا الاوان- ولٰـکنّہ ینزل بصورۃ الملوک الجبارین القھارین فی اٰخر الزمان- فیقطع ایدی الیھود وارجلھم وانوفھم ویھلکم باشد العذاب والھوان- و یجلس احبابہ بعد ھذا العقاب- علی سرد مرفوعۃ موعودۃ فی الکتاب واما قول المسیح انہ من اٰمن بہ فینجیہ من الشدائد اللتی نزلت علی بنی اسرائیل- فمعناہ انہ ینجیہ بدمہ من الذنوب لامن جور الحکومۃ الرومیۃ کماظُنَّ و قیل- فحاصل الکلام النصاریٰ لما اذا ھم طول مکثھم فی المصائب- واطال الیہود السنھم فی امرھم و حسبوھم کالخاسر الخائب شَقَّ علیھم ھذا لاستھزاء- فنحتو العقیدتین المذکورتین لیسکت الاعداء ون ان من عادات الانسان- انہ یتشبث بامانی عند ھبوب ریاح الحرمان- واذارای انہ مابقی لہ مقام رجاء- فیسّرنفسہ باھواء- فیطلب ماندّ عن الاذحان- وشذّ عن الاٰذان- فیطلب الکیمیاعند نفاذ الاموال و قدیتوجہ الی تسخیر النجوم و الاعمال- وکذٰلک النصاریٰ اذا وقع علیھم قول الاعداء- وما کان مَفَرٌّ من ھذا البلاء- فنحتوا مانحتوا والتّکئوا علی الامانی- کماھو سیرۃ الاسیر والعانی- فاشاعوا الاصولین المذکورین کما تعلم وتریٰ- وقّوا حق العّمٰی- واما صار اعتقاد نزول المسیح جزو طبیعتھم واحاط علی مجاری الفھم و عادتھم- کانت عنایتھم مصروفۃ لامحالۃ الٰی نزول عیسیٰ لیھلک اعداء ھم و یجلسھم علٰی سررا العزۃ والعُلٰے- فھٰذا ھو سبب سریان ھذہ العقیدہ- فی الفِرق المسیحیۃ- ومثلھم فی الاسلام یوجد فی الشیعۃ- فانہ لماطال علیھم امدالحرمان- وماقام فیھم ملک الی قرون من الزمان- نحتوا من عند انفسھم ان مھدیھم مستتر فی مغارۃ- ویخرج فی اٰخر الزمان و یحي صحابۃ رسول اﷲ لیقتلھم باذیۃ- وان حمین بن علی وان کان مانجّاھم من ظلم یزید- لٰکن ینجیھم بدمہ فی الیوم اٰلاخر من عذاب شدید وکذلک کل من خسروخاب نَحتَ ھذا الجواب- وسمعت ان فرقۃ من الوھابیین- الھندیین ینتظرون کمثل ھذہ الفرق شیخھم سیّد احمد البریلوی وانفدوا اعمارھم فی فلوات منتظرین- فھٰولاء کلھم محل رحم بمالم یرجع احد من کبراء ھم الٰی ھذا الحین- بل رجع المنتظرون الیھم و کم حسرات فی قلوب الصّبورین- فملخص القول ان عقیدۃ رجوع المسیح وحیاتہ کانت من لسبح النصاریٰ و مفتریاتھم- لیطمئنوا بالامانی و یذبّوا الیھود و ھمزاتھم وامّا المسلمون فدخلوھا مٍن رکنی المللۃ النصرانیۃ- فما معنی الانکار من الرکن الثانی اعنی الکفّارۃ- وانا فصّلنا ھذہ الامور کلّھا فی الکتاب- وی کفاک ھذا ان کنت من الطُّلاَّب- ان الذین ظنوا من المسلمین ان عیسٰی نازل من السماء ما اتبعوا الحق بل ھم فی وادی الضلال یتیھون- مالھم بذلک من علم ان اھم الاّ یخرصون- ام اُوتوا من البرھان او عُلِّموا من القراٰن فھم بہ مستمسکون- کلّا بل اتبعو اھواء الذین ضلوا من قبل و ترکو ما قال ربّھم و لا یبالون - و قد ذکر الفرقان ان عیسٰی قد تون تبایّحدیث بعد ذلک یؤمنون- الا یفکّرون فی سرّ مجئی المسیح امر علی القلوبافقالھا امھم قوم لا یبصرون- انّ اللّّٰہ کان قد منّ علی نبی اسرائیل بموسٰی والنبین الذین جاء وا من بعد منھم فعصوا نبیاء ھم ففریقاً کذّبوا و فریقاً یقتلون- فارا داللّٰہ ان ینزع منہم نعتہ و یؤتیھا قوما اٰخرین ثم ینظر کیف یعملون- فبعث مثیل موسٰی من قوم بنی اسماعیل و جعل علماء امتہ کانبیاء سلسلۃ الکلیم و کسر غرورا الیھود بھا کانوا یستکبرون- واٰتٰی نبّنا کل ما اوتی موسٰی و زیارہ واٰنا ہ من الکتاب والخفاء کمثلہ و احرق بہ قلوب ظلموا واستکبر والعلّھم یرجعون- فکھا اٰنہ خلق الازواج کلھا کذلک جعل السلسلۃ الا سماعیلیۃ زوجاً لسلسلۃ الا سرائیلیۃ و امر نطق بہ القرآن و لا ینکرہ الّا العمون- الا تَریٰ قولہ تعالیٰ فی سورۃ الجاثیۃ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْ اِسْرَا عِیْلَ الْکِتَابَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَا ھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَا ھُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ O وَ اٰتَیْنَا ھُمْ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلفُوْا اِلاّ بَعْدَ مَا جَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ یَومَ القِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ o (۲) ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنْ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ o فانظر کیف ذکر اﷲ تعالیٰ ھھنا سلسلتین متقابلتین سلسلۃ موسیٰ الٰی عیسٰی- وسلسلۃ نبیّنا خیر الوریٰ الی المسیح الموعود الذی جاء فی زمنکم ھذا- وانہ ماجاء من القریش کما ان عیسی ماجاء من بنی اسرائیل- وانہ علم لساعۃ کافۃ الناس کَمَا کَانَ عیسٰی علمًا لساعۃ الیھود- ھذا ما اشیر الیہ فی الفاتحہ- وماکان حدیث یفتریٰ- وقد شھدت السماء بایاتھم- وقالت الارض الوقت ھذا الوقت، فائق اﷲ ولاتیئس من روح اﷲ- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
فحاصل الکلام ان القراٰن مملوٌّ من ان اﷲ تعالٰی اختار موسٰی بعد ما اھلک القرون الاولٰی- واٰتاہ التورنۃ و ارسل لتائیدہ النبیّین نتریٰ- ثم قفّٰی علٰے اٰثارھم بعیسٰی٭ واختار محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم بعد ما اھلک الیھود واردیٰ- ولاشک ولاریب السلسلۃ الموسویۃ والمحدیۃ قد تقابلتا و کذٰلک اراد اﷲ و قضیٰ - وامّا عیسٰی فھو من خدّام الشریعۃ
الاسرائیلیۃ و من انبیاء سلسلۃ وموسٰے- وما اوتی لہ شریعۃ مستقلۃ ولایوجد فی کتابہ تفصیل الحرام و الحلال والوراثۃ النکاح و مسائل اخریٰ- والنصاریٰ یقرّون بہ لذلک تریٰ التورنٰۃ فی ایدیھم کماتری الانجیل- و قال بعض فرقھم انا نجّینا من اثقال شریعۃ التورنۃ بکفّارۃ دم عیسٰی- واما بعضھم الاٰخرون فیحرمون ماحرم التوراۃ ولایاکلون الخنریر کمثل نصارٰی ارمینیاء ھم اقدم من فوقٍ اخریٰ فی المدیٰ- واتفق کلھم علی انّ عیسٰی اتیٰ بفضل من اﷲ- وانّ موسٰے اتٰی بالشریعۃ وسموھما عہد الشریعۃ و عہد الفضل وحوا الاوّل حتیقًا والاٰخر جدیداً- فاسئلھم ان کنت تشک فی ھذا- فملخّص کلامنا انّ اﷲ توجّہ الی بنی اسرائیل رحمۃ منہ فاقام سلسلۃ بموسٰی واتمّھا بعیسٰی وھواٰخرلبنۃ لھا-
ثم توجّہ الٰی بنی اسمٰعیل فاقام سلسلۃ نبیّناالمصطفٰی- وجعلہ مثیل الکلیم لیری المقابلۃ فی کل ما اتٰی- و ختم ھذہ السلسلۃ علٰی مثیل عیسٰی- لیتم النعمۃ علٰی ھذہ السلسلۃ کما اتمّھا علی السلسلۃ الاولٰی-
و ان کانت السلسۃ المحمّدیہ خالیۃً من ھذا المسیح المحمّدیّ- فتلک اذًا قسمۃ ضیزیٰ- ففکّروا کل الفکر ولیس النھٰی الاّ لھذا لامریا اولیٰ النُّھٰی- ولاینجی المرء الاّ الصدق فاطبوہ بطاقّ باب الحضرۃ- واقبلوا علی اﷲ کل الاقبال لھذہ الخطّۃ- وادعوہ فی جوف اللھالی رخرّوا باکین ﷲ ذی العزّۃ و الجبروت- ولاتمرُّوا ضاحکین ھامزین واستعیذ واباﷲ من الطاغوت- یا عباداﷲ تذکّروا وّیتقّظوا فان المسیح الَحَلم قداتیٰ- فاطلبوا العلم السماوی ولاتقوّموا متاعکم فی حضرۃ المولٰی- و واﷲ انّی من اﷲ اتیتُ وما افتریتُ و قدخاب من افتریٰ- انّ ایّام اﷲ قداتت و حسرات علی الذی ابٰی- ولایُفلح المُعرض حیث اتٰی- والحق والحق اقوال ان مجیٔ المسیح من ھذا الامّۃ- کان مفعولا من الحضرۃ من مقتضی الغیرۃ- وکان قدّر ظھورہ من یوم الخلقۃ- والسرّفیہ ان اﷲ ارادہ ان یجعل اٰخر الدنیا کاولھا فی نفی الغیر والمحو فی طاعۃ الحضرۃ الاحدیۃ- واسلاک الناس فی سلک الوحدۃ الطبعیۃ بعد مادعوا الی الوحدۃ القھریۃ- وکان الناس مفترقین الی الفرق المختلفۃ ولاٰراء المتنوعۃ- والاھواء المتخالفۃ- ومطیعین للحکومۃ الشیطانیۃ الدجّالیّۃ الظلمانیۃ- وماکانوا منفکّین حتّی تنزل علیھم فوج من السکینۃ- والشیطان الذے ھوثعبان قدیم و دجّال مکان مخلصھم من اسرہ- وکان یرید ان یاکلھم کلھم ویجعلھم و تودالنار لانہ نظر الٰی ایّامہ ورأی انہ مابقی من ایّام الانظار الّا قلیلاً بمالم یکن من المنظرین الاّ الی ھذا الحین- فرأی انہ ھالک بالیقین-فارادان یصول صولاً ھوخاتم صولاتہ واٰخر حرکاتہ- فجمع کلماعندہ من مکائدہ وحِیَلہ وسلاحہ وسائر الاٰلات الحربیہ- فتحرک کالجبال السائرۃ- والباحرا الزاخرہ یجمیع افواجہ لیدخل حمی الخلافۃ مع ذریّاتہ- فعندذلک نزل اﷲ مسیحہ من السماء بالحربۃ السماویۃ- لیکون بین الکفروا الایمان فیصلۃ القسمۃ- وانزل معہ جندہ من اٰیاتہ و ملئکۃ سمٰواتہ- فالیوم یوم حرب شدیدٍ و قتالٍ عظیمٍ بین الداعی الی اﷲ و بین الداعی الٰی غیرہ- انھا حرب ماسمع مثلھا فی اوّل الزمن ولایسمع بعدہ- الیوم لایترک الدجّال المفتعل ذرۃً من مکائدہ الاّ یستھملھا- ولاالمسیح البتھل ذرّۃ من الاقبال علی اﷲ التوجّہ الی المبدء الاّ ویستوفیھا- ویحاربان حربًا شدیداً حتی یعجب فوّتھما و شدّتھما کل من فی السماء- وتری الجبال قدم المسیح ارسخ من قدمھا- والبحار قلبہ ارق و اجریٰ من ماء ھا- وتکون محاربۃ شدیدۃ و بّنجرّ الحرب الی اربعین سنۃ من یوم ظہور المسیح حتی یُسمع دعاء المسیح لتقولٰہ و صدقہ و تنذل النصرۃ ویجعل اللّٰہ الھزیمۃ علی الثعبان و فرجہ منۃ علیٰ عبدہ- فتر جع قلوب الناس من الشرک- الی التوحید ومن حب الشیطٰن الی جب اللّٰہ الوحید- و الی المحویۃ من الٰعیریۃ- والیٰ ترک النفس من الاھواء النفسیانیۃ- فان الشیطان یدعو الی الھوٰی والقطیعۃ- والمسیح ید عو الی الا تحادوالمحویۃ- و بینھا عداوۃ ذاثیۃ من الازل و اذا غلب المسیح فاختتم عند ذالک محاببات کلھا التی کانت جاریۃ العساکر الرحمانیۃ والعساکر الشیطانیۃ- فھناک یکون اختتام دورھذہ الدنیا وایستدیرالزمان و ترجع الفطرۃ الانسانیۃالی اختتام دوہ ھذہ الدنیا و یستدیر الذمان و ترجع الفطرۃ الانسانیۃ الی حیئتھا الاولیٰ- الّا الذین احاطتھم الشقوہ الازلیۃ فاولٰئک من المحررومین- و من فضل اللّٰہ و احسانہ جعل ھذا ا لفتح علیٰ ید المسیح المحمّدی لیری الناس انہ اکمل من المسیح الا سرائیلی فی بعض شیونہ و ذالک من غیرۃ اللّٰہ التی ھیجّھا النصاریٰ باطراء مسیحھم- ولمّا کان شان المسیح الحمّدی کذٰالک فما اکبر شان نبی ھو من امتہ- اللّٰھم صلّ علیہ سلاماً لا یغادر برکۃ من برکاتکَ و سوّد رجوہ اعدائۃ بتائید اتک و اٰیاتک- اٰمین
الرقم میزا غلام احمد از من مقام القادیان القجاب۔
لخمس و عشرین من افسطوس سنہ۱۹۱۰سنۃ
Bishops Bourne,
Lahore.
Aug,15,01
Dear Sir,
The lord Jesus Christ was vertainly not a low-giver, in the sences in which Moses was, giving a aomplete desoripture low about such things as clean and unclean food.That He did not do this must be wident to any one who readsthe New Testan ment with any care or throught whatever. The Mosacs law of moats was given in order to develope in the minds of man who were in a very elementary stage of education and relin,the sense of law, and gradually of Holiness and the rwverse, It is therefore, called in the New Testament a "School master to bring us the Christ" (gal iii-24) for it developed a consciencs in men which, when awakened, could not find rest in any external or furely ceremonial that nesded an inner reghte of heart and life.And it was to being this that Christ came by this life and death.He Goth deepemed in men's how terrible it is and also showed men how they could be reconoiled to God, obtaining foregivsness of sins and also power by the gift of the Holy sprisit to live a new lift in real holiness, and in love to God and men. What the charactortics of that new life are, you can see by reading the sernson on the mount St. Mathew chapter V.VII.
ترجمہ
از مقام بشپس بورن واقعہ لاہور
مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۱ء
جناب- خداوند یسوع مسیح ہرگز شارع نہ تھا جن معنوں میں حضرت موسٰی صاحب شریعت تھا جس نے ایک کامل مفصّل شریعت ایسے امور کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ- کوئی شخص انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو جائے گا کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھا-
موسٰے کی شریعت کھانے وغیرہ امور کے متعلق اس واسطے نازل ہوئی تھی کہ انسان کا دل تربیت پا کر شریعت کے مفہوم کو پا لے اور رفتہ رفتہ مقدس اور غیر مقدس کو سمجھنے لگے کیونکہ انسان اس وقت تعلیم و مذہب کی ابتدائی منزل میں تھا اس لئے انجیل میں کہا گیا ہے کہ موسٰی کی شریعت ایک استاد تھی- جو ہمیں مسیح تک لائی- کیونکہ اس شریعت نے انسان کے دل میں ایک ایسی فطرت پیدا کر دی جو کہ ترقی پا کر صرف بیرونی اور رسمی اعمال پر قانع نہ ہوئی بلکہ دل اور رُوح کی اندرونی راستی کی تلاش کرنے والی ہوئی- اس راستی کے لانے کے واسطے مسیح آیا- اپنے زندگی اور موت کے ذریعہ سے اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ سمجھ ڈال دی کہ گناہ کیا ہے اور وہ کیسا خوفناک ہے اور گناہوں کی معافی حاصل کرکے اور روح القدس کے عطیہ سے ہم تقدس کی نئی زندگی پاکر اور خدا اور انسان کے درمیان محبّت قائم کر کے خدا کو پھر راضی کر سکتے ہیں- متی باب ۵ و ۷ میں پہاڑی تعلیم کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس نئی زندگی کا طرز طریق کیا تھا-
دستخط جے - اے لیفرائے بشپ لاہور
(۲۳۹)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونُصلے علٰی رسولہِ الکریم
اشتہار مفید الاخیار
چونکہ یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ہماری اس جماعت میں کم سے کم ایک سو آدمی ایسا اہلِ فضل اور اہلِ کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعوے ٰ کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور ان کے مفتریانہ اعتراضات کو جواب دے سکے اور خدا تعالیٰ کی حجّت جو اُن پر وارد ہو چکی ہے جو بوجہ احسن اس کو سمجھا سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہر ایک طالبِ حق کو نجات دے سکے اور دینِ اسلام کی حقیّت اکمل اور اتم طور پر ذہن نشین کر سکے- پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اور اہلِ علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۱ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے طیار ہو جائیں اور دسمبر آئندہ کی تعطیلوں پر قادیان میں پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں- اس جگہ اسی غرض کے لئے تعطیلات مذکورہ میں ایک جلسہ ہو گا اورمباحث مندرجہ کے متعلق سوالات دیئے جائیں گے- ان سوالات میں وہ جماعت جو پاس نکلے گی ان کو ان خدمات کے لئے منتخب کیا جائے گا اور وہ اس لائق ہوں کہ ان میں سے بعض دعوت حق کے لئے مناسب مقامات میں بھیجے جائیں- اور اسی طرح سال بسال یہ مجمع انشاء اﷲ تعالیٰ اسی غرض سے قادیان میں ہوتا رہے گا جب تک کہ ایسے مباحثین کی ایک کثیر العدد جماعت طیار ہو جائے- مناسب ہے کہ ہمارے احباب جو زیرک اور عقلمند ہیں اس امتحان کے لئے کوشش کریں اور ۲۵؍ دسمبر یا ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو بہرحال قادیان میں پہنچ جائیں-
والسَّلام علٰے من اتّبع الھدیٰ
المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر
مرزاغلام احمد از قادیان ۹؍ ستمبر ۱۹۰۱ء
ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶×۲۰ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۲۴۰)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونصلّے علٰی رسولہِ الکریم
ایک غلطی کا ازالہ
ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا- اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے- وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراں پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے- اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو مذامت اُٹھانی پڑتی ہے- چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا- حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے- حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے- اس میں ایسے لفظ رسُول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ- پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں- بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں- چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں- ان میں سے ایک یہ وحی اﷲ ہے- ھو الّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہٗ علے الدین کلہٖ- دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ- اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسُول کر کے پکارا گیا ہے- پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اﷲ ہے- جری اﷲ فی حلل الانبیاء- یعنی خدا کا رسُول نبیوں کے حلّوں میں دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۰۴- پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اﷲ ہے- محمّد رسول اﷲ والذین معہ اشدّاء علی الکفّار رحماء بینھم-
اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسُول بھی- پھر یہ وحی اﷲ ہے جو صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں درج ہے- ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ ’’دُنیا میں ایک نبی آیا‘‘ اسی طرح براہین احمدیہ میں اَور کئی جگہ رسُول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا- سو اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو خاتم النبیین ہیں- پھر آپ کے بعد اَور نبی کس طرح آ سکتا ہے- اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پورانا نہیں آ سکتا جس طرح اس آپ لوگ حضرت عیسٰے علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حال میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحیٔ نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے- بے شک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اور حدیث لانبی بعدی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے- لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچّا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے- نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی- پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خداکے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طو رپر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جونبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے- اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے- اس کے یہ معنے ہیں کہ محمدؐ کی نبوت آخر محمدؐ کو ہی ملی گو بروزی طو رپر مگر نہ کسی اَور کو- پس یہ آیت کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اس کے معنے یہ ہیں کہ لیس محمد ابا احد من رجال الدنیا ولٰکن ھواب لرجال الْاٰخرۃ لانہ خاتم النبییّن و لا سبیل الی فیوض اﷲ من غیر توسطہ غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا ہے لہٰذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا- لیکن عیسٰے کے اُترنے سے ضرور فرق آئے گا- اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا- پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رُسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفیٰ کی خبر اس کومل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے- لایظھر علٰی غیبہ احدا الامن ارتضٰی من رسولٍ- اب اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ا ن معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر غیبیہ منجانب اﷲ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لایظہر علٰی غیبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا- اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رُسول کہیں گے- فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا بنی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجنابؐ اور ایسی فنا فی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمّد اور احمد رکھا جائے - یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے و من ادّی فقد کفر- اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغایرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مُہر کو توڑنے والا ہو گا- جو خاتم النبین پر ہے- لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیّن میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلا ئے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلّی طور پر- پس باوجود اس شخس کے دعویٰ نبوت کے جس کے نام ظلّی طورپر محمد اور احمد رکھا گیا- پھر بھی سیّدنا محمدؐخاتم النبین ہی رہا- کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسیٰ بغیر مُہر توڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے کوئی بھی شخص نبی اور رُسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم٭ سویاد رکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوّت اور رسالت سے انکار نہیں ہے- اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا- اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریںپانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلائو کس نام سے اس کو پکارا جائے- اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو مَیں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی *** کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے- مگر نبوت کے معنے اظہار امر غیب ہے- اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنے عبرانی میں اسی لفظ کا نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ ناباسے مشتق ہیجس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے - یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں- پس مَیں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو مَیں اپنی نسبت نبی یا رسُول کے نام سے کیونکر ردّ کروں یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں- مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور مَیں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھُلی کھُلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی- جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھُل کھُلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی- جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھُل گئی ہے اور مَیں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا- میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی- اس طرح پرمیرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ مَیں خلیفۃ اللہ ہوں - مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا - اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے- مَیں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رُسولوں کی تائید کرتا رہا ہے کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائید اُن کے ساتھ نہیں-
اور جس جس جگہ مَیں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیاہے کہ مَیں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طورپر نبی ہوں - مگران معنوں سے کہ مَیں اپنے رسُول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسُول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے ، اس طور کا نبی کہلانے سے مَیں نے کبھی انکار نیہں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا - اور میرا یہ قول کہ
’’ من نیستم رسُول دنیاور دہ ام کتاب‘‘
اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ مَیںصاحب شریعت نہیں ہوں- ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مَیںباوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک ایک پاک وجود ہے- جس کا رُوحانی افاضہ میرے شامل حال ہے- یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم - اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر مَیں رسول بھی ہون اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبری پانے والا بھی- اور اس طور سے خاتم النبین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میںنے انعکاسی اورظلّی طور پرمحبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا- اگر کوئی شخص اس وحی الہٰی پر ناراض ہو کہ کیوں خد اتعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسُول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسُول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی٭ یہ بات ظاہر ہے کہ جیسا کہ مَیں اپنی نسبت کہتا ہوں کہ خدانے مجھے رُسول اور نبی کے نام سے پکارا ہے ایسا ہی میرے مخالف حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد دوباردُنیا میں آئیں گے- اور چونکہ وہ نبی ہیں اس لئے اُن کے آنے پر بھی وہی اعتراض ہو گا جو مجھ پر کیا جاتا ہے یعنے یہ کہ خاتم النبین کی مہر ختمیت ٹوٹ جائے گی- مگر مَیں کہتاہوں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے- کیونکہ مَیں بار ہا بتلا چکاہوں کہ مَیں بموجب آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں- اورخدانے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اوراحمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وجود قراردیا ہے- پس اس طور سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا- کیونکہ ظلّ اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا- اور چونکہ مَیں ظلّی طور پر محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمدؐ تک ہی محدود رہی- یعنے بہر حال محمد صلے اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہیں نہ اَور کوئی- یعنے جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالاتِ محمدیّ نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیّت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا- بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہو گا- اور اس کا اسم آنجنابؐ کے اسم سے مطابق ہو گا یعنی اس کا نام بھی محمد ہو گا اور اس کے اہل بیت میں سے ہو گا- ٭اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہو گا یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہو گا اور اسی کی رُوح کا رُوپ ہو گا- اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے تعلق بیان کیا یہانتک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے- ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا- اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا نواسہ ہو- ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحب بروز میں سے نکالا ہو ا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو سو یہ خیال آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شانِ معرفت کے سراسر خلاف ہے کہ آپ اس بیان کوتو چھوڑدیں جو اظہار مفہوم کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا- بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق- اور اگر بروز کے لئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کے کے ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹا ہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کسی کے بات ہونے کی نفی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے- اگربروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آپ و آخرین منہم- میں ایسے موعود کے رفیق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے - جسمانی خیال کے لوگوںنے کبھی اس موعود حَسْنؓ کی اولاد بتایا اور کبھی حُسَیْنؓ کی اور کبھی عبّاسؓ کی- لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھاکہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہو گا- اس کے نام کا وارث اس کے خُلق کا وارث اور اس کے علم کا وارث اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا- اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ کچھ اس سے لے گا- اس کا خُلق لے گا، اس کا علم لے گا، ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا- کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو- پس چونکہ نبوت بھی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میںوہکمال بھی نمودار ہو- تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزیاپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے - پس اس صوت میں ظا ہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمدنام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہو گئے، اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسُول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبین کی مُہر ٹوٹ گئی- کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں- اس طرح پر تو محمدؐ کے نام کی نبوت محمد صلے اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی- تمام انبیاء علیہم السّلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں کوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ -
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد زیں من دیگرم تو دیگری
لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبین کی مُہر تورنے کے کیونکر دنیا میں آ سکتے ہیں- غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہٰی مُہر جو آنحضرت صلی علیہ اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے- اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مُہرٹوٹ جائے- ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں اَور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اٰخرین منھم لمّا یلحقوا بھم- اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت ہوتی ہے- دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج رات جب دیکھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان کے مقام سے آگے نکلگئے تو کیونکر رع رو کر اپنی غیرت ظاہر کی تو پھر جس حالت میں خداتو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اَور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسیٰ کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلآزاری کا موجب ہوگا- غرض بردزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسر ے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخکنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آیت کریمہ و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یکہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے- کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی غلم غیب پاوے- اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا- وہ مَیں ہوں- اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے وسعت وپا ہے کیونکہ نبوت پر مُہر ہے - ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا- اب بجز اس کھڑکی کے اَور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لیے باقی نہیں-
خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مُہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا خیال جو مستلزم تکذیب آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ہے وہ ختمیت کی مُہر کو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے- لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ و اٰخرین منھم سے ظاہر ہے- اس آیت میں ایک لطافت بیان یہ ہے کہ اس گروہ کا ذکر تو اس میں کیا گیا جو صحابہؓمیں سے ٹھہرانے گئے- لیکن اس موردِ بروز کا بتصریح ذکر نہیں کیا یعنے مسیح موعود کا جس کے ذریعہ سے وہ لوگ صحابہ ٹھہرے اور صحابہؓ کی طرح زیر تربیت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سمجھے گئے- اس ترکِ ذکر سے یہ اشارہ مطلوب ہے کہ موردِ بروز حکم نفیٰ وجود رکھتا ہے - اس ل ئے اس کی بروزی نبوت اور رسالت سے مُہر ختمیت نہیں ٹوٹتی- پس آیت میں اس کو ایک وجود منفی کی طرح رہنے دیا اور اس کے عوض میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا ہے- اور اسی طرح آیت انا اعطیناک الکوثر میں بروزی وجود کا ایک وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں سچے اہل اسلام ہو جائیں گے - اس آیت میں بھی ظاہر ی اولاد کی ضرورت کو نظرِ تحقیر سے دیکھا- اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی- اور گو خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ مَیں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی، اور دونوں خُونوں سے حصّہ رکھتا ہوں- لیکن مَیں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے-
اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے- مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں-مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول - ہاں مَیں اس طور سے نبی اور رسُول ہوںجس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے - پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے- مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا- مگر بروزی صورت میں- میرا نفس درمیان نہیں ہے- بلکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے- اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا- پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی- محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی - علیہ الصلٰوۃ والسّلام
خاکســـــــــــــــــــــــــــار
مطبوعہ ضیاء اسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۶ ×۲۰ ۴ کے۶ صفات پر ہے)
(۲۴۱)
اشتہار کتاب آیات الرحمان
یہ قابل قدر کتاب مکرمی سیّد محمد احسن ؟صاحب نے کتاب عصائے موسیٰ کے ردّ میں لکھی ہے اور مصّنف عصائے موسیٰ کے اوہام کا ایسا استیصال کر دیا ہے کہ اب اس کو اپنی وہ کتا ب ایک درد انگیز عذاب محسوس ہو گی- یہ تجویز قرار پائی ہے کہ اس کے چھپنے کے لئے اس طرح پر سرمایہ جمع ہو کہ ہر ایک صاحب جو خریدنا چاہیں ، ایک روپیہ جو اس کتاب کی قیمت ہے بطورپیشگی راونہ کر دیں- یہ خواہش ہے کہ جلد تر یہ کتاب چھپ جائے- اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے- والسّلام
خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ
(اشتہار’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘کے صفحہ ۶ کے حاشیہ پر یہ اشتہار درج ہے)
(۲۴۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْمط
المنار
قاہرہ سے ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام منار ہے- جس فروری ۱۹۰۱ء میں ہماری طرف سے پیر گولڑوی صاحب کے مقابل پر رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا جو فصیح بلیغ عربی مین ہے اور اس کے جواب میں نہ صرف پیر صاحب موصوف عاجز رہ گئے بلکہ پنجاب اور ہندوستاں کے تمام علماء بھی عاجز آ گئے تو مَیں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس رسالہ بلاد عرب عینی حرمین اور شام اور مصرف وغیرہ میں بھی بھیجدوں کیونکہ اس کتاب کے صفحہ ۱۵۲ میںجہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور مَیں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ ی فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی ممانعت ہو اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہون اسی وجہ سے میری عربی کتابیں عرب کے ملک میں بھی بہت شہرت پاگئی ہیں- جولوگ درندہ طبع ہیں اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ فی الفور چڑ جاتے ہیں اور میرے دشمن ہو جاتے ہیں - مگر جن میں انسانیت ہے وہ معقول بات کو پسند کر لیتے ہیں- پھر دشمنی کی حالت میں کون کسی کی کتاب کی تعریف کر سکتا ہے- سو اسی خیال سے یہ رسالہ کئی جگہ مصر میں بھیجا گیا - چنانچہ منجملہ ان کے ایڈیٹر المنار کو بھی پہنچا دیا گیا تا اس سے جہاد کے غلط خیالات کی بھی اصلاح ہو- اور مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلہ جہاد کی غلط فہمی میں ہر ایک ملک میں کسی قدر گروہ مسلمانوں کا ضرور مبتلا ہے- بلکہ جو شخص سچّے دل سے جہاد کا مخالف ہو - اس کو یہ علماء کافر سمجھتے ہیں- بلکہ واجب القتل بھی- لیکن چونکہ اسلام کی تعلیم میں یہ بات داخل ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خد اکا شکر بھی نہیں کرتا - اس لئے ہم لوگ اگر ایمان اور تقویٰ کو نہ چھوڑیں تو ہمارا یہ فرض ہے ک اپنے قول اور فعل سے ہر طرح اس گورنمنٹ برطانیہ کی نصرت کریں- کیونکہ ہم اس گورنمنٹ کے مبارک قدم سے پہلے ایک جلتے ہوئے تنور میں تھے- یہی گورنمنٹ ہے جس نے اس تنور سے ہمیں باہر نکالا- غرض اسی خیال سے جو میرے دل میں مستحکم جما ہوا ہے- اعجاز المسیحمیں بھی یعنے اس کے صفحہ ۱۵۶ میںجہاد کی مخالفت اور گورنمنٹ کی اطاعت کے بارے میں شدّ و مد سے لکھا گیا - مجھے معلوم ہوا کہ اسی تحریر سے صاحب جریدہ منار اپنے تعصّب کی وجہ سے جل گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سخت گوئی اور گالیوں پر آ گیا اور منار میں بہت تحقیر اور توہین سے مجھے یاد کیا اور وہ پرچہ جس میں میری بد گوئی تھی کسی تقریب سے پنجاب میں پہنچ گیا- پنجاب پُر حد مُلّا تو آگے ہی مجھ سے ناراض تھے- اور پیر گولٹروی کی کمر ٹوٹ چکی تھی اس لئے منار کی وہ چار سطریں مرتے کے لئے ایک سہارا ہو گئیں- تب ان لوگوں نے اپنی طرف سے اَور بھی نُون مرچ لگا کر اور اُن چند سطروں کا اُردو میں ترجمہ کر کے وہ مضمون پرچہ اخبار چودھویں صدی میں جو راولپنڈی سے نکلتا ہے چھپوا دیا اور جا بجا بغلیں مارنے لگے کہ دیکھو اہل زبان نے اور پھر منار کے ایڈیٹرجیسے ادیب جیسے ادیب نے ان کی عربی کی کیسی خبر لی- بیوقوفوں کو معلوم نہ ہواکہ یہ تو سارا جہاد کی مخالفت کامضمون پڑھ کر جوش نکالا گیا ہے- ورنہ اسی قاہرہ میں پرچہ مناظرہ کے ایڈیٹر نے جو ایک نامی ایڈیٹر ہے جس کی تعریف منار بھی کرتا ہے اپنے جریدہ میں صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ کتاب اعجاز المسیح درحقیقت فصاحت بلاغت میں بے مثل کتاب ہے اور صاف گوئی دے دی ہے کہ اس کے بنانے پر دوسرے مولوی ہر گز قادر نہیں ہوں گے- ان مخالفوں کو چاہیے کہ جریدہ مناظرہ کو طلب کر کے ذرہ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر ایڈیٹر مناظر اہل زبان نہیں ہے؟ بلکہ مناظرہ نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اعجاز المسیح کی فصاحت بلاغت درحقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے- اور پھر ایڈیٹر ہلال نے بھی جو عیسائی پرچہ ہے اعجاز المسیح کی بلاغت فصاحت کی تعریف کی اور وہ پرچہ بھی قاہرہ سے نکلتا ہے- اب ایک طرف تو دو گواہ ہیں اور ایک طرف بیچارہ منار اکیلا- اور ایڈیٹر منار نے باوجود اس قدر بدگوئی کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’’میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ اس کتاب کی مانند کوئی اور کتاب اہل عرب بھی نہیں لکھ سکتا- اگر ہم چاہیں تو لکھ دیں‘‘ لیکن یہ قول اس کا محض ایک فضول بات ہے اور یہ اسی رنگ کا قول ہے جو کفّار قرآن شریف کی نسبت کہتے تھے کہ لونشاء لقلنا مثل ھٰذا- پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کتاب فصیح نہیں تو پھر تمہارے اس قول کے کیا معنے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس کی مثل چند روز میں لکھ دیں- کیا تم بھی غلط کتاب کے مقابل پر غلط لکھو گے-
غرض جس پرچہ کی تحریر پر اتنی خوشی کی گئی ہے اس کا یہ حال ہے کہ اسی ملک کے اہلِ زبان وہی پیشہ رکھنے والے اس کو جھوٹا ٹھہراتے ہیں- اور جہاد کی وجہ سے بھی اس کا اشتعال بے معنی ہے- کیونکہ یہ مسئلہ اب بہت صاف ہو گیا ہے اور وہ زمانہ گذرتا جاتا ہے جبکہ نادان مُلاّ بہشت کی کل نعمتیں جہاد پر ہی موقوف رکھتے تھے- اس جگہ بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گذرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گذاری کی نیّت سے ہم نے کئی کتابیں مخالفت جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کافر وغیرہ اپنے نام رکھوائے اُسی گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں- ہم نے قبول کیا کہ ہماری اردو کی کتابیں جو ہندوستان میں شائع ہوئیں ان کے دیکھنے سے گورنمنٹ عالیہ کو یہ خیال گذرا ہو گا کہ ہماری خوشامد کے لئے ایسی تحریریں لکھی گئی ہیں کیونکہ انسان عالم الغیب نہیں- لیکن یہ دانشمند گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سمجھ سکتی ہے کہ عرب کے ملکوں میں جو ہم نے ایسی کتابیں بھیجیں جن میں بڑے بڑے مضمون اس گورنمنٹ کی شکر گذاری اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں تھے ان میں گورنمنٹ کی خوشامد کا کونسا موقع تھا- کیا گورنمنٹ نے مجھ کو مجبور کیا تھا کہ مَیں ایسی کتابیں تالیف کر کے ان ملکوں میں روانہ کروں اور اُن سے گالیاں سنوں- مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ عالیہ ضرور میری ان خدمات کا قدر کرے گی اور وہ لوگ جو سراسر بغض اور حسد سے آئے دن خلاف واقعہ میری نسبت شکایتیں کرتے رہتے ہیں وہ ضرور شرمندہ ہوں گے- کیونکہ کوئی امرپوشیدہ نہیں جو ظاہر نہ ہو جائے- ایک مکّار انسان کب تک اپنی مکّاری چھپا سکتا ہے یا ایک مخلص انسان کب تک چھپ سکتا ہے-
اب پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ مَیں نے صاحبِ منار کی دھوکہ دہی کے کھولنے کے لئے صرف ایڈیٹر مناظر اور ہلال کی یا مبالغہ تعریف پر ہی حصر نہیں رکھا بلکہ عربی میں ایک اور رسالہ نکالا ہے اور ایڈیٹر منار سے بڑے مبالغہ کے ساتھ نظیر طلب کی ہے- اور اس رسالہ سے پہلے ایک چھوٹا سا رسالہ اس کے متنبہ کرنے کے لئے بھیجا جائے گا تا اگر وہ عاجزی سے اپنا قصور معاف کرانا چاہے تو پھر اس ذلّت سے بچ جائے کہ جو بالمقابل لکھنے کے وقت اس کو پیش آنے والے ہے لیکن اس کی بدقسمتی سے ان رسالوں میں بھی گورنمنٹ کی تعریف اور جہاد کی مخالفت موجود ہے- اس کے پُررنج اشارات سے ظاہر ہو رہا ہے تو ان رسالوں کو پڑھ کر یہ اشتعال اور بھی زیادہ ہو گا-
بالآخر ہم سب مخالف مولویوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ صاحبِ منار کی مخالفت ان کے لئے کچھ بھی جائے خوشی نہیں اور جو کچھ عظمت اہلِ زبان ہونے کی اس کو دی گئی ہے آثار سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ جلد تر اس سے رُخصت ہونے کو ہے- ان مولویوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ دراصل ملک مصر عجم میں داخل ہے اور ان کی عربی تمام عربی زبانوں سے بدتر ہے- نمونہ اتنا ہی کافی ہے کہ اُقْعُدْ کو گُدْ کہتے ہیں- اور اُن کا محاورہ بہت غلط اور عربی فصاحت سے نہایت دور ہے اور وہ اپنے تئیں فصیح بنانے کے لئے ہندیوں سے زیادہ مشکلات میں ہیں کہ ان کی زبان غلط بولنے پر عادی ہو گئی ہے- مگر ہندیوں کی لوح طبیعت غلطی سے مبّرا اور صحیح طریق قبول کرنے کے لئے مستعد ہے- اسی وجہ سے کتاب انسکلوپیڈیا میں ایک محقق انگریز لکھتاہے کہ عرب کی تمام زبانوں میں سے بدتر زبان وہ ہے جو مصر میںر ائج ہے-
غرض مولویان پنجاب اب عنقریب دیکھ لیں گے کہ جس شخص پر ناز کیا ہے اس کو علم ادب میں کہاں تک دخل ہے-
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتہر خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان مورخہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے چار صفحہ پر ہے )
(۲۴۳)
الطاعون
بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی- اَمَّا بَعْدُ
حمد مر خدارا و سلام بر بندگان برگزیدہ وے- اما بعد
خدا کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام
فَاعْلَمُوْا اَیُّھَا الْاَخْوَان اُولُو النّھٰی- رَحِمکُم اﷲ فِی الْاُولٰی
اے برادران دانشمند خدا در ہردو جہاں بر شما رحم فرماید
بھائیو اے دانشمندو خدا تعالیٰ تم پر دونوں جہانوں میں رحم
وَالْاُخْریٰ- ان الطاعون قدحلت بلادکم- و فلت اکبادکم-
بدانید کہ طاعون در شہر ہائے شما رخت اقامت انداختہ و جگر ہائے شمارا
کرے طاعون نے تمہارے شہروں میں ڈیرے ڈال دئے اور تمہارے جگروں کو پارہ پارہ کر دیا
و تخطف کثیرا من احباء کم-و اباء کم و ابناء کم و بنا تکم و نساء کم
پارہ پارہ کردہ ست و بسیادے را از دوستاں و پدران و دختران و زنان
اور تمہارے بہت سے دوستوں باپوں بیٹوں بیٹیوں اور جورئوں اور ہمسائیوں
و جیر انکم و خلّا نکم و لکم فیہ بلا عظیم من اﷲ العلیم الحکیم
و ہمسائیگان از شمار ربودہ دریں مصیبت برائے شمار از خداوندو مہربان آزمایش بزرگ ست
کو اچک کر لے گئی اور تمہارے لئے اس میں خداوند علیم حکیم کی طرف سے بڑا ابتلا اور امتحان
ولا ینزل بلاء الّا بسبب من الاسباب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
مجموعہ اشتہارات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(۱۸۱)
چونکہ بعض احباب چندہ مدرسہ میرے نام بغیر ذکر مدرسہ یوں ہی روانہ فرماتے ہیں- اور پھر کسی دوسرے وقت اس اطلاع دہی کے لئے ان کا خط آتا ہے جبکہ وہ اُن کا روپیہ ہمارے کاموں میں خرچ بھی ہو جاتا ہے- اس صورت میں خواہ نخواہ کی ایک تکلیف ہوتی ہے لہذا تمام احباب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ انتظام چندہ مدرسہ الگ قرار پایا ہے- اور وہ یہ ہے کہ اس میں اخویم میر ناصر نواب صاحب محاسب روپیہ قرار پائے ہیں اور روپیہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے پاس جمع ہوتا ہے- اس لئے مناسب ہے کہ آیندہ ایسا روپیہ میرے نام ہرگز نہ روانہ ہو- بلکہ براہ راست مولوی صاحب موصوف کے نام روانہ فرمایا کریں اور اس میں بھی لکھ دیا کریں کہ یہ مدرسہ کا روپیہ ہے- یہ امر ضروری ہے جس کی پابندی ہر ایک صاحب کو لازمی ہو گی-
اس جگہ یہ بھی اطلاع دیتا ہو کہ کتابُ البَر یّہ چھپ کر طیار ہو گئی ہے - قیمت اس کی ایک روپیہ چار آنہ ہے جو صاحب خریدنا چاہیں بذریعہ ویلیوپے-ایبل منگوا سکتے ہیں- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
۵ فروری ۱۸۹۸ء
خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
مطبع ضیاء اسلام قادیان (یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۸۲)
جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس کو چاہیے کہ وہ اور لوگوں کو دکھائے اور اس کی اشاعت میں کوشش کرے-
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
قُلْ مَا یَعْبُؤُا بِکُمْ رَبِّی لَوْ لَا دُعَاؤُ کُمْ
طاعون
اس مرض نے جس قدر بمبئی اور دوسرے شہروں اور دیہات پر حملے کئے او کر ہی ہے اُن کے لکھنے کی ضرورت نہیں…دو سال کے عرصہ میں ہزاروں بچے یتیم ہو گئے اور ہزار ہا گھر ویران ہو گئے- دوست اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ہمیشہ کے لئے جُدا کئے گئے اور ابھی انتہاء نہیں- کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے روپیہ کا ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیّہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدائتیں شائع کیں- مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلّی امن حاصل نہیں ہوا- بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ مُلک پنجاب بھی خطرہ میں ہے ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوح انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسا ن نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو- اور یہ امر بحی نہایت ضروری ہے کہ گونمنٹ کی تدبیروں اور ہدایتوں کو بد گمانی کی نظر سے نہ دیکھا جائے- غور سے معلوم ہو گا کہ اس بارے میںگورنمنٹ کی تمام ہدایتیں نہایت احسن تدابیر پر مبنی ہیں گو ممکن ہے کہ آیندہ اس سے بھی بہتر تدابیر پیدا ہوں مگر ابھی نہ ہمارے ہاتھ میں نہ گورنمنٹ کے ہاتھ میں ڈاکٹری اصول کے لحاظ سے کوئی ایسی تدبیر ہے کہ جو شائع کردہ تدابیر سے عمدہ اور بہتر ہو-
بعض اخباروالوں نے گورنمنٹ کی تدابیر پر بہت کچھ جرح کی - مگر سوال تویہ ہے کہ ان تدابیر سے بہتر کونسی تدبیر پیش کی- بے شک اس ملک کے شرفاء اور پردہ داروں پر یہ امر بہت کچھ گراں ہوگا کہ جس گھر میں بَلا طاعُون نازل ہو تو ایسا مریض کوئی پردہ دار جران عورت ہی ہو تب بھی فی الفور وہ گھر والوں سے الگ کر کے ایک علیحدہوا دار مکان میں رکھا جائے جو اس شہر گائوں کے بیماروں کے لئے گورنمنٹ نے یہ ہدایت بھی تو شائع کی ہے کہ اگر اس بیمار کے تعہد کے لئے ایک دو قریبی اُس کے اُسی مکان میں رہنا چاہیں تو وہ رہ سکتے ہیں- پس اس سے زیادہ گورنمنٹ اور کیا تد بیر کر سکتی تھی کہ چند آدمیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت بھی دے دی- اور اگر یہ شکایت ہو کہ کیوں اس گھر سے نکالا جاتا ہے اور باہر جنگل میں رکھا جاتا ہے تو یہ احمقانہ شکوہ ہے میں یقینا اس بات کو سمجھتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ ایسے خطرناک امراض میں مداخلف بھی نہ کرے تو خود ہر ایک انسان کا اپنا وہم وہی کا اس سے کرائے گا- جس کام گورنمنٹ نے اپنے ذمہ لیا ہے - مثلاً ایک گھر میں جب طاعون سے مرنا شروع ہو تو دو تین موتوں کے بعد گھر والوں کو ضرور فکر پڑیگا- کہ اس منحوس گھر سے جلد نکلنا چاہیے اور پھر فرض کرو کہ وہ اس گھر سے نکل کر محلّہ کے کسی اور گھر میں آباد ہوں گے اور پھر اس میں بھی یہی آفت دیکھیں گ تب ناچار اُن کو شہر سے علیحدہ ہونا پڑے گا مگر ہ تو شرعاً بھی منع ہے کہ وبا کے شہر کا آدمی کسی دوسرے شہر میں جا کر آبادہویا بہ تبدل الفاظ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا قانون بھی کسی دوسرے شہر میں جانے سے روکتا ہے تو اس صورت میں بجز اس تد بیر کے جو گورنمنٹ نے پیش کی ہے کہ اُسی شہر کے کسی میدان میں وہ لوگ رکھے جائیں اور کونسی نئی اور عمدہ تدبیر ہے جو ہم نعوذ باللہ اس خوفناک وقت میں اپنی آزادگی کی حالت میں اختیار کر سکتے ہیں- پس نہایت افسو س ہے کہ نیکی کے عوض بدی کی جاتی ہے اور ناحق گورنمنٹ کی ہدایتوں کو بد گمانی سے دیکھا جاتا ہے- ہاں یہ ہم کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں ڈاکٹروں اور دوسرے افسروں کو جو ان خدمات پر مقرر ہوں نہایت درجہ کے اخلاق سے کام لینا چاہیے اور ایسی حکمت عملی ہو کہ پردہ داری وغیرہ امور کے بارے میں کوئی شکایت بھی نہ ہو اور ہدایتوں پر عمل بھی ہو جائے- اور مناسب ہو گا کہ بجائے اس کے کہ حکومت اور رعب سے کام لیا جائے ہدایتوں کے فوائد دلوں میں جمائے جائیں تا بد گمانیاں پیدا نہ ہوں- اور مناسب ہے کہ بعض خوش، اخلاق ڈاکٹر واعظوں کی طرح پھیلنے سے پہلے دیہات اور شہروں کا دورہ کر کے گورنمنٹ کے شفقانہ منشاء کو دلوں میں جما دیں تا اس نازک امر میں کوئی فتنہ پیدا نہ ہو -
واضح رہے کہ اس مرض کی اصل حقیقت ابھی تک کامل طور پر معلوم نہیں ہوئی اس لئے اس کی تدابیر اور معالجات میں بھی اب تک کوئی کامیابی معلوم نہیں ہوئی- مجھے ایک رُوحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرض اور مرض خارش کامادہ ایک ہی ہے- ایسی دوائیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہو سکیں - اور جبکہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہونے سے اس مرض میں کمی پیدا ہو جائے- یہ رُوحانی قواعد کا ایک راز ہے جس سے مَیں نے فائدہ اُٹھایا ہے- اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکہ لگانے والوں کی طرح بطور حفظ ما تقدم ایسے ملکوں کے لوگوں میں جو خطرہ طاعوں میں ہوں خارش کی مرض پھیلاویں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ میں تحلیل پاجائے اور طاعون سے امن رہے- مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے- مَیں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کو لکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو میں روک نہیں سکا-
اور ایک اَور ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ رُوحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھینگے مگرمیرا فرض ہے کہ مَیں اس کو نوع انسا ن کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۲ فروری ۱۸۹۸ء روزیکشنبہ ہے مَیں نے خواب دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں مَیں نے بعض لگا نے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تواُنہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب مُلک میں پھیلنے والی ہے- میرے پر ہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے کہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا- لیکن نہایت خوف ناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا- اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور یہ ہے کہ اِنّ اﷲ یفیّر ما بِقو مرٍ حتّٰی یغیّرُو بانفسھم اِنہ اٰویٰ٭ القریۃ یعنی جب تک دلوں کی وباء معصّیت دُور نہ ہو تب تک ظاہری وبا بھی دُور نہیں ہو گی- اور درحقیقت دیکھا جاتا ہے کہ مُلک میں بد کاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہوا وُہوس کا ایک طُوفان برپا ہو رہا ہے اکثر دلوں سے اللہ جلشانہ کا خوف اُٹھ گیا ہے- اور وبائوں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دُور ہو سکتی ہے- ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہو رہے ہیں اَور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے- وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں اُن مسے سے جو غریب اور مفلس یں اکثر اُن میں سے چوری اور خیانت اور مکروہ حرکات ان سے سزد ہوتے ہیں اور وحثیوں کی طرح زندگی بسر کرتے یہں - نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک مُنہ بھی نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے اور جو لوگ امیر اور رئیس اور نواّب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکہ دار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زناکاری اور بد اخلاقی اور فضول خرچی اُن کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ہیں اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لا پروا پائے جاتے ہیں-
اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی مَیں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلّق ہے اور توبہ دور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دُور ہو سکتی ہے- لہذا تمام بندگان خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بد کاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں- مسلمانوں کو چاہیے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام بجا لاویں، نماز کے پابند ہوں ، ہر ایک فسق و فجور سوے پرہیز کریں، توبہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں، غریبوں اور ہمسائیوں اور یتیموں اور بیوائوں اور مسافروں اور دردمندوںکے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ و خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اور نماز میںاِس بَلا سے محفوظ رہنے کے لئے دُعا کریں- پچھلی رات اُٹھیں اور نماز میں دُعائیں کریں- غرض ہر قسم کے نیک کام بجا لائیں- اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں- اور اُس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم ہی دُنیا کو ہلاک کر سکتا ہے-
میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ یہ تقدیر ایسی ہے کہ جو دُعا اور صدقات اور خیرات اور اعمال صالحہ ار توبہ نصوع سے ٹل سکتی ہے اس لئے میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ مَیں عام لوگوں کو اس سے اطلاع دوں - یہ بھی مناسب ہے کہ جو کچھ اس بارے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہدایتیں شائع ہوتی ہوں خواہ نخواہ اُن کو بد ظنی سے نہ دیکھیں بلکہ گورنمنٹ کی اس کاروبار میں مدد دیں اور اس کے شکر گذار ہوں کیونکہ سچ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں- اور ایک قسم کے مدد یہ بھی ہے کہ یہ تمام ہدایتیں محض رعایا کے فائدہ کے لئے تجویز ہوئی ہیں-
اور ایک اقسم کی مدد یہ بھی ہے کہ نیک چلنی اور نیک بختی اختیار کر کے اس بَلا کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دُعائیں کریں تا یہ بلا رُک جائے یا اس حد تک پہنچے کہ اس مُلک کو فنا کر دیوے- یاد رکھو کہ سخت خطرہ کے دن ہیں اور بَلا دروازہ پر ہے نیکی اختیار کرو اور نیک کام بجا لائو- خدا تعالیٰ بہت حلیم ہے لیکن اس کا غضب بھی کھا جانے والیٰ آگ ہے- اور نیک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا - ماَ یفعل ﷲ بعذایکم ان شکر تم و اٰمنتم ؎
بتر سید از خدا ئے بے نیاز سخت قہارے
نہ پندارم کہ بد نیند خدا تر سے انکو کارے
مرا باور نمی آید کے رسوا گردو آن مروے
کہ می تر سد ازاں یا رے کی غفار ست و ستارے
گرآں چیز سے کہ محی بینم عزیزاں نیز دید ندے
ز دُنیا توبہ کروندے بچشم زار و خونبارے
خور تاباں سیہ گراں ست از بد کاری مردم
زمیں طاعوں ہمی آرد پئے تخولیف و اندازے
یہ تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی
علاجے نیست بہرد فعِ آں جُز حُسن کردارے
نشاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت
مکہ گر خوابد کُشد در یکدے چُوں کرم بیکارے
من از ہمذردی گفتم تو خود ہم فکر کُن بارے
خرو از بہرایں روز ست اے دانائوہشیارے
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
۶ فروری ۱۸۸۹ء
گلزار محمدی پریس لاہور بازار کشمیری ( یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے چار صفحوں پر ہے)
(۱۸۳)
یہ وہ درخواست ہے جس کا ترجمہ انگریزی بحضور لیفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ روانہ کیا گیا ہے )
امید رکھتا ہوں کہ اس درخواست کو جو میرے اور میری جماعت کے حالات پر مشتمل ہے غور اور توجہ سے پڑھا جائے)
بحضور نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ
چونکہ مسلمانوں کاایک ایک نیا فرقہ جس کا پیشوا اور امام اور پیریہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زورسے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے یافتہ مہذّب اور معزز عہدوں اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیںاور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی اے اور ایم اے اس فرقہ میں داخل ہیں اور داخل ہو رہے ہیں اور یہ ایک گروہ کثیر ہو گیا ہے جو اُس مُلک میں روز بروز ترقی کر رہا ہے - اس لئے مَیں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس فرقہ جدیدہ اور نیز اپنے تمام حالات سے جو اس فرقہ کا پیشوا ہوں حضور لفٹنٹ گورنر بہادر کو آ گاہ کروں- اور یہ ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ یہ معمولی بات ہے کہ ہر ایک فرقہ جو ایک نئی صورت سے پیدا ہوتا ہے گورنمنٹ کو حاجت پڑتی ہے کہ اس کے اندرونی حالات دریافت کرے اور بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے- گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریانہ مخبریوں سے گونمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں- پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پیدا کرے اور بد ظنی کی طرف مائل ہو جائے- لہذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں-
(۱)سب سے پہلے مَیں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ مَیں ایک ایسے خاندان میں سے ہوں دولت مدار انگریزی کاخیر خواہ ہے - چنانچہ صاحب چیف کمشنر بہادر پنجاب کی چٹھی نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰ اگست ۱۸۵۸ء میں یہ مفصّل بیان ہے کہ میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کیسے سرکاری انگریزی کے سچّے وفادار اور نیک نام رئیس تھے- اور کس طرح اُن سے ۱۸۵۷ء میں رفاقت اور خیر خواہی اور مدد دہی سرکار دولت مدار انگلشیہ ظہور میں آئی اور کس طرح وہ ہمیشہ بدل ہواخواہ سرکار رہے- گورنمنٹ عالیہ اس چھٹی کو اپنے دفتر سے نکال کر ملاحظہ کر سکتی ہے اور رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر لاہور نے بھی اپنے مراسلہ میں جو میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ کے نام ہے - چھٹی مذکورہ بالا کا حوالہ دیا ہے جس کو مَیں ذیل میں لکھتا ہوں-
’’ تہود شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند از انجاکہ ہنگام مفدسدہ موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد وہی سرکار دولت مدار انگلشیہ درباب نگاہداشت سواران و بہمر سانی اسپان بخوبی بمنصّہ ظہور پہنچی اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدِل ہوا خواہ سرکارہے اور باعث خوشنودی سرکار ہو لہٰذا بجلدوی اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو سو روپیہ کا سرکار آپ کا عطا ہوتا ہے اور حسب منشاء چھٹی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰ اگست ۱۸۵۸ء پر دانہ ہذا با اظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و فاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے مرقوعہ تاریخ ۲۰ ستمبر ۱۸۵۸ء ‘‘
اور اسی بارے میں ایک مراسلہ سر رابرٹ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر بہادر کا میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر کے نام ہے جو کچھ عرصہ سے فوت ہو گئے ہیں اور وہ یہ ہے:-
’’ مشفق مہربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ‘ - آپ کا خط ۲ ماہ حال کا لکھا ہوا ملا حظہ حضور اینجانب میںگذرا - مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا- مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفا دار رئیس تھا- ہم آہ کے خاندانی لحاظ سے اسی طرح پر عزّت کر ینگے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی- ہم کسی کو اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا- المرقوم ۲۹ جون ۱۸۷۶ء ‘‘
اسی طرح اور بعض چٹھیات انگریزی اعلیٰ کر ہیں جن کو کئی مرتبہ شائع کر چکا ہوں چنانچہ وِنس صاحب کمشنر لاہور کی چٹھی مرقوعہ ۱۱ جون ۱۸۴۰ء میں میرے والد صاحب کو یہ لکھا ہے-
ہم بخوبی جانتے یہں کہ بلا شک آپ اور آپ کا خاندان ابتداء دخل حکومت سرکار انگریزی سے جاں نثار اور وفا کیش اور ثابت قدم رہے ہیں اور آپ کے حقوق واقعی قابل قدر ہیں اور آپ بہر نہج تسلّی رکھیں کہ سرکار انگریزی آپ کے حقوق اور آپ کے خاندانی خدمات کو ہر گز فراموش نہیں کرے گی- اور مناسب موقعوں پر آپ کے حقوق اور خدمات پر غور اور توجہ کی جائے گی-
اور سر یسپل گرفن صاحب نے اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہمارے خاندان کا ذکر کر کے میرے بھائی مرزا غلام احمد قادر کی خدمات کا خاص کر کے ذکر کیا ہے جو اُن سے تمو کے پُل پر باغیوں کی سرزنش کے لئے ظہور میں آئیں-
ان تمام تحریرات سے ثابت ہے کہ میرے والد صاحب اور میرا خاندان ابتداء سے سرکار انگریزی کے بدل و جان ہوا خواہ اور وفادار رہے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزّز افسروں نے مان لیا ہے کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیر خواہ سرکار انگریزی ہے- اور اس بات کے یاد دلانے کی ضرورت نہیںکہ میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی رئیسوں میں سے تھے کہ جو ہمیشہ گورنری دربار میں عزّت کے ساتھ بُلائے جاتے تھے ار تمام زندگی اُن کو گورنمنٹ عالیہ کی خیر خواہی میں بسر ہوئی-
(۲) دوسرا امر قابل گزارش یہ ہے کہ مَیں ابتدائے عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عُمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں میں گورنمنٹ انگلشیہ کی سچّی محبت اور خیر خواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور اُن کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دُور کروں جو اُن کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے رہ کتے ہیں- اور اس ارادہ ار قصد کی اوّل وجہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بصیرت بخشی اور اپنے پاس سے مجھے ہدایت فرمائی کہ تا مَیں ان وحشیانہ خیالات کو سخت نفرت اور بیزاری سے دیکھوں جو بعض نادان مسلمانوں کے دلوں مین مخفی تھے جن کی وجہ سے وہ نہایت بیوقوفی سے اپنی گورنمنٹ محسنہ کے ساتھ ایسے طور سے صاف دل اور سچے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے جو صاف دلی اور خیر خواہی کی شرط ہے بلکہ بعض جاہل مُلّائوں کیکے ورغلانے کی وجہ سے شرائط اطاعت اور وفاداری کا پُورا جوش نہیں رکھتے تھے- سو میں نے نہ کسی بنائوٹ اور ریاکاری سے بلکہ محض اس اعتقاد کی تحریک سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں ہے بڑے زور سے بار بار اس بات کو مسلمانوں میں پھیلایا ہے کہ اُن گورنمنٹ برطانیہ کو جو درحقیقت اُن کی مُحسن ہے سچّی اطاعت اختیار کرنی چاہیے اور وفاداری کے ساتھ اُس کی شکر گزاری کرنی چاہیے ورنہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے- اور مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دل پرمیری تحریروں کا بہت اثر ہوا ہے اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہو گئی-
اور مَیں نے نہ صرف اسی قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچّی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسی کتابوں کے چھانپے اور شائع کرنے میں ہزار ہا روپیہ خرچ کیا گیا- مگر با ایں ہمہ میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا- کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ مَیں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا فرض سمجھا اور درحقیقت وجود سلطنت انگلشیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نعمت تھی جو مدّت دراز کی تکالیفات کے بعد ہم کو ملی اس لئے ہمارا فرض تھا کہ اُس نعمت کا بار بار اظہار کریں- ہمارا خاندان سکھّوں کے ایّام میں ایک سخت عذاب می تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صد ہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا- ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کااندیشہ تھا چہ جائیکہ اور رسوم عبادت آزادی سے بجا لا سکتے - پس یہ اس گورنمنت محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی اور خدا تعالیٰ نے ایک ابر رحمت کی طرح سے گورنمنٹ کو ہمارے آرام کے لئے بھیج دیا پھر کس قدر بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس نعمت کا شُکر بجا نہ لاویں - اس نعمت کو ہمارے آرام کے لئے بھیج دیا پھر قدر بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس نعمت کی شُکر بجا نہ لاویں- اس نعمت کی عظمت تو ہمارے دل اور جان اور رگ و ریشہ میں منقوش ہے اور ہمارے بزرگ ہمیشہ اس راہ میں اپنی جان دینے کے لئے طیار رہے- پھر نعوذ باللہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنے دلوں میں مفسدانہ ارادے رکھیں-ہمارے پاس تو وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے ہم اس آرام اور راحت کا ذکر کر سکیں جو اس گورنمنٹ سے ہم کو حاصل ہوئی ہماری تو یہی دُعا ہے کہ خدا اس گورنمنٹ محسنہ کو جزا خیر دے اور اس سے نیکی کرے جیسا کہ اس نے ہم سے نیکی کی- یہی وجہ ہے کہ میرا باپ اور میرا بھائی اور خود مین بھی رُوح کے جوش سے اس بات می مصروف رہے کہ اس گورنمنٹ کے فوائد اور احسانات کو عام لوگوں پر ظاہر کریں اور اس کی اطاعت کی فرضیّت کو دلوں میں جما دیں- اور یہی وجہ ہے کہ میں اٹھارہ برس سے ایسی کتابوں کی تالیف میں مشغول ہوں کہ جو مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی محبت اور اطاعت کی طرف مائل کر رہے ہیں گو اکثر طاہل مولوی ہماری اس طرز اور رفتار اور ان خیالات سے سخت ناراض ہیں اور اندر ہی اندر جلتے اور دانت پیستے ہیں- مگر میں جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی اس اخلاقی تعلیم سے بھی بے خبر ہیں جس میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص انسان کا شُکر ادا نہ کرے- وہ خدا کا شُکر ادا نہیں کرتا یعنے مُحسن کا شکر کرنا ایسا فرض ہے جیسا کہ خدا کا-
یہ تو ہمارا عقیدہ ہے مگر افسوس کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ اٹھارہ برس کی تالیفات کو جن میں سے بہت سی پُر زور تالیفات اطاعت گورنمنٹ کے بارے میں ہیں کبھی ہماری گورنمنٹ مُحسنہ نے توجہ نہیں دیکھا اور کئی مرتبہ میں نے یاد دلایا مگر اُس کا اثر محسوس نہیں ہوا- لہذا میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ مفصّلہ ذیل کتابوں اور اشتہاروں کو توجہ سے دیکھا جائے اور وہ مقامات پڑھے جائیں جن کے نمبر صفحات میں نے ذیل میں لکھ دیئے ہیں-
نمبر شمار
نام کتاب یا اشتہار
تاریخ طبع
نمبر صفات
۱
۲
۳
۴
۵
۶
۷
۸
۹
۱۰
۱۱
۱۲
۱۳
۱۴
۱۵
۱۶
براہین احمدیہ حصّہ سوم
براہین احمدیہ حصہ چہارم
نوٹس دربارہ توسیع دفعہ درکتاب آریہ دھرم
التماس دربارہ ایضاً ایضاً
درخواست دربارہ ایضاً ایضاً
خط دربارہ ایضاً
آئینہ کمالات اسلام
اعلان درکتاب نُور الحق
گورنمنٹ کی توجہ کے لائق
نور الحق حصّہ دوم
سرالخلافہ
اتمام الحجہ
حمامۃ البشریٰ
تحفہ قیصریہ
ست بچن
انجام آتھم
۱۸۸۲ء
۱۸۸۴ء
۲۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء
ایضاً
ایضاً
۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۵ء
فروری ۱۸۹۳ء
۱۳۱۱ھ
۱۲؍ستمبر۱۸۹۳ء
۱۳۱۱ھ
۱۳۱۲ھ
۱۳۱۱ھ
ایضاً
۲۵؍ مئی ۱۸۹۷ء
نومبر ۱۸۹۸ء
جنوری ۱۸۹۷ء
الف سے ب تک (شروع کتاب)
الف سے د تک ایضاً
۵۷ سے ۶۴ تک آخر کتاب
تمام اشتہار ہر چہار صفحہ آخرکتاب
۶۹ سے ۷۲ تک آخر کتاب
۱ سے ۸ تک تمام علیحدہ اشتہار
۱۷ سے ۲۰ تک اور ۱۱ھ سے ۲۸ھ تک
۲۳ سے ۵۴ تک
ا سے ع تک آخری کتاب
۴۹ سے ۵۰ تک
۷۱ سے ۷۳ تک
۲۵ سے ۲۷ تک
۳۹ سے ۴۲ تک
تمام کتاب
۱۵۳ سے ۱۵۴ تک اور ٹائیٹل پیچ
۲۸۳ سے ۲۸۴ تک آخر کتاب
نمبر شمار
نام کتاب یا اشتہار
تاریخ طبع
نمبر صفات
۱۷
۱۸
۱۹
۲۰
۲۱
۲۲
۲۳
۲۴
سراج منیر
تکمیل تبلیغ معہ شرائط بیعت
اشتہارقابل توجہ گورنمنٹ اور عام اطلاع کیلئے
اشتہار دربارہ سفیر سلطان رُوم
اشتہار جلسہ احباب بر حبشن حویلی بمقام قادیان
اشتہار جلسہ شکریہ حبشن جوبلی حضرت قیصرہ دام ظلّہا
اشتہار متعلق بزرگ اخبار چودھویں والہ
اشتہار لائق توجہ گورنمنٹ معہ ترجمہ انگریزی
مئی ۱۸۹۷ء
۱۲؍جنوری ۱۸۹۹ء
۲۷؍ فروری ۱۸۹۵ء
۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء
۲۳؍جون۱۸۹۷ء
۷؍جون۱۸۹۷ء
۲۵؍جون۱۸۹۷ء
۱۰؍دسمبر۱۸۹۴ء
صفحہ ۷۶
۲۸۳ سے ۲۸۴تک آخر کتاب
تمام اشتہار یکطرفہ
۱ سے ۳ تک
۱ سے ۴ تک
تمام اشتہار یک ورق
صفحہ ۱۰
تمام اشتہار ۱ سے ۷ تک
ان کتابوں کے دیکھنے کے بعد ہر ایک شخص اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ جو شخص برابر اٹھارہ برس سے ایسے جوش سے کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں گورنمنٹ انگلشیہ کی تائید میں ایسے پر زور مضمو ن لکھ رہا ہے اور اُن مضمونوں کو نہ صرف انگریزی عمل داری میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی شائع کر رہا ہے کیا اس کے حق میں یہ گمان ہو سلتاہے کہ وہ گورنمنٹ محسنہ کا خیرہ خواہ نہیں، گورنمنٹ متوجہ ہو کر سوچے کہ یہ مسلسل کارروائی جو مسلمانوں کو اطاعت گورنمنٹ برطانیہ پر آمادہ کرنے کے لئے برابر اٹھارہ برس سے ہو رہی ہے اور غیر ملکوں کے لوگوں کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کیسے امن اور آزادی سے زیر سایہ گورنمنٹ برطانیہ زندگی بسر کرتے ہیں -
یہ کارروائی اور کس غرض سے ہے اور غیر ملک کے لوگوں تک ایسی کتابیں اور ایسے اشتہارات کے پہنچانے سے کیا مدّعا تھا؟ گورنمنٹ تحقیق کرے کہ کیا یہ سچ نیہں کہ ہزاروں مسلمانوں نے جو مجھے کافر قرار دیا اور مجھے اور میری جماعت کو جو ایک گروہ کثیر پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہے- ہر ایک طور کی بد گوئی اور بد اندیشی سے ایذا دنیا اپنا فرض سمجھا- اس تکفیر اور ایذا کا ایک مخفی سبب یہ ہے کہ ان نادان مسلمانوں کو پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل و جان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکر گزاری کے لئے ہزار ہا اشتہارات شائع کئے گئے اور ایسی کتابیں بلاد عرب و شام وغیرہ تک پہنچائی گئیں؟ یہ باتیں بے ثبوت نہیں- اگر گورنمنٹ توجہ فرماوے تو نہایت بد یہی ثبوت میرے پاس ہیں- مَیں زور سے کہتا ہوں اور مَیں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میںاعلان دیتا ہوںکہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں گورنمنٹ کا اوّل درجہ کا وفادار اور جان نثار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں کوئی اصول گورنمنٹ کے لئے خطر ناک نہیں- ہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ میَں نے بہت سی مذہبی کتایں تالیف کر کے عملی طور پر اس بات کو بھی دکھلایا ہے کہ ہم لوگ سِکھّوں کے عہد میں کیسے مذہبی امور میں مجبور کئے گئے اور فرائض دعوت دین اور تائید اسلام سے روکے گئے تھے اور پھر اس گورنمنٹ مُحِسنہ کے وقت میں کسی قدر مذہبی آزادی بھی ہمیں حاصل ہوئی کہ ہم پادریوں کے مقابل پر جو گورنمنٹ کی قوم میں داخل ہیں پُورے زور سے اپنی حقانیت کے دلائل پیش کر سکتے ہیں- مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسی کتابوں کی تالیف سے جو پادریوں کے مذہب کے ردّ میں لکھی جاتی ہیں گورنمنٹ کے عادلانہ اصولوں کا اعلیٰ نمونہ لوگوں کو ملتا ہے اور غیر ملکوں کے لوگ خاص کر اسلامی بلاد کے نیک فطرت جب ایسی کتابوں کو دیکھتے ہیں جو ہمارے ملک سے اُن ملکوں میں جاتی ہیں تو اُن کو اس گورنمنٹ سے نہایت اُنس پیدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ گورنمنٹ درپردہ مسلمان ہے- اور اس طرح پر ہماری قلموں کے ذریعہ سے گورنمنٹ ہزاروں دلوں کو فتح کرتی جاتی ہے-
دیسی پادریوں کے نہایت دل آزار حملے اور توہین آمیز کتابیں درحقیقت ایسی تھیں کہ اگر آزادی کے ساتھ اُن کی مدافعت نہ کی جاتی اور ان کے سخت کلمات کے عوض میں کسی قدر مہذّبانہ سختی استعمال نہ آتی تو بعض جاہل جو جلد تر بد گمانی کی طرف جُھک جاتے ہیں شاید خیال کرتے کہ گورنمنٹ کو پادریوں کی خاص رعایت ہے- مگر اب ایسا خیال کوئی نہیں کر سکتا اور بالمقابل کتابوں کے شائع ہونے سے وہ اشتعال جوپادریوں کی سخت تحریروں سے پیدا ہونا ممکن تھا اندر ہی اندر دب گیا اور لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ نے ہر ایک مذہب کے پیرو کو اپنے مذہب کی تائید میں عام آزادی دی ہے جس سے ہر ایک فرقہ برابر فائدہ اُٹھا سکتا ہے- پادریوں کی کوئی خصوصیت نہیں- غرض ہماری بالمقابل تحریروں سے گورنمنٹ کے پاک ارادوں اور نیک نیّتی کا لوگوں کو تجربہ ہو گیا- اور اب ہزار ہا آدمی انشراح صد ر سے اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ درحقیقت یہ اعلیٰ خوبی اس گورنمنٹ کو حاصل ہے کہ اُس نے مذہبی تحریرات میں پادریوں کا ذرہ پاس نہیں کیا اور اپنی رعایا کو حق آزادی برابر طور پر دیا ہے-
مگر تا ہم نہایت ادب سے گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ اس تدر آزادی کا بعض دلوں پر اچھا اثر محسوس نہیں ہوتا اور سخت الفاظ کی وجہ سے قوموں میں تفرقہ اور نفاق اور بُغض بڑھتا جاتا ہے- اور اخلاقی حالات پر بھی اس کا بڑا اثر ہوتا ہے- مثلاً حال میں جو اسی ۱۸۹۷ء میں پادری صاحبوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے ردّ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام یہ رکھا ہے- ’’ اُمہات المومنین یعنی دربار مصطفائی کے اسرار‘‘٭ وہ ایک تازہ زخم مسلمانوںکے دلوں کو پہنچانے والی ہے اور یہ نام ہی کافی ثبوت اس تازہ زخم کا ہے اور اس میں اشتعال دہی کے طور پر ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیںاور نہایت دلآزار کلمے استعمال کئے ہیں- مثلاً اس کے صفحہ ۸۰ سطر ۴۱ میں یہ عبارت ہے ’’ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ محمد صاحب نے خدا پر بہتان باندھا زنا کیا اور اوس کو حکم خدا بتلایا‘‘ ایسے کلمات کس قد ر مسلمانوں کے دلوں کو دُکھائیں گے کہ اُن کے بزرک اور مقدّس نبی کو صاف اور صریح لفظوں میں زانی ٹھہرایااور پھر دل دُکھانے کے لئے ہزار کاپی اس کتاب کی مسلمانوں کی طرف سے مفت روانہ کی گئی ہے- چنانچہ آج ہی کی تاریخ جو ۱۵؍ فروری ۱۸۹۸ء ہے ایک جلد مجھ کو بھی بھیج دی ہے-٭ حالانکہ مَیں نے طلب نہیں کی اور اس کتاب میں یعنی صفحہ ۵ میں لکھ بھی دیا ہے کہ ’’اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں مفت بصیفہ ڈاک ایک ہزار مسلمانوں کی نذر کرتے ہیں‘‘ اب ظاہر ہے کہ جب ایک ہزار مسلمان کو خواہ نخواہ یہ کتاب بھیج کر اُن کا دل دُکھایا گیا تو کس قدر نقض امن کا اندیشہ ہو سکتا ہے- اور یہ پہلی تحریر ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پادری صاحبوں نے بار بار بہت ہی فتنہ انگیز تحریریں شائع کی ہیں اور بے خبر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے وہ کتابیں اکثر مسلمانوں میں تقسیم کی ہیں جن کا ایک ذخیرہ میرے پاس بھی موجود ہے جن میں ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بدکار ، زانی، شیطان، ڈاکو، لٹیرا، دغا باز، دجّال وغیرہ دلآزار ناموں سے یاد کیا ہے اور گو ہماری گورنمنٹ مُحسِنہ اس بات سے روکتی نہیں کہ مسلمان بالمقابل جواب دیں لیکن اسلام کا مذہب کا مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی مقبول القوم نبی کو بُرا کہیں بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو پاک اعتقاد عام مسلمان رکھتے ہیں اور جس قدر محبت اور تعظیم سے اُن کو دیکھتے ہیں وہ ہماری گورنمنٹ پر پوشیدہ نہیں میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ حالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریق مخالف کو ہدایت فرماوے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف اُن کتابوں کی بناء پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلّم کتابوں پر وارد نہ ہو سکے- اوراگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرماوے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہرگز حملہ نہ کرے- مَیں دل سے چاہتا ہوں کہ مَیں یقینا جانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مخالفانہ حملے روک دیئے جائیں- ہر ایک شخص صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے کا ذکر زبان پر نہ لاوے- اگر گورنمنٹ عالیہ میری اس درخواست کو منظور کرے تو مَیں یقینا کہتا ہوں کہ چند سال میں تمام قوموں کے کینے دُور ہو جائیں گے اور بجائے بُغض محبت پیدا ہو جائے گی- ورنہ کسی دوسرے قانون سے اگرچہ مجرموں سے تمام جیلخانے بھر جائیں مگر اس قانون کا اُن کی اخلاقی حالت پر نہایت ہی کم اثر پڑے گا-
(۳) تیسرا امر جو قابل گذارش ہے یہ ہے کہ مَیں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتاہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا مَیں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لئے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلحکاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی- جو ہدایتیں اس فرقہ کے لئے مَیں نے مرتب کی ہیں جن کو مَیں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مُرید کو دیا ہے کہ اُن کو اپنا دستور العمل رکھے- وہ ہدایتیں میرے اُس رسالہ میں مندرج ہیں جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں چھپ کر عام مُریدوں میں شائع ہوا ہے جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت٭ ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی- ان ہدایتوں کو پڑھ کر اور ایسا ہی دوسری ہدایتوں کو دیکھ کر جو وقتاً فوقتاً چھپ کر مُریدوں میں شائع ہوتی ہیں گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ کیسے امن بخش اصولوں کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے اور کسی طرح بار بار اُن کو تاکیدیں کی گئی ہیں کہ وہ گورنمنٹ برطانیہ کے سچے خیر خواہ اور مطیع رہیں اور تمام بنی نوع کے ساتھ بلاامتیاز مذہب و ملّت کے انصاف اور رحم اور ہمدردی سے پیش آویں- یہ سچ ہے کہ مَیں کسی ایسے مہدی ہاشمی قرشی خونی کا قائل نہیں ہوں جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور زمین کو کفّار کے خون سے بھردے گا میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرہ موضوعات جانتا ہوں- ہاں مَیں اپنے نفس کے لئے اس مسیح موعود کا ادّعا کرتاہوں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہو گا اور نرمی صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچّے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے- میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں- اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مُرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے- مَیں بار بار اعلان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دُکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا- دُوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبّوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والے حضرت سیّدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یقین رکھنا- تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات خازیانہ اورجہاد اور جنگجویٔ کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا- چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنے گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا- پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دُنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دُنیا میں پھیلانا- یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے- اور میری جماعت جیسا کہ مَیں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر اُن میں سے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروّجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معزّز عہدوں پر سرافراز ہیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اوّل درجہ کے خیر خواہ پائے گی-
(۴) چوتھی گذارش یہ ہے کہ جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں اکثر اُن میں سے سرکار انگریزی کے معزّز عہدوں پر ممتاز اور یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کے خدام اور احباب اور یا تاجر اور یا وکلاء اور یا نو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفاء ہیں جو کسی وقت سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں یا اب نوکری پر ہیں یا اُن کے اقارب اور رشتہ دار اور دوست ہیں جو اپنے بزرگ مخدوموں سے اثر پذیر ہیں اور یا سجادہ نشینان غریب طبع- غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہیں اور یا وہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں- ان کے علاوہ ایک بڑی تعدادعلماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جمادیئے ہیں- اور مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن میں سے اپنے چند مریدوں کے نام بطور نمونہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھ دوں-
(۵) میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں …… ہے کہ اگرچہ مَیں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو مَیں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اوراخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے کی ہیں عنایت خاص کا مستحق ہوں- لیکن یہ سب امور گورنمنٹ عالیہ کی توجہات پر چھوڑ کر بالفعل ضروری استغاثہ یہ ہے کہ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بعض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں- اس لئے اندیشہ ہے کہ اُن کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کروہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحو م کی جن کا تذکر ہ سرکاری چٹھیات اور سر لیپل گرفن کی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میرے اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضایع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے- اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمربستہ ہو جاتے ہیں- صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خودکاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکّام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں- اور ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے- لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تا ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے- اب کسی قدر اپنی جماعت کے نام ذیل میں لکھتا ہوں-
(۱۸۴)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعتہ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کُرسی ملی؟
(راستی موجب رضائے خداست )
نہایت افسوس ہے کہ اس زمانہ کے بعض نام کے مولوی محض اپنی عزّت بنانے کے لئے یا کسی اور غرض نفسانی کی وجہ سے عمداً جھوٹ بولتے ہیں اور اس بد نمونہ سے عوام کو طرح طرح کے معاصی کی جرأت دیتے ہیں کیونکہ جُھوٹ بولنا اختیار کرے تو بتلائو کہ عوام پر اس کا کیا اثر ہو گا- ابھی کل کی بات ہے کہ بچارہ میاں شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی اشاعتہ السنہ کو بمقام بٹالہ کُرسی مانگنے سے کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے تین مرتبہ تین جھڑکیاں دیں اور کُرسی دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ’’ بک بک مت کرو‘‘ اور ’’ سیدھا کھڑے ہو جائو‘ ‘ اوریہ بھی فرمایا کہ ’’ ہمارے پاس تمہارے کرسی ملنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں ‘‘ لیکن نہایت افسوس ہے کہ شیخ مذکور نے جا بجا کُرسی کے بارے میں جھوٹ بولا- کہیں تو یہ مشہور کیا کہ مجھے کُر سی ملی تھی اور کسی جگہ یہ کہا کہ کُرسی دیتے تھے مگر مَیں نے عمداً نہیں لی- اور کسی جگہ کیا کہ عدالت میں کُرسی کا ذکر ہی نہیں آیا چنانچہ آج میری طرف بھی اس مضمون کا ٭خط بھیجا ہے کہ گویا اوس کا کُرسی مانگنا اور کرسی نہ ملنا اور بجائے اس کے چند جھڑکیوں سے پیچھے ہٹانے جانا یہ باتیں غلط ہیں - ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ الکاذبین- ہم ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بات فی الوقعہ سچ ہے کہ شیخ مذکور نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرسے کرسی مانگی تھی- اور اس کا اصل سبب یہی تھا کہ مجھے اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے روبروئے کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر بے اختیاری کے عالم میں اپنی طمع خام کو ظاہر کیا اور نہ چاہا کہ میرا دشمن کرسی پر ہو اور مَیں زمین پر بیٹھوں- اس لئے بڑے جوش سے کچہری کے اندر داخل ہوے ہی کُرسی کی درخواست کی اور چونکہ عدالت میں نہ اُس کو اور نہ اُس کے باپ کو کُرسی ملتی تھی- اس لئے وہ درخواست زجر اور توبیخ کے ساتھ ردّ کی گئی- اور درحقیقت یہ سوال نہایت قابل شرم تھا کیونکہ سچ یہی ہے کہ نہ یہ شخص اور نہ اُس کا باپ رحیم بخش بھی رئیسان کُرسی نشین میں شمار کئے گئے- اور اگر یہ یا اس کا باپ کُرسی نشین تھے تو گویا سر لیپل گریفن نے بہت بڑی غلطی کی کہ جو اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان دونوں کا نام نہیں لکھا غضب کی بات ہے کہ کہلانا مولوی اور اس قدر فاش دروغگویٔ اور پھر آپ اپنے خط میں ٭ میں کُرسی نہ ملنے کا مجھے سے ثبوت مانگتے ہیں- گویا اپنی ذلّت کو کامل طور پر تمام لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں- اور اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کاذب نکلیں تو اپنے تئیں شکست یافتہ تصور کریں گے اور پھر کبھی ردّ و قدح نہیں کریں گے- افسوس کہ اس شخص کو جھوٹ بولتے ذرہ شرم نہیں آئی- جھوٹ کہ اکبر الکبائر اور تمام گناہوں کی ماں ہے کس طرح دلیری سے اس شخص نے اس پر زور دیا ہے- یہی دیانت اور امانت ان لوگوں کی ہے جس سے مجھے اور میری جماعت کو کافر ٹھہرایا اور دُنیا میں شور مچایا-
واضح رہے کہ ہمارے بیان مذکورہ بالا کا گواہ کوئی ایک دو آدمی نہیں بلکہ اس وقت کہ کچہری کے اردگرد صد ہا آدمی موجود تھے جو کُرسی کے معاملہ کی اطلاع رکھتے ہیں- صاحب ڈپٹی کمشنر ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب بہادر خود اس بات کے گواہ ہیں جنہوں نے بار بار کہا کہ تجھے کُرسی نہیں ملے گی- بک بک مت کر اور پھر کپتان لیمارچنڈ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ کرسی مانگنے پر محمد حسین کو کیا جواب ملا تھا اور کیسی عزت کی گئی تھی- پھر منشی غلام حیدر خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ ضلع جواب تحصیلدار ہیں اور مولوی فضل دین صاحب پلیڈر اور لالہ رام بھج دت صاحب وکیل اور ڈاکٹر کلارک صاحب جن کی طرف سے یہ حضرت گواہ ہو کر گئے تھے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تمام اردلی یہ سب میرے بیان مذکورہ بالا کے گواہ ہیں اور اگر کوئی شخص اُن میں سے محمد حسین کی حالت پر رحم کر کے اس کی پردہ پوشی بھی چاہے- مگر مَیں خوب جانتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات پر قسم نہیں کھا سکے گا کہ یہ واقعہ کُرسی نہ ملنے اور جھڑکیاں دینے کا جھوٹ ہے- مجھے حیرت پر حیرت آتی ہے کہ اس شخص کو کیا ہو گیا اور اس قدر گندے جھوٹ پر کیوں کمربستہ کی- ذرہ شرم نہیں کی کہ اس واقعہ کے تو صد ہا آدمی گواہ ہیں وہ کیا کہیں گے- اس طرح تو آئندہ مولویوں کا اعتبار اُٹھ جائے گا- اگر درحقیقت اس شیخ بٹالوی کو کُرسی ملی تھی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے بڑے اکرام اور اعزازسے اپنے پاس اُن کو کُرسی صاحب ڈپٹی کمشنر کے بائیں طرف تھی اور دائیں طرف صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کی کُرسی تھی اور اسی طرح ایک کُرسی پر ڈاکٹر کلارک تھا- اب دکھلانا چاہئیے کہ کون سی جگہ تھی جس میں شیخ محمد حسین بٹالوی کے ملنے کُرسی بچھائی گئی تھی- سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے- اس شخص نے میری ذلّت چاہی تھی اور اسی جوش میں پادریوں کا ساتھ کیا- خدا نے اُس کو عین عدالت میں ذلیل کیا- یہ حق کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور یہ راستباز کی عداوت کا ثمرہ ہے- اگر اس بیان میں نعوذ باﷲ مَیں نے جھوٹ بولا ہے طریق تصفیہ دو ہیں- اوّل یہ کہ شیخ مذکور ہر ایک صاحب سے جو ذکر کئے گئے ہیں حلفی رُقعہ طلب کرے جس میں قسم کھا کر میرے بیان کا انکار کیاہو اور جب ایسے حلفی رُقعے جمع ہو جائیں تو ایک جلسہ بمقام بٹالہ کر کے مجھ کو طلب کرے- مَیں شوق سے ایسے جلسہ میں حاضر ہو جائوں گا- مَیں ایسے شخص کے رقعہ کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے حلفاً اپنے رقعہ میں یہ بیان کیا ہو کہ محمد حسین نے کُرسی نہیں مانگی اور نہ اس کو کوئی جھڑکی ملی بلکہ عزّت کے ساتھ کُرسی پر بٹھایا گیا- شیخ مذکور ذخوب یاد رہے کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنا ایمان ضائع نہیں کرے گا او ر ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہو گا کہ کوئی شخص مذکورین میں سے اس کے دعویٰ باطل کی تائید میں قسم کھاوے- واقعات صحیحہ کو چھپانا بے ایمانوں کا کام ہے- پھر کیونکر کوئی معزز شیخ بٹالوی کے لئے مرتکب اس گناہ کا ہو گا اور اگر شیخ بٹالوی کو یہ جلسہ منظور نہیں تو دوسرا طریق تصفیہ یہ ہے کہ بلاتوقف ازالہ حیثیت عرفی میں میرے پر نالش کرے کیونکہ اس سے زیادہ اور کیا ازالہ حیثیت عرفی ہو گا کہ عدالت نے اس کو کُرسی دی اور میں نے بجائے کُرسی جھڑکیاں بیان کیں اور عدالت نے قبول کیا کہ وہ اور اس کا باپ کُرسی نشین رئیس ہیں اور مَیں نے اس کا انکار کیا اور استغاثہ میں وہ یہ لکھا سکتا ہے کہ مجھے عدالت ڈگلس صاحب بہادر میں کُرسی ملی تھی اور کوئی جھڑکی نہیں ملی اور اس شخص نے عام اشاعت کر دی ہے کہ مانگنے پر بھی کُرسی نہیں ملی بلکہ جھڑکیاں ملیں- اور ایسا ہی استغاثہ میں یہ بھی لکھا سکتا ہے کہ مجھے قدیم سے عدالت میں کُرسی ملتی تھی اور ضلع کے کُرسی نشینوں میں میرا نام بھی درج ہے اور میرے باپ کا نام بھی درج تھا لیکن اس شخص نے ان سب باتوں سے انکار کر کے خلاف واقعہ بیان کیا ہے- پھر عدالت خود تحقیقات کر لے گی کہ آپ کو کرسی کی طلب کے وقت کُرسی ملی تھی یا جھڑکیاں ملی تھیں اور دفتر سے معلوم کر لیا جائے گا کہ آپ اور آپ کے والد صاحب کب سے کُرسی نشین رئیس شمار کئے گئے ہیں کیونکہ سرکاری دفتروں میں ہمیشہ ایسے کاغذات موجود ہیں جن میں کُرسی نشین رئیسوں کا نام درج ہوتا ہے- اگر شیخ مذکور نے ان دونوں طریقوں میں سے کوئی طریق اختیار نہ کیا تو پھر ناچار ہمارا یہی قول ہے کہ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین زیادہ کیا لکھیں-
اور یاد رہے کہ ہمیں بالطبع نفرت تھی- ایسے ایک شخص معاملہ میں قلم اُٹھائیں اور ذاتیات کے جھگڑوں میں اپنے تئیں ڈالیں اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی صرف اسی جھوٹ پر کفایت کرتا کہ مجالس میں ہمارا ذکر درمیان نہ لاتا اور صرف اپنی پردہ پوشی کے لئے کُرسی مانگنے کے معاملہ سے انکار کرتا رہتا تو ہمیں کچھ ضرورت نہ تھی کہ اصل حقیقت کو پبلک پر کھولتے- لیکن اس نے نہایت خیرگی اختیار کر کے ہر ایک مجلس میں ہماری تکذیب شروع کی اور سراسر افتراء سے میری نسبت ہر ایک جگہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ شخص کاذب ہے اور اس نے میرے پر کُرسی کے معاملہ میں جھوٹ باندھا ہے اور اس طرح پر عوام کے دلوں پر بُرا اثر ڈالنا چاہا- تب ہم نے اُس کے اس دروغ کو اکثر نادانوں کے دلوں پر مؤثر دیکھ کر محض حق کی حمایت میں یہ اشتہار لکھا تا بعض ناواقف ایک راستگو کو جُھوٹا سمجھ کر ہلاک نہ ہو جائیں اور تا اس کی یہ دجّالی تقریریں حقّانی سلسلہ کی رہزن نہ ہوں- غرض اسی ضرورت کی وجہ سے ہمیں اس کے اس مکروہ جُھوٹ کو کھولنا پڑا-
بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ وہ خط شیخ محمد بٹالوی کا میرے پاس موجود ہے جو آج یکم مارچ ۱۸۹۸ء کو بٹالہ سے اُس نے بھیجا ہے جس میں میرے بیان کُرسی نہ ملنے اور جھڑکی کھانے سے صاف انکار کیا ہے اور ایسا ہی اُن لوگوں کے خط بھی محفوظ ہیں- جن کے روبرو ئے طرح طرح کی دروغگویٔ سے اس واقعہ کو پوشیدہ کرنا چاہا ہے جیسا کہ اُوپر لکھا چکا ہوں- اور مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن معزّز گواہوں کے نام بھی اس جگہ درج کردوں- جنہوں نے واقعہ مذکورہ بالا بچشم خود دیکھا اور ریا عین موقعہ پر سُنا اور جو کچہری میں حاضر تھے اور وہ یہ ہیں -
(۱۸۵)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
جَلسۂ طَاعُونْ
چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ ایک جلسہ دربارہ ہدایات طاعون قادیان میں منعقد ہو اور اس جلسہ میں گورنمنٹ انگریزی کی ان ہدایتوں کے فوائد جو طاعون کے بارے میں اب تک شائع ہوئی ہیں اور طبی اور شرعی اُن فوائد کے جو اُن ہدایتوں کی مؤید ہیں اپنی جماعت کو سمجھائے جائیں اس لئے یہ اشتہار شائع کیاجاتا ہے کہ ہماری جماعت کے احباب حتی الوسع کوشش کریں کہ وہ اس جلسہ میں عید الضحٰی کے دن شامل ہو سکیں- اصل امر یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس بات پر اطمینان نہیں ہے کہ ان ایّام گرمی میں طاعون کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ جیسا کہ پہلے اشتہار میں شائع کیا گیا ہے دو جاڑوں تک سخت اندیشہ ہے- لہٰذا یہ وقت ٹھیک وہ وقت ہے کہ ہماری جماعت بنی نوع کی سچّی ہمدردی اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کی ہدایتوں کی دل وجان سے پیروی کر کے اپنی نیک ذاتی اور نیک عملی اور خیر اندیشی کا نمونہ دکھاوے - اور نہ صرف یہ کہ خود ہدایات گورنمنٹ کے پابند ہوں بلکہ کوشش کریں کہ دوسرے بھی اُن ہدایتوں کی پیروی کریں اور بدبخت احمقوں کی طرح فتنہ انگیز نہ بنیں- افسوس ہمارے ملک میں یہ سخت جہالت ہے کہ لوگ مخالفت کی طرف جلد مائل ہو جاتے ہیں- مثلاً اب گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے یہ ہدایتیں شائع ہوئیں کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ گھر خالی کر دیا جائے- اس پر بعض جاہلوں نے ناراضگی ظاہر کی- لیکن مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر گورنمنٹ کی طرف سے یہ حکم ہو تا کہ جس گھر میں طاعون کی واردات ہو وہ لوگ ہرگز اُس گھر کو خالی نہ کریں اور اسی میں رہیں تب بھی نادان لوگ اُس حکم کی مخالفت کرے اور دو تین واردات کے بعد اُس گھر سے نکلنا شروع کر دیتے- سچ تو یہ ہے کہ نادان انسان کسی پہلو سے خوش نہیں ہوتا- پس گورنمنٹ کو چاہئیے کہ نادانوں کے لئے بے جا واویلا سے اپنی سچّی خیر خواہی رعایا کو ہرگز نہ چھوڑے کہ یہ لوگ اُن بچوں کا حکم رکھتے ہیں کہ جو اپنی ماں کی کسی کارروائی کو پسند نہیں کر سکتے- ہاں ایسی ہمدردی کے موقعہ پر نہایت درجہ کی ضرورت ہے کہ ایسی حکمت عملی ہو جو رُعب بھی ہو اور نرمی بھی ہو اور نیز اس ملک میں رسوم پردہ داری کی غایت درجہ رعایت چاہئیے- اور اس مصیبت میں جو طاعون زدہ لوگوں اور اُن کے عزیزوں کو جو مشکلات اوقات بسر کے پیش آئیں شفقت پدری کی طرح حتی الوسع ان مشکلات کو آسان کرنا چاہئیے بہتر ہے کہ اس وقت سب لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا انجام بخیر ہو - والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبع ضیاء الاسلام پریس ۲۲؍ اپریل ۱۸۹۸ء
(یہ اشتہار ۲۶/۲۰ کے ایک صفحہ پر درج ہے-)
(۱۸۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
میموریل
بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر بالقابہ
یہ میموریل اس غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ایک کتاب امّہات المومنین نام ڈاکٹر احمد شاہ صاحب عیسائی کی طرف سے مطبع آر پی مشن پریس گوجرانوالہ میں چھپ کر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مصنّف نے ٹائٹل پیج کتاب پر لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی تحدّی اور ہزار روپیہ کے انعام کے وعدہ کے معاوضہ میں شائع کی گئی ہے- ‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل محرک اس کتاب کی تالیف کا محمد حسین مذکور ہے- چونکہ اس کتاب میں ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن کو کوئی مسلمان سُن کر رنج سے رُک نہیں سکتا- اس لئے لاہور کی انجمن حمایت اسلام نے اس بارے میں حضور گورنمنٹ میں میموریل روانہ کیا تا گورنمنٹ ایسی تحریر کی نسبت جس طرح مناسب سمجھے کاروائی کرے اور جس طرح چاہے کوئی تدبیر امن عمل میں لائے- مگر مَیں مَع اپنی کثیر اور مع دیگر معّزز مسلمانوں کے اس میموریل کا سخت مخالف ہوں- اور ہم سب لوگ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ کیوں ان انجمن کے ممبروں نے محض شتاب کاری سے یہ ٭کاروائی کی- اگرچہ یہ سچ ہے کہ کتاب اُمّہات المومنین کے مولّف نے نہایت ایسی سختی اور بد گوئی کے اپنے اعتراضات میں اسلام کے معتبر کتابوں کا حوالہ بھی نہیں دے سکا- مگر ہمیں ہر گز نہیں چاہیے- کہ بجائے اس کے کہ ایک خطا کار کو نرمی اور آہستگی سے سمجھا ویں- اور معقولیت کے ساتھ اس کتاب کا جواب لکھیں یہ حیلہ سوچیں کہ گورنمنت اس کتاب کو شائع ہونے سے روک لے تا اس طرح پر ہم فتح پا لیں کیونکہ یہ واقعی فتح نہیں ہے بلکہ ایسے حیلوں کی طرف ڈورنا ہمارے عجز اور درماندگی کی نشانی ہو گی اور ایک طور سے ہم جبر سے مُنہ بند کرنے والے ٹھہریں گے- اور گو گورنمنٹ کی حکومت سے چارہ جویٔ چاہی- اور وہ کام لیا جو مغلوب الغضب اورجواب سے عاجز آ جانے والے لوگ کیا کرتے ہیں- ہاں جواب دینے کے بعد ہم ادب کے ساتھ اپنی گورنمنت میں التماس کر سکتے ہیں کہ ہر ایک فریق اس پیرایہ کو جو حال میں اختیار کیا جاتا ہے- ترک کر کے تہذیب اور ادب اور نرمی سے باہر نہ جائے- مذہبی آزادی کا دروازہ کسی حد تک کھلا رہنا ضروری ہے تا مذہبی علوم اور معارف میں لوگ ترقی کریں اور چونکہ اس عالم کے بعد ایک اَور عالم بھی ہے جس کے لئے ابھی سے سامان چاہیے اس لئے ہر ایک حق رکھتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ ہر ایک مذہب پر بحث کرے اور اس طرح اپنے تیئں اور نیز بنی نوع کو نجات اخروی کے متعلق جہاں تک سمجھا سکتا ہے اپنی عقل کے مطابق فائدہ پہنچاوے- لہذا گورنمنٹ میںاس وقت ہماری یہ التماس ہے کہ جو انجمن حمایت اسلام لاہور نے میموریل گورنمنت میں اس بارے میں روانہ کیا ہے - وہ ہمارے مشورہ اور اجازت سے نہیں لکھا گیا بلکہ چند شتاب کاروں نے جلدی سے یہ جرأت کی ہے جو درحقیقت قابل اعتراض ہے- ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ ہم تو جواب نہ دیں اور گورنمنٹ ہمارے لئے عیسائی صاحبوں سے کوئی باز پرس کرے یا اُن کتابوں کو تلف کرے بلکہ جواب ہمارے طرف آہستگی اور نرمی کے ساتھ اس کتاب کا ردّ شائع ہو گا تو خود وہ کتاب اپنی قبولیت اور وقعت سے گِر جائے گی اور اس طرح پر وہ خود تلف ہو جائے گی- اس لئے ہم بادب ملتمس ہیں کہ کیونکہ اگر ہم گورنمنٹ عالیہ سے یہ فائدہ اُٹھاویں کہ وہ کتابیں تلف کی جائیں یا کوئی انتظام ہو تو اس کے ساتھ ایک نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے کہ ہم اس صورت دین اسلام کو ایک عاجز اور فرع ماندہ دین قرار دیں گے جو معقولیت سے حملہ کرنے والوں کا جواب نہیں سے سکتا ہم گورنمنٹ کے ذریعہ سے اپنے انصاف کو پہنچ کر پھر کسی کتا ب کا ردّ لکھنا بھی شروع کردیں اور درحالت نہ لکھنے جواب کے اس کے فضول اعتراضات نا وقفوں کی نظر میں فیصلہ ناطق کی طرح سمجھے جائیں گے اور خیال کیا جائے گا کہ ہماری طاقت میں یہی تھا جو ہم نے کر لیا سو اس سے ہماری دینی عزّت کو اس سے بھی زیادہ ضرر پہنچتا ہے جو مخالف ٹھہرا کر اپنی کتاب کے ذریعہ سے پھر شائع کرنا نہایت نا معقول اور بیہودہ طریق ہو گا- اور ہم گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم درد ناک دل سے اُن تمام گندے اور سخت الفاظ پر صبر کر تے ہیں جو صاحب اُمہات المومنین نے استعمال کئے ہیں اور ہم اس مؤلف اور اس کے گروہ کوو ہر کسی قانونی مواخذہ کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے کہ ایہ امر اُن لوگوں سے بہت ہی بعید ہے جو واقعی نوع کا انسان کی ہمدردی اور سچی اصطلاح کے جوش کا دعویٰ رکھتے ہیں-
یہ بات بھی گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اگرچہ ہماری جماعت بعض امور میں دوسرے مسلمانوں سے ایک جُزیٔ اختلاف رکھتی ہے مگر اس مسئلہ میں کسی سمجھ دار مُسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے- ولا تجادلوا اھل الکتاب الّا بالّتی ھی احسن اور دوسری جگہ یہ حکم ہے کہ جاد لھم بالکمۃ المواعظۃ الحسنۃ اس کے معنی یہی ہیں کہ نیک طور پر وہ ایسے طور پر مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور پر پابند ہونا چاہیے کہ اُن کو فائدہ بخشے- لیکن یہ طریق کہ ہم گورنمنٹکی مدد سے یا نعوذ باللہ خود اشتعال ظاہر کریں ہر گز ہمارے اصل مقصود کو مفید نہیں ہے - یہ دنیاوی جنگ وجدل کے نمونے ہیں اور سچے مسلمان اور اسلامی طریقوں کے عارف ہر گز ان کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اُن سے وہ نتائع جو ہدایت بنی نوع کے لئے مفید ہیں پیدا نہیں ہو سکتے- چنانچہ حال میں پرچہ مخبر دکن میں جو مسلمانوں کا ایک اخبار ہے ماہ اپریل کے ایک پرچہ میں اسی بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ رسالہ اُمہات المومنین کے تلف کرنے یا روکنے کے لئے گورنمنٹ سے ہر گز التجا کرنی نہیں چاہیے کہ یہ دوسرے پیرایہ میں اپنے مذہب کی کمزوری کا اعتراف ہے- جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ اخبار مذکورہ اس کی رائے کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی جس سے ہم کہتے ہیں کہ عام مسلمانوں کی یہی رائے ہے کہ اس طریق کی جس کا انجمن مذکور نے ارادہ کیا ہے ہر گز اختیار نہ کیا جائے کہ اس میں کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ ایک ذرّہ برابر بھی نہیں ہے- اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیّت کے طور پر حکم ہے کہ جس کو ترک کرنا سچے مسلمانوں کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ لتبلونّ فی اموالکم وانفسکم ولتسمعنّ من الّذین اوتو الکتاب من قبلکم و من الّذین اشرکو اذیٌ کثیرا- و ان تصبروا و تتّقو فانَ ذلک من عزم الامور - سورہ آل عمران ترجمہ ہے کہ خدا تمہارے مالوںاور جانوں پر بِلا بھیج کر تمہاری آزمایش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دُکھ دینے والی باتیں سُنو گے سو اگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچائو گے تو خدا کے نزدیک اولوالعزم لوگوں میں ٹھہرو گے- یہ مدنی سورۃ ہے اوریہ اس زمانہ کے لئے مسلمانوں کو وصیّت کی گئی ہ کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہو گا اور جو کوئی کچھ گوئی کرنا چاہے وہ کر سکے گا- جیسا کہ یہ زمانہ ہے - سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لئے تھی اور اسی زمانہ میں پُوری ہوئی- کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں اذًی کثیراً کا لفظ ایک عظیم الشّان ایذاء لسانی کو چاہتا ہے وہ کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیںاپنے مذہب تک ہی محدود تھیں- قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بد گوئی کا دروازہ کھلا جس کے اوّل بانی ہمارے ملک میں پادی فنڈل صاحب تھے -بہرحال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دلآزار کلمات سے دُکھ دیئے جائو اور گالیاں سُنو تو اس وقت صبر کور یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا- سو قرآنی پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدّس رسول کو جس ک اُمت سے ایک کثیر حصّہ دُنیاکا پُر ہے - عیسائی قوم جسیے لوگ جن کا تہذیب کا دعویٰ تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دُنیا کے سب بد تروںسے بد تر ٹھہراتے - بے شک یہ اُن لوگوں کے لئے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رُسول کی راہ میں فدا ہیں اور ایک دانشمند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلاًایسی کتاب اُمہات المومنین میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ زنا کار کے نام پکارا گیا ہے اور گندے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اورپھر عمداً ہزار کاپی کی محض دلوں کے دُکھانے کے لئے عا م اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر درد ناک زخم عام مسلمانوں کے پہنچے ہوں گے- اور کیا اُن کے دلوں کی حالت ہوئی ہو گی- اگرچہ بد گوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے- بلکہ ایسی تحریروں کی پادری صاحبوں کی طرف سے کروڑ ہاتک نوبت پہنچ گئی ہے- مگر یہ طریق دل دُکھانے کا ایک نیاطریق ہے کہ خواہ نخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتابیں پہنچائی گئیں- اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور اُٹھا ہے- باوجود اس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی پچیس سال کی مسلسل تحریریں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں- یہ توسب کچھ ہوا- مگر ہمیں تو آیت موصوفہ بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم ایسی بد زبانی کے کلمات سُنیں جس سے ہمارے دلوں کو دُکھ پہنچے تو ہم صبر کریں- اور کچھ شک نہیں کہ جلد تر حکام کو اس طرف متّوجہ کرنا یہ بھی ایک بے صبری کی قسم ہے اس لئے عقل مند اور دور اندیش مُسلمان ہر گز اس طریق کو پسند نہیں کرتے ک گورنمنٹ عالیہ تک اس بات کو پہنچایا جائے- ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میںیہ تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں- جیسا کہ وہ فرماتا ہے لا اکراہ فی الدین اور جیسا کہ فرماتا ہے کہ افانت تکرہ النّاس - لیکن اس قسم کے حیلے اکراہ اور جبر میں داخل ہیں جس سے اسلام جیسا پاک اور معقول مذہب بد نام ہو تا ہے-
غرض اس بارے میں مَیں اور میری جماعت اور تمام اہل علم اور صاحب تدبر مسلمانوں میں سے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کتاب اُمہات المومنین کی لغو گوئی کی یہ سزا نہیں ہے کہ ہم اپنی گورنمنٹ مُحسنہ کو دست اندازی کے لئے توجہ دلا دیں- گو خواہ دانا گورنمنٹ اپنے قوانین کے لحاظ سے جو چاہے کرے- مگر ہمارا صرف فرض ہونا چاہیے کہ ہم ایسے ایسے اعتراضات کا کہ جو درحقیقت نہایت نادا نی یا دھوکہ دہی کی اخلاق کی روشنی دکھلائیں- اسی غرض کی بناء پر یہ میموریل روانہ کیا گیا ہے - اور تمام جماعت ہماری معّزز مسلمانوں کی اسی پر متفق ہے-
۴ مئی ۱۸۹۸ء
الراقـــــــــــــــــــــــــم
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
(یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے چار صفحوں پر ہے مطبع کا نام درج نہیں- محمد اسمٰعیل پریس مین کا نام اس پر لکھا ہوا کہ)
( یہ اشتہار کتاب البریہ میںبھی مندرج ہے- (عبد اللطیف بہادلپوری )
(۱۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوِ لِہٖ الْکَرْیم
اپنی جماعت کو متبہ کرنے کے لیے ایک ضروری
اشتھار
میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میںبودوباش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سُنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مُریدی کا رکھتے ہیں اس غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے- وہ پنجوقت نمازجماعت کے پابند ہوں - وہ جھوٹ نہ بولیں- وہ کسی انسان سے ایذاد نہ دیں- وہ کسی قسم کی بد کاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں- غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردانی اور نا گفتی اور تمام نفسانی جذبات اور بیحا حرکات ہے - مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل سے بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیںاور کوئی زہریلا خمر اُن کے وجود نہ رہے- گورنمنٹ برطانیہ جس کے اُن کے مال اور جائیں اور آبروئیں محفوظ ہیں بصدق دل اس کے وفا ور تابعدار رہیں اور تمام انسانوں کی ہمدردی اُن کا اُصول ہو- اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچا ویں ااور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعّدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بیجا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں- اور اگر بعد میں ثابت ہو ک ایک شخص جو اُن کے ساتھ آمدورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے پابند نہیں ہے یا اس گورنمنٹ مُحسِنہ کا خیر خواہ نہیں یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بدچلن آدمی ہے اور یا کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بیوجہ بد گوئی اور زباندارزی اور بد زبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دُور کرو- اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے- اور چاہے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا اردہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہیے کہ شریروں اور بد معاشوں اور مفسدوں اور بد چلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گذر نہ ہو- اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ رسکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے-
یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو مَیں ابتداء سے کہتا چلا آتا ہوں- میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ اُن تمام وصیّتوں کے کاربند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو- اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو- اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالواو ر صبر اور علہم سے کام لو اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات کو دبائے رکھو- اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جائو - اگر ہم ستائے جائو اور گالیاں دیئے جائو اور تمہارے حق میں بُرے بُرے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار ہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں خدا تعالیٰ چاہتا کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دُنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو- سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے - جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبابی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتاوہ جلد ہم سے جدا ہو جائے- کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناوہ بد بختی سے مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا- سو تم ہوشیار ہو جائو اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جائو- تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جائو گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا-
چاہے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بَری اور تمہاری آنکھیں نا پاکی سے منّزہ ہوں اور تمہارے اندر بُجز اور ہمدردیٔ خلائق کے اَور کچھ نہ ہو- میرے دوست جو میرے پاس قادیان میں رہتے ہیں مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے خلائق کے اَور کچھ نہ ہو- کہ وہ اپنے تمام انسانی قویٰ اور اعلیٰ نمونہ دکھائیں گے مَیں نہیں چاہتا کہ اس نیک جماعت میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل کر رہے جس کے حالات مشتبہ ہوں یا جس کے چال چلن پر کسی قسم کا اعتراض ہوسکے- یا اس کی طبیعت میں کسی قسم کی مفسدہ پردازی ہو یا کسی اَور قسم کی ناپاکی اس میں پائی جائے- لہٰذا ہم پر یہ واجب اور فرض ہوگا کہ اگر ہم - کسی کی نسبت کوئی شکایت سُنیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرائض کو عمداً ضائع کرتا ہے کسی ٹھٹھے اور بیہودگی کی مجلس میں بیٹھا ہے یا کسی اَور قسم کی بد چلنی اس میں ہے تو وہ فی الفور اپنی جماعت سے الگ کر دیا جائے گا- اور پھر وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے دوستوں سے ساتھ نہیں رہ سکے گا-
ابھی مَیں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سُنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ اُن کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اورحُقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیز گاری کے پاک اُصول پر قائم نہیں ہیں اس لئے میں نے بِلا توقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کو ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں- اگرچہ شرعی طور پر اُن پر کچھ ثابت نہ ہوا- لیکن اس کارروائی کے لئے اسی قدر کافی تھا کہ شکّی طور پر اُن کی نسبت شکایت ہوئی - مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر وہ راستبازی میں ایک روشن نمونہ دکھاتے تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اُن کے حق میں بول سکتا- مَیں یہ بھی ظاہر کرتا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ درحقیقت اُن لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے راستبازی کی تلاش میں ہماری ئمائیگی اختیار کی ہے- اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا ہے اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کو لائق ہوتی ہیں- ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہو سکتیء- اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل نہ ہیں اُن کے دل خد اتعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعاً بدی اور متفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے-
والسلام ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء
الرقـــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام داحمد از قادیان ضلع گورداسپور
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان )
یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ ۶ کے ایک صفحہ پر ہے-)
(۱۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوِ لِہٖ الْکَرْیم
اپنی جماعت کے لیے ضروری اشتہار
چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اُس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اُن باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز اُن کو اہل اقارب کے بعد اثر اور بد نتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے- یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصّب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں اُن کی محتاج نہیں- مال میں دولت میں عہم میں فضلیت میں خاندان میں پرہیز گاری میں خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماوت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی فرق نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت میں نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے اور ہمارا نام دجّال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخوان اور تابع ہیں-
یاد رہے کہ جو شخص کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہمارعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ انہیں ہو گا تب تک وہ ہم میں سے نہیں- سو تمام جماعت توجہ سے سُن لے کہ راست باز کے لئے شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے اس لئے مَیں نے انتظام کی اہے کہ آیندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں- اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لرکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز اُن کے اطمینان کے موافق لائق ہو- ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں اُن پر لازم ہو گا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں- اور ہر ایک کو تسلّی رکھنی چاہیے کہ ہم والدین کے سچّے ہمدرد اور غم خوار کی طرح تلاش کریں گے- اور حتیٰ الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں- اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں- یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتاً فوقتاً جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے- اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء بقید عمرو قومیّت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے- مندرجہ ذیل نمونہ کے لحاظ رہے
نام دختر یا پسر نام والد عمر دختر یا پسر
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۷ جون ۱۸۹۸ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمعیل
(یہ اشتہار ۲۰ ۳۶کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۸۹)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
مردام ما نصیحت بود کریم
دوائے طاعُون
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ایک دوا علاج طاعون کے لئے بصرف مبلغ دو ہزار پانسو روپیہ طیار ہویٰ ہے٭-اور ساتھ کے ظاہر بدن پر مالش کرنے کے لئے مرہم عیسیٰ بھی بنائی گئی ہے یعنی وہ مرہم حو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی اُن چوٹوں کے لئے بنائی گئی تھی جبکہ نا اہل یہودیوں نے آپ کو صلیب پر کھینچا تھا-یہی مبارک مرہم چالیس دن برابر مسیح علیہ السلام کے صلیبی زخموںپر لگتی رہی اور اسی سے خدا تعالیٰ نے آپ کر شفا بخشی گویا دوبارہ زندگی ہوئی- یہ مرہم طاعون کے لئے بھی نہایت درجہ مفید ہے بلکہ طاعون کی تمام قسموں کے لئے فائدہ مند ہے- مناسب ہے کہ جب نعوذ باللہ بیماری طاعون نمودار ہو تو فی الفو اس مرہم کو لگا نا شروع کر دیں کایہ مادہ سمتی کی مدافعت کرتی ہے اور پھُنسی یا پھوڑے کو طیار کر کے ایسے طور سے پھوڑ دیتی ہے کہ اس کی سمیت دل کی طرف رجوع نہیں کرتی اور نہ بدن میں پھیلتی ہے- لیکن کھانے کی دوا جس کا نام ہم نے تریاق الہٰی رکھا ہے اس کے استعمال کا طریق یہ ہے کہ اوّل بقدر فلفل گرد کھانا شروع کریں اور پھر حسب برداشت مزاج بڑھاتے جائیں اور ڈیڑھ ماشہ تک بڑھا سکتے ہیں اوربچوں کے لئے جن کی عُمر دس برس سے کم ہے ایک یا ڈیڑھ رتی تک دی جا سکتی ہے اور طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے جب یہ دوا کھائیں تو مفصلہ ذیل دوائوں کے ساتھ اس کو کھانا چاہیے- کیمفر کو ۱۵ قطرہ، وائینم اپنی کاک ۹ قطرہ، سپرٹ کلورا فارم۱۵ قطرہ، عرق کیوڑہ ۵ تولہ، عرق سلطان الاشجار یعنے سرس ۵ تولہ باہم ملا کر تین چار تولہ پانی ڈال کر گولی کھانے کے بعد پی لیں- اور یہ خوراک اوّل حالت میں ہے ورنہ حسب برداشت کیمفر کو ساٹھ بوند تک اور وائینم اپی کاک چالیس بوند تک اور سپرٹ کلورافارم ساٹھ بوند تک اور عرق کیوڑہ بیس تولہ تک اور عرس سرس یعنی سلطان الا شجار پچیس تولہ ہر ایک شخص استعمال کر سکتا ہے - بلکہ مناسب ہے کہ وزن بیان کردہ کے اندر اندر حسب تجربہ تحمل طبیعت ان ادویہ کر بڑھاتے جائیں تا پورا وزن ہو کر جلد طبیعت میں اثر کرے مگر بچوں میں بلحاظ عمر کم مقدار دینا چاہیے - اور اگر تریاق الہٰی میسر نہ آسکے تو پھر عمدہ جدوار کو سرکہ میں پیس کر بقدر ساتھ رتی بڑوں کے لئے اور بقدر دو دو رتی چھوٹوں کے لئے گولیاں بنا لیںاور اس دوا کے ساتھ صبح شام کھا ویں- حتی المقدور ہر روز غسل کریں اور پوشاک بدلیں اور بدر رویں گندی نہ ہونے دیں اور مکان کی اُوپر چھت میں رہیں اور مکان صاف رکھیں اور خوشبو دار چیزیں عوو وغیرہ جلاتے رہیں اور کوشش کریں کہ مکانوں میں تاریکی اور حبس ہونہ ہو اگھر اوراس قدر ہجوم نہ ہو کہ بدنی عفونتوں کے پھیلنے کا احتمال ہو جہاں تک ممکن ہو گھروں مین لکڑی اور خوشبودار چیزیں بہت جلاویں- اور اس قدر گھر کو گرم رکھیں کہ گویا گرمی کے موسم سے مشابہ ہو اور گندھک بھی جلاویں اور گھر میں بہت کچے کوئلے اور چو نہ بھی رکھیں اور درد رنج ستربی کے ہار پرو کر دروازوں پر لٹکاویں- اور سب سے ضروری بات یہ کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں- دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مشغول ہو ں وَالسَّلام
المشتــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان تعداد ۲۰۰۰ محمد اسمٰعیل پر یسمن
(یہ اشتہار ۲۰ ۲۶ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۱۹۰)
اشتہار واجب الاظہار متعلق کتب دفتر ضیا ء الاسلام
قادیان
چونکہ ہمار ے مطبع میں ہمیشہ نو تالیف کتابیں جو میری تالیفات میں سے ہیں چھپتی رہتی اس لئے یہ اندیشہ ہمیشہ وامنگیر رہتا ہے- کہ کوئی کتاب ہمارے شائع کرنے سے پہلے کسی اتفاق سے دفتر سے نکل جائے یا بطور خیانت کسی بیرونی آدمی کی چالاکی سے کسی کو پہنچ نہ جائے لہذا قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس اندیشہ کے دُور کرنے کے لئے کوئی احسن انتظام کیا جائے اس لئے عام طور پر اطلاع دی جاتی ہے کہ کوئی کتاب جب تک کہ اس پر مُہر اور میرے دستخط موجود نہ ہوں جائز طور پر شائع کردہ نہ سمجھی جائے- بلکہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس کتاب ہر صرف مُہر ہو اور میرے دستخط ساتھ نہ ہوں- اور بھی مسروقہ ہے اور جس پر مُہر اور میرے خاص دستخط دونوں موجود ہوں وہ کتاب مسروقہ نہیں ہے- اور جس پر نہ مُہر اور نہ دستخط ہو وہاس انتظام سے پہلے کی ہے اور بہرحال اُس کو جائز طور پر شائع شدہ سمجھنا چاہئے اور یہ انتظام آیندہ کے لئے ہے کیونکہ اب دفتر کی تمام موجود کتابوں پر مُہر لگا دی گئی ہے اور دستخط نہیں کئے- آیندہ ہر ایک کتاب جوجائز طور پر ہماری مرضی اور اجازت سے کسی طرف روانہ ہو گی وہ کتاب اگر کسی اور کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھاجائے گااور مُہر میں یہ الفاظ ہوں گے- ( الیس اللہ بکافٍ عبدہ ) اور دستخط میں ہمارا نام مع تاریخ ہو گا- اور اب جو چند کتابیں جیسے کتاب ایّام صلح اور ازالہ اوہام فارسی اور کتاب ترغیب المومنین اور کتاب فریادرد کتاب نجم الہُدیٰ زیر تالیف ہیں- یہ ابھی تک شائع نہیں ہوئیں- جب یہ شائع ہوں گی تو دستخط اور مُہر کے ساتھ شائع کی جائیں گی - اور اُن کتابوں میں سے جو کتاب بغیر دستخط اور مُہر کے کسی کے پاس پائی جائے تو اس کو مسروقہ سمجھنا چاہیے- اور ایسا آیندہ جو کتاب اگست ۱۸۹۸ء کے بعد کی نئی تصنیف نکلے اس کے لئے بھی یہی قاعدہ تصور کرنا چاہیے یعنی مُہر اور دستخط دونوں کا ہونا ضروری ہو گااور جس کتاب پر جو اس تاریخ سے بعد کی تالیف ہو مُہر اور دستخط دونوں نہ ہوں گے یا اُن میں سے صرف مُہر ہی ہو گی تو وہ بہرحال مسروقہ قرار دی جائے گی- یا د رہے کہ مُہر اور دستخط پہلے صفحہ پر ہوں گے جہاں سے مضمون شروع ہوتا ہے-
المشتھـــــــــــــــــــــــر
مرزا غلام احمد از قادیان
تعداد ۷۰۰ ۲۰ ستمبر ۱۸۹۸ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمعیل
(یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۱۹۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
رَ حِمَ اللہْ عَبْدًا سَمِعَ کَلَامَنَا
خدا اُس پر رحم کرے جو ہماری بات کو سُنے
ہماری جماعت میں ہمارے ایک دوست ہیں نوجواب اور نوعمر اور خوش شکل اور قوی اور پُورے تندرست - قریباً بائیس تیئس برس کی اُن کی عُمر ہو گی- اور جہاں تک مَیں نے اُن کے حالات میں غور کیا ہے مَیں انہیں ایک جواب صالح اور مہذب نیک مزاج اور خوش خلق اور غریب طبع اور نیک چلن اور دیندار اور پرہیزگار خیال کرتا ہوں- واللہ سٰعیبہ - ماسوا اس کے وہ ایک ہونہار جوان ہیں- تعلیم تافتہ جو ایم اے درجہ حاصل کر چکے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب وہ کسی معزز عہدہ اکسٹرااسسٹنٹی وغیرہ کے مستحق ہیں - اُن کو اپنی شادی کے لئے ایک ایسے رشتہ کی ضرورت ہے - جہاں بہیودہ رسوم اور اسراف نہ ہو- اور لڑکی میں عقل اور شکل اور نیک چلنی اور کسی قدر نوشت خواند کی ضروری شرطیں پائی جائیں-
میری رائے میں اس لڑکی کی بڑی خوش نصیبی ہو گی جو ایسے جوان صالح ہونہار کے گھر میں آئے- مَیں بہت خوش ہوں گا اگر کوئی شخص میرے دوستوں اور میری جماعت میں سے صفات مذکورہ کے ساتھ اپنی لڑکی رکھتا ہوں اور اس تعلق کو قوبل کرے- مجھے اس جواب ایم سے پر نہایت نیک ظن ہے- اور مَیں گمان کرتا ہوں کہ یہ رشتہ مبارک ہو گا یہ تمام خط وکتابت مجھ سے کرنی چاہیے مگر اس صورت میں جبکہ پختہ ارادہ ہو- اور نیز بات فی الواقع شرائط کے موافق ہو تا کہ میرا وقت ضائع نہ ہو- والسّلالم ۲۷ اکتوبر ۱۸۹۸ء
المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبع ضیاء الاسلام قادیان اسمٰعیل
(یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۱۹۲)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
رَبنا افتح بیننا و بین قومنا بالحقّ وانت خیر الفاتحین اٰمین
ہم خدا پر فیصلہ چھوڑتے ہیں اور مبارک وہ جو خدا کے فیصلہ کو عزت کی نظر سے دیکھیں
جن لوگوں نے شیخ محمد حسین بٹالوی چند سال کے پرچہ اشاعت السّنہ دیکھے ہوں گے وہ اگر چاہیں تو محض للہ گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس راقم کی تحقیر اور توہین اور دشنام وہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی- ایک وہ زمانہ تھا- جو اُن کا پرچہ اشاعتہ السنہ کف لسنان اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے طریق کا موید تھا اور کفر کے ننانوے وجوہ کو ایک ایمان کی وجہ پائے جانے سے کالعدم قرار دیتا تھا اور آج وہی پرچہ ہے جو ایسے شخص کو کافر اور دجّال قرار دے رہا ہے جو کلمّہ طیبہ لَا الٰہ اللہ محمّد رسول اللہ کا قائل اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء سمجھتا اور تمام ارکان اسلام پر ایمان لاتا ہے اور اہل قبلہ میں سے ہے - اور ان کلمات کو سُن کر شیخ صاحب اور اُن کے ہم زبان یہ جواب دیتے ہیں کہ تم لوگ دراصل کافر اور منکر اسلام اور دہریہ ہو صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنا اسلام ظاہر کرتے ہو- گویا شیخ صاحب اور اُن کے دوستوں نے ہمارے سینوں کو چاک کر کے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے اندر کُفر بھرا ہے- خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی تائید میں اپنے نشان بھی دکھلائے مگر وہ نشان بھی حقارت اور بے عزتی کی نظر سے دیکھے گئے اور کچھ بھی ان نشانوں سے شیخ محمد حسین اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ سختی اور بد زبانی روز بروز بڑھتی گئی- چنانچہ ان دنوں میں میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ مسلمانوں میں آپ کے فتویٰ کفر کی وجہ سے روز بروز تفرقہ بڑھتا جاتا ہے- اور اب اس بات سے نو میدی کلّی ہے کہ آپ مباحثات سے کسی بات کو مان لیں اور نہ ہم آپ کی بے ثبوت باتوں کا مان سکتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ آپ مباہلہ کر کے تصفیہ کر لیں- کیونکہ جبح کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہو سکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مباہلہ اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے اور یہ شرط الہام کی بناء پر ہے لیکن تا ہم آپ کو اختیار ہے کہ اپنے مباہلہ کا اثر تین دن یاایک دم ہی رہنے دیں کیونکہ مباہلہ دونوں جانب کی *** اور بد دُعا کا نام ہے- آپ (…) بد دُعا کے اثر کی مدّت قرار دینے میں اختیار رکھتے ہیں- ہماری بد دُعا کے اثر کا وقت ٹھہرانا آپ کا اختیار نہیںہے- یہ کام ہمارا ہے کہ وقت ٹھہرا دیں اس لئے آپ کو ضِد نہیں کرنی چاہیے- آپ اشاعتہ السنہ نمبر ۱۱ جلد ۷ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ شخص ملہم جہاں تک شریعت کی سخت مخالفت پیدا نہ ہواپنے الہام کی متابعت ضرور ی ہے لہٰذا ایک سال کی شرط جو الہام کی بناء پر ہے اس وجہ سے ردّ نہیں ہو سکتی کہ حدیث میں ایک سال کی شرط بصراحت موجود نہیں- کیونکہ اوّل تو حدیث مباہلہ میں ایک سال کا لفظ موجود ہے اور اس سے انکار دیانت کے برخلاف ہے کے برخلاف ہے- پھر اگر فرض کے طور پر حدیث میں سال کا لفظ موجود بھی نہ ہوتا تو چونکہ حدیث میں ایسا لفظ بھی موجود نہیں جو سال کی شرط کی حرام اور ممنوع ٹھیراتا ہو اس لئے آپ ہی حرام اور ناجائز قرار دے دینا امانت سے بعید ہے - اگر خدا تعالیٰ کی عادت فوری عذاب تھا تو قرآن شریف میں یا تعلیم رسُول صلے اللہ علیہ وسلم میںاُس کی تصریح ہونی چاہیے تھی لیکن تصریح تو کیا اس کے بر خلاف عملدر آمد پایا گیا ہے - دیکھو مکّہ والوں کے عذاب کے لئے ایک برس کا وعدہ دیا گیا تھا اور یونسؓ کی قوم کے عذاب کے لئے چالیس دن مقرر ہوئے تھے بلکہ خد ا تعالیٰ کی کتابوں میں بعض عذابوں کی پیشگوئی صد ہا برس کے وعدوں ہر کی گئی ہے- پھر خواہ نخواہ کچّے اور بیہودہ بہانے کر کے اور سراسر بد دیانتی کو شیوہ ٹھہرا کر طریق فیصلہ سے گریز کرنا اُن علماء کا کام نہیں ہو سکتا جو دیانت اور امانت اور پرہیز گاری کا دم مارتے ہوں - اگر ایک شخص درحقیقت مفتری اور جھوٹا ہے تو خواہ مباہلہ ایک سال کی شرط پر ہو خواہ دس سال کی شرط پر افتراء کرنے والا کبھی فتح یاب نہیں ہو سکتا-
غرض نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس درخواست مُباہلہ کو جو نہایت نیّتی سے کی گئی تھی محمد حسین نے قبول نہیں کیا اوریہ عذر کی کہ تین دن تک مہلت اثر مباہلہ ہم قبول کر سکتے ہیں زیادہ نہیں٭ حالانکہ حدیث شریف میں سال کا لفظ تو ہے مگر تین دن کا نام و نشان نہیں اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حدیث میں جیسا کہ تین دن کی کہیں تحدید نہیں- ایسا ہی ایک سال کی بھی نہیں تا ہم ایک شخص جو الہام کا دعویٰ کر کے ایک سال کی شرط پیش کرتا ہے علماء اُمّت کا حق ہے کہ اُس پر حجّت پُوری کرنے کے لئے ایک سال ہی منظور کرلیں- اس مین تو حمایت شریعت ہے تا مدّعی کو آیندہ کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے - ’’ خدا لکھ چکا ہے کہ مَیں اور میرے نبی اور میرے پر ایمان لانے والے غالب رہیں گے-‘‘ سو شیخ محمد حسین نے باوجود بانی تکفیرہونے کے اس راہ راست پر قدم مارنا نہیں چاہا اور بجائے اس کے نیک نیتّی سے مباہلہ کے میدان میںآتا یہ طریق اختیار کیا ایک گندہ اور گالیوں سے پُر اشتہار لکھ کر محمد بخش جعفر زٹلی اور ابولحسن تبتی کے نام سے چھپوا دیا-
اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے - اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے- اور وُہ جو مَیں نے کی ہے یہ کہ اے میر ے ذولجلال پروردگار اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعہ السُّنہ میں بار بار مجھ کو کذّاب اور دجّال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اُس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی نے اس اشتہار میں جو ۱۰ نومبر ۱۸۸۹ء تک چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی وقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تو اسے میرے مولیٰ اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیلہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر ینی پندرہ دسمبر جنوری ۱۹۰۰ء تک ذلّت کی مار وارد کر اور ان لوگوں کی عزّت اوروجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرما- لیکن اگر اے میرے آقا میرے مولیٰ میرے منعم میری اُن نعمتوںکے دینے والے جو تو جانتا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ تیری جناب میں میری کچھ عزّت ہے تو مَیںعاجزی سے دُعا کرتا ہوں کہ ان ٭تیرہ (۱۳) مہینوں مین جو ۱۵ دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ء تک شمار کیے جائیں گے شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی ا ور تبتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلّت کی مار سے دُنیا میں رُسوا رک غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں سچّے اور متقی اورپرہیز گار اور مَیں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلّت کی مار سے تبارہ کر اور اگر تیری جنابمیں مجھے وجاہت اورعزّت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہرکہ ان تینوں کو رُسوا اور ضُربت علیھم الذلۃ کا مصداق کر - آمین ثم آمین -
یہ دُ عا تھی جو مَیں نے کی- اس کے جواب میں الہام ہوا کہ مَیں ظالم کو ذلیل اور رُسوا کروں گا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا٭ اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں- انّ الّذین یصدّون عن سبیل اللہ سینا لھم ٖغضب مّن ربّھم - ضرب اﷲ اشد من ضرب الناس- انّما امر نا ازا اردنا شیئاً اَن نقول لہ کن فیکون- أتعجب لا مری- انّی مع العُشَّاق- انّین انا الرحمٰن والمجد والعلیٰ - ویعض الظالم علیٰ یدیۃ- و یُطْرَ ح بین یدی- جزاء سیّۃ بمثلھا- و تر ھقھم ذلہ- مالھم من اﷲمن عاصم الصبر حتیٰ یا تی اﷲ بامرہ انّ ﷲ مع الّذین اتقوا والّذین ھم الحسنون-
یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مولوی ابو الحسن تبّتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں- ان میں سے جو کاذب ہے وہ ذلیل ہو گا- یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بناء پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے کھلا کھلا نشان ہو کر ہدایت کی راہ اُن پر کھولے گا-٭
اب ہم ذیل میں شیخ محمد حسین کا وہ اشتہار رلکھتے ہیں جو جعفر ززٹلی اور ابوالحسن تبتی کے نام ہر شائع کیا گیا ہے تا خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے وقت دونوں اشتہارات کے پڑھنے سے حق کے طالب عبرت اور نصیت پکڑ سکیں- اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہی کہ جو لوگ سچّے کی ذلّت کے لیے بد زبانی کر رہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں خدا اُن کو ذلیل کرے گا- اور میعاد پندرہ دن دسمبر۱۸۹۸ء سے تیرہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور ۱۴ دسمبر ۱۸۹۸ء تک جو دن ہیں وہ توبہ اور رجوع کے لئے مُہلت ہے- فقط
۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
مطبوعہ ضیاء لاسلام پریس قادیان تعداد ۱۴۰۰
نقل کفر کر نباشد
الامر فوق الادب
راقم کاتب
نقل مطابق اصل
’’ سچے اور قطی فیصلہ کی صورت صواب ‘‘
’’ دجّال کا دیانی کے اشتہار مباہلہ کا جواب‘‘
’’ دجّال کادیانی کو ڈگلس بہادر ڈپٹی کمشنرگورداسپور نے دبایا ٭اور اس سے عہد لے لیا کہ آئیندہ دل آزار الفاظ کو بند رکھے ( چنانچہ اشاعتہ السّنہ نمبر ۹ جدل ۱۸ کے صفحہ ۲۰۹ میں تفصیل بیان ہوا ہے ) اور اس وجہ سے اس کو مجبوراً الہام کے ذریعہ لوگوں کو دل آزاری سے زبان کو بند کرنا پڑا-اور الہامی گولے چلانا یا یوں کہو کہ گوز چھوڑنا ترک کرنا ضروری ہوا اور پھر الہامی دلآزاری کے سوا س کا کام بند ہونے لگا اور اس کی دُکانداری میں نقصان واقع ہوا تو یہ کام اُس نے اپنے نائبین (…) کے ذریعہ شروع کر دیا- تب سے وہ کام اُس کے نائب کر رہے ہیں اور اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے لوگوں کی دل آزاری میں مصروف ہیں- از انجملہ بعض کا ذکر اشاعتہ السنّہ نمبر ۲ جلد نمبر ۱۹ وغیرہ میں ہوا ہے و ازانجملہ بعض کا ذکر ذیل میں ہوتا ہے کہ اس کے چند نائبین…… لاہور و لدھیانہ و پٹیالہ و شملہ نے مولانا ابو سعید محمد حسین صاحب نے نام اس مضمون کے اشتہار جاری کئے ہیں کہ وہ بمقام بٹالہ کادیانی کے ساتح مباہلہی کرلیں- اور اس مباہلہ کا اثر ظاہر نہ ہونے کی صورت میں آٹھ سو پچیس روپیہ ( جس کو وہ ان چاروں مواضع سے جمع کر کے پیش کریں گے )انعام لیں- اس کے ساتھ ان لوگوں کے دل کھول کر آزاری و بد گوئی سے اپنے دلوں کا ارمان نکال لیا اور کادیانی کی نیابت اشاعتہ السنہ نمبر ۸ و ۱۲ جلد ۱۵ کے صفحہ ۱۶۶، ۱۸۸، ۳۱۳ اور نمبر ۲ جلد ۱۸ کے صفحہ ۸۶ اور دیگر مقامات میں کاریانی سے مباہلہ کے لئے مستعدی ظاہر کر چکے ہیں اور اس سے گریز انکار اسی کادیانی بدکار کی طرف سے ہوا نہ مولانا موصوف کی طرف سے- پھر یہ لوگ کس مُنہ سے مولانا مولوی صاحب کو مُباہلہ کے لئے بُلاتے ہیں اور شرم حیا سے کچھ کام نہیں لیتے- اسی وجہ سے مولوی صاحب کو مباہلہ کے لئے بُلاتے ہیں اور شرم و حیا سے کچھ کام نہیں لیتے اسی وجہ سے مولوی صاحب ان مجاہیل کی فضول لاف و گذاف کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اُن لوگوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے البتہ اُن کے مرشد وجّال اکبر اکذاب العصرسے مباہلہ کرنے کے لئے ہر وقت بغیر کسی شرط کے مستعد و تیار ہیں- اگر کادیانی اپنی طرف سے دعوت مباہلہ کا اشتہار دے یا کم سے کم یہ مشتہر کر دے کہ اُس میں مولوی صاحب ممدوح اپنی طرف سے کوئی شرط پیش نہیں کرتے صرف کادیانی کی شروط و میعاد ایک سال کو اُڑا کر یہ چاہتے ہیں کہ اتر مباہلہ سی مجلس میں ظاہر ہو یا زیادہ سے زیادہ تین روز ٭میں ( جو عبد اللہ آتھم کے مباہلہ و قسم کے لئے اس نے تسلیم کئے تھے اور قبل ا ز مباہلہ کادیانی اس اثر کی تعیین بھی کر دے کہ وہ کیا وہ گا- اس کی وجہ و لیل بتفصیل مع حوالہ حدیث و تفسیر وہ اشاعتہ السنّہ نمبر ۸ جدل۱۵ کے صفحہ ۱۷۱ و غیرہ اور نمبر ۳ جلد ۱۸ کے صفحہ ۵۶ میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ معیاد ایک سال کی خلافت سُنت ٭ ہے اور اس میں کادیانی کی حیلہ سازی و فریب بازی کی بڑی گنجائیش ہے اور درصورت نہ ہونے ظاہر اثر مباہلہ کے مولوی صاحب کچھ نقد انعام نہیں لینا چاہیتے- صرف وہی سزا تجویز کی تھی کہ اس کامنہ ٭ کالا کیا جاوے اس کو ذلیل کیا جاوے ( دیکھو جنگ مقدس میں آخری پرچہ قادیانی کا صفحہ اخیر ) ]س ہم کو یہ شرط منظور ہے لیکں اس رُو سیاہی کے بعد اس کو گدھے پر سوا ر کر کے کوچہ بکوچہ ان چاروںشہروں میںپھرایا جاوے اور بجائے دینے کے جرمانہ یا انعام آٹھ سو پچس جوتے ……… حضرت اقدس کے سر مبارک پر رسید ہوں جن کو اُنھیںچوروں مواضح کے مرید … آپ کا جلوس نکلے اور اور آگے آگے آپ کے مخلص مرید بطور مرثیہ خوانی یہ مصراع پڑھتے جاویں- چرکارے کند عاقل کہ باز آید٭ پشیمانی اور یہ شعر صائب کا بنمائے بہ صاحب نظرے گوہر خودرا -
عیسیٰ نتواں گشت بہ تصدیق خر ے چند اور یہ رُباعی
مُرسل یزدانی و عیسٰی نبی اللہ شدی- بازی گوئی کہ دجالت نخوائے اے حمار - کفشہار بر سر خوری از افترائے ناسزا- رویہ گشتی میان مردم قرب جوار اور یہ بیت اردو اُڑاتا خاک سر پر جھومتا مستانہ آتا ہے- یہ کھاتا جوتیاں سر پر ما دیوانہ آتا ہے-
راقم سید ابو الحسن تبتی حال وارد کوہ شملہ- سنجولی ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۸ء
’’ضروری نوٹ (یادداشتیں)‘‘
’’ (۱)…… نائعبین دجّال اکبر کا دیانی لعین نے جو اشتہاروں میں لکھا ہے کہ نام مولوی عبد القادر لودہانوی صاحب موصوف کا ہم مکتب ہے یہ محض دروغ ہے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بد نصیب بمقام ہندلہ( جبکہ ہم مولوی نور الحسن مرحوم سے شمس باز عہ پڑھتے تھے ہم سے شرح ملّا پڑھتا تھا- اب وہ ہمارا ہم مکتب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس پر فخر کر رہا ہے کیوں نہ ہو- یہ قدیم سے ہوتا چلا آیا ہے جس کی شکایت اس شعر میں ہے ؎
کس نیا موخت علم تیرا زمن
کہ مرا عاقبت نشانہ نکرو‘‘
’’(۲)یہ بھی مُریدان دجّال نے مشتہر کیا ہے عبد القادر نے قلمی خط مولوی صاحب کے پاس بھیجا ہے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بھی محض کذب ہے لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین ہم کو عبد القادر کا کوئی خط نہیں پہنچا- قلمی خط تو یکطرف رہا کوئی مطبوعہ پرچہ اخبار الحکم جس میں اس کا یہ خط درج ہوا ہے یاکوئی اشتہار لاہور یا شملہ وغیرہ سے بھی اس مضمون کا دیانی کا دیانی یا اس کے اتباع کا مُرسلہ ہم کو نہیں پہنچا- بہت مشکل اور تلاش سے ہم نے ایک مدرس سکول بٹالہ سے اخبار کا پرچہ مستعار لے کر شیخ فتح محمد اہل حدیث گجرات کی قلم سے وہ خط نقل کرایا اور اشتہار اہل شملہ ہم نے شملہ کے ایک کلرک آب وہوا سے نتقاضا وصول کیا- اور اس دجّال کے چیلوں کی قدیم عادت ہے کہ جو مضمون جواب طلب وہ چھاپتے ہیں اس کی کاپی ہماری طرف نہیں بھیجتے- ‘‘
’’(۳) عربی نویسی میں دجّال کادیانی کا مقابلہ کرنے سے گریز یا اعراض کو جو اِن نائبین دجّال نے مولو ی صاحب موصوف کی طرف منسوب کیا ہے اس میں بھی ان گمناموں نے دجّال اکبر کی سُنت پر عمل کیا ہے- مولوی صاحب موصوف اپنے رسالہ اشاعتہ السنّہ نمبر ۸ جلد ۱۸ کے صفحہ ۱۸۹ میں کادیانی کو عربی میں مقابلہ کے لئے للکار چکے ہیں پھر نمبر ۱۲ جلد ۱۵ میں کادیانی کی عربی نویسی کا اچھی طرح بخیہ ادھیڑ چکے ہیں- مگر اس گروہ بے شکوہ نے شرم و حیا کو نصیب اعداد سمجھے کر ان دعاوی ان بابطلہ واغلیط عاطلہ کادیانی کا اعادہ کر کے گڑے مُردے اُکھاڑنے کو عمل میں لا کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہے- ان میں ذرہ شرم ہوتی تو وہ اشاعتہ السنّہ کے ان مقامات کو پڑھ کر ڈوب کر مَر جاتے اور پھر عربی نویسی کا دعویٰ زبان پر نہ لائے- مگر یہاں شرم کہاں- ان کا تو یہ مقولہ ہے کہ شرم جہ کتی است کہ پیش مرداں بیاید‘‘
’’ (۴)کادیانی کا مستجاب الدعوات ہونے کا جو اُن شیخ چلی کے شاگردوں نے دعویٰ کر کے جلد ۱۴ مولوی صاحب سے مقابلہ چاہا ہے اس کا جواب مولوی صاحب اشاعتہ السنہّ نمبر جلد ۱۴ میں ۱۸۹۱ء اور نمبر ۱ جلد۱۶ بابت ۱۸۹۵ء کے صفحہ ۱۴۵ وغیرہ میں دے چکے ہیں مگر ان حیا کے دشمنوں نے حیا سے قسم کھا کر اُنہی پچھلی باتوں کا اعادہ شروع کر دیا ہے- ہم کہاں تک جوابات کا اعادہ کرے جاویں‘‘
’’(۵) مولوی سیّد ابولحسن صاحب تبتی نے جو ۸۲۵ روپیہ انعام کے بدلے آٹھ سو پچیس جُوتے کادیانی کے لئے تجویز کئے ہیں اس پر حضور اینجانب کا صاد ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اس قدر رعایت ضروری ہے کہ اگر حضرت اقدس (اکذب) کادیانی اس قدر جوتوں کے بذات شریف و نفس نفیس متحمل نہ ہو سکیں اور سر مبارک حضرت اکذب کا گنجہ ہو جاوے یا جوتوں کی مار سے آپ کو الہامی قبض لاحق ہو جاوے تو باقی ماندہ آپ کے نائبین جنہوں نے گمنام اشتہارات دیئے ہیں آپس میں اس طرح بانٹ لیں کہ لاہور والے مخلص گمنام پٹیالہ والوں کو اور لدھیانہ والے شملہ والوں کو اور پٹیالہ والے لدھیانہ والوں کو اور اسی طرح وہ ایک دوسرے کو بطور ہمدردی مدد دیں- ہم کو ا س پر اصرار نہیں کہ وہ سب کے سب جُوتے حضرت اقدس (اکذب) ہی کے سر پر پورے کئے جاویں- یہ امر بحکم آیت لاَیُکلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّوُسْعَھَا ہم کو پسندیدہ نہیں اور عام ہمدردی انسانی اور اخلاق کے بھی مخالف ہے-‘‘ ٭
الراقم احقر العباد ملہم ربّانی ملا بخش لاہور ۱۰ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء
محمد بخش قادری مینیجر اخبار جعفرز ٹلی تاج الہند پریس لاہور
(۱۹۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ ط
مبادا دل آں فرو مایہ شاد کہ از بہر دنیا دہد دیں بباد
مَیں اپنی جماعت کے لئے خصوصاً یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ وہ اُس اشتہار کے نتیجے کے منتظر رہیں کہ جو ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کو بطور مباہلہ شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السُّنّہ اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت شائع کیا گیا ہے جس کی میعاد ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء میں ختم ہو گئی-
اور مَیں اپنی جماعت کو چند لفظ بطور نصیحت کہتا ہوں کہ وہ طریق تقوی پر پنجہ مار کر یا وہ گویٔ کے مقابلہ پر یاوہ گویٔ نہ کریں- اور گالیوں کے مقابلہ میں گالیاں نہ دیں- وہ بہت کچھ ٹھٹھا اور ہنسی سُنیں گے جیسا کہ وہ سُن رہے ہیں- مگر چاہئیے کہ خاموش رہیں اور تقویٰ اور نیک بختی کے ساتھ خدا ئے تعالیٰ کے فیصلہ کی طرف نظر رکھیں- اگر وہ چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں قابل تائید ہوں تو صلاح اور تقویٰ اور صبر کو ہاتھ سے نہ دیں- اب اس عدالت کے سامنے مسل مقدمہ ہے جو کسی کی رعایت نہیں کرتی اور گستاخی کے طریقوں کو پسند نہیں کرتی- جب تک انسان عدالت کے کمرے سے باہر ہے اگرچہ اس کی بدی کا بھی مواخذہ ہے مگر اس شخص کے جرم کا مواخذہ بہت سخت ہے جو عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر بطور گستاخی ارتکابِ جُرم کرتا ہے- اس لئے مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ خدایتعالیٰ کی عدالت کی توہین سے ڈرو- اور نرمی اور تواضع اور صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور خدایتعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم میں اور تمہاری قوم میں فیصلہ فرماوے- بہتر ہے کہ شیخ محمد حسین اور اُس کے رفیقوں سے ہرگز ملاقات نہ کرو کہ بسا اوقات موجب جنگ و جدل ہو جاتی ہے- اور بہتر ہے کہ اس عرصہ میں کچھ بحث و مباحثہ بھی نہ کرو کہ بسا اوقات بحث و مباحثہ سے تیز زبانیاں پید اہوتی ہیں- ضرور ہے کہ نیک عملی اور راستبازی اور تقویٰ میں آگے قدم رکھو کہ خدا اُن کو جو تقویٰ اختیار کرے ہیں، ضائع نہیں کرتا- دیکھو حضرت موسٰی علیہ السلام جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ میں حلیم اور متقی تھے تقویٰ کی برکت سے فرعون پر کیسے فتیحیاب ہوئے- فرعون چاہتا تھا کہ اُن کو ہلاک کرے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کے آگے خدایتعالیٰ نے فرعون کو معہ اُس کے تمام لشکر کے ہلاک کیا- پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بدبخت یہودیوں نے چاہا کہ اُن کو ہلاک کریں اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک رُوح پر صلیبی موت سے *** کا داغ لاویںکیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ *** ہے یعنی اس کا دل پلید اور ناپاک اور خدا کے قرب سے دُور جا پڑتا ہے اور رائدہ درگاہ الٰہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے- اس لئے لعین شیطان کا نام ہے اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالایق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باﷲ *** ہے جس کا دل پاک نہیں ہے- اور جیسا کہ مفہوم *** کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور اﷲ اس سے بیزار ہے- اور جیسا کہ مفہوم *** کا ہے- لیکن خدائے قادر و قیوم نے بد نیت یہودیوں کو اس راہ سے ناکام اور نامُراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اُس کو ایک سو بیس برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اس کے سامنے ہلاک کیا- ہاں خدایتعالیٰ کی اُس قدیم سنّت کے موافق کہ کوی اوالوالعزم نبی ایسا نہیں گذرا جس نے قوم کی ایذا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبّت میں آئے ہوئے تھے- خدایتعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخرکار خاک کشمیر جنّت نظیر میں انتقال فرمایا ا ور سرینگر خانیار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کئے گئے- آپ کی قبر بہت مشہورہے یزار ویتبرک بہٖ - ایسا ہی خدایتعالیٰ نے ہمارے سیّد و مولیٰ نبی آخر الزّمان کو جو سیّدالمتقین تھے انواع اقسام کی تائیدات سے مظفر اور منصور کیا- گو اوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی طرح داغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اندر رکھتی تھی-
سوا َے دوستو! یقینا سمجھو کہ متقی کبھی برباد نہیں کیا جاتا- جب دو فریق آپس میں دشمنی کرتے ہیں اور خصوصیت کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں تو وہ فریق جو خدایتعالیٰ کی نظر میں متقی اور پرہیز گار ہوتا ہے آسمان سے اس کے لئے مدد نازل ہوتی ہے اور اس طرح پر آسمانی فیصلہ سے مذہبی جھگڑے انفعال پا جاتے ہیں- دیکھو ہمارے سیّد و مولیٰ نبیناً محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کیسی کمزوری کی حالت میں مکّہ میں ظاہر ہوئے تھے اور ان دنوں میں ابوجہل وغیرہ کفا کا کیا عروج تھا اور لاکھوں آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فتح اور ظفر بخشی- یقینا سمجھو کہ یہی راستبازی اور صدق اور پاک باطنی اور سچائی تھی- سو بھائیو! اُس پر قدم مارو اور اس گھر میں بہت زور کے ساتھ داخل ہو- پھر عنقریب دیکھ لو گے کہ خدایتعالیٰ تمہاری مدد کرے گا- وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے- جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں وہ شوخی اور چالاکی کو پسند نہیں کرتا اور ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے سو اُس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو- تم اس کی جماعت ہو جن کو اس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چُنا ہے سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے لَب جُھوٹ سے اور اس کا دل ناپاک خیالات سے پرہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا-
اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھو ڈالو- تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو مگر خدا کو اس خصلت سے غضب میں لائو گے- اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریّت کو ہلاکت سے بچائو- کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو- حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اَور عزیز بھی ہے- اس کی راہ میں فدا ہو جائو اور اس کے لئے محو ہو جائو- اور ہمہ تن اس کے ہو جائو- اگر چاہتے ہو کہ اسی دُنیا میں خدا کو دیکھ لو- کرامت کیا چیز ہے؟ اور خوارق کب ظہور میں آتے ہیں؟ سو سمجھو اور یاد رکھو کہ دلوں کی تبدیلی آسمان کی تبدیلی کو چاہتی ہے- وہ آگ جو اخلاص کے ساتھ بھڑکتی ہے وہ عالم بالا کو نشان کی صورت پر دکھلاتی ہے- تم مومن اگرچہ عام طور پر ہر ایک بات میں شریک ہیں- یہاں تک کہ ہر ایک کو معمولی حالت کی خوابیں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتے ہیں- لیکن وہ کرامت جو خدا کا جلال اور چمک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور خدا کو دکھلا دیتی ہے وہ خدا کی ایک خاص نُصرت ہوتی ہے جو اُن بندوں کی عزّت زیادہ کرنے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جو حضرت احدیّت میں جان نثاری کا مرتبہ رکھتے ہیں جبکہ و ہ دُنیا میں ذلیل کئے جاتے اور اُن کو بُرا کہا جاتا اور کذّاب اور مفتری اور بدکار اور *** اور دجّال اور ٹھگ اور فریبی ان کا نام رکھا جاتا ہے اور اُن کے تباہ کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں تو ایک حد تک وہ صبر کرتے اور اپنے آپ کو تھامے رہتے ہیں- پھر خدایتعالیٰ کی غیرت چاہتی ہے کہ ان کی تائید میں کوئی نشان دکھاوے تب یک دفعہ ان کا دل دُکھتا اور اُن کا سینہ مجروح ہوتاہے- تب وہ خداتعالیٰ کے آستانہ پر تضرعات کے ساتھ گرتے ہیں اور اُن کی درد مندانہ دُعائوں کا آسمان پر ایک صعبناک شور پڑتا ہے اور جس طرح بہت گرمی کے بعد آسمان پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بادل کے نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر وہ جمع ہو کر ایک تہہ بہ تہہ بادل پیدا ہو کر یک دفعہ برسنا شروع ہو جاتا ہے ایسا ہی مخلصین کے دردناک تضرعّات جو اپنے وقت پر ہوتے ہیں رحمت کے بادلوں کو اُٹھاتے ہیں اور آخر وہ ایک نشان کی صورت میں زمین پر نازل ہوتے ہیں- غرض جب کسی مرد صادق ولی اﷲ پر کوئی ظلم انتہاء تک پہنچ جائے تو سمجھنا چاہئیے کہ اب کوئی نشان ظاہر ہوگا-
ہر بلاکیں قوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است
مجھے افسوس سے اس جگہ یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ ہمارے مخالف ناانصافی اور دروغ گویٔ اور کجروی سے باز نہیں آتے- وہ خدا کی باتوں کی بڑی جرأت سے تکذیب کرتے اور خدائے جلیل کے نشانوں کو جھٹلاتے ہیں- مجھے امید تھی کہ میرے اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے بعد جو بمقابلہ محمد حسین بٹالوی اور محمد بخش جعفرزٹلی اور ابو الحسن تبّتی کے لکھا گیا تھا- یہ لوگ خاموش رہتے کیونکہ اشتہار میں صاف طور پر یہ لفظ تھے کہ ۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء تک اس بات کی میعاد مقرر ہو گئی ہے کہ جو شخص کاذب ہو گا خدا اس کو ذلیل اور رُسوا کرے گا- اور یہ ایک کھلا کھلا معیار صادق و کاذب کا تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے قائم کیا تھا- اور چاہئیے تھا کہ یہ لوگ اُس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد چُپ ہو جاتے اور ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء تک خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرتے- لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا- بلکہ زٹلی مذکور نے اپنے اشتہار ۲۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں وہی گند پھر بھر دیا جو ہمیشہ اس کا خاصہ ہے اور سراسر جھوٹ سے کام لیا- وہ اس اشتہار میں لکھتا ہے کہ کویٔ پیشگویٔ اس شخص یعنی اس عاجز کی پُوری نہیں ہوئی- ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین- وہ یہ بھی کہتا ہے کہ آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری نہیں ہوئی- ہم اس کے جواب میں بھی بجز لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین کچھ نہیں - اصل تو یہ ہے کہ جب انسان کا دل بخل اور عناد سے سیا ہ ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سُنتے ہوئے نہیں سُنتا- اُس کے دل پر خدا کی مُہر لگ جاتی ہے- اس کے کانوں پر پردے پڑ جاتے ہیں- یہ بات اب تک کس پر پوشیدہ ہے کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اور خدا کے الہام نے ظاہر کیا تھا کہ وہ رجوع الی الحق کی حالت میں مرنے سے بچ جائے گا ا ور پھر آتھم نے اپنے افعال سے اپنے اقوال سے اپنی سراسمیگی سے اپنے خوف سے اپنے قسم نہ کھانے سے اپنے نالش نہ کرنے سے ثابت کر دیا کہ ایّام پیشگوئی میں اس کا دل عیسائی مذہب پر قائم نہ رہا اور اسلام کی عظمت اس کے دل میں میں بیٹھ گئی اور یہ کچھ بعید نہ تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کی اولاد تھا اور اسلام سے بعض اغراض کی وجہ سے مُرتد ہوا تھا- اسلام چاشنی رکھتا تھا- اسی وجہ سے اس کو پورے طور پر عیسائیوں کے عقیدہ سے اتفاق بھی نہیں تھا اور میری نسبت وہ ابتدا سے نیک ظن رکھتا تھا- لہٰذا اس کا اسلامی پیشگوئی سے ڈرنا قرینِ قیاس تھا- پھر جبکہ اُس نے قسم کھا کر اپنی عیسائیت ثابت نہ کی اور نالش کی اور چور کی طرح ڈرتا رہا اور عیسائیوں کی سخت تحریک سے بھی وہ اُن کاموں کے لئے آمادہ نہ ہوا تو کیا اس کی یہ حرکات ایسی نہ تھیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلے کہ وہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت سے ضرور ڈرتا رہا- غافل زندگی کے لوگ تو نجومیوں کی پیشگوئیوں سے بھی ڈر جاتے ہیں چہ جائیکہ ایسی پیشگوئی جو بڑے شدّ و مدّ سے کی گئی تھی جس کے سُننے سے اسی وقت اس کا رنگ زرد ہوگیا تھا جس کے ساتھ در صورت نہ پورے ہونے کے مَیں نے اپنے سزایاب ہونے کا وعدہ کیا تھا- پس اس کا رُعب ایسے دلوں پر جو دینی سچایٔ سے بے بہرہ ہیں- کیونکہ نہ ہوتا- پھر جبکہ یہ بات صرف قیاسی نہ رہی بلکہ خود آتھم نے اپنے خوف اور سراسمیگی اور دہشت زدہ ہونے کی حالت سے جس کو صدہا لوگوں نے دیکھا اپنی اندرونی بے قراری اور اعتقادی حالت کے تغیّر کو ظاہر کر دیا اور پھر معیاد قسم نہ کھانے اور نالش نہ کرنے سے اس تغیر کی حالت کو اور بھی یقین تک پہنچایا اور پھر الہام الٰہی کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے چھ ماہ کے اندر مر بھی گیا تو کیا یہ تمام واقعات ایک منصف اور خدا ترس کے دل کو اس یقین سے نہیں بھرتے کہ وہ پیشگوئی کی معیاد کے اندر الہامی شرط سے فائدہ اُٹھا کر زندہ رہا اور پھر الہام الٰہی کی خبر کے موافق اخفائے شہادت کی وجہ سے مَر گیا- اب دیکھو تلاش کرو کہ آتھم کہاں ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ کیا یہ سچ نہیںکہ وہ کئی برس سے مر چکا مگر جس شخص کے ساتھ اس نے ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر بمقام امرتسر مقابلہ کیا تھا وہ تو اب تک زندہ موجود ہے جو اب یہ مضمون لکھ رہا ہے-
اے حیا و شرم سے دُور رہنے والو! ذرہ اس بات کو تو سوچو کہ وہ شہادت اخفاء کے بعد کیوں جلد مَر گیا؟ مَیں نے تو اُس کی زندگی میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اگر مَیں کاذب ہوں تو مَیں پہلے مروں گا ورنہ مَیں آتھم کی موت کو دیکھوں گا- سو اگر شرم ہے تو آتھم کو ڈھونڈ کر لائو- کہاں ہے- وہ میری عمر کے قریب قریب تھا اور عرصہ تیس برس سے مجھ سے واقفیت رکھتا تھا- اگر خدا چاہتا تو وہ تیس برس تک اور زندہ رہ سکتا تھا- پس یہ کیا باعث ہوا کہ وہ انہیں دنوں میں جبکہ اس نے عیسائیوں کی دلجوئی کے لئے الہامی پیشگوئی کی سچائی اور اپنے دلی رجوع کو چھپایا خدا کے الہام کے موافق فوت ہو گیا- خدا اُن دلوں پر *** کرتا ہے- جو سچائی کو پا کر پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور چونکہ یہ انکار جو اکثر عیسائیوں اور بعض شریر مسلمانوں نے کیا خدا تعالیٰ کی نظر میں ظلم صریح تھا- اس لئے اس نے ایک دوسری عظیم الشان پیشگوئی کے پُورا کرنے سے یعنی پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے منکروں کو ذلیل اور رسُوا کر دیا- یہ پیشگوئی اس مرتبہ پر فوق العادت تھی کہ اس میں قبل از وقت یعنی پانچ برس پہلے بتلایا گیا تھا کہ لیکھرام کس دن اور کس قسم کی موت سے مرے گا- لیکن افسوس کہ بخیل لوگوں نے جن کو مرنا یاد نہیں- اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے- یہ سب سے انکار کرتے ہیں- اس پیشگوئی کو بھی قبول نہ کیا اور خدا نے بہت سے نشان ظاہر کئے- یہ سب سے انکار کرتے ہیں- اب یہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء آخری فیصلہ ہے- چاہئیے کہ ہر ایک طالبِ صادق صبر سے انتظار کرے- خدا جھوٹوں ، کذّابوں ، دجالوں کی مدد نہیں کرتا- قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ خدایتعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ وہ مومنوں اور رسولوں کو غالب کرتا ہے- اب یہ معاملہ آسمان پر ہے- زمین پر چلانے سے کچھ نہیں ہوتا- دونوں فریق اُس کے سامنے ہیں اور عنقریب ظاہر ہو گا کہ اس کی مدد اور نصرت کس طرف آتی ہے-
واٰخر دعوٰنا اِن الْحَمْدُ لِلّٰہِ رب العالمین والسلام علٰی مَن اتّبع الھُدٰی
۳۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء
المشتہر
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان
(یہ اشتہار الحکم جلد ۲ نمبر ۴۰ کے صفحہ ۶ پر اور رسالہ راز حقیقت کے صفحہ ۱ لغایت ۱۴ پر درج ہے-)
(۱۹۴)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
میری وہ پیشگوئی جو الہام ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں فریق کاذب کے بارے میں تھی
یعنی اس الہام میں جس کی عربی عبارت یہ ہے کہ جَزاء سیّئۃِ بمثلھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی پر
پوری ہو گئی
میری التماس ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس اشتہار کو توجہ سے دیکھے
مندرجہ عنوان امر کی تفصیل یہ ہے کہ ہم دو فریق ہیں- ایک طرف تو مَیں اور میری جماعت اور دوسری طرف مولوی محمد حسین اور اس کی جماعت کے لوگ یعنی محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی وغیرہ … محمد حسین نے مذہبی اختلاف کی وجہ سے مجھے دجّال اور کذّاب اور ملحد اور کافر ٹھہرایا تھا اور اپنی جماعت کے تمام مولویوں کو اس میں شریک کر لیا تھا اور اسی بناء پر وہ لوگ میری نسبت بدزبانی کرتے تھے اور گندی گالیاں دیتے تھے- آخر مَیں نے تنگ آ کر اسی وجہ سے مباہلہ کا اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء جاری کیا جس کی الہامی عبارت جَزاء سیّئۃِ بمثلھا میں یہ ایک پیشگوئی تھی کہ ان دونوں فریق میں سے جو فریق ظلم اور زیادتی کرنے والا ہے اس کو اسی قسم کی ذلّت پہنچے گی جس قسم کی ذلّت فریق مظلوم کی گئی- سو آج وہ پیشگوئی پوری ہو گئی کیونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے مجھے یہ ذلّت پہنچائی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ٹھہرا کر ملحد اور کافر اور دجّال قرار دیا اور مسلمانوں کو اپنی اس قسم کی تحریروں سے میری نسبت بہت اُکسایا کہ اس کو مسلمانوں اور اہل سنّت مت سمجھو کیونکہ اس کے عقائد تمہارے عقائد سے مخالف ہیں اور اب اس شخص کے رسالۂ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کے پڑھنے سے جس کو محمد حسین نے اس غرض سے انگریزی میں شائع کیا ہے کہ تا گورنمنٹ سے زمین لینے کے لئے اس کو ایک ذریعہ بناوے- مسلمانوں اور مولویوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ شخص خود اُن کے اجماعی عقیدہ کا مخالف ہے کیونکہ وہ اس رسالہ میں مہدی موعود کے آنے سے قطعی منکر ہے جس کی تمام مسلمانوں کو انتظار ہے جو اُن کے خیال کے موافق حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے پیدا ہو گا اور مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور نیز اُن کے مذہب کا پیشوا اور دوسرے فرقوں کے مقابل پر مذہبی لڑائیاں کرے گا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اس کی مدد اور تائید کے لئے آسمان سے اُتریں گے اور اُن دونوں کا ایک ہی مقصد ہو گا اور وہ یہ کہ تلوار سے دین کو پھیلاویں گے اور اب مولوی محمد حسین نے ایسے مہدی کے آنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اس انکار سے نہ صرف وہ مہدی کے وجود کا منکر ہوا بلکہ ایسے مسیح سے بھی انکار کرنا پڑا جو اس مہدی کی تائید کے لئے آسمان سے اُترے گا اور دونوں باہم مل کر مخالفین اسلام سے لڑائیاں کریں گے اور یہ وہی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے محمد حسین نے مجھے دجّال اور ملحد ٹھہرایا تھا اور اب تک مسلمانوں کو یہی دھوکہ دے رہا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں اُن سے اتفاق رکھتا ہے اور اب یہ پردہ کھل گیا کہ وہ دراصل میرے عقیدہ سے اتفاق رکھتا ہے- یعنی ایسے مہدی اور ایسے مسیح کے وجود سے انکار ی ہے اس لئے مسلمانوں کی نظر میں اور اُن کے تمام علماء کی نظر میں ملحد اور دجّال ہو گیا- سو آج پیشگوئی جَزاء سیّئۃِ بمثلھا اس پر پوری ہو گئی- کیونکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ فریق ظالم کو اسی بدی کی مانند سزا ہو گی جو اس نے اپنے فعل سے فریق مظلوم کو پہنچائی-
رہی یہ بات کہ اس نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا- سو خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں- ابھی سُلطانِ رُوم کے ذکر میں اس نے میرے پر حملہ کر کے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۳ جلد ۱۸ میں ایک خطرناک اور باغیانہ مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’سلطان روم کو خلیفہ برحق سمجھنا چاہئیے اور اس کو دینی پیشوا مان لینا چاہئیے اور اس مضمون میں میرے کافر ٹھہرانے کے لئے یہ ایک وجہ پیش کرتا ہے کہ یہ شخص سلطانِ روم کے خلیفہ ہونے کا قائل نہیں ہے-‘‘ سو اگرچہ یہ درست ہے کہ مَیں سلطان رُوم کو اسلامی شرائط کے طریق سے خلیفہ نہیں مانتا کیونکہ وہ قریش میں سے نہیں ہے اور ایسے خلیفوں کا قریش میں سے ہونا ضروری ہے- لیکن یہ میرا قول اسلامی تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ حدیث الائمہ من قریش سے سراسر مطابق ہے- مگر افسوس کہ محمد حسین نے باغیانہ طرز کا بیان کر کے پھر اسلام کی تعلیم کو بھی چھوڑا- حالانکہ پہلے خود بھی یہی کہتا تھا کہ سلطان خلیفہ مسلمین نہیں ہے اور نہ ہمارا دینی پیشوا ہے اور اب میری عداوت سے سلطان روم اس کا خلیفہ اور دینی پیشوا بن گیا اور اس جوش میں اُس نے انگریزی سلطنت کا بھی کچھ پاس نہ کیا اور جو کچھ دل میں پوشیدہ تھا وہ ظاہر کر دیا اور سلطان روم کی خلافت کے مُنکر کو کافر ٹھہرایا اور یہ تمام جوش اس کو اس لئے پیدا ہوا کہ مَیں نے انگریزی سلطنت کی تعریف کی اور یہ کہا کہ یہ گورنمنٹ نہ محض مسلمانوں کی دُنیا کے لئے بلکہ ان کے دین کے لئے بھی حامی ہے- اب وہ بغاوت پھیلانے کے لئے اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی دینی حمایت انگریزوں کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین کا حامی فقط سلطان رُوم ہے مگر یہ سراسر خیانت ہے- اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی محافظ نہیں تو پھر کیونکہ شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں- کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سُننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے - کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کر سکے- اب محمد حسین ہمیں جواب دے کہ اس وقت سلطان روم کہاں تھا اور اس نے ہماری اس مصیبت کے وقت ہماری کیا مدد کی تھی؟ پھر وہ ہمارا دینی پیشوا اور خدا کا سچا خلیفہ کیونکر ہوا- آخر انگریز ہی تھے جنہوں نے ہم پر یہ احسان کیا کہ پنجاب میں آتے ہی یہ ساری روکیں اُٹھادیں- ہماری مسجدیں آباد ہو گئیں- ہمارے مدرسے کھل گئے اور عام طور ہمارے وعظ ہونے لگے اور ہزار ہا غیر قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے- پس اگر ہم محمد حسین کی طرح یہ اعتقاد رکھیں کہ ہم صرف پولیٹیکل طور پر اور ظاہری مصلحت کے لحاظ سے یعنی منافقانہ طور پر انگریزوں کے مطیع ہیں ورنہ دل ہمارے سلطان کے ساتھ ہیں وہ خلیفہ اسلام اور دینی پیشوا ہے- اس کے خلیفہ ہونے کے انکار سے اور اس کی نافرمانی سے انسان کافر ہو جاتا ہے تو اس اعتقاد سے بلاشبہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے چھپے باغی اور خدا تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے- تعجب ہے کہ گورنمنٹ ان باتوں کی تہہ تک کیوں نہیں پہنچتی اور ایسے منافق پر کیوں اعتبار کیا جاتا ہے کہ جو گورنمنٹ کو کچھ کہتا ہے اور مسلمانوں کے کانوں میں کچھ پھونکتا ہے- مَیں گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ غور سے اس شخص کے حالات پر نظر کرے کہ یہ کیسے منافقانہ طریقوں پر چل رہا ہے اور جن باغیانہ خیالات میں آپ مبتلا ہے وہ میری طرف منسوب کرتا ہے-
بالآخر یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ جس قدراس شخص نے مجھے گالیاں دیں اور محمد بخش جعفر زٹلی سے دلائیں اور طرح طرح کے افتراء سے میر ی ذلّت کی اس میں میری فریاد جناب الہٰی میں ہے جو دلوں کے خیالات کو جانتا ہے اور جس کے ہاتھ میں ایک کا انصاف ہے- مَیں یہی چاہتا ہوں کہ جس قسم کی ذلّت جھوٹے بہتانوں سے اس شخص نے کی یہاں تک کہ گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں مجھے باغی ٹھہرانے کے لئے خلاف واقعہ باتیں بیان کیں وہی ذلّت اس کو پیش آوے- میرا ہر گز یہ مدّعا نہیں ہے کہ بجز طریق جزاء سیّۃ بمثلھا کے کسی اور ذلّت میں یہ مبتلا ہو بلکہ مَیں اُن تہمتوں سے پاک ہوں تو وہ ذلتیں اس کو پیش آویں- اگر چہ میں جانتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بہت حلیم اورحتی المقدور چشم پوشی کرنے والی ہے- لیکن اگر میں بقول محمد حسین باغی ہوں یا جیسا کہ میں نے معلوم کیا ہے کہ خود محمد حسین کے ہی باغیانہ خیالات ہیں تو گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کامل تحقیقات کر کے جو شخص ہم دونوں میں سے تحقیقات مجرم ہے اس کو قرار واقعی سزا دے تا مُلک میں ایسی بدی پھیلنے نہ پاوے- حفظ امن کے لئے نہایت سہل طریق یہی ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے نامی مولویوں سے دریافت کیا جائے- کہ یہ شخص جو اُن کا سر گروہ اور ایڈووکیٹ کہلاتا ہے اس کے کیا اعتقاد ہیں؟ اور کیا جو کچھ گورنمنٹ کو اپنے اعتقاد بتلاتا ہے- اپنے گروہ کے مولویوں پر بھی ؓظاہر کرتا ہے؟ کیونکہ ضرور ہے کہ جن مولویوں کا یہ گروہ اور ایڈووکیٹ ہے ان کے اعتماد بھی یہی ہوں جو سر گروہ کے ہیں-
بالآخر ایک اَور ضروری امر گورنمنٹ کی توجہ کے لئے یہ ہے کہ محمد حسین نے اپنی اشالۃ السّنہ جلد ۱۸ ۳ صفحہ ۹۵ میری نسبت اپنے گروہ کو اُکسایا ہے کہ یہ شخص واجب القتل ہے - پس جبکہ ایک قوم کا سرگروہ میری نسبت واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیتا ہے تو مجھے گورنمنٹ حالیہ کے انصاف سے امید ہے کہ جو کچھ ایسے شخص کی نسبت قانونی سلوک ہونا چاہیے وہ بلا توقف ظہور میں آوے- تا اس کے معتقد ثواب حاصل کرنے کے لئے اقدام قتل کے منصوبے نہ کریں - فقط
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام احمد قادیان تعداد ۷۰۰
مطبوعہ ضیاء اسلام قادیان
(یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸ کے ۴ صفحوں پر ہے )
(۱۹۵)
نہایت ضروری عرضہ اشت قابل توجہ گورنمنٹ
چونکہ ہماری گورنمنٹ برطانیہ اپنی رعایا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے اور اس کی شفقت اور رحمت ہر ایک قوم کے شامل گال ہے لہذا ہمارا حق ہے کہ ہم ہر ایک درد دُکھ اس کے سامنے بیان کریں اور اپنی تکالیف کی چارہ جوئی اس سے ڈھونڈیںسو اِن دنوں میں بہت تکلیف جو ہمیں پیش آئی وہ یہ ہے کہ پادری صاحبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر یاک طرح سے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بے ادبی کریں گالیاں نکالیں بیجا تہمتیں گاویں اور ہر ایک طور سے توہین کر کے ہمیں دُکھ دیں اور ہم اُن کے مقابل پر بالکل زبان بند رکھیں اور ہمیں اس قدر بھی اختیار نہ رہے کہ اُن کے حملوں کے جواب میں کچھ بولیں- لہذا وہ ہماری ہر ایک تقدیر کو گو کیسی ہی نرم ہو سختی پر حمل کر کے حکّام تک شکایت پہنچاتے ہیں حالانکہ ہزار ہا درجہ بڑھ کر ان کی طرف سے سختی ہوتی ہے-
ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ کا سچّا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں لیکن پادری صاحبان چونکہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے جو چاہتے ہیں مُنہ پر لاتے ہیں- یہ ہمارا حق تھا کہ ہم اُن کے دل آزار کلمات کی اپنی گورنمنٹ عالیہ میں شکایت پیش کرتے اور دادرسی چاہتے- لیکن انہوں نے اوّل تو خود ہی ہزاروں سخت کلمات سے ہمارے دلوں کو دُکھایا اور پھر ہم پر ہی اُلٹی عدالت میں شکایت کی کہ گویا سخت کلمات اور توہین ہماری طرف سے ہے اور اسی بناء پر وہ خون کا مقدمہ اُٹھایا گیا تھا جو ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے محکمہ سے خارج ہو چکا ہے-
اس لئے قرین مصلحت ہے کہ ہم اپنی عادل گورنمنٹ کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جس قدر سختی اور دل آزاری پادری صاحبوں کی قلم اور زبان سے اور پھر اُن کی تقلید اور پیروی سے آریہ صاحبوں کی طرف سے ہمیں پہنچ رہی ہے ہمارے پاس الفاظ نہیں جو ہم بیان کر سکیں-
یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنے مقتدا اور پیغمبر کی نسبت اس قدر بھی سُننا نہین چاہتا کہ وہ جھوٹا اورمفتری ہے اور ایک باغیرت مسلمان بار بار کی توہین کو سن کر اپنی زندگی کوے بے شرمی کی زندگی خیال کرتاہے تو پھر کیونکر کوئی ایماندار اپنے ہادی پاک بنی کی نسبت سخت سخت گالیاں سُن سکتا ہے - بہت سے پادری اس وقت برٹش انڈیا میں ایسے ہیں جن کا دن رات پیشہ ہی یہ ہے کہ ہمارے نبی اورہمارے سیّد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے رہیں- سب گالیاں دینے میں پادری عمادالدین امرت سری کا نمبر بڑھا ہوا ہے- وہ اپنی کتابوں تحقیق الایمان وغیرہ میں کھلی کھلی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور دغا بازی پرائمی عورتوں کو لینے والا وغیرہ وغیرہ قرار دیتا ہے اور نہایت سخت اور اشتعال دینے والے لفظ استعمال کرتا ہے- ایسا ہی پادری ٹھا کر داس سیرۃ المسیح اور ریویو براہین احمدیہ میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا نام شہوت کا مطیع اور غیر عورتوں کا عاش، فریبی ، لیٹرا، مکّار ،جاہل، حیلہ باز، دھوکہ باز رکھتا ہے اور رسالہ دافع البہتان میں پادری انکلین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے ہیں- شہوت پرست تھا- محمد کے اصحاب زناکار، دغاباز، چورتھے- اور ایسا ہی تفتیش الاسلام میں پادری راجرس لکھتا ہے کہ محمد شہتوت پرست نفس اتارہ کا از حد مطیع عشق باز- مکّار گہنگار، عاشق حرام ازنا کا مرتکب مکّار ، ریا کار تھا- اور رسالہ مسیح الدجال میں ماسٹر رامچند ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتا ہے کہ محمد سرغنہ ڈکیتی تھا- اور لیٹرا ، ڈاکو، فریبی، عشقباز ، مفتری ، شہوت پرست، خوزیز، زانی اور کتاب سوانح عمری محمد صاحب مصنّفہ واشنگٹن اردنگ صاحب میں لکھا ہے کہ محمد کے اصحاب قزاّق اور لیٹرے تھے اور وہ خود طابع ، جھوٹا ، دھوکہ باز تھا- اور اندرونہ بائبل مصنفّہ آتھم عیسائی میں لکھا ہے کہ محمد دجّال تھا اور دھوکہ باز - اورپھر کہتا ہے کہ محمدیوں کا خاتمہ بڑاخوفناک ہے- یعنی جلد تبارہ ہو جائیں گے- اور پرچہ نور افشاں لُدھیانہ میں لکھا ہے کہ محمد کو شیطانی وحی ہوتی تھی- اور ناجائز حرکات کرتا تھا اور نفسانی آدمی گمراہ، مکّار فریبی، زانی ، چور، خونریز، لٹیرا، رہزن رفیق شیطان اور اپنی بیٹی فاطمہ کو نظر شہوت سے دیکھنے والا تھا-
اب یہ تمام الفاظ غور کرنے کے لائق ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں پادری صاحبوں کے مُنہ سے نکلے ہیں- اور سوچنے کے لایق ہے کہ ان کے کیا کیا نتائج ہو سکتے ہیں -کیا اس قسم کے الفاظ کبھی کسی مسلمان کے مُنہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت نکل سکتے یہں کیا دُنیا میں ان سے سخت الفاظ ممکن ہیں جو پادری صاحبوں نے اس پاک نبی کے حق میں استعمال کئے ہیں جس کی راہ میں کڑور ہا خدا کے بندے فدا شدہ ہیں اور وہ اس نبی سے سچّی محبت رکھتے ہیں جس کی نظیر دوسری قوموں میں تلاش کرنا سخت لاحاصل ہے پھر باوجود ان گستاخیوں ان بد زبانیوں اور ان ناپاک کلمات کے پادری صاحبان ہم پر الزام سخت گوئی کا رکھتے ہیں- یہ کس قدر ظُلم ہے- ہم یقینا جانتے ہیں کہ ہر گز ممکن نہیں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ ان کے اس طریق کو پسند کرتی ہو یا خبر پا کر پسند کرے اور نہ ہم باور کر سکتے ہیں کہ آئندہ پادریوں کے کسی ایسے بیجا جوش کے وقت کہ جو کلارک کے مقدمہ میں ظہور میں آیا- ہماری گورنمنٹ پادریوں کو ہندوستان کے چھ کڑور مسلمانوں پر ترجیع سے کوئی رعایت ان کی کرے گی- اس وقت جو ہمیں پادریوں اور آریوں کی بد زبانی پر ایک لمبی فہرست دینی پڑی و ہ صرف اس غرض سے ہے کہ تا آیندہ وہ فہرست کام آئے اور کسی گورنمنٹ عالیہ اس فہرست پر نظر ڈال کر اسلام کی ستم رسیدہ رعایا کو رحم کی نظر سے دیکھے-
اور ہم مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی اب تک خبر نہیں ہے کہ کیونکہ پادریوں کی بد زبانی نہایت تک پہنچ گئی ہے اور ہم دلی یقین سے جانتے ہیں کہ جس وقت گورنمنت عالیہ کو ایسی سخت زبانی کی خبر ہوئی تو وہ ضرور آیندہ کے لئے کوئی احسن انتظام کرے گی-
نوٹ از مرتب ہذا
( یہ عرضد اشت کتاب البریّہ مطبوعہ بار اوّل کے صفحہ ۹۳ پر درج ہے اس کے آگے صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۲۴ تک مخالفین اسلام و سلسلہ کی گالیوں کی فہرست نقل کی گئی ہے جس کو چھوڑ دیا ہے اور اگلا اعلان بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے)
(۱۹۶)
بیس ہزار روپیہ تاوان
ان لوگوں نے اس عقیدہ کو اختیار کرنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام زندہ آسمان پر چلے گئے اور وہاں قریباً اُنیس سو برس سے زندہ بحبم عنصری موجود یں اور پھر کسی وقت پر واپس آئیں گے- قرآن شریف کی چار جگہ مخالفت کی ہے- اوّل یہ کہ قرآن شریف صریح لفظوں مین حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی وفات ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ بیان ہوا- اور یکہ لوگ اُن کے زندہ ہونے کے قائل ہیں- دوسرے یہ کہ قرآن شریف صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کوئی انسان بجز زمین کے کسی اور جگہ زندہ نہیں سکتا جیسا کہ وہ فرماتا ہے فیھا تحیون و فیھا تمر تون و منھا تخرجون یعنی تم زمین میںہی زندہ رہو گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جائو گے- مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ نہیں اس زمین اور کرہ ہوا سے باہر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے - جیسا کہ اب تک جو قریباً انیسویں صدی گذرتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان پر زندہ ہیں ‘‘ حالانکہ زمین پر جو قرآن کے رو سے انسانوں کے زندہ رہنے کی جگہ ہے - باوجود زندگی کے قائم رکھنے کے سامانوں کے کوئی شخص اُنیس سو برس تک ابتداء سے آج تک کبھی زندہ نہیں رہا تو پھر آسمان پر اُنیس سو برس تک زندگی بسر کرنا باوجود اس امر کے کہ قرآن کی رُو سے ایک قدر قلیل بھی بغیر زمین کے انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا- کس قدر خلاف نصوص صریح قرآن ہے جس پر ہمارے مخالف ناحق اصرار کر رہے ہیں تیسرے یہ کہ قرآن شریف صاحب فرماتا ہے کہ کسی انسان کا آسمانن پر چڑھ جانا عادۃ اللہ کے مخالف ہے- جیسا کہ مرما تا ہے کہ قل سبحان ربیّ ھَل کنت اِلّا بشراً رسولاً- لیکن ہمارے مخالف حضرت عیسیٰ ؑ کو ان کے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھاتے ہیں چوتھے یہ کہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں مگر ہمارے مخالف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خاتم انبیاء ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو صحیح مسلم وغیرہ میں آنے والے مسیح کو نبی اللہ کا نام سے یاد کیا ہے وہاں حقیقی نبوت مراد ہے - اب ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی نبوت کے ساتھ دُنیا میں آئے تو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم انبیاء ٹھہر سکتے ہیں؟ نبی ہونے کی حالت میں حضرت عیسٰیؑ نبوت کے لوازم سے کیونکر محروم رہ سکتے ہیں-
غرض ان لوگوں نے یہ عقیدیہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت کی ہے اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں- اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں- صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں- چنانچہ ہمارے ملک کا بھی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی واردشہر کو پوچھا کرتے یں کہ آپ کہاں اُترے ہیں- اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اُترا ہے- اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پائو گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میںزمین کی طرف واپس لائیں گے- اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے یں اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کو جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا جس طرح چاہیں تسلّی کر لیں-
افسوس ہے کہ ہمارے سادہ لوح علماء صرف نزول کا لفظ احادیث میں دیکھ کر اس بلا میں گرفتار ہو گئے ہیں کہ خواہ نخواہ امیدیں باندھ رہے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان سے واپس آئیں گے اور وہ دن ایک بڑے تماشے اور نظارہ کا دن ہو گا کہ اُن ک دائیں بائیںفرشتے ساتھ ساتھ ہوں گے جو اُن کو آسمان سوے اُٹھا کر لائیں گے- افسوس کہ یہ لوگ کتابیں تو پڑھتے ہیں - مگر آنکھ بند کر کے فرشتے تو اہر ایک انسان کے ساتھ رہتے ہیںاور بموجب حدیث صحیح ک طالب لعلموں پر اپنے پروں کا سایہ ڈالتے ہیں اگر مسیح کو فرشتے اُٹھائیں تو کیوں نرالے طور پر اس بات کو مانا جائے- قرآن شریف سے تو یہ ثابت ہے کہ ہر ایک شخص کو خداتعالیٰ اُٹھائے پھرتا ہے حملنا فی البر و البحر مگر کیا خدا کسی کو نظر آتا ہے؟ یہ سب استعارات ہیں مگر ایک بیوقوف فرقہ چاہتا ہے کہ اُن کو حقیقت کے رنگ میں دیکھیں اور اس طرح پر ناحق مخالفوں کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر حدیثوں کا مقصد ہ تھا کہ وہی مسیح جو آسمان پر گیا تھا واپس آئے گا تو اس صورت میں نزول کا لفظ بولنا بے محل تھا- ایسے موقعہ پر یعنی جہاں کسی کا واپس آنا بیان کیا جاتا ہے - عرب کے فصیح لوگ ر جوع بولا کرتے ہیں نہ نزول - پھر پھر کیونکہ ایسا غیر فصیح اور بے محل لفظ اس افصح الفحاء اور اطراف الناس صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح منسوب کیا جائے جو تمام فصحاء کا سردار ہے-
( یہ اعلان کتاب البریّہ کے حاشیہ صفحہ ۱۸۹ تا ۱۹۳ پر درج ہے)
(۱۸۷)
اشتہار عام اطلاع کے لیے
اگرچہ یہ کتاب بعض متفرق مقامات میں عیسائیوں کے حملولوں کا جواب دیتی اور ان کو مخاطب کرتی ہے- لیکن یاد رہے کہ باوجود اس بات کے کہ عیسائیوں کی کتاب امہات المومنین نے دلوں میں سخت اشتعال پیدا کیا ہے- مگر پھر بھی ہم نے اس کتا ب میں جہاں کہیں عیسائیوں کا ذکر آتا ہے بہت نرمی اور تہذیب اور لطف بیان سے ذکر کیا ہے- اور گو ایسی صورت میں کہ دل دکھانے والی گالیاں ہمارے پیغمبر صلے اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں- ہمارا حق تھا کہ ہم مدافعت کے طور پر سختی کا سختی سے جواب دیتے- لیکن ہم نے محض اس حیا کے تقاضا سے جو مومن کی صفت لازمی ہے ہر ایک تلخ زبانی سے اعراض کیا اور وہی امور لکھے جو موقعہ اور محل پرچسپاں تھے اور قطع نظر ان سب باتوں کے ہماری اس کتاب میں اور رسالہ فریاد درد میں وہ نیک چلن پادری اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافت ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بد گوئی سے کنارہ کرتے ہیں- اور دل کو دُکھانے والے لفظوں سے ہمیںدُکھ نہیں دیتے اور نہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور نہ اُن کی کتابیں سخت گوئی اور توہین سے بھری ہوئی ہیں- ایسے لوگوں کو بلا شبہ ہم عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ہماری کسی تقریر کے مخاطب نہیں ہیں بلکہ صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حداعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں- سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی کی کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ نے سچّا اورپاک راستباز نبی مانیں اور ان کی نبّوت پر ایمان لاویں- سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو اُن کی شانِ بزرگ کے بر خلاف ہو- اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے - والسّلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
(یہ اشتہار ایّام صلح اردو مطبع بار اوّل کے ٹائٹل پر ہے
(۱۹۸)
واپسی ٭قیمت براہین احمدیہ
قولہ براہین احمدیہ کا بقیہ نہیں چھاپتے-
اقول اس توقف کو بطور اعتراض پیش کرنا محض لغو ہے- قرآن شریف بھی باوجود کلام الٰہی ہونے کے تئیس برس میں نازل ہوا- پھر اگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے بعض مصالح کی غرض سے براہین کی تکمیل میں توقف ڈال دی تو اس میں کونسا حرج ہوا- اور اگر یہ خیال ہے کہ پیشگی خریداروں سے روپیہ لیا گیا تھا تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور ناواقفی کے باعث ہو گا- کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصّہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس روپے لئے گئے ہوں اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں- پھر باوجود اس قیمت کے جو اس حصص براہین احمدیہ کے مقابل پر جو منطبع ہو کر خریداروں کو دیئے گئے یں کچھ بہت نہیں بلکہ عین موزوں ہے- اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے- لیکن پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق کے شور و غوغا کا خیال کر کے دو مرتبہ ٭اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کر ے اوراپنی قیمت لے لے چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی- اور کئی دفعہ ہم لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعوں کی نازبرداری کرنا نہیں چاہتے اور ہر وقت قیمت واپس کرنے کے لئے طیار ہیں- چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خد ا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی- مگر پھر بھی اب مجدداً ہم یہ چند سطور بطور اشتہار لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی ایسا خریدار چھپا ہوا موجود ہے کہ جو غائبانہ براہین کی توقف کی شکایت رکھتا ہے تو وہ فی الفور ہماری کتابیں بھیج دے ہم اس کی قیمت جو کچھ اس کی تحریر سے ثابت ہو گی اس کی طرف روانہ کر دیں گے اور اگر کوئی باوجود ہمارے ان اشتہارات کے اب اعتراض کرنے سے باز نہ آوے تو اس کا حساب خد اتعالیٰ کے پاس ہے - اور شہزادہ صاحب یہ تو جواب دیں کہ انہوں نے کونسی کتاب ہم سے خریدی اور ہم نے اب تک وہ کتاب پوری نہ دی اور نہ قیمت واپس کی - یہ کس قدر نا خدا ترسی ہے کہ بعض پُر کینہ مُلّانوں کی زبانی بے تحقیق اس بات کو سُننا اور پحر اس کو بطور اعتراض پیش کر دین٭
الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان
( یہ اشتہار ایام الصلح اردو طبع اوّل کے صفحہ ۱۷۳ پر درج ہے)
*** اللہ علیٰ من اعراض عن ھٰزا و ابی و رحمۃ اللّٰہ علیٰ من قبل داتی
مولوی محمد حسین بٹالوی پر آخری حجت پر
یعنے
دو ہزار پانچسو پچیس روپیہ آٹھ آنہ کا انعام
یہ امربوضاحت بیان ہو چکا ہے کہ میاں محمد حسین بٹالوی ہی جناب حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعوؑد کی تکفیر کا اصل محرک اور بانی ہوا اور باقی تمام مکفریرین نے اُس کی یا اس کے استاد میاں نذیر حسین دہلوی کی پیروی کی ہے - اس لئے اسی کو اس درخواست مباہلہ میں مخاطب کیا گیا ہے چونکہ اس نے حضرت اقدس مرزا صاحبؑ سلمہ ربہ کی تکفیر اور تکذیب پر حد سے زیادہ زور مارا ہے- اور باوجودیہ کہ وہ اپنی ناکامیوں اور حضرت اقدس کی کامیابیوں کو بار ہا دیکھ چکا اور بہت سے نشانات بھی ملا حظہ کر چکا ہے مگر اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا - اس لئے اس کو مباہلہ کی دعوت کی جاتی ہے جو آسمانی اورخدائی فیصلہ ہے- یہ مباہلہ بدوں کو کسی قسم کی شرط کے ہو گا اور اگر ایک سال کے اندر نتیجہ مباہلہ ہمارے حق میں نہ ہوا- اور ایک اثر قابل اطمینان ہماری تائید میں ظہور میں نہ آیا تو رقم مندرجہ بالا جو پہلے سے جمع کرا دی جائیگی ان کو بطور نشان کامیابی ان صاحبوں کی طر ف سے دی جاوے گی جنہوں نے وہ مقرر کی ہے
لہذا اب ہم پنجاب کے ان معّززین کو جو میاں محمد حسین کو جانتے ہیں اور اُن سر بر آورہ حضرات کو جن کی شیخ صاحب سے آشنائی ہے اور اُن خدا ترس لوگوںکو جو اسلام میں تفرقہ اور قتنہ پسند نہیں کرتے مخاطب کر کے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ خلق اللہ پر رحم کریں اور ان کو پریشانی اور گھبراہٹ میں نہ رہنے دیں اور میاں محمد حسین صاحب کو مباہلہ پر آمادہ کریں تاکہ یہ آئے دن کا جھگڑا ایک سال کے اندر طے ہو جاوے یا کسی شدید عذاب میں مبتلاء ہ وکر صداقت پر مُہر کر دے- اس پر بھی اگر میاں محمد حسین انکار کریں اور مباہلہ کے لئے مرد میدان ہو کر نہ نکلیں تو پھر
اے آسمان گواہ رہ اور اے زمین سُن رکھ
کہ حجّت پُوری کر دی گئی- اور ہم تمام اہل اسلام کی خدمت میں نہایت ادب سے التماس کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اب بھی میاں محمد حسین صاحب فیصلہ کی سیدھی راہ پر نہیں آئیں تو پھر آپ خود انصاف کر لیں کہ سچ کس کے ساتھ ہے اور آیندہ اپنی زندگی کے چند عارضی اور بے بنیاد دنوں کے لئے اس سلسلہ سے فائدہ اُٹھائیں جس کو خد اتعالیٰ نے محض تمہارے ہی رُوحانی فائدہ کے لئے قائم کیا ہے -
بالآ خر ہم پھر میاں محمد حسین صاب کو اطلاع دیتے ہیں کہ بدوں کسی قسم کی شرط کے عالی جناب مرزا غلام احمد صاحب ادام اللہ فیوضہم آپ سے مباہلہ کرنے کے لئے طیار ہیں اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور یوم الجزاء پر ایمان ہے اور مرزا صاحب کی تکفیر و تکذیب میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو تو پھر آئو اور مرد میدان بن کر مباہلہ کر لو-
ضروری یاداشت
۱- میاں محمد حسین بٹالوی کو اختیار ہو گا کہ اخیر نومبر ۱۸۹۸ء تک کسی وقت منظوری مباہلہ کی درخواست مطبوعہ یا تحریری بصیغہ رجسٹری ہمارے پاس بھیجدیں-
۲- ان کی درخواست کے موصول ہونے بعد تین ہفتہ کے اندر کل روپیہ انجمن حمایت اسلام لاہور یا اگر وہ چاہیں تو بنگال بنک میں جمع کرادیا جاوے گا-
۳- روپیہ جمع کرا دینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر تاریخ مقرر ہو کر بمقام بٹالہ بلا کسی قسم کی شرط کے مباہلہ ہو جاوے گا-
مباہلہ میں میاں محمد حسین کے کامیاب ہونے پر انعام دینے والوں کی فہرست
شیخ یعقوب علی (تراب) ایڈیٹر الحکم قادیان
(۱۹۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک پیشگوئی کا پُورا ہونا اشتہار قابل توجہ
گورنمنٹ
اس میں یہ بیان ہے کہ پیشگوئی مندرجہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جزاء سیئۃ بمثلھا و تر ھتھم ذلّہ آج پوری ہو گئی- اس پیشگوئی کا حاصل مطلب یہی تھا کہ فریق مظلوم کو جس قسم کی ذلّت پہنچائی ہے اس قسم کی ذلّت فریق طالم کو پہنچے گی کوئی اس کو روک نہیں سکتا- سو وہ ذلّت فریق ظالم کو پہنچ گئی-
آج میں اس خدائے قادر قدّوس کے ہزار ہزار شکر کے بعد جو مظلوموں کی فریاد کو پہنچتا اور سچائی کی حمایت کرتا اور اپنے پاک کلمات کو پورے کرتا ہے، عام مسلمانوں اور دوسرے لوگوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ جو مَیں نے مولوی صاحب محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعتہ السُّنہ کے مقابل پر اس کی بہت گالیوں اور بہتانوں اور دجّال کذّاب کافر کہنے کے بعد اور اُس کی اس پلید گندہ زبانی کے بعد جو اس نے خود اور اپنے دوست محمد بخش جعفر زٹلی وغیرہ کے ذریعہ سے میری نسبت کی تھی ایک اشتہار بطور مباہلہ ۱۲نومبر ۱۸۹۸ء کو لکھا تھا اور اس میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا کہ جزاء سیعۃ بمثلھا و ترھتھم ذلہ یعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو مدی پہنچائی گئی ہے اسی قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی- سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پُوری ہو گئی کیونکہ مولوی محمد حسین نے بد زبانی سے میری ذلّت کی تھی اور میرا نام کافر اور دجّال اور کذّاب اور ملحدر رکھا تھا اوریہی فتویٰ کفر وغیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا اور اسی بناء پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور کود اس کے لکھواانے سے محمد بخش جعفر زٹلی لاہور وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوںپر لگائے - سو اب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین اور اُستاد نذیر حسین کی نسبت دے دیا یعنی یہ کہ وہ کذّاب اور دجّال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سُنت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے اس فتوے کا باعث یہ ہوا کہ محمد حسین مذکور نے تمام علماء پر اپنا عقیدہ یہ ظاہر کر رکھا تھا کہ وہ ان کی طرح اُس مہدی موعود کا منتظر ہے جو بنی فاطمہ میں سے خلیفہ ہو گا اور کافروں سے لڑے گا اور مسیح موعود اس کی مدد کے لئے اور اس کی خونریزی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے آسمان سے اُترے گا اور اُس نے علماء کو یہ بھی کہا تھا کہ پہلے میں نے غلطی سے ایسا خیال کیا تھا کہ مہدیؑ کے آنے کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں مگر مَیںنے اب اس قول سے رجوع کر لیا ہے اور اب مَیں نے پختہ اعتقاد سے جانتا ہوں کہ ایسا مہدی ضرور آئے گا اور عیسائیوں اور دوسرے کافروں سے لڑے گا اور اس کی تائید کے لئے عیسٰی علیہ السّلام آسمان سے اُتریں گے تا دونو مل کر کافروں کو مسلمان کریں یا مار ڈالیں-‘‘ یہ اعتقاد اس وقت محمد حسین نے مولویوں میں جوش پھیلانے کے لئے ظاہر کیا تھا جبکہ اس نے میرے کافر ٹھہرانے کے لئے ایک فتویٰ لکھا تھا اور بیان کیا تھا کہ یہ شخص مہدی موعود کے آنے سے اور اس کی لڑائیوں سے منکر ہے لیکن جب ان دنوں میں محمد حسین کو گورنمنٹ سے زمین لینے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے پوشیدہ طور پر ۱۴ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو انگریزی میں ایک فہرست شائع کی جس میں اس نے گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا ہے کہ مَیں اس مہدی موعود کی نہیں مانتا جس کے مسلمان منتظر ہیں اور وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں جس میں اس کے آنے کی خبر ہے اور اس کی بد قسمتی س اس انگریزی فہرست کی مسلمانوں کو اطلاع ہو گئی اور لوگوں نے بڑا تعجب کی کیا کہ یہ کیسا منافق ہے کہ اپنی قوم کے آگے مہدی موعود کے آنے کے بارے میں اپنا اعتقاد ظاہر تا ہے اور گورنمنٹ کو یہ سُناتا ہے کہ مَیں اس اعتقاد کا مخالف ہوں - تب مَیں نے اس کے بارے میں استفادہ لکھا اور فتویٰ لینے کے لئے پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کے سامنے پیش کیا- تب مولویوں اور نذیر حسین اس کے اُستاد نے بھی وہ استفتاء پڑھ کر اسی طرح محمد حسین کو کافی اور دجّال ٹھیرایا تھا اور اسی طرح ذلیل کے الفاظ اس کی نسبت لکھے جیسا کہ محمد حسین نے میری نسبت لکھے تھے - سو وہ اسی طرح ذلیل کیا گیا جیسا کہ اس نے جھوٹے فتووں سے مجھے ذلیل کیا تھا-سو اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوگئی- یہ سچ ہے کہ مَیں ایسے خونی مہدی کو نہیں مانتا کہ جو تلوار سے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنا چاہے گا اور نہ ایسے مسیح کے آسمان سے اُترنے کا میں قائل ہوں جو ناطق اس خونریزی میں شریک ہوگا- اور مَیں نے دلائل قویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ ایہ اعتقاد خونی میں شریک ہو گا- اور مَیں نے دلائل قویہ سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ اعتقاد خونی مہدی اور ایسے مسیح کے آسمان سے اُترنے کا سراسر جھوٹ اور لغو اور بے اصل ہے اور قرآن اور حدیث سے سراسر مخالف ہے- اب ہر ایک سوچ سکتا ہے کہ اس منافقانہ کاروائی سے جو محمد حسین گورنمنٹ کو تو کچھ کہتا رہا- اور پوشیدہ طور پر لوگوں کو کچھ کہتا رہا- کامل درجہ پر اس کی ذلّت ہو گئی ہے اور مولویوں کی طرف سے وہ بُرے خطاب بھی اس کو مل گئے ہیں جو سراسر ظلم سے اس نے مجھے دیئے تھے- یعنی ہر ایک نے اس کو کذّاب اور دجّال کہا ہے ٭
رہا یہ امر کہ اب گورنمنٹ عالیہ اس کی نسبت کیا رائے رکھتی ہے- سو ہماری دانا گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سوچ سکتی ہے کہ ایسا منافق جس نے گورنمنٹ کے سامنے جُھوٹ بولا کہ مَیں یہ کاروائی کر رہا ہوں کہ خونی مہدی کے آنے کے خیالات لوگوں کے دل سے ہٹا دوں اور مویوں کو یہ لکھ لکھ کر دیتا رہا کہ اس اعتقاد پر پختہ رہو کہ مہدی خونی فاطمہ کی اولاد سے ضرور آئے گا- اور کہتا رہا کہ جو شخص یہ اعتقاد چھوڑتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے ایسے منافق کے قول اور فعل کا کیا اعتبار ہے اور کون سا فائدہ اس کے وجود سے گورنمنٹ کو پہنچ سکتاہے -
پھر دوسری خیانت جو اس کی ذلّت کا موجب ہے یہ ہے کہ اس نے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ مَیں سلطان روم کو خلیفہ بر حق سمجھتا کیونکہ وقریش میں سے نہیں اور پھر اپنی اشاعتہ السنہ نمبر ۵ جلد ۱۸ صفحہ ۱۴۳ سطر ۶ میں میری مخالفت کے لئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مذاہبی پیشوا اور خلیفہ برحق مان لیا ہے اور انگریزی سلطنت کی نسبت اُسی صفحہ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اُن کی اطاعت پولیٹیکل نظر سے یعنی محض منافقانہ طور پر اور مصلحت وقت کے لحاظ سے کرنی چاہیے- مگر مذہبی نظر سے یعنی دلی اخلاص صرف سلطان ہی واجب الاطاعت ہے‘‘ اس تقریر میں اس نے یہ خیانت کی ہے کہ جو مذہبی آزادی مذہبی فوائدہمیں سلطنت انگریزی سے پہنچے ہیں- ان سب کا انکار کر دیا ہے اور سرکار انگریزی کے ایک ثابت شدہ احسان کا خون کر دیا ہے اور یہ نہیں سوچا کہ سکّھوں کے وقت میں جب ہمارے تمام دینی فرائض روکے گئے تھے اور مذہبی احکام بجا لانے میں ہر وقت جان اور مال اورعزّت کا اندیشہ تھا یہاں تک کہ بلند آواز میں بانگ دینیسے مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے- اس وقت سُلطان روم کہاں تھا؟ آخرانگریز ہی تھے جو ہمارے چھوڑانے کے لئے عقاب کی طرح دُور سے آئے اور صد ہا دینی روکوں سے ہمیں آزادگی دی- یہ بڑی بد ذاتی ہو گی کہ ہم اس سے انکار کریں کہ گورنمنٹ انگریزی کے وجود سے دینی فوائد ہمیں کچھ بھی نہیں پہنچا- بلا شبہ پہنچا ہے بلکہ سُلطان روم سے زیادہ پہنچا ہے- اس گورنمنٹ کے آنے سے ہم اپنے فرائض مذہبی آزادی سے ادا کرنے لگے- ہمارے مذہبی مدسے کھُل گئے- ہمارے واعظ تسلّی سے وعظ کرنے لگے- سکھّوں کے وقت کسی ہندو کو مسلمانوں کرنے سے ……… اکثر خون ہو جاتے تھے- صد ہا مسلمان اسی وجہ سے قتل گئے گئے- اب انگریزی عمل داری کا جھنڈا ہمارے ملک نے اعلیٰ درجہ تک دینی علوم میں ترقی کی اور ہمیں اس گورنمنٹ کے آنے سے وہ دینی فائدہ پہنچا کہ سلطان روم کے کارناموں میں اس کی تلاش کرنا عبث ہے - اب کس قدر نا شکری بلکہ بد ذاتی ہوگی کہ ہم ان تمام احسانوں کو اندر ہی اندر دبا دیں اور اس شکر کا اقرار نہ کریں جو انصاف کے رو سے ہمیں کرنا لازم ہے- کیا یہ سچ ہے کہ انگریزی سلطنت سے ہمیں امن اور آزادی اور دینی فائدہ نہیں پہنچا؟ ہر گز سچ نہیں- پھر محمد حسین کا یہ قول کہ وہ یہ تمام احساناب سلطان روم کی طرف منسوب کرتا ہے کس قدر بے انصافی اور ظلم پر مبنی ہے- وہ لکھتا ہے کہ ’’ ہم لوگ انگریزوں کی اطاعت محض پولیٹیکل نظر سے کرتے ہیں ورنہ دینی حمایت ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں یہ سب سلطان کی طرف سے ہے‘‘ یہ دونو فقرے اس کے ایسے برے اور گندے اور فتنہ انگیز ہیں کہ اگر میرے مُنہ سے بھی نکلتے تو مَیں ضرور اپنے اُوپر فتویٰ دیتا کہ مَیں نے سرکار انگریزی کے بے شمار دینی احسانوں کے مقابل سخت نا شکر گزاری اور نمک ّ*** کا کلمہ استعمال کیا ہے- ان لوگوں نے اسی بناء پر مجھے کافر ٹھہرایا تھا جبکہ مَیں نے سلطان روم کے مقابل گورنمنٹ انگریزی کے احسانات کو ترجیع دی تھی جس کی نسبت سید احمد خانصاب کے سی ایس آئی نے اپنے علی گڑھ انسٹیٹوٹ گزٹ مع تہذیب الاخلاق ۲۴ جولائی ۱۸۹۷ء میں میری گوئی دی تھی-
اب خلاصہ کلام یہ کہ حیا دار آدمی کے لئے بھی کچھ تھوڑی نہیں کہ گورنمنٹ کے سامنے جھوٹ بولا اور اپنی قوم سے بھی اپنی نسبت کافر اور کذّاب اور مفتری کا فتویٰ سُنا - سو بلا شبہ وہ الہامی پیشگوئی اس پر پوری ہو گئی جس میں لکھا تھا کہ فریق ظالم اسی قسم کی ذلّت دیکھے گا جو اُس نے فریق مظلوم کی - اب ذیل میں مولویوں کا وہ فتویٰ جس میں نذیر حسین محمد حسین کا اُستاد بھی شامل ہے لکھتا ہوں اور ناظرین پر اس بات کا انصاف چھوڑتا ہوںکہ میرے الہام ۱۲ نومبر ۱۸۹۸ء کو غور سے پڑھ کر خود گواہی دیں کہ خدا تعالیٰ نے کیسے وہی الفاظ محمد حسین کی نسبت مولویوں کے مُنہ سے نکالیٰ جو محمد حسین نے میری نسبت کہے تھے اور یہی معنے اس الہامی فقرہ کے ہیں کہ جزاء سیۃ بمثلھا- نقل فتویٰ شامل ہذاہے-
راقم خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ۳ جنوری ۱۸۹۹ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عَلیٰ رَسُولٰہ الکَرِیْم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع کہ ایک شخص مہدی موعودؑ کے آنے سے جو آخر زمانہ میں آئے گا- اور بطور ظاہر فاطمہ میںسے ہو گا- جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے - قطعاً انکار کرتا ہے اور اس جمہوری عقیدہ کو کہ جس پر تمام اہل سنت والی دلی یقین سراسر لغو و بیہوردہ سمجھتا ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کی ضلالت اورالحاد خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہل سنت میں سے اور راہِ راست پر سمجھ سکتے ہیں یا وہ کذّاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور خیال کرتا ہے کیا ہم اس کو اہل سنت میںسے اور راہِ راست پرسمجھ سکتے ہیں یا وہ کذّاب اور اجماع کا چھوڑنے والا اور ملحد اور دجّال ہے- بیّنو توجروا المر قوم ۲۹ دِسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵شعبان ۱۳۱۶ھ
السائل المعقصم باللہ الاحدمرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایّد
(۱) جو شخص عقیدہ ثابتہ مسلّمہ اہل سُنت و جماعت سے خلاف کرے تو وہ صریح اور بے شک اس آیت کریمہ کے وعید کا مستحق ہے-
قال عز من قال و من یشا قق الرسل من بعد سا تیبعین لہ الھدی و یَّتَّبِعْ غیر سبیل المومنین نو لہ ما تولی و نسلہ جھنمو ساء ت مصیرا- قال صلّی اللہ علیہ وسلم من فارق الجماعۃ قید شبر فقد خلع ر بقۃ الاسلام من عنقہ رراہ احمد و ابو داؤد - قل صلے اللّٰہ علیہ وسلم اتبعو السوادالاعظم فانہ من شَذّ شُذّ فی نار رواہ ابن ماجہ - قال صلے اللّٰہ علیہ و سلم ان اللّٰہلا یجمع امتی علیٰ ضلالۃو ید اللّٰہ علی الجماعۃ و من شَذّ شُذّ فی النار رواہ الترمذی- اورجمہور اہل سُنت اس پر متفق ہیں کہ مہدی علیہ السّلام اخیر زمانہ زمانہ میں تشریف لادیں گے اور نبی فاطمہ میں سے ہو گااور اس کے ہاتھ سے دین غالب ہو گا اور ظاہر باطنی خلافت کرے گا- و من خالف عن ذالک فقد ضل اضلل و من یضلل اللہ فما لہ من سبیل - حررہ عبد الحق الغزنوی تلمیذ مولوی عبد اللہ غزنوی
(۲)درباب مہدی معہود و نزول عیسیٰ مریم رسول اللہ و خروج دجّال اکبر احادیث متواترہ دارو اند و بریں است اجماع اہل سُنت و جماعت منکر احادیث متواترہ کافر و مخالف اہل وسنّت جو جماعت مبتدع و ضال مفصل است - فقط
عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہا ثم امرتسری
(۳) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا شخص جس کا ذکر سوال میں مندرج ہے - مبتدع اور دائرہ اہل سُنت و جماعت سے خارج ہے- کما حررہ المجیب انا عبداللہ الغنی ابو محمد زبیر غلام رسول الحنفی ابو محمد زبیر غلام رسول الحنفی القاسمی عفی عنہ- امرت سر ی ٭ مہر
(۷) یہ شخص مذکور سوال مفتری کذّاب و ضال و مضل و خارج اہلسنّت سے ہے الراقم سیّد محمد نذیر حسین دہلوی - بقلم خود
(۸) الجواب صحیح و صواب (۹) صحیح الجواب
(۱۰) جو عقیدہ خلاف اہلسنّت و الجماعت ہو وہ اہل اسلام کے نزدیک کس طرح معتبر ہو سکتا ہے- فقیر حشمت علی عفی اﷲ عنہ
(۱۱) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے اور احادیث نبوی صلعم کا منکر ہے- فقط العبد الخیف محمد وصیت علی مدرس مدرسہ حسین بخش صاحب
(۱۲) اصاب من اجاب- محمد شاہ عفا عنہ
(۱۳) جو شخص کہ احادیث صحیحہ سے اور اجماع سے انکار کرے اس کی ضلالت اور گمراہی میں کچھ شک نہیں کیونکہ سینکڑوں حدیثوں سے امام مہدی علیہ السلام کا آنا اخیر زمانہ میں ثابت ہے اور یہ شخص کذّاب اور دجّال ہے- فقط محمد یونس
مدرس مدرسہ مولوی عبدالواحد صاحب
(۱۴) الجواب صحیح - فتح محمد مدرس مدرسہ فتح پوری
(۱۵) جو شخص مہدی علیہ السلام کا انکار کرے وہ گمراہ ہے- عبدالغفور مدرس مدرسہ حسین بخش
(۱۶) جو شخص مہدی علیہ السلام کے وجود باوجود کا انکارکرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے- ایسے مغشوش الرائے یا وہ گو عبدالدنیا کے کلام کا اعتبار نہیں- ایسا شخص منکر احادیث نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے- اس کا مقام ہے- محمد عبدالغنی الہ آبادی مدرس مدرسہ فتح پوری
(۱۷) واقعی یہ شخص مخالف حدیث نبوی کے عقیدہ رکھتا ہے- ایسے شخص کا مکان بلا شک نار ہے کیونکہ یہ فعل اہل بدعت کا ہے- محمد ہدایت اﷲ عفی عنہ فلتی علاقہ کانپور مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی
(۱۸) جو شخص امام مہدی علیہ السلام کا انکار کرتا ہے- وہ گمراہ ہے اور احادیث صحاح کا منکر ہے- مثلاً ترمذی وغیرہ میں یہ حدیثیں موجود ہیں- عبداﷲ خاں بچھرایونی بقلم خود - مہر
(۱۹) الجواب الصحیح واقعی حدیث نبوی صلعم کا منکر ہے اور ایسے عقیدہ کا شخص کذاب لوگوں میں سے ہے- فقط
مولوی محمد عبدالرزاق خلف حاجی خدا بخش المتلخص ناچیز ساکن قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر
(۲۰) الجواب - اقوال و باﷲ التوفیق- معلوم ہو کہ انکار ظہور امام مہدی سے جیسے احادیث میں ہے اور سلفاً و خلفاً اہل اسلام کے نزدیک مسلم ہے صرف ضلالت اور گمراہی ہے- اور یہ انکار کسی دجّال کا کام ہے- فقط واﷲ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم
دستخط الراقم عبدالعزیز عفی عنہ لودیانوی
(۲۱) از بندہ رشید احمد عفی عنہ- بعد سلام مسنون مطالعہ فرمایند
مسیح موعود کا آنا اور مہدی کا آنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چنانچہ ابودائود میں ان الفاظ میں وارد ہوئی- لولم یبق من الدنیا الاّ یوم لطول اﷲ ذٰلک الیوم حتی یبعث رجلاً منّی او من اھل بیتی یواطیٔ اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی یملاً الارض قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً انتھیٰ- پس جو شخص اس سے منکر ہے وہ مخالف عقیدہ سنت جماعت اور خاطی ہے اس کو ہرگز متبع سنّت نہ جاننا چاہئیے- فقط- واﷲ اعلم
رشید احمد
مورخہ ۱۸؍ شعبان ۱۶ ہجری
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) ۷؍ جنوری ۱۸۹۹ء
تعداد ۴۰۰۰
(۲۰۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک پیشگوئی کا پورا ہونا
جس سے علماء پنجاب و ہندوستان دینی و اخلاقی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں
اے علماء پنجاب و ہندوستان خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم کرے- آپ کو معلوم ہو کہ اس وقت اس خدا نے جو سچائی کو پسند کرتا اور نفاق اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہے- آپ لوگوں کے لئے بڑا عمدہ موقعہ دیا ہے کہ آپ اس فتوے پر نظر کر کے جو آپ نے ۱۵؍ شعبان ۱۳۱۶ھ کے استفتاء کے پیش ہونے کے وقت دیا ہے آئندہ اس طریق کو اختیار کریں جو تقویٰ اور دیانت اور امانت کے مناسب حال ہے-
اس امر کی تفصیل یہ ہے کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنۃ جو آپ لوگوں کا سرگروہ کہلاتا ہے- کئی سال سے مجھے مہدی معہود کا منکر قرار دے کر کیسی بدگوئی اور بدزبانی کارروائی میری نسبت کر رہا ہے- یہاں تک کہ اب اس نے گالیوں اور طرح طرح کے افترائوں اور تہمتوں کو انتہا تک پہنچا دیا اور میری توہین اور ازالۂ حیثیت عرفی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا اور ایک شخص محمد بخش جعفر زٹلی نام کو کئی قسم کی طمع دے کر اس بات کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس بات کا برابر سلسلہ جاری رکھے کہ طرح طرح کے گندے اشتہار گالیوں سے بھرے ہوئے میری نسبت جاری کرے- پس بے عزتی اور توہین اور ازالہ حیثیت عرفی میں کوشش کی گئی اور اب تک برابر بلاناغہ یہ سلسلہ جاری رہا اور بار بار اشتہاروں اور خطوط کے ذریعہ سے مباہلہ کی درخواست بھی کی گئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ ناپاک کارروائی محمد حسین اور اس کے رفیقوں کی کسی فتنہ کی موجب نہ ہو اور میرے گروہ کو اس سے اشتعال پیدا نہ ہو اس لئے مَیں نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ میں میموریل بھیجنے کی صلاح دی تاکہ گورنمنٹ کی طرف سے انتظاماً اس گندی کارروائی کے انسداد کے لئے کوئی حکم جاری ہو اور اس طرح پر ایک مظلوم فرقہ اپنا انصاف پا کر خاموشی اختیار رکھے- لیکن گورنمنٹ کی طرف سے اس میموریل کا صرف اس قدر جواب آیا کہ بذریعہ اطلاعات چارہ جوئی کرنی چاہئیے اور اس جواب کا یہ نتیجہ ہوا کہ محمد حسین اور اس کے رفیق محمد بخش نے اپنی بدگویٔ کے اشتہار شائع کرنے میں اَ ور بھی ترقی کی- کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ عدالتوں میں نالش کرنا ہمارا طریق نہیں ہے- سو انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ تیزی اور گندہ زبانی سے میری نسبت گالیوں سے بھر ے ہوئے اشتہار شائع کرنے شروع کر دیئے اور اس پر جعفرزٹلی محمد حسین کی ایما سے مباہلہ پر بھی زور دیتا رہا- چنانچہ کئی اشتہار مباہلہ کے لئے بھیجے اور ہمارے دل کو بار بار دکھایا- چونکہ ان فتنہ انگیز تحریروں کے بد اثر کا اندیشہ تھا اس لئے مَیں نے ان فتنوں کے روکنے کی غرض سے یہ مصلحت سمجھی کہ مباہلہ کے طور پر نہایت نرم الفاظ میں ایک اشتہار لکھوں- سو مَیں نے ایک اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو شائع کیا- اس اشتہار کا خلاصہ مطلب صرف ایک دعا تھی یعنی یہ کہ ہم دونوں فریق میں سے جو ظالم ہے خدا اس کو ذلیل کرے- اور اس دُعا پر ایک الہام ہوا تھا جس میں ارادہ الٰہی ان الفاظ سے بتلایا گیا تھا کہ جزاء سیۃ بمثلھا و ترھقھم ذلّہ- یعنی جس فریق ظالم کی طرف سے فریق مظلوم کو کوئی بدی پہنچی ہے- کیونکہ پیشگوئی کا اصل مطلب اس شخص کو ذلّت پہنچنا تھا جو کاذب اور ظالم ہو- اور الہام الٰہی میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اسی قسم کی ذلّت اس کو پہنچے گی جو اس نے پہنچائی ہو- سو یہ الہام کامل طور پر ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو پورا ہو گیا- کیونکہ اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے بعد تاریخ مذکورہ میں محمد حسین کی یہ ایک خیانت آمیز کارروائی پکڑی گئی کہ اس نے محض دروغ گوئی کی راہ سے گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو یہ یقین دلایا کہ وہ اس مہدی کے آنے کا منکر ہے جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور وہ کافروں سے لڑے گا- اور اس بارے میں زمین کی طمع کے لئے ایک تحریر انگریزی میں ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو شائع کی اور اس میں گورنمنٹ کو اپنا یہ احسان جتلایا کہ میں مہدی کے آنے کی تمام حدیثیں غلط سمجھتا ہوں اور پہلے سے گورنمنٹ کو یہ دھوکہ بھی دے رکھا کہ مَیں اہل حدیث کا سرگروہ ہوں یعنی میرا اور ان کا ایک عقیدہ ہے اور ادھر پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کو یوں خراب کیا کہ ان کو بار بار یہی سبق دیا کہ مہدی معہود ضرور آئے گا اور وہ خلیفہ وقت اور صاحب السیف والامر ہو گا اور بار بار ان کو یہی کہتا رہا کہ میرا اور تمہارا مہدی کے بارے میں عقیدہ ایک ہے اور مَیں اس مہدی کا قائل ہوں جو تلوارکے ساتھ دین کو پھیلائے گا اور خلیفۃ المسلمین ہو گا اور اسی بناء پر اس نے میری تکفیر کے لئے استفتاء طیار کر کے شور قیامت برپا کیا- سو جب مولوی محمد حسین کا اس قسم کا رسالہ مجھے دستیاب ہوا تو اسی وقت مَیں نے بلاتوقف اسی تاریخ یعنی ۲۹؍ دسمبر ۱۸۹۸ء کو ایک استفتاء لکھا اور علماء پنجاب اور ہندوستان سے یہ فتویٰ طلب کیا کہ ایسا شخص جو مہدی کے وجود سے منکر ہے اس کے حق میں تمہارا کیا فتویٰ ہے سو نذیر حسین دہلوی اس کے اُستاد نے جیسا کہ مجھے کذاب دجّال مفتری لکھا تھا ایسا ہی بلاتوقف محمد حسین کی نسبت فتویٰ دے دیا کہ وہ کذّاب دجّال مفتری ہے اور مولوی عبدالجبار غزنوی نے اس کی نسبت یہ فتوے ٰ دیا کہ وہ کافر اور گمراہ اور ضال مضل ہے اور عبدالحق غزنوی نے اپنے فتویٰ میں اس کو جہنمی اور گمراہ ٹھہرایا اور مولوی احمد اﷲ امرتسری نے اپنے فتویٰ میں عبدالحق سے اتفاق کیا مگر اتنا زیادہ لکھا کہ ایسے گمراہ کے ساتھ میل ملاقات اور نشست برخواست جائز نہیں- لدھیانہ اور لاہور کے مولویوں نے بھی ان فتووں سے اتفاق کیا اور مولوی عبداﷲ صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور نے بڑے شدّ و مد سے حدیثوں کے حوالہ سے اس خیانت پیشہ کی خبر لی اور مولوی عبدالعزیز لدھیانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد یعقوب دہلوی اور دیگر علماء نامدار نے جیسا کہ ایسے شخص کی سزا تھی بڑی شدّ و مد سے فتوے لکھے اور تمام علماء کے فتووں کا خلاصہ یہی ہے کہ انہوں نے اس خیانت پیشہ اور مہدی معہود کے منکر کو کافر دجّال بے ایمان مفتری کذّاب جہنمی دائرہ اسلام سے خارج گمراہ ضال مضل اور ایسا ہی دوسرے الفاظ سے یاد کیا اور اس طرح پر اس پیشگوئی کو اپنے ہاتھوں سے پُورا کیا کہ جو مَیں نے اشتہار مباہلہ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی-
اب مَیں ان تمام مولوی کو جنہوں نے منکر مہدی معہود کی نسبت یہ فتوے دیا ہے یہ نیک صلاح دیتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان پر منافقانہ طریق کا کوئی دھبہ نہ لگے اور ان کی دیانت اور امانت اور تقویٰ اور دینداری میں فرق نہ آوے تو وہ بلاتوقف ایک جلسہ کر کے محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنّہ کو اس جلسہ میں بلاویں اور اس کو صاف طور پر کہہ دیں کہ آج تک تم ہم سب پر یہ اپنا اعتقاد ظاہر کرتے رہے کہ تمہارا یہی عقیدہ ہے کہ تم اس مہدی معہود کے قائل ہو جو بنی فاطمہ میں سے آئے گا اور لڑائیاں کرے گا اور دین کو پھیلائے گا اور اب تمہاری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم نے زمین لینے کی طمع سے گورنمنٹ کو یہ احسان جتلانا چاہا ہے کہ تم ان تمام حدیثوں کو جو مہدی معہود کے بارے میں آئی ہیں جھوٹی سمجھتے ہو اور تم نے صریح طور پر ایک انگریزی فہرست مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مہدی کی حدیثوں کی نسبت لفظ موضوع کہہ کر اپنا عقیدہ انکار مہدی ظاہر کر دیا ہے- اب یا تو صاف طور پر اپنا توبہ نامہ چھاپ کر شائع کرو تا گورنمنٹ عالیہ کو بھی تمہارے اندرونی حالات معلوم ہوں اور یا اس بات کو مان لو کہ تم اس ہمارے فتوے کے مستحق اور اہلحدیث کے عام عقیدہ کے مخالف اور دجّال اور کذّاب اور ملحد اور بے دین ہو-
غرض اب تمام علماء فرض ہے کہ محمد حسین سے ضرور فیصلہ کریں اور اگر وہ فیصلہ چھاپ کر شائع نہ کریں تو ان کی مولویت اور تقویٰ اور طہارت کا یہی نمونہ کافی ہے کہ وہ فتوے ٰ جس کو انہوں نے اپنی قلم سے لکھا اب محض نفسانی مصالح سے اس کے پابند رہنا نہیں چاہتے اور جس کو اپنے فتووں میں کافراور بے دین اور کذّاب اور دجّال اور مفتری قرار دیا اور اس سے کنارہ کرنے کا بھی حکم دیا- پھر اس سے مخالطت اور موانست رکھتے ہیں- یہ کس قدر بدچلنی اور بدامانتی اور ناپاکی نفس کا طریق ہو گا کہ جب مَیں نے ایسے مہدی سے انکار کیا تو مجھے کافر اور دجّال ٹھیرانے میں اب تک برابر کوششیں ہو رہی ہیں اور جب محمد حسین نے نفسانی طمع کے لئے ایسے مہدی سے انکار کیا تو اس کے ساتھ برابر میل ملاقات جاری رہے- آپ لوگ جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ مَیں منافقوں اور کافروں کو ایک ہی جگہ جمع کروں گا-
پس اب آپ لوگوں کو ڈرنا چاہئیے کہ اس فتویٰ کے بعد خاموشی اختیار کر کے منافقوں کر ذیل میں نہ آجائیں-وقال اﷲ تعالیٰ ان المنافِقِین فی الدرک الاسفل من النار- اگر ممکن ہو تو محمد حسین کا دامن اس الزام سے اسی کے صریح اقرار سے پاک کرنا چاہئیے- ورنہ بآواز بلند اپنے فتوے ٰ کی جابجا اشاعت کرنی چاہئیے- خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی کہ اب قبر میں پائوں لٹکائے ہوئے ہیں بڑے الزام کے نیچے ہیں کیونکہ انہوں نے استفتاء میں موٹی قلم سے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ ایسا شخص مفتری کذّاب اور دائرہ اہل سنت سے خارج ہے- اب چاہئیے کہ وہ اس فتوے کے بعد محمد حسین اپنے شاگرد سے پورا فیصلہ کریں- یا اس سے توبہ نامہ لیں اور شائع کریں اور یا اس کا وہ عقیدہ جو اہل حدیث کا اجماعی عقیدہ ہے اس کی قلم سے لکھوا کر شائع کرا دیں تا گورنمنٹ بھی اُس کے منافقانہ حالات سے دھوکہ میں نہ رہے- اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو تو اپنے فتوے کو اس کی نسبت عام طور پر شائع کر دیں- اور اگر ایسا نہ کریں تو پھر یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ اپنی ریش سفید کو منافقانہ سیاہی کے ساتھ قبر میں لے جاویں گے-
بالآخر ہم مردانہ طور پر اپنا اعتقاد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خیالات ان تمام مولویوں کے کہ خونی مہدی کسی وقت آنے والا ہے جو بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور وہ جبر کے ساتھ دین کو غالب کرے گا اور خلیفہ یعنی بادشاہ ہو گا بالکل لغو اور باطل اور جھوٹا عقیدہ ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا- بلکہ یہ ثابت ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی- اور غفلت پھیل جائے گی- تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق پر اور بروزی طور پر ایک شخص آئے گا جو نہ لڑے گا اور نہ خونریزی کرے گا اور نہ زمین کی بادشاہی اور خلافت ظاہری سے اس کو کچھ سروکار ہو گا- اور محض روحانی طور پر سچے دین کی دلائل اور نشانوں کے ساتھ مدد کرے گا اور نیک دل اور غریب طبع انسان اس کے ساتھ شامل ہو جاویں گے- سو یاد رکھو کہ وہ پیشگوئی تمہارے ملک میں پوری ہو گئی- اب کسی خونی مہدی کی انتظار عبث ہے- دلوں کو صاف کرو اور نفسانی جوشوں کے تابعدار مت بنو اور سچّائی کے ساتھ اور علمی طاقت کے ساتھ اور رُوحانی برکتوں کے ساتھ دین کی مدد کرو نہ یہ کہ تلوارکے زمانہ کی انتظار کرو- اس دین میں کیا خوبی ہو سکتی ہے جو اپنی ترقی میں تلوار کا محتاج ہے؟ سو یقینا سمجھو کہ اسلام تلوار کا محتاج نہیں- اسلام اُسی خدا کی طرف ہدایت کرتا ہے جو زمین و آسمان کے دیکھنے سے بھی اس کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے-
سو ایسے خیالات سے توبہ کرو اور رُوحانیت کے طالب بنو تا تمہارے دل روشن اور پاک ہوں اور تا ہر ایک قسم کا فساد اور فتنہ تم سے دُور ہو اور تا تم پاک دل ہو کر اس خدا کو دیکھ سکو جو بغیر حقیقی پاکیزگی کے نظر نہیں آ سکتا-
یہی راہ خدا کے پانے کی راہ ہے - خدا
ہر ایک کو اس کی
توفیق دے
آمین
الراقم الناصح میرزا غلام احمد از قادیان
۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء
ضمیمہ اشتہار ہذا
مورخہ ۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء
محمد حسین کی فہرست انگریزی مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کا عنوان یہ ہے-
The following is a list of articles in the Ishat- ul- Sunnah where in the illegality of rabettion or apposition to the govt and the tase nature of iehad (leascentade) is aplained.
ترجمہ:- ذیل میں فہرست اُن مضامین اشاعت السنّہ کی ہے جن میں گورنمنٹ کی مخالفت اور اس کے برخلاف بغاوت کا ناجائز ہونا اور جہاد کی اصل حقیقت کو بیان کیا ہے-
اس کے بعد شیخ محمد حسین ایک ایک دو دو سطر میں نتیجہ اور لُب لباب ان مضامین کا دیتا ہے جو اس نے مذکورہ بالا غرض کے لئے ۱۸۶۹ء سے لے کر ۱۸۹۶ء تک لکھے- ان ہی مضامین میں وہ مہدی کے متعلق مضامین کا ذکر کرتا ہے جن کا وہ لب لباب صفحہ ۵ میں اس طرح پر درج کرتا ہے -
Criticism of Traditions reqarding the mehdi and qrguments showing their inoorrectness.
ترجمہ:- ان حدیثوں پر جرح کی گئی ہے جو مہدی کے متعلق ہیں اور دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ان حدیثوں کا نا درست ہونا ثابت ہوتا ہے-
Questioning the authenticity of traditions describring the signs of the mehdi.
ترجمہ :- جن حدیثوں میں مہدی کی علامات دی گئی ہیں اُن کے غیر وضعی ہونے پر شُبہ ہے-
اس فہرست کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں صرف وہی مضمون درج کرنے مدّنظر ہیں کہ جن کے ذریعہ سے محمد حسین نے اہلِ اسلام کے دلوں سے گورنمنٹ کے برخلاف مخالفانہ اور باغیانہ خیالات کو دُور کرنا چاہا ہے- ایسی فہرست میں اپنے مضامین متعلقہ مہدی کا ذکر کرنا اور پھر اُن کا یہ لب لباب دینا کہ وہ سب احادیث جو مہدی کے متعلق ہیں وہ غلط اور نادرست اور بے اعتبار اور وضعی ہیں- اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ محمد حسین مہدی کے متعلق احادیث ماننے والوں کو گورنمنٹ کا مخالف اور باغیانہ خیال رکھنے والا سمجھتا ہے ورنہ مہدی کی حدیثوں کو غلط اور موضوع قرار دے کر ان کو اس فہرست میں درج کرنے سے اور کیا غرض ہو سکتی ہے- اس کے نزدیک مہدی پر ایمان گورنمنٹ کی نگاہ میں ایک باغیانہ خیال ہے جس کی تردید اس نے اس طرح سے کر دی ہے-
بالآخر ہم ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جیسے محمد احمد اﷲ صاحب امرتسری وغیرہ کہ جو محمد حسین کو ہماری مخالفت کر نے پر یہ سمجھتے تھے کہ اس نے انکار مہدی سے رجُوع کر لیا ہے- وہ یقین رکھیں کہ وہ اندرونی طور سے ہمیشہ مہدی کا منکر رہا ہے- ورنہ وہ آج اس فہرست میں گورنمنٹ کے آگے ان حدیثوں کا غلط ہونا ظاہر نہ کرتا- منہ
(۲۰۱)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پنجاب اور ہندوستان کے اُن مولویوں کی ایمانداری کا نمونہ جنہوں نے میری نسبت کفر کا فتویٰ دیا تھا- خاص کر مولوی نذیر حسین دہلوی استاد شیخ ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے تقویٰ اور دیانتداری کی حقیقت اور ابُو سعید محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنّہ کا گورنمنٹ عالیہ انگریزی کو صریح جھوٹ بول کر سخت دھوکہ دینا اور اُس کی اور اُس کے گروہ کی اس قابلِ شرم کارروائی سے اُس میری پیشگوئی کا پورا ہونا جو اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی-
یعنی یہ پیشگوئی کہ جزاء سئۃ بمثلھا ترھقھم ذلہ- مالھم من اﷲ من عاصم- یعنی فریق ظالم کی اُسی قسم کی ذلّت پہنچے گی جو اس نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو-
مبادا دلِ آں فرویایہ شاد
کہ از بہرِ دنیا دہد ویں بباد
اس بات سے تو ہم کو بہت خوشی ہوئی کہ مولوی نذیر حسین دہلوی اور عبد الجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی اور رشید احمد گنگوہی اور دوسرے علماء ان کے ہم مشربوں نے مولوی حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنّہ کو جس نے مہدی خونی کے آنے کی نسبت حضور گورنمنٹ عالیہ میں اپنا انکار ظاہر کیا بوجہ اس کے اس عقیدہ کے اس کو کذاب اور مفتری اور دجّال اور کافر اور دائرہ اسلام سے خارج اپنے فتووں میں لکھااور اس طرح پر اس کو ذلیل کر کے ہماری وہ پیشگوئی پوری کی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی تھی- اور نیز ان احادیث نبویہ کو بھی پورا کیا جو آخری زمانہ کے مولویوں کے بارے میں ہیں اور اپنے طریق عمل سے ان کی صحت پر گواہی دے دی- مگر اس دوسری بات کے خیال کرنے سے ہمیں رنج بھی ہوا کہ ان لوگوں کے یہ فتوے دیانت اور ایمانداری پر مبنی نہیں بلکہ یہود کے علماء کی طرح اپنی نفسانی اغراض اور تعصبات اور کینہ دری پر مبنی ہیں- چنانچہ ان لوگوں کی یہی کاروائی ان کے حالات باطنی پر کافی گواہ ہے جو ہمارے استفاء مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء میں ان سے ظہور میں آئی- ان سے یہ فتویٰ طلب کی گیا تھا کہ اس شخص کی نسبت آپ لوگ کیا فرماتے ہیں جو اس مہدی کے آنے کا منکر ہو جس کے نسبت آپ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی خلیفہ ہو گا- اور بذریعہ لڑائیوں کے دین کو غالب کرے گا تو ان مولویوں نے اپنے دلوں میں یہ خیال کر کے ایسے اعتقاد کا پابند تو یہی شخص یعنی یہ عاجز ہے محض شرارت کی راہ سے یہ تجویز کی کہ آئو اب بھی اس فتوے کے رو سے اس کو کافر اور دجّال اور مفتری قرار مرردود حدیثوں کے ردّ کرنے والے اور ایسے مہدی کے منکر ککی نسبت کافر اور دجّال اور کذّاب اور مفتری ہونے کا فتویٰ دیں جیسا کہ نذیر حسین اور عبد الجبار اور رشید احمد اور عبد الحق وغیرہ نے فتویٰ دیا- تو یہ فتویٰ محض بد دیانتی کی راہ سے ہے- لیکن محمد حسین نے جس پیمانہ سے ہمیں ناپ کر دیا تھا- خدا نے وہی پیمانہ اس کی ذلّت کے لئے اس کے آگے رکھانا الہام جزا سیئۃ بمثلھا کامل طورپر پورا ہو جائے- غرض محمد حسین کو صرف یہی سزا نہیں ملی کہ اس کے دوستوں نے ہی اس کا نام کافر اور دجّال رکھا بلکہ جس تعّدی اور زیادتی کے ساتھ میری نسبت اس نے فتوے دلائے تھے- اسی طرح فتویٰ دینے والوں نے اس کے ساتھ بھی اپنے فتووں میں تعّدی اور زیادتی کی تو دونوں پہلو سے مثل کی شرط پوری ہو جائے جو الہام جزاء سیئۃ بمثلھا میں پائی جاتی تھی-
اب ان مولویوں کے لئے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ مہدی معہود کا انکار کرنے والا کافر اور دجّال اور مفتری اور دائرہ اسلام کے خارج ہو جاتا ہے- بہتر طریق یہ ہے کہ ایک جلسہ کر کے اس جلسہ میں محمد حسین کو طلب کریں- پھر اگر وہ صاف طور پر اقرار کر ے کہ وہ بھی اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر ہے جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے پھیلائے گا تو اس کے دستخطی تحریر لے کر چھپوا دیں اور یاد رکھیں کہ وہ ہر گزایسی تحریر نہیں دے گا اگرچہ یہ لوگ اس کو ذبح کردیں کیونکہ یہ اس کے دینوی مقاصد کے بر خلاف ہے- اور اگر وہ ایسا کرے توپھر گورنمنٹ کو کیا منہ دکھاوے - ابھی تو وہ لکھ چکا ہے کہ وہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں تو پھر اب ان کو صحیح کیونکر بناوے- لہذا ممکن نہیں کہ ایسا کرے- پس اگر یہ علماء جو اس کافر اور دجّال اور مفتری ہیں لیکن ہم نہایت نیک نیتی سے گورنمنٹ عالیہ کو اس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ وہ محمد حسین کے چال چلن سے خبر دار رہے اور اس وقت تک اس کی حالت کو قابل اعتماد نہ سمجھے جب تک وہ ان مولویوں سے جو ایسے خطرناک مہدی کے آنے کے منتظر ہیں- بکلی علیحدگی اختیار نہ کرے- گورنمنٹ عالیہ سمجھ سکتی ہے کہ کیسا ان لوگوں کا خطرناک عقیدہ ہے کہ ایسے خونی مہدی کے منکر کو کافر قرار دیتے ہیں اور کذّاب اور دجّال اور مفتری کا نام رکھتے ہیں- اور مَیں گورنمنٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ محمد حسین مذکور کا یہ کہنا کہ مَیں ایسے مہدی کے آنے کا قائل نہیں اور مَیں ایسی حدیثوں کے صحیح نہیں سمجھتا بالکل منافقانہ پیرایہ میں ہے اور وہ انکا مہدی میں سراسر عنافقانہ طریق اختیار کرتا اور گورنمنٹ کو دھوکہ دیتا ہے - یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ دیکھ لے گی یہ فتویٰ جومنکر مہدی کی نسبت مولویوں نے لکھا ہے کہ یہ محمد حسین کی نسبت ہر گز جاری نہیں کیا جاوے گاکیونکہ وہ در پر فی الفور اون کو کہہ دے گا کہ مَیں اس خونی مہدی کے آنے کا قائل ہوں- اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس قدراختلاف کے ساتھ کہ وہ مہدی کے آنے سے انکاری ہو اور وہ لوگ اس کافر کو دجّال کہیں اور مفتری اور کذّاب اور جہنّمی اس کا نام رکھیں- اور پھر ان کا باہمی میل ملاقات جاری رہے بجز اس صورت کے کہ درپردہ ایک ہی اعتقاد پر متفق ہوں- وہ تو فتویٰ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ ایسے آدمی کے ساتھ کہ اس خونی مہدی کے آنے کا منتظر نہیں میل ملاقات ہر گز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہے-
غرض اب اگر اس کے بعد مولوی محمد حسین کے تعلقات ان مولویوں کے ساتھ قائم نہ رہے اور میل ملاقات سب ترک ہو گیا اور ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے تب تو اس بات کو مان لیا جائے گا کہ محمد حسین کا گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یہ ظاہر کرنا کہ مَیں اس مہدی کا آنا نہیں مانتا لیکن اگر محمد حسین مذکور کا میل ملاقات ان فتویٰ دینے والوں سے موقوف نہ ہوا- اور بدستور باہم شیر و منکر رہے تو پھر گورنمنٹ عالیہ کو قطعی اور یقینی طور پر سمجھنا چاہیے کہ ان باہمی تعلقات قائم ہیں اور یہ سب اس خونی مہدی کے منتظر ہیں-
اور عام مسلمانوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے ان مولویوں کے ایسے چال چلن پر غور کریں یہ ان کے کشتی بان کہلاتے ہیں اور سوچیں کہ کیا ایسے لوگوں کی پیروی کر کے کسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے- اب ذرا فتویٰ ہاتھ میں لے کر نذیر حسین کو پوچھیں کہ کیا ہم محمد حسین کو کذّاب دجّال، مفتری کہیں ؟ پھر عبد الجبار غزنوی کے پاس جائیں اور اس سے دریافت کریں کہ کیا آپ کے فتویٰ کے مطابق محمد حسین کو ہم کافر قرار دیں؟ اورپھر عبد الحق غزنوی کو بھی اسی جگہ مل لیں اور اس سے پوچھیں کہ کیا تمہارے فتویٰ کے رُو سے ہم محمد حسین کو جہنمی اور ناری کہا کریں- اورپھر ذرا تکلیف اُٹھا کراسی جگہ امرتسر میںمولوی احمد اللہ صاحب کے پاس جائیں اور ان سے دریافت کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کا فتویٰ عبد الحق کے فتویٰ کے مطابق ہے؟ کیا ہم آیندہ محمد حسین کو جہنّمی کہا کریں اور ہم آیندہ اس کی ملاقات چھوڑدیں-
اے مسلمانو! یقینا سمجھو کہ یہ وہی مولوی ہیں جن سے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے- تم ان کو اسی نمونہ سے شناخت کر لو گے کہ بعد اس کے جو انہوں نے شیخ محمد حسین ایڈیٹر اشاعت السنّہ کو کافر اور دجّال اور مفتری اورجہنمی قرار دیا- پھر کیا حقیقت میں اس کو ایساہی سمجھتے ہیں- یا وہ صرف دکھانے کے دانت تھے-
اب مَیں وہ ٭استفتاء جس پر ایسے شخص کے کافر اور دجّال ہونے کی نسبت مولویوں نے فتوے لکھے ہیں گورنمنٹ عالیہ کے گوش گزار کرنے کے لئے ذیل میں لکھتا ہوں تا کہ گورنمنٹ کو یاد رہے کہ یہ لوگ ان خیالات کے آدمی ہیں- فقط
الـــــــــــــــــــــــــراقم
خاکسار مرزا غلام احمدؐ از قادیان
۷ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۰۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
نقل اس ڈیفنس کی جو انگریزی میں چھاپا گیا
مَیں عدالت میں اپنی بریّت ثابت کرنے کے لئے بطور ڈیفنس یہ عریضہ لکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر تمام واقعات کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو اس الزام سے جو مجھ پر لگایا جاتا ہے میرا بری ہونا صاف طور پر کھل جائے گا-
مَیں سب سے اوّل اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے اپنے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جس سے محمد حسین یا اس کے کسی اَور شریک کی جان یا مال یا عزّت کو خطرہ میں ڈالا ہویا ڈالنے کا ارادہ کیا ہو- میرا اشتہار مباہلہ کے بعد لکھا گیا اور ایساہی دوسرا اشتہار جو ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو شایع ہوا- یہ دونوں اشتہار صاف طور پر بتلا رہے ہیں کہ اس پیشگوئی میں یعنی جو عربی الہام مندرجہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ میں ذلّت کا لفظ ہے اس سے فریق کاذب کی ذلّت مراد ہے - اور ذلّت بھی اس قسم کی ذلّت جو فریق کاذب نے دوسرے فریق کو بذریعہ اپنے کسی فعل کے پہنچائی ہو- یہ اس الہامی فقرہ کی تشریح ہے- جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے- یعنی یہ فقرہ کہ جزاء سیعۃ بمثلھا ذلہ جس کے لفظی معنے یہی ہیں کہ بدی کی سزا ذلّت ہے مگر اس ذلّت کی مانند اور مشابہ جو فریق ظالم نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو- اب اگر اس الہامی فقرہ جو ملہم کے ارادہ اور نیّت کا ایک آئینہ ہے ایک ذرہ تدبر اور فکر سے سوچا جائے تو بد یہی طور پر معلوم ہو گا کہ اس فقرہ کے اس سے بڑھ کر اور کوئی معنے نہیں کہ ظالم کو اسی قسم کی ذلّت پہنچنے والی ہے جو فی الواقعہ مظلوم کو اس کے ہاتھ سے پہنچ چکی ہے- یہ معنے امربحث طلب کو بالکل صاف کر دیتے ہیں اور ثابت کر دیتے ہیں کہ اس پیشگوئی کو کسی مجرمانہ ارادہ سے کچھ بھی لگائو نہیں- اور یہ معنے صرف اسی وقت نہیں کئے گئے، بلکہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء اور ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء اور دوسرے اشتہارارت میں جو پیش از اطلاع یابی مقدمہ شائع ہو چکے ہیں ان سب میں کامل طور پر یہی معنے کئے گئے ہیں- عدالت کا فرض ہے کہ ان سب اشتہارات کو غور سے دیکھیکیونکہ میرے پر وہی الزام آ سکتا ہے جو میری کلام سے ثابت ہوتا ہے- پھر جبکہ مَیں نے الہامی عبارت کے معنوں کی قبل از وقوعیابی اپنے اشتہارات میں بخوبی تشریح کر دی ہے - بلکہ ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں ذلّت کی ایک مثال بھی لکھ اور بار بار تشریح کر دی ہے تو پھر یہ الہام قانونی زد کے نیچے کیونکر آ سکتا ہے ہر ایک مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظالم کو یہ بد دُعا دے کہ جیساتو نے میرے ساتھ کیا خدا تیرے ساتھ بھی وہی کرے- اصول انصاف عدالت پر یہ فرض کرتا ہے کہ عدالت اس عربی الہام کے معنے غور سے دیکھے جس پر تمام مقدمہ کا مدار ہے - اگر میرے عربی الہام میں ایسا لفظ ہے جو ہر ایک ذلّت پر صادق آ سکتا ہے تو پھر بلا شُبہ مَیں قانونی الزا م کے نیچے ہوں- اگر الہام میں مثلی ذلّت کی شرط ہے تو پھر اس الہامی فقرہ کو قانون سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس صورت میں یہ بات تنقیح طلب ہوئیکہ فریق مظلوم کو کس قسم کی ذلّت ظالم سے پہنچی ہے اور فریق مخالف اس بات کر ہر گز قبول نہیں کرے گا کہ اس نے کبھی مجھ کو ایسی ذلّت پہنچائی ہے جو فوجداری قوانین کے نیچے آ سکتی ہے مگر مثلی ذلّت کے لئے جو الہام نے قرار دی ہے یہی شرط ہے کہ ظالم کی اسی قسم کی ذلّت ہو جو بذریعہ اس کے مظلوم کو پہنچی ہو- اگر یہ پیشگوئی ایسے طور سے پوری ہوتی جو وہ طور مثلی ذلّت برخلاف ہوتا تو ہر ایک کو چنانچہ یہ پیشگوئی اپنے اصل معنے کے رو سے بھی پوری ہو گئی کیونکہ محمد حسین نے مع اپنے گروہ کے جو فتویٰ کفر کا میری نسبت دیا تھا میرا نام دجّال اور کذّاب اور مفتری رکھا تھا ایسا ہی اس کی نسبت اُس کے ہم مشرب علماء نے فتویٰ دے دیا-
یعنی اس کی وجہ اس فہرست انگریزی کے نکلنے کے بعد جس میں اس نے مہدی کے آنے کی احادیث کو غلط اور نا درست لکھا ہے اس کی نسبت اسی کی قوم کے مولویوں نے صاف طور پر لکھ دیا کہ وہ کافر اور کذّاب اور دجّال ہے- سو وہ فقرہ الہامی جس میں لکھا تھا کہ ظالم کی ذلّت اسی قسم کی پہنچے گی جو اس نے مظلوم کو پہنچائی ہو اور وہ بعینہ پورا ہو گیا - کیونکہ محمد حسین اپنی منافقانہ طبیعت کی وجہ سے جس کا وہ قدیم سے عادی ہے گورنمنٹ کو یہ دھوکا دیتا رہا کہ وہ اس خطرناک اور خُونی مہدی کا منکر ہے جس کے آنے کے لئے وحشیانہ حالت کے مسلمان منتظر ہیں- مگر تمام مولویوں کو یہ کہتا رہا کہ مَیں اس مہدی کا قائل ہوں جیسا کہ تم قائل ہو- اوریہ اس کا نہایت قابل شرم تھا- جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا- اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطرناک مہدی جسکی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا- اگر وہ دل کی سچائی سے ایسے خطرناک مہدی کے آنے کا مُنکر ہوتا تو میری نظر میں اور ہر ایک منصف کی نظر میں قابل تعریف ٹھیرتا- لیکن اس نے ایسا نہ کتا اور نفاق سے کام لیا- اس لئے الہام کے مطابق اس کی ذلّت ہوئی اور جس اعتقاد کی وجہ سے قوم کی نظر میں مجھے اس نے کافر ٹھیرایا اور میرا نام دجّال او ر ملحد اور مفتری رکھا اب دہی القاب قوم کی طر ف سے اس کو بھی ملے- اور بالکل الہام کے منشاء کے موافق پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء پُوری ہو گئی کیونکہ جیسا کہ مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں پیشگوئی میں ذلّت کے لفظ کے ساتھ مثل کی شرط تھی سو اس شرط کے موافق الہام پُورا ہو گیا اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی- مَیں حکام انصاف پسندسے چاہتاہوں کہ ذرا ٹھہر کر سوچ کر اس مقام کو پڑھیں یہی وہ مقام ہے جس پر غور کرنا انصاف چاہتا ہے-
اصل جواب اسی قدر ہے جو مَیں نے عرض کر دیا- لیکن اس وقت یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے حملوں کا دفعیہ بھی جو الزام کے قوت دینے کے لئے پیش کئے گئے ہیں گزارش کر دوں - منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ عدالت میں میری نسبت یہ الزام پیش کیا گیاہے کہ گویا میری قدیم سے یہ عادت ہے کہ خود بخود کسی کی موت یا ذلّت کی پیشگوئی کیا کرتاہوں اورپھر اپنی جماعت کے ذریعہ سے پوشیدہ طور پر اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح وہ پیشگوئی پُوری ہو جائے - گویا مَیں ایک قسم کا ڈاکو یا خونی یا رہزن ہوں- اور گویا میری جماعت بھی اس قسم کے اوباش اور خطرناک قسم کے لوگ ہیں جن کا پیشہ اس قسم کے جرائم ہیں- لیکن مَیں عدالت پر ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء سے خمیر کرکیا گیا ہے نہایت بری طرح میری اور میری معزز حماعت کی ازالہ حیثیت عرفی کی گئی میں اس معزز خاندان میں سے ہوں - میرے باپ دادے ڈاکو اور خونریز نہ تھے او نہ کبھی کسی عدالت میں میرے پر کوئی جُرم ثابت ہوا-اگر ایسے بد اور ناپاک ارادہ سے جو میری نسبت بیان کیا گیا ہے ایسی پیشگوئیاں کرنا میرا پیشہ ہوتا تو اس بیس برس کے عرصہ میں جو براہین احمدیہ کی تالیت سے شروع ہوا ہے - کم سے کم دو تین سو پیشگوئی موت وغیرہ کی میری طرف سے شائع ہوتی حالانکہ اس مدّت دراز میںبجز ان دو تین پیشگوئیوں کے ایسی پیشگوئی اَور کوئی نہیں کی گئی-
مَیں عرض کر چکا ہوں کہ یہ پیشگوئیاں لیکھرام اور عبد اللہ آتھم کے بارے میں مَیں نے اپنی پیشدستی سے نہیں کیں بلکہ ان دونوں صاحبوں کے سخت اصرار کے بعد ان کی دستخطی تحریریں لینے کے بعد کی گئیں اور لیکھرام نے میری اشاعت سے پہلے خود ان پیشگوئیوں کو شائع کیا تھا اور مَیں نے بعد میں شائع کیا- چنانچہ لیکھرام کو اپنی کتاب تکذیب صفحہ ۳۳۲ میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے لیے دو ماہ تک قادیان میں ٹھہرا رہا اور اس نے پیشگوئی کے لئے اجازت دی اور اپنی دستخطی تحریر کر دیا وہ اس صفحہ میں میری نسبت یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ وہ موت کی پیشگوئی کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے جب تک اجازتے نہ ہو‘‘ اور پھر اسی صفحہ میں اپنی طرف سے اجازت کا اعلان کرتا ہے- اس کی کتاب موجود ہے- یہ مقام پڑھا جائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے میری اشاعت سے پہلے میری پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی ایک تحریر مثل مقدمہ ڈاکٹر کلارک پیشگوئی کی آپ اشاعت کر دی ہے اور لیکھرام کی خط و کتابت جو مجھ سے ہوئی اور جس اصرار سے اپنے لئے اُس نے پیشگوئی طلب کی وہ رسالہ مدت سے چھپ چُکا ہے اور قادیان کے ہندو بھی قریب دو سو کے اس بات کے گواہ ہیں کہ لیکھرام قریباً دو ماہ تک پیشگوئی کے تقاضا کے لئے پشاور سے آ کر قادیان میں رہا- مَیں کبھی اس نے پاس پشاور نہیں گیا اس کے سخت اصرار اور بد زبانی کے بعد اس کے تحریر لینے کے بعد اس کے حق میں پیشگوئی کی گئی تھی- اور یہ دونوں پیشگوئیاں چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اس لئے پوری بھی ہو گئیں- اور مجھے اس سے خوشی نہیں بلکہ رنج ہے کہ کیوں ان دونوں صاحبوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ پیشگوئی حاصل کی جس کا نتیجہ ان دونوں کی موت تھی- مگر مَیں اس الزام سے بالکل الگ اور جُدا ہوں کہ کیوں پیشگوئی کی گئی- لیکھرام نے اپنی تحریروں کے ذریعہ کے ذریعہ سے یہ ارادہ بار بار ظاہر کیا تھا کہ اس وجہ سے مَیںنے پیشگوئی اصرار سے طلب کی ہے کہ تا جُھوٹا ہونے کی حالت میں میں ان کو ذلیل کروں- مَیں نے اس کو اور عبد اللہ آتھم کو یہ بھی کہا تھا کہ پیشگوئیان طلب کرنا عبث ہے کیونکہ اس سے پہلے تین ہزار کے قریب مجھے آسمانی نشان ظاہر ہر چکے ہیں جن کے گواہ بعض قادیان کے آریہ بھی ہیں- اُن سے حلفاًدریافت کرو اور اپنی تسلّی کر لو… مگر مجھے اس بات پر سخت مجبور کر دیا کہ مَیں ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی کروں- یہ کہنا انصاف اور دیانت کے برخلاف ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پُوری نہیں ہوئی بلکہ نہایت صفائی سے الفاظ کے منشاء اور شرط مندرجہ پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق پُوری ہو گئی- ڈپٹی عبد اللہ آتھم سے بہت مدت سے بہت مدت سے میری ملاقات تھی اور میرے حالات سے وہ بہت واقف تھا- مجھ کو اس کی نسبت زیادہ افسوس اور درد ہے کہ کیوں اس نے ایسی پیشگوئی کو جس میں اس کی موت کی خبر تھی طلب کیا جس کے آخری اشتہار سے چھ مہینے بعد عین منشاء کے مطابق وہ فوت ہو گیا- صرف یہی نہیں کہ یہ دو پیشگوئیاں پوری ہوئیں بلکہ انیس برس کے عرصہ میں تین ہزار کے قریب ایسے نشان ظاہر ہوئے اور ایسی غیبت کی باتیں قبل از وقت بتلائی گئیں اور نہایت صفائی سے پُوری ہوئیں جن سے غور کر کے گویا انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے اگر یہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اس قدر نشان کیونکر ظاہر ہو سکتے جن کی وجہ سے میری جماعت کے دل پاک اور خدا کے نزدیک ہو گئے- میری جماعت ان تمام باتوں پر گواہ ہے کہ کیونکر خد اتعالیٰ نے عجیب در عجیب نشان دکھلا کر اس طرح پر ان کو اپنی طرف کھینچا جس طرح پہلے اس سے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں پر ایمان لانے والے پاک دلی اور صاف باطنی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف کھینچے گئے تھے مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرتے خدا تعالیٰ سے ڈرتے اور اس گورنمنٹ کے جس کے وہ زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں سچّے خیر خواہ اور نبی نوع کے ہمدرد ہیں- یہ ان آسمانی نشانوں کا اثر ہے جو انہوں نے دیکھے اور وہ نشان خدا کی رحمت ہے جو اس وقت اور اس زمانہ میں لوگوں کا خدا کا یقین دلانے کے لئے اس بندہ درگاہ کے ذریعہ سے نازل ہو رہے ہیں- اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک جو اُن نشانوںکو دل کی سچائی سے طلب کرے گا دیکھے گا- امن اور سلامتی کے نشان اور امن کے سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میںکچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدم سُنّت کے موافق ضرورتھا کہ مَیں بھی اسی طرح عوام کی زبان سے دُکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی دُکھ دیئے گئے خاص کر وہ اسرائیلی نبی سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے سعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی ناانصافی اور نابینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیرودوس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا سو مجھے اس بات سے فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے مَیں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا گیا- اور میرے پر بھی خود غرض لوگوں نے گورنمنٹ کو ناراض کرنے کے لئے اور مجھے جھوٹا ظاہر کرنے کے لئے افتراء کئے جیسا کہ اس مقدس نبی پر کئے تھے تا وہ سب کچھ پورا ہو جو ابتداء سے لکھا گیا تھا- واقعی یہ سچ ہے کہ آسمانی برکتیں زمین سے نزدیک آ رہی ہیں- گورنمنٹ انگریزی جس کی نیّت نہایت نیک ہے اور جو دعایا کے لئے امن اور سلامتی کی پناہ ہے- خدا نے پسند کیا کہ اس نے زیر سایہ مجھے مامور کیا- مگر کاش اس گورنمنٹ محسنہ کو نشان دیکھنے کے ساتھ کچھ دلچسپی ہوتی اور کاش مجھ سے گورنمنٹ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتاکہ اگر تم سچّے ہو تو کوئی آسمانی نشان یا کوئی ایسی پیشگوئی جو امن اور سلامتی کے اندر محدود ہو دکھلائو تو جو میرے افتراء کیاگیا ہے کہ گویا مَیں ڈاکوئوں کا کام کر رہا ہوںیہ سب حقیقت کھُل جاتی - آسمان پر ایک خدا ہے جس کی قدرتوں سے یہ سب کچھ ہوتا ہے - سو ایک مدعی الہام کی سچّائی معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی میعار نہیں کہ اس سے پیشگوئی طلب کی جائے توریت میں خدا تعالیٰ نے سچّے ملہم کے لئے یہ نشانی قرار دی ہے - پھر اگر اس میعارکے رُو سے وہ سچا نہ نکلے تو جلد پکڑا جائے گا اور خدا اُسے رُسوا کرے گا- لیکن اگر وہ رُوح القدس سے تائید یافتہ ہے اور خدا اس کے ساتھ ہے تو ایسے امتحان کے وقت اس کی عزّت اسی طرح ظاہر ہو گی جیسا کہ دانیال نبی کی عزّت بابل کی اسیری کے وقت ظاہر ہوئی تھی- ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ گذرتا ہے کہ مَیں نے اس عہد کو چھاپ کر شائع کر دیا ہے کہ مَیں کسی کی موت و ضرر وغیرہ کی نسبت ہر گز کوئی پیشگوئی شائع نہ کروں گا- پس اگریہ پیشگوئی جو اشتہار مباہلہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں ہے - کسی کی موت یا اس قسم کی ذلّت کے متعلق ہوتی تو مَیں ہر گز اس کو شائع نہ کرتا- لیکن اس پیشگوئی کو کسی کی ایسی ذلّت سے جو قانونی حد کے اندر آ سکتی ہے کچھ تعلق نہ تھا- جیسا کہ مَیں نے اپنے اشتہار میں مثال کے طور پر اس کی نظیر صرفی اور نحوی غلطی لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کسی مولوی کو اس طرح پر نادم کیا جائے کہ اس کے کلام میں صرفی اور نحوی غلطی ہے تو اس قسم کی ذلّت سے جو اس کو پہنچے گی قانون کو کچھ علاقہ نہیں-
میرے اس الہام میں مثلی ذلّت کی ایک شرط ایسی شرط ہے کہ اس شرط کے دیکھنے کے بعد حکّام کو پھر زیادہ غورکرنے کی حاجت نہیں- میری نیک نیتی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور جو شخص غور سے میری اس پیشگوئی کو پڑھے گا اور اس کی تشریحات کو دیکھے گا جو مَیں نے قبل از مقدمہ شائع کر دی ہیں تو اس کا کانشنس اور اس کی حق شناس رُوح میرے بے خطا ہونے پر ضرور گواہی دے گی- مَیں عدالت کو اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ مَیں نے یہ اشتہار مباہلہ ایک مدّت تک وہ الفاظ سن کر جو دل کو پاش پاش کرتے ہیں لکھا تھا- اور میرا اس تحریر سے ایک تو یہ ارادہ تھا کہ بد ی کا بدی سے مقابلہ نہ کروں اور خدا تعالیٰ پر فیصلہ چھوڑوں اور دوسرے یہ بھی ارادہ تھا کہ اُن فتنہ انگیز تحریروں کے اشتعال وہ اثر سے جن کا اس ڈیفنس میں کچھ ذکر کر چکا ہوں- اپنی جماعت کو بچا لوں اور جوش اور اشتعال کو دبا دوں تا میری جماعت صبر اورپاک دلی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کی منتظر رہے-
مَیں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ میری کاروائی محمد حسین کے مقابل پر اخیر تک سلامت روشنی کے ساتھ رہی ہے اور مَیں نے بہت سے گندے اشتہار دیکھ کر جو اس کی تعلیم سے لکھے گئے تھے- جن کا بہت سا حصہ خود اس نے اپنی اشاعتہ السُّنہ میں نقل کیا ہے وہ صبر کیا جو دُنیا داروں کی فطرت سے ایسا صبر ہونا غیر ممکن ہے محمد حسین نے میرے ننگ و ناموس پر نہایت قابل شرم کیمنگی کے ساتھ اور سراسر جُھوٹ سے حملہ کیا ہے اور میری بیوی کی نسبت محض افتراء سے نہایت ناپاک کلمے لکھے ہیں اور مجھے ذلیل کرنے کے لئے بار بار یہ کلمات شائع کئے کہ ’’ یہ شخص *** اور کُتّے کا بچہ ہے اور دو سو جوتہ اس کے سر پر لگانا چاہیے اور اس کو قتل کر دینا ثواب کی بات ہے-‘‘ لیکن کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی مَیں اس کے یا اس کے گروہ کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کئے- مَیں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتا رہا جو ایک شریف انسان کو تہذیب کے لحاظ سے کرنے چاہیں- ہاں جیسا کہ مذہبی مباحثات میں باوجود تمام تر نیک نیتی اور نرمی اور تہذیب کے ایسی صورتیں پیش آ جایا کرتی ہیںکہ ایک فریق اپنے فریق مخالف کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے- جو عین محل پر چسپاں ہوتے ہیں- اس مہذبانہ طریق سے مَیں انکار نہیں کر سکتا- مباحثات میں ضرورت کے وقت بہت سے کلمات ایسے بھی استعمال ہوتے ہیں جو فریق مخالف کو طبعاً ناگوار معلوم ہوتے ہیں مگر محل پر چسپاں اور واقعی ہوتے ہیں مثلاً جو شخص اپنے مباحثات میں عمداً خیانت کرتا ہے یا دانستہ روایتوں کے حوالہ میں جھوٹ بولتا ہے اس کو نیک نیتّی اوراظہار حق کی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ تم نے طریق خیانت یا جھوٹ کو اختیار کیا ہے اور ایسا بیان کرنا نرمی اور تہذیب کے برخلاف نہیں ہوتا کہ اس حد تک جو سچّائی اور نیک نیتی کا التزام کیا گیا ہو- حق کے ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے- ایسے طریق کو یورپ کے ممتاز محققوں نے بھی جو طبعاً تہذیب اور نرمی کے اعلیٰ اصولوں کے پابند ہوتے ہیں، اختیار کیا ہے- یہاں تک کہ سر میور سابق لفٹنٹ گورنر ممالک مغربی و شمالی نے اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں اس مذہبی تحریر میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مَیں ایسے الفاظ کا ذکر بھی سخت نا مناسب سمجھتا ہوں- اور میرے ایک مُرید نے جو محمد حسین کی نسبت ایک مضمون اخبار الحکم میں لکھا ہے جو مسل مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے- گو وہ مذہبی مباحثات کی طرز کو خیال کر کے ایسا ہر گز نہیں ہے جیسا کہ سمجھا گیا ہے تا ہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مجھے اُس اخبار سے کچھ بھی تعلق نہیں - چنانچہ اخبار الحکم کے پرچہ ۸ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۳ دسمبر ۱۸۹۸ء اور ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء میں خود اس اخبار کے مالک شیخ یعقوب علی نے اس کی بخوبی تصریح کردی ہے-
میری نیک نیتی اس سے ظاہر ہے کہ قریباً ڈیڑھ برس کے عرصہ تک محمد حسین نے نہایت سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ مجھے دُکھ دیا- پہلے ایسے ناپاک اشتہار محمد بخش جعفرز ٹلی کے نام پر شائع کئے اور پھر نقل کے طور پر اُن کو اشاعتہ السُّنہ میں لکھا اور کئی دوسرے لوگوں سے بھی یہ کام کرایا مگر مَیں چُپ رہا اور اپنی جماعت کو بھی ایسے گندے الفاظ بالمقابل بیان کرنے سے روک دیا- یہ واقعی اور سچّی بات ہے- خدا گالیوں سے نہایت درجہ درد مند ہوئی اور ایسے اشتہار لاہور کی گلی کوچوں اور مسجدوں میں محمد حسین نے چسپاں کراد ئیے تو مَیں نے اپنی جماعت کو یہ اصلاح دی کہ وہ بحضور نواب لفٹینٹ گورنر بہادر بالقابہ اس باے میں میموریل بھیجیں - چنانچہ میموریل بھیجا گیا- جس کے چند پرچے میرے پاس موجود ہیں- پھر جب اس ذریعہ سے اس فتنہ کا انسداد نہ ہوا تو ایک اَور میموریل پندرہ ہزار یا شاید سولہ ہزار معرز لوگوں کے دستخط کرا کر بحضور وائسرائے بالقابہ اسی غرض کے حصول کے لئے روانہ کیاگیا- اس کے چند پرچے بھی موجود ہیں مگر اس کا کوئی جواب نہ آیا - تب گندی گالیوں کے دینے میں اور بھی محمد حسین نے نہایت بے باکی سے آگے قدم رکھا، چنانچہ ان گالیوں کا نمونہ محمد بخش جعفر زٹلی کے اس اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے ۱۱ جون ۱۸۹۷ء میں شائع کیا ہے- اس اشتہار میں اس کی عبارت میں جو دراصل محمد حسین کی عبارت ہے، یہ ہے ’’ مرزا عیسائیوں کا کوڑا اور گندگی اُٹھانے کے لئے تیار اور راضی ہے اور اپنا منہ ان کی جوتیوں پر ملنے کے لئے اس نے برٹش گورنمنٹ کو خدا کا درجہ دے یا ہے- اس خردجّال نے حضرت سلطان العظم یعنے سلطان رُوم کی نسبت ایسی بیہودہ گوئی کی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ یہ خبیث باطنی شیطان سامنے بٹھایا جائے اور دو سو جوتے مارے جائیں- اور جب شمار کرتے وقت عد بھُول جائے تو پھر از سرِ نو گننا شروع کیا جائے- اس کُتے کے بچے پر ***- سلطان کی نسبت حقارت آمیز لفظ استعمال کرنے سے تو یہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ کھلا کھلا عیسائی ہو جاتا- مَیں نے مرزا کے متعلق پانچ پیشگوئیاں کی ہیں- اور وہ یہ ہیں-
(۱) قادیانی ایک سخت مقدمہ میں پھنس جائے گا اور جلا وطن کیا جائے گا- یا بیڑیاں پڑیں گی اور قید خانہ میں ڈالا جائے گا-
(۲) قید میں وہ دیوانہ ہو جائے گا-
(۳) ایک ناسُور نکلے گا-
(۴) وہ جذامی ہو جائے گا اور خود کشی کر کے دوزخ میں ڈالا جائے گا- ‘‘
ایسا ہی ایک اشتہار کے ساتھ ایک تصویر لکھی ہے جس میں مجھے شیطان بنایا ہے محمد حسین کا یہی طریق ہے کہ یہ گندے اشتہار پہلے اُس کے نام پر شائع کرتا ہے اور پھر نقل کے طور پر اپنی اشاعتہ السنّہ میں شائع کرتا ہے تا اگر کوئی اعتراض کرے تو نے مولوی کہلا کر ایسی گندی اور قابل شرم کاروائی شروع کر رکھی ہے تو فی الفور اس کا جواب دیتا ہے کہ مَیں تو صرف اپنی اشاعتہ السّنہ میں دوسرے کے کلام کو نقل کرتا ہوں- اس میں کیا حرج ہے- لیکن اگر محمد بخش زٹلی وغیرہ کو عدالت خود بُلا کر دریافت کرے تو مَیں یقین رکھتاہوں کہ سارا پردہ کھُل جائے گا-
غرض محمد حسین کی ایسی گندی کاروائیوں کے پہلے مَیں نے مجازی حکام کی طرح رجوع کیا یعنی میموریل بھیجے اور پھر حقیقی حاکم کی طرف توجہ کی جو دلوں کے خیانت کو جانتا اور مفسد اور نیک خیال آدمی میں فرق کرتا ہے یعنی مباہلہ کو جو اسلام میں قدیم سنّت اور نماز روزہ کی طرح فرائض مذہب میں بوقت ضرورت داخل ہے، تجویز کر کے اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ لکھا اور خدائے علیم جانتا ہے جس پر افتراء کرنا بد ذاتی ہے کہ بعد دُعایہی الہام ہوا کہ امَیں ظالم کو ذلیل کروں گا مگر اُسی قسم کی ذلّت ہو گی جو فریق مظلوم کو پہنچائی گئی ہو-
میرے حالات میری انیس برس کی تعلیم سے ظاہر ہو سکتے ہیں کہ مَیں اپنی جماعت کو کیا تعلیم دے رہا ہوں- ایسا ہی میرے حالات میری جماعت کی چال چلن سے معلوم ہو سکتے ہیں اور بہتیرے ان میں سے ایسے جو گورنمنٹ کی نظر میں نہایت نیک نام اور معزز عہدوں ہر سرفراز ہیں- ایسے ہی میرے حالات قصبہ قادیان کے عام لوگوں سے دریافت کرنے کے وقت معلوم ہو سکتے ہیں -کہ میں نے اُن میں کس طرز کی زندگی بسر کی ہے - ایسا ہی میرے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی کی طرز زندگی سے معلوم ہو سکتے ہیں- کہ گورنمنٹ انگلشیہ کی نظر میں کیسے تھے- اور عجیب تریہ کہ محمد حسین جو ہروقت میری ذلّت کے روپئے ہے اور اپنی اشاعتہ السنّہ نمبر ۹ جلد نمبر ۷ میں میری نسبت اقرار کرتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کا پاک باطن اور نیک خیال اور سچّائی کا حامی اور گورنمنٹ انگریزی کا نہایت درجہ خیرخواہ ہے-‘‘
یہ بھی گزارش کرنا ضرورہے کہ اگر لیکھرام کے مارنے جانے کے وقت میں میری نسبت آریوں کو شکوک پیدا ہوئے تھے تو ان شکوک کی بناء بجز اس پیشگوئی کے اور کچھ نہ تھا جس کو لیکھرام نے آپ مانگا تھا اور مجھ سے پہلے اپ مشتہر کیا تھا- پھر اس میں میرے پر کیا الزام ہے- نہ مَیں نے خود بخود پیشگوئی کی اور نہ مَیں نے اس کو مشتہر کیا- اور اگر صرف شک کے لحاظ کیا جائے تو ہندوئوں نے سرسید احمد خان کے سی ایس ائی پر بھی قتلِ لیکھرام کا شُبہ کیا تھا-فقط-
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰ جنوری ۱۸۹۹
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد اشاعت ۱۰۰
(۲۰۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ہمارے استفتاء کی نسبت ایک منصفانہ گواہی
ناظرین کو معلوم ہو گا کہ ہمیں اس بات پر اطلاع پا کر کہ شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنّہ کے آنے کے بارے میں اپنے ہم جنس مولویوں کو تو یہ کہا کہ ضرور وہ مہدی معہود آئے گا جو قریش میں سے ہو گا اور خلافت ظاہری و باطنی سے سرفراز ہو گا- اور لڑائیاں خونریزیاں کر کے تمام روئے زمین پر دین اسلام کو غالب کر دے گا اور اُس کے آنے کا منکر *** اور کافر اور دجّال اورضال اور مضل ہے اور پھر پوشیدہ طور پر گورنمنت عالیہ انگریزی پر یہ ظاہر کرتا رہا کہ مسلمانوں کا یہ خیال بالکل بیہودہ ہے کہ ایسا مہدی آئے گا اور اس کے خونریزیی کے کاموں کی تائید کے لئے مسیح موعود آسمان سے اُترے گا اور وہ دونوں مل کر جبر اور اکراہ سے لوگوں کو مسلمان کر یں گے- یہ حالت محمد حسین کی عام مسلمانوں سے پوشیدہ تھی- آخر ان دنوں میں ایک طرح کی وجہ سے محمد حسین نے ایک فہرست انگریزی رسالہ کے طور پر شائع کی اور اس میں صاف طور پر اس نے لکھ دیا کہ جس خونی مہدی کے آنے کے عام مسلمان منتظر ہیں- اس کے متعلق کی جس قدر حدیثیں ہیں وہ سب موضوع اور غلط اور نا درست ہیں- اور اس تحریر سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ ایسے مہدی کے آنے سے منکر ہے -یہ رسالہ ۱۴ اکتوبر ۱۸۹۸ء کو وکٹوریہ پریس میں چھپا ہے-
غرض چونکہ خدا تعالیٰ نے چہا تھا کہ ہمارے اشتہار مباہلہ مورخہ ۱۲ نومبر ۱۸۹۸ء کی الہامی پیشگوئی کے مطابق محمد حسین کو مثلی ذلّت پہنچا وے جیسا کہ جزاء سیّئۃ بمثلھا و تر ھقھم ذلہ کا منشاء تھا- اس لئے محمد حسین نے پوشیدہ طور پر یئہ انگریزی رسالہ شائع کر دیا اور مولویوں کو اس رسالہ کے مضمون سے بالکل خبر نہ دی - مگر تا ہم رسالہ شائع کر دیا اور مولویوں کو اس رسالہ کے مضمون سے بالکل خبر نہ دی- مگر تا ہم خدا تعالیٰ کے انصاف اور غیرت نے وہ رسالہ ظاہر کر دیا- تب ہم نے فی الفور سمجھ لیا کہ ہماری پیشگوئی پُورا کرنے کے کئے یہ سامان غیب سے ظہور میں آ رہا ہے - تب اسی بناء پر استفتاء لکھا گیا اور مولوی نذیر احمد دہلوی سے لے کر تمام مشہور علماء نے اس پر مُریں اور دستخط کر دیئے- اور ایسے منکر کی نسبت کسی کافر اور کسی نے دجّال اور کسی نے کذّاب اور مفتری کے لفظ استعمال کئے اور عبدالجبار غزنوی اور عبد الحق غزنوی نے جو وحشیانہ جوش کی وجہ سے صدق اور دیانت سے کچھ بھی غرض نہیں رکھتے نہ صرف نرم الفاظ میں فتویٰ دیا بلکہ جوش ایسے الفاظ استعمال کئے کہ ایسا شخص جو مہدی کا مُنکر ہو کافر اور جہنمی ہے- اور جب ان پر یہ بات کھُلی کہ فتویٰ تو ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی نسبت پوچھا گیا تھا تب مارے غم اور غصہ کے دیوانہ ہو گئے اور اشتہار کے ذریعہ سے یہ شور مچایا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور محمد حسین کا نام ظاہر نہ کیا- اس کے جواب میں ہماری طرف سے ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب نے اس مضمون کا اشتہار جاری کیا تھا یہ شور اور جزع فزع سراسر بد دیانتی سے ہے - فتویٰ صورت مسئلہ اور کیفیت سوال پر دیا جاتا ہے- اس میں ضرور نہیں کہ سائل کا نام لکھا جائے یا اس شخص کا نام جس کی نسبت فتویٰ ہے- ہم منتظر تھے کہ ایسے صاف امر میں کوئی صاحب دیانت کی پابندی سے عبد الحق اور عبد الجبار غزنوی کے خائنانہ طریق سے مخالفت کر کے ہمارے اس بیان کی تصدیق کریں- سو ہمیں اس استفتاء کے دیکھنے سے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ اس بیان کی تصدیق کریں- جوہمیں آج ملا ہے- جس میں مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور عبد الجبار کے برخلاف اسی اپنے پہلے فتوے پر قائم کردہ ہمارے بیان مذکور بالا کی تصدیق کرتے ہیں اور صاف طور پر لکھتے ہیں کو استفتاء پیش ہوا تھا اس میں کوئی دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا- فتویٰ دینے والے کو اس بات سے کام نہیں کہ فتویٰ زید کی نسبت پوچھا گیا ہے یا بکر کی نسبت اور ظاہر کیا کہ ہم اپنے فتویٰ پرقائم ہیں سو اس وقت محض عبد الحق اور عبد الجبار غزنوی کی پُر خیانت کاروائی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اشتہار کے ساتھ اس استفتاء کی نقل مع ان دونوں بزرگوں کے فتوے شامل کی جاتی ہے- فقط-
المشتہر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۱۲ جنوری ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد اشاعت ۷۰۰
نقل فتویٰ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
السلام علیکم
۱۵ ماہ شعبان المبارک ۱۳۱۶ھ کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بوساطت اپنے مرید ڈاکٹر اسمٰعیل صاحب ملازم فوج ملک افریقہ کے ایک استفتاء عام موافق سنت علماء خلف و سلف جس میں کسی شخص کا نام نہیں تھا- آپ صاحبان کی خدمت میں بڑے ادب سے پیش کیا- اب اعادہ الفاظ استفتاء کی کچھ ضرورت نہیں- صرف اگر کوئی شخص انکار امام مہدی موعود کر ے اور عقیدہ اپنا تحریری ایک مقام بطور دستاویز دے کر اطمینان دلاوے کہ جو جو احادیث اسلام میں بحق مہدی علیہ السّلام لکھی گئی ہیں وہ سراسر جھوٹ اور لغو ہیں تو اس پر علماء کیا فتویٰ فرماتے ہیں- سو علمائے نامدار پنجاب و ہندوستان نے اپنی اپنی فہم سے ایسے عقیدے والے کو جس کا ذکر استفتاء میں موجود ہے کافر، صنال، خارج از اسلام وغیرہ اپنی اپنی مواہیر اور دستخط سے قرار دیا تھا- چنانچہ وہ استفتاء چھپ کر عام طور پر شائع ہو چکا یہانتک کہ گورنمنٹ عالیہ تک بھی بھیج دیا گیا-
اب ایک مولوی عبد الحق نام نے جس کی مہر یا دستخط اُس کُفر نامہ پر ثبت ہیں- اپنے ہاتھوں کی تحریرپر سخت افسوس کھا کر بڑے حسرت اور غضب سے ایک اشتہار نکال کر مشتہر کیا ہے کہ فتویٰ دینے میں مَیں نے دھوکہ کھایا ہے یعنی وہ فتویٰ زید کے بارے میں ہم نے دیا ہے نہ عمر کے حق میں نیز بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے فتویٰ پیش کرنے والے اور کرانے والے پر بے جا الزام و غا اور فریب بد دیانتی بے ایمانی و غیرہ وغیرہ کا لگایا ہے وہ اس واسطے کو بالواسطہ فتویٰ کیوں لیا گیا اور جس فتویٰ دینا ہے اس کا نام کیوں نہیں لیا گیا…………………لہذا آپ صاحبان کی خدمت شریف میں انصاف اور عدل کے خواہاں ہو کر التماس ہے کہ کیا آپ نے بھی مولوی موصوف کی طرح دھوکہ سے مُریں یا دستخط کفر نامہ پر لگائے ہیں یا عام طور پر خواہ زید ہو خواہ عمر، جو شخص ایسا عقیدہ بر خلاف اہل سنت و الجماعت کے رکھتا ہے اس پر کُفر کی مُہریں لگائی ہیں جیسا کہ مفہوم آیات قرآن مجید ہے اور ایسا فتویٰ دینے کے لائق شرعاً ہے-
راقم خیرخواہ مومنین
الجواب و ھوالموفق للصواب
(۱) وہ استفتاء جس کا اس سوال میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اَبْ چھپ کر مشہور ہو چکا ہے میرے سامنے بھی پیش ہوا تھا - اس کا جواب مَیں نے مندرجہ ذیل لفظوں میںدیا تھا-
’’امام مہدی علیہ و علیٰ آباعہ الصلٰوۃ والسلام کا قرب قیامت میں ظہورفرمانا اور دُنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے اور جمہور اُمت نے اسے تسلیم کیا ہے اس امام موصوف کے تشریف لانے کا انکار صریح ضلالت اور مسلک اہل سنت و الجماعت سے انحراف کرنا ہے ‘‘ مَیں نے اس جواب دینے میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں کھایا ہے- اور میرے نزدیک اس وقت بھی استفائے مذکورکا یہی جواب ہے اور مَیں اس شخص کو جس کا استفتاء مذکور میں ذکر ہے اس وقت بھی مسلک اہل سنت و الجماعت منحرف جانتا ہوں خواہ وہ زید ہو یا بکر - فقط مفتی محمد عبد اللہ عفاء الخ (ٹونکی پروفیسر اورنیٹل کالج لاہور ، پریزیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور و سیکرٹری انجمن مستشار العماء )
(۲) جو استفتاء مطبوعہ مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۸ء مطابق ۱۵ شعبان ۱۳۱۶ھ معرفت ڈاکٹر محمد اسمعٰیل خان مثبت یہ مواہیر اور دستخط علماء امرتسر تھا میرے رو برو پیش ہوا- اس کے اوپر مَیں نے یہ عبارت لکھی ہے علماء مظام کا جواب صحیح ہے - بے شک مذکور السوال ضال اور مضل ہے- اور اہلسنت سے خارج ہے- پس یہ جواب بشرط صدق سوال صحیح ہے مصداق علیہ کا خواہ زید ہو یا عمر کسی کاص آدمی پر فتویٰ نہیں ہے عام طور پر عقیدہ اہل سنّت کالکھا گیا ہے اور اس میں کسی شخص کا کسی قسم کا دھوکہ نہیںہے-
فقیر غلام البگوی عفا عنہ امام مسجد شاہی لاہور ۱۲
مورخہ ۲۰ جنوری ۱۸۹۹ء
(۲۰۴)
گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیرخواہ کے پہنچاننے کے لئے ایک کھلا کھلا طریق آزمائش
(گورنمنٹ عالیہ سے بادب التماس ہے کہ اس مضمون کو غور سے دیکھا جائے اور حسب منشاء درخواست ہر دو فریق کا امتحان لیا جائے)
چونکہ مولوی ابو اسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السُّنہ ہمیشہ طور پر کوشش کرتا رہا ہے کہ گورنمنٹ کو میرے پر بد ظن کر ے اور مجھے معلوم ہوا کہ کئی سال سے اس کا یہی شیوہ ہے- اس لئے مَیں نے مناسب دیکھا کہ محمد حسین اور میری نسبت ایک ایسا طریق آزمائش قائم ہو جس سے گورنمنٹ عالیہ کو سچا خیر خواہ اور چھپا پوا بد خواہ معلوم ہو جائے اور آئندہ ہماری دانا گورنمنٹ اسی پیمانہ کے رو سے دونوں میں مخلص اور منافق میں امتیاز کر سکے-
سو وہ طریق میری دانست میں یہ ہے کہ چند ایسے عقاید جو غلط فہمی سے اسلامی عقائد سمجھے گئے اور ایسے ہیں کہ ان کو جو شخص اپنا عقیدہ بناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے ان عقائدبناوے وہ گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے ان عقائد کو اس طرح پر آلہ شناخت و منافق بنایا جائے کہ عرب یعنے مکہ اور مدینہ وغیرہ عربی کا بلاد اور کابل اور ایران وغیرہ میں شائع کرنے کے لئے عربی فارسی میں وہ عقائد ہم دونوں فریق لکھ کر اور چھاپ کر سرکارِ انگریزی کے حوالہ کریں تا کہ وہ اپنے اطمینان موافق شائع کر دے- اس طریق سے جو شخص منافقانہ طور پر برتائو رکھتا ہے اس کی حقیقت کھل جائے گی کیونکہ وہ ہر گز ان عقائد کو صفائی سے نہیں لکھے گا اور ان کا اظہار کرنا اس کو موت معلوم ہو گی اور ان عقائد کا شائع کرنا اس کے لئے محال ہو گا اور مکّہ اور مدینہ میں ایسے اشتہار بھیجنا تو اس کو موت سے بد تر ہوگا- سو اگرچہ میںعرصہ بیس برس سے ایسی کتابیں عربی اور فاسی میں تالیف کر کے ممالک عرب اور فارس میں شائع کر رہا ہوں- لیکن اس امتحان کی غرض سے اب بھی اس اشتہار کے ذیل میں ایک تقریر عربی اور فارسی میں اپنے پرُ امن عقاید کی نسبت اور مہدی اور مسیح کی غلط راوایات کی نسبت اور گورنمنٹ برطانیہ کی نسبت شائع کرتا ہوں- میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ اگر محمد حسین جو اہل حدیث کا سر گروہ کہلاتا ہے میرے عقائد کی طرح امن اور صلح کاری کے عقائد کا پابند ہے تو وہ اپنا اشتہار عربی اور فارسی میں چھاپ کر دو سو کاپی اس کی میری طرف راونہ کر ے- تا مَیں اپنے ذریعہ سے مکّہ اور مدینہ میں عربی اور فارسی کی لے لے تا بطور اُن کو شائع کرے-
ہماری دانا گورنمنٹ کو بخوبی یاد رہے کہ یوں ہی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے صرف بگفتن کوئی رسالہ ذومعنین لکھنا اور پھر اچھی طرح اس کو شائع نہ کرنا یہ طریق اخلاص نہیںہے- یہ اَور بات ہے اور سچّے دل سے اور پورے جوش سے کسی ایسے رسالہ کو جو عام خیالات مسلمانوں کے برخلاف ہو درحقیقت غیرممالک تک بخوبی شائع کر دینا یہ اَور بات ہے اور اس بہادر کا کام ہے جس کا دل اور زبان ایک ہی ہوں اور جس کو خدائے درحقیقت یہی تعلیم دی ہے - بھلا اگر یہ شخص نیک نیت ہے تو بلاتوقف اس کو یہ کاروائی کرنی چاہیے- ورنہ گورنمنٹ یاد رکھے کہ اگر اس نے میرے مقابل پر ایسا رسالہ عربی اور فارسی میں شائع نہ کیا تو پھر اس کا نفاق ثابت ہو جائیگا - یہ کام صرف چند گھنٹہ کا ہے اور بجز بد نیتی کے اس کا کوئی مانع نہیں- ہماری عالی گورنمنٹ یاد رکھے کہ یہ شخص سخت درجہ کے نفاق کا برتائو رکھتا ہے- اور جن کا یہ سرگروہ کہلاتا ہے وہ بھی اسی عقیدے اور خیال کے لوگ ہیں-
اب مَیں اپنے وعدہ کے موافق اشتہار عربی اور فارسی ذیل میں لکھتا ہوں اور سچائی کے اختیار کرنے میں بجز خدا تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتا- اور مَیں نے حسن ترتیب اور دونوں اشتہاروں کی موافقت تامہ کے لحاظ سے قرین مصلحت سمجھا ہے کہ عربی میں اصل اشتہار لکھوں اور فارسی میں اسی کا ترجمہ کر دوں تا دونوں اشتہار اپنے اپنے طور پر لکھے جائیں اور نیز عربی اشتہار جس کو ہر ایک غیر زبان کا آدمی بآسانی پڑھ نہیں سکتا اس کا ترجمہ بھی ہو جائے-چنانچہ اب وہ دونوں اشتہار لکھ کر اس رسالہ کے ساتھ شامل کرتا ہوں-
وباللّٰہ التوفیق
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار: میرزا غلام احمد از قادیان
۲۱ فروری ۱۸۹۹ء
(۲۰۵)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اپنے مُریدوں کی اطلاع کے لیے
جو پنجاب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور نیز دوسروں کے لئے اعلان جوکہ ایک مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ اضابطہ فوجداری مجھ پر اور مولوی سعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السُّنہ پر عدالت جے ایم- ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں دائرہ تھا بتاریخ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا کہ فریقین سے اس مضمون کے نوٹسوں پر دستخط رکرائے گئے کہ آیندہ کوئی فریق اپنے کسی مخالف کی نسبت موت وغیرہ دل آزار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے- کوئی کسی کا کافر اور دجّال نہ کہے- کوئی کسی کو مباہلہ کے لئے نہ بلاوے اور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہ لکھا جائے اور نہ بٹالہ کو طا کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں- بد گوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں- اور ہر ایک فریق حتی الامکان اپنے دوستوں اور مریدوں کو بھی اس ہدایت کا پابند کرے اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں سے بھی یہی چاہیئے‘‘ لہذا میں نہایت تاکید سے اپنے اہر یک مرید کو مطلع کرتا ہوںکہ وہ ہدایت مذکور بالا کے پابند رہیں اور نہ مولوی محمد حسین اور نہ اس کے گروہ اہل حدیث اور نہ کسی اور سے اس ہدایت کے مخالف معاملہ کریں تو بہتر تو یہی ہے کہ ان لوگوں سے بکلی قطع کلام اور ترک ملاقات رکھیں- ہاں جس میں رشد اور سعادت دیکھیں اس کو معقول اور نرم الفاظ سے راہِ راست سمجھائیں اور جس میںتیز ی اور لڑنے کا مادہ دیکھیں اس سے کنارہ کریں- کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں- کہ یہ کافر ہے یا دجّال یا کذّاب یا مفتری ہے گو وہ مولوی محمد حسین ہو یا اس گروہ میں سے یا اس کے دوستوں میں سے کوئی اور ہو- ایسا ہی کوئی عیسائی اور کسی دوسرے فرقہ کے ساتھ بھی ایسے الفاظ جو فتنہ کر برپا کر سکتے ہیں استعمال نہ لاویںاور نرم طریق سے ہر ایک سے برتائو کریں- اور ہم مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں- کہ چونکہ اس نوٹس پر اُن کے بھی دستخط کرائے گئے ہیں بلکہ اسی تحریری شرط سے عدالت نے اُن پر مقدمہ چلانے سے اُن کو معافی دی ہے لہذا وہ بھی اسی طور سے اپنے گروہ اہل حدیث امرتسری لاہوری لدہانوی دہلوی اور راولپنڈی کے رہنے والے اور دوسرے اپنے دلی دوستوں کو بذریعہ چھپے ہوئے اعلان کے بلا توقف اس نوٹس سے اطلاع دیں کہ وہ حسبِ ہدایت صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور اپنے فریق مخالف یعنے میری نسبت کافر اور دجّال اور مفتری اور کذّاب کہنے سے اور گندی گالیاں دینے سے روکے گئے ہیں اور اس معاہدہ کی پابندی کے لئے نوٹس پر دستخط کر دیئے گئے ہیں کہ وہ آیندہ نہ مجھے کافر کہیں گے نہ دجال نہ کذّاب نہ مفتری اور نہ گالیاں دیں گے کہ ان کے دوستوں اور ملاقاتیوں اور گروہ کے لوگوں میںسے کوئی شخص ایسے الفاظ استعمال نہ کرے- سو سمجھا ویںکہ اگر وہ لوگ بھی اس نوٹس کی خلاف ورزی کریں گے تو اس عہد شکنی کے جواب وہ ہوں گے-
غرض جیسا کہ میں نے اس اعلان کے ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں کو متنبہ کر دیا ہے مولوی محمد حسین کی دلی صفائی کایہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ بھی اپنے اہل حدیث اور دوسرے منہ زور لوگوں کو جو اُن کے دوست ہیں بذریعہ اعلان متنبہ کریں کہ اب وہ کافر، دجّال، کذّاب کہنے سے باز آ جائیں اور دلآزار گالیاں نہ دیں ورنہ انگریزی جو امن پسند ہے باز نہ آنے کی حالت میں پورا پورا قانون سے کام لے گی- اور ہم تو ایک عرصہ گزر گیا کہ اپنے طور پر یہ عہد شائع کر چکے ہیں کہ آیندہ کسی مخالف کے حق میں موت وغیرہ کی پیشگوئی نہیں کریں گے اور اس مقدمہ میںجو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصلہ ہوا، ہم نے اپنے ڈیفنس میں جو عدالت میں دیا گیا ثابت کر دیا ہے کہ یہ پیشگوئی کسی شخص کی موت وغیرہ کی نسبت نہیںملتی تھی- محض ایسے لوگوں کی غلط فہمی تھی جن کو عربی سے نا واقفیت تھی- سو ہمارا خدا تعالیٰ سے وہی عہد ہے جو ہم اس مقدمہ سے مدت پہلے کر چکے- ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۲۷ میں شیخ محمد حسین اور اس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے- لیکن اس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجّال کہنے سے باز آ جائیں یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑا جس کو ہم صلح کاری کے طور پر چاہتے تھے-
یاد رہے کہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے مقدمہ کے فیصلہ کے وقت مجھے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جویٔ کراتے اور وہ حق اب تک قائم ہے - اس لئے مَیں شیخ محمد حسین اور اُن کے دوستوں جعفر زٹلی وغیرہ کو مطلع کرتا ہوں کہ اب بہتر طریق یہی ہے کہ اپنے مُنہ کو تھام لیں- اگر خدا کے خوف سے نہیں تو اس عدالت کے خوف سے جس نے یہ حکم فرمایا یہ فہمایش کی اپنی زبان کو درست کر لیں اور اس بات سے ڈر یں کہ مَیں مظلوم ہونے کی حالت میں بذریعہ عدالت کچھ چارہ جوئی کروں- زیادہ کیا لکھا وجاوے-
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان
(۲۶ فروری ۱۸۹۹ء)
مطبوعہ ضیاء السلام پریس قادیان تعداد ۷۰۰
(۲۰۲)
اشتہار
اپنی جماعت کے نام اور نیز ہر ایک رشتہ دار کے نام جو خواہشمند ہو
ہماری جماعت میں اوّل درجہ کے مخلص دوستوں میں سے مولوی علی صاحب ایم- اے ہیں جنہوں نے علاوہ اپنی لیاقتوں کے ابھی وکالت میں بھی امتحان پاس کیا ہے اور بہت سا اپنا حرج اُٹھا کر چند ماہ سے ایک دینی کام کے انجام کے لئے یعنی بعض میری تالیفات کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئے میرے پاس قادیان میں مقیم ہیں- اور یقین ہے کہ جب وہ فراغت اس کام کے اپنے کام وکالت پر جائیں گے تو کسی قریب ضلع مدیں ہی کام شروع کریں گے- اور مَیں اس مدّت میں یعنے جب سے کہ وہ میرے پاس ہیں ظاہری نظر سے اور نیز پوشیدہ طور پر اُن کے حالات کا اخلاق اور دین اور شرافت کے رُو سے تجسس کرتا رہا ہوں- سو خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ مَیں نے اُن کو دینداری اور شرافت کے ہر پہلو میں بھی نہایت عمدہ انسان پایا ہے- غریب طبع با حیا نیک اندرون پرہیز گار آدمی ہے- عمر تخمیناً جوبیس ۲۴ برس کے قریب ہو گی - خاندان کے زمیندار شریف اور موضع مرار علاقہ ریاست کپورتھلہ کے باشندے ہیں- پہلے بھی مَیں نے اُن کے لئے اپنی جماعت میں تحریک ٭ کی تھی مگر وہ بعض وجود کے سبب اس وقت کام کی انجام دہی میں معذوری پیش آئی- اور اب وہ وقت ہے کہ بخیر و خوبی وہ کام کیا جائے- لہذا دوبارہ یہ اشتہار جاری کیا گیا - میرے نزدیک جہانتک مجھے علم ہے ہماری جماعت کا ایسا انسان یا کوئی اور شخص بہت ہی خوش قسمت ہو گا جس کی لڑکی یا ہمشیرہ کا رشتہ مولوی صاحب موصوف سے ہو جائے گا-
یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے ہونہار لڑکے جو بہمہ صفت موصوف ہوں اور بہر طرح لائق اور معّزز درجہ کے آدمی تلاش کرنے سے نہیں ملتے اور لوگ اکثر دھوکہ کھا لیتے ہیں اور اپنی لڑکیوں پر ظلم کرتے ہیں چاہیئے کہ ہر ایک صاحب بہت جلد مجھے اطلاع دیں - اور یہ بات ضروری ہے کہ لڑکی علاوہ شکل صورت خداداد کے سنجیدگی اور عورتوںکی ضرورت کے موافق علم اور لیاقت سے کافی بہرہ رکھتی ہو- زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں-
والسلام
المشتھـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۹ اگست ۱۸۹۹ء
(مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان تعداد ۲۰۰) محمد اسمعٰیل
(۲۰۷)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
(ضمیمہ ۳ منسلکہ کتاب تریاق القلوب)
حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست
جبکہ ہماری یہ محسن گورنمنٹ ہر ایک طبقہ اور درجہ کے انسانوں بلکہ غریب سے غریب اور عاجز سے عاجز کی ہمددری کر رہی ہے- یہاں تک کہ اس ملک کے پرندوں اور چرندوںاور بے زبان مویشیوں کے بچائو کے لئے بھی اس کے عدل گستر قوانین موجود ہیں- اور ہر ایک قوم اور فرقہ کو مساوی آنکھ سے دیکھ کر ان کی حق رسی میں مشغول ہے تو اس انصاف اور داد گستری اور عدل پسندی کی خصلت پر نظر کر کے یہ عاجز بھی اپنی ایک تکلیف کے رفع کے لئے حضور گورنمنٹ عالیہ میں یہ عاجزانہ عریضہ پیش کرتا ہے اور پہلے اس سے کہ اصل مقصود کو ظاہر کیا جائے- اس محسن اور قدر شناس گورنمنٹ کے اس قدیم خیرخواہ خاندان میں سے ہے جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام کے اعتراف کیا ہے اور اپنی چٹھیوں سے گواہی دی ہے کہ وہ خاندان ابتدائی انگریزی عملداری سے آج تک خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ میں برابرسرگرم رہا ہے - میرے والد مرحوم میرزا غلام مرتضیٰ اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیر خواہ اور دلی جاں نثار تھے کہ وہ تمام حکام پر جو اُن کے وقت میں اس ضلع میں آئے ، سب سکے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوںنے میرے والد موصوف کو ضرورت کے وقتوں میں گورنمنٹ کی خدمت کرنے میں کیسا پایا- اور اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوںنے ۱۸۵۷ء کے مفسدہ کے وقت اپنی تھوڑی حیثیت کے ساتھ پچاس گھوڑے معہ پچاس جوانوں کے اس محسن گورنمنٹ کی امداد کے لئے دئیے اور ہر وقت امداد اور خدمت کے لئے کمر بستہ رہے یہاں تک کہ اس سے گذر گئے- والد مرحون گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معّزز اور ہر دلعزیز رئیس تھے جن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور وہ خاندان مغلیہ میں سے ایک تباہ شدہ ریاست کے بقیہ تھے جنہوں نے بہت سی مصیبتوں کے بعد گورنمنٹ انگریزی کے عہد میں آرام پایا تھا- یہی وجہ تھی کہ وہ دل میں اس گورنمنٹ سے پیار کرتے تھے اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی ایک میخ فولادی کی طرح ان کے دل میں دھنس گئی تھی - اُن کی وفات کے بعد مجھے خد ا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی طرح بالکل دُنیا سے الگ کر کے اپنی طرف کھینچ لیا اور مَیں نے اس کے فضل سے آسمانی مرتبت اور عزّت کے اپنے لئے پسند کر لیا- لیکن مَیں اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہوں کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیر خواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کی بیس برس کی مدّت سے مَیں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچّے خیر خواہ اور دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہر ثابت نہیں ہو سکتے دست بردار ہو جائیں- اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو کم سے کم یہ اُن کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے ناشکر گذار نہ بنیں اور نمک ّ*** سے خدا کے گنہگار نہ ٹھہریں کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزّت کی محافظ ہے اور اس کے مبارک قدم سے ہم جلتے ہوئے تنور میں سے نکالے گئے ہیں- یہ کتابیں ہیں جو مَیں نے اس مُلک اور عرب اور شام اور فارس اور مصر وغیرہ ممالک میں شائع کی ہیں- چنانچہ شام کے ملک کے بعض عیسائی فاضلوں نے بھی میری کتابوں کے شائع ہونے کے گواہی دی ہے- اور میری بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے-٭ اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرات سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا-
یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک کہ چوبیس برس کا زمانہ ہے- ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکور بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کا کام نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کاکام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچّی خواہی ہے- ہاں مَیں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مَیں نیک نیتی سے دوسرے کے لوگون سے مباحثات بھی کیا کرتا ہوں - اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شایع کرتا رہا ہوں- اور مَیں اس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ پادریوں مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نو افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریری شایع ہوئیں-اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا- چور تھا- زناکار تھا- اور صد ہا پرچوں میں یہ شایع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بد نیّتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اورلُوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تومجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو- تب مَیں نے اُن جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیّت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دیا نے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیاجائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرد ہو جائیں اور ملک میںکوئی بے امنی پیدا نہ ہو٭- تب مَیں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میںکمال اور سختی سے بد زبانی کی گئی تھی چند کتابیںلکھیں جن کی کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویی دا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں اُن کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہو گا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا- سو یہ میری پیش بینی کی تدبر صحیح نکلی اور ان کتابوں کا یہ اثرہوا کہ ہزار مسلمان جو پادری عمادالدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندمی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے ایک دفعہ اُن کے اشتعال فرد ہو گئے- کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اس کا عوض دیکھ لیتا ہے تو اس کا وہ جوش نہیں رہتا- باایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل ہر بہت نرم تھی گویا کچھ نسبت نہتھی- ہماری مُحسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے محبت رکھتے ہیں - سو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیںکہ اس حدتک پہنچائے جس حد تک ایک متعصّب عیسائی پہنچا سکتاہے - اور مسلمانو ں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو چکے ہیں ایک عزّت سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفصیل کے لئے اس جگہ موقع نہیں- سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہیہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا- اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مَیں تمام مسلمانوں میں سے اوّل دجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں- کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے- (۱) اوّل والد مرحوم کے اَثر نے (۲) اس گورنمنٹ حالیہ کے احسانوں نے، (۳)تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے:-
اَب مَیں اس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں- صرف ایک رنج اور درد و گم ہر وقت مجھے لاحق حال ہے جس کا استغاثہ پیش کرنے کے لئے اپنی محسن گورنمنٹ کی خد مت میںحاضر ہواہوں- اور وہ یہ ہے کہ اس ملک کے مولوی مسلمان اور ان کی جماعتوں کے لوگ حد سے زیادہ مجھے ستاتے اور دُکھ دیتے ہیں- میرے قتل کے لئے ان لوگوں نے فتوے دئیے ہیں- مجھے کافر اور بے ایمان ٹھہرایا ہے- اور بعض ان میں سے حیا اور شرم کو ترک کر کے اس قسم کے اشتہار میرے مقابل پر شائع کرتے ہیں کہ یہ شخص اس وجہ سے بھی کافر ہے کہ اس نے انگریزی سلطنت روم پر ترجیح دی ہے اور ہمیشہ سلطنت انگریزی کی تعریف کرتا ہے اور ایک باعث یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مجھے اس وجہ سے بھی کافر ٹھیراتے ہیں کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کے سچّے الہام سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس خونی مہدی کے آنے سے انکار کیا ہے جس کے یہ لوگ منتظر ہیں بیشک مَیں اقرار کرتا ہوںکہ مَیںنے ان لوگوں کا بڑا نقصان کیا ہے کہ مَیں نے ایسے خونی مہدی کا آنا سراسر جُھوٹ ثابت کر دیا ہے جس کی نسبت ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آ کر بے شمار ان کو روپیہ دے گا مگر مَیںمعذور ہوں- قرآن اور حدیث سے یہ بات بپایہ ثبوت نہیں پہنچی کہ دُنیا میں کوئی ایسا مہدی آئے گا جو زمین کو خون میںغرق کر دے گا- پس مَیں نے ان کومحروم کر دیا ہے - مَیں خدا پاک سے الہام پاکر یہ چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے اخلاق اچھے ہو جائیں اور ان میں آہستگی اور سنجیدگی اور علم اور میانہ روی اور انصاف پسندی پیدا ہو جائے اور یہ اپنی گورنمنٹ کی ایسی اطاعت کریں کہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں اور یہ ایسے ہو جائیں کہ کوئی فساد کی رگ ان میں باقی نہ رہے- چنانچہ کسی قدر یہ مقصود مجھے حاصل بھی ہو گیا ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ دس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو میری ان پاک تعلیموںکے دل سے پابند ہیں٭ او ر یہ نیا فرقہ مگر گورنمنٹ کے لئے نہایت مبارک فرقہ برٹش انڈیا میں زور سے ترقی کر رہا ہے- اگر مسلمان ان تعلیموں کے پابند ہو جائیں تو مَیں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فرشتے بن جائیں- اور اگر وہ اس گورنمنٹ کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو جائیں تو تمام قوموںسے زیادہ خوش قسمت ہو جائیں- اگر وہ مجھے قبول کر لیں اور مخالفت نہ کریں تو یہ سب کچھ نہیں حاصل ہو گا اور ایک نیکی اور پاکیزگی کی رُوح ان میں پیدا ہو جائے گی-اور جس طرح ایک انسان خوجہ ہو کر گندے شہوات کے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے- اسی طرح میری تعلیم سے ان میں تبدیلی پیدا ہو گی- مگر اور مَیں اس وقت ی استغاثہ کرتا ہوں کہ وہ ہر وقت میرے قتل کے درپے ہیں اور کیوں میرے قتل کے لئے جھوٹے فتوے شائع کر رہے ہیں- اور مَیںجانتا ہوں کہ یہ بد ارادے ان کے عبث ہیں- کیونکہ کوئی چیز زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر نہ ہولے- اور مَیںاُن کی بدی کے عوض میں اُن کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اُن کی آنکھیں کھولے اور وہ خدا اور مخلوق کی خیر خواہی کے لئے ایک تجویز سوچی ہے جو ہماری گورنمنٹ کی امن پسند پالیسی کے مناسب حال ہے جس کی تعمیل اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ محسن گورنمنٹ جس کے احسانات سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہیں، ایک یہ احسان کرے کہ اس ہر روزہ تکفیر اور قتل کے فتووں اور منصوبوں کے روکنے کے لئے خود درمیان میں ہو کر یہ ہدایت فرما دے کہ اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح پر ہو کہ مدعی یعنی یہ عاجز جس کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے اور جس کو یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح نبیوں سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے اور غیب کے بھید مجھ پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور آسمانی نشان دکھلائے جاتے ہیں- یہ مدعی یعنے یہ عاجز گورنمنٹ کے حکم سے ایک سال کے اندر ایک ایسا نشان جس کا مقابلہ کوئی قوم اور کوئی فرقہ جو زمین پر رہتے ہیں نہ کر سکے اور مسلمانوں کی قوموں یا دوسری قوموں میں سے کوئی ایسا ملہم اور خواب بین اور معجزہ نما پیدا نہ ہو سکے جو اس نشان کے ایک سال کے اندر نظیر پیش کرے اور ایسا ہی ان تمام مسلمانوں بلکہ ہر ایک قوم کے پیشوائوںکو جو ملہم اور خدا کے مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہدایت اور فہمائش ہو کہ اگر وہ اپنے تئیں سچ پر اور خدا کے مقبول سمجھتے ہیں اور ان میں کوئی ایسا پاک دل ہے جس کو خدا نے ہمکلام ہونے کا شرف بخشاہے اور الہٰی طاقت کے نمونے اس کو دیئے گئے ہیں تو وہ بھی ایک سال تک کوئی نشان دکھلاویں- پھر بعد اس کے اگر ایک سال تک اس عاجز نے ایسا کوئی نشان نہ دکھلایا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر اور انسانی ہاتھ کی ملونی سے بھی بلند تر ہو یا یہ کہ نشان تو دکھلایا مگر اس قسم کے نشان اور مسلمانوں یا اور قوموں سے بھی ظہور میں آ گئے تو یہ سمجھا جائے کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں اور اس صورت میں مجھ کو کوئی سخت سزا دی جائے گو موت کی ہی سزا کیونکہ اس صورت میں فساد کی تمام بنیاد میری طرف سے ہو گی اور مفسد کو سزا دینا قرین انصاف ہے- اور خدا پر جھوٹ بولنے سے کوئی گناہ بدتر نہیں- لیکن اگر خدا تعالیٰ نے ایک سال کی میعاد کے اندر میری مدد کی اور زمین کے رہنے والوں میں سے کوئی میرا مقابلہ نہ کر سکا تو پھر میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ گورنمنت محسنہ میرے مخالفوں کو نرمی سے ہدایت کر ے کہ اس نظارہ قدرت کے بعد شرم اور حیا سے کام اور تمام مردی اور بہادری سچائی کے قبول کرنے میں ہے-
اس قدر عرض کر دینا پھر دوبارہ ضروری ہے کہ نشان اس قسم کا ہو گا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو اور اس میں نکتہ چینی کی ایک ذرہ گنجایش نہ ہو کہ ممکن ہے کہ اس شخص نے ناجائز اسباب سے کام لیا ہو بلکہ جس طرح آفتاب اور ماہتاب کے طلوع اور غروب میں یہ ظن کر دیا ہے اسی طرح اس نشان میں بھی ایسا ظن کرنا محال ہو- اس قسم کا فیصلہ صد ہا نیک نتیجے پیدا کرے گا اور ممکن ہے کہ اس سے تمام قومیں ایک ہو جائیں اور بے جا نرزاعیں اور جھگڑے اور قوموں کا تفرقہ اور حد سے زیادہ عناد جو قانون سڈیشن کے منشاء کے بھی بر خلاف ہے یہ تمام پھوٹ صفحہ برٹش انڈیا سے نابود ہو جائے اور اس میں شک نہیں کہ یہ پاک کاروائی گورنمنٹ کی ہمیشہ کے لئے اس مُلک میں یادگار رہے گی اور یہ کام گورنمنٹ کے لئے بہت مقدّم اور ضروری ہے اور انشاء اللہ اس سے نیک نتیجے پیدا ہو ں گے- چونکہ آجکل یورپ کی بعض گورنمنٹیں اس بات کی طرف بھی مائل ہیں کہ مختلف مذاہب کی خوبیاں معلوم کی جائیں کہ اُن سب میں سے خوبیوں میں بڑھا ہوا کونسا مذہب ہے اور اس غرض سے یورپ کے بعض ملکوں میں جلسے کئے جاتے ہیں جیسا کہ ان دونوں میں اٹلی میں ایسا ہی جلسہ درپیش ہے اور پھر پیرس میں بھی ہو گا- سو جبکہ یورپ کے سلاطین کا میلان طبعاً اس طرف ہو گیاہے اور سلاطین کی اس قسم کی تفتیش بھی لوازم سلطنت میں شمار کی گئی ہے اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ہماری یہ اعلیٰ درجہ کی گورنمنٹ دوسرں سے پیچھے رہے- اور تمہید اس کاروائی کی اس طرح پر ہو سکتی ہے کہ ہماری عالی ہمّت گورنمنٹ ایک مذہبی جلسہ کا اعلان کر کے اس زیر تجویز جلسہ کی ایسی تاریخ مقرر کرے جو دو سال سے زیادہ نہی ہو- اور تمام قوموں کے سرگروہ علماء اور فقرہ میں مُلہموں کو اس غرض سے بلایا جائے کہ وہ جلسہ کی تاریخ پر حاضر ہو کر اپنے مذہب کی سچائی کے دو ثبوت دیں (۱) اوّل ایسی تعلیم پیش کریں جو دوسری تعلیموں سے اعلیٰ ہو جو انسانی درخت کی تمام شاخوں کی آبپاشی کر سکتی ہو (۲)دوسرے یہ ثبوت دیں کہ ان کے مذہب میں روحانیت اور طاقت بالا ویسی ہی موجود ہو جیسا کہ ابتداء میں دعوے کیا گیا تھا اور وہ اعلان جو جلسہ سے پہلے شائع کیا جائے- اس میں بہ تصریح یہ ہدایت ہو کہ قوموں کے سرگروہ ان دو ثبوتوں کے لئے طیار ہو کر جلسہ کے میدان میں قدم رکھیں اور تعلیم کی خوبیاں بیان کر نے کے بعد ایسی اعلیٰ پیشگوئیاں پیش کریں جو محض خدا کے علم سے مخصوص ہوں اور نیز ایک سال کے اندرپوری بھی ہو جائیں- غرض ایسے نشان ہوں جن سے مذہب کی رُوحانیت ثابت ہو اور پھر ایک سال تک انتظار کر کے غالب مغلوب کے حالات شائع کر دیئے جائیں- میرے خیال میں ہے کہ اگر ہماری دانا گورنمنٹ اس طریق پر کار بند ہو اور آزماوے کہ کس مذہب اور کس شخص میں روحانیت اور خدا کی طاقت پائی جاتی ہے تو یہ گورنمنٹ دُنیا کی تمام قوموں پر احسان کرے گی اور اس طرح سے ایک سچے مذہب کو اس کی تمام رُوحانی زندگی کے ساتھ دُنیا پر پیش کر کے تمام دُنیا کو راہ راست پر لے آئے گی کیونکہ وہ تمام شور و غوغا جو کسی ایسے مذہب کے نزدیک نہیں کر سکتا اور نہ گناہ سے نفرت دلا سکتا ہے مذہب پکارنے میں ہر ایک کی بلند آواز ہے - لیکن کبھی ممکن نہیں کہ فی الحقیقت پاک زندگی اور پاک دلی اور خدا ترسی میسر آ سکے جب تک کہ انسان مذہب کے آئینہ میں کوئی فوق العادۃ نظارہ مشاہدہ نہ کرے نئی زنگی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو- اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہو سکتا جب تک موسیٰ اور مسیح اور ابراہیم اور یعقوب اور محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح نئے معجزات نہ دکھائے گائیں نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو، نشان نئے ہوں اور دوسرے تمام لوگ قصّو ں کہانیوں کے جال میں گرفتار ہیں- دل غافل ہیں اور زبانوں پر خدا کا نام ہے - مَیںسچ سچ کہتا ہوں کہ زمین کے شور و غوغا تمام قصے اور کہانیاں ہیں اور ہر ایک شخص جو اس وقت کئی سو برس کے بعد اپنے کسی پیغمبریا اوتار کے ہزار ہا معجزات سناتا ہے وہ خود اپنے دل میں جانتا ہے جہ وہ ایک قصّہ بیان کر رہا ہے جس کو نہ اُس نے اور نہ اُس کے باپ نے دیکھا ہے اور نہ اس کے دادے کو اُس کی خبر ہے- وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں تک اس کا یہ بیان صحیح اور درست ہے کیونکہ یہ دُنیا کے لوگوں کی عدالت ہے کہ ایک تنکے کا پہاڑ بنا دیا کرتے ہیں اس لئے یہ تمام قصّے جو معجزات کے رنگ میں پیش کئے جاتے ہیں ان کا پیش کرنے والا خواہ کوئی مسلمان ہو یا عیسائی ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا جانتاہے یا کوئی ہندو ہو جو اپنے اوتاروں کے کرشمے کتابیں اور پستک کھول کر سناتا ہے یہ سب کچھ ہیچ اور لاشی ہیں اور ایک کوڑی ان کی قیمت نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی زندہ نمونہ ان کے ساتھ نہ ہو-اور سچا مذہب وہی ہے جس کے ساتھ زندہ نمونہ ہے- کیا کوئی دل اور کوئی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک مذہبتو سچا ہے مگر اس کی سچائی کی چمکیں اور سچائی کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں- اور ان ہدایتوں کے بھیجنے والے کے مُنہ پر ہمیشہ کے لئے مہر لگ گئی ہے - مَیں جانتا ہوں کہ ہر اک انسان جو سچی بھوک اور پیاس سے خدا تعالیٰ کی طلب رکھتا ہے وہ ایسا خیال ہرگز نہیں کرے گا- اس لئے ضروری ہے کہ سچے مذہب کی یہی نشانی ہو کہ زندہ نمونے اور اس کے نشانوںکے چمکتے ہوئے نور اس مذہب میں تازہ بتازہ موجود ہوں- اگر ہماری گورنمنٹ عالیہ ایسا جلسہ کرے تو یہ نہایت مبارک اردہ ہے اور اس سے ثابت ہو گا یہ گورنمنٹک سچّائی کی حامی ہے اور اگر ایسا جلسہ ہو تو ہر ایک شخص اپنے اختیار سے اور ہنسی خوشی سے اس جلسہ میں داخل ہو سکتا ہے قوموں کے پیشوا جنہوں نے مقدس کہلا کر کروڑ ہا روپیہ قوموں کا کھا لیا ہے ان کے تقدس کو آزمانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی عمدہ طریق نہیں کہ جو اُن کا یا اُن کے مذہب کا خدا کے ساتھ رشتہ ہے اس رشتہ کا زندہ ثبوت مانگا جائے- یہ عاجز اپنے دلی جوش سے جو ایک پاک جوش ہے یہی چاہتا ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ کے ہاتھ سے یہ فیصلہ ہو- خدایا اس عالی مرتبہ گورنمنٹ کو یہ الہام کرتا وہ اس قسم کے جلسوں میں سب کے پیچھے آ کر سب سے پہلے ہو جائے- اور میں چونکہ مسیح موعود ہوں اس لئے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے - حضرت مسیح علیہ السّلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے ـصلیب چڑھے گو خدا کے رحم نے اُن کو بچا لیا اور مرہم عیسیٰ٭ نے ان کے زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں اُن کو پہنچا دیا- سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عناں گھوڑے پر چڑھتا ہے- سو ایسا ہی مَیں بھی مخلوق کی بھلائی کے ل ئے صلیب سے پیار کرتا ہوں اور مَیں یقین رکھتا ہوںکہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچا لیا اور ان کے تمام رات کی دُعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب اور صلیب کے نتیجوں سے نجات دی ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا- اور حضرت مسیح صلیب سے نجات پا کر نصیبین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں سے ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے اور جیسا کہ اس جگہ شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک گواہی دے رہا ہے وہ ایک مدت تک کوہ نعمان میں رہے اور پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے- آخر کشمیر میں گئے اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت کرتے رہے اور سکھوں کے زمانہ تک ان کی یادگار کا کوہ سیلمان پر کتبہ موجود تھا- آخر سری نگر میں ایک سو پچیس برس کی عمر میں وفات پائی اور خانیار کے محلہ کئے قریب آپ کا مقدس مزار ہے - اگر اس جلسہ کے بعد جس کی گورنمنٹ محسنہ کو ترغیب دیتا ہوں ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں اور مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں- مَیںراضی ہوں کہ اس جُرم کی سزا میں سُولی دیا جائوںاور میری ہڈیاں توڑی جائیں- لیکن وہ خدا جو آسمان پر ہے جو دل کے خیالات کو جانتا ہے جس کے الہام سے مَیں نے اس عریضہ کو لکھا ہے وہ میرے ساتھ ہو گا اور میرے ساتھ ہے جو میرے اندر بولتی ہے- مَیں نہ اپنی طرف سے بلکہ اس کی طرف سے یہ پیغام پہنچا رہا ہوں تا سب کچھ جو اتمام حجت کے لئے چاہیے پورا ہو - یہ سچ ہے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف یہ پیغام پہنچا رہا ہوں تا سب کچھ جو اتمام حجت کے لئے چاہیے پورا ہو- یہ سچ ہے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے کہتا ہوں- اور وہی ہے جو میراپروردگار ہو گا-
بالآخر مَیں اس بات کا بھی شکر کرتا ہوں کہ ایسے عریضہ کو پیش کرنے کے لئے بجز اس سلطنت محسنہ کے اور کسی سلطنت کو وسیع الاخلاق نہیں پاتا- اور گو اس ملک کے مولوی ایک اور کفر کا فتویٰ بھی مجھ پر لگا دیں مگر مَیں کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ایسے عرائیض کے پیش کرنے کے لئے عالی حوصلہ عالی اخلاق صرف سلطنت انگریزی ہی ہے میں اس سلطنت کے مقابل پر سلطنت روم کو بھی نہیں پاتا جو اسلامی سلطنت کہلاتی ہے اب مَیں اس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری محسنہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو عمر دارز کر کے ایک اقبال سے بہرہ در کرے اور تمام دُعائیں جو مَیں نے اپنے رسالہ رستارہ قیصرہ اور تحفہ قیصریہ میں ملکہ موصوفہ کو دی ہیں- قبول فرماوے- اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ محسنہ اس کے جواب سے مجھے مشرف فرما وے گی- والدعا-
عریضئہ خاکســـــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان المرقوم ۲۷ دسمبر ۱۸۹۹ ء
(ضمیمہ نمبر۳ منسلکہ کتاب تریاق القلوب
(۲۰۸)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
الاشتھار الانصار
نحمد اﷲ و نصلی علی رسولہ الکریما لامین- واٰلہ الطاہرین اطیبّین
ہم خدا کی حمد کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں جو کریم اور امین ہے اور اس کے آل پردرود بھیجتے
واصحابہ الکاملین المکملین- الذین سعوا فی سُبل ربّ العلمین -
ہیں جو طیّب اور طاہر ہیں اور نیز اس کے اصحاب پر جو کامل مکمل ہیں- وہ اصحاب جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دوڑے
واعرضوا عن الدنیا وما فیھا و اقبلوا علی اﷲ مُتبتّلین منقطعین- امّا بعد
اور دنیا اور مافیھا سے کنارہ کیا اور خدا کی طرف دوسروں سے بکلی توڑ کر جھک گئے- بعد اس کے
فاعلموا ایّھا الاحباب رحمکم اﷲ انّ داعی اﷲ قدجاء کم فی وقتہٖ و
اے دوستو! تمہیںمعلوم ہو خدا تم پر رحم کرے کہ خدا کی طرف سے ایک بُلانے والا تمہارے پاس اپنے وقت پر
ادرککم رحم اﷲ علی رأس المائۃ وکنتم من قبل تنظرون کالعُطاشی
آیا ہے اور خدا کے رحم نے صدی کے سر پر تمہاری دستگیری کی اور تم پہلے اس بُلانے والا کا انتظار پیاسوں کی
اوکجائعین- فقد جاء کم فضلاٗ من اﷲ لیندرقوماً ماانذار اٰباء ھم ولتستبین
طرح یا بھوکوں کی طرح کر رہے تھے سو وہ خدا کے فضل سے آ گیا تا اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ
سبیل المجرمین- و اِنّہ اُمِرلیَدْعوکُم الی الصدق والایمان- ولیھدیکم الٰی
دادے نہیں ڈرائے گئے تھے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور اس کو حکم ہے کہ تم کو صدق اور ایمان کی طرف بلاوے
سبیل العرفان- والٰی کل ماینفعکم فے یوم الدین یوم الدین- فعلکم مالم تکونوا
اور معرفت کی راہوں کی طرف تمہیں ہدایت کرے اور ہر ایک امر جو جزا کے دن تمہیں کام آوے سمجھاوے-
تعلمون و اتم علیکم حجۃ اﷲ و جعلکم من المبصرین- وانکم رأیتم
پس اس نے تمہیں وہ حقایق اور مصارف سکھلا دیئے کہ تم خودبخود ان کونہیں جان سکتے تھے اور خدا تعالیٰ کی
مالم یرآباء کم الاوّلون- واتا مالم یا تھم من نور و یقین فلا تردّد انعم اﷲ
حجّت تم پر پوری کر دے اور تمہیں بینا بنایا اور تم نے وہ دیکھا جو تمہارے پہلے باپ دادوں نے نہیں دیکھا تھا
و لاتکونوا من الغافلین- وانی اریٰ فیکم قوماً ماقدروا اﷲ حق قدرہ و
اور وہ نور اور یقین تم کو ملا جو انہیں نہیں ملا تھا پس خد اکی نعمتوں کو ردّ مت کرو اور غافل مت ہو- اور مَیں تم
قالوا اٰمنّا و اماھم بمومنین- ایمنّون علی اﷲ ا لمنۃ کلّھا لِلّٰہ ان کانوا عالمین-
میں ایسے لوگ بھی دیکھتا ہوں جنہوں نے اپنے خدا کا ایسا قدر نہیں کیا جو کرنا چاہئیے تھا- اور کہتے ہیں کہ ہم
لہ العزۃ والکبریاء ان لم تقبلوا فیصرف عنکم وجہہ ویأت بقوم اٰخرین
ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے- کیا یہ لوگ خد اپر احسان کرتے ہیں اور سب احسان خدا کے ہی ہیں
ولاتضرونہ شیئا واﷲ غنی عن العٰلمین- وانّ ھٰذہٖ ایام اﷲ و ایام ججہ
اگر یہ جانتے ہوں- اسی کے لئے عزت اور بزرگی ہے- اگر تم قبول نہیں کرو گے تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر لے گا
فاتقوا اﷲ وایامہ ان کنتم متقین- دستردّون الی اﷲ وتُسئلون و مانریٰ
اور ایک اور قوم لائے گا ا ورتم اس کا کچھ بھی حرج نہیں کر سکو گے اور یہ خدا کے دن ہیں اور اس کی حجتوں کے
معکم اموالکمولا املاککم فتیقّظوا ولاتکونوا من الجاھلین- وجاھدوا
دن- پس خدا سے اور اس کے دنوں سے ڈرو اگر متقی ہو اور عنقریب تم خدا کی طرف واپس کئے جائو گے اور
باموالکم و انفسکم وقومو اﷲ قانتین- احسبتم ان یرضٰی عنکم ربکم
پوچھے جائو گے اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہارے ساتھ تمہارے مال اور املاک جائیںگے پس ہوش میں آ جائو اور
ولماتفعلوا فی سُبُلہ ماخلٰی من سننالصادقین- لن تنالوا البر حتٰی تنفقوا
جاہل مت بنو-اور اپنے مالوں کے ساتھ اور جانوں کے ساتھ خدا کی راہ میں کوشش کرو اور اطاعت کرتے
بماتحبون- مالکم لاتفھمون- اتُتْرکون احیائٗ ا ابداً غیر میّتین- انی
ہوئے کھڑے ہو- کیا تم یہ گمان کرتے ہوکہ خدا تم سے راضی ہو جائے گا حالانکہ ابھی تم نے وہ کام نہیں کئے
أمرتُ ان انبھّکم فاعلموا ان اﷲ ینظر الٰی اعمالکم وانما انانذیر مبین-
جو صادقوں کے کام ہیں- تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ وہ چیزیں خرچ نہیں کرو گے جو تمہیں
واﷲ یذعوکم لتنصروہ باموالکم وجھد انفسکم فھل انتم من الطائعین-
پیاری ہیں- کیا سبب جو تم نہیں سمجھتے- کیا تم ہمیشہ زندہ چھوڑے جائو گے اور نہیں مرو گے- مجھے حکم دیا گیا ہے
و من ینصر اﷲ ینصرہ ویردّ الیہ ما ارسل الیہ ویزید و ھو خیر المحسنین-
کہ میں تمہیں متنبہ کروں- پس جان لو کہ خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور خدا تمہیں بلاتا ہے تا اپنے
فقرموا ایّھا النّاس ولیسبق بعضکم بعضًا واﷲ یعلم من کان من
مالوں اور جانوں کی کوششوں کے ساتھ تم اس کی مدد کرو - پس کیا تم فرمانبرداری اختیار کرو گے اور جو تم میں
السابقین- والذین اٰمنوا ورعواید اﷲ البیعۃ وما حاھدوا وعملوا الصالحات
سے خدا کی مدد کرے گا- خدا اس کی مدد کرے گا- اور جو کچھ ا س نے خدا کو دیا خدا کچھ زیادہ کے ساتھ اس کو
ثم جاھدوا فیھا ثم استقاموا فلھم مغفرۃ و رزق کریم و رضوان من اﷲ ط
واپس دے دے گا اور وہ سب محسنوں سے بہتر محسن ہے- سو اٹھولوگو اور چاہئیے کہ ایک دوسرے پر سبقت لے
واوٰلئک ھم المومنون حقا و و اوٰلئک من عباد اﷲ الصالحین
جائے اور خدا جانتا ہے ان کو جو سبقت لے جائیں گے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور بیعت کے ہاتھ اور اپنے عہد کی رعایت رکھی اور اچھے کام کئے پھر ترقیات کرتے رہے پھر استقامت اختیار کی ان کے لئے مغفرت اور رزق اور بزرگ اور خدا کی رضا ہے اور وہی سچے مومن ہیں اور وہی ہیں جو خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں-
من انصاری الی اﷲ
اے دوستو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حالات پر رحم فرماوے اور آپ کے دل میں الہام کرے کہ ہماری تمام ضرورتوں کے لئے آپ صاحبوں کے دلوں میں سچے جوش پیدا ہوں- حال یہ ہے کہ بہت سا حصّہ عمر کا ہم طے کر چکے ہیں اور جو کچھ باقی ہے وہ معمولی قانون قدرت کے سہارے پر نہیں بلکہ محض اس کے ان وعدوں پر نظر ہے جن میں سے کسی قدر براہین احمدیہ اور ازالہ اوہام میں بھی درج ہیں کیونکہ اس نے محض اپنے فضل سے وعدہ دیا ہے کہ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا اور نہ مجھ سے الگ ہو گا جب تک پاک اور خبیث میں فرق کر کے نہ دکھلاوے- اور تیس برس کے قریب اس الہام کو ہو گیا کہ ا س نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ مَیں ان کاموں کے لئے تجھے اسی برس تک یا کچھ تھوڑا کم یا چند سال اسی برس٭ سے زیادہ عمر دوں گا- اب جب مَیں خدا تعالیٰ کے اس پاک الہام پر نظر کرتا ہوں تو بے اختیار ایک زلزلہ میرے دل پر پڑتاہے اور بسا اوقات میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور ایک موت کی سی حالت نمودار ہو جاتی ہے کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ اس میعاد کا گذر گیا اور اب میں بہ نسبت اس دنیا کی ہمسایگی کے قبر سے زیادہ نزدیک ہوں- میرے اکثر کام ابھی ناتمام ہیں اور مَیں خدا تعالیٰ کے ان تمام الہامات پر جو مجھے ہو رہے ہیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن مقدس پر ایمان رکھتا ہوں- اور مَیں اس خدا تعالیٰ کو جانتا اور پہچانتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے- اندھا ہے وہ دل جو خدا کو نہیں جانتااور مردہ ہے وہ جسم جو یقینی الہام اور وحی سے منّور نہیں اور نہ منّور ہونے والوں کے ساتھ ہم صحبت اور ہم نشین ہے- سو مَیں اس پاک وحی سے ایسا ہی کامل حصّہ رکھتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کامل قرب کی حالت میں انسان رکھ سکتا ہے- جب انسان ایک پُرجوش محبت کی آگ میں ڈالا جاتا ہے جیسا کہ تمام نبی ڈالے گئے تو پھر اس کی وحی کے ساتھ اضغاث احلام نہیں رہتے بلکہ جیسا کہ خشک گھاس تنور میں جل جاتا ہے- ویسا ہی وہ تمام اوہام اور نفسانی خیالات جل جاتے ہیں اور خالص خدا کی وحی رہ جاتی ہے اور یہ وحی صرف اُنہی کو ملتی ہے جو دنیا میں کمال صفاء محبت اور محویّت کی وجہ سے نبیوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۴ اٹھارھویں سطر میں یہ الہام میری نسبت ہے- جری اﷲ فی حُلل الانبیاء یعنی خدا کا فرستادہ نبیوں کے حُلّہ میں- سو مَیں شکّی اور ظنّی الہام کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ یقینی اور قطعی وحی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں- اور میرے نزدیک سب بدبختوں سے زیادہ تر وہ بدبخت ہے جو شکّی اور ظنی الہامات کے ابتلاء میں بلعم کی طرح چھوڑا گیا ہے کیونکہ شک اور ظن علم میں داخل نہیں اور ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی صادق کی تکذیب سے جلد تر جہنم میں گے کیونکہ شک ہمیشہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے- مگر مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے دلائل قاطعہ سے یہ علم دیا گیا ہے اور ہر ایک وقت میں دیا جاتا ہے کہ جو کچھ مجھے القاء ہوتا ہے اور جو وحی میرے پر نازل ہوتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے نہ شیطان کی طرف سے- مَیں اس پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آفتاب اور ماہتاب کے وجود پر یا جیسا کہ اس بات پر کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں- ہاں جب مَیں اپنی طرف سے کوئی اجتہاد کروں یا اپنی طرف سے کسی الہام کے معنے کروں تو ممکن ہے کہ کبھی اس معنی میں غلطی بھی کھائوں مگر مَیں اس غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا اور خدا کی رحمت جلد تر مجھے حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے اورمیری رُوح خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے-
اب وہ غرض جس کے لئے مَیں نے یہ اشتہار لکھا ہے یہ ہے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ عمر کم اور کئی مقاصد میرے التواء میں پڑے ہوئے ہیں جن کا اہتمام بجز مالی مدد کے غیر متصور ہے سب سے پہلے مَیں اس بات کا ذکر کرتاہوں کہ میرے نزدیک خدا تعالیٰ کے حکم اور امر کے موافق جو متواتر مجھے بتلایا گیا ہے اس انتظام کا قائم رکھنا ضروری ہے بلکہ سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ مہمانوں کی آمد و رفت بکثرت جاری رہے اور ہمیشہ ایک جماعت حق کے طالبوں اور انصار کی معارف دینی میرے مُنہ سے سُننے کے لئے قادیان میں حاضر رہتی ہے چنانچہ اب تک یہ انتظام قائم رہا- خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ باوجودیکہ کوئی احسن انتظام اس لنگر خانہ کے تمام متعلقات کا خرچ جس کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں اکثر سات سو روپیہ ماہوار تک یا کبھی اس سے بھی بڑھ کر اور کبھی دوہزار ماہوار تک بھی پہنچ گیا مگر خدا تعالیٰ کی پوشیدہ مدد کا ہاتھ شامل رہا کہ کوئی امتحان پیش نہ آیا- اب یہ صورت ہے کہ بباعث ایام قحط خرچ بہت بڑھ گیاہے اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ مثلاً ہم جو اس سے پہلے دو سو روپیہ ماہواری یا اڑھائی سو روپیہ یا اس سے کم کا لنگر خانہ کے لئے آٹا منگوایا کرتے تھے- اب شاید پانسو روپیہ تک نوبت پہنچے- اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی سامان نہیں اور اسی خرچ کے قریب قریب لکڑی اور گوشت اور روغن اور تیل وغیرہ کا خرچ ہے- میرے نزدیک یہ انتظام ہمارے اس تمام سلسلہ کی بنیاد ہے ا ور دوسری تمام باتیں اس کے بعد ہیں کیونکہ فاقہ اُٹھانے والے معارف اور حقائق بھی سُن نہیں سکتے- سو سب سے اوّل اس انتظام کے لئے ہماری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئیے- اور یہ خیال نہ کریں کہ اس راہ میں روپیہ خرچ کرنے سے ہمارا کچھ نقصان ہے کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے لئے وہ خرچ کریں گے- اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریاکاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں- شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خسّت اور بخل کو نہ چھوڑے- یہ خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ ہر ایک اہل اﷲ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے- ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہؓ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سب سے بڑھ کر رہے- سو مردانہ ہمّت سے امداد کے لئے بلاتوقف قدم اٹھانا چاہئیے- ہر ایک اپنی مقدرت کے موافق اس لنگرخانہ کے لئے مدد کرے- مَیں چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو ایک ایسا انتظام ہو کہ ہم لنگر خانہ کے سردرد سے فارغ ہو کر اپنے کام میں بافراغت لگے رہیں اور ہمارے اوقات میں کچھ حرج نہ ہو جو ہمیں مدد دیتے ہیں- آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے-
مَیں اس بات کے لکھنے سے رہ نہیں سکتا کہ اس نصرت اور جانفشانی میں اوّل درجہ پر ہمارے خالص مخلص حبّی فی اﷲ مولوی حکیم نور الدین صاحب٭ ہیں جنہوں نے نہ صرف مالی امداد کی بلکہ دُنیا کے تمام تعلقات سے دامن جھاڑ کر اور فقیروں کا جامہ پہن کر اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے قادیان میں موت کے دن تک آ بیٹھے اور ہر وقت حاضر ہیں- اگر مَیں چاہوں تو مشرق میں بھیج دوں یا مغرب میں- میرے نزدیک یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسب براہین احمدیہ میں یہ الہام اصحاب الصفہ وما ادراک ما اصحاب الصفہ اور حضرت ممدوح سے دوسرے درجہ پر حبّی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ہیں- اور ان کو توپہلے ہی خدا تعالیٰ نے دنیا میں مناسب اور جاہ طلبی کی مناسبت نہیں دی مگر وہ بالکل دینوی خیالات کو بھی استغاء دے کر اس دروازہ پر بیٹھے ہیں اور دن رات اپنے دماغ سے فوق الطاقت کام لے کر خدمت دین کر رہے ہیں اور جمعہ کی نماز میں بہت سے حقائق معارف قرآن شریف بیان کرتے اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں- اور مولوی حکیم نور الدین صاحب کے ہم شہر حکیم فضل دین ہیں اور وہ بھی قریباً اسی جگہ رہتے اور خدمات میں مشغول ہیں- اور ایک مخلص دوست ہمارے ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب دُنیا سے گزر گئے مگر جانے شکر ہے کہ چار اور مخلص ڈاکٹر یعنی خلیفہ رشیدالدین صاحب لاہوری اور ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب ہماری جماعت میں موجودہیں- ایسا ہی نہایت بااخلاص بعض وہ مخلص ہیں جنہوں نے اس جگہ بودوباش اختیار کی ہے- منجملہ ان کے مرزا خدا بخش صاحب بھی ہیں - اور نیز صاحبزادہ سراج الحق صاحب سرساوی اپنے وطن سرساوہ سے ہجرت کر کے قادیان آ گئے ہیں- اور کئی اور صاحب ہیں- اورہم دُعا کرتے ہیں کہ ان تمام صاحبوں کے لئے یہ ہجرتیں مبارک ہوں- اور مولوی حکیم نورالدین صاحب تو ہمارے اس سلسلہ کے ایک شمع روشن ہیں - ہر روز قرآن شریف اور حدیث کا درس دیتے ہیں اور اس قدر معارف حقائق قرآن شریف بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ خدا کی مدد نہیں تو اور کیا ہے - حضرت مولوی صاحب اور حبی جی اللہ مولوی عبد الکریم دونوں دلی صدق سے چاہتے ہیں کہ قادیان میں ہی ان کا جینا ہو اور قادیان میں ہی مرنا- اور مجھے اس سے بہت خوشی ہے کہ ایک اور جوان صالح خدا تعالیٰ کے فضل کو پاکر ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے یعنی حبی فی اللہ مولوی محمد علی صاحب ایم - اے پلیڈر- میں اُن کے آثار بہت پاتا ہوں- اور وہ ایک مدّت سے اپنے دنیائی کاروبار کا حرج کر کے خدمت دین کے لئے قادیان میںمقیم ہیں اورحضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب حقائق معارت قرآن شریف سُن رہے ہیں- اور مجھے٭ یقین ہے کہ میری فراست اس بات میں خطا نہیں کرے گی کہ جوان موصوف خدا تعالیٰ کی راہ میں ترقی کرے گا اور یقین ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ اور محبت دین پر ثابت قدم رہ کر ایسے نمونے دکھائے گا جو ہم جنسوں کے لئے پیروی کے لائو ہوں گے- اے خدا ایسا ہی کر آمین ثم آمین- اور بھی کئی دوست مخلص انگریزی خوان ہیں جیسے عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور خواکہ کمال الدین صاحب بی -اے اور خواجہ جمال الدین صاحب بی-اے اور مولوی شیر علی صاحب بی- اے ان سب پر مجھے ظن ہے - خدا ظن کو بحال رکھے اور یہ لوگ اپنے وقتوںپر خدمات میں مستعد ہیں- اور میرے خیال میں مولوی شیر علی غریب طبع نیک مزاج اور حلیم اور سلامت طبع اور مولوی محمد علیی صاحب سے مشابہ ہیں اور ایس جگہ قادیان میں رہتے ہیں- اور وہ گروہ مخلص جو ہماری جماعت میں سے کاروبار تجارت میں مشغول ہیں ان میں ایک حبی فی اللہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدر اس قابل تعریف ہیں اور انہوں نے بہت سے مواقعہ ثواب کے حاصل کئے ہیں- وہ اس قدر پُر جوش محب ہیں کہ اتنی دُور رہ کر پھر نزدیک ہیں اور ہمارے سلسلہ کے لنگر خانہ کی بہت سی مدد کرتے ہیں اور ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت اور اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کی ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں- کیونکہ تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں- وہ ایک سو روپیہ ماہواری بلاناغہ بھیجتے ہیں اور آج تک کئی دفعہ پانسو روپیہ تک یکمشت محض اپنی محبت اور اخلاص کے جوش سے بھیجتے رہے ہیں اور جو ایک سو روپیہ ماہواری ہے وہ اس سے علاوہ ہے- اسی طرح حبّی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور سیٹھ صاحب مصرع ثانی ہیں- مَیں خوب جانتا ہوں کہ شیخ صاحب موصوف دل و جان سے ہمارے محب ہیں- انہوں نے فوجداری مقدمات میں جو میرے پر کئے گئے تھے- اپنے بہت سے روپیہ سے میری مدد کی اور جوشِ محبت سے دیوانہ وار سرگردان ہو کر میری ہمدردی کرتے رہے- اب وہ ہمارے کام کے لئے صد ہا روپیہ کا خرچ اُٹھا کر لندن میں بیٹھے ہیں- خدا تعالیٰ ان کو جلد تر خیر وعافیت سے واپس لائے- یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ حبّی فی اﷲ سردار نواب محمد علی خان صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو فدا کریں گے- خدا تعالیٰ ہر ایک حملوں کو دیکھتا ہے- مجھے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں-
ان کے سوا اور بھی مخلص ہیں- جنہوں نے حال میں ہی بیعت کی ہے جیسا کہ ان دنوں حبّی فی اﷲ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ ممباسہ جو ہزارہا کوس سے اپنا اخلاص ظاہر کر رہے ہیں اور انہوں نے اور ان کے دوستوں نے ممباسہ ملک افریقہ سے اپنی مالی امداد سے بہت سا ثواب حاصل کیا ہے-٭ اور ڈاکٹر صاحب پرامید ہے کہ وہ آئندہ بھی بہت توجہ سے خود اور اپنی جماعت سے یہ نصرت دین کا کام لیں گے- ایسا ہی میری جماعت میں سے شیخ حامد علی تہہ غلام نبی اور میاں عبدالعزیز پٹواری سکنہ اوجلہ اور میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امان الدین کشمیریاں ساکنان سیکھواں اور صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانہ اور حبی فی اﷲ منشی چودھری نبی بخش صاحب رئیس بٹالہ جو بطور ہجرت اسی جگہ قادیان میں آ گئے ہیں - اور منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ شہر اور میاں عبداﷲ صاحب پٹواری ساکن سنور ریاست پٹیالہ اور سیّد فضل شاہ صاحب اور سیّد ناصر شاہ صاحب سب اورسیر اور میاں محمد علی صاحب ملہم لاہور اور شیخ غلام نبی صاحب تاجر راولپنڈی اور سید امیر علی شاہ صاحب مُلہم اور سیّد امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ اور بابو تاج دین صاحب اکونٹنٹ لاہور اور حبی فی اﷲ حکیم سید حسام الدین صاحب سیالکوٹی جو میرے پُرانے دوست ہیں- اور منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور مولوی غلام امام صاحب برہما ملک آسام اور مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہہ ضلع مراد آباد اور سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی اور خلیفہ نور دین صاحب ہیں جو ابھی محض ﷲ ایک خدمت پر مامور ہو کر کشمیر بھیجے گئے تھے اور چند روز ہوئے تو فائز المرام ہو کر واپس آ گئے ہیں اور اسی طرح اور بہت سے مخلص ہیں مگر افسوس کہ اگر مَیں ان کے نام لکھوں تو یہ اشتہار اشتہار نہیں رہے گا ان سب کے حق میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو دونوں جہان کی خوشی عطا کرے- جو کچھ وہ خدا کے لئے کرتے ہیں یا آئندہ کریں گے وہ سب خدا تعالیٰ کی آنکھ کے نیچے ہیں-
مگر بطور شکر احسان باری تعالیٰ کے اس بات کا ذکر کرنا واجبات سے ہے کہ میرے اہم کام تحریر تالیفات میں خدا تعالیٰ کے فضل نے مجھے ایک عمدہ اور قابل قدر مخلص دیا ہے یعنے عزیزی میاں منظور محمد کاپی نویس جو نہایت خوشخط ہے جو نہ دنیا کے لئے بلکہ محض دین کی محبت سے کام کرتا ہے اور اپنے وطن سے ہجرت کر کے اسی جگہ قادیان میں اقامت اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ میری مرضی کے موافق ایسا مخلص سرگرم مجھے میسّر آیا ہے کہ مَیں ہر ایک وقت دن کو یا را ت کو کاپی نویسی کی خدمت اس سے لیتا ہوں- اور وہ پوری جان فشانی سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے اس خدمت کو انجام دیتا ہے- یہی سبب ہے کہ اس روحانی جنگ کے وقت میں میری طرف سے دشمنوں کو شکست دینے والے رسالوں کے ذریعہ سے تاڑ تاڑ مخالفوں پر فیر ہو رہے ہیں- اور درحقیقت ایسے مویّد اسباب میسّر کر دینا یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے- جس طرف سے دیکھا جائے تمام نیک اسباب میرے لئے میسّر کئے گئے ہیں- اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں-
دوسری شاخ اخراجات کی جس کے لئے ہر وقت میری جان گذارش میں ہے سلسلہ تالیفات ہے- اگر یہ سلسلہ سرمایہ کے نہ ہونے سے بند ہو جائے تو ہزارہا حقائق اور معارف پوشیدہ رہیں گے اس کا مجھے کس قدر غم ہے؟ اس سے آسمان بھر سکتا ہے- اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سے میرے دل میں ڈالا گیا ہے مَیں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں- دُور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر مَیں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں- میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں- لیکن اگر کتابوں کے چھپنے کا سامان نہ ہو اور عملہ مطبع کے خرچ کا روپیہ موجود نہ ہو تو مَیں کیا کروں جس طرح ایک عزیز بیٹا کسی کا مَر جاتا ہے اور اس کو سخت غم ہوتا ہے- اسی طرح مجھے کسی ایسی اپنی کتاب کے نہ چھپنے سے غم دامنگیر ہوتا ہے جو وہ کتاب بندگان خدا کو نفع رساں اور اسلام کی سچائی کے لئے ایک چراغ روشن ہو-
تیسری شاخ اخراجات کی جس کی ضرورت مجھے حال میں پیش آئی ہے جو نہایت ضروری بلکہ اشد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں- اس لئے یہ دردناک نظارہ کہ ایسے لوگ دُنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قدر صدمہ پہنچاتا رہا ہے کہ مَیں گران نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو بلکہ اگر ہم و غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں اور کیوں یہ لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے- ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے مَیں ہلاک نہ ہو جائوں اور پھر اس کے ساتھ یہ دقت تھی کہ رسمی مباحثات ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرتے اور پرانے مشرکانہ خیالات اس قدر دل پر غالب آ گئے ہیں کہ ہیئت اور فلسفہ اور طبعی پڑھ کر ڈبو بیٹھے ہیں اور ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اسی برس کا بڈھا ہندو ہر چند دل میں تو خوب جانتا ہے کہ گنگا صرف ایک پانی ہے جو کسی کو کچھی بھی نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ ضرر کر سکتا ہے- تب بھی وہ اس بات کے کہنے سے باز نہیں آتا کہ گنگا مائی میں بڑی بڑی ست او رطاقتیں ہیں- اور اگر اس پر دلیل پوچھی جائے تو کوئی بھی دلیل بیان نہیں کر سکتا- تاہم منہ سے یہ کہتا کہ اس کی شکتی کی دلیل میرے دل میں ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے- مگر وہ کیا دلیل ہے- صرف پُرانے خیالات جو دل میں جمے ہوئے ہیں- یہی حالات ان لوگوں کے ہیں کہ نہ ان کے پاس کوئی معقول دلیل حضرت عیسٰی ؑ کی خدائی پر ہے اور نہ کوئی تازہ آسمانی نشان ہے جس کو وہ دکھا سکیں٭ اور نہ توریت کی تعلیم جس پر انہیں ایمان لانا ضروری ہے اور جس کو یہودی حفظ کرتے چلے آئے ہیں- اس مشرکانہ تعلیم کی مصدّق ہے مگر تاہم محض تحکم اور دھکّے کی راہ سے یہ لوگ اس بات پر ناحق اصرار کر رہے ہیں کہ یسوع مسیح خدا ہی ہے خدا نے قرآن کریم میں سچ فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ اس افتراء سے آسمان پھٹ جائیں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا جاتا ہے اور میرا اس درد سے یہ حال ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی کہے مَیں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری رُوح ہر وقت دُعا کرتی ہے کہ اے خدا اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کر حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اُٹھا دی جائے گی کہ گویا نعوذ باﷲ انہوں نے خدایٔ کا دعویٰ کیا- ایک زمانہ گذر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دُعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لادیں اور اس کے رُسول کو شناخت کر لیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں چنانچہ ان دُعائوں کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب سے نجات پا کر اور پھر مرہم عیسیٰ سے صلیبی زخموں سے شفاء حاصل کر نے نصبین کی راہ سے افغانستان میں آئے اورافغانستان سے کوہ نعمان میںگئے اور وہاںاس مقام میں ایک مدت تک رہے جہاں شہزادہ نبی کا ایک چبوترہ کہلاتا ہے جو اَبْ تک موجود ہے اور پھر وہاں سے پنجاب میں آئے اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے آخر کشمیر میں گئے اور ایک سَو پچیس برس کی عمر پاکر کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور سرینگر خانیار کے محلہ کے قریب دفن کئے گئے اور مَیں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کر رہا ہوں جس کا نام ہے- مسیح ہندوستان میں چنانچہ مَیںنے اس تحقیق کے لئے مخلصی محبّی خلیفہ نوردین صاحب کو جن کا ذکر آیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا٭ تو وہ موقعہ پر حضرت مسیح کی قبر کی پوری تحقیقات کر کے اور موقعہ پر قبر کا ایک نقشہ بنا کر اور پانسو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کرا کر یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسٰی صاحب کی قبر کہتے ہیں- ۱۷ ستمبر۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے سو کشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پا گیا اور پانسو چھپن شہادت سے ثابت ہو گیا کہ درحقیقت یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے کہ جو سری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے-
لیکن اب ایک اور خیال باقی رہا ہے کہ اگر پورا ہو جائے تو نور علیٰ نور ہو گا اور وہ باتیں ہیں- اوّل یہ کہ مَیں نے سُنا ہے کہ وہ نعمان میں جو شہزادہ نبی کا چپوترہ ہے اس کے نام ریاست کابل میں کچھ جاگیر مقرر ہے- لہذا اس غرض احباب کا کوہ نعمان میں جانا اور بعض احباب کا کابل میں جانا اور جاگیر کے کاغذات کی ریاست کے دفتر سے نقل لینا فائدہ سے خالی معلوم نہیں ہوتا٭ دوسرے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام افغانستان کی طرف نصیبی کی راہ سے آئے تھے اور کتاب روضتہ الصفا سے پایا جاتا ہے کہ اس فتنہ صلیب کے وقت نصیبین کے بادشاہ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بلایا تھا اور ایک انگریز اس پر گواہی دیتا ہے کہ ضرور حضرت مسیحؑ کو اس کا خط آیا تھا بلکہ وہ خط بھی اس انگریز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے - اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ نصیبین میں بھی حضرت مسیح علیہّ السلام کے اس سفر کی اب تک کچھ یاد گار قائم ہو گی- اور کچھ تعجب نہیں کہ وہاں بعض کتبے بھی پائے جائیں یا آپ کے بعض حواریوں کی وہاں قبریں ہوں جو شہرت پا چکی ہوں لہذا میرے نزدیک یہ قرین مصلحت قرار پایا ہے کہ تین دانشمند اور الوالعزم آدمی اپنی جماعت میں نصیبین میں بھیجے جائیں٭ - سو اُن کی آمدروفت کے اخراجات کا انتظام ضروری ہے - ایک اُن میں سے مرزا خدا بخش صاحب ہیں اور یہ ہمارے ایک نہایت مخلص اور جان نثار مرید ہیں جو اپنے شہر جھنگ سے ہجرت کر کے قادیان میں آ رہے ہیں اور دن رات خدمتِ دین میں سرگرم ہیں- اور ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مرزا صاحب موصوف کا تمام سفر خرچ ایک مخلص باہمت نے اپنے ذمّہ لے لیا ہے اور وہ نہیں چاہتے ہ ان کا نام ظاہر کیا جائے- مگر دو اور آدمی ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ہم سفر ہوں گے- اُن کے سفر خرچ کا بندوبست قابل انتظام ہے - سو امور متذکرہ بالا میں سے ایک یہ تیسرا امر ہے کہ ایسے نازک وقت میں جو پہلی دو شاخیں بھی امداد مالی سخت محتاج ہیں پیش آ گیا ہے - اور یہ سفر میرے نزدیک ایسا ضروری ہے کہ گویا کسی شاعر کا یہ شعر اسی موقع کے حق میں ہے ؎گرجاں طلبد مضائقہ نیست - زرمی طلبد سخن دریں ست- خدا تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں- ممکن ہے کہ چند آدمی ہی ان تینوں شاخوں کا بندوبست کرسکیں-٭ غرضی انہی تینوں شاخوں کے لئے نہایت ضروری سمجھ کر یہ اشتہار لکھا گیا ہے- اے عقل مندو! خدا کے راضی کرنے یہ وقت ہے کہ پھر نہیں ملے گا- مَیں تاکیدًا لکھتا ہوں کہ جو صاحب اہل مقدرت ہوں اور کوئی بڑی رقم بھیجنا چاہیں تو بہتر ہے کہ وہ بذریعہ تار بھیج دیں کہ تینوں شاخوں کے سوا اور کئی شاخیں مصارف کی بھی ہیں جیسا کہ مدرسہ کی شاخ جس کو محض اس غرض سے قادیان میں قائم کیا گیا ہے کہ تا لڑکے اپنی ابتدائی حالات میں ہی راہ راست سے واقفیت پیدا کر لیں اور نادان مولویوں یا پادریوں کے پنجہ میں نہ پھنس جاویں اور ایسا ہی وہ دوسری تمام شاخوں کے لئے جن کی سخت ضرورتیں پیش آ گئی ہیں شائع کیا جاتا ہے- اب جو شخص صدق دل سے ہماری تحریر کی اطاعت کرنا چاہے اس کوچاہئے ہمارے اس اشتہار کی تعمیل میں ایک ذرّہ توفف نہ کرے اور موجودہ مشکلات کے دُور کرنے کے لئے جو کچھ اس کے ہو سکے اور جو کچھ بن پڑے مگر خدا کے علم سے خوف کر کے بلا توقف اس کو بھیج دے- یہ سچ ہے کہ یہ دن ایام قحط ہیں اورہماری جماعت کے اکثر افراد سقیم الحال اور نادار اور عیال دار ہیں گو خدا کی راہ میں صدق دل سے خدمت کے لئے حاضر ہو جانا ایک ایسا مبارک امر ہے جو درحقیقت اور تمام مشکلات اور آفات کا علاج ہے پس جس کو یقین ہے کہ خدا برحق ہے اور دین و دُنیا میں اس کی عنایات کی حاجت ہے اس کو چاہیئے کی اس مبارک موقع کو ہاتھ سے نہ دے اور بخل کے دق مبتلا ہو کر اس ثواب سے محروم نہ رہے - اس عالی سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے وہی لائق ہے جو ہمت بھی عالی رکھتا ہو اور نیز آئندہ کے لئے ایک تازہ اور سچّا عہد خدا تعالے سے لے کر حتی الوسع بلا ناغہ ہر ایک مہینہ میں اپنی مالی امداد سے ان دینی مشکلات کے رفع کرنے کے لئے سعی کرتا رہے گا- یہ منافقانہ کام ہے کہ اگر کوئی مصیبت پیش آوے تب خدا اور اہل خدا یاد آ جائیں اور جب آرام اور امن دیکھیں تو لا پروا ہو جائیں- خدا غنی بے نیاز ہے اس سے ڈرو اور اُس کا فضل پانے کے لئے اپنے صدق کو دکھلائو- خدا تمہارے ساتھ ہو والسّلام ۴ اکتوبر ۱۸۹۹
راقم مرزا غلام احمد از قادیان
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان )
(۲۰۹)
جلسۃ الوداع
(ضمیمہ اشتہار الاتصار ۴ اکتوبر ۱۸۸۹ء)
ہم اس اشتہار میں لکھ چکے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے تین آدمی اس کام کے لئے منتخب کئے گے کہ وہ نصیبین اور اس کو نواح میں جاویںاور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے آثار اس ملک میں تلاش کریں- اب حال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سفر سے خرچ کا امر تقریباً انتظام پذیر ہو چکاہے - صرف ایک شخص کی زادراہ کا انتظام باقی ہے یعنی اخویم مکرمی مولوی حکیم نورالدین صاحب نے ایک آدمی کے لئے ایک طرف کا خرچ دے دیا ہے اور اخویم منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپیہ دیئے ہیں اور میں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپیہ دیئے ہیں- ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دُنیا کے مال کے نہایت ہی کم حصّہ رکھتے ہیں- گویا حضرت ابو بکرؓ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی- ایسا ہی مرزا خدا بخش صاحب نے بھی اس سفر خرچ کے کئے پچاس روپیہ چندہ دیا ہے خدا تعالیٰ سب کو اجر بخشے- آج ۱۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو قرعہ اندازی کے ذریعہ سے وہ دو شخص تجویز کئے گئے ہیں جو مرزا خدا بخش صاحب کے ساتھ نصیبین کی طرف جائیں گے- اب یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عزیزوں کو روانگی کے لئے ایک مختصر ساجلسہ کیا جائے کیونکہ یہ عزیز دوست ایمانی صدق سے تمام اہل و عیال کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کر کے اور وطن کی محبت کو خیرباد کہہ کر دُور دراز ملکوں میں جائیںگے اور سمندر کو چیرتے ہوئے اور جنگلوں پہاڑوں کو طے کرتے ہوئے نصیبین یا اس سے آگے بھی سَیر کریں گے اور کربلا معّلی کی زیارت بھی کریں گے- اس لئے یہ تینوں عزیزقابل قدر اور تعظیم ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لئے ایک بڑا تحفہ لائیں گے- آسمان اُن کے سفر سے خوشی کرتا ہے کہ محض خدا کے لئے قوموں کو شرک سے چھوڑانے کے لئے یہ تین عزیز ایک منجی کی صورت پر اُٹھے ہیں- اس لئے لازم ہے کہ ان کی وداع کے لئے ایک مختصر سا جلسہ قادیان میں ہو اور ان کی خیر و عافیت اور ان کے متعلقین کی خیرو عافیت کے لئے دعائیں کی جائیں- لہذا میں نے اس جلسہ کی تاریخ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء مقرر کر کے قرین مصلحت سمجھا جائے کہ ان تمام خالص دوستوں کو اطلاع دوں جن کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عید نہیں کہ جس کام کے لئے اس سردی کے ایام میں اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیال اور دوستوں سے علیٰحدہ ہو کر جاتے ہیں اس مراد کو حاصل کر کے واپس آویں اور فتح کے نظارے ان کے ساتھ ہوں-
مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اے خدا جس نے اس کام کے لئے مجھے بھیجا ہے ان عزیزوں کواور عافیت سے منزل مقصود تک پہنچا اور پھر بخیر و خوبی فائر المرام واپس آئیں- آمین ثم آمین اور مَیں رکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز دوست جو دین کے لئے اپنے تئیں وقف کر چکے ہیں حتی الوسع فرصت نکال کر اس جلسہ وداع پر حاضرع ہو ں گے اور اپنے ان مسافر عزیزوں کے لئے رو رو کر دُعائیں کریں گے- والسلام
راقــــــــــــــ ــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان (ا سمٰعیل پریسن )
(۲۱۰)
ضمیمہ تریاق القلوب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
ایک الہامی پیشگوئی کا اشتہار
چونکہ مجھے ان دنوں میں چند متواتر الہام ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ عنقریب آسمان سے کوئی ایسا نشان ظاہر کرے گا- جس سے میراصدق ظاہر ہو- اس لئے مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے حق کے طالبوں کو امید دلاتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب آسمان سے کوئی تازہ شہادت میری تائید کے لئے نازل ہو گی- یہ ظاہر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے مادر دُنیا میں آئے ہیں گراں کی تعلیم نہایت اعلیٰ تھی اور اُن کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے اور ان کی زیر کی اور فراست بھی اعلیٰ درجہ پر تھی لیکن ان کا خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونا لوگوں نے قبول نہ کیا جب تک ان کی تائید میں آسمان سے کوئی نشان نازل نہیں ہوا- اسی طرح خد تعالیٰ اس جگہ بھی بارش کی طرح اپنے نشان ظاہر کر رہا ہے تا دیکھنے والے دیکھیں اور سوچنے والے سوچیں- اور اب مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک برکت اور رحمت اور اعزاز کا نشان ظاہر ہو گا جس سے لوگ تسلّی پائیں گے جیسا کہ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۹ء کویہ الہام ہوا-
ایک عزّت کا خطاب ایک عزّت کا خطاب للئخطاب العّزہ- ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا- یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے جس کو مَیں نے موٹی قلم سے لکھ دیا ہے- اگرچہ انسانوں کے لئے بادشاہوں اور سلاطین وقت سے بھی خطاب ملتے ہیں مگر وہ صر ف ایک لفظی خطاب ہوتے ہیں جو بادشاہوں کی مہربانی اور کرم اور شفقت کی وجہ سے یا اور اسباب سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں اور بادشاہ اس کے ذمہ دارنہیں ہوتے کہ جو خطاب انہوں نے دیا ہے اس کے مفہوم کے مو۱فق وہ شخص اپنے تیئں ہمیشہ رکھے جس کو ایسا خطا ب دیا گیا ہے مثلاً کسی بادشاہ نے کسی شیر بہادر کا خطاب دیا تو وہ بادشاہ اس بات کا متکفل نہیں ہو سکتا کہ ایسا شخص ہمیشہ اپنی بہادری دکھلاتا رہے گا- بلکہ ممکن ہے کہ ایسا شخص خلف قلب کی وجہ سے ایک چوہے کہ تیز رفتاری سے بھی کانپ اُٹھتا ہو چہ جائیکہ وہ کسی میدان میں شیر کی طرح بہادری دکھلاوے لیکن وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ سے شیر بہادر کا خطاب ملے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ درحقیقت بہادر ہی ہو کیونکہ خدا انسان نہیں ہے جہ جھوٹ بولے یا دھوکہ کھاوے یا کسی پولیٹیکل مصلحت سے ایسا خطاب دیدے جس کی نسبت وہ اپنے دل دل میں جانتا ہے کہ دراصل اس خطاب کے لائق نہیں ہے اس لئے یہ بات محقق امر ہے کہ لایق وہی خطاب ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے - اور وہ خطاب دو قسم کا ہے- اوّل وہ جو وحی اور الہام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ عطا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک نبیوں میں سے کسی کو صفی اللہ کا لقب دیا اور کسی کو کلیم اللہ کا اور کسی کو رُوح اللہ کا اور کسی کو مصطفیٰ اور حبیب اللہ کا ان تمام نبیوں پر خدا تعالیٰ کا سلام اور رحمتیں ہوں- اور دوسری قسم خطاب کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض نشانوں اور تائیدات کے ذریعہ سے بعض اپنے مقبولین کی اس قدر محبت لوگوں کے دلوں میں یک دفعہ ڈال دیتا ہے کہ یا تو اُن کو جھوٹا اور کافر اور مفتری کہا جاتا ہے اور طرح طرح کی نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں اور ہر ایک بدعادت اور عیب اُن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور یا ایسا ظہور میں آتا ہے کہ ان کی تائید میں کوئی ایسا پاک نشان ظاہر ہو جاتا ہے جس کی نسبت کوئی انسان کوئی بد ظنی نہ کر سکے اور ایک موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکے کہ یہ نشان انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے پاک ہے اور خاص خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے ہاتھ سے نکلا ہے- تب ایسا نشان ظاہر ہونے سے ہر ایک سلیم طبیعت بغیر کسی شک و شبہ کے اس انسان کوقبول کر لیتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰکی طرف سے ہی یہ بات پڑ جاتی ہے کہ یہ شخص درحقیقت سچّا ہے- تب لوگ اس الہام کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اس شخص کو صادق کا خطاب دیتے ہیں-٭ کیونکہ لوگ اس کو صادق صادق کہنا شروع کر دیتے ہیں- اور لوگوں کا یہ خطاب ایسا ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آسمان سے خطاب دیا کیونکہ خد تعالیٰ آپ ان کے دلوں میں یہ مضمون نازل کرتا ہے کہ لوگ اس کو صادق کہیں- اب جہاں تک مَیں نے غور اور فکر کی ہے، مَیں اپنے اجتہاد سے نہ کسی الہامی تشریح سے اس الہام کے جس کو مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے یہی معنی کرتا ہوں کیونکہ ان معنوں کے لئے اس الہام کا آخری فقرہ ایک بڑا قرینہ ہے کیونکہ آخری فقرہ یہ ہے کہ ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا لہذا میں اپنے اجتہاد٭ سے اس کے یہ معنی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پُرانا ہو گیا ہے - اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہو چکی ہے کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلحکاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے بر تر اور پاک تر ہو گا- تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہو گی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے یک دفعہ ہو جائیں گے- مگر جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے یہ میرا خیال ہے ابھی کوئی الہامی تشریح نہیں ہے - میرے ساتھ خد ا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طر سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑتا دیتا ہے - مگر یہ تشریح جو ابھی مَیںنے کی ہے اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے جو ابھی ۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ء کومَیں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں محبّی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے اور قبل اس کے جو مَیں اس خواب کی تفصیل بیان کروں اس قدر لکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہو گا کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں جن کا گھر بھیرہ ضلع شاہ پور میں ہے مگر ان دنوںمیں ان کی ملازمت لاہور میں ہے- یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں مجھے افسوس ہے کہ مَیں اپنے اشتہار ۱۶ اکتوبر میں سہواً اُن کا تذکرہ کرنا بھول گیا- وہ ہمیشہ میرے دینی خدمات میں نہایت جوش سے مصروف ہیںخدا ان کو جزاء خیردے- اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ مَیں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرا ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیںاور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر مَیں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے، یہ خواب ہے اس اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے مَیں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہو گا اور جیسا کہ مَیں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ مَیں صادق سمجھاجائوں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی اور ایسا ہی ۲۰ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے٭ اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا مَیںنے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے-مَیں نے اس خواب کی یہ تعبیرکی ہے کہ عزیز عزّت پانے والے کو کہتے ہیںاور سلطان جو خواب میں لڑکے کا باپ سمجھایا گیا ہے- یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میںاس دلیل کو کہتے ہین کہ جو ایسی بیّن الظہور ہو جو بباعو اپلے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلّط کرے- گویا سلطان کا لفظ تسلّط سے لیا گیا ہے- اورسلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل ہو کہنتے ہیں جو اپنی قبولیّت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کر لے- اور طبائع سلیمہ پر اس کا تسلّط تام ہو جائے - پس اس لحاظ سے کو خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا اُس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلّط کرنے والا ہو گا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کے نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہوتا ہو گا جس کو خواب میں عزیز کی تمثل سے ظاہر کیا گیا- پس خدا نے مجھے یہ دکھلایا ہے کہ قریب ہے جو سلطان ظاہر ہو یعنی دلوں پر تسلّط کرنے والا نشان جس سے سلطان کا لفظ کا اشتقاق ہے اور اس کا لازمی نتیجہ جو اس کے فرزند کی طرح ہے عزیز ہے- اوریہ ظاہر ہے کہ جس انسان سے وہ نشان ظاہر ہو جس کو سلطان کہتے ہیں جو دلوں پر ایسا تسلّط اور قبضہ رکھتا ہے جیسا ظاہری سلطان جس کا بادشاہ کہتے ہیں- رعایا پر تسلّط رکھتااور قبضہ رکھتا ہے تو ضرور ہے کہ ایسے نشان کے ظہور سے اس کا اثر بھی ظاہرہو- یعنی دلوں پر تسلّط اس نشان کا ہو کر صاحب نشان لوگوں کی نظر میںعزیز بن جائے اور جبکہ عزیز بننے کا موجب اور علّت سلطان ہی ہوا یعنی ایسی دلیل روشن جو دلوں پر تسلّط کرتی ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ عزیز ہونا سلطان کے لئے بطور فرزند کے ہوا- کیونکہ عزیز ہونے کا باعث سلطان ہی ہے جس نے دلوں پر تسلط کی اور تسلّط سے پھریہ عزیز کی کیفیت پیدا ہوئی سو خدا تعالیٰ نے مجھ کو دکھلایا کہ ایسا ہی ہو گا- اور ایک نشان دلوں کو پکڑنے والا اور دلوں پر قبضہ کرنے والا اور دلوںپر تسلّط رکھنے والا ظاہر ہو گا جس کو سلطان کہتے ہیں- اور اس سلطان سے پیدا ہونے والا عزیز ہو گا- یعنی عزیز ہونا سلطان کا لازمی نتیجہ ہو گا کیونکہ نتیجہ بھی عربی زبان میں بچہ کو کہتے ہیں- فقط
الرقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان تعداد ۰۰۰
(۲۱۱)
ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
لبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
وہی اُس کے مقرب جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں راہ اس کے عالی بار گہ تک خد پسندوں کو
یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُ س سے قربت کو
اسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلائو سب کمندوں کو
اس عاجز غلام احمد قادانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دُعا اور حضرت عزّت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست
اے میرے حضرت اعلیٰ ذولجلال قادر و قدّوس حیّ وقیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالآباد مبارک ہے - تیرے قدرت کے کام کبھی نہیں رک سکتے- تیرا قوی ہاتھ ہمیشہ ’’ اٹھ مَیںنے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجّت پوری کرنے کے لئے اور اسلام سچّائیوں کو دُنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ کرنے کے لئے چُنا‘‘ اور تو نے ہی مجھے کہا‘‘ تو میری نظر میں منظور ہے- مَیں اپنے عرش پر تیری تعریف کرتاہوں‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا ’’ کہ تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا‘‘ اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ’’ تو مجھ سے ایسا ہے کہ جیسا کہ میری توحید اور تفرید‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ ’’ مَیں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا- ان کو کہہ دے کہ مَیں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلائوں اور کوئی مذہب ان تمام مذاہبوں میں سے جو زمین پر میں معارف میں تعلیم کی عمدگی میں خدا کی تائیدوں میں خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام کی ہمسری نہ کر سکے‘‘ اور تو نے ہی مجھے فرمایا’’ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے -مَیں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا‘‘ مگر اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر اور کذّاب اور دجّال رکھا گیا- مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دلآزار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا کہ ’’ حرام خور لوگوں کا مال کھانے والا وعدوں کا تخّلف کرنے والا حقوق کو تلف کرنے والا لوگوں کو گالیاں دینے والا عہدوں کو تورنے والااپنے نفس کے لئے مال کو جمع کرنے والا اور شریر اور خونی ہے‘‘ یہ وہ باتیں ہیں جو خود اُن لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تیئں اچھے اور اہل عقل اور پرہیز گار جانتے ہیں اور ان کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ درحقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور انہوں نے صد ہا آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہ کیا- وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں- ہر ایک ان میں جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے سو اسے میرے قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طورپر یقین کریں کہ مَیںتیرا مقبول ہوں اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی ان کے اندر پیدا ہو اور زمین پر پاکی اور پرہیزگاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلاویں اور ہر ایک طالب حق کی نیکی کی طرف کھنچیں اور اس طرح تمام قوتیں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دُنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تیئں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے- لیکن اگر اے پیارے مولیٰ میری رفتار تیری نظر سے اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دُنیا سے مٹا دے تا مَیں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں- مَیں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا مَیں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جائوں- لیکن مَیں عاجزی سے اور حضرت ربویت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر مَیں اس عالی جانت کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دُعا کے موافق میری تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع ور غروب کو انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہیں- اگرچہ اے میرے خداوند یہ سچ ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں- لیکن اس وقت مَیں اسی بات کی اپنی سچّائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کی تصّرفات سے بالکل بعید ہو- تا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے- سو اے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہوں نہیں- اگر تو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے- تو میرا ہے جیسا کہ مَیں تیرا ہوں - تیری جناب میں الحاح سے دُعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ مَیں تیری طرف سے ہوںاور اگر سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تُو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا جو پبلک کی نظر میں انسانوں کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتر یقین کیا جائے تا لوگ سمجھیںکہ مَیں تیری طرف سے ہوں- اے میرے قادر خدا! اے میرے توانااور سب قوتوں کے مالک خداوند ! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جنّ اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں- دُنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں- مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی ک وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے کیونکہ تو وہ ہے جس کی شنا لا الٰہ الَا اللہ ہے جو العلیٰ العظیم ہے جو لوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں ان کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس کی الوہیت کی قدت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو- وہ تُو ہی جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھلاتے رہے ہیں- اور بڑی بڑی پیشگوئیان کرتے رہے ہیںجن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی درماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی تیری پیشگوئیوں میں تیرے جلال کی چمک ہوتی ہے اور تیری الوہیت کی قدرت اور عظمت اور حکومت کی خوشبو آتی ہے اور تیرے مُرسلوں کے آگے فرشتہ چلتا ہے تا ان کی راہ میں کوئی شیطان مقابلہ کے لئے نہ ٹھہر سکے- مجھے تیری عزّت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے- پس اگر تو تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ء میں عیسوی شروع ہو کر دسمبر ۱۹۰۲ء عیسوی تک پورے ہو جائیںگے ، میری تائید مین اور تصدیق میں کوئی آسمانی نشان نہ دکھلا وے اور اپنے اس بندہ کو اُن لوگون کی طرح ردّ کر دے جو تیری نظر میں شریر اور پلید اور بے دین اور کذّاب اور دجّال اور خائن اور مفسد ہیں تو مَیں تجھے گواہ کرتا ہوںکہ مَیں اپنے تیئں صادق نہیں سمجھوں گا اور ان تمام تہمتوں اور الزاموں اور بہتانوں کا اپنے تئیں مصداق سمجھ لوں گاجو میرے پر لگائے جاتے ہیں دیکھ! میری رُوح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرح ایسی پرواز کر رہیہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے سو مَیں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور انہ اپنی عزّت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دُور نہ پڑجائیں- مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے اور میری تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں یہاں تک کہ چاند سورج کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں پیشگوئی کی تاریخون کے موافق گرہن میں آویں اور تو نے وہ تمام نشان کو ایک سو سے زیادہ ہیں میری تائید میں دکھلائے جو میرے رسالہ تریاق القلوب میں درج ہیں- تو نے مجھے وہ چوتھا لڑکا عطا فرما یا جس کی نسبت مَیں نے پیشگوئی کی تھی کہ عبد الحق غزنوی حال امرت سری نہیں مرے گا- جب تک وہ لڑکا پیدا نہ ہو لے- سو وہ لڑکا اس کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا-مَیںاُن نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں- مَیں تجھے پہنچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے - اس لئے میری رُوح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوںنے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا- اس لئے نہ مَیںنے بلکہ میری رُوح نے اس پر زور دیا کہ مَیںتیرے حضور میں سچّا ہون اور اگر تیرے غضب میرے پر نہیں ہے اور اگر مَیں تیری جناب میں مستجاب الداعوت ہوں تو ایسا کر کہ جنوری ۱۹۰۰ء سے اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک میرے لئے کوئی اور نشان دکھلا اور اپنے بندہ کے لئے گواہی دے جس کو زبانون سے کچلا گیا ہے دیکھو! مَیںتیری جناب میں عاجزانہ ہاتھ اُٹھاتا ہوں کہ تُو ایسا ہی کر- اگر مَیںتیرے حضور میں سچا ہوں اورجیسا کہ خیال کیا گیا ہے کافر اور کاذب نہیں ہوں تو ان تین سال میں جو اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک ختم ہو جائیں گے کوئی ایسا نشان دکھلا جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو جبکہ تو نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دُعا قبول نہ ہو تو مَیں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بیدین اور خائن ہوں جیسا کہ مجھے سمجھا گیا ہے- اگر مَیں تیرا مقبول ہوں تو میرے لئے آسمان سے ان تینوں برسوں کے اندر گواہی دے تا ملک میں امن اور صلح کاری پھیلے اور تا لوگ یقین کریں کہ تو موجود ہے اور دُعائوں کو سُنتا اور جوان کی طرف جھکتے ہیں جھکتا ہے- اب تیری طرف اور تیسرے فیصلہ کی طرف ہر روز میری آنکھ رہے گی جب تک آسمان سے تیری نصرت نازل ہو اور میں کسی مخالف کو اشتہار میں مخاطب نہیں کرتا اور نہ اُن کو کسی مقابلہ کے لئے بُلاتا ہوں- یہ میری دُعا تیری ہی جناب میں ہے کیونکہ تیری نظر سے کوئی صادق یا کاذب غائب نہیں ہے میری رُوح گوہی دیتی ہے کہ تو صادق کو ضائع نہیں کرتا اور کاذب تیری جناب میں کبھی عزّت نہیں پا سکتا اور وہ جو کہتے ہیں کہ کاذب بھی نبیوں کی طرح تحدّی کرتے ہیں- اور اُن کی تائید اور نصرت بھی ایسی ہی ہوتی ہے- جیسا کہ راست باز نبیوں کی - وہ جھوٹے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نبوت کے سلسلہ کو مشتبہ کردیں- بلکہ تیرا قہر تلوار کی طرح مفتری پر پڑتا ہے- اور تیرے غضب کی بجلی کذاب کو بھسم کر دیتی ہے مگر صادق تیرے حضور میں زندگی اور عزّت پاتے ہیں - تیری نصرت اور تائید اور تیرا فضل اور رحمت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے- آمین ثم آمین -
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۵ نومبر ۱۸۹۹ء
تعداد ۳۰۰۰ مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان
(۲۱۲)
اپنی جماعت کے لیے اطلاع
یاد رہے کہ ایہ اشتہار محض اس غرض سے شائع کیا جاتا ہے کہ تا میری جماعت خدا کے آسمانی نشان دیکھ کر ایمان اور نیک عملوں میں ترقی کرے اور ان کو معلوم ہو کہ وہ ایک صادق کا دامن پکڑ رہے ہیں نہ کاذب کا- اور تا وہ راست بازی کے تمام کاموں میں آگے بڑھیںاور اُن کا پاک نمونہ دُنیا میں چمکے- ان دنوں میں وہ چاروں طرف سے سُن رہے ہیں کہ ہر ایک طرف سے مجھ پر حملے ہوتے ہیں اور نہایت اصرارسے مجھ کو کافر اور دجّال اور کذّاب کہا جاتا ہے اورقتل کرنے کے لئے فتوے لکھے جا تے ہیں- پس ان کو چاہیے کہ صبر کریں اور گالیوں کا گالیوں کے ساتھ ہر گز جواب نہ دیں- اور اپنا نمونہ اچھا دکھاویں- کیونکہ اگر وہ بھی ایسی ہی درندگی ظاہر کریں جیسا کہ اُن کے مقابل پر کی جاتی ہے- تو پھر ان میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے - اس لئے مَیںسچ سچ کہتا ہون کہ وہ ہر گز اپنا اجر پا نہیں سکتے جب تک صبر اور تقویٰ اور عفو اور درگذر کی خصلت سب سے زیادہ اُن میں پائی جائے - اگر مجھے گالیاں دی جاتی ہیں تو کیا یہ نئی بات ہے؟ کیا اس سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کو ایسا ہی نہیں کیا گیا؟ اگر مجھ پر بہتان لگائے جاتے ہیں تو کیا اس سے پہلے خدا کے رسُولوں اور راستبازوں پر الزام نہیں لگائے گئے؟ کیا حضرت موسیٰ پر یہ اعتراض نہیں ہوئے کہ اُس نے دھوکہ دے کر حق مصریوں کا مال کھا یا اور جھوٹ بولا کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں اور جلد واپس آئیں گے اور عہد توڑا اور کئی شیر خوار بچوں کو قتل کیا- اور کیا حضرت دائودؑ کی نسبت نہیں کہا گیا کہ اس نے ایک بیگانہ عورت سے بد کاری کی اور فریب سے اور یا نام ایک سپہ سالار کو قتل کرا دیا اور بیت المال میں ناجائز دست اندازی کی؟ اور کیا ہارون ؑ کی نسبت یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ اس نے گو سالہپرستی کرائی؟اور کیا یہودی اب تک نہیں کہتے کہ یسوع مسیح نے دعویٰ کیا تھا کہ مَیںدائود کا تخت قائم کرنے آیا ہوں اور یسوع کے اس لفظ سے بجز اس کے کیا مراد تھی کہ اس نے اپنے بادشاہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی جو پوری نہ ہوئی؟ اور کیونکر ممکن ہے کہ صادق کی پیشگوئی جھوٹی نکلے- یہودی یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مسیح نے کہا تھا کہ ابھی بعض لوگ زندہ موجود ہ۰وں گے کہ مَیں واپس آئوں گا مگر یہ پیشگوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اب تک واپس نہیں آیا- ایساہی ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض امور پر جاہلوں کے اعتراض ہیں جیسا کہ حدیبیہ کے واقعہ پر بعض نادان مرتد ہو گئے تھے- اور کیا اب تک پادریوں اورآریوں کی قلموں سے وہ تمام جھوٹے الزام ہمارے سیّد و مولی صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت شائع نہیں ہوتے جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں - غرض مخالفوں کا کوئی بھی میرے پر ایسا اعتراض نہیں جو مجھ سے پہلے خدا کے نبیوں پر نہیں کیا گیا- اس لئے مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ جب تم ایسی گالیاں اور ایسے اعتراض سنو تو غمگین اور دلگیر مت ہو کیونکہ تم سے اور مجھ سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کی نسبت یہی لفظ بو لے گئے ہیں- سو ضرور تھا کہ خدا کی وہ تمام سُنتیں اور عادتیں نبیوں کی نسبت وقوع میں آ چکی ہیں ہم میں پوری ہوں- ہاں یہ درست بات ہے اور ہمارا حق ہے کہ جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے جب کہ ہم دُکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں اور ہمارا صدق لوگوں پر مشتبہ ہو جائے اور ہماری راہ کے آگے صد ہا اعتراضات کے پتھر پڑ جائیں تو ہم اپنے خدا کے آگے روئیں اور اس کی جناب میں تضرعات کریں اور اس کے نام کی زمین پر تقدیس چاہیں اور اس سے کوئی ایسا نشان مانگیں جس کی طرف حق پسندوں کی گردنیں جھک جائیں- سو اسی بناء پر مَیں نے یہ دُعا کی ہے- مجھے بار ہا خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دُعا کرے تو مَیں تیری سُنوں گا- سو مَیں نوح نبی کی طرح دو نوں ہاتھ پھیلاتاہوںاور کہتا ہوں رَبّ انی مغلوب مگر بغیر نانقر کے - اور میری رُوح دیکھ رہی ہے کہ خدا میری سنے گا اور میرے لئے ضرور کوئی ایسا رحمت اور امن کا نشان ظاہر کر دے گا کہ جو میری سچائی پر گواہ ہو جائے گا- میں اس وقت کسی دوسرے کو مقابلہ کے لئے نہیں بُلاتا اور نہ کسی شخص کے ظلم اور جود کا جناب الہٰی میں اپیل کرتا ہوں- بلکہ جیسا کہ مَیں تمام اُن لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں جو زمین پر رہتے ہیں خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہیں اور خواہ یورپ کے اور خواہ امریکہ کے- ایسا ہی مَیں عام اغراض کی بناء پر بغیر اس کے کہ کسی زید یا بکر کا میرے دل میں تصور ہو خدا تعالیٰ سے ایک آسمانی شہادت چاہتا ہوں جو انسانی ہاتھوں سے بالاتر ہو- یہ فقط دُعائیہ اشتہار ہے جو خدا تعالیٰ کی شہادت طلب کرنے لئے مَیں لکھتا ہوں- اور مَیں جانتا ہوںکہ اگر مَیں اس کی نظر میں صادق نہیں ہوں تو اس تین برس کے عرصہ تک جو۱۹۰۲ء تک ختم ہو ں گے میری تائید میں ایک ادنیٰ قسم کا نشان بھی ظاہر نہیں ہو گا اور اس طرح پر میرا کذب ظاہر ہو جائے گا اور لوگ میرے ہاتھ سے مخلصی پائیں گے- اور اگر اس مدت تک میرا صدق ظاہر ہر جائے جیسا کہ مجھے یقین ہے تو بہت سے پردے جو دلوں پر ہیں اُٹھ جائیں گے میری یہ دُعا بدعت نہیں ہے بلکہ ایسی دُعا کرنا اسلام کی عبادات میں سے ہے جو نمازیوں میں ہمیشہ پنجوقت ن مانگی جاتی ہے کیونکہ ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم سراط الّذین انعمت علیھم اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنی ترقی ایمان اور نبی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں- نبیوں کا کمال صدیقوں کا کمال، صدیقوں کا کمال، شہیدوں کا کمال، صلحا کا کمال، سو نبی کا خالص کمال یہ ہے کہ خد اسے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو- اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے- ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کومعلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں- اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دُکھوں اور ابتلائوں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے اور خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے- اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے- سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے یں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں- ہماری ن ماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنجوقت خدا تعالیٰ سے چارنشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین پلید نہ کرے- اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتاہے کہ جب وہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے- حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا- دیکھو متی باب ۸ آیت ۹ پس تم اسی طرح دُعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو- والسّلام
راقــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۵ نومبر ۱۸۹۹ء
(۲۱۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار
ایّھا النّاس قدظھرت اٰیات اﷲ لتائیدی و تصدیقی و شھدت لی شھداء اﷲ من تحت ارجلکم و من فوق رؤسکم و من یمینکم و من شمالکم و من انفسکم و من اٰفاتکم فھل فیکم رجل امین و من المستبصرین- اتقوا اﷲ و لاتکتموا شھادات عیونکم و لاتوثروا الظنون علی الیقین- ولاتقدموا تصصًا غیر ثابتۃ غلٰی مارأیتم باعینکم ان کنتم متقین- واعلموا ان اﷲ یعلم بما فی صدور کم ونیاتکم ولایخفی علیہ شیٌ من حسناتکم و سیّٰاتکم وان اﷲ صیلم بما فی صدور العالمین- انکم رأیتم اٰیات اﷲ ثم نبذتم دلائل الحق وراء ظھور کم و اعرضتم عنا متعمّدین وقد کنتم منتظرین مجددًا من قبل فاذاجاء ولی اﷲ تولّیتم وجوھکم مستکبرین- أتنتظرون مجددًا ھو غیری و قد مرعلٰی رأس المائۃ من سنین- وقد مُلئت الارض جورًا و ظلمًا و سبق مساجد اﷲ مایُعبد فی دیور الضالین- فضکروا فی انفسکم أتجعلون رزقکم انکم تکذبون الصادقین- انکم کضرتم بمسیح اﷲ و اٰیاتہٖ وماکان لکم ان تتکموا فیہ و فیھا الاّخائقین
رومی سلطنت ایک معزز عہدہ دار حسین کامی کی نسبت جو پیشگوئی اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء میں درج ہے وہ کامل صفائی سے پُوری ہو گئی-
مَیںنے اپنے اشتہار ۲۴ فروری مئی ۱۸۹۷ء میںیہ پیشگوئی کی تھی کہ رُومی سلطنت میں جس قدر ارکان دولت سمجھے جاتے ہیں اور سلطنت کی طرف سے کچھ اختیار رکھتے ہیں اُن میں ایسے لوگ بکثرت یہںجن کا چال چلن سلطنت کو مضر ہے کیونکہ ان ان کی عملی حالت اچھی نہیں ہے- اس پیشگوئی کے لکھنے اور شائع کرنے کاباعث جیساکہ مَیںنے اسی اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء میں بہ تفصیل لکھا ہے یہ ہوا تھا کہ ایک شخص مسمی حسین بک کامی وائس تونصل مقیم کرانچی قادمایان میں میرے پاس آیا جو اپنے تئیں سلطنت روم کی طرف سے سفیر ظاہر کرتا تھا اور اپنی نسبت اور اپنے ماں باپ کی نسبت یہ خیال رکھتا تھا کہ گویا یہ دونوں اوّل درجہ کے سلطنت کے خیر خواہ اور دیانت اور امانت اور دونوں مقدس وجود اور سراپا نیکی اور راست بازی کا تدین اور خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ جیسا کہ پرچہ اخبار ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء وغیرہ نواح سے اس ملک میںتشریف لائے ہیں کہ تا اس ملک کے غافلوں کو اپنی پاک زندگی کا نمونہ دکھلادیں اور تا لوگ ان کے مقدس اعمال کو دیکھ کر ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا ویں اور اس تعریف میں یہانتک اصرار کی گیا تھا کہ اسی ایڈیٹر ناظم الہند نے اپنے پرچہ مذکورہ یعنے ۱۵ مئی ۱۸۹۷ء کے پرچہ میں جھوٹ اور بے شرمی کی کچھ بھی پروا نہ کر کے یہ بھی شائع کر دیا تھا کہ نائب خلیفۃ اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں - اس لئے قادیان میں بُلائے گئے ہیں کہ یا مرزائے قادیاں اپنے افتراء سے اس نائب الخلافت یعنے مظہر نور الہٰی کے ہاتھ پر توبہ کرے اور آئندہ اپنے تیئں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آجائے اور ایسا ہی اَور بھی بعض اخباروں میں میری بد گوئی کو مدنظر رکھ کر اس قدر اس شخص کی تعریفیں کی گئیں کہ قریب تحا کہ اس کو آسمان چہارم کا فرشتہ بنا دیتے - لیکن جب وہ میرے پاس آیا تو اس کی شکل دیکھنے سے ہی میری فراست نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص امین اور دیانت دار اور پاک باطن نہیں اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھ کو القا کیا کہ رومی سلطنت انہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ یہ لوگ کہ جو علیٰ حسب مراتب قرب سلطان سے کچھ حصّہ رکھتے ہیں اور اس سلطنت کی نازک خدمات پر ما مورہیں یہ اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچّے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اس اسلامی سلطنت کی جو حرمین شریفین کے محافظ اور مسلمانوں کے لئے منعتنمات میں سے ہے کمزور کرنا چاہتے ہیں- سو مَیں اس الہام کے بعد محض القاء الہٰی کی وجہ سے حسین بک کامی سے سخت بیزار ہو گیا- لیکن نہ رومی سلطنت کے بغض کی وجہ سے بلکہ محض اس کی خیر خواہی کی وجہ سے- پھر ایساہوا کہ ترک مذکور نے درخواست کی کہ مَیں خلوت میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں- چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے میرے دل نے اخلاقی حقوق کی وجہ سے جو تمام بنی نوع کو حاصل ہیں یہ نہ چاہا کہ اس کی اس درخواست کو رد کروں- سو مَیں نے اجازت دی کہ وہ میرے خلوت خانہ میں آیا تو اس نے جیسا کہ مَیں نے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے پہلے اور دوسرے صفحہ میںلکھا ہے مجھ سے یہ درخواست کی کہ مَیں اُن کے لئے دُعا کروں - تب مَیں نے اس کو وہی جواب دیا جو اشتہار مذکور کے صفحہ ۲ میں درج ہے جو آج سے قریباً دو برس پہلے تمام برٹش انڈیا میں شائع ہو چکا ہے - چنانچہ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۲ کی یہ عبارت ہے جو میری طرف سے سفیر مذکور کو جواب ملا تھا اور وہ یہ ہے کہ جو مَیں موٹی قلم سے لکھتا ہوں’’ سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اُس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں ‘‘ دیکھوصفحہ ۲ سطر ۵،۶ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء مطبع ضیاء الاسلام قادیان
پھر میں نے اسی اشتہار کے صفحہ ۲ سطر ۹ کے مطابق اُس ترک کو نصیحت دی اور اشارہ سے اس کو یہ سمجھایا کہ اس کشف کا اوّل نشانہ تم ہو اور تمہارے حالات الہام کی رو سے اچھے معلوم نہیں ہوتے توبہ کرو تا نیک پھل پائو- چنانچہ یہی لفظ کہ ’’ توبہ کرو تا نیک پھل پائو‘‘ اس اشتہار کے صفحہ ۲ سطر میںاب تک موجود ہے جو سفیر مذکور کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا- پس یہ تقریر میری جو اشتہار میںسے اس جگہ لکھی گئی ہے دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی (۱) ایک یہ کہ مَیں نے اس کو صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں ہے اور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو (۲) دوسرے یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھاپھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہو گا- پھر مَیں نے صفحہ ۳ میں بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت لکھا ہے ’’ اُس کے لئے ( یعنی سفیر مذکور کے لئے) بہتر تھا کہ میرے پاس نہ آتا میرے پاس ایسی بدگوئی سے واپس جانا اس کی سخت بد قسمتی ہے ‘‘ دیکھو صفحہ ۲ سطر نمبر ۱ - اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء - پھر اسی صفحہ کی سطر ۹ میں یہ پیشگوئی ہے ’’ اللہ جل شانہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھا *** کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے ‘‘پھر مَیںنے اشتہار۲۵ کوم ۱۸۹۷ء کے صفحہ میں مذکوہ پیشگوئیوں کے اعادہ کر کے دسیویں سطر سے سولہویں سطر تک یہ عبارت لکھی ہے- ’’ہم نے گذشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب٭ اندرون ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اُس خدا واد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیںعطا ہوا چند ایسی باتیں لکھی ہیں جو خود ان کے مفہوم کے خوفناک اثر سے ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہیں- سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھے ہیں کسی نفسانی جوش پر مبنی نہ تھی - بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہٰی نے ہمیں بخشاہے-
پھر اسی اشتہار کے صفحہ ۴ میں یعنے سطر ۱۹ سے ۲۱ تک یہ عبارت ہے- ’’کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ مَیں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں -‘‘ یاد رہے کہ ابھی میں اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں کہ یہ غدّاری اور نفاق کی سرشت بذریعہ الہام الٰہی حسین بک کامی میں معلوم کرائی گئی ہے- غرض میرے ان اشتہارات میں جس قدر پیشگوئیاں ہیں جو مَیں نے اس جگہ درج کر دی ہیںاُن سب سے اوّل مقصود بالذات حسین کامی مذکور تھا- ہاں یہ بھی پیشگویٔ سے مفہوم ہوتا تھا کہ اس مادہ کے اَور بھی بہت سے لوگ ہیں جو سلطنت روم کے ارکان اور کارکن سمجھے جاتے ہیں- مگر بہرحال الہام کا اوّل نشانہ یہی شخص حسین کامی تھا جس کی نسبت ظاہر کیا گیا کہ وہ ہرگز امین اور دیانت دار نہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں جیسا کہ ابھی مَیں نے اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حسین کامی کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ یہ آدمی سلطنت کے ساتھ دیانت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اسی کو مَیں نے مخاطب کر کے کہا کہ توبہ کرو تا نیک پھل پائو-
یہ تومیرے الہامات تھے جو مَیں نے صاف دلی سے لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء اور اشتہار ۲۵؍ جون ۱۸۹۷ء شائع کر دیئے- مگر افسوس کہ ان اشتہارات کے شائع کرنے پر ہزارہا مسلمان میرے پر ٹوٹ پڑے- بعض کو تو قلّتِ تدبّر کی وجہ سے یہ دھوکہ لگا کہ گویا مَیں نے سلطان روم کی ذات پر کوئی حملہ کیاہے حالانکہ وہ میرے اشتہارات اب تک موجود ہیں- سلطان کی ذات سے اُن پیشگوئیوں کو کچھ تعلق نہیں- صرف بعض ارکان سلطنت اور کارکن لوگوں کی نسبت الہام شائع کیا گیا ہے کہ وہ امین اور دیانت دار نہیں ہیں- اور کھلے کھلے طور پر اشارہ کیا گیا ہے کہ اوّل نشانہ ان الہامات کا وہی حسین کامی ہے اور وہی دیانت اور امانت کے پیرایہ سے محروم اور بے نصیب ہے- اور ان اشتہاروں کے شائع ہونے کے بعد بعض اخبار والوں نے حسین کامی کی حمایت میں میرے پر حملے کئے کہ ایسے امین اور دیانت دار کی نسبت یہ الہام ظاہر کیا ہے کہ وہ سلطنت کا سچا امین اور دیانتدار عہدہ دار نہیں ہے اور اس کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے اور اس کو ڈرایا گیا ہے کہ توبہ کرو ورنہ تیرا انجام اچھا نہیں حالانکہ وہ مہمان تھا- انسانیت کا یہ تقاضا تھا کہ اس کی عزت کی جاتی- ان تمام الزامات کا میری طرف سے یہی جواب تھا کہ مَیں نے اپنے نفس کے جوش سے حسین کامی کو کچھ نہیں کہا بلکہ جو کچھ میں نے اس پر الزام لگایا تھا وہ الہام الٰہی کے ذریعہ سے تھا نہ ہماری طرف سے مگر افسوس کہ اکثر اخبار والوں نے اس پر اتفاق کر لیا کہ درحقیقت حسین کامی بڑا امین اور دیانت دار بلکہ نہایت بزرگوار اور نائب خلیفۃ المسلمین سلطان روم تھا- اس پر ظلم ہوا کہ اس کی نسبت ایسا کہا گیا اور اکثر نے اپنی بات کو زیادہ رنگ چڑھانے کے لئے میرے تمام کلمات کو سلطان المعظم کی طرف منسوب کر دیا تا مسلمانوں میں جوش پیدا کریں- چنانچہ میرے ان الہاما ت سے اکثر مسلمان جوش میں آ گئے اور بعض نے میری نسبت لکھا کہ یہ شخص واجب القتل ہے- اب ہم ذیل میں بتلاتے ہیں کہ ہماری یہ پیشگوئی سچی نکلی یا جھوٹی واضح ہو کہ عرصہ تخمیناً دو ماہ یا تین ماہ کا گذرا ہے کہ ایک معزز ترک کی معرفت ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ حسین کامی مذکور کو ایک ارتکاب جُرم کی وجہ سے اپنے عہدہ سے موقوف کیا گیا ہے اور اُس کی املاک ضبط کی گئی- مگر مَیں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کر کے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو- آج اخبار نیّر آصفی مدراس مورخہ ۱۲ ؍ اکتوبر کے ذریعہ سے ہمیں مفصل طور پر معلوم ہوگیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت کامل صفائی سے پوری ہو گئی- ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اس کو کی تھی کہ توبہ کرو تا نیک پھل پائو- جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداش کردار کو پہنچ گیا- اور اب وہ ضرور اس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اس ملک کے بعض ایڈیٹر ان اخبار اور مولویان کو بھی جو اس کو نائب خلیفۃ المسلمین اور رکن امین سمجھ بیٹھے تھے اپنے ساتھ ہی ندامت کا حصہ دے گیا اور اس طرح پر انہوں نے ایک صادق کی پیشگوئی کی تکذیب کا مزہ چکھ لیا- اب ان کو چاہئیے کہ آئندہ اپنی زبانوں کو سنبھالیں- کیا یہ سچ نہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے بار بار ان کو خجالت پہنچ رہی ہے- اگر وہ سچ پر ہیں تو کیا باعث کہ ہر ایک بات میں آخرکار کیوں ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے- اب ہم اخبار مذکور میں سے وہ چٹھی مع تمہیدی عبارت کے ذیل میں نقل کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے:
’’چندۂ مظلومان کریٹ اور ہندوستان‘‘
’’ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک معزز اور لائق نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطیہ والی چٹھی ملی ہے- جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں- اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے- افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ منتظم و مہذب اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے ان کانوں سے سننا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب الہندی نزیل قسطنطیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حسین بک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرقریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پر عدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یا نہیں- ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کارروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہئیے- بہرحال ہم امید رکھتے ہیں کہ یہی ایک کیس غبن کا ہو گا جو اس چندہ کے متعلق وقوع میں آیا ہو- اور جو رقوم چندہ جناب مُلا عبدالقیوم صاحب اوّل تعلقہ دار لنگسگور اور جناب عبدالعزیز بادشاہ صاحب ٹرکش قونصل مدراس کی معرفت حیدر آباد اور مدراس سے روانہ ہوئیں وہ بلاخیانت قسطنطیہ کو کمیٹی چندہ کے پاس برابر پہنچ گئی ہوں گی-‘‘
’’قسطنطیہ کی چٹھی‘‘
’’ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دو سالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجرومین عساکر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا- معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چندہ تمام و کمال قسطنطیہ میں نہیں پہنچا- اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزارچھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اﷲ صاحب ایڈیتر اخبار وکیل امرتسر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا- ایک کوڑی تک قسطنطیہ میں نہیں پہنچائی- مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی ا ور اس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا- اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرمائیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدرروپیہ چندہ کا بھیجا گیا تو ا س کو اپین جریدہ میں مشتہر کرائیں اور نام معہ عنوان کے ایسا مفصّل لکھیں کہ بشرط ضرورت اس سے خط و کتابت ہو سکے اور ایک پرچہ اس جریدہ کا خاکسار کے پاس بمقام قاہرہ اس پتہ سے روانہ فرماویں- حافظ عبدالرحمن الہندی الامرتسری- سکّہ جدیدہ- وکالہ صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر)‘‘
المشتہر
میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور - ۱۸؍ نومبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمٰعیل
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار
ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا
اور نیز
ان لوگوں کا جواب جنہوں نے نافہمی سے اس پیشگویٔ کے
پورا ہونے سے انکار کیا ہے
اس بات کی زیادہ تصریح کی ضرورت نہیں کہ مَیں نے ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت اپنے اشتہار مجریہ ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہی تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اپنے قلم سے انواع و اقسام کے بہتانوں سے میری ذلّت کی ہے اور نیز اسی قسم کی ذلّت بیجا تحریروں سے جعفرزٹلی اور ابو الحسن تبتی اپنے دوستوں سے کرائی ہے- یہ کارروائی اس کی جناب الٰہی میں مورد اعتراض ہو کر مجھے الہام ہوا ہے کہ جس قسم کی اس نے میری ذلّت کی اور مذکورہ بالا دو اپنے دوستوں سے کرائی اسی قسم کی ذلّت اس کی بھی ہو جائے گی- یہ الہام ہزاروں انسانوں میں شائع ہوا- یہاں تک کہ اسی کی بناء پر ایک مقدمہ میرے پر ہو کر اس بہانہ سے عدالت تک بھی اس الہام کی شہرت ہو گئی مگر افسوس کہ اب تک بعض کوتہ اندیشہ اور نادان دوست محمد حسین کے محض خلاف واقعہ طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور جو پیشگوئی میں ذلت کا وعدہ تھا وہ اب تک ظہور میں نہیں آیا- چنانچہ ان میں سے ایک صاحب ثناء اﷲ نام امرت سری نے بھی پرچہ اخبار عام نومبر ۱۸۹۹ء میں اعتراض پیش کیا ہے- اور چونکہ ان مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک خلاف واقعہ بات پر جم کر پھر ہزاروں انسانوں کو وہی سبق دیتے ہیں اور اس طرح پر ایک شخص کی غلط فہمی ہزاروں انسانوں کو غلطی میں ڈالتی ہے- لہٰذا میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ وہ پیشگوئی مع تمام اس کے لوازم کے تحریر کر کے پبلک کے سامنے رکھوں تا لوگ خود انصاف کر لیں کہ آیا وہ پیشگوئی پوری ہو گئی یا کچھ کسر باقی ہے- اس لئے ہم ذیل میں مبسوط طور پر اوّل سے آخر تک اس کو لکھتے ہیں-
سو واضح ہو کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے میرے ذلیل کرنے کی غرض سے تمام لوگوں میں مشہور کیا تھا کہ یہ شخص مہدی معہود اور مسیح موعود سے منکر ہے اس لئے بیدین اور کافر اور دجّال ہے بلکہ اسی غرض سے ایک استفتاء لکھا تھا ا ور علماء ہندوستان اور پنجاب کی اس پر مہریں ثبت کرائیں تھیں تا عوام مسلمان مجھ کو کافر سمجھ لیں اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ گورنمنٹ تک خلاف واقعہ یہ شکایتیں پہونچائیں کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور بغاوت کے خیالات رکھتا ہے اور عوام کے بیزار کرنے کے لئے یہ بھی جابجا مشہو رکیا کہ یہ شخص جاہل اور علم عربی سے بے بہرہ ہے اور ان تینوں قسم کے جھوٹ کے استعمال سے اس کی غرض یہ تھی کہ تاعوام مسلمان مجھ پر بدظن ہو کر مجھے کافر خیال کریں اور ساتھ ہی یہ یقین کر لیں کہ یہ شخص درحقیقت علم عربی سے بے بہرہ ہے اور نیز گورنمنٹ بدظن ہو کر مجھے باغی قرار دے یا اپنا بدخواہ تصور کرے- جب محمد حسین کی بداندیشی اس حد تک پہنچی کہ اپنی زبان سے بھی میری ذلّت کی اور لوگوں کو بھی خلاف واقعہ تکفیر سے جوش دلایا اور گورنمنٹ کو بھی جھوٹی مخبریوں سے دھوکہ دینا چاہا اور یہ ارادہ کیا کہ وجوہ متذکرہ بالا کو عوام اور گورنمنٹ کے دل میں جما کر میری ذلّت کراوے تب مَیں نے اس کی نسبت اور اس کے دو دوستوں کی نسبت جو محمد بخش جعفرزٹلی اور ابوالحسن تبتی ہیں وہ بدعا کی جو اشتہار ۲۱ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے- اور جیسا کہ اشتہار مذکور میں مَیں نے لکھا ہے- یہ الہام مجھ کو ہوا- ان الذین یصدون عن سبیل اﷲ سینا لھم غضب من ربّھم- ضرب اﷲ اشد من ضرب النّاس - انما امرنا اذا اردنا شیئا ان نقول لہ کون فیکون- أتعجب لامری- اِنی مع العشاق- انی انا الرحمٰن ذوالمجد والعلے- ویعض الظالم علٰی یدیہ- ویُطرح بین یدیّ- جزاء سیّئۃ بمثلھا و ترھقھم ذلۃ- ما لھم من اﷲ من عاصم- فاصبر حتٰی یاتی اﷲ بامرہ- ان اﷲ مع الّذین اتقوا والذین ھم محسنون- ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں- عنقریب خدا تعالیٰ کا غضب ان پر وارد ہو گا- خدا کی مار انسانوں کی مار سے سخت تر ہے- ہمارا حکم تو اتنے میں ہی نافذ ہو جاتا ہے کہ جب ہم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں کہ ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے- کیا تو میرے حکم سے تعجب کرتا ہے- میں عاشقوں کے ساتھ ہوں- میں ہی وہ رحمان ہوں جو بزرگی اور بلندی رکھتا ہے اور ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا اور میرے آگے ڈال دیا جائے گا- بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے اور ان کو ذلّت پہنچے گی یعنی اسی قسم کی ذلّت اور اسی مقدار کی ذلّت جس کے پہنچانے کا انہوں نے ارادہ کیا ان کو پہنچ جائے گی- خلاصہ منشاء الہام یہ ہے کہ وہ ذلّت مثلی ہو گی کیونکہ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے- اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی ان کو بچانے والا نہیں- پس صبر کر جب تک کہ اﷲ تعالیٰ اپنے امن کو ظاہر کرے- خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں- اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں-
یہ پیشگویٔ ہے جو خدا تعالیٰ نے محمد حسین اور ا س کے دو رفیقوں کی نسبت کی تھی اور اس میں ظاہر کیا تھا کہ اسی ذلّت کے موافق ان کو ذلّت پہنچائی جائے گی جو انہوں نے پہنچائی- سو یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ محمد حسین نے اس پیشگوئی کے بعد پوشیدہ طور پر اپنے ایک انگریزی٭ فہرست اپنی ان کارروائیوں کی شائع کی جن میں گورنمنٹ کے مقاصد کی تائید ہے اور اس فہرست میں یہ جتلانا چاہا کہ منجملہ میری خدمات کے ایک یہ بھی خدمت ہے کہ میں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ہے کہ مہدی کی حدیثیں صحیح نہیں ہیں اور اس فہرست کو اس نے بڑی احتیاط سے پوشیدہ طور پر شائع کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قوم کے روبرو اس فہرست کے برخلاف اس نے اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے اور ا س دو رنگی کے ظاہر ہونے سے وہ ڈرتا تھا کہ اپنی قوم مسلمانوں کے روبرو تو اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایسے مہدی کو بدل و جان مانتا ہے کہ جو دنیا میں آ کر لڑائیاں کرے گا اور ہر ایک قوم کے مقابل پر یہاں تک کہ عیسائیوں کے مقابل پر بھی تلوار اُٹھائے گا- اور پھر اس فہرست انگریزی کے ذریعہ سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ خونی مہدی کے متعلق تمام حدیثوں کو مجروح اور ناقابل اعتبار جانتا ہے لیکن خداتعالیٰ کی قدرت سے وہ پوشیدہ کارروائی اس کی پکڑی گئی اور نہ صرف قوم کو اس سے اطلاع ہوئی بلکہ گورنمنٹ تک بھی یہ بات پہنچ گئی کہ اس نے اپنی تحریروں میں دونوں فریق گورنمنٹ اور رعایا کو دھوکہ دیا ہے اور ہر ایک ادنیٰ عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ پردہ دری محمد حسین کی ذلّت کا باعث تھی اور وہی انکار مہدی جس کی وجہ سے اس مُلک کے نادان مولوی مجھے دجّال اور کافر کہتے تھے- محمد حسین کے انگریزی رسالہ سے اس کی نسبت بھی ثابت ہو گیا یعنی یہ کہ وہ بھی اپنے دل میں ایسے حدیثوں کو موضوع اور بے ہودہ اور لغو جانا ہے- غرض یہ ایک ایسی ذلّت تھی کہ یک دفعہ محمد حسین کو اپنی ہی تحریروں کی وجہ سے پیش آگئی- اور ابھی ایسی ذلّت کا کہاں خاتمہ ہے بلکہ آئندہ بھی جیسے جیسے گورنمنٹ اور مسلمانوں پر کھلتا جائے گا کہ کیسے اس شخص نے دو رنگی کا طریق اختیار کر رکھا ہے ویسے ویسے اس ذلّت کا مزہ زیادہ سے زیادہ محسوس کرتا جائے گا اور اس ذلّت کے ساتھ ایک دوسری ذلّت اس کو یہ پیش آئی کہ میرے اشتہار ۲۱ ؍ نومبر ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۲ کے اخیر سطر میں جو یہ الہامی عبارت تھی کہ أتعجب لامری اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے اس لئے یہ خدا کام الہام نہیں ہو سکتا اور اس میں غلطی یہ ہے کہ فقرہ أتعجب لامری لکھا ہے یہ من امری چاہئیے تھا کیونکہ عجب کا صلہ من آتا ہے نہ لام- اس اعتراض کا جواب مَیں نے اپنے اس اشتہار میں دیا ہے جس کے عنوان پر موٹی قلم سے یہ عبارت ہے ’’حاشیہ متعلقہ صفحہ اوّل اشتہار مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۸۹۸ء‘‘ اس جواب کا ماحصل یہ ہے کہ معترض کی یہ نادانی اور نا واقفیت اور جہالت ہے کہ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا عجب کا صلہ لام نہیں آتا- اس اعتراض سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض جن عربی سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے اور صرف نام کا مولوی ہے کیونکہ ایک بچہ بھی جس کو کچھ تھوڑی سی مہارت عربی میں ہو سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں عجب کا صلہ لام بھی بکثرت آتا ہے اور یہ ایک شائع متعارف امر ہے اور تمام اہل ادب اور اہل بلاغت کی کلام میں یہ صلہ پایا جاتا ہے- چنانچہ اس معروف و مشہور شعر میں لام ہی صلہ بیان کیا گیا ہے اور وہ شعر یہ ہے -
عجبت المولود لیس لہ اب
رمن زیی ولد لیس لہ ابوان
یعنی اس بچہ سے مجھے تعجب ہے کہ جس کا باپ نہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے اور اس سے زیادہ تعجب اس بچّوں والوں سے ہے جس کے ماں باپ دونوں نہیں- اس شعر میں دونوں صلوں کا بیان ہے لام کے ساتھ بھی اور من کے ساتھ بھی اور ایسا ہی دیوان حماسہ میں جو بلاغت فصاحت میں ایک مسلّم اور مقبول دیوان ہے اور سرکاری کالجوں میں داخل ہے- پانچ شعر میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے چنانچہ منجملہ ان کے ایک شعر یہ ہے کہ جو دیون مذکور کے صفحہ ۹ میں درج ہے-
عجبت لمسر اھاوا انّی تخلصّت
الیّ وباب السجن دونی مغلق
یعنے وہ معشوقہ جو عالم تصّور میں میرے پاس چلی آئی مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایسے زندان میں جس کے دروازے بند تھے میرے پاس جو مَیںقید تھا کیونکر چلی آئی- دیکھو اس شعر میں بھی اس بلیغ فصیح شاعر نے عجبت کا صلہ لام ہی بیان کیا ہے جیسا کہ لفظ لمسراھا سے ظاہر ہے- اور ایسا ہی وہ تمام اشعار اس دیوان کے جو صفحہ ۳۹۰ ،۴۱۱، ۵۷۵ میں درج ہیں ان سب میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے- جیسا کہ یہ شعر ہے:-
عجبت السیعی الدھر بینی و بیمنھا
فلّما انقضی ما بیننا سکن الدھر
یعنے مجھے اس بات سے تعجب آیا کہ زمانہ نے ہم میں جدائی ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں مگر جب وہ ہمارا وقت عشقبازی کا گذر گیا تو زمانہ بھی چپ ہو گیا- اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے- اور ایسا ہی حماسہ کا یہ شعر ہے-
عجبت البریٔ منک یا عز عبد ما
عمرت زماناً منک غیر صحیح
یعنے اے معشوقہ یہ عجیب بات ہے کہ تیرے سبب سے ہی مَیں اچھا ہوا یعنی تیرے وصال سے اور تیرے سبب سے ہی ایک مدّت تک مَیں بیمار رہا یعنی تیری جدائی کی وجہ سے علیل رہا- شاعر کا منشاء اس شعر سے یہ ہے کہ وہ اپنی معشوقہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری بیماری کا بھی تو ہی سبب تھی اور میرے اچھا ہو جانے کا تو ہی سبب ہوئی- اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے پھر ایک اَور شعر حماسہ میں ہے اور وہ یہ ہے-
عجبار لاحمد والعجائب جمہ
انی یلوم علی الزمان تبدّلی
یعنی مجھ کو احمد کی اس حرکت سے تعجب ہے اور عجائب پر عجائب جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ مجھے اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ مَیںنے زمانہ کی گردش سے بازی کو کیوں ہار دیا- وہ کب تک مجھے ایسی بیہوہ ملامت کرے گا- کیا وہ نہیں سمجھتا کہ ہمیشہ زمانہ موافق کی گردش سے مَیں ناکام رہا- اب دیکھو کہ اس شعرمیں بھی عجب کا صلہ لام ہی آیا ہے-اور اسی حماسہ میں اسی قسم کا ایک اور شعر ہے:-
عجبت لعبد ھجونی سفاھۃ
ان اصطجحو شائھم و تقیّلوا
یعنے مجھے آیا کہ کنیزک زادوں نے سرسر حماقت سے میری ہجوکی اور اس ہجو کا سبب ان کا صحیح کی شراب اور دوپہر کی شراب تھی- اب دیکھو اس شعر میں بھی عجب کا صلہ لام آیا ہے- اور اگریہ کہو کہ یہ تو اُن شاعروں کے شعر ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں گذرئے ہیں تو وہ کافر ہیں- ہم اُن کے کلام کو کب مانتے ہین تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باعث اپنے کفر کے جاہل تھے نہ بباعث اپنی زبان کے بلکہ زنان کی رو سے تو وہ امام مانے گئے ہیںیہاں تک کہ قرآن شریف کے محاورات کی تائید میں ان کے شعر تفاسیہ میں بطور حجّت پیش کئے جاتے ہیں اور اس سے انکار کرنا ایسی جہالت ہے کہ کوئی اہل علم اس کو قبول نہیں کرے گا- ما سوا اس کے یہ محاورہ صرف گذشتہ زمانہ کے اشعار میں نہیں ہے- بلکہ ہمارے سیّد و مولیٰ رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی اس محارہ کی تائید ہوتی ہے- مثلاً ذرہ مشکوۃ کو کھولو اور کتاب الایمان کے صفحہ ۳ میں اُس حدیث کو پڑھوجو اسلام کے بارے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس کو متفق علیہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے عجبنا لۃ یسئلہ و یصدقہکا صلہ لام ہی لکھا ہے اور عجبنا منہ نہیں لکھا بلکہ عجبنالہ کہا ہے-
اب کوئی مولوی صاحب انصافاً فرمائیں کہ ایک شخص جو اپنے تیئں مولوی کہلاتا ہے بلکہ دوسرے مولویوں کا سر گروہ اور ایڈووکیٹ اور اپنے تئیں قرار دیتا ہے کیا اس کے لئے ذلّت نہیں ہے کہ اب تک اس کو یہ خبر ی نہیں کہ عجب کا صلہ لام بھی ایا کرتا ہے - کیا اس قدر جہالت کہ مشکوۃ کی کتاب الایمان کی حدیث کی خبر نہیں- کیا یہ عزّت کو موجب ہے اور اس سے مولویّت کے دامن کو کوئی ذلّت کا دھبّہ نہیں لگتا؟ پھر جبکہ یہ امر پبلک پر عام طور پر کھل گیا اور ہزار ہا اہل علم کو معلوم ہو گیاکہ محمد حسین نہ صرف علم صرف و نحو سے ناواقف ہے- بلکہ جو کچھ احادیث کے الفاظ ہیں ان سے بھی بے خبر ہے تو کیا یہ شہرت اس کی عزّت کا موجب ہوئی یا اس کی ذلّت کا؟
پھر تیسرا پہلو ۲۰ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی کے پُورا ہونے کا یہ ہے کہ مسٹر جے - ایم ڈوئی صاحب بہادر سابق ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے اپنے حکم ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں مولوی محمد حسین سے اس اقرار پر دستخط کرائے کہ وہ آئندہ مجھے دجّال اور کافر اور کاذب نہیں کہے گااور قادیان کو چھوٹے کاف سے نہیں لکھے گا اور اس نے عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ آیندہ وہ مجھے کسی مجلس میں کافر نہیں کہے گا اور نہ میرا نام دجّال رکھے گا اور نہ لوگوں میں مجھے جھوٹا اور کاذب کر کے مشہور کرے گا- اب دیکھو کہ اس اقرار کے بعد وہ استفتاء اس کا کہاں گیا جس کو اس نے بنارس تک قدم فرسائی کر کے طیار کیا تھا- اگر وہ فتویٰ دینے میں راستی پر ہوتا تو اس کو حاکم کے رو برو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ میرے نزدیک بے شک یہ کافر ہے اس لئے مَیںاس کو کافر کہتا ہوں اور دجّال بھی ہے اس لئے مَیں اس کا نام دجّال رکھتا ہوں اور یہ شخص واقعی جھوٹا ہے اس لئے مَیں اس کو جھوٹا کہتا ہوں بالخصوص جس حالت میں خدا تعالیٰ کے فضل اورکرم سے مَیں اب تک اور اخیر زندگی تک انہی عقاید پر قائم ہوں جن کو محمد حسین نے کلمات کفر قرار دیا ہے - تو پھر یہ کس قسم کی دیانت ہے کہ اس نے حاکم کے خوف سے اپنے تمام فتووں کو برباد کر لیا اور حکام کے سامنے اقرار کر دیا کہ مَیں آیندہ ان کو کافر نہیں کہوں گا اور نہ اُن کا نام دجّال اور کاذب رکھوں گا- پس سوچنے کے لائق ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا ذلّت ہو گی کہ اس شخص نے اپنی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے گرایا- اگر اس عمارت کی تقویٰ پر بنیاد ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ محمد حسین اپنی قدیمی عادت سے باز آ جاتا- ہاںیہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر مَیں نے بھی دستخط کئے ہیں- مگر اس دستخط سے خدا اور منصفوں کے نزدیک میرے پر کھ الزام نہیں آتا اور نہ ایسے دستخط میری ذلّت کا موجب ٹھہرتے ہیں کیونکہ ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں٭ ہو سکتا ہاں ضال اور جاؤہ سواب سے منحرف ضرور ہو گا اور مَیں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا- ہاںمَیں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادہ صدق و صواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں-مَیں بلا شُبہ ایسے ہر ایک آدمی ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے- لیکن مَیں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کو کافربنا لیوے- سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا- میرے لئے فتویٰ طیار کیا- مَیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ان پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں- سو مَیں ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں- سو اگر مسٹر ڈویٔ صاحب کے رو برو مَیں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ مَیں اُن کو کافر نہیں کہوں گا تو واقعی میرا یہی مذہب ہے کہ مَیں مسلمان کو کافر نہیں جانتا- ہاںیہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ جو شخص مسلمان ہو کر ایک سچّے ولی اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں ان سے نیک عملوں کی توفیق چھین لی جاتی اور دن بد ن اُن کے دل کا نُور کم ہوتا چلا جاتا یہاں تک کہ ایک دن چراغ سحری کی طرح گُل ہو جاتا ہے - سو یہ میرا عقیدہ ہے اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے- غرض جس شخص نے ناحق جوش میں آ کر مجھ کو کافر قرار دیا اور میرے لئے فتویٰ طیار کیا کہ یہ شخص کافر و دجّال کذّاب ہے اس نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تو کچھ خوف نہ کیا کہ وہ اہل قبلہ اور کلمہ گو کوکیوں کافر بناتا ہے اور ہزار ہا بندگان خدا کو جو کتاب اللہ کے تابع اور شعار اسلام ظاہر کرتے ہیں کیوں دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے - لیکن مجسٹریٹ ضلع کی ایک دھمکی سے ہمیشہ کے لئے یہ قبول کر لیا کہ مَیں آئندہ ان کو کافر اور دجّال اور کذاب نہیں کہوں گا اور آپ ہی فتویٰ طیار کیا اور آپ ہی حکام کے خوف سے منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی جعفر زٹلی وغیرہ کی قلمیں ٹوت گئیں اور باایں ہمہ رسوائی پھر محمد حسین نے اپنے دوستوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ فیصلہ میری منشاء کے موافق ہوا ہے- لیکن سوچ کر دیکھو کہ کیا محمد حسین کا یہی منشاء تھا کہ آئندہ مجھے کافر نہ کہے اور تکذیب نہ کرے اور ان باتون سے توبہ کر کے اپنا مُنہ بند کر لے اور کیا جعفر زٹلی یہ چاہتا تھا کہ اپنی گندی تحریروں سے باز آ جائے؟ پس اگر یہ وہی بات نہیں جو اشتہار ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی پوری ہو گئی اور خدا نے میرے ذلیل کرنے والے کو ذلیل کیا ہے تو اور کیا ہے ؟جس شخص نے اپنے رسالوں میں یہ عہد شائع کیا تاحا کہ مَیں اس شخص کو مرتے دم تک کافر اور دجّال کہتا رہوں گاجب تک وہ میرا مذہب قبول نہ کرے تو اس میں اس کی کیا عزت رہی جو اس عہد کو اُس نے توڑ دیا- اور وہ جعفر زٹلی جو گندی گالیوں سے کسی طرح سے باز نہیں آتا تھا اگر ذلّت کی موت اس پر وارد نہیں ہوئی تو اب کیوں نہیں گالیاں نکالتا- اور اب ابو الحسن تبتی کہاں ہے اس کی زبان کیوں بند ہو گئی- کیا اس کے گندے ارادوں پر کوئی انقلاب نہیں آیا- پس یہی تو وہ ذلّت ہے جو پیشگوئی کا منشاء تھا کہ ان سب کے منہ میں لگام دی گئی اور درحقیقت اس الہام کی تشریح جو ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو ہوا اس الہام نے دوبارہ کردی ہے - جوبتاریخ ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء رسالہ حقیقت المہدی میں شائع کیا گیا- بلکہ یہ عجیب تر بات یہ ہے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں جو الہام شائع ہوا تھا اس میں ایک فقرہ تھا کہ یعض الظالم علیٰ یدیہاور پھر یہی فقرہ ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کے الہام میں بھی جو ۲۱ نومبر۱۸۹۸ء کے الہام کے لئے بطور شرح کے آیا ہے جیسا کہ رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ سے ظاہر ہے- پس ان دونوں الہاموں کے مقابلہ سے ظاہر ہو گا کہ یہ دوسرا الہام جو ۲۱ نومبر۱۸۹۸ء کے الہام سے قریباً تین ماہ بعد ہوا ہے اس پہلے الہام کی تشریح کرتا ہے اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ ذلّت جس کا وعدہ اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں تھا وہ کس رنگ میں پوری ہو گی- اس غرض سے یہ موخر الذکر الہام جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء کو ہوا پہلے الہام کا ایک فقرہ کا اعادہ کر کے ایک اور فقرہ بطور تشریح اس کے ساتھ بیان کرتا ہے یعنے پہلا الہام جو اشتہار۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء میں درج ہے جو محمد حسین اور جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کی ذلّت کی پیشگوئی کرتا ہے اس میں یہ فقرہ تھا کہ یعض الظالم علی یدیۃ یعنی ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور دوسرے الہام میں جو ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء میں بذریعہ رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ کی اخیر سطر اور صفحہ ۱۳ کی پہلی سطر میںیہ بیان کئے گئے ہیں ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا- اب دیکھوکہ اس تشریح میں صاف تبلایا گیا ہے کہ ذلّت کسی قسم کی ہو گی یعنے یہ ذلّت ہو گی کہ محمد حسین اور جعفرزٹلی اور ابوالحسن تبتی اپنی گندی اور بے حیائی کی تحریروں سے روک جائیں گے- اور جو سلسلہ انہوں نے گالیاں دینے اور بے حیائی کے بے جا حملوں اور ہماری پرائیوٹ زندگی اور خاندانی تعلقات کی نسبت نہایت درجہ کی کمینہ پن شرارت اور بد زبانی اور افتراء اور جھوٹ سے شائع کیا تھا وہ جبراًبند کیا جائے گا-
اب سوچو کہ کیا وہ سلسلہ بند کیا گیا یا نہیں اور کیا و ہ شیطانی کاروئیاں جو ناپاک زندگی کا خاصہ ہوتی ہیں جن کی بے جا خلّو سے پاک دامن بیویاں آل رُسول صلے اللہ علیہ وسلم پر گندہ زبانی کے حملے کرنے کی نوبت پہنچ گئی تھی کیا یہ پلید اور بے حیائی کے طریق جو محمدح حیسن اور اس کے دوست جعفر زٹلی نے اختیار کئے تھے حاکم سے روکے گئے یا نہیںاور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کی کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے چھوڑائی گئی یا نہیں-اور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کو کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا چاہتے تھے چھوڑائی گئی یا نہیں- پس ایک عقل مند انسان کے لئے یہ ذلّت کچھ تھوڑی نہیں کہ اس کے خلاف تہذیب اور بے حیائی اور سفلہ پن کی عادات کے کاغذات عدالت میں پیش کئے جائیںاور پڑھے جائیں اور عام اجلاس میں سب پر یہ بات کھلے اورہزار لوگوں کو شہرت پاوے کہ مولوی کہنا کر ان لوگوں کی یہ تہذیب اور شائستگی ہے- اب خود سوچ لو کہ کیا اس حد تک کسی شخص کی گندی کاروائیاںگندے عادات گندے اخلاق حکام اور پبلک پر ظاہر ہونا کیا یہ عزّت ہے یا بے عزّتی؟ اور کیا ایسے نفرتی اور ناپاک شیوہ پر عدالت کی طرف سے مؤاخذہ ہونا یہ کچھ سرفرازی کا موجب یا شانِ مولویت کو اس سے ذلّت کا دھبہ لگتا ہے-
اگر ہمارے معترضوں میں حقائق کا کانشنس کچھ باقی رہتا تو ایسا صریح باطل اعتراض ہر گز پیش نہ کرتے کہ ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہارکی ذلّت کی پیشگوئی پُوری نہیں ہوئی کیونکہ یہ پیشگوئی تو ایسے زور شور سے پوری ہوگئی کہ عدالت کے کمرہ میں ہی لوگ بول اُٹھے کہ آج خدا کا فرمودہ پورا ہو گیا- صد ہا لوگوں کویہ بات معلوم ہوگی کہ جب محمد حسین کو یہ فہمایش کی گئی آئندہ ایسی گندی تحریریں شائع نہ کرے اور کافر اور دجّال اور کاذب بھی نہ کہے تو مسٹر برون صاحب ہمارا وکیل بھی اختیار بول اُٹھا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی-یاد رہے کہ موجودہ کاغذات کے رُو سے جو عدالت کے سامنے تھے عدالت نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ محمد حسین نے مع جعفر زٹلی کے یہ زیادتی کی ہے کہ مجھے نہایت گندی گالیاں دی ہیں اور میرے پرائیوٹ تعلقات میں سفلہ پن سے گندہ دہانی ظاہر کی ہے- یہاں تک کہ تصویریں چھاپی ہیں لیکن عدالت نے احتیاطاً آیندہ کی روک کے لئے اس نوٹس میں فریقین کو شامل کرلیا تا اس طریق سے بکلی سد باب کرے-مسٹر جے - ڈوئی صاحب زندہ موجود ہیں جن کے سامنے یہ کاغذات پیش ہوئے تھے اور اب تک وہ مسل موجود ہے جس میں وہ تمام کاغذات نتھی کئے گئے - کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ عدالت میں محمد حسین کی طرف سے بھی کوئی ایسے کلمات پیش ہوئے جن میں مَیں نے بھی سفلہ پن کی راہ سے گندی تحریریں شایع کی ہوں- عدالت نے اپنے نوٹس میں قبول کر لیا ہے کہ ان گندی تحریروں کے مقابل کر جو سراسر حیاء اور تہذیب کے مخالف تھیں میری طرف سے صرف یہ کاروائی ہوئی کہ مَیں نے جناب الہٰی میں اپیل کیا- اب ظاہر ہے کہ ایک شریف کے لئے یہ حالت موت سے بد تر ہے کہ اس کا رویہ عدالت پر کھل جائے کہ وہ ایسی گندہ زبانی کی عادت رکھتا ہے بلکہ ایک شریف تو اس خجالت سے جیتا ہی مر جاتا ہے جہ حاکم مجاز عدالت کی کرسی پر اس کو یہ کہے کہ کیا گندہ طریق ہے جو تُو نے اختیار کیا اور ان کاروائیوں کا نتیجہ ذلّت ہونا یہ تو ادنیٰ امر ہے- خود پولیس کے افسر جنہوں نے مقدمہ اُٹھایاتھا ان سے پوچھنا چاہیے کہ اس کاروائی کے دوران میں جبکہ وہ محمد حسین اور جعفر زٹلی کی گندہ زبانی کے کاغذات پیش کررہے تھے کیا میری گندہ زبانی کا بھی کوئی کاغذ ان کو ملا جس کو انہوں نے عدالت میںپیش کیا اور چاہوتو محمد حسین کو حلفاً پوچھ کردیکھ لو کہ کیا جو واقعات عدالت میں تم پر گزرے اور جبکہ عدالت نے تم سے سوالات کے وقت تمہارے دل کا کیا حال تھا- کیا اس وقت تمہارا دل حاکم کے ان سوالات کو اپنی عزّت سمجھتا تھا یا ذلّت سمجھ کر غرق ہوتا جاتا تھا- اگر اتنے واقعات کے جمع ہونے سے جو ہم لکھ چکے ہیں پھر بھی ذلّت نہیں ہوئی- اور عزّت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ آپ لوگوں کی عزّت بڑی پکی ہے-
پھر ماسوا اس کے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار کی میعاد کے کئی اور ایسے امور بھی ظاہرہوئے ہیں- جن سے بلا شبہ مولوی محمد حسین صاحب کی عالمانہ عزّت میں اس قدر فرق آیا ہے کہ گویا وہ خاک میںمل گئی ہے- ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے پرچہ پیسہ اخبار اور اخبار عام میں کمال حق پوشی کی راہ میں یہ شائع کر دیا تھا کہ وہ مقدمہ جو پولیس کی رپورٹ پر مجھ پر ان پر دائر کیا گیا تھا جو ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء میں فیصلہ ہوا اس میں گویا یہ عاجز بَری نہیں ہوا بلکہ ڈسچارج کا لفظ ہے اور ڈسچارج کو بَری نہیں کہتے بلکہ جس پر جرم ثابت نہ ہو سکے اس کا نام ڈسچارج ہے اور اس اعتراض سے محمد حسین کی غرض یہ تھی کہ تا لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ پیشگوئی]پوری نہیں ہوئی - لیکن جیسا کہ ہم کتاب تریاق القوب کے صفحہ ۸۱ میں بہ تفصیل تحریر کر چکے ہیں یہ اس کی طرف سے محض افتراء تھا اور دراصل ڈسچارج کا ترجمہ بَری ہے اور کچھ نہیں اور اس نے عقل مندوں کے نزدیک بَری کے انکار سے اپنی بڑی پردہ دری کرائی کہ اس بات سے انکار کای کہ ڈسچارج کا ترجمعہ بَری نہیں ہے- چنانچہ اس صفحہ مذکورہ یعنی صفحہ ۸۱ میں بہ تفصیل مَیں نے لکھ دیا کہ انگریزی زبانی میں کسی جرم سے بَری سمجھنے یا بَری کرنے لئے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں- (۱) دیک ڈسچارج (۲) دوایکئٹ - ڈسچارج اس جگہ بولا جاتا ہے کہ جہاں حاکم مجوز کی نظر میں جرم کا ابتداء سے ہی کچھ ثبوت نہ ہو اور تحقیقات کے تمام سلسلہ میںکوئی ایسی بات پیدا نہ ہو جو اس کو ایسا مجرم ٹھہرا سکے اور فرد قرارداد جُرم قائم کرنے کے لائق کر سکے- غرض اس کے دامن عصمت پر کوئی غبار نہ پڑ سکے اور بوجہ اس کے جُرم کے ارتکاب کا کچھ بھی ثبوت نہیں ملزم کو چھوڑا جائے- اور ایکئٹ اس جگہ بولا جاتا ہے جہاں اوّل جُرم ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد جُرم لگائی جائے اور پھر اپنی صفائی کا ثبوت دے کر اس الزام سے رہائی پائے- غرض ان دونوں لفظوں میں قانونی طور پر فرق یہی ہے کہ ڈسچارج وہ بریت کی قسم ہے جہاں سرے سے جُرم ثابت ہی نہ ہو سکے اور ایکئٹ وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں جرم تو ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد بھی لگ جائے مگر آخر میں ملزم کی صفائی ثابت ہو جائے - اور عربی میں بریت کا لفظ ایک تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ان دونوں مفہوموں پر مشتمل ہے -یعنی جب ایک ملزم ایسی حالت میں چھوڑا جائے کہ اس کے دامنِ عصمت پر کوئی دھبہ جرم کا لگ نہیں سکا اور وہ ابتداء سے کبھی اسی نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا کہ وہ مجرم ہے یہاں تک کہ جیسا کہ وہ داغ سے پاک عدالت کے کمرہ میں آیا ویسا ہی داغ سے پاک عدالت کے کمرہ سے نکل گیا- ایسی قسم کے ملزم کو عربی زبان میں بری کہتے ہیں اور جب ایک ملزم پر مجرم ہونے کا قوی شُبہ گذر گیا اور مجرموں کی طرح سے اس سے کاروائی کی گئی اور اس تمام ذلّت کے بعد اس نے اپنی صفائی کی شہادتوں کے ساتھ اس شُبہ کو اپنے سر پر سے دُور کر دیا تو ایسے ملزم کا نام عربی زبان میں مبّرد ہے- پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ ڈسچارج کا عربی میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ بَری ہے اورایکئٹ کا ترجمہ مبّرد ہے- عرب کے یہ دو مقولے ہیں انابری من ذالک و انا مبرّ ء من ذالک پہلے قول کے یہ معنے ہیں کہ میرے کوئی تہمت ثابت نہیں کی گئی اور دوسرے قول کے یہ معنے ہیں کہ میری صفائی ثابت کی گئی ہے اور قرآن شریف میں یہ دونوں محاورے موجود ہیں- چنانچہ بری کا لفظ قرآن شریف اور بعینہ ڈسچارج کے معنوں پر بولا گیا ہے جیسا کہ وہ فرماتاہے ومن یکسب خطیئۃ اوثما ثم یرم بہٰ بریئاً فقد احتمل بھتاناً و اثما مبیناً- الجزاء نمبر ۵ سورہ نساء- یعنی جو شخص کوئی خطا یا کوئی گناہ کرے اور پھر کسی ایسے شخص پر وہ گناہ لگا دے جس پر وہ گناہ ثابت نہیں تو اس نے کھلے کھلے بہتان اور گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لیا اور مبرد کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولٰئک مبّرئون ممّا یقولون- یہ مقام کی آیت ہے کہ جہاں بے لوث بے گناہ ہونا ایک کا ایک وقت تک مشتبہ رہا- پھر خدا نے اس کی طرف سے ڈیفنس پیش کر کے اس کی بریّت کی- اب آیت یرمہ بہ بریئاًسے بہ ہدایت ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کا نام بری رکھا ہے جس پر کوئی گناہ ثابت نہیں کیا گیا- اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو انگریزی میں ڈسچارج کہتے ہیں - لیکن اگر کوئی مکابرہ کی راہ سے یہ کہے کہ اس جگہ بَریکے لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو جرم ثابت ہونے کے بعد اپنے صفائی کے گواہوں کے ذریعہ سے اپنی بریّت ظاہر کرے تو ایسا خیال بدیہی طورپر باطل ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا بَری کے لفظ سے یہی منشاء رہے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہو گی کہ اس آیت سے یہ فتویٰ ملے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر جس کا گناہ ثابت نہیں کسی گناہ تہمت لگانا کوئی جرم نہیں ہو گا گو وہ مستور الحال شریفوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہو اور صرف یہ کسر ہو کہ ابھی اس نے بے قصور ہونا عدالت میں حاضر ہو کر ثابت نہیں کیا- حالانکہ ایسا سمجھنا صریح باطل ہے- اور اس سے تمام تعلیم القرآن شریف کی زیرو زبر ہو جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں جائز ہو گا کہ جو لوگ مثلاً ایسی مستور الحال عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جنہوں نے عدالت میں حاضر ہو کر اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ وہ ہر قسم کی بدکاری سے مدت العمر سے محفوظ رہی ہیں وہ کچھ گناہ نہیں کرتے اور اُن کو رواہے کہ مستور الحال عورتوں پر ایسی تہمتیں لگایا کریں حالانکہ ایسا خیال کرنا اس مندرجہ ذیل آیت کی رو سے صریح حرام اور معصیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- والذین یرمون المحسنات ثم لم یا توا باربعۃ شھداء فا جللدا و ھم ثمانین جلدۃ یعنی جولوگ اایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کار ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں تو اُن کو اسّی درّے مانے چاہئیں - اب دیکھو کہ ان عورتوں کا نام خدا نے بَری رکھا ہے جن کا رانیہ ہونا ثابت نہیں-
پس بَری کے لفظ کی یہ تشریح بصینہ ڈسچارج ک مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بَری کا لفظ جو قرآن نے آیات یرمہب بریئاً میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا کہ جبکہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرارد اور جُرم لگائی جائے اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صوف میں ہر ایک شریر کو آزادی ہو گی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگا دے جنہوں نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت نہیں کر دیا کہ وہ زانیہ نہیں خواہ وہ رسولوں اور نبیوں کی عورتیں ہوں اور خواہ صحابہ ؓ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیںہوں- اور ظاہر ہے کہ آیت یرم بہ بیریئاً میں بَری کے لفظ کے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہر گز خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ بدیہی طور پر معلو ہوتا ہے کہ اس آیت میں بَری کے لفظ سے خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جو مستور الحال لوگ ہیں خواہ مرد ہیں خواہ عورتیں ہیں جن کا کوئی گناہ ثابت نہیں اور سب بَری کے نام کے مستحق ہیں اور بغیر ثبوت ان پر کوئی تہمت لگانا فسق ہے جس سے خدا تعالیٰ اس آیت میں منع فرماتا ہے کہ اگر کسی نبیوں اور رسولوں کر کچھ پرواہ نہ ہو اور اپنی ضد سے باز نہ آ وے تو پھر ذرہ شرم کر کے اپنی عورتوںکی نسبت ہی کچھ انصاف کر ے کہ کیا اگر ان پر کوئی شخص ان کی عفت کے مخالف کوئی ایسی ناپاک تہمت لگاوے جس کا کوئی ثبوت نہ ہو تو کیا وہ عورتیں آیت یرم بہ بریئاً کی مصداق ٹھہر کر بَری سمجھی جا سکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزا کے لائق ٹھہرتا ہے یا وہ محض اس حالت میں بَری سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاک دامنی کے بارے میں عدالت میں گواہ گذرائیں اور جب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت اور عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے ان کی عفت پر حملہ کیا کرے اور ان کو غیر بری قرار دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں بار ثبوت تہمت لگانے والے پر رکھا ہے اور جب تک تہمت لگانے ولاا کسی گناہ کو ثابت نہ کرے تب تک تما مردوں اور عورتوں کو بَری کہلانے کے مستحق ٹھہرایا ہے- پس قرآن اور زبان عرب کے رو سے بری کے معنی ایسے وسیع ہی کہ جب تک کسی پر کسی جُرم کا ثبوت نہ ہو وہ بری کہلائے گا کیونکہ انسان کے لئے بری ہونا طبعی حالت ہے اور گناہ ایک عارضہ ہے جو پیچھے سے لاحق ہوتا ہے- لہذا ہر ایک انسان جب تک اس کا کوئی جرم ثابت نہ ہوبری کہلانے کا حقدار ہے کیونکہ طبعی حالت بغیر کسی عارضہ لاحق کے دُور نہیںہو سکتی-
ایک اور امر عظیم الشان ہے جو اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد میں ظہور میں آیا جس سے اشتہار مذکور کی پیشگوئی کا پُورا ہونا اور بھی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ پیشگوئی جو چوتھا لڑکا ہونے کے بارے میں ضمیہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں کیگئی تھی جس کے ساتھ یہ شرط تھی کہ عبد الحق غزنوی جو امرت سر میں مولوی عبدالجبارغزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا لڑکا پیدا نہ ہو لے- وہ پیشگوئی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی میعاد کے اندر پوری ہو گئی اور وہ لڑکا بفضلہ تعالیٰ ۱۴ جون ۱۸۹۹ء کو مطابق ۴ صِفر ۱۳۱۷ ھ پیدا ہو گیا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور جیسا کہ پیشگوئی میں شرط تھی کہ عبد الحق غزنوی اس وقت تک زندہ ہو گا کہ چوتھا لڑکا پیدا ہو جائے گا- ایسا ہی ظہور میں آیا اور اب اس وقت تک کہ ۱۴ دسمبر ۱۸۹۹ء ہر ایک شخص امرت سر میں جا کر تحقیق کر لے کہ عبد الحق اب تک زندہ ہے - پس اس میں کیا شک ہے کہ یہ صاف صاف کھلی کھلی پیشگوئی محمد حسین اور اس کے گروہ کی عزّت کا موجب نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا نے ایسے انسان کی دعا کو قبول کر کے جو محمد حسین اور اس کے گروہ کی نظر میں کافر اور دجّال ہے اس کی پیشگوئی کے مطابق عبد الحق غزنوی کی زندگی میں اس کو پسر چہارم عطا فرمایا یہ ایک تائید الہٰی ہے جو بجز صادق انسان کے اور کسی کے لئے ہر گز نہیں ہو سکتی- پس جب کہ اس پیشگوئی کا میعاد کے اندر پورا ہو جانا اور عبد الحق کی زندگی میں ہی اس کا ظہور میں آیا میری عزّت کا موجب ہوا تو بلا شبہ محمد حسین اور اس کے گروہ جعفر زٹلی وغیرہ کی ذلّت کا موجب ہوا ہو گا- یہ اَور بات ہے کہ یہ لوگ ہر ایک بات میں اور ہر ایک موقعہ پر یہ کہتے رہیں کہ ہماری کچھ بھی ذلّت نہیںہوئی-لیکن جو شخص منصف ہو کر ان تمام واقعات کر پڑھے گا اس کو تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ بلا شبہ ذلّت ہو چکی ہے -
اس جگہ افسوس سے ہمیں یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ پرچہ اخبار عام ۲۳ نومبر ۱۸۹۹ء میںایک شخص ثنا ء اللہ نام امرت سری نے یہ مضمون چھپوایا ہے کہ اب تک مولوی محمد حسین کی کچھ بھی ذلّت نہیں ہوئی - ہم حیران ہیںکہ اس صریہح خلاف واقعہ امر کاکیا جواب لکھیں- ہم نہیں جانتے کہ ثنا ء اللہ صاحب کے خیال میں ذلّت کسی کو کہتے ہیں- ہاں ہم کہ قبول کرتے ہیں کہ ذلّت کئی قسم کی ہوئی ہے اور انسانوں کے ہر ایک طبقہ کے مناسب حال ایک قسم کی ذلّت خیال کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر اس قسم کے زمینداربھی دیکھے جاتے ہیں کہ قسط مالگذاری بروقت ادا نہ ہونے کی وجہ سے تحصیل کے چپراسی ان کو پکٹر کر لے جاتے ہیں اور بوجہ نہ ادائیگی معاملہ سخت گو شمالی کرتے ہیں اور ذرہ خیال نہیں کرتے کہ کچھ بھی ان کی بے عزّتی ہوئی ہے اور ان سے بھی زیادہ بعض شریر چوہڑوں اور حیماروں اور ساہنسیوں میں سے ایسے ہوتے ہیں جو جیل خانہ میں جاتے ہیں اور چوتڑوں پر بید بھی کھاتے ہیں اور باایں ہمہ کبھی نہیں سمجھتے کہ ہماری عزّت میںکچھ فرق بھی آیا ہے بلکہ جیل میں ہنستے رہتے اور گاتے رہتے ہیں گویا ایک نشے میں ہیں- اب چونکہ عزتیں کئی اور ذلتیں بھی کئی قسم کی ہیں اس لئے یہ بات میں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لایق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمد حسین کی ذلّت قرار دیتے ہیں- اور اگر اتنی قابل شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں- اب تک اس کی کچھ ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا دیں کہ وہ کونسی صورت تھی جس سے اس کی ذلّت ہو سکتی اور بیان فرما ویں کہ جو مولوی محمد حسین جیسی شان اور عزّت کا آدمی ہو اس کی ذلّت کس قسم کی بے عزّتی میں متصّور ہے- اب تک تو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز انسانوں کی عزّت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑے سی کسر شان سے عزّت میں فرق آ جاتاہے- مگر اب میاں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لایق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمدحسین کی ذلّت قرار دیتے ہیں اور اگر اتنی قابل شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں- اب تک اس کی کچھ ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا دیں کہ وہ کونسی صورت تھی جس کو سے اس کی ذلّت ہو سکتی اور بیان فرما ویں کہ جو مولوی محمد حسین جیسی شان اور عزّت کا آدمی ہو- اس کی ذلّت کس قسم کی بے عزّتی میں متصوّر ہے- اب تک جو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز انسانوں کی عزّت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑی سی کسر شان سے عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اب میاں ثناء اللہ صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام قابل شرم امور سے مولوی صاحب موصوف کی عزّت میں کچھ فرق نہیں آیا- پس اس صورت میں ہم سے انکار کا کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے جب تک میاں ثناء اللہ کھول کر ہمیں نہ بتلا دیں کہ کسِ قسم کی ذلّت ہونی چاہیے تھی جس سے موحدین کے اس ایڈووکیٹ کی عزّت میں فرق آ جاتا - اگر وہ معقول طور پر ہمیں سمجھا دیں گے کہ شریفوں اور معّززوں اور ایسے نامی علماء کی ذلّت اس قسم کی ہونی ضروری ہے تو اس صورت میں اگر ہماری پیشگوئی کے رو سے وہ خاص ذلّت نہیں پوری پہنچی جو پہنچی چاہیے تھی تو ہم اقرار رکر دیں گے کہ ابھی پیشگوئی پورے طور پر ظہور میں نہیں آئی - لیکن اب تک تو ہم مولوی محمد حسین کی عالمانہ حیثیت پر نظر کر کے یہی سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی ان کی حیثیت کے مطابق اور نیزالہامی٭ شرط کے مطابق پورے طور پر ظہور میں آ چکی-
مدت ہوئی کہ ہمیں ان مولویوں سے ترک ملاقات ہے- ہمیں کچھ معلوم نہیں یہ لوگ اپنی بے عزّتی کسی حد کی ذلّت میں خیال کرتے ہیں اور کسی حد کی ذلـّت کو ہضم کر جاتے ہیں- میاں شناء اللہ کو اعتراض کرنے کا بے شک حق ہے مگر ہم جواب دینے سے معذور ہیں جب تک وہ کھول کر بیان نہ کریں کہ بے عزّتی تب ہوتی تھی جب ایسا ظہور میں آتا- ہم قبول کرتے ہیں کہ انسانوں کی مختلف طبقوں کے لحاظ سے بے عزّتی بھی مختلف طور پر ہے اور ہر ایک کے لئے وجود ذلّت کے جدا جدا ہیں لیکن ہمیں کیا خبر ہے کہ آپ لوگوں نے مولوی محمد حسین کی کسی طبقہ کا انسان قرار دیا ہے اور اس کی ذلّت کن امور میں تصّور فرمائی ہے - ہماری دانست میں تو میاں ثناء اللہ کو مولوی محمد حسین صاحب سے کوئی پوشیدہ اور معززوں اوراہل علم کے لئے کافی ہے-
یہ تو ظاہر ہے کہ دُنیا تین قسم کی ہوتی ہے ایک تو جسمانی ذلّت جس کے اکثر جرائم پیشہ تختہ مشق ہوتے رہتے ہیں- دوسرے اخلاقی ذلّت یہ تب ہوتی ہے جب کسی کی اخلاقی حالت نہایت گندی ثابت ہو- اور اس پر اس کو سرزنش ہو- تیسرے علمی پردہ دری کی ذلّت جس سے عالمانہ حیثیت خاک میں ملتی ہے - اب ظاہر ہے کہ اخلاقی ذلّت ظہور میں آ چکی ہے - اگر کسی کو شک ہے تو اس مثل کو ملا حظہ کرے جو مسٹر دوئی صاحب کی عدالت میں طیار ہوئی ہے- ایسا ہی عالمانہ حیثیت کی ذلّت ظہور میں آ چکی اور عجبت کے صلہ پر جو اعتراض محمد حسین صاحب نے کیا اور پھر جو ڈسچارج کا ترجمعہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ڈسچارج کا ترجمہ بَری نہیں ہے- ان دونوں اعتراضوں سے صاف طور پر کھل گیا کہ علاوہ کمالات نحودانی اور حدیث دانی کے آپ کو قانون انگریزی میں بھی کچھ دخل ہے اور یاد رہے کہ دشمن کی ذلّت ایک قسم کی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے مخالف کو جس کے ذلیل کرنے کے لئے ہر دم تدبیریں کرتا اور طرح طرح کے مکر استعمال میںلاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے عزّت مل جائے- سو اس قسم کی ذلّت بھی ظاہر ہے کیونکہ ڈئوئی صاحب کے مقدمہ کے بعد جو کچھ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے میری طرف ایک دُنیا کو رجوع دیا اور دے رہا ہے یہ ایک ایسا امر ہے جو اس شخص کی اس میںصریح ذلّت ہے جو اس کے بر خلاف میرے لئے چاہتا تھا- ہاں میاں ثناء اللہ کے تین اعتراض اور باقی ہیں اور وہ یہ کہ ریاست میں اس کا کچھ وظیفہ مقرر ہو گیا ہے - اور مسٹر جے - ایم ڈوئی صاحب نے اس کی منشاء کے موافق مقدمہ کیا ہے-
تیسرے اعتراض کے جواب کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ابھی ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہ دعویٰ تو سراسر ترک حیا ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ محمد حسین کی منشاء کے موافق مقدمہ ہوا ہے- خود محمد حسین کو قسم دے کر پوچھنا چاہیے کہ اس کا منشاء تھا کہ آئندہ وہ کافر اور دجّال اور کاذب کہنے سے باز آ جائے اور کیا اس کا یہ منشاء تھا کہ آئندہ گالیوں اور فحش کہنے اور کہانے سے باز آ جائے؟ پھر کون منصف اور صاحب حیا کہہ سکتا ہے کہ یہ مقدمہ محمد حسین کی منشاء کے موافق ہوا- ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ ہمیں بھی آئندہ موت اور ذلّت کی پیشگوئی کرنے سے روکا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہماری کاروائی خود اس وقت سے پہلے ختم ہو چکی تھی کہ جب ڈوئی صاحب کے نوٹس میں ایسا لکھا گیا- بلکہ ہم اپنے رسالہ انجام آتھم میں بتصریح لکھ چکے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو آیندہ مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتے جب تک یہ ہمیں مخاطب نہ کریں اور ہم بیزار اور متنفر ہیں کہ ان لوگوں کا نام بھی لیں چہ جائیکہ ان کے حق میں پیشگوئی کر کے اسی قدر خطاب سے ان کو کچھ عزّت دیں- ہمارا مدعا تین فرقوں کی نسبت تین پیشگوئیاں تھیں- سو ہم اپنے اس مدّعا کو پورا کر چکے- اب کچھ ضرورت نہیںکہ ان لوگوں کی موت اورذلّت کی نسبت پیشگوئی کریں اور یہ الزام کہ آیندہ عموماً الہامات کی اشاعت کرنے اور ہر قسم کی پیشگوئیوں سے روکا گیا ہے یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو وعیدلعنۃ اللہ علی الکاذبین میں داخل ہیں-اب بھی ہم اس مقدمہ کے بعد بہت سی پیشگوئیاں شائع کرچکے ہیں- پس یہ کیسا گندہ جھوٹ ہے کہ یہ لوگ بے خبر لوگوں کے پاس بیان کر رہے ہیں-
رہا یہ سوال کہ محمد حسین کو کچھ زمین مل گئی ہے یعنی بجائے ذلّت کے عزت ہو گئی ہے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے بلکہ یہ اُس وقت اعتراض کرنا چاہیے تھا کہ جب اس زمین سے محمد حسین کچھ منفعت اُٹھا لیتا- ابھی تو وہ ایک ابتلاء کے نیچے ہے کچھ معلوم نہیں کہ زمین سے انجام کار کچھ زیر باری ہوگی یا کچھ منفعت ہو گی- ماسوا اس کے کنز العمال کی کتاب المزارعہ میں لینے صفحہ ۷۲ میں جناب رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث موجود ہے لا تد خل سکت الحرث علیٰ قوم الاّ لھم اللہ (طب عن ابی یمامہ) یعنی کھیتی کا لوہا اور آلہ کسی قوم میں نہیں آتا جو اس قوم کو ذلیل نہیں کرتا- پھر اسی صفحہ میں ایک دوسری حدیث ہے انا صلی اللہ علیہ وسلم رأی شیئاً من اٰلۃ الحرث نقال ید خل حذا بیت قوم الّادخلہ الذل رخ عن ابی امامہ ) یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک آلہ زراعت کا دیکھا اور فرمایا کہ یہ آلہ کسی قوم کے گھر میں داخل نہیں ہوتا مگر اس قوم کو ذلیل کر دیتا ہے - اب دیکھو ان احادیث سے صریح طور پر ثابت ہے کہ جہاں کاشت کاری کا آلہ ہو گا وہیں ذلّت ہو گی- اب ہم میں ثنا ء اللہ کی بات مانیں یا رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی جو شخص آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان رکھتا ہے اس کو ماننا پڑے گا کہ کسی کے گلے میں کاشت کاری کا سامان پڑا یہ بھی ایک قسم کی ذلّت ہے سو یہ تو میاں ثنا ء اللہ نے ہماری مدد کی کہ جس قسم کی ذلّت کی ہمیں خبر بھی نہیں تھی ہمیں خبر دے دی- ہمیں تو پانچ قسم کی ذلّت کی خبر تھی- اس چھٹی قسم کی ذلّت پر میاں ثناء اللہ کی معرفت اطلاع ہوئی- اور رہی یہ بات کہ محمد حسین کا کسی ریاست میں وظیفہ مقرر ہو گیا یہ ایساامر ہے اس کو کوئی دانشمند عزّت قرار نہیں دے گا- ان ریاستوں میں تو ہر ایک قسم کے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں جن میں سے بعض کے ناموں کا ذکر بھی قابل شرم ہے- پھر اگر محمد حسین کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا تو کس عزت کا موجب ہوا بلکہاس جگہ تو وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بمئس الفقیر علیٰ باب الامیر-
غرض یہ پیشگوئی جو محمد حسین اور اس کے دو رفیقوں کی نسبت تھی اعلیٰ درجہ پر پوری ہو گئی- ہم قبول کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی اس قسم کی ذلّت نہیں ہوئی جو ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کی ذلّت ہوتی ہے مگر پیشگوئی میں پہلے سے اس کی تصریح تھی کہ مثلیذلّت ہو گی جیسا کہ پیشگوئی کا یہ فقرہ ہے- جزاء سیئۃ و تر ھقھم ذلہ یعنی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی اسی قسم کی ذلّت ان کو پہنچے گی- اب ہم اس سوال کی زٹلی اور تبتی سے تو نہیں پوچھتے کیونکہ ان کی ذلّت اور عزت دونوں طفیلی ہیں- مگر جو شخص چاہے محمد حسین کو قرآن شریف ہاتھ میں دے کر حلفاًپوچھ لے یہ مثلی ذلّت جو الہام سے مفہوم ہوتی ہے یہ تمہیں اور تمہارے رفیقوں کو پہنچ گئی یا نہیں؟ بے حیائی سے بات بڑھانا کسی شریف کا کام نہیں ہے بلکہ گندوں اور سفلوں کا کام ہے- لیکن ایک منصف مزاج سوچ سکتا ہے کہ الہام الہٰی میں یہ تو نہیں بتلایا گیا تھا کہ وہ ذلّت پہونچائی جائے گی بلکہ الہام الہٰی کے صاف اور صریح یہ لفظ تھے کہ ذلّت صرف اس قسم کی ہو گی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی- الہام موجود ہے- ہزاروں آدمیوں میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے- پھر یہودیوں کی طرح میںتحریف کرنا اس بے حیاء انسان کا کام ہے جس کو نہ خدا تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ انسانوں سے شرم ہے-
راقم
میرزا غلام احمد از قادیان
تاریخ طبع ۱۷ دسمبر ۱۸۹۹ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان اسمٰعیل
(۲۱۵)
اپنی جماعت کے لیے ایک ضروری اشتہار
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
چونکہ مسلمانان ہند پر علی العلوم اور مسلمانان پر بالخصوص گورنمنٹ برطانیہ کے بڑے بڑے احسانات ہیں- لہذا مسلمان اپنی اس مہربان گورنمنٹ کا جس قدر شکریہ ادا کریں اتنا ہی تھوڑا ہے کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دستِ تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دُنیاہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بد تر تھی- دینی فرائض کیا ادا کرنا رتو درکنار بعض اذان نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے- ایسی حالت زار میں اللہ تعالیٰ نے دُور اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابر رحمت کی طرح بھیج دیاجس نے ان کو نہ صرف اُن ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کر کے ہر قسم کے سامان آسایش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دین متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کرسکتے ہیں-
ہم نے عید الفطر کے موقع پر اس مضمون پر مفصل تقریر کر تھی جس کی مختصر کیفیت تو انگریزی اخباروں میں جا چکی ہے اور باقی کیفیت عنقریب مرزاخدا بخش صاحب شائع کرنے والے ہیں- ہم نے اس مبارک عید کے موقع پر گورنمنٹ کے احسانات کا ذکر کر کے اپنی جماعت کو جو اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتی اور دیگر لوگوں کی طرح منافقانہ زندگی بسر کرنا گناہ عظیم سمجھتی ہے توجہ دلائی کہ سب لوگ تہ دل سے اپنی مہربان گورنمنٹ کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جنگ میں جوٹر نسوال میں ہو رہی ہے فتح عظیم بخشے اور نیز یہ بھی کہا کہ حق اللہ کے بعد اسلام کا اعظم ترین فرض ہمدردی خلایق ہے اور بالخصوص ایسی مہربان گورنمنٹ کے خادموں سے ہمدردی کرنا کا ثواب ہے جو ہماری جانوں اور مالوں اور سب سے بڑھ کر ہمارے دین کی محافظ ہے- اس لئے ہماری جماعت کے لوگ جہاں جہاں ہیں اپنی توفیق اور مقدور کے موافق سرکاربرطانیہ کے ان زخمیوں کے واسطے جو جنگ ٹرینسول میں مجروح ہوئے ہیں چندہ دیں- لہذا بذریعہ اشتہار ہذا اپنی جماعت کے لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ہر یاک شہر میں فہرست مکمل کر کے اور چندہ وصول کر کے یکم مارچ سے پہلے مرزا خدا بخش صاحب کے پاس قادیان بھیج دیں کیونکہ یہ ڈیوٹی ان کے سپرد کی گئی ہے - جب آپ کا روپیہ مع فہرستوں کے آ جائے گا تو اس فہرست چندہ کو اس رپورٹ میں درج کیاجائے گا جس کا ذکر اور ہو چکا ہے ہماری جماعت اس کام کو ضروری سمجھ کر بہت جلد اس کی تعمیل کرے- والسّلام
راقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد از قادیان
۱۰ فروری ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے )
(۲۱۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
گورنمنٹ انگریزی اور جہاد
جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت کے ایسا پیچیدہ امراور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقعہ ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں-
جاننا چاہیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوئوں میں جو لڑائی کو یُدّھ کہتے ہیں دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا بگڑا ہوا ہے چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اورتمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّھ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرف جیم کو یاء کے ساتھ بدل دیا اور کچھ تصرف کر کے تشیدید کے ساتھ بولا گیا -
اب ہم سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیںکہ اسلام کوجہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے - سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہین بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا اور تمام قوتیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں- جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رُسول خدا کی طر ف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے - بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں- کیونکہ اس مرد خدا کے ظہور سے اُن کی آمدنیوں اور وجاہتوں میں فرق آتا ہے- اُن کے شاگرد اور مرید ان کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیںجو خدا کی طرف سے پیدا ہو تا ہے- لہذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے ان عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب ان کو دیئے گئے جیسے نجم الامتہ اور شمس الامتہ اور شیخ المشائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے- سو ان وجوہ سے اہل عقل ان سے مُونہہ پھیر لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے- ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء اور مشائخ اور فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے- وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگون کی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصّہ نور سے دیکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راست بازوں سے محض نفسانی ہوتیہے اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آ گئے ہیں اور اُن کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیںان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ تیز انجن کی عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے- یہی اسباب تھے - جنہوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میںمشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا- لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحہ دُنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل و دماغ میں جا گزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں مال میں کثرت جماعت میں عزّت میں مرتبت میں دوسرے فرقہ سے بر تر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتائو کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راست بازوں کے ہلاک کرنے کے لیے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی وقیقہ آزار رسائی کا اُٹھا نہیں رکھاتھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پَیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے- سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کاروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے درد ناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ درازتک جوتیرہ برس کی مدّت تھی ان کی طرف سے یہی کاروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفا دار بندے اور نوعِ انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے- اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرکا کا ہر گزمقابلہ نہ کر و- چنانچہ ان بر گزیزہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا- اُن کے خُونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا- وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی- خدا کے پاک اور مقدس رسُول کو جس پرزمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں با ر ہرا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی کی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا- تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمیء حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُسکا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے کہ مَین سب کچھ دیکھ رہا ہوں- مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور مَیں خدائے قادر ہوں- ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا - یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد کا نام رکھا گیا-اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے ہے اُذِنَ للذین یقاتلون بانھم ظُلِمُوْا ان اللہ علیٰ نصر ھم القدیر- الذین اخر جو امن دیار ھم بغیر حق- یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے- الجزو نمبر ۱۷ سورۃ الحج- مگر یہ حکم مختص الزمان و الوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑیوں کی طرح ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیا- اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کی مخلوق کے حقوق کی نسبت - یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بناکر اُس قادر و قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں- اور مسلمانوں نے انسانوں پر نا حق تلوار چلانے سے نبی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا- غرض حق تلفی کی ایک راہ اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کر لی اور اس زمانہ کی بد قسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا- اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں- اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے- کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہے ہیں جو نبی نوع کی نسبت ان سے سرزد ہو رہی ہے-
یاد ہے کہ مسئلہ جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے - اور جس طرح پر حال کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہر گز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پر جوش وعظوں سے بے نصیب کر دیں- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون ان نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی ان سب کاگناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طورپر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خوریزیاں ہیں- یہ لوگ جب حکّام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارا الحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں- یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے بر خلاف ہے - اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اس کا نام دجّال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں - چنانچہ مَیں بھی مدّت سے اسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے اس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا ہے اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لُوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے - اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونااور ان کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور ان کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مار کی بڑی بڑی امیدیں تھیں سراسر باطل ٹھیرانا ان کے غضب اورعداوت کا موجب ہو گیا- مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ ان کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں- ایک یہ کہ خیال قیاس مع الفارق ہے- اور ہمارے نبی صلے اللہ و علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اُٹھائی بجز ان لوگوں اور جنہوں نے پہلے تلوار اُٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے درد انگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے - دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اُٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اس کی دُعا اس کا حربہ ہو گا اور اس کے عقد ہمّت اس کی تلوار ہو گی- وہ صلح کی بنیاد ڈالے گااور بکر اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اُس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہو گا- ہائے افسوس ! کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمہ یضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا او ر اسی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے- حتی تضع الحرب اوزارھا ہے- دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح کتاب مانی گئی ہے- اس کو غور سے پڑھو- اے اسلام کے علامو اور مولویو! میرے بات سُنو ! مَیں سچ کہتا ہوں کہ اجہاد کا وقت نہیں ہے- خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو- مسیح موعود جو آنے والا تھا آ چکا اور اس نے حکم بھی دیا کہ آیندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت وخون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آ جائو تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے- جس نے مجھے قبول کیا ہے رہ نہ صرف ان وعظوں سے مونہہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الہٰی جانے گا-
اس جگہ ہمیں یہ افسوس سے لکھنا پڑا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لُوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے- اسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کاروائی کی- اور ہزاروںرسالے اور اشتہار اُردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوںمیں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار جلانے کا نام اسلام ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کے دو گواہیاں پا کر یعنی ایک یہودیوں کو گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی ہے - میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراء سے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے- یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے ان بے جا افترائوں سے اہل اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتجہ ہو گا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اوروہ سوائے ہوئے جاگ اُٹھیں گے- غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے- اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شاید اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا- مگر اب تو مَیں آ گیااور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا- اس لئے اب مذہبی طورپر تلوار اُٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں- جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریو جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفسِ امّارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہر گز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دارز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کی اجو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اُٹھائو اور صبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا- وہ پیَروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا- ان کے بچے اپں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے، وہ آگ اورپانی کے ذریعے سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شر کے مقابلہ ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خور بچے ہیں- کون ثابت کر سکتا ہے کہ دُنیا میں تمام نبیوں کے استوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا، کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دُنیا میں کوئی اَور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مروحی اور مردانگی کے پھر خونخوار کے دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا- ہمارے سیّد و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جاں نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جوجہاد کے حکم کے بعد انہوں کے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی- ایسا ہوا تا لوگوںکو معلوم ہو کہ جو مکّہ میںدشمنوں کی خونزیوں پر صبر کیا گیا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے سبر کا قصّہ بھی ہم سُنتے ہیں تو فی الفور دل میں گذرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب دراصل بزدلی اور عدم قدرت انتقام ہو- مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہُنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اورآپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلائوں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس تک دراز مدّت تک لمبا تھا درحقیت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہوتو ہمیں بتلا دے کہ گذشتہ راستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟
اور اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دُکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کاحکم ہے- غرض ہمیشہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک آسمان سے حکم مقابلہ آ گیا- اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اوّل اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو- پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلائو-
حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دُنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بد بختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ پر چھوڑ دیا گیا ہے - جاہل مولویوں نے خدا ان کو ہدایت دے عوام کا لا نعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بیر حمی اور انسانی اخلاق کے بر خلاف ہے- کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلاجاتا ہے اور ہم نے اس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے- کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں- سبحان اللہ ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکّہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بد ی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جائو- پس وہ اس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے- گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوئوں میں طاقت- بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اُونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اُونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اُونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑایا گیا- پس وہ ایک دم میں ایسے چِر گئے جیسے گاجر یامُولی چیری جاتی ہے- مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دُنیا اُن کا شکار ہے- اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقو پا کر بندوق کافائر کرتا ہے- یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں-انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بٰھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ مخوایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے- ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہؓ کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں- کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دی اہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہمیں وہ جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں- کیا سیا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جُرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جائو اس سے تم بہشت میں داخل ہو جائوگے- افسوس کامقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ رُوشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کسی آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں- ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اُٹھائی اور اس وقت اُٹھائی گئی جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میںپہنچ گئے- آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں- خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے- لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے - مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لیے قتل نہیں کر تا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتیہیں- کیول ان کے مولوی بے جادست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہین گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان با اسلام ہوئے- چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہیے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دُعائوں کے بعد سکھّوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی ردّ کر دیں-
اور مَیں اس وقت اپنی جماعت کوجو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتون سے پرہیز کریں مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لائو اپنے دلوں کے بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہوجائو گے- کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے - سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو- تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے - کیا یہی ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے- جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہو گی بجز اس کے کہ خدا کی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں- خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو- آئو مَیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اورہمدرد نوع انسان ہو جائو اور خدا میں کھوئے جائو اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی یں اور دُعائیں قبول ہو تی یں اور فرشتے مدد کے لئے اُترتے یں مگر یہ ایک دن کا کام نہیں- ترقی کرو- ترقی کرو- اس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اوّل بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کا تاثیریں تمام مَیل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہے - تب صبح اُٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ مَیل جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اُٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو مار کھا کر یک دفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے - یہانتک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں- جیسے ابتداء میں تھے - یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے- یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قد افلح من زکّٰھا یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے مَیلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا- دیکھو مَیں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوان اور وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے اور یہ بات مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے- صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ عضع الحرب یعنی جب مسیح آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا- سو مَیں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام کے پیچھے ہٹ جائیں- دلوں کو پاک کر یں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں- زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں ایسا کیونکر ہو گا- کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا- بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی- تب آخر میں لوگ سمجھ جائیںگے کہ جو خد کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا سب غلطیاں تھیں- سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرت مند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نا فرمانوں میں لکھے جائو- اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتداء سے وعدہ تھا- خدا ان قصّوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دُور دُور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتیہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پُورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کے طرح دُنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی- زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے - اور ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیر و سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے- سویہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کی حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دُنیا میں پھیلے گی جیسے اُونچے مینار پر سے آواز اور روشنی دُور تک جاتی ہے - اس لئے ریل اور تار گھر اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے اور قرآن بھی کہتا ہے وَاِذَا الْعِشَارُعُطِّلَتْ یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے وہ ٭ہے جبکہ اُونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اُونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے یترک القلاص فلا یسعی علیھا- یعنی اس زمانہ میں اُونٹ بے کار ہو جائیں گے- اور یہ علامت کسی اَور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی- سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے تیاریاںہیں- زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیںدیکھے- گویا دُنیا نئی ہو گئی ہ- بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میںمل سکتے ہیں چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے- ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آ سکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود یں- اگر چاہو تو ریل میں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر میں ایک بُستان سرائے میں- پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے -اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں ہیں- انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے ان السمٰوٰت والارض کانتا و تقاً ففتقنا ھما- یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جوہر ظاہر کر دیئے-٭
بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اشتہار میں مفصّل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں- یہ شرعی جہاد نہیں بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے- لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اِسلامی قوموں میں پرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑنا آسانی سے ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اس قصّہ بھی تمام کرنا چاہیں- ہاں ایک طریق میرے دل پر گزرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل جن کا رُعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں نہیں ملے گی نامی علماء کو جمع کر کے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لا ویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کرا کر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کاروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور و ہ جوش جو نادان ملّا عوام میںپھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقینا امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بد قسمتی ہو گی اگر اس ضروری اصلاح ی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ملّائوں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی ہے کیونکہ آجکل ان ملّائوں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی وجہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کا فر ٹھیرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت ان کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں- پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے-ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّا لوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر ان کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر ان کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفار کے لئے وہ لکھا رکرتے ہیں- پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بناتا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہیے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سر چشمہ یہی لوگ ہیں- عوام بے چارے ان لوگون کے قابومیں ہیں اور اُن کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر یدں اور ایک دم میں قیامت بر پا کردیں- پس یہ گناہ کی بات نہیں کہ عوام کی اُن کے پنجہ سے چھڑادیا جائے اور خود اُن کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے- اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمانوں رہزنوں اور ڈاکوئوں کی طرح بن جائیںاور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں- اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام چاہتے ہیں اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں امیر صاحب پر یہ الزام لگا دیں کہ انہی اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے- لہذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر ساحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اُٹھے گی اور ثواب بھی ہو گا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کر کے اس سے بڑھ کر اَور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلور چلانے والے اکثر افغان ہین ہیں جن کا امیر صاحب کے مُلک میں ایک معتدبہ حصّہ ے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقعہ دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور وحشیانہ عادات جو اسلام کی بد نام کنندہ ہیں جہاں تک ان کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ دَور مسیح موعود آ گیا ہے - اب بہر حال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خونریزی سے پُر تھی اب عدل اورصلح کاری سے پُر ہو جائے گی اور مبارک وہ امیر بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصّہ لیں-
ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں- اور گو یہ جانتاہوںکہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے - لیکن ہماربھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گزرے تو اُسے پیش کر دیں- اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اس کے اسباب جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں دو ہیں (۱) اوّل وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے- مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں-آخر دن رات ایسے وعظوںکو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں تھوڑاہی فرق ہے بہت بڑا اثر پڑتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرّہ باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خونریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے- اور اگرچہ سرحدی اورافغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں- اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبّرا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے- میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب مُلّا ایسے یں کہ ان گندے خیالات سے بَری نہیں ہیں- اگر وہ خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو مَیں اُن کو معذور سمجھتا کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے- لیکن مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کر کے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا رتعالیٰ کا کلام ہر گز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہ ہوں کے خون کیاکریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے-(۲)دوسرا سبب ان مجرمانہ خونریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں - میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے - میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی- یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا- میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالیاور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں- بلکہ جب سکّھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور ان کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کی اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے - جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میں کتاب میزان الحق تالیف کر کے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے- ان باتون کو سُن کہ سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے - مَیں نے غور کر کے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اورپُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئای اس کا سبب پادری صاحبوںکی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذر گئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر ۲۳ ۱۸۶۷ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کو روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا- یہ قانون سرحد کی چھ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی- لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرت سری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے مُلک کی اندرونی محبت اور مصالحت کر بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوںمیں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی- غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے- ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کاروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی وجہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلانہ طریق ثابت ہو جانے کی وجہ سے اندر ہی اندر دب گئے- پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملّائوں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ جہاد کی پیروی کر کے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا کہ وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروںکو سُرخ کیا کریں اور اس طرح نا حق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذاء پہنچایا کریں- مگر ساتھ ہی یورپ کی ملّائوں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے نا حق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے- ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کر کے وحشی مسلمانوں کے دلوں میںیہ جما دیا کہ اُن ک مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے بہت جلد بہشت مل جاتا ہے- اگر ان پادریوں صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کر کے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے - اگر ہم فرج کر لیں کہ اس فتنہ عوام جوش دلانے کے بڑے سمجھ جاتے اور چپ رہتے- اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کو جوش دلانے کے بڑے متحرک اسلامی مولوی ہیں تا ہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگریزی میں پادریوں کی وہ تحریوں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمانوں شاکی نظر آتے ہیں- افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کی مشکلات پیش آتی ہیں- ان مشکلات پیش آتی ہیں- ان مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیززبانی تقریروں میں ہر گز ہر گز کسی دوسرے مذہب کا صراحتہً یا اشارۃً ذکر نہ کرے- ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے- اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخمریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے اور جب سرحد کی وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم اُنس اور محبت اور پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریں گے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے - اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کر کے اور پشتومیں ان کا ترجمہ کراکر سرحدی اقوام میں مشتہر کر دیں- بلا شبہ ان کا بڑا اثر ہوگا مگر ان باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچّے دل اور جوش سے کاروائی کی جائے نہ نفاق سے- والسلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی از قادیان
المرقوم ۲۲ مئی ۱۹۰۰ء
(۲۱۷)
ضمیمہ رسالہ جہاد
عیسٰی مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت
او رجناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں
ایک درخواست
اگرچہ مَیں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ مَیں عیسٰی مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ مَیں درحقیقت حضرت عیسٰی علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شُبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا مَیں نے تناسخ کے طور پر اس دعوے ٰ کو پیش کیا ہے اور گویا مَیں اس بات کا مدعی ہوں کہ سچ مچ ان بزرگ نبیوں کی رُوحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں- لیکن واقعی امر ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسا زمانہ ہو گا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا- ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہو گا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت- مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہو گا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوعِ انسان کی خونریزیاں ہوں گی یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا وہ ایسی خونریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی چنانچہ وہ زمانہ یہی ہے کہ ایمان اور انصاف کے رُو سے ہر ایک خدا ترس کو اس زمانہ میں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مثلاً آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کی یا اُن کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں- کس قدر ظلم صریح اور حقوق العباد کا تلف کرنا ہے کہ کیا ان کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں رہا جو بانگ نماز پر بھی قتل کرنے کو مستعد ہو جاتے تھے- گورنمنٹ انگریزی نے کیا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا اس کے معزز حکام کو دی جاتی ہے- اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی- اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مار کھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں- سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی غلاموں کی طرح زندگی تھی اور اب انگریزی عملداری سے دوبارہ ان کی عزت قائم ہوئی- جان اور مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے اسلامی کتب خانوں کے دروازے کھولے گئے تو کیا انگریزی گورنمنٹ نے نیکی کی یا بدی کی، سکھوں کے زمانہ میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اُکھیڑی جاتی تھیں- سرہند کا واقعہ بھی اب تک کسی کو بھولا نہیں ہو گا- لیکن یہ گورنمنٹ ہماری قبروں کی بھی ایسی ہی محافظ ہے جیسا کہ ہمارے زندوں کی- کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرّہ بھی مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا- کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لاوے- حج کرے- زکوٰۃ دے- نماز پڑھے یا خدا کی طرف سے ہو کر یہ ظاہر کرے کہ مَیں مجدّد وقت ہوں یا ولی ہوں یا قطب ہوں یا مسیح ہوں یا مہدی ہوں اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں بجز اس صورت کے کہ وہ خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو- پھر باوجود اس کے کہ گورنمنٹ کے یہ سلوک اور احسان ہیں مسلمانوں کی طرف سے اس کا عوض یہ دیا جاتا ہے کہ ناحق بے گناہ بے قصور ان حکام کو قتل کرتے ہیں جو دن رات انصاف کی پابندی سے ملک کی خدمت میں مشغول ہیں- اور اگر یہ کہو کہ یہ لوگ تو سرحدی ہیں- اس ملک کے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کا کیا گناہ ہے تو اس کا جواب بادب ہم یہ دیتے ہیں کہ ضرور ایک گناہ ہے چاہو قبول کرو یا نہ کرو اور وہ یہ کہ جب ہم ایک طرف سرحدی وحشی قوموں میں غازی بننے کا شوق دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے مولویوں میں اپنی گورنمنٹ اور ا س کے انگریزی حکام کی سچی ہمدردی کی نسبت وہ حالت ہمیں نظر نہیں آتی اور نہ وہ جوش دکھائی دیتا ہے- اگر یہ اس گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں تو کیوں بالاتفاق ایک فتویٰ تیار کر کے سرحدی ملکوں میں شائع نہیں کرتے تا ان نادانوں کا یہ عذر ٹوٹ جائے کہ ہم غازی ہیں اور ہم مرتے ہی بہشت میں جائیں گے- مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ مولویوں اور اُن کے پیروئوں کا اس قدر اطاعت کا دعویٰ اور پھر کوئی عمدہ خدمت نہیں دکھلا سکتے- بلکہ یہ کام تو بطریق تنّزل ہے- بہت سے مولوی ایسے ہی بھی ہیں جن کی نسبت اس سے بڑھ کر اعتراض ہے- خدا ان کے دلوں کی اصلاح کرے- غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے- جب ایک محسن بادشاہ کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر اوروں کے ساتھ کیا ہو گا- پس خدا نے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا اس لئے اس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسٰی مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے- اس عکس کو مجازاً کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے کیونکہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چاہو- اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گذرا ہے جس کا نام عیسٰی مسیح ہے- اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی اُن سے نہیں کی بلکہ نیکی کی- اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پا کر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خو اور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے- کیا اس زمانے میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسیٰ مسیح کا اوتار ہے؟ بے شک ضرورت تھی- جس حالت میں اسلامی قوموں میں سے کروڑہا لوگ رُوئے زمین پر ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا ان کا شیوہ ہے بلکہ بعض تو ایک محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رہ کر بھی پوری صفائی سے ان سے محبت نہیں کر سکتے- سچی ہمدردی کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ نفاق اور دو رنگی سے بکلّی پاک ہو سکتے ہیں- اس لئے حضرت مسیح کے اوتار کی سخت ضرورت تھی- سو میں وہی اوتار ہوں- جو حضرت مسیح کی روحانی شکل اور خُو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں-
اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلّو تک پہنچ گیا ہے- اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دُنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور ا س کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنّم سے نجات پائیں گے لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے- خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے- اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو اُن میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنے کے رُو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویلیں کی جاتی ہے کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پا کر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اس کی نسبت مجازًا بولنا قدیم محاورہ اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے لیکن اس سے درحقیقت یہ نہیں کُھلتا کہ وہی شخص درحقیقت رب العالمین ہے- اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھسل جاتا ہے اور ہزار ہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہی لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں- اصل بات یہ ہے کہ جب رُوحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ اُن کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے- آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کر کے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں- سو اسی غلطی میں آ جکل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمدؐ اور احمدؐ تھا- خدا کے اس پر بے شمار سلام ہوں- شریعت دو حصوں میں منقسم تھی- بڑا حصہ یہ تھا کہ لاَالٰہ الاّ اﷲ یعنی توحید اور دوسرا حصّہ یہ کہ ہمدردی بنی نوع انسان کرو اور لئے وہ چاہو جو اپنے لئے- سو ان دو حصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا- اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ یعنی لا الہ الا اﷲ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے- اس پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا- پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں- اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں- یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزار بے گناہوں کو وحشیوں نے تہِ تیغ کر دیا تھا- اور پھر دوسری طرف حقوق خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہئیے وہ مسیح ہی ہے اور اس قدر غلّو ہو گیا کہ اگرچہ اُن کے نزدیک عقیدہ کی رو سے تین اقنوم ہیں لیکن عملی طور پر دعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح- یہ دونوں پہلو اتلاف حقوق کے معنی یعنی حقوق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور رُوپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کر کے بھیجا- ایسا ہی اس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اوراحمد رکھا اورمجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بُو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا- سو مَیں ان معنوں کر کے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی- مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا اور اس کا خلیفہ اور صدق اور راست بازی کو اختیار کرنے والا- اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتاً ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل- سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو مَیں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی- اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں- سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں- بروز عیسیٰ اور بروز محمد- غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے- عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طو رسے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دُنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا سو ایسا ہی ہوتا جاتاہے- آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے ٭ جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے کیونکہ مسیح آچکا - خاص کر میری تعلیم کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے- اور یہ وہ صلح کاری کا جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے کہ اگر ایک لاکھ مولوی بھی چاہتا کہ وحشیانہ جہادوں کے روکنے کے لئے ایسا پُر تاثیر سلسلہ قائم کرے تو اس کے لئے غیر ممکن تھا- اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹا رہی ہے کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی اور وحشیانہ جہاد کرنے والے اپنا چولہ بدل لیں گے-
اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دُنیا میں دوبارہ قائم کروں- کیونکہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محض آسمان نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی- سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے- وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسٰی کلیم اﷲ پر بمقام طور ظاہر ہوا- اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا، وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلّی فرما ہوا ہے- اس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے مَیں ہوں- میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور مَیں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ جو کچھ مسیح کی نسبت دُنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے- خدا نے اپنے زندہ کلام سے بلاواسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اس نے کہا کہ اگر تیسرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پریہ دلیل کافی ہے کہ اس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں- دُعائیں قبول ہوتی ہیں- پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خد ا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں- اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دُعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس قبولیت کا علم دیا جانا یا اَور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ معلوب رہے گا گو وہ مشرقی ہو یا مغربی- یہ وہ نشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں تا اُن کے ذریعہ سے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو کھینچوں جو درحقیقت ہماری روحوں اور جسموں کا خدا ہے جس کی طرف ایک دن ہر ایک کا سفر ہے- یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیزنہیں جس میں الٰہی طاقت نہیں- تمام نبیوں نے سچے مذہب کی یہی نشانی ٹھیرائی ہے کہ اُس میں الٰہی طاقت ہو- یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ دونوں نام جو خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر فرمائے یہ صرف چند روز سے نہیں ہیں بلکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں جس کو شائع کئے قریباً بیس برس گذر گئے یہ دونوں نام خدا تعالیٰ کے الہام میں میری نسبت ذکر فرمائے گئے ہیں یعنی عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی تا مَیں ان دونوں گروہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو وہ پیغام پہنچا دوں جس کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے- کا ش اگر دلوں میں طلب ہوتی اور آخرت کے دن کا خوف ہوتا تو ہر ایک سچائی کے طالب کو یہ موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ مجھ سے تسلّی پاتا- سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھاتا ہے- سو مَیں اس بات کا گواہ رویت ہوں کہ ایسا مذہب توحید کا مذہب ہے جو اسلام ہے جس میں مخلوق کو خالق کی جگہ نہیں دی گئی اور عیسائی مذہب بھی خدا کی طرف سے تھا مگر افسوس کہ اب وہ اس تعلیم پر قائم نہیں رہا- اور اس زمانہ کے مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ وہ شریعت کے اس دوسرے حصہ سے محروم ہو گئے ہیں جو ہمدردی نوع انسان اور محبت اور خدمت پر موقوف ہے- اور وہ توحید کا دعویٰ کر کے پھر ایسے وحشیانہ اخلاق میںمبتلا ہیں جو قابل شرم ہیں- مَیں نے بارہا کوشش کی جو اُن کو ان عادات سے چھڑائوں لیکن ا فسوس کہ بعض ایسی تحریکیں ان کو پیش آ جاتی ہیں کہ جن سے وحشیانہ جذبات ان کے زندہ ہو جاتے ہیں اور وہ بعض کم سمجھ پادریوں کی تحریرات ہیں جو زہریلا اثر رکھتی ہیں- مثلاً پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور صفدر علی کی کتابیں اور امہات المومنین اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نہایت درجہ کی توہین اور تکذیب سے پُر ہیں- یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبر اور حلم سے اعلیٰ درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آ جائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کی عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے- چنانچہ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنو سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہو گی- اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطرناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحب یہ رائے ظاہر کرتے ہیں- اور گذشتہ دنوں میں مَیں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدر سخت تھا- ان تحریروں سے میرا مدّعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش رُک جائے- سو اگرچہ اس حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا- اور وہ ایسے رنگ کا جواب پا کر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریریں نکلتی رہتی ہیں کہ جو زود رنج اور تیز طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے یہ نہایت خوفناک کارر وائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے گویا وہ ان کو جہاد کی رسم یاد دلاتے رہتے ہیں اور پھر تیز تحریریں نکال کر ان میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں- نہ معلوم کہ یہ لوگ کیسے سیدھے ہیں کہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان دونوں طریقوں کو ملانے سے ایک خوفناک نتیجہ کا احتمال ہے- ہم بارہا لکھے چکے ہیں کہ قرآن شریف ہرگز جہاد کی کی تعلیم نہیں دیتا- اصلیّت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میں بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا- سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے ان پر تلوار اُٹھائی اور انہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں- سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا اور اسلام ان بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں- اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کو تحریک دینا چاہتا ہے- کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مدّنظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے- جس کتاب میں یہ آیت اب تک موجود ہے کہ لا اکراہ فی الدین یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہئیے-کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے- غرض اس جگہ ہم مولویوں کا کیا شکوہ کریں خود پادری صاحبوں کا ہمیں شکوہ ہے کہ وہ راہ انہوں نے اختیار نہیں کی جو درحقیقت سچی تھی اور گورنمنٹ کے مصالح کے لئے بھی مفید تھی- اسی درد دل کی وجہ سے مَیں نے جناب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے- لیکن اب تک ان درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی- لہذا اب بار سوم حضور ممدوح میں درخواست کرتا ہوں کہ کم از کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائے اور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرے کہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے- یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کردیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتا ہے اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لئے بطور یاددہانی ہو کر بھولے ہوئے جوش اس کو یاد دلادیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھیرتا ہے- سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کردے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذہب پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہرناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوونما پا رہا ہے جلد تر مقفود ہو جائے گا- اور یہ کارروائی گورنمنٹ کی قابل تحسین ٹھیر کر سرحدی لوگوں پر بھی بے شک اثر ڈالے گ اور امن اور صلحکاری کے نتیجے ظاہر ہوں گے- آسمان پر بھی یہی منشاء خد اکا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ و جدل کے طریق موقوف ہوں اور صلحکاری کے طریق اور باہمی محبت کی راہیں کھل جائیں- اگر کسی مذہب میں کوئی سچائی ہے تو وہ سچائی ظاہر کرنی چاہئیے نہ یہ کہ دوسرے مذہب کی عیب شماری کرتے رہیں- یہ تجویز جو مَیں پیش کرتا ہوں اس پر قدم مارنا یا اس کو منظور کرنا ہر ایک حاکم کا کام نہیں ہے- بڑے پُرمغز حکام کا یہ منصب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے عالیجاہ نواب معلّٰے القاب وائسرائے بہادر کرزن صاحب بالقابہ اپنی وسعت اخلاق اور موقع شناسی کی قوت سے ضرور اس درخواست پر توجہ فرمائیں گے اور اپنی شاہانہ ہمت سے اس پیش کردہ تجویز کو جاری فرمائیں گے- اگر یہ نہیں تو اپنے عہد دولت مہد میں اسی قدر خدا کے لئے کارروائی کر لیں کہ خود بدولت امتحان کے ذریعہ سے آزما لیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے- یعنی تمام مسلمان آریوں سکھوں سناتن دھرمیوں عیسائیوں برہموئوں یہودیوں وغیرہ فرقوں سے نامی علماء کے نام یہ احکام جاری ہوں کہ اگر ان کے مذہب میں کوئی الٰہی طاقت ہے خواہ وہ پیشگوئی کی قسم سے ہو یا اور قسم سے وہ دکھائیں- اور پھر جس مذہب میں وہ زبردست طاقت ہو جو طاقت بالا ہے ثابت ہو جائے ایسے مذہب کو قابل تعظیم اور سچا سمجھا جائے- اور چونکہ مجھے آسمان سے اس کام کے لئے رُوح ملی ہے اس لئے میں اپنی تمام جماعت کی طرف سے سب سے پہلے درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لئے دوسرے فریقوں کے مقابل پر مَیں تیار ہوں- اور ساتھ ہی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے جس کے زیر سایہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہو کر ایسی درخواستیں خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کریں- والسلام ۷؍ جولائی ۱۹۰۰ء
الملتمس خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
بشپ صاحب لاہور
سے ایک سچے فیصلہ کی درخواست
مَیں نے سُنا ہے کہ بشپ صاحب لاہور نے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت کی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت کر کے دکھلاویں- میرے نزدیک بشپ صاحب موصوف کا یہ بہت عمدہ ارادہ ہے کہ وہ اس بات کا تصفیہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں بزرگ نبیوں میں سے ایسا نبی کون ہے جس کی زندگی پاک اور مقدس ہو- لیکن مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے اُن کی کیا غرض ہے کہ کسی نبی کا معصوم ہونا ثابت کیا جائے یعنی پبلک کو یہ دکھلایا جائے کہ اس نبی سے اپنی عمر میں کوئی گناہ صادر نہیں ہوا- میرے نزدیک یہ ایسا طریق بحث ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہو گا- کیونکہ تمام قوموں کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ فلاں قول اور فعل گناہ میں داخل ہے اور فلاں گفتار اور کردار گناہ میں داخل نہیں - مثلاً بعض فرقے شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں اور بعض کے عقیدہ کے موافق جب تک روٹی توڑ کر شراب میں نہ ڈالی جائے اور ایک نو مریدمع بزرگان دین کے اس روٹی کو نہ کھاوے اور اس شراب کو نہ پیوے تب تک دیندار ہونے کی پوری سند حاصل نہیں ہو سکتی- ایسا ہی بعض کے نزدیک اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنا بھی زنا ہے- مگر بعض کا یہ مذہب ہے کہ ایک خاوند والی عورت بیگانہ مرد سے بے شک اس صورت میں ہم بستر ہو جائے جبکہ کسی وجہ سے اولاد ہونے سے نومیدی ہو اور یہ کام نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا موجب ہے اور اختیار ہے کہ دس یا گیارہ بچوں کے پیدا ہونے تک ایسی عورت بیگانہ مرد سے بدکاری میں مشغول رہے- ایسا ہی ایک کے نزدیک جوں یا پسو مارنا بھی حرام ہے اور دوسرا تمام جانوروں کو سبز ترکاریوں کی طرح سمجھتا ہے اور ایک کے مذہب میں سُور کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں تمام سفید اور سیاہ سور بہت عمدہ غذاہیں- اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلّی اتفاق نہیں ہے- عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور خدا کے برابر ٹھہراوے- غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہرگز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے- ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مقدس محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل ہیں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں- کیونکہ جب ہم کلام کلّی کے طور پر تمام طرق فضیلت کو رکھ کر ایک نبی کے وجوہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہو گا کہ اُسی تقریب پر ہم اس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں- اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی باتوں اور شاخوں پر مشتمل ہے- اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہو گی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پر ہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہو گا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گی جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں- بلکہ ہر ایک مذاق کے انسان کے لئے اس مقابلہ اور مو ازنہ کے وقت ضرور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے- پس اگر ہماری بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئیے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو- کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقیدہ کی رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گنہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی- اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے- ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دُوسرے سے ہم بستر کرا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رامچندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشر ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں- اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کو چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچا دیناکچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے نزدیک سُود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ جج ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے- اور اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تاہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا ،خون نہیں کرتا،جھوٹی گواہی نہیں دیتا- ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے- مثلاً اگر کوئی کسی کو اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ مَیں نے کئی دفعہ یہ موقع پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیر خوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی مَیں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا- تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق فضائل کو پیش کرنے والا کوئی بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا- ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوں کے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقعہ ملا تھا کہ میں تمہارے سر یا گردن یا ناک پر اُسترہ ما ردیتا مگر مَیں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھیر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جُرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے - غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے جہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اسے روکتا تھا- مثلاً اگر شریر نقب لگانے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رُک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانوں سزا بھی تو اسے ڈرا را تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر مَیں نے نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی نے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھونٹنے کے وقت پکڑا گیا تو پھر گورنمنٹ پُوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی- غرض اگر ہی حقیقی یکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر تمام جرائم پیشہ ایسے لگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا- لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کے لئے ہمیں یہی وجوہ پیش کرنے چاہیئں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی-چوری نہیںکی، کسی بیگانہ عورت ہر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا- حاشا و کلّا یہ کمینہ باتیں ہر گزکمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے- مثلاً اگر مَیں یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیںہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہکا کر لے گئے تھے اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کا ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے- پس خدا کے پاک نبیوں کی تعریف اسی حدتک ختم کر دینا بلا شبہ اُن کی ایک سخت مذمّت ہے- اور اسی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوںکی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیںبچایا اُن کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے- اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہ اجاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے - دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں ی ادھاڑ ماریں یا خون کریں یا شیرخواز بچوں کا گلا گھونٹیں یا بچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں-پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنا محسن ٹھیراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوا اس کے ترک شرّ کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجود ہیں-ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقع پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کر بھاگ جائے- اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کر جرأت پید ا ہی نہیں ہو سکتی- ایسا ہی زنا کاری بھی قوت مروی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے- بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں- تلوار چلانے کے لئے بھی بازو چاہیے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی- بعض ایک چڑیا کو بھی مارنہیں سکتے- اور ڈاکہ مارنا بھی ایک بُزدل کا کام نہیں- اب اس بات کا کون فیصلہ کرے گا مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا تھا اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیںتوڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا- کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑاکہ دن کا وقت تھا- پچاس محافظ باغ میں موجود تھے اگر توڑتا تو پکڑا جاتا مار کھاتا بے عزّت ہوتا- اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے- ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضایقہ نہیں مگر صرف اتنی سی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دو چار آنے کی طرح کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بد ی کا مرتکب نہیں ہوا بہ بلا شبہ ہجو ہے - یہ ان لوگوں کے خیال ہیںجنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی کمال میں کبھی غور نہیں کی جس شخص کا نام انسان کامل رکھتے ہیں- ہمیں نہیں چاہیے کہ محض ترکِ شرّ کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگرکچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہو گا کہ ایسا انسان بد معاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے- معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں- ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتاہے کہ آگے سے خاموش گذر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گذر جاتا ہے- ہزاروں بچے ایسی حالت میں مَر جاتے یہں کہ کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا- بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہیے یعنی یہ کیا کیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل میں دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اُس کے اندر موجود ہیں- سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہیے مثلاً سخاوت، فتوت، مواسات، حقیقی علم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے ، حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتقام شرط ہے، حقیقی شجات جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے،حقیقی عدل جس کے لئے ظلم شرط ہے ، حقیقی رحم جس کے لئے قدرت سزا شرط ہے اور اعلیٰ کی زیر کی اور علیٰ درجہ کا حافظہ اور اعلیٰ درجہ کی فیض رسانی اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور اعلیٰ درجہ کا احسان جن کے لئے نمونے اور نظیریں شرط ہیں- پس اس قسم کی صفات فاضلہ میں مقابلہ اور موازنہ ہونا چاہیے نہ صرف ترک شر میں جس کا نام بشپ صاحب معصومیت ر کھتے ہیں کیونکہ نبیوںکی نسبت یہ خیال کرنابھی ایک گناہ ہے کہ انہوں نے چوری ڈاکہ وغیرہ کا موقع پا کر اپنے تئیں بچایا یہ جرائم ان پر ثابت نہ ہو سکے بلکہ حضرت مسیح علیہ اسّلام کایہ فرمایا کہ ’’ مجھے نیک مت کہہ‘‘ یہ ایک ایسی وصیّت تھی جس پر پادری صاحبوں کو عمل کرنا چاہیے تھا-
اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے درحقیقت شایق ہیں تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے ایسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ دونوں نبیوں میں کمالات ایمانی و اخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے- اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کایہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہو گی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے-
راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے چار صفحہ پر ہے )
(۲۱۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
جناب بشپ صاحب لیکچر زندہ رسُول پر کچھ ضروری بیان
چونکہ مسلمانوں کو ابھی اس تقریرکے بعد میں بات کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے- اس لئے مختصراً مَیں کچھ بیان کرتا ہوں- بشپ صاحب کی طرف یہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام زندہ اپنے خاکی جسم کی ساتھ آسما ن کی طرف چلے گئے تھے مگرافسوس کی ہم کسی طرح اس دعویٰ کو قبول نہیں کر سکتے- نہ عقل کے رو سے نہ انجیل کے رو سے- اور نہ قرآن شریف کے رو سے- عقل کے رو سے اس لئے کہ حال اور گذشتہ زمانہ کے تجارب ثابت کر تے ہیں کہ انسان سطح زمین سے چھ میل تک بھی اوپر کی طرف صعود کر کے زندہ نہیں رہ سکتا اور ثابت نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کے وجودکی کوئی ایسی خاص بناوٹ تھی جس سے کرہ ز مہر برکی سردی ان کو ہلاک نہیں کر سکتی تھی بلکہ بر خلاف اس کے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تمام انسانوں کی طرح وہ کھاتے پیتے اور بھوکھ اور پیاس سے متاثر ہوتے تھے یہ تو عقل کے رو سے ہم نے بیان کی اور انجیل کے رو سے اس لئے یہ دعوی قبول کے لائق نہیںکہ اوّل کو انجیلیں چالیس سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں سے حضرات عیسائی صاحبوں کی رائے میںچار صحیح اور باقی جعلی ہیں- لیکن یہ محض ایک رائے ہے جس کی تائید میںکافی وجود شائع نہیں کی گئیں اور نہ وہ تمام انجیلیںچھاپ کر عام طور پر شائع کی گئی ہیں تا پبلک کو رائے لگانے کا موقوع ملتا-پھر قطع نظر اس سے یہ چار انجیلیں جن کے بیان پر بھروسہ کیا گیا ہے - یہ بھی کھلی کھلی اور یقینی شہادت اس بات کی نہیں دیتیں ک درحقیقت حضرت مسیح آسمان پر مع جسم عنصری چلے گئے تھے- ان انجیلوں نے کوئی جماعت دو یا چار ثقہ آدمیوں کی پیش نہیں کی جن کی شہادت پر اعتماد ہو سکتا- اور اس واقعہ کے ذاتی اورروئیت کے مدعی ہوتے- پھر انہیں انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک چور کو تسلّی دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ بہشت میں روزہ کھولے گا- بہت خوب- مگر اس سے لازم آتا ہے کہ یا تو چور بھی جسم عنصری کے ساتھ بہشت میں گیا ہو اور یا حضرت مسیح چور کی طرح محض روح کے ساتھ بہشت میں گئے ہوں- پھر اس صورت میں جسم کے ساتھ جانا صریح باطل- یا یوں کہو کہ چور تو بدستور بہشت میں روحانی رنگ میںرہا لیکن حضرت مسیح تین دن بہشت میں رہ کر پھر اس سے نکالے گئے- اسی طرح اور کئی قسم کے مشکلات اور پیچید گیاں ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتی ہیں چنانچہ یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح فوت ہونے پر بہشت کی طرف نہیں گئے تھے- اس سے سمجھا جاتا ہے کہ غالباً وہ چور بھی دوزخ کی طرف گیا ہو گا کیونکہ وہ تو خود دوزخ کے لائق ہی تھا - پس حق بات ہی تھی کہ انجیل کے متناتض بیان نے انجیل کو بے اعتماد کر دیا ہے- حضرت مسیح کا صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملنا- کباب کھانا ، زخم دکھلانا، سڑک پر چلنا، ایک گائون میں رات اکٹھے رہنا جو انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے- یہ وہ امور ہیں جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں جو حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے - اور قرآن شریف توہمیں یہ بار بار یہ بتلاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں- ہاں جو رفع ایماندار لوگوں کے لئے فوت کے بعد ہوا کرتا ہے وہ ان کے لئے بھی ہوا جیسا کہ آیت یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الیّ سے سمجھاجاتا ہے کیونکہ لفظ رافع قرآن شریف میں لفظ متوفیک کے بعد مذکور ہے کہ قطعی قرینہ اس بات پر ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو وفات کے بعد مومنوں کے لئے ہوا کرتا ہے- اصل جڑھ اس کی یہ تھی کہ یہودی حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ وہ سُولی دیئیگئے تھے تو بوجب حکم توریت کے وہ اس رفع سے بے نصیب ہیں جو مومنوں کو موت کے بعد خدا کی طرف سے بطور انعام ہوتا ہے اور خدا کے قرب کے ساتھ ایک پاک زندگی ملتی ہے- سو ان آیات میں یہودیوں کے اس خیال کا اس طرح پر رد کیا گیا کہ مسیح صلیب کے ذریعے قتل نہیں کیا گیا تھا اور اس کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے وہ توریت کے اس حکم کے نیچے نہیں آ سکتا کہ جو شخص سُولی پر چڑھا یا جاوے اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ *** ہو کر جہنم کی طرف جاتاہے - اب دیکھو کہ جسمانی رفع کا اس جگہ کوئی جھگڑا نہ تھا اور یہودیوں کا کبھی یہ مذہب نہیں ہوا- اور نہ اب ہے کہ جو شخص سُولی پر لٹکایا جاوے اس کا جسمانی طورپر رفع نہیں ہوتا- یعنی وہ مع جسم آسمان پر نہیں جاتاکیونکہ یہودیوں نے جو حضرت مسیح کے اس رفع کا انکار کیا جو ہر ایک مومن کے لئے موت کے بعد ہوتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں اور نیز مسلمانوں کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایماندار کا فوت کے بعد خدا کی طرف رفع ہو جیسا کہ آیت لا تفتح لھم ابواب السماء صریح دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ ارجی الیٰ ربک راضیۃ میں بھی یہی اشارہ ہے لیکن جسمانی رفع یہودیوں کے نزدیک اور نیز مسلمانوں کے نزدیک بھی نجات کے لئے شرط نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کا جسمانی رفع نہیں ہوا تو کیا وہ یہودیوں کے نزدیک نجات یافتہ نہیں - غرض اس قصّہ میں اکثر لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے ہیں - قرآن شریف ہر گز اس عقیدہ کی تعلیم نہیں کرتا کہ نجات کے لئے جسمانی رفع کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں-
قرآن نے کیوں اس قصہ کو چھیڑا- اس کا فقط یہ سبب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں رُوحانی طور پر رفع اور عدم رفع میں ایک جھگڑا تھا- یہودیوں کو یہ حجّت ہاتھ آ گئی تھی کہ یسُوع مسیح سُولی دیا گیا ہے لہذا وہ توریت کے رو سے اس رفع کا جو ایمانداروں کا ہو تا ہے بے نصیب رہا اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ وہ سچا نبی نہیں ہے جیسا کہ اب بھی وہ سُولی کا واقعہ بیان کر کے یہی مقام توریت کاپیش کرتے ہیں - اور مَیں اکثر یہودیوں سے جو دریافت کیاتو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں جسمانی رفع سے کچھ غرض نہیں- ہم تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخص توریت کے رو سے ایماندار اور صادق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سُولی دیا گیا- پس توریت فتویٰ دیتی ہے کہ اس اس کا رفع رُوحانی نہیں ہوا- بمبئی اور کلکتہ میں بہت سے یہودی موجود یں جس سے چاہو پوچھ لو یہی جواب دے گا - سو یہی جھگڑا تھا جو فیصلہ کے لائق تھا- خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے اس جھگڑے کا فیصلہ دیا کہ یا عیسیٰ انّی متوفیک و رافیک الیّ یعنی یہ کہ وفات کے بعد حضرت مسیح کا رفع ہوا ہے اور وہ ایمان داروں کے گروہ میں سے ہے نہ اُن میں سے جن پر آسمان کے دروازے بند ہوئے ہیں- مگر جسمانی طور پر کسی آسمان پر جا بیٹھنا نجات کے مسئلہ سے کچھ بھی تعلق اس کو نہیں اور نہ کوئی قرب الہٰی اس سے ثابت ہوتا ہے- آجکل تو ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان پر بھی مجسم مخلوق رہتے ہیں جیسے زمین پر- تو کیا آسمان پر رہنے سے وہ سب نجات یافتہ ہیں- باایں ہمہ یہ خیال سخت غیر معقول ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ حضرت مسیح کے جسم کو آسمان پر پہنچا دے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کے تمام ذرات کو محفوظ رکھتا اور کوئی ذرّہ اُن کے جسم میں تلف ہونے نہ پاتا اور نہ تحلیل ہوتا- تا یہ ظلم صریح لازم نہ آتا کہ بعض حصّے مسیح کے جسم کے ذرات میں تحلیل نہیں ہوئے تو کم سے کم صلیب کے وقت میں حضرت مسیح کا جسم پہلے جسم سے دس حصّے زیادہ چاہیے تھا کیونکہ علم طبعی کی شہادتوں سے یہی ثبوت ملتا ہے اور ثابت شدہ امر ہے کہ تین برس کے بعد پہلے جسم کے اجزاء تحلیل ہو کر کچھ توہوا میں مل جاتے ہیںاور کچھ خاک ہو جاتے ہیں- سو چونکہ مسیح نے تینتیس برس کے عرصے میں دس جسم بدلے ہیں- اس کے آخری جسم کو آسمان پر پہنچانا اور پہلے جسموں کو خاک میں ملانا یہ ایک ایسی بیہودہ حرکت ہے جس کی فلاسفی یقینابشپ صاحب کو بھی معلوم نہیں ہو گی- اب جبکہ عقل اور انجیل اور قرآن شریف سے حضرت مسیح کا آسمان پر معہ جسم جانا ثابت نہیں بلکہ اس عقیدہ پر عقلی اور نقلی طور پر سخت اعتراضات کی بارش ہوتی ہے تو اس خیال کو پیش کرنا میرے نزدیک تو قابل شرم امر ہے کہ سچ ہے کہ لوگ اس طرح پر اپنے رُسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور نہ روحانی قربوں کے لئے اس کی کچھ ضرورت ہے- مگر روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف آیت و اٰخرین منھم لمّا یلحقوا بھم رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانے میں ہو گا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آ رہا ہے اور ایک بڑی دلیل اس بات پر کہ صرف ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم رُوحانی طور پر اعلیٰ زندگی رکھتے ہیں دوسرا کوئی نہیں رکھتا آپ کے تاثیرات اور برکات کا زندہ سلسلہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سچی پیروی کر کے خدا تعالیٰ کے مکالمات سے شرف پاتے ہیں اور فوق العادت خوراق اُن سے صادر ہوتے ہیں اور فرشتے ان سے باتیں کرتے ہیں- دُعائیںان کی قبول ہوتی ہیں- اس کا نمونہ ایک مَیں ہی موجود ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی- یہ تو دلیل حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہے مگر حضرت مسیح کی زندگی پر کون سی دلیل آپ کے پاس ہے - اتنا بھی تو نہیں کہ کوئی پادری صاحب یا مسیح! یا مسیح!! کر کے پکاریں اور آسمان سے مسیح کی طرف سے کوئی آواز آوے کہ تمام لوگ سُن لیں اور اگر اس قدر ثبوت بھی نیہں تو محض دعویٰ قابل التفاف نہیں- اس طرح پر تو سِکّھ صاحب بھی کہتے ہیں کہ بابا نانک صاحب زندہ آسمان پر چلے گئے - پھر جب ہم ان سب باتوں سے الگ ہو کر تاریخی سلسلہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سارے پردے درمیان سے اُٹھ کر کھلی کھلی حقیقت نظر آ جاتی ہے کیونکہ تاریخ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان ہر نہ جانے کے تین گواہ ایسے پیش کئے ہیں جن سے قطعی طور پر فیصلہ ہو گیا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے اس قول کے مطابق کہ اُن کا قصّہ یونس نبی کے قصّے سے مشابہ ہے قبر میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل نہیں ہوا تھا اور نہ وہ قبر مرے جیسا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا بلکہ یونس نبی زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے کیونکہ ممکن نہیں کہ مسیح نے اس مثال کے بیان کرنے میں جھوٹ بولا ہو:-
اس واقعہ پر پہلا گواہ تو یہی مثال ہے کہ مسیح کے منہ سے نکلی کیونکہ اگر مسیح قبر میں مُردہ ہونے کی حالت میں داخل کیا گیا تھا تو اس صورت میں یونس سے اس کو کچھ مشابہت نہ تھی پھر دوسرا گواہ اس پر مرہم عیسیٰ ہے- یہ ایک مرہم ہے جس کا ذکر عیسائیوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کی طب کی کتابوں میں اس طرح پر لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح کے لئے یعنی ان کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی اور یہ کتابیں ہزار نسخہ سے بھی کچھ زیادہ ہیں جن میں بہت سی میرے پاس بھی موجود ہیں - پس اس مرہم مرہم سے جس کا نام مرہم عیسیٰ ہے- یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر جانے کا قصّہ غلط اور عوام کی خود تراشیدہ باتیں ہیں- سچ صرف اس قدر ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے تو بچ گئے تھے مگر آپ کے ہاتھوں اور پیروںپر زخم ضرور آئے تھے اور وہ زخم مرہم عیسیٰ کے لگانے سے اچھے ہو گئے- آپ کے حواریوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی تھا غالباً یہ مرہم اُس نے تیار کی ہو گی چونکہ مرہم عیسیٰ کا ثبوت ایک علمی پیرایہ میں ہم کو ملا ہے جس پر تمام قوموں کے کتب خانے گواہ ہیں- اس لئے یہ ثبوت بڑے قدرکے لائق ہے - تیسرا تاریخی گواہ حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے کا یوز آسف کا قصہ ہے جو آج سے گیارہ سو برس پہلے تمام ایشیا یورپ میں شہرت پا چکا ہے - یوز آسف حضرت مسیح ہی تھے جو صلیب سے نجات پا کر پنجاب کی طرف گئے اور پھر کشمیر میں پہنچے اور ایک سو برس کی عمر میں وفات پائی- اس پر بڑی دلیل یہ ہے کہ یوز آسف کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم ایک ہے اور دوسرے یہ قرینہ کہ یوز آسف اپنی کتاب کا نام انجیل بیان کرتا ہے تیسرا قرینہ میں کہ اپنے تئیں شہزادہ نبی کہتا ہے چوتھا یہ قرنیہ کہ یوز آسف کا زمانہ اور مسیح کا زمانہ ایک ہی ہے- بعض انجیل کی مثالیںاس کتاب میں بعینہ موجودہیںجیسا کہ ایک کسان کی مثال- چوتھا تاریخی گواہ حضرت مسیح علیہ السّلام کی وفات پر وہ قبر ہے جو اب تک محلہ خانیار سری نگر کشمیر میں موجود ہے- بعض کہتے ہیں کہ یوزا آسف شہردہ نبی کی قبر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عیسٰی صاحب کی قبر ہے اور کہتے ہیں کہ کتبہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ شہزادہ اسرائیل کے خاندان میں سے تھا کہ قریباً اٹھارہ سو برس اس بات کو گزر گئے جب یہ نبی اپنی قوم سے ظلم اُٹھا کر کشمیر میں آیا تھا اورکوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا- اور ایک شاگرد ساتھ تھا- اب بتلائو کہ اس تحقیق میں کونسی کسر باقی رہ گئی- سچائی کو قبول نہ کرنا اور بات ہے کہ لیکن کچھ شک نہیں کہ بھانڈا پھوٹ گیا اور یوزآسف کے نام پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ نام یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے - آسف بھی حضرت مسیح کا عبرانی میں ایک نام ہے جس کا ذکر انجیل میں بھی ہے اور اس کے معنے یہں متفرق قوموں کو اکٹھا کرنے والا- اب بخوف اندیشہ طول اسی پر مَیں ختم کرتا ہوں اور مَیں تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب آسمان کے نیچے اعلیٰ اور اکمل طور پر زندہ رسُول صرف ایکہے یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم - اسی ثبوت کے لئے خدا نے مجھے مسیح کر کے بھیجا ہے جس کو شک ہو وہ آرام اورآہستگی سے مجھ سے یہ اعلیٰ زندگی ثابت کرالے- اگر مَیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم ہے- دیکھو مَیں آسمان اور زمین کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے - اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے دُنیا زندہ ہو رہی ہے - نشان ظاہر ہو رہے ہیں- برکات ظہور میں آ رہے ہیں غیب کے چشمے کھل رہے ہیں- پس مبارک وہ جو اپنے تئیں تاریکی سے نکال لے- والسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰ء مطابق ۲۵ محرم الحرام ۱۳۱۸ہجری روز جمعہ
( یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸ کے ۶ صفحہ پر ہے ) رفاہ عام سٹیم پریس لاہور
(۲۲۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار معیار الاخیار
اس اشتہار کو منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب اور اولاد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی غور سے پڑھیں اور منشی الہٰی بخش صاحب جواب دیںکہ کیا ان کا الہام سچا ہے یا اُن کے مرشد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا-
انی انا المسیح الموعود فطوبیٰ لمن عرفنی اوعرف مَنْ عَرَفنی
اے لوگو میری نسبت جلد مت کرو اور یقینا جانو کہ مَیں خد اکی طرف سے ہوں- مَیں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں سمجھو اور سوچو کہ دنیا میں کس قدر مفتری ہوئے اور اُن کا انجام کیا ہوا- کیا وہ ذلّت کے ساتھ بہت جلد ہلاک کئے گئے؟ پس اگر یہ کار بار بھی انسانی افتراء ہوتا تو کب کا تباہ ہو جاتا کیا ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کو افتراء اور دعوی وحی اللہ کے بعد میری طرح ایک زمانہ دراز تک مہلت دی گئی ہو- وہ مہلت جس میں سے آج تک بقدر زمانہ وحی محمد ی علیہ السلام یعنے قریباً چوبیس برس گزر گئے- اور آئیندہ معلوم نہیں کہ ابھی کس قدر ہیں- اگر پیش کر سکتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ایسے مفتری کانام لو اور اس شخص کی مدّت کا جس قدر زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور *** ہے اس شخص کی مدّت افتراء کاجس قدر زمانہ ہو اس کا میرے زمانہ بعث کی طرح تحریری ثبوت دو اور *** ہے اس شخص پر جو مجھے جھوٹا جانتا ہے اور پھر یہ نظیر مع ثبوت پیش نہ کرے و ان لم تفعلوا ولن تفعلو فاتقوالنارالتی و قودھا النّاس و لحجارۃ اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلائو کہ کیا تم کسی ایسے مفتری کو بطور نظیر پیش کر سکتے ہو جس کے کھلے کھلے نشان تحریر اور ہزاروں شہادتوں کے ذریعہ سے میری طرح بپایہ ثبوت پہنچ گئے ہوں- اے لوگو تم پر افسوس تم نے اپنے ایمانوں کو ایسے نازک وقت میں ضائع کیا جیسا کہ ایک نادان ایسے لق و دق بیابان میں پانی کو ضائع کر دے جس میں ایک قطرہ پانی کا میسر نہیںآ سکتا- خدا نے عین صدی کے سر پر عین ضرورت کے وقت میں تمہارے لئے مجّدد بھیجا اور صدی نے بھی چودھویں صدی جو اسلام کے ہلال کو بدر کرنے کے لئے مقرر کی گئی تھی جس کی تم اور تمہارے باپ دادے انتظار کرتے تھے اور جس کی نسبت اہل کشف کے کشفوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور دوسری طرف مجّدد کے ظہور کے لئے ضرورتیں وہ پیش آئی تھیں جو کبھی نبوت کے زمانہ کے بعد پیش نہ آئیں مگر آپ لوگوں نے پھر بھی قبول نہ کیا- اس مہدی کے وقت میں جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے خسوف کسوف بھی رمضان میں ہوا جو قریباً گیارہ سو برس سے تمہاری حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود تھا مگر پھر بھی آپ لوگوں کے دلوں میں کچھ سوچ پیدا نہ ہوئی- یہ ضرورتیں اور صدی خالی گئی- کیا تم کوئی بھی سوچنے والا نہیں؟ مَیں نے بار بار کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں- مَیں نے بلند آواز سر ہر ایک کو پکار ا جیسا کہ کوئی پہاڑ پر چڑھ کر نعرے مارتا ہے- خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھو اور ان لوگوں کو کہہ دے میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی کو رد کر دو گے- خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اس کے الفاظ یہ ہیں قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مومنون- قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون- قل ان کنتم تحبّون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ وقل یا آیھا النّاس انی رسُول اللہ ا لیکم جمیعا ای مرسل من اللّٰہ-
غرض خدا کے روشن نشان میرے ساتھ ہیں اسی کی مانند جو خدا کے پاک نبیوں کے ساتھ تھے مگر آپ لوگوں کو روحوں میں کچھ حرکت نہ ہوئی- اس سے دل درد مند ہے کہ آپ لوگوں نے ایسی قابل شرم غلطی کھائی اور نور کو تاریکی سمجھا- مگر آپ لوگ اے اسلام کے علماء اب علماء اب بھی قاعدہ کے موافق جو سچّے نبیوں کی شناخت کے لئے مقرر کیا گیا ہے قادیان سے کسی قریب مقام میں جیسا کہ مثلاً بٹالہ ہے یا اگر آپ کو انشراح صدر میسّر آوے تو خود قادیان میں ایک مجلس مقرر کر یں جس مجلس کے سرگروہ آپ کی طرف سے چند ایسے مولوی صاحبان ہوں کہ جو علم اور برداشتاور خوف باری تعالیٰ میں آپ لوگوں کے نزدیک مسلّم ہوں- پھر ان پر واجب ہو گا کہ منصفانہ طور پر بحث کریں اور ان کا حق ہو گا کہ تین طورسے مجھ سے اپنی تسلّی کرلیں- (۱) قرآن اور حدیث کے رو سے (۲) عقل کی رو سے (۳) سماوی تائیدات اور خوراق اور کرامات کی رو سے- پس اگر مَیں ان تینوں طوروں سے ان کی تسلّی نہ کر سکا یا اگر ان تینوں میں سے صرف ایک یا دو طور سے تسلّی کی تو تمام اور حلف کی رو سے انکار نہ کر سکیں اور نیز وزن ثبوت میں ان دلائل کی نظیر پیش نہ کر سکیں تو لازم ہو گا کہ تمام مخالف مولوی اور اُن کے نادان پیرو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور کروڑوں انسانوں کے گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر نہ لیں-
اور اس جگہ مَیں بالخصوص اُن صاحبوں کو مندرجہ ذیل شہادت کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو مولوی عبد اللہ غزنوی کی نسبت جن کی اولاد مولوی عبد الواحد صاحب اور عبد الجبار صاحب امرت سر میں موجود ہیں راست بازی کا اعتقاد رکھتے ہیں یا خود اُن کے فرزند ہیں-
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مجھے میرے مخالفوں کے گروہ میں سے وہ شخص کے ذریعہ سے خبر پہنچی ہے کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے میرے ظہور کی نسبت پیشگوئی کی تھی- ان دونوں صاحبوں میں سے ایک صاحب نے نام حافظ محمد یوسف ہے جو داروغہ نہر ہیں اور غالباًاب مستقل سکونت امرتسر میں رکھتے ہیں- دوسرے صاحب منشی محمد یعقوب نام ہیں اور یہ دونوں حقیقی بھائی ہیں اور یہ دونوں صاحب عبد اللہ صاحب کے خاص متعقدین اور مصاحبین میں سے ہیں جس سے کسی صاحب کو بھی انکار نہیں اور ان کی گواہیاں اگرچہ دو ہیں مگرحاصل مطلب ایک ہی ہے- حافظ محمد یوسف صاحب کا حلفی بیان جس ک غالباً دو سو کے قریب گواہ ہو ں گے یہ ہے کہ ـ’’ ایک دن عبد اللہ صاحب نے مجھے فرمایا کہ مَیں نے کشفی طورپر دیکھا ہے کہ ایک نو ر آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا ہے اورمیری اولاد اس سے محروم رہ گئی ہے یعنی اس کو قبول نہیں کیا اور وہ انکار اور مخالفت پر مرے گی اور منشی محمد یعقوب صاحب کا ایک تحریری بیان ہے جو ایک خط میں موجود ہے جو ابھی اپریل ۱۹۰۰ء کو بذریعہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ سے مجھ کو پہنچا ہے جس کو انہوں نے بتاریخ ۲۴ اپریل ۱۹۰۰ء اپنے ہاتھ سے لکھ کر منشی ظفر احمد صاحب کے پاس بھیجا تھا اور انہوں نے میرے پاس بھیج دیا جو اس وقت میرے سامنے رکھا ہے اور جو شخص چاہے دیکھ سکتا ہے - مگر مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس تمام حقیقت کے سمجھانے کے لئے وہ حالات بھی لکھ دوں جو مجھے معلوم ہیں کیونکہ جو کچھ خط میں ایک کمزور عبارت میں لکھا گیا ہے اسی کو منشی محمد یعقوب صاحب ایک بڑے شدّ و مد میرے سامنے بیان کر چکے ہیں- مگر چونکہ اب وہ اور اُن کے دُنیا سے پیار کرنے والے بھائی حافظ محمد یوسف شیعوں کی طرح خلافتِ حقّہ سے انکار کر کے تقیّہ کے رنگ میں بسر کررہے ہیں- اس لئے اب اُن کے لئے ایک موت ہے کہ سچّا واقعہ مجلس میں اسی شدّ و مد کے ساتھ منہ پر لاویںتا ہم امید نہیں کہ وہ اس شہادت کو مخفی رکھیں کیونکہ حق کو چھپانا لعنتیوں کا کام ہے نہ قرآن شریف کے حافظوں کا- اس لئے ہم بھی منتظر ہیں کہ ان کی طرف سے کیا آواز آئی ہے- منشی محمد یعقوب صاحب تو بوجہ اس خط کے قابو میں آ گئے ہیں مگر حافظ محمد یوسف صاحب کے لئے اس وقت تک حیلہ بازی کی راہ کھلی ہے جب تک قرآن شریف ہاتھ میں دے کر ایک مجمع مسلمانوں میں قسم کے ساتھ ان سے پوچھا نہ جائے- ٭
القصّہ جو میرے سامنے منشی محمد یعقوب صاحب نے کہا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بمقام امرتسر مولوی عبد الحق غزنوی سے میرا مباہلہ ہوا تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری سچائی ظاہر کرنے کے لئے ستر کے قریب نشان ظاہر کئے جن کے ہزار ہا انسان گواہ ہیں- ایسا اس کے بعد ہزار ہانیک دل لوگوں کو میری بیعت میں داخل کیا جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں- جنہوں نے اپنا صدق ظاہر کرنے کے لئے ہمارے سلسلہ کی تائید میں تیس ہزار کے قریب روپیہ دیا ہو گا- ایسا ہی خدا تعالیٰ نے مجھے اس مباہلہ کے بعد پیشگوئی کے موافق کئی فرزند عطا فرمائے اور ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمد ٭ ظاہر فرمایا کہ عبدالحق نہیں مرے گا جب تک وہ پیدا نہ ہو -٭ یعنی مباہلہ کے بعدیہ ذلّت بھی اس کو نصیب ہو گی کہ اس کی بیوی کا حمل خطا جائے گا اور اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلے گی - مگر میری تصدیق کے لیے اس کی زندگی میں چوتھا لڑکا پیدا ہو گا- ایسا ہی خدا نے مباہلہ کے بعد لاکھوں انسانوں میں عزّت کے ساتھ مجھے شہرت دی اور مخالفون کی ذلّت اور نامرادی ثابت کر کے دکھلا دی- اس مباہلہ کے میدان میں ایک کثیر جماعت کے رو برو منشی محمد یعقوب صاحب نے کھڑے ہو کر میری نسبت بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ایک نور پیدا ہو گا جس سے دُنیا کے چاروں طرف روشنی ہو جائے گی اور وہ نور مرزا غلام احمد ہے جو قادیان میں رہتاہے- یہ وہ گواہی ہے کہ جو منشی محمد یعقوب نے بمقام امرت سر محمد شاہ صاحب کی مسجد کے قریب ایک میدان میں کھڑے ہو کر قریباً دو سو آدمی کے رو برو دی تھی اور اب جو ۳۰ اپریل ۱۹۰۰ء کو منشی صاحب مذکور کا اس جگہ خط پہنچا اس کی عبارت یہ ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں-
’’ میرے اشفاق فرمائے منشی ظفر احمد جی زاد لطفہ‘- السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘ آج ۲۲ اپریل ۱۹۰۰ء کو آپ کا عنایت نامہ صادر ہوا-دریافت خریت سے بہت خوشی ہوئی- اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ بامن خود رکھ کر خواہش دلی پر پہنچا وے- آپ میرے بیان کو بالکل بھول گئے - مَیں نے تو اس صورت میں بیان کیا تھا کہ میرے گھر میں خواب دیکھا تھا کہ آسمان سے چاند ٹوٹا اور درمیان آسمان اور زمین کے آ کر اُس کے چار ٹکڑے ہو کر ہر چہار ٹکڑے ہر ایک گوشہ دُنیا میں گرے اور گرے ہوئے ہر چہار گوشہ میں بہت شور سے شعلہ زن ہوئے - یہ خواب بندہ نے علی الصباح مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے بیان کر کے تعبیر دریافت کی فرمایا قریب ہے کہ کوئی شخص اللہ کی طرف سے پیدا ہو جس کے سبب سے دُنیا کے ہر گوشہ سے دین کی ترقی ہو- اور ساتھ ہی ایسا بھی فرمایا کہ شاید مرزا قادیان سے ظہور ہو- یعنے اس نور کا ظہور مرزا قادیانی کے وجود سے ہو- فقط ‘‘
اب یہ دو گواہیاں ان دونوں انسانوں کی ہیں کہ اس وقت وہ اپنی ذلیل دُنیا کی مصلحت سے میرے مخالف ہیں- یہ دونوں صاحب کے رفیق اور مصاحب تھے- ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ ان صاحبوں سے حلفاً دریافت کر لو کہ ان کا یہ خط ہے یا نہیں- اور حافظ محمد یوسف صاحب کی گواہی کا نہ ایک دو بلکہ دو سو آدمی گواہ ہے و لعنۃ اللہ علی الکاذبین- اب اگر مولوی عبد اللہ صاحب کی اولاد کے دل میں کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے باپ کی پیشگوئی کو عزّت کی نگاہ سے دیکھیں- ہاں اس پیشگوئی میں یہ بھی ہے کہ وہ اس نور کو قبول نہیں کریں گے- اور محروم رہ جائیں گے- سو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے اگر محروم کے لفظ کے یہی معنے ہیں جوس مجھے گئے تو پھر قضا و قدر کے مقابل پر کیاپیش جا سکتی ہے- لیکن ہم خاص طور پر منشی الہٰی بخش صاحب اکونٹنٹ کو اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ یہ ان کے مرشد کی پیشگوئی ہے جس کو وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ عزت دیتے ہیں- ہاں اگراُن کا شک ہو تو حافظ محمد یوسف صاحب اور منشی محمد یعقوب سے قسمیہ دریافت کرلیں- اس قدر کافی ہو گا کہ ا گر وہ اس بیان کو تصدیق نہ کریں تو اتنا کہہ دیں کہ میرے پر خدا کی *** ہو اگر مَیںنے جھوٹ بولا ہے- اور نیز ذرہ شرم کر کے اس بات کو سوچیں کہ وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ صد ہا الہامات سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور دجّال اور مفتری ہے اور ان کا مرشد عبد اللہ غزنوی یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص خدا کا نور ہے اور اس سے محروم خدا سے محروم ہے- اب بابو الہٰی بخش صاحب تبلائیں کہ اُن کا کشف جھوٹا ہے یا اُن کے مُرشد مولوی عبد اللہ کا- اور اب ہم بہت انتظار کے بعد اس کے ذیل میں اپنا وہ خط درج کرتے ہیں جس کا ہم نے وعدہ کیا تھا اور وہ یہ ہے -
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
از جانب متوکل علی اللہ الاحد غلام احمد عافاہ اللہ و ایدّ- بخدمت مکرم بابو الہٰی بخش صاحب السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘
بعد ہذا اس عاجز کو اس وقت تک آں مکرم کے الہامات کی انتظار رہی-مگر کچھ معلوم نہیں ہوا کہ توقف کا کیا باعث ہے- مَیں نے سراسر نیک نیتی سے جس کو خدائے کریم جانتا ہے یہ درخواست کی تھی تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان متناقض الہامات میں کچھ فیصلہ ہو جائے کیونکہالہامات کا باہمی تناقض اور اختلافات اسلام کو سخت ضرر پہنچاتا ہے اور اسلام کے مخالفوں کو ہنسی اور اعتراض کا موقع ملتاہے اور اس طرح پر دین کا استخفاف ہوتا ہے- بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ ایک شخص کو تو خدا تعالیٰ یہ الہام کرے کہ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور اس زمانہ کے تمام مومنوں سے بہتر اور افضل اور مثیل الا نبیاء اور مسیح موعود کا مجدّد چودھویں صدی اور خدا کا پیارا اور اپنے مرتبہ میں نبیوں کی مانند اور خدا کا مرسل ہے اور اس کی درگاہ میں وجیہ اور مقرب اور مسیح ابن مریم کی مانند ہے اور اودھر سے دوسرے کو یہ الہام کرے کہ یہ شخص فرعون اور کذاب اور مسرف اور فاسق اور کافر اور ایسااور ایسا ہے - ایسا ہی اس شخص کو تو یہ الہام کر ے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا- اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے اور پھر دوسرے کو یہ الہام کرے کہ جو اس کی پیروی کرتے ہیں وہ شقاوت کا طریق اختیار کرتے ہیں- پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسلام پر یہ مصیبت ہے کہ ایسے مختلف الہام ہوں اور مختلف فرقے پیدا ہوں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوں- اس لئے ہمدردیٔ السام اسی میں ہے کہ ان مختلف فرقے پیدا ہوں جوا یک دوسرے کے سخت مخالف ہوں- اس لئے ہمدردی السام اسی میں ہے ہ ان مختلف الہامات کافیصلہ ہو جائے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی فیصلہ کی راہ پیدا کر دے گا- اور اس مصیبت سے مسلمانوں کو چھوڑے گا- لیکن فیصلہ تب ہو سکتا ہے کہ ملہمین جن کو الہام ہوتا ہے وہ زنانہ سیرت اختیار نہ کریں اور مرد میدان بن کر جس طرح کے الہام ہوں وہ سب دیانت کے ساتھ چھاپ دیں اور کوئی الہام جو تصدیق کے متعلق ہو پوشیدہ نہ رکھیں- تب کسی آسمانی فیصلہ کی امید ہے- اسی وجہ سے مَیں نے اللہ تعالیٰ کی قسمیں آپ کو پہلے خط میں دی تھیں تا آپ جلد تر اپنے الہام میری طرف بھیج دیں مگر آپ نے کچھ پرواہ نہیں کی اور میرے نزدیک یہ عذر آپ کا قبول کے لایق نہیں کہ آپ کو مخالفانہ الہام میں اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ ایک مدّت ان کی تشریح کے لئے چاہیے- میرے خیال میںیہ کام چند منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہے اور غایت درجہ دو گھنٹہ تک مع تشریح و تفسیر آپ لکھ سکتے ہیں اور اگر کسی کتاب کی تالیف کا ارادہ ہے تو اس کو اس سے کچھ تعلق نہیں- مناسب ہے کہ آپ اس امت پر رحم کر کے اور نیز خدا تعالیٰ کی قسموں کی تعظیم کر کے بالفعل دو تین سو الہام ہی جو گھنٹہ ڈیڑھ کا کام ہے چھپوا کر روانہ فرماویں- یہ تو میںتسلیم نہیں کر سکتا کہ الہامات کی بڑی بڑی عبارات ہیں- بلکہ ایسی ہوں گی جیسا کہ آپ کا الہام ’’ مسرت‘‘ ’’ کذاب‘‘ تو اس صورت میں آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے الہام کاغذ کے ایک صفحہ میں کس قدر آ سکتے ہیں- مَیں پھر آپ کو اللہ جل شانہ‘ کی قسم دیتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے بمجرو پہنونچنے اس خط کے اپنے الہامات چھپوا کر روانہ فرماویں- مجھے اس بات پر بھی سخت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے بیوجہ میری یہ شکایت کی کہ گویا مَیں نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی کوئی بے ادبی کی ہے آپ جانتے ہیں کہ میری گفتگو صرف اس قدر تھی کہ آپ مولوی محمد حسین کو کیوں بُرا کہتے ہیں حالانکہ آپ کے مُرشد مولوی عبد اللہ صاحب اس کے حق میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ وہ تمام عالموں کے لئے رحمت ہے اور سب اُمت سے بہتر ہے- یہ قرآنی الہام تھے جن کا مَیں نے ترجمعہ کر دیا ہے- اس صورت میں اگر شک تھا تو آپ مولوی محمد حسین سے دریافت کر لیتے- سچّی بات پر غصہ کرنا مناسب نہیں ہے پھر ما سوا اس کے جس دعویٰ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس کے مقابل پر عبد اللہ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایا ہے- مَیں یقینا جانتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے تو وہ میرے تابعداروں اور خادموں میں داخل ہوجاتے- ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے آگے گردن خم کرنا اورغربت اور چاکری کی راہ سے اطاعت اختیار کر لینا- ہر ایک دیندار اور سچّے مسلمان کا کام ہے - پھر وہ کیونکر میری اطاعت سے باہر رہ سکتے تھے- اس صورت میں آپ کا کچھ بھی حق نہیں تھا- اگرمَیں حَکمْ ہونے کی حیثیت سے اُن میں کچھ کلام کرتا- آپ جانتے ہیں کہ خدا اور رسُول نے مولوی عبد اللہ کا کوئی درجہ مقرر نہیں کیا اور انہ اُن کے بارے میں کوئی خبر دی- یہ فقط آپ کا نیک ظن ہے جو آپ نے اُن کو نیک ہمیں خبر ہے وہ پابند نماز تھے- رمضان کے روزے رکھتے تھے اور بظاہر دیندار مسلمان تھے اور اندرونی حال خدا کو معلوم -
حافظ محمد یوسف صاحب نے کئی دفعہ قسم یاد کرنے سے یقین کامل سے کئی مجلسوں میں میرے رو برو بیان کیا کہ ایک دفعہ عبد اللہ صاحب نے کسی خواب یا الہام کی بناء پر فرمایا تھا کہ آسمان سے ایک نُور قادیان میں اگر جس کے فیضان سے اُن کی اولاد بے نصیب رہ گئی- حافظ صاحب زندہ ہیں اُن سے پوچھ لیں٭ پھر آپ کی شکایت کس قدر افسوس کے لایق ہے- اور اللہ جل شانہ خوب جانتا ہے کہ ہمیشہ مولوی عبد اللہ غزنوی کی نسبت میرا نیک ظن رہا ہے اور اگرچہ بعض حرکات ان کی مَیں نے ایسی بھی دیکھیں کہ اس حُسن ظن میں فرق ڈالنے والی تھیں تا ہم مَیں نے اُن کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور ہمیشہ سمجھتا تہا کہ مَیں انکو ایسے درجہ کا انسان خیال کرتا کہ جیسے خدا کے کامل بندے مامورین ہوتے ہیں اور مجھے خدا نے اپنی جماعت کے نیک بندوں کی نسبت وہ وعدے دیئے ہیں کہ جو لوگ اُن وعدوں کے موافق میری جماعت میں رُوحانی نشوونما پائیں گے اور پاک دل ہو کر خدا سے پاک تعلق جوڑ لیں گے مَیں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ مَیں ان کو صد ہا درجہ مولوی عبد اللہ غزنوی سے بہتر سمجھوں گا اور سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کو وہ نشان دکھلاتا ہے کہ جو مولوی عبد اللہ صاحب نے نہیں دیکھے اور اُن کو وہ معارف سمجھاتا ہے جن کی مولوی عبد اللہ کو کچھ بھی خبر نہیں تھی اور انہوں نے اپنی خوش قسمتی سے مسیح موعود کر پایا اور اُسے قبول کیا مگر مولوی عبد اللہ اس نعمت سے محروم گزر گئے- آپ میری نسبت کیسا ہی بد گمان کریں اس فیصلہ تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے- لیکن مَیں بار بار کہتا ہوں کہ مَیں وُوہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکرؓ کے درجہ پر ہے تو انہوں کے جواب دیا کہ ابو بکرؓ کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے- یہ خدا تعالیٰ کی عطا کی تقسیم ہے- اگر کوئی بخل سے مَر بھی جائے تو اس کو کیا پرواہ ہے- اورجو شخص مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے ذکر سے مجھ پر ناراض ہوتا ہے اس کو ذرا خدا سے شرم کر کے اپنے نفس سے ہی سوال کرنا چاہیے کہ کیا یہ عبد اللہ اس مہدی و مسیح موعود کے درجہ پر ہو سکتاہے- جس کو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اور فرمایا کہ خوش قسمت ہے وہ امت جو دوپنا ہوں کے اندر ہے ایک مَیں جو خاتم الانبیاء ہوں اور ایک مسیح موعود جو ولایت کے تمام کمالات کو ختم کرتاہے اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو نجات پائیں گے- اب فرمایئے کہ جو شخص مسیح موعود سے کنارہ کر کے عبداللہ غزنوی کی وجہ سے اس سے ناراض ہوتا ہے اس کا کیا حال ہے- کیا سچ نہیں ہے کہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت کے صلحاء اور اولیاء او ابدال اورقطبعں اور غوثوں میں سے کوئی مسیح موعود کی شان اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا- عبد اللہ غزنوی کا ذکر کرنا اور بار بار شکایت کرنا کہ عبد اللہ کے حق میں یہ کہا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کریمؐ کی وصیتوں سے لا پروائی ہے کیا نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ عبد اللہ غزنی سے نکالا جائے گا اورپنجاب میں آئے گا اس کو تم مان لینا اور میرا سلام اس کو پہنچانا؟ یا یہ نصیحت فرمائی تھی کہ غلبہ صلیب کے وقت مسیح موعود پر ظاہر ہر گا اور وہ نبیوں کی شان لے کر آئے گا اور خدا اس ہاتھ پر صلیبی مذہب کو شکست دے گا اس کی نافرمانی نہ کرنا اور اس کو میری طرف سے سلام پہونچانا؟ اور اگر یہ کہو کہ وہ تو آ کرنصاریٰ سے لڑے گا اور ان کو صلیبوں کو توڑے گا اور ان کو خنزیروں کو قتل کرے گا تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ علماء اسلام کی غلطیاں ہیں بلکہ ضرور تھا کہ مسیح موعود نرمی اور صلحکاری کے ساتھ آتا اور صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا- اور نہ تلوار اٹھائے گا بلکہ اس کا حربہ آسمانی حربہ ہو گا اور اس کی تلوار دلائل قاطعہ ہو گی- سو وہ اپنے وقت پر آ چکا- اب کسی فرضی مہدی اور فرضی مسیح موعود کی انتظار کرنا اور خونریزی کے زمانہ کا منتظر رہنا سراسر کوتہ فہمی کا نتیجہ ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر بہت سے نشان دکھلائے اور ایسے یقینی طورپر ظاہر ہو ئے کہ تیرہ سو برس کے زمانہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ان کی نظیر نہیں پائی جاتی- اسلامی اولیاء کی کرامات ان کی زندگی سے بہت پیچھے لکھی گئی ہیں- اور اُن کی شہرت صرف اُن کے چند مُریدوں تک محدود تھی- لیکن یہ نشان کر وڑ ہا انسانوں میں شہرت پا گئے ٭ مثلاً دیکھو کہ لیکھرام کی پیشگوئی کو کیونکر فریقین نے اپنے اس پیشگوئی کا مضمون پا گیا اور تین قومیں ہندو مسلمان عیسائی اس پر گواہ ہو گئیں- پھر اسی کرو فر سے وہ پیشگوئی ظہور میں بھی آئی اور اُسی طرح لیکھرام قتل کے ذریعہ سے فوت ہوا-جیسا کہ پیش از قت ظاہر کیا گیاتھا- کیا ایسی ہیبت ناک پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کے اختیار میں ہے؟ کیا اس ملک کی تین قوموں میں اس قدر شہرت پا کر اور کُشتی کی طرح لاکھوں انسانوں کے نظارہ کے نیچے آ کر اس کاپورا ہو جانا ایسی پیشگوئی کی جو اس شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی ہو تیرہ سو برس کے زمانہ میں کوئی نظیر بھی ہے؟ بعض کا یہ کہنا کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اس کا جواب بجز اس کے ہم کیا دیں کہ لعنۃ اللّٰہ علیٰ الکاذبین- ا گر ان لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ نور انصاف ہوتا تو وہ شُبہ کے وقت میرے پاس آتے تو مَیں اُن کو بتلاتا کہ کس خوبی سے تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں ہاں ایک پیشگوئی ہے جس کا ایک حصّہ پورا ہو گیا اور ایک حصّہ شرط کے اثر کی وجہ سے باقی ہے جو اپنے وقت پر پورا ہو گا- افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی وہ سنتیں اور قانون بھی معلوم نہیں جو پیش گوئیوں کے متعلق ہیں- ان کے قول کے مطابق تو یونس نبی بھی چھوٹا تھا جس نے اپنی پیشگوئی کے قطعی طورپر چالیس دن مقرر کئے تھے مگر وہ لوگ چالیس برس سے بھی زیادہ زندہ رہے- اور چالیس دن میں نینوا کا ایک تنکا بھی نہ ٹوٹا بلکہ یونس نبی تو کیا تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ نظیریں ملتی ہیں-پھر اخیر پر خدا تعالیٰ کی قسم آپ کو دیتا ہوں کہ آپ وہ تمام مخالفانہ پیشگوئیاں جو میری نسبت آپ کے دل میں ہو لکھ کر چھاپ دیں- اب دس دن سے زیادہ مَیں آپ کو مہلت نہیں دیتا- جُون مہینے کی ۳۰ تاریخ تک آپ کا اشتہار مخالفانہ پیشگوئیوں کا میرے پاس آ جانا چاہیے-٭ ورنہ یہی کاغذ چھاپ دیا جائے گا اور پھر آیندہ آپ کو کبھی مخاطب کرنا بھی بے فائدہ ہو گا-
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد عفی ۱۶ جون ۱۸۹۹ء
بابو الہٰی بخش صاحب کو میں نے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے مخالفانہ پیشگوئیوں کے شائع کرنے کے لئے مہلت دی تھی مگر مَیں نے بجائے دس دن کے برس زیادہ انتظار کر کے اب یہ خط شائع کیا ہے- ان کو یاد کرنا چاہیے- کہ ان کا ایک وعدہ تھا اور کیا ظہور میں آیا-
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
۲۵ مئی ۱۹۰۰
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے)
(۲۲۱)
ضمیمہ خطبہ الہامیہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار چندہ منارۃ المسیحؑ
’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘
(یہ وہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو شائع ہوئے بیس برس گزر گئے )
خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والد صاحب درہم برہم ہو جائے لیکن جوںجوں وہ بیخکنی کے لئے کوشش کرتے گئے اور وہ بھی ترقی ہوتی گئی اور ایک خارق عادت طور پر یہ سلسلہ اس ملک میں پھیل گیا- سو یہ ایسا امر ہے ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں ایک نشان ہے- اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا تو اس مولویوں کی کوششوں سے کب کا نابود ہو جاتا- مگر چونکہ یہ خدا کا کاروبار اور اس کے ہاتھ سے تھا اس لئے انسانی مزاحمت اس کو روک نہیں سکی-
اب اس مسجد کی تکمیل کے لئے ایک اور تجویز قرارپائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی مشرقی طرف جیسا کہ احادیث رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہے ایک نہایت اُونچا منارہ بنایا جائے اور وہ منارہ تین کاموں کے لئے مخصوص ہو-
اوّل : یہ کہ تا مؤذن اس پر چڑھ کر پنچوقت بانگ نماز دیا کرے اور تا خداکے پاک نام کی اونچی آواز سے دن رات میں پانچ وفعہ تبلیغ اور تا مختصر لفظوں میں پنچوقت ہماری طرف سے انسانوں کو یہ ندا کی جائے کہ وہ ازلی اور ابدی خدا جس کو تمام انسانوں کو کوشش کرنی چاہیے صرف ہی خدا ہے جس کی طرف اس کا برگزیدہ اور پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کرتا ہے- اس کے سوا زمین میں نہ آسمان میں کوئی خدانہیں-
دوسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہو گا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی بہت اُونچے حصّے پر ایک بڑا لالٹین نصب کر دیا جائے جس کی قریباً ایک سو روپیہ یا کچھ زیادہ قیمت ہو گی- یہ روشنی انسانوں کی آنکھیں روشن کرنے کے لئے دُور دُور جائے گی-
تیسرا مطلب اس منارہ سے یہ ہو گا کہ اس منارہ کی دیوار کے کسی اُونچے حصّے پر ایک بڑا گھنٹہ جو چار پانسو روپیہ کی قیمت کا ہو گا نصب کر دیا جائے گا تا انسان اپنے وقت شناسی کی طرف توجہ ہو-
یہ تینوں کام جو اس منارہ کے ذریعہ سے جاری ہوں گے ان کے اندر تین حقیقتیں مخفی ہیں-
اوّل یہ کہ بانگ جو پانچ وقت اُونچی آواز سے لوگوں کو پہنچائی جائے گی اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ اب واقعی طور پر وقت آ گیا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی آواز ہر ایک کان تک پہنونچے- یعنی اب وقت خود بولتا ہے کہ اس ازلی ابدی زندہ خدا کے سوا جس کی طرف پاک رسول محمد صلے اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے اور سب خدا جو بنائے گئے ہیں - کیوں باطل ہیں؟ اس لئے کہ ماننے والے کوئی برکت اُن سے پا نہیں سکتے- کوئی نشان دکھلا نہیں سکتے-
دوسرے وہ لالٹین جو اس منارہ کی دیوار میں نصب کی جائے گی- اس کے نیچے حقیقت یہ ہے کہ تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا ز مانہ آ گیا ہے اور جیسا کہ زمین نے اپنی ایجادوں میں قدم آگے بڑھایا ایسا ہی آسمان نے بھی چاہا کہ اپنے نوروں کو بہت صفائی سے ظاہر کے تا حقیقت کے طالبوں کے لئے پھر تازگی کے دن آئیں اور ہر ایک آنکھ جو دیکھ سکتی ہے آسمانی روشنی کو دیکھے اور اس روشنی کی ذریعہ سے غلطیوں سے بچ جائے-
تیسرے وہ گھنٹہ جو اس منارہ کے کسی حصّہ میں دیوار میںنصب کرایا جائے گا اس کے نیچے یہ حقیقت مخفی ہے کہ تا لوگ اپنے وقت کو پہچان لیں یعنی سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا اب سے زمینی جہاد بند ہو گیا ہے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا جیسا کہ حدیثوں میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مسیح آئے گا تو دین کے لئے لڑنا حرام کیا جائے گا-
سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا -اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے اور غازی نام رکھا کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نا فرمان ہے- صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو کہ جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنے یضع الحرب جس کے یہ معنے ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا- سو مسیح آ چکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے -
غرض حدیث نبوی میں جو مسیح کی نسبت لکھا گی تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعو د کا وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے- یہ اشارہ ریل اور تار اگن بوٹ اور انتظام ڈاک کی طرف تھا جس نے تمام دُنیا کو ایک شہر کی مانند کر دیا- غرض مسیح کے زمانہ کے لئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دُنیا میں پھیلے گی اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میّسر نہیں آئیں- اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کا آنا ایسے زمانہ میں ہو گا جیس اکہ بجلی آسمان کے ایک کنارہ میںچمک کر تمام کناروں کو ایک دم روشن کر دیتی ہے- یہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ تھا - یہی وجہ ہے کہ چونکہ مسیح تمام دُنیا کو روشنی پہنچانے آیا ہے اس لئے اس کو پہلے سے یہ سب سامان دیئے گئے- وہ خون بہانے کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیاکے لئے صلح کاری کا پیغام لایا ہے- اب کیوں انسانوں کے خون کئے جائیں- اگر کوئی سچ کاطالب ہے تو وہ خدا کے نشان دیکھے جو صد ظہور میں آئے اور آ رہے ہیں اور اگر خدا کا طالب نہیں تو اس کو چھوڑ دو اس کے قتل کی فکر میںمت ہو کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ آخری دن نزدیک ہے جس سے تمام دنیا میں آئے ڈراتے رہے-
غرض یہ گھنٹہ جو وقت شناسی کے لئے لگایا جائے گا- مسیح کے وقت کے لئے یاد دلائی ہے- اور خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور یہ کہ احادیث نبویہ میںمتواتر آ چکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المنارہ ہو گا یعنی اس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہار تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو- اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اسی کی مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند مینار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آ جاتی ہے- سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ھوا لذی ارسل رسولہ یا لھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علے الدّین کلّہ- یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجّت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاس کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی عمارت اُونچی نہیں- اسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے جو کتاب مذکور کے صفحہ ۵۲۲ میں درج ہے اور وہ یہ ہے ’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘‘ ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے اور ایک روایت میں خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصیٰ کے شرقی منارہ کے قریب ہو گا- ٭
اب اے دوستو یہ منارہ اس لئے طیار کیا جاتا ہے کہ تا حدیث کے موافق مسیح موعود کے زمانہ کی یادگار ہو اور نیز وہ عظیم پیشگوئی پوری ہو جائے جس کا ذکر قرآن شریفکی اس آیت میں ہے کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہٖ لیلاً من المسجد الحرامالی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ اور جس منارہ کا ذکر حدیث میں بھی ہے کہ مسیح کا نزول منارہ کے پاس ہو گا- دمشق کا ذکر اس حدیث میں جو مسلم نے بیان کی ہے-
اس غرض سے ہے کہ تین خدا بنانے کی تخمریزی اوّل دمشق سے شروع ہوئی ہے اور مسیح موعود کا نزول اس غرض سے ہے کہ تا تین کے خیالات کو محو کر کے پھر ایک خدا کا جلال دُنیا میں قائم کرے - پس اس ایما کے لئے بیان کیا گیاکہ مسیح کا منارہ جس کے قریب اس کا نزول ہو گا دمشق سے شرقی طرف ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور اس سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے - وہ دمشق سے ٹھیک ٹھیک شرقی جانب پر پڑی ہے- پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ منارہ المسیح بھی دمشق سے شرقی جانب واقع ہے- ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ دمشق کے لفظ پر خوب غور کر کے اس میں حکمت کیا ہے کہ یہ لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف نازل ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی قرارداد باتیں صرف امور اتفاقیہ نہیں ہو سکتے- بلکہ اُن کے نیچے اسرار اور رموز ہوتے ہیں وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام باتیں رموز اور اسرار سے پُر ہیں-
اب ہمارے مخالف گو اس دمشقی حدیث کو بار بار پڑھتے ہیں مگر وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے کہ جو اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعودکی شرقی طرف کے منارہ کے قریب نازل ہو گا اس میں بھید ہے - بلکہ انہوں نے محض ایک کہانی کی طرح اس حدیث کو سمجھ لیا ہے- لیکن یاد رہے کہ یہ کہانی نہیں ہے اور خدا تعالیٰ لغو کاموں سے پاک ہے بلکہ اس حدیث کے الفاظ میں جو اوّل دمشق کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے شرقی طرف ایک منارہ قرار دیا کہ ایک عظیم الشان راز ہے اور وہ دہی ہے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں یعنے یہ تثلیث اور تین خدائوں کی بنیاد دمشق سے ہی پڑی تھی- کیا ہی منحوس وہ دن تھا جب پولوس یہودی ایک خواب کا منصوبہ بنا کر دمشق میں داخل ہوا - اور بعض سادہ لوح عیسائیوں کے پاس یہ ظاہر کیا کہ خداوند مسیح مجھے دکھائی دیا اور اس تعلیم کے شائع کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ گویا وہ بھی ایک خدا ہے- بس وہی خواب تثلیث کے مذہب کی تخمریزی تھی - غرض یہ شرک عظیم کا کھیت اوّل دمشق میں ہی بڑھا اور پھولا اور پھر یہ زہر اور اور جگہوں میں پھلتی گئی- پس چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انسان کو خدا بنانے کا بنیادی پتھر اوّل دمشق میں ہی رکھا گیا اس لئے خدا نے اس زمانہ کے ذکر کے وقت کہ جب غیرت خدا وندی اس باطل تعلیم کو نابود کرے گی- پھر دمشق کا ذکر فرمایا اور کہا کہ مسیح کامنارہ لینے اس کے نور کے ظاہر ہونے کی جگہ دمشق کی مشرق طرف ہے- اس عبارت سے یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ منارہ دمشق کی ایک جزو ہے اور دمشق میں واقع ہے جیسا کہ بد قسمتی سے سمجھا گیا- بلکہ مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود کا نور آفتا ب کی طرح دمشق کے مشرقی جانب سے طلوع کر کے مغربی تاریکی کو دُور کر ے گا اور یہ ایک لطیف اشارہ تھا کیونکہ مسیح کے منارہ کو جس کے قریب اس کا نزول ہے دمشق کے مشرقی طرف قرار دیا گیا اور دمشقی تثلیث کو اس کے مغربی طرف رکھا اور اس طرح پر آنے والے زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو آفتاب کی طرح جو مشرق سے نکلتا ہے ظہورفرمائے گا اور اس کے مقابل پر تثلیث کا چراغ مردہ جو مغرب کی طرف واقع ہے دن بدن مردہ ہوتا جائے گا- کیونکہ مشرق سے نکلنا خدا کی کتابوں سے اقبال کی نشانی قرار دی گئی ہے اور مغرب کی طرف جانا ادباء کی نشانی - اور اسی نشانی کی طرف ایماء کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو جو مسیح موعود کا نزول گاہ ہے- دمشق سے مشرق کی طرف آباد کیا اور دمشق کو اس سے مغرب کی طرف رکھا- بڑا دھوکہ ہمارے مخالفوں کو یہ لگا ہے کہ انہوں نے حدیث کے لفظوں میں یہ دیکھ کر مسیح موعود اس منارہ کے قریب نازل ہو گا جو دمشق کی شرقی طرف ہے یہ سمجھ لیا کہ وہ منارہ دمشق میں ہی واقع ہے- حالانکہ دمشق میں ایسے منارہ کا وجود نہیں - اوریہ خیال کیا جہ اگر کہا جائے کہ اگر مثلاً فلاں ہر جگہ فلاں شہر کے شرقی طرف ہے تو کیا ہمیشہ اس سے یہ مراد ہوا کرتا ہے کہ وہ جگہ شہر سے پیوستہ ہے- اور اگر حدیث میں ایسے لفظوں اور اگر حدیث میں ایسے لفظ بھی ہوتے جن سے قطعی طور پر یہی سمجھا جاتا کہ وہ منارہ دمشق کے ساتھ پیوستہ ہے- اور اگر دوسرے احتمال کی راہ نہ ہوتی تا ہم ایسا بیان دوسرے قرآئن کے مقابلہ پر قابل قبول نہ ہوتا- مگر اب چونکہ حدیث پر غور کرنے سے صاف طورپر سمجھ آتا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ منشاء کہ وہ منارہ دمشق کے شرقی طرف ہے نہ درحقیقت اس شہر کاایک حصّہ تو دیانت سے بعید اور عقل مندی سے دُور ہے کہ خدا تعالیٰ کی ان حکمتوںاور بھیدوں کو نظر انداز کر کے جن کو ہم نے اس اشتہار میں بیان کر دیا ہے بیوجہ اس بات پر زور ڈالا جائے کہ وہ منارہ جس کے قریب مسیح کا نزول ہے وہ دمشق میں واقع ہے بلکہ جناب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اس منارہ سے اُس مسجد اقصیٰ کا منارہ مُراد لیا ہے جو دمشق سے شرق طرف واقع ہے یعنی مسیح موعود کی مسجد جو حال میں وسیع کی گئی ہے اور عمارت بھی زیادہ کی گئی- اور یہ مسجد فی الحقیقت دمشق سے شرقی طرف واقع ہے- اور یہ مسجد صرف اس غرض سے وسیع کی گئی اور بنائی گئی ہے کہ تا دمشقی مفاسد کی اصلاح کرے اور یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیث نبویہ میں تسلیم کی گئی- اور اس منارۃ المسیح کا خرچ دس ہزار روپیہ سے کم نہین - اب جو دوست اس منارہ کی تعمیر کے لئے مدد کریں گے مَیں یقینا سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بھاری خدمت کو انجام دیں گے- اور مَیں یقینا جانتا ہوںکہ ایسے موقع پر خرچ کرنا ہر گز ہرگز ان کے نقصان کا باعث نہیں ہو گا- وہ خدا کو قرض دیں گے اور معہ سود واپس لیں گے- کاش ان کے دل سمجھیں کہ اس کام کی خدا کے نزدیک کس قدر عظمت ہے- جس خدا نے منارہ کاحکم دیا ہے - اس نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام کی مردہ حالت میں اسی جگہ سے زندگی کی رُوح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کامیدان ہو گا مگر یہ فتح ان ہتھیاروں کے ساتھ نہیں ہو گی جو انسان بناتے ہیں بلکہ آسمانی حربہ کے ساتح ہے جس سے فرشتے کام لیتے ہیں- آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا- اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اُٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رُسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے - کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے- سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں- ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے- خدا تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کی ایک راہ نہیں- پس جس راہ پر نادان لوگ اعتراض کر چکے ہیں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ اسی راہ کو پھر اختیار کیا جائے- اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے جن نشانوں کی پہلے تکذیب ہو چکی ہے - وہ ہمارے سیّد رسول صلے اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیئے گئے- لہذامسیح موعود اپنی فوج کو اس ممنوع مقام سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہے- جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے- اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچائو مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو- جو شخص ایک شخص کو اس غرض سے تلخ دوا دیتا ہے کہ تا وہ اچھا ہو جائے وہ اس نیکی کرتا ہے- ایسے آدمی کی نسبت ہم نہیں کہتے کہ اس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا- ہر ایک نیکی اور بدی نیّت سے ہی پیدا ہوتی ہے- پس چاہیے کہ تمہاری نیت کبھی ناپاک نہ ہو تا تم فرشتون کو طرح ہو جائو-
یہ اشتہار منارہ بننے کے لئے لکھا گیا ہے مگر یاد رہے کہ مسجد کی بعض جگہ کی عمارات بھی ابھی نا درست ہیں- اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ جو کبھی منارۃ المسیح کے مصارف میں سے بچے گا وہ مسجد کی دوسری عمارت پر لگا دیا جائے گا- یہ کام بہت جلدی کا ہے- دلوں کو کھولو اور خدا کو راضی کرو- یہ روپیہ بہت سی برکتیں ساتھ لے کر پھر آپ لوگوں کی طرف واپس آئے گا- مَیں اس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا اور ختم کرتا ہوں اور خدا کے سپرد-
بالآخر مَیں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوںکہ اس منارہ میں ہماری یہ بھی عرض ہے کہ مینار کے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا- کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ میں ہر ایک شخص مسلمانوں کو ہندوئوں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرئے- مگر یہ شرط ہو گی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے- فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہتے تہذیب سے کہے اس لئے لکھا جاتا ہے کہ ہمارے دوست اس کو ہر ایک کاریگر معمار کو دکھلائیں اور اگر وہ کوئی عمدہ نمونہ اس منارہ کا جس میں دونوں مطلب مذکور بالا پورے ہو سکتے ہوں تو بہت جلد ہمیں اس سے اطلاع دیں - وَالسَّلام
خاکســــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے ۱۰ صفحہ پر ہے- )
(۲۲۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
دینی جہاد کی ممانعت کا فتویٰ مسیح موعود
کی طرف سے
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ وہ قتال
اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو
جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو
کیوں بھولتے ہوں تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سیِدّ کونینِ مصطفیٰ
عیسٰی مسیح جنگوں کا دے کا التوا
جب آئے گا تو صلح کو دو ساتھ لائے گا
جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے
پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند
کھلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و بیگزند
یعنے وہ وقت امن کا ہو گا نہ جنگ کا
بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا
یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں
کر دے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں
اب تم میں خود قوت وطاقت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی
وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی
وہ عزم مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی
وہ علم وہ صلاح وہ عفّت نہیں رہی
وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی
وہ درد وہ گداز وہ رقّت نہیں رہی
خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی
حالت تمہاری جازب نُصرت نہیں رہی
حُمق آ گیا ہے صر میں وہ فطنت نہیںرہی
کسل آ گیا ہے دل میں جلاوت نہیں رہی
وہ علم و معرفت و فراست نہیں رہ
وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی
دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی
اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی
وہ اُنس و شوق و جد وہ طاعت نہیں رہی
ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی
ہر وقت جھوٹ سچ کی تو عادت نہیں رہی
نور خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی
سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی
نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی
خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی
دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی
مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی
دل مر گئے نیکی کی قدرت نہیں رہی
سب پر یہ ایک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی
اک پھوٹ پڑ رہی ہے موّدت نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی
بھید اس میں یہی ہے کہ وہ حاجت نہیں رہی
اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے
کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ و صوم سے
ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو
عادت میںاپنی کر لیا فسق و گناہ کو
اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کا فرانہ ہے
اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں
روتے رہو دعائوں میں بھی وہ اثر نہیں
کیونکہ ہو نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں
شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں
تقویٰ ک جامے جتنے سب چاک ہو گئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے
اب تم تو خود ہی مورد خشم خداا ہوئے
اس یار سے بشامت عصیاں جدا ہوئے
سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں
وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں
پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا
وہ نور مومنانہ وہ عرفان نہیں رہا
پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے
آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے
ایسا گماں کہ مہدیٰ خونی بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا
اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں
بہتاں ہیں بے ثبوت یں اور بیفروغ ہیں
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
اب سال سترہ بھی صدی سے گزر گئے
تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاںجو دکھائے تمہیں
کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں
پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا فائدہ
مونھ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ
بخلوں سے یاروں باز بھی آئو گے یا نہیں
مخفی جو دل ہے وہ سنائو گے یا نہیں
آخر خدا کے پاس بھی جائو گے یا نہیں
اُس وقت اس کو مونھ بھی دکھائو گے یا نہیں
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے اُستوار
لوگوں کو یہ بتائے ک ہوقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا
المشــــــــــــــــــــــــــــــتھر
مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان
۷ جون ۱۹۰۰ء
مطوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے ۴ صفحہ پر ہے )
(نوٹ از مرتب:- اس نظم کے نیچے عربی خط ممانعت جہاد کا ہے جو درج ذیل ہے-)
عربی زبان میں ایک خط اہل اسلام پنجاب اور ہندوستان اور عرب اور فارس وغیرہ ممالک کی طرف جہاد کی ممانعت کے بارے میں
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اعلمو ایھا المسلمون رحمکم اللّٰہ اناللّٰہ الذی تولّی الاسلام- و کفل امورہ العظام- جعل دینہ ھٰذا رُصلۃً الیٰ جکّمہ و علو مہ و رضع المعارف فی ظاھرہ و مکتوبہ فمن الحِِکم التی اودع ھٰذا الدین المھتدین - ھوا الجھاد الزی امریہ فی صدرزمن
الاسلام- ثم نھی عنہ نی ھٰذہِ الا یّام- والسر فیہ انہ تعالیٰ اذن للذین یقاتلون فی اوّل زمان الملۃ رفعاً لصول الکھزۃ و حفظاً للذین و نفوس الصحبۃ- ثمّ انقلوب امرا الزمان عند اعھد الدولۃ البر طانیۃ٭ وحصل الامن للمسلمین وما بقی حاجۃالسیوف والاَ سِنَّۃِ- فعند ذلک اثمّ المخالفون المجاھدین و سلکھم مسلک الظالمین السفاکین- ولیّس
اللّٰہ علیھم سرّ الغزاۃ والغازین- ننظرو الیٰ محاربات الدین کلمھا بنظر الزریۃ- و نسبو کل من غزالی الجبر و الطغیان والغوایۃ فاقتضت مصالح اللّٰہ علیھم سرّا لغزاۃ والغازین- فنظر واالیٰ محاربات الدین کلمھا نبظر الزریۃ- و نسبوا کل من غزا الی الجبر والطغیان والغوایۃ فاقتصنت مصالح اللّٰہ ان یضع الحرب و الجہاد- وقد مضت سنتہ ھزہ فی شیع الاء لین - فان نبی اسرائیل طعن فیھم حم من قبل ففبعث اللّٰہ المسیح فی اٰخر زمن موسٰی واریٰ ان الز ارین کا نو اخاطئین- ثم بعثنی ربّی نی اٰخر زمن نبیِّنا المصطفیٰ- وجعل مقدارھزا الزمن کمقدار زمن کان بین موسیٰ و عیسٰی- وان وجوہ و ھو اصلاح الاخلاق و منع الجھاد- واٰراء ۃ الاٰیات لتقویۃ ایمان العباد- ولاشک ان وجوہ الجھاد ومعدویۃ فی ھزا الزمن رھذہ البلاد- فالیوم حرام علی المسلمین ان یحاربواللدین- و ان یقتلوامن کفر بالشرح المتین-فااﷲ صرّح حرمۃ الجہاد عند زمان الا من و العافیۃ و ندّ الرسول با نہ من المناھی عند نزول المسیح فی الامۃ- ولا یخفٰی ان الزمان قد بدّل احوالۃ تبدیلاً صریحاً- و ترک طورًا فبیحاً-ولا یو جد فی ھزا الزمان ملک یظلم مسلماً لا سلامہ ولا حاکم یحبو دلدینہ فی الحکامہ- فلا جل ذالک بدّل اﷲ حکمہ فی ھزا الاٰوان- ومنہ ان یحا رب للدین اور تقتل نفسٌ لا ختلاف الادیان- و مران یتّم المسلمون حججھم علی الکفّار- ویضعوا البر اھین العالیۃ حتٰی نظأم اقد مہم کل اساس یقوم علیہ البرھان- ولا یفو تھم حجۃ الیہ الاذھان- ولا سلطان یر غب فیہ الزمان- ولا یبقٰی شبھۃ یولّہ الشیطان- و ان یکونوا فی اتمام حجج مستشفین-
وارادان تصیّد شو ارد الطبائع المتنفرۃ من مسئلۃ الجھاد- و یُنْزل ماء الاٰی علی القلوب المجدیۃ کالعھا- و یعسل و سخ الشبھات و درن اوساوس وسو الاعتقاد- فقدر للا سلام وقتاً کابّان الربیع و ھو وقت المسیح النازل من الرقیع- لیحبری فیہ ماء الاٰیات کا لینا بیع- و یُنظھر صدق الاسلام ویُبیّن انّ المتنز رین کانوا کاذبین- وکان ذالک واجباً فی علم فی اﷲ لا من الحاربین- انّی انا المسیح النازل امن السماء - و ان وقتی وقت ازالۃ الظنون وراء ۃ الا سلام کالشمس فی الضیاء- نفکّروا ان کُنتم عاقلین- و ترون ان الاسلام قد وقعت حد تہ ادیان کاذبۃ یُسعٰی لتصدیقھا- و اعین کلیلۃ یجا ھد التبر یقھا- و ان اھلھا اخزو الطریق الرفق والحلم فی دعواتھم - وارد التواضع اور الزل عند ملا قاتھم - و قالو ان الاسلام اولع فی الابدان المُدیٰ- لیبلغ القوۃ العلیٰ- وانا ند عوالخلق متواضعین- فرأی اﷲ کیدھم من السماء- و ما ارید من البھتان والا زدراء ولا فتراء- فجلّی مطلع ھزاالدین بنور البرھان- و اری الخلق انہ ھوا القائم و الشایٔع بنور بّہ لا بالسیف السنان- و منع ان یقاتل فی ھزا الحین- و ھوحکیم یعلمنا ارتضا کأس الحکمۃ و العرفان- ولا یفعل نعلاً لیس من مصالح الوقت والاٰ وان- و یرحم عبادہ و یحفظ القلوب م الصداء والطبائع من الطفیات - فانزل میسحیہ الموعود و المھدی المعھود- لیعصم قلوب الناس من وساوس الشیطان- و تجارتھم من
من الخسران- الیجعل المسلمین کرجل ھَیْمن ما اصطفاہ- راصاب ما اصباہ فثبت ان الاسلام لا یستجعل السیف والسھام عند الدعوۃ- ولا یضرب الصعدۃ- ولٰکن یأتی بد لائل تحکی الصعدۃ فی اعدام الفریۃ- و کانت الجاجۃ قد اشتدات فی زمننا لرفع الالتباس الالتباس لتباس لیعلم النّاس حقیقۃ الامر و یعرفوا السرّکا لاکیاس- والاسلام مشرب قد احتویٰ کل نوع حفادۃ- والقرآن کتاب جمع کل حلاوۃ وطلاوۃ- و لکن الاعداء لایرون من الظلم والضیم - وینسابون انسیاب الایم- مع ان الاسلام دین خصھ اﷲ بھذھ الاثرۃ- وفیہ برکات لایبلغھا احد من الملۃ- وکان الاسلام فی ھذا الزمان- کمثل معصوم اثّم و ظُلِمَ بانواع البھتان- وطالت الالسنۃ علیہ وسانوا علیٰ حریمہ- وقالوا مذھب کان قتل الناس خلاصۃ تعلیمہ نبعثت لیجد النّاس مافقدوا من سعادۃ الجدّ- ولیخلصوا من الخصم الالدّ و انّی ظھرتُ برثٍ فی الارض و حلل بارقۃ فی السماء- فقیر فی الغبراء و سلمان فی الخضراء- فطوبٰی للذی عرفنی او عرف من عرفنی من الاصدقاء- و جئتُ اھل الدنیا ضعیفًا نحیفًا کخافۃ الصّب- و غرض القذف الشتم و السبّ- و لٰکنی کیّ قویٰ فی العالم الاعلیٰ- ولی عذب مذرب فی الافلاک و ملک لا یبلی- و حسام یضاھی البرق صقالھ- و یمزّق الکذب قتالھ- ولی صورۃ فی السماء لایراھا الانسان- لاتدرکھا العینان- و انّنی من اعاجیب الزمان و انّی طُھرّتُ و بدّلتُ و بُعّدتُ من ا
لعصیان- وکذالک یطھّرُ و یبدّل من احبنی وجاء بصدق الجنان- و ان انفاسی ھذھ تریاق سمّ الخطیّات- وسدُّ مانع من سرق الخطرات الٰی سُوْق الشبھات- ولایمتنع من الفسق عبدٌ ابدًا الاّ الذی احبّ حبیب الرحمان- اوذھب من الاطیبان وعطف الشیب شطاطہ بعد ماکان لقضیب البان- و من عرف اﷲ و اعرف عبدھ فلایبقی فیہ شئ من الحدوالسنان- وینکسر جناحہ ولایبقٰی بطش فی الکف و البنان- ومن خواص اھل النظر انھم یجعلون الحجر کالعقیان- فانھم قوم لایشقی جلیسھم و لایرجع رفیھم بالحرمان- فالحمد ﷲ علٰی مِنَنھ ان ھو المنّان- ذوالفضل والاحسان- واعلموا انی انا المسیح و فی البرکات اسیح- و کل یوم تزید البرکات و تزداد الاٰیات- و النور یبرق علیٰ بابی- ریأتی زمانٌ یتبّرک الملوک باثوابی- وذالک الزمان زمان قریب ولیس من القادر بعجیب
الاختبار اللطیف لمن کان یعدل اویحیف
ایھا الناس ان کنتم فی شک فی امری- وممّا اوحٰی الّی من ربّی فناضلونی فی انباء الغیب من حضرۃ الکبریاء- و ان لم تقبلوا ففی استجابۃ الدعاء و ان لم تقبلوا ففی تفسیر القراٰن فی لسان العربیۃ- مع کمال الفصاحۃ ورعایۃ الملَح الابیۃ- فمن غلب منکم بعد ماساق ھذاالمساق- فھو خیر منّی ولامراء ولاشقاق- ثم ان کنتم تعرضون عن الامرین الاوّلین و تعتذرون و تقولون انا مااُعطِینا عین رؤیۃ الغیب ولامن قدرۃٍ علٰی اجراء تلک العین- فصار عونی فی فصاحۃ البیان مع التزام بیان معارف القرآن- واختارو امسحب نظم الکلام- ولتسحبوا ولاترھبوا ان کنتم من الاُدَباء الکرام- وبعد ذالک ینظر الناظرون فی تفاضل الانشاء- ویحمدون من یستحق الاحماد والایرادویلعنون من لُعِن من السماء- فھل فیکم فارس ھذا المیدان- ومالک ذالک البستان- وان کنتم لاتقدرون علی البیان- ولاتکفون حصائداللسان- فلستم علٰی شیٍٔ من الصدق والسداد ولیس فیکم الامادۃ الفساد- اتحمون وطیس الجدال- مع ہذہ البرودۃ والجمود و الجھل و الکلال- موتوا فی غدیر- اوبار زونی کقدیر- وارونی عینکم- ولاتمشواکضریر- واتقوا عذاب ملک خبیر- واذکروا اخذ علیم وبصیر وان لم تنتھوا وفیأتی زمانٌ تحضرون عند جلیل کبیر- ثم تذوقون مایذوق المجرمون فی حصیر- و ان کنتم تدّعون المھارۃ فی طرق الاشرر- و مکائد الکفّار- فکیدوا کل کید الٰی قوۃ الاظفار- وقلّبوا دبیرکم- واجمعوا کبیر کم و صغیر کم واستعملوا وقایرکم- وادعوا الھذا الامر مشاھیرکم- و کل من کان من المحتالین- واسجدوا علی عتبۃ کل قریع زمَن وجابر زمِنٍ لیُمدّکم بالمال و العقیان- ثم انھضوا بذالک المال و ھدّمونی من البنیان- ان کنتم علٰی ھدّھیکل اﷲ قادرین- واعلموا ان اﷲ یُخزیکم عند قصد الشرّ- و یحفظنی حم الضرّ- ویتم امرہ وینصر عبدہ ولاتضرونہ شیئًا و لاتموتن حتی یریکم مااریٰ من قبلکم کل من عادیٰ اولیاء ہ من النبیین و المرسلین المامورین- واٰخر امرنا نصر من اﷲ و فتح مبین- واٰخر دعوٰـنا ان الحمد ﷲ رب العالمین-
المشتہر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان
۷؍ جون ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(۲۲۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لئے منارہ المسیح کے بارے میں توجّہ دہانی اور اس کام کے لئے ان سے ایک درخواست
منارہ المسیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک اشتہار٭ شائع ہو چکا ہے - لیکن جس کمزوری اور کم توجہی کے ساتھ اس کام کے لئے چندہ وصول ہو رہا ہ اس سے ہرگز یہ امید نہیں کہ یہ کام انجام پذیر ہو سکے - لہذا میں آج خاص طور پر اپنے اُن مخلصوں کو اس کام کے لئے توجہ دلاتا ہوں جن کی نسبت مجھے یقین ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کریں اور جیسا کہ اپنے نفس کے اغراض کے لئے اور اپنے بیٹوں کے شادیوں کے لئے پورے زور سے انتظام سرمایہ کر لیتے ہیں - ایسا ہی انتظام کریں تو ممکن ہے یہ کام ہو جائے اگر انسان کو ایمانی دولت سے حصّہ ہو تو گو کیسے ہی مالی مشکلات کے شکنجہ میں آجائے تا ہم وہ کار خیر کی توفیق پا لیتا ہے - نظیر کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ ان دنوں میں میری جماعت میں ایسے دو مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے جو باقی دوستون کے لئے درحقیقت جائے رشک ہیں- ایک ان میں سے منشی عبد العزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لئے چندہ دیا ہے- اور میں خیال کرتا ہوںکہ یہ سو روپیہ کئی سال کا ان کا ان اندوختہ ہو گا- اور زیادہ وہ قابلِ تعریف اس کے بھی ہیں کہ ابھی وہ ایک کام اور کام میں سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں- اور اب اپنے ظیال کی بھی چنداں پروا نہ رکھ کر یہ چندہ پیش کر دیا- جزاء ہم اللہ خیرالجزاء- دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں- ابھی وہ اہک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں- اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ چندہ بھیج دیا ہے- اور یہ متوک شخص ہے جہ اگر اس کے گھر کاتمام اسباب دیکھا جائے شاید جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو- انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ چونکہ ایام قحط ہیں اور دینوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں- اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا- سب بھیج دیا- اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر ؓ نے کیا تھا- شاید ہمارے بعض مخلصوں کو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ منارہ المسیح کیا چیز ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے- سو واضح ہو کہ ہمارے سیّد و مولیٰ خیر الانبیاء خاتم الانبیاء سیّدنا محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کو خدا کی طرف سے اسلام کے ضعف اور عیسائیت کے غلبہ کے وقت میں نازل ہو گا اس کا نزول ایک سفید منارہ کے نزدیک ہو گا جو دمشق سے مشرقی طرف واقع ہے- اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے دو مرتبہ اسلام میں کوشش کی گئی ہے- اوّل ۷۴۱ھ سے پہلے دمشق کی مشرقی طرف سنگِ مرمر کاپتھر سے ایک منارہ بنایا گیا تھا جو دمشق سے شرقی طرف جامع اموی کی ایک جزو تھی اورکہتے ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ اس پرخرچ آیا تھا اور بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ تا وہ پیشگوئی رسول صلے اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو جائے - لیکن عبد اس کے نصاری نے اس منارہ کو جلادیا- پھر اس حادثہ کے بعد ۷۴۱ھ میں دوبارہ کوشش کی گئی کہ وہ منارہ دمشق کی شرقی طرف پھر طیار کیاجائے-چنانچہ اس منارہ کے لئے بھی غالباً ایک لاکھ روپیہ تک چندہ جمع کیا گیا- مگر خدا تعالیٰ کی قضاء و قدر سے جامع اموی کو آگ لگ گئی-اور وہ منارہ بھی جل گیا- غرض دونوں مرتبہ مسلمانوں کو اس قصد میں ناکامی رہی-٭ اور اس کا سبب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ قادیان میں منارہ بن کیونکہ مسیح موعود کے نزول کی یہی جگہ ہے- سو اب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ اس ثواب کو حاصل کریں- جو شخص اس ثواب کو حاصل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے انصار میں ہو گا- مَیں دیکھتا ہوں کہ اگرچہ لاکھوں انسان اس جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں مگر مقبول وہ گروہ ہی ہیں-
(۱)اول وہ گروہ جنہوں نے بعد اس کے جو مجھے پہچان لیا جو میں خدا کی طرف سے ہوں بہت نقصان اُٹھا کر اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور قادیان میں اپنے گھربنالئے اور اس درد کی برداشت کی جو ترک وطن اور ترکِ احبابِ وطن میں ہوا کرتی ہے- یہ گروہ مہاجرین ہے- اور مَیں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا قدر ہے- کیونکہ خدا کے واسطے اپنے وطنوں کو چھوڑنا اور اپنے چلتے ہوئے کاموں کو خاک میںملا دینا اور اپنے وطن کی پیار مٹی کو خدا کے لئے الوداع کہہ دینا کچھ تھوڑی بات نہیں-فطوبیٰ للغرباء المھلجرین- دوسرا گروہ انصار ہے- اور وہ اگرچہ اپنے وطنوں میں ہیں- لیکن ہر ایک حرکت اور سکون میں ان کے دل ہمارے ساتھ میں اوروہ مال سے محض خدا کو راضی کرنے کے لئے مدد دیتے یہں اور مَیں ارادہ کرتا ہوں اگر خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو کہ اس منارہ کے کسی مناسب پہلو میں ان مہاجریں کے نام لکھوں- جنہوں نے محض خدا کے لئے یہ دُکھ اپنے اُوپر لیا کہ اپنے پیارے وطنوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے مامور کا قرب مکانی حاصل کرنے کے لئے قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور ایسا ہی ان انصار کے نام بھی جنہوں نے اپنی خدمت اور نصرت کو انتہا تک پہہنچایا اور میرا نو قلب مجھے اس وقت اس بات کی طرف تحریک کرتا ہے جو ایسے مبارک کام کے لئے جس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہوتی ہے اپنی مخلص جماعت کو اس مالی مدد کی تکلیف دوں جو مومن کے لئے جنت کو واجب کرتا ہے- پس مَیں اسی غرض سے چند مخلـصین کے نام ذیل میںلکھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہر ایک ان سے میں سے کم سے کم ایک سو روپیہ اس عظیم الشّان کام کے لئے پیش کرے- اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اگر انسان بہیودہ عذرات کی طرف مائل نہ ہو- اس قدر رقم ان لوگوں کے لئے کچھ مشکل نہیں جو چالیس یا پچاس یا اس سے زیادہ آمدنی رکھتے ہیں- مثلاً عورتوں کا زیور ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر صدق دل ہو تو اس میں کچھ ایسے کام کے لئے آ سکتا ہے- بلکہ دیکھا گیاہے کہ جب نیک بخت عورتیں اپنے دیندار خاوندوں اور باپوں اور بھائیوں کے مُنہ سے ایسی باتیں سُنتی ہیں تو خود ان کا ایمانی جوش حرکت کرنے لگتا ہے- اور بسا اوقات اپنے خاوندوں کے حوصلہ سے زیادہ ایک رقم کثیر پیش کر دیتی ہیں- بلکہ بعض عورتیں بعض مردوں سے صد ہا درجے اچھی ہوتی اور موت کو یاد رکھتی ہیں- وہ خوب جانتی ہیںکہ جبکہ کبھی کبھی اس زیور کو چور لے جاتے ہیں یا کسی اور طریق سے تباہ ہو جاتا ہے- تو پھر اس سے بہتر کتا ہے کہ اس خدا کے لئے جس کی طرف عنقریب کوچ کرنا ہے- کوئی حصہ زیور کا خرچ کیا جائے- آخر یہ کام اسی جماعت نے کرنا ہے- اور دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہو سکتے وہ تو اَور خیالات میں مبتلاء ہیں-
سو اے مخلصو! خداتعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں کو قوت بخشے - خدا تعالیٰ نے آپ کو ثواب حاصل کرنے ٍٍٍاور امتحان میں صادق نکلنے کا یہ موقع دیا ہے- مال سے محبت مت کرو- کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ اگر تم مال کو نہیں چھوڑتے تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا- مسیح موعود کے لئے جو وہی مہدی آخر الزمان ہے- وہ پیشگوئیاں تھیں- ایک پیشگوئی آسمان کے متعلق تھی جو دعویٰ میں صادق ہونے کی نشانی تھی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا یعنے رمضان میں چاند کا پہلی رات میں اپنیخسوف کی راتوں میں گرہن لگنا اورسورج کا بیچ کے دن میں اپنے کسوف کے دنوں میں گرہن لگنا- دوسری پیشگوئی زمین کے متعلق تھی جو مسیح کے نازل ہونے کی نشانی تھی اور وہ یہ کہ دمشق کہ شرقی طرف ایک سفید منارہ انسانی ہاتھوں سے طیار ہونا- سو وہ پیشگوئی جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل ہے یعنے ہدایات اور برکات کی روشنی کا دُنیا میں پھیلنا٭ یہ اسی پر موقوف ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہو یعنے منارہ طیار ہو کر کیونکہ مسیح موعود کے لئے جو یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ نازل ہو گا- یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بغیر وسیلہ انسانی اسباب کے آسمان سے ایک قوت نازل ہو گی جو دلوں کو حق کی طرف پھیرے گی اور مراد اس سے انتشار روحانیت اور بارش انوار و برکات ہے- سو ابتداء سے یہ مقدر ہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جو نور اور یقین کے رنگ میں دلوں کو خدا کی طرف پھیرے گا- منارہ کی طیاری کے بعد ہو گا- کیونکہ منارہ اس بات کے لئے علامت ہو گا کہ وہ *** کی تاریکی جو شیطان کے ذریعہ دُنیا میں آئی ہے - مسیح موعود کے منارہ کے ذریعہ سے یعنے نور سے دنیا سے مفقود ہو اور منارہ بیضا کی طرح سچّایٔ چمک اُٹھے اور اونچی ہو- خدا کے بعض جسمانی کام اپنے اندر رُوحانی اسرار رکھتے یہں- پس جیسا کہ توریت کے رو سے صلیب پر چڑھنے والا رحمت سے حصّہ لے گا- اور یہ جو لکھا ہے کہ منارہ کے قریب مسیح کا نزول ہو گا- اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ اُسی زمانہ ہیں جبکہ منارہ طیار ہو جائے گا مسیحی برکات کا زور شورسے ظہور و بروز ہو گا- اور اسی ظہور وبروز کو نزول کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے- پس جو لوگ اس عظیم الشان سعادت سے حصّہ لیں گے یہ تو مشکل ہے کہ ان سب کے نام منارہ پر لکھے جائیں- لیکن یہ اقرار دیا گیا ہے کہ بہرحال چندمہاجرین کے مقابل پر ایسے تمام لوگوں کے نام لکھے جائیں گے جنہوں نے کم سے کم سو روپیہ منارہ کے چندہ میں داخل کیا ہو- اور یہ نام ان کے نام دراز کتبہ کے منارہ پر کندہ رہیں گے جو آیندہ آنے والی نسلوں کو دعا کا موقع دیتے رہیں گے-
وَالسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
فہرست اسماء چندہ دہندگان
نمبر
نام
نمبر
نام
۱
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی قادیان
۸
شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہائوس لاہور
۲
نواب محمد علی صاحب رئیس مالیر کوٹلہ
۹
محمد شادی جان صاحب چوب فروش سیالکوٹ (انہوں نے روپیہ ادا کر دیا)
۳
سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا ساجن کمپنی مدارس
۱۰
مولوی محمد علی صاحب ایم -اے ایل ایل بی قادیان (انہوں نے ایک سو روپیہ ادا کر دیا)
۴
سیٹھ احمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدارس
۱۱
حکیم محمد حسین صاحب مالک کارخانہ مرہم عیسیٰ لاہور
۵
سیٹھ علی محمد صاحب حاجی اللہ رکھا سواگر بنگلور
۱۲
مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست جہلم
۶
سیٹھ صالح محمد صاحب حاجی اللہ رکھا مدارس
۱۳
سیّد فضل شاہ صاحب ٹھکیدار لاہور
۷
سیٹھ والجی لالجی صاحب سوداگر مدارس
۱۴
سیدناصر شاہ صاحب اوورسیئر سڑک کشمیر مقام دومیل
نمبر
نام
نمبر
نام
۱۵
مرزا خدا بخش صاحب اہلکار ریاست مالیرکوٹلہ
۲۹
منشی اﷲ دتہ صاحب ٹیچر یورپینی سیالکوٹ
۱۶
مولوی ظہور علی صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدرآباد دکن
۳۰
منشی تاج الدین صاحب اکونٹنٹ ایگزیمنر آفس لاہور
۱۷
مولوی سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن
۳۱
ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن فاضلکار
۱۸
مولوی ابوالحمید صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدرآباد دکن
۳۲
ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن لکھنؤ
۱۹
مولوی میر مردان علی صاحب جنرل محاسب حیدر آباد دکن
۳۳
ڈاکٹر عبدالحکیم خانصاحب ایم ڈی اسسٹنٹ سرجن نارنول ریاست پٹیالہ
۲۰
منشی محمد نصیر الدین صاحب پیشکار ریونیو بورڈ حیدر آباد
۳۴
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحب ہاسپٹل اسسٹنٹ گڑھ شنکر
۲۱
مولوی میر محمد سعید صاحب مدرس مدرسہ سرکار نظام حیدر آباد دکن
۳۵
ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ ملک افریقہ
۲۲
مولوی غلام حسین صاحب سب رجسٹرار پشاور
۳۶
شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک ممباسہ افریقہ
۲۳
خواجہ کمال الدین صاحب بی -اے ایل ایل بی پشاور
۳۷
منشی نبی بخش صاحب کلرک ممباسہ افریقہ
۲۴
مولوی عزیز بخش صاحب بی اے ریکارڈ کیپر ڈیرہ غازی خاں
۳۸
منشی محمد افضل صاحب ٹھیکہ دار ممباسہ افریقہ
۲۵
خواجہ جمال الدین صاحب بی اے ہیڈماسٹر ہائی سکول کشمیر
۳۹
منشی محمد نواب خاں صاحب تحصیل دار جہلم
۲۶
میر حامد شاہ صاحب ڈپٹی کشمیر سپرنٹنڈنٹ ضلع سیالکوٹ
۴۰
شیخ غلام نبی صاحب سوداگر راولپنڈی
نمبر
نام
نمبر
نام
۴۱
حکیم فضل الدین صاحب قادیان
۵۷
مرزا فضل بیگ صاحب مختار بٹالہ
۴۲
زوجگان حکیم فضل الدین صاحب موصوف
۵۸
منشی محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار بٹالہ
۴۳
خلیفہ نور الدین صاحب تاجر جموں
۵۹
حکیم فضل الٰہی صاحب محلہ ستھاں لاہور
۴۴
میاں اﷲ دتہ صاحب تاجر جموں
۶۰
حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہور
۴۵
شیخ عبدالرحمن صاحب کلرک آف دی کورٹ ڈویزنل جج ملتان
۶۱
منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر سیالکوٹ
۴۶
منشی رستم علی خاں صاحب کورٹ انسپکٹر انبالہ
۶۲
صو فی کرم الٰہی صاحب گورنمنٹ پریس شملہ
۴۷
بابو محمد صاحب ہیڈکلرک محکمہ انہار چھائونی انبالہ
۶۳
حافظ محمد اسحاق صاحب سب اوورسیرلاہور لالیاں ضلع جھنگ
۴۸
قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکہ دار لدھیانہ
۶۴
شیخ محمد جان صاحب سوداگر وزیر آباد
۴۹
میاں نبی بخش صاحب سوداگر پشمینہ امرت سر
۶۵
شیخ محمد کرم الٰہی صاحب تھانہ دار بٹھنڈہ ریاست پٹیالیہ
۵۰
میر ناصر نواب صاحب پنشنر قادیان
۶۶
مفتی محمد صادق صا حب کلرک اکونٹنٹ جنرل پنجاب لاہور
۵۱
منشی عبدالعزیز صاحب کلرک محکمہ نہر جمن غربی دہلی
۶۷
شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان
۵۲
شیخ محمد اسمٰعیل صاحب ہیڈ ڈارفٹ مین محکمہ ریلوے دہلی
۶۸
شیخ چراغ الدین صاحب ٹھیکہ دار گجرات
۵۳
حکیم نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدم صاحب لاہور
۶۹
راجہ پایندہ خاں صاحب رئیس داراپورضلع جہلم
۵۴
میاں چراغ الدین صاحب ملازم پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ لاہور
۷۰
منشی محمد جان صاحب محرر جیل راولپنڈی برادر حقیقی منشی عبدالعزیز صاحب پٹوار ی
۵۵
چوہدری نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ
۷۱
ماسٹر شیر علی صاحب بی اے ہیڈ ماسٹر سکول ہیڈماسٹر سکول قادیان
۵۶
میاں معراج الدین صاحب عمر صاحب وارث میاں محمد سلطان صاحب رئیس لاہور
۷۲
منشی گلاب خاں صاحب نقشہ نویسی لنڈی کوتل
نمبر
نام
نمبر
نام
۷۳
شیخ عطا محمد صاحب سب اوورسیئر فورٹ سنڈیمن بلوچستان
۹۰
مستری احمد الدین صاحب بھیرہ
۷۴
بابو روشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر اٹک
۹۱
مولوی محمد اسمٰعیل تاجر پشمینہ امرتسر
۷۵
منشی عبدالعزیز صاحب سنوری پٹواری ماچھی واڑہ
۹۲
محمد ابراہیم صاحب ٹھکیدار ممباسہ- افریقہ
۷۶
منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور کپورتھلہ
۹۳
انوار حسین خانصاحب شاہ آباد ضلع ہر دوئی
۷۷
بابوشاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دومیلی
۹۴
سیّد تفضل حسین صاحب تحصیلدار ضلع متھرا
۷۸
مولوی صفدر حسین صاحب ڈسٹرکٹ انجینئر لنگور حیدر آباد دکن
۹۵
مولوی احمد جان صاحب پنشنرجالندھر
۷۹
منشی نبی بخش صا حب سٹور کیپر گورنمنٹ پریس شملہ
۹۶
منشی کرم بخش صاحب پنشنر محلہ راجاں لدھیانہ
۸۰
منشی امام الدین صاحب سب اوورسیئرواٹر ورکس راولپنڈی
۹۷
منشی عبد العزیز صاحب پٹواریس ساکن اوجلہ ضلع گوداسپور ( ایک سو روپیہ ادا کر دیا )
۸۱
شیخ نیاز احمد صاحب تاجر وزیر آباد ( ادا کر دیا ہے)
۹۸
مرزا اکبر بیگ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ملتان
۸۲
قاضی یوسف علی نعمانی پولیس افسرسنگرور
۹۹
حاجی مہدی صاحب بغدادی نزیل مدارس
۸۳
منشی عمر الدین صاحب لدھیانہ- کوٹھی
۱۰۰
مولوی غلام امام صاحب منی پور آسام
۸۴
محمد صدیق صاحب معہ پسران میاں جمال الدین صاحب امام الدین صاحب و خیر الدین صاحب سیکھواں
۱۰۱
مولوی محمد اکرم صاحب ساکن کملہ - مدرس مالیر کوٹلہ- ماسٹر قادر بخش لدھیانہ
۸۵
منشی محمد بخش صاحب ٹھیکدار ساکن کڑنوالہ گجرات
۸۶
مولوی خدا بخش صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ
۸۷
منشی شمس الدین صاحب کمپازیٹر گورنمنٹ پریس شملہ
۸۸
چودہری حاکم علی صاحب جلال پور جٹاں
۸۹
سردار فضل حق صاحب رئیس دھر مکوٹ بگہ
راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں - یکم جولائی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے چھ صفحہ پر ہے)
(۲۲۴)
نحمدہ نصلی
من اظلم ممّن افتریٰ علی اﷲ کذبًا او کذّب بٰایاتِہٖ
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
جو سخت مکذب ہیں اُن کے ساتھ ایک طریق فیصلہ
مع ان علماء کے جن کا نام ضمیمہ اشتہار ہذا میں درج ہے-٭
یہ صاحب جن کا نام عنوان میں درج ہے یعنی مہر علی شاہ صاحب ضلع راولپنڈی کے سجادہ نشینوں میں سے ایک بزرگ ہیں- وہ اپنے رسمی مشیخت کے غرور سے اس سلسلہ آسمانی کو مٹادیں- چنانچہ اسی غرض سے انہوں نے وہ کتابیں بھی لکھی ہیں جو اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ وہ علم قرآن اور حدیث سے کیسے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں- اور چونکہ ان لوگو ں کے خیالات بالکل پست اور محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے تمام ذخیرہ لغویات میں ایک بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتے جس کے اندر کچھ روشنی ہو- معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس دھوکہ میں پڑے ہو ئے ہیں کہ بعض حدیثوں میں لکھا کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا- حالانکہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے یا کسی آخری زمانہ میں جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوں گے- اگر لکھا ہے تو کیوں ایسی حدیث پیش نہیں کرتے- ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنے کرتے ہیں- خدا کی کتابوں کا یہ قدیم محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا- دیکھو انجیل یوحنا باب۱ آیت ۳۸پ اور اسی راز کی طرف اشارہ ہے سورہ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر میں اور نیز آیت ذکراً رسولاً میں- لیکن عوام جو جسمانی خیال کے ہوتے ہیں- وہ ہر ایک بات کو جسمانی طور پر سمجھ لیتے ہیں- یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ جیسے حضرت مسیح ان کے زعم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اُتریں گے- ایسا ہی ان کا یہ بھی تو عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر گئے تھے بلکہ اس جگہ تو ایک براق بھی ساتھ تھا- مگر کس نے آنحضرت ؐ کا چڑھنا اور اُترنا دیکھا- اور نیز فرشتوں اور براق کو دیکھا؟ ظاہر ہے کہ منکر لوگ معراج کی رات میں نہ دیکھ سکے کہ فرشتے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آسمان پر لے گئے- اور نہ اُترتے دیکھ سکے- اسی لئے انہوں نے شور مچا دیا کہ معراج جھوٹ ہے- اب یہ لوگ جو ایسے مسیح کے منتظر ہیں جو آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اُترتا نظر آئے گا یہ کس قدر خلاف سنت اﷲ ہے- سیّد الرسلؐ تو آسمان پر چڑھتا یا اُترتا نظر نہ آیا تو کیا مسیح اُترتا نظر آجائے گا- لعنۃ اﷲ علی الکاذبین- کیا ابوبکر صدیقؓ نے سیّد المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مع فرشتوں کے معراج کی رات میں آسمان پر چڑھتے یا اُترتے دیکھا؟ یا عمر فاروقؓ نے اس مشاہدہ کا فخر حاصل کیا- یا علیؓ مرتضیٰ نے اس نظارہ سے کچھ حصّہ لیا- پھر تم کون اور تمہاری حیثیت کیا کہ مسیح موعود کو آسمان سے مع فرشتوں کے اُترتے دیکھو گے-!! ٭ خود قرآن ایسی رویت کا مکذّب ہے-
سو اے مسلمانوں کی نسل ان خیالات سے باز آ جائو! تمہاری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوئے اور کسوف خسوف تم نے رمضان میں دیکھ لیا اور صدی میں سے بھی سترہ برس گذر گئے- کیا اب تک مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے مجدد پیدا نہ ہوا- خدا سے ڈرو اور ضدّ اور حسد سے باز آ جائو- اس غیور سے ڈرو جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے- اور اگر مہر علی شاہ صاحب اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو مَیں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے-
(۱) ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت ویجعل لکم فرقانا اس کی شاہد ہے-
(۲) ان کو علم معارف قرآن دیا جاتاہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا- جیسا کہ آیت لایسمہ الاالمطھرون اس کی شاہد ہے-
(۳) ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت ادعونی استجب لکم اس کی گواہ ہے- سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اور اس میں چالیس آیت یا ساری صورت ( اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقن یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دُعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اُس کو تُو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک رُوحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر٭ اور جو شخص ہم دونوںفریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اورتیرے نزدیک صادق نہیں ہے اُس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا معلوم لے-٭پھر اس دُعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع شروع کریں- اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگاراور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سُنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تااس کی فصیح عبارت اور معارف کے سُننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے- اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مُہلت دی جائے گی اور زانولکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں-ہر ایک فریق کو اختیار ہو کہ کہ اپنی تسلّی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہوں اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی- مگرایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں تفیسر کو گواہوں کے رو برو ختم کرنا ہو گا- اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا- سُنائی جائیں گی- اور ان ہرسہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر اور عبارت تائید رُوح القدس سے لکھی گئی ہے- اورضروری ہو گا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تیں اور مولوی منتخب کر یں جو اُن کے مُرید اور پیرو نہ ہوں-٭مگر ضروریہ ہو گا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاًاپنی رائے ظاہر کریں کہ کسی کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ اور تائیدالہٰی سے ہے- لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہیے جس کا ذکر قرآن میں قذف محسنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسکم کھانا ضروری ہے - اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں بیس ورق سے کم نہ ہو- اور ورق سے مراد اس کے اوسط درجہ کے تقطیع اورقلم کا ورق ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صد ہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں-٭ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عرنی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دیکھایا توتمام دنیا گواہ رہے کہ مَیں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میں مَیں یہ بھی اقرار کرتا ہوںکہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوے کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا- میری طرف سے یہی کافی ہے جس کو مَیں آج بہ ثبت شہادت بیس گواہاں کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی- نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقایق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو اس تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہ گا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کر دیں-
مَیں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اسی صورت میں متصور ہو گا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھیں سکیںاور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفریں کریں- کیونکہ مَیں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے- اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا- اور اگر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں جانتے یہں کہ وہ مومن اور مستجاب الداعوات ہیں تو وہ بھی ایسی دُعا کریں- اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی دُعا کو ہر گز قبول نہیں کرے گا- کیونکہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں-
غرض یہ طریق فیصلہ ہے جس سے تینوں علامتوں متذکرہ بالا جو صادق کے لئے قرآن میں ہیں ثابت ہو جائیں گی- یعنے فی البدیہہ عربی نویسی سے جس کے لئے بجز ایک گھنٹہ کے سوچنے کے لئے موقع نہیں دیا جائے گا-فریق غالب کا وہ مابہ الامتیاز ثابت ہو گا جس کا فرقان ہے- اور قرآنی معارف کے لکھنے سے وہ علامت مستحقق ہو جائے گی جو آیت لا یمسہ الا المطھرون کا منشاء رہے- اور دعا کے قبول ہونے سے جو پیش از مقابلہ فریقن کریں گے، فریقن غالب کا حسب آیت ادعونی استجب لکم مومن مخلص ہونا بپایہ ثبوت پہنچے گا- اور اس طرح پر یہ اُمّت تفرقہ سے نجات پا جائے گی- چاہیے کہ اس اشتہار کے وصول کے بعد جس کو مَیں رجسٹری کرا کر بھیجوں گا- مہر علی شاہ صاحب اس دن تک اپنی منظوری سے مجھے اطلاع دیں ٭ لیکن ضروری ہو گا کہ یہ اطلاع ایک چھپے ہوئے اشتہار کے ذریعہ سے ہو- جس پر میرے اشتہار کی طرح بیس معززلوگوں کی گواہی ہو اور بحالت مغلوبیت اپنی بیت کا اقرار بھی درج ہو-
یاد رہے کہ مقام بحث لاہور کے جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہو گا- اور ایک ہفتہ پہلے مجھے بذریعہ رجسٹری شدہ خط کے اطلاع دینا ہو گا یا اسی جگہ حاضر ہو جائوں- اگر مَیں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں مَیں کاذب سمجھا جائوں گا- انتظام مکان جلسہ پیر صاحب کے اختیار میں ہو گا- اگر ضرورت ہوئی ٭ تو بعض پولیس کے افسر بُلالئے جائیں گے-
ھٰزا ما ارانی ربیّ رب السمٰوات العلے نادعوک یا قرنی علیٰ بصیرۃ من ربیّ و لعنۃ اللّٰہ علیٰ من تخلّف منا اوابیٰ والسلام علیٰ من تبع الھدیٰ تعالو الیٰ کلمۃ سرابینا و بینکم واتقو اللّٰہ الذی یسمع و یریٰ
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــار
المشتھــــــــــر
مرزا غلام احمد از قادیان
۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء
گواہ شد ند
مولوی حکیم نور الدین صاحب - مولوی محمد احسن صاحب امروہوی- مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی- مولوی محمد علی صاحب ایم - اے- ایل ایل بی- مولوی حکیم فضل الدین صاحب بھیروی- مرزا خدا بخش صاحب مصاحب- نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ- حکیم شاہ نواز صاحب راولپنڈی- ماسٹر مولوی شیر علی صاحب بی- اے ہیڈماسٹر سکول تعلیم الاسلام قادیان- صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی- صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرساوی اولاد چار قطب- میر ناصر نواب صاحب گورنمنٹ پیشنر دہلوی حال قادیان- ماسٹر عبد الرحمن صاحب ایف - اے سیکنڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان- سیّد فضل شاہ صاحب ٹھکیدار - مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹندٹ ضلع جہلم- مولوی قطب الدین صاحب کمپونڈر شفاخانہ قادیان- مولوی محمد فضل صاحب چنگوی- مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری- مولوی حافظ احمد اللہ خانصاحب مدرس سکول قادیان- مولوی قاضی سیّد امیر حسین صاحب مدرس - شیخ عبد الرحیم صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڑ نگ قادیان
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان)
ضمیمہ اشتہار دعوت
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی
پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہزار ہا مرید اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم میں اور حقایق اور معارف دین میں اور علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں- اسی وجہ سے مَیں نے اس امتحان کے لئے پیر صاحب موصوف کو اختیار کیا ہے کہ تاان کے مقابلہ سے خدا تعالیٰ کا وہ نشان ظاہر ہر جائے جو اُن کے مرسلین اور مامورین کی ایک خاص علامت ہے- لیکن ممکن ہے کہ اس ملک کے بعض علماء ناحق شیخی سے یہ خیال کریں کہ ہم قرآن شریف کے جاننے اور زبان عربی کے علم ادب میں پیر صاحب موصوف پر فوقیت رکھتے ہیں- یا کسی آسمانی نشان کے ظاہر ہونے کے وقت یہ عذر پیش کردیں کہ پیر صاحب موصوف کا مغلوب ہونا ہم پر حجّت نہیں ہے اور اگر ہمیں اس مقابلہ کے لئے بُلایا جاتا تو ضرور ہم غالب آتے- اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان تمام بزرگوں کو بھی اس مقابلہ سے باہر نہ رکھا جائے اور خود ظاہر ہے کہ جس قدر مقابلہ کرنے والے کثرت سے میدان میں آئیں گے اسی قدر الہٰی نشان کی عظمت بڑی قوت سے سطوت سے ظہور میں آئے گی- اور یہ ایک ایسا زبردست نشان ہو گا کہ آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے گا اور ممکن ہے کہ اس سے بعض نیک دل مولویوں کو ہدایت ہو جائے اور وہ اسی الہٰی طاقت کو دیکھ لیں جو اس عاجزکے شامل حال ہے- لہذا اس ضمیمہ کے ذریعہ سے پنجاب اور ہندوستان کے تمام اُن مولویوں کو مَدعوّ کیا جاتا ہے جویہ خیال کرتے ہیں کہ وہ علم قرآن اور عربی کے علم ادب اور بلاغت فصاحت میں سر آمد روز گار ہیں- مگر شرائط ذیل کی پابندی ضروری ہو گی-
(۱) اس مقابلہ کے لئے پیر مہر علی صاحب کی بہر حالت شمولیت ضروری ہو گی- کیونکہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ علم اور قرآن دانی میں ان تمام مولویوں سے بزرک اور افضل ہیں- لہذا کسی دوسرے مولوی کو صرف اس حالت میں قبول کیا جائے جب پیر مہر علی شاہ صاحب اس دعوت کو قبول کر کے بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے شائع کر دیں- کہ مَیں مقابلہ کے ل طیار ہوں٭ یا مقابلہ کرنے والے علماء کی ایک ایسی جماعت پیش کریں جو چالیس سے کم نہ ہو - ہاں ضروری ہو گا کہ دوسرے مولوی صاحبوں کے لئے وقت اور گنجائیش نکالنے کے لئے پیر صاحب موصوف مباحثہ کے لئے ایک مہینے سے کم تاریخ مقرر نہ کریں تا اس مدّت تک باور کرنے کی وجہ پیدا ہو جائیکہ ان تمام مولویوں کو پیر مہر علی شاہ صاحب کے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد پیر صاحب موصوف دس دن کے اندر اس دعوت کے قبول کے بارے میں ایک عام اشتہار شائع کر دیں- اور بہتر ہو گا کہ پانچ ہزار کاپی چھپوا کر بذریعہ چند نامی مولوی صاحبان پنجاب وہندوستان میں اس معرکہ مباحثہ کی عام شہرت دے دیں-
(۲) دوسری شرط یہ ہو گی کہ مقال مباحثہ لاہور ہو گا جو صدر مقام پنجاب ہے اور تجویز نکان پیر صاحب کے ذمّہ ہو گی- لیکن اگر وہ اپنے اس اشتہار میں جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے تجویز مکان اپنے ذمہ نہ لیں تو پھر یہ تجویز میرے ذمہ ہو گی اور کچھ حرج نہیں تمام کرایہ مکان مباحثہ مَیں ہی دوں گا-
ّ(۳) تیسری شرط یہ ہے کہ بحث صرف ایک دن میں ہی ختم ہو جائے گی اور ہر ایک شخص مقابل کر سات گھنٹے تک لکھنے کے لئے مہلت ملے گی-
(۴) چوتھی یہ شرچ ہے کہ جس قدر اس مقابلہ کے لئے مولوی صاحبان حاضر ہوں گے اُن کے لئے جائز نہ ہو گا کہ ایک دوسرے کو کسی قسم کی مدد دیں- نہ تحریر سے نہ تقریر سے نہ اشارات سے بلکہ ضروری ہو گا کہ ایک صاحب ایک مناسب فاصلہ پر ایک ایک دوسرے سے دُور ہو کر بیٹھیں اور ایک دوسرے می تحریر کو نہ دیکھیں- اور جو شخص ایسی حرکت کرے وہ کمرہ مقابلہ سے فی الفور نکال دیا جائے گا- اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب اپنے ہاتھ سے ہی لکھے- ہر گز جائز نہیں ہو گا کہ آپ بولتاجائے اور دوسرا لکھتا جائے کیونکہ اس صورت میں اقتباس سے استراق کا اندیشہ ہے-
(۵) ضروری ہو گا کہ ہر ایک صاحب جب اپنے مضمون کو تمام کر لیں جو کم سے کم حسب ہدایت اشتہار ہذا بیس ورق کا ہو گا جس میں کوئی عبارت اردو کی نہیں ہو گی بلکہ خالص عربی ہو گی تو اس کے نیچے اپنے پوری دستخط کریں اور اسی وقت ایک ایک نقل اس کی مع دستخط اور نیز مع ایک تصدیقی عبارت جو بدیں مضمون ہو کہ نقل ہذا مطابق اصل ہے- اس عاجز کے حوالہ کر دیں- اور یہ میرا بھی فرض ہو گا کہ مَیں بھی بعد اخذ تمام نقول کے ایک نقل اپنی تحریر بعد ثبت دستخط پیر مہر علی صاحب کو دے دوں٭ یہ میرے ذمہ نہیں ہو گا کہ ہر ایک پیر صاحب کو ایک ایک نقل دوں کیونکہ اس تھوڑے سے وقت میں ایسا ہونا غیر ممکن ہے- کہ مَیں مثلاً پچاس مولویوں کے لئے پچاس نقلیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر دوں- ہاں ہر ایک مولوں صاحب کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے لئے ایک ایک نقل میرے مضمون کی پیر مہر علی شاہ صاحب سے لے کر خود لکھ لیں- مگر یہ اس وقت ہو گا کہ جب اپنے مضمون کی نقل مجھے دے چکیں -
(۶) ہر ایک شخص اپنا اپنا مضمون بعد لکھنے کے آپ سُنائے گا یا اختیار ہو گا کہ جس کو وہ پسند کرے وہ سُنا دے-
(۷) اگر سُنانے کے لئے وقت کافی نہیں ہو گا تو جائز ہو گا کہ وہ مضمون دوسرے دن سُنایا دیا جائے - مگر یہ ضروری شرط ہو گی کہ سُنانے سے پہلے اسی دن اور اسی وقت جبکہ وہ بالمقابل تحریر ختم کر چکے ہوں ایک نقل بعد ثبت دستخط مجھ کو دے دیں اور جائز نہیں ہو گا کہ نقل دینے کے بعد اس مضمون پر کچھ زیادہ کریں یا اصلاح کریں اور سہوونسیان کا کوئی عذر سُنا نہیں جائے گا- اور اس شرط کا ہم میں سے ہر ایک پابند ہو گا-
(۸) تمام مضامین کے سُنانے کے بعد تین مولوی صاحبان جن کو پیر مہر علی شاہ صاحب تجویز کریں گے اس قسم کے تین مرتبہ کے حلق کے ساتھ جو قذف محسنات کے بارے میں قرآن شریف میں مندرج ہے اپنی رائے ظاہر کریں گے کہ کیا یہ تمام مولوی صاحبان مقابل میں غالب رہے یا مغلوب رہے اور وہ رائے منطبع ہو کر وہی آخری فیصلہ ہمرا اور ہمارے اندرونی مخالفوں کا قطعی طور پر قرار دیا جائے گا- ٭
(۹) نویں شرط یہ ہے کہ اگر الہٰی رُعب کے نیچے آ کر پیر مہر علی شاہ صاحب اس مقابلہ سے ڈر جائیں اور دل میں اپنے تئیں کاذب اور ناحق پر سمجھ کرگریز اختیار کر لیں تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہو گا کہ دوسرے مولویوں میں سے صرف ایک یا دو شخص مقابلہ کا اشتہار دیں کیونکہ ایسا مقابلہ بے فائدہ اور محض تضیع اوقات ہے- وجہ یہ کہ بعد میں دوسرے مولویوں کے لئے یہ عذر بنا رہتا ہے کہ مقابلہ کرنے والے کیا چیز اور کیا حقیقت تھے یا جاہل اور بے علم تھے- لہذا یہ ضروری ہو گی کہ اس حالت میں جبکہ پیر مہر علی شاہ صاحب اپنے مریدوں کو دریائے ندامت میں ڈال کر بھاگ جائیں اور اپنے لئے کنارہ کشی کا داغ قبول کر لیں تو کم سے کم چالیس نامی مولویوں کا ہونا ضروری ہے جو میدان میں آنے کی درخواست کریں اور ہمیں منظور ہے کہ وہ ان میں سے ہوں جن کے نام ذیل میں لکھے جائیں گے یا اسی وجہ سے اور مولویں صاحبان باہم مل کر اشتہار دیں جو چالیس سے کم نہ ہوں اور اس صورت میں ان سے بپابندی شرائط مذکور بالا مقابلہ کیا جائے گا-
(۱۰) اگر اشتہار ہذاکے شائع ہو نے کے تاریخ سے جو ۲۲ جولائی ۱۹۰۰ء ہے ایک ماہ تک نہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اس میدان میں حاضر ہونے کے لئے کوئی اشتہار نکلا اور نہ دوسرے مولویوں کے چالیس کے مجمع نے کوئی اشتہار دیا تو اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اُن سب کے دلوں میں رُعب ڈال کر ایک آسمانی نشان ظاہر کیا کیونکہ سب پر رُعب ڈال کر سب کی زبان بند کر دینا اور ان کی شیخیوں کو کچل ڈالنا یہ کام بجز الہٰی طاقت کے کسی دوسرے سے ہر گز نہیں ہو سکتا- وتلک عشرۃ کاملۃ من الاشراط التی ارد ناذکرھا- اب مَیں ذیل میں ان حضرات صاحبان کے نام لکھتا ہوں جو اس مقابلہ کے لئے بشرط شمولیت پیر مہر علی شاہ صاحب یا بشرط مجمع چالیس بُلائے گئے ہیں- اور اگر ان کے سوا اہل پنجاب اور ہندوستان میں سے یا اُن عربوں میں سے جو نزیل برٹش انڈیا ہوں اس ملک کے کسی گوشہ میں اور مولوی صاحبان موجود ہوں جو مکذّب موصوفین کے نام یہ ہیں-
(۱) مولوی محمد صاحب لدھیانہ (۸) مولوی غلام حسن صاحب سیالکوٹ
(۲) مولوی عبدالعزیز صاحب برادر (۹)مولوی محمد خلیل احمد صاحب
مولوی محمد صاحب لدھیانہ انھیٹہ ضلع سہارنپور
(۳) مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ (۱۰) مولوی شاہ محمد حسین صاحب
(۴) مولوی مشتاق احمد صاحب صابری محب الٰہی سنبل مراد آباد
انبھنیٹوی مدرس لودھیانہ (۱۱)مولوی نذیر احمد خان صاحب دہلوی
(۵) مولوی شاہد ین صاحب مفتی لودھیانہ سابق ڈپٹی کلکٹر پنشنر سرکار نظام
(۶) مولوی معظم الدین صاحب (۱۲) مو لوی عبداللطیف صاحب امروہی
مرولہ والہ ضلع شاہ پور لوٹ مومن مدرس مدرسہ اودے میواڑ- راجپوتانہ
(۷) مولوی عبد اللہ صاحب چکٹرانوی (۱۳) مولوی ولی محمد صاحب جالندھری
معرفت میاں مٹھو صاحب ساکن لاہور ساکن پتارہ
(۱۴) قاضی عبدالقدوس صاحب چھائونی بنگلور (۲۷) مولوی محمد حسین صاحب تحصیل چکوال
(۱۵) مولوی شیخ عبداﷲ صاحب ساکن چک عمر تحصیل چکوال موضع بھین ضلع جہلم
ضلع گجرات تحصیل کھاریاں (۲۸) مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری
(۱۶)مولوی محمد حسن صاحب مفسر ساکن (۲۹) مولوی کلیم اﷲ صاحب مچھیانہ- گجرات
امروہہ محلہ ملانا - ضلع مراد آباد (۳۰) مولوی محمد اسحاق صاحب اجراوری
(۱۷) مولوی عبدالغفار صاحب مفتی پٹیالہ
ریاست گوالیر (۳۱) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی
(۱۸) مولوی عبدالعزیز صاحب محلہ کہڈہ یا جس مولوی وہ اپنا وکیل کریں
کرانچی (۳۲) مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی
(۱۹) مولوی احمد حسن صاحب مدرس (۳۳) مولوی کرامت اﷲ صاحب دہلوی
مدرسہ پانواڑی امروہہ- ضلع مراد آباد محلہ باڑہ - بازار صدر
(۲۰) مولوی قاسم شاہ صاحب سیفی (۳۴) مولوی فضل الدین صاحب گجرات پنجاب
مجتہد لاہو ر (۳۵)مولوی عبدالوہاب صاحب امام مسجد
(۲۱) مجتہد صاحب لکھنؤ صدر دہلی
(۲۲) مولوی عنایت علی صاحب شیعی (۳۶) علماء ندوہ لکھنؤ جس عالم کو اپنا وکیل کریں
سامانہ ریاست پٹیالہ (۳۷)مولوی منشی سلیمان صاحب ملازم
(۲۳) مولوی سکندر صاحب شہر میسور ریاست پٹیالہ- مولف غایت المرام
(۲۴) مولوی لطف اﷲ صاحب قاضی (۳۸)مولوی مسیح الزمان صاحب شاہجہانپور
القضاۃ حیدر آباد یا جو عالم شاہجہانپور کا ہو
(۲۵) مولوی نذیر حسین صاحب انبھیٹہ سہارنپور (۳۹) مولوی محمد صدیق صاحب دیوبندی
(۲۶) مو۸لوی عبداﷲ صاحب سجادہ نشین حال مدرس بچھرایوں- مراد آباد
گڑھی پٹھانونکی- ضلع راولپنڈی (۴۰) مولوی محمد شفیع صاحب قصبہ رامپور
ضلع سہارنپور (۵۴) مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر
(۴۱)مولوی محمد شبلی صاحب نعمانی سابق حمایت اسلام
پروفیسر علیگڑھ کالج (۵۵) مولوی محمد بشیر صاحب بھوپال
(۴۲) مولوی دیدار علی صاحب ریاست (۵۶) مولوی عبد الجبار صاحب امرتسر
انور مسجد دائرہ (۵۷) مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر
(۴۳)شیخ خلیل الرحمن صاحب سرساوہ (۵۸) مولوی رسل بابا صاحب امرتسر
سہارنپور سجادہ نشین چار قطب ہانسوی (۵۹) مولوی عبد الحق صاحب مفسر تفسیر
(۴۴) مولوی نظام الدین صاحب قاضی حقانی دہلی
مالیرکوٹلہ (۶۰) مولوی عبد الحق صاحب امرتسر
(۴۵) شیخ اﷲ بخش صاحب تونسوی سنگھڑ (۶۱) مولوی عبد الواحد صاحب امرتسر
مع جماعت علماء (۶۲) مولوی منہاج الدین صاحب کوٹ (۴۶) مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی پروفیسر (۶۳) مولوی احمد صاحب ساکن سکندر پور ہزارہ
(۴۷) قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر (۶۴) مولوی احمد صاحب ساکن سکندر پور ہزارہ
(۴۸) مولوی عبدالحکیم صاحب پروفیسر (۶۵)قاضی امیر عالم صاحب ساکن
(۴۹) مولوی عبداﷲ صاحب ساکن جلو سکندر پور ہزارہ
خلیفہ پیر مہر شاہ صاحب گولڑوی (۶۶) مولوی رشید احمد صاحب کنگوہ
(۵۰) مولوی غلام محمد صاحب چکوال جہلم ضلع سہارنپور
(۵۱) مولوی ابراہیم صاحب آرہ (۶۷) مولوی الطاف حسین صاحب
(۵۲) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عالی پانی پتی
(۵۳)مولوی شیخ حسین صاحب عرب (۶۸) مولوی ابولخیر نقشبندی خانقاہ
یمانی - بھوپال حضرت مرزا مظہر جانجاں صاحب ٍٍ خالص دہلی
(۶۹) مولوی احمد علی صاحب واعظ سابق (۷۹) مولوی عبد السمیع صاحب راہپوری
مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور حال مدرسہ حال ملازم شیخ الہٰی بخش صاحب
اسلامیہ میرٹھ رئیس میرٹھ
(۷۰) مُلاّ مانکی صاحب نوشہرہ- پشاور ( ۸۰)مولوی محمود حسن صاحب مدرس اوّل
صابری دہلی جامع مسجد مدرسہ دیو بند
(۷۱) مولوی عبد المنان صاحب وزیر (۸۱) مولوی احمد حسن صاحب کنج پوری صابری
آبادی جس عالم بینا کو منتخب فرما ویں دہلی جامع مسجد
(۷۲) قاضی سلطان محمود صاحب آئی آوان (۸۲) مولوی احمد حسن صاحب ایڈیٹر
گجرات اخبار شحنہ ہند- میرٹھ
(۷۳) مولوی غلام محمد صاحب بگہ والہ مسجد (۸۳) مولوی عبد الخالق صاحب جہاں شای لاہور خیلاں ضلع ہوشیار پور
(۷۴)مولوی محمد زکریا صاحب انجمن حمایت (۸۴) مولوی عبد الرحمن صاحب
اسلام لاہور یا جس مولوی صاحب کو انجمن تجویز کرے چھوہردی ضلع ہزارہ
(۷۵)مولوی غلام محمد صاحب ملازم انجمن نعمانیہ لاہور (۸۵) مولوی فقیر محمد عزیز صاحب تر
(۷۶) مولوی غازیخانصاحب گولڑہ راولپنڈی نواہ ضلع ہزارہ
(۶۷) مولوی غلام رسول صاحب قطب ال- گوجر خاں(۸۶) شیخ نظام الدین صاحب
(۷۸)مولوی مفتی غلام محی الدین گڑھا ڈاکخانہ ڈومیلی سجادہ شاہ نیاز صاحب خاص بریلی
المشتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہر
خاکســـــــــــــــــــــــــــــــار
مرزا غلام احمد از قادیان - ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء اسلام پریس قادیان ـ
یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۸ کے ۱۴ صفحہ پر ہے)
(۲۲۵)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی
اربعین نمبر او ّل
آج مَیں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں-٭ تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو مَیں نے پورا کیا- سو اب مَیں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتاہوں کہ مَیں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دُنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہے- انہی معنوں سے مَیں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دُنیا میں پھیلائوں- میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اُٹھائی جائے اورمذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں اور مَیں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بردباری اور حلم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلائوں - مَیں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دُنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے- مَیں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر - مَیں صرف اُن باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے- انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے- اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول -
میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرّک یہ ہے کہ مَیں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیںگے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے- وہ ہیرا کیا ہے؟ سچّا خدا- اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچّا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا- پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ مَیں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور مَیں عیش کروں- یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوگا- میرا دل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے- ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے- مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعداد پُر ہو جائیں-
ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنے نوع سے محبت کرتی ہے یہانتک کہ چیونٹیاں بھی- اگر کوئی خود غرضی حائل نہ ہو- پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ محبت کرے- سو مَیں نوعِ انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتاہوں- ہاں ان کی بدعملیوں اور ہر ایک قسم کے ظلم اور فسق اور بغاوت کا دشمن ہوں- کسی ذات کا دشمن نہیں- اس لئے وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے- وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں- اور یہ امر کہ وہ مال جو مجھے ملا ہے وہ حقیقت میں از قسم ہیرا اور سونا اور چاندی ہے کوئی کھوٹی چیزیں نہیں ہیں- بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ان تمام درہم اور دینار اور جواہرات پر سلطانی سکّہ کا نشان ہے یعنی وہ آسمانی گواہیاں میرے پاس موجود ہیں جو کسی دوسرے کے پا س نہیں ہیں- مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں دین اسلام ہی سچا ہے- مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے- مجھے سمجھایا گیا ہے تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیّدنا و مولانا مصطفیٰ صلے اللہ و علیہ وسلم ہیں- اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے- کہ مَیں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی موعود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں- یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا- اور پھر خدا نے اپنے بلاواسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو- غرض میرے ان ناموں پر تین گواہ ہیں- میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے- مَیں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ مَیںاس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے- اگر آسمانی نشانوں میںکوئی میرا مقابلہ کر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر دعائوں کے قبول ہونے کے کوئی میرے ہم پلّہ ٹھیر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلّہ ٹھیر سکے تو مَیں جھوٹا ہوں- اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو مَیںخدا کی طرف سے نہیں ہوں-
اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سیّدنا و سیّد الوریٰ محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئییا کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا- مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گذرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروئوں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے- بجز اسلام وہ مذہب کہا ں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں- اگر انسان ایسے مذہب کا پیرو ہو جس میں آسمانی ذرائع کی کوئی ملاوٹ نہیں تو و اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی رُوح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو- اور میںصرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتاہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچّی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا- مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے- اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے- اور یاد رکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے- پس یہ اسلامی حقیقت اور میری حقانیت کی زندہ دلیل ہے-
ختم اہوا پہلا نمبر اربعین کا-
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیان
۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء
(۲۲۶)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
عام لوگوں کو اس بات کی اطلاع کہ
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے
میری دعوت کے جواب میں کیا کاروائی کی
ناظرین آپ لوگ میرے اشتہار کو پڑھ کر دیکھ یں کہ مَیںنے پیر مہر علی شاہ صاحب کو یہ لکھا تھا کہ مجھ سے اس طرح پر فیصلہ کر لیںکہ بطور قرعہ اندازی کے قرآن شریف میں سے ایک ایک سُورۃ لی جائے اور اگر وہ سورہ چالیس آیت سے زیادہ ہو تو اس میں سے صرف چالیس آیت سورۃ کے ابتداء سے لی جائیں- اور پھر میں اور پہر مہر علی شاہ صاحب بغیر کسی دوسرے کے اس سورہ کی عربی تفسیر لکھیں اور جو شخص اس طرح غالب قرار پاوے کہ تین گواہ جو وہ بھی پیر مہر علی شاہ صاحب کے فریق مغلوب اپنے تئیں کاذب سمجھ للے اور اپنے کذاب کا اقرار شائع کر دے اور اس طرح یہ روز کا جھگڑا جو دن بدن موجب تفرقہ ہے فیصلہ پا جائے گا- کیونکہ اس سخت مشکل کام میں کہ فصیح عربی میں قرآن شریف کی تفسیر چند گھنٹہ میں بغیر کسی مدد کسوی دوسرے شخص اور کتاب کے لکھیں- درحقیقت یہ ایسا کام ہے جوبجز تائید رُوح القدس ہر گز انجام پذیر نہیں ہو سکتا- اگر پیر صاحب اس طریق کا فیصلہ منظور کر لیتے تو اُن کے لئے بہت بہتر تھا کیونکہ وہ اہل علم بھی کہلاتے ہیں اور اُن کے مرید ان کو قطب اور صاحب دلایت بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے منظور نہ کیا اور چونکہ کھلے کھلے انکار میں ان کی علمیّت اور قطبت پر داغ لگتا تھا اس لیے ایک چال بازی کی راہ اختیار کر کے یہ حجت پیش کر دی کہ آپ کے شرائط منظور ہیں- مگر اوّل قرآن و حدیث کے رُو سے تمہارے عقائد کی نسبت بحث ہونی چاہیے- پھر اگر مولوی محمد حسین بٹالوں اور ان کے ساتھ کے دو اَور آدمیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ تم اس بحث میں حق پر نہیں ہو تو تمہیں میری بیعت کرنی پڑے گی- پھر اس کے بعد تفسیر لکھنے کا بھی مقابلہ کر لینا- اب ناظرین خوط سوچ لیں کہ انہوں نے اس طرز کے جواب میں میری دعوت کو قبول کیا یا ردّ کیا- مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کا ٹھٹھا اور ہنسی ہے کہ ایسے عقائد کے بحثوں میں جن میں ان کو خود معلوم ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی سب سے اوّل مخالف شخص ہے اُس کی رائے پر فیصلہ چھوڑتے ہیں- حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مجھے سچّا قرار دینا گویا اپنی قدیم مخالفت کو چھوڑنا ہے- ہاں اعجازی مقابلہ پر اس کی قسم کا مدار رکھا جاتا تو یہ صورت اَور تھی کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ خد اتعالیٰ ایک معجزہ کے طور پر ایک فریق کی تائید کرتا تو محمد حسین کیا بلکہ صد ہا انسانوں بے اختیار بول اُٹھتے کہ خدا نے اپنے رُوح القدس سے اس شخص کی مدد لی کیونکہ اس قدر انکشاف حق کے وقت کسی کی مجال نہیں جو جھوٹی قسم کھا سکے ورنہ منقولی مباحثات میں تو عادتاً ایک کو دن طبع اپنے تئیں سچ پر سمجھتا ہے- اور قسم بھی کھا لیتا ہے-
ماسوا!اس کے پیر صاحب کویہ بھی معلوم ہے کہ میں رسالہ انجام آتھم میں شائع کر چکا ہوں کہ آیندہ مَیں منقولی بحثیں ان علماء سے نہیں کروں گا- اور پھر کیونکہ ممکن ہے کہ مَیں اس عہد کو توڑ دوں- اور پیر صاحب کی جماعت کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ گندی گالیوں کے کارد میرے نام ڈاک کے ذریعہ سے بھیجے جاتے ہیں- ایسی گالیاں کہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چوہڑہ یا چمار بھی زبان پر نہیں لا سکتا- پہلے میرا ارادہ تھا کہ پیر صاحب کا یہ گمان باطل بھی توڑنے کے لئے کہ گویا نصوص قرآنیہ اور حدثیہ کی رو سے کچھ بحث کر سکتے ہیں اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج دوں- اور اگر حبی فی اللہ فاضل جلیل القدر مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی پیر صاحب کے ساتھ بحث کرنا قبول فرماتے تو اُن کا فخر تھا کہ ایسے سیّد بزرگو محدّث اور فقیہ نے اپنے مقابلہ کے لئے اُن کو قبول کیا- مگر افسوس کہ سیّد صاحب موصوف نے جب دیکھا کہ اس جماعت میں ایسے گندے لوگ موجود ہیں کہ گندی گالیاں اُن کا طریق ہے تو اس کو مشتے نمونہ ازخروارے پر قیاس کر کے ایسی مجلسوں میں حاضر ہونے سے اعراض بہتر سمجھا- ہاں مَیں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے لئے بطور تحفہ ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام مَیں نے تحفہ گولڑویہ رکھا ہے جب پیر صاحب موصوف اس کا جواب لکھیں گے تو خود لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دلائل کیا ہیں اوران کا جواب کیا- اب ہم اپنے اس اشتہار کے مقابل پر جو بنا اس دعوت کی ہے- پیر مہر علی شاہ صاحب کا اشتہار لکھ دیتے ہیں - ناظرین خود فیصلہ کر لیں کہ آیا ان کا جواب نیک نیتی اور حق پژدہی کی راہ سے ہے یا شطرنج کے کھیلنے والے کی طرح ایک چال ہے- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پیر مہر علی شاہ صاحب کے توجہ دلانے کے لئے آخری
حیلہ
ناظرین کو خوب یاد ہو گا کہ مَیںنے موجودہ تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہم دونوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے ایک قرآنی سورہ لے کر عربی فصیح یا بلیغ میں اس کی ایسی تفسیر لکھیں جو قرآنی علوم یا حقایق اور معارف پر مشتمل ہو اور پھر تین کس مولوی صاحبان جن کا ذکر پہلے اشتہار میں درج ہے- قسم کھا کر ان دونوںتفسیروں میں ایک تفسیر کوترجیع دیں کہ اس عربی نہایت عمدہ اور اس کے معارف نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں- پس اگر پیر صاحب کی عربی کو ترجیح دی گئی تو مَیںسمجھ لوں گا کہ خدا میرے ساتھ نہیں ہے تب ان کے غلبہ کا اقرار کروں گا اور اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اور اس طرح پر فتنہ جو ترقی پر ہے فرد ہوجائے گا- اور اگر مَیں غالب رہا تو پھر میرا دعویٰ مان لینا چاہیے- اب ناظرین خود سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح سے بڑی صفائی سے فیصلہ ہو سکتا تھا- اور پیر صاحب کے لئے مفید تھا کیونکہ قسم کھانے والا جس کے فیصلہ پر حصر رکھا گیا تھا وہ مولوی محمد حسین بٹالوی ہے اور دواُن کے اَور رفیق تھے-مگر پیر صاحب نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اس کے جواب میں یہ اشتہار بھیجا کہ پہلے نصوص قرآنیہ حدیثیہ کے رو سے مباحثہ ہونا چاہیئے اور اس مباحثہ کے حکم وہی مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے دو رفیق تھے- اگر وہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ اس مباحثہ میںپیر مہر علی شاہ صاحب جیت گئے تو اسی وقت لازم ہو گا کہ مَیں ان کی بیعت کر لوں- پھر بالمقابل تفسیر بھی لکھوں- اب ظاہر ہے کہ اس طرح جواب میں کیسی چال بازی سے کام لیا گیا ہے مُنہ سے تو وہ میری تمام شرطیں منظور کرتے یہں مگر تفسیر لکھنے کے امر کو ایک مکر سے ٹال کر زبانی مباحثہ پر حصر کر دیا ہے اور ساتھ ہی بیعت کی شرط لگا دی ہے- بہت زور دیا گیا مگر اُن کے مُنہ سے اب تک نہیں نکلا کہ ہاں مجھے بغیر زیادہ کرنے کسی اور شرط کے فقط بالمقابل عربی میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور باایں ہمہ ان کے مرید لاہور کے کوچہ وبازار میں مشہور کر رہے ہیں کہ پیر صاحب نے شرطیں منظور کر لی تھیں- اور مرزا ان سے خوف کھا کر بھاگ گیا- یہ عجیب زمانہ ہے کہ اس قدر مُنہ پر جھوٹ بولا جاتا ہے پیر صاحب کا وہ کونسا اشتہار ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مَیں کوئی زیادہ شرط نہیں کرتا- مجھے بالمقابل عربی فصیح میں تفسیر لکھنا منظور ہے اور اسی فریقین کے صدق و کذب کا فیصلہ ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی شرط زائد نہیں لگائی جائے گی- ہاں مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ شرطیں منظورہے اور اسی فریقین کے صدق وکذب کا فیصلہ ہو گا اور اس کے ساتھ کوئی شرط زائد نہیں لگائی جائے گی- ہاں مُنہ سے تو کہتے ہیںکہ شرطیں منظور ہیں- مگر پھر ساتھ ہی یہ حجت پیش کر دیتے ہیں کہ پہلے قرآن اور حدیث کے رُو سے مباحثہ ہو گا- اور مغلوب ہو گئے اسی وقت بیعت کرنی ہو گی- افسوس کہ کوئی صاحب پیر صاحب کی اس چال کو نہیں سوچتے کہ جبکہ مغلوب ہونے کے حالت میں کہ صرف مولوی محمد حسین کی قسم سے سمجھی جائے گی میرے لئے بیعت کرنے کا قطعی حکم ہیجس کے بعد میرا عذر نہیں سنایا جائے گا- تو پھر تفسیر لکھنے کے لئے کونسا موقع میرے لئے باقی رہا-گویا مجھے تو صرف مولوی محمد حسین صاحب کے ان چند کلمات پر بیعت کرنی پڑے گی کہ جو پیر صاحب کے عقائد میں وہی صحیح ہیں گویا پیر صاحب آپ ہی فریق مقدمہ اور آپ ہی منصف بن گئے- کیونکہ جبکہ مولوی محمد حسین صاحب کے عقائد حضرت مسیح اور مہدی کے بارے میں بالکل پیر صاحب کے مطابق ہیں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب اور پیر صاحب گویا ایک شخص ہیں، دو نہیں تو پھر فیصلہ کیاہوا- انہی مشکلات اور انہی وجود پر تو مَیں نے بحث سے کنارہ کر کے یہی طریق فیصلہ نکالا تھا جو اس طرح پر ٹال دیا گیا- بہر حال اب مجھے معلوم ہوا کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا- اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں بلکہ پیر صاحب خود بھاگ گئے ہیں- اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور انہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے- اور مَیں بہرحال لاہور پہنچ جاتا- مگر مَیں نے سُنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں-اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستون کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے - تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے- ان لوگوں کا جوش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بعض کارڈ گندی گالیوں کے ان لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں جو چوہڑوں چمارون کی گالیوں سے بھی فحش گوئی میں زیادہ ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں- بعض تحریروں میں قتل کی دھمکی دی ہے- یہ سب کاغذات حفاظت سے رکھے گئے ہیں- مگر باوجود اس کے اس درجہ کی گندہ زبانی کو ان لوگوں نے استعمال کیا ہے کہ مجھے امید نہیں کہ اس قدر گندہ زبانی ابوجہل نے آنحضرت صلے اللہ وعلیہ وسلم کے مقابل پر یا فرعون کے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے مقابلے پر دکھلائی ہو- پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیّت کو درست کر لیا ہے اور سیدھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل پر عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیںبہرحال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تفسیر لکھنے میں ہو گا لاہور میں اپنے تئیں پہنچائوں گا صرف دو امر کا خواہشمند ہوں جن پر لاہور میں میر ا پہنچنا موقوف ہے- (۱)اوّل یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی پیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کردیں جس پر پانچ لاہور کے معّزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ مَیں نے قبول کر لیا کہ مَیں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف لکھوں گا اور (۱) پہلے اس طرف پر قرعہ اندازی کی جائے گی کہ تمام قرآنی سُورتوں کے متفرق پرچوں پر نام لکھ کر فریقین میں سے ایک فریق کی جھولی میںڈال دیئے جائیں گے اور وہ فریق ان پرچوں پر نام لکھ کر فریقین میں سے ایک فریق کی جھولی میں ڈال دئیے جائیں گے اور وہ فریق ان پرچوں کو پوشیدہ رکھے گا اور دوسرا فریق اس جھولی میں ہاتھ ڈال کر ایک پرچہ نکال لے گا اور اس پرچہ کی سورۃ اگر بہت لمبی ہو گی تو اس میں اسے چالیس آیت تک یا پوری سورۃ اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو تفسیر لکھنے کے لئے اختیار کی جائے گی- (۲)فریقین کا اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے ایک دوسرے کی بخوبی تلاشی لے لیں تا کہ کوئی پوشیدہ کتاب ساتھ نہ ہو اور یہ امر موجب رنج نہ سمجھا جائے گا- (۳)اگر کوئی فریق کسی ضروری حاجت کے لئے باہر جانا چاہے تو دوسرے فریق کا کوئی نگرانی کرنے والا اس کے ساتھ ہو گا اور وہ تین آدمی سے زیادہ نہ ہوں گے (۴)ہر گزجائز نہ ہو گا کہ تفسیر لکھنے کے وقت کسی فریق کو کوئی دوسرا مولوی مل سکے بجز کسی ایسے نوکر کے جو مثلاً بانی پلانا چاہتا ہے اور فی الفور خدمت کے بعد واپس جانا ہو گا- (۵)فریقین ایک دوسرے کے مقابل دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر بیٹھیں گے اس سے زیادہ دُوری نہیں ہو گی تا وہ دونوں ایک دوسرے کے حالات کے نگران رہ سکیں- اگر کسی فریق کی کوئی خیانت ثابت ہو تو مقابلہ اسی جگہ ختم ہو جائے گا اور اس فریق کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس حالت میں کیا جاتا جو وہ مغلوب رہتا- (۶)ہر ایک فریق اپنی تفسیر کے دو دو ورق دیتا جائے گا- یا یک دفعہ نقل لکھنے میں کسی خیانت کا کسی فریق کو موقع نہ ملے- (۷)تفسیر کے بہرحال بیس ورق ہو ں گے اس قلم سے تقطیع کے موافق جو مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی کا قرآن شریف شائع ہوا ہے (۸)صبح کے چھ بجے سے ایک بجے تک یا اگر کوئی ہرجہ پیش آ جائے تو دو بجے تک دونوں فریق لکھتے رہیں گے- (۹)ہر گز اختیار نہ ہو گا کہ کوئی فریق اپنے پاس کوئی کتاب رکھے یا کسی مددگار کو پاس بٹھاوے یا کسی اشارہ کنایہ سے مدد لے- (۱۰)تفسیر میں کوئی غیر متعلق بات نہیں لکھی جائے گی- صرف قرآن شریف کی اُن آیا ت کی تفسیر ہو گی جو قرعہ اندازی سے نکلی ہیں- اگر کوئی اس شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ بھی مغلوب سمجھا جائے گا- (۱۱) اس بات پر کوئی بات زیادہ نہیں کی جائے گی کہ فریقین بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں اور نہ یہ کہا جائے گا کہ اوّل کوئی بحث کر لو یا کوئی اور شرائط قائم کر لو - فقط عربی میں تفسیر لکھنا ہو گا بس-
(۱۲) جب دونوں فریق قرعہ اندازی سے معلوم کر لیں کہ فلاں سورۃ کی تفسیر لکھنی ہے تو اختیار ہو گا کہ قبل لکھنے کے گھنٹہ یا دو گھنٹہ سوچ لیں مگر کسی سے مشورہ نہیں لیا جائے گا نہ مشورہ کا موقعہ دیاجائے گا بلکہ گھنٹہ یا دو گھنٹہ بعد لکھنا شروع کر دیا جائے گا-
یہ نمونہ اشتہار ہے جس کی ساری عبارت بلا کم و بیش پیر صاحب کو اپنے اشتہاروں میں لکھنی چاہیے اور اس پر پنج کسی معّززین لاہور کی گواہیاں ثبت ہوئی چاہیئں- اور چونکہ موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ اس مقابلہ کی لکھنی چاہیئے کہ کم سے کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے- (۲) دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہیوہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنے نواب شیخ غلاب محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سیّدبرکت علی خاں صاحب سابق اکسٹراسسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمّہ دار ہیں کہپیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں اور اُن کے ہم جنس مولویوں کی طرف سے کوئی گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی- اور یاد رہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں- مَیں اُن کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپیہ ان تینوںرئیسوں کے پاس جمع کرادوں گا- اگرمیرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زد وکوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے - مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مرید ی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں کافی ہو گا کہ حضرات معّزز رئیسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پُرجوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیزان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویون کی گفتار کردار کی ذمہ داری اپنے سر پر لیں- جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوے دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے- ان چند سطروں کے بعد جو ہرسہ معزز رئیسان مذکوریں بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر سآحب کے مذکور ہ بالا اشتہار کے بعد پھر مَیں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جائوں تو کاذب ٹھہروں گا- ہر ایک شخص جو نیک مزاج اور انصاف پسند ہے اگر اس نے لاہور میں پیرمہر علی شاہ صاحب کی جماعت کا شور و غوغا سُنا ہو گا اور ان گالیوں اور بد زبانیوں اور سخت اشتعال کے حالات کو دیکھا ہو گا تو وہ اس بات میں مجھ سے اتفاق کرے گا اس فتنہ اور اشتعال کے وقت میں بجز شہر کے رئیسوں کی پورے طور کی ذمہ داری کے لاہور میں قدم رکھنا گویا آگ میں قدم رکھنا ہے- جو لوگ گورنمنٹ کے قانون کی بھی کچھ پرواہ نہ رکھ کر علانیہ فتویٰ میری نسبت دے رہے ہیں کہ شخص واجب القتل ہے کیا ان کا وجود خطرناک نہیں ہے اور کیا شرع اور عقل فتویٰ دے سکتے ہیں کہ پُر جوش اور مشتعل لوگوں کے مجمعوں میں بغیر کسی قانونی بندوبست کے مضائقہ نہیںہے؟
بے شک لاہور کے معّزز رئیسوں کا یہ فرض ہے کہ آئے گن کے فتنوں کے مٹانے کے لئے یہ ذمہ داری اپنے سر پر لے لیں اور اپنی خاص تحریروں کے ذریعہ سے مجھے لاہور میں بُلا لیں اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ درحقیقت یہی سّچا امر ہے تو ایک اَور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے- اور وہ طریق یہ ہے کہ اس کے ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آئوں اور مجھے اجازت دی جائے کہ اس مجمع عام میں جس میں پر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں- تین گھنٹہ تک اپنے دعوے اور دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں- پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے کوئی خطاب نہ ہوگا- اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پھر پیر مہر علی شاہ صاح اُٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلککو مخاطب کر کے یہ ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا- پھر بعد اس کے لوگ ان دونوں تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے- ان دونوں باتوں میں سے اگر کوئی بات پیر صاحب منظور فرمائیں تو بشرط تحریری ذمہ داری رئو سا مذکورین مَیں لاہور میں آ جائوں گا- واللہ علیٰ ما نقول شہید- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی حکیم نور الدین صاحب
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی عبد الکریم صاحب
گواہ شـــــــــــــــــــــــد مولوی سیّد محمد سعید صاحب حیدر آبادی
گواہ شـــــــــــــــــــــــد صاحبزادہ سراج الحق جمالی نعمانی
گواہ شـــــــــــــــــــــــد شیخ غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ
گواہ شـــــــــــــــــــــــد کاتب اشتہار منظور محمد لدھیانوی
المشتھــــــــــــــــــــــــــــر
مرزا غلام احمد قادیانی- ۲۸ اگست ۱۹۰۰ء
(یاد رہے کہ جس اشتہار کے شائع کرنے کا نمونہ پیر صاحب کے لئے اس اشتہار میں لکھا گیا ہے یا جو دوسری شرط رئیسوں کی ذمہ داری کی بابت لکھی ئی ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی -منہ
نوٹ:یہ دونوں اشتہار ’’ واقعات صحیحہ‘‘ مرتبہ مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ نومبر ۱۹۰۰ء انوار احمدی پریس لاہور کے صفحات ۵۰ لغایت ۵۶ پر درج ہے- ( المرتب)
(۲۲۸)
ضمیمہ اربعین نمبر ۲
اعلان
اس امر کا اظہار ضروری سمجھایا گیا ہے کہ اربعین ۲ کے صفحہ ۲۰ پر جو تاریخ انعقاد مجمع قراردی گئی ہے- یعنی ۱۵ اکتوبر ۱۹۰۰ء وہ اس وقت تجویز کی گئی تھی جبکہ ہم نے ۷ اگست ۱۹۰۰ء کو مضمون لکھ کر کاتب کے سپرد کر دیاتھا- لیکن اس اثناء میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ اشتہارات جاری ہوئے اور رسالہ گولڑویہ کے تیار کی وجہ سے اربعین نمبر ۲ کا چھپنا ملتوی رہا- اس لئے میعاد مذکور ہماری رائے اب ناکافی ہے- لہذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بجائے ۱۵ اکتوبر کے ۲۵ دسمبر ۱۹۰۰ء قرار دی جائے تا کہ کسی صاحب کو گنجایش اعتراض نہ رہے اور مولوی صاحبان کو لازم ہو گا کہ تاریخ مقررہ کے تین ہفتہ پہلے اطلاع دیں کہ کہاں اور کس موقعہ پر جمع ہونا پسند کرتے ہیں- آیا لاہور میں یا امرتسر میں بٹالہ میں- اور یہ بھی یاد رہے کہ جب تک کم از کم چایس علماء فقراء نامی کی درخواست ہمارے پاس نہیں آئے گی تب تک ہم مقام مقررہ پر وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہو ں گے-
الراقم مرزا غلام احمد از قادیان
۲۹ ستمبر ۱۹۰۰ء
(ضیاء الاسلام پریس قادیان )
(۲۲۹)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
اشتہار واجب الاظہار
اپنی جماعت کے لئے اور گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لیے
چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ امتیاز رکھتا ہے علیٰحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے- اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کا نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد لایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں- اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے- گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہیئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے-
یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقررفرمایاہے ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے- بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہر گز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں یا دین کے بغض اور دشمنی کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جائے یا کسی اور نوع کی ایذادی جائے یا کسی انسانی ہمدردی کا حق بوجہ کسی اجنیت مذہب کے ترک کیا جائے- یا کسی قسم کی بے رحمی اور تکبّر اور لا پرواہی دکھلائی جائے بلکہ جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کے سوہ فاتحہ میں پنجوقت اپنی نماز میںیہ اقرار کرتا ہے کہ خدا ربّ العالمین ہے اور خدا الرحمان ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے، یہی چارون صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے- ورنہ وہ اس دُعا میں کہ اس سُورت میں پنجوقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ ایّاک نعبد یعنی اے ان چاروں صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے- سراسر جھوٹا ہے کیونکہ خدا کی ربوبیّت نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربیّ اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کر بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعویٰ کرنے والا خدا اس کی صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہٰی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے ، تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کر لے تا اپنے محب کے رنگ میں آ جائے- ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچّا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ مَیںخدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے- ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنے کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا- یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچّا عابد جو خدا کی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے - ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا دیا ہے نہ نفس کے جوش سے - یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچّا عابد کہ جو تمام الہٰی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے- لہذا خدا نے سُورۃ افاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں- میری رائے یہ ہے کہ دُنیا میں اکثر مسلمانون باستثناء قدر قلیل کے دو قسم کے ہیں- ایک وہ علماء جو آزادی کے ملکوں میں رہ کر علانیہ جہاد کی تعلیم کرتے اور مسلمانون کواس کے لئے اُبھارتے ہیں اور ان کے نزدیک برا کام دینداری کا یہی ہے کہ نوعِ انسان کو مذہب کے لئے قتل کیا جائے-
وہ اس بات کو سُننے ہی نہیں کہ خدا فرماتا ہے کہ لا اکراہ فی الدّین یعنی دین کو جبر سے شائع نہیں کرنا چاہیے- (۲)دوسرا فرقہ مسلمانوں کا یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ خُفیہ طور پر تو اس پہلے فرقہ کے ہمرنگ ہیں مگر اسی گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے تقریراً یا تحریراً ظاہرکرتے رہتے ہیں کہ ہم جہاد کے مخالف ہیں- اُن کے امتحان کا ایک سہل طریق ہے مگر اس جگہ اس کے لکھنے کا موقع نہیں- جس شخس کو خدا نے وقت کانشنس عطا کی ہے- اور نور قلب بخشا ہے وہ ایسے لوگوں کو اس طرح پہنچان لے گا کہ اُن کے عام تعلقات کس قسم کے لوگون سے ہیں مگر اس جگہ ہمارا مدّعا صرف اپنا مشن بیان کرنا ہے- اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے جہادون کے سخت مخالف ہیں- ہمارے اس الہٰی فرقہ کی مختصر طور پر لائف یہ ہے کہ خدا نے پہلی قوموں کو دُنیا دے اُٹھا کر دُنیا کو نیکی کا سبق دینے کے لئے ابراہیم کی نسل سے دو سلسلے شروع کئے- ایک سلسلہ موسیٰ جو کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے شروع کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ختم کیا گیا- دوسرا سلسلہ مثیل موسیٰ یعنی سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم جو خدا کے اس وعدہ کے موافق ہے جو توریت استثناء باب۱۸ آیت۱۸ میں کیا گیا تھا- یہ سلسلہ ماسویہ کی ایک پوری نقل ہے جو مثیل موسیٰ سے شروع ہو کر مثیل مسیح تک ختم ہوا- اور عجیب تر یہ کہ جو مدت خدا نے موسیٰ سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تک رکھی تھی یعنے چودہ سو برس -اسی مدت کی مانند اس سلسلہ کی مدت بھی رکھی گئی اور موسوی خلافت کا سلسلہ جس نبی پر ختم ہوا یعنی مسیح پر، نہ وہ نبی اسرائیل میں سے پیدا ہوا کیونکہ اس کا کوئی اسرائیلی باپ نہ تھا اور نہ وہ موسیٰ اور یشوعا کی طرح تلوار کے ساتھ ظاہر ہوا، اور نہ وہ ایسے ملک اور وقت میں جس میں اسرائیلی سلطنت ہوتی پیدا ہوا- بلکہ وہ رُومی سلطنت کے ایّام میں ان اسرائیلی آبادیوں میں وعظ کرتا رہا جو پیلاطوس کے علاقہ میں تھیں-اب جبکہ پہلے مسیح نے نہ تلوار اُٹھائی اور نہ وہ بوجہ نہ ہونے باپ کے بنی اسرائیل میں سے تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کو اس نے اپنی آنکھ سے دیکھا- اس لئے دوسرا مسیح جو انجیل متی ۱۷ باب آیت ۱۰، ۱۱،۱۲ کے رُو سے پہلے مسیح کے رنگ اور طریق پر آنا چاہیے تھا جیسا کہ یوحنا نبی ایلیا کے رنگ پر آیا تھا ضرور تھا کہ وہ بھی قریش میں سے نہ ہوتا جیسا کہ یسوع نبی اسرائیل میں سے نہیں تھا- اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح اسلامی سلطنت کے اندر پیدا نہ ہوتا اور ایسی سلطنت ماتحت مبعوث ہوتا جو رُومی سلطنت کے مشابہ ہوتی- سو ایسا ہی ظہور میں آیا- کیونکہ جہاں تک ہمیں علم ہے ہم جانتے ہیں کہ ہماری یہ سلطنت برطانیہ (خدا اس پر دین و دُنیا میں فضل کرے) رُومی سلطنت سے نہایت درجہ مشابہ ہے اور ضرور تھا کہ دوسرا مسیح بھی تلوارکے ساتھ نہ آتا - اور اس کی بادشاہت صرف آسمان مں ہوتی سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا- بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتح آشتی اور صلح پھیلے گی- ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اورایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا- یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں- غرض مَیںاس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ و جدل کا میدان گرم کروں- بلکہ اس لئے ظاہر ہوا ہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح اور آشتی کے دروازے کھول دوں- اگر صلح کاری کی بنیاد پر درمیان نہ ہو تو پھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فضول -حقیقت یہ ہے کہ پہلا مسیح بھی اس وقت آیا تھا-٭جب یہود میں خانہ جنگیاں کثرت سے پھیل گئی تھیں اور ان کے گھر ظلم اور تعّدی سے بھر گئے تھے-اور سخت دلی اُن کی عادت ہو گئی تھی اور سرحدی افغانون کی طرح ہو لوگ بھی دوسروں کو قتل کر کے برا ثواب سمجھتے تھے- گویا بہشت کی کُنجی بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا تھا- تب خدا نے حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد اپنا مسیح بھیجا جو لڑائیوں کا سخت مخالف تھا- وہ درحقیقت صلح کا شہزادہ تھا اور صلح کا پیغام لایا لیکن بد قسمت یہودیوں نے اس کا قدر نہ کیا- اس لئے خدا کے غضب سے عیسیٰ مسیح کو اسرائیلی نبوت کے لئے آخری اینٹ کر دیا اور اس کو بے باپ پیدا کر کے سمجھا دیا کہ اب نبوت اسرائیل میں سے گئی- تب خدا وند نے یہودیوں کو نالائق پا کر ابراہیم کے دوسرے فرزندکی طرف رُخ کیا - یعنی اسمٰعیل کی اولاد میں سے پیغمبر آخر الزّمان پیدا کیا- یہی مثیل موسیٰ کا تھا جس کا نام محمدؐ ہے- اس نام کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا- خدا جانتا تھا کہ بہت سے نا فہم مذّمت کرنے والے پیدا ہوں گے اس لئے اس کا نام محمدؐ رکھ دیا جبکہ آنحضرت شکمِ آمنہ عفیفہ میں تھے- تب فرشتہ نے آمنہ پر ظاہر ہو کر کہا تھا کہ تیرے پیٹ میں ایک لڑکا ہے جو عظیم الشّان نبی ہو گا- اس کا نام محمد رکھنا- غرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ کی طرح اپنے قوم راست بازوں کو درندون اور خونیوں سے نجات دی- اور موسیٰ کی طرح ان کو مکّہ سے مدینہ کی طرف کھینچ لایا- اور ابوجہل کو جو اس امت کا فرعون تھا بدر کے میدان جنگ میں ہلاک کیا اور پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے توریت باب ۱۸ آیت ۱۸ کے وعدہ کے موافق موسیٰ کی طرح ایک نئی شریعت ان لوگوں کو عطا کی جو کئی سَو برس سے جاہل اور وحشی چلے آتے تھے اور جیسے نبی اسرائیل چار سو برس تک فرعون کی غلامی میں رہ کر وحشیانہ حالت میں بہت بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ حلال حرام میں بھی کچھ فرق نہیں کر سکتے تھے- پس ان لوگوں کے لئے قرآن شریف بالکل ایک نئی شریعت تھی اسی شریعت کے موافق تھی جو کوہ سینا پر نبی اسرائیل کو ملی تھی- تیسری مماثلت حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ سے یہ تھی کہ جیسا کہ آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم نے بھی مثیل فرعون یعنے ابو جہل کو والی مکہ سمجھا جاتا تھا اور عرب کے نواح کا فرمان روا تھا ہلاک کر کے اپنی قوم کو سلطنت عطا کی اور جیسا کہ موسیٰ نے کسی پہلے نبی سے اصطباع نہیں پایا خود خدا نے اس کو سکھلایا ، ایسا ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اُستاد بھی خدا تھا- کسی نبی کی مریدی اختیار نہیں کی-
غرض ان چار باتون میں محمد صلے اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السّلام میں مماثلت تھی اور مَیںبیان کر چکا ہوں کہ جیسا کہ حضرت موسیٰ کا سلسلہ ایک ایسے نبی پر ختم ہوا جو چودہ سو برس کے ختم ہونے پر آیا اور باپ کے رُو سے نبی اسرائیل میں سے نہیں تھا اور نہ جہاد کے ساتھ ظاہر ہوا تھا اور نہ اسرائیلی سلطنت کے اندر پیدا ہوا- یہی تمام باتیں خدا نے محمدی مسیح کے لئے پیدا کیں- چودھویں صدی کے سر پر مجھے مامور کرنا اسی حکمت کے لئے تھا کہ تا اسرائیلی مسیح اور محمدی مسیح اس فاصلہ پر رُو سے جو اُن میں اور اُن کے مورث اعلیٰ میں ہے باہم مشابہ ہوں- اور مجھے خدا نے قریش میں سے بھی پیدا نہیں کیا- تا پہلے مسیح سے یہ مشابہت بھی حاصل ہو جائے کیونکہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں اور مَیں تلوار کے ساتھ بھی ظاہر نہیں ہوا- اور مَیں انگریزی سلطنت کے ماتحت مبعوث کیا گیا- اور یہ سلطنت رُومی سلطنت کے مشابہ ہے- اور مجھے امید ہے کہ اس سلطنت کے میرے ساتھ شاہانہ اخلاق رُومی سلطنت سے بہتر ظاہر ہوں گے- اور میری تعلیم وہی ہے جو مَیں اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں ملک میں شائع کر چکا ہوں- اور وہ یہ کہ اُسی خدا کو مانو جس کے وجود پر توریت ، انجیل اور قرآن تینوں کتابوں کی متفق علیہ شہادت سے ثابت نہیں ہوتا - وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے - اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں- خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے- زنا نہ کرو جھوٹ نہ بولو اور بد نظری نہ کرو- اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو اور نفسانی جوشوں کے مغلوب مت ہو- پنجوقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنچ طور پر ہی انقلاب آتے ہیں- اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو اور اس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی-
(۴)عام خلق اللہ کی ہمدردی کرو اور اپنے نفسانی جوشوں سے کسی مسلمان ہو یا غیر مسلمان تکلیف مت دو- نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے-
(۵)بہرحال رنج و راحت میں خدا تعالیٰ کے وفا دار بندے نبے رہو- اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے مُنہ نہ پھیرو بلکہ آگے قدم بڑھائو-
(۶)اپنے رسول کی متابعت کرو اور قرآن کی حکومت اپنے سر پر لے لو کہ وہ خدا کا کلام اور تمہارا سچّا شفیع ہے-
(۷)اسلام کی ہمدردی اپنی تمام قوتوں سے کرو- اور زمین پر خدا کے جلال اور توحید کو پھیلائو-
(۸)مجھ سے اس غرض سے بیعت کرو تا تمہیں مجھ سے رُوحانی تعلق پیدا ہو- اور میرے درخت وجود کی ایک شاخ بن جائو اور بیعت کے عہد پر موت کے وقت تک قائم رہو-
یہ وہ میرے سلسلہ کے اصول ہیں جو اس سلسلہ کے لئے امتیازی نشان کی طرح ہیں - جس انسانی ہمدردی اور ترک ایذاء نبی نوع اور ترک مخالفت حکّام کہ یہ سلسلہ بنیاد ڈالتا ہے- دوسرے مسلمانوں میں اس کا وجود نہیں- ان کے اصول اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے اور طرز کے ہیں جن کی تفصیل کی حاجت نہیں اور نہ یہ ان کا موقع ہے-
اور وہ نام جو س سلسلہ کے موزون ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیّہ ہے- اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں- یہی نام جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات میں مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلمان فرقہ احمدیّہجہاں تک میرے علم میں ہے مَین یقین رکھتا ہوں کہ آج تک تیس ہزار کے قریب متفرق مقامات پنجاب اور ہندوستان کے لوگ اس فرقہ میں داخل ہو چکے ہیں- اور جو لوگ ایک قسم کی بد عات اور شرک سے بیزار ہیں اور دل میںیہ فیصلہ بھی کر لیتے ہیں کہ ہم اپنی گورنمنٹ سے منافقانہ زندگی بسر کرنا نہیں چاہتے اور صلح کاری اور بُردباری کی فطرت رکھتے ہیں- وہ لوگ بکثرت اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً عقل مندوں کی اس طرف ایک تیز حرکت ہو رہی ہے اور یہ لوگ محض عوام میں سے نہیں ہیں بلکہ بعض بڑے بڑے معزز خاندانوں میں سے ہیں- اور ہر ایک تاجر اور ملازمت پیشہ اور تعلیم یافتہ اور علماء اسلام اور رئوسا اس فرقہ میں داخل ہیں- گو بہت کچھ عام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرقہ ایذا بھی پارہا ہے لیکن چونکہ اہل عقل دیکھتے ہیں کہ خدا سے پُوری صفائی اور اس کی مخلوق سے پوری ہمدردی اور حکام کی اطاعت میں پوری طیاری کی تعلیم اسی فرقہ میں دی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ طبعاً اس فرقہ کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں- اور یہ خدا کا فضل ہے کہ بہت کچھ مخالفوں کی طرف سے کوششیں ضائع گئیں- کیونکہ جو کام خدا کے ہاتھ سے اور آسمان سے ہو انسان کو ضائع نہیں کر سکتا اور اس کا نام مسلمان فرقہ احمدیّہاس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم - اور اسم محمدؐ جلالی نام تھا اور اس میں مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتح اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا- لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے- سو خدا نے ان دونوں ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مکّہ زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا- اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمدؐ کا ظہور ہوا- اورمخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی- لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسلم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنے جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا- پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائیے تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ فرقہ دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کا کچھ سروکار نہیں-
سو اے دوستو آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں- زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے- خداایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں- تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے- اے قادر و کریم تو ایسا ی کر - آمین
واٰخروعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین
مرزا غلام احمد از قادیان ۴ نومبر ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
تعداد ۲۸۰۰ (یہ اشتہار بڑے سائز کے ۴ صفحہ پر ہے)
(۳۳۰)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْم ط
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
ناظرین کو معلوم ہو گا کہ مَیں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سُن کر اُن کی درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے ایک اشتہار٭ شائع کیا تھا جس میں ان لوگون میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے-اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا- اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کی درخواست کرتے رہتے ہیںکچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اُٹھالیں- اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی توغل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آ کر انہوں نے میری دانست فتویٰ تکفیر کو تازہ کیااور عوام کو بھڑکانے کے لئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنے مایہ علمی پر فخر کر کے میری نسبت یہ زور لگایا کہ یہ شخص علم حدیث اور قرآن سے بے خبر ہے- اور اس طرح سرحدی لوگون کو میری نسبت مخالفانہ جوش دلایا اور علم قرآن کا دعویٰ کیا- اگر یہ دعویٰ ان کا سچّا ہے کہ ان کو کتاب اللہ میں بصیرت نام عنایت کی گئی ہے تو پھر کسی کو ان کی پیروی سے انکار نہیں کرنا چاہیئے- اور علم قرآن سے بلا شبہ با خدا اور راست باز ہونا بھی ثابت ہے- کیونکہ جب آیت لا یمسّہ لا ا لمطھرون صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے- لیکن صرف دعویٰ قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہو سکتا ہے- اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے- اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا کہ الرحمن علم القراٰن کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا- اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پرکھنے کے لئے یہ نشان کافی ہو گا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میریمقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح بلیغ میں تفسیرلکھیں- اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر ان کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کلام نہیں ہو گا- پس مَیں نے اس امر کو قرار دے کر ان کی دعوت میں اشتہار شایع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے- اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ اُن کو قرآن شریف سے کچھ مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی - اور جیسا کہ عام چال بازوں کا دستور ہوتا ہے - یہ اشتہار شایع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں- پھر اگر مولوی محمد حسین اور ان کے دوسرے دو رفیق کہہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح یں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں- پھر بیعت کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی- مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار ان کی حالت پر رونا آیا ا ور ان کی حق طلبی کی نسبت جو امیدیں تھیں- سب خاک میں مل گئیں-
اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اب تک ان کے متعلقین سبّ شتم سے باز نہیں آتے٭ اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوںسے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے اور عوام کو دھوکہ پر دھوکہ دے رہے ہیں اور میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اُٹھا کر لاہور میںپہنچے مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پاکر درحقیقت وہ بزرگ نابغہ زمان اور سحبان دوران اور علم معارف قرآن میں لاثانی روز گار میں اپنے گھر کے کسی کوٹھہ میں چھپ گیا ورنہ پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے سے عربی کی بلاغت فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا- لہذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی- جس میں مَیں اتمام حجّت کے لئے پیش کرتا ہوں- اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھُل جائے گی کیونکہ تمام دُنیا اندھی نہیں ہے - انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں- اور وہ تدبیریہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کی ادب اور فصاحت بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی- کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا- اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعویٰ کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقایق سورہ ممدوحہ کے بھی بیان کروں اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرچاہیں سُورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرما دیں-
یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہے-٭تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے- اور اگر اہل علم میں سے تین کس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقن سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رُو سے اور کیا معارف قرآنی کی رُو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقدبلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا- اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے پر روز بیان کرکے روتے ہیں جو ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی- اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے - کیونکہ پیر صاحب کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقل لوگ ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں - بلکہ ہمیں اُن کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفاق پیش نہیں آیا- ورنہ اُن کے تمام دوست اُن کے طفیل سے شاھت الوجوہ سے ضرور حصہ لیتے- سو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُن کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں- جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مزین بہ بلاغت و فصاحت دیکھ لیں گے تو اُن کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں جاتے رہیں گے اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہو گا جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مدعا ہوا کرتا ہے- اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلی رکھیں کہ ہم اُن سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ اُن کو بیعت کے لئے مجبور کرتے ہیں- صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جوہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میری ردّ میں کتاب تالیف کی لوگوں پر ظاہر ہو جائیں اور شاید زلیخاؔ کی طرح اُن کے منہ سے بھی الاٰن حصحص الحق نکل آئے- اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں- مگر پیر صاحب دلگیر نہ ہوں ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسین بھین وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دوچار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں- فریقین کی تفسیر چارجز سے کم نہیں ہونی چاہئیے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر دن ہیں- فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تووہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کا کاذب ہونے کے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی-
والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
المشتھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے چار صفحہ پر ہے)
(۲۳۱)
شتاب کار نکتہ چینیوں کے لئے مختصر تحریر
اور براہین احمدیہ کا ذکر
چونکہ یہ بھی سنت اﷲ ہے کہ ہر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آتا ہے بہت سے کوتہ اندیش ناخدا ترس اس کی ذاتیات میں دخل دے کر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کیا کرتے ہیں- کبھی اس کو کاذب ٹھہراتے ہیں- کبھی اس کو عہد شکن قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کو لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا اور مال خور اور بددیانت اور خائن قرار دیتے ہیں- کبھی اس کا نام شہوت پرست رکھتے ہیں اور کبھی اس کو عیاش اور خوش پوش اور خوش خور سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی جاہل کر کے پکارتے ہیں-٭اور کبھی اس کو ان صفت سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبّر بدخلق ہے- لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سبّ و شتم کرنے والا بخیل زر پرست کذّاب دجّال بے ایمان خونی ہے- یہ سب خطاب ان لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور مامورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن اور دل کے اندھے ہوتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتاً مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں- چند روز تک یہ تمہاری چیزیں واپس لا کر دے دیں گے اور دل میں دغا تھا- آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لا کر کنعان کی طرف بھاگ گئے- اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر اُن کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوابات سے تسلّی نہیں پا سکتے- اس لئے خدا تعالیٰ کی عادت ایسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی جواب ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر اُن کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہاں تک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی- کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے کرتا رہا ہے- اسی کی طرف اﷲ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے- اِنَّا فَتَّحْنَالَکَ فَتْحًامُّبِیْنًا o لِیَغْفَرِلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ- یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطاکار ہونا ثابت کریں- غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلا م شروع ہوا ہے سُنّۃ اﷲ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرّب ہونا ثابت کردیتا ہے- تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں- سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے- اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے- بات سہل تھی- ٭ کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطور ایک حَکم کے فعل کے مان لیتے - مگر ان لوگوں کو اس قسم کے مقابلہ کا نام سننے سے بھی موت آتی ہے- مہر علی شاہ گولڑوی کو سچا ماننا اور یہ سمجھ لینا کہ وہ فتح پا کر لاہور سے چلا گیا ہے کیا یہ اس بات پر قوی دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں- نہ خدا کا ڈر ہے نہ روزِ حساب کا کچھ خوف ہے- ان لوگوں کے دل جرأت اور شوخی اور گُستاخی سے بھر گئے ہیں گویا مرنا نہیں ہے- اگر ایمان اور حیا سے کام لیتے تو اس کارروائی پر نفرین کرتے جو مہر علی گولڑوی نے میرے مقابل پر کی- کیا مَیں نے اس کو اس لئے بُلایا تھا کہ مَیں اس سے ایک منقولی بحث کر کے بیعت کر لوں؟ جس حالت میں مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کر کے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے- قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر مَیں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں جب کہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر- تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ مَیں اُن کے طنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سُن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بناء ہے اور وہ لوگ بھی اپنی ضد کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ میرے مقابل پر جھوٹی کتابیں شائع کر چکے ہیں- اور اب اُن کو رجوع اشدّ من الموت ہے تو پھر ایسی حالت میں بحث سے کونسا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا- اور جس حالت میں مَیں نے اشتہار دے دیتا کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ سے منقولی بحث نہیں کروں گا تو انصاف اور نیک نیتی کا تقاضا یہ تھا کہ ان منقولی بحثوں کا میرے سامنے نام بھی نہ لیتے- کیا مَیں اپنے عہد کو توڑ سکتا تھا؟ پھر اگر مہر علی شاہ کا دل فاسد نہیں تھا تو اس نے ایسی بحث کی مجھ سے کیوں درخواست کی جس کو مَیں عہد مستحکم کے ساتھ ترک کر بیٹھا تھا اور اس درخواست میں لوگوں کو یہ دھوکا دیا کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے دیکھو یہ کیسے عجیب مکر سے کام لیا اور اپنے اشتہار میں یہ لکھا کہ اوّل منقولی بحث کرو- اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کے دو رفیق قسم کھا کر کہہ دیں کہ عقائد صحیح وہی ہیں جو مہر علی شاہ پیش کرتا ہے تو بلاتوقف اسی مجلس میں میری بیعت کر لو- اب دیکھو دُنیا میں اس سے زیادہ بھی کوئی فریب ہوتا ہے- مَیں نے تو اُن کو نشان دیکھنے اور نشان دکھلانے کے لئے بُلایا اور یہ کہا کہ بطور اعجاز دونوں فریق قرآن شریف کی کسی سورۃ کی عربی میں تفسیر لکھیں اور جس کی تفسیر اور عربی عبارت فصاحت اور بلاغت کی رُو سے نشان کی حد تک پہنچی ہوئی ثابت ہو وہی مؤید من اﷲ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا کہ کوئی منقولی بحثیں نہیں ہوں گی- صرف نشان دیکھنے اور دکھلانے کے لئے یہ مقابلہ ہو گا- لیکن پیر صاحب نے میری اس تمام دعوت کو کالعدم کر کے پھر منقولی بحث کی درخواست کر دی اوراسی کو مدار فیصلہ ٹھہرا دیا اور لکھ دیا کہ ہم نے آپ کی دعوت منظور کر لی- صرف ایک شرط زیادہ لگا دی- اے مکّار! خدا تجھ سے حساب لے- تُونے میری شرط کا کیا منظور کیا جبکہ تیری طرف سے منقولی بحث پر بیعت کا مدار ہو گیا جس کو مَیں بوجہ مشتہر کردہ عہد کے کسی طرح منظور نہیں کر سکتا تھا تو میری دعوت کیا قبول کی گئی؟ اور بیعت کے بعد اس پر عمل کرنے کا کونسا موقعہ راہ گیا- کیا یہ مکر اس قسم کا ہے کہ لوگوں کا یہ ایمان ہے- اس قدر ظلم کر کے پھر اپنے اشتہاروں میں ہزاروں گالیاں دیتے ہیں گویا مرنا نہیں- اور کیسی خوشی سے کہتے ہیں کہ مہر علی شاہ صاحب لاہور میں آئے ان سے مقابلہ نہ کیا- جن دلوں پر خدا *** کرے مَیں ان کا کیا علاج کروں- میرا دل فیصلہ کے لئے درمند ہے- ایک زمانہ گذر گیا میر ی یہ خواہش ابط تک پوری نہیں ہوئی کہ ان لوگوں میں سے کوئی راستی اور ایمانداری اور نیک نیتّی سے فیصلہ کرنا چاہے مگر افسوس کہ یہ لوگ صدق دل سے میدان میں نہیں آتے- خدا فیصلہ کے لئے تیار ہے اوراُس اُونٹی کی طرف جو بچّہ جننے کے لئے دُم اُٹھاتی ہے زمانہ خود فیصلہ کا تقاضا کرتارہا ہے- کاش اُن میں سے کوئی فیصلہ کا طالب ہو- کاش ان میں سے کوئی رشید ہو- مَیں بصیرت سے دعوت کرتا ہوں اور یہ لوگ ظن پر بھروسہ کر کے میرا انکار کر رہے ہیں- ان کی نکتہ چیناں بھی اسی اغراض سے ہیں کہ کسی جگہ ہاتھ پڑ جائے - اے نادان قوم!یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے- تم خدا سے مت لڑو- تم اس کو نابوع نہیں کر سکتے- اس کا ہمیشہ بول بالا ہے- تمہارے ہاتھ میں کیا ہے بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتّر٭ فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھٰ ہیں- رئویت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو- کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حکم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا- سو یہی وقت ہوا- وہ شخص حَکَمْ کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے- اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو- اور یقینا سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا- سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو- کم سے کم سے یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہو گئی ہے اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو- اور کیوں مجھ پر یہ الزام لگاتے ہو کہ براہین احمدیہ کا روپیہ کھا گیا ہے-٭ اگر میرے پر تمہارا کچھ حق ہے جس کا یماناً تم مؤاخذہ کر سکتے ہو- یا اب تک مَیں نے تمہارا کوئی قرضہ ادا نہیں کیا- یاتمنے اپنا حق مانگا اور میری طرف سے انکار ہوا تو ثبوت پیش کر کے وہ مطالبہ مجھ سے کرو- مثلاً اگر مَیں نے براہین احمدیئہ کی قیمت کا روپیہ تم سے وصول کیا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے جس کے سامنے حاضر کئے جائو گے کہ براہین احمدیہ کے وہ چاروں حصّے میرے حوالے کرو اور اپنا روپیہ لے لو- دیکھو -مَیں کھول کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ اب اس کے بعد اگر تم براہین احمدیہ کی قیمت کا مطالبہ کرو اور چاروں حصّے بطور ویلیو پی ایبل میرے کسی دوست کو دکھا کر میری طرف بھیج دو اور مَیں ان کی قیمت بعد لینے ان چہار حصّوں کے ادا نہ کروں تو میرے خدا کی *** پو- اور اگر تم اعتراض سے باز نہ آئو اور نہ کتاب کو واپس کر کے اپنی قیمت لو تو پھر تم پر خدا کی *** ہو- اسی طرح ہر ایک حق جو ایک حق جو میرے پر ہو ثبوت دینے کے بعد مجھ سے لے لو- اب بتلائو اس سے زیادہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی حق کا مطالبہ کرنے والا یوں نہیں اُٹھتا تو مَیں *** کے ساتھ اس کو اُٹھاتا ہوں-اور مَین پہلے سے براہین کی قیمت کے بارے میں تین اشتہار شائع کر چکا ہوں جن کا یہی مضمون تھا کہ مَیں قیت واپس دینے کو تیارہوں- چاہیے کہ میری کتاب کے چاروں حصّے واپس دیں اور جن دراہم معدودہ کے لئے مَر رہے ہیں وہ مجھ سے وصول کر یں- والسّلام علیٰ من تبع الہدیٰ
المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان - ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۲)
اسلام کے لیے ایک رُوحانی مقابلہ کی ضرورت
(ملحقہ اربعین نمبر ۴
ایہا الناظرین! انصافاً اور ایماناً سوچو کہ آجکل اسلام کیسے تنّزل کی حالت میں ہے اور جس طرح ایک بچہ بھیڑیے کے منہ میں ایک خطر ناک حالت میں ہو تا ہے- یہی حالت ان دونوں میں اسلام کی ہے- اور دو آفتوں کا سامنا اس کو پیش آیا ہے-
(۱)ایک تو اندرونی کہ تفرقہ اور باہمی نفاق حد سے بڑھ گیا ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر دانت پیش رہا ہے-
(۲)دوسرے بیرونی حملے دلائل باطلہ کے رنگ میں اس زور شور سے ہو رہے ہیں کہ جب سے آدم پیدا ہوا یا یُوں کہو کہ جب سے نبّوت کی بنیاد پڑی ہے- ان حملوں کی نظیر دُنیا میں نہیں پائی جاتی- اسلام وہ مذہب تھا جس میں آدمی کے مرتد ہو جانے سے قومِ اسلام میں نمونہ محشر برپا ہوتا تھا اور غیر ممکن سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص حلاوتِ اسلام چکھ کر پھر مُرتد ہو جائے- اور اب اسی ملک برٹش انڈیا میں ہزار ہا مُرتد پائو گے بلکہ ایسے بھی جنہوں نے اسلام کی توہین اور رسول کریم کی سبّ دشتم میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی- پھر آجکل اس کے یہ آفت برپا ہو گئی ہے کہ جب عین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ نے تجدید٭ اور اصلاح کے لئے اورخدمات ضروریہ کیمناسب حال ایک بندہ بھیجا اور اس کا نام مسیح موعود رکھا - یہ خدا کا فعل تھا جو عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا- اور آسمان نے اس پر گواہی دی اور بہت سے نشان ظہورمیں آئے- لیکن تب بھی اکثر مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ اس کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان اور مکاّر اور خائن اور دروغگو اور عہد شکن اور مال خور اور ظالم اور لوگوں حقوق دبانے ولا اور انگریزوں کی خوشامد کرنے والا رکھا اور جو چاہا اس کے ساتھ سلوک کیا- اور بہتون نے یہ عذر پیش کیا کہ جو الہامات اس شخص کو ہوتے ہیں وہ سب شیطانی ہیں یا اپنے نفس کا افتراء ہے- اور یہ بھی کہا کہ ہم بھی خدا سے الہام پاتے ہیںاور خدا ہمیں بتلاتا ہے کہ یہ شخص درحققیت کافر اور دجّال اور دروغ گو اور بے ایمان اور جہنمی ٭ہے- چنانچہ جن لوگوں کو یہ الہام ہوا ہے وہ چار سے بھی زیادہ ہوں گے- غرض تکفیر کے الہامات یہ ہیں اور تصدیق کے لئے میرے وہ کلمات اور مخاطبات الہٰیہ ہیںجن میں سے کسی قدر بطور نمارنہ اس رسالہ٭ میںلکھے گئے ہیں- اور علاوہ اس کے بعض واصلانِ ح نے میرے زمانہ بلوغ سے بھی پہلے میرا اور میرے گائوں کا نام لے کر میری نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہی مسیح موعود ہے - اور بہتوں نے بیان کیا کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ یہ شخص حق پر ہے اور ہماری طرف سے ہے- چنانچہ پیر جھنڈے والا سندھی نے جن کے مُرید لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے یہی اپنا کشف اپنے مریدوں میں شائع کیا اور دیگر صالح لوگوں نے بھی دو سو مرتبہ سے بھی کچھ زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کی تصدیق کی- اور ایک شخص حافظ محمد یوسف نام نے جو ضلعدار نہر ہیں بلاواسطہ مجھ کو یہ خبر دی ٭ کہ مولوی عبداﷲ صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک نور آسمان سے قادیان پر گرا (یعنی اس عاجز پر) اور فرمایا کہ میری اولاد اس نُور سے محروم رہ گئی- پھر حافظ محمد یوسف صاحب کا بیان ہے جس کو مَیں نے بلاکم و بیش لکھ دیا- ولعنۃ اﷲ علی الکاذبین- اور اس پر اور دلیل یہ ہے کہ یہی بیان دوسرے پیرایہ اور ایک دوسری تقریب کے وقت عبداﷲ صاحب موصوف غزنوی نے حافظ محمد یوسف صاحب کے حقیقی بھائی منشی محمد یعقوب صاحب کے پاس کیا اور اس بیان میں میرا نام لے کر کہا کہ دُنیا کی اصلاح کے لئے جو مجدّد آنے والا تھا وہ میرے خیال میں مرزا غلام احمد ہے- یہ لفظ ایک خواب کی تعبیر میں فرمایا- اور کہا کہ شاید٭٭ اس نور سے مراد جو آسمان سے اُترتا دیکھا گیا مرزا غلام احمد ہے- یہ دونوں صاحب زندہ موجود ہیں اور دوسرے صاحب کی دستی تحریر اس بارے میں میرے پا س موجود ہے- اب بتلائو کہ ایک فریق تو مجھے کافر کہتا ہے اور دجّال نام رکھتا ہے اور اپنے مخالفانہ الہام سُناتا ہے جن میں سے منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ ہیں جو مولوی عبداﷲ صاحب کے مُرید ہیں اور دوسرا فریق مجھے آسمان کا نور سمجھتا ہے اور اس بارے میں اپنے کشف ظاہر کرتا ہے جیسا کہ منشی الٰہی بخش صاحب کا مرُشد مولوی عبدا ﷲ صاحب غزنوی اور مُرید مجھے کافر ٹھیراتا ہے- کیا یہ سخت فتنہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کو کسی تدبیر سے درمیان سے اُٹھایا جائے؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اوّل ہم اس بزرگ کو مخاطب کرتے ہیں جس نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو- اور ان کے لئے دو طور پر طریق فیصلہ قرار دیتے ہیں- اوّل یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دوگواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداﷲ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور اُستاد کی عزت کا لحاظ کر کے اس کی گواہی کو قبول کر لیں اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسٰی کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردی میں پھینک دیں- ٭ کیونکہ مرشد کی مخالفت آثار سعادت کے برخلاف ہے اور اگر وہ اب مرشد سے حقوق اختیار کرتے ہیں اور عاق شدہ فرزندوں کی طرح مقابلہ پر آتے ہیں تو وہ تو فوت ہو گئے ان کی جگہ مجھے مخاطب کریں اور کسی آسمانی طریق سے میرے ساتھ فیصلہ کریں- مگر پہلی شرط یہ ہے کہ اگر مُرشد کی ہدایت سے سرکش ہیں تو ایک چھپا ہوا اشتہار شائع کردیں کہ مَیں عبداﷲ صاحب کے کشف اور الہام کو کچھ چیز نہیں سمجھتا اور اپنی باتوں کو مقدم رکھتا ہوں- اس طریق سے فیصلہ ہو جائے گا مَیں اس فیصلہ کے لئے حاضر ہوں- جواب باصواب دو ہفتہ تک آنا چاہئیے- مگر چھپا ہوا اشتہار ہو- والسَّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۳)
(ضمیمہ اربعین نمبر ۳ و ۴)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی
درددل سے ایک دعوت قوم کو
مَیں نے اپنا رسالہ اربعین اس لئے شائع کیا ہے کہ مجھ کو کاذب اور مفتری کہنے والے سوچیں کہ یہ ہر ایک پہلو سے فضل خدا کا جو مجھ پر ہے ممکن نہیں کہ بجز نہایت درجہ کے مقرب اﷲ کے کسی معمولی ملہم پر بھی ہو سکے- چہ جائیکہ نعوذ باﷲ ایک مفتری بدکردار کو یہ نشان اور مرتبہ حاصل ہو-
اے میری قوم! خدا تیرے پر رحم کرے- خدا تیری آنکھیں کھولے- یقین کر کہ مَیں مفتری نہیں ہوں- خد اکی ساری پاک کتابیں گواہی دیتی ہیں کہ مفتری جلد ہلاک کیا جاتا ہے- اس کو وہ عمرہرگز نہیں ملتی جو صادق کو مل سکتی ہے- تمام صادقوں کا بادشاہ ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے- اس کو وحی پانے کے لئے تیئس برس کی عمر ملی- یہ عمر قیامت تک صادقوں کا پیمانہ ہے- اور ہزاروں لعنتیں خدا کی اور فرشتوں کی اور خدا کے پاک بندوں کی اس شخص پر ہیں جو اس پاک پیمانہ میں کسی خبیث مفتری کو شریک سمجھتا ہے- اگر قرآن کریم میں آیت لوتقوّل بھی نازل نہ ہوتی اور اگر خدا کے تمام پاک نبیوں نے نہ فرمایا ہو تاکہ صادقوں کا پیمانہ عمر وحی پانے کا کاذب کو نہیں ملتا تب بھی ایک سچے مسلمان کی وہ محبت جو اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہونی چاہئیے- کبھی اس کو اجازت نہ دیتی کہ وہ یہ بے باکی اور بے ادبی کا کلمہ منہ پر لا سکتا کہ یہ پیمانہ وحی نبوت یعنی تیئس برس جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیا گیا یہ کاذب کو بھی مل سکتا ہے- پھر جس حالت میں قرآن شریف نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ نبی کاذب ہوتا تو یہ پیمانہ عمر وحی پانے کا اس کو عطا نہ ہوتا- اور توریت نے بھی یہی گواہی دی اور انجیل نے بھی یہی- تو پھر کیسا اسلام اور کیسی مسلمانی ہے کہ ان تمام گواہیوں کو صرف میرے بغض کے لئے ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا گیا اور خدا کے پاک قول کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا- میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر ایک ثبوت جو پیش کیا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور وہ اعتراضات بار بار پیش کرتے ہیں جن کا صدہا مرتبہ جواب دیا گیا ہے اور جو صرف میرے پر ہی نہیں ہیں بلکہ اگر اعتراض ایسی باتوں کا ہی نام ہے جو نسبت بطور نکتہ چینی ان کے مُنہ سے نکلتے ہیں تو اُن میں تمام نبی شریک ہیں- میری نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے پہلے سب کچھ کہا گیا ہے- ہائے ! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیا ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچّافلاں آدمی ہے- ہائے ! یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر مہدی معہود موجود نہیں تھا تو کس کے لئے آسمان نے خسوف کسوف کا معجزہ دکھلایا- افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں- اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ مَیں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو- تیرھویں صدی میں ہی دل بول اُٹھے تھے کہ چودھویں صدی میں ضرور خدا کی نصرت اور مدد آئے گی- بہت سے لوگ قبروں میں جا سوئے جو رو رو کر اس صدی کی انتظار کرتے تھے اور جب خدا کی طرف سے ایک شخص بھیجا گیا تو محض اس خیال سے کہ اس نے موجودہ مولویوں کی ساری باتیں تسلی نہیں کیں اس کے دشمن ہو گئے- مگر ہر ایک خدا کا فرستادہ جو بھیجاجاتا ہے ضرور ایک ابتلاء ساتھ لاتا ہے- حضرت عیسیٰ جب آئے تو بدقسمت یہودیوں کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ ایلیا دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوا- ضرور تھا کہ پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہوتا تب مسیح آتا جیسا کہ ملاکی نبی کی کتاب میں لکھا ہے- اور جب ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اہل کتاب کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا- اب کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت بھی کوئی ابتلاء ہو اور اگر مسیح موعود تمام باتیں اسلام کے تہتر فرقہ کی مان لینا تو پھر کن معنوں سے اس کا نام حکم رکھا جاتا- کیا وہ باتوں کو ماننے آیا تھا یا منوانے آیا تھا؟ تو اس صورت میں اس کا آنا بھی بے سود تھا- سوا ے قوم! تم ضد نہ کرو- ہزاروں باتیں ہوتی ہیں جو قبل از وقت سمجھ نہیں آتیں- ایلیا کے دوبارہ آنے کی اصل حقیقت حضرت مسیح سے پہلے کوئی نبی سمجھ نہ سکا تا یہود حضرت مسیح کے ماننے کے لئے تیار ہو جاتے- ایسا ہی اسرائیلی خاندان میں سے خاتم الانبیاء آنے کا خیال جو یہود کے دل میں مرکوز تھا اس خیال کو بھی کوئی نبی پہلے نبیوں میں سے صفائی کے ساتھ دُور نہ کر سکا- اسی طرح مسیح موعود کا مسئلہ بھی مخفی چلا آیا- تا سنت اﷲ کے موافق اس میں بھی ابتلاء ہو- بہتر تھا کہ میرے مخالف اگر ان کو ماننے کی توفیق کو دیکھتے- اب جس قدر عوام نے بھی گالیاں دیں سب گناہ مولویوں کی گردن پر ہے- افسوس یہ لوگ فراست سے بھی کام نہیں لیتے- میں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہو گا اور وہ دو زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کی رُو سے دو بیماریاں ہیں- سو ایک چادر میرے اُوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سردرد اور دوران سر اور کمیٔ خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابطیس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں- بسا اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہری حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پائوں رکھنے تک مَیں زندہ رہوں گا- اب جس شخص کی زندگی کا یہ حال ہے ہر روز موت کا سامنا اس کے لئے موجود ہوتا ہے اور ایسے مریضوں کے انجام کی نظیریں موجود ہیں تو وہ ایسی خطرناک حالت کے ساتھ کیونکر افترا پر جُرأت کر سکتا ہے اور وہ کس صحت کے بھروسے پر کہتا ہے کہ میری اسی برس کی عمر ہوگی حالانکہ ڈاکٹری تجارب تو اس کو موت کے پنجہ میں ہر وقت پھنسا ہوا خیال کرتے ہیں- ایسی مرضوں والے مدقوں کی طرح گداز ہو کر جلد مرجاتے ہیں یا کار بینکل یعنی سرطان سے اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر جس زور سے میں ایسی حالتِ پُرخطر میں تبلیغ میں مشغول ہوں کیا کسی مفتری کا کام ہے- جب مَیں بدن کے اُوپر کے حصہ میں ایک بیماری اور بدن کے نیچے کے حصہ میں ایک دوسری بیماری دیکھتا ہوں تو میرا محسوس کرتاہے کہ یہ وہی دو چادریں ہیں جن کی خبر جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے-
مَیں محض نصیحتاً ﷲ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے- اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی- لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددُعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں - پھر اگر مَیں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی- اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں- لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوئوں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ و زاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں- جو شخص میرے پر بددُعا کرے گا وہ بددُعا اسی پر پڑے گی- جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر *** ہو وہ *** اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو خبر نہیں- اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے- اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا- کیونکہ اس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے- اورضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا اور اگر مَیںجھوٹا ہوں تو مَیں پہلے مَر جائوں گا اور یہی دُعابھی کی تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مَر گیا- اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا- مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچّائی کی گواہی دے گیا- پس ہر ایک شخص جو ایسا مقابلہ کر ے گا اور ایسے طور کی دُعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا- بھلا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لیکھرام کے مارے گانے کی نسبت بعض شریروں ظالم طبع نے میری جماعت کو اس کا قائل قرار دیا ہے- حالانکہ وہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا اور ایک میری پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی- تو یہ تو بتلا دیں کہ مولوی دستگیر کو میری جماعت میں سے کس نے مارا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ بغیر میری درخواست کے آپ ہی ایسی دُعا کر کے دُنیا سے کوچ کر گیا- کوئی زمین پر مَر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے میری رُوح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کو دی گئی تھی- مجھے خداسے ابراہیمی نسبت ہے- کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا- مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں- مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اُکھڑ سکوں- اگر اُن کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کالئے دُعائیں کریں تو میرا خدا اُن تمام دُعائوں کو *** کی شکل پر بنا کر اُن کے مُنہ پر مارے گا- دیکھو صدا ہا دانش مند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں- آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں- اب اس آسمانی کاروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو رہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اُٹھا نہ رکھو ناخنوںتک زور لگائو- اتنی بد دُعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جائو - پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں- مبر بد قسمت انسان دُور سے اعتراج کرتے ہیں جن دلوں پر مُہریں ہیں اُن کا کیا ہم علاج کریں- اے خدا! تُو اس امت پر رحم کر- آمین
المشتھــــــــــــــــــــــر خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
۹ دسمبر ۱۹۰۰ء
(۲۳۴)
ایک ضروری تجویز
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
یہ امر ہمیشہ میرے لئے موجبِ غم اور پریشانی کا تھا کہ وہ تمام سچائیاں اور پاک معارف اور دین اسلام کی حمایت پختہ دلائل اور انسانی رُوگ کو اطمینان دینے والی باتیں جو میرے پر ظاہر ہوئیں اور ہو رہی ہیں- ان تسلّی بخش براہین اور موثر تقریروں سے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور یورپ کے حق کے طالبوں کو اب تک کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا- یہ درد دل اس قدر تھا کہ آیندہ اس کے برداشت مشکل تھی- مگر چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ قبل اس کے کہ ہم اس ناپائدار گھر سے گزر جائیںہمارے تمام مقاصد پورے کر دے اور ہمارے لئے وہ آخری سفر حسرت کا سفر نہ ہو- اس لئے اس مقصد کے پُورا کرنے کے لئے جو ہماری زندگی کا اصل مقصود ہے ایک تدبیر پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج چند ایک احباب نے اپنے مخلصانہ مشورہ سے مجھے توجہ دلائی ہے کہ ایک رسالہ ( میگزین) بزبان انگریزی مقاصد مذکوہ بالا کے اظہار کے لئے نکالا جائے جس میں مقصود بالذات ان مضامین کا شائع کرنا ہو گا- جو تائید اسلام میں میرے ہاتھ سے نکلے ہوں- اور جائز ہو گا کہ اور صاحبوں کے مذہبی یا قومی مضامین بھی بشرطیکہ شایع ہوں-
اس رسالہ کی اشاعت کے لئے سب سے زیادہ دو قابل غور ہیں- ایک یہ کہ اس رسالہ کا نظم و نسق کس کے ہاتھ میں ہو- اور دوسرا یہ کہ اس کے مستقل سرمایہ کی کیا تجویز ہو- سو امر اوّل کے متعلق ہم نے یہ پسند کیا ہے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صڈاحب ایم - اے پلیڈ ر اور خواجہ کمال الدین صاحب بی اے پلیڈر مقرر ہوں- اور ان ہردو صاحبان نے اس خدمت کو قبول کر لیا ہے- امر دوم سرمایہ ہے- سو اس کے متعلق بالفعل کسی قسم کی رائے زنی نہیں ہو سکتی - اور یہی ایک بڑا بھاری امر ہے جو سوچنے کے لائق ہے- اس لئے قرین مصلحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس دوستوں کی منعقد کر کے اس کے متعلق بحث کی جائے اور جو طریق بہتر اور اولیٰ معلوم ہو وہی اختیار کیا جائے- مگر یہ بات ظاہر کرنے کے لائق ہے کہ مجھے اس سرمایہ کے انتظام میں کچھ دخل نہیں ہو گا- اور غالباً اس کو ایک امر تجارتی تصّور کر کے ایسے ممبر مقرر کئے جائیں گے جو اس تجارت کے حصّہ دار ہوں گے اور انہی کی تجویز اور مشورہ سے جس طور سے مناسب سمجھیں گے یہ روپیہ جمع ہو کر بینک میں جمع کیا جاوے گا- لیکن چونکہ ایسے مامور صرف اشتہارات سے تصفیہ نہیں پاسکتے لہذا مَیں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس جلسہ کے لئے بڑی عید کا دن قرار پاوے اور جہاں تک ممکن ہو سکے ہمارے دوست کوشش کریں کہ اس دن قادیان پہنچ جائیں- تب سرمایہ کے متعلق بحث اور گفتگو ہو جائے گی- کہ کس طور سے یہ سرمایہ جمع ہونا چاہیے- اور اس کے خرچ کے لئے انتظام کیا ہو گا- یہ سب حاضرین جلسہ کے کثرت رائے پر فیصلہ ہو گا- بالفعل اس کے ذکر قبل از وقت ہے- ہاں ہر ایک صاحب کو چاہیے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے طیار ہو کر آئیں- اور یہ یاد رکھیں کہ یہ چندہ صرف تجارتی طور پر ہو گا- اور ہر ایک چندہ دینے والا بقدر اپنے روپیہ کے اپنا حق اس تجارت میں قائم کر ے گا- اوراس کے ہر ایک پہلو پر بحث جلسہ کے وقت میں ہو گی- یہ خیراتی چندہ نہیں ہے- ایک طور پر تجارت ہے جس میں شراکت صرف دینی تائید تک ہے- اس سے زیادہ کوئی امر نہیں ہے- والسّلام - اس امر کے متعلق خط و کتابت خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر پشاور سے کی جائے -
المشتھر
مرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ جنوری ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ایک صفحہ سکیپ سائز پر ہے- )
(۲۳۵)
خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا
ہزار ہزار شکر اُس قادر یکتا کا ہے جس نے اس عظیم الشّان میدا ن میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے ان ستر دنوں میں کئی قسم کے موافق پیش آئے چند دفعہ مَیں سخت مریض ہوا- یعض عزیز بیمار ہوئے - مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی- جو شخص اس بات کو سوچیگا- کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزارون مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کر کے بالمقابل لکھی گئی ہے- وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گا- بھلا مَیںپوچھتا ہوں کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت جب مخالف علماء کو غیرات وہ الفاظ کے ساتھ بولاگیا تھا تفسیر لکھنے سے ان کو روک دیا- اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علماء کے خیال میں ایک جاہل ہے جو اُن کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پر نہیں جانتا ایسی لا جواب اور فصیح بلیغ تفسیر لکھنے پر باوجود امراض اور تکالیف بدنی کے قادر کر دیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے- اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتا یا خدا اُن کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر اُن کی طرف سے بالمقابل شایع ہونی چاہیے تھی- لیکن اب ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیر نویسی کی مدار فیصلہ ٹھیرا کر مخالف علماء کو دعوت کی تھی اور ستر دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی- اور مَیں اکیلا اور وہ ہزار ہا عربی دان اور عالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے وے نامراد رہے- اگر وہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے توایک دُنیا اُن کی طرف اُلٹ پڑتی- پس وہ کونسی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور دماغوں کو پست کر دیا اور علم اور سمجھ کو چھین لیا- اور سورۃ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پر مُہر لگادی اور ان کے دلوں کو ایک مُہر سے نادان اور نا فہم کر دیا- ہزاروں کے رو برو ان کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کئے اور مجھے سفید کپڑوں کی خلعت پہنا دی جو برف کی طرح چمکتی تھی اور مجھے ایک عزّت کی کُرسی پر بٹھا دیا- اور سورۃ فاتحہ سے ایک عزت کا خطابمجھے عنایت ہوا- وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ - اور خدا کے فضل اور کرم کو دیکھو کہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چار جُز کی شرط تھی یعنی کہ ستر دن کی میعاد تک چار جُز لکھیں لیکن وہ لوگ باجود ہزاروں ہونے کے ایک جُز بھی نہ لکھ سکے اور مجھ سے خدائے کریم نے بجائے چار جُز کے ساڑھے باراں جُز لکھوا دیئے-
اب مَیں علماء مخالفین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ معجزہ نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو- کوئی انسان حتی المقدور اپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا- پھر اگر تفسیر لکھنا مخالف مولویوں کے اختیار میں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے- کیا یہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالمقابل ستر دن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کاذب سمجھا جائے گا- یہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کر کے بالمقابل اس کام کو پورا کرے تا جھوٹا نہ کہلاوے- لیکن کیونکر مقابلہ کر سکتے- خدا کا فرمودہ کیونکر ٹل سکتا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رَسُلِیْ- خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ ہم دُنیا کا انتہار ہو جو حجّت اُن پر پوری کرنی تھی کہ باوجود یہ کہ علم اور لیاقت کی یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں اُن کے عالم و فاضل کہلانے والے دم نہیں مار سکتے پھر بھی کافرکہنے پر دلیر ہیں- کیا لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامِل ہوتے پھر کافر کہتے- جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کر بھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کر سکے- چار جُز کی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک مامور من اللہ کی مخالفت اختیار کرنا جو نشان پر نشان دکھلا رہا ہے - بڑے بد قسمتوں کا کام ہے-
بالآخر ایک اور ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی- اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا- اور اس سے آنحضرت ـصلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوتُ یعنے مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی- اب ہمارے مخالف علماء یہ بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو نہیں مانتے ہیں یا نہیں کہ پیشگوئی پُوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آئی آ گئی- اور اگر وہ نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں- یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو-
والسَّـــــــــــــــــــــــــــــلام
علیٰ مَنِ اتَّبَعَ اَلْھُدیٰ
المشتھر مرزا غلام احمد از قادیانی ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء
یہ اشتہار ۲۰ × ۲۶ ۸ کے ۳ صفحہ پر ہے جس پر پریس کا نام نہیں)
(۲۳۶)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رُسولہٖ الکریم
الصُّلحُ خَیر
اے علماء قوم جو میرے مکذب اور مکفر ہیں اور یا میری نسبت متذبذب ہیں- آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں- مصالحت سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ مَیں آپ صاحبوں کو اپناہم عقیدہ بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں- جو خدا نے مجھے عطا فرمائی ہے- بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کر یں کہ وہ اور تمام لوگ جو اُن کے زیر اثر ہیں- ہر ایک قسم کی سخت زبانی٭ سے باز رہیں- اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں- اور اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائیستگی ہے، فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں-
یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کار انہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دُنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آجکل حنفی شافعی مالکی حنبلی باوجود اُن سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارض مقدسہ بھی ان کو ایک مصلّے پر جمع نہیں کر سکی- ایک دوسرے سے مخالطت اور ملاقات رکھتے ہیں- لیکن بڑی خوبی کی یہ بات ہے کہ کسی اندرونی فرقہ کی ابتدائی حالت میں ہی اس سے اخلاقی برتائو کیا جائے- خدا جس کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے وہی نابود ہوتا ہے- انسانی کوششیں کچھ بگاڑ نہیں سکتیں- اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہوتا کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا- اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپَے رہنا طریق تقویٰ کے برخلاف ہے- یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں- ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اُس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خودبخود لوگوں کے دلوں سے دُور ہو جائے گا- لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہو گی- اور اُس وقت مخالف علماء کا نرمی اختیار کرنا تقویٰ کی وجہ سے نہیں سمجھا جائے گا- تقویٰ دکھلانے کا آج ہی دن ہے جب کہ فرقہ دُنیا میں بجز چند ہزار انسان کے زیادہ نہیں- اور مَیں نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص تحریر یا تقریر کے ذریعہ سے کوئی ایسا مضمون شائع نہیں کرے گا جس میں آپ صاحبوں میں سے کسی صاحب کی تحقیر اور توہین کا ارادہ کیا گیا ہو- اور اس انتظام پر اس وقت سے پورا عملدرآمد ہو گا جب کہ آپ صاحبوں کی طرف سے اسی مضمون کا ایک اشتہار نکلے گا اور آئندہ آپ پورے عہد سے ذمہ دار ہو جائیں گے کہ آپ صاحبان اور نیز ایسے لوگ جو آپ کے زیر اثر ہیں یا زیر اثر سمجھے جا سکتے ہیں ہر ایک قسم کی بدزبانی اور سب و شتم سے مجتنب رہیں گے اور اس نئے معاہدہ سے آیندہ اس بات کا تجربہ ہو جائے گا کہ کس فریق کی طرف سے زیادتی ہے- اس سے آپ صاحبوں کو ممانعت نہیں کہ تہذیب سے ردّ لکھیں اور نہ ہم اس طریق سے دستّکش ہو سکتے ہیں- لیکن دونوں فریق پر واجب ہو گا کہ ہر ایک قسم کی بدزبانی بدگوئی سے مُنہ بند کر لیں- مجھے بہت خوشی ہو گی جب آپ کی طرف سے یہ اشتہار پہنچے گا اور اسی تاریخ سے ان تمام امور پر ہماری طرف سے بھی عملدرآمد شروع ہوگا- بالفعل اس اندرونی تفرقہ کے مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں- آیندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا وہ خود غالب ہوتا جائے گا- دُنیا میں سچّائی اوّل چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاا ہے جو پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں٭
المشتہر میرزا غلام احمد از قادیان ۵؍ مارچ ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان - ۷۰۰ کاپی
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۴ کے دو صفحوں پر ہے)
(۲۳۷)
طاعُون
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْمط
ناظرین کو یاد ہو گا کہ ۲۶؍ فروری ۱۸۹۸ء کو مَیں نے طاعون کے بارے میں ایک٭٭ پیشگوئی شائع کی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک کے مختلف مقاموں میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں- مَیں نے اطلاع دی تھی کہ توبہ اور استغفار سے وہ پودے دُور ہو سکتے ہیں- مگر بجائے توبہ اور استغفار کے وہ اشتہار بڑی ہنسی اور ٹھٹھے سے پڑھا گیا- اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ پیشگوئی ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے- خدا مُلک کو اس آفت سے بچاوے- اگر خدانخواستہ اس کی ترقی ہوئی تو وہ ایک ایسی بلا ہے جس کے تصور سے بدن کانپتا ہے- سو اے عزیزو اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جائو اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلائو تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابود کرے-
اے غافلو! یہ ہنسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے- یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دُور ہوتی ہے- اگرچہ ہماری گورنمنٹ عالیہ بہت کوشش کر رہی ہے اور مناسب تدبیروں سے یہ کوشش ہے- مگر صرف زمینی کوششیں کافی نہیں- ایک پاک ہستی موجود ہے جس کا نام خدا ہے- یہ بلا اسی کے ارادہ سے ملک میں پھیلی ہے- کوئی تبدیلی نہیں بیان کر سکتا کہ یہ کب تک رہے گی اور اپنے رخصت کے دنوں تک کیا کچھ انقلاب پیدا کرے گی- اور کوئی کسی کی زندگی کا ذمہ دار نہیں- سو اپنے نفسوں اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں پر رحم کرو- چاہئیے کہ تمہارے گھر خدا کی یاد اور توبہ اور استغفار سے بھر جائیں اور تمہارے دل نرم ہو جائیں- بالخصوص مَیں اپنی جماعت کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ یہی وقت توبہ اور استغفار کا ہے- جب بلا نازل ہو گئی تو پھر توبہ سے بھی فائدہ کم پہنچتا ہے اب اس سخت سیلاب پر سچی توبہ سے بند لگائو- باہمی ہمدردی اختیار کرو- ایک دوسرے کو تکبّر اور کینہ سے نہ دیکھو- خدا کے حقوق ادا کرو اور مخلوق کے بھی تا تم دوسروں کے بھی شفیع ہوجائو- میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک شہر میں جس میں مثلاً دس لاکھ کی آبادی ہو ایک بھی کامل راستباز ہو گا تب بھی یہ بلا اس سے دفع کی جائے گی- پس اگر تم دیکھو کہ یہ بلا ایک شہر کو کھاتی جاتی اور تباہ کرتی جاتی ہے تو یقینا سمجھو کہ اس شہر میں ایک بھی کامل راستباز نہیں- معمولی درجہ کی طاعون یا کسی اور و با کا آنا ایک معمولی بات ہے- لیکن جب یہ بلا ایک کھاجانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا منہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راست بازوں کے وجود سے خالی ہے- تب اس شہر سے جلد نکلو یا کامل توبہ اختیار کرو - ایسے شہر سے نکلنا طبی قواعد کے رو سے مفید ہے- ایسا ہی رُوحانی قواعد کے رُو سے بھی- مگر جس میں گناہ کا زہریلہ مادہ ہو وہ بہرحال خطرناک حالت میں ہے- پاک صحبت میں رہو کہ پاک صحبت اور پاکوں کی دُعا اس زہر کا علاج ہے- دُنیا ارضی اسباب کی طرف متوجہ ہے مگر جڑ اس مرض کی گناہ کا زہر ہے اور تریاقی وجود کی ہمسائیگی فائدہ بخش ہے- اﷲ جلّ شانہ اپنے رسُول کو قرآن شریف میں فرماتا ہے- ماکان اﷲ لیعذبھم واَنت فیھم یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ وبا وغیرہ سے ان لوگوں کو ہلاک کر ے جن کے شہر میں تُورہتا ہو- پس چونکہ وہ نبی علیہ السلام کامل راست باز تھا اس لئے لاکھوں کی جانوں کا وہ شفیع ہو گیا- یہی وجہ ہے کہ مکہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس میں تشریف رکھتے رہے- امن کی جگہ رہا اور پھر جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کا اس وقت نام یثرب تھا جس کے معنے ہیں ہلاک کرنے والا- یعنی اس میں ہمیشہ سخت وبا پڑا کرتی تھی- آپ نے داخل ہوتے ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد اس شہر کا نام یثرب نہ ہو گا- بلکہ اس کا نام مدینہ ہو گا یعنی تمدّن اور آبادی کی جگہ- اور فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ مدینہ کی وبا اس میں سے ہمیشہ کے لئے نکال دی گئی- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور اب تک مکہ اور مدینہ ہمیشہ طاعون سے پاک رہے میں اُس خدائے کریم کا شکر کرتا ہوں کہ اسی آیت کے مطابق اس نے مجھے بھی الہام کیا اور وہ یہ ہے-
الامراض تشاع النفوس تضاع- ان اﷲ لایغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسھم انہ اٰوی القریۃ-
یہ الہام اشتہار ۲۶؍ فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہو چکا ہے- اور یہ طاعون کے بارے میں ہے- اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ موتوں کے دن آنے والے ہیں مگر نیکی اور توبہ کرنے سے ٹل سکتے ہیں اور خدا نے اس گائوں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور متفرق کئے جانے سے محفوظ رکھا- یعنی بشرط توبہ- اور براہین احمدیہ میں یہ الہام بھی درج ہے کہ
ماکان اﷲ لیعذبھم و انت فیھم
یہ خدا کی طرف سے برکتیں ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب اور یاد رہے کہ یہ ہماری تحریر محض نیک نیتی اور سچی ہمدردی کی راہ سے ہے-
وماعلی الرسول الابلاغ والسلام علٰی من اتبع الھدیٰ
الــــــــمشتھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان ضلع گورداسپور
یہ اشتہار صفحہ ۲۰× ۲۶ کے دو صفحوں پر ہے-
(۲۳۸)
الاعلان
ایّھا الاخوان من العرب و فارس والشام و غیر ھامن بلاد الاسلام- اعلموا رحمکم اﷲ الّی کتبتُ ھذا الکتاب لکم ملھمًا مِنْ رَّبّی- وامرتُ ان ادعوکم الی صراطٍ ھُدیتُ الیہ واؤبکم بادبی و ھذا بعد ما انقطع الامل سن علماء ھذہ الدیار۰ و تحقق انھم لایبالون عقبہ الدار- انقطعت حرکتھم الی الصدق من تفالحٍٍ لامن فالجٍ- وما نفعھم اثر دوائٍ ولاسعی معالجٍ وما بقی لِاَجَارِد المعارف فی ارضھم مرتع- ولافی اھلھا مطمع- فعند ذالک القی فی قلبی من الحضرۃ- ان اٰوی الیکم لمطلب النصرۃ- لتکولّوا انصاری کاھل المدینۃ- ومن نصرنی وصدقنی فقد ارضیٰ ربّہ وخیر البریۃ- وان شرّالدّوابّ الصُّمُّ البُکم الذین لایصغون الی الحق والحکمۃ- ولایسمعون برھانا ولوکان من الحجج البالغۃ- واذا قیل لھم اٰمنوا بما اتاکم من ربکم من الحق و البینۃ- بعد ایامٍ کثرت الفِرَقُ و اختلافھم فیھا و تلاطم بحر الضلالۃ- قالوالانعرف ما الحق وانّا وجدنا اباء نا علٰی عقیدۃ- وانا علیھا الٰی یوم المنیّۃ- وما قلت لھم الاما قال القراٰن- فما کان جوابھم الاالسبّ و الھذیان- وان اﷲ قد علمنی ان عیسی ابن مریم قدمات- ولحق الاموات- وامّا الدی کان نازلاً من السماء فھو الھذا القائم بینکم کما اُوْحِیَ اِلَّی من حضرۃ الکبریاء وکانت حقیقۃ النزول٭ ظھور المسیح الموعود و عند انقطاع الاسباب- و
ضعف الدولۃ الاسلامیۃ و غلبۃ الاحزاب- و کان ھذا اشارۃ الی ان الا کلہ ینزل من السماء من غیر ضرب الاعناق و قتل الاعداء- و یئریٰ کا الشمس فی الضیاء- ثم فقل اھل اظاھر ھذہ الاستعارۃ الی الحقیقۃ فھذہ اوّل مصیبۃ نذلت علیٰ ھذہ الملۃ- و ماارادﷲ ،انزالی المسیح- الالیری مقابلۃ اللمتین بالتصریح- نان نینا المصطفیٰ- کان میثل موسیٰ - و کانت سلسلۃ خلافۃ الاسلام کمثل سلسلۃ خلافۃ اکلیو مَن اﷲ العلّام- فوجب- ضرروۃ ھذہالمماثلۃ والمقابلۃ ان یظھر فی اٰخر ھذہ الملسۃ مسیح کسیح السلسلۃ الموسیۃ- ویھود کالیھود الذین کفّرو عیسٰی و
اور گروہوں کے غلبہ کے بعد ظاہر ہو گا- اوریہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ امر سارے کا سارا بغیر گردنوں کے اُڑانے اور دشمنوں کے قتل کرنے کے آسمان سے نازل ہو گا اور روشنی میں سُورج کی مانند دکھائی دے گا- لیکن اہل ظاہر نے اس استعارہ کی حقیقت پر محسوس کر لیا- اور یہ پہلی مصیبت تھی جو اس قوم پر نازل ہوئی-
کذبوہ و اردوقتلہ و جروہ الی ارباب الحکومۃ- فمن العجب ان علماء الاسلام اعترفوابان الیھود الموعودون فی اٰخرالزمان لیسوایھودًا فی الحقیقۃ- بل ھم مثلھم من المسلمین فی اعمال والعادۃ ثمّ یقولون مع ذلک ان المسیح ینزل من السماء- و ھوابن مریم رسول اللّٰہ فی الحقیقۃ لا مثیلۃ من الاصفیاء- فکانھم حسبو ھذہ الامۃ اردء الامم و اخبثھم فانہم نعمو ان المسلمین قوم لیس فیھم احد یقال لہ انہ مثیل بعض الاخیار السابقین- واما مثیل الاشرار فکثیر فیھم ففکّروا فیہ یامعشر العاقلی- ثمّ ان مسئلۃ نزول عیسٰی نبی اﷲ کانت من اختراعات النصرانین- وامّا القراٰن فتوناہ و الحقہ بالمیتین- واما اضطرت النّصاریٰ الٰی تحت ھذہ العقیدۃ الواہیۃ الاّ فی ایّام الیاس و قطع الامل من النصرۃ الموعودۃ- فانّ الیہود کانوا یسخرون منھم و یضحکون علیھم ویؤذونھم بانراع الکلمت- عند مارأ واخذلانھم وتقلبھم فی الاٰفات- فکانوا یقولون این مسیحکم الذی کان یذھم انہ یرث سریر داؤد- وینال السلطنۃ فی ینجی الیہود- فتالم النصاریٰ من سماع ھذہ المطاعن- والام الصبرباللاّعن- فنحتوا الجوابین- عند ھذین الطعنین و الخطابین- فقالوا ان یسوع ابن مریم و ان کان مانال السلطنۃ فی ھذا الاوان- ولٰـکنّہ ینزل بصورۃ الملوک الجبارین القھارین فی اٰخر الزمان- فیقطع ایدی الیھود وارجلھم وانوفھم ویھلکم باشد العذاب والھوان- و یجلس احبابہ بعد ھذا العقاب- علی سرد مرفوعۃ موعودۃ فی الکتاب واما قول المسیح انہ من اٰمن بہ فینجیہ من الشدائد اللتی نزلت علی بنی اسرائیل- فمعناہ انہ ینجیہ بدمہ من الذنوب لامن جور الحکومۃ الرومیۃ کماظُنَّ و قیل- فحاصل الکلام النصاریٰ لما اذا ھم طول مکثھم فی المصائب- واطال الیہود السنھم فی امرھم و حسبوھم کالخاسر الخائب شَقَّ علیھم ھذا لاستھزاء- فنحتو العقیدتین المذکورتین لیسکت الاعداء ون ان من عادات الانسان- انہ یتشبث بامانی عند ھبوب ریاح الحرمان- واذارای انہ مابقی لہ مقام رجاء- فیسّرنفسہ باھواء- فیطلب ماندّ عن الاذحان- وشذّ عن الاٰذان- فیطلب الکیمیاعند نفاذ الاموال و قدیتوجہ الی تسخیر النجوم و الاعمال- وکذٰلک النصاریٰ اذا وقع علیھم قول الاعداء- وما کان مَفَرٌّ من ھذا البلاء- فنحتوا مانحتوا والتّکئوا علی الامانی- کماھو سیرۃ الاسیر والعانی- فاشاعوا الاصولین المذکورین کما تعلم وتریٰ- وقّوا حق العّمٰی- واما صار اعتقاد نزول المسیح جزو طبیعتھم واحاط علی مجاری الفھم و عادتھم- کانت عنایتھم مصروفۃ لامحالۃ الٰی نزول عیسیٰ لیھلک اعداء ھم و یجلسھم علٰی سررا العزۃ والعُلٰے- فھٰذا ھو سبب سریان ھذہ العقیدہ- فی الفِرق المسیحیۃ- ومثلھم فی الاسلام یوجد فی الشیعۃ- فانہ لماطال علیھم امدالحرمان- وماقام فیھم ملک الی قرون من الزمان- نحتوا من عند انفسھم ان مھدیھم مستتر فی مغارۃ- ویخرج فی اٰخر الزمان و یحي صحابۃ رسول اﷲ لیقتلھم باذیۃ- وان حمین بن علی وان کان مانجّاھم من ظلم یزید- لٰکن ینجیھم بدمہ فی الیوم اٰلاخر من عذاب شدید وکذلک کل من خسروخاب نَحتَ ھذا الجواب- وسمعت ان فرقۃ من الوھابیین- الھندیین ینتظرون کمثل ھذہ الفرق شیخھم سیّد احمد البریلوی وانفدوا اعمارھم فی فلوات منتظرین- فھٰولاء کلھم محل رحم بمالم یرجع احد من کبراء ھم الٰی ھذا الحین- بل رجع المنتظرون الیھم و کم حسرات فی قلوب الصّبورین- فملخص القول ان عقیدۃ رجوع المسیح وحیاتہ کانت من لسبح النصاریٰ و مفتریاتھم- لیطمئنوا بالامانی و یذبّوا الیھود و ھمزاتھم وامّا المسلمون فدخلوھا مٍن رکنی المللۃ النصرانیۃ- فما معنی الانکار من الرکن الثانی اعنی الکفّارۃ- وانا فصّلنا ھذہ الامور کلّھا فی الکتاب- وی کفاک ھذا ان کنت من الطُّلاَّب- ان الذین ظنوا من المسلمین ان عیسٰی نازل من السماء ما اتبعوا الحق بل ھم فی وادی الضلال یتیھون- مالھم بذلک من علم ان اھم الاّ یخرصون- ام اُوتوا من البرھان او عُلِّموا من القراٰن فھم بہ مستمسکون- کلّا بل اتبعو اھواء الذین ضلوا من قبل و ترکو ما قال ربّھم و لا یبالون - و قد ذکر الفرقان ان عیسٰی قد تون تبایّحدیث بعد ذلک یؤمنون- الا یفکّرون فی سرّ مجئی المسیح امر علی القلوبافقالھا امھم قوم لا یبصرون- انّ اللّّٰہ کان قد منّ علی نبی اسرائیل بموسٰی والنبین الذین جاء وا من بعد منھم فعصوا نبیاء ھم ففریقاً کذّبوا و فریقاً یقتلون- فارا داللّٰہ ان ینزع منہم نعتہ و یؤتیھا قوما اٰخرین ثم ینظر کیف یعملون- فبعث مثیل موسٰی من قوم بنی اسماعیل و جعل علماء امتہ کانبیاء سلسلۃ الکلیم و کسر غرورا الیھود بھا کانوا یستکبرون- واٰتٰی نبّنا کل ما اوتی موسٰی و زیارہ واٰنا ہ من الکتاب والخفاء کمثلہ و احرق بہ قلوب ظلموا واستکبر والعلّھم یرجعون- فکھا اٰنہ خلق الازواج کلھا کذلک جعل السلسلۃ الا سماعیلیۃ زوجاً لسلسلۃ الا سرائیلیۃ و امر نطق بہ القرآن و لا ینکرہ الّا العمون- الا تَریٰ قولہ تعالیٰ فی سورۃ الجاثیۃ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْ اِسْرَا عِیْلَ الْکِتَابَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنَا ھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَا ھُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ O وَ اٰتَیْنَا ھُمْ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلفُوْا اِلاّ بَعْدَ مَا جَائَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ یَومَ القِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ o (۲) ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنْ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ o فانظر کیف ذکر اﷲ تعالیٰ ھھنا سلسلتین متقابلتین سلسلۃ موسیٰ الٰی عیسٰی- وسلسلۃ نبیّنا خیر الوریٰ الی المسیح الموعود الذی جاء فی زمنکم ھذا- وانہ ماجاء من القریش کما ان عیسی ماجاء من بنی اسرائیل- وانہ علم لساعۃ کافۃ الناس کَمَا کَانَ عیسٰی علمًا لساعۃ الیھود- ھذا ما اشیر الیہ فی الفاتحہ- وماکان حدیث یفتریٰ- وقد شھدت السماء بایاتھم- وقالت الارض الوقت ھذا الوقت، فائق اﷲ ولاتیئس من روح اﷲ- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
فحاصل الکلام ان القراٰن مملوٌّ من ان اﷲ تعالٰی اختار موسٰی بعد ما اھلک القرون الاولٰی- واٰتاہ التورنۃ و ارسل لتائیدہ النبیّین نتریٰ- ثم قفّٰی علٰے اٰثارھم بعیسٰی٭ واختار محمداً صلی اﷲ علیہ وسلم بعد ما اھلک الیھود واردیٰ- ولاشک ولاریب السلسلۃ الموسویۃ والمحدیۃ قد تقابلتا و کذٰلک اراد اﷲ و قضیٰ - وامّا عیسٰی فھو من خدّام الشریعۃ
الاسرائیلیۃ و من انبیاء سلسلۃ وموسٰے- وما اوتی لہ شریعۃ مستقلۃ ولایوجد فی کتابہ تفصیل الحرام و الحلال والوراثۃ النکاح و مسائل اخریٰ- والنصاریٰ یقرّون بہ لذلک تریٰ التورنٰۃ فی ایدیھم کماتری الانجیل- و قال بعض فرقھم انا نجّینا من اثقال شریعۃ التورنۃ بکفّارۃ دم عیسٰی- واما بعضھم الاٰخرون فیحرمون ماحرم التوراۃ ولایاکلون الخنریر کمثل نصارٰی ارمینیاء ھم اقدم من فوقٍ اخریٰ فی المدیٰ- واتفق کلھم علی انّ عیسٰی اتیٰ بفضل من اﷲ- وانّ موسٰے اتٰی بالشریعۃ وسموھما عہد الشریعۃ و عہد الفضل وحوا الاوّل حتیقًا والاٰخر جدیداً- فاسئلھم ان کنت تشک فی ھذا- فملخّص کلامنا انّ اﷲ توجّہ الی بنی اسرائیل رحمۃ منہ فاقام سلسلۃ بموسٰی واتمّھا بعیسٰی وھواٰخرلبنۃ لھا-
ثم توجّہ الٰی بنی اسمٰعیل فاقام سلسلۃ نبیّناالمصطفٰی- وجعلہ مثیل الکلیم لیری المقابلۃ فی کل ما اتٰی- و ختم ھذہ السلسلۃ علٰی مثیل عیسٰی- لیتم النعمۃ علٰی ھذہ السلسلۃ کما اتمّھا علی السلسلۃ الاولٰی-
و ان کانت السلسۃ المحمّدیہ خالیۃً من ھذا المسیح المحمّدیّ- فتلک اذًا قسمۃ ضیزیٰ- ففکّروا کل الفکر ولیس النھٰی الاّ لھذا لامریا اولیٰ النُّھٰی- ولاینجی المرء الاّ الصدق فاطبوہ بطاقّ باب الحضرۃ- واقبلوا علی اﷲ کل الاقبال لھذہ الخطّۃ- وادعوہ فی جوف اللھالی رخرّوا باکین ﷲ ذی العزّۃ و الجبروت- ولاتمرُّوا ضاحکین ھامزین واستعیذ واباﷲ من الطاغوت- یا عباداﷲ تذکّروا وّیتقّظوا فان المسیح الَحَلم قداتیٰ- فاطلبوا العلم السماوی ولاتقوّموا متاعکم فی حضرۃ المولٰی- و واﷲ انّی من اﷲ اتیتُ وما افتریتُ و قدخاب من افتریٰ- انّ ایّام اﷲ قداتت و حسرات علی الذی ابٰی- ولایُفلح المُعرض حیث اتٰی- والحق والحق اقوال ان مجیٔ المسیح من ھذا الامّۃ- کان مفعولا من الحضرۃ من مقتضی الغیرۃ- وکان قدّر ظھورہ من یوم الخلقۃ- والسرّفیہ ان اﷲ ارادہ ان یجعل اٰخر الدنیا کاولھا فی نفی الغیر والمحو فی طاعۃ الحضرۃ الاحدیۃ- واسلاک الناس فی سلک الوحدۃ الطبعیۃ بعد مادعوا الی الوحدۃ القھریۃ- وکان الناس مفترقین الی الفرق المختلفۃ ولاٰراء المتنوعۃ- والاھواء المتخالفۃ- ومطیعین للحکومۃ الشیطانیۃ الدجّالیّۃ الظلمانیۃ- وماکانوا منفکّین حتّی تنزل علیھم فوج من السکینۃ- والشیطان الذے ھوثعبان قدیم و دجّال مکان مخلصھم من اسرہ- وکان یرید ان یاکلھم کلھم ویجعلھم و تودالنار لانہ نظر الٰی ایّامہ ورأی انہ مابقی من ایّام الانظار الّا قلیلاً بمالم یکن من المنظرین الاّ الی ھذا الحین- فرأی انہ ھالک بالیقین-فارادان یصول صولاً ھوخاتم صولاتہ واٰخر حرکاتہ- فجمع کلماعندہ من مکائدہ وحِیَلہ وسلاحہ وسائر الاٰلات الحربیہ- فتحرک کالجبال السائرۃ- والباحرا الزاخرہ یجمیع افواجہ لیدخل حمی الخلافۃ مع ذریّاتہ- فعندذلک نزل اﷲ مسیحہ من السماء بالحربۃ السماویۃ- لیکون بین الکفروا الایمان فیصلۃ القسمۃ- وانزل معہ جندہ من اٰیاتہ و ملئکۃ سمٰواتہ- فالیوم یوم حرب شدیدٍ و قتالٍ عظیمٍ بین الداعی الی اﷲ و بین الداعی الٰی غیرہ- انھا حرب ماسمع مثلھا فی اوّل الزمن ولایسمع بعدہ- الیوم لایترک الدجّال المفتعل ذرۃً من مکائدہ الاّ یستھملھا- ولاالمسیح البتھل ذرّۃ من الاقبال علی اﷲ التوجّہ الی المبدء الاّ ویستوفیھا- ویحاربان حربًا شدیداً حتی یعجب فوّتھما و شدّتھما کل من فی السماء- وتری الجبال قدم المسیح ارسخ من قدمھا- والبحار قلبہ ارق و اجریٰ من ماء ھا- وتکون محاربۃ شدیدۃ و بّنجرّ الحرب الی اربعین سنۃ من یوم ظہور المسیح حتی یُسمع دعاء المسیح لتقولٰہ و صدقہ و تنذل النصرۃ ویجعل اللّٰہ الھزیمۃ علی الثعبان و فرجہ منۃ علیٰ عبدہ- فتر جع قلوب الناس من الشرک- الی التوحید ومن حب الشیطٰن الی جب اللّٰہ الوحید- و الی المحویۃ من الٰعیریۃ- والیٰ ترک النفس من الاھواء النفسیانیۃ- فان الشیطان یدعو الی الھوٰی والقطیعۃ- والمسیح ید عو الی الا تحادوالمحویۃ- و بینھا عداوۃ ذاثیۃ من الازل و اذا غلب المسیح فاختتم عند ذالک محاببات کلھا التی کانت جاریۃ العساکر الرحمانیۃ والعساکر الشیطانیۃ- فھناک یکون اختتام دورھذہ الدنیا وایستدیرالزمان و ترجع الفطرۃ الانسانیۃالی اختتام دوہ ھذہ الدنیا و یستدیر الذمان و ترجع الفطرۃ الانسانیۃ الی حیئتھا الاولیٰ- الّا الذین احاطتھم الشقوہ الازلیۃ فاولٰئک من المحررومین- و من فضل اللّٰہ و احسانہ جعل ھذا ا لفتح علیٰ ید المسیح المحمّدی لیری الناس انہ اکمل من المسیح الا سرائیلی فی بعض شیونہ و ذالک من غیرۃ اللّٰہ التی ھیجّھا النصاریٰ باطراء مسیحھم- ولمّا کان شان المسیح الحمّدی کذٰالک فما اکبر شان نبی ھو من امتہ- اللّٰھم صلّ علیہ سلاماً لا یغادر برکۃ من برکاتکَ و سوّد رجوہ اعدائۃ بتائید اتک و اٰیاتک- اٰمین
الرقم میزا غلام احمد از من مقام القادیان القجاب۔
لخمس و عشرین من افسطوس سنہ۱۹۱۰سنۃ
Bishops Bourne,
Lahore.
Aug,15,01
Dear Sir,
The lord Jesus Christ was vertainly not a low-giver, in the sences in which Moses was, giving a aomplete desoripture low about such things as clean and unclean food.That He did not do this must be wident to any one who readsthe New Testan ment with any care or throught whatever. The Mosacs law of moats was given in order to develope in the minds of man who were in a very elementary stage of education and relin,the sense of law, and gradually of Holiness and the rwverse, It is therefore, called in the New Testament a "School master to bring us the Christ" (gal iii-24) for it developed a consciencs in men which, when awakened, could not find rest in any external or furely ceremonial that nesded an inner reghte of heart and life.And it was to being this that Christ came by this life and death.He Goth deepemed in men's how terrible it is and also showed men how they could be reconoiled to God, obtaining foregivsness of sins and also power by the gift of the Holy sprisit to live a new lift in real holiness, and in love to God and men. What the charactortics of that new life are, you can see by reading the sernson on the mount St. Mathew chapter V.VII.
ترجمہ
از مقام بشپس بورن واقعہ لاہور
مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۱ء
جناب- خداوند یسوع مسیح ہرگز شارع نہ تھا جن معنوں میں حضرت موسٰی صاحب شریعت تھا جس نے ایک کامل مفصّل شریعت ایسے امور کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ- کوئی شخص انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو جائے گا کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھا-
موسٰے کی شریعت کھانے وغیرہ امور کے متعلق اس واسطے نازل ہوئی تھی کہ انسان کا دل تربیت پا کر شریعت کے مفہوم کو پا لے اور رفتہ رفتہ مقدس اور غیر مقدس کو سمجھنے لگے کیونکہ انسان اس وقت تعلیم و مذہب کی ابتدائی منزل میں تھا اس لئے انجیل میں کہا گیا ہے کہ موسٰی کی شریعت ایک استاد تھی- جو ہمیں مسیح تک لائی- کیونکہ اس شریعت نے انسان کے دل میں ایک ایسی فطرت پیدا کر دی جو کہ ترقی پا کر صرف بیرونی اور رسمی اعمال پر قانع نہ ہوئی بلکہ دل اور رُوح کی اندرونی راستی کی تلاش کرنے والی ہوئی- اس راستی کے لانے کے واسطے مسیح آیا- اپنے زندگی اور موت کے ذریعہ سے اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ سمجھ ڈال دی کہ گناہ کیا ہے اور وہ کیسا خوفناک ہے اور گناہوں کی معافی حاصل کرکے اور روح القدس کے عطیہ سے ہم تقدس کی نئی زندگی پاکر اور خدا اور انسان کے درمیان محبّت قائم کر کے خدا کو پھر راضی کر سکتے ہیں- متی باب ۵ و ۷ میں پہاڑی تعلیم کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس نئی زندگی کا طرز طریق کیا تھا-
دستخط جے - اے لیفرائے بشپ لاہور
(۲۳۹)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونُصلے علٰی رسولہِ الکریم
اشتہار مفید الاخیار
چونکہ یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ہماری اس جماعت میں کم سے کم ایک سو آدمی ایسا اہلِ فضل اور اہلِ کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعوے ٰ کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور ان کے مفتریانہ اعتراضات کو جواب دے سکے اور خدا تعالیٰ کی حجّت جو اُن پر وارد ہو چکی ہے جو بوجہ احسن اس کو سمجھا سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہر ایک طالبِ حق کو نجات دے سکے اور دینِ اسلام کی حقیّت اکمل اور اتم طور پر ذہن نشین کر سکے- پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اور اہلِ علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۱ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے طیار ہو جائیں اور دسمبر آئندہ کی تعطیلوں پر قادیان میں پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں- اس جگہ اسی غرض کے لئے تعطیلات مذکورہ میں ایک جلسہ ہو گا اورمباحث مندرجہ کے متعلق سوالات دیئے جائیں گے- ان سوالات میں وہ جماعت جو پاس نکلے گی ان کو ان خدمات کے لئے منتخب کیا جائے گا اور وہ اس لائق ہوں کہ ان میں سے بعض دعوت حق کے لئے مناسب مقامات میں بھیجے جائیں- اور اسی طرح سال بسال یہ مجمع انشاء اﷲ تعالیٰ اسی غرض سے قادیان میں ہوتا رہے گا جب تک کہ ایسے مباحثین کی ایک کثیر العدد جماعت طیار ہو جائے- مناسب ہے کہ ہمارے احباب جو زیرک اور عقلمند ہیں اس امتحان کے لئے کوشش کریں اور ۲۵؍ دسمبر یا ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو بہرحال قادیان میں پہنچ جائیں-
والسَّلام علٰے من اتّبع الھدیٰ
المشـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتھر
مرزاغلام احمد از قادیان ۹؍ ستمبر ۱۹۰۱ء
ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶×۲۰ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(۲۴۰)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونصلّے علٰی رسولہِ الکریم
ایک غلطی کا ازالہ
ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا- اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے- وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراں پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے- اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو مذامت اُٹھانی پڑتی ہے- چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا- حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے- حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے- اس میں ایسے لفظ رسُول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ- پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں- بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں- چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں- ان میں سے ایک یہ وحی اﷲ ہے- ھو الّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہٗ علے الدین کلہٖ- دیکھو صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ- اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسُول کر کے پکارا گیا ہے- پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اﷲ ہے- جری اﷲ فی حلل الانبیاء- یعنی خدا کا رسُول نبیوں کے حلّوں میں دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۰۴- پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اﷲ ہے- محمّد رسول اﷲ والذین معہ اشدّاء علی الکفّار رحماء بینھم-
اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسُول بھی- پھر یہ وحی اﷲ ہے جو صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں درج ہے- ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ ’’دُنیا میں ایک نبی آیا‘‘ اسی طرح براہین احمدیہ میں اَور کئی جگہ رسُول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا- سو اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو خاتم النبیین ہیں- پھر آپ کے بعد اَور نبی کس طرح آ سکتا ہے- اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پورانا نہیں آ سکتا جس طرح اس آپ لوگ حضرت عیسٰے علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حال میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحیٔ نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے- بے شک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اور حدیث لانبی بعدی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے- لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچّا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے- نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی- پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خداکے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طو رپر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جونبوت محمدی کی چادر ہے اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے- اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے- اس کے یہ معنے ہیں کہ محمدؐ کی نبوت آخر محمدؐ کو ہی ملی گو بروزی طو رپر مگر نہ کسی اَور کو- پس یہ آیت کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین اس کے معنے یہ ہیں کہ لیس محمد ابا احد من رجال الدنیا ولٰکن ھواب لرجال الْاٰخرۃ لانہ خاتم النبییّن و لا سبیل الی فیوض اﷲ من غیر توسطہ غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا ہے لہٰذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا- لیکن عیسٰے کے اُترنے سے ضرور فرق آئے گا- اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا- پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رُسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفیٰ کی خبر اس کومل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے- لایظھر علٰی غیبہ احدا الامن ارتضٰی من رسولٍ- اب اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ا ن معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر غیبیہ منجانب اﷲ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لایظہر علٰی غیبہ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا- اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رُسول کہیں گے- فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا بنی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجنابؐ اور ایسی فنا فی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمّد اور احمد رکھا جائے - یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے و من ادّی فقد کفر- اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغایرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مُہر کو توڑنے والا ہو گا- جو خاتم النبین پر ہے- لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیّن میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پا لیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلا ئے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلّی طور پر- پس باوجود اس شخس کے دعویٰ نبوت کے جس کے نام ظلّی طورپر محمد اور احمد رکھا گیا- پھر بھی سیّدنا محمدؐخاتم النبین ہی رہا- کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسیٰ بغیر مُہر توڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے کوئی بھی شخص نبی اور رُسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم٭ سویاد رکھنا چاہیے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوّت اور رسالت سے انکار نہیں ہے- اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا- اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریںپانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلائو کس نام سے اس کو پکارا جائے- اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو مَیں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی *** کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے- مگر نبوت کے معنے اظہار امر غیب ہے- اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنے عبرانی میں اسی لفظ کا نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ ناباسے مشتق ہیجس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے - یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں- پس مَیں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو مَیں اپنی نسبت نبی یا رسُول کے نام سے کیونکر ردّ کروں یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں- مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور مَیں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھُلی کھُلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی- جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھُل کھُلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی- جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھُل گئی ہے اور مَیں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا- میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی- اس طرح پرمیرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ مَیں خلیفۃ اللہ ہوں - مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا - اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے- مَیں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رُسولوں کی تائید کرتا رہا ہے کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائید اُن کے ساتھ نہیں-
اور جس جس جگہ مَیں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیاہے کہ مَیں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طورپر نبی ہوں - مگران معنوں سے کہ مَیں اپنے رسُول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسُول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے ، اس طور کا نبی کہلانے سے مَیں نے کبھی انکار نیہں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا - اور میرا یہ قول کہ
’’ من نیستم رسُول دنیاور دہ ام کتاب‘‘
اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ مَیںصاحب شریعت نہیں ہوں- ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مَیںباوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک ایک پاک وجود ہے- جس کا رُوحانی افاضہ میرے شامل حال ہے- یعنی محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم - اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر مَیں رسول بھی ہون اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبری پانے والا بھی- اور اس طور سے خاتم النبین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میںنے انعکاسی اورظلّی طور پرمحبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا- اگر کوئی شخص اس وحی الہٰی پر ناراض ہو کہ کیوں خد اتعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسُول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسُول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی٭ یہ بات ظاہر ہے کہ جیسا کہ مَیں اپنی نسبت کہتا ہوں کہ خدانے مجھے رُسول اور نبی کے نام سے پکارا ہے ایسا ہی میرے مخالف حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد دوباردُنیا میں آئیں گے- اور چونکہ وہ نبی ہیں اس لئے اُن کے آنے پر بھی وہی اعتراض ہو گا جو مجھ پر کیا جاتا ہے یعنے یہ کہ خاتم النبین کی مہر ختمیت ٹوٹ جائے گی- مگر مَیں کہتاہوں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے- کیونکہ مَیں بار ہا بتلا چکاہوں کہ مَیں بموجب آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں- اورخدانے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اوراحمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وجود قراردیا ہے- پس اس طور سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا- کیونکہ ظلّ اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا- اور چونکہ مَیں ظلّی طور پر محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمدؐ تک ہی محدود رہی- یعنے بہر حال محمد صلے اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہیں نہ اَور کوئی- یعنے جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالاتِ محمدیّ نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیّت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا- بھلا اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہمرنگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہو گا- اور اس کا اسم آنجنابؐ کے اسم سے مطابق ہو گا یعنی اس کا نام بھی محمد ہو گا اور اس کے اہل بیت میں سے ہو گا- ٭اور بعض حدیثوں میں ہے کہ مجھ میں سے ہو گا یہ عمیق اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ روحانیت کے رو سے اسی نبی میں سے نکلا ہوا ہو گا اور اسی کی رُوح کا رُوپ ہو گا- اس پر نہایت قوی قرینہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے تعلق بیان کیا یہانتک کہ دونوں کے نام ایک کر دیئے- ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس موعود کو اپنا بروز بیان فرمانا چاہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ کا یشوعا بروز تھا- اور بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحب بروز کا بیٹا نواسہ ہو- ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحب بروز میں سے نکالا ہو ا ہو اور ازل سے باہمی کشش اور باہمی تعلق درمیان ہو سو یہ خیال آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شانِ معرفت کے سراسر خلاف ہے کہ آپ اس بیان کوتو چھوڑدیں جو اظہار مفہوم کے لئے ضروری ہے اور یہ امر ظاہر کرنا شروع کر دیں کہ وہ میرا نواسہ ہوگا- بھلا نواسہ ہونے سے بروز کو کیا تعلق- اور اگر بروز کے لئے یہ تعلق ضروری تھا تو فقط نواسہ ہونے کے کے ایک ناقص نسبت کیوں اختیار کی گئی بیٹا ہونا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے کسی کے بات ہونے کی نفی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے- اگربروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آپ و آخرین منہم- میں ایسے موعود کے رفیق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے - جسمانی خیال کے لوگوںنے کبھی اس موعود حَسْنؓ کی اولاد بتایا اور کبھی حُسَیْنؓ کی اور کبھی عبّاسؓ کی- لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھاکہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہو گا- اس کے نام کا وارث اس کے خُلق کا وارث اور اس کے علم کا وارث اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا- اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ کچھ اس سے لے گا- اس کا خُلق لے گا، اس کا علم لے گا، ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا- کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو- پس چونکہ نبوت بھی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میںوہکمال بھی نمودار ہو- تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزیاپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے - پس اس صوت میں ظا ہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمدنام رکھے جانے سے دو محمد اور دو احمد نہیں ہو گئے، اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسُول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبین کی مُہر ٹوٹ گئی- کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں- اس طرح پر تو محمدؐ کے نام کی نبوت محمد صلے اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی- تمام انبیاء علیہم السّلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں کوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ -
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد زیں من دیگرم تو دیگری
لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبین کی مُہر تورنے کے کیونکر دنیا میں آ سکتے ہیں- غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہٰی مُہر جو آنحضرت صلی علیہ اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے- اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مُہرٹوٹ جائے- ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں آ جائیں اور بروزی رنگ میں اَور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و اٰخرین منھم لمّا یلحقوا بھم- اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت ہوتی ہے- دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج رات جب دیکھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان کے مقام سے آگے نکلگئے تو کیونکر رع رو کر اپنی غیرت ظاہر کی تو پھر جس حالت میں خداتو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اَور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسیٰ کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلآزاری کا موجب ہوگا- غرض بردزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسر ے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخکنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آیت کریمہ و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یکہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے- کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی غلم غیب پاوے- اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا- وہ مَیں ہوں- اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے وسعت وپا ہے کیونکہ نبوت پر مُہر ہے - ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا- اب بجز اس کھڑکی کے اَور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لیے باقی نہیں-
خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مُہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا خیال جو مستلزم تکذیب آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ہے وہ ختمیت کی مُہر کو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے- لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ و اٰخرین منھم سے ظاہر ہے- اس آیت میں ایک لطافت بیان یہ ہے کہ اس گروہ کا ذکر تو اس میں کیا گیا جو صحابہؓمیں سے ٹھہرانے گئے- لیکن اس موردِ بروز کا بتصریح ذکر نہیں کیا یعنے مسیح موعود کا جس کے ذریعہ سے وہ لوگ صحابہ ٹھہرے اور صحابہؓ کی طرح زیر تربیت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سمجھے گئے- اس ترکِ ذکر سے یہ اشارہ مطلوب ہے کہ موردِ بروز حکم نفیٰ وجود رکھتا ہے - اس ل ئے اس کی بروزی نبوت اور رسالت سے مُہر ختمیت نہیں ٹوٹتی- پس آیت میں اس کو ایک وجود منفی کی طرح رہنے دیا اور اس کے عوض میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا ہے- اور اسی طرح آیت انا اعطیناک الکوثر میں بروزی وجود کا ایک وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں سچے اہل اسلام ہو جائیں گے - اس آیت میں بھی ظاہر ی اولاد کی ضرورت کو نظرِ تحقیر سے دیکھا- اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی- اور گو خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ مَیں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی، اور دونوں خُونوں سے حصّہ رکھتا ہوں- لیکن مَیں روحانیت کی نسبت کو مقدم رکھتا ہوں جو بروزی نسبت ہے-
اب اس تمام تحریر سے مطلب میرا یہ ہے کہ جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے- مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں-مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول - ہاں مَیں اس طور سے نبی اور رسُول ہوںجس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے - پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے- مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا- مگر بروزی صورت میں- میرا نفس درمیان نہیں ہے- بلکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے- اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا- پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی- محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی - علیہ الصلٰوۃ والسّلام
خاکســـــــــــــــــــــــــــار
مطبوعہ ضیاء اسلام پریس قادیان
( یہ اشتہار ۲۶ ×۲۰ ۴ کے۶ صفات پر ہے)
(۲۴۱)
اشتہار کتاب آیات الرحمان
یہ قابل قدر کتاب مکرمی سیّد محمد احسن ؟صاحب نے کتاب عصائے موسیٰ کے ردّ میں لکھی ہے اور مصّنف عصائے موسیٰ کے اوہام کا ایسا استیصال کر دیا ہے کہ اب اس کو اپنی وہ کتا ب ایک درد انگیز عذاب محسوس ہو گی- یہ تجویز قرار پائی ہے کہ اس کے چھپنے کے لئے اس طرح پر سرمایہ جمع ہو کہ ہر ایک صاحب جو خریدنا چاہیں ، ایک روپیہ جو اس کتاب کی قیمت ہے بطورپیشگی راونہ کر دیں- یہ خواہش ہے کہ جلد تر یہ کتاب چھپ جائے- اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے- والسّلام
خاکسار میرزا غلام احمد عفی عنہ
(اشتہار’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘کے صفحہ ۶ کے حاشیہ پر یہ اشتہار درج ہے)
(۲۴۲)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
نَحَمْدَہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوِلہِ الْکَرِیْمط
المنار
قاہرہ سے ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام منار ہے- جس فروری ۱۹۰۱ء میں ہماری طرف سے پیر گولڑوی صاحب کے مقابل پر رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا جو فصیح بلیغ عربی مین ہے اور اس کے جواب میں نہ صرف پیر صاحب موصوف عاجز رہ گئے بلکہ پنجاب اور ہندوستاں کے تمام علماء بھی عاجز آ گئے تو مَیں نے مناسب نہ سمجھا کہ اس رسالہ بلاد عرب عینی حرمین اور شام اور مصرف وغیرہ میں بھی بھیجدوں کیونکہ اس کتاب کے صفحہ ۱۵۲ میںجہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور مَیں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ ی فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی ممانعت ہو اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہون اسی وجہ سے میری عربی کتابیں عرب کے ملک میں بھی بہت شہرت پاگئی ہیں- جولوگ درندہ طبع ہیں اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ فی الفور چڑ جاتے ہیں اور میرے دشمن ہو جاتے ہیں - مگر جن میں انسانیت ہے وہ معقول بات کو پسند کر لیتے ہیں- پھر دشمنی کی حالت میں کون کسی کی کتاب کی تعریف کر سکتا ہے- سو اسی خیال سے یہ رسالہ کئی جگہ مصر میں بھیجا گیا - چنانچہ منجملہ ان کے ایڈیٹر المنار کو بھی پہنچا دیا گیا تا اس سے جہاد کے غلط خیالات کی بھی اصلاح ہو- اور مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلہ جہاد کی غلط فہمی میں ہر ایک ملک میں کسی قدر گروہ مسلمانوں کا ضرور مبتلا ہے- بلکہ جو شخص سچّے دل سے جہاد کا مخالف ہو - اس کو یہ علماء کافر سمجھتے ہیں- بلکہ واجب القتل بھی- لیکن چونکہ اسلام کی تعلیم میں یہ بات داخل ہے کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خد اکا شکر بھی نہیں کرتا - اس لئے ہم لوگ اگر ایمان اور تقویٰ کو نہ چھوڑیں تو ہمارا یہ فرض ہے ک اپنے قول اور فعل سے ہر طرح اس گورنمنٹ برطانیہ کی نصرت کریں- کیونکہ ہم اس گورنمنٹ کے مبارک قدم سے پہلے ایک جلتے ہوئے تنور میں تھے- یہی گورنمنٹ ہے جس نے اس تنور سے ہمیں باہر نکالا- غرض اسی خیال سے جو میرے دل میں مستحکم جما ہوا ہے- اعجاز المسیحمیں بھی یعنے اس کے صفحہ ۱۵۶ میںجہاد کی مخالفت اور گورنمنٹ کی اطاعت کے بارے میں شدّ و مد سے لکھا گیا - مجھے معلوم ہوا کہ اسی تحریر سے صاحب جریدہ منار اپنے تعصّب کی وجہ سے جل گیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سخت گوئی اور گالیوں پر آ گیا اور منار میں بہت تحقیر اور توہین سے مجھے یاد کیا اور وہ پرچہ جس میں میری بد گوئی تھی کسی تقریب سے پنجاب میں پہنچ گیا- پنجاب پُر حد مُلّا تو آگے ہی مجھ سے ناراض تھے- اور پیر گولٹروی کی کمر ٹوٹ چکی تھی اس لئے منار کی وہ چار سطریں مرتے کے لئے ایک سہارا ہو گئیں- تب ان لوگوں نے اپنی طرف سے اَور بھی نُون مرچ لگا کر اور اُن چند سطروں کا اُردو میں ترجمہ کر کے وہ مضمون پرچہ اخبار چودھویں صدی میں جو راولپنڈی سے نکلتا ہے چھپوا دیا اور جا بجا بغلیں مارنے لگے کہ دیکھو اہل زبان نے اور پھر منار کے ایڈیٹرجیسے ادیب جیسے ادیب نے ان کی عربی کی کیسی خبر لی- بیوقوفوں کو معلوم نہ ہواکہ یہ تو سارا جہاد کی مخالفت کامضمون پڑھ کر جوش نکالا گیا ہے- ورنہ اسی قاہرہ میں پرچہ مناظرہ کے ایڈیٹر نے جو ایک نامی ایڈیٹر ہے جس کی تعریف منار بھی کرتا ہے اپنے جریدہ میں صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ کتاب اعجاز المسیح درحقیقت فصاحت بلاغت میں بے مثل کتاب ہے اور صاف گوئی دے دی ہے کہ اس کے بنانے پر دوسرے مولوی ہر گز قادر نہیں ہوں گے- ان مخالفوں کو چاہیے کہ جریدہ مناظرہ کو طلب کر کے ذرہ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر ایڈیٹر مناظر اہل زبان نہیں ہے؟ بلکہ مناظرہ نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اعجاز المسیح کی فصاحت بلاغت درحقیقت معجزہ کی حد تک پہنچ گئی ہے- اور پھر ایڈیٹر ہلال نے بھی جو عیسائی پرچہ ہے اعجاز المسیح کی بلاغت فصاحت کی تعریف کی اور وہ پرچہ بھی قاہرہ سے نکلتا ہے- اب ایک طرف تو دو گواہ ہیں اور ایک طرف بیچارہ منار اکیلا- اور ایڈیٹر منار نے باوجود اس قدر بدگوئی کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’’میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ اس کتاب کی مانند کوئی اور کتاب اہل عرب بھی نہیں لکھ سکتا- اگر ہم چاہیں تو لکھ دیں‘‘ لیکن یہ قول اس کا محض ایک فضول بات ہے اور یہ اسی رنگ کا قول ہے جو کفّار قرآن شریف کی نسبت کہتے تھے کہ لونشاء لقلنا مثل ھٰذا- پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ کتاب فصیح نہیں تو پھر تمہارے اس قول کے کیا معنے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس کی مثل چند روز میں لکھ دیں- کیا تم بھی غلط کتاب کے مقابل پر غلط لکھو گے-
غرض جس پرچہ کی تحریر پر اتنی خوشی کی گئی ہے اس کا یہ حال ہے کہ اسی ملک کے اہلِ زبان وہی پیشہ رکھنے والے اس کو جھوٹا ٹھہراتے ہیں- اور جہاد کی وجہ سے بھی اس کا اشتعال بے معنی ہے- کیونکہ یہ مسئلہ اب بہت صاف ہو گیا ہے اور وہ زمانہ گذرتا جاتا ہے جبکہ نادان مُلاّ بہشت کی کل نعمتیں جہاد پر ہی موقوف رکھتے تھے- اس جگہ بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گذرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گذاری کی نیّت سے ہم نے کئی کتابیں مخالفت جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کافر وغیرہ اپنے نام رکھوائے اُسی گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں- ہم نے قبول کیا کہ ہماری اردو کی کتابیں جو ہندوستان میں شائع ہوئیں ان کے دیکھنے سے گورنمنٹ عالیہ کو یہ خیال گذرا ہو گا کہ ہماری خوشامد کے لئے ایسی تحریریں لکھی گئی ہیں کیونکہ انسان عالم الغیب نہیں- لیکن یہ دانشمند گورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے سمجھ سکتی ہے کہ عرب کے ملکوں میں جو ہم نے ایسی کتابیں بھیجیں جن میں بڑے بڑے مضمون اس گورنمنٹ کی شکر گذاری اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں تھے ان میں گورنمنٹ کی خوشامد کا کونسا موقع تھا- کیا گورنمنٹ نے مجھ کو مجبور کیا تھا کہ مَیں ایسی کتابیں تالیف کر کے ان ملکوں میں روانہ کروں اور اُن سے گالیاں سنوں- مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ عالیہ ضرور میری ان خدمات کا قدر کرے گی اور وہ لوگ جو سراسر بغض اور حسد سے آئے دن خلاف واقعہ میری نسبت شکایتیں کرتے رہتے ہیں وہ ضرور شرمندہ ہوں گے- کیونکہ کوئی امرپوشیدہ نہیں جو ظاہر نہ ہو جائے- ایک مکّار انسان کب تک اپنی مکّاری چھپا سکتا ہے یا ایک مخلص انسان کب تک چھپ سکتا ہے-
اب پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ مَیں نے صاحبِ منار کی دھوکہ دہی کے کھولنے کے لئے صرف ایڈیٹر مناظر اور ہلال کی یا مبالغہ تعریف پر ہی حصر نہیں رکھا بلکہ عربی میں ایک اور رسالہ نکالا ہے اور ایڈیٹر منار سے بڑے مبالغہ کے ساتھ نظیر طلب کی ہے- اور اس رسالہ سے پہلے ایک چھوٹا سا رسالہ اس کے متنبہ کرنے کے لئے بھیجا جائے گا تا اگر وہ عاجزی سے اپنا قصور معاف کرانا چاہے تو پھر اس ذلّت سے بچ جائے کہ جو بالمقابل لکھنے کے وقت اس کو پیش آنے والے ہے لیکن اس کی بدقسمتی سے ان رسالوں میں بھی گورنمنٹ کی تعریف اور جہاد کی مخالفت موجود ہے- اس کے پُررنج اشارات سے ظاہر ہو رہا ہے تو ان رسالوں کو پڑھ کر یہ اشتعال اور بھی زیادہ ہو گا-
بالآخر ہم سب مخالف مولویوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ صاحبِ منار کی مخالفت ان کے لئے کچھ بھی جائے خوشی نہیں اور جو کچھ عظمت اہلِ زبان ہونے کی اس کو دی گئی ہے آثار سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ جلد تر اس سے رُخصت ہونے کو ہے- ان مولویوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ دراصل ملک مصر عجم میں داخل ہے اور ان کی عربی تمام عربی زبانوں سے بدتر ہے- نمونہ اتنا ہی کافی ہے کہ اُقْعُدْ کو گُدْ کہتے ہیں- اور اُن کا محاورہ بہت غلط اور عربی فصاحت سے نہایت دور ہے اور وہ اپنے تئیں فصیح بنانے کے لئے ہندیوں سے زیادہ مشکلات میں ہیں کہ ان کی زبان غلط بولنے پر عادی ہو گئی ہے- مگر ہندیوں کی لوح طبیعت غلطی سے مبّرا اور صحیح طریق قبول کرنے کے لئے مستعد ہے- اسی وجہ سے کتاب انسکلوپیڈیا میں ایک محقق انگریز لکھتاہے کہ عرب کی تمام زبانوں میں سے بدتر زبان وہ ہے جو مصر میںر ائج ہے-
غرض مولویان پنجاب اب عنقریب دیکھ لیں گے کہ جس شخص پر ناز کیا ہے اس کو علم ادب میں کہاں تک دخل ہے-
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتہر خاکسار میرزاغلام احمد از قادیان مورخہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۱ء
مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
(یہ اشتہار ۲۶ × ۲۰ ۴ کے چار صفحہ پر ہے )
(۲۴۳)
الطاعون
بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی- اَمَّا بَعْدُ
حمد مر خدارا و سلام بر بندگان برگزیدہ وے- اما بعد
خدا کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام
فَاعْلَمُوْا اَیُّھَا الْاَخْوَان اُولُو النّھٰی- رَحِمکُم اﷲ فِی الْاُولٰی
اے برادران دانشمند خدا در ہردو جہاں بر شما رحم فرماید
بھائیو اے دانشمندو خدا تعالیٰ تم پر دونوں جہانوں میں رحم
وَالْاُخْریٰ- ان الطاعون قدحلت بلادکم- و فلت اکبادکم-
بدانید کہ طاعون در شہر ہائے شما رخت اقامت انداختہ و جگر ہائے شمارا
کرے طاعون نے تمہارے شہروں میں ڈیرے ڈال دئے اور تمہارے جگروں کو پارہ پارہ کر دیا
و تخطف کثیرا من احباء کم-و اباء کم و ابناء کم و بنا تکم و نساء کم
پارہ پارہ کردہ ست و بسیادے را از دوستاں و پدران و دختران و زنان
اور تمہارے بہت سے دوستوں باپوں بیٹوں بیٹیوں اور جورئوں اور ہمسائیوں
و جیر انکم و خلّا نکم و لکم فیہ بلا عظیم من اﷲ العلیم الحکیم
و ہمسائیگان از شمار ربودہ دریں مصیبت برائے شمار از خداوندو مہربان آزمایش بزرگ ست
کو اچک کر لے گئی اور تمہارے لئے اس میں خداوند علیم حکیم کی طرف سے بڑا ابتلا اور امتحان
ولا ینزل بلاء الّا بسبب من الاسباب